Anwarul-Quran Volume 3

Anwarul-Quran Volume 3

انوار القراٰن (جلد ۳)

Chapters: 30-114
Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد، خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے خطبات و خطابات سے ماخوذ


Book Content

Page 1

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث کے خطبات وخطابات سے ماخوذ انوار القران جلد سوم سورة الروم تاسورة النّاس

Page 2

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسح الثالث کے خطبات وخطابات سے ماخوذ انوار القرآن جلد سوم سورة الروم تاسورة النّاس

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض ناشر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ مسیح الثالث کو قرآن کریم سے غیر معمولی محبت اور حمد عشق تھا.آپ نے بچپن میں قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق پائی.قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مضامین پر غور و خوض اور فکر وتدبر آپ کا معمول زندگی رہا.قرآنی معارف اور دقائق کی تلاش میں گہرا شغف رکھتے تھے اور قرآن کریم کے انوار سے اپنے سینہ کومنور کرنے میں عمر بھر ہمہ تن مشغول ومشغوف رہے.آپ کی دلی تمنا اور قلبی تڑپ تھی کہ ہر احمدی قرآن کریم کو سکھنے ، تلاوت کا تعہد رکھنے اس کا ترجمہ جاننے اور اس کی تشریح و تفسیر میں منہمک ہو کر اس کے انوار کو جذب کرنے والا ہو چنانچہ آپ فرماتے ہیں.ہر احمدی مرد اور احمدی عورت ، ہر احمدی بچہ ، ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن کریم سیکھے ، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کر لے.ایک نور مجسم بن جائے.قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے ، قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور نظر آئے اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآنی

Page 4

سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.اے خدا ! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں.اے زمین اور آسمان کے نور ! تو ایسے حالات پیدا کر دے کہ دنیا کا مشرق بھی اور دنیا کا مغرب بھی، دنیا کا جنوب بھی اور دنیا کا شمال بھی نور قرآن سے بھر جائے اور سب شیطانی اندھیرے ہمیشہ کے لئے دور ہو جا ئیں....ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ واقعتا اور حقیقتاً خدا ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم قرآنی انوار میں ایسے گم ہو جائیں کہ سوائے انوار قرآنی کے ہمارے وجود میں اور کوئی چیز نظر نہ آئے.آمین حضرت خلیفہ امسح الثالث" نے اپنے خطبات اور خطابات میں متعدد مقامات پر قرآنی آیات کی تغییر فرمائی اور قرآنی معارف کو پیش کیا.حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر قرآنی تفسیر کے یہ حصے یکجا کر کے ان کو کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے.اس کی تین جلدیں ہیں اور تیسری جلد آپ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو قرآن کریم کے معارف سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق دے اور اس اشاعت کے سلسلہ میں جن دوستوں کو کام کرنے کی توفیق ملی ان کو جزائے خیر دے اور ان کے علم میں برکت عطا فرمائے.آمین

Page 5

فهرست آیات اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ | جلد سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے صفحہ ۴۷ نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت ۱۶ وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ..۱۸ قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ.سورة الروم أوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا في أَنْفُسِهِمْ.وَ مِنْ انْتِه أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ.فَاقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا.۲۲ ۴۷ لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ.......۵۳ ۲۹ تا ۳۲ يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ.۳۷ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ.4.۷۲ LL ง ۷۹ ۸۰ : ۸۳ ΔΙ ۸۷ ۱۰۵ ۱۰۸ ۴۲ تا ۴۴ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ.إِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ.۵۷ ۴ ۷۱ ۷۲ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله..۷۴ ۱۹ ۱۹ ۲۰ لِيُعَذِّبَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ.سورة سبا يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيْبَ.....لَقَدْ كَانَ لِسَبَا فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ.ومَا أَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةُ لِلنَّاسِ.۱۴ ۲۶ ۱۶ ۲۹ سورة فاطر ۱۶ تا ۱۸ يَايُّهَا النَّاسُ انْتُمُ الْفُقَرَاء.۳۱۳۰ اِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتب الله..سورة يس وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُم.۴۸ ۳۳ ۳۳ ٣٣ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ.سورة لقمان وَلَقَدْ أَتَيْنَا لُقْمَنَ الْحِكْمَةَ.يبنى اَقِمِ الصَّلوةَ وَامْرُ بِالْمَعْرُوفِ...وَاقْصِد فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ.الَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ.سورة السجدة يُدير الأمرَ مِنَ السَّمَاءِ.الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ.ثم سوبهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ.....۹ ۲۱ ۳۱ ۶۱ ۱۴ ،۱۳ ۱۸ ۲۰ ۲۱ Δ 1.سورة الاحزاب ۲ تا ۴ يَايُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَا تُطِع.۳۹ ۱۰ تا ۱۲ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ...۴۷

Page 6

فہرست آیات || نمبر آیت آیت صفحه نمبر آیت سورة الصافات إنا زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةِ الْكَوَاكِب...۱۱۵ آیت ۳۲، ۳۳ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.۳۴ جلد سوم صفح ۲۲۴ وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ...۲۳۹ ۳۶ ۳۷ ۶۲،۶۱ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إلَهَ...وَيَقُولُونَ آيَنَا لَتَارِكُوا الهَتِنا.إِنَّ هذا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۶۳ تا ۶۶ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلاً أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُومِ ۱۰۳ تا ۱۰۹ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السّعْيَ قَالَ يُبنى..1009 1.سورة ص وَ انْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا.سورة الزمر 117 ۱۱۶ ۱۲ ۱۲۲ سورة الشورى فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ.۲۶ ۲۷ وَهُوَ الَّذِى يَقْبَلُ التَّوْبَةَ..۲۵۳ ۲۵۹ ۱۲۳ ۳۷ ۱۲۴ ۴۱ فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ....۲۶۱ وَجَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةً مِثْلُهَا.۲۷۰ ۱۳۱ تنزيل الكتب مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ۱۳۵ آمَنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيلِ سَاجِدًا....١٤٦ ۱۲ تا ۱۶ قُلْ إلى أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ.۱۹ ۲۴ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَولَ.الله نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبًا.....۱۵۵ ۱۶۲ ۱۶۴ سورة الزخرف ۳۸،۳۷ وَمَنْ يَعْضُ عَنْ ذِكرِ الرَّحْمَنِ....۵۲ سورة الدخان ذُقُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامِ آمِينٍ كذلِكَ وَزَوَجُنُهُمْ بِحُورٍ عِيْنٍ ۲۷۱ ۲۷۵ ۳۴ تا ۳۹ وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِه...۱۷۱ ۵۴ تا۵۶ قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى.سورة المؤمنون ۱۷۸ سورة الجاثية ۱۴ تا ۱۶ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ.سورة الاحقاف ٣،٢ تنزيل الكتبِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ۱۸۹ ۴ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرُ.۱۶ ۱۹۷ سورة حم السجدة قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى.Δ ۲۰۵ مَا خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ.وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسنًا.سورة محمد ۲۸۱ ۲۹۱ ۲۹۲ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنْصُرُوا اللهَ...۲۹۵

Page 7

نمبر آیت فہرست آیات آیت ۱۸ ۲۲ وَالَّذِينَ اهْتَدَوا زَادَهُمْ هُدًى..طَاعَةٌ وَقَوْلُ مَعْرُوفٌ.۳۲ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجْهِدِينَ...۳۴ ۳۶ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله.فَلَا تَهِنُوا وَ تَدْعُوا إِلَى السَّلْم.۳۷ تا ۳۹ إِنَّمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُو.سورة الفتح إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ۱۰،۹ Λ جلد سوم صفحہ نمبر آیت آیت صفحه ۲۹۵ ۲۹۵ ۲۹۵ 1.۲۹۵ ۲۹۵ ۳۳ ۳۰۷ سورة النجم فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى ۳۶۳ ۱۱ تا ۱۹ فأوحى إلى عبده ما اوحى...الكبرى ۳۶۵ عَبْدِهِ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبِيرَ الْإِثْمِ.۳۷۰ ۳۴ تا ۴۳ أَفَرَعَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى....رَبَّكَ الْمُنْتَهى ۳۷۴ سورة القمر ۳۱۷ ۴۶ إِنَّا اَرْسَلْنَك شَاهِدًا......وَاصِيلًا ۳۱۸ سورة الحجرات وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللهِ..۱۳ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا......۱۵ تا ۱۸ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا.سورة ق ۱۷ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ.۳۳ ۳۴ هذَا مَا تُوعَدُونَ لِحْلِ أَوَّابِ.سورة الذاريت ۵۶ ۵۷ ۴۹ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ۳۸۱ سورة الرحمن الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ......فِي الْمِيزَانِ ۳۸۳ ۲۷ ۲۸ كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ.۳۸۷ ۹۵۲ ۳۲۷ ۳۲۸ ۳۲۹ ۴۷ ۶۱ ۶۳ ۳۴۱ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتُنِ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ وَ مِنْ دُونِهِمَا جَنَّتن ۳۹۲ ۳۹۴ ۳۹۵ سورة الواقعة و انْتُمْ تَزْرَعُونَةٌ أَمْ نَحْنُ الرُّرعُونَ ۳۹۹ ۷۲ تا ۷۴ أَفَرَوَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ.۴۰۰ وَفي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ۳۴۵ ۷۶ تا ۸۲ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقع النُّجُومِ ذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ۳۵۳ ۳۵۴ سورة الحديد سورة الطور وَاصْبِرْ لِحُكمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا....۱۰،۹ ۲۰ ۲۲ ۳۶۱ وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللهِ...وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِةِ..سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ.۴۰۱ ۴۱۳ ۴۱۳ ۴۱۹

Page 8

جلد سوم IV فہرست آیات نمبر آیت آیت صفحه نمبر آیت آیت صفحه سورة المجادلة سورة الطلاق ۴۷۹ م وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ..سورة التحريم يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ.۴۸۵ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللهِ.....۴۸۵ سورة الملك ۴۹۳ ۵۰۳ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۵ ۴۲۷ 2 ۴۲۹ ۴۳۰ ۲تا۵ تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ.۳۰ ۴۳۲ قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ أَمَنَّا بِهِ.سورة القلم الم ترَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النّجوى....إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطن.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ......اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ فَانْسَهُمْ.۹ 11 ۱۲ ۲۰ ۱۵ سورة الحشر لا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرى.۲۱۳۱۹ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله.۲۳ تا ۲۵ هُوَ اللهُ الذى لا اله الا هو.سورة الصف وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَومِ.۴۳۷ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ •z هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى....۴۳۸ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ.۴۴۰ سورة الحاقة ۷ تا ۹ و اما عاد فأهْلِكُوا بِرِيحِ صَرْ صَرٍ عَاتِيَةٍ ۵۱۱ ۵۱۳ ۵۱۷ ۵۱۹ سورة الجمعة يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ...۴۵۱ سورة المعارج فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا.سورة المنافقون يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ...۴۷۱ سورة التغابن ۴۶۹ ۲۰ تا ۲۴ إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَدُوعًا.سورة نوح Δ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ سورة الجن إنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ.۱۴ ۴۷۷ وانَّا لَمَّا سَمِعُنَا الْهُدَى أَمَنَّا بِهِ....1.۱۲،۱۱ ٣،٢ ۱۱ 16.17

Page 9

فهرست آیات نمبر آیت آیت جلد سوم صفحہ نمبر آیت آیت صفحه ۲۰،۱۹ وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا ۵۳۰ سورة المزمل أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا.سورة المدثر ۱۶ ۵۴۱ اتا ۸ يايها المدير......وَلِرَيكَ فَاصْبِرُ ۵۴۳ ۴۳ تا ۴۸ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ....أَثْنَا الْيَقِينُ ۵۵۱ ۵۷ سورة عبس بِايْدِي سَفَرَةٍ سورة التكوير وَإِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتُ سورة الانفطار ۵۷۷ ۵۷۹ وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الله.....۵۵۱ ۷ تا ۹ يَايُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ ۵۸۱ سورة القيامة وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۵۵۷ سورة المطففين ۵۸۵ ۵۹۵ ۵۹۵ ۶۰۳ ۶۰۴ ۶۱۱ ۶۱۱ ۲۳ تا ۲۹ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ سورة الانشقاق يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ.سورة البروج ۵۶۱ 4 ۸ تا ۱۱ ۱۳ ،۱۲ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودُ سورة الطارق وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُع......الصدع ودم ۱۶ تا ۱۸ انهم يَكِيدُونَ كَيْدًا وَ أَكِيدُ كَيْدًا....سورة الاعلى ۵۷۱ ۵۷۳ ۵۷۵ ۲ تا ۴ سَبْحَ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ۱۴ ۵۷۶ ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى ۴،۳ سورة الدهر إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ.۹ تا ۱۲ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينا....سورة المرسلات وَإِذَا الرُّسُلُ أُقتَتُ سورة النبا وَجَعَلْنَا نَومَكُمْ سُبَانًا سورة النازعات فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الأعلى وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ.۱۲ 1.۲۵ ۴۱

Page 10

فہرست آیات VI جلد سوم نمبر آیت آیت صفحه نمبر آیت آیت صفحه سورة الغاشية ۲۲، ۲۳ فَذَكَرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذاكر.سورة الفجر ۲۸ تا ۳۱ يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْبِنَّةُ.سورة البلد لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ ۶۱۳ ۶۱۵ ٣،٢ ۶۱۹ ۱۲ تا ۱۷ فَلَا اقتحم العقبة...أَوْ مِسْكِينَا ذَا مَتْرَبَةٍ ۶۲۲ سورۃ الم نشرح فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ سورة التين ۶۲۷ سورة البينة وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُ اللهَ مُخْلِصِينَ...۶۶۵ سورة الزلزال إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا.سورة الفيل ۶۸۷ الم تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيلِ ۲۸۹ سورة الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سورة النصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ.۲ تا ۴ ۵تا۸ لَقَد خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۶۳۳ ۶۹۱ ۶۹۳ سورة العلق ۲ تا ۶ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ.سورة القدر ۲ تا ۶ إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.۶۴۱ ۶۴۵ سورة الاخلاص ۲تا۵ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ........وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدُ سورة الناس ۵ تا ۷ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ.......۶۹۵ ۶۹۵ ۶۹۹

Page 11

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ سورة الروم بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الروم بیان فرموده سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی قف آیت اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمُ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّى وَ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَائِ رَبِّهِمْ لَكَفِرُونَ کیا وہ سوچتے نہیں اور فکر اور غور نہیں کرتے اپنے نفسوں میں کہ اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین کو ایک خاص مقصد کے لئے اور ایک مقررہ وقت کے لئے پیدا کیا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ احقاف میں فرماتا ہے.مَا خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى (الاحقاف : ٤) کہ اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے درمیان پایا جاتا ہے بلاوجہ اور حکمت کے بغیر پیدا نہیں کیا اور نہ کوئی مدت مقرر کرنے کے بغیر پیدا کیا ہے.اسی طرح اور بہت سے مقامات پر قرآن کریم نے بڑے زور کے ساتھ اس دعوی کو انسان کے سامنے پیش کیا ہے کہ اس کائنات کی پیدائش ایک خاص مقصد کے حصول کے پیش نظر کی گئی ہے.یہ چاند، یہ ستارے، یہ سورج ، اب جب ہمارا علم بڑھ گیا ہے تو ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بے شمار سورج ہمارے نظامِ شمسی کی طرح اس عالمین میں پائے جاتے ہیں.پھر آسمانوں کے متعلق تو بڑا تھوڑا اعلم ہے.کم از کم تھوڑا بہت علم ہم نے حاصل کر لیا ہے کہ بعض ستارے زیادہ روشن ہیں اور بعض کم اور بعض ستارے ہم سے قریب ہیں اور بعض بہت دور یعنی یہ محض فلسفیانہ رنگ میں نہیں بلکہ دور بینوں سے ہم نے یہ پتہ لیا

Page 12

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة الروم اور ہم نے شعاعوں کے متعلق یہ بھی پتہ کر لیا کہ کتنے لائٹ ایرز میں، یعنی کتنے ایسے سالوں میں کہ جس میں شعاعوں کی ایک سال کی رفتار جو ہے (اسے لائٹ ایرز (Light years) کہتے ہیں) وہ روشنی یہاں تک پہنچی وغیرہ وغیرہ اور اس سے جو علم حاصل ہوا جس سے ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چاند اور سورج کی روشنی ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اندر بعض خاص خصوصیتیں پیدا کرتی ہے اسی طرح ستاروں کی روشنی بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج گندم کا دانہ جس میں مثلاً تعداد تو نہیں یاد کسی کو پتہ بھی نہیں ، گنا بھی نہیں جاسکتا ہے، لیکن مثال دے دیتے ہیں، جس کی پرورش میں ایک ہزار ستاروں نے دودھ پلایا.وہ اس دانہ سے مختلف ہے.جو آج سے پانچ ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور جس کی پرورش میں صرف نوسوستاروں کی روشنی کا حصہ تھا.عقلاً اس میں اختلاف ہونا چاہئے تھا کیونکہ زیادہ ستاروں کی روشنی پرورش کا باعث بنی تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ جو میں نے ستارے بنائے ، پھر زمین بنائی اور پھر میں نے بے شمار چیزیں بنادیں مختلف انواع کے کچھ حیوان ہیں.کچھ نباتات سے تعلق رکھنے والی ہیں.کچھ معدنیات سے تعلق رکھنے والی ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر ہر چیز میں میری جس جس صفت کا جلوہ ہوا ہے چونکہ میری ہر صفت اور اس کے جلوے غیر محدود ہیں.اس چیز کے جو خواص ہیں وہ غیر محدود ہیں.تو اتنا بڑا کارخانہ اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی اور اپنی گہرائیوں کے لحاظ سے بھی بے فائدہ اور بلا مقصد نہیں ہے، کوئی بات میرے سامنے تھی، کوئی مقصد میرے پیش نظر تھا جس کے لئے میں نے اس کا رخانہ عالم کو بنایا.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۳۰۶ تا ۳۰۸) آیت ۲۱ وَ مِنْ أَيْتِه أَنْ خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرَ تَنْتَشِرُونَ رووو اللہ تعالیٰ نے انسانی مرتبہ کو سمجھانے کیلئے فرمایا.وَمِنْ آیتِه أَنْ خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا اَنْتُم بَشَر تَنتَشِرُونَ اللہ تعالیٰ کی زبر دست نشانیوں اور اس کی قدرتوں کے حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک نظارہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے ہماری اس زمین کی ہر چیز مٹی سے پیدا ہوئی ہے مٹی کے اجزاء اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک خاص محسوس و مشہور شکل اختیار کر لیتے ہیں

Page 13

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث سورة الروم مثلاً پھلوں میں سے آم یا انگور وغیرہ ہیں.اناجوں میں سے گندم یا جو مکی یا باجرہ ہیں.لحمیات میں سے پرندوں کا گوشت ہے، چوپایوں کا گوشت ہے اور مچھلیوں کا گوشت ہے اسی طرح کی اور بھی بے شمار مختلف چیزیں ہیں مگر دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے مٹی سے پیدا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ اے انسان! ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہارے وجود میں مٹی کی خلق احسن تقویم کو پہنچی ہے مٹی کی خلق جو موزوں ترین اور بہترین شکل اختیار کر سکتی تھی وہ تمہارے وجود میں کمال کو پہنچ گئی ہے.سورۃ تین میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.غرض انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور احسن تقویم کی شکل میں انسان بطور بشر کے ہے پھر تنتشرُون کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کی تسخیر کیلئے دنیا میں پھیلنا شروع کیا.پہلے تم نے اپنے ماحول کی چیزوں سے فائدہ اُٹھایا پھر چونکہ تمہاری فطرت میں یہ جذبہ رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول یعنی اپنے ملک کی چیزوں سے تسلی نہیں پاتی اور انسان سمجھتا ہے کہ ساری دنیا کی چیز میں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اس لئے وہ ساری دنیا میں پھرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا اور دنیا کی ہر چیز کو اس نے اپنے کام پر لگایا اور اپنے فائدہ کے لئے اُسے استعمال کیا.در اصل بشر اس مٹی کی تخلیق کی انتہا اور روحانی تخلیق کی ابتداء ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے سیر روحانی شروع ہوتی ہے.پھر آگے جتنی جتنی کسی میں ہمت ہوتی ہے وہ اس کے مطابق روحانی رفعتوں کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے البتہ بشریت سے پہلے روحانی رفعتوں کے حصول کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.بشریت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد ہی انسانی مخلوق اللہ تعالیٰ کا قرب اور لقا کا مقام حاصل کر سکتی ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۰۶،۸۰۵) آیت ۳۱ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۖ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اسلام کسی کو مشقت میں نہیں ڈالتا اس لئے کسی کو مشقت میں نہیں ڈالتا کہ اسلام دین فطرت ہے.انسان کے اندر کی جو صحیح آواز ہے جو مہذب آواز ہے اور آلائشوں سے بالکل پاک آواز ہے یہ دین

Page 14

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الروم فطرت کی مظہر ہے.یہ آواز انسان کو جس طرف لے جانا چاہتی ہے اسلام بھی اسی طرف اس کو لے کر جا رہا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا اس لئے کوئی مشقت نہیں ہے لیکن جذبہ کی ضرورت ہے.کوئی مشقت نہیں ہے لیکن ان باتوں کے اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے، کوئی مشقت نہیں ہے لیکن ان اسلامی آداب کو، ان اسلامی اخلاق کو اور ان روحانی اصولوں کو جماعت احمدیہ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے اور کوئی مشقت نہیں ہے لیکن آپ کو اپنے بچوں کا باپ بننے کی ضرروت ہے.باپ کی جو ذمہ داریاں ہیں اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں وہ اسے بہر حال ادا کرنی چاہئیں.ہر باپ کو اپنے بیٹے سے یہ کہنا چاہیے دیکھو بیٹے ! ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانا کھاؤ تو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اپنے سامنے سے کھاؤ یعنی پلیٹ کے اگلے حصہ سے نوالہ لو.آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی کے لباس پر اعتراض نہ کرو.بعض دفعہ یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ مثلاً گاؤں میں کسی نے دھستا لے لیا تو کھنڈر کی چادر والے پر آوازہ کس دیا.یہ بد اخلاقی ہے جو بالعموم بچوں میں کہیں کہیں پیدا ہو جاتی ہے.دنیا کو یہ بات زیب دیتی ہو گی لیکن ایک احمدی کو یہ زیب نہیں دیتی.خدا کرے ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں حاصل کریں.یہی ہماری خواہش ہے یہی ہماری دعا ہے اور یہی وہ جہاد ہے جس کے شروع کرنے کا میں تم سے مطالبہ کر رہا ہوں پس دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ ہماری یہ خواہش پوری کر دے اور ہماری زندگیوں میں ہمیں غلبہ اسلام کے دن دکھاوے.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۵۵) آیت ۶۱ فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَ لَا يَسْتَخِفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ مسلمانوں کو اگر فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَق کی رو سے یہ تسلی نہ ہوتی کہ خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے تو مسلمان اُن کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے تھے.قرآن کریم میں متعدد جگہ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حق کو دہرایا گیا ہے جن میں سے میں نے ایک خاص حکمت کے ماتحت اور اپنے مضمون کے لحاظ سے دو آیتوں کا انتخاب کیا ہے.

Page 15

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الروم بہر حال پہلے دور میں بھی یعنی جس وقت مکی زندگی میں گنتی کے چند آدمی تھے.اگر انہیں یہ یقین نہ ہوتا کہ إِنَّ وَعْدَ الله حق کی رو سے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے اگر انہیں یہ بشارت نہ دی گئی ہوتی کہ اسلام ساری دنیا پر اور دنیا کے سارے ادیان باطلہ پر غالب آئے گا تو وہ مظلومیت کی زندگی کو بشاشت کے ساتھ برداشت کر ہی نہ سکتے.پھر دوسرے دور میں مسلمانوں کی تعداد تو کچھ زیادہ ہو گئی.پہلے گنتی کے افراد تھے مسلمانوں کی فرداً فرداً گنتی ہو رہی تھی.مگر اس کی بجائے اب ہیں ہیں کی گنتی ہونے لگی.مجھے اس وقت صحیح اعداد و شمار تو یاد نہیں لیکن جب ہجرت کے معا بعد مدینہ میں مسجد نبوی بنائی گئی تھی تو اس وقت نمازیوں کی تعداد دواڑھائی سو ہوا کرتی تھی اس سے زیادہ نہیں تھی حالانکہ اس وقت تک مدینہ کے لوگ بھی مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے.بہر حال بیسیوں مسلمان کہنا چاہیے جو دوسرے دور میں ظلم و تشدد کے باوجود اسلام کی بقا کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے رہے.اس وقت دنیوی لحاظ سے یاڈ نیوی سامانوں کے لحاظ سے بظاہر یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ لوگ بچ جائیں گے.وہ اپنی اس جدو جہد میں اور اسلام کو غالب اور مستحکم کرنے کے لئے ان تھک کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر ان کے دلوں میں چونکہ پختہ یقین تھا کہ ان وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا ہے کہ اسلام ساری دُنیا پر غالب آئے گا.یہ سچا وعدہ ہے حالانکہ ظاہر میں نہ کوئی عقلی دلیل اور نہ کوئی ظاہری سامان اس وعدہ کو سچا کرنے کے لئے موجود تھے لیکن چونکہ مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت پر یقین تھا.آپ کے ذریعے انہیں جو وعدے ملے تھے ان پر ان کا یقین تھا اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ رہے اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے.پھر تیسرا دور شروع ہوا.اس میں بھی چند سو مسلمان تھے.میں نے بتایا ہے بدر کے میدان میں ۱۳ ۳ کے قریب صحابہ شامل تھے.ان چند سومسلمانوں کو مٹانے کے لئے رؤسائے مکہ پوری شان کے ساتھ آئے وہ اپنے تمام دوستوں اور لواحقین کے ساتھ ، اپنے نوکروں اور غلاموں کے ساتھ اور اونٹنیوں اور سیوف ہندی (جو اس زمانے میں بڑی مشہور تھیں) کے ساتھ آئے تھے.اُن کا اِرادہ بھی تھا، ان کی خواہش بھی تھی اور اُن کو یقین بھی تھا کہ بدر کے میدان میں اسلام اور بت پرستوں کے

Page 16

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶ سورة الروم درمیان فیصلہ ہو جائے گا اُس وقت کفار مکہ جو تھے وہ تو تھے ہی مگر یہ ۳۱۳ آ دمی کس برتے پر، کس سہارے پر بدر کے میدان میں لڑنے چلے گئے تھے.وہ اس یقین کے ساتھ لڑنے گئے تھے کہ ان وَعْدَ اللهِ حَق اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا فا صبر یہ حکم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا گیا ہے.مگر اس قسم کا حکم بعض تفسیری معنوں کے لحاظ سے صرف آپ کے اوپر چسپاں ہوتا ہے اور بعض تفسیری معنوں کے لحاظ سے آپ کی امت پر انفرادی اور اجتماعی ہر دولحاظ سے چسپاں ہوتا ہے.اس اعتبار سے فاصبر کے معنے ہوں گے مسلمانو! ایمان کی راہ پر بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جاؤ.إنَّ وَعْدَ الله حق تم مخالف دُنیا کی طاقت کی طرف نہ دیکھو خدا تعالیٰ نے تمہاری مد کا وعدہ کیا ہے.وہ اس کو ضرور پورا کرے گا.کیونکہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے.پھر یہ دور بھی ختم ہو گیا.اسلام کو ظاہری شان و شوکت نصیب ہوئی.سارا عرب مسلمان ہو گیا پھر کسری اور قیصر مقابلے پر آ نکلے.اُن کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا.اس سے پہلے وہ آپس میں بھی لڑ چکے تھے.ان کی باہمی لڑائی کے جو واقعات رونما ہوئے تھے ان میں اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت کار فرما ہے.اس سے ہمیں بڑے سبق ملتے ہیں چنانچہ اُس زمانے میں ایک وقت میں کسری کی فوجوں نے قیصر کی فوجوں پر فتح حاصل کی اور دوسرے موقع پر قیصر کی فوجوں نے کسریٰ کی فوجوں پر فتح حاصل کی اور اس وقت اسلام اپنی مکی زندگی اور مدنی زندگی میں یعنی جیسا کہ میں نے ادوار گنوائے ہیں اس لحاظ سے دوسرے اور تیسرے دور میں سے گزر رہا تھا.پس ان کی آپس میں لڑائی کے یہ دو واقعات خاص حکمت کے ماتحت رونما ہوئے اور اس سے دُنیا کو یہ بتانا تھا کہ ہر دو بہت بڑی طاقتیں ہیں.اگر ان کی یہ جنگیں نہ ہو تیں تو آج مخالف تاریخ دان اور مستشرق اور دوسرے لوگ بھی یہ کہہ دیتے کہ اسلامی فوجوں نے کیا کارنامہ دکھایا.یہ تو چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں.اُن کے پاس تھوڑی تھوڑی فوج تھی لیکن جب وہ ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں آئیں تو ساری دُنیا کی طاقت بن کر دونوں میں آگئی ساری دنیا کے ہتھیار بٹ کر دونوں کے پاس آگئے.اُن علاقوں میں جہاں ہاتھی استعمال نہیں ہوتے تھے وہاں ہاتھی استعمال کئے گئے.اُن کے بعض سپاہیوں نے اپنے پاؤں کو بڑی بڑی زنجیروں سے باندھ لیا یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ انہیں

Page 17

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الروم بھاگنے کی ضرورت نہیں.گو اس میں اور بھی بہت حکمتیں تھیں لیکن ایک یہ حکمت بھی تھی کہ انہیں میدان جنگ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں چنانچہ ان دونوں کی آپس کی جنگ میں کئی لاکھ کا مقابلہ کئی لاکھ کی فوجوں سے ہوا.بعد میں جب ان کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی ہے تو میرا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کی مجموعی طور پر کوئی آٹھ لاکھ فوج بنتی تھی.حالانکہ مسلمانوں کی یرموک کے میدان میں قیصر کی فوج سے لڑنے والی صرف ۳۰/۴۰ ہزار فوج تھی.بعض لوگوں نے یہ تعدادزیادہ بھی بتائی ہے لیکن عام طور پر تاریخ دان ۴۰ ہزار فوج بتاتے ہیں ان کے مقابلے میں قیصر کی کئی لاکھ فوج تھی.ایک اندازہ کے مطابق تین لاکھ فوج تھی جس کے ساتھ مسلمانوں نے مقابلہ کیا اور بالآخران پر فتح پائی.پہلے بھی میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت خالد بن ولید جب تک کسری کے مظالم کا مقابلہ کرتے رہے اُن کے پاس غالباً چودہ ہزار فوج تھی.اُنہوں نے کسری کے خلاف سات آٹھ لڑائیاں لڑی ہیں.ہر لڑائی میں کسری ساٹھ ستر ہزار تازہ دم فوج بھیجتا تھا.علاوہ ازیں جو پہلی لڑائیوں کے بچے کھچے لوگ ہوتے تھے وہ بھی اُن میں شامل ہو جاتے تھے ان کو تو چھوڑو.وہ تو پہلے لڑ چکے ہوئے تھے.چنانچہ ان چودہ ہزار مسلمانوں نے مجموعی طور پر قریباً پانچ لاکھ فوج کا مقابلہ کیا ہے کسریٰ کی تازہ دم فوجیں آتی رہیں اور مسلمانوں کی وہی فوج جو پہلے لڑتی چلی آ رہی تھی.اس میں سے بھی بعض زخمی ہو گئے.کچھ شہید بھی ہو گئے.اس سارے عرصہ میں مسلمانوں کو صرف ایک آدمی کی کمک پہنچی تھی.چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے شروع میں جب کمک مانگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ تم چلے جاؤ.خالد کو مدد کی ضرورت ہے.اس پر مدینے والے حیران بھی ہوئے تھے اس کی تفصیل میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں.پس اسلام کے چوتھے دور میں ایک طرف کسری سے جنگ ہو رہی تھی تو دوسری طرف قیصر سے جنگ ہو رہی تھی وہ مسلمانوں پر بد نیتی سے حملہ آور ہوئے تھے وہ اسلام کو مٹادینا چاہتے تھے.اُن کا خون کھول رہا تھا کہ کل تک جنہیں ہم بدو سمجھتے تھے وہ آج ہمارے حاکم بننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اس لئے وہ بڑے غصہ میں آتے تھے.یہ نہیں کہ اُنہوں نے اسے کھیل سمجھا تھا حملہ کرنے آگئے تھے.وہ بڑی جانبازی سے لڑتے تھے.وہ بڑی بہادر قومیں تھیں اور بڑی تجربہ کار بھی تھیں.چنانچہ اُن کے بعض ایسے جرنیل بھی تھے جنہوں نے کئی کئی لڑائیوں میں شاندار فتح حاصل کی ہوئی تھی، اُن

Page 18

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورة الروم کے لئے کسری کا حکم تھا کہ انہیں ایک لاکھ روپے کی ٹوپیاں پہنا دی جائیں.ایک لاکھ روپے تو بڑی رقم ہوتی ہے.محمل کی ٹوپی پر چند روپے خرچ آتے ہیں.اس لئے ٹوپیوں پر لا کھ لاکھ روپے کے ہیرے اور جواہرات جڑے ہوتے تھے.اب تو بہادری کے کارناموں پر فوجیوں کو تمغے ملتے ہیں.اُس وقت ایرانیوں میں ہیرے جواہرات کی ٹوپیاں پہنانے کا رواج تھا چنانچہ ایک ایک لاکھ روپے کی ٹوپی پہننے والے جرنیل کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے نزدیک وہ انتہائی تجربہ کار جرنیل تھے جو مختلف محاذوں پر بڑی زبردست اور کامیاب جنگیں لڑ چکے تھے.ان میں سے ہر جرنیل تازہ دم فوج کے ساتھ چودہ ہزار مسلمانوں کے مقابلے پر آتے تھے.چنانچہ ہر دفعہ ساٹھ سے اسی ہزار تازہ دم فوج نئے جرنیلوں کی قیادت میں مقابلے پر آتی اور ہر دفعہ ہزیمت اٹھاتی رہی.پس اُس وقت جب ان دونوں قوموں سے مسلمانوں کی لڑائی ہو رہی تھی کون احمق تھا جو یہ سوچ سکتا تھا کہ دُنیوی اور ظاہری سامانوں کے ساتھ مسلمان اُن پر غالب آئیں گے اُن کے کانوں میں تو بڑی پیاری یہ آواز پڑی تھی ایک خدا پر ایمان رکھنے اور الہی سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آتی ہے.فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ تم دشمن کی طاقت نہ دیکھو کیونکہ جب دشمن کی طاقت دیکھ کر اپنی طاقت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہو تو آدمی یہی فیصلہ کرے گا کہ لڑنا نہیں چاہیے.مداہنت اختیار کرنی چاہیے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.فاصبر ایمان کی راہ میں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور یاد رکھو اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَق دشمن جتنا بھی طاقتور ہو، ہوتا رہے تم مغلوب نہیں ہو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ اسلام غالب آئے گا.چنانچہ ان چار ادوار میں سے گزر کر مسلمان ایک ایسی طاقت بن گئے جن کے مقابلے میں کسری اور قیصر کی عظیم سلطنتیں پاش پاش ہو گئیں.حتی کہ دشمن اسلام بھی اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوا.کوئی وعدہ پہلے دور میں پورا ہوا، کوئی دوسرے دور میں پورا ہوا.فتح مکہ کے موقع پر وہی رؤسائے مکہ جو اسلام کو مٹا دینا چاہتے تھے اسی دلیل سے وہ مسلمان ہو گئے.اُنہوں نے سوچا کہ اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ مسلمانوں کے سر پر نہ ہوتا تو انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.پس فتح مکہ کا دن جو کفار کے لئے ان کے زعم میں نحوست کا دن تھا وہ

Page 19

۹ سورة الروم تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث مسلمانوں کے لئے بڑی برکتوں اور خوشیوں کا دن تھا کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو گیا تھا.یہ مختصر سا خاکہ ہے اسلام کی نشاۃ اولی یعنی اس کے پہلے دور کا جس میں اسلام اس وقت کی معروف دنیا پر غالب آیا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام کے دو عالمگیر غلبوں کی پیشگوئی کی گئی تھی.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ بشارت دی تھی اور اُن سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جس طرح اسلام پہلے زمانہ میں غالب آئے گا اسی طرح آخری زمانہ میں بھی سب ادیان پر غالب آئے گا.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۳۷۵ تا ۳۷۹) اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے وہ تو پورا ہو کر رہے گا.اس کے وعدوں کو تو کوئی ٹال نہیں سکتا.لیکن وہ لوگ جو اللہ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے وہ یہ کوشش کریں گے کہ تمہیں جادہ استقامت اور صراط مستقیم سے پرے ہٹا دیں.فرمایا اُن سے ہوشیار رہنا اور ان کے دھوکے میں نہ آنا.لا يُوقِنُونَ کے لفظ میں دونوں قسم کے لوگ آجاتے ہیں بلکہ تینوں آجاتے ہیں.یعنی کمزور ایمان والا.منافق اور منکر.ان تینوں کو یہ یقین نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوں گے مگر ایک پکے اور پختہ ایمان والے مسلمان کو تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر کامل یقین ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا لیکن ساتھ ہی فرمایا اس کے لئے تمہیں استغفار کرنا پڑے گا.کیونکہ اس وعدہ کے پورا ہونے کے رستہ میں تمہاری کمزوریاں حائل ہوسکتی ہیں.جس کے نتیجہ میں وعدہ پورا ہونے میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم پیدا کر دے.جوان وعدوں کو پورا کرنے والی ہو.اس لئے فرما یا تم ہمیشہ استغفار کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استغفار کے معنے یہ کئے ہیں کہ انسان اپنے رب سے یہ درخواست کرتا رہے کہ اس کی بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو.اللہ تعالیٰ بھی طاقت رکھنے والا اور قادر مطلق ہے اس کی طاقت سے انسان طاقت حاصل کرنے کی توفیق پائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا خدا کے وعدے تو ضرور پورے ہوں گے اسلام کو کامیابیاں نصیب ہوں گی.مگر خدا کے وعدوں کی وجہ سے غرور نہ کرنا اور یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا اس لئے ہم کمزوری دکھا جائیں تو کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ نے فرما یا کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہر وقت چوکس رہنا ہے اور استغفار کرتے رہنا ہے اس لئے ہم نے کوشش بھی کرنی ہے اور دعا بھی کرنی ہے کہ ہماری بشری کمزوریاں غلبہ اسلام

Page 20

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث +1 سورة الروم کی راہ میں حائل نہ ہو جائیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی اور قوم پیدا ہو جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے پورے ہوں اور وہ ان بشارتوں کی وارث بن جائے.دوسرے فرمایا غرور نہیں کرنا بلکہ ہر حال میں خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کر کے کامیابی کی راہوں کو تلاش کرنا ہے پھر فرمایا جس شخص نے خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کرنی ہو اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ایک تسبیح کرنا اور دوسرا تحمید کرنا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ تم شام اور صبح کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو اور حمد بھی کرتے رہو.ہمارا بھی یہی محاورہ ہے اور دوسرے ملکوں کا بھی یہی محاورہ ہے کہ جب اس قسم کا مفہوم ادا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں صبح و شام ایسا ہوتا ہے اس آیت میں یہ ترتیب بدل دی گئی ہے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرو بِالعَشِي وَ الْإِبْكَارِ شام کے وقت بھی اور صبح کے وقت بھی دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی مجاہدہ یعنی غلبہ اسلام کے لئے جو جد و جہد کی جاتی ہے اس کی حرکت اندھیروں سے روشنی کی طرف تھی.روشنی سے اندھیروں کی طرف نہیں تھی.اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے ایک تو وہ رات ہے جو سورج کے غروب ہونے پر دھند لکے سے شروع ہوتی ہے اور ایک اس وقت کی رات ہے جس وقت مسلمانوں کو روشنی نظر نہیں آ رہی تھی ان کو تکالیف کا سامنا تھا.ان پر ظلم وستم ہو رہے تھے، کفر نے ان کی ترقی کے راستے میں روکیں پیدا کی ہوئی تھیں.پس اسلام کے غلبہ کے لئے مسلمانوں کی جدو جہد نشاۃ اولی میں بھی ظلمت سے نور کی طرف تھی اور نشاة ثانیہ میں بھی ظلمت سے نور کی طرف ہے.اس لئے العشي پہلے کہا گیا ہے اور الابحار بعد میں کہا گیا ہے آیت کے اس حصے میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری یہ حرکت قائم رہے تو جس طرح مثلا زمین کی حرکت قائم رہتی ہے.عشی کے بعد صبح کا آنا یقینی ہے اسی طرح اگر تمہاری جد و جہد اور تمہاری قربانیاں اور ایثار بھی قائم رہے گا تو جس طرح رات کے اندھیروں کے بعد صبح صادق کا طلوع یقینی ہے اسی طرح تمہاری تکالیف کے بعد تمہاری کامیابی اور غلبہ اسلام بھی یقینی ہے.( خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۳۸۸ تا ۳۹۰) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو الہی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے اور اُن کا یہ یقین نہیں مثلاً اس زمانہ میں یہ ہم کہیں گے کہ جن کو یہ یقین نہیں کہ مادی دنیا کی اس قدر ترقی کے زمانہ میں اسلام کے دوبارہ غالب آجانے

Page 21

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث "1 سورة الروم کا کوئی امکان ہے.جن کو یہ یقین نہیں وہ اُس جماعت کو بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اس پختہ یقین پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے بیچتے ہیں وہ پورے ہوتے ہیں اور دنیا کا کوئی منصوبہ انہیں نا کام نہیں کر سکتا.قرآن کریم نے فرمایا:.لَا يَسْتَحْفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ جو خُدائی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے وہ دھوکہ دہی سے مومن کو اُس کے مقام معرفت اور مقام یقین سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں.اُن کے دھوکے میں مومن نہیں آیا کرتا.مومن کو تو یہ حکم ہے اور اُس کی زندگی اس حکم کی عملی مثال ہے کہ فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقَّ الله تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہوگا.اس لئے استقلال کے ساتھ اور صبر کے ساتھ انتہائی قربانیاں دیتے ہوئے ، مالی بھی اور جانی بھی اور دوسری ہر قسم کی ، آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ کیونکہ تمہاری ہی جھولیوں میں خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کے پورا ہونے سے حاصل ہونے والی برکتوں کا پھل گرنے والا اور تمہیں ہی ان سے فائدہ پہنچنے والا ہے.مخالف اپنی مخالفت میں بڑھتا ہے اور مومن اپنے یقین.میں ترقی کرتا ہے.مخالف اپنے منصوبوں کو تیز کرتا ہے اور مومن اپنے سر کو اور بھی جھکا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ اعمال بجالاتا ہے جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار اُسے حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اُسے ملتی اور فرشتوں کی فوجیں آسمان سے نازل ہوتیں اور اُس کا ہاتھ بٹاتیں اور کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کے حضور متضرعانہ جھک کر یہ درخواست کرتے رہنا چاہیے کہ ہم کمزور ہیں.ہم کمزور سہی اے ہمارے رب ! لیکن ہم نے تیرے دامن کو پکڑا ہے اور تیرے اندر کوئی کمزوری نہیں.اس لئے جب ہم تیری پناہ میں آگئے تو ہمیں ڈرکس بات کا ؟ سوائے اس ڈر کے کہ کہیں اپنی کسی غفلت اور کوتاہی اور کمزوری اور بے ایمانی کے نتیجہ میں تو ہمیں جھٹک کر پڑے پھینک دے اور تیری حفاظت ہمارے شامل حال نہ رہے، جب تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت انسان کے ساتھ ہے جب تک اسے اُس کی نصرت ملتی رہتی ہے جب تک اللہ تعالیٰ کے پیار کا سایہ اُس کے سر پر ہوتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُس کی مدد کے لئے آسمانوں سے اُترتے رہتے ہیں اُس وقت تک مومن جو خدا کی طرف خود کو منسوب کرتا اور اُس کے حضور قربانیاں پیش کرنے والا ہے صبر اور استقلال کے ساتھ اُس مقصد کی طرف ( جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَق ) حرکت کرتا ہے اور آخر کا میاب ہوتا ہے اور اس

Page 22

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۲ سورة الروم دنیا میں بھی وہ پاتا ہے جو خدا سے دور رہنے والے کبھی پانہیں سکتے اور عقبیٰ میں بھی وہ اُس کو ملے گا جس تک خود مومن کا بھی تخیل اس دُنیا میں نہیں پہنچ سکتا.کہا گیا وہاں وہ ہو گا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا.اُن لذتوں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ ہمارے ادراک سے وہ باہر ہیں اور ہماری عقل وہاں تک پہنچ نہیں سکتی لیکن اس دُنیا میں جو جنت اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے پیدا کی اور جسے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دُنیا میں حاصل کیا.یہ جنت آج پھر ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے اور آسمان کے سارے دروازے ہمارے لئے کھول دیئے گئے ہیں.ہمت کر کے عزم کے ساتھ اپنے پورے ایمان اور اخلاص اور قربانی اور ایثار کے ساتھ ہم نے ان دروازوں کی طرف بڑھنا ہے اور ان میں داخل ہو کر اس زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کر لینا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے بے وقوف ہے وہ مخالف،خواہ وہ سیاسی اقتدار رکھتا ہو، دنیاوی وجاہت رکھتا ہو یا مادی اموال رکھتا ہو.جو یہ سمجھتا ہو کہ چونکہ اُسے الہی وعدوں پر یقین نہیں اس لئے وہ جماعت احمدیہ کو بھی الہی وعدوں سے پرے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا یہ تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی رحمت سے ہمیں ایمان اور یقین اور معرفت اور محبت اور ایثار کے مقام پر کھڑا کیا ہے اگر اس کا فضل نہ ہوتا تو یہ کمزور انسان ایک لحظہ کے لئے بھی ان تمام مخالفتوں کے ہوتے اس مقام پر کھڑا نہ رہ سکتا.ہمارے سر اس کے حضور جھکتے ہیں ہماری روح اُس کی حمد سے بھری ہوئی ہے ہم اس کے پیار کو دیکھتے ہیں ایک لحظہ کے پیار کو دُنیا کی ساری دولتوں سے زیادہ قدر والا اور زیادہ قیمتی پاتے ہیں اور اُسے چھوڑ کر کسی اور طرف منہ نہیں کر سکتے.دھو کہ میں ہیں وہ جو جماعت کے متعلق اس کے خلاف کچھ سمجھتے ہیں اور مجنون ہیں وہ جو یہ مجھتے ہیں کہ اپنی دھن کے پکے لوگوں کا یہ گروہ جواحمدیت کے نام سے موسوم ہوتا ہے یہ نا کام ہو سکتا ہے جو پیدا کرنے والے رب کی گود میں بیٹھ کر زندگی گزار نے والا جو اس کے پیار کے ہاتھ کو اپنے سر پر اور اپنے سینہ پر اور اپنی پیٹھ پر پھرتے محسوس کرنے والا ہے جس کے کان میں اُس کی آواز آرہی ہے کہ اسلام غالب آکر رہے گا اور تمہارے ذریعہ سے غالب آئے گا.جس کے دل میں یہ یقین ہے کہ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں وہ قربانیوں سے ڈرا نہیں کرتا.وہ اپنے مقام کو چھوڑ ا نہیں کرتا.اس لئے میں کہتا ہوں کہ مجنون ہے

Page 23

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۳ سورة الروم وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے مشن ، اپنے مقصد میں کہ اسلام پھر دُنیا میں غالب آئے، نا کام ہوگی اسلام غالب آئے گا انشاء اللہ.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۴۵۴ تا ۴۵۷) قرآن عظیم میں صبر کے موضوع پر ایک سو سے زائد آیات میں بیان ہوا ہے.یہ ایک بنیادی حکم ہے جس کا تعلق تمام قرآنی احکام سے ہے اوامر ہوں یا نواہی ہوں.صبر کے معنی ہیں جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبے میں بھی ذرا تفصیل سے بیان کیا تھا اصل معنی اس کے یہ ہیں کہ حَبْسُ النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْعَقْلُ وَالشَّرْعُ أَوْ إِمَّا يَقْتَضِيَانِ حَبْسَهَا عَنْهُ (مفردات زیر لفظ صبر ) نفس کو روکے رکھنا قابو میں رکھنا ان چیزوں کے کرنے نہ کرنے سے جو عقل کا تقاضا ہو یعنی فطرت انسانی کا حکم ہو یا شریعت اسلامیہ کا تقاضا ہو اور مفردات راغب نے لکھا ہے کہ یا ہر دو کا تقاضا ہو.چونکہ اسلام دینِ حکمت ہے اس لئے تمام اسلامی احکام شریعت کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں اور انسانی فطرت اور عقل کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں.اس کے معنی میں بہت وسعت ہے.اسی واسطے ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو وہ صبر سے کام لے یعنی بلاوجہ نا معقول طور پر وہ رونا پیٹنا نہ شروع کر دے بلکہ اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اس حد تک اور اس طریق پر غم کا اظہار کرے جس کی انسانی فطرت یا شریعت اسلامیہ نے اجازت دی ہے یا جب مخالف زور کے ساتھ اور طاقت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کی کوشش کرے تو اس وقت صبر اور استقامت کے ساتھ اس کے مقابلے میں شریعتِ اسلامیہ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کھڑے ہوجانا اور پیٹھ نہ دکھانا یہ صبر ہے اور با قاعدگی کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ نماز با جماعت کا ادا کرتے رہنا اس پر استقامت اختیار کرنا یہ صبر ہے.تو ہر حکم کے ساتھ اس کا اصل میں تعلق آ جاتا ہے کہ نفس کو روکے رکھنا اس چیز سے جس چیز سے روکا گیا ہے یعنی وہ نہ کرے اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کو نہ کرنے کی طرف مائل نہ ہو، اس میں سستی نہ دکھائے.یہ جو دو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان ہر دو کا جو تر جمہ ہے وہ میں پہلے پڑھ دیتا ہوں.پس استقلال سے اپنے ایمان پر قائم رہو.فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقَّ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اور چاہیے کہ جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ تجھے دھوکہ دے کر اپنی جگہ سے ہٹا نہ دیں.

Page 24

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۴ سورة الروم فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ پس تو صبر سے کام لے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اور خدا تعالیٰ سے بخشش مانگتارہ اور اپنے رب کی شام اور صبح حمد کے ساتھ ساتھ تسبیح بھی کرتارہ.ان آیات میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ کہ ہر حالت میں صبر پر قائم رہنا ہے.انسانی زندگی میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں آتا کہ جہاں بے صبری کی اسے اسلام نے اجازت دی ہو.دوسری بات چونکہ اسلام حکمت کا مذہب ہے دلیل بھی ساتھ ساتھ دیتا ہے.جو لوگ صبر واستقامت دکھاتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ان سے عظیم وعدہ یہ ہے کہ وعدوں کے مطابق ان سے وہ پیار کا سلوک کرے گا.جیسے جیسے اعمال ہیں ان کی جو جو جزا اور ثواب اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں بیان کیا ہے اس کے وہ حقدار بن جائیں گے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس کا ذکر آگے آتا ہے.تیسرے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے.اگر کوئی حکم دینے والی ہستی ایسی ہو کہ حکم دے اور وعدہ بھی کرے لیکن ایفائے عہد کی طاقت نہ رکھتی ہو تو انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں جو احکام ہیں ان کو بجا بھی لاؤں لیکن فائدہ یقینی نہیں.تو یہاں یہ تسلی دلائی گئی ہے کہ اگر دنیا دار کوئی وعدہ کرے تو ہزار بدظنیاں ہو سکتی ہیں.دنیا دار اگر کوئی وعدہ کرے تو ہزار امکان اس بات کا ہوسکتا ہے کہ خواہش کے باوجود وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے.ہزار حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ پہلے طاقت رکھتا تھا وعدہ پورا کرنے کی اب اس سے وہ طاقت چھین لی گئی.ہزار امکان ایسا ہے کہ پہلے اس کا دل خدا کی طرف جھکا ہوا تھا اور اب شیطان کے قبضے میں آپ کا اور اس لئے وہ وعدہ پورا نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ پر تو اس قسم کی کوئی بدظنی کی ہی نہیں جاسکتی.الا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ جو خدا کا وعدہ ہے وہ بہر حال پورا ہو کر رہے گا لیکن جیسا کہ ہمیں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے متعلق یہ اصولی بات بتائی کہ خدا کا وعدہ اس رنگ میں اور اس وقت پورا ہو گا جس رنگ میں اور جس وقت وہ پورا کرنا چاہے گا.انسان اللہ تعالیٰ کو ڈکٹیٹ (Dictate) نہیں کراسکتا.زور بازو سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنا وعدہ اس شکل میں اور اس وقت پورا کر.بہت سی ایسی قومیں ہمیں تاریخ انسانی میں نظر آتی ہیں جن سے کئے گے وعدے صدیوں بعد اسی طرح پورے ہوئے جس طرح وعدے کئے گئے تھے لیکن صدیاں انہوں نے انتظار میں گزاریں.ایسی قوم بھی ہمیں نظر آتی ہے کہ وعدہ چار سال کے بعد پورا ہو گیا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب میں سپین میں گیا تو بڑی بے چینی اور پریشانی اس ملک کے

Page 25

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۵ سورة الروم متعلق ہوئی کہ سات سو سال مسلمانوں نے وہاں حکومت کی اور جب وہ مغلوب ہوئے تو مخالفین نے ایک بھی مسلمان باقی نہیں چھوڑا.بہت دعائیں کرنے کی ایک رات توفیق ملی کہ خدایا تیری رحمت میں رہے صدیوں، تیری رحمت سے محروم ہوئے صدیاں گزرگئیں.پھر ان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کر.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ سامان تو پیدا کر دیئے جائیں گے لیکن تیری خواہش کے مطابق نہیں.اللہ تعالیٰ جب چاہے گا وہ سامان پیدا کرے گا اور آخر یہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.غلبہ اسلام کے دائرہ سے سپین کی قوم باہر نہیں رہے گی.تو اِن وَعْدَ اللهِ حَقٌّ خدا تعالیٰ پر انسان بدظنی نہیں کر سکتا.بدظنی کرنے والا ہلاک ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی جو طاقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی آج بھی وہی طاقت ہے اس کی.اس کی طاقتوں میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کی جو عظمت اور علو شان اور اس کی کبریائی پہلے تھی جو پہلے ہمیشہ رہی وہ آئندہ ہمیشہ رہے گی.پچھلی طرف منہ کریں تو نہ پہلے زمانہ کی کوئی انتہا ہے جہاں ہماری نظر ٹھہر جائے نہ آئندہ کے متعلق ہماری عقلیں مستقبل کا کوئی ایسا مقام ڈھونڈ سکتی ہیں کہ جس کے بعد کوئی زمانہ نہ ہو اور جس کے بعد خدا تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے جلوے ختم ہو جائیں.ازلی ابدی خدا ہمیشہ پیار کرنے والوں سے پیار کرنے والا ، قربانی دینے والوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں لے جانے والا ہے آزمائش کرتا ہے تا سچے اور جھوٹے میں فرق کرے تا پختہ اور منافق ایمان والے میں فرق کرے تا کمزور ایمان والے کی جو تھوڑی سی عظمت ہے اس میں اور اس عظیم عظمت میں فرق کرے تا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے عظیم تھے ان کی عظمتوں میں اور آپ کی امت میں جو آپ کے غلام جو آپ کے پاؤں کے قریب بیٹھنے والے جو خود کو آپ کی جوتی کے برابر بھی نہ سمجھنے والے ہیں اور اس فدائیت اور پیار اور جاں شاری کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہیں ان دو فرقوں کو وہ ظاہر کرے.یہ اپنی جگہ درست لیکن خدا کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے.وہ جو اتنی عظمتوں والا ہے کہ جن عظمتوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا جو تھوڑے وعدے یا چھوٹے وعدے جن کو ہم نسبتاً چھوٹے کہتے ہیں وہ بھی بڑے عظیم ہیں کیونکہ ان کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تو تیسری بات یہ فرمائی کہ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَق گھبرانا نہیں.بدظنی نہ کرنا، جادہ استقامت کو چھوڑ نہیں

Page 26

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث 17 سورة الروم دینا دامن جو پکڑا ہے وہ تمہارے ہاتھ سے چھوٹے نہیں ، ثبات قدم دکھانا ہے وفا کے نمونے ظاہر کرنے ہیں اور خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے.چوتھی بات ان آیات میں ہمیں یہ بتائی گئی لا يَسْتَخفَنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوْقِنُونَ کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے.لا يُوقِنُون میں واضح کر کے یہ نہیں بتایا گیا کہ کس بات پر یقین نہیں رکھتے اس واسطے ہم نے اپنی عقل اور اسلام کی عام تعلیم کے مطابق اس کی تفسیر کرتے ہوئے بعض بنیادی باتوں کو اٹھانا ہے تو لا يُوقِنُونَ کے ایک معنی اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں.دوسرے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ لوگ جو خدا کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے ایسے لوگ ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتے.ایک ایسا گروہ بھی ہے.تو چوتھی بات ہمیں یہ پتا لگی کہ دنیا میں ایسے انسان بھی ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتے.یہ یقین نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ ہے، جیسے دہر یہ ہیں ، جیسے کمیونسٹ ہیں جیسے خدا تعالیٰ کے ایسے دشمن جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ زمین سے اس کے نام اور آسمانوں سے اس کے وجود کو مٹادیں گے نامعقول دعوے ہیں لیکن بہر حال ایسا دعویٰ کرنے والے تو موجود ہیں یہ دعویٰ کرنے والے کہ اللہ تعالیٰ موجود نہیں اور سب کچھ ویسے ہی چلا آ رہا ہے اور انسان کو خدا پر بھروسہ رکھنے اس پر توکل کرنے کی ضرورت نہیں.اس سے مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے نزدیک ملے گا کچھ نہیں اور جو وعدہ دیا گیا ہے چونکہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں لفظ پر کیسے یقین ہوگا.اس پہ یقین نہیں تو وہ خدا پر یقین رکھنے والوں میں سے بعض کے دلوں میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا کی طرف بلاتے ہیں.زمین کی طرف کھینچتے ہیں ان لوگوں کو جو آسمانوں کی رفعتوں کی تلاش میں اپنی زندگیاں گزار نے والے ہیں.بعض وہ لوگ ہیں جن کو خدا کے وعدہ پر یقین نہیں.ایک گروہ ایسا بھی ہے دنیا میں کہ جو ام پرسنل گاڈ (Impersonal God) پر ایمان رکھتا ہے.وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اتنا عظیم اور انسان کی کیا ہستی ہے.اس کے مقابلے میں شے ہی کوئی چیز نہیں لائے محض ہے.اس کو کیا ضرورت پڑی کہ ہم سے ذاتی تعلق رکھے.اگر خدا اپنے بندوں سے ذاتی تعلق نہیں رکھتا تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو وعدے بھی نہیں دے گا اور اگر وعدہ کا کہیں اعلان ہو تو وہ اعلان ایسے لوگوں کے نزدیک غلط ہوگا.تو پانچویں بات یہ فرمائی کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے جس کے متعلق میں نے بڑے اختصار کے ساتھ ابھی کچھ بتایا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے ایسے لوگ

Page 27

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۷ سورة الروم تجھے دھوکہ دے کر مقام صبر سے ہٹانے کی کوشش کریں گے.اس میں وہ کامیاب نہ ہوں ان سے ہوشیار رہنا.چھٹی بات جو خدائی وعدے ہیں وہ بہر حال اپنے وقت پر پورے ہوں گے.دنیا جتنا چاہے زور لگالے اللہ تعالیٰ کے وعدوں نے تو بہر حال پورا ہونا ہے.ان وعدوں کے پورا ہونے کے وقت جنہوں نے ان وعدوں کے پورا ہونے کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا ہے وہ ہوں گے جو صبر اور استقلال اور استقامت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حکم بجالانے والے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم صبر کریں گے جب ہم خدا تعالیٰ سے جو وفا کا عہد باندھا ہے اسے توڑیں گے نہیں بلکہ اس کے وفادار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزاریں گے وہ انعام پائیں گے اس وقت جب وہ وعدہ پورا ہوگا اور جو لوگ کسی کے بہکانے میں آجائیں گے دہر یہ منکر دشمن خدا کے بہکانے میں یا ان لوگوں کے بہکانے میں جو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے وعدہ پورا ہونے کے وقت ان وعدوں کی برکتوں میں اس گروہ کا تو بہر حال حصہ نہیں ہوگا.اس واسطے ہمیں یہ متنبہ کیا گیا ہے کہ ایسے لوگ تجھے دھوکہ دے کر اپنی جگہ یا مقام صبر ثبات قدم استقامت استقلال کا جو مقام ہے انسان کا ایک بڑا بزرگ مقام وہاں سے ہٹانے کی کوشش کریں گے ان کے جال میں نہ پھنسنا یہ چھٹی بات ہے یعنی پہلے تو یہ تھا نا کہ کوشش کریں گے وہ.چھٹے ہمیں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کے فریب سے بچے رہناور نہ نقصان اٹھاؤ گے.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۳۹۳ تا ۳۹۸)

Page 28

Page 29

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۹ سورة لقمن بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة لقمن آیت ۱۳ وَلَقَدْ أَتَيْنَا لُقْمَنَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرُ لِلهِ ۖ وَمَنْ يَشْكُرُ فَإِنَّمَا يَشكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ذات کی طرف تو ساری حمد رجوع کرتی ہے.الحمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة: ۲) اس بات کا محتاج نہیں کہ اس کے بندے اس کا شکر ادا کریں.بندے اس بات کے محتاج ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پائیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں.اگر اللہ تعالیٰ کے بندے اللہ تعالیٰ کی جس قدر نعمتیں ہوں اسی قدر اس کا شکر ادا کرتے چلے جائیں.فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لنفسہ.جو اس شخص یا اس جماعت کے فائدہ ہی کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں.شکر زبان سے بھی ہے اس کی حمد بہت کرنی چاہیے.شکر کا ایک جذبہ بھی ہے جو انسان کے دل اور اس کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور ہر وقت اس کی کیفیت ایک ایسے شخص کی ہوتی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے نتیجہ میں سوائے حمد کے اس کے وجود میں کچھ باقی نہیں رہتا.(خطبات ناصر جلد ۱ صفحه ۱) آیت ۲۰،۱۸،۱۴ وَإِذْ قَالَ نُقُمنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يُبُنَيَّ لَا تُشْرِكُ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ يبنى اَقِمِ الصَّلوةَ وَ امْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرُ عَلَى مَا

Page 30

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ط أصَابَكَ اِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ) ۲۰ سورة لقمن وَاقْصِدُ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوتُ الْحَمِيرِ اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بچے کو بچپن کی عمر میں ہی اسلامی تعلیم کی بنیادی باتیں سکھانا شروع کر دینا چاہیے جیسا کہ حضرت لقمان علیہ السلام کا بچے کو وعظ کے رنگ میں ان حقائق اور صداقتوں کی طرف متوجہ کرنا جو قرآن کریم کی صداقتیں اس زمانہ کے لوگوں کو دی گئی ہیں.اس طرح حضرت مریم علیہ السلام کا واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور اسی قسم کے دوسرے واقعات ہیں جن میں اسلام کی بنیادی تعلیم کو بیان کیا گیا ہے.ان سب واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کو بچہ کہہ کر اس کی تعلیم اور تربیت سے غافل نہیں ہونا چاہیے.اس وقت ہمارے بہت سے بچے مختلف شہروں ، قصبوں اور دیہات سے یہاں جمع ہیں.انہیں چاہیے کہ وہ بھی اس بنیادی تعلیم اور تربیت کے اصول پر غور کریں جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور اساتذہ کو خصوصاً چاہیے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے ان بنیادی باتوں کی وضاحت کرتے رہیں اور کوشش کریں کہ ہمارے بچوں کے ذہن میں یہ بنیادی ہدایتیں واضح ہو جائیں تاکہ ان کی زندگی اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے ہمیشہ دور نہ رہیں.سورۃ لقمان میں حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بچے کو جو نصیحت کی اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بچپن کے زمانہ سے ہی اسلامی تعلیم کی دس بنیادی باتیں بچوں کو بتاتے رہنا چاہیے اور ان کی تربیت اسی تعلیم کی روشنی میں کرنی چاہیے.پہلی اور بنیادی چیز ( یعنی ان چیزوں میں سے بھی جو بنیادی ہے ) شرک سے اجتناب اور توحید پر قائم ہو جانا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ یہ بات بچے کے ذہن نشین کر دینی چاہیے کہ خدائے واحد و یگانہ کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں.وہی ایک واحد و یگانہ ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا.عالمین کو پیدا کیا یعنی اس مخلوق کو پیدا کیا جو موجود ہے اور جس تک ہمارا علم یا ہماری نظر یا ہمارا تخیل پہنچا ہے یا نہیں.ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ہے.کسی غیر کو اس کی ذات اور صفات میں شریک کرنا یہ ظلم عظیم ہے.

Page 31

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۱ سورة لقمن ظلم کے معنے ہیں کسی چیز کو غیر محل میں رکھ دینا یعنی جو چیز خدا کی تھی اسے کسی غیر کو دے دینا.جو صفت محض اللہ تعالیٰ کی ظلیت میں اور اس کی اتباع میں حاصل کی جاسکتی تھی فی نفسہ اس صفت سے متصف کسی غیر کو سمجھنا یا خود کو سمجھ لینا یہ غلط ہے اور غلط جگہ پر اس صفت کو منسوب کیا گیا ہے اور پھر فرمایا کہ نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کسی غیر کو شریک نہیں ٹھہرانا بلکہ خدا کو واحد اور یگانہ سمجھنا ( اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی) اور تمام صفات حسنہ سے اسے متصف سمجھنا اور یہ یقین رکھنا کہ جو بھی مخلوق ہے وہ در حقیقت اسی کی صفات کے جلوے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا وہ مخصوص جلوہ نہ ہوتا جو ہوا تو ہم جو آج یہاں بیٹھے ہیں پیدا بھی نہ ہوتے.یہاں جمع ہونے کا تو سوال ہی نہیں ہوتاوہ ایک خاص جلوہ تھا جس نے ہم میں سے ہر ایک کو خلق کیا پھر اس کو طاقتیں دیں پھر اس کی نشوونما کی پھر اس کو یہ توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچانے پہچان کر جماعت میں داخل ہو یا جماعت میں پیدا ہو کر آپ کو پہچانے اور پھر اس کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ ایک دین سکھانے کی کلاس ہے وہاں تم جاؤ اور ا کٹھے ہو.میں نے ایک جلوہ کہا تھا لیکن حقیقتا یہ بہت سے جلوؤں کا مجموعہ ہے بہر حال اللہ تعالیٰ کا جلوہ نہ ہوتا یعنی اس کی صفات میں سے ایک صفت کا یہ جلوہ نہ ہوتا تو ہم یہاں اکٹھے نہ ہوتے.ہر چیز موجود ہے ہر چیز جو زندہ ہے وہ ترقی کی طرف جارہی ہے یا تنزل کی طرف مائل ہے وہ جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے یا موت کی طرف چل رہی ہے وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت یا صفات کا جلوہ یا جلوے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان جلووں میں کسی غیر کو شریک نہ کرنا.اسلام نے بڑی تفصیل سے یہ بات بیان کی ہے یہ نہیں کہ خلق کے لئے تو اللہ کے جلوے کی ضرورت ہے لیکن تن ڈھانکنے اور پیٹ بھرنے کے لئے مارکسن اور سٹالن اور لینن کے جلوؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سے یہ منوانا نہیں چاہتا بلکہ ہر کام کے لئے ہر چیز کے حصول کے لئے ، ہر نیک خواہش کے پورا ہونے کے لئے ، ہر ضرورت کے مل جانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے جلوے کی ضرورت ہے وہ جلوہ نہ ہو تو ہماری خواہش اور ہماری ضرورت پوری نہیں ہوسکتی.توحید کے اوپر قائم کرنا چاہیے.ہر رنگ میں اور ہر طریق پر توحید حقیقی کو بیان کر کے اور انگلی انسل کو اس بات پر پختگی سے قائم کر دینا چاہیے کہ خدا کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں وہ خدا ہی

Page 32

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲ سورة لقمن واحد و یگانہ سب قدرتوں اور سب طاقتوں کا مالک ہے.اسی کے جلوے ہمیں مادی شکل میں نظر آتے ہیں سورج کی روشنی اسی کے نور کی ایک جھلک ہے چاند کی چاندنی اس کے حسن کا جلوہ دکھا رہی ہے پانی میں زندگی اسی کی صفت حی کا ایک جلوہ ہے اور پھر انسان کا باقی رہنا اور صحت کے ساتھ باقی رہنا اس کی قیومیت کا مظاہرہ ہے غرض ہر چیز خواہ کسی شکل میں اور کسی رنگ میں ہمارے سامنے آئے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہی ہے جو اس رنگ میں اور اس شکل میں ہمارے سامنے آئی.اللہ تعالیٰ کی اس معرفت اور اس عرفان کے بعد محبت کا ایک بیچ بچہ کے دل میں بویا جاتا ہے پھر وہ اپنی استعداد کے مطابق اس پیج کو بڑھانے میں خدا تعالیٰ کی توفیق سے کامیاب ہوتا اور خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوؤں کا مشاہدہ کرتا ہے بہر حال بچے کو بچپن کی عمر میں ہی شرک سے اجتناب کی تعلیم دینی چاہیے اور اس کے دل میں تو حید حقیقی کو قائم اور راسخ کر دینا چاہیے.یہ استاد کا کام ہے پھر اس کی جو بھی موجودات ہیں (موجود حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ میں نے بہت سی ، بے شمار اور ان گنت مخلوق پیدا کی ہے اور اپنی اس مخلوق کو بعض رشتوں میں باندھ دیا ہے، تعلقات میں باندھ دیا ہے ) یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کی زنجیر ہے اور جس طرح باپ بیٹے سے اس زنجیر کے ساتھ جکڑا ہوا ہے اسی طرح ایک انسان مکھی کے ساتھ بھی جکڑا ہوا ہے وہاں بھی ایک جلوہ ہے جس نے ان کو آپس میں باندھ دیا ہے بار یکی میں میں نہیں جاتا آپ جلدی سے سمجھ جائیں گے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنی مخلوق میں ایک یہ جلوہ بھی دکھایا ہے کہ میں نے اپنی ہر مخلوق کو انسان کا خادم بنادیا ہے اب اسی جلوے کے ساتھ ایک مکھی اور انسان ایک ہی زنجیر میں خادم اور مخدوم کی حیثیت میں بندھ گئے.ہر چیز انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے اور چونکہ ہر چیز انسان کی خادم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مخدوم یعنی انسان سے کہا تو اپنے زور سے مخدوم نہیں بنا اس تسخیر کے نتیجہ میں صرف تیرے حقوق ہی قائم نہیں ہوئے بلکہ اس تسخیر کے نتیجہ میں ہم نے تیری ذمہ داریاں بھی قائم کی ہیں اور تیرا فرض ہے کہ تو ہماری عائد کردہ ذمہ داریوں کی روشنی میں ہر چیز کے ساتھ جو اسی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے ویسا سلوک کرے جو ہم کہتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری مخلوق میری صفات کے جلوؤں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے

Page 33

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳ سورة لقمن اور اس طرح آپس میں حقوق اور ذمہ داریاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس نے انسان کو کہا ( اور بچے کے ذہن میں یہ بات آنی چاہیے اور بچہ شاید اس عمر میں زیادہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے ) کہ اگر میری رحمانیت کے جلوے نہ ہوتے تو تمہارا زندہ رہنا اور تمہارا پرورش پاناممکن نہ ہوتا.بھلا یہ تو بتاؤ کہ اس کے کس حق کے نتیجہ میں جو اس نے اپنے زور سے پیدا کیا ہو اس کی ماں کی چھاتیوں میں اس کے لئے دودھ اُترا.ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہے میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر میں بھی ایک بچہ ایسا پیدا ہوا کہ پیدائش کے وقت اسے کچھ زخم آگئے تھے ڈاکٹر ( جو ہمارے ماموں ہی تھے ) نے کہا کہ اس بچہ کو پانچ یا سات دن ( مجھے صحیح طور پر یاد نہیں) چار پائی پر بھی نہ لٹانا ورنہ اس کی ہلاکت کسی بڑی سخت بیماری ( مثلاً چاہے وہ زندہ رہے لیکن مفلوج ہو جانے ) کا خطرہ ہے چنانچہ سال سے اس کے عزیزوں نے ، اس سے محبت اور تعلق رکھنے والوں نے کئی دن تک دن اور رات اسے اپنے ہاتھوں پر رکھا.اب بتا ئیں اس بچہ نے کونسی کمائی کی تھی جس کی اجرت اسے مل رہی تھی ؟ کمائی کا تو ابھی اس پر وقت بھی نہیں آیا تھا اسے تو ہوش ہی نہیں تھی.رحمانیت کے یہ جلوے احسان کی شکل میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک بچے کے لئے سب سے زیادہ اس کے ماں باپ میں ہمیں نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں سورہ لقمان میں جو تعلیم دی ہے اور بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ دیکھو پیدائش کے دن تم نے رحیمیت کا جلوہ نہیں دیکھا تھا.تم نے رحمانیت کا جلوہ دیکھا تھا اور رحمانیت کا جلوہ احسان کی شکل میں تمہارے ماں باپ نے دکھایا.ہر قسم کا احسان رحمانیت کا جلوہ ہے حق سے زائد دینا یا حق نہ ہو اور اسے دینا دونوں رحمانیت کے جلوے ہیں بہر حال یہ فرمایا کہ جہاں بھی تمہیں اپنے اوپر احسان نظر آئے تمہارے لئے توحید کی وجہ سے دو باتوں کا سمجھنا ضروری ہے کہ احسان مخلوق کی طرف سے مجھ پر ہو نہیں سکتا تھا جب تک کہ خدائے واحد و یگانہ مجھ پر احسان نہ کرنا چاہتا.اس واسطے شکر کا پہلا حقدار اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے بعد شکر کے حقدار وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے اظہار کے لئے اپنا آلہ کار بنایا اور چونکہ احسان کا یہ پہلا جلوہ ہمیں ماں باپ کے طرز عمل اور ان کی خدمت میں نظر آتا ہے اس لئے فرمایا وَ بِالوالِدَيْنِ اِحْسَانًا (البقرة : ۸۴) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کوئی اور محسن ہو تو تم نے اس کے احسان کا بدلہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : ۶۱) کے ماتحت نہیں دینا بلکہ یہ اس لئے کہا کہ جب تم اس دنیا میں پیدا ہوئے تو تم نے خدائے

Page 34

تفسیر حضرت علیلة اسبح الثالث ۲۴ سورة لقمن واحد و یگانہ کی رحمانیت کے احسان کا ایک جلوہ دیکھا تھا اور وہ جلوہ تمہیں اپنے والدین کی وساطت سے نظر آیا تھا اس لئے اس پہلے جلوہ کی وجہ سے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے والدین کے لئے شکر کے جذبات پیدا کرو کیونکہ اگر تم نے رحمانیت کے اس احسان کے پہلے جلوے کا شکر نہ کیا تو تمہیں گندی عادت پڑ جائے گی اور تم دوسرے احسانوں اور رحمانیت کے جلووں کا بھی شکر ادا نہیں کرو گے پس تم پہلے جلوہ احسان اور جلوہ رحمانیت سے شکر بجالانا شروع کرو اور موت تک اپنا یہ وطیرہ اختیار کرو تم یہ عادت ڈالو کہ جب بھی تمہیں کسی طرف سے خدائے رحمان کا کوئی جلوہ نظر آئے گا تو تم اس شخص کے ممنون ہو جاؤ گے جو اس احسان اور رحمانیت کے جلوہ کا آلہ کار بنا.اس معنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا کیونکہ بندے تو احسان کرنے کے قابل ہی نہیں ہر عطا جو حق سے زائد ہے (ویسے تو حق کے مطابق عطا بھی خدا کی عطا ہے لیکن یہ حصہ میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا میں اس کی نفی نہیں کر رہا ) وہ پہلے خدا تعالیٰ کی عطا ہے پھر کسی آلہ کی اس مادی دنیا میں، اس عارضی دنیا میں کسی واسطہ کے نتیجہ میں وہ عطا حاصل ہوتی ہے غرض بچے کے دل میں شکر گزار بندہ بنے کی عادت بچپن سے ہونی چاہیے اور استاد کا یہ کام ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم بڑی وضاحت سے اس کے سامنے رکھے.اس مضمون کی ابتدائی بات میں نے اس وقت بتادی ہے اساتذہ باقی باتیں خود دیکھ لیں حقوق اللہ ، حقوق العباد، حقوق نفس اور آفات نفس سے بچنا ان سب باتوں کا ان آیات میں ذکر ہے.ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر ان چند دنوں میں ( گو ہمیشہ ہی یہ ہونا چاہیے ) ان بچوں کی ( گو بعض بڑی عمر کے دوست بھی ہیں لیکن زیادہ تر بچے ہی ہیں) تربیت کرنی چاہیے اور انہیں تعلیم دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر میں بڑے لطیف رنگ میں ہمیں ایک نصیحت کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے بچو! ( وہاں گو حضرت لقمان علیہ السلام کا واسطہ ہے لیکن مخاطب تو خدا کے سارے ہی بچے ہیں) میں نے تمہارے اور ایک گدھے میں ایک فرق قائم کیا ہے.گدھا گدھا ہے اور تم انسان کے بچے ہو اس فرق کو بھولنا نہیں اور تم انسان کے بچے اس صورت میں رہ سکتے ہو جب کہ تم اپنے نفس کو نفس کی بدخواہشات سے محفوظ کر لو اور نفس کو نیکی کی باتوں اور فضائل نفس سے آراستہ کر لو اور انوار نفس سے منور کر لو.اگر تم یہ کر لو گے تو تمہاری آواز میں انسانی دبدبہ اور اثر ہوگا اور اگر تم ایسا

Page 35

۲۵ سورة لقمن تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث نہیں کرو گے تو چاہے تم چیختے رہو اور چیخ چیخ کے لوگوں کے کان پھاڑنے کی کوشش کرو تمہاری آواز اور گدھے کی آواز میں کوئی فرق انسانی فطرت محسوس نہیں کرے گی پس اگر تم نے انسان بن کر اسی دنیا میں زندگی گزارنی ہے اگر تم نے انسان کی خصلتوں کو حاصل کر کے گدھے سے اپنے آپ کو ممیز اور ممتاز کر لینا ہے تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے نفس کی آفات کو پہچانتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ نے نفس انسان کے لئے جو فضائل کے حصول کے مواقع رکھے ہیں ان.فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی نگاہ میں خوبصورت بنو اور اللہ کی نگاہ میں محسن بنو.وہ حسن جو اللہ کی نگاہ انسان کے اندر دیکھتی ہے اور دیکھنا چاہتی ہے اور وہ احسان جو اللہ کی نگاہ انسان کے اندر دیکھتی ہے اور دیکھنا چاہتی ہے اگر تم نے اس حسن اور اس احسان کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں گدھا سمجھ کر ذلیل نہیں کرے گی تمہیں گدھا سمجھ کر حقیر قرار نہیں دے گی ،تمہیں گدھا سمجھ کر غیر انسانی سلوک تم سے نہیں کرے گی.خدا کرے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسان بن جائیں اور خدا کرے کہ ہم اس کے فضل سے یہ توفیق پائیں کہ اپنی آئندہ نسل کو بھی انسان کے اس نور سے منور کرنے کی توفیق پائیں کہ جو انسان کو دوسری مخلوق سے ممیز کر دیتا ہے.(خطبات ناصر جلد ۲ صفحہ ۷۹۰ تا ۷۹۵) صبر کے ایک معنی مصائب کو خدا کی راہ میں برداشت کرنا اور ان پر گھبراہٹ ظاہر نہ کرنا ہے.اس کے متعلق سورہ لقمان میں فرمایا.وَاصْبِرُ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ کہ تجھے خدا کی راہ میں جوتنگی و ترشی، دکھ اور مصیبت پہنچے اس پر صبر سے کام لے اور یقیناً یہ بات ہمت والے کاموں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں ہی کو پسند کرتا ہے جن کے اندر ایک عزم ہوتا ہے جن کے اندر یہ یقین ہوتا ہے کہ میں خدا کے لئے اپنی زندگی گزار رہا ہوں اور جو شخص خدا کے لئے اپنی زندگی کو گزارتا ہے وہ نا کام اور نامراد نہیں ہوا کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بشارتیں اس کے حق میں پوری ہوتی ہیں اور وہی جماعت آخر کار دنیا میں کامیاب ہوتی ہے جس جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کہ وہ اسے کامیاب کرے گا.خدا تعالیٰ کا آسمانوں پر یہ فیصلہ ہے اور زمین پر اس فیصلے کا اجراء ہوگا کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس فیصلے کے اجراء کے لئے ایک زمانہ مقرر کیا ہے اور اس

Page 36

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶ سورة لقمن فیصلے کے اجراء میں ہمیں شامل کرنے کے لئے اور ان بشارتوں کا حامل بننے کے لئے اس نے بہت سی ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور ایک مومن ان ذمہ داریوں کی ادائیگی سے گھبراتا نہیں.وہ سختیوں کو برادشت کرتا اور مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا اور آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے قادر و توانا رب پر محکم یقین رکھتا ہے اور ان مصیبتوں کو کچھ چیز نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی اور زائل ہونے والی چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتوں کا جو وعدہ دیا گیا ہے وہ لازوال نعمتیں ہیں وہ عارضی نعمتیں نہیں ہیں.وہ پائیدار رضا اور خوشنودی الہی ہے.وَاصْبِرُ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۰۸،۵۰۷) آیت ۲۱ اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَاسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَبٍ مُّنِيرٍ اسلام نے پہلی بات ہمیں یہ بتائی ہے کہ اس یو نیورس (Universe) اس ع ں عالمین کی ہر چیز بلا استثنی انسان کی خدمت کیلئے اور اُسے فائدہ پہنچانے کیلئے پیدا کی گئی ہے.آج سے چودہ سو سال پہلے جب کہ چاند سے فائدہ حاصل کرنے کا تخیل بھی انسان کے ذہن میں نہیں آیا تھا، قرآن کریم نے یہ اعلان کیا الَم تَرَوْا اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اور ایک دوسری جگہ فرمایا وَ سَخَر لَكُمْ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے.اس کا ئنات کی ہر چیز تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اور اُسے تمہاری خدمت پر لگا دیا گیا ہے.اس سلسلہ میں اسلام نے ہمیں ایک بہت ہی عظیم اور بڑی ہی حسین بات یہ بتائی ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز کے فوائد غیر محدود ہیں.میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ کسی شخص نے اس مسئلہ پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہو.اسلام کے مقابلہ پر کوئی انسان کسی مقام پر کسی زمانہ میں کھڑے ہو کر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا.اگر کوئی بیوقوف یہ دعوی کرے تو ہم اس کو جھٹلانے کے لئے کافی ہیں.مثلاً کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ چیونٹی کے پاؤں کی جو خاصیتیں ہیں یا اللہ تعالیٰ کی صفات کے جو

Page 37

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷ سورة لقمن جلوے چیونٹی کے پاؤں کی خلق کے ذریعہ ظاہر ہوئے ہیں وہ گنے جاسکتے ہیں یا ہم نے گن لئے ہیں اور اب اور کوئی خاصیت باقی نہیں رہی.میں تو کسی خاص فن کا ماہر نہیں ہوں اور نہ سپیشلسٹ ہوں کسی مضمون کا.لیکن اللہ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے کا شوق عطا فرمایا ہے اور آنکھیں کھلی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا ہے اور لوگوں کے مشاہدات کو بھی پڑھا ہے.چنانچہ دیکھنے میں یہ آیا کہ ایک وقت میں تجزیہ کرنے والوں نے کہا کہ افیون میں ۱۸ است ہیں اور بس.اور پھر اور آگے آئے اور کہا ہم نے کچھ اور ست نکال لئے ہیں.میرا خیال ہے اب تک ۳۵.۴۰ یا شاید اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں.جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو اس وقت میں نے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ افیون کے ۱۸ یا ۰ ۲ ست معلوم ہوئے ہیں مگر پھر اورست نکلتے چلے گئے.اسی طرح عورتوں کا اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہے.انسان نے ایک وقت میں یہ کہہ دیا کہ اس کے بڑے فائدے ہیں دوسرے وقت میں کہہ دیا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.جب کہا ماں کا دودھ پلانے کے فائدے ہیں یا جس نے کہا فائدے ہیں تو اس نے گویا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہا کیونکہ دودھ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے فائدہ رکھا ہے اسلئے ظاہر ہے کہ ماں کی چھاتیوں کے دودھ میں بچے کے لئے فائدہ ہے.مگر جب اس دودھ کو بے فائدہ قرار دے کر عورتوں کی ایک یا دو نسلوں کی صحتیں اپنی تھیوریز اور اصول بیان کر کے اور اُن پر عمل کروا کر خراب کر دیں تو پھر انسان نے بڑے آرام سے یہ کہہ دیا کہ اوہ ہو! ہم سے غلطی ہوگئی تھی.اب تو ہماری نئی ریسرچ یہ ہے کہ اگر ماں بچے کو دودھ نہ پلائے گی تو نہ بچہ صحتمند ہوگا اور نہ زچگی کے بعد ماں کی صحت عود کرے گی.اور یہ سب کچھ اس انداز میں کہا کہ گویا انسان نے ہلاکت کا کوئی کام ہی نہ کیا تھا.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم نے جو فیملی پلانگ ( خاندانی منصوبہ بندی) کی ہے اس کی اپروچ (Approach) اور طریق تعلیم آجکل کے سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جو شخص اپنے بچے کی رضاعت کو مکمل کروانا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ پلائے اور دودھ پلانے کے زمانہ میں عورت کو حمل نہیں ہونا چاہیے.اس طرح دو بچوں کے درمیان قریباً س سال کا وقفہ پڑ جاتا ہے.اب کل ہی ایک دوست ملنے

Page 38

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸ سورة لقمن کے لئے آئے تو انہوں نے ایک کتاب کا ذکر کیا جو حال ہی میں چھپی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی نوے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقتیں دو سال کے اندر بتدریج ترقی کر رہی ہوتی ہیں گویا نوے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقت پہلے دو سال کے اندر نشو و نما پاتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے رضاعت کا زمانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ماں بچے کو دو سال تک دودھ پلائے.دودھ ویسے بھی بڑی اچھی غذا ہے لیکن ماں کا دودھ بچے کی نشو نما کے لئے بہترین غذا ہے مگر ایک وقت میں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں.اس طرح ماں بھی بیمار ہو جائے گی اور بچے کو بھی فائدہ نہ ہوگا.جب دیکھا کہ اس طرح عورتوں کی صحت تباہ ہو رہی ہے تو پھر کہہ دیا کہ اس میں فائدہ ہے اور پھر اب حال ہی میں یہ کہہ دیا کہ بچے کے نوے فیصد سے زیادہ ذہنی قومی دو سال کے اندر نشو و نما پاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو سال تک اس کو بہترین غذا ملنی چاہیے تا کہ اس کے دماغ کی بہترین نشو ونما ہو اور بہترین غذاماں کا دودھ ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم پر لوگوں نے اعتراض شروع کر دیئے پھر وہ اعتراض واپس لے لئے.پھر خود ہی ریسرچ کی اور قرآن کریم نے جو پر حکمت تعلیم دی تھی اسکی تائید میں باتیں کرنی شروع کردیں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم نے ہمیں صرف یہ نہیں کہا کہ اس کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگا دی گئی ہے یعنی ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ہر مخلوق میں انسان کیلئے بے شمار فائدے رکھے گئے ہیں (بے شمار کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کا شمار نہیں کر سکتے ور نہ ہر مخلوق محدود ہے ) اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلامی تعلیم بہت عظیم ہے اس پر کوئی جتنا زیادہ غور کرتا ہے اس پر اس کی عظمت اور زیادہ کھلتی چلی جاتی ہے.دوسرے ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اس عالمین کی ہر چیز کے اندر جو فائدے ہیں اُن میں وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے مثلاً گندم کا دانہ اپنے اندر جو خواص آج رکھتا ہے وہ پانچ ہزار سال پہلے نہیں رکھتا تھا.گو اس کے حق میں بہت سے دلائل دیئے جاسکتے ہیں لیکن ایک موٹی دلیل دینا بہتر ہوگا اور وہ یہ ہے کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ ستاروں کی روشنی کی جو شعاعیں زمین تک پہنچتی ہیں وہ ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ علم اب عام ہو گیا ہے میرے خیال میں بچے بھی اسے جانتے ہیں.پھر سائنسدان

Page 39

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹ سورة لقمن یہ بھی کہتے ہیں کہ نئے سے نئے ستاروں کی شعاعوں کا اضافہ ہورہا ہے.بعض ایسے ستارے ہیں جو اتنے فاصلہ پر ہیں کہ ہزاروں سال پہلے پیدا ہونے کے باوجود آج پہلی بار ان کی روشنی زمین تک پہنچی ہے.سینکڑوں ہزاروں ستارے ایسے ہیں جن کی شعاعیں پچھلے پانچ دس سال میں زمین تک پہنچی ہیں.ہم اُن کا حساب نہیں رکھ سکتے.اگر ستاروں کی شعاعوں کا اثر ہماری فصلوں پر پڑتا ہے اگر ستاروں کی شعاعوں میں زیادتی ہو رہی ہے تو ظاہر ہے خواص اشیاء میں بھی زیادتی ہو رہی ہے.چنانچہ فصلوں کو لے لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ آج کی گندم پانچ ہزار سال پہلے کی گندم سے مختلف ہے یہی حال دوسری فصلوں کا ہے.اس دنیا کی ہر مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے سے نئے جلوے ظاہر ہوتے رہتے ہیں.انسان کے جسم پر بھی ظاہر ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان اپنی نالائقیوں اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے اپنے جسم کو ایسا بنالیتا ہے کہ جسم کے اجزا دوائی کے اثرات کو قبول کرنے کے قابل نہیں رہتے.آپ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں دوائی کا اثر معجزانہ طور پر کیسے ظاہر ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ میں ۲۰ دن سے دوائیاں دے رہا ہوں اور کوئی اثر نہیں ہورہا کیونکہ دوا کے اثر کو قبول کرنے کے لئے جسم تیار نہیں ہوتا اور اس طرح گو یا دلوں میں بڑی مایوسی پیدا ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جب ڈاکٹر کے دل میں بھی مایوسی پیدا ہو چکی ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اجزاء پر اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوتا ہے کہ دوائی کے اثر کو قبول کریں تو مریض کو صحت مل جاتی ہے کیونکہ دوا بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی ہے اس لئے جب جسم کے اجزاء دوائی کے اثر کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں تو مریض اور اس کے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کے دل میں جو مایوسی پیدا ہوئی ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے اور بیما را چھا ہو جاتا ہے.پس اسلام نے ہمیں ایک تو یہ تعلیم دی کہ اس یو نیورس کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہے.اس عالمین کی ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے اور دوسرے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے اندر جو خواص ہیں وہ تمہارے شمار میں نہیں آسکتے.تم کسی جگہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کر لیا اور اب کچھ باقی نہیں رہا مثلاً یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ گندم کے خواص سے یا آدم کے خواص سے یا گوشت کے خواص سے سب کچھ حاصل کر لیا ہے اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹ

Page 40

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۰ سورة لقمن بولتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اپنی صفات کے جلووں کے ذریعہ بے شمار خواص پیدا کر دیئے ہیں.تیسرے میں نے یہ بتایا ہے کہ جب تک انسان کوشش کرتا رہے گا مثلاً اگلے دو کروڑ سال تک بھی ہر روز نئی سے نئی چیز اور اس میں ایک نئے سے نیا خاصہ دریافت ہوتا رہے گا پس اگلے دو کروڑ سال تو کیا ان گنت سالوں تک خدا تعالیٰ کی مخلوق کے خواص معلوم ہوتے رہیں گے.اشیاء میں آج جو خواص پائے جاتے ہیں وہ محدود بھی ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے سے نئے جلوے ظاہر ہوتے رہتے ہیں یہ ختم نہیں ہو سکتے.ہمیشہ نئی سے نئی مخلوق خدا کے بندوں کی خدمت کے لئے تیار ہوتی رہتی ہے.پس اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے اور اس بات کو اچھی طرح بتا کر ذہنوں میں بٹھایا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے.اس سے فائدہ حاصل کرنا انسان کی اپنی کوشش پر منحصر ہے......در اصل مذہب پر اعتراض کرنے والے لوگوں میں ایک کمزوری یہ پائی جاتی ہے کہ وہ صراط مستقیم اور راہ ضلالت میں فرق اور تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتے مثلاً ایک شخص ہے جو اپنے کھیتوں میں جا کر دن رات محنت کرتا ہے اور ساتھ دعا ئمیں بھی کرتا ہے اور اس طرح اس کو بہت اچھی فصل میسر آتی ہے اس کو ایک ایکٹر میں سے دو ہزار کی پیداوار ہوتی ہے (ویسے دنیا میں پانچ پانچ اور سات سات ہزار فی ایکڑ کمانے والے لوگ بھی ہیں) خرچ کرنے کے بعد اسے ۳.۴ ہزار روپیہ بچ جاتا ہے.اس نے صراط مستقیم پر چل کر یعنی جائز ذرائع سے محنت کر کے یہ دولت کمائی.زمین اس کے لئے پیدا کی گئی تھی.اُس نے اس کے خواص مثلاً یہ کہ وہ گندم بھی پیدا کرسکتی ہے اس نے زمین کے اس خاصہ سے فائدہ اُٹھایا.اُس نے خدا کا شکر ادا کیا اور بڑی الحمد پڑھی.خدا تعالیٰ نے اس کو ایک اور سبق دینا تھا رات کو چور آیا اور وہ اسکی جمع شدہ پونجی چرا کر لے گیا.اب ایک ماہ پہلے چار ہزار روپے کی رقم جو زمیندار کے پاس تھی وہ چور کے پاس چلی گئی اور چور اس کا مالک بن گیا.مگر ان دو ملکیتیوں میں فرق کرنا پڑتا ہے.چور کی کوشش جہنم کی طرف لے جانے والی کوشش ہے یعنی چوری کے ذریعے مال کو حاصل کر لیا یا رشوت کے ذریعہ حاصل کیا یا کر پشن (Corruption) کے ذریعے حاصل کر لیا یا ذہنی بددیانتی کے ذریعہ حاصل کر لیا غرض ہزار قسم کی غلط راہیں ہیں جن پر انسان بہک جاتا ہے اور اپنی جہالت سے اُن کو اختیار کر لیتا ہے لیکن اسلام نے ہمیں یہ کہا کہ ہر چیز انسان کے

Page 41

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۱ سورة لقمن فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.ہر چیز میں بے شمار خاصیتیں رکھی گئی ہیں.گویا اس کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگادی گئی ہے.مگر یہ پکے ہوئے پھل کی طرح کسی آدمی کی گود میں آکر نہیں گرے گی پکا ہوا پھل بھی گود میں نہیں گرتا اس کے لئے بھی بسا اوقات درخت پر چڑھنا پڑتا ہے.اُسے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے.اس لئے فرمایا تم جتنی کوشش کرو گے اس کے مطابق اشیاء سے خدمت لے لو گے لیکن ساتھ ہمیں یہ بھی کہہ دیا ( ہمارا رب بڑا پیار کرنے والا ہے ) کہ میری مخلوق سے خدمت تم لے سکتے ہو صیح ذریعہ سے بھی اور خدمت تم لے سکتے ہو غلط ذرائع کو اختیار کر کے بھی.فرما یا غلط ذرائع کو اختیار نہ کرنا.جو جائز اور ٹھیک ذرائع ہیں جن کو اپنی اصطلاح میں صراط مستقیم کہا جاتا ہے اُن کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرو گے تو کس نتیجہ پر پہنچو گے.اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ اسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً الله تعالیٰ نے اس عالمین کی ہر چیز کو تمہاری خدمت پر لگا دیا اور تمہارے اندر طاقتیں پیدا کیں کہ تم اس کی مخلوق سے فائدہ حاصل کر سکو.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں صراط مستقیم کو کھول کر بیان کر دیا اور تمہیں اس قابل بنادیا کہ نہ صرف یہ کہ تم بے شمار نعمتوں کے وارث بنو بلکہ اس مقام تک بھی پہنچو کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً دُنیا میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے.کسی انسان نے اپنی ول پاور (Will Power) اور خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کیا.پس خدا تعالیٰ کی یہ بے شمار نعمتیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم خدا کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزاریں اور خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کے وارث بنیں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(خطبات ناصر جلد ۵ صفحه ۴۹۴ تا ۵۰۱) وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرة: ۲۵۶) کا جو اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کے دروازے ہم پر کھولے اور جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً بامحاورہ اس کا ایک ہی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ چھت پھاڑ کے دیتا ہے آسمانوں سے اس طرح اس کی نعمتیں نازل ہو رہی ہیں.علمی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ اتنا دے، اتنا دے کہ جتنا دنیا شاید نہ سنبھال سکے جماعت احمدیہ کو اس کے سنبھالنے کی بھی توفیق دے اور جماعت اسے سنبھال سکے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۵۸۹) کیا تم لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسے تمہاری

Page 42

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲ سورة لقمن خدمت پر لگایا ہوا ہے اور اس رنگ میں لگایا ہوا ہے کہ اپنی اس خلق کو تمہاری خدمت پر لگانے کے نتیجہ میں تمہارے لئے جن نعمتوں کے سامان پیدا کر دیے گئے ہیں.انہیں تم شمار نہیں کر سکتے انہیں تم گنتی میں نہیں لا سکتے.وَاسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةٌ وَبَاطِنَةً اور تم پر اپنی نعمتیں ظاہری ہوں یا باطنی پانی کی طرح بہادی ہیں جس طرح سمندر کے پانی کے قطرے نہیں گنے جاسکتے (شائد وہ گنے جائیں لیکن ) اس سے زیادہ بڑھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں اور اس کے احسانوں کا شمار نہیں ہے.اس سے تمہیں یہ سبق لینا چاہیے اس سے یہ حقیقت تم پر واضح ہونی چاہئے کہ پیدائش عالم کا مقصد انسان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کے باوجودلوگوں میں سے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں بات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا تو خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس کو ہمارے ساتھ کیا غرض ؟ اور اس بحث میں ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہوتی ہے وَلا ھدی نہ صحف سابقہ میں سے کسی آسمانی صحیفے کا اس کے پاس کوئی استدلال ہوتا ہے وَلا کتب منیر اور نہ قرآن کریم سے کوئی استدلال وہ ایسا کر سکتے ہیں.تو عقل، پہلی کتابیں جو ان میں سے سچائیاں قائم رہ گئی ہیں اور دنیا کو روشن کرنے کے لئے جو کتاب منیر قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے ان میں سے کوئی پختہ دلیل نکال کر وہ اپنے موقف کی تائید میں بیان نہیں کر سکتے اور اس بات سے وہ انکار کرتے ہیں کہ یہ دنیا کسی مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہے اور آخرت پر جو شخص ایمان نہیں لاتا اور دنیا میں ایسے انسانوں کی بڑی کثرت ہے ) اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پیدائش انسانی کی کوئی غرض نہیں ساری دنیا کو، کائنات کو ، موجودات کو جو پیدا کیا گیا ہے یہ بے مقصد ہے انسان اس دنیا میں آیا ہے اور مرجائے گا اور ختم ہو جائے گا یہ قصہ ہے.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۳۰۹،۳۰۸)

Page 43

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۳ سورة السجدة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة السجدة آیت ۶، ۱۰،۸ يُدير الأمرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ....الَّذِي أَحْسَنَ كُلّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَا خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ....ثُمَّ سَوَبِهُ وَ نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُوحِهِ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّبْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَنْدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ سورہ سجدہ میں مذکورہ آیت نمبر 4 سے پہلے اور بعد کی بھی بہت سی آیات میں دراصل یہی مضمون بیان ہوا ہے چونکہ خطبہ میں زیادہ لمبا مضمون بیان نہیں ہو سکتا اس لئے میں نے اس میں سے بعض ٹکڑے منتخب کر لئے ہیں.شاید ان میں سے بھی مجھے کچھ چھوڑ نے پڑیں گے غرض سورہ سجدہ کی اس چھٹی آیت میں بتایا کہ مد بر حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہی آسمانوں اور زمین کی تدبیر میں لگا ہوا ہے.اس کے بعد آٹھویں آیت میں فرمایا : الَّذِی اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ کہ اللہ تعالیٰ نے جو مد بر حقیقی یعنی آسمانوں اور زمین کی تدبیر میں لگا ہوا ہے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اعلیٰ طاقتوں کے لئے پیدا کیا ہے.ہمیں ہر چیز میں ایک تدریجی ارتقا نظر آتا ہے.درخت میں بھی ، اور جانور میں بھی، تدریج کا اصول جاری ہے حتی کہ اگر ہم اپنی نظر کو زمانہ کی وسعتوں میں پھیلا کر دیکھیں تو ہمیں صاف پتہ لگتا ہے کہ جمادات میں بھی تدریجی ترقی کا اصول کارفرما ہے مثلاً زمین سے ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد

Page 44

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۴ سورة السجدة کوئلہ اور ہیرے اور جواہرات بھی بنتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اس میں بڑی طاقتیں رکھی ہیں میری تدبیر ہی کے نتیجہ میں میری مخلوق کی قابلیتیں اُجاگر ہوتی ہیں اور ان کی طاقتوں کی صحیح نشوونما ہوتی ہے.میری تدبیر کے نتیجہ میں میرے ہی منشاء کے مطابق ہر چیزا اپنی شکل اختیار کرتی ہے.ایک یہ ہیرا ہے کتنے نامعلوم سالوں اور زمانوں میں سے گزر کر وہ ہیرا بنا اسی طرح صدیاں گزرنے کے بعد کہیں جا کر پتھر کا کوئلہ بنتا ہے لیکن جو چیز پتھر کا کوئلہ بنتی ہے وہ کوئلہ نہیں بن سکتی تھی جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اندر یہ طاقت نہ رکھتا اور اس طاقت کے نشوونما کے سامان نہ پیدا کرتا.پس يدبر الامر کے بعد ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر چیز کا مربی اور مد براللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو بھی منصوبہ اس وقت دنیا کی ہر مخلوق پر حاوی اور حاکم ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کار فرما ہے جس کے نتیجہ میں ہر چیز کی اعلیٰ طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں لیکن انسان دوسری مخلوق سے مختلف ہے چنانچہ انسان کے متعلق اسی سورۃ کی دسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ثُمَّ سَوَبِهُ وَ نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُوحِهِ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْدَةَ قَلِيلًا مَّا تشْكُرُونَ ہم نے انسان کو مکمل طاقتیں دی ہیں اور جیسا کہ ہمیں دوسری جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو جو طاقتیں عطا ہوئی ہیں ان طاقتوں کا تعلق صرف انسانی جسم سے نہیں بلکہ اس کے ذہن سے بھی ہے اس کے اخلاق سے بھی ہے اس کی روحانیت سے بھی ہے دوسری مخلوق کو صرف جسمانی طاقت ملی ہے جبکہ انسان کو یہ چاروں قسم کی طاقتیں ملی ہیں.اگر چہ یہ صحیح ہے کہ ایک حد تک انسانی ذہن سے کچھ خفیف سا ملتا جلتا ذہن جانوروں کو بھی ملا ہے لیکن وہ انسانی ذہن سے اتنا مختلف ہے اور اس میں اتنا فرق ہے کہ ہم اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں.مثلاً انسان کے علاوہ کوئی جانور چاند پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن انسان نے سوچا اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو سمجھا اور اس سے فائدہ حاصل کیا اور چاند پر پہنچ کر واپس بھی آگیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف جسمانی طاقتیں دی ہیں بلکہ ذہنی ، اخلاقی اور روحانی طاقتوں سے بھی نوازا ہے اور اس طرح انسان کو دوسری مخلوق کے مقابلہ میں ایک ارفع مقام عطا کیا ہے اس لئے فرمایا کہ میں نے ان طاقتوں کے عطا کرنے کے بعد

Page 45

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۳۵ سورة السجدة ان کی کامل نشو ونما کے لئے صرف وہ سامان پیدا نہیں کئے جو غیر انسان کی طاقتوں کے لئے پیدا کئے گئے تھے بلکہ ایک نیا سامان بھی پیدا کیا ہے اور وہ نفخ روح ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سب طاقتیں دینے کے بعد اس سے فرمایا کہ میں یہ طاقتیں تجھے دیتا ہوں اگر تو ان کی صحیح نشو ونما کر سکے اور اس نشو و نما کو کمال تک پہنچا سکے تو آخری نتیجہ یہ نکلے گا کہ تو میرا ایک پیارا بندہ بن جائے گالیکن تو اپنی قوتوں اور طاقتوں کی صحیح نشو و نما نہیں کر سکتا جب تک تجھے میرے الہام اور وحی کی روشنی حاصل نہ ہو اس لئے میں نے تیرے لئے یہ سامان بھی پیدا کر دیا ہے تا کہ یہ نعمت میسر آجانے کے بعد تیرے لئے ی ممکن ہو جائے کہ تو اپنی طاقتوں کو اس رنگ میں کمال تک پہنچائے کہ تیرا رب تجھ سے راضی ہو جائے یہ شرف انسان کو نفخ روح یعنی الہی کلام کے نازل ہونے کے نتیجہ میں عطا ہوتا ہے.ہر زمانہ کے لحاظ سے انسان بحیثیت نوع جس قدر اپنی قوتوں کو کمال تک پہنچا سکتا تھا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جس الہام کی ضرورت تھی ، جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ اس کو انبیاءعلیہم السلام کے ذریعہ عطا کی جاتی رہی اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کے ذریعہ سے وہ کامل ہدایت اور اکمل شریعت اور اعلی تعلیم نازل ہوئی کہ اگر انسان اس پر عمل کرے تو انسانیت کے کمال کو پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین بندہ بن سکتا ہے.یہ بلند مرتبہ پہلی امتوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا پہلی اُمتوں اور اُمت محمدیہ کے درمیان ( بلحاظ مرتبہ و مقام کے ) فرق کو میں نے دوسری آیات سے لیا ہے ویسے آیت زیر بحث میں عام معنی مراد ہیں یعنی ہر زمانہ کے انسان کو بحیثیت انسان یہ چاروں قسم کی قوتیں اور قابلیتیں عطا ہوتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے انسان دیکھ ! میں نے تجھے جسمانی، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتوں سے سرفراز کیا ہے اور پھر ان کی صحیح نشوونما کے لئے خود تیری رہنمائی کی ہے خود تیری انگلی پکڑی اور تجھے سیدھے راستے پر چلایا ہے.ہم نے تجھے ایسے کان دیئے ہیں جو دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوئے.ہم نے تجھے ایسی آنکھیں دی ہیں جو دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوئیں.ویسے شاید ہمارے بچے حیران ہوں کہ آنکھ کی عطا کا صرف انسان پر حصر کیوں کیا جا رہا ہے حالانکہ ہرن کو بھی آنکھ دی گئی ہے، عقاب کو بھی آنکھ دی گئی ہے ، مرغابی کو بھی آنکھ دی گئی ہے اور مرغی کو بھی آنکھ دی گئی ہے.تمام پرندوں چرندوں کو آنکھیں دی گئی ہیں حتی کہ رینگنے والے بعض کیڑوں تک کو آنکھیں دی گئی ہیں.لیکن یہاں عام طور پر مخلوقات کو جو آنکھیں دی گئی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں ہے یہاں اس آنکھ کا ذکر

Page 46

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۳۶ سورة السجدة ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا یعنی وہ نابینائی اور اندھا پن جس کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی وحی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے انقلاب کو دیکھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی قوتوں کو وہ کمال حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں کان دیئے ہیں جن سے تم میری وحی کوسن سکتے ہو میں نے تمہیں آنکھیں دی ہیں جن سے تم اپنی بصارت اور بصیرت کے نتیجہ میں میری آیات کو دیکھ سکتے ہو.میں نے تمہیں ایسا ذ ہن عطا کیا ہے کہ کان اور آنکھ کے ذریعہ سے جو علم تم حاصل کرتے ہو اس سے وہ صحیح نتیجہ نکال سکتا ہے گویا انسان ان قومی کے ذریعہ اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے ہر فرد اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے، ہر قوم اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے.بنی نوع انسان اپنے کمال کو پہنچ سکتے ہیں.مسلمان قرآن کریم کے پہلے مخاطب ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں غیروں سے ممتاز کرنے کے لئے فرقان بخشا ہے.اسلام مسلمان سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ قرآنی تعلیم پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بن جائے گا اور اس کی عبادت کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی لازوال محبت اسے ملے گی جو کسی غیر کومل ہی نہیں سکتی.لیکن باوجود اس کے کہ ہم نے تمہیں غیر سے ممتاز کیا ہے پھر بھی قلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ تم میں سے بہت تھوڑے ہیں جو میرے شکر گزار بندے بنتے ہیں.ویسے تو قرآن کریم کے مخاطب تمام بنی نوع انسان ہیں لیکن قرآن کریم جب اپنے مخاطب سے بات کر رہا ہو یا اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ اپنے بندے سے بات کر رہا ہو تو کبھی وہ ایک گروہ کو اور کبھی وہ دوسرے گروہ کو مخاطب کر لیتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس کے ایک معنی یہ بھی کر سکتے ہیں کہ مسلمان کو مخاطب کر کے کہا جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَنْدَةَ تمہیں کان دیئے ،تمہیں آنکھیں دیں اور تمہیں دل دیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی تعلیم کو سنو اس کے نشانوں کو دیکھو اور پھر صحیح نتیجہ اخذ کرو.اپنی قوتوں اور استعدادوں کی کماحقہ نشوونما کر کے اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرو تم بڑے ہی خوش بخت انسان ہو جنہیں اسلام جیسا مذہب ملا ، اس پر عمل کرنے کی تو فیق ملی اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جو انعام ہے یعنی محبت الہی وہ تمہیں نصیب ہوئی.لیکن اے وہ بد بخت انسان جس نے قرآن کریم کی آواز پر لبیک نہیں کہا تو کتنا بد بخت ہے فطرت کی آواز پر تو نے کان

Page 47

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۳۷ سورة السجدة نہیں دھرے.اللہ تعالیٰ کی وحی کے نتیجہ میں ایک انقلاب عظیم بپا ہوا مگر تو نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور تو نے اپنے گردو پیش کے حالات سے وہ نتیجہ نہ نکالا جو ایک صحیح دل نکال سکتا تھا.آخر نتیجہ یہ نکلا کہ تو اللہ تعالی کی ناشکری پر اتر آیا.تو نے اس کے قرب کی راہوں کی بجائے اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کر لیا اور اس طرح تو اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا جس مقصد کے لئے تجھے پیدا کیا گیا تھا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے سورہ سجدہ کی اس مذکورہ بالا آیت ( اور اس سے پچھلی آیتوں کو ملا کر کیونکہ سارا مضمون ایک ہی چل رہا ہے ) میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان کو ہر لحاظ سے کامل اور مکمل طاقتیں عطا ہوئی ہیں اور پھر ان طاقتوں کی کماحقہ نشوونما کے لئے یہ سامان بھی پیدا کیا کہ اس کے لئے اپنی وحی کی روشنی کا حصول ممکن بنا دیا انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی محبت حاصل کرنے کی خواہش بھی موجزن ہو تو وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوسکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے انسانی طاقتوں کی صحیح نشو و نما کے لئے اسے کان دیئے گویا کان کا ایک چشمہ جاری کیا اور جیسا کہ دوسری جگہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے یہ چشمہ اپنی پوری روانی کے ساتھ ، اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی وجود مبارک سے نکلا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محض الہام تمہیں میرے قرب کا وارث نہیں بنا سکتا تھا کیونکہ الہام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ یہ توشہد کی مکھی کو بھی ہوتا ہے لیکن قرب الہی کا جو مقام انسان کو حاصل ہو سکتا ہے اور عملاً بہت سے انسانوں کو حاصل ہوا اور بالاخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اپنے عروج کو پہنچاوہ شہد کی مکھی کو تو حاصل نہیں ہوسکتا.پس فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے الہام کا چشمہ جاری کیا ہے لیکن جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ کہ تیرے اندر وہ مطلوبہ طاقت ہونی چاہیے کہ جس رنگ میں تجھے اللہ تعالیٰ کا الہام سننا چاہیے اس رنگ میں سنے اور پھر ساتھ ہی جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو دیکھنا چاہئے اس رنگ میں دیکھے اور پھر اس سے ایک صحیح نتیجہ نکالنے میں کامیاب بھی ہو جائے کیونکہ خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کا راز اس میں مضمر ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۷۶۲ تا ۷۶۶)

Page 48

Page 49

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۹ سورة الاحزاب بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاحزاب آیت ا تا ۴ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ياَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًانَ وَ اتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خيران وتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكَيْلان پس یہ دو گروہ بن گئے.ایک دہریوں کا اور دوسرے اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والوں کا.ایسے لوگوں کو پہلے تم خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل کرو.پھر اُخروی زندگی کا قائل کرو اور پھر اُن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ پیش کرو تو اُن پر اثر ہوگا ورنہ نہیں ہوگا.بہر حال پچھلے جمعہ کو جو میں نے مختصر سا خطبہ دیا تھا، اُسے میں نے خلاصہ کے طور پر بیان کر دیا ہے.جو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں، ان میں بھی بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے لیکن چونکہ میری طبیعت خراب ہے.مجھے اس گرمی میں بھی تکلیف ہو رہی ہے.اس لئے زیادہ لمبا خطبہ نہیں دے سکتا.ان آیات میں دو اور گروہوں کا ذکر ہے.دراصل میں چاہتا ہوں کہ اگر سارے گروہ بیان نہ ہوسکیں تو ان میں سے بنیادی طور پر جو اہم گروہ ہیں پہلے ان کو اور پھر ان کے متعلق قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے اس پر روشنی ڈالوں.میں بتا چکا ہوں کہ ایک وہ گروہ ہے جو احمد یہ کہلاتا ہے.دوسرا وہ گروہ ہے جو خدا تعالیٰ کو تو کسی حد تک مانتا ہے لیکن اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتا.قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض آیات کا میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ذکر کیا تھا.

Page 50

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۰ سورة الاحزاب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کا ذکر فرمایا ہے جو لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں وہ رسول پر بھی ایمان لائیں گے.جو لوگ رسول پر ایمان لائیں گے اور اُخروی زندگی پر ان کو یقین ہوگا.ان کو فکر ہوگی کہ اس دُنیا کی چند روزہ زندگی کی بجائے اُخروی زندگی کی فکر کرنی چاہیے.کیونکہ وہ ابدی زندگی ہے.وہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.جس کی نعمتیں بھی اس دنیوی زندگی کے مقابلے میں بہت ہی اچھی ، بہت ہی بہتر اور بہت ہی زیادہ لذتوں اور مسرتوں والی ہیں.غرض جو لوگ خدا تعالیٰ اور اُخروی زندگی پر ایمان لاتے ہیں.ان کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی (جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ) اسوہ حسنہ ہے.اس طرح جو لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اُخروی زندگی پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر مسلمان نہیں وہ آگے دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں.ایک کو قرآنی اصطلاح میں کافر کہتے ہیں اور دوسرے کو منافق کہتے ہیں.ان ہر دو گروہ نے خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کے لئے دُنیا میں آسمانی ہدایت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بھی ہر وہ آسمانی ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نازل ہوئی اس کا بھی ان میں سے بہتوں نے انکار کیا اور اس کے خلاف بڑی جدوجہد کی اور بڑا مقابلہ کیا یہاں تک کہ اس کے خلاف روحانی جنگ اور بعض موقعوں پر جسمانی جنگ بھی لڑی گئی.اسی طرح پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل ہونے والی شریعت کا بھی انکار کیا گیا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں قرآن اور اسلام کے مقابلے میں بھی دو گروہ ہیں.ایک کافروں یعنی منکرین اسلام کا گروہ ہے اس گروہ میں شامل لوگ اسلام کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول نہیں اُخروی زندگی تو ہے اور اس کے لئے آسمانی ہدایت کی بھی ضرورت تو ہے.لیکن یہ آسمانی ہدایت نہیں ہے.جسے تم اسلام کہتے ہو.ایک دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلام میں شامل ہو جاتا ہے.اس کے شامل ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں.بعض لوگ دنیوی لالچ کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.بعض لوگ دنیوی عزتوں کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.بعض لوگ دنیوی مشکلات سے بچنے کے لئے اسلام میں شامل ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ.وہ اسلام میں شامل تو ہو جاتے ہیں.لیکن حقیقی ایمان نہیں لاتے.ان کی زبان پر ایمان کا لفظ ہوتا ہے لیکن دل میں ایمان نہیں ہوتا ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ وہ دور نگ یعنی منافق ہے.ایک رنگی

Page 51

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الاحزاب اس کی طبیعت میں نہیں ہوتی وہ کسی رنگ میں صاف اور سیدھا نہیں ہوتا.نہ قولِ سدید کا پابند اور نہ یاسی رنگ میں ساف صراط مستقیم پر چلنے والا ہوتا ہے.ان دو گروہوں کے متعلق بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالی گئی ہے.اس مضمون کو میں اپنے وقت پر انشاء اللہ بیان کروں گا.لیکن یہاں یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یایھا النَّبِيُّ اتَّقِ الله میں دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی طرف اشارہ ہے.تقویٰ کے معنے ہیں جو چیز ایذا دینے والی یا ضرر پہنچانے والی ہے اس سے حفاظت کرنا.ان چیزوں سے حفاظت کا نام وقایۃ ہے.عربی کے بعض قواعد کے لحاظ سے واؤ.ت سے بدل جاتی ہے.اس کا اصل مصدر وقتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ کافروں کو دیکھو، وہ تعداد میں زیادہ، دنیوی سامانوں میں زیادہ ، جتھہ بندی میں زیادہ، سیاسی اقتدار میں زیادہ اور رعب میں زیادہ ہیں.پھر تاریخی روایات ان کے حق میں زیادہ ہیں.جہاں تک تاریخی روایات کا تعلق ہے وہ ان کے نتیجہ میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے آباؤ اجداد کو ایسے عقائد کا پابند نہیں پایا.ان کو تو ہم نے بتوں کی پرستش کرتے ہی دیکھا ہے.ان کو تو ہم نے یہ کرتے اور وہ کرتے دیکھا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ شیطان ان کو اس قسم کی احمقانہ بات بھی سکھا سکتا ہے کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو ہر رسول کی مخالفت کرتے دیکھا ہے.ہم نے ہر رسول کا انکار کرتے دیکھا ہے اور ہم نے ہر رسول کا استہزاء کرتے دیکھا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے بھی کہا ہے کہ جو بھی رسول آیا.خدا کے بندوں میں سے بہتوں نے شروع میں اس سے استہزاء ہی کیا.بہر حال ایک تو یہ گروہ ہے جو جتھے میں زیادہ، مال میں زیادہ، سیاسی اقتدار میں زیادہ، رعب میں زیادہ ، رعب کے غلط فوائد حاصل کرنے میں زیادہ ہوتا ہے.( مسلمان تو اپنے اقتدار اور اثر ورسوخ کا غلط فائدہ اٹھا ہی نہیں سکتے ) اور پھر اسلام کے خلاف منصوبہ انتہائی طور پر خطرناک اور دل میں بڑی سخت مخالفت کہ اسلام کو مٹادینا ہے.دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ظاہر میں اسلام لے آتے ہیں.لیکن اندر ہی اندر ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں.وہ اندر سے اسلام کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.وہ اسلام کی

Page 52

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۲ سورة الاحزاب ترقی میں رخنہ ڈالتے ہیں.جس طرح پانی آہستہ آہستہ بنیادوں میں مار کرتا ہے اور مکان کو گرا دیتا ہے اسی طرح ان کا اثر بھی آہستہ آہستہ رونما ہوتا ہے.ان کی خفیہ طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ الہی سلسلوں میں کمزوری پیدا ہو.ایسے لوگ ظاہر میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اور ایمان کا دعویٰ بھی کرتے ہیں.یہ دونوں فتنے یا اسلام کے خلاف دونوں قسم کے منصوبے اتنے خطرناک ہیں کہ کفر کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لئے پختہ ایمان کی ضرورت ہے.ورنہ پاؤں ڈگمگا جائیں گے.دوسرا نفاق کا فتنہ ہے اس فتنہ سے بچنے کے لئے جہاں بڑی ہمت درکار ہے وہاں اس سے بچنا ایک اچھا نمونہ چاہتا ہے.کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے.منافق مصلح کے روپ میں آتا ہے وہ دوست کی شکل میں سامنے آتا ہے وہ ایک پیار کرنے والے ساتھی یا بھائی کی شکل میں سامنے آتا ہے وہ اپنے آپ کو چھپاتا ہے.اس کا ظاہر بڑا حسین مگر اس کا باطن ہر لحاظ اور ہر رنگ میں نہایت بے ہودہ، بھیانک اور بدصورت ہوتا ہے.غرض اس آیت کے لفظی اور ظاہری معنے یہ بنتے ہیں کہ اے نبی ! کافرانہ منصوبوں اور منافقانہ ریشہ دوانیوں سے اسلام کو بچانے کی خاطر حفاظت کا ذریعہ خدا تعالیٰ کو بناؤ اور مسلمان کو یہ کہا ( جب میں یہ کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان بہر حال زیادہ ہو گئے ہیں.اس لئے فرمایا ) تم بہت ہو گئے.پھر تم مخالفین سے کیوں ڈرتے ہو.فرمایا: - لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: ۲۲) تمہارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے.آپ اکیلے تھے مگر مخالفین سے بالکل نہیں ڈرے.حالانکہ کفر کے سارے منصوبے آپ کے خلاف اور کفر کے سارے وار آپ کی ذات پر تھے.ہر قسم کی مخالفتوں کا آپ ہی نشانہ تھے.اس وقت بندوق تو نہیں تھی.مگر ہر تلوار جو میان سے باہر نکلتی اور وار کرتی تھی اس کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ہوا کرتی تھی.فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو دیکھو.آپ اکیلے تھے مگر آپ نے کافروں کی کبھی پرواہ نہیں کی.آپ اکیلے تھے اور آپ نے منافقوں کا مقابلہ کیا.حالانکہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو بہت سے منافقین کے متعلق اطلاع دی گئی تھی.لیکن آپ نے اپنے ساتھیوں اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بتایا نہیں تھا.آپ نے اکیلے ہی منافقین کے ساتھ مہم جاری رکھی.آخر جب نشانے کا پتہ ہی نہ ہو تو نشانہ لگانے میں کوئی دوسرا آدمی تو شریک نہیں ہو سکتا تھا.جب اس بات کا کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وار

Page 53

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۳ سورة الاحزاب کہاں سے آ رہا ہے.تو دوسروں کیلئے اس کے روکنے اور ناکام بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.منافقین کے متعلق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا اس لئے آپ نے خود ہی ان کا مقابلہ کیا.یہی کہنا پڑے گا اور یہی معقول بات ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے کا فروں کا بھی مقابلہ کیا اور منافقوں کا بھی مقابلہ کیا.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کی صلوت آپ پر ہمیشہ ہمیش ہوتی رہیں (کسی اور پر نہ اتنی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوئیں اور نہ ہوں گی ) اللہ تعالیٰ کی وہ محبت اور پیار آپ کو حاصل ہوا جو کسی اور آدمی کو حاصل نہیں ہوا.اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ محبت اور پیار ہے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے آپ کے لئے مانگتی چلی آ رہی ہے.اور قیامت تک مانگتی چلی جائے گی.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ایک عظیم نمونہ ہیں.آپ کافروں کے مقابلے میں اکیلے کھڑے ہو گئے.آپ کے مخلص ساتھی تھے مگر آپ نے اُن کو نہیں بتایا کہ خدا تعالیٰ نے کن کن منافقوں کے متعلق اطلاع دی ہے کہ یہ لوگ منافق ہیں اور ان کا مقابلہ کرنا ہے.آپ نے ایک آدھ آدمی کو بتایا اور وہ بھی اس لئے کہ اُس نے آپ کے بعد ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہنا تھا.اس کو علیحدہ کر کے اور اعتماد میں لے کر اور اس سے وعدہ لے کر کہ وہ آگے اس بات کو عام نہیں کرے گا منافقین کے متعلق بتا دیا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ میری وفات کے بعد منافقین کی ریشہ دوانیاں ہوں گی.اس لئے کوئی نہ کوئی آدمی تو گواہ رہنا چاہیے تا کہ وہ بوقت ضرورت گائیڈنس دے سکے.اور امت کو اُن سے متنبہ کر سکے.جب ایسا شخص نگا ہو کر باہر آ جائے.( منافق بعض دفعہ نگا ہو کر سامنے بھی آ جاتا ہے ) تو اس وقت لوگوں کو بتا سکے کہ یہ مومن نہیں یہ منافق ہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ منافقین کے خلاف بھی اصل جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے لڑی ہے.پس اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اور بھی دو گروہ ہیں.ایک منکرین اسلام کا گروہ ہے اور دوسرا منافقین کا گروہ ہے.منکرین اسلام کے ساتھ ہمارا جو مجادلہ ہے اور ان کو مغلوب کرنے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو ہماری جنگ اور جہاد ہے وہ اور قسم کا ہے اور جو منافق کے ساتھ ہماری جنگ ہے وہ اور قسم کی ہے ویسے اصولاً تو ہم تلوار کے ساتھ جنگ نہیں کرتے ہم نے تو ان کی روح کو اپنے قبضے میں لینا ہے ان کے جسموں کو چیلوں کے آگے ڈالنا ہمارا مقصد نہیں ہے.ہم نے ان کی

Page 54

تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ۴۴ سورة الاحزاب روح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھیلے میں لے لینا ہے.جس طرح لوگوں نے بعض بزرگوں کے متعلق غلط سلط کہانیاں بنا رکھی ہیں (اس کی تفصیل میں میں تو اس وقت نہیں جا سکتا جس دوست کو کوئی کہانی یاد آ گئی ہو وہ حظ اٹھا لیں) بہر حال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اُن کی روح جیتیں.ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم ان کی گردن کاٹیں.تاہم یہ جو مقابلہ ہے یہ جو جیتنے کا ایک فعل ہے اس کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس کے لئے انتہائی ایثار کے نمونے خدا کے حضور اور دنیا کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں.غرض یہ بڑی سخت جنگ ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے.وَاغْلظ (التوبة : ۷۳) جس کے معنے یہ ہیں کہ کفار اور منافقین کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کرو.یہاں بھی اس پوری آیت کی رو سے یا يُّهَا النَّبِی کہہ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بتایا ہے.میں اس مضمون کے متعلق ابھی مزید غور کر رہا ہوں.میرا خیال ہے کہ جہاں بھی یا یهَا النَّبِی کہہ کر کوئی حکم دیا گیا ہے وہاں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہ اس میں بڑا سخت حکم تھا.ایک پابندی تھی اس سے گھبرانا نہیں تمہارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے اس کی طرف دیکھ لینا.وہ تمہارا سہارا بن جائے گا.پس يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبة : ۷۳) میں لفظ غلظ کے معنے ایسی سختی کے ہیں کہ جس کے اندر کوئی چیز اثر انداز نہ ہو سکے.مثلاً اسپینج ہے.یہ بھی نسبتا سخت ہے.پانی کی نسبت زیادہ سخت ہے اس کو نیچے دبانے کے لئے بھی کچھ زور لگانا پڑتا ہے لیکن اس کے اندر پانی کا اثر چلا جاتا ہے.اس کے اندر خلا ہے جس میں دوسری چیز داخل ہو جاتی ہے.پانی میں مٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے ہیں.پس سختی تو نسبتا ہے لیکن اسپنج کی سختی ایسی سختی نہیں کہ باہر سے کسی چیز کا اثر اس کے اندر داخل نہ ہو سکے.مگر غلظ کی رو سے کسی چیز میں ایسی سختی مراد ہے جس پر کسی چیز کا اثر نہ ہو سکے.چنانچہ وَاغْلُظ عَلَيْهِمْ کے اس فقرے یا الفاظ کے اس مجموعہ میں دراصل دو معنے پائے جاتے.اُس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ خود اتنے سخت ہو جاؤ کہ کفر اور نفاق کا اثر تمہارے اندر گھس نہ سکے اور

Page 55

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۵ سورة الاحزاب دوسرے یہ کہ خود اتنے سخت بن جاؤ کہ کفر اور نفاق کی سختی کے باوجود تمہارا اثر ان کے اندر چلا جائے اُن میں نفوذ کر جائے اور اُن کی جو ہیئت کذائی ہے اور ان کی ( چونکہ انسان ہیں اس لئے ہم کہیں گے ) جو ذہنیت اور اخلاق ہیں.اُن کے جو منصوبے ہیں، اُن کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہو اور جو آج کافر ہے، وہ کل کو مخلص مومن بن جائے جس طرح حضرت عکرمہ بن گئے تھے.اور جو آج منافق ہے وہ کل سب کچھ قربان کرنے والا سچا مسلمان بن جائے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بہت سے لوگ نفاق چھوڑ کر سچے مومن بن گئے تھے.تاہم کئی بد بخت نفاق کی حالت میں فوت بھی ہو گئے تھے.لیکن کئی ایک کو اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور کمزور ایمان والے پختہ ایمان والے بن گئے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دو گروہ تو وہ تھے جن میں پہلا خدا کا انکار کرنے والا اور دوسرا اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والا اور اُس کا منکر.ان کے علاوہ دو اور گروہ ہیں.پہلا گر وہ خدا کو مانتا ہے.اُخروی زندگی کو بھی مانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آسمانی شریعت بھی آنی چاہیے تا کہ اُخروی زندگی سنور جائے لیکن وہ اپنی بد بختی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتا.دوسرا گروہ منافقوں کا گروہ ہے.وہ اسلام میں دُنیوی اغراض کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.اُخروی زندگی کے سنوار نے کے لئے شامل نہیں ہوتے پس یہ دو گروہ اور آگئے ان کے متعلق ہمیں مزید تجزیہ کرنا پڑے گا کیونکہ قرآن کریم نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بے شمار دلائل دیئے ہیں.سارے دلائل کا احاطہ کرنا تو ایک عمر کا بھی کام نہیں اس مضمون کا احاطہ ساری عمر کی محنت بھی نہیں کر سکتی.تاہم تفصیلی نہیں تو کچھ انشاء اللہ بیان کروں گا.جہاں تک کافروں کا تعلق ہے، وہ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.لیکن میرے اس مضمون کے لحاظ سے وہ منکر مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں.ویسے جو لوگ اللہ تعالیٰ پر نہیں لاتے ان کے متعلق جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ بھی منکر ہیں.لیکن اس وقت وہ منکرین مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآنی شریعت پر ایمان نہیں لاتے یا وہ لوگ جو نفاق کے طور پر اسلام میں داخل ہوتے ہیں.

Page 56

۴۶ سورة الاحزاب تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث پھر قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ منکرین یعنی کا فر بھی آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں.اُن کا بھی ہمیں تجزیہ کرنا پڑے گا لیکن اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اصلاح وارشاد اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے کام کا از سر نو جائزہ لے کر اس میں تیزی پیدا کرنی چاہیے ان طریقوں سے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں.اب مثلاً ایک دہریہ شخص ہے ہمارے پاکستان میں بھی اشتراکیت کے بڑے نعرے لگ رہے ہیں.اگر ایسے شخص کے سامنے آپ جا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ پیش کریں تو وہ کہے گا میں خدا تعالیٰ کو مانتا نہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو کیسے مان لوں.پس جب ہم ایسے لوگوں کے پاس جائیں گے تو ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں وہ دلائل پیش کریں گے جو قرآن کریم نے دیئے ہیں اور جنہیں اگر کسی کے سامنے صحیح طور پر پیش کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند انسان انکار نہیں کر سکتا.پھر اُن پر یہ ثابت کریں گے کہ اُخروی زندگی بھی ماننی پڑے گی.ورنہ اس دنیوی زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے.اُس نے ہمیں گدھے کتے اور سور تو نہیں بنایا.ہمارے اندر ہماری فطرت میں ایک ارج (URGE ) رکھی گئی ہے.ایک جذبہ پیدا کیا گیا ہے.کہ ہم اُخروی زندگی کے لئے کام کریں.اگر اُخروی زندگی نہیں تھی تو پھر جو فطرت کے اندر ایک جذبہ ہے یہ خود بخود کیسے آ گیا.سو راور کتے میں کیوں نہیں آیا.پھر کفر کفر میں فرق ہے.قرآن کریم نے اسے بیان کیا ہے.قرآن کریم کی تفسیر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اسی طرح نفاق نفاق میں فرق ہے کسی آدمی کا دل پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اس کے دل کو نرم کرنے کے لئے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ پر عمل کرنا پڑے گا.کسی کے متعلق فرمایا کہ ان کے کان بہرے یا ان کے کانوں میں ثقل اور بوجھ ہے.یا کسی کے متعلق فرما یا وہ اندھے ہیں.اُن کی آنکھیں نہیں.پس جس شخص کا کفر یا نفاق اندھے آدمی کے مشابہ ہے.پہلے اس کی بینائی کی فکر کرنی پڑے گی.یعنی وہ طریق اختیار کرنا پڑے گا جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو آدمی سنتا نہیں اسکے سامنے وہ تعلیم پیش کرنی پڑے گی جو قرآن کریم نے یہ کہ کر ہمارے سامنے رکھی ہے کہ جو نہیں سنتے اُن کے سامنے یہ تعلیم رکھو.خطبات ناصر جلد چهارم صفحه ۲۴۰ تا ۲۴۹)

Page 57

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۷ سورة الاحزاب آیت ۱۰ تا ۱۲، ۱۸،۱۶ ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَ تَكُم جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرَانَ إِذْ جَاءُ وَكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا وَلَقَد كَانُوا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللهِ مسئولان قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِبُكُم مِّنَ اللَّهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَ لَا نَصِيرًا ان آیات میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.اس وقت میں مختصراً دو بنیادی باتوں کے متعلق کچھ کہوں گا.ایک یہ کہ اُس قسم کے ابتلا اور تشویش اور پریشانی کے حالات میں جیسا کہ جنگ احزاب کے موقع پر پیدا ہوئے تھے یا اُس سے ملتے جلتے حالات ، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعد میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اُس وقت ایک کامل مومن اور ایک کمزور ایمان والے اور منافق کے درمیان فرق یہ ہوتا ہے جو ظاہر ہو جاتا ہے کہ تظنُّونَ بِاللهِ الظنونا اور اللہ تعالیٰ پر اُن کا گمان دو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ان کا یقین دو مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے.منافق کا جوایمان یا ایمان کی ٹیگیشن (NEGATION) یعنی نفی اور مومن کے ایمان کی پختگی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جس کی طرف تظنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا میں اشارہ کیا گیا ہے.دوسری بنیادی بات یہ بتائی گئی ہے کہ منافق کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (معاذ اللہ ) جھوٹے وعدے کتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُّون میں جو بنیادی بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ

Page 58

۴۸ سورة الاحزاب تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث منافق کا خدا تعالیٰ پر یقین یا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا خیال یا اس کے وعدوں کے متعلق یا اس کی قدرتوں کے متعلق یا اس کی صفات کے متعلق اس کا ایمان ایک مومن کے ایمان سے بہت مختلف ہوتا ہے.جو منافق ہے وہ ابتلا کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (نعوذ باللہ ) جھوٹا وعدہ کیا ہے.وہ یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ کوئی پیشگوئی کی گئی تھی یا کوئی وعدہ کیا گیا تھا لیکن جب ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ڈ نیوی لحاظ سے بظاہر کامیابی اور بقا اور استحکام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تو منافق کہہ دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا ہے.تمہیں اس نے وعدے تو کچھ اور دیئے مگر آج کچھ اور نظر آ رہا ہے لیکن مومن ایسا نہیں ہوتا.اُس کے اظہار ایمان کے گو مختلف رنگ ہوتے ہیں.تاہم ایسے حالات میں مومن تو یہ کہتا ہے جیسا کہ بعد کی آیات میں ذکر کیا گیا ہے ) کہ جو خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے وہ ضرور پورا ہوگا.مومن ابتلا کا احساس رکھتے ہوئے اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے اور اس کے باوجود کہ شکنجے میں وہ اپنے آپ کو جکڑا ہوا پاتا ہے کہتا ہے کہ جس خدا نے ہمیں یہ فرمایا تھا کہ اس قسم کے پریشان کن حالات پیدا ہوں گے اسی نے یہ کہا تھا کہ میں ان پریشان کن حالات میں تمہیں کامیاب کروں گا اور تمہیں نجات دوں گا.اس واسطے پہلی بات جب پوری ہوئی تو دوسری بھی پوری ہوگی.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۵۳۱، ۵۳۲) جیسا کہ میں نے بتایا ہے مسلمانوں کے لئے بہت سے امتحان اور آزمائشیں ہوتی ہیں لیکن جن آزمائشوں کا بطور خاص میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں وہ مادی طاقت اور زور کے ساتھ اور مادی ذرائع سے دشمن کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل اور اسلام کو مٹانے کا منصو بہ اور آزمائش ہے یعنی یہ آزمائش کہ دشمن مٹانا چاہتا تھا لیکن مسلمانوں نے صبر و ثبات دکھایا اور دشمن ناکام ہوا مثلاً جنگ احزاب ہے جس کا ان آیات میں ذکر ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دشمن کو پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ پیدا ہو جا ئیں.وہ ہر صورت میں دشمن کا مقابلہ کریں گے اور اسے پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے چنانچہ کیسے ہی حالات احزاب کے موقع پر پیدا ہو گئے.قریباً سارا عرب اکٹھا ہو کر ان غریبوں اور مفلسوں اور نہتوں کو قتل کرنے کے لئے وہاں جمع ہو گیا اور اُنہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک کے مارے وہ پیٹ پر

Page 59

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۹ سورة الاحزاب پتھر باندھ کر چلتے تھے.دوسری طرف مسلمان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ جس جگہ وہ اکٹھی کی گئیں وہاں ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کے لئے بھی مسلمان سپاہی میسر نہیں تھا کیونکہ دوسری جگہ اس کی زیادہ ضرورت تھی.مسلمان عورت سے فرمایا کہ اگر آج تیری عزت کی آزمائش ہے اور خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان عورت میرے راستے میں اپنی عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں تو وہ اس امتحان میں پورا اُترنے کے لئے تیار ہو جائیں چنانچہ وہ تیار ہوگئیں.پھر جس وقت یہ سارا جم غفیر اور یہ سارا مجمع جو اسلام کو مٹانے کیلئے جمع ہوا تھا اور اُن کفار کی اُمیدا اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ بس اب وہ غالب آئے اور مسلمان مغلوب ہوئے.ادھر مسلمانوں کے حالات کرب عظیم کو پہنچ گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر اس وقت خدا تعالیٰ کی مدد نہ آئی تو وہ مارے جائیں گے، اس وقت خدا کی مدد آئی اور فرشتے اس مدد کو آسمان سے لے کر آئے تو انہوں نے انہی زمینی عناصر میں تبدیلیاں پیدا کر دیں.وہ عناصر کہ جن کے ذرے ذرے کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ ان کی تسخیر اور ان پر حکمرانی کرے، اُن کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حاکم اعلیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور آپ کی کامیابی کے لئے حکم ملا چنا نچہ مسلمان جن کے جسم کا ذرہ ذرہ اور رواں رؤال مَتى نَصْرُ اللہ پکار رہا تھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تمام عناصر، یہ زمین اور اس کے ذرات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تمہیں آزمایا اور تم اس آزمائش میں کامیاب ہوئے کیونکہ تمہارے اس کرب کو میں نے عظیم بنا دیا ہے اور تمہارا امتحان اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے، تمہارے دکھوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا.میں نے تمہاری یہ آزمائش اس لئے نہیں کی کہ تمہیں دُنیا سے مٹا دیا جائے بلکہ یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ ظاہر ہواور دُنیا خدا تعالیٰ کے اس پیار کا جلوہ دیکھے جو اُ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے متبعین کے ساتھ ہے.اب دیکھیں سارے عرب قبائل اکٹھے ہو کر کمزوروں کو مٹانے کے لئے آگئے تھے.ان کمزور مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر باندھے مگر دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی.وہاں سے بھاگے نہیں.اُنہوں نے بے عزت صلح کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا.کمزوری نہیں دکھائی.شرک کی طرف مائل نہیں ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور سہارا ڈھونڈیں.اُنہوں نے کہا ہمارا ایک ہی سہارا ہے اگر وہ مل گیا تو اس

Page 60

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورة الاحزاب دُنیا میں بھی کامیاب اور اگر اس دُنیا سے چلے بھی گئے تو ہمیں اُخروی انعامات تو ضرور ملیں گے اور پھر اس حقیقی سہارے نے ان کو بے سہارا نہیں چھوڑا چنانچہ اس وقت جب کہ دشمن غالب آنے کی امید لگائے بیٹھا تھا اور وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ سے زمین و آسمان میں ایک تغیر پیدا ہوا اور وہ جو مسلمانوں کو مٹانے کے لئے آئے تھے بھاگ نکلے.ریت کے چند ذرے کہہ لو، ہوا کی تھوڑی سی شدت کہہ لو یا اُن کے دلوں کے اندر فرشتوں نے جو بزدلی پیدا کی اور مسلمانوں کا جو رعب پیدا کیا وہ کہہ لو.غرض یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے تھے جو انسان کو نظر آئے لیکن وہ اپنے محاصرے کے پہلے دن ہی نہیں بھاگے، وہ دوسرے اور تیسرے دن بھی نہیں بھاگے.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ نظارہ کئی دن کے بعد رونما ہوا.یرموک کی جنگ کو لیں.یہ پانچ دن کی جنگ ہوئی ہے اور خدا کی شان یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید کو طفیل محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ چار دن تک آزمائشوں کا دور ہوگا یعنی ان کے ذہن میں پہلے سے یہ تصور موجود تھا کہ چار دن دشمن کے اور پانچواں دن ہمارا ہو گا یعنی تین پہر دشمنوں کے ہوں گے اور چوتھا پہر ہمارا ہو گا چنانچہ دشمن اپنے وزن ، اپنی تعداد اور اپنے ہتھیاروں کے زور کے ساتھ مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے ان کے خیموں تک لے جاتا تھا.مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ایثار پیشہ فدائی مسلمان عورتیں خیموں کے ڈنڈے لے کر مسلمانوں کے سر پر مارتی تھیں کہ واپس جاؤ.یہاں کیا لینے آئے ہو چنانچہ اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دو دن بھی یہی حال ہوا.اس معرکے میں کئی مسلمان شہید ہو گئے جن میں عکرمہ اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے مگر کسی مسلمان نے پیٹھ نہیں دکھائی حتی کہ عکرمہ جیسے شخص نے پیٹھ نہیں دکھائی جو فتح مکہ تک اسلام کا دشمن رہا تھا کیونکہ عکرمہ اور اس جیسے دوسرے مسلمانوں کے دل بدل گئے.حالات مختلف ہو گئے.اندھیروں کی جگہ نور نے لے لی.وہ جو اسلام کے دشمن تھے ان کے دل میں محبت پیدا ہو چکی تھی.عکرمہ اور اس کے ساتھی اس خیال سے جلتے تھے کہ انہوں نے اپنے چہروں پر اسلام دشمنی کے داغ لگارکھے ہیں.ان داغوں کو دھونے کے لئے خدا جانے ہمیں کوئی موقع ملتا ہے یا نہیں.پس یہ لوگ بھی جو بعد میں آنے والے تھے ، دشمن کے مقابلے میں بھاگے نہیں.کسی نے بزدلی نہیں دکھائی.وہ خدا تعالیٰ سے نا امید نہیں ہوئے.انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں کی بلکہ کئی ایک

Page 61

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۱ سورة الاحزاب نے اپنی جان دے کر مَنْ قَضَى نَحْبَه خدا تعالیٰ سے اپنا عہد پورا کر دیا اور اس طرح اُنہوں نے اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کئے اور پیچھے رہنے والوں کے لئے فتح کے سامان پیدا کر دیئے.غرض اس جنگ میں جب مسلمانوں کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور تمثیلی زبان میں وہ آخری وقت یعنی عصر کا وقت آ گیا تو کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت یرموک کے میدان میں رومی اپنے پیچھے شاید ڈیڑھ لاکھ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے حالانکہ پہلے چار دنوں میں رومی یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تو مٹھی بھر ہیں یہ بچ کر کیسے جائیں گے وہ سمجھتے تھے کہ ہم اڑھائی لاکھ ہیں اور مسلمان صرف چالیس ہزار اس لئے وہ مسلمانوں کو مٹادیں گے غرض اس نیت کے ساتھ رومی آئے تھے کہ اس میدان میں سارے مسلمانوں کو قتل کر دیں اور اس فتنے کو (جو اُن کے نزدیک فتنہ تھا) ہمیشہ کے لئے مٹادیں گے مگر جسے وہ فتنہ سمجھتے تھے اور جس کے مثانے کے درپے تھے، اس نے اُن کے خون کو کھاد بنا کر انہی کے علاقوں میں اسلام کے درختوں کو بویا.جنہوں نے بڑے اچھے پھل دیئے (کھا دہی پڑی نا! کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بکرے کا خون اگر DECOMPOSED (ڈی کمپوزڈ) ہو کر درختوں کی جڑوں میں ڈالا جائے تو بڑی اچھی کھاد ثابت ہوتا ہے.چنانچہ اسلام کا یہ دشمن انسانیت کے لئے اور تو کسی کام نہیں آیا مگر جب اسلام کا باغ ان علاقوں میں لگا تو اس وقت اس نے کھاد کا کام دیا.ان کی نسل سوچتی ہو گی کہ یہ لوگ کن بلند نعروں کے ساتھ اور بظاہر کس ہمت کے ساتھ اور کس ولولے اور عزم کے ساتھ اور پادریوں کے ہر قسم کے جوش دلانے کے بعد اسلام کو مٹانے کے لئے وہاں گئے تھے مگر نا کام ہوئے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ اور اس کے پیار کے جلوے جنگ کے میدانوں میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں.دشمنان اسلام تو بد بخت تھے لیکن ہمارے لئے خوش بختی کے سامان پیدا کر گئے اور ہمارے لئے خوش قسمتی کے محلوں کے دروازے کھول گئے.تاہم یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا کرب، کرب عظیم بن گیا تھا.دُکھ اور تکلیف اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی.اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا انعام نازل نہیں ہوتا ورنہ ایک کمزور ایمان والے اور ایک پختہ اور سچے ایمان والے آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوسکتا.بہر حال ایک مسلمان نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائے گا چنانچہ جب تک اللہ تعالیٰ اس دعوی کی پوری طرح آزمائش نہ کرے، اس کی نصرت نازل نہیں ہوتی.پیٹھ نہیں دکھائے گا“ کا عہد وہی آدمی کرتا ہے

Page 62

۵۲ سورة الاحزاب تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث جس کا خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر کامل بھروسہ ہوتا ہے.تبھی وہ کہتا ہے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاؤں گا.وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے کیونکہ وہ سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی وقت یہ فیصلہ کرے کہ میں اپنے وعدوں کو پورا نہیں کروں گا.یہ تو ایک عیب ہے اور خدا تعالیٰ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے.اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ کہے کہ میں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ میری قدرت سے باہر ہے کیونکہ وہ تو ساری قدرتوں کا مالک ہے.پس وہ سچے وعدوں والا بھی ہے اور کامل قدرتوں والا بھی ہے، اس لئے اس کی صفات کی اسی معرفت کے بعد یہ عہد کیا جاتارہا ہے کہ مسلمان اپنے دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ میں تمہیں آزماؤں گا چنانچہ قرونِ اولیٰ کے بعد کی تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش کے وقت سچے مسلمان نے بیٹھ نہیں دکھائی.یوسف بن تاشفین کا واقعہ ہے جو سپین میں رونما ہوا.وہ افریقہ کے رہنے والے تھے.میں نے تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے مگر ان کے اس واقعہ میں عملاً عصر کا وقت ہی تھا جب انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی.یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ جب پین کے حالات خراب ہو گئے تو مسلمانوں نے یوسف بن تاشفین سے درخواست کی کہ ہماری مدد کریں چنانچہ وہ قریباً بارہ ہزار گھوڑ سوار فوج لے کر وہاں پہنچ گئے ، عیسائی بادشاہ ساٹھ ستر ہزار کی فوج لے کر حملہ آور ہوا.بڑی زبر دست جنگ ہوئی جس میں بظاہر دشمن کا پتہ بھاری تھا.تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقع پر یوسف بن تاشفین نے یہ سمجھا کہ آج مجھے اپنی عمر میں شاید پہلی شکست نہ ہو جائے کیونکہ دشمن کا دباؤ بڑا شدید تھا.عیسائی مسلمانوں کو مار رہے تھے.انہیں قتل کر رہے تھے اور پیچھے ہٹا رہے تھے مگر اس سارے دباؤ اور ان تیزیوں کے باوجود جود شمن مسلمانوں کے خلاف دکھا رہا تھا اس پر انہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی عیسائی سمجھتے تھے کہ آج وہ غالب آگئے اور سپین سے مسلمان کو گو یا مٹا دیا.یوسف بن تاشفین کا یہ واقعہ مسلمان کی سپین میں ہلاکت سے کئی صدی پہلے کا ہے گو اس وقت بھی یہی حالات پیدا ہو گئے تھے.جو بعد کی صدی میں زیادہ بگڑ گئے اور مسلمانوں کو ان کی غفلتوں اور

Page 63

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳ سورة الاحزاب کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں ایک عذاب کا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا.بہر حال یوسف بن تاشفین سمجھتے تھے کہ عمر میں پہلی شکست ہو رہی ہے اور ادھر عیسائی بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ آج ( بزعم خویش ) عیسائیت اور اسلام کا فیصلہ ہو گیا ہے.ہم نے مسلمانوں کو مٹادیا ہے.یہ باہر سے مدد دینے آئے تھے اپنے مسلمان بھائیوں کو.ہم نے ان کو بھی شکست دے دی ہے.چنانچہ عصر تک یہی حال رہا پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے ایک نئی شان میں آئے کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شأن (الرحمن: ٣٠) اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہر جلوہ نئی شان رکھتا ہے چنانچہ عصر کے وقت عیسائی فوج بھاگ نکلی حالانکہ اس سے پہلے وہ سارا دن مسلمانوں کو مارتے اور دباتے رہے تھے لیکن مسلمانوں کی تکلیف جب اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے وہ مسلمانوں کی مدد کو آیا.اُس نے ان کا امتحان لے لیا تھا اس لئے فرما یا تم کامیاب ہو گئے.اب لو میرا انعام چنانچہ رومی بھاگے اور یوسف بن تاشفین اور اس کے آدمی ( با وجود اس کے کہ کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ویسے بھی تعداد میں کم تھے مگر چونکہ وہ ایمان پر قائم تھے اس لئے ) ساری رات دشمن کو مارتے مارتے ان کا پیچھا کیا اور قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر ایک دریا تھا اُن کا خیال تھا کہ ہم وہاں تک اُن کا پیچھا کریں گے چنانچہ دشمن کا ساٹھ ستر ہزار فوج میں سے کل پانچ سو عیسائی دریا پار کر سکے.شاید کچھ دائیں بائیں سے بھی نکلے ہوں گے لیکن ان کی اکثریت ماری گئی.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۴۵ تا ۵۰) آیت ۲۲ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرا حصول رحمت کی ایک اور راہ خدا تعالیٰ نے (جسے شاہراہ کہنا چاہئے جو بڑی وسیع ہے اور برکتوں والی ہے) ہمیں یہ بتائی ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں تو ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے.رجا کے معنی ہیں یہ امید اور یقین رکھنا کہ مسرت کے سامان پیدا ہوں گے ان معنی کی رو سے پر جوا اللہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ہر وہ شخص جو امید اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے مسرت کے سامان اپنے فضل اور رحمت سے پیدا کرے گا تو اسے یہ یادرکھنا چاہئے کہ رحمت کے یہ

Page 64

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴ سورة الاحزاب سامان اس کے لئے اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے والا ہو.یہاں پر جو اللہ کے متعدد معانی کئے جاسکتے ہیں اپنی تفاصیل کے لحاظ سے ان متعدد معانی میں سے آج کے لئے میں نے پانچ معنوں کا انتخاب کیا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب اور نقص سے منزہ ہے کوئی عیب ہم اس کا مل ہستی کے متعلق اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتے وہ پاک ہے اور پاکیزگی سے محبت رکھتا ہے اور پاک ہی کو قرب عطا کرتا ہے.پس جس شخص نے خدا تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی ایسے رنگ میں پاک ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ جس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی اسے ہر زاویہ سے پاک یا پاک ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھے یہ پاکیزگی اگر ہم نے حاصل کرنی ہو تو اس کے لئے ہمارے واسطے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کرنے والوں میں سے بن جائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۳) جس طرح پانی اگر صاف اور پاکیزہ ہو اور کپڑے کو پتھروں پر مار مار کر دھویا جائے اور اسے صاف کرنے پر پوری توجہ دی جائے تو برف کی طرح وہ کپڑا صاف ہو جاتا ہے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے آپ نے جو اُسوہ دنیا میں قائم کیا ہے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپ کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ہم اپنے نفس کو اپنی روح کو اس رنگ میں پاک کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نگاہ اس پر پڑے تو جو اللہ کے ایک معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اس پاک ذات سے تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے اسے یہ یادرکھنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی ضروری ہے جو شخص آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا یا کم از کم کامل اتباع کرنے کی کوشش نہیں کرتا اس کے اندر بہت سی ایسی ناپاکیاں رہ جائیں گی جو اللہ تعالیٰ کو بیزار کرنے والی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اسے محروم کر دینے والی ہوں گی اس لئے اگر اس پاک کی محبت چاہتے ہو تو اس پاک نمونہ کی کامل اور مکمل اتباع کرو اس کے بغیر خدا تعالیٰ تم سے رحمت کا سلوک نہیں

Page 65

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کرے گا.سورة الاحزاب يرجو اللہ کے تفصیلی معنی ہم یہ بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسا نور عطا کیا ہے جو کائنات میں سے کسی اور کو عطا نہیں ہوا اس لحاظ سے انسان تمام مخلوقات میں ممتاز ہے یہ نور دنیا کی کسی اور چیز کو نہیں دیا گیا حتی کہ سورج میں بھی یہ نور نہیں چاند میں بھی نور نہیں ہیروں میں بھی یہ نور نہیں دنیا کی کسی شئی میں بھی وہ نور نہیں جو انسان کو دیا گیا انسانوں میں سے جس نے اس نور کو اتم طور پر اور اکمل طور پر اور ارفع اور اعلیٰ طور پر حاصل کیا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ جو نُورُ السّموت ہے اس کے نور سے حصہ لے اللہ تعالیٰ کے نور کی کرنیں اسے ڈھانک لیں اس نور کی چادر میں شیطانی وسوسہ داخل نہ ہو سکے اور ظلمات میں سے کوئی ظلمت اس کے خانہ دل کا رخ نہ کر سکے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جو کامل اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کا نور بن کے دنیا میں نور پھیلانے کے لئے مبعوث ہو اصلی اللہ علیہ وسلم.اس کی وہ اتباع کرے کیونکہ جو شخص اس کی اتباع کرتا ہے وہ اس کی اتباع کے طفیل اللہ کے نور سے اسی طرح اپنی استعداد کے مطابق اور اپنے مجاہدہ کے مطابق نور حاصل کرتا ہے جس طرح کامل مجاہدہ ، کامل محبت ، کامل فدائیت اور کامل ایثار کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نور کو حاصل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی زندہ خدا جولوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی.“ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۸۲ ۸۳) تو اگر کوئی شخص یہ خواہش رکھتا ہو کہ وہ اللہ کے نور سے حصہ لے جونور کہ اس دنیا کی نیک راہوں کی نشاندہی کرتا ہے اور دوسری زندگی میں بھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِايْمَانِهِمْ (الحديد: ١٣) یہاں بھی وہ نور قرب کی راہوں کو منور کرتا اور اس کے نتیجہ میں شیطانی راہوں پر اندھیرا چھا جاتا

Page 66

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۶ سورة الاحزاب ہے ہر سیدھی راہ نظر آنے لگتی ہے یہ نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہم حاصل کر سکتے ہیں اسی واسطے ہر وہ شخص جس کے دل میں ایسی خواہش پیدا ہو اس کو اللہ تعالیٰ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے ایک نمونہ ہیں اس اُسوہ کے مطابق تم اپنی زندگیوں کو ڈھالو تو اللہ تعالیٰ سے اس حسین اور عجیب اور روشن نور کو حاصل کر سکو گے جو انسان کو ہر قسم کی ہلاکت سے بچاتا ہے.لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ شخص جو اللہ کی امید رکھتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے اسے یادرکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زندہ اور پاک تعلق پیدا کرنے کے لئے اس کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص اس جگہ نہ پہنچے جہاں سے یہ معرفت حاصل ہو سکتی ہے تو وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہے گا ضال ہو جائے گا ایسے شخص کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معرفت کا ایک خزانہ دے کر اس دنیا میں مبعوث کیا ہے اور آپ کی بعثت کے بعد کسی اور کے پاس یہ خزانہ تو کیا اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی باقی نہیں رہا اور اس فضیلت کی چابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور اس تالے کے اوپر خدا کے فرشتوں کا پہرہ ہے اگر کوئی شخص اس خزانے میں داخل ہو کر اس خزانے سے حصہ لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی کنجی حاصل کرے پھر اس کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ خزانہ کوکھولے اور اس میں داخل ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو چابی اس خزانہ کے لئے دی گئی ہے اس کا نام ہے.اسوہ رسول ، یہی چابی ہے جس سے معرفت کے خزانے کھولے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اسے یہ یادرکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے قیام سے پہلے اس کی ذات اور اس کی صفات کا عرفان ضروری ہے اور یہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس معرفت کے خزانہ کی چابی اس کے پاس نہ ہو اور چابی اس کو ملتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے پس اگر تم خدا سے زندہ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس اُسوہ کو اپناؤ اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارو اور اپنے ماحول میں بھی اسے قائم کرنے کی کوشش کرو.لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہ کے چوتھے معنی یہ ہیں کہ جوشخص بھی سچی نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے

Page 67

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۷ سورة الاحزاب لئے ضروری ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرے کیونکہ آپ کی پیروی ہی کے نتیجہ میں ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار ظاہر ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیل سے اس پر بڑی روشنی ڈالی ہے کہ اس وہم میں مبتلا رہنا کہ اس دنیوی زندگی میں بے شک ہم ہر قسم کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں اُخروی زندگی میں ہمیں نور ملے گا اور نجات حاصل ہوگی یہ غلط ہے جس شخص کو وہاں جنت ملتی ہے اس کو اس دنیا میں بھی جنت ملتی ہے جس شخص کو وہاں نور حاصل ہونا ہے اس کے لئے نور کے سامان اسی دنیا میں پیدا کئے جاتے ہیں جس نے وہاں نجات حاصل کرنی ہے اس کے لئے نجات کے آثار اسی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور ایسا شخص جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور نجات کے آثار اسی شخص کے لئے نمایاں ہوتے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے آپ کی سنت کی اتباع کرتا ہے یہ محض ایک دعوی ہی نہیں بلکہ اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے ایک تو ماضی کے شواہد ہیں حال کے آثار ہیں اور مستقبل کے چیلنج ہیں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہر اس غیر مذہب، ہر اس شخص کے سامنے رکھے گئے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے یا ایسا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے کہ اگر واقع میں تم اسلام سے باہر رہ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات حاصل کر سکتے ہو تو نجات کے کچھ آثار بھی تو ظاہر ہونے چاہیں ان میں ہمارا مقابلہ کر لو اگر اس دنیا میں تمہیں یہ نجات حاصل نہیں نہ اس کے کوئی آثار دکھا سکتے ہو اگر اس دنیا میں ایک سچے مسلمان کو نجات حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے آثار اس کی زندگی میں پائے جاتے ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب یعنی اسلام جس کی پیروی سے اور وہ رسول جس میں فنا ہو کر جس کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کرنجات کے یہ آثار ہماری زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں وہی سچا رسول ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ھڈرز فیلڈ (انگلستان) میں جماعت کے پریذیڈنٹ نے ( جو بڑے مخلص تھے چند دن ہوئے اچانک وفات پاگئے ہیں اللہ ان کے درجات بلند کرے) ایک پریس کانفرنس کا بھی انتظام کیا تھا اور غیر مسلموں کو بھی مدعو کیا تھا وہاں سوشل ورکر ادھیڑ عمر کی انگریز عورت نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ایک سچے عیسائی اور ایک سچے مسلمان میں کیا فرق

Page 68

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۸ سورة الاحزاب.ہے؟ میں خوش ہوا کہ اس نے عیسائی اور مسلمان کے فرق کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ” سچے کی زیادتی کی ہے میں نے اس کا سوال دہرایا کہ تم مجھ سے ایک سچے عیسائی اور سچے مسلمان کے مابین کا فرق دریافت کر رہی ہو اس نے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک سمجھے ہیں تو میں نے اس کو جواب دیا کہ تم ایک عورت ہو میں ایک عورت کی ہی مثال دیتا ہوں میں نے اپنی ایک احمدی بہن کی مثال دی تھی جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اپنے رب کی محبت کو کچھ اس طرح پا یا تھا کہ ایک ہی رات میں اسے تین بار اللہ تعالیٰ نے خبر دی اور وہ دعا میں مشغول رہی جب تک کہ اس کے دل کو تسلی نہیں ہو گئی.پھر میں نے اس سے کہا کہ یہ ایک مثال ہے اور تمہیں سمجھانے کے لئے مثال بھی ایک عورت کی ہے تم ساری عیسائی دنیا میں کوئی ایک مثال اس قسم کی ہمیں دکھا دو تو ہم کہیں گے کہ تمہارے پاس بھی کوئی چیز ہے تو ایک ایسے مسلمان کی زندگی میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا اور آپ کے نمونہ کے مطابق اپنی زندگی کو بتانے والا ہے صحیح اور سچی نجات کے آثار ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں اور یہ تسکین یہ مسرت یہ سکون قلب یه نور فراست یہ محبت کے جلوے جو وہ اپنی زندگی میں دیکھتا ہے یہی ہیں جو اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فدائی بنا دیتے ہیں.ہمارا رسول کس قدر بزرگ ہے کہ جس کی اطاعت سے جس کی دس دن کی پیروی سے وہ آسمانی برکات ملتی ہیں کہ جو ہزاروں برس کی دوسرے مذاہب کی پیروی سے انسان کو نہیں مل سکتیں یہ محض دعوی نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک مثال اس عیسائی کو دی تھی بغیر تفصیل میں جانے کے آج بھی میں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا آپ کے اُسوہ پر چلنا یہ نہیں کہ صرف محبت کا دعوی ہو محبت بڑی قربانی چاہتی ہے دیکھو چھوٹی چھوٹی محبتیں قربانی چاہتی ہیں ایک ماں اپنے بچے سے پیار کرتی ہے بچہ بیمار ہو جائے تو وہ سو نہیں سکتی سرہانے بیٹھی رہتی ہے یہ ایک چھوٹی سی محبت ایک ماں کی اپنے بچوں میں سے ایک بچے کی محبت جس کا مظاہرہ ہو رہا ہے اس کے معاوضہ میں اس ماں نے کیا لینا ہے صرف یہ تسلی کہ شاید یہ بچہ جو ہے اس سے میں بھی کسی وقت آرام پاؤں گی یہ خواہشات ہمیشہ پوری نہیں ہوا کرتیں بعض خاندانوں میں یہ پوری ہو جاتی ہیں بعض میں پوری نہیں ہوتیں لیکن یہاں تو ایک یقینی چیز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا نتیجہ ہماری زندگی میں ظاہر ہوتا ہے ہم جو محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں اس محبت

Page 69

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۹ سورة الاحزاب کے نتیجہ میں قرآن کریم کے وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے ہم دیکھنا شروع کر دیتے ہیں.پھر حقیقی محبت اور سچا تعلق ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خدا سے جو زندہ طاقتوں والا خدا ہے پیدا ہو جاتا ہے.تو لِمَن كَانَ يَرْجُوا الله جو شخص یہ خواہش رکھتا ہو کہ اس کے اندر ایک ایسی تبدیلی ہو جائے کہ اس کے لئے اسی دنیا میں نجات کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو جا ئیں اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ جائے آپ کی محبت میں فنا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن اطاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۱) اور جب وہ نجات پا جائے گا تو اس کے آثار کیا ظاہر ہوں گے اس زندگی میں ایک پاک زندگی ایسے لوگوں کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.ایک اور معنی لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہ کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقی زندگی اور حقیقی حیات ہے اور وہ الحی ہے وہ زندہ ہے کسی کی احتیاج کے بغیر اور ہر دوسری چیز جو ہے اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے ارادے اور اس کے حکم کی احتیاج رکھتی ہے تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس زندہ خدا جو زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا ہے اس سے اس کا تعلق قائم ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بھی روحانی زندگی مل جائے کیونکہ زندہ کا تو زندہ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے لیکن زندہ کے ساتھ مردہ کا تعلق ہمارے تصور میں نہیں آتا یہ شخص اگر روحانی زندگی چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی در ہے وہاں وہ جا کر اطاعت کے اُسوہ کی پیروی کی بھیک مانگے اور وہاں جا کے اپنی جبین نیاز جھکائے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے کہ اے خدا تو زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا ہے اور اے میرے رب تو نے ہمارے اس محسن کو بھی ایک ابدی زندگی عطا کر کے اس دنیا میں مبعوث کیا ہے جس کے فیض کبھی ختم نہیں ہوتے اور ہمیشہ کے لئے جاری ہیں ہم جانتے ہیں کہ جب تک ہم روحانی طور پر

Page 70

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۰ سورة الاحزاب مردہ رہے ہم تیرے ساتھ زندہ تعلق تو قائم نہیں کر سکتے اس نبی کے طفیل ہی یہ فیض حاصل ہوسکتا ہے اس کے بغیر تو حاصل نہیں ہوسکتا پس اے ہمارے رب ہم کو یہ طاقت بخش اور توفیق عطا کر کہ ہم تیرے اس نبی کی اتباع ایسے رنگ میں کر سکیں جس رنگ میں تو چاہتا ہے کہ ہم کریں اور اس کے نتیجہ میں اے ہمارے ربّ روحانی طور پر ہمیں زندہ کر دے تاکہ ہمارا تعلق تیرے ساتھ قائم ہو جائے تو یہاں یہ فرمایا کہ جو شخص روحانی زندگی کے نتیجہ میں زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے ذریعہ ہی یہ روحانی زندگی حاصل کی جاسکتی ہے خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۶۲ تا ۲۶۸) قرآن کریم سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ اس انسان کے لئے جو اپنے رب کریم کی معرفت رکھتا ہے اللہ ہی کافی ہے کسی اور کی اسے ضرورت نہیں.جہاں تک انسان کا اپنے رب پر کامل توکل کا تعلق ہے اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ کی کامل عبودیت اختیار کرنی پڑتی ہے یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو فطری قومی دیئے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوں اور انسان اپنی طاقت اور اپنے دائرہ استعداد کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے لیکن جب تک ہمارے سامنے کوئی نمونہ نہ ہوتا اس وقت تک ہمارے لئے خدا کی صفات کا مظہر بننا مشکل ہو جاتا اس لئے جہاں بنیادی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے لئے کافی ہے وہاں اس صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک کامل نمونہ کے بغیر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ نہیں سکتا.اسے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ کن راہوں کو اختیار کر کے اور کس طرح وہ اپنے رب کریم تک پہنچے.پس دوسری چیز جو ہمارے لئے ضروری ہے وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کامل اسوہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے سامنے رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:- لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ یہ ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال اور آپ کی عظمت شان اور جب پہلے بزرگ انبیاء پر آپ کی شان کو ظاہر کیا گیا تو انہوں نے بھی آپ

Page 71

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۱ سورة الاحزاب کے وجود میں خدا تعالیٰ کے کامل نور کو مشاہدہ کیا اور بہتوں نے کہا کہ اس کا آنا خدا کا آنا ہوگا.پس لقد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ اسْوَةٌ حَسَنَةٌ کے مطابق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی شریعت کے ہر حکم پر احسن رنگ میں عمل پیرا ہو کر اور اپنی فطرت کی ہر قوت اور استعداد کو کامل نشود نما دے کر اور اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ میں کامل طور پر فنا کر کے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسا بلند اور ارفع مقام پیدا کیا کہ آپ رہتی دنیا تک نوع انسانی کے لئے بطور شفیع کے قرار دیئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفاعت کے مضمون کو بڑے حسین پیرائے میں کھول کر بیان کیا ہے.یہ مضمون تو میں اپنے کسی آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ اور اُسی کی توفیق سے بیان کروں گا.اس وقت میں مختصر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بطور اسوہ کے ہمارے لئے کافی ہیں کسی اور کے اُسوہ کی احباب جماعت احمدیہ کوضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ان راہوں کو اختیار کرنا ضروری ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور ہر وہ راہ جو خدا تک پہنچاتی ہے اس پر ہمیں آج بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پاشثبت نظر آتے ہیں.میں نے لندن میں غیر مسلم دنیا سے جو زیادہ تر عیسائی دنیا ہے، یہی کہا تھا کہ جن راہوں پر چل کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا کے پیار کو حاصل کیا ان راہوں پر آپ کے نقش پا آج بھی نظر آتے ہیں.آپ کے نقش پا پر چلو تم خدا کے پیار کو حاصل کرلو گے.خدا تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل فطرت عطا کی تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق بھی عطا کی کہ آپ اپنی اس کامل فطرت کی کامل نشو ونما کریں اور بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل اسوہ بن جائیں.آپ کا یہی کامل اور حسین اُسوہ دراصل آپ کے شفیع ہونے پر دلالت کرتا ہے.شفیع کے معنے یہ ہیں کہ ایک طرف خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر کے صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بن جانا اور دوسری طرف نوع انسانی کی ہمدردی کا اس قدر شدت کے ساتھ وجود میں موجزن ہونا کہ ہر قسم کی بھلائی اور خیر پہنچانے کی تڑپ کے نتیجہ میں ہر قسم کی خیر اور بھلائی پہنچا دینے کی راہ کو کھول دینا، یہ دونوں قو تیں آپ کی زندگی اور ہستی کے دو پہلو ہیں جو آپ کے مقامِ شفاعت پر دلالت کرتے ہیں.خدا تعالیٰ سے سارے فیوض کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے عملاً حاصل کر بھی لینا اور ان تمام فیوض کو بنی نوع انسان کی طرف پہنچانے کی قابلیت رکھتے ہوئے ایک ایسا نمونہ دنیا کے سامنے رکھ دینا

Page 72

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۲ سورة الاحزاب کہ خدا تعالیٰ کے پیار کو ہر دروازے سے حاصل کرنے کے لئے سہولت پیدا ہو جائے اور یہی وہ کامل نمونہ ہے جو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں پایا جاتا ہے.پس پہلا پیار ہمارا اپنے رب کریم سے ہے اور پھر اس سے ہے جس نے ہمارے رب کی ہمیں را ہیں دکھا ئیں یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.آپ نے اپنے رب سے اس قدر پیار کیا کہ کسی اور انسان نے اس قدر پیار کر کے خدا تعالیٰ کے اتنے نور کو حاصل نہیں کیا جتنا آپ نے کیا اور پھر اس نور کو آگے قیامت تک پہنچانے کے سامان بھی پیدا کر دیئے.غرض ہمارے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں.کسی اور کی ہمیں ضرورت نہیں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۵۰۳ تا ۵۰۵) آپ قیامت تک کے انسانوں کے لئے اسوہ ہیں.لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا.جو اللہ اور اخروی دن سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرتا ہو اللہ تعالیٰ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے جس کی پیروی کرنی چاہیے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رہتی دنیا تک، قیامت تک کے انسان کے لئے اسوہ ہیں.اسوہ ہیں حسن اعلیٰ نمونہ کامل نمونہ، ایک ایسا نمونہ جس میں ہر فطرت، ہر قابلیت اور استعداد اپنے لئے قابل پیروی راستہ تلاش کر سکتی ہے یعنی جو ہدایت کی راہوں میں ترقی یافتہ ہیں وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے آزاد نہیں ہو جاتے.یعنی اسی طرح محتاج ہیں جس طرح ایک مبتدی جو کل مثلاً کلمہ پڑھ کے ایمان لایا.بڑا عظیم اسوہ ہے.اس کو سمجھانے کے لئے میں یہ بتادوں کہ معراج میں جو آپ کا مقام بتایا گیا وہ عرشِ ربّ کریم ہے یعنی ساتویں آسمان سے اوپر.اس واسطے ہر مومن جو روحانی رفعتیں حاصل کر رہا ہے اور بلند سے بلند ہوتا چلا جارہا ہے جب تک وہ عرشِ رب کریم تک نہیں پہنچ جاتا، جو نہیں پہنچ سکتا.اس واسطے عملاً جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ جب تک وہ ساتویں آسمان تک نہیں پہنچ جاتا اس وقت تک حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی انگلی پکڑ کے اس کی رفعتوں کا سامان کرنے والے ہیں، اس کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.کیوں اسوہ حسنہ ہیں؟ یہ سوال یہاں بہت اہم ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اسوہ حسنہ کہا گیا تو بعض لوگ اس دنیا میں ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ حضرت محمد صلی اللہ

Page 73

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۳ سورة الاحزاب خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۴۶،۲۴۵) علیہ وعلی آلہ وسلم کی بڑی عظمت تھی اس لئے آپ کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ قرآن کریم کے مخالف، مقابل، مختلف اور متضاد فتوی دے دیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة: ۱۵۷) لیکن قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے.اس میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ایک گروہ کے متعلق یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ اس کی رحمت سے وہ محروم کر دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے گروہ کے متعلق وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی رحمت کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا فیصلہ رحمت سے محروم کر دینے کا ہو یا رحمت کی بارش برسانے کا ہو ہر دوصورتوں میں میرے فیصلہ کے مقابلہ میں کوئی اور فیصلہ ٹھہر نہیں سکتا اور دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو میرے فیصلوں کو رد کر دے اور بدل دے اس لئے اگر محرومی رحمت سے بچنا ہو تو میری طرف رجوع کرنا ہوگا.قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا مثلاً فرمایا کہ لَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (النساء : ۵۰) کہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو ایک لکیر سی ہوتی ہے بالکل معمولی سی وہ اتناظلم بھی نہیں کرتا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ ظلام نہیں ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور منفی اور مثبت ہر دو معنی میں مبالغہ کا مفہوم پیدا کرتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ ذرہ بھر بھی ظلم کرنے والا نہیں اس تعلیم کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی فرد یا کسی گروہ کے متعلق رحمت سے محرومی کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ بھی رحمت کا ہی ایک جلوہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے بھی اس کا مقصود ان لوگوں کی یا اس فرد کی اصلاح ہوتی ہے اس وجہ سے اسلام نے ہمیں یہ بتایا کہ جہنم دائمی نہیں کیونکہ اصلی جہنم تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہے اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دائمی نہیں جب کسی کی اصلاح ہو جائے اس دنیا میں تو بہ اور استغفار کے ذریعہ یا اس دنیا میں ایک وقت معینہ تک سزا بھگتنے کے نتیجہ میں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اس کے لئے کھولتا ہے اور جہنم کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نکل جاؤ سارے یہاں سے اب جہنم میں کسی کو رکھنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے سورۃ احزاب کی ایک دن میں تلاوت کر رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا تو میری توجہ کو اس آیت نے اپنی طرف کھینچا اور میں رک گیا میں نے اس آیت کے مضمون پر جب غور کیا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ صرف یہ کہ دینا تو ہمارے لئے کافی نہیں ہے کہ اگر رحمت سے تمہیں میں محروم کروں گا تو

Page 74

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴ سورة الاحزاب میری رحمت تمہیں نہیں مل سکے گی اور اگر رحمت تمہیں دینا چاہوں گا تو دنیا کی کوئی طاقت میری رحمت سے محروم نہیں کر سکے گی میری گرفت سے بھی تم نہیں بچ سکتے اور میرے احسان کی بارش سے بھی دنیا کی کوئی طاقت تمہیں محروم نہیں کر سکتی اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے ضرور تفصیلی ہدایات دی ہوں گی کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور وہ کون سے اعمال ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر خوش ہوتا اور اپنی رحمت سے اسے نوازتا ہے.پہلے حصہ کے متعلق میں نے سورۃ احزاب کی بعض آیات لے کر تفصیل سے بتلایا تھا کہ (غالباً) دس ایسی باتیں یا ایسے اعمال شنیعہ ہیں جن کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور بطور مثال صرف اسی سورۃ کی آیتیں لے کر میں نے یہ مضمون بیان کیا تھا.دوسرا حصہ اس مضمون کا یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس سے ایسے انسان یا جماعت کو محروم نہیں کر سکتی اس کے متعلق میں نے سورۃ احزاب کی ہی اس آیت کے بعد کی آیات کو لیا اور انہیں پڑھتے ہوئے میں نے غور کیا کہ وہ کیا بتاتی ہیں اور بہت سی آیات میں نے نوٹ کی تھیں پہلے تو میرا خیال تھا کہ وہیں یہ مضمون ختم ہو جائے گا لیکن وہاں یہ ختم نہیں ہوا اور یہ رحمت والا حصہ اب کراچی کے حصہ میں آ گیا ہے مضمون کے لحاظ سے اور خدا کرے کہ ہم سب کے حصہ میں اس کی رحمت ہی آئے اس کے غضب کی نگاہ ہم پر کبھی نہ پڑے اور یہ اس کے فضل سے ہی ہوسکتا ہے.یہاں یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے عذاب سے بچنا ہو تو میری طرف رجوع کرنا پڑے گا اگر میری رحمت حاصل کرنا ہو تو میری رحمت صرف میرے فضل سے حاصل کی جاسکتی ہے کسی عمل سے حاصل نہیں کی جاسکتی اس لئے جہاں میری بتائی ہوئی تدبیر پر تم عمل کرو وہاں دعا کے ساتھ میری طرف رجوع بھی کرتے رہو کہ ہمارے اعمال میں کوئی ایسا نقص کوئی ایسی شیطنت کوئی ایسی بدنیتی نہ رہ جائے که با وجود ظاہراً ان اعمال کے اچھا ہونے کے پھر بھی تیرے حضور سے وہ دھتکار دیئے جائیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۴۴ تا ۲۴۶)

Page 75

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورة الاحزاب آیت ۲۹ تا ۳۲ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِاَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَ تُرِدْنَ الْحَيَوة الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعَكُنَ وَ أَسَرَّحُكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا وَإِنْ كنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا يُنِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضْعَفُ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَ كَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا وَ مَنْ يقنتُ مِنْكُنَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلُ صَالِحًا نُوْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَاعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا لا جن آیات کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے وہ سورۃ احزاب کی ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہ کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دنیوی سامان دے دیتا ہوں اور تمہارے حقوق ادا کر کے تم کو نیک طریق سے رخصت کر دیتا ہوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور اُخروی زندگی کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے پوری طرح اسلام پر قائم رہنے والیوں کے لئے بہت بڑا انعام تیار کیا ہے.اے نبی کی بیویو! اگر تم میں سے کوئی اعلیٰ ایمان کے خلاف بات کرے تو اس کا عذاب دگنا کیا جائے گا.اور یہ بات اللہ پر آسان ہے اور تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور اس فرمانبرداری کی شان کے مطابق عمل بھی کرے گی.تو ہم اسے انعام بھی دگنا دیں گے اور ہم نے ہر ایسی بیوی کے لئے معزز رزق تیار کیا ہوا ہے.سورۃ احزاب کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں.فرمایا اَزْوَاجة امهتُهُمُ اور آگے جا کر اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو اس طرف بھی متوجہ کیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُمت کے لئے اور ہر زمانہ کے مسلمانوں کے لئے اُسوہ حسنہ ہیں.تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل ہی نہیں کر سکتے اس کی محبت اور پیار کو پاہی نہیں سکتے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کر کے ، آپ کو اپنے لئے بطور نیک نمونہ سمجھتے اور یقین کرتے ہوئے آپ کے نمونہ کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں ڈھالو گے.جیسا کہ فرما یا لقد گان

Page 76

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۶ سورة الاحزاب لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمت محمدیہ کے لئے اسوۂ حسنہ قرار دینے کے بعد اور آپ کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں قرار دینے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ بیویاں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہیں نکاح کے وقت ان کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں تھا کہ وہ اُمت محمدیہ کے لئے اُسوہ حسنہ بنیں گی اور اس بھاری ذمہ داری کو اٹھا ئیں گی جیسا کہ مومنوں کی مائیں.بہر حال مومنوں کے لئے اسوۂ حسنہ اور تربیت کا ایک مرکزی نقطہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) بنتی ہیں اور کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کو جبراً اس مقام پر لا کھڑا کیا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تمہیں ضرور تنگی ترشی کو اختیار کر کے اور ہر قسم کی قربانی دے کر اور اس دنیا سے منہ موڑ کر اپنے نفس پر فنا طاری کر کے اُمت کے لئے ایک اُسوہ بننا پڑے گا.ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے چونکہ مذہب میں خصوصاً مذہب اسلام میں جبر جائز نہیں ان کے لئے کوئی راہ نکالنی ضروری تھی اور اگر چہ جیسا کہ عملاً دیکھنے میں آیا ہماری یہ مائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین قرار دیا ہے (سورۃ احزاب میں ) اس قدر تربیت یافتہ تھیں کہ جو اختیار ان کو ان آیات میں دیا گیا.اس کے بعد ان کے فیصلے نے یہ بتا دیا کہ واقعی وہ اُمہات المومنین بننے کی اہل تھیں.لیکن بہر حال دنیا کو بھی یہ بتانا تھا کہ جبر سے کام نہیں لیا گیا بلکہ اپنی مرضی سے انہوں نے اس اہم اور مشکل ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا.ان آیتوں کو اختیار دینے کی آیات بھی کہا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جب ان کو امہات المومنین اور اُمت محمدیہ کی مسلمان عورتوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا تو ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی روشنی میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور وحی آپ پر نازل ہوئیں.یہ بات پیش کی جس کا ذکر ان آیات میں ہے.ان آیات کے نزول کے بعد سب سے پہلے آپ حضرت عائشہ کے پاس گئے اور آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عائشہ! میں تم سے ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں لیکن قبل اس کے کہ میں وہ بات تمہارے ساتھ کروں تمہیں یہ تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ جواب دینے اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا اور جواب دینا بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم اپنے والدین سے بھی اس کے متعلق مشورہ کر لو اور پھر مجھے جواب دو.

Page 77

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷ سورة الاحزاب اس تمہید کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ آیات نازل کی ہیں اور ان کو یہ آیات پڑھ کر سنا دیں اور مشورہ دیا کہ تم والدین سے مشورہ کر کے اور خوب سوچ سمجھ کر مجھے بتاؤ کہ تمہیں حیات دنیا اور اس کی زینت چاہئے یا تمہیں خدا اور اس کا رسول چاہئے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے امہات المومنین بڑی تربیت یافتہ تھیں انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس معاملہ میں اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ مجھے خدا اور اس کا رسول چاہئے دنیا اور اس کی زینت نہیں چاہیے.اس کے بعد آپ اپنی دوسری بیویوں کے پاس گئے اور ان میں سے ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ ہمیں خدا اور اس کا رسول چاہیے دنیا اور اس کی زینت نہیں چاہئے.مؤرخین اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں زندہ موجود تھیں جن کو یہ اختیار دیا گیا تھا جن میں سے پانچ تو قریش مکہ کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور چار مختلف قبائل اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی تھیں اور ساری کی ساری ایسی تھیں کہ جو اس قدر تربیت یافتہ تھیں کہ ایک سیکنڈ کے لئے انہیں سوچنا نہیں پڑا فیصلہ ان کے دماغوں میں گویا پہلے ہی حاضر تھا.انہوں نے کہا سوچنا کیسا ؟ اور مشورہ لینا کیسا ؟ ہمیں خدا اور اس کا رسول محبوب اور پیارے ہیں ہم اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے تیار ہیں کہ اُمت محمدیہ کے لئے ہم بطور اسوہ حسنہ اپنی زندگیاں گزاریں تو جس چیز کا ان کو ان آیات میں اختیار دیا گیا تھا وہ یہ نہیں تھا کہ چاہو تو طلاق لے لو چاہو تم بیویاں بن کے رہو.میرے نزدیک اس اختیار کے یہ معنی بھی نہیں تھے کہ چاہو تو تم دنیا لے لو اور چاہو تو خدا کے راستہ میں فقر کو اختیار کرو بلکہ ان کو اختیار اس بات کا دیا گیا تھا کہ چاہو تو ان ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر قبول کرو جو اُمت مسلمہ کے لئے اور اُمت مسلمہ کی مستورات کے لئے اسوہ حسنہ بننے پر تمہارے کندھوں پر پڑنے والی ہیں اور چاہو تو ایک عام مسلمان عورت کی طرح اپنی زندگیوں کو گزار و اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ یا درکھنا کہ اگر تم نے یہ عہد کرنے کے بعد وعدہ خلافی کی اور نقض عہد کے فاحشہ مبینہ میں تم پڑگئیں اور مبتلا ہو گئیں اور اپنے وعدے کو نہ نباہیا تو پھر دوسری عورتوں کو ان معاصی پر جس قسم کی سزا مل سکتی ہے اس سے دو چند سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی اور اگر تم نے اس عہد کو نباہا تو تمہارا اجر بھی دوسری عورتوں سے دگنا ہو گا.یہ جوا جر ہے یہ حدود کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا ضعفین کا اور مرتین کا تعلق حدود کے ساتھ نہیں اور نہ

Page 78

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸ سورة الاحزاب آپس کے جو حقوق ہیں ان کے ساتھ یہ تعلق رکھتا ہے یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تم واقعہ میں اُسوہ حسنہ بن گئیں تو اگر تم نے کسی سے پانچ روپے لینے ہوں گے تو تمہیں دس روپے دلوائے جائیں گے اسی طرح اگر بفرض محال تمہارا کوئی گناہ ہو گا جس پر حد لگ سکتی ہو تو یہ مطلب نہیں کہ حد دگنی کر دی جائے گی حدود ایک مخصوص اور محدود دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہیں اور جو ثواب ہے وہ بڑے وسیع معنی رکھتا اور اس کا تعلق اس دنیا کی جنت سے بھی ہے اور اُخروی جنت سے بھی ہے اور اس کے مقابل میں جو سزا ہے اس کا تعلق بھی اس دنیا کے جہنم اور اگلے جہان کے جہنم سے ہے.تو یہاں یہ فرمایا کہ ہم تمہیں اس موقع پر کہ تمہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے اور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُمت کے لئے اور ہر زمانہ کے لئے بطور اسوہ حسنہ کے ہیں اور آپ کی پیروی کرنے اور آپ کی اتباع کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے.دنیا نے اب صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی نہیں دیکھنا بلکہ اے ازواج مطہرات ! دنیا کی عورتوں نے تمہاری طرف دیکھنا ہے اور تمہاری اُنہوں نے نقل کرنی ہے اگر تم نے صحیح نمونہ پیش کیا تو نیکی کے ایک تسلسل کو تم جاری کرنے والی ہوگی اگر تم نے برانمونہ پیش کیا تو بدی کے ایک تسلسل کو تم جاری کرنے والی ہوگی.تو جیسا کہ حدیث میں آیا ہے جو شخص نیکی کی بنیاد ڈالتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ نیکی کرنے لگ جاتے ہیں تو اس کو اپنی نیکی کی بھی جزاء ملے گی اور جن لوگوں نے اس کے کہنے کے مطابق یا اس کی نقل کرتے ہوئے نیکیاں کی ہیں ان کے ثواب میں بھی وہ حصہ دار ہو گا.پس یہ ہے مرتین والی جزاء اور جو شخص بدی کی بنیاد ڈالتا ہے اور بدی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور بدوں کا سردار بنتا ہے تو اس کو اپنے کئے کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے نتیجہ میں بھی اس کو ایک سزا دی جائے گی.اور یہ ہے ( عَذَاب ضِعْفَيْن ) دگنا عذاب جو ایسے لوگوں کو ملتا ہے.اگلی دو آیات میں وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اختیار دیا کیوں گیا تھا؟ فرمایا کہ چونکہ ہم نے ان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا کہ وہ اُسوہ بنیں اور ایک نیک نمونہ قائم کریں اور جس شخص کو اس مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے اور جس کے اعمال کے متعلق یہ امید رکھی جاتی ہے کہ بعد میں آنے والے اس کی نقل کریں ان کو اجر بھی دگنا دیا جاتا ہے اور ان کے اوپر ذمہ داری کے نتیجہ میں عذاب بھی دو چند نازل ہوتا ہے

Page 79

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۹ سورة الاحزاب جیسا کہ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں کئی جگہ کی ہے مثلاً ایک جگہ آتا ہے.ربنا أتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ اور اس آیت کے شروع میں وجہ بتائی ہے.رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا (الاحزاب: ۶۸) ہم نے اپنے بڑوں کی ان کے کہنے کے مطابق نقل کی.انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے بطور نمونہ کے ہیں تم ہمارے پیچھے آؤ ہم تمہارے ذمہ دار ہیں.( کہنے والے تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جنت میں جانے کے لئے ایک سر ٹیفکیٹ دے دیں گے تمہیں کوئی فرشتہ نہیں روکے گا وہاں تک پہنچ جاؤ گے.ہم ذمہ داری لیتے ہیں تم یہ کام کرو تمہیں کوئی گناہ نہیں ہوگا اور کروا رہے ہوتے ہیں ان سے گناہ کی بات تو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن کہیں گے کہ اے خدا! أطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كبراءنَا ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی ، لیڈروں کی اور قائدوں کی اتباع میں اور بڑے بڑے مجتہدین اور علماء کہلانے والوں کے کہنے کے مطابق یہ اعمال کئے تھے آج ہمیں پتہ لگ رہا ہے کہ یہ اعمال تو تیری نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہیں.اس لئے ان کو دگنا عذاب دے اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهمُ (العنکبوت : ۱۴) کہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی جن کو اللہ تعالیٰ نمونہ بناتا ہے اور وہ نیک نمونہ پیش نہیں کرتے.بدی کی راہیں اپنے متعلقین پر کھولتے ہیں اور خدا کی طرف بلانے کی بجائے شیطان کی طرف ان کو بلاتے ہیں اور ان کو صراط مستقیم پر قائم کرنے کی بجائے راہ ضلالت کی طرف لے جاتے ہیں اور ان پکڈنڈیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو شیطان کی طرف جانے والی ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بوجھ بھی اُٹھا ئیں گے اور یقیناً وہ ان لوگوں کے بوجھ بھی اُٹھائیں گے جن کو انہوں نے گمراہ کیا جو گمراہ ہوئے ان کو تو بہر حال سزا ملے گی یہ نہیں کہ ان کی سزا معاف ہو جائے گی لیکن ان آئمہ الکفر کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اسی طرح جو نیک نمونہ بنتا ہے اس شخص کی وجہ سے یا ان اشخاص کی وجہ سے یا اس گروہ اور جماعت کی وجہ سے جو نیکیاں قائم ہوتی ہیں اور بہت سے ان کی نقل کر کے خدا تعالیٰ کی قرب کی راہوں پر چلنے لگتے ہیں تو وہ شخص یا اشخاص جو بطور نمونہ کے دنیا میں زندگی گزارتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دہرے وارث ہوتے ہیں اور ان کو ان کا اجر ( مرتین) دو دفعہ ملتا ہے ایک اپنے اعمال صالحہ کے نتیجہ میں ایک اس وجہ سے کہ وہ نمونہ بنے اُسوہ ٹھہرے اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنے.تو ينِسَاءَ النَّبِي مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ اور وَمَنْ يَقْنُتُ مِنْكُنَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

Page 80

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورة الاحزاب وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا اجْرَهَا مَرَّتَيْنِ میں وجہ بتائی گئی ہے کہ ہم نے ان امہات المؤمنین کو یہ اختیار کیوں دیا !!! اس لئے دیا کہ ہم نے ان کو نمونہ بنایا تھا اور دنیا کو ہم بتانا چاہتے تھے کہ یہ اس مقام کے او پر قائم اور فائز جو کی گئی ہیں.یہ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جبر کر کے انہیں اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کی تربیت اس رنگ میں ہوئی ہے کہ واقعہ میں یہ اُمہات المومنین بننے کے قابل ہو گئی ہیں.اس کے ہم یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ آؤ دیکھو! ہم اپنے نبی کو کہتے ہیں کہ ان ازواج کو جا کے یہ کہو کہ اگر چاہتی ہو حیات دنیا اور اس کی زینت کو تو سَرَاحًا جَمِيلًا بغیر کسی ناراضگی کے (نہ رسول کی ناراضگی اور نہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ) میں تمہیں تمہارے دنیوی حقوق ادا کر دیتا ہوں ، عام مومنات کی عام مسلمات کی صف میں جا کے کھڑی ہو جاؤ ( یا اگر چاہو تو اسلام کو بھی چھوڑ دو کوئی جبر تو نہیں ہے ) اور اگر چاہو تو اپنی مرضی اور رضا سے اس نہایت ہی اہم ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لو اور ساری اُمت کے لئے اُسوہ حسنہ بننے کے لئے تیار ہو جاؤ اس وعید کے ساتھ کہ اگر تم سے کوئی غفلت اور ستی سرزد ہوئی اور کہیں تم نے غلطی کی اور اس کے نتیجہ میں دوسرے گمراہ ہوئے تو اس گناہ کی سزا دو چند ہو گی.اور جب ان کے سامنے یہ بات پیش کی گئی تو ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ یہ راہ تنگ ہے مگر یہی راہ ہمیں پیاری ہے ہم اسے چھوڑ کے ادھر ادھر ہونا نہیں چاہتیں ہمیں خدا کی رضا اور رسول کا پیار چاہئے ہمیں دنیا کی زندگی اور اس کی زینت نہیں چاہیے.اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اُمت مسلمہ کے لئے اُسوہ بنانا چاہتا ہے تو خدا کے فضل اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ بھی دکھائے گا کہ ہم دنیا کے لئے اور اُمت محمدیہ کے لئے اُسوہ بن جائیں گی.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۸ تا ۶۰۳) آیت ۳۷ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُ أمرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَللًا مُّبِينًاه ایک تیسرا طریق اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سورۃ احزاب کی آیت ۳۷ میں اللہ تعالیٰ نے یہ

Page 81

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورة الاحزاب بیان فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بنی نوع انسان کے متعلق روحانی اور اخلاقی فیصلہ کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے جو کام آپ کے سپرد کئے گئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ آپ انسانوں کے درمیان فیصلہ کریں اور جو خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث بننا چاہتے ہوں ان کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ ہو اس کو بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کریں اور اس پر عمل کریں اسی طرح جو فیصلے ( یہ بات قضی اللہ ، میں آجاتی ہے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کرتے ہوں ان کو قلبی بشاشت کے ساتھ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وارث بناتا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کے دروازے کھلیں تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس گروہ میں خود کو شامل کرو جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہو کہ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمرِهِم عمل پیرا ہیں اگر تم ایسا نہیں کرو گے بلکہ انکار اور عصیان کی راہوں کو اختیار کرو گے تو اس کے نتیجہ میں ضَلَّ ضَللا مبينا بہت بڑی گمراہی میں پڑ جاؤ گے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے لئے روشن ہدایت اور رحمت کے دروازے کھلیں گے کیونکہ قرآن کریم کا یہ عام محاورہ ہے کہ بعض جگہ جہاں منفی اور مثبت مضمون بالمقابل ایک دوسرے کے بیان ہوں تو ایک کا ذکر کر دیا جاتا ہے اور دوسرا اس سے واضح ہوتا ہے.یہاں بھی یہی بات واضح ہے کیونکہ اس آیت کی رو سے عصیان کا نتیجہ ضلالت ہے تو جو عصیان نہیں کرتا بلکہ اطاعت کرتا ہے جو بشاشت قلبی کے ساتھ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نائین خلفاء یا جو دوسرے امراء ہیں ان کی باتوں کو مانتا ہے ضلالت کے مقابلہ میں جو چیز ہے وہ اسے ملتی ہے ضلالت کے مقابلہ میں ہدایت ہے اور ہدایت کے نتیجہ میں رحمت نازل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم میری رحمت کا وارث بننا چاہتے ہو تو وہ معروف فیصلہ جو خدا کے احکام کی روشنی میں اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتا ہے یا اس کے خلفاء یا امراء کرتے ہیں انہیں بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کر وعقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ اس کے بغیر کوئی اتحاد اور یک جہتی قائم نہیں رہ سکتی پھر تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو فیصلہ مجھے پسند آیا اسے میں قبول کر لیتا ہوں اور جو فیصلہ میرے نفس کی خواہش کے خلاف ہے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہوں اگر مومنوں کی یہی ذہنیت ہو تو پھر مومنوں کی جماعت نہیں بن سکتی ( بلکہ مومن بھی نہیں رہ

Page 82

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۷۲ سورة الاحزاب سکتے ) کیونکہ جماعت کے مفہوم میں یہ بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قسم کا شدید لگاؤ اور اتنا گہرا اور شدید تعلق ہو کہ آپ سے ذرہ بھر دوری بھی نا قابل برداشت ہو جائے اس روح کے لئے جس کا تعلق اس قسم کا آپ سے ہے اور اگر واقعہ میں اس قسم کا تعلق ہو تو پھر بشاشت اس میں پیدا ہوگی اور انسان کا نفس یہ کہے گا انسان کی عقل اور روح یہ کہے گی کہ اے میرے نفس میں تیرے دھوکہ میں نہیں آ سکتا کیونکہ جس کا فیصلہ میرے متعلق اس رنگ میں ہوا ہے وہ اے میرے نفس تجھ سے زیادہ مجھے پیارا ہے اور میرے نزدیک تجھ سے زیادہ سمجھدار ہے اور میرے نزدیک خدا تعالیٰ کا زیادہ مقرب ہے ، وہ اپنے نفس کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ اے نفس ! تیرے مقابلہ میں وہ پاک وجود خدا کی رحمتوں کا زیادہ وارث ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں اپنے نفس کی ہر خواہش کو ٹھکرا کے بھی اس کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا جب یہ ذہنیت پیدا ہو جائے جب اس قسم کی بشاشت اس میں پیدا ہو جائے تو پھر انسان خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بن جاتا ہے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۵۵ تا ۲۵۷) آیت ۴۲ تا ۴۴ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَ سَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا هُوَ الَّذِى يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَليكُتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا قرآن کریم کی سورۃ احزاب میں دو مختلف جگہوں میں یہ آیتیں ہیں جن کو میں نے اس وقت اکٹھا تلاوت کیا ہے احزاب کی ۴۲، ۴۳ اور ۴۴ آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا یہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذكرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ان تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہ مومن بندوں پر بار بار رحم کرتا، رحم کرنے کا ارادہ کرتا اور اس کی خواہش رکھتا ہے لیکن ان بندوں کو یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ظلمات سے نجات حاصل کر کے نور کی فضا میں داخل ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملائکہ کی تائید اور ان کی دعائیں شامل حال ہوں اور ملائکہ کی تائید اور ان کی دعائیں صرف اس وقت شامل حال ہوتی ہیں.جب اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہو رہا ہو.هُوَ الَّذِي يُصَلَّى عَلَيْكُمُ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول نہ ہو تو ملائکہ کی دعاؤں کو تم حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک تم ملائکہ کی دعا اور خدا کی رحمت کو حاصل نہ کرو

Page 83

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۷۳ سورة الاحزاب تم ظلمات سے نجات نہیں پاسکتے اور نور کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتے اس لئے ہم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اے میرے بندو! جو میرے اس عظیم ، کامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہو کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور صبح وشام کی تسبیح میں مشغول ہو جاؤ.اسی تعلق میں دوسری جگہ یہ فرما یا إِنَّ اللهَ وَ مَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسلِیماً یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم پر يُصلّى عَلَيْكُمْ کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہو سکتی جب تک تم اس کے محبوب النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے والے نہ بنوفرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہر آن اس کامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اور اس کے فرشتے اس نبی کے لئے دعاؤں میں مشغول ہیں اور اس کامل نبی کو خدا کی کامل رحمتیں نصیب ہیں اور اس کے ملائکہ کی کامل تائید حاصل ہے اس لئے اے وہ لوگو! جو خدا اور اس کے اس النبی پر ایمان لائے ہو کثرت سے اس پر درود بھیجو اور اس کے لئے دعائیں مانگو اور اس کے لئے سلامتی چاہو جب تم اس پر درود بھیجو گے تو اس کے نتیجہ میں هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمُ اللَّہ تعالیٰ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی.پس جب تک ہم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے نہ ہوں ہر وقت اس کی یاد میں اپنی زندگی کے لحات نہ گزارنے والے ہوں صبح و شام اس کی تسبیح اور اس کی تحمید کرنے والے نہ ہوں اس کے پاک اور مقدس نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجیں اس وقت تک ہم اس کی تائید، اس کی رحمت اور اس کے فرشتوں کی تائید اور نصرت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک ایسا نہ ہو جائے اس وقت تک شیطانی اندھیروں سے نجات حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے نور کی دنیا میں ہم داخل نہیں ہو سکتے.خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ ایک نہایت ہی اہم اور مقدس فریضہ ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے اور وہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہر انسانی دل میں پیدا کرنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے گا انشاء اللہ یہ اس کی تقدیر ہے جو ہمارے ذریعہ یا ایک اور ایسی احمدی قوم کے ذریعہ سے جو ہم سے زیادہ اپنے اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والی ہو پورا کرے گا.اس سلسلہ میں بہت سی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ایک بڑی اہم بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ

Page 84

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۷۴ سورة الاحزاب ہم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہوں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۷۸،۷۷) اس وقت میں صرف ایک بات اس سلسلہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ (جیسا کہ سورۂ احزاب کی ۴۲ تا ۴۴ آیات میں بتلایا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری رحمت کے حصہ دار بننا چاہتے ہو میرے فضلوں کے وارث بننا چاہتے ہوں تو پھر ایک راستہ میرے فضلوں کے وارث بننے کا یہ ہے کہ اذكروا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ذکر دل کا بھی ہوتا ہے ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے زبان کا ذکر بھی انسان کو جتنا موقع اور جتنی فرصت ملے کرتے رہنا چاہئے.زبان کے ذکر کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک وہ حصہ جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معین ہدایت دی مثلاً یہ کہ فرض نماز کے بعد ۳۳، ۳۳ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ، اللَّهُ اكبر اور پھر ایک بار لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہہ کر سو کے عدد کو پورا کرنا تو اسی شکل میں اسی ہدایت کے مطابق ذکر کرنا چاہیے نماز کے بعد کیونکہ یہی سنت نبوی ہے کوئی شخص اگر فرض نماز سے پہلے یہ ذکر کرتا ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور ادب کو مد نظر نہیں رکھتا کیونکہ آپ نے نماز سے پہلے نہیں بلکہ نماز کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے اگر کوئی شخص ۳۳ دفعہ سے زائد کرتا ہے تو وہ بھی بے ادبی کا مرتکب ہے.ابھی چند دن ہوئے غانا کے ایک مجدد کی کتاب میں پڑھ رہا تھا انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے اس میں کہ ایک بزرگ تھے انہوں نے سوچا کہ میں گنہ گار آدمی ہوں ۳۳ دفعہ کی بجائے سوسو دفعہ پڑھا کروں گا چند دنوں کے بعد انہیں ایک خواب آئی کہ حشر کا میدان ہے ایک جگہ ایک فرشتے نے میز لگائی ہوئی ہے اور اعلان ہو رہا ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نماز کے بعد ذکر کیا کرتے تھے وہ ادھر آجائیں اور اپنا انعام لیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بڑی مخلوق ہے جو وہاں جمع ہوئی اور ان کو انعام ملنے شروع ہوئے میں آگے بڑھتا ہوں اور پھر ہجوم میں پھنس جاتا ہوں آگے جانہیں سکتا اور اس وقت ان کو یہی خیال ہے کہ ہجوم کی وجہ سے میں اس انعام دینے والے فرشتہ کے قریب نہیں ہو سکتا جب میرا وقت آئے گا میں انعام لوں گا پھر آہستہ آہستہ ہجوم کم ہونا شروع ہوا لوگ انعام لیتے اور چلے جاتے جب چند آدمی رہ گئے تو میں بھی ان کے ساتھ آگے بڑھا اس فرشتہ نے

Page 85

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۷۵ سورة الاحزاب میری طرف کوئی توجہ نہ دی پھر جب ساروں نے انعام لے لئے تو اس نے اپنا سامان لپیٹنا شروع کر دیا اس نے کہا میں آگے بڑھا اور کہا کہ میرا انعام کہاں ہے فرشتہ نے کہا تمہارا انعام کیسا ( وہ تو سمجھے تھے کہ میں سو دفعہ پڑھتا ہوں مجھے شائد زیادہ انعام ملے گا ) یہ انعام تو ان لوگوں کو مل رہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے تھے تم نے ۳۳ دفعہ کی بجائے سو دفعہ پڑھا ہے سنت کی پیروی نہیں کی اس پر انہوں نے بہت استغفار کیا لیکن کوئی خلط ملط نہ ہو جائے کسی کے دماغ میں اسی لئے میں نے شروع میں اس سلسلہ میں یہ فقرے کہے تھے کہ ایک ذکر وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اس تسلسل میں جو آپ نے بتایا اس تعداد میں جو آپ نے معین کی اور جس پر آپ نے عمل کیا وہ ذکر ہے مثلاً نماز میں فرائض کے بعد تنبتی تنیس بار جو اس سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ذکر کرنا چاہئے اس کو نماز کے بعد ہی کرنا پڑے گا نماز سے پہلے نہیں اور ۳۳.۳۳ دفعہ ہی کہنا پڑے گا ایک تو یہ ذکر ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بھی کئی سنتیں اس سلسلہ میں ہیں لیکن ایک ذکر وہ ہے جو عام ہدایت کی اتباع میں ہے مثلاً اس آیت کریمہ میں ہے ذِكْرًا كَثیرا کہ کثرت سے ذکر کرو اس میں تعیین کوئی نہیں نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی تعیین کی تو ان اذکار کے علاوہ جو سنت نبوی سے ہمیں معلوم ہوتے ہیں اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہے وہ اپنے لئے کم سے کم یا جماعت کا امام جماعت کیلئے کم سے کم ذکر مقرر کر دیتا ہے تو یہ سنت نبوی کے خلاف نہیں کیونکہ آپ کی سنت کہیں ہمیں یہ نہیں بتلاتی کہ چوبیس گھنٹے میں اس سے زیادہ ذکر نہیں کرنا یا اس سے کم نہیں کرنا بلکہ عام نصیحت ہے کہ زیادہ سے زیادہ ذکر کرو.تو زبان کا ذکر ایک تو وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے اتباع میں کیا جاتا ہے اور ایک وہ ہے جو قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ذکر کثیر کے اندر آتا ہے.بعض آدمی اپنے لئے تعیین کرتے ہیں کہ کم سے کم اس قدر ذکر ضرور کروں گا بعض اوقات ان کا امام تعیین کرتا ہے ذکراً کثیرا کی روشنی میں اس میں کم سے کم تعداد کی تعیین کی جاتی ہے زیادہ سے زیادہ کتنا ہوا سے افراد پر چھوڑا جاتا ہے تاکہ ساری جماعت کا معیار بلند کیا جا سکے.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ صبح و شام اس کی تسبیح میں مشغول رہو اور خدا تعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو

Page 86

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۷۶ سورة الاحزاب اس کی رحمت کے وارث بننے کے لئے یہ ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ (وہاں رحمت کا لفظ ہے یہاں صلوۃ کا لفظ ہے اور صلوٰۃ کے لغوی معنی جب یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہو رحمت کے ہیں ) هُوَ الَّذِي يُصَلَّى عَلَيْكُمُ الله تعالیٰ تمہیں اپنی رحمتوں سے نوازے گا نیز اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کہا ہے میرے وہ بندے جو میرے ذکر کثیر میں مشغول ہوں اور صبح و شام میری تسبیح اور تحمید میں لگے ہوں ان کے لئے تم بھی دعائیں کرتے رہو کیونکہ صلوۃ کا لفظ جب ملائکہ کے لئے آئے یا انسانوں کے لئے آئے تو اس کے معنی دعا کرنے کے ہوتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں رحمت کا سلوک کیا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ رحمت ذکر کثیر اور صبح و شام تسبیح کرنے کے نتیجہ میں جس شکل میں ظاہر ہوتی ہے وہ اصولی ہے یہ نہیں کہا کہ فلاں رحمت یا فلاں رحمت.قرآن کریم نے اس کی تفصیل بھی بتائی ہے لیکن یہاں یہ فرمایا ہے کہ اصولی طور پر تم خدا کی رحمت کے مستحق اور ملائکہ کی دعاؤں کے وارث ہو جاؤ گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے لئے نور کے سامان پیدا کئے جائیں گے یعنی اس کے نتیجہ میں لیخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّوْرِ اندھیرے دور کر دیئے جائیں گے اور زندگی منور ہو جائے گی اور اس نور کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ وہ نور اس دنیا میں بھی صراط مستقیم سے بھٹکنے سے محفوظ رکھتا ہے اور رحمت کے راستوں پر چلاتا ہے مثلاً رات کے اندھیرے میں جس وقت ہوائی جہاز کسی ایروڈ رام پر اتر رہا ہوتا ہے تو اس کو راستہ دکھانے کے لئے روشنیاں جلائی جاتی ہیں اسی طرح سمجھ لیں کہ آپ رحمت باری کے حصول کے بعد اندھیروں سے نکل کر روشنی کی راہ کو اختیار کرتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے (جس طرح اس پائلٹ کو یقین ہوتا ہے کہ میں صحیح سلامت خود بھی اور مسافروں کو بھی اتاروں گا) کہ آپ صراط مستقیم پر قائم ہیں تو یہ ایک بنیادی فضل اور احسان ہے اللہ کا جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے یعنی ان کے لئے ایک نور کی پیدائش کا حکم نازل کرتا ہے اور خدا کا ایک مومن بندہ خدا کے نور میں صراط مستقیم پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے بے شمار فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے جب یہ کہا کہ میں اگر کسی کے لئے رحمت کا ارادہ کروں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے میری رحمت سے محروم نہیں کر سکتی تو وہاں یہ مطلب نہیں تھا کہ بلا وجہ اور بغیر انسان کی کسی کوشش اور عزم کے کہ میں نے خدا کے احکام کی پابندی کرنی ہے کسی گندے نا اہل کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ رحمت کا وارث بنادیتا ہے یہ صحیح ہے کہ

Page 87

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث LL سورة الاحزاب انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اور جنہیں وہ اعمال صالحہ سمجھتا ہے وہ بھی اس کے لئے بے ثمر ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۴۴ تا ۲۴۹) خدا کی تیسری صفت صفت رحیمیت ہے.آپ صفت رحیمیت کے بھی مظہر اتم ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا یعنی مومنین کے لئے آپ کی ذات بحیثیت رحیم کے ہے.مال کو ضائع ہونے سے بچانا.نیکیوں کا اجر دینا، یہ صفت رحیمیت باری تعالیٰ میں اصل ہے.اس کے مقابلہ میں فرمایا کہ محمد بھی تمام بنی نوع انسان کے لئے رحیم ہیں.جو شخص خدا کی آواز پر لبیک کہتا ہوا (خواہ وہ کسی زمانے یا کسی ملک یا کسی قوم کا فرد ہو ) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آجائے گا اور آپ کی اتباع کرے گا اور آپ کی ہدایت اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھے گا.اس کا عمل ضائع نہیں ہوگا.اس کا اُسے ثمرہ ہل جائے گا.یا کم از کم اس کے ثمرہ کا استحقاق ضرور پیدا ہو جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آپ کے صحابہ نے جو منتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھا ئیں وہ ضائع نہیں ہوئیں.بلکہ اُن کا اجر دیا گیا.“ (الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۳، صفحہ ۲۰) گویا آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کی قوت قدسیہ کے ذریعہ ثمرہ کا استحقاق پیدا ہو جائے گا.(خطابات ناصر جلد اول صفحہ ۵۹۲) آیت ۵۷ اِنَّ اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا اس عظمتوں والے نبی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہیں اس النبي پر (جس کا ذکر ابھی پچھلی آیت میں آیا جس کو بیان کیا تھا) اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے رحمت مانگ رہے ہیں اور دعائیں کر رہے ہیں اللہی کے لئے.اس لئے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اللہ تعالیٰ کے اخلاق تَخَلَّفُوا بِأَخْلاقِ الله (التعريفات جلدا صفحه ۲۱۶) کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہیں ، صَلُّوا عَلَيْهِ تم بھی خدا سے درخواست کرو کہ وہ رحمتیں جو ہیں وہ ہر آن زیادہ سے زیادہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی رہیں اور دعائیں

Page 88

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ZA سورة الاحزاب کرتے رہو.فرشتے دعائیں کر رہے ہیں ان کی زبان کے ساتھ ، ان کی آواز کے ساتھ شامل ہو کر تم بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے لئے دعائیں کرو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہو.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۴۵) ایک اور عمل صالح جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وارث بنادیتا ہے جس کے متعلق خدا کا وعدہ ہے کہ اگر خلوص نیت کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر بد نیتی اور ریاء کے بغیر یہ کام کرو گے تو میں اپنی رحمت سے تمہیں نوازوں گا وہ سورۃ احزاب کی آیت ۵۷ میں بیان ہوا ہے روہ یہ ہے کہا اِنَّ اللهَ وَ مَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اللَّبِي اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے ایک عظیم بندے تھے ایک نہایت ارفع مقام پر پہنچنے والے عبد تھے، عبد تو تھے لیکن دنیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت جب جوش میں آئی تو اس جوش نے یہ تقاضا کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایک وجود پیدا کرے اور دنیا کی اصلاح اور دنیا پر رحمتوں کے دروازے کھولنے کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبی اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارشوں کا ایک سلسلہ نازل ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس کام پر لگایا ہے کہ وہ آپ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لئے دعائیں کرتے رہیں جو مقاصد عالیہ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے پس اے انسان! اگر تو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بنے اور اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کے فرشتے تیرے لئے بھی دعاؤں میں مشغول ہو جائیں تو اپنی زندگی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد عالیہ کے ساتھ ہم آہنگ کر دے اور ایک جیسا بنادے پھر خدا کی رحمتوں کا بھی تو وارث ہو جائے گا اور فرشتے جو ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے ان کے پورا ہونے کے لئے دعاؤں میں لگے ہوئے ہیں ان کی دعاؤں کا بھی تو وارث بن جائے گا کیونکہ تیری اپنی زندگی ، تیری اپنی کوششیں اور تیری اپنی فکر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد کو کامیاب بنانے میں لگی ہوئی ہوگی اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وارث بنو گے اگر ایسا کرو گے تو دنیا بے شک تمہاری مخالفت کرتی رہے دنیا بے شک تمہیں مٹانے کی کوشش کرتی رہے دنیا بے شک تمہیں ہر قسم کا دکھ اور عذاب پہنچانے میں لگی رہے تم اس بات کا یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کی رحمت تمہیں اور صرف تمہیں ملے

Page 89

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث گی.۷۹ سورة الاحزاب (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۵۵) آیت ا۷۲،۷ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدَ الى يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۖ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اس آیت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدً ايُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ میں يُصْلِحْ لكم اعمالکم کے الفاظ سے ایک لطیف پیرایہ میں ہمیں دعا کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! خدا کا تقویٰ اپنے اعمال کے ذریعہ سے بھی ظاہر کرو.ہر اس بات سے بچ کر جو تمہارے رب تمہارے اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ اور معیوب ہے اور ہر وہ عمل بجالا کر جسے وہ پسند کرتا ہے.اس کی ڈھال کے پیچھے اور اس کی پناہ میں سارے عمل بجالا کر.اس کے علاوہ قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا جو بات کہو وہ صرف سچ ہی نہ ہو بلکہ صاف اور سیدھی ہو.اس میں کوئی پیچ نہ ہو.کوئی رخنہ نہ ہو اور کوئی فساد نہ ہو.یہ سب کچھ کر لینے کے بعد یہ نہ سمجھ لینا کہ تمہارے اعمال ، اعمال صالحہ ہیں.کیونکہ عمل صالح وہ عمل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی صالح ہو اور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان سے صالح بنادیا ہو.کیونکہ اصلاح میں احسان کرنے کا تصور اور تخیل بھی پایا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ کا جملہ استعمال فرما کر ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اپنی طرف سے بظاہر نیک عمل بجالا نا.اپنی طرف سے بظاہر قول سدید پر قائم ہو جانا ہمیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ یہ ساری باتیں اسی وقت اعمال صالحہ شمار ہوسکتی ہیں جب اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور احسان سے ان اعمال کو صالح بنادے.ان کے فساد کو دور کر دے اور جہاں تقویٰ کی باریک راہوں کو چھوڑنے کی وجہ سے کوئی خامی رہ گئی ہو.اس خامی کے بد نتیجہ سے محفوظ رکھتے ہوئے اور جہاں کوئی طبعی کمزوری پائی جاتی ہو اس کمزوری کو دور کرتے ہوئے محض احسان کے طور پر وہ تمہارے اعمال کو اعمال صالحہ قرار دے دے.اس وقت تمہیں ان کا ثواب ملے گا.

Page 90

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۰ سورة الاحزاب پس ساری کوششوں کے باوجود ہمارا عمل ، عمل صالح نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا احسان اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا احسان ہم کسی عمل سے تو نہیں لے سکتے.اس کا احسان تو محض اس کے فضل اور احسان سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تم میرے فضل اور میرے احسان کو دعاؤں کے ذریعہ سے ہی جذب کر سکتے ہو.تو يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ میں بتایا کہ تمہارے اعمال اعمال صالحہ تبھی ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ محض اپنے احسان سے انہیں اعمال صالحہ بنادے.پس اس آیت میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ ہر وقت اپنے رب کے حضور دعاؤں میں مشغول رہا کرو تا اس زندگی میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی اس کی خوشنودی اور رضا حاصل کر سکو.(خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۲۸۵ تا ۷ ۲۸) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کہ قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنوبکم میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ایک طرف اعمال کے بدنتائج سے سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی بچا نہیں سکتا اور دوسرے یہ کہ کوئی شخص اپنی ہمت اور طاقت سے اعمال صالحہ بجا نہیں لا سکتا.اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے کہ انسان کے اعمال کو اعمال صالحہ کی شکل دیتا ہے اور بد نتائج سے بچنے اور اعمال صالحہ کے بجالانے کے لئے یہاں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ اپنا معاملہ اپنے رب سے یا جن سے واسطہ پڑے صاف رکھو کوئی ایچ پیچ نہ ہو.کوئی چھپی ہوئی چیزیں نہ ہوں.جب تک اللہ سے اور ان سے جن سے اللہ تعالیٰ تعلق کو قائم کرتا ہے یا تعلق قائم کرنے کی ہدایت فرماتا ہے معاملہ صاف نہ ہو.آیت ۴ لِيُعَذِّبَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَ الْمُشْرِكِينَ وَ الْمُشْرِكَتِ وَ يَتُوبَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ۖ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رحِيمان (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۳۵۳ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق ہی میں خطبات دے رہا ہوں اور آج خدا تعالیٰ کی توفیق سے اس

Page 91

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ΔΙ سورة الاحزاب نے چاہا تو اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں میں نے بتایا تھا کہ یہ آیت جس کی تفسیر میں بیان کر رہا ہوں سورہ احزاب کی ہے اور میں نے جب غور کیا کہ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کے لئے یہ بتانا چاہتا ہے کیونکہ انسان اپنے طور پر تو کچھ حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدا ہمیں علم نہ دے انسان خود نور سے اپنی نیکی کی اور راستبازی کی سیدھی راہوں کو منور نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کو توفیق نہ دے تو سورۃ احزاب میں بھی اللہ تعالیٰ نے ضروران راہوں کی نشاندہی کی ہوگی جورا ہیں اس کی رحمت کے دروازوں تک لے جاتی ہیں اور جو مجاہدہ خدا کو جب مقبول ہو جائے تو رحمت کے دروازے ایسے شخص یا اشخاص یا گروہ کے لئے کھولے جاتے ہیں آج میں سورۃ احزاب کی ہی ایک آیت کو بنیادی نکتہ بنا کر ایک بنیادی اصل کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تفاصیل تو قرآن کریم میں بہت ہیں قرآن کریم نے اپنی رحمت کے دروازے کھلوانے کے لئے ہمیں کئی سو را ہیں بتائی ہیں ان راہوں پر چلنا بڑا ضروری ہے قرآن کریم میں جو بھی نیکیوں کے طریق بتائے گئے ہیں جو بھی مجاہدات کے راستے ہمیں دکھائے گئے ہیں ان سب پر چلنا ضروری ہے اس لئے قرآن کریم نے اصولی طور پر ہمیں ہدایت دی کہ اگر ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھولے جائیں گے.یہ بنیادی اور اصولی چیز ہے باقی تمام اسی ایک بنیادی چیز کی فروعات ہیں اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں فرماتا ہے کہ اس شریعت کو اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ جہاں منافق اور منافقات اور مشرک اور مشرکات کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوء کا حکم جاری ہود کھ اور عذاب اور تکلیف اور پریشانی کا حکم جاری ہو وہاں وَ يَتُوبَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ یعنی یہ شریعت اور یہ حقیقت جو شریعت کے نظریے کی غرض ہے اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کیلئے رحمتوں کے سامان پیدا کئے گئے ہیں وَ كَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا اور جوشخص تو بہ کرتا ہے اور جو شخص ایمان پر پختگی کے ساتھ قائم ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی ان دوصفات کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں ایک تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے اور مغفرت کی چادر میں خدائے غفور اسے لپیٹ لیتا ہے دوسرے اس کے مجاہدات قبولیت کا درجہ حاصل کرتے ہیں اور خدائے رحیم اپنی رحمت کی چادریں ایسے شخص اور وجودوں پر نازل کرنا شروع کر دیتا ہے.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۷۵ تا ۲۷۶)

Page 92

Page 93

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۸۳ سورة سبا بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة سبا آیت ۱۴ يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَّحَارِيبَ وَ تَمَاثِيلَ وَ جِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَ قُدُورٍ رُّسِيتٍ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا ۖ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشكور جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے ،شکر کے یہ معنے ہوں گے کہ اُس نے ہمیں جو کچھ عطا فرمایا ہے، اُس میں سے ہم اپنے اعمال سے اُس کے حضور ایثار کے رنگ میں یا ہم اپنے اعمال سے اس کے بندوں کی خدمت کی شکل میں یا عملاً اُن حقوق کی ادائیگی کی صورت میں جو حقوق کہ اُس نے ہم پر واجب قرار دیئے ہیں، شکر ادا کریں.وہ تو دینے والا ہے لینے والا نہیں ہے کیونکہ ہر چیز اُسی کی ہے لیکن انسان اُس کے حضور ( اپنی زبان کے محاورہ کے لحاظ سے) کچھ نہ کچھ پیش کرتا ہے ان شکلوں میں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے :.اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شكراً فرما یا شکر گذاری کے ساتھ عمل کرو گویا شکر کے جذبات سے دل کو معمور کرنے کا یہاں ذکر نہیں یا زبان سے شنا کرنے کا یہاں ذکر نہیں یا انسان جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح وتحمید کرتے ہیں اس کا یہاں ذکر نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اپنے عمل سے شکر ادا کرو.اسی لئے عربی کی لغت میں جوارح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے معنے بھی کئے گئے ہیں یعنی وہ تمام طاقتیں جو انسان کو دی گئی ہیں، ان کو ایسے رنگ میں استعمال میں لایا جائے کہ وہ گو یا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا متصور ہو.جب تک عمل اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.

Page 94

۸۴ سورة سبأ تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث پس بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھانا ہی شکر نہیں ہوتا یا الْحَمدُ لِلہ کہہ کر کھا ناختم کرنا ہی شکر نہیں ہوتا بلکہ کھانا کھانا خود ادائے شکر کے مترادف ہے کیونکہ اسلام میں بھوکا رہ کر خود کشی کی اجازت نہیں دی گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اے انسان ! تیرے نفس کے بھی تجھ پر کچھ حقوق ہیں.اس لئے جہاں حق قائم ہوتا ہے.جہاں حق کی ادائیگی کی طاقت عطا کی جاتی ہے وہاں حق کو خدائے قادر و توانا کی منشاء اور اس کی ہدایت کے مطابق ادا کرنا اُن ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں ،شکر ہے.غرض جب تک عملی شکر نہ ہو کا میابی نہیں ملتی مثلاً ایک ذہین بچہ ہے وہ اگر اپنی خداداد ذہانت کے شکریہ کے طور پر اُس کا صحیح استعمال نہیں کرتا یا وہ اپنے اوقات کو ضائع کر دیتا ہے اور اپنی توجہ کو مطالعہ اور حصول علم پر قائم نہیں رکھتا تو وہ ناشکرا اور ناکام ہوتا ہے پس ناشکری ہمیں ناکامی کی وجہ بتاتی ہے.جہاں آپ کو نا شکری نظر آئے گی وہاں آپ کو نا کا می نظر آئے گی.اس لئے کہ کامیابی کے لئے اس معنی میں جس کی میں نے ابھی وضاحت کی ہے شکر گزار بندہ بننا ضروری ہے.میری اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں اس مرکزی اور بنیادی نکتہ کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ا، ۲) آیت ١٦ لَقَدْ كَانَ لِسَبَا فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتِنِ عَنْ يَمِينٍ وَ شِمَال : كلوا مِن رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلَدَةٌ طَيِّبَةً وَرَبِّ غَفُورٌ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُواله اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو بھی دیا ہے.تمہیں اوقات دیئے ہیں تمہیں طاقتیں دی ہیں تمہیں اموال دیئے ہیں تمہیں بہترین سے بہترین کھانے دیئے ہیں تمہاری كُلُوا مِنْ رِزْقِ ربكم کا مختصراً مفہوم یہ ہے کہ تمہیں طاقتیں دی ہیں اور ان طاقتوں اور استعدادوں کو کمال نشو و نما تک پہنچانے کے لئے تمہارے لئے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.كلُوا مِنْ رِزْقِ دیکھ اس لئے اپنی طاقتوں اور استعدادوں کی قدر کرو اور ان کی نشوونما کے جو سامان پیدا کئے گئے ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ تم ایک حسین شکل میں دنیا کے سامنے آؤ.بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَ رَبُّ غَفُورٌ یہ بڑا پیارا فقرہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک کمال موافقت رکھنے والا ماحول میں نے

Page 95

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۵ سورة سبا تمہارے لئے پیدا کر دیا ہے.رَبِّ غَفُورٌ اس ماحول میں پورے کانٹس (conscious) ہوتے ہوئے اور علی وجہ البصیرت تم اپنی کوشش کرو.لیکن تمہاری کوشش میں نقص رہ جاتے ہیں انسان میں بشری کمزوریاں ہیں.جو نقص رہ جاتے ہیں ان سے تم گھبرانا نہیں.یعنی جو انسان اپنے نفس کو پہچانتا ہے جہاں وہ یہ پہچانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے قرب کی بڑی راہیں کھولی ہیں وہاں یہ بھی پہچانتا ہے کہ میرے نفس میں بڑی کمزوریاں ہیں.میرے ساتھ آفات نفس لگی ہوئی ہیں.میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ان سے بچ نہیں سکتا پس فرما یا :- بلدة طيبة وہ سارا ماحول پیدا کردیا جو تمہاری قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشو و نما کرنے والا ہے اب تم کوشش کرو اور آگے بڑھو جب تم کوشش کرو گے اور آگے بڑھنے کے لئے تگ و دو کرو گے اس وقت یہ احساس اپنے دل میں پاؤ گے کہ تمہارے اندر بشری کمزوریاں ہیں.ان سے نہ گھبرانا رَبُّ غَفُورٌ مغفرت کرنے والا تمہارا رب ہے یہاں رب غفور کہ کر مغفرت اور ربوبیت کو اکٹھا کر دیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح تمہاری مغفرت کر دے گا کہ تمہاری ربوبیت اور تمہاری تربیت اپنے کمال کو پہنچ جائے گی.بلدة طيبة مثلاً یہ ہمارار بوہ ہے یہ ہمارے لئے بلدةٌ طَيِّبَةً ہے ان مکھیوں کے لئے بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ نہیں ہے.جن کو مارنے کے لئے ہم مہم کرتے ہیں کہ ملیریا نہ پھیلائیں.ان چوہوں کے لئے یہ بلدة طيبة نہیں ہے.جن کو مارا جاتا ہے کہ وہ خرابی پیدا نہ کریں میں ایک خاص بات واضح کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بلدةٌ طَيِّبة کے یہ معنے بیج نہیں کہ ایک شہر ہے جو بڑا اچھا ہے بلکہ بلد طيبة کے یہ معنے ہیں کہ ایک شہر ہے جو انسان کے لئے اس کی نشو ونما کے لئے اور اس کی نشو ونما کے کمال کو پہنچانے کے لیے اچھا ہے.وہ بھیڑوں کے لئے اچھا نہیں وہ مکھیوں کے لئے اچھا نہیں وہ چوہوں کے لئے اچھا نہیں وہ چوروں کے لئے اچھا نہیں وہ جو غیر تربیت یافتہ نوجوان جلسہ کے دنوں میں سکوٹروں پر بیٹھ کر شاید اس امید پر آ جاتے ہیں کہ شاید ننگے منہ عورتوں پر ہماری نظر پڑ جائے گی ان کے لئے اچھا نہیں.فوراً چیک کر لیا جاتا ہے اور ان کو آگے بھیج دیا جاتا ہے لیکن ہمارے لیے یہ بلدة طيبة یعنی بڑا اچھا شہر ہے.پاک ماحول ہے جس میں انسان جسمانی اور روحانی طور پر ترقی کر سکتا ہے.یہ صیح ہے کہ بعض چیزیں ہمیں نہیں ملیں ان میں نقص آ جاتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ انسان کمزور ہے ہماری تربیت میں نقص رہ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرما یارب غَفُورٌ ہمیں تو کوئی حجاب نہیں اس

Page 96

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۸۶ سورة سبا بات کے ماننے میں کہ ہمارے اندر نقص رہ جاتے ہیں.اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے اندر نقص کوئی نہیں رہتا تو پھر ہمیں یہ بھی اعلان کرنا پڑے گا کہ ہمیں رب غفور کی ضرورت نہیں.ہمیں تو ہر آن ہر لحظہ رب غَفُورٌ کی ضرورت ہے.تو اس کا شکر ادا کرنے کے لئے ہم وہ باتیں یہاں بیان کرتے ہیں جو بیان کرتے ہیں.ورنہ اللہ کی قدرتوں کو دیکھنے کے بعد ساری دنیا اور دنیا میں رہنے والے سب ہمارے لئے ایک مردہ کی طرح ہیں ان کے سامنے ہم جا کر اپنی گردنوں کو فخر کے ساتھ کیسے اونچا کریں گے.مردوں کے سامنے بھی کوئی فخر کیا کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی قدرت نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ دنیا کی ہر دوسری چیز ایک مردہ کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے تو ان کے سامنے تو فخر کی ضرورت نہیں اور وہ جو زندہ دل اور زندہ روح رکھنے والے احمدی اور مسلمان ہیں ان کے سامنے اس لئے نہیں کہ ان کو بھی پتہ ہے کہ ہم لاشی محض ہیں اور ہمیں بھی پتہ ہے کہ ہم لاشئے محض ہیں.نہ اس نیستی کا احساس ان سے چھپا ہوا ہے اور نہ ہم سے چھپا ہوا ہے.پس ان کے سامنے ہم کس طرح فخر سے بات بیان کر سکتے ہیں کر ہی نہیں سکتے.پس فخر کے لئے نہیں نہ غیروں کے سامنے فخر یعنی ان غیروں کے سامنے جو خدا سے دور اور خدا سے جنہوں نے زندگی نہیں پائی ان کو تو ہم مردہ تصور کرتے ہیں نہ اپنوں کے سامنے فخر کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا بھائی بھی اس طرح اس حقیقت پر قائم ہے جس طرح کہ میں ایک لاشی محض ہوں اور نیستی کا لبادہ پہنے ہوئے خدا کے حضور جھکا ہوا ہوں.کوئی فخر کی بات نہیں لیکن تحدیث نعمت کے طور پر اس نیت کے ساتھ اس امید پر بیان کرتے ہیں کہ جب ہم دنیا کے سامنے یہ اعلان کریں گے کہ باوجود ہر قسم کی کم مائیگی کے محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم نے یہ کیا نہ ذرائع ہمارے اپنے ، نہ اسباب ہمارے پیدا کردہ، نہ طاقتیں اپنے زور سے ہم لینے والے نہ ان کی نشو و نما کو اس کے کمال تک پہنچانے میں ہمارے اپنے نفسوں کا اپنا حصہ.ہر درجہ پر ہر طرح پر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا تھا اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی.ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَ رَبُّ غَفُورٌ تم ایک پاک ماحول کو جو میری توفیق سے پاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو.وَرَبِّ غَفُورٌ وہ بشری خامیاں رہ جائے گی ان سے گھبراؤ نہیں.

Page 97

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۸۷ سورة سبا وَ سَنَجْزِي الشَّرِينَ (آل عمران : ۱۴۶) اس طرح جو ہمارا شکر ادا کرنے والے ہوں گے.ہم انہیں جزا دیں گے.جو توفیق انہیں نیکیوں کی پہلے ملی ہے اس سے زیادہ تو فیق نیکیوں کی انہیں بعد میں دی جائے گی اس واسطے مومن کا ہر قدم پہلے قدم سے آگے پڑتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قدم پر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا ہوتا ہے.قوتیں اور طاقتیں اور ستعداد میں پہلے دی گئی ہیں ان سے بڑھ کر قوتیں اور استعداد میں دی جائیں گی جو شدت احساس کی ہم خدا کے قرب کو حاصل کر کے اس کی محبت پا کر اس کی رضا کی جنت میں داخل ہوں احساس میں یہ شدت پہلے سے زیادہ تیز ہوگی.پھر نتیجہ پہلے سے زیادہ نکلے گا پھر تمہارے دل میں شکر کے جذبات پہلے سے زیادہ پیدا ہوں گے.( خطابات ناصر جلد اول صفحه ۳۶۰ تا ۳۶۳) آیت ۲۹ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت كافة للناس ہے یعنی نوع انسانی کی طرف دنیا کے کسی خطے میں انسان بستا ہو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس کی طرف بھی ہے اس کی خوشحالی اور بہبود کے لئے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کے ہر فرد کے لئے بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں اور یہ جو بشیر ہونا ہے آپ کا ، اس قدر بشارتیں ہیں انسان کے لئے اس کلام الہی میں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ان بشارتوں کا تعلق اس ورلی زندگی سے بھی ہے اور ان بشارتوں کا تعلق اس ابدی زندگی کے ساتھ بھی ہے جو انسان کو اس دنیا سے کوچ کرنے کے بعد ملتی ہے.اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نذیر بھی ہیں مومنوں کے لئے بھی نذیر ہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے بھی نذیر ہیں.عام طور پر جہاں مضمون قرآن کریم کا اجازت نہ بھی دیتا ہو بشیرا ونذيرا کے معنے یہ کر دیئے جاتے ہیں کہ مومنوں کے لئے بشیر اور کافروں کے لئے نذیر لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت جب قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئی وَ مَا اَرْسَلْنَكَ

Page 98

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۸ سورة سبأ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا تو یہ بشیر و نذیر مومن و کافر کے لئے ہیں.اس کی وضاحت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف میں فرمایا انسان کو کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرُ و بَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۱۸۹) میں نذیر بھی ہوں اور بشیر بھی ہوں مومنوں کے لئے.نذیر ہونا، ہوشیار کرنا، انتباہ کرنا مومن کو اور ہے کا فر کو اور.یہ تو تسلیم لیکن یہ سمجھنا کہ آپ بشیر صرف مومن کے لئے ہیں اور نذیر صرف کافر کے لئے ہیں، یہ غلط ہے.قرآن کریم کی آیات اس کی توثیق نہیں کرتیں.کافروں کو یہ بشارت دی کہ اگر اس زندگی میں بھی تم خوشحالی اور امن اور سکون کی زندگی چاہتے ہو تو تمہیں قرآن کریم پر ایمان لانا پڑے گا اور ایمان لاؤ گے تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا.قرآن کریم نے ان کو یہ بشارت بھی دی کہ اس زندگی کے بعض معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق روحانیت سے نہیں بلکہ محض ورلی زندگی کے ساتھ ہے اور ان معاملات میں اگر تم خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو گے جو قرآن کریم نے بتا یا تو تمہیں اس کا نتیجہ مل جائے گا.صرف اس وجہ سے کہ تم قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے اپنے اس عمل کے نتیجہ سے تم محروم نہیں کئے جاسکتے مثلاً فرما یا لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَة سَوْفَ يُرى (النجم :۴۰) اب جس میدان میں غیر مسلم نے یعنی علمی میدان میں اور زندگی کے ان شعبوں میں جن کا براہ راست (ویسے تو ہر چیز کا تعلق روحانی زندگی سے ہے لیکن براہ راست ) روحانی زندگی سے تعلق نہیں تھا جب کوشش کی تو انہیں نتیجہ مل گیا.یہ سائنس کی ساری ترقیات خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے نتیجہ میں ملیں جو اللہ تعالیٰ نے دنیوی سعی کو مقبول کر کے اپنی رحمت ان پر نازل کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سائنس دان ایک ایسا وقت دیکھتے ہیں اپنی زندگی میں کہ جو کوشش کر رہے ہیں علمی میدان میں اندھیرا آ جاتا ہے سامنے اور ان کو کچھ پتا نہیں لگتا کہ ہم آگے کس طرح بڑھیں تو ان کی یہ تڑپ جو ہے کہ آگے بڑھیں کیونکہ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴ ) میں کمر سارے انسانوں کے لئے کہا گیا ہے.تو اندھیرے میں وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ اس تڑپ کو دعا قرار دے کے اور ان کی اس تڑپ کے نتیجہ میں اس مجوب کی جو دعا ہے کہ خدا تعالیٰ کو جانتا بھی نہیں لیکن دعا کی کیفیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے اسے قبول کرتا اور اس کے لئے روشنی پیدا کر دیتا ہے.

Page 99

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۹ سورة سبا تو قرآن کریم کی تعلیم اور ہدایت اور وہ راہیں جو ترقی کے لئے قرآن کریم نے بیان کیں اس دنیا میں بھی مومن و کافر کے لئے بشارتیں بھی رکھتی ہیں اور انذار کا پہلو بھی رکھتی ہیں یعنی اگر صحیح راہ کو اختیار کرو گے فلاح پاؤ گے.اگر صحیح راہ کو اختیار نہیں کرو گے نا کام ہو جاؤ گے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۷۹ تا ۳۸۱) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم كافة للناس مبعوث ہوئے یعنی کسی ایک قوم کی طرف یا کسی ایک خطہ ارض کی طرف یا کسی ایک زمانہ کی طرف نہیں بلکہ قیامت تک کے سب انسانوں کی طرف آپ کی بعثت تھی اور آپ کی یہ بعثت بشیر و نذیر ہونے کی حیثیت میں بھی تھی.اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی صفات ہیں لیکن آپ کی بنیادی صفات اور مقاصد بعثت میں بشیر اور نذیر ہونا بھی ہے.آپ پر ایمان لانے والے بھی ہیں.اُس وقت بھی پیدا ہوئے.اُس وقت سے پیدا ہور ہے ہیں.آج بھی یہی کیفیت ہے اور آپ کا انکار کرنے والے بھی ہیں.آپ کا بشیر اور نذیر ہونا ہر دو کے لئے ہے یعنی آپ نے اپنے ماننے والوں کو بھی ہو شیار کیا اس بات سے کہ ایسی غلطی نہ کر بیٹھنا کہ ایمان لانے کے بعد تمہارے دلوں میں کبھی پیدا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے بعد اس کے غضب کے مستحق ہو جاؤ اور جو ایمان نہیں لائے ان کو بھی ہوشیار کیا کہ ایک عظیم شریعت تمہاری بھلائی کے لئے نازل ہو چکی.اس شریعت کے، اس دین کے احکام پر عمل کرو.خدا تعالیٰ کی بڑی بشارتیں ہیں تمہارے حق میں.اگر تم نہیں سنو گے ان بشارتوں سے محروم ہو جاؤ گے.اگر تم سنو گے اور مانو گے اور عمل کرو گے اور قربانیاں دو گے تو جو انذاری پہلو ہیں ان کا اطلاق تم پر نہیں ہوگا.جو بشارتیں ہیں ان کے تم مستحق ہو جاؤ گے.قرآن کریم بھرا ہوا ہے انذار سے اور تبشیر سے.اس وقت میں اس کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں.سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم:۷) اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اھلیکم کا ایک انداری پہلو یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ ایک انسان خود تو ایمان رکھتا ہے اپنے دل میں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بشارتوں کا مستحق ہوتا ہے لیکن اس کے اہل اس کے لئے فتنہ بنتے اور صراط مستقیم سے اسے دور لے جانے والے بن

Page 100

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة سبأ جاتے ہیں.اس واسطے کسی ایک شخص کا یہ کہنا کہ میں صراط مستقیم پر قائم ہو گیا ہوں، یہ کافی نہیں ہے، یہ اس لئے کافی نہیں کہ جو قریب ترین فتنہ اس کی زندگی میں ہے وہ اس کے گھر میں موجود ہے.اس واسطے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کرنا ان نسلوں کی بھلائی میں بھی ہے اور اپنی بھلائی بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ انسان فتنے سے اپنے آپ کو بچائے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے اور جو پیارا سے حاصل ہوا وہ پیارا سے اور اس کے خاندان کو مرتے دم تک اس دنیا میں حاصل رہے تا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں گزرنے والی ابدی زندگی کے وہ مستحق بنیں.سورۃ التحریم میں ہی نویں آیت میں ہے.یااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحریم: 9) حکم تھا کہ خود اپنے نفسوں اور اپنے اہل کو بچاؤ، ان کی حفاظت کی کوشش کرو اور یہاں وہ طریقہ بتایا گیا اس آیت میں بشارت ہے ) اور اس کی ابتدا یوں ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف خالص رجوع کرو.تو بہ کرو اور تو بہ پر قائم رہو.تو بہ زندگی کے چند لمحات کی کیفیت کا نام نہیں.تو بہ ساری زندگی کے سارے ہی لمحات کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے.خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، اس کی طرف جھکتے ہوئے ،غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ، ندامت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ عاجزانہ اس سے مغفرت چاہتے ہوئے زندگی گزارنا اس کا نام ہے تو بہ.اس کی دوشاخیں ہیں آگے ، عقیدہ اور عملاً، دونوں اس میں شامل ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا عرفان رکھنا اور اس کی عظمتوں اور اس کے نور کو اس کے حسن کو سمجھتے ہوئے اور شناخت کرتے ہوئے اور اس سے دوری کے مضرات کو اور برائیوں کو جانتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرنا، یہ عقیدہ تو بہ ہے یعنی آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ اگر میں خدا سے کٹ گیا اور تو بہ کا تعلق میرا اس سے نہ ہوا تو میں ہلاک ہو گیا لیکن اسلام محض فلسفہ نہیں.حقیقی فلسفہ اسلام ہی ہے، اس میں شک نہیں لیکن اسلام محض فلسفہ نہیں.یہ تو ہماری زندگی کا ایک حسین لائحہ عمل ہے جو ہمیں بتایا گیا جس پر چل کر ہماری زندگی خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہوتی اور اس کے حسن سے حسن حاصل کرتی ہے.تو فرمایا جوحکم ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا کا طریق تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر آن خالص طور پر کا ملتا رجوع کرتے رہو، اس کا نتیجہ نکلے گا.اس مخلصانہ تو بہ کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو تمہاری بدیاں ہیں (یہ اس آیت سے میں نے مضمون اٹھایا ہے.میں عربی کے الفاظ نہیں

Page 101

۹۱ سورة سبا تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث دہراؤں گا ) ان کو وہ مٹادے گا تو بہ کے نتیجے میں.تمہاری بدیوں کو وہ مٹاتا جائے گا تمہاری زندگی میں.انسان ضعیف ہے غلطی کر جاتا ہے لیکن انسان کو متکبر نہیں ہونا چاہیے کہ سمجھنے لگے کہ میں غلطی نہیں کر سکتا.اس لئے ہر آن اپنے خدا کی طرف رجوع کر کے اس کے حضور تو بہ کرنی چاہیے اور ہر آن خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر کے اپنی غفلتوں کو مٹاتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہیے.تو بشارت یہ دی کہ تو بہ کرو گے تمہاری بدیوں کو مٹادیا جائے گا.یہ منفی پہلو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک یہ پہلو ہے یعنی صاف کر دی جائے گی زمین بدیوں سے اور دوسرا یہ کہ تمہارے لئے جنت کا سامان پیدا کیا جائے گا.قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ جنت دو ہیں.ایک اس زندگی کی جنت ، ایک مرنے کے بعد کی جنت.اس زندگی میں بھی جنت جیسی کیفیات پیدا ہو جائیں گی تمہارے گھروں میں اور وہ ابدی زندگی جو مرنے کے بعد انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی جنتی زندگی ہوگی.جنت سے باہر خدا تعالیٰ کے غضب کی جہنم میں رہنے والی زندگی نہیں ہوگی.تیسرے اس بشارت والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہر بدی رسوائی ہے، بے عزتی ہے اور سب سے بڑی رسوائی وہ ہے جو حقارت کی نگاہ انسان دیکھے اپنے لئے اپنے رب کی آنکھ میں.یہاں فرمایا اللہ اپنے نبی کو رسوا نہیں کرے گا، نہ ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے.یعنی ہمارے لئے یہ بشارت دی گئی یہاں کہ جس عزت کے مقام پر الہی کو رکھا جائے گا اس کی معیت میں ، اس کے ساتھ ہی تو بہ کرنے والے مومنوں کو رکھا جائے گا.اور چوتھی یہاں یہ بات بتائی کہ ان کا نور ان کے آگے آگے بھی بھاگتا جائے گا اور دائیں پہلو کے ساتھ بھی.یہاں یہ بتایا کہ جو عقیدہ اور عملا تو بہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے اور ایسے اعمال بجالاتے ہیں جن میں کوئی ملاوٹ اور کھوٹ نہیں ہوتا، جن میں کوئی ریا اور تکبر نہیں ہوتا ، جن میں کوئی دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ سارے کے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے پیار کے چشمے سے ابلتے ہوئے باہر آتے ہیں اور خدا کے نزدیک مقبول ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ایک نور عطا کرتا ہے.یہ جونور عطا کیا جاتا ہے یہ خود ایک لمبا مضمون اسلام میں بیان ہوا ہے.ایک پہلو اس کا یہ بھی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرتے رہا کرونور فراست دیا جاتا ہے اسے.

Page 102

تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ۹۲ سورة سبا بہر حال ایک نور مومن کو عطا ہوگا اور یہ نور جو ہے یہ محض حال کو یعنی جو آج کا وقت ہے صرف میری زندگی کے، آپ کی زندگی کے آج کو روشن کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ آگے آگے بھاگتا جائے گا یعنی مستقبل کو بھی منور کرنے والا ہوگا اور اس نور کے نتیجے میں دائیں طرف بھی روشن ہوگی ( دایاں دین اسلام کی طرف اشارہ کرتا ہے ) یعنی صحیح میلان دین کی طرف پیدا کرے گا یعنی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا حوصلہ بھی دے گا اور عزم بھی دے گا اور توفیق بھی دے گا.مستقبل روشن ہوگا.دین کی طرف میلان قائم رہے گا اور خاتمہ بالخیر ہوگا اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اور آخر میں یہ بتایا کہ ان کی مقبول دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرے گی.انہیں یہ دعا کرنے کی توفیق ملے گی کہ کہ کے بعد میں ایک اور فقرہ بیچ میں لانا چاہتا ہوں.کوئی انسان جتنی مرضی رفعت حاصل کرلے وہ انتہائی رفعت تک نہیں پہنچتا.اس لحاظ سے اس میں نقص اور کمال کی کمی رہتی ہے.تو ان کو اس دعا کی توفیق ملے گی کہ ) اے خدا! ہمارے نور کو اور بھی کامل کر اور یہ دعا ان کی قبول کی جائے گی اور ان کا نور "کمال" سے کمال کی طرف بڑھتا چلا جائے گا اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے سایہ میں حفاظت اور تقویٰ کی زندگی گزاریں گے اور خدائے قدیر کی عظیم قدرتوں کے جلوے ان کی اس زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ان پر ظاہر ہوتے رہیں گے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۳۹۱ تا ۳۹۵) دو ایک باتوں میں قدرتی تفاوت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تقسیم کار کے سوا اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیئے ہیں.اُس نے ان میں سرے سے کوئی فرق ہی تسلیم نہیں کیا.سارا قرآن دونوں میں بحیثیت انسان ہونے کے مکمل مساوات کے ذکر سے پر ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل اور دائمی شریعت لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے تو کس کی طرف مبعوث ہوئے.قرآن کریم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے:.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا وَ لَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ترجمہ: اور ہم نے تجھ کو تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری دیتا اور ہوشیار کرتا ہے لیکن انسانوں میں سے اکثر اس حقیقت سے واقف نہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الناس کی طرف سے رسول

Page 103

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۹۳ سورة سبأ بنا کر بھیجا گیا ہے.النّاس کا لفظ عربی زبان میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اکٹھا بولا جاتا ہے.سو معنے اس آیت کے یہ ہوئے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے ہر مرد اور ہر عورت کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے.اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اور نذیر تمام مردوں اور تمام عورتوں کے لئے ہیں.جہاں تک آپ کی بعثت اور اس کی غرض وغایت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اس اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں کوئی تفریق نہیں کی اس لئے قرآن مجید میں جتنے بھی احکام آئے ہیں.(ماسوا چند احکام کے جن میں جسمانی تفاوت کی وجہ سے عورتوں کے بعض جدا گانہ نوعیت کے حقوق و فرائض کا ذکر ہے) ان میں یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور وہ یکساں طور پر دونوں پر عائد ہوتے ہیں.مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (النساء :٢) ترجمہ:.اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے یہاں بھی النّاس کا لفظ استعمال کر کے مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں حکم دیا گیا ہے اور انہیں اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اس حکم کے ذریعہ انہیں دراصل کہا یہ گیا ہے کہ وہ یکساں طور پر خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کر کے اس کی نگاہ میں عزت کا مقام حاصل کریں.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام مردوں اور عورتوں دونوں کو عزت اور احترام کا مقام دلانا چاہتا ہے اور اس لحاظ سے ان میں کسی تفریق کا روادار نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں النّاس کے علاوہ بشر کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اور کیا بھی ایک خاص محل پر.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ قل إنما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف : ١١) ترجمہ: تو (انہیں) کہہ کہ میں تمہاری طرح کا صرف ایک بشر ہوں.عربی لغت کی رو سے بشر کے معنوں میں بھی مرد اور عورتیں دنوں شامل ہیں جب بشر کا لفظ بیک وقت مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے بولا جاتا ہے تو مثل کفر میں بھی دونوں شامل ہیں سو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ اے مردو! اور اے عورتو! میں تم جیسا ایک بشر ہوں.اس طرح آپ نے یہ امر ذہن نشین کرایا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور دُنیا کے تمام مردوں اور تمام عورتوں میں کوئی فرق

Page 104

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۴ سورة سبأ نہیں ہے.سب ایک جیسے بشر ہیں.یہ انسان کو (جس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں ) زمین سے اُٹھا کر ساتویں آسمان تک لے جانے والی بات ہے یہ مساوات بلحاظ نوع کے ہے اور مردوں اور عورتوں کے یکساں شرف پر دلالت کرتی ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استعداد اور قابلیت ہر دوسرے انسان سے کہیں بڑھ کر عطا کی گئی تھی اس لئے استعدادوں کے لحاظ سے نیز انتفی ہونے کے لحاظ سے اس بشر اور دوسرے بشر کے مابین بڑا فرق ہے.اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشر ہونے کے لحاظ سے اپنے وجود کو ہر بشر کے ساتھ بریکٹ کر دیا اور بتایا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تمام دوسرے انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلحاظ نوع یکسانیت کا یہ شرف مردوں اور عورتوں دونوں کو حاصل ہے اسلام نے اس شرف میں شریک ہونے کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی بلحاظ استعداد مرد.مرد اور عورت، عورت میں بھی فرق ہے اور ہر ایک نے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ترقی کرنی ہے ان میں سے کوئی اپنی استعداد کے مطابق کتنی ہی ترقی کر جائے.اسلام کہتا ہے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے بلاتفریق و امتیاز تمام مرد اور تمام عورتیں ایک ہی سطح پر ہیں.اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں مساوات کا ایک اور لحاظ سے بھی ذکر کیا ہے اور وہ ہے رحمت سے بہرہ یاب ہونے میں مساوات چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء :١٠٨) ترجمہ: اور ہم نے تجھے تمام دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے دائرہ میں صرف مرد آئیں گے بلکہ کہا یہ ہے کہ ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے دُنیا کی ہر چیز آپ کی رحمت سے حصہ لے رہی ہے.آپ تمام انسانوں یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں.آپ کی رحمت مردوں اور عورتوں کو یکساں فیض پہنچا رہی ہے یعنی آپ کی رحمت سے بہرہ یاب ہونے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے.جب میں نے مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق و فرائض کی روشنی میں قرآنی آیات کا جائزہ لیا تو میں نے دیکھا کہ قرآن مجید کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے الناس کہہ کر یعنی مردوں اور عورتوں کو ایک مخاطب کر کے احکام دیئے ہیں ان کی تعداد ۲۲۷ ہے.اسی طرح انسان اور الناس

Page 105

۹۵ سورة سبأ تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کہہ کر جن آیات میں مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے ان کی تعداد علی الترتیب ۶۱ اور ۶۷ ہے اب رہیں وہ آیات جن میں عورتوں کے جسمانی طور پر مختلف حالات کے پیش نظر صرف عورتوں کو مخاطب کر کے صرف انہیں احکام دیئے گئے ہیں یا ان کے بعض زائد حقوق کا ذکر کیا گیا ہے سوان کی تعدا د انچاس ہے اس کے بالمقابل جن آیات میں صرف مردوں کا ذکر ہے وہ صرف گیارہ ہیں اس جائزہ سے بھی ظاہر ہے کہ جسمانی تفاوت کے سوا قر آن مجید میں جتنے بھی احکام دیئے گئے ہیں وہ مردوں اور عورتوں کو اکٹھا مخاطب کر کے دیئے گئے ہیں اور دونوں ان میں برابر کے شریک ہیں بلحاظ احکام اور بلحاظ حقوق و فرائض خدا تعالیٰ نے دونوں میں کوئی تفریق نہیں برتی.اس ضمن میں حضور نے سورۃ النساء کی آیت الرّجالُ قَوامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کا اصل مفہوم بھی واضح کیا چنانچہ فرمایا) جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے اس میں مردوں کی اس ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو گھر کی جملہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ان پر ڈالی گئی ہے اس آیت میں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ عورتیں مردوں سے کمتر درجہ رکھتی ہیں بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ مرد گھر کے جملہ اخراجات کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں اور اس کی طاقت رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اعمالِ صالحہ کی جزا بھی دونوں کے لئے ایک جیسی رکھی ہے.اس نے یہ کہیں نہیں کہا که مرد نیک اعمال بجالائیں گے تو انہیں زیادہ جزا ملے گی اور عورتیں جو نیک اعمال بجالائیں گی انہیں ان کی مردوں کے مقابلہ میں کم جزا ملے گی اس نے دونوں کے لئے ایک جیسی جزار کھ کر اس میں کسی قسم کا فرق روا نہیں رکھا بلکہ ان کی ایک مجبوری کی وجہ سے ان کے تھوڑے اعمال کی جزا زیادہ رکھی ہے اور کہا ہے کہ انہیں مردوں کے زیادہ اعمال کے برابر جزا ملے گی مثلاً عورتوں کو بعض ایام میں نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے لیکن ثواب مرد کے برابر رکھا ہے یہ نہیں کہا کہ چونکہ مردوں نے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اس لئے انہیں زیادہ ثواب ملے گا.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۶۳۳ تا ۶۳۶) اس عالمگیر رحمت کا جلوہ جو انسان پر ظاہر ہوا وہ كافة لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا کی شکل میں کہ تمام بنی نوع انسان کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں.اس آیت کے ٹکڑے سے ہمیں بہت سی باتیں پتالگتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قوتیں اور طاقتیں عطا کر دی ہیں جن کے استعمال سے وہ بدی سے بچ سکتا

Page 106

تفسیر حضرت خلیفۃ السیح الثالث ۹۶ سورة سبا ہے.جن کے نتیجہ میں وہ ان راہوں پر چلنے سے محفوظ رہ سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی اور شیطان کی گود تک پہنچانے والی ہیں.اس سے ہمیں یہ بھی پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں جن کی نشو و نما کے بعد اور جن کے مطابق اعمالِ صالحہ بجالا کر انسان خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کر سکتا ہے، اس کی رضا کو پاسکتا ہے، اس کی جنتوں کا وارث بن سکتا ہے، اس کی بے شمار نعماء سے حصہ لے سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافر کے لئے نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.کافر کے لئے نذیر اس معنی میں کہ آپ اسے کہتے ہیں کہ دیکھو ! جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور مقصود حیات کے حصول کے لئے جو قوتیں اور استعدادیں اس نے تمہیں عطا کیں اور تمہاری رہبری کے لئے جو عظیم ہدایت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہو چکی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں میں تمہارے لئے کامل شریعت لے کے آیا ہوں.تم اگر میری بات کو سنو گے نہیں، اگر تم اپنی طاقتوں کو ضائع کرو گے، اگر تم خدا کی طرف توجہ نہیں کرو گے اور شیطان کی طرف منہ کر کے اپنی زندگی کے دن گزارو گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ تمہارے حصہ میں آئے گی.یہ انذار کرتے ہیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کو اور بشارت دیتے ہیں کہ میری آواز پر لبیک کہو میں تمہاری عزت کو قائم کرنے کے لئے، میں تمہاری دنیوی اور روحانی فلاح و بہبود کے لئے آیا ہوں.ایسی تعلیم لے کے آیا ہوں جو زندگی میں بھی تمہاری بھلائی کے سامان پیدا کرتی ہے اور اخروی جنتوں کے بھی سامان پیدا کرتی ہے.جو حقیقی زندگی خدا چاہتا ہے تم گزارو، اس زندگی کے سامان پیدا کرنے کے لئے میں آیا ہوں.اسی واسطے قرآن کریم نے یہ کہا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو کیونکہ وہ تمہیں بلاتے ہیں اس لئے لیغینكُمْ کہ وہ تمہیں زندہ کریں.إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُم (الانفال: ۲۵) کہ تمہیں اس غرض سے بلاتے ہیں کہ تمہیں زندہ کریں.یہ کفار کو کہا گیا.اب یہ انذار تو نہیں یہ تو بشارت ہے بڑی زبردست.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح نذیر ہیں کافر کے لئے اس طرح بشیر بھی ہیں کافر کے لئے اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے لئے محض بشیر ہیں جو اعلان کرتا ہے کہ میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کے رب پر ایمان لایا.آپ بشیر بھی ہیں اس کے لئے اور نذیر بھی ہیں اس کے

Page 107

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۹۷ سورة سبا لئے یعنی جس طرح کافر کے لئے نذیر اور بشیر ہیں اسی طرح مومن کے لئے بھی نذیر اور بشیر ہیں.قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس مضمون کے ساتھ اور ایک آیت میں نے اٹھائی ہے جس میں صاف، بالکل وضاحت کے ساتھ یہ ہے کہ مومنوں کے لئے آپ نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.قرآن کریم میں ہے.إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۱۸۹) کہ میں صرف نذیر اور بشیر ہوں مومن قوم کے لئے.تو یہ خیال کہ مومنوں کے لئے محض بشیر اور نذیر نہیں اور کافروں کے لئے محض نذیر اور بشیر نہیں یہ غلط ہے.اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک دفعہ ایمان کا دعویٰ کر دیا پھر بشارتیں ہی بشارتیں ہیں، پھر خیر ہی خیر ہے، پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی رضا ہی رضا ہے اور ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ، ہمارے اوپر کوئی پابندیاں نہیں، گناہوں سے بچنے کے لئے ہم نے کوئی کوشش نہیں کرنی.نیکیاں کرنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی جدو جہد اور سعی نہیں کرنی.یہ خیال غلط ہے.اصولی طور پر خدا تعالیٰ نے جو لِقَومٍ يُؤْمِنُونَ مومن قوم کو جو بشارت دی وہ بڑی زبردست ہے وَ انْتُمُ الْأَعْلُونَ (ال عمران :۱۴۰) ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی.اعلیٰ کا لفظ بولا ہے نا.ہر شعبۂ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی یہ بشارت ہے مگر اس کے ساتھ میں نے قرآن کریم پر بڑا غور کیا ہر بشارت کے ساتھ انذاری پہلو ساتھ لگا ہوا ہے.اس کے ساتھ ایک انذار ہے.ان كُنتُم مُّؤْمِنِينَ اگر تم ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہیں کرو گے تو یہ بشارت تمہارے حق میں پوری نہیں ہوگی.الافلون والی اور تیرہ چودہ سو سالہ اسلامی زندگی میں جو مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی آپ تاریخ دیکھیں اس کے دونوں پہلو انذار کے بھی اور تبشیر کے بھی بڑے زبر دست طریقے پر پورے ہوئے.ایمان کے تقاضے جہاں بھی پورے کئے گئے ، فوقیت بشارت کے مطابق لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ انہی کو حاصل ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی وہ تو اس زمانے کا تو ہرلمحہ اس کی تائید کر رہا ہے کیونکہ آپ کی تربیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم تھے وہ تقاضوں کو پورا کر رہے تھے ایمان کے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قیادت کر رہے تھے.ہر وقت ان کی رہنمائی تھی.جس وقت انتہائی دکھوں کی زندگی تھی ان دکھوں میں سے کامیاب نکلے.تیرہ سالہ زندگی کے دکھ اٹھا کے پھر چند سال میں سارے عرب پر غالب آ جانا یہ کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے.ایسا معجزہ ہے جس کی مثال دنیا

Page 108

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۹۸ سورة سبا میں نہیں ملتی کہ کسی قوم کو تیرہ سال تک اس طرح پیسا گیا ہو کی زندگی میں اور آٹھ سال تک حملہ آور ہو کر اس طرح کوشش کی گئی ہو ان کو نیست و نابود کرنے کی اور پھر بیس سالہ اس ظالمانہ کوشش کا نتیجہ اسلام کی موت نہیں بلکہ مسلمان کی زندگی کی شکل میں ظاہر ہوا......قرآن کریم میں بشارتوں کے ساتھ انذاری پہلو مختلف جگہ ساری تعلیم ہی یہ بھری ہوئی ہے یعنی ہر حکم جو ہے اس کا ایک پہلو انذار کا نکل آتا ہے یعنی یہ کہا کہ اپنے بھائی سے حسن سلوک کر.اسے دکھ نہ پہنچا.دونوں معنی منفی اور مثبت دونوں چیزیں.اگر وہ دکھ پہنچاتا ہے حکم نہیں مانتا تو وہ انذار ہے اگر وہ سکھ پہنچاتا ہے تو وہ بشارت بن جاتی ہے.عملاً اگر وہ ایسا کرتا ہے أُولَبِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ (التوبة : ٧١) خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہوں گے.کون لوگ؟ وہ مومن مرد اور مومن عورتیں جو بعض بعض کے خیر خواہ ہیں.امر بالمعروف کرنے والے، ہمنکر سے روکنے والے، نمازوں کو قائم کرنے والے، زکوۃ کو دینے والے، غرض کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی پوری اور سچی اور کامل اطاعت کرنے والے.أوليكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ - تو جو شخص باہمی دوستی اور خیر خواہی نہیں رکھتا، امر بالمعروف نہیں کرتا، نہی عن المنکر نہیں کرتا، نماز کو شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا پڑھتا تو ہے لیکن شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا، زکوۃ کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتا.غرضیکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمی کرتا ہے وہ انذار ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ گے اگر ایسا کرو گے.یہ آخر میں میں نے دو آیتیں اس لئے لی تھیں اس کا دوسرا حصہ نبی والا حصہ بھی ایک دوسری آیت میں ہے.دونوں سامنے آجائیں گی تو آپ پر مضمون واضح ہو جائے گا.دوسری آیت میں ہے کہ ایک گروہ ہے جو ایمان کا دعوی کرتا ہے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ خدا تعالیٰ ان کی وہ کوششیں جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے بظاہر نظر آتی ہیں، قبول نہیں کرے گا.ان کے صدقات قبول نہیں کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے عذاب کا سامان پیدا کرے گا اور ہیں وہ انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اور نماز ادا کرنے والے.یہ وہ گروہ ہے جن کے متعلق خدا کہتا ہے کہ ان کی قرب الہی کی کوششیں قبول نہیں ہوں گی.خدا تعالیٰ ان کے لئے عذاب پیدا کرے گا.بظاہر وہ خرچ بھی کرتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں.مومن بھی ہیں اور کفر اللہ بھی کر رہے ہیں اور رسول کا بھی کفر کر رہے ہیں.

Page 109

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۹۹ سورة سبا وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقْتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إلَّا وَهُمْ كَسسَالی (التوبۃ : ۵۴) نماز پڑھتے ہیں مگر ٹھونگے مارتے ہیں یعنی شرائط اس کی قائم نہیں کرتے.ان کے دل میں خدا تعالیٰ کا پیار نہیں.وہ جو عاجزی کی کیفیت دل اور دماغ اور روح میں پیدا ہونی چاہئے وہ نہیں.وہ خدا تعالیٰ کو ہی حاکم اور دیا تونہیں سمجھتے بلکہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور قبروں پر مثلاً سجدہ بھی کر لیتے ہیں جاکے اور پیروں کی پرستش بھی کرتے ہیں.اس قسم کی نماز پڑھنے والے ہیں.وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ.دیتے تو ہیں مگر نفرت کے ساتھ دیتے ہیں.بشاشت کوئی نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا.ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ خرچ کرے اور بشاشت سے خرچ کرے کراہت سے خرچ نہ کرے.ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پڑھے اور نماز کو شرائط کے ساتھ قائم کرے.یہ نہیں کہ کسالی.مثلاً آگئے دوڑ کے ادھر ادھر دیکھ لیا اچھا کسی کی نظر مجھ پر پڑی ہے مجھے پھر نماز پڑھنی پڑے گی تو آ گئے اور ظاہر میں ٹھونگے بھی مار لئے.ایمان کا دعوی بھی ہے اور عملاً کفر باللہ اور کفر بالرسول بھی ہے اور ساتھ یہ دعویٰ بھی ہے یہ ہے ہی منافقوں کے متعلق.ایسے کمزوروں کے متعلق جو نماز بھی پڑھتے ہیں آخر وہ ایمان کا دعویٰ کرنے - والے ہیں نا جو آ جاتے ہیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے اور زکوۃ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں.تو اس کو چاہیے آپ تمہید سمجھ لیں.جو کچھ ابھی تک میں نے بیان کیا.میں جماعت کے یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت ہی متضر عانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کو جو اس نے بشارتیں دی تھیں اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا ہے کہ ساری دنیا میں صحیح اور سچے اسلام کو وہ پھیلا کے اور قائم کر کے اور بنی نوع انسان کے دلوں کو پیار اور محبت کے ساتھ خدائے واحد و یگانہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمتہ للعالمین اور بشیر اور نذیر كافة لِلنَّاسِ ہیں ان کے لئے جیتے.بنی نوع انسان کے دلوں کو جیت کے خدائے واحد و یگانہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے جھنڈے تلے جمع کرے بنی نوع انسان کو.اس لئے آپ کو قائم کیا، اتنی آپ کو بشارتیں دی گئی ہیں اتنی بشارتیں دی گئی ہیں کہ اندازہ نہیں آپ کر سکتے.اگر آپ میں کوئی سمجھدار ہوتو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ میرے جیسے انسان کو اتنی عظیم بشارتیں کیسے مل گئیں ؟ مجبور ہوگا اس نتیجہ پر پہنچنے پر کہ مجھے یہ بشارتیں ملی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل.

Page 110

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة سبا تو جو اس ایمان کے تقاضے ہیں جو اَطِیعُوا اللهَ وَاَطِیعُوا الرَّسُول کا مطالبہ کر رہا ہے وہ ایمان خالی یہ نہیں کہ ہم ایمان لے آئے جو خدا اور رسول کی کامل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے.جو اس ایمان کے تقاضے ہیں اس کو آپ پورا کریں ساری دنیا اکٹھی ہو جائے آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اس لئے کہ آپ کی ساری محنت اور کوشش مزدوری جو ہے وہ اپنے لئے نہیں خدا اور اس کے رسول کے لئے ہے.آپ اپنے لئے مکان نہیں بنا رہے.آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محل تیار کر رہے ہیں اور ایسا قلعہ جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں ساری دنیا آجائے گی.اگر آپ واقع میں ایسا کر رہے ہیں تو جو بشارتیں پہلی بھی اور نبی بھی ہیں وہ آپ کے حق میں پوری ہوں گی اس واسطے کہ اِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ والی کیفیت آپ کی زندگی میں ہے لیکن اگر آپ ایسا نہیں کر رہے تو خالی احمدی بن جانے سے منہ سے اور احمدی کہلانے دوسروں کے مونہوں سے، یہ آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۲۰۱ تا ۲۱۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے عظیم الشان اعلان کئے ہیں.ایک تو یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تمام عالمین کے لئے ، تمام کائنات کے لئے رحمت بنایا گیا ہے اور دوسرے یہ کہا کہ آپ کی رسالت كافة لِلنّاس کے لئے ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةُ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ساری کی ساری نوع انسانی کے لئے آپ رسول ، بشیر اور نذیر ہو کر مبعوث ہوئے ہیں.دو مختلف سورتوں میں یہ آیتیں ہیں اور ہر دو جگہ اس اعلان کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے، کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور یہ کہ آپ کی رسالت كافة للناس کے لئے ہے یہودی اور عیسائی اور بدھ مذہب والے اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اور ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے انسان ،غرضیکہ آپ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک کی ہر نسل آپ کی رسالت کے ماتحت ہے.دونوں جگہ اس اعلان کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے.رَحْمَةً لِلْعَالَمین کے بعد فرمایا کہ میں نہیں کہ سکتا کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہ کب پورا ہوگا.وَ اِنْ اَدْرِی اَقَرِيبٌ اَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ (الانبیاء :۱۱۰) رسول بھی بشر ہوتا ہے اور رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ بھی بشر ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے علم نہ ہو کہ وہ وعدہ جس کا ذکر کیا گیا ہے کب پورا ہوگا اور جب كافة للناس کہا تو وہاں یہ بتایا کہ

Page 111

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث 1+1 سورة سبا ترقیات کی پہلی تین صدیوں کے بعد جب ایک ہزار سال گذر جائے گا تو اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ آ جائے گا یعنی چودھویں صدی سے اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہوگا.پس رَحْمَةً للعلمین اور كَافَة لِلنَّاس میں ایک وعدہ ہے.ویسے صرف نحو کے لحاظ سے وہاں وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اور وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةً لِلنَّاسِ ہے یعنی منصوب ہے لیکن جب ہم اس کو الگ بولیں تو کہیں گے کہ آپ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ہیں اور كَافَةٌ لِلناس کی طرف آپ کی بعثت ہوئی.ان آیات میں یہ وعدہ نہیں کہ آپ مبعوث تو ہوئے ہیں نوع انسانی کی طرف لیکن نوع انسانی کبھی بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی.یہ وعدہ نہیں ہے بلکہ وعدہ یہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو قبول کرے گی اور سارے کے سارے انسان سوائے چند ایک استثناء کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.جب وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ بتایا گیا تو پہلی تین صدیوں کا ذکر چھوڑ دیا گیا کیونکہ پہلی تین صدیاں ترقیات کی صدیاں تھیں ان میں اسلام بڑھتا چلا جارہا تھا اسلام عرب میں کامیاب ہوا پھر عرب سے باہر نکلا پھر افریقہ کے براعظم پر چھا گیا، صرف کامیاب ہی نہیں ہوا بلکہ چھا گیا، پھر وہاں سے نکلا اور ایک طرف سپین کے رستے سے یورپ میں داخل ہوا اور قریباً سارے پین کو اپنی رحمت کے احاطہ میں لے لیا اور دوسری طرف ایک وقت میں ترکی کی طرف سے یورپ کے اندر گیا اور ان کے دل جیتتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ پولینڈ کے دل جیت کر پولینڈ سے پرے جو سمندر ہے اس کے کناروں تک پہنچ گیا اور پھر ماسکو جو آجکل کمیونزم کا دارالخلافہ ہے ابھی ماضی قریب میں ہی تیمور کے زمانے میں یہ اس کی سلطنت کے ایک صوبے کا دارالخلافہ تھا.تیمور کا اطلاعات دینے کا نظام بہت تیز رفتار تھا بادشاہ کو گھوڑوں پر بڑی جلدی ان علاقوں کی خبریں آجاتی تھیں.پھر اسلام چین کی طرف بڑھا تو اس کے اندر گھس گیا.غرض کہ وہ ترقی کرتا چلا جارہا تھا حتی کہ تین صدیوں کے بعد یہ ترقی رک گئی اور تنزل کا دور شروع ہو گیا.ترقی کے زمانہ میں نظر آ رہا تھا کہ معروف دنیا میں معلوم خطہ ہائے ارض میں اسلام بڑھتا چلا جا رہا ہے اور رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ اور كَافَةٌ للناس میں جو بشارت دی گئی تھی اور جو وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہوتا نظر آتا ہے لیکن اس کے بعد تنزل آنا شروع ہو گیا.یہ تنزل بھی اس قسم کا نہیں ہے جو دوسروں پر آتا ہے اسلام پر کبھی ویسا تنزل نہیں آیا

Page 112

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۰۲ سورة سبا لیکن بہر حال وہ ترقی رک گئی اور ایک تنزل آنا شروع ہوا.سپین کی حکومت ختم ہوگئی اور وہ ملک مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلمان جو پولینڈ تک آگے گئے ہوئے تھے وہ علاقے ان کے ہاتھ سے نکل گئے اور اب ترکی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو یورپ کے براعظم کے اندر ہے باقی ملک ادھر ہے اور تاشقند اور دوسرے بڑے بڑے علماء پیدا کرنے والے جو علاقے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے.چین میں بھی حکومت نہیں رہی.پس ایک قسم کا تنزل ہے واللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ اس قسم کا زوال نہیں جیسا کہ دوسری قوموں اور دوسری اُمتوں پر آیا بلکہ اس زمانے میں بھی مسلمان میں روشنی اور جان نظر آتی ہے لیکن حالات کے لحاظ سے ہم اس کو تنزل کا زمانہ کہنے پر مجبور ہیں.دوسری چیز جو ذہن میں آئی تھی پھر رہ گئی وہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام ساری دنیا میں پھیل ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ہمارے ان علاقوں کے انسان کو دنیا کے بہت سے حصے معلوم ہی نہیں تھے مثلاً امریکہ ہے، نیوزی لینڈ ہے، آسٹریلیا ہے، یہ Unknown (غیر معلوم ) علاقے تھے اور انسان کو ان علاقوں کے جغرافیہ کا ہی پتا نہیں تھا وہاں کی آبادیوں کا ہی پتا نہیں تھا.پس اگر اس وقت سارے کے سارے انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور ہم سمجھتے کہ جمع ہو گئے ہیں تب بھی ساری کی ساری نوع انسانی اسلام کے جھنڈے تلے جمع نہ ہوتی کیونکہ ایسے علاقے تھے، انسان سے آباد علاقے جن کا ہمیں علم ہی نہیں تھا اور وہاں اسلام کی تعلیم پہنچ ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان علاقوں اور ان اقوام کو ہم جانتے ہی نہیں تھے.مثلاً فجی آئی لینڈ کی جو پرانی آبادیاں ہیں انہوں نے اس زمانے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا تھا.اب ہمارا وہاں مشن ہے اور اللہ کے فضل سے اس پرانی قوم میں سے بھی (جو کہ قریباً چودھویں صدی میں ہی سامنے آئی ہے ) مسلمان ہونے شروع ہو گئے ہیں.غرض ہر دو جگہ پر یعنی جہاں رَحْمَةٌ لِلعلمین کہا وہاں بھی اور جہاں گافة للناس کہا وہاں بھی ایک وعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک جگہ کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب پورا ہوگا.یہاں قرآن کریم نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فکر کی کیفیت بیان کی ہے اور پھر دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے خود بتایا کہ میں تمہیں بتا تا ہوں کہ چودھویں صدی سے اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہو جائے گا.اب ہم اس زمانہ میں ہیں اور آج کے زمانہ کے مسلمان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اس لئے کہ

Page 113

۱۰۳ سورة سبا تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث جتنی بڑی بشارتیں کسی امت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے رسول کے ذریعہ سے ملتی ہیں اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم الانبیاء اور افضل الرسل ہیں، اتنی ہی بڑی ذمہ داریاں بھی ان پر ڈالی جاتی ہیں اور اتنا ہی یہ احساس بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے نفس میں اور اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور اس کے اندر کوئی زور نہیں اور نہ کوئی طاقت ہے کہ وہ خدائی امداد اور نصرت کے بغیر اپنے زور سے قربانیاں کر کے ان وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے.انسان کو تو یہ کہا گیا ہے کہ جتنی تجھ میں طاقت ہے وہ کر دے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے، اس کی نصرت اور اس کی امداد سے ہوتا ہے.پس اس زمانہ میں یہ وعدہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر عملاً انسان کے سامنے یہ تصویر پیش کرے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمة للعالمین ہیں.اعتقاداً نہیں بلکہ عملاً یہ تصویر پیش کرے گی کیونکہ الا ماشاء اللہ چند ایک استثناؤں کے علاوہ ساری دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور آپ پر ایمان لا کر آپ کے روحانی فیوض سے حصہ لیا.یہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہوگا اور اس دعا کے نتیجہ میں جو اس دل سے نکلی تھی جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ (الشعراء: ۴) اور دنیا کے سامنے عملاً یہ نقشہ آ جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک قوم کسی ایک علاقے کسی ایک ملک یا کسی ایک نسل کے لئے رسول نہیں ہیں بلکہ حافة للناس کی طرف آپ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور یہ عملاً ثابت ہو جائے گا کیونکہ انسانوں کی بھاری اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو جائے گا.گو وہ اس شکل میں بیان نہیں ہوا لیکن وہ اپنے معنی کے لحاظ سے اس میں بیان ہو چکا ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے ان دونوں آیتوں کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے اور پھر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہ وعدہ کب پورا ہوگا اور پھر ایک جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ چودھویں صدی میں اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ آجائے گا.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۳۵۷ تا ۳۶۱) کوئی دنیا کا رسول، کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول آئے ، کوئی بھی ان میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں تھا ہی کچھ نہیں ، کہنا چاہیے.کیونکہ بہت ساری ان کے اندر حدود تھیں.ان کو خدا تعالیٰ نے محدود علم دیا، محدود زمانہ کے لئے مقرر کیا ، خاص قوم کی طرف آئے اور اس کے نتیجہ میں جو اس قوم کی اس زمانہ میں ضرورت تھی اس حد تک ان پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل

Page 114

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۰۴ سورة سبأ ہوئی لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كَافَةٌ لِلنَّاسِ اور بَشِيرًا وَنَذِيرًا (البقرة:۱۲۰) آئے.مومن اور کافر دونوں کے لئے بشارتوں کے سامان بھی دیئے.ایسا کرو گے خدا کا پیار مل جائے گا اور ہر دو، مومن و کافر کے لئے انذار کے سامان بھی پیدا کئے.ان کو کہا ایک دفعہ ایمان تمہیں مل جائے یہ نہ ہو کہ بعد میں بھٹک جائے.اس واسطے بچے رہنا.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۴۵)

Page 115

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۰۵ سورة فاطر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة فاطر آیت ۱۶ تا ۱۸ يَايُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الحَمدُ إِن يَشَايُذْهِبُكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقِ جَدِيدِ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مضامین بیان کئے ہیں وہ ایک دوسرے کی تائید کرتے اور دوسرے مضامین کے لئے دلائل مہیا کرتے چلے جاتے ہیں چنانچہ سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سچ تو یہ ہے اَنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ تم خدا کے فضلوں کے حاجت مند ہو تم اس احتیاج کا احساس پیدا کر لوتم یہ سمجھ لو کہ دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی اُخروی نعمت ہمیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نہ کرے کیونکہ اس دنیا کی ملکیت بھی اس کے قبضہ میں ہے اور اس دنیا کی نعمتیں بھی اس کے ارادہ اور منشاء کے بغیر کسی کومل نہیں سکتیں.تمہیں (جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے) جوتی کا ایک تسمہ بھی اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا منشاء نہ ہو ہر چیز میں ہر وقت اور ہر آن تم محتاج ہو تمہارے اندر اپنے رب کی احتیاج ہے خدا تمہارا محتاج نہیں خدا تعالیٰ تو غنی ہے وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ حقیقی غنا اسی کی ذات میں ہے کوئی اور ہستی ایسی نہیں جس کی طرف ہم حقیقی غنا کو منسوب کر سکیں اور کہ سکیں کہ اس کے اندرغنا پائی جاتی ہے اور وہ غنی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نیک بندہ صفات باری کا مظہر بنتے ہوئے غنا کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق اپنے رب سے پائے پھر وہ ایک معنی میں غنی بھی بن جاتا ہے

Page 116

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث 1+4 سورة فاطر ایک معنی میں وہ ربوبیت بھی کرتا ہے اور رحمانیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے رحیمیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے وہ معاف بھی کرتا ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے جلوے بھی دکھاتا ہے لیکن یہ سب نسبتی اور طفیلی چیزیں ہیں انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی دی ہوئی توفیق سے صفات باری کا مظہر بنتا ہے اگر خدا کا سہارا نہ ہو تو پھر خدا تعالیٰ کی صفات کا کون مظہر بن سکے؟ ہاں جب اللہ تعالیٰ خود اپنا سہارا دیتا ہے اور اپنے فضل سے نوازتا ہے تو انسان اس کی صفات کا ملہ کا محدود دائرہ میں اور طفیلی طور پر مظہر بھی بنتا ہے اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق بنتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا الذین یعنی کامل غنا والی ذات تو اللہ کی ذات ہے اور وہ غنی ہونے کے لحاظ سے تمہارا محتاج نہیں اور العینی کے اندر یہ مفہوم بھی آ گیا ہے (جس کو پہلے فقرہ میں کھول کر بیان کیا گیا تھا) کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی احتیاج ہے تم زندہ نہیں رہ سکتے جب تک حتی خدا تمہاری زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے والا نہ ہو اور اپنی حیات کاملہ سے تمہیں ایک عارضی زندگی نہ عطا کرے تمہاری استعداد میں اور قو تیں قائم نہیں رہ سکتیں جب تک کہ خدائے قیوم کا تمہیں سہارا نہ ملے.سب تعریفوں کی مالک اس کی ذات ہے اس لئے وہ تمہاری احتیاجوں کو پورا کرتا ہے اور تمہارے دل سے یہ آواز نکلتی ہے کہ الحمدُ للهِ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ تم اس کے محتاج ہو اور وہ تمہارا محتاج نہیں اس لئے تم اپنی فکر کروان يَشَايُذهِبكُمُ اگر وہ چاہے تو روحانی حیات سے تمہیں محروم کر دے وَيَأْتِ بِخَلْقِ جَدِيدِ اور ایک اور ایسی قوم پیدا کر دے جو اپنے کو اس کے لئے فنا کر دے اور اس میں ہو کر ایک نئی زندگی پائے.خلق جدید کا ایک نظارہ دنیا دیکھے گی پھر وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے فَنَا فِي الرَّسُولِ اور فَنَا فِی اللہ کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی پائی اور ان کی خلق جدید ہوئی یہودیوں کے برعکس ان کا یہ حال تھا کہ ایک موقعہ پر ایک جنگ کی تیاری کے لئے بہت سے اموال کی ضرورت تھی اور ان دنوں کچھ مالی تنگی بھی تھی اور دنیا ایسی ہی ہے کبھی فراخی کے دن ہوتے ہیں اور کبھی تنگی کے دن ہوتے ہیں اس موقع پر بھی تنگی کے ایام تھے اور جنگی ضرورت تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے ضرورت حقہ کو رکھا اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی انہیں تلقین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر

Page 117

1+2 سورة فاطر تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث آگئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آگئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کر لی جائے کہ میں دس ہزار صحابہ کا پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے علاوہ آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دیئے اسی طرح تمام مخلص صحابہ نے اپنی اپنی توفیق اور استعداد کے مطابق مالی قربانیاں پیش کیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بہترین نتائج نکالے.ایک موقع پر ایک نو مسلم قبیلہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گیا اور ان کو آباد کرنے کا سوال تھا وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ہوں گے کیونکہ ان دنوں وہاں بھی مخالفت بہت زیادہ تھی جیسا کہ کبھی کبھی ہر زمانہ میں اسلام کے خلاف ہر ملک میں مخالفت پیدا ہوتی رہتی ہے اور مومن ان مخالفتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے کیونکہ ان کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے دنیوی سامانوں پر نہیں ہوتا بہر حال ایک قبیلہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آیا تو ان کے آباد کرنے کے لئے مال کی ضرورت تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مالی قربانیاں پیش کرنے کی تلقین کی آپ کی اس اپیل کے نتیجہ میں ہر شخص نے یہ سوچا کہ میرے پاس جو چیز زائد اور فاضل ہے وہ میں لاکر پیش کر دوں لیکن فاضل کے معنی انہوں نے وہی کئے تھے جو ایک مومن کیا کرتا ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارے پاس دو درجن کوٹ ہونے چاہئیں اور پچاس قمیصیں ہونی چاہئیں اور ایک دو پھٹی پرانی قمیصیں جو بریکار پڑی ہیں اور استعمال میں نہیں آتیں وہ لا کر دے دی جائیں بلکہ ان میں سے اگر کسی کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے تھے تو اس نے کہا میں ایک جوڑے میں گزارہ کر سکتا ہوں دوسرا جوڑ از ائد ہے چنانچہ اس نے وہ جوڑا پیش کر دیا.ایک صحابی کے پاس کچھ سونا تھا انہوں نے یہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا یہ عمدہ موقع ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت ہمارے سامنے رکھی ہے اور ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کریں چنانچہ وہ اشرفیوں کا ایک تو ڑا ( جو وہ اچھی طرح اٹھا بھی نہیں سکتے تھے ) لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور اس طرح غلہ کپڑوں اور روپے کے ڈھیر لگ گئے اور خدا تعالیٰ نے مومنوں کے اس ایثار کے نتیجہ میں ایک پورے قبیلہ کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے سامان کر دیئے.ان دو واقعات کے بیان کرنے سے اس وقت میری یہ غرض نہیں کہ میں یہ بتاؤں کہ صحابہ کرام کس قسم کی قربانیاں کیا کرتے تھے بلکہ میری غرض یہ بتانا ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جس روح کا

Page 118

I+A سورة فاطر تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث صحابہ کرام نے مظاہرہ کیا تھا وہ کیا تھی؟ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جو روح تھی وہ یہ تھی کہ نَحْنُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور اللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ اللہ کوکسی کی احتیاج نہیں تمام تعریفوں کا وہ مالک ہے ہمیں اپنی دنیوی اور اُخروی ضرورتوں کے لئے یہ قربانیاں دینی چاہئیں اور دنیوی اور اُخروی انعاموں کے حصول کے لئے ان قربانیوں کا پیش کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.دو ان مثالوں سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کے اندر جو روح تھی وہ یہ تھی کہ وه الْفُقَرَاءُ إِلَی اللہ ہیں منافق ہر جگہ ہوتے ہیں اس وقت میں ان کی بات نہیں کر رہا ان میں سے جو مخلص اور ایثار پیشہ تھے اور بھاری اکثریت انہی لوگوں کی تھی ان کی زبان پر یہودیوں کی طرح یہ نہیں آتا تھا کہ اِنَّ اللهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِی بلکہ ان کی زبان پر یہ تھا، ان کے دل میں یہ احساس تھا اور ان کی روح میں یہ تڑپ تھی کہ وہ الْفُقَرَاء إِلَی اللہ ہیں نہ ان کی کوئی مادی ضرورت پوری ہو سکتی ہے اور نہ روحانی جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرورت کو پورا نہ کرے غرض جس سے ہم نے ہر شے کو حاصل کرنا ہے اس کی رضا کے حصول کے لئے پانچ روپیہ یا پانچ لاکھ روپیہ قربان نہیں کیا جا سکتا؟ میں نے صحابہ کی ایک مثال دی ہے کہ جس کے پاس دو جوڑے کپڑے تھے اس نے ایک جوڑا کپڑے پیش کر دیئے تفصیل تو نہیں ملتی لیکن یہ امکان ہے کہ ان میں سے کسی کو اس قربانی کی توفیق ملی ہو اور اس کے بعد وہ مثلاً فوت ہو گیا ہو اور مزید قربانی کا اسے موقع نہ ملا ہوا سے تو اس قربانی کے نتیجہ میں اُخروی انعامات مل گئے لیکن اس کی اولاد کو اس ایک جوڑے کپڑوں کے نتیجہ میں اتنے اموال دیئے گئے کہ اگر وہ چاہتے تو اس قسم کے ایک ہزار جوڑے بنا لیتے.پس ہم خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں.ہم فقیر ہیں.خدا تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں.آیت ۳۱،۳۰ اِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللهِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا خطبات ناصر جلد ۲ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۳) وریوو و - رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ لى لِيُوَفِّيَهُم أجُورَهُـ يَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ.وَ قرآن کریم نے ہمیں مخفی اور ظاہری صدقات کے متعلق حکماً فرمایا ہے.ظاہری اس لئے کہ ایک تو

Page 119

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث 1+9 سورة فاطر اس سے لوگوں کو ترغیب ہوتی ہے اور دوسرے منافقوں کا بھانڈا پھوٹتا ہے اور مخفی اس لئے کہ انسان کا جو حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے، وہ پسند نہیں کرتا کہ دوسروں پر وہ ظاہر ہو.دُنیا کی تجارتیں کبھی فائدہ بھی دیتی ہیں اور کبھی نقصان بھی پہنچاتی ہیں.ہم نے بڑے بڑے سیٹھ دیوالیہ ہوتے دیکھے ہیں اور غریب مزدور لکھ پتی بنتے پائے ہیں لیکن ایک تجارت ایسی ہے جس میں گھاٹے کا امکان ہی نہیں.ہلاکت کی ہوائیں اس پر نہیں چلتیں اور یہ وہ تجارت ہے جو انسان اپنے اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے.جیسا کہ اس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے، بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ غور اور تدبر سے اور خلوص نیت سے اس کامل اور مکمل کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ، دو بنیادی صفات ان میں پیدا ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ اس حقیقت پر کھڑے ہوتے ہیں کہ دُعا کے بغیر انسان کی زندگی نہیں اور اِقامَةُ الصَّلوۃ نتیجہ ہے اس کتاب پرغور کرنے کا اور اس کے مطابق عملی زندگی گزارنے کی نیت اور عزم کرنے کا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اس کی راہ میں ہر اُس چیز میں سے جو اسی کی عطا ہے، اُس کے حضور پیش کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے بشارت یہ دی کہ میری ہی چیز میری طرف لوٹاؤ گے میں اسے تجارت سمجھوں گا جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو اور جو میرے ساتھ تجارت کرتا ہے وہ گھاٹے میں نہیں رہ سکتا.اس لئے اپنے راز کو راز رکھنے کے لئے میری عطا کا ایک حصہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر میری راہ میں خرچ کرو اور اپنے بھائیوں کو توجہ دلانے اور ترغیب دینے کے لئے اور دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ خدا تعالیٰ سے تجارت کرنے والا شخص گھاٹے میں نہیں رہتا میری عطا کا کچھ حصہ ظاہری طور پر میری راہ میں خرچ کرو.اس حکم پر عمل کرتا تھا پہلے زمانے کا مسلمان، اور اس پر عمل کرنا چاہیئے.آج کے مسلمان کو بھی.امیر لوگ بہت خرچ کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو کافی مال اور دولت دی تھی وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال قربان کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور جو غریب آدمی تھا، جو چوٹی دے سکتا تھا، جو دونی دے سکتا تھا ، جو پیسہ دے سکتا تھا، وہ ظاہراً پیسہ دے دیتا تھا اور اس میں اُسے کوئی حجاب اور شرم نہیں ہوتی تھی.اس کو جو فائدہ تھا وہ تو تھا لیکن منافق امیر پر طنز کرتا تھا اور غریب پر تمسخر کرتا تھا.امیر کو کہتا تھا تم دکھاوے کے لئے یہ اموال دے رہے ہو اور غریب کو کہتا تھا تمہارے دھیلے سے خدا تعالیٰ

Page 120

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 11 + سورة فاطر کو کیا فائدہ پہنچے گا جہاں تک فائدے کا سوال ہے، نہ امیر کی دولت سے خدا تعالیٰ کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ غریب کے پیسہ سے فائدہ پہنچتا ہے.وہ تو خود مالک ہے تمام دولتوں اور سب اموال کا لیکن جو آدمی خلوص نیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں بہت دیتا ہے اور یہ سمجھ کر دیتا ہے کہ منافق مجھ پر اعتراض کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اس کا بدلہ دیتا ہے اور جو آدمی ایک دھیلہ لے آتا ہے یا چوٹی دے دیتا ہے، اسے بھی وہ پیارا احسن جزاء دے دیتا ہے.( خدا کے مسیح نے ایسے لوگوں کا اپنی کتابوں میں ذکر کر کے کہ فلاں شخص نے خدا تعالیٰ کی راہ میں چوٹی دی، فلاں نے اٹھنی دی، ان کے لئے قیامت تک کے لئے دعاؤں کے سامان پیدا کر دیئے ) - پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے فائدے کا سوال ہے نہ امیر کی دولت اور نہ غریب کا دھیلہ اُسے کوئی فائدہ پہنچاتا ہے کیونکہ وہی اصل مالک ہے اور سارے خزانے اُسی کے ہیں اور اسی کے حکم اور اُسی کی مرضی اور اسی کے حکم سے انسان کو بہت ملتا ہے یا تھوڑا ، یہ تو اپنے اخلاص کی بات ہے.جس کو اس نے بہت دیا اس کا دل یہی کہتا تھا کہ وہ خاموشی کے ساتھ اور کسی کو پتہ لگے بغیر اس کی راہ میں خرچ کرتا تو اچھا تھا مگر قرآن نے اسے کہا کہ علانیہ یعنی ظاہری طور پر خرچ کرو.منافق اعتراض کرے گا اور اس کی منافقت کا بھانڈا پھوٹے گا.شیطان تمہارے اوپر وار کرے گا.وہ تمہارے اندر کبر اور ریاء پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.ایک اور میدان میں تمہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں شیطان کے ساتھ جنگ کرنی پڑے گی.خلوص نیت ہے تو شیطان کامیاب نہیں ہوگا اور تمہارے لئے برکتوں کا سامان پیدا ہو جائے گا.غریب سے کہا کہ دھیلہ یا چوٹی دیتے ہوئے نہ گھبراؤ.خدا کے خزانے جو ہیں اُن کے مقابلے میں چونی اور چار ارب روپیہ برابر ہے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دنیا پر یہ ظاہر کرو کہ جہاں دُنیا دار غریب فساد کا موجب بنتا ہے وہاں مسلمان غریب دُنیا میں نیکی کے قائم کرنے کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے اگر اس کے پاس چوٹی ہے تو اسے فساد کے دُور کرنے پر خرچ کر دیتا ہے اگر اس کے پاس ایک پیسہ ہے نیکیوں پر خرچ کرنے کے لئے تو وہی خرچ کر دیتا ہے.نہ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھ پر جنسی ہوگی اور نہ اُسے یہ خوف ہے کہ میں ایک پیسہ دے رہا ہوں میرے پیسے کا کیا نتیجہ نکلے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو میرے ساتھ تجارت کر رہا ہے یہ نہ دیکھ کہ تو نے ایک دھیلہ یا چوٹی دی ہے بلکہ یہ دیکھ کہ میں تجھے اس

Page 121

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة فاطر کے مقابلے میں کیا دیتا ہوں.پس جس طرح ستر آخرچ کرنا ضروری ہے اسی طرح علانیہ خرچ کرنا بھی ضروری ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یہ مومن کی نشانی بتائی گئی ہے.(خطبات ناصر جلد ۳ صفحه ۴۸۵ تا ۴۸۸) اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مومن خدا کی راہ میں اپنے اموال خرچ کر کے گو یا اللہ تعالیٰ سے ایسی تجارت کرتے ہیں جن میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت زیادہ نفع بھی دیتا ہے.چنانچہ جماعت نے جو رقم دی وہ بھی گو اللہ تعالیٰ سے تجارت کے مترادف ہے لیکن جب وہ رقم ہمارے پاس آئی تو میں نے سوچا کہ اس رقم سے بندوں سے تجارت کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے تجارت کی جائے.یعنی انفرادی حیثیت میں بھی وہ ایک تجارت ہے.قرآن کریم نے بھی اس کا نام تجارت رکھا ہے اور یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں پیسے کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے.نفع کی بعض شکلیں ہیں جن کے ضائع ہونے کا تو کوئی خطرہ نہیں لیکن جن کے جائز ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے لیکن جو تجارت ہے اس میں دونوں چیز میں ساتھ لگی ہوئی ہیں.اس میں نفع بھی ملتا ہے اور بعض دفعہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.پیسے بھی ضائع ہو جاتے ہیں یعنی سرمایہ بھی جاتا رہتا ہے لیکن روحانی دنیا میں انسان اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی تجارت کرتا ہے جس میں لَن تبور کی رو سے گھاٹا نہیں پڑتا ، جس میں پیسے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اس کے علاوہ جو عام نفع ہے وہ بھی ملتا ہے.پس فرمایا لو فيهم أجُورَهُمْ یعنی معمول کے مطابق جو نفع ہوتا ہے وہ بھی تمہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا لیکن وہ اسی پر بس نہیں کرے گا.دنیا میں ڈیویڈنڈ (Dividend) دینے والی جو کمپنیاں ہیں وہ کوئی پانچ فیصدی کوئی آٹھ فیصدی کوئی دس فیصدی کوئی بارہ فیصدی یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصدی نفع دینے کا اعلان کرتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی میں دوں گا اس کے علاوہ جو بندوں کا معمول نہیں اور جو نفع دینے کا میرا معمول ہے وہ بھی میں دوں گا.اگر تمہارا اخلاص غیر معمولی اخلاص ہو گا تو میری طرف سے تمہارے اموال میں غیر معمولی زیادتی بھی ہوگی.میں تمہیں بہت زیادہ مال دوں گا.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۶۳ ވ

Page 122

Page 123

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۱۳ سورة يس بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ليس آیت ۴۸ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ انْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَةَ إِنْ اَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَللٍ مُّبِينٍ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ان کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرو تو کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں.اگر خدا چاہتا تو جیسا اس نے ہمیں دیا تھا انہیں بھی وہ کھانے کو دے دیتا تم تو خدائی فعل کے خلاف ہمیں تعلیم دے رہے ہو اور اس وجہ سے ہم تمہیں کھلی گمراہی میں پاتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے بعض انسانوں کے لئے بعض نیکیوں کے مواقع بہم پہنچانے ہوتے ہیں.اس لئے اس نے انسانی معاشرہ کو اس طرح بنایا ہے کہ ہر ایک شخص نیکیوں سے حصہ وافر لے سکے.انہوں نے اس سے الٹا نتیجہ نکالا حالانکہ بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کے کرنے کا موقع زیادہ تر غرباء کو ہی ملتا ہے.مثلاً اپنے حالات پر صبر کرنا، قناعت سے کام لینا وغیرہ وغیرہ.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے رزق کثیر دیا ہوتا ہے اور انہیں مالی تنگی کا سامنا نہیں ہوتا وہ اس قسم کے صبر کا ثواب حاصل نہیں کر سکتے جو صبر ایک غریب آدمی تنگی ترشی کے زمانہ میں دکھاتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے معاشرہ میں اونچے نیچے، امیر غریب، عالم، جاہل وغیرہ وغیرہ ہر قسم کے طبقات بنادیئے ہیں تا کہ ہم اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے ہر قسم کی نیکیاں کرتے چلے جائیں.اگر ہر

Page 124

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۱۴ سورة يس شخص اتنا امیر ہوتا کہ اس کو دنیا کی کوئی ضرورت پیش ہی نہ آتی.اگر ہر شخص اتنا عالم ہوتا کہ کسی استاد کے پاس جانے کی اسے ضرورت ہی نہ رہتی.اور اگر ہر شخص ہرفن میں اتنا کمال رکھتا کہ ڈسٹری بیوشن آف لیبر جس پر ہماری انسانی اقتصادیات کی بنیاد ہے کی ضرورت ہی پیدا نہ ہوتی.وغیرہ.تو ثواب کا کون سا موقع باقی رہ جاتا؟؟؟ اللہ تعالیٰ بے شک اس بات پر قادر ہے کہ ہر انسان کو ایسا بنا دے لیکن اس نے اسے ایسا نہیں بنایا.اس لئے کہ اس نے انسان کے لئے صرف اسی دنیا کی زندگی ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی بھی مقدر کی ہوئی ہے اور اُخروی زندگی کے پیش نظر ایسا معاشرہ انسان کے لئے مقررفرمایا کہ ہر طبقہ کے لوگ اس معاشرہ کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرتے چلے جائیں اور اس طرح اس کی خوشنودی کو پوری طرح پاسکیں لیکن کا فرلوگ ان باتوں کو نہیں سمجھتے اس لئے جب ان کو کہا جاتا ہے کہ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرو اور محتاجوں کے لئے روز مرہ زندگی کی ضروریات مہیا کرو تو وہ کہتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے انہیں کھانے کو نہیں دیا تو تم ہم سے کیسے توقع رکھتے ہو کہ ہم خدائی فعل کے خلاف ان کو کھانے کے لئے دیں.ان کا کافرانہ دماغ عجیب بہانہ تراشتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۹،۴۸)

Page 125

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۱۵ سورة القت بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطقت آیت انا زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِزِينَةِ إِلكَوَاكِبِ اور جو یہ کائنات ہے اس کے متعلق خدا نے کہا سات آسمان اور ایک زمین پر مشتمل جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ ایک زمین باقی تو گرہ گرہ اپنا جانے.سات آسمان ہوئے نا.قرآن کہتا ہے کہ : إنا زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةِ الكواكب کہ ان سات آسمانوں میں سے پہلا آسمان وہ ہے کہ سارے ستارے اس کے اندر ہیں دوسرا جو آسمان ہے وہاں ستارہ نہیں کوئی سمجھے ستاروں کی جو خو بصورتی آپ کو نظر نہیں آتی.بارش ہوئی ہوئی ہو اور مطلع صاف ہو بالکل آسمان میں فضا میں گرد وغبار نہ ہو اور دس ستاروں کی جگہ کروڑوں ستارے آنکھ ہماری دیکھ رہی ہو بالکل اور اس کی تصویریں بن رہی ہوں اور ایک پیٹرن ہو خدا تعالیٰ کی عظمت اور شان ہمارے تصور میں.جہاں تک ہماری نظر پہنچی وہ تو بڑا چھوٹا حصہ ہے نا.جہاں تک سائنسدانوں کی فلکیات سے تعلق رکھنے والوں کی تحقیق پہنچی وہ یہ ہے کہ یہ جو سماء الدنیا ہے پہلا آسمان اس میں ایک تو قبیلے ہیں ستاروں کے اُس کو یہ کہتے ہیں گلیکسی (Galaxy) اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے آسمان میں ستارے ہیں تو ستاروں کے سارے قبائل پہلے آسمان میں ہیں اور قبیلے کا نام ہے ھیلسی (Galaxy) اور سائنسدان کہتا ہے کہ گلیکسی کے اعداد و شمار نہیں غیر محدود ہیں اُن کے علم کے لحاظ سے غیر محدود اور ہر قبیلے میں اتنے سورج ہیں کہ وہ بھی حد و شمار سے باہر سمجھتے اور یہ سارا پہلا آسمان ہے.ہماری جو عملی سائنس ہے جہاں ٹیسٹ ہوتے ہیں یا ہماری دُور بینیں دیکھتی ہیں اُن کا تعلق تو پہلے

Page 126

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 117 سورة الصفت آسمان سے پنجابی کا ایک محاورہ ہے پھورنا.وہ پھور یا بھی نہیں پوری طرح زمین لیکن خدا نے مجھے کہا آپ کو بھی کہا ہر شخص کو کہا مخاطب کر کے کہ تم تھوڑا سا علم پہلے آسمان کا حاصل کر کے میرے خلاف کھڑے ہو جاتے ابا اور استکبار کرتے ہو.اعلان کر دیتے ہو کہ ہم زمین سے خدا کا نام اور آسمانوں سے اُس کے وجود کو مٹا دیں گے.تم تو اس کی انتہا بھی نہیں جانتے اور یہ تو پہلا آسمان ہے جو دوسرا ، تیسرا، چوتھا، پانچواں ، چھٹا اور ساتواں آسمان ہے اُس کے جو روحانی پہلو ہیں اُن کے متعلق قرآن کریم میں ، احادیث میں کچھ ذکر آتا ہے.جو اُس کے مادی پہلو ہیں.اثرات.کیا اثر ان کے ہورہے ہیں وہ ابھی محض تھیوری ہے خدا کرے ہمیں پانچ دس ایسے سائنس دان بھی مل جائیں جو ڈاکٹر سلام صاحب کی طرح اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر دوسرے تیسرے آسمان کے متعلق تھیوریز بنایا کریں.فارمولے.جو آج سے پچاس سال بعد یا سو سال بعد یا ڈیڑھ سو سال کے بعد انسان کی عملی تحقیق جب وہاں پہنچتے تو حیران ہو کہ ڈیڑھ سو سال پہلے ایک احمدی کے دماغ کو خدا تعالیٰ نے وہاں تک پہنچا دیا تھا اور آج ہم وہاں پہنچتے رہے ہیں.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۰۸، ۴۰۹ آیت ۳۷،۳۶ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُم لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَسْتَكْبِرُونَ وَيَقُولُونَ آبِنَا لَتَارِكُوا الهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی تمام راہیں تکبر کے چوراہے سے پھٹتی ہیں اور اس شجرہ خبیثہ کی جڑیں استکبار کے فوق الارض میں معلق ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ وَ يَقُولُونَ أَبِنَّا لَتَارِكُوا الهَتِنَا لِشَاعِرِ مجنون یعنی جب کبھی ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں صرف وہی پرستش کے لائق ہے انسان کو صرف اسی کے سامنے عاجزی اور انکسار کے ساتھ جھکنا چاہیے.وہی تمام فیوض کا منبع ہے صرف اسی سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہی تمام زندگی اور حیات اور زندگی کے تمام لوازمات کا سر چشمہ ہے کسی قسم کی کوئی زندگی اور حیات اس کے سوا کسی اور جگہ سے حاصل نہیں کی جاسکتی يَسْتَكْبِرُونَ تو آگے سے وہ اپنے کو صاحب عظمت اور صاحب جبروت قرار دیتے ہوئے کہتے

Page 127

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۱۷ سورة الصفت ہیں.ہم میں بڑی عظمت پائی جاتی ہے، ہم بڑے لوگ ہیں، ہم صاحب جبروت ہیں، ہمیں خدائے واحد کی ضرورت نہیں کیونکہ جو الہ ہم نے بنائے ہیں وہ ہمارے ہیں اور ہمارے بنائے ہوئے الھوں کے مقابلہ میں جس اللہ کو پیش کیا جاتا ہے چونکہ وہ الهَتِنا میں شامل نہیں وہ ہمارا بنایا ہوا رب نہیں ہے اس لئے ہم اس کی توحید کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں پھر ہم اسے قبول کریں بھی تو ایک شاعر اور مجنون کے کہنے پر جو جھوٹی بات کو خوبصورت پیرایہ اور احسن رنگ میں پیش کر رہا ہے اور اسے کوئی سحر ہو گیا ہے کوئی جن چمٹا ہوا ہے یہ بڑا حقیر انسان ہے جو باتیں کر رہا ہے گو وہ بظاہر دلوں کو موہ لینے والی ہیں لیکن ایسے حقیر انسان کے منہ سے ایسی باتیں نہیں نکل سکتیں اس لئے معلوم ہوا کہ کوئی جن اس کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور اسے اس قسم کی شاعرانہ باتیں سکھا رہا ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے شرک کی حقیقی اور اصلی وجہ کی نشاندہی کی ہے اور فرمایا کہ وہ تو حید کو اس لئے ٹھکراتے ہیں کہ وہ کتارِكُوا الهَيْنا کے لئے تیار نہیں ہوئے.وہ کہتے ہیں کہ اپنے علم پر ہم اس لئے بھروسہ رکھتے ہیں کہ یہ علم ہمارا ہے ہم دنیوی جاہ و جلال پر اس لئے اتنا بھروسہ رکھتے ہیں ( جتنا کہ ہمیں خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے ) کہ یہ جاہ وجلال اور یہ عظمتیں ہماری ہیں اور ہماری طرف منسوب ہونے والی ہیں یہ مادی اسباب اور مال و دولت جس کے بل بوتے پر ہم دنیا میں اپنی خدائی قائم کرنا چاہتے ہیں.یہ کسی غیر کے نہیں بلکہ ہمارے ہیں.ہم الهتنا یعنی اپنے خداؤں کو چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ ابا اور استکبار کے نتیجہ میں شرک جلی بھی پیدا ہوتا ہے اور شرک خفی بھی پیدا ہوتا ہے.بعض لوگ تو کھلم کھلا خدائے واحد کو خدائے واحد قرار نہیں دیتے اور نہ اسے تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ سورج یا چاند یا بعض درختوں ( ہندو لوگ بڑ کے درخت کی پوجا کرتے ہیں ) یا بعض جانداروں (جیسے سانپ) کی پرستش کرتے ہیں یا اپنی دنیوی عزت، وقار اور جاہ و جلال یا اس علم کو جو انہوں نے اپنی قوتوں کے نتیجہ میں حاصل کیا ہوتا ہے سب کچھ سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ سب کچھ حقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ اس چیز کو سجھتے نہیں.وہ اپنے

Page 128

تغییر حضرت خلیفہ اسح الثالث ۱۱۸ سورة الطقت علم کی وجہ سے خدائے واحد و یگانہ سے منہ پھیرتے ہیں جیسے مثلاً کمیونسٹ ہیں، کمیونسٹ ممالک نے علوم اور ایجادات میں بہت ترقی کی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ، انہوں نے اپنے ہی خالق و مالک کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے وہ اس کرہ ارض سے خدا تعالیٰ کے نام کو مٹا دیں گے.وہ اس کی طاقت تو نہیں رکھتے لیکن تکبر کی وجہ سے اس دعویٰ کا اعلان ضرور کرتے ہیں یا مثلاً عیسائی اقوام کو الہی منشا کے مطابق اور اسی کے علم سے دنیا میں ایک برتری حاصل ہوئی اور علم کے میدان میں بھی اور دنیا کی ایجادات کے میدان میں بھی انہوں نے بہت ترقی کی.اس ترقی کے بعد بجائے اس کے کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کی طرف جھکتے اور حمد کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے.انہوں نے اس کے مقابلہ پر اپنا تمام زور، اپنی تمام طاقت اور اپنے تمام اموال ، یسوع مسیح کی خدائی کو ثابت کرنے میں لگا دیئے.غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تکبر اس قسم کا گھناؤنا گناہ ہے ایسی بدی ہے کہ شرک کے راستے اس کے چوراہے سے پھٹتے ہیں اور انسان نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی اور کو شریک قرار دیا تو تکبر ہی اس کی وجہ بنی تھی اور انہوں نے ان چیزوں کو جو ان کی طرف منسوب ہوتی تھیں.اس پاک وجود کے مقابلہ میں جو ہر مخلوق کی طرف منسوب ہو جاتا ہے اور ہر مخلوق اس کی طرف منسوب ہونے والی ہے زیادہ عظمت دے دی.پس تکبر ایسا گناہ کبیرہ اور ایسی بدی ہے جس کے مقابلہ میں کسی اور گناہ اور بدی کو بڑا قرار نہیں دیا جا سکتا.اور شرک کی بدی تکبر سے ہی پھوٹتی ہے.دوسری چیز جو تکبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ الہی اور آسمانی تعلیم سے محرومی ہے اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے:.افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهُوَى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكَبَرْتُه ( البقرة : ۸۸) یعنی جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول اس تعلیم کو لے کر آیا جسے تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم نے تکبر کا مظاہرہ کیا یعنی اپنی بد عادات، گندی روایات، بد رسوم اور جھوٹے اعتقادات کو اپنے تکبر کی وجہ سے آسانی تعلیم سے بہتر سمجھا اور آسمانی تعلیم کو اپنے تکبر کی وجہ سے تم نے ٹھکرا دیا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں میں تکبر پایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو صاحب عظمت، صاحب رفعت اور

Page 129

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 119 سورة الصفت صاحب طاقت و دولت سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اپنے جیسا نہیں سمجھتے ، پھر اس تکبر کے نتیجہ میں ہر وہ رسم ہر وہ عادت ہر وہ خیال اور ہر وہ اعتقاد جو وہ بچپن سے سنتے آئے ہیں قبول کر لیتے ہیں اور جب ان گندی چیزوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے اور صحیح عقائد ان کے سامنے رکھنے کے لئے اپنے رسول کو بھجواتا ہے اور وہ اس کی لائی ہوئی آسمانی ہدایت کو سنتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور کہیں کہ ہمارے رب نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے لئے ہمارے کسی عمل کے بغیر اور ہمارے کسی استحقاق کے بغیر آسمان سے ہدایت کو نازل کیا تا کہ ہم اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کو پاسکیں انہوں نے وَاتَّبَعَ هَوله (الاعراف : ۱۷۷) کے ماتحت اپنی ہی پسند ، اپنی ہی خواہش اور اپنی ہی عادتوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت، اس کی تعلیم اور آسمانی نور کے مقابلہ میں افضل ، اعلیٰ اور ارفع سمجھا اور اس طرح وہ الہی ہدایت اور آسمانی نور کے قبول کرنے سے محروم ہو گئے.سو یہ بھی ایک نہایت ہی بھیانک، بڑا اور مہلک نتیجہ ہے جو تکبر کی وجہ سے نکلتا ہے.اس کے علاوہ یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو کافر ہوئے جو منکر ہوئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے رسول کو نہیں مانا یہ لوگ تو خدا تعالیٰ کی ہدایت اور نور سے محروم تھے ہی لیکن جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اپنے تکبر کی وجہ سے الہی ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کا نفس مثلاً پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص ان کے پاس آئے اور ان کو یہ بتائے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری پائی جاتی ہے تم اسے دور کر و.وہ کہتے ہیں ہماری بے عزتی ہوگئی یا مثلاً کوئی شخص کسی بڑے مالدار کو یہ کہے کہ دیکھو تم غریبوں پر رحم کیا کرو تو وہ سمجھتا ہے کہ اس شخص نے میری بے عزتی کی ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو اسلامی حکم سے بالا سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو ان فیوض سے محروم کر لیتا ہے جن فیوض کو وہ اسلامی تعلیم کے ذریعہ حاصل کر سکتا ہے.تیسری چیز جس کا ذکر قرآن کریم نے اس ضمن میں کیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے جو نشانات اور آیات اتارتا ہے ایک متکبر انسان ان کو قبول کرنے کی بجائے ، ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اور ان کے نتیجہ میں اپنے رب کا عرفان حاصل کرنے کی بجائے ، ان کی تکذیب شروع کر دیتا ہے.

Page 130

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۲۰ سورة الصمت ج اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَبِكَ اَصْحُبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (الاعراف: ۳۷) یعنی وہ لوگ جو ہماری آیات کا انکار کرتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے ان سے اعراض کرتے ہیں وہ دوزخی ہیں.وہ دوزخ میں ایک لمبے عرصے تک پڑے رہیں گے.یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اس طرف پھیری ہے کہ ہم اپنی رحمت بے پایاں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کی خاطر اور تمہارے لئے اپنے قرب اور رضا کی راہیں کھولنے کے لئے آسمانی آیات، نشانات اور معجزات اُتارتے ہیں اور اتارتے رہیں گے.لیکن تم بھی عجیب ہو کہ جب ہم تم پر اپنے قرب کی راہ کھولنا چاہتے ہیں اور آسمان سے نشانات کو اُتارتے ہیں تو تم اپنے غرور خود پسندی، ابا اور تکبر کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان راہوں کو اپنے پر مسدود کر لیتے ہو.غرض یہاں اللہ تعالیٰ نے استکبار کا ایک نہایت ہی بد نتیجہ یہ بتایا ہے کہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کے نشانات سے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا یا وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسمان سے ان نشانات کو نازل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ میرے غضب کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور انہیں ایسا دردناک عذاب پہنچے گا کہ وہ سمجھیں گے کہ یہ عذاب تو ختم ہونے والا نہیں ابد الآباد تک کا ہے.پھر اسی سورۃ (سورۃ اعراف) میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَأَصْرِفُ عَنْ التِي الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۖ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ (الاعراف: ۱۴۷) یعنی میں جلد ہی ان لوگوں کو جنہوں نے بغیر کسی حق کے دنیا میں تکبر کیا ہے اپنے نشانوں کی شناخت سے محروم کر کے اور اپنے نشانوں سے جو فائدہ انہیں پہنچ سکتا ہے اس فائدہ سے محروم کر کے انہیں اپنے سے دور کر دوں گا اور اگر وہ ہر ممکن نشان بھی دیکھ لیں تو وہ ان آیات پر ایمان نہیں لائیں گے.اگر وہ سیدھا راستہ دیکھ بھی لیں تو اسے کبھی اپنا ئیں گے نہیں اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے وہ اپنا لیں گے یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کی (بوجہ تکبر کے ) تکذیب کی اور وہ ان سے

Page 131

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث غفلت برت رہے ہیں.۱۲۱ سورة الصمت اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ تکبر کے نتیجہ میں جو لوگ میری آیات کو جھٹلاتے ہیں، میں دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دیتا ہوں.تکبر ہمیشہ بغیر حق کے ہوتا ہے سوائے بعض شاذ اور استثنائی مظاہروں کے جو گو تکبر نہیں ہوتے لیکن تکبر سے ملتے جلتے ہیں.جیسا کہ جب مسلمان پہلی بارحج کے لئے مکہ گئے تو اس وقت باوجود جسمانی کمزوری کے وہ طواف کے دوران بڑے اکٹڑ اکڑ کر چلتے تھے تا مکہ والے یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان مدینہ جا کر کمزور ہو گئے ہیں.ان کی صحتیں خراب ہوگئی ہیں اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل سے جو صحت اور جسمانی مضبوطی کی صورت میں ان پر تھا محروم ہو گئے ہیں اگر صحابہ کے اس مظاہرہ کو تکبر کا نام دیا جائے تو اسے بغیر حق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا ایسا کرنا محض خدا تعالیٰ کے لئے تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تکبر جو عام طور پر اپنے نفس کی بڑائی کے لئے ہوتا ہے میری کبریائی کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا وہ حق کے بغیر ہی ہوتا ہے اور جولوگ تکبر کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اپنے آپ کو کچھ جاننے کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑی عظمت والا، بڑے جبروت والا، بڑی طاقت والا، بڑے مال والا، بڑی وجاہت والا اور بڑے علم والا سمجھنے کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلا دیتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ( البقرہ :۸) ان کے اندر ان بدعملیوں کی وجہ سے ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو جائے گی کہ وہ حق کے قبول کرنے سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیئے جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب بھی رشد و ہدایت اور کامیابی کا کوئی راستہ ان کے سامنے آئے گاوہ اس راستہ پر نہیں چلیں گے یعنی میری آیات کے جھٹلانے کی وجہ سے جو تکبر کے نتیجہ میں ہو گا اللہ تعالیٰ دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دے گا.متکبر انسان کچھ عرصہ کے لئے تو شاید اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھے اور بڑا کامیاب سمجھے لیکن آخر کار اسی دنیا میں انہیں اللہ تعالیٰ نا کام اور نامراد کرتا ہے وہ کامیابی کا منہ کبھی نہیں دیکھتے اور عاقبت ہمیشہ متقی لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے.

Page 132

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۲۲ سورة الصفت آخری کامیابی صرف مومنوں کو ہی نصیب ہوتی ہے آخری فتح صرف ان لوگوں کو ہی ملتی ہے جو نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی چوکھٹ پر پڑے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان متکبر ان کو کامیابی کی راہیں کبھی نہیں ملیں گی اور وہ راستے جو ان کیلئے مصیبت بن جائیں گے ان کو وہ خوشی سے قبول کر لیں گے اور نہیں جائیں گے کہ ان کا انجام کیا ہے اور جب وہ اس راستہ پر چل کر اپنے زعم میں خوشی خوشی منزل پر پہنچیں گے تو اس منزل کو نارِ جہنم پائیں گے اور یہ اس لئے ہوگا کہ انہوں نے تکبر کیا ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت برتی.یہ ایک نہایت ہی بھیانک سزا ہے جو ان لوگوں کیلئے تجویز کی گئی ہے جو تکبر سے کام لیتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.الہی سلسلہ میں نشانات اور آیات کا ایک دریا بہہ رہا ہوتا ہے اور جماعت مومنین کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آیات اور نشانات کو دیکھے، ان کو سمجھے اور جس غرض کے لئے وہ نشانات ظاہر کئے گئے ہیں اس کو وہ پورا کرے.اسی طرح جو فائدہ ممکن طور پر وہ اس سے اٹھا سکتی ہو اس سے اٹھائے اور یہ صرف کافروں کے لئے ہی نہیں ، مومنوں کے لئے بھی فرض ہے کہ وہ تکبر کی باریک سے باریک راہوں سے اجتناب کرتے ہوئے آسمانی نشانات اور آیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہوں.خطبات ناصر جلد اول ۲۵۱ تا ۲۵ آیت ۶۱ ۶۲ اِنَّ هذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعمَل العملون اللہ تعالیٰ سورۃ الصافات میں انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر فرماتا ہے.ایک وہ جو اپنی بداعمالیوں اور اپنے تکبر اور ابا اور خدا تعالیٰ کے انبیاء کے خلاف جدو جہد کرنے کے نتیجہ میں جہنم میں ڈالے گئے اور دوسرا وہ گروہ جنہوں نے فروتنی اور عاجزی سے اپنی زندگی کو گزارا اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر اعمال صالحہ بجالائے.وہاں ایک لمبا مضمون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس گروہ کے متعلق جو جنت میں ہے.فرماتا ہے.اِنّ هذا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیم کہ یہ مومنوں کی حالت بے شک بڑی کامیابی ہے اور ساتھ ہی فرمایا

Page 133

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۲۳ سورة الصفت لِمِثْلِ هذا فَلْيَعلِ الْعَمِلُونَ کہ کام کرنے والوں کو اس قسم کے کام کرنے چاہئیں کہ جن کا آخری انجام ان کے لئے اچھا اور مفید نکلے.یہ زندگی مختلف کاموں پر مشتمل ہوتی ہے.بعض کام وقتی اور عارضی نتیجہ پیدا کرنے والے ہوتے ہیں ان میں بھی وہی کام اچھا ہے جس کا انجام اچھا ہو.بعض اعمال کا نتیجہ ابدی زندگی سے تعلق رکھتا ہے.ان اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں نہیں بلکہ اس دنیا سے گزرجانے کے بعد نکلتا ہے.یہ انسان کے اعمال کا آخری نتیجہ ہے.اگر اس آخری نتیجہ میں ہم کامیاب ہوں اگر اس لحاظ سے ہمارا انجام بخیر ہو تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی ٹھنڈی چھاؤں ملتی ہے جس چھاؤں میں بیٹھ کر ہم خدا کی رحمتوں سے بھی سرور حاصل کرتے ہیں اور یہی وہ کامیابی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعُمِلُونَ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کے کاموں کی ہمیشہ توفیق عطا فرما تا رہے تا کہ ہم جب اس دنیا کو چھوڑ کر اس کے حضور حاضر ہوں تو اس کے منہ سے یہ پیارے کلمات ہمارے کان بھی نہیں.إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَمِلُونَ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے ہی ایسا ہو سکتا ہے اور اسی پر توکل رکھتے ہوئے اس کے فضلوں اور احسان کی ہم امیدرکھتے ہیں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۶۲، ۲۶۳) آیت ۶۳ تا ۶۶ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُرًا اَم شَجَرَةُ الزَّقُومِ إِنَّا جَعَلْنَهَا فتْنَةً لِلظَّلِمِينَ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ ﴿ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيطين حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے کہ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُاً أَم شَجَرَةُ الزَّقُومِ إِنَّا جَعَلْنَهَا فِتْنَةً لِلظَّلِمِينَ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيطِيْنِ یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم بتلاؤ بہشت کے باغ اچھے ہیں یا زقوم کا درخت جو ظالموں کے لئے ایک بلا ہے وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے یعنی تکبر اور خود بینی سے پیدا ہوتا ہے یہی دوزخ کی جڑ ہے اس کا شگوفہ ایسا ہے جیسا

Page 134

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۲۴ سورة الطقت کہ شیطان کا سر، شیطان کے معنی ہیں ہلاک ہونے والا یہ لفظ شیط سے نکلا ہے پس حاصل کلام یہ ہے کہ اس کا کھانا ہلاک کن ہے تو جہنم کی جڑ تکبر اور خود بینی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کے مطابق اللہ نے قرآن کریم کی ان آیات میں اس بات کی وضاحت کی ہے تو کوئی شخص ایک ہی وقت میں متکبر اور جنتی نہیں بن سکتا.کیونکہ جس کے دل سے زقوم کا درخت نکلے جس کے دل اور جس کی روح میں دوزخ اور جہنم پرورش پارہی ہے اس کے لئے جنت کے دروازے کیسے کھولے جا سکتے ہیں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۹۶۲، ۹۶۳) آیت ۱۰۳ تا ۱۰۹ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَعيَ قَالَ يبنى الى ارى في b المَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَا ذَا تَرى - قَالَ يَابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَ نَادَيْنَهُ اَنْ يَا بُرهِيمُ قَد صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِى دو الْمُحْسِنِينَ : إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلوُا الْمُبِينُ وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ تب ہم نے اس کو ایک حلیم لڑکے کی بشارت دی.پھر جب وہ لڑکا اس کے ساتھ تیز چلنے کے قابل ہو گیا تو اس نے کہا اے میرے بیٹے ! میں نے تجھے خواب میں دیکھا ہے کہ (گویا) میں تجھے ذیح کر رہا ہوں.پس تو فیصلہ کر کہ اس میں تیری کیا رائے ہے؟ (اس وقت بیٹے نے ) کہا اے میرے باپ! جو کچھ تجھے خدا کہتا ہے وہی کر.تو انشاء اللہ مجھے اپنے ایمان پر قائم رہنے والا دیکھے گا.پھر جب وہ دونوں فرمانبرداری پر آمادہ ہو گئے اور اس (یعنی باپ) نے اس (یعنی رضامندی ظاہر کرنے والے بیٹے ) کو ماتھے کے بل گرا لیا اور ہم نے اس (یعنی ابراہیم ) کو پکار کر کہا.اے ابراہیم! تو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں.یہ یقیناً ایک کھلی آزمائش اور امتحان تھا اور ہم نے اس ( یعنی اسمعیل) کا فدیہ ایک بڑی قربانی کے ذریعہ سے دے دیا اور بعد میں آنے والی قوموں میں اس کا نیک ذکر باقی رکھا..........

Page 135

۱۲۵ سورة الصفت تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رویا میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں چنانچہ اس خیال سے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے کے بارہ میں گریز نہ سمجھا جائے ، انہوں نے پہلے تو اپنے بیٹے سے یہ پوچھا کہ تیری رائے کیا ہے کیونکہ نیک اعمال دوسروں پر ٹھونسے نہیں جاتے.جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی خدا کی راہ میں جان دینے کے لئے راضی ہو گئے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو لٹایا اور اس کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے تب خدا نے فرمایا کہ جس قسم کی قربانیوں کے لئے میں تمہارا امتحان لینا چاہتا تھا ان کے لئے میں نے تمہیں تیار پایا اور مستعد دیکھا.میں تم سے یہ قربانی نہیں مانگتا کہ تم اپنے بیٹے کی جان دیدو.جان کی بجائے میں اپنی راہ میں تمہاری زندگی کا ہر سانس مانگتا ہوں.تم اسمعیل علیہ السلام کو ایک بے آب و گیاہ ریتلے میدان میں چھوڑ آؤ اور پھر دیکھو میری قدرت دنیا کو کیا نظارہ دکھاتی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کوصرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ، صرف اس عزم پر قائم رہتے ہوئے کہ جتنی بھی زندگی ہے اس کا ہر سانس خدا تعالیٰ پر قربان ہوگا، وہاں چھوڑ آئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام وہاں رہنے کے لئے تیار ہو گئے.اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر ڈالتی تو وہ جو زندگی کا ہر سانس عملاً خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار تھا دنیا اس کی اس عظیم قربانی کا نظارہ نہ دیکھتی جس نے بنی نوع انسان کے لئے ایک اسوہ بننا تھا.اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس وقت ذبح کر دیا جاتا تو یہ مطالبہ جو تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولا ونسلاً بعد نسل اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں قربان کرنے والی ہوں، اس کا موقع ہی نہ ملتا.نہ نسل پیدا ہوتی اور نہ ان کی قربانی کا کوئی سوال پیدا ہوتا.اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایک ذبح عظیم کے لئے اس چھوٹی سی قربانی کو ترک کروایا اور ایک ریتلے میدان میں جس میں نہ پانی تھا اور نہ کھانے کی کوئی اور چیز تھی وہاں ان کو اپنی والدہ کے ساتھ چھوڑ دیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت نے وہاں پانی کے سامان بھی پیدا کر دیئے اور کھانے کے سامان بھی پیدا کر دیئے.محض کھانے پینے کے سامان ہی پیدا نہیں کئے بلکہ دنیا جہان کی نعمتیں ان کے لئے مہیا کر دیں، دنیا جہان کے دلوں کی محبت کا اسے مرکز بنادیا اور صرف اس دنیا کے ثمرات ہی نہیں بلکہ ان کو وہ روحانی ثمرات بھی مہیا کئے گئے جن کا مادی دنیا سے کوئی تعلق نہیں اور اس طرح حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام دنیا کے لئے ایک عظیم اسوہ بنے.ان کا زمانہ اگر چہ ایک محدود زمانہ تھا کیونکہ وہ

Page 136

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۲۶ سورة الصفت جس کا زمانہ رہتی دنیا تک ممتد تھاوہ ابھی آنے والا تھا لیکن انہوں نے اپنی نسلوں کو ایک زمانے تک سنبھالا اور ایک لمبا عرصہ ان نسلوں نے خدا کی راہ میں قربانیاں دیں.جان کی قربانی نہیں بلکہ زندگی کی قربانی دی.میں پہلے بھی ان دو چیزوں میں فرق کر کے جماعت کے سامنے اس مسئلہ کو رکھتا چلا آیا ہوں.ایک ہے جان قربان کر دینا جس کے صلے میں شہادت کا انعام ہے اور ایک ہے اپنی زندگی قربان کر دینا یعنی زندگی کا ہر سانس خدا کی راہ میں قربان کر دینا اور اس کے صلہ میں اجر عظیم کا وعدہ ہے گویا شہادت کی نسبت زندگی کی قربانی کا بہت زیادہ اثر ہے.بہر حال دعائیں ہوئیں.خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر ہوئی.ایک مرکز کا قیام ہوا.اس مرکز کے انتظام کے لئے ایک نسل پیدا کر دی گئی اور پھر ایک کے بعد دوسری نسل نے اس کا انتظام سنبھالا.وہ جو اکیلے تھے (یعنی اسماعیل اور اس کی والدہ) ان کی نسل میں سے ایک خاندان کے سپر د پانی کا انتظام اور ایک کے ذمہ صفائی کا انتظام وغیرہ وغیرہ گویا یہ انتظام مختلف شعبوں میں بٹ گیا ہر ایک نے اپنے زمانہ کے حالات اور ذرائع کے مطابق اپنا کام سنبھالا.یہ سب کچھ اس لئے ہورہا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں پیدا ہونا تھا اور اس تیاری کے لئے ایک عظیم قربانی لی گئی تھی کیونکہ جو آنے والا تھا اس کے استقبال کے لئے اور اس کی عظمت کے پیش نظر اسی عظیم قربانی کی ضرورت تھی.چنانچہ وہ لوگ جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے جذبات کی وجہ سے یہ کہا تھا کہ اے خدا! ان میں سے وہ لوگ جو ایمان پر قائم ہیں تو اپنی رحمتوں کے ثمرات ان کے لئے میسر کرنا اور خدا تعالیٰ نے جواب میں کہا کہ نہیں جو ایمان پر قائم نہیں رہیں گے ان کے لئے بھی میں دنیوی انعامات اور دنیا کی رحمتیں مہیا کروں گا.پس ان نسلوں کی ان قربانی دینے والی نسلوں کی ان فدائی نسلوں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کی تیاری کے لئے ہر چیز کی قربانی دینے کے جو ثمرات تھے اس میں ان کو بھی شامل کیا گیا حالانکہ وہ راہ راست سے بھٹک چکے تھے لیکن پھر وہی لوگ اور وہی نسل جن کے آباؤ اجداد نے اتنی عظیم قربانیاں دی تھیں ان کو خدا تعالیٰ کی یہ سرزنش بھی سننی پڑی.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ کیا تم نے ان ظاہری چیزوں کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تمہیں خدمت کے لئے مامور کیا گیا تھا اور تم نے اس عظیم ہستی کے

Page 137

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۲۷ سورة الصفت خلاف فتویٰ دے دیا ہے جس کے لئے یہ ساری تیاری ہو رہی تھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو ان کو مسلمان سمجھنے سے انکار کر دیا اور صابی صابی کہنے لگ گئے.غرض کتنی زجر ہے اس آیت میں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ پھر حالات بدلے اور وہ جو دنیا کا نجات دہندہ تھا اور وہ جو دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا اس کی امت بن گئی.پھر خدا نے کہا جو قربانی حضرت ابراہیم کی نسلوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے دی تھی اس سے زیادہ قربانی ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے قیام اور دنیا کے دلوں میں توحید کو گاڑنے کے لئے امت محمدیہ سے لینی ہے.صرف ایک نسل نے یہ قربانی نہیں دینی بلکہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے اور ایک محدودزمانہ تک نہیں بلکہ رہتی دنیا یعنی قیامت تک قربانیاں دیتے چلے جانا ہے قیامت تک کا میں اس لئے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے رحمتہ للعالمین بن کر آئے ہیں.یہ جو میں نے بڑے مختصر الفاظ میں ایک چھوٹی سی تصویر کھینچی ہے اس کے دور نگ ظاہر ہوتے ہیں انتہائی قربانیوں کا ایک رنگ ہے اور اس کی قبولیت کے نقش ہیں.ان کے اوپر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی جو بارشیں ہوتی ہیں وہ ہمیں تاریخ بتاتی ہے اور پھر دوسرے وقت میں اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے جن لوگوں کے آباؤ اجداد نے سینکڑوں سال خدا تعالیٰ کی آواز پر لبيْك لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ کہتے ہوئے اس کی راہ میں قربانیاں دی تھیں ان کی اولا د خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آجاتی ہے.خدا تعالیٰ کے آستانہ سے دھتکاری جاتی ہے اور اس وقت دھتکاری جاتی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی کے لئے انتہائی انعام مقدر ہو چکا تھا.اس میں چونکہ جماعت احمد یہ کے لئے سبق ہے.اس لئے میں نے یہ مختصر مضمون بیان کیا ہے.غرض یہ میری نسل کا سوال نہیں اور نہ میری ذات کا سوال ہے نہ آپ کی نسل کا سوال ہے اور نہ آپ کی ذات کا سوال ہے.چونکہ اب آخری فتح اسلام کی مقدر ہے اس لئے نسلاً بعد نسل قربانیاں دینے کا سوال ہے ہمیں یہ بتایا گیا ہے پہلے نوشتوں میں بھی اور قرآن کریم کی آیات سے بھی یہ استدلال ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیات کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس سے بھی یہ پتہ

Page 138

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۲۸ سورة الصفت لگتا ہے کہ اسلام کا عالمگیر غلبہ جو قیامت تک قائم رہنے والا ہے یعنی اس آخری ہلاکت تک جس کے متعلق نوشتے بتاتے ہیں کہ وہ ہلاکت یا قیامت اس وقت آئے گی جب انسانوں کی اکثریت پھر خراب ہو جائے گی اور پھر مکمل تباہی آجائے گی تو پھر کوئی نیا دور شروع ہوگا جس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہمیں اس کے متعلق کچھ سوچنے یا کہنے کی ضرورت ہے.بہر حال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قیامت تک ممند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد ہے وہ غالب آئے گا اور نوع انسانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہو جائے گی اور اس مقام کو حاصل کرنے اور اس پر قائم رہنے کے لئے کوشاں رہے گی تاکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی بعد کی اولاد کی طرح ایک وقت میں پھر یہ نہ سننا پڑے کہ تم نے اسلام کے ظاہر کو سب کچھ سمجھ لیا اور اس کی روح تمہارے جسموں سے نکل گئی اور اس کے روحانی جذبات تمہاری روحوں سے غائب ہو گئے اور انہیں یہ خبر نہ سننی پڑے.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ پس ہمارا یہ فرض ہے اور ہمارے اندر یہ تڑپ ہونی چاہیے کہ ہماری کوئی نسل خدا تعالیٰ کی زبان سے یہ الفاظ نہ سنے کہ تم نے اس چیز کو تو چھوڑ دیا جو اسلام پیش کرتا ہے تم نے اس حقیقت کو تو فراموش کر دیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کر آئے تھے اور ظاہر پر ہاتھ مارا اور اس پر خوش ہو گئے.خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر اس سے دوری حاصل کر کے دنیا کے آرام کی خاطر اور دنیا کے مال و دولت اور سونے چاندی کے انبار کے اندر تمہاری توجہ بہک گئی اور وہ جو ایک کل تھا جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا تھا اور جس کے پیار کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا تھا اور جس کے پورے اور کامل اور اعلیٰ اور نہایت حسین پیار کا وعدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دیا تھا اسے تم نے بھلا دیا ، خدا کرے کہ ایسا وقت بھی جماعت پر نہ آئے.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۱۸۹ تا ۱۹۶) افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے صاحبزادے سے یہ پوچھا کہ یہ میں نے خواب دیکھی ہے تو بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ بڑا عجیب جواب ہے جو انہوں نے دیا یہ نہیں کہا کہ اگر آپ نے خدا تعالیٰ کا منشایہ معلوم کیا اپنی رویا میں کہ مجھے ذبح کر دیں تو ذبح کر دیں.حضرت اسماعیل نے یہ

Page 139

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۲۹ سورة الطقت جواب دیا کہ افعَلُ مَا تُو مر جو بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے وہ کرو.اِفْعَلْ مَا تُو مرا نسان کی نیت بتاتا ہے، انسان کا تقویٰ بتاتا ہے، خدا تعالیٰ کے لئے انسان کی محبت بتا تا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ حسن اور نور بتاتا ہے.اِفعَل مَا تُؤْمَرُ وہ ہے جو اسلام ایک مسلمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ ۷۳۹ تا ۷۴۰)

Page 140

Page 141

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۳۱ سورة ص بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ص آیت ۱۰۹ وَانْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْ ذكرِى بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ.یہاں یہی بتایا گیا ہے کہ جب مخالفت شروع ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے نبی یا مامور کی تو اس وقت ڈھیل دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ ہم ڈھیل دیتے ہیں اس کے نتیجہ میں تم یہ سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ و تاب تو ہے مگر عزیز نہیں ہے اور شوخیوں میں بڑھ جاتے ہو.ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بعثت نبوی اور مخالفانہ منصوبوں اور عذاب کے درمیان اپنی حکمت کا ملہ سے ایک فاصلہ رکھا ہوتا ہے.ایک زمانہ گذرتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی قہری گرفت پکڑتی ہے.چونکہ ابھی عذاب کا وقت نہیں آیا ہوتا اس لئے شوخیوں میں یہ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں اور چونکہ اس زمانہ میں دنیوی حسنات بھی ان کو مل رہی ہوتی ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہی کو خیر دی گئی ہے (اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بہت بزرگ ہیں ) اور دنیا کی حسنات اور دنیا کی دولتیں جو انہیں دی گئی ہیں وہ اس لئے دی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے آگے تقسیم ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے آم عِنْدَهُمْ خَزَابِنُ رَحْمَةِ رتك اُن کی ذہنیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف اُن کے پاس ہیں کیونکہ جو تبعین ہیں وہ غربت کی حالت میں ہوتے ہیں وہ کسمپرسی کی حالت میں ہوتے ہیں وہ دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں اور جو منکرین ہیں ان میں سے اکثر دولت اور اقتدار کے لحاظ سے بڑے بلند دنیوی مقام پر فائز ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف انہی کو مل سکتے ہیں اور

Page 142

تفسیر حضرت عایله اسیح الثالث ۱۳۲ سورة ص دوسروں کو نہیں مل سکتے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو خزانوں کا دینے والا ہے وہ عزیز بھی ہے.اور وہ وہاب بھی ہے.یہ لوگ خدائے وہاب کی رحمتوں سے جب حصہ لیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ عزیز نہیں ور اُس کے مقرب بندے کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خدا عزیز بھی ہے اور جب خدا تعالیٰ کا غالب ہاتھ قہر کا طمانچہ لگاتا ہے تو پھر وہ مایوس ہو جاتے ہیں.پھر وہ کہتے ہیں کہ خدا وہاب نہیں لیکن مومن خدا تعالیٰ کو وہاب بھی سمجھتا ہے اسی لئے اس کی راہ میں قربانیاں دے رہا ہوتا ہے اُسے معلوم ہے کہ جو ہم قربانیاں دیں گے خدا تعالیٰ کسی کا قرض نہیں رکھتا اُن قربانیوں سے ہزاروں گنا بلکہ بے شمار گنا واپس ( اسی دُنیا میں بھی ) کرتا ہے لیکن جو اس کے مقابلے میں اُخروی زندگی کے معاملات ہیں ان کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں.اس زندگی اور یہاں کی حسنات اور یہاں کی لذتوں اور یہاں کے آراموں سے بہر حال وہ وہاب خدا کا عرفان بھی رکھتے ہیں لیکن اس حالت میں وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں.اُسے عزیز بھی جانتے ہیں.اُن کے دل میں تکبر اور غرور نہیں پیدا ہوتا لیکن جو منکر ہے جس وقت خدا تعالیٰ کی رحمت کا سلوک امتحان کے طور پر اس دُنیا میں ابتدائے مخالفت میں اس کے ساتھ کیا جاتا ہے تو وہ خدائے وہاب کو تو پہچانتے ہیں لیکن وہی اللہ جس کی دوسری صفت العزیز بھی ہے اس کو پہچانتے نہیں اور جب خدائے عزیز کی گرفت میں آ جاتے ہیں پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا کوئی جلوہ اب ظاہر نہیں ہوگا.جیسا کہ وہ واقعہ آتا ہے ( میں مختصر بیان کروں گا ) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تلوار لے کر ایک شخص حملہ آور ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب اُس نے پوچھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ آپ نے فرمایا میرا خدا.اور اُس پر اتنا رعب طاری ہوا کہ تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور جس وقت تلوار اس کے ہاتھ سے گرمی تو آپ نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر اُس سے پوچھا تمہیں اب میرے ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ کہنے لگا آپ ہی رحم کر دیں.وہ یہ سمجھا ہی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت کے ذریعہ بچانے والا ہے تو اُسے بھی خدا ہی بچانے والا ہے تو جو سبق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس شخص کو سکھانا چاہتے تھے وہ اس نے نہیں سیکھا اور اشارہ نہیں سمجھا.پس مخالفین جب رحمت کا جلوہ دیکھتے ہیں تو مخالفت میں تیزی دکھاتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ

Page 143

۱۳۳ سورة ص تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کا عذاب چکھتے ہیں تو اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ وہاب بھی ہے.اُس کی رحمتوں کے جلوے بھی انسان پر آتے ہیں اور نبی کی تو بعثت ہی اس لئے ہوتی ہے کہ رحمت کے جلوے انسان دیکھے تو ان کا ایک حصہ عذاب کے وقت بھی اس طرف توجہ نہیں دیتا.قرآن کریم نے کہا ہے کہ عذاب بار بار آتا ہے کچھ لوگ عذاب کی شکل میں آنے والے پہلے ہی امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں کچھ دوسرے جھٹکے میں ہو جاتے ہیں کچھ تیسرے جھٹکے میں ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ آخری وقت تک انتظار کرتے اور اُن کا ایک حصہ سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُرَ القمر : ٢٦) کے نظارے دیکھتا اور پھر وہ فتح مکہ کی شان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیکھتا ہے وہاں وہ مارا جاتا ہے اور یہاں وہ کہتا ہے کہ آپ ہمیں معاف کر دیں.فتح مکہ میں ایسا ہی ہوا.یہ نہیں کہا کہ ہم خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور وہ ہمیں معاف کر دے گا انہوں نے کہا کہ آپ ہم پر رحم کریں اور اسی واسطے اُن کے بعض سرداروں کو بنانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا رحم کرنے والا ہے.میں تو اس کا ایک کارندہ ہوں اور اُس کے حکم سے کرتا ہوں جو کرتا ہوں.اُن سے کہا اچھا تمہارے گھر میں جو داخل ہو جائے گا اُس کو ہم پناہ دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو گروہ ہو جاتے ہیں.ایک مومنوں کا گروہ ہے.ایک کافروں کا گروہ ہے.جو کا فر ہیں وہ انکار کرتے ہیں اور حقیقتا اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اُس نبی کے منکر ہیں اور پہلوں کے وہ ماننے والے ہیں بلکہ ایک زمانہ گذرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ قصے رہ جاتے ہیں اور حقیقی ایمان دل میں نہیں ہوتا کیونکہ اگر حقیقی ایمان ہو تو نئے آنے والے پر بھی فوراً ایمان لے آئیں کیونکہ وہی سلوک جو پہلوں سے تھوڑا یا بہت اللہ تعالیٰ کا ہوا وہی سلوک بعد میں آنے والے سے ہوا.اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے انتہائی پیار کیا.اس میں شک نہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ پہلے انبیاء سے بھی اللہ تعالیٰ نے پیار کیا.ان کے حالات کے مطابق ان کے ذریعہ جو ذمہ داریاں اُن کی اُمت کی اُن پر ڈالی گئی تھیں اس کے مطابق پیار کیا لیکن جس نے انتہائی قربانی اپنے پیدا کرنے والے رب کے حضور پیش کی اور جو انتہائی محبت اور عشق کے مقام پر پہنچا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انتہائی تعلق اور محبت اور پیار کا سلوک کیا لیکن اس کا جو خا کہ بنتا ہے اور جو تصویر بنتی ہے وہ شروع سے ایک ہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیار نبی اور اس کے ماننے والوں کو حاصل ہوتا ہے.آدم سے لے کر اس وقت تک ہم نے یہی دیکھا.

Page 144

۱۳۴ سورة ص تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو شک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ذکر نازل بھی ہوتا ہے یا نہیں اور اس شک کی وجہ سے وہ آنے والے کو بھی نہیں مانتے اور حقیقت یہ ہے کہ بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ اُس وقت تک یہ مخالفت کرتے رہیں گے منصوبے بناتے رہیں گے، تکالیف دیتے رہیں گے.نا کام کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کا جلوہ گرفت کی صورت میں نہیں دیکھیں گے اور اس عرصہ میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے خزانے صرف ان کو دیئے گئے ہیں اور مومنین کو وہ نہیں مل سکتے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے مومن کو اللہ تعالیٰ ابتلا میں ڈالتا ہے ایک تو اس کا یہ امتحان لیتا ہے کہ جو تربیت خدا تعالیٰ کے نبی اور مامور کے ذریعہ سے اس کی کی گئی ہے وہ تربیت اُس نے حاصل کی یا نہیں.دوسرے دُنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو میرے بندے میری خاطر دنیا کا ہر ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں لیکن مجھ سے بے وفائی کرنے کے لئے تیار نہیں.خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کا یہ نظارہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب کی شکل میں اس کا حکم نازل ہوتا ہے تو اُس وقت مومن بھی اور کا فر بھی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہتے اور اُس کے مامورین اور اُس کے انبیاء کو جھٹلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مختلف پیراؤں میں یہ مضمون قرآن کریم میں بیان کیا اور ہمارے سامنے رکھا ہے.ماننے والوں کو خدا نے حکم دیا ہے کہ جلدی نہ کرنا اور جو تمہیں دُکھ پہنچانے والے تم پر ظلم کرنے والے تمہیں ہلاک کرنے کی تدابیر کرنے والے تمہیں بے عزت کرنے والے تمہیں حقیر سمجھنے والے ہیں اُن کے لئے دعائیں کرو.اُن کے لئے یہ دعا کرو کہ وہ عظیم نعمت جو اللہ تعالیٰ کے پیار کی شکل میں تم نے دیکھی اور اس سے مخالف محروم رہے اللہ تعالیٰ اُن کے لئے بھی یہ سامان پیدا کرے.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۵۲۳ تا ۵۲۷)

Page 145

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ آیت ۱ تا ۳ ۱۳۵ سورة الزمر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الزمر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تَنْزِيلُ الْكِتَبِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ.قرآن کریم کے بغیر ، قرآن کریم کی برکات کو چھوڑ کر ، قرآن کریم کے نور سے پیٹھ پھیرتے ہوئے ، قرآن کریم کو معزز نہ جان کر اپنے دلوں سے باہر نکال پھینکتے ہوئے ، ہم خدا کی نگاہ میں کوئی عزت کوئی بلندی ، کوئی رفعت ، کوئی کامیابی ، کوئی کامرانی اور کوئی فتح حاصل نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں متعدد بار اس کی اہمیت کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے.چند آیات کی تفسیر میں نے اس سے پہلے اپنے خطبات میں دوستوں کے سامنے رکھی ہے.آج میں قرآن کریم کی دو اور آیتیں دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ زمر میں فرماتا ہے.تَنْزِيلُ الْكِتَبِ مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ - إِنَّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لهُ الدِّينَ یعنی اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب اور سب کام حکمتوں کے ماتحت کرنے والا ہے.ہم نے تیری طرف یہ کتاب کامل سچائیوں پر مشتمل اتاری ہے.پس تو اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کر.یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ت نُزِيلُ الكتب مِنَ اللہ کہ اس کتاب کو وحی کے ذریعہ محمد رسول اللہ پر اُتارنے والی وہ ذات ہے جسے اللہ کے نام سے اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.الکتاب

Page 146

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۳۶ سورة الزمر کے لغوی معنی یہ ہیں کہ وہ صحیفہ آسمانی جس میں تمام ضروری فرائض اور احکام کامل اور مکمل طور پر بیان ہوئے ہوں.اور جو اقوام عالم کی تقدیر اور قسمت کا فیصلہ کرنے والی ہو.اسی لئے سورۃ حم السجدہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بشیر بھی کہا ہے اور نذیر بھی کہا ہے.یعنی قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی ہے.قیامت تک تمام جہانوں کی تقدیر قرآن کریم سے وابستہ کر دی گئی ہے اور جو لوگ قرآن کریم کی ہدایات کو سمجھنے اور پہچاننے والے، جو لوگ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو جن صفات کے ساتھ ہمارے سامنے رکھا ہے.اس کا عرفان رکھنے والے اور اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارنے والے ہیں.ان کے لئے قرآن کریم بطور بشیر کے پیش کیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے ہر زمانہ میں اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ قرآن کریم کو جو بشیر کا نام دیا گیا ہے وہ بالکل برحق ہے اس میں کوئی غلطی نہیں کیونکہ یقینا ہر مقام پر اور ہر زمانہ میں قرآن کریم کے کامل متبعین کو وہ روحانی اور جسمانی، دینی اور دنیوی نعماء ملیں جن کی بشارت قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو مختلف مقامات پر دی تھی.اور وہ لوگ جو قرآن کریم کے مقابل کھڑے ہوئے جنہوں نے اس خدا کو جھٹلایا جسے اس کی کامل صفات کے ساتھ قرآن کریم پیش کرتا ہے.ان لوگوں کے متعلق قرآن کریم کے بتائے ہوئے انذار حرف بحرف پورے ہوئے اور قرآن کریم نے اپنی پیشگوئیوں میں کہیں کوئی غلطی نہیں کی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تاریخ اسلام یعنی اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات پر گواہ ہے کہ قرآن کریم بشیر بھی ہے اور نذیر بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ یہ کامل اور مکمل کتاب ہے جس میں فطرتِ انسانی کے لئے، اس فطرت انسانی کے لئے جو اپنے عروج اور بلوغت کو پہنچ چکی تھی.تمام وہ ہدایات موجود ہیں جن کی اسے ضرورت تھی کیونکہ اس کتاب کا اُتار نے والا اللہ ہے.یعنی وہ ذات جسے اس کی بعض مخصوص صفات کے ساتھ قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اس کی دو صفات کا ذکر اس نے اس آیت میں بھی کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی جگہ پر یہ کامل اور مکمل کتاب ہے اور اس کا اتارنے والا اللہ ہے جس کی

Page 147

۱۳۷ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث کئی صفات ہیں لیکن ہم تمہیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ العزیز بھی ہے اور لغت عربی میں عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جو صاحب قدرت اور صاحب قوت ہو اور صاحب عزت ہو اور دنیا کی کوئی طاقت اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکتی ہو.وہ اتنا قوت والا ہو کہ دنیا کی کوئی طاقت اور قوت ایسی متصور نہ کی جا سکتی ہو جو اس کی قوت اور طاقت کے مقابلہ میں کامیابی کے ساتھ اس کے برخلاف کوئی مکر اور حیلہ اور فریب کر سکے.وہ غالب ہے مغلوب ہو ہی نہیں سکتا.اور کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی اور اپنی ان صفات میں وہ بے مثل بھی ہے.یعنی اس کی قوت اور اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور اس کی عزت ایسی ہے کہ دنیا کی کسی اور ہستی کی نہ وہ قوت، نہ وہ غلبہ، نہ وہ طاقت ، نہ وہ شان، نہ وہ جاہ، نہ وہ جلال، کچھ بھی نہیں.اس ہستی کو عزیز کہتے ہیں.تو اس آیت میں فرمایا کہ یہ کتاب اس اللہ نے نازل کی ہے جو اس قدر قوت اور طاقت اور عزت والا ہے کہ دنیا کا کوئی مکر اور فریب اس کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.وہ اس مضبوط اور بلند پہاڑ کی چوٹی پر بنے ہوئے قلعہ کی طرح ہے کہ جس تک چڑھنا کسی اور کے لئے ممکن ہی نہیں.منیع ہے.یعنی وہ اتنا محفوظ ہے کہ اس کے خلاف کسی سازش کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہوسکتی.تو ہمیں اس کتاب میں صفت عزیز کا ذکر کر کے یہ بتایا کہ اگر تم اس الکتاب پر عمل کرنے والے ہو گے.اگر تم اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہو گے تو اللہ جو عزیز ہے تمہیں عزت کے ایسے مقام پر کھڑا کرے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گی.اگر تمہاری ترقی کے سامنے ہمالیہ کے پہاڑ بھی حائل ہوں گے تو وہ پاش پاش کر دیئے جائیں گے.مسلمانوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بالکل بے کسی اور بے بسی کے زمانہ میں جب ان کے پاس نہ عزت تھی ، نہ طاقت تھی، نہ مال تھا اور نہ کوئی اور ظاہری سامان تھے، صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے ہاتھ میں تھا صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے دل میں تھا، صرف قرآن کریم ہی تھا جو ان کے عمل میں نظر آ رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے انہیں غلبہ عطا فرمایا اور ان کے مقابل آنے والی سب طاقتوں کو مٹا دیا اور ایک کم مایہ، بے مایہ، کمزور و ناتواں اور غریب کو تمام دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران کر دیا.اس کی ایک تازہ مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس مثال کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ

Page 148

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۳۸ سورة الزمر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۶۸ء میں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ ”بادشادہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.( تذکرہ صفحہ ۸ ایڈیشن چہارم) اس وقت آپ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا، قادیان کو بھی کوئی نہ جانتا تھا.جماعت احمدیہ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بھی نہ جانتے تھے.کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت کا قیام نہیں کیا گیا تھا.اور بیعت بھی شروع نہ ہوئی تھی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی کی.اور قریباً سو سال تک مخالف کو موقع دیا کہ جتنا چاہواستہزاء کرلو، مذاق کر لو، ٹھٹھا کر لو، طعنے دے لو.یہ کلام ہمارا ( عزیز خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوکر رہے گا.اس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ سامان پیدا کر دیئے.( دو کم سو سال کے بعد ) جب اس عرصہ میں ایک نیا ملک بنایا گیا.پھر الہی تدبیر کے ماتحت اس ملک کو آزادی دلائی گئی.پھر الہی منشاء کے مطابق جب اس ملک کی اپنی حکومت بنی ، تو اس کا سر براہ اور اس کا ایکٹنگ (Acting) گورنر جنرل اس شخص کو مقرر کیا گیا جو تقریر کے دن سے پہلے جماعت احمد یہ گیمبیا کا پریذیڈنٹ تھا.اس طرح جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کو گورنر جنرل بنادیا گیا.پھر ان کو ہمارے مبلغ نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی ایک بشارت ہے کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تم خوش نصیب انسان ہو کہ دنیا کی تاریخ میں تمہیں پہلی دفعہ یہ موقع مل رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کپڑوں سے تم برکت حاصل کر سکو مگر یہ کوئی معمولی چیز نہیں.اس لئے قبل اس کے کہ تم اس کے متعلق خلیفہ وقت کو اپنی درخواست بھجواؤ چالیس دن تک چلہ کرو.یعنی خاص طور پر دعا ئیں کرو.اس قسم کا چلہ نہیں جو صوفیا اور فقراء کیا کرتے ہیں.چالیس دن تک خاص طور پر تہجد میں دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں اس بات کا اہل بنائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا تمہیں ملے.انہوں نے دعا شروع کی اور پھر مجھے خط لکھا کہ میں دعاؤں میں مشغول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا رہا ہوں کہ میں ایک بڑی بھاری ذمہ داری لے رہا ہوں ،صرف عزت حاصل نہیں کر رہا، صرف تبرک حاصل نہیں کر رہا بلکہ بڑی بھاری ذمہ داری بھی لے رہا ہوں.

Page 149

۱۳۹ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ایک شخص جو ہزار ہا میل دور رہتا ہے نہ کبھی ربوہ آیا، نہ ہی تاریخ احمدیت سے پوری طرح واقف، اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرک کی اہمیت جب تک پوری طرح بٹھا نہ دی جاتی میرے نزدیک انہیں تبرک بھجوانا درست نہیں تھا.اس لئے میں نے انہیں ایک لمبا سا خط لکھا اور انہیں یہی نکتہ سمجھایا کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک مانگ رہے ہو.اس میں برکتیں بھی بڑی ہیں مگر یہ بھی نہ بھولو کہ اس کی قیمت اتنی ہے کہ ساری دنیا کے سونے اور ساری دنیا کی چاندی اور ساری دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی اگر اس کے مقابل رکھے جائیں تو ان کی وہ قیمت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا کی قیمت ہے اس لئے تم ایک بڑی ذمہ داری لے رہے ہو.ذہنی طور پر ، روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر اپنے آپ کو اس کا اہل بناؤ.یہ مضمون تھا اس خط کا جو میں نے انہیں لکھوایا اور ان سے انتظار کروایا تا کہ جب ان کی یہ روحانی پیاس اور بھڑ کے اور ان کے دل میں ذمہ داری کا پورا احساس بیدار ہو جائے اس وقت وہ تبرک ان کو بھیجا جائے.پندرہ بیس دن ہوئے وہ تبرک ان کو بھجوایا گیا اور مجھے ابھی گھوڑ انگلی میں ان کی تاریلی ہے کہ وہ تبرک مجھے مل گیا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے.پس خدائے عزیز کے ساتھ تعلق رکھنے والے عزت کے ایسے مقام کو حاصل کرتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن قرآن کریم کی طرف منسوب ہونا اور پھر عزت کی بجائے ذلت کے مقام پر کھڑا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے.ایسا شخص زبان پر تو قرآن کریم کا نام لاتا ہے لیکن دل سے اسے دھتکارنے والا اور پرے کرنے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اس آسمانی کامل اور مکمل صحیفہ کو اتارنے والا العزیز ہے.وہ ایسی طاقت کا مالک ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.وہ اس کی مخلوق ہیں.وہ اندر اور باہر سے ان کو جاننے والا ہے.وہ ان کی قوتوں اور استعدادوں کو اس لئے جاننے والا ہے کہ وہ خود اس کی پیدا کردہ ہیں.تو وہ اس کے مقابلہ میں کیسے کھڑی ہوسکتی ہیں؟ اور ہمیں یہ بتایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اس الکتاب پر پورا عمل کرو گے اور اس کی اطاعت اس طرح کرو گے جیسا کہ اطاعت کا حق ہے تو پھر خدائے عزیز تمہیں عزت کے بلند مقام

Page 150

تفسیر حضرت علیای امسیح الثالث پر کھڑا کر دے گا.۱۴۰ سورة الزمر پھر فرمایا کہ جس اللہ نے یہ کتاب تمہیں بھجوائی ہے وہ صرف الْعَزِیزُ ہی نہیں.الْحَكِيمُ بھی ہے الْحَكِيمُ کے معنی صاحب حکمت کے ہیں.حِكمة عربی زبان میں عدل، علم، حلم، فلسفہ کے لئے استعمال ہوتا ہے.تو الْحَکیم کے ایک معنی یہ ہوئے کہ وہ علم رکھنے والی ہستی ہے.اس سے زیادہ علیم کوئی نہیں.تو اللہ تعالیٰ جس نے یہ قرآن نازل کیا ہے وہ ذات ہے جس کے علم کے مقابلہ میں ساری دنیا کے علوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے.کامل علم اس کے پاس ہے.کوئی چیز اس سے مخفی نہیں.دنیا کے ہر ظاہر و باطن پر اس کی نظر ہے.ماضی و حال و مستقبل اس کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے کہ ایک انسان کیلئے ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ جو حقیقتاً اس کے لئے حال بنتا ہے.پس یہ وہ ذات ہے جو زمانہ سے بھی از فع ہے.جو مکان سے بھی بالا ہے.اس کے علم کے مقابلہ میں کوئی علم ٹھہر نہیں سکتا.اسی علم کے منبع سے یہ کتاب نازل ہوئی ہے.اس لئے اگر تم قرآن کریم کا غور سے مطالعہ کرو گے.اس کو سمجھو گے، اس کے علوم کے حصول کے لئے اپنے رب سے دعائیں کرتے رہو گے تو تمہیں وہ علوم عطا کئے جائیں گے کہ دنیا کے سارے عالم تمہارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکیں گے.چنانچہ ابتداء زمانہ اسلام میں جو ترقی کا زمانہ ہے.ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے.مغرب کے جتنے بڑے بڑے فلاسفر گزرے ہیں.ان سب نے اپنی فلاسفی یا ان نظریات میں جو انہوں نے پیش کئے ہیں کسی نہ کسی مسلمان محقق.بھیک مانگی ہے.ایک جرمن فلاسفر کانٹ بہت مشہور فلاسفر ہے جسے صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ انگلستان اور امریکہ اور دوسری مہذب دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے بڑے دماغ والا خیال کیا جاتا ہے.اس کی بہت سی تھیوریز اور نظریے جو اس نے دنیا کے سامنے پیش کئے.میں ذاتی علم رکھتا ہوں کہ ان نظریات کو ہمارے مسلمان علماء نے کانٹ (Kant) سے بہتر طریق پر صدیوں پہلے ہی دنیا کے سامنے پیش کیا ہوا ہے.اس وقت تو ان علماء کی کتب بھی دنیا میں موجود تھیں.بعد میں اسلام کے خلاف جو تعصب سے کام لیا گیا.اس کے نتیجہ میں ہماری بہت سی لائبریریاں جلا دی گئیں.اور بہت بڑے پایہ کی کتابیں ایسی ہیں جو یا تو اس وقت دنیا سے کلیتاً مفقود ہیں.یا ان کی ایک آدھ جلد

Page 151

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۴۱ سورة الزمر باقی ہے جو مثلاً روس کی لائبریری میں ہے اور ہماری دسترس سے باہر ہے اور ہم اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.یا اگر کہیں چھپی ہوئی ہوں تو کہہ نہیں سکتے.اسی طرح طب ہے اور دیگر جتنی سائنسز ہیں اور جتنے دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق یہ لوگ اب مجبور ہو کر تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم نے ابتداء انہیں مسلمانوں سے سیکھا ہے.پس جس وقت مسلمان قرآن کریم کی قدر کرنے والا تھا.قرآن کے نور سے حصہ پانے والا تھا.وہ تمام ان اقوام کا استاد تھا.لیکن پھر مسلمان کہلانے والوں نے اپنے غرور اور نخوت میں عملاً یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں قرآن کریم کی ضرورت نہیں.ہماری عقل ہی ہمارے لئے کافی ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نے اپنی ناقص عقل پر ہی بھروسہ کرنا ہے.تو پھر جاؤ اپنی عقل سے کام لے کر دیکھ لو اور آخر یہ ہوا کہ ہمیں علم کے ہر میدان میں بھیک مانگنی پڑ گئی ہے.یہاں تک کہ جو موٹی موٹی باتیں ہیں.جو آسانی سے ایک غیر دیندار مسلمان بھی قرآن کریم سے حاصل کر سکتا تھا.وہ بھی ہمیں حاصل نہ رہیں کیونکہ قرآن کریم کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں.مثلاً ماڈل فارم ہیں آپ میں سے جو سفر کرنے والے ہیں وہ دیکھتے ہوں گے کہ ہر پانچ دس میل کے فاصلہ پر مختلف آدمیوں کے نام پر ماڈل فارم بنائے گئے ہیں.زید کا ماڈل فارم، بکر کا ماڈل فارم وغیرہ یہ جو ماڈل فارمنگ ہو رہی ہے یہ سب مانگے کی ہے.کسی مہذب قوم کے سامنے ہم اپنی آنکھیں اور سر اٹھا نہیں سکتے کیونکہ ہم خود منگتے ہیں اور ہمارا دامن ان کے سامنے پھیلا ہوا ہے.ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ”ید سفلی‘ رکھنے والے ہیں.ہمارا ہاتھ نیچے ہے اور ان کا ہاتھ اوپر ہے حالانکہ خود قرآن کریم نے ہمیں روحانی باتیں سمجھاتے ہوئے کئی قسم کے ماڈل فارم کی مثالیں ذکر کی ہیں.اور ان میں سے بعض ایسے ماڈل فارم بیان ہوئے ہیں کہ جن کے لئے پاکستان کی سالانہ آمد اگر تیس سال تک بھی خرچ کر دی جائے تب بھی وہ ریسرچ پروگرام اتنے کمال تک نہیں پہنچ سکتا.جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.اتنی زبردست تحقیقی باتیں اس میں بیان کی گئی ہیں.بے شک قرآن کریم ہمیں علم زراعت سکھانے نہیں آیا.لیکن زراعت کو پیدا کرنے والا خدا ہمیں زراعت کی زبان میں روحانی باتیں سکھاتا ہے اور ضمناً ہمیں وہ باتیں بھی بتا جاتا ہے.جو ہماری زراعتی ترقی کے لئے ضروری ہیں.میں نے کئی دفعہ اپنے ماہرین زراعت سے کہا ہے کہ تمہیں مانگنے

Page 152

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۴۲ سورة الزمر کی عادت ہے، تمہیں شرم کرنی چاہیے.ورنہ تم بجائے روس سے لینے کے، بجائے امریکہ سے لینے کے یا چین سے لینے کے کسی بھی غیر ملک سے مانگنے کی بجائے تم قرآن کریم پر غور کر کے اپنے ماڈل فارم کا پروگرام بناتے.لیکن میری یہ بات سن کر وہ چپ ہو گئے.انہوں نے کبھی خیال بھی نہیں کیا کہ قرآن کریم میں بھی کوئی علم ہے.حالانکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے مِنَ اللهِ الْحَكِيمِ کہ یہ حکیم اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر تم اس کی پیروی کرو گے، اس کے نور سے حصہ لو گے تو دنیوی علوم میں بھی کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی.کئی سو سال تک کی خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعہ میں خدا تعالیٰ نے یہ سچ فرمایا ہے کیونکہ علم کے میدان میں کئی سو سال تک مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم کھڑی نہیں ہوسکی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ ہم نے کامل سچائیوں کے ساتھ یہ قرآن تیرے پر نازل کیا ہے.چونکہ یہ کامل صداقتوں اور کامل حقائق پر مشتمل ہے.فَاعْبُدِ اللہ اس لئے اے مسلمان ! تو اپنے اللہ کی عبادت کر.اس میں ہمیں یہ بتایا کہ حقیقی اور سچی عبادت جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور کھینچنے والی ہے وہ اس شخص کی ہو سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبادت کے کامل اور مکمل اصول بتائے گئے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی کامل رہبری فرما دی ہو.پھر یہ بھی بیان فرما دیا کہ یہ الکتاب پہلی کتب کی طرح نہیں ، جن میں کچھ صداقتیں تو بیان کی گئی تھیں.لیکن ساری صداقتیں بیان نہیں کی گئی تھیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ تمام صداقتوں اور تمام حقائق کو ذہنی طور پر بھی.جسمانی نشوونما کے لحاظ سے بھی اور اخلاقی ارتقا کے لحاظ سے بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے.پس ان کی طرف کچھ صداقتیں یا یوں کہیے کہ الکتاب کا ایک حصہ نازل کیا گیا اور اگر یہ سچ ہے اور یقینا یہی سچ ہے تو پھر ان کی عبادت اور ایک سچے مسلمان کی عبادت میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ ان کی عبادت نتیجہ ہے مثلاً بیس فی صدی ہدایت کا.اگر انہیں کامل ہدایت ملی ہوتی تو ہم کہتے کہ ان کی عبادت سو فیصدی کامل ہدایت کے مطابق ادا کی گئی.مگر ایسا نہیں.کیونکہ پہلی قوموں میں سے بعض کو کامل ہدایت کا مثلاً بیس فی صدی

Page 153

۱۴۳ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث حصہ دیا گیا.اس کے بعد جو لوگ ترقی کر گئے انہیں تیس فی صدی.پھر ان کے بعد آنے والے لوگوں کو چالیس کسی کو پچاس اور کسی کو ساٹھ فی صدی حصہ عطا کیا گیا.سو فیصدی ہدایت صرف اُمت مسلمہ کو عطا کی گئی.تو جس شخص کی، جس قوم کی ، یا جس نبی کی اُمت کی اللہ تعالیٰ نے صرف ہیں یا صرف تیں یا صرف چالیس یا صرف پچاس یا صرف ساٹھ فی صدی راہنمائی کی ہو اور اس راہنمائی کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے رب کی عبادت کی ہو.ان کی یہ عبادت اس عبادت کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سو فیصدی راہنمائی کے بعد ایک مسلمان بجالاتا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان اُمتوں پر اللہ تعالیٰ کے جو انعام اس دنیا میں نازل ہوئے یا آئندہ اخروی زندگی میں نازل ہوں گے وہ ان انعامات کے مقابلہ میں نہیں رکھے جا سکتے جو ایک حقیقی مسلمان پر اس دنیا میں اور پھر اخروی زندگی میں نازل ہوتے ہیں بلکہ ان انعامات سے ان انعامات کو کوئی نسبت ہی نہیں.یہاں ہمیں یہ بتایا کہ چونکہ یہ الکتاب نازل کی جاچکی ہے.جس میں کوئی خامی اور نقص نہیں بلکہ اس میں ساری کی ساری خوبیاں جمع کر دی گئی ہیں.فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ (البيئة :(۴) یہ سب کی سب قرآن کریم کا ہی حصہ تھیں جو اب پھر قرآن کریم میں اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی گئی ہیں بلکہ بہت کچھ زائد بھی اس میں رکھا گیا ہے.اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اگر تم اس ہدایت کے مطابق عمل کرو گے تو تمہاری عبادت کامل اور مکمل ہوگی.دوسری بات اس آیت میں ہمیں یہ بتائی گئی ہے فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ کہ عبادت کا مفہوم یہ نہ سمجھنا کہ اللہ اللہ کہ دیا یا درود پڑھ لیا یا سبحان اللہ پڑھ لیا یا الحمد للہ کہ لیا.قرآن کریم کے نزدیک صرف اتنا یا محض اتنا کوئی عبادت نہیں.اگر کوئی شخص مثلاً دس ہزار دفعہ درود پڑھتا ہے.لیکن اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے اسوہ حسنہ نہیں بنایا.تو اس درود پڑھنے کا اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا.جب ہم درود پڑھیں تو ہمیں چاہیے کہ اس نیت سے پڑھیں کہ اے خدا! تو نے دنیا میں ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نہایت ہی اعلیٰ نمونہ بنایا ہے.اور تو نے اسے اس لئے نمونہ بنایا ہے تا کہ ہم اس کی پیروی کریں اس کے نمونہ پر چل کر اس کے اخلاق اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے رنگ سے رنگین ہوں تو ایسا درود ہمیں فائدہ دے گا.

Page 154

۱۴۴ سورة الزمر تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث لیکن اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں درود تو پڑھتا ہوں لیکن میں آپ کے نمونہ کی پیروی کرنا نہیں چاہتا.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عبادت نہیں.فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ دین کے ایک معنی اطاعت بھی ہیں.فرمایا تمہاری عبادت تب میری حقیقی عبادت کہلائے گی جب تم اس کے ساتھ میرے تمام حکموں پر عمل بھی کرو گے.اور پھر عبادت خالص ہو یعنی بغیر کسی ریا اور بغیر کسی کھوٹ کے ادا کی گئی ہو.اخلص کے مفہوم میں عربی زبان کے مطابق دو باتیں پائی جاتی ہیں ایک ریا کا نہ ہونا دوئم کھوٹ کا نہ ہونا.اخلص الطاعة کے معنی ہیں اس نے اطاعت میں کوئی ریا نہیں برتا.مثلاً ظاہر میں اللہ اللہ کہا یا ظاہر میں بہت عبادت کی لیکن اس کا باطن اطاعت سے انکار کرتارہا تو یہ اخلاص کے خلاف ہے.تو فرمایا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں.فاعبد اللہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس نیت سے عبادت کرو کہ جو حکم بھی نازل ہوگا.ہم اس کو بجالائیں گے اور ہر بات جس سے روکا جائے گا ہم اس سے باز رہیں گے.پس اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اطاعت کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے.ورنہ اسلام اسے عبادت قرار ہی نہیں دیتا.اگر لمبی لمبی نمازیں پڑھنے والا فحشاء اور منکر سے باز نہیں آتا تو اس کی نمازیں سچی نمازیں نہ ہوں گی کیونکہ سچی نماز تو فحشاء اور منکر سے روکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک اور عجیب مضمون بھی بیان فرمایا ہے.الدین کے معنی تدبیر کے بھی ہیں.تو فرماتا ہے.فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تمہاری تمام تدابیر خالصتاً بغیر کسی ریا اور کھوٹ کے اسی کے لئے ہوں.اس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ تدابیر سے منع نہیں کرتا.وہ یہ نہیں کہتا کہ مال نہ کماؤ وہ یہ نہیں کہتا کہ تجارتیں نہ کرو.وہ یہ نہیں کہتا کہ زراعت نہ کرو.وہ یہ نہیں کہتا کہ تم وکالت کا پیشہ اختیار نہ کرو اور فیس نہ لو لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ دنیا کی جو تد بیر بھی تم کرو وہ خدا کے لئے کرو اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں سے نہ اُتارو پھر جب وہ یہ کہتا ہے کہ مال کماؤ تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دیتا ہے کہ مال ان طریقوں سے کماؤ جو جائز قرار دئے گئے ہیں.اور ان طریقوں سے مال نہ جمع کرو جو حرام قرار دئے گئے ہیں.پھر جب وہ کہتا ہے کہ تم مال خرچ کرو تو ساتھ ہی وہ یہ کہتا ہے کہ اپنا مال ان طریقوں سے خرچ کرو جو جائز قرار دئے گئے ہیں.اور جو طریق خدا کے نزدیک ناپسندیدہ یا مکروہ

Page 155

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۴۵ سورة الزمر ہیں اور بڑے ہیں ان طریقوں سے خرچ نہ کرو.پس اس چھوٹی سی آیت میں اور چند الفاظ میں بڑے وسیع معانی اور مطالب بیان فرمائے گئے ہیں بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم عبادت کرو تو اس طرح کہ تمام دنیوی تدابیر کو بھی خالصتاً بغیر کسی ریا، بغیر کسی کھوٹ کے میرے لئے کر رہے ہو.ایک شخص اگر رات کو تہجد کی نماز ادا کرتا ہے اور تہجد کی نماز کے بعد نماز فجر سے پہلے کہیں جا کر ڈاکہ ڈالتا ہے.تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی نماز تہجد قبول ہو جائے گی!! اس کی دعا ئیں جو اس نے نماز تہجد میں کی تھیں وہ پوری کی جائیں گی؟؟ یہ مثال مجھے اس وجہ سے یاد آئی کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں تھا نگل.وہاں ایک ڈاکو نمبر ۱۰ رہا کرتا تھا.رات کے ایک بجے پولیس اسے اس کے گھر جا کر دیکھا کرتی.ابھی وہ پولیس کا آدمی واپس قادیان نہ پہنچتا تھا کہ یہ چوری کے لئے نکل کھڑا ہوتا.ایک دن وہ ہماری کوٹھی میں جو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیں بنا کر دی تھی، معین سحری کے وقت پہنچا اور ایک چیز چرائی.ہمارا ایک نوکر تھا اسے جب معلوم ہوا تو یہ بھاگ گیا.بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ اس شخص کا کام ہے.تو جو شخص ایک یا دو بجے رات تک شریفانہ طور پر گھر میں وقت گزارتا رہا اور اس کے معا بعد وہ چوری کے لئے نکل گیا تو قانون کی نگاہ میں وہ یقینا چور ہے.وہ شخص جو رات کو تین گھنٹے تک تہجد کی نماز ادا کرتا رہا پھر دن کو اس نے کسی کا مال غصب کر لیا تو خدا کی نگاہ میں وہ حرام خور ہے تہجد گزار نہیں.اسی واسطے ہمیں اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک ہماری ساری تدابیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نیچے نہیں آجاتیں.اس وقت تک ہماری عبادت خدا کی عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی.حقیقی عبادت اسلام کے نزدیک جیسا کہ اس آیت سے پتہ چلتا ہے.یہ ہے کہ خالصتاً اس کی اطاعت ہو.اس کی اطاعت میں کوئی ریا نہ ہو.تمام احکام الہی کی پیروی کی جائے.مثبت احکام کی مثبت طریق پر اور منفی احکام کی منفی طریق پر.فرمایا کہ کوئی زمیندار ہے، کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی بارایٹ لاء ہے وغیرہ.یہ تمہاری تدبیریں ہیں لیکن یا درکھو کہ جب تک تم اپنی تدابیر کو مُخلِصًا لَهُ الدِّین کے ماتحت رکھو گے تو تمہاری عبادتیں قبول ہوں گی اور جب ان میں اخلاص نہ ہوگا اور اطاعت نہ ہوگی تو یقیناً وہ قبول نہ ہوں گی.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۰۶ تا ۳۱۶)

Page 156

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۴۶ سورة الزمر آیت اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ.یہاں هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ اس چھوٹے سے ٹکڑے میں آیت کا مضمون یہ بیان ہوا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک تو عقل عطا کی اور ایک لب عطا کی.عقل عام ہے ہر کس و ناکس میں کچھ نہ کچھ تو عقل پائی جاتی ہے.جو د ہر یہ بھی ہیں وہ بھی بعض پہلوؤں سے بڑے عقل مند ہیں.جو بت پرست ہیں وہ بھی عقل رکھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی کب نہیں رکھتا.اس کے معنی مفردات راغب میں یہ کئے گئے ہیں.اللُّبُ العَقْلُ الْخَالِصُ مِنَ الشَّوائِبِ وَ سُمّى بِذلِكَ لِكَوْنِهِ خَالِصَ مَا فِي الْإِنْسَانِ مِنْ معانِيْهِ وَ قِيْلَ هُوَ مَا زَكَى مِنَ الْعَقْلِ فَكُلُّ لُبٍ عَقْلُ وَلَيْسَ كُلُّ عَقْلٍ لُنَّا وَلِهَذَا عَلَّقَ اللهُ تَعَالَى الْأَحْكامَ الَّتِي لَا يُدْرِكُهَا إِلَّا الْعُقُولُ الزَّكِيَّةُ بِأُولِي الْأَلْبَابِ - فرق یہ ہے کہ محض عقل کے لئے پاکیزگی کی ضرورت نہیں لیکن اس عقل کے لئے جواب کہلاتی ہے پاکیزگی کی ضرورت ہے.الخَالِصُ مِن الشوائب کے معنی ہیں کہ جس میں کوئی عیب نہ پایا جائے کوئی نا پا کی نہ پائی جائے ، دنٹس نہ پایا جائے اور جو مقصدِ حیات ہے اس سے دور لے جانے والی چیز نہ پائی جائے.تو وہ عقل جو الخَالِصُ مِنَ الشّوائِب ہے اسے لب کہتے ہیں اور یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں وہ ان جیسے نہیں جو علم نہیں رکھتے لیکن جس علم کا یہاں ذکر کیا گیا وہ عام علم نہیں جو عام عقل کے ذریعہ سے حاصل کیا جاتا ہے اس لئے آگے فرما یا انَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الالباب جو اولوا الا لباب ہیں وہ نصیحت حاصل کرتے ہیں.وہ علم رکھتے ہیں اور علم سے نصیحت حاصل کرتے ہیں.بنیادی علم جو انسان کی ہدایت کا موجب بنتا اور جس سے وہ نصیحت حاصل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور جو ہے وہ اس کا علم ہے یعنی معرفت ذات باری تعالیٰ کا علم رکھنا، یہ تعلق رکھتا ہے اس انسان سے جو اولوا الالباب کے گروہ میں ہے اور ہر جلوہ اللہ تعالیٰ کی صفت کا ایک پوائنثر

Page 157

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۴۷ سورة الزمر (Pointer) ہے کسی جہت کی طرف اشارہ کر رہا ہے.قرآن کریم نے یہاں تو (هَلْ يَسْتَوِى الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ایک آیت کا چھوٹا سا ٹکڑہ ہے اس میں ) یہ حقیقت بیان کی لیکن بھرا پڑا ہے اس تفصیل سے کہ مراد کیا ہے علم سے.چند ایک مثالیں دو ایک میں دوں گا ابھی.اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر عقل مند جو ہے وہ آخرت کا خوف تو نہیں رکھتا.یہ جو بڑے بڑے عقل مند بڑی ایجادیں انہوں نے کیں ہیں، ان کے دل میں کوئی آخرت کا خوف نہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ اکثر کے دل میں، کیونکہ اب مسلمان بھی ابھر رہا ہے.ڈاکٹر سلام بھی آگے نکل آئے ہیں.تو دنیا کے اکثر سائنسدان ایسے ہیں جن کے دل میں آخرت کا خوف نہیں یعنی اس بات سے وہ خائف نہیں کہ ہماری زندگی کا ایک مقصد ہے اور اگر ہم اس مقصد کے حصول میں ناکام ہوئے تو اللہ تعالیٰ کا غضب ہم پہ بھڑ کے گا اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں.وہ خدا کو ہی نہیں مانتے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.تو آمَنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قَابِما اس کی تفسیر لبی میں میں نہیں جاؤں گا اس وقت.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ بتایا کہ جو راتوں کو اٹھتے اور اپنی فرمانبرداری کا اعلان کرتے ہیں خدا کے سامنے چھپ کے سا جد او قابما سجدہ کرتے ہوئے اور قیام میں.اس کی بڑی لمبی چوڑی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کی ہیں، حضرت مصلح موعود نے بھی کی ہے بہر حال یہ کیفیت قانت آناء اليْلِ سَاجِدًا وَ قابِما یہ پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ، جہاں جزا سزا کا فیصلہ ہوگا.جب تک انسان یہ نہ سمجھے کہ میری مخلصانہ کوشش اور مقبول اعمال کے نتیجہ میں اس قدر اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل کرتا ہے کہ ان کا شمار نہیں اس وقت تک وہ راتوں کو اٹھ کے اپنی عاجزی کا متضرعانہ دعاؤں کا راستہ اختیار نہیں کرتا.تو اعلان کیا گیا کہ لَا يَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ جو عالم ہیں وہ جاہل کے برابر نہیں ہو سکتے اور مراد یہ ہے کہ ایسے عالم جو اولوا الا لباب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے الْعَقْلُ الْخَالِصُ دی ہے.جس عقل میں کوئی عیب اور نا پا کی نہیں اور جو ما بہ الامتیاز پیدا کرتی ہے اس عقل کے درمیان جو خدا تعالیٰ کے نور اور حسن سے بھر پور ہے اور اس عقل کے درمیان جواندھیروں میں گروپ (Grope) کر رہی ہے، ہاتھ پاؤں مار رہی ہے.صاحب مفردات راغب معنی بھی کرتے ہیں الفاظ قرآنی کا اور

Page 158

۱۴۸ سورة الزمر تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث بڑے چھوٹے چھوٹے فقروں میں تفسیر بھی بتا جاتے ہیں.انہوں نے اس جگہ یہ بھی لکھاؤ لِهَذَا ( کہ جو میں نے معنی کئے ہیں صاحب مفردات راغب نے کہ اللُّبُّ الْعَقْلُ الْخَالِصُ اور مَا زَكَى مِنَ الْعَقْلِ ) اسی لئے اللہ تعالیٰ نے عَلَّقَ اللهُ تَعَالَى الْأَحْكامَ الَّتِي لَا يُدْرِكُهَا إِلَّا الْعُقُولُ الزَّكِيَّةُ بِأُولِی الْأَلْبَابِ ان احکام کا اور ہدایات کا تعلق قائم کیا ہے ان عقول کے ساتھ جو پاک ہیں اور اولوا الالباب کے پاس ہیں وہ.چند مثالیں :- سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۳۸ میں ہے.اللہ تعالیٰ کو آیات کے نازل کرنے پر قادر نہ سمجھنا یعنی یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اب آیات کے نزول پر قادر نہیں رہا (یہ آیت کا ترجمہ ہے.میں عربی نہیں لے رہا ) ان لوگوں کا کام ہے جو لا یعلمون جو عقل تو رکھتے ہیں لیکن پاکیزہ عقل نہیں رکھتے.جاہل ہیں اس لحاظ سے.199191 اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقیناً پورا ہونے والا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اپنی پوری قدرتوں کے ساتھ اور پورے غلبہ کے ساتھ ایسی نہیں کہ وعدہ کرے اور پورا نہ کر سکے اور وہ جو طہارت کا سرچشمہ ہے اس کے وعدے ایسے نہیں کہ وہ وعدہ کرے اور پورا کرنے کا ارادہ چھوڑ دے یعنی دغا کر جائے وعدہ خلافی کر جائے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقیناً پورا ہونے والا ہے.ایسا سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے دیئے ہیں وہ پورے ہوں گے، یعلمون ان لوگوں کا کام ہے اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر تھا ) کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں پاکیزہ عقل ، لب کے نتیجہ میں اس گروہ میں شامل ہیں.ایسانہ سمجھنا جہالت ہے.یہ آیت تو ہے چھوٹی سی لیکن قرآن کریم نے تبشیر و انذار سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں وعدے دیئے ہمیں اور ایسے بھی وعدے تھے جن کا تعلق خاص گروہوں کے ساتھ ہے.ایسے بھی وعدے ہیں جن کا تعلق ہر اس شخص کے ساتھ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے.تو وعدہ ہے وہ تمہیں دے دیا جائے گا.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ یقیناً پورا کرنے والا ہے لیکن انسان دو گروہوں میں بٹ گئے.ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ پورا نہیں کرتا یا نہیں کر سکتا اور ایک وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا

Page 159

۱۴۹ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ پہلے اپنی پوری قدرتوں اور غلبہ کے ساتھ تھا، ہے اور آئندہ ویسا ہی رہے گا.اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں نا ہوتی.ایک تو یہ گروہ ہے اور ایک وہ ہے جو کہتا ہے نہیں.وعدے تو ہیں، پورے ہوں نہیں ہوں گے یا شک میں پڑ گئے کہ پورے شاید نہ ہوں.طارق نے جب کشتیاں جلائیں وہ شک میں نہیں پڑے.انہیں یہ پتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ اِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران :۱۴۰) ان کو فکر اپنے ایمان کی تھی.ان کو خدا تعالیٰ طرف سے بے وفائی، وعدہ کی بے وفائی کا خوف نہیں تھا.چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اخلاص کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی محبت میں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت میں یہاں آئے ہیں ان کے مخالفانہ منصوبوں کو نا کام کرنے کے لئے ، اس لئے ہمیں کسی مادی دنیوی سہارے کی ضرورت نہیں.اور پھر چودہ سو سال اور پھر پندرہویں صدی کا جو کچھ حصہ گزرا ہے جنہوں نے یہ سمجھا اور شناخت کیا اور یہ معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے، پورا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور اس کا جو تقدس ہے جو اس کی طہارت ہے سُبحان اللہ میں جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اپنے وجود کی وہ تقاضا کرتی ہے کہ جو وہ وعدہ کرے وہ پورا کرے.ہاں اس نے شرط لگائی ہے بندوں پر، ایسا کرو گے میں وعدہ پورا کروں گا.ایسا نہیں کرو گے تمہارے اندر استحقاق نہیں رہے گا کہ میں وعدہ پورا کروں.اس کی ذمہ داری بندے پر ہے خدا پر نہیں ہے اور خوف کا مقام ہے.پھر سورۃ یوسف کی ۴۱ ویں آیت میں ہے.فیصلہ کرنا اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں.(بڑے عجیب اعلان ہوئے ہوئے ہیں قرآن کریم میں ) اِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ اور اس نے حکم دیا ہے جس کے اختیار میں فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.یہی درست مذہب ہے.خالص توحید.اعلان کرنا آسان ہے.عمل کرنا مشکل بھی ہے، آسان بھی ہے.عمل کر کے جونعماء ملتی ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور فضل نازل ہوتے ہیں ان کا شمار نہیں.یہ توفیق کہ انسان کا رواں رواں یہ پکار رہا ہو مولا بس.اللہ کے سوا ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں.جو ایسا نہیں سمجھتے ، کچھ بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں کچھ بھروسہ غیر اللہ پر رکھتے ہیں لا یعلمون کے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی وہ لوگ جولب سے، روحانی پاکیزگی سے ، مومنانہ فراست سے محروم کئے گئے ہیں.پھر ۲۹ ویں سورۃ کی ۶۵ ویں آیت میں یہ ہے:.یہ ورلی زندگی صرف ایک غفلت اور کھیل کا

Page 160

تفسیر حضرت خلیلی امسح الثالث ۱۵۰ سورة الزمر امان ہے اور اخروی زندگی کا گھر ہی درحقیقت اصلی زندگی کا گھر کہلا سکتا ہے.اب ہرایک جو یہاں بیٹھا ہے یا جس تک میری آواز پہنچے اگر وہ دوسیکنڈ کے لئے سوچے کہ جو زمانہ گزار گیا ستر سال کا یا پچاس سال کا اپنی عمر کے لحاظ سے بیس سال کا یا دس سال کا، گزرنے کے بعد اس کے سوا کوئی احساس باقی نہیں رہتا کہ شاید چند سکنڈ ہی ہیں جو گزرے لیکن اخروی زندگی پر یقین جو ہے ہمیں ، وہ ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ وہ ابدی زندگی ہے، نہ ختم ہونے والی.بنیادی طور پر اخروی زندگی کی دو عجیب خصوصیات اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھیں.ایک یہ کہ وہ نہ ختم ہونے والی ہے.دوسرے یہ کہ ہمیشہ حرکت کرنے والی ہے.حرکت رفعت کی طرف، خدا تعالیٰ کے زیادہ پیار کی طرف اللہ تعالیٰ کے عرفان کو زیادہ حاصل کرنے کی طرف، لذت وسرور کا احساس پہلے سے ہر آن زیادہ ہو جانے کی طرف حرکت.لیکن یہ ورلی زندگی غفلت اور کھیل کا سامان ہے.اس میں خوشیاں بھی زندگی کے اندر، اسی زندگی کے دائرے میں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہوتیں.خوشی ہوتی ہے، چند گھنٹوں کے لئے ہوتی ہے.کئی یہاں بھی شاید نو جوان بیٹھے ہوں جن کو مثلاً با کی کی کھیل سے بہت پیار ہے اور وہ دیکھتے ہیں.میں نے پیچھے بتایا تھا باسکٹ بال والوں کو کہ ہم تو ہر خوبصورتی میں خدا تعالیٰ کے حسن کا جلوہ دیکھتے ہیں.اس واسطے جہاں بھی ہمیں خوبصورتی نظر آئے ہم الحمد للہ پڑھنے والے ہیں.تو کھیل میں بھی بڑی خوبصورت مود (Move) کہتے ہیں ان کو، وہ ہوتی ہیں اور بڑی بھیانک، بد شکل کہہ دیں ہم ، بڑی موو بھی ہوتی ہیں لیکن جو ہا کی کا میسج دیکھتا ہے وہ ایک گھنٹہ کچھ منٹ کے بعد ختم ہو گیا.لیکن جو جنت کی خوشی ہے وہ ایک گھنٹہ یا ایک دن یا ایک مہینہ یا ایک سال یا ایک صدی یا ایک Million کا زمانہ (لفظ مجھے پوری طرح نہیں رہا ذہن میں ) یعنی لاکھوں سال یا اربوں سال یا کھربوں سال کا زمانہ تو نہیں ہے.وہ تو نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.پھر اس میں حکمت یہ ہے، یہ جو تبدیلی ہے یعنی لذت کا بڑھتے چلے جانا اس واسطے کہ اگر لذت اور سرور خواہ وہ روحانی ہو خواہ اس کا تعلق اخروی زندگی کے ساتھ ہو اگر اس میں ٹھہراؤ آ جائے تو بور ہو جائے گا آدمی.ایک ہی چیز اگر آپ کو بہت اچھی لگتی ہے اور صبح شام آپ کی بیوی وہی پکا کے آپ کو کھلانا شروع کر دے تو دو، چار، پانچ دس دن کے بعد آپ کہیں گے کہ یہ کیا شروع کیا ہوا ہے میرے ساتھ تم نے سلوک؟ تو بوریت کوئی نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ اب میں یہ کھاتے کھاتے تھک گیا

Page 161

۱۵۱ سورة الزمر تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ہوں اس لئے کہ وہ پینج (Change) ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صبح انسان جنت میں جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرے گا شام کو اس سے بڑھ کے کرے گا.اگلی صبح اس سے بھی بڑھ کے کرے گا.اس واسطے ان لوگوں کا خیال بالکل غلط ہے کہ وہاں عمل نہیں ہے.جنت میں عمل ہے، امتحان نہیں ہے.عمل ہے، اس کی جزا ساتھ ساتھ ملتی ہے یعنی اگر ( میں فلسفہ بتانے لگا ہوں آپ کو، بہت سارے سمجھ جائیں گے ) جنت میں داخل کئے جانے کا استحقاق ہماری ورلی زندگی کے مقبول اعمال نے پیدا کر دیا تو جو پہلے دن جنتی نے عمل کیا اس کا استحقاق کیسے پیدا ہو سکتا ہے.وہ یہی ہے.پھر وہ پلس (Plus) ہو گیا نا اس استحقاق کے ساتھ.اس لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ ان کا احساس خوشی کا پہلے سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے.دوسری بات ابھی آئی تھی میرے ذہن میں وہ نکل گئی کسی اور وقت سہی ) اب میں واپس آجاتا ہوں هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ کی طرف.میں نے جماعت کو کہا ہر شخص علم حاصل کرے.میں نے ابتدا کی تھی اپنے بچوں سے اور ان کا بھی ابتدائی پروگرام بنایا کہ ہر بچہ ہمارا جو ہے وہ میٹرک تک پڑھے.میرے ذہن میں تھا کہ چند سالوں تک جب حالات زیادہ اچھے ہو جائیں گے ہمارے تو میں کہوں گا ہر بچہ ایف.اے، ایف ایس سی یعنی انٹر میڈیٹ تک پڑھے.پھر میں کہوں گا ہر بچہ ہمارا گریجویٹ ، گریجویشن تک یعنی بی.اے، بی.ایس.سی تک پڑھے پھر میں کہوں گا کہ ہر بچہ ہمارا ایم.اے ، ایم.ایس سی تک پڑھے.اس میں کچھ رہ جائیں گے اپنی قابلیت کی وجہ سے.بس اس طرح ہمارا علم کے میدان میں جو محاذ ہے وہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا.اب میں کہتا ہوں ہر احمدی اس آیت هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الالباب کی روشنی میں خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ لب عطا کرے ، عقلِ سلیم عطا کرے اس کے صحیح استعمال کی طاقت اور استعداد عطا کرے اور آپ کے ذہنوں میں جلا پیدا کرے اور قرآن کریم جو سر چشمہ ہے غیر محدود علوم کا، اس میں سے آپ ہر روز ہی اپنی اس ورلی زندگی میں نئے سے نئے علوم نکالتے رہیں اور علم میں زیادتی ہوتی رہے آپ کی اور اگر آپ دعا کریں گے اور غور کریں گے قرآن کریم پر اور اللہ تعالیٰ کی صفات پر، اس کی صفات کے جلووں پر تو علم کی تو انتہا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ ہر آن اللہ تعالیٰ کے جلوے اپنی مخلوق پر ظاہر

Page 162

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۵۲ سورة الزمر ہو رہے ہیں اس لئے کوئی چیز بھی ایسی نہیں اس مادی دنیا میں کہ جس کے خواص غیر محدود نہ ہوں.اور جواب نئی تحقیق شروع ہوئی ہے ایک جگہ آکے ٹھہر جاتی ہے.ایک نسل کی ، پہلے بھی میں نے مثال دی ہے بڑی واضح ہے اس لئے میں دہراتا رہتا ہوں.ایک وقت میں ایک نسل نے کہا افیم میں چودہ ست ہیں.اگلی نسل نے کہا افیم میں اٹھائیس ست ہیں.اس سے اگلی نسل نے کہا افیم میں چوالیس ست ہیں اور اسی طرح وہ بڑھتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا نوع انسانی قیامت تک کوشش کرتی ہے خشخش کے ایک ذرے کے جو خواص ہیں وہ ان پر حاوی نہیں ہوسکتی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۰۹ تا ۴۱۶) غرض انسان کے ہر نیک عمل میں اس کے لئے چار عید میں پوشیدہ ہیں اور وہ چار دفعہ اللہ تعالیٰ کے افضال اور احسانوں کو یاد کر کے خوش ہوتا ہے اور یہ جو دو عید میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر میں مسلمانوں کے لئے مقرر فرمائی ہیں ان کا حال اسی طرح کا ہے.مثلاً عید الفطر ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہارے دلوں میں روزہ رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی.پھر تم نے روزہ رکھنے کی نیت کی.پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق بخشی کہ تم رمضان کے پورے کے پورے روزے رکھ سکو.پھر اس نے ہمیں امید دلائی کہ میں تمہارے یہ روزے قبول کرلوں گا اور اس عبادت کے نتیجہ میں میں اپنے بندہ کو اپنی رضا کی جنت میں داخل کروں گا.غرض چارخوشیاں ہمیں اس موقع پر بھی نظر آتی ہیں.پھر ماہ رمضان کی عبادت میں قیام لیل بھی ہے دن کو ہم روزے رکھتے ہیں اور رات کو عام راتوں سے زیادہ عبادت کرتے ہیں.اگر چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے مہینے میں اتنے ہی نوافل پڑھا کرتے تھے جتنے نوافل آپ دوسرے دنوں میں پڑھا کرتے تھے لیکن حدیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ان ایام میں آپ دوسرے دنوں کی نسبت زیادہ وقت لگاتے تھے.آپ بڑی لمبی لمبی رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور بعض دفعہ ان میں اکثر حصہ رات کا گزار دیتے تھے اور پھر آپ اس عبادت کو بڑے تعہد سے ادا کر تے تھے.اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آمَنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الالباب کہ جو شخص رات کی گھڑیوں میں سجدہ اور قیام کی صورت میں فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتا ہے اور

Page 163

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۵۳ سورة الزمر آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے.وہ نافرمان کی طرح ہوسکتا ہے؟ تو کہہ دے کیا علم والے لوگ اور جاہل برا بر ہو سکتے ہیں.نصیحت تو صرف عقلمند لوگ حاصل کیا کرتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دی ہے کہ اس کی نگاہ میں وہ لوگ جو رات کے اوقات میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عاجزی سے اپنی اطاعت خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہ اس کی نگاہ میں بڑا درجہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ یہاں مومن کی عبادت کے قبول ہونے سے پہلے کی حالت کو بیان کرتا ہے.فرماتا ہے کہ وہ دن کو بھی عبادت کرتا ہے اور روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام بھی کرتا ہے يَحْذَرُ الأخرة.اس کے باوجود وہ اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کیا اس کا انجام بخیر ہوگا یا نہیں.کیا خدا تعالیٰ اس کی عبادت کو قبول بھی کرے گا یا نہیں کیونکہ بعض مخفی گناہ لغزشیں اور کوتاہیاں ایسی ہیں جو اس کے اعمال کو اس طرح بگاڑ دیتی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قابل قبول نہیں رہتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن دن کو بھی عبادت کرتا ہے اور رات کو بھی قیام کرتا ہے اور تنہائی اور خاموشی میں خدا تعالیٰ کے حضور عجز اور اعتراف کرتا ہے اور اس سے اطاعت کا عہد باندھتا ہے لیکن با وجود اس قدر عبادت بجالانے کے اسے ان اعمال کے بجالانے پر کوئی فخر نہیں ہوتا اور اسے اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کو ضرور قبول کرے گا.آخرت کے معنی بعد میں آنے والی چیز کے ہوتے ہیں اور کسی نیک عمل کے بعد آنے والی چیز اس کی قبولیت اور نیک انجام ہوتا ہے يَحْذَرُ الأخرة مؤمن نیک اعمال بجالانے کے بعد بھی ڈرتا رہتا ہے کہ آیا خدا انہیں قبول بھی کرتا ہے یا نہیں؟ کہیں ان میں ایسے نقائص تو نہیں رہ گئے جن کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ سے رد کر دیئے جائیں اور پھر وہ اس ڈر کے باوجود یہ امید بھی رکھتا ہے کہ خدائے رحیم اس کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر اپنا فضل اور احسان کرے گا ، اس کی مغفرت کرے گا اور اس کی کمزوریوں کو ڈھانپ دے گا.مغفرت اور احسان دونوں معنے رحمت میں پائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَرْجُوا رَحْمَةً رَبَّه - مومن بندہ امید رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں کو مغفرت کی چادر سے ڈھانپ دے گا اور محض اپنے فضل سے اس کی عبادت کو قبول کر لے گا.فرماتا ہے کہ ایسے بندے جو دن رات خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور پھر اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کا عمل قبول ہوتا ہے یا نہیں.اور پھر وہ میری رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ میں اپنے فضل سے ان کے اعمال

Page 164

۱۵۴ سورة الزمر تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث قبول کرلوں گا.میں انہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ میں ان کے اعمال کو ان کے لئے عید بنادوں گا اور ان سے میرا سلوک ان لوگوں سے مختلف ہو گا جو سرکشی کرنے والے ہیں.فخر و مباہات کرنے والے ہیں اور کبر وغرور کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے رسول ! تم میری طرف سے اعلان کر دو.هَلُ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.وہ لوگ جو اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کے اعمال ان خوبیوں کے حامل نہیں کہ وہ ان کے نتیجہ میں ضرور جنت میں داخل ہو جائیں گے بلکہ ان کے جنت میں داخل ہونے کے لئے محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی ضرورت ہے.ان لوگوں کے برابر نہیں جو اس حقیقی اور بنیادی نکتہ کو نہیں سمجھتے.وہ تھوڑے سے اعمال بجالاتے ہیں اور پھر اس فخر اور غرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہت نیکیاں کرلی ہیں.اب اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور جنت دے دے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر میں وہی شخص مقبول ہوتا ہے جو نیک اعمال بجالانے کے بعد بھی ڈرتا رہتا ہے کہ اس کے نیک اعمال خدا تعالیٰ کی درگاہ سے رڈ نہ ہوں اور ساتھ ہی یہ امید بھی رکھتا ہے کہ خدا تعالی بڑا رحیم ہے وہ اس کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا.وہ اس کی کمزوریوں کو دور کر دے گا اور محض اپنے فضل اور احسان سے اسے اپنے قرب اور رضا کے مقام تک پہنچا دے گا.پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز جس کا تعلق اعمال صالحہ سے ہے وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے.اس لئے کسی مرحلہ پر بھی انسان کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ اس نے ایسے نیک عمل کئے.مثلاً جس وقت کسی انسان کے دل میں کسی عمل کی خواہش پیدا ہو تو اسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس کے اندر کوئی ذاتی نیکی تھی جس کی وجہ سے اس کے دل میں اس نیک عمل کی خواہش پیدا ہوئی.پھر جب وہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی نیت کرے تو اسے یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ اس کے اندر کوئی خوبی تھی جس کی وجہ سے وہ اس نیک خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو گیا بلکہ وہ یہ مجھے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس کی خواہش نیت میں بدل گئی اور جب یہ نیت عمل کی شکل میں تبدیل ہو تب بھی وہ یہ سمجھے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے اپنی نیت کے مطابق اس نیک عمل کو بجالانے کی توفیق ملی.پھر جب وہ عمل قبول ہو جائے تو وہ یہی سمجھے کہ اس کے اندر تو کوئی خوبی نہیں تھی اس کے عمل میں ہزاروں رخنے تھے لیکن اللہ تعالیٰ بڑا احسان کرنے والا ہے.بڑا فضل کرنے والا ہے اور بڑی مغفرت کرنے والا ہے.اس نے اپنی غفار ہونے کی صفت کے نتیجہ

Page 165

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۵۵ سورة الزمر میں اور اپنی رحیم ہونے کی صفت کے نتیجہ میں میرے ناقص اعمال کو قبول کر لیا ہے اور وہ مجھ سے محبت کرنے لگ گیا ہے.(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۳ تا ۶ ) آیت ۱۲ تا ۱۶ قُلْ إِنّى أُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ) وأمرتُ لأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلِ اللهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي فَاعْبُدُوا مَا ستُم مِنْ دُونِهِ قُلْ إِنَّ الْخَسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِم يَوْمَ الْقِيمَةِ اَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ.قرآن کریم نے ایک بنیادی اصول جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے اسوہ حسنہ ہیں وہ آپ کا اول المسلمین ہونا بیان کیا ہے.قرآن کریم میں آپ کے متعلق اول المسلمین کے الفاظ دو مختلف جگہوں پر مختلف مضامین کے ضمن میں استعمال ہوئے ہیں.ایک تو سورہ زمر کی ان آیات میں بیان ہوا ہے.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ - وَاُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ - که مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اطاعت صرف اُسی کے لئے مخصوص کر دوں اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں اول المسلمین یعنی سب میں سے بڑا فرمانبردار ہوں.اس آیت کریمہ کے معنے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بعض دوسری آیات سامنے لانی پڑیں گی.اس وقت میں ایک ہی آیت کولوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النساء : ۱۱۴ ) تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا ذاتی جوہر میں بھی اور ظاہری خدمات کی رو سے بھی.غرض یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ساری مخلوقات میں سے اول المسلمین یعنی اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے فرمانبردار ہیں اور اس مضمون کی وضاحت کرنے کے لئے وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيماً میں اشارہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اس کا مطلب کہ کوئی نبی نہ

Page 166

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۵۶ سورة الزمر ایسا آیا اور نہ آ سکتا تھا جو فرمانبرداری کے مقام میں آپ سے بڑا ہوتا.آپ سب سے بڑے فرمانبردار ہیں.اس معنی میں اول المسلمین کہا گیا ہے کیونکہ یہاں آنحضرت کی زبانِ مبارک سے کہلوایا گیا ہے کہ مجھے خدائے واحد و یگانہ اور رب کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اول المسلمین بن جاؤں اور کسی سے پیچھے نہ رہوں.بلکہ سب کو پیچھے چھوڑ دوں اور خود آگے نکل جاؤں.پس اول المسلمین کے اس معنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ نہیں بن سکتے.کیونکہ وہ تو ایک ہی تھا جو آگے نکل سکتا ہے.سب سے آگے دو نہیں نکل سکتے.یا تین نہیں نکل سکتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے.جو سب سے آگے نکلتا ہے.پس سورۃ زُمر میں جو مضمون بیان ہوا ہے.اس میں آپ کی ایک بلندشان بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ قرب الہی کے حصول میں آپ ساری مخلوقات میں سے آگے نکل گئے.حتی کہ انبیاء کو بھی ذاتی جو ہر کے لحاظ سے بھی اور ظاہری خدمات کے لحاظ سے بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیا.دوسری جگہ اول المسلمین ایک دوسرے معنی میں استعمال فرمایا ہے.اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے کہ اے رسول ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کی یعنی اُس نے مجھے وہ راہ بتائی ہے جس پر چل کر خداداد قوتوں اور استعدادوں کو کامل نشو و نما ملتی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمونہ بیان کر کے بتایا کہ اگر قوتوں کی صحیح نشو نما کرنا مقصود ہو تو شرک کا کوئی شائبہ انسانی زندگی، انسانی کوشش اور انسانی محنت میں نہیں ہونا چاہیے.ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ تو خدا کی طرف جھک جائے اور کچھ غیر اللہ کی طرف جھک جائے تو نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول! تو کہہ دے! إِنَّ صلاتي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.میری نماز اور میری دعائیں جن سے میں اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کرتا اور طاقت پاتا ہوں اور میری عبادتیں اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے جلال کو ظاہر کرنے والی اور اس کے بندوں کو آرام پہنچانے کے لئے ہے.لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اس میں اللہ کے لفظ میں خدا کے جلال کو ظاہر کرنے کی طرف اشارہ ہے اور رب العالمین میں بندوں کی خدمت کی طرف اشارہ ہے.یہاں یہی نہیں فرما یا لا شَرِيكَ لَه بلکہ یہ بھی فرما یا وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ مجھے اس چیز کا حکم دیا گیا

Page 167

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۵۷ سورة الزمر ہے کہ جو صراط مستقیم بنائی گئی ہے.اُس پر چلوں.ملت ابراھیم کو اختیار کروں اور میری نماز اور میری عبادت ، میری زندگی اور میری موت خدا تعالیٰ کے جلال اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے وقف ہو اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنا میری زندگی کا مقصد ہو اور پھر فرما یاد بذلك أمرت یعنی ان قوتوں کی نشو نما کا مجھے حکم دیا گیا ہے.گویا اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آنحضرت کو جسمانی اور علمی اور اخلاقی اور روحانی قوتیں عطا ہوئی تھیں وہ آپ کی ذات میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق دی تھی کہ آپ اپنی خدا داد قوتوں کی نشو ونما کو ان کے کمال تک پہنچا دیں.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی معنی میں اول المسلمین ہونا بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ کے مترادف ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عبادات کیسے کریں.ہمیں اس کی طاقت نہیں ہے میں کہتا ہوں تمہیں کسی نے یہ کب کہا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اپنی زندگی گزارو.وہ طاقتیں تم میں ہیں ہی نہیں.ان طاقتوں کی تم نشو نما تمام کر ہی نہیں سکتے لیکن اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر چہ یہ تو صیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی تھیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھیں آپ نے اپنی پوری توجہ اور انہماک اور ہر قسم کی قربانی کر کے اور ایثار دکھا کر اُن طاقتوں اور استعدادوں کو اُن کے کمال تک پہنچا دیا تھا.اس لئے ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اُس اسوۂ نبوی کے مطابق اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی اپنی طاقتوں اور استعدادوں کو ان کے کمال تک پہنچائے.گواؤل المسلمین کے اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.آن أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِینَ کے لحاظ سے اسوہ نہیں کیونکہ اس میں تو سب سے آگے نکلنا مراد ہے اور سب سے آگے ایک ہی نکلا کرتا ہے اور جس نے آگے نکلنا تھا وہ نکل گیا لیکن اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی اور قو تیں دیں ان قوتوں کو آپ نے اپنے دائرہ استعداد میں (دائرہ استعداد سے مراد شریعت کا کمال ہے.) اپنے کمال کو پہنچا دیا.اس لئے ہر شخص کو کہا گیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں سو کی بجائے ۹۰ فیصد طاقت ملی ہو تو وہ اپنے اس دائرہ استعداد میں اسے کمال تک پہنچائے.اگر کسی کواشی یا

Page 168

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۵۸ سورة الزمر ستر یا پچاس یا پچھپیں یا نہیں یا دس فیصد طاقت ملی ہو تو وہ اپنے اسی دائر ہ استعداد میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچائے.پس قرآن کریم نے اصولی طور پر جو پہلی چیز بتائی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی قوتوں اور طاقتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق کمال تک پہنچایا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقتیں سب سے زیادہ تھیں.آپ کا دائرہ استعداد ایک کامل دائرہ استعداد تھا.آپ نے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی طاقتوں کو کمال تک پہنچایا.اسی طرح آپ کے اُسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی قوتوں کو ان کے کمال تک پہنچائے اور یہی وہ تعلیم ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اُسوہ حسنہ ہیں.اب کسی کا دوسرے شخص سے یہ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تو میرے جتنی نمازیں نہیں پڑھتا یا نوافل نہیں پڑھتا اس لئے تو جہنم میں جائے گا.کوئی شخص دوسرے سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو میرے جتنے روزے نہیں رکھتا اس لئے تو جہنم میں جائے گا.کوئی شخص کسی سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو میرے جتنی زکوۃ نہیں دیتا اس لئے تو جہنم میں جائے گا.جس شخص کو خدا نے پیسے ہی نہیں دیئے وہ زکوۃ کیسے دے گا.جس شخص کی فطرت میں کثرت نوافل کی استعداد ہی نہیں رکھی گئی اس کے حصہ میں نوافل کی کثرت نہیں.خدا تعالیٰ نے اس نکتہ کے سمجھانے کے لئے ہمیں فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے اپنے دائرہ استعداد کے مطابق اپنی قوتوں اور طاقتوں کو کمال نشود نما تک پہنچاؤ گے تو تمہارے حالات کے مطابق جنت کا ایک نہ ایک دروازہ کھول دیا جائے گا.ظاہر ہے کہ ہر ایک آدمی کے حالات مختلف ہوتے ہیں.ہر ایک کی دلی کیفیت مختلف ہوتی ہے.ہر ایک آدمی کا مجاہدہ مختلف ہوتا ہے.اسی طرح ہر ایک کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں.اس لئے لازماً ہر ایک کا دائرہ استعداد اور اس کا کمال بھی مختلف ہوتا ہے.چنانچہ خدا نے فرمایا میں نے تمہارے لئے جنت کے آٹھ دروازے بنادیئے ہیں.تم اپنی استعداد اور اس کی نشوونما کے مطابق جس دروازے کو پسند کرو اس میں سے داخل ہو جاؤ.(خطابات ناصر جلد اول صفحہ ۵۷۶ تا ۵۷۹) ان الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ۲۰) بعثتِ نبوی کے بعد (صلی اللہ علیہ وسلم ) دین تو اب ایک ہی رہ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کہہ کر اس آیت میں پکارا ہے اور کوئی اس کے علاوہ دین

Page 169

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۵۹ سورة الزمر نہیں ، کوئی ایسی ہدایت جو قرآن کریم سے متضاد ہو یا اس سے مخالف ہو یا اس سے مختلف ہوا ایسی نہیں جو انسان کو ان راہوں کی طرف ہدایت دے سکے جو راہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں.اس اعتقاد پر ہم احمدی کھڑے کئے گئے ہیں اور اس اعتقاد پر ہم احمدی قائم ہیں کہ إِنَّ الدِّين عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورہ زمر میں فرماتا ہے.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ - قرآن کریم کا ہر حکم ایسا ہے کہ جس کے پہلے مخاطب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور چونکہ ہمیں آپ کے اسوہ کی پیروی کرنے کا حکم ہے.اس لئے مسلمان جو ہیں، جہاں بھی ہیں، جب بھی تھے، جب بھی ہوں گے.ہر مسلمان جو ہے اس کو ہر حکم مخاطب کرتا ہے کہ ” تو کہہ دے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ائی اُمرت کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اطاعت صرف اسی کے لئے مخصوص کر دوں.اس آیت میں دو چیز میں واضح طور پر بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے.دوسرے یہ کہ عبادت کے معنی اسلام میں بڑے وسیع ہیں.عبادت کے معنی یہ ہیں مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ کہ اطاعت صرف اسی کے لئے مخصوص کر دوں یعنی قرآن کریم کے ہر حکم کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوئی.قرآن کریم کہتا ہے مثلاً کسی پر بدظنی نہ کرو یہ حکم ہے اللہ تعالیٰ کا جو شخص بدظنی اس لئے نہیں کرتا اس نیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے شرط بن گئی.وَأُمِرْتُ لأن أكونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ اور مجھے صرف یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں اطاعت صرف اسی کے لئے مخصوص کر دوں بلکہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے دائرہ استعداد میں جو شرف اور مرتبہ اسلام انسان کے لئے لے کر آیا اپنے دائرہ استعداد میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاؤں اور ایک ارفع مسلمین مقام کو حاصل کروں.سب سے ارفع مقام تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور م کے آپ خاتم ہیں اور آپ ہی حقیقی معنی میں اَولَ المُسلِمِينَ ہیں اس کے معنی پہلوں نے بھی یہی کئے ہیں کہ زمانہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ شرف اور مرتبہ اور مقام کے لحاظ سے اسلام میں اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الإسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رفعت حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں ہوئی تو فرمایا: - وَأُمِرْتُ لأن أكونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے بڑا فرمانبردار بنوں.

Page 170

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۶۰ سورة الزمر چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاحیت اور استعداد نوع انسانی میں سب سے بڑی تھی اور چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت سے اپنی استعداد اور صلاحیت کو سب سے زیادہ نشو نما دینے میں کامیابی حاصل کی اس لئے آپ سب سے بلند مقام پر چلے گئے لیکن اسوہ حسنہ کی پیروی اس بات میں یہ نہیں کہ ہم اس مقام تک پہنچیں جہاں تک ہم پہنچ ہی نہیں سکتے متضاد ہو جاتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کریم کی نگاہ میں جو مقام پایا اس مقام تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکتا لیکن اس معنی میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری قوتوں اور استعدادوں اور صلاحیتوں کی کامل نشوونما کی اور یہ قو تیں اور استعدادیں اور صلاحیتیں انسانوں میں سب سے بڑی تھیں.اس لئے اسوہ یہ بنے گا کہ جہاں تک اس معاملہ کا تعلق ہے ہر انسان یہ کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی قوت اور صلاحیت اس کو دی ہے اس دائرہ استعداد میں وہ جتنا اونچا جاسکتا ہے وہ جائے اور کسی کوتا ہی اور غفلت کے نتیجہ میں وہ ایسا نہ ہو کہ جس مقام پر اللہ تعالیٰ کی عطا اسے پہنچانا چاہتی تھی اس مقام سے وہ نیچے گرار ہے.پھر یہ کئی آیات ہیں اسی ترتیب سے میں ان کو لے رہا ہوں.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيم کہہ کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ اعلان کیا اور ہر مخلص مسلم کو بھی یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہمارا رب کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو خالص کرو.اس طرح پر کہ اطاعت اس کے لئے خالص ہو جائے اور اسلام کے سب حکموں کی پیروی کرو.وہ ایک ہی راستہ خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف جو لے جانے والا ہے یعنی دینِ اسلام، اس پر گامزن رہو.تو یہاں یہ فرمایا کہ اگر میں نافرمانی کروں اور اس راہ کو چھوڑ دوں اور اس کی بجائے دیگر راہوں کی تلاش میں لگارہوں یا دیگر راہوں پر گامزن ہو جاؤں.تو وہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی نہیں ہوں گی.اني أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ میں یہ ڈرتا ہوں کہ اگر میں ایسا کروں تو اللہ تعالیٰ بڑے دن کے عذاب میں مجھے مبتلا کرے گا.ہر مومن، مسلم کے دل میں یہ خوف یہ خشیت موجود رہنی چاہیے.

Page 171

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 171 9991 سورة الزمر پندرھویں آیت اس سورت (سورۃ الزمر) کی یہ ہے.قُلِ اللهَ اعْبُدُ چونکہ میرے دل میں یہ خشیت ہے کہ اگر میں نے اسلام کو چھوڑا تو خدا تعالیٰ کا عذاب مجھ پر نازل ہوگا.اس لئے یہ اعلان کر دے کہ میں خدا کو نہیں چھوڑ سکتا.پھر کہہ دے کہ میں اللہ کی عبادت اطاعت کو صرف اس کے لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا ہوں.اسلام کیا ، اسلام کے کسی حکم کو بھی میں چھوڑ نہیں سکتا.اسلام پر پختگی کے ساتھ میں قائم ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلام کے لانے والے، اسلام کو پھیلانے والے، اسلام کو بتانے والے، اسلام کی تفسیر کرنے والے، اسلام پر چل کر ایک اسوہ قائم کرنے والے ہیں.بنی نوع کے لئے لیکن ہر انسان کو امت میں سے کہا گیا ہے کہ یہ اعلان کرو کہ دنیوی طاقتیں اگر ہمیں اسلام سے پرے ہٹانے کا سارا زور بھی لگا دیں گی تو ہم اسلام کا جو راستہ ہے جو ہدایت ہے جو تعلیم ہے اور جو یہ عظیم احسان ہے.اللہ تعالیٰ کا ہماری قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے لئے سامان پیدا کرنے کے لئے ، ہم اس راہ سے کسی خوف سے یا کسی ڈر سے یا کسی لالچ سے ادھر ادھر نہیں جائیں گے.ہم اس کے اوپر مضبوطی سے قائم ہیں.قُلِ الله أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِینِی کہہ دے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کو صرف اس کے لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا ہوں.قرآن کریم ہماری ایک ایسی شریعت ہے، ایک ایسی تعلیم ، ایک ایسا دین جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود اس میں فرمایا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة : ۴) آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا.میں نے کہا تھا اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ.اس لئے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ یہ دینِ اسلام کامل ہو گیا.اس لئے نہیں کہ تمہیں تکلیف میں ڈالے.اتسمت عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة : ۴) اس لئے کہ تمہارے اوپر میری نعمتوں کی انتہا ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں یہ ہو کہ میں تم سے راضی ہو جاؤں.میں نے تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کیا.اس پر چلو گے میں تمہیں پسند کرنے لگ جاؤں گا.قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہ دو پکار کے ساری دنیا کے سامنے کہ میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا له دینی اس لئے سن لو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اطاعت کو صرف اس لئے وابستہ کرتے ہوئے کرتا

Page 172

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث سورة الزمر ہوں.فَاعْبُدُوا مَا شَخْتُم مِّن دُونِهِ باقی رہے تم تو اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی چاہو تم عبادت کرو.میں مکلف نہیں ہوں اس بات کا کہ تمہیں بھی پکڑ کے باندھ کے دینِ اسلام کی طرف لے کے آؤں.جس طرح دنیا کی کوئی طاقت مجھے ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان ہے ) اور پھر ہر امتی کی طرف سے، ہر وہ جاں نثار جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فدائی ہے، ہر وہ شخص جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی زندگی گزار رہا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میں تو اس راہ کو نہیں چھوڑوں گا جس راہ پر مجھے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم نظر آتے ہیں.تم جو مرضی کرتے رہو اور جس کی چاہو عبادت کرو لیکن ایک بات سن لو کہ پوری طرح گھاٹے میں پڑنے والے لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو بھی اور اپنے رشتہ داروں کو بھی قیامت کے دن گھاٹے میں ڈالا اور اچھی طرح یا درکھو کہ قیامت کے دن گھاٹے میں پڑنا، یہ کھلا کھلا گھاٹا ہے اور اس سے زیادہ کسی کو نقصان اور گھاٹا پڑ نہیں سکتا اور اس سے بڑا عذاب کوئی ہو نہیں سکتا اور اس سے بڑا کوئی دکھ نہیں کہ خدا تعالیٰ سے انسان دور ہو جائے.إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسلام خدا تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے.اسلام کے علاوہ اور کوئی دین نہیں اور ہم احمدی اپنے دین پر قائم ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس راستہ سے ہٹا نہیں سکتی.زبر دستی کر کے نمازیں نہیں چھڑوا سکتی.ہم سے روزے نہیں چھڑوا سکتی نیز دیگر جو سات سواحکام ہیں انہیں نہیں چھڑوا سکتی اور وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دینا(ال عمران :۸۲) جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین پسند کرے گا وہ اپنے لئے یا کسی اور کے لئے فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ (ال عمران :۸۲) دینِ اسلام کے سوا کوئی اور دین خدا تعالیٰ کو مقبول نہیں ہے، پسندیدہ نہیں ہے.وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ (آل عمران : ۸۲) اور وہ قیامت کے دن گھاٹے میں پڑے گا.(خطبات ناصر جلد نهم صفحہ ۷۳ تا ۷۸) آیت 19 الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَبِكَ الَّذِينَ هل بهم اللهُ وَأُوتِيكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ.يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ انسان! انسان کا یہ فرض تھا.انسان کی پیدائش کی یہ غرض اس کی زندگی کا یہ مقصد

Page 173

۱۶۳ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا ایک زندہ تعلق پیدا کرے.اس کے لئے ایک تو وحی، قانون قدرت کے مطابق وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کے نیک بندے آتے رہے.انبیاء آئے جن پر شریعتیں نازل وئیں.ایسے نبی پیدا ہوئے جنہوں نے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ (المائدة: ۴۵) انہوں نے پہلی شریعت کے مطابق لوگوں کی ہدایت کے اور ان کی تربیت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک کامل شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور افراد اور نوع انسانی بحیثیت مجموعی خدا کے دربار میں داخل ہو، اس کے سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے سورۃ انبیاء میں ہے.قُلْ إِنَّمَا انْذِرُكُم بِالوخي (الانبیاء : ۴۶) جو میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ ان راہوں کو اختیار نہ کرو جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا.وحی نازل ہوتی ہے کہ میں تمہیں کہوں کہ تم ان راہوں کو اختیار نہ کرو اور اس کے ساتھ وہ دوسرا پہلو بھی عربی کے محاورے قرآن کریم کے محاورے کے لحاظ سے آ جاتا ہے اور میں ان راہوں کی نشاندہی کرتا ہوں جن پر چل کر تم خدا کے قرب کو حاصل کر سکتے ہو اور اس کے پیار کو پاسکتے ہو.وَلَا يَسْمَعُ الصُّةُ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنْذَرُونَ (الانبياء : ۴۲) اور جب اس شخص کو جس کے کان کو ابھی حکم باری نہیں ملا کہ وہ وحی کی آواز کو سنے وہ نہیں سنتا.جب وہ انذار ہو اس کو کہا بھی جائے، بتایا جائے ، نشان دہی کی جائے ، عقل بھی ہے دوسرے ہوش و حواس بھی ہیں مگر خدا تعالیٰ کا حکم نہیں نازل ہوا تو یہ جو معنی میں کر رہا ہوں یہ اس آیت کے مطابق ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے میں نے مہر لگا دی ہے لیکن وہ اپنا مستقل ایک مضمون ہے اپنے اپنے وقت پر بیان ہوتے رہتے ہیں.پھر سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ پہلے تو یہ تھا نا سنتے نہیں.اس میں یہ ہے کہ سنتے ہیں پھر ان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی ہدایت دیتا ہے اس فرد واحد کو، آتا ہے کہ تو سن اور سمجھ.پھر وہ پوری طرح سمجھتا ہے تو ہر تعلیم کے متعلق بنیادی حکم یہ ہے کہ عمل صالح کرو جو موقعہ اور محل کے مطابق ہو.بندے کو یہ اختیار دیا گیا ہے نا اور اسی وجہ سے اس کو ثواب ملتا ہے وہ سوچتا ہے کہ کون سا احسن طریق ہے اس حکم خداوندی پر عمل کرنے کا اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے تو الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَولَ جو بات کو سنتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت پھر جو سب سے بہتر عمل ہے اس کے نتیجہ میں فيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ اس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں.اولبِكَ الَّذِينَ هَدبُهُمُ اللهُ یہ عمل اس واسطے احسن کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ވ

Page 174

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۶۴ سورة الزمر ہدایت دے رہا ہے اپنے زور سے نہیں وہ کر سکتے.ان کے اوپر احسن عمل کرنے کے لئے آسمانی ہدایت نازل ہوتی ہے اس شخص پر وَ أُولَيكَ هُمْ أُولُوا الالباب اور حقیقی اور صحیح معنی میں یہی لوگ عقلمند أولوا الألباب کہلا سکتے ہیں کیونکہ جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی اس غرض کو وہ پورا کرنے والے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۶۲، ۴۶۳) آیت ۲۴ اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبًا مُّتَشَابِهَا مَثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَ عدُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إلى ذكرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادِه b اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے قرآن کریم کا اثر قبول کرنے کے لئے دو بنیادی باتیں بتائی ہیں.ایک خشیت اللہ کا ہونا اور دوسرے محبت الہی کا دل میں پایا جانا.جہاں تک خشیت کا تعلق ہے، عربی زبان میں صرف خوف یا ڈر کا نام خشیت نہیں ہے.بلکہ اُس خوف کو خشیت کہتے ہیں جو کسی کی عظمت اور جلال کے عرفان کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی عظمت اور جلال کی معرفت کے بعد اس کا خوف کھانا خشیت کہلاتا ہے.پھر اسی طرح محبت سے میری مراد د نیوی محبت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے جب محبت کا تعلق ہو تو اسے محبت الہی کہتے ہیں اور یہ محبت، اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کے نتیجہ میں اور اس کے احسان کو دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتی ہے.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کروں.عربی محاورہ اور اردو ترجمہ کے لحاظ سے عبادت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل اور فروتنی اختیار کروں.غرض عربی لغت میں عبادت کے معنے غاية النلل کے ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی تذلل اور فروتنی کی راہوں کو اختیار کیا جائے.مگر یہ

Page 175

۱۶۵ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث تذلل اسی وقت نفس انسانی میں پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات اور اس کی عظمت کا عرفان ہو.اس کے بغیر تذلل اختیار نہیں کیا جا سکتا.در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظمت اور جلال ہے کہ جب لوگ ان صفات کو پہچاننے لگتے ہیں تو اُن کا سر پھر بامر مجبوری ہی اٹھتا ہے ورنہ جھکا ہی رہتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار تھے (اس وقت مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ گھوڑے پر سوار تھے یا اونٹنی پر ) اور آپ دعا میں لگے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ کا سر جھکنا شروع ہوا یہاں تک کہ کاٹھی کے ساتھ لگ گیا.اور اس سے نیچے تو جاہی نہیں سکتا تھا.پس یہ ہے غایت تذلل یعنی انتہائی فروتنی اور اس کا ظاہری کمال.آپ کا سر کاٹھی کے ساتھ لگ گیا.اس سے نیچے جاہی نہیں سکتا تھا.اور یہ اتنا تذلیل اور فروتنی ہے جس سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے یہ قلبی ، روحانی اور ذہنی کیفیت پیدا ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے نہ دیکھے.اور اللہ تعالیٰ کی عظیم جلالی صفات کی معرفت نہ رکھتا ہو.اسی لئے فرمایا وو يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ جو لوگ اپنے رب کی خشیت رکھتے ہیں یعنی اس کی عظمت کو دیکھ کر اس کے سامنے تذلل اختیار کرتے ہیں ان کو قرآن کریم کی تعلیم اس رنگ میں اور اس طور پر متاثر کرتی ہے کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر کسی آدمی کے سامنے یکدم جنگل میں مثلاً شیر آ جائے یا کسی اور چیز سے وہ ڈر جائے ( اور عام زندگی میں بھی کئی دفعہ ہر انسان کو ایسا تجربہ ضرور ہوتا ہے ) تو ایک سنسنی سی پیدا ہوتی ہے.اور انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے.تقشعر کے یہی معنے ہیں یعنی خوف کے مارے جسم میں لہر دوڑنے اور سنسنی پیدا ہونے کے معنوں میں تَقْشَعِر کا لفظ استعمال ہوتا.تا ہے.پس ہمارے رب کے مقابلے میں شیر کی کیا حیثیت ہے یا اگر پہاڑ کی بلند چٹانیں ہوں اور ان کے نیچے آپ کھڑے ہوں تو آپ کا دماغ چکرا جاتا ہے اس کی تھوڑی سی بلندی دیکھ کر تو اللہ تعالیٰ کی بلندی اور اس کی رفعت اور اس کی عظمت کا تو انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ تو نہ ختم ہونے والی صفات ہیں.غرض جیسا کہ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے ہمیں اپنے اندر خشیت یعنی تذلل پیدا کرنا چاہیے.

Page 176

تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۶۶ سورة الزمر پھر قرآن کریم کی تعلیم اثر کرے گی اور وہ کیفیت جو عظمت کے مشاہدہ کے بعد پیدا ہوتی ہے.وہ پیدا ہونے لگ جائے گی.لیکن اگر خشیت اللہ نہ ہو اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس ہی نہ ہو اور اس کے سامنے تذلیل اختیار کرنے کا عہد نہ ہو تو پھر قرآن کریم کی تعلیم کا کوئی اثر نہیں ہوگا.پس انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کرے.خشیت اللہ صرف کسی انتہا کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی ابتدا بھی ہے اور اس کی انتہا بھی ہے.نیز اس کی ابتداء اور اس کی انتہا میں بڑے فاصلے ہیں.اور بڑی دوری ہے.انسان اسے شروع کرتا ہے اور پھر وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے.وہ آہستہ آہستہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے.آخر حضرت خالد بن ولید اسلام لانے کے بعد پہلے دن تو اتنی خشیت اللہ نہیں رکھتے تھے جتنی مثلاً یرموک کے میدان میں انہوں نے دکھائی تھی.اور اللہ تعالیٰ کے رعب کے نیچے آ کر انتہائی عاجزی کی راہوں کو اختیار کیا تھا.وہ جرنیل تھے مگر خلیفہ وقت کا حکم آیا تو سپاہی بن گئے.اور دل میں قطعاً کسی قسم کا کوئی احساس پیدا نہیں ہونے دیا.اس واسطے کہ جہاں ان کو خلافت کے حکم نے لا کر کھڑا کیا تھا اس سے بھی نیچے انہوں نے خود اپنے آپ کو کھڑا کیا ہوا تھا.اور یہی انتہائی تذلیل کا مقام ہے.پس یہ تو ہے خشیت.دوسرے محبت الہی ہے جو ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكرِ اللہ سے مستنبط ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کے احسان اور دوسری جمالی صفات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس ان ہر دو یعنی خشیت اور محبت کی ایک ابتدا بھی اور ایک انتہا بھی ہے.لیکن کوئی فاصلہ حرکت کے بغیر طے نہیں کیا جاسکتا اور کسی منزل پر آپ چلے بغیر پہنچ نہیں سکتے.اس لئے جب آپ اس کی ابتدا کریں اور پھر حرکت کریں یعنی اپنی ذہنی ، اخلاقی اور روحانی تربیت کریں تب آپ یہ فاصلہ طے کر سکیں گے اور اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق اس کی انتہا تک پہنچ سکیں گے.چونکہ ہر ایک آدمی کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے.اس لئے ہر ایک آدمی نے اپنے دائرہ صلاحیت میں ترقی کرنی ہے.تاہم اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے اپنے لحاظ سے چھوٹی سی ابتدا کر کے اس کی انتہا تک پہنچنا ہے.پس قرآن کریم محض پڑھنے کی کتاب نہیں ہے.یہ تو ایک ایسی کتاب ہے جس سے زندگیوں میں اس سے بھی بڑا انقلاب آتا ہے جو انسان کی ظاہری آنکھ نے اشترا کی انقلاب کی شکل میں روس میں یا سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں چین میں دیکھا ہے.انسان دراصل خود ایک عالم ہے.ہمارے صوفیا

Page 177

۱۶۷ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث نے انسان کو ایک یو نیورس قرار دیا ہے.ایک زاویہ نگاہ سے حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان خود ایک عالم ہے اس کے اندر ایک انقلاب آ جاتا ہے لیکن اس انقلاب کے لئے یہ ضروری ہے کہ خشیت اللہ ہو.پھر یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اور دوسری صفات کا عرفان دیتی اور اس میں بڑھاتی چلی جاتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت بھی ہونی چاہیے.آپ کتے کو دس دن روٹی دیں تو وہ دم ہلاتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری اور باطنی نعماء سے مالا مال کر دیا مگر پھر بھی انسانوں میں سے بعض ناشکرے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رسول کے پیچھے نہیں چلتے ، اس کی آواز پر لبیک نہیں کہتے.غرض ذاتی محبت انتہائی احسان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.جب انسان خود کو اللہ تعالیٰ کی نعماء میں اس طرح گھرا ہوا پاتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کے احسان کے علاوہ اور کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی.تب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھر جاتا ہے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس رشتہ محبت کو جسے وہ اپنے رب سے باندھتا ہے.قطع نہیں کر سکتی.ہماری (انسان کی) تاریخ میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، انبیاء علیہم السلام کی بھی اور اولیاء اللہ کی بھی پھر سب سے بہتر اور اعلیٰ اور احسن مثال حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی ہے.آپ کی مکی زندگی کا وہ واقعہ تو بڑا مشہور ہے جب سرداران مکہ نے آپ کو اور آپ کے چند ماننے والوں کو قریباً اڑھائی سال کے لئے شعب ابی طالب میں بند کر دیا تھا.اُن پر رسد کی ساری راہیں بھی بند کر دی تھیں.تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ رکھنے کے لئے کچھ کیا تو تھا.مگر اس کی تفصیل ہماری تاریخ نے محفوظ نہیں رکھی.لیکن ان کی حالت یہ تھی کہ ایک بزرگ صحابی کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پاؤں ایک ایسی چیز پر پڑا جسے میرے پاؤں نے نرم محسوس کیا میں نیچے جھکا اسے اٹھایا اور کھا لیا.بعد میں مدینہ میں انہوں نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے آج تک پتہ نہیں وہ چیز کی تھی بھوک کی یہ حالت تھی کہ ان کو یہ دیکھنے کا خیال ہی نہیں آیا کہ یہ چیز کھانے کے قابل بھی ہے یا نہیں.غرض اڑھائی سال تک اس شدید تکلیف کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ان کا رشتہ قطع نہیں ہوا.بلکہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا.کیونکہ اس عرصہ میں خدا جانے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کے کیا کیا جلوے دیکھے تھے.ہر آدمی اپنی زندگی میں یہ جلوے دیکھتا ہے ہم نے اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی

Page 178

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۶۸ سورة الزمر صفت احسان کے وہ جلوے دیکھے ہیں جن کا مادی سامانوں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے حکم کے اجراء میں مادی اسباب کا محتاج نہیں ہے.اُس نے یہ اسباب ہمارے لئے پیدا کئے ہیں اور ہم شکر کے ساتھ ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ ان کا محتاج نہیں ہے.خدا تعالیٰ تو کسی چیز کا محتاج نہیں ہے.خدا تعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے کہ ایک آدمی کو گرمی سے بچانے کے لئے بھری محفل میں صرف اس کے لئے ٹھنڈی ہوا چلا دے اور وہاں اس کے جو ساتھی بیٹھے ہوں، اُن کو محسوس ہی نہ ہو رہا ہو.خدا تعالیٰ یہ بھی کر سکتا ہے.( مثلاً حافظ روشن علی صاحب تھے ) اُن کو کھانا بھی کھلا رہا ہو اور کسی کو نظر بھی نہ آ رہا ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ مادی اشیا کا محتاج نہیں اور نہ اپنے بنائے ہوئے مادی قوانین کا محتاج اور قیدی ہے وہ تو غالِب عَلَی آمرہ (یوسف:۲۲) ہے.اس کے جو قوانین ہیں ، اُن کے اوپر بھی اس کا حکم غالب ہے.جب چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے وہ کرتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے پیار کے اُن جلووں کا یہ کرشمہ تھا ( جو مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ نے اڑھائی سال میں دیکھے تھے ) کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی ظلم اور دنیا کی کوئی سختی محبت کے اس تعلق کو قطع نہ کر سکی جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا تھا.پس سورہ زمر کی ان آیات میں جو میں نے اس وقت پڑھی ہیں اور اپنے مضمون کے لحاظ سے میں نے ان کو اکٹھا کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف میری عظمت کے سامنے تم نے جھکنا ہے کسی اور کے سامنے اپنے سروں کو نہیں جھکانا اور خالصتاً صرف میری اطاعت کرنی ہے اور کسی کی اطاعت نہیں کرنی.میں نے محبت کا جو ذکر کیا ہے وہ دراصل سارا اطاعت کا کرشمہ ہے کیونکہ اصل اطاعت محبت کے زور ہی سے کروائی جاتی ہے.یہ جو ڈنڈے کے زور سے اطاعت کروائی جاتی ہے یہ اطاعت نہیں ہوتی.بلکہ اطاعت کا چھلکا ہوتی ہے.محبت کے زور سے جو اطاعت کروائی جاتی ہے وہ ظاہر میں بھی اطاعت ہوتی ہے اور باطن میں بھی اطاعت ہوتی ہے وہ برسر عام بھی اطاعت ہوتی ہے اور بالکل تنہائی کے لمحات میں بھی اطاعت ہوتی ہے کیونکہ اس اطاعت کا تعلق اور اظہار ہی اور ہوتا ہے.پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکوں اور تذلل اختیار کروں.اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں صرف اسی کی

Page 179

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۶۹ سورة الزمر اطاعت کروں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی دوسری جگہ یہ اعلان بھی کروا دیا.اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۴) کہ پہلا مخاطب بھی میں اور سب سے بڑھ کر اطاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں.اور پہلا مسلم اور مومن بھی میں ہی ہوں اسی لئے یہ اعلان بھی کروادیا کہ اے نبی ! کہہ دو.قُلِ اللهَ اعْبُدُ مُخْلِصًا له دینی خدا تعالیٰ کے حضور کامل اور انتہائی تذلیل کے ساتھ جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اس کی خالص اطاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں.باقی میں اور آپ ہم سب لوگ اور جو پچھلے چودہ سو سال میں پیدا ہوئے ہیں، ہمیں ہر چیز خلتی اور طفیلی طور پر ملی ہے.خلی اور طفیلی کے اس مسئلے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے دھوکا کھایا ہے.کچھ بھی بغیر نظل اور طفیل کے نہیں ملتا.اور اگر طلقی اور طفیلی رشتہ قائم ہو تو پھر سب کچھیل جاتا ہے.غرض سورہ زمر کی اس آیت کریمہ اللهُ نَزِّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیث کی رو سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں ایک بہترین کتاب اتاری ہے، جس نے پہلی صداقتوں کو بھی اپنے اندر لیا ہوا ہے اور ایک نئی اور عظیم تعلیم بھی اس کے اندر پائی جاتی ہے.انسان کو یہ حکم دیا ( پہلے ذکر آ چکا ہے) کہ کامل عبادت اور حقیقی اطاعت کے سب سامان اور وسائل اس کتاب میں رکھ دیئے گئے ہیں.لیکن اس کے اثر کو قبول کرنے کے لئے دو چیزیں بڑی ضروری ہیں.ایک اللہ تعالیٰ کی خشیت اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے ذاتی اور خالص محبت اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان دونوں چیزوں کی بھی ایک ابتدا ہے.اور ایک انتہا ہے جسے پانا ( ہر شخص کے دائرہ استعداد میں ) ممکن ہے.لیکن جو شخص ابتدا نہیں کرتاوہ انتہا تک پہنچنے کی امید نہیں رکھ سکتا.(خطبات ناصر جلد چهارم ۲۵۴ تا ۲۶۰) قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا نزول اس لئے بھی ہے کہ میں گداز دل پیدا کروں جیسا کہ سورۃ الزمر کی چوبیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبًا مُتَشَابِهَا مَثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكرِ اللهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ یعنی ہم نے اس احسن الحدیث کو ، اس بہترین ہدایت کو یعنی اس قرآن کریم کو اس کتاب کو جو متشابہ بھی ہے اور مثانی بھی ہے یعنی تمام صداقتوں کو اپنے اندر جمع بھی رکھتی ہے اور جس جس پہلی کتاب کی صداقت اس نے لی ہے اس سے وہ مشابہت رکھتی ہے اور اس کے علاوہ دیگر نہایت اعلیٰ

Page 180

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث 12.سورة الزمر مضامین اس کے اندر پائے جاتے ہیں جو پہلی کتب سماوی میں نہیں پائے جاتے تھے اور اس کامل اور مکمل کتاب کے نزول کی ایک غرض یہ ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وہ لوگ جو اپنی فطری خشیت اللہ سے کام لیتے ہیں وہ حقیقی معنی میں قرآن کریم کے فیوض اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے گداز دل بن جائیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے اور بنی نوع کی ہمدردی سے گداز ہو جائیں.فرما یا ذلِكَ هُدَی اللہ یہ قرآن کریم کی ہدایت ہے لیکن کوئی شخص اپنے زور سے اسے حاصل نہیں کر سکتا يَهْدِى بِه مَنْ يَشَاءُ دعا کرو کہ اس حسین ہدایت کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کرنے والے بن جاؤ اور اس کی برکتوں سے حصہ لینے والے بن جاؤ.قرآن کریم کی ہر آیت اپنے اندر بڑے وسیع معانی رکھتی ہے لیکن اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس لئے بھی ہے کہ دلوں کو گداز کیا جائے اور فطرت انسانی کے اندر جو خشیت اللہ کا جذبہ رکھا گیا ہے اس کی ترقی اور ارتقا کے سامان پیدا کئے جائیں.جس طرح آنکھ بغیر بیرونی روشنی کے دیکھ نہیں سکتی.جس طرح عقل بغیر انوار آسمانی کے ناقص رہ جاتی ہے اور وہ اپنے کمال کو حاصل نہیں کر سکتی اسی طرح دل بھی وہی دل ( قلب سلیم) ہے کہ جو قرآنی برکات سے اللہ تعالیٰ کی خشیت اس رنگ میں اپنے اندر رکھتا ہو جس رنگ میں کہ خدا چاہتا ہے کہ وہ خشیت اللہ سے کام لے.سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَالهُم الهُ وَاحِدٌ فَلَةٌ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الحج: ۳۶،۳۵) یعنی تمہارا خدا اور معبود خدائے واحد و یگانہ ہے اس لئے (آسلموا ) اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو اور اس کے حضور اس طرح اپنی گردن کو جھکا دو جس طرح ایک بکرا قصاب کی چھری کے سامنے مجبور ہو کر اپنی گردن جھکا دیتا ہے.تم طوعاً اور بشاشت کے ساتھ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بن جاؤ.وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْن اور ہم اس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان لوگوں کو اپنے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی وہ کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تو اس کا دل کانپ اُٹھتا ہے اس کا دل گداز ہو جاتا ہے جس کا دل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر گداز نہیں وہ محبت اور عاجزی کرنے والا نہیں بن سکتا اور جو عاجز نہیں جو محبت نہیں وہ اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا اور جو

Page 181

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الزمر مسلمان نہیں وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کرتا.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۷۰،۴۶۹) وو آیت ۳۴ تا ۳۹ وَ الَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَيكَ هُمُ الْمُتَتَّقُونَ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۖ ذَلِكَ جَزْوُا الْمُحْسِنِينَ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ اَسْوَا الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۖ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مضِلّ اليْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِي انْتِقَامٍ وَلَبِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَ اللهُ قُلْ اَفَرَعَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ اِنْ ، ارَادَنِي اللهُ بِضُرّ هَلْ هُنَّ كَشِفْتُ ضُرَّةٍ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ ود b مُسِلَتْ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ.ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور غلبہ حق سے متعلق بعض نہایت اہم امور ذہن نشین کرائے گئے ہیں جو علی الترتیب یہ ہیں.(۱) جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے سچی تعلیم لائے اور وہ شخص جو ایسی تعلیم کی تصدیق کرے ایسے لوگ متقی ہونے کے باعث خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہوتے ہیں.(۲) ایسے لوگ جو کچھ چاہیں گے انہیں وہ سب کچھ اپنے رب کی جناب سے ملے گا اور وہ چاہیں گے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے برے پہلوؤں کو ڈھانک دے اور ان کا بدلہ بھی ان کے اعمال میں سے جو سب سے اچھے اعمال ہوں ان کے مطابق انہیں دے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کی جزا بھی ان کے سب سے بڑے اور سب سے اچھے عمل کی جزا کے مطابق دے گا.(۳) ظاہر ہے ایسا رحمن و رحیم اور ارحم الراحمین خدا جو سب دینے والوں سے بڑھ کر دینے والا ہے

Page 182

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۱۷۲ سورة الزمر اپنے بندوں کے لئے کافی ہے.اسلئے انہیں ہر طرف سے منہ موڑ کر اسی پر توکل کرنا چاہیے اور صحیح معنوں میں اُسی کا ہوکر رہنا چاہیے.(۴) باقی رہے خدا تعالیٰ کے علاوہ دوسرے وجود جن سے بالعموم ڈرایا اور جن کا خوف دلایا جاتا ہے ان کا حلقہ اقتدار بہت محدود اور عارضی ہے.ان سے کوئی توقع رکھنا اور ان پر بھروسہ کرنا محض بے کار ہے، خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انہیں کوئی قدرت اور طاقت حاصل نہیں ہے تھوڑا بہت اقتدار رکھنے کے باوجود وہ خود محتاج ہیں، وہ کسی کو کیا دے سکتے اور کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں، اجر بے حساب کا دینے والا صرف خدا ہے جو ہر شے کا خالق و مالک اور قادر مطلق ہے.(۵) جس کو اللہ تعالی گمراہ قرار دے دنیا کی کوئی طاقت یا فتویٰ اسے ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتا.اسی طرح جو خدا کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہے دنیا کی کوئی طاقت یا کوئی فتویٰ اسے ہدایت سے محروم نہیں کر سکتا اور نہ دنیا کی کوئی طاقت یا فتویٰ ایسے ہدایت یافتہ کو افضال وانعامات کا وارث بنانے سے خدا تعالیٰ کو باز رکھ سکتا ہے.دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کی بھی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو اس بات سے روک دے کہ وہ اپنے ہدایت یافتہ بندوں سے پیار نہ کرے اور انہیں اپنے افضال و انعامات کا مورد نہ بنائے.(1) اللہ تعالیٰ غالب ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہے.اس لئے وہ اپنے ہدایت یافتہ حقیقی بندوں کو اپنی تائید و نصرت کا مورد بنا کر ان کے ذریعہ حق کو غلبہ عطا کرتا ہے.برخلاف اس کے وہ اطاعت سے نکلنے والوں ، نافرمانوں اور ظلم کو اپنا شیوہ بنانے والوں پر اپنا قہر نازل کرتا ہے.ان آیات میں جس سچی تعلیم اور اس کو لانے والے وجود باجود کا ذکر کیا گیا ہے.اس سے مراد قرآن مجید کی سچی اور تا ابد قائم رہنے والی ہر لحاظ سے کامل ومکمل تعلیم ہے اور ظاہر ہے کہ اس کو لانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور جہاں تک اس کامل و مکمل اور تا قیامت قائم و دائم رہنے والی تعلیم کی تصدیق کا تعلق ہے تو اس سے مراد محض زبانی تصدیق ہی نہیں ہے بلکہ عربی لغت اور قرآنی محاورہ کی رُو سے تصدیق کے معنے اس تعلیم پر صدق دل سے مخلصانہ عمل کرنے کے بھی ہیں.اس میں زبانی تصدیق اور عملی تصدیق دونوں شامل ہیں.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری زمانہ میں احیا و غلبہ اسلام کی غرض سے مہدی علیہ السلام کے مبعوث ہونے کی بشارت دی تو

Page 183

تفسیر حضرت علیله اسیح الثالث ۱۷۳ سورة الزمر اس میں آپ نے یہی بتایا تھا کہ آنے والا مہدی قرآنی تعلیم کی دلائل و براہین کے ذریعہ زبان سے ہی تصدیق نہیں کرے گا بلکہ اپنے عمل اور اس عمل کے نتیجہ کے طور پر معرض وجود میں آنے والے اپنے رفیع الشان مقام کے ذریعہ بھی اس کی صداقت کو دنیا پر آشکار کر دکھائے گا.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۲۷ تا ۱۲۹) قرآن عظیم کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آلیس الله بکاف عبده کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں کا مفہوم اور اس کے معنی بیان کئے.پچھلے ایک خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ یہ انگوٹھی جو میں نے پہنی ہوئی ہے اور جس کے اوپر الیس الله بکاف عبده لکھا ہوا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انگوٹھی ہے.آپ کے والد کی وفات پر آپ کو الہام ہوا تھا کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۲۰) اسی زمانہ میں جس پر ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے آپ نے یہ نگینہ بنوایا اور اس پر یہ عبارت لکھوائی اور یہ انگوٹھی تیار کروائی.اب یہ انگوٹھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت راشدہ احمدیہ کو دے دی ہے، بجائے اس کے کہ اسے اپنے خاندان میں رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس الہام کے بعد میں نے ان گنت بار اللہ تعالیٰ کے نشان ، جو اس وعدہ کو پورا کرنے والے تھے ، اپنی زندگی میں دیکھے جو وعدے اس فقرے کے اندر مضمر ہیں ان آیات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہی میں تین مفہوم پائے جاتے ہیں.ایک تو یہ کہ یہ سوال ہے.سوال کے طور پر پوچھا گیا ہے کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ؟ پھر بہت سے سوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں باوجود اس کے کہ فقرہ سوالیہ ہوتا ہے ایک بنیادی حقیقت کا بیان بھی ہوتا ہے مثلاً روز مرہ دنیا میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کسی باپ کا بیٹا اس کا کہنا نہ مانتا ہو اور وہ اس کو اپنا حق ، جو باپ کا بیٹے پر ہوتا ہے یاد دلانا چاہے تو کہتا ہے کہ کیا میں تمہارا باپ نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ یہ پوچھتا ہے کہ بتاؤ تم میرے بیٹے ہو یا نہیں بلکہ مطلب حقیقت بیان کرنا ہوتا ہے اور سوالیہ فقرے میں اس حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے اس کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں.میں نے ایک موٹی سی مثال دے دی ہے تا کہ ہمارے بچے اور نوجوان بھی سمجھ لیں.تیسرے یہ فقرہ جواب کا مطالبہ کرتا ہے.ہر سوال جواب کا مطالبہ کرتا ہے.چنانچہ جب پوچھا گیا ہے تو مخاطب کو بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافی تو ہے مگر کیا وہ بھی واقعی

Page 184

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۷۴ سورة الزمر خدا تعالیٰ کو کافی سمجھتا ہے.اس تیسرے مفہوم کو لے کر یہ آیتیں آگے مضمون کو اٹھاتی ہیں.فرمایا کہ جب نوع انسانی سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں تو انسان دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ایک وہ جو تسلیم کرتے ہیں اور اعتقا در کھتے ہیں اور ان کی روح کی یہ آواز ہوتی ہے کہ خدا ہی ہمارے لئے کافی ہے کسی اور چیز کی ہمیں ضرورت نہیں، مولا بس.اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس حقیقت کو نہیں سمجھتے.کبھی وہ بتوں کی طرف جاتے ہیں کبھی وہ مال و دولت سے مرعوب ہوتے ہیں اور کبھی وہ خدا کو بھول کر ایک ایسے شخص کی طرف جھکتے ہیں جس کا اپنے علاقہ میں بڑا اثر اور اقتدار ہو وغیرہ وغیرہ.وہ لوگ غیر اللہ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَه کا عملاً یہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں، محض اللہ ہمارے لئے کافی نہیں بلکہ ماسوا اللہ کی بھی ہمیں ضرورت ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک گروہ ایسا ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ مجھے ماسوا اللہ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے اللہ ہی اللہ ہے اور اللہ ہی میرے لئے کافی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ يُخَوَفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو کافی نہیں سمجھتے وہ تجھے ماسوا اللہ سے ڈراتے ہیں، ان کا خوف پیدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی تعلق رکھو ورنہ تمہیں تکلیف ہوگی، ورنہ تمہیں نقصان پہنچے گا، ورنہ تمہیں پریشانی اٹھانی پڑے گی.ان کے نزدیک محض اللہ کافی نہیں ہے.وہ خوف دلاتے ہیں ان کا جو الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ہیں.مِنْ دُونِهِ کے فقرے میں جو بت تراشے جاتے اور پوجے جاتے ہیں اور خدا کے شریک ٹھہرائے جاتے ہیں وہ بھی آجاتے ہیں اور اس کے اندروہ بھی آجاتے ہیں جو خدا کے شریک تو نہیں ٹھہرائے جاتے لیکن ان کو خدا کے علاوہ احتیاج پورا کرنے والا سمجھا جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو ان کا محتاج سمجھتا ہے.وَيُخَوفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ عملاً ایک ایسا گروہ ہے جو الیس اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کے جواب میں کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں یہ کہتے ہیں کہ نہیں کافی نہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ خود اس بات پر عمل کرنے والے ہیں وہ دوسروں کو بھی ڈراتے ہیں اور دھمکاتے ہیں اور تلقین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف خدا نہیں بلکہ یہ چیزیں بھی ہیں کچھ ان کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ کہ وہ لوگ جو يُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِ کے مصداق ہیں وہ ضال ہیں، وہ صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں ، وہ دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں دھتکارا جائے

Page 185

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۷۵ سورة الزمر وہ ہدایت پر قائم نہیں ہوتا اور نہ اس صورت میں اسے کوئی ہدایت پر قائم رکھ سکتا ہے یا یہ ثابت کرسکتا ہے کہ وہ صراط مستقیم کی طرف لے جانے والا اور صراط مستقیم پر اور ہدایت پر قائم ہے.وَ مَنْ يَهْدِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ تُضِل اور وہ لوگ جو اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے جواب میں ان ڈرانے والوں کے خوف سے ڈرتے نہیں ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہوں ساری دنیا انہیں کافر اور ضال کہتی رہے اور مضل بناتی رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت یافتہ ہے حقیقتاً وہی ہدایت یافتہ ہے عقلاً بھی اور شریعت کی رو سے بھی.پھر فرمایا النيس اللهُ بِعَزِيزِ ذی انتقام یعنی محض یہ نہیں کہ انسانوں کا ایک گروہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہدایت سے دور پڑ گیا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ضَال اور مُضلّ ہو گیا اور دوسرے گروہ کو خدا تعالیٰ نے ہدایت یافتہ پایا اور ہدایت یافتہ قرار دیا.محض یہاں بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اليْسَ اللهُ بِعَزِيز ذی انتقام خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو گمراہ ٹھہرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو ہدایت یافتہ ٹھہر تے ہیں ان سب کے اعمال کا نتیجہ نکلتا ہے.جو گمراہ ٹھہرتے ہیں ان کو ان کی بداعمالیوں کا بدلہ ملتا ہے اور جو ہدایت یافتہ ٹھہرتے ہیں ان کو ان کے اعمال صالحہ کا ثواب ملتا ہے کیونکہ اليْسَ اللهُ بِعَزِيزِ ذِی انتقام کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور ذی انتقام بھی ہے.عزیز کے معنی ہیں اس طرح پر غالب کہ کوئی اس پر غالب نہ آسکے اور اپنی چلانے والا اور لا يُعْجِزُۂ احد اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہ ہو، اس کو عزیز کہتے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے بندے بن جاتے ہیں اور مجھے ہی کافی سمجھتے ہیں ان کو میں ثواب دیتا ہوں ان کو میں جزا دیتا ہوں.ان کے لئے میں نے جنتیں بنائی ہیں اور جن کو میں گمراہ ٹھہراتا ہوں ان کو میں سزا دیتا ہوں کیونکہ میں ذی انتقام ہوں ان کی اصلاح کے لئے میرا غضب بھڑکتا ہے.پھر اگلی آیت میں عزیز اور ذی انتقام کی تشریح اور تفسیر آئی ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا اللہ ہے اور جو خالق ہے وہی مالک ہے.اس نے جو کائنات جو عالمین اور ہر دو جہان پیدا کئے ہیں ان پر اس کی حکومت چلتی ہے اس لئے وہی عزیز بھی ہو سکتا ہے اور وہی ذی انتقام بھی بن سکتا ہے.پس بتاؤ تو سہی کہ مَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہ کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اِن اَرَادَ نِي اللهُ بِضُر اگر

Page 186

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث سورة الزمر اللہ تعالیٰ ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے تو هَلْ هُنَّ كَشِفتُ ضُرة کیا وہ لوگ جو خالق نہیں اور جن کا حکم اس کائنات میں چلتا نہیں ، جو مالک نہیں اور متصرف بالا رادہ نہیں ، جن کے احاطہ اقتدار میں کوئی چیز بھی نہیں تو کیا جب اللہ جو خالق اور مالک ہے اور جس کے احاطہ اقتدار میں ہر چیز ہے اگر کسی کو ضرر پہنچانا چاہے، اگر کسی کو سزا دینا چاہے، اگر کسی کی بداعمالیوں کا نتیجہ اسے چکھانا چاہے، اگر اس پر اپنا غضب بھڑ کا نا چاہے اور اپنے دست انتقام سے گرفت کرنا چاہے تو یہ لوگ جن کو تم پکارتے ہو خدا تعالیٰ کو عاجز کر دیں گے؟ اس کو جو عزیز بھی ہے اور ذی انتقام بھی ہے وہ اس ضرر اور نقصان کو دور نہیں کر سکتے اور اگر مَنْ يَهْدِ اللهُ فَمَا لَهُ مِن قُضِلّ کے مصداق گروہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ارادہ کرے تو هَلْ هُنَّ مُسِكَ رَحْمَتِهِ کیا تم اس رحمت کو روک سکتے ہو.خدا تعالیٰ کی رحمت اس کے نیک بندوں پر نازل ہوتی ہے جس طرح کہ اس کا غضب اس کے بندوں کی اصلاح کے لئے آسمان سے اترتا ہے اور ان کے لئے اس زندگی میں بڑی سخت جہنم پیدا کر دیتا ہے.رحمت کی بے شمار قسمیں ہیں کیونکہ ہماری زندگی کے بھی بے شمار پہلو ہیں.مثلاً علم اور فراست میں زیادتی ہے، نور کا حاصل ہونا ہے جس کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ نور تمہارے آگے آگے چلے گا اور تمہاری راہنمائی کرے گا.اموال میں برکت ہے، اولا د میں برکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے مانے والے وہ برکتیں لیں گے جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کی ہیں.جن گھروں میں وہ رہ رہے ہوں گے ان کو خدا تعالیٰ برکتوں سے معمور کر دے گا اور جس چیز کو وہ ہاتھ لگا ئیں گے وہ برکتوں والی ہو جائے گی لیکن یہ ماننے والوں کے لئے ہے، ریا اور تکبر جن کے اندر نہ ہو اور الیس الله بکاف عبده پر عمل کرنے والے ہوں.مولا بس کے بعد تو پھرا پنا نفس بھی باقی نہیں رہتا.میں نے بتایا ہے کہ پھر کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی.مِن دُونِ اللہ میں جو چیز بھی شامل ہے الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ اس کی نفی چاہتا ہے.اکیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَها جو ایک سوال بھی تھا اور ایک حقیقت بھی تھی اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی دیا جو خدا تعالیٰ کے پاک بندے دیتے ہیں جس کا آگے ابھی ذکر آتا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ ان گنت دفعہ یہ الہام خدا نے میرے لئے پورا کیا اور اس کو نشان بنایا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ضرر پہنچانے والے پیدا ہوئے تو خدا تعالیٰ نے حسب وعدہ آیات قرآنیہ اس ضرر کو دور کر دیا اور جہاں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی

Page 187

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث 122 سورة الزمر ضرورت تھی اس نے ہر قسم کی رحمت مہیا کر دی.ایک شعر ہے کہ رحمت کا نزول اس طرح ہے کہ تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے ہر لحظہ خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام پر ایمان لا کر، قرآن کریم پر ایمان لا کر، اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اللہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس اللہ پر ایمان لا کر اور الیس اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ میں جو سوال کیا گیا تھا اس کا صحیح جواب دے کر ان نعمتوں کو حاصل کیا.ہر شخص جو اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کے مفہوم کو سمجھتا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے وہ بھی اسی طرح شر سے بچایا جاتا ہے اور رحمتوں کے دروازےاس پر کھولے جاتے ہیں.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ کا تیسرا مفہوم یعنی یہ جو سوال ہے کہ کیا تمہارے لئے خدا کافی نہیں ہے اس کا جواب ان آیات کے آخر میں بیان ہوا ہے اور وہ یہ ہے قُل حَسبى الله کہہ دے مجھے اللہ کا فی ہے.حسبی الله کے معنی ہی یہ ہیں کہ مجھے اللہ کافی ہے.وہاں کہا تھا اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ کہ کیا اللہ کافی نہیں تو یہاں کہا کہ تو کہہ دے کہ حسبى الله الله میرے لئے کافی ہے.یہ اس کا جواب ہے حسبي الله یعنی اللہ کافی ہے کہنا محض زبان کا کام نہیں بلکہ انسان کے وجود کا کام ہے.یہ جواب دینا کہ حسبي الله یہ نہیں کہ زبان پر حسبی اللہ ہو اور انسان غیر اللہ کی طرف جھک جائے اور ان سے تو قعات رکھنے لگ جائے اور ان سے امیدیں باندھنے لگ جائے اور ان سے سہارا لینے لگ جائے اور کچھ خدا کو دے اور کچھ غیر اللہ کو دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر کچھ خدا کو دو گے اور کچھ غیر کو دو گے تو خدا کہے گا کہ جو مجھے دیتے ہو وہ بھی تمہارے منہ پر مارا جاتا ہے، لے جاؤ اسے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ کو تو انسان کی احتیاج نہیں آنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى الله (فاطر ۱۶) ہم ہیں اللہ تعالیٰ کے محتاج، ہم فقیر ہیں اور محتاج ہیں اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر رحمت سے حصہ عطا کرے.عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ یہاں اليس اللهُ بِكَافٍ عبده کا جواب حسبی الله کے بعد پھر اسی معنی میں دیا ہے کہ تو کل کرنے والوں کے لئے ایک ہی دروازہ ہے، ایک ہی وجود ہے، ایک ہی ہستی ہے جس پر وہ تو کل کر سکتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے باقی کسی پر توکل نہیں کر سکتے.انسان کو زندگی میں بہت سے جھٹکے لگتے ہیں لیکن

Page 188

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث 12A سورة الزمر ایک مومن کی صدا اور اس کا اعلان یہی ہے کہ حسبى الله میرے لئے اللہ کافی ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۹۵ تا ۱۰۱) اليسَ اللهُ بِكَافٍ عبده کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ یہ عام اعلان ہے ایک جس کا تعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس معنی میں ہے کہ عملاً اس حقیقت کو ظاہر کرنے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یہ سینتیسویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے.انتالیسویں آیت میں ہے.تو کہہ دے مجھے اللہ کافی ہے (یہ جو آیا تھا پہلے ).قُلْ حَسْبِيَ اللهُ - أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عبد پہلی آیت ( آیت ۳۷ میں تھا ) پھر کہا اعلان کر دو حسبی اللہ میرے لئے اللہ کافی ہے کسی غیر کی مجھے ضرورت نہیں.عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَجُلُونَ اس لئے جو میری اتباع کرنے والے ہیں انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ تم صرف خدا پر توکل کرو.ہمیں قرآن کریم میں یہ حکم ہوا.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) اور اتباع کس چیز میں کرو؟ (صرف میں اصولی طور پر ود ایک بات بتا رہا ہوں اس وقت ) فرمایا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ اعلان کروایا ) ان اتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَی الی (یونس :۱۲) جو وحی مجھ پر نازل ہو رہی ہے میں صرف اس کی اتباع کرتا ہوں اور جس وقت ہمیں کہا گیا کہ آپ کی اتباع کرو تو اس کے یہ معنی ہو گے کہ جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صرف اس وحی کی اتباع کر رہے ہیں جو آپ پر نازل ہو رہی ہے.اس لئے ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ صرف اس وحی کی اتباع کرے جو آپ پر نازل ہورہی ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۶۴) آیت ۵۴ تا ۵۶ قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وانبُوا إِلَى رَبَّكُمْ وَ اَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ وَ اتَّبِعُوا اَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَ أَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ.ان آیات میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے عظیم اور حسین جلوے نظر آتے ہیں

Page 189

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۷۹ سورة الزمر اور ہمیں بڑی وضاحت سے ان راہوں کا علم دیا گیا ہے کہ جن پر چل کے اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اس کی مغفرت اور اس کی رحمت کو حاصل کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى انفهم کہ انسان ضعیف ہے اگر چہ اس کو فطرت صحیحہ دی گئی ہے اور اس کے اندر یہ قوت اور یہ استعدا در کھی گئی ہے کہ وہ اپنے رب کا عبد بنے اور اس کی صفات کا مظہر بنے لیکن اسے یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ چاہے تو اپنے رب کی آواز پر لبیک نہ کہے بلکہ اس سے منہ موڑ لے اور شیطانی راہوں کو اختیار کر لے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت میرے بعض بندوں پر ایسا بھی آتا ہے کہ ان کے دل میں یہ احساس شدت اختیار کرتا ہے کہ انہوں نے فطرت کی آواز کو نہ سنا اور اپنی فطرت صحیحہ کے تقاضوں کو پورا نہ کیا اور جو ہدایت ان کی ربوبیت کے لئے آسمانوں سے نازل کی گی تھی اس پر کان نہ دھرے نہ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا اور اس وقت ایسا انسان اپنے گناہوں کو دیکھ کر اپنے دل میں مایوسی کے جذبات پاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی رحمت کے دروازے میرے پر بند ہو گئے ہیں تو ان اوقات میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تقنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بتایا ہے کہ میری صفات میں سے ایک صفت غفور ہونے کی اور ایک رحیم ہونے کی ہے، اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ میری رحمت جو ہر دوسری چیز کو اپنے گھیرے اور اپنی وسعتوں میں لئے ہوئے ہے اس سے مایوس نہ ہونا، کیونکہ میں غفور ہونے کی وجہ سے تمہارے گناہوں کو بخش سکتا ہوں اور بخشوں گا اور رحیم ہونے کے لحاظ سے تم پر رجوع برحمت ہوں گا لیکن میری رحمت کے حصول کے لئے جو طریق تمہیں اختیار کرنے چاہئیں وہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں اور وہ یہ کہو انبُوا إلى ركھ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے ایک گنہگار بندے پر کہ خدا کی مدد اور نصرت سے وہ محروم ہو چکا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی مدد سے نجات نہیں دلا سکتی وہ وقت وہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی قہری گرفت میں وہ آ جائے جب اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے وہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا وہ مورد بن رہا ہو تو واضح ہے کہ کوئی دوسری ہستی اس کی مدد اور نصرت کو پہنچ نہیں سکتی اور جو اس کی مدد کر سکتا تھا اس کی مدد سے اس نے اپنے ہی اعمال کے نتیجہ میں خود کو محروم کر دیا چونکہ انسانی زندگی یا ایک گنہگار کے لئے مرتے وقت یہ وقت ایسا آتا ہے کہ کسی طرف سے بھی اسے مدد نہیں پہنچ سکتی نہ پہنچتی ہے غیر اللہ سے مدد پہنچ نہیں سکتی اللہ کی طرف

Page 190

تفسیر حضرت خلیلة اسم الثالث سے مدد پہنچتی نہیں.۱۸۰ سورة الزمر تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چونکہ عذاب کے وقت تو بہ قبول نہیں ہوتی اور رحمت کے سب دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اس لئے میں اپنی گرفت میں تاخیر ڈالتا ہوں تم گناہ کرتے ہو میں گرفت نہیں کرتا میں تمہیں چھوڑتا ہوں اس لئے کہ کسی وقت تمہاری فطرت بیدار ہو جبکہ وہ پہلے سوئی ہوئی تھی یا کسی وقت تمہاری فطرت زندہ ہو جو پہلے مردہ یا نیم مردہ تھی اور تم اپنے گناہوں سے نجات کے طریق کو ڈھونڈنے کی خواہش اپنے اندر پاؤ اور تم یہ سمجھو کہ ہم نے اپنے نفسوں پر بڑا ہی ظلم کیا تھا جب ہم نے نفسانی خواہشات کی پیروی کی تھی اور اللہ تعالیٰ کی ہدا یتوں کو ٹھکرا دیا تھا.چونکہ میں عذاب میں تاخیر ڈالتا ہوں اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ عذاب سے پہلے پہلے اگر انِبُوا اور اسلِموا پر عمل کرو گے تو تم میری مغفرت اور رحمت کو حاصل کر لو گے.اگر تم (جس طرح پہلے گناہ کی طرف بار بار لوٹتے تھے گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے تھے ) اب اپنے رب کی طرف بار بار لوٹو اور تو بہ کے بعد تو بہ کرتے چلے جاؤ اور اسلموا اگر تم اپنے تمام اردوں اور نفسانی خواہشات سے کھوئے جاؤ اور خدا کی رضا میں محو ہو جاؤ خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لو تو جب نفسانیت پر موت وارد ہو جائے گی خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے چمکتے ہوئے نور کے ساتھ دوبارہ تمہیں زندگی عطا کرے گی.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قبل اس کے کہ میری گرفت، میرا قہر، میرا عذاب تم پر نازل ہو میری طرف جھکو ایک بار نہیں بار بار میری طرف لوٹو تو بہ کے ساتھ اور استغفار کے ساتھ اور اپنے دلوں کو ایسا بنالو کہ ہر غیر ایک مردہ تمہیں نظر آئے اور زندہ اور حیات کا چشمہ میری ذات کے علاوہ تمہیں کوئی نظر نہ آئے اگر تمہاری یہ کیفیت ہو جائے اگر تم بار بار توبہ کرنے والے ہو اور اسلام کی روح اور مغز تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو اگر چہ ابھی تمہیں کسی عمل صالح کی توفیق نہیں ملی تب بھی میں تمہیں معاف کر دوں گا اور اپنی رحمت کی آغوش میں تمہیں لے لوں گا.ہمیں اس دنیا میں نظر آتا ہے کہ بہت سے خدا کے بندے اس انابت کی طرف مائل ہوتے ہیں یعنی بار بار استغفار کے ساتھ اور تو بہ کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکنے لگتے ہیں اور وہ اس یقین پر قائم ہو جاتے ہیں کہ جب تک ہم اپنی نفسانی خواہشات پر پورے طور پر موت وارد نہیں کریں گے ہم

Page 191

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۸۱ سورة الزمر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی حاصل نہیں کر سکیں گے لیکن قبل اس کے کہ کوئی عمل صالح وہ بجالا سکیں اجل آتی ہے اور اس دنیا سے وہ کوچ کر جاتے ہیں تو ان لوگوں کو بھی خدا نے کہا کہ اگر تمہاری یہ کیفیت ہے تب بھی تم مایوس نہ ہونا کیونکہ اس صورت میں بھی میں تمہیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لوں گا اور اپنے انعاموں اور فضلوں کا تمہیں وارث بناؤں گا لیکن اگر تم بار بار تو بہ کروا گر تم اس حقیقی روح اسلام کا دعویٰ کرو اور پھر تمہیں اور زندگی بھی عطا ہو تو یہ یا درکھو کہ پھر عمل کے ساتھ تم نے صدق اور وفا کا ثبوت دینا ہے اگر تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ بڑی استغفار کرنے والے ہو اگر تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو پاگئے ہیں کہ اپنی تمام مرضوں اور خواہشات کو خدا کی رضا پر قربان کر دینا چاہیے لیکن تمہیں عمل کا موقع ملتا ہے عمل صالح کا اور تم وہ عمل صالح بجا نہیں لاتے تو پھر تمہاری انابت ظاہری اور تمہارا اسلام کا دعویٰ تمہیں کچھ کام نہیں دے گا.وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَ انْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں کہ تمہیں انابت الی اللہ اور اسلام کے بعد یعنی اس روح اسلام کے بعد جس کی طرف میں نے ابھی مختصراً اشارہ کیا ہے، موقع دیا جائے گا زندگی عطا ہو کچھ عرصہ تمہیں اس دنیا میں رہنے دیا جائے تو پھر یہ یاد رکھنا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہونا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم خاص قسم کے اعمال بجالا ؤ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے اور یہ نہ بھولو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس نے تمہیں پیدا کیا اور فطرت صحیحہ عطا کی اور اس فطرت صحیحہ کی نشوونما کے لئے آسمان سے اس نے اپنی وحی کو نازل کیا اور فطرت فطرت میں اس نے فرق رکھا اور وقت وقت اور موقع موقع اس نے علیحدہ قسم کے رکھے.ہر قسم اور ہر موقع کے لحاظ سے ہر فطرت صحیحہ کے لئے ایک عمل صالح بنا یا تو اگر تم اپنی حالت اپنی قوتوں اور استعدادوں کے مطابق اور موقع اور محل کے لحاظ سے احسن عمل بجانہ لاؤ گے تو میری رحمت تم پر نازل نہ ہوگی لیکن اس زندگی میں جوانا بت اور اسلام کے بعد کی ہے تم اپنی طاقت کے مطابق اپنے حالات کے لحاظ سے موقع اور محل کو دیکھتے ہوئے اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ الیم پر عمل کرو گے جو بہترین حکم ہے اس پر عمل کرنے والے ہو گے اور یہ عمل تم موت کے وقت کرنے کا ارادہ نہیں کرو گے بلکہ انابت اور اسلام کے بعد زندگی کی وہ گھڑیاں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوئی ہیں جو عذاب سے پہلے کی ہیں.اس میں تم أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ پر عمل

Page 192

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۸۲ سورة الزمر کرو گے تو ہماری رحمت کو تم پالو گے اور پچھلے سارے گناہ تمہارے معاف کر دیئے جائیں گے بڑی ہی امید دلائی ہے ان آیات میں اس گنہگار بندے کو ہمارے رب نے اور وہ راہیں سکھائی ہیں کہ جن پر چل کر ہم اس کی رحمت کو حاصل کرتے ہیں اور اس کی مغفرت کو پالیتے ہیں.یہاں ہر دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائے اس وقت تو بہ قبول نہیں ہوتی دوسری آیات قرآنیہ میں بھی اس موضوع کو بڑی وضاحت سے کھول کر بیان کیا گیا ہے یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب آئے تو خدا کا وہ فعل بتارہا ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تم محروم کر دیئے گئے ہو اور اس کے مقابلہ میں کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکتا اور جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے تو بغتةً ہوتا ہے یہ نہیں کہ وہ وقت کی تعیین کے ساتھ کہے کہ اب تمہاری پانچ سالہ زندگی رہ گئی ہے اور پانچ سال کے بعد تم پر عذاب آئے گا ایسا نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی گرفت ہمیشہ اچانک ہوا کرتی ہے اس واسطے ہرلمحہ ڈر کے اور خوف کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے پتہ نہیں کہ کس وقت اس کی قہری تجلی انسان پر وارد ہو اس لئے فرمایا کہ چونکہ عذاب کے وقت تو بہ قبول نہیں ہوتی اس سے پہلے ہو جاتی ہے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں عذاب سے دو مہینے پہلے تو بہ کر لوں گا اور خدا تعالیٰ کے انعاموں کو حاصل کرلوں گا کیونکہ عذاب کا وقت مقرر نہیں.اس لئے جس وقت بھی انسان کے نفس کی یہ حالت ہو کہ وہ اپنے کئے پر پچھتانے لگے اور اس کی فطرت میں بیداری اور زندگی پیدا ہونے لگے اور شیطان اس کو خدا کی رحمت سے دور کر نے کے لئے اس کے دل میں مایوسی کے خیالات پیدا کرنے لگے اس وقت اللہ کہتا ہے کہ مایوس نہ ہونا چونکہ ابھی میری گرفت سے تم بچے ہوئے ہو میرا عذاب تم پر نازل نہیں ہوا، تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ عذاب نازل ہو اور میری قہری تجلی کا تم پر جلوہ ہو جائے اس لئے اسی وقت جب تمہارے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ ہم نے اپنے نفسوں پر بڑا ظلم کیا ہے کہ نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور فطرت صحیحہ کی آواز کو پہچانا نہیں.اسی وقت وَ انبُوا إِلَى رَبَّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ اور اسی وقت اتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ کرنے لگو اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارا رب جس نے تمہیں پیدا کیا اور بڑی قوتیں اور استعدادیں تمہیں عطا کیں اور روحانی ترقیات وہ تمہیں دینا چاہتا ہے وہ آہستہ آہستہ ترقی دے کر تمہیں تمہارے کمال تک پہنچائے گا اور تم اس

Page 193

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے.۱۸۳ سورة الزمر (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۹۴ تا ۹۸) اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.یہ بات کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے حقیقتا صرف اس کو کہی جاسکتی ہے جو سارے گناہوں میں ملوث ہو جو شخص صرف ایک گناہ کا احساس رکھتا ہے اس کو آپ جا کر کہیں کہ مایوس نہ ہو اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے تو وہ کہے گا مجھ سے یہ بات کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط لیکن اگر کسی کو احساس ہی یہ ہو کہ میں نے صرف ایک غلطی کی ہے تو سارے گناہوں کو معاف کر دینے کا اس کی طبیعت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یونہی بات گذر جائے گی لیکن وہ شخص جو خود کو ہر قسم کے گند، ناپا کی اور پلیدی میں پاتا ہے اور اس کا احساس بیدار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کرنے کا ایک جذ بہ اس کی طبیعت میں پیدا ہوتا ہے.وہ اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے بائیں طرف دیکھتا ہے سامنے دیکھتا ہے اور پیچھے دیکھتا ہے اور جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے جہاں تک اس کا شعور پہنچ سکتا ہے وہ اپنے ہادی اور نجات دہندہ کو تلاش کرتا ہے.وہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیکھتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھتا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھتا ہے.وہ تمام انبیاء کو دیکھتا ہے اور مایوس ہو کر وہاں بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ گناہوں سے نجات کے ذرائع تو ان انبیاء کے پاس ہیں مگر کچھ گنہ گار تو نہیں ہوں میں تو گناہ کی تہ تک پہنچ کر اسفل السافلین کے مقام تک پہنچا ہوں.اس لئے یہ انبیاء مجھے نجات نہیں دے سکتے تب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں آواز اس کے کان تک پہنچتی ہے اور آپ فرماتے ہیں:.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اس کو یہ آواز سننے کا لطف آتا ہے.آپ کی محبت اور شفقت اور ہمدردی اور غم خواری نے ہر دکھ کو ہر درد کو اور ہر گناہ کو دور کرنے کے سامان لئے ہوئے اور نجات کا یہ ہر طریقہ ہاتھ میں لئے ہوئے ساری مخلوق اور ساری کائنات کو اپنے احاطہ میں لیا خطابات ناصر جلد اول صفحه ۴۰۲،۴۰۱) ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو امر بالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے کو نیکی کی باتیں بتا تا رہے وہ امر بالمعروف کرتا رہے اور نہی عن المنکر کرتا رہے بدیوں سے وہ روکتا رہے.اب ہر آدمی جب دوسرے بھائی کو امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرتا ہے تو جس شخص کو سمجھایا جا رہا ہوتا ہے اس کے سمجھانے والے کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوتا کہ، وہ

Page 194

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۸۴ سورة الزمر ضرور اس کی بات مانے گا.سمجھانے والے کا کام ہے سمجھا دینا اور خاموش ہو جانا اور مخاطب کا کام ہے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق ان باتوں پر عمل کرے اس کے سامنے دور ستے ہیں وہ ان دورستوں میں سے ایک رستہ اختیار کرے گا یا تو اُسے وہ بات سمجھ نہیں آئے گی اور وہ سمجھانے والے کو کہے گا میاں تم جاؤ اور اپنا کام کرو مجھے تم کیوں ستا رہے ہو.اور اگر اُسے بات سمجھ آ جائے کہ ایسا کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے تو وہ بڑے پیار سے جواب دے گا میاں میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے میری توجہ اس طرف پھیری ہے لیکن اپنے دل میں وہ یہی سوچے گا کہ اپنے حالات کو میں بہتر جانتا ہوں.قرآن کریم کا یہ حکم نہیں کہ میں ہر وہ کام کروں جسے کوئی دوسرا شخص نیکی سمجھتا ہے.قرآن کریم کا تو یہ حکم ہے کہ جو ہدایت تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس میں سے جسے تم احسن سمجھو اس کی پیروی کرو اتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ تو افراد کے متعلق تو یہ قانون ہے لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے صرف خلیفہ وقت کی ذات ہی ہے کہ آپ میں سے ہر ایک نے اس کے ساتھ یہ عہد بیعت کیا ہے کہ جو نیک کام بھی آپ مجھے بتائیں گے میں اس میں آپ کی فرمانبرداری کروں گا.یعنی امر بالمعروف میں اطاعت کا عہد جماعت کے اندر صرف خلیفہ وقت سے ہے اور جماعتی نظام میں جب تک کسی جماعت میں خلافت قائم رہے یہ فیصلہ کرنا کہ جماعتی کاموں میں کونسی بات اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق احسن ہے اور کونسی نہیں یہ صرف خلیفہ وقت کا کام ہے کسی اور کا ہے ہی نہیں.اس نے بتانا ہے کہ موجودہ حالات میں مثلاً دوسروں کے ساتھ مذہبی تبادلہ خیال اس رنگ میں کرو.ہزار طریقے ہیں جن سے ہم مذہبی تبادلہ خیال کرتے ہیں.کس موقع پر، کس وقت پر، کس مقام پر، کس ملک میں ایک طریقہ احسن ہوتا ہے تو دوسرے موقع پر دوسرے وقت میں، دوسرے مقام پر یا دوسرے ملک میں دوسرا طریقہ احسن ہوتا ہے.ایک یہ فیصلہ کرنا کہ کونسے مقام یا کون سے ملک میں کون سا طریق احسن ہے خلیفہ وقت کا کام ہے جب خلیفہ وقت حالات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے اور جماعت سے کہتا ہے.اتَّبِعُوا اَحْسَنَ مَا انْزِلَ الیکم.یہ چیز اس وقت کے لحاظ سے اور ان حالات میں احسن ہے تم اس کی اتباع کرو.آپ کے کانوں تک اس کی آواز نہیں پہنچتی.خطابات ناصر جلد ۱ صفحه ۱۰۱،۱۰۰) خوف کے علاوہ دوسری چیز جس کا ایک مومن بندے کے اندر پایا جانا ضروری ہے.مایوسی کا نہ ہونا ہے ایک مومن بندے کو اپنے رب پر کامل یقین ہونا چاہیے اور اس کا دل اس امید سے بھرا رہنا

Page 195

تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۸۵ سورة الزمر چاہیے کہ وہ ہماری خطاؤں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ دے گا اور وہ محض احسان کے طور پر اور اپنی رحمانیت کی صفت کے ماتحت ہم سے سلوک کرے گا اور ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا یہ مومن بندہ کی دوسری شان ہے اور مومن بندہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.قُل يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَ انبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ.اے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ان تمام بندوں کو جو تجھ پر اور مجھے پر ایمان لائے ہیں.میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے اعمال میں کچھ تقصیر بھی ہے اور گناہ کی آمیزش بھی ہے اور بعض لغزشیں بھی ان سے سرزد ہوئی ہیں تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا.کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے وہ بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اگر تم سے بار بار تقصیریں اور گناہ سرزد ہوں تب بھی تم مایوس نہ ہو کیونکہ وہ بار بار رحم کرنے والا ہے اور تم سب اپنے رب کی طرف جھکو اور اس کے پورے پورے فرماں بردار بن جاؤ اس کے ارشاد اور ہدایت کے مطابق اچھے اعمال بجالا ؤ اور اس کی رضاء کو حاصل کرنے کی خاطر ان باتوں سے بچو جن سے بچنے کی اس نے تمہیں تلقین کی ہے.اور مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ - پیشتر اس کے کہ ایسا عذاب نازل ہو جس کے نزول کے بعد تمہاری مددکو کوئی نہ پہنچ سکے.یعنی اپنی زندگی میں اور موت سے پہلے اگر تم فرماں بردار بنے کی کوشش کرتے رہو گے.تو اللہ تعالیٰ یقینا بخشنے والا ہے.وہ تمہارے گناہ بخش دے گا لیکن اگر تم اپنی زندگی میں اور جب تک تمہارے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرو اور اس کی پرواہ نہ کرو.تم دین و دنیا کے ابتلاؤں کو اپنے لئے ایک مصیبت جانو اور بد عملی ریاء اور استکبار میں اپنی زندگی گزار دو تو موت کے وقت تمہارا پچھتانا تمہیں کوئی کام نہ دے گا بلکہ تمہیں ایسا عذاب ملے گا.اس سے بچنا ممکن نہ ہوگا اور اس وقت تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہو گا یعنی اس وقت خدائے رحمان بھی تمہاری مدد کو نہیں پہنچے گا.پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت، اس کی مدد، اس کی مغفرت اور رحمت کے متلاشی ہو تو اسی دنیا میں اپنی نیتوں کو خالص کر کے تمام اعمال

Page 196

۱۸۶ سورة الزمر تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث محض اللہ بجالا ؤ پھر اگر بشر ہونے اور ایک کمزور مخلوق ہونے کی وجہ سے تمہارے اعمال میں کوئی کوتاہی رہ جائے تو ہم بڑے ہی بخشنے والے ہیں.ہم تمہیں بخش دیں گے.غرض اللہ تعالیٰ ہمیں مایوسی سے روکتا ہے اور اپنی رحمت کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں اپنے فضل وکرم کی بڑی امید دلاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تم میرا قرب، میرا وصال اور میری رضاء چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تم میرے کہنے کے مطابق اعمال بجالاتے رہو.اور تمہاری ہمت اور کوشش یہی ہو.تمہاری مخلصانہ نیت یہی ہو کہ تم جو نیک کام بھی کرو گے وہ اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے کرو گے اور اگر بوجہ بشر اور کمزور مخلوق ہونے کے تم سے غلطیاں سرزد ہوئیں.تو میں ان غلطیوں کو معاف کر دوں گا اور معاف کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جب خدا تعالیٰ اس پر مہربان ہو گا اور اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مغفرت کی چادر اس کو اوڑھا دے گا.تو وہ ایسا ہی ہو جائے گا جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نیک انسان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا.قرآن وحدیث میں ایک طریق کا ذکر آتا ہے کہ اس کے گناہوں اور نیکیوں کا موازنہ ہوگا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اچھے اور بُرے اعمال کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھا جائے گا بُرے اعمال اچھے اعمال کو کینسل (Cancel) کرتے جائیں گے یعنی ان کے اوپر خط تنسیخ کھینچتے چلے جائیں گے.اگر آخر میں نیک عمل رہ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا.لیکن اگر کسی کی بداعمالیاں اس کے نیک اعمال سے زیادہ ہوں گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کا مورد بن جائے گا.لیکن جس شخص کے بُرے اعمال تھے تو زیادہ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت کی چادر ان پر ڈال دی اور وہ سب معاف کر دئے.تو اس شخص کے صرف اچھے اعمال ہی باقی رہ گئے.تو جتنا بدلہ ان اعمال کا الہی قانون کے مطابق مل سکتا ہے وہ اسے مل جائے گا.پھر اس سے زائد بھی ملے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت بے حد و حساب ہے.میں نے عید کے خطبہ میں بتایا تھا کہ رحمت کے لفظ میں مغفرت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں.پس خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بھی معاف کر دے گا اور پھر اچھے اعمال کا اپنے قانون کے مطابق بدلہ بھی دے گا اور پھر اپنی رحمت کے نتیجہ میں اس کو زائد بھی دے گا.اسی لئے تو اُخروی زندگی میں مومن کو ملنے والی جنت ابدی جنت بن جاتی ہے.کیونکہ

Page 197

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۸۷ سورة الزمر اگر انسان کو محض اس کے اعمال کا ہی بدلہ ملتا تو چاہے وہ اعمال کتنے ہی زیادہ ہوتے بہر حال انہوں نے ایک وقت ختم ہو جانا تھا اور ان محدود اعمال کا بدلہ محدود ہی ملنا تھا اور ایک حد پر آ کر ختم ہو جانا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ہم سے رحمت اور احسان کا سلوک کرنا ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے ایک ابدی جنت مقدر کر رکھی ہے.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۱۶ تا ۱۱۸)

Page 198

Page 199

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۸۹ سورة المؤمن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المؤمن آیت ۴،۳ تَنْزِيلُ الْكِتَبِ مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ غَافِرِ الذَّنْبِ وَ قَابِلِ التَّوبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي القَولِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ مطلب یہ ہے ان آیات کا کہ اس کتاب کا نزول اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب ہے، کامل غلبہ اور کامل عزت اسی کو حاصل ہے.وہ کامل علم والا ہے.تمام علوم کا سر چشمہ اسی کی ذات ہے.وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے.خطا کا رانسان کی خطاؤں پر وہی مغفرت کی چادر ڈالتا ہے اور کمزور اور مائل به گناه انسان اُسی سے طاقت حاصل کر کے میلان گناہ کو دبانے اور نفس امارہ کو پوری طرح کچل دینے کی قوت پاتا ہے.وہی رحیم و مہربان ہے.جو محض اپنے فضل واحسان سے تو بہ کو قبول کرتا ہے اور بھٹکے ہوئے راہی کو جب وہ رجوع بمولی ہو معصومیت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے اور اس سے راضی ہو جاتا ہے.وہی ہے جو اباء اور استکبار کرنے والوں کو اور انہیں جو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور شیطان کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں سخت سزا دیتا ہے اور اپنی قہری تجلی کے ساتھ ان کی اصلاح کے سامان پیدا کرتا ہے.وہی ہے جو بہت ہی احسان کرنے والا ہے اور جس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.محبت اور پرستش کا وہی ہاں صرف وہی سزاوار ہے.اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اسی سے اپنے کئے کی جزا پانا ہے.اور بہتر اور احسن جزاو ہی پائیں گے جو اس کی تعلیم پر عمل کریں گے.ان مختصری دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آٹھ اندرونی خوبیاں بیان فرمائی ہیں.(۱) پہلی خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے.تَنْزِيلُ الكتبِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ کہ یہ کتاب اس اللہ

Page 200

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۹۰ سورة المؤمن کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو العزیز صفت سے متصف ہے.جو غالب ہے اور کوئی اور ہستی اس پر غالب نہیں آسکتی.کیونکہ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں.عزیز کے ایک معنی اس قسم کی عزت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں اس جیسی قوت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی کوئی اور ہستی نہ ہو.اس لحاظ سے وہ بے مثل ہو.تو اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اس عزیز خدا کی طرف سے جو کتاب نازل کی گئی اس کتاب میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ بے مثل ہے.ایسی خوبیوں کی حامل، رضا الہی کی اس قدر فراخ راہیں دکھانے والی ہے کہ دنیا میں جس قدر کتب سماوی گزری ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور نہ کسی انسان کی طاقت میں یہ ہے کہ اس کا مثل معرض وجود میں لا سکے.اس کتاب میں کامل حسن اور کامل تعلیم اور کامل ہدایت پائی جاتی ہے.اس بے مثل اور یگانہ ذات کے پر تو نے اس کتاب کو بھی بے مثل کر دیا ہے.اگر تم اس کتاب کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم بھی ایک واحد و یگانہ بے مثل قوم بن جاؤ گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱) تم وہ اُمت ہو جس سے بہتر اُمت اس دنیا میں پیدا نہیں کی گئی تم وہ اُمت ہو جس سے زیادہ احسان ، انسان پر کسی اُمت نے نہیں کیا.پس پہلی خوبی اس کتاب کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتائی کہ اپنے کمال کے باعث یہ کتاب بے مثل ہے.اور اپنی تعلیم کی وجہ سے یہ کتاب اُمت مسلمہ کو ایک بے مثل و بے مثال اُمت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے.(۲) دوسری اندرونی خوبی ہمیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ یہ وہ کتاب ہے تنزیل مِنَ اللهِ الْعَلِيمِ.اس ذات نے اسے اتارا ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے.حقائق اشیاء اور مخلوق کے غیر محدود خواص کا علم صرف اسی پاک ذات کو ہے اور صرف وہی خدا اس بات پر قادر تھا کہ فطرت انسانی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والی کتاب اور ہدایت نازل کرتا اور ایک ایسی شریعت انسان کو دیتا جو ہر قوم اور ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہوتی.پس یہی وہ کتاب ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی اور ہدایت کی انسان کو ضرورت نہیں رہتی.ہر زمانہ کے مسائل کو یہ سلجھا دیتی ہے.روحانی علوم کے نہ ختم ہونے والے چشمے اس سے پھوٹتے ہیں اور مادی علوم کی بنیادی صداقتیں اور اصول اس میں جمع کر دئے گئے ہیں.

Page 201

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۹۱ سورة المؤمن پس اگر تم روحانیت میں ترقی حاصل کرنا چاہتے ہو، یا دنیوی علوم میں فوقیت اور رفعت کے مقام تک پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس کتاب کی پیروی کرنے والے بنو.اگر تم اس کتاب کی آواز کی طرف متوجہ نہ ہو گے.اس کی وہ قدر نہیں کرو گے جو کرنی چاہیے تو نہ روحانی میدان میں تم کوئی ترقی حاصل کر سکو گے اور نہ دنیوی علوم میں دوسروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کرسکو گے.پس مادی اور روحانی ہر دو لحاظ سے علوم میں اگر ترقی کرنی ہے اور روحانی علوم کو حاصل کر کے میدان عمل میں تم نے اترنا ہے تو تمہیں اس کتاب کی ہدایت کی ضرورت ہوگی اور اگر تم اس کے علوم حاصل کر لو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو خدائے علیم جو ہر چیز کو جاننے والا ہے اور جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.وہ تمہیں اپنے قرب کے وہ مقامات عطا کرے گا جن سے تم راضی ہو جاؤ گے جیسا کہ وہ تم سے راضی ہو گا.(۳) تیسری صفت یہاں قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ یہ اس ہستی کی طرف سے اتارا گیا ہے جو غافر الذنب ہے.گناہوں کو بخشنے والا ہے.پس یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ان نیکیوں اور ان حسنات کے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے.جو نا سمجھی کے گناہوں اور بداعمالیوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہے اور وہ طریق بتائے گئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان نفس امارہ پر قابو پالیتا ہے اور میلان گناہ کو اپنے پاؤں کے نیچے پھل دینے کی قوت پاتا ہے.مَغْفِرَةٌ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ وہ گناہ جو سر زد ہو چکے ہوں اللہ تعالیٰ ان کے بداثرات اور اپنے غضب اور عذاب سے مغفرت چاہنے والے کو محفوظ کرے.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ اگر تم اپنے گناہ پر پشیمان ہو اور استغفار کرو اور چاہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے ان گناہوں کو معاف کر کے ان کے بداثرات سے تمہیں محفوظ کرے تو تمہیں ان طریق کو اختیار کرنا ہوگا جو قرآن کریم میں بتائے گئے ہیں.دوسرے معنی مَغْفِرَةٌ کے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوت انسان کو عطا کرے کہ گناہ کی طرف جو میلان اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہو یا جو زنگ اس کی فطرت صحیحہ پر لگ چکا ہو وہ زنگ دور ہو جائے اور وہ میلان قابو میں آجائے اور انسان کا شیطان مسلمان ہو جائے اور گناہ کی طرف رغبت ہی باقی نہ

Page 202

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۹۲ سورة المؤمن رہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ غَافِرِ الذُّنب خدا کی طرف سے یہ کتاب نازل ہوئی ہے.پس اگر تم گنہگار ہو تو اسی کی طرف آؤ اور قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق پر آؤ.قرآن کریم تمہاری رہنمائی کرے گا اگر تم چاہتے ہو کہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام کو حاصل کرو.اگر تم یہ چاہتے ہو کہ قرب کی رفعتیں تمہیں نصیب ہوں.اگر یہ چاہتے ہو کہ تواضع کا وہ مقام تمہیں حاصل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان سے بھی اوپر انسان کو لے جاتا ہے تب بھی تم قرآن کریم کی طرف رجوع کرو.وہ تمہیں ایک ایسی روشنی عطا کرے گا جو ان راہوں کو جو ان نتائج کی پیدا کرنے والی ہیں روشن اور منور کر دے گی اور ان راہوں کا علم اور ان پر چلنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا.پس چونکہ یہ غافر الذنب خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے اس کی ہدایت کے مطابق تم ذنب اور اس کے بدنتائج سے خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آکر اور مَغْفِرَةٌ کے ان معانی کے مطابق جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر سکو گے.(۴) چوتھی صفت اس کتاب عظیم کی ، اس کتاب کریم اور مجید کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ اس خدا نے اتاری ہے جو قابلِ القوب ہے.یعنی تو بہ قبول کرنے والا ہے.پس اس کتاب میں یہ کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ تو بہ کن لوگوں کی، کن حالات میں اور کب قبول ہوتی ہے.اگر کوئی شخص تو بہ کرنا چاہے.اس کے دل میں ایک خلش پیدا ہو، ایک خواہش تڑپنے لگے کہ مجھے اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے.تو بہ کرنی چاہیے، تو کیا کرے.کن راہوں سے وہ تو بہ کے دروازوں تک پہنچے اور پھر انہیں کھٹکھٹائے.تو فرمایا کہ قرآن کریم قابلِ التَّوبِ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے وہ تمہیں ان دروازوں تک لے جائے گی جو تو بہ کے دروازے ہیں.وہ تمہیں بتائے گی کہ ان دروازوں کو تم نے کس طرح کھٹکھٹانا ہے تا کہ وہ تم پر کھولے جائیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ بتایا کہ جب تمہارا دل اپنے پیدا کرنے والے کی طرف مائل ہو اور اس کی طرف جھکے لیکن تم سرگردان ہو، نہ جانتے ہو کہ کن راہوں سے تم اس کی جناب میں پہنچ سکتے ہو تو اس کتاب کی طرف رجوع کرو اور اس سے روشنی اور ہدایت حاصل کرو تا تمہاری مراد بر آئے

Page 203

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۹۳ سورة المؤمن اور تمہارا رب تم سے راضی ہو جائے اور اس کی نظر میں تم ایسے بن جاؤ کہ کبھی تم سے گناہ سرزد ہی نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ b مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَبِكَ يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء : ۱۸ ) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تو بہ کس طرح اور کن لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہے اور وہ کون لوگ ہیں کہ جن کی تو بہ ان کے منہ پر ماری جاتی ہے.یہ تو ایک مثال ہے جو اشارہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں.ورنہ قرآن کریم بھرا پڑا ہے ایسی آیات سے جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ توبہ کا طریق کیا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفت قابلِ الثّوبِ کو اپنے حسن عمل سے خدا تعالیٰ اور قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جوش میں لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو توبہ قبول کرنے والا ہے ان لوگوں کیلئے تو بہ کے دروازے کھول دیتا ہے.بہر حال ہمیں اس جگہ قرآن کریم کی ایک اندرونی خوبی کی طرف جو اس میں پائی جاتی ہے متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر تم تو بہ کرنا چاہو تو صرف یہی تمہیں ہدایت دے سکتی ہے کہ تو یہ کس طرح کی جاتی ہے اور کن راہوں سے اللہ تعالیٰ نے جو تو بہ کے دروازے رکھے ہیں ان کو کھولا جاسکتا ہے.(۵) پانچویں صفت قرآن مجید کی یہاں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن مجید اس خدا نے نازل فرمایا ہے جو شَدِیدُ الْعِقَابِ ہے.کہ جب وہ سزا دینے پر آتا ہے تو بہت سخت سزا دیتا ہے.اس عزیز و قہار کے قہر اور غضب اور لعنت اور سزا اور عذاب سے اگر بچنا چاہو تو اس کا طریق بھی یہی کتاب تمہیں بتلائے گی.کبھی تمہارے دل میں پہلوں کی مثال بیان کر کے خوف اور خشیت پیدا کرے گی تا تم اس کی طرف جھکو اور اس کے رحم کو جذب کرو.سورۃ الحاقۃ میں مثلاً شَدِیدُ الْعِقَابِ کی قدرت کی ایک مثال بیان کی ہے تاکہ دلوں میں خوف پیدا ہو اور انسان خدا کی طرف پیٹھ کرنے اور اس سے پہلو تہی کرنے سے بچے.اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایا ہے کہ مود کی قوم ایک ایسے عذاب سے ہلاک کی گئی تھی جو

Page 204

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۹۴ سورة المؤمن اپنی شدت میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَمَّا عَادُ فَأَهْلِكُوا بِرِيج لا صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ - سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَ ثَنِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعى كَانَهُمْ أَعْجَازُ نَخْلِ خَاوِيَةٍ فَهَلْ تَرى لَهُم مِّنْ بَاقِيَة - (الحاقة : ۷ تا ۹ ) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عاد کی قوم پر جو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوا تھا اس کا مختصر ا مگر بڑے ہی مؤثر طریق پر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسا عذاب تھا جس میں ساری قوم کو تباہ کر دیا گیا.فَهَلْ تَرى لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ کیا ان کا کوئی نشان بھی تمہارے سامنے آتا ہے؟ وہ کلیتا صفحہ ہستی سے مٹادئے گئے.اس لئے کہ انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ رب جو ان کا پیدا کرنے والا تھا، جو اس قدر ان پر رحم کرنے والا تھا، جو اس قدران پر انعام کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں لیکن انہوں نے کفر اور ناشکری کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی بجائے شیطان کو اپنا دوست بنالیا تب ساری کی ساری قوم کو اللہ تعالیٰ نے صفحہ ہستی سے مٹادیا اور ان کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہ رہا.اس قسم کے واقعات کا ذکر کثرت سے قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اور ایک مقصد ان کا یہ ہے کہ تا ان واقعات کو سن کر ہمارے دل خوف سے لرز اٹھیں اور ہم یہ عہد کریں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم ہمارے سامنے رکھی ہے جس سے خدا راضی ہوتا ہے اور جس کو چھوڑ کر خدا کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے، ہم کبھی بھی اس تعلیم کو چھوڑیں گے نہیں بلکہ اس تعلیم کو اپنا ئیں گے.اس تعلیم کو اس طرح اپنے جسموں اور روحوں میں جذب کر لیں گے جس طرح خون ہمارے اندر بہہ رہا ہے.تا کہ خدا کا غضب کسی شکل میں بھی اور اس کی لعنت کسی صورت میں بھی ہمارے اوپر نازل نہ ہو.پھر قرآن کریم وہ کتاب ہے جو کبھی خدا کی لعنت اور اس کے غضب سے بچنے کی دعائیں سکھاتی ہے کیونکہ شَدِیدُ الْعِقَابِ ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا عذاب بندوں پر نازل ہو.تو پہلی قوموں کی مثالیں دے کر ہمارے دلوں میں اپنا خوف پیدا کیا.پھر ہمیں دعائیں سکھائیں کہ یہ دعائیں کرتے رہوتا کہ میرا غضب تم پر نازل نہ ہو.سب سے بہتر اور کامل دعا تو سورۃ الفاتحہ ہی ہے جس میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحہ:۷) ہے یعنی جس میں خدا کی لعنت سے پناہ مانگی گئی ہے اور چونکہ خدا کی لعنت کے مورد دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک مغضوب علیہ اور ایک ضال.اس لئے دونوں کا ذکر کر کے ایک طرح حصر لا

Page 205

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۹۵ سورة المؤمن کر دیا گیا ہے کہ کسی طریق سے بھی ہم پر تیری لعنت نازل نہ ہو.قرآن کریم کبھی ایسے اعمال صالحہ کی نشان دہی کرتا ہے جس کے نتیجہ میں شیطانی اندھیرے نور میں بدل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آتا ہے اور اس کے عذاب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تسلی دلائی کہ اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو گے تو میں فرشتوں کو مقرر کروں گا کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں اور وہ یوں دعا کریں گے.رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (المؤمن:۸) کہ ایسے لوگوں پر تو اپنا رحم کر کیونکہ تو بڑے علم والا ہے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچالے جو تو بہ کرتے ہیں اور وہ طریق اور شریعت کی جو راہیں تو نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ان پر عمل کر رہے ہیں.اسی طرح سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جذبات کے غلام نہیں ہوتے بلکہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور صبر کی راہوں پر گامزن ہوتے ہیں.( کافور کی ملاوٹ ) اپنی نذریں ادا کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ کہیں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہ ہو وہ لوگ جو اس کی رضا کے لئے مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے.ریا، عجب،خودروی خودرائی اور دکھاوا ان میں نہیں ہوتا.نہ وہ احسان جتاتے ہیں، اپنے نفسوں اور اپنے نفس کی بدخواہشات اور میلانات سے جدا ہو کر محض اپنے رب کیلئے یہ سب کچھ کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں.فَوَقهُمُ اللهُ شَرِّ ذلِكَ الْيَوْمِ (الدھر : ۱۲) کہ اس دن کے عذاب سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بچالے گا.تو جب یہ کہا کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے.جب میں پکڑتا ہوں.جب میری گرفت میں کوئی آتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی عذاب تصور میں نہیں آ سکتا.فرمایا.اس شَدِيدُ الْعِقَابِ خدا نے قرآن کریم کو اتارا ہے اور ہمیں اس واضح حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اس کتاب میں ہمیں وہ طریق بتائے گئے ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کے عذاب سے بچ سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے ایک دو مثالیں دے کر بیان کیا ہے.(۶) چھٹی صفت حسنہ یا اندرونی خوبی قرآن کریم کی جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے وہ ذی الطولِ ہے.یعنی اس اللہ نے یہ کتاب اتاری ہے جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا انعام کرنے والا ہے.اور اس کتاب کے نزول کی یہ غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے جذب کرنے کی

Page 206

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث را ہیں تم پر کھولی جائیں.۱۹۶ سورة المؤمن اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم یا فرد کوکوئی احسان یا انعام عطا کرتا ہے تو اس پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.ان ذمہ داریوں کا ذکر بھی قرآن مجید میں پایا جاتا ہے.ان کی طرف بھی ہمیں متوجہ ہونا چاہیے.انعام واکرام کا ذکر ذی الطولِ میں ہے.اس کی سب سے بڑی مثال تو میرے نزدیک وہ ہے.جو فر ما یا اتممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى (المائدة : (۴) كه اسلام اور اسلامی شریعت کے ذریعہ میں نے اپنی شریعت کو نعمت عظمی بنا دیا ہے اور نعمت عظمی کے طور پر میں اسے تمہارے سامنے رکھتا ہوں.اسی طرح اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَ اسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن: ٢١) کہ تم پر ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے پانی کی طرح بہا دیا.جیسے فلڈ (Flood) آتا ہے ہر ایک چیز کے اوپر چھا جاتا ہے اور ہر چیز کو اپنے نیچے لے لیتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے ہمارے نفس نفس اور ہمارے ذرہ ذرہ کو ڈھانپ لیا ہے.لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتَّبِعُوا مَا انْزَلَ اللهُ (لقمن: ۲۲) کہ اب تم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس کی تم اتباع کرو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے کفران نعمت کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے.مگر قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیا گیا کہ خدا کے غضب کو تم جذب کرو اور اس کے قہر کے تم مورد بنو.قرآن کریم کے نزول کی غرض تو یہ ہے کہ ذی الطولِ خدا کی طرف تمہیں متوجہ کرے اور تم اس کی نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بنو اور جو ہدایت اور تعلیم اور شریعت اور فرائض اور احکام اس نے نازل کئے ہوئے ہیں ان کی اتباع کرنے والے ہو.(۷) ساتویں صفت حسنہ قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے لا الہ الا ھو کہ جس خدا نے اس قرآن کو نازل کیا ہے وہ اکیلا ہی پرستش کا سزاوار اور حقدار ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس اس کتاب کی بنیادی صفت یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی کہ یہ کتاب اور اس کی تعلیم اور اس کی شریعت اور اس کی ہدایتیں اور وہ نور جو اس سے نکلتا ہے.اور اس کے ماننے والوں کے جسموں اور ان کی روحوں میں داخل ہوتا اور نفوذ کرتا ہے.اس کے نتیجہ میں انسان خالص توحید پر کھڑا ہوتا ہے.قرآن نہ ہوتا تو دنیا میں توحید خالص بھی نہ پائی جاتی.پس اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات حسنہ کے متعلق کامل

Page 207

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۹۷ سورة المؤمن تفصیلی علم یہی کتاب دیتی ہے جس کے بغیر تو حید پیچ معنی اور حقیقی رنگ میں قائم نہیں ہوسکتی.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق بھی علوم کے سمندرا اپنے اندر بند کر دیئے ہیں اور تمہارے فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا ہے.پس تم اس خدائے واحد و یگانہ کے قرب کے حصول کے لئے اس کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات حسنہ کا عرفان حاصل کرو اور قرآن کریم کی روشنی میں ہی تم ایسا کر سکتے ہو.پس قرآن کریم کو توجہ سے پڑھوا اور توجہ سے سنو اور عزم اور استقلال اور صبر کے ساتھ اس پر عمل کرو اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ حاصل کرو اور نور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ تم تو حید خالص پر کھڑے ہو جاؤ اور توحید خالص کو پالینے کے بعد دنیا کی ساری کامیابیاں مل جاتی ہیں اور کوئی نا کامی بھی انسان کے حصہ میں نہیں رہتی.آٹھویں صفت حسنہ یا اندرونی خوبی قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمائی ہے وَالَيْهِ المَصِيرُ کہ اس عظیم کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات پاک ہے جس کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے اور اس خدا نے اس قرآن کے ذریعہ انسان کو معاد کا کامل اور مکمل علم دیا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۳۲ تا ۳۴۰) آیت ۵۶ فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ قرآن عظیم میں صبر کے موضوع پر ایک سو سے زائد آیات میں بیان ہوا ہے.یہ ایک بنیادی حکم ہے جس کا تعلق تمام قرآنی احکام سے ہے اوامر ہوں یا نواہی ہوں.صبر کے معنی ہیں جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبے میں بھی ذرا تفصیل سے بیان کیا تھا اصل معنی اس کے یہ ہیں کہ حَبْسُ النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْعَقُلُ وَالشَّرْعُ أَوْ إِمَّا يَقْتَضِيَانِ حَبْسَهَا عَنْهُ (مفردات زیر لفظ صبر ) نفس کو روکے رکھنا قابو میں رکھنا ان چیزوں کے کرنے نہ کرنے سے جو عقل کا تقاضا ہو یعنی فطرت انسانی کا حکم ہو یا شریعت اسلامیہ کا تقاضا ہو اور مفردات راغب نے لکھا ہے کہ یا ہر دو کا تقاضا ہو.چونکہ اسلام دینِ حکمت ہے اس لئے تمام اسلامی احکام شریعت کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں اور انسانی

Page 208

۱۹۸ سورة المؤمن تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث فطرت اور عقل کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں.اس کے معنی میں بہت وسعت ہے.اسی واسطے ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو وہ صبر سے کام لے یعنی بلا وجہ نا معقول طور پر وہ رونا پیٹنا نہ شروع کر دے بلکہ اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اس حد تک اور اس طریق پر غم کا اظہار کرے جس کی انسانی فطرت یا شریعتِ اسلامیہ نے اجازت دی ہے یا جب مخالف زور کے ساتھ اور طاقت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کی کوشش کرے تو اس وقت صبر اور استقامت کے ساتھ اس کے مقابلے میں شریعت اسلامیہ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کھڑے ہوجانا اور پیٹھ نہ دکھا نا یہ صبر ہے اور با قاعدگی کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ نماز با جماعت کا ادا کرتے رہنا اس پر استقامت اختیار کرنا یہ صبر ہے.تو ہر حکم کے ساتھ اس کا اصل میں تعلق آ جاتا ہے کہ نفس کو رو کے رکھنا اس چیز سے جس چیز سے روکا گیا ہے یعنی وہ نہ کرے اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کو نہ کرنے کی طرف مائل نہ ہو، اس میں سستی نہ دکھائے.یہ جو دو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان ہر دو کا جو تر جمہ ہے وہ میں پہلے پڑھ دیتا ہوں.پس استقلال سے اپنے ایمان پر قائم رہو.فَاصْبِرُ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقَّ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہے گا اور چاہیے کہ جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ تجھے دھوکہ دے کر اپنی جگہ سے ہٹا نہ دیں.فَاصْبِرُ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ پس تو صبر سے کام لے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہے گا اور خدا تعالیٰ سے بخشش مانگتارہ اور اپنے رب کی شام اور صبح حمد کے ساتھ ساتھ تسبیح بھی کرتارہ.ان آیات میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ کہ ہر حالت میں صبر پر قائم رہنا ہے.انسانی زندگی میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں آتا کہ جہاں بے صبری کی اسے اسلام نے اجازت دی ہو.دوسری بات چونکہ اسلام حکمت کا مذہب ہے دلیل بھی ساتھ ساتھ دیتا ہے.جو لوگ صبر واستقامت دکھاتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ان سے عظیم وعدہ یہ ہے کہ وعدوں کے مطابق ان سے وہ پیار کا سلوک کرے گا.جیسے جیسے اعمال ہیں ان کی جو جو جزا اور ثواب اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں بیان کیا ہے اس کے وہ حقدار بن جائیں گے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جس کا ذکر آگے آتا ہے.تیسرے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے.اگر کوئی حکم دینے والی ہستی ایسی ہو کہ

Page 209

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۹۹ سورة المؤمن حکم دے اور وعدہ بھی کرے لیکن ایفائے عہد کی طاقت نہ رکھتی ہو تو انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں جو احکام ہیں ان کو بجا بھی لاؤں لیکن فائدہ یقینی نہیں.تو یہاں یہ تسلی دلائی گئی ہے کہ اگر دنیا دار کوئی وعدہ کرے تو ہزار بدظنیاں ہوسکتی ہیں.دنیا دار اگر کوئی وعدہ کرے تو ہزار امکان اس بات کا ہوسکتا ہے کہ خواہش کے باوجود وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے.ہزار حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ پہلے طاقت رکھتا تھا وعدہ پورا کرنے کی اب اس سے وہ طاقت چھین لی گئی.ہزار امکان ایسا ہے کہ پہلے اس کا دل خدا کی طرف جھکا ہوا تھا اور اب شیطان کے قبضے میں آچکا اور اس لئے وہ وعدہ پورا نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ پر تو اس قسم کی کوئی بدظنی کی ہی نہیں جاسکتی.الا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ جو خدا کا وعدہ ہے وہ بہر حال پورا ہوکر رہے گا لیکن جیسا کہ ہمیں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے متعلق یہ اصولی بات بتائی کہ خدا کا وعدہ اس رنگ میں اور اس وقت پورا ہوگا جس رنگ میں اور جس وقت وہ پورا کرنا چاہے گا.انسان اللہ تعالیٰ کو ڈکٹیٹ (Dictate) نہیں کراسکتا.زور بازو سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنا وعدہ اس شکل میں اور اس وقت پورا کر.بہت سی ایسی قومیں ہمیں تاریخ انسانی میں نظر آتی ہیں جن سے کئے گے وعدے صدیوں بعد اسی طرح پورے ہوئے جس طرح وعدے کئے گئے تھے لیکن صدیاں انہوں نے انتظار میں گزاریں.ایسی قوم بھی ہمیں نظر آتی ہے کہ وعدہ چار سال کے بعد پورا ہو گیا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب میں سپین میں گیا تو بڑی بے چینی اور پریشانی اس ملک کے متعلق ہوئی کہ سات سو سال مسلمانوں نے وہاں حکومت کی اور جب وہ مغلوب ہوئے تو مخالفین نے ایک بھی مسلمان باقی نہیں چھوڑا.بہت دعائیں کرنے کی ایک رات توفیق ملی کہ خدا یا تیری رحمت میں رہے صدیوں ، تیری رحمت سے محروم ہوئے صدیاں گزر گئیں.پھر ان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کر.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ سامان تو پیدا کر دیئے جائیں گے لیکن تیری خواہش کے مطابق نہیں.اللہ تعالیٰ جب چاہے گا وہ سامان پیدا کرے گا اور آخر یہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.غلبہ اسلام کے دائرہ سے پین کی قوم باہر نہیں رہے گی.تو اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَق خدا تعالیٰ پر انسان بدظنی نہیں کرسکتا.بدظنی کرنے والا ہلاک ہوتا ہے خدا تعالی کی جو طاقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی آج بھی وہی طاقت ہے اس کی.اس

Page 210

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة المؤمن کی طاقتوں میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کی جو عظمت اور علو شان اور اس کی کبریائی پہلے تھی جو پہلے ہمیشہ رہی وہ آئندہ ہمیشہ رہے گی.پچھلی طرف منہ کریں تو نہ پہلے زمانہ کی کوئی انتہا ہے جہاں ہماری نظر ٹھہر جائے نہ آئندہ کے متعلق ہماری عقلیں مستقبل کا کوئی ایسا مقام ڈھونڈ سکتی ہیں کہ جس کے بعد کوئی زمانہ نہ ہو اور جس کے بعد خدا تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے جلوے ختم ہو جائیں.ازلی ابدی خدا ہمیشہ پیار کرنے والوں سے پیار کرنے والا، قربانی دینے والوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں لے جانے والا ہے آزمائش کرتا ہے تا بچے اور جھوٹے میں فرق کرے تا پختہ اور منافق ایمان والے میں فرق کرے تا کمزور ایمان والے کی جو تھوڑی سی عظمت ہے اس میں اور اس عظیم عظمت میں فرق کرے تا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوسب سے عظیم تھے ان کی عظمتوں میں اور آپ کی امت میں جو آپ کے غلام جو آپ کے پاؤں کے قریب بیٹھنے والے جو خود کو آپ کی جوتی کے برابر بھی نہ سمجھنے والے ہیں اور اس فدائیت اور پیار اور جاں نثاری کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہیں ان دو فرقوں کو وہ ظاہر کرے.یہ اپنی جگہ درست لیکن خدا کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے.وہ جو اتنی عظمتوں والا ہے کہ جن عظمتوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا جو تھوڑے وعدے یا چھوٹے وعدے جن کو ہم نسبتاً چھوٹے کہتے ہیں وہ بھی بڑے عظیم ہیں کیونکہ ان کا سر چشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تو تیسری بات یہ فرمائی کہ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّی گھبرانا نہیں.بدظنی نہ کرنا، جادہ استقامت کو چھوڑ نہیں دینا دامن جو پکڑا ہے وہ تمہارے ہاتھ سے چھوٹے نہیں، ثبات قدم دکھانا ہے وفا کے نمونے ظاہر کرنے ہیں اور خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے......ساتویں ہمیں یہ بتایا کہ ان کے مکر اور فریب سے بچے رہنے کے تین اصول تین گر ہیں ایک کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں یعنی صبر و استقامت کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا.دوسرا ذریعہ اس فریب سے بچنے کا استغفار ہے.انسان بہر حال کمزور ہے اور بشری کمزوری کے نتیجہ میں ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو خدا تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں.انسان محض اپنی طاقت سے شیطانی حملہ سے بچ نہیں سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو اور خدا تعالیٰ شیطانی حملہ سے اپنی تدبیر سے اپنی رحمت سے اسے بچائے اس واسطے کہا استغفار کرو.خدا تعالیٰ سے مغفرت چاہو، مغفرت کے دو معنی ہیں.ایک یہ کہ گناہ سرزد نہ ہو انسان اپنی کوشش

Page 211

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۰۱ سورة المؤمن سے گناہ سے بچ نہیں سکتا.اس طرح کہ وہ پاک اور مطہر بن جائے کیونکہ بتایا گیا تھا لا تز کوا انفسکم اپنی کوشش، اپنی تدبیر سے تم خدا کی نگاہ میں پاک اور مطہر نہیں بن سکتے اور دوسرے استغفار کے معنی یہ ہیں کہ گناہ سرزد ہو گیا اس کے بدنتائج سے انسان بچنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن طاقت نہیں رکھتا.طاقت خدا رکھتا ہے کہ جو اس سے گناہ سرزد ہوا اس کے بدنتائج سے وہ اپنی رحمت سے اسے محفوظ کرلے تو ایک تو استغفار ذریعہ بتایا کہ خدا سے کہو کہ خدا یا ہم پر ایسے فضل کر.یہ استغفار کے معنوں کا حصہ ہے، ایسا فضل کر ہم پر کہ ہم سے گناہ سرزد نہ ہوں ایسی باتیں نہ کریں ہم، ایسے اعمال نہ بجالائیں جو تیری ناراضگی کا موجب ہو جائیں اور اگر بشری کمزوری کے نتیجہ میں ہم سے ایسے گناہ سرزد ہو جائیں تو ان کے بدنتائج سے ہمیں محفوظ کر لے.ہمارے گنا ہوں کو معاف کر دے.اور آٹھویں اور آخری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتائی کہ جس فضل اور رحمت کا تعلق استغفار سے ہے انسان کہتا ہے اے خدا! اپنے فضل اور اپنی رحمت سے گناہ سرزد ہونے سے بچالے سرزد ہو جائے تو ان کے بدنتائج سے بچالے.یہ فضل اور رحمت انسان اپنے زور اور طاقت سے یا اپنی تدبیر سے اللہ تعالیٰ سے حاصل نہیں کر سکتا.اس کے لئے یہ بتایا گیا و سیخ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ کہ صبح و شام اٹھتے بیٹھتے خدا کی حمد کے ساتھ تسبیح کر.دوسری جگہ فرمایا يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمُ (ال عمران : ۱۹۲ ) تو خدا کی حمد میں مصروف رہو خدا کی تسبیح میں مصروف رہو اس کے نتیجہ میں فضل ملے گا فضل کے نتیجے میں گناہ کے سرزد ہونے سے محفوظ ہو جاؤ گے گناہ سرزد ہو جائیں تو ان کے بداثرات سے محفوظ ہو جاؤ گے.استغفار کی دعا قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوگا.اگر تم خدا کو یاد رکھو گے خدا تمہیں یادر کھے گا اُذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ.یہاں یہ بات بھی یادر کھنے کی ہے کہ ایک تو فرائض ہیں.حکم ہے کہ یہ عبادات بجالاؤ.ایک وہ عبادات ہیں جو فرائض نہیں نوافل کہلاتے ہیں.فرض تو وہ ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو یا اللہ اپنے بندے کو جھنجوڑ کے کہتا ہے کہ پانچ وقت مسجد میں جاکے نماز پڑھو.یہ فرض ہے کہتا ہے کہ نہیں کرے گا تو میں تجھ سے ناراض ہو جاؤں گا.ناراضگی سے بچنے کے لئے فرائض ہیں.فرائض کے ساتھ جو اس کی رحمتیں لگی ہوئی ہیں ان کے حصول کے لئے فرائض ہیں لیکن بلندیوں کے حصول کے لئے ( مسجد کے.اندر دوسروں کے کندھوں پر سے آگے آتے ہوئے ایک شخص کو دیکھ کر حضور نے فرمایا ) :-

Page 212

۲۰۲ سورة المؤمن تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث دیکھو پیچھے سے چھلانگیں مار مار کے آگے نہ آؤ مسجد کے آداب بھی ہیں ان پر بھی صبر سے استقامت کے ساتھ قائم رہنا چاہیئے اور وہ بھی سکھانے والے ہمارے پیارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور یہ ہمارے علماء کا اور بڑوں کا اور تربیت یافتہ لوگوں کا کام ہے کہ وہ آداب زندگی ہر شعبہ زندگی کے متعلق بتاتے رہا کریں.بہر حال اب میں یہ بتا رہا ہوں کہ ایک عبادت ہے فرائض سے تعلق رکھنے والی اگر کوئی نہ کرے گناہ گار ہو جاتا ہے.اگر کرے تو اس انعام کا وارث ہوتا ہے جس انعام کا اس فرض سے تعلق ہے ایک عبادت ہے نوافل سے تعلق رکھنے والی.اگر وہ عبادت نہ کرے گنہگار نہیں ہوتا لیکن رفعتوں کو حاصل نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کے اس انتہائی پیار کو حاصل نہیں کر سکتا جس انتہائی پیار کے حصول کے لئے انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کو دائرہ استعداد تک اس رفعت کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کو طاقتیں دیں.اس کے لئے نوافل ہیں تو وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ میں فرائض بھی آتے ہیں کیونکہ ہم تسبیح اور تحمید اپنے فرائض میں بھی کرتے ہیں لیکن محض وہ نہیں بلکہ یہاں عام رکھا گیا ہے اور فرائض کی ادائیگی تھوڑی سی مشکل بھی ہو جاتی ہے نفس کے اوپر بار بھی گذرتا ہے ایک آدمی رات کو دیر تک کام کرتا رہا صبح کی نماز کے لئے اس کے لئے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے خدا نے میرے پر فرض مقرر کیا ہے میں جاؤں لیکن یہاں جو یہ کہا گیا ہے کہ صبح وشام، دوسری جگہ کہا گیا ہے کھڑے ہو، بیٹھے ہو، لیٹے ہو، میرا ذکر کرتے رہو یہ تو خدا تعالیٰ کا پیار مطالبہ کرتا ہے اور تمہارے اوپر کوئی بار نہیں ڈالتا.یہ نہیں کہا کہ لیٹے ہو تو بیٹھ کے تسبیح اور تحمید کرو یہ کہا ہے لیٹے ہوئے کرو.ہر وقت مجھے یاد رکھو تو مقام محمود جو ہے ہر شخص کے دائرہ استعداد کے اندر یعنی سب سے بلند مقام جو وہ شخص حاصل کر سکتا ہے وہاں تک وہ پہنچ جائے گا.اگر وہ محض فرائض تک رہے گا تو دوزخ سے بچ جائے گا.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۹۳ تا ۴۰۰) اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ضرور پورا ہوکر رہے گا لیکن ساتھ ہی فرمایا اس کے لئے تمہیں استغفار کرنا پڑے گا.کیونکہ اس وعدہ کے پورا ہونے کے رستہ میں تمہاری کمزوریاں حائل ہوسکتی ہیں.جس کے نتیجہ میں وعدہ پورا ہونے میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم پیدا کر دے.جو ان وعدوں کو پورا کرنے والی ہو.اس لئے فرمایا تم ہمیشہ استغفار کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استغفار کے معنے یہ کئے ہیں کہ انسان اپنے رب سے یہ درخواست کرتا

Page 213

۲۰۳ سورة المؤمن تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث رہے کہ اس کی بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو.اللہ تعالیٰ بھی طاقت رکھنے والا اور قادر مطلق ہے اس کی طاقت سے انسان طاقت حاصل کرنے کی توفیق پائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا خدا کے وعدے تو ضرور پورے ہوں گے اسلام کو کامیابیاں نصیب ہوں گی.مگر خدا کے وعدوں کی وجہ سے غرور نہ کرنا اور یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا اس لئے ہم کمزوری دکھا جائیں تو کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ نے فرما یا کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہر وقت چوکس رہنا ہے اور استغفار کرتے رہنا ہے اس لئے ہم نے کوشش بھی کرنی ہے اور دعا بھی کرنی ہے کہ ہماری بشری کمزوریاں غلبہ اسلام کی راہ میں حائل نہ ہو جائیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی اور قوم پیدا ہو جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے پورے ہوں اور وہ ان بشارتوں کی وارث بن جائے.دوسرے فرما یا غرور نہیں کرنا بلکہ ہر حال میں خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کر کے کامیابی کی راہوں کو تلاش کرنا ہے پھر فرمایا جس شخص نے خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کرنی ہو اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ایک تسبیح کرنا اور دوسرا تحمید کرنا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَ الْإِبْكَارِ تم شام اور صبح کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو اور حمد بھی کرتے رہو.ہمارا بھی یہی محاورہ ہے اور دوسرے ملکوں کا بھی یہی محاورہ ہے کہ جب اس قسم کا مفہوم ادا کرنا ہو تو ہم کہتے ہیں صبح و شام ایسا ہوتا ہے اس آیت میں یہ ترتیب بدل دی گئی ہے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرو ہالعَشِي وَالإِبْكَارِ شام کے وقت بھی اور صبح کے وقت بھی دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی مجاہدہ یعنی غلبہ اسلام کے لئے جو جد و جہد کی جاتی ہے اس کی حرکت اندھیروں سے روشنی کی طرف تھی.روشنی سے اندھیروں کی طرف نہیں تھی.اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے ایک تو وہ رات ہے جو سورج کے غروب ہونے پر دھند لکے سے شروع ہوتی ہے اور ایک اس وقت کی رات ہے جس وقت مسلمانوں کو روشنی نظر نہیں آ رہی تھی ان کو تکالیف کا سامنا تھا.ان پر ظلم و ستم ہورہے تھے، کفر نے ان کی ترقی کے راستے میں روکیں پیدا کی ہوئی تھیں.پس اسلام کے غلبہ کے لئے مسلمانوں کی جدو جہد نشاۃ اولی میں بھی ظلمت سے نور کی طرف تھی اور نشاة ثانیہ میں بھی ظلمت سے نور کی طرف ہے.اس لئے العشي پہلے کہا گیا ہے اور الانكار بعد میں کہا گیا ہے آیت کے اس حصے میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری یہ حرکت قائم رہے تو

Page 214

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۰۴ سورة المؤمن جس طرح مثلاً زمین کی حرکت قائم رہتی ہے.عشی کے بعد صبح کا آنا یقینی ہے اسی طرح اگر تمہاری جد و جہد اور تمہاری قربانیاں اور ایثار بھی قائم رہے گا تو جس طرح رات کے اندھیروں کے بعد صبح صادق کا طلوع یقینی ہے اسی طرح تمہاری تکالیف کے بعد تمہاری کامیابی اور غلبہ اسلام بھی یقینی ہے.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۳۸۹، ۳۹۰)

Page 215

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۰۵ سورة حم السجدة بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة حم السجدة آیت قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الهُكُمْ الهُ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ.اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں فرماتا ہے کہ تو دنیا میں اعلان کر دے کہ میں بھی تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں اللہ تعالیٰ نے میرے پر کامل وحی کی ہے.جس کی غرض یہ ہے کہ انسان کا اپنے ربّ کے ساتھ ایک پختہ اور حقیقی تعلق قائم ہو جائے.تمہاری طرح کا ایک انسان ہونے کے باوجود میں نے اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم پر عمل کر کے اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے تقاضوں کو پورا کر کے اس سے ایک پختہ اورسچا اور حقیقی تعلق پیدا کر لیا ہے.اسی طرح تم بھی ایک پختہ تعلق اپنے رب سے پیدا کر کے اس کی رضا اور اس کی رحمت کو حاصل کر سکتے ہو.پس شریعت اسلامیہ کے نزول کی اصل غرض بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تمام مذاہب کے نزول، تمام صحف سماوی کے نزول اور تمام انبیاء کی بعثت کی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی استعداد اور قوت کے مطابق اپنے رب سے ایک تعلق جو حقیقی ہو جس میں کوئی فساد نہ ہو جو سچا ہو قائم کرے.انسانی قویٰ میں بہترین نشوونما کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک اعلیٰ اور ارفع شریعت نازل ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نے یہ ثابت کیا کہ اس شریعت پر عمل پیرا ہو کر انسان کا اپنے رب کے ساتھ اس قسم کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ انسان اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں اس کی ہر قسم کی رحمتوں اور اس کی ہر قسم کی رضا کا وارث بن جاتا ہے اور ایک ایسی زندگی پاتا ہے جس سے بہتر کوئی زندگی ہو نہیں سکتی.

Page 216

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۰۶ سورة حم السجدة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو حاصل کیا ہے.اسی طرح تم بھی اگر چاہو تو ان نعمتوں کو حاصل کر سکتے ہو.شرط یہ ہے کہ تم اپنے خدائے واحد و یگانہ کی معرفت حاصل کر لو اور اس کی عظمت اور جلال کے تقاضوں کو پورا کرو اور جب تم اس سے ایک دفعہ تعلق قائم کر لوتو پھر تمہارے پاؤں میں لغزش نہ آئے تمہیں استقامت کا مقام حاصل ہو تمہیں صبر کا مقام حاصل ہو تو تم بھی میری طرح اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنے رب کی نعمتوں کے وارث ہو جاؤ گے لیکن اس بات کو یاد رکھو کہ جس طرح میں ایک بشر ہوں تم بھی بشر ہو اور بشری کمزوریوں کے ضرر سے بچنے کے لے خدا تعالیٰ کی مغفرت کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے وَاسْتَغْفِرُوہ تم کثرت کے ساتھ استغفار کرو اور اتنی کثرت کے ساتھ استغفار کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تمام بشری کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور جب تمہاری تمام بشری کمزور یاں خدا تعالیٰ کی مغفرت کی چادر کے نیچے چھپ جائیں گی تو تمہاری تمام بشری قوتیں اور استعداد میں خدا تعالیٰ کے حکم سے صحیح نشو و نما پائیں گی اور تم خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرو گے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة :٢٠٨) کہ یہ حکم سننے کے بعد کہ ایک کامل اور مکمل شریعت کا نزول ہو چکا اور ایک حقیقی اور سچے تعلق باللہ کا سامان پیدا ہو گیا اس لئے اے نوع انسان فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جنہوں نے اپنے نفوس کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کے لئے بیچ ہی ڈالا اور عمر بھر کا سودا کر لیا یہ نہیں کہ آج ایک عہد باندھا اور کل اسے توڑ دیا.یہ نہیں کہ آج تو اپنے رب سے ایک سودا کیا اور کل اسے فسخ کیا اور بلکہ عمر بھر کے لئے انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے نفوس کا اپنے رب کی رضا کے لئے سودا کر لیا اور اس طرح پر انہوں نے اپنے اس رب کی رافت اور رحمت کے جلوے دیکھے جو ان لوگوں کے لئے رؤوف ہے جو اس کے حقیقی بندے بن جاتے ہیں اور اس قدر حسین جلوے دیکھے کہ ان کی وجہ سے امم سابقہ امت مسلمہ پر رشک کریں.جس نفس کے سودے کا یہاں ذکر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو جو اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں اسے جو باطنی اور ظاہری قوتیں اور استعداد میں عطا ہوئی ہیں وہ اس غرض کے لئے ہیں کہ انسان اپنے رب سے سودا کر لے یعنی یہ عطا ہے وہ ظاہری اعضاء کے لحاظ سے ہو یا باطنی

Page 217

۲۰۷ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اور روحانی قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے ہو، ہے ہی اس غرض کے لئے کہ انسان اپنے رب سے ایک زندہ اور سچا تعلق پیدا کر لے اور اس کی نعمتوں کا وارث بنے.جو قو تیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں ان کی اصل غرض یہی ہے کہ ایک اسے اللہ تعالیٰ کی کمال معرفت حاصل ہو جائے دوسرے اس معرفت کے نتیجہ میں حقیقی پرستش اور عبودیت پر دوام اسے مل جائے اور تیسرے اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھنے کے بعد وہ اس کی محبت میں فنا ہو جائے.انسانی فطرت بھی اسی کی گواہی دیتی ہے اور اس پر شاہد ہے کہ انسان نے جب بھی اپنے اعضاء کو جو خدا تعالیٰ کی عطا تھے اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کو جو روحانی ارتقاء کے لئے اسے دی گئی تھیں غلط راہوں پر استعمال کیا تو اس کے نفس نے تسلی نہیں پائی.ہم ایک موٹی مثال لے لیتے ہیں آج کی دنیا میں انسان نے خداداد قوتوں اور طاقتوں کے استعمال سے ذرے کی طاقت (جسے ایٹامک انرجی Atomic Energy کہتے ہیں) کا علم حاصل کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ذرہ میں جو قوت چھپارکھی تھی انسان نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عقل، فراست اور سائنس (انسان جو سائنس کے تجربے کرتا ہے ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی روشنی پیدا ہوتی ہے ) کے نتیجہ میں اس کا علم حاصل کیا لیکن جہاں اس نے اس کا ایک حد تک صحیح استعمال کیا یعنی اس نے اسے انسان کے فائدہ کے لئے استعمال کیا وہاں بڑی حد تک اس کا استعمال اس رنگ میں بھی کیا کہ وہ انسان کی ہلاکت کا موجب بن جائے.اب دیکھو یہ ایک قوت ہے اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ انسان نے اس کا ایک حد تک غلط استعمال کیا ہے اور اس غلط استعمال یا غلط استعمال کے امکان کے خلاف وہ لوگ بھی آئے دن مظاہرے کر رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کے بھی منکر ہیں.ایٹمی قوت کے غلط استعمال کے خلاف یہ مظاہرے اس بات پر شاہد ہیں اور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسانی فطرت ان چیزوں کو پسند نہیں کرتی.ابھی ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم نہیں ابھی انہوں نے اس کا عرفان حاصل نہیں کیا اس کے باوجود ان کے اندر سے یہی آواز نکل رہی ہے کہ ان قوتوں اور استعدادوں کو غلط طریق پر استعمال نہیں کرنا.انہیں اس کے صحیح استعمال کا پتہ بھی نہیں لیکن اس کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج جاری ہے.اسی طرح اور ہزاروں مثالیں ہیں کہ جب انسان اپنے اندرونی اور بیرونی اعضاء کو یا اپنی ظاہری اور باطنی قوتوں اور استعدادوں کو اس رنگ میں استعمال کرتا ہے کہ وہ اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے تو انسانی فطرت اندر

Page 218

۲۰۸ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سے اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو اور یہ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ تمام قومی اور قوتیں اور طاقتیں اور استعداد میں انسان کو اس لئے ملیں کہ وہ اس مقصد کو حاصل کر لے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہو جائے.اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا دائمی مقام اسے حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھ کر اس کی محبت کا شعلہ اس طور پر انسان کے صحن سینہ میں بھڑ کے کہ اس کا وجود بالکل فنا ہو جائے کیونکہ اس کے بغیر وہ دلی سکون اور اطمینان اور خوش حال زندگی کا احساس اپنے اندر نہیں پاتا.اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے وسائل بتائے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ تم یہ کرو اور وہ کرو تب تم اس مقصد کو حاصل کر سکو گے جس مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے.جس مقصد کے لئے تمہیں خاص قسم کے اعضاء اور خاص قسم کی طاقتوں والے اعضاء دیئے گئے ہیں اور جس مقصد کے لئے تمہیں اخلاقی اور روحانی قوتیں، طاقتیں اور استعدادیں عطا کی گئی ہیں.اس مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول ، اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور مقام عبودیت پر قائم ہونے کا ایک وسیلہ خدا تعالیٰ نے استقامت بتایا ہے یعنی ایک دفعہ اس کے ہو گئے تو پھر عمر بھر کے لئے اسی کے ہو گئے.پھر دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کی کوئی مخالفت، دنیا کی کوئی ایذاء رسانی، دنیا کا کوئی دکھ اور دنیا کی کوئی شے بھی اس تعلق کو قطع کرنے میں کامیاب نہ ہو.استقامت کے یہی معنی ہیں اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے جو میں نے شروع میں پڑھی تھی یعنی خالی زبان سے یا نیم معرفت سے توحید باری، ذات باری اور صفات باری کی معرفت حاصل نہیں کرنی بلکہ فَاسْتَقِیمُوا الیه تم نے یہ معرفت ایسے اعمال کے ساتھ کرنی ہے جو صحیح بھی ہوں اور درجہ بدرجہ اس کی طرف لے جانے والے بھی ہوں.انسان پختگی کے ساتھ اس پر کھڑا ہو جائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ تم اسے اپنی طاقت سے حاصل نہیں کر سکتے اس لئے تم خدا تعالیٰ کی مغفرت چاہوتا اسے حاصل کر سکو.قرآن کریم نے اس مقصد کے حصول کے لئے کہ جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے بہت سے وسائل ہمیں بتائے ہیں.بالفاظ دیگر اس نے انسان کو بہت سے وسائل بتائے ہیں کہ جن کے ذریعہ اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عرفان حاصل ہو.وہ علی وجہ البصیرت یہ یقین کرے کہ اللہ واقع

Page 219

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۰۹ سورة حم السجدة میں موجود ہے، دہریت کا ذرہ بھی اس کے اندر باقی نہ رہے اور وہ اس یقین پر قائم ہو کہ خدا واحد ہے اور شرک کا کوئی پہلو اس کی فطرت کے اندر باقی نہ رہے اور وہ یہ یقین کرے کہ اللہ وہ ذات ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اللہ وہ ذات ہے جس کے اندر کسی کمزوری اور نقص اور ناپاکی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا یعنی جس معنی میں اسلام اور قرآن کریم نے اللہ کو پیش کیا ہے اس اللہ کی معرفت اسے حاصل ہو جائے اور اس کی عظمت اور جلال کے نتیجہ میں انسان عبد بننے کی طرف مائل ہو ، عبد بننے کی کوشش کرے اور پھر قرآن کریم کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کر کے عبد بن جائے اور اس مجاہدہ کے نتیجہ میں جو اسلام نے بتایا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوؤں کو اپنی زندگی میں پائے اللہ تعالیٰ کی محبت اسے حاصل ہو اور وہ اس کا عاشق ہو جائے اللہ تعالیٰ کی محبت اسے حاصل ہو اور وہ اس کا محبوب بن جائے.اس طرح اس کا مقصد اسے حاصل ہو اس مقصد کے حصول کی جو راہیں بتائی گئی ہیں ان میں ایک استقامت ہے یعنی جب رشتہ جوڑا تو پھر طوفان، آندھیاں ،زلزلے،ساری دنیا کی نفرت اور ساری دنیا کی کوشش اس رشتہ کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو.ایک دفعہ اس پیارے کے پیار میں گم ہوئے تو پھر اس محبت کے سمندر سے سر باہر نہیں نکالنا.یہ ہے استقامت اور جب تک استقامت حاصل نہ ہو یعنی ہمیشہ کے لئے پختہ عہد نہ ہو اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کے دائمی فضلوں کو حاصل نہیں کر سکتے اور اس آخری کامیابی اور فلاح کے وارث نہیں بن سکتے جس کا وعدہ اس نے اسلام کو دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وسیلہ کے متعلق فرماتے ہیں:.”چھٹا وسیلہ اصل مقصد کے پانے کے لے استقامت کو بیان فرمایا گیا ہے یعنی اس راہ میں درماندہ اور عاجز نہ ہو اور تھک نہ جائے اور امتحانوں سے ڈر نہ جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الحيوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اُترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ہم اس

Page 220

۲۱۰ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے تو اس وقت نامردی نہ دکھلا وہیں اور بز دلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں ذلت پر خوش ہو جائیں موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوسرے دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جا ئیں اور ہر چہ بادا باد کہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضا و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہر گز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے.یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک میں سے اب تک خوشبو آ رہی ہے.اسی کی طرح اللہ جلشانہ اس دعا میں اشارہ فرماتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة : - ) یعنی اے ہمارے خدا ہمیں استقامت کی راہ دکھلا دے وہی راہ جس پر تیرا انعام و اکرام مترتب ہوتا ہے اور تو راضی ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ فرمایا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (ال عمران: ۱۲۷) اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آجائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جاننا چاہیے کہ دکھ اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نورا تارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.جب باخدا

Page 221

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۱۱ سورة حم السجدة آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے بلکہ سچا محب بلا کے اُترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو نا چیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بگلی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے اسی کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُونَ بِالْعِبَادِ (البقره: ۲۰۸) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی جس کو سمجھنا ہو سمجھے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۹ تا ۴۲۱) (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۱۸ تا ۲۲۲) میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کا ایک عظیم نعرہ تھا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن عظیم میں لگایا گیا.جس نے تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک مقام پر لا کھڑا کر دیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تو کوئی اور وجود نہ پہلوں میں پیدا ہوا اور نہ آئندہ پیدا ہو گا.آپ کے منہ سے یہ کہلوایا کہ میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان ہو.اس سے انسان کی اتنی عزت اور احترام قائم ہو گیا کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے، سب انسانوں کو اس مقام پر کھڑا کر کے پھر آپ نے کہا دیکھو! میں تمہارے جیسا انسان ہوں ، میرے اندر بھی تمہارے جیسی قوتیں اور استعدادیں ہیں آؤ اب دیکھو میں اخلاقی دنیا میں، روحانی دنیا میں کس طرح بلندیاں اور رفعتیں حاصل کرتا ہوں میں تو اپنے ظرف کے مطابق اونچا جاؤں گا تم بھی اپنے ظرف کے مطابق بلندیوں کو حاصل کر سکتے ہو.اس لکیر پر جہاں سب برابر کر دیئے گئے ٹھہرنا نہیں بلکہ بلندیوں کی طرف پرواز کرنی ہے لیکن اس مقام پر اس سطح پر سب کو یہ کہہ کر اکٹھا کردیا.إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم پس انسانیت پر سب سے بڑا جو احسان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی بحیثیت انسان عزت قائم کی اور اس کا احترام قائم کیا اور اس کا شرف

Page 222

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اور مرتبہ قائم کیا.۲۱۲ سورة حم السجدة دوسرا عظیم احسان جو انسان پر بحیثیت انسان ہمارے محبوب خاتم الانبیاء نے کیا وہ یہ تھا کہ انسان کے حقوق قائم کئے اور ایسے سامان پیدا کئے اور ایسی تعلیم دی کہ اگر ہم اس تعلیم پر چلیں تو سارے انسانوں کے حقوق انہیں مل جاتے ہیں ( اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤنگا.اقتصادی اصول پر میرے خطبات چھپ گئے ہیں ان میں میں وضاحت سے بیان کر چکا ہوں کہ ) حقوق انسانی کی جو تعریف قرآن عظیم نے کی ہے وہ انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی وہ صرف ربانی الہام ہی کر سکتا ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۷۰، ۷۱) انبیاء علیہم السلام ہر قوم اور ہر زمانہ میں مبعوث ہوتے رہے ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بنی نوع انسان کو انسانی شرف اور عزت اور مرتبہ کاعلم نہیں دیا گیا تھا کیونکہ ابھی وہ اپنی جسمانی اور روحانی ارتقاء کے دور میں اس مقام پر نہیں پہنچے تھے جہاں وہ اس بات کو سمجھ سکتے کہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے اور مقصد حیات بشریت ہی کے ساتھ وابستہ ہے.اس لئے پہلی کتب کی تعلیموں کا تعلق صرف ان اقوام کے ساتھ نظر آئے گا جن کی طرف مختلف انبیاء مختلف زمانوں میں مبعوث ہوتے رہے اور پہلی کتب کی یہ تعلیم میں صرف اخلاقی اور روحانی تربیت ہی کے لحاظ سے نہیں بلکہ دنیوی تعلقات کے لحاظ سے بھی انسان، انسان میں فرق کرتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کے انبیاء کی تعلیمات میں بہت سی تحریف اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ یہ تعلیمات انسانی مقام اس کے شرف اور مرتبہ کو قائم کرنے والی نہیں ہیں.یہی حال بنی اسرائیل کے انبیاء کا ہے ایک زمانہ میں وہ بڑی مظلوم قوم تھی.ان کی قومی عزت خطرہ میں تھی.تب اللہ تعالیٰ نے اُن کو انتقام کی تعلیم دی اُن میں عزت نفس پیدا کی.پھر گوہ اس پر قائم نہ رہ سکی اور دوسری Extreems (انتہا) پر چلی گئی تاہم ان انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی یہ غرض نہیں تھی کہ وہ اس بات کا بھی اعلان کریں کہ بنی نوع انسان اشرف المخلوقات ہیں اور آپس میں سب برابر ہیں لیکن چونکہ ایک خاص وجہ سے اور ایک خاص مقصد کے پیش نظر جس کا ذکر میں ابھی کروں گا انسانی شرف کو قائم کرنا تھا اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسان برابر ہیں اور ہمیں ایک ایسی تعلیم دی گئی جس میں انسانی شرف اور مرتبہ کو وضاحت سے

Page 223

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۱۳ سورة حم السجدة بیان کر دیا گیا اور یہ تعلیم صرف عرب کے رہنے والوں کو مخاطب کر کے نہیں دی گئی.تمام عالمین کے انسان اس تعلیم کے مخاطب ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی مرتبہ کو سمجھانے کے لے فرما یا.وَ مِنْ أَيْتِهَ أَنْ خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابِ ثُمَّ إِذَا انْتُمْ بَشَر تَنتَشِرُونَ (الروم :۲۱) اللہ تعالیٰ کی زبر دست نشانیوں اور اس کی قدرتوں کے حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک نظارہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے ہماری اس زمین کی ہر چیز مٹی سے پیدا ہوئی ہے مٹی کے اجزا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک خاص محسوس و مشہود شکل اختیار کر لیتے ہیں مثلاً پھلوں میں سے آم یا انگور وغیرہ ہیں.اناجوں میں سے گندم یا جو کی یا باجرہ ہیں.لحمیات میں سے پرندوں کا گوشت ہے، چوپایوں کا گوشت ہے اور مچھلیوں کا گوشت ہے اسی طرح کی اور بھی بے شمار مختلف چیزیں ہیں مگر دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے مٹی سے پیدا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ اے انسان! ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہارے وجود میں مٹی کی خلق احسن تقویم کو پہنچی ہے مٹی کی خلق جو موزوں ترین اور بہترین شکل اختیار کر سکتی تھی وہ تمہارے وجود میں کمال کو پہنچ گئی ہے.سورۃ تین میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.غرض انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور احسن تقویم کی شکل میں انسان بطور بشر کے ہے پھر تنتشرُونَ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کی تسخیر کے لے دنیا میں پھیلنا شروع کیا.پہلے تم نے اپنے ماحول کی چیزوں سے فائدہ اُٹھایا پھر چونکہ تمہاری فطرت میں یہ جذ بہ رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول یعنی اپنے ملک کی چیزوں سے تسلی نہیں پاتی اور انسان سمجھتا ہے کہ ساری دنیا کی چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اس لئے وہ ساری دنیا میں پھرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا اور دنیا کی ہر چیز کو اس نے اپنے کام پر لگایا اور اپنے فائدہ کے لئے اُسے استعمال کیا.در اصل بشر اس مٹی کی تخلیق کی انتہا اور روحانی تخلیق کی ابتداء ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے سیر روحانی شروع ہوتی ہے.پھر آگے جتنی جتنی کسی میں ہمت ہوتی ہے وہ اس کے مطابق روحانی رفعتوں کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے البتہ بشریت سے پہلے روحانی رفعتوں کے حصول کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.بشریت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد ہی انسانی مخلوق اللہ تعالیٰ کا قرب اور لقا کا مقام حاصل کر سکتی ہے.

Page 224

۲۱۴ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث پس بشریت کے مقام سے سیر روحانی کا آغاز ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام احسن تقویم رکھا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے رسول تم دنیا میں اعلان کر دو اور اس عظیم الشان اعلان پر مشتمل ان آیات ( انما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) کو بشریت کے کمال کے إِنَّمَا ذکر سے شروع کر کے آگے سیر روحانی پر ختم کیا.اب ایک ایسے فرد واحد نے خدائی حکم کے ماتحت یہ اعلان کیا کہ میں تم جیسا ہی بشر ہوں.وہ خدا تعالیٰ کے قریب تر ہوا جیسا کہ خود قرآن کریم کی یہ آیہ کریمہ ہے.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی (النجم :۱۰) اس حقیقت کی مظہر ہے اور اس سے زیادہ قرب کسی اور فرد بشر کے لئے حاصل کرنا تو کیا اُس جتنا بھی حصول ممکن نہیں چنانچہ آپ کی علوشان پر وہ حدیث قدسی بھی روشنی ڈالتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک یعنی اے رسول! اگر تیرا وجود پیدا نہ کرنا ہوتا، اگر تجھے دنیا کے لئے نمونہ نہ بنانا ہوتا تو میں مخلوق ہی پیدا نہ کرتا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں تمہارے جیسا انسان ہوں، جہاں تک انسانی عزت، شرف اور مرتبہ کا سوال ہے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں کیونکہ جس طرح میں احسن تقویم یعنی بشریت کے لحاظ سے مٹی کا ایک پتلا ہوں اسی طرح تم بھی مٹی کے پتلے ہو، جس طرح میں اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہوں اسی طرح تم بھی اشرف المخلوقات کے فرد ہو جس طرح میں سیر روحانی میں بلند سے بلند درجات پاسکتا ہوں اسی طرح تم بھی بلند سے بلند درجے حاصل کر سکتے ہو اور یہ کہہ کر ایک طرف دنیا میں انسانی عزت اور شرف کو قائم کیا اور دوسری طرف ہر فرد بشر کو اس طرف بھی متوجہ کیا کہ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں.اگر مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلند سے بلند مقام حاصل ہو سکتا ہے تو تمہیں بھی بلند درجہ کیوں نہیں حاصل ہوسکتا.تم بھی خدا کی راہ میں مخلصانہ کوششیں کرو، سچی قربانیاں دو، حقیقی مجاہدہ اختیار کرو، جذ به فدائیت اور عاشقانہ ایثار کے نمونے پیش کرو خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرنے لگ جائے گا، تم بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کر لو گے.اب اگر جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے اشرف المخلوقات کا فرد ہونے کے لحاظ سے ہر انسان کا مقام اتنا

Page 225

۲۱۵ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث بلند ہے تو ظاہر ہے کہ ہم پر کس قدر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.آج دنیا ایک دوسرے کی عزت اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا سبق بھول چکی ہے.جو شخص امیر بن جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کچھ مال دے دیتا ہے ( جو دراصل اس کے امتحان کے لئے ہوتا ہے ) تو وہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میرا رب میری کچھ خوبیاں دیکھ کر مجبور ہو گیا تھا کہ مجھے مال عطا کرے اور دنیوی نعمتوں سے نوازے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ مال دے کر دراصل میرا امتحان لیا جا رہا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا مال و دولت میری عزت و احترام کی نشانی ہے اس لئے اپنے سے کم تر آدمی کو حقیر قرار دینے لگ جاتا ہے، اس کے ساتھ محبت اور حسن سلوک سے پیش نہیں آتا.اس کی عزت و احترام نہیں کرتا اگر وہ کسی وقت اس کے گھر میں آ جائے تو اسے دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے اور اگر کبھی اس سے بات بھی کرے گا تو اس حال میں کہ ماتھے پر تیوری چڑھانے اور آنکھوں میں غیض و غضب کے آثار نمودار ہوں گے مگر یہ امیر شخص اس حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے کہ بحیثیت بشر ہونے کے جو مقام اس کا ہے وہی مقام اس غریب آدمی کا بھی ہے جو اس کو ملنے آیا ہے.وہ یہ بھول رہا ہوتا ہے کہ اسلام تو انسانی عزت اور اس کے شرف کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہیں سے دراصل سیر روحانی کی ابتداء ہوتی ہے اور انسان اپنے مقصد حیات کو پالیتا ہے اور سیر روحانی کی ابتدا ء صرف انسان سے ہوسکتی ہے گدھے یا گھوڑے سے نہیں ہو سکتی ، گیدڑ یا چمگادڑ سے نہیں ہوسکتی ، بھیڑیے یا سؤر سے نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو بوجہ خادم انسان ہونے کے خادمانہ طاقتیں لے کر اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور خادمانہ زندگی گزارنا ہی اُن کا مقصد حیات ہے.ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے مسخر کی گئی ہے آگے یہ انسان کی اپنی سمجھ اور استعداد پر منحصر ہے کہ وہ ان سے کہاں تک فائدہ اُٹھاتا ہے لیکن ان کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کی خدمت کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ہمارے تصور اور گمان میں بھی نہیں آسکتا.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کونہ صرف انسان کی خدمت پر مامور کیا ہے بلکہ انسان کو ان پر شرف اور رتبہ بھی بخشا.انسان کے وسیع تر اختیارات سے ان کو نیچے رکھا.ان کی فطرت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ چاہیں تو وہ انسان کی خدمت کریں اور چاہیں تو نہ کریں ورنہ تو ہماری شیروں سے بھی لڑائی ہوتی گیدڑوں سے بھی لڑائی ہوتی.بچھوؤں سے بھی لڑائی ہوتی آپس میں رقابت کی جنگ شروع ہو جاتی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ہر ایک چیز کو انسان کا خادم بنادیا اور اُسے یہ کہا کہ میں تجھے جو

Page 226

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۱۶ سورة حم السجدة بھی حکم دوں گا تیری فطرت اس کو قبول کرے گی اور اس سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھے گی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی قرآن کریم کی اس آیہ کریمہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم:۷) ( یعنی فرشتوں کو اللہ تعالیٰ جو بھی حکم دیتا ہے وہ اس کے پابند ہوتے ہیں اس حکم سے باہر نہیں نکل سکتے ) کی رو سے یہی تفسیر کی ہے کہ فرشتوں کی اس تعریف کے مطابق تو پھر مخلوق کا ہر ذرہ فرشتہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت ہی نہیں دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنی مرضی سے ٹال سکیں.اس کے نتیجہ میں وہ قہر خداوندی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے.انسان بسا اوقات تیار ہو جاتا ہے مگر یہ چیزیں تیار نہیں ہوتیں.پس اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بڑا ہی احسان ہے کہ جس چیز کو اس نے ہماری خدمت پر لگایا ہے اس کو یہ اجازت ہی نہیں دی کہ وہ رسہ تڑوا کر بھاگ جائے اور ہماری خدمت کرنے سے انکار کر دے.الغرض ساری چیزیں اپنے اپنے کام پر لگی ہوئی ہیں.انسان کو بشریت کے مقام پر لا کھڑا کیا اور فرمایا اے بنی نوع انسان ! اس مٹی سے پیدائش کی جو بہترین شکل بن سکتی تھی وہ شکل میں نے تمہیں عطا کر دی ہے.احسن تقویم میں میں نے تمہیں پیدا کر دیا ہے.تمہیں اشرف المخلوقات بنادیا ہے دنیا کی ہر چیز تمہاری خدمت پر لگا دی ہے.اب تمہاری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے خادم اور اس کے بندے بن جاؤ تمہارا کام اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا نہیں ہے تمہارا کام مخلوق کے آگے سر جھکانا اور اُن سے مانگنا بھی نہیں ہے نہ ہی تمہارا یہ کام ہے کہ تم بعض کو بعض پر ترجیح دو.تم اشرف المخلوقات ہو تم میں سے ہر ایک کی عزت اور شرف اور مرتبہ بحیثیت انسان ایک دوسرے کے برابر ہے یہاں تک کہ افضل البشر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق بتقاضائے بشریت دوسرے انسانوں ہی کی طرح تھے.در حقیقت یہ ایک عظیم اعلان ہے.جب ہم اس کے متعلق سوچتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں.اس قدر عظیم اعلان بنی نوع انسان کے سامنے کیا گیا ہے جس کی عظمت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھتا ہو اور اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہوتے ہوئے بشریت کے مقام سے سیر روحانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے اور ایسا عظیم قرب حاصل کیا کہ اس سے زیادہ قرب تصور میں بھی نہیں آسکتا.نہ کسی ماں جائے نے بھی اتنا قرب حاصل کیا اور نہ ہی آئندہ کر سکتا ہے تاہم آپ کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا گیا کہ بشر ہونے کی حیثیت میں مجھ میں

Page 227

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۱۷ سورة حم السجدة اور تم میں کوئی فرق نہیں.انسانی شرف اور اس کے احترام کے لئے اس سے بڑھ کر عظیم اعلان اور کیا ہو سکتا تھا آپ نے بنی نوع انسان سے فرمایا کہ جب ہر فرد بشر بطور بشر میرے جیسا ہے تو دو چیز میں لازم آتی ہیں یعنی اس سے آگے پھر دو نتیجے نکلتے ہیں.ایک یہ کہ ہر فرد بشر کی عزت و احترام لازمی ہے.اگر کوئی کسی کی بے عزتی کرے گا یا کسی کو بنظر حقارت دیکھے گا تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ تم نے میری بے عزتی کی اور مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا کیونکہ میرا مقام شرف بطور بشر کے اس سے بڑھ کر نہیں ہے تم نے کسی کی بے عزتی کی تو گویا میری بے عزتی کی.اس واسطے یہ بات یادرکھنا کہ کسی بھی شخص کی بے عزتی نہیں کرنی.کسی کو بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا ہر ایک کی عزت و احترام کرنا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں ایسی گندی عادت پڑ گئی ہے کہ بات بات میں ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ کا کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ اُن کا ہر ایسا فعل در اصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہونے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والا ہے.آج دنیا پیار کی بھوکی ہے عزت واحترام کی متلاشی ہے آج دنیا میں ہمیں جو بے چینی نظر آ رہی ہے اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو بطور بنی نوع انسان کے اشرف المخلوقات نہیں سمجھا گیا حالانکہ سارے انسان ایک ہی طرح کے ہیں اور اشرف المخلوقات کے شرف سے مشرف ہیں بحیثیت بشر کوئی بھی کسی دوسرے سے بزرگ و برتر نہیں.اس لئے ہر مسلمان کو دوسرے کی عزت و احترام کرنا چاہیے.اگر وہ دوسرے کی عزت و احترام نہیں کرتا تو وہ دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترم نہیں کرتا یہ بڑا خطرناک مقام ہے.ہر آدمی کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے چہ جائیکہ ایک احمدی جو بدرجہ اولیٰ اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی خاطر یہ کارخانہ عالم وجود میں آیا تھا بشر ہونے کے لحاظ سے آپ کی عزت و احترام کی طرح ہر انسان کی عزت و احترام واجب ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے انسانی عزت و احترام کے قیام کا یہ ایک زبردست اعلان ہے.آج دنیا اس کی متقاضی ہے.غیر تو غیر ہیں خود ہم مسلمانوں میں بھی اس طرف توجہ نہیں رہی.ہم نے غریب کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے لاوارث کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے یتیم کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے کم علم یا آن پڑھ کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے اس کے برعکس دولت مند کی عزت کرنی شروع کر دی گئی ہے ہم مسلمان

Page 228

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۱۸ سورة حم السجدة وجاہت اور دبدبہ سے مرعوب ہونے لگے حالانکہ خدا تعالیٰ نے تو یہ فرمایا تھا کہ امیر و غریب بحیثیت انسان ہونے کے سب برابر ہیں.بشر ہونے کے اعتبار سے ایک سیاسی اقتدار کے مالک شخص اور ایک کم مایہ ، غریب لا چار اور ان پڑھ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور یہ آپس میں برابر ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا اس تعلیم کو بھول چکی ہے.انسانی فطرت اس کی بھوکی ہے.افریقہ کے رہنے والے کئی سو سال سے مختلف نعروں کے درمیان محرومی اور بے عزتی کی زندگی گزارتے چلے آ رہے تھے.ہمارے مبلغ وہاں گئے اُنہوں نے اسلام کی تبلیغ کی ، اسلامی مساوات سے روشناس کرایا تو وہ حیران ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہم بھی اتنے ہی معزز ہیں جتنے یہ باہر سے آنے والے لوگ معزز ہیں کیونکہ دوسرے مشنریز (Missionaries) نے ان کو یہ احساس ہی نہیں دلایا تھا کہ بحیثیت انسان ہونے کے وہ بھی شرف اور مرتبہ رکھتے ہیں اور عزت و احترام کے مستحق ہیں.اُن کے سامنے جب یہ تعلیم پیش کی گئی اور جب اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو سب زمانوں اور مکانوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے جن کی عزت اربوں ارب لوگوں نے کی اور ہوتی چلی جائے گی جن کے لئے فدائیت کے بے نظیر نمونے پیش کئے گئے.آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میں بلحاظ بشر ہونے کے تمہاری طرح ایک بشر ہوں.چنانچہ اتنے بڑے اور عظیم الشان انسان کی زبان مبارک سے رنگ و نسل کی تفریق کو یکسر مٹا دینے کی اس تعلیم سے وہ بے حد متاثر ہوتے ہیں اور اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کے دلوں میں عزت و احترام کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب وہ ہمارے مبلغوں سے گلے ملتے ہیں اور ان سے پیار و محبت کرنے لگے ہیں.غرض اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ میں اللہ تعالیٰ نے جن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کی طرف متوجہ ہونا ہر ایک احمدی کے لئے از بس ضروری ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے جیسے ایک انسان ہو کر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سیر روحانی میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق انتہائی قربانیوں کے نتیجہ میں بلند تر روحانی مقام حاصل کر سکتے ہو.چنانچہ فرما یا مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا اس سے پہلے فرمایا تھا کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں اور بشر

Page 229

۲۱۹ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ہونے کے لحاظ سے میری عزت بھی اتنی ہی ہے جتنی تمہاری عزت ہے اور اس سے ہمیں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ دنیاوی تفاوت عزت و احترام یا ذلت اور حقارت کا باعث نہیں بننا چاہیے.اسلام میں ان معنوں میں عزت یا ذلت کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جو زیادہ مالدار ہے وہ زیادہ باعزت ہے.کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا جو زیادہ چرب زبان ہے وہ زیادہ عزت والا ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جس کی تقریر لاکھوں کے مجمع کو محور کرتی چلی جاتی ہے اور وہ ایک دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ( دنیوی لحاظ سے کئی ایسے چرب زبان لوگ پیدا ہوئے ہیں ) وہ زیادہ معزز ہے اور اسی طرح کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جس کو کم دولت ملی ہے یا سرے سے ملی ہی نہیں وہ ذلیل اور قابل حقارت ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو شخص اپنے ماحول میں کسی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کر سکا وہ ذلیل اور حقیر ہے.کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ایک شخص جو د نیوی علوم میں کمال حاصل کر لیتا ہے خدائے تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی زیادہ عزت و احترام ہے.احسن تقویم یعنی بشریت کے مقام سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی انسان کو کسی دنیوی وجہ سے معزز یا ذلیل قرار نہیں دیا.چنانچہ ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جن کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہمارے اموال ہمیں معزز و محترم بناتے ہیں اور جو ربی اكر من ( الفجر (۱۲) کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن جب بشریت یعنی احسن تقویم کے مقام سے انسان سیر روحانی میں بلند سے بلند ہونے لگتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تم میں سے بعض بعض پر اعزاز واکرام پانے میں سبقت لے جائیں گے اور بعض اپنی بدعملیوں کی وجہ سے معزز نہیں رہیں گے.غرض احسن تقویم یعنی بشریت کا مقام انسانی عزت یا ذلت کا نقطۂ آغاز ہے.بنی نوع انسان نے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات : ۱۴) کے ان الہی الفاظ میں کہ جو زیادہ متقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ معزز ہے پہلی دفعہ بشریت کے مقام سے بلندی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے یہ سنا کہ اب تم میں سے بعض معزز ٹھہریں گے اور بعض ذلیل اور بعض بعض سے زیادہ معزز ہوں گے اور بعض بعض سے نسبتاً کم.ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ سیر روحانی سے بلند ہونے کا مرحلہ تم طے نہیں کر سکتے جب تک تم ہماری ہدایت پر عمل نہ کرو اور قرآن کریم نے بنیادی طور پر ہمیں یہ ہدایت دی کہ سیر روحانی میں بلندیوں کو وہی لوگ حاصل کر سکیں گے جو اعمال صالحہ بجالائیں گے یعنی ایک تو یہ کہ ان کے اعمال میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور دوسرے یہ کہ ان کے اعمال

Page 230

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۲۰ سورة حم السجدة وقت اور موقع محل کے مطابق ہوں گے اور تیسرے یہ کہ ان کے اعمال خالصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے.پس وہ عمل جو فساد سے خالی ہو ( اور فساد کے آگے لمبی تفصیل خود قرآن کریم نے بیان کی ہے میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتا ) اور پھر وہ موقع ومحل کے مطابق بھی ہو اور ایسا ہو کہ جس کو اختیار کر کے یہ کہا جا سکے کہ یہ وہ شخص ہے جو اس گروہ میں شامل ہو گیا جس کے متعلق آتا ہے وَهُدُوا إلى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (الحج : ۲۵) صراط حمید اس راہ کو کہتے ہیں کہ وہ جس منزل تک انسان کو پہنچائے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قابل تعریف ہو.یعنی اللہ تعالیٰ بھی اس کی تعریف کرنے لگے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے پس جن اعمال میں یہ تین خصوصیتیں پائی جائیں گی وہ اعمال صالحہ کہلائیں گے اور ان اعمال صالحہ کے بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اعمال صالحہ بجا لانے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معزز بن جاؤ گے اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جاؤ گے.چنانچہ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات (جن کی میں نے شروع میں تلاوت کی تھی) کے علاوہ اور بھی کئی جگہ بار بار دہرایا ہے یہ بتانے کے لئے کہ توحید خالص کو قائم کرنا بڑا ہی ضروری ہے.سورۃ کہف کی آیہ کریمہ کو تو حید خالص کے ذکر سے شروع کیا اور اس کے آخر میں یہ فرمایا ہے کہ شرک سے پر ہیز کرو.سورہ حم سجدہ کی آیہ کریمہ میں جہاں یہ اعلان فرما یا إِنَّمَا أَنَا بَشر مثلكم وہاں شروع میں یہ فرمایا کہ اب تو حید خالص تمہیں بشر کے مقام سے اُٹھا کر قرب الہی کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتی ہے کیونکہ تو حید خالص پر عمل قائم ہونا وحی الہی یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لئے فرما یا اِنَّمَا الهُم الهُ وَاحِدٌ فرما یا وحی کے ذریعہ سکھایا ہے کہ تم روحانی رفعتوں کو کن ہدایات پر عمل کر کے حاصل کر سکتے ہو.جیسا کہ میں نے ابھی تشریح کی ہے پہلے یہ فرمایا تھا کہ اعمال صالحہ بجالا نا.دوسری جگہ فرمایا کہ خالی اعمال صالحہ بجالانے کافی نہیں بلکہ استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ بجالانا ضروری ہے.یہ نہیں کہ رمضان کے پہلے پندرہ دن روزے رکھ لئے اور دو دو گھنٹے تک نماز تراویح پڑھنے میں لگے رہے لیکن اگلے پندرہ دن تاش کھیلنے میں گزار دئے.فرمایا.فَاسْتَقِيمُوا الَيْهِ اللہ تعالیٰ کی طرف انابت اور رجوع کی حالت میں استقلال اور استقامت پیدا کرو اور یہی کیفیت اعمال صالحہ کے بجالانے دورود

Page 231

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۲۱ سورة حم السجدة میں بھی پیدا کرو.پھر یہ فرمایا وَاسْتَغْفِرُوهُ تم اپنے زور سے ایسا کر بھی نہیں سکتے اس لئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو.پس فرمایا اگر تم استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ پر قائم رہو گے اور اعمال صالحہ کی بجا آوری میں اپنی قوت اپنی استعداد، اپنی طاقت اور اپنی قابلیت ، اپنے تقویٰ اور طہارت پر بھروسہ نہیں کرو گے ، اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر کار بند رہتے ہوئے اس سے مدد چاہو گے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی لقاء کو حاصل کر لو گے.اس کے بعد فرمایا ہے وَيْلٌ لِلْمُشرکین سورہ کہف کی آیہ کریمہ کے آخر میں فرمایا تھا لا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا کسی اور کو شریک فی العبادۃ نہیں کرنا.یہاں یہ فرمانے کے بعد کہ اعمال صالحہ بجالانے میں استقلال اور استقامت سے قائم رہنا یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو زور بازو سے حاصل نہیں کر سکتے.اگر تم یہ سمجھو کہ رضائے الہی کے حصول کی طاقت خود تمہارے اندر موجود ہے تو تم متکبر ہو کر خدا تعالیٰ کی نگاہ سے گر جاؤ گے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو اور اس سے یہ دعا کرتے رہو کہ وہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور اس نے جو طاقتیں اور قابلیتیں تمہیں عطا کی ہیں وہ انہیں اُجا گر کرے اور ان میں جلا بخشے.اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو تم نے مقصد حیات کو پالیا اگر کامیاب نہ ہوئے تو سمجھو کہ تم تو حید خالص سے بھٹک گئے.تم نے کچھ خدا کا اور کچھ اس کے غیر کا سمجھ لیا.تم کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے اور کبھی غیر اللہ کے سامنے جھکے.تم نے کبھی خدا تعالیٰ پر توکل کیا اور کبھی اس کی مخلوق یعنی انسان وغیرہ کے آگے ہاتھ پھیلا دیا.اس صورت میں یاد رکھو ويل للمشرکین شرک خواہ کسی قسم کا ہی کیوں نہ ہو انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کا مورد بنا دیتا ہے تم اس سے بچتے رہو.غرض اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں ایک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عظیم الشان اعلان کر وایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.اگر میں بشر ہونے کے باوجود مقرب الہی بن سکتا ہوں تو تمہارے لئے بھی یہ راہ کھلی ہے.پس انسانی شرف اور اس کے احترام پر مشتمل اس حکیمانہ تعلیم کی موجودگی میں تم ایک لحظہ کے لئے بھی یہ کیسے سوچ سکتے ہو کہ تمہارے اور ایک غریب بھائی تمہارے اور ایک ان پڑھ بھائی تمہارے اور ایک مسکین بھائی تمہارے اور ایک محروم بھائی تمہارے اور ایک سائل بھائی کے درمیان فرق ہے جسے تم اپنی عزت اور اپنے محتاج بھائی کی ذلت پر محمول کرتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 232

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۲۲ سورة حم السجدة تعلیمات اور آپ کے اُسوہ حسنہ کی روشنی میں تمہارے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آنی چاہیے اور ہر انسان کی خواہ وہ اپنی زندگی میں کسی بھی ادنیٰ مقام پر تمہیں نظر کیوں نہ آئے اس کی عزت و احترام کرنی چاہیے.اس کی ہمدردی اور خیر خواہی کرنی چاہیے اس کو اپنے سے کم تر اور ذلیل نہیں سمجھنا چاہیے.اُسے بھائیوں کا سا درجہ دیتے ہوئے اپنے برابر بٹھانا چاہیے اور اسے یہ احساس دلانا چاہیے کہ تم بھی ہماری طرح معزز ہو.پس ہمارے معاشرہ کا غریب اور کمزور حصہ اس حسن اخلاق اور اس حسن سلوک کا محتاج ہے وہ تمہارے پیار اور محبت کا بھوکا پیاسا ہے.تم ان کی اس بھوک اور پیاس کو مٹانے کی کوشش کرو تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں جاگزیں ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ تعلیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اُسوہ حسنہ ہی انہیں متاثر کر سکتا ہے اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دیکھو بشر کے مقام کو ایک جیسا کر کے اس میں اونچ نیچ نہ رکھ کر اس میں پہاڑیاں اور وادیاں نہ بنا کر خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک مقام پر لا کھڑا کیا ہے اس کی کوئی حکمت ہونی چاہیے، اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے.خدا تعالیٰ بغیر حکمت کے تو کوئی کام نہیں کرتا اور وہ حکمت یہ ہے کہ جب مٹی کے پتلوں نے احسن تقویم کی شکل کو اختیار کر لیا اور اس میں بلند پردازی کی طاقت رکھ دی گئی تو فرمایا اب تم سیر روحانی شروع کرو اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرو.تم عاجزانہ رنگ میں کوشش کرتے ہوئے ، ہر وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے ، اپنے آپ پر کوئی فخر نہ کرتے ہوئے، تکبر کی ہر لعنت سے بچتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے جبین نیاز رکھ کر اس کی مدد طلب کرتے ہوئے ، اس سے استغفار کرتے ہوئے ہر غیر سے منہ موڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے سیر روحانی کو شروع کرو اور اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو اس کے فضل اور اس کی رحمت کو حاصل کرو.اگر آپ بشر کو بشر کے مقام سے گرا دیتے ہیں تو آپ اس کو وہ پیغام کس طرح پہنچا سکتے ہیں جو احسن تقویم سے شروع ہو کر انسان کو بلندیوں تک لے جاتا ہے.بشر کے مقام سے ورے ہمیں سیر روحانی نظر نہیں آتی.سیر روحانی کا آغاز بشریت کی سطح سے شروع ہوتا ہے اگر آپ ان کو بشر نہیں سمجھتے اور بشر کی حیثیت میں عزت و احترام کا وہ درجہ نہیں دیتے جو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہے تو آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام مؤثر طریق پر ان کے کانوں تک کیسے پہنچا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں

Page 233

۲۲۳ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا ہے یا یہ کہ تم بشریت کے مقام سے سرفراز ہوئے لیکن تمہاری آخری منزل یہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا تمہیں روحانی منزلیں طے کرنے کے لے پیدا کیا گیا ہے اور ان کی تو کوئی انتہا ہی نہیں کیونکہ جب خدا تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بے انتہا اور وراء الوراء ہے تو ظاہر ہے اس کے قرب کے بھی لامحدود درجے اور منازل ہیں.کسی بھی مقام پر جا کر وہ ختم نہیں ہوتے.پس اس نہ ختم ہونے والی منزل پر انسان کا ہر قدم جو پڑتا ہے اور ہر ساعت جو گزرتی ہے وہ اس کی زندگی کی بلکہ سارے انسانوں کی زندگیوں کی ساری لذتوں اور سرور سے زیادہ اچھی ہوتی ہے.وہ زیادہ خوشی پہنچانے والی ہوتی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی جھلک دنیا کے پیار اور محبت سے کہیں برتر اور اعلیٰ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا.بہر حال آپ بنی نوع انسان تک یہ پیغام پہنچا نہیں سکتے جب تک پہلے آپ اس کو یہ خوشخبری نہ دے دیں کہ دیکھو إِنَّمَا أنا بشر مثلکم کا اعلان کر دیا گیا.ایک عظیم الشان بشارت انسان کو مل چکی.احسن تقویم کا مقام اسے حاصل ہو گیا.ہر انسان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں پیدا ہوا ہو خواہ وہ کسی بھی زمانہ سے متعلق ہو انسانی شرف اور مرتبہ ہر دوسرے انسان کے مساوی اور برابر ہے.کوئی انسان دوسرے انسان سے برتر نہیں کسی کے متعلق زیادہ معزز اور کم معزز کا فقرہ استعمال نہیں کیا جا سکتا.جب انسان اپنا یہ مقام پہچان لیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسے دور میں داخل ہو جاتا ہے جس میں داخل ہونے کے بعد انسانی عزت قائم ہو جاتی ہے اُسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے لیکن اگر انسان اس دور میں داخل ہو کر اس دور کی ذمہ داریوں کو نہیں نہا ہتا اور فطرت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب اور نفرت اور حقارت کا مستوجب ٹھہرتا ہے.اس کے برعکس اگر تمہاری فطرت اگر تمہاری روح اس کو برداشت نہیں کرتی تو پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سیر روحانی کو شروع کرو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شاہراہ پر قدم بقدم رفعتوں کے حصول کے بعد خدا تعالیٰ کے انتہائی قرب کو پایا وہی راہ ہم سب کے لئے کھلی ہے.اس راہ پر چل کر ہم بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتے اور اس کے غضب سے بچ سکتے ہیں.اس راہ کو اختیار کرتے ہوئے ہوسکتا ہے کسی کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار شاید کم آئے اور کسی کے حصہ میں زیادہ لیکن ہر ایک کو خدا تعالیٰ کا پیار میسر آ جاتا اور اس کی رضا حاصل ہو جاتی ہے.خدا کرے کہ بنی نوع انسان کا ہر فرد.

Page 234

۲۲۴ سورة حم السجدة تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث اس حقیقت کو سمجھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کے الفاظ میں جو عظیم الشان اعلان کروایا گیا ہے ہر انسان اس ندا پر کان دھرے اور اپنی زندگی میں ہرلمحہ یہ کوشش کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل ہو.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۰۴ تا ۸۱۵) آیت ۳۱ تا ۳۳ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمُ تُوعَدُونَ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ.ترجمہ :.وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے ان پر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پچھلی غلطی کا غم نہ کرو اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور اس (جنت) میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے تم کو ملے گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو اس میں ملے گا.یہ بخشنے والے اور بے انتہا کرم کرنے والے خدا کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہوگا.اگر چہ ان آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں عید کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تا ہم حقیقی عید کی تمام مسرتیں ہیں اس میں جمع کر دی گئی ہیں.ایک مومن کی حقیقی عید یہی ہوتی ہے کہ اسے خدا کا پیارمل جائے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر رجوع برحمت ہونا اور انہیں فوز و فلاح کی شکل میں جنتوں کی بشارتوں سے نوازنا ہی اصل عید ہے.ادھر عید کہتے ہی بار بار آنے والی خوشی کو ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں مومنوں کے لئے کئی عیدیں مقرر کی ہیں جو بار بار ظاہر ہوکر ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے پیار کی بشارتوں سے نوازنے کا موجب بنی ہیں.(خطبات ناصر جلد دہم صفحه ۸۴،۸۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر قوم اور ہر جماعت نے اپنے لئے خوشیوں کے تہوار بنائے ہوئے ہیں اور ہماری عید کا دن تو یہ ہے جو رمضان کی عبادت کے بعد آتا ہے اسی طرح ایک اور

Page 235

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۵ سورة حم السجدة موقع پر آپ نے فرمایا کہ مدینہ میں مدینہ کے دونوں بڑے قبائل مختلف موقعوں کی یاد میں تہوار مناتے ہیں ان سے بہتر اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے انتظام کر دیا ہے ایک عید الفطر کا جس کو ہم چھوٹی عید کہتے اور ایک عیدالاضحیہ کا.(سنن ابی دائود کتاب الصلوۃ) انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ وقفہ وقفہ کے بعد خوشی منائے اور یہ فطرت میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ ایک خاص زمانہ اور وقت میں انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں انہاک کے بعد ایک وقتی انعام پائے اور اس انعام کی خوشی میں وہ اپنی مسرت کا اظہار کرے فطرت کے اندر جو خوشی منانے کا جذبہ ہے وہ مٹ نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ فطرت کا ایک حصہ ہے لیکن اس جذبہ کے اظہار کے خدا کے بتائے ہوئے جو مواقع تھے وہ انسان ہمیشہ ہی بھولتا رہا ہے.ہر نبی نے اپنی امت پر بعض ذمہ داریاں ڈالیں اور پھر ان کے لئے عید اور خوشی کے سامان بھی پیدا کئے وہ خوشی تو مناتے رہے اور آج تک منا رہے ہیں لیکن جو ذمہ داریاں ان پر عائد کی گئی تھیں ان کو وہ بھلا بیٹھے اور جس وجہ سے خوشی منائی تھی وہ وجہ باقی نہ رہی.ایک ظاہری چھلکا باقی رہ گیا اور روح مرگئی.انسانی فطرت میں خوشی منانے کا یہ جذبہ اتنا راسخ ہے کہ میں نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں یہاں بھی اور انگلستان میں بھی یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ خوشی حاصل کرنے کے اس جذ بہ کو سیر کرنے کے لئے طالب علم کہتے تھے کہ آؤ ہنسیں اور پھر وہ کسی وجہ کے بغیر قہقہے لگانے شروع کر دیتے.کوئی وجہ نہیں ہوتی تھی اور وہ قہقہے لگا رہے ہوتے تھے.وہ ایک دوسرے کو کہتے آؤ ہنسیں اور پھر وہ بلا وجہ ہنسنے لگ جاتے تھے.غرض دنیا میں اس قسم کی بہت ساری عیدیں ہیں کہ قہقہہ تو لگ رہا ہے لیکن وہ قہقہ کس وجہ سے اور کیوں ہے اس قہقہہ لگانے والے کو بھی علم نہیں ہوتا.چہرہ پر تو مسکراہٹ ہے لیکن دل میں خوشحالی کے جذبات نہیں.وہ کیفیت نہیں.حقیقی خوشی وہی ہے جس کے منانے کا اللہ حکم دے اور جس کی کیفیت پیدا کرنے کا اللہ تعالیٰ سامان پیدا کر دے.جو آیت کریمہ میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خوش ہو اور خوشیوں سے اپنے وجود کو بھر لو.عید منا وَ وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ کیونکہ جس خوشی اور جس جنت کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا وہ تمہارے لئے میسر آ گئی ہے یا تمہارے پہلے کی نسبت زیادہ قریب ہو گئی ہے اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انسان کے لئے جنت پیدا کرتا ہے اور حقیقتاً اس دنیا کی

Page 236

۲۲۶ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث جنت کو ہی ہم ایک عظیم جسمانی اور روحانی انقلاب کے بعد اپنے ساتھ برزخ کی دنیا میں لے کے جاتے ہیں.لیکن عام طور پر وہ جنت آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے لیکن اس جنت کی وجہ سے جو خوشی پیدا کی جاتی ہے اسے بچہ بھی اپنی عمر کے لحاظ سے محسوس کرتا ہے اسے پاگل بھی اپنی عقل کے مطابق منا تا ہے پس اللہ تعالیٰ نے یہاں اس آیت میں ہمیں حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو خوشیوں سے بھر لو اور عید مناؤ.اس لئے کہ دو قسم کی عید کے سامان آج تمہارے لئے پیدا کئے گئے ہیں ایک معرفت الہی کا سامان جیسے فرمایا اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا الله اس میں عرفان الہی کے سامان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو علی وجہ البصیرت اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے رب کی معرفت اپنی استعداد کے مطابق حاصل کی اور ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم سب کا رب وہ ہے جس نے ہمیں پیدا کیا جس نے ہمارے جسموں کو اور ہماری روحوں کو اور جس نے ہمارے جسم کے مختلف خواص اور ہماری روح کی مختلف صفات کو پیدا کیا اور جو ان صفات اور ان خواص کو پیدا کرنے کے بعد ان خواص اور ان صفات کو ان کے دائرہ استعداد میں اور ان کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانے کا متکفل ہوا اور ذمہ وار بنا.وہی ہمارا رب ہے اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور رب ہو ہی نہیں سکتا.عقلاً بھی نہیں ہوسکتا اور پھر فطرت انسانی بھی اس کو دھتکارتی ہے اور جو وحی آسمانی اللہ تعالیٰ نے نازل کی اس سے تو ہمارے سامنے یہ چیزیں بڑی وضاحت کے ساتھ آجاتی ہیں کہ دینا اللہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور وہ ہستی جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس کے اندر کوئی عیب نہیں پایا جاتا وہی ربوبیت کا سزاوار ہے اور اہل اور مستحق ہے اور اسی کو رب سمجھنا چاہیے اور رب اپنے وجود میں محسوس کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی پہچان خوشی کے سامانوں کا ایک ذریعہ بنتا ہے کیونکہ یہ ایک ابتدائی اور بنیادی چیز ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑا سامان ہماری خوشیوں کا یہی ہے کہ اپنے اس رب کو پہچاننے لگیں اور اس کا عرفان رکھنے لگیں جو رب بھی ہے اور دیگر بہت سی صفات حسنہ سے متصف ہے اور جب اس کا حسن ہم پر جلوہ گر ہوتا ہے تو ہمارے ذہن دنیا کی ساری خوبصورتیوں کو بھول جاتے ہیں اور جب ہم اس کے احسان کو پہچاننے لگتے ہیں تو ہم اس حقیقت کو پاتے ہیں کہ وہی ایک محسن حقیقی اور معطی حقیقی ہے اور جتنے دوسرے وجود بظاہر ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں پر احسان کر رہے ہیں وہ بھی اسی کی تو فیق، اسی کے منشاء اور حکم سے احسان کی طاقت اور قوت پاتے ہیں

Page 237

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۲۷ سورة حم السجدة ور نہ خود ان کے اپنے وجود میں کوئی بھی ایسا نہیں اور قابلیت نہیں اور ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو انہوں نے اپنے زور سے اور اپنی طاقت سے حاصل کی ہو جس ہنر اور قابلیت کے نتیجہ میں وہ احسان کا ارادہ کریں اور جس چیز کو لے کر وہ دوسرے پر احسان کریں اور اسی کو عطا کریں.غرض نہ وہ چیز جوان کے پاس ہے ان کی اپنی یا ان کے اپنے زور سے حاصل کردہ ہے اور نہ ان کی احسان کی قوت اور ارادہ اور خواہش اپنی ہے.یہ سب کچھ ربنا اللہ اللہ کی توفیق سے ہی میسر آتا ہے جو ہمارا رب ہے.کئی لوگ دوسروں کو عطا کرتے ہیں اور صفات باری سے عملی طور پر متصف ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے قرب کو پاتے اور اس کو پہچانتے اور اس کا عرفان حاصل کرتے ہیں اور ان کے لئے عید کے دن اور عید کے اوقات مقرر کئے جاتے ہیں.دوسرا بڑا ذریعہ یا سامان جس کے نتیجہ میں انسان کے لئے حقیقی عید یا خوشی پیدا ہوتی ہے وہ استقامت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا - استقامت کے معنی یہ ہیں کہ وقتی طور پر اور عارضی طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کا سوال نہیں بلکہ جب اپنے رب کو اور اپنے اللہ کو پہچان لیا تو اس کی کامل اطاعت اور مسلسل اطاعت اور ہمیشہ کی اطاعت اور ہمیشہ کا پختہ تعلق اس سے ضروری ہے کیونکہ جو آج کھاتا ہے اور کل بھوکا رہتا ہے اس کو سیر نہیں کہا جاسکتا.رمضان میں ہم نے یہ سبق بھی سیکھا ہے ہم دن کو بھوکا رہتے تھے اور رات کو ہم کھاتے تھے اور جتنا چاہتے تھے کھاتے تھے اور دن کو ہم بھوکے رہتے تھے تو ہم بڑی بھوک محسوس کرتے تھے.پس رات کا کھانا دن کی سیری کا سبب نہیں بنا کرتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ایک وقت میں تعلق کو قائم کر کے اس کے پیار کو وقتی طور پر حاصل کر لیتا.اس دنیا میں آئندہ زمانہ کی سیری کے سامان نہیں پیدا کیا کرتا.اس دنیا کے حالات تو تفصیلاً ہم جانتے نہیں اس لئے ہم اس دنیا کی بات کریں گے.جس طرح اس دنیا میں کھانے کی بار بار ضرورت پڑتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیار کی نگاہوں کی ہمیں بار بار ضرورت پڑتی ہے اور وہ پیار کی نگاہیں قربانی اور ایثار کے بغیر ہم حاصل نہیں کر سکتے غرض استقامت کے معنی ہیں کہ جب تعلق قائم کر لیا تو پھر وہ ٹوٹے گا نہیں اور وہ اتنا پختہ ہے کہ دنیا جتنا چاہے زور لگالے وہ ٹوٹ نہیں سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ یہ لوگ میرے بڑے ہی محبوب اور پیارے بندے ہیں.یہ مجھ سے چمٹ گئے ہیں اور اب تم ان کو میرے دامن سے علیحدہ نہیں کر سکتے.نیز دنیا کو

Page 238

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۸ سورة حم السجدة دکھانے کے لئے اور ان کو سبق دینے کے لئے کہ میں اپنے بندوں پر بلائیں بھی نازل کرتا ہوں انہیں بلاؤں میں ڈالتا ہے.وہ خاموشی بھی اختیار کرتا ہے اور ماں کی طرح کبھی یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ جاؤ میں تم سے ناراض ہوں اور اس ناراضگی کے آثار کے پیچھے مسکراہٹیں جھلک رہی ہوتی ہیں.دیکھنے والی آنکھ وہ دیکھتی ہے لیکن دنیا یہ بجھتی ہے کہ خدا اس سے کلام کرتا تھا لیکن آج وہ اس کو بھول گیا.اللہ تعالیٰ اس پر رحمت اور پیار کی نگاہ رکھتا تھا لیکن آج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس سے اپنا منہ پھیر لیا لیکن اس نے اس سے منہ اس لئے نہیں پھیرا کہ وہ اس سے ناراض تھا اس نے اس سے منہ اس لئے نہیں پھیرا کہ اس کو اور دنیا کو اس امتحان اور غصہ کے پیچھے اور ان آفات کے ماورا خدا کا پیار اور رضا نظر نہ آئے وہ اپنا غصہ بھی دکھاتا ہے اور انسان کو آزماتا بھی ہے اور اس سے وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ میر احسن اور احسان اور میری محبت اور میری رضا ایسی زبر دست تاثیر رکھنے والی ہے کہ جب وہ کسی انسان کو مل جاتی ہے تو وہ اس کے بعد مجھ سے پرے نہیں ہوتا.دنیا جو چاہے کرے وہ اس کو میرے دامن سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ ہے استقامت.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رمضان آیا.تم نے روزے رکھے رمضان آیا تم نے خلوص نیت کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر میری تسبیح اور میری تحمید کی اور میرے ذکر میں تم مشغول رہے.رمضان آیا.تم نے نفس کی خواہشات کو میری خاطر رو کے رکھا اور ان کو اپنا غلام بنایا.تم اپنے نفس کی ان خواہشات کے خود غلام نہ بنے.رمضان آیا اور تم نے میری چلائی ہوئی اندھیریوں کی طرح اپنے اموال کو مستحقین میں لٹایا اور سب دے دلا کر تم نے محسوس کیا کہ یہ خدا کا تھا.خدا کی رضا کے لئے ہم نے یہ چیز اس کو دی اور یہ گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ بڑے نفع کا سودا ہے کہ ہم نے جو دیا وہ بھی اس سے لے کر ہم نے دیا ہے یہ ایسی بات ہے کہ آپ کسی دکاندار کے پاس جائیں اور وہ عید منانے کے لئے پانچ سوروپیہ کا کپڑا آپ کو دے اور جب آپ کپڑا پھڑوا چکیں تو وہ چپ کر کے آپ کی جیب میں پانچ سو روپیہ ڈال دے اور آپ اسی کی رقم اسے دے کر وہ کپڑا لے آئیں اور یہ سراسر فائدہ کا سودا ہے گھاٹے کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہو تا شاید الفاظ اسے ٹھیک طور پر بیان نہ کر سکیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر سستا سودا ہمارا ہمارے رب کے ساتھ ہے کہ نہ صرف ہم نے جو اس کے حضور پیش کیا وہ بھی اس کی عطا تھی بلکہ پیش کرنے کی طاقت اور یہ جذبہ جو ہمارے دل میں پیدا ہوا کہ ہم اس کی محبت اور رضا کو حاصل کریں یہ بھی اس کی توفیق سے ہوا.ہم نے اس کی راہ میں

Page 239

۲۲۹ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اپنے اموال کو خرچ کیا ہم دعاؤں میں لگے رہے اور جب رمضان ختم ہوا تو خدا نے ہمیں کہا تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو اور خوشی سے اپنے وجود کو بھر لو کہ تم ایک درجہ میں کامیاب ہو گئے.تمہارے پہلے گناہ معاف کر دئے گئے ہیں اور نئی زندگی کا ایک زمانہ اور ایک دور تم پر آرہا ہے تم اس سے زیادہ رحمتوں کو حاصل کرنے کی آنے والے سال میں کوشش کرنا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ تمہیں دنیا میں بھی ایک جنت کا وعدہ دیا گیا تھا وہ جنت تمہیں مل رہی ہے تمہیں استقامت، صبر اور ثبات قدم دکھانا پڑے گا تاکہ ساری زندگی یہ جنت تمہارے ساتھ رہے اگر تم کسی وقت خدا کی معرفت کے حصول کے اور شیطانی وسوسوں کے نتیجہ میں خدا کی بجائے شیطان کی طرف مائل ہو جاؤ یا کچھ خدا کو پہچانو اور کچھ شیطان کو پہچا نو تم کچھ اللہ کی قدر کرو اور کچھ اس کی قدر کرو جس کی اللہ کی نگاہ میں کوئی قدر ہی نہیں تو پھر تم سے جنت واپس لے لی جائے گی لیکن بہر حال خدا کہتا ہے کہ میں رمضان کی مخلصانہ دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور تمہارے لئے خوشیوں کے سامان پیدا کرتا ہوں.یہ عید ہے جس کے منانے کے لئے ہم آج جمع ہوئے ہیں خدا کرے کہ ہماری نہایت ہی حقیر قربانیاں ہماری اس استقامت کی کوشش کے نتیجہ میں قبول ہو جائیں جو ہم نے کی.استقامت بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل کام ہے.اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں لیکن یہ معمولی کام بھی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بہت جگہ اس کے متعلق بیان فرمایا ہے میں اس کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ایک مختصر سا اقتباس اپنے بھائیوں کے سامنے اس وقت پیش کر دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں کہ خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کرے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے اس وقت نامردی نہ دکھلا دیں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں ذلت پر خوش ہو جائیں موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بیکس اور کمزور ہونے کے اور کسی

Page 240

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۰ سورة حم السجدة تسلی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جا ئیں اور ہر چہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہرگز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صد یقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے“.(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۰) خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۳۱ تا ۳۷) دوسرے آپ کا روحانی لحاظ سے احسان عظیم ہے.آپ نے امت محمدیہ پر آسمانی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے کھولے کہ اس سے قبل کسی نبی نے اپنی امت کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے وہ دروازے نہیں کھولے تھے.ہمارا یہ اعلان کوئی جذباتی اعلان نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہماری عقل اس کی تائید کرتی ہے.ہمارے پاس عقلی دلائل موجود ہیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی صداقت میں آسمانی نشانات نازل ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو یہ وعدہ دیا ہے کہ جو شخص تو حید الہی پر پورے طور پر اور حقیقی معنے میں قائم ہو جائے گا اور پھر استقامت سے اس راہ کو اختیار کرے گا اور اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہیں آئے گی.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اس پر فرشتوں کا نزول ہوگا.یہ ایک عظیم وعدہ ہے.گویا قرآن عظیم نے قَالُوا رَنَا الله کہنے والوں کو فرشتوں کے نزول کی بشارت دی ہے جو بڑی وسعت کے ساتھ امت محمدیہ میں پوری ہوئی.کروڑوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جن پر فرشتوں کا نزول ہوا.غرض جس قسم کی عظیم بشارتیں امت محمدیہ کوملی ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اور آپ کی سنت کی اتباع کے نتیجہ میں انسان پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں انسان انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو اس قسم کی بشارتیں ملی ہیں کہ پہلے انبیاء بھی امت محمدیہ کا اس چیز میں مقابلہ.اس لئے نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس قرآن عظیم جیسی کامل اور مکمل شریعت اور ہدایت نہیں تھی.پھر فرمایا الَّا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا امت محمدیہ کے دل سے خوف وحزن کو بالکل مٹادیا ہے.اب جس شخص کے پہلو میں خدا تعالیٰ کا فرشتہ ہو اور وہ اسے سہارا دے رہا ہو اور اسے تسلی دے رہا ہو کہ غم نہ کرو تو اگر چه دنیا دار خدا کے نیک بندوں کو تکالیف پہنچاتے ہیں ، اس سے انکار نہیں لیکن دنیا کی تکالیف

Page 241

۲۳۱ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث میں بھی ان کے چہروں پر بشاشت کھیل رہی ہوتی ہے.ان کے دلوں میں اطمینان ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو محسوس کرنے والوں کے لئے عجیب رنگ رکھتی ہے.یہ بشاشت اور اطمینان حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم احسان کا نتیجہ ہے ورنہ گھر سے تو کچھ نہیں لائے.اس میں کسی انسان کی اپنی تو کوئی خوبی نہیں.فرمایا : و ابشروا اور فرشتے ان کو بشارت دیتے ہیں بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ لوگ جنت کے دو معنے کیا کرتے ہیں.ایک یہ کہ جنت سے مراد صرف وہ جنت ہے جو مرنے کے بعد ملتی ہے اور ایک یہ کہ جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے واضح ہوتا ہے اس دنیا میں بھی انسان کے لئے جنت پیدا کی جاتی ہے.مگر جہاں تک مرنے کے بعد کی جنت کا تعلق ہے اس کی کیفیت کا تو کسی کو علم نہیں ہے.حدیث میں آتا ہے کہ وہ ایک ایسی جنت ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی محسوس کرنے والے نے اُسے محسوس کیا.میں اس وقت بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ایک جنت ہے جو مرنے کے بعد نیکو کار بندوں کو ملتی ہے اور یہ جنت یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے.تاہم یہ بات یقینی ہے کہ جنت کی بشارت جنت میں نہیں ملتی.جنت کی بشارت کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے.اس لئے ماننا پڑا کہ امت محمدیہ پر فرشتے اس دنیوی زندگی میں نازل ہوں گے چاہے وہ صرف مرنے کے بعد کی جنت کی بشارت دینے کے لئے آئیں تب بھی یہ اعتراض نہیں پڑسکتا کہ جب آپ اس دنیا کی جنت کو بھی جنت کہتے ہیں تو یہ بشارت پھر اس دنیا کی جنت کے اندر مل گئی.اعتراض اس لئے بھی نہیں ہوسکتا کہ اس دنیا کی جنت اور اخروی دنیا کی جنت میں ایک بنیادی فرق ہے.اس دنیا کی جنت میں جو گیا وہ باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ ابدی جنت ہے لیکن اس دنیا کی جنت کے ساتھ بہت سے ابتلا بھی لگے ہوئے ہیں.بلعم باعور بننے کا بھی خطرہ رہتا ہے.خدا تعالیٰ بعض لوگوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر لے جانا چاہتا ہے لیکن وہ زمین کے اوپر گر جاتے ہیں.اس لئے اس دنیا کی جنت میں ایک یقینی تسلسل نہیں بلکہ ہر آن سہارے کی ضرورت ہے.اس جنت میں یہ تو بشارت ملے گی کہ کل کو تمہارے لئے ایک اور ترقی ہے لیکن جب جنت کی بشارت مل چکی یعنی جنت میں چلے گئے تو وہاں سے نکلنے کا کوئی خطرہ نہیں مگر اس دنیا کی جنت سے نکلنے کا بھی خطرہ ہے.اس لئے بار بار بشارتیں ملتی ہیں اور تسلی ملتی ہے.خدا تعالیٰ بار بار رحم کرنے والا ہے.وہ تو اب ہے اس دنیا کی لغزشوں پر جب انسان نادم ہوتا ہے اور

Page 242

۲۳۲ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث تو بہ واستغفار کرتا ہے تو وہ بار بار توبہ کو قبول کرنے والا ہے لیکن اس قسم کی لغزش یا اس قسم کی پریشانی کا احساس یا اس قسم کی توبہ واستغفار جو اس دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اخروی جنت میں ان چیزوں کا کوئی تصور نہیں ہے.دراصل اس دنیا میں متواتر جنت کی بشارت ملتے رہنا اطمینان قلب کے لئے ضروری ہے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی یہ کہنا پڑا تھا کہ اس لئے پوچھ رہا ہوں لِيَطْمين قلبى (البقرة :۲۶۱) تا کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو.پس جو آدمی اس جنت میں چلا گیا جس میں سے نکلنے کا امکان ہی نہیں اس کا اطمینان اس بات میں تو ہو گیا کہ ایک ایسی جنت مل گئی جس کے اندر کوئی شبہ نہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۳۲۰ تا ۳۲۲) قرآن کریم نے اس اصطلاح کی بجائے ایک اور اصطلاح استعمال کی ہے.قرآن کریم نے عید دو کی بجاۓ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کی آیت کریمہ میں نُول“ کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ جو غفور ہے غلطیوں کو معاف کر دیتا اور خطاؤں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور پھر وہ رحیم ہے وہ انسان کی بار بار کی محنت کو بار بار شرف قبولیت بخشا اور اس کے لئے خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے یعنی جو بار بار آنے کا مفہوم عید کے لفظ میں تھا نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ میں نُزُل کے لفظ سے اسی تخیل کو گویا ایک نہایت حسین پیرایہ میں ادا کیا ہے.دوسرے عید کا لفظ یہ نہیں بتاتا کہ یہ اللہ تعالی کے فضل سے حاصل ہونے والی خوشی ہے.یہ ایک ایسی خوشی ہے جو بار بار آتی تھی.ایسی خوشی جو ابو جہل کے گھر میں ہر بچے کی پیدائش پر بار بار آئی اور دوسرے کفار کے ہاں بھی جن کے بہت بچے زیادہ بچے تھے ان کے گھروں میں ہر بچے کی پیدائش پر اُن کے لئے دنیوی خوشی کے سامان پید اہوئے وہ گویا ان کے لئے عید کا دن تھا لیکن وہ اُن کے لئے نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَّحِیم کا دن نہیں تھا.پھر ان دونوں قسم کی عیدوں میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِیمٍ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ ހ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا اس کی رُو سے گویا ہماری عید استقامت کا نتیجہ ہے اور اس عید سعید کے مقابلہ میں جو چیز اس کی ضد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے غضب کے نزول کا دن اس کے لئے بھی گو ب تسلسل کا ہونا ضروری ہے لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں اسے استقامت نہیں کہتے بلکہ اصرار کہتے ہیں جیسے مثلاً سُورۃ نوح میں فرمایا: وَاصَرُّوا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا (نوح : ۸) یعنی ایسے لوگوں نے اپنے گناہوں اور کفر اور انکار اور نبی کو قبول نہ کرنے پر اور اس کی مخالفت کرنے پر بوجہ تکبر اصرار کیا

Page 243

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۳۳ سورة حم السجدة یعنی وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور گناہ پر تسلسل تھا.وہ کہتے تھے کہ ہم نے گناہ نہیں چھوڑ نا چنانچہ اس کے نتیجہ میں وہ عذاب یا جہنم کے مستوجب ٹھہرے.قرآن کریم نے عذاب کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے.اُس تنبیہ کے معنی میں بھی جو لوگوں کی اصلاح لئے عذاب کی شکل میں نازل ہوتا ہے اور اُس قہر کے معنوں میں بھی جو مرنے کے لئے جہنم کی شکل میں ملتا ہے.اس کو بھی عذاب جہنم کہتے ہیں.قرآن کریم نے بھی عذاب کو اس معنی میں استعمال کیا ہے.پس جہاں گناہوں پر اصرار ہو اللہ اپنا غضب بار بار نازل کرتا ہے.اس کے لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصرار کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ نوح میں فرماتا ہے وَ اَصَرُّوا وَ اسْتَكْبَرُوا استكبارا اس کے برعکس اصرار کا لفظ نیکیوں کے تسلسل کے لئے قرآن کریم میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوا اور استقامت کا لفظ نیکیوں پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے اور بار بار اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نیکیاں کرتے رہنے کے معنی میں تو استعمال ہوا ہے لیکن گناہوں پر قائم رہنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا استقامت اور استقلال یعنی صبر کے ساتھ اور تحمل کے ساتھ اور دُکھوں کی برداشت کے ساتھ اور ایثار کو پیش کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت اور ہرلمحہ تیار رہنے کے ساتھ جو زندگی گزاری جاتی ہے اس کے آخر میں جنت ہے جنت دو قسم کی ہے ایک اس دنیا کی جنت ہے اور ایک اُخروی زندگی کی جنت ہے اُخروی جنت میں جولوگ داخل ہو گئے وہ گویا حفاظت میں آگئے شیطان دروازے پر اُن کو بہکانے کے لئے اور امتحانوں میں ڈالنے کے لئے کھڑا نہیں ہوتا لیکن جو اس دنیا کی جنت ہے اگر ہم اس مضمون کا گہرا مطالعہ کریں تو اس جنت کی دو شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں.ایک کو آپ جنتی زندگی سے ملتی جلتی زندگی کہہ سکتے ہیں ( کیونکہ یہ امتحان اور ابتلا کی زندگی ہے) جس میں داخل ہونے کے بعد نکلنے کا دروازہ کھلا ہے اور ایک حقیقی جنت ہے جس میں داخل ہونے کے بعد اس سے نکلنے کا دروازہ نہیں گھلتا مثلاً حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کے متعلق یہ بشارت دی کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے یہ لوگ جو مرضی کرتے رہیں یہ میری جنت سے نہیں نکلیں گے، جو مرضی کرتے رہیں کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ کرتے رہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب یہ جو کچھ بھی کریں گے وہ نیکی ہی ہوگی اور وہ ان کو جنت سے نکالنے کا باعث نہیں بلکہ جنت کی نعماء کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گا.

Page 244

۲۳۴ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث پس اس دنیا میں بعض انسان جنت میں داخل ہوتے ہیں اور جنت ہی میں رہتے ہیں پھر ابدی جنت ان کو نصیب ہو جاتی ہے.اس دنیا کی جنت بھی انہیں مل جاتی ہے اور ساتھ ہی اسی تسلسل میں حقیقی جنت بھی انہیں مل جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر روشنی ڈالی ہے لیکن میں اس وقت تفصیل میں نہیں جاسکتا.دنیوی زندگی کی جنت کے تسلسل میں وہ وقت بھی آجاتا ہے جس کو ہم قیامت کہتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ کے حسن کا وہ جلوہ جسے انسانی روح برداشت کر سکتی ہے پوری شان کے ساتھ ظاہر ہوگا اور اس کے محبوب انسان کو ابدی جنت کا وارث بنادے گا.پس اس دنیوی جنت میں ایک تو یہ لوگ آگئے.دوسرے وہ لوگ اس میں داخل ہونے والے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ گو یا دہلیز پر کھڑے ہو جاتے ہیں.ان کے لئے اندر جانے کا بھی موقع ہے اور باہر نکلنے کا بھی جیسا کہ بلعم باعور کا قصہ مشہور ہے.بعض لوگوں نے اسے ایک فرد کہا ہے اور ہمارے نزدیک یہ ایک جماعت ہے یعنی ہمیشہ ہی اسی قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اپنی کوششوں کے نتیجہ میں (وہ کوششیں جو نیک تو ہوتی ہیں لیکن عارضی ہوتی ہیں ) خدا تعالیٰ کے پیار کو اور اس کی بشارات کو حاصل کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوتا ہے تا زندگی کے اس دور میں اس کے متعلق کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ جو شخص اتنا مجاہدہ کر رہا ہے، اتنا جہاد کر رہا ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں اتنی قربانیاں دے رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کا مقبول نہیں بن سکا وہ بظا ہر نیک نیتی سے قربانیاں دے رہا ہوتا ہے یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کا قربانیاں دینا گویا بظاہر عند اللہ نیک نیتی پر محمول ہو رہا ہے ویسے اللہ تعالیٰ کا علم تو ہر چیز پر محیط ہے.غرض یہ اس کی ایک عارضی کیفیت ہے لیکن کیفیت نیکی اور اخلاص کی ہے اس واسطے خدا تعالیٰ کے پیار کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے.اس کے بعد اس کی یہ کیفیت نہیں رہتی.اس کے اندر تکبر پیدا ہوجاتا ہے چنانچہ وہ انسان جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات کی رُو سے ابدی پیار کے لئے پیدا کیا ہے وہ اس حقیقت کو بھول جاتا ہے اور کچھ تھوڑا سا پیار حاصل کر لینے کے بعد سمجھتا ہے کہ اب میں بہت کچھ بن گیا ہوں.اب مجھے خدا کی بھی ضرورت نہیں رہی پھر وہ بلعم باعور بن جاتا ہے اور وہ علامت بن جاتا ہے اُس جماعت کی جو خدا کے پیار کو پانے کے باوجود اپنے غرور کی وجہ سے پستی اور ذلت کی مستحق بن جاتی ہے.ایسی جماعت یا ایسا شخص گویا جنت میں داخل بھی ہوا اور جنت سے نکالا بھی گیا.یہ ایک الگ مضمون ہے اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں.

Page 245

۲۳۵ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث پس اس دنیا کی جنت دو قسم کی ہے.ایک وہ جنت ہے جس میں بعض انسان داخل ہوتے ہیں اور پھر نکل آتے ہیں اور پھر جہنم میں بھیج دیئے جاتے ہیں.ایک وہ جنت ہے جس میں لوگ داخل ہوتے ہیں اور داخل ہی رہتے ہیں.ان لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اِستَقَامُوا یعنی جن میں استقامت پائی جاتی ہے استقلال پایا جاتا ہے، جو صبر کے ساتھ مشکلات برداشت کرتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنی گردن کٹواتے ہیں لیکن اپنے ایمان پر بزدلی کا دھبہ نہیں آنے دیتے فرمایا یہی وہ لوگ ہیں کہ جب جنت میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے جنت سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پس ہماری عید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ہے یعنی وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرتا ہے.مغفرت کی چادر میں ہمیں لپیٹ لیتا ہے.ہم جو کچھ اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق اس کے حضور پیش کرتے ہیں اور بار بار پیش کرتے ہیں مثلاً جن لوگوں کو خدا تعالیٰ زندگی دیتا ہے تیس سال تک چالیس سال تک اُن میں سے ہر شخص رمضان کے روزے رکھتا ہر سال رمضان کی قربانیاں اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق خدا کے حضور پیش کرتا اور خدائے رحیم بار بار اس پر رحم کرتا ہے اور اس کے لئے ہر رمضان کے بعد ایک عید کا سامان پیدا کر دیتا ہے پہلوں کی عید بار بار آتی تھی لیکن اس لفظ عید میں یہ مفہوم نہیں تھا کہ وہ قربانیاں دیں گے اور دیتے چلے جائیں گے، اس میں ایک تسلسل قائم ہوگا، نیکیوں پر استقامت ہوگی، استقلال ہوگا صبر اور برداشت ہوگی ، خدا کے لئے فدائیت ہوگی اس کے لئے محبت ذاتی ہوگی اور اس کی قبولیت ہوگی اور اس کے بعد عید کا دن آجائے گا.عید ان کے یعنی پہلوں کے ہاں آتی تھی اور یہ وہ عید تھی جس میں کھانے پینے اور کھیلنے اور کپڑے بنانے کا انتظام ان کو خود کرنا پڑتا تھا.مسلمان کی وہ عید نہیں ہے مسلمان کی ہر عید تو قربانیوں کے ایک تسلسل میں آتی ہے اسی لئے فرما یا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہی ہمارا رب ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے ان کے حق میں فرمایا.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُم تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الأخرة وہ جنت ہے جو دنیا میں بھی ملتی ہے اور یہ وہ عید ہے جو خدائے غفور ورحیم کی طرف سے نزل یعنی مہمانی کے طور پر ملتی ہے مومن کی قربانیوں میں ایک تسلسل ہوتا ہے وہ یکے بعد دیگرے قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے.ماہ رمضان اس کی مثال ہے.تیس دن میں بہت ساری قربانیاں اللہ تعالیٰ

Page 246

۲۳۶ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث نے اکٹھی کر دیں اُن میں سے بعض کی طرف میں نے اسی رمضان میں ایک خطبہ میں اشارہ کیا تھا اور بھی بہت ساری قربانیاں ہیں اور دن اور رات ہر دو اوقات میں خدا کے حضور اس کا عاجز بندہ استقامت اور استقلال کے ساتھ قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے پھر خدا کے فرشتے آسمان سے اس پر نازل ہوتے اور بشارتوں کا اس کے لئے سامان پیدا کر دیتے ہیں.آخر میں لیلتہ القدر آجاتی ہے ( جو بھی صحیح معنی ہم کرتے ہیں اس کے لحاظ سے ) وہ قبولیت دعا کا زمانہ ہے لیلۃ القدر کا زمانہ ہے جس میں تقدیریں بدل جاتی ہیں.انسانیت کی بھلائی کے لئے انتظام کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد عید آجاتی ہے یہ عید ہر ہفتہ میں جمعہ کے دن بھی آتی ہے کیونکہ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سال کے بعد خدا تعالیٰ ہماری ضیافت اور مہمانداری کرتا ہے اس طرح تو سال کے باقی دنوں میں ہم روحانی طور پر بھوکے رہ جاتے اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا نہیں، میں ہر ہفتہ تمہاری دعوت کیا کروں گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر جمعہ مسلمانوں کے لئے عید یعنی نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول قرآن کریم کی تفسیر ہے.عید کے متعلق آپ کے سب اقوال نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیم یا اس سے ملتے جلتے مفہوم کی آیات جو مختلف مضامین کے سیاق و سباق کے لحاظ سے قرآن کریم کی مختلف جگہوں پر پائی جاتی ہیں انہی کی تفاسیر ہیں پس رمضان کے بعد عید پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا ایک اور ضیافت ہے جو خدائے غفور و رحیم کی طرف سے ہر جمعہ کو میسر آیا کرے گی.پھر ہر روز کی ضیافت ہے اور وہ رات کے نوافل سے حاصل ہوتی ہے.ہر روز کی قربانی کے بعد قبولیت دعا کا ایک وقت عطا کر دیا جاتا ہے لقا کے ساتھ بہت سے لوازمات ہیں جن کا ذکر قرآن کریم ہی میں بہت سی جگہوں پر آیا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ الَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۵۳ تا ۵۸) اس کے علاوہ بھی اور بہت سی آیات ہیں جن میں لقاء باری تعالیٰ کا ذکر آیا ہے.اس لقا کے بہت سے لوازمات بھی ہیں جن کو ہم برکات سماویہ بھی کہتے ہیں اور مکالمات الہیہ بھی کہتے ہیں.ہم ان کو قبولیتیں بھی کہتے ہیں اور خوارق بھی کہتے ہیں.امت محمدیہ میں یہ پھل یعنی خدا تعالیٰ کا قرب اور پیار اس کثرت سے انسان کو ملا ہے کہ اس کا شمار بھی مشکل ہے اور لقا کے جو لوازمات تھے ان میں لوگ

Page 247

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۷ سورة حم السجدة کثرت سے حصہ دار بنے مگر باذْنِ رَبِّهَا یعنی اللہ تعالیٰ کے اذن کے ساتھ گویا قرآن عظیم کے نزول کے ساتھ لوگوں کی ربوبیت تامہ کا سامان ہو گیا.چنانچہ جب ہم کائنات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی نشوونما ہوتی ہے مثلاً گندم ہے میں نے پہلے بھی بتایا تھا آج کی گندم اور آج سے پانچ ہزار سال پہلے کی گندم میں فرق ہے اس لئے کہ اب تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ ستاروں کی روشنی اجناس کی نشو و نما پر اثر ڈالتی ہے اور تحقیق سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ پچھلے پانچ ہزار سال میں شاید ہزاروں نئے ستاروں کی روشنی اس زمین پر پہنچی.پانچ ہزار سال پہلے جتنے ستاروں کی روشنی گندم کی پرورش کیا کرتی تھی اس سے کئی ہزار زیادہ ستارے آگئے آسمانوں پر، گندم اور دیگر غذاؤں کی پرورش کرنے کے لئے یعنی انسان کی جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی نشو نما کے لئے کیونکہ غذا کا گہرا اثر انسانی ذہن، اخلاق اور روحانیت پر پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح انسان کی غذا ئیں اس کے جسم پر اور اس کے ذہن پر اور اس کے اخلاق پر اور اس کی روحانیت پر اثر انداز ہوتی ہیں ان میں بھی نشوونما ہو کر اجناس کے بیج میں بھی ایک کمال پیدا ہوا ہے اور انسان کی قوتوں اور استعدادوں کو اس معنی میں بھی ترقی ملی ہے اسے خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوا ہے.دنیا کے ہر حصے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل یہ فیض پایا.قرآن کریم جیسی عظیم ہدایت ان کو ملی.قرآن کریم کی محبت دلوں میں ڈالی گئی.قرآن کریم کا عشق لوگوں کی روح کے اندر پیدا کیا گیا.قرآن کریم کا اتنا پیار کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے (در ثمین صفحه ۸۴) یہ ایک عاشق دل کی پکار ہے کیونکہ جو انسان عقل رکھتا ہے اور فراست رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے اور خدا سے پیار کا حصول چاہتا ہے اور لقا چاہتا ہے اور رضوان باری چاہتا ہے اسے معلوم ہے کہ خدا کو پانے کے سارے راستے قرآن میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور ان پر چل کر ہی اللہ تعالیٰ کو حاصل کیا جاسکتا ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۲۹ تا ۱۳۱)

Page 248

۲۳۸ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِن کے متعلق قرآن کریم میں کئی اور جگہوں پر بھی اعلان ہوا ہے مثلاً یہی کہ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور مَنْ شَاءَ فلیو مِن کے مطابق وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہیں اور پھر ایمان پر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے خدا تعالیٰ کی بشارتیں لے کر یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کے پیغام لے کر ان پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں جب خدا سے تمہارا تعلق ہے تو پھر اَلا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا تمہیں کسی کا خوف نہیں ہونا چاہیے اور نہ کسی کا حزن تم سے جو غلطیاں ہوئیں وہ معاف ہو گئیں.وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ التي كُنتُمْ تُوعَدُونَ تم خوش ہو جاؤ کہ خدا نے اپنی پیار کی جس جنت کا وعدہ کیا تھا خدا کی نگاہ میں تم اس کے مستحق ہو گئے.پس گفتگو کے موقع پر ایک دوسرے کو آرام سے سمجھانا اور الہی بشارتوں کو یاد دلانا اور ایمان صحیح اور اعمال صالحہ کے نتیجہ میں انسان کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر کرنا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو بیان کرنا یہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی شخص نہیں مانتا تو اس سے زبردستی کوئی نہیں کرنی.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۱) قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جو میری نگاہ میں پاک اور مطہر ہوں میں ان کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتا ہوں.ایک جگہ فرمایا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ جنہوں نے کہا کہ رب حقیقی ہمارا اللہ تعالیٰ ہے ہم ہر قسم کی ربوبیت اور نشوونما کے لئے اس کے محتاج ہیں اسی سے مانگیں گے اسی سے لیں گے وہ دے گا تو ہماری نشو ونما ہوگی ورنہ نہیں ہوگی ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر وہ اپنے اس عہد پر سختی سے قائم رہتے ہیں استقامت سے قائم رہتے ہیں تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ان کے پاس بھیجتا ہے انہیں تسلی دیتا ہے خوف کے اوقات میں ، ان کو تسلی دیتا ہے جس وقت کوئی کوتاہی اور غفلت ہو جائے اور وہ بے چین ہوکر خدا سے تو بہ اور استغفار کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کی تو بہ اور استغفار قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں اور بے چینی میں ان کے اوقات گزر رہے ہوتے ہیں آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں لَا تَحْزَنُوا غم نہ کرو خدا نے تمہیں معاف کر دیا.آسمانی نشانوں کے ساتھ وہ ان کی پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے اس نے قرآن کریم کی

Page 249

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۹ سورة حم السجدة عظمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا تھا لا يَمَسُّةَ إِلا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : ۸۰) که قرآن کریم کا فہم وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو پاک اور مطہر ہو کیونکہ یہ پاک کا کلام ہے اور پاک کے سینے میں ہی یہ نور پیدا کر سکتا ہے.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۵۲، ۴۵۳) آیت ۳۴ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ انبیاء علیہم السلام جہاں دنیا کی بھلائی کے لئے ان کی خیر خواہی کے لے ہر قسم کے اچھے کام کرتے ہیں وہاں ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو جھنجھوڑیں اور جگائیں اور کہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہو گے تو وہ ناراض ہو جائے گا اور تمہیں اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی گھاٹے کا منہ دیکھنا پڑے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انذار ( موعظہ کے اندر ہی انذار کا پہلو بھی آتا ہے کیونکہ موعظہ اس نصیحت کو کہتے ہیں جس میں انذار ملا ہوا ہو ) تو پہنچانا ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے لیکن اچھے رنگ میں پہنچاؤ جس سے وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں اس سے نفرت اور فرار کے پہلو کو اختیار نہ کریں وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور وہ ایک غلط رائے پر قائم ہیں اور غلط عقائد پر وہ کھڑے ہیں اس لئے تم جَادِلُهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کی ہدایت پر عمل کرو.جدال کے معنی رائے کو موڑ دینے کے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ جو اختلافات وہ تم سے رکھتے ہیں ان اختلافات کو دور کرنے کے لئے فساد کی راہیں نہیں بلکہ امن اور صلح کی راہوں کو اختیار کرو اور اس طرح پر ان کے خیالات کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کرو.جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سننے یا پڑھنے کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ احسن کیا ہے کیا اس احسن کی تلاش ہم نے خود کرنی ہے یا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی طرف راہ نمائی فرمائی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِینَ کہ قول کے لحاظ سے احسن وہ ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے.پس ہر وقت جو صیح طریق پر دی گئی ہو اور جس کا مقصود یہ ہو کہ خدائے واحد و یگانہ کو دنیا پہنچاننے.

Page 250

۲۴۰ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث لگے وہ احسن قول ہے وہ قول جو شرک کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو بدعت کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو دہریت کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو فساد کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو باہمی جھگڑوں کی طرف لے جاتا ہے وہ قول احسن نہیں احسن قول وہی ہے جو اللہ کی طرف لے جانے والا ہے اور چونکہ صرف زبان کا دنیا پر اثر نہیں ہوتا جب تک عملی نمونہ ساتھ نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَعَمِلَ صَالِحًا.پس تم پر فرض ہے کہ تم اپنے عملی نمونہ سے دنیا پر یہ ثابت کرو کہ تم واقعہ میں خدا کے مقرب اور اس کی طرف بلانے والے ہو تمہیں اپنا فائدہ مطلوب نہیں ہے.ہم تمہاری فلاح اور تمہاری نجات اس میں دیکھتے ہیں کہ تم اپنے رب کو پہچاننے لگو اور اسی کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ ہم واقعہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، اپنے فائدہ کی تلاش میں نہیں ہیں یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں یہ نہیں کہ ہم تمہیں کہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے لے مالی قربانیاں دو لیکن ہم خود مالی قربانیوں میں پیچھے ہوں ہم تمہیں کہیں کہ خدا کے لئے اپنے نفسوں کی قربانی دو اور خود ہمارا یہ حال ہو کہ ذراسی بات پر ہمارے جذبات بھڑک اُٹھیں نہیں بلکہ احسن قول اس کا ہے جو اپنی زبان سے بھی اللہ کی طرف بلانے والا ہے اور اپنے افعال سے بھی اللہ کی طرف سے بلانے والا ہے وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور اس کی روح کی بھی یہی آواز ہے کہ میں مسلم ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم بھی مسلمان بن جاؤ میں تم سے کسی دنیوی فائدہ کا طالب نہیں میں نے تو اپنا سب کچھ ہی اپنے رب کے قدموں پر قربان کر دیا ہے میری تو اپنی کوئی خواہش باقی نہیں رہی ، میرا تو اپنا کوئی جذبہ باقی نہیں رہا، میرا تو اپنا کوئی مال باقی نہیں رہا جو تمہاری نظر میں میری اولا د یا رشتہ دار ہیں ہر آن میری روح کی یہ آواز ہے کہ جہاں میں اپنے نفس کو اپنے خدا کی راہ میں قربان کروں یہ بھی اس کی راہ میں قربان ہو جائیں.اگر یہ تین آواز میں تم دنیا میں بلند کرو گے زبان، عمل صالح اور روح کی پکار یعنی تمہاری دعوت بھی اللہ کی طرف ہے تمہارا عمل بھی محض اس کے لئے ہے اور تمہاری روح بھی اس کے آستانہ پر پڑی ہوئی ہے تو پھر تم لوگوں کو رب کی طرف اپنے پیدا کرنے والے کی طرف واپس لوٹا لانے میں کامیاب ہو گئے ورنہ نہیں وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ اور حقیقت یہی ہے کہ جو نعمت اور خوشحالی حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہاں بھی اور وہاں بھی ملتی ہے وہ اور السيئة برابر نہیں ہوتیں جو خدا کی رحمتیں ہیں جو خدا کی نعمتیں ہیں ان کے مقابلہ پر شیطان کیا پیش کر سکتا ہے کچھ بھی نہیں

Page 251

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۴۱ سورة حم السجدة اس لئے ادفع بالتي هي اَحْسَنُ ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ احسن جس کا اس آیت میں اور دوسری آیت میں ذکر ہے اس کے ذریعہ تم بُرائی کا جواب دو.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شر سے کلی طور پر پاک بھی ہو جاؤ تب بھی شیطان ایسا انتظام کرے گا کہ وہ اپنے ماننے والوں میں سے بعض کو فساد پر اکسائے گا اور امن کی فضا کو مکدر کرے گا.پس ہر وہ مسلمان احمدی جو دنیا کے ملک ملک میں اس وقت پھیلا ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر فساد اور فتنہ کے حالات طاغوتی طاقتیں پیدا کرنا چاہیں تو ہمارا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم ان کے پھندے میں نہ آنا بلکہ اپنے نفسوں پر قابورکھنا اور جو اَحْسَنُ ہے اس کے ذریعہ اپنا دفاع کرنا.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی نہایت ہی بدزبان شخص مخالف اسلام قادیان میں آئے اور ایک سال ہمیں نہایت گندی اور مخش گالیاں دیتا رہے تب بھی دنیا یہ دیکھے گی کہ ہمیں اپنے نفس پر قابو ہے اور ہم گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دیتے اور الشیقہ کے مقابلہ پر الشیقہ کو پیش نہیں کرتے بلکہ الشیعہ کے مقابلہ میں ہم حسنہ کو پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بغیر تم اپنے مخالفوں کے دل جیت نہیں سکتے لیکن اگر تم ہماری تعلیم کے مطابق احسن چیز کو دنیا کے سامنے رکھو گے تو وہ جو آج تمہارے مخالف اور بدگو ہیں تمہارے دوست اور بڑے جوش کے ساتھ تمہاری دوستی کا اظہار کرنے والے بن جائیں گے مگر اس کے لئے ہمیں انتہائی صبر کی ضرورت ہے انتہائی طور پر اپنے نفس کو عقل اور شرع کی پابندیوں میں جکڑنے کی ضرورت ہے یہی صبر کے معنی ہیں کہ جو پابندیاں شرع لگاتی ہے وہ آدمی بشاشت سے اور خوشی سے خدا کی رضا کے لئے قبول کرے اور ایسا ہی کرتے ہیں جو ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ہوتے ہیں یعنی جن پر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے نہ کہ ان کے کسی عمل کی وجہ سے بہت رحمتیں نازل کرتا ہے اور جس کے متعلق صحیح معنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ روحانی طور پر ایسے ہی ہیں جیسا کہ دنیوی لحاظ سے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق دنیا کی نگاہ یہ بجھتی ہے کہ وہ حظ عظیم رکھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے پھر یہ فرما یا اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَة کہ جو احسن ہے اس سے الشیقہ کو دور کرو اور اس الشیعہ کے اثر سے خود کو بچاؤ اور یہ یاد رکھو کہ تمہیں تو طاقت حاصل نہیں کہ تم روحانی میدانوں کے فتح مند سپاہی بن سکو.یہ ہمارے فضل سے ہوتا ہے اور نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ جو اسلام

Page 252

۲۴۲ سورة حم السجدة تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث اور صداقت اور ہدایت کے مقابلہ میں مخالفت کر رہا ہے یا کہہ رہا ہے اس کو ہم بہتر جانتے ہیں اور ہم ہی اس کا علاج کر سکتے ہیں ہمارے فضلوں کے بغیر تم اس فتح کو نہیں پاسکتے جو فتح تمہارے لئے مقدر ہے.پس اپنے نفسوں کے جوشوں کو دبائے رکھو اور نفسوں کی بجائے مجھ پر بھروسہ کرو کہ میں سب طاقتوں والا ہوں اور دعائیں کرتے رہو.رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَتِ الشَّيطِينِ وَ اَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ (المومنون: ۹۸، ۹۹) کہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ہوں اللہ تعالیٰ ان کو پسپا کرے اور انہیں شکست دے اور اسلام کا نام بلند ہو اور ہر بندہ اپنے رب کو پہچاننے اور حقیقی عبد بن کر اس کے حضور جھک جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہمیں دعاؤں کی توفیق ملے اور خدا کرے کہ ہمارا خدا ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور اپنے وعدوں کو ہمارے حق میں پورا کرے.( خطبات ناصر جلد دوم ۱۱۵ تا ۱۱۸) اللہ تعالى سورة حم السجدة میں فرماتا ہے.وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی.اسی کی بات سب سے اچھی ہے جو اللہ کی طرف سب کو بلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق صالح عمل کرتا ہے اور (قال) کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں.یہاں فرمایا کہ وَمَنْ اَحْسَنُ قَولاً قول کے لحاظ سے سب اچھا وہ ہے.عربی زبان میں 'قول، کا لفظ مختلف معانی میں بولا جاتا ہے.مفردات راغب نے دس پندرہ معنی اس کے کئے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر وہ معنی درست استعمال ہوئے قرآن کریم میں.یہاں جو معنی لگتے ہیں ، جو مفردات راغب نے بھی کئے ہیں، یہ ہیں کہ اس سے مراد صرف زبان کا اعلان بعض دفعہ نہیں ہوتا یعنی ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ صرف زبان سے اعلان کرنا، بیان کرنا ، کہنا یہ مراد نہیں.اس سے مراد صرف زبان کا اعلان ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ مراد بھی ہوتی ہے إِذَا كَانَ مَعَهُ اعتقاد و عمل کہ اس زبان کے بیان کے ساتھ عقیدہ بھی اسی کے مطابق ہو جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور عمل صالح بھی اسی کے مطابق ہوں جن کا تعلق جوارح کے ساتھ ہے.جب زبان کے اعلان کے ساتھ دل کا اعتقاد اور اس کے مطابق عمل ہو تو اس معنی میں قول کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور یہاں اسی معنی میں ”قول “ کا لفظ استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا کہ سب سے اچھا قول وہ

Page 253

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۳ سورة حم السجدة ہے جو زبان ، عقیدہ اور عمل سے ہو کہ جس سے دعا إلى الله ایسا قائل یعنی ایسی بات کہنے والا جو اس کے مطابق عقیدہ بھی رکھتا ہے، عمل بھی کرتا ہے دعا إلی اللہ اللہ کی طرف بلاتا ہے یا دعوت دیتا ہے.اللہ کی طرف بلانا.دعا الی اللہ جو ہے اس کے دو اصولی معنی ہیں.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنے کے لئے لوگوں کو آواز دیتا ہے کہ ہر قسم کے شرک کو چھوڑو اور اپنے رب کریم کی طرف واپس آؤ.جس کے لئے ضروری ہے کہ ایسا شخص عرفان ذات وصفات باری رکھتا ہو یعنی جب تک کوئی شخص خود اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچانتا نہ ہو اور اس کی صفات کی شناخت نہ رکھتا ہو کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے بلا سکتا ہے.اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ( وہ توحید خالص جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ) جو ہے وہ ہر قسم کی برائی اور نقص اور کمزوری سے پاک ہے.یعنی ایک صفات اس کی ہیں ایسی جن سے اس کی سبوحیت اور تقدس ظاہر ہوتا ہے.جس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ اس قسم کے جلوے خدا تعالیٰ کی ذات سے ظاہر نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ پاک ہے مثلاً وہ جھوٹ نہیں بول سکتا.پاک ہے وہ.اس کو بھی قرآن کریم نے بڑا کھول کے بیان کیا ہے اور میں سوچ رہا تھا تو بہت سارے پہلو اس کے قرآن کریم میں مجھے نظر آئے وہ کسی اور خطبے میں میں بیان کر دوں گا.وہ بھی بڑا دلچسپ مضمون بنتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچانا اور شناخت کرنا اس معنی میں ( دو چیزیں ہیں وہ بھی ساتھ بیان کر دوں) بھی کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس معنی میں بھی کہ اس کی ذات ہر قسم کے عیب اور نقص اور کمزوری سے پاک ہے.وہ قدوس ہے.سر چشمہ ہے پاکیزگی کا کوئی برائی اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.اگر کوئی دماغ ایسا سوچے تو شیطان اس کو اس کی راہنمائی کرنے والا ہے.قرآن کریم اس کی راہنمائی کرنے والا نہیں تو ایک معنی دعا الی اللہ کے یہ ہیں کہ توحید خالص کی طرف وہ بلاتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا اپنا عقیدہ (مَنْ اَحْسَنُ قَولاً میں یہ بھی آیا تھانا، اس کی میں وضاحت کر رہا ہوں) بھی پاک ہو، صحیح ہو، سچا ہو، قرآن کریم کے مطابق ہو، اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کے عین مطابق ہو اور اس کی طرف وہ بلا رہا ہو.صرف یہ کہہ دینا یا یہ دنیا کو آواز دینا کہ خدا کی طرف آؤ، کافی نہیں کیوں ہر انسان کہے گا کس قسم کے خدا کی طرف تم بلاتے ہو.کیا اس خدا کے تصور کی طرف جو بعض انسانوں نے اپنے ذہن

Page 254

۲۴۴ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث میں یہ رکھا کہ وہ ظالم ہے.کیا اس خدا کی طرف بلاتے ہو کہ بعض انسانوں کے ذہنوں میں یہ ہے کہ وہ لڑکوں کو پیدا کرتا ہے اور لڑکیوں کو پیدا کرنے والا کوئی اور ہے کیا اس خدا کی طرف ؟ جو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جزا دیتا ہے، سزا دینے والا کوئی اور ہے کس خدا کی طرف بلاتے ہو تم ؟ اس خدا کی طرف جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا، اس تصور کو اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہر عیب سے پاک اور تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.پھر بیسیوں آگے تفاصیل ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں.اور دوسرے دعا الی اللہ کے یہ معنی ہیں کہ اس بات کی طرف بلاتے ہیں کہ اگر اپنی خیر چاہتے ہو اس معنی میں کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ تم دین اور دنیا میں ترقی کرو تو اس اللہ کی طرف آؤ جو حقیقی رب ہے کہ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی ہستی ربوبیت نہیں کر سکتی.اس نے انسان کو پیدا کیا اور وعدہ دیا.چھوڑا نہیں.ہر فرد ہے جو بنی نوع انسان کو ، اس میں بہت سی قو تیں اور استعداد میں ہمیں نظر آتی ہیں.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا بڑی قوتیں اور استعدادیں دیں اور پھر چھوڑ دیا کہ جاؤ اور اپنے زور بازو اور اپنی عقل سے دین و دنیا کی ترقیات کو حاصل کرو.اسلام ہمیں یہ نہیں بتا تا.اسلام یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور ہر قسم کی استعدادیں اور صلاحیتیں تمہیں عطا کیں لیکن تم ان استعدادوں اور صلاحیتوں کی صحیح نشو و نما اور صحیح راہوں پر چل کے جو نشو ونما ہوسکتی ہے وہ خود نہیں کر سکتے جب تک تمہارا زندہ تعلق ربوبیت ربّ کریم سے نہ ہو ، جب تک وہ خود تمہارا رب تمہاری ربوبیت کرنے والا نہ ہو.تو بلاتے ہیں اس طرف کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، دینی دنیوی خوشحالی چاہتے ہو ، دینی دنیوی عزتیں چاہتے ہو ، دینی دنیوی سکون اور آرام چاہتے ہو تو اپنے رب کی طرف آؤ.وہ تمہیں دے گا.اور ربوبیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بتایا کہ ربوبیت کے لئے اس نے ہدایت نازل کی.ہدایت نازل کی آدم کے ذریعہ سے بھی اس وقت کے لوگوں کے لئے.ہر نبی جو شریعت لایا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی بھلائی کے لئے ہدایت نامہ لے کر آیا اور وہ جو نبی کامل تھا وہ کامل شریعت لے کے آ گیا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.اب اس ہدایت کے دائرہ سے باہر کھڑے ہو کر تم اپنے رب کی ربوبیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جس رب نے اس ہدایت کو تمہاری بھلائی کے لئے نازل کیا ہے.یعنی اگر تم اس کا کہنا نہیں مانو گے، اس کی بتائی ہوئی راہوں پر نہیں چلو گے، ان راہوں پر

Page 255

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۴۵ سورة حم السجدة چل کر اس سے زندہ تعلق قائم نہیں کرو گے اور ہر آن اور ہر لحظہ اس سے برکتیں حاصل کر کے اپنی نشوونما اور سکون اور راحت کے سامان پیدا نہیں کرو گے تو ہدایت اپنی جگہ رہے گی، وہ رب اپنی جگہ رہے گا اور تمہاری محرومیت اپنی جگہ رہے گی.پھر بھی تم محروم رہو گے.تو دعا الی اللہ سب سے احسن قول، عقیدہ اور عمل اس شخص کا ہے جو بلاتا ہے اللہ تعالیٰ کی صحیح صفات جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور اس کی ذات کی عظمت کی طرف لوگوں کو صحیح تو حید ، خالص تو حید وہ قائم کرنا چاہتا ہے.جس کے لئے اس نے اپنی بھلائی کے لئے بھی اور دوسروں کی بھلائی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی.اور وہ بلاتا ہے (دعا الی اللہ ) لوگوں کو اس امر کی طرف کہ خدا تعالیٰ کے کامل فرما نبردار مسلم بن جاؤ.مسلم کے معنی ہی ہیں کامل فرمانبردار بن جاؤ.اور کامل فرمانبرداری کس کی؟ قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی (الانعام : ۷۲) اس ہدایت کی کامل اطاعت کرو، ہر حکم کی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری بھلائی کے لئے نازل کیا ہے.ہر اس چیز سے بچو جس کے بچنے کا اس نے تمہیں کہا ہے سختی کے ساتھ یہ نہیں کر نہ کر نواہی جو ہیں.اسی لئے سورۃ الا انعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی راہنمائی.راہنمائی کیوں ہوتی ہے؟ راہنمائی ہوتی ہے.بھولا بھٹکا ہے اس کو ہدایت کی ضرورت ہے.اس کو راہنمائی کی ضرورت ہے.یہاں ربوہ میں بھی بہت سے آ جاتے ہیں اور آپ میں سے کسی کو پوچھتے ہیں ہم نے فلاں جگہ جانا ہے.ایک دوست ہمارا رہتا ہے اس کا راستہ کہاں ہے؟ یہ اللہ کی ہدایت کامل ہدایت انسانوں کی تمام صلاحیتوں کی صحیح ، خالص اور پوری نشو و نما کرنے والی جو ہدایت ہے یہ سوائے اللہ کے جو انسان کو جانتا اور پہچانتا ہے اس لئے کہ وہ خالق ہے اور کوئی دے ہی نہیں سکتا.میں تو آپ کو نہیں جانتا نہ مجھے آپ کے اندرونے کا پتا.نہ مجھے آپ کے خیالات کا پتا.نہ مجھے آپ کے اخلاق کا پتا.نہ مجھے آپ کی دلچسپیوں کا پتا.نہ مجھے آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں کا پتا.میں آپ کے لئے ہدایت کیسے کر سکتا ہوں پیدا.نہ آپ ایک دوسرے کی ہدایت کر سکتے ہیں.ہدایت تو وہی دے سکتا ہے جس نے پیدا بھی کیا اور جو ہر وہ علم جس کا ہماری ذات سے تعلق ہے وہ جانتا ہے اسے.وہ علم رکھتا ہے.وَ اُمِرْنَا لِنُسُلِمَ یہاں بھی یہ کہا ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اطاعت کریں لرب العلمين (الانعام: ۷۲) اس رب کی

Page 256

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۴۶ سورة حم السجدة جو عالمین کا رب ہے.ہمارا بھی رب ہے.ہماری ربوبیت کے لئے جو اس نے سامان پیدا کئے اس کی طرف وہی راہنمائی کر سکتا ہے.اس کے لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ قَالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَ مَنْ اَحْسَنُ قَولاً میں جیسا کہ میں نے بتایا عربی لغت کے لحاظ سے تین پہلو پائے جاتے ہیں.زبان سے اعلان کرنا مذہبی ہدایت کے متعلق ، عقائد کے متعلق دل میں اسی کے مطابق عقیدہ رکھنا اور اس کے مطابق اس کے عمل رکھنا.پھر آگے اس کی تشریح کر دی عَمِلَ صَالِحًا میں کہ اپنے ایمان کے مطابق اور لوگوں کی ضرورت اور ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے نیکی اور وعظ کی بات کرنا اور وَ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : (۳) کے مطابق ان سے حسن سلوک کرنا ن سے تعلق کو قائم رکھنا.وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِینَن اور اپنا نمونہ ان کے سامنے رکھنا.کہنا کہ دیکھو میں نے اپنے رب کو پہچانتا ہے.میں عرفان ذات وصفات باری رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میرے دل میں صحیح عقیدہ محض اس کی رحمت سے راسخ ہوا.اس کے مطابق میں اعلان کر رہا ہوں اور وہ اتنا راسخ ہے کہ میرے جوارح میرے دل کے تابع ہو کر ہر وقت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں مصروف رہتے ہیں.......اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑا عظیم مضمون بیان کیا ہے.زبان دی ہے خدا نے (میں اب خلاصہ بیان کرنے لگا ہوں) بولنے کے لئے.ہر آدمی بولتا ہے.اچھی باتیں بھی کہتا ہے بری باتیں بھی کہتا ہے امن اور اطمینان پیدا کرنے کے لئے اپنے معاشرہ میں بھی اس کی زبان کام کر رہی ہے اور فساد کرنے کے لئے بھی اس کی زبان کام کر رہی ہے.تو خدا تعالیٰ نے ہر دو کاموں کے لئے تو زبان نہیں دی.خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ میں نے زبان دی.زبان کو آزادی دی لیکن اس آزادی اپنی مرضی سے میری اطاعت زبان کرے، انعام پالے گی.اگر یہ زبان مجھے چھوڑ کے دوری کی راہوں کو اور مہجوری کے رستوں کو اختیار کرنے والی ہوئی تو شیطان کی گود میں چلی جائے گی.پھر میری رضا کی جنتیں اس انسان کے لئے نہیں جس کے منہ میں ایسی زبان ہے.میری رضا کی جنتیں تو اس انسان کے لئے ہیں جس کے مُنہ میں یہ زبان ہے مَنْ اَحْسَنُ قولا کہ جس سے بہتر زبان نہیں.اور وہ ، وہ زبان ہے جس کا بیان اسلام ( زبان سے اظہار ہو رہا ہے) جس کا عقیدہ اسلام ( راسخ ہے دل کے اندر ) جس کا عمل اسلام.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۰۹ تا ۳۱۵)

Page 257

۲۴۷ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث جو شخص قول احسن کا پابند نہیں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہے.اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی زبان کو بے لگام نہیں چھوڑا بہت سی پابندیاں اور حد بندیاں اس نے زبان پر قائم کی ہیں اور اظہار رائے زبان سے ہو، یا تحریر سے، اشارہ سے ہو یا بلیغ خاموشی سے، یہ تمام اظہار با اخلاق آزادی کی قیود میں بندھے ہوئے ہیں تو بنیادی ہدایت زبان کے متعلق یہ ہے کہ جو بات کہو احسن کہو اگر اللہ کے بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہو اگر شیطان کے بندے بننا چاہتے ہو تو یہ تمہاری مرضی ہے قول احسن کے اصول پر کار بند ہوئے بغیر کوئی شخص خدا کے عباد میں شامل نہیں ہوسکتا.اظہار کا یا بیان کا بڑا تعلق الہی سلسلہ میں تبلیغ اور اشاعت حق ، اشاعت اسلام سے ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ قریباً تمام دنیا میں پھیل چکی ہے.سو جہاں بھی ہمارے احمدی بستے ہیں انہیں چاہیے کہ اشاعت اسلام اور تبلیغ کے سلسلہ میں قرآن کریم نے جو ہدایات دی ہیں جن میں سے بعض بنیادی باتوں کا تعلق ان آیات سے ہے جن پر میں نے گذشتہ خطبہ دیا تھا، ان کو اپنے سامنے رکھیں اور کبھی بھی نفس کے جوش سے اپنے رب کو ناراض نہ کریں ان آیات میں جو گذشتہ جمعہ میں نے پڑھیں اور جن کے متعلق میں نے خطبہ دیا تھا اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتیں بیان کی ہیں.(۱) یہ کہ دعوت الی الحق ( اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے ) کا کام سپر د کرتے ہوئے قرآن کریم نے جو ہدایت انسانوں کے لئے دی ہے وہ یہ ہے کہ اشاعت حق کا کام ان علمی اور عقلی دلائل کے ساتھ کیا جائے جو قرآن کریم میں بکثرت پائے جاتے ہیں یا وہ علمی دلائل جو قرآن کریم کے علمی اور عقلی دلائل کی تائید میں دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بعض دلائل کو تو اپنی حکمت کاملہ سے صدیوں محفوظ رکھا اور آج انہیں اس لئے ظاہر کر رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے بیان کی سچائی پر وہ دلیل ٹھہریں.(۲) دوسری ہدایت یہ دی کہ قرآن کریم میں صرف علمی اور عقلی دلائل ہی نہیں بلکہ بہت سے روحانی اسرار اور روحانی انوار بھی پائے جاتے ہیں.تو دوسروں کے سامنے قرآن کریم کے روحانی اسرار وانوار پیش کرنے چاہئیں اور میں نے بتایا تھا کہ اس وقت بہترین تفسیر جو اس زمانہ کے حالات

Page 258

تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۲۴۸ سورة حم السجدة کے مطابق ہمارے پاس ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سکھائی ہوئی تفسیر ہے.(۳) پھر ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہر محل پر بولنا جو ہے وہ خوبی نہیں بلکہ بعض دفعہ گندہ دہنی کے مقابلہ میں انسان ایک بلیغ خاموشی کو اختیار کرتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا الصمت حکم.حُکم کے معنی یہاں مفردات راغب میں ”حکمت“ کے لکھے ہیں.(۴) پھر ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ مخاطب کی طبیعت اور اس کے علم اور اس کی ذہنیت کے مطابق اس سے بات کرنی چاہیے اور جو ایسا نہیں کرتا وہ حکمت سے بعید بات کرتا ہے.بعض دفعہ نوجوان اپنی جوانی کے جوش میں اس چیز کو بھول جاتے ہیں کہ بات تو اس سے کرنی چاہیے جس کی طبیعت کا ہمیں علم ہو اور واقفیت ہو اس کی ذہنیت سے ہم واقف ہوں اور وہ بات اس کے سامنے ہم کریں جو وہ سمجھ سکتا ہو میں نے سنا ہے کہ بعض دفعہ بعض نوجوان مساجد میں رات کے وقت اپنے رسالے یا اپنے اشتہار چھوڑ آتے ہیں یا دوکانوں کی دہلیز میں سے اندر اپنا لٹریچر رکھ دیتے ہیں تو یہ حکمت کا طریق نہیں، یہ وہ طریق نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہے نہ یہ وہ طریق ہے جو اثر انداز ہوسکتا ہے.ہمارا مقصد یہ نہیں کہ پچاس ہزار اشتہار طبع کروا کے اسے تقسیم کر دیں مقصد تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک نور کو پایا ہم نے ایک برکت کو حاصل کیا ہم پر رحمت کے دروازے کھلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اس نور، اس برکت اور اس رحمت کو حاصل کیا ہے ہمارے دوسرے بھائی بھی اس نور، برکت اور رحمت کو حاصل کریں لیکن ایسا طریق اختیار کرنا کہ ان حسین جنتوں کے دروازے وا ہونے کی بجائے اور بھی ان پر مسدود ہو جائیں تو یہ حکمت کا طریق نہیں ہے ان چیزوں سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیے اور بڑے استغفار کے ساتھ اور بڑے تضرع کے ساتھ اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ان باتوں کو ان بھائیوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے جو ابھی ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتے اور ان پر ایمان نہیں لاتے تا وہ یہ یقین کرنے لگیں کہ یہ شخص انتہائی محبت سے، انتہائی خلوص سے، ہمارے سامنے یہ باتیں رکھ رہا ہے اور کوئی لڑائی اور جھگڑا اور فساد کا دروازہ نہ کھلے.(۵) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ صرف زبان کا قول کافی نہیں بلکہ عمل کا جو اظہار ہے اس کے ذریعہ دوسروں کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے حسن سلوک ایک بہترین راہ ہے جس سے کہ اگلا آدمی کم از کم اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ یہ شخص میرا دشمن نہیں جو کچھ کر رہا ہے ، میری ہمدردی،

Page 259

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۴۹ سورة حم السجدة بھلائی اور خیر خواہی کی وجہ سے کر رہا ہے وہ آپ کو غلط راہ پر سمجھ سکتا ہے، وہ آپ کے عقیدہ کو غلط عقیدہ سمجھ سکتا ہے، وہ آپ کے عمل کو جو اس (کے) عقیدہ کے مطابق ہے ہوسکتا ہے کہ عمل صالح نہ سمجھے لیکن ان کو یہ و ہم کبھی نہیں گزرنا چاہیے کہ یہ شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ محبت کے منبع سے نہیں پھوٹا بلکہ دشمنی اور فساد کے منبع سے پھوٹا ہے.(1) پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرف ہمیں متوجہ کیا ہے کہ ” موعظہ حسنہ کی تعلیم پر عمل کرو جو الہی سلسلے جاری کئے جاتے اور قائم کئے جاتے ہیں ان کے ساتھ بعض پہلو انذاری بھی ہوتے ہیں موعظہ اس وعظ اور نصیحت کو کہتے ہیں جس میں انذار کا اظہار کیا جائے سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انذار کا اظہار دوسروں کو غصہ دلانے والا اور غلط فہمی پیدا کرنے والا بھی ہوسکتا ہے اس لئے بڑی احتیاط سے کام لیا کرو جب انذاری پیشگوئیاں بیان کیا کرو انذار کے ساتھ تبشیر کے پہلوؤں کو بھی نمایاں کرتے چلے جاؤ تا کہ سننے والے یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو انذاری وعید اور پیشگوئیاں کی ہیں وہ ہماری ہی بھلائی کے لئے ہیں اور ساتھ ہی یہ شرط کر دی ہے کہ اگر انسان تو بہ کرے اور روبہ اصلاح ہو اور اپنے رب اور مولیٰ کی طرف رجوع کرے تو یہ وعید مل جایا کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اصلاح کے بعد انذاری پیشگوئیاں پوری نہ ہوں جیسا کہ انبیائے سابقین جو ہیں ان کی پیشگوئیاں کی تاریخ سے بڑی اچھی طرح واضح ہوتا ہے.(۷) پھر ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ منکر اور مخالف کے اعتقادات کے دھارے کا منہ موڑنے کے لے امن اور صلح کی راہوں کو اختیار کر وفتنہ اور فساد کی راہوں سے اجتناب کرو اور احسن کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو اور (۸) آٹھویں بات ہمیں یہ بتائی گئی تھی کہ جب تم نے اپنے جتھے کی مضبوطی اپنی عزت کے استحکام یا اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے دنیا کو اپنی طرف نہیں بلا نا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ہے اور تمہاری ذات کا اس میں کوئی فائدہ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے جس راہ اور جس طریق سے بلانے کا حکم دیا ہے اس طریق کو اختیار کرو اور نرمی اور محبت اور پیار سے کام لو.(۹) پھر ہمیں کہا گیا ہے کہ منہ کی باتیں اگر دل اور اگر جوارح اور اگر روح سے نہ نکلیں تو وہ اثر انداز نہیں ہوا کرتیں اس لئے تم دنیا کے سامنے عملی نمونہ رکھو فرمایا:.

Page 260

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۵۰ سورة حم السجدة وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا تو جب تک عمل صالح ساتھ نہ ہو اس وقت تک تمہاری باتیں دنیا کے دلوں کو جیتیں گی نہیں اور فتح نہیں کریں گی اور ان دلوں کو جیت کر اور ان دلوں کو فتح کر کے تم اس قابل نہیں ہو گے کہ تم انہیں اپنے رب کے قدموں پر لا ڈالو.اس لئے جب تم حق کی اشاعت کے لئے اپنے گھروں سے یا اپنے شہر سے اپنے قفس سے جو نفس کی خواہشات کا ایک پنجرہ ہوتا ہے اس سے باہر نکلو تو اس وقت عملی نمونہ اپنے ساتھ لے کے جانا ورنہ تمہاری باتیں جو ہیں وہ ایک کان میں داخل ہوں گی اور دوسرے کان سے باہر نکل جائیں گی.(۱۰) پھر دسویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عمل جو بظا ہر عمل صالح نظر آتا ہے ضروری نہیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں بھی عمل صالح ہو اس لئے تمہاری روح کی بھی آواز یہی ہونی چاہیے کہ اِنَّنِی مِنَ المُسْلِمِينَن کہ میں آستانہ الہی پر ہر وقت جھکی ہوئی ہوں اور تمہاری روح دنیا کے کان میں یہ آواز ڈالے کہ میں نے اپنا اور اپنوں کا سب کچھ اپنے رب کی راہ میں قربان کر دیا ہے.(خطبات ناصر جلد دوم ۱۲۰ تا ۱۲۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص کے قول سے اور کون سا قول بہتر ہے کہ جس نے دعوت الی اللہ کی اور جو اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بجالا یا اور اعلان کیا کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اس کا کامل فرمانبردار ہوں.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا قول جو دعوت الی اللہ کرتا ہے کس کے نزدیک دوسرے لوگوں کے قول سے بہتر ہے؟ سو ایک تو اس سے مراد خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے قرآن نازل کیا اور دوسرے اس سے مراد اہل بصیرت ہیں کیونکہ اَحْسَنُ کا لفظ ایک تو اس حسن پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو اور دوسرے یہ لفظ اس حسن کے لئے بھی بولا جاتا ہے جس کا بصیرت سے تعلق ہو.اسی لئے حضرت امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے اَحْسَنُ قَوْلاً سے مراد یہ ہوگی کہ اللہ اور اس کے مقربین کے نزدیک اس سے زیادہ اچھا اور کوئی قول نہیں کہ انسان لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے.یہاں قول سے مراد ظاہری الفاظ بھی ہیں، اعتقاد بھی اور اعتقاد کے مطابق کئے جانے والے اعمال بھی کیونکہ قول کا لفظ قرآن کریم میں ظاہری الفاظ اعتقاد اور عمل تینوں پر بولا جاتا ہے.اسی لئے حقیقی مومن وہی کچھ زبان سے کہتا ہے جس پر اس کا پختہ اعتقاد ہوتا ہے اور پھر اس کا عمل بھی اس اعتقاد کے

Page 261

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۵۱ سورة حم السجدة.عین مطابق ہوتا ہے اور وہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس امر کی پرواہ کئے بغیر کہ دوسرے اسے کیا کہتے ہیں یا کیا نہیں کہتے خود کہے اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.ایسا قول تو جس کے ساتھ نہ اعتقاد ہوا اور نہ عمل منافق کا قول ہوتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی قابل التفات نہیں ہوتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قول بے عمل کا کھو کھلا پن ظاہر کرنے کے لئے منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَوكَ بِمَا لَمْ يُحَيْكَ بِهِ اللهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَو لَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ (المجادلة : ٩) یعنی اے رسول ! جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ایسے لفظوں سے دعا دیتے ہیں جن میں خدا نے دعا نہیں دی.مراد یہ کہ دعا میں بناوٹ کے طور پر مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور پھر اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ کیوں اللہ ہمارے منافقانہ قول کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں دیتا.اسی لئے قرآنی محاورہ کی رُو سے قول احسن وہی قول ہو گا جس میں ظاہری الفاظ صحیح عقیدہ اور عمل تینوں شامل ہوں.یہ معنے امام راغب نے مفردات میں کئے ہیں اور استدلال انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت سے کیا ہے الَّذِینَ إذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة:۱۵۷) انہوں نے اس آیت سے استدلال کر کے قول احسن میں اقرار ، اعتقاد، اور عمل تینوں کو شامل کیا ہے.قول احسن کے ان معانی کی رو سے دعا الی اللہ کے معنے ہوں گے خود قولی ، اعتقادی اور عملی لحاظ سے ایمان باللہ سے متصف ہو کر دوسروں کو خدا کی طرف بلانا، یعنی انہیں اس امر کی دعوت کرنا کہ وہ صحیح اعتقاد پر قائم ہو کر اعمال صالحہ بجالائیں اور اس طرح اس کی ناراضگی سے بچیں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بنیں.یہ ہے دعوت الی اللہ اور جو شخص بھی قولی ، اعتقادی اور عملی لحاظ سے خود ایمان باللہ سے متصف ہو کر دوسروں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور یہ عرض کر سکے کہ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ........ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دنیا کو اللہ کی طرف دعوت دیتے چلے جائیں اور ایسے بنیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں ہم عرض کر سکیں اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِینَ.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ اسلام تمہارے ذریعہ سے نوع انسانی کے دل جیتے گا اور دنیا پر غالب آکر انہیں امت واحدہ میں تبدیل کر دکھائے گا.رہیں اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات سو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ اعلان کیا ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں گی اور اس کے نتیجہ میں تم وَيَكْشِفُ السُّوء کا نظارہ دیکھتے چلے

Page 262

۲۵۲ سورة حم السجدة تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث جاؤ گے.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دعائیں کرتے چلے جائیں اور دعوت الی اللہ اور إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ کی رُو سے اس امر کا ثبوت دیتے چلے جائیں کہ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار ہیں ، اپنے وعدے کے مطابق تکالیف اللہ تعالیٰ خود دور کرتا چلا جائے گا.ہمارے ذریعہ سے تمام بنی نوع انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے لیکن اس کے لئے ہمیں تو کل کے اعلیٰ مقام پر قائم ہوکر قربانیاں دینی ہوں گی اور دعائیں کرنا پڑیں گی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں وہ الگ ہوجا ئیں خدا انہیں خود جماعت سے کاٹ دے گا.بچے گا وہی جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن کو تھامے گا اور آپ کو ملنے والی بشارتوں اور وعدوں پر زندہ ایمان رکھتے ہوئے دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے انشراح صدر کے ساتھ قربانیاں پیش کر کے اپنے آپ کو خدائی افضال و انعامات کا (خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۳) مورد بنائے گا.

Page 263

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۵۳ سورة الشورى بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الشورى آیت ۱۲ فَاطِرُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ درووو پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مخلوق کے ساتھ شدید تعلق رکھنے کے باوجود یعنی ہر ایک جان کی جان، ہر چستی کا سہارا اور ہر ہستی کو قائم رکھنے کے باوجود وہ الگ ہے.وہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہے.الْحَقُّ کے معنے نیست سے ہست کرنے اور القیوم کے معنی اس کو قائم رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں.وہ الحی ہے انسان کو زندگی دیتا ہے.وہ القیوم ہے اس کی زندگی کو قائم رکھتا ہے اور اس میں ایک پہلو تو اللہ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا اس کی مخلوق سے.القیوم کی رو سے وہ سہارا بنتا ہے ہر ایک چیز کا تب وہ قائم رہتی ہے لیکن اس تعلق کے باوجود وہ لیسَ كَمِثْلِهِ شَيْ ءٍ بھی ہے اور اسْتَوَى عَلَى العرش (الاعراف: ۵۵) بھی ہے.وہ سب سے برتر اور تمام مخلوق سے وراء الوراء بھی ہے اور تقدس کے مقام پر جلوہ گر ہے اور اس طرح الگ کا الگ بھی رہا، وہ انسان کے ساتھ مل بھی گیا.اس نے انسان کے ساتھ تعلق بھی قائم کیا.انسان نے اس کے پیار کی باتیں بھی سنیں.انسان نے اس کی قدرت کے زبر دست ہاتھ کے کرشمے بھی دیکھے.گویا وہ دور ہونے کے باوجود انسان کے قریب بھی آ گیا.انسان کیا ہے؟ خدا کی ایک عاجز مخلوق ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے عاجز بندے سے شدید تعلق بھی قائم کر لیا.وہ اپنے بندے کی جان کی جان بھی بن گیا اور اس کی ہستی کا سہارا بھی بن

Page 264

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۲۵۴ سورة الشورى گیا.اس کے باوجود وہ الگ کا الگ بھی رہا اور مخلوق کے ساتھ مخلوط نہیں ہوا اور اس کائنات میں سب کچھ پیدا کر کے پھر بھی وہ مخلوق کا عین نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں اکیلا اور حقیقی تقدس اور توحید کے مقام پر جلوہ افروز ہے.خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۱۱،۲۱۰) ج آیت ۱۶ فَلِذلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَ لَا تَتَّبِعُ اهوَاءهُمْ وَقُلْ أَمَنْتُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ مِنْ كِتَبِ ۚ وَأُمِرْتُ لِاعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ط b دوسرا ہے عدل.جیسا کہ میں نے بتایا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم كافة للناس مبعوث ہوئے.اس واسطے جہاں بھی سن“ کی ضمیر آئی ہے سوائے اس کے کہ وہاں قرینہ ہو کہ اس کو ہم محدود کر دیں وہ سارے انسانوں کی طرف پھرتی ہے سارے قرآن کریم میں.سورہ شوری میں ہے وَأُمِرْتُ لِاعْدِلَ بَيْنَكُمُ (الشوری :۱۲) مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ میں تم سب انسانوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کروں اور بنی نوع انسان میں عدل کو قائم کروں.تو بینک کی ضمیر جیسا کہ میں نے بتایا یہ سب انسانوں کی طرف پھرتی ہے قطع نظر اس کے کہ ان کے عقائد کیا ہیں یا ان کا علاقہ کیا ہے.عدل کے معنی کئے گئے ہیں التَّقْسِيْط عَلى سَوَاء - (المفردات فی غریب القرآن) زیر لفظ عدل) برابر کا سلوک کرنا.یہ مفردات میں ہے.والعدل ضربان دو قسم کا عدل ہے.ایک مطلق عدل جس کو ہماری عقل اور ہماری فطرت عدل قرار دیتی ہے اور قرآن کریم اس کے اوپر روشنی ڈالتا ہے اور یہ وہ عدل ہے جس کے حسن کی عقل بھی گواہی دیتی ہے، انسانی فطرت بھی ، قرآن کریم کی تعلیم بھی اور وہ تعلیم مستقل نوعیت کی ہے.حالات کے ساتھ یہ اجازت نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی تبدیلی آئے.مثلاً الْإِحْسَانُ إِلى مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَ (المفردات فی غریب القرآن زیر لفظ عدل) جو شخص تم پر احسان کرتا ہے تم بھی اس پر احسان کرو.یہ عدل ہے.کسی حالت میں بھی یہ حکم بدلتا نہیں.

Page 265

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۲۵۵ سورة الشورى دوسری قسم کا عدل ہے.وَ كَفُ الْآذِيَّةِ عَمَّن كَفَ أَذَاهُ عَنْك (المفردات في غريب القرآن زیر لفظ عدل) اور جو تمہیں دکھ نہیں پہنچا تا تم بھی اسے دکھ نہ پہنچاؤ.اور وہ کہتے ہیں کہ ایک عدل ایسا ہے جس میں شرع نے مناسب حال ( اعمال صالحہ کہتے ہیں اسے ) کام کرو.اس میں اس کی شکل بدلتی ہے مثلاً وَ جَزْهُ سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری : ۴۱) اب جتنا کوئی کسی کو دکھ پہنچائے یا کسی کو نقصان پہنچائے اسی قدر اس کو سزا دینا، یہ حکم ہے، یہ عدل ہے لیکن یہاں قرآن کریم نے ساتھ ہی کہہ دیا.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ تو اس میں عدل سے زیادہ مہربانی کرنے کا ایک راستہ کھول دیا.عدل سے کم کا راستہ کوئی نہیں کھولا قرآن کریم نے لیکن عدل سے اوپر اٹھا کے کہا.احسان کرو تو عدل کے معنی ہیں هُوَ الْمُسَاوَاهُ فِي الْمُعَافَاهِ (المفردات فی غریب القرآن زیر لفظ عدل) کسی کے عمل کے مطابق بدلہ دینا.وہ عمل اچھا ہو، اچھا بدلہ، براہو، برا بدلہ لیکن اسی کے مطابق.تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری وہ ساری تعلیم جو میں تمہاری طرف لے کے آیا ہوں وہ اس لئے ہے کہ تمہارے درمیان عدل قائم کیا جائے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے بَيْنَكُم کی ضمیر بنی نوع انسان کی طرف پھرتی ہے.سورہ مائدہ میں فرمایا :.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة: 9) یہ جو ہے 66 کسی قوم کی دشمنی اس سے ظاہر ہوا کہ یہاں جو حکم ہے وہ یہی ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کئے بغیر تم نے عدل کو قائم کرنا ہے کیونکہ مسلمانوں کے متعلق تو یہ فرمایا.فَالفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (ال عمران : ۱۰۴) تو مسلمان کی تو آپس کی دشمنی کو قرآن کریم تسلیم ہی نہیں کرتا کہ ایک مسلمان، مسلمان ہوتے ہوئے دوسرے مسلمان سے دشمنی رکھے.یہاں ذکر ہے دشمنی کا.معلوم ہوا یہاں غیر مسلم کے متعلق بات ہے.کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو.تم عدل و انصاف سے کام لو.اِخْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقوى عدل وانصاف تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.تقویٰ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آجانا.تو فرمایا کہ عدل اور انصاف کی راہ کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ گے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم اسلام کے دشمن سے بھی عدل اور انصاف سے کام نہیں لو گے تو تم خدا تعالیٰ کی پناہ سے نکل جاؤ گے.اس لئے تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو یعنی اس کی پناہ ہی ہمیشہ

Page 266

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۵۶ سورة الشورى ڈھونڈتے رہو اور کوئی دشمنی تمہیں کسی ایسے کام کے کرنے پر مجبور نہ کرے کہ جس کے نتیجہ میں تم خدا تعالیٰ کی پناہ سے باہر نکل جاؤ اور خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکارے جاؤ.وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبى (الانعام : ۱۵۳) جب کوئی بات کہو تو خواہ وہ شخص جس کے متعلق بات کی گئی ہے تمہارا قریبی ہی ہو ( یعنی تعصب اس کے حق میں بھی آسکتا ہے ) تعصب نہ آنے دو.عدل وانصاف سے کام لے کے بات کرو اور اگر ایسا کرو گے وَ بِعَهْدِ اللهِ أَوْفُوا (الانعام : ۱۵۳) تو خدا نے جو عہد لیا ہے تم سے جو فرائض تم پر عائد کئے ہیں تم ان کو پورا کرنے والے ہو گے.اگر ایسا نہیں کرو گے، اگر اپنوں کے لئے حق و انصاف کی بات کو چھوڑ دو گے تو خدا تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کو توڑنے والے ہو گے اس عہد کو نباہنے والے نہیں ہو گے خیانت کرنے والے ہو جاؤ گے.پھر اللہ تعالیٰ سورۃ محل میں فرماتا ہے.(جو آیت میں نے لی وہ تو دوسرے مضمون کا حصہ ہے).هَلُ يَسْتَوَى هُوا وَ مَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (النحل: ۷۷) مفہوم میں نے پہلی آیتوں کا لیا ہے تاکہ اگلا مفہوم واضح ہو جائے.اللہ تعالیٰ دو شخصوں کی حالت بیان کرتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا ہے جو کسی بات کی طاقت نہیں رکھتا.میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں شرافت گونگی ہے.آواز نہیں نکلتی شرافت کے حق میں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو شخصوں کی حالت بیان کرتا ہے اللہ.جن میں سے ایک تو گونگا ہے جو کسی بات کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ ہے.جدھر بھی اس کا آقا اسے بھیجے ، جو ذمہ داری بھی اس کے سپر د کی جائے.وہ کوئی بھلائی کما کر نہیں لاتا ، نا کام ہوتا ہے اپنے مشن میں ، اپنے کام میں.ایک تو وہ شخص ہے کیا وہ شخص جس کا اوپر ذکر ہے جو گونگا ہے اور خیر کی طاقت نہیں رکھتا اور نا کام ہوتا ہے وہ شخص اور وہ دوسرا شخص جو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھی راہ پر قائم ہے باہم برابر ہو سکتے ہیں؟ یہاں موازنہ کیا گیا ہے اس شخص کا جو خود بھی عدل کرتا ہے علی صراط مستقیم پر قائم ہے اور اپنے ماحول میں بھی عدل کی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ شخص ہے.جہاں نفی ہوئی پہلی چیزوں کی.اس شخص کے حق میں نفی مثبت میں بدل جائے گی.یہ وہ شخص ہے کہ جدھر بھی اس کا آقا اسے بھیجے وہ اپنی ذمہ داری کو را کرتا اور بھلائی کما کر لاتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو گونگا نہیں جو کسی بات کی طاقت نہ رکھتا ہو اور یہ وہ شخص ہے جو اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا

Page 267

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث یہ ۲۵۷ سورة الشورى اس غرض کو پورا کرنے والا ہے یہ شخص اپنی زندگی اور اعمال صالحہ کے نتیجہ میں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بڑی عظیم تعلیم ہے یہ.عدل پر قائم رہو.عدل و انصاف کی بات کرو.حق وانصاف کا کام کرو لیکن شیطان تمہارے پیچھے پڑا ہوا ہے شیطان تمہیں صراط مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کرے گا.کس راستے سے وہ آئے گا، وہ ہم بتا دیتے ہیں وہ دروازہ بند کر دو شیطان کے لئے شیطان تمہارے پاس نہیں آئے گا.فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى اَنْ تَعْدِلُوا ( النساء :۱۳۶) خواہشاتِ نفسانی کی پیروی نہ کرو ورنہ تم عدل پر قائم نہیں رہ سکو گے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پیار کو حاصل کرنے کے لئے عدل پر قائم رہنا ضروری ہے اور عدل پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ شیطان تمہارے دل اور دماغ اور روح میں کوئی فتنہ اور شیطانی وساوس پیدا نہ کرے، اور یہ فتنہ شیطان پیدا کرتا ہے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کے ذریعہ سے.تو ہم تمہیں کہتے ہیں شیطان خواہشات نفسانی پیدا کرے گا کیونکہ ہم نے اس کو اجازت دی ہے.اس کو کہا بے شک کر تمہیں کہتے ہیں اس کی بات نہ مانولا تَتَّبِعُوا الْهَوَى.تم اگر خواہشاتِ نفسانی کی پیروی نہیں کرو گے تو عدل کے مقام سے کبھی نہیں گرو گے اور اگر عدل کے مقام سے تم نہیں گرو گے تو میرے پیار کو تم حاصل کرو گے.تم صراط مستقیم پر ہو گے جس کا پچھلی آیت میں ذکر ہے جو سیدھی میری رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے.ان آیات سے ( کچھ تو میں نے ان کے ترجمے کے وقت بتادی ہیں اس کو دہرا دیتا ہوں ) جن باتوں کا پتا لگتا ہے وہ یہ ہیں کہ تمام انسانوں کے درمیان عدل کرنے کا حکم ہے تمام انسانوں کے درمیان.دوسرے یہ کہ دشمنی عدل کے خلاف آمادہ نہ کرے.اس زمانہ میں بدقسمتی سے آپس میں الف بيْنَ قُلُوبِكُمْ کے باوجود فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا کے باوجود مسلمان مسلمان بھی لڑ پڑتے ہیں لیکن جو اس کے حقیقی مصداق تھے وہ تو ایسا نہیں کرتے تھے.غیر مسلم کی دشمنیوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ ان کی دشمنیاں بھی ، اے میری بات مانے والو تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کریں کہ عدل کی جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے تم اسے چھوڑ کے خیانت اور بے انصافی کی راہوں کو اختیار کرو.ہمارا حکم یہی ہے کہ دشمن سے بھی عدل وانصاف کیا جائے.تیسری بات یہ بتائی گئی کہ عدل تقویٰ کے سب سے قریب ہے.اَقْرَبُ لِلتَّقْوای یعنی اگر تم میری

Page 268

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۵۸ سورة الشورى پناہ میں آنا چاہتے ہو، اگر تم تقویٰ کی چادر میں اپنے وجود کو لپیٹ کر شیطان کے تمام حملوں سے محفوظ رہنا چاہتے اور میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں عدل کے مقام پر قائم رہنا ہوگا.چوتھے یہ بتایا کہ جب تک کوئی شخص عدل کے مقام پر مضبوطی سے قائم نہ رہے وہ یہ خیال دل میں نہ لائے کہ اسے پھر خدا کی پناہ بھی ملے گی اور اس کی مدد اور نصرت بھی حاصل ہوگی.پانچویں یہ کہا کہ انصاف کرو اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو.چھٹے یہ بتایا کہ جو عدل نہیں کرتے وہ پھر کسی خیر کی طاقت نہیں رکھتے.فساد ہی پیدا کرنے والے ہیں.ساتویں یہ بتایا کہ جو عدل نہیں کرتے وہ صراط مستقیم پر نہیں.بھٹکے ہوئے ہیں.مقصدِ حیات کو وہ حاصل نہیں کر سکتے.آٹھویں یہ بتایا کہ خواہشات نفس کی پیروی عدل وانصاف کی راہ سے دور لے جاتی ہے.اس واسطے ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرنی اور نویں یہ بتایا (۱) جو اہل ہیں ان کو ان کی امانتیں دو اور (ب) جو فیصلے ہوں ان میں عدل ہو.یہ دوسری آیت ہے جو پڑھنے سے رہ گئی ہے.تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (النساء :۵۹) جو اہل ہیں ان کو ان کی امانتیں دو.اہلیت خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہوتی ہے.اہلیت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کی نشوونما سے ظاہر ہوتی ہے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ وہ یو نیورسٹی میں فرسٹ آتا ہے اور ریکارڈ توڑتا ہے خدا کہتا ہے جو اہل ہے اس کو اس کی امانت دو.اس کی Appreciation کرو ایک تو یہ ہے.پھر اگر کوئی وظیفہ فرسٹ آنے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو یہ کوشش نہ کرو کہ اس شخص کو نہ ملے بلکہ ہمارے کسی دوست کے بیٹے کو ملے جو فرسٹ نہیں آیا.دنیا میں یہ ہوتا رہتا ہے.ساری دنیا ہی گند میں ملوث ہوئی ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ نے پھر یہ کہا کہ اہلیت کی بنا پر ہی نہیں بعض ایسے حقوق ہیں.دراصل تو ہر حق ہی اہلیت کی بنا پر آتا ہے اور اسی کے ساتھ یہ ہے کہ بعض تو ایسے فیصلے ہیں جن کا تعلق حاکم وقت سے نہیں مثلاً یو نیورسٹی نے فیصلہ کرنا ہے.بعض کا فیصلہ باہمی پنچائیتوں نے کرنا ہے.باہمی گفت وشنید نے کرنا ہے.بعض کا فیصلہ باہمی اقوام نے کرنا ہے یہ بہت ساری ایسی اہلیتیں جن کا تعلق حاکم وقت سے نہیں.تو پہلے یہ اصول بتادیا کہ ہرا ہلیت جو بھی مطالبہ کرتی ہے وہ امانت ہے اور وہ امانت حق دار کو ، جو اہل ہے اسے ملنی چاہیے اور

Page 269

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۲۵۹ سورة الشورى دوسرے یہ کہا کہ اپنے ملک کے اندر حاکم وقت کا یہ فرض ہے کہ انصاف اور عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑے اور تعصبات سے بالا ہو کر عدل کے مقام کو مضبوطی سے پکڑ کے اسلامی تعلیم کی روشنی میں وہ حکومت چلائے تا کہ ملک کے اندر خوشحالی پیدا ہو.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۷۴ تا ۳۷۹) آیت ۲۷،۲۶ وَهُوَ الَّذِى يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَ يَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ وَ يَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ مِنْ فَضْلِهِ وَالْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ خدا تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لئے قرآن عظیم نے جو ہمیں تعلیم دی اس کی پہلی شق یہ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے پاک اور مطہر ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے.اس لئے گناہ جو ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں یا تو وہ سرزد نہ ہوں.اگر سر زد ہوں تو اللہ تعالیٰ سے رحمت اور فضل حاصل کیا جائے یا قرآن کریم نے ایسا راستہ بتایا ہو کہ وہ گناہ معاف ہوسکیں کیونکہ جو گند میں ملوث اور ناپاک وجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث نہیں ہوسکتا لیکن یہ تو بنیادی منفی حصہ ہے ہماری زندگی کا.دوسری شق اس کی یہ ہے کہ ہمارے اعمال خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق اتنا حسن اپنے اندر رکھتے ہوں اور اتنا نور کہ وہ جو نُورُ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ ( النور : ۳۶) ہے وہ ہمیں اور ہماری کوششوں کو پسند کرنے لگے.قرآن کریم نے ان دو پہلوؤں پر ان آیات میں روشنی ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ الشوریٰ میں فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِى يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَالْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ یہ جو دو آیات ہیں ان میں سے پہلی آیت میں اس پہلی شق کا ذکر ہے.اس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے معصوم نہیں یعنی ان کی فطرت ایسی نہیں جو فرشتوں کی ہے کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحريم:۷) جو حکم ہو وہ بجالائیں ان سے غلطی سرزد ہوتی ہے، وہ گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں.فطرت انسانی ایسی بنائی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ دونوں راہیں اس کے لئے کھولی ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو وہ غلطی کرنے کے بعد تو بہ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور جب وہ خدا کے حضور عاجزانہ جھکتا اور

Page 270

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۶۰ سورة الشورى اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے اور اس سے مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے اور اپنے خدا سے کہتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تیرے سوا مجھے کوئی بخشنے والا نہیں.تیرے سوا مجھے کوئی پاک کرنے والا نہیں.قرآن کریم نے ( دوسرا مضمون ہے اشارہ کر دوں یہ فرمایا ہے کہ تزکیہ کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ) اس لئے میرے گناہ کو معاف کرے.وَ يَعُفُوا عَنِ السَّبِياتِ ایک حصہ سیئات کا اس طرح اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے لیکن جو گناہ اور سیئات ہیں اور جو غلطیاں انسان سے سرزد ہو جاتی ہیں، خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنے کا وہ مرتکب ہو جاتا ہے.یہ برائیاں جو ہیں انہیں دوطریقے سے دور کیا جاسکتا ہے قرآنِ عظیم کی تعلیم کے مطابق.ایک یہ کہ إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: ۱۱۵) اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو تو ساری کی ساری برائیاں جو ہیں وہ دور ہو جاتی ہیں.مگر کون انسان ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ میری نیکیوں کا پلڑا سیئات سے بھاری ہے.اس واسطے ایک حصہ تو نیکیوں کے نتیجہ میں جن کی اللہ تعالیٰ سے انسان توفیق پاتا ہے.اس طرح دور ہو جاتا ہے اور جو رہ جاتی ہیں باقی وہ توجہ کے نتیجہ میں و يَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ اللہ تعالیٰ ان سیئات کو دور کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ خدا تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی جاسکتی.اس واسطے ہر کام میں خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے.انسان انسان کو دھوکہ دے سکتا ہے.انسان اپنے پیدا کرنے والے ربّ کریم کو دھوکہ نہیں دے سکتا.اور دوسری شق یہاں یہ بتائی کہ وہ جو ایمان لائے اور اس کے مطابق انہوں نے اعمالِ صالحہ کئے اور ان روحانی اور اخلاقی تدابیر کے بعد انہوں نے یہ سمجھا کہ محض ہماری کوشش کافی نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہمارے اعمال کے ساتھ شامل نہ ہو اور انہوں نے دعا کی کہ اے خدا! ہزار کیڑے ہیں ہمارے اعمال میں تو ان کیڑوں کو قتل کر دے.ہزار کمزوریاں ہیں ہمارے افعال میں اور نیکیوں میں وہ بھی جو ہم جانتے ہیں اور وہ بھی جو ہم نہیں جانتے، تو ایسا کر کہ ہمارے اعمال تیری نگاہ میں مقبول ہو جا ئیں.تو يَسْتَجِيبُ وہ دعا کرتے ہیں خالی ایمان اور عمل صالح کو کافی نہیں سمجھتے.وہ دعا کرتے ہیں اور دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اور ان کے اعتقادات صحیحہ کو قبول کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کافی نہیں ہے.اس مقام کے حصول کے لئے جس مقام پر اللہ تعالیٰ لے جانا چاہتا ہے یعنی آسمانی رفعتوں کی طرف اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان تک پہنچانا چاہتا ہے مسلمان کو.اس کا

Page 271

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۶۱ سورة الشورى ایمان باوجود پختہ ہونے کے اور اعتقادات صحیحہ ہونے کے اور اس کی کوشش اعمالِ صالحہ کی ہے اور اعمال صالحہ وہ بجالا رہا ہے اپنی طرف سے یہ کافی نہیں.وہ دعا مانگتا ہے کہ اے خدا! میرے اعتقادات میں، میری سمجھ میں اگر کوئی خامی ہے تو اسے نظر انداز کر دے اور اگر کوئی کمزوری ہے میرے اعمال صالحہ میں تو اسے ڈھانپ دے مغفرت کی چادر میں اور دعا کرتا ہے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور اس کے فضل اور رحمت کو جذب کر لیتا ہے اور اس کے اعمال مقبول ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مقبول اعمال کے باوجود پھر بھی کچھ کمی رہ گئی.وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ان اعمال مقبول سے کچھ زائد دیتا ہے اللہ تعالیٰ.تب جا کے مقصود حاصل ہوتا ہے یعنی حسنات جو ہیں وہ جتنی سیئات مٹا چکیں اس سے زیادہ سیئات کو مٹانے کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ تو بہ کو قبول کرتا اور جتنی حسنات جس قدر سیئات مٹا سکی تھیں اس سے باقی جو رہ گئیں وہ تو بہ کے ذریعے مٹادی جاتی ہیں اور انسان ایمان پر پختگی سے قائم ہوتا اور اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور عاجزانہ دعائیں کرتا ہے کہ اے خدا! میری تدبیر تو ایک بچے کی تدبیر ہے تیرے حضور.تیری رفعتوں کو دیکھتے ہوئے تیری عظمتوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے کوئی چیز نہیں ہیں یہ اعمال ، اس واسطے اپنے فضل سے ان کو قبول کر.پھر خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کو وہ جذب کرتا اور خدا تعالیٰ اپنے مومن بندے کو پاک اور مطہر کرتا ، اس کے اعمال مقبول کر لیتا ہے لیکن یہاں اس طرف اشارہ ہے وَ يَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ اس کے علاوہ اس کو کچھ اور بھی چاہیے اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس کو وہ دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا فضل بندے کے ایمان اور عمل صالحہ کے علاوہ اسے ملنا چاہیے تا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکے.وَالْكَفِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ لیکن جو انکار کرنے والے ہیں ان کو ان کے اعمال کے مطابق اگر وہ چاہے تو عذاب دے گا زیادتی وہاں نہیں ہوگی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۵۵ تا ۵۸) آیت ۳۷ فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللهِ خَيْرُ وَ ابْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ جو آیت میں نے اس وقت تلاوت کی ہے اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسان کو جو

Page 272

تفسیر حضرت خلیفۃ السیح الثالث ۲۶۲ سورة الشورى کچھ بھی دیا گیا ہے اور ہمیں دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے کہ اس کا ئنات کی ہر چیز ہی انسان کو دے دی گئی ہے وہ مَتَاعُ الْحَیوۃ الدنیا ہے یعنی ورلی زندگی کا سامان ہے اور اپنی ذات میں فِي نَفْسِهَا وہ اس سے زائد کچھ نہیں.ورلی زندگی کا سامان مثلاً چارہ اور غذا ہے کھانے کی ایک چیز بھینسوں اور گھوڑوں اور بیلوں اور گائے اور بکری اور بھیڑ کا پیٹ بھرتی ہے اور ایک چیز انسان کا پیٹ بھر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات انسان کو دے دی اور بنیادی بات یہ بتائی کہ جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْیا ہے یعنی تمہیں والی زندگی کا سامان دیا گیا ہے اس سے زائد اور کچھ نہیں.آیت کی ابتدا میں یہ مضمون بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے لیکن اس ورلی زندگی کے سامان میں اُس وقت ایک عظیم روحانی اور اخلاقی انقلاب اور ایک حسین تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جب اس مَتَاعُ الْحَيوة اللہ نیا کے ساتھ آسمانی برکات شامل ہو جا ئیں اور جب ورلی زندگی کے سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہدایت شامل ہو جائے.جب ورلی زندگی کے سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے توکل علی اللہ شامل ہو جائے پھر یہ محض ورلی زندگی کا سامان نہیں رہتا.پس وہی چیز جو محض ورلی زندگی کا سامان تھا اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک تدبیر کی اور اس میں آسمانی برکات کو ملا دیا اور اس کے نتیجہ میں اس لغوسی چیز یعنی ورلی زندگی کے سامان کی شکل بدل دی، اس میں آسمانی ہدایت کو شامل کر دیا اور ورلی زندگی کے سامان کی شکل بدل دی اور توحل عَلَی اللہ کو بیچ میں ملا دیا، انسان کو یہ توفیق دی کہ وہ توکل کر سکے اور وہ جو محض ور لی زندگی کا سامان تھا اسے گویا ز مین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دینے کا سامان بنا دیا.ور لی زندگی کا سامان مادی بھی ہے یعنی جو کچھ بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جسے محض ورلی زندگی کا سامان کہا گیا ہے اس میں مادی اشیاء بھی شامل ہیں.مثلاً اس مَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ میں جو کچھ بھی دیا گیا ہے کھانا ہے، پینا ہے، کپڑا اور لباس ہے کنوینس (Conveyance) کے سامان ہیں گھوڑے گاڑیاں، موٹریں، ہوائی جہاز وغیرہ اور اب راکٹ بن گیا ہے.اس میں بھی انسان سفر کر نے لگ گیا ہے اور آگے اور ترقی کرے گا.پھر جسم کی طاقتوں کی نشو و نما کا سامان ہے.خدا تعالیٰ نے متوازن غذا پیدا کی اور اس کے ہضم کے سامان پیدا کئے لیکن اگر آسمانی برکت شامل نہ ہو اور آسمانی ہدایت شامل نہ ہو تو صحت انسانی بھی انسان کو گمراہی کی راہوں پر چلا دیتی ہے.پرانے زمانہ میں جولوگ خوب

Page 273

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۶۳ سورة الشورى کھانے والے، دوسروں کا استحصال کر کے کھانے والے اور اپنی صحت کو پوری طرح نشو و نما دینے والے تھے وہ عملی زندگی میں عیاش بن گئے تھے اور انہوں نے عیاشانہ راہوں کو اختیار کر لیا تھا اور جن کے پاس ور لی زندگی کے وہ سامان نہیں تھے یا اس قسم کے نہیں تھے یا تو ان کی عیاشی میں فرق تھا یا وہ اس طرف بالکل توجہ نہیں کر سکتے تھے.ایک مردہ گھوڑا عیش کے احاطوں میں کہاں چھلانگیں لگا سکتا ہے لیکن جب آسمانی ہدایت بیچ میں شامل ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا.اگر یہ کرو گے تو میرا غضب تم پر نازل ہوگا اور میرا غضب تم برداشت نہیں کر سکتے اس واسطے میرے غضب سے بچنے کے لئے تمہیں میری ہدایت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور جب انسان نے اس پر عمل کیا تو وہی بے برکت زندگی جس کا انحصار صرف اچھے کھانے پینے اور رہنے سہنے پر تھاوہ بڑی حسین زندگی، وہ بڑی محسن زندگی ، وہ بڑی پیاری زندگی اور دوسروں کے لئے بڑی خادم زندگی بن گئی.پھر انسان کو جو ذہنی استعداد میں عطا ہوئی ہیں وہ بھی فما أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ میں شامل ہیں وہ بھی ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہیں لیکن اگر آسمانی ہدایت شامل حال نہ ہو تو یہ ذہنی استعدادیں بھی محض ورلی زندگی کا سامان ہی ہیں یا ان سامانوں کو پیدا کرنے والی ہیں.انسان کی عقل نے جب وہ خدا کی وحی اور اس کے الہام کی روشنی سے کوری تھی باوجود ایٹم کی طاقت کو پالینے کے اور اس کو دریافت کر لینے کے اس کے غلط استعمال سے انسانوں کی تباہی کے سامان پیدا کر دیئے.پس جہاں تک ذہانت کا سوال تھا ذہانت دی گئی لیکن جہاں تک آسمانی برکات سے محرومی کا نتیجہ تھا اس ذہانت سے اس ورلی زندگی کے ہی سامان پیدا ہوئے.ایک دوسرے کو قتل و غارت کرنے کے بعد اپنی سلطنتوں کو مضبوط بنانے کے سامان پیدا ہوئے جن کا تعلق محض اس ورلی زندگی کے ساتھ تھا اور آسمانی برکتوں سے محرومی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار سے محرومی ظاہر ہونے لگی.پھر انسان کو اخلاقی طاقتیں دی گئی ہیں.بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوئے جنہوں نے اخلاق پر کتا ہیں لکھیں لیکن وہ بالکل پھپھی سی کتابیں ہیں.میں آکسفورڈ میں اخلاقیات کا مضمون بھی پڑھتا رہا ہوں چنانچہ وہ کتب جو آکسفورڈ اور کیمبرج اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں یا اب روس کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ بڑے فخر سے پڑھاتے ہیں وہ لوگ جو دینی علوم سے واقف ہیں جب وہ ان کتب کو پڑھتے ہیں جن پر کہ مغرب فخر کرتا ہے تو وہ ہمیں بدمزہ ہی، پھپھی سی اور لایعنی سی کتابیں

Page 274

۲۶۴ سورة الشورى تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث نظر آتی ہیں.اخلاق کا حسن ان مصنفین کی آنکھوں سے پوشیدہ رہا اور اس کا خول اور میں کہوں گا کہ وہ بھی کرم خوردہ، اُن کے سامنے آیا اور انہوں نے اس کے متعلق لکھنا شروع کر دیا ور بڑی شہرت حاصل کی اور بڑا نام پیدا کیا لیکن وہ مَتَاعُ الحیوۃ الدنیا تھی ، ان کی شہرت اور ان کی ناموری کا تعلق محض اس ورلی زندگی کے ساتھ تھا اور ورلی زندگی کی چیزیں ، خود ورلی زندگی ہی بھول جاتی ہے.ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا ہوتی ہے اور نئی نسل کے سامنے نئے چٹکلے رکھ دیئے جاتے ہیں اور پرانی با تیں نئی نسل بھول جاتی ہے.اُن کتابوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے ان کے مضامین بھی یاد نہیں رہتے.صرف وہی چیزیں یاد رکھی جاتی ہیں جو مذہب کی خوبیوں کو بیان کرنے والی ہیں یا جو بگڑی ہوئی انسانی فطرت کی برائیوں کو بیان کرنے والی ہیں کیونکہ انہیں بچے اور حقیقی مذہب کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لئے یادرکھنا پڑتا ہے.یہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ انگلستان میں ایک مشہور لبرل مصنف نے غالباً ۱۸۳۶ء میں ایک کتاب لکھی جس میں اس نے بعض پہلوؤں سے ایک مذہب کی بہت گھناؤنی شکل کھینچی کیونکہ اس وقت اس مذہب کے اجارہ دار بھی اس قوم کے استحصال میں شامل تھے.میں اپنی پڑھائی کے سلسلہ میں ایک مضمون لکھ رہا تھا تو اس کتاب کا نام اور لکھنے والے کا نام کسی ضمن میں دیکھا.اس نام سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ہم احمدیوں کے کام کی کتاب ہے.جب ہم اسلام کا دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ کام آئے گی.چنانچہ وہاں ایک بہت بڑی دُکان بلیک ولز (black wilz) ہے میں اس دکان پر گیا اور میں نے کہا کہ مجھے یہ کتاب چاہیے.وہ کہنے لگے کہ ۱۸۳۶ء کی چھپی ہوئی کتاب جو کہ اپنی ضرورت پوری کر چکی ہے وہ اب کہاں ملتی ہے.اس کو تو آؤٹ آف پرنٹ ہوئے بھی ایک زمانہ گذر گیا ہے.اس کا ملنا تو بڑا مشکل ہے.میں نے دل میں کہا کہ تمہاری ضرورت اس نے پوری کر دی ہوگی لیکن میری ضرورت تو اس نے پوری نہیں کی.جب اسلام کا دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ اور مقابلہ کیا جائے تو یہ بڑی کارآمد کتاب ہے.میں نے ان سے کہا کہ اشتہار دو جہاں سے بھی ہو مجھے یہ کتاب منگوا کے دو.مجھے تو اس کے حاصل کرنے میں دلچسپی ہے.خیر ! ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اشتہار دے کر جہاں سے بھی ملے مجھے سیکنڈ ہینڈ کتاب ڈھونڈ کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے ڈھونڈ دی.میں نے وہ بڑی سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اور بعض لوگوں کو میں اس کے بعض حصے پڑھاتا

Page 275

تفسیر حضرت خلیفۃ السیح الثالث ۲۶۵ سورة الشورى رہتا ہوں.اس وقت بڑی محنت کر کے مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنیا کی خاطر وہ کتاب لکھی گئی یعنی وہ کتاب محض سیاسی غرض کے حصول کے لئے لکھی گئی تھی لیکن جب اسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والی آسمانی برکات کا سوال پیدا ہوا اور دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ کا سوال پیدا ہوا تو اس غرض کے لئے وہ آج ہمارے کام کی کتاب ہے.جیسا کہ بدصورت چہرہ خوبصورت کے حسن کو اُجاگر کرتا ہے.پس آسمانی برکات کا یہ پہلو کہ اسلام کے مقابلے میں جو چیز ہے جو آسمانی برکات سے محروم ہے وہ حسین نہیں ، وہ خوبرو نہیں ، وہ خوبصورت نہیں ، وہ مفید نہیں ، وہ محسن نہیں.اس مقابلہ اور موازنہ کے لئے وہ بڑی مفید کتاب ہے.آسمانی ہدایت کو روشن کر کے اور اس کے حسن کو ظاہر کر کے بعض مضامین لکھنے کے لئے اس کتاب کی ضرورت تھی اور اس طرح طفیلی طور پر اس کی بقا کا سامان موجود تھا.روحانی قوتوں اور استعدادوں کا اگر چہ مَتَاعُ الحیوۃ الثانیا کے ساتھ تعلق نہیں ہے لیکن تعلق ہے بھی جب کہ روحانیت بگڑ جائے مثلاً بہتوں نے مذہب کو روزی کمانے کا ذریعہ بنالیا.قرآن کریم نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ تم نے اسلامی ہدایت کے انکار کو اپنے پیٹ پالنے کا ذریعہ بنالیا ہے.پس جب روحانیت محض نام کی ہو اور آسمانی برکات اس میں شامل نہ ہوں تو وہ روحانی استعداد یں بھی متاع الحيوةِ الدُّنْيَا بن جاتی ہیں.پس قرآن کریم کی صداقت بالکل ظاہر ہے کہ فَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے خواہ وہ روحانی استعداد میں ہی کیوں نہ ہوں اس کا فائدہ کچھ نہیں متاع الحيوةِ الدُّنْيَا اس سے تو اس ورلی زندگی کا سامان ہی ملے گا اور جو اصل غرص ہے وہ پوری نہیں ہوگی.اس آیت کے شروع میں ایک بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے جو کہ اس کائنات کی بنیاد ہے کہ اس کا ئنات میں جو کچھ بھی ہے وہ ورلی زندگی کا سامان ہے لیکن اس بنیادی حقیقت کے بیان کے بعد اس سے بھی اہم اور کچی حقیقت بیان ہوئی ہے فرمایا.وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ أَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى يتوسلون کہ خدا تعالیٰ نے ایک اور سامان بھی پیدا کیا ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتا ہے.وہ ہر کس و ناکس کے لئے موجود نہیں رہتا بلکہ جس پر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور جس کو وہ اپنی رحمت سے نوازے ان کے لئے ملائکہ یہ سامان لے کر آتے ہیں اور جن پر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے وہ اس ورلی زندگی کے مادی سامانوں کی کایا پلٹ کر ان کی ہیئت کذائی بدل کر انہیں ایک نہایت ہی بدلی ہوئی چیز بنا دیتے ہیں جس کا تعلق صرف حیات دنیا سے نہیں بلکہ حیات

Page 276

تفسیر حضرت خلیفۃ السیح الثالث ۲۶۶ سورة الشورى ابدی کے ساتھ بھی ہے.ایمان کے لفظ میں یہ اشارہ کیا کہ آسمان سے ہدایت نازل ہوگی تبھی تو اس پر ایمان لانا ہے.انسانی تاریخ میں ہمیں ایمان ایمان میں فرق نظر آتا ہے.پہلے انبیاء پر جو شریعتیں نازل ہوئیں ان پر ایمان لا کر اس وقت کے مَتَاعُ الحیوۃ الدنیا کو روحانی، اخلاقی اور انگلی زندگی کے سامانوں میں تبدیل کرنے کے لئے مواد تھا لیکن وہ اس پائے کا نہیں تھا.پھر انسانی ذہن آہستہ آہستہ ارتقائی مدارج طے کر کے آخر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ تک پہنچ کر کامل شریعت کا حامل ہوا اور ایک کامل اور مکمل شریعت کو اس وقت کے انسان نے اور بعد میں آنے والی نسلوں نے حاصل کیا اور پھر اتمام نعمت ہو گیا.اس سے قبل پہلے انبیاء کے ذریعہ سے نعمت تو ملی تھی مگر اتمام نعمت نہیں تھا.اتمام نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا.آپ کی لائی ہوئی شریعت نے فَما اوتيتم منْ شَيْءٍ کے مطابق جو کچھ بھی انسان کو ملا تھا جو کہ محض مَتَاعُ الحیوۃ اللہ نیا تھا اس کی ہر چیز اور ہر شے کے ہر پہلو کو بدل کر اسے اخروی زندگی کے سامان میں تبدیل کر دیا.پھر ایک سچے اور حقیقی مسلمان کے لئے وہ محض مَتَاعُ الْحَيوةِ الدُّنْیا نہیں رہا بلکہ ابدی زندگی کا ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سامان ان کے لئے پیدا ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انسان کو آسمانی شریعت ملی، جب آسمان سے ہدایت نازل ہوئی تو اس نے تقاضا کیا کہ اس پر ایمان لاؤ اور جیسا کہ جب وقت ہوتا ہے، موقع آتا ہے اور ایمان کے متعلق بات ہوتی ہے تو ہم ہمیشہ ہی بتاتے ہیں کہ ایمان کے تین پہلو ہیں.عقیدہ کے لحاظ سے ایمان،صدق دل کے لحاظ سے ایمان اور عمل کے لحاظ سے ایمان یعنی عقل اور دل بھی مانتا ہو کہ یہ بات سچی ہے اور عقیدہ بھی اس کے مطابق ہو اور عمل بھی اس کے مطابق ہو.جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف نوع انسانی کی طرف مبعوث ہوئے تو کامل شریعت آ گئی ، اس کامل شریعت نے ہر اس چیز کو جس کے متعلق آیت کے شروع میں کہا گیا تھا کہ وہ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا یعنی محض ورلی زندگی کے سامان ہیں اسے بدل کر اُخروی زندگی کے سامان بنادیا.انسان شمار نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کو کتنی طاقتیں دیں اور کن کن رنگوں میں اس نے ان کو استعمال کرنا ہے لیکن اگر انسان خدا تعالیٰ کی ہدایت کے نور میں اپنے آپ کو لپیٹ لے تو ہمارا کھانا ، ہمارا پینا، ہمارا پہننا، ہمارا رہنا سہنا ، ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون غرضیکہ ہر قوت اور استعداد کا ہر پہلو اُخروی زندگی کا سامان بن جاتا ہے.پھر وہ

Page 277

۲۶۷ سورة الشورى تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث محض ورلی زندگی کا سامان نہیں رہتا لیکن ایمان کے اندر بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.وہ اس طرح پر کہ شیطانی وسوسہ آتا ہے اور انسان میں کئی خامیاں پیدا ہوجاتی ہیں مثلاً خودنمائی یا اپنے نفس پر تو کل یا اپنی اس حقیر سی قربانی پر بھروسہ کر لینا ہو جو انسان خدا کے حضور پیش کرتا ہے.اس وقت ایمان ایک بگڑا ہوا ایمان کرم خوردہ ایمان، بے جان ایمان اور بے روح ایمان بن جاتا ہے.اس لئے فرمایا کہ توکل بڑا ضروری ہے محض ایمان کافی نہیں.اپنے نفس کے کسی پہلو پر بھی ، اپنی طاقت کی کسی بڑائی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا بلکہ بھروسہ محض خدا پر اور محض خدا پر کرنا ہے.اللہ پر جس نے کہ ہمیں یہ سب کچھ دیا اور جس کے فضل کے بغیر ہم ان سامانوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے جس کے فضل کے بغیر ہم صحیح نتائج نہیں نکال سکتے جس کے فضل کے بغیر ہم اس کی رضا کی جنتوں کو نہیں پاسکتے.وَعَلَى رَبِّهِمْ يتولون وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے ایمان کی روح مردہ نہیں ہوتی بلکہ زندہ ہوتی ہے ان کے ایمان کی روشنی میں اندھیروں کی ملاوٹ نہیں ہوتی بلکہ خالص نور ہوتا ہے، اُن کے ایمان کے کسی پہلو میں خود نمائی ، خودستائی اور خود پرستی اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کا کوئی پہلو نہیں ہوتا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایسا انسان سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ سب کچھ کرنے کے بعد جو کچھ کیا اگر وہ خدا کی نگاہ میں قبول نہیں ہوا تو اُس نے کچھ بھی نہ کیا اور جب انسان سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا تو نتیجہ پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر منحصر ہے.پس وہ لوگ کامل تو کل کی راہ کو اختیار کرتے ہیں تب وہ جو محض مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْیا تھا اس کی شکل بدل جاتی ہے اور ابدی زندگی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں جہاں ٹھہر نا کہیں نہیں.قرآن کریم میں بھی اور قرآن کریم کی اس تفسیر میں بھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی بڑی وضاحت سے یہ آیا ہے کہ جنتوں میں بھی کوئی صبح پہلی شام کے برابر نہیں ہوگی بلکہ وہ صبح اس سے زیادہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہی ہوگی ہر دو پہر صبح سے آگے اور ترقی یافتہ ہو گی اور ہر شام دو پہر سے آگے ہوگی.خدا تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایک غیر متناہی سلسلہ ہوگا.عمل ہو گا امتحان کے بغیر ! خدا تعالیٰ کے پیار میں زیادتی کو جذب کرنے والا ، خدا تعالیٰ کی محبت کو اس کی رحمت کو اس کے نور کو اور بھی زیادہ حاصل کرنے والا عمل.وہ کیا ہوگا ہمیں نہیں معلوم اس دُنیا میں.لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ چیز جو اپنے نفس میں

Page 278

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۶۸ سورة الشورى محض مَتَاعُ الْحَیوة اله نیا تھی اس میں کتنی عظیم تبدیلی پیدا ہوئی کہ اس نے ابدی زندگی کے سامان پیدا کر دیئے.غرض ہر چیز جو خدا نے ہمیں دی ہے اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ سوائے اس ورلی زندگی کے وہ اور کسی کام کی نہیں اور پھینک دینے کے قابل ہے لیکن ایک پہلو یہ ہے کہ ہر چیز کا استعمال خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق استعمال ، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال ، وہ استعمال جس کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل پیدا ہوتا ہے ایسا استعمال انسان کی زندگی کو بالکل بدل ڈالتا ہے اور اس کے لئے آسمانی خیر و برکت اور روحانی ترقیات اور اس دُنیا اور اُس دُنیا کی جنتوں کے سامان پیدا کر دیتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ عظیم شریعت اور ہدایت ہماری طرف لے کر آئے جس نے اس مَتَاعُ الْحَيوة الدنیا میں اتنی عظیم اور انقلابی تبدیلی پیدا کر دی کہ اس عظیم شریعت کو چھوڑ کر اور اس عظیم تبدیل شدہ متاع کو چھوڑ کر ہم محض مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْیا کی طرف محض دُنیا کے سامانوں کی طرف جھک جائیں گے؟ کوئی سمجھ دار، کوئی مخلص، کوئی خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے والا احمدی تو ایسا نہیں کر سکتا.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۴۲۷ تا ۴۳۴) اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور یہ عطا ایک خاص مقصد کے لئے انسان پر نازل ہوتی ہے.انسان کا ذہن ہے، انسان کی طاقت ہے، انسان کی استعداد ہے، اخلاقی طاقتیں اور روحانی قوتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں.غرضیکہ انسان کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ایک خاص مقصد کی خاطر ا سے ملا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے فرمایا ہے انسان میں سے دو گروہ بن جاتے ہیں.ایک وہ گروہ ہے کہ جو کچھ انہیں ملتا ہے اسے وہ صرف مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ينتها سمجھتے ہیں اور اس سے آگے نہیں بڑھتے.خدا نے جو د نیوی سامان دیئے ہیں ان کا استعمال محض دنیا کے لئے اور دنیا کی اغراض کی خاطر کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی عطا کو دنیا کی زینت کے لئے سمجھا جاتا ہے.اسی کی طرف دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرما یا ضَلّ سَعْيُهُم في الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا (الكهف: ۱۰۵) پھر فرما یا ایک دوسرا گروہ ہے جو عقل رکھتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے اس گروہ کے متعلق تو وزينتها

Page 279

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۹ سورة الشورى خدا تعالیٰ نے فرمایا آفَلا تَعْقِلُونَ یہ لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے لیکن عقل سے کام لینے والوں کا بھی ایک گروہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا وہ اس لئے ہے کہ وہ اپنے وجود اور اس کی طاقتوں کی نشوونما اس طرح کرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا سچا، حقیقی اور پختہ تعلق قائم ہو جائے.یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا کے بعد بھی حسین جنتوں کا وعدہ دیا گیا ہے اور یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بطور جزا کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ ملتا ہے.فرمایا وَمَا عِندَ اللهِ خَيْر اور وہ بدلہ خیر اور بھلائی ہوتی ہے.وہ دکھوں کی طرف، وہ جہنم کی طرف اور وہ خدا تعالیٰ کے غضب کی طرف لے جانے والی چیز نہیں ہوتی بلکہ خیر محض ہوتی ہے، خدا کا عطیہ ہوتی ہے اور صرف اس دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی.خدا تعالیٰ انسان کو اس کے نیک اعمال کے نتیجہ میں اور اس کی جو قربانیاں اور ایثار ہے اور خدا کے لئے محبت ذاتی کی انسان کے دل میں جو تڑپ ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ خیر بھی ہے وابقی اور باقی رہنے والی چیز بھی ہے یعنی اس دنیوی زندگی پر موت آجانے کے بعد وہ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ باقی رہتی ہے انسان کو ایک نئی زندگی ایک جنتی زندگی ملتی ہے اور اس میں وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتا اور اس کی رضا سے انتہائی مسرتوں کو پاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گروہ جو خدا تعالیٰ کے لئے خدا ہی کی عطا کردہ دنیوی چیز میں خرچ کرتا ہے، وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور ملے گا.فرمایا وَعْدًا حَسَنًا بڑا حسین وعدہ ہے وہ حسین بھی ہے اور پورا ہونے والا بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُخْلِفُ المیعاد خدا کے جو وعدے اور وعید ہیں ہر دو مشروط ہیں اور ہر دوا اپنی شرائط کے ساتھ پورے ہوتے ہیں.اسی لئے انسان کو خاتمہ بالخیر کی دعا کی تحریک کی گئی ہے.خَيْر و ابقی ہی کے الفاظ کے بعد خدا تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے تم سمجھتے کیوں نہیں کہ تمہاری پیدائش کی غرض کیا ہے، تم سمجھتے کیوں نہیں کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ اسی مقصد کے حصول کے لئے تمہیں ملا ہے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا نے فرما یا خیر و ابقی لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فرمایا خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی ہدایت کی روشنی میں جو لوگ اپنے اموال کو اور اپنی طاقتوں کو اپنی قوتوں اور استعدادوں کو اور اپنی اخلاقی اور روحانی

Page 280

تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۷۰ سورة الشورى صلاحیتوں کو اجاگر کرتے اور خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق خدا دا د قوتوں کی نشو نما کرتے ہیں وہ عقل سے کام لینے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یعنی انہوں نے اپنی انتہائی کوشش کی خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول میں مگر نتائج کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر چھوڑ دیا.دراصل ایمان کے معنے عقیدہ کا ایمان اور زبان سے اس کا اقرار اور اس کے مطابق عمل کرنا یہ سب چیز میں لغت عربی کے مطابق لفظ ایمان میں شامل ہیں.تو جو شخص ایمان لا تا اور مومنانہ زندگی گزارتا ہے اور اس کے دل میں پاکیزگی پائی جاتی ہے اور کھوٹ نہیں اور ملاوٹ نہیں اور نفاق نہیں اور فساد نہیں ہوتا اور اعمالِ صالحہ بجالاتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وَ عَلی رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی کافی نہیں، جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے خاتمہ بالخیر نہ کرے اور اپنے فضل اور رحمت سے جنتوں کے سامان نہ پیدا کرے محض اعمال کوئی چیز نہیں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۶۵ تا ۶۷) وَجَزْوا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ پس خدا تعالیٰ اور اس کے بندے اس معنی میں غضب کا اظہار نہیں کرتے جس معنے میں ایک مغضوب الغضب انسان غضب کا اظہار کیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی اپنے لئے غضب کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں بھی دراصل اس کی رحمت کا ہی کوئی نہ کوئی پہلو بیان ہوا ہے اور اس میں بھی مخاطب کی بھلائی ہی مقصود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا :.فَمَنْ عَفَا وَ اصلح کہ اگر اصلاح کی توقع ہو تو معاف کر دینا بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو کہ بڑا ڈھیٹ آدمی ہے جب تک کوئی تھوڑی سی سختی نہ کی جائے گی اس کو سمجھ نہیں آئے گی اور اس کا دماغ درست نہیں ہوگا اور وہ ظلم پر قائم رہے گا تو اس کی بھلائی کے لئے تم سختی کرو مگر اپنے غصے کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اس کی اصلاح کی خاطر.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۶،۲۲۵)

Page 281

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۷۱ سورة الزخرف بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الزخرف آیت ۳۸،۳۷ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكرِ الرَّحْمَنِ نُقَيْضُ لَهُ شَيْطنًا فَهُوَ له قَرِين وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مهتَدُونَ جو دو آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص رحمن کے ذکر سے منہ موڑ لے اس پر ہم شیطان مستولی کرتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور ہدایت اور صداقت اور سچائی کی راہوں سے اسے روکتا ہے لیکن وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہے.بات یہ ہے کہ جہاں تک ہدایت یافتہ ہونے یا نجات یافتہ ہونے کا تعلق ہے یہ صفت رحیمیت کے طفیل نہیں بلکہ صفت رحمانیت کا اس سے واسطہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بزرگ ہستی سے بھی جب سوال کیا گیا تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے اور اس کے فضل سے میں اس کی جنتوں میں داخل ہوں گا.رحیمیت کا تعلق ہمارے اعمال سے ہے اور رحمانیت کا تعلق اس واقع سے ہے کہ ہم خواہ کتنی ہی بڑی چیز خدا کے حضور پیش کر دیں خدا تعالیٰ جو خالق گل اور مالک کل اور غنی ہے اس کو تو اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہے.اگر وہ چاہے تو اپنی رحمانیت سے اسے قبول کر لے اور اگر چاہے تو اپنی رحمانیت کا جلوہ نہ دکھائے اور اسے رڈ کر دے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو سارے جہان کے لئے اور قیامت تک کے لئے ایک نمونہ ہیں کہ کس

Page 282

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۷۲ سورة الزخرف طرح آپ رحمن خدا کی پرستش کرنے والے اور اپنی ساری توجہ اور سارے اعمال کو اس کی طرف پھیرنے والے تھے.پھر آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں امت محمدیہ میں کروڑوں خدا کے بندے پیدا ہوئے جنہوں نے خدائے رحمن کو پہچانا اور اس کی عظمت رحمانیت کے نتیجہ میں اپنی بے کسی کا احساس ان کے دلوں میں پیدا ہوا اور انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں.ہم اسی وقت کچھ بنتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ جو بغیر عمل اور استحقاق کے اپنی رحمت سے نواز نے والا ہے اپنی رحمت سے نواز دے.اس لحاظ سے ہمارے زندہ رہنے والے بزرگ بھی اور ہمارے جانے والے بھائی بھی اور بہنیں بھی اور بزرگ مائیں اور پھوپھیاں بھی ( جو بھی جسمانی اور روحانی رشتے ہم ان سے رکھتے ہیں ) ہمارے لئے نمونہ بنتے ہیں وہ ہمارے لئے پرستش کی جگہ نہیں بنتے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۰۶، ۱۰۷) آیت ۴۵ وَ اِنَّه لَذِكْرُ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْتَلُونَ قرآن کریم نے متعدد جگہ پر اس بات کا اظہار کیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ زخرف میں فرماتا ہے وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُستَلُونَ اس آیت میں امت محمدیہ کی ذمہ واری کی طرف بڑے زور سے توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد ! یہ کلام جو تیرے اوپر اتارا جا رہا ہے وہ تیرے لئے بھی شرف اور عزت کا موجب ہے اور تیری قوم کے لئے بھی وَسَوْفَ تُلُونَ اور اے امت محمدیہ! تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس ہدایت اور تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا ہے یا نہیں.وَمَا هُوَ الا ذكر لِلعَلَمِينَ (القلم : ۵۳) یہ دراصل وَلِقَوْمِكَ کے متعلق ہے کیونکہ کوئی معاند اور مخالف کہ سکتا تھا کہ اس کے مخاطب صرف عرب ہیں کیونکہ وہ آپ کی قوم ہیں اس لئے دوسری جگہ فرمایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم عرب نہیں بلکہ عالمین میں بسنے والے با اختیار اور بالا رادہ کام کرنے والی مخلوق ہے اس لئے فرمایا وَمَا هُوَ إِلَّا ذكر للعلمین قرآن کریم ساری دُنیا کے لئے شرف لے کر آیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو جھنجھوڑنے کے لئے انہیں مخاطب کر کے کہتا ہے بَلْ آتَيْنَهُم

Page 283

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۷۳ سورة الزخرف بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُونَ (المؤمنون: ۷۲) ہم ان کے پاس ان کی عزت کا سامان لے کر آئے تھے اور دُنیا میں کوئی عقل مند انسان اپنی عزت اور شرف کے سامان کی وصولی میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا یا لینے سے انکار نہیں کرتا.لیکن یہ عجیب قوم ہے کہ جو سامان ہم ان کی عزت یا شرف کا لے کر آئے تھے وہ اپنی عزت کے ان سامانوں سے اعراض کر رہے ہیں اور قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کرتے.خطابات ناصر جلد ۱ صفحه ۴۸۴)

Page 284

Page 285

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۷۵ سورة الدخان بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الدخان آیت ۵۰ دققُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تمہیں حقیقی عزت ملے تو وہ اس بات کو سمجھتا نہیں.اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْم (البقرة : ۲۰۷) اپنی جھوٹی عزت کی بیچ ایسے لوگوں کو گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے اور گناہ پر قائم رکھتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے شخص کی کوئی عزت نہیں.کیا وہ صاحب عزت ہو سکتا ہے جس کے لئے جہنم خدا نے تیار کیا ہو؟ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ جس کے لئے جہنم کافی ہے.جس نے جہنم میں پڑنا ہے وہ عزت اور فخر سے اپنا سر کیسے اونچا کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے سورہ دخان میں کہ دنیوی غلبہ اور دنیا کی مقبولیت پر گھمنڈ کرنے والے اور ا اپنی جھوٹی دنیوی عزت پر فخر کرنے والے کو ہمارے حکم سے فرشتے جہنم کے وسط تک گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور ان کے سروں پر ان کی اصلاح کے لئے گرم پانی ڈالا جائے گا اور ہم اسے کہیں گے ذُقُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الكَرِيمِ میرے غضب اور میری طرف سے نازل ہونے والی بے عزتی کو چکھ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الگریم تو دنیا میں اپنے آپ کو غالب اور عزت والا اور قابل احترام سمجھا کرتا تھا اور عزت کے حصول کے لئے صحیح راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے تو نے غلط راہوں کو اختیار کیا تھا.إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الكَرِیم آج میرے غضب کی جہنم اور ذلت کی جہنم کو چکھ اور یہ بدلہ ہے اس جھوٹی عزت کا جو دنیا میں تو نے اپنے لئے قائم کی تھی.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۲)

Page 286

تگیر حضرت خلیفہ مسیح الثالث آیت ۵۲ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ آمِين سورة الدخان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ” تقویٰ ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے“.(ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۲) تقویٰ ایک ایسا قلعہ ہے کہ جب اس کے اندر نیک اقوال اور صالح اعمال داخل ہو جا ئیں تو وہ شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی عمل بظاہر کتنا ہی پاکیزہ اور صالح کیوں نظر نہ آتا ہو اگر وہ اس قلعہ میں داخل نہیں تو شیطان کی زد میں ہے، کسی وقت وہ اس پر کامیاب حملہ کر سکتا ہے کیونکہ اگر تقویٰ نہیں تو کبر پیدا ہوسکتا ہے، ریاء پیدا ہوسکتا ہے، عجب پیدا ہو سکتا ہے اگر تقویٰ ہے تو ان میں سے کوئی بدی پیدا نہیں ہو سکتی یعنی شیطان کا میاب وار نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابھی جو فقرہ میں نے پڑھا ہے وہ معنوی لحاظ سے اس کا ترجمہ ہے.اللہ تعالیٰ سورہ دخان :۵۲ میں فرماتا ہے اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامِ آمِین کہ متقی یقینا ایک امن والے اور محفوظ مقام میں ہیں تو یہی وہ حصن حصین ہے.یہی ”آمین“ کے معنی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے ہیں کہ محفوظ اور امن میں وہی ہے جو تقویٰ پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے جو تقویٰ پر قائم نہیں وہ امن میں نہیں وہ خطرہ میں ہے وہ حفاظت میں نہیں خوف کی حالت میں ہے اور ایسا شخص مقام امین میں نہیں ہے بلکہ اس مقام پر ہے جسے دوسرے لفظوں میں جہنم کہا جاتا ہے.پس قرآن کریم نے ہی تقویٰ کے معنوں کو بیان کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے حصن حصین کا تخیل پیش کیا ہے کہ سوائے تقویٰ کی راہوں پر چل کر کوئی شخص امن میں نہیں رہ سکتا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اس مضبوط قلعہ میں داخلہ ہونے کا سوائے تقویٰ کے دروازے کے.آیت ۵۵ كَذلِكَ وَزَوَّجُنُهُمْ بِحُورٍ عِيْنٍ ) (خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۶۷) (۵۵) وَزَوَّجُنُهُمْ بِحُورٍ عِيْنِ پہلے تو میں نے بتایا نا تمہید بتائی تھی کہ یہ جنت ہے یہ اس کا نقشہ ہے اور ہم ان کی ازواج کو حور بنا دیں گے.حور کو اللہ تعالیٰ ان سے ازدواجی رشتہ سے باندھ دے گا.حور

Page 287

۲۷۷ سورة الدخان تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کی صفات بہت جگہ بیان ہوئی ہیں کچھ میں آگے بھی بیان کروں گا.وَ زَوِّجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ ہم ان کو ازدواجی رشتہ میں باندھیں گے ایسی جوان عورت کے ساتھ جو ” حور ہوگی روحانی آنکھ رکھنے والی ہوگی اور خوبصورت اس کی آنکھیں ہوں گی اور یہ نتیجہ اس سے بھی نکلتا ہے کہ اگلی آیت میں ہے کہ ان کے ساتھ جنتوں میں ان کی اولاد کو بھی جمع کریں گے یعنی جنت میں جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کی اولا د نیک عمل کرنے والی ہے لیکن اس مقام کو پہنچنے والی نہیں جہاں باپ پہنچا (ویسے بعض دوسرے سوال دماغ میں آجائیں گے جن کو قرآن نے حل کیا ہے اس وقت ان کا ذکر نہیں کروں گا ورنہ دیر ہو جائے گی ) ان کے ساتھ جنت میں میں ان کی اولاد کو بھی جمع کروں گا.اس میں بیوی کا ذکر کیوں چھوڑ دیا اس واسطے کہ زَوَجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ پہلی آیت میں آچکا تھا.نو جوان ، خوبصورت ، خوبصورت آنکھوں والی، ہر وہ چیز دیکھنے والی جس کا دیکھنا ایک جنتی کے لئے اپنی ارتقا اور اپنی خوشی کے لئے ضروری ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیک صالح عورتیں فوت ہوتی ہیں ان میں سے بہت سی بہت بوڑھی ہوتی ہیں ان سے چلا بھی نہیں جاتا.بڑھاپے کا شکار، بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو خوبصورت نہیں ہوتیں.کچھ بدصورت بھی ہوتی ہیں جانے والی لیکن جنت میں جا کے ساری خوبصورت بن جائیں گی جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑھیا مومنہ سے کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تو اس نے رونا شروع کر دیا کہ یارسول اللہ میں کہاں مروں کھوں گی؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم نہیں جاؤ گی.میں نے یہ کہا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی.تم جوان ہونے کی حیثیت میں وہاں جاؤ گی تو جب بوڑھی وہاں جوان ہونے کی حیثیت میں جائے گی تو بدصورت وہاں خوبصورت حیثیت میں جائے گی.جوانگڑی لولی یہاں سے گئی ہے وہاں صحت مند اعضا، بھر پور نشو و نما کے ساتھ اس دنیا کے لحاظ سے جس کی تفصیل کا ہمیں پتا نہیں اس لحاظ سے جائے گی تو زَوَجُنُهُم بِحُورٍ عِيْنِ کہ ان کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھا جائے گا بڑھیا سے نہیں جس حالت میں اس نے اس دنیا میں چھوڑی اپنی بیوی بلکہ حور مین کے ساتھ جو جوان بھی ہو گی ، خوبصورت بھی ہوگی، نیک بھی ہوگی.بہت تفصیلات قرآن کریم نے بیان کی ہیں.بہر حال یہاں حور" کا لفظ آیا ہے اور حور“ کا لفظ زوج کی حیثیت سے آیا." وو

Page 288

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۲۷۸ سورة الدخان جنتی کی زوج ، حور! یہ ۵۲ ویں سورۃ ہے.اس سے پہلے ۴۴ ویں سورۃ ہے (الدخان ) وہ آیت اب میں پڑھ دیتا ہوں.یہ سورۃ دخان ۴۴ ویں سورۃ ہے جو ۵۲ ویں سورۃ سے پہلے ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے متقی امن والے مقام میں ہوں گے.اگلی سورۃ میں یہ تھا کہ متقی مومن جنتوں میں نعمتیں حاصل کرنے والے ہوں گے.پہلے یہ سورۃ دخان جو ترتیب کے لحاظ سے پہلی آیت ہے قرآن کریم میں جہاں ”حور" کا لفظ آیا ہے اس کے آگے پیچھے جو مضمون ہے وہ ۴۴ ویں سورۃ اور ۵۵ آیت میں ہے کہ متقی امن والے مقام میں ہوں گے.جنتوں میں، چشموں میں ، ریشم اور تافتہ پہنیں گے یعنی ان کا لباس ایسا ہوگا جو لباس کے مس سے وہ روحانی راحت حاصل کر رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہوئے ہوں گے.كذلك ایسا ہی ہوگا کوئی شبہ نہ کرے وَ زَوَّجُنُهُم بِحُورٍ عِین اور ہم بڑی آنکھوں والی ، سیاہ آنکھوں والی نوجوان نیک عورتوں سے ان کی شادی کریں گے یعنی ان کی بیوی اس حالت میں ان کو ملے گی کہ بڑھیا نہیں ہوگی لولی لنگڑی نہیں ہوگی ، معذور نہیں ہوگی، کم عقل نہیں ہوگی، اپنی زندگی سے پیار نہ کرنے والی اور نشو نما کی خواہش نہ رکھنے والی نہیں ہوگی بلکہ اس کی تو خواہش یہ ہوگی کہ صبح کی جو کیفیت ہے شام کو اس سے بڑھ کے ہو جیسا کہ احادیث میں آیا ہے یہ بیوی (حور عین ) جوان اور پاک باز ہوگی.ان دو آیتوں میں حور کے ساتھ زوجنا آ گیا.اب یہ تو نہیں کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ لفظ ”حور“ کو استعمال کرے ضرور وہاں یہ دہرائے کہ ذو جنھم وہ بیوی ہے جنتی کی.تلاوت قرآن کریم کرنے والے کے سامنے پہلے دوسورتیں ایسی آئیں سورۃ دخان اور سورۃ طور جن میں بتادیا گیا کہ جس کو ہم حور کہتے ہیں وہ جنتی کی بیوی ہے.جہاں بھی حور کہیں گے وہ جنتی کی بیوی ہوگی.سورۃ رحمان میں جنت کے متعلق بتایا.ان باغوں میں نیک اور خوبصورت عورتیں ہوں گی.جنت باغ کو کہتے ہیں.جنت میں باغ بھی ہوں گے محل بھی ہوں گے، سارا کچھ ہوگا.جو چاہیں گے پائیں گے.جنت کے باغات میں نیک اور خوبصورت عورتیں ہوں گی زوج کی حیثیت میں.خود مَّقْصُورَت فِي الْخِيَامِ (الرحمان: ۷۳) حوریں کالی آنکھوں والی اور خیموں میں بھی وقت گزار نے والی.یہ نہیں کہ ہر وقت وہ خیموں میں ہی رہنے والی ہیں.خیموں میں بھی وقت گزارنے والی، نیچی

Page 289

تفسیر حضرت خلیفہ مسیح الثالث ۲۷۹ سورة الدخان نگاہوں والی ،شرم و حیا سے معمور، پاکباز.یہ آیات قرآنی میں ہے اس کا ترجمہ میں بتارہاہوں گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہیں.یا قوت اور مرجان تمثیلی زبان میں مثال دی ہے کہ عورت یاقوت اور مرجان کی طرح ہے.یاقوت سرخی کی طرف اشارہ اور مرجان ایک ایسی سفیدی جس میں سرخی بھی جھلک رہی ہے یعنی ان کی خوبصورتی، سفیدی میں سرخی جھلک رہی ہے.ان کی خوبصورتی سفیدی اطمینان ) سرخی (جوش) اطمینان میں آگے بڑھنے کی خواہش جھلک رہی ہے.اب حُورٌ مَّقْصُورَت فِی الْخِيَامِ میں کوئی ضرورت نہیں تھی زوجنا کے دہرانے کی یہ ترتیب وار جو آگے پیچھے آئی ہیں سورتیں ، پہلی دوسورتوں میں اعلان ہو چکا ہے کہ وہ زوج ہے جنتی کی.اب یہاں یہ کہا کہ جس کو ہم نے زوج کہا حور عین ہی نہیں بلکہ وہ نیچی نگاہوں والی اور پاکباز عورتیں ہیں.گناہ بخشے جائیں گے تبھی تو وہ جنت میں پہنچیں گی.دو چوتھی آیت سورۃ واقعہ میں ہے جو ۵۶ ویں سورۃ ہے.میں ایک دفعہ یہاں دو ہرا دوں سورتوں کے نمبر پہلی سورۃ اس ترتیب میں قرآن کریم کی ۴۴ ویں، دوسری ۵۲ ویں، تیسری ۵۵ ویں، چوتھی ۵۶ دیں.ان چار سورتوں میں حور کا لفظ آیا ہے.پہلی دو سورتوں میں یہ اعلان کیا کہ وہ جنت کی زوج ہیں.پھر اگلی دو ہیں ان میں اس اعلان کی ضرورت نہیں بلکہ اس حور کی جس کو زوج کہا گیا صفات بیان کی گئیں اور سورۃ رحمان میں کہا کہ شرم و حیا والی ہیں.نیچی نگاہوں والی ہیں.اس واسطے کھلے باغات نہیں بلکہ ان کے لئے خیموں کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور حفاظت کا بھی انتظام کیا گیا ہے.سورۃ واقعہ میں ہے وَحُورٌ عِيْن كَامْثَالِ اللُّؤْلُو الْمَكْنُونِ (الواقعة: ۲۳، ۲۴) کالی پتلیوں والی ، بڑی بڑی آنکھوں والی، جو محفوظ موتیوں کی طرح ہوں گی.نیک اور پاکباز، یہ ان کی صفات ہو گئیں.اور بھی کچھ صفات ہیں ان ازواج کی جو میں نے نہیں لیں.اب اگر کوئی شخص حور کے معنی یہ کر لے کہ وہ زوج نہیں اس دو دفعہ کے اعلان کے بعد کہ زَوَجُنُهُمْ بِحُورٍ عِینِ تو وہ درست نہیں ہوگا.اس واسطے محض قرآن کریم کا ترجمہ غیروں میں، غیر مسلموں میں پہنچانا کافی نہیں جب تک یہ ساری احتیاطیں نہ برتی جائیں کہ کوئی ایسا ترجمہ یا تفسیر نہ ہو دوسری آیات نہ کر رہی ہوں جس کی توثیق بلکہ قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے.قرآن کریم کو نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ جتنا مرضی غور کر لو اس کا ئنات میں تمہیں میری صفات

Page 290

تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ۲۸۰ سورة الدخان کے جلوؤں میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.اس لئے ہم علی الاعلان عیسائی دنیا جو ابھی قرآن کریم کو سمجھ نہیں سکی اور دوسرے غیر مسلموں کے سامنے یہ اعلان کیا کرتے ہیں کہ جس طرح قرآن کریم میں یہ اعلان ہوا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں تمہیں کوئی تضاد نہیں نظر آئے گا اس لئے اس بات پر بھی ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جو خدا کا کلام ہے (اور خدا کے جلوے کبھی کلام کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں،اس کی ایک صفت کلام کرنے والے کی بھی ہے ) اس کے کلام میں بھی کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا کہ کہیں کچھ لکھا ہو اور کہیں کچھ لکھا ہو.سارا قرآن کریم شروع سے آخر تک ایک منطقی مجموعہ ہے ہر چیزا اپنی جگہ پر ہے.کوئی چیز بے موقع نہیں ہے.کوئی چیز بے مقصد نہیں ہے.کوئی چیز بے فائدہ نہیں ہے.کوئی چیز بے غرض نہیں ہے.ہر چیز اپنی جگہ پر ہے اور وہیں ہونی چاہئے اور تضاد نہیں ہے (Ideas) جو ہیں وہ معانی ہیں قرآن کریم کے وہ ایک دوسرے سے دست بگریبان نہیں ہیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۸۶ تا۳۸۹)

Page 291

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۸۱ سورة الجاثية بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الجاثية آیت ۱۴ تا ۱۶ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ اِنَّ فِي ذَلِكَ لايتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمَا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ آسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ عالمین میں جو چیز بھی پائی جاتی ہے اس کے متعلق فرمایا سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا منه کوئی استثنا نہیں.بغیر استثناء کے ہر چیز تمہاری خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے یہ اعلان کیا لیکن یہ نہیں کہ تم سکتے بیٹھ جاؤ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہو ، اونگھتے رہو، افیم کھانی شروع کر دو، زندگی میں تمہیں کوئی دلچسپی نہ ہو، تم محنت نہ کرو، تم وہ قانون جو فائدہ اٹھانے کے ہیں نہ سیکھو اور مشاہدات تمہارے کمزور ہوں پھر بھی تم اس سے فائدہ اٹھا لو گے اور مخلوق تمہاری خادم بنی رہے گی جہاں ایک طرف یہ اعلان کیا کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ وہاں دوسری طرف یہ اعلان کیا کہ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعى (النجم :۴۰) کہ یہ چیزیں تمہاری خادم تو ہیں لیکن جتنی خدمت تم اپنی محنت سے ان سے لو گے اُتنی خدمت کریں گی اس سے زیادہ نہیں کریں گی.مغل بادشاہ نے پانچ برس کا پھل دینے والا درخت اپنے حکم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لگوا دیا اور قانون قدرت جو درختوں اور اُن کی جڑوں اور اُن کے پھیلا ؤ اور ان کو پانی دینے کے متعلق ہے کہ اتنا پانی ملنا چاہیے اور اتنے وقت کے بعد ملنا چاہیے.غذا اتنی ہونی چاہیے ان سب چیزوں کے متعلق قانون ہے جو اللہ

Page 292

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۸۲ سورة الجاثية تعالیٰ نے بنایا ہے.اس قانون کو ان بادشاہوں نے سمجھا اور اس کے مطابق اُسے پچاس میل یا دوسو میل دور لے جا کر دوسری جگہ لگوا دیا.فرقان بٹالین جب کشمیر کے محاذ پر رضا کارانہ طور پر اپنے ملک کی خدمت کر رہی تھی تو ہماری دائیں طرف ایک قلعہ تھا جس کی دیوار میں اس محراب کی اونچائی کے برابر اگر مجھی جائیں تو اس میں تین یا چار پتھر تھے اور وہ پتھر اس علاقہ کے نہیں تھے ہم نے پتہ لیا.صحیح اور علی وجہ البصیرت تو ہمیں پتہ دینے والے نہیں تھے لیکن جتنا پتہ لگ سکا وہ یہ تھا کہ سینکڑوں میل سے ہاتھیوں کے اوپر اتنے بڑے بڑے پتھر اٹھا کر لائے اور وہاں قلعہ بنا دیا.وہ دیوار اتنی مضبوط تھی کہ ہندوستان کے ۲۵ پاؤنڈ کے گولے اُس دیوار پر پڑتے تھے.تو ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور بغیر نقصان پہنچائے دوسری طرف جا کر گر جاتے تھے تو جو اتنے اتنے وزنی پتھر اٹھا کر لے آئے اُن کے لئے درختوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا کیا مشکل تھا.درخت کی عمر کے مطابق جتنی بڑی گاچ کی ضرورت ہوتی تھی وہ جانتے تھے اور اس طرح وہ درخت پھلدار ہو جاتے تھے.بادشاہ سلامت واپس آئے تو وہاں باغ لگا ہوا تھا.پھلدار درخت لگے ہوئے تھے موسم کے مطابق پھل لگے ہوئے تھے ، پھول لگے ہوئے تھے ہر چیز وہاں تھی اور جہاں تک مجھے یاد ہے کم و بیش ایک سال میں یہ سب کچھ ہوا.پس جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک اس عالمین کی ہر چیز انسان کی خادم ہے لیکن انسان پر اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگائی ہے کہ محنت سے اپنی عقل کو استعمال کر کے تجربہ حاصل کرنے اور مشاہدہ حاصل کرنے کے بعد قانون قدرت کی اتباع کرتے ہوئے وہ جو کوشش کرے گا اس کا پھل اس کو مل جائے گا.لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ الا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُڑی میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ انسان کو اُس کی کوشش کا پھل ملے گا لیکن خدا تعالیٰ نے جس طرح کہا کہ سخر لكم اسی کے اندر یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ ہم نے قانون قدرت اور احکام الہی کی زنجیروں میں باندھ کر ہر شے کو تمہارا خادم بنایا ہے ان قوانین کا علم حاصل کرو.ان کے مطابق کوشش کرو تو پھل تمہیں ملے گا سوائے اس کے جودوسرا قانون ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام قانون کو تمہارے حق میں استعمال نہیں ہونے دے گا اور درختوں کو کہے گا نہیں اب میرا وہ قانون نہیں چلے گا کیونکہ انہوں نے میرے مقابلہ پر کھڑے ہو کر بغاوت کی ہے اس لئے اب اگر یہ عام قانون کی بھی پابندی کریں گے تب بھی ان کو پھل نہیں ملے گا.

Page 293

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۳ سورة الجاثية وہ تو عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ سے منہ موڑنے والوں اور انبیاء کے مخالفوں پر ہمیشہ آتے رہے ہیں اور قرآن کریم نے اس کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.( خطابات ناصر جلد پنجم صفحه ۴۸۵ تا ۴۸۷) اسلامی تعلیم ساری کی ساری نہایت حسین ہے اور اسلامی تعلیم انسانی زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہماری زندگی کے ہر پہلو میں حسن پیدا کرنے والی ہے.ایک دو باتیں نہیں جو اسلام نے بتائیں اور ہم ان کا خیال کریں اور سرخرو ہو جائیں اپنے رب کے حضور بلکہ ہماری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہدایتیں ہیں جو دی گئیں اور زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہمیں ان ہدایتوں کے مطابق عمل کرنا چاہئے.کبھی اللہ تعالی تنگی سے بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے.جو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے وہ بھی دکھ اٹھاتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور اسلام میں داخل ہوئے اگر وہ اسلامی تعلیم پر عمل نہ کریں تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے لیکن اس تنگی کے زمانہ میں بھی وہ جماعتیں جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی ہیں تکالیف سے اور دکھوں سے محفوظ کی جاتی ہیں.اور یہ جو میں نے کہا کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ عام حالات میں آپ کو ایک دھیلہ خرچ کئے بغیر ایسا انتظام کر ناممکن ہے کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے.ایک تو میں آج اس ملک کی ہی باتیں بتاؤں گا.اس سلسلے میں ایک بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ اللہ تعالیٰ نے ہر دو جہان کی ہر شے کو انسان کے فائدہ کے لئے اس کی خدمت کے لئے پیدا کیا، اس کا خادم بنا دیا.اس کے بہت سے بطون ہیں.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مختلف تفسیریں کی ہیں.اس Context میں اس سلسلے میں جو میں بات کر رہا ہوں اس کے متعلق میں یہ بتاؤں گا کہ آپ نے بنیادی طور پر تو یہ کہا کہ جب ہر چیز خدا نے خادم بنائی تو ہر چیز سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینا ہمارا کام ہے.دوسرے یہ کہ کسی چیز کو جو ہماری خادم ہے اس کو ضائع کر دینا ناشکری اور گناہ ہے اور اس لئے آپ نے فرمایا اپنی رکابی میں اتنا سالن ڈالو جتنا ختم کرلو.ایک لقمہ کھانے کا ضائع کرنے کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اجازت نہیں دی.قرآن کریم کے اسی حکم کے ماتحت یا اس اعلان کے مطابق کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ اگر ہم اسی کا خیال رکھیں کہ کھانا ہمارا ضائع نہ ہو تو جو لقے بچیں گے وہ ہمارےان بھائیوں کے کام آئیں گے جن کے منہ میں لقمہ جانے کے لئے کوئی لقمہ موجود نہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 294

۲۸۴ سورة الجاثية تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث نے فرمایا کہ ہر چیز تمہارے فائدے کے لئے تو پیدا کی گئی ہے مگر فائدہ حاصل کرنے میں، استعمال میں اسراف نہیں کرنا جتنی ضرورت ہے اس سے زیادہ نہیں کرنا.جتنا کھانے کی ضرورت ہے اس سے زیادہ کھانا نہیں اور اس لئے فرمایا کہ بھوک ہو تو کھانا شروع کرو اور ابھی بھوک محسوس کر رہے ہو تو کھانا چھوڑ دو.یہ تو پھر آدمی آدمی پہ ہے.طبائع مختلف ہیں اس میں شک نہیں.ہر شخص نے اس چیز کو سامنے رکھ کے فیصلہ کرنا ہے کہ کتنی بھوک ہو تو میں کھانا چھوڑ وں تو میری صحت کے اوپر اور میری جو زندگی ہے کہ میں نے کام کرنا ہے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا ہے اپنے خاندان کی بھی ، اپنی قوم کی بھی ، اپنے رشتے داروں کی بھی ، اپنے ساتھ ہم عصر انسانوں کی بھی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، کتنی طاقت مجھ میں ہونی چاہیئے کہ میں ان تمام ذمہ داریوں کو نباہ سکوں؟ وہ طاقت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھوک محسوس کر رہے ہو گے تو کھانا چھوڑ دو گے تب بھی وہ طاقت تمہیں لے گی کیونکہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتے جو حسنِ اعظم ہیں یعنی ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ایسا حکم دیں گے جو ہمارے لئے نفع رساں ہونے کی بجائے ہمارے فائدے کے خلاف ہو، مضرت رساں ہو وہ.اگر ہم کوئی لقمہ کھانے کا ضائع نہ کریں اگر ہم ابھی بھوک ہو تو کھانا چھوڑ دیں تو ہمارے گھروں میں جو کھانا پکتا ہے اسی پر بہت سے آدمیوں کا پیٹ پالا جاسکتا ہے مہمان بلا کر.حدیث میں آیا ہے، دو مختلف باتیں آگئیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں.ایک جگہ آیا ہے کہ جتنے آدمیوں کا کھانا گھر میں پکے اس سے دگنے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں.ایک اسی حدیث میں یہ فقرہ بھی ہے کہ جتنے کا پکے اس سے ڈیڑھ گنا پیٹ بھرے جاسکتے ہیں یعنی چار کا کھانا پکے چار کھانے والے ہیں میاں بیوی اور دو بچے مثلاً تو آٹھ آدمی کھا ئیں تو ان کا پیٹ بھر جائے گا.اس معنی میں کہ کھانے کی ضرورت ان کی پوری ہو جائے گی اور کھانے کی کمی کی وجہ سے جو صحت پر برا اثر پڑ سکتا ہے وہ نہیں پڑے گا اور ایک یہ فرمایا کہ اگر چار کھانے والے ہیں تو چھ کا پیٹ بھر جائے گا اور یہ دراصل جو امیر لوگ ہیں ان کے گھروں میں اس قسم کے کھانے پکتے ہیں کہ وہ چار کا پکے تو آٹھ بھی کھالیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو غریب ہیں نسبتاً وہ چار کا گھر میں ان کے پکے گا تو چھ کھا لیں گے.یہ اس چیز کو سامنے رکھ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باریکی میں گئے ہیں اور یہ ہدایت دی ہے ہمیں.بہر حال ہو سکتا ہے.

Page 295

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۸۵ سورة الجاثية (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۹۸ تا ۱۰۰) قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ : سَنَخَرَ لَكُم مَّا فِى السّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ که خدا تعالیٰ نے اس یو نیورس (universe) کی ، اس عالمین کی ، اس کائنات کی ہر چیز کو بہت سے خواص دے کر تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور انہیں تمہارے خادم بنادیا ہے (خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۹۹) خدا تعالیٰ نے جو اس جہان کو پیدا کیا اس عالمین کو پیدا کیا اس کے مختلف پہلوؤں پر جب انسان نظر رکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے اور کہتا ہے علی وجہ البصیرت کہتا ہے کہ میرے رب نے کسی چیز کو بے مقصد نہیں پیدا کیا.يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - (ال عمران : ۱۹۲) کہ تو پاک ذات ہے تو نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی.مومنوں پر الہی سلسلوں پر جو ابتلا آتے ہیں وہ بھی بے مقصد نہیں وہ ان کو مارنے کچلنے اور ہلاک کرنے کے لئے تو نہیں آیا کرتے ، وہ ان کی شان ظاہر کرنے کے لئے وہ ان کی روحانی ترقیات کے لئے، وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے زیادہ حصول کے سامان پیدا کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں.وہ بے مقصد نہیں ہیں ان کا مقصد ہے اور بڑا عظیم مقصد ہے.بڑا حسین مقصد ہے.بڑا پیارا مقصد ہے.مومن یہ سوچے گا کہ ایٹم کی طاقت بے مقصد نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے مقصد اصولی طور پر قرآن کریم میں یہ بتایا ہے کہ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ کہ بلا استثناہر چیز کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ایٹم کی طاقت کا بھی یہی مقصد ہے لیکن جنہوں نے ایٹم کی طاقت کو نکالا وہ اس کا استعمال کچھ حد تک صحیح بھی کر رہے ہیں اور بہت حد تک غلط بھی کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں.ایسے مہلک ہتھیار بنالئے ہیں.ایک مومن کا دماغ کہے گا کہ ایٹم کا یہ مقصد تو نہیں کہ جو چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے وہ اس کی گردن اڑا دے وہ تو انسان کے فائدے کے لئے ہی استعمال ہونی چاہیے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۶۰) انسانوں کی دو جماعتیں یا دو گروہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر کیا ہے.ایک وہ گروہ ہے جن کو متاع زندگی اور زینت حیات خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ گویا وہ اس کے حقدار تھے، اس دنیا میں مزے لوٹنے کے لئے انہیں یہ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور مزہ لوٹنا

Page 296

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۸۶ سورة الجاثية بھی کیا جس کا انجام تباہی ہے.دنیا کی خوشیاں اور عیش اس دنیا میں بھی انسان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں مثلاً جسمانی طاقتیں ہیں.دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عارضی لذتوں کی خاطر خداداد طاقتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے اس دنیا کی بقیہ زندگی میں نہایت مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا ان کی صحت ایسی گر جاتی ہے کہ اس دنیوی زندگی کا بھی کوئی لطف ان کے لئے باقی نہیں رہتا.اس لئے اصل مسرت اور لذت تو وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی روشنی یعنی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتی ہے.وہی سرور حقیقی سرور ہے اس دنیوی زندگی میں بھی اور وہی سرور اُخروی زندگی میں ایک اور شکل میں انسان کے وجود کو اور اس کی روح کو ملے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بعض لوگ عقل سے کام نہیں لیتے.وہ سوچتے نہیں کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے باطل تو نہیں بنایا تھا.انسانی زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہیئے.اس کی کوئی غرض ہونی چاہیئے انسانی پیدائش کا کوئی مقصد ہونا چاہیئے.چنانچہ انسان کو مخاطب کر کے یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہر دو جہان کی ہر چیز بلا استثناء اس کی خدمت پر لگا دی گئی ہے.کتنا بڑا مقام ہے جو انسان کو دیا گیا ہے.وہ اپنی ماں کے پیٹ سے تو یہ چیزیں لے کر نہیں آتا یہ خدا تعالیٰ کی عطا ہے.یہ اس کی رحمت ہے حتی کہ اس نے ان ستاروں کو بھی جن کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے.سائنس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی اور ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی پچھلے پندرہ بیس سال میں ہماری دنیا تک پہلی بار پہنچی ہے ان سب کو خدا نے ہماری خدمت پر لگایا ہوا ہے چنانچہ صحیح جہت کی طرف سائنس کی ہر ترقی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مخلوق خدا انسان کی ایک نئی شکل میں خدمت کر رہی ہے.ہر سائنسی انکشاف (Scientific Discovery) سے پتہ لگتا ہے کہ کتنا عظیم اعلان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا تھا:.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ لیکن پھر بھی ان سائنسدانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور اس دنیا کے متاع اور اس کی زینت کو کافی سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس دنیوی متاع اور اس کی زینت کے نتیجہ میں اُخروی متاع کے سامان پیدا کرنے کے لئے اور اُخروی زندگی کے حسن کے حصول کے لئے کوشش کرتے ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا

Page 297

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۷ سورة الجاثية (الكهف : ۱۰۵) دنیوی عیش و آرام میں پڑ جاتے ہیں جو کہ وقتی ہے اور اس میں حقیقی لذت بھی نہیں مگر پھر بھی ایسے لوگ اپنا سب کچھ دنیوی لذتوں کی خاطر برباد کر دیتے ہیں اور خدا سے دُوری کی راہیں ان کو خدا کے غضب کی جہنم کی طرف لے جاتی ہیں لیکن وہ لوگ بھی ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شریعت پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے ہاتھ میں دی ہے، ایمان لائے ہیں اور جن کی زندگیاں اسلام کی خاطر ہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۶۹،۶۸) قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی چیز کا بھی اس دنیا میں بداثر نہیں.ہم خود اس کے غلط استعمال سے نقصان اٹھالیں تو یہ اور بات ہے یہ استعمال کرنے والے کی بدی ہے اس شے کی بدی نہیں.قرآن کریم کا اعلان یہ ہے کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ یعنی بغیر استثنادنیا کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگایا گیا ہے اگر انسان خود خدمت نہ لے یا غلط خدمت لے لے تو اس میں خادم کا تو قصور نہیں.خشخاش کا ایک دانہ اور ہمالیہ کا یہ پہاڑ اور سورج کا یہ خاندان (جس میں سے ایک زمین بھی ہے جو سورج سے فائدہ اٹھا رہی ہے ) یہ سب کے سب انسان کی صحیح خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ دعوی کر سکے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو انسان کی خدمت کی اہلیت نہیں رکھتی اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے خواہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے انسان کو اس سے فائدہ نہیں ہوگا.اس لئے کہ ہم یہ ثابت کریں گے کہ خود دنیا نے تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ جن چیزوں کے متعلق بعض لوگوں کو یہ وہم تھا کہ وہ انسان کے فائدہ کے لئے نہیں ہیں ان میں بھی فوائد ہیں.مثلاً سانپ اور اس کا زہر ہے.بعض لوگ تو سانپ کا لفظ سن کر بھی چھلانگ لگا کر چار پائی پر چڑھ جاتے ہیں.اتنا ڈرتے ہیں اس سے لیکن سانپ کے زہر میں بھی انسان کے لئے بے شمار فوائد رکھے ہیں اور انسان نے تحقیق کر کے ان میں سے بعض فوائد کا علم بھی حاصل کیا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے.بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جن کو ایک وقت میں انسان اپنی جہالت کی وجہ سے قریباً لا علاج سمجھتا تھا اور اب طب کی اور شاخوں نے بھی اور ہومیو پیتھک نے بھی سانپ کے زہروں سے ایسی ادویہ بنائی ہیں جو ایسے مریضوں کو بہت فائدہ دیتی ہیں.اسی طرح لکھی ہے جو کہ ہر وقت تنگ کرتی ہے لیکن مکھی میں انسان کے لئے فائدہ ہے.ایک موٹا فائدہ جو ہر

Page 298

۲۸۸ سورة الجاثية تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ایک کو سمجھ آ جائے گا یہ ہے کہ بعض بچے سوکھنے کے مریض ہوتے ہیں اور بچپن سے نہ ہڈی بڑھ رہی ہوتی ہے اور نہ اس کے اوپر گوشت ہوتا ہے اس کو پنجابی میں سوکھا“ کہتے ہیں.ایسے مریضوں کو اگر مکھی کسی چیز میں لپیٹ کر کھانے کے لئے دی جائے اور وہ اس کو ہضم کر لیں تو یہ سوکھنے کی بیماری کا علاج ہے اور یہ تو ایک فائدہ ہے اس کے اندر اور بہت سے فوائد ہیں.پس تمام اشیاء خدا تعالیٰ کی صفات سے اثر قبول کر رہی ہیں اور جس غرض کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت کریں ) اس غرض کو وہ پورا کر رہی ہیں اور اس طرح یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ قدوس بھی ہے کیونکہ دنیا کی تمام اشیاء جو بے حد و بے شمار ہیں ان کا اثر انسان پر نیک اور پاک اور مفید ہے گندہ اور مصر نہیں ہے.اس لئے جس چشمہ سے وہ نکلی ہیں اس پر بھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اپنے ان اثرات سے وہ یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ پاک ہے یہ ان کی زبان ہے.قرآن کریم نے دوسری جگہ کہا ہے کہ ہر چیز اس کی حمد کر رہی ہے اور اس کی تسبیح کر رہی ہے لیکن تم ان کی آواز کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک آواز یہی ہے.پتا نہیں اور کتنی آواز میں خدا تعالیٰ نے ان کو دی ہیں.پس جیسا کہ خدائے قدوس نے کہا تھا تمام اشیاء انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے انسان خدمت نہ لے سکے اور صحیح ذاتی خاندانی اور علاقائی خدمت اور بنی نوع انسان کی خوشحالی اور اس کے اطمینان اور اس کی ترقیات کے لئے ان اشیاء کو کام میں نہ لگایا جاسکے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۴۶۶ تا ۴۶۸) اور عورت کے متعلق آج بڑا اعتراض ہو رہا ہے بعض ہماری اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں بتائے ، قائم کئے ، حفاظت کی، یہ بات نہیں چارسو دس آیت سے زیادہ تو ایسی ہیں جن میں عورت کا عورت کر کے ذکر کیا گیا ہے، کتنا بڑا مضمون ہوگا کہ ایک ہی آیت چار مختلف جگہ سے میں نے لی ہے وہ اس کے اندر ہی مضمون نہیں ختم ہو رہا چارسو دس جگہ لیکن ان میں سے بعض جگہیں ایسی ہیں کہ ایک ہی آیت کہہ رہی ہے کہ جہاں بھی کم کر کے قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے یایھا الذین کہہ کے بات کی گئی ہے اس میں مرد اور عورت ہر دو شامل ہیں تو ساری قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اس میں عورت اسی طرح شامل ہے گیلی مٹی سے بنایا مرد کو بھی عورت کو بھی یہ مدارج میں سے گزار کے ارتقائی مدارج میں سے گزار کے اس کا جسم بنا وہ ایک جیسے ہے کوئی فرق نہیں جو اس جسم میں اس

Page 299

۲۸۹ سورة الجاثية خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۴۹،۴۴۸) تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کے نفس میں طاقتیں تھیں نوع کے لحاظ سے جو مرد میں ہیں قرآن کریم کہہ رہا ہے جو مرد میں ، وہ عورت میں ہیں.جو طاقتیں ساری کائنات کے مقابل انسان کو رکھ کے خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیں سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا کہ نوع انسانی کو تمام وہ قو تیں اور صلاحتیں دے دی گئیں جن کے نتیجہ میں وہ کائنات پر حکمرانی قائم کر سکتا ہے کیونکہ کا ئنات کی ہر چیز اس کی خادم بنا کے پیدا کی گئی ہے یہ جو قو تیں اور صلاحیتیں ہیں جس طرح مردوں کو دی گئیں قرآن کریم کہتا ہے عورتوں کو بھی دی گئیں.جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اُس نے تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے اور جو فکر کرنے والی اور تدبر کرنے والی اور غور کرنے والی قوم ہے ان کے لئے اس میں ایک بڑا نشان ہے اور وہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس کا ئنات کی پیدائش اور انسان کی پیدائش کے پیچھے کوئی مقصد ہے.اس لئے قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا تو مومنوں سے کہہ دے کہ تم اللہ تعالیٰ کی جزاء کی اُمید رکھو کیونکہ ایک مقصد کے پیش نظر تمہیں پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کے مظہر بنو اور جو شخص اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کا مظہر بن جاتا ہے وہ منبع مسرت اور خوشیوں کے سرچشمہ سے پرسکون اور خوشحال زندگی حاصل کرتا ہے جس پر کبھی فنا نہیں آتی ہے.اس لئے تم اللہ کی سزا سے ڈرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے یہ معنے ہوں گے کہ جو مقصد تم سے وابستہ کیا گیا تھا اس میں تم نا کام ہوئے اور جو خوشیاں تمہارے لئے مقدر کی گئی تھیں ان سے تم محروم ہوئے اور خدا تعالیٰ سے دوری کے نتیجہ میں جو عذاب مقدر کیا گیا تھا اس کے تم حق دار ٹھہرے.خود ہی نہیں بلکہ جو سزا سے نہیں ڈرتے اور اپنے رب کو نہیں پہچانتے ان کو بھی معاف کریں اور ایسے سامان پیدا کریں کہ ان کی توجہ محبت اور پیار کے ساتھ ان کے رب کی طرف پھیری جاسکے اور خود سزا دینے کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نہ خدا سے یہ کہیں کہ جلد انہیں سزا دے بلکہ کوشش یہ کریں کہ ایسے لوگ بلکہ ساری دنیا ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے.من عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ آسَاءَ فَعَلَيْهَا الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو تم اچھی طرح سمجھا دو کہ ہمارا جو یہ مطالبہ ہے کہ ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے ارشادات کی روشنی میں مناسب

Page 300

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۲۹۰ سورة الجاثية حال نیک اعمال بجالایا کرو فلنفسه اس میں تمہارا فائدہ ہے کیونکہ اسی کے نتیجہ میں تم اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہو جو تمہاری زندگی کا مقصد ہے.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۳۱۰،۳۰۹)

Page 301

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۲۹۱ سورة الاحقاف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاحقاف آیت ۴ مَا خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أَنْذِرُوا مُعْرِضُونَ.اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے درمیان پایا جاتا ہے بلا وجہ اور حکمت کے بغیر پیدا نہیں کیا اور نہ کوئی مدت مقرر کرنے کے بغیر پیدا کیا ہے.اسی طرح اور بہت سے مقامات پر قرآن کریم نے بڑے زور کے ساتھ اس دعوی کو انسان کے سامنے پیش کیا ہے کہ اس کائنات کی پیدائش ایک خاص مقصد کے حصول کے پیش نظر کی گئی ہے.یہ چاند، یہ ستارے، یہ سورج، اب جب ہمارا علم بڑھ گیا ہے تو ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بے شمار سورج ہمارے نظامِ شمسی کی طرح اس عالمین میں پائے جاتے ہیں.پھر آسمانوں کے متعلق تو بڑا تھوڑا اعلم ہے.کم از کم تھوڑا بہت علم ہم نے حاصل کر لیا ہے کہ بعض ستارے زیادہ روشن ہیں اور بعض کم اور بعض ستارے ہم سے قریب ہیں اور بعض بہت دور یعنی یہ محض فلسفیانہ رنگ میں نہیں بلکہ دور بینوں سے ہم نے یہ پتہ لیا اور ہم نے شعاعوں کے متعلق یہ بھی پتہ کر لیا کہ کتنے لائٹ ایرز میں، یعنی کتنے ایسے سالوں میں کہ جس میں شعاعوں کی ایک سال کی رفتار جو ہے (اسے لائٹ ایرز (Light years) کہتے ہیں) وہ روشنی یہاں تک پہنچی وغیرہ وغیرہ اور اس سے جو علم حاصل ہوا جس سے ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چاند اور سورج کی روشنی ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اندر بعض خاص خصوصیتیں پیدا کرتی ہے اسی طرح ستاروں کی روشنی بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ

Page 302

۲۹۲ سورة الاحقاف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث آج گندم کا دانہ جس میں مثلاً تعداد تو نہیں یاد کسی کو پتہ بھی نہیں ، گنا بھی نہیں جاسکتا ہے، لیکن مثال دے دیتے ہیں، جس کی پرورش میں ایک ہزارستاروں نے دودھ پلایا.وہ اس دانہ سے مختلف ہے.جو آج سے پانچ ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور جس کی پرورش میں صرف نوسوستاروں کی روشنی کا حصہ تھا.عقلاً اس میں اختلاف ہونا چاہیے تھا کیونکہ زیادہ ستاروں کی روشنی پرورش کا باعث بنی تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ جو میں نے ستارے بنائے ، پھر زمین بنائی اور پھر میں نے بے شمار چیزیں بنادیں مختلف انواع کے کچھ حیوان ہیں.کچھ نباتات سے تعلق رکھنے والی ہیں.کچھ معدنیات سے تعلق رکھنے والی ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر ہر چیز میں میری جس جس صفت کا جلوہ ہوا ہے چونکہ میری ہر صفت اور اس کے جلوے غیر محدود ہیں.اس چیز کے جو خواص ہیں وہ غیر محدود ہیں.تو اتنا بڑا کارخانہ اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی اور اپنی گہرائیوں کے لحاظ سے بھی بے فائدہ اور بلا مقصد نہیں ہے، کوئی بات میرے سامنے تھی، کوئی مقصد میرے پیش نظر تھا جس کے لئے میں نے اس کارخانہ عالم کو بنایا.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۳۰۸،۳۰۷) آیت ۱۶ وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَنًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرُهَا وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِضْلُهُ ثَلَثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى وَ عَلَى وَالِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ أَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تبتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے اور ان سے اپنے بعض بندوں کو فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی اور خدا کے فعل نے معترضین کو ملزم قرار دیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ ہم ان کا مذاق اڑائیں.وہ قرآن کریم کو استخفاف کی نظر سے دیکھنا چاہتے تھے مگر ہم نے دنیا پر یہ ثابت کر دکھایا کہ استخفاف کی نظر سے اگر کسی چیز کو دیکھا جاسکتا ہے تو وہ وہ نتائج ہیں جو اہل یورپ کے علوم، ان کی سائنس اور ان کی تحقیقات نکال رہی ہیں.وہ آج ایک دوائی بناتے ہیں اور اس کی بڑی تعریف کرتے

Page 303

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۹۳ سورة الاحقاف ہیں اور دس سال کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک زہر تھا.ہم نے اس دوائی کو بنا کر بڑی غلطی کی اسی طرح آج ایک طبی مشورہ دیتے ہیں اور اگلے چند سال کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے غلط مشورہ دیا تھا.مثلاً ایک زمانے میں یورپ کے ایلو پیتھی کے اطباء نے کہہ دیا کہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں یہ ان کے لئے نقصان دہ ہے.مگر اسلام نے یہ کہا تھا حَمْلُهُ وَفِضْلُهُ ثَلْقُوْنَ شَهْرًا یعنی ماں کیلئے ایک معین وقت تک بچے کو دودھ پلانا ضروری ہے.یہ ماں کی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور بچے کی صحت کے لئے بھی ضروری ہے (اس کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے) لیکن اسلام کے معاندین نے اسلام کی اس تعلیم پر یہ اعتراض کر دیا کہ دودھ پلانے سے بچے کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا ماں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے.چنانچہ ساری دنیا میں اس بات کی تشہیر کی گئی کہ مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہ پلا یا کریں.آسٹر ملک اور گلیکسو وغیرہ کے دودھ ( جو بند ڈبوں میں دستیاب ہوتے ہیں وہ) پلایا کریں.جب پندرہ بیس سال گزر گئے اور ان کی ایک نسل صحت کے لحاظ سے تباہ ہوگئی تو پھر یہ اعلان کر دیا کہ ہم نے بڑی بیوقوفی کی تھی اور غلط مشورہ دیا تھا.بچے کو دودھ پلانے سے تو عورت کی صحت بنتی ہے.بگڑتی نہیں.پس قرآن کریم کی تعلیم دراصل عقل، مشاہدہ اور سائنس کے خلاف نہیں ہے بلکہ سائنس اور عقل اور مشاہدہ قرآن عظیم کی ارفع و عظیم تعلیم کی عظمت اور رفعت کے حق میں دلائل واضحہ پیش کرتے ہیں.دنیوی علوم قرآن کریم کی تعلیم سے متضاد نہیں بلکہ اس کے تابع ہیں اس لئے دنیا جب قرآن کریم پر اس قسم کے عقلی اعتراضات کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پیدا کر دیتا ہے جو ان اعتراضات کو رڈ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے مطہرین کے گروہ میں سے ایک ایسا شکر بنا تا ہے اور ان کو فہم قرآن عطا کرتا ہے.وہ غلط قسم کے عقلی اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم پر حملہ کرنے والوں کو پسپا کرتے ہیں اور ان پر قرآن کریم کی برتری کو ثابت کرتے ہیں.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۳۷۹ تا ۳۸۱)

Page 304

Page 305

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۹۵ سورة محمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اللهَ تفسير سورة محمد آیت ۸، ۱۸، ۲۲ ، ۳۲، ۳۶،۳۴ اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا ه يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتُ أَقْدَامَكُمْ ) وَالَّذِينَ اهْتَدَوا زَادَهُمْ هُدًى وَاتْهُمْ تَقُوبُهُمْ.قف طَاعَةً وَ قَوْلُ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجْهِدِينَ مِنْكُمْ وَ الصّبِرِينَ وَنَبْلُوا اخباركم ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا اعمالكم فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْأَعْلَونَ وَاللهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يتركُم أَعْمَالَكُمْ سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتُ اقدامكم اے مومنو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو یقینا تمہیں اس کی مدد حاصل ہو جائے گی اور جب اس کی مدد حاصل ہوگی تو تمہیں ثبات قدم بھی مل جائے گا.یہاں اِنْ تَنْصُرُوا اللہ کا فقرہ استعمال کیا گیا

Page 306

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۹۶ سورة محمد ہے اور مفردات راغب ہمیں بتاتی ہے کہ جب قرآن کریم نے یہ محاورہ استعمال کیا ہو کہ انسان اگر اللہ کی مدد کرے.وہ اللہ جو کہ قادر مطلق اور غنی اور بے نیاز ہے اس کو اللہ کی مددملتی ہے تو جب یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہو کہ جو شخص اللہ کی مدد کرے تو یہ نتیجہ نکلے گا یاوہ نتیجہ نکلے گا تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کا محتاج ہے بلکہ اس کے معنی ہوتے ہیں.اول یہ کہ اس کے بندے کی مدد کرے.دوسرے یہ کہ اس کے دین کی مدد کرے.تیسرے یہ کہ اپنی مدد کرے اللہ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کرنے سے اپنی مدد کرے اس عہد کی رعایت کرنے سے جو اس نے اپنے رب سے باندھا ہے پس اللہ کی مدد کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کا جوا اپنی گردن پر رکھ لے اور جن باتوں سے اللہ نے اسے روکا ہے ان سے وہ بچے، یہ معنی ہیں اللہ کی مدد کرنے کے اور یہی معنی جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں صبر کرنے کے ہیں.یعنی صبر اور نصرت ایک مفہوم کے لحاظ سے قریباً ہم معنی ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر چہ یہاں نصرت کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن اس معنی میں استعمال کرتا ہے جس معنی میں صبر کے لفظ کو بھی استعمال کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بالفاظ دیگر یہ فرمایا کہ ان تَنْصُرُوا اللہ اگر تم صبر سے کام لو گے ینصرکم تو وہ تمہاری مدد کو آئے گا اور اُس کی مدد کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں نیکیوں پر دوام حاصل ہو جائے گا.تمہیں مصائب کے برداشت کرنے کی اور دکھوں اور سازشوں اور دشمن کے مکر کے برداشت کرنے کی اور زبان کو قابو میں رکھنے کی دائمی قوت عطا ہو جائے گی ، ثبات قدم عطا ہوگا یعنی یہ نہیں کہ ایک سال تو نہیں طاقت ملی اور اگلے سال پھر تم جہنم میں چلے جاؤ بلکہ جب تم اللہ کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہارا ثبات قدم تمہیں اس جنت سے پھر نکلنے نہیں دے گا کیونکہ وقت جو بھی تقاضا کرے گا تم اس کو پورا کرنے والے ہو گے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۱۳، ۵۱۴) قرآن کریم ہی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر تم ثبات قدم چاہتے ہو تو اس کا ایک طریق یہ ہے کہ :.إِن تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمُ یعنی اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا.لَا يُولُونَ الْأَدْبَار میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ہمارا اپنے رب سے عہد ہے کہ ہم خدا کی راہ میں ثبات قدم دکھا ئیں گے اور مختلف رنگ کے مختلف جہاد میں سے کسی میں بھی ہم منہ نہیں پھیریں گے اور پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے.

Page 307

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۹۷ سورة محمد اگر چہ ان آیات میں خاص طور پر جنگ کا ذکر ہے جو ظاہری سامانوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے لیکن اس میں جو اصولی بات بیان ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیٹھ نہیں دکھانی.اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہیں پھیر نا بلکہ ہر حال میں ان کو نباہتے چلے جانا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری ذہنیت ایسی ہونی چاہیے کہ تم ہر حالت میں اور ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے.اگر تمہارا یہ پختہ عزم ہوگا کہ تم خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے اور کسی صورت میں بھی اس عہد کے خلاف کام نہیں کرو گے تو آسمان کے فرشتے نازل ہوں گے جو تمہارے قدموں میں ثبات پیدا کر دیں گے اور پھر تم خدا تعالیٰ کی مہربانی سے اپنے عہد پر پورا اُتر و گے.دو پس يَنْصُرُكُم وَيُبْتُ أَقْدَامَكُمْ میں اس نصرت الہی کا وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ کے فرشتے ثبات قدم پیدا کریں گے.کیونکہ اس کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا.اور اِنْ تَنْصُرُوا اللہ کے ظاہری طور پر صرف یہی معنے ہیں کہ مثلاً لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہتھیار لے کر آگئے یا جہاد کے لئے پیسے دے دیئے بلکہ اللہ کے دین کی نصرت سے مراد وہ فدائیت ہے جو انسانی فطرت کا جزو بن جاتی ہے جو اس کی ذہنیت بن جاتی ہے جو انسان کی روح بن جاتی ہے.انسان کی ایمانی روح ہی یہ ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہنا ہے اور پھر دین کی یہ نصرت ہزار قسم کی ہو سکتی ہے.کیونکہ ہزار قسم کے مطالبات ہیں جو ہزار قسم کے مختلف حالات میں کئے جاتے ہیں.مثلاً مالی قربانیاں ہیں جان کی قربانیاں ہیں یعنی وقف زندگی کی شکل میں زندگی کی قربانی ہے.پھر اشاعت قرآن کے لئے جدو جہد ہے جو آج کل بڑے زور سے شروع ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیابی عطا فرمائے اور یہ دراصل جہادا کبر ہے.کسی آدمی نے پتہ نہیں یہ کیسے کہہ دیا تھا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار ہو، تب صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن ہمیں تو خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اور یہی حقیقی الہبی آواز ہے جو ہمارے کانوں میں پڑی ہے اور جس کا ہم دُنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور ہمارے دوسرے ہاتھ میں بھی قرآن ہے.قرآن کریم نے ہمارے دونوں ہاتھوں کو مصروف رکھا ہوا ہے.البتہ قرآن کریم جب یہ کہتا ہے تلوار پکڑ لوتو ہم تلوار پکڑ لیتے ہیں.لیکن قرآن کریم ہی جب یہ کہتا ہے کہ مدافعانہ تلوارکا زمانہ گزر گیا اب ہم نے تلوار کا کام قلم

Page 308

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۹۸ سورة محمد سے دکھانا ہے اب ہم نے تلوار کا کام نیکی کی باتوں کو بیان کر کے اپنی زبان سے دکھانا ہے.اب ہم نے میدان تبلیغ میں کو دکر ان لوگوں سے مشابہت حاصل کرنی ہے جو میدان جنگ میں کود جاتے تھے.اب ہم نے میدان تبلیغ اور اشاعت اسلام کے میدان میں ڈٹ جانا ہے اور اس میں ثبات قدم کے ساتھ کوشاں رہنا ہے.ہم نے اس میدان سے منہ نہیں پھیرنا.کمزوری نہیں دکھانی.دُنیا کی لالچ میں نہیں پڑنا کیونکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا ہوا ہے کہ ہم تیرے دین کی مدد کریں گے.پس یہ وہ ذہنیت ہے جس کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے.یعنی اگر تم خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے اس طرح تیار ہو جاؤ گے کہ ہر دوسری چیز کو بھول جاؤ گے تو تمہاری یہی ایمانی روح خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کا ذریعہ بن جائے گی.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے ہیں اور ہم نے آپ ہی کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا مشاہدہ کیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی خدا تعالیٰ کے عشق میں مخمور ہو جاتا ہے اس کو تو اس بات کی ہوش بھی نہیں ہوتی کہ میری کوئی تعریف کر رہا ہے یا نہیں میرے اوپر کوئی لعن طعن کر رہا ہے یا نہیں.وہ تو اللہ تعالیٰ کے عشق میں مست ہوتا ہے.دل ریش رفتہ بکوئے دگر تحسین ولعن جہاں بے خبر پس یہ خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہونے کی جو حقیقت ہے اسی کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اگر تم اسی فدایا نہ ذہنیت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو گے اور کچھ ادھر اور کچھ اُدھر نہیں جاؤ گے (انہی آیات میں آگے یہ کہا گیا ہے، ان کی میں نے اس وقت تلاوت نہیں کی ان کا مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ تم یہ نہیں کہو گے کہ ہم کچھ باتوں کی اطاعت کریں گے اور کچھ میں اپنی مرضی چلا ئیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ باتوں میں اپنی مرضی چلاؤ گے اور کچھ میں میری اطاعت کرو گے تو میری ساری لعنت تم پر پڑے گی.فرماتا ہے میں یہ نہیں کہوں گا کہ کچھ میری رحمت میں سے حصہ لے لو اور کچھ میرے قہر اور غضب سے حصہ لے لو.پس اس ذہنیت کا پیدا ہونا جس کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے.بڑا ضروری ہے خصوصاً ایک احمدی کے لئے بڑا ضروری ہے اور احمدیوں میں سے اس گروہ کے لئے بڑا ضروری ہے.

Page 309

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۹۹ سورة محمد جنہوں نے خدا تعالیٰ سے ایک نیا عہد باندھا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں تیرے دین کے لئے تیری راہ میں وقف کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اِن تَنْصُرُوا اللہ میں جس ذہنیت کی طرف اشارہ ہے اس کی مزید تشریح اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.طَاعَةً وَقَوْلُ مَعْرُوف کامل اطاعت کرنی ہے اور بے چون و چرا اطاعت کرنی ہے اور نیکی کی باتیں کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کو دلوں میں پیدا کرنا ہے.قولِ معروف میں نیک باتوں کے پھیلانے کے معنے بھی آتے ہیں.اشاعت قرآن کریم کے معنے بھی آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے متعلق اور بنی نوع انسان کے متعلق نیک باتیں کرنے کے معنے بھی پائے جاتے ہیں.پس قول معروف کے صرف نیکی کی باتوں کو پھیلانے کے معنے نہیں جس طرح کہ تم عام طور پر کہتے رہتے ہو کہ نماز پڑھنی چاہیے.وضو کے ساتھ پڑھنی چاہیے شرائط کے ساتھ پڑھنی چاہیے ، وقت پر پڑھنی چاہیے ، مسجد میں جا کر پڑھنی چاہیے، باجماعت پڑھنی چاہیے، خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے وغیرہ سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے یہ بھی قول معروف ہے یہ بھی نیکی کی باتیں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کو کہتے رہنا چاہیے ذکر میں بھی اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور امام کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو احکام یاد دلاتا رہے.چنانچہ میرا آج کا خطبہ بھی اسی ذکر کے نتیجہ میں ، اسی کی روشنی میں اور اسی حکم کے ماتحت ہے اس لئے کسی کے متعلق بدظنی کی بات نہ کی جائے.حسن ظن کی جو بات کی جاتی ہے عزت واحترام کی جو بات کی جاتی ہے.جو حقارت کی بات نہیں ہوتی جو پیارے پیارے نام رکھ کر بات کی جاتی ہے اور برے نام نہیں رکھے جاتے.حقارت ، ہنسی اور تمسخر نہیں کیا جاتا، غرض یہ ساری باتیں قول معروف کے اندر آ جاتی ہیں یعنی نیکی کے احکام یاد دلانا اور دوسروں کے متعلق اپنی نیک رائے کا اظہار کرنا.بدظنی نہیں کرنی ، آپس میں بھی نہیں کرنی مگر جس کو خدا تعالیٰ نے امام بنا دیا ہے اس کے متعلق تو بالکل ہی نہیں کرنی کیونکہ اس میں اور بہت ساری ذمہ داریاں آجاتی ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک استاد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے شاگرد کے متعلق اس قسم کی بات کرے اور اسی طرح شاگرد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے استاد کے متعلق اس قسم کی بات کرے جو قول معروف کے منافی ہے.اسی طرح اگر تم امیر ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ

Page 310

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة محمد نے یہ حق نہیں دیا کہ اپنے باورچی یا اپنے گھر میں صفائی کرنے والے کے متعلق قول معروف کے علاوہ کوئی اور بات کرو تم ان کے متعلق بھی نیک بات کرو.ان سے بھی پیار کی بات کروان سے بھی عزت واحترام سے پیش آؤ ورنہ قول معروف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے.پس ان تَنْصُرُوا اللہ کی رو سے تم نے اپنے اندر وہ ذہنیت پیدا کرنی ہے اور تم نے طَاعَةُ وَقَوْلُ معرُوف کے لحاظ سے ایک تو کامل اطاعت کا نمونہ دکھانا ہے.دوسرے اپنے معاشرہ میں کامل حسن کا نمونہ دکھانا ہے کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کے عظیم نور کی طرح خود بھی ایک عظیم نور تھے.آپ ایک ایسا نور تھے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی.ایسا حسن کہ دو خوبصورتیوں میں کوئی دوری نہیں ہے.کوئی غیریت نہیں ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو حسن اس کے قول کے ذریعہ ظاہر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو حسن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے ذریعہ ظاہر ہوا.اس میں یعنی ان دو خوبصورتیوں میں کوئی فرق نہیں ہے.پس اس سے یہ ظاہر ہوا کہ تم نے دوسروں کے متعلق نیکی کی باتیں بھی کرنی ہیں اور نیک باتیں بھی کرنی ہیں تم نے دوسروں کے متعلق بری باتیں نہیں کرنی تم نے اطاعت کا کامل نمونہ دکھانا ہے.تب تم اِن تَنْصُرُوا اللہ کی بنا پر اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہو جو يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ کا مصداق ہے.کیونکہ تم نے خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے ایک ایسا عزم کر لیا.ایک ایسا عہد کر لیا.ایک ایسی نیت کر لی اور ایک ایسا ارادہ کر لیا جو تمہاری ساری زندگی کے ارادوں پر محیط ہو گیا ہے.تمہارا کوئی ارادہ اس سے باہر نہیں رہا.تم نے یہ پختہ عزم کر لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر نہیں جائیں گے ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں آگے بڑھیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے.جو تکالیف سامنے آئیں گی ہم ان سے بچنے کی کوشش نہیں کریں گے جو روکیں پیدا ہوں گی ہم ان کو پھلانگیں گے یا ان کو پرے ہٹا دیں گے.اس لئے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ جی روک پیدا ہوگئی ہے یا ان کو پرے ہٹا دیں گے.اس لئے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ جی روک پیدا ہو گئی ہے.راہ میں کانٹے بچھ گئے ہیں پاؤں زخمی ہوتے ہیں دل دکھتے ہیں سینہ چھلنی ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ چھلنی ہونے دو کیونکہ تم نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے تم خدا کی راہ میں قربانیوں سے منہ نہیں پھیرو گے اور پیٹھ نہیں دکھاؤ گے.

Page 311

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة محمد میں نے کئی دفعہ کہا ہے اور میں یہ بات بڑی سنجیدگی سے کہتا رہا ہوں اور اسے اب بھی دُہرا دیتا ہوں کہ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ نہیں کیا کہ (جب تم خدا کے دین سے پیٹھ پھیرو گے تو وہ تمہاری پیٹھوں کی حفاظت کرے گا.اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہارے سینوں کی حفاظت کرے گا.چنانچہ مسلمانوں کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب یہ دشمن اسلام کے سامنے دعوئی اسلام کرنے والے کی پیٹھ آئی اسے چھید دیا گیا اور جب بھی دشمن اسلام کے سامنے ایک مسلمان مومن کا سینہ آیا اور اس کا چہرہ سامنے آیا اور اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو دشمن ناکام اور ذلیل ہوا.وہ اس دُنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوا اور جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی ذلت ہے وہ تو اس دُنیا کی ذلت سے بھی زیادہ ہے.ویسے خدا تعالیٰ کا وعدہ نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی بھی چار پائی پر نہیں مرے گا.یا میری راہ میں شہادت نہیں حاصل کرے گا.کیونکہ زندگی اور موت تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی زندگی میں جس نیک مقصد کی خاطر میری راہ میں ثبات قدم دکھاؤ گے اور پیٹھ نہیں پھیرو گے اس مقصد میں کبھی نا کام نہیں ہو گے.باقی بچے بھی مر جاتے ہیں ملیریا بخار سے بھی ٹائیفائیڈ سے بھی اور سل سے بھی بعض دفعہ ٹھوکر لگتی ہے بچے گرتے ہیں سر پر کسی ایسی جگہ پر چوٹ لگتی ہے جو جان لیوا ثابت ہوتی ہے.پس یہ مرنا تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے لیکن جو شخص پیٹھ دکھاتا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا.وہ پیٹھ اس لئے دکھاتا ہے کہ اسے ابدی زندگی مل جائے مگر بعض دفعہ وہ پیٹھ دکھا کر اپنے گھر تک نہیں پہنچا ہوتا کہ راستے میں اس کی جان نکل جاتی ہے اگر ایسا کمزور ایمان اور منافق دس گھنٹے اور ایمان پر پختہ رہتا تو وہ جنت میں جاتا لیکن اُس نے آخری دس گھنٹوں میں اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اپنے اندر یہ ذہنیت پیدا کر لو کہ تم ہر قیمت پر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے تو میں آسمان سے تمہاری مدد کے لئے فرشتے بھیجوں گا اور وہ تمہارے قدموں کو مضبوط کر دیں گے اور تمہیں اس قابل اور اہل بنا دیں گے کہ تم اپنے وعدہ پر پورے اُتر سکو.تم نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ تم پیٹھ نہیں دکھاؤ گے مگر تم بشری کمزوریوں کے ساتھ ہماری مدد کے بغیر اور فرشتوں کے سہارے کے بغیر اپنا یہ عہد پورا نہیں کر سکتے لیکن ہماری مدد

Page 312

۳۰۲ سورة محمد تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث یعنی فرشتوں کو جو سہارا ہے وہ تمہیں اس صورت میں مل سکتا ہے کہ اِن تَنْصُرُوا الله کی رو سے تم یہ عہد کر لو کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کریں گے یعنی غلبہ اسلام کے لئے جو جد و جہد ہو رہی ہے اور اشاعت اسلام کے لئے جو بڑی اہم تحریک شروع ہوئی ہے.ہم اس میں حصہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کریں گے خواہ کچھ ہو جائے ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد سے کبھی باز نہیں آئیں گے.ہمارے دل میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آئے گا کہ خدا کے دین سے منہ پھیر لیں.تب آسمان سے فرشتے آئیں گے اور تمہارے پاؤں کو صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم کر دیں گے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اِن تَنْصُرُوا اللہ کی کیفیت طَاعَةُ وَقَوْلُ مَعْرُوفٌ میں مانی ہوئی ہے.چنانچہ سورہ محمد میں آگے چل کر طاعة کے یہ معنے بیان ہوئے ہیں کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ بعض باتوں میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور بعض باتوں میں اطاعت نہیں کریں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہو سکتا.تمہیں کامل اطاعت کرنی پڑے گی.اس وقت بھی اطاعت کرنی پڑے گی جب امام نے ابھی عزم نہیں کیا کیونکہ مومن اس وقت بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم اطاعت کریں پھر ان کے مشورہ اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق جب ایک فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ شخص جو مومن ہے اور پختہ ایمان والا ہے اور جو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا چاہتا ہے.جو کامل اطاعت کا نمونہ دکھا رہا ہوتا ہے.جو نیکی کی باتیں کرتا اور خود اپنے معاشرہ میں نیک باتیں کرتا ہے.وہ اس فیصلہ پر بے اختیار یہ کہ اُٹھتا ہے.اے خدا! میری روح کی بھی یہی آواز ہے.جو تیرا حکم آیا ہے میں تیرا ممنون ہوں کہ تو نے میرے لئے پہلے ہی ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.لیکن ایک گروہ وہ کمزور ایمان والوں کا بھی ہوتا ہے چنانچہ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ کی رو سے جس وقت عزم کیا جاتا ہے تو ایسے لوگ اطاعت نہیں کرتے یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فَإِذَا عَزَمْتَ (ال عمران : ۱۲۰) فرمایا ہے یعنی کسی کام کے عزم کا ایک آدمی ذمہ وار ہے اور دینی لحاظ سے ہر کام کے اصل ذمہ وار تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے ہیں آپ زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے.اس لئے فَإِذَا عزمت کی رو سے دراصل عزم انہی کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے

Page 313

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۰۳ سورة محمد فضل سے میرے جیسے کمزور بندوں کو آپ کی نیابت میں کھڑا کر دیتا ہے.چنانچہ مجھ سے پہلے لاکھوں کروڑوں لوگ مختلف شکلوں میں آئے کئی اولیاء کی شکل میں آئے کئی محد ثین کی شکل میں آئے اور کئی خلفاء کی شکل میں آئے.دراصل تو خلافت ہی ہے لیکن خلافت کی آگے کئی شکلیں بن جاتی ہیں.غرض جو سلسلہ خلافت اس وقت قائم ہے اور پہلے بھی تھا کئی بزرگ اس شکل میں بھی آئے.لیکن خلافت ہی کی جو دوسری شکلیں ہیں اُن میں بھی آئے جیسے محدثیت ہے یہ بھی خلافت ہی کی ایک شکل ہے یا ان میں سے اولیاء اللہ اور مقربین الہی ہیں.اللہ تعالیٰ جن کو یہ کہتا ہے کہ اس محدود دائرہ میں اس تھوڑے سے وقت میں تم میرے بندوں کی اصلاح کرو اور میرے دین کی مدد کرو تو اگر اُن کا اپنا کوئی وجود ہو یا اگر اُن میں سے کوئی یہ سمجھے کہ میرا کوئی مستقل وجود ہے تو وہ احمق اور ہلاک شدہ ہے.روحانی لحاظ سے زندہ اور قائم اور زندگی دینے والے اور قائم رکھنے والے خدا تعالیٰ کے حکم (اصل تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اس کے حکم ) اور اس کے منشاء اور اس کے فیصلہ کے مطابق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی حتی و قیوم صفات کا آپ کو متصف بنا دیا ہے.تب ہی تو یہ فرمایا ہے کہ اے محمد ! تو دنیا کا نور ہے.تب ہی تو فرمایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کی طرف آؤ وہ تمہیں زندہ کرتا ہے.اگر آپ حق کی صفت کے مظہر اتم نہ ہوتے تو لوگوں سے یہ نہ کہا جاتا کہ اس آواز پر لبیک کہو کہ یہ تمہیں زندہ کر دے گی.پس عزم تو وہی ہے لیکن طفیلی طور پر نیابت میں دوسرے عزم بھی ہوتے ہیں.چنانچہ فَإِذَا عَزَمَ الامر کی رو سے جس وقت امام وقت کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ایک دوسرا گروہ بہک جاتا ہے یا جس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیصلے کیا کرتے تھے تو منافق اور کمزور ایمان والے بہک جاتے تھے.حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللهَ اس عہد کو جو انہوں نے کیا تھا اگر سچ کر دکھاتے اور اس موقع پر جو عزم کیا گیا ہے وہ اگر چہ ان کے خیالات اور ان کی خواہشات اور ان کی مرضی اور ان کی سہولتوں کے خلاف تھا تو پھر بھی وہ کہتے کہ طاعة کا ہمارا عہد ہے.یعنی ہمارا یہ عہد ہے کہ کسی صورت میں ہم اپنے منہ نہیں پھیریں گے اور پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے فرما یا فَلَوْ صَدَقُوا الله اگر وہ اپنے اس عہد کو پورا کر کے اپنے عہد میں سچے ثابت ہو جاتے ہیں لگان خَيْرًا لَّهُمْ تو ان کے لئے بھلائی ہی بھلائی کے سامان پیدا ہو جاتے لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر اُن

Page 314

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۰۴ سورة محمد کے لئے شر کے سامان پیدا ہوں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہیں اس طرح چھوڑ نا تو نہیں تم یہ سمجھتے ہو کہ جس طرح دُنیا بھول کر تمہیں ثابت قدم مجھتی ہے کامل اطاعت گزار بجھتی ہے.قول معروف پر کار بند بجھتی ہے.اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگار سمجھتی ہے.اُسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دے لو گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تو تمہیں سمجھتے ہیں ہم دنیا کو بھی بتا دیں گے کہ تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولنبلونکم ہم تمہاری ضرور آزمائش کریں گے اور اس سلسلہ میں یہ ابتلاء اور یہ امتحان اللہ تعالیٰ اپنے علم میں زیادتی کے لئے تو نہیں پیدا کیا کرتا یالا یا کرتا.یہ دوسروں کو دکھانے کے لئے لاتا ہے.خدا تعالیٰ کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ رہ ہی نہیں سکتی.کسی لحظہ بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی.یہ ابتلاء اور امتحان کیا خدا تعالیٰ خود جاننے کے لئے کرتا ہے (نعوذ باللہ ) کہ کیسی ہے اطاعت کیسا ہے اخلاص؟ کیسا ہے ایثار اور کیسی ہے فدائیت ! خدا تعالیٰ کو تو ان کا پہلے سے علم ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا سمجھ کر تم نے اپنے نفسوں کو دھوکا دیا کہ اگر ہم انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مجھے تو تم دھوکہ دے ہی نہیں سکتے.لیکن میں اپنے بندوں کو بھی تمہارے دھوکے میں پھنسنے نہیں دوں گا.تمہارے لئے ابتلاء پیدا کروں گا.تمہارے لئے امتحان لاؤں گا پھر دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ مجاہد اور صابر کون ہے اور وہ جو پارسائی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا اس کے اندر کتنا گند بھرا ہوا ہے ایسے شخص کا ظاہر تو تھا لیکن باطن نہیں تھا.اس کا چھلکا تو تھا لیکن مغز نہیں تھا اس کا جسم تو تھا مگر روح نہیں تھی.غرض ایسا شخص انسان کو بھی دھوکہ نہیں دے سکے گا کیونکہ خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ نگا ہو کر بے مغز ہونے کی صورت میں اور ایک ایسے جسم کی شکل میں جس کے اندر روح نہیں ہے.دُنیا میں وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے سامنے آجائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَوْ صَدَقُوا اللهَ.تمہیں چاہیے تھا کہ تم اپنے عہد کو سچ کر دکھاتے اور اس بات کے لئے کہ تم اپنے عہد کو سچ کر دکھاؤ تمہارے لئے ابتلاء اور امتحان کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں پھر فرمایا وَ نَبلُوا أَخْبَارَكُم.ہم تمہارے اندرونے کی بھی آزمائش لیں گے یعنی ظاہر بین نگاہ صرف ظاہر کی کمزوریاں نہیں دیکھے گی بلکہ ایک ظاہر بین اور صاحب بصیرت و بصارت تمہارے اندر کی یعنی اندرونے کی کمزوریاں بھی دیکھے گا کیونکہ تمہیں ننگا کر کے دُنیا کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور تمہاری ساری شیخیاں کرکری ہو کر رہ جائیں گی.اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا کہ اے ایمان کا دعویٰ

Page 315

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۰۵ سورة محمد کرنے والو! اطیعوا اللهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُول خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے چلے جاؤ.اس وقت تک کہ تم اس دُنیا میں آخری سانس لو اور میں اس تسلسل کا مفہوم وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ سے نکالتا ہوں چنانچہ وَلَا تُبْطِلُوا اعمالکم میں فرمایا کہ تم اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو.کیونکہ نیکی کو سوائے بدی کے اور کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی.بہر حال نیکی بدی کو ڈھانپ لیتی ہے.ہر نیکی بدی کا کفارہ بن جاتی ہے.ہر نیکی خدا تعالیٰ کی آنکھ میں قہر کو بدل کر پیار کے جذبات پیدا کر دیتی ہے.لیکن اگر عمر کے آخری حصے میں نیکی کی بجائے بدی اباء اور استکبار ہو تو گویا سب نیکیاں رائیگاں چلی گئیں سب ضائع ہو گئیں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! آخری وقت تک آخری سانس تک خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور رسول کے نائبین کی اطاعت کرتے چلے جانا تا کہ ایسا نہ ہو کہ ولا تبطلوا اعمالکم کی رو سے تمہارا انجام بخیر نہ ہو اور تمہارے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے اور تمہارے اعمال باطل اور ضائع ہو جائیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں شیطان کے اس شر سے محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں فرشتوں کے پہرے میں رکھ کر ہمارا انجام بخیر کرے اور دُنیا کی کوئی طاقت اور دُنیا کی کوئی قوت اور دُنیا کے سارے اموال مل کر بھی ہمیں جھوٹا ثابت کرنے والے نہ ہوں.( فَلَوْ صَدَقُوا اللہ میں جن کی طرف اشارہ ہے) کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے مطابق ہم سچے ثابت نہ ہوں بلکہ عِند اللہ بچے ثابت نہ ہونے والے گروہ میں شامل ہو جائیں بلکہ ہم اس گروہ میں شامل ہوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے مَن قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب : ۲۴) کیونکہ انہوں نے اپنے کام حسن سے، پیار سے، ایثار سے، فدائیت کے ساتھ اور عشق الہی میں مست ہو کر پورے کر دیئے اور اب وہ اپنے نیک انجام کو پہنچ گئے.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱۳۳ تا ۱۴۲) نیا سال نئی برکتوں ،نئی ذمہ داریوں کے ساتھ آ گیا ہے.ذمہ داریاں بھی پہلے سے بڑھ کر اور انعامات کے وعدے اور بشارتیں بھی پہلے سے زیادہ لے کر.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومن کسی جگہ ٹھہرتا نہیں بلکہ مقامات قرب میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ سورہ محمد کی اس آیت میں ہی جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ہدایت کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت کے مزید سامان ان کے لئے پیدا کر دیتا

Page 316

تفسیر حضرت علیله امسیح الثالث ۳۰۶ سورة محمد ہے.اھتدی کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو اپنی عقل اور فراست سے کام لیتے ہیں اور فطرت انسانی میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی جو Urge اور شدید خواہش پائی جاتی ہے اس کے مطابق قرب کی راہوں کو تلاش کرتے ہیں اور علی وجہ البصیرت اس مقام پر قائم ہوتے ہیں کہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس لئے وہ ہر وقت اور ہر آن اُسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہدایت کے نتیجہ کے نیک ہونے کے، بہترین کامیابیوں کے، رضا کی راہوں کو پالینے کے، اس کی رضا کو حاصل کر لینے کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں مزید نیکیوں کی توفیق بھی بخشتا ہے کیونکہ ہدایت کے معنی میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے مزید بڑی نیکیوں کی توفیق وہ عطا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ ایک مومن جب اپنی زندگی میں قرب کے بعض مقام حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید قرب کی راہیں اُسے دکھا دی جاتی ہیں پھر وہ مزید ترقیات کرتا ہے وَانهُم تَقُوبُهُمْ اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اپنے مقام قرب و ہدایت کے مطابق وہ معزز اور مکرم بن جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے فرما یا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقُكُمُ (الحجرات : (۱۴) اللہ تعالیٰ ان کے مناسب حال ان کی استعداد کے مطابق اور اپنی استعداد کو جس حد تک اُنہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا اس کے مطابق، ان کا تقوی اپنی نگاہ میں، ان کی عزت انہیں عطا کر دیتا ہے.اس آیہ کریمہ میں جو بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مومن کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ اس کو مزید رفعتوں کی طرف لے جاتا ہے اگر وہ حقیقی اور مخلص مومن ہو اور اس کی زندگی کا ہر نیا سال اسے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب کر دیتا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اسے زیادہ معزز بنا دیتا ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۵۵،۴۵۴) اُمت مسلمہ کو ان آیات میں ان بنیادی صداقتوں سے متعارف کرایا گیا ہے.ایک تو یہ کہ اگر امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے عملاً باہر نکلنے کی کوشش کرے تو ان کے اعمال کا موعود نتیجہ نہیں نکلے گا اور ان کے اعمال باطل ہو جائیں گے اور دوسرے یہ کہ دنیا جتنا چاہے زور لگا لے وہ امت مسلمہ پر ، اگر وہ امت اسلام پر حقیقی معنی میں قائم ہو کبھی غالب نہیں آسکتی.

Page 317

۳۰۷ سورة محمد تغییر حضرت علیلیه است الثالث علق اور غلبہ امت مسلمہ کے ہی مقدر میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے فرمایا وَ اللهُ مَعَكُمُ کہ ان کا ایک حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے اور جس کا حقیقی عاشقانہ اور عاجزانہ تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو اس کے نیک اعمال ، وہ اعمال جن کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں.جن اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا پہلے سے زیادہ حاصل ہوتی رہتی ہے اُن اعمال میں کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا ہر دوسرا جلوہ پہلے سے بڑھ کر حسین ، پہلے سے زیادہ عظیم ان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے پس ہمارے مقام کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے.خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۵۳۳، ۵۳۴) وو 6 آیت ۳۷ تا ۳۹ إِنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَ لَهُوَ وَ اِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْلُكُمْ اَمْوَالَكُمْ إِنْ يَسْتَلكُبُوهَا فَيُحفكُمُ تَبْخَلُوا وَ يُخْرِجُ أَضْغَانَكُمْ فَانْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ، فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ ۚ وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ ن نَفْسِهِ وَاللهُ الْغَنِيُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءِ وَ إِنْ تَتَوَلَّوا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غير كُم ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ ج اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جنہیں آسمان سے نور ملتا ہے اور عرفان عطا کیا جاتا ہے وہ جانتے ہیں کہ انما الحيوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَ لَهُوَ کہ دنیا اور اس کے اموال اور آرام اور اس کی آسائشیں باطل ہیں.محض کھیل کا سامان ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں اور جن کو کوئی ثبات نہیں.چند دن کی فانی لذات کے سوا کچھ بھی نہیں پھر یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو اس مقصد حیات سے پرے ہٹا دینے والی ہیں جس کی خاطر اس کے رب نے اسے پیدا کیا تھا.وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا اس کے مقابل اگر تم اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لاؤ اور حقیقت کو سمجھنے لگو اور تم سے جو مطالبے کئے جاتے ہیں تم ان کو پورا کرو اور تقویٰ کی باریک راہوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو ڈھونڈ و تو جو بطور قربانی تم سے لیا جاتا ہے وہ ضائع نہیں ہوگا بلکہ يُؤْتِكُمْ أجُورَكُم تمہارے اجر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے (نہ کہ تمہارے کسی

Page 318

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۰۸ سورة محمد استحقاق کے نتیجہ میں ) تمہیں عطا کرے گا.اور یہ اجر جو ہے وہ اس شکل میں ہوگا کہ وہ باقی رہے گا اور جو تو اب تمہیں ملے گا وہ بھی باقی اور دائم رہنے والا ہوگا تمہیں باقیات الصالحات دیئے جائیں گے اور تم اللہ تعالیٰ کی حقیقی نعمتوں اور ابدی حیات کے وارث بن جاؤ گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن چیزوں کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے ان میں تمہارے اوقات بھی ہیں ،ان میں تمہاری عزتیں بھی ہیں، ان میں تمہاری لذتیں اور آرام بھی ہیں، ان میں تمہاری وجاہتیں بھی ہیں، ان میں تمہارا وقار بھی ہے اور ان میں تمہارے اموال بھی ہیں اور چونکہ اموال کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس لئے شیطان فوراً بیچ میں آکو دتا ہے اور انسان کو بہکانے لگتا ہے لیکن وَلَا يَسْتَلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ وه مالک حقیقی جو تمہیں بہترین اجر دینے والا ہے وہ (نعوذ باللہ ) ایک سائل کے طور پر، وہ ایک بھیک منگے وہ اور فقیر کے طور پر تو تمہارے دروازے کے آگے کھڑا نہیں ہوتا انفاق فی سبیل اللہ کے مطالبہ کے وقت تمہارا رب بطور سائل، فقیر اور بھیک منگے کے طور پر تمہارے دروازہ پر نہیں آتا وہ تو ایک غنی اور ایک سخی اور ایک دیا لوہستی کی حیثیت میں تمہارے دروازے پر آتا ہے اور اپنی رحمت کے جوش میں خود چل کر تمہارے پاس آتا ہے وہ اس لئے آتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے ان بندوں کو اپنے قرب اور اپنی رضا کے لئے پیدا کیا تھا اس لئے اب میں ان کو وہ رستے بھی دکھاؤں گا کہ جن پر چل کر وہ میری رضا کو حاصل کر سکیں اور میرے قرب کو پاسکیں اس غرض سے وہ تمہارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے شیطان کہتا ہے کہ خدا فقیر ہے وہ تمہارے اموال مانگنے آیا ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے میں سخی ہوں، میں غنی ہوں، میں دیا لو ہوں، میں اس لئے آیا ہوں کہ میں تمہیں کچھ دوں میں اس لئے نہیں آیا کہ تم سے تمہارے اموال جس طرح ایک فقیر لیتا ہے اس طرح لے لوں.تو اللہ تعالیٰ جب ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے مالوں کی قربانیاں میری راہ میں دو تو ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ میں تمہیں واپس لوٹاؤں گا.میں تمہیں اَضْعَافاً مضعَفَةٌ دوں گا.تم دنیا کی فانی چیزیں جو میری ہی عطا ہیں میرے قدموں میں لا رکھو ابدی نعمتیں ان کے بدلہ میں تمہیں دی جائیں گی، میری رضا تمہیں ملے گی اور میری جنت میں تم داخل ہو گے تمہارا ثواب اور تمہارا اجر اپنی کمیت اور کیفیت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو وہ تم سے اموال کی شکل میں لیتا ہے.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ جو کچھ وہ ہم سے لیتا ہے وہ ہم اپنے گھر سے تو نہیں لاتے بلکہ وہ بھی تو اس کی عطا ہے.اس نے ہی وہ اپنے فضل

Page 319

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۰۹ سورة محمد سے ہمیں دیا ہوتا ہے اور وہی اپنے فضل سے ہمیں دنیا کے اموال کا مالک اور وارث بنا تا ہے اور پھر ہمیں کہتا ہے کہ جو میں نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تھوڑ اسا مجھے واپس دے دو کیونکہ جو میں نے اس دنیا میں تمہیں دیا تھا وہ فانی ہے اور ضائع ہونے والا ہے اس کے ایک حصہ کا میں مطالبہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ مجھے لوٹا دو تا وہ ذریعہ بن جائے ان ابدی اور غیر فانی نعمتوں کا جو تمہیں اُخروی زندگی میں ملنے والی ہیں.إِنْ يَسْتَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبخَلُواوہ ایک گدا گر اور بھیک منگے کی حیثیت سے تمہارا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتا ، وہ اس فقیر کی طرح مانگنے والا نہیں جس کے متعلق تم حق رکھتے ہو کہ اسے کہو بابا جاؤ ہم تمہارے کشکول میں بھیک نہیں ڈالتے بلکہ وہ تو آقا ہوتے ہوئے بھی ، وہ تو غنی ہوتے ہوئے بھی اپنی رحمت کے جوش میں تمہارے ہی فائدہ کے لئے تمہارے دروازہ پر آتا ہے اور ایک سچا اور سستا سود اتم سے کرنا چاہتا ہے.وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ فانی دو اور باقی پاؤ.ورلی زندگی کے کھوٹے سکے اور مصنوعی پتھر دے دو اور کھرے سکے اور اصلی لعل و جواہر لے لو وہ تو کہتا ہے بخل چھوڑ و، ہاں بخل چھوڑو کہ وہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيُخْرِجُ أَضْغَانَكُمُ اس کے مختلف معانی تفاسیر میں کئے گئے ہیں.ایک معنی تو اس کے یہ ہیں کہ یہاں یہ فرمایا کہ اگر بخل کا طریق تم اس الہی سلسلہ میں اختیار کرو گے تو اس سے تمہارے کچھ اور گند بھی ظاہر ہوں گے کیونکہ تمہارا بخل سے کام لینا بتا رہا ہوگا کہ تمہارے دل میں مخلصین کے لئے کینہ موجود ہے اور تم خدا اور اس کے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کے ساتھ دشمنی کے جذبات رکھتے ہو تم مال اس لئے نہیں دیتے کہ تمہارے بعض بھائیوں کی ضرورتیں پوری ہوں گی یا اللہ تعالیٰ کے دین کی یہ ضرورت پوری ہوگی کہ تمہارے وہ بھائی جوا اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر رہے ہیں وہ جہاد کے میدان میں نکلیں گے اور ان مالوں کو وہ خرچ کریں گے یہ محض بخل ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کینہ، اس کے پیچھے خدا اور اس کے رسول اور مخلصین سلسلہ کے ساتھ مخلصین اُمت مسلمہ کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے تو یہ بخل جو ہے یہ ظاہر کرے گا تمہارے اس کینے کو اور تمہاری جو قلبی بیماریاں ہیں ان کے ظاہر کرنے کا یہ ذریعہ بن جائے گا.دوسرے اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ دراصل اللہ تعالیٰ تین زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کر رہا ہے ان

Page 320

تفسیر حضرت علیہ السیح الثالث ۳۱۰ سورة محمد آیات میں تو یہاں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ جن لوگوں کے دلوں میں تربیت کی کمی کی وجہ سے اور ایمان کی کمزوری کے نتیجہ میں بخل پایا جاتا ہے وہ بخل ان کا دور ہو جائے گا اور اخلاص میں وہ ترقی کریں گے اور ایثار میں وہ اور بھی آگے بڑھ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے بن جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرنے والے ہو یا اس زمانہ میں رہنے والے ہو یعنی پہلی تین صدیاں جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اس زمانہ میں میرے متبعین میں بڑے مخلص لوگ پیدا ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی اور اسلام کی روشنی کو وہ دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں گے تو یہاں ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تربیت کا سامان پیدا کر دیا ہے، تمہارے دل کے اندر جو اضغان ہیں اور مختلف قسم کی بیماریاں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں صحت عطا کرے گا اور تمہارے دل کی ان بیماریوں کو وہ دور کر دے گا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانْتُمْ هُؤُلَاءِ تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ سنو اور ہوشیار رہو تم وہ لوگ ہو جن کو اس بات کی طرف بلایا جاتا ہے کہ تم ان راہوں میں خرچ کرو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جاتی ہیں.تم فی سبیل اللہ خرچ کرو، تم کو اس بات کی طرف بلایا جاتا ہے کہ تم فانی چیزوں کو دے کر ابدی سرور کے وارث بنو تم کو اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم اپنے اموال کا ایک حصہ کاٹ کر اشاعت قرآن کے لئے ، اشاعت اسلام کے لئے ، استحکام اسلام کے لئے اور تعلیم اسلام کو فروغ دینے کے لئے الہی سلسلہ کے خزانہ میں آکر جمع کر دو مگر فینكُم منْ يُبْخَلُ تم میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں لیکن جب دنیا کے کھیل کود کا معاملہ ہو اور ایسے اخراجات ہوں جن کے نتیجہ میں انسان لازماً خدا تعالیٰ سے غافل ہو جاتا ہے تو اس وقت بخل کا نام ونشان باقی نہیں رہتا بڑی دلیری سے خرچ کرتے ہیں.دنیا کی رسوم ہیں، رواج ہیں، بیاہ شادی کے اوپر وہ لغویات کی جاتی ہیں اور ان لغویات پر وہ خرچ کیا جاتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ ان آدمیوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنی بساط اور استطاعت سے آگے نکلتے ہوئے یہ خرچ کر رہے ہیں.اپنے لئے بھی دنیا میں ایک مصیبت پیدا کر رہے ہیں لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ آؤ غلبہ اسلام

Page 321

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۱۱ سورة محمد کے لئے مالی قربانیاں دیں تو کہتے ہیں کہ بڑی مجبوری ہے، بڑی ذمہ داریاں ہیں، بچوں کو پڑھا رہے ہیں، رشتہ داروں کو پال رہے ہیں اس میں ہمیں رعایت ملنی چاہیے لیکن بچوں کی پڑھائی اور رشتہ داروں کا خیال بد رسوم کی ادائیگی کے وقت ان کے دماغوں میں نہیں آتا تو جب دنیا کے لئے وہ خرچ کرتے ہیں، دنیا کے کھیل کود اور دنیا کے لھو کے لئے تو بے دریغ خرچ کر جاتے ہیں اور اموال کو ضائع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ تم آزاد ہو تم پر کوئی جبر مذہب نے عائد نہیں کیا اس لئے جو چاہو کرو لیکن یہ یاد رکھو کہ وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نفیسہ کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص بھی انفاق فی سبیل اللہ میں بخل سے کام لیتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ انفاق کا فائدہ اسے ہی ملنا تھا.اس کا ثواب اگر زید خرچ کرنے والا ہے تو بکر کو نہیں ملتا اگر زید بخل کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں جومحرومیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں وہ محرومیاں بکر کو حاصل نہیں ہوتیں تو اس بخل کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ثواب سے محروم کرتا ہے.اپنے نفس کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے کسی اور کو نہ فائدہ تھا انفاق سے، نہ ہی اس بخل کے نتیجہ میں کسی کو نقصان پہنچے گا خود اپنے نفس کو ہی ایسا شخص نقصان پہنچانے والا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اللہ غنی ہے اور تم فقراء ہو خدا تعالیٰ کو توکسی مال کی ضرورت نہیں وہ ہمیشہ سے غنی ہے وہ اس دن سے غنی ہے جب اس نے تم کو سورج کی روشنی سے فائدہ پہنچانے کے لئے اس کو پیدا کیا سورج کی پیدائش سے اس کو کوئی ذاتی نفع نہیں تھا یا اگر وہ اسے پیدا نہ کرتا تو اسے کوئی ذاتی نقصان نہیں تھا.وہ ہمیشہ سے غنی ہے لیکن ہمیشہ سے وہ بھی بھی ہے وہ بڑا د یا لوبھی ہے وہ بڑا رحم کرنے والا بھی ہے وہ بڑا خیال رکھنے والا بھی ہے.وہ بڑا پیار کرنے والا بھی ہے جو مخلوق لاکھ سال کے بعد یا دس لاکھ سال کے بعد یا کروڑ سال کے بعد پیدا ہونی تھی اس کا اس نے کروڑ سال پہلے یا دس لاکھ سال پہلے یالا کھ سال پہلے سے خیال رکھا باوجود غنی ہونے کے تو جہاں اس کی صفت غنا ازلی ہے وہاں اس کی رحمت بھی ہر وقت جوش میں رہتی ہے تو تمہیں کس نے کہا کہ وہ فقیر بن کر تمہارے دروازہ پر آیا اور اس نے تمہارا دروازہ کھٹکھٹایا فقیر تو تم ہو تم اپنی پیدائش سے پہلے بھی فقیر تھے کہ اگر تمہاری ضرورت کو اس وقت پورا نہ کیا جاتا اور آج سورج کی روشنی تمہارے اوپر نہ چمکتی تو تم بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتے مثلاً آنکھ کی بینائی سے تم

Page 322

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۱۲ سورة محمد محروم رہ جاتے تم اپنی پیدائش سے بھی پہلے فقیر تھے اور تمہارا رب تو ہمیشہ سے، ازل سے غنی ہے اور ابد تک غنی رہے گا لیکن کسی زمانہ کو بھی کیوں نہ لوتمہارا فقر، تمہاری احتیاج اپنے رب کی طرف تمہیں لاحق رہتی ہے تو جب تمہار اغنی، جب تمہار اسخی ، جب تمہارا دیالو، جب تمہارا نبخشن ہار رب تمہارے دروازہ پر آ کر تمہارے اموال کا مطالبہ کرتا ہے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ اسے مدنظر ہوتا ہے اس کا اپنا کوئی فائدہ اس کے اندر نہیں ہوتا اور اگر تم اس آواز پر لبیک نہ کہو اور قربانیوں کو دینے کے لئے اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس میں تمہارا اپنا نقصان ہے اور کسی کا نقصان نہیں ہے.اور وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ یا درکھو اگر تم ایمان اور تقویٰ کو اختیار کرنے سے اعراض کرو اور انفاق فی سبیل اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اسلام کی حمایت تو ضرور کرے گا اور اسلام کی حمایت میں اس دنیا میں جو اسباب کی دنیا ہے بہر حال غلبہ اسلام کے سامان وہ پیدا کرے گا اگر تم بخل سے کام لو گے تو وہ ایسی قوم پیدا کر دے گا جن کے دلوں میں بخل نہیں ہوگا خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لئے وہ اپنے مالوں کی قربانیاں کچھ اس طرح دیں گے کہ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے.اسلام کی حفاظت کا تو اس نے وعدہ کیا ہے وہ حفاظت تو اسلام کوملتی رہے گی تم نے اس مہم میں حصہ لے کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے.اگر اللہ کی آواز پر لبیک کہو گے تو اس کی رضا تمہیں مل جائے گی اور وہ نعمتیں تمہیں میسر آئیں گی کہ آج اس دنیا میں تمہارے تخیل میں بھی وہ نہیں آسکتیں.تمہارا ذہن بھی ان اشیاء تک نہیں پہنچ سکتا جن سے تمہاری جھولیاں اُخروی زندگی میں بھر دی جائیں گی تمہیں روحانی سیری نصیب ہوگی تمہارے دل میں جو خواہش پیدا ہوگی وہ نیک ہوگی اور وہ پوری کر دی جائے گی.تمہیں اپنے رب سے کبھی غلط قسم کا گلہ بھی پیدا نہیں ہوگا لیکن اگر تم اعراض کر جاؤ پیٹھ پھیر جاؤ تو ایک اور قوم اللہ تعالیٰ پیدا کر دے گا.تھم لا يكونوا أمثالكم پھر وہ تمہارے جیسے نہیں ہوں گے.وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمُ اس حصہ آیت میں ایک پیشگوئی ہوئی ہے جو بڑی شان سے پوری ہوئی اور جیسا کہ میں نے بتایا اس آیت میں تین زمانے مخاطب ہیں پہلی تین صدیاں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عام طور پر اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو دین

Page 323

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۱۳ سورة محمد کے معاملہ میں بخیل نہیں ہوں گے دوسرے بیچ کا زمانہ وہ ہزار سال کہ جن میں بخل کرنے والے بھی ہوں گےسخاوت کرنے والے بھی ہوں گے، وہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہوں گے اور خدا سے دور رہنے والے بھی موجود ہوں گے مگر اکثریت جو ہے وہ اس اعلیٰ مقام کو کھو چکی ہوگی اور ایک تنزل کے دور میں سے اسلام گزر رہا ہوگا تیسرے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی پیشگوئی ہے وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمُ اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہزار سالہ دور تنزل کے آخر پر جب مسلمانوں کی اکثریت خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اعراض کرنے والی ہوگی تتولوا ان پر صادق آ رہا ہو گا ایک اور قوم اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا جو ان جیسی نہیں ہوگی یعنی یہ تو انفاق سے گریز کرنے والے ہوں گے اور وہ جماعت احمد یہ انفاق کرنے کے بعد بھی یہ سمجھنے والے ہوں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے حضور کچھ بھی پیش نہیں کیا بالکل تضاد ہوگا دو قوموں کے کیریکٹر میں اور ان کی ذہنیت میں.تفسیر روح البیان زیر سورۃ محمد آیت ۳۹ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہاں وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ میں جس قوم کا ذکر ہے یہ کون سی قوم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں اس وقت سلمان فارسی بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا یہ اور اس کی قوم اور پھر آگے وہ حدیث آتی ہے کہ اگر ثریا پر بھی ایمان چڑھ گیا ہوگا تو فارسی الاصل مسیح موعود دوہاں سے بھی ایمان کو لا کر قرآن کریم کے معانی اور اس کے معارف کو زمین پر قائم کرے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت کے مطابق بڑی وضاحت سے بتا دیا کہ جس قوم کا اس آیت میں ذکر ہے وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وه جماعت احمد یہ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اسلام پر انتہائی تنزل کا زمانہ آئے گا اور مسلمان کہلانے والے دین کی راہ میں خرچ کرنے سے اعراض کرنے لگ جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت اور اس وقت سے اب تک جو زمانہ گذرا ہے اس میں آپ تمام مسلمانوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں خواہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے رہنے والے ہوں خواہ وہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے ہوں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اُمت مسلمہ کی انفاق فی سبیل اللہ کے لحاظ سے بالکل وہی حالت تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ سے

Page 324

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۱۴ سورة محمد اعراض کرنے والے ہوں گے اِلَّا مَا شَاء الله اس میں شک نہیں کہ بعض بڑے نیک آدمی بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل لیکن بڑی بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو شاید انفاق فی سبیل اللہ کے نام سے بھی آشنا نہ تھے دین کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرنے میں انہیں موت نظر آتی تھی دوسرے یہ پیشگوئی فرمائی کہ حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرما کر وہ ایک اور قوم پیدا کرے گا جو اس کی راہ میں اپنے اموال پانی کی طرح بہا دیں گے.شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ڈالنی پڑی تو آنہ آنہ دو دو آنہ لے کر یہ عادت ڈالی پھر بعد میں وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن وہ ان لوگوں میں سے اس جماعت میں داخل ہورہے تھے جن کے لئے خدا کی راہ میں ایک آنہ خرچ کرنا بھی دوبھر تھا پھر جب انہوں نے ایک آنہ پھر دو آنہ پھر چار آنہ پھر آٹھ آنہ پھر روپیہ پھر دس روپیہ دیا اور آخر وہ انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ سے مست رہنے لگے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ قوم بنادى يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ کہ جو انفاق فی سبیل اللہ بشاشت سے کرتے چلے جاتے ہیں.جس قوم نے اپنی یہ روایت بنائی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی راہ میں ان کا ہر سال پہلے سے آگے ہوگا اور ان کا ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا کبھی ایک جگہ کھڑا نہیں رہے گا پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ وہ قوم ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کہتا ہے.ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے جن کا تتولوا میں ذکر ہے بلکہ یہ ایک کنٹراسٹ (Contrast) ہوگا ایک نمایاں چیز ان کے اندر ایسی پائی جائے گی جو ان کو تم سے علیحدہ کر دے گی.ایک غریب چھوٹی سی جماعت ہے ہماری جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے اور غیر بھی جانتے ہیں پھر یہ توفیق ایک غریب جماعت کو کہاں سے ملی اور کس نے دی کہ وہ اسلام کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کریں اور پھر وہ کونسی ہستی ہے جس نے ان کے اموال میں اتنی برکت ڈالی کہ اگر آج ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو یہی غریب اور چھوٹی سی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ اتنی برکت ڈالتا ہے اس جماعت کی مالی قربانیوں میں کہ ہماری عقلیں بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن وہ ہمارے اموال میں برکت پر برکت ڈالتا چلا جاتا ہے آپ ایک دھیلہ دیتے ہیں اور ایک

Page 325

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۱۵ سورة محمد پہاڑ اس کا نتیجہ نکل آتا ہے جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بھی بتایا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریک جدید کا اجراء کیا تو پہلے سال قریباً ستائیس ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا تھا اور دس سال کے بعد جو اثر اور نتیجہ پیدا ہوا اس کا دنیا میں وہ یہ تھا کہ دس سالہ اس حقیر کوشش کے نتیجہ میں وہ زمانہ آیا کہ ۴۵ ء سے ۶۶ ء تک قریباً ۲۱ سال میں قریباً تین کروڑ روپیہ غیر ملکوں کی آمد تحریک جدید کو ہوئی یعنی یہ قوم غیر ملکوں میں بھی پیدا ہونی شروع ہو گئی ( يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ) تو صرف مرکز میں ہی ایسی قوم پیدا نہیں ہوئی بلکہ ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا ایک نمونہ بنی نوع انسان کو دکھایا کہ دیکھو تم نے بخل سے کام لیا تمہیں کیا ملا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو قربان کیا دیکھو یہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے کیا وہ ایک بدلی ہوئی قوم نہیں ہے کیا یہ وہ قوم نہیں ہے جن کے اعمال کے نتائج کو دیکھ کر انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ قوم ہے اس کی پیدا کردہ جماعت ہے یہ وہ جماعت ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیر کم کہ وہ تم میں سے ہوں گے ، وہ تم میں ہوں گے لیکن وہ اپنے ایثار میں تم سے علیحدہ ہوں گے وہ اسلام کی ہی ایک جماعت ہو گی لیکن جہاں تک ان کی قربانیوں کا تعلق ہوگا جہاں تک ان کی قربانیوں کے پھل اور ثمرہ کا تعلق ہوگا جو آسمانی حکم کے نتیجہ میں پیدا ہو گا تم میں اور ان میں کوئی مماثلت نہیں ہوگی تو اس قوم کو جس نے اپنے لئے یہ روایت قائم کر لی ہے کہ ان کا قدم ہر میدان قربانی میں (انفاق فی سبیل اللہ کے میدان میں بھی آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے (خطبات ناصر جلد اول صفحه ۶۱۰ تا ۶۱۸ )

Page 326

Page 327

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۱۷ سورة الفتح بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفتح آیت ۲،۱ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا خدا تعالیٰ کی چوتھی صفت مالک یوم الدین ہے اور یہ بھی اُم الصفات میں سے ہے.اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے دعویٰ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالکیت یوم الدین کے کامل اور اتم مظہر ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی کئی آیات میں اس کا ذکر ہے.اس وقت میں ایک آیت پڑھوں گا.قرآن کریم نے کہا.انا فتحنا لک فتحا مبینا اور اس فتح مبین اور فتح عظیم کی ایک بڑی زبر دست تجلی فتح مکہ کے موقع پر ظاہر ہوئی.اس دن ایک مالک اور قادر کی حیثیت سے (اللہ تعالیٰ کے مظہر ہونے کی حیثیت سے اس میں کوئی شک نہیں) آپ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے.عدل کرنے کے لئے بلکہ مالکیت کا جلوہ دکھانے کے لئے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھا.وہ لوگ جنہوں نے مگی زندگی کے تیرہ سال آپ کو اور آپ کے متبعین کو انتہائی تکالیف اور دُکھ پہنچائے تھے اُن سے کہا بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ اُنہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی توقع رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.اس وقت تک اہلِ مکہ یہ سمجھ چکے تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے بھی مظہر اتم ہیں.چنانچہ اس فتح عظیم کے دن جب کہ اہلِ مکہ کی قسمتوں کا فیصلہ ہو چکا تھا.آپ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ تمہیں معاف کیا اور معاف بھی کیا تو اس رنگ میں کیا کہ کہا میں تمہارے پاس نہیں ٹھہرتا کیونکہ اس سے میری اس صفت میں فرق آتا ہے.آپ اور آپ کے صحابہ کی جائیدادیں آپ کے وہ مکانات اور حویلیاں جو مکہ اور اس کے گرد و نواح میں چھوڑی تھیں وہ آپ نے واپس نہیں

Page 328

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۱۸ سورة الفتح لیں.آپ نے فرمایا میں خدا کا پیغام لے کر تمہاری طرف آیا تھا.تم نے مجھے قبول نہیں کیا اور تم نے ہماری جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور ہمیں مکہ سے باہر نکال دیا.اب میں خدا کی صفت مالکیت کا مظہر اتم ہونے کی حیثیت میں تمہارے پاس آیا ہوں.یہ جائیدادیں یہ مال و متاع یہ کوٹھیاں یہ حویلیاں سب تمہیں دیتا ہوں.یعنی مالک ہونے کے لحاظ سے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کسی چیز کا بھی تم سے بدلہ نہیں لیا جائے گا.جاؤ خدا کی فوج میں داخل ہو جاؤ اور خدا کی نعمتوں پر شکر بجالاؤ.پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاروں ام الصفات کے کامل اور اتم طور پر مظہر ہیں.یہ چاروں صفات وہ ہیں جس کا بیان ہمیں سورۃ فاتحہ میں نظر آتا ہے.ایک حدیث بھی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے لوائے حمد عطا کیا گیا ہے اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آپ ان صفات باری کے مظہر اتم تھے جو بنیادی طور پر سورہ حمد میں پائی جاتی ہیں.اُن کا آپ کو جھنڈ ا عطا کیا گیا ہے.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۲، ۵۹۳) آیت ۱۰۹ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا یہ دو آیات جو اس وقت میں نے تلاوت کی ہیں.ان میں سے پہلی آیت میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین صفات بیان ہوئی ہیں یا تین بنیادی کام جو آپ کے سپر د ہیں ان کا ذکر ہے جبکہ دوسری آیت میں تین بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین صفات کے نتیجہ میں امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول ! ہم نے تجھے شاہد بنا کر مبعوث کیا ہے شاہد کے معنے صفات باری پر گواہ کے ہیں اور یہ گواہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دوطور پر دی گئی ہے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لحاظ سے اور دوسری آپ کے اسوہ حسنہ کے لحاظ سے.صفات باری کے تعلق میں تاریخ نے پہلے انبیاء کی جو تعلیمات محفوظ کی ہیں اگر ان کا قرآن عظیم سے موازنہ کیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جس قدر وضاحت کے ساتھ جس قدر وسعت کے ساتھ جس قدر حسن کے ساتھ اور جس قدر دل موہ لینے والے انداز میں قرآن کریم نے صفاتِ باری کو بیان کیا ہے،اس

Page 329

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۱۹ سورة الفتح قدر اور اس قسم کا بیان پہلی کتب میں نہیں پایا جاتا تھا اس لئے کہ ابھی نوع انسانی انفرادی اور اجتماعی ہر دو اعتبار سے ارتقائی مدارج کو طے کر کے اس انتہائی رفعت تک نہیں پہنچی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ امت مسلمہ کے لئے مقدر تھی کیونکہ نوع انسان انتہائی رفعت کی تدریجی طور پر ترقی کر رہی تھی حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ انسان نے خدا کی صفات کے اپنے حالات اور استعداد کے مطابق کچھ جلوے دیکھے اور اس نور سے خود کو منور کیا.پھر دیگر انبیاء علیہم السلام ( شرعی بھی اور غیر شرعی بھی ) مبعوث ہوتے رہے اور وہ نوع انسان کو روحانی لحاظ سے ترقی پر ترقی دے کر ارتقاء کے مختلف مدراج میں سے گزارتے ہوئے اس درجہ تک لے آئے جس میں نوع انسانی نے (جس کی امت مسلمہ نمائندہ ہے ) حضرت نبی اکرم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ داخل ہونا تھا.پس قرآن کریم میں جس رنگ میں صفات باری کا ذکر ہے اس رنگ میں پہلی امتوں کے سامنے ذکر نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ اس کی حامل نہیں بن سکتی تھیں ان کے اندر اس کی استعداد اور طاقت نہیں پائی جاتی تھی.غرض تعلیمی لحاظ سے قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفات پر گواہی دی.قرآن کریم نے ہر صفت کو لیا اور پھر آگے اس کی تفصیلات کو بڑی وضاحت سے بیان کیا اس کے لئے شواہد پیش کئے.خدا تعالیٰ کی بعض ایسی بنیادی صفات ہیں (اشارہ ہی کر سکوں گا کیونکہ نفس مضمون کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ) جن کا تعلق سب صفات باری سے ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سورۃ ملک میں بیان فرمایا ہے کہ تمام صفات باری کی بنیادی صفت یہ ہے کہ ان کے جلووں میں انسان کو کبھی تضاد نظر نہیں آئے گا چنانچہ صفات باری کے جو مختلف جلوے نوع انسانی پر نازل ہوتے ہیں ان پر اجتماعی نظر ڈالی جائے تو واقعی ان کے اندر کوئی تضاد نظر نہیں آتا اس لئے کہ تضاد کا نہ ہونا صفات باری کی ایک بنیادی صفت ہے میرے خیال میں (جس رنگ میں قرآن کریم نے ان کو پیش کیا ہے اس رنگ میں ) پہلی شرائع میں اس قسم کی بنیادی صفات کا ذکر بھی کوئی نہیں ہوگا کیونکہ پہلے انسان کی روحانی حس اور روحانی شعور اس قابل نہیں تھا کہ ان باریکیوں کو سمجھ سکے.غرض ایک تو تعلیم کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے شاہد یا گواہ کے طور پر ہیں اور دوسرے آپ گواہ ہیں اپنے عمل کے لحاظ سے، اپنے نمونہ کے لحاظ سے کیونکہ صفات باری کا بیان نوع انسانی کے لئے محض ایک فلسفیانہ مضمون کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس بیان میں انسان کی

Page 330

۳۲۰ سورة الفتح تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث زندگی کو ایک خاص رنگ میں بدل کر رکھ دینا مقصود تھا اس پر انسان کو عمل کرنا تھا اور وہ یہی بنیادی تعلیم تھی جس کی جھلک انبیاء علہیم السلام کے ذریعہ نازل ہوتی رہی اور جو کامل طور پر حضرت محمد رسول اللہ ہے.صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوئی.انسان کو اس کا مظہر بننا ہے یہی انسانی زندگی کا مقصد.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان کو تعلیم دینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صفات باری کا مظہر بننے کی کوشش کریں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے شاہد ہیں اس معنی میں بھی کہ آپ نے کامل اور اتم طور پر اپنے وجود کو صفات باری کا مظہر بنا کر دنیا کو دکھا دیا گویا آپ کا وجود صفات باری کا مظہر اتم ہونے کی وجہ سے اس حقیقت کا گواہ ہے کہ صفات باری انسان پر جلوہ گر ہوتی ہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريت: ۵۷) چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں نوع انسانی نے عبد کامل کا ایک نہایت ہی حسین نمونہ دیکھا.کوئی دوسرا انسان نہ تو ایسا حسین نمونہ پیش کر سکتا تھا اور نہ ہی اس رفعت اور عظمت کو پاسکتا تھا.غرض جہاں تک صفات باری کا تعلق تھا اسے قرآن کریم میں بیان کر دیا.جہاں تک صفات باری کے بیان کی غرض کا تعلق تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عملی نمونہ سے اور صفات باری کا مظہر اتم بن کر دنیا کو دکھا دیا.گویا ہر دو اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے شاہد ہیں.پھر اسی آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ مبشر ہیں آپ دنیا کو بشارتیں دینے والے ہیں پھر آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ آپ نذیر ہیں.آپ دنیا کو ڈرانے والے، انتباہ کرنے والے اور بدیوں اور بد اعمالیوں سے روکنے والے ہیں جو باتیں اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بنا دیتی ہیں ان کو بتا کر دنیا کو ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والے ہیں.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تین بنیادی صفات ہیں جو اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اس کے مقابل امت مسلمہ پر (چونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے نتیجہ میں نوع انسانی کی بہترین نمائندہ ہے اس لئے اس پر ) تین ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں چونکہ آپ شاہد ہیں

Page 331

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲۱ سورة الفتح اس لئے فرمایا تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان لاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاؤ.اس بات پر یقین رکھو کہ آپ کے اسوۂ حسنہ پر چلنا نوع انسانی کے لئے ضروری ہے گویا آپ کی شاہد کی صفت کے مقابلہ پر عقلاً بھی اور شرعاً بھی انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے اور آپ کے اسوہ حسنہ پر چل کر سعادت دارین پائے.پھر چونکہ آپ مبشر ہیں اس لحاظ سے انسان پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ ان الفاظ میں مضمر ہے.وَتُعَزِّرُوهُ وَ تُوَقِّرُوهُ فرما یا آپ کی تعظیم کو دیکھ کر ، آپ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے آپ کے مشن کی کامیابی کے لئے کام کر و اسلام کی مدد کرو اور اس کی نصرت کرو آپ کی عظمت کا اقرار محض زبان سے نہیں کرنا بلکہ ساتھ عمل بھی کرنا ہے گویا اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تم اپنے قول اور عمل سے اس عظیم شریعت کی مدد کرو گے تو خدا کے پیار کو پالو گے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرما یا کہ تم خالی ایمان لے آؤ گے بلکہ فرمایا ہے کہ مبشرا کی حیثیت سے آپ کے ذریعہ دنیا کو جو بشارتیں دی گئی ہیں ان پر بھی یقین رکھو گے اور خلوص نیت کے ساتھ اپنے قول اور فعل کو آپ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بنا لو گے تو وہ بشارتیں تمہیں مل جائیں گی جو انسانیت کے محسن اعظم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو دی گئی ہیں.آپ کی تیسری صفت نذیر بیان ہوئی تھی اس کے مقابلہ میں انسان پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً و اصیلا کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے.تسبیح کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کی کمزوری اور نقص سے منزہ سمجھنا گویا اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے دوسرے معنے امام راغب نے مفردات میں یہ بیان کئے ہیں الْمَر السَّرِيعُ في عِبَادَةِ اللهِ تَعَالى...عَامَّا فِي الْعِبَادَاتِ قَوْلًا كَانَ اَوْ فِعْلًا اَوْ نِيَّةٌ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سرعت پیدا کرنا گویا تسبیح کا لفظ قولی و فعلی اور نیت کی عبادات کے لئے عام طور پر استعمال ہوتا ہے اور ان عبادات میں سرعت پیدا کرنا تسبیح ہے.غرض نذیر کے مقابلہ میں وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَاصِیلا میں بتایا کہ چونکہ بعض قسم کے افعال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے اس لئے تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ جب انذار کے حالات پیدا

Page 332

تفسیر حضرت خلیلة امسح الثالث ۳۲۲ سورة الفتح ہوں ، لوگوں کو بداعمالیوں سے ڈرایا جائے تو یہ امر تمہارے لئے نیکیوں کے بجالانے میں سرعت اور تیزی پیدا کر دے.پس یہ تین ذمہ داریاں ہیں جنہیں میں نے مختصراً اور کچھ تھوڑے سے موازنہ کے ساتھ بیان کر دیا ہے.شاھد کی صفت کے مقابلہ میں ایمان باللہ وایمان برسول کہا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تعلیمی لحاظ سے صفات باری کا جو بیان قرآن عظیم میں ہے وہ انسان کی تاریخ میں ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتا.اس لحاظ سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم معرفت صفات وشئونِ باری کے لئے قرآن کریم پر غور کریں اور صفات باری کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ صفات باری کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بداعمالیاں سرزد ہوتی ہیں جو توحید سے دور لے جانے والی اور شرک کے قریب کرنے والی ہیں.گویا پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کریم نے جس رنگ میں صفات باری کو بیان کیا ہے اس رنگ میں ان کا عرفان حاصل کرنا چاہیے.چنانچہ آج مہدی معہود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ صفات باری کا جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں بیان فرمایا ہے اور جو تفسیر قرآن عظیم ہے ان صفات کے بیان کو پڑھنا اور ان کو سمجھنا اور ان کو یاد رکھنا ہمارا فرض ہے گویا ہمیں عرفان صفات باری حاصل ہونا چاہیے...آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفت تھی مبشر ہونے کی.اس صفت کے مقابلہ میں تُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوہ کی رو سے تعزیر اور توقیر کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے المنجد میں عذر کے معنے ہیں النُّصْرَةُ مَعَ التَّعْظِیمِ یعنی کسی ہستی کی عظمت کے احساس کے ساتھ اس کی اعانت اور مدد کرنا.تعذروة میں ضمیر کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے لیکن چونکہ آپ کی ذات کو تو کسی انسان کی عزت و تکریم کی ضرورت نہیں کیونکہ پہلے انبیاء کی زبان سے بھی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ احکام الہی کے اجراء میں اپنے فعل اور نمونہ سے مدد کرو.گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد ہے اس کو کامیاب کرنے کے لئے عمل اور نمونہ کے ساتھ کوشش کرنا.اسی طرح تو قیر کے معنے عظم اور بجل (المنجد : زیر لفظ بجل) کے

Page 333

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۲۳ سورة الفتح کئے گئے ہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ قول و فعل اور نمونہ سے اس عظیم شریعت کی مدد کرو گے تو بشارتوں کو پالو گے اور خدا کے پیار کو حاصل کرلو گے.یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس قدر بشارتیں دی ہیں کہ پہلے انبیاء نے اس کا سواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی بشارتیں نہیں دیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بشارتیں تمہیں اس طرح نہیں ملیں گی جس طرح ایک آم کے درخت کے مالک کو ٹپکے کا آم پکنے کے بعد خود گر کر مل جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی بلکہ تمہیں اس کے لئے اسی طرح قربانیاں دینی پڑیں گی جس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے مقصد کے حصول کے لئے بے شمار قربانیاں دی اور اس راہ میں قسم قسم کے دکھ اور تکلیفیں اٹھائی تھیں.آپ کے صحابہ نے بھی آپ سے عشق و وفا کا اعلیٰ و عمدہ نمونہ دکھایا اور خدا کی راہ میں بڑی قربانیاں دیں.......تیسری بات جو پہلی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کے طور پر بیان ہوئی ہے وہ آپ کا نذیر ہونا ہے.آپ کی صفت کے مقابلہ میں امت مسلمہ پر صبح و شام تسبیح کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.تسبیح کے معنے ایک تو تنزیہ و تمجید کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے نقص، عیب اور کمزوری سے پاک سمجھنا اس کے دوسرے معنے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے مفردات امام راغب کی رو سے الْمَر السَّرِيعُ فِي عِبَادَةِ اللهِ تَعَالَى وَجُعِلَ ذَالِكَ فِي فِعْلِ الْخَيْرِ گویا عبادت اللہ کی طرف تیزی سے دوڑ کر اور سرعت کے ساتھ جانا اور خیر اور نیکی بجالا نا تسبیح کے معنوں میں شامل ہے نذیر کی صفت میں ڈرانے کا ذکر ہے یعنی بعض ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے یا اقوال شنیعہ کے نتیجہ میں یا منافقانہ اور کافرانہ نیتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بن جاتے ہیں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ ورنہ جب تم پر خدا کا غضب بھڑکتا ہے تو وہ ایسا سخت ہوتا ہے کہ انسان ایک لحظہ کے لئے بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں نذیر ہیں کہ آپ خدا کا غضب بھڑ کنے سے پہلے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہیں.ان کو ہوشیار کرتے ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری بنیادی صفت نذیر ہے.اس صفت کے مقابل میں مسلمانوں پر تسبیح کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.ان سے کہا گیا کہ وہ لوگ جو خدا سے دور جا پڑے ہیں اور اپنی

Page 334

۳۲۴ سورة الفتح تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اس دوری پر تسلی یافتہ ہیں.ان کو جب ڈرایا جائے اور تنبیہ کی جائے تو اس وقت تمہارا فرض یہ ہے کہ تم عبادات بجالانے اور نیکی کے کام کرنے میں پہلے سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ لگ جاؤ.اس لئے کہ جس وقت انذار ہوتا ہے یعنی کچھ لوگ بدیوں کی طرف جھکنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تنبیہ کے مورد ٹھہرتے ہیں قولاً یا فعلاً.اس وقت خدا کے مومن بندہ کے دل میں شیطان یہ وسوسہ بھی پیدا کر سکتا ہے کہ تُو بہت کچھ ہے دیکھ ! دوسروں پر خدا نے اپنا قہر نازل یا مگر تجھ پر نازل نہیں کیا چنانچہ اس قسم کے شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جو خدا کا نیک بندہ تھا اگر اسے ٹھوکر لگے تو بلعم باعور بن جاتا ہے.ایسی صورت میں خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار اس کی نفرت اور غضب سے بدل جاتی ہے.اس لئے ایسے حالات میں ساتھ ہی مومن کو بھی انذار کر دیا اور ہوشیار کر دیا کہ ایسے وقت میں تمہارے اندر کوئی فخر پیدا نہ ہو بلکہ تمہارے اندر پہلے سے بھی زیادہ عاجزی اور انکسار پیدا ہو.تم اس جذبہ کو بیدار رکھنے کے لئے کثرت سے تسبیح کرو.خدا تعالیٰ کو پاک و مطہر قرار دو اور اس حقیقت کو جان لو اور اسے ہر وقت پیش نظر رکھو کہ حقیقی پاکیزگی صرف خدا کو حاصل ہے.خدا کے علاوہ اس کی مخلوق میں سے یا انسانوں میں سے صرف وہی پاک ہے جسے خدا پاک کرتا ہے اور جس کی پاکیزگی کا اور جس کے تزکیہ کا اور جس کی تطہیر کا خود خدا اعلان فرماتا ہے انسان اپنے زور بازو سے، اپنے نفس کی طاقتوں کے بل بوتے پر پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتا.غرض خدا تعالیٰ سے دور ہو جانے والوں پر جب خدا کا غضب بھڑ کے یا ان کو تنبیہ کی جائے تو دیکھنا تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب کا جو مقام ہے کہیں شیطان کے ہاتھوں اسے چھینے جانے کا آغاز نہ ہو جائے ایسے موقع پر تمہیں فوراً خدا تعالی کی تشیع میں لگ جانا چاہیے.تمہیں خدا تعالیٰ کی تسبیح کی ڈھال کے پیچھے اپنے نفسوں کی حفاظت کرنی چاہیے.اندار کے موقع پر تسبیح کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے دور ہیں اور اس کے قرب اور پیار سے محروم ہیں ان کی بداعمالیوں میں سے کچھ اعمال خدا تعالیٰ کے مقربین کو دکھ پہنچانے والے ہوتے ہیں.اس واسطے خدا تعالیٰ انہیں ( دشمنان اسلام کو ) انذار کرتا ہے کہ ایسے کاموں سے باز آ جاؤ ورنہ قہری گرفت میں آ جاؤ گے گویا شیطان کا پہلا وار انسان کی روح پر ہے اور دوسرا وار خدا کے بندوں سے نفرت اور دشمنی کو ہوا دینا ہے یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ سے دور ہیں.وہ اس کے پیاروں سے پیار نہیں

Page 335

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲۵ سورة الفتح کرتے بلکہ ان سے نفرت سے کام لیتے ہیں.وہ انہیں تنگ کرتے اور ہلاک کرنے کے منصوبے بناتے ہیں چنانچہ ایسے ہی موقعوں پر اللہ تعالیٰ ان سے مثلاً یہ کہتا ہے إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ لیکن ہمیں یہ فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھنے لگ جانا کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نذیر ہیں اور اپنے سے پیار کرنے والوں سے دشمنی رکھنے والوں کو تنبیہ کرتے ہیں اس لئے ہم نے کچھ نہیں کرنا کیونکہ ہم پر وار نہیں ہوسکتا.نہیں! تم پر دشمن کا بھی اور شیطان کا بھی دو ہر اوار ہو سکتا ہے ایسے موقع پر تم نے خدا کی پناہ ڈھونڈنی ہے اپنے علم پر بھروسہ نہیں کرنا تم نے اپنی جرات پر تکیہ نہیں کرنا کیونکہ تم خود اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہو.علم و فضل اور جرات و بہادری خدا عطا فرماتا ہے.انسان صفات کو اپنے ماں باپ سے لے کر تو نہیں آتا یا اپنے خاندان اور قبیلے سے تو ان چیزوں کو حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی دین اور عطا ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے موقع پر اللہ کے سواکسی اور چیز پر بھروسہ نہ کرنا خدا کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا.صفات باری کے علم و عرفان میں ترقی کرتے رہنا اور تسبیح وتحمید میں مشغول رہنا یہ اعلان کرتے ہوئے کہ صرف خدا تعالیٰ ہی ہر کمزوری سے پاک اور ہر خوبی سے متصف ہے.گو یا خدا کا کوئی بندہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ مجھ میں کوئی کمزوری نہیں اس لئے دشمن خدا مجھ پر غالب نہیں آ سکتا.وہ تو یہی کہتا ہے کہ میں تو کلی طور پر کمزور ہی کمزور اور لاشی محض ہوں لیکن میں نے جس ہستی کا دامن پکڑا ہے وہ ہر کمزوری اور نقص سے پاک ہے اس کی یہ بنیادی صفت ہے کہ وہ ہر کمزوری اور عیب سے مبرا ہے میں اس قدوس ہستی کا دامن پکڑتا ہوں اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر اس کے سامنے جھکتا اور کہتا ہوں کہ اے میرے قادر و توانا خدا! ہم میں کوئی طاقت نہیں.نہ کوئی علم ہے نہ کوئی جتھہ ہے اور نہ کوئی جرات ہے.کچھ بھی نہیں.جو کچھ ہے وہ تجھ سے پایا ہے اور اس وقت تک رکھ سکتے ہیں جب تک تو چاہے اور فیصلہ فرمائے کہ ہم ان صفات سے متصف رہیں.ان صفات سے جنہیں تو پسند کرتا اور جن سے تو محبت کرتا ہے.( خطبات ناصر جلد پنجم ۱۵۳ تا ۱۶۴)

Page 336

Page 337

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۲۷ سورة الحجرات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحجرات b آیت ۸ وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الاَمرِ لَعَنِتُمْ وَلَكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّةَ إِلَيْكُمُ الْكَفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَبِكَ هُمُ الرَّشِدُونَ قرآن کریم نے تقویٰ کے اس معنی کو مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّةَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَبِكَ هُمُ الرُّشِدُونَ.یہاں بھی تقویٰ کے معنی ایک نہایت حسین پیرا یہ میں بیان کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ایمان کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کی وَ زَيَّنَه في قُلُوبِكُم اور تمہارے دلوں کو اس نے اپنے فضل سے اس حقیقت تک پہنچادیا کہ حقیقی روحانی خوبصورتی تقوی کے بغیر ممکن نہیں اور نہ روحانی بدصورتی سے تقویٰ کے بغیر بچا جاسکتا ہے.تو ایک طرف تقویٰ ہر حکم الہی کی بجا آوری میں بشاشت پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف ہر اس چیز سے نفرت پیدا کرتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکالنے والی اور اس کی ناراضگی کو مول لینے والی ہو.یہاں تقویٰ کے متعلق ہی ایک لطیف مضمون بیان ہوا ہے جس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا بہر حال یہ اشارہ کافی ہے.اسی وجہ سے سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی فرمایا تھا ھدی للمتقین اور سورہ بقرہ میں ایک دوسری جگہ آگے جا کے آیت ۱۹۰ میں یہ فرمایا وَلَكِنَّ الْبِرِّ مَنِ اتَّقَى - وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ کی تمام راہوں کو اختیار کرتا ہے یہاں اللہ

Page 338

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲۸ سورة الحجرات تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ البر کامل نیک وہ شخص نہیں جو اپنے اوقات کو نمازوں میں زیادہ خرچ کرتا ہے اپنے اموال کو خدا کی مخلوق کی محبت میں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے یا حج کرتا ہے یا رمضان کے روزے رکھتا ہے بلکہ کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ کی راہوں کا خیال رکھتا ہے جو شخص تقویٰ کی راہوں کا خیال رکھتا ہے باقی اعمال صالحہ یا اقوال پاکیزہ جو ہیں وہ اسی طرح اس سے نکلتے ہیں جس طرح ایک جڑ سے کسی درخت کی شاخیں نکلتی ہیں جس کی مثال دی گئی ہے تقویٰ کے سلسلہ میں ہی اور اس کے متعلق آگے جا کر میں کچھ بیان کروں گا.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کامل نیک (الپر ) وہ ہے جو تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہے اور فرمایا وَاتَّقُوا اللہ کہ بنیادی حکم تمہیں یہ دیا جاتا ہے کہ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو تمام نیکیاں بھی بجالاؤ گے اور تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.ایسی کامیابی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں، تقویٰ کے بغیر تم نہیں پاسکتے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۶۶،۶۵) آیت ۱۳ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْهُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ” نہ کرنے والی باتوں میں جو لغو کی بنیاد سے اٹھیں پھر بہت سی باتیں ہیں ان میں ایک ہے تجسس نہ کرنا.اللہ تعالیٰ نے فرما یالا تجسسوا عیب جوئی نہیں کرنا، دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرنا.اپنی فکر کرو.اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے رہو.محاسبہ تو ہر وقت خدا تعالیٰ سے عشق رکھنے والا انسان کرتا رہتا ہے کہ اگر کوئی چھوٹی یا بڑی غلطی سرزد ہو جائے، ہو چکی ہو، تو تو بہ کرے اور خدا تعالیٰ سے معافی مانگے.تو بہ کی بنیاد محاسبہ پر ہی ہے.اگر کسی نے محاسبہ نہیں کیا تو حقیقی تو بہ بھی اس کے نصیب میں نہیں ہوسکتی دوسروں میں عیب تلاش کرنا، اپنا وقت ضائع کرنا اور خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اس حد تک اس پر زور دیا کہ فرمایا جب ہم کہتے ہیں لا تجسسوا تو ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایمان کے دعوی کے ساتھ ( زبانِ قال سے یا زبان حال سے ) تمہیں سلام کہے ( کوئی شخص سفر کر رہا ہے، پیدل

Page 339

۳۲۹ سورة الحجرات تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث چل رہا ہے، رستے میں ایک شخص ملا اس نے سلام کیا) لَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء : ۹۵) تمہیں تجسس کرنے کی ضرورت نہیں.اس نے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے سلام کیا ہے.تم اسے مومن سمجھو تجسس کا نتیجہ تب نکلتا، اگر انسان عیوب کی سزا دینے کا اختیار رکھتا اور اس کی طاقت بھی ہوتی.تو جب نہ طاقت ہے نہ اختیار، تو بے نتیجہ ہے تجسس.جسے طاقت حاصل ہے اور جس کے اختیار میں ہے سزا دینا یا معاف کر دینا ، وہ تو اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے، اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں.جب تمہاری طاقت میں نہیں ، جب تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا اختیار نہیں دیا گیا تو تمہارا نجس کرنا بے مقصد، بے نتیجہ، اپنے وقت کا ضیاع اور دنیا میں فساد اور بدامنی اور معاشرے میں الجھن پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.اگر غور کیا جائے تو نہ کرنے والی باتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ لغو سے ہی تعلق رکھتی ہیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۵۶ تا ۴۵۷) آیت ۱۵ تا ۱۸ قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَا ۖ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا b أسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لا يَلتُكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ قُلْ اتَّعَلَّمُونَ اللهَ بدِينِكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ يَمُتُونَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوا قُلْ لَا تَسُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ b ط اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَيكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے قالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا استمنا کہ بعض ایسے مسلمان ہیں جو ایمان کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان کے دل ایمان سے خالی ہیں، اس لئے انہیں ایمان کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ اجازت ہے کہ

Page 340

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۰ سورة الحجرات وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ لیا کریں اگر چاہیں.سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ مومن کون سے ہیں اور ان کی بنیادی علامات کیا ہیں کہ جن کے دل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان سے خالی نہیں بلکہ ایمان سے بھرے ہوئے ہیں.چنانچہ اسی سورۃ کی اگلی آیت جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ وہ کون سے مومن ہیں جن کے دل اس کے ط نزدیک ایمان سے پر ہوتے ہیں.فرمایا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجْهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ هُمُ الصّدِقُونَ مومن وہ ہوتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں یعنی وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور پھر اس کے بعد کسی قسم کے شک اور شبہ میں مبتلا نہیں ہوتے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ سے اللہ کے رستہ میں جہاد کرتے ہیں.یہی لوگ اپنے دعوی ایمان میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بچے ہیں اوليك هُمُ الصدِ قُونَ.یہاں بچے اور حقیقی مومنوں کی دو بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں.ایک علامت تو یہ ہے کہ ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا کسی شک اور شبہ میں نہیں رہتے.کس چیز کے متعلق شک اور شبہ؟ اللہ تعالیٰ نے جو یہ عظیم کتاب اتاری ایک عظیم رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، تو اس میں اصولی طور پر ہمیں دو چیزیں نظر آتی ہیں.ایک بیان ہے اللہ اور اس کی صفات کے متعلق اور ایک بیان ہے انسان کے نفس اور انسان کی جو روحانی ترقیات کے لئے ضروری چیز میں تھیں یا ضروری اعمال تھے ان کے متعلق ، جن وقتوں پر وہ اعمال صالحہ بن جاتے ہیں ان کے متعلق بڑی تفصیل سے بیان کیا.اسے اور اس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ اگر اعمالِ صالحہ بجالاؤ گے اور تمہارے اعمال مقبول ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں تمہارے لئے روحانی جنتوں کا انتظام کرے گا اور تم خوف و خطر سے آزاد ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے لئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ گے.اللہ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی شکوک اور شبہات ہو جاتے ہیں.مثلاً اس کو قادر مطلق بھی سمجھنا اور اس کے علاوہ کسی اور کو اپنی تکلیفوں کو دور کرنے کا یا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی بنانا.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا وَ مَا يُؤْمِنْ أَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ (يوسف : ۱۰۷) ایمان بھی ہے اور شرک بھی ہے ایک ہی ساتھ.شک میں پڑ گئے نا کہ محض تو کل کافی نہیں ، تو کل باللہ کا فی نہیں قبر پہ بھی سجدہ کر لینا چاہیئے ، نا جائز پیسے دے کر بھی اپنا کام بنوالینا چاہیے، جھوٹ بول کر اپنی حفاظت کا

Page 341

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ٣٣١ سورة الحجرات ذریعہ ڈھونڈنا چاہیے وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے شرک بیچ میں آ جاتے ہیں.شرک اس وجہ سے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پورا تو کل نہیں ہوتا.شبہ ہوتا ہے پتا نہیں خدا ہمیں ہمارے حق دلوا بھی سکتا ہے یا نہیں.میں نے پہلے بھی بتایا ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ اس کے ایک عزیز پر قتل کا مقدمہ ہو گیا ہے.قتل ہوا تھا کوئی، قاتلوں کے نام بھی بیچ میں آئے کئی معصوموں کے نام بھی آجاتے ہیں ، غلط فہمیاں بھی ہو جاتی ہیں پیدا.لکھا کہ میرا عزیز جو ہے وہ بالکل بے گناہ ہے لیکن قتل کے مقدمے میں ملوث ہو گیا ہے اور سیشن جج نے پھانسی ، پنجاب کے ہائی کورٹ نے پھانسی ، سپریم کورٹ نے پھانسی سنادی.گورنر نے ہماری اپیل رد کر دی اور اب ہم پریذیڈنٹ صاحب کے پاس اپیل کر رہے ہیں اور وکلا کہتے ہیں کہ آج تک تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ ان حالات میں صدر مملکت اس قسم کی اپیل کو منظور کرلے.اتنا بھیانک انہوں نے نقشہ کھینچا ہوتا تھا اپنے خلاف کہ میرے دماغ میں پہلا خیال جو آیا وہ غلط تھا.دماغ میں یہ فقرہ بنا کہ ان حالات میں پھر جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کی رضا پر راضی رہو.تو اس وقت مجھے خدا کے فرشتے نے جھنجھوڑا کہ اپنے ایک احمدی کو تم اس وقت یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا.خیر میں کانپ اٹھا بڑی استغفار کی اور ان کو میں نے یہ لکھا کہ دعائیں کرو میں بھی دعا کروں گا.خدا تعالیٰ کے سامنے تو کوئی چیز انہونی نہیں ہے.جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے.میرا خط چلا گیا.کوئی دس پندرہ دن کے بعد ان کا خط آیا کہ وہ چھٹ کے ہمارے گھر آ گیا ہے.تو قرآن کریم نے تو اعلان کیا تھا.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ٤) ایک اور دوست ہیں اچھے بڑے زمیندار وہ اسی طرح کسی کیس میں ملوث ہوئے.ان کا پرچے میں نام آ گیا.ان کے گھر سے بڑی فکر مند ان کی اہلیہ صاحبہ آئیں اور بار بار کہیں دعا کریں ضمانت پر رہا ہو کے گھر آجا ئیں.بہت پیچھے پڑی رہیں.میں نے کہا دعا کریں گے.میں نے دعا کی تو مجھے بتایا گیا کہ ضمانت پر رہا ہو کے گھر نہیں آئیں گے بری ہو کے آجائیں گے.دوسری دفعہ آئیں تو میں نے انہیں کہا ضمانت کی ساری کوششیں چھوڑ دو پندرہ دن مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے ضمانت پر یہ شخص رہا نہیں ہوگا بری ہوگا اور انہوں نے میرے کہنے کے باوجود بڑی کوششیں کیں ادھر ادھر سے.ساری کوششیں ناکام.ضمانت پر رہا نہیں ہوئے بری ہو کے آگئے گھر میں.

Page 342

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۲ سورة الحجرات تو خدا تعالیٰ جو ہر قسم کی طاقتیں رکھنے والا ہے جو تد بیر اس نے بتائی ہے جو جائز طریقہ ہے کام کا اس سے نہیں روکتا وہ لیکن خدا تعالیٰ کو چھوڑ کرنا جائز طریقوں کی طرف رجوع کرنا یہ شرک ہے.ایمان باللہ بھی ہے اور مشرک بھی ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا ہے وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مشْرِكُونَ (يوسف: ۱۰۷) تو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق دل میں کوئی شبہ نہ رہے.ایک اس قدر کامل ذات اور صفاتِ حسنہ سے متصف ذات کہ انسانی دماغ تو اس کی محاورہ ہے ہمارا، گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.اتنی قدرتوں کا مالک ہے اس کو خوش رکھو.اس زندگی میں آزمائشیں بھی ہیں دکھ بھی ہیں.قانون دوسرا بھی چل رہا ہے مگر ہر دکھ کو وہ آرام میں تبدیل کر دیتا ہے.اب ۱۹۷۴ء میں بڑا دکھ پہنچا جماعت کو کوئی شک نہیں.میں نے کہا تھا ہنستے رہو اس لئے کہ ہماری ہنسی کا سر چشمہ یہ بشارت ہے کہ یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.اس سے بڑی اور کیا خوشخبری ہمیں مل سکتی ہے اور جماعت نے ہنستے ہوئے مسکراتے ہوئے وہ زمانہ گزار دیا اور ہر لحاظ سے اس قدر ترقی کی ہے کہ دنیوی لحاظ سے دنیا دار نگاہ دیکھتی اور حیران ہوتی ہے........تو یہ دعوی کہ ہمارا ایمان بھی ہے اور ہمیں شک بھی ہے کہ پتا نہیں ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں.کیسے نہیں ہوگا.جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان، اللہ کی ذات وصفات اور جو جلوے اس کے ظاہر ہونے ہیں ان کے اوپر ایمان بغیر شک اور شبہ کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوع انسانی کی بہبود کی خاطر ان کے اعمال میں صلاح اور نیکی اور تقویٰ پیدا کیا گیا ہے ان کے اوپر ایمان، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کئے بغیر آپ کے نقش قدم پر چلے بغیر تقویٰ کی کوئی راہ نہیں ہے.وہ ہے ایک راہ اور ولكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُم (الحج: ۳۸) خدا تعالیٰ کو تو تقویٰ پسند ہے پھر انعام اس سے حاصل کرلو.تو بہت ساری ہیں چیزیں لیکن اصل یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور صفات کا جو بیان ہمارے لئے وہ غیب ہے.خدا ہمیں نظر نہیں آتا اس کی صفات کے جلوے بعض کو نظر آتے ہیں بعض وہ بھی نہیں پہچانتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کو، آپ کی رفعتوں کو ، آپ کی بزرگی کو، آپ کے حسن کو اور نورکوکون پہچانتا ہے یعنی ساری دنیا تو نہیں اس وقت پہچان رہی.جو غیر مسلم یورپ وغیرہ کے نہیں پہچان رہے تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ پہچانے لگیں گے وہ.تو یہ زمانہ بھی اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ

Page 343

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۳ سورة الحجرات شروع ہو گیا.یہ ایک تو ہے کہ غیب کوئی نہیں، کوئی شک نہیں جو کہا گیا وہ پورا ہوگا.جس طرح خدا کی وحدانیت کو اور اس کی قدرتوں کو، اس کے غلبہ کو، اس کی عزتوں کے سرچشمہ اور منبع کو انسان کے لئے، قرآن کریم نے کہا اگر تم عزت چاہتے ہو فطرتِ انسانی میں ہے معزز بنا، قرآن کریم نے اس کو تسلیم کیا اگر عزت چاہتے ہوتو یا درکھو کہ حقیقی عزتیں خدا تعالیٰ سے ملا کرتی ہیں.دنیا والے جو ہیں وہ عزتیں نہیں دیا کرتے.کبھی دیتے ہیں ایک دن اگلے دن چھین لیتے ہیں مگر وفادار اگر ہے کوئی ہستی انسان کے لئے تو وہ اللہ کی ذات ہے.دوسری صفت بچے ایمان کی بتائی گئی ہے جہاد.جہاد اپنے صحیح، بچے اور وسیع معنی میں بہت سے پہلو رکھتا ہے لیکن اصل جہاد یہ ہے کہ ایک مقصود زندگی ہے ہمارا اور وہ ہے خدا کو پالینا اور اس کی رحمت کے سایہ تلے اپنی زندگی گزارنا، اس کا ہو جانا، اس کے دامن کو پکڑنا اس مضبوطی کے ساتھ کہ کوئی دنیوی طاقت اس دامن کو ہمارے ہاتھ سے چھڑا نہ سکے.تو وصلِ الہی ، رضائے الہی اس کا عبد بن جانا یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے اور جہاد کہتے ہیں اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش اور سعی کرنا، اپنا سارا زور لگا دینا کہ ہمیں یہ مقصد حاصل ہو جائے.خدا کہتا ہے کبھی اپنے اموال دو میری راہ میں.اموال دے دو اسی نے دیئے تھے وہ رکھتا بھی نہیں کئی دفعہ میں پہلے کہہ چکا ہوں خدا کہتا ہے کہ کبھی میں کہتا ہوں اپنی طاقتیں جو ہیں وہ میری راہ میں خرچ کر دو، کبھی میں کہتا ہوں اپنی جان جو ہے وہ میری راہ میں خرچ کر دو.کبھی میں کہتا ہوں اپنی عقل اور فراست کو ، فراست کی نشو ونما کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ اور پھر میرے قدموں میں لا کے ڈال دو.تو مالوں اور جانوں اور نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا نام جہاد ہے اور جہاد کا یہ بھی ایک چھوٹا سا حصہ ہے.بہت وسعتیں ہیں یعنی انسان کا اپنا کچھ نہ رہے سب کچھ خدا کا ہو جائے (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۷۰۱ تا ۷۰۶) ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومن وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یعنی اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا کرتا ہے اور ابتدائی ہدایت انہیں نصیب ہوتی ہے اور اسلام کے متعلق انہوں نے تھوڑا بہت جو کچھ سمجھا ہوتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر کے ہدایت کی راہ میں ترقی کرتے ہیں اور ترقی کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں.ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا پھر کوئی شک و شبہ ان کے

Page 344

۳۳۴ سورة الحجرات تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دل میں باقی نہیں رہتا.خدا تعالیٰ انہیں ہر معاملہ میں بصیرت عطا کرتا ہے.جس وقت انسان ایمان لاتا ہے تو قرآن کریم ہی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ شیطان اپنی سی کوشش شروع کر دیتا ہے بہکانے اور وسوسے پیدا کرنے کی.شیطان کے یہ وساوس اور اس کی یہ کوشش ایمان کی ہر سہ جہات سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ ایمان کے معنے کئے گئے ہیں زبان سے اقرار کرنا.دل سے یقین کرنا اور عمل سے یہ ثابت کرنا کہ جو دل میں بات ہے وہ پکی اور یقینی ہے.چنانچہ شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی زبان سے جو اقرار کرتا ہے اس میں روکیں ڈالے.بہت سے لوگوں کے لئے وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ ایمان ہوتے ہوئے بھی ان کے لئے ایمان کا اقرار کر نا مشکل ہو جاتا ہے اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اسلام لانے کے بعد اسلام کو چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع زمانہ میں ہوا جب کہ عرب بڑی کثرت کے ساتھ ارتداد اختیار کر گئے تھے.انہوں نے زبان سے بھی اسلام کا انکار کیا اور ان کے دلوں میں بھی ایمان باقی نہ رہا.پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اپنی کوشش میں یہ وار بھی کرتا ہے کہ بعض دفعہ جب آدمی مسلمان ہوتا ہے اور اقرار کرتا ہے میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اس اللہ پر ایمان لاتا ہے جس کی ذات اور صفات کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا ہے تو شیطان انسان کے دل میں شبہات پیدا کرتا ہے تا کہ اس سے ایمانی کمزوری سرزد ہو.وَ رَسُولِہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ اقرار بھی کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل ترین اور اکمل ترین مقام جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے محسن اعظم کی حیثیت سے ، انسانِ کامل کی حیثیت سے، ایک کامل اور مکمل اور قیامت تک قائم رہنے والی شریعت لانے والے نبی کی حیثیت سے، اس مقام کو میں پہچانتا ہوں.آپ بنی نوع انسان کے محسن اعظم ہیں.میں آپ کے احسانوں کو پہچانتا ہوں اور ان کی معرفت رکھتا ہوں.آپ کی ذات وصفات اور آپ کے حسن و احسان کے نتیجہ میں میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے تمہاری عملی زندگی میں اُسوہ حسنہ ہیں اس اُسوہ کے مطابق انسان اپنی زندگی گزارنے کا اقرار کرتا ہے اور پھر وہ عملاً اسی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے اور

Page 345

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۵ سورة الحجرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتا ہے.ایمان کا دوسرا حصہ دلی یقین سے تعلق رکھتا ہے یعنی دل میں ایمان کا پختگی کے ساتھ گڑا ہوا ہونا.شیطان انسانی دل میں بھی وسوسہ ڈالتا ہے وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈالے اور ایمان کی جڑوں کو جو انسان کے دل اور دماغ میں ہوتی ہیں اُن کو ہلا دے.عمل میں کمزوری پیدا ہو جائے اور دل میں شبہات پیدا ہو جائیں.اس میں وہ بعض دفعہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ ارتداد کے وقت میں ہوا.یہ ایک ایسی مثال ہے جو ایمان کے تینوں حصوں پر حاوی ہے.پس ثُمَّ لَم يَرْتَابُوا میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہدایت کے حصول کے بعد انسان دین کے میدان میں جتنا کچھ حاصل کرتا ہے اس کے مطابق جب وہ عمل کرتا ہے تو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرۃ:۳) کی رو سے گویا وہ تقویٰ کی راہوں کو سمجھتا اور ان پر کار بند ہوتا ہے.قرآن کریم اس کے لئے ہدایت اور تقویٰ میں اور زیادہ ترقی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.انسان کے دل پر جب شیطان کا یہ وار ہوتا ہے تو انسان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر رحم کرتے ہوئے اس کی حقیر کوششوں کو قبول کرتا ہے اور اسے بصیرت عطا کرتا ہے.اسے عزم دیتا ہے.اس کو ثبات قدم عطا کرتا ہے.ایمان اس کے دل میں اتنی پختگی کے ساتھ گڑ جاتا ہے کہ شیطان کے حملے ناکام ہو جاتے ہیں.ایمان کا تیسرا حصہ انسانی عمل سے تعلق رکھتا ہے.اس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (الانعام: ۵۱) کے مطابق جو کام کر کے دکھا دیا ہے تم اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو اس کے اوپر بھی شیطان حملہ کرتا ہے.کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھلا دیتا ہے.کبھی انسان کے عمل میں کمزوری پیدا کر دیتا ہے.کبھی دنیا کی لالچ کو نیکیوں کی راہ میں حائل کر دیتا ہے.کبھی اولاد کی محبت دین کے راستوں کو تنگ کر دیتی ہے اور دین سے فرار کی راہوں کو کشادہ کر دیتی ہے.بہر حال بے شمار طریقے ہیں جو شیطان استعمال کرتا ہے لیکن مومن تو خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کرتا ہے.وہ راہیں ہزار ہوں یا لاکھوں جن سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے مومن اس کا مقابلہ کرتا ہے اور اُسے شکست دیتا ہے اور ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا کے مقام پر پہنچ جاتا ہے.پھر اس میں یہ جرات پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمان ہونے کا اقرار کرے.اس کے دل میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.نہ اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے اور

Page 346

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نہ اس کے عمل میں کوئی کمزوری پیدا ہوتی ہے.۳۳۶ سورة الحجرات پھر فرمایا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ مومن یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے وہ خدا کا ہے اور اس کی راہ میں ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں یا اسی کی اجازت سے استعمال کرتے ہیں اور ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.خدا تعالیٰ یہ قربانی ہر وقت ہر انسان سے تو نہیں مانگتا لیکن کبھی مانگتا بھی ہے لیکن جب مومن خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو اس کے بعد پھر جتنا ہو سکتا ہے وہ خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر سب کچھ چلا جائے گا تب بھی خدا کو نہیں چھوڑیں گے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہیں چھٹے گا.ہم نے قادیان کو چھوڑا.اس وقت ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ ہم دیکھتے تھے ہمارے دین کی راہوں میں اس قسم کی رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں کہ ہم اس جگہ مرکزیت کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جیسا کہ پہلے بتایا بھی گیا تھا ہجرت کی اور ربوہ میں آبسے.اُسوۂ نبوی بھی یہی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے متبعین کے دین کی حفاظت کے لئے مکہ جیسے شہر کو چھوڑ دیا تھا جہاں خانہ کعبہ تھا جو ساری دنیا کو ایک کرنے کے لحاظ سے مرکزی نقطہ تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے لیکن اپنے دین کو نہیں چھوڑا آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے اپنی ساری جائیدادیں، ساری رشتہ داریاں اور سارے تعلقات اور ایسوسی ایشنز کو چھوڑ دیا اور آرام سے مدینہ چلے گئے اور جب مکہ کو چھوڑا تو پھر دنیوی ناطہ سے چھوڑ ہی دیا.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ جب مکہ فتح ہو گیا تو مسلمان اپنی جائیدادیں واپس لے سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں لیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس مدینہ چلے گئے.اگر حالات ایسے ہو جائیں تو اس اُسوہ پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے.اصل چیز یہ ہے کہ ایمان کے معاملہ میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہوتا.مومن کو بصیرت حاصل ہوتی ہے اور ثبات حاصل ہوتا ہے اور استقامت حاصل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے فرشتوں کی حمایت اور نصرت حاصل ہوتی ہے.مومن اپنے ایمان پر ایسے پختہ ہوتے ہیں کہ دنیا کے زلزلے ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں پیدا کر سکتے ، ان کو ہلا نہیں سکتے.

Page 347

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۷ سورة الحجرات اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ فرمایا ہے قُلُ اتَّعَلَّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر نفس اپنے متعلق سب سے زیادہ علم رکھتا ہے مثلاً انسانی خیالات ہیں.بہت سے انسانی خیالات صحیح ہوتے ہیں.انسان کے دل میں جوش اور قربانی کا جذ بہ بھی پیدا ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ شبہ والے خیالات بھی پیدا ہوتے ہیں.کمزوری والے بھی پیدا ہوتے ہیں.ڈر والے بھی پیدا ہوتے ہیں.عملاً بعض دفعہ انسان ڈرتا نہیں لیکن اس کے دماغ میں آتا ہے اب کیا ہوگا.کئی لوگوں کو یہ خیال آ جاتا ہے اب کیا ہوگا لیکن مومن اس کو ظاہر نہیں ہونے دیتا.وہ خود تو جانتا ہے کہ اس کے دماغ میں یہ خیال آیا تھا.انسان کے دل کے اندر بعض دفعہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے خواہ معمولی سا ہوتا ہے لیکن وہ کسی کو بتا تا نہیں.وہ اپنے ایمان پر پختگی سے قائم رہتا ہے لیکن وسوسہ تو پیدا ہوتا ہے.مومن اس کو جھٹک دیتا ہے.دل سے نکال کر پرے پھینک دیتا ہے.اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کے دل میں یہ کیفیت پیدا ہوئی تھی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے نجات حاصل کر لی.انسان سے بعض دفعہ بہت سی کمزوریاں سرزد ہو جاتی ہیں اور وہ ظاہر نہیں ہوتیں تو کوئی شخص بھی دوسرے کے متعلق علم نہیں رکھتا جتنا خود انسان اپنے متعلق علم رکھتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے باوجود اس کے کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے العَلِمُونَ اللهَ بدِینکم مگر جہاں تک خدا کا سوال ہے کیا تم خدا کو بتاؤ گے اپنے دین کے متعلق کہ تم بڑے پکے مسلمان اور دیندار ہو؟ گودوسرے لوگوں کی نسبت تمہارا اپنی ذات کے متعلق علم زیادہ ہے اس لحاظ سے تم اعلم ہو.اپنے نفوس کو زیادہ جاننے والے ہولیکن جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے تم نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کی نسبت تم اپنے نفس کو زیادہ جانتے ہو.تمہارے ظاہر و باطن کو اللہ تم سے بھی زیادہ جانتا ہے.میں نے ایک دفعہ خطبہ دیا تھا میں سمجھتا ہوں اخبار الفضل اسے دوبارہ شائع کرے.میں نے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے حوالے سے بتایا تھا کہ کس طرح ہر آسمان پر ایسے فرشتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کو مثلاً پہلے آسمان تک لے جا کر خدا کے حضور پیش کرنا ہوتا ہے.بعض لوگوں کے متعلق ایسے فرشتوں کو بھی غلط نہی ہوتی ہے کہ ان کے بڑے اچھے اعمال ہیں لیکن خدا تعالیٰ

Page 348

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۸ سورة الحجرات فرشتوں سے کہتا ہے ان کے منہ پر مارو ان کے اعمال کیونکہ ان کے اندر ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جنہیں خدا تعالیٰ قبول نہیں کرنا چاہتا اور فرشتوں سے کہتا ہے ایسے اعمال کو اٹھا کر باہر پھینک دو.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم میں سے ہر شخص اپنے متعلق بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کی دینی حالت کیا ہے حالانکہ ہر شخص اپنے متعلق سب سے زیادہ جانتا ہے تو جن لوگوں کے متعلق تم اپنے نفس کی نسبت کم جانتے ہو ان کی دینی حالت کے متعلق کس طرح فتویٰ دے سکتے ہو؟ پس کوئی شخص دوسرے کے متعلق فتوی دے ہی نہیں سکتا کہ اس کی ایمانی کیفیت کیسی ہے، خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.غرض ان آیات میں بڑا عجیب مضمون بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتَّعَلَّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ کیا تم اپنے نفس کے متعلق ، اپنے دین کے متعلق خدا کو بتا سکتے ہو؟ جب ایسا نہیں کر سکتے تو پھر تم دوسروں کے متعلق کیسے بتا سکتے ہو کہ ان کی دینی حالت کیا ہے.آیا ان کے اعمال کو خدا نے قبول کرلیا.ان کے دل کی حالت کو پکے مسلمان کی حالت کے مطابق پایا اور اس کے اقرار میں کوئی بناوٹ اور کوئی تصنع نہیں پایا.پس تم دوسرے آدمی کے متعلق کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ اپنے متعلق بھی نہیں کہہ سکتے.وَاللهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِیمٌ آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز خدا تعالیٰ کے علم کامل سے پوشیدہ نہیں وہ ہر چیز کو جانتا ہے ( مگر تم نہیں جانتے ).اسی تسلسل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَمُنُونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَسُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ فرمایا بعض لوگ تم پر اپنے اسلام کا احسان جتلاتے ہیں.ایسے گروہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں تو نہیں ملتے.قرآن کریم کی شریعت تو قیامت تک ممتد ہے اس لئے ایسے لوگ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنے اپنے وقت میں یہ احسان جتاتے رہیں گے کہ ہم قربانی کرتے ہیں.ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں فدائیت اور ایثار کے نمونے پیش کرتے ہیں.تم کس پر احسان جتاتے ہو خدا پر تو احسان نہیں جتایا جاسکتا کیونکہ تم نے جو کچھ اس کے حضور پیش کیا ہے وہ اسی نے تو تمہیں دیا تھا اسی میں سے تم نے واپس کیا تم نے خدا پر کیا احسان کیا ہے.اگر کسی اور کی خاطر کیا ہے تو وہ تمہاری کوئی نیکی نہیں.وہ اسلام نہیں پھر تو وہ خوشامد ہوگی.پھر تو وہ ریا کاری ہوگی.پھر تو وہ دنیا داری ہوگی.وہ تقویٰ اور طہارت تو نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ بات سچ ہے کہ واقع میں تم پکے اور بچے اور حقیقی مسلمان ہو اور خدا تعالیٰ

Page 349

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۹ سورة الحجرات نے تمہیں ان هديكم لِلإِيمَانِ ایمان کی راہوں کی طرف ہدایت دی ہے تو یہ تو خدا کا تم پر احسان ہے.تمہارا تو خدا پر کوئی احسان نہیں اور پھر اس سے اگلی آیت میں وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ پر اس سارے مضمون کو ختم کیا ہے فرمایا جو تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق حکم لگانا انسان کا کام ہی نہیں وہ تو مالک ہے جس کو چاہے بخش دے جس کو چاہے نہ بخشے یہ میرا اور تمہارا کام ہی نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض اصول اور اپنی سنت اللہ کے و وام طور پر بعض چیزیں بتائی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہوں تم جو بھی عمل کرتے ہو ان کی اچھائی اور برائی ان کا ظاہر اور باطن مجھ سے پوشیدہ نہیں یہ میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کا فرتم نے یہ فیصلہ نہیں کرنا.مثلاً جہاں تک جزا وسزا کا تعلق ہے جب ہم مرنے کے بعد اٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں فیصلے ہوں گے تو پھر وہاں پتا لگ جائے گا کہ کون مومن ہے اور کون کا فر ؟ کیونکہ کسی کے ایمان اور کفر کا فیصلہ تو خدا نے کرنا ہے اپنے زور پر تو کسی نے نہ جنت میں جانا ہے اور نہ کسی نے جنت میں جانے سے کسی دوسرے کو روکنا ہے یا پھر بعض اصول ہیں جو قرآن کریم نے بتائے ہیں مثلاً یہ کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود خدا تعالیٰ بتا دیتا تھا کہ یہ منافق ہے.بعض لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ بتا دیتا تھا کہ یہ ہیں تو منافق مگر ابھی کسی کو بتاؤ نہیں.کسی کے متعلق خدا تعالیٰ بتا دیتا تھا کہ یہ جنتی ہے اس کا انجام بخیر ہو گا لیکن اسے بتاؤ نہیں ، اس کو چلنے دواسی طرح.پس یہ تو خدا تعالیٰ کی شان ہے بندوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں...پس یہ جو آیات میں نے اس وقت پڑھی ہیں ان میں اس مضمون کا تسلسل ہے اور یہ ایک بڑا لطیف مضمون ہے جو بیان ہوا ہے.ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ مومن کون ہوتا ہے؟ فرمایا مومن وہ ہے جو اللہ کی معرفت حاصل کرے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع مقام کو پہچانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کی راہ پر چلتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائے کہ ثُمَّ لَم یر تابوا اس کے دل میں کوئی شک اور شبہ باقی نہ رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے تفصیل سے بتایا ہے شیطان کے سارے حربے اور ہر سہ قسم کے وسوسے ناکام ہوں یعنی انسان کا خدا اور اس کے رسول پر جو ایمان ہوتا ہے جس کا وہ زبان سے اقرار کرتا ہے دل میں اس کے بارہ میں یقین ہوتا ہے اور عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ جو بات اس کے دل میں ہے وہ سچی ہے، اس میں کمزوری پیدا

Page 350

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۰ سورة الحجرات کرنے کے لئے شیطان حملے کرتا ہے وہ حملے ناکام ہو جا ئیں اور پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ کے حضور ہر چیز پیش کر دی جائے.پھر وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللہ کی رُو سے انسان یہ عہد کرتا ہے کہ اے خدا! ہر چیز تیری ہے جسے ہم تیرے حضور پیش کر دیں گے.پھر وہ کبھی کروڑ میں سے ایک پیسہ مانگ لیتا ہے اور کہتا ہے باقی تم اپنے پاس رکھ لو اور کبھی وہ پانچ ہزار میں سے پانچ ہزار لے جاتا ہے.ایک شخص کا ایک ہی مکان ہے اسے جلا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے الْحَمدُ لِلَّهِ - رَضِيْتُ بِاللهِ رَبِّا.مکان جل جانے کی وجہ سے اپنے رب کو تو نہیں چھوڑتا.ایسے موقع پر مومن کہتے ہیں ہم اپنے رب پر راضی ہیں.پھر فرما یا أوليكَ هُمُ الصّدِ قُونَ جو لوگ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صادق ہوتے ہیں ان کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی ہوتے ہیں.پھر اس شبہ کا ازالہ کیا کہ محض ظاہری اعمال کافی نہیں.قُلْ اتَّعَلَّمُونَ اللَّهَ بِدِینِكُم خدا کو میں نے اپنے دین کے معاملہ میں کچھ نہیں بتانا وہ تو علام الغیوب ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے بتانا ہے کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے.قُلْ اتَّعَلَّمُونَ اللهَ دینکم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں اپنے متعلق بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ خدا مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے.اس کے علم کا کوئی اندازہ ہی نہیں.میرے علم کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں.وہ علام الغیوب ہے.آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اس کو جاننے والا ہے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے.کیا میں اس خدا کو بتاؤں گا جو علام الغیوب ہے لیکن میں نے اس سے یہ علم حاصل کرنا ہے کہ وہ مجھ سے پیار کرتا بھی ہے یا نہیں یا پیار کرتا ہے تو کتنا پیار کرتا ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۴۴۳ تا۴۵۳)

Page 351

تفسیر حضرت خلیلة السبع الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۴۱ سورة ق بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ق آیت ۱۷ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ پس ایک لحاظ سے خدا تعالیٰ قریب ہے.جیسا کہ فرمایا کہ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اور پھر فرمایا وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ اور بہت سی آیات ہیں جو بتاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کے کتنا قریب ہے گویا خدا تعالیٰ کا جو نور ہے اس کا کائنات کے ہر ذرہ سے ایک پختہ تعلق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تعلق قائم نہ رہے اور جہاں وہ تعلق نہ رہے وہاں فنا آ جاتی ہے.وہ چیز جو خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرے وہ قائم نہیں رہ سکتی.جب اس کا ئنات پر فنا آتی ہے چھوٹے پیمانے پر بھی اور بڑے پیمانے پر بھی تو وہ فنا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نور کا تعلق اس سے قطع کر لیتا ہے تب اس چیز پر فنا آ جاتی ہے لیکن اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کی رو سے انسان میں بھی خدا تعالیٰ اپنے نور کے ساتھ موجود ہے.پس اس لحاظ سے انسان کے ساتھ اس کا بہت گہرا تعلق ہے پاکیزگی اور طہارت کے ذریعہ.اس کے باوجود انسان کی جو مادی ترکیب ہے اور اس کا جو مادی وجود ہے وہ اپنی ہیئت کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے نور سے اتنا دور ہے اور اتنے فاصلے پر ہے کہ اس کو پھلانگنا نہ انسان کی کسی طاقت کا کام ہے اور نہ اس کی عقل کا کام ہے، آپس میں بہت زیادہ بعد ہے.قرب ہے تو ایسا کہ کوئی ذرہ بھی خدا کے نور سے خالی نہیں کیونکہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اور بعد ہے تو اتنا کہ انسان کی کیا مجال جو یہ کہے کہ میں خدا ہوں اس سے ملتا جلتا ہوں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۰۹،۲۰۸)

Page 352

تفسیر حضرت علیلة اسبح الثالث ۳۴۲ سورة ق آیت ۳۳، ۳۴ هذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابِ حَفِيظٌ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ.جنت جو ہے وہ متقیوں کے قریب کی گئی ہے.اس کے ایک معنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کئے ہیں تفسیر صغیر کے نیچے نوٹ میں کہ دین اسلام کی تعلیم کو اس طرح وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر آخری زمانہ میں بیان کر دیا جائے گا کہ انسان کا دل یہ محسوس کرے گا کہ را ہیں روشن ہو گئیں.ان کو اختیار کرنا میرے لئے آسان ہو گیا.اس لئے جنت میرے قریب ہوگئی.دوری صرف فاصلہ کی نہیں ہوتی.دوری جہالت کی بھی ہوتی ہے.اگر ایک میل آپ نے جانا ہوتو ایک فاصلہ ہے لیکن آپ کو راستہ نہ آتا ہو.تو وہ ایک میل جو ہے بیس میل بھی بن جاتا ہے.بیس میل کا چکر لگا کے.کئی ڈرائیور ہیں جن کو راستہ نہیں آتا.ہمارے ایک ڈرائیور جب بھی ہمارے ساتھ گئے ہیں پنڈی.راستہ بھول جاتے ہیں جو بتانا پڑتا ہے.ایک دن وہ کہنے لگے مجھے آتا ہے راستہ، آپ نہ بتا ئیں.تو جس جگہ ہم نے جانا تھا.وہ اس موڑ سے بمشکل پونے میں تھی میں نے کہا اچھی بات ہے.ہم تمہیں نہیں بتاتے لے جاؤ انہوں نے کوئی سات آٹھ میل کا چکر دیا پھر وہاں پہنچے.تو دوری اور بعد جو ہے وہ صرف فاصلے سے نہیں ہوتا بلکہ عدم علم اور جہالت کے نتیجہ پر بھی بعد پیدا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ جنت کی راہوں کو اتنا روشن کر دیا جائے گا کہ مومن کا دل سمجھے گا کہ جنت میرے قریب آگئی ہے.میں اندھیروں میں بھٹکتا نہیں پھروں گا.واضح راستے ہیں جو میرے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں.اگر میں ان پر چلوں تو میں اپنے رب سے امید رکھوں گا کہ وہ مجھے اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا.هُذَا مَا تُوعَدُونَ اس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.لحل آواب اس شخص کے لئے وعدہ کیا گیا ہے جو بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور شریعت کا محافظ ہے.شریعت کے ہر حکم کو بجالا نا ضروری سمجھتا ہے.اور اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ

Page 353

تفسیر حضرت علیلة اسبح الثالث ۳۴۳ میرا فرض ہے کہ میں اس بات کی حفاظت کروں کہ شریعت کا یہ حکم تو ڑا نہیں جاتا.سورة ق (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ (۱۹) پس ایک مربی کو دوسروں کی نسبت زیادہ گداز دل ہونا چاہیے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دعوی کرتے ہو کہ ہماری اس شریعت کی حفاظت کا کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے تو اس دعویٰ کا جو تقاضا ہے اسے پورا کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِ أَوَّابٍ حَفِيظ.مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبِ یعنی میرا یہ وعدہ ہے کہ اس دنیا میں بھی جنت بعض لوگوں کے اس قدر قریب کر دی جائے گی کہ وہ اس دنیا کی حسوں کے ساتھ اسے محسوس کرنے لگیں گے اور میرا یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے ہے جو میرے حضور جھکتے ہیں.اوّاب ہیں اور (حفیظ ) وہ صرف منہ کے دعویٰ سے شریعت کی حفاظت کرنے والے نہیں بلکہ وہ صحیح طور پر اور حقیقی معنی میں شریعت کی حفاظت کرتے ہیں جہاں تک ان کی زندگی کا تعلق ہے وہ شریعت پر عمل کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے وہ معروف کا حکم دے کر اور منکر سے روکنے کے ساتھ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شریعت کی حفاظت وہی شخص کر سکتا ہے (مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَ جَاءَ بِقَلْبِ منیب ) جسے رحمان خدا اس کی کسی خوبی یا عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض بخشش اور عطا کے طور پر ایک گداز اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کی عظمت کو پہچاننے والا دل عطا کرتا ہے اور خشیت کا یہ دعویٰ محض ایسا دعویٰ نہیں جو صرف لوگوں کے سامنے کیا جائے بلکہ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ اس کی تنہائی کی گھڑیاں اور اس کا باطن اس کے ظاہر کو اور اس کے ان لمحات کو جو وہ اجتماعی طور پر گزارتا ہے جھلاتا نہیں.مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ جس طرح اجتماع میں ، لوگوں سے میل ملاقات اور معاشرہ کی ضروریات پورا کرتے وقت وہ اپنے دل کی خشیت کو اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تنہائی کی گھڑیوں میں اپنے رب کے حضور اس کی عظمت کا اقبال کرتے ہوئے اور اس کے جلال کا احساس رکھتے ہوئے وہ اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا اور اس کے مطابق اپنے رب کے حضور اوّاب بنتا ہے.یہ وہ قلب ہے جسے قلب منیب کہا جاسکتا ہے اور یہ وہ قلب سلیم اور قلب منیب ہے جو ایک مربی کے دل میں دھڑکنا چاہیے.اگر ایک مربی کے دل میں ایک قلب منیب نہیں دھڑکتا اگر اس کا دل تنہائی کے لمحات میں بھی خشیت اللہ سے بھرا ہوا اور لبریز نہیں

Page 354

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۴۴ سورة ق اگر اس کا دل تنہائی کی گھڑیوں میں بھی اور میل ملاپ کے اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خشیت کے نتیجہ میں بنی نوع کی ہمدردی میں گداز نہیں تو پھر ایسا شخص جو اس قسم کا دل رکھتا ہو حفیظ نہیں یعنی شریعت کی حفاظت کرنے والا نہیں حالانکہ ہر مربی کا یہ دعویٰ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ( نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں ) حفیظ ہوں.میرے سپر د شریعت کی حفاظت ہے اور میں نے اپنی زندگی اس کام کے لئے وقف کر دی ہے لیکن اگر اس کا عمل ایسا نہیں اگر اس کے اندر ریا پائی جاتی ہے اگر اس کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر اس کے اندر خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی نہیں.ان کے ساتھ پیار نہیں، تعلق نہیں، اگر ان کی جسمانی اور روحانی تکلیف دیکھ کر اس کا دل تڑپ نہیں اُٹھتا ، اگر ایسے وقتوں میں اس کا دل گداز ہو کر اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنے لئے اور ان کے لئے عاجزانہ طور پر بخشش اور بھلائی اور خیر کا طالب نہیں تو کیا ایسا دل حفیظ ہو سکتا ہے؟ نہیں.ایسا دل تو حفیظ نہیں.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۷۰ تا ۴۷۲)

Page 355

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۴۵ سورة الذاريات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النَّاريت آیت ۲۰ وَفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ.پھر ایک اور آیت میں ہمیں سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھانے کے لئے ایک ایسے بندے کی حالت بیان کرتا ہے جو غلام ہو.قرآن کریم کی اس آیت کے بہت سے بطون ہیں آپ جانتے ہیں بہت دفعہ ہم ذکر کرتے ہیں پہلے بھی کر چکے.یہاں میں یہ معنی کروں گا کہ ایسے بندہ کی حالت بیان کرتا ہے جو دنیا کا غلام ہو اور جو کسی بات کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو.جو دنیا کا غلام ہے وہ کس بات کی طاقت رکھتا ہے.وہ تو خدا سے لڑنے والا ہے نا.جو خدا تعالیٰ سے لڑنے والا ہے وہ گھمنڈ میں ، وہ تکبر میں، وہ استکبار میں ، وہ غرور میں ، وہ لوگوں کو حقیر سمجھنے کی مرض میں بھی تو مبتلا ہو جائے گا لیکن حقیقی طاقت جس کا صحیح نتیجہ نکلے اور جو خدا کا پیار حاصل کرنے والی ہو وہ طاقت تو اسے نصیب نہیں ہوتی.تو وہ دنیا کا غلام جود نیا دارانہ زندگی گزارتا اور دنیا کی دلدلوں میں پھنسا ہوا ہے اور کسی بات کی بھی طاقت نہیں رکھتا ایک وہ ہے اور ایک وہ ہے اس کے مقابلے میں جو دنیا کا غلام نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہے وہ وَمَنْ زَزَقْنَهُ مِنَا رِزْقًا حَسَنًا جس کو ہم نے رزق دیا اور اس نے یہ جانا اور پہچانا کہ ہم نے اس کو ایک اچھا رزق دیا تھا، ایک ایسا رزق دیا تھا جو خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا اور اس کے نتیجہ میں اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد ہمارے اس بندہ نے يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَ جَھرا ہمارے دیئے ہوئے مال میں لوگوں کے اس حق کو تسلیم کیا جو ہم نے ان کا قائم کیا اور ان کے اوپر وہ خرچ کرتا ہے پوشیدہ طور پر بھی اور اعلانیہ طور پر بھی.اس آیت کے پڑھتے وقت میرا اس طرف بھی خیال گیا ویسے وہ آیت میں آگے لوں گا بھی، ایک جگہ آیا ہے آگے ذکر آئے

Page 356

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۴۶ سورة الذاريات گا ان کا کہ وَفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَ الْمَحْرُومِ تو جو اپنے اس حق کو پہچانتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا قائم کیا اس کا مطالبہ کرتا، اس کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے.جو شخص اس حق کو ادا کرنے والا ہے وہ ظاہری طور پر کھلم کھلا ادا کرتا ہے نا.مانگنے والے نے بھی کھلے طور پر کہا مطالبہ کیا.مانگنے والا نہیں مطالبہ کرنے والے نے ظاہر امطالبہ کیا، جہر ا مطالبہ کیا میرے یہ حقوق خدا تعالیٰ نے قائم کئے ہیں میرے حقوق ادا کرو.تو خدا تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ ایسا شخص ہمارا بندہ جو ہمارے رزق کو رِزْقاً حَسَنًا سمجھتا اور اس کے نتیجہ میں وہ حقوق العباد جو ہیں وہ ان کو ادا کرتا اور جن کو نہیں ملے ہوئے حقوق اور جو پہچانتے ہیں اپنے حقوق کو جو خدا تعالیٰ نے قائم کئے کھلم کھلا ان کے او پر خرچ کرتا ہے اور کہتا ہے میں نہیں دیتا حق ہے تمہارا لے لو اپنا حق خدا نے اسے قائم کیا ہے.اور بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے حقوق ہی نہیں پہچانتے اس وجہ سے وہ حقوق کے حصول میں محروم ہوتے ہیں.تو یہ شخص جو ہے خدا کا بندہ وہ سرا بھی خرچ کرتا ہے ان کو اپنے حق کا نہیں پتا اور لوگوں کے حقوق کی جو ادائیگی یہ شخص کر رہا ہے اس کا نہیں علم.دونوں باتیں چھپی ہوئی ہیں.ان کے سامنے ان کے حقوق ظاہر نہیں اور لوگوں کے سامنے حقوق کی ادائیگی ظاہر نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ دنیا کا غلام اور یہ اللہ کا بندہ هَلْ يَسْتَون یہ برابر ہو سکتے ہیں؟ یہ برابر نہیں.ایک زمین کا کیڑا، ایک کو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے ہاتھوں سے اٹھا کر - اپنی رفعتوں تک پہنچایا اور اپنی گود میں لے لیا پیار کے ساتھ.یہ دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں.الحمد لله اصل بات تو یہی ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں.اسی کی طرف دوسری آیت میں اشارہ کیا يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمُ (النحل : ۸۲) اللہ تعالیٰ نے یہ ساری دنیوی نعمتیں پوری کر دیں تمہارے اوپر.ویسے اس میں روحانی بھی ہیں لیکن اس کے ایک حصہ کو میں نے اس فقرہ میں لیا ہے يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ اس نے ساری کی ساری نعمتیں اور رحمتیں جن کی تمہاری فطرت تقاضا کر رہی تھی، وہ تمہیں دے دیں.لعلكم تسلمون اس لئے دیں کہ تم میری ان نعمتوں سے حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کرو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ - وَفِي أَمْوَالِهِمْ کی ضمیر اس آیت میں میرے نزدیک جو میں اب معنی کر رہا ہوں جیسا کہ میں نے بتایا بہت سے بطون ہیں وفی

Page 357

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۳۴۷ سورة الذاريات اَمْوَالِهِم وہ لوگ فَضَّلَ بَعْضَكُم عَلَى بَعْضٍ کہا ہے نا.وہ لوگ جن کو ہم نے دوسروں پر فضیلت دی.انہوں نے تجارت کی اور تجارت کے مال بڑے اکٹھے کر لئے.انہوں نے زراعت کی اور بڑی آمد پیدا کی اپنی زمین سے.انہوں نے کارخانے لگائے اور وہ Millionaire بن گئے وغیرہ وغیرہ.دنیوی لحاظ سے انہوں نے دولتیں اکٹھی کیں.وہ ذہین تھے ان کو اپنے ذہنوں کی نشوونما کے سامان ہم نے دیئے تھے ان کو انہوں نے استعمال کیا اور سائنس کے میدان میں اور دوسرے علوم کے میدان میں آسمانوں کی رفعتوں تک پہنچ گئے اور اس ذریعہ سے انہوں نے دنیوی اموال بھی کمائے.محاورہ ہے کسب کمال کن که عزیز جہاں شوی کہ کمال حاصل کرو دنیا کی عزت بھی حاصل ہو جائے گی اور دنیا کے اموال بھی حاصل ہو جائیں گے.ان لوگوں کے اموال میں ایک تو یہ گروہ ہو گیا نا.ایک دوسرا گروہ ہے جو سائل بھی ہے اور محروم بھی ہے.جس کو ان حقوق کا جو خدا تعالیٰ نے اس کے قائم کئے ہیں علم بھی ہے اور اسے مل نہیں رہے اور وہ ان کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کا علم نہیں اس واسطے مطالبہ ہی نہیں کر سکتا اور وہ خاموش ہے اور محروم ہے.اس کو پتا ہی نہیں میرے حقوق کیا ہیں.جیسا کہ اس وقت یہ جو ترقی یافتہ مہذب قومیں ہیں ان کے مزدوروں کو کچھ پتا نہیں کہ ان کا حق کیا ہے اور میں ان سے مذاق میں ہنسی میں مسکراتے چہروں کے ساتھ بات کرتا تھا اور یہ حقیقت ان کے سامنے رکھتا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ تمہارا مزدور اپنے حق کے حصول کے لئے سٹرائیک کرتا ہے اور اس کو یہ پتا نہیں کہ اس کا حق کیا ہے.یہ عجیب چیز بن گئی نا! کہ جس چیز کا اس کو علم ہی نہیں اس کے حصول کی وہ کوشش کر رہا ہے.تو حاصل کیسے کرے گا جس کا علم ہی نہیں اس کو.تو محروم ہے وفى اموالهم حق ان کا حق ہے ان کے مال میں جن کو خدا نے دیا.مختلف طریقوں سے دیا کسی کو تجارت کا ملکہ دیا کسی کو زراعت کرنے کی صلاحیت عطا کی.کسی کو استعداد میں دیں اور صلاحیتیں دیں علوم کے حاصل کرنے میں مختلف طریقوں سے اس نے فضیلت حاصل کی اور اموال اکٹھے کئے.خدا کہتا ہے صرف تم اس کے حق دار نہیں بہت سارے اور حقوق ہیں جو تمہارے مال کے اندر ہم نے جمع کئے ہوئے ہیں اور یہ بتا دوں ضمنا کہ خدا تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت اور بھک منگا ہونے کا تصور نہیں ہمیں دیا بلکہ غریب کا حق قائم کیا ہے اور یا یہ شخص جو مالدار ہے فَضَّلَ بَعْضَكُم عَلى

Page 358

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۴۸ سورة الذاريات بعض کے گروہ والا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ خود ان کے حقوق ادا کرے گا یا خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جو تنظیمیں ہیں یا جو حکومتیں ہیں یا جو اقتدار ہیں وہ ان کو حقوق دیں گے.جہاں سے میں نے شروع کیا تھا لوٹ کے پھر وہیں آ گیا.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولتمند اور صاحب ثروت بنایا ہے ان کے اموال میں ہر اس شخص کا حق ہے جو اپنے رب کے قائم کردہ حقوق سے محروم ہے.خواہ وہ اس حقیقت حقوق پر سے واقف ہو، خواہ اس کا علم اس کو نہ ہو ہر صورت میں اس کا حق خدا تعالیٰ نے قائم کر دیا ہے.ایک چھوٹی سی میں مثال لوں گا.ایک چھوٹی سی ویسے تو میں نے بتایا بڑا وسیع مضمون ہے ہر قسم کے پر مشتمل.وہ لوگ ہمارے ملک میں بھی ہیں.ہمارے ملک کی اکثر آبادی ایسی ہے کہ جن کو اتنی غذائیت تو کھانا کھانے کے متعلق میں ذکر کر رہا ہوں مل جاتی ہے کہ وہ زندہ ہیں مرے نہیں بھوکوں لیکن ان کی صلاحیتوں اور استعدادوں کی کامل نشو و نما کے لئے جس قسم کی غذا کی ضرورت تھی وہ نہیں ملی.مثلاً ہمارے ملک میں کہتے ہیں واللہ اعلم قریباً اسی فیصد کسان Small holding رکھتا ہے.اس کے پاس بہت تھوڑی زمین ہے.آٹھ ، دس، بارہ، چودہ ایکٹر کی اور مجھے خدا نے ہر قسم کے آدمی سے ملاپ کرنے کی توفیق دی.اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا اور مجھے پتا ہے کہ اکثر ان میں سے اپنے بیلوں کے غلام بن کے رہ گئے ہیں یعنی اگر وہ اپنے ہل کی فکر نہ کریں.بارہ ایکڑ کا مالک جو ہے اس کو ایک ہل چاہیے.تین جانور چاہئیں بارہ ایکڑ میں پہلے وہ کھلاتا ہے تین جانوروں کو اپنے ورنہ تو اس کو سوکھی روٹی بھی نہ ملے.اور ان کے پاس اپنی چارپائی بچھا کے وہاں سو جاتا ہے رات کو.اکثریت ایسی ہے، اکثریت Small Holding کی ہے اور اکثر Small Holding والے جو ہیں بعض اچھے بھی ہیں لیکن اکثر ایسے ہیں جن کو اتنی روٹی تو مل جاتی ہے کہ وہ بھوکوں مریں نہ لیکن اتنی غذائیت ان کو نہیں ملتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی جو طاقتیں دی تھیں ان کی کامل نشو ونماوہ کر سکے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو طاقتیں میں نے ہر فرد واحد کو دی ہیں ان کی کامل نشود نما ہونی چاہیے.ہر فرد کی ہر طاقت کی کامل نشوونما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے مادی یا غیر مادی وہ میں نے پیدا کر دی.اگر وہ اس کو نہیں ملی تو کوئی اور غاصب ہے جس کے پاس ہے وہ.اور انہی کو خدا کہتا ہے انہی کی طرف اشارہ کر کے کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ

Page 359

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۴۹ سورة الذاريات لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ان کے پاس جن کے حقوق کی ادائیگی کے سامان ہیں پڑے ہوئے ان سے لو اور دویا وہ آپ دے دیں.خدا کی رضا کو حاصل کریں.قرآن کریم یہ کہتا ہے اصل تو یہ ایک فقرہ ہے جس کے لئے میں نے یہ خطبہ آج پڑھا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب انسانوں کے ایک طبقہ کو ان کے مناسب حال اور متوازن غذا نہ ملے اور اس سے وہ محروم ہوں تو سب دولتمند ان کے برابرلا کے کھڑے کر دیئے جائیں.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالمَحرُوم میں بڑا عظیم اعلان ہوا ہے.خدا یہ کہتا ہے کہ اگر مثلاً کوئی ملک اس کو ہم کہتے ہیں ”جیم ہر نام لے دیتے ہیں.اس کی اسی فیصد آبادی جو ہے اس کو مناسب حال متوازن غذا نہیں ملتی تو جب تک اس طبقہ کو مناسب حال متوازن غذا نہیں ملتی کسی امیر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان سے بڑھ کے کھائے.وہاں لا کے کھڑا کر دیا جائے گا کہ جیسا یہ کھائے گا ویسا وہ کھائے گا.تمام امرا اور دولتمند صاحب ثروت جو ہیں ان کو دکھ اور تکلیف میں غریب کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا کر کے سو فیصد ان کا شریک حال بنادیا.شریک غم بنا دیا ان کا اور ان امیر کو یہ کہا ہم نے تمہیں بڑا دیا.جب ان کو مناسب حال متوازن غذا مل جائے پھر اپنی مرضی کی کھا.تیرے اوپر کوئی پابندی نہیں.بعض دوسری Extreme پر چلے گئے ہیں.خیالات فلاسفی، ازم جو ہیں وہ کہتے ہیں کسی کو بھی اس کی مرضی کا نہیں کھانے دیں گے.یہ غلط ہے.قرآن کریم کہتا ہے فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ ہر شخص کو اس کا حق ادا کرو.پھر جوزائد تمہارے پاس ہے پھر اپنی مرضی چلا لو اس کے اندر اور پھر جب اپنی مرضی چلانے کا وقت آئے گا پھر خدا کہتا ہے جب اپنی مرضی چلا رہے ہو تو اپنی عارضی خوشیوں کا خیال رکھنے کی بجائے اپنی ابدی خوشیوں کا خیال رکھو.پھر ان کو آگے وہ نعمتیں بیان کر کے وہ خدا تعالیٰ کے فضل بیان کر کے، خدا تعالیٰ کی جو رحمتیں اس زندگی میں نازل ہوتی ہیں ان کے نمونے نازل کر کے اس رنگ میں خدا تعالیٰ پیار کرے گا مرنے کے بعد اپنے ایک پیارے بندے کو اپنی رضا کی جنت میں لے جاکے اس کا ایک نمونہ مثلاً یہ اس کو بتا دیتا ہے کہ وقت سے پہلے اس کو بشارت دے دیتا ہے اور وقت سے پہلے اس کو یہ تنبیہ کر دیتا ہے کہ یہ بات نہ کرو ورنہ تمہیں تکلیف ہوگی.وقت سے پہلے بتا دیتا ہے کہ مثلاً اس ہوائی جہاز میں نہ جاؤ تمہاری جان کو خطرہ ہے.ایسے بھی لوگ ہیں میں نے ایسے واقعات پڑھے ہیں.تو وہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ساروں کو ان کے حقوق ادا کرو پھر اگر تمہارے پاس فالتو بچتا ہے پھر

Page 360

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۵۰ سورة الذاريات جائز طور پر خدا تعالیٰ نے جو چیز حلال قرار دی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کو حرام کہا ہے اس سے بچتے ہوئے اپنی مرضی سے جو مرضی کھاؤ لیکن ہر شخص کو مناسب حال متوازن غذا ملے گی پہلے.یہ جو میں فقرہ بول رہا ہوں شاید بہت سارے نوجوان سمجھیں ہی نہ.مناسب حال بدلتی ہے.مثلاً ایک ابھی پیچھے جیسے بڑا یہاں شور تھا کشتی ہو رہی تھی جاپان اور پاکستان کی تو ایک پہلوان کی مناسب حال اور غذا ہے اور ایک وہ نخستی سابچہ نور صاحب کے پاس بیٹھا ہوا ہے پتا نہیں کون تھا جس کا معدہ اور نظام ہضم جو ہے اس کے مطابق مناسب حال بالکل اور چیز ہے.مناسب حال غذا عمر کے ساتھ بدل جاتی ہے.مناسب حال غذا کام کی نوعیت کے ساتھ بدل جاتی ہے مثلاً ایک زمیندار جو ہے وہ ہمیشہ نہیں لیکن بہت سارے سال کے ایسے بھی دن ہیں یا ہفتے ہیں جن میں اس کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، دن رات محنت کرنی پڑتی ہے اور اس محنت کے نتیجہ میں وہ شاید ڈیڑھ دوسیر آٹا بھی کھا جائے تو ایک وقت میں ہضم کرے گا.تو مناسب حال کو یہ سمجھ لو کہ جس کو وہ ہضم کر سکتا ہے اور متوازن کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف ہمارے لئے آٹا یا میدہ یا سوجی یا چنا یا کئی پیدا نہیں کی یا صرف گوشت نہیں پیدا کیا یا صرف شلجم کی تر کاری نہیں پیدا کی یا صرف اخروٹ اور بادام یہاں کشمیر قریب ہی ہے وہاں بڑا رواج ہے اخروٹ بہت کھاتے ہیں وہاں کے لوگ وہ نہیں پیدا کئے بلکہ یہ اب انہوں نے بڑی ریسرچ کی ہے اسلام کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق اس کو پروٹینز کہتے ہیں یہ گوشت یا Nuts یا پنیر یا دودھ تو ان کا بھی کہتے ہیں آپس میں توازن پیدا کرو اور یہ پہلوان مثلاً گھی بڑا کھا جاتے ہیں.بادام بڑا کھا جاتے ہیں.وہ اس کو ہضم کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو طاقت چاہیے اپنے کام کے لئے.ایک کلرک جو بیٹھا ہوا ہے وہ آدھ سیر آٹا کھائے تو اس کو اسہال شروع ہو جائیں گے.ایک زمیندار جو ساری رات کام کرتا رہا ہے اپنی زمینوں کے اوپر وہ صبح جس وقت کھانے پہ بیٹھتا ہے جس کو ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کا پہلا کھانا ہوتا ہے اس وقت سیر پکی روٹیاں کھا جائے گا اور وہ ہضم کرے گا اس کو تو یہ ہے مناسب حال اور متوازن کا مطلب یہ ہے کہ جو مختلف خدا تعالیٰ نے غذائیں بنائی ہیں اپنی قسم کے لحاظ سے مختلف جس کو انہوں نے Fat یعنی چکنائی، جس کو انہوں نے (Carbohydrate) نشاستہ یا میدہ کہا.یہ جس کو انہوں نے پروٹین کہا آگے ان کی بھی بہت ساری قسمیں ہیں.پروٹین کے متعلق تھوڑا سا اب میں نے بتایا.یا جس کو انہوں نے Vitamins

Page 361

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۵۱ سورة الذاريات کہا یہ بھی غذا کا حصہ ہے.جس کو انہوں نے Minerals کہا یعنی جو معد نیات ہیں.ان کو Trace element بھی بعض کو ان میں سے بہت تھوڑا چاہیے لیکن انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے.خدا کہتا ہے کہ ہر شخص کو دو.تو میں نے یہ کہا کہ میرے نزدیک وَفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسّابِلِ وَالْمَحْرُومِ کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم نے بڑا عظیم اعلان کیا ہے.بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے کہا میں تمہیں لاوارث نہیں چھوڑوں گا.قرآن کریم نے کہا تمہارے جو سیاسی بڑے ہیں وہ تمہارا خیال نہ رکھیں یا رکھیں.تمہارے دوسرے تمہارے اپنے بزرگ جو ہیں خاندانی یا قبیلے کے وہ اس طرف توجہ دیں نہ دیں، پر میں تمہارا پیدا کرنے والا رب تمہیں ایک مقصد کے لئے میں نے پیدا کیا.جو بھی تمہیں ملا وہ مجھ سے ملا اور بنیادی طور پر میں نے تمہیں چار قسم کی عظیم صلاحیتیں اور قابلیتیں دیں.ان کی نشو نما کے میں نے سامان پیدا کئے.میں یہ سامان پیدا کروں گا کہ سارے انسان اسلام کی حسین تعلیم میں ، اسلام کے ٹھنڈے سایہ میں جمع ہو کر ہر شخص کو پہلے اس کا حق مل جائے.اس کے بعد پھر جن کو ہم نے ایسی صلاحیتیں دی ہیں کہ مثلاً وہ زیادہ کما لیں تو پھر ہم کہیں گے جب وہ اپنے حقوق ادا کر چکے ہوں گے اور ان کے پاس مال بچے گا اپنی مرضی سے اب کھا لولیکن یہ دیکھنا کہ اپنی مرضی سے اتنا نہ کھالینا کہ رات کو ہماری عبادت نہ کر سکو.دن کے وقت بھی اونگھتے ہی رہو.ہماری طرف توجہ نہ کرو.اپنے جو ہر وقت کے حقوق ادا کرنے ہیں وہ تم ادانہ کر سکو.( خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۲۴۳ تا۲۵۰) جس شخص کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کوملنی چاہیے خدا کہتا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ قرآن کریم کی یہ آیت ہے اور جب تک ہر فرد واحد کو اس دنیا میں اس کی جائز ضرورت جو میں نے بتایا ہے کہ چار قسم کی قوتیں اور استعداد یں ہیں.ان کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس کی جائز ضرورت ہے اگر ایک آدمی بھی دنیا میں ایسا ہے جس کی جائز ضرورت پوری نہیں ہو رہی تو خدا کہتا ہے کہ کسی اور کے مال میں اس کا حصہ ہے جو اس کو ادا نہیں ہوا اور غصب کیا گیا ہے اس کا حصہ.کیونکہ پیدا کرنے والے نے پیدا کی ، یورپ اور امریکہ نے تو دنیا کی دولت نہیں پیدا کی، پیدا تو خدا نے کی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کا خیال رکھتے (خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۳۲۱)

Page 362

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۵۲ سورة الذاريات تھے اور صرف آپ ہی خیال رکھ سکتے تھے مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقُ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُوم کہ کچھ امیر اور دولتمند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے سارے مال ان کے نہیں بلکہ کسی اور کا حق مارا گیا ہے جس نے ان کے اموال میں اضافہ کیا ہے اس لئے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَ المحروم محروم اور سائل کا حق ان کے مالوں کے اندر ہے وہ نکالنا چاہیے اور حق دار کو حق پہنچنا چاہیے.قرآن کریم کی ایک آیت میں اتنا انذار ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حشر کے دن ایک گروہ ایسا ہوگا کہ میں فرشتوں سے کہوں گا.جاؤ اور اس گروہ کو جہنم میں جھونک دو اور وہاں جہنم میں جھونکنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں.ایک تو اس لئے کہ وسیع حکمتوں والے رب پر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ لوگوں کو مسکینوں کو کھانا کھلانے کی رغبت نہیں دلاتے تھے اور نہ خود ان کو کھلاتے تھے.لوگ بھوکے مر رہے تھے اور یہ اُن کا خیال نہیں رکھتے تھے اور حکمتوں سے پر یہ ایک Universe ایک عالمین پیدا کیا گیا تھا اور یہ اس پر غور نہیں کرتے تھے.پس یہاں صرف دو وجہیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ وسیع حکمتوں والے رب پر ایمان نہیں لاتے تھے اور دوسرے بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اس لئے انہیں جہنم میں جا کر جھونک دو.پس جس مسلمان نے جہنم سے بچنا ہو یا جہنم سے بچا ہوا ہو تو وہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر غور کرتا اور اس کی ذات وصفات کی معرفت رکھتا ہے اور جس حد تک اس کے پاس مال ہے وہ اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے بندوں کا خیال رکھتا ہے اور کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیتا.بھوک دور کرنے کی ذمہ واری تو اللہ تعالیٰ نے لی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کھیتیاں پیدا کرتے ہو؟ تم نہیں پیدا کرتے ، میں پیدا کرتا ہوں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک فاحشہ عورت نے ایک جانور کے اوپر رحم کر کے پیاس کے وقت میں پانی دیا تھا.اس نیکی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُس فاحشہ عورت کے گناہ معاف کر دیئے اور اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے.(خطابات ناصر جلد اول صفحه ۴۹۶) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا جب ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو بے صبری سے کام لیتے ہیں اور بے صبرے ہو جاتے ہیں.وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا جب کوئی بھلائی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچتی ہے، ان کے اموال میں خدا تعالیٰ برکت ڈالتا ہے، ان کی تجارتیں نفع مند ثابت ہوتی ہیں، ان کی کھیتیاں زیادہ پیداوار دینی شروع کر دیتی ہیں، ان کے باغات کو اچھا اور زیادہ پھل لگتا ہے، اس دنیا میں ہزاروں قسم

Page 363

۳۵۳ سورة الذاريات تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی جاتی ہیں اس وقت انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرتا ہے.اور فی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ - لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ کے مطابق یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اس میں صرف ہم ہی حصہ دار نہیں بلکہ ہمارے سارے بھائی اس میں برابر کے شریک اور حصہ دار ہیں لیکن وہ لوگ اپنی فطرت کی اس صلاحیت کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے حرص اور شاخ سے کام لے کر اور بخل سے کام لے کر اپنے آپ کو نیکیوں سے محروم کر دیتے ہیں اس کی مثالیں آپ کو ہر جگہ مل جائیں گی لیکن اپنی بھیانک شکل میں.اس کی مثالیں ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مومن نہیں لیکن جو لوگ کمزور ایمان والے ہیں یا جو ابھی زیر تربیت ہیں ان میں بھی آپ کو نظر آتی ہیں.ذراسی تکلیف پہنچی اور شور مچادیا، جزع فزع شروع کر دی.کسی کی خاطر تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے یہ پہلو إِذَا مَسَّهُ الشَّرُ جَزُوعًا میں بھی آ جاتا ہے اور جب خدا تعالیٰ نے انہیں دیا تو ان برکات میں ، ان نعمتوں میں ، ان اموال میں ، جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیئے اور سب کچھ دیا اور اسی نے دیا.اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اور شریک نہیں ہے، سارا ہم ہی سمیٹ کر رکھیں، ہمارے پاس جو کچھ آیا ہے اس میں کسی اور کا حصہ نہ ہو.قرآن کریم نے پہلوں کی بہت سی مثالیں دے کر بھی ہمیں سمجھایا ہے لیکن یہاں پر اصولی طور پر بحث کی گئی ہے، کوئی مثال نہیں دی گئی.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۴۷۶ ،۴۷۷) آیت ۵۶ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ کہ اے خدا کے رسول ! ( اور پھر وہ جو اس کے قائم مقامی میں ذمہ داری کے عہدے پر کھڑے کئے جاتے ہیں ) تو مومنوں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتارہ کیونکہ یہ یاددلا نا مومنوں کونفع بخشتا ہے.اس آیہ کریمہ میں ایک تو باوجود غفلت کے مومن کی عزت کو یہ کہہ کر قائم کیا ہے کہ اگر کبھی وہ اپنی کسی ذمہ داری کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تو اس کے یہ معنی نہیں لئے جانے چاہئیں کہ ایمان میں کمزوری پیدا ہو گئی ہے بلکہ انسانی فطرت میں ہی یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر بار بار اس کے سامنے اس کی ذمہ داریاں نہ لائی جائیں تو وہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو بار بار اس کے سامنے آتی ہیں

Page 364

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۵۴ سورة الذاريات اور اس بشری کمزوری کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ذمہ دار افراد کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ حقیقی مومنین کے سامنے ان کی ذمہ داریاں بار بار لا یا کرو اور انہیں یاد دلاتے رہا کرو تا کہ وہ اس یاد دہانی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۰۴ آیت ۵۷ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ® انسانی پیدائش کی غرض صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عبودیت کا ایک حقیقی تعلق پیدا کیا جائے.اس بنیادی غرض کے حصول کے علاوہ باقی جو بھی مقاصد حاصل ہیں وہ انسانی پیدائش کی غرض اور مقصد نہیں لیکن ان کا ایک طبعی نتیجہ ضرور نکلتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ نہیں ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو اس کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ اس کا اپنے رب سے حقیقی اور زندہ تعلق قائم ہو جائے.جب اُس کا اپنے رب سے حقیقی اور زندہ تعلق قائم ہو جاتا ہے تو گناہوں سے وہ خود بخود پاک ہو جاتا ہے کیونکہ پھر اس کا دل اور اس کی روح کسی ایسے فعل کے کرنے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی جو اس کے پیدا کرنے والے محبوب خدا کو نا پسند ہو.اسی طرح انسان کی پیدائش کی غرض یہ بھی نہیں کہ انسان نجات حاصل کرے.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسانی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان کو عبودیت تامہ کا شرف حاصل ہو جائے کیونکہ جب ایک انسان اپنے رب کا حقیقی رنگ میں اور کامل طور پر بندہ بن جاتا ہے تو نجات تو اُسے خود بخو دل جاتی ہے.نجات تو اس عبودیت تامہ کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیے لیکن صرف نجات مقصدِ حیات انسانی نہیں اور نہ پاکیزگی اختیار کرنا اور گنا ہوں سے بچنا مقصد حیات ہے.مقصدِ حیاتِ انسانی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبودیت تامہ کو اختیار کرے.اس کا حقیقی عبد بن جائے پھر وہ کسی ایسے گناہ میں مبتلا نہیں ہوگا جو اُس کے رب کو نا پسند ہو اور وہ ایسا کام نہیں کرے گا جو اُس کے ربّ سے اُسے دور لے جانے والا ہو.ہر وہ چیز جس کی وہ خواہش کرے گا وہ اُسے مل جائے گی اور وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کی عبودیت تامہ کے نتیجہ میں ایک ابدی سرور اور ایک دائمی لذت کو حاصل کرے گا.نجات تو اس کو مل جائے گی لیکن وہ نجات کے لئے پیدا نہیں کیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد

Page 365

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۵۵ سورة الذاريات بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - فرمایا انسانی زندگی کا مقصد عبودیت تامہ کو اختیار کرنا یعنی عبد کامل بننا ہے باقی چیزیں تو بطور لوازم اور نتائج کے ہیں.یہ انسان کو مل جاتے ہیں لیکن انسانی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ اور حقیقی تعلق پیدا ہو جائے.یہ عبادت ہی ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور اس آیت میں بھی جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے خالص عبادت ہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ٹھہرایا گیا ہے لیکن بعض لوگ عبادت کے مفہوم کو یا اس فقرے کے مفہوم کو کہ انسان عبودیت تامہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسی راہ کو اسے اختیار کرنا چاہیے سمجھتے نہیں.بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بڑی لمبی لمبی اور دکھاوے کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پرستش اور اس کی عبادت کا حق ادا کر رہے ہیں یا بڑی کثرت سے روزے رکھنا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کی راہ میں بڑا مجاہدہ کر رہے ہیں یا اور دوسرے نیکی کے کام جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اُن کے ظاہر پر زور دینے لگ جاتے ہیں مگر حقیقت نماز سے نا آشنا اور حکمت روزہ سے بے خبر ہوتے ہیں.اس قسم کی عبادت عند اللہ عبادت متصور نہیں ہوتی.مجھے اس وقت ایک بزرگ کا واقعہ یاد آ گیا ہے.حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ایک شخص بڑے بزرگ تھے لیکن ابھی گہرائیوں میں ان کی پہنچ نہیں ہوئی تھی.وہ نیکیوں کے ظاہر پر بڑا زور دیتے تھے.ایک دفعہ وہ ایک اور بزرگ سے جن کی بڑی شہرت تھی ملنے گئے جب یہ وہاں پہنچے تو مغرب کی نماز ہو رہی تھی.یہ بھی نماز میں شامل ہو گئے مگر یہ بزرگ جو نماز پڑھا رہے تھے اور جن کی اُنہوں نے بڑی شہرت سنی ہوئی تھی اور جن کی ملاقات کے لئے یہ صاحب ایک لمبا سفر طے کر کے وہاں پہنچے تھے وہ سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی صحیح نہیں کر رہے تھے چنانچہ یہ بڑے مایوس ہوئے اور اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ میں نے اتنے لمبے سفر کی تکلیف بلا وجہ اور بے فائدہ اُٹھائی ہے.رات یہاں گزارتا ہوں صبح واپس چلا جاؤں گا.اُنہوں نے شاید استغفار بھی کی ہوگی کہ بڑا گناہ ہو گیا ہے.چنانچہ صبح سویرے اُٹھے دریا قریب تھا دریا کی طرف جارہے تھے تا کہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر وضو کر کے عبادت کریں مگر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر راستے میں سویا ہوا

Page 366

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۵۶ سورة الذاريات ہے وہ اُن کے پاؤں کی آواز سے دفعہ اُٹھا اور ان کے پیچھے بھا گا یہ آگے آگے تھے اور وہ اُن کے قدم بقدم پیچھے پیچھے آرہا تھا جس وقت اُس بزرگ کی عبادت گاہ کے قریب پہنچے جن کی قرآت اُن کو اچھی نہیں لگی تھی اور جن کے متعلق ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ جو شخص سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی صحیح نہیں کر سکتا وہ بزرگ کیا ہوگا وہ اُس وقت اپنی عبادت گاہ سے باہر نکل رہے تھے وہ آگے بڑھے اور شیر کے کان پکڑ لئے اور اس کو کہنے لگے کہ اللہ کے کتو ! کیا میں نے تمہیں یہ کہا نہیں ہوا کہ تم نے میرے مہمانوں کو تنگ نہیں کرنا شیر دُم ہلارہا تھا اور اُن کو کچھ نہیں کہہ رہا تھا.چنانچہ جب اُنہوں نے شیر سے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ تو وہ فوراً وہاں سے چلا گیا پھر وہ ان سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگ ظاہر کا زیادہ خیال رکھتے ہو اور ریاء سے بچتے نہیں اس لئے مخلوق خدا سے خوف کھاتے ہو پھر انہوں نے بڑے نمایاں رنگ میں اور بڑے عجیب طریق پر ان کو سمجھایا کہ دیکھو صرف ظاہر کے خیال رکھنے کی وجہ سے مخلوق خدا سے ڈرلگتا ہے مگر ہم لوگ باطن کا خیال رکھتے ہیں اس واسطے خدا کی مخلوق کا خوف نہیں کھاتے.اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ڈوبے رہتے ہیں اس کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے مقابلے میں ہر چیز کو ایک مُردہ سمجھتے ہیں.پس جو خالص توحید ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا ہر دوسری مخلوق کو اپنی ذات میں مردہ اور نیست سمجھا جائے کیونکہ ایسا شخص اس حقیقت پر قائم ہوتا ہے کہ انسانی حیات اور بقا اور اُس کا قیام اللہ تعالیٰ کے فضل کے سہارے کا محتاج ہے اور زندگی کا دارو مدار اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.اگر وہ زندہ نہ رکھنا چاہے تو کوئی مخلوق فنا کا لباس پہنے بغیر رہ نہیں سکتی اور باقی بھی وہی رکھتا ہے کیونکہ وہ قیوم بھی ہے اسی کی ذات سے دنیا اور اس کی اشیاء قائم ہیں.پس جو توحید خالص پر قائم ہو اُس کو شیر سے ڈر نہیں لگتا.شیر تو پھر بھی ناسمجھ جانور ہے اس کو سارے کفار مکہ سے بھی ڈر نہیں لگتا آخر سارے کفار بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اکٹھے ہو گئے تھے مگر اس پاک وجود صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مات کھا گئے.اسی طرح آپ کے جو تبع اور آپ سے محبت کرنے والے اور فدائی اور جاں نثار خادم ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق سے خوف نہیں کھاتے اس لئے کہ ان کے آقا اور مطاع اور محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں توحید حقیقی پر قائم کر دیا ہے.پس بہت سے ظاہری سجدے کرنا اور روزے رکھنا یا اسراف کرتے ہوئے اموال کو خرچ کرنا اور ظاہر یہ کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو

Page 367

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۵۷ سورة الذاريات خوش کرنے کے لئے ہے حالانکہ دل میں در حقیقت اس سے دنیا کو خوش کرنا مقصود ہو تو اس طرح کی عبادت وغیرہ کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کومول لینے کے مترادف ہے.پس صرف ظاہر پر زور دینا مناسب نہیں ہے.یہ صحیح ہے کہ ظاہر کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے اور اس کا اپنا ایک فائدہ ہوتا ہے جس طرح اس مادی دنیا میں پھل بغیر چھلکے کے نہیں ہوتے اسی طرح روحانی دنیا میں بھی کوئی لذت اور سرور اور لذت اور سرور کا کوئی ذریعہ اور وسیلہ بھی بغیر چھلکے کے نہیں ہوتا.اس کا بھی ا ایک ظاہر ہوتا ہے.پس یہ درست ہے کہ باطن کے ساتھ ظاہری پاکیزگی کا جو تعلق ہے وہ بھی قائم رہنا چاہیے لیکن مغز اور حقیقت بہر حال باطن ہے.بہر حال روح ہے، بہر حال ابدی صداقت ہے جو اللہ تعالیٰ میں ہو کر انسان حاصل کرتا ہے اور جو یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور ہر خیر اور خوبی اُسی سے انسان حاصل کر سکتا ہے کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں.بہر حال عبادت جو ہے وہ روح کے بغیر ایک بے حقیقت اور بے نتیجہ چیز ہے اور اس کا کوئی ثمرہ ظاہر نہیں ہوتا اور انسان کو اس کا کوئی پھل حاصل نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ بڑے مختصر الفاظ میں لیکن بڑے زور کے ساتھ عبادت کی حقیقت کو واضح کیا ہے.آپ فرماتے ہیں:.انسان خدا کی پرستش کا دعوی کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہوسکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پرستار الہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہوسکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اُس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے.اول خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزش محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اُس کا نام پرستش ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۴) 66 (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۹۷۴ تا ۹۷۷) انسان زمینی گراوٹ کے لیے نہیں پیدا کیا گیا.انسان کو کی آیت جس کی طرف اشارہ کرتی ہے.

Page 368

۳۵۸ سورة الذاريات تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث آسمانوں کی بلندیوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی امت مسلمہ کو مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کہ جب تم میں سے کوئی عاجزی، انکساری اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرے گا رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ( كنز العمال جلد ۲ صفحه ۲۵) ساتویں آسمان کی بلندیاں اسے حاصل ہو جائیں گی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۰۰) انسانی ضروریات دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ قسم ہے جس میں کائنات کی ہر شے اس کے ساتھ شامل ہے اور اس قسم کی ضرورتوں کے لئے مانگنے کی حاجت نہیں مثلاً دل کی دھڑکن ہے.زندگی کے ساتھ ضروری ہے کہ دل اپنی صحت مند حرکت کے ساتھ دھڑکتا رہے.تو کہیں ہمیں یہ دعا نہیں سکھائی گئی کہ اے اللہ! ہمارا دل اپنی صحت مند حرکت کے ساتھ دھڑکتا رہے.صحت کی دعا سکھائی لیکن جو ضرورت دل کو تھی دل کو دعا کرنے کی ضرورت نہیں تھی.یہ چیز میں اس وقت واضح کرنا چاہتا ہوں.آنکھ کو اپنے دیکھنے کے لئے کسی دعا کی حاجت نہیں تھی اس کی حاجت اللہ تعالیٰ بغیر دعا کے پوری کر رہا ہے.اسی طرح انسان کے جسم کا ہر ذرہ جو ہے اس کی وہ ضرورت جو دوسری کائنات کی مخلوقات میں مشترک ہے وہ اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اور اس کے لئے انسانی تدبیر ایک اور رنگ میں ظاہر ہوتی ہے جس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا لیکن انسان کو انسان کے ناطے، انسان جس غرض اور مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے ہر چیز جس کی اسے ضرورت ہے اس ہر چیز کے لئے اسے دعا کرنے کی بھی ضرورت ہے.اس لئے کہ انسان کو بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے پیدا کیا گیا کہ وہ اس کا بندہ بنے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا.عبد بننے کے لئے صرف انسان کو پیدا کیا گیا.اس کا ئنات کی بے شمار مخلوق میں سے کسی اور چیز کو عبد بننے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا.ان کی کیفیت يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل : ۵۱) خدا تعالیٰ حکم دیتا چلا جاتا ہے وہ کرتے چلے جاتے ہیں.ان کو نافرمانی کی طاقت بھی نہیں ملی.اس کا احساس بھی نہیں کیونکہ وہ کرتے ہی نہیں لیکن چونکہ انسان ایک بلند مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا عبد بنے اور اس کے پیار کو حاصل کرے اس لئے صرف انسان کے ساتھ یہ لگایا کہ دعا کرو، ملے گا.دعا نہیں کرو گے نہیں ملے گا یعنی عبد بننے کے لئے اپنی انسانی زندگی میں کامیابی کے لئے، خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے،

Page 369

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۵۹ سورة الذاريات خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت اور پیار دیکھنے کے لئے، خدا تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے بے شمار عمل کرنے پڑتے ہیں جنہیں اسلامی اصطلاح میں اعمال صالحہ کہا جاتا ہے.انسانی زندگی کا ہر فعل اسی غرض کے لئے ہونا چاہیے (خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۱۹ تا ۴۲۰)

Page 370

Page 371

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۳۶۱ سورة الطور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطور آیت ۴۹ وَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ پانچواں تقاضا اللہ تعالیٰ کی عبادت کا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے یہ ہے کہ اس کے حکم کو ہم قائم کرنے والے ہوں اور اوامرو نواہی کی نگرانی کرنے والے ہوں کہ ہمارے ماحول میں ہمارے نفسوں سمیت خدا کے حکم اور امر کے خلاف کوئی نہ جائے اور اس نے ہماری روحانی اور جسمانی ترقیات کے لئے جو پابندیاں ہم پر لگائی ہیں ان کا احترام کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں نفسانی خواہشات اور ارادوں کو کچھ نہ سمجھا جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کوئی دوسری ایجنسی، کوئی دوسرا گروہ یا جماعت اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی میں اپنے اثر ورسوخ کے نتیجہ میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عبادت کے اس تقاضا کو پورا کرو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاؤ گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ باعيننا جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی پر ثبات قدم دکھاتا ہے اور استقلال اور استقامت کے ساتھ ان پر قائم ہو جاتا ہے اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا خیال نہیں رکھتا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آسکتا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۵۸۲)

Page 372

Page 373

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّجِيمِ ۳۶۳ سورة النجم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النجم آیت ۱۰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدنى 1: اللہ تعالیٰ نے انسانی مرتبہ کو سمجھانے کیلئے فرمایا.وَمِنْ آیتِه أَنْ خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا انْتُم بَشَر تَنْتَشِرُونَ (الروم :۲۱) اللہ تعالیٰ کی زبر دست نشانیوں اور اس کی قدرتوں کے حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک نظارہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے ہماری اس زمین کی ہر چیز مٹی سے پیدا ہوئی ہے مٹی کے اجزا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک خاص محسوس و مشہود شکل اختیار کر لیتے ہیں مثلاً پھلوں میں سے آم یا انگور وغیرہ ہیں.اناجوں میں سے گندم یا جو مکی یا باجرہ ہیں.لحمیات میں سے پرندوں کا گوشت ہے، چوپایوں کا گوشت ہے اور مچھلیوں کا گوشت ہے اسی طرح کی اور بھی بے شمار مختلف چیزیں ہیں مگر دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے مٹی سے پیدا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ اے انسان! ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہارے وجود میں مٹی کی خلق احسن تقویم کو پہنچی ہے.مٹی کی خلق جو موزوں ترین اور بہترین شکل اختیار کر سکتی تھی وہ تمہارے وجود میں کمال کو پہنچ گئی ہے.سورۃ تین میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.غرض انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور احسن تقویم کی شکل میں انسان بطور بشر کے ہے پھر تنتشرُونَ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کی تسخیر کیلئے دنیا میں پھیلنا شروع کیا.پہلے تم نے اپنے ماحول کی چیزوں سے فائدہ اُٹھایا پھر چونکہ تمہاری فطرت میں یہ جذ بہ رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول یعنی اپنے ملک کی چیزوں سے تسلی نہیں پاتی اور انسان سمجھتا ہے کہ ساری دنیا کی چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اس لئے وہ ساری دنیا میں پھرنے کے لئے نکل کھڑا

Page 374

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۶۴ سورة النجم ہوا اور دنیا کی ہر چیز کو اس نے اپنے کام پر لگایا اور اپنے فائدہ کے لئے اُسے استعمال کیا.در اصل بشر اس مٹی کی تخلیق کی انتہا اور روحانی تخلیق کی ابتداء ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے سیر روحانی شروع ہوتی ہے.پھر آگے جتنی جتنی کسی میں ہمت ہوتی ہے وہ اس کے مطابق روحانی رفعتوں کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے البتہ بشریت سے پہلے روحانی رفعتوں کے حصول کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.بشریت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد ہی انسانی مخلوق اللہ تعالیٰ کا قرب اور لقا کا مقام حاصل کر سکتی ہے.پس بشریت کے مقام سے سیر روحانی کا آغاز ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام احسن تقویم رکھا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے رسول تم دنیا میں اعلان کر دو اور اس عظیم الشان اعلان پر مشتمل ان آیات إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کو بشریت کے کمال کے ذکر سے شروع کر کے آگے سیر روحانی پر ختم کیا.اب ایک ایسے فرد واحد نے خدائی حکم کے ماتحت یہ اعلان کیا کہ میں تم جیسا ہی بشر ہوں.وہ خدا تعالیٰ کے قریب تر ہوا جیسا کہ خود قرآن کریم کی یہ آیہ کریمہ ہے.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی اس حقیقت کی مظہر ہے اور اس سے زیادہ قرب کسی اور فرد بشر کے لئے حاصل کرنا تو کیا اُس جتنا بھی حصول ممکن نہیں چنانچہ آپ کی علوشان پر وہ حدیث قدسی بھی روشنی ڈالتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک یعنی اے رسول ! اگر تیرا وجود پیدانہ کرنا ہوتا، اگر تجھے دنیا کے لئے نمونہ نہ بنانا ہوتا تو میں مخلوق ہی پیدا نہ کرتا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں تمہارے جیسا انسان ہوں، جہاں تک انسانی عزت، شرف اور مرتبہ کا سوال ہے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں کیونکہ جس طرح میں احسن تقویم یعنی بشریت کے لحاظ سے مٹی کا ایک پتلا ہوں اسی طرح تم بھی مٹی کے پتلے ہو، جس طرح میں اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہوں اسی طرح تم بھی اشرف المخلوقات کے فرد ہو جس طرح میں سیر روحانی میں بلند سے بلند درجات پاسکتا ہوں اسی طرح تم بھی بلند سے بلند درجے حاصل کر سکتے ہو اور یہ کہہ کر ایک طرف دنیا میں انسانی عزت اور شرف کو قائم کیا اور دوسری طرف ہر فرد بشر کو اس طرف بھی متوجہ کیا

Page 375

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۶۵ سورة النجم کہ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں.اگر مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلند سے بلند مقام حاصل ہو سکتا ہے تو تمہیں بھی بلند درجہ کیوں نہیں حاصل ہو سکتا.تم بھی خدا کی راہ میں مخلصانہ کوششیں کرو، سچی قربانیاں دور حقیقی مجاہدہ اختیار کرو، جذ بہ فدائیت اور عاشقانہ ایثار کے نمونے پیش کر و خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرنے لگ جائے گا تم بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کر لو گے.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۰۶،۸۰۵) آیت ۱۱ تا ۱۹ فَاَوْحَى إِلى عَبْدِهِ مَا أَوْلى مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأى.افترُونَهُ عَلَى مَا يَرَى وَلَقَدْ رَاهُ نَزَلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدرَةِ الْمُنْتَهَى عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاوَى إِذْ يَغْشَى السّدُرَةَ مَا مَا يَغْشَى مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِنْ أَيْتِ رَبِّهِ الكُبرى.تاہم وہ بنیادی حقیقت جو معراج کی رات نوع انسان کو دکھائی گئی وہ کچھ اور بھی بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مقام محمد یت عرش رب کریم پر ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کوئی شخص روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے کرتے ساتویں آسمان تک پہنچ جائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلو میں جگہ پائے تب بھی آپ کے آخری نبی ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑتا کیونکہ آپ کا مقام تو بہت بلند ہے.آپ آخری مقام یعنی مقام محمدیت پر فائز ہیں اور یہ یہ مقام ہے جس کے بعد کوئی اور روحانی مقام نہیں ہے.عرش رب کریم کے بعد تو کوئی اور چیز ہوہی نہیں سکتی.آپ اس آخری مقام پر کھڑے ہیں جہاں تک کسی کا پہنچنا ہی ناممکن ہے کسی کا آگے بڑھنا شرعاً ناممکن ہے.کسی کا آگے بڑھنا انسانی فطرت کے خلاف ہے کیونکہ فطرت کا نچوڑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کا مقام مقام محمدیت ہے عرش رب کریم ہے.اگر کوئی امتی آپ کی متابعت میں ساتویں آسمان پر بھی پہنچ گیا تو وہ ختم نبوت میں کیسے خلل انداز ہو گیا.ختم نبوت کا مقام ساتواں آسمان نہیں ہے بلکہ اس سے بہت بلند بہت پرے ہے اور ختم نبوت یعنی مقام محمدیت کے پرے کوئی چیز نہیں ہے.عرش رب کریم کے بعد تو کوئی اور مقام نہیں ہے وہاں تک کسی کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نہ ہی اس

Page 376

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۳۶۶ سورة النجم سے ورے رہ کر ختم نبوت میں کوئی خلل پڑتا ہے مثلاً ہمارے سامنے پہاڑیاں ہیں.ایک شخص سبہ سے اونچے پتھر پر کھڑا ہے.وہاں صرف ایک آدمی ہی کھڑا ہو سکتا ہے.اب نیچے سے ایک اور شخص اوپر چڑھتا ہے اور چڑھتے چڑھتے وہ اس جگہ تو نہیں پہنچ سکتا مگر دس گز ورے رہ جاتا ہے.اس کا دس گزورے مقام حاصل کر لینے کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ دوسرا شخص پہاڑی کے آخری اور سب سے بلند مقام پر کھڑا نہیں ہوا.پس ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں اس معنی میں جس معنی میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہمارے محبوب اور پیارے ہیں آخری نبی سمجھنا چاہیے لیکن بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کے باوجود کوئی شخص پہلے آسمان پر بھی نہیں جاسکتا.بعض کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے آسمان پر بھی کوئی نہیں جاسکتا.کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں تیسرے آسمان پر بھی کوئی نہیں جاسکتا کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ چوتھے اور پانچویں آسمان پر بھی کوئی نہیں جاسکتا.اسی طرح چھٹے اور ساتویں آسمان تک بھی کوئی نہیں جاسکتا حالانکہ اگر آپ کی امت میں سے کوئی شخص حضرت آدم کا رتبہ اور آپ کی رفعت حاصل کرلے تو مقام محمدیت پر اس کا کیا فرق پڑا وہ تو چھ سات آسمان آپ سے نیچے ہے.اسی طرح اگر کوئی آدمی ساتویں آسمان تک پہنچ جاتا ہے (جس کی حدیث میں بھی خوشخبری دی گئی ہے ) تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے.اگر حضرت ابرہیم علیہ السلام کے مقام تک پہنچنے سے ختم نبوت پر اثر پڑتا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وجود یہ اثر ڈال چکا ہے.کسی اور کو رخنہ ڈالنے کی ضرورت نہیں لیکن فی الواقعہ یہ امر رخنہ نہیں ڈالتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمرہ، آپ کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ ایک ایثار پیشہ قوم تیار ہوگئی جسے ابراہیم علیہ السلام نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے تیار کیا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام پر اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے کس چیز پر قربان کرنے کے لئے؟ خدا نے فرمایا تھا میرے عرش پر، میرے عرش کی رفعتوں کے حصول کے بعد میری دائیں طرف بیٹھنے والا تیری نسل میں پیدا ہونے والا ہے.اس فخر پر ( جو تجھے نصیب ہورہا ہے کہ وہ تیری نسل میں پیدا ہو گا ) اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اپنی نسل کو اس ممتاز اور منفرد شخصیت پر قربان کر دو.گو اس کی تعبیر کچھ اور تھی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام ظاہری طور

Page 377

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.۳۶۷ سورة النجم اس کی تعبیر یہ تھی اور تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سینکڑوں سال تک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کی تیاری کرتی رہی ہے.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی جگہ ڈی سی صاحب نے آنا ہوتا ہے.تین چار دن پہلے تیاری کی جاتی ہے.کمشنر صاحب کے لئے آٹھ دس دن پہلے اور صدر مملکت مثلاً امریکہ کا صدر نکسن ہو تو اس کے استقبال کے لئے لوگ کئی مہینے پہلے تیاری کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر وہ عظیم ہستی جس کے مقابلہ میں جس سے ارفع کسی انسان نے پیدا نہیں ہونا تھا اس کے استقبال کیلئے صدیوں کی تیاری کی ضرورت تھی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک قوم تیار کی جانی تھی جس نے آپ کا استقبال کرنا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ اور روحانی اثرات کو قبول کرنا تھا جس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا تھا کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اسی طرح ہم اپنی نسلوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر خدا تعالیٰ کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.یہ وہ ذبح عظیم ہے جس کی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بچ گئی اور یہی وہ ذبح عظیم ہے جس کی ہزاروں مثالیں ابتداء دور اسلام میں ملتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام اور آپ کے مشن کے دفاع میں میدان کارزار میں جو کٹی ہوئی گردنیں نظر آتی ہیں وہ ذبح عظیم کی درخشندہ مثالیں ہیں.ایک قوم کو تیار کرنے کا حکم تھا جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر دے.ایک بچے کی جان لینے سے کام نہیں بنتا تھا چنانچہ ایک جان نثار قوم تیار ہوئی اور اس میں سے کئی بدر کے میدان میں شہید ہوئے پھر وہ جنگ احد میں شہید ہوئے یکے بعد دیگرے ہر جنگ میں شہید ہوتے رہے.وہ عرب کے میدانوں میں شہید ہوئے ، وہ ایران کے میدانوں میں شہید ہوئے ، وہ روم کے میدانوں میں شہید ہوئے ، وہ مصر کے میدانوں میں شہید ہوئے ، مغربی افریقہ کے میدانوں میں شہید ہوئے.وہ اسپین سے آگے نکل کر فرانس کے شمالی علاقوں میں جا نکلے.وہ روم میں جا پہنچے جو اس وقت ترکی میں شامل تھا اور پھر پولینڈ تک چلے گئے.انہوں نے اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرتے ہوئے زمین کو اپنے خون سے سرخ کر دیا.پس یہ ہے وہ ذبح عظیم جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے لی گئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام

Page 378

۳۶۸ سورة النجم تفسیر حضرت خلیفة السبع الثالث کا روحانی رفعتوں کے حصول پر ساتویں آسمان تک پہنچ جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمدیت میں رخنہ اندازی کرنے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی عظیم روحانی مہمات میں ممد و معاون بننے والا ہے.جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نسل کو حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیا تھا اگر اسی طرح آج بھی آپ کا کوئی روحانی فرزند ایک ایسی جماعت کو تیار کرنے کیلئے کھڑا ہو جو پہلوں کی طرح یا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کی طرح اپنی جانوں کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان کرنے والے ہوں اور اس وجہ سے وہ شخص یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرزند جلیل حضرت ابراہیم کے ساتھ ساتویں آسمان تک پہنچ جائے تو کوئی جاہل ہی یہ کہے گا کہ اس سے خاتم النبیین کے اندر رخنہ پڑ گیا اور خلل واقع ہو گیا.نہ پہلے آنے والوں کے نتیجہ میں رخنہ پڑا اور نہ بعد میں آنے والے امتی اور ظلی نبی کے آنے پر خلل واقع ہوسکتا ہے.آخری نبی کا یہی وہ مقام یعنی مقام محمدیت ہے جس کی رو سے ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی سمجھتے ہیں اور ہم آپ کے اس قول پر بھی یقین رکھتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ دیکھو تم میں سے جو بھی تو اضع اور عاجزی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو روحانی طور پر رفعتیں عطا فرمائے گا مگر ایک وہ بھی ہوگا إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاء السابعة - ( كنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۵) جس کی عاجزی اور تواضع جس کی اطاعت محمد اور فنا فی محمد کا رتبہ اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہوگا.وہ عجز کے انتہائی مقام، تواضع کے انتہائی مقام اور عشق محمدؐ کے انتہائی مقام سے سرفراز ہوگا.دراصل عجز اور انکساری عشق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس جس کی یہ کیفیت ہوگی اِذا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ اس کے متعلق خدا وعدہ کرتا ہے.رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ کہ اللہ تعالیٰ اُسے ساتویں آسمان تک پہنچا دے گا اور اُسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلو میں لے جا کر کھڑا کر دے گا.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام روحانی رفعتوں کے لحاظ سے ساتویں آسمان پر پہنچے لیکن وہ پاک وجود جس نے عرش رب کریم پر جگہ پانی تھی اور ختم نبوت سے مشرف ہونا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رفعتیں آپ کے اس مقام میں رخنہ ڈالنے والی نہیں تھیں تو آپ کا وہ فرزند جلیل جس نے اپنی زندگی کا ہرلحہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا اور غلبہ اسلام کے لئے جس کی تڑپ نے اور جس کے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار نے اور جس کی متضرعانہ دعاؤں نے

Page 379

۳۶۹ سورة النجم تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ایک ایسی قوم پیدا کی جس نے ساری دنیا کے ساتھ جنگ کو قبول کیا لیکن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت کا رشتہ قطع نہیں کیا اس فرزند جلیل کے اس روحانی رتبہ کی وجہ سے جو ساتویں آسمان پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے ہے اس سے ختم نبوت میں کیسے خلل پڑ گیا؟ یہ ایک سمجھنے کی بات ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھ عطا فرمائے.باقی ہم سمجھتے ہیں کہ جو شخص یہ مسئلہ نہیں سمجھتا وہ دراصل بغض کی وجہ سے یا جہالت کے نتیجہ میں یا تعصب کی وجہ سے یا روحانی اقدار حاصل نہ کرنے کے نتیجہ میں ایسا کرتا ہے کیونکہ امت محمدیہ کے علماء دو مختلف ( علمائے ظاہر اور علمائے باطن کے گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں.پہلے لوگوں نے بھی ان کے متعلق یہی کہا ہے اور اب بھی یہی کہا جا سکتا ہے.ایک وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم سکھایا اور ایک وہ ہے جس نے خدا سے سیکھے ہوئے کو یاد کیا سمجھ کر اور کچھ بغیر سمجھے کے، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.بہر حال ہم بھی حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور آخری نبی مانتے ہیں اور اس محکم یقین پر قائم ہیں کہ کوئی شخص روحانی رفعتوں کے لحاظ سے پہلے، دوسرے تیسرے، چوتھے ، پانچویں، چھٹے اور ساتویں آسمان تک پہنچنے کے باوجود مقام ختم نبوت میں خلل انداز نہیں ہو سکتا ساتویں آسمان پر پہنچ کر اس کا مقام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے نیچے مگر آپ کے قریب تر مقام ہوگا کیونکہ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے درمیان ایک پورا ساتواں آسمان حائل ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام وہ قرب نہیں پاسکے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پایا تھا اسی واسطے ان کے دل میں جب یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس تجلی کو دیکھیں جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی تو اس کے ہزارویں حصہ سے بھی تھوڑی سی جھلک کے نتیجہ میں خَرِّ مُوسى صَعِقًا (الاعراف: ۱۴۴) یعنی حضرت موسی علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے.اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ نظارہ دکھایا لیکن جو شخص ساتویں آسمان پر پہنچ گیا وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہے.آپ سے نیچے ہے بعد نہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی قرب اور آپ کے قدموں کی خاک میں بیٹھنا میرے لئے فخر کا موجب ہے.وہ آپ کے احترام کے منافی کس طرح بات کرنے والا سمجھا جاسکتا ہے.وہ تو آپ کے پیار میں

Page 380

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة النجم گم ہے اس کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیوست ہے.وہ تو آپ پر ہر آن فدا ہوتا رہا اور عاجزی سے خدمت اسلام کے کاموں میں لگا رہا.اس کے وجود میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کارفرما رہی.اس کی قائم کردہ جماعت آج بھی اس بات پر فخر محسوس کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے اس طرح چنا جس طرح پہلے لوگوں کو چنا تھا تا کہ وہ خواب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دکھائی گئی تھی وہ دوبارہ پوری ہو.دنیا پھر فدائیت اور جاں نثاری کے نمونے دیکھے.جس طرح پہلے اسلام معروف دنیا پر غالب آیا تھا اب پھر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اُن جاں نثاروں کی قربانیوں اور جاں شاری کے نتیجہ میں اسلام ساری معروف دُنیا پر غالب آئے ساری دُنیا پر.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۸۶ تا ۹۱) b آیت ۳۳ اَلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَّرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّهَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ اَنْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ آجِنَّةٌ فِي b بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ اتَّقَى b سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَاكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ آجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى - خدا تعالیٰ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب تمہارے جسم کے ذرے ابھی مٹی میں ملے ہوئے تھے اور اس نے ان ذروں کو اٹھایا اور ایک مادی جسم پیدا کر دیا.وہ اس وقت سے تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا.پھر کم و بیش نو مہینے تم اپنی ماں کے پیٹ میں رہے.نہ ماں کو پتا تھا کہ یہ بچہ کیسا ہے نہ اس بچے کو ہوش تھی کہ میں کیا بنوں گا لیکن خدا جانتا تھا.پس وہ اس وقت سے تم کو خوب جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں پوشیدہ تھے.پس اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو.فَلَا تُزلوا انفسكم پاک قرار دینا اس کا حق ہے جو اس وقت سے علم رکھتا ہو جب ذرات زمین ابھی جسمانی روپ میں ظاہر نہیں ہوئے اور بچہ بن کے ماں کے پیٹ میں نہیں گئے اور اس وقت سے جانتا ہے کہ جب ماں بھی نہیں جانتی تھی کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ کیسا نکلے گا اور نہ اس بچے کو کوئی ہوش تھی اس لئے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ اتَّقُی یہ

Page 381

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة النجم فیصلہ کرنا کہ متقی کون ہے اسی ہستی کا کام ہے جو اس وقت سے زمین کے ذروں کو جانتا ہو جس نے جسم بننا ہے اور جو ماں کے رحم میں بچہ کروٹیں لے رہا ہے (اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے ایک وقت کے بعد ) صرف اللہ جانتا ہے.نہ ماں جانتی ہے نہ باپ جانتا ہے نہ خود بچہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے آئندہ؟ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ صرف مجھے اختیار ہے اور مجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس کا کام ہے کہ وہ کسی شخص کو متقی قرار دے، کسے متقی قرار نہ دے.اگر کوئی شخص یہ دعوی کر دے جنون کی کسی حالت میں کہ میں بھی ان ذرات کے وقت سے جب ابھی جسم نہیں بنے تھے جانتا ہوں بعض لوگوں کو اور ماں کے پیٹ میں جب وہ کروٹیں لے رہے تھے اس وقت سے میں جانتا ہوں اور میں متقی قرار دیتا ہوں، یہ تو جنون ہو گا.ہر آدمی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے اور تیرے حواس کو درست کرے.پس اعلان یہ ہو گیا قرآن کریم میں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے جو اس وقت سے تم کو جانتا ہے کہ تم زمین میں مادی ذرات کی شکل میں تھے.پھر اس نے تمہیں اکٹھا کیا اور ایک جسم دیا.انسان کو خلق کیا اور احسن صورت بنائی دوسری آیت میں ہے.اس وقت سے جانتا ہے جب یہ احسن صورت بنانے کی Process شروع ہو چکی تھی ماں کے پیٹ میں.وہ جانتا ہے کہ اس نے تمہیں کون سی صلاحیتیں اور قوتیں اخلاقی اور روحانی طور پر دیں وہ جانتا ہے کہ تم نے انہیں ضائع کر دیا یا ان کی صحیح نشوو نما کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا.یہ بات خدا کا پیار ملایا نہیں ملا یہ تو خدا ہی بتا سکتا ہے نا.اس واسطے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ یہ حکم دے دیا.اور سورہ نساء میں یہ فرمایا - اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ اَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا انْظُرُ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ اِثْمًا مُّبِينًا (النساء: ۵۱،۵۰) کیا تجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جو اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں.ان کا یہ حق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتا ہے اسے پاک قرار دیتا ہے.وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انظرُ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ کہ دیکھ وہ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں.جب وہ کسی کو پاک اور مطہر قرار دیتے ہیں تو اس کا تو مطلب یہ ہے نا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک

Page 382

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۷۲ سورة النجم د اور مطہر ہے وہ.خدا تعالیٰ کہتا ہے دیکھو.وہ کس طرح خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور یہ و کفی پتے إثْمًا مُّبِينًا کھلا کھلا گناہ ہے.ایک دوسرے کو یا اپنے آپ کو متقی اور پر ہیز گار قرار دینا ، خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا انه مبین ہے، ایک ایسا گناہ کرنا ہے جو چھپی ہوئی بات نہیں، کھلی بات ہے.اس واسطے کہ پاک اور متقی کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو خدا کی نگاہ میں پاک اور متقی ہو.پاک اور متقی کے معنی اسلامی تعلیم کی رو سے یہ نہیں کہ کوئی جماعت کسی دوسری جماعت کو پاک اور متقی قرار دے دے.پاک اور متقی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص پاک اور متقی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کو پاک اور متقی قرار نہیں دیتا اور ایک شخص یا ایک گروہ یا ایک علاقہ یا ساری دنیا مل کے کسی کو پاک اور متقی قرار دے تو وہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے اور کھلم کھلا گناہ ہے.بہت سی اور آیات ہیں جن میں اس مضمون کے بعض دوسرے پہلو بیان کئے گئے ہیں.ان میں سے میں نے تین کو اٹھایا ہے.اس واسطے انسان کا جو کام ہے وہ انسان کو کرنا چاہیے اور انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے کبھی تکبر نہ کرے کبھی کسی سے خود کو بڑا نہ سمجھے کبھی گھمنڈ اور فخر اس کے دل میں پیدا نہ ہو.نہ دنیوی برتریاں، جو دنیا کی نگاہوں میں ہیں ان کے نتیجہ میں ، نہ دین میں جب دین خدا اسے عطا کرے، نا مجھی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی تلاش کرنے کی بجائے جو دعا کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہوتے ہیں خود ہی فیصلہ کرنا شروع کر دے کہ میں یا فلاں لوگ جو ہیں وہ پر ہیز گار اور متقی ہیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۹۶ تا ۹۸) انسان خدا سے دور ہو کر ہی انانیت کا چولہ نہیں اوڑھتا اور تکبر اور فخر اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کی لعنت میں مبتلا نہیں ہو جاتا اور خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنے کے بعد ہی اس قسم کی انا کا، انانیت کا مظاہرہ نہیں کرتا جس قسم کی انانیت کا مظاہرہ فرعون نے آنا رَبَّكُمُ الْأَعْلَى (النزعت : ۲۵) کہہ کر کیا تھا بلکہ خدا پر ایمان لانے کے بعد بھی اس ابتلا کا دروازہ انسان پر کھلا رہتا ہے.اسلام نے مذہب کی جو بنیادی حقیقت ہمیں سمجھائی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا کام ہے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر اخلاص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ ان اعمال کو وہ بجالائے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ بجالا ؤ اور ان سے اجتناب کرے جن سے بچنے کے لئے حکم دیا گیا ہے.اعمال کو قبول کرنا یا

Page 383

تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث ۳۷۳ سورة النجم نہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.ان چھپی ہوئی، پوشیدہ، ایسی کمزوریوں کو جاننا جن پر انسان خود بھی اطلاع نہیں رکھتا.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.یہ انسان کر ہی نہیں سکتا.اس لئے اسلام کی اس تعلیم کا جو حصہ ہے، اس کا خلاصہ اس فقرہ میں بیان کیا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد سمجھو کہ کچھ نہیں کیا.اس لئے کہ قبول کرنا یا نہ کرنا، یہ واللہ تعالیٰ کا کام ہے.کوئی شخص ساری ساری رات خدا کے حضور بظاہر دعائیں کرنے کے باوجود خدا کا پیارا نہیں بنتا.مالی قربانیاں دینے کے بعد ، وقت کی قربانی دینے کے بعد نفس کی قربانی دینے کے بعد ، عزت کی قربانی دینے کے بعد خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کرسکتا جب تک خدا تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول نہ کرے.اس سلسلہ میں حکم قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے کہ لا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ خود اپنے نفس کو اور ایک دوسرے کو ( یہ دونوں مفہوم اس میں آتے ہیں ) پاک اور مطہر نہ قرار دیا کرو.مختلف آیات میں یہ مضمون اور اس کے مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں.چند ایک آیات آج کے خطبہ کے لئے میں نے منتخب کی ہیں.میں کوشش کروں گا کہ مختصر خطبہ دوں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں اللہ ہی بہتر جانتا ہے.سورہ نجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ اتَّقُی.دنیا میں خدا کے علاوہ کوئی وجود تمہیں اتنا نہیں جانتا جتنا خدا جانتا ہے.سب سے زیادہ تمہیں اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے.آگے دلیل دی کیونکہ اسلام حکمت سے پر مذہب ہے.إِذْ أَنْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ اس وقت سے جانتا ہے کہ جب اس نے زمین کے ذروں کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہارے وجود کا حصہ بنیں.ابھی ماں کے پیٹ میں تم نہیں گئے لیکن زمین کے ذرے کچھ ایسے پیدا کئے گئے تھے جو تمہارے جسم کا حصہ بنے.ہر فر د واحد مختلف مجموعہ ہے ذرات کا.وہ ذرات اس کے جسم کا حصہ بنتے ہیں.إِذْ انْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ جب تم کو اس نے زمین سے پیدا کیا اس وقت سے وہ تمہیں جانتا ہے تو یہ ذرات ہیں جو فلاں فرد واحد کے جسم کا حصہ بنیں گے.وہ اس کا جسم بنادیں گے.وَإِذْ انْتُم أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں ابھی پوشیدہ تھے.پیدائش بھی تمہاری نہیں ہوئی تھی.خدا تعالیٰ اس وقت بھی جانتا تھا.تم اس وقت اپنے آپ کو جانتے تھے؟ نہیں، کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا اپنے ہوش و حواس میں کہ میں اپنے نفس سے واقف تھا اس وقت جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا.پیدائش کے بعد کے واقعات بھی نہیں جانتا.بعض بڑے

Page 384

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۳۷۴ سورة النجم ذہین بچے ہیں ان کو بہت بچپن کی باتیں یاد ہیں لیکن پیدائش کے بعد کی جو چیخ نکلی اس کے منہ سے وہ کسی کو بھی یاد نہیں ہوگی لیکن خدا کہتا ہے میں تمہیں اس وقت بھی جانتا تھا جب ابھی تم اپنی ماں کے پیٹ میں پوشیدہ تھے اس لئے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم تم پاکیزگی کا دعوی میرے سامنے مت کرو.ھو اَعْلَمُ بِمَنْ القَى خدا جانتا ہے کہ تم میں کون متقی ہے اور کون متقی نہیں ہے.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۳۸۱ تا ۳۸۳) آیت ۳۴ تا ۴۲ أَفَرَعَيْتَ الَّذِي تَوَلَّى وَ اعْطَى قَلِيلًا وَ الذي أَعِنْدَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَى اَم لَمْ يُنَبِّاً بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى وَ إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وفى لى اَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُرَى ثُمَّ يُجْزَهُ الْجَزَاء الْأَوْلَى وَ أَنَّ إِلَى رَبَّكَ الْمُنْتَهى اللہ تعالیٰ سورہ نجم کی ان دو آیات کے بعد ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے جو کچھ دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرتے ہیں کہ کیا ان کو علم نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے.جو پہلی الہامی کتب میں بھی نظر آتا ہے.یعنی اَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى - وَزَرَ کے ایک معنے تو گناہ کے ہیں لیکن میں جو تفسیر کر رہا ہوں وہاں گناہ کے معنی چسپاں نہیں ہوتے.میری تفسیر کے مطابق بوجھ کے معنے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.جس کی استعداد پچاس اکائیاں ہے وہ اسی اکائیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جو پچاس اور ساٹھ کے درمیان فرق ہے یا پچاس اور سو کے درمیان فرق ہے وہ تو دوسرے کا بوجھ ہے (جس کی طاقت زیادہ ہے اور ) اس کے اوپر نہیں پڑ سکتا.اس کی جان پر اتنا ہی بوجھ پڑے گا جتنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے مطابق اٹھانے کے قابل ہے اس سے زیادہ نہیں لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ میں نے جو کوتاہی کی، میں نے جو غفلت کی ، میں نے جو کمزوری دکھائی اور جو قربانی مجھے پیش کرنی چاہیے تھی ، میں نے پیش نہیں کی تو کوئی اور شخص اس کی خاطر اس کمی کو پورا کر دے گا.یا ناممکن ہے اس واسطے کہ اس میں بھی تو اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی اہلیت نہیں ہے اگر اس کی ذمہ داری اتنی اکائیاں ہے تو اشی اکائیوں پر اس

Page 385

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۳۷۵ سورة النجم کی طاقت ختم ہوگی.وہ دوسرے کی دس اکائیاں کہاں سے پوری کرے گا اگر اس کی طاقت سوا کائیاں ہے تو سو اس نے دے دینی ہیں ایک سو دس وہ کہاں سے لائے گا.پس الا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری یہ ایک اٹل قانون ہے.اگر زید اپنی پوری طاقت کے مطابق خدا کے حضور پیش نہ کرے تو زید کی طاقت کے اظہار یعنی محنت اور جانفشانی میں جو کمی رہ گئی ہے یہ کمی کوئی دوسرا پوری نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے اور اس دائرہ استعداد کی انتہا تک اس کی ذمہ داری ہے.دوسرے کی ذمہ داری وہ کیسے اُٹھائے گا.اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى - دوسرے کا بوجھ تو وہ اُٹھا ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ اٹل قانون ہے کہ انسان دوسرے کا بوجھ اور ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا.زید بکر کی ذمہ داریاں نہیں اُٹھا سکتا اور بکر زید کی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا.ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں خود ہی ادا کرنی پڑیں گی اور ادا بھی اس طرح نہیں کرنی ہوں گی کہ کچھ دیا اور بقیہ کے متعلق بخل کر دیا بلکہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنی طاقت کو انتہا تک پہنچا کر اس کا آخری حصہ تک ادا کرنا پڑے گا کیونکہ دوسرا کوئی ہے ہی نہیں جو کمی کو پورا کر سکے.عقلاً بھی کوئی دوسرا اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا.یہ خدا کا اٹل قانون ہے کیونکہ جو دوسرا ہے اس کو جتنی طاقت دی گئی تھی اس کے مطابق کام کرنے کی تو اس کی اپنی ذمہ داری تھی اور دوسرے کی ذمہ داری اُٹھانے کی اسے طاقت ہی نہیں ملی.اس کی طاقت کا کوئی حصہ ایسا نہیں رکھا گیا جس کے بارہ میں اسے کہا گیا ہو کہ تو دوسرے کی ذمہ داری اٹھالے.وہ دوسرے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا.ہرگز نہیں اٹھا سکتا.پس جو قوم اپنے مقام کی انتہا کو پہنچنا چاہے ، اس کے ہر فرد کی ایسی تربیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انتہا تک پہنچانے والا ہو.فرض کرو ایک لاکھ کی کوئی قوم ہے اگر ان میں سے نوے ہزار اپنے دائرہ استعداد کے مطابق یعنی لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں جس قسم کے مکلف ہونے کا ذکر ہے اس کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک پہنچا دے اور دس ہزار نہ پہنچا ئیں تو جو کام دس ہزار سے رہ گیا ہے، کسی اور کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پورا کر سکے.یہ بالکل ناممکن ہے خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں دی پس اگر یہ کمی رہ گئی تو ایک لاکھ آدمی اپنے مقام کی انتہا کونہیں پہنچ سکے گا کیونکہ دس ہزار نے کمزوری دکھا دی.پھر فرمایا کہ انسان کو اس کی سعی کے مطابق ہی ملا کرتا ہے.میں اب یہاں یہ معنی کروں گا کہ بنی نوع

Page 386

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة النجم انسان کیونکہ ان کی سعی کا جو مجموعہ ہے اس کی انتہا کے مطابق قوم ترقی کرتی ہے ویسے ہر فر د بھی اپنی سعی کے مطابق ہی پاتا ہے.بچوں کو سمجھانے کے لئے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو سو روپیہ دینا چاہے اور وہ دو پر راضی ہو جائے تو اس نے خود کو اٹھانوے سے محروم کر دیا.اگر کوئی فرد خدا تعالیٰ کی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں کے حصول کی استعدا در رکھتا تھا یعنی اتنی استعداد رکھتا تھا کہ وہ خدا کے حضور ایسی قربانیاں پیش کر سکے کہ خدا تعالیٰ کے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام جو امت محمدیہ میں کسی کو مل سکتے ہیں، وہ پالے اگر اس نے وہ کوشش نہیں کی تو وہ خود کو محروم کرتا ہے اور جو قوم بحیثیت قوم اس لئے پیدا کی گئی کہ وہ دنیا کی معلم اور بادی بنے اس قوم کے ہر فرد کو اپنی قوت کے مطابق اپنی قربانی انتہا تک پہنچادینی چاہیے اور قوت تو بدلتی رہتی ہے ( اس تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں.میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں) کیونکہ نشوونما ہورہی ہے اور طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے.آپ کوئی وقت لے لیں اگر انہوں نے اس وقت کی طاقت کے مطابق اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیا تو وہ قوم اس وقت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعامات کی وارث بن گئی لیکن اگر بعض نے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور وہ دائرہ استعداد کی حد بندی کرنے والی آخری لکیر تک پہنچ گئے اور بعض نے اپنی طاقت کی انتہا تک قربانیاں نہ دیں تو بحیثیت مجموعی قوم یا جماعت ان انعامات کی وارث نہیں بن سکتی ، جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے (اس حساب میں منافقین کو اس گروہ سے باہر سمجھنا پڑے گا).اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعى - وَ آنَ سَعْيَهُ سَوْفَ يُری.ایسا شخص جو اپنی استعداد کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے وہ اپنی کوشش کا نتیجہ ضرور دیکھے گا اور اس کی سعی کے مطابق جزاء اوفی یعنی پوری جزاء اسے ضرور ملے گی.وَ أَنَّ إلى رَبِّكَ الْمُنْتَھی.اسے اپنی کوشش پر نازاں نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بعض ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جو انسان کی نظر میں نہیں ہوتیں اور اس کی عقل میں نہیں آسکتیں لیکن کمزوری ہوتی ہے.یہ فیصلہ کرنا کہ اس شخص یا جماعت نے اپنی طاقتوں اور وقتی نشوونما کے مطابق بغیر کسی کمزوری کے ( کمزوری ایمان ہو یا کمزوری عمل یا کمزوری فہم ) خدا کے حضور اپنی انتہائی قربانی پیش کر دی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.انسان یہ کر ہی نہیں سکتا اس کی نگاہ دوسروں کے سلسلہ میں بھی متعصبانہ ہو سکتی ہے اور اپنے حق میں تو انسان بڑا سخت متعصب بن جاتا ہے کرتا تھوڑا

Page 387

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۷۷ سوره ورة النجم ہے اور سمجھتا ہے میں نے بہت کیا.کچھ بھی نہیں کرتا اور سمجھتا ہے میں نے کچھ کر لیا.قرآن کریم میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے کہ کرتے کچھ نہیں اور دعوے بڑے کر رہے ہوتے ہیں.ایسی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.پس فرما یا تم انتہائی کوشش کر وجس قدر تم کر سکتے ہولیکن تکبر نہ کرنا.ہمارا وعدہ یہ ہے کہ تمہاری انتہائی کوششوں کا انتہائی نتیجہ نکلے گا بشرطیکہ تمہاری کوششیں ہماری نگاہ میں بھی انتہا تک پہنچی ہوئی ہوں اور تم اس شرط کو بھی نہ بھولنا.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۲۵ تا ۲۸) دیکھو! قرآن کریم نے ایک جگہ فرما یا لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى کہ اجر حاصل کرنے کے لئے عمل کرنے کی ضرورت ہے انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور ایک جگہ فرمایا ہے فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمُ (الصف : 1) بعض لوگ اس پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے گمراہی کا انتظام پیدا نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ جب انہوں نے حق سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں جو حق کی مناسبت رکھی تھی اس مناسبت کو زائل کر دیا اور وہ ان کے اندر نہیں رہی اور یہ قانون قدرت ہے کہ جو آدمی بدی کرتا ہے اور بدی پر اصرار کرتا ہے وہ بدی کی نفرت کو کھو دیتا ہے اور اس کے اندر اس کو خوشی اور لذت محسوس ہوتی ہے اور یہ اس کا اپنا قصور ہے.اس کی ظاہری اور موٹی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قانون قدرت میں سورج کو روشنی دینے کے لئے بنایا ہے لیکن انسان کے لئے اس نے یہ قانون بنایا ہے کہ اگر وہ کھڑکیوں اور دروازوں والے کمرے بنائے تو اگر وہ دن کے وقت کھڑکیاں دروازے کھلے رکھے یا ان پرشیشے لگے ہوئے ہوں تو کمرے کے اندر روشنی آئے گی.ہم ایسے دروازے لیتے ہیں جن میں شیشے وغیرہ نہیں لگے ہوئے تو اگر دروازے کھلے ہوں گے تو کمرے میں روشنی آئے گی.یہ قانون قدرت ہے اور اگر کوئی شخص اپنے کمرے کے دروازے بند کر دے اور شیشہ وہاں کوئی نہیں لگا ہوا تو وہاں پر اندھیرا ہو جائے گا.یہ قانون قدرت ہے.ہر فعل جو انسان سے صادر ہوتا ہے وہ اس کی مرضی سے ہوتا ہے.اب وہ صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند کرے اور چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند نہ کرے اس کو یہ اختیار حاصل ہے لیکن جب وہ دروازہ بند کرتا ہے تو اس کے اس فعل پر کہ اس نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں اور وہاں کوئی شیشہ بھی نہیں لگا ہوا اللہ تعالیٰ ایک اثر پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں پر اندھیرا کر دیتا ہے.یہ انسان کا فعل ہے کہ اس

Page 388

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۳۷۸ سورة النجم نے دروازے کھڑکیاں بند کر دیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر پیدا کیا کہ وہاں پر اندھیرا کر دیا.اسی طرح اندھیرے کمرے میں کھڑکیاں دروازے کھولنے کا عمل انسان کا ہے اور اس کے بعد جو روشنی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے مطابق ہوتی ہے.پس انسان اپنے دائرہ میں صاحب اختیار ہے اور انسان کا یہ اختیار اور انسان کی یہ آزادی قضا و قدر ہے یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا اور یہ اندازہ قائم کیا اور مقرر کیا ہے کہ اس حد تک نوع انسانی اپنے دائرہ میں آزا در ہے گی اور نوع انسانی کا ہر فرد اپنے اپنے دائرہ استعداد میں آزادر ہے گا.ہرانسان کا دائرہ استعداد مختلف ہے مثلاً ہر انسان علم کے حصول میں ایک جیسی ترقی نہیں کر سکتا.لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلا ما سعی کا اصول تو یہ ہے کہ اجر کے حصول کے لئے تمہارا عمل ضروری ہے اگر تم عمل نہیں کرو گے تو تمہیں اجر نہیں ملے گا.اس میں جبر کہاں سے ہوا؟ بالکل پوری طرح آزادی کا اعلان کر دیا ہے لیکن ہر شخص دوسرے شخص جیسا اور اتنی عقل والا عمل نہیں کرسکتا.ہر ایک کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے جو بڑے بڑے موجد ہیں ان کی استعداد اور ہے مثلاً جس نے ایٹم کی طاقت کا علم حاصل کیا ( گو اب اسے غلط طرف لے گئے ہیں ) اس شخص کو خدا تعالیٰ نے اتنی ذہنی طاقت دی تھی کہ وہ اس میدان میں یہ چیز ایجاد کر لیتا یہ ہر شخص کا کام نہیں تھا لیکن یہ طاقت اور قوت اس کو خدا تعالیٰ نے دی تھی.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۵۲، ۳۵۳) کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام نے دعا کرنے پر بھی زوردیا اور یہ دعا سکھادی رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة : ۲۰۲) اس دعا میں صرف یہی نہیں کہا کہ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً بلکہ آخرت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی چاہنے کی بھی دعا سکھلا دی.ظاہر ہے دُنیا کی حسنات ہم نے دنیوی مخلوقات سے حاصل کرنی ہیں.انہی سے فائدہ اٹھا کر اپنی آخرت سنوارنی ہے.اس لئے اسلام نے یہ اعلان کیا کہ مذہب افیون نہیں ہے.وہ شخص بڑا بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام بھی افیون کا کام دیتا ہے.اسلام نے تو یہ کہا ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور انسان کی خدمت پر لگا رکھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سعی کی رو سے انسان کو اتنا فائدہ ملے گا جتنا وہ اسکے لئے کوشش کرے گا.تب سعيه سَوْفَ يُرای کی رو سے اور عام قانون کے مطابق کوشش نتیجہ خیز ہوگی.انسان کو محنت کا

Page 389

۳۷۹ سورة النجم تفسیر حضرت خلیفة السبع الثالث پھل مل جائے گا ایک شخص مثلاً ہزار یونٹ کوشش کرتا ہے اس کو ہزار یونٹ کا پھل مل جاتا ہے.میں عام تقدیر کے مطابق بات کر رہا ہوں جو اس دُنیا میں کارفرما ہے خاص تقدیریں جن کو ہم معجزات کہتے ہیں اُن کے متعلق میں بات نہیں کر رہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افیون کھا کر سونہ جانا اور تقدیر کا یہ مطلب نہ لینا کہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اگر تم نے اپنی جھولیاں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے فائدہ اُٹھا کر بھرنی ہیں تو تمہاری جھولیاں تبھی بھریں گی جب تم اس کے لئے محنت، کوشش اور مجاہدہ کرو گے.محنت نہیں کرو گے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا.(خطبات ناصر جلد ۵ صفحه ۴۹۹

Page 390

Page 391

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۸۱ سورة القمر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القمر آیت ۴۶ سَيْهزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُر ودرو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوْ يَأْخُذَهُمُ في تَقَلُّبِهِمْ کہ وہ دوڑے پھرتے ہیں.یہ جو جنگ احزاب ہوئی ، یہ سفروں کے نتیجے میں ہوئی.رؤسائے مکہ دوڑے پھرتے تھے عرب قبائل کو اکٹھا کرنے کے لیے اور یہودی دوڑے پھرتے تھے رو سائے مکہ کو اکٹھا کرنے کے لیے تاکہ مٹادیا جائے اسلام کو.اعلان کیا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ تو درست ہے کہ تم بڑے انہماک کے ساتھ ، بڑے پیسے خرچ کر کے، اپنا آرام کھو کے سعی میں، کوشش میں اور دوڑ میں لگے ہوئے ہو کہ کسی طرح اسلام کو مٹایا جائے.تمہیں کس نے یہ امان دی ہے کہ ان سفروں میں تمہیں تباہ کر دیا جائے گا.میں نے بتایا نا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد جنگ احزاب کے حالات پیدا ہوئے اور اللہ جل شانہ کا یہ نشان (آیت) ظاہر ہوا.سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ ويولون التبر سارے اکٹھے ہو کر آئے تھے تباہ کرنے کے لیے، تباہ و برباد ہو کر چلے گئے وہاں سے.اور انسان کے ہاتھ سے نہیں فرشتوں کے ہاتھ سے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ يَأْخُذَهُم فِي تَقَلبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ تم اللہ تعالیٰ کو نا کام نہیں کر سکتے اس کے منصوبے میں.اَوْ يَأْخُذَهُمُ على تخوف پنجابی میں کہتے ہیں بھورنا.على تخوف کے بھی یہی معنی ہیں یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے، یہ دونوں طرح ہوتا ہے یا آگے نسل کم ہو جائے یا نسل مسلمان ہو جائے ، ایک ایک کر کے ، وہ مکہ جس کے سپوت اسلام کو مٹانے کے لیے نکلتے تھے ان میں سے خالد بھی نکلا مگر اسلام کو مٹانے کے لیے نہیں اسلام کا جرنیل بننے کے لیے تو آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ ، بھور بھور کے ان کی طاقت کو خدا کم کرتا چلا گیا اور اسلام کی طاقت اللہ بڑھاتا چلا گیا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

Page 392

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۸۲ سورة القمر انا نَاتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء:۴۵) ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کناروں کی طرف سے اس کو چھوٹا کرتے جارہے ہیں.وہ اپنی تدبیر میں کامیاب کیسے ہونگے ہر دو کو اکٹھا کر کے ایک گلدستہ جس طرح بن جاتا ہے بہت خوبصورت کہ اَوْ يَأْخُذَهُم على تخوف یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے.اور یہ سارا کچھ کیوں کرے؟ اس لیے کہ جو تمہارا رب ہے وہ مومنوں پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے جن مومنوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا ان کے ساتھ یہ اس کا سلوک ہے اور وہ رب ہے ربوبیت کرتا ہے اور ر بوبیت کے لیے دو چیزوں کی ضرورت تھی.اس کی شفقت کی اور اس کے رحم کی.تم نے دیکھا نہیں کن عظیم مظاہروں کے ساتھ اس نے اپنی شفقت کا، اپنے پیار کا بھی اظہار کیا اور اپنی رحمتوں کی بارش بھی کی مسلمانوں پر.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۰۶،۳۰۵)

Page 393

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيُطنِ الرَّحِيمِ ۳۸۳ سورة الرحمن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الرحمن آیت ۱ تا ۹ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.دو الرّحمن لا عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ وَ النَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدُنِ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ ) أَلَا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ.سورہ رحمان کی ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ہے وہ کسی عمل کرنے والے کے عمل کے بغیر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے انسان ابھی اس کرہ ارض پر پیدا نہیں ہوا تھا کہ یہ زمین اور یہ آسمان آدم یعنی پہلے انسان کے استقبال کے لئے تیاریاں شروع کر چکے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے انسان کے لئے ہاتھ میں ایک تو قرآن کریم دے دیا فرما یا عَلَمَ الْقُرْآنَ اور دوسری طرف فرما یا خَلَقَ الْإِنسان انسان کو اس نے بے انتہا قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ پیدا کر دیا اور تیسرے یہ کہ علمه البيان اس کو بیان کرنے کی طاقت دی جس کے نتیجہ میں انسان کے ہاتھ میں تاریخ آئی خطوط اور مراسلات آئے اور علمی تحقیق کی جو فائنڈنگس (findings ) تھیں اور جونتائج نکلے تھے وہ انسان کو ملے اس لئے کہ ہمار خدا رحمان خدا ہے اس نے رحمانیت کے جوش میں انسان کو قرآن کریم دیا اور وہ ساری قوتیں اور طاقتیں عطا کیں جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے والی ہیں اور اسے بیان دیا جس کے نتیجہ میں تاریخ کا مدون کرنا آسان اور ممکن ہو گیا اور خطوط اور مراسلات کا ایک طریق جاری ہو گیا اور علمی تحقیق سے یہ ثابت ہو گیا کہ چاند اور سورج اور ستارے اور جڑی بوٹیاں اور درخت وغیرہ سب

Page 394

۳۸۴ سورة الرحمن تفسیر حضرت خلیفة اسبح الثالث خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہیں رحمان خدا نے ان کو قانون قدرت میں باندھ دیا ہے اور آسمان کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ آج کا مہذب اور ترقی یافتہ انسان علمی میدانوں میں اس عالمین کے ورلے کناروں پر کھڑا ہے تو جاہل لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اس عالمین کو فتح کر لیا ہے لیکن سائنسدان اب بھی یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے ( پنجابی کے ایک محاورہ کے مطابق ) عالمین کو ابھی بھورا ہے یعنی ناخنوں سے کھرچ کے ذراسی چیز ان کے ہاتھ میں آئی ہے اور اس پر انہوں نے ریسرچ کی ہے گویا اس کا ئنات میں اتنی وسعتیں ہیں کہ وہ ہمارے ذہن میں نہیں آسکتیں یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَضَعَ الْمِیزان کہ خدا نے اس یونیورس اس عالمین میں توازن بیلنس (balance) کا اصول قائم کیا ہے خدا نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس میزان کو ان سیٹ (unset) کر سکے لیکن اسے حکم یہ دیا ہے کہ تم نے ان سیٹ (unset) نہیں کرناور نہ فساد پیدا ہو جائے.مختصراً ایک دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَنْزَلَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ (الشوری: ۱۸) گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اسی طرح میزان کے اصول کو حق کے ساتھ قائم کیا ہے.یہ جو میزان ہے یا بیلنس (balance) ہے اس کا مفہوم ہر ایک بچے بڑے کے ذہن میں آ جانا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ایسی نسبتیں قائم کی گئی ہیں جو عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہیں مثلاً ہم آج کی سائنس کے نیوٹریشن کے محاورہ میں کہتے ہیں.بیلنسڈ ڈائٹ (balanced diet ) مثلاً یعنی متوازن غذا جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مثلاً انسان کو روزمرہ کی غذا میں اتنا گوشت کھانا چاہیے لحمیات کا حصہ، اتنی شکر کھانی چاہیے سٹارچ کا حصہ، اتنی چکنائی کھانی چاہیے مکھن وغیرہ کا حصہ، اتنا پھل کھانا چاہیے اتنے ڈرائی فروٹ یعنی اخروٹ اور بادام وغیرہ غرض اس بارہ میں انسان بڑی تفصیل میں گیا ہے.اور اس کو لوگ کہتے ہیں بیلنسڈ ڈائٹ (balanced diet ) متوازن غذا اس معنی میں بیلنسڈ (balanced ) کہ اس کے مقابلہ میں انسانی صحت ترازو کے ایک پلڑے میں ہو اور دوسری طرف یہ بیلنسڈ (balanced) غذا ہو تو صحت قائم رہے گی نہ بنیوں کی طرح گھی اور میٹھا زیادہ کھا کر کہ پیٹ موٹے ہو جائیں وہ ہر وقت لڈو کھاتے رہتے ہیں اور نہ ان لوگوں کی طرح کہ جن بیچاروں کو پوری طرح کھانے کو بھی نہیں ملتا ان کی ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں کھلے پچکے ہوئے آنکھیں اندر گڑھے میں گئی ہوئی

Page 395

۳۸۵ سورة الرحمن تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہوتی ہیں اصل صحت کو جو چیز قائم رکھتی ہے وہ یہی بیلنسڈ ڈائٹ (balanced diet) یعنی توازن غذا ہے.خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں مختلف غذائی اجزاء اور انسانی صحت کے ساتھ بیلنسڈ (balanced ) یعنی توازن کو قائم کیا ہے خدا تعالیٰ کہتا ہے میں نے عالمین میں اس میزان کا اصول چلایا ہے یہ میری قدرت کی بنیاد ہے دست قدرت سے یہ کائنات بنی اور اس میں توازن پایا جاتا ہے مثلاً میں دوسری انتہا کو لیتا ہوں جو وسعتوں والی انتہاء ہے.ہمارا ایک سورج ہے اس کے گرد چند سیارے ہیں جسے نظام شمسی کہتے اس خاندان میں زمین بھی شامل ہے یہ ایک خاندان ہے اور اتنی زیادہ تعداد میں ہے کہ ان کو انسان ابھی تک گن بھی نہیں سکا وہ جب اکٹھے ہوجائیں تو ان کا ایک قبیلہ بنتا ہے اور اس کو ٹیکسی (galaxy) کہتے ہیں اور یہ تعداد میں بے شمار ہیں ان خاندانوں کے مجموعے یعنی نظام ہائے شمسی کا مجموعہ گلیکسی (galaxy) کہلاتا ہے جولوگ ستاروں کا علم رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو گلیکسیز (galaxies) ہیں ان کی تعداد ہم سے گئی نہیں گئی.میں نے بتایا ہے کہ میں اس کائنات کی وسعتوں کی بات کر رہا ہوں بیلنس (balance) یعنی توازن کو قائم رکھنے کے لئے نظام شمسی کو لے لو فرما یا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسبان ایک اصول ہے جو ایک رفتار پر ایک جہت میں ایک ہی زاویہ اور محور پر کارفرما ہے زمین ایک ہی محور پر گردش کرتی ہے.اسی طرح چاند ہے سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر چند نیزوں کے فرق سے زیادہ قریب ہوتی زمین سورج سے تو یہاں اتنی گرمی ہوتی کہ انسان زندہ نہ رہ سکتا اور اگر چند نیزوں کے فرق سے پرے ہوتی ، دور ہوتی تو یہاں اتنی سردی ہوتی کہ انسان زندہ نہ رہ سکتا.یہی بیلنس (balance) ہے جسے وضع المیزان میں بیان کیا گیا ہے.اس کائنات میں ایک خاص توازن قائم کیا گیا ہے سورج اور ان زمین کے درمیان ایک خاص فاصلہ ہے.زمین ایک محور، اس کی اپنی جہت اور رفتار ہے جس کے مطابق وہ گھوم رہی ہے.غرض قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے اعلان کر دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس یو نیورس اس عالمین میں میزان یعنی تو ازن کا ایک اصول قائم کر دیا ہے آج کل کئی دہر یہ لوگ کہہ دیتے ہیں خدا ہے ہی نہیں یعنی وہ خدا نہیں جس نے چودہ سوسال پہلے ہمیں بتادیا تھا کہ یہ اصول قائم ہے قرآن کریم ایسے ہی کئی دوسرے علوم سے بھرا ہوا ہے.انسان کو تو پچھلی دو ایک صدی میں ان علوم کا پتہ لگنا شروع ہوا ہے جو اس میں بتائے گئے ہیں.

Page 396

تفسیر حضرت علیلة اسم الثالث ۳۸۶ سورة الرحمن اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس عالمین میں ایک تو میزان کا قانون بنایا ہے دوسرے ہم نے عالمین میں ایک اور اصول قائم کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٣) اس عالمین کی ہر شے کو بلا استثنا یہ حکم ہے کہ وہ انسان کی خدمت میں لگی رہے یعنی وہ گلیکسی (galaxy) اں تک ہمارا تخیل بھی نہیں پہنچا.وہ ستارے جن کی تعداد ہم گن نہیں سکے ان کو خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ تم انسان کی خدمت کرو.تیسرا اصول جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا اسلام نے ہمیں بتایا قرآن کریم نے ہمیں بتایا وہ یہ ہے کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے یعنی جہاں ایک طرف عالمین کو انسان کی خدمت کے لئے حکم دیا گیا ہے وہاں انسان کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ ہر وہ خدمت جو یہ عالمین انسان کی کر سکتا ہے وہ اس عالمین سے لے.خدمت لینے کی ایسی قوتیں اور استعداد میں دی گئی ہیں کہ جو عالمین کے نزدیک چیزیں یا اجزا ہیں یا دور کے اجزاء ہیں ان سے خدمت لینے کی طاقت اور قوت اور استعداد انسان کو دی گئی ہے یہ بڑے زبردست اصول ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے یہ جو میزان ہے یہ اپنے مختلف یونٹوں میں اور حصوں میں منتشر اور پراگندہ نہیں ہے بلکہ کسی ایک جگہ کو آپ پکڑ لیں تو دیکھیں گے کہ پھر اس کا تعلق اگلے کے ساتھ پھر اس کا اگلے کے ساتھ پھر اس کا اگلے کے ساتھ پھر اس کا اگلے کے ساتھ پھر اس اگلے کے ساتھ یہاں تک کہ اس میزان میں اس بیلنس (balance ) میں ہر چیز بندھ جاتی ہے پھر جب ایک مکمل یو نیورنس بنتی ہے تو وہ اپنی تکمیل میں بیلنسڈ (balanced ) ہوتی ہے یعنی جو بیلنس (balance) جو نظام ہائے شمسی کا اپنی گلیکسی (galaxy) ہے اور ٹیکسیز (galaxies) کا اپنے درمیان ہے یہی نظام انسان کے دل کے کیمیکل اجزاء میں اور گلیکسی (galaxy) کے اندر بھی ہے کیونکہ یہ جو بیلنس (balance) ہے یہ جو میزان کا اصول ہے یہ جو توازن قائم کیا گیا ہے اس میں بھی آگے انتشار نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی واحدانیت اس کو برداشت نہیں کرسکتی.گل خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۲۰۷ تا ۲۱۱) ڈاکٹر اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق پروٹین میں بھی ایک توازن قائم رکھنا چاہیے.خدا کو تو وہ نہیں جانتے.یہ فقرہ میں کہہ رہا ہوں.بہر حال ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ انسان نے اگر صحت مند رہنا ہے تو اس کو اپنی روزانہ کی پروٹین کی مقدار میں بھی آگے یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ

Page 397

تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۳۸۷ سورة الرحمن اتنے فیصد میں گوشت سے حاصل کروں گا ( گوشت کی آگے پھر کئی قسمیں بن جاتی ہیں مچھلی وغیرہ لیکن اس کو میں چھوڑتا ہوں ) اور اتنے فیصد میں پنیر سے حاصل کروں گا اور اتنی دودھ سے لوں گا اور اتنی بادام وغیرہ سے لوں گا اور اتنی میں Legumes یعنی دالوں سے لوں گا.دالوں میں سے کسی میں کم پروٹین ہوتی ہے اور کسی میں زیادہ.بہر حال خدا تعالیٰ کی شان ہے اس نے بے تحاشا چیز میں بنادیں اور ہمیں کہا کہ وَضَعَ الْمِيزَانَ اَلَا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ کہ اس نے میزان پیدا کیا ہے اور تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول میزان کو اس بیلنس (balance) کو توڑنا نہیں.اب انگریزوں نے بالکل اسی لفظ کا ترجمہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں بیلنسڈ ڈائٹ(balanced diet) یعنی متوازن غذا.قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ خدا نے ہر چیز میں میزان بنایا ہے اَلا تَطْغَوا في المیزان تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول کو نہ توڑنا، اس بیلنس (Balance) کو اپ سیٹ (Upset) نہ کر دینا ورنہ تمہاری صحبتیں خراب ہو جائیں گی.پس ہمیں یہ تو اختیار ہے کہ ہم متوازن غذا کھائیں، وزن کو برقرار رکھیں اور ہمیں ٹھیک صحت مل جائے یا ہم اس اصول کو توڑیں اور بیمار ہو جا ئیں.اِذَا مَرِضْتُ (الشعراء: ۸۱) میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان خود بیمار ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی شفا کے لئے جھکتا ہے لیکن ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم گوشت کھائیں اور ہماری خواہش یہ ہو کہ ہمیں نشاستہ مل جائے اور ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم کھائیں پنیر اور یہ سمجھیں کہ ہمارے جسم میٹھے کا فائدہ حاصل کر لیں.یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے.وہاں خدا تعالیٰ نے اپنا قانون چلایا ہے.خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۵۱،۳۵۰) آیت ۲۸،۲۷ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بیماریوں اور امراض کے لئے شفا قرار دیا ہے.یہ کتاب عظیم انسان کی اخلاقی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اس کی روحانی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اور ان زخموں کے لئے بھی جو انسان اپنی فطرت اور طبیعت کے تقاضا کے مطابق محسوس کرتا ہے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں بطور پھا یہ کے کام آتی ہے.

Page 398

تفسیر حضرت لعليلة امسیح الثالث ۳۸۸ سورة الرحمن ہمیں کل اپنے ایک اچھے دوست، پایہ کے عالم ، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور احمدیت کے فدائی کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہے.اور فطرتا ہمیں اس سے غم اور دکھ محسوس ہوتا ہے.لیکن ہم خدا تعالیٰ کی کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے رب سے تسکین حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دو آیات میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں فرماتا ہے کہ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالاکرام زمین پر ہر چیز جو پائی جاتی ہے وہ فنا ہونے والی ہے.سوائے ان باتوں اشیاء اور وجودوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہے وہ خداذ والجلال بھی ہے اور ذوالاکرام بھی ہے.ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں اعلان فنا بھی کیا ہے اور اعلان بقا بھی کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو کلیتاً فنا ہونے سے محفوظ رکھا ہے.اور اس نے ان چیزوں کو اپنی مشیت کے ماتحت ایک بقا عطا کی ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اور جو دو آیات میں نے پڑھی ہیں وہ بھی مختصراً اس کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ ایک تو انسان کی روح مرنے کے بعد بقا حاصل کرتی ہے اور دوسرے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اعمال صالحہ کو بھی باقی رکھتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ ان دونوں آیات میں فرماتا ہے کہ ہر چیز جو اس دنیا میں ہے.آخر یہاں سے چلی جائے گی.نہ انسان یہاں رہے گا کہ وہ بھی فانی ہے اور نہ اس کے اعمال.جہاں تک مرنے والے کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی رہیں گے بلکہ وہ اعمال مرنے والے کے ساتھ ہی دوسرے جہاں میں لے جائے جائیں گے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَهْلِ وَالْإِكْرَامِ ہر چیز جو زمین پر پائی جاتی ہے فانی ہے.سوائے ان اشیاء اور وجودوں کے جنہیں خدا تعالیٰ باقی رکھنا چاہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کے ایک معنی تفسیر صغیر (صفحہ ۷۱۲ ) میں یہی کئے ہیں کہ اس سرزمین پر جو کوئی بھی ہے آخر ہلاک ہونے والا ہے اور صرف وہ بچتا ہے.جس کی طرف تیرے جلال اور عزت والے خدا کی توجہ ہو.پس وہ لوگ اپنے ان اعمال کے ساتھ جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم رکھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بقا حاصل کرتے ہیں.یعنی ان کو بقا حاصل ہوتی ہے.جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں (جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ) صاحب عزت وہی ہوتے ہیں جو

Page 399

تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۳۸۹ سورة الرحمن صاحب تقویٰ ہوں جیسا کہ فرمایا.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُم (الحجرت : ۱۴) یعنی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہی عزت پاتے ہیں جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن ہوتے ہیں اور رضائے الہی کی باعزت جنتوں میں اللہ تعالیٰ ان کا ٹھکانہ بناتا ہے.پس یہاں ایک طرف یہ فرمایا کہ اس دنیا میں نہ کسی شخص نے باقی رہنا ہے اور نہ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس کے اعمال نے باقی رہنا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ یہاں کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ تم پر کلی فنا وارد نہیں ہوگی بلکہ تمہاری ارواح کو دوسرے اجسام دے کر ایک دوسری دنیا میں زندہ رکھا جائے گا.اس لئے بے فکر نہ ہونا یہ سمجھتے ہوئے کہ مرنے کے ساتھ تمہارا معاملہ خدا تعالیٰ سے کلیۂ کٹ چکا ہے وہ کٹا نہیں بلکہ اے انسانو اور اے آدم زادو! تمہارے ساتھ ہمارا واسطہ ابد تک قائم رہے گا.تمہاری ارواح کو ہم نے زندہ رکھنا ہے.یہ خدائے ذوالجلال اور ذوالاکرام کا فیصلہ ہے.وَجهُ رَبَّكَ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اعمال جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر اور اس کی توجہ اور رضا کو جذب کرنے کے لئے بجالاتا ہے.تو یہاں یہ فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال ہلاک کر دئے جاتے ہیں سوائے ان اعمال کے جن کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش رکھتا ہو جو خالصہ خدا تعالیٰ کے لئے کئے گئے ہوں.اس کی رضا جوئی میں بجالائے گئے ہوں ایسے اعمال پر فنا وارد نہیں ہوتی.جو اعمال ایسے نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان پر ہمارے منشاء اور قانون کے مطابق فناوارد ہو جاتی ہے ایسے اعمال کی فنا اور ان کے نیست و نابود کئے جانے کے متعلق جو باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک تو خدا تعالیٰ ایسے اعمال کے بجالانے والوں کو اس دنیا میں ہی سزا دے کر ان کے بعض اعمال کو باطل کر دیتا ہے.یعنی کچھ بد اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو ان کی سزا اس دنیا میں ہی مل جاتی ہے اور اُخروی زندگی میں ان کی سزا پھر اسے نہیں ملتی.ہاں دوسرے ایسے بد اعمال کی سزا اسے اُخروی زندگی میں ملتی ہے جن کی سزا اسے اس دنیا میں نہیں مل چکی ہوتی.دوسرے خدا تعالیٰ ایسے بد اعمال کو اس طرح بھی ہلاک کرتا ہے کہ ان کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو ان کے بجالانے والے نکالنا چاہتے ہیں.مثلاً وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کے رسول اور اس کے سلسلوں کو ہلاک کرنے اور انہیں مٹانے کے لئے منکرین بجالاتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بے نتیجہ کر دیتا ہے اور اس طرح

Page 400

تفسیر حضرت خلیلة اسم الثالث ۳۹۰ سورة الرحمن ان معنوں کی رو سے ان پر ہلاکت اور فتاوار دہو جاتی ہے.تیسرا طریق ان بد اعمال کو فنا کرنے کا خدا تعالیٰ نے یہ رکھا ہے کہ وہ ان اعمال اور ان کے بجالانے والوں کو جہنم میں ڈال کر ان بد اعمال کو فنا کر دیتا ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اس میں کوئی انسانی روح نہیں رہے گی.(کنز العمال صفحه ۲۴۰ مصری ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان چاہے وہ کتنے ہی گنہ گار کیوں نہ ہوں.چاہے وہ کتنے ہی خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والے کیوں نہ ہوں ان کے بد اعمال جہنم میں جا کر ایک وقت میں ہلاک اور فنا ہو جائیں گے.کیونکہ یہ بات تو ماننے کے قابل نہیں کہ بد اعمال فنا بھی نہ ہوں اور ان کے ساتھ ایک شخص کو ایک وقت تک جہنم میں رکھا جائے اور دوسرے وقت میں اسی شخص کو انہی بد اعمال کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے.غرض جہنم بھی بد اعمال کی ہلاکت کا ایک ذریعہ ہے.اس کے مقابلہ میں وہ اعمال صالحہ جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے.اور جنہیں فنا فی الرسول کے ذریعہ اور تقویٰ کی ان باریک راہوں پر گامزن ہو کر بجالایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے.ان کی بقا کے بھی مختلف طریق ہیں.ذاتی طور پر اس شخص کے اعمال جو وفات پا جاتا ہے.جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی نہیں رہتے اور اس طرح ان اعمال پر بھی اس فرد کے ساتھ ہی ایک فناوارد ہو جاتی ہے.لیکن جس طرح اس کی روح کو زندہ رکھا جاتا ہے.اسی طرح ان نیک اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ اس کے لئے زندہ رکھتا ہے.اور صرف زندہ ہی نہیں رکھتا بلکہ انہیں بڑھا تا رہتا ہے.وہ ان سے بیج کا کام لیتا ہے اسی لئے جنت کی نعماء نہ ختم ہونے والی ہیں.جیسا کہ فرمایا.عَطَاء غَيْرَ مَجْنُودٍ (هود : ۱۰۹) یعنی ان نعماء پر کبھی فتاوار نہیں ہوتی وہ باقی رہتی ہیں اور باقی رہیں گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمان باغوں کی شکل میں اور اعمال صالحہ نہروں کی شکل میں اُخروی زندگی میں باقی رکھے جاتے ہیں.یعنی وہ افراد جن کی روحوں کو خدا تعالیٰ نے اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کیا.ان کی روحوں کے ساتھ ان کے اعمال صالحہ بھی باقی رکھے جاتے ہین جن سے وہ ابد الآباد تک فائدہ حاصل کرتے رہیں گے.اعمال صالحہ کی بقاء کا دوسرا طریق جو ہمیں اسلام میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اس لئے کہ وہ اس کی عظمت اور اس کے جلال کو قائم کرے تو اس برگزیدہ

Page 401

۳۹۱ سورة الرحمن تفسیر حضرت خلیفة اسبح الثالث جماعت کو بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک لمبا عرصہ عزت کی زندگی عطا کی جاتی ہے اور صالحین کا بدل پیدا کر کے ان اعمال صالحہ کو اس وقت تک کہ اس قوم اور سلسلہ کی ہلاکت کا وقت آجائے انہیں قومی بقاء عطا کرتا ہے.غرض يَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ و الاكرام وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کئے جاتے ہیں جن میں غیر کی ملونی نہیں ہوتی.جنہیں انسان بے نفس ہو کر اپنے اوپر عجز انکسار نیستی اور فنا طاری کر کے خود کو کچھ نہ سمجھ کر بلکہ اپنے رب کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے.اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش اور مجاہدہ کر کے بجالاتا ہے.انہیں اسی رنگ میں اس قوم میں باقی رکھا جاتا ہے کہ جب اس کے بعض افراد اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے بعض قائم مقام کھڑے ہو جاتے ہیں.اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس قوم میں ان اعمال صالحہ کا ایک لمبا سلسلہ قائم کر دیتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۲۴ تا ۴۲۸) اسلام کہتا ہے اللہ ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے.عدد کے لحاظ سے وہ ایک ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے اللہ کا کوئی ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہے.واجب الوجوب ہونے میں ایسی چیز یا کوئی ایسا انسان یا جاندار یا فرشتہ یا جن یا جو مرضی کہ لوغرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو واجب الوجوب ہو یعنی جس کا ہونا ضروری ہو.اللہ کے سوا ہر چیز اپنی ذات کے لحاظ سے ہلاک ہونے والی ہے اور كُل مَنْ عَلَيْهَا فان کے اعلان کے نیچے آتی ہے......پھر اسلام نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی ابدی ہے.ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.میں یہ بتادوں کہ زمانہ کے متعلق جب ہم کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں یا کوئی بات کرتے ہیں تو ہم اپنے قائم کردہ معیار کے مطابق بات کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ازلی ابدی ہے اور وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.فرمایا يَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ اللہ تعالیٰ پر کبھی موت اور فنا طاری نہیں ہوسکتی اور ایسے ہی ادنی درجہ کا نعطل حواس بھی اس کے لئے جائز نہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب طلباء کلاس میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اگر کسی طالب علم کا دماغ تھکا ہوا ہو یا وہ لا پرواہ ہو تو اگر ایک لمحہ کے لئے اس کی توجہ اپنے استاد کی باتیں سننے سے ہٹ جائے تو پھر اسے یہ پتہ نہیں لگتا کہ استاد کیا کہہ رہا ہے مگر اللہ تعالی تعطل حواس کے نقص سے منزہ ہے.خدا تعالیٰ کی صفات میں ایک لمحہ کے ہزارویں حصہ میں تعطل حواس نہیں پایا جاتا.یہ مکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی وقت تعطل حواس پیدا ہو جائے.

Page 402

تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۳۹۲ سورة الرحمن اللہ تعالی ازلی و ابدی ہے وہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہے.وہ اپنی ذات سے زندہ ہے.وہ کامل حیات کا مالک ہے اور اپنی ذات سے قائم ہے.اس کے قیام میں بھی کمال پایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہستی نہیں جو اپنی ذات میں زندہ ہو اور اپنی ذات سے قائم رہ سکتی ہو.اس لئے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا کی ذات بزرگ و مقدس ہے.ضعف اور ناتوانی اس کی طرف منسوب ہی نہیں کی جاسکتی.اس کی ساری صفات اپنے کمال پر پہنچی ہوئی ہیں.اس کی ذات اور صفات میں تھوڑ اسا ضعف اور نقصان بھی نہیں پایا جاتا.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۰۴ تا ۲۰۷) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مکان کے لحاظ سے یا زمان کے لحاظ سے ( دونوں پہلو اس کے اندر آتے ہیں) تمہیں اپنی وجہ یعنی تو جہ کو مسجد حرام کی طرف رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرمایا: وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ اس کے معنے کرتے ہوئے امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے.جو باقی رہنے والی چیز ہے وہ ایسے اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں.یعنی وہ اعمال صالحہ جنہیں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر بجالاتا ہے وہ گویا وجه ربك کے مترادف ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کوشش کی جاتی ہے وہ قائم رہتی ہے اور باقی تو ہر عمل ضائع ہو جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرماتا ہے: كُل شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص: ۸۹) امام راغب نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَعْمَالِ الْعِبَادِ هَالِكُ وَبَاطِلُ إِلَّا مَا أُرِيْدَ بِهِ اللَّهُ یعنی انسانوں کے اعمال میں سے ہر عمل ہلاک ہونے والا اور لا یعنی اور باطل ہے سوائے اس عمل کے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.آیت ۴۷ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱۴۹،۱۴۸) خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن یعنی وہ شخص جو اپنے دل

Page 403

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۹۳ سورة الرحمن میں خدا تعالیٰ کی بلندشان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر وقت اس کے خوف کا احساس اپنے دل میں رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں اپنے عمل کا ایک تحفہ اپنے خدا کے حضور تو پیش کر رہا ہوں.آگے اس کی مرضی ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے.خدا تعالیٰ کہتا ہے ہم ایسے شخص کو یہ بشارت دیتے ہیں کہ ہم اسے دو جنتیں دیں گے.ان میں سے ایک جنت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اس دنیا میں عطا کرتا ہے اور دوسری جنت وہ ہے جو اُخروی زندگی میں یعنی اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومن کو نصیب ہوتی ہے.غرض اس خوف کی وجہ سے جس کی تلقین خدا تعالیٰ کرتا ہے.ہمارے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور نہ اسے پیدا ہونا چاہیے کیونکہ خوف اپنی جگہ پر قائم ہے اور امیدا اپنی جگہ پر قائم ہے.گو ہمیں ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی مومن کی علامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کافر کی علامت قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.إِنَّهُ لَا يَا يُعَسُ مِنْ روح الله اِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ (يوسف : ۸۸) اصل بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کا فرلوگوں کے سوا کوئی انسان نا امید نہیں ہوتا.غرض خوف اور مایوسی میں بڑا فرق ہے اور ہمیں اس فرق کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ کہا ہے کہ وہ شخص یا قوم جو خوف کے مقام کو اختیار کرتی ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارتی ہے.وہ اسے دو جنتیں دیتا ہے ایک جنت اسے اس ورلی زندگی میں عطا ہوتی ہے اور ایک جنت اُخروی زندگی میں اسے ملتی ہے ورلی زندگی کی جنت کا اس حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر آیا ہے جو میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں سنائی تھی.کیونکہ جس معاشرہ میں غیبت نہ ہو.جس معاشرہ میں فخر و مباہات نہ کیا جائے.جس معاشرہ میں کوئی شخص بھی اپنے بھائی سے تکبر کے ساتھ پیش نہ آئے اس میں عجب اور خود پسندی کا مظاہرہ نہ ہو کوئی ایک دوسرے پر حسد نہ کر رہا ہو.بلکہ سارے ہی ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوں جس معاشرہ میں خدا تعالیٰ کی عبادت ریا کے طور پر نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ ہو یعنی ہر ایک شخص مخلصانہ دل کے ساتھ اپنے رب کو یاد کر رہا ہو.تمام لوگ اپنے تمام اعمال محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجالاتے ہوں.تو ایسا معاشرہ یقینا جنت کا معاشرہ ہے.جس

Page 404

تفسیر حضرت علیلیه اسبح الثالث ۳۹۴ سورة الرحمن میں کوئی شخص کسی دوسرے کو دکھ دینے کا باعث نہیں بنتا.ہر شخص کو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کا سکون حاصل ہوتا ہے.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۱۶،۱۱۵) آیت ١ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ.جس شخص پر احسان ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ایک اور زاویہ نگاہ سے مخاطب کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : ۶۱) کہ کیا احسان کا بدلہ اور احسان کی جزا احسان کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتی ہے.یعنی جس شخص نے حسن سلوک کیا اس کو تو یہ کہا کہ تم نے بدلہ میں احسان کی توقع نہیں رکھنی کیونکہ تم نے جو کچھ کیا ہے میری خاطر کیا ہے اور جس کے ساتھ حسن سلوک ہوا تھا جس کی خاطر اس نے دکھ اُٹھائے تھے جس کی خدمت کی گئی تھی اس کو یہ کہا کہ اگر تم میری سچی پرستش کرنا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو.مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله اگر تم اپنے خدمت گزار بندوں، اپنے پیار کرنے والے بھائیوں کی جو تمہاری خاطر دکھ اُٹھاتے ہیں اسی طرح خدمت کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گے ( جب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے) اور تمہارے دل میں شکر کے جذبات نہیں ہوں گے تو تم نے خدا تعالیٰ کی پرستش کا حق ادا نہیں کیا.اگر تم تو حید خالص پر قائم رہنا چاہتے ہو اور اس حکم کی تعمیل کرنا چاہتے ہو کہ وَ مَا أَمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُ اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین تو تمہارا فرض ہے کہ جب کوئی بھائی تم سے محبت اور پیار کا احسان اور ایتائے ذی القربیٰ کا سلوک کرے تو تم اس کے مقابلہ میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اس سے بڑھ کر سلوک کرنے کی کوشش کرو اور اس کے لئے اپنے دل میں انتہائی شکر کے جذبات پیدا کرو.شکر کے جذبات پیدا کرو.یہ تعلیم تو احسان کا بدلہ لینے اور دینے سے متعلق تھی.جزا اور سزا کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نے کسی کو دکھ پہنچا یا ہو تو اس کے متعلق بھی جزا اور بدلہ کا سوال ہوتا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے جو بنیادی حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ وَجَزَوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری:۴۱) یعنی جتنی کسی نے بدی کی ہے جتنا دکھ کسی نے پہنچایا ہے جتنا ظلم کسی نے کیا ہے جتنا مال کسی نے غصب کیا ہے اس سے زیادہ اسے نقصان نہ پہنچاؤ ، جتنی تھیں احساسات کو کسی نے پہنچائی ہے اتنی ٹھیس پہنچانے کی تمہیں اجازت ہے زیادہ کی نہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۶۱۲ تا ۶۱۳ )

Page 405

تفسیر حضرت خلیلة اسم الثالث ۳۹۵ آیت ۶۳ وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتِن.سورة الرحمن اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمن میں چار جنتوں کے وعدے ایک مسلمان کو دیئے ہیں دو کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے اور دو جنتوں کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے.دراصل تو اُخروی زندگی کی جنت یا اس دنیا کی جنت ایک ہی جنت ہیں لیکن چونکہ ہم دو نقطہ ہائے نگاہ سے، دو زاویوں سے اس کو دیکھ سکتے ہیں اور ان دو نقطہ ہائے نگاہ کو ہی اللہ تعالی نمایاں کرنا چاہتا تھا اس لئے ایک کی بجائے دو جنتوں کا ذکر سورۃ رحمن میں کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ رحمن میں ہماری توجہ اس طرف پھیرتا ہے کہ اگر اس جنت کو تم حاصل کرنا چاہتے ہو جس کو دوام حاصل ہو اور جو ابدی جنت کے نام سے پکاری جا سکے، جس کے متعلق یہ فقرہ صحیح ثابت ہو کہ خلِدِينَ فِيهَا ایک لمبا عرصہ یہ قوم دنیا کی اس جنت کے اندر رہے گی تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ دوز اویوں سے تم اس جنت پر نگاہ ڈالو اور دو طرفہ کوشش کے ذریعہ اسے حاصل کرو اور یہ کوشش کرو کہ دو چشمے تمہاری قوم اور اُمت میں پھوٹیں کیونکہ صرف ایک چشمہ اسے سیراب کر کے اُسے ابدیت عطا نہیں کر سکتا.اگر اس دنیوی جنت نے کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے دوام حاصل کرنا ہے اور ابدیت کا مقام حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ دو چشمے اس کے باغ کو سیراب کر رہے ہوں ایک تو وہ چشمہ محبت الہی کا ، ایک تو وہ چشمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا، ایک تو وہ چشمہ اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کے نمونے ظاہر کرنے کا جو مرد کے دل سے پھوٹتا ہے اس کی ضرورت ہے اور دوسرے اس چشمہ کی ضرورت ہے جو ایک عورت کے دل سے پھوٹے اور اس چشمہ کے پانی سے باغ (اس جنت ) کی نرسری کو سیراب کیا جائے اس لئے مِن دُونِهِمَا جَنَّتِن کے آگے دو چشموں کا بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اے مردو! اگر خدا کی رضا کو حاصل کر بھی لو اور اگر تمہاری نیکی اور تقویٰ کے نتیجہ میں اور ان قربانیوں کی وجہ سے جو تم اس کی راہ میں دے رہے ہو اور اس موت کی وجہ سے جو تم نے اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اپنے پر وارد کی ہو اور اس اثر کے نتیجہ میں جس سے تمہاری بیویاں ایک حد تک متاثر ہوتی ہیں اس دنیا میں خدا کی رضا کی جنت کو حاصل بھی کر لو تو کون کہہ سکتا ہے

Page 406

۳۹۶ سورة الرحمن تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث کہ یہ جنت ہمیشہ رہنے والی ہے جب تک کہ مستقل طور پر اُمت مسلمہ کی ہر عورت ان قربانیوں کو بجا نہ لائے جن قربانیوں کی توقع مردوں اور عورتوں ہر دو سے کی جاتی ہے اور جب تک عورت اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے والی نہ ہو جیسا کہ اس کے خاوند اور اس کے باپ اور اس کے بھائی اور اس کے دوسرے رشتہ دار اور تعلق رکھنے والے مرد اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے والے ہیں اس وقت تک اس جنت کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ عورت کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آئندہ نسل کی صحیح تربیت کرے اور آئندہ نسل میں ان نقوش کو اُبھارے جو نقوش اسلامی انوار سے بنے ہوئے ہوں جو نقوش قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں اُبھرتے ہیں تو جب تک عورت اپنی اس ذمہ داری کو نہیں نبا ہے گی وہ عورت جو ایثار پیشہ مرد کی بیوی اور اس اسلامی جنت کی نرسری کی ماں ہے اس وقت تک اس جنت کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا.ایک نسل خدا کی رحمتوں کے سایہ کے نیچے اپنی زندگی کے دن گزار کے اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی اور اگر اگلی نسلی کی تربیت صحیح نہ ہوئی تو پہلی نسل کے اس دنیا سے گزر جانے کے ساتھ ہی خدا کی رحمت کا سایہ بھی اس قوم سے اٹھ جائے گا اور خدا کی رحمت کے سایہ کی بجائے شیطانی تمازت کے اندر اگلی نسلیں جھلنے لگیں گی.اللہ تعالیٰ سورہ نساء میں اس طرف مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنْتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجُ مُطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمُ ظِلَّا ظَلِيلًا - (النساء : ۵۸) اس آیہ کریمہ میں ایک مضمون یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان پر پختگی سے قائم رہتے ہیں اور ایسے اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں جن میں فساد کی کوئی ملونی نہیں ہوتی اور وہ لوگ جن کے سارے کام اور سارے اعمال اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں، جن کا نفس مرجاتا ہے اور اس فانی انسان میں خدائے ذوالجلال کی ایک تجلی کے نتیجہ میں ایک نئی روح پھونکی جاتی ہے اور اس نئی روح کے آرام اور آسائش کے لئے اس دنیا میں ایک جنت کو قائم کیا جاتا اور پیدا کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جنت اس قوم کے لئے اور اس اُمت کے لئے ابدی ہے اس وجہ سے لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ کہ ان کی بیویاں جو مطھری ہیں.مُطَهَّرَةٌ کے ایک معنی ہیں گناہ سے بچنے والیاں.مُطَهَّرَةٌ کے ایک دوسرے معنی ہیں اعمال صالحہ

Page 407

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۹۷ سورة الرحمن کو بجالانے والیاں یعنی ایسے اعمال جن میں کوئی فساد نہ ہو اور مُطَهَّرَةٌ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ عورتوں کا وہ گروہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے بد رسوم اور مشرکانہ بدعتوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور ان کا وجود دنیا کے وجود سے بالکل علیحدہ کر دیا گیا ہے بلکہ اس دنیا میں رہتی ہوئی بھی وہ جنت کی حوروں کی مانند بن گئی ہیں یعنی وہ ہر اس گند سے اور شنیع اور قبیح فعل سے پاک ہیں کہ جن میں کا فرات ملوث ہوتی ہیں.یہ وہ عورتیں ہیں کہ جن کے گھروں میں کسی قسم کی بد رسم نظر نہیں آتی یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے گھر اور اپنے ماحول سے مشرکانہ بدعتوں کو دور کرنے والی ہیں چونکہ یہ ازواج مطہرات ان لوگوں کو ملی ہیں اور چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ تو فیق عطا کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تو حید خالص کے ماحول میں تربیت کر سکیں اور ایک سچا اور پکا اور موحد مسلمان بنا سکیں اور اس لئے اگلی نسل شیطان سے محفوظ رکھنے میں یہ عورتیں کامیاب ہو جاتی ہیں اس لئے اس جنت کو دوام مل جاتا ہے اس لئے یہ جنت ایک نسل کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اگلی نسل کے لئے اور پھر اس سے اگلی نسل کے لئے بھی یہ دنیا کی جنت قائم رہتی ہے اور جو بشارتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ان بشارتوں کی روشنی میں یہ جنت ہمارے لئے صدیوں تک قائم رہنی چاہیے.اگر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہنے والے ہوں ہم مرد بھی اور ہماری مائیں اور ہماری بیویاں اور ہماری بہنیں اور ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں بھی تو اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ وعدہ ہے کہ وہ اس جنت کو اس دنیوی جنت کو بھی ہمارے لئے ایک قسم کی ابدی جنت بنادے گالیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ عورت اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف پوری طرح متوجہ رہے.اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس معنی میں مطہرہ ہوں کہ کوئی بد رسم ان کے گھروں میں نہ ہو اور کسی مشرکانہ بدعت کے ساتھ ان کو کوئی تعلق باقی نہ رہے خالص توحید کا ماحول پیدا کرنے والی ہوں اور اس خالص توحید کے ماحول میں اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنے والی ہوں.( خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۳ تا ۵۹۵)

Page 408

Page 409

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّجِيمِ ۳۹۹ سورة الواقعة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الواقعة آیت ۶۵ وَ اَنْتُمْ تَزْرَعُونَةٌ أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ.اللہ تعالیٰ رب ہونے کے لحاظ سے تمام عالمین کی اور اس عالمین کے ہر فرد کی ربوبیت کر رہا ہے اور ہر ایک کو کمال مطلوب تک پہنچا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ مثلاً جو درخت اُگیں عام قانون کے مطابق جب اُن کی پرورش کی جائے اور وہ بڑے ہوں تو ثمر آور ہوں.ہمارے اکثر زمیندار بھائی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ آخر کس کے بھروسے پر گندم کا بیج زمین میں ڈال آئے ہیں.اپنے اس رب کریم کے بھروسے پر جس نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.عَاَنْتُهُ تَزْرَعُونَ أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ کیا کھیتیاں تم اُگاتے ہو ؟ نہیں! کھیتیوں کو تو میں اُگا تا ہوں اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی بناء پر تم نے خدا پر بھروسہ کیا کیونکہ وہ رب ہے.اب دیکھو گندم جس کو مالک نے زمین میں ڈال دیا اس کے متعلق ہمارے رب کریم نے کہا میں اس کی پرورش کر دوں گا اور ایک سے سات سو بنادوں گا اور یہ اس لئے کہ اس کی ربوبیت سارے عالمین میں کارفرما ہے.سورج، چاند اور ستاروں کے علاوہ بعض ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچی.غرض یہ کائنات اور اس میں موجود کروڑوں کیڑے جو انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اُن کو پیدا کیا اور ان کی ربوبیت کرتا چلا جا رہا ہے.(خطابات ناصر جلد اول صفحہ ۵۸۶)

Page 410

تفسیر حضرت علیلة اسم الثالث سورة الواقعة آیت ۷۲ تا ۷۴ اَفَرَوَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُوُرُونَ وَاَنْتُمْ اَنْشَاتُم شَجَرَتَها اَم نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ نَحْنُ جَعَلْنَهَا تَذْكِرَةً وَ مَتَاعًا لِلْمُقُوين جو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی فوائد درختوں کے بتائے ہیں ایک یہ کہ لکڑی سے ہم گرمی حاصل کرتے ہیں آگ جلاتے ہیں، آگ سے ہزار ہا کام ہیں ہمارے جن کا تعلق آگ سے ہے.ہمارا کھانا پکتا ہے آگ پر ، بہت سی انڈسٹریز ہیں جن میں لکڑی جلتی ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی شان بتائی ہے کہ تم درخت کا بیج لگا سکتے ہو یا پودا اگا سکتے ہو لیکن اس حالت میں بیچ کا پہنچ جانا جب لگانے کے قابل ہے یا بعد میں بڑھنا، یہ انسان کا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اس سے دُعا اور تضرع کے ساتھ مانگنا چاہیے.پس ہمیں خدا تعالیٰ کی شان ہر جگہ نظر آتی ہے، درختوں میں بھی اور اس کی دوسری مخلوقات میں بھی، بے حد اس کی صفات ہیں اس کی خلق کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے غیر محدود ہیں، اس لئے جو چیز اس کی دست قدرت سے پیدا ہوئی ہے اس کی صفات بھی اور خواص بھی غیر محدود ہیں.انسان ان پر حاوی نہیں ہوسکتا.چنانچہ پچھلے دوسوسال میں لکڑی سے وہ کام لئے گئے ہیں جو اس سے پہلے نہیں لئے گئے چنانچہ چپ بورڈ ایک نئی ایجاد ہے یہ بھی لکڑی سے بنتی ہے.اور ایک تو خدا تعالیٰ نے یہاں اس طرف توجہ دلائی کہ ہمارے حکم سے درخت پلتے ہیں اس لئے خالی درخت کا لگانا کافی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کے حصول کے لئے اس کے حضور عاجزانہ دعائیں اور اس کی خاطر عاجزانہ راہوں کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے.دوسرے فرمایا کہ اس میں ہم نے نصیحت کے سامان رکھے ہیں ایک تو جو میں نے ابھی بتایا وہ نصیحت ہے اور دوسرے نصیحت کے سامان یہ کہ اب ان درختوں سے ہمارا کاغذ بننے لگ گیا ہے اور کتا بیں شائع ہوتی ہیں مثلاً قرآن کریم جو کہ ذکر کی کتاب ہے ساری دُنیا میں اس کا پھیلا نا جو ہے درخت اس کے اندر خدمت کر رہے ہیں اور محمد و معاون بن رہے ہیں یہ ہے تذکرہ.پھر قرآن کریم کی

Page 411

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۰۱ سورة الواقعة تفسیر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی شکل میں انسان تک پہنچی یا صلحائے امت کی کتب جو اُ نہوں نے لکھیں یا اقوال جو تحریر میں آئے ، یا پھر اس زمانہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند نے زمانہ حاضرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم کی تفسیر ہمارے ہاتھ میں رکھی.یہ وہ بھی کاغذ کے اوپر کتابیں دُنیا میں پھیلائی جارہی ہیں اس معنی میں یہ تذکرہ ہے.اور پھر تیسری چیز جس کا ذکر یہاں ہے وہ یہ کہ لکڑی میں مسافروں کی سہولت کا سامان رکھا گیا ہے جیسے کشتیاں ہیں ایک زمانہ میں تو لکڑی کی کشتیاں بنتی تھیں.ہمارے دریاؤں میں ڈونیاں ہیں بڑے جہاز یہاں نہیں ہمارے شمالی علاقوں میں بھی بڑے بڑے جہاز تو نہیں ہیں البتہ چھوٹی کشتیاں ضرور چلتی ہیں جو کہ لکڑی کی بنی ہوئی ہیں یہ لکڑی کی کشتیاں مسافروں کے کام آتی ہیں بڑے جہاز جو ہیں وہ اگر چہ لوہے کے خول اُنہوں نے بنا دیئے ہیں لیکن اندر سارا کام لکڑی سے کیا جا رہا ہے تو مسافروں کے آرام کے لئے سامان پیدا کر دیئے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۹،۵۸) آیت ۷۶ تا ۸۲ فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقع النُّجُومِ وَ إِنَّهُ لَقَسَم لَو تَعلَمُونَ عَظِيمٌ ﴿ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ لى فِي كِتَب مَّكْنُونٍ لَا يَمَسُّةَ رووو إلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُم مدهِنُونَ جیسا کہ میں نے بتایا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سورج کی روشنی تو قیامت تک قائم رہنے والی ہے مگر جس طرح ہمارا یہ سورج ہے جب دن چڑھتا ہے اور سورج طلوع ہوتا ہے تو ایک نابینا شخص اسے نہیں دیکھ سکتا اسی طرح علمائے ظاہر کے غلط استدلال کے نتیجہ میں امت محمدیہ کے افراد کی نظر میں علمائے باطن یعنی روحانی علماء دھندلا جاتے ہیں.اُن کی روشنی ان کو نظر نہیں آتی کیونکہ ان کی آنکھیں کام نہیں کرتیں.لیکن انسان کی غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اندھیرے کو دور کرنے کے لئے علمائے باطن کی پیدائش کا ایک سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری کر رکھا ہے.چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ

Page 412

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۰۲ سورة الواقعة ہے.نے یہ فرمایا فی کتب مكنون وہاں ابتداء کی ہے نجوم کے گرنے سے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقع النُّجُومِ نجوم کے گرنے کو میں گواہی کے طور پر پیش کرتا ہوں.کہ خدا تعالیٰ ہر زمانے میں علمائے باطن کو پیدا کرے گا.روحانی علماء پیدا ہوتے رہیں گے.لیکن امت محمدیہ کا جو حصہ علمائے ظاہر پر مشتمل یا ان کے اثر کے نیچے ہو گا ان کے لئے یہ چمکنے والے ستارے ہدایت کا موجب نہیں بنیں گے.ان کے لئے ان کی روشنی دھندلی دھندلی ہوگی وہ اسے سمجھ نہیں سکیں گے جیسا کہ آج کل دیکھ لیں.ہمارا تجربہ بھی یہی ہے.دنیا میں علمائے ظاہر نے باطنی علماء کی روشنی کو دھندلا کر دیا ہے.تريم پس اللہ تعالیٰ نے فرما یا لا أقسم بمواقع النُّجُومِ یعنی میں نجوم کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں.پھر فرمایا وَ إِنَّهُ لَقَسَم لَوْ تَعلَمُونَ عَظیم فرمایا یہ بڑی عظمت والی شہادت ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اور عظمت والی شہادت یہ پیش کی کہ اِنه لقران کریم کہ قرآن کریم بڑی عظمت والی کتاب ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ فی کتب مکنون یہ ایک چھپی ہوئی کتاب ہے.اس کے اندر ایسے رموز اور اسرار ہیں جو آنے والے زمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ مَا فَرَّطْنَا في الكتب مِنْ شَيْءٍ کہ اس میں بیان ہونے سے کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی.بعض بیوقوف لوگ یا بعض دنیوی علوم رکھنے والے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے جو کتاب نازل ہوئی تھی وہ ہماری ضرورتوں کو کیسے پورا کرے گی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح پورا کرے گی کہ میں خود اُمت محمدیہ کے ایک گروہ کا معلم بنوں گا.میں ان کو ہر زمانہ میں علم سکھاتا ہوں.ان کی پاکیزگی کو دوبالا کرتا ہوں.ان کو روشن کرتا ہوں.ان کے اندر طہارت اور تزکیہ پیدا کرتا ہوں انہیں اس قابل بنادیتا ہوں کہ قران کریم کے سیکھنے کی ان کے اندر اہلیت پیدا ہو جائے جس کی پہلی اور بڑی شرط طہارت ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.پھر اس کے بعد فرما یات نُزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَلَمِینَ یعنی ہونا چاہیے تھا کیونکہ قرآن کریم ایک صدی کے لئے یا ایک نسل کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ تو رب العالمین کی طرف سے عالمین کی ہدایت کے لئے ہر زمانے اور ہر ملک کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآنی عظمت کے اظہار کے لئے یہ دعویٰ بھی کیا اور دلیل بھی بیان فرمائی اور

Page 413

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۰۳ سورة الواقعة فرمايا: - مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِن شَيْءٍ انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے علم الہی میں جو چیز بھی ضروری تھی وہ اس میں بیان ہو گئی ہے.فرمایا ہم نے کوئی کمی نہیں کی.ہمارے علم میں جس چیز کی ضرورت تھی وہ اصولی اور بنیادی طور پر قرآن کریم میں بیان کر دی گئی ہے.پس ہمارے اس زمانے میں وہ چاند آ گیا.وہ قمر طلوع ہو گیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی آفتاب کا پر تو لئے ہوئے ہے.اس طلوع قمر کے نتیجہ میں بھی جو نجوم کی ضرورت ہے وہ اپنی جگہ پر قائم ہے.اگر چہ یہ سلسلہ ایک وقت میں کم ہو گیا تھا مگر اس وقت بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے فیج اعوج یعنی اسلام کے تنزل کے زمانے میں لاکھوں کی تعداد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیض کے نتیجہ میں خدا کے پیارے اور محبوب بندے پائے جاتے تھے.اب تو بہت زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ ضرورتیں بڑھ گئیں مسائل اور بھی زیادہ الجھ گئے ہیں (یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اب میں یہیں اس کو ختم کروں گا لیکن اس خطبہ میں اس کا جوڑ ملا دیتا ہوں ) حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی کتب میں کئی جگہ اس کی بڑی وضاحت فرمائی ہے.اس عظیم انقلاب کا مطلب ایک ایسا انقلاب ہے جس سے بڑا کوئی اور انقلاب تصور میں نہیں آسکتا جس کا مطلب ہے کہ سرمایہ داری کے انقلاب یا اشتراکیت کے انقلاب یا چینی سوشلزم کے انقلاب کی اس انقلاب کے مقابلے میں جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا کوئی حیثیت ہی نہیں.چنانچہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے اللہ کی مصلحت نے یہ تقاضا کیا کہ اسلامی انقلاب سے پہلے یکے بعد دیگرے تین انقلاب رونما ہوں.اور اس طرح اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے لئے زمین تیار ہو جائے.جن لوگوں نے یہ مضمون پڑھا ہے وہ تو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں.لیکن بعض لوگ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ روسی اشتراکیت اور چینی سوشلزم کے پیر و سرمایہ داری کے نظام کو ( REACTIONARY ) ری ایکشنری نظام کہتے ہیں ( REVOLUTIONARY ) ریوولوشنری نظام نہیں کہتے.میرے نزدیک وہ غلطی خوردہ ہیں.سرمایہ داری کا نظام اپنے وقت میں پہلا انقلاب تھا.یہ واقع میں انقلاب ہے کسی چیز کا رد عمل نہیں ہے اگر سرمایہ داری کا انقلاب بپا نہ ہوتا تو اشتراکیت کا انقلاب پیدا نہیں ہوسکتا

Page 414

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۰۴ سورة الواقعة تھا.اس طرح ایک کے بعد دوسرا انقلاب آیا.پہلے سرمایہ داری کا انقلاب آیا ( یہ ایک لمبا مضمون ہے اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو کسی وقت مثالیں دے کر یہ سارا مضمون بیان کروں گا ) پھر روسی اشترا کی انقلاب آیا.اگر اشتراکی انقلاب نہ آتا تو چین میں سوشلزم کا انقلاب آیا ہے اس کا بھی امکان پیدا نہ ہوتا.کیونکہ یہ دونوں بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور چینی سوشلزم اسلام سے زیادہ قریب ہے.غرض پہلے سرمایہ داری کا انقلاب پھر کمیونسٹ (اشترا کی ) انقلاب اور پھر چینی سوشلٹ انقلاب نہ آیا ہوتا تو ساری دنیا میں اسلام کے غالب ہونے کے لئے سامان نہ پیدا ہوتے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا جو آخری غلبہ ادیان باطلہ اور فلسفہ ہائے باطلہ پر مقدر ہے اس کے لئے سرمایہ داری کے انقلاب کے وقت سے بنی نوع انسان کو تیار کیا گیا ہے.اس لئے میرے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو ان انقلابی تحریکوں سے گھبرانا نہیں چاہیے.یہ تو ہمارے لئے تمہید کے طور پر ہیں.چنانچہ دیکھ لیں جس وقت سرمایہ داری کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا تھا.اس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنی جوانی کے زمانہ میں داخل ہو رہا تھا.جس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا تھا.اس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا تھا اور انشاء اللہ اور اسی کے فضل سے اور جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ ایک خاص سلسلہ ہے جو ایک زبر دست البی منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے.اس لئے میں علی وجہ البصیرت اور پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہور ہا ہو گا اسلام کا عظیم انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہورہا ہو گا.اس لئے ہماری جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ جہاد اکبر کے ذریعہ اسلام کی ایک زبردست فوج تیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے.یہ اسلام کی وہ روحانی فوج ہوگی جس کے ذریعہ اسلام کو عالمگیر غلبہ نصیب ہوگا.اس لئے ہمارے نوجوانوں کو بہکنا نہیں چاہیے.ہمارے نوجوانوں کو ایثار دکھانے اور قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت تک دو انقلاب بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں پہلا سر مایہ داری کا نظام ہے یہ بظاہر دم تو ڑ رہا ہے پتہ نہیں اس کی عمر کتنی لمبی ہے.روسی اشترا کی نظام میرے نزدیک

Page 415

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۰۵ سورة الواقعة بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو انقلاب جوانی میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے بعض مسائل کو ایثار اور قربانی سے حل کرتا ہے.اور جو انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے مسائل کو ( COMPROMISE) کمپرومائز یعنی سمجھوتے کے ذریعے حل کرتا ہے.کمپرومائزیا مداہنہ اپنے نفس میں تضاد ہے اور صراط مستقیم سے روگردانی ہے.کیونکہ صراط مستقیم میں کسی اور طرف سڑکیں نہیں نکلتیں.وہ ایک سیدھی شاہراہ ہے.اس سے ادھر ادھر ہونا گمراہی ہے.غرض مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ کا ایک جلوہ تو انقلاب عظیم کی شکل میں قرون اولیٰ میں رونما ہوا.دوسرا جلوہ آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روحانی تاثیرات اور انفاس قدسیہ کے ذریعہ بپا ہونا تھا.اس زمانے میں ہم داخل ہو چکے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اس زمانے میں بھی نجوم کا سلسلہ جاری ہے.پھر اس کے آخر میں فرمایا أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ انتُم مُّدْهِنُونَ کیا اس قرآن کے بارے میں تم مداہنت سے کام لیتے ہو.یہ تو مسائل کو حل کرنے کے لئے مداہنت یعنی کمپرومائز کو روانہیں سمجھتا یہ تو ایثار اور قربانی پر زور دیتا ہے اور اس میں مداہنت نہیں البتہ کمپرومائز میں مداہنت ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ اپنے نفس میں ایک لمبا مضمون ہے پھر کسی وقت انشاء اللہ بیان ہو جائے گا.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ میں جس روحانی سلسلہ کے قیام کا ذکر ہے وہ سلسلہ اب آخری اور ہمیشہ رہنے والے غلبہ اسلام کے زمانہ میں داخل ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا نازل ہونا رب العالمین خدا کی طرف سے ہے کیا تم اس سے مداہنت کا رویہ اختیار کرتے ہو.قرآن کریم کی تعلیم سے مداہنت کرنا تو بڑی عجیب بات ہے.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۳۶۵ تا ۳۷۰) قرآن کریم کے جو علوم ہیں جو روحانی علوم ہیں ان کے ساتھ تقویٰ کی شرط ہے.تقویٰ کے بغیر قرآنی علوم قرآنی اسرار، روحانی اسرار انسان حاصل نہیں کر سکتا.تقویٰ کے معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے خوف کھاتے ہوئے اس کی پناہ میں آجانا اور خدا تعالیٰ کے احکام کا جوا اپنی گردن پر رکھ لینا.تمام اوامر الہی اور نواہی کی پابندی کرنا اور اپنے نفس کو خدا کے لئے مار کر اسی سے ایک نئی زندگی کا پالینا یہ سب تقویٰ اور اس کے نتائج ہیں.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ جب تک تزکیہ نفس نہ ہو علوم قرآنی

Page 416

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۰۶ سورة الواقعة حاصل نہیں ہو سکتے.اگر تکبر ہے، اگر انانیت ہے، اگر فخر کی مرض ہے اسی طرح اور بہت سی بداخلاقیوں میں انسان ملوث ہو جاتا ہے، اگر وہ ہیں تو اپنے ہزار وعدوں کے باوجود بھی کوئی شخص قرآن کریم کے اعلان کے مطابق قرآن کریم کے علوم کو حاصل نہیں کرسکتا.باقی مثلاً حدیث ہے میں نے آپ کو اکثر بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد قرآن کریم کی تفسیر ہے تو یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر کی ہے اور کتابوں میں چھپ گئی ہے اس کے پڑھنے کے لئے تقویٰ کی شرط نہیں رکھی ہے.مارگولیتھ جو بڑا متعصب معاند اسلام تھا آکسفورڈ میں بھی پڑھاتا رہا ہے اس نے اسلام کے متعلق بڑی ظالمانہ اور مفسدانہ کتا بیں لکھی ہیں.ایک دفعہ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ مسند احمد بن حنبل ( جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا ایک مجموعہ ہے اور حدیث کی ایک بہت بڑی کتاب ہے ) اس کے خیال میں اس کے زمانہ میں سوائے اس کے کسی اور نے شروع سے آخر تک نہیں پڑھی اور وہ بڑا فخر کرتا تھا اس پر.پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کی توفیق دی اور احمدیوں میں سے بھی بہت سے لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے شروع سے آخر تک اس کتاب کو پڑھا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم کی جو تفسیر کی گئی اور چھپ گئی جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کے لئے تقویٰ کی شرط نہیں ہے البتہ اس کے اسرار کا علم حاصل کرنے اور اس کی روح پالینے کے لئے تقویٰ کی شرط ہے.قرآن کریم کے روحانی علوم جو انسان کی زندگی میں ایک عظیم انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں.اپنے اپنے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے محبوب بندوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور تزکیۂ نفس کے بعد جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں حاصل ہوا یہ علوم حاصل کئے.تقویٰ کی بنیادوں پر یہ علوم حاصل کئے گئے اور جہاں تک استعمال کا تعلق ہے تقویٰ کے بندھنوں میں ان کو باندھا گیا اور دنیا کی بھلائی اور خیر خواہی کے سامان پیدا کئے گئے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۸۱،۸۰) مذہب اسلام ایک عظیم مذہب ہے اور اس کا دعوی بھی بڑا عظیم ہے اور جس شکل میں اس نے اپنے دعوئی کو سچا ثابت کیا ہے وہ اسے اور بھی عظیم اور دلچسپ بنادیتا ہے.اب دیکھو صحرائے عرب سے ایک شخص اٹھا اور اس نے یہ دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ مجھ سے ہم کلام ہوا ہے اور اس نے مجھے ایک کامل اور

Page 417

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۰۷ سورة الواقعة مکمل شریعت دی ہے اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس قرآن عظیم میں قیامت تک انسان کے تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھی گئی ہے.یہ کوئی معمولی دعوی نہیں ہے بلکہ اس کی ابدی صداقت کے طور پر یہ بھی فرما دیا: - لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی مطہروں کا ایک سلسلہ پیدا ہوتا رہے گا اور خدا تعالیٰ جو معلم حقیقی ہے وہی ان کا اُستاد ہوگا.وہ اُن کو نئے سے نئے اسرار قرآنی بتائے گا جن کے ذریعہ وہ دُنیا کے مسائل کو حل کرواتا چلا جائے گا.اس حقیقت کی رُو سے ہوسکتا ہے کسی نے اشارہ پہلے بھی ایسا کہا ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی کتب میں تو ہر مسئلے کا بیچ ہمیں نظر آتا ہے.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۳۱،۳۰) ہر نئے زمانہ میں لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ خدا تعالیٰ کے مظہر بندے پیدا ہوں گے جو خدا تعالیٰ سے قرآنی علوم و اسرار سیکھ کر اپنے زمانہ کے مسائل کو حل کریں گے اور اس طرح پر عظیم دلیل پیدا کریں گے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر اگر ایسا نہ ہو اگر اسلامی تعلیم آج کا مسئلہ حل نہ کرے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ درست نہیں رہتا کہ قیامت تک کے لئے میں نبی ہوں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ ۱۵۷) وہ باطنی اسرار جو قرآن عظیم اس کتاب عظیم اور اس کامل اور مکمل شریعت میں پائے جاتے ہیں وہ بطون ہر نئے زمانہ میں نئے زمانہ کے نئے اعتراضات کو دور کرنے کے لئے موجود ہیں اور نئے زمانہ کی نئی الجھنوں کو سلجھانے کے لئے اس کے اندر تعلیم موجود ہے اور اس کے متعلق قرآن عظیم نے نوع انسانی کے سامنے یہ اعلان کیا کہ یہ کتاب مکنون میں پوشیدہ ہیں اسرار ہیں.لا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ سوائے اللہ تعالیٰ کے مظہر بندوں کے جن کا معلم معلم حقیقی خود بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ خود ان کو علوم قرآنی سکھاتا اور نئے زمانہ کی دونوں ضرورتوں ( نئے اعتراضات کا دور کرنا اور نئی الجھنوں کا سلجھانا) کو پورا کرتا ہے.اس پہلو سے چار باتیں بنیادی طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں اور چوتھی کا آج کے زمانہ سے تعلق ہے.انسانی زندگی ایک جگہ ٹھہری ہوئی نہیں.اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور جوں جوں انسان کے اندر تبدیلی ہر لحاظ سے پیدا ہوتی ہے اسکے ایک پہلو کو ہم لے لیتے ہیں یعنی علم انسانی میں وسعت اور رفعت کی طرف ایک مسلسل حرکت حصول علم کی جو حرکت ہے اس میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی ہے.ایک

Page 418

۴۰۸ سورة الواقعة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہی جگہ تو انسان نہیں کھڑا رہا.علمی میدان میں جس جگہ وہ آج سے پچاس سال پہلے کھڑا تھا اس جگہ آج بھی نہیں کھڑا ہوا.علمی میدان میں انسان ہمیں اس جگہ بھی کھڑا نظر نہیں آتا جہاں وہ ایک سال پہلے کھڑا تھا علمی میدان میں انسان ہمیں اس جگہ بھی کھڑا نظر نہیں آتا جہاں وہ ایک مہینہ پہلے تھا علمی میدان میں انسان بعض لحاظ سے ہمیں اس جگہ کھڑا ہوا بھی نظر نہیں آتا جہاں کل وہ کھڑا تھا ایک حرکت ہے جس میں تسلسل پایا جاتا ہے.علمی تحقیق ہے کہیں تحقیق ہو رہی ہے کہیں اس کے نتائج نکل رہے اور جو سائنسدان اور عالم ہیں ان سب کا تعلق اسلام سے تو نہیں ان سب کو اسلام سے پیار تو نہیں ایسے بھی ہیں جو دہریت سے پیار کرتے ہیں ایسے بھی ہیں جو مشرک ہیں.ایسے بھی ہیں جو عیسائیت سے پیار کرتے ہیں.ایسے بھی ہیں جو یہودیت سے پیار کرنے والے ہیں.جو یورپ سے پیار کرنے والے ہیں.ایسے بھی ہیں جو امریکہ سے پیار کرنے والے ہیں.ایسے بھی ہیں جو ہندوستان سے پیار کرنے والے ہیں جو جاپان اور چین اور جو دوسرے جزائر ہیں ان سے پیار کرنے والے ہیں اور ان مختلف ممالک کے حالات چونکہ مختلف ہیں اور ان لوگوں کا پیار کا تعلق اسلام سے نہیں اس لئے اپنی علمی تحقیق کے دوران بعض ایسے خیالات ان کے ذہن میں ابھرتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام پر کاری ضرب لگانے والے ہیں اور وہ اس قسم کے اعتراضات کر دیتے ہیں یا غیر مذاہب کے جو عالم ہیں پنڈت ہیں.پادری ہیں یہودی علماء ہیں وہ نئی تحقیقات کے نتیجہ میں نئے اعتراضات اسلام پر کرتے ہیں.مثلاً آج سے تیس چالیس سال میں بعض سائنسدانوں کو شہد کی مکھی اور اس کے حالات شہد وغیرہ کے متعلق دلچسپی پیدا ہوئی.انہوں نے تحقیق کرنی شروع کی وہ تحقیق جب کی گئی تو ایک وقت میں انہوں نے کہا کہ مکھی پھول سے رس لیتی ہے یعنی شہد جس چیز سے بنتا ہے اس وقت اس کا قوام نہیں ہوتا پھول کے اندر ایک پانی کا قطرہ یا قطرہ کا کچھ حصہ ہوتا ہے.اس کے اندر مٹھاس بھی ہوتی ہے اور خوشبو بھی.اس کو انگریزی میں نیکٹر (Nector) کہتے ہیں.پادریوں کے پاس جب یہ علمی تحقیق آئی تو انہوں نے کہا کہ قرآن تو کہتا تھا کہ شہد کی مکھی میں سے شہر نکلتا ہے.يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ (النحل: ۷۰ ) کہ ان کے اندر سے شہر نکلتا ہے اب تحقیق نے تو یہ ثابت کر دیا کہ پھول کے نیکٹر سے یہ شہد کی مکھی شہد بناتی ہے.نئے علم نے ایک نیا اعتراض پیدا کر دیا اور اللہ تعالیٰ کا قادران تصرف ہے کبھی وہ خود سائنسدانوں کو سائنسدانوں سے ہی جواب دلواتا ہے اور مزید تحقیق سے انہیں جواب مل جاتا ہے

Page 419

تفسیر حضرت خلیلة اسبح الثالث ۴۰۹ سورة الواقعة اور وہ تحقیق ہمارے حق میں مفید ہوتی ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے عقل دی ہم نے بھی سوچا اور پڑھا اور ان ہی سائنسدانوں نے چند سال کے بعد یہ کہا کہ شہد کی مکھی تقریباً۵۰ فیصد اپنے جسم کے Glands ( غدود ) میں سے سیکریشن (Seekeration) یعنی غدود کا رس نکال کر شہد کے اندر ملاتی ہے.پھر انہوں نے یہ کہا کہ جو باہر سے خادم لکھی نیکٹر (Nector) کا ذرا سا جزو لے کر آتی ہے تو چھتے میں رہنے والی مکھیاں زبان باہر نکالتی ہیں تو خادم مکھیاں اس کے اوپر رکھ دیتی ہیں اور چھتے میں رہنے والی مکھی زبان کو نکالنے اور اندر لے جانے کی حرکت ہزاروں ہزار مرتبہ کرتی ہے اور اس طرح پانی کو خشک کر کے شہد کو قوام کی شکل دیتی ہے.وہ بھی اس کے منہ میں سے نکلا ہے یعنی جو منہ کے اندر گیا اس کی شکل اور تھی اور جو منہ میں سے نکلا اس کی شکل اور تھی جو منہ میں گیاوہ پانی سے مشابہ تھا اور جو باہر نکلا اس کی شکل زیادہ تر شیرے سے ملتی ہے.دو مختلف شکلیں ہوئیں اور پھر قریباً ۵۰ فیصد اپنے جسم کے حصے ملادیئے اب یہ نئی تحقیق نے علم دیا.جو اسلام سے پیار کرنے والے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے نور ایمان دیا ہوا تھا انہوں نے کہا تمہار اعتراض غلط ہے کیونکہ اصل کیفیت یہ ہے کہ جس چیز پر تم اعتراض کر رہے ہو وہ حقیقت سے نہیں بلکہ حقیقت شے کا نصف ہے جب دو کو ملا دو گے اس کو پورا کر دو گے تو اعتراض خود ہی ساقطہ ہو جائے گا.پس چونکہ انسانی زندگی میں ایک حرکت ہے وہ ایک جگہ نہیں کھڑی ہوئی.زمانہ کروٹ لیتا ہے اور زمانہ جدید بن جاتا ہے.حال ماضی بن جاتا ہے اور جو مستقبل ہے وہ حال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ایک جدید زمانہ بن جاتا ہے اور ان انقلابات کے نتیجہ میں بہت سے خیالات میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور جو مخالف حرکت ہے وہ اسلام پر نئے اعتراضات کرتی ہے.جب ہر زمانہ اسلام پر نئے اعتراضات کرتا چلا آیا ہے اور کرتا چلا جائے گا تو ضروری ہوا کہ قرآن کریم کے وہ بطون جو پہلوں پر (ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے مخفی تھے آج اُمت مسلمہ کو ان کی ضرورت پڑ گئی.ظاہر ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ سے نئے معارف اور حقائق کا علم حاصل کرنے والے پیدا ہوں اور اس طرح نئے اعتراضات کارڈ کریں.دوسرے مسلسل تبدیلی جسے ہم انقلابی ریوولیوشن (Revolution) نہیں.انقلاب اور ریوولیوشن (Revolution) کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے.ہم انقلاب کو ریوولیوشن (Revolution) کے معنوں میں استعمال نہیں کرتے.بنیادی تبدیلی جب حالات میں جب پیدا

Page 420

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۱۰ سورة الواقعة ہوئی تو نے مسائل پیدا ہو گئے.مثلاً جب صنعت ابھی پوری طرح عروج کو نہیں پہنچی تھی.اس میں پوری طرح وسعت پیدا نہیں ہوئی تھی.اس میں مزدور اکٹھا نہیں ہوا تھا.غریب مزدور بکھرا ہوا تھا.لیکن جب صنعت نے ترقی کی.کارخانے لگے تو مزدور ا کٹھے ہو گئے.پہلے ایسا نہیں تھا.اب اکٹھے ہو گئے اور ایک نئی حالت پیدا ہوئی.جب چیز پیدا ہوئی تو نئے مسائل پیدا ہوئے.جب نئے مسائل پیدا ہوئے تو ان کا حل ضروری ہو گیا اتنا ضروری کہ جب انسان لا چار ہوا تو وہ کبھی اشترا کی بنا کبھی وہر یہ بنا.کبھی عیسائی بنا.کبھی عیسائیت کو چھوڑنے والا بنا.کبھی غافلا نہ اندھیروں میں رہتے ہوئے بھی خدا کی طرف جھک کر اس نے حل کے تلاش کی کوشش کی تو کبھی خدا سے دور ہوکر اسلام سے باہر اس نئے مسئلہ کے حل کی کوشش کی اور ناکام ہوا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے مظہر بندوں میں سے کچھ کو زندگی کے نئے مسائل کے حل کے لئے علوم سکھائے مثلاً میں نے ہی بعض اشتراکیوں کو کہا کہ تم غریب سے پیار کرنے والے نہیں ہو کیونکہ اسلام اس حل سے جو تم پیش کرتے ہو کہیں زیادہ اچھا حل پیش کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو امت محمدیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق ہیں کے طفیل ہم نے قرآن کریم کے نئے معارف حاصل کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پایا اور جو نئے مسائل نوع انسانی کو درپیش تھے ان کا حل اتنا اچھا اتنا پیارا کہ دنیا سوائے اثبات میں سر ہلانے کے اور کچھ کر نہیں سکتی.میں نے پہلے بھی بتایا کہ یورپ کے حالیہ دورہ میں میں نے چار جگہ پر پریس کا نفرنس بلا کر ان کو بتایا کہ میں اسلام کی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے آیا ہوں اور کسی نے بھی بہ نہیں کی.سب نے کہا کہ تعلیم بہت اچھی ہے اور میں نے تحدی سے کہا کہ اشتراکیت وغیرہ وغیرہ مکاتیب فکری تعلیم پیش نہیں کر سکتے تھے.صرف خدا تعالیٰ ہی ہے جو اس قسم کی اعلیٰ تعلیم انسان کی بہبود کے لئے دے سکتا ہے.پس نئے مسائل چونکہ زمانہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے مظہر بندوں میں سے بعض کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے قرآن کریم کے نئے معانی سکھاتا ہے اور ان نئے معانی کا تعلق کتاب مکنون سے ہے.ورق الٹتے ہیں اور کتاب مکنون کے یہ حصے کتاب مبین کا حصہ بن جاتے ہیں.یہ بات کہ زمانہ بدل رہا ہے اور اسلام پر آج تک نئے اعتراضات پڑتے چلے آئے ہیں اور نوع انسان کو نئے مسائل در پیش آتے ہیں.یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ کتاب جس کا دعویٰ

Page 421

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۱۱ سورة الواقعة خاتم الکتب ہونے کا ہے اور جس نے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ میں قیامت تک کے لئے غیر مبدل ہوں اور تمام حقائق زندگی اور حقائق زندگی میں جو اندھیرے اور سائے نظر آئیں میں ان میں روشنی پیدا کرنے کے سامان میرے اندر ہیں.پس خاتم الکتب کے لئے یہ ضروری تھا کہ ہر زمانہ میں اس کے مخفی حقائق اور معارف مطہرین کے گروہ کو سکھائے جاتے اور دنیا کے سامنے وہ ان کو پیش کرتے.پس ایک تو نئے اعتراضات کا رڈ کرنے کے لئے اور دوسرے نئے مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے نوع انسانی کو جو ضرورت تھی وہ ضرورت پورا کرنے کی خاطر مطہر مین کو اللہ تعالیٰ خود معلم بن کر قرآن کریم کے نئے معارف سکھاتا اور اس کے بطون میں سے کچھ ان پر ظاہر کرتا ہے تا کہ زمانہ جدیدہ کے مسائل حل ہو سکیں.اور تیسری بات ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہدایت و شریعت ہے.ایک ایسی حقیقت ہے جو ابدی ہے.ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے یعنی پہلی صداقتوں کو اس نے اپنے اندر لے لیا.اس لحاظ سے پہلی ہدایتوں اور شریعتوں سے اس کا تعلق قائم ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے جن ہدایات کی ضرورت تھی وہ اس میں پائی جاتی ہیں.دراصل یہ دعویٰ اس بات کے مترادف ہے کہ خدا تعالیٰ کی صنعت کی صفات بھی غیر محدود ہیں.ہر چیز میں اس کی غیر محدود صفات نظر آتی ہیں کیونکہ حی و قیوم خدا سے ان کا گہرا تعلق ہے.یہ صنعت خواہ کہکشاں (Galaxy) کی شکل میں لیں یعنی وہ بے شمار ستاروں کا مجموعہ جو ایک خاندان کی حیثیت سے بحیثیت مجموعی ایک جہت کی طرف حرکت کر رہا ہے اس طرح کی بے شمار کہکشائیں پائی جاتی ہیں.ایک بڑا یونٹ میں نے لے لیا ہے.ہمارے علم کے مطابق خدا تعالیٰ کی صنعت کا ایک بہت بڑا وجود کہکشاں کی صورت میں ہے اس کو لیں یا کیڑے کے ایک پاؤں کو لیں جو ایک چھوٹی سی چیز ہے.خدا کی مخلوق میں سے بڑی سے بڑی چیز لیں یا بظاہر چھوٹی سے چھوٹی چیز لیں.کسی کو بھی لیں جو چیز خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے وجود پذیر ہوئی ہے اس کے اندر غیر محدود صفات پائی جاتی ہیں.یہ ایک حقیقت ہے اور آج کا انسان یہ ماننے پر مجبور ہے کہ خدا تعالیٰ کی خلق اور صنعت میں غیر محدود صفات پائی جاتی ہیں مثلاً میں جب اس دورہ میں تھا تو ایک دن مجھے ڈاکٹر سلام صاحب کہنے لگے کہ اس وقت تک ساری دنیا اس بات پر متفق تھی کہ اس عالمین (Universe) کی بعض چیزوں میں صرف ایک اصول چلتا ہے.

Page 422

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۱۲ سورة الواقعة انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے اور میں ایک نئے نظریہ (Theory) پر عمل کر رہا ہوں جو اس اصول کو غلط قرار دے دے.پس سائنسدان آج ایک چیز پر ا کٹھے ہو کر کہتے ہیں کہ بس یہی حقیقت ہے اور کل اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے کسی بندہ کو اس چیز کی کسی اور صفت کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ انسان کی عقل ناقص کا یہ دعویٰ کہ کامل قدرت کے ہاتھ نے جو پیدا کیا میں نے اس کی تمام صفات کا احاطہ کر لیا ہے یہ بیوقوفی ہے.تو جب ایک مکھی یا ایک کیڑے کے پاؤں میں پائی جانے والی صفات کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ ہی کسی مسلمان کا یہ کہہ دینا کہ خدا تعالیٰ کا جو کلام ہے اس کے بطون کا ہم احاطہ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ حماقت کی ہمارے نزدیک کوئی بات نہیں.جس طرح خدا تعالیٰ کی خلق میں ہر چیز کی صفات غیر محدود ہیں اسی طرح قرآن کریم جس نے قیامت تک نوع انسانی کا رہبر بننا ہے اس کے معانی بھی غیر محدود بطون واسرار کے حامل ہیں.ایک تیسری بات ہمیں کتاب مکنون کے مضمون سے یہ پتہ لگی کہ اگر ہم قرآن عظیم کو کتاب مکنون تسلیم نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ اس میں جو کچھ علم تھا اور معارف جو اس میں تھے اور حقائق جو اس میں تھے اور رموز و اسرار روحانی جو اس میں تھے وہ سارے کے سارے پہلوں کے علم میں آگئے اور آگے کوئی نئی چیز باقی نہیں رہی تو ہمارا یہ تسلیم کر نا اس اعلان کے مترادف ہوگا کہ ہم قرآن عظیم کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک مکھی کی صفات کا کوئی انسانی علم احاطہ نہیں کر سکتا لیکن خدا تعالیٰ کی ایک عظیم اور کامل اور مکمل شریعت کے علوم اور اس کے بطون پر انسانی عقل احاطہ کر سکتی ہے یا اس کا علم اپنے دائرہ میں اسے لے سکتا ہے پس اس کا خدا تعالیٰ کے ایک کامل اور مکمل کلام ہونے کے نتیجہ میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم میں ہر زمانہ میں نئے نئے بطون ظاہر ہوتے رہیں گے اور قیامت تک قرآن کریم کے نئے علوم دنیا کے سامنے آتے چلے جائیں گے.اگر ایسا نہیں سمجھو گے تو خدا پر اور محمدصلی للہ علیہ وسلم پر اور قرآن عظیم پر اعتراض کرنے والے ٹھہرو گے.پس قرآن عظیم غیر محدود معارف اور غیر محدود روحانی اسرار کا خزانہ ہے اگر یہ خدا کا کلام ہے تو یہ بات ہمیں تسلیم کرنا پڑے گی اور جب غیر محدود معارف کا خزانہ ہے تو ہر زمانہ میں اس کے نئے سے نئے بطون ظاہر ہو کر کتاب مکنون کا ورق الٹیں گے اور کتاب مبین کا حصہ بنتے چلے جائیں گے.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۳۰۰ تا ۳۰۶)

Page 423

تفسیر حضرت علی المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۴۱۳ سورة الحديد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحديد آیت ۹ ، ۲۰،۱۰ وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُم لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ هُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِةٍ أَيْتٍ بَيِّنتٍ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَ إِنَّ الله بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيم وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَبِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ وووووو ووووو رَبِّهِمْ ، لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَ نُورُهُمْ ، وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أُولَبِكَ أصْحَبُ الجَحِيمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ حقیقت یہ ہے وَالرَّسُولُ يَدعوكم کہ اللہ کا رسول تم کو صرف اس لئے بلاتا ہے لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور اگر تم مومن ہو تو خدا تم سے ایک وعدہ لے چکا ہے.هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِةٍ ایت بيّنت وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندے پر کھلے کھلے نشان نازل کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نشانات کے ذریعہ سے تم کو اندھیروں میں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور اللہ یقیناً بہت شفقت سے کام لینے والا اور بار بار کرم کرنے والا ہے اور جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں.ان کو ان کا پورا پورا اجر ملے گا

Page 424

تفسیر حضرت خلیلی امسیح اثاث ۴۱۴ سورة الحديد اور اسی طرح ان کا نور ان کو ملے گا اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ دوزخی ہوں گے.قرآن کریم کے الفاظ کے جو معانی کئے گئے ہیں ان کی رُو سے لفظ ایمان تین باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.دل تصدیق کرے، زبان اس کا اعلان کرے اور انسان کا عمل گواہی دے کہ واقعہ میں اس کا دل ایمان لایا ہے اور صداقت کی تصدیق کرتا ہے.پس ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا پہلا اور حقیقی تعلق دل کے ساتھ ہے اور دنیا کی کوئی طاقت کسی دل میں ایمان کو داخل نہیں کر سکتی نیز دنیا کی کوئی طاقت کسی دل سے ایمان کو نکال نہیں سکتی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے پیار نے اور آپ کے سلوک نے (اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے نتیجہ میں جو آپ سے ہور ہا تھا اور جس کا دیکھنے والی آنکھ مشاہدہ کر رہی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے دلوں کو اس طرح جیتا کہ صداقت دلوں میں گڑ گئی.میں نے جو یہ کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت دل سے ایمان کو نکال نہیں سکتی اگر واقعی دل میں ایمان ہو اور اس کی مثال صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ہے.وہ کون سی مصیبت تھی جس سے وہ دو چار نہ ہوئے ، وہ کون سی ایذاء تھی جو ان کو نہیں پہنچائی گئی ، اتنے دکھ دیئے گئے اور اتنی تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ آج بھی جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن وہ صداقت جو ان کے دلوں میں داخل ہو چکی تھی ہر قسم کے دکھ اور ایذا رسانی اور ابتلا نے بھی اس صداقت کو ان کے دلوں سے نہیں نکالا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بہت دکھ دیا گیا مگر وہ ثابت قدم رہے.اس سے بہتر مثال انسان کی مذہبی تاریخ میں ہمیں اور کہیں بھی نہیں ملتی.پس ایمان دل سے شروع ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار بتایا ہے کہ مخالفین کے حربے اس وجہ سے بھی ناکام ہو جاتے ہیں کہ دلوں پر ان کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے تکلیف پہنچانے اور ایذارسانی کے منصوبے مومنین کے لئے ایک قسم کی جنتوں کے دروازے کھولنے کا موجب بن جاتے ہیں.غرض دل سے ایمان شروع ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ زبان اس کا اقرار کرے.حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ کا محبت الہی اور عشق الہی سے بڑا گہرا تعلق ہے یعنی محض یہ نہیں کہ ایک شخص

Page 425

۴۱۵ سورة الحديد تغییر حضرت خلیلی لمسیح الثالث خدا تعالیٰ پر اس کی ذات اور صفات کی معرفت کے نتیجہ میں ایمان لایا بلکہ اس کے حسن اور اس کے احسان کو دیکھ کر اس کے ساتھ ایک محبت اور ایک عشق پیدا ہوتا ہے اور جب عشق کا اور محبت کا جذبہ دلوں میں پیدا ہو جائے تو زبانوں پر بہر حال اس کا اظہار ہوتا ہے اور وہ اظہار بے تکلف ہوتا ہے.اس واسطے جب ایمان دلوں میں داخل ہو جائے تو زبان اس کا اقرار کرتی ہے اور پھر محض اقرار کو وہ انسان کافی نہیں سمجھتا بلکہ اپنے اعمال سے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ واقعہ میں اس کے دل کے اندر ایمان داخل ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا لَكُمْ لا تُؤْمِنُونَ بِاللہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ وَ الرَّسُولُ يَدْعُوكُم لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ رسول تمہیں اس طرف بلا رہا ہے کہ جس خدا نے تمہیں پیدا کیا جو تمہارا رب ہے اس پر ایمان لاؤ - صَوَّرَكُمْ فَاحْسَنَ صُوَرَكُم (المؤمن : ۶۵) وہ خدا جس نے تمہیں وجود دیا اور تمہارے اندر بہترین صلاحیتیں پیدا کیں اور جس کا منشاء یہ ہے کہ وہ صلاحیتیں نشو ونما پائیں تا کہ جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس مقصد کے حصول کے لئے اسے یہ استعداد میں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ مقصد پورا ہو یعنی انسان کا ذاتی تعلق، محبت ذاتی اور پیار اور وہ عشق کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ پیدا ہو جائے.وَ قَد أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِيْنَ اگر تم ایمان لاؤ اور ایمان کے حقائق پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ تم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ تمہاری فطرت کے عین مطابق ہے.اسی غرض کے لئے تمہاری فطرت کو پیدا کیا گیا تھا اور فطرت کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اور ان کی نشوونما کی خاطر خدا تعالیٰ اپنے بندے پر ایت بینت یعنی کھلے کھلے نشان نازل کرتا ہے اور خدا کا حقیقی بندہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی عظمت اور جلال کے لحاظ سے اور اپنے کمال کو پہنچ جانے کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور باقی تمام رسول جو پہلے گزرے اور وہ تمام مقر بین الہی جو بعد میں آئے وہ اس عبد کامل کی ظلیت میں عبد بنے جو کہ عبودیت کے اعلیٰ اور ارفع اور کامل مقام پر کھڑا ہے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی پہلوں نے بھی آیات بینات حاصل کیں اور بعد میں آنے والے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی عظمت اور جلال کو ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے کھلے کھلے نشان پانے والے بنے اور یہ نشان اس لئے ظاہر ہوئے کہ جو شیطانی ظلمات انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ان

Page 426

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۱۶ سورة الحديد ވ ވ سے انسان کو پاک کیا جائے اور جس نور کی خاطر اسے پیدا کیا گیا ہے وہ نور ان بندوں کو، ان مخلص مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو کیونکہ إِنَّ اللهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیم اللہ تعالیٰ کی صفت شفقت کرنا اور بار بار رحم کرنا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِہ کہ جو خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں ( تمام رسل اس بات میں شامل ہیں خواہ وہ شریعت لانے والے رسل تھے یا شریعت کی پیروی کرانے کے لئے آنے والے رسل تھے ) أُولَبِكَ هُمُ الصِّدِيقُونَ وَالشُّهَدَاء - ان مومنوں میں صدیقوں کا گروہ بھی ہے اور شہداء کا گروہ بھی ہے.لَهُمُ اجْرُهُم ان کے اعمال کا اجر اور ثواب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا ؤ تورھم اور ان کی قابلیت اور صلاحیت اور استعداد کے مطابق ان کا نور بھی انہیں عطا کیا جائے گا تا کہ وہ اپنے اعمال صالحہ میں ترقی کریں اور پہلے سے زیادہ اجر حاصل کریں لیکن وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وہ ناشکرے انسان جو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ نے جو استعداد میں قرب الہی کے لئے دی ہیں ان کا انکار کرتے اور ان کی ناشکری کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان کی سزا ان کے اپنے عمل کی وجہ سے وہ دوزخ ہے کہ جو خدا تعالیٰ سے دوری اور خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کی علامت ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے بھی رسول ہیں ان پر ایمان لانے والوں میں دو گروہ ضرور پائے جاتے ہیں ایک صدیقوں کا گروہ اور دوسرے شہداء کا گروہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صدیق اور شہید کے جو معنے کئے ہیں وہ میں اس وقت پڑھ کر سناؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو.مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے اور محبت باری عزاسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہو سکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقاء وغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں.پھر ماسوا اس کے ان تمام

Page 427

تغییر حضرت علیلیه اسبح الثالث ۴۱۷ سورة الحديد صفات فاضلہ پر قائم بھی ہو.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۰) پھر آپ تریاق القلوب ہی میں فرماتے ہیں.وو صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہوجائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.(ضمیمہ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۶) پھر الحکم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات میں سے ایک ارشاد کی ڈائری یہ ہے:.صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کوترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دُور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، جھوٹی گواہی نہ دوں گا اور نہ جذ بہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹا کلام کروں گا ، نہ لغوطور پر نہ کسپ خیر اور نہ دفع شر کے لئے یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا.جب اس حد تک وعدہ وو کرتا ہے تو گویا ايَّاكَ نَعْبُدُ پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور اس کا وہ عمل اعلیٰ درجہ کی دو عبادت ہوتی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے آگے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبداء الفیوض اور صدق اور راستی کا سر چشمہ ہے اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا.مثلاً جیسے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو تاجر اچھے اصولوں پر چلتا ہے اور راستبازی اور دیانتداری کو ہاتھ سے نہیں دیتا اگر وہ ایک پیسہ بھی تجارت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسہ کے بدلے لاکھوں روپے دے دیتا ہے اسی طرح جب عام طور پر ایک انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا

Page 428

تفسیر حضرت خلیلی امسیح اثاث ۴۱۸ سورة الحديد دیتی ہے.صدق مجسم قرآن شریف ہے اور پیکر صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات ہے ( کیونکہ آپ نے اپنی زندگی میں قرآن کریم کی ہدایت پر سچا اور پورا عمل کر کے ہمارے لئے ایک کامل اسوہ پیش کیا) اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے مامور ومرسل حق اور صدق ہوتے ہیں.پس جب وہ اس صدق تک پہنچ جاتا ہے تب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور اسے ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس سے معارف قرآنی اس پر کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات کے ماننے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راستبازی کو اپنا شعار نہیں بناتا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے.اس لئے کہ اس کے قلب کو اس سے مناسبت ہی نہیں کیونکہ یہ تو صدق کا چشمہ ہے اور اس سے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو.(احکم جلد ۹ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ ۱۷ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) پھر آپ فرماتے ہیں.صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں.سب سے بڑا صدق لا إله إلا الله ہے اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے.وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں......صدیق عملی طور پر صدق سے 66 پیار کرتا اور کذب سے پر ہیز کرتا ہے (احکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) شہید کے متعلق آپ فرماتے ہیں.مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوتِ ایمان سے اس قدر اپنے خدا اور روز جزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے.تب اس یقین کی برکت سے اعمالِ صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضا و قدر بباعث موافقت کے شہد کی طرح دل میں نازل ہوتی اور تمام صحن سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے.سوشہید اس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوت ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اس کے تلخ قضا و قدر سے شہد شیرین کی طرح لذت اُٹھاتا ہے اور اسی معنے کی رُو سے شہید کہلاتا ہے اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے.( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۰ تا ۴۲۱)

Page 429

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث پھر آپ فرماتے ہیں.۴۱۹ سورة الحديد عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا و با میں مر گیا وغیرہ مگر میں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے.شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا.وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہے یہاں تک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سر رکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں.ایک ایسی لذت اور سروران کی روح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جوان کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو ان کو پیس ڈالے ان کو پہنچتی ہے وہ ان کو ایک نئی زندگی بنئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے.یہ ہیں شہید کے معنی “.(احکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ء) (خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۷) آیت ۲۲ سَابِقُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اے لوگو! تم اپنے رب کی طرف سے آنے والی مغفرت اور ایسی جنت کی طرف تیزی سے بڑھو ( سَابِقُوا ) یعنی ساری اشیاء کا استعمال اس طرح کرو، اپنی صلاحیتوں کی نشوونما، پرورش اس طرح کرو، ان کا استعمال اس طرح کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مغفرت اور ایسی جنت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہو جس کی قیمت و وسعت، آسمان اور زمین کی قیمت کے برابر ہے اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے تجویز کی گئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ

Page 430

تفسیر حضرت علی اسی اثاث ۴۲۰ سورة الحديد جس کو پسند کرتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے.جنت کا تصور قرآن کریم نے یہ بیان کیا کہ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ یہ تو چھوٹی سی ایک زمین ہے نا ہماری، اس کے کناروں تک بھی کم ہی آدمی پہنچتے ہیں لیکن جنت کی وسعت تو زمین و آسمان کی وسعت یعنی جس تک ابھی انسان کا تصور بھی نہیں پہنچا، وہ وسعت ہے.اب میں اس جگہ پہنچا ہوں جو اصل تمہید کے بعد میرا مقصد تھا بیان کرنا.اب اس جنت کی وسعت کو دیکھیں.ایک شخص فوت ہو گیا اس کی بیوی زندہ ہے.بیوی فوت ہو گئی خاوند زندہ ہے اور ہر دو کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جنت میں پہنچادیا اپنے اپنے وقت پر.تو وہ جو بعد میں جانے والی روح ہے وہ اتنی وسیع جنت میں اپنے ساتھی کو اپنے زور سے کیسے تلاش کرے گی؟ کر ہی نہیں سکتی خواہ کتنی ہی خواہش ہو اس کے دل میں کہ اس جنت میں بھی اکٹھے رہیں.خواہش نہیں پوری ہوسکتی جب تک اللہ تعالیٰ اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ اور حکم نہ کرے.خدا تعالیٰ کو ناراض کر کے خدا تعالیٰ کا نہ پیار حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ اپنی خواہشات کو جن میں کوئی بدی اور برائی نہیں، پورا کیا جا سکتا ہے.یہ حقیقت ہے اس کائنات کی.اس واسطے ہر وہ شخص جو جنت میں جانا چاہتا ہے اسے خدا تعالیٰ کا دامن مضبوطی سے پکڑنا پڑے گا اور جو شخص یہ چاہتا ہے کہ جنت میں جاکے اس کے پیارے اس کو ملیں، خدا تعالیٰ کے پیار کو اسے پہلے حاصل کرنا پڑے گا اور خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر اور اس کی رضا کے بغیر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی.اس واسطے کسی جانے والے پر اس قسم کی حرکات اسلام نے جائز قرار نہیں دیں کہ جو خدا تعالیٰ کو پیاری نہیں اور جتنی زیادہ کسی کے دل میں یہ تڑپ ہوگی مثلاً میرے دل میں ہے کہ جب میں اس جہان سے جاؤں تو منصورہ بیگم اور میں ، ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں.میں جانتا اور سمجھتا ہوں کہ میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا حکم نہ ہو اور خدا تعالیٰ کا حکم میرے حق میں نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو راضی نہ کروں.اس واسطے اصل چیز تو یہ ہے کہ بغیر کسی خواہش کے کہ کوئی بدلہ خدادے خود اتنا حسین اور نورانی وجود ہے اور اتنے اس کے ہمارے اوپر احسان ہیں کہ اس کو پانے کے لئے، اس کی رضا کے لئے سارے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں لیکن اس نے ہمارے دل میں خواہشات بھی رکھیں ہم نے خود تو نہیں پیدا کیں.نیکی کے راستوں پر آگے بڑھنے کی خواہش کوئی انسان نہیں پیدا کرسکتا اپنے اندر

Page 431

تفسیر حضرت خلیلہ اسیح الثالث ۴۲۱ سورة الحديد جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو.ایک جگہ فرمایا کہ ہم نے تو چاہا تھا بعض لوگوں کے متعلق کہ ان کو رفعتیں عطا کریں مگر وہ زمین کی طرف جھک گئے.تو یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کا کہ کوئی شخص رفعت حاصل کرے، یہ تبھی پورا ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو جس کے متعلق ارادہ ہو یہ طاقت اور صلاحیت عطا کی جائے کہ وہ رفعتیں حاصل کر سکے اور اپنی رحمت اور فضل سے اس کو توفیق دے کہ اپنی صلاحیتیں اور استعداد میں خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق وہ استعمال کر رہا ہو.(خطبات ناصر نهم صفحه ۳۶۵ تا۳۶۷)

Page 432

Page 433

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيُطنِ الرَّحِيمِ ۴۲۳ سورة المجادلة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المجادلة آیت اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنْجَونَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حيوكَ بِمَا لَمْ يُحَيِكَ بِهِ اللهُ وَ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَو لَا يُعَذِّبُنَا اللهُ بِمَا نَقُولُ : حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ ووود -- پتو ایسا قول توجس کے ساتھ نہ اعتقاد ہو اور نہ عمل منافق کا قول ہوتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی قابل التفات نہیں ہوتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قولِ بے عمل کا کھوکھلا پن ظاہر کرنے کے لئے منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے وَ اِذَا جَاءُ وَكَ حَيْرُكَ بِمَا لَمْ يُحَيْكَ بِهِ اللهُ وَ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللهُ بِمَا نَقُولُ یعنی اے رسول ! جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ایسے لفظوں سے دعا دیتے ہیں جن میں خدا نے دعا نہیں دی.مراد یہ کہ دعا میں بناوٹ کے طور پر مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور پھر اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ کیوں اللہ ہمارے منافقانہ قول کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں دیتا.اسی لئے قرآنی محاورہ کی رُو سے قول احسن وہی قول ہوگا جس میں ظاہری الفاظ صحیح عقیدہ اور عمل تینوں شامل ہوں.یہ معنے امام راغب نے مفردات میں کئے ہیں اور استدلال انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت سے کیا ہے الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ انہوں نے اس آیت سے استدلال کر کے قول احسن میں اقرار، اعتقاد، اور عمل تینوں کو شامل کیا ہے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۴۰)

Page 434

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۴ سورة المجادلة آیت إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطن لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ ۖ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ایک اور فائدہ (جو بڑا اہم اور بنیادی ہے) جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے حاصل ہوتا ہے یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اگر ہم کامل بھروسہ اور اعتماد رکھیں اور اس پر توکل کریں تو وہ ہر قسم کی مضرتوں سے ہمیں محفوظ رکھ سکتا ہو لیکن اگر ہمارا تو کل اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہو تو ہم اسی معنی میں ہر قسم کی مضرتوں سے محفوظ رہیں گے کہ اگر امتحان کے طور پر کوئی مضرات پہنچے تو اس انعام کے مقابلہ میں جو اس کے نتیجہ میں ہمیں پہنچتا ہے اس کو مضرات دکھ یا درد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس مضرت میں بھی بڑی لذت اور سرور ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ مجادلہ میں فرماتا ہے.وَلَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ کہ منکر اسلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے مومن کو چاہیے کہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرے ابتلا اور امتحان میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں مگر وہ اس لئے نہیں آتے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کو نا کام کردیں بلکہ وہ اس لئے آتے ہیں کہ جو مقصد اللہ تعالیٰ نے اس وقت پورا کرنا چاہا ہے وہ حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں کی خوبیاں دنیا پر ظاہر ہوں اور دنیا جان لے کہ خدا تعالیٰ کے یہ بندے انتہائی دکھوں اور تکلیفوں کے وقت بھی بے وفائی نہیں کیا کرتے بلکہ پختگی کے ساتھ اسی کے دامن سے چھٹے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ با وفا بھی وفا کا سلوک کرتا اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں اپنے مقصد پورا کرتا اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں اپنے انعاموں کی بارش برساتا ہے اور ان پر اپنے انعام اور احسان کو کمال تک پہنچادیتا ہے پس محض اللہ پر اور صرف اللہ پر ہی تو کل اور بھروسہ رکھنا چاہیے.وَدَعْ اذْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَی الله (الاحزاب : ۴۹) ان کی ایذا دہی کو نظر انداز کر دو کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ انسان اس کی طرف متوجہ ہو تو گل علی اللہ اللہ پر توکل رکھو اور اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو گے تو تمہیں یہ معلوم ہو جائے گا تم پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ہی کارسازی میں کافی ہے اس کی مدد سے انسان اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے اور اسے چھوڑ کر اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۹۱، ۳۹۲)

Page 435

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۵ سورة المجادلة آیت ۱۲ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَح اللهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ الْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَتِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ دوسری بات جو میں اس وقت دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا تھا.وسّع مكانك اس الہام کی بہت سی تفاصیل اور تشریحیں اور معانی ہمارے مختلف دوستوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں اور جماعت کے دوستوں کے سامنے بھی بیان ہوتے رہتے ہیں.لیکن جب میں اس سلسلہ میں کل سوچ رہا تھا تو میری توجہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف گئی إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَأَفْسَحُوا يَفْسَحَ اللهُ لَكُمْ - فسح کے مصدر اور ف س ح کے مادہ کے معنی بھی لغوی لحاظ سے وسعت کے ہیں اور یہاں قران کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تمہیں کہا جائے کہ تم اپنی مجالس میں وسعت پیدا کرو تو تم اپنی مجالس میں وسعت پیدا کر دیا کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے رحم اور اپنے فضل سے تمہارے لئے حقیقی وسعتیں پیدا کرتا چلا جائے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام وَشِعْ مَكَانَہ میں ایک زبر دست بشارت بھی پائی جاتی ہے اور اس آیہ کریمہ کی روشنی میں اس الہام کے یہ معنی ہوں گے کہ جس وقت خدا تعالیٰ یا خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو ضرورت ہو اس وقت اے مرکز کے رہنے والو! اے وہ لوگو! جن کے مکانات مرکز میں ہیں.تم اس قسم کی وسعت اپنے گھروں میں پیدا کر لیا کرو جس قسم کی وسعت مجالس میں پیدا کرنے کا اس آیہ کریمہ میں کہا گیا ہے اب اس آیہ کریمہ میں جس وسعت کا ذکر ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجلس پہلے ۲۰ × ۲۰ فٹ کے ایریا اور جگہ میں ہو رہی تھی اب وہ ۵۰×۵۰ فٹ کے ایریا میں ہوتی ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہلے ۲۰ × ۲۰ فٹ کے ایریا میں ۲۰ آدمی بیٹھے ہوئے تھے تو اب اس قدر جگہ میں اس حکم کی تعمیل کے نتیجہ میں مثلاً تیں یا چالیس آدمی بیٹھ گئے پس تفسحوا کھل جاؤ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تنگ ہو کر بیٹھوتا دوسرے لوگ بھی بیٹھ جائیں دوسرے آنے والوں کے لئے جگہ کھول دیں قرآن کریم نے ہمیں یہاں بتایا ہے کہ جگہ دوطرح کھلتی ہے.ایک تو اس طرح کہ جس شخص کے مکان میں تین کمرے ہیں.وہ تین کمرے

Page 436

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۶ سورة المجادلة اور بنالے اور اگر تین کمروں کی بجائے چھ کمرے ہو جائیں تو اس جگہ میں وسعت پیدا ہو جائے گی یعنی پہلے تین کمرے تھے اب چھ کمرے ہو گئے اور ایسے موقع پر مکان میں وسعت اس طرح بھی پیدا ہوتی ہے کہ پہلے اس شخص نے تین کمروں میں سے دو کمرے اپنے گھر کے لئے رکھے تھے اور ایک کمرہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے دیا تھا لیکن اب جس وقت جماعت کو زیادہ ضرورت پڑی تو اس نے تین کمروں میں سے دو کمرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے جماعت کو دے دیئے اور ایک کمرہ اپنے لئے رکھا تو جہاں تک سلسلہ کی ضرورت کا تعلق ہے وہ مکان وسیع ہو گیا کیونکہ اس شخص نے ایک مزید کمرہ جماعتی اغراض کے لئے پیش کر دیا بالکل اسی طرح جس طرح مجلس میں وہ لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے تین ساڑھے تین یا چار سو کی جگہ لی ہوئی تھی لیکن جب کہا گیا کہ جگہ یا زمین تنگ ہو گئی ہے اور نئے آ کر بیٹھنے والے خدا تعالیٰ کے فضل سے زائد ہو گئے ہیں اس لئے کھل جاؤ اور ان نئے آنے والوں کے لئے جگہ بناؤ.تو وہ سمٹ گئے.اور اس طرح اسی جگہ میں مزید کچھ آدمیوں کے لئے بیٹھنے کے لئے گنجائش نکل آئی اور اس طرح ایک قسم کی وسعت پیدا ہو گئی.غرض وَشِعُ مَحانَكَ میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ ضرورت کے مطابق تم سمٹ جاؤ اور جماعتی کاموں کے لئے اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو.پہلے تم جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک کمرہ جماعت کو دیتے تھے اب ایک سے زائد کمرے دو.پس کل جب میں اس الہام کے متعلق سوچ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ دراصل اسے قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں کہنا چاہئے جو میں نے ابھی پڑھی ہے اور اسی وجہ سے میں نے کہا ہے کہ اس الہام میں بھی ایک بشارت ہے.کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جب تمہیں یہ کہا جائے کہ مجلس میں اور آدمی آگئے ہیں تم ان کے لئے جگہ بناؤ.فَافْسَحُوا تم تنگ ہو کر بیٹھو اور آنے والوں کو جگہ دو یفسح الله لكم اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وسعت کے سامان پیدا کر دے گا.اس آیت کا جو مفہوم ہے اس سے یہ معلوم ہوگا کہ یہاں کوئی معین وسعت مراد نہیں.بلکہ وسعت مکان کی بھی ہوتی ہے.وسعت اولا د کی بھی ہوتی ہے، وسعت اولاد سے خوشی میں بھی ہوتی ہے قرآن کریم کہتا ہے تم اپنی اولاد کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں تمہاری آنکھوں کے لئے ” قرۃ العین، یعنی ٹھنڈک بنائے اب اگر اس ٹھنڈک میں زیادتی ہو جائے تو یہ بھی ایک وسعت ہے.پھر وسعت دل کے حوصلہ

Page 437

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۷ سورة المجادلة میں بھی ہوتی ہے وسعت نیکیوں کی توفیق میں بھی ہوتی ہے.وسعت خدا تعالیٰ کے فضل میں بھی ہوتی ہے اس کی برکت میں بھی ہوتی ہے اس کی رحمت میں بھی ہوتی ہے یہ ہر قسم کی وسعتیں اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور پھر اس رسول کے نائب امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی مجلسوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہام کے مطابق اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو گے.یعنی خود سمٹ جاؤ گے تا کہ وسیع تر ایر یا جماعتی اغراض کے لئے پیش کیا جا سکے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم پر فضل اور رحم کر کے ہر لحاظ سے وسعت کے سامان پیدا کر دے گا.تمہارے مکانوں میں بھی زیادہ کمرے بن جائیں گے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۲۹ تا ۵۳۱) آیت ۲۰ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ فَانْسُهُمْ ذِكْرَ اللهِ أُولَبِكَ حِزْبُ الشَّيطن ، اَلَا اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَنِ هُمُ الْخَسِرُونَ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقيضُ لَهُ شَيْطنا جو شخص رحمن خدا کے ذکر سے منہ موڑتا ہے اس پر ایک شیطان مستولی کر دیا جاتا ہے.فَهُوَ لَه قرین اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور شیاطین انسان کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور باوجود اس کے کہ شیطان ان کو خدا کی راہ سے روک رہے ہوتے ہیں یہ لوگ جن کا قرین شیطان ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہدایت یافتہ ہیں يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ میں نے پہلے جو آیت پڑھی ہے اس میں یہ کہا گیا تھا کہ جو شخص ذکر رحمن سے منہ موڑتا ہے اس پر ہم شیطان مستولی کر دیتے ہیں جو اس کا قرین بن جاتا ہے اور جس کا قرین شیطان بنتا ہے اس پر وہ آہستہ آہستہ اثر انداز ہوتا ہے اور پھر اس اثر سے اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطن شیطان ان پر غالب آ جاتا ہے.فَانهُم ذکر اللہ پہلے تو ان پر کچھ گھڑیاں ذکر کی اور کچھ غفلت کی آتی تھیں اب آہستہ آہستہ غفلت بڑھتی جاتی ہے اور ذکر کم ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ذکر غائب ہوجاتا ہے اور غفلت ہی غفلت طاری رہتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أُولَيكَ حِزْبُ الشَّيطن پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے اس کے ذکر سے منہ موڑتے ہیں پہلے شیطان ان کا

Page 438

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۸ سورة المجادلة قرین بنایا جاتا ہے پھر شیطان اپنی کوشش اور اپنے عمل سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کو خدا تعالیٰ کی طرف جانے والی راہوں سے روک دیتا ہے اور ان کو اس دھوکے میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے ہدایت یافتہ ہیں.پھر شیطان ان پر غالب آجاتا ہے.اِسْتَحُوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ اور پھر وہ کلی طور پر ذکر اللہ سے غافل ہو جاتے ہیں اور حزب الشیطن یعنی شیطان کا گروہ بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یا درکھو اور اچھی طرح سن لو کہ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَنِ هُمُ الْخَسِرُونَ شَیطان کا گر وہ ہی گھاٹا پانے والا ہے.اس سے ہمیں پتہ لگا کہ رمضان میں شیطان جو باندھا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے مضبوط دھاگوں سے باندھا جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا ذکر رمضان کے بعد کے ایام میں بھی جاری رہے اور باقی گیارہ مہینے جو رمضان کے بعد اگلے رمضان تک ہیں ان میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اسی طرح مشغول رہے جس طرح کہ وہ رمضان میں مشغول رہتا تھا تو گیارہ کے گیارہ مہینے اس کا شیطان بندھا ہوا ہوگا.اس کو حدیث کے محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ شیطان مسلمان ہو گیا پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شیطان سے مخلصی پانا چاہتے ہو خلاصی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے کہ وہ رشتے اپنے لئے مہیا کرو جن میں شیطان کو جکڑا جاسکتا ہے اور شیطان خدا تعالیٰ کے ذکر سے جکڑا جاتا ہے اور جب یہ تدبیر نہیں کی جاتی ، جب ذکر اللہ کے ذریعہ سے شیطان کو باندھنے کی کوشش نہیں کی جاتی تو اس وقت شیطان حملہ کرتا ہے اور پھر شیطان اپنا اثر ڈالنا شروع کرتا ہے پھر یہ اثر بڑھتا چلا جاتا ہے پھر انسان ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے پھر وہ حِزْبُ الشَّيْطن میں سے بن جاتا ہے اور پھر وہ حقیقی اور ہمیشہ کا گھاٹا پانے والا بن جاتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۷۳ تا ۱۷۵)

Page 439

تفسیر حضرت خلیفہ السیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيُطنِ الرَّحِيمِ ۴۲۹ سورة الحشر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحشر آیت ۱۵ لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرَى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ ط b جُدُرٍ - بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَعْقِلُونَ.مربی کا ایک بڑا کام جماعتی اتحاد اور جماعتی بشاشت کو قائم رکھنا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جونور میں عقل میں پیدا کرتا ہوں اس کے نتیجہ میں قومی یکجہتی قائم رکھی جاسکتی ہے جیسا کہ سورہ حشر میں فرمایا.تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُوْنَ یہاں ویسے تو مضمون اور ہے لیکن ایک بنیادی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم انہیں ایک قوم خیال کرتے ہو حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ قومی اتحاد اور قوم میں ایک مقصد کے حصول کے لئے بشاشت کا پیدا ہونا اس عقل کے ذریعہ سے ممکن ہے جسے خدا تعالیٰ کے قرآن اور اس احسن الحدیث کی روشنی عطا ہو جو اس نے ہمارے لئے نازل کی ہے.اگر عقل کو انوار قرآنی حاصل نہیں تو پھر عقل اس بنیادی مسئلہ کو بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ کجہتی اور اخوت اور اتحاد کے بغیر قومی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.پس ایک مربی کا یہ کام ہے کہ وہ کوشش کر کے قرآنی نور سے اپنی عقل کو منور کرے اور قرآن کریم نے جو اصول اور جو ہدایتیں اور جو تعلیم قوم میں بشاشت پیدا کرنے ، محبت پیدا کرنے اور اخوت پیدا کرنے کے لئے دی ہیں انہیں سیکھے اور پھر ان کا استعمال کرے کیونکہ اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ

Page 440

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۳۰ سورة الحشر جماعت میں بشاشت پیدا کرے.ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہو کہ میں خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہوا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل مجھ پر ہیں جو ان لوگوں پر نہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور اس وجہ سے اسے خدا تعالیٰ کا ایک شکر گزار بندہ ، اپنی عقل سے کام لینے والا بندہ اور قرآنی انوار سے نور لینے والا بندہ بن کر زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۶۹،۴۶۸) آیت ۱۹ تا ۲۱ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَانْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ لَا يَسْتَدِى أَصْحَبُ النَّارِ و b وَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَابِزُونَ.پہلی آیت میں یہ بنیادی ہدایت دی گئی ہے کہ تقویٰ اللہ کا تقاضا ہے کہ انسان اس بات پر نظر رکھے کہ مستقبل کے لئے وہ کیا کر رہا ہے اس میں شک نہیں کہ انسان کا ماضی سے گہرا تعلق ہے اور ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.اس کا لحاظ رکھنا، اسے فراموش نہ ہونے دینا بھی ضروری ہے لیکن ماضی سے زیادہ جو چیز انسان سے تعلق رکھتی ہے وہ حال کا زمانہ ہے یا وہ زمانہ ہے جولحہ بہ لحد مستقبل سے حال میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے.مستقبل کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے کبھی آنا ہی نہ ہو اور وہ ہمیشہ مستقبل ہی رہے.جو چیز یر مستقبل سے حال میں بدلتی چلی جاتی ہے جب تک وہ حال میں نہ بدلے ہم اسے مستقبل کہتے ہیں مستقبل اپنی ذات میں دائمی حیثیت کا حامل نہیں ہوتا.وہ نہ صرف یہ کہ حال میں تبدیل ہو کر رہتا ہے بلکہ لمحہ بہ لمحہ حال میں تبدیل ہو رہا ہوتا ہے.اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مستقبل ہمارے حال کی تکمیل کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا یہ ہے کہ انسان کو تقویٰ اللہ پر قائم ہوکر مضبوطی سے ایسے مقام پر کھڑا ہونا چاہیے کہ اسے یہ اطمینان حاصل ہو سکے کہ میرا مستقبل جو کچھ بھی ہے جیسے جیسے وہ حال میں تبدیل ہوگا وہ میرے لئے دکھ کا نہیں سکھ کا موجب ہوگا.یہ تو اس زندگی کی کیفیت ہے جو ہم اس دنیا میں گزارتے ہیں.یہاں مستقبل لمحہ بہ لمحہ حال میں

Page 441

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۳۱ سورة الحشر تبدیل ہو رہا ہوتا ہے اور ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہم دنیا میں اس طور پر زندگی گزاریں کہ مستقبل حال میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے تکلیف کا موجب نہ بنے لیکن ایک نہ ختم ہونے والا زمانہ بھی ہے جو اس زندگی میں حال کی شکل اختیار نہیں کرتا اور وہ ہے اُخروی زندگی کالا متناہی زمانہ.وہ بھی مستقبل ہی ہے یہ زندگی اُس زندگی کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دائمی ہے.متقی لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں اُس مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرتے رہیں تا کہ جب وہ مرنے کے بعد اُس زندگی میں داخل ہوں تو وہاں انہیں تکلیف نہیں بلکہ راحت میسر آئے اور وہ زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق آرام سے گزرے.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اور کس طریق پر ہم مستقبل کو سنوار سکتے ہیں؟ دوسری آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مستقبل کو سنوارنے کا طریق یہ ہے کہ اپنے اللہ کو یاد رکھو.جو قو میں پانسلیں اللہ کو یاد نہیں رکھتیں، اللہ تعالیٰ ایسے سامان کرتا ہے کہ وہ اپنے نفسوں کو بھول جاتی ہیں یعنی اپنی اور اپنی نسلوں کی فلاح پر ان کی نظر نہیں رہتی.جہاں تک خدا تعالیٰ کو بھولنے کا تعلق ہے یہ دو طرح پر ہوتا ہے.ایک بھولنا یہ ہے کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کی عبادت نہ کر کے ، اس سے اس کی پناہ نہ مانگ کر ، اس کے قہر اور غضب سے نہ ڈر کر ، اس کی محبت اور اس کے پیار کی قدر نہ جان کر ، اس کی صفات کا رنگ اپنے پر نہ چڑھا کر اس سے یکسر غافل ہو جاتا ہے.ایک بھولنا خدا کو یہ ہے کہ اس نے جو احکام انسان کو اس کے اپنے نفس کے متعلق ، دوسرے بنی نوع کے متعلق ، معاشرہ کے متعلق، اقتصادیات کے متعلق ، سیاست کے متعلق دیئے ہیں انہیں تو وہ نظر انداز کر دیتا ہے اور اپنی چلانے اور من مانی کرنے لگتا ہے.خدا تعالیٰ کو بھولنے کا نتیجہ کیا ہوتا؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے تیسری آیت میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ ایسے لوگوں پر خدا کے غضب کی آگ بھڑکتی ہے.وہ اس دنیا میں بھی خسارہ میں رہتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی خسارہ ان کے لئے مقدر ہوتا ہے کیونکہ وہاں جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگی.برخلاف اس کے جو لوگ تقویٰ اللہ پر قائم ہو کر خدا تعالیٰ کو ہمیشہ یادر کھتے ہیں، اُس کی عبادت بجالاتے ہیں ، اس سے اس کی پناہ طلب کرنے میں سُست نہیں ہوتے ، اپنے آپ کو اُس کی صفات کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اس کے جملہ احکام بجالا کر دنیوی اور اُخروی فلاح کے لئے ہمیشہ کوشاں

Page 442

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۳۲ سورة الحشر رہتے ہیں ان کے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنا دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے جنت مقدر ( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۵۵ تا ۱۵۷) ہوتی ہے.آیت ۲۳ تا ۲۵ هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ : دو ج هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ ) هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السّلمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَيَّرُ سُبُحْنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.میں نے دین اسلام کی جو خصوصیات بیان کی تھیں ان میں پہلی خصوصیت یہ بتائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلام نے ہمیں ایک کامل تعلیم دی ہے.ایک مکمل بیان خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق قرآن کریم ہمارے سامنے پیش کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہم بات یہاں سے شروع کریں گے کہ وہ اللہ" ہے اور قرآن کریم کی اصطلاح میں اللہ اسم ذات ہے.قرآن کریم میں بیسیوں جگہ بلکہ شاید سینکٹروں جگہ آپ دیکھیں گے کہ اللہ وہ ہے جو عزیز ہے اللہ وہ ہے جو حکیم ہے.وعلی ھذا القیاس.فرمایا اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (البقرة : ۲۵۶) اللہ الْحَقُّ ہے.الْقَيُّومُ ہے.اَلْمَلِكُ ہے.القُدُّوسُ ہے.السّلم ہے.غرض بہت سی صفات ہیں جن سے اللہ متصف بتایا گیا ہے کہ اللہ یہ ہے اور اللہ کی یہ صفات ہیں.پس اللہ اسم ذات ہے اور اللہ ان تمام صفاتِ حسنہ کا موصوف ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں.جب ہم اللہ کہتے ہیں تو ہمارے یعنی قرآن کریم پڑھنے والوں کے ذہن میں وہ تمام صفات آجاتی ہیں جو اس کے لئے بطور وصف کے ہیں.دوسری بات یہ ہے اور یہ ایک انتہائی بنیادی بات ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اور میرے کسی خطبہ میں بھی اس کا ذکر آیا تھا کہ ایمان کے جتنے اصول ہیں ان کا بنیادی اصل یہی ہے کہ لا إله إلا الله اللہ ایک ہے.کلمہ طیبہ میں یہی اعلان

Page 443

تفسیر حضرت خلیفة اسم الثالث ۴۳۳ سورة الحشر ہے کہ اللہ ایک ہے اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی.اس وقت میں اللہ کی ذات کی بات کروں گا.اللہ کی صفات کے بارہ میں انشاء اللہ اگلے کسی خطبہ میں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.کوئی ذات اس کی ذات جیسی نہیں ہے.شرکت چار قسم کی ہو سکتی ہے لیکن سورۃ اخلاص میں ان چاروں قسم کی شرکت کی نفی کی گئی ہے یعنی کسی کا کسی کی ذات میں شریک ہونے کا انحصار چار باتوں پر ہے اور سورۃ اخلاص میں ہر بات کی نفی کی گئی ہے.اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے.اللہ ایک ہے.دو یا تین یا چار یا پچاس یا سو یا ہزار الہ نہیں.بت پرستوں نے اللہ کے بے شمار شریک بنالئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ میں کفار نے بہت سے بت بٹھا رکھے تھے.غرض ایک تو یہ بت پرست ہیں جنہوں نے اللہ کو ایک نہیں سمجھا اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے تین خدا بنالئے اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک کو بھی نہیں مانا لیکن اسلام کہتا ہے اللہ ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے.عدد کے لحاظ سے وہ ایک ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے اللہ کا کوئی ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہے.واجب الوجوب ہونے میں ایسی چیز یا کوئی ایسا انسان یا جاندار یا فرشتہ یا جن یا جو مرضی کہہ لو غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو واجب الوجوب ہو یعنی جس کا ہونا ضروری ہو.اللہ کے سوا ہر چیزا اپنی ذات کے لحاظ سے ہلاک ہونے والی ہے اور كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان (الرحمن: ۲۷) کے اعلان کے نیچے آتی ہے.پس مرتبہ وجوب میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور اسی کے اندر آتا ہے محتاج الیہ ہونا اور اس میں بھی خدا تعالیٰ کا جو بے نیاز ہے کوئی شریک نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کسی غیر کی احتیاج رکھتی ہے.صرف خدا تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں اور ہر چیز خدا تعالیٰ کی احتیاج رکھتی ہے مگر خدا تعالیٰ مرتبہ وجوب میں اکیلا ہے اور اکیلا ہی اس خصوصیت کا حامل ہے اور اس میں منفر د اور یگانہ ہے.وہ صد اور غنی ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں، ہر دوسرے کو اس کی احتیاج ہے.تیسرا شریک خاندانی ہوا کرتا ہے.خاندان کے مختلف افراد ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں.پس رشتے کے لحاظ سے اور حسب نسب کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے.فرمایا لَم يَلِد وَلَمْ يُولَدُ (الاخلاص: ۴) نہ اس کو کسی نے جنا اور نہ اس کا آگے کوئی بیٹا ہے وہ واجب الوجوب ہے وہ ازلی ہے وہ ابدی ہے اور اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں.باپ ہونا بھی احتیاج

Page 444

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۳۴ بتاتا ہے اور بیٹا پیدا کرنا بھی احتیاج ثابت کرتا ہے.سورة الحشر چوتھے یہ کہ وہ اپنے کام کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے اس کے فعل میں کوئی اس کی برابری نہیں کر سکتا.باعتبار فعل بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.وہ ایک ہے، احد ہے مرتبہ وجوب میں اور اس لحاظ سے کہ کسی کی اسے احتیاج نہیں اور ہر دوسرے کو اس کی احتیاج ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اور نسبت کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اپنے فعل کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.جب ہم صفات باری کے بارے میں بات کریں گے تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ جن صفات میں بظاہر انسان کی بعض صفات یا اس کے افعال کی خدا تعالیٰ کے افعال کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے وہ بھی حقیقی مشابہت نہیں ہے.ہر دو میں بنیادی فرق ہے لیکن وہ تو بعد کی بات ہے، اس وقت تو میں یہ بتارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلامی تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا ایک ہے، کسی جہت اور کسی طور پر کوئی اس کا شریک نہیں ہے.پھر اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو تمام تعریفوں کی مستحق ہے فرمایا الحمدُ لِلَّهِ (الفاتحۃ:۲) اور اللہ وہ ذات ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے فرمایا لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی اور اللہ وہ ذات ہے جو تمام فیوض کا مبدا ہے فرمایا رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کسی کی تعریف اس کی خوبی کی بنا پر کی جاتی ہے یا اس کے احسان کی بنا پر کی جاتی ہے.اللہ تمام صفات حسنہ اور اچھے اوصاف کا مالک ہے اور حقیقتا وہی اس کا مستحق ہے.ان اوصاف کی کچھ جھلکیاں تشبیہی طور پر انسان کو بھی ملیں.بعض جگہ دوسروں میں بھی اس کا پر تو نظر آتا ہے لیکن حقیقی طور پر الاسماء الْحُسْنٰی کا سزاوار اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور وہی سب تعریفوں کا مستحق ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات پاک اور قدوس ہے.وہ تمام رذائل اور عیوب اور نقائص سے منزہ ہے.اس کی تمام صفات اس کی ذات کے مناسب حال ہیں.اللہ تعالیٰ کی جو عظمت اور جلال اور کبریائی ہے اس کے مناسب حال تمام صفات حسنہ اس کے اندر پائی جاتی ہیں.اس کی ذات اور صفات میں کوئی تضاد نہیں.یہ ایک بار یک فلسفیانہ مسئلہ ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.غرض خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی

Page 445

تفسیر حضرت خلیفة مسح الثالث ۴۳۵ سورة الحشر صفات میں کوئی تضاد نہیں ہے.جس طرح وہ کامل ہے اسی طرح اس کی صفات بھی کامل ہیں اور جس طرح اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۰۳ تا ۲۰۶)

Page 446

Page 447

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۴۳۷ سورة الصف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الصف آیت وَ اِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَومِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَعْلَمُونَ انّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ دیکھو! قرآن کریم نے ایک جگہ فرما یا لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (النجم : ۴۱،۴۰) که اجر حاصل کرنے کے لئے عمل کرنے کی ضرورت ہے انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور ایک جگہ فرمایا ہے فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ بعض لوگ اس پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے گمراہی کا انتظام پیدا نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ جب انہوں نے حق سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں جو حق کی مناسبت رکھی تھی اس مناسبت کو زائل کر دیا اور وہ ان کے اندر نہیں رہی اور یہ قانون قدرت ہے کہ جو آدمی بدی کرتا ہے اور بدی پر اصرار کرتا ہے وہ بدی کی نفرت کو کھو دیتا ہے اور اس کے اندر اس کو خوشی اور لذت محسوس ہوتی ہے اور یہ اس کا اپنا قصور ہے.اس کی ظاہری اور موٹی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قانون قدرت میں سورج کو روشنی دینے کے لئے بنایا ہے لیکن انسان کے لئے اس نے یہ قانون بنایا ہے کہ اگر وہ کھڑکیوں اور دروازوں والے کمرے بنائے تو اگر وہ دن کے وقت کھڑکیاں دروازے کھلے رکھے یا ان پر شیشے لگے ہوئے ہوں تو کمرے کے اندر روشنی آئے گی.ہم ایسے دروازے لیتے ہیں جن میں شیشے وغیرہ نہیں لگے ہوئے تو اگر دروازے کھلے ہوں گے تو کمرے میں روشنی آئے گی.یہ قانون قدرت ہے اور اگر کوئی شخص اپنے کمرے کے دروازے بند کر دے اور شیشہ وہاں کوئی نہیں لگا

Page 448

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۳۸ سورة الصف ہوا تو وہاں پر اندھیرا ہو جائے گا.یہ قانون قدرت ہے.ہر فعل جو انسان سے صادر ہوتا ہے وہ اس کی مرضی سے ہوتا ہے.اب وہ صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند کرے اور چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند نہ کرے اس کو یہ اختیار حاصل ہے لیکن جب وہ دروازہ بند کرتا ہے تو اس کے اس فعل پر کہ اس نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں اور وہاں کوئی شیشہ بھی نہیں لگا ہوا اللہ تعالیٰ ایک اثر پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں پر اندھیرا کر دیتا ہے.یہ انسان کا فعل ہے کہ اس نے دروازے کھڑکیاں بند کر دیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر پیدا کیا کہ وہاں پر اندھیرا کر دیا.اسی طرح اندھیرے کمرے میں کھڑکیاں دروازے کھولنے کا عمل انسان کا ہے اور اس کے بعد جو روشنی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے مطابق ہوتی ہے.پس انسان اپنے دائرہ میں صاحب اختیار ہے اور انسان کا یہ اختیار اور انسان کی یہ آزادی قضا و قدر ہے یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا اور یہ اندازہ قائم کیا اور مقر رکیا ہے کہ اس حد تک نوع انسانی اپنے دائرہ میں آزا در ہے گی اور نوع انسانی کا ہر فرد اپنے اپنے دائرہ استعداد میں آزادر ہے گا.ہر انسان کا دائرہ استعداد مختلف ہے مثلاً ہر انسان علم کے حصول میں ایک جیسی ترقی نہیں کر سکتا.لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا ما سعی کا اصول تو یہ ہے کہ اجر کے حصول کے لئے تمہارا عمل ضروری ہے اگر تم عمل نہیں کرو گے تو تمہیں اجر نہیں ملے گا.اس میں جبر کہاں سے ہوا؟ بالکل پوری طرح آزادی کا اعلان کر دیا ہے لیکن ہر شخص دوسرے شخص جیسا اور اتنی عقل والا عمل نہیں کرسکتا.ہر ایک کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے جو بڑے بڑے موجد ہیں ان کی استعداد اور ہے مثلاً جس نے ایٹم کی طاقت کا علم حاصل کیا ( گو اب اسے غلط طرف لے گئے ہیں ) اس شخص کو خدا تعالیٰ نے اتنی ذہنی طاقت دی تھی کہ وہ اس میدان میں یہ چیز ایجاد کر لیتا یہ ہر شخص کا کام نہیں تھا لیکن یہ طاقت اور قوت اس کو خدا تعالیٰ نے دی تھی.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۵۲، ۳۵۳) آیت ۱۰ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَةَ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ پس لِيُظهِرةُ عَلَى الدِّینِ کلیم کی رو سے اس عالمگیر غلبہ کی بشارت اسلام کی نشاۃ اولی کے زمانہ

Page 449

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۳۹ سورة الصف میں پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی.اس کا تعلق تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ یعنی مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ہے.اس کا تعلق تو بنی نوع انسان کے دل میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عالمگیر محبت پیدا ہو جانے سے ہے اور اس کا تعلق تو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک عالمگیر عشق سے ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کا عالمگیر غلبہ ممکن ہی نہیں.لیکن ہمارے اس زمانے سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عالمگیر محبت اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایک عالمگیر عشق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق اسلامی تعلیم جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کی ہے.وہ ساری دنیا میں پہنچتی ہی نہیں تھی.غرض دنیا کے ان باشندوں کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کیسے پیدا ہو سکتی تھی.جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں پہنچا اور ان لوگوں کے دلوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان کیسے پیدا ہوسکتی تھی.جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سنا تھا.پس بغیر دیکھے یا بغیر سنے کسی کے دل میں محبت کا پیدا ہونا ناممکن بات ہے.اس لئے اسلام کے اس عالمگیر غلبہ کا تعلق حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت سے ہے اور اس لحاظ سے ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے.جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے.جماعت احمدیہ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی ہے اور یہ سلسلہ عالیہ اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ دین حق کو مضبوط کیا جائے اور کلمہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا جائے قرآن کریم میں لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه کی جو پیشگوئی کی گئی تھی اس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم بشارت دی گئی تھی کہ دین اسلام تمام دنیا پر غالب آجائے گا.مگر یہ کام تلوار کے ساتھ نہیں ہوگا اور نہ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بلکہ یہ کام محبت اور پیار اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کو دنیا کے سامنے پیش کر کے بنی نوع انسان کے دل جیت کر یہ مشن پورا کیا جائے گا.(خطبات ناصر جلد دہم صفحه ۱۵۰،۱۴۹) پس یہ وہ پیشگوئی اور بشارت ہے جس کے متعلق پہلے بزرگوں نے بھی کہا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے ماتحت کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس زمانہ میں جماعت احمد یہ اپنی کمزوریوں کے باوجود اور کم مایہ ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی مورد بنے گی اور وہ قادر و توانا اسے اپنا ہتھیار بنائے گا تا دنیا میں اسلام کو غالب کرے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ایک

Page 450

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۴۰ سورة الصف عظیم منصوبہ ہے اور یہ ایک عظیم خدائی تدبیر ہے جس کے پورا ہونے کا یہی وقت ہے.تاہم اس کے پورا ہونے کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے ان کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.آپ اپنے نفس کے لئے یہ قربانیاں نہیں دیں گے اور نہ اپنے خاندانوں کے لئے.دنیا کی دولت کے لئے یا دنیا کے اقتدار کے لئے آپ یہ قربانیاں نہیں دیں گے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے جماعت احمدیہ قربانیاں دے گی.وباللہ التوفیق.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۲۳۳، ۲۳۴) انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے لئے پیدا کیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ نوع انسانی کو بحیثیت نوع انسانی ہدایت راستہ دکھایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ان کا رجوع ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ان کے دلوں میں پیدا ہو اور خبر یہ دی گئی تھی کہ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلہ یہ جو غلبہ ہے اس کے متعلق ہمارے پہلے بزرگوں نے کہا ہے کہ اسلام کا جو آخری غلبہ ہے وہ آخری زمانے میں مقدر ہے کہ جب مہدی پیدا ہوں گے اور ان کی جماعت کے ذریعہ سے اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.یہ جو تد بیر ہے، یہ جو منصوبہ ہے آسمانوں کا ، اس کے لئے میں اور تم پیدا کئے گئے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشا پورا ہو کہ کم از کم اس زمانہ میں ہی انسانوں کی بڑی بھاری اکثریت سیدھے راستے پر چل کر خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے اندر داخل ہو جائے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ صرف وہ زمانہ نہیں تھا بلکہ آپ کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے پس اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہوں کہ نوع انسانی کا دل بحیثیت نوع انسانی خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لیا جائے.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۷۳، ۱۷۴) آیت ۱۱ ۱۲ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَابِ اَلِيْهِ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بامُوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ، ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ط اے وہ لوگو! جو دعوے کرتے ہو کہ ہم خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تعلیم پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لائے ہیں.ایمان لاتے ہیں.آؤ میں ایسی تجارت کی نشان

Page 451

۴۴۱ سورة الصف تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث دہی کروں کہ اگر تم یہ سودا اپنے رب سے کر لو.تو تم اس عذاب الیم سے بچ جاؤ گے، جو ان لوگوں کے لئے مقدر ہے جو اس قسم کا سودا اور اس قسم کی تجارت اپنے پیدا کرنے والے سے نہیں کرتے فرما یا.تُؤْمِنُونَ بِاللهِ ایک تو یہ کہ تم اپنے دل اور زبان اور اپنی کوششوں سے یہ ثابت کرو کہ تم واقعہ میں ایمان لائے ہو.یہ تمہارا محض ایک کھوکھلا اور زبانی دعوی ہی نہیں ہے.اور اس کے ساتھ یہ کہ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرو.اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جہاد اور مجاہدہ کرو.سبیل اس راہ کو کہتے ہیں جو کسی خاص جگہ پر پہنچانے والی ہو.تو سبیل اللہ وہ راستہ ہے.جو خدا تعالیٰ تک پہنچادیتا ہے.وہ راہ جو خدا تعالیٰ کا مقرب بنادیتی ہے.وہ راہ جو خدا کی رضا کے حصول میں ممد و معاون ہے وہ راہ جس کے آخر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کو مل جاتی ہے.اور پھر انسان بھی اپنے تمام دل، اپنی تمام روح اور اپنے تمام حواس کے ساتھ اپنے مولے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.بلکہ اس کے روئیں روئیں سے اپنے رب کی محبت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے.تو اس آیت میں یہ فرمایا کہ جس تجارت کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں اور جس کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں.وہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اپنی جانوں کو مجاہدہ میں ڈالو.اور تمہارا یہ مجاہدہ اور تمہارا یہ جہاد اموال کے ذریعہ سے بھی ہو.اور تمہارے نفسوس کے ذریعہ سے بھی ہو ذلکم خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اور اگر تمہیں حقیقت کا علم ہو جائے تو تم سمجھ جاؤ کہ دراصل اسی چیز میں تمہاری بھلائی ہے.اس خیر لکم کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت ۲۱۹ میں یوں فرمائی ہے.اِنَّ الَّذِينَ b امَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - که وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے مجاہدہ کیا اس رنگ میں کہ انہوں نے خواہشات نفسانی کو خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑا.اس رنگ میں کہ انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی کے حصول کے لئے گناہوں سے اجتناب کیا.( هَاجَرُوا ) اور انہوں نے اپنے ماحول، اپنے املاک (اپنی جائدادوں) اپنے کنبہ اور اپنے شہر اور اپنے علاقہ کو خدا تعالیٰ کی خاطر ترک کیا.اور خدا تعالیٰ کی رضاء کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئے.وَجَاهَدُوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے

Page 452

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۴۲ سورة الصف لئے نیکی کے راستوں پر شوق اور بشاشت کے ساتھ قدم مارا.أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ یہی وہ لوگ ہیں جو امید رکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں حاصل ہو جائے گی.أوليكَ يَرْجُونَ رَحمت اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں ضرور مل جائے گی.پھر اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جو شخص بدیوں کو ترک نہیں کرتا اور نیکیوں کو اختیار نہیں کرتا.وہ یہ امید نہیں رکھ سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحمت کے ساتھ سلوک کرے گا.یہ امید کہ میرا رب میرے ساتھ رحمت کا سلوک کرے گا وہی رکھ سکتا ہے جو بدیوں کو ترک کرتا اور نیکی کی راہوں کو اختیار کرتا ہے........پس فرمایا کہ مجاہدہ کرو پھر فرمایا کہ تم مجاہدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اس صورت میں صرف امیدوار ہو سکتے ہو ہاں اگر تم بدیوں کو چھوڑ نہیں اور نیکیوں کو اختیار نہ کرو تو پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحمت کا سلوک کرے گا.لیکن اگر تم ایسا کر لوتو ابھی صرف یہ ایک امید ہے.ابھی واقع نہیں.جب تک اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.اور جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے تو یہ امید حقیقت بن جاتی ہے.مجاہدہ کے معنی کو جب ہم قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتوں کو جہاد یا مجاہدہ میں شامل کیا ہے.اور یہاں میری مراد مجاہدہ سے نیکیوں کا اختیار کرنا ہے.جو مجاہدہ کا ایک پہلو ہے.بدیوں کو چھوڑ نا دوسرا پہلو ہے مگر میں اس وقت پہلے حصہ کے متعلق ہی بیان کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ اووا وَ نَصَرُوا أُولبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۷۵) اس آیت میں مجاہدہ کی مندرجہ ذیل قسمیں بیان کی گئی ہیں :.(۱) ایک مجاہدہ ہے جو ہجرت کے ذریعہ کیا جاتا ہے.ایک تو وہ بڑی ہجرت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی اور ایک وقت آنے پر آپ نے فرمایا کہ اب اس قسم کی ہجرت نہیں رہی.پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید کے

Page 453

۴۴۳ سورة الصف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث قیام کے لئے کوشش کرتے تھے.اور خدائے واحد کی صفات کو بلند آواز سے لوگوں تک پہنچاتے تھے.پھر کچھ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوئے اور اہل مکہ نے اور ان لوگوں نے جو مکہ کے گر در ہنے والے تھے اتنے دکھ اور ایذائیں اس چھوٹے سے گروہ کو دیں کہ دنیا کے تختہ پر دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا گروہ نہیں ہے کہ جس کو اتنا لمبا عرصہ اس قسم کی شدید تکالیف اور ایذاؤں میں سے گزرنا پڑا ہو.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان ایک اور طرح سے لینا چاہا.وہ یوں کہ حکم دیا ہمیشہ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ دو اور اپنے رشتہ داروں کو جو مسلمان نہیں ہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو.اور اس ماحول کو بھی جس میں تم رہتے ہو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر دوسری جگہ (مدینہ ) چلے جاؤ.چونکہ کچھ عرصہ بعد تک بھی حالات ویسے ہی رہے اس لئے یہ ہجرت قائم رہی لیکن اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ اس قسم کی ہجرت کا ماحول اب نہیں رہا اس لئے اب اس قسم کی ہجرت بھی نہیں رہی مگر وہ ہجرت کا اطلاق تھا ایک خاص واقعہ ہجرت پر.ورنہ ہجرت اپنے عام معنی کے لحاظ سے قیامت تک کے لئے قائم ہے اس لئے قرآن کریم میں آتا ہے هَاجَدُوا اور قرآن کریم کا کوئی لفظ بھی منسوخ نہیں ہوسکتا.تو فرماتا ہے کہ وہ لوگ خدا کی خاطر اپنوں کو اور اپنی املاک کو چھوڑتے ہیں ( مثلاً آج کل کے زمانہ میں واقفین زندگی اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں چلے جاتے ہیں جہاں کے رواج بھی مختلف ، جہاں کے حالات بھی مختلف جہاں کے کھانے بھی مختلف.پھر بڑی تنگی اور بڑی سختی کے دن وہاں گزارتے ہیں ) یہ بھی مُهَاجِرٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَا مُجَاهِدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ہیں.(۲) دوسرے یہاں یہ فرمایا کہ وہ لوگ بھی مجاہد ہیں الَّذِینَ اوَوُا وَ نَصَرُوا جوان بھائیوں کو جو مظلومیت کی حالت میں ان کے پاس جاتے ہیں.اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں.اور ان کی امداد کرتے ہیں.کیونکہ یہ بھی مجاہدہ میں شامل ہے.پس فرمایا کہ یہ دو قسمیں جو ہیں ایک ہجرت کرنے والوں کی اور دوسرے مہاجروں کو پناہ دینے والوں کی.اوليكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ وہ مجاہد ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ یہ حقیقی مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے مغفرت اور رزق کریم مہیا کرے گا.واقفین زندگی بھی تحریک جدید کے ایک مطالبہ کے تحت مانگے گئے تھے.اور یہ مطالبہ بھی ایک شکل ہے مجاہدہ کی.کیونکہ ہر وہ کام (جیسا کہ پہلی آیات سے واضح ہوتا ہے ) جو خدا کی رضا کی خاطر

Page 454

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث م م م سورة الصف اور اس کے قرب کے حصول کے لئے کیا جائے.اور جس کے کرنے میں انسان اپنی پوری توجہ اور پوری قوت صرف کر رہا ہے.اور اس سے جو کچھ بن آئے کر گزرے.اسے خدا تعالیٰ مجاہدہ کے نام سے پکارتا ہے.تو قرآن کریم کی ایک آیت بڑی وضاحت سے بتا رہی ہے کہ وقف زندگی بھی مجاہدہ کی ایک قسم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت ۲۷۴ میں فرمایا کہ ہمارے احکام کے مطابق عمل کر کے اُمت محمدیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جنہیں دین کی خدمت میں لگایا گیا ہوگا.اور مشاغل دنیا سے انہیں روک دیا گیا ہوگا.(اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ) تو بتا یا کہ ان کو تمام ان مشاغل سے روک دیا جائے گا کہ جو سبیل اللہ کے مشاغل نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کے علاوہ دنیا کمانے اور دنیا کی عزت حاصل کرنے کے تمام راستے ان پر بند کر دیئے جائیں گے.تو جن لوگوں پر اُحْصِرُوا فی سَبِیلِ اللہ کا اطلاق ہوتا ہے وہ بھی مجاہدین ہیں.ایک قسم کا مجاہدہ اور جہاد کرنے والے ہیں.اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگ جن پر دشمن ،مخالف ہمنکر دنیا کی راہیں بند کر دیتا ہے.آئے دن ہمارے سامنے ایسی مثالیں آتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ بعض احمدیوں کو صرف احمدیت کی وجہ سے نوکری نہیں دیتے یا امتحانوں میں اچھے نمبر نہیں دیتے کہ وہ ترقی نہ کر جائیں.یا اگر تا جر ہیں تو ان کی تجارت میں روک ڈالتے ہیں.اگر زمیندار ہیں تو طرح طرح سے ان کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.خصوصاً جہاں نئے احمدی ہوں اور تعداد میں بھی تھوڑے ہوں وہاں اس قسم کا سلوک اکثر کیا جاتا ہے.ایسے لوگوں پر خدا کے لئے دنیا کی تمام راہیں اگر بند ہو جائیں تو قرآنی محاورہ کے مطابق وہ اُحْصِرُوا فِي سَبِیلِ اللہ کے گروہ میں شامل ہوتے ہیں.دوسری قسم مجاہدہ کی انفاق فی سبیل اللہ ہے.جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیا میں نے تمہیں دی ہے.چاہو تو دنیا کا ایک حصہ خرچ کر کے مجھے حاصل کر لو میری محبت کو پالو اور اگر چاہو تو دنیا کے کیڑے بن کر میری لعنت، میرے غضب اور میرے قہر کے مورد بن جاؤ.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انفاق پر بڑا زور دیا ہے انفاق فی سبیل اللہ کی کوئی حد بندی نہیں البتہ

Page 455

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۵ سورة الصف انفاق کی بعض قسموں کی حد بندیاں ہیں.مثلا زکوۃ ایک خاص شرح کے مطابق دی جاتی ہے لیکن عام صدقات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی شرح مقر ر نہیں فرمائی.اسی طرح اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے دین کی تقویت کے لئے حسب ضرورت جو اموال مانگے جائیں ان کے لئے کوئی شرح مقرر نہیں ہر آدمی پر فرض ہے کہ وہ اپنی ہمت کے مطابق اور حالات کی نزاکت کے مطابق خدا کی راہ میں اپنے مال کا جتنا حصہ وہ مناسب سمجھتا ہے خرچ کرے.جیسا کہ ایک وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے دین کو تمہارے مالوں کی ضرورت ہے.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندازہ لگایا کہ یہ موقع اتنا نازک ہے کہ میرا فرض ہے.کہ میں اپنا سارا مال لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دوں مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اندازہ لگایا کہ اتنا نازک وقت تو نہیں.لیکن بہر حال اتنا نازک ضرور ہے کہ مجھے نصف مال خدا کی راہ میں دے دینا چاہیے.تو ہر شخص اپنی اپنی استطاعت اور قوت اور استعداد کے مطابق اور اپنے اپنے مقام ایمان کے مطابق اندازہ لگا کر ایسے موقعوں پر خدا کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے.لیکن کوئی خاص حد بندی مقرر نہیں.جیسا کہ تحریک جدید کے چندوں کے متعلق حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی.لیکن اس خواہش کا ضرور اظہار کیا ہے کہ ایک مہینہ کی آمد کا ۱/۵ سالا نہ تم دیا کرو تا کہ سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں.بعض لوگ اب بھی اس سے زیادہ دیتے ہیں.اور بعض ایسے ہیں جو ۱٫۵ بھی نہیں دیتے ۱۰ ر ا دیتے ہیں ۱۵ / ۱ دیتے ہیں ۲۰ / ۱ دیتے ہیں.مجاہدہ کی ایک شکل جو قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ قتال فی سبیل اللہ ہے.یعنی جب دشمن زور بازو سے اسلام کو مٹانا چاہے اور مادی ہتھیار لے کر اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو باوجود اس کے کہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں بہت کمزور ہوتے ہیں، دفاع کی اجازت دیتا ہے.اور پھر حکم دیتا ہے کہ ضرور دفاع کرو.اور یہ حکم اس لئے دیتا ہے تا کہ کمزوروں کی کمزوری ظاہر ہو جائے.اگر صرف اجازت ہو تو بعض کہیں گے کہ سب کو لڑائی میں جانا تو ضروری نہیں ہے.

Page 456

۴۴۶ سورة الصف تفسیر حضرت خلیفہ مسیح الثالث اور پھر اس وقت اپنی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں کا ایک نمونہ دنیا کو دکھاتا ہے کہ دیکھو مومن تھوڑے بھی تھے، کمزور بھی تھے، غریب بھی تھے پھر ان کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے باوجود اس کے جب وہ ہمارے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہمارے اور اپنے دشمن کے مقابلہ پر آ گئے.تو انہیں فتح نصیب ہوئی.اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کا معجزانہ رنگ میں اظہار فرماتا ہے.اس کے علاوہ مجاہدہ کی ایک شکل ہمیں قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے.وَلَبِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ اَوْ مُثْم لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَحْمَةٌ (ال عمران : ۱۵۸) یہاں صرف قتل کئے جانے کا ذکر ہے.ضروری نہیں کہ جنگ میں قتل ہو.اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا.کہ مسلمان صرف میدان جنگ میں ہی شہید نہیں کئے گئے.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہزاروں لاکھوں مسلمان ایسا ہے جسے میدان جنگ میں نہیں بلکہ امن کی حالت میں کافروں نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا.جیسا کہ ہماری تاریخ میں صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کو کابل میں پکڑا گیا.ย وہ بے گناہ، بے بس اور کمزور تھے.حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.حکومت نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے خلاف، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے ان کو پکڑا اور قتل کر دیا.اور بڑی بے دردی سے قتل کیا.تو ایک شکل مجاہدہ یا جہاد فی سبیل اللہ کی یہ ہے کہ انسان ایسے وقت میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور کمزوری نہیں دکھاتا.صداقت سے منہ نہیں موڑتا.دشمن کہتے ہیں کہ تم تو بہ کر لو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے وہ کہتا ہے کہ کس چیز سے تو بہ؟؟ تو بہ کر کے حق کو چھوڑ دوں!! صداقت سے منہ پھیروں !!! اور باطل کی طرف آ جاؤں !!! ایسا مجھ سے نہیں ہوسکتا !! مرنا آج بھی ہے اور کل بھی.تمہارا جی چاہتا ہے تو مار دو.لیکن میں صداقت کو نہیں چھوڑ سکتا.پانچویں شکل مجاہدہ کی جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے وہ ہجرت فی سبیل اللہ ہے.اس کی تفصیل کو میں اس وقت چھوڑتا ہوں.چھٹی شکل اللہ تعالیٰ نے جو مجاہدہ فی سبیل کی بتائی ہے وہ ہے خدا کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرے.سفر میں بہر حال ویسا آرام نہیں مل سکتا جیسا کہ اپنے گھر میں ملتا ہے.بعض لوگ سفر سے گھبراتے ہیں.بعض لوگ بار بارسفر کر نے سے گھبراتے ہیں.تو ہمارے مربی، معلم اور انسپکٹر صاحبان کو جو سال کے چھ سات ماہ سفر میں رہتے ہیں

Page 457

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۷ سورة الصف خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اپنی راہ میں مجاہدہ قرار دیا ہے.اور اس کی جو برکات ایک مجاہد پر نازل ہوتی ہیں یہ لوگ بھی اس کے وارث ہیں.جیسا کہ فرمایا يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِیلِ الله (النساء : ۹۵) اگر چہ اس آیت میں اپنی کانٹیکسٹ (Context) کے لحاظ سے یعنی اس مضمون کے لحاظ سے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.یہ سفر جنگ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.لیکن جنگ کرنے کا ثواب علیحدہ ہے.اور اِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللہ کا ثواب علیحدہ یہاں بتایا گیا ہے.اسی طرح اِنْفِرُوا فِي سَبِيلِ الله (التوبة : ۳۸) ہے.تو بہت دفعہ خدا کی راہ میں سفر کرنا پڑتا ہے.مثلاً وقف عارضی میں وقف کرنے والوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ تم بتاؤ کہ تم کتنا سفر کر سکتے ہو؟ اس کے جواب میں بعض دوستوں نے لکھا کہ ہم اپنے خرچ پر پندرہ میں میل سفر کر سکتے ہیں بعض نے لکھا کہ ہم پچاس ساٹھ میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ ہم سوڈیڑھ سو میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ سارے پاکستان میں جہاں آپ کی مرضی ہو بھجوا دیں.ہم سفر کرنے کے لئے تیار ہیں تو ایسے مومن بھی مجاہدین میں شامل ہیں.پس خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کی ایک قسم قرار دیا ہے.ساتویں اور مجاہدہ کی سب سے اہم قسم جَاهِدُهُم بِه جِهَادًا كبيرًا (الفرقان: ۵۳) میں بیان کی گئی ہے.یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہوں میں جہاد کرنا اور اصولی طور پر یہ جہاد دوشکلوں میں کیا جاتا ہے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتنے زبر دست اور اتنی کثرت سے دلائل جمع کر دیئے ہیں کہ دنیا کا کوئی باطل عقیدہ خواہ کسی مذہب سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.تو عقائد باطلہ کا (خواہ وہ عقائد باطلہ عیسائیوں کے ہوں یا آریوں کے یاسکھوں کے یاد ہریوں کے یا دوسرے بد مذاہب کے ہوں ) دلائل حقہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ایک زبر دست جہاد ہے جس کے نتیجہ میں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو انسان اس کی رحمتوں کا وارث بنتا ہے.اور دوسرے جَاهِدُهُم بِه جِهَادًا كبيرًا ( الفرقان: ۵۳) تعلیم قرآن کو عام کرنے سے یہ جہاد کیا جاتا ہے کیونکہ مومنوں کی جماعت میں علوم قرآنیہ کو ترویج دینا.ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت

Page 458

۴۴۸ سورة الصف تفسیر حضرت خلیلہ اسیح الثالث پیدا کرنا اور ان کو اس حق الیقین پر قائم کرنا کہ قرآن کریم بڑی برکتوں والی عظیم کتاب ہے اس سے جتنا پیار ہوسکتا ہے کرو.اس سے جتنی محبت تم کر سکتے ہو کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنو.تو یہ بھی ایک مجاہدہ ہے اور اسی مجاہدہ اور جہاد کی طرف اس وقت میں بار بار جماعت کے دوستوں کو متوجہ کر رہا ہوں.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۳۸ تا ۴۴۸ سورہ صف کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں ایثار اور قربانی کے وطیرہ کو اختیار کرنے کی برکات کا ذکر کیا ہے اور اس میں مالی جہاد کا بھی ذکر ہے.دراصل مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة : ۴) میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہوتا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی.زندگی کی ایک مدت عطا کی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو موت عطا کی.اللہ تعالیٰ نے اس زندگی میں انسان کی ترقیات کیلئے اسے بہت سی قوتیں ، صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کیں.اللہ تعالیٰ نے ان قوتوں اور استعدادوں کی نشوونما کے مناسب حالات پیدا کرنے کیلئے وسائل کے طور پر اسے مال اور دولت عطا کئے.گویا ہر جہت سے اور ہر لحاظ سے اس نے اپنی عطا سے ہماری جھولیوں کو بھر دیا اور ہم سے یہ مطالبہ کیا کہ جو کچھ بھی میں نے تمہیں دیا ہے اس میں سے میری راہ میں میرے کہنے پر اور میری تعلیم کے مطابق میری تو حید کے قیام کے لیے میرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو نوع انسانی کے دلوں میں پیدا کرنے کیلئے خرچ کرو.جو سرمایہ ہے وہ بھی اسی کا ہے لیکن احسان عظیم فرماتے ہوئے وہ ہمیں یہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ تجارت کرو گے تو گھاٹے میں نہیں رہو گے.میرے ساتھ تجارت کرو گے اور میرے ہی مال کو مجھے واپس دو گے، میری ہی عطا کردہ قوتوں کو میری راہ میں خرچ کرو گے، میری ہی دی ہوئی زندگی کے دنوں کو میری عبادات میں ، میری تسبیح وتحمید میں اور میرے بندوں کی خدمت میں لگاؤ گے اور اگر ضرورت پڑے تو جوموت میں نے تمہارے لئے مقدر کی ہے اس کو بشاشت سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس موت کو میرے لئے قبول کر لو گے تو تمہیں عذاب الیم سے بچایا جائے گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو عذاب الیم میں مبتلا ہو گے.ان آیات میں بہت لمبا مضمون ہے مگر اس تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا.صرف یہ بتانا

Page 459

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۹ سورة الصف چاہتا ہوں کہ مالی جہاد کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عظیم جہاد قرار دیا ہے اور انسان اگر عقل اور فراست رکھتا ہو تو حیران ہوتا ہے کہ وہ خود ہی ہمارے ہاتھوں میں دولت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دو گے (اس میں سے جو میں نے تمہیں دیا ہے ) تو میں تمہیں عذاب الیم سے بچالوں گا.پس یہ گھاٹے کا سودا نہیں یہ تو بڑا ہی نفع مند سودا ہے اور جولوگ اس سے غفلت برتتے ہیں ، جو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، جو اس کو اچھا نہیں سمجھتے، جو اس کی حقیقت کو نہیں پہچانتے جو اپنی نسلوں کی بہبود کا خیال نہیں رکھتے، جو اپنے مستقبل کی پرواہ نہیں کرتے جو اُخروی زندگی کا تصور اپنے دماغوں میں نہیں لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں دی ہیں ان بشارتوں کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کیلئے کوشاں نہیں، وہ بڑے ہی خسارے میں ہیں.وہی عذاب الیم ہے.جس نے خدا کو ناراض کر لیا، اس سے بڑا اور کیا عذاب اس کو ملے گا.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۸۲،۱۸۱)

Page 460

Page 461

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۴۵۱ سورة الجمعة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الجمعة آیت ۱ تا ۳ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ) يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ , ورسووو الَّذِي بَعَثَ فِي الْأَمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مُّبِيْنٍ ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز لے لو وہ خدا تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی پاکیزگی کو بیان کر رہی ہے اور سوائے اس کے کسی اور کی بادشاہت کو قبول نہیں کر رہی.خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی وجود نہیں جس کی صفات کے جلووں کا اثر اس دنیا کی کسی بھی شے نے کسی رنگ میں بھی قبول کیا ہو، اگر قبول کیا ہے تو صرف خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کا اثر قبول کیا ہے اس واسطے کہ وہی ان کا بادشاہ ہے.پھر بتایا کہ ہر چیز جو خدا نے پیدا کی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ خدا پاک ہے اور تمام خوبیوں کا مالک ہے اس لئے کہ جو چیزیں اس نے پیدا کی ہیں وہ جن اغراض کے لئے پیدا کی ہیں ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے تمام خوبیاں اور تمام طاقتیں ان کے اندر پائی جاتی ہیں اس لئے جس منبع سے وہ نکلی ہیں اس کے متعلق بھی ماننا پڑے گا کہ وہ قدوس ہے کیونکہ اس کی پیدا کردہ مخلوق کے اندر یہ پاکیزگی پائی جاتی ہے کہ اس کا اثر بد نہیں بلکہ پاک ہے.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی چیز کا بھی اس دنیا میں بداثر نہیں.ہم خود اس کے غلط استعمال سے نقصان اٹھا لیں تو یہ اور

Page 462

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۲ سورة الجمعة بات ہے یہ استعمال کرنے والے کی بدی ہے اس شے کی بدی نہیں.قرآن کریم کا اعلان یہ ہے کہ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثيه : ۱۴) یعنی بغیر استثنا دنیا کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگایا گیا ہے اگر انسان خود خدمت نہ لے یا غلط خدمت لے لے تو اس میں خادم کا تو قصور نہیں.خشخاش کا ایک دانہ اور ہمالیہ کا یہ پہاڑ اور سورج کا یہ خاندان (جس میں سے ایک زمین بھی ہے جو سورج سے فائدہ اٹھا رہی ہے ) یہ سب کے سب انسان کی صحیح خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ دعوی کر سکے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو انسان کی خدمت کی اہلیت نہیں رکھتی اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے خواہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے انسان کو اس سے فائدہ نہیں ہو گا.اس لئے کہ ہم یہ ثابت کریں گے کہ خود دنیا نے تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ جن چیزوں کے متعلق بعض لوگوں کو یہ وہم تھا کہ وہ انسان کے فائدہ کے لئے نہیں ہیں ان میں بھی فوائد ہیں.مثلاً سانپ اور اس کا زہر ہے.بعض لوگ تو سانپ کا لفظ سن کر بھی چھلانگ لگا کر چار پائی پر چڑھ جاتے ہیں.اتنا ڈرتے ہیں اس سے لیکن سانپ کے زہر میں بھی انسان کے لئے بے شمار فوائد رکھے ہیں اور انسان نے تحقیق کر کے ان میں سے بعض فوائد کا علم بھی حاصل کیا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے.بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جن کو ایک وقت میں انسان اپنی جہالت کی وجہ سے قریب لا علاج سمجھتا تھا اور اب طب کی اور شاخوں نے بھی اور ہومیو پیتھک نے بھی سانپ کے زہروں سے ایسی ادویہ بنائی ہیں جو ایسے مریضوں کو بہت فائدہ دیتی ہیں.اسی طرح لکھی ہے جو کہ ہر وقت تنگ کرتی ہے لیکن مکھی میں انسان کے لئے فائدہ ہے.ایک موٹا فائدہ جو ہر ایک کو سمجھ آ جائے گا یہ ہے کہ بعض بچے سوکھے“ کے مریض ہوتے ہیں اور بچپن سے نہ ہڈی بڑھ رہی ہوتی ہے اور نہ اس کے اوپر گوشت ہوتا ہے اس کو پنجابی میں سوکھا، کہتے ہیں.ایسے مریضوں کو اگر مکھی کسی چیز میں لپیٹ کر کھانے کے لئے دی جائے اور وہ اس کو ہضم کر لیں تو یہ سوکھنے کی بیماری کا علاج ہے اور یہ تو ایک فائدہ ہے اس کے اندر اور بہت سے فوائد ہیں.پس تمام اشیاء خدا تعالیٰ کی صفات سے اثر قبول کر رہی ہیں اور جس غرض کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت کریں ) اس غرض کو وہ پورا کر رہی ہیں اور اس طرح یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ قدوس بھی ہے کیونکہ دنیا کی تمام اشیاء جو بے حد و بے شمار ہیں ان کا وو

Page 463

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۳ سورة الجمعة اثر انسان پر نیک اور پاک اور مفید ہے گندہ اور مضر نہیں ہے.اس لئے جس چشمہ سے وہ نکلی ہیں اس پر بھی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اپنے ان اثرات سے وہ یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ پاک ہے یہ ان کی زبان ہے.قرآن کریم نے دوسری جگہ کہا ہے کہ ہر چیز اس کی حمد کر رہی ہے اور اس کی تسبیح کر رہی ہے لیکن تم ان کی آواز کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک آواز یہی ہے.پتا نہیں اور کتنی آواز میں خدا تعالیٰ نے ان کو دی ہیں.پس جیسا کہ خدائے قدوس نے کہا تھا تمام اشیاء انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے انسان خدمت نہ لے سکے اور صحیح ذاتی خاندانی اور علاقائی خدمت اور بنی نوع انسان کی خوشحالی اور اس کے اطمینان اور اس کی ترقیات کے لئے ان اشیاء کو کام میں نہ لگایا جاسکے.خدا تعالیٰ عزیز ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں کہ جو کام خدا تعالیٰ کرنا چاہے اس کے راستہ میں وہ روک بن سکے.ویسے تو قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے ہزار ہا پہلو ہیں لیکن اس سلسلہ میں ایک پہلو جو بہت نمایاں ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے علاوہ کسی اور کا مثلاً شیطان کا اثر قبول کرے ایسی کوئی چیز نہیں ہے.انسان کو ایک تنگ دائرے میں خدا تعالیٰ نے آزادی دی ہے مگر اس کی حفاظت کے لئے اور اس کو خدا کی طرف واپس لانے کے لئے بڑا عظیم انتظام بھی کیا ہے.حکم اسی کا چلتا ہے اور اس یو نیورس میں اس عالمین میں اس کے جو احکام جاری ہیں جب ہم ان پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر حکم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا وہ بڑی حکمتوں والا ہے.پس خدا تعالیٰ العزیز الحکیم ہے.یہ نہیں کہ وہ صرف عزیز ہے اور حکیم نہیں بلکہ وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ہے.دنیا کا یہ نقشہ پیش کر کے خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کی بزرگی کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے.جو کچھ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا وہ اس کا فعل ہے.اس نے اپنی قدرت کا ملہ سے ان اشیاء کو پیدا کیا اور ان پر اپنی صفات کے جلوے ظاہر کئے اور ہر مخلوق میں، ہر شے میں جو اس نے پیدا کی اس نے بے حد و حساب خواص پیدا کر دیئے.زمانہ تو ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے.خدا تعالیٰ تو بالائے زمانہ ہے جیسا کہ وہ لا مکان ہے.سو سال پہلے گندم کے دانے میں جو خواص تھے ان سو سالوں کے اندر پتا نہیں ان میں کیا فرق پڑ گیا ہے اور صفات باری نے ان کے اندر کیا تبدیلی پیدا کر دی ہے.یہ علیحدہ

Page 464

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۴ سورة الجمعة مضمون ہے بہر حال یہاں خدا تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی صفات اس عالمین کی ہر شے میں نظر آ رہی ہیں اور ہر چیز یہ بتارہی ہے کہ بادشاہت خدا ہی کی ہے اور ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدائے واحد و یگانہ کی بادشاہت بڑی پاکیزہ بادشاہت ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ عزیز ہے، غالب ہے کوئی اس کی بات کو رد نہیں کر سکتا اور جو اس نے انسان کو آزادی دی ہے وہ بھی اسی کے حکم اور منشا سے ہے اور یہ کہ اس کے احکام پر حکمت ہیں.یہاں پہنچ کر خدا نے عجیب اور شاندار جوڑ ملا دیا.اس کا ہر حکم اپنے اندر حکمتیں رکھتا ہے تو اس نے انسان کو جو آزادی دی اس میں بھی کوئی حکمت ہونی چاہیے.فرما یا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأَمينَ رَسُولًا مِنْهُمْ کہ اگر انسان کو آزاد بنایا جاتا اور اس کی حالت ویسی ہی ہوتی جیسی کہ ایک فاختہ کی ہے یا ایک باز کی ہے یا ایک درخت کی ہے یا ایک ہیرے کی ہے تو پھر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت نہیں تھی.پس خدا تعالیٰ نے جو یہ سارا کارخانہ بنایا اور اعلان کیا کہ یہ اس غرض سے بنایا ہے کہ وہ انسان کی خدمت کرے اس میں حکمت یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود پیدا کرنا مقصود تھا.پس هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ میں بتایا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی عظمت و شان اور اپنی بادشاہت اور اپنی قدوسیت کا اور اپنے عزیز اور حکیم ہونے کا یہ نشان ظاہر کیا کہ ایک اقی قوم جو پڑھ نہیں سکتے تھے اور دنیوی لحاظ سے بالکل جاہل تھے ان کے اندر ایک ایسا وجود پیدا کر دیا کہ جس کی قیمت دنیا جہان بھی نہیں ہے وہ سب سے زیادہ قیمتی وجود ہے.اس دوسری آیت میں پہلی آیت کے ساتھ ساتھ چلنے والے دو اور سلسلوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور دوسرے وہ کتاب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے یعنی قرآن کریم.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس طرح کہ انسانوں میں سے صرف آپ ہی ہیں جو صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں.چنانچہ کوئی انسان ایسا نہیں جو خدا تعالیٰ کی ملک ہونے کی صفت کا اس شان کے ساتھ مظہر بنا ہو جیسے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنے.اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کی صفت ، ملک ہونے کی صفت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اور آپ کی ذات میں اتم طور پر ظاہر ہوئی اور چمکی.پھر آپ کے وجود میں پاکیزگی کی بھی انتہا نہیں یعنی قدوس ہونے کی صفت کے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم ہیں اور آپ کی ساری زندگی پاک اور پاک کرنے والی ہے اور جب میں ساری زندگی کہتا ہوں تو میری مراد ہر دو زندگیوں

Page 465

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۵ سورة الجمعة سے ہے یعنی جسمانی زندگی بھی اور روحانی زندگی بھی جو کہ قیامت تک ممتند ہے اور پاکیزگی کے لحاظ سے انسان پر جومردنی چھا جاتی ہے اور وہ مردہ ہو جاتا ہے آپ کی زندگی اس مرد نی کو زندگی اور طاقت کے اندر تبدیل کرنے والی ہے اور جہاں تک انسان کے اخلاق اور انسان کے معاشرہ اور اس کے تمدن اور اس کی اقتصادیات اور اس کے علوم اور اس کی زندگی کے ہر شعبہ کا تعلق ہے.اگر انسان نے فلاح و بہبود کی زندگی گزارنی ہو تو حکم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی چلتا ہے.جو تعلیم آپ لے کر آئے اس سے پرے ہٹ کر انسان کو نہ کوئی سکھ اور چین نصیب ہوا نہ ہو سکتا ہے اس پر میں اپنے بیرونِ ملک کے دوروں میں بھی روشنی ڈال چکا ہوں عیسائیوں کو میں بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھاتا تھا کہ تمہاری عقلیں اور تمہارے مذاہب تمہارے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں.اگر تم اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہو تو وہ جس کو خدا نے صفتِ عزیز کا مظہر اتم بنایا ہے اس کے سائے تلے آ جاؤ.تمہاری ساری تکلیفیں دور ہو جائیں گی.ویسے ان کو سمجھانے کے لئے میں الفاظ ان کی عقل کے مطابق ہی استعمال کرتا ہوں اور آپ احمدیوں کی عقل ماشاء اللہ بہت بڑی ہے.آپ کو سمجھانے کے لئے آپ کی سمجھ کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہوں.جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو وہ میری بات سمجھ جاتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو آپ میری بات سمجھ جاتے ہیں.پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو بغیر حکمت کے ہو.ہر پہلو میں ہمیں حکمت نظر آتی ہے ورنہ اگر یہ حکمت نہ ہوتی، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفت حکیم کے مظہر اتم نہ ہوتے تو آپ امت محمدیہ کو جس کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے کبھی سنبھال ہی نہ سکتے.یہ فقرہ کہنا آسان ہے لیکن اس کا سمجھنا مشکل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ قیامت تک فیض رساں ہے اور اپنے اثر کے لحاظ سے اور اپنے فیوض کے لحاظ سے اس کا زمانہ قیامت تک ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی ساری ہی صفات کے مظہر اتم ہیں لیکن یہاں قرآن کریم میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس میں چار بنیادی صفات کا ذکر کیا گیا ہے.آپ ان چاروں صفات کے بھی مظہر اتم ہیں.آپ کے وجود کی ہر حرکت اور ہر سکون نے یہ ثابت کیا کہ خدا تعالیٰ بڑا بزرگ، ہر عیب سے پاک، ہر نقص سے پاک اور تمام اسمائے حسنہ سے متصف ہے اور تمام تعریفیں اسی کی طرف جاتی ہیں.يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ کا ثبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود نے اور آپ

Page 466

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۶ سورة الجمعة کی معمور الاوقات زندگی نے دیا ہے آپ نے بھر پور زندگی گزاری اور اس زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو یہ ثابت نہ کرتا ہو کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ان چاروں صفات کا مالک ہے جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو دوسرا سلسلہ بیان کیا ہے وہ قرآن کریم ہے یعنی وہ تعلیم جو آپ لے کر آئے.چنانچہ فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ کہ وہ تعلیم خدا تعالیٰ کے احکام بتاتی ہے اور یہ اس کے ملک ہونے کے مقابلہ میں ہے.خدا تعالیٰ بادشاہ ہے اور بادشاہ کے احکام جاری ہوتے ہیں اور قرآن کریم نے وہ تمام احکام الہی بیان کئے ہیں.دنیا کی پیدائش اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا قول ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس کی لڑائی ہے.ایک ہی ہستی کا قول اور اس کا فعل آپس میں کیسے لڑ سکتے ہیں؟ جو اس نے کیا اور جو اس نے کہا وہ متضاد ہو ہی نہیں سکتے.ایسا خیال کرنا بھی نا معقول بات ہے یہ کائنات جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی یہ اس کا فعل ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کے فعل میں ہمیں اس کی یہ صفات نظر آتی ہیں کہ وہ بادشاہ ہے وہ قدوس ہے ، وہ عزیز ہے اور غالب ہے اور وہ حکیم ہے اسی طرح قرآن کریم جو اس کا قول ہے اس میں بھی ہمیں یہ صفات نظر آتی ہیں.خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام احکام ایک کامل اور مکمل شریعت کے رنگ میں انسان کو دیئے گئے.خدا تعالیٰ کا حکم کا ئنات میں چلتا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: ۵۱) جو خدا نہیں کہتا ہے وہی کرتے ہیں لیکن کائنات کا ایک حصہ جو آزا در کھا گیا تھا اس کی ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کیا.اس نے انسان کو کہا کہ تیری مرضی ہے تو اس پر عمل کر اور تیری مرضی ہے تو نہ کر.لیکن اس کے لئے یہ کہنے کی ذرہ بھر گنجائش نہیں چھوڑی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اس عالمین میں اپنے کامل حکم کے ساتھ خلق کا سلسلہ قائم کیا اور پیدائش کی اور اپنی صفات کے جلوے ان کے اندر رکھے.اسی طرح تو نے ہمارے لئے ایک کامل کتاب کیوں نہیں بھیجی بلکہ جب انسان اس کا حامل ہونے کے قابل ہو گیا تو ایک کامل کتاب اس کو دے دی گئی يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ اور جس طرح بادشاہ کے احکام ہوتے ہیں اسی طرح انسان کی ہدایت کے لئے اس کی بہبود کے لئے اس کی دنیوی اور اخروی ہر دو قسم کی ترقیات کے لئے وہ تمام احکام جن کی ضرورت تھی کامل طور پر اس قرآنِ عظیم میں موجود ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.پس خدا تعالیٰ کی ملک ہونے کی صفت اس کے فعل میں بھی ظاہر ہوئی اور اس کے قول میں

Page 467

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۷ سورة الجمعة بھی ظاہر ہوئی اور یہاں قرآن کریم میں ، اس کے قول میں يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتِہ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی تمام صفات کے مظہر اتم ہیں.اور آپ کے علاوہ ہر انسان نے اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات میں پیدا کرنا ہے.اپنی استعداد سے زیادہ تو وہ نہیں کر سکتا.پس جب یہ کہا کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ تو اس میں یہ اعلان کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے ہیں اس میں تمہارے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی ملک ہونے کی صفت کے زیادہ سے زیادہ مظہر بن سکتے ہو.پھر خدا تعالیٰ کی قدوس ہونے کی ، پاکیزہ ہونے کی جو صفت ہے وہ یزکیھم میں ظاہر ہوئی.یہ تو موٹی بات ہے ہر ایک کو سمجھ آ جائے گی کیونکہ یہ معنی کے لحاظ سے برابر ہیں.وہاں قدوس ہے اور یہاں يُزَكِّيهِمْ ہے.یزکیھم میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ پاک ذات ہے اور اس تعلیم پر عمل کر کے تم بھی اپنی استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ طہارت اور پاکیزگی حاصل کر سکتے ہو.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب اور تم خدا تعالیٰ کی عزیز ہونے کی صفت کے مظہر اتم بن سکتے ہو.خدا تعالیٰ کے اس قول قرآن میں یہ سامان پیدا کیا گیا ہے.يُعَلِّمُهُمُ الكتب عزیز کے مقابلہ میں آیا ہے.پس خدا تعالیٰ جو غالب ہے تم اس کے مظہر اتم بن سکتے ہو.قرآن کریم میں ایک اور جگہ یہ مضمون بیان ہوا ہے جو بہتوں کو سمجھ آ جائے گا.چنانچہ فرما یا انتم الاعلون (ال عمران: ۱۴۰) کہ تم ہی غالب رہو گے.یہ انتم الاعلون کیا بتا رہا ہے یہی کہ تم خدا تعالیٰ کی اس صفت کے مظہر بن سکتے ہو کہ وہ عزیز ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا.وہ عزیز اور غالب ہے اور کوئی نہیں جو اس کے منصوبوں کو نا کام کر سکے.انتم الاعلون تم بھی یہ صفت اپنے اندر پیدا کر سکتے ہو کہ تم پر کوئی غالب نہ آئے اِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ بشر طیکہ تم قرآن کریم کی ہدایت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو.والحكمة یہ بھی لفظی طور پر خدا تعالیٰ کی صفت حکیم کی طرف اشارہ کرتا ہے.قرآن کریم کی شریعت انسان کو اس کی قوت اور استعداد کے مطابق خدائے حکیم کی صفت حکیم کا مظہر بنانے کے لئے دنیا کی طرف مبعوث ہوئی ہے.اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں اور بہت سی باتیں سامنے

Page 468

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی ۴۵۸ سورة الجمعة آتی ہیں ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل اور قول میں تضاد نہیں ہے اور مخالفت نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے.ایک تو عقلاً ان میں تضاد نہیں ہو سکتا اور دوسرے حقیقتا نہیں ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے فعل میں اور اس کے قول قرآن کریم میں تضاد ہوتا تو مد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم نہیں بن سکتے تھے.خدا تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں یہ نشان دکھایا کہ آپ کا صفات باری کا مظہر اتم بن جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں کوئی تضاد نہیں ہے اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ تم شیطانی وساوس کو اپنے دل سے نکال کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو تو تم بھی اپنی قوت و استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفت کے مظہر بن جاؤ گے اور ہر وہ شخص جو قرآنی تعلیم پر عمل کر کے اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنتا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں کوئی فرق نہیں ہے.کوئی تضاد نہیں ہے، کوئی اختلاف نہیں ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۴۶۶ تا ۴۷۳) اس واسطے يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ جو بادشاہ بھی ہے اور پاکیزگی مجسم اور پاکیزگی کا سرچشمہ اور منبع اور سب خوبیوں کا جامع اور غالب اور حکمت والا اور قرآن کریم کو ہر زمانہ کے لئے نئی سے نئی حکمتوں سے معمور کر دینے والا ہے، هُوَ الَّذِي بَعَثَ في الأمينَ رَسُولًا مِّنْهُم الله تعالیٰ کے متعلق پہلی آیت میں ذکر کا یہ اعلان کیا وہ اللہ جس کی تسبیح کر رہے ہیں مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وہ خدا جو بادشاہ بھی ہے، پاک بھی ، سب خوبیوں کا جامع بھی ہے، غالب اور حکمت والا بھی اس خدا نے بَعَثَ فِي الْأُمِنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ امیوں میں سے ہی دنیوی لحاظ سے ان پڑھ لوگوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کے بھیج دیا اُمّی میں سے رسول اور رسول وہ جو رسولوں کا سرتاج جو خاتم الانبیاء جس کے سامنے ہر ایک نے ہر آن گزشتہ پہلے نبی نے اس کی عظمت کا اقرار کیا اور اس کے مقابلے میں اپنے لاشئے ہونے کا اقرار کیا.اس اُمّی کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا اور آپ پہ جو کلام نازل ہوا اس کا ایک کامل اور مکمل ہونا اور اتمام نعمت کرنے والا ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہ کلام جو ہے اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جو اس کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمیں میں ہے اور جو بادشاہ بھی ہے پاک بھی ہے پاکیزگی کا سرچشمہ بھی ہے.غلبہ کا مالک بھی ہے اور ہر ایک کو اسی کا غلبہ عطا ہوتا ہے وہ حکیم بھی ہے

Page 469

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۵۹ سورة الجمعة حکمت والا بھی ہے اس کی تعلیم حکمتوں سے بھری ہوئی اس کے نیک بندے اس معنوں میں حقیقی تھے نئے ضرورتوں میں نئی حکمتیں سیکھتے اور دنیا میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی عظمتوں کو بیان کرتے اور اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اس کی عظمت کے نعرے لگانے والے ہیں.ان آیات میں جو پہلی آیت ہے يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ب وَآخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کہ یہ ایک نسل یا ایک صدی یا صرف ایک محدود زمانہ کے اندر اس کی برکتیں اور اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں اور اس کے پاک کرنے اور تزکیہ کرنے کی قوت جو ہے اور اس کا حسن جو ہے وہ ختم نہیں ہو جائے گا کیونکہ اس خدا کی طرف سے امی کے اوپر نازل ہوا ہے، ایک اور جماعتیں اس میں شامل ہوتی رہیں گی.وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور آخرین میں بھی ایک جماعت ہے جو انہیں کے ساتھ ، پہلوں کے ساتھ صحابہ کے ساتھ جا ملے گی اور ان کے سپرد جو کام ہوگا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ان کی کامیابیاں غلبہ اسلام کی جدو جہد اور جہاد میں دنیا پر یہ ثابت کریں گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا کلام غالب ہستی کی طرف سے نازل ہوا اور اس ہستی کی طرف نازل ہوا جو حکیم ہے حکمت والا ہے اور حکمت سکھانے والا ہے پھر جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ جب یہ آخرین پیدا ہو جائیں گے تو دنیا میں ایک طمانیت اٹھے گی ، یہ ذلیل لوگ یہ غریب لوگ یہ بے سہارا لوگ یہ بے بس لوگ یہ بے مایہ لوگ جن کی کوئی قدر نہیں ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں اس میں کوئی دلچسپی بھی نہیں.انہیں کو چنا تھا خدا نے.اسی واسطے یہاں امتین کا لفظ پہلے پڑھایا گیا کہ جس طرح امتین میں سے ایک کو چنا اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنا دیا اسی طرح وہ عزیز اور حکیم خدا آخرین میں سے ایک کو چنے گا اور اسے مہدی بنا دے گا اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم روحانی فرزند بنادے گا اور اس حقیر جماعت ، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت سے خدا جو قدرتوں والا خدا ہے کام لے گا تا کہ انسان کا دل شیطانی امور سے نہ بھر جائے بلکہ ہر نفس اپنے گریبان میں جھانکے اور اعلان کرے کہ میں خدا کا عاجز بندہ مجھے خود پتا نہیں کہ یہ انقلاب کیسے اور کیوں بپا ہورہا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ بپا ہو اور اسلام غالب آئے خدا تعالیٰ نے بشارت دی تھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ وہ زمانہ آ گیا ، وہ حالات پیدا ہو گئے ، انقلاب پہ انقلاب، انقلاب په انقلاب دیکھنے والی آنکھ دیکھتی ہے کم از کم پندرہ سولہ سال سے کچھ تھوڑا بہت دھند لکا سا تھا

Page 470

تفسیر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۰ سورة الجمعة پہلے بھی ، میرے دماغ میں.ہر تبدیلی انسانی زندگی میں اس لئے آرہی ہے کہ آخر کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو ہے وہ انسان پر ظاہر ہو اور وہ تبدیلیاں ہم کر رہے ہیں تم کر رہے ہو کون کر رہا ہے ہمارے مرد کر رہے ہیں عورتیں کر رہی ہیں خدا کر رہا ہے خدا کے فرشتے جو انسان کو نظر نہیں آتے وہ آسمانوں سے نازل ہوتے اور دلوں میں تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں وہ لوگ جن کی زبانیں اسلام کو برا بھلا کہتے تھکتی نہیں تھیں ان کی آنکھوں سے آنسوؤں سے خود میری آنکھوں نے اسلام کی تعریف سننے کے بعد آنسو ٹپکتے دیکھے ہیں.یہاں پہلی بات پہلا مقصد یہ بتایا گیا يَتْلُوا عَلَيْهِم آیتہ یہ جو آیات ہیں یہ خانہ کعبہ کا مقصد بھی ہے این بینت چوتھی غرض میں نے بتائی تھی ایسے بسنت اور میں نے بتایا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ سے ظاہر ہونے والا نور ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گے آسمانی نشانوں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولا گیا ہے فرمایا بلْ هُوَ ایتا یہ دوسری آیت ہے قرآن کریم کی بَلْ هُوَ ايتَ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلم کہ قرآن کریم کا حقیقی علم رکھنے والوں کے سینوں کے اندر ایتا بینت ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ان کے سینوں میں پیدا ہوئیں اور ہر لحظہ وہاں سے نکلتی اور دنیا کو عظمت قرآنی اور عظمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہی ہیں.آیت کے معنی ہیں يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ آیات کا مفرد ہے الا یہ اور اس کے معنی لغت میں لکھے ہیں ھی العلامة النظاھرۃ ظاہری علامت ، ہر وہ ظاہری چیز ، ظاہری علامت جس کے ذریعے کسی دوسری خفی چیز کا پتہ لگے، ایک معنے اس کے یہ ہیں اور دوسرے یہ جو آیات ہیں، آیات وہ عقلی امور ہیں جو خدا کی ذات یا صفات کی نشاندہی کرتی ہیں ان کی طرف راہنمائی کرنے والی ہیں ان میں دلائل عقلیہ بھی آتے ہیں وہ بھی آیت بنتی ہے دلائل عقلیہ جو قرآن کریم میں زبردست عقلی دلائل ہیں ان کو بھی قرآن کریم کی زبان میں آیت کہا گیا ہے.قرآن کریم کی ہر آیت، آیت کہلاتی ہے ناں.ہم کہتے ہیں اس سورۃ کی اتنی آیات، اتنی آیات، جو دلائل عقلیہ ، جو خدا تعالیٰ کی معرفت عطا کرنے والی ہیں.اسی طرح آیات سے وہ آسمانی نشانات اور معجزات مراد لئے جاتے ہیں جو اپنے پاک بندہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا اور ان کے نتیجہ میں انسان کی ہدایت کے سامان پیدا کرتا ہے.آسمانوں اور زمین کی پیدائش کو بھی ، یہ یادرکھیں بہت سارے لوگ اس چیز کو بھول جاتے ہیں، آسمانوں اور زمین

Page 471

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۱ سورة الجمعة کی پیدائش ،حرکت اور زمانہ کو بھی آیت کہا گیا قرآن کریم میں ، یعنی سورج کی پیدائش یہ آیت اللہ ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے سورج نہیں بنایا تو تم نے بنایا کسی اور نے بنایا.کون ہے دعویٰ کرنے والا کہ میں نے جا کے سورج کو بنادیا تھا.جو چیز بھی اس کا ئنات میں، اس مادی دنیا میں اور جو غیر مادی ہے اس میں بھی ظہور پذیر ہوتی ہے جو عدم سے وجود میں ظاہر ہوتی ہے یعنی پہلے نہیں تھی ہوگئی ، وہ آیت ہے اس کی ایک موٹی مثال ہے تو وہ چھپی ہوئی لیکن موٹی بھی ہے وہ دے دیتا ہوں جو فلکیات کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو پہلا آسمان ہے سات آسمانوں میں سے جس میں ستارے اور سورج وغیرہ ہیں یہ قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں ستارے، یعنی ان کے اندر اپنا ایک اجتماعی زندگی ہے ان کی ، وہ ہر، ان کو انگریزی میں گلیکسی کہتے ہیں اور بے شمار سورج ایک ایک گلیکسی میں ہیں.بے شمار سورج ایک گلیکسی میں اور ہر گلیکسی اپنے راستے پر حرکت میں ہے کسی نامعلوم طرز کی طرف اس کی حرکت ہے جہت کی طرف اس کی حرکت ہے لیکن گلیکسی اور گلیکسیز بے شمار ہیں ان کی بھی گنتی نہیں کر سکا انسان لیکن یہ حرکت پیرالل (Parallal) نہیں بلکہ اس طرح ہے یعنی ہر آن دو کلیکسیز کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جب اتنا فاصلہ ہو جائے دو گلیکسی کے درمیان کہ غیر محدود بے حد و حساب سورج اس کے ایک، جس کے اندر ہوتے ہیں ناں ایک نئی گلیکسی وہاں سما سکے اتنا فاصلہ ہو جائے وہ تو کہتے ہیں وہاں وہ گلیکسی پیدا ہو جاتی ہے اب یہ جو پیدائش ہے یہ ہے خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (ال عمران : ۱۹۱) یہ آیت نہیں عظیم نہیں نشان خدا تعالیٰ کی عظمتوں اور اس کے جلال کی طرف راہنمائی نہیں کرتی یہ چیز.تو اس چیز کو بھی آیت قرآن کریم نے کہا اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (ال عمران : ١٩) ہاں یہ ضرور کہا ہے صاحب فراست ہونا چاہیے آدمی کو پتا لگ جائے گا کہ معمولی واقعات نہیں رونما ہونے والے بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے نشان ظاہر کرنے والے عظیم نشان ہیں اللہ تعالیٰ کے.اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے آیات قرآن کریم میں میں نے نوٹ تو کئے تھے بہت ساری آیات جو قرآن کریم نے سینکڑوں یہ ظاہری چیزیں ہیں پانی کا سمندروں سے بخارات کے ذریعے اٹھایا جانا قرآن کہتا ہے یہ آیات ہے پھر اس کو اس بخار کا سمٹ کے اور گاڑھا ہو جانا تھک (Thick) ہو جانا پانی کا اکٹھا ہو جانا.جس میں سے قطرے بہہ سکیں اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے یہ آیت ہے.

Page 472

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۲ سورة الجمعة پھر اس بادل کا کسی خاص جہت کی طرف چل پڑنا ہوا کا آنا اور اس کو اڑا کر لے جانا خدا کہتا ہے یہ آیت ہے، پھر کسی ایک جگہ جا کے ہوا کا رک جانا ار بادل کا ٹھہر جانا اور نہ برسنا.خدا کہتا ہے یہ آیت ہے یا برس جانا خدا کہتا ہے یہ آیت ہے.سینکڑوں ہزاروں تو شاید نہیں سینکڑوں تو یقینا قرآن کریم میں اس کا ئنات سے مادی کائنات سے تعلق رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے جو عظیم جلوے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ہر جلوہ ہی عظیم ہے ان کو آیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.تو ایک تو خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (ال عمران (۱۹) آیت ہوئی دوسرے زمانے کو وَ اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ (ال عمران : ۱۹۱) یہ زمانہ ہی ہے ناں.آپ کہہ دیتے ہیں کل جو گزر گیا دن کل کا دن اور پرسوں جو آنے والا دن ہے وہ پرسوں کا دن وہ زمانہ جو ہے وہ اپنی مستقل ایک حیثیت میں آپ کے ذہن میں آتا آپ کی زندگیوں میں آتا اور ایک ایک دن جس کو آپ ایک معمولی سی چیز سمجھ کے اس پر توجہ نہ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور ایک دن آپ کو پتا لگتا ہے کہ ایک ایک دن کر کے ۸۰ سال ہماری عمر گزرگئی اور بوڑھے ہو گئے کریں جھک گئیں چلا نہیں جاتا کان جو ہیں ٹھیک طرح سن نہیں رہے آنکھیں ٹھیک طرح دیکھ نہیں رہیں وہ جو رعب اور دبدبہ خاندان کے اوپر تھا وہ بابے بڑھے کا رہا نہیں.اور بولا ایک ایک دن تھا.تو ایک دن بھی بڑا زبردست تھا اور واقعہ میں آیت تھا خدا کی.یہ بھی آیت ہے اور شق قمر جو ہے وہ بھی آیت ہے قرآن کریم کی اصطلاح میں یعنی جو انبیاء علیہم السلام یا دوسرے برگزیدہ اولیاء کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ معجزات اور نشانات آسمانی دکھاتا ہے ان کو بھی قرآنی اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے تو اس لحاظ سے دو بنیادی طور پر قسمیں ہیں آیات کی.ایک وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو اس کائنات میں ظاہر ہوتے اور عدم سے وجود میں اور وجود سے عدم میں تبدیلی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں وہ جلوے اسی کائنات میں ، مادی کائنات میں پیدا ہوتے ہیں اور حرکت پیدا کر دیتے ہیں عمر کو ایک دن بڑھا دیا ہر صبح سورج اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ہر صبح جو سورج چڑھااس نے ایک دن آپ کی عمر کا بڑھا دیا اور یہ ہمارا محاورہ ہے لیکن موت کہتی ہے کہ تمہارا ایک دن زندگی کا کم کر دیا.موت نے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھنا ہے، ہم نے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھنا.ہم کہتے ہیں ہمارا ایک دن بڑھا دیا ، موت مسکرا کے کہتی ہے ایک دن تمہارا، عمر کا کم کر دیا اور اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ

Page 473

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی ۴۶۳ سورة الجمعة وَإِن يَرَوْا أَيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرُ مُسْتَيِر ( القمر :۳،۲) اسی طرح کے الفاظ ہیں ذہن سے نکل گئے بہر حال ہر دوکو اللہ تعالیٰ نے آیات کہا ہے تو يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ نبی دنیا کو انسان کو ہر مرد کو ہر عورت کو امریکہ میں رہنے والے کو اور افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والوں کو اور عربی بولنے والے علاقوں میں رہنے والوں کو اور رشیا میں رہنے والوں کو آیات بتائے گا پہلے کب یہ آیات بتائی گئی ہیں ہمیں ، ہمیں کب کہا گیا کہ بے تو جگی سے گزر نہ جایا کرو آیات اللہ کے پاس سے بلکہ ہر ظہور ہر ایک چمکار خدا تعالیٰ کی صفت کی خدا تعالیٰ کی طرف نشاندھی کرنے والی ہے.وہ تمہیں بلاتی ہے تمہارے پیدا کرنے والے رب کریم کی طرف اس کی طرف توجہ کرو اور اسی سے خیر مانگوخیر پاؤ.دوری کی راہوں کو اختیار نہ کرو اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ہی نبی ہیں جنہوں نے حیات جاودانی پائی ہے اپنے رب کریم سے ان کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں جس طرح ہزاروں زبر دست معجزات اور آیات اس زندگی نے جو ظاہری جسمانی زندگی تھی ظاہر ہوئے اسی طرح آخری زندگی میں ظاہر ہورہے ہیں ہماری تاریخ بھری پڑی ہے بہت ساری کتابیں بدقسمتی سے ضائع ہو گئیں ہیں لیکن جن کو خدا تعالیٰ کی نگاہ نے ایک پاک اور مطہر اور تزکیہ یافتہ پایا ان کو بغیر نشانوں کے نہیں چھوڑ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ پھر دوسروں کے لئے محرم بنے انہوں نے کہا دیکھو تم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ایسا رسول ہے جو آیات تمہیں بتائے گا.ہمارے پاس آؤ، ہماری زندگی کو دیکھو، ہمارے ارد گرد دیکھو، آیات ہر قسم کی ظاہر ہورہی ہیں.والكتب یہ جو کتاب ہے یہ تو مضمون ویسے ساری دنیا کو ہی اپنے اندر سمیٹنے والا ہے قرآن کریم کی تعلیم جو ہر شعبہ زندگی کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے متعلق حکم دیا ہرش قرآن کریم نے یا قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے.مثلاً کھانا، کتنے لوگ ہیں شرم آتی ہے مجھے آپ سے بھی پوچھتے ہوئے کہ آپ سے آپ تو بڑے آگے نکل گئے دین میں لیکن ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے جو کھانے کے متعلق کی سوچتے ہیں کیا ہمیں تعلیم دی اتنی چھوٹی بات که كُل بِيَمِينِكَ وكُلْ مِمَّا يَليك اس وقت تھال میں سارے کھاتے تھے کہا دائیں ہاتھ سے کھا اور جو سامنے تیرے کھانا پڑا ہوا ہے پرات میں اسی میں سے لقمہ لو ادھر ادھر بوٹیوں کی تلاش نہ کر دوسرے کو متلی شروع ہو جائے گی.یعنی اس کو با اخلاق با ادب بنایا دوسرے کو گھن کی تکلیف سے بچایا

Page 474

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۴ سورة الجمعة بڑے احسان کئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ پر.پہلے اس سے کہہ دیا تھا کہ گندے ہاتھ لے کے.مثلاً آدمی ورکشاپ میں کام کرتا ہے کوئی اعتراض کی بات نہیں گریں لگی ہوئی ہوتی ہے موبل آئل لگا ہوا ہے موٹر ورکشاپ میں اور اسی طرح ہاتھ دھوئے بغیر آکر وہ خوراک والے شور بے میں سے بوٹیاں یا لقمے لینے شروع کر دے دوسرے آدمی کو گھن آئے گی.کہا ہاتھ دھو پہلے آئے.پاکیزگی کے متعلق اتنی تفصیل سے تعلیم دی گئی ہے جسم کے حصے ہیں میں نے اسی مضمون کے سلسلے میں بہت سارے حوالے نکلوالیا کرتا ہوں.وقت کے لحاظ سے مجھے پتا ہوتا ہے کام نہیں آئیں گے علم بڑھ جاتا ہے زبان کی پاکیزگی ، اب زبان کی پاکیزگی کئی طرح کی ہے کتاب کے متعلق یعنی جو تعلیم قرآن کریم نے دی الکتب ہے ناں اس کی تفاصیل بتا رہا ہوں ، جھوٹ نہ بول، ہر وقت سچ نہ بول، موقع اور محل کے مطابق بات کر محض سچ نہیں بولنا بلکہ قول سدید کرنا ہے بعض آدمی اس طرح سچ بولتے ہیں وہ تھوڑا سائیچ دار بھی کر دیتے ہیں اس کو یہ نہیں کرنا اور طیب کہنا ہے اور قول حمید یعنی ایسی بات کہو منہ سے نکالو اپنے ، معاشرے میں، کہ دنیا تمہاری تعریف کرے منگا لے کر تمہارے پیچھے نہ پڑے ایسے بھی سچ ہیں جو غصہ دلا دیتے ہیں اگلے آدمی کو کیوں دلاتے ہو غصہ نبی کریم نے منع فرمایا ہے.یہ زبان کی پاکیزگی چل رہی ہے دھونے کے علاوہ کسی کی چغلی نہیں کرنی کسی کی غیبت نہیں کرنی ، زبان سے کرتے ہیں ناں آپ کسی پر تہمت نہیں لگانی کسی کو گالی نہیں دینی ، کسی کو زبان سے ایذا نہیں پہنچانی ، دکھ نہیں دینا وغیرہ وغیرہ.اتنی تفصیل میں گئی ہے شریعت اسلامیہ اور کوئی فلسفے تو نہیں ہیں جن کو سمجھانے کے لئے کسی بہت بڑے فلاسفر کی ضرورت ہو اور آپ کو سمجھنے کے لئے مہینوں کی ضرورت ہو.اگر آپ تو جہ سے سنیں اور یا درکھیں تو میرا ایک دفعہ کہنا ٹھیک ہے منہ میں لقمہ پڑ گیا دائیں ہاتھ سے ليا مما يليك لیا پھر کیا کرنا ہے اس کو چبا کے کھاؤ اور کتنے لقمے کھانے ہیں کہ بھوک لگے تو شروع کرو اور ابھی بھوک ہو تو ختم کر دو انہوں نے بڑا معرکہ مارا ڈائیٹنگ (Dieting) کا ایک جنون پیدا کر دیا جس سے بڑی بیماریاں پیدا ہو گئیں میں ذاتی طور پر ایسے آدمیوں کو جانتا ہوں جو بیمار ہو گئے ڈائیٹنگ(Dieting) کے نتیجہ میں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈائیٹنگ (Dieting) کا اتنا اچھا بنایا تھا یہ فارمولا کہ بھوک لگے تو شروع کرو اور ابھی بھوک ہو تو ختم کر دو.یہ پانچ سات چیزیں میں نے ایک دوست کو دی تھیں کہ نکالو سارے حوالے تو اتنا موٹا مسودہ تیار

Page 475

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۵ سورة الجمعة ہو کے آگیا بڑا لطف آیا اس میں سے ایک ایک لے کے کبھی کوئی اور لے لے گا ایک میں لے لوں گا کام آتے رہیں گے مسودہ ہو گیا ریفرنس کے لئے، بتا میں یہ رہا ہوں کہ اتنی عظیم کتاب ہے.اور عورت کے متعلق آج بڑا اعتراض ہو رہا ہے بعض ہماری اپنی نالائقیوں کے نتیجہ میں کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں بتائے ، قائم کئے ، حفاظت کی، یہ بات نہیں چارسو دس آیت سے زیادہ تو ایسی ہیں جن میں عورت کا عورت کر کے ذکر کیا گیا ہے، کتنا بڑا مضمون ہوگا کہ ایک ہی آیت چار مختلف جگہ سے میں نے لی ہے وہ اس کے اندر ہی مضمون نہیں ختم ہو رہا چارسو دس جگہ لیکن ان میں سے بعض جگہیں ایسی ہیں کہ ایک ہی آیت کہہ رہی ہے کہ جہاں بھی گم کر کے قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے یا تھا الذین کہہ کے بات کی گئی ہے اس میں مرد اور عورت ہر دو شامل ہیں تو ساری قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اس میں عورت اسی طرح شامل ہے گیلی مٹی سے بنایا مرد کو بھی عورت کو بھی یہ مدارج میں سے گزار کے ارتقائی مدارج میں سے گزار کے اس کا جسم بنا وہ ایک جیسے ہے کوئی فرق نہیں جو اس جسم میں اس کے نفس میں طاقتیں تھیں نوع کے لحاظ سے جو مرد میں ہیں قرآن کریم کہہ رہا ہے جو مرد میں، وہ عورت میں ہیں.جو طاقتیں ساری کائنات کے مقابل انسان کو رکھ کے خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیں سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ( الجائية : ۱۴ ) کہ نوع انسانی کو تمام وہ قو تیں اور صلاحتیں دے دی گئیں جن کے نتیجہ میں وہ کائنات پر حکمرانی قائم کر سکتا ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز اس کی خادم بنا کے پیدا کی گئی ہے یہ جو قو تیں اور صلاحیتیں ہیں جس طرح مردوں کو دی گئیں قرآن کریم کہتا ہے عورتوں کو بھی دی گئیں، پاکیزگی جو آپ کا مقصد تھا ناں، ہرحکم جو ہے وہ پیار کے ساتھ ، وہ محبت کے ساتھ حکمت بتا کے، دلیل دے کے، وہ عقل کو قائل کر کے ، جذبات کو اپیل کر کے، لے جا رہا ہے کہ پاک بن جاؤ ، مطہر بن جاؤ خدا کی نگاہ میں دعویٰ نہ کر بیٹھنا اپنی طرف سے لیکن خدا کی نگاہ میں پاک بنے کی کوشش کرو ہر چیز تمہاری پھر یہ دنیا جو ہے یہ زندگی جو ہے یہ تو ہے ہی وقتی لیکن اس پاکیزگی تک پہنچانے کی ذمے واری جو ہے وہ تو ان لوگوں کی ہے ناں جنہوں نے قرآن کریم کو سمجھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سے واقف ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا احسان حاصل کیا.یہ خانہ کعبہ کے تیئیس مقاصد جن کا میں نے ذکر کیا جن کا پہلا اور آخری حصہ مل گیا آئے.یعنی ایسی تعلیم جو سارے نوع انسانی کے لئے ہے ہر انسان کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی ایسی تعلیم نہیں لایا

Page 476

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۶ سورة الجمعة اور آپ کی تعلیم چار حصوں میں تقسیم، جن میں سے دو کے متعلق مختصراً میں نے کہا ہے اور تیسری چیز ہے حکمت اس کے بڑے پہلو ہیں.قرآن کریم کے ہر حکم میں، میں ایک دو بنیادی حکمتیں ہیں وہ بیان کرنے لگا ہوں ہر حکم جو ہے اس کے اندر اعتدال کے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے تا کہ انسان تھک نہ جائے اور دلبرداشتہ نہ ہو جائے، اعتدال کا پہلو مثلاً کھانے پینے کے متعلق اعتدال کا حکم ، روزہ رکھنے کے متعلق اعتدال کا حکم ، ایک تو یہ کہ ہر روزہ مہینے کے سارے دنوں کے چوبیس گھنٹے کا روزہ نہیں بلکہ دن کا روزہ رکھا، تو دن اور رات میں ایک اعتدال پیدا کر لیا جو دن کی جسمانی کوفت تھی یا جسمانی تکلیف تھی یا جو جسمانی طور پر روز مرہ کی عادت میں فرق پڑا تھا عام طور پر لوگ کھانا کم نہیں کرتے ، میں نے بڑا مطالعہ کیا ہے کچھ زیادہ ہی کھا لیتے ہیں مثلاً جولوگ رمضان سے باہر پراٹھا نہیں کھاتے وہ رمضان میں کھا لیتے ہیں با قاعدہ گھی کے ساتھ قطع نظر اس کے فوائد اس کے پھر بھی ہیں اس بحث میں نہیں میں اس وقت پڑتا.پھر ایک ہمارے صحابی تھے ان کا اسلام جوش میں آیا اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ میں تو روز ہی روزہ رکھوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی اس نے کروا دی یہ تو کہتا ہے میں روز روزہ رکھوں گا آپ نے اس کو بلایا کہا نہیں تم مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے تیس روزوں کا ثواب تمہیں مل جائے گا.انہوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ رکھتا ہوں اسی طرح وہ کرتے کرتے پھر آپ نے کہا سب سے زیادہ جو ہے وہ یہ ہے شکل کہ ایک دن رکھو ایک دن چھوڑو.روز نہیں رکھو گے تم اور بھی حقوق ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں تو یہ کتنی بڑی ہے ہر چیز میں یہ حکمت ہے.کھانا ہے مثلاً قرآن کہتا ہے کُلوا کھاؤ ، قرآن نے یہ نہیں کہا کہ نہ کھاؤ.قرآن کہتا ہے جو حلال ہے کھاؤ قرآن کریم نے کہا ہے کہ ہر کھانے کی نعمت میں نے اے مسلمان میں نے تیرے لئے پیدا کی ہے لولاک لما خلقت الافلاک آپ کے متبعین کے لئے ہوئی ناں ہر چیز اچھی کھاؤ وَاشْرَبُوا اور اچھی حلال پینے کی چیزیں ہیں پیو کوئی نہیں روکتا جس چیز سے ہم روکتے ہیں وَلا تُسْرِفُوا اسراف نہ کرنا.اس زندگی میں بیمار ہو جاؤ گے اخروی زندگی میں بداخلاقوں میں تہارا نام شمار ہو گا ثواب تمہیں نہیں ملے گا بہت ساری بد اخلاقیاں پیدا ہو جائیں گی بہت سے حقوق ہیں جو تلف ہو جا ئیں گے بہت

Page 477

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۷ سورة الجمعة سے لوگ ہیں جو تمہاری تو جہ کو اپنی طرف کھنچ نہیں سکیں گے اگر تم نے کھانے میں اصراف کیا آپ ضرورت سے زیادہ موٹاپے کی طرف مائل ہو کے بیمار رہنے لگ جاؤ گے مستقل بیماری آجائے گی یہ اعتدال کھانے میں اور باریکیوں میں ، خدا تعالیٰ تو علام الغیوب، کھانا کھاؤ لیکن جو ہم نے مختلف اقسام کے کھانے پیدا کئے ہیں سب کا حصہ دو کھانے میں تمہارے لئے پیدا کیا ہے.بنیئے کی طرح جو اپنی دوکان پہ بیٹھ کے لڈو ہی کھائی چلے جاتا ہے اور موٹا ہو جاتا ہے میٹھا بھی کھاؤ مقدار کے مطابق ، گھی بھی کھاؤ تھوڑا سا،سٹارچ بھی کھاؤ یہ جو آئے ہیں گندم وغیرہ کے پروٹین بھی کھاؤ، پروٹین میں پھر آگے قسمیں بنا دیں اللہ تعالیٰ نے ، بڑا دیالو ہے خدا ، بڑا مہربان ہے، بڑا اس نے ہم پر رحم کیا ہے بڑی چیزیں پیدا کر دیں پروٹین ہمیں اس نے دی عام گوشت جو ہے کٹے کا گوشت، گائے کا گوشت، بکرے کا گوشت بھیڑ کا گوشت اور مرغی کا گوشت اور پرندوں کا گوشت پھر آگے آبی پرندے اور خشکی کے رہنے والے ہیں پرندے کا گوشت.پھر مچھلی کا گوشت ان سب میں پروٹین پائی جاتی ہے اور اب اطباء نے ایلو پیتھی میں تجربہ کر کے یہ کہا ہے کہ ہر ایک کو اس کا حصہ دو اگر تم نے اپنی صحت ٹھیک رکھنی ہے.اور نٹس (Nuts) جو خشک میوہ ہے جو آج کل اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ بہت سارے ترستے ہی ہوں گے کہ کھا ئیں یا نہ کھا ئیں یہ بڑی اچھی ہے صحت کے لئے چیز، بادام، پستہ، اخروٹ ،مونگ پھلی یہاں ہماری ہے ہاں نٹس جو ہیں کم ہیں امریکہ میں تو ۱۵ قسم کے نٹس پائے جاتے ہیں یہ بڑے اچھے ہیں تھوڑا سا مکھن کھاؤ ہر چیز تھوڑی تھوڑی کھاؤ تا کہ کسی چیز میں اسراف نہ ہو جائے ایک تو ہے کھانے کا اسراف ایک اس کے جو Compnents ہیں حصے ہیں ان میں اسراف نہیں کرنا تھوڑا تھوڑا کھاؤ ہر ایک کا صحت بڑی اچھی رہے گی جنہوں نے اس کو معلوم کیا اور جن کے خیال میں آیا توجہ کرتے ہیں وہ اسی طرح کرتے ہیں چار پانچ بادام کھا لئے ، آدھا انڈا کھا لیا ایک ربع مچھلی کا کھالیا، تھوڑ اسا، یعنی یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی وقت میں چوزا اور بکری کا گوشت کھا لیا ایک وقت وہ کھا لیا کھا لیا ایک نوالہ ادھر سے کھالیا بہر حال آگے پیچھے کر کے اور صحت قائم رہتی ہے.اگر تم نہ کرو گے گوشت بالکل نہیں کھاؤ گے جرات نہیں ہوگی بزدل بن جاؤ گے تجربہ ہے گوشت نہ کھانے والے عام طور پر بزدل ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ.اگر صرف گوشت کھاؤ گے ترکاریاں نہیں کھاؤ گے دوسری چیزیں نہیں کھاؤ گے تو خونخوار وحشی بن جاؤ گے اعصاب پر اثر پڑتا ہے کھانے کا یہ اور

Page 478

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۸ سورة الجمعة ہے اعتدال دنیا کی مخلوقات میں.یہ بڑی حکمتوں والی کتاب ہے حکمتیں اس لئے بتا رہا ہوں احکام میں اعتدال رکھا مثلاً معاف کرد حکم ہے معاف کرو ساتھ ہی قرآن نے کہا ہر وقت معاف نہیں کرنا.انتقام اور عفو کے درمیان ایک اعتدال قائم کیا ہے کہ اگر عفو سے فائدہ ہو عفو سے کام لو.اگر انتقام سے اگلے آدمی کی اصلاح ہوتی ہے انتقام سے کام لو.حکمت یہ جو میں نے مثال دی تھی وہ اخلاق فاضلہ میں اور قوتوں اور صلاحیتوں میں توازن پیدا کر کے اور عجیب اصول دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ جو بداخلاقی ہے وہ کوئی ایسا کام نہیں جو اپنی ذات فی نفسم بداخلاقی کا کام ، ہو بلکہ بے موقع اور بے محل اس کا کرنا جو انسان کو خدا نے قوت دی ہے وہ بغیر وجہ کے تو نہیں لیکن بے موقع بے محل بے وقت کسی کا کوئی کام کرنا یہ بد اخلاقی ہے.جب طبعی قوتوں کو موقع محل اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے وہ اخلاق فاضلہ بن جاتے ہیں.پھر پاکیزگی ہے، پاکیزگی کے متعلق دو باتیں اصولی بیان کیں ایک انسان کو یہ کہا فلا تز کوا اَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) اپنے آپ کو پاک نہ کہا کرو گنہگار ہو جاؤ گے غرور پیدا ہو جائے گا شیطان کی گود میں چلے جاؤ گے ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کبھی جوش میں آئے نہ کہو میں بڑا پاک، میں بڑا ولی میں بڑا یہ میں بڑا وہ ہر شخص خدا کے حضور ایک عاجز وجود ہے اور جس چیز کو اسلام پاکیزگی کہتا ہے وہ یہ لپ سٹک اور سرخی کلوں پر لگانے کا نام نہیں ہے ظاہری آنکھ نے جسے دیکھنا ہے اس کا دل سے تعلق ہے قرآن نے کہا لا تز کوا انفسکم دیکھ کبھی اپنے آپ کو پاک نہ کہنا هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ۳۳) اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں ہے.جب یہ کہا کہ خدا کو ہی علم ہے کہ کون پاک اور کون نہیں اور کون مطہر اور کون نہیں کون متقی اور کون نہیں تو پھر انسان کو تو تبھی پتا لگے گا، جب خدا بتائے گا کسی استاد سے اس کی سند نہیں لے سکتے قرآن کہتا ہے نہیں نہیں هُوَ اعلَمُ بِمَنِ اتَّقی اللہ کو پتا ہے یہ بھی استاد کو نہیں پتا کسی مجسٹریٹ سے لے کے جاکے کوئی پرانا کاغذ جو ہے اس کی تصدیق اور ثبوت مہیا نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے سامنے، گواہوں کے ساتھ ، کیونکہ گواہ بھی نہیں دے سکتے کہ کیا بت ہے اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں پاک اور متقی ہو گا خدا تعالیٰ خود اس کے متقی اور پاک ہونے پر گواہی دے گا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جو میری نگاہ میں پاک اور مطہر ہوں میں ان کے ساتھ

Page 479

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۴۶۹ سورة الجمعة اس قسم کا سلوک کرتا ہوں.ایک جگہ فرما یا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ( حم السجدة : ۳۱) جنہوں نے کہا کہ رب حقیقی ہمارا اللہ تعالیٰ ہے ہم ہر قسم کی ربوبیت اور نشوونما کے لئے اس کے محتاج ہیں اسی سے مانگیں گے اسی سے لیں گے وہ دے گا تو ہماری نشو ونما ہوگی ورنہ نہیں ہوگی ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر وہ اپنے اس عہد پر سختی سے قائم رہتے ہیں استقامت سے قائم رہتے ہیں تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة : ۳) اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ان کے پاس بھیجتا ہے انہیں تسلی دیتا ہے خوف کے اوقات میں، ان کو تسلی دیتا ہے جس وقت کوئی کوتاہی اور غفلت ہو جائے اور وہ بے چین ہو کر خدا سے تو بہ اور استغفار کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کی تو بہ اور استغفار قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں اور بے چینی میں ان کے اوقات گزر رہے ہوتے ہیں آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں لا تَحْزَنُوا غم نہ کرو خدا نے تمہیں معاف کر دیا.آسمانی نشانوں کے ساتھ وہ ان کی پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے اس نے قرآن کریم کی عظمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا تھالَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ( الواقعة : ۸۰) کہ قرآن کریم کا فہم وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو پاک اور مطہر ہو کیونکہ یہ پاک کا کلام ہے اور پاک کے سینے میں ہی یہ نور پیدا کر سکتا ہے.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۴۲ تا ۴۵۳) آیت فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.قرآن عظیم نے اللہ تعالیٰ کے ذکر پر، ذکر باری پر ، خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے پر بہت زور دیا ہے.بعض مقامات میں تفصیل سے بعض باتوں کا ذکر کر کے انسان کو خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بعض آیات میں اصولی تعلیم بیان کی اور اس بنیادی حقیقت کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے.سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو.لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور اس کے نتیجہ میں ہی تمہیں کامیابی ملے گی.قرآنی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی زندگی کی کامیابی یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی جو صلاحیتیں اور استعدادیں ہیں یا

Page 480

تفسیر حضرت علیہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی ۴۷۰ سورة الجمعة جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر صفتیں پیدا کی ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھے اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل ہو.خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے اس دنیا میں ظاہر ہوئے یا ہوتے ہیں ان کی معرفت ہمیں حاصل ہو.خدا تعالیٰ کی صفات کے فعلی جلوے ہیں جس سے یہ کائنات وجود میں آئی ، جس کے نتیجہ میں ہر دو جہان قائم ہیں اور جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز کے اندر بے شمار خاصیتیں پائی جاتی ہیں اور ان خواص میں مرورِ زمانہ کے ساتھ زیادتی ہوتی چلی جارہی ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج سے دس ہزار سال پہلے جو گندم زمین پیدا کرتی تھی اس کی صفات اور جو گندم آج زمین پیدا کر رہی ہے اس کی صفات میں بھی فرق ہے کیونکہ اس عرصہ میں صفات باری کے نئے جلووں نے صفاتِ گندم میں زیادتی پیدا کی ہے.معرفت ذات وصفاتِ باری کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ میں بتا رہا ہوں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے ہیں ان کی معرفت حاصل ہو.اسی لئے قرآن کریم نے دنیا کی ہر چیز کو آیت قرار دیا ہے.آیات اللہ میں سے اسے ایک چیز قرار دیا ہے.بعض جگہ بڑی تفصیل سے ہواؤں کا چلنا ، ان کا پانی اٹھانا ، یعنی بخارات اٹھانا، پھر بادل بن جانا، پھر بادلوں کا برسنا، زمین کا روئیدگی اگا نا جنسیں پیدا کرنا، درختوں کا پت جھڑ ، بعض موسموں میں پتے جھاڑ دینا، نئے اگانا، وغیرہ وغیرہ سب کو آیات کے زمرہ میں قرآن کریم میں رکھا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جو فعلی جلوے ہیں یعنی جن سے یہ کائنات بنی اور کائنات کی ہر چیز کی صفات میں زیادتی ہوتی چلی جارہی ہے اور خدا تعالیٰ کے جو قولی جلوے ہیں جو کامل شکل میں شریعت کے لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن عظیم میں ظاہر ہوئے ، ان ہر دو کا جاننا.پوری طرح معرفت حاصل کرنا، پہچاننا سمجھنا، اس کی گنہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا.اس کے حسن سے واقفیت حاصل کرنا، اس کی افادیت کا پتا لگانا وغیرہ وغیرہ.ان چیزوں سے ہمیں خدا کی اور اس کی صفات کی معرفت ملتی ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۷۳، ۷۴)

Page 481

تفسیر حضرت الليلية مسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيُطنِ الرَّحِيمِ ۴۷۱ سورة المنافقون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ المنافقون آیت ۹ يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَةُ مِنْهَا الاَذَلَ وَ لِلّهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا 199191 يعلمون ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ فرمایا کہ میری بعثت کی اصل غرض یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کروں تو آپ نے دوسرے الفاظ میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے ایک ایسی جماعت دی جائے گی جو تو حید حقیقی پر قائم ہوگی اور جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو جانے اور پہچانے والی ہوگی اور اس عزت کے لئے ساری ذلتیں قبول کرنے کیلئے تیار ہوگی.قرآن کریم فرماتا ہے.وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ - کہ حقیقی عزت کا سچا ما لک اللہ تعالیٰ ہے.ساری عزتوں کا سر چشمہ اسی کی ذات ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ عزت حاصل کی کہ کسی ماں جائے نے نہ ایسی عزت حاصل کی اور نہ کبھی حاصل کر سکتا ہے.پس سب سے معزز خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس عالمین میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کی ذات سب سے معزز اس لئے ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق میں انسانوں کے لئے اور ان کی روحانی ارتقاء

Page 482

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۷۲ سورة المنافقون کے لئے اپنی جن صفات کے جلوے دکھائے آپ نے ان صفات کو کامل طور پر اپنے اندر جذب کرلیا اور یہ کام کامل فنا کے بغیر ممکن نہیں تھا.غرض آپ نے اللہ تعالیٰ میں ہو کر زندگی ڈھونڈنے کیلئے اور اس سے حیات پانے کے لئے اپنے اوپر ایک کامل فنا اور ایک کامل موت طاری کی.تب آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی اور ایک کامل زندگی عطا کی اور چونکہ فنا اور عبودیت کے اس ارفع مقام کو آپ کے سوا اور کسی نے نہیں پایا تھا اور اسی کے نتیجہ میں چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم تھے اس لئے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ معزز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور آپ کے فیوض کے نتیجہ میں پھر مومنوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس عزت کو حاصل کیا جیسا کہ اس آیت میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اصل عزت تو اللہ تعالیٰ کی ہے.پھر اس کا مظہر اتم ہونے کی حیثیت میں اس کامل اور مکمل رسول کی ہے جو کامل اور مکمل شریعت لے کر آیا جو تمام انبیاء کا فخر اور تمام مخلوقات کا شرف ہے.پھر اس رسول کے طفیل ان لوگوں کو عزت ملتی ہے جو اس پر ایمان لائے اور اس کی تعلیم پر عمل کرتے اور اس سے تعلق محبت کو جوڑتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اگر تم میری نگاہ میں محبوب بننا چاہتے ہو تو تم میرے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع کرو تم اپنے مقام کے لحاظ سے جتنی جتنی اطاعت کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جاؤ گے اسی قدر میری محبت تمہیں حاصل ہوتی چلی جائے گی.اگر تم میری نگاہ میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس پر ایمان لاؤ.اس کی کامل اطاعت کرو.اس کے مقام کو پہچانو اس عزت عظیمہ کا عرفان حاصل کرو جو اسے میری نگاہ میں حاصل ہے.زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کے ہر فعل کو ایک معزز فعل سمجھو اور اس کی اتباع میں اپنی نجات دیکھو تب تم میری نگاہ میں عزت پاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ منافق اس بات کو سمجھتے نہیں.وہ بڑے بدقسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کو عزت نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں معزز بنا دیں ہم جسے چاہیں ذلیل کر دیں حالانکہ عزت کا سرچشمہ نفاق نہیں ہے، نہ عقلاً اور نہ شرعاً.عزت کا سر چشمہ تو اس خدائے پاک کی ذات ہے جو تمام عزتوں کا مالک ہے لیکن منافق جس کی نگاہ دنیا کے حجاب سے پرے نہیں جاتی دنیا میں اُلجھی رہتی ہے.یہ سمجھتا ہے کہ ہم مختلف قسم کا پرو پیگنڈا کر کے یا مختلف قسم کی سازشیں کر کے یا منصوبے باندھ کر جس کو چاہیں گے عزت دیں گے اور جس کو چاہیں

Page 483

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۷۳ سورة المنافقون گے ذلیل کر دیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہوسکتا.تم جاہل ہو تم کو پتہ نہیں کہ عزت اس کو ملتی ہے جس کا تعلق عزت کے سرچشمہ سے ہوتا ہے.اگر تم اپنا تعلق عزت کے اس سر چشمہ سے قائم نہیں کرو گے.اگر تم اپنا رشتہ اطاعت اور رشتہ محبت اس سر چشمہ سے نہیں جوڑو گے، اگر تم اس انسانِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور پیار اور اطاعت اور فرمانبرداری اور جاں نثاری کا تعلق قائم نہیں کرو گے جس کے طفیل اب ساری عزتیں تقسیم ہوں گی تو پھر تمہیں یا تمہارے منصوبہ کے نتیجہ میں کسی اور کو کوئی عزت نہیں مل سکے گی.توحید کے قیام کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہے دو ذمہ داریاں ہیں.(۱) اپنے نفسوں میں تو حید کو قائم کرنا (۲) دنیا میں توحید کو قائم کرنا.اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے تو بے شمار ہیں وہ گنے نہیں جا سکتے.اس کی صفات بھی بے شمار ہیں لیکن جن صفات کو اس نے ہماری زندگی میں ظاہر کیا ہے ان میں سے چار اُمہات الصفات کہلاتی ہیں.یعنی اس کا رب ہونا ، اس کا رحمن ہونا ، اس کا رحیم ہونا اور اس کا مالک یوم الدین ہونا.اگر ہم ان چار صفات کو پوری طرح سمجھنے لگیں ، اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے اور اس حقیقت کا اظہار ہم پر ہو جائے کہ رب کے کیا معنی ہیں.رحمن کی صفت کے جلوے کس طرح ظاہر ہوتے ہیں.رحیمیت اپنا ظہور کس طرح کرتی ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ اپنے قادر نہ تصرف کو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کرتا ہے تو دوسری صفات کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے.اس لئے سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ان چار امہات الصفات کو بیان کیا اور ان کی طرف توجہ دلائی......پس جماعت کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ دنیا میں توحید کو قائم کیا جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کیا جائے.یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا لیکن اس چھوٹے سے فقرہ میں جیسا کہ میں نے ابھی مختصر بیان کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.(۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ کر اپنے نفسوں میں انہیں پیدا کرنا (۲) ان صفات کا اپنے نفسوں میں جلوہ دکھا کر دنیا کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعارف کروا کر انہیں اس طرف لے کر آنا کہ وہ بھی اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا کریں (۳) تیسری ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو اپنے نفسوں میں قائم کرنے والے ہوں یعنی ہمارے ہر قول اور ہر فعل سے یہ ثابت ہو کہ

Page 484

التفسیر حضرت عليلة اسمع الثالث ۴۷۴ سورة المنافقون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اب بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری عزتوں کا سر چشمہ ہیں اور ہر فیض کی کنجی آپ کو عطا کی گئی ہے.آپ کا وجود خدا نما ہے اور اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے قرب کو پالینے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی اطاعت ضروری ہے ہمیں چاہیے کہ ہمارا ہر فعل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق ہو ورنہ دنیا یہ کہے گی کہ تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فلاں اُسوہ کی پیروی نہ کر کے آپ کی عزت پر یہ دھبہ لگایا ہے.تمہارے نزدیک وہ فعل خدا کی نگاہ میں اتنا معزز نہیں تھا کہ اس کی پیروی کی جائے.غرض ہمارے فعل کے نتیجہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر دنیا کی نگاہ میں نعوذ باللہ ایک داغ پیدا ہوتا ہے حقیقتا تو وہ داغ نہیں ہوتا کیونکہ اس داغ کے ہم ذمہ دار ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذمہ دار نہیں لیکن دنیا کی نگاہ میں ایک داغ پیدا ہوتا ہے.دراصل یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کی آنکھ میں ایک دھبہ پیدا ہوتا ہے.جب کوئی دنیا دارا اپنی اس داغدار آنکھ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے تو وہی دھبہ جو اس کی آنکھ کا ہے آپ کی شخصیت پر بھی اسے نظر آتا ہے جیسے بڑی عمر کے اور بوڑھے لوگ بعض دفعہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری نظر دھندلا گئی ہے یعنی ہر چیز ہمیں دھندلی دھندلی نظر آتی ہے حالانکہ وہ چیز دھند لی نہیں ہوتی بلکہ جو آنکھ دھندلا گئی ہے اس کا اثر اس کے نفس پر یہ پڑا کہ وہ چیز اُسے دھندلی نظر آئی.پس ہماری غلطی کے نتیجہ میں یہ نگاہ جس کو ہم نے داغدار کیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک داغ دیکھتی ہے.گو یہ حقیقت ہے کہ وہ داغ وہاں نہیں ہے بلکہ اس آنکھ میں داغ ہے لیکن اس کا نتیجہ تو اتنا ہی بھیانک اور خطر ناک ہے جتنا نعوذ باللہ اس صورت میں ہوتا کہ اگر ممکن ہوتا تو اس کی نظر کی طرح آپ کی شخصیت پر بھی داغ ہوتا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جس کو ہماری آنکھ داغدار دیکھتی ہے اس کی ہم پیروی کیوں کریں اور قصور ہمارا ہوتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی غفلت اور بے توجہی کے نتیجہ میں اور اپنی سستیوں اور اُن وساوس کے نتیجہ میں جو شیطان نے ہمارے دل میں پیدا کئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو چھوڑ دیا ہم نے آپ کے بعض نمونوں کو چھوڑ دیا اور اس طرح پر ہم اس چیز میں کامیاب نہ ہوئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم کریں.یہ ایک بڑا نازک معاملہ ہے.بڑی اہم ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد کی گئی ہے.

Page 485

تفسیر حضرت عليه لمسیح الثالث ۴۷۵ سورة المنافقون ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کے ہر پہلو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا حسن و احسان پیدا کرنے کی کوشش کریں تا اس کے نتیجہ میں یہ اندھی دنیا خدا کے فضل سے روشنی حاصل کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو پہچاننے لگے اور اس طرح پر وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی عزت کا مالک بنایا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عزتوں کی تقسیم کیلئے ایک منبع قرار دیا تھا اس کو پہچاننے لگیں اور اس کے طفیل اور اس کے ذریعہ سے اور اس کی قوت قدسی کے نتیجہ میں اور اس کے افاضہ روحانی کے بعد اللہ تعالیٰ کی عزت کو پہنچانے لگیں جو اصل عزتوں کا مالک ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۶۸ تا ۸۷۸)

Page 486

Page 487

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۴۷۷ سورة التغابن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التغابن آیت ١٦ اِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَةٌ أَجْرُ عظيم دنیا میں مال کا ملنا یا اولا د میں برکت کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے، ہمیشہ ہی (اگر پورے کا پورا امتحان نہ ہو ) ایک پہلو امتحان کا اور ایک پہلو جزا کا اپنے اندر رکھتا ہے جہاں صرف امتحان کا پہلو مدنظر ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق یہ فرماتا ہے ااِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ جو اموال اور اولاد میں نے تم کو دی ہے وہ تمہارے لئے ایک امتحان اور آزمائش ہے اگر تم اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تو میرا انعام پاؤ گے اور اگر اس امتحان میں ناکام رہے تو میر اغضب تم پر بھڑ کے گا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۲) آیت ۱۷ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا وَ أَنْفِقُوا خَيْرًا لاَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.یعنی جتنا ہو سکے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو.وہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہوگا اور جولوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں.عربی زبان میں فلاح کا لفظ بڑے وسیع معانی میں استعمال کیا جاتا ہے اور دین اور دنیا کی حسنات

Page 488

۴۷۸ سورة التغابن تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کی طرف اشارہ کرتا ہے.دنیا کے متعلق فلاح ان باتوں پر بولا جاتا ہے کہ انسان کو صحت والی زندگی حاصل ہو مال میں فراخی ہو اور عزت و وجاہت اور اقتدار اور ثروت سب کچھ اسے میسر ہو.آخرۃ کے متعلق فلاح کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ہوں گے کہ انسان نے ابدی زندگی پائی جس کے بعد فتا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسی روحانی دولت دی گئی جس کے ساتھ کوئی تنگی نہیں اور خدا تعالیٰ نے اسے عزت کے ایسے مقام تک پہنچا دیا کہ اس کے ساتھ کسی ذلت کا تصور بھی ممکن نہیں اور ا سے صفات الہیہ کا ایسا عرفان حاصل ہوا کہ جس کے ساتھ کوئی جہالت نہیں ہے.تو اس آیت میں فرمایا کہ آؤ اس فلاح کا ایک نسخہ تمہیں بتاؤں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے دل کے بخل سے بچایا جا تا ہے.وہی دنیا اور آخرت دونوں میں مفلح (فلاح پانے والا) ہوتا ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ دل کے بخل سے نجات کس طرح ہو.اس کے جواب کے لئے فرمایا.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا وَ أَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نُفُسِكُم کہ جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت، قوت اور استعداد کے مطابق تقوی کی راہوں پر چلتے رہو اور تقوی یہ ہے کہ وَاسْمَعُوا وَاطِيعُوا (بخارى كتاب الجهاد و السير باب السمع والطاعة للامام ) که اللہ تعالیٰ کی آواز سنو اور لبیک کہتے ہوئے اس کی اطاعت کرو.اگر تم تقوی کی راہوں پر چل کر سمعا و طاعةً کا نمونہ پیش کرو گے.تو تمہیں اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق دے گا کہ تم اپنی جانوں، مالوں اور عزتوں سب کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس طرح تمہیں دل کے بخل سے محفوظ کر لیا جائے گا.یہی کامیابی کا راز ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۴۴ ۲۴۵)

Page 489

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۴ ۴۷۹ سورة الطلاق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطلاق آیت وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ایک عقیدہ ہے توحید پر قائم ہونے کے لئے.دوسرے عملی تو حید ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُه کہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے.اس واسطے ہر چیز اس سے مانگو ، اس سے حاصل کرو اور کسی احتیاج کے وقت کسی غیر کا خیال بھی نہ لا ؤ دل میں.یہ عملاً توحید کے ساتھ ایک فرد واحد کا اور قوموں کا تعلق پیدا ہوتا ہے.کوئی چیز کسی غیر سے مانگنی نہیں، نہ حاصل کرنی ہے.اللہ تعالی سامان پیدا کرتا ہے اور قرآن کریم نے مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حسبہ کی حکمت مختلف پیرایوں میں بیان کی ہے.سب پر تو اس وقت بات نہیں کی جاسکتی.پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جو تو کل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کیا اپنے ربّ پر ، ہمیں حکم ہے کہ آپ کی اتباع کریں.قرآن کریم میں آیا ہے سورہ تو بہ میں.(حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یعنی وحی کے ذریعے خدا تعالیٰ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اس کا اعلان کر دو ) حسبى الله میرے لئے اللہ کافی ہے.لا الهَ إلا هو وہ یکتا واحد ہے اور کسی اور کے پاس مجھے جانے کی ضرورت نہیں.اس لئے عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ اور میں نے اس پر توکل کیا اور اس وجہ سے کیا کہ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (التوبة : ۱۲۹ ) اس نے ذمہ لیا ہے اس عالمین، اس یو نیورس (Universe)، اس کائنات کی ہر چیز کی ربوبیت کا.ہر چیز

Page 490

۴۸۰ سورة الطلاق تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث جس کی ضرورت پڑ سکتی تھی انسان کو بحیثیت نوع یا انسانی افراد کو فرڈ ا فرڈ ایسے طور پر حقیقی معنی میں ضرورت پڑ سکتی تھی وہ اس نے پیدا کر دی.بعض دفعہ نہیں ملتی.کوئی ظالم آجاتا ہے بیچ میں.اس دکھ کو سوائے خدا کے کوئی دور نہیں کر سکتا.بعض دفعہ انسان کو بلکہ بعض دفعہ غلط شاید میں نے کہا ) اکثریا ہمیشہ ہی انسان کو پتا نہیں کہ میری بھلائی کسی چیز میں ہے.جو جانتا ہے اس سے مانگو تو لا إِلهَ إِلا هُوَ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.خدا کے سوا کوئی ربوبیت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.حسبي الله یہ رب جو ہے یہ میرے لئے کافی ہے اور اس پر میں تو کل کرتا ہوں.سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سینتیسویں آیت میں ہے.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ یہ عام اعلان ہے ایک جس کا تعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس معنی میں ہے کہ عملاً اس حقیقت کو ظاہر کرنے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یہ سینتیسویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے.انتالیسویں آیت میں ہے.تو کہہ دے مجھے اللہ کافی ہے ( یہ جو آیا تھا پہلے ).قُل حَسْبِيَ اللهُ - أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه پہلی آیت ( آیت ۳۷ میں تھا ) پھر کہا اعلان کر دو حسبی اللہ میرے لئے اللہ کافی ہے کسی غیر کی مجھے ضرورت نہیں.عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ اس لئے جو میری اتباع کرنے والے ہیں انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ تم صرف خدا پر توکل کرو.ہمیں قرآن کریم میں یہ حکم ہوا.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران: ۳۲) اور اتباع کس چیز میں کرو؟ (صرف میں اصولی طور پر ایک بات بتا رہا ہوں اس وقت ) فرمایا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ اعلان کروایا ) إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس:۱۲) جو وحی مجھ پر نازل ہورہی ہے میں صرف اس کی اتباع کرتا ہوں اور جس وقت ہمیں کہا گیا کہ آپ کی اتباع کرو تو اس کے یہ معنی ہو گے کہ جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صرف اس وحی کی اتباع کر رہے ہیں جو آپ پر نازل ہو رہی ہے.اس لئے ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ صرف اس وحی کی اتباع کرے جو آپ پر نازل ہورہی ہے.اور اس وحی سے ہمیں ایک بات جس کا اب میں ذکر کر رہا ہوں یہ معلوم ہوئی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے اس کے علاوہ کسی پر توکل کرنے والے نہیں تھے اور کسی کی احتیاج محسوس کرنے والے نہیں تھے بلکہ یہ اعلان کرنے والے تھے اپنے متبعین، اتباع کرنے

Page 491

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۸۱ سورة الطلاق ط والوں کو مُؤْمِنُونَ حَقا، جنہیں قرآن کریم نے کہا ہے کہ میری طرح تم بھی خدائے واحد و یگانہ رب العالمین پر توکل کرو اور ہر چیز اس سے مانگو.یہ عملی زندگی میں خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.عملی زندگی میں زندہ خدا سے زندہ تعلق ہم کہتے ہیں، پیدا کرو یہ ہے.ہر چیز اس سے مانگو.قرآن حکیم بھی ہے یعنی دلیل بھی دیتا ہے.سورہ تغابن میں فرمایا.وَاللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (التغابن : ۱۲) کوئی چیز خدا سے چھپی ہوئی نہیں.ہر چیز کو وہ جانتا ہے.تفصیل سے بھی بتایا.تمہارے خیالات کو وہ جانتا ہے یعنی جن خیالات نے الفاظ کا جامہ نہیں پہنا، اللہ تعالیٰ سے وہ چھپے ہوئے نہیں ہیں.جو تمہارے جذبات ظاہر نہیں ہوئے اور دل کی کیفیت ہے وہ، اس کو بھی وہ جانتا ہے عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (التغابن : ۵) اور چودہویں آیت میں یہ کہا اللهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ خدا ایک ہی ہے جس کی پرستش کرنی چاہیے.وہ ایک ہی حقیقی معبود اور مقصود اور محبوب ہے ہمارا.اور جوایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے وہ خدائے واحد و یگانہ پر ، صرف خدائے واحد ویگانہ پر تو گل کریں اور غیروں کی طرف نگاہ نہ اٹھا ئیں.دوسری حکمت یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر اس لئے تو کل کرو کہ کمزور نہیں ہے وہ.جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال:۵۰) وہ غالب ہے، طاقت والا ہے کوئی شخص اس کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتا.اگر تم پر رحم کر نا چا ہے دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس کے رحم سے محروم نہیں کر سکتی.اگر تم اسے ناراض کر دو تو کوئی طاقت اس کی ناراضگی سے تمہیں بچا نہیں سکتی.عزیز تو اسی پر تو گل کرنا چاہیے نا، جو بنیادی طور پر ہر قسم کی طاقت کا سرچشمہ ہے اور کوئی غیر اس کے راستے میں روک نہیں اور اس پر توکل کرو کیونکہ وہ حکیم ہے ، حکمت والا ہے.انسان بعض دفعہ ایک چھوٹے بچے کی طرح جو آگ کا مطالبہ کیا اس نے ماں سے اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی بات مانگتا ہے جو اس کے علم میں ہے کہ اسے نقصان دینے والی ہے یا ایسی بات کی خواہش رکھتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کسی اور کے متعلق خواہش ہے کہ وہ جو اور ہے وہ اس کے حق میں نہیں ہے جیسے کشتی کا تختہ توڑ دینا.قرآن کریم نے وہ مثال بڑی اچھی ایک دی ہے ہمارے لئے.تو خواہش بظاہر نیک لیکن جو کامل علم رکھنے والی ہستی ہے اس کے نزدیک وہ درست نہیں.اس واسطے اس طرح نہیں دے گا کہ بچے نے

Page 492

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۸۲ سورة الطلاق سانپ مانگا اور سوٹی سے اس کی طرف سانپ پھینک دیا ماں نے.بلکہ وہ حکیم ہے وہ اپنی حکمت کا ملہ سے تمہاری دعاؤں کو سنے گا اور اپنے پیار کا اظہار کرے گا.تین دلیلیں ، تین حکمتیں یہاں بیان ہوئی ہیں.سورہ شعراء میں ہے وَتَوَكَّلُ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (الشعراء:۲۱۸) عزیز پہلے آ گیا ہے.یہاں دونوں کو اکٹھا کیا ہے.جو جو چاہتا ہے کرسکتا ہے، طاقتور ہے اور بار بار کرم کرنے والی اس کی صفت ہے.بار بار کرم کرنے والا ہے.تو رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُل شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) جس کی صفت ہوا سے چھوڑ کے ایک ایسی ہستی کی طرف جانا جو جاہل بھی ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے میں، طاقتور بھی نہیں ہے اور جس کا رحم جو ہے وہ خدا تعالیٰ کے رحم کے مقابلہ میں اپنی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، یہ حماقت ہوگی.اس واسطے توکل علی الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ اس لئے عملی زندگی میں (جو اصل چیز میں اس وقت پورے زور کے ساتھ آپ کو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں ) سوائے خدا کے کسی کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو اس معنی میں کہ صرف اس پر توکل کرو اور جو عقید تا اس کی صفات کا علم ہے دعا کرو کہ وہ پیاری صفات تمہاری زندگی میں جلوہ گر ہوں.خدا کے سوا حقیقی خوشی اور خوشحالی کا سامان کوئی ہستی نہیں پیدا کر سکتی اور اللہ تعالیٰ اتنا پیار کرتا ہے، اتنا پیار کرتا ہے کہ انسانی عقل شرم سے سر جھکا دیتی ہے اور انسان جو ہے اس کو سمجھ نہیں آتا کہ میں کس منہ سے خدا تعالیٰ کی حمد ادا کروں.ایک ایک انعام کے بدلے میں جو شکر ادا کرنا ہے مناسب، ساری عمر کرتے رہیں تب بھی نہیں وہ شکر ادا ہو گا لیکن کہا تو یہ گیا ہے کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن: ۲۱) موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح تمہارے اوپر میری نعمتیں نازل ہو رہی ہیں.(خطبات ناصر، جلد نهم صفحه ۲۶۳ تا ۲۶۷) جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ غیر اللہ پر اگر کسی کا بھروسہ ہو تو محض وہ بھروسہ انسان کے لئے کافی نہیں مثلاً کسی نے کالج میں داخلہ لینا ہے تو کسی اور کو وہ سہارا بنائے گا اگر نوکری لینی ہے تو کسی اور کو وہ سہارا بنائے گا کیونکہ کالج والا سہارا اسے اس سلسلہ میں کوئی مدد نہیں دے گا اگر ترقی لینی ہے تو پھر کسی اور کو سہارا بنا نا پڑے گا اگر بیماری سے شفا حاصل کرنی ہے تو اسے کسی اور کو سہارا بنانا پڑے گا مثلاًا سے طبیب کے پاس جانا پڑے گا لیکن وہ شخص جو محض اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا ہے اور اس کو اپنا سہارا بنا تا

Page 493

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۸۳ سورة الطلاق ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے جیسے فرمایا وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بالغ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق: ۴) جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ ہی اس کے لئے کافی ہوتا ہے کسی غیر کی اسے حاجت نہیں ہوتی ، اور اللہ تعالیٰ کا فی اس معنی میں ہے کہ وہ اس قسم کی کامل ذات ہے کہ جو وہ چاہتا ہے کر کے چھوڑتا ہے اِنَّ اللهَ بَالِغ وہ اپنے مقصد کو پورا کر دیتا ہے اگر آسمان پر یہ فیصلہ ہو کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے گا اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے تو فَهُوَ حسبه وہ اس کے لئے کافی ہے نہ کسی کا ڈر باقی رہتا ہے اور نہ کسی اور کا سہارا لینے کی ضرورت رہتی ہے.إِنَّ اللهَ بَالِغ آمدہ اللہ تعالیٰ یقیناً اپنے مقصد کو پورا کر کے چھوڑتا ہے لیکن چونکہ وہ حکیم بھی ہے اس لئے قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ہر چیز کا ایک اندازہ اس نے مقرر کیا ہوا ہے مثلاً ابتلا کے زمانہ کا ایک اندازہ ہے، امتحان کے زمانہ کا ایک اندازہ ہے جو دکھ خدا کی راہ میں اٹھائے جاتے ہیں ان کا بھی ایک اندازہ ہے وہ دکھ بھی ایک اندازہ کے اندر ہی رہتے ہیں وہ اتنے نہیں بڑھتے کہ انسان ان کے نیچے آ کر پس جائے اور اگر کسی کی قسمت میں شہادت کا انعام ہی لکھا ہوتو وہ اس کو مل جاتا ہے اور ایک عظیم جنت کا وہ وارث بن جاتا ہے غرض ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کیا ہے اس لئے انسان کو بے صبری اور جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے ہو گا وہی جو خدا نے چاہا ہے اور اس کا فیصلہ ہے لیکن ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ اندازہ مقرر کیا تھا کہ آپ کی شان اور عظمت کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے آپ کی زندگی میں ہی دنیوی لحاظ سے ایک فتح عظیم آپ کو عطا کر دی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے متعلق یہ اندازہ مقرر کیا کہ تین صدیاں نہیں گذریں گی کہ اسلام دنیا میں غالب آ جائے گا ممکن ہے کہ وہ پہلی صدی کے بعد غالب آ جائے ممکن ہے دوسری صدی کے بعد وہ غالب آئے اس نے آخری حد تک مقرر کر دی ہے باقی حصہ ایمان بالغیب کے لئے چھوڑ دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس عرصہ میں اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے گا اور جو لوگ اسلام سے منہ موڑیں گے ان کی کوئی دنیوی حیثیت باقی نہیں رہے گی ان کی اتنی حیثیت بھی نہیں رہے گی جو آج کے معاشرہ میں چوہڑوں اور چماروں کی ہے اسلام ہی غالب ہو گا اور اسلام ہی معزز ہو گا اور دنیا کی ہر جگہ ہر ملک، ہر شہر اور ہر قریہ خدائے واحد یگانہ

Page 494

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۸۴ سورة الطلاق کی تسبیح اور تحمید کر رہا ہوگا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہا ہوگا مقصد وہی پورا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے فیصلہ وہی جاری ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن اس نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر دیا ہے اور وہ اس انداز سے کے مطابق ہی ہوگا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۸۹ تا ۳۹۱)

Page 495

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۴۸۵ سورة التحريم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التحريم آیت ۹۷ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَيْكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا امَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عنكم سَيَأْتِكُمْ وَ يُدخِلَكُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ يَوْمَ لَا يُخْزِى اللهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِايْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قديره حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہم میں سے ہر شخص اور ہر خاندان پر یہ بڑا احسان ہے کہ آپ نے ہمارے دلوں میں نبی اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا محبت پیدا کر دی.قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ عشق رسول اور محبت رسول ہی انسان کو جہنم کی آگ سے بچاتی ہے چنانچہ یہ جو فرمایا کہ اے ایمان والو! اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ ان کو جہنم کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرو تو اس کے متعلق دوسری جگہ فرمایا ان كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: ۳۲) فرمایا:- اس آگ سے بچنے کا طریق یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اتباع رسول کرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.اتباع دراصل محبت کا

Page 496

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۸۶ سورة التحريم تقاضا کرتی ہے کیونکہ محبت کرنے والا دل محبوب کے پیچھے چلتا ہے.یہ ایک بنیادی صداقت ہے اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی یعنی یہ بات کہ انسان کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہو اور ایک لگن ہو کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے.اس کا انعام اللہ تعالیٰ کا پیار ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی جنتیں ہیں لیکن ان جنتوں کا حصول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں ملتا ہے ورنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دُوری بھی ہوا اور خدا کی رضا بھی حاصل ہو جائے یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ سورج چھپا بھی ہو اور دن کی طرح یہ دنیا روشن بھی ہو.اندھیرے اور روشنی تو آپس میں متضاد ہیں یہ اکٹھے نہیں ہوا کرتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانا اندھیرا ہے ایسا اندھیرا کہ ہماری راتوں کے اندھیرے جب بادل بھی چھائے ہوئے ہوں.وہ بھی اتنے اندھیرے نہیں جتنے روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانے کے اندھیرے ہیں.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانے کے نتیجہ میں اس قسم کی کالی گھٹائیں ہوں، رات کے اندھیرے بھی ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کے پیار کا نور بھی ہو یہ چیزیں تو اکٹھی نہیں ہوسکتیں.پس یہ ایک بنیادی صداقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار حاصل کرنے کے لئے آپ کی سچی اتباع اور متابعت کی ضرورت ہے.اتباع رسول کے نتیجہ ہی میں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے (خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۴۵۳، ۴۵۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم اور احادیث سے استدلال کر کے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ داعی الی الشر بھی لگا ہوا ہے اور داعی الی الخیر بھی لگا ہوا ہے یعنی بعض ایسی طاقتیں ہیں جو انسان کو شر کی طرف بلاتی ہیں جو انسان کو شیطان کی طرف کھینچ کر لے جانا چاہتی ہیں اور بعض ایسی قو تیں ہیں کہ جو انسان کو خیر اور بھلائی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانا چاہتی ہیں.میں نے بتایا ہے کہ بیماری بھی ایک چھوٹا سا شر ہے جسے داعی الی الشر پیدا کرتا ہے اور بہت سی نیکیاں ہیں جن سے آدمی محروم ہو جاتا ہے مثلاً نماز با جماعت ہی ہے.اگر انسان بیمار پڑا ہو تو مسجد میں آنا اس کے لئے فرض نہیں.شر کے معنی ہمیں قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتے ہیں کہ شیطان کی پیروی

Page 497

۴۸۷ سورة التحريم تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کرنا شر ہے اور روح القدس جو ہر انسان کی راہنمائی کے لئے انسان کے ساتھ ہے جیسا کہ شروع میں میں نے کہا کہ داعی الی الخیر کی قوت بھی انسان کو عطا ہوئی ہے تو روح القدس کی ہدایت اور راہنمائی میں اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرنا خیر ہے.شر جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور خیر اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جاتی ہے اور ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ قوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا اس میں دو حکم ہیں ایک قُوا أَنْفُسَكُمُ اور دوسرا قُوا أَهْلِيكُمْ اول اپنے نفس کو بچاؤ نار سے اور ان چیزوں سے جو دوزخ کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قہر کی جہنم کی طرف لے جانے والی ہیں.پہلے نفس کو جہنم سے بچانے کا حکم ہے اور اسلام میں جو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے وہ اپنے نفس کو نار جہنم سے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کی کوشش کو ہی دی گئی ہے.قُوا أَنْفُسَكُمُ اپنے نفسوں کو بچاؤ.دوسری جگہ فرما یالا يَضُرُكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة : ۱۰۲) کہ اگر تم اپنے نفسوں کو شیطان کے حملوں سے بچا کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو اختیار کر کے اس کی رضا کو حاصل کر لو گے تو جو ایسا نہیں کرتے تم پر کیا فرق پڑتا ہے اخروی زندگی میں یا اس زندگی میں ، جہاں تک جنت کے حصول کا اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کا تعلق ہے لیکن اسلام جہاں اس بات پر بہت زور دیتا ہے کہ ہر انسان سب سے پہلے اپنے نفس کا ذمہ دار ہے اور اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر قسم کی انتہائی کوشش کرے وہاں اسلام نے ایک اجتماعی زندگی کا نقشہ بھی ہمارے سامنے کھینچا ہے اور وہ دوسرے حکم کے اندر آتا ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ یعنی اپنے اہل کو بھی نار سے بچانے کی کوشش کرو اور جہنم سے بچانے کی کوشش کرو.اہل میں رشتہ دررشتہ سارے ہی بنی نوع انسان شامل ہو جاتے ہیں.جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہارا باپ ایک ہے یعنی آدم.تم سب آدم کی نسل سے ہو.پس اہل کے جو وسیع معنی ہیں اس میں اجتماعی زندگی کا پورا نقشہ آ جاتا ہے.ہمیں یہ حکم ہے کہ اپنی اجتماعی زندگی کو بھی نار سے بچاؤ.شیطان کی طرف لے جانی والی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا سب سے پہلے تعلق انسان کے نفس سے ہوتا ہے مثلاً ہوائے نفس ہے، حرص ہے، تکبر ہے، ریا ہے، دنیا داری ہے، ہوس مال و دولت و اقتدار ہے.قرآن کریم کی شریعت نے ان تمام چیزوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو نفس واحدہ کو یعنی انسان کے اپنے نفس کو گمراہ کرنے کے لئے ہمیں اپنی زندگی میں نظر آتی ہیں اور جن سے شیطان کام لے کر انسان کو گمراہ کرنے

Page 498

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۸۸ سورة التحريم کی کوشش کرتا ہے اور اجتماعی زندگی افراد کا مجموعہ ہے اور پھر مجموعہ خود ایک وحدت بنتی ہے.اجتماعی زندگی اس وحدت کا نام ہے اور اگر چہ یہ دوسرے نمبر پر ہے لیکن اس کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے کہ نفس واحدہ کو ، خود انسان کے نفس کو جو حکم دیا گیا ہے تو اس کا تعلق بھی معاشرے سے ہے.اگر معاشرہ ناپاک ہوگا، گندہ ہو گا ، خدا سے دور ہوگا تو انسان کے لئے خود اپنے نفس کی اصلاح کے سلسلہ میں مشکلات بڑھ جائیں گی.دوسرے اس کو جو احکام دیئے گئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ نوع انسانی کو خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آنا اور ایسا معاشرہ پیدا کرنا کہ نوع انسانی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے بعد اس مقام پر قائم رہے.پس یہ اجتماعی زندگی کی بھی ذمہ داری ہے اور بالواسطہ انفرادی زندگی کی بھی ذمہ داری ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۹ تا ۳۱) قرآن کریم بھرا ہوا ہے انذار سے اور تبشیر سے.اس وقت میں اس کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں.سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اھلیکم کا ایک انداری پہلو یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ ایک انسان خود تو ایمان رکھتا ہے اپنے دل میں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بشارتوں کا مستحق ہوتا ہے لیکن اس کے اہل اس کے لئے فتنہ بنتے اور صراط مستقیم سے اسے دور لے جانے والے بن جاتے ہیں.اس واسطے کسی ایک شخص کا یہ کہنا کہ میں صراط مستقیم پر قائم ہو گیا ہوں، یہ کافی نہیں ہے، یہ اس لئے کافی نہیں کہ جو قریب ترین فتنہ اس کی زندگی میں ہے وہ اس کے گھر میں موجود ہے.اس واسطے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کرنا ان نسلوں کی بھلائی میں بھی ہے اور اپنی بھلائی بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ انسان فتنے سے اپنے آپ کو بچائے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے اور جو پیارا سے حاصل ہواوہ پیارا سے اور اس کے خاندان کو مرتے دم تک اس دنیا میں حاصل رہے تا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں گزرنے والی ابدی زندگی کے وہ مستحق بنیں.سورۃ التحریم میں ہی نویں آیت میں ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا حکم تھا کہ خود اپنے نفسوں اور اپنے اہل کو بچاؤ ، ان کی حفاظت کی کوشش کرو اور یہاں وہ طریقہ بتایا گیا (اس

Page 499

تفسیر حضرت خلیلة امنبع الثالث ۴۸۹ سورة التحريم آیت میں بشارت ہے ) اور اس کی ابتدا یوں ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف خالص رجوع کرو.تو بہ کرو اور تو بہ پر قائم رہو.تو بہ زندگی کے چند لمحات کی کیفیت کا نام نہیں.تو بہ ساری زندگی کے سارے ہی لمحات کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے.خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، اس کی طرف جھکتے ہوئے ،غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ، ندامت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ عاجزانہ اس سے مغفرت چاہتے ہوئے زندگی گزارنا اس کا نام ہے تو بہ.اس کی دوشاخیں ہیں آگے، عقیدۃ اور عملاً، دونوں اس میں شامل ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا عرفان رکھنا اور اس کی عظمتوں اور اس کے نور کو اس کے حسن کو سمجھتے ہوئے اور شناخت کرتے ہوئے اور اس سے دوری کے مضرات کو اور برائیوں کو جانتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرنا، یہ عقیدہ تو بہ ہے یعنی آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ اگر میں خدا سے کٹ گیا اور تو بہ کا تعلق میرا اس سے نہ ہوا تو میں ہلاک ہو گیا لیکن اسلام محض فلسفہ نہیں.حقیقی فلسفہ اسلام ہی ہے، اس میں شک نہیں لیکن اسلام محض فلسفہ نہیں.یہ تو ہماری زندگی کا ایک حسین لائحہ عمل ہے جو ہمیں بتایا گیا جس پر چل کر ہماری زندگی خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہوتی اور اس کے حسن سے حسن حاصل کرتی ہے.تو فرمایا جو حکم ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا کا طریق تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر آن خالص طور پر کا ملتا رجوع کرتے رہو، اس کا نتیجہ نکلے گا.اس مخلصانہ تو بہ کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو تمہاری بدیاں ہیں ( یہ اس آیت سے میں نے مضمون اٹھایا ہے.میں عربی کے الفاظ نہیں دہراؤں گا ) ان کو وہ مٹادے گا تو بہ کے نتیجے میں.تمہاری بدیوں کو وہ مٹاتا جائے گا تمہاری زندگی میں.انسان ضعیف ہے غلطی کر جاتا ہے لیکن انسان کو متکبر نہیں ہونا چاہیے کہ سمجھنے لگے کہ میں غلطی نہیں کر سکتا.اس لئے ہر آن اپنے خدا کی طرف رجوع کر کے اس کے حضور تو بہ کرنی چاہیے اور ہر آن خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر کے اپنی غفلتوں کو مٹاتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہیے.تو بشارت یہ دی کہ تو بہ کرو گے تمہاری بدیوں کو مٹادیا جائے گا.یہ منفی پہلو ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک یہ پہلو ہے یعنی صاف کر دی جائے گی زمین بدیوں سے اور دوسرا یہ کہ تمہارے لئے جنت کا سامان پیدا کیا جائے گا.قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ جنت دو ہیں.ایک اس زندگی کی جنت، ایک مرنے کے بعد کی جنت.اس زندگی میں بھی جنت جیسی کیفیات پیدا ہو جا ئیں گی تمہارے گھروں میں اور وہ ابدی زندگی جو مرنے کے بعد انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی جنتی زندگی ہوگی.جنت سے باہر

Page 500

تفسیر حضرت علیلة امبیع الثانی ۴۹۰ سورة التحريم خدا تعالیٰ کے غضب کی جہنم میں رہنے والی زندگی نہیں ہوگی.تیسرے اس بشارت والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہر بدی رسوائی ہے، بے عزتی ہے اور سب سے بڑی رسوائی وہ ہے جو حقارت کی نگاہ انسان دیکھے اپنے لئے اپنے رب کی آنکھ میں.یہاں فرمایا اللہ اپنے نبی کو رسوا نہیں کرے گا، نہ ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے.یعنی ہمارے لئے یہ بشارت دی گئی یہاں کہ جس عزت کے مقام پر النبی کو رکھا جائے گا اس کی معیت میں، اس کے ساتھ ہی تو بہ کرنے والے مومنوں کو رکھا جائے گا.اور چوتھی یہاں یہ بات بتائی کہ ان کا نور ان کے آگے آگے بھی بھاگتا جائے گا اور دائیں پہلو کے ساتھ بھی.یہاں یہ بتایا کہ جو عقیدہ اور عملا تو بہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے اور ایسے اعمال بجالاتے ہیں جن میں کوئی ملاوٹ اور کھوٹ نہیں ہوتا ، جن میں کوئی ریا اور تکبر نہیں ہوتا، جن میں کوئی دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ سارے کے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے پیار کے چشمے سے ابلتے ہوئے باہر آتے ہیں اور خدا کے نزدیک مقبول ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ایک نور عطا کرتا ہے.یہ جو نور عطا کیا جاتا ہے یہ خود ایک لمبا مضمون اسلام میں بیان ہوا ہے.ایک پہلو اس کا یہ بھی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرتے رہا کرونو رفراست دیا جاتا ہے اسے.بہر حال ایک نور مومن کو عطا ہوگا اور یہ نور جو ہے یہ حض حال کو یعنی جو آج کا وقت ہے صرف میری زندگی کے، آپ کی زندگی کے ”آج کو روشن کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ آگے آگے بھاگتا جائے گا یعنی مستقبل کو بھی منور کرنے والا ہوگا اور اس نور کے نتیجے میں دائیں طرف بھی روشن ہوگی ( دایاں دین اسلام کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی صحیح میلان دین کی طرف پیدا کرے گا یعنی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا حوصلہ بھی دے گا اور عزم بھی دے گا اور توفیق بھی دے گا.مستقبل روشن ہوگا.دین کی طرف میلان قائم رہے گا اور خاتمہ بالخیر ہوگا اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اور آخر میں یہ بتایا کہ ان کی مقبول دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرے گی.انہیں یہ دعا کرنے کی توفیق ملے گی کہ (کہ کے بعد میں ایک اور فقرہ بیچ میں لانا چاہتا ہوں.کوئی انسان جتنی مرضی رفعت حاصل کر لے وہ انتہائی رفعت تک نہیں پہنچتا.اس لحاظ سے اس میں نقص اور کمال کی کمی رہتی ہے.تو

Page 501

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۹۱ سورة التحريم ان کو اس دعا کی توفیق ملے گی کہ ) اے خدا! ہمارے نور کو اور بھی کامل کر اور یہ دعا ان کی قبول کی جائے گی اور ان کا نور کمال“ سے ” کمال کی طرف بڑھتا چلا جائے گا اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے سایہ میں حفاظت اور تقویٰ کی زندگی گزاریں گے اور خدائے قدیر کی عظیم قدرتوں کے جلوےان کی اس زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ان پر ظاہر ہوتے رہیں گے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۹۲ تا۳۹۵) نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِايْمَانِهِمْ کے ایک معنی ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ چونکہ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملنا ہے اس لئے اس نور کی وجہ سے جو قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے نتیجہ میں تم حاصل کرو گے ایک مسلسل ترقی کے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے اور یہ نور تمہارے اعمال نامہ میں بھی لکھا جائے گا، وہ نور بڑھتا جائے گا، تم دیکھو گے کہ ایک یہ نورانی کام کیا ہے ایک یہ نورانی کام کیا ہے ایک یہ نورانی کام کیا ہے گویا ایک مثالی رنگ میں ہمیں بتایا ہے کہ نہ صرف تم اس دنیا میں اس نور کی اتباع کرتے ہوئے جو تمہارے آگے آگے پیدا کیا جائے گا تم آگے ہی آگے روحانی ترقیات کرتے جاؤ گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمہارا اعمال نامہ بھی چل رہا ہے اس میں بھی لکھا جارہا ہے مطلب یہ کہ صرف اس دنیا میں ہی تمہیں اس کے مطابق جز انہیں ملے گی ، اس دنیا میں ہی تم اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کے جلوے نہیں دیکھو گے بلکہ اُس دنیا میں بھی اپنے اس روحانی ارتقاء کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ خدا کی محبت کے جلووں کے حقدار قرار دیئے جاؤ گے، تمہارے اعمال نامہ میں یہ چیزیں ساتھ ہی ساتھ لکھی جائیں گی.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۲۹،۴۲۸) رَبَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے فائدے کے لئے کامل کر دے اور ہمیں معاف فرما تو ہر چیز پر قادر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کمزور انسان ہیں گناہ بھی سرزد ہوتے ہوں گے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوں گی ہمارے گناہوں غلطیوں اور کوتاہیوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور ہمیں آتیم کنا تورنا اپنے دائرہ استعداد کی انتہائی روحانی رفعتوں تک اپنے فضل سے پہنچا دے اور ہم تیرے حضور عاجزی سے متضرعانہ دعا کرتے ہیں کہ تو خود ( جو ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے ) ہماری اس بات میں مدد

Page 502

تفسیر حضرت خلیلة امنبع الثالث ۴۹۲ سورة التحريم کر کہ جو تو نے ہمیں نورد یا وہ نور مکمل ہو جائے ہماری زندگی میں اور جن انتہاؤں تک پہنچنا ہمارے لئے مقدر تھا ہمیں وہاں تک پہنچا ہماری غلطیاں کو تا ہیاں روک نہ بن جائیں اور تیری رضا کی انتہا کو ہم (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۹۹،۲۹۸) حاصل نہ کر سکیں.

Page 503

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۴۹۳ سورة الملك بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الملك آیت ۱ تا ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.) تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ بِالَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ) الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتِ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبُ إلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَ هُوَ حَسِيرُ تمام برکتیں اس ہستی سے مخصوص ہیں جو حقیقی بادشاہ ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی بھی طاقت اُسے اپنے ارادوں کے پورا کرنے سے عاجز نہیں کر سکتی.خلق الْمَوْتَ وَالْحَيوة موت وحیات کو اس نے اس لئے پیدا کیا تا کہ تمہارے عملوں کے باعث تمہیں آزمائے کہ تمہارے عمل کیسے ہیں.وَهُوَ الْعَزِیزُ وہ طاقتور ہستی ہے کوئی اس کے غضب سے بچ نہیں سکتا.وَهُوَ الْغَفُورُ خدا تعالیٰ بڑی بخشش کرنے والا اور گناہوں کی معافی دینے والا ہے اسی طرح امید پیدا کرنے والا ہے کیونکہ رورود میری کچھ طبیعت خراب ہو رہی ہے اس لئے آج میں صرف خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا کے متعلق اختصار سے بتاؤں گا.دُنیا میں موت وحیات کا سلسلہ اکٹھا اور متوازی چلتا ہے اصل چیز حیات ہے اور حیات یا زندگی کا نہ ہونا یا زائل ہو جانا موت کہلاتا ہے.قرآن کریم نے حیات کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں اور حیات

Page 504

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے فقدان کا نام موت رکھا ہے.۴۹۴ سورة الملك ایک تو قوت نامیہ ہے یعنی نمو کی قوت ، جو قرآنی محاورہ میں حیات کہلاتی ہے اس کا تعلق انسان سے، حیوان سے اور نباتات سے بھی ہے اور اگر ہم زیادہ گہرے چلے جائیں تو اس کا تعلق ہر قسم کی مخلوق سے ہے کیونکہ ہیرے اور جواہرات بھی ایک لمبے عرصے کی نشوونما کے بعد اپنی خصوصیات کے حامل بنتے ہیں اور جب نمو کی قوت اللہ تعالیٰ کے اذن سے زائل ہو جائے یا زائل کر دی جائے تو قرآنی محاورہ کے مطابق اسے موت کہتے ہیں.دوسرے قرآن کے محاورہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوت حاسہ کو بھی زندگی کہا گیا ہے.انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے یا ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ اس کی یا ہماری زندگی ہے.بعض ایسی حالتیں ہیں جب چش کام نہیں کرتی یا بعض ضروری اور بنیادی حصے کام نہیں کر رہے ہوتے تو قرآن کریم نے اسے بھی موت کہا ہے اگر کسی کو فالج ہوجائے تو قوت حاسہ غائب ہو جاتی ہے.تیسری قسم کی زندگی جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے وہ قوتِ حاصلہ ہے.اس کے مقابل قرآنی محاورہ کے مطابق جہالت مطلقہ ، موت ہے.چوتھے معنی میں حیات کا لفظ قرآنی محاورہ میں اُس خوش حالِ زندگی کا نام ہے، جو د نیوی لحاظ سے کوشش کرنے سے بسا اوقات دُنیا والوں کو کبھی مل جاتی ہے اور کبھی نہیں ملتی.اس کے مقابلہ میں حزن اور غم ہے جو زندگی کو مکدر کر دیتا ہے.قرآنی محاورہ میں اسے بھی موت کہا گیا ہے.پانچویں قرآنی محاورہ میں نیند کو بھی موت کہا گیا ہے اور اس کے برعکس بیداری کو زندگی کا نام دیا گیا ہے یعنی قرآنی محاورہ کے مطابق بیداری کا فقدان موت کہلاتا ہے.اسی طرح ایک محاورہ پیدا ہو گیا ہے کہ النُّومُ مَوْتُ كَثیف کہ نیند ایک کثیف موت ہے.وَالْمَوْتُ نَوْمٌ كَثِيرُ کہ موت گہری نیند کا نام ہے.چھٹے اجزا کی تحلیل کا نام قرآن کریم کے محاورہ میں موت کہلا تا ہے اس کے مقابلہ میں کچھ نئے اجزا کو جو روز مزہ زندگی میں جزو بدن بنتے رہتے ہیں، زندگی سے تعبیر کیا جائے گا اور کچھ اجزا علیحدہ ہوتے رہتے ہیں جو موت کے مترادف ہے اس لئے کہا جاتا ہے فَإِنَّ الْبَشَرَ مَادَامَ فِي الدُّنْيَا يَموتُ جُزْءًا قَلِيلًا کہ دُنیا میں انسان کے اجزا آہستہ آہستہ موت سے ہمکنار ہوتے یا موت کا منہ

Page 505

تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۴۹۵ سورة الملك دیکھتے ہیں اور نئے اجزا اس کے جسم میں بصورت غذا داخل ہوتے ہیں جن کو ہضم کرنا پڑتا ہے یہ اس کی زندگی ہے.ساتویں معنی زندگی کے بدن اور روح کے تعلق کے ہیں.جسم اور روح کے اتصال کو قرآن کریم نے حیات کہا ہے اور جب یہ اتصال باقی نہ رہے اور قوت حیوانیہ کا زوال ہو جائے اور بدن سے روح جدا ہو جائے تو اس کا نام موت ہے.اس سارے مضمون میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ موت وحیات کو جس معنی میں بھی قرآن کریم نے لیا ہے اس میں بہت سی برکتیں اور رحمتیں پوشیدہ ہیں اس کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کی جگہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.یہ رحمتیں و برکتیں صرف اُس سے مل سکتی ہیں اور کہیں سے نہیں.اسی طرح عقل یا قوت عاقلہ کا ہونا بھی زندگی ہے عقل بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور عقل کے ذریعہ سے جو نعمتیں حاصل ہو سکتی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے حاصل ہوتی ہیں.وَهُوَ عَلَى كُلِ شَيْءٍ قَدِيرُ - اسی طرح اگر موت نہ ہوتی اور صرف اس ورلی دُنیا کی زندگی ہوتی تو روحانیت بھی نہ ہوتی اور وہ عظیم نعمتیں جن کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے ان کی بھی امید نہ ہوتی تو پھر انسان اور سور میں کوئی فرق باقی نہ رہ جاتا.پس موت کے ساتھ بھی اسی طرح برکات وابستہ ہیں جس طرح زندگی یا حیات کے ساتھ وابستہ ہیں اور پھر نشونما اور زندگی کے بعض دوسرے حصے ہیں مضمون لمبا ہے مگر چونکہ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے اس لئے میں نہایت مختصر کر رہا ہوں.اصل چیز خیر اور برکت ہے اور یہ چیز میرے اس مضمون کا نتیجہ ہے جو یہاں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق نہیں ہونا چاہیے چونکہ اللہ سے قطع تعلق یا دوری موت ہے اس کے برعکس تعلق باللہ یا اس سے پیار کرنا اور اس کے حصول کی کوشش کرتے رہنا، یہی زندگی ہے اور اللہ تعالی سے دل اس طور پر لگانا چاہیے کہ مخلوقات میں سے کسی اور کے ساتھ انسان کا تعلق اس طور پر باقی نہ ر ہے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحہ ۷۷ تا ۸۰)

Page 506

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹۶ سورة الملك بڑی ہی برکتوں والا ہے وہ وجود جس کے قبضہ قدرت میں حاکمیت ہے.حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.اور اس کی عظیم برکتوں کا مظاہرہ اس صداقت میں بھی ہے کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيو.کہ اس نے ایک نظام موت جاری کیا اس کائنات میں اور ایک نظام حیات جاری کیا.یہاں الموت ہے.الموت قرآن کریم کی اصطلاح میں دو معنوں میں ہے.ایک عدم سے وجود میں لانا اور ایک ایسی موت جس کے بعد ابدی زندگی کا حصول مقدر ہے انسان کے لئے.تو عظیم ہے اللہ جس کی عظیم برکتیں یہ ہیں کہ اس نے ایک ایسی موت کا سلسلہ جاری کیا جس کے بعد ابدی حیات ، انسان کو میسر آتی ہے.اور والحیوۃ اور ایک ایسی زندگی کا سلسلہ جاری کیا جس پر موت وارد نہیں ہوتی.موت کو پہلے رکھا اور حیات کو بعد میں.پہلے جو موت رکھی اس میں موت سے پہلے کی حیات خود ہمارے سامنے آجاتی ہے کیونکہ جو زندہ نہیں وہ مر نہیں سکتا.تو خَلَقَ المَوت جب کہا.تو اس کے معنی یہی تھے کہ اس نے زندگی دی اور پھر موت وارد ہوئی.اور نظام حیات قائم کیا ایک ایسا نظام حیات جو ابدی ہے جس پر کوئی موت وارد نہیں ہوتی.اس واسطے اس حیات کے بعد کسی موت کا ذکر نہیں کیا گیا اور عظمتیں خدا تعالیٰ کی اس صداقت میں یہ ہیں لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہے اور مقصد انسانی زندگی کا یہ ہے کہ انسان ایک ایسی حیات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جو ابدی ہے.ایک ایسی زندگی پانے میں وہ کامیاب ہو جس زندگی میں خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں نازل ہوتی ہیں اور جس زندگی میں یہ نعمتیں جو ہیں یہ زندہ نعمتیں درجہ بدرجہ بڑھتی چلی جاتی ہیں.یہ حیوۃ ایک خاص قسم کی حیات.آئی جو ہے وہ مخصوص کرتا ہے الحیوۃ کو یعنی وہ حیات جس کا ذکر بڑی تفصیل سے قرآن کریم نے متعدد جگہ کیا ہے.ایک ایسی حیات جس کی ہر صبح پہلی شام سے زیادہ روشن اور جس کی ہر شام صبح سے زیادہ حسین ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ (انسان کی نسبت ) منور ہو کر اور زیادہ پیار والے بن کر اس پر ظاہر ہوتے ہیں..(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۷۱۵،۷۱۴)

Page 507

۴۹۷ سورة الملك تفسیر حضرت خلیفہ اسح الثالث جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے ایک حصہ کو تو میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں مختصر بیان کر دیا تھا.خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کے محاورہ میں انسان میں سات قسم کی زندگیاں پائی جاتی ہیں اور ہر زندگی کے مقابلہ میں ایک موت ہے کیونکہ موت نام ہے زندگی کے فقدان اور اس کے ضائع ہو جانے کا.تاہم ان آیات میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کو پہلو بہ پہلو پیدا کیا اور اس کی حکمت یہ ہے کہ اچھے اور برے اعمال کو ظاہر کرے.ویسے تو ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو بھی پتہ لگے اور دوسروں کو بھی پتہ لگے کہ احسن عمل کرنے والے کون ہیں اور وہ کون ہیں جو احسن عمل نہیں کرتے.ان آیات میں جو اصل مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ حقیقی برکتیں اور نعمتیں حاصل کرنی ہوں تو انسان کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے.غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا بالکل لا یعنی اور بے مقصد ہے کیونکہ تمام برکات اور تمام نعمتوں کا حقیقی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ہم عاجز انسانوں کو سمجھانے کے لئے یہ بتایا گیا ہے کہ تمام برکتیں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوتی ہیں کیونکہ حقیقی بادشاہ وہی ہے فرمایا بِيَدِهِ الْمُلْكُ بادشاہت سارے اقتدار کے ساتھ پوری کی پوری اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ متصرف بالا رادہ ہستی ہے فرما یا هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ.وہ جو چاہے سو کرتا ہے.اُسے کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں.حقیقی بادشاہت کے لئے عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم حقیقی بادشاہت کا تصور ہی نہیں کر سکتے.دُنیا کی جو بادشاہتیں ہیں یہ نہ حقیقی بادشاہتیں ہیں اور نہ دُنیا کے بادشاہ اور برسر اقتدار لوگ حقیقی بادشاہ یا حاکم ہیں.اب ان ڈ نیوی بادشاہوں اور حاکموں کو دیکھو کہ چاہتے کچھ ہیں یا اپنی خواہش کا اظہار کچھ کرتے ہیں اور عمل کچھ کرتے ہیں.ایک گروہ کو ایک گروہ کے خلاف فیصلہ بھی دے دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا کریں بڑی مجبوریاں پیش آ گئی تھیں.پس یہ توکوئی بادشاہت نہیں، یہ تو کوئی حاکمیت نہیں، اللہ تعالیٰ حقیقی بادشاہ ہے جس کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ یہ کہے کہ چاہتا تو میں کچھ اور تھا مگر مصلحتوں نے مجھے مجبور کر دیا اس لئے اپنی خواہش کے خلاف میں نے کچھ اور کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ کہتا ہے هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ

Page 508

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۹۸ سورة الملك جس چیز کو وہ چاہتا ہے جس کام کے کرنے کا وہ ارادہ کرتا ہے اس کے کرنے پر وہ قادر ہے.دُنیا کی کوئی طاقت اُسے اس کے ارادہ کو پورا کرنے میں عاجز نہیں کر سکتی.پس ہمیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ تمام برکتوں کا جو سر چشمہ ہے اور جوحقیقی بادشاہ ہے اس سے ہر برکت اور نعمت مل سکتی ہے.جو حقیقی بادشاہ نہیں وہ اگر کسی کو کوئی چیز دینا بھی چاہے تب بھی بعض دفعہ نہیں دے سکتا اور بسا اوقات دینا ہی نہیں چاہتا.اسی طرح دنیوی بادشاہتیں بعض دفعہ حق تلفی کی طرف اس سے زیادہ مائل ہو جاتی ہیں جتنی اُن کی رعا یا فساد اور حق تلفی کی طرف مائل ہوتی ہے یا دنیوی بادشاہ چاہتے نہیں کرنا اور یا پھر چاہتے ہیں یا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم یوں چاہتے ہیں لیکن عملاً کر نہیں سکتے.در اصل حقیقی بادشاہت تمام قسم کے بندھنوں سے آزاد ہوتی ہے لیکن دُنیا کی ہر مخلوق قانون قدرت میں بندھی ہوئی ہے.درخت یہ نہیں چاہ سکتے کہ وہ لوہے کا کام دیں وہ یہ کام دے ہی نہیں سکتے اُن کے لئے اللہ تعالیٰ نے لکڑی کا کام دینا مقدر کر رکھا ہے.پس حقیقی بادشاہت اسی کے تصرف میں ہے اس لئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے اور اس حقیقی بادشاہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ نیکی کے علاوہ بدی کا اختیار رکھتے ہوئے نیکی کرے اور اسی طرح اس بات کا اختیار رکھتے ہوئے کہ اگر وہ چاہے تو خدا تعالیٰ سے دُور بھی ہوسکتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو ہر قسم کی قربانیاں دے کر تلاش کرے اور پھر ان پر گامزن رہے اور اس قرب الہی کے نتیجہ میں برکتوں کو حاصل کرے.پس ساتوں قسم کی موت اور زندگی اس لئے پیدا کی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل کر سکے.بعض اس قسم کی زندگی ہے کہ وہ سوائے انسان کے اور کسی کی نہیں ہے مثلاً روح اور جسم کا اتصال، ایک یہ زندگی ہے جس کے مقابلہ میں موت آتی ہے یعنی روح اور جسم کا اتصال ٹوٹ جاتا ہے اور جسم جو مٹی سے بنا ہے وہ مٹی میں واپس مل جاتا اور روح جسے اللہ تعالیٰ نے قائم رہنے کے لئے بنایا ہے وہ اگلے درجہ میں داخل ہو جاتی ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.بہر حال روح ایک اور منزل میں پہنچتی ہے اور پھر اس کی زندگی بھی قائم رہتی ہے اور اس کی ترقی کے لئے دروازے بھی کھلے رہتے ہیں.غرض انسان کو ساتوں قسم کی زندگی عطا کی گئی ہے مگر غیر انسان کو اللہ تعالیٰ نے سات قسم کی زندگی

Page 509

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹۹ سورة الملك نہیں دی بعض کو کم قسموں کی اور بعض کو زیادہ مگر انسان کو ساتوں قسم کی زندگی دی.اس زندگی اور موت کے متعلق میں نے پچھلے خطبہ میں مختصر بتا دیا تھا.انسان کو یہ زندگی اس لئے دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے آزمائے.ویسے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ تھی اور آزمائش کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی وہ تو علام الغیوب خدا ہے، اس کے علم سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں لیکن جہاں تک انسان کا تعلق ہے اور اس کی زندگی کا سوال خود انسان کے علم سے پوشیدہ تھی اور انسان کے ماحول سے پوشیدہ تھی.بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑے ہیں اور اس طرح وہ متکبر بن جاتے ہیں.اُن کے اندر کبر پیدا ہو جاتا ہے.کوئی کہتا ہے میں علم میں بڑا ہوں کوئی کہتا ہے کہ میں روحانیت اور تزکیہ نفس اور طہارت میں بڑا ہوں کوئی کہتا ہے کہ میرے جسم میں اتنی طاقت ہے کہ کوئی پہلوان میرا مقابلہ نہیں کر سکتا یہ اور اسی قسم کے دوسرے تکبر انسان کے لئے موت کا باعث بن جاتے ہیں.جس چیز کو انسان زندگی سمجھتا ہے، وہ اس کے لئے موت بن جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی درگاہ سے وہ دھتکار دیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی برکتوں اور نعمتوں کے حصول کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کی لعنتوں کا وارث بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موت و حیات کا سلسلہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہیں بھی پتہ لگے اور دوسروں کو بھی پتہ لگے کہ تمہارا مقام کیا ہے تمہاری حیثیت کیا ہے تم زندگی کے حامل ہو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کی شکل میں تم پر موت وارد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے وہ بڑی طاقت والا ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم اس سے زبردستی یہ منوالو کہ تم پاکیزہ ہو حالانکہ قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ فَلَا تُرَكُوا انفسکم اپنے آپ کو تزکیہ یافتہ یا پاک نہ ٹھہرایا کرو کیونکہ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ۳۳) تقوی کا علم اور اس کا فیصلہ اور اس کا اظہار اور اس کے مطابق اپنی قدرت کی تاروں کو ہلا نا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے یہ انسان کا کام نہیں ہے.پس وہ عزیز ہے اور بڑی طاقت والا ہے کوئی شخص اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا لیکن مایوسی بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ غفور بھی ہے وہ مغفرت کرنے والا ہے.یہ انسان کا کام ہے کہ وہ ہر لحظہ اور ہر آن استغفار کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلبگار رہے اور تیسرے یہ بتایا کہ تمام برکتیں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس کے لئے اس نے یہ بتایا تھا کہ یہ ظاہر کرے کہ احسن عمل والا کون ہے اور انسان کے حسنِ عمل کے لئے اللہ تعالیٰ نے

Page 510

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۰۰ سورة الملك جو قانون بنایا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے.اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ خَلَقَ سَبْعَ سَمواتِ طِبَاقًا اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اوپر نیچے مگر ایک دوسرے سے موافقت رکھنے والے بنائے ہیں ان کی خاصیتوں میں بھی تضاد نہیں ہے.یہ نہیں کہ پہلا آسمان کسی اور طرف لے جا رہا ہو اور اس کا نتیجہ کچھ اور نکل رہا ہو اور دوسرے آسمان کا کچھ اور.ساتوں آسمان اوپر نیچے بھی ہیں اور آپس میں موافق بھی ہیں اور ان کے ذریعہ انسان کے لئے روحانی ترقی کے درجہ بدرجہ سامان بھی پیدا کئے گئے ہیں کیونکہ اس عالمین کے جو سات آسمان ہیں ان کے علاوہ روحانیت کے بھی سات آسمان ہیں اور ان پر انسان درجہ بدرجہ بلند ہوتا ہے.اس کے لئے اُسے محنت کرنی پڑتی ہے بہت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے اس کے لئے اُسے خدا کے دامن کو پکڑ لینا پڑتا ہے اس عہد کے ساتھ کہ دُنیا اس کے ساتھ جو مرضی سلوک کرے وہ اپنے رب کے دامن کو کبھی نہیں چھوڑے گا.پس برکت والا ہے وہ خدا جس نے سات آسمان درجہ بدرجہ اوپر نیچے اور بالکل موافق پیدا کئے.یہ نہیں کہ کسی کے زاویے کسی دوسری طرف نکلے ہوئے ہوں جس طرح جگر متورم ہو جائے تو ایکسرے میں جگر کا سایہ اور ہوتا ہے اور پسلی کا سایہ کچھ اور ہو جاتا ہے.ایک دفعہ میرے ساتھ بھی اسی طرح ہوا کہ ڈاکٹروں نے غلط تشخیص کی وجہ سے کہہ دیا کہ جگر پھٹ گیا ہے یہ تو میں ویسے ضمناً بات کر رہا ہوں.میں بتا یہ رہا ہوں کہ اس آیت میں طباقا کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو ان میں کوئی فرق نہیں.ہر لحاظ سے سب آپس میں موافقت رکھتے ہیں اپنے وجود کے لحاظ سے بھی اور اپنے خواص کے لحاظ سے بھی اور اپنے اثرات کے لحاظ سے بھی.اختلاف کے باوجود آپس میں موافقت ہے کیونکہ اس عالمین کو انسان کی بہتری اور مفاد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے ہر آسمان ( سماء الدنیا میں تو ہماری زمین بھی آجاتی ہے ) انسان کی بہتری کے لئے اس کے خادم کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے.یہ نہیں کہ پہلا اور دوسرا آسمان تو انسان کی خدمت کر رہے ہوں اور تیسرا اس سے دشمنی کر رہا ہو.یہ ناممکن ہے کیونکہ فرمایا: - خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ اس میں جو بنیادی مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے اور اس کا عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی تمام صفات کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ان میں کوئی تضاد اور کوئی تفاوت اور کوئی خلل اور کوئی فساد اور کوئی

Page 511

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۰۱ سورة الملك فطور نہیں پایا جاتا.جس غرض کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اگر اس کی زندگی اس کے مطابق ہو اور اس کی زندگی میں اندرونی طور پر بھی تضاد نہ ہو اور اس کی زندگی میں صفات باری کے انعکاس کے بارہ میں بھی کوئی تضاد نہ پایا جائے تو پھر کامیابی ہے دنیا کی بھی اور اُخروی زندگی کی بھی.دین کی بھی اور دُنیا کی بھی ، جسم کی بھی اور روح کی بھی.ہر لحاظ سے اُسے پوری کامیابی ملتی ہے اور اچھے نتائج نکلتے ہیں لیکن جب تضاد پایا جائے.تضاد مثلاً اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ شرک نہیں کرنا لیکن بعض لوگ کچھ خدا کے لئے زندہ رہتے ہیں اور کچھ بتوں کے لئے زندگی گزارتے ہیں اور یہ کھلم کھلا تضاد ہے.بعض لوگ خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور قبروں پر جا کر سجدے بھی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کو قادر وتوانا بھی سمجھتے ہیں اور اپنی عقل اور علم کے زور سے کچھ حاصل کرنے کا تصور بھی اپنے دماغ میں رکھتے ہیں.ان کا نفس ایک بہت بڑا بت بن جاتا ہے اور ان کے دماغ میں ہزاروں بت نظر آتے ہیں.اگر ہم خدا تعالیٰ کی دی ہوئی فراست اور اس کے عطا کردہ نور سے دیکھیں تو ہمیں ایسے لوگوں کے اندر ہزار ہا بت نظر آتے ہیں اور یہ تضاد ہے.اس کے مقابلہ میں زندگی کے ہر پہلو سے خدا تعالیٰ کا ہو جانا اور اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی صفات منعکس کرنے کی کوشش کرنا یعنی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر مظہرِ صفات باری بننے کی انتہائی کوشش کرنا اور ہر قسم کے تضاد سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی کوشش کرتے رہنا یہ کامیابی کی راہ ہے اور یہ احسن عمل ہے مگر جہاں تضاد پایا گیا وہاں محسن نظر نہیں آئے گا.زندگی کے ہر پہلو سے جو عمل ہے، وہ ٹھیک طور پر بجالا نا نظر نہیں آئے گا.....پس ساری دُنیا انسان کی خدمت پر لگا دی گئی اور انسان کو یہ کہا کہ تیری ذات میں جو قو تیں اور استعدادیں ہیں ، اُن میں اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کوئی تضاد نہیں پیدا ہونا چاہیے کیونکہ تو نے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا ہے چنانچہ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے بے شمار جلووں میں کوئی تضاد نہیں ہے.اُن کے اندر کوئی خلل نہیں ، اُن کے اندر کوئی فساد نہیں ، ان کے اندر آپس میں کوئی مقابلہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک ایسی ہستی ہے جو حسن کا مجموعہ ہے ہمارے پاس تو وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے حسن کو بیان کیا جا سکے.بہر حال جہاں تک ہو سکتا ہے ہم بات کرتے ہیں اور جہاں تک ہوسکتا ہے ہم سمجھتے ہیں اور اُنہیں الفاظ کا جامہ پہنا کر بات کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالی کی گنہ کو سمجھنا انسان کا کام نہیں،

Page 512

تفسیر حضرت خلیفہ اسی اثاث ۵۰۲ سورة الملك انسان تو بڑا عاجز ہے.پس ظاہر ہے کہ تمام برکتیں اور نعمتیں اسی ہستی سے حاصل کی جاسکتی ہیں جس کی صفات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا اور یہ خدا تعالیٰ ہی کی ہستی ہے جس کے متعلق ہمیں یہ حکم ہے کہ اس کی صفات کا مظہر بنو تو پھر ہماری زندگی میں بھی کوئی تضاد نہیں پایا جانا چاہیے کوئی فتور اور کوئی خلل اور کوئی فساد نہیں پایا جانا چاہیے.اب مثلاً ایک آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بڑا اچھا ذہن دیا ہے.ذہنی لحاظ سے اُسے بہت اچھی استعداد میں دی گئی ہیں لیکن بعض گپیں ہانکنے والے اس کے دوست بن گئے تو یہ گو یا اس کی زندگی میں تضاد پیدا ہو گیا.اس کی علمی میدان میں آگے بڑھنے کی طاقت کچھ اور تقاضا کرتی ہے اور گپیں مارنے کی عادت کچھ اور تقاضا کرتی ہے چنانچہ جب اس کی ایک حصہ زندگی میں تضاد پیدا ہو گیا تو وہ نا کام ہو گیا.ہمارے ملک میں بھی اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی بڑے اچھے ذہین بچے پیدا ہوتے ہیں مگر وہ اس لئے ضائع ہو جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں جو اُنہیں ذہنی استعدادوں کی شکل میں میسر آتی ہے.البتہ یہ صحیح ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی طاقتوں کے مطابق تو اپنی زندگی میں اپنی طاقتوں کے جلوے نہیں دکھا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قرآن کریم میں یہ بھی آتا ہے لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ (البقرة :........غرض اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اے لوگو! اگر تم میری رحمتوں اور برکتوں اور نعمتوں سے کامل حصہ لینا چاہتے ہو تو تمہاری زندگی میں کسی قسم کا تضاد نہیں پایا جانا چاہیے.فرمایا ت بُرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الملك تمام برکتوں اور نعمتوں کا سر چشمہ اور منبع وہ ذات ہے جو بادشاہ ہے اور حقیقی طور پر بادشاہ ہے کیونکہ فرماتا ہے وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير حقیقی بادشاہت کا یہ بیان ہے کہ حقیقی بادشاہ کے لئے ہر چیز پر قادر ہونا ضروری ہے.ظاہر ہے جو حقیقی بادشاہ ہو گا وہ ہر چیز پر قادر ہوگا اور مصلحتیں اور حالات اور مجبوریاں اس کے راستے میں حائل نہ ہوں گی اور نہ ہو سکتی ہیں بلکہ اُن کے حائل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مثلاً بادشاہ کی ایک یہ مجبوری ہے کہ چھوٹا ملک ہے جیسے گیمبیا ہے جس کی آبادی تین لاکھ افراد پر مشتمل ہے اس پر اگر کوئی ایسا ملک حملہ آور ہو جائے جس کی آبادی ایک کروڑ کی ہے تو اس صورت میں چھوٹا ملک کچھ نہیں کر سکتا.اچھی بادشاہت ہوتے ہوئے بھی وہ مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ اس کی مجبوری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے تو کوئی مجبوری نہیں.وہ عظیم ہستی جس نے سکن کہہ کر ساری کائنات کو پیدا

Page 513

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۰۳ سورة الملك کرد یا اور اسی کے حکم سے ساری کائنات نشو و نما پارہی ہے، اُس کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ ہی تمام برکتوں اور نعمتوں کا سرچشمہ ہے اگر برکتیں اور نعمتیں لینی ہوں تو اسی کی طرف رجوع کرو کہ وہ حقیقی طور پر بادشاہ ہے وہ جو چاہتا ہے سوکرتا ہے کوئی طاقت اس کی راہ میں روک نہیں بن سکتی.خدا تعالیٰ سے جو برکتیں اور نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرو اس میں صرف اس دُنیا کو مدنظر نہ رکھو بلکہ اس کی برکتوں کے ایک حصہ کا تعلق موت سے ہے اور ایک کا تعلق زندگی سے ہے.پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ زندگی اور موت کو پیدا کرنے والے رب کی ہر قسم کی برکتیں حاصل کریں جن کا اس زندگی سے تعلق ہو یا جن کا موت سے تعلق ہو.انسان کے لئے ہر موت ایک نئی زندگی کا دروازہ کھولتی ہے لیکن خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة کے محاورہ میں ہم نہیں گئے کہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اور ایک زندگی کو چھوڑ کر دوسری زندگی میں جانے سے تعلق رکھنے والی جو برکتیں اور نعمتیں ہیں وہ خدا تعالیٰ سے حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کے لئے بنیادی طور پر جو راہیں اور اصول بتائے گئے ہیں وہ یہی ہیں کہ تمام برکتیں اسی عظیم ہستی سے حاصل کی جاسکتی ہیں جس کی خلق کے اندر اور جس کی حسنات کے جلوؤں کے اندر تمہیں کوئی تضاد نظر نہیں آتا اور ساتھ طریقہ بھی بتادیا کہ تمہارے اندر تضاد نہیں ہونا چاہیے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۸۱ تا ۹۰) آیت ۳۰ قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ أَمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ۚ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ في ضَل مبين قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ أَمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے کہ وہ احسان کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتا کہ جس پر وہ احسان کر رہا ہے اس نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے یا نہیں ( گواس پر تو احسان کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ کامل صفات والی ذات ہے اس کو کسی چیز کی کمی نہیں ) اس کے اندر استحقاق پایا جاتا ہے یا نہیں پایا جاتا اگر انسان کے اندر کوئی خامی اور کمزوری ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی اور ادا پسند آ جائے تو وہ کمزوری اور خامی دور ہو جاتی ہے ایسا شخص مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور بغیر کسی استحقاق کے اللہ تعالیٰ اس کو اتنی نعمتیں عطا کرتا ہے کہ وہ عاجز بندہ اس کی طرف جھکتا ہی چلا جاتا ہے اور اس کے راستہ میں فنا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلَيْهِ تَوَكَّلْنا تم یہ کہہ دو

Page 514

تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ۵۰۴ سورة الملك کہ ہم نے اپنے رحمان خدا پر ہی تو کل کیا ہے.ہمارا یہ دعویٰ کہ کامیاب اسلام نے ہی ہونا ہے کامیاب مسلمانوں نے ہی ہونا ہے ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلِلٍ مُّبِيْنٍ یہ سب کچھ رحمان خدا کی رحمت کے نتیجہ میں ہوگا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام غالب آئے اس لئے بہر حال یہ فیصلہ جاری ہوگا.اگر کسی نے بھروسہ کرنا ہے اور اس کے بغیر یہ زندگی گزر نہیں سکتی تو تمام عارضی اور ناقص اور بے وفا - سہاروں کی بجائے اللہ تعالیٰ پر اسے بھروسہ کرنا چاہیے جو رحمان ہے وہ اسے اتنی نعمتیں دے گا کہ ان کے مقابلہ میں اس نے کچھ بھی کیا نہیں ہوگا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۸۴) اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم اس صداقت پر پہنچتے ہیں (جسے قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے ) کہ اللہ تعالیٰ نے اس یو نیورس ، اس عالمین کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسان اس سے خدمت لے اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام طاقتیں بھی بخشی ہیں جن کی بدولت وہ اس کی مخلوق سے ہر قسم کی خدمت لینے کا اہل ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ہر چیز کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ انسان سے اثر قبول کرے اور اس کی خدمت بجالائے.چنانچہ تم جانوروں مثلاً کتے کو سکھاتے ہو اور اس سے اپنی خدمت لیتے ہو.پس انسان کو دوسروں کے سکھانے اور معلم بنے کی ایک ایسی طاقت دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف دوسرے انسان کو علم دیتا ہے اور سکھاتا ہے بلکہ کتوں کو بھی سکھا سکتا ہے.کتا اس کے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے مثلاً ایک سدھایا ہوا کتا جسے انگریزی میں گن ڈاگ“ کہتے ہیں.وہ شکاری کے ساتھ جاتا ہے تو شکار پر دانت نہیں مارتا بلکہ اسے اپنے نرم ہونٹوں سے پکڑ کر اپنے مالک کے پاس لے آتا ہے.ظاہر ہے انسان اُسے یہ علم سکھاتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں یہ رکھا ہے کہ وہ انسان سے اثر قبول کرے، اس سے علم سیکھے اور اس کے کہنے کے مطابق کام کرے.اسی طرح انسان بے جان مادی اشیاء سے بھی خدمت لیتا ہے.مثلاً انسان نے ہیرے سے اپنی خدمت لی.عورت نے اسے اپنی زینت بنا لیا.مرد نے اسے پٹرول کے کنوئیں کھودنے کے لئے استعمال کیا.بور کر نیوالی مشینوں کے آگے ہیرے لگے ہوتے ہیں.اس لحاظ سے ان کےسرے ڈائمنڈ ہیڈز“ کہلاتے ہیں.ورنہ یہ لو ہاتو پتھر نہیں کاٹ سکتا.

Page 515

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الملك بہر حال عورت نے اس سے اپنے رنگ میں خدمت لی اور مرد نے اپنے رنگ میں.اسی طرح ہزاروں خدمتیں ہیں جو انسان ہیرے اور دوسری مادی اشیاء سے لیتا ہے.اب مادی اشیاء سے ہزاروں خدمتیں لینے کی قوت اور طاقت انسان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے یعنی ایک طرف اس عالمین کو پیدا کیا جس سے اس دنیا میں انسان کی ہر ضرورت پوری ہوتی ہے.(البتہ وہ ضرورت پوری نہیں ہوتی جو انسان خود اپنی حماقت سے ضرورت سمجھ لیتا ہے ) اس سے وہ ضرورت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی یعنی کسی چیز کی احتیاج کے پورا ہونے کے سامان پیدا کئے تو دوسری طرف انسان کو قوت و طاقت اور عقل و تمیز بھی عطا فرمائی تا کہ وہ اس دنیا کی چیزوں سے کام لے.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۳۹۳، ۳۹۴)

Page 516

Page 517

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۰۷ سورة القلم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القلم آیت ۵ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ.قرآن کریم میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کہ ایک عظیم خلق پر ، اچھے اخلاق جس کی عظمتیں ہیں آپ قائم ہیں ( عربی کا لفظ عظیم جو ہے اس کے معنے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ) آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خُلقِ عظیم پر قائم کیا گیا ہے، اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی کہ ساری دنیا میں اس کے اثر نے پھیلنا اور نوع انسانی کو اس اثر نے اپنے احاطہ میں لینا ہے اور رفعتوں کے لحاظ سے ایسا کہ اس ”خُلق پر چلتے ہوئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کریم کے انتہائی قریب پہنچ گئے.ہر شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر اگر چلے گا تو انتہائی رفعت کو حاصل کر لے گا اپنے 66 دائرہ استعداد میں.اس قدر عظیم ہے یہ خلق خلق عظیم جسے کہا گیا ہے، یہ خلق جو ہے وہ بڑا عظیم ہے.دشمن ہوتے ہیں، بہت ہی کم لوگ ہوں گے دنیا میں جو لمبا عرصہ دشمن کے وار سہنے کے بعد اور وار بھی انتہائی، تیرہ سالہ زندگی میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے انتہائی مظالم ڈھائے آپ پر ، آپ کے متبعین پر ، ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ اڑھائی سال تک ہر ممکن کوشش کی کہ بھوکوں مر جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ منصوبہ بھی نا کام کیا، پھر جو غلام تھے ان کے، جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تو ان تیرہ سالوں میں جب تک کہ انہیں آزاد نہیں کیا اسلامی کوشش نے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے پیسے خرچ کئے ، اوروں نے بھی بڑی قربانیاں دیں ان لوگوں کے دکھوں کو دور کرنے کے

Page 518

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۰۸ سورة القلم لئے، اس سے زیادہ شدید گرمی جس کے نتیجہ میں میں آج خطبہ چھوٹا کر رہا ہوں، تپتی ریت پر ننگے جسموں کو لٹا کر کوڑے مارے گئے ان کو.یعنی جتنا انتہائی ظلم آپ سوچ سکتے ہیں اس سے آگے بے انتہا فاصلے طے کرتا ہوا اُن کا ظلم نکل گیا.اور جب تیرہ سالہ ظلم سہنے کے بعد آپ نے ہجرت کی تو پیچھا کیا اور تلوار کے زور سے آپ کو مٹانے کے منصوبے بنائے لمبا عرصہ یہ بھی ہے.بہر حال ان سب مظالم کو سہنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قوت اور عزت اور غلبہ کے نتیجہ میں (جو اس کی صفات ہیں ) ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ دس ہزار قدوسیوں کا ایک گروہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ پہنچا تو جو رو و سائے مکہ اس ظلم کے باپ تھے، ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی عزت کی خاطر اور اپنی عورتوں کی عزت کی خاطر تلوارمیان سے نکالتے اور بغیر لڑے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ جانتے تھے، ان کی اندر کی ، ان کے نفس کی آواز یہ تھی کہ جس قدر ظلم ہم نے ڈھائے ہیں اب حق ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ ہم سے جیسا بھی سلوک کریں، کریں لیکن سلوک کیا کیا ان سے؟ سلوک ان سے یہ کیا لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ :(يوسف:۹۳) تمہارے سارے گناہ ہم معاف کرتے ہیں، میں اور میرے ماننے والے اور دعا کرتا ہوں میں کہ اللہ تعالیٰ بھی معاف کر دے.(ابن ہشام غزوہ فتح مکہ) انسان جب معانی دے دے تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ بھی اس معافی کو قبول کر لے.قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر ہے اس کا.لیکن اس مقام کے اوپر خدا تعالیٰ نے جس درد کے ساتھ رؤوسائے مکہ کے لئے اور جو عرب کا ملک تھا اس کی اصلاح اور ان کے اسلام لانے کے لئے دعائیں کی تھیں اس دن اسی درد کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا بھی کی کہ اے خدا! ہم بھی معاف کرتے ہیں اور تو بھی معاف کر.اور خدا تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا.یہ خلق عظیم ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۱۵،۲۱۴) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کے معجزے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ عربی میں عظیم کے لفظ کے استعمال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کیلئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے وہ اپنی نوع میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے مثلاً یہاں مری میں چیل کے درخت بہت ہیں.کسی چیل کے درخت کے متعلق یہ کہنا کہ یہ چیل کا عظیم درخت ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس علاقے میں اتنا بڑا چیل کا درخت

Page 519

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۰۹ سورة القلم اور کوئی نہیں یعنی اپنی نوع میں جس کو سب سے زیادہ عظمت حاصل ہو وہ عظیم کہلاتا ہے.کسی کو محض عظمت کا حاصل ہو جانا اسے عظیم نہیں بنا دیتا بلکہ جس آدمی کو سب سے زیادہ عظمت حاصل ہو وہ عربی زبان کے لحاظ سے عظیم کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے (اور درحقیقت دنیا کو بتانے کیلئے ) فرمایا وَ إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِیم کہ اے رسول! تجھے خُلقِ عظیم کا ایسا عظیم الشان معجزہ دیا گیا ہے کہ تجھ سے پہلے کسی نبی کو اس رنگ میں اس عظمت و شان کا معجزہ عطا نہیں ہوا اس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کے دل تیری طرف مائل ہوں گے.لوگ تجھ سے تعلق محبت قائم کریں گے وہ تیرے طفیل اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کریں گے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۷۸۲) پھر ہم لوگ جو حقیقت محمدیہ کو پہچانتے ہیں جانتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام اخلاق فاضلہ کو اپنے وجود اور اسوہ میں جمع کرنے والے تھے جس کی جھلک ہمیں گزشتہ تمام انبیاء میں مختلف طور پر نظر آتی ہے.پس انبیائے ماسبق اور خدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے ان سب کے اندر ہمیں اخلاق فاضلہ کی جو جھلک نظر آتی ہے جو متفرق طور پر آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک بنی نوع انسان میں پھیلی ہوئی ہے وہ تمام اخلاق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع نظر آتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے یہ فرمایا: إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ پھر ہم جو اس علم پر علی وجہ البصیرت قائم کئے گئے ہیں کہ حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور ختم المرسلین ہیں.ہم یہ جانتے ہیں اور دنیا میں اس کی منادی کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجد داعظم ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ اظہار صداقت کے لئے آپ جیسا کوئی اور مجدد پیدا نہیں ہوا.سچائی کے اظہار کے لئے گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لانے کے لئے آپ ہی سب سے بڑے مجدد ہیں.روحانیت کے قیام کے لئے حقیقتا آپ ہی آدم ہیں کیونکہ آدم اول نے آپ ہی سے سچائی کو حاصل کیا اور آپ ہی کے طفیل اس سچائی اور صداقت کو وقت کے تقاضے اور پہلی نسل کی صلاحیت کے مطابق دنیا پر ظاہر کیا لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو مجد داعظم ہیں آپ کے طفیل تمام انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچے.پہلے کسی وجود میں یہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی.اس میں شک نہیں کہ انسان نے بعض پہلوؤں سے ترقی کی اور ایک حد تک کمال کو حاصل کیا لیکن یہ کہ ہر انسان اپنے تمام فضائل کو

Page 520

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۱۰ سورة القلم اپنے دائرہ استعداد کے اندر کمال تک پہنچانے کے قابل ہو سکے یہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا.آپ دنیا میں آئے اور اپنا کامل نمونہ دنیا میں پیش کیا اور ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دی جس کے نتیجہ میں انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچ سکنے کے قابل ہوئے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر بھی تقاضے رکھے ہیں یا انسانی وجود کی جس قدر بھی شاخیں ہیں ان تمام کے لئے یہ سامان پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ معلم اعظم بھی حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللَّهِ.b عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ۱۴) وہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوا ہے جو تم بحیثیت ایک بشر کے اپنے زور سے خود بخود حاصل نہیں کر سکتے تھے اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ آپ پر ہوا جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت جس کو ہم معارف الہیہ بھی کہتے ہیں اور اسرار اور علوم ربانی جو ہیں ان کے جاننے میں آپ اعلم تھے یعنی آپ سے زیادہ ان کا عرفان رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہوا اور جو زیادہ جانتا ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے وہی سب سے زیادہ سکھا بھی سکتا ہے اگر آپ علم کی سوا کائیاں فرض کریں تو جس شخص کو پچاس اکائی کا علم ہے وہ ساٹھ اکائی نہیں سکھا سکتا.و کی سوا کائی وہی سکھا سکتا ہے جو خود سوا کائی کا علم رکھتا ہو.پس عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ ط فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ۱۱۴) میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کے میدان میں ( علم روحانی لیکن علم جسمانی کے اصول بھی اسی علم روحانی کے نیچے آتے ہیں ) جتنا فضل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا اتنا کسی اور پر نہیں ہوا.جس قدر انسان کو علم روحانی کی ضرورت تھی وہ سب آپ کو سکھایا گیا اور آپ کے طفیل نوع انسانی اس قابل ہوئی کہ اگر وہ کوشش اور ہمت سے کام لے تو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنی علمی استعدادوں کو کمال تک پہنچاسکتی ہے.(خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۶۴ تا ۶۶)

Page 521

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۵۱۱ سورة الحاقة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحاقة آیت ۷ تا ۹ وَأَمَّا عَادٌ فَأَهْلِكُوا بِرِيْجٍ صَرُ صَرٍ عَاتِيَةٍ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ لا لا سَبْعَ لَيَالِ وَ ثَنِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلِ خَاوِيَةٍ أَ فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ.قرآن مجید اس خدا نے نازل فرمایا ہے جو شَدِيدُ الْعِقَابِ ہے.کہ جب وہ سزا دینے پر آتا ہے تو بہت سخت سزا دیتا ہے.اس عزیز و قہار کے قہر اور غضب اور لعنت اور سزا اور عذاب سے اگر بچنا چا ہو تو اس کا طریق بھی یہی کتاب تمہیں بتلائے گی.کبھی تمہارے دل میں پہلوں کی مثال بیان کر کے خوف اور خشیت پیدا کرے گی تا تم اس کی طرف جھکو اور اس کے رحم کو جذب کرو.سورۃ الحاقۃ میں مثلاً شَدِیدُ الْعِقَابِ کی قدرت کی ایک مثال بیان کی ہے تاکہ دلوں میں خوف پیدا ہو اور انسان خدا کی طرف پیٹھ کرنے اور اس سے پہلو تہی کرنے سے بچے.اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایا ہے کہ خمود کی قوم ایک ایسے عذاب سے ہلاک کی گئی تھی جو اپنی شدت میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَمَّا عَادُ لا لا فَأَهْلِكُوا بِرِيْجٍ صَرُصَرٍ عَاتِيَةٍ - سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَ ثَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلِ خَاوِيَةٍ - فَهَلْ تَرى لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ - ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عاد کی قوم پر جو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوا تھا اس کا مختصراً مگر بڑے ہی مؤثر طریق پر بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسا عذاب تھا جس میں ساری قوم کو تباہ کر دیا گیا.فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ

Page 522

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۱۲ سورة الحاقة باقية کیا ان کا کوئی نشان بھی تمہارے سامنے آتا ہے؟ وہ کلیتا صفحہ ہستی سے مٹادئے گئے.اس لئے کہ انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ رب جو ان کا پیدا کرنے والا تھا، جو اس قدر ان پر رحم کرنے والا تھا، جو اس قدر ان پر انعام کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں لیکن انہوں نے کفر اور ناشکری کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی بجائے شیطان کو اپنا دوست بنالیا تب ساری کی ساری قوم کو اللہ تعالیٰ نے صفحہ ہستی سے مٹادیا اور ان کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہ رہا.اس قسم کے واقعات کا ذکر کثرت سے قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اور ایک مقصد ان کا یہ ہے کہ تا ان واقعات کو سن کر ہمارے دل خوف سے لرز اٹھیں اور ہم یہ عہد کریں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم ہمارے سامنے رکھی ہے جس سے خدا راضی ہوتا ہے اور جس کو چھوڑ کر خدا کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے، ہم کبھی بھی اس تعلیم کو چھوڑیں گے نہیں بلکہ اس تعلیم کو اپنا ئیں گے.اس تعلیم کو اس طرح اپنے جسموں اور روحوں میں جذب کر لیں گے جس طرح خون ہمارے اندر بہہ رہا ہے.تا کہ خدا کا غضب کسی شکل میں بھی اور اس کی لعنت کسی صورت میں بھی ہمارے اوپر نازل نہ ہو.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۳۶، ۳۳۷)

Page 523

تفسیر حضرت غاليلة السبع الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۱۳ سورة المعارج بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المعارج آیت ۲۰ تا ۲۴ إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَدُوعًان إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزْوعًات وَ إِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا إِلَّا الْمُنَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دايمون اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بے شمار صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اور ہر وہ طاقت انسان کو دی گئی ہے جس سے وہ ہر دو جہان کی ہر چیز سے خدمت لے سکے لیکن خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت بھی دی ہے کہ جہاں وہ اپنی طاقتوں کا صحیح استعمال کر سکتا ہے وہاں غلط استعمال بھی کر سکے اور باوجود اس کے کہ اگر وہ چاہے تو غلط راہوں کو اختیار کر سکتا ہے وہ اپنے رب کی رضا کی خاطر غلط راہوں کو اختیار نہ کرے بلکہ صحیح راستوں پر چلے.صحیح راستے پر چلنا یہ ہے کہ جس غرض کے لئے کوئی طاقت دی گئی ہے اسی غرض کے لئے اسے خرچ کیا جائے.انسانی فطرت کی ہر صلاحیت خدا تعالیٰ نے انسان کی بھلائی کے لئے اسے دی ہے لیکن چونکہ اس نے خدا تعالیٰ سے بے انتہا نعمتوں کو حاصل کرنا تھا اور اپنے رب کریم کے انعامات پانے تھے اس لئے اسے ایک دائرہ کے اندر یہ اختیار دیا کہ وہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیار کرے اس پر کوئی جبر نہیں ہے کیونکہ ہماری عقل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو کام جبر کے نتیجہ میں کیا جائے اس پر کوئی انعام نہیں ملا کرتا.زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سزا سے بچ جاتا ہے مثلاً انسان کے علاوہ دنیا کی ہر چیز اور خود انسان کے جسم کے مختلف حصے بھی ہزاروں کام جبراً کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ جو حکم نازل کرتا ہے اس کے مطابق وہ کام کر رہے ہیں مگر

Page 524

تفسیر حضرت علیله اسح الثالث انسان کو ایک خاص دائرہ میں آزادی دی گئی ہے.۵۱۴ سورة المعارج اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسانی فطرت میں یہ جو چیز رکھی ہے کہ وہ چاہے تو نیکی کی راہ کو اختیار کرے اور چاہے تو نیکی کی راہ کو اختیار نہ کرے اور اسے جو آزادی دی ہے اس کی وجہ سے وہ هَلُوعٌ ہے.هَلُوع کے معنی عربی زبان میں یہ بھی ہیں کہ جن نیکیوں پر صبر کی ضرورت تھی اس نے ان پر صبر نہیں کیا اور یہ بھی ہیں کہ جن عطایا کے صحیح استعمال سے اس نے اپنے خدا سے خیر حاصل کرنی تھی خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ان صلاحیتوں اور اس کے عطا کردہ انعامات کو ایسے طریق پر خرچ نہیں کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کا انعام حاصل کر سکے.پس عربی زبان میں هَلُوع کے معنی صبر نہ کرنے والے کے بھی ہیں اور هَلُوع کے معنی یہ بھی ہیں کہ خدا کی طرف سے جو مال ملے اس کو جن بہت سی جگہوں پر دوسروں پر خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ نہ کرنے والا اور حریص.اس کے لئے عربی کا ایک لفظ شح ہے یعنی ایک خاص معنی میں بخل کی بیماری میں مبتلا ہونا.عربی زبان کا یہ لفظ هَلُوع مبالغے کے صیغے کے ساتھ فاعل ہے اور اس کے اندر یہ دونوں معنی پائے جاتے ہیں اور ان دونوں معنوں کو دو اگلی آیات نے کھول کر بیان کیا ہے.چنا نچہ فرمایا اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزْوعًا جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ان حالات میں اس پر صبر کرنالازم ہوتا ہے.خدا کے بندے، خدا سے پیار کرنے والے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر چیز قربان کر کے بھی صبر اور استقامت اور پختگی کے ساتھ اپنی وفا پر قائم رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دامن کو چھوڑتے نہیں لیکن بعض انسان ایسے ہیں جو فطرت کا غلط استعمال کرتے ہیں اور جہاں صبر کرنا چاہیے وہاں بے صبری سے کام لیتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کے اوقات میں خواہ وہ کسی قسم کا ہو بشاشت قائم رکھتے ہوئے صبر سے کام لینا چاہیے وہاں صبر کا نمونہ نہیں دکھاتے یا اپنے بھائیوں کے لئے مال خرچ کر کے ان کی خاطر تکلیف اٹھا کر انہیں سکھ پہنچانے کے لئے جو نیکیاں کرنی چاہئیں اس تکلیف کو وہ بھائی کی خاطر قبول نہیں کرتے اور اس پر صبر نہیں کرتے هَلُوع میں یہ معنی بھی آجاتے ہیں یعنی فطرت کے اندر نیکی کی جو صلاحیتیں ہیں ان سے وہ کام نہیں لیتے بلکہ ان کی طبیعتیں برائی کی طرف مائل ہوتی ہیں.إذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا جب ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو بے صبری سے کام لیتے ہیں اور بے صبرے

Page 525

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۱۵ سورة المعارج ہو جاتے ہیں.وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا جب کوئی بھلائی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچتی ہے، ان کے اموال میں خدا تعالی برکت ڈالتا ہے، ان کی تجارتیں نفع مند ثابت ہوتی ہیں، ان کی کھیتیاں زیادہ پیداوار دینی شروع کر دیتی ہیں، ان کے باغات کو اچھا اور زیادہ پھل لگتا ہے، اس دنیا میں ہزاروں قسم کی چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی جاتی ہیں اس وقت انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرتا ہے.اور فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات :۲۰) کے مطابق یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اس میں صرف ہم ہی حصہ دار نہیں بلکہ ہمارے سارے بھائی اس میں برابر کے شریک اور حصہ دار ہیں لیکن وہ لوگ اپنی فطرت کی اس صلاحیت کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے حرص اور شخ سے کام لے کر اور بخل سے کام لے کر اپنے آپ کو نیکیوں سے محروم کر دیتے ہیں اس کی مثالیں آپ کو ہر جگہ مل جائیں گی لیکن اپنی بھیانک شکل میں.اس کی مثالیں ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مومن نہیں لیکن جو لوگ کمزور ایمان والے ہیں یا جو ابھی زیر تربیت ہیں ان میں بھی آپ کو نظر آتی ہیں.ذراسی تکلیف پہنچی اور شور مچادیا، جزع فزع شروع کر دی.کسی کی خاطر تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے یہ پہلو إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا میں بھی آجاتا ہے اور جب خدا تعالیٰ نے انہیں دیا تو ان برکات میں، ان نعمتوں میں، ان اموال میں، جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیئے اور سب کچھ دیا اور اسی نے دیا.اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اور شریک نہیں ہے، سارا ہم ہی سمیٹ کر رکھیں، ہمارے پاس جو کچھ آیا ہے اس میں کسی اور کا حصہ نہ ہو.قرآن کریم نے پہلوں کی بہت سی مثالیں دے کر بھی ہمیں سمجھایا ہے لیکن یہاں پر اصولی طور پر بحث کی گئی ہے، کوئی مثال نہیں دی گئی.بنیادی چیز جو یہاں ہمیں بتائی گئی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی کی طاقتیں دیں اور اس کو یہ اختیار بھی دیا کہ ان کو نیکی کی راہوں پر خرچ کرنے کی بجائے بدی کی راہوں پر خرچ کرے لیکن وہ طاقتیں دی اس لئے گئی تھیں کہ وہ نیکی کی راہوں کو اختیار کرے.انسان کو ان فطری صلاحیتوں کے علاوہ اس مجموعے کے علاوہ بنیادی طور پر ایک اور چیز بھی دی گئی تھی اور وہ چیز تھی دعا کرنے کی طاقت اور سمجھ.طاقتیں خواہ کتنی ہی اچھی اور کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں مثلاً کسی کا ذہن کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو

Page 526

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث 69 ۵۱۶ سورة المعارج جب تک یہ دوسری چیز یعنی دعا کی طاقت شامل نہ ہو اس کا ذہن صحیح نشو و نما حاصل نہیں کر سکتا.پس یہاں یہ فرمایا کہ انسان بنیادی طور پر نیکی کی ساری صلاحیتیں رکھتا ہے اور بنیادی طور پر وہ صاحب اختیار بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے اس میں بعض کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اس کو ہم بعض دفعہ تلون کے لفظ سے بیان کرتے ہیں اور میں نے ذرا تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ هَلُوع کے لفظ میں لغوی لحاظ سے دونوں معنی پائے جاتے ہیں کہ صبر کے وقت صبر نہ کرنا اور سخاوت کے وقت بخل سے کام لینا اور ان دونوں کو اگلی آیتوں میں کھول کر بیان کیا گیا ہے.اذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعا وہ بے صبری سے کام لیتا ہے اور هَلُوعٌ ہے.وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا وہ حریص بن جاتا ہے اور بخیل بن جاتا ہے اور اس طرح پر وہ هَلُوع ہے.ان آیتوں میں بھی بنیادی طور پر بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے اور ساری طاقتوں کو یہ دو لفظ اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں لیکن اس وقت اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.اصل بات یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہیں جو فطرتی طاقتیں دی گئی ہیں وہ خدا نے دی ہیں اور ان طاقتوں کے استعمال کے لئے ان طاقتوں کی نشوونما کے لئے، ان طاقتوں سے دنیا جہان کی نعمتیں اس زندگی میں بھی حاصل کرنے کے لئے اس نے ہر دو جہاں کی ہر چیز کو تمہارا خادم بنادیا ہے لیکن چونکہ تم صاحب اختیار بھی ہو چونکہ تمہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر تم اپنی بدقسمتی سے اپنے خدا سے پرے جانا چاہو تو جاسکتے ہو اس لئے ضروری تھا کہ تمہیں دعا کی طاقت بھی دی جاتی.چنانچہ فرما یا الا المُصَلِّينَ - پس دعا کے بغیر کوئی شخص اپنی فطری طاقتوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا اور ایک وقت کی دعا نہیں، ایک دن کی دعا نہیں، ایک مہینے یا ایک سال کی دعا نہیں بلکہ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِرُونَ.جو لوگ دائمی طور پر اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اس قدر عظیم صلاحیتوں کے باوجود جو ہمیں دی گئی ہیں اور اس کے با وجود کہ دنیا کی ہر چیز کو ہمارا خادم بنایا گیا ہے خدا سے خیر اور بھلائی نہیں پاسکتے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۴۷۵ تا ۴۷۹)

Page 527

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۱۷ سورة نوح بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة نوح آیت ۸ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَواثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَاران.وو قرآن کریم نے اس اصطلاح کی بجائے ایک اور اصطلاح استعمال کی ہے.قرآن کریم نے عید کی بجائے نُزُرًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کی آیت کریمہ میں نُزُل“ کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ جو غفور ہے غلطیوں کو معاف کر دیتا اور خطاؤں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور پھر وہ رحیم ہے وہ انسان کی بار بار کی محنت کو بار بار شرف قبولیت بخشا اور اس کے لئے خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے یعنی جو بار بار آنے کا مفہوم عید کے لفظ میں تھا نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (لحم السجدة : ۳۳) میں نُزُل کے لفظ سے اسی تخیل کو گویا ایک نہایت حسین پیرا یہ میں ادا کیا ہے.دوسرے عید کا لفظ یہ نہیں بتاتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہونے والی خوشی ہے.یہ ایک ایسی خوشی ہے جو بار بار آتی تھی.ایسی خوشی جو ابو جہل کے گھر میں ہر بچے کی پیدائش پر بار بار آئی اور دوسرے کفار کے ہاں بھی جن کے بہت بچے زیادہ بچے تھے ان کے گھروں میں ہر بچے کی پیدائش پر اُن کے لئے دنیوی خوشی کے سامان پیدا ہوئے وہ گویا ان کے لئے عید کا دن تھا لیکن وہ اُن کے لئے نُزُرًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ کا دن نہیں تھا.پھر ان دونوں قسم کی عیدوں میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا اِس کی رُو سے گویا ہماری عید استقامت کا نتیجہ ہے اور اس عید سعید کے مقابلہ میں جو چیز اس کی ضد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے غضب کے نزول کا دن اس

Page 528

۵۱۸ سورة نوح تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کے لئے بھی گو ایک تسلسل کا ہونا ضروری ہے لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں اسے استقامت نہیں کہتے بلکہ اصرار کہتے ہیں جیسے مثلاً سورۃ نوح میں فرمایا: وَاصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتَكْبَارًا یعنی ایسے لوگوں نے اپنے گناہوں اور کفر اور انکار اور نبی کو قبول نہ کرنے پر اور اس کی مخالفت کرنے پر بوجہ تکبر اصرار کیا یعنی وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور گناہ پر تسلسل تھا.وہ کہتے تھے کہ ہم نے گناہ نہیں چھوڑنا چنانچہ اس کے نتیجہ میں وہ عذاب یا جہنم کے مستوجب ٹھہرے.قرآن کریم نے عذاب کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے.اُس تنبیہ کے معنی میں بھی جو لوگوں کی اصلاح لئے عذاب کی شکل میں نازل ہوتا ہے اور اُس قہر کے معنوں میں بھی جو مرنے کے لئے جہنم کی شکل میں ملتا ہے.اس کو بھی عذاب جہنم کہتے ہیں.قرآن کریم نے بھی عذاب کو اس معنی میں استعمال کیا ہے.پس جہاں گناہوں پر اصرار ہو اللہ اپنا غضب بار بار نازل کرتا ہے.اس کے لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصرار کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ نوح میں فرماتا ہے وَ أَصَرُّوا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا اس کے برعکس اصرار کا لفظ نیکیوں کے تسلسل کے لئے قرآن کریم میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوا.خطبات ناصر جلد دہم صفحه ۵۴،۵۳)

Page 529

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۵۱۹ سورة الجن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الجن آیت ۱۴ وَانَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى أَمَنَّا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنُ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسَاوَلَا رَهَقان سورہ جن کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (جس گروہ کے لوگوں کا وہاں ذکر ہے انہوں نے واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے یہ کہا کہ ) ہم نے ایک کامل ہدایت اور شریعت کو نا اور ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں.ایمان کا لفظ عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے.اس حصہ آیت میں ایمان کے لفظ کا تعلق صرف زبان کے اقرار سے ہے.مفردات راغب میں ہے کہ:- الايمان يستعمل تارةً اسما للشريعة التى جاء به مُحَمَّدٌ عَلَيهِ الصَّلوة والسلام...ویو صف به کل من دخل فی شريعته مُقِرًّا بالله وبنبوته ایمان کا لفظ کبھی عربی زبان میں اقرار باللسان کے معنوں میں بھی آتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلامی محاورہ میں ، کیونکہ عربی زبان پر قرآن کریم کی زبان کا بڑا اثر ہوا ہے گو وہ پہلے بھی بڑی اچھی اور بہترین زبان تھی لیکن قرآن کریم کی وحی کی عربی نے عربی زبان پر بڑا اثر کیا ہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ جب ہم مصر میں ٹھہرے ہوئے تھے.گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ایک نوجوان ہم سفر ہر بات میں قرآن کریم کی آیات کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا استعمال کرتا تھا چنانچہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ یہ نوجوان قرآن کریم سے بڑی محبت رکھتا ہے اس لئے اسے قرآن کریم از بر ہے.خیر ہم باتیں کرتے رہے.کوئی گھنٹے دو گھنٹے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ عیسائی ہے.میں نے اُسے کہا کہ تم عیسائی ہومگر

Page 530

تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث ۵۲۰ سورة الجن قرآن کریم کی آیات کے فقرے کے فقرے استعمال کرتے ہو.وہ کہنے لگا.میں عیسائی تو ہوں لیکن قرآن کریم کی عربی سے ہم بچ نہیں سکتے.یہ ہمارے ذہنوں اور زبان پر بڑا اثر کرتی ہے.پس قرآن کریم کی عربی یا قرآن کریم کی اصطلاح میں امام راغب کے نزدیک ایمان کے کبھی یہ معنے ہوتے ہیں کہ زبان سے اس بات کا اقرار کیا جائے یعنی آدمی یہ کہے کہ میں شریعت محمدیہ کو قبول کرتا ہوں اور اُس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جسے قرآن کریم اور اسلام نے پیش کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زبان سے اقرار کرتا ہوں.ایسا آدمی مومن ہو جاتا ہے.اس آیت کے پہلے فقرے میں ایمان کا لفظ اسی معنے میں استعمال ہوا ہے کہ ہم نے اس شریعت اور ہدایت کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی ہے اس کو ٹنا اور اُس پر ایمان لے آئے.اس آیت کے دوسرے ٹکڑے میں ایمان کا لفظ ایک اور معنے میں استعمال ہوا ہے اور وہ اس معنے میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندے کی مدح کرتا ہے یعنی اس کی صفت بیان کرتا ہے اور کبھی اس کو اس بات پر جوش دلاتا ہے کہ تمہیں ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے اور اس معنے میں ایمان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زبان سے اقرار کرنا اور دل سے ( اپنے اقرار کے مطابق ) شریعت محمدیہ یعنی اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقتا وہی سمجھنا جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کا زبان سے اقرار کیا گیا ہے اور یہ دل سے سمجھنا یعنی یہ نہ ہو کہ زبان پر کچھ ہو اور دل میں کچھ اور ہو اور پھر بے عمل نہیں رہنا کیونکہ انسان کے سارے اعضاء پر اسلامی شریعت حاوی ہے.شریعت کے کسی حکم کا تعلق اس کی آنکھ سے ہے اور کسی کا تعلق اس کی زبان سے ہے جبکہ وہ بول رہی ہوتی ہے اور کسی حکم کا تعلق اس کی زبان سے ہے جبکہ وہ چکھ رہی ہوتی ہے مثلاً فرمایا سور نہیں کھانا یا فرمایا کہ خون نہیں کھانا.اب یہ اُس زبان سے تعلق نہیں رکھتا جو بول رہی ہوتی ہے بلکہ اس کا اُس زبان سے تعلق ہے جو چکھ رہی ہوتی ہے.کسی حکم کا تعلق انسان کے کان سے ہے اور کسی حکم کا تعلق اس کے دماغ سے ہے یعنی کسی کے متعلق برائی سوچینی بھی نہیں.یہ امر اس کے دماغ سے تعلق رکھتا ہے.دماغ بھی جسم کا ایک حصہ ہے.اسی طرح انسانی جسم کے مختلف حصوں مثلاً اس کی ٹانگوں پر، اس کے ہاتھوں پر یا اس کی انگلیوں پر شرعی احکام کا اطلاق ہوتا ہے.انگلیوں کے متعلق مثلاً یہ حکم ہے کہ کوئی چیز تولتے وقت انگلی کو تھوڑا ساخم دے کر کچھ واپس نہیں لے لیتا اور یہ حکم دکانداروں کے لئے ہے.کئی دکاندار ایسا گناہ بھی کر جاتے

Page 531

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۲۱ سورة الجن ہیں پھر انگلی کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک حکم یہ بھی ہے کہ کسی کے دل دُکھانے والی بات اپنی قلم سے نہیں لکھنی.پس شریعت محمدیہ کے سارے احکام کامل اور مکمل طور پر انسان کے تمام اجزاء اور اس کے اعمال پر حاوی ہیں.انسان کو یہ بتادیا گیا ہے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا.غرض انسان کے جو اعمال ہیں، جن کے بجالانے کی اللہ تعالیٰ نے اُسے طاقت دی ہے وہ بھی گواہی دیں کہ دل نے واقعی تصدیق کی ہے اور زبان نے جو اقرار کیا ہے وہ منافقانہ اقرار نہیں ہے.وہ احمقانہ اقرار نہیں ہے.وہ مصلحت بینی کے نتیجہ میں اقرار نہیں ہے بلکہ انسان نے ایک حقیقت کو دیکھا، پر کھا، سچا پایا اور اس کا اقرار کیا اور دل نے اس کی تصدیق کی اور پھر انسان سر سے لے کر پاؤں تک اُس پر قربان ہو گیا.یہ ایمان ہے.اس آیت کے دوسرے حصے میں اسی معنے میں ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے مثلاً یہ ایمان ہے کہ روزے رکھو.روزوں کا مہینہ اب ختم ہورہا ہے لوگوں نے روزے رکھے، سوائے بیمار اور معذوروں کے جولوگ بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے محسوس تو وہ بھی کرتے ہیں دُکھ وہ بھی اُٹھاتے ہیں.جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ بھوک کا دُکھ اُٹھاتے ہیں اور جو روزہ نہیں رکھتے بوجہ معذوری، وہ روزہ نہ رکھنے کا جو طبیعت میں ایک دُکھ پیدا ہوتا ہے، وہ اُسے برداشت کر رہے ہوتے ہیں.غرض دونوں تکلیف میں سے گذر رہے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہ جس نے روزہ نہیں رکھا ( در آنحالیکہ وہ مومن ہے اور اس کی نیت بھی ہے ) اُس نے روزے کا جسمانی اور ظاہری دُکھ نہیں اُٹھایا.ایک ظاہری تکلیف تو ہے جو روزے دار خدا کی خاطر اٹھاتے ہیں لیکن جو بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا شاید اُس نے زیادہ دُکھ اُٹھایا اور اگر زیادہ اُٹھایا تو شاید وہ ثواب کا بھی زیادہ مستحق ہو گیا.واللہ اعلم.اللہ تعالیٰ ثواب دیتا ہے ہم تو اس کے او پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے.پس فرمایا کہ جو شخص دوسرے حصہ آیت میں بیان کردہ ایمان کے مطابق اپنے رب پر ایمان لا یا اور رب پر ایمان لانے کے مفہوم کے اندر حقیقت شریعت محمدیہ پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ایمان اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان آ جاتا ہے کیونکہ رب کے معنے ہیں پیدا کر کے درجہ بدرجہ اور تدریجاً ترقی دینے والا یعنی وہ ہستی جو نشو و نما دے کر انسان کو

Page 532

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ترقی کے مدارج طے کرواتی ہے.۵۲۲ سورة الجن جیسا کہ بڑی وضاحت اور تشریح کے ساتھ دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ انسان کو روحانی طور پر ترقیات کی منازل میں سے گزار کر آدم، پھر نوح ، پھر موسی اور پھر سینکڑوں اور جو شارع نبی ہوئے ہیں علیہم السلام.اُن کے زمانے میں انسان کی روحانیت درجہ بدرجہ ترقی کر رہی تھی.بالآخر اللہ تعالیٰ انسان کو اس ترقی کے مقام پر لے آیا کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کا حامل بن سکتا تھا.ربوبیت کے معنی میں یہ بات آتی ہے کہ اگر انسان ترقی کرے ( اور عقل اور تاریخ کہتی ہے کہ انسانیت نے ترقی کی ) اور کسی ایک منزل پر جا کر آگے راہنمائی کے لئے اگر کوئی ٹور آسمان سے نازل نہ ہو، کوئی نئی شریعت نہ آئے کہ اس کے نئے تقاضوں کو اور بڑھی ہوئی طاقتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو تو گویا اس کو رب پر ایمان نہیں ہے.وہ تو سمجھے گا کہ رب ہے ہی نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا.غرض رب پر ایمان در اصل وہی ہے جس کا اَلحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ میں ذکر کیا گیا ہے کہ ساری تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے اور اسی سے ہر تعریف کا منبع پھوٹتا ہے.انسان کی جب درست تعریف ہو تو اُسے سمجھنا چاہیے کہ اسے حمد کا جو مقام ملا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص مغضوب اور ملعون اور دھتکارا ہوا ہو تو دُنیا کی طاقتیں اُسے حقیقی عزت نہیں پہنچاسکتیں یہ تو ایک دھوکا ہے، سراب ہے.کئی لوگ بہک جاتے ہیں کئی بچ جاتے ہیں لیکن بہر حال حقیقی عزت اور تعریف کا استحقاق خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار اور رحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے ور نہ حمد کا اور تعریف کا استحقاق پیدا ہی نہیں ہوتا.سب دھوکا اور سراب ہے.اس لئے فرمایا کہ جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے.فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَ لَا رَهَقًا اس کو نہ بخس کا کوئی خوف رہتا ہے اور نہ رھق کا کوئی خوف رہتا ہے.بخس کے معنے ہیں ظلم کر کے کسی کو نقصان پہنچانا مگر جو شخص مومن ہوتا ہے اس کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور جس طرح دوسرے مذاہب کا عقیدہ ہے کہ ایک دفعہ جنت میں لے جائے جانے کے بعد پھر جنت سے نکال دیا جائے گا.شریعت محمدیہ پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں وہ جنت نہیں ملتی جس سے انسان نکالا جاتا اور دھتکار دیا جاتا ہے اور اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھر از سر نو کوشش کرو اگر تم مستحق ٹھہرے تو تمہیں جنت مل جائے گی.

Page 533

۵۲۳ سورة الجن تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث پس اگر عارضی جنت کا عقیدہ درست ہو تو پھر یہ بخا ہے.انسانی فطرت یہ کہتی ہے کہ اُس پر ظلم ہو گیا کیونکہ انسان کی طاقتیں محدود تھیں اور اُسے محدود زمانہ دیا گیا اگر تو غیر محدود زمانہ دیا جا تا تو پھر غیر محدود عمل ممکن ہوتے اور غیر محدود جنت ہو جاتی اور آپس میں CLASH ( کلیش ) ہو جاتا کیونکہ دو غیر محدود تھے.انہوں نے ایک دوسرے سے سر ٹکر ا دینے تھے.جو عقلاً درست نہیں ہے مضمون دقیق ہے مگر جو سمجھنے والے ہیں وہ سمجھ جائیں گے دو غیر محدود ایک دوسرے کا نتیجہ نہیں ہو سکتے کیونکہ نتیجہ انتہاء ہوتا ہے.غیر محدود ابتلاء اور امتحان کا زمانہ اور غیر محدود جزاء اور جنت.یہ بات عقل میں نہیں آتی.پس اگر غیر محدود جنتیں ہیں جن کی انتہاء کوئی نہیں تو عمل محدود ہی ہونے تھے اور جنت غیر محدود ہو گی ، رحمت الہی غیر محدود ہو گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) خدا تعالیٰ کی رحمت کے مقابلے میں زمانہ کیا چیز ہے.یہ تو اس کی ایک پیداوار ہے لیکن اس کی رحمت کی موجیں تو اس کی ہر پیداوار کے اوپر سے گذر رہی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز اور ہر مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے.لیکن ہماری فطرت اور ہماری شریعت ہر دو ہمیں یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے اوپر حاوی ہے.اس واسطے کہ اگر ہماری فطرت یہ نہ کہتی تو محدود عمل کی غیر محدود جزاء کی توقع اور اُمید ہم کیسے رکھتے.خدا تعالیٰ نے ہماری فطرت کے اندر یہ ڈالا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے تمہیں تھوڑی عمر دی گئی ہے، تمہیں تھوڑے وسائل دیئے گئے ہیں لیکن تمہیں ایک بشارت دے دیتے ہیں کہ اگر تم اپنی اس تھوڑی زندگی میں، اس چھوٹی زندگی میں ، خلوص نیت کے ساتھ اور کامل توحید پر قائم ہوکر اور شرک کے ہر پہلو سے بچتے ہوئے محدود عمل کرو گے تو تمہیں غیر محدود جزا مل جائے گی.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بھی یہی رکھا ہے اور شریعت سے بھی یہی کہلوایا ہے.پس یہ اسلامی شریعت ایسی شریعت ہے کہ جو آدمی اس پر ایمان لاتا ہے اُسے یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ اس پر ظلم ہوگا اور وہ گھاٹے اور نقصان میں رہے گا.قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم نے ظلم کے متعلق تو یہ اعلان کر دیا: وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (ق:۳۰) اور اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا.تو اس سے انسان کی تسلی ہو

Page 534

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۲۴ سورة الجن فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الظَّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كَفَرَانَ لِسَعِيهِ وَإِنَّا لَهُ كَذِبُونَ (الانبياء : ٤) کہ جو ایمان لائے گا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور عمل صالح بجالائے گا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تو فَلَا كُفْرَانَ لِسَعيه اس کی کوشش اور اس کے عمل بوجہ انسان ہونے کے اگر ناقص رہ جائیں گے تب بھی رد نہیں کئے جائیں گے.فَلا کُفَرانَ لِسَعیہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری سعی قابل قبول ہوگی رو نہیں کی جائے گی بلکہ فرمایا کہ جو شخص اعمال صالحہ بجالائے گا اور وہ مومن ہو گا اور ایمان کے جُملہ تقاضوں کو پورا کرے گا تو فَلَا كَفَرَانَ لِسَعیہ اس کو ہم یہ تسلی دیتے ہیں کہ بشری کمزوری کے نتیجہ میں اگر اس کے اعمال میں کوئی کمی اور نقص رہ جائے گا تب بھی اس کے اعمال رڈ نہیں کئے جائیں گے.وہ قبول کر لئے جائیں گے.اب یہ کتنا بڑا وعدہ ہے جو فَلا يَخَافُ بَخْس میں انسان کو دیا گیا ہے.پھر فرمایا : وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنٰی (الکھف : ۸۹) یعنی جو ایمان لایا اور مناسب حال اعمال بجالا یا اُسے بہترین جزا دی جائے گی.کسی جگہ فرما یا عَشْرُ أَمْثَالِهَا دس گناہ زیادہ دی جائے گی.اس طرح پھر ظلم کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہتا.رحمت ہی رحمت ہے.زیادہ سے زیادہ ہی ہے.انسان کا تھوڑا سا عمل ہوتا ہے اور اُسے بہت بڑی جزا مل جاتی ہے.پس لا يَخَافُ بخسا کی رو سے بہترین جزا ملے گی.عمل رد نہیں کئے جائیں گے ذرا ظلم نہیں کیا جائے گا.اسلامی شریعت پر ایمان لانے کے نتیجہ میں جو آدمی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، نہ اس کو نقصان کا کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ظلم کا کوئی خطرہ ہوتا ہے بلکہ ایک نیک عمل کے بدلے میں دس، ایک کے بدلے میں شاید دوسو، ایک کے بدلے میں شاید دو ہزار ، ایک کے بدلے میں شاید دو کروڑ یا دوارب گنا زیادہ بلکہ شاید ان گنت جزا ملے گی کیونکہ اگر جزا ان گنت نہ ہوگی تو جنتیں ہمیشہ کے لئے کیسے بن جائیں گی.تو فرمایا لا يَخَافُ بَخْصًا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لایا اور قرآن کریم نے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کو پیش کیا ہے اس رنگ میں اس کی ہستی پر اور اس کی صفات پر ایمان لایا اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا اور جس نے محبت اور عشق میں ایک نئی زندگی حاصل کر کے خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ کیا اور اگر بشری کمزوریوں

Page 535

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۲۵ سورة الجن کے نتیجہ میں وہ عمل ناقص تھا تب بھی ناقص جزا نہیں ہے.اس کے مقابلے میں بھی اتنی بڑی جزا ہے کہ وہ ہمارے ذہن میں سمانہیں سکتی.پھر فرما یا ولا رَهَقًا اس کو رھی کا بھی خوف نہیں ہوگا.( میں نے آج منجد دیکھی تھی.اس میں ) رهَق کے چار معنے بتائے گئے ہیں اور وہ چاروں معنے تفسیری لحاظ سے یہاں لگتے ہیں.رهَق کے ایک معنے الافم یعنی گناہ کے ہیں.اگر شریعت کامل نہ ہو.وہ بعض حصوں کو لے اور بعض حصوں کو نہ لے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض حصوں کے متعلق ہدایت دے اور بعض حصوں کو b انسان پر چھوڑ دے تب بھی گناہ کا خطرہ رہتا ہے کہ جو اس نے فیصلہ کیا ہے وہ درست نہیں ہے.مگر یہاں فرمایا کہ شریعت محمدیہ پر ایمان لانے والے کو (اگر وہ اس پر کار بند ہوتا ہے ) اثم کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اس لئے کہ یہ شریعت کامل اور مکمل ہے.اس لئے کہ یہ شریعت خیر محض ہے.قرآن کریم کے ایک لفظ خیرا میں شریعت محمدیہ کی حقیقت بیان کی گئی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے مَا ذَا انْزَلَ رَبَّكُمْ ، قَالُوا خَيْرًا (النحل : ۳۱) شریعت محمد یہ بھلائی ہی بھلائی ہے اس واسطے اثم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر انسان کی فطرت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور انسانی فطرت کو نیک اور بد میں تمیز کرنے کی توفیق بھی اُسی نے عطا فرمائی ہے.انسانی فطرت ( اور اس سے میری مراد وہ فطرت ہے جو مسخ نہ ہو چکی ہو ) کسی چیز کو بد قرار نہیں دے گی جسے شریعت محمدیہ نے بد قرار نہ دیا ہو اور انسانی فطرت کسی چیز کو نیکی اور بھلائی اور ثواب کا موجب قرار نہیں دے گی کہ جس کا حکم شریعت محمدیہ میں نہ ہو کیونکہ خود قرآن کریم فرماتا ہے فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ( الزوم : ۳۱) خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیدا کیا ہے یہ اس کا عمل ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک کامل شریعت کے رنگ میں اپنی وحی کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے اور یہ اس کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں تضاد نہیں ہوا کرتا.پس فطرت جن چیزوں کو نیکی کی باتیں قرار دیتی ہے، انہیں باتوں کا قرآن کریم حکم دیتا ہے.اس واسطے اثم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں فطرت کا وحی کے ساتھ تصادم نہ ہو جائے.اس قسم کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ جس خدا نے فطرت کو پیدا کیا ہے اُسی نے وحی کو نازل فرمایا ہے اسی واسطے مومنوں کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ

Page 536

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث الْمُنْكَرِ (ال عمران : ۱۰۵) ۵۲۶ سورة الجن رهَق کے دوسرے معنے خِفّةُ الْعَقْلِ کے ہیں جس کا مطلب یہ ہے ان کو کم عقلی کا کوئی خوف نہیں ہوگا.یعنی قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ گے تو علاوہ اور بہت سے روحانی فوائد کے تمہیں ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تمہاری عقلوں کو جلا ملے گی نیر الهام کے بغیر عقل کو جلا نہیں مل سکتی اور پھر الہام اور وحی بھی وہ جو کامل شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل وجود پر نازل ہوئی اور جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے.غرض فَلَا يَخَافُ رَهَقًا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کو کم عقلی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اگر وہ قرآن کریم پر غور کرے گا، فکر کرے گا اور تدبر کرے گا (جس کی طرف قرآن کریم میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے ) تو اس کی عقل اس نہج پر نشو نما پائے گی کہ دنیوی میدان میں بھی ، دُنیا کے مسائل میں بھی اگر انسان فکر اور تدبر کرے گا تو صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے گا.ویسے یہ عقل جو ہے اس کا تو یہ حال ہے کہ بڑے بڑے عقلمند کہلانے والے سوچتے اور غور تو کرتے ہیں مگر بسا اوقات غلط نتائج پر پہنچ جاتے ہیں بڑے بڑے چوٹی کے ماہرین آج ایک بات کہتے ہیں اور دس سال کے بعد ان سے بھی بڑا عقل کا ایک اور دعویدار کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بالکل بیوقوفی کی بات کر گئے ہیں اور یہ بات ہر سائنس میں ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے لیکن قرآن کریم کے اصول پر جس عقل کو جس دماغ کو سوچنے اور قرآن کریم کی بتائی ہوئی نہج پر غور کرنے کی عادت پڑ جائے اس کے لئے دُنیا میں بھی ٹھوکر کھانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ویسے انسان انسان ہے وہ ٹھو کر تو کھائے گا لیکن دوسروں کی نسبت خطرہ کم ہو جائے گا.بہر حال قرآن کریم کی شریعت عقل کو جلا دینے والی ہے.اگر کسی نے ٹھوکر کھائی ہے تو اس کا ذمہ وار وہ خود ہے قرآن کریم ذمہ وار نہیں ہے.اس نے خود کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے طریق کو چھوڑا اور اس کے نتیجہ میں ٹھوکر کھائی ہے.رهَق کے تیسرے معنے جہالت اور کم علمی کے ہیں.لا يَخَافُ رَهَقًا میں قرآن کریم کے متعلق یہ اعلان ہو گیا کہ یہ علم کا نہ ختم ہونے والا سمندر ہے اور جب یہ انسان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے تو پھر اس کو

Page 537

۵۲۷ سورة الجن تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث جہالت اور کم علمی کا خوف کیسے ہوگا.ہر زمانہ اور ہر ملک کو اس طرف توجہ دلائی کہ زمان و مکاں کے بدلے ہوئے اور مختلف حالات میں یہ قرآن عظیم تمہاری کامل رہبری کے لئے کافی ہے آب و ہوا کے لحاظ سے غذا میں مختلف ہو گئیں.پھر مختلف غذاؤں کے نتیجہ میں انسان پر ان کے اثرات مختلف ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں بعض جگہ بعض اخلاق کی نگرانی کی زیادہ ضرورت پڑ گئی اور بعض اخلاق کی طرف ( بعض دوسرے اخلاق کی نسبت زیادہ توجہ دے کر ان کی نشوونما کی ضرورت پڑ گئی اور اس طرح ملک ملک میں فرق آ جائے گا پھر زمانہ ہے، وہ تو واضح ہے کہ جو آج کے مسائل ہیں وہ سو سال پہلے کے مسائل نہیں اور جو آج کے مسائل ہیں وہ ہزار سال بعد کے مسائل نہیں ہوں گے.پس وَلَا رَهَقًا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خواہ تم کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہو یا کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوئے ہو قرآن کریم کی شریعت پر عمل کر کے کم علمی کے نتیجہ میں تمہیں نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قرآن کریم تو تمہارے سامنے علم کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.تم مطہر بنو قرآن کریم کے علمی خزانوں کی چابیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی جائیں گی پھر تم اس سے فائدہ اُٹھانا.تمہیں جہالت کا کوئی خوف نہیں ہوگا.....پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَا دَهَقًا اپنے رب پر ایمان لانے والا اور ایمانی تقاضوں کو پورا کر کے اپنی زندگی کو اسوہ محمدی میں ڈھالنے والا اور شریعت محمدیہ پر عمل کرنے والا انسان وَلَا دَهَقًا کا مصداق ہے.اُسے کسی جہالت یا سفاہت یا حماقت کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ روشنی کا ایک میناراس کے پاس لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے.نور کے ایک سرچشمے سے اس کا تعلق قائم کر دیا گیا ہے.جس شخص کا تعلق حقیقی طور پر اور سچے معنوں میں نور کے سرچشمے سے قائم کر دیا جاتا ہے، اس کو اندھیرے سے کیا خوف ہوسکتا ہے.رهَقًا کے چوتھے معنے یہ ہیں کہ اسلامی شریعت اتنی حسین ہے کہ تم کسی حالت میں بھی کیوں نہ ہو، وہ تمہارے لئے تکلیف مالا يطاق پیدا نہیں کرتی کیونکہ رھی کے چوتھے معنے منجد میں یہ لکھے ہیں حمل الْمَرْءِ عَلى مَالَا يُطِيقُه یعنی کسی شخص پر ایسا بوجھ ڈالنا کہ جسے وہ برداشت نہ کر سکے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں ہر انسان مخاطب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے انسان کو بھی مخاطب کیا ہے.ہمیں بھی مخاطب کیا ہے

Page 538

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۲۸ سورة الجن اور ہم سے ایک ہزار سال بعد اگر دنیا ر ہی تو اس وقت کے انسان کو بھی قرآن کریم مخاطب کر کے یہی کہے گا.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: (۲۸) کہ تمہاری وسعت کے مطابق تم پر بار ڈالا جائے گا اس میں کسی فلسفے کی ضرورت نہیں ہے.شریعت میں اتنی لچک ضرور ہونی چاہیے کہ ہر فرد کی طاقت کے مطابق اس کی ہدایتیں بدلتی چلی جائیں.قرآن کریم کے بہت سے احکام میں سے مثلاً روزہ کو لے لو.ایک صحت مند بچہ ہے اور نظر آ رہا ہے کہ وہ پہلوان بننے والا ہے لیکن دس سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ روزہ نہیں رکھنا کیونکہ ابھی تم میں روزے کی طاقت پیدا نہیں ہوئی.اب امریکہ میں جو نئے تجربے کئے گئے ہیں واللہ اعلم کب تک ان کو صحیح سمجھا جائے گا.ان تجربات کی رُو سے اٹھارہ سال کی عمر تک انسان کھانے کے اعتبار سے بچہ متصور ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے غذا کا ایک فارمولا بنایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک کا بچہ ( کھانے کے لحاظ سے وہ بچہ ہے ) جس وقت جس چیز کی جتنی مقدار میں خواہش کرے وہ اسے ملنی چاہیے.تب اس کی (جسمانی) صحیح نشوو نما ہو سکتی ہے اسی واسطے اٹھارہ سال کی عمر سے کم کے بچوں کو عادت ڈالنے کے لئے تو کچھ روزے رکھوانے چاہئیں لیکن ایک مہینہ کے لگا تار روزے نہیں رکھوانے چاہئیں کیونکہ رمضان کے لئے وہ عمر بلوغت نہیں ہے رمضان کا تعلق انسان کی روح سے بھی ہے مثلاً تنویر قلب ہوتی ہے.رُوح میں روشنی اور بشاشت پیدا ہوتی ہے.انسان پر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے تو وہ روحانی طور پر ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے.....بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَخَافُ رَهَقًا کہ اے انسان! خواہ تیری صحت کیسی ہو! خواہ تیری عمر کتنی ہو! خواہ تیر اما حول کیا ہو! تیری طاقت کے خلاف یا تیری طاقت سے بڑھ کر بوجھ تمہارے اوپر نہیں ڈالا جائے گا.پھر مثلاً نماز ہے.بڑا زور دیا ہے کہ مسجد میں آ کر نماز پڑھو لیکن یہ نہیں کہا کہ ہر فرد کے لئے مسجد میں آکر نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ وہ کافر ہو جائے گا.یہ اسلام میں نہیں ہے.اسلام نے کہا ہے کہ جو آدمی بیمار ہے وہ اپنے گھر پر نماز پڑھ لے.نماز کی ایک ظاہری شکل بنائی ہے مثلاً ہم کھڑے ہوتے ہیں پھر رکوع کرتے ہیں پھر کھڑے ہوتے ہیں.پھر سجدہ میں جاتے ہیں.پھر دوسجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں.پھر ہم التحیات یعنی قعدہ میں بیٹھتے ہیں لیکن ایک بیمار شخص ان ساری اشکال کے مطابق یا

Page 539

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۲۹ سورة الجن بعض شکلوں کے مطابق نماز نہیں پڑھ سکتا.اس کو کہا کہ لا تَخَفْ رَهَقًا کہ تجھ پر ایسا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جو تیری طاقت سے بالا ہو.چنانچہ بیمار، معذور یا مجبور ہونے کی صورت میں ایک کو کہا کہ تُو بیٹھ کر نماز پڑھ لے، دوسرے کو کہا کہ تو لیٹ کر نماز پڑھ لے، تیسرے کو کہا کہ تو اشاروں سے نماز پڑھ لے.چوتھے سے کہا کہ تو ہتھیار باندھ کر نماز پڑھ اور اپنا کام کرتا جا.غرض اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اتنا خیال رکھا ہے کہ اگر سوچیں تو ہم خود اتنا خیال نہ رکھ سکتے.لا يَخَافُ رَهَقًا کے اعلان کے بعد کسی کو یہ خوف نہیں ہو گا کہ وہ کسی وقت ایسی منزل میں ہوگا یا ایسی حالت میں ہوگا کہ اسلام کے کسی حکم کی پابندی نہ کر سکے تو گناہ گار بن جائے گا.اس شکل میں تو پابندی نہیں کرے گا لیکن گناہگار نہیں بنے گا.مثلاً جو آدمی بے ہوش ہے اور بعض دفعہ چار چار دن تک آدمی بے ہوش رہتا ہے کیا ایسا شخص نمازیں چھوڑ کر گناہگار بن گیا ؟ نہیں لا يَخَافُ رَهَقًا کی رو سے جو اس کی طاقت نہیں ہے اس سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر اپنی غلطی کی وجہ سے بھی تم بیدار نہ رہو اور شکر ان کی حالت میں ہو تب بھی نماز پڑھنے کے لئے انتظار کرو.وہ دوسرا جرم ہے لیکن نماز کو جان بوجھ کر چھوڑ دینا یہ بہت بڑا جرم ہے مگر اس کا بھی خیال رکھا.ماں نے کیا خیال رکھنا ہے اور باپ نے کیا توجہ دینی ہے اور دوست نے اخوت کا کیا مظاہرہ کرنا ہے.تمہارے رب نے تو کہیں زیادہ ہم سے پیار کیا اور پیار کی شکلیں بنادیں پس بد بخت ہے وہ آدمی جو اپنے خدا کو چھوڑتا ہے اور ایمان بالرب نہیں لاتا.پھر تو اس کو بخس کا بھی ڈر ہے اس پر ظلم بھی ہوں گے اور اسے نقصان بھی پہنچیں گے اور ان کا کوئی مداوا نہیں ہو گا.اپنے رب کو چھوڑ کر وہ کہاں جائے گا اور پھر یہ بھی ہوگا کہ گناہ کرے گا کیونکہ اپنی طرف سے جو شرعی حکم بنائے گا اور سمجھے گا کہ شریعت اسلامیہ حقہ نے جو احکام ( اوامر و نواہی ) دیئے، اس سے زیادہ مجھے چاہیے وہ بھی گناہگار بن جاتا ہے.تکمیل شریعت میں اسی طرف اشارہ ہے.( خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۴۹۳ تا ۵۰۸) آیت ۲۰،۱۹ وَ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ اَحَدَاكُ وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدان مسجد اللہ کا گھر ہے قرآن کریم نے دُنیا میں یہ اعلان کیا ہے.آنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ کہ دُنیا میں کوئی انسان

Page 540

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۳۰ سورة الجن مسجد کی ملکیت کا دعویدار بن ہی نہیں سکتا.مسجد کا مالک اللہ ہے.فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا اور ہر موحد خواہ وہ عیسائی ہو جو بھی خدا کے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہے اور اس کی عبادت کرنا چاہے اُس کے لئے خدا کی مسجد کے دروازے کھلے ہیں.عیسائیوں کے بہت سے فرقے تثلیث کے قائل ہیں مثلاً ( یونیٹیرین ) Unitarian ہیں وہ مسیح کو خدا کا رسول مانتے ہیں خدا نہیں مانتے.وہ خدا کے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہیں.پہلے تو وہ ایک فرقہ تھا اب اُن کے کئی فرقے ہو گئے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عیسائیوں کا ایک (یونیٹیرین )Unitarian وفد آپ سے ملنے کے لئے آیا گفتگو کے دوران وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے ہماری عبادت کا وقت ہو گیا ہے.اجازت دیں ہم باہر کسی باغ میں جا کر اپنی عبادت کر لیں.آپ نے فرمایا تم باہر کیوں جاتے ہو.یہ میری مسجد ہے یہ خدا کا گھر ہے اس میں تم اپنی عبادت کرو.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد جسے ہم مسجد نبوی کہتے ہیں اور جو مدینہ میں ہے اس سے زیادہ تو کوئی اور مسجد مقدس نہیں.وہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس مسجد کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں کیونکہ تم اپنے خدا کی پرستش کرنا چاہتے ہو.تاہم ساتھ یہ شرط لگادی کہ بد نیتی سے شرارت کرنے کی غرض سے کوئی وہاں داخل نہ ہو.اس کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن امن کے ساتھ اور خشیت کے ساتھ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے کوئی آئے تو وہ وہاں عبادت کرے.میں نے یہ اعلان پہلی بار ۱۹۶۷ء میں کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا اور اسی دن جمعہ کی نماز میں مجھے بتایا گیا کہ تین سو غیر مسلم نماز میں شامل ہو گئے کیونکہ انَّ الْمَسْجِدَ لِله کا اعلان بہت ہی مؤثر اعلان ہے اور چونکہ اُن کو پتہ نہیں تھا اس لئے گو انہوں نے رکوع ہمارے ساتھ مل کر کیا سجدہ میں گئے قعدہ میں بیٹھے لیکن ادھر اُدھر دیکھ لیتے تھے کیونکہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ رکوع کس طرح کرنا ہے اور سجدہ کس طرح کرنا ہے؟ چنانچہ اس وقت تک دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم ہماری اس مسجد میں ہمارے ساتھ مل کر خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کر چکے ہیں.مسجد کو دیکھنے کے لئے جو سیاح آتے ہیں اگر نماز کا وقت ہو تو بیچ میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی ہماری نماز میں

Page 541

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۱ سورة الجن شامل ہو جاتے ہیں، سارے نہیں ہوتے کوئی شامل ہوتا ہے کوئی نہیں ہوتا بہر حال مسجد تو سارے لوگ (خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۳۲، ۵۳۳) دیکھتے ہیں.پس ہم مسجد میں خدا کی رضا کے حصول کے لئے بناتے ہیں ہم نے کہیں بھی اپنی شان کے لئے مسجد نہیں بنائی.خدا کا گھر بنانا ہے اور خدا کے گھر بنانے میں ہماری رضا یہ ہے کہ وہ آبادر ہے اور خدا ہمیں ، ہماری نسلوں کو، ہمارے ہمسایوں کو اور ان ملکوں کو جن میں مساجد بنائی جا رہی ہیں یہ تو فیق عطا کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ان گھروں کو ، ان مساجد کو آباد رکھیں.سویڈن میں ایک وقت میں یہ بھی ہوا تھا کہ احمدی تھوڑے ہیں ان کو مسجد کے لئے زمین نہ دی جائے بلکہ جو لوگ زیادہ ہیں ان کو مسجد کے لئے زمین دی جائے.وہاں ایک شخص نے مجھے بتایا اس کی تفصیل کا مجھے علم نہیں مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور انہوں نے سویڈن کے متعلقہ افسران سے یہ کہا کہ ہماری مسجد ہر موحد کے لئے کھلی ہے اس میں مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موحد عیسائی فرقے کے وفد کو جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو یہ فرمایا کہ تم باہر کیوں جاتے ہو مَسْجِدِى هذا یہ میری مسجد ہے تم اس میں عبادت کرو.اب دیکھو مسجد نبوی سے زیادہ با برکت اور مقدس دنیا میں اور کوئی مسجد نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دروازے عیسائیوں کے لئے کھول دیئے اور فرمایا تم باہر کیوں جاتے ہو یہیں اپنی عبادت کر لو.پس آن الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا کی رو سے ہر موحد کے لئے خدا کے گھر کے دروازے کھلے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا یہی اعلان میں نے ڈنمارک میں کوپن ہیگن کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا.اس کے معابعد جمعہ کی نماز تھی اور اس جمعہ کی نماز میں سینکڑوں عیسائی بھی ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے تھے جب میں نے یہ کہا آنَ الْمَسْجِدَ اللَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا اگلی آیت کا ٹکڑا ہے.اس سے ہماری اسلامی تعلیم کی تین باتیں بڑی نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں.ایک یہ کہ ہم مسجد کے مالک نہیں، مسجد تو خدا کا گھر ہے اور وہی اس کا مالک ہے ویسے بھی وہی مالک ہے لیکن اس پہلو سے بھی وہی مالک ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے.اَنَّ المَسجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا اس کی رو سے ہر موحد کے لئے مسجد کا دروازہ کھلا ہے.اگلا حصہ بتاتا ہے کہ صرف ایک شرط ہے نیک نیتی سے آنا

Page 542

تغییر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۵۳۲ سورة الجن ہے شرارت کی نیت سے نہیں آنا.میں تو ایک درویش انسان ہوں.اس قرآنی آیت کا یہ اثر ہوا کہ سینکڑوں عیسائی جو افتتاح کے وقت موجود تھے نماز میں شامل ہو گئے.یہ ٹھیک ہے کہ جب ہم رکوع کرتے تھے تو وہ ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے کہ یہ رکوع کس طرح کرتے ہیں تو انہوں نے رکوع بھی کیا.جب ہم سجدہ کرتے تھے تو وہ ادھر اُدھر دیکھ لیتے تھے کہ ہم سجدہ کس طرح کرتے ہیں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا اور اس طرح وہ اسلامی عبادت میں شامل ہو گئے.چنانچہ اس وقت تک دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم اسلامی عبادت میں شامل ہو چکے ہیں یعنی اگر وہ ایسے وقت میں مسجد دیکھنے کے لئے آئے کہ نماز ہو رہی تھی تو وہ بھی نماز میں شامل ہو گئے کیونکہ جب اس کا افتتاح ہوا تھا تو اس وقت ملک کے ہر اخبار اور رسالے نے افتتاح کی خبر کو کور (Cover) کیا تھا اور خبریں دی تھیں.چنانچہ وہاں کے روزانہ اور ہفتہ وار اور ماہانہ اخبارات و رسائل کے ۱۸۵ تراشے ہمارے پاس پہنچے تھے.درجنوں اخبار تھے جنہوں نے پورا صفحہ دیا تھا اور بیسیوں تھے جنہوں نے آدھا صفحہ دیا تھا گویا بہت زیادہ پبلسٹی ہوئی تھی اور اس چیز کو تو اُن کی روح نے قبول کیا کہ اچھا یہ ایسا گھر ہے.چنانچہ ہمارے دوست نے وہاں کے متعلقہ افسران سے کہا کہ ہماری مسجد تو ایسی ہے لیکن یہ جو مطالبہ کر رہے ہیں ان کی تو اپنی مسجد میں علیحدہ ہیں.یہ ہمیں نماز نہیں پڑھنے دیں گے.آپ ان سے پوچھ لیں اور ہمارے لئے تو ہر آدمی جو نیک نیتی سے آتا ہے اس کے لئے مسجد کے دروازے کھلے ہیں.ٹھیک ہے شرارت کرنے والے کے لئے منع ہے.شرارت خدا کا گھر کیا ایک عاجز اور غریب آدمی کے گھر میں بھی شرارت کی نیت سے کوئی نہیں گھس سکتا.چنانچہ ان کو یہ بات سمجھ آ گئی.پس یہ بھی خدا کے فضل کے نشان ہیں جو اس مسجد کے سلسلہ میں رونما ہوئے.دوست دعائیں کریں اللہ تعالیٰ اسے برکتوں والی مسجد بنائے اور یہ لَمَسْجِدٌ أَسْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْم ( التوبة : ۱۰۸) کی مصداق ہو اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی کی طفیلی مسجد ہو کیونکہ جہاں تک مسجد کا تعلق ہے تمام برکتیں مسجد نبوی سے آگے نکلتی ہیں.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۷۶،۱۷۵) مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا آنَ الْمَسْجِدَ لِلهِ فرما یا کوئی شخص یہ دعوی نہ کر بیٹھے کہ مسجد اس کی ملکیت میں ہے.مسجد تو خدا کی ملکیت ہے کیونکہ یہ اس کا گھر ہے.فَلَا تَدْعُوا مَعَ الله احدا اور مسجد کی اتنی شان ہے کہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والا ہر شخص اپنے و

Page 543

۵۳۳ سورة الجن تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث عقیدہ کے مطابق اس میں عبادت کر سکتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا جو کہ عیسائیوں کے یونیٹیرین فرقہ سے تعلق رکھتا تھا.یہ فرقہ تثلیث کا منکر اور خدائے واحد و یگا نہ کو ماننے والا تھا.عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو خدا کو وحدہ لا شریک مانتے ہیں اور حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے.غرض جب وہ وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلہ خیالات کے لئے آیا تو دورانِ گفتگو ان کی عبادت کا وقت آ گیا چنانچہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ چونکہ ان کی عبادت کا وقت ہو گیا ہے اس لئے اجازت دیں تا کہ وہ باغ میں جا کر عبادت کر سکیں تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ باغ میں جانے کی کیا ضرورت ہے.یہ میری مسجد ہے.یہ خدا کا گھر ہے.اس میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادت ہوتی ہے.کسی کا خواہ کوئی عقیدہ ہو وہ یہاں اپنی عبادت کر سکتا ہے.اس لئے وہ بھی یہاں عبادت کر سکتے ہیں.۱۹۶۷ء میں جب میں ڈنمارک گیا اور ڈنمارک کی مسجد کا افتتاح کیا تو وہاں کچھ عیسائی بھی افتتاحی تقریب میں شریک تھے.مجھے وہاں کے مبلغین نے کہا کہ یہ لوگ اسلام میں دلچسپی تو رکھتے نہیں.اگر آپ نے لمبی تقریر کی تو یہ لوگ بور ہو جائیں گے اور اُکتا کر چلے جائیں گے.میں نے کہا ٹھیک ہے تقریر مختصر کر دیتے ہیں.میں نے اپنے خطبہ میں تین چار پوائنٹس (Points) لئے اور صرف تین منٹ کے اندر بیان کر دیئے.میں نے اس موقع پر وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ احدًا کی مختصر تشریح کی اور نجران کے عیسائی وفد کی مثال دی.یہ تقریر دراصل خطبہ تھا جو میں نے جمعہ کی نماز سے قبل بطور افتتاح کے دیا تھا.خطبہ کے بعد نماز کے لئے جب میں کھڑا ہوا تو سینکڑوں عیسائی باقاعدہ نیت باندھ کر ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے.نماز کے بعد مجھے دوستوں نے بتایا کہ جب ہم رکوع میں جانے لگے تو ان کو چونکہ رکوع کرنے کا پتہ نہیں تھا اس لئے وہ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد رکوع میں چلے گئے جب قیام کیا تو پھر ادھر اُدھر دیکھا اور دوسرے لوگوں کی طرح رکوع سے قیام کر لیا اس طرح سجدہ میں چلے گئے.گویا اس موقع پر موجود تمام عیسائیوں نے بھی ہمارے ساتھ پورے ارکانِ نماز ادا کئے.صرف اس لئے کہ میں نے خدا کے اس اعلان کو دہرایا تھا وَ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا -

Page 544

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۴ سورة الجن تو یہ ہے خدا کے کلام کی برکت اور یہ ہے اسلام کی مسجد کی شان.یہ مسجد بہت خوبصورت ہے.اس کو دیکھنے کے لئے اب تک جب بھی کوئی عیسائی یا غیر مسلم آتا ہے تو اگر نماز کا وقت ہوتا ہے وہ بھی نماز میں شامل ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں اسلام جیسا عظیم مذہب دیا ہے اور قرآن جیسی حسین شریعت عطا کی ہے لیکن افسوس ہے لوگ اسے بھلا بیٹھے ہیں.لوگوں کی یہ بھول بھی بہت بڑی بھول ہے.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۳۷ تا ۳۸) ایک متعصب قلم نے یہ لکھ دیا کہ اسلام میں عورت کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، مسجد نا پاک ہو جاتی ہے اور ایک اور فضول سی بات لکھ دی اس کو تو میں چھوڑتا ہوں.اس پر عورتیں وہاں تما شا دیکھنے کے لئے آنے لگیں کہ کیا ایسی بھی کوئی عبادت گاہ ہے جہاں عورت داخل نہیں ہو سکتی.یہ دیکھنے کے لیے آتی تھیں لیکن جب وہاں پہنچتی تھیں اور ہمارے آدمی کہتے تھے کہ بوٹ ا تار وجوتیاں اتارو اور اندر چلی جاؤ تو وہ کہتیں کہ ہیں؟ اندر جاسکتی ہیں ہم ؟ اس کی اجازت ہے ہمیں؟ ہمارے اخبار نے تو یہ لکھا ہے.انہوں نے کہا کہ اجازت کیوں نہیں.اندر جا کر دیکھو.پھر وہ اندر جاتیں.مسجد خدا کا گھر ہے میرا تیرا گھر تو ہیں وَ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ اور اس کے درودیوار میں اور اس کے فرش میں ، اپنے اس گھر میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے برکتیں رکھی ہیں.سادہ سی ایک جگہ ہے.کوئی یہ دیکھ کر کہتا ہے کہ اچھا؟ ایسی سادہ کہ جہاں کوئی تصویر ہی نہیں لڑکائی ہوئی.انہوں نے تو خداوند یسوع مسیح کی اور حواریوں کی اور مریم کی تصویروں سے اپنے گر جاؤں کو سجایا ہوا ہے لیکن یہاں خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے.آدمی اس کے عشق میں مست ، گم سم ، دنیا جہان سے بیزار وہاں بیٹھا ہوا ہوتا ہے اس کو کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہے.یہ چیزیں اثر کرتی ہیں.میں نے ۱۹۶۷ء میں ڈنمارک میں یہی اعلان کیا کہ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِله اور اس وقت تک دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز میں شریک ہو کر نماز پڑھ چکا ہے.ہم خوش ہیں کہ خدا کے وہ بندے جنہوں نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی لیکن ان کے دماغوں میں خدائے واحد و یگانہ کا اندھیر اساتخیل موجود ہے انہوں نے ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کی.ان کو یہی کہا گیا تھا کہ اگر ایک خدا کی پرستش کرنا چاہتے ہو تو یہ دروازے تمہارے اوپر بند نہیں ہوں گے یہاں آ کر اپنے عقیدے کے مطابق جس طرح مرضی خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرو.شرک کی

Page 545

۵۳۵ سورة الجن تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اجازت نہیں ہے.انہوں نے کہا کہ اگر خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنی ہے تو ان کے ساتھ کھڑے ہو کر کیوں نہ کرلیں.وہ ساتھ کھڑے ہو گئے.جس دن افتتاح تھا میں نے افتتاح کے ساتھ ہی جمعہ پڑھایا.اس دن تو یہ ہوا کہ تین سو غیر مسلم ہمارے ساتھ کھڑا ہو گیا.انہوں نے ادھر اُدھر دیکھ کر عبادت کی.جب رکوع میں گئے تو ان کو کچھ پتہ نہیں تھا انہوں نے ادھر اُدھر دیکھا اور کہا اچھا اس طرح رکوع کرتے ہیں پھر وہ رکوع میں گئے.پھر جب کھڑے ہوئے تو پھر انہوں نے ادھر اُدھر دیکھا اور کھڑے ہو گئے.پھر جب سجدہ میں گئے تو وہ بھی ادھر ادھر دیکھ کر سجدہ میں گئے.انہوں نے پوری نماز اس طرح پڑھی اور اسی طرح پڑھ رہے ہیں کیونکہ ان کو تو پتہ نہیں.بہر حال وہ ساتھ شامل ہو گئے.صرف اس اعلان پر جو قرآن کریم نے کہا ہے، بڑا عظیم اعلان ہے صلح اور امن اور سلامتی کا اعلان کہ آن الْمَسْجِد الله - قرآن کہتا ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے خدائے واحد و یگانہ کی ، ایک خدا کی اگر کوئی پرستش کرنا چاہے تو خواہ وہ کسی مذہب کسی خیال کسی عقیدہ کا ہو میرے گھر کے دروازے اس کے لئے کھولو.مسجد کو خدا نے آ کر تو نہیں سنبھالنا تھا وہ عظیم ہستی ہے وہ مادی چیز تو نہیں اس واسطے فتنہ وفسا دکو دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے اعلان کیا کہ مسجد کا کسٹوڈین وہ ہے لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ (التوبة : ۱۰۸) مسجد کا کسٹوڈین اور اس کا متولی وہ ہے جو مسجد کی نیت سے خدا کا وہ گھر بناتا ہے.کسی اور کو وہاں آکر فتنہ کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے.قرآن کریم کو کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی مگر قرآن کریم نے فتنہ کا دروازہ بند کر دیا ہے قرآن کریم نے کہا کہ جس نے مسجد بنائی ہم اس کو مسجد ہی کہیں گے یعنی اگر کوئی گروہ ایسا ہے کہ خدا کی نگاہ میں بھی اس کی مسجد قابل قبول نہیں تو قرآن کریم نے اعلان کیا کہ تب بھی خدا اسے مسجد ہی کہے گا اور جو مجھ سے پیار کرنے والے ہیں وہ اسے مسجد ہی کہیں گے.باقی اگر کسی کی نیت میں فتور ہے تو میں آپ ہی سمجھ لوں گا اس کے ساتھ تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے.پس ایک تو یہ کہ مسجد بنانے والا اس کا متولی ہے.یہ اعلان کیا ہے قرآن کریم نے.قرآن عظیم بڑی عظیم کتاب ہے.شرط یہ ہے کہ ہم اس کو اپنے لئے مشعل راہ بنا ئیں.چنانچہ میں نے بتایا ہے کہ دس ہزار آدمی اب تک ہمارے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے اور کوئی فتنہ نہیں کوئی فساد نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد، مسجد نبوی، دنیا کی مقدس ترین مساجد میں سے ایک ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ سب سے زیادہ مقدس ہے وہاں آپ نے نجران کے یونیٹیرین (unitarian ) یعنی موحد عیسائیوں

Page 546

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳۶ سورة الجن کو کہا کہ عبادت کا وقت ہے یہیں کر لو.یہ بھی ایک روایت ہے کہ بعض صحابہ نے وہاں نماز پڑھنے پر اعتراض کیا آپ نے فرمایا کہ تم کون ہوتے ہو اعتراض کرنے والے یہ یہیں پڑھیں گے،اپنی عبادت یہیں کریں گے.آپ کی سنت نے سارے مسئلے حل کر دیئے ہیں.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۸۵،۱۸۴) جب میں وہاں گیا ڈنمارک کی مسجد کا افتتاح کیا تو وہاں اخباروں میں افتتاح کے موقع پر پریس کانفرنس، عیسائی ملے ان کے ساتھ باتیں اور اتنا اثر قرآن کریم کا أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ اَحَدًا کی میں نے ان کو بتائی تفسیر عظیم اعلان ہے ہم بھول جائیں تو ہماری بدقسمتی ہے یعنی مسلمان کو کہا ہے کہ یہ مسجد تیری نہیں میری ہے، انتہا کر دی نا، خدا نے پیار سے میں تو سمجھتا ہوں کہ میرے ساتھ پیار کی انتہا کر دی کہ جب میں نے مسجد بنائی تو خدا نے کہا کہ یہ مسجد تیری نہیں میری ہے اور چونکہ میری ہے اس لئے ہر موحد کے لئے اس کے دروازے کھلے رہیں گے.مسلمان ہو یا نہ ہو موحد ہونا چاہیے میں نے ان کو یہ بتایا اس وقت تک وہ کہتے ہیں کہ دس ہزار سے زیادہ غیر مسلم اگر نماز کے وقت مسجد دیکھنے آ جائے بڑی خوبصورت جگہ ہے، سیاح آتے ہیں وہاں تو وہ نماز میں شامل ہو جاتے ہیں.اس دن جس دن میں نے افتتاح کیا اور یہ اعلان کیا تو تین سو کے قریب غیر مسلم جمعہ کی نماز میں شامل ہو گئے اب بے چاروں کو یہ تو پتہ نہیں تھا کہ رکوع کس طرح کرتے ہیں اور سجدہ کس طرح کرتے ہیں اور قعدہ کس طرح کرتے ہیں وہ ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے اور جس طرح مسلمان کرتے تھے.وہ بھی کر لیتے تھے.ہمیں بڑا لطف آیا اور یہ قرآن کریم کی تاثیر ہے یہ میرا یا آپ کا کام نہیں ہے کہ اتنی تبدیلی دو منٹ میں پیدا کر دیں.یہ اعلان بڑا عظیم ہے قرآن کریم کا.ان کو میں نے یہ آیت بتا کے تھوڑی سی مختصراً تفصیل بتائی اور نجران کا وفد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اور انہوں نے اجازت مانگی کہ ہمیں اجازت دیں ہم باہر جا کے کہیں اپنی عبادت کر لیں آپ نے کہا کہ باہر کیوں جاتے ہو مسجدى لهذا (السيرة النبويه ابن هشام الجز الثاني صفحه ۲۲۴).یہ میری مسجد.مسجد نبوی جو ہے اس میں اپنی عبادت کر لو.اور انہوں نے وہاں عبادت کی تو مسجد نبوی سے زیادہ مکرم اور مستند تو دنیا کی اور کوئی مسجد نہیں جس کے دروازے موحد غیر مسلم کے اوپر بند کر دیئے جائیں.خطابات ناصر جلد دوم ۲۵۲ ۲۵۳)

Page 547

۵۳۷ سورة الجن تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک ذمہ داری تم پر یہ بھی ہے کہ آنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ.فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تین مساجد جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں ان کے ظل کے طور پر مساجد بھی بنائی جائیں (اگر وہ مسجد ضرار نہ ہوں یعنی وہ مسجدیں جن کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر آیا ہے وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَ كَفْرًا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ بلکہ ایسی مساجد ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُس عَلَى التَّقوی یعنی جو پہلے دن ہی خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس سے ڈرتے ہوئے اور اس کی پناہ میں آنے کی غرض سے بنائی جاتی ہیں.ایسی مسجدوں کے متعلق خدائی فیصلہ یہ ہے کہ ان کے دروازے ہر موحد کے لئے کھلے ہیں.خواہ وہ اسلام قبول کرتا ہو یا نہ کرتا ہو.وہ موحد ہونا چاہیے.پس یہ وہ عمل کا مقام ہے.اگر خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ امر ہر قسم کے شر اور فساد کو دور کرنے والا ہے لیکن اس بات کو پھر واضح کر دیا.فرما یا یاد رکھنا فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا خدا کے اس گھر میں غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوگی.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے راستے میں بھی روکیں پیدا کی جائیں گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدا یعنی مساجد کے دروازے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں پر بند کر دیئے جائیں گے وہ پرستش کرنے والے جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ہوگی.مگر وہ جو آنکھوں سے محروم ہیں.وہ جن کو بصارت عطا نہیں ہوئی اور وہ جن کو روحانی طور پر فراست نہیں ملی وہ ایسے لوگوں پر بھی خدا تعالیٰ کی مسجدوں کے دروازے بند کر دیں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سے سوزاں ہوں گے.لیکن خدا تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو علی الاعلان یہ کہتا ہے إِنَّمَا ادْعُوا رَبّی میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والا ہوں.اس لئے ہر وہ شخص جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مساجد کے دروازے کھلے ہیں.پھر فرمایا تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو کہتا ہے وَلا تُشْرِكُ بِہ احدا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرا تا کیونکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے نظارے دیکھنے کے بعد شرک کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پس ہر شخص جو موحد ہے ہم اسکو یہ کہتے ہیں کہ شرک کی باریک راہوں سے بچنے کی کوشش

Page 548

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳۸ سورة الجن کرتارہ اور ہماری مسجدوں میں آتا رہ اللہ تعالیٰ ہمارے طفیل شاید تمہاری بھلائی کے سامان بھی پیدا کر دے گا.( خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱۵۵،۱۵۴) اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں کیا ہے جہاں اُس نے آن الْمَسْجِدَ لِلهِ کہہ کر اس فیصلے کا اعلان فرمایا ہے کہ مساجد ہمیشہ اللہ ہی کی ملکیت رہیں گی وہاں ساتھ ہی مساجد کے کسٹوڈینز اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اَفَمَنْ اَسّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرُ اَم مَنْ اَسسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَادٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ ( التوبة : ١٠٩) ترجمہ :.کیا وہ شخص جو اپنی عمارت (مراد مسجد ) کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور رضامندی پر رکھتا ہے زیادہ اچھا ہے یا وہ جو اس کی بنیاد ایک پھسلنے والے کنارے پر رکھتا ہے جو گر رہا ہوتا ہے پھر وہ کنارہ اس عمارت سمیت جہنم کی آگ میں گر جاتا ہے اور اللہ ظالم قوم کو ( کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر پر زور دے کر کہ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے مسجد وہی ہے جس کی بنیاد تقوی اللہ اور رضائے الہی پر ہو مساجد کے کسٹوڈینز پر دو اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں :.اول.یہ کہ وہ اسے پاک صاف اور مطہر رکھیں اس میں پانی مہیا کریں اور ایسی تمام دیگر ضروریات بہم پہنچا ئیں جن کا موجود ہونا عبادات بجالانے کے لئے ضروری ہو.دوم.یہ کہ وہ مساجد میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ جو لوگ ان میں عبادت کے لئے آئیں ان کا زندہ تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ قائم ہونے میں مدد ملے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دو قسم کی مساجد کا ذکر کر کے ان کے درمیان پائے جانے والے امتیاز کو واضح فرمایا ہے چنانچہ اس آیت کی رُو سے جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہواور وہ لوگوں کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق پیدا کرنے والی ہو وہ حقیقی مسجد ہے برخلاف اس کے وہ مسجد جس کی بنیاد ظلم کی راہ سے لوگوں کو (ایکسپلائٹ ) Exploit کرنے پر ہو اور بناء بریں تقویٰ اللہ سے یکسر خالی ہو وہ حقیقی مسجد نہیں ہے اُس کے بنانے والوں کی اور اُس کے نگرانوں کی نیت خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا نہیں اس لئے ایسی مسجد اور اُس کے ایسے نگرانوں کا انجام فانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ بتایا جو اللہ کے فرمانبردار اور اطاعت گزار بندے ہیں وہی سچے مسلمان ہیں خدا تعالیٰ خودان کی راہنمائی کرتا ہے اور

Page 549

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۳۹ سورة الجن انہیں اپنے افضال و انعامات کا مورد بناتا چلا جاتا ہے.انہیں ان افضال وانعامات کا مورد بنانے میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے.حقیقی مسجد ایک عظیم نشان Symbol کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک پیغام کی حامل ہوتی ہے سو ہماری یہ مسجد ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ سب لوگ خدا کی نگاہ میں برابر ہیں اور سب اس کے فرمانبردار اور عبادت گزار بندے بن کر اُس سے زندہ تعلق قائم کر سکتے ہیں اور یہ کہ انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی بے لوث خدمت ان کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۲۱،۵۲۰)

Page 550

Page 551

تغیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۴۱ سورة المزمل بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المزمل آیت او زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ه رَيْلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلاً اس ریل کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ خوب کھول کے بیان کرو.خوب کھول کر الفاظ کو ادا کر و قرآن کریم کی تلاوت میں کہ تمہارا ذہن بھی قرآن کریم کے حقائق اور معارف کو پہچاننے لگے.امام رازی نے لکھا ہے کہ ایک ایک حرف ہر لفظ کا علیحدہ علیحدہ جس طرح لڑی میں موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اس طرح وہ حروف تمہارے آپ پڑھتے ہوئے تمہارے ذہن میں حاضر ہوں اور دوسروں کو سناتے ہوئے قرآن کریم اس طرح وہ تمہارے سامنے ہو..(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۸، ۱۹)

Page 552

Page 553

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۴۳ سورة المدثر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ آیت ا تا ۸ تفسير سورة المدثر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.ياَيُّهَا المُرُ قُمْ فَانْذِرُ وَ رَبَّكَ فَكَبِّرُقُ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرة وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ وَلا تَمُنْنُ تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ میرے دل میں بڑے زور کے ساتھ یہ ڈالا گیا ہے کہ جماعت احمد یہ تربیت کے جس مقام پر اس وقت کھڑی ہے.اس مقام کے ساتھ سورۃ المدثر کی جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان کا بڑا گہرا تعلق ہے.اور اس میں ایک اہم پیغام ہے جماعت کے نام.میں اس وقت اسے دوستوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں ان آیات کی عام تفسیر بیان کر دوں گا.تا دوستوں کو خدا تعالیٰ کی اس آواز کو سمجھنے میں آسانی اور سہولت ہو.مدثر کے عربی میں یہ معنی ہیں وہ شخص جس نے وہ کپڑے پہن لئے ہوں جو کام کرنے کے لئے پہنے جاتے ہیں.عام طور پر یہ طریق ہے خصوصاً پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ اقوام کا کہ گھر میں وہ کچھ اور قسم کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں.لیکن جب کام کے لئے باہر نکلتے ہیں تو اور کپڑے پہن لیتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں اور خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے والے افراد خاندان میں یہ طریق جاری ہے کہ باہر نکلتے وقت سر کا لباس اور کوٹ ضرور پہنا جاتا ہے.یا مثلاً کارخانوں میں کام کرنے والے کام کی غرض سے ایک خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں.تو مدثر میں اسی قسم کا لباس پہننے کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسا شخص جو کام کے لئے تیار ہوتا ہے.

Page 554

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۴ سورة المدثر اور وہ کپڑے زیب تن کرتا ہے جو اس کام کیلئے مناسب حال ہوتے ہیں.مثلاً فوج اپنی ڈیوٹی پر جاتے وقت فوجی وردی میں ہوتی ہے.گھر میں اس وردی میں نہیں ہوتے.پس یہاں فرمایا اے مدثر ! یعنی اے وہ شخص جس نے وہ کپڑے پہن رکھے ہیں جو کام کرنے کے لئے پہنا کرتا ہے.المدثر کے یہ معنی بھی ہیں کہ وہ شخص جو مستعدی کے ساتھ اپنے گھوڑے کے پاس کھڑا ہے اور حکم کا منتظر ہے.کہ کب حکم ملے اور میں چھلانگ لگا کر گھوڑے پر سوار ہو جاؤں اور اس کام میں مشغول ہو جاؤں جس کا مجھے حکم دیا جائے.قرآن کریم میں تمام احکام کے پہلے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اور پھر اُمت محمدیہ کا ہر فر داس کا مخاطب ہوتا ہے.اسی طرح اس آیت میں بھی سب سے پہلے مخاطب ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اس صورت میں المدثر کا مطلب یہ ہو گا کہ اے وہ شخص جس کو ہم نے پوری طرح تقوی کے لباس میں ملبوس کر دیا ہے.لِباسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: ۲۷) اور اندر اور باہر تقوی کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہے اُٹھ اور ہمارے حکم کے مطابق اس مشن کو پورا کر جو تیرے سپرد کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے قم فانذار کہ تو مستعدی سے کھڑا ہو جا اور دوام اور ثبات کے ساتھ اپنے مشن میں لگ جا.اور لوگوں کو پکار کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنی واحدانیت کی طرف بلاتا ہے خدا تمہیں اپنی شریعت کے قیام کا حکم دیتا ہے.خدا کی اس آواز کو غور سے سنو.اور اس پر لبیک کہو.اگر تم نے ایسانہ کیا تو اس کے غضب اور قہر کا مورد بن جاؤ گے.پھر فرمایا وَ رَبَّكَ فكبر کہ اپنے رب کی عظمت اور اس کے جلال کو قائم کر.یہی وہ پیغام ہے جو اسلام دنیا کے لیے لے کر آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کیا جائے.پھر فرمایا وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ماحول پیدا ہو.اور وہ ماحول ہو بھی پاکیزہ.وہ ماحول ان لوگوں کا ہو.جن کے متعلق خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے رِجَالُ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا (التوبة: ١٠٨) یعنی جو جسمانی اخلاقی اور روحانی گندگی اور نجاست سے بچتے ہیں.پس اس کے لئے ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ پہلے اپنے ماحول کو صاف کرنے کی کوشش کرو.انہیں تبلیغ کرو انہیں اسلام کی طرف بلاؤ.ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کروان کو خدا تعالیٰ کا جلوہ

Page 555

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۵ سورة المدثر دکھاؤ ان کو بتاؤ کہ تمہارا رب کتنا پیار کرنے والا ہے لیکن اگر تم اس کی طرف متوجہ نہیں ہو گے تو سنو کہ پھر اس کا غضب بھی بڑا خطرناک ہوا کرتا ہے.تو وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ میں جسمانی، اخلاقی اور روحانی پاکیزہ ماحول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ووو وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ رِجْز کے معنی گندگی کے بھی ہیں.رجز کے معنی عذاب کے بھی ہیں.رجز کے معنی شرک کے بھی ہیں.فاهجر میں حکم ہے کہ ان سے دور رہو.گو یا حکم دیا کہ ہر قسم کی گندگی سے دور رہو.اور ایسا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ دنیا خدا کے عذاب سے محفوظ ہو جائے.یعنی ان کو اعمال صالحہ کی طرف بلاؤ، انہیں اصلاح نفس کی دعوت دو اور کوشش کرو کہ انسانی بتوں کو سجدہ کرنے کی بجائے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے اور اسی کی پرستش کرے.پھر فرمایا وَلَا تَمُثْنُ تَسْتَكُثرُ - مَن کے ایک معنی تو ہیں کاٹ دینے کے.دوسرے معنی ہیں احسان کے بوجھ تلے دبا دینے کے.تستکثر کہ تا لوگ اس وجہ سے اسلام میں داخل ہوں اور اسلام کو کثرت تعداد نصیب ہو جائے.دونوں مذکورہ بالا معنی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ دنیوی لالچ کے ذریعہ کسی کو اسلام کی طرف مت بلاؤ کیونکہ کسی پر اسلام کا محض لیبل لگ جانا کافی نہیں ہے.اسلام کی طرف محض منسوب ہو جانا کافی نہیں ہے جب تک کہ دلوں کے اندروہ پاک تبدیلی پیدا نہ ہو جو پاک تبدیلی کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھنا چاہتا ہے.دوسرے من کے معنی قطع کرنے کے ہیں یعنی ان پر مختلف پابندیاں لگا کر یا ظلم سے یا جبر کر کے یا دباؤ ڈال کر ان کے لئے ایسا ماحول پیدا نہ کرو کہ وہ اپنے کو مجبور پا کر ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہو جائیں حالانکہ ان کے دلوں میں اسلام داخل نہ ہوا ہو.پھر فرمایا وَلِرَبَّكَ فَاصْبِرُ یعنی اس بات سے مت ڈرو کہ مخالف اپنی مخالفت سے ہمیں ایذاء پہنچا رہے ہیں کیونکہ تمہیں اپنے رب کی خوشنودی کے لئے ہر حالت میں صبر کرنا پڑے گا.اس میں شروع دن سے ہی مسلمانوں کو ایک بشارت دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ باوجود اس وقت انتہائی کمزور ہونے کے تم فاتح ہو جاؤ گے اور بدلہ لینے پر اور انتقام لینے پر اور اگر تم صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ تو ظلم کرنے پر بھی قادر ہو جاؤ گے لیکن ہم تمہیں

Page 556

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۶ سورة المدثر نصیحت کرتے ہیں کہ تمہیں ظلم کرنا کسی صورت میں روا نہیں.بلکہ قدرت رکھتے ہوئے بھی مخالف کی ایذاء دہی پر تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا.یہ عام معنی ہیں ان آیات کے الیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ میں جماعت کو یہ بتاؤں کہ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس مقام کا ان آیات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.یعنی ان آیات میں ایک نہایت اہم نصیحت ہے جو ہمیں کی گئی ہے اور ہمارے لئے کچھ پیشگوئیاں ہیں جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے.اس لحاظ سے ان آیات میں خدا تعالیٰ ہمیں مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے جماعت احمدیہ جس کی تخم ریزی اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ سے کی تھی جس کے استحکام کے لئے خلافت اولی کو کھڑا کیا گیا تھا جس کی تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود کی زندگی کا ہر لحہ اور آپ کے خون کا ہر قطرہ وقف رہا.اب تم المدثر کی حیثیت اختیار کر چکے ہو.تم اپنی بلوغت کو پہنچ چکے ہو اور تقوی کے جن لباسوں کی ضرورت تھی.وہ تمہیں مہیا کر دیئے گئے ہیں.پس تمہیں بالغ نظری اور بالغ عملی سے کام لینا ہوگا.اس حالت میں کہ ہم نے تمہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل سے تربیت کے اس مقام تک پہنچادیا ہے.ہماری اس آواز کوسنو.قُم فَانْذِرُ کہ کھڑے ہو جاؤ.اور ثابت قدمی کے ساتھ قریہ قریہ اور ملک ملک میں پھیل جاؤ.اور اقوامِ عالم کو یہ بتاؤ کہ اگر خدا کے مسیح کی آواز پر انہوں نے لبیک نہ کہا تو خدا کا قہران پر نازل ہوگا.دنیا بظاہر امن میں ہے.دنیا والے اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم اپنی کوششوں سے دنیا میں امن قائم کر دیں گے.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں کوئی ہو.این.او یا کوئی دوسری کانفرنسز جوامن کے قیام کے لئے بنائی گئی ہیں ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوں گی.کیونکہ آسمان اس سے متفق نہیں.اور خدا تعالیٰ کی نظر سے انسان گر چکا ہے.پس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دنیا والوں کو یہ بتا ئیں کہ اگر تم اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے زندگی، امن اور سلامتی چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہو اور اس کے مسیح پر ایمان لاؤ.خدا کی شریعت کو پر لہ ردمت کر و.محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہنسی اور ٹھٹھا مت کرو.اس کے جوئے کے نیچے اپنی گرد نہیں رکھ دو تب تم امن سے اپنی زندگیاں گزار سکتے ہو.اور تمہاری نسلیں سلامتی کے ساتھ اس دنیا میں رہ سکتی ہیں ورنہ نہیں.

Page 557

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۷ سورة المدثر پس قُم فَانْذِرُ میں یہی حکم ہے اور ہم نے اس کی تعمیل کرنی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اور خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری سانس تک تبلیغ اسلام کے لئے ہر ممکن جد و جہد اور کوشش کرتے چلے جانا ہے.وَ رَبِّكَ فَكَبّر میں فرمایا کہ انذار کی ڈیوٹی تمہارے ذمہ اس لئے لگائی گئی ہے اور یہ حکم تمہیں اس لئے دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کرو.اور اس میں بشارت کا بھی ایک پہلو ہے.کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب کبھی کوئی فتح کسی مسلمان کو نصیب ہوتی ہے تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلتا ہے.اللہ اکبر.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اس وقت تک مسلمان کا یہی شعار اور یہی طریق رہا ہے کہ الہی نصرتوں کو دیکھ کر ان کے دل کی گہرائیوں سے ایک آواز نکلتی ہے جوان کی زبانوں سے بلند ہوتی ہے اور فضاؤں میں گونجتی ہے اور وہ آواز اللہ اکبر کی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ ہم نے تمہارے لئے فتوحات کے دروازے کھولنے کا ارادہ کر لیا ہے اور ہم نے ایسے سامان پیدا کر دئے ہیں کہ تم وقتا فوقتا اللہ اکبر کے نعرے لگایا کرو گے.الحمد لله على ذلك وَ ثِيَابَكَ فَطَهَّرُ - فرمایا کہ تمہارے کپڑے پاکیزہ ہیں.کیونکہ لباس تقوی تمہیں پہنا دیا گیا ہے لیکن مقام خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطانی وساوس دخل دیں اور ان تقومی کے لباسوں پر نا پا کی اور گناہ کے سیاہ نقطے لگنے لگ جائیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے.دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا نقطہ پڑ جاتا ہے.پھر تیسرا گناہ کرتا ہے تو تیسرا سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے.اور اگر وہ استغفار، دعا، عجز وانکساری سے ان سیاہ نقطوں کو مٹانے کی کوشش نہ کرے تو وہ نقطے قائم رہتے ہیں بلکہ بڑھتے چلے جاتے ہیں حتی کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے.تو اسی کی طرف اشارہ ہے وَثِيَابَكَ فَطَھر میں کہ لباس تقوی کی پاکیزگی کو بچانا تمہارا فرض ہے.یعنی تربیت کے جس مقام پر تم کھڑے ہو اس مقام سے کبھی نہ گرنا بلکہ کوشش کرنا کہ اس سے بھی بلند تر مقام پر پہنچو.اور ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے جاؤ.اس آیت میں ہمیں یہ گر بھی بتایا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ تم اپنے ماحول کا جائزہ لیتے رہو.وہ ماحول جو کپڑے کی طرح تمہارے ساتھ چمٹا ہوا ہے.تم اس کے اندر کسی گندگی کے گھنے کو کبھی برداشت نہ کرو.بلکہ جب کبھی تمہیں کوئی رخنہ نظر

Page 558

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۸ سورة المدثر آئے تو فوراً اسے بند کر دو.یا کہیں تمہیں کوئی جسمانی، اخلاقی ، روحانی نجاست نظر پڑے تو اسے دور کرنے کی کوشش میں فوراً لگ جاؤ.اگر تم چوکس ہو کر اپنے ماحول کو پاک رکھو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تمہیں اپنی برکتوں سے نوازے گا.پھر فرمایا وَ الرجز فاجر اور گندگی کو دنیا سے بالکل مٹا دو کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے اور امن کا ایک ہی ذریعہ ہے.وہ یہ کہ دنیا امن کے شہزادہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے.وہ آپ کو مانیں اور آپ کی ہدایات کے مطابق اس اسلام پر عمل کریں جو خالص اسلام ہے.اور جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی بہتری اور بہبودی کے لئے لے کر آئے تھے.پس وَالرُّجْزَ فَاهُجُرُ کے معنی یہ ہوئے کہ تو دنیا کی ایسے رنگ میں اصلاح کر.اپنے اخلاق سے اپنے دلائل سے اپنی قبولیت دعا کے نشان سے اور ان نشانات آسمانی سے جو خدا تعالیٰ تمہارے لئے مقدر کرے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے لگیں.اور اس عذاب میں مبتلا نہ ہوں جو دوسری صورت میں ان کے لئے مقدر ہو چکا ہے.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ شرک سے بچو.ایک شرک تو ظاہری ہے وہ یوں کہ بتوں کی پرستش کی جائے.اس شرک میں سوائے نہایت ہی جاہل شخص یا جاہل قوم کے اور کون مبتلا ہو سکتا ہے.لیکن شرک کی بہت باریک راہیں بھی ہیں ان سے بچتے رہنا بھی نہایت ضروری ہے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک ہم لاشی محض ہو کر کلیۂ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہ جھک جائیں اور اس کے حضور نہ گرے رہیں اس وقت تک ہم تو حید کے حقیقی مقام پر کھڑے نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ شرک کی باریک راہوں سے بھی بچو.اور اس کے مقابل تقوی کی باریک راہوں پر گامزن رہو.تمہارے خیالات ہر قسم کے شرک سے پاک ہوں.تمہارا دل ہر قسم کے شرک کی نجاست سے مطہر ہو.اور تمہاری آنکھوں میں توحید کی چمک.اس کی ضیاء اور اس کا نور ہو اور تمہارے اعمال توحید کی طرف بلانے والے ہوں اور تمہارے اندر سے ایسا نور نکلے کہ جس ماحول میں بھی تم چلے جاؤ اس ماحول کے لوگ تمہاری طرف اس لئے کھچے آئیں کہ تم ان

Page 559

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۹ سورة المدثر لوگوں کو خدا تعالیٰ سے متعارف کرنے والے ہو.پس ہر حالت میں ہر قسم کے شرک کو چھوٹا ہو یا بڑا باطنی شرک ہو یا ظاہری شرک اسے مٹانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے.کیونکہ اس کے بغیر آج دنیا کی نجات ممکن نہیں.وَلَا تَمنن تستكثر فرمایا کہ ہم ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں.معجزات کے ذریعہ نشانات کے ذریعہ، دعاؤں کی قبولیت کے ذریعہ اور ملائکہ کے نزول کے ذریعہ جو دنیا میں انتشار روحانی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو خدا تعالیٰ کی طرف، خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مسیح محمدی کی طرف اور جماعت احمدیہ کی طرف پھیر رہے ہیں.پس ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں کہ دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ احمدیت اور اسلام ایک ایسی صداقت ہے کہ جو انہیں اپنی بقاء کی خاطر ہر قیمت پر قبول کرنی چاہیے.پھر تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کے ذریعہ اور حضرت مصلح موعود کی تفسیر کے ذریعہ ایسے دلائل مل چکے ہیں کہ دنیا کی کوئی عقل انہیں رد نہیں کر سکتی.جب تمہیں ہر قسم کے نشان اور دلائل دے دیئے گئے ہیں تو گویا کامیابی کی کنجی اور فتح کی کلید تمہارے ہاتھ میں پکڑا دی گئی ہے اس لئے تمہیں ہر گز ضرورت نہیں کہ کسی کو خوشامد، لالچ یا جبر کے ذریعہ مسلمان بناؤ.تو ولا تمنن تستکثر میں آزادی مذہب کو، آزادی فکر کو، اس خوبی اور حسن کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کو قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی.فرمایا.احسان کرنا اس نیت سے کہ کوئی شخص ہمارے احسان کے دباؤ سے لا اله الا اللہ پڑھ لے جائز نہیں.اسی طرح جبر کرنا بھی جائز نہیں کہ ایسے حالات پیدا کر دئے جائیں کہ کسی شخص کو سوائے کلمہ پڑھنے کے کوئی جائے فرار نظر نہ آتی ہو جیسا کہ آج کل کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں نے کشمیر میں مسلمانوں کو شدھ کرنے کی مہم بھی شروع کر دی ہے.ہر قسم کے ظلم ڈھائے جارہے ہیں.خاوندوں کو قتل کر کے عورتوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے.بچوں کو شہید کر کے والدین کو مجبور کیا جارہا ہے.کہ وہ ہندو مذہب کو اختیار کر لیں.اسلام اسے ہرگز پسند نہیں کرتا بلکہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اسلام اس کی مذمت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو خدا کے غضب اور قہر کا مورد قرار دیتا ہے.تو فرماتا ہے ولا تمنن کہ کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا.اس غرض سے کہ تمہاری تعداد بڑھ جائے اور

Page 560

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تمہیں کثرت حاصل ہو جائے.۵۵۰ سورة المدثر وَلِرَيكَ فَاصْبِرُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے جماعت احمد یہ! ہم ایسے حالات پیدا کرنے والے ہیں کہ تم ظالموں سے انتقام لینے کے قابل ہو جاؤ گے لیکن ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ انتقام بھی نہ لینا.اور لِرَبّكَ فَاصْبِرُ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صبر سے کام لینا.میں جماعت کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ پچیس تیس سال جماعت احمدیہ کیلئے نہایت ہی اہم ہیں کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون سی خوش بخت قو میں ہوں گی جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہوں گی وہ افریقہ میں ہوں گی یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا میں ایسے ممالک اور علاقے پائے جائیں گے جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کر لے گی اور وہاں کی حکومت احمدیت کے ہاتھ میں ہوگی.وَلِرَبَّكَ فَاصْبِرُ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں تمہیں ان نعمتوں سے نوازوں تو تمہارا فرض ہوگا کہ تم بنی نوع انسان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرو اور ان کی ایذا دہی کو خدا کی خاطر سہہ لو.اگر ان کے منہ سے سخت کلمات نکلیں.اگر وہ بے ہودہ حرکتیں کریں اگر وہ تمہیں چڑا ئیں تو باوجود اس کے کہ تم انہیں اپنی طاقت سے خاموش کرا سکتے ہو اور انہیں بے ہودہ حرکتوں سے باز رکھ سکتے ہو ہم تمہیں یہی کہتے ہیں کہ ہماری رضا کی خاطر صبر سے کام لینا اور ان پر سختی نہ کرنا.پس اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اس کی برکات کے حصول کے لئے اس کی رحمتوں کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم صبر سے کام لو.ٹھٹھے کے مقابلہ میں ٹھٹھا اور جنسی کے مقابلہ میں ہنسی اور ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہ کرو.ہمیں قرآن عظیم کا یہ حکم ہے کہ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے طہارت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے اس میں ایک تو انسان کو یہ توجہ دلائی ہے کہ اپنے جسم کو اور اپنے کپڑوں کو پاکیزہ رکھا کرو.گندگی خواہ جسمانی ہو یا روحانی قرآن عظیم کی تعلیم اس کو دور کرنا چاہتی ہے.پھر قرآن کریم کے محاورہ میں اسلامی تعلیم کے محاورہ میں شیاب کے معنی میں ماحول بھی آتا ہے اور وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کہ تعلق رکھنے والے ہوں مثلاً میاں بیوی کو ( ثوب ) لباس کہا گیا ہے.اسی (خطبات ناصر جلد اول ۳۶ تا ۴۳)

Page 561

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۱ سورة المدثر طرح ساتھیوں کو اور دوسرے تعلق رکھنے والوں کو بھی ہمارا مذہب ثیاب کے لفظ سے یاد کرتا ہے جب ہم ان تمام معانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہم پر طہارت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور ہمیں پاکیزگی کے متعلق بہت سے احکام دیئے گئے ہیں جن کی طرف توجہ دینا ضروری ہے خصوصاً ایسے موقعوں پر جبکہ اجتماعات کی وجہ سے جسمانی پاکیزگی اور ماحول کی پاکیزگی اور فضا کی پاکیزگی اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۲۳۰،۲۲۹) اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ فضلوں کو حاصل کرو جن کا پاکیزگی کے ساتھ تعلق ہے اور پاکیزگی کا تو تبلیغ کے ساتھ بھی بڑا تعلق ہے چنانچہ قُم فَانْذِرُ کے بعد کہا وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ اس لئے جب تک انسان اپنے ماحول کو پاکیزہ نہیں کرتا اور آنے والوں اور دیکھنے والوں کے لئے اسے ایک نمونہ نہیں بنا تا اس وقت تک وہ بھی معنی میں صحیح طور پر صحیح رنگ میں تبلیغ بھی نہیں کر سکتا اور نہ انذار کر سکتا ہے.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۲۳۶) آیت ۴۳ تا ۴۸ ۵۷ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَفَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ لا المُصَدِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَابِضِينَ ) وَكُنَّا نُكَذِبُ بِيَوْمِ الدِّينِ في حَتَّى اثْنَا الْيَقِينُ.وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ هُوَ اَهْلُ التَّقْوَى وَاَهْلُ المَغْفِرَةِ.ان آیات سے پہلے جنتوں کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جنتی دوزخ میں جانے والوں سے سوال کریں گے ما سلككم في سقر تمہیں جہنم کی طرف کیا چیز لے گئی ؟ تو وہ جواب میں تین باتیں کہیں گے جن کا یہاں ذکر ہے اور وہ تینوں باتیں اصولی ہیں اور انسان کی ساری زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.دوزخی جواب میں کہیں گے کہ وہ جہنمی اس لئے بنے کہ وہ صلوۃ ادا نہیں کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ وہ مسکین کا خیال نہیں رکھتے تھے.وہ اُسے کھانا نہیں دیتے تھے اور تیسرے یہ کہ وہ اپنا وقت ضائع کیا کرتے تھے.مجلسوں میں بیٹھ کر بے حکمت باتیں کرتے رہتے تھے اور یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ

Page 562

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۲ سورة المدثر اللہ تعالیٰ نے انہیں جو وقت عطا کیا ہے اور زندگی دی ہے اس کی بڑی قیمت ہے اس کی بڑی قدر کرنی چاہیے اور یہ سارے گناہ وہ اس لئے کرتے تھے کہ انہیں یقین تھا یہی ورلی زندگی ہے.موت کے ساتھ ان پر حقیقی فنا آ جائے گی اور انہیں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا پڑے گا اس لئے دلیری کے ساتھ وہ یہ باتیں کیا کرتے تھے.پہلی بات یہ ہے کہ وہ صلوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے.اس میں ایک تو وہ فرض نماز بھی آتی ہے جس کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو پانچ وقت مسجد میں اکٹھے ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نماز ادا کی جائے اور خدا تعالیٰ کا ذکر کیا جائے کیونکہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات:۵۷) کی رو سے اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد بننے کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.پس جب خدا تعالیٰ نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور انسان کو پیدا کرنے کا یہی بنیادی مقصد ہے تو انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا عبد بنے.چنانچہ دوزخی یہ کہیں گے کہ انہیں پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کے عبد بنیں، اس سے تعلق پیدا کریں دعا کے ساتھ اور خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر.لیکن خدا کا عبد بننے کی بجائے وہ اپنے نفس کا عبد بن گئے.شیطانی وساوس کا عبد بن گئے یا شیطان کے چیلے بن گئے.خدا تعالیٰ کی کوئی پرواہ نہیں کی، اس کا کوئی خیال نہیں رکھا.خدا کے قرب کی راہوں کو انہوں نے اختیار نہیں کیا.انہوں نے خدا سے تعلق پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی.اس کے لئے انہوں نے کوئی مجاہدہ نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خدا سے دور ہو گئے اور اس کے غضب اور قہر کی جہنم کے وارث بن گئے.پس پہلا بنیادی فرض انسان پر اس حق کی ادائیگی ہے جس کو ہم عام طور پر حقوق اللہ کہتے ہیں لیکن یہ بات ہمیں ہر وقت یا درکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ تو کسی کا محتاج نہیں ، اسے کسی انسان یا کسی اور ہستی یا وجود کی احتیاج سرے سے ہے ہی نہیں، اس لئے کہ وہ کامل قدرتوں والا اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے.خدا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا.اس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی طاقت نہیں.دنیا کی ہر چیز خدا کے مقابلے میں مرے ہوئے کیڑے کی حیثیت نہیں رکھتی.پس جب ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگر ہم ان حقوق کو ادا نہیں کریں گے تو خدا کو نقصان پہنچے گا.خدا کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ وہ توغنی اور صمد ہے اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں.اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندہ کو پیدا کیا تھا بندہ

Page 563

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۳ سورة المدثر بننے کے لئے خدا تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے یہ خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے.اس نے اپنے کلام میں فرمایا کہ یہ میرے حق ہیں تم ان کو ادا کیا کرو.دراصل یہ اس کے حقوق نہیں یہ تو ہمارے ہی حقوق بنتے ہیں تا کہ ہم اپنے مقصد حیات کو حاصل کر سکیں یعنی جو مقصود ہے وہ انسان کی خود اپنی ہی ذات سے تعلق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا چونکہ تمہاری ذات نے اس مقصد کے حصول کے بعد میرے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اس لئے میں اسے اپنا حق قرار دے دیتا ہوں.غرض پہلی بات دوزخیوں نے جواب میں یہ کہی کہ جب ان سے پوچھا گیا تمہیں کیا چیز جہنم کی طرف لے گئی تو جواب میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ بننے کے لئے اور اپنے قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کے لئے اور اپنی صفات کا مظہر بننے کے لئے انہیں پیدا کیا تھا اور انتہائی مہربانی سے اسے خدا تعالیٰ نے اپنا حق قرار دیا تھا حالانکہ فائدہ سارے کا سارا اس کے بندہ کو ہے.خدا تعالیٰ کو تو کوئی فائدہ بندہ نہیں پہنچا سکتا.جو کچھ فائدہ پہنچتا ہے وہ خدا سے بندہ کو پہنچتا ہے لیکن اس قدر پیار کرنے والے خدا کی انہوں نے پرواہ نہیں کی اور قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کیا اور اس کا عبد بننے کی بجائے غیر اللہ کا عبد بننے کی کوشش کی اور آج وہ اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں اور انہیں جہنم کی سزا مل رہی ہے اور اصل جہنم تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا غضب اور اس کے قہر کی آگ کسی بد قسمت انسان پر بھڑ کے.اللہ تعالیٰ اس سے ہر ایک آدمی کو محفوظ رکھے.دوزخی دوسری بات یہ کہیں گے کہ جو دوسرے بندوں کے حقوق تھے وہ انہوں نے ادا نہیں کئے.مسکین کے معنے لغت عربی میں ایسے شخص کے بھی ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو بالکل کنگال ہو اور مسکین کے معنے ایسے شخص کے بھی ہوتے ہیں جس کے پاس کچھ تو ہولیکن اتنا نہ ہو کہ جو اس کے اہل وعیال کے لئے کافی ہو سکے اور مسکین کے معنی ایسے شخص کے بھی ہوتے ہیں جسے دنیا ذلیل اور حقیر سمجھ رہی ہو.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول انسانی عزت اور شرف کے قیام کے لئے ہے تو دوزخیوں نے جواب میں کہا کہ قرآن کریم اس لئے آیا تھا کہ انسان کی عزت اور اس کا شرف قائم کیا جائے اور اس کو نظر انداز کرنے کا مطلب تو یہ ہی ہوتا ہے کہ گویا انسان خود بھی ذلیل ہو جائے کیونکہ یہ تو ایک چکر ہے جو چلے گا.اگر زید بکر کی عزت نہیں کرے گا تو بکر زید کی بھی عزت نہیں کرے گا.بہر حال یہ اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے فلسفہ اور اخلاقیات کا ایک علیحدہ مضمون ہے.پس

Page 564

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۴ سورة المدثر قرآن کریم کی ہدایت یہ بتارہی تھی کہ خدا اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کی عزت اور شرف کو قائم کیا جائے اور قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس ساری کائنات کو سارے انسانوں کی بہبود اور فلاح کے لئے پیدا کیا گیا ہے مثلاً گندم ہے اسے ہم نے اس موسم میں بویا ہے یا کچھ بوئی جارہی ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اگر ہماری کوشش میں برکت ڈالے اور اس کے نتیجہ میں ہمارا ملک گندم میں خود کفیل ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک کے ایک حصے کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ گندم پیدا کی ہے بلکہ اس میں پاکستان کے سارے شہری حق دار ہوں گے جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الداريات: ۲۰) پس دوزخیوں نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز پر انسان کے لئے ، اس کی فلاح کے لئے ، اس کی بہبود کے لئے ، اس کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے ، اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ، اس کی قوتوں کی نشو و نما کے لئے اور اس کی ترقیات کے لئے پیدا کی تھی لیکن وہ غاصب بن گئے اور خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء میں جو غیر کا حق تھا اس کو بھی انہوں نے اپنا بنا لیا اور دوسرے لوگوں کو محروم کر دیا اور یہ خیال نہ کیا کہ اس دنیا میں انسان انسان میں فرق کرنے کی بہت سی حکمتیں ہیں جنہیں قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ نظر آتا ہے کہ کچھ گندم پیدا کرنے والے اور کچھ گندم کے مالک بن جانے والے اور کچھ کپڑا بنانے والے اور ان کے مالک بن جانے والے اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ سارے پھر بانٹ کے کھانے والے ہیں.غرض دوزخیوں سے سوال یہ تھا کہ تمہیں دوزخ کی طرف کیا چیز لے گئی تو انہوں نے کہا کہ انہیں دوزخ کی طرف لے جانے والی دوسری چیز یہ تھی کہ انہوں نے انسان کے حقوق غصب کئے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کو تاہی برتی.دوزخیوں نے تیسری بات یہ کہی اور یہ دراصل پہلی دو باتوں کی بنیاد بنتی ہے کہ انہوں نے اپنے حقوق کا بھی خیال نہیں رکھا.خدا تعالیٰ نے انہیں زندگی دی ، طاقتیں دیں، صحت دی، وقت دیا اور یہ چاہا کہ وہ معمور الا وقات رہیں.زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہ جائے اور اس کے ضیاع سے نقصان نہ پہنچے لیکن انہوں نے اپنے اوقات کو کار پر لگانے کی بجائے نَخُوضُ مَعَ الْخَابِضِينَ بے حکمت اور لغو باتوں پر خرچ کیا اور اس طرح اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر کےخودا پنی Personality (شخصیت)، اپنے وجود، اپنی ہستی کو نقصان پہنچایا.اگر خدا تعالیٰ کی نعمت سے پورا فائدہ اٹھاتے تو خدا تعالیٰ کی راہ

Page 565

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۵ سورة المدثر میں پوری قربانیاں دینے کے قابل ہو جاتے لیکن انہوں نے نہ خدا کا حق ادا کیا نہ انسان کا حق ادا کیا اور نہ ہی اپنے نفس کا حق ادا کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے انہیں جہنم میں ڈال دیا.یہ وجہ بن گئی ان کے جہنم میں آنے کی.خدا تعالیٰ اسی سورت میں آخر میں فرماتا ہے.بیچ میں دوسری آیتیں ہیں میں ان کو چھوڑتا ہوں یہ ایک لمبا مضمون ہے.میں صرف ایک ٹکڑے کو لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (عبس:۱۲) قرآن کریم ایک نصیحت ہے.فَمَنْ شَاءَ ذكره (عبس : ۱۳) جو چاہے نصیحت حاصل کرے ہر شخص آزاد ہے.یہ آزادی خدا تعالیٰ نے دی ہے.قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک کامل تعلیم اور کامل شریعت انسان کے ہاتھ میں دے دی ہے.انسان پر جبر نہیں کیا گیا یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ نہیں فرما یا کہ تیرے لئے اس کا انکار ممکن ہی نہیں بلکہ فرمایا تیرے لئے اس عظیم تعلیم کا انکار اور اس سے بے اعتنائی برتناممکن ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کسی شخص کو ہدایت دینا یا نہ دینا یہ خدا کا کام ہے.هُوَ اهْلُ التَّقْوَى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (المدثر : ۵۷) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نیکی کی باتیں بھی بتائیں اور نیکی اور تقویٰ کی راہیں بھی انسان پر کھولیں اور ان دو چیزوں میں فرق ہے.مثلاً ایک ہے خرچ کرنا اور ایک ہے دوسروں پر خرچ کرو.اور ان کا حق ادا کرو.“ اور یہ حکم ہے لیکن کن راہوں پر چل کر صحیح خرچ ہو سکتا ہے یہ خدا تعالیٰ نے بتادیا ہے.تقویٰ کی راہوں کی تعیین بھی خدا تعالیٰ نے کر دی ہے اور اگر انسان اپنی بشری کمزوری کے نتیجہ میں بھٹک جائے تو مغفرت اور توبہ کے سامان بھی اس کے لئے پیدا کر دیئے گئے ہیں.اس بیان کو تعلق باللہ پر ختم کیا.فرمایا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنا، اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا، انسانوں کا خیال رکھنا، ان کے حقوق کی ادائیگی کرنا، اپنے نفس کی طاقتوں کو ضائع نہ کرنا، خود اپنے نفس کا خیال رکھنا، اپنے نفس کی صحیح نشوونما کرنا، خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کے قابل ہو جانا، یہ طاقت ہونا کہ انسان اپنے دائرہ استعداد کے اندر نیکیوں میں بڑھتا چلا جائے یہ سب کچھ اپنے زور کے ساتھ تو نہیں ہوسکتا.یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خدا تعالیٰ سے دعاؤں کے ذریعہ قوت اور طاقت حاصل نہ کی جائے کیونکہ خدائے قادر و توانا جو تقویٰ والا ہے جس نے تقویٰ کی راہیں معین اور واضح کر دیں اسی سے ہدایت مانگنی

Page 566

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المدثر ہے کہ اے خدا! ہمیں بھٹکنے نہ دے اور جب انسان بھٹک جائے اور اس سے بشری کمزوری سرزد ہو جائے تو اس صورت میں صرف خدا کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے کہ اے خدا! مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے.اس کے بغیر تو انسان کی نجات ممکن نہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۴۸۳ تا ۴۸۸)

Page 567

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة القيامة اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القيامة آیت ١٠ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ قرآن کریم نے کچھ زبر دست پیشنگوئیاں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ بھلا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پیار کیا اور اس کی نگاہ میں وہ پاکیزہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو معانی قرآن، تفسیر قرآن سکھائی.انہوں نے ایسی تفسیریں کی ہیں کہ جو صدیوں پہلے واقعات سے کی ہیں وہ درست ثابت ہوئیں.تو قرآن کریم میں میرے خیال میں بیسیوں ایسی آیات ہیں جن میں آنے والے مہدی معہود کے زمانے کا ذکر ہے اور زمانہ سے ان کا تعلق ہے اور پیشنگوئیاں ایسی ہیں جن میں سے بہتوں سے مہدی کا تعلق ہے کہ اس نے ان سے فائدہ اٹھانا تھا.اس وقت میں قرآن کریم کی بھی اختصار کے ساتھ ساری باتیں نہیں بیان کر سکتا کیونکہ وہ خود ایک بڑا لمبا مضمون بن جاتا ہے.بڑے اختصار کے ساتھ میں بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اور وہ یہ ان کو ہمارے محاورہ میں وہ آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں.وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبو یہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ پہلوں کو خدا تعالیٰ نے علم سکھا یاور نہ وہ اگر ایسی کوئی تفسیر کر دیتے جو عملاً انسانی تاریخ میں وہ واقعہ ہی نہ ہوتا تو ہم یہ تونہیں کہہ سکتے کہ نعوذ باللہ قرآن کریم میں غلط بات آئی ہے.ہمیں یہ کہنا پڑتا کہ جو مفسر نے کہا ہے.اس نے غلطی کھائی اور قرآن کریم کی اس آیت کا یہ منشا نہیں تھا جو منشا سمجھا گیا اور بیان کیا گیا جیسا کہ

Page 568

تفسیر حضرت خلیفہ اسح الثالث سورة القيامة خسوف و کسوف کا ایک ہی مہینہ میں یعنی رمضان میں ہونا جس کی تصریح آیت وَجُمِعَ الشَّمسُ والقمر میں کی گئی ہے.قرآن کریم کی آیت ہے ومجمع الشمسُ وَالْقَمَرُ اب میں بعد میں آیات قرآنی پڑھوں گا اردو کے فقروں کے بعد اور اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا.جس کی تصریح و اذا الْعِشَارُ عُظِلت (التکویر : ۵) سے ظاہر ہے اور ملک میں نہروں کا بکثرت نکلنا جیسا کہ آیت: وَاذَا الْبِحَارُ فُجرَتُ (الانفطار (۴) سے ظاہر ہے اور ستاروں کا متواتر ٹوٹنا جیسا کہ آیت : وَإِذَا الكَواكِبُ انتَثَرَتْ (الانفطار :۳) سے ظاہر ہے اور قحط پڑنا اور وباء پڑنا اور امساک باراں ہونا یہ تین قرب قیامت کی علامتیں ہیں جن کا تعلق زمانہ مہدی معہود سے ہے اور قحط پڑنا اور وباء پڑنا اور امساک باراں ہونا جیسا کہ آیت : اذا السَّمَاء انْفَطَرَتْ (الانفطار :۲) سے منکشف ہے اور سخت قسم کا کسوف شمس ظاہر ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت: اِذَا الشَّمس كورت (التکویر : ۲) سے ظاہر ہے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے اُٹھا دینا جیسا کہ آیت وَ إِذَا الْجِبَالُ سُيّرت (التكوير : ۴) سے سمجھا جاتا ہے اور جولوگ وحشی اور اراذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں، ان کا اقبال چمک اٹھنا اور ان کا صاحب اقتدار ہو جانا اور دنیا کے حاکم بن جانا جیسا کے آیت وَ إِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتُ (التكوير : 1 ) سے مترشح ہو رہا ہے اور تمام دنیا میں تعلقات اور ملاقاتوں کا سلسلہ گرم ہو جانا اور سفر کے ذریعہ سے ایک دوسرے کا ملنا سہل ہو جانا جیسا کے بدیہی طور پر وَ اِذَا النُّفُوسُ زُوجَتُ (التكوير : ۸) سے سمجھا جاتا ہے اور کتابوں اور رسالوں اور خطوط کا ملکوں میں شائع ہو جانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک آسانی سے پہنچ جانا خطوط کا جیسا کہ آیت : وَاِذَا الصُّحُفُ نُشرت (التکویر : ۱۱) سے ظاہر ہو رہا ہے اور جو چھوٹے چھوٹے تقویٰ کے چشمے تھے ان کا مکدر ہو جانا اس زمانہ میں جیسا کہ وَإِذَا النُّجوم الكدرت (التکویر : ۳) سے صاف معلوم ہوتا ہے اور بدعتوں اور ہر قسم کے فسق و فجور کا پھیل جانا جیسا کہ آیت إِذَا السَّمَاء انشقت (الانشقاق: ۲) سے مفہوم ہوتا ہے.یہ تمام علامتیں قرب قیامت کی ظاہر ہو چکی ہیں اور دنیا پر ایک انقلاب عظیم آگیا ہے اور جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے جیسا کہ آیت اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَ الْقَمَرُ (القمر : ۲) سے سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ زمانہ جس پر تیرہ سو اور گزر گیا اس کے آخری زمانہ ہونے میں کس کو کلام ہے.بہر حال

Page 569

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۵۹ سورة القيامة قرآن کریم نے جیسا کے میں نے بتایا بہت سی ایسی پیشگوئیاں زبر دست کی ہیں جن کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس میں مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ ظاہر ہوگا.خطابات ناصر جلد ۳۵۸ تا ۳۶۰)

Page 570

Page 571

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۶۱ سورة الدهر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الدهر آیت ۳، ۴ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجِ ، نَبْتَلِيْهِ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيْلَ إِمَا شَاكِرَا وَ إِمَا كَفُوران فجعلته اللہ تعالیٰ نے سورۃ دھر میں فرمایا ہے کہ ایک چھوٹا سا قطرہ ہے جس سے بچے کی پیدائش شروع ہوتی ہے.اس قطرہ میں بھی وہ سارے قومی موجود ہوتے ہیں جن کی نشو و نما حاصل کرنے کے بعد انسانی وجود ایک مکمل شکل اختیار کرتا ہے اور ترقی کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ ایک چوٹی کے معروف ومشہور سائنسدان کی صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمَشَاجِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا فرمایا انسان کی پیدائش ایک ایسے نطفے سے ہوتی ہے جس میں مختلف قوتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں.پھر جب وہ نشو نما کے مختلف مدارج سے گزر جاتا ہے تو اسے دو بنیادی طاقتیں دی جاتی ہیں ایک مشاہدہ کی قوت یعنی بینائی اور ایک دوسروں سے سیکھنے کی قوت.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو سمیع اور بصیر بنایا ہے.وہ ان خدا داد قوتوں کے ذریعہ دوسروں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ ہم نے انسان کو ہدایت کا راستہ دکھا دیا ہے، یعنی اس کے مناسب حال جو راہ تھی وہ اس کو دکھا دی ہے اور اس کے مقصدِ حیات کو پورا کرنے والی اور اس کو خدا کی طرف لے جانے والی اور خدا تک پہنچانے والی جو ہدایت ہے وہ اس کو دے دی ہے.اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس

Page 572

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۶۲ سورة الدهر سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے.چنانچہ جب ہم انسان کی طاقتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہدایت کی وہ راہ جو اس کی جسمانی قوتوں کی نشوونما کے لئے ضروری تھی وہ اس کومل گئی ہے اور اگر انسان اس پر چلے تو وہ مضبوط سے مضبوط جسم والا انسان بن سکتا ہے اور انسان کی جسمانی طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہیں.غرض قرآن کریم نے انسان کی دوسری طاقتوں کے علاوہ اس کی جسمانی طاقتوں کی حفاظت کے لئے اور ان طاقتوں کی نشوونما کے لئے بھی ہدایت دی ہے.پھر نواہی یعنی بڑے کاموں سے روکنے والے احکام ہیں جو انسان کو تباہی اور ہلاکت سے بچاتے ہیں مثلاً انسان کی جسمانی طاقتوں کے لئے کھانا ایک ضروری چیز ہے لیکن بہت سی چیز میں کھانے سے منع کر دیا اور جو حلال چیزیں تھیں اور جن کے استعمال کی اجازت دی تھی ان کے متعلق بھی یہ کہا کہ دیکھو انسان انسان کی طبیعت میں فرق ہے.بعض حلال چیزیں بعض انسانوں کے موافق آئیں گی بعض کے موافق نہیں آئیں گی اس لئے صرف حلال ہی نہیں طیب کھایا کرو تم یہ دیکھا کرو کہ تمہیں کون سی چیز موافق ہے، وہ کون سا کھانا ہے جو تمہاری طاقت کو قائم رکھنے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نباہ سکتے ہو.آج کی دنیا بڑا فخر کرتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ غذا میں توازن (Balance) کا اصول انہوں نے معلوم کیا ہے حالانکہ قرآن کریم نے یہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز میں توازن کا اصول قائم کیا ہے اس لئے فرمایا اَلا تَطْغَوا في الميزان (الرحمن : 9) فرمایا یہ خیال رکھنا کہ کسی شعبہ زندگی میں بھی اس توازن کے اصول کی خلاف ورزی سرز دنہ ہو کیونکہ اس سے تمہیں تکلیف پہنچے گی.غرض انسان کی جسمانی طاقتوں کی حفاظت کے لئے اور ان کی صحیح اور کامل نشو نما کے لئے جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ انسان کو دے دی گئی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی قوتیں بھی عطا کی ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ علم حاصل کرتا ہے اور علم کے میدانوں میں ترقیات کرتا ہے.وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی انقلاب ہائے عظیم پیدا کرتا رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ انسان کو ذہنی قو تیں دی گئی ہیں بلکہ اس کو بے راہ روی اور بھٹکنے سے بچانے کے لئے بھی اسے تعلیم دی گئی ہے اور وہ راہیں بھی بتا دی گئی ہیں جن پر چل کر وہ حقائق اشیاء تک پہنچ سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 573

۵۶۳ سورة الدهر تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ذریعہ ہمیں یہ دعا بھی سکھلائی گئی ہے.رَبِّ اَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ ( تذکر صفحہ ۶۱۳) کہ اے میرے رب! مجھے حقائق اشیاء معلوم کرنے کی توفیق عطا فرما.بعض دفعہ احمدی نوجوان طالب علم مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ دیکھو قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی اصول بتا دیئے ہیں اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ہر علم کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں.ایک دفعہ حساب کے ایم ایس سی کے احمدی طلباء کا ایک گروپ ملاقات کے لئے آیا.میں نے ان سے کہا تم حساب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہو لیکن کیا تمہیں معلوم ہے حساب کے ماہرین نے یہ کہا ہے کہ حساب کی بنیاد چند مفروضات پر ہے یعنی انہوں نے بعض باتیں خود ہی فرض کر لی ہیں.اگر وہ بنیا د بیچ میں سے نکال دی جائے تو علم حساب کی عمارت زمین پر گر پڑتی ہے لیکن اسلام نے یہ نہیں کہا کہ حساب کی بنیاد مفروضات پر ہے.اسلام نے یہ کہا ہے کہ حساب کی بنیا د حقائق اشیاء پر ہے.ویسے یہ ایک لمبا مضمون ہے ایک دو فقروں میں ہی اشارہ کر سکتا ہوں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ مکان اور زمان کے لحاظ سے ایک نسبت قائم ہے اور ان نسبتوں پر حساب کے علم کی بنیاد ہے مثلاً ایک آدمی آج سے پندرہ سال پہلے پیدا ہوا اور ایک پچاس سال پہلے پیدا ہوا.یہ زمانہ کے لحاظ سے نسبتیں ہیں اور ایک مکان کے لحاظ سے نسبت ہے مثلاً یہ کہ زمین سورج سے اتنی دور ہے اور اس رفتار سے حرکت کر رہی ہے.پس قرآن کریم کا یہ کہنا کہ حساب کی بنیا دزمانی اور مکانی نسبتوں پر رکھی گئی ہے، ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے.پچھلے دنوں کچھ غیر احمدی طلباء ملنے کے لئے آئے.وہ سوشیالوجی کے طالب علم تھے.ان سے بھی میں نے سوال کیا کہ بتاؤ تمہارے علم کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ ان میں سے ایک لڑکا گھبرا گیا.پھر میں نے بتایا کہ دیکھو آج کی مہذب دنیا نے معاشرہ کے موضوع پر کتا میں لکھی ہیں.انہوں نے اس علم کو مدون کیا اور اسے ایک سائنس اور علم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے لیکن وہ بھی اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکتے.اس کا صحیح جواب اسلام نے دیا ہے.چنانچہ میں نے ان کو تفصیل سے سمجھایا اور بتایا کہ خواہ دنیا کا کوئی علم ہو قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی ہدایت دی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ ہم نے انسان کو اس کی ذہنی طاقتوں کے مناسب حال ہدایت دے دی ہے اسی طرح اخلاقی طاقتیں ہیں.انسان کو اخلاقی صلاحیتیں دی گئی ہیں ان

Page 574

۵۶۴ سورة الدهر تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے متعلق قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے ہدایت پائی جاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم اخلاقیات سے بھرا پڑا ہے.اخلاق کی حفاظت کیسے کرنی ہے اور ان کو ترقی کیسے دینی ہے، حسن معاملہ کیا ہے.غرض اخلاقیات کے جملہ پہلوؤں سے متعلق قرآن کریم میں تفصیل سے ہدایت دی گئی ہے.یہ ایک کامل کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمارے ہاتھ میں دی گئی ہے.اس میں اخلاقیات یعنی حسن معاملہ کے متعلق ایک کامل ہدایت موجود ہے.اسی طرح روحانی استعدادیں ہیں.قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے انسان کی روحانی حالتوں کو بیان کیا ہے اور روحانی ترقی کے حصول کے طریق بھی بتائے اور ان طریق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہلاکتوں کا بھی ذکر کیا اور ان کی وجوہات کی طرف بھی اشارہ کیا.ایک جگہ فرمایا کہ بعض لوگوں کو ہم اونچا کرنا چاہتے ہیں لیکن وه أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷) زمین کی طرف جھک جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے روحانی رفعتوں کے حصول کے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے وہ خود اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ساری ہدایتیں تو دے دیں لیکن یہ ہدایتیں دینے کے بعد اما شَاكِراً وَ إِمَّا كَفُورًا انسان کو یہ اختیار ہے کہ خواہ وہ ہدایت کی راہ پر چل کر شکر گزار بندہ بنے یا گمراہی کی راہوں پر چلتے ہوئے ناشکری کرے.خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو مختلف قو تیں اور طاقتیں ،صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کیں اور ان قوتوں اور صلاحیتوں کو نشو و نمادینے اور ان کو ہلاکت سے بچانے کی ہدایت دی.گو یا ہدایت اور گمراہی کے دونوں راستوں کی نشاندہی کرنے کے بعد فرمایا : - إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا اے انسان! ہم تجھے صاحب اختیار بناتے ہیں اگر تو چاہے تو خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن اور جو تجھے کہا گیا ہے اس کے مطابق عمل کر اور خدا تعالیٰ سے انعام پا اور اگر چاہے تو ناشکری کر اور ان ہدایتوں کا نافرمان بن اور نافرمانی کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی گھاٹا تیرے نصیب میں ہوگا اور اُخروی زندگی میں خدا تعالیٰ کے قہر کے عذاب میں تجھے جلنا پڑے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے مختلف مدارج سے گزار کر ترقی دی.پس ہماری زندگی میں بھی اور ہر دوسری چیز کی زندگی میں بھی تدریجی اصول چل رہا ہے یہاں تک کہ پتھروں میں بھی تدریج کا اصول کارفرما ہے.ہر چیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ

Page 575

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث سورة الدهر اس نے انسان کو پیدا کیا.اس کو قو تیں اور صلاحیتیں دیں.ان کی حفاظت کے سامان پیدا کئے.ان کی نشوو نما کے لئے ہدایت دی.مگر یہ سب کچھ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِمَا شَاكِرًا وَ إِمَا كَفُورًا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ میری ہدایت کے مطابق عمل کرو اور انعام پاؤ یا اطاعت نہ کرو.نافرمانی کرو اور ناشکرے بن جاؤ اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے نعماء کے حصول کے جو سامان پیدا کئے تھے ان کی طرف تم توجہ نہ کرو اور اس کے نتیجہ میں محرومی ، مہجوری اور خدا سے دوری کی زندگی گزارو.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۴۳ تا۷ ۲۴) آیت ۹ تا ۱۲ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمَا وَ أَسِيران إنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَ لَا شُكُورًا إِنَّا نَخَافُ مِنْ ربَّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَبْطَرِيرًا فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُم نَضْرَةً و سرورا ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس حکم کو سن کر ہمارے نیک بندے ہماری رضا کے متلاشی بندے، ہمارے قرب کے خواہاں بندے، اس طرح عمل کرتے ہیں.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ علی حتہ کہ وہ ہماری محبت کی خاطر اور ہماری خوشنودی کے حصول کے لئے کھانا کھلاتے ہیں کس کو؟ مسکین کو یتیم کو اسیر کو.عربی زبان میں مسکین کے معنی ہیں ایسا شخص جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ بخوبی گزارہ کر سکے اور اس کا گھرانہ اس رویے سے پرورش پا سکے.اور یتیم کے معنی ہیں ایسا شخص جس کا والد یا مربی نہ ہو اور ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا.اور اسیر کے لفظی معنی تو قیدی کے ہیں.لیکن اس کے یہ معنی بھی کئے جا سکتے ہیں وہ شخص جو اپنے حالات سے مجبور ہوکر بطور قیدی کے ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور ان کو ضرورت ہے کہ ان کی مدد کی جائے.جس کے بغیر وہ اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے.ان لوگوں کو ہمارے ابرار بندے کھانا کھلاتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہوئے ان کے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان حال سے یہ کہہ

Page 576

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الدهر رہے ہوتے ہیں.اِنَّمَا نُطْعِمُكُم لوجه الله کہ ہم خدا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اور اس کی عنایات کو حاصل کرنے کے لئے تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں اور لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا ہم اس نیت سے تمہیں نہیں کھلا رہے کہ کبھی تم ہمیں اس کا بدلہ دو اور نہ یہ کہ تم ہمارا شکر یہ ادا کرو.ہم تم سے کچھ نہیں چاہتے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہی شکریہ کے خواہاں ہیں.ہم محض یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو جائے إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبْنَا يَوْمًا عَبُوسًا فَمُطَرِيرا پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں ڈر کے مارے تیوریاں چڑھی ہوئی ہوں گی.اور لوگوں کو گھبراہٹ لاحق ہوگی.( یہ دن قیامت کا ہے اور کبھی ایسا دن اس دنیا میں بھی آجاتا ہے ) کہ کہیں ہم بھی اس دن خدا کے عذاب اور اس کے قہر کے موردنہ بن جائیں.اسی لئے ہم یہ نیک کام بجالا رہے ہیں.اس دنیا میں“ کے الفاظ میں نے اس لئے کہے ہیں کہ بھوک کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے.جس کی طرف جب قو میں توجہ نہیں دیتیں تو ان قوموں میں بڑے بڑے انقلاب برپا ہو جاتے ہیں.جیسے کہ روس میں ریوولیوشن (انقلاب) اور دوسرے بہت سے ممالک میں انقلاب اسی لئے برپا ہوئے کہ وہاں اکثر لوگوں کی زندگی کی ضروریات خصوصاً کھانے کا خیال نہیں رکھا گیا.اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں اور ان آیات سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جب بھائی بھائی کا خیال نہیں رکھتا.اور ایک قوم کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے.تو اس قوم پر ایک دن انقلاب کا بھی چڑھ آتا ہے.جس میں بہت سے بڑے اور امیر لوگ چھوٹے اور غریب کر دیئے جاتے ہیں.وہ دن ان کے پچھتانے کا ہوتا ہے.جس قوم کے ہر فرد کو اس کی ضروریات میسر آتی رہیں اور ان کے دل مطمئن اور تسلی یافتہ ہوں.اس قوم میں اس قسم کا انقلاب بپا نہیں ہوا کرتے.انقلابات اور ریوولیوشنز (REVOLUTIONS) انہی ملکوں اور قوموں میں ہوتی ہیں.جن کے ایک بڑے حصہ کو دھتکارا جاتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا.دیکھو خدا تعالیٰ نے ایک ضرورت مند کو اور اس کے ساتھ نیکی کرنے کو کتنا بڑا مقام دیا ہے آخرت کے دن خدا تعالیٰ فرمائے گا.میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا یا بعض دوسروں سے کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.پہلے فریق کو وہ فرمائے گا کہ میں تم سے خوش ہوں اور تمہیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرتا ہوں اور دوسروں کو کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے میرا خیال نہیں کیا.اس لئے میں تمہیں جہنم میں دھکیلتا ہوں.

Page 577

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۶۷ سورة الدهر کتنے زور اور تاکید سے ہمیں توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم بھوکے کو کھانا کھلائیں اور ضرورت مند کو ضروریات زندگی مہیا کریں.کافروں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَةَ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَللٍ مُّبِينٍ - (يس:۴۸) کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ان کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرو تو کا فرلوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں.اگر خدا چاہتا تو جیسا اس نے ہمیں دیا تھا انہیں بھی وہ کھانے کو دے دیتا تم تو خدائی فعل کے خلاف ہمیں تعلیم دے رہے ہو اور اس وجہ سے ہم تمہیں کھلی گمراہی میں پاتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے بعض انسانوں کے لئے بعض نیکیوں کے مواقع بہم پہنچانے ہوتے ہیں.اس لئے اس نے انسانی معاشرہ کو اس طرح بنایا ہے کہ ہر ایک شخص نیکیوں سے حصہ وافر لے سکے.انہوں نے اس سے الٹا نتیجہ نکالا حالانکہ بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کے کرنے کا موقع زیادہ تر غرباء کو ہی ملتا ہے.مثلاً اپنے حالات پر صبر کرنا، قناعت سے کام لینا وغیرہ وغیرہ.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے رزق کثیر دیا ہوتا ہے اور انہیں مالی تنگی کا سامنا نہیں ہوتا وہ اس قسم کے صبر کا ثواب حاصل نہیں کر سکتے جو صبر ایک غریب آدمی تنگی ترشی کے زمانہ میں دکھاتا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمارے معاشرہ میں اونچے نیچے، امیر غریب، عالم، جاہل وغیرہ وغیرہ ہر قسم کے طبقات بنادئے ہیں تاکہ ہم اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے ہر قسم کی نیکیاں کرتے چلے جائیں.اگر ہر شخص اتنا امیر ہوتا کہ اس کو دنیا کی کوئی ضرورت پیش ہی نہ آتی.اگر ہر شخص اتنا عالم ہوتا کہ کسی استاد کے پاس جانے کی اسے ضرورت ہی نہ رہتی.اور اگر ہر شخص ہر فن میں اتنا کمال رکھتا کہ ڈسٹری بیوشن آف لیبر جس پر ہماری انسانی اقتصادیات کی بنیاد ہے کی ضرورت ہی پیدا نہ ہوتی.وغیرہ.تو ثواب کا کون سا موقع باقی رہ جاتا؟؟؟ اللہ تعالیٰ بے شک اس بات پر قادر ہے کہ ہر انسان کو ایسا بنا دے لیکن اس نے اسے ایسا نہیں بنایا.اس لئے کہ اس نے انسان کے لئے صرف اسی دنیا کی زندگی ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی بھی مقدر کی ہوئی ہے اور اُخروی زندگی کے پیش نظر ایسا معاشرہ انسان کے لئے مقرر فرمایا کہ ہر طبقہ کے لوگ اس معاشرہ کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرتے چلے جائیں اور اس طرح

Page 578

۵۶۸ سورة الدهر تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اس کی خوشنودی کو پوری طرح پاسکیں لیکن کا فرلوگ ان باتوں کو نہیں سمجھتے اس لئے جب ان کو کہا جاتا ہے کہ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرو اور محتاجوں کے لئے روز مرہ زندگی کی ضروریات مہیا کرو تو وہ کہتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے انہیں کھانے کو نہیں دیا تو تم ہم سے کیسے توقع رکھتے ہو کہ ہم خدائی فعل کے خلاف ان کو کھانے کے لئے دیں.ان کا کافرانہ دماغ عجیب بہانہ تراشتا ہے.......نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی پیار کرنے والے وجود تھے.بڑی ہی شفقت کی باتیں آپ کے منہ سے نکلی ہیں.چنانچہ آپ نے ہمیں ایسا گر سکھایا ہے کہ جس کو اگر ہم اپنے سامنے رکھیں اور اس پر عمل کریں.تو ایک دھیلا زائد خرچ کئے بغیر ہم اپنے ضرورت مند بھائیوں کی غذائی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور یہ ارشاد بخاری میں موجود ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ انَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامُ الإِثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةِ وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةِ (بخارى كتابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الْإِثْنَيْنِ) کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کو پورا ہوجاتا ہے اور تین کا کھانا چار کو پورا ہوجاتا ہے.ایک اور حدیث جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور ترمذی میں درج ہے اس کے الفاظ یہ ہیں.طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الْاِثْنَيْنِ وَطَعَامُ الْاِثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَ طَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ (ترمذى بَابُ الْأَطْعِمَةِ بَاب مَا جَاءَ طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الْإِثْنَيْنِ ) کہ ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہو جاتا ہے.اور دو آدمی کا کھانا چار کے لئے اور چار کا کھانا آٹھ آدمی کے لئے کافی ہو جاتا ہے.پس ایک حدیث میں تو یہ ہے کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا کھانا تین کس کے لئے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہو سکتا ہے.لیکن دوسری حدیث میں دگنا کرتے چلے گئے.در اصل بات یہ ہے کہ بعض گھرانے ایسے ہوتے ہیں جو اچھے کھاتے پیتے ہیں وہاں اگر ایک کس کا کھانا پکے تو دو کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور اگر چھ کس کا پکے تو بارہ کے لئے کافی ہو جاتا ہے.لیکن ان کے مقابل بعض ایسے گھرانے ہوتے ہیں جہاں دو کے لئے کھانا پکے تو صرف تین کس کے لئے کافی ہو سکے گا اور بعض گھرانے ان کی نسبت بھی زیادہ غریب ہوتے ہیں.اگر وہاں تین آدمیوں کا کھانا پکایا

Page 579

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۶۹ سورة الدهر جائے گا تو صرف چار کے لئے کافی ہوگا اور بعض گھرانے ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن میں آٹھ کا کھانا پکے تو نو کو ہی کافی ہو.ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ کھانا کھلا ؤ اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کوئی زائد خرچ کئے بغیر تم خدا تعالیٰ کے اس حکم کی کس طرح تعمیل کر سکتے ہو.تم جس طبقہ سے تعلق رکھتے ہو.یا تو وہ ایسا ہو گا جس میں ایک کا کھانا دو آدمی کے لئے اور دو آدمی کا کھانا چار کے لئے اور چار آدمی کا کھانا آٹھ آدمی کے لئے کافی ہوگا.یا وہ ایسا طبقہ ہو گا جس میں دو آدمی کا کھانا تین کے لئے اور تین کا چار کے لئے کافی ہوگا.یا جس میں کہ چار آدمی کا کھانا پانچ آدمی کے لئے کافی ہوگا.مثلاً ایک عام مزدور کے گھرانے میں چار افراد ہیں.اور ان میں سے ہر شخص تین روٹیاں کھاتا ہے تو گویا اس کے گھر میں بارہ روٹیاں پکیں گی.اگر ان چار میں سے ہر ایک تین کی بجائے اڑھائی روٹیاں کھالے تو دو روٹیاں مستحق کے لئے نکل سکیں گی اس طرح کوئی زائد خرچ نہ ہوا.اور ایک ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوگئی.تین کی بجائے اڑھائی روٹی کھانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی آدھی روٹی کم کھانے کے نتیجہ میں کوئی عارضہ یا تکلیف یاد کھ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ عادتاً ہم لوگ ضرورت سے زیادہ ہی کھاتے ہیں.اس طرح نہ ہمیں کوئی زائد خرچ کرنا پڑتا ہے اور نہ ہمیں کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے لیکن ایک آدمی کا کھانا بھی ہم نکال لیتے ہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کون ہے وہ حاجت مند جسے ہم نے کھانا دینا ہے.اس کے لئے آپس میں تعلقات اور آپس میں پیار کے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اپنی تنظیم کو اس طرح اخوت کی بنیادوں پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ محلہ والوں کو معلوم ہو کہ آج فلاں گھرانہ کسی وجہ سے کھانا نہیں پکا سکا.اکثر گھرانے مزدوروں کے ہوتے ہیں جو روزانہ کماتے ہیں اور جو کماتے ہیں وہی کھاتے ہیں.اتفاقاً کسی گھرانے کا ذمہ دار شخص ایک یا دو دن کے لئے بیمار ہوجاتا ہے تو اگر محلے والے اس سے پوری طرح واقف ہوں.تو ان کو معلوم ہو گا کہ آج فلاں شخص مسجد میں نظر نہیں آیا اس لئے وہ اسے دیکھنے جائیں گے.بیمار ہو گا تو اس کی عیادت کریں گے.اس طرح ان کو تو اب بھی مل جائے گا.پھر ان کو خود ہی خیال ہوگا کہ یہ بیمار ہے اسے اور اس کے گھر والوں کو کھانے کی ضرورت ہے.ان کے لئے کھانا مہیا کرنا چاہئے پریذیڈنٹ محلہ یا سیکرٹری یا جس کی ڈیوٹی لگائی جائے وہ دوتین

Page 580

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۰ سورة الدهر گھروں میں جا کر کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ توفیق ہے اپنے بھائی کی مدد کے لئے دیدو.اسی طرح وہ گھرانہ بھوکا بھی نہیں رہے گا اور آپ کا بھی کوئی زائد خرچ نہیں ہوگا اور پھر خدا کی نگاہ میں آپ کتنے بڑے ثواب کے مستحق ہو جائیں گے.فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھوں گا اور نجات دوں گا اپنی رحمت سے نوازوں گا اور اپنی مغفرت کی چادر سے ان کو ڈھانپ لوں گا.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۶ تا ۵۱)

Page 581

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۷۱ سورة المرسلات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المرسلات آیت ۱۲ وَإِذَا الرُّسُلُ يُقتَتْ منافق ایک فتنہ اس طرح پیدا کرتا ہے کہ جی جماعت ختم ہو گئی اب اگلی صدی کا مجددآ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے، اس کے متعلق میں علیحدہ نوٹ تیار کر رہا ہوں کسی وقت آپ کے سامنے آجائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے صرف صدی کا مجدد نہیں بنایا بلکہ دنیا کی زندگی کے جو ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں دنیا کی زندگی کے اس ہزار سال کے لئے مجھے مجدد بنایا ہے اور امام آخرالزماں بنایا ہے اور میں اس سلسلۂ خلافت کا آخری خلیفہ ہوں جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے وَ اِذَا الرُّسُلُ اقتت میرے آنے کے ساتھ وہ ساری تعداد پوری ہوگئی اور پتہ لگ گیا کہ کتنوں نے آنا تھا ( بہت سے حوالے ہیں پھر تفصیل کے ساتھ بتائیں گے ) منسوب ہوتے ہو تم جماعت احمدیہ کی طرف اور جس نے مہدویت کا دعویٰ کیا اس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے آخری ہزار سال کے لئے خلیفہ بنادیا اور اس دنیا کی ہمارے آدم کے ابناء کی جو عمر رہ گئی ہے اس کے لئے مسجد د بنادیا اور تم اس کی طرف منسوب ہونے والے کہتے ہو کہ جماعت ختم ہوگئی اب اگلی صدی کا مجدد آ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کی عمر کے بارہ میں بڑی بحث کی ہے کہ پہلوں نے یہ کہا.قرآن کریم میں یہ ہے.سورہ عصر سے خدا تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھایا اور آپ نے حوالے دے کر ثابت کیا ہے کہ اب دنیا کا ایک ہزار سال باقی رہ گیا ہے اور اس ہزار سال کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مجدد بنادیا ہے.یہ عظیم مجد دجس کو ایک ہزار سال کے لئے امت محمدیہ کا مجدد بنایا گیا

Page 582

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷۲ سورة المرسلات كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ ( النور : ۵۶) کے ماتحت آخری خلیفہ اور مسیح موعود بنایا گیا جس کے سپر دنوع انسانی کو امت واحدۃ بنانا کیا اور آپ نے بتایا ہے کہ امت واحدۃ بنانے پر تین سو سال سے زیادہ زمانہ نہیں لگے گا اور جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میرے نزدیک تو ہماری کامیابی کا زمانہ جسے قریباً آخری کامیابی کہنا چاہیے وہ دوسری صدی ہے جس کے لئے صد سالہ جو بلی فنڈ بھی قائم ہوا اور صد سالہ جوبلی کا منصوبہ بھی تیار ہو رہا ہے جس صدی کا ہم نے استقبال کرنا ہے، اسلام کے غلبہ کی صدی.پس اسلام کے غلبہ کی صدی نوع انسانی کے امت واحدۃ بن جانے کی صدی آ رہی ہے تو یہ ساری پیشگوئیاں اور یہ سارے مقاصد ختم ہو گئے اور ایک منافق کی بڑ کی طرف ایک مومن کان دھرے گا؟ یہ تو ویسے ہی نہیں ہو سکتا.میں بھی جانتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کہ جماعت کس قسم کی ہے لیکن ان کے لئے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ان کے لئے تو بہ کا دروازہ بند نہ کرے کیونکہ بہت سے منافقوں کو خدا تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی اور پھر انہوں نے قربانیاں دیں بلکہ بہت سے کافروں کو تو بہ کی توفیق دی اور انہوں نے قربانیاں دیں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۴۱، ۱۴۲)

Page 583

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۷۳ سورة النبأ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النبا و آیت ۱۰ وَجَعَلْنَا نَومَكُمْ سُبَاتًا تمہاری نیند کو تمہارے لئے راحت کا باعث بنایا ہے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں کوئی حکمت ہونی چاہئے.یہ کہنے سے کہ ہم نے تمہاری نیند کو تمہارے لئے راحت کا باعث بنایا ہے اس میں بہت سی حکمتیں ہیں.ایک حکمت یہ ہے کہ خدا یہ کہتا ہے کہ اگر میں تمہارا حق تسلیم نہ کرتا کہ تم اپنی زندگی کے کچھ لمحات راحت اور آرام اور اپنی طاقتوں کو زیادہ مضبوط بنانے اور پوری طاقت حاصل کرنے کے لئے نیند لو تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم سوتے.لیکن چونکہ تمہارے جسم کو میں نے اس طرح بنایا ہے کہ تمہارا دل اور تمہارا دماغ اور تمہارا جسم کوفت محسوس کرے گا اور چاہے گا کہ میں نیندلوں اس لئے ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِى حَقِّ حَقَّهُ (بخاری کتاب الصوم) اور تیرے نفس کا ایک حق یہ ہے کہ جب وہ تھک جائے اور اس کو راحت اور آرام کی ضرورت پڑے تو وہ سو جائے.پس ہماری زندگی کے سارے لمحات اللہ تعالیٰ کے تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے سونے کا حق پیدا کیا اور ہمیں اجازت دی کہ سو جاؤ ورنہ خدا کا مومن بندہ مرجاتا مگر اونگھتانہ، اس کو دوسری طرف یہ بھی تو حکم تھا نا ! کہ تخلّقُوا بِأَخْلاقِ اللہ اور وہ خدا تعالیٰ کی سنت دیکھتا کہ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمُ (البقرة:۲۵۶) اور کہتا کہ میں بھی نہیں سوؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا پھر تو اپنی اس زندگی کو کامیاب نہیں بنا سکتا.تیرے قومی آہستہ آہستہ کمزور ہوتے چلے جائیں گے.حالانکہ تیری ذمہ داریاں تو آہستہ آہستہ بڑھتی

Page 584

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۴ سورة النبأ چلی جاتی ہیں.تو انہیں کیسے نیا ہے گا.پس نیند کا یہ حق قائم کر دیا اور جہاں یہ ذکر ہے کہ وہ زکوۃ دیتے ہیں یا مِنَا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسلیم کرتے اور ہر چیز کا مصرف اور خرچ خدا کی ہدایت کے مطابق ہو تو صحیح سمجھتے ہیں ورنہ ہمارا اپنا کوئی حق نہیں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۶۳۱،۶۳۰)

Page 585

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۷۵ سورة النازعات بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النازعات آیت ۲۵ فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الأعلى انسان خدا سے دور ہو کر ہی انانیت کا چولہ نہیں اوڑھتا اور تکبر اور فخر اور اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کی میں مبتلا نہیں ہو جاتا اور خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنے کے بعد ہی اس قسم کی انا کا، انانیت کا مظاہرہ نہیں کرتا جس قسم کی انانیت کا مظاہرہ فرعون نے آنا ربکم الاعلی کہہ کر کیا تھا بلکہ خدا پر ایمان لانے کے بعد بھی اس ابتلا کا دروازہ انسان پر کھلا رہتا ہے.اسلام نے مذہب کی جو بنیادی حقیقت ہمیں سمجھائی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا کام ہے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر اخلاص کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ ان اعمال کو وہ بجالائے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ بجالا ؤ اور ان سے اجتناب کرے جن سے بچنے کے لئے حکم دیا گیا ہے.اعمال کو قبول کرنا یا نہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.ان چھپی ہوئی پوشیدہ ایسی کمزوریوں کو جاننا جن پر انسان خود بھی اطلاع نہیں رکھتا.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.یہ انسان کر ہی نہیں سکتا.اس لئے اسلام کی اس تعلیم کا جو حصہ ہے، اس کا خلاصہ اس فقرہ میں بیان کیا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد سمجھو کہ کچھ نہیں کیا.اس لئے کہ قبول کرنا یا نہ کرنا، یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.کوئی شخص ساری ساری رات خدا کے حضور بظاہر دعائیں کرنے کے باوجود خدا کا پیارا نہیں بنتا.مالی قربانیاں دینے کے بعد ، وقت کی قربانی دینے کے بعد ، نفس کی قربانی دینے کے بعد عزت کی قربانی دینے کے بعد خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول نہ کرے.اس سلسلہ میں حکم قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے کہ لا تز کوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) خودا اپنے نفس کو اور ایک دوسرے کو ( یہ دونوں مفہوم اس میں آتے ہیں ) پاک اور مطہر نہ قرار دیا کرو.مختلف آیات

Page 586

نگر حضرت خلیفة المسح الثالث میں یہ ۵۷۶ سورة النازعات یہ مضمون اور اس کے مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۸۱، ۳۸۲) آیت ا وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى جو شخص نفس کی شہوات اور ان لذتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.شہوات کو قطع کرتا اور اپنے سے ان میلانوں کو دور کرتا ہے جو نفس اتارہ کی آواز ہوتے ہیں اور ان سب برائیوں اور بدیوں سے نجات حاصل کر کے اپنی عقل ( اپنی نہیہ ) کے نتیجہ میں اپنے رب کے مقام اور اس کی صفات کے جو جلوے ہیں ان سے وہ لرزتا ہے اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنے رب کو ناراض کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت ملتی ہے.(خطابات ناصر جلد اول صفحہ ۲۳۶)

Page 587

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۵۷۷ سورة عبس بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة عبس آیت ۱۶ پایدِى سَفَرَةِ بِأَيْدِي قرآن کریم کے متعلق آیا ہے پایدنی سفرة کہ دور دور سفر کر نے والوں کے ہاتھ میں بھی یہ کتاب ہے.یہ بڑی عظیم کتاب ہے.اس مضمون پر بہت سی آیات ہیں لیکن اس وقت میں ان کے متعلق تفصیلی طور پر کچھ نہیں کہنا چاہتا بلکہ صرف اسی ٹکڑے کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ سفر کرنے والے دو قسم کے ہیں.ایک وہ لوگ ہیں جو تربیت اور علوم حاصل کرنے کے مراکز سے علم حاصل کرتے اور تربیت حاصل کرتے ہیں اور پھر لمبے سفر کر کے ہر جگہ پہنچتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کو، اس ہدایت کو جو بنی نوع انسان کے قیامت تک کے فائدے کے لئے آئی ہے ان تک پہنچا ئیں اور ایک وہ لمبے سفر کرنے والے ہیں جو ایسے مراکز میں پہنچتے ہیں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ما تحت قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے اور امت مسلمہ میں ایسے ہزار ہا ہزار ہا مراکز تھے جو نہ ہم نے گئے اور نہ گنے جاسکتے ہیں، شاید تاریخ بھی بہت ساروں کو بھول چکی ہوگی.ہمارے جلسہ سالانہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس میں شمولیت کے لئے آتے ہیں مثلاً یہاں سے دس ہزار میل دور سے امریکن جلسہ پر آئیں گے اور ان کے کانوں میں خدا اور رسول کی باتیں پڑیں گی.وہ تقریریں سنتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی لیکن میں حیران ہوں شاید آپ کو پتا نہیں کہ بعض دفعہ ۲۶ تاریخ کی تقاریر کا علم ان لوگوں کو جو ہماری زبان نہیں جانتے عشاء کے وقت ہو چکا ہوتا ہے.اس قدر وہ کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ اس مقرر نے کیا کہا، اس نے کیا کہا، اس نے کیا کہا اور نوٹ لیتے ہیں اور کچھ یا درکھتے ہیں اور اس طرح وہ لوگ علم حاصل کرتے ہیں لیکن صرف علم حاصل کرنا ان کو اتنا

Page 588

تفسیر حضرت خلیل اسی اثاث ۵۷۸ سورة عبس فائدہ نہیں دے سکتا وہ بڑی تیز نگاہیں لے کر یہاں آتے ہیں اور وہ آپ کو دیکھتے ہیں کہ کیا آپ قرآنی تعلیم کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں یا نہیں؟ وہ آپ کے مردوں کو دیکھتے ہیں، بچوں کو بھی دیکھتے ہیں اور جوانوں کو بھی دیکھتے ہیں اور باہر سے جو عورتیں آتی ہیں وہ ربوہ کی عورتوں کو دیکھتی ہیں کہ تم ہمیں تعلیم دے رہے ہو قرآن سکھا رہے ہو خود بھی عمل کر رہے ہو یا نہیں؟ یہ نمونہ پیش کرنا بھی ربوہ کا کام ہے.مثلاً دکاندار ہیں ہم کب کہتے ہیں کہ تم دکانداری نہ کرو.اسلام نے روزی کمانے سے تو منع نہیں کیا لیکن اسلام نے روزی کمانے کے لئے ہدایتیں بھی دی ہیں ان ہدایتوں کی پابندی کرو.ذخیرہ اندوزی نہیں کرنی، منڈی میں آکر منڈی کے بھاؤ پر خرید وفروخت کرنی ہے، باہر کے بھاؤ پر نہیں کرنی وغیرہ.جو لوگ سفر کر کے قرآن سیکھنے کے لئے آتے ہیں وہ بھی میرے نزدیک پایدنی سَفَرَةِ میں (خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۴۹۶، ۴۹۷) شامل ہیں.

Page 589

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۵۷۹ سورة التكوير بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التكوير آیت ۵ وَإِذَا الْعِشَارُ عُلِلَتْ.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قیامت تک اگر تم چاہو تو گھوڑوں میں جو برکت رکھی گئی ہے اس سے تم فائدہ حاصل کر سکتے ہو آپ نے فرمایا کہ قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانیوں میں میری امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے.اللہ تعالیٰ نے وَإِذَا الْعِشَارُ عُظلت تو کہا لیکن گھوڑوں کے متعلق ایسا نہیں کہا کہ کسی زمانہ میں قیامت تک ایسا بھی ہوگا کہ گھوڑوں کی ضرورت نہیں رہے گی یا انسان کو گھوڑے کی برکت سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۶۲)

Page 590

Page 591

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۸۱ سورة الانفطار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانفطار آیت ۷ تا ۹ يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فسونك تعدلك في في أي صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَبَكَ.اے انسان تجھے کس نے تیرے ربّ کے بارے میں مغرور بنایا ہے.مَا غَزَكَ بِفُلانٍ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ تجھے اس کے مقابلہ میں دلیری اور جرات کے ساتھ کھڑے ہو جانے پر کس نے آمادہ کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان ہم نے تجھے پیدا کیا پھر تیری فطرت صحیحہ میں اپنی بعض صفات رکھیں اور پھر تجھے اپنی صفات کا مظہر بنایا.فسونك پھر تیری ان صفات کو تیرے مناسب حال درست کیا اور پھر تجھے خالی صفات ہی نہیں دیں بلکہ تجھے ان صفات کے مطابق اعمال بجالانے کی قوت بھی عطا کی خدا تعالیٰ تو خیر قادر مطلق ذات ہے.اس کی صفات اور اس کی قدرتیں پہلو بہ پہلو چل رہی ہوتی ہیں اس کے لئے نہ اس دنیا میں کوئی روک ہے اور نہ اگلی دنیا میں کوئی روک ہے.وہ مُلِكِ كُلِّ شَيْءٍ ہے وہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الرعد: ۱۷) ہے وہ قادِرُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ ہے لیکن انسان ایسا نہیں.اس کو اگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنی بعض صفات دی ہو تیں لیکن ان کے مطابق اعمال بجالانے کی طاقت اسے حاصل نہ ہوتی تو یہ سب صفات اس کے کسی کام کی نہ ہوتیں وہ محض ایک برکا رشئی ہوتیں مثلاً صفت رحم ہے اگر اللہ تعالیٰ انسان کو صفت رحم تو عطا کرتا لیکن رحم کرنے کیلئے جن اسباب اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا نہ کئے جاتے تو یہ صفت انسان کیلئے بریکا رشئی بن کر رہ جاتی.پس جہاں تک انسان کا تعلق ہے ضروری ہے کہ ہر صفت کے مطابق اسے اعمال بجالانے کیلئے مناسب ذرائع سامان

Page 592

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۲ سورة الانفطار اور اسباب بھی عطا کئے جائیں ورنہ وہ صفت انسان کے کسی کام کی نہیں رہتی تو فرما یا فسوكَ فَعَد لَكَ ہم نے تجھے تیری صفات کے مطابق ایسی قوتیں دی ہیں اور ایسے اسباب پیدا کر دئے ہیں کہ یہ صفات ناکارہ نہ بن جائیں بلکہ تو ان کے مطابق اپنی عملی زندگی گزار سکے ہم نے تجھے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور ان کے مطابق عمل بجالانے یا نہ بجالانے میں آزاد رکھا ہے پھر في اي صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَبَكَ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے جو صورت پسند کی اس میں تجھے ڈھالا اس آیت میں اس طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے مجبور پیدا نہیں کیا بلکہ تجھے تیری فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ طبیعت ثانیہ بھی عطا کی ہے اور تجھے اجازت دی ہے کہ اگر تو چاہے تو خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی صفات حسنہ کا حقیقی مظہر بنے.اور اگر تو چاہے تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اباء اور استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہوئے بغاوت اختیار کرلے اور شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کا انسان کو یہ آزادی دینا بھی دراصل اسے مظہر صفات باری بنانے کے لئے ضروری تھا.ورنہ اگر جبر کا طریق اختیار کیا جاتا تو اس میں اور خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہ رہتا اور انسان کو دوسری مخلوقات پر کوئی فضلیت حاصل نہ ہوتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوقات ہی اس کی اطاعت میں لگی ہوئی ہے اور وہ اس کے احکام کے بجالانے سے انکار نہیں کر سکتی.دیکھو خدا تعالیٰ بھی محنت کا پھل دیتا ہے اور آم کا درخت بھی خدا تعالیٰ کے اذن کے ساتھ محنت کا پھل دیتا ہے یعنی انسان آم کے درخت پر محنت کرے تو خدا تعالیٰ کے اذن کے ساتھ اسے محنت کا پھل مل جاتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ محنت تو کرے اس لئے کہ اسے اس درخت سے آم ملیں لیکن اسے اس درخت سے کھٹی گلگل حاصل ہو کیونکہ اس درخت نے خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، خدا تعالیٰ کا اسے حکم ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی پرورش کرے تو وہ بڑا ہو کر اسے آم ایسا میٹھا پھل دے لیکن اس آم میں خدا تعالیٰ کے صفات کا مظہر بننے کی اہلیت نہیں کیونکہ جہاں جبری اطاعت ہو وہاں کامل مظہر یت پیدا نہیں ہوتی جیسے اللہ تعالیٰ پر کسی اور ہستی کا زور نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی اس کے ایک محدود دائرہ کے اندر آزادی دے دی ( بڑے دائرہ کے اندر تو وہ بھی بہت سی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ) یعنی

Page 593

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۳ سورة الانفطار اس کو ایسی قوتیں عطا کر دیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی ان صفات کو جو اسے عطا کی گئی ہیں ایک محدود دائرہ کے اندرا اپنی مرضی سے استعمال کر سکے اور اگر چاہے تو وہ راستہ بھی اختیار کر لے جو اس کی فطرت صحیحہ خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۳۴، ۱۳۵) کے مطابق نہیں.

Page 594

Page 595

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۸۵ سورة المطففين بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المطففين آیت ۲۳ تا ۲۹ إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِی نَعِيمٍ عَلَى الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ ) تَعرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ : يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيقٍ مَخْتُومٍ ختمُهُ مِسْكَ وَ فِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيمِ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو نیکیوں میں آگے بڑھ جاتے اور سبقت لے جاتے ہیں انہیں مقام نعیم میں رکھا جاتا ہے ان کا مقام وہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر وقت نعمتوں کا نزول ان پر ہوتا رہتا ہے اور اس مقام نعیم کی وجہ سے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے وہ وافر حصہ پاتے ہیں ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شادابی دنیا دیکھتی ہے محبت الہی میں ہر وقت وہ مست رہتے ہیں اور یہ محبت الہی ان کے رگ وریشہ میں کچھ اس طرح سرایت کر جاتی ہے کہ ان کے وجود مشک کی طرح مہک اٹھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی خوشبو لوگ بھی ان کے وجود سے سونگھتے ہیں فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے کہ ایک خواہش کرنے والے، ایک آرزو کرنے والے کو چاہیے کہ اس مقام کی خواہش کرے اس سے نیچے کی خواہش تو کوئی خواہش نہیں.انسان کو اس مقام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی آرزو ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مقام نعیم عطا کرے اور یہ وہ مقام ہے کہ حقیقی عزت اور حقیقی شان انسان کی اسی مقام میں ہے.ایک دنیا دار انسان کو ساری دنیا کی بادشاہتیں بھی حقیقی عزت عطا نہیں کر سکتیں اگر ساری دنیا کی بادشاہتیں اکٹھی ہو کر یہ فیصلہ کریں کہ

Page 596

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۶ سورة المطففين فلاں شخص دنیا میں معزز ترین انسان ہے اور اسی کے مطابق ( ظاہری طور پر ) اس سے سلوک کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے لئے پیار نہ ہو بلکہ غضب کی جھلکیاں نظر آ رہی ہوں تو نہ کوئی عزت ہے اس شخص کی نہ کوئی شان ہے اس شخص کی.یہ مقام نعیم کی شان اور عزت اور احترام ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا اور اس کے حصول کی تمہیں کوشش کرنی چاہیے.(خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۷ ۱۴۸،۱۴)

Page 597

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۵۸۷ سورة الانشقاق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانشقاق آیت يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبَّكَ كَدْحًا فَ فلقيه اس مختصر سی آیت میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں.اول یہ کہ انسان کو وصال الہی کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے یعنی جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے اسے خود کوشش کرنی پڑتی ہے اور پورا زور لگا کر کرنی پڑتی ہے.گویا جب انسان اللہ تعالیٰ سے وصال اور اس کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش کرے گا تب اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے اسے نوازے گا اور اپنی لقاء یعنی رضا اور ملاقات کے سامان اس کے لئے پیدا کرے گا.دوسرے یہ کہ کوشش کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان آزاد ہے.اللہ تعالی کے فضلوں کے حصول کے لئے کوئی شخص کسی دوسرے کے لئے کوشش نہیں کر سکتا ، اگر کوئی کرے گا بھی تو ایسی کوشش بے نتیجہ ہوگی.اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے کے لئے ہر انسان کو خود کوشش کرنی پڑتی ہے کسی دوسرے کی کوشش کام نہیں آسکتی.تیسرے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص خدا کے حضور عاجزانہ جھکتا ہے اور قرب الہی کو پانے کے لئے ہدایت کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور خدا سے قریب سے قریب تر ہونے کی جدو جہد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی قدرت ، عظمت اور جلال غیر اللہ کو اس بات سے منع کرتے ہیں کہ وہ انسان کو اس کی کوشش سے باز رکھے یا اس کی کوشش کو ناکام بنادے یعنی یہ اعلان کرے کہ اس کی کوشش ناکام ہوگی.ویسے شیطان اور اس کا گروہ انسان کے دل میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں لیکن میں اس وقت شیطانی طاقتوں کی بات نہیں کر رہا، میں تو یہ بتارہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف کوئی شخص بلند ہورہا ہو.وہ

Page 598

۵۸۸ سورة الانشقاق تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث خدا کی راہ میں آگے بڑھ رہا ہو تو کسی اور کو یہ طاقت نہیں کہ وہ اس کی ٹانگ پکڑ کر پیچھے کھینچ لے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو طاغوتی طاقتیں ہیں خدا کے بندوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہوتا.وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوتیں.چوتھے اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سی کوشش کر دکھائے.بات یہ ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجز بندہ جو کچھ بھی پیش کرتا ہے اس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اور جو تھوڑا بہت وہ پیش کرتا ہے وہ اس کی ملکیت ہی نہیں.مالک تو اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ بطور امانت کے ہے.اگر انسان کو یہ کہا جاتا کہ وہ خدا کی عظمتوں کے مطابق کوشش کرے یا اگر یہ کہا جاتا کہ خدائی جلال کے مد نظر جتنی طاقت خرچ ہونی چاہیے ہر انسان لقائے الہی کے لئے اتنی طاقت خرچ کرے تو کوئی ایک انسان بھی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہ کر سکتا.اس لئے کہا یہ گیا ہے کہ اے انسان! (انسانوں میں سے ہر فرد مخاطب ہے) تو اپنے دائرہ استعداد کے اندر جتنی کوشش کر سکتا ہے اُتنی کوشش تجھے کرنی پڑے گی تب خدا کا تقرب تجھے حاصل ہوگا اور تیرے لئے وصل اور لقائے الہی کے سامان پیدا ہوں گے.اگر تیری طاقتیں خدا اور غیر اللہ میں بٹ جائیں گی، اگر تو کچھ خدا کے حضور پیش کرے گا اور کچھ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کے سامنے پیش کرے گا، اگر تیرا سب کچھ خدا کیلئے نہ ہوگا تو پھر گویا تو نے اپنی خداداد طاقت اور استعداد کے مطابق اپنا پور از ور نہیں لگا یا اس لئے تیری تھوڑی سی کوشش گادی الی ربک کے مطابق نہیں ہوگی اور تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل نہیں کر سکے گا.پس ایک طرف فرمایا انسان کمزور ہے یعنی اس کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں لگی ہوئی ہیں جن کو بشری کمزوریاں کہتے ہیں اور جن کے نتیجہ میں انسان سے غفلتیں ہو جاتی ہیں مگر اس کے باوجود فرمایا کہ اگر انسان کی نیت پوری کوشش کرنے کی ہوگی اور وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی بھی پوری کوشش کرے گا تب اس سے اگر کبھی کبھی غلطیاں، کوتاہیاں، گناہ، کمزوریاں یا سستیاں سرزد ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان کے اثرات کو دور کر دے گی.یعنی انسان کی جتنی طاقت ہے اگر اس کے مطابق اس کی کوشش ہوگی اور بغیر فساد کے ہوگی اور خلوص نیت کے ہوگی اور خدا تعالیٰ کی محبت ہوگی اور خدا کی محبت کے حصول اور اس کی رضا کے لئے ہوگی تو باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی تو کوئی

Page 599

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۹ سورة الانشقاق قیمت ہی نہیں.یہ ساری کائنات ہی خدا تعالیٰ کے پیار کے ایک لمحہ پر قربان.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے انسان! جب تو اپنی سی کوشش کرے گا تو کوشش کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا پیار تجھے مل جائے گا لیکن پھر تجھے سوائے اللہ کے ہر دوسری ہستی کو چھوڑ نا پڑے گا.فرمایا ہم تجھے بشارت دیتے ہیں جب تو کوشش کر رہا ہوگا تو دنیا کے اعلان یا ہم سے دور لے جانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی.ہاں اگر تو بد قسمتی سے خود ہی ان کی طرف ہو جائے تو اس کا تو خود ذمہ دار ہے لیکن اگر تو خود مائل نہیں، اگر تو كادح إلى رَبِّكَ كَدْحًا سے پورا زور لگا رہا ہے تو پھر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کی عظمت اور اس کی قدرت کے لحاظ سے جو کوشش ہونی چاہیے میری طرف سے اتنی کوشش نہیں ہوتی لیکن چونکہ تجھے خداہی نے یہ استعدادیں دی تھیں اور لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) کی رو سے تیری استعداد سے زیادہ تجھ سے مطالبہ نہیں کیا جاتا اس لئے تیرے تھوڑے کو قبول کیا جائے گا.تیرے اخلاص کی وجہ سے، تیری انتہائی جدو جہد کی وجہ سے، تیرے جذبہ کی وجہ سے، تیری محبت کی وجہ سے.تیری اس کوشش کے نتیجہ میں کہ تو خدا تعالیٰ کی محبت میں فانی ہونا چاہتا ہے اور تو اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دینا چاہتا ہے تجھے ایک ایسا موتی مل جائے گا جو انمول ہے، دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں.پس ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے وصل اور لقا سے محروم ہو تو تم خود ذمہ دار ہو کوئی اور اس کا ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ کسی اور کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ وہ خدا کی محبت اور تمہارے درمیان حائل ہو سکے.کسی کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ وہ خدا تعالیٰ تم سے پیار کرنا چاہے اور وہ اس میں روک بن سکے.خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی طاقتیں جو کچھ کر سکتی ہیں وہ یہی ہے کہ تمہاری کوشش کو کمزور کر دیں لیکن یہ تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی کوشش کو کمزور نہ ہونے دو تم خدا تک پہنچنے کے لئے پورا زور لگاؤ.خدا کی راہ میں قربانیاں دو اور اس کے دین کی خدمت کرو.تم خدا کی مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک کرو.بنی نوع انسان سے ہمدردی کرو.ان کی خدمت کرو.ان کے حقوق ان کو دو کہ یہ ایک بنیادی چیز ہے.اگر تم اپنی طرف سے اپنے دائرہ استعداد کے اندر انتہائی کوشش کرو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم نہیں کرسکتی.پس ایک طرف بشارت بڑی عظیم ہے مگر دوسری طرف ذمہ داری بھی بڑی عظیم ہے.ہر فرد کی اپنی

Page 600

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۹۰ سورة الانشقاق ذمہ داری ہے وہ کسی دوسرے پر الزام نہیں دھر سکتا کہ فلاں کی وجہ سے اسے خدا کا پیار نہیں ملا.اگر اسے خدا کا پیار نہیں ملا تو اس کی کسی اپنی کوتاہی کی وجہ سے نہیں ملا کیونکہ خدا کے پیار اور اس کے پیار کے درمیان جیسا کہ میں نے کہا ہے کسی اور کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے.خدا پیار کرنا چاہے اور غیر اللہ میں سے کوئی ہستی اس پیار میں روک بن جائے.اس کائنات میں خدا نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اگر وہ خدا عبد بن جائے تو وہ ساری برکتیں اسے مل جاتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے اور اگر وہ ایسا نہ بنے یعنی عباد الرحمن میں شامل نہ ہو تو اس کا وہ خود ذمہ دار ہے کسی اور پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور نہ کسی اور کو مجرم قراردیا جاسکتا ہے.اگر کسی کا جرم ہے تو اس نے نقصان اٹھانا ہے اور اگر کسی نے کچھ پانا ہے تو اس نے پانا ہے.لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُم (المائدة :۱۰۶) ہدایت پر اس نے خود قائم رہنا ہے.ساری دنیا بھی اگر خدا سے دور ہو جاتی ہے اور ایک فرد واحد خدا کے حضور روحانی رفعتوں کو حاصل کر رہا ہے تو ساری دنیا کی دوری اس کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی کو دیکھ لو دعوی نبوت سے پہلے بھی آپ خدا کے حضور جو گریہ وزاری اور عبادتیں کرتے رہے وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت حقیقی معنے میں خدا تعالیٰ کا ایک ہی عبادت گزار بندہ تھا آپ کے سوا ساری دنیا غفلت میں پڑی ہوئی تھی.کوئی تکبر میں پڑا ہوا تھا.کوئی اباء اور استکبار میں پڑا ہوا تھا.کوئی خدا کے خلاف بغاوت میں لگا ہوا تھا صرف وہی ایک بندہ تھا جو خدا کے حضور جھکا ہوا تھا.پھر اس وقت جب کہ ہر انسان خدا سے دور تھا، خدا نے اسی ایک بندے سے پیار کیا اور اتنا پیار کیا کہ اور انسان کے حق میں نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا پیار کیا ہو یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کا اتنا پیار ملا ہو یا خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی نعمتیں ملی ہوں یا اتنی عزت قائم ہوئی ہو جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی.پس وہ جو اکیلا تھا کروڑوں کروڑ لوگ اس پر درود بھیجنے والے پیدا ہو گئے اور قیامت تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان خود اپنا ذمہ دار ہے.کسی انسان کو خدا تعالیٰ کے پیار سے روکنے کی کوئی اور انسان طاقت نہیں رکھتا.اسے اگر پیار ملتا ہے تو إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَيُلْقِيهِ کے مطابق ملتا ہے اور اگر وہ خدا کے پیار سے محروم رہتا ہے تو اس محرومی کی ذمہ داری اس کے اپنے نفس پر ہے کسی اور پر نہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۹۳ تا ۲۹۷)

Page 601

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۹۱ سورة الانشقاق اس آیہ کریمہ سے پہلے سورۃ انشقاق میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اپنی مادی ترقیات کے لئے انتہائی کوشش کرے گا پانی کی طرح وہ اپنا روپیہ بہائے گا.مادی ترقیات کے لئے وہ جس قدر بھی ضرورت ہوگی جان تلف کرنے میں بھی دریغ نہیں کرے گا.زمین اور آسمان کے راز دریافت کرنے کی انتہائی کوشش بھی کرے گا اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوگا اور اس کثرت سے نئی دریافتیں ظاہر ہوں گی کہ انسان یہ سمجھنے لگے گا کہ شاید اس نے خدائی کے سارے ہی راز معلوم کر لئے ہیں اور اب کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی کہ جس کے دریافت کرنے کی اسے ضرورت ہو زمین کو چھوڑ کر اور زمین کی وسعتوں میں تنگی محسوس کرتے ہوئے وہ آسمان کی طرف رجوع کرے گا.اور زمین کے ان ٹکڑوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گا.جو کسی وقت اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت زمین سے علیحدہ ہوئے اور علیحدہ کرے انہوں نے بنائے.جن کا تعلق نظام شمسی سے ہے اور جس طرح زمین کی مختلف اشیاء سے وہ فائدہ اُٹھا رہا ہے.اسی طرح اس کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ آسمان کے ان ستاروں سے بھی فائدہ اٹھائے اور اس طرح اپنی زمین میں ایک وسعت پیدا کرے اور اس کو پھیلا دے.پس انسان کا دماغ اس وقت اس کام میں لگا ہوا ہو گا کہ وہ زمین کے راز بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کرے اور زیادہ سے زیادہ ان رازوں سے فائدہ اُٹھائے اور آسمان کے ستاروں پر بھی وہ کمند ڈالے گا اور ان تک پہنچنے کی کوشش کرے گا اور ان سے اسی طرح فائدہ اٹھانے میں مشغول ہو گا جس طرح کہ زمین کی مختلف چیزوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے.پھر یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل مامور اور مبعوث کئے جائیں گے.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اور توحید خالص کے قیام کے لئے آسمان سے بڑی کثرت کے ساتھ نشان ظاہر ہوں گے.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک دنیا خدا کو بھول چکی ہو گی.خدا کی منکر ہوگئی ہوگی.دہریت کو انہوں نے اختیار کرلیا ہوگا.چونکہ دلائل کے مقابلہ میں آسمانی نشان دہر یہ قسم کے لوگوں پر زیادہ اثر کرتے ہیں اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ وہی آسمان سے نازل کرتا ہے.تو جہاں یہ فرمایا کہ کثرت کے ساتھ

Page 602

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۹۲ سورة الانشقاق آسمان سے نشان ظاہر ہوں گے وہاں اس طرف بھی متوجہ کیا کہ انسان کثرت سے مذہب کو چھوڑ کے دہریت کی طرف مائل ہو جائے گا.اور خدا کا منکر ہو جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مادی ترقیات کے لئے تو اتنی جستجو، اتنی قربانیاں مالی بھی اور جانی بھی، کہ کسی چیز کے خرچ کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا.لاکھوں آدمیوں کی جان بھی قربان کرنی پڑے تو کسی نہ کسی بہانے وہ قربان کر دی جائیں گی تاکہ زیادہ سے زیادہ آسمانی اور زمینی رازوں کو اس زمانہ کے سائنسدان حاصل کر سکیں اور اس زمانہ کی قومیں ان رازوں سے فائدہ اُٹھاسکیں لیکن دوسری طرف جہاں تک دین اور مذہب اور روحانیت کا سوال ہے اس زمانہ کے انسان کی خو بہانہ جو ہو گی.وہ سعی کرنے کی بجائے ، کوشش کرنے کی بجائے اور اجتہاد اور مجاہدہ کرنے کی بجائے تعویذ گنڈے کی طرف، جمعۃ الوداع کی طرف لیلتہ القدر کے غلط تصور کی طرف متوجہ ہوگا اور سمجھے گا کہ بغیر کسی قربانی کے میں مادی ترقی تو نہیں حاصل کر سکتا.لیکن بغیر کسی قربانی کے میں اپنے رب کو اور اس کے فضلوں کو پا سکتا ہوں.یہ ذہنیت اس وقت انسان میں پیدا ہو چکی ہوگی ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.نہیں ! يَاتِهَا الْإِنْسَانُ إنَّكَ كَادِح إلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيهِ اگر تو اپنے رب سے ملاقات کرنا چاہتا ہے اگر تیرے دل میں یہ خواہش کروٹیں لے رہی ہے کہ تو اپنے رب کا دیدار کرے اور اس کی زیارت کرے تو پھر تجھے کدح کرنی پڑے گی.کدح عربی زبان میں ایسی کوشش کے ہوتے ہیں جو انسان کو تھکا دے اور تا دمع گنگا میں انتہائی کوشش کی طرف اشارہ ہے تو فرمایا پوری کوشش، انتہائی سعی کرو گے تب تم اپنے رب کو مل سکو گے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی تلاش ہو تو ہر قسم کی قربانیاں تم پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اپنے رب کی تلاش ہو تو کسی قسم کی قربانی پیش کرنے کی طرف تمہاری طبائع مائل نہ ہوں تم تعویذ اور گنڈے کی طرف جھکنے لگ جاؤ.تم جمعۃ الوداع کے ساتھ مذاق کرنے لگ جاؤ کہ سارا سال جو مرضی کرتے رہے جمعتہ الوداع آیا جا کے نماز پڑھی سارے گناہ معاف کروائے یا تم لیلتہ القدر کا سہارا ڈھونڈ نے لگ جاؤ کہ بس ایک رات کا قیام جو ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے.باقی جو سال بھر کی راتیں ہیں اس میں غفلت کی نیند اگر ہم سوئے بھی رہے تو ہمارا کوئی نقصان نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ نہیں اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے اگر تم اس کا مقرب بنا چاہتے ہو اگر تمہارے

Page 603

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۹۳ سورة الانشقاق دل اور تمہاری روح اس تڑپ میں مبتلا ہیں کہ تمہارے رب کا تمہیں دیدار ہو جائے تو تمہیں انتہائی کوشش سے کام لینا پڑے گا.إنَّكَ كَادِحٌ إلى رَبِّكَ كَدْحًا فَسُلِقِيهِ اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں انتہائی کوشش نہ کرو گے اور مجاہدہ کے حقوق ادا نہ کرو گے اور اپنی طاقت کا آخری حصہ تک اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہو جاؤ گے.اگر تم اپنے سارے اموال قربان کر کے، اگر تم اپنی ساری لذات قربان کر کے، اگر تم دنیا کی تمام خواہشات قربان کر کے، اگر تم اپنی اولا د اور رشتہ داروں کو اور ان کی محبتوں کو قربان کر کے اس کی طرف آنے کی کوشش نہیں کرو گے تو وہ تمہیں نہیں ملے گا.وہ تمہیں صرف اس وقت مل سکتا ہے جبکہ تم جتنی کوشش اور جتنی قربانی دنیا کے حصول اور دنیا کی ترقیات اور دنیا کے رازوں کو معلوم کرنے کے لئے دے رہے ہو اس سے زیادہ قربانیاں اپنے خدا کی تلاش میں اس کے حضور پیش کرو.ہاں! پھر وہ تمہیں مل جائے گا.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۴۸ تا ۵۵۱)

Page 604

Page 605

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۹۵ سورة البروج بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البروج آیت ۸ تا ۱۱ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودُهُ وَ مَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدُ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ.ترجمہ :.اور وہ لوگ مومنوں سے جو کچھ کر رہے ہیں ان کا دل اس کی حقیقت کو سمجھتا ہے اور وہ ان سے صرف اس لئے دشمنی کرتے ہیں کہ وہ غالب اور سب تعریفوں کے مالک اللہ پر ایمان کیوں لائے.وہ اللہ جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ ہر چیز کے حالات سے واقف ہے.وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب میں مبتلا کیا پھر اپنے فعل سے تو یہ بھی نہ کی انہیں یقیناً جہنم کا عذاب ملے گا اور اس دنیا میں بھی انہیں دل کو جلا دینے والا عذاب ملے گا.ان آیات میں تین جماعتوں کے متعلق اصولی باتیں بتائی گئی ہیں تین ایسی صداقتیں جو آدم سے لے کر قیامت تک صحیح ثابت ہوتی رہیں، ہوتی رہیں گی ان آیات میں جن تین جماعتوں کا ذکر ہے وہ یہ ہیں.ایک ایسے غیر مومن منکر جو انکار پر اصرار کرتے ہوئے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں.ایک ایسے مومن جو جب اللہ کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں اور حقیقی توحید پر وہ قائم ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو وہ پکڑتے ہیں تو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور پھر مرتے دم تک اسے چھوڑتے نہیں.اور تیسری جماعت جس کا ذکر یہاں ہے وہ ان لوگوں کی جماعت ہے جو منکروں میں

Page 606

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۹۶ سورة البروج شامل رہے اور ایسے اعمال بجالاتے رہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ تھے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور انہیں اس بات کی توفیق دی کہ وہ تو بہ کر لیں اور جس گروہ کے وہ مخالف اور دشمن تھے ( مومنوں کا گروہ ) اس گروہ میں وہ شامل ہو جائیں اور ان کا وہ انعام پائیں اور جس جماعت کو وہ چھوڑ کے آئے ہیں ان کی سزا سے خود کو محفوظ کرلیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (اس سورۃ کی پہلی آیات میں ) جس قسم کی دشمنی کا اظہار پہلی جماعت ، دوسری جماعت، غیر مومن منکر جماعت ، مومن جماعت کے خلاف کرتی ہے جس قسم کی ہلاکت کے منصوبے وہ بناتے ہیں ہلاکت کے لئے کوشش کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَهُمْ عَلیٰ مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُود.جو کچھ وہ مومنوں سے کرتے ہیں ان سے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے اس کی حقیقت کو ان کی عقل بھی اور ان کی فطرت بھی ہمیشہ سمجھتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے.وہ اس یقین پر قائم نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ پر مضبوطی کے ساتھ حقیقی ایمان لانے والوں کے خلاف منصوبے بنا نا واقعہ میں ٹھیک بات ہے اور ہمیں ایسا کرنا چاہیے.اس حقیقت پر قائم نہیں ہوتے.افعال بد، خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ اعمال بھی کرتے ہیں اور دل سے یہ ندا بھی اٹھتی ہے کہ کہیں ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہ آ جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دشمنی جو وہ کرتے ہیں مومنین باللہ سے وہ کسی دلیل پر کسی صداقت پر کسی بچے واقعہ پر مبنی نہیں ہوتی.وہ دشمنی صرف اس لئے کرتے ہیں کہ مومن اس اللہ پر ایمان لے آئے جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر قسم کے نقص اور کمزوری سے مبرا ہے.وہ ہر قسم کی صفاتِ حسنہ سے ہے.ان صفات میں سے جو صفات اس دشمنی کی وجہ بنیں ان کا یہاں ذکر کر دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے بندوں کی دشمنی وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صفت عزیز سے متصف ہے اللہ تعالیٰ صفت حمید سے متصف ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے.صفت مالکیت سے وہ متصف ہے اور اللہ تعالیٰ صفتِ شہید سے متصف ہے چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ چار صفات اپنے ان بندوں کی زندگی میں اپنے جلوے دکھاتی ہیں جن کا وہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں اس لئے حسد کی آگ ان کے دلوں میں بھڑکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں سے دشمنی کرنے لگ جاتے ہیں.

Page 607

۵۹۷ سورة البروج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث صفت عزیز کے کئی معنی ہیں.ایک تو اس کے معنی ہیں بڑی طاقت والا بڑے غلبہ والا اور ایسا غالب که الْمَنِيعُ الَّذِي لَا يُنَالُ وَلَا يُغَالَبُ وَلَا يُعْجِزُهُ شَئی کہ جو انسانی منصوبوں اور انسانی دشمنیوں اور انسانی کرتوتوں کی دسترس سے بالا ہے (لا ينال) اور دنیا کی ساری طاقتیں مل کر اس پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتیں (وَ لَا يُغَالَبُ وَلَا يُعْجِزُهُ شَيْئ) اور جو وہ کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے.دنیا کی کوئی طاقت دنیا کا کوئی منصوبہ اسے اس کے منصوبوں میں نا کام نہیں کرسکتا عاجز نہیں بنا سکتا.پھر عزیز کے معنے ہیں المکرم وہ صاحب عزت ہے اور عزت کا سرچشمہ ہے.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِیعًا (فاطر (1) کہا گیا ہے.وہ عزیز ہے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس جہان اور اگلے جہان میں صاحب عزت و اکرام ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب سے تعلق قائم کرے اور حقیقی عزت اس سے حاصل کرے نہ کہ دنیا کے دوسرے عزت کے جھوٹے سرچشموں سے حقیقی عزت کے وہ سر چشمے نہیں ہیں.اصل عزت دینے والا خدا تعالیٰ کی ہستی اور ذات ہے اور اپنی اس صفت کے جلووں میں کہ وہ طاقت کا سرچشمہ ہے، وہ عزت کا سرچشمہ ہے، وہ ہر پہنچ سے دور ہے، کوئی اس پر غالب نہیں آ سکتا، کوئی اسے عاجز نہیں کر سکتا اس کی صفات کے جلوے ان کو نظر آتے ہیں اس دنیا میں خصوصاً (جہاں تک انسان کا تعلق ہے ( ان لوگوں کی زندگیوں میں جو حقیقی طور پر موحد ہیں اور خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق رکھنے والے ہیں.یہ سارے جلوے جو ہیں یہ خدا تعالیٰ کی حمد کی طرف انسان کو متوجہ کرتے ہیں وہ حمید ہے،سب تعریفوں کا مرجع بھی وہ ہے اور سب حقیقی تعریفوں کا مستحق بھی وہ ہے اور جو اس سے تعلق رکھنے والے ہیں ان سے بھی پسندیدہ افعال سرزد ہوتے ہیں اللہ عزیز ہے اور سب سے بڑی طاقت انسان کی یہ ہے کہ وہ یہ یقین کرے کہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں لیکن جس خدا پر میں ایمان لایا ہوں اس میں ہر طاقت موجود ہے اس واسطے مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ) جو خدا کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی ہدایت میں خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے آ گیا اس سے بھی ایسے افعال سرزد ہوں گے کہ جس طرح سب تعریفوں کا مرجع اور مستحق اللہ ہے خدا تعالیٰ اس کی بھی حمد کرتا ہے آسمانوں سے اور لوگوں کی نگاہ میں بھی ان کو ایسا بنادیتا ہے.ایک بت کی شکل میں نہیں ایک ایسے فعال وجود کی شکل میں جس کا ہر فعل نوع انسانی کی خدمت میں، ان کے دکھوں کو دور کرنے میں، ان کے لئے سکھ کے سامان

Page 608

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۵۹۸ سورة البروج پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے.لوگ اس کی تعریف کریں گے.تعریف دو طرح کی جاتی ہے یا حسن کے نتیجہ میں یا احسان کے نتیجہ میں حقیقی حسن خدا تعالیٰ کا ہے اللہ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) اور احسان تو کسی اور کا تصور میں بھی نہیں آسکتا.اس نے پیدا کیا، اس نے طاقتیں دیں.اس نے ہر دو جہان کی ہر چیز کو خادم بنادیا انسان کا.اس سے بڑا اور کیا احسان ہوسکتا ہے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نبی ہمارے لئے بطور راہبر اور ہادی کے مبعوث کر دیا تو جو اس کے کہنے پر اور اس کے حکم کے مطابق اپنے اندر اپنے وجود میں اپنے افعال میں نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کی جھلک رکھتا ہوگا ، وہ حسن اس میں پیدا ہو گیا.جو شخص خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق دنیا کے محسن اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا پر احسان کرنے والا ہوگا اس سے بڑا کون احسان کرنے والا ہے سب لوگ اس کی تعریف کرنے لگ جائیں گے.دشمن بھی تعریف کرتے ہیں ایسوں کی اور اپنے بھی کرتے ہیں.الَّذِى لَهُ مُلْكُ السّيوتِ وَالْأَرْضِ - اَلْمُلْكُ کے معنے ہیں الْعَظَمَةُ وَ السّلْطَةُ عظمت اور رعب، اور الملک کے معنی ہیں صَاحِبُ الْأَمْرِ وَالسَّلْطَةِ نيز قَادِرُ عَلَى التَّصَرُّف، تصرف کرنے پر قادر تو الَّذِى لَهُ مُلكُ السّبوتِ وَالْأَرْضِ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے کہ ہر دو جہاں کی ہر شے میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کر سکتا ہے اور تصرف جو ہے وہ دو قسم کا ہوتا ہے.ایک قانون کا تصرف، جو دنیا کی بادشاہتیں کرتی ہیں، قانون بنا دیتی ہیں اور پھر ان کے کارندے جو ہیں وہ اس کے مطابق شہری زندگی چلاتے ہیں.غلطی کرتے ہیں کبھی ٹھو کر کھاتے ہیں کبھی قانون کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں.انسان ہے، قانون بھی کمزور اس کا اور اس کا اجرا کرنے والے بھی ہزا ر ضعف رکھتے ہیں اپنے اندر لیکن خدا تعالیٰ قادِرُ عَلَى التَّصَرُّف قانون کے لحاظ سے بھی ہے یعنی اس نے کائنات کی ہر چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ایک عظیم قانون سے وابستہ کیا ہوا ہے.اسی واسطے ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے نوبل پرائز لے لیانا.ایک نیا قانونِ باری ایک نئی جھلک اس صفت کی ان کی تحقیق نے معلوم کی لیکن خدا تعالیٰ صرف قانون کے ساتھ تصرف نہیں کرتا.بلکہ وہ متصرف بالا رادہ ہے اس نے صرف یہ قانون نہیں بنایا کہ بعض درخت موسم بہار میں پت جھڑ کرتے ہیں.موسم بہار میں جان کے کہ رہا ہوں خزاں کی بجائے.بعض درخت ایسے ہیں جو موسم بہار میں پت جھڑ کرتے ہیں اس نے یہ قانون بنایا ہے، قانونی تصرف بھی ہے اس کا ، کہ یہ درخت جو ہیں

Page 609

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۹۹ سورة البروج درختوں کی یہ قسمیں یہ موسم بہار میں اپنے پتوں کو گرا دیں گی اور نئے پتے اگیں گے ان میں لیکن وہ متصرف بالا رادہ ہے اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی.ہر پتہ جو گرتا ہے وہ اس کے حکم سے گرتا ہے، ایک دفعہ دیر کی بات ہے میں کالج کی لاج میں رہا کرتا تھا تو ایک ایسا ہی درخت ہمارے گھر کے صحن میں بھی لگا ہوا ہے.ایک دن اس طرف میرا خیال گیا.پت جھڑ کا موسم تھا میں نے کہا دیکھیں خدا تعالیٰ کا تصرف بالا رادہ جو ہے وہ کس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.تو شام کے وقت، پت جھڑ ہو رہی تھی نا ایک وقت میں تو سارے پتے نہیں جھڑ جاتے ، کچھ پتے زرد کچھ زیادہ زرد کچھ کی پتے کے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈنڈی ہوتی ہے جو ٹہنی کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی جب تک زرد نہ ہو وہ جھڑتے نہیں اور کچھ سبز بالکل.تو میں تین چارپتے شام کو دیکھتا تھا زرد، نیم زرد اور بالکل سبز اور صبح جا کے دیکھتا تھا اس درخت کے نیچے تو سبز پتہ نیچے گرا ہوا ہوتا تھا اور زرد پتا درخت کے اوپر لگا ہوا ہوتا تھا.اگر صرف قانون کی حکومت ہوتی خدا تعالیٰ کی تو جوں جوں زردی اور موت کی کیفیت پتے پر زیادہ ہوتی چلی جاتی اس کے گرنے کا امکان زیادہ ہوتا لیکن ایک بظاہر نسبتا زیادہ زندگی رکھنے والے پتے کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ درخت سے نیچے گر جا اور جو زرد پتا تھا جس کا زیادہ امکان تھا شام کے وقت کہ وہ گر جائے گا صبح کو وہ درخت پر لگا ہوا تھا اسی طرح، یہ درخت بھی ہمارے معلم ہیں،اسی واسطے ان کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو آیات کے زمرہ میں رکھا ہے.یہ بھی پوائنٹر (Pointer) ہیں.یہ علامتیں ہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں.جو خدا تعالیٰ کی تعلیم اور قرآن کریم میں جو صفات اس کی بیان ہوئی ہیں ان کی حقیقتوں کو واضح کرنے والی ہیں.تو میں مالک کے متعلق خدا تعالیٰ کی جو مالک ہونے کی صفت ہے اس کے معنے بتا رہا ہوں کہ اس کی ملکیت ہے ہر چیز.ہر چیز کا وہ خالق ہے.کوئی چیز ایسی نہیں جو اس نے پیدا نہیں کی اور ہر چیز کا وہ مالک ہے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی بت نے بنائی ہو یا امریکہ نے بنائی ہو یا کسی اور ملک نے.ہر چیز اُس نے بنائی.انسان نے جو بنایا اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق تصرف کر کے، اس کی بنائی ہوئی قوت اور استعداد اور صلاحیت کے نتیجہ میں تصرف کر کے، انہوں نے ایک نئی شکل اس کو دے دی لیکن گھر سے تو کچھ نہ لائے سب کچھ خدا تعالیٰ کی عطا تھی.اس کی قوتیں اور استعدادیں بھی اور وہ جو مادہ تھا جس کو اس نے استعمال کیا یا جو تھیوری تھی جو اس کے ذہن میں آئی وہ اور جو قانونِ قدرت جس کے عین

Page 610

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۰۰ سورة البروج مطابق اگر ہو تو حقیقت ہے ورنہ نہیں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ نے بنایا.تو وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے اور وہ تصرف کرنے پر قادر بھی ہے تصرف کرتا بھی ہے.تصرف صرف قانونا نہیں کرتا بلکہ تصرف بالا رادہ کرنے والا ہے.تصرف بالا رادہ کے منبع سے معجزات پھوٹتے ہیں.اس کا اپنا قانون ہے.وہ بھی اس کے قانون کے خلاف نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے جو قوانین ہیں ان پر انسانی عقل حاوی نہیں ہو سکتی ، محیط نہیں ہوسکتی.اور شہید کے معنی ہیں الَّذِي لَا يُغِيْبُ شَيءٍ عَنْ عِلْمِہ.جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہر شے پر جس کا علم احاطہ کئے ہوئے ہے.تو یہ جو صفات یہاں بیان ہوئیں عزیز حمید اور لَهُ مُلْكُ میں مالک ہونے کی اور شہید.یہ چارصفات کے جلوے جب جماعت مومنین کی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں تو اس وقت جو مخالف اور منکر ہیں ان کے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے.وہ عزت مٹانا چاہتے ہیں، خدا تعالیٰ عزت دے دیتا ہے.وہ کمزور کرنا چاہتے ہیں القوی خدا تعالی طاقت دے دیتا ہے.اب جتنا زور روؤسائے مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چند گنتی کے ساتھیوں کے خلاف لگایا کہ مٹ جائیں.نہیں مٹا سکے.اس واسطے کہ ان کا تعلق زندہ تعلق، معرفت اور عرفان کا تعلق اس خدا سے تھا جو غالب ہے پھر جس وقت عرب اپنے معاشرہ اور معیشت اور اقتصادی لحاظ سے ایک کمزور ملک تھا.دنیا میں طاقتور ممالک دو تھے بڑے، کسری ایک طرف، قیصر ایک طرف، جب کسری نے ساری توجہ مسلم عرب کی ، مسلمان عرب جو تھا اس کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہوئی تھی حملہ کر کے اور اس وقت قیصر نے سمجھا کہ یہ موقع ہے مٹادو اور فیصلہ کیا کہ مٹادے.طاقت تھی دنیوی وہ اکٹھی کی.کہتے ہیں چالیس ہزار کے مقابلہ میں تین لاکھ کی فوج لے کے آیا اور ان کو حکم یہ تھا کہ یہ لڑائی عام لڑائیوں کی طرح نہیں جس طرح پہلے لڑی گئی ہیں اسی طرح یہ لڑائی لڑی جارہی ہے کہ میدانِ جنگ میں اتنی بڑی طاقت میں بھیج رہا ہوں.تین لاکھ، چالیس ہزار کے مقابلے میں.ہر دس ہزار کے مقابلے میں پچھتر ہزار سپاہی زیادہ اچھے ہتھیاروں سے ہتھیار بند ہیں کہ تم ان کو وہاں قتل کرو اور پھر مدینے میں جا کے سارے مسلمانوں کو مارو.وہ جنگ یرموک کہلاتی ہے وہ جنگ یرموک نہیں تھی وہ اسلام کی جنگ تھی یعنی اس معنی میں کہ قیصر نے فیصلہ کیا تھا کہ اس جنگ کے ساتھ اسلام کو صغیر ہستی سے مٹادے گالیکن وہ یہ نہیں

Page 611

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۶۰۱ سورة البروج جانتا تھا کہ اس کا اس عزیز خدا کے ساتھ مقابلہ ہے اور اس حمید خدا کے ساتھ مقابلہ ہے جس سے انہوں نے وہ طاقتیں اور قوتیں حاصل کی ہیں جو تعریف کے قابل ہیں اور تین لاکھ کیا تین کروڑ کی بھی اگر اس جگہ آجاتی فوج اور خدا تعالیٰ جو مالک اور متصرف بالا رادہ ہے کا منشا یہ ہوتا کہ مسلمان جیتیں گے ہاریں گے نہیں تو تین کروڑ بھی وہاں شکست کھاتا اور وہ مسلمان کو شکست نہ دے سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا ہر دو جہان کو کہ اسلام اس میدانِ جنگ میں جیتے گا ، ہارنے کیلئے نہیں اسلام کو قائم کیا گیا.یہ ہے متصرف بالا رادہ.تو یہ جب متصرف بالا رادہ رب کی صفت کے جلوے مخالف دیکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتا یا منکر باری ہے یا صحیح حقیقی توحید پر قائم نہیں، تو اس کے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے.جلن پیدا ہوتی ہے.مُؤتُوا بِغَيْظِكُمْ اَور بھی پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں منصوبے اور بھی تیز ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اور بھی زیادہ آتے ہیں اور اسلام کی اور مومنین کی اس جماعت کی حفاظت کرتے ہیں........تو یہاں یہ فرمایا گیا کہ جو خدا العزیز ہے طاقتور، عزت والا ، غالب جس کا غلبہ اور جس کی طاقت ہر شے ہر قوت کی دسترس سے بالا اور کوئی طاقت اتنی نہیں جو اس کو مغلوب کر سکے کوئی منصوبہ ایسا نہیں جو اسے عاجز بنا سکے اور حمید ہے جو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں ان کے اندر بھی وہ حسن اور وہ احسان کی طاقت پیدا کرتا ہے کہ دنیا ان کی تعریف پر مجبور ہو جاتی ہے.وہ مالک ہے متصرف بالا رادہ ہے.قانون کے اوپر نہیں اس نے ہر چیز کو چھوڑا ہوا.قانون بھی اسی کا چلتا ہے لیکن قانون در قانون اس طرح اس نے بنا دیا ہے کہ انسانی عقل تو ان گہرائیوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی.اور وہ شہید ہے.اس خدا سے، یہاں چونکہ یہ باتیں تھیں جو دشمن کے دل میں آگ بھڑ کانے والی حسد پیدا کرنے والی جب تک معرفت حاصل نہ ہوا اور توبہ کا دروازہ نہ کھلے دشمنی میں ان کو بڑھانے والی ہیں ان صفات کا یہاں ذکر کر دیا کہ مومن باللہ ہیں کہ چونکہ وہ ایک ایسی ہستی پر ایمان لائے کہ جو اللہ ہے تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہر عیب سے پاک اور ان صفات میں صفت عزیز ہے اس کی ایک صفت.پھر الحمید ہے وہ ، پھر المالک ہے وہ ، پھر وہ شہید ہے اور یہ صفتیں جو یہاں بیان ہوئی ہیں یہ دشمنی کا باعث بنتی ہیں اس لئے یہاں ذکر کیا گیا ہے اور یہاں یہ نتیجہ نکلتا ہے ان آیتوں پر غور کر کے

Page 612

۶۰۲ سورة البروج تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کہ تمہیں تمہاری دشمنی اور تمہارے منصوبوں کے مطابق خدا جزا دے گا.چھپے ہوئے تو نہیں ہو تم یا تمہارے منصوبے یا تمہاری دشمنیاں اور اس کے مومن بندے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے نتیجہ میں، جو خدا سے ان کو پیار ہو گا، اس کے نتیجہ میں جو اللہ تعالیٰ کے نور سے وہ حصہ لینے والے ہوں گے اس کے نتیجہ میں، جو تو حید حقیقی پر قائم ہونے کی وجہ سے کہ اپنے آپ کو محض لاشے سمجھنا اور کچھ نہ سمجھنا، سب کچھ کر کے سمجھنا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا کیونکہ سب کچھ اسی کا تھا اس کے سامنے لوٹا دیا ہے کون سا احسان کیا اپنے رب پر.احسان تو اسی کا ہے ہم پر.تو یہ صفات، جو اللہ ان کے دلوں کے حالات اور اسرار کو جاننے والا ہے جو مومنوں کے دلوں کے حالات اور اسرار کو جاننے والا ہے وہ مومنوں کو ان کے حالات کے لحاظ سے، ان کے اعمال کے لحاظ سے، ان کے جہاد کے لحاظ سے ان کی ہجرت کی کوششیں کہ گند نہ ہمارے قریب آئے ، اس کے لحاظ سے وہ ان کو جزا دے گا اور اسی نسبت سے جو دشمنیاں ہیں اس کے مطابق دشمن اس کی گرفت میں ہیں اس سے باہر نہیں نکل سکتے.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۲۷ تا ۴۳۵)

Page 613

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۰۳ سورة الطارق بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطارق آیت ۱۲ ۱۳ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِل وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدع.اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسبت سے یعنی انفرادی طور پر جس جس قسم کے توازن کی ضرورت تھی اس اس شکل میں اُسے پیدا کیا.پھر ایک نوعی توازن قائم کیا جو مثلاً اجناس کے اندر کارفرما ہے.اسی طرح تمام پھلوں اور کھانے پینے کی اشیاء میں توازن قائم ہے اور یہ زمین ہے جس میں یہ موزونیت یہ میزان کا عمل دخل نظر آتا ہے.قرآن کریم اسے کہے گا کہ انسان کے قومی اور اس کی قابلیتوں کی صحیح اور بہترین نشوونما کے لئے جس غذا کی جس شکل میں جس موزوں حالت میں اور جس متوازن صورت میں ضرورت تھی یہ اس زمین میں پائی جاتی ہے.غرض جس مجموعہ آثار الصفات میں موزوں غذا پائی جاتی ہے وہ زمین ٹھہری.پھر فرمایا: وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْع یعنی زمین وہ ہے جو صدع ہونے کے اثر کو قبول کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یعنی زمین وہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے غیر محدود جلوؤں کے ساتھ ہمیشہ متوجہ رہتا ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ زمین آثار صفات باری تعالیٰ کے مخصوص مجموعے کا نام ہے اس لئے زمین کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے غیر محدود جلوؤں کے ساتھ متوجہ رہتا ہے کیونکہ یہ ان غیر محدود مؤثرات کا اثر قبول کرنے کی ہمیشہ اپنے اندر اہلیت پاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار جلوؤں کا ظہور ہو رہا ہے اور زمین ان کو قبول کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو ہر وقت ظہور پذیر ہورہے ہیں ان کے نتیجہ میں مخلوق میں نئے

Page 614

۶۰۴ سورة الطارق تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث خواص پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً خشخاش کا دانہ ہے آج سے سو سال پہلے انسان نے اس کے جو خواص معلوم کئے تھے آج ہم نے ان سے کہیں زیادہ معلوم اور دریافت کر لئے ہیں.پس ضروری نہیں کہ یہ نئے دریافت شدہ خواص سو سال پہلے بھی اس میں موجود ہوں.ہوسکتا ہے اس سو سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے جلوؤں کی وجہ سے مزید خواص رونما ہوئے ہوں.پس صفات باری تعالیٰ کے یہ جلوے اور زمین کی قبولیت کے یہ آثار ابتدائے آفرینش سے اب تک جاری ہیں.زمین صفات باری تعالیٰ کے جلوؤں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان مخصوص جلوؤں کا سلسلہ ایک لحظہ کے لئے بھی منقطع ہو جائے تو یہ سارا کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے.اگر انسان ایک لحظہ کے لئے اس دائرہ صفات باری اور دائرہ قبول اثر یعنی زمین میں جو آسمان سے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کو اپنے اندر قبول و جذب کر کے ان کو زندگی اور بقاء اور تازگی اور نئے خواص کا جامہ پہنانے کی اہلیت ہے وہ نہ ہو تو اگر انسان ایک لحظہ کے لئے بھی اس دائرہ سے باہر قدم رکھے تو ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم نے جس مخلوق کو زمین کہا ہے اس سے با ہر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۴۱،۸۴۰) آیت ۱۶ تا ۱۸ إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيدال و اكيد كيدان فَيَهْلِ الكَفِرِينَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدان پس اس آیہ کریمہ میں پہلے مسلمانوں کو یہ کہا الیس اللهُ بِكَافٍ عبده اور پھر ان کے منہ سے غیروں میں اس کی تبلیغ کروائی.دوسری طرف کافروں سے کہا کہ اللہ عزیز بھی ہے اور انتقام کی بھی طاقت رکھنے والا ہے وہ جو چاہتا ہے وہ کرے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا.کا فر جو چاہتے ہیں اور جوان کے منصوبے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ملیا میٹ کر دے گا اور خاک میں ملا دے گا.البتہ منصوبے بنانے کی ان کو اجازت ہو گی.چنانچہ قریش مکہ نے بھی مسلمانوں کے خلاف منصوبے کئے.عرب کے دوسرے قبائل جن کی لاکھوں کی تعداد ھی انہوں نے بھی بعض چھوٹے چھوٹے قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف منصوبے باندھے.پھر یہود کی سازش ساتھ مل گئی.یوں سمجھنا چاہئے کہ اس وقت کی دنیا کا Spear head (سپئیر ہیڈ ) یعنی نیزہ کی آئی جو تھی وہ اسلام کے خلاف نظر آتی تھی پھر پیچھے

Page 615

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة الطارق تو نیزے کا پھل یا دو پھلہ کہنا چاہئے یعنی کسرئی اور قیصر کی شوکت اور دنیوی طاقت اسلام کے مقابلے پر آئی لیکن نیزے کی انی جوتھی وہ کفا رینگہ یا عرب کے دوسرے قبائل کے حملہ آور ہونے کی شکل میں ظاہر ہوئی.چنانچہ انہوں نے منصوبے کئے اور ہر قسم کے منصوبے کئے.قرآن کریم میں سورۂ طارق میں اسی طرف اشارہ ہے فرمایا ” إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں گے.داؤ پیچ سے کام لیں گے.ان سے ہم انہیں نہیں روکیں گے.ویسے اللہ تعالیٰ کوتو یہ بھی طاقت ہے کہ کسی کو منصوبہ ہی نہ کرنے دے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کو ظاہر کرے تو پیار کے وہ جلوے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دکھانا چاہتا ہے یعنی اس کی حفاظت کے جلوے،اس کی قدرتوں کے جلوے، اس کے حسن و احسان کے جلوے دنیا کس طرح دیکھے؟ مخالفین تو دیکھ لیں گے لیکن دنیا کونظر نہیں آئیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالفین اسلام جو بھی مکر اور سازش کرنی چاہیں وہ کریں میں انہیں اس سے نہیں روکوں گا بلکہ اس میں انہیں مہلت بھی دوں گا لیکن جب ان کی سازشیں زور پکڑیں گی تو میں ابھی کچھ عرصہ اپنی قدرت نہیں دکھاؤں گا اور اپنے کمزور بندوں سے کہوں گا کہ تم صبر اور دعا سے کام لو چنانچہ خدا کے بندوں کے خلاف جب بھی منصوبے کئے گئے وہ صبر سے کام لے رہے ہوں گے وہ گالیاں سن کر دعا دے رہے ہوں گے.انہیں زہر دیا جائے گا اور وہ میٹھا شربت پلا رہے ہوں گے.ان کے لئے قحط کے سامان پیدا کئے جارہے ہوں گے اور جب وقت آئے گا تو یہ قحط دور کرنے کے سامان پیدا کریں گے.مسلمانوں کو اغوا کیا جائے گا اور اسلام اغوا کے سارے راستوں کو بند کر رہا ہو گا.مسلمان مخالفین کے ہر مکر کا جواب صبر اور تقویٰ کی راہوں پر چل کر اور دعا کے ساتھ دے رہے ہوں گے.مگر اندھی دنیا سمجھے گی کہ اس بے کس قوم کا کوئی سہارا نہیں ہے لیکن بینا آنکھ اور وہ جس کی آنکھ ہمیشہ ہی کھلی رہتی ہے اور جو علام الغیوب ہے وہ کہے گا کہ تم صبر کرو.وقت آنے پر تم دیکھ لو گے میں کیا کرتا ہوں.فرماتا ہے.اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدا و اكيد كیدا یعنی میں اپنی منشاء اور مرضی کے مطابق اپنی تدبیر کروں گا جو اپنے وقت پر ظاہر ہوگی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک عرصہ ایسا آئے گا کہ میرے ماننے والے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فدائی دنیا کی نگاہ میں بے سہارا ہوں گے لیکن میں ان کا سہارا ہوں گا اور میں ان سے کہوں گا کہ میں تمہارا سہارا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے متبعین کے خلاف یہ منصوبے

Page 616

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الطارق اس لئے کئے جائیں گے کہ وہ خدا کے بندوں کو توحید خالص کی طرف بلا رہے ہوں گے اور انہیں ان کے انسانی حقوق دلوار ہے ہوں گے اور اِنَّما أنا بشر مثلکم کا عظیم نعرہ بلند کر کے وہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.....اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا کہ یہ جو اسلام نے مساواتِ انسانی اور شرف انسانی کے عظیم اعلان کئے ہیں جن لوگوں نے ان کو پسند نہیں کیا اور اس تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انہوں نے اس کے خلاف جو مختلف منصوبے کئے ان میں سے ایک منصوبہ اغوا کا تھا.اغوا کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں لیکن اغوا کے اصل معنے یہ ہیں کہ کسی انسان کو اس ماحول میں جو اس کا اپنا ماحول ہے پرورش پانے اور تربیت حاصل کرنے سے محروم کر دیا جائے.یہ اغوا کا اصل نتیجہ ہے اور اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اغوا کے معنے ہی یہ ہیں کہ بعض لوگ بچے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور دوسری جگہ لے جا کر بیچ دیتے ہیں.اب مثلاً ایک نہایت شریف خاندان کا دینی ماحول میں پرورش پانے والا بچہ ہے ظالم انسان اسے اٹھاتا ہے اور کسی دوسری جگہ جا کر غلام بنا کر بیچ دیتا ہے یا مثلاً لڑکی ہے تو اسے نہایت گندی جگہوں پہنچادیا جاتا ہے حالانکہ اس بچے یا بچی کے ماحول میں جس میں اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اس ماحول میں تو یہ فضا نہیں تھی.اس ماحول میں تو نیکی تھی اس ماحول میں تو قرآن کریم کی تعلیم تھی اس ماحول میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو پیدا کرنے کا چرچا تھا اس ماحول میں تو اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کرنے کے سبق دئے جاتے تھے.غرض اغوا کرنے والے اس دینی ماحول سے نکال کر بچوں کو ایک اور گندے ماحول میں لے جاتے اس لئے میرے نزدیک اغوا کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان کو ایسے ماحول سے محروم کر دیا جائے جس ماحول میں وہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تربیت حاصل کرنا یا تربیت دینا چاہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف بھی اسی قسم کا منصو بہ بنایا گیا چنانچہ صلح حدیبیہ میں یہ شرط رکھدی گئی کہ مکہ میں جو آدمی مسلمان ہوگا وہ مدینے میں نہیں جا سکے گا یعنی ایسے مسلمان کو اس تربیت سے محروم کر دیا گیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر وہ حاصل کر سکتا تھا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّهُم يَكِيدُونَ كَيْدًا.یہ واقعی ایسا عجیب فریب تھا کہ حضرت عمر جیسے صاحب فراست بھی ڈگمگا گئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ مخالفین مختلف قسم کی ”کید کرتے ہیں انہیں ایسا کرنے دو تم اس کی فکر نہ کرو اس سے

Page 617

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۰۷ سورة الطارق تمہیں انجام کار فائدہ پہنچے گا یعنی ان کی اس ”کید“ یعنی سازش کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ جو کید یعنی تدبیر کرے گا وہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گی.غرض کفار مکہ نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اس طرح بیسیوں مسلمانوں کو اس تربیت سے محروم کیا جسے وہ حاصل کرنا چاہتے تھے یا اس تربیت سے محروم کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اپنے پروں کے نیچے رکھ کر دینا چاہتے تھے اور یہی اغوا ہے.غرض مسلمانوں کے خلاف ایک اس قسم کے اغوا کا منصوبہ بنایا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اغوا کا یہ منصوبہ بناؤ ہم اسے ناکام بنادیں گے البتہ جس طرح اغوا کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جو قادر وتوانا ہے اس کا کوئی جلوہ Repeat (ری پیٹ ) نہیں ہوتا ( یعنی دہرایا نہیں جاتا) یعنی اس میں Monotony (مونوٹنی اکتا دینے والی یکسانیت) نہیں پیدا ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن:٣٠) کی رو سے کبھی ایک شکل میں اور کبھی دوسری شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں چنانچہ کفار کے اس اغوا کے منصوبہ کے خلاف اللہ تعالیٰ تدبیر کرتا رہا اور ان کو اس منصوبے میں ناکام بنا تا رہا اور جب تک ایک مومن یا مسلمان کو اسلام پر قائم رہنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق ملتی رہتی ہے یا جن کو ملتی ہے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسا کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے کیا تھا.کفار کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف دوسری ”کید“ (یعنی تدبیر یا سازش ) یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو دھوکے سے قتل کر دیتے تھے.اب دھو کے سے قتل کر دینا کئی شکلوں کا ہوتا ہے مثلاً ایک یہ کہ پیٹھ کی طرف سے آ کر پیچھے سے چھرا گھونپ دینا، یہ بھی دھو کے کا قتل ہے اور دین سیکھنے کا بہانہ بنا کر سر حفاظ کو لے جانا اور وہاں انکو شہید کر دینا یہ بھی دھو کے کا قتل ہے یا مثلاً ۷ ۱۹۴ء میں ہندو اور سکھ مسلمانوں کی ریل گاڑیوں کو پٹڑیوں سے نیچے اتار دیتے تھے یہ بھی دھو کے کاقتل ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے خلاف دھو کے سے قتل کرنے کی بھی سازش ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اگر ایک مسلمان دھوکے سے قتل ہوا تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس جیسے ہزاروں مسلمان دے دیئے مثلاً یہ حفاظ کا قتل ہے یہ ستر آدمیوں کا قتل نہیں بلکہ ستر حفاظ کا قتل

Page 618

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۰۸ سورة الطارق ہے.ان کے بدلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے آدمی ملنے چاہئے تھے جنہیں قرآن کریم حفظ ہوتا تبھی تو ان کی سازش ناکام ہوتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق بخشی.چھوٹی چھوٹی فوجیں باہر جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں حفاظ ہوتے تھے.( اب مشکل پڑ گئی ہے کیونکہ لوگوں نے قرآن کریم سے وہ پیار نہیں کیا.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک رو شروع ہوئی ہے ) جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی کثرت سے لوگ قرآن کریم حفظ کرتے تھے اور اگر کسی کو پورا قرآن کریم حفظ نہیں تھا تو بڑی بڑی سورتیں اور کئی کئی سپارے یاد ہوتے تھے حتی کہ چھوٹے بچوں کو بھی بہت سی سورتیں یاد ہوتی تھیں ( ہمارے گھروں میں بھی اس کا شوق پیدا کرنا چاہئے.دس پندرہ سال کے بچوں کو آخری سیپارے کی چھوٹی چھوٹی سورتیں ضرور یاد کروا دینی چاہئیں) پس کفار نے دھوکہ دہی سے قرآن کریم کے حفاظ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس طرح اسلام کو ستر حفاظ سے محروم کر دیا گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے یہ زندگی تو ہے ہی عارضی کوئی آدمی بستر پر مر جاتا ہے اور کوئی اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتا ہے تم نے اسلام کو ایسے ستر مخلصین سے محروم کیا تھا جنہیں قرآن کریم زبانی یاد تھا اور اس وقت تو مسلمانوں کی تعداد بھی تھوڑی تھی.حفاظ کے قتل کا یہ واقعہ سن چار ہجری کا تھا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان مردوں کی تعداد دس ہزار تھی جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ تھے.تو چار ہجری میں تو بہت ہی کم ہوں گے اور اس وقت حافظ قرآن بہت تھوڑے تھے.ان میں سے کفار نے اپنی طرف سے بہت سارے شہید کر دیئے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاکھوں کی تعداد میں حفاظ دیئے اور اب تک دیتا چلا آیا ہے.......بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتقام کی صفت کا جب وقت آئے گا میں اس کا جلوہ دکھاؤں گا.تم بھی اس کا رنگ اپنے اندر پیدا کرو لیکن ابتدائی زمانہ میں تو بالکل اور بعد میں بہت حد تک تمہارے اندر عفو کی صفت کے جلوے نظر آنے چاہئیں.انتقام لینے کا جب موقع پیدا ہو گا اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی اجازت دے دے گا.مسلمان بھی عجیب قوم ہے.اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کی اجازت دے دی شاید نو درخت کاٹے گئے تھے اور یہ کوئی بات نہیں.یہاں ایک جانگلی جا کر نونو ، دس دس درخت کاٹ دیتا ہے اور اسے اسکا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ

Page 619

۶۰۹ سورة الطارق تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث نے عجیب دل اور دماغ دیا تھا.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ میرے بندے مجھ میں فنا ہیں یہ میری اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتے.میں نے کہا ہوا ہے کہ درختوں کو نہیں کاٹنا چاہئے کیونکہ اگر اس کا رسم و رواج پڑ جائے تو اس سے بنی نوع انسان کو تکلیف ہوتی ہے.اس واسطے جہاں ضرورت پڑی وہاں یہ کہ دیا کہ میری طرف سے اجازت ہے چنانچہ حدیثوں کی بجائے خود قرآن کریم میں اس کا ذکر فرما کر اسے بنیادی اصول بنا دیا.غرض فرمایا کہ تم نے انتقام نہیں لینا میں خود انتقام لوں گا چنانچہ جب یہ سارے اپنی ناسمجھی اور جہالت کے نتیجہ میں ”بے دینوں (جو کہ حقیقی دین کے حامل تھے ) کے خلاف جمع ہوئے تو خدا نے فرمایا تم نے انتقام نہیں لینا.میں نے قران عظیم میں یہ کہا تھا اکید كیدا آج میں دنیا کے سامنے تمہارے ذریعہ سے اپنی اس تدبیر کا مظاہرہ کرنے لگا ہوں جس میں تمہارے ہاتھ کا کوئی دخل نہیں ہے.چنانچہ وہ اجتماع جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا وہ کسی انسانی دخل کے بغیر راتوں رات غائب ہو گیا.مسلمانوں کو پتہ ہی نہیں لگا.صبح اٹھے تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا.خدا تعالیٰ نے كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَان کی رو سے اپنی ایسی تقدیر چلائی کہ وہ خود ہی بھاگ گئے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۴۰۵ تا ۴۲۰)

Page 620

Page 621

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ آیت ا تا ۴ ۶۱۱ سورة الاعلى بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاعلى بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ D سَبْحِ اسْمَ رَبَّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جو ہے وہ کسی شعبہ میں بھی کسی قسم کا نقص اور کمی اپنے اندر نہیں رکھتی.دوسرے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت ضرورت اور تدریج کے اصول کو سامنے رکھ کے جو اس نے بنائے ہیں خود ہی تدریجی طور پر ترقی دیتے ہوئے کمال تک پہنچاتی ہے.اور چونکہ انسان نے بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانا تھا یہاں اس واسطے کہا گیا کہ اعلیٰ جو ہے ربوبیت وہ اللہ تعالیٰ کی ہے بعض دوسروں کو تو اپنے محدود قومی اور صلاحیتوں کے اندر ایک عکس ایک ظل رکھا ہوا ہے.الَّذِی خَلَقَ فَسَوی ، سوی کے دو معنی لغت عربی نے کئے ہیں.ایک یہ کہ درست اور اعتدال پر یعنی نہ دائیں جھکا ہوا نہ بائیں جھکا ہوا، بلکہ صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی طاقت رکھنے والا اور ترقی کا مادہ اپنے اندر رکھنے والا، بے عیب بنایا ہے الَّذِي خَلَقَ فَسَوی یہاں انسان کا ویسے ذکر ہے کیونکہ سبح اسم ربك الأعلیٰ میں انسان کو مخاطب کیا گیا ہے نا.تو انسان کو یعنی ویسے دوسروں کو بھی بنایا ہے لیکن یہاں انسان ہے کیونکہ یہ مضمون انسان کے ساتھ نہی تعلق رکھتا ہے.آیت ۱۴ ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۲۸۸،۲۸۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اپنی زبان میں اگر اس کا خلاصہ کرنا ہو تو وہ یہ ہوگا کہ جو

Page 622

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۱۲ سورة الاعلى شخص روحانی زندگی حاصل کرنا چاہے اور اس روحانی زندگی کے حصول کے بعد اللہ تعالیٰ جو حیات محض ہے اور جس کی قدرتوں پر دنیا کی ہرشی کی حیات منحصر ہے اس کے بغیر وہ زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی تو اس قسم کی روحانی زندگی جو حاصل کرنا چاہے اس کیلئے ضروری ہے کہ روح القدس اس کی مدد کو آئے اور روح القدس سے وہ ان چیزوں کو ان ذرائع کو حاصل کرے جن کے حصول کے بعد روحانی زندگی ملا کرتی ہے اور روح القدس کی مدد سے یہ اس کو ملتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا اور آپ کی سنت پر چلنے والا ہو اور جو شخص ابدی روحانی زندگی چاہتا ہے اور جسے یہ پسند نہیں جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْتی کہ نہ وہ زندگی ہوگی نہ موت ہوگی پریشانی کا ایک عالم ہو گا بے اطمینان کی ایک دنیا ہوگی تکلیف اور دکھ ہو گا جس سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا برداشت کی طاقت نہیں ہوگی اگر ایسی زندگی نہیں بلکہ وہ زندگی جو پاک زندگی ہے وہ زندگی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل روح القدس کی شاگردی حاصل کرنے کے بعد زندہ خدا سے تعلق قائم کرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ زندگی اگر حاصل کرنی ہو تو ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ (الاحزاب: ۲۲) خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۷۰،۲۶۹)

Page 623

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۱۳ سورة الغاشية بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الغاشية آیت ۲۲، ۲۳ فَذَكَّرُ إِنَّمَا انْتَ مُذَكِرَة لَسْتَ عَلَيْهِم وس لا إكراه في الدِّينِ...مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ (۱) اس میں ایک اصول بیان ہوا ہے اور (۲) حکم ہے.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: ۲۵۷) میں ایک اصول بھی بیان ہوا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہوگا اور ایک حکم بھی ہے یہ.اور اس کے پہلے مخاطب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور یہاں یہی معنے انہوں نے لئے ہیں کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ دین کے معاملہ میں اکراہ نہیں کرنا جبر نہیں کرنا تم نے.فذكر إِنَّمَا انْتَ مُذکر ہاں وعظ ونصیحت کرو کیونکہ تم مذکر ہو، جبر کرنے والے نہیں ہو، وکیل نہیں ہو، محافظ نہیں ہو ، حافظ نہیں ہو.لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُضَيْطِرٍ اس کے معنے لغت والے نے یہ کئے ہیں کہ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ: لَسْتَ عَلَيْهِمْ مُسَلَّطٍ عَلَيْهِمْ تَجْبُرُهُمْ عَلَى مَا تُرِيدُ تجھے مسلط نہیں کیا گیا لوگوں پر کہ تو اپنی مرضی لوگوں پر مسلط کرے اور یہ کہ جسے تو صداقت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ قبول کریں اس کو قبول کرنے پر لوگوں کو مجبور کرے....تفسیر ( کبیر ) رازی میں ہے کہ آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكَيْلاً أَي حَافِظًا تَحْفَظُهُ مِنَ اتَّبَاعِ هَوَاهُ تجھے ہم نے یہ حکم نہیں دیا اور نہ یہ قدرت اور طاقت دی ہے اور نہ تجھے حافظ بنایا ہے کہ تو انہیں محفوظ رکھے نفسانی خواہشات کی اتباع کرنے سے.آئی لَسْتُ كذلك کہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا دوسری جگہ فرما یا لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرِ اور جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ کست

Page 624

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۱۴ سورة الغاشية عَلَيْهِمْ بِمُضطر کے معنے کئے گئے ہیں لَسْتَ بِمُسَلَّطَ عَلَيْهِمْ تَجْبُرُهُمْ عَلَى مَا تُرِيدُ یعنی تو نے جو ایک روشنی اور صداقت دیکھی سو دیکھی، جبر کر کے کسی کو منوانے کا کام تیرے سپردنہیں کیا گیا اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا مَا اَنْتَ عَلَيْهِمُ بِجَبَّارٍ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرما یالا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اکراہ کرنے کی تجھے اجازت نہیں.جبر کر کے ، مجبور کر کے ان کو اس طرف لانے کی تجھے اجازت نہیں.(تفسیرکبیر امام رازی.زیر آیت الفرقان: ۴۴).( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۱۰ تا ۱۵)

Page 625

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۱۵ سورة الفجر بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفجر آیت ۲۸ تا ۳۱ يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي.انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ قرب الہی کو حاصل کرے تا کہ اسے کامل اطمینان نصیب ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً - اس میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے جو قو تیں اور استعدادیں دی گئی ہیں وہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو.خدا تعالیٰ کا وصل اسے نصیب ہو.چنانچہ سورۃ فجر کی ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہ ہو اور خدا تعالیٰ کا پیار نہ ملے اس وقت تک اسے اطمینان کامل بھی نصیب نہیں ہوتا چنانچہ تم دیکھ لو آج دنیا میں جس طرف بھی نظر دوڑاؤ تمہیں کامل اطمینان کا فقدان نظر آئے گا.امریکہ میں بھی اور روس میں بھی.لوگوں نے دنیا تو بہت اکٹھی کر لی لیکن دل کا اطمینان ان کو حاصل نہیں.میں انگلستان میں پڑھتارہاہوں.میں وہاں کھل کر کہتا تھا کہ اطمینان قلب تمہیں اسلام کے سوا کہیں نہیں مل سکتا.جو طالب علم میرے ساتھ بے تکلف تھے وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں سب کچھ پل گیا لیکن اطمینان قلب نہیں ملا.اب بھی میں جب کبھی باہر کے ملکوں کے دورے پر جاتا ہوں سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ دنیا مل گئی ، دولت مل گئی، سائنسی تحقیقات کے میدان میں ترقی کرلی اور نالائقیوں کی وجہ سے ان کے غلط استعمال پر بھی

Page 626

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۱۶ سورة الفجر جرات مل گئی لیکن ان کو اطمینان قلب نصیب نہیں ہوا.کیسے نصیب ہوتا جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو نہیں سنتے جو قرآن کریم کے ذریعہ بلند کی جاتی ہے.پس یا درکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے وصل کے بغیر انسان کو کامل اطمینان نہیں مل سکتا اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے لیکن فطرت کی تمام صلاحیتوں کی کامل نشود نما اور پھر صحیح استعمال ہی کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کیا کرتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۱ تا۲۲۲) انسان جس طرح جسمانی لحاظ سے نشو و نما حاصل کرتا ہے پہلے ارتقا کے کئی دوروں میں سے وہ رحم مادر میں گزرتا ہے اور پھر بہت سے ارتقائی دوروں میں سے وہ پیدائش کے بعد وہ اس دنیا میں گزرتا ہے پھر وہ اپنی بلوغت کو پہنچتا ہے جسمانی طور پر اگر وہ لمبی عمر پائے تو وہ انحطاط کے زمانہ کو پاتا ہے.اس کے مشابہ مگر (ایک فرق کے ساتھ ) روحانی ارتقا اور روحانی نشو ونما بھی وہ حاصل کرتا ہے پہلے وہ تقویٰ کی موٹی موٹی راہوں پر چلتا ہے پھر وہ اس کتاب عظیم سے جو ھدی لِلْمُتَّقِينَ ہے تقویٰ کی مزید باریک راہوں کا علم حاصل کرتا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے اسی طرح وہ روحانی ترقی کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی روحانی بلوغت کو پہنچتا ہے جس کے بعد کوئی انحطاط نہیں اور یہ فرق ہے روحانی اور جسمانی بلوغتوں میں کہ جسمانی بلوغت کے بعد اس دنیا میں ایک انحطاط کا زمانہ بھی بہت سے لوگوں پر آتا ہے لیکن روحانی بلوغت کے بعد پھر انحطاط کا کوئی زمانہ روحانی بالغ پر نہیں آتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے لطیف رنگ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.فرمایا جسے بشاشت ایمانی حاصل ہو جائے اس کو پھر شیطان کے حملوں کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا الفاظ مجھے یاد نہیں اسی قسم کا مفہوم ہے یعنی جس کے اعمال صالحہ فطرت کا ایک حصہ بن جائیں اور ان کی بجا آوری میں وہ کوئی تکلیف یا کوفت محسوس نہ کرے اسے کسی قسم کی کوشش اور جدو جہد نہ کرنی پڑے بلکہ جس طرح وہ سانس لیتا ہے اور زندگی کو قائم رکھتا ہے اسی طرح ایسا شخص بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کو بجالاتا ہے اور جس شخص کے دل میں اس قدر بشاشت اعمال صالحہ کے بجالانے میں پیدا ہواور خدا تعالیٰ کے لئے ہر دکھ جو وہ سہے دنیا اسے دکھ سمجھے تو سمجھے وہ اس میں لذت محسوس کرے اس بلوغت کے بعد کسی قسم کے روحانی انحطاط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہی وہ کیفیت ہے بلوغت کی جس کی طرف قرآن کریم نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے: يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ

Page 627

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۶۱۷ سورة الفجر رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي - تو اس دنیا میں دنیا کی اس زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فیصلہ ہر فرد بشر کے متعلق کیا جاتا ہے ہر اس فرد بشر کے متعلق جو اپنی قربانیوں کو انتہاء تک پہنچاتا اور اپنے رب کی محبت میں اپنے نفس کو کلی طور پر مٹا دیتا اور اس پر ایک موت وارد کر دیتا ہے اس پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے یہ بشارت دیتا ہے کہ اب تو ایسے مقام تک پہنچ گیا ہے کہ جنت کا یقینی طور پر ہمیشہ کے لئے تو وارث رہے گا اور شیطان تجھے بہکانے میں کامیاب نہیں ہو گا.(خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۱۰۱۵،۱۰۱۴)

Page 628

Page 629

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۱۹ سورة البلد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البلد آیت لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ ۵ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ.کہ ہم نے انسان کو رہین محنت بنایا ہے.في كبد کے معنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں رہینِ محنت کے کئے ہیں وہی معنے میں اس وقت لے رہا ہوں یعنی انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنی محنت کا رہین ہے.اس سے بہت سی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.محنت اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب محنت کرنے کی قوتیں اور استعداد میں بھی ہوں.بعض بچے لاتوں کی کمزوری لے کر پیدا ہوتے ہیں.کئی ایسے بچے ہیں میرے پاس بھی خطوط آتے رہتے ہیں کہ تین، چار سال کا بچہ ہے وہ ٹھیک طرح کھڑا ہی نہیں ہو سکتا.اب ایسا بچہ دوڑنے کی استعداد نہیں رکھتا تو دوڑ کے میدان میں محنت کر کے انعام حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ دوڑنے کی طاقت ہی اس کے اندر موجود نہیں تو رہین محنت انسان کو بنایا ہے.یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی فرمایا کہ انسان کو بہت سی قوتیں اور طاقتیں عطا کی گئی ہیں جن کو وہ استعمال کر سکتا ہے.پھر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ انسان کو رہینِ محنت بنایا ہے تو اس میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ کس غرض کے لئے محنت کی جاتی ہے.آخر انسان کوئی کام کرتا ہے تو کوئی مقصد بھی سامنے ہونا چاہیے.تو خدا تعالیٰ نے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ اُس نے انسان کے سامنے زندگی گزارنے کا منصوبہ بھی پیش کیا ہے کہ وہ کن اغراض کے لئے اپنی قوتوں اور استعدادوں کو استعمال کریں.ان مقاصد کے لئے تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ محنت کرنے کی طاقتیں بھی ہیں اور مقاصد بھی ہمارے سامنے رکھے گئے ہیں

Page 630

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۰ سورة البلد یعنی جو خدا دا د قو تیں اور استعدادیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو مقصد ہمارے سامنے رکھا ہے اس مقصد کے لئے جب ہم کوشش کریں گے تو حاصل کیا ہوگا ؟ ہمیں کیا ملے گا؟ تو دنیا میں جو مقابلہ ہے اس میں ہر شخص کو انعام نہیں ملتا لیکن یہاں اعلان کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے یہ بھی اشارہ کیا کہ جب تم ہماری قوتوں اور استعدادوں کو ہمارے بتائے ہوئے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرو گے اور بہت محنت کرو گے تو تمہیں تمہاری قوتوں اور استعدادوں اور تمہاری محنتوں کا نتیجہ اور پھل اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت کی صورت میں ملے گا.یہ ایسا مقابلہ ہے جس میں اوّل.دوم.سوم کو انعام نہیں ملتا.ہر شخص اپنی نیت کے مطابق اور اپنی کوشش کے مطابق اور اپنی استعداد کے مطابق ثمرہ حاصل کرتا ہے اور پھل پاتا ہے.پھر آگے اسی سورۃ میں بتایا ہے کہ ایک بات کا خیال رکھیں! دنیا کے مقابلے میں بددیانتی بھی ہو سکتی ہے مثلاً ابھی یہاں بھی شور مچا ہوا ہے کہ اتھلیٹ ڈرگز (Drugs) استعمال کر رہے ہیں جس کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں اور یہ کھیل کے میدان میں بددیانتی کے مترادف ہے.اوّل اور دوم آنے کا مقابلہ ہے اور بددیانتی سے حصول انعام کی کوشش کی جارہی ہے.تو اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے اندرونے کو جاننے والا کوئی نہیں خدا تعالیٰ کی ذات سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اس لئے بددیانتی کر کے خوشامدانہ طریقے پر لوگوں کو خوش کرنے کے لئے جو نیک اعمال بجالاؤ گے اس کا پھل تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملے گا.خدا کہے گا کہ جن کی خاطر تم نے یہ کوششیں کی ہیں اُن سے جا کر یہ انعام لینے کی کوشش کرو میرے گھر میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے.پس في كبد میں ان ساری باتوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے یہاں کہا گیا ہے کہ رہین محنت ، اسلام کی اصطلاح میں جو آخری چیز اس سلسلہ میں میں بتانا چاہتا ہوں ابتدائی تمہید میں وہ یہ ہے کہ مادی ذرائع سے جو تد بیر کی جاتی ہے صرف اسی کا نام محنت نہیں ہے یعنی اسلامی اصطلاح میں صرف اسی کو محنت نہیں کہتے.دنیا میں تو اسی کو محنت کہتے ہیں مثلاً کھلاڑی ہیں وہ دوڑوں میں آگے نکلنا چاہتے ہیں.وہ ورزشیں کرتے ہیں.ضرورت کے مطابق ان کو غذا دی جاتی ہے.ان کے کوچ (Coach) خیال رکھتے ہیں کہ وہ وقت ضائع نہ کریں اور وقت کو ایسا خرچ کریں کہ جو دوڑ کی قابلیت ہے اس پر اثر انداز ہو وغیرہ وغیرہ.یہ ساری امدادی تدبیریں ہیں جو وہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اسلامی

Page 631

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۱ سورة البلد اصطلاح یہ بتاتی ہے کہ جب قرآن کریم یا جو اسلامی لٹریچر قرآن کریم کی تفسیر میں ہے وہ محنت کا ذکر کرے تو اس کے معنے دونوں کے ہیں یعنی مادی تدبیر بھی اور دعا بھی یعنی دونوں چیزیں علیحدہ علیحدہ نمایاں حیثیت رکھنے کے باوجود پھر بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں.پس جب قرآن کریم نے کہا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كبد کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق پھل ملے گا تو اس میں یہ بھی بتایا کہ اس کی محنت میں محض پچھلی رات دو دو گھنٹے عبادت کرنا نہیں بلکہ نیک نیتی سے عبادت کرنا.دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے یا دکھاوے کی عبادت نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا کا ایک بندہ خدا تعالیٰ سے اس قسم کے تعلقات کو اس طرح چھپاتا ہے جس طرح میاں بیوی اپنے تعلقات کو چھپاتے ہیں اور اُن کو پر دے میں رکھتے ہیں اور کسی نے شاید لطیفہ ہی بنایا ہوگا کہ ایک شخص تھا وہ رات کے وقت بڑی آہ وزاری کیا کرتا تھا.اس کا ایک مرید تھا اس نے ایک دن خیال کیا کہ میں بھی ان نوافل کی عبادت میں تضرع اور ابتہال میں شامل ہوں اور اپنے پیر کے ساتھ میں بھی نفل پڑھوں تو وہ مہمان ٹھہرا ہوا تھا.اس نے سوچا کہ اگر کمرہ کا دروازہ بند ہوا تو مشکل ہے اگر کھلا ہوا تو کوشش کروں گا وہ تو نماز میں اتنے مشغول ہوں گے کہ ان کو پتا بھی نہیں لگنا کہ اُن کے ساتھ جا کر کوئی کھڑا ہو گیا ہے.وہ دبے پاؤں چپ کر کے آیا.دروازہ کھلا تھا.کھول کر اندردیکھا تو پیر صاحب تو خراٹے لے رہے تھے اور ٹیپ ریکارڈر گریہ وزاری کر رہا تھا.پس یہ چالاکیاں دنیا میں چل سکتی ہیں مگر اس سورۃ البلد میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں دیکھنے والا کوئی نہیں.تمہارے ساتھ جس کا تعلق ہے اس کو تو اونگھ بھی نہیں آتی.نیند اور خراٹے لینے کا تو کوئی سوال بھی نہیں.اس کی نگاہ سے تم کیسے بچ جاؤ گے اور تمہاری چالاکیاں اس کے سامنے کیسے چلیں گی؟ اور جیسا کہ میں اب بتا رہا ہوں، محنت میں مادی تدابیر ساری شامل ہیں اور دعا شامل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے جس کا میں اب حوالہ دے رہا ہوں کہ تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ وہ اسی في كبد کی تفسیر ہے اور دعا کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ تب تمہیں بہترین بدلہ ملے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض مختصر اور بعض بہت سی لمبی احادیث ہیں جن میں اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے.بعض لوگ آہستہ آہستہ ظاہر کی طرف جھک جاتے ہیں جو بڑا آسان کام ہے اور جو باطن ہے اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے

Page 632

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۲۲ سورة البلد ساتھ ہے اور جس کا تعلق انسان کی اپنی نیک نیتی کے ساتھ ہے اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت کے ساتھ ہے اور جس کا تعلق انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہے اُس کو وہ بھول جاتے ہیں.تو بات یہی سچ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا اعلان بھی ہے.خدا تعالیٰ کا ئنات کا مالک ہے.ہم نے اپنی زندگی میں تجربہ بھی یہی کیا ہے.ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں ہی سچی ہوتی ہیں.باقی یہ دنیا تو آدھا سچ بولتی ہے اور آدھا جھوٹ بولتی ہے.جب تک کوئی شخص نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ انتہائی کوشش نہ کرے خدا تعالیٰ کے راستے میں اور یہ کوشش محض تدبیر سے نہ ہو بلکہ دعا ئیں بھی اسی طرح اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوں جب تک یہ حالت نہ ہو اس وقت تک اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق جو بہترین بدلہ کسی کو مل سکتا ہے وہ اسے نہیں مل سکتا.اگر کہیں یہ خامی ہوگی تو کچھ پل جائے گا.خدا تعالیٰ بڑا غفار بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ہاں چالاکیاں نہیں چلا کرتیں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۴۰۱ تا ۴۰۴) آیت ۱۲ تا ۱۷ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَ مَا ادريكَ مَا الْعَقَبَةُ فَقُ رَقَبَةٍ اَوْ إِطْعَمُ فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ يَتِيمَا ذَا مَقْرَبَةِ أَوْ مِسْكِينَا ذَا مَتْرَبَةٍ آخری سپارے کی جو آیات میں نے اس وقت پڑھی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے کہ ہم نے انسان کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ اگر وہ ان کو پہچانتا اور ہمارے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرتا تو اس کے لئے ممکن تھا کہ وہ روحانی بلندیوں کو حاصل کرتا چلا جاتا لیکن ان تمام سامانوں کے باوجود اور اس ہدایت کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ بنی نوع انسان پر نازل کی.اس نے اس طرف توجہ نہیں کی.فَلَا اقتحم العقبة اور ان روحانی بلندیوں تک اس نے پہنچنے کی کوشش نہیں کی جن روحانی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے اس کے لئے سامان مہیا کئے گئے تھے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے یہ کہا کہ اس نے روحانی بلندیوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ نہ اس نے اپنی گردن شیطانی غلامی سے آزاد کی اور نہ اس نے یہ کوشش کی

Page 633

۶۲۳ سورة البلد تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کہ اس کے بھائیوں کی گردنیں بھوک کی غلامی اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جائیں.اس کے ایک معنی یہ بھی کئے جاتے ہیں کہ غلاموں کو آزاد کرنا.اپنی جگہ پر یہ معنے درست ہیں لیکن فَاقُ رَقَبَةٍ اور عشق مِنَ النَّارِ کے الفاظ وضاحت کے ساتھ ایک ہی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.تو اگر چہ اس میں بھی بڑا ثواب ہے کہ ان لوگوں کو انسان آزادی کی فضا مہیا کرے یا آزادی کی فضا مہیا ہونے میں ان کی امداد کرے.جو انسان ظلم اور اپنی غفلت کے نتیجہ میں غلام بن چکے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک اس سے بھی زیادہ مظلوم اور قابل رحم غلام ہے جس کو آزاد کرنا اور کروانا ہمارے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہے اور زیادہ رحمت کا موجب ہے اور زیادہ مغفرت کا موجب ہے اور وہ اپنا نفس ہے.جب وہ شیطان کا غلام بن جاتا ہے اور خدا کی دی ہوئی آزادی سے محروم کر دیا جاتا ہے یعنی وہ آزادی جو خدا کے قرب میں حاصل کی جاتی ہے.وہ آزادی جو خدا کی رحمت کے سایہ میں حاصل کی جاتی ہے.وہ آزادی جو خدا کی مغفرت کے احاطہ کے اندر حاصل کی جاتی ہے.تو یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فقُ رقبة کے سامان تو تھے مگر انسان نے اس طرف توجہ نہیں دی اور وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا اور اس نے ان سامانوں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور غلام کا غلام ہی رہا حالانکہ ہم نے ماہ رمضان کی عبادتوں کو خاص طور پر اس کے لئے اس لئے مقرر کیا تھا کہ اگر وہ کوشش کرے اور سعی کرے اور مجاہدہ کرے اور ہماری راہ میں قربانیاں دے اس طرح پر کہ ہمارے لئے بھوکا رہے.ہماری خاطر ہمارے بھوکے بندوں کو کھانا کھلائے تو وہ اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد کروا سکتا تھا.وہ ان زنجیروں سے آزاد ہو سکتا تھا جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا (الحاقة: ۳۳) کہ بڑی لمبی زنجیریں جہنم کے قید خانہ میں ڈالی جائیں گی لیکن اس نے ان سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ان کی موجودگی میں بھی اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد نہیں کیا.اسی طرح ایک اور ذمہ داری اس کے اوپر تھی اور وہ یہ تھی کہ اپنے بھائیوں کو بھوک کی اور شیطان کی غلامی سے آزاد کرے.قرآن کریم نے یہاں الفاظ بھوک کے رکھے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت سے بتایا ہے كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا (مشکوۃ کتاب الآداب) کہ بھوک جو ہے وہ کبھی کفر اور ضلالت پر منتج ہوتی ہے.بھوک کے نتیجہ میں انسان بسا اوقات شیطان کے دام فریب

Page 634

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۴ سورة البلد میں آجاتا ہے اور اپنے رب کو چھوڑ دیتا اور بھول جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو رزاق سمجھنے کی بجائے وہ شیطان کے پاس اس شرط پر اپنی روح کو بیچ دیتا ہے (جیسا کہ ہماری بعض کہانیوں میں شیطان کے پاس روح کو بیچنے کا ذکر بھی ہے کہ وہ شیطان کے پاس اپنی روح کو اس شرط پر بیچتا ہے ) کہ وہ اس کو دنیوی اموال اور اسباب اور متاع مہیا کرے گا اور اس کی روح شیطان اس لئے خرید لیتا ہے کہ خدا کو یہ کہہ سکے کہ میں نے کہا تھا اے رب! کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤں گا.دیکھ! یہ تیرا بندہ تھا مگر تیرا بندہ نہیں بنا.اور دیکھ میں اس کی روح کو جہنم میں پھینک رہا ہوں.اس کو میں نے اس قدر گمراہ ، طافی اور منکر اور سرکش بنا دیا ہے کہ تیرے غضب کا مورد ہو گیا ہے.تیرے قہر کی تجلی نے جلد اسے کوئلہ کر دیا ہے.تو بھوک بسا اوقات کمزور دل میں کفر پیدا کرتی ہے.اس لئے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھوک کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ وہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کفر کی اس لئے اس کو یہاں بیان کر دیا اور اصل مقصد فانی رقبة کا ہی ہے پہلے فقرہ میں اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرانا اور دوسرے فقرہ میں اپنے بھائیوں کی گردنوں کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرانا مطلوب ہے.وہ غلامی جو بسا اوقات بھوک کے نتیجہ میں اور فقر اور محتاجی سے مجبور ہو کر انسان کو اختیار کرنی پڑتی ہے اسی لئے احادیث میں کثرت سے یہ روایت آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر بڑے ہی سخی تھے.اتنے سخی کہ اگر آپ کی سخاوت کے واقعات جو ظاہر میں وقوع پذیر ہوئے (اللہ تعالیٰ کا ہر بزرگ بندہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کون زیادہ بزرگ ہوگا بعض نیکیاں ظاہر میں کرتا ہے اور بعض اس رنگ میں کرتا ہے کہ کسی کو ان کا علم تک نہیں ہوتا.تو جن کا ہمیں علم ہے اگر ان کو بھی ) اکٹھا کیا جائے تو تاریخ ایسے سخی کی مثال دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتی.اس کے باوجود احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی اور اس کی مثال ایسی ہی بن جاتی تھی جیسے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کی ٹھنڈی ہوا بڑی تیز چل رہی ہو تو تیز ہوا کی طرح آپ کی سخاوت ان دنوں میں جوش میں آکر دنیا کے سامنے ظاہر ہو رہی ہوتی تھی.(بخاری کتاب الصوم)........بھوک ایک تو حادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا ایک غلامی بنتی ہے نا؟ بھوک کے نتیجہ میں ہمیں ایک اور قسم کی غلامی بھی نظر آرہی ہے اور اس حدیث کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ جب کوئی قوم بھوک سے مرنے لگتی ہے تو وہ غیر قوموں کی غلامی اختیار کرتی ہے.چنانچہ وہ اقوام جوان قوموں کو غلہ مہیا کرتی

Page 635

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۵ سورة البلد ہیں اور غذا مہیا کرتی ہیں جہاں کمی ہو وہ اپنے مالکانہ اثر ورسوخ اور سیاسی دباؤ کو استعمال بھی کرتی ہیں اور غلہ لینے والی قو میں اپنے آپ کو پوری آزاد محسوس نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو اس سے محفوظ رکھے.پس ایک تو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رحمت کی بارش برسائے اور ہمارے ملک میں غذا کی قلت نہ ہو.دوسرے ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں یہ تعلیم دی ہے کہ یتیم اور مسکین کو کھانا کھلاؤ اس کو نہیں بھولنا چاہیے.مِسْكِيناً ذَا مَتْرَبَةٍ کے ایک معنی یہ ہیں کہ جس نے اپنی طرف سے مال کمانے کی پوری کوشش کی ہے اگر اس کو اور کچھ نہیں ملا تو اس نے مزدوری کی ہے اور وہ گرد آلود ہے اور ذَا مَتْرَبَةٍ ہے.پس ذَا مَتْرَبَة کے معنے یہ ہیں کہ ایسا مسکین جس کو مانگنے کی عادت نہیں.بہت سارے لوگ آپ کو خوش پوش نظر آئیں گے اور اندر سے وہ بہت غریب ہوں گے.مانگ مانگ کے گزارہ کر لیتے ہیں، مانگ کے کپڑے پہن لئے ، مانگ کے کھالیا اور کام کوئی نہ کیا.تو یہ ذہنیت بڑی گندی ہے اس سے بچنا چاہیے.اللہ تعالیٰ جماعت کے افراد کو اس سے محفوظ رکھے.تو جس کو ضرورت ہے وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرے.اگر اور کوئی کام نہیں ملتا تو مزدوری کرے.آخر بڑے بڑے کبار صحابہ جب ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو بعض انصار نے کہا کہ ہمارے پاس مال ہے آؤ مل کر بانٹ لیں.انہوں نے کہا ہمیں تمہارا مال نہیں چاہیے درانتی ہے کلہاڑی ہے اور رسہ ہے جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤں گا اور انہیں بیچ کر گزارہ کروں گا.تو ایسا بزرگ صحابی مدینہ میں آکر ذا متربة ہوگا کیونکہ اس کے کپڑے گرد آلود ہوں گے.تو مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ مانگنے سے دوسرے کا سہارا لینے سے بچنے کی انتہائی کوشش کرو ذا متربة بن جاؤ اور کچھ نہ ملے تو مزدوری کرلو لیکن دوسری طرف دوسروں کو کہا کہ تمہارا یہ بھائی اتنا باغیرت ہے کہ اس کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ پسند نہیں کہ تمہارے آگے ہاتھ پھیلائے.اس نے جب اور کچھ نہیں ہوا تو مزدوری کرنی شروع کر دی.دیکھ لو اس کے کپڑوں کو دیکھ لو اس کے چہرہ کو !! یہ ذَا مَتْرَبَةِ ہے یا نہیں؟ تو اس کا ذَا مَتْرَبة ہونا اس کی غیرت کی دلیل ہے.اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص مانگنے کو عار سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے حالات کے لحاظ سے اس

Page 636

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۲۶ سورة البلد کے اپنے خاندان کے حالات کے لحاظ سے کہ بچے زیادہ ہیں اور یہ اتنا کما نہیں سکا.اس کے گھر میں پھر بھی بھوک نظر آتی ہے.اب تمہارا فرض ہے اپنے اس بھائی کی مددکر ولیکن آپ اپنے ان بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے جب تک آپ اپنی زندگی کو سادہ نہ بنائیں.خصوصا کھانے کے معاملہ میں.(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۰ تا ۱۴)

Page 637

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۶۲۷ سورة الم نشرح بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ الم نشرح آیت ۸ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ ایک دور کے کام سے فارغ بھی ہو گے اور ایک دوسرے دور میں داخل بھی ہو رہے ہو گے.اگر تم میری محبت کی انتہا کو (اپنے دائرہ استعداد میں ) پہنچنا چاہتے ہو تو پھر اس اصول کو یا درکھو کہ جب فرغت کا سوال ہو.یعنی ایک دور پورا ہو رہا ہو تو بنیادی طور پر تمہیں ایک سبق تو یہ دیا جاتا ہے کہ وہ کام فرغت کے معیار پر پورا اترتا ہو.فرغ کے معنے عربی زبان میں کسی کام کو یا کسی چیز کو اس کے کمال تک پہنچانے کے ہوتے ہیں چنانچہ منجد نے لکھا ہے کہ فرغ من الشّيء کے معنے ہوتے ہیں آگے یعنی کسی کام یا چیز کو کامل اور مکمل بنا دیا.اس کے سارے اجزاء پورے ہو گئے تب وہ عربی زبان کے لحاظ سے فرغت ہے مثلاً دسویں کا وہ طالب علم جو دو پرچوں میں فیل ہو جاتا ہے اس کو فرخت نہیں کہا جائے گا یعنی اس کا کام مکمل نہیں ہوا کیونکہ جہاں تک دسویں کے امتحان کی تیاری کا سوال تھا اس نے اپنی ذمہ داری کو کمال تک نہیں پہنچایا اس لئے اس کے اگلے دور کی ترقی یا اس کے لئے جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَإِذَا فَرغت یعنی جب تم ایک دور کے کام سے اور اس کی ذمہ داری سے پورے طور پر فارغ ہو جاؤ اس معنے میں کہ جس ذمہ داری کو جس حد تک نباہنا ممکن تھا وہ تم نباہ لو، اس میں کوئی پہلو کمزوری کا یا کوئی پہلو خامی کا باقی نہ رہ جائے تم اسے مکمل اور پورا کر دو اور اس کے سارے اجزاء نمایاں طور پر نشوونما پا چکیں تو پھر وہاں ٹھہرنا نہیں کیونکہ زندگی کی کوششوں میں ٹھہراؤ تو

Page 638

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۸ سورة الم نشرح موت کے مترادف ہے.فرمایا فانصب ایک اور دور شروع ہو گیا پھر اس کے لئے تمہیں انتہائی کوشش کرنی پڑے گی.نصب کے ایک معنے رفعت اور مضبوطی سے قائم کرنے کے ہیں اور ایک معنے (جو فانصب اس صیغے میں آیا ہے اس کے معنے ہیں) جَهَدَ وَ اجْتَهَدَ.یعنی پورا زور لگا کر کام کو کیا اس لئے اگر ہم اس کے مصدری معنے کو لیں.تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر ذمہ داری کا جوا گلا دور ہے ایک تو وہ رفعت کا دور ہوگا یعنی ایک بنیاد پہلے بن چکی ہے.اب اس کے اوپر دوسری منزل بنے گی اور دوسرے یہ بتایا کہ دوسری منزل پہلی منزل کی مضبوطی کا باعث ہوگی.اس دنیا کی عمارتیں تو بعض دفعہ دوسری منزل کو برداشت نہیں کرتیں مثلاً کسی عمارت کے متعلق انجینئر سے پوچھیں تو وہ کہہ دیتا ہے کہ اس کی بنیادیں دو منزلہ عمارت کے لئے نہیں بنائی گئیں.بعض دفعہ وہ کہہ دیتا ہے کہ چار منزلیں بن سکتی ہیں.پانچویں منزل نہیں بن سکتی پس اس سے پتہ لگا کہ ہر دوسری منزل پہلی منزل کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ اس کی کمزوری کا باعث بن جاتی ہے لیکن روحانی دنیا میں ہر دوسری منزل پہلی منزل کی مضبوطی اور ارتقاء کا سامان پیدا کرتی ہے.فانصبُ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.پس مادی اور روحانی کاموں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ روحانی لحاظ سے جو دوسری منزل بنتی ہے وہ پہلی منزل کی مضبوطی کا بھی سامان پیدا کرتی ہے اور اسی کی انتہا کو ہم انجام بخیر کہتے ہیں.اس لئے کسی انسان یا فرد واحد کی زندگی جو کہ مختلف ادوار سے گزرتی ہے اگر اس کی آخری منزل کمزور ہو تو پہلی ساری منزلیں کمزور ہوں گی اس لئے یہ سمجھا جائے گا کہ اس کا انجام بخیر نہ ہوا.غرض اس لحاظ سے بھی مادی اور روحانی تصور میں بالکل نمایاں فرق ہے مثلاً مادی طور پر ایک منزل بنائی جاتی ہے مگر اس پر دوسری منزل نہیں بن سکتی کیونکہ پہلی منزل مضبوط نہیں ہے یا انجینئر کہتا ہے کہ اس کی بنیاد دو منزلوں کو برداشت کر سکتی ہے اور بنتی ایک منزل ہے یعنی ایک منزل کے بوجھ سے زیادہ برداشت کر سکتی ہے.یہ بھی ممکن ہو گا کہ اس ایک منزل کی شکل میں وہ زیادہ طاقت کی ہوگی لیکن روحانی طور پر دوسری منزل کے بغیر پہلی منزل کمزور رہ جاتی ہے اور تیسری منزل کے بغیر پہلی اور

Page 639

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۹ سورة الم نشرح دوسری منزلیں کمزور رہ جاتی ہیں اور آخری منزل کے بغیر تو ساری ویرانی ہے کیونکہ اس طرح انجام بخیر نہیں ہوتا گویا اللہ تعالیٰ کی انتہائی رضا کے پانے کا جب وقت آیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی انتہائی ناراضگی مول لے لی.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری فطرت کے لحاظ سے مختلف دور مقرر کئے ہیں اس لئے تم ان میں سے گزر کر اور انتہائی جدوجہد کے بعد آخری منزل تک پہنچ سکتے ہو چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی کو آپ غور سے دیکھیں تو وہاں بھی یہ نظر آئے گا کہ آپ کے دور میں بھی مسلمانوں نے آہستہ آہستہ تدریجی ترقی کی.وہ آپ کی قوت قدسیہ اور تعلیم وتربیت کے نتیجہ میں منزل بمنزل آگے بڑھتے رہے اور منزل بمنزل بلند ہوتے اور رفعتوں کو حاصل کرتے چلے گئے اور پھر اپنی آخری منزل کو اُنہوں نے پوری جدو جہد اور کوششوں اور قربانیوں کو انتہا تک پہنچا کر بنایا اور اس طرح اُن کا انجام بخیر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی یہ آواز ان کے کان میں آئی.میرے بندے! میری جنتوں میں داخل ہو جاؤ.اس آخری عمارت یا منزل کے بعد جنت نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد جو عمارت ہے وہ تو دھڑام سے دوزخ میں جا گرتی ہے.اس لئے اس لحاظ سے یہ بڑے خوف کا مقام ہے.غرض اس چھوٹی سی آیت میں بڑی حکمت کی بات بیان ہوئی ہے.فرما یا کسی دور میں بھی تمہارے سپر د جو کام کیا جائے اس دور کے کام کو فرغت کے طور پر کرنا ہے یعنی اس کو تمام کرنا ہے.اس کو کامل اور مکمل کرنا ہے اس کے تمام اجزاء کو پورا کرنا ہے.لغت عربی کے لحاظ سے فرغت کے یہی معنے ہیں.فرمایا جب کام مکمل ہو جائے تو پھر وہاں بیٹھ نہیں جانا اور یہ نہیں سمجھنا کہ بس جو کام کرنا تھا وہ کر لیا.تم جب تک اس دنیا میں زندہ ہو تمہیں اپنی زندگی کے مختلف ادوار کی ذمہ داریوں کو نباہنا ہوگا البتہ اس دُنیا یعنی اُخروی زندگی کی ہم بات نہیں کر سکے.انسان کا تصور یہی ہے کہ وہاں دنیوی قسم کا عمل نہیں ہوگا ویسے وہاں بھی عمل تو ہوگا لیکن یہ عمل امتحان کے طور پر نہیں ہوگا کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اس کا شکر ادا نہیں کرے گا؟ شکر ادا کرنا بھی تو آخر ایک عمل ہے یا کیا وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ نہیں پڑھے گا؟ اگر چہ وہ الْحَمْدُ لِلہ پڑھے گا تو یہ بھی ایک عمل ہے اگر چہ وہ الْحَمدُ لِلهِ اُس سے زیادہ

Page 640

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۰ سورة الم نشرح بصیرت کے ساتھ پڑھے گا جتنا اس دنیا میں پڑھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو اس سے زیادہ بصیرت کے ساتھ دیکھے گا جتنا وہ اس دُنیا میں دیکھ رہا ہے اس لئے اس کی حمد تو اس دنیا کی حمد سے بہتر اور احسن ہوگی......کی زندگی کا پورا ایک دور ہے اور کیونکہ مسلمانوں نے اس دور میں فَرَغْتَ پر عمل کیا تھا یعنی اس دور مظلومیت کی زندگی میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو انہوں نے پورے طور پر ادا کر دیا تھا.اُن کا کوئی جزو ایسا نہیں تھا کہ جس کو انہوں نے نظر انداز کر دیا ہو اور ادا نہ کیا ہو.غرض انہوں نے اپنی قربانیوں کو مکمل بنادیا تھا چنانچہ ان کا نتیجہ شاندار کامیابی کی شکل میں نکلا.گواس کامیابی میں بہت ساری اور چیزیں بھی شامل تھیں لیکن اس ایک خطبہ میں ان کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی لیکن ایک شکل جو بڑی نمایاں تھی وہ یہ تھی کہ مکہ کے ظالم سرداران نے مکہ سے باہر نکل کر جنگ کے ذریعہ اسلام کو مٹانا چاہا تو اپنا سر اور دھڑ چھوڑ کر وہ قوم واپس مکہ کولوٹی.ان کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے تھے جس طرح خواب میں یا کہانیوں میں بے دھڑ کے انسان کا منظر دکھائی دیتا ہے یعنی بعض دفعہ بغیر سر کے دھڑ چلنا شروع کر دیتا ہے.حقیقتا کفار مکہ بغیر دھڑ کے واپس لوٹے اس لئے کہ جس سر نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ مسلمانوں کو قتل کر دیا جائے یا جس دماغ نے اسلام کو مٹانے کے متعلق سوچا تھا، اس کو اللہ تعالیٰ نے ختم کردیا مگر اسلام ختم نہیں ہوا.غرض اس دور میں امت محمدیہ نے جب کہ وہ ایک چھوٹی سی امت تھی اور بڑے نازک دور سے گزر رہی تھی اس وقت اپنی ذمہ داریوں کو ان کے تمام اجزا کے ساتھ نباہا اور انتہائی قربانیاں دیں.پس واقعہ میں انہوں نے اس حکم پر عمل کیا اور فرغت کی رو سے ایک دور کی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا کر فانصب کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگلے دور کی طرف متوجہ ہو گئے.یعنی بدر کی جنگ جس میں پہلے دور کی انتہا اور انجام تھا اور نہایت شاندار انجام تھا اور خدا تعالیٰ کی محبت کا ایک عظیم الشان اظہار تھا.اُس وقت گویا ایک دور ختم ہوا.اگلا حکم کیا ہے! آرام سے بیٹھوا او سو جاؤ تمہیں مزید قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں.فرمایا فانصب.ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے.اس دور میں بھی انتہائی جد و جہد کرنی پڑے گی اور جہاد سے کام لینا پڑے گا اور رفعتوں اور مضبوطی کے سامانوں کے لئے کوشش کرنی

Page 641

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۱ سورة الم نشرح پڑے گی.غرض اس طرح امت محمدیہ کی فردی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوا.پہلے دور کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، پھر چوتھا وَ عَلى هذ القِیاس لیکن جس وقت امت محمدیہ نے فرغت پر عمل کیا لیکن فانصب پر عمل نہیں کیا وہ سمجھے کہ ہم ساری دنیا کے حاکم بن ن گئے.اب ہمیں فانصب پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے تو تباہ ہو گئے مثلاً پین اسلامی سلطنت کا ایک حصہ تھا اور اس پر مسلمان حکومت کرتے تھے.مگر کجا یہ کہ طارق کی فوج بارہ ہزار کے قریب تھی اور اس نے پین میں جا کر ایک لحاظ سے سارے یورپ کے ساتھ ٹکر لی اور انتہائی قربانی دی.وہاں سمندر کے ساحل پر کشتیاں نہیں جلائی گئی تھیں وہاں خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کے شعلے بھڑ کے تھے.انہوں نے کہا تھا کہ یہ دنیوی قربانیاں کیا چیز ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کے شعلوں میں ہر چیز کو جلا دیتے ہیں تا کہ ہمیں اس کے پیار کی ٹھنڈک ملے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پیار کی ٹھنڈک پہنچائی.جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے سامنے عیسائی فوج نہیں ٹھہری اور وہ شکست کھا گئی حالانکہ سارے یورپ والے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے.خود سپین کے عیسائی بادشاہ کے پاس بے تحا شا فوج تھی.اسی طرح ترکی کی طرف سے مسلمان پولینڈ تک چلے گئے.چنانچہ اس دور میں جب فرغت کے ساتھ ساتھ فانصب پر بھی عمل ہو رہا تھا.ہر وہ طاقت جس نے مسلمانوں سے ٹکر لی نا کام ہوئی اور ہر وہ دشمن جس نے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی ہلاک ہو گیا.پھر مسلمانوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ جب انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ساری دنیا ہمیں مل گئی.ہم نے اجتماعی زندگی میں جو کام کرنا تھا وہ کر لیا اس لئے اب ہمیں قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں رہی حالانکہ یہ نہیں سوچا کہ امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی تو قیامت تک ممتد ہے.قیامت سے پہلے تو امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی ختم نہیں ہوتی.اس واسطے امت محمدیہ کی اجتماعی زندگی میں کوئی ایسا مقام نہیں جب انسان یہ سمجھے کہ فاذا فرغت پر پورا اترنے کے بعد فانصب کا حکم نہیں رہا بلکہ اس آیت کی رو سے قیامت تک ایک دور کے بعد دوسرا دور شروع ہوگا.ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو قربانیاں دینی پڑیں گی......میں نے بتایا ہے کہ انسانی زندگی میں چھوٹا بڑا دور آتا رہتا ہے.ہمارا ایک دور مالی سال پر مشتمل

Page 642

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۲ سورة الم نشرح ہے اور وہ اب ختم ہو رہا ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ہر سال کے پورا ہونے پر فرغت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے یعنی جب ذمہ داری پوری ہوگئی ، سارے اجزاء کے مطابق ذمہ داری نباہ لی تو پھر اس کے ساتھ لگتا ہوا دوسرا دور جو ہے اس کے متعلق یہ حکم ہے.فَانْصَبُ یعنی ہر دور کے اختتام پر فرغت والی کیفیت پیدا ہونی چاہیے.انسانی کوشش مکمل ہونی چاہیے ادھوری نہیں رہنی چاہیے اور ہر دور کے آخر پر جو اگلے دور کی ابتداء ہے اس کے لئے فانصب کا حکم ہے کہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۵۷ تا ۶۶) زور لگا نا چاہیے.

Page 643

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۳۳ سورة التين بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التين 91911 آیت ۵ تا ۸ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ ) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ منُونٍ ، فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ قرآن کریم کی آیات کے مختلف بطون ہوتے ہیں اور ہر نیا بطن یا نیا مضمون جو بیان ہوا ہے وہ ہماری نظر کے سامنے قرآن کریم کے حسن میں ایک اضافہ پیش کرتا ہے.قرآن کریم تو کامل حسن کا مالک ہے.اس کا حسن تو ہمیشہ ہی کامل ہے اور اس کے احسان کے جلوے ہمیشہ کامل ہیں لیکن حالات کی نسبت سے ان میں اضافہ ہو رہا ہے.ضرورتیں بدلتی ہیں.علم کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں چنانچہ جو مضمون میں نے سورہ تین کی تفسیر میں بیان کیا تھا اس کے تسلسل میں اگلی آیتوں کے معنے ( بعض ان معانی سے مختلف ہو جائیں گے جو اس سے پہلے ہماری جماعت میں یا اس سے پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں ) میں اب بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں بتایا ہے کہ ان تین ابتدائی روحانی انقلابات کا کامیابی کے ساتھ ختم ہو کر ایک انقلاب عظیم کے زمانہ میں داخل ہو جانا ایک ایسا امر ہے جس سے بہت سی صداقتوں کا حقیقوں کا ہمیں علم حاصل ہوتا ہے اس سے (۱) ایک تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تقویم اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے یعنی ان انقلابات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی پیدائش احسنِ تقویم کے رنگ میں ہوئی ہے.احسن تقویم کے مختلف معنی کئے گئے ہیں

Page 644

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۴ سورة التين جو سارے کے سارے لغوی معنی کے مطابق ہی ہیں.اس وقت میں جو معنی بیان کروں گا وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ تمام قوتیں اور استعداد میں عطا فرمائی ہیں وہ سب عالمین کی پوری طرح تسخیر کرسکتا ہے.تسخیر کے معنی عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس عالمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا ان سے خدمت لینے کی اہلیت انسان کے اندر پیدا کر دی گئی ہے.اسے وہ تمام قولی دئے گئے ہیں جن کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام قوتیں انسان میں ودیعت فرما ئیں جن کے نتیجہ میں ان مخلوقات سے اس رنگ میں خدمت لے سکتا ہے کہ وہ اسے اس کے قومی کی آخری نشو ونما تک لے جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی منزلیں طے کرتا ہوا خدا کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکے یعنی وہ قو تیں جو ایک طرف پیدائش عالمین کے مقصد کو پورا کرنے والی ہیں اور جس کا منتہاء مقصود حدیث قدسی لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے بہر حال اس عالمین کی تمام چیزیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ ان سے انسان فائدہ حاصل کرے انسان کو وہ ساری قوتیں دی گئیں کہ انسان اس سے فائدہ حاصل کر سکے اور ان سے خدمت لے سکے تو ایک طرف انسان اس قابل ہے اور اس قابلیت کو اس نے ثابت کیا ہے کہ اس نے مخلوقات سے خدمت لی اور اس کے نتیجہ میں مقصد پیدائش عالمین پورا ہوا اور دوسرے اسے وہ تمام قو تیں بخشی گئیں تا کہ اس عالمین کی خدمت کے نتیجہ میں وہ زیادہ سے زیادہ روحانی ترقیات حاصل کر سکے اور احسن رنگ میں اللہ تعالیٰ کا عبد بن سکے جس سے پیدائش انسانی کا مقصد پورا ہو.پس یہ خدمتیں ایسی ہیں کہ پیدائش (خلق) کے ہر دو مقاصد کو پورا کرنے والی ہیں یعنی پیدائش عالمین کے مقصد کو بھی اور پیدائش انسانی کے مقصد کو بھی پورا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان انقلابی ادوار پر غور کرو جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے جو حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پھیلے ہوئے ہیں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر انسان چوتھے دور میں داخل ہو چکا ہے ) تم ان پر غور کرو تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے.انسان کی جدو جہد اور اس کے مجاہدہ سے پیدائش عالم کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے اور اس سے پیدائش انسانی کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے.

Page 645

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۵ سورة التين دوسرے ان زبر دست ادوار میں سے آخری عظیم انقلاب کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اپنی قوتوں کا صحیح استعمال نہ کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے اور جن انعامات کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان میں قو تیں اور استعدادیں پیدا کی تھیں ان انعامات کے حصول سے وہ محروم ہو جاتے ہیں اور ان کا نام اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جسے ہم اسفل سفدِین کہتے ہیں کیونکہ ایک چیز مثلاً زمین سے اٹھی اور پچاس گز او پر گئی.اگر وہ نا کام ہوگی تو پچاس گز نیچے آجائے گی.ایک چیز جس میں طاقت رکھی گئی ہے دوسو گز اوپر جانے کی تو وہ دوسوگز او پر گئی اور پھر اپنی جگہ پر واپس آ جائے گی.انسان میں طاقت رکھی گئی ہے نچلی سے نچلی جگہ سے بلند ہوکر بلند سے بلند تر مقام تک پہنچنے کی.جس وقت وہ نا کام ہوگا تو مخلوقات کے مقابلے میں بھی کہیں نیچے جا گرے گا.یہی قانون قدرت ہے یہی قانون شریعت ہے اور یہی قانون روحانیت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان انقلابات کا یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آسفل سفلین کے گروہ میں اس لئے شامل ہو گئے کہ انہوں نے اپنی قوتوں اور استعدادوں کا صحیح استعمال کر کے ان نعمتوں کو حاصل نہیں کیا جن کے لئے اس عالمین کو اور ان کے وجود کو پیدا کیا گیا تھا.تیسری چیز ان انقلابات سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ شیطان ظلمات کا مالک اس بات میں تو کامیاب ہو گیا کہ اس نے انسانوں میں سے ایک گروہ کو روحانی ترقیات سے محروم کر کے أَسْفَلَ سَفِلین کے زمرہ میں شامل کر دیا لیکن ہزار ہا سال کی کوشش کے نتیجہ میں وہ حقیقی معنی میں کامیاب نہیں ہوا کیونکہ انسان کو جن رفعتوں کے لئے پیدا کی گیا تھا اور اس کی رفعتوں کی طرف جو حرکت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کی گئی تھی اس کے اندر ایک تسلسل پایا جاتا ہے یہ بھی نہیں ہوا کہ شیطانی گروہ جو اسفل سفلین کے زمرہ میں ہے انہوں نے اس روحانی حرکت کو روک دیا ہو اور معطل کر دیا ہو.ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ جو ایمان اور عمل صالح بجالانے والا گروہ ہے اس کے لئے ان انقلابات میں ہمیں آجرٌ غَيْرُ مَمنون نظر آتا ہے ایک تسلسل ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا.حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا.پھر اس انقلاب عظیم سے شروع ہوا اور قیامت تک ممتد ہے.پس شیطان کی ہزاروں سال کی کوشش سے جو امر ثابت ہوا وہ شیطانی منصوبوں کی ناکامی اور اس

Page 646

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۶ سورة التين کی تدبیروں کی ہلاکت ہے یہ ثابت نہیں ہوا کہ روحانی انقلاب کی جو ایک رو پیدا کی گئی تھی اس کا تسلسل ٹوٹ گیا ہو بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو مومنون کا گروہ ہے یعنی ایمان لانے والوں کا اور عمل و صالح بجالانے والوں کا گروہ ہے اس کے لئے آجرٌ غَيْرُ مَسُنُونِ مقدر ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے یہ تسلسل قائم ہوا اور قیامت تک چلتا چلا جائے گا کبھی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس کی وسعتیں اس کی گہرائی کو کم کر دیتی ہیں اور کبھی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس کی گہرائی اس کی وسعتوں کو کم کر دیتی ہے لیکن یہ کہ اس کا تسلسل ٹوٹ جائے یہ ہمیں نظر نہیں آتا.گویا حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے انقلاب سے لے کر آخری انقلاب تک یہ سلسلہ قائم ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صد ہا سال سے انسان کے لئے جو اجْرٌ غَيْرُ مَعْنُونِ مقدر ہے اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.پھر انقلابات سے یہ نتیجہ نکلا کہ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدین کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرے دین کے غلبہ کی مہم کو شیطان کی بھلا کونسی تدبیر نا کام بنادے گی.الدِّین کے ایک معنی الظُّلْمَةُ وَالْإِستيلاء بھی ہے.ان انقلابات کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوا کہ جس طرح پہلے انقلابات ایک تسلسل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک کامیاب ہوتے رہے ہیں اسی طرح یہ انقلاب عظیم بھی ایک تسلسل کے ساتھ غلبہ حاصل کرتے ہوئے دنیا میں آخری اور عظیم غلبہ حاصل کرے گا اور بنی نوع انسان قیامت تک اس کی برکتوں کا پھیلاؤ دیکھیں گے.پس فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدین کی رو سے کون ہے جو اپنے ہوش وحواس میں ہومگر وہ یہ کہے کہ ایسے کامیاب انقلابات کے بعد ( دراصل یہ تومحمدصلی اللہ علیہ وسلم کاہی انقلاب ہے لیکن وہ مضمون علیحدہ ہے ) جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر چوتھے انقلاب عظیم میں داخل ہو گئے ہیں (اگر پہلے تین انقلاب کامیاب ہوئے ہیں تو کون ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلاب نا کام ہو جائے گا.دنیا کی کوئی تدبیر، ظلمات کی کوئی کوشش اس انقلاب کو نا کام نہیں کر سکتی اور نہ اس نور کو اندھیرے میں تبدیل کر سکتی ہے.پس اس سے یہ ثابت ہوگا کہ اللہ تعالى أحكم الحكمین ہے ہر چیز پر اس کا حکم چلتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے صدہا سال پہلے آدم کے وقت یعنی پہلی روحانی رہنمائی کے وقت جو انسان نے اس سے حاصل کی شیطان کو کہا تھا کہ میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کا

Page 647

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۷ سورة التين حکم تھا اور اس کا فیصلہ تھا اور اسی کا حکم چلا.اسلامی تاریخ یا انسانی تاریخ کے کسی دور پر نظر ڈال کر دیکھ لوسوائے ان محروموں اور بدبختوں کے جو خدا تعالیٰ سے دور جا پڑے تھے شیطان کی گود میں کون گیا ؟ تھوڑی بہت کامیابی جو شیطان کو ہوئی یہ تو ان کی اپنی کمزوری کا نتیجہ ہے.پس جو مہم ان نقلابات کے ذریعہ روحانی غلبہ کی چلائی گئی تھی اس پر نظر ڈالنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حکم اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے الْحُكْمُ لِلہ.دوسرے یہ کہ وہ احکمُ الْحَكِمِينَ ہے.فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدین کو میں پھر لیتا ہوں میں آج کل کے حالات سے اس کا کچھ جوڑ ملانا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی انقلاب کی اس مہم کو نا کام نہیں کر سکتی.کون سی تدبیر اس قابل ہو گی کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوئی کو جھٹلا سکے کہ الدین یعنی دین کا کامل غلبہ آپ کے حصہ میں مقدر ہے؟ پس جہاں یہ پتہ لگتا ہے کہ دین اسلام کے خلاف شیطان کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوگی وہاں اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ شیطانی تدبیر میں ضرور ہوں گی کیونکہ جہاں شیطان کا اثر ہوتا ہے وہاں شیطانی تدبیر بھی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف قادیان کے محدود ماحول میں تدابیر ہو ئیں پھر پنجاب میں ہوئیں پھر سارے ہندوستان میں ہو ئیں اور ایک عرصہ تک وہاں ٹھہری رہیں اس کے بعد جب اسلام کا نور ہندوستان کی حدود سے باہر نکلا اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے پھیلنا شروع ہوا تو پھر اُن علاقوں میں احمدیت کو ناکام بنانے کے لئے تدبیریں شروع ہوگئیں اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے.یہ تو روحانی سلسلہ کے ساتھ چلتا رہتا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظلمات کے بادشاہ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے دن قریب آگئے ہیں اس لئے آج ہمیں باہر سے اسلام کے خلاف صرف ملکی یا علاقائی تدابیر کے متعلق ہی معلومات حاصل نہیں ہوتیں بلکہ ایسے منصوبوں کے متعلق بھی ہمارے دوست ہمیں علم دیتے رہتے ہیں کہ جو بین الاقوامی منصوبے ہیں.کئی ممالک اکٹھے ہو کر سوچتے ہیں کہ کس طرح جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچایا جائے اور اسلام کی جو ز بر دست اور عظیم مہم غلبہ اسلام کے حصول کے لئے جاری ہوئی ہے اس کو کمزور کیا جائے یا اسے نا کام کیا جائے.ان کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسے بالکل ختم کر دیا جائے لیکن اگر پچھلے ہزاروں سال میں تمہاری تدبیریں کامیاب نہیں ہوئیں تو اب کیسے کامیاب ہوں گی؟ لیکن ان تدابیر اور ان

Page 648

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۸ سورة التين منصوبوں کی مضرات سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان ایمان پر پختگی سے قائم ہو اور عمل صالح کے نتیجہ میں حالات کے لحاظ سے اسے جو قربانیاں دینی چاہئیں وہ دے کر دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرے.غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے خلاف ایک زبانی اور ناکام ہونے والے دعویٰ کا اعلان تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس قسم کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہے اور خدا تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اسلام سارے ادیان پر غالب ہوگا.الدین یعنی اس کا غلبہ اور استیلاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مقدر ہو چکا ہے.یہ تو ہوکر رہے گا لیکن اس غلبہ کو عملی طور پر دنیا میں قائم کرنے کے لئے جماعت مومنین کو ہزار ہا قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں اور ظلم سہنے پڑتے ہیں اور دکھ جھیلنے پڑتے ہیں تب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے وہ وارث بنتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ ان کی ڈھال بن کر دنیا سے یہ کہتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو.جس تدبیر پر عمل کرنا چاہتے ہو کر لو جو منصوبہ بنانا چاہتے ہو بناؤ اور اس پر عمل کر کے دیکھ لولیکن جس طرح پہلے اور نسبتاً چھوٹے انقلابات کو تمہاری تدابیر نا کام نہیں کر سکیں اسی طرح اس سے زیادہ بڑھ کر یہ امکان ہے کہ اس انقلاب عظیم کو تمہاری کوئی تدبیر خواہ وہ بین الاقوامی تدبیر ہی کیوں نہ ہونا کام نہیں کر سکے گی.پس جہاں ہمارے کانوں میں غیر ممالک سے یہ اطلاعات پہنچتی ہیں کہ دنیا کے بہت سے ملک یا دنیا کی بہت سی جماعتیں یا دنیا کے بہت سے مفادات اکٹھے ہو کر جماعت کے خلاف منصوبہ بنارہے ہیں اور یہ تیاری کر رہے ہیں کہ جماعت اپنی اس مہم میں نا کام ہو جائے وہاں خدا کرے کہ ہمارے کانوں میں ساری دنیا کے احمدیوں کی طرف سے یہ آواز بھی پہنچے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی حفاظت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود التائین اور غلبہ کو قریب لانے کے لئے جن قربانیوں کی بھی ضرورت پڑے گی وہ ہم دیتے چلے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ وارث بنائے.خدا کرے کہ یہ حقیقت ہماری زندگیوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے بھی اور ان ظلمات کے بادشاہوں کی آنکھوں کے سامنے بھی آ جائے کہ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ آخری غلبہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 649

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳۹ سورة التين کے مقدر میں ہے اور ناکامیاں تمہارے حصہ میں ہیں تم کامیاب نہیں ہو سکتے وہی کامیاب ہوگا جس کو کامیاب کرنے کے لئے آدم علیہ السلام سے لے کر مختلف انقلابات کا ایک سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۴۴۱ تا ۷ ۴۴) سے شروع کیا گیا تھا.

Page 650

Page 651

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۶۴۱ سورة العلق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة العلق آیت ا تا ۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ & خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ & اِقْرَأْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ ) الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ ان آیات کے معنی یہ ہیں.اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.قرآن کو پڑھ کر سنا تارہ کیونکہ تیرا رب بڑا کریم ہے.وہ جس نے قلم کے ساتھ علم سکھایا آئندہ بھی سکھائے گا.اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا.اقرا کے معنے عربی زبان میں دو ہیں.ایک لکھی ہوئی تحریر کا پڑھنا.ہر طالب علم کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے قرآن کریم واقع میں ایک کریم کتاب، حقیقتاً ایک عظیم کتاب اور بلا شک وشبہ ایک مجید کتاب ہے اور حکیم کتاب ہے.اقرا کے تفسیری معنی ہیں کتاب پڑھ کے علم کو حاصل کرو اور سب سے بہتر کتاب اور سب سے مفید کتاب، سب سے زیادہ ترقیات کی طرف لے جانے والی کتاب قرآن کریم ہے.اس لئے جس کتاب کے متعلق خصوصاً زور دے کر کہا گیا کہ پڑھو وہ قرآن کریم ہے اور پھر قرآن کریم میں ہی سچائیوں پر مشتمل کتب ہیں وہ قرآن کریم ہی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ تفاسیر ہی ہیں.دوسرے معنے ہیں سنو اور پھر اسے دہراؤ.جو سنا ہے اُسے دہراؤ.یہ علم سیکھنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ علم سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت ہے.استاد کہتا ہے، طالب علم سنتا ہے پھر اسے دہراتا ہے.

Page 652

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴۲ سورة العلق سنو اور دہراؤ.جس طرح سیکھنے کے لئے ضروری ہے اسی طرح سکھانے کے لئے بھی ضروری ہے جو سیکھو اُسے دہراؤ.سیکھنے کے لئے، یاد کرنے کے لئے ، اسے دوسروں تک پہنچانے کے لئے بھی دہراؤ.یہ سارے مفہوم اقرا کے اندر آ جاتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس رب کے نام سے جس نے پیدا بھی کیا اور جس نے تمہاری نشوونما اور ربوبیت کے سامان بھی پیدا کئے پڑھو اور دہراؤ.جو سنا ہے اسے دوسروں کو پہنچاؤ.سنا ؤ ا سے.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ یہ خالق رب جہاں تک اس کائنات میں انسان کا تعلق ہے، اس خالق رب نے انسان کو علق سے پیدا کیا.قرآن کریم کی مختلف آیات میں جو انسان کی تخلیق کا ذکر ہے اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ طین گیلی مٹی سے انسان کو بنایا.اس گیلی مٹی کو مختلف مدارج میں سے گزارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے ایسے ذلیل سے مائع قطرے کی شکل دی جو مادر رحم میں پڑتا اور وہاں ایک فرد واحد انسانوں میں سے اس کا وجود بننا شروع ہو جاتا ہے.پھر رحم مادر میں بہت سے مدارج میں سے وہ گزرتا ہے.پھر پیدائش کے وقت وہ انسان اپنے جسم کے لحاظ سے ایک وجود اپنی پہلی تحمیل میں ظاہر ہوتا ہے.علق جو ہے خون کا لوتھڑا، ان ارتقائی مدارج میں سے ایک ایسا درجہ ہے جن میں سے طِین گیلی مٹی گزری اور انسان بنا کہ جس میں پہلے جو مدارج ہیں ان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو کے علق بنا اور پھر یہ مدارج میں سے گزرتا ہوا ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے روح پھونکی.اس میں روح پڑ گئی اور وہ ایک جسم اپنی روح رکھنے والا پیدا ہو گیا.تو یہاں ہمیں یہ بتایا گیا کہ انسان کے متعلق بھی اگر علم حاصل کرنا ہے تو پہلی انقلابی تبدیلی سے پہلے جو مدارج ہیں وہ بھی ایسے ہیں کہ جن پر تحقیق کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات اور علامتیں جو خدائے واحد و یگانہ کی طرف لے جانے والی ہیں اس تحقیق کے اندر آپ کو ملیں گی اور جو خون کا لوتھڑا بننے کے بعد مختلف مدارج میں سے یہ خون کا لوتھڑا گزرتے ہوئے انسانی جسم پورا زندہ اور روح والا بنتا ہے ان پر آپ جب تحقیق کریں گے، اس تحقیق پر مطالعہ کریں گے، آپ دوسروں کو سکھائیں گے تو اس میں بھی بہت سی آیات باری جو ہیں وہ آپ کے سامنے آجائیں گی.اقرا علم حاصل کرو.سیکھو کتاب سے بھی ہن کے بھی ، وَ رَبُّكَ الْأَكْرَم اور پھر تم اس نتیجہ پر پہنچو گے

Page 653

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴۳ سورة العلق کہ ربوبیت کرنے والا ہمارا پیارا خالق جو ہے وہ بڑا شرف رکھنے والا ہے.اس کے شرف کی کوئی انتہا نہیں.وہ اپنی ذات میں بھی شرف رکھتا ہے اور جہاں بھی عزت و شرف آپ کو نظر آتا ہے وہ اسی کی طرف رجوع کرتا ہے.اور یہاں یہ بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی کے علوم میں بہت زیادہ ترقی ہوئی اور انسان کی علمی ترقیات جو ہیں ان کے وسیع میدان کھولے جائیں گے اور یہ کام جیسا بعثت سے پہلے ہوتا تھا صرف اقرا سننے کے معنے میں اور آگے سنانے کے معنے میں وہاں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے علاوہ اس سے بڑھ کے ایک اور چیز آ جائے گی کہ قلم سے زیادہ کام لیا جائے گا اور جب قلم سے علم سکھائے گا اللہ تعالیٰ تو یہ جو قلم ہم لکھتے وقت ہاتھ میں پکڑتے ہیں، کانے کی کلک بھی ہے پرانی طرز کی.نب بھی استعمال ہوئے.اب بال پوائنٹ بھی بن گئے.سکتے کی بھی پنسلیں بن گئیں.وہ بھی قلم ہے.سرخی بھی بن گئی اور بہت ساری بڑی اچھی قلمیں بن گئیں جو عرب گھوڑے کی طرح بہت دوڑنے والی ہیں.یہ تو نہیں سکھاتی.قلم ذریعہ بنتی ہے ایک ایسی چیز کا جس نے دنیا میں علوم کا انتشار پیدا کر دیا اور وہ ایک کتاب ہے.قلم لکھنے کا کام کرتی ہے، قلم کچھ ظاہر کرنے کا، کچھ جو خیالات ہیں لکھنے والے کے ان کو قرطاس پر ظاہر کرنے کا کام کرتی ہے قلم.پھر وہ اوراق جو ہیں بڑے بلند علوم کے.بڑی اخلاقیات پر قرآن کریم کی تفاسیر کی گئیں اور قرآن کریم کے جو خزانے ہیں وہ تو نہ ختم ہونے والے ہیں.چودہ سو سال میں ہمارے بزرگ علماء، اولیاء اللہ تعالیٰ جو معلم حقیقی ہے اس سے سیکھا اور پھر قلم سے، زبان سے بھی پہلا جو معنی ہے اقرا کا لیکن قلم سے بھی انہوں نے کام لیا اور کتب میں وہ علوم اسرار روحانی جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے حاصل کئے تھے لوگوں تک پہنچائے اور لکھوکھا ایسی کتابیں دنیا میں لکھی گئیں جو انسان کی فلاح اور بہبود اور اس کے آرام اور سکون اور اس کے قلبی اطمینان اور اس کی ذہنی خلش کو دور کرنے والی اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو دکھانے والی ، اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرنے والی تھیں.تو اعلان کیا گیا کہ ایک انقلاب عظیم سیکھنے سکھانے میں بعثت نبوی کے ساتھ شروع ہورہا ہے اور وہ الَّذِي عَلَمَ بِالْقَلَمِ خدا تعالیٰ نے اعلان کیا کہ اب میں قلم کے ذریعہ سے علم کے میدانوں میں انسان کی زندگی میں ایک انقلاب بپا کروں گا اور کتابیں لکھی جائیں گی اور کائنات کے جو حقائق ہیں،

Page 654

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴۴ سورة العلق حقائق زندگی جو ہیں انسان کے متعلق ، دوسری آیات ربانی کے متعلق وہ لکھنے والا ایک جگہ پر ہوگا اور اس کے خیالات پہنچ جائیں گے.کتابوں کے ذریعہ ہزار ہا میل پر الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ قلم کے ساتھ ان علوم کو رائج کرنے کے زمانے کا اعلان کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ یہ جو ہے یہ پرانی باتیں بھی نئے نسخوں میں نئی کتابوں میں نئی تالیف میں لکھی جا کر دنیا میں پھیلیں گی.علَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ اور ہر صدی اس بات پر گواہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان عظیم جو کیا تھا کہ عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ کہ انسان کو اس نے وہ علم سکھایا جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا حقیقتا صحیح ہے ہر صدی میں نئے علوم نکلے روحانی بھی اور مادی بھی اور انسان ترقی کرتا ہوا اس زمانے تک پہنچ گیا جس کے متعلق یہ کہا گیا تھا.اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ اثقالها (الزلزال: ۲، ۳) کہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمین اپنے چھپے ہوئے خزانوں کو باہر نکال کے پھینک رہی ہے بڑی کثرت کے ساتھ نئے سے نئے علوم جو ہیں وہ پیدا ہورہے ہیں.میرا خیال ہے کہ ہر ماہ ساری دنیا کے نئے جو پوائنٹس (Points) معلم اور محقق جو نکالتا ہے دنیوی میدانوں میں وہ بھی ہزاروں لاکھوں ہیں اور ہر روز ہی کہیں نہ کہیں خدا تعالیٰ روحانی نشان اپنے فیضان نبوی کے نتیجہ میں ظاہر کر رہا ہے اور دنیا علم کے اس میدان میں آگے چل رہی ہے کہ جب یہ میدان آخر میں اپنی منزل کو پہنچتا نظر آئے گا انفرادی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں تو اس وقت انسان اس حقیقت کو پالے گا کہ اللہ ہی اللہ ہے.مولا بس.خدا تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے وہ اس کا ئنات کی بنیاد بنتا ہے اور اسی پر تمام علوم کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اور اسی سرچشمہ سے ہر نور نکلتا ہے.اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۹۳ تا ۴۹۷)

Page 655

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۴۵ سورة القدر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القدر آیت ا تا ۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ) D اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِةُ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ فَ تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ امْرِفُ سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ج ليْلَةُ الْقَدْرِ کے معنی بہت سے کئے جاسکتے ہیں اور بہت سے کئے گئے ہیں خلاصہ ان سب معانی کا یہ بنتا ہے کہ لَیلَةُ الْقَدْرِ وہ اندھیری رات یا وہ اندھیرا زمانہ ہے.جس میں اللہ کی طرف سے اندھیروں کے دور کرنے اور روشنی کے ظہور کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور لَيْلَةُ الْقَدْرِ انفرادی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی ہوتی ہے.احادیث میں جہاں یہ ذکر ہے کہ سارے سال میں کسی وقت لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہو سکتی ہے.وہ ذکر انفرادی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اجتماعی لَيْلَةُ الْقَدْرِ ایک تو (جیسا کہ احادیث اس طرف اشارہ کر رہی ہیں ) رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک رات ہوتی ہے یا اجتماعی لَيْلَةُ الْقَدْرِ انبیاء کا وہ اندھیرا زمانہ ہوتا ہے جن میں وہ نازل ہوتے اور جس کے اندھیروں کو ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے.انفرادی لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر فرد بشر پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں بہت سے احکام ہیں جو اسے دیئے گئے ہیں بہت سے اوامر ہیں جو اسے کرنے ہوتے ہیں اور جنہیں اسے کرنا چاہیے یا بہت سی نواہی ہیں جن سے اسے بچنا چاہیے.انسان جس طرح جسمانی لحاظ سے نشوونما حاصل کرتا ہے پہلے ارتقا کے کئی

Page 656

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴۶ سورة القدر دوروں میں سے وہ رحم مادر میں گزرتا ہے اور پھر بہت سے ارتقائی دوروں میں سے وہ پیدائش کے بعد وہ اس دنیا میں گزرتا ہے پھر وہ اپنی بلوغت کو پہنچتا ہے جسمانی طور پر اگر وہ لمبی عمر پائے تو وہ انحطاط کے زمانہ کو پاتا ہے.اس کے مشابہ مگر (ایک فرق کے ساتھ ) روحانی ارتقا اور روحانی نشونما بھی وہ حاصل کرتا ہے پہلے وہ تقویٰ کی موٹی موٹی راہوں پر چلتا ہے پھر وہ اس کتاب عظیم سے جو ھڈی لِلْمُتَّقِينَ ہے تقویٰ کی مزید باریک راہوں کا علم حاصل کرتا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے اسی طرح وہ روحانی ترقی کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی روحانی بلوغت کو پہنچتا ہے جس کے بعد کوئی انحطاط نہیں اور یہ فرق ہے روحانی اور جسمانی بلوغتوں میں کہ جسمانی بلوغت کے بعد اس دنیا میں ایک انحطاط کا زمانہ بھی بہت سے لوگوں پر آتا ہے لیکن روحانی بلوغت کے بعد پھر انحطاط کا کوئی زمانہ روحانی بالغ پر نہیں آتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے لطیف رنگ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.فرمایا جسے بشاشت ایمانی حاصل ہو جائے اس کو پھر شیطان کے حملوں کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا الفاظ مجھے یاد نہیں اسی قسم کا مفہوم ہے یعنی جس کے اعمال صالحہ فطرت کا ایک حصہ بن جائیں اور ان کی بجا آوری میں وہ کوئی تکلیف یا کوفت محسوس نہ کرے اسے کسی قسم کی کوشش اور جدو جہد نہ کرنی پڑے بلکہ جس طرح وہ سانس لیتا ہے اور زندگی کو قائم رکھتا ہے اسی طرح ایسا شخص بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کو بجالاتا ہے اور جس شخص کے دل میں اس قدر بشاشت اعمال صالحہ کے بجا لانے میں پیدا ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے ہر دکھ جو وہ سہے دنیا اسے دکھ سمجھے تو سمجھے وہ اس میں لذت محسوس کرے اس بلوغت کے بعد کسی قسم کے روحانی انحطاط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہی وہ کیفیت ہے بلوغت کی جس کی طرف قرآن کریم نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے : يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْبِينَةُ - ارجعي إلى ربّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر : ۲۸ تا ۳۱) تو اس دنیا میں دنیا کی اس زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فیصلہ ہر فرد بشر کے متعلق کیا جاتا ہے ہر اس فرد بشر کے متعلق جو اپنی قربانیوں کو انتہاء تک پہنچاتا اور اپنے رب کی محبت میں اپنے نفس کو کلی طور پر مٹا دیتا اور اس پر ایک موت وارد کر دیتا ہے اس پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے یہ بشارت دیتا ہے کہ اب تو ایسے مقام تک پہنچ گیا ہے کہ جنت کا یقینی طور پر ہمیشہ کے لئے تو وارث رہے گا اور شیطان تجھے بہکانے میں کامیاب نہیں ہوگا.

Page 657

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴۷ سورة القدر یہ فیصلہ کی گھڑی اس شخص کے لئے لیلة القدر ہے کیونکہ اس میں وہ عظیم فیصلہ اس کی ابدی زندگی کے متعلق کیا جاتا ہے جو اس دنیا سے شروع ہوتی اور اس دنیا میں جا کے بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ اس کے لئے خوشیاں اور سرور پیدا کرتی رہتی ہے.اتنا اہم فیصلہ جس گھڑی کیا جائے.جب انسان کے تمام انفرادی اندھیرے یک قلم دور کر کے ان کی بجائے اللہ تعالیٰ کا نور اس کی روح اور اس کے جسم پر قبضہ کر لے.اتنا عظیم فیصلہ جو ہے وہ اس فرد واحد کے لئے لیلتہ القدر کا حکم رکھتا ہے یہ انفرادی لیلۃ القدر ہے اور یہ لیلتہ القدر جو انفرادی ہے سال کے کسی حصہ میں آ سکتی ہے اس کے لئے رمضان کی کوئی شرط نہیں رمضان کے دس دنوں یا دس راتوں کی کوئی شرط نہیں اور دراصل اسی لیلتہ القدر کا ذکر عبد اللہ بن مسعود اور بعض دوسرے صحابہ کی روایتوں میں ہے کہ وہ سال کے کسی حصہ میں آسکتی ہے.دوسری وہ لیلتہ القدر ہے جس کا تعلق رمضان سے اور رمضان کی آخری دس راتوں سے ہے اس کی حکمت جیسا کہ تفسیر کبیر میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ ان کی اُمتوں سے ایک عہد لیا کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ان سے بھی ایک عہد کرتا ہے اور حکم اور بشارت دیتا ہے کہ تم اپنے عہد کو پورا کرو میں اپنے عہد کو پورا کروں گا اور اس کے لئے ایک ظاہری علامت اللہ تعالیٰ کی رضا کے اظہار کی رکھی جاتی ہے.پہلے انبیاء نے بھی اپنی امتوں سے عہد لیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی نوع انسان سے یہ کہا کہ اُمتِ مسلمہ میں شامل ہو جاؤ اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے رب سے یہ عہد باندھو کہ اسلام کے مطابق تم اپنی زندگیوں کو گزارو گے.یہ عہد ہے اسلام کا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اُمت مسلمہ سے لیا گیا ہے.اسلام کے ( اسکیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنا سب کچھ اپنے رب کے حضور پیش کر دے اور اس کی راہ میں قربان کر دے پھر جس چیز کی جس وقت ہمارا رب اجازت دے اس چیز سے اس وقت تک ہم فائدہ اٹھا ئیں اور ہر وقت اس بات کے لئے تیار ہوں کہ اپنی ہر چیز خواہ وہ مادی ہو یا جذباتی ہو یا کسی اور طرح ہم سے تعلق رکھنے والی ہوا سے اپنے رب کی رضا کیلئے ہم ہر وقت قربان کرنے کیلئے تیار رہیں گے.یہ عہد اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اُمتِ مسلمہ سے لیا اور اس کی ظاہری

Page 658

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۴۸ سورة القدر علامت رمضان کو قرار دیا اس مہینہ میں ہم رات اور دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں.رمضان کی عبادت ہر قسم کی عبادتوں کا مجموعہ ہے اس میں نفس کشی بھی شامل ہے اس میں جفا کشی بھی شامل ہے اس میں لذت کی قربانی بھی شامل ہے اس میں مال کی قربانی بھی شامل ہے اس میں وقت کی قربانی بھی شامل ہے اس میں جان کی قربانی بھی شامل ہے ہر قسم کی قربانیوں کا نمونہ ، ہر قسم کی قربانیوں کے پھولوں کا گلدستہ ہے یہ ماہ رمضان !!! تو ظاہری علامت اس روح کی جو اسلام کے ذریعہ اللہ تعالی پیدا کرنا چاہتا تھا رمضان کی عبادتوں میں رکھی گئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر تم اسلام کی روح کو اپنے اندر قائم رکھو گے اور ایک حقیقی مسلمان کی زندگی گزارو گے جس کی ظاہری علامت رمضان کی عبادتیں ہیں.تو میں تمہاری نیتوں اور خلوص کو دیکھتے ہوئے اور خالص تقویٰ کی بنیادوں پر جو اعمال صالحہ تم بجالا ؤان کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے ساتھ اس مہینہ میں ایک نمایاں اور خصوصی تکلف کروں گا اور وہ یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں ایک وقت ایسا مقرر کروں گا تمہارے لئے اسے اُمتِ مسلمہ ! کہ جب تمہاری دعاؤں کو میں قبول کروں گا جب میں تمہارے قریب آؤں گا اور اپنے قرب سے تمہیں نوازوں گا.تو اسلام کی جو پابندیاں ہیں اور اسلام کی جو اتباع اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اس کی ظاہری علامت کے طور پر رمضان رکھا گیا ہے جس میں ایک چھوٹے سے وقت میں تمام قربانیوں اور تمام اعمالِ صالحہ کو اکٹھا کر دیا گیا ہے.زبان سے کسی کو ضرر نہیں پہنچانا، ہاتھ سے ضرر نہیں پہنچانا.مال سے خیر پہنچانی ہے.اپنے وقت قربان کر کے خیر پہنچانی ہے وغیرہ وغیرہ.ایک چھوٹاسا نقشہ ہے تمام اسلامی عبادات کا جو رمضان میں ہمیں نظر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل فدائیت کی اس ظاہری علامت کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی ایک ظاہری علامت رکھی اور وہ رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلتہ القدر ہے یہ اجتماعی لیلتہ القدر ہے یعنی ایک ایسی رات آتی ہے جب اُمتِ مسلمہ کی دعائیں سنی جاتی ہیں اجتماعی طور پر کیونکہ اُمت کے نمائندے وہ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک ان کی نمائندگی کر رہے ہوں یعنی جو حقیقی معنی میں اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.جن کے مال اس کی راہ میں خرچ ہو رہے ہوں جن کے جذبات اس کے لئے قربان ہو رہے ہوں اور جن کی عزتیں اس کی راہ میں فدا ہو رہی ہوں ان کی دعاؤں کو ایسے رنگ میں

Page 659

تفسیر حضرت علیله اسی اثاثے ۶۴۹ سورة القدر سنتا ہے کہ ان میں سے بہتوں کو بتا بھی دیتا ہے کہ آج اُمت کی اجتماعی لیلتہ القدر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی جو اُمتِ مسلمہ کے افراد ہوں اگر چہ ان کو علم نہیں دیا جاتا کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے پھر بھی ان کی ایسی دعاؤں کو جو خدائے عظیم اور کبیر کے ارادہ اور منشاء کے مطابق ہوں قبول کیا جاتا ہے اور اس طرح اُمتِ مسلمہ کی بقاء اور اس کی ترقی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں اور جس وقت اُمت بحیثیت امت اسلام پر قائم نہ رہے اور لیلۃ القدر کی برکتوں سے محروم ہو جائے اس وقت امت پر تنزل کا زمانہ آ جاتا ہے یہ دور ہمیں اسلامی تاریخ میں نظر آتے ہیں اور اگر ہم اس کی چھان بین کریں تو یقینا اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ تنزل کا زمانہ وہ ہوتا رہا ہے جب اُمتِ مسلمہ نے اسلامی احکام کو پس پشت ڈال دیا اور قرآن کریم کو کتاب مہجور سمجھ لیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینی چھوڑ دیں اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کی ایک رات ایسی ہے جو ایک ہزار مہینے سے بھی زیادہ اچھی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں ہزار کا لفظ ان گنت اور بے شمار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک رات ایسی ہے جو بے شمار اور ان گنت مہینوں سے زیادہ برکت والی ہے اور جو شخص اس رات کی برکات سے محروم رہے وہ بڑا ہی محروم آدمی ہے اس سے زیادہ اور کون محروم ہو سکتا ہے؟ اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اگر اُمت کے وہ افراد اور جب تک اُمت کے وہ افراد جو روحانی طور پر زیادہ قوتیں اور استعدادیں رکھنے والے ہوتے ہیں اور جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی رحمتوں کے زیادہ وارث ہوتے ہیں وہ اُمت کے لئے اُمت کی دنیوی بہبود اور روحانی ترقیات کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کے سب احکام بجالاتے رہیں اور اسلام کے ہر حکم کے نیچے اپنی گردن کو رکھنے والے ہوں اور انتہائی قربانیاں اس کے لئے دینے والے ہوں ان کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ رمضان کی اس لیلتہ القدر میں قبول کرتا ہے اور اس طرح اُمت مسلمہ ترقی کے دنیوی اور روحانی مدارج طے کرتی چلی جاتی ہے لیکن پھر ایک ایسا دور آتا ہے کہ جب اُمت بحیثیت مجموعی ایسی نہیں رہتی تب لیلتہ القدر سے وہ محروم ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں تنزل کا دور اسلام پر آنا شروع ہو جاتا ہے.اجتماعی طور پر لیلتہ القدروہ زمانہ بھی ہے جو ایک نبی کا زمانہ ہوتا ہے جو انتہائی فساد اور اندھیرے اور

Page 660

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة القدر ظلمت کا زمانہ ہوتا ہے لیکن ظلمت کے اس زمانہ میں اندھیرے کی ان گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے لئے نور کا سامان پیدا کروں گا.سب سے زیادہ ظلمت شیطان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پھیلائی اس سے زیادہ اندھیرے دنیا کی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آئیں گے اور سب سے روشن نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اور آپ کے طفیل ان اندھیروں میں سے ہی طلوع ہوا اور یہ رات (جس میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اندھیروں کو دور کر دیا جائے گا) جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی اندھیری رات تھی ایسی اندھیری رات کہ اس سے بڑھ کر اندھیرا تصور میں بھی نہیں آ سکتا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشنی کے سامان پیدا کئے گئے اس قدر روشنی اور نور کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے قیامت تک کیلئے وہ احکام دے دئے گئے وہ صراط مستقیم بتا دیا گیا جن پر چل کر انسان اپنے رب جو نُور السمواتِ وَالْأَرْضِ ہے کے نور سے نور حاصل کر کے اپنے ظاہر و باطن کو منور کر سکتا ہے.تو یہ زمانہ بھی لیلۃ القدر کا زمانہ ہے یعنی فساد کا یعنی شیطانی حکومت کا یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد کے اندھیروں کا وہ زمانہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشنی پیدا کی گئی اور ان اندھیروں کو دور کیا گیا اندھیروں کا یہ زمانہ وہ تھا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں نے انتہائی دکھ اٹھائے ان لوگوں کے لئے دنیا اندھیر تھی دنیوی لحاظ سے روشنی کی کونسی کرن تھی جو وہاں تک پہنچ سکتی تھی ہر طرف سے کفر نے ان کو گھیرا ہوا تھا ہر قسم کی قربانیاں تھیں جو ان سے لی جارہی تھیں مردوں سے بھی اور عورتوں سے بھی وہ کون سی بے عزتی تھی جوان مسلمان عورتوں کو نہ دیکھنی پڑی ہو ہر قسم کے اندھیروں کی دیواریں شیطان مسلمانوں کے گرد کھڑی کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ ان سے انتہائی قربانیاں لے رہا تھا اس وعدہ کے ساتھ کہ میں تمہارے لئے اپنی تقدیر کی تاریں ہلاؤں گا اور اتنے انعامات دوں گا اتنے فضل تم پر نازل کروں گا آسمان سے تم پر نور کی کچھ اس طرح بارش برسے گی کہ یہ سب اندھیرے کا فور ہو جائیں گے اور مٹ جائیں گے اور شیطان اپنے تمام اندھیروں اور ظلمتوں کے ساتھ بھاگ جائے گا اور حق اپنے تمام نوروں کے ساتھ دنیا میں قائم ہو جائے گا.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ لیلتہ القدر کا زمانہ تھا اس معنی میں کہ اگر چہ شیطان انسانی روح پر پوری طرح غالب آ گیا ہوا تھا اور مسلمانوں کو انتہائی قربانیاں اس وقت دینی پڑی تھیں لیکن

Page 661

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۵۱ سورة القدر اور لیلتہ القدر کے اس زمانہ میں ہمارے رب نے یہ فیصلہ کیا کہ ان تمام اندھیروں کو دنیا سے مٹادیا جائے گا اور وہ جو اپنے فیصلوں پر قادر اور وہ جو اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ہے اس نے وہ تمام اندھیرے دنیا سے مٹادئے اور اس طرح اسلام کا نور تمام دنیا پر چھا گیا کہ معلوم دنیا میں سے کوئی علاقہ ایسا نہ رہا جو اسلام کے نور سے محروم ہو اس کے بعد پھر تنزل کا ایک زمانہ آیا کیونکہ اسلام کی روح کو مسلمان بھول چکا تھا لیکن اب پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ پیدا کیا اور اس زمانہ میں ہمیں بھی پیدا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی لیلۃ القدر ہی کا زمانہ ہے جس زمانہ کے متعلق الہی تقدیر ہے کہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کیا جائے گا اور دنیا کی تمام اقوام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کی جائیں گی.پس ہمارا یہ زمانہ بھی شیطانی ظلمتوں، اسلامی قربانیوں اور بہترین انعامات کے لحاظ سے لیلتہ القدر ہے اور اس زمانہ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انتہائی قربانیاں لی جائیں گی اور عظیم انعامات کا وارث کیا جائے گا.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۰۱۴ تا ۱۰۲۰) قرآن کریم کی اس سورۃ میں بھی جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ کا ذکر ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بھی ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں لیلة القدر کی تلاش کرو ( ترمذی کتاب الصوم باب ماجاء في ليلة القدر ) اور ہماری اسلامی کتب میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رمضان کے علاوہ بھی کسی زمانہ یا کسی وقت یا کسی رات ( بعض دفعہ کوئی ایسا زمانہ ہوتا ہے کوئی ایسا وقت ہوتا ہے یا کوئی ایسی رات ہوتی ہے جس میں کسی انسان کے لئے لَيْلَةُ الْقَدْرِ ظاہر ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان مختلف باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے اور ان پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ تین قسم کی ہے.ایک وہ لَیلَةُ الْقَدْرِ جس میں دنیا کی طرف (اصلاح کے لئے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کا نزول ہوا.دوسری اور ایک وہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے جس کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسے ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور تیسری ایک وہ لیلة القدر ہے کہ جو ہر انسان کو میسر آ سکتی ہے مگر اس وقت جب اس کو ایک صاف حالت روحانی میسر آ جائے یعنی انسانی روح غیر اللہ سے کلی طور پر منقطع ہو کر آستانہ الہیہ پر بہہ نکلے.یہ صافی وقت جس میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حقیقی معنوں

Page 662

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۵۲ سورة القدر میں سجدہ ریز ہونے کی توفیق ملتی ہے یہی دراصل اس کے لئے قدر کی رات بن جاتی ہے.ليْلَةُ الْقَدْرِ کے ایک معنے لیلۃ کے ہیں اور دوسرے معنے قدر کے ہیں.ليلة عربی میں بطور مؤنث یوھ کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جس طرح یوم کے معنے محض دن کے نہیں بلکہ زمانہ کے بھی ہیں اسی طرح لیلة کے معنے محض رات کے نہیں بلکہ ان میں زمانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے جس طرح یوم کے معنے ایک خاص زمانے کے بھی ہوتے ہیں اسی طرح لیلة یعنی رات کے معنوں میں بھی ایک خاص قسم کے زمانہ کا مفہوم پایا جاتا ہے.جب یوم کے لفظ سے زمانے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں اور عظمتوں اور اس کے جلال اور اس کی صفات کے مختلف جلوؤں کی طرف اشارہ ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کو ستّة أَيَّامٍ (هود: (۸) یعنی چھ زمانوں میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے یہاں یوم سے مراد وہ دن نہیں جو ہر روز ہم پر طلوع ہوتا ہے بلکہ ایک زمانہ مراد ہے اور ہر چیز کی پیدائش کے لئے ایک زمانہ مقدر ہوتا ہے مثلاً بچہ کی پیدائش کے لئے نو ماہ کا زمانہ ہوتا ہے.اس عالمین کی یا اس کے اندر جو Galaxies) کہکشاں ) ہیں ان کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا لمبا زمانہ مقرر کر دیا ہے بعض سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ ستاروں کے مختلف خاندان جو بے شمار ستاروں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں Galaxy ( کہکشاں ) کہتے ہیں ان کا آپس میں ایسا تعلق ہے ایک مربوط تعلق پایا جاتا ہے کہ ان ستاروں کا سارے کا سارا جمگھٹا اکٹھا ایک جہت کی طرف بھی حرکت کر رہا ہے اور ساتھ والی دائیں بائیں یا اوپر نیچے جو دوسری Galaxies ( کہکشاں ) ہیں وہ بھی ایک خاص جہت کی طرف حرکت کر رہی ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے.پس جس وقت دو Galaxies) کہکشاں) کے درمیان یعنی ستاروں کے ان دو خاندانوں کے درمیان جن کے افراد بے شمار ہیں اور انسان ان کو گن نہیں سکتا تو ان بے شمار ستاروں پر مشتمل دو خاندانوں کے درمیان جب اتنا فاصلہ ہو جاتا ہے کہ ستاروں کا ایک اور خاندان وہاں سما سکے تو اللہ تعالیٰ کے امر اور حکم سے وہاں ایک اور Galaxy ( کہکشاں) پیدا ہو جاتی ہے.ستاروں کا ایک اور خاندان پیدا ہو جاتا ہے یہ صحیح ہے کہ اس وقت تک انسانی دماغ نے خواہ اس نے سائنس میں

Page 663

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۵۳ سورة القدر کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لی ہو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے کناروں پر ہی نگاہ ڈال سکا ہے اور جس طرح انسان اندھیرے میں ٹول کر کچھ معلوم کر لیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خلق اور اس کی ربوبیت اور اس کے حسن و احسان کے جو جلوے اس پیدائش کا ئنات میں ہمیں نظر آتے ہیں ان کے متعلق جس طرح آدمی اندھیرے میں ٹول کر کچھ علم حاصل کر لیتا ہے انسان نے اس طرح کا کچھ علم حاصل کر لیا ہے اور جو تھوڑا بہت حاصل کیا ہے اس میں ایک چیز یہ بھی آجاتی ہے کہکشاں وغیرہ.پس تو یہ یوم کا لفظ قرآن کریم کے مطالعہ کی رو سے اس زمانہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے خواہ وہ زمانہ چھوٹا ہو یا بڑا.جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص قدرتوں کا مظاہرہ ہوتا ہے.ایسا زمانہ قرآن کریم کی اصطلاح میں یوم کہلاتا ہے.لیکن لیلة کے لفظ کے معنے یوم سے کچھ مختلف ہیں کیونکہ لیلة یعنی رات میں اندھیروں کا تصور بھی پایا جاتا ہے رات اندھیری ہوتی ہے.پس اندھیروں کے تصور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عظیم صفات کے جلوؤں کا تصور بھی پایا جاتا ہے اور لیلۃ اس زمانے کو کہتے ہیں جب انسان اپنے رب سے انتہائی طور پر دور ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی روشنی سے کلی طور پر محروم ہو کر اپنے لئے ظلمات پر ظلمات والے حالات پیدا کر لے.اندھیرا ہی اندھیرا ہواور اسے کچھ نظر نہ آتا ہو یہاں تک کہ اس کو اپنی محرومی بھی نظر نہیں آ رہی ہوتی، اس کے دل سے اس کی محرومی کا احساس ہی مٹ جائے کیونکہ اسے اپنی بد قسمتی بھی نظر نہیں آ رہی ہوتی یہاں تک کہ اسے اپنے بد اعمال بھی بد اعمال نظر نہیں آرہے ہوتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کی نگاہ جو اس وقت اس فضا تک پڑ رہی ہوتی ہے وہ بھی اس کو نظر نہیں آ رہی ہوتی ( مگر یہ غضب اور یہ قہر اس کو نظر نہ آتا ہو ).ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے ہر پہلو تاریک ہی تاریک ہوتا ہے یہ لَيْلَةُ ہے جس کی طرف لَيْلَةُ الْقَدْرِ میں اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں یہاں ایک تولیلۃ سے ایک زمانہ مراد ہے جب کہ دنیا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : ۴۲) کی مصداق بن جائے اور انسان خدا سے کلی طور پر دور ہو جائے اور کلی طور پر رو بہ دنیا ہو جائے اور دنیا کے اس مردار پر اس طرح بیٹھا ہوا ہو جس طرح ایک گدھ ایک مرے ہوئے گدھے پر بیٹھی ہوتی ہے انسان اور اس کے رب کے درمیان قرب کی کوئی جھلک نظر نہ آئے.انسان کی یہ حالت ليلة سے مشابہ ہے اور اس ليلة کا یہاں ذکر ہے یعنی جب ظلمات اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں تو اس وقت خدائے قادر اپنے قادرا نہ تصرفات سے دنیا کو اپنی قدرتوں کے جلوے

Page 664

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة القدر دکھاتا ہے اور وہ آسمان سے ایک نور کو نازل کرتا ہے.سب سے زیادہ اندھیری رات اور سب سے زیادہ تاریک اور فساد سے پر زمانہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے معا پہلے کا زمانہ تھا اور اس کے مقابلے میں انسانی آنکھ نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے جو نظارے دیکھے ان سے بڑھ کر پہلے کسی زمانے میں نہیں دیکھے گئے جس طرح طلوع اسلام سے قبل انسانیت پر انتہائی ظلمت اور ضلالت ایک اندھیری رات بن کر چھائی ہوئی تھی اُسی طرح انسان نے اپنی آنکھوں سے اس تیرہ و تاریک رات میں اللہ تعالیٰ کے نور کو بھی انتہائی طور پر چمکتے ہوئے نظاروں کے ساتھ دیکھا یہ وہ لیلۃ القدر ہے جس میں قرآن کریم ایک نور کی حیثیت میں نازل ہوا اور اس نے اس رات کے اندھیروں کو قیامت تک کے لئے دور کرنے کے سامان پیدا کر دیئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجسم نور تھے.آپ کی اس نورانی کیفیت نے اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر جذب کیا اور یہی وہ نور ہے جو قرآن کریم کی شکل میں انسان کی ہدایت کے لئے نازل ہوا.پس ایک تو یہ لیلۃ القدر ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا وہ زمانہ جس میں اندھیرے اور ظلمات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور جن کو دور کرنے کے لئے وہ انتہائی شان اور چمک رکھنے والا نور نازل ہوا ہے جسے ہم قرآن کریم بھی کہتے ہیں.جسے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیات سے بھی ہمیں پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء میہم السلام مبعوث ہوتے رہے ہیں اور آپ کے بعد جتنے بھی مرسل اور محدثین ہوئے ہیں انہوں نے آپ ہی سے نور لے کر اپنے وقت کی اندھیری رات کو نورانی بنانے کی اپنے رب کی رحمت سے توفیق پائی تھی.بہر حال اصل لَيْلَةُ الْقَدرِ تو یہ لیلۃ القدر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا تعلق اس قسم کا ہے کہ آسمان کی طرف سے محض ہدایت کا نازل ہو جانا انسان کے لئے کافی نہیں محض سورج کی شعاعوں کا زمین کے او پر پہنچ جانا اور اس زمین کو روشن کر دینا انسان کے لئے کافی نہیں اُسے ایک ایسی آنکھ ملنی چاہیے کہ جس کے ذریعہ وہ اس سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکے اگر سورج کی روشنی دو پہر کے وقت

Page 665

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة القدر جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے اور ہر چیز پوری طرح روشن ہوتی ہے اس وقت کسی خطہ ارض پر پڑ رہی ہولیکن اس خطہ کے مکین اپنی آنکھوں کے نور سے محروم ہوں تو سورج بے شک چمکتا رہے ان کے اندھیرے روشنی میں نہیں بدلیں گے اس لئے اگر چہ رات بڑی اندھیری تھی ایسی اندھیری رات کہ اس سے قبل اس قسم کی اندھیری رات کبھی نہیں آئی تھی اور بعد کی اندھیری رات کا لفظ اس لئے ہم یہاں نہیں کہہ سکتے کہ آپ کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.پس یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی رات دنیا میں اتنی اندھیری نہیں تھی جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کے وقت اندھیری تھی اور اس میں بھی شک نہیں کہ ان اندھیروں کو دور کرنے کے لئے شدت ظلمات کی مناسبت سے ایک ایسا نور آسمان سے نازل ہوا جس کی نورانیت کا پہلے زمانے مقابلہ ہی نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود اس نور سے منور وہی ہوگا جسے روحانی طور پر آنکھ ملے گی، جسے روحانی طور پر آنکھ نہیں ملے گی جو روحانی طور پر اندھا ہوگا وہ دراصل روحانی لحاظ سے مُردہ ہو گا وہ اس عظیم محمدی نور سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا.اس لئے اس لیلتہ القدر کے ساتھ روحانی لیلتہ القدر کا پایا جا نالازمی تھا.پس اصل میں تو یہ لیلتہ القدر ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ، جو فساد میں ، تاریکی میں اللہ تعالیٰ سے دوری میں اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا اور ان تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے وہ نور بھی ایسا تھا کہ جو کامل اور مکمل اور جس میں ہر قسم کے فسادات کو دور کرنے کی قابلیت اور طاقت اور جس کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.آپ پر اس نور کے نزول کے ساتھ ہی فساد اور تاریکیاں اور اندھیرے جو اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے دور ہونے لگے مگر شروع میں صرف فائدہ انہوں نے ہی اُٹھایا جن کو اللہ کی توفیق سے دیکھنے کی آنکھیں ملیں اور جن کے ذریعہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نور کو دیکھنے کی توفیق پائی مکہ میں اس نور کا نزول شروع ہوا اور بعثت نبوی سے قبل مکہ معظمہ جو اپنی ظلمت اور ضلالت میں دوسرے شہروں کو بھی مات کر رہا تھا.جب اس میں محمد انور کا نزول شروع ہوا تو ظلمت دلوں سے چھٹنی شروع ہوگئی تھی مکہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی پیدا ہوئے جنہیں ان کے پیدا کرنے والے ربّ نے روحانی آنکھ دے رکھی تھی اور جنہوں نے اس نور سے فائدہ اٹھایا اور اسی مکہ میں اسی شہر میں جس کے ذرے ذرے کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نے منور کر دیا تھا ابو جہل بھی پیدا

Page 666

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة القدر ہوا نور تو موجود تھا لیکن ابو جہل ایسی آنکھ سے محروم رہا جو روحانی طور پر دیکھ سکتی ہے اس لئے وہ محمدی آنور کی تابانی کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا.پس معلوم ہوا کہ باوجود اس کے جس انتہائی فساد اور گناہ اور اللہ تعالیٰ سے دوری کے زمانہ میں جو محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نور اپنے کمال کے ساتھ نازل ہوا، وہ تو نازل ہوا مگر اس کے باوجود وہی انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے جس کے حق میں بھی (علاوہ دوسری تقدیر کے جس کا یہاں ذکر ہے ) کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوتا ہے جس کے بعد اور تقدیر اس فرد واحد کے حق میں آسمانوں سے جاری کی جائے اور اس شخص کو روحانی آنکھیں عطا کی جائیں تا کہ وہ اس آسمانی نور سے فائدہ اٹھا سکے جب تک یہ تقدیر نازل نہیں ہوتی کوئی فرد واحد لیلتہ القدر سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا.اللہ تعالیٰ کے ان انوار سے اور ان برکات سے اور ان رحمتوں سے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کر آئے ان سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ان سے وہ محروم رہے گا یہ محرومی صرف اس وقت دور ہوسکتی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرتے ہوئے اپنے قادرا نہ تصرف سے اپنے بندے کے حق میں ایک نور نازل فرمائے یعنی اسے روحانی طور پر آنکھیں عطا ہوں کیونکہ جس نور میں انسان نے اپنی آنکھوں سے کام لینا ہے وہ تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم ان روحانی انوار اور برکات اور فیوض اور رحمتوں سے حصہ لینا چاہتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آسمان سے نازل کیا ہے تو تمہارے لئے یہ بات بڑی ہی ضروری ہے کہ تم اپنی تدبیر سے ان عبادات کو جو تمہارے لئے مقرر کی گئی ہیں انہیں ان کے انتہائی کمال تک پہنچاؤ.میں نے بتایا تھا کہ رمضان کا مہینہ صرف روزہ رکھنے کا مہینہ نہیں ہے بلکہ پانچ بنیادی عبادات اس ماہ میں جمع کر دی گئی ہیں اور یہ پانچوں قسم کی عبادات تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی قائم مقام ہوتی ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور اگر تم آفات نفس کو سمجھتے ہوئے اور اپنے نفس کو مغلوب کر کے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کو قربان کر کے ان عبادات کو بجالاتے ہوئے رمضان کے آخر میں پہنچ جاؤ گے یعنی اپنی تدبیر کو کمال تک پہنچا دو گے تو پھر تمہاری اس تدبیر کے نتیجہ اور دعا کے کمال کے وقت تم یہ امید رکھو کہ خدا تعالیٰ آسمان سے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلائے گا اور تمہیں روحانی بصیرت اور بصارت عطا کرے گا

Page 667

تفسیر حضرت علیله است اثاثے سورة القدر تا کہ تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے مستفیض ہو سکو.یہ وہ لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسے تلاش کرو اللہ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کرتا ہے.اسے دعا کی ایک خاص کیفیت دعا رات کے وقت عطا کرتا ہے بعض دفعہ دن کو بھی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل جذب ہوتا ہے اور اس کے لئے تقدیر کی تاریں ہلا دی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جو قادر و توانا ہے جو ہر قسم کی طاقت اور قوت کا سر چشمہ ہے وہ ایسے انسان کے لئے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کا یہ بندہ اس کے اس طاقت اور قوت کے سرچشمے سے سیراب ہو اور اسے اس بات کی قوت عطا ہو کہ وہ آئندہ نیکیوں میں ترقی کرتا چلا جائے نہ صرف اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہی ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اس بات کی جزا بھی دیتا ہے کہ اس نے محض خدا کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیں اور عبادتیں بجالائیں.قدرت کے معنوں میں یہ ہر دو معنی پائے جاتے ہیں یعنی القدر کے معنوں میں قوت اور طاقت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے لَیلَةُ الْقَدْرِ جو انفرادی حیثیت رکھتی ہے ( گو یہ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے جس کا دوسروں کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے جسے میں ایک اور رنگ میں بیان کر رہا ہوں) بہر حال انفرادی لیلتہ القدر میں جو قدر کا مفہوم ہے یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور بھی معنی ہیں اس وقت میں ان دو کو لے رہا ہوں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو اپنی طرف سے نیکی کے کام کرنے کی قوت اور طاقت عطا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایسے شخص کو نور سے فیض حاصل کرنے اور اس نور سے اسے اپنے دل اور اپنے دماغ اور اپنی روح کو منور کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے قدر کے معنے میں قوت اور طاقت کا دینا بھی شامل ہے اور ایک قدر کے معنی بھی دیئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طاقت سے وہ چیز پیدا کر دیتا ہے جو مناسب حال ہو جس وقت بندہ اعمال صالحہ بجالا تا یعنی اسے ایسے اعمال کی توفیق ملتی ہے جو عنداللہ مقبول ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی اور ایثار اور اخلاص کو پیش کرتا ہے اور اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک موت وارد کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندے کی اس نیک نیتی اور اخلاص اور فدائیت اور ایثار کے مناسب حال ان کے لئے سامان پیدا کر دیتا ہے.قدر یعنی قوت کے معنوں کا یہ دوسرا پہلو ہے.پس ایک تو ایسا شخص جسے رمضان کے آخری عشرہ میں لیلتہ القدر مل جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے یہ

Page 668

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۵۸ سورة القدر طاقت اور قوت حاصل کرتا ہے کہ وہ آئندہ سارا سال نیکیوں پر ثبات قدم دکھاتا رہے اور استقامت سے کام لیتا ر ہے تاکہ اس کی زندگی میں نیکیوں کے بجالانے کا ایک ایسا تسلسل قائم ہو جائے جو بالآخر خاتمہ بالخیر پر منتج ہو.دوسرے یہ کہ ایسا شخص جسے رمضان میں لیلتہ القدر نصیب ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت بھی پاتا ہے کہ اس نے اس سے قبل جو نیک کام کئے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے قبول کر لیا اور یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے کیونکہ انسان اپنی تدبیر یا اپنی کوشش یا اپنے مجاہدہ پر بھروسہ نہیں کر سکتا اسے یہ معلوم نہیں کہ اس نے اپنی طرف سے اپنے رب کی خاطر جو دن رات تکلیف اُٹھائی.دنیوی نقطۂ نگاہ سے اپنے آرام کو چھوڑا، خواہشات نفسانی کو دھتکار دیا، نفس اتارہ کو لگامیں دیں،شیطان سے دور رہنے کی کوشش کی اور اپنے رب کے قریب ہونے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہر قسم کے مجاہدے کئے لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی تدبیر کسی ایسے کیڑے سے پاک تھی یا نہیں جو کیڑا کہ روحانی میدانوں میں تدابیر کے اندر گھس کر تدبیروں کو ناکام بنا دیتا اور لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے پس کسی آدمی کے بس کی یہ بات نہیں وہ جانتا ہی نہیں کیونکہ اس کا علم ناقص ہے اس کا فہم ناقص ہے اس کی کوئی صفت یا اس کی کوئی طاقت اپنے اندر کمال نہیں رکھتی.انسانی خوبی یا صفت یا طاقت تو ایک نسبتی چیز ہے.اس واسطے اپنی تدابیر پر بھروسہ کر کے انسان کا نفس خوش نہیں ہو سکتا اس کو اطمینان نہیں مل سکتا.اس کو نفس مطمئنہ حاصل نہیں ہو سکتا اس نفس مطمئنہ کے حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کیلئے ہر سامان پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ کہتا ہے کہ میری راہ میں تیری پچھلی قربانیاں یا تیرے پچھلے اعمال جنہیں تو میری محبت اور پیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجالایا ہے میں انہیں قبول کرتا ہوں اور میں ان کے مناسب حال تجھے جزا بھی دوں گا.پھر اس کے ساتھ ہی ایک دوسری بشارت یہ ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! میں تو تیرے لئے یہ بھی چاہتا ہوں کہ تو آئندہ بھی اپنی نیکیوں پر قائم رہے لیکن چونکہ میں نے تجھے اختیار دیا ہے اس لئے تم پر جبر روا نہیں رکھا جائے گا میں نے تجھے تیرے نیک اعمال کی بہترین جزا کی بشارت دے کر اور اپنے حسن و احسان کے جلوے دکھا کر تیرے لئے اس بات کو آسان اور سہل کر دیا ہے کہ تو میری راہ میں مزید قربانیاں دیتا چلا جائے مگر شیطان تیرے ساتھ لگا ہوا ہے اس واسطے اس

Page 669

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۵۹ سورة القدر سے بچتے رہنا اور میں نے تجھے اس سے بچنے کی قوت دی ہے لیکن تجھ سے اختیار کو چھینا نہیں یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو کسی نیکی کی قوت اور توفیق اور طاقت عطا کرتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس کو جو اختیار دیا گیا تھا خواہ وہ نیکی کرے یا بدی کرے یہ اختیار اس سے چھین لیا گیا اور وہ ایک فرشتے کی طرح بن گیا حالانکہ انسان تو کبھی فرشتہ نہیں بنتا.انسان یا تو فرشتے سے اوپر درجہ رکھتا ہے یا فرشتے سے کم تر ہوتا ہے بہر حال انسان فرشتہ نہیں بن سکتا.پس اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو ایک تو یہ بشارت دی کہ میں نے تیری نیکیاں قبول کیں اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے سے زیادہ یہ قوت دی (اگر چہ پہلے بھی اسی کی توفیق اور طاقت سے نیکیاں بجا لانے کی سعادت نصیب ہوتی رہی مگر اس لیلتہ القدر کے میسر آجانے پر پہلے سے زیادہ نیکیوں کے کام کرنے کی قوت دی گئی لیکن اختیار پھر بھی بندے کے ہاتھ میں رہا.پھر ایسا شخص اپنی طرف سے کوشش کرتا ہے دعائیں کرنے میں لگا رہتا ہے عبادات بجالاتا ہے.مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری سے پیش آتا ہے.ان کے دکھوں کو خود جھیلتا ہے اور ان کے غم میں شریک ہوتا ہے غرض وہ ہر قسم کے حقوق اللہ کو بھی اور حقوق العباد کو بھی ادا کرتا ہے.پھر اگلا رمضان آ جاتا ہے اور وہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی عبادات بجالانے کے لئے شَدَّ مِنزَرَہ کا مصداق بن جاتا ہے.پوری طرح مستعد اور تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اس ماہ مبارک میں بہت ساری عبادتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں وہ اپنی طرف سے رمضان کی عبادتیں بجا إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَلَمِثْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ (بخاری کتاب الصوم باب الْعَمَلُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ) لاتے ہوئے رمضان کے آخری عشرہ میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا دل کہتا ہے کہ اس نے اپنی طرف سے سارے اعمال خدا کے لئے کئے لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے اعمال قبول بھی ہو گئے یا نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے اس کے اعمال کی کسی خرابی یا بیماری یا کسی اندرونی کیڑے کی وجہ سے اس کے وہ سارے اعمال جنہیں وہ سارا سال بجالا تا رہا ہے اور جنہیں ماہ رمضان میں اور بھی زیادہ تندہی اور مستعدی کے ساتھ بجالا یا وہ عنداللہ مقبول نہ ہوں چنانچہ پھر وہ سال نو کی ایک نئی لیلتہ القدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں تعہد کے ساتھ خود بھی جاگتا اور اپنے اہل کو بھی جگاتا ہے اور فدائیت کے ساتھ ان راتوں کو زندہ رکھتا ہے پھر اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اسے اس قسم کی دونوں قدرتوں یا قدرت کے دونوں پہلوؤں کے حسین جلوے دکھائی دیئے

Page 670

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶۰ سورة القدر جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے! میں تجھے یہاں طاقت دینے کے لحاظ سے کھڑا نہیں رہنے دوں گا بلکہ میں تجھے پہلے سے بڑھ کر نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا کروں گا لیکن میں نے وہ اختیار تجھ سے نہیں چھینا اس لئے شیطان سے ہوشیار رہ کر اپنا اگلا سال گذار نا پھر اسی طرح انسان کی زندگی کے سارے سال گذرتے رہتے ہیں.پس اصل بات یہی ہے کہ وہ گھڑی خواہ وہ ایک سیکنڈ کی ہو یا ایک گھنٹے کی یا ایک رات کی ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو یہ بشارت ملتی ہے کہ میں نے تیری نیکیوں کو قبول کیا اور میں نے پہلے سے بھی زیادہ نیکیاں کرنے کی تجھے تو فیق عطا کی.ایسی گھڑی ساری عمر سے بڑی ہے خواہ وہ عمر تر اسی سال چار ماہ کی ہی کیوں نہ ہو.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے زیادہ بزرگی والی زیادہ عزت والی زیادہ فائدہ والی اور زیادہ خیر والی ہے.تر اسی ، اتنی سال کی ایسی تدبیر جو قبولیت حاصل نہیں کر سکتی.ایسا مجاہدہ جور د کر دیا جاتا ہے ایسی دعا ئیں جو واپس منہ پر مار دی جاتی ہیں ان کے مقابلہ میں پیار کی ایک گھڑی جس میں انسان اپنے خدائے قادر کی محبت کو دیکھتا ہے ایسی گھڑی کہیں زیادہ خیر اور برکت والی ہوتی ہے.انسان رمضان کے آخری عشرہ میں اسی مبارک گھڑی کی تلاش میں لگا رہتا ہے اور اپنے رب پر پوری طرح حسن ظن رکھتا ہے بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی غفلتوں پر اللہ تعالیٰ کی مغفرت پردہ ڈال دیتی ہے اور جن کے کام اور اعمال مقبول ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فیض کو وہ حاصل کرتے ہیں مگر یہ لیلتہ القدر یعنی مبارک گھڑی اصل لیلتہ القدر کی ایک ذیلی چیز یا بطور ضمیمہ کے ہے.میں نے بتایا تھا کہ اگر چہ ظلمات اور اندھیرے اور تاریکیاں اور گناہ اور فساد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے اور وہ زمانہ ایک ایسی تاریک رات کے مشابہ تھا کہ جس سے زیادہ تاریک رات کسی انسان نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اس تاریک ترین زمانہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.اس تاریک ترین رات میں وہ انتہائی طور پر چمکتا ہوا اور فیوض سے بھرا ہوا اور رحمتوں سے پرنور آسمان سے نازل ہوا کہ جس کے فیوض اور روحانی تاثیرات نے قیامت تک اثر کرنا تھا.یہ تو درست ہے لیکن اس کے نتیجہ میں ہر انسان کے لئے خوشحالی کا زمانہ پیدا نہیں کیا گیا.بلکہ ہر انسان کو یہی کہا گیا ہے کہ اسے اپنے لئے خوشحالی کا

Page 671

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶۱ سورة القدر زمانہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے بعد خود پیدا کرنا ہوگا البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لئے انفرادی طور پر ہمارے لئے لیلتہ القدر کی قسم کی چیزیں بنادی ہیں اور فرمایا ہے کہ کبھی تم لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا اور کبھی تم ہماری یہ لیلتہ القدر جس میں ہماری قدرت کے ہر دو جلوے ظہور پذیر ہوتے ہیں ایسے وقت میں دیکھو گے جب رمضان نہیں ہوگا بلکہ اس کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں تمہارے لئے ایک بالکل مصفی اور اصفی کیفیت روحانی اور کیفیت قلبی پیدا کر دی جائے گی اور اس اصفی کیفیت میں تم اپنے رب کے پیار کو دیکھو گے، وہ رمضان کا مہینہ ہوگا یا رمضان کے بعد کے چھ ماہ کا وقت ہو گا.اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.تمہارے لئے وہ لیلتہ القدر مقدر کر دی جائے گی.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۹۹۸ تا ۱۰۰۷) رمضان کے مہینے کی دو بنیادی خصوصیتیں یہ ہیں (ویسے ان کے علاوہ اور بھی خصوصیات ہیں لیکن دو بنیادی خصوصیات میں سے ) ایک یہ ہے کہ ماہ رمضان کا تعلق لیلتہ القدر سے ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ رمضان کا تعلق ان انتہائی قربانیوں کے ساتھ ہے جو ایک انسان اپنے رب کے حضور پیش کرتا ہے جہاں تک لیلتہ القدر کا تعلق ہے اصلی اور حقیقی لَيْلَةُ الْقَدْرِ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی وہ اندھیری رات تھی جسے اس نور مجسم نے ہر پہلو سے روشنی میں تبدیل کر دیا اور ظلمت کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑا.بنی نوع انسان کے لئے نور ہی نور مہیا بھی کر دیا اور اس کا حصول ممکن بھی بنادیا باقی جو امت محمدیہ کی اور بہت سی ایسی راتیں ہیں جو قدر اور فیصلے کی راتیں ہیں یہ تو اظلال ہیں اسی عظیم لیلَةُ الْقَدْرِ کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے اور جو آپ ہی کا حق تھا.لَيْلَةُ الْقَدْرِ کے معنے لغت نے بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسی رات جس میں امور مخصوصہ کا فیصلہ کیا جائے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع پر سب سے اندھیری رات میں جن عظیم اور مخصوص امور کا فیصلہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ تمام اقوام عالم کو ہر خطہ ارضی پر بسنے والے بنی نوع انسان ایک وحدت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے رشوں سے باندھ کر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں اکٹھا کر دیا جائے گا اور اسی طرح بنی نوع انسان کی عزت اور اس کے شرف کے قیام کا

Page 672

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث انتظام کیا جائے گا.۶۶۲ سورة القدر کامل اور مکمل شکل میں جو تعلیم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شرف کا اور عزت کا سامان لے کر آئی ہے اس نے کسی کے ساتھ بخل نہیں کیا بلکہ اس نے سفید کو بھی گندمی اور کالے رنگ والے کو بھی یہ کہا پڑھے ہوئے کو بھی اور علم میں پسماندہ کو بھی یہ کہا کہ اگر تم اس دنیا میں اور اس دنیا میں حقیقی عزت اور شرف حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھو اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو.پس لیلۃ القدر میں اصل تو یہ فیصلہ تھا اور دوسرے یہ فیصلہ تھا اور اس کی علامت یہ بتلائی گئی تھی کہ انسان چونکہ کمزور ہے اور اپنے زور اور طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا اس لئے اسے اپنے رب سے تعلق پیدا کر کے طاقت اور قدرت حاصل کرنی پڑے گی.اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جس پر یا جن پر نازل ہوگی وہ فرشتوں کے ذریعہ سے نازل ہوگی اور جب انسان اپنے رب سے تعلق کو قائم کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ آسمان سے فرشتے ان پر نازل ہوں گے وہ ان کے لئے بشارتوں کے سامان لے کر آئیں گے وہ ان کے لئے بشاشتوں کے سامان لے کر آئیں گے وہ ان کے لئے اطمینان اور بے خوفی کا پیغام لے کر آئیں گے اور ان کے لئے اپنے ہاتھ میں مدد اور نصرت کے جھنڈے پکڑ کر آسمان سے زمین پر اتریں گے.قرآن کریم نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن کس پر اور کب اتریں گے اس کا تعلق بھی رمضان سے ہے........میں نے بتایا تھا کہ اصل اور حقیقی لیلتہ القدر کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہے اس وقت آسمانوں پر بنی نوع انسان کے لئے کچھ فیصلے کئے گئے تھے جن میں بنیادی فیصلہ یہ تھا کہ انسان کی عزت اور شرف کو بلند کیا جائے گا اور اس کو یہ موقع میسر آئے گا کہ وہ پہلوں کی نسبت زیادہ تر معرفت حاصل کرے اور زیادہ بصیرت کے ساتھ اللہ کی صفات کو پہچانے اور اس کے حسن واحسان کے نور سے حصہ لے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسان کو ایک کامل اور مکمل تعلیم دے دی گئی ہے پہلوں کو ایسی تعلیم نہیں دی گئی تھی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایسی کامل تعلیم انسان کو دی گئی اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ انسانی شرف کی بلندی کے لئے دوزمانے مقدر

Page 673

تغییر حضرت علیلیه اسبح الثالث ۶۶۳ سورة القدر تھے ایک وہ زمانہ جب لیلتہ القدر میں یہ فیصلہ ہوا کہ پہلی تین صدیوں میں اس وقت کی معروف دنیا میں انسانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا جائے گا اور دوسرا اسی لیلتہ القدر میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کے بروز کے ذریعہ تمام اقوام عالم کو پھر اٹھایا جائے گا.ان کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا جائے گا.(خطبات ناصر جلد دہم صفحه ۴۱ تا ۴۴) پس ان آخری دنوں میں اعتکاف بیٹھنے کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ لیلتہ القدر کی تلاش کی جائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس رات کی تلاش کیلئے ان دنوں میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے.اور اللہ تعالیٰ جس کو یہ رات دکھا دے اور جس خوش قسمت کو وہ گھڑی نصیب ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بڑی کثرت سے سنتا ہے تو اسے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اس رات کی تلاش سے پہلے اسے یہ سوچ لینا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت دعا کی یہ گھڑی نصیب کر دی تو وہ اس میں کون کون سی دعا کرے گا.احادیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ میں نوافل بھی پڑھوں گی اور دعائیں بھی کروں گی لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر مجھے لیلتہ القدر کی گھڑی نصیب ہو جائے تو اس میں میں کون سی دعا کروں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھڑی میں تم اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو.پس استغفار ایک بنیادی دعا ہے اس کے بغیر حقیقتاً ہماری زندگی زندگی ہی نہیں رہتی نہ دنیوی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ اُخروی زندگی.نہ مادی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور نہ روحانی زندگی.اس دنیا میں جو مختصر زندگی ہمیں ملتی ہے اس میں ہم اس قدر غلطیاں کرتے ہیں اتنی کو تا ہیاں ہم سے سرزد ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور عفونہ ہو اور وہ اس دنیا میں یا اگلی دنیا میں ہمیں پکڑ نا چاہے تو ہمارے لئے راہ نجات ممکن ہی نہیں.لیلتہ القدر کی گھڑی میں جو دعائیں مانگنی چاہئیں ان میں سے دو بنیادی اور انفرادی دعا ئیں استغفار اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا ہے.استغفار یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت چاہنا اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ پوشی کی درخواست کرنا اور خاتمہ بالخیر ہو جائے تو پھر پچھلی غلطیاں شمار نہیں ہوتیں.وہ سب معاف ہو جاتی ہیں.اس لئے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالی خاتمہ بالخیر کرے اور اپنی رضا کی جنت ہمیں نصیب کرے.کوئی شخص اپنی زندگی میں کتنا ہی کام کرتار ہے اگر وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ میں

Page 674

۶۶۴ سورة القدر تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث قبول نہیں ہوتا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.انسان سینکڑوں نہیں ہزاروں نوافل پڑھے اگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ بالکل بے فائدہ ہیں.غرض یہ دونوں دعائیں یعنی استغفار اور خدا تعالیٰ کی رضاء کی جنت کے ملنے اور خاتمہ بالخیر کی دعا بڑی کثرت سے کرنی چاہئیں اور ان دنوں میں ان پر خاص زور دینا چاہیے یعنی خدا تعالیٰ سے اس کا عفو اور مغفرت بھی طلب کرنی چاہیے اور اس کی بارگاہ میں یہ بھی عرض کرنا چاہیے کہ یا الہی ہم کمزور ہیں ہمارے ہر اس فعل میں جسے ہم نے عمل صالح سمجھ کر کیا ہے بہت سی کوتاہیاں اور غفلتیں رہ گئی ہیں تو ہمیں معاف فرما.تو بڑا عفو کر نے والا ہے اور تیرے عفو کے مقابلہ میں ہماری کوتاہیاں اور غفلتیں کوئی چیز نہیں تو ہماری کمزوریوں کی طرف نگاہ نہ فرما بلکہ اپنی صفت عفو کی طرف نگاہ کر تو بڑا بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے.اپنی اس صفت کے صدقے تو ہماری خطائیں معاف کر.گناہ بخش اور ہمارا انجام بخیر کرتے ہوئے ہمیں اپنی جنت میں داخل فرما.اس کے علاوہ اگر قبولیت دعا کی گھڑی یعنی لیلتہ القدر میسر آ جائے تو اجتماعی دعا یہ کرنی چاہیے کہ اے خدا د نیا تجھے سے دور ہو گئی ہے وہ تجھے پہچانتی نہیں.تیرے احسانوں کی وہ قدر نہیں کرتی.اے خدا! تو ایسے سامان پیدا کر دے کہ تیری عظمت تیری کبریائی ، تیری توحید، تیرا جلال اور تیری محبت سب انسانوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے.اے خدا! دنیا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ اس نے سرکشی کرتے ہوئے آپ کو دھتکار دیا ہے.اے خدا تو ایسے سامان پیدا فرما کہ جن سے اسلام ہماری زندگی میں ہی تمام دنیا پر غالب آ جائے اور ہم آپ کے جھنڈے کو ہر ملک کے بلند پولوں (Poles) سے لہراتا ہوا دیکھیں.بہر حال ان دنوں اپنے لئے خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی جنت کے حصول کی دعائیں کرنی چاہئیں اور اجتماعی لحاظ سے خدا تعالیٰ کی عظمت، کبریائی ، توحید اور جلال کے قیام اور اسلام کے غلبہ کے لئے بڑی کثرت سے دعا ئیں کرنی چاہئیں.خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۹۹٬۹۸)

Page 675

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البينة اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البينة آیت وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَوةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا کیا مفہوم ہے؟ یعنی یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ چونکہ پیدائش انسانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے تا کہ مقصدِ حیات حاصل ہو اس آیہ کریمہ میں عبادت کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اللہ کے نزدیک اور شریعت اسلامیہ کی رو سے اس کے کیا معنی ہیں؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے سورہ بینہ میں فرمایا کہ انہیں صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں.دین کو محض اور محض اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس فقره یعنی مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں اللہ تعالیٰ نے عبادت کے اس مفہوم پر روشنی ڈالی ہے جو خدا تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.مُخْلِصِينَ لَهُ الدین پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ لغت کی رُو سے الدین مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جن میں سے میرے خیال میں مندرجہ ذیل گیارہ معانی یہاں چسپاں ہوتے ہیں.دین کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ عبادت کرنا الدين العبادَةُ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے جب یہ کہا کہ انسان اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت اور پرستش صرف اور صرف اللہ کے لئے ہو اور اللہ ہی کی عبودیت اختیار کی جائے.انسان اپنی

Page 676

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶۶ سورة البينة جہالت اور گمراہی کے نتیجہ میں بسا اوقات اپنی پرستش میں غیر اللہ کو شامل کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی یہ عبادت بعض دفعہ ظاہری ہوتی ہے.بعض دفعہ خفیہ اور باطنی ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ انسان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اس کی عبادت کرنے لگ جاتے ہیں اور منتیں ماننے لگ جاتے ہیں یا بے جان مخلوق کی پرستش شروع کر دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اس مخلوق کو خوش کر کے یا ان کی وساطت سے اللہ خالق ہر دو جہان کو خوش کر کے کوئی فائدہ اُٹھا لیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہر قسم کی عبادات صرف میری ہی کی جائیں اور میرے غیر کو عبادت اور پرستش میں شریک نہ کیا جائے یعنی توحید خالص ہو.(۱) خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے (خواہ بت ہو یا انسان ، سورج ہو یا چاند یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر وفریب ( ہو ) منزہ سمجھنا.(۲) ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر ربّ اور فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اس کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.دین کے دوسرے چسپاں ہونے والے معنی کی رُو سے مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کو صرف اللہ کے لئے خالص کر دو کیونکہ الدین کا لفظ الطاعَةُ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے.صرف عبادات ہی کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرنا بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری کو بھی اللہ کے لئے خالص کر دینا ہے یعنی محبت واطاعت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرانا اور اسی میں کھوئے جانا........پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے اطاعت کو اور فرمانبرداری کو خالص رکھنا.کسی قسم کے دباؤ کے نتیجہ میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری نہیں کرنی کیونکہ اس صورت میں تو وہ غیر تمہیں اگر اس کی طاقت ہو اس فرمانبرداری کی جزا دے گا جس کے ڈر سے یا جس کو خوش کرنے کے لئے تم نے ظاہرۃ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی لیکن اس وجود میں یہ طاقت نہیں تمہارا فعل بے نتیجہ نکلے گا اور تمہیں کوئی اچھابدلہ نہیں ملے گا.اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ بہت سی غیر اللہ کی اطاعتیں ہمیں ایسی بھی نظر آتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے.

Page 677

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶۷ سورة البينة مثلاً خدا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو گے تو میرے محبوب بنو گے آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرو گے تو میرے محبوب بنو گے.آپ کے اسوہ کو اپنی زندگیوں میں قائم کرو گے آپ کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ گے تو میرے محبوب بنو گے ایسی اطاعتیں جو بظاہر ایک اور رنگ رکھتی ہیں وہ بھی دینی جامہ پہن لیں گی اگر تم اس اطاعت کو اس لئے کرو کہ اللہ کہتا ہے اطاعت کی جائے اور جہاں اللہ نہ کہتا ہو وہاں اطاعت نہ کرو مثلاً خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کرنی ہے ان کا ادب و احترام کرنا ہے.یہ خدا کا حکم ہے لیکن جو شخص خدا کے حکم کے نتیجہ میں ماں باپ کی اطاعت کرتا ہے اور اس اطاعت اور فرمانبرداری اور اس ادب و احترام کے پیچھے یہ روح کام نہیں کر رہی ہوتی کہ میرا باپ مجھے مال دے گا یا ورثہ میں شاید مجھے دوسرے بھائیوں سے زیادہ حق دے دے بلکہ روح یہ ہوتی ہے کہ میرا رب کہتا ہے کہ اپنے ماں باپ کی اطاعت کرو، ادب و احترام کرو اس لئے میں اطاعت کر رہا ہوں تو پھر اس کو ثواب ملے گا.بعض جاہل ماں باپ اس سلسلہ میں اپنی اولاد کو امتحان میں بھی ڈالتے ہیں کہتے ہیں شرک کرو.خدا کہتا ہے کہ اگر ماں باپ کہیں کہ شرک کرو تو شرک نہیں کرنا ایسی اطاعت نہیں کرنی ان کے ساتھ نرمی محبت اور پیار کا سلوک کرنا ہے.ادب و احترام کرنا ہے لیکن ماں باپ کے کسی ایسے حکم کی اطاعت نہیں کرنی جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو اور اس کی ناراضگی مول لینے والا ہو.پس مُخْلِصِينَ لَهُ الدّین میں اگر الدین کے معنی اطاعت کے کئے جائیں تو اس کا مفہوم یہ نکلے گا کہ ہم نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ ہماری عبادت کرے.اللہ اور اس کے بندوں کی اطاعت وفرمانبرداری صرف اس لئے ہو کہ اللہ کی رضا کو حاصل کرنا ہے.اللہ کی فرمانبرداری اس لئے نہ ہو کہ دنیا ہمیں بڑا بزرگ سمجھے گی اور بندے کی فرمانبرداری اس لئے ہو کہ خدا کہتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کرو.اگر وہ قادر و توانا کہتا ہے کہ ان کی فرمانبرداری نہ کرو تو نہیں کریں گے.ماں باپ کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اگر وہ معروف کا حکم نہ دیں اگر وہ شرک کی طرف لے جائیں.اللہ تعالیٰ کی عبادت کرواسی کے لئے ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے.اس کے ایک معنی مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں ہمیں یہ بتائے گئے ہیں کہ اللہ کے اخلاق کا رنگ اپنے پر چڑھاؤ کیونکہ دین کے معنی سیرت کے ہیں تو مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کے معنی ہوں گے کہ اپنی

Page 678

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶۸ سورة البينة صفات پر صفات باری کا رنگ چڑھاؤ اور ان کے اظہار کو محض اللہ کے لئے اسی کی سیرت میں اور اسی کی صفات سے رنگین ہو کر کرو.گویا اس میں تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ اللہ کا مفہوم ہے کہ اللہ کے اخلاق اور اس کی صفات کا رنگ اپنی سیرت اور اخلاق پر چڑھاؤ.مثلاً اگر تم اپنے اخلاق پر مغربیت کا رنگ چڑھاؤ گے، اگر تم اپنے نفس پر اسراف کرنے والوں کا رنگ چڑھاؤ گے.اگر تم اپنے نفس پر بخل کرنے والوں کا رنگ چڑھاؤ گے تو پھر تم خدا کی خالص عبادت کرنے والے نہیں.تمہارا تعلق محبت ان لوگوں سے ہے جن کے رنگ میں تم رنگین ہونا چاہتے ہو.اگر تمہارے دل میں اللہ کی خالص محبت اور عبودیت ہو تو پھر تو تم اسی کی نقل کرو گے، اسی کے اخلاق کو اپناؤ گے اگر انسان اللہ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کر لے تو اس کا ہمارے معاشرہ میں اتنا حسین نتیجہ نکلتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں یہ بھی بڑا ہی وسیع مضمون ہے.....اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اور میں تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ عبادت کا حق پورا نہیں ہوگا جب تک مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ہو کر میری عبادت نہیں کرو گے اور دین کے ایک معنی ورع کے ہیں کہ سب نیکیاں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے کی جانی چاہئیں.شیطان بہت سے نیک اعمال کرنے والوں کے دلوں میں بھی ریا وغیرہ بہت ساری بُری باتیں پیدا کر دیتا ہے (اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ) تو فرمایا کہ تمہیں میری راہ میں نیک اعمال بجالاتے وقت اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ شیطان تمہاری نیکیاں تمہاری ہلاکت کا باعث نہ بنادے.تکبر، ریا، خود پسندی اور دوسرے کی تحقیر اور تذلیل کرنے کی عادت وغیرہ بہت سے چور دروازے ہیں جن سے شیطان داخل ہوتا اور انسان کی نیکیوں کو کھا جاتا اور انہیں تباہ کر دیتا ہے تو فرمایا نیک اعمال بجالاؤ کیونکہ اس کے بغیر میری عبادت کا حق ادا نہیں ہوتا اور اس کے بغیر تمہاری روحانی ترقیات کے سامان بھی پیدا نہیں ہو سکتے لیکن اپنی نیکیوں کی مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین ہو کر حفاظت کرو ہم نے صرف اس کے لئے نیکیاں کرنی ہیں دکھاوے کے لئے نہیں کرنیں.ریا نہیں ہوگا تکبر نہیں ہوگا.دوسرے کو ذلیل کرنے کا کوئی تصور یا خیال دماغ میں نہیں ہوگا وغیرہ شیطان جن چور دروازوں سے داخل ہوتا اور نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے ان سارے چور دروازوں کو بند کر کے خالصہ نیک اعمال بجالانے سے عبادت کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی ( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۶۸ تا ۵۷۶) توفیق دے.

Page 679

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶۹ سورة البينة اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے میری طرف سے جو پیغام رُسل کے ذریعہ اور بہترین رنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جن وانس کی طرف بھیجا جاتا رہا ہے یا بھیجا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو وَمَا أُمِرُوا الا لِيَعبُدُ الله تا کہ جس غرض اور جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ مقصدِ حیات پورا ہو، نیز یہ حکم دیا ہے کہ اس عبادت کے تمام تقاضوں کو پورا کرو.عبادت کے تقاضوں کا ذکر مُخْلِصِينَ لَهُ الدین میں ہے الدین کے مختلف معانی مختلف تقاضوں کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں.چار تقاضوں کے متعلق جو عبادت سے وابستہ ہیں میں گزشتہ خطبہ میں مختصر بیان کر چکا ہوں.پانچوں تقاضا جو یہ حکم بنی نوع انسان سے کرتا ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے یہ ہے کہ الدین کے معنی الحکم یعنی حکم کے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادت یہ نہیں کہ تم میرے بتائے ہوئے طریق پر نماز یا نماز با جماعت ادا کرو یا دوسری عبادت بجالا ولیکن ان احکام سے جو اوامر ونواہی کی شکل میں تمہاری زندگی سے تعلق رکھنے والے ہیں غافل ہو جاؤ.کبھی غیر کی طرف دیکھو اور اس کا حکم ماننے کے لئے تیار ہو جاؤ کبھی اپنے نفسوں کے اندر جھانکو اور ہوائے نفس تمہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے لگے.عبادت سے یہ مراد نہیں بلکہ عبادت مخصوص اطاعت حکم کو چاہتی ہے.یعنی حکم اللہ ہی کا جاری ہو.اس معنی کی طرف سورہ یوسف میں بڑی وضاحت سے توجہ دلائی گئی ہے فرمایا.اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلهِ (یوسف: ۴۱) حکم صرف اللہ کا ہے اَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (يوسف: ۴۱) اس نے یہ حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے اور کسی کی عبادت نہیں کرنی.اس سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ ہمیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیے اور خالصہ اللہ کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ حکم اسی کا جاری ہو اور ہمیں دوشکلوں میں اس کا حکم جاری نظر آ رہا ہے ایک تو انسان کے دائرہ اختیار کو علیحدہ کر لیں تو اس میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم اس طرح جاری ہوتا ہے کہ جو وہ کہتا ہے اس کی مخلوق وہی کرتی ہے.فرشتوں کے متعلق ان کی صفت بیان کرتے ہوئے ایک جگہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ جو انہیں کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے ایک لطیف استدلال اور بھی کیا ہے اور وہ یہ کہ ہر وہ چیز جو اس طرح خدا تعالیٰ کا حکم مانتی ہے کہ اس کو انکار کا اختیار نہیں وہ فرشتوں کے وجود میں آگئی ہے یعنی وہ بھی فرشتہ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ دنیا کا ہر ذرہ فرشتہ ہے

Page 680

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البينة کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جو بھی حکم ہو وہ اس کے سامنے سر اطاعت خم کرتا ہے.اس کے لئے یہ ممکن نہیں.اسے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ جو اللہ اسے کہے وہ نہ کرے.پس ہر وہ چیز جو خدا کا حکم اس طرح مانتی ہے کہ اس کو انکار کا اختیار نہیں وہ فرشتوں کی صف میں آکھڑی ہوتی ہے........پس کہا مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ جہاں تک میرے احکام ، اوامر ونواہی کا تعلق ہے تم اخلاص کے ساتھ اور محض اللہ کے لئے ان کو اپنی زندگیوں میں قائم کرو تو تم میری عبادت بجالانے والے ہو گے ور نہ نہیں.نفس کی خواہشات ہیں جن کو ہم ہوائے نفس کہتے ہیں.سستیاں ہیں غفلتیں ہیں بے اعتنائی ہے.عظمت باری ہے اور جلال باری کے احساس کا فقدان یا اس کی کمی ہے.یہ ساری چیز میں انسان کو خدا تعالیٰ کے فرمودہ کے خلاف اور اس کے احکام کے خلاف لے جاتی ہیں.پس خدا نے کہا کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرہ کے متعلق، اقتصادیات کے متعلق، سیاست کے متعلق یا جس دائرہ کے اندر بھی تمہیں غلبہ ملے یا تمہیں راعی بننے کی توفیق ملے اس کے اندر میرا حکم جاری ہونا چاہیے.اگر تم اس دائرہ میں میرے حکم کے اجرا کی کوشش کرو گے تو تم میرے بچے اور حقیقی عبادت گزار بندے بنو گے ورنہ نہیں بنو گے.پس پانچواں تقاضا اللہ تعالیٰ کی عبادت کا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے یہ ہے کہ اس کے حکم کو ہم قائم کرنے والے ہوں اور اوامر ونواہی کی نگرانی کرنے والے ہوں کہ ہمارے ماحول میں ہمارے نفسوں سمیت خدا کے حکم اور امر کے خلاف کوئی نہ جائے اور اس نے ہماری روحانی اور جسمانی ترقیات کے لئے جو پابندیاں ہم پر لگائی ہیں ان کا احترام کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں نفسانی خواہشات اور ارادوں کو کچھ نہ سمجھا جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کوئی دوسری ایجنسی، کوئی دوسرا گروہ یا جماعت اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی میں اپنے اثر ورسوخ کے نتیجہ میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عبادت کے اس تقاضا کو پورا کرو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاؤ گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا (الطور : ٤٩) جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی پر ثبات قدم دکھاتا ہے اور استقلال اور استقامت کے ساتھ ان پر قائم ہو جاتا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِنَّكَ بِاعْيُنِنَا لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا خیال نہیں رکھتا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آسکتا.

Page 681

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۱ سورة البينة چھٹا تقاضا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت ہم سے کرتی ہے یہ ہے کہ انسان اپنی اس زندگی میں بہت سی عادتیں پیدا کر لیتا ہے وہ عادتیں پختہ ہو جاتی ہیں.ان عادات کے متعلق بھی ہر وقت ہوشیار اور چوکنا رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے.مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ.الدین کے ایک معنی عادت کے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے اندر یا ان لوگوں میں جن کے تم راعی مقرر کئے گئے ہو کوئی ایسی عادت نہیں پیدا ہونی چاہیے جو عبادت میں اخلاص کے سوا کچھ اور ہو یعنی جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کو قائم کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہو.ماحول کے بداثرات عادات بد پیدا کر دیتے ہیں اور ان کے بہت بھیانک نتائج نکلتے ہیں.تمہاری عادات بھی خالصہ اللہ کے لئے اور اس کی رضا کی تلاش میں ہونی چاہئیں.وہ اس غرض سے ہونی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں حاصل ہو.......پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس بات کا خیال رکھو کہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ جو عادت بھی تمہارے اندر پیدا ہو وہ ایسی نہ ہو کہ نیک اعمال میں روک بنے غیر اللہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کرے.حقوق العباد کی ادائیگی میں روک پیدا کرے.اس کے مقابلہ میں ایسی عادت ڈالوجن کے نتیجہ میں نیک اعمال بشاشت سے سرزد ہوتے رہیں جن کے نتیجہ میں انسان اپنی طبیعت اور عادت سے مجبور ہو جائے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے سر بسجو د رہے اور اس کے ذکر میں محور ہے اور جن کے نتیجہ میں جب اللہ تعالیٰ کے احکام کو دیکھ کر بنی نوع انسان کی ہمدردی جوش میں آئے تو ہر انسانی عادت بنی نوع انسان کی ہمدردی پر اُسے مجبور کر رہی ہو اور قومی خدمت میں سست نہ کر دے.ساتواں تقاضا اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم سے یہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے ماحول میں ایک حاکم کی حیثیت رکھے گا اور وہ اپنے ماحول پر غالب ہو گا.تم راعی بن جاؤ گے.ایسے حالات میں تم میں سے جسے جس حد تک غلبہ اور طاقت اور اثر اور نفوذ حاصل ہو وہ اسے اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر دے یعنی وہ اپنے غلبہ اور طاقت کا غلط استعمال نہ کرے بلکہ اس کا ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی اسے حاصل ہو اور جو کچھ کیا جائے اس کی اطاعت میں کیا جائے.ہمارے ہاں کہتے ہیں اللہ مالک ہے یہ محاورہ بڑا پیارا ہے حقیقت یہی ہے کہ اللہ ہی مالک ہے.

Page 682

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۲ سورة البينة اللہ کے سوا وہ کونسی ہستی ہے جو کسی چیز کی بھی مالک ہو اور جو بھی غلبہ اور طاقت ملتی ہے وہ خدا تعالیٰ سے ہی ملتی ہے.وَاللهُ يُؤْت مُلكَهُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة: ۲۴۸) اللہ جسے چاہتا ہے طاقت اور غلبہ اور حکومت دیتا ہے.حکومت سے مراد صرف کسی قوم یا ملک کی بادشاہت نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر ایک گھر کا ایک بادشاہ ہے.اپنے ماحول کا ایک بادشاہ ہے سکول کا ایک بادشاہ ہے یعنی اپنے اپنے ماحول میں ہر ایک کو طاقت اور غلبہ حاصل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ملک اور طاقت اور غلبہ اور بادشاہت تو اللہ کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کا ملہ سے اپنے بندوں میں سے بعض کو کسی نہ کسی رنگ میں غلبہ یا اثر ورسوخ دیتا ہے.طاقت عطا کرتا ہے اس لئے تم اس طاقت اور غلبہ اور اثر کو اسی طرح استعمال کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جس طرح اس نے ایک اور آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكُمُ اللهُ رَبِّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ( فاطر :١٤) لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحمد (التغابن : ۲) یعنی اللہ تعالیٰ رب ہے.ساری بادشاہت اور غلبہ اور طاقت اس کو حاصل ہے جہاں تک تمہارا تعلق ہے لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمدُ تم اپنی زندگیوں کو اس طرح گزارو کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اور اس کے مالک ہونے کا احساس دنیا میں پیدا ہو اور یہ احساس پیدا ہو کہ وہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے کیونکہ جو اس کے بندے بن جاتے ہیں وہ ایسے کام کرتے ہیں کہ انسان کو مجبور ہو کر ان کی تعریف کرنی پڑتی ہے اور جب انسان کو مجبور ہو کر اللہ کے بندوں کی تعریف کرنی پڑتی ہے تو اللہ جس نے اس بندہ کو پیدا کیا کس قدر تعریف اور حمد کا مستحق ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی طاقت کے استعمال میں تمام بدیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائے کہ انسانی عقل اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ جس اللہ کی طرف یہ منسوب ہونے والا ہے اس کی حمد.اس کی تعریف الفاظ اور بیان سے باہر ہے.ایسے انسان میں تکبر نہیں پیدا ہوتا کیونکہ جب انسان اس یقین پر قائم ہو کہ تمام طاقت اور غلبہ اور بادشاہت اللہ کی ہے.وَاللهُ يُؤْتِ مُلكَهُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة :۲۲۸) انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی منشا اور ارادہ سے ملتا ہے تو پھر اس کی اپنی تو کوئی خوبی نہ رہی.اس لئے اس کی زبان پر اپنی بڑائی کی بجائے لا فخر کا نعرہ ہوتا ہے.یعنی وہ کہے کہ مجھ میں کوئی فخر کی بات نہیں.میں اپنے اندر کوئی خوبی نہیں پاتا.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے رحم اور فضل سے مجھے یہ عطا کیا ہے اور ایسا شخص کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اللہ کی مخلوق کو دکھ پہنچانے والا ہو.ایسا

Page 683

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۳ سورة البينة انسان کبھی ظالم نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس یقین پر کھڑا ہو گا کہ بادشاہت اللہ کی ہے.اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ( باپ ہونے کی حیثیت سے، ماں ہونے کی حیثیت سے، ماسٹر ہونے کی حیثیت سے یا پرنسپل ہونے کی حیثیت سے، اپنی جماعت کے صدر یا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے یا دوسری ہزارحیثیتوں میں) انسان کو طاقت اور غلبہ ملتا ہے صرف کسی ملک یا قوم کی بادشاہت کی حیثیت سے ہی نہیں.انسان یہ کہتا ہے کہ یہ طاقت اور غلبہ تو دراصل خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے.وہی ہر چیز کا مالک ہے اس نے مجھے طاقت اور غلبہ میں جس کا وہ منبع اور سر چشمہ اور حقیقی مالک ہے اس لئے شامل کیا ہے کہ میں اس کی مخلوق کی بھلائی کے کام کروں.ایسا انسان ظلم کر ہی نہیں سکتا.غرض الدین کے ایک معنی غلبہ کے بھی ہیں اور صحیح عبادت کا ساتواں تقاضا یہ ہے کہ وہ غلبہ مُخْلِصِينَ لَہ ہو یعنی خالص اللہ کے لئے انسان اپنے اپنے ماحول میں اپنے غلبہ کا استعمال کرنے والا ہواور خدا کی حمد کے جذبہ کو انسان کے دل میں پیدا کرنے والا ہو تکبر اور ظلم اور دوسری ایسی برائیاں جو اللہ کی طرف منسوب ہونے والوں میں نہیں پائی جانی چاہئیں وہ اس میں نہیں پائی جانی چاہئیں.باقی حصہ میں انشاء اللہ پھر بیان کروں گا.آمین خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۷۸ ۵ تا ۵۸۷) اسلام نے قرآن کریم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ عبادت کے یہ معنی نہیں کہ انسان دنیا سے علیحدہ ہو جائے اور بظاہر خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے بلکہ حقیقی عبادت کے بہت سے نقاضے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ انسان سب تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو.عبادت الہی جو ذمہ داریاں انسان پر عائد کرتی ہے ان ذمہ داریوں کو نباہنے والا ہو.جیسا کہ میں نے بتایا تھا یہ مضمون مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ کے فقرہ میں بیان ہوا ہے.یعنی صرف عبادت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ یہ کہہ کر عبادت کا حکم دیا گیا ہے کہ عبادت کرو اور دین کو اس کے لئے خالص کر وتب عبادت کے تقاضے پورے ہوں گے.عبادت کے سات تقاضوں کے متعلق میں پچھلے دو خطبات میں بیان کر چکا ہوں.دین کے آٹھویں معنی تدبیر کے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکو گے اگر تمہاری تدابیر خالصہ میرے لئے نہ ہوں.اس سے ہمیں پہلی بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے تدابیر کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ تدبیر کو عبادت کا ایک حصہ بنا دیا ہے.ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے اور پھر یہ سوچنے یا یہ کہنے کو بُرا سمجھا ہے کہ جو خدا چاہے گا وہ ہو جائے گا جس کا حقیقتاً یہ مطلب ہوتا

Page 684

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۴ سورة البينة ہے کہ اگر ہم تدبیر کریں تو پھر ہماری مرضی چلے گی جو خدا چاہے گا وہ نہیں ہوگا.ایک سیکنڈ کے لئے بھی ہم یہ تصور اپنے دماغ میں نہیں لا سکتے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تدبیر ضرور کرو ہو گا وہی جو خدا چاہے گا لیکن تم پر یہ فرض ہے کہ تم جائز تدابیر سے کام لو جو شخص اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی نعمتوں سے کام نہیں لیتا وہ اللہ تعالیٰ کا ناشکرا اور اس کا کفر کرنے والا ہے اور وہ شرک میں ملوث ہے تو مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کے اس فقرہ میں دین بمعنی تدبیر یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ جائز تد بیر ضرور کرنی ہے.دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تم جو بھی تدبیر کرو اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو.اسے تم عبادت کا حصہ بناؤ.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے کمال پر پہنچنے کی وجہ سے (اگر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین پر عمل کیا جائے ) تو ہر دنیوی تدبیر کو عبادت کا رنگ دے دیتا ہے.ایک شخص اپنے گھر کے کمروں میں روشندان بناتا ہے وہ یہ نیت بھی کر سکتا ہے کہ ہوا آئے گی، روشنی آئے گی ، دھوپ آئے گی مجھے اور دنیوی فائدہ حاصل ہوگا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس نیت کی بجائے یہ نیت کرو کہ کان میں اذان کی آواز آئے گی.وقت پر باجماعت نماز کے لئے پہنچ جاؤں گا تو یہ اس روشن دان کی تدبیر اخلاص کے اس پہلو کی وجہ سے عبادت بن جائے گی.روشن دان اسی طرح دھوپ دے گا کوئی فرق نہیں پڑے گا.گرم اور گندی ہوا اسی طرح باہر نکل جائے گی.روشنی بھی اسی طرح آئے گی لیکن یہ تدبیر عبادت بن جائے گی کیونکہ تم نے نیت یہ کی کہ اذان کی آواز سننے کے لئے میں نے ایک راستہ رکھا ہے.انسان کے محبت کے تعلقات طبعی طور پر بعض دوسرے انسانوں سے ہوتے ہیں، بیوی سے، بچوں سے، بھائی بہنوں سے، بڑے گہرے دوستوں سے محبت اور اخوت کا تعلق ہوتا ہے.یہ تعلق سارے انسان ہی ایک دوسرے سے قائم کرتے ہیں لیکن جو سچا اور حقیقی عبد نہیں، حقیقی مسلمان نہیں وہ ان تعلقات کو محض ایک دنیوی تدبیر سمجھتا ہے.بیوی کو خوش کرنے کیلئے وہ بہت سی باتیں کرتا ہے.وہ چھوٹی عمر کے بچوں کو خوش کرنے ، ان کو بہلانے اور انہیں کھیل کود میں مصروف رکھنے کیلئے بہت سی باتیں کرتا ہے..........پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہیں ایک راستہ ایسا بتاتے ہیں کہ تم تمام جائز دنیوی تدابیر کو دینی رنگ دے سکتے ہو اور میری رضا کو ان کے ذریعہ سے حاصل کر سکتے ہو لیکن جو شخص تدبیر میں خلوص نیت کے.

Page 685

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۵ سورة البينة تقاضا کو پورانہیں کرتا وہ خدا کو راضی نہیں کر سکتا ہر کام میں مقصد یہ ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے.کام کرنا ہے نکما نہیں بیٹھنا لیکن کام اس نیت سے کرنا ہے کہ میں خدا کو راضی کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ مجھے نیچے پھیلا ہوا ہاتھ پسند نہیں جو ہاتھ اوپر ہے یعنی دینے والا ہاتھ وہ مجھے پسند ہے جو منگتا ہاتھ ہے وہ مجھے پسند نہیں.ایک شخص ایک کلہاڑی اور رسی لیتا ہے اس کے مخلص دوست اسے ہر چیز مفت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ کہتا ہے نہیں مجھے ایک کلہاڑی اور ایک رسی مہیا کر دیں اور وہ بھی مفت نہیں لوں گا بطور قرض دے دیں کیونکہ مجھے قرض کی ضرورت ہے.میں خود کماؤں گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہوں گا.اس کا لکڑیاں کاٹنا اور ان کا گٹھا بنا کے بازار میں لے جا کر بیچنا یہ ایک عام تد بیر نہیں جو محض دنیا کے لئے اور پیٹ کی خاطر کی جاتی ہے بلکہ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ اس کے بجالانے میں ہر حرکت وسکون خدا کو بڑا پیارا ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سے جن لوگوں نے خدا کی رضا کے لئے قرض لے کر ایک رشی کا ٹکڑا اور کلہاڑی لی تھی.اللہ تعالیٰ نے قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں لا ڈالے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے رزق کمانے میں خدا کے لئے خلوص نیت کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ خدا تعالیٰ کو کتنا پیارا لگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کی اور کہا کہ رزق کی کمائی میں تم نے اپنی تدبیر کو مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ کی روشنی میں کیا ہے.مجھے تمہاری یہ تدبیر پسند آئی ہے.قیصر وکسری نے تو جائز اور ناجائز وسائل سے دولت کو جمع کیا تھا لیکن میں جائز طریق پر وہ ساری دولت لا کر تمہارے قدموں پر رکھ دیتا ہوں.پس عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک انسان دنیوی تدابیر نہ کرے.تدبیر کرنا ضروری ہے لیکن جب کوئی تدبیر کرے تو دنیا کی خاطر نہ کرے بلکہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کی روشنی میں کرے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی تدبیر کسی دوسرے انسان کے خلاف نہیں ہوگی.کوئی تدبیر کسی انسان کو بے عزت کرنے کیلئے نہیں ہوگی.کوئی تدبیر کسی انسان کے جذبات کو مجروح کرنے کے لئے نہیں ہوگی کہ جو حفاظت اللہ نے اسے دی ہے.اس حفاظت کو وہ توڑنے والی ہو.میں اس وقت زیادہ تفصیل میں نہیں جاسکتا.سینکڑوں باتیں ہیں جن کا قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اُسوہ سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِین کے گروہ کی کوئی تدبیر ایسی نہیں ہوتی جس کے

Page 686

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البينة متعلق ہم کہہ سکیں کہ وہ معاشرے میں فساد پیدا کرنے والی ، حقوق تلف کرنے والی، انتہام لگانے والی ، جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی وغیرہ ہوایسی کوئی تدبیر نہیں ہوگی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تدبیر کر وگر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ہو کر کرو.پھر کوئی تدبیر ایسی نہیں ہوگی جس میں شرک کی ملاوٹ ہو.پھر جس نے اپنی تدبیر خدا کی رضا کے لئے کی وہ اس تدبیر پر بھروسہ نہیں کر سکتا.اس کی تدبیر اگر نا کام ہو جائے تو وہ خدا سے کوئی شکوہ نہیں کرسکتا.اگر اس کی تدبیر کے نتیجہ میں کسی کو دکھ پہنچ جائے تو اس سے وہ خوش نہیں ہوسکتا.بعض دفعہ انسان کا ارادہ کسی کو دکھ پہنچانے کا نہیں ہوتا لیکن نا سمجھی کی وجہ سے یالا علمی کی وجہ سے کوئی ایسی تدبیر کرتا ہے جس سے کسی اور کو دکھ پہنچ جاتا ہے.ایسے وقت میں یہ شخص خوش نہیں ہوتا بلکہ انتہائی طور پر رنجیدہ ہوتا ہے.دلی جذبات کے ساتھ اس سے معذرت کرتا اور اس سے معافی مانگتا ہے کہ میں نے تو کبھی ارادہ نہیں کیا تھا کہ آپ کو تکلیف پہنچے.اپنی سوچ کے مطابق ایک جائز تدبیر کی تھی مجھے افسوس ہے کہ آپ کو نقصان پہنچ گیا.ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر تدابیر مُخْلِصِينَ لَهُ الدّین کی ہدایت کے ماتحت ہوں تو ہر شخص دوسرے کا خادم بن جاتا ہے کسی شخص کو دوسرے سے خطرہ نہیں رہتا.امن کا ایک ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جاتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اتنی اعلیٰ اور احسان کرنے والی تعلیم دی ہے کہ صرف میری عبادت کرو.عبادت کے حقوق ادا کرو.ان میں سے ایک یہ حق ہے کہ تمہاری کوئی تدبیر ایسی نہ ہو جس میں اللہ کے لئے خلوص نیت نہ ہو.دین کے نویں معنی حساب یا محاسبہ کے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی عبادت کا قیام محاسبہ کا تقاضا کرتا ہے.مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کے مطابق محاسبہ کے طریق کو اختیار کئے بغیر انسان حقیقی عبادت کر نہیں سکتے.ایک تو محاسبہ نفس ہے انسان اپنے نفس کا حساب لیتا ہے اور اسے لینا چاہیے اور محاسبہ کے نتیجہ میں اسے علی وجہ البصیرت علم حاصل ہوتا ہے یعنی اس کا علم ظنی نہیں ہوتا بلکہ یقینی ہوتا ہے ہم دن رات اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں رات کیسے گزری دن کیسے گزرا.مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ میں جن دیگر تقاضوں کا ذکر ہے وہ ہم نے پورے کئے ہیں یا نہیں.اس طرح آدمی سوچتا ہے تو اس کی غلطیاں سامنے آتی ہیں.پھر وہ ان کو دور کرتا ہے کسی کو تکلیف پہنچائی ہوتی ہے تو اس کا تدارک کرنے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم عبادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہو تو خلوص نیت کے ساتھ

Page 687

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث تمہیں محاسبہ کرنا پڑے گا.........۶۷۷ سورة البينة غرض انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ اگر وہ توجہ کرے اور ارادہ کرے تو وہ چیزیں نہیں بھولتا.تو اس مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں جو یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ تم نے بہت سے محاسبے کرنے ہیں اس میں یہ بھی نتقاضا ہے کہ وہ باتیں جن کو محاسبہ کے ساتھ تعلق ہو ان کی طرف تمہیں توجہ دینی پڑے گی اور ارادہ کرنا پڑے گا کہ تم ان کو یا درکھو........پس عبادت کا یہ تقاضا ہزار قسم کی ذمہ داریاں ہم پر ڈالتا ہے کہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کی رو سے حساب اور محاسبہ اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہونا چاہیے.اس طرف بھی ہمیں بڑی توجہ دینی چاہیے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ تربیت محاسبہ کے بغیر نہیں ہو سکتی.مثلاً ہم نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں دیکھا ہے ہم نوجوانوں کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھیں.ان میں اچھے اخلاق پیدا ہوں.بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو.ایک قائد اپنے تیس، چالیس یا پچاس،سو خدام کا محاسبہ کرتا ہے ایک دوسرا خادم ہے وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا.اس کو پتہ نہیں میں نے ان نو جوانوں سے کام کیسے لینا ہے.نہ ان کی عادات سے واقف نہ ان کی استعداد سے واقف ہے تو محاسبہ کس طرح کر سکتا ہے.محاسبہ تو علم کے بغیر نہیں ہو سکتا تو جس حد تک انسان کے لئے دائرہ حساب کے اندر معلومات کا حصول ممکن ہو اس حد تک اسے ضرور معلومات حاصل کر لینی چاہئیں.اس کے بغیر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ قائد یا سائق یا زعیم کا خدام سے ذاتی تعلق ہونا چاہیے.اس کے بغیر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ میں جس محاسبہ کا تقاضا کیا گیا ہے وہ پورانہیں ہوسکتا..........غرض جب تک علم نہ ہو آپ محاسبہ کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے آپ اس نو جوان کا محاسبہ کرتے تو غلط نتیجہ پر پہنچ جاتے.بہت سے انسان بدقسمتی سے ٹوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف غلط محاسبہ ہوتا ہے.قرآن کریم نے جب یہ کہا کہ کسی کو سزا یا معانی دینے کا فیصلہ اس کی اصلاح کو مد نظر رکھ کر کرنا ہے تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ پہلے اس کی طبیعت سے واقفیت حاصل کرو کہ اگر تمہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ شخص کس طبیعت اور مزاج کا ہے تو تمہیں یہ کیسے پتہ لگے گا کہ معافی سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا سزادینے سے اصلاح ہو سکتی ہے اور یہ حکم بھی دراصل اسی محاسبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کہ صحیح علم کے بغیر وہ محاسبہ نہیں ہوسکتا جس کا مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کا قرآنی فقرہ ہم سے تقاضا کرتا ہے.غرض

Page 688

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۸ سورة البينة اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبادت کے لئے تم پیدا ہوئے ہو اور یہ تمہیں کرنی چاہیے لیکن اگر تم حقیقی اور سچی عبادت کرنا چاہتے ہو تو تمہیں میرے لئے دین کو خالص کرنا ہوگا اور میری رضا کے لئے محاسبہ کے میدان میں ہر قدم اُٹھانا پڑے گا.تمہارا جو قدم میری رضا کے لئے نہیں ہو گا وہ ہلاکت کی طرف، وہ دوزخ کی طرف، میری ناراضگی کی طرف لے جانے والا ہو گا.اس کے لئے محاسبہ کے میدان میں سزا یا معافی دیتے وقت اس شخص کا اس کے ماحول کا صحیح علم رکھنا بڑا ضروری ہے.دنیا میں بڑے فسادات اسی وجہ سے آج پیدا ہور ہے ہیں.اٹلی میں اور بعض دوسرے ممالک میں طالب علموں نے ہنگامے کئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے ان طلباء کے جو راعی ہیں اور جو ان کی تعلیم ، اخلاق اور تربیت کے ذمہ دار ہیں وہ علم کے بغیر قدم اُٹھاتے ہیں اور مشفقانہ اصلاح کی بجائے غلط طریق پر غصہ نکالتے ہیں.انہیں چاہیے کہ ان کو عقل سے، پیار سے سمجھا ئیں.اگر چہ یہ صحیح ہے کہ بعض لوگ پھر بھی شیطان کی گود میں بیٹھنا ہی پسند کریں گے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ انسانی فطرت بنیادی طور پر شریف واقع ہوئی ہے لیکن آج کا انسان انسانیت سے بھی دور جاچکا ہے مذہب تو بعد کی بات ہے پہلے تو ایسے لوگوں کو ہم نے انسان بنانا ہے پھر اس کے بعد خدا اور رسول کی باتیں ان کو سنائی جائیں گی.جو شخص فطرت کے مسخ ہو جانے کے نتیجہ میں انسان کی بجائے گدھے اور بھیڑیے کے اخلاق اپنے اندر رکھتا ہے اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کو انسان بنایا جائے، پھر انسان سے روحانی انسان، خدا رسیدہ انسان، اللہ کا پیارا اور محبوب انسان بنایا جاسکتا ہے لیکن جو اپنے اخلاق و اطوار میں انسان ہی نہیں مذہب اس کے لئے کیا کر سکتا ہے اور مذہب کا حسن یعنی اسلام کا ( میرے نزدیک اس وقت سچا مذہب اسلام ہی ہے ) حسن اور اسلام کے احسان کو وہ سمجھ ہی کیسے سکتا ہے پہلے لوگوں کو انسان بنانا چاہیے.انسانی اقدار پیدا کرنے کی جن لوگوں پر ذمہ داری ہے وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور انسانیت دن بدن حیوانیت کی طرف دھکیلی جا رہی ہے اور کسی کو اس کی فکر نہیں.آپ کو اس کی فکر ہونی چاہیے.یہ سوچنا چاہیے کہ وہ مخلوق جسے اللہ تعالیٰ نے انسان بنا یا تھا وہ حیوانیت کی طرف کیوں مائل ہو رہی ہے اور ان کو واپس انسان بنانے کیلئے ہمیں کیا کوششیں کرنی چاہئیں.پھر آپ میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ کتنی بڑی ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہیں پہلے ان کو انسان کے دائرہ کے اندر لائیں گے پھر ان کو کہیں گے کہ دیکھو انسان کی روحانی،

Page 689

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷۹ سورة البينة جسمانی، اخلاقی، دینی اور دنیوی ترقیات کے لئے اسلام نے تمہارے ہاتھ میں کتنی حسین تعلیم دی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تم پر کتنا بڑا احسان کیا ہے لیکن جب تک ان کے اندر ایک گدھے کی یا ایک بھیڑیئے کی یا ایک سانپ کی یا ایک بچھو کی خاصیت رہتی ہے وہ آپ کی بات سمجھ ہی نہیں سکتے.وہ سمجھتے ہیں کہ پاگل ہو گئے ہیں جو ہمارے پاس یہ تعلیم لے کر آگئے ہیں.پس ضروری ہے کہ پہلے ان کو انسان بنایا جائے اور جن پر انسان بنانے کی ذمہ داری ہے وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ، وہ محاسبے کی ذمہ داریوں کو نہیں نباہتے.ہم مسلمان احمدیوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کے مختلف معانی کے لحاظ سے جتنی ذمہ داریاں ڈالی ہیں ہم ان پر غور کرتے رہیں اور ان کو نباہنے کی کوشش کرتے رہیں.دو اور ذمہ داریاں ہیں وہ انشاء اللہ اگلے خطبہ میں بیان ہو جا ئیں گی.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۹۰ تا ۶۰۰) پچھلے خطبات میں میں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی سچی حقیقی اور خالص عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اس لئے اصولاً انہیں ایک ہی حکم دیا گیا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اللہ کے غیر کی پرستش نہ کرو.شریعت کی ساری تعلیم اور ہدایت.اس کے سب احکام اور نوا ہی اسی مرکزی نقطہ کے گرد گھومتے ہیں اور عبادت کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس فقرہ میں بیان کی ہے کہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين دین کے مختلف معانی حقیقی عبادت کے مختلف تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہیں.اس وقت تک میں نو تقاضوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں.دین کے دسویں معنی جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں قضا یا فیصلہ کے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زندگیاں ایک نقطہ نگاہ سے فیصلوں کے گٹھڑ ہیں.ہم صبح سے لے کر شام تک بیسیوں سینکڑوں بلکہ بعض دفعہ ہزاروں فیصلے کرتے ہیں.ہم اپنے متعلق بھی فیصلے کرتے ہیں.مثلاً ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا ہم نے اپنے اوقات کو گپ شپ میں خرچ کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کو معمور کرنا ہے.ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آج کے مختلف کاموں کو کن اوقات میں کرنا ہے.مجھے قریباً ہر روز سوچ کر یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ میں نے اپنے کاموں کو کس پروگرام کے ماتحت کرنا ہے.مثلاً ڈاک میں فلاں وقت دیکھ سکتا ہوں اس لئے میں ڈاک اس وقت دیکھوں گا یا فلاں کام فلاں وقت کروں گا.بعض وقت دوست بے وقت ملنے کے لئے

Page 690

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۰ سورة البينة آ جاتے ہیں اور میرا سارا پروگرام درہم برہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی میں اپنی مرضی کرتا ہوں اور کبھی ان کی بات مان لیتا ہوں.بہر حال مجھے ہر روز اپنے کاموں کے متعلق فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور آپ میں سے ہر ایک کو بھی ہر روز کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں.چاہے انسان کو احساس ہو یا نہ ہولیکن انسان کا دماغ فیصلے کرتا ہے.مثلاً انسان اصولی طور پر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں، اپنے اقرباء اور ان لوگوں سے جو اس پر انحصار رکھتے ہیں اور وہ ان کا راعی ہے کس قسم کا سلوک کرے بعض لوگ اپنی طبیعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں.اگر ان کی طبیعت میں سختی ہے تو ان کا سلوک سخت ہوتا ہے.اگر ان کی طبیعت میں ضرورت سے زیادہ نرمی ہے تو ان کا سلوک اپنے لواحقین سے ضرورت سے زیادہ نرم ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کو نظر انداز کرنے والے بن جاتے ہیں.اسی طرح ہم اپنے ہمسایوں کے متعلق بعض فیصلے کرتے ہیں مثلاً ایک شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرے ہمسائے کا مجھے پر بڑا حق ہے.اس کی ہر ضرورت کو میں اسی طرح پورا کروں گا جس طرح میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی ضرورتوں کو پورا کروں گا.بعض لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمسائے نے ایک مصیبت ڈال رکھی ہے.آج یہ چیز لینے آ گیا.دس دن کے بعد دوسری ضرورت کو بیان کر دیا اور کسی چیز کا مطالبہ کر دیا.وہ یہ نہیں سوچتے کہ قیمت کے لحاظ سے شائد مہینہ بھر کے مطالبات چند پیسوں کے ہوں لیکن چونکہ ان کی طبیعتوں کا رحجان اس طرف ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ہمسایوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی کہ وہ ہمیں ہر روز تنگ کرتے رہیں.اس لئے وہ ان سے وہ سلوک نہیں کرتے جو وہ ان سے اس صورت میں کرتے کہ ان کے فیصلے مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کے مطابق ہوں اور اگر ان کا فیصلہ ان احکام کے مطابق ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں تو ان کا سلوک اور ہوتا اور ان کے احساسات اور جذبات یہ ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتنا فضل کیا ہے کہ اس نے ہمارے ہمسائے کو ایک دھیلہ یا دو پیسہ کی ضرورت پیدا کر دی اور اس طرح اس نے ہمارے لئے ایک عظیم ثواب کا سامان پیدا کر دیا.وہ اس رنگ میں بھی سوچ سکتے ہیں اور اپنے فیصلے کر سکتے ہیں.غرض ایک نقطۂ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگیاں فیصلے ہی فیصلے ہیں.وہ فیصلوں کا مجموعہ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح روئی کی گانٹھیں بنادی جاتی ہیں اور روئی کے ریشے ان کے اندر آ جاتے ہیں.ہماری زندگی کے فیصلوں کی ہر روز ایک بیل (Bale) یعنی گانٹھ بنتی

Page 691

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۱ سورة البينة ہے وہ فیصلے وقت کے پریس میں دب جاتے ہیں اور شام کو ہم معمولی سی گٹھڑی فیصلوں کی لاتے ہیں.حالانکہ اس گٹھڑی میں اسی طرح بے شمار فیصلے ہوتے ہیں جیسے روئی کی گانٹھ میں بے شمار ریشے ہوتے ہیں ہمارا دن فیصلے کرتے ہوئے گزر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان فیصلوں کی بنیاد دو چیزوں پر رکھ سکتے ہو.ایک میری محبت اطاعت اور میری رضا کی جستجو پر اور دوسرے اپنی مرضی پر اگر تم اپنے فیصلوں کی بنیا دا اپنی مرضی پر رکھو گے یا اللہ کے سوا کسی اور کی مرضی پر رکھو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی پرستش اور عبادت کا حق ادا نہیں کر رہے ہو گے.اگر تم اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرنا چاہتے ہو.اگر تم عبادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے فیصلوں کو خالصتہ للہ بنانا پڑے گا اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم مشرک بن جاؤ گے تم دہر یہ بن جاؤ گے تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے نہیں ہو گے.پس الدِّينُ الْقَضَاءُ دین کے معنی قضا کے ہیں اور قضا کا لفظ دوموٹے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ایک تو یہ لفظ حکم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرے یہ قضا کے فیصلوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں ہم یہ دونوں معنی لے سکتے ہیں.بہر حال ایک معنی قضا کے حکم دینا، اپنے یا غیر کے متعلق فیصلہ کرنا یا ہدایت دینا یا ڈائر کٹو (Directive) دینا ہیں.ان لوگوں کو جو ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ہدایت دینا ہمارا فرض ہے.مثلاً ہیڈ ماسٹر ہے، پرنسپل ہے، گھر کا مالک ہے، محلہ کا عہدہ دار ہے.ان سب کو حکم یہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ کرنے لگو تو اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارے فیصلہ کی بنیاد احکام الہی پر ہو اس کے بغیر تمہارا عبادت کا دعویٰ غلط ہوگا.ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کی پرستش نہیں کرتا لیکن جس وقت محلہ میں کوئی ہدایت دینی ہو کوئی حکم جاری کرنا ہوتو وہ تعصب اور حسد سے کام لیتا ہے اور اگر کوئی پریذیڈنٹ (President) تکبر حسد یا تعصب کی بناء پر فیصلہ کرتا ہے تو خدائے واحد کی عبادت کیسی کہ اس نے خدا کے لئے اس چیز کا بھی خیال نہیں رکھا کہ وہ تعصبات سے پاک ہو کر اور حسد کو کلی طور پر اپنے خیالات سے باہر پھینک کر اپنے فیصلے کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ فیصلہ حکم، ہدایت یا ڈائر کٹو کی شکل میں ہو جو ایک قاضی باہم جھگڑوں میں کرتا ہے وہ فیصلہ خالصہ اللہ کے لئے ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایت کے ماتحت ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.

Page 692

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۲ سورة البينة قرآن کریم کے مطالعہ سے اس معنی کے لحاظ سے قضا کے جو بعض پہلو نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں.ان میں سے مثلاً ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ اسراء میں فرماتا ہے.وَقَضَى رَبُّكَ الا تعبدوا إلا إيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (بنی اسرائیل : ۲۴) ہم نے فیصلے مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ کے ماتحت کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر قسم کے شرک سے بچا جائے.اس کے بغیر حقوق اللہ ادا نہیں ہو سکتے.انسان ایک چیز کے حصول میں بڑا پیسہ خرچ کرتا ہے اور بعض دفعہ ناجائز خرچ بھی کرتا ہے اور بعض دفعہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں اپنے پیسے خرچ کرنے کی وجہ سے اور اپنے مال کی بدولت اپنے مقصود کو حاصل کرلوں گا اور نہیں جانتا کہ اس مال پر بھی اللہ کا تصرف اس کا فیصلہ اور اس کی قضا جاری ہے.....غرض اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ہی کا حکم چلتا ہے اور بڑا احمق اور بد بخت ہے وہ شخص جو یہ سمجھنے لگے کہ آدھا خدا کا حکم چلتا ہے اور آدھا میرا چلے گا.حکم خدا ہی کا چلے گا اسی لئے ہمیں خدا نے کہا اس نے ہمیں تنبیہہ کر دی اور ہمیں یہ ہدایت دے دی تا کہ ہم اس کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں کہ جب تم نے ڈسین ( Decision) لینے ہوں جب تم نے فیصلے کرنے ہوں تو یاد رکھو کہ تمہارا کوئی فیصلہ، تمہارا کوئی ڈسین ( Decision) ، تمہارا کوئی ڈائرکٹو (Directive) تمہاری کوئی ہدایت اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی ہدایتوں کے خلاف نہ ہو اور تمہارا ہر فیصلہ اس کی رضا کے حصول کے لئے ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو تم خدا کے مخلص عبادت گزار بندے بن جاؤ گے.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم عبادت کرتے ہوئے دنیا کو نظر بھی آؤ گے لیکن خدا کی نگاہ میں تم ان لوگوں میں شامل نہیں ہو گے جن کے متعلق وہ کہتا ہے مُخْلِصِينَ لَهُ الذِینَ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عبادت کو خالصہ اللہ کے لئے مخصوص کر دیا ہے.پس شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہونا چاہیے اور وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا اس میں اللہ تعالیٰ نے آپس کے معاشرہ کو اور باہمی تعلقات کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا ہے.گو یہاں اس نے صرف وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا کہا ہے لیکن اس میں تمام معاشرہ کے حقوق کی طرف اشارہ کر دیا ہے.........پھر قضاء کے متعلق ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نظر آتا ہے کہ فیصلے اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہی نہ ہوں بلکہ بشاشت سے بھی ہوں اِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُةٌ اَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ

Page 693

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۳ سورة البينة اَمرِهِم (الاحزاب: ۳۷) جب خدا اور اس کے رسول کا فیصلہ ہو تو پھر اپنا اجتہاد نہیں کرنا بعض لوگ وہاں بھی اپنا اجتہاد شروع کر دیتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایات موجود ہیں قرآن کریم میں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یا آپ کی سنت اور اُسوہ میں.اس وقت یہ کہنا کہ یہ پرانے زمانے کی بات ہے اب یہ حکم نہیں چلتا غلط ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی دائمی شریعت میں جو احکام نازل کئے ہیں ان کی پابندی ضرور کرو.اگر یہ پابندی ہم نہیں کرتے تو پھر ہمارے فیصلے مُخْلِصِينَ لَهُ الدین کے مطابق نہیں.وہ خالصہ خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کے حصول کے لئے نہیں بلکہ ہم اپنی دنیا بسانا چاہتے ہیں اور اس دنیا کو حسین اور منور نہیں بنانا چاہتے جس دنیا کواللہ تعالیٰ اپنی ہدایتوں اور اپنے انوار کے ذریعہ خوبصورت اور منور دُنیا بنانا چاہتا ہے.پس فرمایا اگر تم بشاشت کے ساتھ احکام الہی کے سامنے اپنی گردنیں رکھو گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے ارشادات کو قبول کرو گے تب عبادت کا حق ادا ہو گا ورنہ نہیں ہو گا.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جہاں واضح ارشادات نہ ہوں وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجتہاد کی اجازت دی ہے لیکن اجتہاد کی یہ اجازت اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ اس میں نفس کی ملونی نہ ہو بلکہ اجتہاد دعاؤں کے ساتھ ہو.عاجزی کے ساتھ ہو.پوری کوشش اور محنت کر کے پہلی مثالوں کو دیکھ کر قرآن کریم پر غور کر کے اور احادیث نبوی کو سامنے رکھ کر ہو.سونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اُسوہ ہمارے سامنے ہے اپنے فیصلوں کو اس کے مطابق کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر تم اجتہاد کرو تا تمہارا اجتہاد مُخْلِصِينَ لَهُ الدّین کا مصداق ہو.تمہارا اجتہادی فیصلہ خالصہ اللہ کے لئے اور اس کی اطاعت میں ہو.تیسری چیز جو قضاء کے متعلق بنیادی طور پر ہمیں قرآن کریم میں نظر آتی ہے یہ ہے کہ ہر فیصلہ حق وانصاف پر مبنی ہونا چاہیے اگر ہمارے فیصلے حق اور انصاف پر مبنی نہیں تو پھر ہم صرف دنیا ہی کے گناہگار نہیں ہیں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بھی گناہگار ہیں.ہم اس کی پرستش کا حق ادا نہیں کر رہے.....گیارہویں معنی دین کے جزا اور بدلہ کے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بدلہ لینے اور بدلہ دینے یعنی جزاوسزا کے میدان میں جو ہمارے فیصلے ہیں اور اعمال جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ خالصہ اللہ کے

Page 694

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۴ سورة البينة لئے ہونے چاہئیں.جزا لینا اور جزا دینا دونوں باتیں اس کے اندر آ جاتی ہیں دونوں میں مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کی ذہنیت پیدا ہونی چاہیے.ہمارا جو سلوک اپنے انسان بھائیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہوتا ہے.دنیا اسے احسان کہتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ احسان نہیں ہے.اسلام نے احسان کے لفظ کو اپنی ایک اصطلاح مقرر کر کے اس میں استعمال کیا ہے اس لئے کسی کے ذہن میں خلط نہ ہو.احسان کے جو معنی دنیا لیتی ہے اس معنی میں اسلام حسن سلوک کرنے والے کے لئے احسان کا لفظ استعمال نہیں کرتا.وہ جزا لینے سے انکار کی ذہنیت پیدا کرتا ہے یعنی ایک سچا مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں بدلہ نہیں لوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے بدلہ اور جزا لینے سے متعلق اعمال میرے اس حکم کے ماتحت اور میری اس ہدایت کے مطابق ہونے چاہئیں کہ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا (الدھر:۱۰) ہم تم سے کسی جزا کی خواہش نہیں رکھتے نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں بدلہ دو یہاں تک کہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ تم ہمارا شکر ادا کرو.بدلہ لینے کا تو سوال ہی نہیں.پس جہاں تک جزا اور مکافات اور بدلہ کا سوال ہے وہ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین خالصہ اللہ کے لئے ہونا چاہیے.میں نے بتایا ہے کہ دین کے اس معنی کے لحاظ سے دو پہلو ہیں.(۱) بدلہ لینا (۲) بدلہ دینا.بدلہ لینے کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ہر حسن سلوک اس معنی میں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے احسان کا لفظ استعمال کیا ہے ایسا ہونا چاہیے کہ تمہارے دل میں نہ صرف یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ شخص اس کا بدلہ دے گا.احسان کے مقابلہ میں احسان کرے گا بلکہ تمہیں یہ خیال بھی پیدا نہ ہو کہ کم از کم اسے میرا شکر تو ادا کرنا چاہیے بعض لوگ کسی کی تھوڑی سی خدمت کر کے کہہ دیتے ہیں بڑا ناشکرا ہے یہ شخص.اس نے ہمارا شکر بھی ادا نہیں کیا.خدا تعالیٰ تمہیں کہتا ہے کہ تم اس کی بھی توقع نہ رکھو کہ وہ تمہارا شکر ادا کرے گا.پس جس نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت کی ہے جس نے دنیا کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے خود مصائب برداشت کئے ہیں اس کو خدا کا یہ حکم ہے کہ تم نے جزا لینے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا تم نے یہ بھی نہیں سوچنا کہ اس شخص کو تمہارا شکر گزار ہونا چاہیے.یہ اسلام کی نہایت عجیب تعلیم ہے اور اسے قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.میں اس وقت صرف یہ بات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم بدلہ لینے کے

Page 695

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۵ سورة البينة میدان میں یہ خیال کرو گے کہ جس شخص سے تم نے حسن سلوک کیا جس کی تم نے خدمت کی اور جس کی تکلیف کو دور کرنے کی تم نے کوشش کی اسے تمہیں اس احسان کا کچھ بدلہ دینا چاہیے.اسے کم از کم تمہارا شکر ادا کرنا چاہیے تو تم نے خدا تعالیٰ کی پرستش کا حق ادا نہیں کیا.اگر تم اللہ تعالیٰ کی سچی اور حقیقی عبادت کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ راہ ہے کہ تم بنی نوع انسان کی خدمت کرو.تم ان سے حسن سلوک کرو.تم اپنے بھائیوں کے لئے مصائب برداشت کرو تکلیفیں اور دکھ سہو اور ہر چیز کو بھول جاؤ تمہیں یہ خیال ہی نہ رہے کہ تم نے کچھ کیا ہے کیونکہ تم نے جو کچھ بھی کیا ہے اپنے رب کی رضا کے حصول کے لئے کیا ہے.اگر واقعہ میں تمہارا دعوی سچا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کر رہے ہو لیکن اگر تم نے وہ احسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں کیا تو تم نے خدا کی عبادت نہیں کی.تم اس دعوی میں جھوٹے ہو کہ تم مشرک نہیں ہو بلکہ تو حید خالص پر قائم ہو.غرض یہ جزا لینے کے متعلق اصولی تعلیم تھی.جس شخص پر احسان ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ایک اور زاویہ نگاہ سے مخاطب کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : ۶۱ ) کہ کیا احسان کا بدلہ اور احسان کی جزا احسان کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے.یعنی جس شخص نے حسن سلوک کیا اس کو تو یہ کہا کہ تم نے بدلہ میں احسان کی توقع نہیں رکھنی کیونکہ تم نے جو کچھ کیا ہے میری خاطر کیا ہے اور جس کے ساتھ حسن سلوک ہوا تھا جس کی خاطر اس نے دکھ اُٹھائے تھے جس کی خدمت کی گئی تھی اس کو یہ کہا کہ اگر تم میری سچی پرستش کرنا چاہتے ہو تو یہ یاد رکھو.مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله اگر تم اپنے خدمت گزار بندوں ، اپنے پیار کرنے والے بھائیوں کی جو تمہاری خاطر دکھ اُٹھاتے ہیں اسی طرح خدمت کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گے ( جب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے) اور تمہارے دل میں شکر کے جذبات نہیں ہوں گے تو تم نے خدا تعالیٰ کی پرستش کا حق ادا نہیں کیا.اگر تم تو حید خالص پر قائم رہنا چاہتے ہو اور اس حکم کی تعمیل کرنا چاہتے ہو کہ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُ اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین تو تمہارا فرض ہے کہ جب کوئی بھائی تم سے محبت اور پیار کا احسان اور ایتائے ذی القربیٰ کا سلوک کرے تو تم اس کے مقابلہ میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اس سے بڑھ کر سلوک کرنے کی کوشش کرو اور اس کے لئے اپنے دل میں انتہائی شکر کے جذبات پیدا کرو.شکر کے جذبات پیدا کرو.یہ تعلیم تو احسان کا بدلہ لینے اور دینے سے

Page 696

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸۶ سورة البينة متعلق تھی.جزا اور سزا کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نے کسی کو دکھ پہنچا یا ہو تو اس کے متعلق بھی جزا اور بدلہ کا سوال ہوتا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے جو بنیادی حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ وَجَزْوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةُ مِثْلُهَا (الشوری: ۳۱) یعنی جتنی کسی نے بدی کی ہے جتنا دکھ کسی نے پہنچایا ہے جتنا ظلم کسی نے کیا ہے جتنا مال کسی نے غصب کیا ہے اس سے زیادہ اسے نقصان نہ پہنچاؤ، جتنی ٹھیں احساسات کو کسی نے پہنچائی ہے اتنی ٹھیس پہنچانے کی تمہیں اجازت ہے زیادہ کی نہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۶۰۲ تا ۶۱۳ )

Page 697

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ آیت ا تا ۳ YAZ سورة الزلزال بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الزلزال بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ اور ہر صدی اس بات پر گواہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان عظیم جو کیا تھا کہ عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ کہ انسان کو اس نے وہ علم سکھا یا جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا حقیقتاً صحیح ہے ہر صدی میں نئے علوم نکلے روحانی بھی اور مادی بھی اور انسان ترقی کرتا ہوا اس زمانے تک پہنچ گیا جس کے متعلق یہ کہا گیا تھا.اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ اثْقالَهَا (الزلزال :۲، ۳) کہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمین اپنے چھپے ہوئے خزانوں کو باہر نکال کے پھینک رہی ہے بڑی کثرت کے ساتھ نئے سے نئے علوم جو ہیں وہ پیدا ہورہے ہیں.میرا خیال ہے کہ ہر ماہ ساری دنیا کے نئے جو پوائنٹس (Points) معلم اور محقق جو نکالتا ہے دنیوی میدانوں میں وہ بھی ہزاروں لاکھوں ہیں اور ہر روز ہی کہیں نہ کہیں خدا تعالیٰ روحانی نشان اپنے فیضان نبوی کے نتیجہ میں ظاہر کر رہا ہے اور دنیا علم کے اس میدان میں آگے چل رہی ہے کہ جب یہ میدان آخر میں اپنی منزل کو پہنچتا نظر آئے گا انفرادی حیثیت میں اور اجتماعی حیثیت میں تو اس وقت انسان اس حقیقت کو پالے گا کہ اللہ ہی اللہ ہے.مولا بس.خدا تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے وہ اس کا ئنات کی بنیاد بنتا ہے اور اسی پر تمام علوم کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اور اسی سرچشمہ سے ہر نور نکلتا ہے.اللَّهُ نُورُ السَّمَوتِ (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۹۷،۴۹۶) وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦).

Page 698

Page 699

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ آیت ا تا ۲ ۶۸۹ سورة الفيل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفيل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ D الم تر كيف فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحُبِ الفِيلِ.اب میں اس واقعہ کو لیتا ہوں جو گزشتہ ستمبر میں ہماری قوم اور ہمارے ملک پر گزرا.۶ ستمبر کو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے نہایت ظالمانہ طور پر اور فریب سے کام لیتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا.سترہ دن تک یہ جنگ لڑی گئی.یہ جنگ عام معمولی جنگوں کی طرح نہیں تھی بلکہ اس میں ہمیں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو اسے ایک خاص قسم کی جنگ بنادیتی ہیں کیونکہ دوران جنگ پاکستانی قوم پر اللہ تعالیٰ کے مختلف اقسام کے افضال اور برکتیں نازل ہوتی نظر آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خیر کنند دعوی حُبّ پیمبرم آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا.( در ثمین فارسی صفحه ۱۰۷) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد راور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاصْحِبِ الْفِيلِ یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دُکھ اٹھا رہے تھے اللہ تعالیٰ

Page 700

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۹۰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید و ناصر ہوں.سورة الفيل اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا.یعنی اُن کا مکر الٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانوران کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی سجیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں.ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے.....اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں اسلام غریب ہے اور اصحاب فیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے چڑیوں سے وہی کام لے گا.“ (الحکم ۷ ارجولائی ۱۹۰۱ صفحہ ۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ہمیں بتایا ہے کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا سوال پیدا ہو گا.اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والوں کی کمزوریوں کو نظر انداز کر دے گا اور اپنے اس مقدس بندے کی عزت اور ناموس کی خاطر اس کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کر خطابات ناصر جلد اوّل صفحہ ۲۲، ۲۳) دے گا.

Page 701

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ آیت ا تا ۲ ۶۹۱ سورة الكوثر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الكوثر انا اعطينكَ الْكَوْثَرَ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ D آپ کو ۱۹۰۴ء میں اوپر نیچے یہ دو الہام ہوئے جن میں دو بشارتیں تھیں.ایک ۸ / دسمبر ۱۹۰۴ء کو اور دوسری ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۰۴ ء کو.پہلی بشارت یہ لی کہ :- " رسید مژده که ایام نو بہار آمد ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۳۹) یعنی اللہ تعالیٰ نے بشارت دی کہ نئے سرے سے بہار آ رہی ہے اور نو بہار سے مراد یہ ہے کہ ایک بہار پہلے اسلام پر آچکی ہے یعنی نشاۃ اولیٰ میں اور اب نشاۃ ثانیہ میں ایک اور بہار کا وعدہ ہے اور یہ بہار بالکل ویسی ہے جیسی کہ نشاۃ اولیٰ کی بہار ہے جو اگلے الہام سے ثابت ہے کیونکہ قرآن کریم نے نشأة اولیٰ کی بہار کا ذکر کوثر کے لفظ میں بیان فرمایا ہے یعنی انا اعطينك الكوثر یہ بہا تھی اور اب بھی اس کے ساتھ وہی وعدہ ہے یعنی نو بہار میں بھی کوثر کا وعدہ ہے.اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاسکتا.بہر حال إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ ایک بڑی عظیم بشارت تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تھی.تفسیر کبیر میں اسے بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے جو دوست اسے پڑھ سکتے ہیں وہ ضرور پڑھیں.غرض یہ ایک عظیم اور All round (آل راؤنڈ ) یعنی باقی بشارتوں پر محیط ہے.پس یہ اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ اس قسم کی بشارت تھی.اب پہلے یہ فرمایا کہ رسید مژدہ کہ ایام نو بہار آمد یعنی ایک بہار پہلے آچکی ہے اور نئی بہار آ رہی ہے.یہ خوشخبری ہمیں ۸ کو ملی اور بارہ ۱۲ تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما

Page 702

تفسیر حضرت خلیفۃ السیح الثالث ۶۹۲ سورة الكوثر فرما یا لا تَايْسُوا مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَةِ رَبِّي ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۴۴۰) ابھی تک جو مسلمان احمدی نہیں ہوئے ان پر تنزلی کا زمانہ ہے وہ بڑے مایوس ہیں.مایوس ہونا بھی چاہئے کیونکہ ہر طرف الہی وعدوں کے خلاف تنزلی اور بے عزتی کے حالات میں سے وہ گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے اور انہیں ہدایت دے.لَا تَايُعَسُوا مِنْ خَزَابِنِ رَحْمَةِ رَبِّي- میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے یہ فرما یا کہ اس کی رحمت کے خزانے جو کوثر کی شکل میں اس سے پہلے آئے تھے وہ اب پھر آنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزائن سے تم مایوس نہ ہو.انا اعطينكَ الكوثر یہ اسی الہام کا ایک حصہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ہیں.اسلئے ہم اس کا ترجمہ یوں کریں گے کہ وہ کوثر جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا اس کا تمہیں پھر سے مہتم بنا کر مبعوث کیا ہے.اس کوثر کا اہتمام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے زور سے فرمایا ہے ”سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے ( در ثمین صفحہ ۳۶) پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جو خزانے دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کی نشاۃ اولیٰ میں حاصل کئے اور آسمان سے نازل ہوتے دیکھے.دنیا اب وہی جماعت احمدیہ کی شکل میں دوبارہ دیکھے گی کیونکہ کوثر کا مہتم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو بنادیا گیا ہے.خطبات ناصر جلد سوم ۳۱۷، ۳۱۸)

Page 703

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۶۹۳ سورة النصر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النصر آیت اتام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ) إذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ لى وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کی فتوحات کے متعلق بشارتیں دی گئی ہیں کیونکہ اس سورۃ کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوا تھا.روایتوں میں اختلاف ہے تاہم اس سورۃ کے نزول کے بعد آپ ۷۰ یا ۸۰ دن اس دنیا میں زندہ رہے.اس کے بعد آپ کا وصال ہوا.اس سورۃ میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اور پریشانی کے وقت جو دراصل انسان کے اپنے گناہ اور اپنی کوتاہی اور اپنی بد عملی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے، انسان اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کئے بغیر اس پریشانی اور تکلیف اور دُکھ سے نجات نہیں حاصل کرسکتا.استغفار کے معنے یہ ہیں ( کیونکہ یہ لفظ غفر سے ہے ) کہ اللہ تعالیٰ سے حفاظت طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنا کہ جو فساد اور رخنہ کسی رنگ میں پیدا ہو گیا ہے، وہ اُسے دُور کرے اور اصلاح امر کرے.خلافت اولی کے زمانے میں اور پھر اس کے بعد صدیوں تک اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب تک اسلام پر کمزوری کا زمانہ بھی آیا.تکلیف کا زمانہ بھی آیا اور پریشانیوں کا زمانہ بھی آیا لیکن اس

Page 704

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۹۴ سورة النصر ارشاد باری تعالیٰ کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے جو دُعائیں کی تھیں، وہ آڑے آئیں اور اُن دُعاؤں اور اُن دُعاؤں کے بعد جو طفیلی دُعائیں ہم مانگتے ہیں ان کے نتیجہ میں رخنہ دُور ہو گیا، فساد جاتا رہا، اصلاح امر ہو گیا اور پریشانیوں کی بجائے مسرتوں کے دن آگئے.مگر شاید جگانے کے لئے یا جھنجوڑنے کے لئے ابتلاء بھی آتے ہیں لیکن اُمت محمدیہ کا وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اور اس کے حکم سے استغفار کرتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اُسے بار بار رحمت کرنے والا اور مغفرت کرنے والا پاتا ہے.کب ایسا ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہو اور اُس نے اپنی رحمت سے اُسے نہ نوازا ہو.ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور دُنیا کا ہر ملک اور ہر قوم اس پر شاہد ہے.آج بھی ہمارے لئے پریشانیوں اور اداسیوں کے دن ہیں مگر یہ وقتی اور عارضی پریشانیاں ہیں.ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رب سے قوت حاصل کریں اور اُس سے عاجزانہ دُعائیں کریں کہ ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے نتیجہ میں اور ہمارے گناہوں کی پاداش میں اس وقت جو پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں معاف فرمائے اور ہماری اصلاح فرمائے اور ہماری آنکھیں کھولے اور ہمیں پھر صحیح راہ کی طرف لے آئے تا کہ یہ پریشانیاں دُور ہو جائیں اور انشاء اللہ یہ دُور ہو جائیں گی.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۵۴۴،۵۴۳)

Page 705

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۶۹۵ سورة الاخلاص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاخلاص آیت اتا۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ O قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدَّ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن 611 لهُ كُفُوًا اَحَدُه اللہ احد ہے، اکیلا ہے، اُس جیسا کوئی اور وجود، اس جیسی کوئی اور ہستی نہیں ہے اور وہ خالق بھی ہے.اللہ کے علاوہ ہر چیز جو اس یو نیورس میں، اس عالمین میں ، ہر دو جہان میں پائی جاتی ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے اسے ہم خدا نہیں مانتے نہ مان سکتے ہیں.ہم صرف اس اکیلے ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی ذات اور صفات کی معرفت ہمیں اسلام نے دی اور قرآن کریم نے بتائی.اللهُ الصَّمَدُ اللہ اپنی ذات میں غنی ہے اپنے وجود کے لئے اپنی صفات اور ان کے جلووں کے لئے اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں.مادے کی بھی اسے احتیاج نہیں کیونکہ مادہ بھی موجود نہیں تھا اس نے اسے پیدا کر دیا اور جب چاہے اسے مٹا دے.اس کی صفات کے جلوے کسی شکل میں کسی معنی میں بھی کسی غیر کے محتاج نہیں ہیں اور اللہ کے سوا ہر چیز اللہ کی محتاج ہے اپنے وجود کے لئے بھی کہ اگر وہ پیدا نہ کرتا تو کوئی چیز بھی موجود نہ ہوتی اور اپنے قیام کے لئے بھی کہ جب تک خدا تعالیٰ کی صفات سے اس کا تعلق قائم ہو وہ قائم رہتی ہے ورنہ فنا ہو جاتی ہے.یہ صفات بھی باقی اور صفات کی طرح از لی ابدی ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی.”ہمیشہ میں بھی انسان کا دماغ وقت کی طرف جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں بالائے زمان و مکان ہے یعنی نہ مکان کے ساتھ اس کا کوئی

Page 706

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۹۶ سورة الاخلاص واسطہ نہ زمانہ کے ساتھ.یہ چیزیں تو ہمارے لئے ہیں، مخلوقات کے لئے.خدا تعالیٰ نہ زمانے میں بندھا ہوا ہے نہ کسی مکان میں محصور ہے بلکہ بالائے زمان و مکان اس کی ہستی ہے.اللہ کے سوا ہر چیز اس لحاظ سے بھی اس کے مقابلہ پر نہیں آسکتی کہ جس کو خدا نے پیدا کیا وہ ازلی نہیں رہا اور جب وہ فنا ہو جائے ، فنا اس پر وارد ہو جائے تو وہ ختم ہو جاتا ہے ابد کا سوال ہی نہیں رہتا.نہ خدا نے اپنے جیسا، اپنی جنس کا کوئی اور وجود جنا نہ وہ جنا گیا.اس میں بھی ازلی ابدی تصور ہے خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہستیاں اولاد پیدا کرتی ہیں جو زوال پذیر ہوں تا کہ جو ان کے بچے پیدا ہوں وہ آگے ان کی جگہ لینے والے ہوں لیکن جس نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اس کو اس کی احتیاج بھی نہیں اور اس نے ایسا کیا بھی نہیں کیونکہ یہ اس کی صفات کے خلاف ہے اور ہمارے اللہ کو کسی اور نے پیدا نہیں کیا کیونکہ ھو الاول سب سے پہلے اس کی ذات ہے جس سے پہلے کوئی ہے ہی نہیں اس نے اس کو پیدا کیسے کرنا تھا.وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ خدا تعالیٰ کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی صفات میں کوئی شریک نہیں اس معنی میں کہ جہاں کہیں اس کی مخلوق میں اور اس میں مماثلت یا مشابہت پائی جاتی ہے وہاں بھی بنیادی طور پر اتنا عظیم فرق ہے کہ ان دو چیزوں کو ہم ایک نہیں کہہ سکتے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اللہ سنتا ہے اس کی ایک صفت السمیع بھی ہے اور انسان بھی سنتا ہے لیکن انسان کے سنے اور اللہ تعالیٰ کے سننے میں بنیادی طور پر بہت بڑا فرق ہے.خدا تعالیٰ سنتا ہے بغیر کسی آلہ کی احتیاج کے اور انسان سنتا ہے اپنے کان سے.خدا تعالیٰ سنتا ہے بغیر صوتی لہروں کے اس کو سننے کے لئے ان کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمارے کان کو صوتی لہروں کی اور وہ بھی خاص حدود کے اندر مقید لہروں کی ضرورت ہے جن کو صرف انسان کا کان سن سکتا ہے بعض دوسری لہریں ہیں جن کو بعض جانور سنتے ہیں انسان نہیں سن سکتا.میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بھی سنتا ہے اور انسان بھی سنتا ہے لیکن خدا تعالیٰ بغیر کسی مادے کی احتیاج کے، بغیر کسی کان کے سنتا ہے اور اس کو سننے کے لئے صوتی لہروں کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ سنتا ہے جو دعائیں ہم کرتے ہیں وہ صوتی لہروں کے ذریعہ سے اس تک نہیں پہنچتیں بلکہ وہ ان کے بغیر ہی سنتا ہے.ان لہروں کی اس کو ضرورت نہیں ہے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں ہمیں آنکھ کی ضرورت ہے ہم دیکھتے ہیں ہمیں سورج کی روشنی کی ہمارے اپنے وجود سے باہر کی روشنی کی ہمیں

Page 707

تفسیر حضرت الليلة اسم الثاني ۶۹۷ سورة الاخلاص ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے بغیر آنکھ کے اور دیکھتا ہے کسی اور ٹور کے.وہ تو خود ہر دو جہاں کا نور ہے اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) پس جہاں بظاہر تھوڑا سا اشتباہ پیدا ہوتا ہے یا مماثلت پیدا ہوتی ہے وہاں بھی اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ بڑا عظیم فرق بتاتی ہے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں اور انسان کی کچھ تھوڑی سی مشابہت میں.تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کو ہم اس معنی میں بھی لے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تھوڑا سا حصہ انسان کو یا دوسرے جانوروں کو ملا ہے لیکن بڑا فرق ہے پس جہاں تک خدا تعالیٰ کی صفات کا تعلق ہے کوئی چیز اور کوئی وجود اس کی صفات میں شریک نہیں ہے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۹۳ تا ۵۹۵) اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.کوئی ذات اس کی ذات جیسی نہیں ہے.شرکت چار قسم کی ہو سکتی ہے لیکن سورۃ اخلاص میں ان چاروں قسم کی شرکت کی نفی کی گئی ہے یعنی کسی کا کسی کی ذات میں شریک ہونے کا انحصار چار باتوں پر ہے اور سورۃ اخلاص میں ہر بات کی نفی کی گئی ہے.اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے.اللہ ایک ہے.دو یا تین یا چار یا پچاس یا سو یا ہزار الہ نہیں.بت پرستوں نے اللہ کے بے شمار شریک بنالئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ میں کفار نے بہت سے بت بٹھا رکھے تھے.غرض ایک تو یہ بت پرست ہیں جنہوں نے اللہ کو ایک نہیں سمجھا اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے تین خدا بنالئے اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک کو بھی نہیں مانا لیکن اسلام کہتا ہے اللہ ہے اور وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے.عدد کے لحاظ سے وہ ایک ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے اللہ کا کوئی ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہے.واجب الوجوب ہونے میں ایسی چیز یا کوئی ایسا انسان یا جاندار یا فرشتہ یا جن یا جو مرضی کہہ لو غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو واجب الوجوب ہو یعنی جس کا ہونا ضروری ہو.اللہ کے سوا ہر چیز اپنی ذات کے لحاظ سے ہلاک ہونے والی ہے اور كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان (الرحمن: ۲۷) کے اعلان کے نیچے آتی ہے.پس مرتبہ وجوب میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور اسی کے اندر آتا ہے محتاج الیہ ہونا اور اس میں بھی خدا تعالیٰ کا جو بے نیاز ہے کوئی شریک نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کسی غیر کی احتیاج رکھتی ہے.صرف خدا تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں اور ہر چیز خدا تعالیٰ کی احتیاج رکھتی ہے مگر خدا تعالیٰ مرتبہ وجوب میں اکیلا ہے اور اکیلا ہی اس خصوصیت کا حامل ہے اور اس

Page 708

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۹۸ سورة الاخلاص میں منفر د اور یگانہ ہے.وہ صمد اور غنی ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں، ہر دوسرے کو اس کی احتیاج ہے.تیسرا شریک خاندانی ہوا کرتا ہے.خاندان کے مختلف افراد ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں.پس رشتے کے لحاظ سے اور حسب نسب کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے.فرمایا لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ نہ اس کو کسی نے جنا اور نہ اس کا آگے کوئی بیٹا ہے وہ واجب الوجوب ہے وہ ازلی ہے وہ ابدی ہے اور اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں.باپ ہونا بھی احتیاج بتا تا ہے اور بیٹا پیدا کرنا بھی احتیاج ثابت کرتا ہے.چوتھے یہ کہ وہ اپنے کام کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے اس کے فعل میں کوئی اس کی برابری نہیں کر سکتا.باعتبار فعل بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.وہ ایک ہے، احد ہے مرتبہ وجوب میں اور اس لحاظ سے کہ کسی کی اسے احتیاج نہیں اور ہر دوسرے کو اس کی احتیاج ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اور نسبت کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اپنے فعل کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے.جب ہم صفات باری کے بارے میں بات کریں گے تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ جن صفات میں بظاہر انسان کی بعض صفات یا اس کے افعال کی خدا تعالیٰ کے افعال کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے وہ بھی حقیقی مشابہت نہیں ہے.ہر دو میں بنیادی فرق ہے لیکن وہ تو بعد کی بات ہے، اس وقت تو میں یہ بتارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اسلامی تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا ایک ہے، کسی جہت اور کسی طور پر کوئی اس کا شریک نہیں ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۰۵،۲۰۴)

Page 709

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۹۹ سورة الناس بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الناس آیت ۵ تا ۷ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ قرآن کریم میں تمام روحانی بیماریوں کا تعلق صدور یا دلوں سے قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ - الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.اس میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ پناہ مانگو اس وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے جو ہر قسم کا وسوسہ ڈال کر شرارت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے.یہاں ایک بنیادی اصول کا ذکر فرمایا کہ تمام گناہ شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور شیطان وسوسہ ڈال کر خود غائب ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ ڈالتا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وسوسہ ڈالنے والی ہستی شیطان تھی یا کوئی نیک ہستی تھی.اگر شیطان خناس نہ ہو اور وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹنے والا نہ ہو تو کوئی عقل مند انسان شیطانی وساوس کا شکار ہوکر روحانی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتا.پس شیطان صرف وسواس ہی نہیں بلکہ خناس بھی ہے.پہلے وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور پھر وسوسہ ڈال کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے.یعنی شیطان، شیطان کی حیثیت سے اس شخص کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے.پہلا گناہ جو انسان نے کیا وہ اسی وسوسہ کا نتیجہ تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَنُ (الاعراف: ۲۱) کہ آدم اور حوا کے دل میں شیطان نے ایک وسوسہ ڈالا جس کے نتیجہ میں وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے.اس کے

Page 710

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الناس بعد بھی جب کبھی انسان گناہ کا مرتکب ہوا ہے تو اسی شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں ہوا ہے.مثلاً وہ لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خدا کے جتنے رسول بھی آئے ہیں وہ تمہیں یہ تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کہ اپنے پیدا کرنے والے، اپنے رب، اپنے اللہ سے خوفًا وَطَمَعًا خوف کی وجہ سے اور طمع کی وجہ سے تعلق قائم کرو.پس ہر وہ چیز جس کا خوف تمہارے دل میں پیدا ہو یاوہ چیز جسے تم سمجھو کہ تمہیں نفع پہنچانے والی ہے.تم اس کی عبادت کرو کیونکہ مذکورہ تعلیم کا یہی نتیجہ نکلتا ہے.تو سانپ کی عبادت خوف کی وجہ سے شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.بڑ کے درخت کی عبادت بھی جو اس آرام (طبعا ) کی وجہ سے پیدا ہوئی.جو اس کے نیچے بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے تو یہ سب شیطانی وسوسہ کا نتیجہ ہے.پس ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شیطان کے وسوسہ کے نتیجہ میں شرک کے پیدا ہونے کو ثابت کرتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر گناہ کا تعلق شیطانی وسوسہ سے ہے اور شیطان یہ وسوسے انسان کے دل اور سینہ میں پیدا کرتا ہے.گویا تمام روحانی بیماریوں کا مصدر انسان کا سینہ یا اس کا دل ہے کیونکہ شیطانی حربوں اور حیلوں اور تدبیروں کی آماجگاہ صدر انسانی ہی ہے اور روحانی ترقیات کے لئے پہلے سینہ و دل کی صفائی اور صحت و سلامتی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سینہ و دل کفر کے لئے کھل جاتا ہے اور ایمان کے لئے مقفل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے.وَلكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.(النحل: ۱۰۷) وہ جنہوں نے شیطانی وساوس کو قبول کر کے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا.ان پر اللہ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بہت بھاری عذاب مقدر ہے.تو اس آیت میں بتایا کہ شیطانی وسوسہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سینہ کفر کے لئے کھل جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرح کے لفظ کو اس سینہ و دل پر بھی استعمال کیا ہے جو کفر کے لئے بند ہو جاتا ہے اور جس کی کھڑکیاں خدا کی طرف کھل جاتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا.فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِي الصُّدُورِ - (الحج: ۴۷) کیونکہ اصل

Page 711

2 +1 سورة الناس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث بات یہ ہے.(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) کہ حق وصداقت اور نشانات اور آیات کے تعلق میں ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں بوجہ اس کے کہ شیطانی وسوسہ ان کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے اور روحانی شعائیں دلوں تک پہنچ نہیں سکتیں اور روحانی نور انہیں حاصل نہیں ہوسکتا.اس لئے اس اندھے پن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں.( خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۹۰ تا ۳۹۲)

Page 711

← Previous Book