Language: UR
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد، خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے خطبات و خطابات سے ماخوذ
رت حافظ مرزا ناصراحمد صاحب خلیفه لمسیح الثالث حضرت کے خطبات وخطابات سے ماخوذ انوار القرآن جلد دوم سورة المائدة تأسورة العنكبوت
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالہ کے خطبات وخطابات سے ماخوذ انوار القرآن جلد دوم سورة المائدة تأسورة العنكبوت
بسم الله الرّحمن الرّحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض ناشر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفتہ المسح الثالث" کو قرآن کریم سے غیر معمولی محبت اور عشق تھا.آپ نے بچپن میں قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق پائی.قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مضامین پر غور و خوض اور فکر و تدبر آپ کا معمول زندگی رہا.قرآنی معارف اور دقائق کی تلاش میں گہرا شغف رکھتے تھے اور قرآن کریم کے انوار سے اپنے سینہ کو منور کرنے میں عمر بھر ہمہ تن مشغول و مشغوف رہے.آپ کی دلی تمنا اور قلبی تڑپ تھی کہ ہر احمدی قرآن کریم کو سکھنے ، تلاوت کا تعہد رکھنے اس کا ترجمہ جاننے اور اس کی تشریح و تفسیر میں منہمک ہو کر اس کے انوار کو جذب کرنے والا ہو چنا نچہ آپ فرماتے ہیں.ہر احمدی مرد اور احمدی عورت ، ہراحمدی بچہ ، ہر احمدی جوان اور ہراحمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن کریم سیکھے ، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کرلے.ایک نور مجسم بن جائے.قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے ، قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور نظر آئے اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآنی
سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.اے خدا ! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں.اے زمین اور آسمان کے نور ! تو ایسے حالات پیدا کر دے کہ دنیا کا مشرق بھی اور دنیا کا مغرب بھی، دنیا کا جنوب بھی اور دنیا کا شمال بھی نور قرآن سے بھر جائے اور سب شیطانی اندھیرے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائیں.....ہمیں ہمیشہ یہ دعا ئیں کرتے رہنا چاہیے کہ واقعتا اور حقیقتا خدا ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم قرآنی انوار میں ایسے گم ہو جائیں کہ سوائے انوار قرآنی کے ہمارے وجود میں اور کوئی چیز نظر نہ آئے.آمین حضرت خلیفہ امسح الثالث نے اپنے خطبات اور خطابات میں متعدد مقامات پر قرآنی آیات کی تفسیر فرمائی جس میں قرآنی معارف کو پیش کیا.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر قرآنی تفسیر کے یہ حصے یکجا کر کے ان کو کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے.اس کی تین جلدیں ہیں اور دوسری جلد آپ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ جملہ احباب جماعت کو قرآن کریم کے معارف سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق دے اور اس اشاعت کے سلسلہ میں جن دوستوں کو کام کرنے کی توفیق ملی ان کو جزائے خیر دے اور ان کے علم میں برکت عطا فرمائے.آمین
فهرست آیات اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ | جلد دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت ۴ ۱۶ ۳۶ آيات سورة المائدة يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالله.يَأَهْلَ الْكِتَب قَدْ جَاءَ كُمْ.....يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ......1 ۱۴ لا ۴۱ تا ۵۱ المْ تَعْلَمُ أَنَّ الله له............۲۹ 1+4 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَد.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ.۱۱۵ ۱۱۶ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ..آيات سورة الانعام ۱۵ تا ۱۹ قُلْ اَغَيْرَ اللهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا..۳۸ ۶۷ و قَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ ايَةٌ.......قُلْ إِنِّي عَلى بَيْنَةٍ مِن رَّبِّي........وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُ.قُلْ اندعُوا مِن دُونِ الله.وَهَذَا كِتَبُ أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ ۷۲ ۹۳ ۱۰۴ 1+4 ۱۲۶ ۱۴۸ ۱۵۴ آیت صفحہ وَهَذَا كِتَبُ أَنْزَلْنَهُ مُبْرَك ۱۶۲ تا ۱۶۵ قُلْ إِنَّنِي هَدينِى رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ..آيات سورة الاعراف ۲۵ ۲۶ قالَ اهْبطوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ...۳۲ ۳۶ ۳۷ ۴۸ ۴۱ ۵۱ ۵۴ يُبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ.يبى آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ.وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا.AL ۹۶...1+9 ۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۵ ۱۳۶ ***** ******* ***** إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا وَ اسْتَكْبَرُوا..۵۷٬۵۶ أَدْعُوا رَبَّكُمْ تَطَرُّعًا وَخُفْيَةً.۱۴۷ ۱۵۷ ۵۹ ۶۴ 수수 قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللهِ كَذِبًا.۱۳۹ سَأَصْرِفُ عَنْ ايْتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُونَ ۱۴۱ وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً.۱۴۳ ۱۵۸ ۱۵۹ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِي....۱۵۲ 122 ١٨٨ ۷۴ ۷۵ ۲۵ ۲۶ LL ۲۸ ZA ۲۹ ۱۶۴ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلكِنه......١٦٤ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۱۶۵ آيات سورة الانفال أوليكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا.....١٧١ يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا........واتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ.......يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا.وَاعْلَمُوا اَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ..........۱۷۲ ۱۷۳ ۱۷۶ ۱۸۱ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ......وَكَذَلِكَ نُصَرِفُ الْآيَتِ وَلِيَقُولُوا..٦ فَمَن يُرِدِ اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحُ......فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل رَّبِّكُمْ.وَ أَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا.
فهرست آیات نمبر آیت آیت يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا ۴۴ ۴۵ إِذْ يُرِيكَهُمُ اللهُ فِي مَنَامِكَ.إذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَ الَّذِينَ.۶۴۶۳ وَإِن يُرِيدُوا أَن تَخْدَعُوكَ.يَأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ.وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا.|| صفحہ نمبر آیت 11.۱۸۲......۱۹۱ ۱۹۷ Δ ۱۹۸ ۶۲ ۲۰۰ آیت وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْير......آيات سورة هود وَ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَ إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَلِحًا جلد دوم صفحہ ۲۹۰ ۲۹۷ ۲۹۸ ۷۵ آيات سورة التوبة ۲۰۱ ۱۷ تا ۲۲ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا......۲۱۵ ۳۳ ۴۶ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ.وَ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا ۱۵۴ وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُم.۷۳ يأَيُّهَا النَّبِي جَاهِدِ الْكُفَّار.۹۹٬۹۸ وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ.۱۰۷ ۱۰۸ وَ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ۱۰۹ ۲۳۰ ۸۹ قَالَ يُقَوْمِ اَرءَ يُتُمْ إِنْ كُنْتُ......۳۰۴ ۱۱۴۴۱۱۳ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ..۲۲ ۲۳۵ ۴۱ ۲۴۰ ۵۴ ۲۴۲ ۶۸ ۲۴۵ ۸۸ ۲۴۸ ۹۳ أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلى تَقْوى........۲۵۱ ۱۲۹٬۱۲۸ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ..۲۵۳ آيات سورة يونس ۱۰۵ 1+2 آيات سورة يوسف ۳۰۵ ٣١١ ٣١٩ ۳۲۰ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ قُرْءنًا عَرَبِيًّا.وَ قَالَ الَّذِي اشْتَرَابِهُ مِن.........مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا.وَمَا أُبَرِئُ نَفْسِي اِنَّ النَّفْسَ.****** وَ قَالَ يُبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ ۳۲۱.......يبَنِي اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ.قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.وَمَا تَسْلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ..وَ مَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِالله.۳۳۰ ٣٣١ ۳۳۳ ۳۳۵ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء.۲۵۹ آيات سورة الرعد لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوَالِرَتِهِمُ الْحُسْنَى...۳۳۹ ۲۳ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ..۲۹٬۲۸ وَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَو.۳۴۲ ۳۴۸ آيات سورة ابراهيم وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ.۳۵۵ ۸ تا ۱۱ إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا.۱۹ ۲۶۰ ١٧١٦ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيْنت.....٢٦٩ ۵۹٬۵۸ يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ..۲۷۱ 1++ 1+1 وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَأُمَنَ مَنْ وَ مَا كَانَ لِنَفْسِ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا.۱۰۶٬۱۰۵ قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ.1+9.......۲۸۲ ۲۸۳ Λ ۲۸۴ قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ.......۲۸۷
فهرست آیات آیت جلد دوم صفحہ وَ قُرْآنًا فَرَقْنَهُ لِتَقْرَاهُ عَلَى.۴۳۳ ۳۰ آيات سورة الكهف وَ قُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ..۴۳۷ ۴۴۲ *** ۴۵۴ ۱۰۴ تا ۱۰۷ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ.......قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ نمبر آیت آیت ۱۳ وَمَا لَنَا الَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى الله....۲۶٬۲۵ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ ۳۲ ۳۵ ۳۸ ۴۱ 1.صفحہ نمبر آیت ۱۰۷ ۳۵۵ ۳۵۷.........قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا...۳۵۸ والكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ......۳۶۴ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِن...۳۶۵ آيات سورة الحجر إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا وَالْأَرْضَ مَدَدْنَهَا وَالْقَيْنَا.۴۶ تا ۵۱ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَعُيُونٍ....آيات سورة النحل وَقِيْلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَا ذَا انْزَلَ........۴۹ ۸۵ ۳۷۴ ۵۱ ۳۸۱ ۱۱۵ ۱۳۱ ۳۹۲ ۴۲ تا ۴۸ وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللهِ مِن.........۳۸۴ ۵۱ يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ.2049 وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ وَالله فَضَّلَ بَعْضَكُم عَلى...........|| ۱۰۷ ۱۲۶ وَ يَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ.مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِهِ.اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ..۱۲۹۴۱۲۸ وَاصْبِرُ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِالله..۲۶ آيات سورة مريم وَاعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ.فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا..آيات سورة طه ۲تا۵ طه ن مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ.فَتَعْلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ.فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ.آيات سورة الانبياء أَوَ لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ..٣٢ تا ٣٦ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ.....بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَ ابَاءَهُمْ..........۳۹۶ ۳۱ ۴۰۴ ۴۰۵ لد ۴۰۷ ۴۶ ۴۱۳ ۹۵ قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْي.۴۷۳ ۴۷۵ ۴۷۹ ۴۸۰ ۴۸۶ ۴۸۹ ۴۹۱ ۴۹۶ ۵۰۰ فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّلِحَتِ وَ هُوَ.....۵۰۱ آیات سورۃ بنی اسرائیل ١١۰۱۰۸ وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ.۵۰۲ ١١ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي..رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ..۵۵٬۵۴ وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتي.۴۲۳ ۴۲۸ آيات سورة الحج ۳۱ تا ۳۸ ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرمتِ.۵۲۳
جلد دوم صفحہ صفحہ نمبر آیت نمبر آیت آیت ΔΙ ۲۱۸ آيات سورة الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِين..........٢٠٢ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ.....٢٠٧ آيات سورة النمل ۶۰۹ ۶۱۱ ۶۱۳ ۶۱۴ ۶۱۵ ۶۲۰ ۶۲۳ ۶۳۰ ۶۳۱ آمَنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا.آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ.....آيات سورة القصص فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّى إِلَى الظَّلِ.فهرست آیات نمبر آیت ۴۰ ۴۷ آیت أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ.أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ ۷۹٬۷۸ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا.آيات سورة المومنون IV ۵۲۸ ۵۲۹ ۴ ۵۳۰ وَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ..۵۴۹ ۵۶ تا ۶۲ ايَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ.۹۷ تا ٩٩ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ..11 ۲۲ ۳۶ آيات سورة النور وَلَوْ لَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ..........يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا..۵۵۱ ۵۶۳ ۶۲ ۶۳ ۲۵ ۵۶۴ ۵۷ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ........۵۶۸ آيات سورة الفرقان الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ ۶۲۶۱ وَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ..LA وابْتَخفِيْمَا أتك الله الدّار.........آيات سورة العنكبوت ۲تا۳ الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا......وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا.******* ۲۰٬۵۹ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ...وَمَا هَذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا.۵۷۹ ۵۸۹ ۵۹۳ ۵۹۴ ۵۹۵ ۵۹۶ ۵۹۸ وَقَالَ الرَّسُولُ لِرَبِّ إِنَّ قَوْمِي.ارَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَويه.فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَ جَاهِدُهُمْ..قُلْ مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ.وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي.۳۱ ۴۴ ۵۳ ۵۸ ۵۹ ZA
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ سورة المائدة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المائدة بیان فرموده ا ا سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ آیت ۱، ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَابِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الهدى وَالْقَلَبِدَ آمِنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنْ ربِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَد وكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَ لا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ حقیقت یہ ہے کہ تمام حقوق العباد علامات ہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کی کیونکہ حقوق العباد کی ادائیگی یہ بتاتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار اور اس کی اطاعت کرنے والا ہے.جب ہم کسی شخص کا، کسی جاندار کا یا کسی بے جان مخلوق کا حق ادا کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اس مخلوق کے اپنی ذات میں کوئی حقوق تھے جنہیں ہم ادا کر رہے ہیں ہم ان حقوق کو اس لئے حقوق کہتے اور حقوق تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے ان حقوق کو قائم کیا ہے.اس بات کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے زمانوں میں بھی خال خال ایسا کیا اور اُس وقت کے انسان کو یہ سمجھایا کہ حقوق العباد کی ادائیگی اس بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے اور اس طرح سمجھایا کہ عقل کوئی اور
سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث دلیل یا کوئی اور مصلحت تجویز نہیں کر سکتی تھی مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے متعلق آپ کی قوم کو فرمایا کہ اسے کچھ نہیں کہنا، اب وہ اونٹنی اونٹوں میں سے ایک فرد تھی اُس کی یہ عزت اس کے اونٹنی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے یہ سبق تھا کہ تم میری اطاعت کرو اگر میں کہوں کہ اس اونٹ کی عزت کرنی ہے تو اگر تم میرے فرماں بردار ہو تو تمہیں اس اونٹ کی عزت کرنی پڑے گی.اس سبق کو بار بار یاد کرانے کے لئے اور اس لئے کہ ہم اطاعت باری پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں ہر سال لاکھوں اونٹ گائیں بھیڑیں اور بکریاں ہیں کہ جن کے متعلق اسلام میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ میں ان کو عزت دیتا ہوں اور تمہیں بھی ان کی عزت کرنی پڑے گی.شروع میں جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی مختلف عزتوں کو قائم کر کے یہ سبق دہرایا ہے اور اس نے یہ سبق بار بارد ہرایا ہے اور ہمیں اس پر پختہ طور پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی ہے چنانچہ فرمایا ہے لا تُحِلُّوا شَعَابِرَ اللهِ یعنی اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی بے حرمتی نہیں کرنی.شعائر کے معنی ہیں نشان اور علامات.اور نشانات اور علامات کے یہاں یہ معنی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نشانات اور علامات ہیں یہ اس کی فرماں برداری کے نشانات اور علامات ہیں اس کے علاوہ تمہیں اور کچھ نظر نہیں آئے گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں یہ علامت اور نشان قائم کر دیتا ہوں تم میرے حکم کی اطاعت کرو.یہ علامت اور نشان ایک ظاہری چیز ہوتی ہے جس کے اندر نہ تو عقل ہوتی ہے اور نہ شریعت اور انسانی فطرت اس کی کوئی بزرگی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے.خود اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ میں نے انسان کے علاوہ ہر مخلوق کو انسان کی خدمت پر لگایا ہوا ہے اور جن چیزوں کو انسان کی خدمت پر لگائے جانے کا قرآن کریم بار بار اعلان کر رہا ہے انہی میں سے اللہ تعالیٰ بعض کو لے لیتا ہے اور کہتا ہے تم نے ان کی عزت کرنی ہے تم نے ان کا احترام کرنا ہے، تم نے ان کی بے حرمتی نہیں کرنی کیونکہ یہ نشان ہیں اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کس چیز کا نشان ہیں تو ہم کہیں گے یہ اطاعت باری کا نشان ہیں.اس آیت میں حرمت کی بہت سی اقسام کو بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں جب چاہوں، جس وقت چاہوں اور جس زمانہ میں چاہوں کسی چیز کی حرمت اور اس کی عزت کو قائم کر دیتا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة ہوں مثلاً اس نے فرمایا میں نے شہر حرام کو حرمت اور عزت والا مہینہ بنایا ہے میں نے اسے شعائر اللہ سے بنایا ہے، اسے عظمت اور احترام والا مہینہ بنایا ہے.اب اس عزت اور حرمت کا تعلق زمانہ سے ہے اور اس میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ بعض زمانے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت معزز ہو جاتے ہیں اور جوان زمانوں مہینوں یا دنوں کی عزت اور احترام سے غافل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار نہیں حاصل کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اس جلسه ( جلسہ سالانہ ) کو بھی عزت اور حرمت والا زمانہ قرار دیا ہے چنانچہ یہ فرمایا ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی ، اس لئے جلسہ میں ضرور تشریف لائیں اور جو لہ سفر کیا جاتا ہے وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کی ہوتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۲) پس خالی شہر حرام کی حرمت اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں کی بلکہ اور زمانوں کی حرمت کو بھی اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے مثلاً اس سے بہت زیادہ حرمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی قائم کی ہے آپ کی تمام مکی اور مدنی زندگی جو تھی وہ سارا زمانہ عزت اور احترام والا زمانہ تھا.جب آسمانوں سے فرشتوں کا نزول ہوتا تھا اور وہ بڑی کثرت کے ساتھ انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی برکتیں بانٹ رہے ہوتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بعض مکانوں کو عزت دے دیا کرتا ہوں.اب ان مکانوں کی اینٹوں اور گارا یا سیمنٹ اور شہتیر یاری انفورس کنکریٹ کی جو چھت ہے اس کو تو کوئی عزت نہیں دیتا بلکہ انسان کے سامنے یہ بات ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اس مکان کو عزت والا مقام عطا فرمایا ہے اور ہمیں اس کی عزت کرنی پڑے گی.اگر تم یہ کہو کہ جس طرح کے مکان لاہور یا راولپنڈی یا پشاور یا کراچی یا لنڈن یا واشنگٹن کے ہیں اسی طرح کے مکان مکہ کے مکان ہیں اسی طرح کے مکان مدینہ کے مکان ہیں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان ہیں تو یہ غلط ہوگا کیونکہ بے شک ان سب مکانوں پرا مینٹ اور گا را یا دوسرا میٹریل (Material) جو لگا ہے وہ ایک جیسا ہے لیکن ایک وہ گھر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت عطا نہیں کی اور ایک وہ مکان ہے جس کو اللہ تعالیٰ عزت اور احترام دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ عزت اور احترام دے تمہیں اس کی عزت کرنی پڑے گی یہاں اس آیت میں چونکہ بیت الحرام کی عزت کا ذکر ہے اس لئے یہ حرمت مکان سے تعلق رکھنے والی ہے پھر انسان کی حرمت ہے اور پھر انسانوں میں سے مسلمان کی حرمت ہے اس حرمت کو بھی اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے
سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے انسانوں کی حرمت کو بھی قائم کیا گیا ہے جو اپنے رب کے فضل اور اس کی رضا کی تلاش میں ہیں اب اللہ تعالیٰ نے یہ عام اصول وضع کر کے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اور ہمیں یہ کہا ہے کہ میرے بندوں میں سے ہر وہ بندہ جو میرے فضل کی تلاش میں ہے وہ میرے نزدیک معزز اور محترم ہے.تمہیں بھی اس کی عزت اور احترام کرنا پڑے گا اور اگر تم اس کی عزت نہیں کرو گے اس کا احترام نہیں کرو گے تو میری اطاعت کے دائرہ سے باہر ہو جاؤ گے.پھر بعض حرمتیں انسان کی قائم کی گئی ہیں مثلاً انسان کی یہ عزت اور حرمت قائم کی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے کسی انسان پر ظلم نہیں کرنا ( اسی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے یہ مفہوم بیان ہوا ہے ) اور کسی پر تعدی نہیں کرنی.پھر انسان کی یہ حرمت بیان کی کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس سے تعاون کر نا اور نیکی اور بھلائی کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں ایک کام تو دنیا سے تعلق رکھنے والے ہیں یعنی وہ کام دنیا کی معاش اور دنیا کی اقتصادیات سے تعلق رکھتے ہیں اور اس میں ایک مسلمان اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں ہوتا مثلاً اسلام نے ایک انسان کے اقتصادی حقوق قائم کئے ہیں اب اگر کوئی غیر مسلم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق یا کچھ فرق کے ساتھ (بہر حال نیکی کی طرف اس کی طبیعت مائل ہے ) انسان کے اقتصادی حقوق کو قائم کرتا ہے تو مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس سے تعاون کرے.کیونکہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِ وَالتَّقوی میں تعاون علی البر میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی شرط نہیں گو تعاون علی النقوی میں وہ شرط آ جاتی ہے پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں غریب کے محتاج کے، ضرورت مند کے اور مظلوم کے سیاسی اور اقتصادی حقوق دینے کا سوال ہوگا وہاں جو کوئی تقویٰ کے اصول پر یعنی اللہ تعالیٰ سے خوف کرتے ہوئے اور اس کی پناہ میں آکر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے یہ کام کرے گا ہر دوسرے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کرے اور پھر فرمایا کہ انسان کا یہ حق ہم نے قائم کیا ہے کہ جب وہ گناہ کرنے لگے تو تم نے اس سے تعاون نہیں کرنا.غرض انسان کی یہ حرمت بھی ہے کہ گناہ میں اس سے تعاون نہیں کرنا کیونکہ اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے اور بھی زیادہ آجائے گا اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم سب برابر ہیں......میں نے بتا یا تھا کہ زمانہ اور مکان اور مخلوق کی حرمتوں کو اللہ تعالیٰ نے قائم کر کے ہر اس چیز کو، ہر اس مخلوق کو اور ہر اس انسان کو جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حکم دیا اور اس کے حق کو قائم کیا ہے شعائر اللہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة بناد یا یعنی اس بات کی علامت بنا دیا کہ تم مسلمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہو یا حکم عدولی کرتے ہوئے اس کی اطاعت سے باہر نکلتے ہو اور اس کے غضب کے دائرہ کے اندر داخل ہوتے ہو.آپ نے فرمایا جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اس کے مال اور عزت و ناموس کو مقدس قرار دیا ہے.شعائر اللہ بنادیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال اور کسی کی عزت پر حملہ کرنا ایسا ہی ناجائز ہے جیسا کہ اس مہینے اور اس علاقے اور اس دن کی ہتک کرنا پھر آپ نے فرمایا یہ حکم آج کے لئے نہیں ، کل کے لئے نہیں بلکہ اس دن تک کے لئے ہے کہ تم خدا سے جا کر ملو پھر فرمایا یہ باتیں جو میں آج تم سے کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ کیونکہ ممکن ہے کہ جولوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے آج نہیں سن رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اور آپ سے پہلے جو چھوٹے چھوٹے اولیا ء امت گزرے ہیں انہوں نے بھی اپنے اپنے وقت میں بہت ساری چیزوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام کی روشنی میں یہ اعلان کیا کہ یہ شعائر اللہ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت اور عزت قائم کی ہے اس اصول کے مطابق مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو میرے فضل کی تلاش میں ہے وہ میری عزت اور میری حرمت کے دائرہ کے اندر ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ سالانہ کوشعائر اللہ میں شامل کیا ہے کیونکہ ایک تو یہ وہ زمانہ ہے جس میں ہم صرف اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں.یہاں اس اجتماع میں ہماری اپنی کوئی ذاتی غرض اور مقصد نہیں ہے پھر لوگ ہر قسم کی تکالیف اٹھا کر محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے حصول کے لئے مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے یہاں آ رہے ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی تلاش میں سفر کر رہے ہوتے ہیں اور اسی کی طرف پہلی آیت جو میں نے پڑھی تھی اشارہ کر رہی ہے.میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قابل عظمت قرار دیا ہے پھر انسانوں میں سے بعض انسان ایسے ہیں کہ جن کی عزت اور عظمت کو حق طور پر خدا تعالیٰ قائم کرتا ہے.سب سے زیادہ معزز اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عرب توں کی تقسیم کا سرچشمہ اور منبع تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے آپ کی اُمت میں آپ ہی کے منشاء کے مطابق اور بھی ایسے وجود پیدا ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة بڑی عزت اور عظمت عطا کی تھی.کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس شخص کو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی عزت اور عظمت نہیں جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۰۰ سال پہلے اپنا سلام بھجوایا تھا ۱۳۰۰ سال پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ایک پیارا اپنے اس روحانی فرزند کے لئے جوش مار رہا تھا اور اس جوش کے نتیجہ میں آپ نے کہا کہ جب وہ آئے تو اپنی طرف سے تم نے اسے سلام پہنچانا ہی ہوگا.میری طرف سے بھی اسے سلام پہنچا دینا.(طبرانی الاوسط والصغير) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں اپنی اولا د (روحانی) میں سے جو وجود اس قدر عزت اور احترام رکھتا ہے کہ آپ اسے سلام بھیجتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صاحب عزت و احترام نہیں وہ یقیناً صاحب عظمت واحترام ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جو مختلف نشان دیئے اور علامات دیں اور آپ نے جو پیشگوئیاں فرمائیں اور جو وقت کی ضرورت کے مطابق اسلام کے تقاضے آپ نے بتائے وہ سب شعائر اللہ میں شامل ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے شعائر اللہ کے معنی ہیں وہ علامات جو یہ بتاتی ہیں کہ ان کی عزت کر کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے اور ان کی بے حرمتی کر کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی مبشر اولاد کے متعلق بھی ایک فقرہ میں یہ بتایا ہے کہ یہ شعائر اللہ ہیں اور ان کی عزت کرنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلام بھجوایا تھا اسی سے ملتا جلتا یہ فقرہ ہے آپ فرماتے ہیں کہ یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی ضروری سمجھتا ہوں“.(الحکم ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء) اب جس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرض سمجھتے ہیں آپ کے جو تبع ، پیرو اور آپ کی بیعت میں شامل ہیں وہ بات ان پر بھی فرض ہے جو اس سے انکار کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع سے انکار کر رہا ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۰۱۵ تا ۱۰۲۵)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ط سورة المائدة آیت ۴ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أكل السَّبْعُ إِلَّا مَا ذَكَيْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصْبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوا بالأزلام ذَلِكُمْ فِسْقٌ اَلْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطَرَ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِاثْمٍ فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيم , لا قرآن کریم کے نزول کے بعد ، وحی قرآن کے نزول کے بعد اب کسی ہدایت کی ضرورت نہیں رہی نہ تھوڑی نہ بہت اور قرآن كريم الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَيْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي خدا تعالیٰ نے ایک کامل مکمل شریعت کو ہمارے ہاتھ میں دے کر اپنی نعمتوں کو انتہا تک پہنچادیا تو کوئی چیز قرآن سے باہر نہیں قرآن کی تفسیر ہے قرآن کی تفسیر خود قرآن کے مطابق زمانوں زمانوں میں بدلتی جائے گی بدلتی اس معنی میں نہیں کہ اختلاف ہوگا پہلی کے ساتھ بلکہ اس معنی میں کہ جو مسائل اس زمانہ کے ہوں گے اور پہلے زمانوں کے وہ مسائل نہ ہونے کی وجہ سے پہلے زمانوں کے خدارسیدہ بزرگ اولیاء کو وہ تفسیر نہیں سکھائی گئی ہوگی وہ خدا تعالیٰ اس زمانے میں ایسے مقربین پیدا کرے گا مطہرین جن کو وہ خود معلم بن کر قرآن کریم سکھائے گا اور دنیا کی ہدایت کے سامان پیدا کرے گا.(خطابات ناصر جلد دوم صفحہ ۲۶۳) قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے.اس نے اپنے کمال کا خود اعلان کیا ہے چنانچہ ہمارے ربّ کریم نے فرمایا اليَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی پر ہر قسم کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں لیکن ان نعمتوں سے حصہ پانے والے اُمت محمدیہ کے ایمان دار لوگ ہیں.ہر انسان ان نعمتوں سے خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر ہی حصہ پاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ (قرآن) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ورة المائدة سور دینکم کا تاج لازوال اپنے سر پر رکھتا ہے اور تبیان تكُلّ شَىءٍ (النحل: ٩٠) کے وسیع اور مرضع تخت پر جلوہ افروز ہے.“ الحق مباحثہ لدھیانہ روحانی خزائن جلد نمبر ۴ صفحه ۱۰۴) قرآن کریم ہی نے اپنے کمال کے متعلق بتایا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم تو اس سے کیا مراد ہے کس قسم کا کمال یا کس قسم کے کمالات اس میں پائے جاتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أَكُلَهَا كُل حِينٍ بإِذْنِ رَبّهَا (ابراهیم: ۲۶،۲۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن کریم کی یہ آیت قرآن کریم کے کمال کے تین پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو قولِ ثابت عطا کرتا ہے یعنی ایسا قول عطا کرتا ہے جو ثابت شدہ ہے اور مدلل ہے اور جس کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں اور انسان کو ثابت قدم رکھتا ہے.اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ثبات قدم کے لئے تعلیم کا مدلل ہونا ضروری ہے.تعلیم اپنی ذات میں ہزار دلائل رکھے اگر وہ ہماری سمجھ میں نہ آئیں، اگر ہم ان کا مطالعہ نہ کریں اور اگر ہماری ان سے واقفیت نہ ہو، اگر ہم ان کا علم نہ رکھیں تو ہم ثابت قدمی نہیں دکھا سکتے اس لئے خدا تعالیٰ نے ثابت قدم رہنے کا طریقہ قرآن کریم کی تعلیم بتایا ہے.گویا قرآن کریم کے پاک اور مقدس کلام کا کمال ان آیات میں تین باتوں پر موقوف قرار دیا گیا ہے.اول یہ کہ اس کے اصول ایمانیہ ثابت اور محقق اور فی حد ذاتہ یقین کامل کے درجے پر پہنچے ہوئے ہوں اور اس کی دوسری شق یہ ہے کہ فطرت انسانی اس کو قبول کرتی ہو.مذہب اور ایمان کے جو اصول ہیں ان کی بنیادی غرض یہ ہے کہ خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ انسان کا ایک تعلق قائم ہو جائے اسی لئے کلمہ لا إله إلا الله اصول ایمانیہ کی بنیاد ہے.چونکہ ایمان کے سارے اصول خدائے واحد و یگانہ کی طرف لے جانے والے ہیں اور توحید باری تعالیٰ فی ذاتہ محقق ہے اور یہ جو کائنات ہے جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہیں جیسا کہ آج کے سائنسدانوں کا ایک حصہ اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ اس کائنات کی پیدائش کو محض اتفاق نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ مانا پڑتا ہے کہ کوئی مدبر بالا رادہ ہستی ہے جس نے یہ کائنات تخلیق کی ہے ، اس کا ارادہ اور حکم
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة المائدة اس میں چلتا ہے.غرض ساری کائنات کا اس اصول کے ساتھ بندھا ہوا ہونا اور ہمارے علی رے علم میں یہ بات آنی کہ کائنات کی ہر چیز کو انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے.ہر چیز انسان کی خدمت پر لگا دی گئی جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد نمبر ۶ صفحہ ۱۲۵) ہے.یہ خود اپنی ذات میں متصرف بالا رادہ ہستی کے وجود پر ایک بڑی زبردست دلیل ہے یعنی اس کائنات میں کوئی انتشار نہیں پایا جاتا.مخلوقات کی اتنی تعداد ہے کہ انسان کا ذہن اپنے تصور میں بھی وہ تعداد نہیں لاسکتا انسان کی سب گنتیاں ختم ہو جاتی ہیں.کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت پر لگا دی گئی ہے، انسان کے لئے اس کی تسخیر ہے یعنی کائنات کی ہر چیز کوخدا کا حکم ہے کہ اس نے انسان کی خدمت کرنی ہے.پس جب ہم کائنات پر غور کرتے ہیں تو لا اله الا الله جو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے وہ ثابت ہو جاتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں.یعنی یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ایسا ہو گیا ہو.اب تو سائنسدانوں نے اتفاق کو سائنس بنادیا ہے.اس علم کو مدون کر دیا ہے اور اس کا نام انہوں نے سائنس آف چانس رکھا ہے.دس پندرہ سال ہوئے مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ملی تھی سائنس آف چانس پر.میں نے اس کا مطالعہ کیا تھا.اب یہ علم آگے بڑھ گیا ہوگا لیکن جو بعد کی کتب ہیں وہ میرے مطالعہ میں نہیں آئیں.جس مختصر سی کتاب کا میں ذکر کر رہا ہوں اور جو نئی نئی آئی تھی اس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ سائنس آف چانس کے نتیجہ میں چوٹی کے سائنسدانوں کا ایک گروہ اس بات کی طرف آ گیا تھا کہ انہیں بھی ماننا پڑے گا کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جو اس کا پیدا کرنے والا ہے.کوئی مدبر بالا رادہ ہستی ہے جو اس دنیا کو پیدا کرنے والی ہے.یہ کائنات خود بخود اتفاقیہ طور پر اور بے مقصد معرضِ وجود میں نہیں آگئی کیونکہ اتنے چانسز (Chances) اتنے اتفاقات اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے خصوصاً جب یہ بات ہمارے سامنے ہو کہ یہ سارے اتفاقات ( جن کو دہر یہ لوگ اتفاقات کہتے ہیں ) اکٹھے ہو جا ئیں انسان کی خدمت کے لئے.صرف اربوں کھربوں کی بات نہیں بلکہ اگر ان کو آپس میں ضرب دی جائے تب بھی ان کی تعداد زیادہ بنتی ہے.بہر حال سائنسدانوں اور دانشوروں کا ایک طبقہ اس کا ئنات کو دیکھ کر اس طور سوچنے لگ گیا ہے کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہے.انسان فطرت صحیحہ رکھتا ہے اس کے سامنے جب یہ چیز آتی
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد نمبر ۶ صفحہ ۱۲۵) ہے تو وہ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو اتفاق نہیں کہہ سکتے ضرور کوئی مد بر بالا رادہ ہستی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے.اب میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی یہ تمام مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مدبر بالا رادہ بھی ہو اور ستجمع جمیع صفات کا ملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.“ یہ اقتباس اپنے اندر ایک وسیع مضمون رکھتا ہے.اس وسعت میں تو اس وقت نہیں جاؤں گا کسی اور موقع پر بیان کیا جاسکتا ہے.قرآن کریم کے کمال کی دوسری بات یہ بتائی گئی کہ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ایک تو یہ کہ اصولِ ایمانیہ لا إله إلا الله ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جس سے کوئی سعید فطرت انسان انکار نہیں کر سکتا.انسان کی فطرت کے اندر بھی یہ بات پائی جاتی ہے اور اس کائنات کا مطالعہ کرنے سے بھی مدلل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ منتشر نہیں.مثلاً ستارے ہیں ان میں کوئی مشرق کی طرف چل رہا ہوتا ہے اور کوئی مغرب کی طرف چل رہا ہوتا ہے مگر ان کو بھی ہر دوسری چیز کی طرح بعض معین نسبتوں میں باندھا گیا ہے.دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کا وہ قانون جو اس کائنات میں نافذ ہے اور قانونِ قدرت جو اس عالم میں کام کر رہا ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام پاک قانونِ قدرت کے ساتھ موافقت رکھتا ہے اور یہ بڑا لطیف مضمون ہے کہ خدا کا کلام اور خدا کا فعل اور خدا کے فعل کے نتیجہ میں انسانی فطرت جس کے لئے یہ کائنات بنائی گئی ہے ان تینوں میں ایک بڑا مضبوط رشتہ قائم ہے.غرض اس کا ئنات میں جو قانون نافذ ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کی نشو و نما کرے یعنی کائنات کی ہر چیز کو ( مختلف اور بے شمار مخلوقات ہیں ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس نے اس طرح پر انسانی فطرت کی نشو و نما کرنی ہے اور اس طرح ان کے کام آنا ہے.استعدادوں کو تقویت دینے والا اور وسعت دینے والا اور اس کمال کو پہنچانے والا یہ قانونِ قدرت خدا تعالیٰ نے بنایا ہے اور اس قانونِ قدرت کے عمل کے نتیجہ میں انسانی فطرت، انسانی قومی یا فطرت انسانی کے قومی اور
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة اس کی استعدادوں میں ایک تقویت پیدا ہورہی ہے.کمال کی طرف ان کی حرکت ہے اور آدم کی نسل کے انسان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اپنی فطری استعداد کو کمال تک پہنچا دیا تھا اس لئے انسان کی ہدایت کے لئے قرآن کریم نازل ہوا.قرآن کریم ہی کے بعض حصے اس تعلیم پر مشتمل ہیں جو پہلوں کو دی گئی تھی.گو یا خود قرآن کریم کی تعلیم کے بعض حصے ہی مختلف انبیاء کے وقتوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے ان کی فطری نشو و نما کے لئے کام کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانی فطرت کی استعداد اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اس لئے پورا قرآن کریم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.ایک طرف قوانین قدرت جو کائنات میں نافذ تھے ان کو مسخر کیا گیا انسان کی نشو و نما کے لئے اور اس کی بقا کے لئے اور اس کی قوتوں کی حفاظت کے لئے اور اس کی قوتوں میں جان پیدا کرنے کے لئے اور دوسری طرف انسان کو ایسی فطرت دی گئی اور ایسی استعداد دی گئی کہ ایک طرف وہ قوانین قدرت کے نتیجہ میں کائنات سے استفادہ کر رہی تھی.اس سے خدمت لے رہی تھی اور دوسری طرف کلام پاک پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ قرب کے حصول کے لئے کوشش کر رہی تھی.پس فَرْعُهَا فِي السَّمَاء کا ایک کمال تو یہ ہے کہ قانون قدرت کلام پاک کی تعلیم کا مؤید ہے اور اس کے کمال کو ظاہر کرنے والا ہے کیونکہ قانون قدرت کا کمال اور کلام پاک کا جو کمال ہے وہ ایک دوسرے کی عظمت کو ثابت کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ کا فضل اس کلام کے ساتھ مل کر ایک عجیب شان اس کی صفات کے جلووں کی انسان کے سامنے لے کر آتا ہے.فَرعُهَا فِي السَّمَاءِ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ تعلیم آسمان کی رفعتوں تک پہنچ گئی یعنی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا تھا قرآن کریم سے پہلے جو تعلیمیں آئیں مختلف انبیاء کی طرف ان کے متعلق ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ مختص القوم اور مختص الزمان تھیں یعنی ہر نبی ایک خاص قوم کی طرف ایک خاص زمانہ میں آیا اور اس وجہ سے ان کی تعلیمات مجمل بھی تھیں اور ناقص بھی تھیں اس لئے کہ ابھی اس زمانے میں اس نبی کی جو امت تھی اس کی پوری نشو ونما نہیں ہوئی تھی یعنی جو پہلے نبی گزرے ہیں ان میں سے ہر ایک نبی کی استعدادا بھی کمال کو نہیں پہنچی تھی مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جو تعلیم تھی اس میں عام افادہ کی قوت نہیں پائی جاتی تھی کہ ساری دنیا کے انسان کے لئے وہ راہنمائی اور ہدایت کا
سور ورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث باعث بن سکے اور یہی حال دوسرے انبیاء کا بھی تھا لیکن جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت انسان کی استعداد میں بحیثیت انسان اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں اور قرآن کریم مختص القوم اور مختص الزمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے تعلیم اور ہدایت لے کر دنیا کی طرف آیا تعلیم کے لحاظ سے کامل تعلیم اور اثر کے لحاظ سے کامل تکمیل لے کر آیا یعنی اس نے انسان کی جو تربیت کرنی تھی اور اس کی تکمیل کرنی تھی وہ بھی کمال کی تھی.غرض قرآن کریم تمام قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تکمیل کے لئے آیا اور ایسے زمانہ میں آیا جب کہ انسان کی استعداد میں اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں.ایک طرف انسان کی استعداد اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اور دوسری طرف زمین بھی گناہ اور بدکاری اور مخلوق پرستی سے بھر گئی تھی اور اس کے لئے اصلاح عظیم کی ضرورت تھی.انسان کی استعداد قرآنی تعلیم کی حامل ہوسکتی تھی مگر وہ خدا سے اتنی دور جا پڑی تھی کہ گویاز مین پر ایک فساد عظیم بپا ہو چکا تھا.اس فساد عظیم کو دور کرنے کے لئے ایک عظیم تعلیم کی ضرورت تھی.ایک کامل اور مکمل ہدایت کی ضرورت تھی.اس کے بغیر وہ فساد دور نہیں ہوسکتا تھا.ساری دنیا میں فساد پھیلا ہوا تھا.انسان کے دل میں اپنے پیدا کرنے والے رب سے دُوری اور بیزاری پائی جاتی تھی، گویا مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی ، شمال میں بھی اور جنوب میں بھی فساد بر پا تھا.اس لئے دنیا میں فساد مٹانے اور انسانی استعداد کو روحانی میدانوں میں آگے سے آگے بڑھنے اور روحانی رفعتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے کامل ہدایت کی ضرورت تھی پہلی ہدا یتیں اس کے لئے کافی نہ تھیں.پس قرآن کریم کی کامل ہدایت آگئی جس سے انسانی استعداد کی کامل نشو ونما ہوئی اور دنیا سے فساد کا سدِ باب بھی ہو گیا.اگر چہ پہلی تعلیمیں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی تھیں لیکن کامل تعلیم قرآن کریم کی تعلیم ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہے.خدا تعالیٰ نے اس کا نام اسلام رکھا اور اس طرح وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینا کا اعلان کر دیا گیا.تیسرا کمال کلام پاک کا یہ ہے کہ تُونِي أَكُلَهَا كُل حِينِ بِإِذْنِ رَبَّبها قرآنی تعلیم ہر وقت اور ہر آن اور ہر ایک کو اپنا پھل دیتی ہے.باذن ربها میں بنیادی حقیقت کا اظہار بھی کر دیا کہ انسان کی ساری کوشش اور تدبیر بے نتیجہ ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہو لیکن انسان کی کامل تدبیر اور کامل کوشش ناممکن تھی خدا کی راہ میں اگر قرآن کریم نہ ہوتا کیونکہ یہ کامل ہدایت پر
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة مشتمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری طرف کامل ہدایت بھیج دی گئی ہے.اس پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تم اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق پوری کوشش کرو لیکن یہ نہ بھولنا کہ خدا تعالیٰ کی رضا خدا کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں ہے.اسی کے فضل اور رحمت سے خدا کا پیار انسان کو ملتا ہے.تُؤْتِ أَكلَهَا كُل جین میں جس پھل کا ذکر ہے وہ دراصل لِقا ء باری ہے.خدا کی لقاء اور اس کا قرب اس تعلیم کا پھل ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک اُمت محمدیہ میں لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے اس کامل تعلیم کا پھل کھایا اور اس سے ان کی روح نے زندگی اور تازگی اور تقویت پائی یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے اور انہیں لقاء الہی حاصل ہوئی.....پس اليوم اكمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ کی رو سے قرآن کریم کی تعلیم تین کمالات کا مجموعہ ہے.اصول ایمانیہ کے لحاظ سے اصلها ثابت اور اس کے کمال کے لحاظ سے فَرْعُهَا فِي السَّمَاء اور اس کے شیریں ثمرات کی رو سے تُوج أكُلَهَا كُل حِينِ بِإِذْنِ رَبِّهَا لیکن یہ تیسری چیز یعنی تُونِ أَكُلَهَا كُل حِينٍ بِإِذْنِ رتبھا میں انسان کی کوشش کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے.آج کل آموں کا موسم ہے، اگر کہیں نہایت اعلیٰ درجہ کا یہ پھل پڑا ہو مثلاً کسی نے اپنے گھر کی میز پر رکھا ہو اور وہ اسے نہ کھائے تو اس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.پس اگر چہ یہ پھل بہت اچھا ہوتا ہےاور خوشبودار ہوتا ہے اور بڑا میٹھا اور لذت والا ہوتا ہے.ہر قسم کی بیماری سے پاک ہوتا ہے، انسان کی پوری نشو و نما کی خصوصیت رکھتا ہے لیکن یہ فائدہ تبھی دے سکتا ہے جب صاحب خانہ اس کو کھائے بھی.اگر وہ نہ کھائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.پس توتي احلما میں یہ بتایا گیا ہے کہ پھل تیار ہے اور تمہارے سامنے رکھا ہوا ہے مگر باذن رتبھا کی رو سے تم خدا سے دعا کرو کہ تمہیں اس کے صحیح استعمال کی توفیق بھی ملے اور اس پھل کا جو بہترین نتیجہ انسان کے حق میں نکل سکتا ہے یعنی لقاء باری ، وہ بھی تمہیں حاصل ہو جائے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۲۳ تا ۱۳۱)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۴ سور ورة المائدة آیت ۱۶ يَاَهْلَ الْكِتَب قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا ممَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَبِ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نور و كتب مبين.قرآن عظیم کے دو پہلو ہیں.ایک اس کا کتاب مبین ہونا ہے اور دوسرا پہلو اس کا کتاب مکنون ہونا ہے.کتاب مبین ہونے کی ابتدا یعنی قرآن عظیم کا یہ پہلو جو پہلی مرتبہ نوع انسانی کو نظر آیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی اور لسانی تفسیر کے ساتھ ہے یعنی آپ کی زندگی قرآن کریم کی عملی تفسیر تھی اور آپ کے ارشادات قرآن کریم کی لسانی تفسیر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت کی اور ہم اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد تفسیر قرآن ہے.وہ قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کیونکہ اگر اس کو اضافہ سمجھا جائے تو قرآن کریم کو نعوذ باللہ اس حد تک ناقص سمجھا جائے گا حالانکہ قرآن عظیم میں کوئی نقص اور خامی اور کمی نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن پر عمل اور آپ کے ارشادات قرآن کریم کی تفسیر ہیں.پس پہلا انسان وہ انسانِ کامل تھا جس نے اس کامل شریعت اور ہدایت کی اپنے عمل اور اپنی زبان سے تفسیر کی اور اس کے بطون میں سے بعض کی تفصیلی تفسیر کر دی اور بعض کی اجمالی تفسیر کی جو مخفی بطون کی صحیح تفسیر کو پرکھنے کے کام آ سکتے ہیں.بہر حال جو تفصیلی تفسیر قرآن آپ نے فرمائی اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کا کتاب مبین ہونا دنیا میں ظاہر ہو گیا.اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتباع اور آپ سے محبت رکھنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے بننے کے بعد امت محمدیہ میں لاکھوں ایسے مقترب فرزندانِ اسلام پیدا ہوئے جن کا معلم، معلم حقیقی اللہ تبارک و تعالی خود بنا اور مطہرین کے اس گروہ نے اپنے اپنے زمانہ میں اس زمانہ کی حاجتوں اور ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے قرآن عظیم کی تفسیر سیکھی اور اپنے زمانہ کے لوگوں کے سامنے اسے بیان کیا.اپنے زمانہ کے جو نئے اعتراضات اسلام اور قرآن عظیم پر پڑ رہے تھے ان کا رڈ کیا اور انہیں غلط ثابت کیا لیکن کتاب مبین کی ابتدا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اور آپ کے ارشادات اور آپ نے جس طرح قرآن عظیم کی تفسیر بیان کی اس سے قرآن عظیم کی ابدی صداقتیں اور بنیادی حقیقتیں بھی اور بطون بھی تفصیلاً یا اجمالاً دنیا
۱۵ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کے سامنے آگئے کیونکہ جو مخفی بطون تھے اور قیامت تک جنہوں نے ظاہر ہونا تھا ان کی طرف بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجمالی اشارے کئے.اس وقت میں اس مضمون کی طرف توجہ نہیں دوں گا.جس طرح کتاب پڑھنے والا ہر صفحہ پڑھنے کے بعد کتاب کا صفحہ الٹاتا ہے اسی طرح ہر زمانہ کے مطہرین نے زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کے لحاظ سے قرآن عظیم کے نئے بطون کو سیکھا اور سیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے حاجت زمانہ کے مطابق نئی تفسیر قرآن دنیا کے سامنے پیش کی جو نئے اسرار وبطون قرآنی کے ظہور کے بعد کتاب مبین کا حصہ بن گئی.بدلتے ہوئے زمانہ کے ساتھ ظاہر ہو جانیوالے رموز و اسرار قرآنی جو مبین اور کھلے کھلے علوم قرآنی ہیں ان کی بھی دو وجوہات کی بنا پر آج ضرورت ہے.ایک اس لئے کہ ماضی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کے وہ معانی اور اسرار اور معارف اور حقائق کے حصے جو ماضی کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے اور جو ماضی کے اعتراضات کو رڈ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے تھے کہ دنیا کے سامنے پیش کئے جائیں.وہ سارے اعتراضات ایسے نہیں کہ جو قصہ پارینہ بن گئے ہوں بلکہ ہر آنے والے کو اساطیر الاولین بھی کہا گیا کہ اس کی باتیں تو وہی ہیں جو پہلوں نے کہی تھیں.اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان باتوں پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو پہلوں نے کئے تھے.چونکہ اسلام پر ماضی کے اعتراضات خود کو دہراتے ہیں اس لئے ان اعتراضات کے جو صحیح اور مسکت جوابات ہیں جو کتاب مبین کا حصہ ہیں انہیں بھی ہمیں دہرانا پڑتا ہے.پس کتاب مبین کی آج بھی ضرورت ہے یعنی وہ صحیح اورحقیقی تفسیر قرآنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم سے پہلوں نے کی اس کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی اور لسانی تفسیر کی ہر آن ضرورت ہے ہمارا بیان بعد میں آنے والی مظہرین کی جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے ) اس لئے کہ تفسیر کے جس حصہ کا تعلق ماضی کے اعتراضات کو دور کرنے کے ساتھ ہے جب وہ اعتراضات آج بھی دہرائے جاتے ہیں اور جس حد تک وہ اعتراضات اب بھی دہرائے جاتے ہیں اس حد تک کتاب مبین میں جوان اعتراضات کے مسکت جوابات ہمیں ملتے ہیں وہ ہمیں یاد ہونے چاہئیں.پس ایک تو قرآن سیکھنا اور سکھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ ابدی صداقتوں کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة ساتھ تعلق رکھتا ہے اسی طرح اس کا تعلق کتاب مبین کے اس حصہ کے ساتھ ہے جو اعتراضات کو رفع کرنے والا ہے اور پہلوں نے اللہ تعالیٰ سے سیکھا اور جس کی آج بھی ہمیں ضرورت ہے.دوسرے نئے معارف قرآنی نئی ضرورتوں کو پورا کرنے اور نئے مسائل کو حل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائے گئے جو مسائل اور الجھنیں مثلاً آج سے ہزار سال پہلوں کی تھیں وہ مسائل یا ان میں کچھ کا تعلق آج سے بھی ہے یعنی مسائل بالکل ہی بدل نہیں جاتے.بہت سے مسائل انسانی زندگی کے ایسے ہیں جو اپنے آپ کو دہراتے ہیں جو اصرار کرتے ہیں اس بات پر کہ ہم بار بارآ ئیں گے اور تمہارے لئے الجھنیں پیدا کریں گے.ان بار بار الجھنیں پیدا کرنے والے مسائل کا حل پہلوں کو سکھا دیا گیا کیونکہ ماضی سے اس کا تعلق ہے اور جو ان مسائل کوحل کرنے کے لئے معارف اور حقائق اور اسرار قرآنی پہلوں کو بتائے گئے تھے آج ان کی ضرورت باقی رہی.اس سے ہم غنی اور بے نیاز نہیں بن جاتے.پس کتاب مبین کا حصہ بھی ایسا نہیں جس کی ہمیں ضرورت نہ ہو بلکہ ان دو وجوہ کی بنا پر ہمیں آج بھی ان کی ضرورت ہے ایک اس لئے کہ آج سے ہزار سال پہلے جو اعتراضات اسلام پر کئے گئے تھے ان میں سے بہت سے اعتراضات اسلام پر آج بھی کئے جارہے ہیں.پس ان کے جوابات پہلے بزرگوں کو خدا تعالیٰ نے سکھائے اور کتاب مبین میں وہ موجود ہیں ہمیں ان کی بھی ضرورت ہے.اس لئے ہمیں کتاب مبین کو بھی پڑھنا چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.پھر آج سے پانچ سو سال پہلے یا ہزار سال پہلے نوع انسانی کو یا نوع انسانی کے بعض حصوں کو جن مشکلات اور الجھنوں کا سامنا تھا آج بھی نوع انسانی کے بعض گروہوں کو بعض قوموں کو بعض مقامات پر اس قسم کے بعض مسائل اور الجھنوں کا سامنا ہے اور قرآن کریم نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اور الجھنوں کو دور کرنے کے لئے ہم سے پہلے بزرگوں کو قرآن کریم کی تعلیم بتادی تھی کہ قرآن کریم کی تعلیم اور ہدایت ان مسائل کو اس رنگ میں حل کرتی ہے اور اس میں نوع انسانی کا فائدہ ہے.اس لحاظ سے بھی کتاب مبین کا جاننا ہمارے لئے ضروری ہے.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۲۹۷ تا۳۰۰)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة آیت ۳۶ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِى سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ جو مختصرسی آیت اس وقت میں نے تلاوت کی ہے اس میں نہایت حسین پیرایہ میں ایک نہایت ہی بنیادی اہمیت کا مضمون بیان ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی کتب اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کی کوئی غرض ہوتی ہے انسان کسی مقصد کے پیش نظر دنیا سے منہ موڑتا اور دنیا والوں کی دشمنی خرید کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا اور یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کو جیسا کہ وہ چاہتا ہے اپنی ذات میں کامل اور اپنی صفات میں کامل سمجھے گا اور اس بات پر یقین کرنے کا اعلان کرتا ہوں اسی طرح وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان لایا ہوں اور جو پہلے رسول گزرے ہیں اور جو کتب نازل ہوئی ہیں ان پر بھی ایمان لایا ہوں اور ايمان بالله، ايمان بالرسل اور ایمان بالکتب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان فلاح دارین حاصل کرے اور اس زندگی میں بھی وہ خدا میں ہو کر با آرام زندگی پائے اور اخروی زندگی ( جو مرنے کے بعد انسان کو یقیناً ملنے والی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے وعدہ کیا ہے ) میں بھی وہ فلاح کو حاصل کرے.فلاح کے معنی انتہائی کامیابی کے ہیں اور امام راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ اُخروی زندگی میں جو فلاح اور ابدی حیات طیبہ ایک مومن کو ملے گی وہ چار خصوصیات کی حامل ہو گی.چار باتیں اس میں پائی جائیں گی اور وہ یہ ہیں.(۱) ایک ایسی ابدی زندگی جس پر کبھی فنانہ آئے.(۲) ایک ایسی تو نگری جس کے ساتھ کوئی احتیاج نہ رہے.(۳) اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسی عزت کہ جس کے ساتھ شیطانی ذلّت کے اندھیرے کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے.(۴) وَعِلْمٌ بِلا جَهْلِ اور وہ حقیقی علم جو جہالت کی تمام ظلمتیں اور اس کے اندھیروں کو دور کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس غرض سے ایمان لائے ہو کہ ایک ابدی حیات تمہیں حاصل ہو وہ
۱۸ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث حیات طیبہ تمہیں ملے جو ابدی فیوض کی حامل اور خدا تعالیٰ سے نئے سے نئے اور زیادہ سے زیادہ فیض اور برکتیں اور رحمتیں حاصل کرنے والی ہو اور یہ ایک ایسی زندگی ہے جس کا تصور بھی ہم یہاں اس دنیا میں نہیں کر سکتے.جہاں تک غنا اور احتیاج کا سوال ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو چاہو گے تمہیں مل جائے گا اس سے زیادہ اور کیا غنا ہوسکتی ہے عزت کی ایک نگاہ بھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندہ پر پڑے وہ بھی بڑی ہے لیکن جس زندگی کے متعلق یہ وعدہ ہو کہ اس کے ہرلمحہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی نگاہیں ایک عاجز انسان پر پڑتی رہیں گی اس سے بڑھ کر اور کیا عزت ہوگی پھر علم اور علم کی زیادتی کا یہ حال کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق ھدی للمتقین فرماتا ہے یعنی مومن ہدایت کے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے کچھ مقامات حاصل کرتا ہے تو کچھ اور نئی راہیں اس پر کھول دی جاتی ہیں پھر وہ ایک نئے بلند تر مقام پر پہنچتا ہے تو قرب کی کچھ اور راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں یہ ہدایت اور علم ایسا نہیں جس پر انسان ایک وقت میں احاطہ کر لے اور سیر ہو جائے اور پھر تشنگی کا احساس اس کے اندر پیدا نہ ہو بلکہ یہ وہ علم اور ہدایت ہے جو ہر لمحہ بڑھتا ہے وہ علم جو ہر لمحہ انسان کو خدا تعالیٰ سے قریب سے قریب تر لے جاتا ہے وہ علم ہے جس پر شیطان کی یلغار کا امکان ہی نہیں کیونکہ جنت کے دروازے شیطان پر بند ہو چکے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کی ابدی حیات طیبہ کے حصول کے لئے تم ایمان لاتے ہو اور میری آواز پر لبیک کہتے ہو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس اعلان ایمان کے نتیجہ میں تین قسم کی ذمہ داریاں تم پر عائد ہوتی ہیں اور تین تقاضے ہیں جو یہ ایمان انسان سے کرتا ہے.پہلا تقاضا اس کا یہ ہے کہ اتقوا الله انسان ایمان سے قبل بہت سی بدیوں اور بد عادتوں اور بدرسوم اور شیطانی خیالات میں پھنسا ہوا ہوتا ہے.ایمان کے ساتھ ہی اس کو یہ ساری بُرائیاں چھوڑنی پڑتی ہیں اور چھوڑنی چاہئیں اگر وہ ایمان میں سچا ہے تقویٰ کے معنی ہیں اپنے نفس کو گناہ اور معاصی اور نواہی کے ارتکاب سے انسان اس لئے بچائے کہ کہیں اس کا رب اس سے ناراض نہ ہو جائے پس جب ایمان حقیقی ہو اور اس کے ساتھ جیسا کہ چاہیے معرفت اور عرفان بھی ہو تو ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ساری بُرائیوں اور بدیوں اور بد رسوموں اور بد عادتوں اور بد خیالات اور بد خواہشوں اور گند سے
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۹ سورة المائدة میلان طبع کو انسان اپنے رب کی خاطر چھوڑ دے غرض تمام گناہوں اور معاصی سے بچنے کا نام تقویٰ ہے اور عقلاً بھی انسان سے پہلا مطالبہ یہی ہونا چاہیے کیونکہ جب تم کہتے ہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے تو عقل کہتی ہے کہ اب تم کسی ایسی چیز کی طرف متوجہ نہ ہونا جو تمہارے رب کی پسندیدہ نہیں جس سے وہ ناراض ہو جاتا ہے پس پہلا تقاضا ایمان ہم سے یہ کرتا ہے کہ ہم ہر اس چیز سے بچیں جو ہمارے رب کو پسندیدہ اور پیاری نہیں ہے.دوسری ذمہ داری ہم پر یہ عائد ہوتی ہے یا یوں کہو کہ دوسرا تقاضا ایمان ہم سے یہ کرتا ہے کہ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ یعنی مقام خوف جس کا تقویٰ میں ذکر ہے صرف وہ کافی نہیں بلکہ اس کے بعد مقام محبت میں داخل ہونا ضروری ہے اور انسان کے دل کی یہ حالت ہونی چاہیے کہ وہ دلی تڑپ اور شوق اور رغبت کے ساتھ ان راہوں کو ڈھونڈے جو را ہیں کہ اس رب کی طرف لے جانے والی ہیں جب غرباء کی ایک جماعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئی تھی کہ امیر کچھ ایسی نیکیاں کرتے ہیں جو غریب بجا نہیں لا سکتے اس لئے انہیں کچھ عبادتیں بتائی جائیں کہ وہ ان کے ذریعہ اس کمی کو پورا کر سکیں تو ان کے دل کی یہ خواہش وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ ہی کا ایک نظارہ ہمارے سامنے پیش کر رہی ہے پس مومن کے دل کی یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ ہر اس راہ کو تلاش کرے جو راہ اسے اس کے رب کی طرف پہنچانے والی ہو اور جس پر چل کر وہ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے والا ہو.واسل کے معنی اللہ کی طرف راغب کے ہیں یعنی جو شخص اللہ کی طرف راغب ہوا سے عربی زبان میں واسل کہتے ہیں اور مفردات راغب میں ہے کہ وسیلہ کی حقیقت یہ ہے کہ قرب کی راہوں کی معرفت اور عرفان شوق سے حاصل کیا جائے ( میں لفظی ترجمہ نہیں کر رہا بلکہ انہوں نے جو معنے کئے ہیں ان کا مفہوم اپنی زبان میں بیان کر رہا ہوں ) اسی طرح قرب کی راہیں جو انسان پر کھلیں ان راہوں پر شوق سے چلا جائے اس کو انہوں نے عبادت کے نام سے پکارا ہے شریعت اسلامیہ کے جو احکام ہیں اور وقت اور حالات اور مقام اور ماحول کے مطابق جو بہترین ہدایتیں ہوں ان بہترین ہدایتوں پر دلی رغبت سے عمل کیا جائے تا کہ اللہ تعالیٰ انسان سے خوش ہو جائے.پس ایک معنی وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کے یہ ہیں کہ ان راہوں کی دلی رغبت اور شوق کے ساتھ تلاش جو خدا کی طرف لے جاتی اور انسان کو خدا تعالیٰ کا مقترب بنا دیتی ہیں پھر وسيلة کے ایک معنی
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة المائدة ہم قرآن کریم کے بھی کر سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان راہوں کی نشان دہی کی ہے جو را ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں اور اس صورت میں وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کے یہ معنی ہوں گے کہ قرآن کریم کی ہدایات اور احکام سے دلی پیار اور محبت کرو تا تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے پھر وسيلة کے ایک معنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی کئے جاسکتے ہیں اس کی طرف خود قرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل میں اشارہ فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أولَبِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إلى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ (بنی اسرائیل : ۵۸) که انسانوں میں سے جن کو مشرک معبود بناتے ہیں وہ خود ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر چکے ہوں اور جن کی مدد سے یا جن کے اُسوہ پر چل کر وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں ایک مومن تو ان سے بھی زیادہ اُسوہ کی تلاش کی تڑپ اپنے اندر رکھتا ہے اور جب ہم ايهم اقرب کے مفہوم کی روشنی میں جو وسیلہ کے اندر پایا جاتا ہے اور جسے سورہ بنی اسرائیل کی یہ آیت واضح کرتی ہے وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ پر غور کریں تو ہم یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ قرب الہی کی راہوں کی تلاش میں اُسوہ حسنہ کی تلاش کر و یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن راہوں پر گامزن ہو کر اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے تم بھی ان راہوں کو اختیار کرو کیونکہ آپ ہی کامل اُسوہ ہیں تمہارے سامنے چونکہ ایک مثال پہلے سے موجود ہے اس لئے تم انہیں زیادہ آسانی سے پاسکو گے اور آپ کے اُسوہ کو سامنے رکھ کر اور آپ کی نقل کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے قرب کو زیادہ سہولت کے ساتھ حاصل کر سکو گے غرض دوسری ذمہ داری جو ایمان کی وجہ سے کسی انسان پر عائد ہوتی ہے وہ اس آیت میں وَابْتَغُوا اِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ بتائی گئی ہے.لغت والے لکھتے ہیں کہ الوسيلة کے اندر یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ قرب الہی کی راہوں کو رغبت اور شوق کے ساتھ تلاش کیا جائے پس وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کے یہ معنی ہوئے کہ تم شوق اور رغبت کے ساتھ ان راہوں کو تلاش کرو جو خدا تک لے جاتی ہیں.بعض لوگ یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ ہم بڑی مالی قربانیاں دیتے ہیں نمازوں میں با قاعدگی نہ ہوئی تو کیا ہوا وہ وابتغوا الیه الوسیلة پر عمل نہیں کر رہے ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومن کی یہ شان بتائی ہے کہ وہ قرب کی ہر راہ سے محبت اور پیار اور رغبت اور شوق کا تعلق رکھتا ہے یہ نہیں کہ وہ بعض راہوں پر چلے اور بعض راہوں کو چھوڑ دے.
۲۱ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث پھر بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ”جی سارا دن عبادت کر دے رہندے آں چندے نہ دتے تے کیہ ہو گیا حالانکہ ہر قرب کی راہ کو بشاشت سے قبول کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ پیار کرنا چاہیے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی کا ہر راستہ ہمارے رب تک پہنچانے والا ہوتا کہ ہم اس کی رضا کو زیادہ حاصل کر سکیں وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الوسيلة کا ہی مظاہرہ تھا کہ بعض صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ چاہے انہیں پیشاب کی حاجت نہ ہوتی وہ بعض جگہ پیشاب کرنے کے لئے بیٹھ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں پیشاب کرتے دیکھا تھا اس لئے ہم رہ نہیں سکے اور ہم نے یہاں پیشاب کیا ہے بظاہر اس فعل میں کوئی دینی چیز نہیں لیکن اس کے پیچھے جو محبت کام کر رہی ہے وہ بڑی عجیب ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً ایسے جذبات کو قبول کرتا ہے یہ چیز انسان کو کہیں سے کہیں اُٹھا کر لے جاتی ہے غرض وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الوَسِيلَةَ میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہم نے قرب کی ہر راہ سے پیار کرنا ہے یہ نہیں کہ بعض راہوں کو لے لیا اور بعض کو چھوڑ دیا.جب خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی راہوں کی تعیین ہوگئی اور ان راہوں سے پیار ہو گیا تو پھر ایمان کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ جَاهِدُوا فِي سَبِیلِه در اصل جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا ہے وَابْتَغُوا إلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کا تعلق محبت الہی کے ساتھ ہے جیسا کہ اتَّقُوا اللہ کا تعلق خوف الہی کے ساتھ ہے پھر جَاهِدُوا فِي سَبِيلِہ جس وقت انسان صحیح معنی میں اپنے رب کو پہچانے لگتا ہے اور اس کی ذات اور اس کی صفات کا ملہ حسنہ کا کامل عرفان حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی قدر اور عزت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس کی عزت اور عظمت اور اس کا جلال کچھ اس طرح دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں رہتی وہ بیچ نظر آتی ہے قدر دانی کا یہ جذبہ محبت اور خوف سے جدا گانہ ہے اور میں سمجھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تجربہ رکھنے والے اس پر گواہی دیں گے کہ یہ خوف اور محبت کے جذبہ سے بلند تر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خوف اور محبت کے بعد جب تم واقعہ میں اللہ تعالیٰ کو پہنچانے لگے اور اس کی معرفت تمہیں حاصل ہو گئی تو پھر تم اس بات سے رہ نہیں سکتے کہ اس کے راستہ میں جہاد کرو یعنی وہ راہ جب مل گئی تو دنیا کی ہر تکلیف برداشت کرتے ہوئے ہر قربانی دے کر اس راہ پر گامزن رہنا یہ مجاہدہ ہے.مال کی قربانی ہے نفس کی قربانی ہے، جان کی قربانی ہے، اوقات کی قربانی ہے، عزتوں کی قربانی ہے اور اولاد کی قربانی ہے ہر قسم کی قربانی ہے جس کا مطالبہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲ سورة المائدة جَاهِدُوا ہم سے کرتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کا مقام انسان نے پہچان لیا تو وہ کہاں بخل کرے گا بخل تو ایسے دل اور ایسے دماغ میں داخل ہو نہیں سکتا وہ تو یہ کہے گا کہ ہر چیز خدا کی راہ میں قربان ہے اور یہ تیسری ذمہ داری ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان پر ڈالی ہے.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اوّل خدا کا خوف پیدا ہو اور انسان تمام بُرائیوں کو چھوڑ دے پھر خدا کی محبت پیدا ہو اور انسان نیکی کی ہر راہ پر گامزن ہونے کے لئے تیار ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی قدر اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اس کے دل کو اپنے قبضہ میں لے لے اور اس کی راہ میں ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے جَاهِدُوا فِی سَبِیلِہ اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو اسلمت لِرَبِّ الْعَلَمِينَ - جب یہ تینوں مطالبے تم پورے کرو گے لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تب ہی تم اس فلاح دارین کو حاصل کرو گے جو تمہارے ایمان کی غرض ہے اگر تم ایمان کا دعویٰ کر ولیکن ان مطالبات کو پورا نہ کرو تو تم فلاح دارین حاصل نہیں کر سکتے تمہارے جیسا بد بخت اور بدقسمت پھر کوئی نہیں ہوگا کہ جس کے ہاتھ میں نہ دنیا ر ہی نہ دین رہا، دنیا دار دین کی وجہ سے اس سے پیچھے ہٹ گئے اور ناراض ہو گئے اور خدا کے سامنے اس کے اعمال پیش کئے گئے تو ان میں ہزار کیڑے دنیا کے نکلے اور خدا تعالیٰ نے بھی انہیں رد کر دیا.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۵۴ تا ۱۵۹) قرآن کریم نے کامیابیوں کے حصول کے لئے متعدد جگہ مختلف پہلوؤں سے صداقت و ہدایت کی راہوں کی نشاندہی کی ہے اور ان راہوں کو روشن کیا ہے اور ان کی طرف انسان کی رہنمائی کی ہے اور ان کی برکتوں کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے.اس وقت جو مختصر سی آیت میں نے پڑھی ہے اس میں اس سلسلہ میں ایک حسین مضمون بھی بیان ہوا ہے.بھی میں اس لئے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں اور ہر بطن اس کے حسن کو دوبالا کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حقیقی کامیابی اس بات میں ہے کہ تم ان راہوں سے پر ہیز کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ان بد عقائد اور بداعمال سے بچتے ہوئے جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور وہ چیز پیش کرو جو اسے پسند ہو اور اس کی پناہ میں آ جاؤ اپنی حفاظت کے لئے اسے اپنی ڈھال بنالو اور اسے اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا لو تو تب تم کامیاب ہو گے اور ایک ایسی کامیابی تمہیں حاصل ہو گی جس سے
۲۳ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث بڑھ کر کسی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.فلاح کے معنی عربی میں عظیم کامیابی کے ہوتے ہیں.یایھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! ناکامیوں سے بچنے میں اپنی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کو اپنی پناہ بنا لو اور اس کو اپنی ڈھال بنا لو وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ اور ڈھال اس طرح بناؤ کہ اس کے قرب کی راہوں کو تلاش کرو.زبانی دعوؤں سے تو اللہ تعالیٰ کسی کی ڈھال نہیں بن سکتا بلکہ اس کے قرب کی راہیں معین ہیں اور ان معین راستوں کو اختیار کر کے ان راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ انسان کو اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جو مقام کہ اس کے قرب کا مقام اور اس کی رضا کا مقام ہے.وسيلة کے لئے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں اور وہ اس مضمون کو ظاہر کرتے اور اس کو نمایاں کرتے ہیں.وسیلہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا اور اس کے لئے جو راہ اور جو ذریعہ ہے وہ ایک تو علم و معرفت ہے اور دوسرے عبادت ہے اور تیسرے ہے مکارمِ شریعت کو اختیار کرنا.جیسا کہ دوسری جگہ بتایا ہے علم و معرفت، خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننا اور اس کی صفات کا عرفان رکھنا بہت ضروری ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے عبادت اور مکارم کے لباس میں خود کو ملبوس کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے.وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ قرب اور وسیلہ کے حصول کے لئے جو راستہ اور سبیل ہے وہ تین قسم کی ہے.ایک تو صحیح روحانی علم کا حاصل ہونا، معرفت کا حاصل ہونا، دوسرے خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر اس کی عبادت کرنا اور تیسرے شریعت حقہ اسلامیہ کے مکارم کو اختیار کرتے ہوئے اپنی روح اور اپنے ذہن اور اپنے عمل اور اپنے عقیدہ میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرنا.ان تین چیزوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی ڈھال بن جاتا ہے اور اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے.اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت نہ ہو تو اس نے خدا کو پہچانا ہی نہیں اس لئے اس کے قرب کی راہوں کی تلاش وہ صحیح معنی میں کرہی نہیں سکتا.اسی لئے آپ کو دُنیا میں ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جو زبان سے تو یہ دعویٰ کر رہے ہوں گے کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت کی معرفت رکھنے والے ہیں لیکن وہی لوگ جب مقبروں میں جاتے ہیں تو قبروں کو سجدہ کرنے لگ جاتے ہیں اور جب اپنے بزرگوں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں ارباب سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں.ہزار بہت اپنے سینوں میں اُنہوں نے سجائے ہوئے
۲۴ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ہیں اور ہزار بت کے گرد ان کا طواف ہے اور زبان سے یہ دعوی بھی ہے کہ ہم خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں.یہ تضاد ہمیں اس لئے نظر آتا ہے کہ بنیادی طور پر انہیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت حاصل نہیں اور چونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا ، اس کے احد ہونے کا عرفان ہی حاصل نہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت اور اس کا علم جن باتوں کا تقاضا کرتا ہے وہ اس کو پورانہیں کرتے اور پورا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انہیں علم ہی نہیں کہ خدائے واحد و یگانہ کی معرفت کے بعد انسان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ رب ہے نیز قرآن کریم نے دوسری بہت ساری صفات بیان کی ہیں جن کا تعلق انسان کی زندگی کے ساتھ ہے ان میں سے بعض بنیادی ہیں اور بعض ان سے تعلق رکھنے والی ہیں.اس کے ساتھ ہی یہ کہا کہ میری صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرو اور میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ.اب اگر انسان رب کی ربوبیت کا علم نہیں رکھتا، اسے اس کی معرفت ہی حاصل نہیں.اس رنگ کو وہ پہچانتا ہی نہیں تو اپنی ذات پر اور اپنی صفات پر وہ اس رنگ کو کیسے چڑھائے گا.یہ واضح بات ہے کوئی گہری اور دقیق بات نہیں ہے کہ جب تک رنگ کی پہچان نہیں اس رنگ کو اپنے نفس کے اوپر چڑھایا ہی نہیں جا سکتا.اب ربوبیت رب العالمین کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں تک انسان کی طاقت ہو وہ ہر مخلوق کی نشوونما کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے جہاں تک کہ انسان کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے تو رب ہونے کی حیثیت سے اگر کسی چیز کو پیدا کیا تو اس کو قومی اور طاقتیں بھی دیں اور ان کی نشو ونما کے سامان بھی پیدا کئے.پس جو شخص صفت رب العالمین کی معرفت اور علم رکھتا ہے وہ تو یہی رنگ اپنے پر چڑھائے گا اور وہ کسی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیں کرے گا لیکن جو شخص اس صفت کا علم ہی نہیں رکھتا اسے اس کی معرفت ہی حاصل نہیں وہ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتا اور یہ بنیادی حکم کہ میری صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ اور اس کے مطابق دُنیا سے یعنی اپنے بھائی بندوں سے اور دوسری مخلوق سے سلوک کرو وہ اس کے مطابق عمل نہیں کرسکتا.پس خدا تعالیٰ کو اپنی حفاظت کے لئے ڈھال بنانے ، خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو حاصل کرنے کے لئے اس کی پناہ میں آجانے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو خدا کے فضل سے حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کہ اس وسیلہ کو تلاش کرو جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سامنے رکھا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ وہ تین باتیں ہیں.ان میں سے پہلی
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث سورة المائدة بات علم اور معرفت اور عرفان کا حصول ہے.علم نقلی اور ساعی بھی ہے یعنی روایت اور پہلوں کے مشاہدے سے انسان علم حاصل کرتا ہے اور پہلوں کے مشاہدات اور ان کے تجربوں کے نتائج سے غفلت برت کر خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا اور ایک اس کا اپنا مشاہدہ ہے وہ بھی علم کا ذریعہ بنتا ہے.......اگر یہ پہلو یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق علم اور معرفت رکھنا جو کہ پہلا پہلو اور بنیادی چیز ہے اگر یہ نہ ہوگا تو اتقوا کا جو حکم ہے کہ خدا کی پناہ میں آجاؤ اور اپنی ترقیات کے لئے اور اپنی جنتوں کے حصول کے لئے اس کے قرب کو حاصل کرو یہ حکم پورا نہیں ہوسکتا.اس علم کے نتیجہ میں پھر آگے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں ایک عبادت ہے خدا تعالیٰ کے حضور انسان کا سر جھک جاتا ہے اس کو ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کہتے ہیں اور دوسرے مکارمِ شریعت پر عمل کرنا ہے.الغرض وسیلہ کے لئے یعنی قرب الہی کے حصول کے لئے تین باتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے پہلی بات علم ہے یعنی خدا تعالیٰ اور اس کی صفات کی معرفت اور عرفان اور ان صفات کے جلوؤں پرغور کرنا جو اس نے انسان کے سامنے اپنے کلام میں ظاہر کئے اور جو خدا تعالیٰ اپنے اس تعلق میں ظاہر کرتا ہے جو اس کے نیک بندے اس سے حاصل کر سکتے ہیں مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے اس پر غور کرنے سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ، خدا تعالیٰ کس رنگ میں ربوبیت کا مظاہرہ کرنے والا اور خدا تعالیٰ کس طرح اپنی رحمانیت کے جلوے انسان پر ظاہر کرنے والا ہے، على هذا القیاس.اور اس معرفت اور عرفان کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک تو حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف ہمیں توجہ ہوتی ہے اور ہم عبادت کو اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور دوسرے بنی نوع انسان کے آپس کے تعلقات میں شریعت محمدیہ اور شریعت حقہ اسلامیہ کے مکارم کو اپنانے اور خدا کے پیدا کردہ انسان کے ساتھ اُس سلوک کے کرنے کی طرف ہمیں توجہ ہوتی ہے جس سلوک کا حکم قرآن کریم کی شریعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ اور ارشادات میں ہمیں نظر آتا ہے.پس وسیله یعنی خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کی جو راہ ہے اس کے تین طریقے بتائے گئے ہیں، تین راہوں کی تعیین کی گئی ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب تک لے جانے والی ہیں ایک علم ہے یعنی معرفت اور عرفان ، دوسرے اس کا تقاضا عبادت اور حقوق اللہ کی ادائیگی ہے اور تیسرے مکارم شریعت کے مطابق انسان کے ساتھ حسن سلوک اور خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق کے ساتھ وہ برتاؤ ہے جیسا برتاؤ کہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ ہونا چاہیے اور جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور ارشادات میں ہمیں نظر آتا ہے.یہ تین باتیں جو اس وسیلہ کے اندر آتی ہیں اس کے تین دشمن ہیں اور جس وقت انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں.جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم رسول ایک کامل اور مکمل شریعت لے کر دنیا کی طرف آیا، ایک ایسی شریعت لے کر جس نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا اتمام کر دیا اور ان کی تکمیل کر دی تو اس کے بعد یہ نہیں ہوا کہ کوئی مقابلے میں کھڑا نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد یہ ہوا کہ رؤسائے مکہ نے اپنی میانوں سے تلواریں نکال لیں وہ یہ سمجھے کہ شاید تلوار کے ساتھ ہم خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کو، خدا تعالیٰ کے اسلام کو ، خدا تعالیٰ کی کامل اور مکمل شریعت کو اور اس کامل اور مکمل شریعت کے لانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا کام اور نامراد کر دیں گے.اُنہوں نے یہ سمجھا اور انہوں نے تلوار میں نکال لیں لیکن اسلام کو نا کام کرنے کے لئے صرف ظاہری دشمن کی مادی طاقت کا مظاہرہ ہی تو نہیں ہوا ، صرف تلواریں ہی میانوں سے نہیں نکلیں، صرف کمانوں پر چلتے نہیں چڑھائے گئے اور ان میں تیر نہیں رکھے گئے،صرف نیزوں کی انیوں کو تیز نہیں کیا گیا، صرف گھوڑوں کی پرورش نہیں کی گئی جن پر سوار ہو کر مسلمانوں کے قتل کرنے کا اُنہوں نے منصوبہ بنایا تھا بلکہ اس ظاہری دشمن کے ساتھ ساتھ ایک مخفی دشمن بھی مقابلہ پر آ گیا.مذہب کی اصطلاح میں اس کو شیطان کہتے ہیں.شیطان اپنا کام کافر کے ذریعے بھی کرتا ہے اور شیطان اپنا کام منافق کے ذریعے بھی کرتا ہے.وہ دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، وہ جھوٹی افواہیں پھیلاتا ہے، وہ غلط باتیں منسوب کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی وحی میں جو کلمے ہیں قرآن کریم میں جو الفاظ آئے ہیں وہ ان کو اپنی جگہ سے ہلا کر اور معانی کو بدل کر دُنیا کے سامنے پیش کرتا اور انسان کے دل میں غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے.اور پھر انسان کے اندر بشری کمزوریاں ہیں یہ صداقت کا اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں پروئے جانے والوں کا تیسرا دشمن ہے جو کھڑا ہوتا ہے.یہ ہر شخص کا اپنا نفس ہے اسی واسطے قرآن کریم نے کہا کہ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِه امام راغب کہتے ہیں کہ اس جہاد اور مجاہدہ میں تینوں دشمنوں کا مقابلہ آجاتا ہے، ظاہر دشمن کا بھی، شیطانی وساوس کا بھی اور اپنے نفس کی کمزوریوں کا بھی ( جو کہ شہوات دُنیا کی طرف مائل ہو جاتا اور دُنیا کے لالچ کی طرف پھسلتا اور تباہی ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے سامان پیدا کرتا ہے ).۲۷ سورة المائدة پس جہاں خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کرنا ضروری ہے اور قرآن کریم نے اسے بیان کیا وہاں اس کے مقابلہ میں تین دشمن بھی ہیں ایک نے کہا کہ سر پھوڑ دیں گے تمہارا اگر تم نے نمازیں پڑھیں.چنانچہ کی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لمبا عرصہ چھپ چھپ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور وہ معرفت اور علم، اتنا عظیم علم ! اتنا حسین علم ! ایسا علم جس کے اندر احسان کی بڑی زبر دست طاقتیں ہیں اس کے متعلق ظاہری دشمن نے بھی یہ اعلان کیا کہ یہ تو کوئی چیز نہیں ہے اور اس کی طاقت کوئی طاقت نہیں ہے.ان کے خیال میں یہ روحانی علم ایسا تھا کہ جسے تلوار کی دھار کاٹ سکتی تھی.تلوار کی دھار مادی چیزوں کو کاٹا کرتی ہے اور جو روحانی قوتیں اور طاقتیں ہیں انہیں تلوار کی دھار اور انہیں تیر خواہ وہ کس قدر طاقتور کمان سے ہی کیوں نہ چھوڑے جائیں اور انہیں نیزہ کی انی نہیں کاٹا کرتی وہ علم تو اپنی جگہ قائم رہنے والی روحانی طاقت ہے لیکن انہوں نے اپنے زعم میں یہی خیال کیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چند ایک ہیں شاید وہ ان کی گردنیں اڑا کر خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو ختم کر دیں گے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس ظاہری دشمن کا بھی مقابلہ کرنا ہے جب وہ ظاہری اور مادی سامان لے کر آئے تو تمہیں ظاہری اور مادی سامان لے کر اس کے مقابلہ میں جانا چاہیے خواہ اس کے مقابلہ کے لئے تمہارے پاس ظاہری اور مادی سامان ان کی طاقت کے مقابلہ میں سو میں سے ایک بھی نہ ہوں یا ہزار میں سے ایک بھی نہ ہوں یا لا کھ میں سے ایک بھی نہ ہوں لیکن اگر تمہیں کہا جائے کہ خدا تمہیں کہتا ہے کہ ان مادی سامانوں کا مقابلہ مادی سامانوں سے کرو تو تم ان کا مقابلہ کرو.یہ ظاہری مادی طاقت جو بعض سر پھرے انسانوں کے ہاتھ میں ہمیں نظر آتی ہے اس کو نا کام کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے غیر مادی روحانی طاقتیں بھی پیدا کی ہیں اور یہی چیز ہے جو مومن مسلم انسان کی طاقت کو ثابت کرتی ہے لیکن اس وقت میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.غرض پہلے مفسرین نے بھی کہا ہے کہ جَاهِدُوا فِی سَبِیلِہ میں تینوں دشمنوں کا ذکر آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی تینوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور پہلوں سے بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ اور بہت زیادہ حسن کے ساتھ اور بہت زیادہ مؤثر طریقے پر اور بہت زیادہ قائل کرنے والے بیان کے ساتھ دنیا کو بتایا ہے.
۲۸ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث جَاهِدُوا میں جس دوسرے مخالف سے مقابلہ کرنے کا ذکر آتا ہے وہ ہے شیطانی کوششوں کا مقابلہ.شیطان چھپی ہوئی راہوں سے آتا اور خدا کے دین کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے مثلاً پچھلے چودہ سو سال سے یہودی اور عیسائی اسلام کے خلاف وساوس پیدا کرنے کی انتہائی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن پچھلے چودہ سو سال میں اسلام میں ترقی اور تنزل، اتار چڑھاؤ تو نظر آتا ہے لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوا کہ جس میں خدا تعالیٰ کے لاکھوں محبوب بندوں نے اسلام کی شمع کو روشن نہیں رکھا.روشنی کبھی تیز تھی اور کبھی کم.اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں اور ملک ملک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اسلام کی شمع کو بجھنے نہیں دیا.یہاں تک کہ پھر مہدی علیہ السلام بدر منیر کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہو کر آگئے اور اب خدا تعالیٰ کے اس بندے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرزند کے ذریعہ سورج (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اخذ کی ہوئی روشنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ سے لی ہوئی روشنی ، ساری دنیا میں پھیلانے کا کام شروع ہو چکا ہے اور یہ ہر شخص کو نظر آ رہا ہے عیسائیوں کو بھی اب نظر آ رہا ہے کہ اسلام کی روشنی اُن جگہوں پر پہنچ گئی جن کے متعلق ان کو خیال بھی نہیں تھا کہ اسلام کبھی ان کے اندھیروں کو چیرتا ہوا اپنی روشنی کی شعاعوں کے ساتھ ان اندھیروں کے بعض مقامات کو منور کرنا شروع کر دے گا.بہر حال جَاهِدُوا فِي سَبِيلِہ میں یہ بھی حکم ہے کہ شیطانی وساوس اور اعتراضات کا مقابلہ بھی اپنی انتہائی کوشش کے ساتھ کرو.پھر انسان کا اپنا ہی نفس اس کا اپنا ہی شیطان بن جاتا ہے اور اپنا ہی نفس اپنے ہی نفس کو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور دنیا کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور دنیا جو کسی سے وفا نہیں کرتی اس کی خاطر وہ اس کو جس سے بڑھ کر کوئی وفا کرنے والا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کو وہ چھوڑ دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی ہمیں ہدایتیں دی ہیں جنہیں ایک مسلمان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۴۴۴ تا ۴۵۱)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۹ مج سورة المائدة آیت ۴۱ تا ۵۱ اَلَم تَعْلَمُ اَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ ياَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنُكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا امَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمْعُونَ لكَذِبِ سَمَّعُونَ لِقَوْمٍ أُخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُهُ هذَا فَخُذُوهُ وَ إِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَبْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ أُولَبِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيَّ وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ سَتَعُونَ لِلْكَذِبِ أَكُلُونَ لِلسُّحْتِ فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَضُرُّوكَ b ج شَيْئًا وَ إِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ وكيف يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوَريةُ فِيهَا حُكْمُ اللهِ ثُمَّ يَتَوَلَّونَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَبِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرِيةَ فِيهَا هُدًى وَنُور يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبِنِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتَحْفِظُوا مِنْ كِتَبِ اللهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ.وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوحَ قِصَاصُ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ ۖ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة المائدة انْزَلَ اللهُ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُونَ وَ قَفَّيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّورِيةِ وَأَتَيْنَهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَ نُوراً وَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرِيةِ وَهُدًى وَ مَوْعِظَةً للْمُتَّقِينَ ، وَلْيَحْكُمُ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فِيهِ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ ووو مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمُ بَيْنَهُم بِمَا اَنْزَلَ اللهُ وَلَا تَتَّبِعُ أَهْوَاءَهُم عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلِّ جَعَلْنَا مِنْكُمُ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ في مَا الكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ وَ أَنِ احْكُمُ بَيْنَهُم بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُ أهْوَاءهُمْ وَاحْذَرُهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَأَعْلَمُ أَنَّمَا يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضٍ ذُنُوبِهِمْ وَ إِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفْسِقُونَ أَفَحُكُمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حلما لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ سوره مائدہ کی آیات ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۴، ۴۶،۴۵، ۴۷، ۵۱،۵۰،۴۹،۴۸ ان گیارہ آیات میں ایک بنیادی مضمون بیان ہوا ہے اس مضمون کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور حکومت اللہ کی ہے.حکم اسی کا چلتا ہے ساری کائنات میں، کائنات کی ان اشیاء میں بھی جنہیں آزادی نہیں اور جن کی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( التحريم : - ) جو حکم ہوتا ہے ویسا کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی کا حکم چلتا ہے ان پر بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص دائرہ میں
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة المائدة آزادی ضمیر دی ہے.بادشاہت اور حکومت اللہ ہی کی ہے.حکم اسی کا چلتا ہے اس پر میں خطبہ دے چکا ہوں.ان آیات میں اس بنیادی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے اس وقت چند باتوں کے متعلق میں کچھ کہوں گا.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان کیا ہے کہ حکم تو اللہ تعالیٰ ہی کا چلے گا.اگر میرے حکم نہ مانو گے تب بھی میرا چلے گا حکم.یہاں یہ فرمایا کہ جس حصہ کا ئنات میں ہم آزادی ضمیر پاتے ہیں وہاں بھی حقیقت یہی ہے کہ نیک و بد کی آزادی تو ہے مگر عذاب و مغفرت کی دو قوسوں نے ان اعمال کو بھی ایک پورے دائرہ کے اندر گھیرا ہوا ہے جس سے ظاہر و عیاں ہے کہ قادر مطلق اور متصرف بالا رادہ اللہ ہی کی ذات ہے اور کوئی شے یا عمل اس کی حکومت سے باہر نہیں یعنی انسان کو آزادی بھی دی نیکی اور بدی کا اختیار بھی دیا، اعمال سوء اور اعمال صالحہ کے بجالانے کی قوت اور طاقت بھی دی اور پھر جس طرح کا بھی وہ عمل کرے اس کے اوپر حکم اللہ ہی کا چلے گا.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدير (البقرة : ۲۸۵).ان آیات میں انسان کو کہا گیا کہ وَ آنِ احْكُمُ بَيْنَهُم بِمَا أَنْزَلَ اللہ کہ انسانوں کے درمیان اللہ کی وحی کے مطابق احکام جاری کرو ( مخاطب ہیں یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر مخاطب ہیں وہ جو آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے سے ہر انسان کے لئے یہ حکم ہے بنیادی طور پر ) کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام انسانی زندگی کے لئے نازل کئے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دے دی گئی.( بِمَا أَنْزَلَ اللهُ ) اللہ تعالیٰ نے جو نازل کیا اور جو احکام وحی کے ذریعہ اترے ان کے مطابق تم باہمی تعلقات کو استوار کیا کرو.ولا تتبع أهواء ھم اور خدا تعالیٰ کی مرضی کو چھوڑ کر دوسروں کی خواہشات بد کے پیچھے نہ چلا کرو.اور پھر یہاں ان آیات میں اشارہ ہے کہ اس بنیادی حکم کے علاوہ جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اس پر عمل کرو.تفصیلاً حکم بتائے ہیں مثلاً انہی آیات میں کہا.وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيین.اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر.اللہ تعالیٰ یقیناً انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۲ سورة المائدة ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ بما انزل اللہ پر عمل کرنے میں جو چیز روک بنتی ہے، وو وہ ایک نہیں بہت سی ہیں.جن کا ذکر لا تَتَّبِغ اھواء ھم میں ہے ان میں سے ایک چیز جو روک بنتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت کو چھوڑ کے غیر اللہ کی خشیت دل میں پیدا کرنا ہے یعنی صاحب اقتدار سے ڈرنا، صاحب دولت کے سامنے جھکنا، صاحب علم سے خوف کھانا کہ یہ پروفیسر لگا ہوا ہے ہمارے ساتھ بے انصافی کرے گا اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی اور خدا کی بات مان لی اس کے مقابلے میں.بہت ساری چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَا تَخْشَوا النَّاسَ - الناس کا خوف دل میں پیدا نہ ہو.انسان کو خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے علمی طاقتوں اور استعدادوں میں اس کو بلند بنایا یا صاحب دولت اس کو بنا دے وہ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بغَيْرِ حِسَاب (البقرة : ۲۱۳) جو الناس ہیں.جس طرح ، جس رنگ میں ، جس حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے، صاحب اقتدار ہیں، کوئی نواب بن بیٹھے ہیں، کوئی رسہ گیر بن بیٹھے ہیں، کوئی چوہدری بن بیٹھے ہیں.انسان بعض دفعہ اپنی غفلت کے نتیجہ میں یا اپنی کمزوری کی وجہ سے یا بزدلی کے نتیجہ میں ان سے ڈرنے لگتا ہے اور ان کے خوف سے خدا تعالیٰ کی بات ماننے سے عملاً انکار کر دیتا ہے.تو فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَونِ.النَّاسَ سے جن کو میں نے پیدا کیا مختلف حیثیتوں میں ان سے مت ڈرو.صرف میری خشیت، صرف میری خشیت تمہارے دلوں میں ہونی چاہیے.وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَناً قَلِیلاً جو احکام میں نے نازل کئے (ایة کا لفظ قرآن کریم میں قرآن کریم کی آیات اور احکام کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے ) اپنی عظمت اور کبریائی کی معرفت کے حصول کو آسان کرنے کے لئے جو اس کائنات میں میری صفات کے جلوے ظاہر ہوئے (ان جلووں کو بھی قرآن کریم نے آیات کہا) اور تمہیں تنبیہ کر کے انداری پیش گوئیاں جو نازل ہوئیں ان کی حقیقی قدر کو پہچانو.کہنے والے نے کہہ دیا انا ربکم الاعلى (النزعت : ۲۵) کس خدا کی تلاش میں ہو تم.سب سے بڑا رب تو میں ہوں.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میری خشیت تمہارے دل میں نہیں ہوگی اور میری بجائے الناس کی خشیت تمہارے دل میں ہوگی تو تم گھاٹے کے سودے کر نے لگ جاؤ گے.میرے ساتھ تجارت کرو گے تو بغیر حساب کے بدلہ دوں گا.ان سے تجارت کرو گے تو تمہارا مال بھی لوٹ کے لے جائیں گے.جیسا کہ دنیا میں ہو رہا ہے اور یاد رکھو.وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ جو شخص یا جو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳ سورة المائدة جماعت یا جو صاحب اقتدار اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کے کوئی اور حکم جاری کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف فیصلے کرتا ہے.فَأُولَبِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ.ان آیات میں مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ الله کے چار نتایج بیان کئے گئے ہیں.( تین آیات ہیں) کفر کے دو معنی ہیں انکار کے اور ناشکری کے تو جو شخص مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ اللَّہ تعالیٰ نے انسان کی بھلائی کے لئے جو کچھ اتارا ہے.ان احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ناشکرا بنتا ہے اور یا وہ خدا تعالیٰ کا منکر بنتا ہے اور قرآن کریم نے ہر دو کے متعلق سزاؤں کا ذکر خود بیان کیا ہے.تو یہاں یہ بتایا گیا کہ دیکھو اگر تم خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف اپنی زندگی کے فیصلے کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ سلوک وہ ہوگا جو قرآن کریم کہتا ہے کہ ایک کافر سے ہوا کرتا ہے.تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک وہ ہو گا جو قرآن کریم کہتا ہے کہ ایک ناشکرے کے ساتھ ہوا کرتا ہے.ان آیات میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے بڑے تفصیلی حکم دے دیئے.جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، زخم کے بدلے اس قسم کی سزا اس کو ہو جائے.تفصیلی معین احکام بیان کر دیئے ہیں.معاشرہ کو بُرائیوں سے بچانے کے لئے اور امن کو قائم کرنے کے لئے مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ - پہلے تفصیل بیان کی حکم کی.پھر اصول بیان کیا جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے.فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ اُن کی زندگی ویسی بن جائے گی جیسی قرآن کریم کے مطابق ظالموں کی زندگی ہوا کرتی ہے.ظلم کے معنے ہیں کہ جس جگہ کوئی چیز ہونی چاہیے وہاں نہ رکھنا اس کو جس کا حق ہے وہ لے لینا.جو طاقت مثلاً ایٹم میں رکھی انسانیت کی بھلائی کے لئے انسان کی ہلاکت کے لئے اُسے استعمال کرنا.تو جب بھی تم احکام الہی کو توڑو گے، تمہاری زندگی ظالم اور مظلوم والی زندگی بن جائے گی.فأوليكَ هُمُ الظَّلِمُونَ تو جہاں ظالم ہے وہاں مظلوم بھی تو ہے.کسی ظالم نے کسی پر ظلم بھی کیا ہے نا.تمہارا معاشرہ احسان کرنے والے اور شکر گزار بندوں کا نہیں ہوگا بلکہ ایک حصہ ظلم کر رہا ہوگا ایک حصہ ظلم سہ رہا ہوگا اور ظلم سہنے والا حصہ جب اس کو موقع ملے گا وہ ظالم بن جائے گا اور ایک دوسرا حصہ ظلم سہنے والا بن جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے متعلق جوسز اقرآن کریم میں بتائی ہے وہ تو بہر حال اس کو ملنی ہے لیکن اس معاشرے میں بھی ایک گند پیدا ہوگا.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴ سورة المائدة تیسری سزا یہ بتائی کہ مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ وہ شخص یا وہ لوگ یاده معاشرہ یاده سیاسی اقتدار یا وہ اقتصادی ازم (ISM) جو اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنے والا ہے.فَأُولَيكَ هُمُ الفيسِقُونَ چوتھی ان کی صفت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ وہ فاسق ہیں اور معصیت کے کام کرنے والے ہیں وہ اپنے نیک کاموں سے اپنے نفس پر اسلامی حسن نہیں چڑھانے والے بلکہ گندا معاشرہ پیدا کرنے والے ہیں.وہ فسق و فجور میں مبتلا ہونے والے ہیں اور اگر تم خدا تعالیٰ کے احکام کو نظر انداز کر دو گے، انہیں تو ڑ دو گے، ان پر عمل نہیں کرو گے تو ایسا معاشرہ پیدا ہو جائے گا جو فاسقوں کا معاشرہ ہے.اخلاقی لحاظ سے گراوٹ، بدعہدی، بد نیتی ، امانتوں کا خیال نہ رکھنا، لوگوں کے حقوق تلف کرنا ، بچیوں کی عصمت کی حفاظت کا خیال نہ رکھنا وغیرہ وغیرہ یہ چیزیں ہمیں ایسے معاشرہ میں آج نظر آتی ہیں.یورپ میں جو مہذب دنیا کہلاتی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنے کے نتیجہ میں انہوں نے ایک نہایت گندی زندگی کو قبول کیا.یہاں یہ جو آیت ہے جس کے آخر میں آیا ہے.مَن لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ اس سے پہلے ہے تو رات و انجیل کا ذکر اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تفسیری نوٹ میں ایک جگہ مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے یہ نہیں لینا چاہیے یعنی غلط ہوگا اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ تو رات اور انجیل (آج جو بگڑی ہوئی شکل میں ہیں ویسے بھی قرآن کریم کے بعد تو ان کی ضرورت نہیں تھی) کے احکام پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کتب بنی اسرائیل میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت ہے اور ایک عظیم تعلیم نازل ہونے کی بشارت ہے جو قرآن کریم کی شکل میں نازل ہو گیا.تو اللہ تعالیٰ نے گویا یہ فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ تو رات اور انجیل کے تاکیدی حکم پر عمل نہیں کرتے اور احکام الہی جو قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں ان کے مطابق حکم اور فیصلہ نہیں کرتے بلکہ احکامِ قرآنی کو توڑتے ہیں.اس طرح تو وہ ہدایت نہیں حاصل کرسکیں گے.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۰۱ تا ۱۰۶) وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ - وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ تینوں آیات میں ہے.دوسری آیت میں ہے فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.تیسری آیت میں ہے.وَمَنْ لَّمْ
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة المائدة يَحْكُم بِمَا انْزَلَ اللهُ فَا وَلَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ.یعنی جو لوگ اس کلام کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے فیصلہ نہیں کرتے.حکم صادر نہیں کرتے ، وہی حقیقی کا فر بھی ہیں.حقیقی ظالم بھی ہیں اور حقیقی اور پکے باغی بھی ہیں.مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی لغت ہے ان تینوں لفظوں کو اس طرح اکٹھا ایک مضمون میں باندھا ہے کہ فسق جو ہے اس کے متعلق وہ کہتے فَالفَاسِقُ اَعَةُ مِنَ الْكَافِر یق کا مفہوم زیادہ وسیع ہے کفر کے مفہوم ہے.وَالظَّالِمُ اعَةُ مِنَ الْفَاسِقِ اور ظلم کے معنی فسق کے معنی سے زیادہ وسیع ہیں.تو اگر ہم اسے سمجھنے کے لئے دائرے بنائیں (میں نے آپ کو سمجھانے کے لئے یہاں دائرے بنائے ہوئے ہیں ) تو ایک دائرہ ہوگا بیچ کا چھوٹا وہ کفر کا دائرہ ہے.اسی نقطے سے جہاں سے آپ نے پر کار کھینچ کر دائرہ بنایا اس سے بڑا دائرہ بنائیں، وہ فسق کا دائرہ ہے اور اس سے تیسرا دائرہ بڑا بنا ئیں تو وہ ظلم کا دائرہ ہے.تو ہر فاسق کا فر ہے.بڑا دائرہ ہے نا ہر فاسق کا فر ہے لیکن ہر کا فر فاسق نہیں.فسق کے معنی میں کچھ ایسے گناہ آتے ہیں جو کفر کے معنی میں نہیں آئے اور ہر ظالم فاسق بھی ہے اور کا فر بھی ہے.لیکن ہر کا فرظالم نہیں.ہر فاسق ظالم نہیں.ان تین الفاظ کے معانی کی وضاحت انہوں نے ان دو چھوٹے فقروں میں کی ہے.کفر کے معنے انہوں نے کئے ہیں وحدانیت اور شریعت اور نبوت یا تینوں کا کفر کرنا.ان کی تکذیب کرنا.ان پر ایمان نہ لانا اور فاسق چونکہ بڑا دائرہ ہے انہوں نے لکھا ہے کہ وَإِذَا قِيْلَ لِلْكَافِرِ الْأَصْلِ فَاسِقُ کہ جو اصلی کا فر ہو اسے جب فاسق کہا جاتا ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کے احکام کو جو شریعت کی شکل میں نازل ہوئے سارے احکام اس دنیا میں، اس کا ئنات میں اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، لیکن جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت نازل ہوئی ، صرف ان احکام کا انکار نہیں کرتا تکذیب نہیں کرتا بلکہ آخَلَّ بِحُكْمِ مَا الْزَمَهُ الْعَقْلُ وَاقْتَضَتُهُ الْفِطْرَةُ اس سے زائد بھی کچھ گناہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقلِ سلیم عطا کی ہے اس کا گناہ کرتا ہے.اس کو توڑتا ہے اور جو فطرت کے تقاضے ہیں انہیں وہ پورا نہیں کرتا.اس لئے کفر سے زائد اس نے کیا تو الحافِرُ الْأَصْلِحُ اس معنی میں اس کو ہم کہہ دیتے ہیں اور وہ آیات بھی بیچ میں لے آتے ہیں اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا.مختصراً کرنے کی کوشش کروں گا.مجھے ضعف اور گرمی محسوس ہورہی ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۶ سورة المائدة وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ( النور : ۵۶ ) کفر کے ایک معنے یہ جو ایک معنے ہیں نا کہ جو شریعت ، وحدانیت ،شریعت اور نبوت کا انکار کرنا.کفر کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں اور وہ ہیں كَفَرُ النّعْمَةِ ناشکری کرنا اور اصل معنے اس کے بنیادی طور پر ہیں ڈھانکنے کے بھی وہ یہاں لگتے ہیں.تو مفردات راغب نے اس کے معنے کئے ہیں.سَتْرُهَا بِتَرْكِ إِدَاءِ شُكْرِهَا شکر ادا نہ کرنے سے اس کو خدا تعالیٰ کی نعمت کو چھپا دینا.قرآن کریم میں شکر کے مقابلہ میں کفر کا لفظ آیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لين شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمُ (ابراهیم : ۸) اگر میری نعمتوں پر میرا شکر ادا کرتے رہو گے تو میں اور نعمتیں دیتا رہوں گا.وَلَبِنْ كَفَرْتُم اور اگر تم میری نعماء پر شکر ادا کرنے کی بجائے بغاوت کی راہوں کو اختیار کرو گے تو یاد رکھو اِنَّ عَذَابِي لَشَدِید اس آیت میں شکر کے مقابلہ میں کفر، ناشکری کے معنے میں آیا ہے واضح ہو جاتی ہے بات.ابھی میں یہ معنی لے رہا ہوں.دوسرے جو ترتیب قرآن کریم کی ان گیارہ آیات میں ہے وہ کفر کے بعد ویسے وہاں ظلم ہے یعنی جو زیادہ بڑا دائرہ ہے وہ دوسرے نمبر پر آیا ہے.وَمَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.حق کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا.جوحقوق ہیں ان سے تجاوز کرنا.غفلت کر جانا.ادا نہ کرنا اور خواہ گناہ کبیرہ ہو یا گناہ صغیرہ ہر دو پر قرآن کریم نے ظلم کا لفظ استعمال کیا ہے.مفردات راغب والے کہتے ہیں ظلم تین قسم کے ہیں.کچھ حقوق اللہ تعالیٰ کے اس کے بندوں پر ہیں.تو جو شخص خدا تعالیٰ کے حقوق تو ڑتا ہے حقوق ادا نہیں کرتا.کفر کر کے شرک کر کے یا نفاق سے یا فسق سے یا ظلم سے.یہ ایک قسم کا ظلم ہے، خدا تعالیٰ کے حقوق کی عدم ادائیگی ظلم کہلاتی ہے اور اس کو سامنے رکھ کے یہ معنی ظاہر ہوتے ہیں ان کے نزدیک، مفردات راغب کے مؤلف کے نزدیک جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا الا لعنة الله على الظلِمِينَ (هود: ۱۹) کہ جو شخص میرے قائم کردہ حقوق کو، میرے حقوق کو بجا نہیں لائے گا اور انہیں توڑے گا اور حق سے تجاوز کر جائے گا ( ہر کسی سے تجاوز ہو جاتا ہے غفلت کر کے بھی ، آگے نکل کے بھی ) تو اس پر میری لعنت ہے.لعنت کا جو مفہوم ہے یہ میں آگے جاکے بتاؤں گا.دوسری قسم کا ظلم معاشرہ کا ظلم ہے.ظلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ النّاس انسان اس معاشرہ میں رہتا ہے.اس کے تعلقات ہیں ہزار قسم کے، ہزار قسم سے بھی زیادہ دوسرے انسانوں کے ساتھ تو جب وہ اپنے
۳۷ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث بھائی کے حقوق، اپنے ہم ملک کے حقوق، نوع انسانی کے حقوق ادا نہیں کرتا اور غفلت برتتا ہے تو وہ ظلم کرتا ہے.ظلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ انہوں نے یہ اس آیت کی تفسیر جو لکھی ہے مطلب سمجھانے کے لئے ، وہ ایک تو جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشورى : ۴۱) ہے اور دوسرے إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظلمين خدا تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا.جو انسان دوسرے انسان کا حق ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کی محبت سے محروم ہو جاتا ہے.تیسر ا ظلم ہے حقوق نفس کی ادائیگی میں غفلت، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ (بخاری کتاب الصوم) تیرے نفس کے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ حقوق قائم کئے ہیں.جس طرح دوسرے انسانوں کے حقوق کو بجالانا ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بجالا نا ضروری ہے خدا تعالیٰ کا یہ حق جو قائم ہوا ہے اس کو بجالا نا ضروری ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ( البقرة : ۲۳۱) اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے.تو یہ تین قسم کے ظلم ہیں جن کی سزائیں مختلف ہیں.خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اگر خدا تعالیٰ کے حقوق توڑنے والا ہو انسان.بڑا ظلم ہے نا شرک کرنا.وہ واحد و یگانہ ہے.وحدانیت کے خلاف کھڑے ہو کر کسی اور کی پرستش شروع کر دینا ، شرک جو ہے وہ بڑا وسیع مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے.محض بتوں کی پرستش نہیں.اقتدار کی پرستش.دولت کی پرستش.جتھے کی پرستش.اگر عالم ہے اپنے علم پر تکبر کرنا اور اپنے آپ کو کچھ سمجھ لینا وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے شرک ہیں اور ہر شرک خدا کو نا پسندیدہ اور خدا تعالیٰ کی لعنت کو مول لینے والا ہے.تیسری آیت میں کہا تھا وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ فسق کے معنے ہیں، فاسق اسے کہتے ہیں لِمَنْ الْعَزَمَ حُكْمَ الشَّرْعِ وَ أَقرَّبِہ ایک شخص نے کہا کہ میں ایمان لایا ہوں اور جو احکام ہیں اس کے مطابق میں اپنی زندگی کو ڈھالوں گا.ثُمَّ أَخَلَّ بِجَمِيعِ أَحْكَامه او ببعضه پھر یہ جو احکام شرع ہیں ان کا حق ادا نہیں کیا اور تکفیر کی.یعنی ان کو چھوڑ دیا تو وہ فاسق بن جاتا ہے اور اس کے اندر اطاعت سے باہر جانا بھی ہے کیونکہ ہر کافراطاعت سے باہر جا تا ہے اس لئے اس کا دائرہ بڑا بن گیا.اس تمہید کی ضرورت اس لئے پڑگئی کہ کچھ پچھلے خطبہ میں جب میں نے اس مضمون پر بات کی تو
۳۸ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث وہاں گرمی اور کمزوری کی وجہ سے میں بعض تفاصیل نہیں بتا سکا.ایک بات جو آج میں زائد کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ان آیات کے آخر میں جو ا ۵ آیت ہے یعنی وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ تین گروہ تو وہ ہیں کافر، فاسق اور ظالم جو مَنْ لَمْ يَحْكُمُ بِمَا انْزَلَ الله کے نیچے آتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات پر اور اس کی صفات پر یقین رکھتے اور عرفان رکھتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں.یقینی علم ہے.رزاق ہے.بڑا طاقتور ہے.اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے.یہ انبیاء کا سلسلہ جو کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا چوبیس ہزار پیغمبر آیاد نیا میں.ہر ایک کی زندگی تمام ان کی جنہوں نے وفا سے کام لیتے ہوئے ان انبیاء کی اتباع کی اور خصوصاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر.اس کے بعد آپ کے ماننے والے آپ کے فدائی، اولیاء اور قطب اور پتا نہیں کیا کیا انسانوں نے ان کے نام رکھ دیئے ، بہر حال انہوں نے اپنا ایک ہی نام رکھا تھا کہ ہم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں، جاں نثار ہیں، آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور آپ کی اطاعت میں دنیا کی ہر شے کو ٹھکرا دینے والے ہیں.دنیا کی ہراذیت جو ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنے والے.وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْما حکم تو اللہ ہی کا ہے لیکن جو مومن ہیں اور یقین رکھنے والے ہیں اس قوم کے لئے یہ ہی نہیں خالی کہ اللہ کا حکم چلتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی سب سے اچھا، سب سے بہتر ہمارے فائدہ کے لئے اس سے بہتر کوئی اور چیز ہوہی نہیں سکتی.اس واسطے جو خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس کو چھوڑ نہیں سکتے.دنیا جو مرضی کہتی رہے.دنیا کی طرف تو دیکھتے ہی نہیں نا.جو صاحب اقتدار ہے اس کی طرف ان کی نظر نہیں.ان کی نظر کا، روحانی نظر کا نقطہ صرف ایک ہے اور وہ ہے خدا تعالیٰ کی وحدانیت.ان کے دل میں جو ہے اس کا خلاصہ اس کا بھی ایک نقطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مولا لبس.وہ یہ ہے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) کہ جو خدا پر توکل کرنے کا دعوی کرے یہ دعویٰ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یہ سمجھے اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے.اگر میں اس خطبے کو لمبا کرتا تو میں بعض اللہ تعالیٰ نے جو اس گروہ کے لئے وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا انزل الله سزائیں تجویز کی ہیں ان کا ذکر کرتا لیکن وہ ایک لمبا مضمون ہے آپ کے سوچنے کے لئے یہ بتا دیتا ہوں کہ میں نے مثلاً قرآن کریم پڑھا ہوا ہے، جہنم ہے ان کی سزا، آگ ہے ان کی سزا اور
۳۹ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث پھر بہت ساری تفصیل اس جہنم کی وہ بھی ہے لیکن اپنے جس مضمون جو اصل مضمون جب میں ختم کروں گا اس کے لحاظ سے میں نے بعض سزائیں منتخب کی ہیں.ساری نہیں قرآن کریم کی لیں.قرآن کریم نے تو کھول کے جھنجھوڑ کے رکھ دیا کافر، فاسق اور ظالم کو لیکن جو میرے نزدیک بڑی سخت اور جس نتیجہ پر انشاء اللہ تعالیٰ میں پہنچنا چاہتا ہوں اور آپ بھی پہنچ جائیں گے اس سے تعلق رکھنے والی ہیں وہ میں نے لی ہیں.ان میں سے ایک کو آج میں لیتا ہوں اور وہ ہے لعنت.لعنت کے نتیجہ میں جہنم ہے.لعنت جہنم کا نام نہیں ہے.عربی زبان میں لعنت کے جو معنی ہیں اور جس پر روشنی ڈالی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں لعنت ایک ایسا مفہوم ہے جو شخص ملعون کے دل سے تعلق رکھتا ہے اور کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جب کہ وہ خدا سے بالکل برگشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ لعنت قرب کے مقام سے رد کرنے کو کہتے ہیں.تو جب کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی لعنت پڑی اس پر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے مقام سے اسے رد کر دیا.تو ایسے، ایسا مناسب اعمال نہیں، عمل صالح کرنے والا نہیں کہ جو حق رکھتا ہو کہ میرے قریب آئے.تو ناپاک ہے.تو شیطان کا حیلہ ہے خدا کا حیلہ نہیں اس واسطے میرے پاس نہ آنا.یہ جو ہے معنی یہ لعنت کا مفہوم ہے.لعنت قرب کے مقام سے رڈ کرنے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جس کا دل خدا کی محبت اور پیار سے دور جا پڑے.اور درحقیقت وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو گیا اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو گیا.تو جب انسان شیطانی راہوں پر چلے.جب انسان مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ جو احکام اللہ تعالیٰ نے جاری کئے کائنات میں ان کو توڑنے لگ جائے اور جو مشورے اس کے کان میں شیطان اس کو دے، ان مشوروں کے مطابق وہ اپنی زندگی ڈھالنے لگ جائے اور اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی منزلت اور عظمت اور کبریائی نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور حقیقتا وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس کا دشمن اور اس سے بیزار ہو جائے.یہ ہے لعنت کا لفظ.خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ اے شخص! تجھے میں نے پیدا کیا تھا اس لئے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريت : ۵۷)
سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تا کہ تو میرا بندہ بنے.تا کہ تو تتخلّق بِأَخْلاقِ اللہ کرے.میرے اخلاق کا رنگ تیرے اعمال میں سے ظاہر ہو.تو نے تو میری پرواہ ہی کوئی نہ کی تو نے میرے اس نور کو چھوڑ کے شیطانی ظلمات کو ترجیح دی.تو نے میرے حسن کو نظر انداز کر کے انتہائی بد صورتی جو ہے شیطان کی ، اس کو اچھا سمجھا اس واسطے میرے سے کوئی تعلق نہیں.مقام قرب سے میں تجھے رڈ کر رہا ہوں.یہ سزا ہے ایک جو ان تین گروہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہے.اس کا تعلق اس آگ سے نہیں جس کی تفصیل آئی ہے.اس کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے ہے کہ میں تجھے اپنے پاس نہیں پھٹکنے دوں گا.اے ذلیل انسان! آسمانی رفعتوں کے لئے تجھے پیدا کیا تھا، شیطانی گہرائیوں میں تو جا گرا.دور ہو جا.دفع ہو جا میرے سامنے سے، لعنت ہے تجھ پر میری، یہ خدا کہتا ہے.یہ ایک سزا بیان کی گئی ہے جو ان دو چار سزاؤں میں سے ہے جن کو میں نے منتخب کیا ہے.( خطبات ناصر جلد نهم ۱۱۹ تا ۱۲۵) اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مخلصین کی جماعت دی گئی تھی اگر چہ وہ انتہائی طور پر فدائی اور جانثار اور ایثار پیشہ تھے.اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والے اور اپنے نفسوں کو اللہ تعالیٰ کے قدموں پر ڈال دینے والے تھے اور خدا کے لئے اور خدا کی رضا کی جستجو میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار تھے لیکن ان مخلصین کے ساتھ کچھ لوگ وہ بھی شامل تھے جن کا ایمان صرف زبان تک تھا جن کے دل ایمان سے خالی تھے.اس گروہ میں پھر دو قسم کے لوگ پائے جاتے تھے.ایک وہ جن کے دل اگر چہ ایمان سے اس وقت تک خالی تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں ایمان داخل ہو رہا تھا جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَلَمَّا يَدُخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمُ (الحجرات: ۱۵) کہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.جس کا مطلب یہ ہے کہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ تمہارے دلوں میں یا تم میں سے بعض کے دلوں میں بعد میں ایمان داخل ہو جائے اور تم پختہ طور پر اور سچے طریق پر ایمان لے آؤ.اسی وجہ سے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ سب لوگ جن کے دل ایمان سے ابھی خالی ہیں وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے اور اس قسم کی بداعمالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُم کہ جن کے دل ایمان سے ابھی خالی
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱ سورة المائدة ہیں لیکن جن کی زبان ایمان کا اقرار کرتی ہے ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کے متعلق اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے.جن کے دل ایمان سے خالی تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لیکن زبان سے ایمان کا اقرار تھا وہ پھر دو گروہوں میں تقسیم تھے ایک وہ جن کے متعلق یہ امید کی جاسکتی تھی کہ ایک وقت میں ان کے دلوں میں نور ایمان داخل ہو کر ان کی روح کو اور ان کے دل کو اور ان کے جسم کو اور ان کے خیالات اور جذبات کو اور ان کی تمام استعدادوں کو منور کر دے گا لیکن ایک وہ تھے جن کے متعلق اس قسم کی امیدان کی ظاہری حالت کو دیکھ کر نہیں رکھی جاسکتی تھی اور انہی کا ذکر اس آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ جو يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ کفر کی اور فتنہ کی اور فسوق کی باتیں سننے کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتے ہیں اور اس قسم کی فاسقانہ باتیں پھیلانے کا میلان ان کی طبیعتوں میں ہے اور ان کے اعمال بھی کفر کی ملونی کی وجہ سے کافرانہ اعمال ہی کہلائے جاسکتے ہیں.ایمان کے امتحان کے وقت مضبوط دل والا تو ایمان کی پختگی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن یہ لوگ اپنے ایمان کی کمزوری کا اور کفر کی آمیزش کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فوراً اس قسم کے بد اعمال کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُسَارِعُونَ فِي الكفر کا گروہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا جو کفر کی باتیں سنتے اور کفر کی باتوں کے پھیلانے اور کفر کی بداعمالیوں کی طرف سرعت سے متوجہ ہونے میں سب سے آگے تھا اس کی طبیعت کا میلان ہی اس طرف تھا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس قسم کے لوگ پائے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہی فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا مقصد چونکہ اسلام کو اور اُمت مسلمہ کو کمزور کر دینا ہوتا ہے اس لئے ان لوگوں کا تعلق ان غیر مسلموں کے ساتھ رہتا ہے جو اسلام کے بظاہر نزدیک آتے تھے، باتیں سنتے تھے مسلمانوں کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے لیکن خلوص نیت کے ساتھ نہیں بلکہ بدنیتی کے ساتھ اور دو مقصد ان کے پیش نظر ہوتے.ایک تو اس قسم کے کمزور ایمان والوں سے تعلق پیدا کر کے جھوٹی باتوں کو وہ سنتے اور اخذ کرتے تھے.پھر غیر مسلموں میں جا کے یہ کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے مصلح لوگوں نے یوں کہا کیونکہ ان لوگوں کے متعلق قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲ سورة المائدة جب ان سے کہا جائے کہ فساد کی باتیں نہ کرو تو جواب دیتے ہیں.إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (البقرة: ۱۳) یہ یہودی جو تھے وہ مسلمانوں سے تعلق قائم کرتے اور باتیں سنتے تھے اور پھر دوسروں کو جا کے کہتے تھے کہ بڑے بڑے بزرگ مصلح خدمت گزار مسلمانوں سے ہم نے یہ باتیں سنی ہیں اور اس قسم کی جھوٹی باتیں پھیلا کر وہ اسلام کے خلاف مکر اور منصوبے کرتے تھے.دوسرے ان کا مقصد یہ تھا کہ صداقت کی باتیں ، قرآن کریم کی آیات اور ان آیات کی تفسیر سنیں اور جس رنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان ہدایتوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے وہ دیکھیں، ان کے متعلق باتیں سنیں لیکن نیت یہ نہیں ہوتی تھی کہ صداقت کو صحیح شکل میں آگے پھیلائیں بلکہ وہ آیات قرآنی کو سنتے تھے اس نیت کے ساتھ کہ اس کا مفہوم اس رنگ میں پھیلائیں گے کہ اعتراض کرنے والے اسلام کو اعتراض کا نشانہ بنا ئیں اور اسلام کی اشاعت میں اس طرح ایک روک پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے فدائیوں کے ساتھ کمزور ایمان والوں کا جو گروہ شامل ہو گیا تھا اور کمزور ایمان والوں میں سے بھی وہ جو يُسَارِعُونَ فِي الكفیر کے مظاہرے کرتے تھے ان کا تعلق ایسے گروہوں کے ساتھ تھا کہ جو مسلمان نہیں تھے لیکن بظاہر شوق سے اسلام کی باتیں سنتے تھے اور نیت یہ ہوتی تھی کہ کچھ جھوٹی باتیں لیں اور پھیلا ئیں اور کچھ سچی باتیں لیں اور ان کا غلط مفہوم لے کر اسے بگاڑ کے لوگوں کے سامنے پیش کریں تا کہ اسلام اعتراض کا نشانہ بنے اور وہ لوگ جو اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں ان کے راستہ میں ایک روک پیدا ہو جائے اور اسلام کی فتح اور کامیابی کا زمانہ جو ہے وہ آئے ہی نہ یا اس میں تاخیر ہو جائے.بہر حال ان کی نیتیں اور ان کی خواہشیں اور ان کی کوششیں تو یہی ہوتی تھیں کہ اسلام کا میاب نہ ہو، ناکام رہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے منافقوں کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کا تعلق فتنہ پیدا کرنے والے غیر مسلموں کے ساتھ ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی تھا.ایسے کمزوروں کا تعلق فتنہ پرداز غیر مسلموں کے ساتھ تھا.یہاں مثال کے طور پر یہود کا ذکر ہے لیکن جب ہم اسلامی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت اسلام پھیلا تو جب قیصر مقابلہ پر آیا عیسائیوں میں ایسے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں جب کسرئی مقابلہ میں آیا تو ایرانیوں میں ایسے لوگ تھے جو
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۳ سورة المائدة اس نیت کے ساتھ مسلمانوں سے تعلق پیدا کرتے تھے کہ کمزور مسلمانوں سے فائدہ اُٹھا ئیں اور غلط باتیں مشہور کر کے اسلام کو کمزور اور نا کام کرنے کی کوشش کریں.مثال کے طور پر یہاں یہود کا ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مفسدین کا اصل مقصد اسلام میں کمزوری پیدا کرنا ہوتا ہے اور یہ لوگ دو طریق اختیار کرتے ہیں.ایک اندرونی فتنہ کا اور ایک بیرونی فتنہ کا.بیرونی طور پر تو جھوٹی باتیں یا آیات قرآنی کا مفہوم غلط بیان کر کے اسلام کو اعتراض کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اندرونی طور پر اطاعت کی روح کو کمزور کرتے ہیں.اطاعت کی روح سَبْعًا وَطَاعَةً ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد نازل ہوتا تھا.آپ اس پر عمل کرتے تھے اور جس طرح اور جس رنگ میں آپ اس پر عمل کرتے تھے اپنے ماننے والوں سے یہ توقع اور امید رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اطاعت کا ایسا ہی نمونہ دکھا ئیں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حقیقتا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے.اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی طرف سے کچھ کہا نہ اپنی طرف سے کچھ کر کے دکھایا جو کہا وہ خدا کا فرمان جو کیا وہ اس فرمان کے مطابق ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا.اندرونی دشمن اور بیرونی دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اگر اطاعت کی اس روح کو کمزور نہ کیا جائے تو وہ فتنہ نہیں پیدا کر سکتا.اس واسطے ان کی ساری توجہ اور ان کا بھر پور وار اس روح پر ہوتا ہے جو سَبْعًا وَ طَاعَةً کی روح ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اِن اوتيتم هذا فَخُذُوهُ کہ جو تمہاری مرضی کے مطابق ہوجس چیز میں تمہارا فائدہ ہو وہ حکم تو مان لیا کرو.یعنی جو بات تمہیں معقول نظر آتی ہے مان لیا کرو لیکن جو بات تمہاری عقل میں نہیں آتی جسے تم غیر معقول سمجھتے ہو وہ تم کیوں مانو اور جسے ہوائے نفس مضر پاتا ہے مفید نہیں پاتا اپنے لئے اسے کیوں مانو.اطاعت کی اس روح کو کمزور کرنے کیلئے یہ حیلہ کرتے تھے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر اس قسم کے احکام ہوں (چونکہ وسیع مفہوم ادا کرنا تھا اس واسطے احکام کی قسم کو معین نہیں کیا روح بتا دی ہے ) جو تمہارے فائدہ کے تمہیں نظر نہ آتے ہوں.تمہاری خواہش کے مطابق نہ ہوں جو تم چاہتے ہو وہ نہ ہوں جو تمہارے نزدیک معقول نہ ہوں ایسی باتوں کو نہ مانا کرو بلکہ آزادی ضمیر کا واسطہ دے کر اور اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ہے اور بہت سی استعدادیں دی ہیں.ان کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ آخر خدا تعالیٰ نے تمہیں بھی عقل دی اور روحانی قوتیں دیں جس
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۴ سورة المائدة چیز کوتم اچھا نہیں سمجھتے آنکھیں بند کر کے کیوں مانو علی وجہ البصیرت ماننا چاہیے پتہ نہیں کس کس رنگ میں وہ ان کو بہکاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے احکام ہوں تو مان لیا کرو.اس قسم کے احکام ہوں تو نہ مانا کرو.قسم نہیں بتائی لیکن طریق بتادیا کہ جب چاہو مانو جب چاہو نہ مانو پس اطاعت تو ختم ہوگئی.وہ روح جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا رنگ چڑھا دیتی ہے.وہ روح جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم شکل بنا دیتی تھی.وہ روح جو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیتی تھی کیونکہ خدا نے یہی فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو اور آپ سے محبت کرو تب میرے محبوب بن سکو گے.دشمن کہتا ہے اس روح کو کچل دو تو نہ محمد کے ہم شکل بنیں گے نہ (اپنی اپنی استعداد کے مطابق ) صفات باری تعالیٰ کے مظہر بنیں گے نہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے نہ کامیاب ہوں گے کیونکہ اسلام کا مقصد ہی یہی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی یہ تھی کہ اپنی اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر تمام بنی نوع انسان کو صفات باری تعالیٰ کا مظہر بنا کے اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیا جائے تا کہ خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات سے انسان زیادہ سے زیادہ حصہ لینے لگ جائے تو اندرونی دشمن اور بیرونی دشمن ہر دو کا مقصد ہے اسلام کو کمزور کر کے بظاہر نا کامی کی طرف اسے دھکیلنا اور ایک ہی بنیادی حربہ ہے جو وہ استعمال کرتا ہے اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو کمزور کر دینا ہے.جب اطاعت کی روح کمزور ہو گئی تو یہاں بھی اختلاف کیا وہاں بھی اختلاف کیا.ہزار دروازے فتنے اور فساد اور بغاوت اور فسوق کے کھل جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے منصوبوں اور ریشہ دوانیوں اور کارروائیوں کو دیکھ کر اے ہمارے رسول ! غمگین نہ ہو لا تحزن کی وجہ قرآن کریم نے دوسری جگہ بتائی ہے اور دل کی مضبوطی کے سامان پیدا کئے ہیں.فرمایا کہ وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: ۱۲۹،۱۲۸) دشمن جس دروازے سے چاہیے آئے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا اس واسطے کہ اللہ کی مدد اور نصرت اسے ملتی ہے جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا اور نیکیوں کو احسن طور پر بجالاتا ہے تو لا تحزن میں یہ حکم ہے کہ غمگین مت ہو کیونکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر تم قائم ہو اور احسن اعمال بجالانے میں تمہارا کوئی مثیل نہیں ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے دشمن کا مکر کا میاب ہو ہی نہیں سکتا.اسی کی وضاحت آپ نے فرمائی تھی.
سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث جب یہ کہا لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ( التوبه : ۶۱) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ نا کامی اور نامرادی کا خوف دل میں نہ لا.اِنَّ اللهَ مَعَنا خدا ہمارے ساتھ ہے اور جو شخص تقویٰ پر قائم ہو احسن اعمال بجالانے والا ہواللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں وہ نا کام کیسے ہوسکتا ہے؟ تو یہاں پر لا تحزن کا مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے رسول ! ہم تمہارے ساتھ ہیں تم نا کام نہیں ہو سکتے اس واسطے نا کامی کا کوئی غم نہیں.دوسرے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا تھا کہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو تو ہماری مدد اور نصرت اس رنگ میں تمہارے شامل حال ہو جائے گی کہ غیر تمہارے پر فتح نہیں پا سکے گا.تمہارے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جیسا کہ آل عمران میں فرمایا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَونَ إِنْ كُنْتُمُ مؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۳۰) اگر تم حقیقی مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو تو کامیابی تمہارے نصیب میں ہے.اس واسطے تمہیں غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اول المؤمنین تھے.آپ سے بڑھ کر کوئی مؤمن نہیں تھا تو یہاں یہ فرمایا کہ تم اول المؤمنین ہو تم نے ہی کامیاب ہونا ہے اس واسطے لا تحزن پریشان ہونے کی غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے.سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کو ملائکہ کی مدداوران کی بشارتیں ملتی ہیں.پس یہاں یہ معنی ہوں گے کہ ملائکہ تمہاری مدد پر ہر وقت کمر بستہ ہیں لا تحزن اندرونی اور بیرونی دشمن کیسے کامیاب ہو سکتا ہے.تم یہ غم نہ کرو یعنی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ اسلام کہیں کمزور نہ ہو جائے، ناکام نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا ہے فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۳۹) جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآنی کی اتباع کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے نا کامی کا منہ نہیں دیکھتا وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ تو فرما یالَا تَحْزَنُ جو ہم نے ہدایت نازل کی ہے تیری تو ساری زندگی ، سارے اخلاق ہی اس ہدایت کا عملی نمونہ ہیں یعنی تیری زندگی قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہے اس واسطے تجھے غمگین ہونے کی ضرورت نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو توغم کا سوال ہی نہیں دراصل ہمیں یہ سارے سبق دیئے جار ہے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (یونس: ۶۶) اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ تجھے نا کام کریں اور ذلیل کر دیں لیکن تجھے اس یقین پر قائم کیا گیا ہے کہ عزت کا سر چشمہ اور منبع
سورة المائدة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس واسطے جو مرضی وہ کہتے ہیں، کرتے رہیں.عزت تو تیرے ہی نصیب میں ہے.دنیا کا سب سے معزز انسان (جب سے انسان پیدا ہوا اور جب تک انسان اس دنیا میں رہے گا ) تو ہے.تیرے طفیل پہلوں نے بھی عزت پائی اور بعد میں آنے والے بھی تیرے ہی طفیل عربات حاصل کریں گے.تمہیں اب سر چشمہ عزت بنا دیا گیا ہے تو چونکہ تیرے طفیل ہی سب کو عزت ملی ہے اس واسطے ان کے قول ان کے منہ کی باتیں بے نتیجہ ہیں، بے اثر ہیں.عزت کا مالک تو تو ہی ہوگا.لا تَحْزَنُ غم کرنے کی ضرورت نہیں.تیرے طفیل اسلام ہمیشہ معزز رہے گا.اسلام ہمیشہ ملائکہ کی بشارتیں حاصل کرتا رہے گا اور اسلام اور اُمت مسلمہ ہمیشہ اعلیٰ رہے گی اور خدا تعالیٰ ہمیشہ متقیوں کے ساتھ رہے گا.ان متقیوں کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآنی پر عمل کرنے والے ہیں.اس واسطے لا تحزن اے رسول! تجھے ان اندرونی دشمنوں کی یہ حرکتیں اور یہ منصوبے جو وہ کر رہے ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اس خیال میں نہ ڈالیں کہ وہ کامیاب اور تو نا کام ہو جائے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو یقین اور پختگی کے ساتھ اس حقیقت پر قائم تھے لیکن آیات قرآنی میں جن کے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں اس قسم کا مضمون اگر بیان ہو تو ہم لوگوں کو سبق دینے کیلئے یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے......اس آیہ کریمہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس طرح اس قسم کی ایک چھوٹی سی جماعت پائی جاتی تھی بعد میں آنے والوں میں بھی اس قسم کی جماعت پائی جائے گی.اس قسم کے لوگ ہوں گے جو ایمان کا دعوی کریں گے جو مصلح ہونے کا نعرہ لگائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ يُسَارِعُونَ فِي الكفر فتنہ فساد اور فسق اور فجور کی باتیں سننے کی طرف دوڑیں گے اور ایسی باتوں کو پھیلائیں گے اور بداعمالیوں میں وہ زندگی کے دن گزار رہے ہوں گے.جماعت مومنین میں بھی فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کے مفسدانہ تعلقات بھی غیر مسلموں کے ساتھ ہوں گے، یہودی ہوں ، عیسائی ہوں، آتش پرست ہوں، دہر یہ ہوں، بد مذہب ہوں جو بد نیتی کے ساتھ اور شرارت کے ساتھ مسلمانوں سے تعلق قائم کریں گے اور غلط باتیں ایسے لوگوں سے سن کے ، جھوٹی باتیں ایسے لوگوں سے سن کے یہ کہہ کے پھیلائیں گے کہ بڑے بزرگ مسلمانوں نے یوں کہا اور یوں کہا یا سچی باتوں کو بدل کے اور ان میں تحریف کر کے پھیلائیں گے تا کہ اسلام پر اعتراض کرنا بعض
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۷ سورة المائدة ناسمجھوں کے نزدیک آسان ہو جائے اور اس طرح شرارت پیدا ہو اور اسلام میں ضعف پیدا ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں جب روم فتح ہوا تو وہاں ایک جماعت مسلمانوں کے ساتھ ایسی شامل ہو گئی.جب ایران فتح ہوا تو مسلمانوں کے ساتھ ایسی جماعت شامل ہو گئی.جب پین فتح ہوا تو وہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسے لوگ شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی طرح لباس پہنے والے، مسلمانوں کی طرح باتیں کرنے والے، مسلمانوں کی طرح اپنے اعتقادات کو قرآن کریم کی تعلیم پر قائم کرنے کا اظہار کرنے والے تھے لیکن تاریخ اس قسم کے فتنوں سے بھری ہوئی ہے.اندر سے وہ دشمن تھے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے اور کرتا رہا کہ ان کی اسلام دشمنی ظاہر ہوتی رہی اور ہمیشہ ہی وہ خدا کی نگاہ میں اور اس کے پیاروں کی نگاہ میں حقارت کے اور بے عزتی کے مقام کو حاصل کرتے رہے.اسلام کے لئے جو انہوں نے چاہا اپنے نفسوں کے لئے اسی بے عزیتی اور حقارت کو انہوں نے پایا.ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دشمن کا یہ فتنہ تو جاری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی اس سے پاک نہیں رہا آئندہ بھی کوئی زمانہ اس قسم کے شر پسندوں سے پاک نہیں ہوگا.اس لئے اے مخلصین اُمت مسلمہ! تمہارے لئے اصولی طور پر ایک ہی ہدایت ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور آپ کے اُسوہ اور سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہنا.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم ایسے لوگوں کے فتنہ سے خود بھی بچو گے اور دوسروں کو بھی بچاؤ گے.پس سنت نبوی کو تم مضبوطی سے پکڑو.تم پر یہ فرض عاید کیا گیا ہے کہ ایسے فتوں سے اپنے نفس کو بھی بچاؤ اور اپنے بھائیوں کو بھی بچاؤ اور کسی قسم کی کمزوری یا گھبراہٹ کا اظہارنہ کرو.تمہارے دل اس یقین پر قائم ہونے چاہئیں کہ اس قسم کے فتنے الہی جماعتوں کو مضبوط کیا کرتے ہیں انہیں کمزور نہیں کیا کرتے.دوسرے تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ جیسا کہ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خزمی اس دنیا میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے رُسوائی اور بے عزتی اور کم قعتی کا مقام بنایا ہے.تمہاری نگاہ میں بھی وقعت کا کوئی مقام انہیں حاصل نہ ہو بلکہ خذمی کا جو مقام خدا تعالیٰ نے اسلام کے دشمنوں کے لئے مقدر کیا ہے اسی مقام پر تم انہیں دیکھو اور ویسا ہی ان سے سلوک کرو اور مطہر نہ سمجھو کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ
۴۸ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہی نہیں ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو مطہر سمجھے، قرار دے یا مطہر کے ساتھ جو اس کا سلوک ہے وہ سلوک اس سے کرے اور ہمیں یہ بھی بتایا کہ تمہیں چاہیے کہ تم اس یقین پر پختگی سے قائم رہو کہ اسلام کے مٹانے یا اس کے کمزور کر دینے کے منصوبے جہاں بھی ، جس رنگ میں بھی کئے جائیں وہ کامیاب نہیں ہوا کرتے جیسا کہ رسول مقبول محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے لا يَحْزُنُكَ کا نمونہ دنیا کو دکھایا تھا.بڑے ابتلاء آئے ، فتنے کھڑے ہوئے، منصوبے کئے گئے لیکن آپ اسی بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں پوری طرح ڈوبے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی محبت کو کامل طور پر حاصل کرتے ہوئے اس دنیا کی زندگی کے دن گزارتے رہے.پس یہ نمونہ اس میدان میں آپ نے پیش کیا.اس نمونہ کو سامنے رکھو اور اللہ تعالیٰ پر اور اس کی بشارتوں پر اور اس کے وعدوں پر کامل یقین رکھو.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ وعدہ پورا ہو جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ تیرے روحانی فرزندوں میں ایک عظیم اور جلیل فرزند کھڑا کروں گا جو تیری عزت کو ، جو تیری محبت کو، جو تیری عظمت کو ساری دنیا میں قائم کرے گا اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کو اپنے کمال تک پہنچا دے گا.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۷۶ ۴ تا ۴۸۵) آیت ۵۵ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا کہ جب تم بدیوں کو ترک کر کے اور نیکیوں کو اختیار کر کے میری رحمت کے اُمیدوار بن جاؤ گے تو پھر میں اپنے فضل کے ساتھ حقیقتا اور واقعتا تمہیں اپنی رحمت عطا کر دوں گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَة
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹ سورة المائدة اذِلَةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِمٍ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - فرمایا کہ بعض انسان تو ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار کر جاتے ہیں اور بعض ایمان لاتے اور پھر پختگی اور استقلال اور فدائیت کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں.وہ لوگ جو استقلال کے ساتھ نیکیوں پر مداومت اختیار کرتے ہیں.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے اور اس کی رضا پر راضی رہتے ہیں.پھر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مومنوں پر شفقت کرنے والے ہیں ( ہر مومن تمام دوسرے مومنوں کے آگے بچھتا چلا جاتا ہے) یہ وہ لوگ ہیں اَعِزّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ جو کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں.جب کا فراچھے لوہے کی تلوار میں لے کر ان کے مقابلہ پر آتے ہیں تو ان کی ٹوٹی ہوئی خراب اور نا قابل اعتبار لوہے کی بنی ہوئیں تلواریں بھی ان کافروں کی تلواروں کے مقابلہ میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے عملاً سخت نظر آتی ہیں.کیونکہ ان کی کاٹ زیادہ نظر آتی ہے.اسی طرح جب یہ لوگ دلائل حقہ کے ساتھ کافروں کے باطل عقائد اور ان باطل عقائد کے حق میں باطل دلائل کا مقابلہ کرتے ہیں تو ان کے منہ بند کر دیتے ہیں اور جب کا فرلوگ مختلف قسم کی رسوم اور بدعات کے ذریعہ اور مختلف قسم کی لالچ دے کر ان کو راہ صداقت سے ہٹانا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان کا اثر قبول نہیں کرتے (آعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ ) فرمایا کہ ہم جو ایسے گروہ سے محبت کا سلوک کرتے ہیں تو اسی لئے کہ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی پوری طاقت اور پوری قوت اور اپنے پورے وسائل اور تمام تدابیر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.اس کے راستہ میں مجاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں.وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاپ اور کسی موقع پر بھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف ان کے دل میں پیدا نہیں ہوتا وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ ہماری برادری کیا کہے گی وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا رب کیا کہے گا.ان کے دلوں میں یہ خوف پیدا نہیں ہوتا کہ جس ماحول میں ہم رہ رہے ہیں
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة المائدة اس میں ہم نے خدا کے بتائے ہوئے طریق کے خلاف رسوم کو ادا نہ کیا.تو ہمارا ناک کٹ جائے گا کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ ناک کٹنا یا ناک کا رکھنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور ساری عرب تیں اسی کی طرف منسوب ہوتی ہیں.وہی تمام عرب توں کا سر چشمہ ہے تو فرمایا وَ لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ نشاء پہلے فرمایا تھا کہ تم اُمید رکھ سکتے ہو کہ پھر تمہارا خدا تم سے محبت کرنے لگے گا.اب یہاں یہ وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ جو ان سے عملاً محبت کرنے لگ جاتا ہے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے بظاہر بدیوں کو چھوڑا اور بظاہر نیکیوں کو اختیار کیا بلکہ چونکہ ہر انسان کے اعمال اور خیالات میں کچھ چھپی ہوئی برائیاں اور کمزوریاں رہ جاتی ہیں اس لئے کوئی شخص یہ امید نہیں رکھ سکتا.اور نہ ہی اسلامی تعلیم کے مطابق اسے ایسی امید رکھنی چاہیے کہ وہ محض اپنے اعمال یا اچھے خیالات یا اچھی زبان کے نتیجہ میں خدا کے قرب اور اس کی رضا کوضرور حاصل کرے گا یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ اور وہ اپنی محبت کی خلعت سے صرف اسے ہی نوازتا ہے.جو اس کی نگاہ میں پسندیدہ ہوتا ہے.(مَنْ يَشَاءُ ) اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک اور بات بھی بتائی وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ چونکہ اللہ تعالیٰ علم غیب رکھتا ہے اس لئے جب وہ چاہتا ہے.اپنی صفت واسع کا اظہار کرتا ہے.پس یہاں یہ امید دلائی کہ یہ مقام قرب ورضاء جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے اس کی کوئی انتہاء نہیں.ہر مقام قرب کے بعد قرب کا ایک اور مقام بھی ہے.کیونکہ انسان کسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو.اس مادی دنیا میں مادی جسم کے ساتھ یا اس اُخروی زندگی میں ایک روحانی جسم کے ساتھ اس کے اور اس کے رب کے درمیان غیر محدود فاصلے ہیں.یعنی قرب ایک نسبتی چیز ہے اور اگر انسان قرب کی راہیں ابدی طور پر ہر آن طے کرتا چلا جائے تب بھی وہ خدا کے قرب کا آخری مقام حاصل نہیں کر سکتا جس کے اوپر کوئی اور مقام قرب نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات تو بڑی ہی ارفع ہے.بلندی کے بعد بلندی انسان کو حاصل ہوتی رہتی ہے.اور خوش قسمت انسانوں کو حاصل ہوتی رہے گی.لیکن یہ فاصلے غیر محدود ہیں اور قرب کی غیر محدودرا ہیں کھولتے ہیں.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة المائدة اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والله واسع کہ جس پر وہ نگاہ رضاڈالتا ہے اس کو اس کی محبت حاصل ہو جاتی ہے.یہ مقامِ رضا ایسا ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں.پھر عاجزانہ دعائیں اس کی محبت میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں اور مزید فضل اور بخشش کا اسے وارث قرار دیتی ہیں.پھر جب وہ مزید فضل اور بخشش کا وارث بنتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کا پہلے سے بھی زیادہ شکر گزار بندہ بن جاتا ہے اور جب وہ پہلے سے زیادہ شکر گزار بندہ بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بھی زیادہ اس سے محبت کا سلوک کرنے لگ جاتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ خدا مجھ سے پہلے سے بھی زیادہ محبت کا سلوک کر رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اور بھی زیادہ جھک جاتا ہے اور اس طرح ایک تسلسل قائم ہوجاتا ہے.اور ہر آن بندہ خدائے واسع کی صفت واسع کا مشاہدہ کرتا چلا جاتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۴۰ تا ۴۴۲ آیت ۱۰۶ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُم تعملون اے مومنو! تم اپنی جانوں ( کی حفاظت) کی فکر کرو.جب تم ہدایت پا جاؤ تو کسی کی گمراہی تم کو نقصان نہیں پہنچائے گی تم سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پس جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے تمہیں آگاہ کرے گا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ ایک شخص کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی فکر کرے اور اس کا پورا پورا خیال رکھے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے، اُس نے ہمیں محض پیدا ہی نہیں کیا بلکہ بعض صلاحیتیں بھی عطا کی ہیں اور پھر اُس نے ہمیں بعض راہوں پر چل کر ان صلاحیتوں کو ترقی دینے اور حسب استعداد انہیں کمال تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی ہے.ان راہوں پر چلنے سے ہم اس کو پالیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کا اصل مقصد ہمیں حاصل ہو جاتا ہے.وہ راہیں کون سی ہیں؟ سو جاننا چاہیے کہ وہ راہیں وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دیئے ہیں.ان احکام پر عمل کر کے ہم حقیقی فلاح سے ہمکنار ہو سکتے ہیں اور عند اللہ کا میاب قرار پاسکتے ہیں.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۲ سورة المائدة ان احکام میں سے بعض کا تعلق ہمارے جسم سے ہے اور بعض کا تعلق ہماری روح سے ہے.اسی نسبت سے ہماری صلاحیتیں بھی دو قسم کی ہیں ایک جسمانی اور دوسرے روحانی.ہر دو قسم کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے علیحدہ علیحدہ احکام دیئے ہیں.جہاں تک جسمانی صلاحیتوں کو ترقی دینے والے احکام کا تعلق ہے ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ نفس کشی کے مرتکب نہ ہوں.اسی لئے اُس نے بلا وجہ فاقے کرنے اور جسمانی قوی کو ماؤف کرنے سے منع کیا ہے.اسی طرح دوسری طرف اُس نے اسراف سے بھی روکا ہے.جسمانی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے سلسلہ میں اُس نے ہمیں درمیانی راستہ پر چلنے کا حکم دیا ہے یعنی انسان نہ تو نفس کو اتن مارے کہ مضمحل ہو کر نا کارہ ہو جائے اور نہ اس درجہ نفس پروری کرے کہ اسراف کا مرتکب ہوکر نفس پرستی پر اتر آئے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اَلا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن : 9) فرما کر متوازن خوراک اور متوازن عمل کی تعلیم دی ہے (Balanced Diet) یعنی متوازن غذا کا نظریہ جس کافی زمانہ بہت تذکرہ سننے میں آتا ہے کوئی جدید نظریہ نہیں ہے بلکہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں یہی تعلیم دی تھی کہ ہم متوازن غذا استعمال کریں کیونکہ متوازن جسمانی ترقی کے لئے متوازن غذا کی ضرورت ہے.آج کل کے ماہرین غذا متوازن غذا پر بہت زور دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ متوازن غذا کا نظریہ دُنیا میں پہلی بارا نہوں نے ہی پیش کیا ہے حالانکہ اسلام نے بہت پہلے ہی متوازن غذا کی اہمیت کو اجا گر کر دیا تھا اسی طرح شہد کے متعلق قرآن مجید میں چند آیات آتی ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شہد اور شہد کی مکھیوں کے بارہ میں جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ جدید ریسرچ کی رو سے بھی سو فیصد درست اور مبنی بر حقیقت ثابت ہوا ہے.صدیوں بعد ریسرچ کرنے والے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ گویا شہد اور شہد کی مکھیوں کے یہ خواص اُنہوں نے پہلی بار دریافت کئے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں ان خواص کا پہلے ہی ذکر موجود ہے.جب ہم اس نقطہ نگاہ سے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو دل بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ خدا کی کتاب یعنی قرآن مجید بہت عظمت والی کتاب ہے.الغرض اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ایسے احکام دیئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم زندگی کے تمام میدانوں میں ترقی کر سکتے ہیں.قرآن سب سے عظیم کتاب ہے سب سے پیاری کتاب ہے.یہ ہر
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳ سورة المائدة بار یکی میں جاتا ہے اور ایسے احکام دیتا ہے کہ جن پر عمل کر کے ہم ترقی کی منازل بآسانی طے کر سکتے ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم یہ عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کریں گے اور اس کی اطاعت سے کبھی روگردانی نہیں کریں گے اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے.ان احکام کی رو سے پہلی ذمہ داری انسان کی یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کی قدر کرے اور قدر یہی ہے کہ ان کے حقوق بجالائے.پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ترقی کے پیش نظر ایک اور عظیم اعلان بھی کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسری روح کو بچانے کے لئے اپنی روح کی قربانی پیش کرو.جہاں جسمانی صلاحیتوں کو ترقی دینے اور اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی وہاں ساتھ ہی نفس پرستی سے منع فرمایا اور اس کے لئے اس نے ہمیں اخلاقی صلاحیتیں عطا کیں.اُس نے ان اخلاقی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لئے بھی متعدد احکام دیئے ہیں اور تاکید کی ہے کہ ہم ان پر بھی عمل پیرا ہوں اور وجہ اس کی یہ بیان فرمائی کہ اخلاقی احکام پر عمل پیرا ہونا دراصل تیاری ہے ایک اور اہم منزل تک پہنچنے کی.اور وہ منزل یہ ہے کہ ہم اس زندگی میں روحانی طور پر ترقی کر کے اپنے آپ کو اُس زندگی میں کامیابی کا اہل بنا ئیں جو کبھی ختم نہ ہو گی یعنی حیات الآخرۃ کو اپنا منتہائے مقصود بنا کر اس دُنیا میں اعمالِ صالحہ بجالا ئیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ امر ذہن نشین کرایا ہے کہ اگلے جہان کی زندگی کا آغاز اس دُنیا میں ہی ہو جاتا ہے یعنی اس دُنیا کی زندگی اور اگلے جہان کی زندگی میں ایک تسلسل ہے اور دونوں زندگیاں باہم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۰۷ تا ۵۰۹) اس کائنات میں خدا نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اگر وہ خدا کا عبد بن جائے تو وہ ساری برکتیں اسے مل جاتی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے اور اگر وہ ایسا نہ بنے یعنی عِباد الرحمن میں شامل نہ ہو تو اس کا وہ خود ذمہ دار ہے کسی اور پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور نہ کسی اور کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے.اگر کسی کا جرم ہے تو اس نے نقصان اٹھانا ہے اور اگر کسی نے کچھ پانا ہے تو اس نے پانا ہے.لَا يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ (المائدة :۱۰۶) ہدایت پر اس نے خود قائم رہنا ہے.ساری دنیا بھی اگر خدا سے دور ہو جاتی ہے اور ایک فرد واحد خدا کے حضور روحانی
۵۴ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رفعتوں کو حاصل کر رہا ہے تو ساری دنیا کی دوری اس کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی کو دیکھ لو دعوی نبوت سے پہلے بھی آپ خدا کے حضور جو گریہ وزاری اور عبادتیں کرتے رہے وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت حقیقی معنے میں خدا تعالیٰ کا ایک ہی عبادت گزار بندہ تھا آپ کے سوا ساری دنیا غفلت میں پڑی ہوئی تھی.کوئی تکبر میں پڑا ہوا تھا.کوئی اباء اور استکبار میں پڑا ہوا تھا.کوئی خدا کے خلاف بغاوت میں لگا ہوا تھا صرف وہی ایک بندہ تھا جو خدا کے حضور جھکا ہوا تھا.پھر اس وقت جب کہ ہر انسان خدا سے دور تھا ، خدا نے اسی ایک بندے سے پیار کیا اور اتنا پیار کیا کہ اور انسان کے حق میں نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا پیار کیا ہو یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کا اتنا پیار ملا ہو یا خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی نعمتیں ملی ہوں یا اتنی عزت قائم ہوئی ہو جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی.پس وہ جو اکیلا تھا کروڑوں کروڑ لوگ اس پر درود بھیجنے والے پیدا ہو گئے اور قیامت تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان خود اپنا ذمہ دار ہے.کسی انسان کو خدا تعالیٰ کے پیار سے روکنے کی کوئی اور انسان طاقت نہیں رکھتا.اسے اگر پیار ملتا ہے تو إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَيُلْقِيهِ کے مطابق ملتا ہے اور اگر وہ خدا کے پیار سے محروم رہتا ہے تو اس محرومی کی ذمہ داری اس کے اپنے نفس پر ہے کسی اور پر نہیں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۹۷ تا ۲۹۸) آیت ۱۱۵ ۱۱۶ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلُ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدَ الاَولِنَا وَاخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَ اَنتَ خَيْرُ الرّزِقِينَ قَالَ اللهُ اِنّى مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ.مِنْكُمْ فَإِنِّي أَعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أَعَذِّبُةٌ أَحَدًا مِنَ الْعَلَمِينَ ج حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے ایک مطالبہ کیا تھا.جس کے ساتھ روحانی طور پر عہد کا تعلق تھا.گو وہ اس مطالبہ کے وقت اسے سمجھتے نہیں تھے.انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام سے یہ عرض کیا کہ کیا تیرے رب میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہم پر آسمان سے رزق نازل کرے.کیونکہ ان کی نگاہ دنیا ہی میں محو اور کھوئی ہوئی تھی اور اس سے آگے نہ نکل سکی تھی.حضرت عیسی علیہ السلام نے انہیں
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ورة المائدة سور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کس قسم کا مطالبہ کر رہے ہو.خدا کا تقویٰ اختیار کرو.انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کھائیں اور دنیا کے انعامات کے حصول سے ہمارے دل مطمئن ہو جا ئیں.تب تیری صداقت پر ہمارے دلوں میں پختہ یقین پیدا ہو گا.اگر تیری بعثت کے بعد ہمیں اس دنیا میں صرف دکھ ہی ملتے ہیں آرام نہیں ملنا تو پھر تجھ پر ایمان لانے کا کیا فائدہ.حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ان کے دلوں میں حقیقی اطمینان پیدا کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ رَبَّنَا انْزِلُ عَلَيْنَا مَا دَةً مِّنَ السَّمَاءِ اے ہمارے رب تو اپنے فضل سے اپنے رحم سے ہمارے لئے آسمان سے مائدہ کے نزول کا انتظام کر.حواریوں نے مائدہ کا لفظ صرف دنیوی رزق کے لئے استعمال کیا تھا لیکن مائدہ کا لفظ عربی زبان میں جسمانی غذا اور روحانی غذا ہر دو کے متعلق استعمال ہوتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب رسول تھے.اس لئے انہوں نے اپنے رب کے حضور یہ عرض کی کہ اے میرے رب میری قوم روحانی طور پر بڑی کمزور ہے تو اس پر فضل کر اور اس کے لئے جسمانی رزق کے سامان بھی کر اور روحانی غذا کے سامان بھی پیدا کر اور چونکہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ کامل اور مکمل شریعت والا خاتم النبیین ایک ارفع اور اعلیٰ مقام کے حصول کے بعد حقیقی اور کامل ہدایت لے کر آنے والا ہے.اس لئے انہوں نے دعا کی کہ وہ روحانی رزق اترے کہ جو ہم لوگوں کے لئے بھی عید کا اور مسرت کا باعث ہو اور ہمارے بعد میں آنے والی نسلیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پائیں ان کے لئے بھی وہ جسمانی اور دنیوی، روحانی اور اُخروی خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کر دے.انہوں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ تو اپنے فضل سے ہمیں رزق عطا کر کیونکہ جو چیز تیری طرف سے عطا ہوتی ہے وہ دنیوی لحاظ سے بھی اور اخروی لحاظ سے بھی سب سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہاری دعا تو قبول کرتا ہوں اور یہ مائدہ جو مانگا گیا ہے.ایک محدودشکل میں تیرے ذریعہ میں اتاروں گا اور ایک کامل صداقت کے رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاروں گا لیکن اپنے ماننے والوں کو یہ تنبیہ کر دو کہ جو کوئی ان میں سے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کرے گا اور اسے ماننے سے انکار کرے گا اور روحانی غذا نہیں کھائے گا.اس کی اصلاح کے لئے ایک ایسا عذاب مقدر ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۵۶ سورة المائدة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کی بعثت سے قبل کسی اور کے لئے مقدر نہیں کیا گیا کیونکہ آپ سے پہلے آنے والوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے صرف اس حصہ کا انکار کیا تھا جو ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور گو وہ اصولی طور پر تو مجرم تھے لیکن ساری ہدایت کے وہ منکر نہیں تھے.ان کے مقابلہ میں جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کامل شریعت اور مکمل ہدایت کے منکر ہوں گے انہیں پہلوں کی نسبت زیادہ عذاب ملے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے کہا تم انہیں تنبیہ کردو کہ میں آسمان سے ان کے لئے دنیا کی نعمتوں کا بھی سامان پیدا کروں گا اور ان کی روحانی بقا اور حیات کا سامان بھی پیدا کروں گا.لیکن یہ رزق چاہے دنیوی ہو یا روحانی ان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور جو شخص ان ذمہ داریوں کو نہیں نبھا تا اور ناشکری کی راہوں کو اختیار کرتا ہے ( خصوصاً اس وقت جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو جائے اور کامل ہدایت اور مکمل شریعت کا نزول ہو جائے ) اس پر خدا کی گرفت بھی پہلوں سے زیادہ ہوگی.اس مضمون کے مطابق اور اس وعدہ کے مطابق جو سورۃ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے کیا تھا.سورۃ آل عمران کی شروع کی آیات ( جو میں نے ابھی پڑھی ہیں ) مضمون بیان کر رہی ہیں.سورۃ مائدہ میں وعدہ دیا گیا تھا کہ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ اور سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدائے واحد کی طرف سے جو الحی اور القیوم ہے حقیقی زندگی کا وہی مالک ہے.وہ حقیقی طور پر زندہ ہے اور حیات اور زندگی صرف اسی سے حاصل ہوسکتی ہے.وہ دوسروں کو زندہ رکھنے والا ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور بقا اور قیام صرف اسی سے حاصل کیا جاسکتا ہے.ایک ایسا مائدہ نازل ہو رہا ہے جو قیامت تک باقی رہے گا.نَزِّلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ (ال عمران : ۴) گویا حضرت عیسی علیہ السلام کو وعدہ دیا گیا تھا کہ اِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُم اور اب یہ اعلان کیا گیا ہے کہ نَزِّلَ عَلَيْكَ الكتب بِالْحَقِّ یعنی کامل حق اور کامل صداقت پر مشتمل کتاب جو انسان کے لئے مقدر تھی وہ انہی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق اتاری گئی ہے.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء سے کئے گئے تھے اور جن کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی ہے.تو رات اور انجیل میں تو صرف پہلوں کے لئے ہدایت کا سامان تھا لیکن وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اب اللہ تعالیٰ نے الفرقان نازل کر دیا ہے جو کامل اور مکمل ہدایت ہے.اور جو نشان ( وَايَةً مِنْكَ ) مانگا گیا تھا وہ کامل اور مکمل طور پر اب الفرقان کی
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۵۷ سورة المائدة شکل میں نازل ہو گیا ہے اور جواب کفر کرے گا اور انکار کرے گا اور ناشکری کرے گا اور اس رزق سے وہ فائدہ نہیں اٹھائے گا جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے اٹھایا جائے.اسے اللہ تعالیٰ پہلوں سے بڑھ کر عذاب دے گا.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جسمانی رزق سے بھی اس طرح فائدہ اٹھایا جائے کہ اس سے روحانی بہتری کے سامان پیدا ہوں اور جو روحانی غذا ہے وہ تو ہے ہی اس کام کے لئے لیکن انسان جب ناشکرا ہو جاتا ہے تو وہ جسمانی غذا کھا کر اپنے جسم کو تو موٹا اور تازہ کر لیتا ہے لیکن روح کی تروتازگی کا سامان پیدا نہیں کرتا اور جو روحانی غذا اس پر نازل ہوتی ہے اس کی طرف وہ توجہ نہیں کرتا اور اس سے بے اعتنائی برتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص ناشکری کرے گا میں اسے عذاب دوں گا.پھر سورۃ مائدہ کی آیات میں ایک آیت (وَايَةً منك) مانگی گئی تھی لیکن یہاں سورۃ آل عمران میں فرمایا کہ میں بہت سی آیات دوں گا اور جو ان آیات کا انکار کرے گا اس کو میں سخت عذاب دوں گا.یہ دن تمہارے لئے عید کا دن بن سکتا ہے لیکن تم پر واجب ہے کہ ہر وہ دن جو تمہارے لئے عید بنایا جائے اس کے نتیجہ میں تم میرے شکر گزار بندے بنو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے اور میری باتوں کو نہیں سنو گے تو پہلے انبیاء کی تنبیہ اور انذار کے مطابق اس کو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قہر اور غضب دیکھنا پڑے گا.خدا تعالیٰ نے پہلوں سے یہی کہا تھا کہ ہمارے انکار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا جو غضب نازل ہو سکتا ہے.اس سے زیادہ غضب اس وقت نازل ہوگا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائیں گے اور لوگ ان کا انکار کریں گے.اس لئے تم ابھی سے فکر کرو اور اپنی نسلوں کو اس عذاب سے بچانے کے سامان پیدا کرو.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آیات دیں گے.جو لوگ ان آیات کی ناشکری کریں گے.لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ ان کے لئے سخت عذاب مقدر ہے اور اللہ غالب اور سزا دینے والا ہے.(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۲۳ تا ۲۷) عید کے معنی بار بار آنے والی خوشی کے دن کے ہیں.عربی زبان پر یہ لفظ صرف اس عید پر (جس کو عید الفطر یا ہم اپنی زبان میں چھوٹی عید کہتے ہیں اس پر یا بڑی عید پر ہی چسپاں نہیں ہوتا.بلکہ ہر خوشی کا موقع جب لوگ خوشی منانے کے لئے جمع ہوں عید کہلاتا ہے.قرآن کریم میں اس عید کا ذکر بھی فرمایا ہے.اس آیت میں اَنْزِلُ عَلَيْنَا مَا بِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدَ الَّا وَلِنَا وَأَخِرِنَا
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۵۸ سورة المائدة اور منجد میں ہے کہ اسے عید اس لئے کہا جاتا ہے (عید الفطر کو اور عیدالاضحیہ کو ) کہ ہر سال نئی خوشی لے کر آتی ہے.تو جو دن ہر سال آتا ہے اور بڑی خوشیاں لے کر آتا ہے اسے عید کہا جاتا ہے.سوال یہ ہے کہ خوشی مسرت یا نئی خوشیاں اور نئی مسرتیں کیوں؟ اور کس وجہ سے؟ سوچا جائے تو عید اور عبد او اب اور رب تواب کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.یعنی خوشی کے دنوں کا تعلق بار بار مسرتوں کے عود کرنے کا تعلق اس چیز سے ہے کہ بندہ بار بار اپنے رب کے حضور جھکتا ہے عاجزی کے ساتھ اور اس کا رب بھی تنگ نہیں آتا اور تھکتا نہیں.بلکہ جب بھی بندہ اپنے رب کے حضور جھکتا ہے.ہمارا تو اب خدا اپنی اس صفت کا جلوہ اسے دکھاتا ہے اور اس کے لئے خوشی اور مسرت کے سامان پیدا (خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۷ تا ۱۸) کرتا ہے.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۹ سورة الانعام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ هو تفسير سورة الانعام آیت ۱۵ تا ۱۹ قُلْ اَغَيْرَ اللهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ ط ويُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ.قُلْ إِنّى أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ دو دو عَظِيمٍ مَنْ يُصْرَفُ عَنْهُ يَوْمَبِذٍ فَقَد رَحِمَةُ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ وَ إن يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَةَ إِلَّا هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ اس کا ترجمہ تفسیر صغیر سے یہ ہے قُلْ أَغَيْرَ اللهِ اتَّخِذُ وَلِيًّا تو کہہ کیا میں اللہ کے سوا جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے کوئی اور دوست بناؤں حالانکہ وہ (سب انسانوں کو ) کھلاتا ہے اور (کسی کی طرف سے ) اسے رزق نہیں دیا جاتا.کہہ دے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے بڑا فرمانبردار بنوں اور یہ کہ (اے رسول) تو مشرکوں میں سے مت بنیو.تو کہہ دے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.جس پر سے وہ (عذاب) ٹلا یا گیا تو ( سمجھ لو کہ ) اس دن اس پر خدا نے رحم کر دیا.اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے.....سورۃ انعام کی جو آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللہ ہے.یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے نہ آسمان پیدا ہو گئے ، نہ زمین معرض وجود میں آئی اور آسمانوں اور زمین پر جب تم غور کرو جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا وَ سَخَّرَ
تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث ۶۰ سورة الانعام لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) کہ اے انسانو! تمہیں اپنی بقا کے لئے اور اپنی نشو و نما کے لئے اور اپنی بھر پور زندگی کے لئے جو کچھ بھی چاہیے وہ فَاطِرِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہی کی طرف سے ملتا ہے.اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں، کوئی بغیر استثنا کے کہ جس نے تمہیں کوئی ایسی چیز دی ہو جو خدا نے نہیں دی.سب کچھ خدا نے دیا.کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے تم وہ پاؤ جو تم اللہ سے، اپنے پیدا کرنے والے رب سے نہ پاسکو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ یہ اعلان کر دو کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے أنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَم کہ میں اس اطاعت گزار گروہ میں سے جو میری بعثت کے بعد امت محمدیہ کہلائے گی اور اس امت میں جو اطاعت گزار ہوں گے.سب سے بڑا اطاعت گزار، فرمانبردارسب سے بڑا مسلمان ہوں.یہ اعلان کر دو کہ یہ حکم ہے کہ میں ایسا بنوں سب سے بڑا مسلمان بنوں یعنی جس قسم کی اطاعت کے نظارے میری امت مجھ میں دیکھے وہ ایسے ہوں کہ کوئی اور انسان اس قسم کی فدائیت کے اور ایثار کے نظارے خدا تعالیٰ کے سامنے جو وہ فدائیت اور ایثار کے اعمال بجالا رہا ہو کسی کو نظر نہ آئیں.سب سے بڑا، سب سے بہتر مسلمان، سب سے زیادہ اطاعت گزار اور فرمانبردار بنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور دوسرے مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی قسم کا بھی میں شرک نہ کروں.شرک صرف ظاہری نہیں ہوتا.شرک باطنی بھی ہے.شرک صرف یہ نہیں کہ کسی کی پرستش کی جائے شرک یہ بھی ہے کہ کسی سے ایسی امید رکھی جائے جو غیر اللہ سے نہیں رکھنی چاہیے.شرک یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے سب کچھ پانے کے بعد یہ سمجھنے لگے کہ اپنی ذات میں میرے اندر کوئی خوبی یا بڑائی یا حسن یا طاقت ہے.شرک یہ بھی ہے کہ ہم دوائی کے متعلق یہ سمجھیں کہ اس نے ہمیں شفادی.شرک یہ بھی ہے کہ انسان غلطی خود کرے اور مرضتُ نہ کہے کہ میں اپنی غفلت اور گناہ کے نتیجہ میں بیمار ہوا بلکہ اپنی مرض کو ، اپنی تکلیف کو ، اپنی پریشانی کو اپنے محسن رب کی طرف اپنی حماقت کے نتیجہ میں منسوب کرنا شروع کر دے.ہزار ہا قسمیں شرک کی ہیں.بعض شرک کی ایسی قسمیں ہیں جن سے پر ہیز کرنے کا حکم عامۃ الناس کو ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا عامۃ الناس کو کہ بوڑھی عورتوں کی طرح کا ایمان لے آؤ خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے گا لیکن وہ جو خدا تعالیٰ کی محبت کی راہ میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور خدا کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش
تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۶۱ سورة الانعام کرتے ہیں انہیں ہر وقت زندگی کے ہر لمحہ میں اپنا محاسبہ کرنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جائے جس سے ہمارا پیارا ہم سے ناراض ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ کسی قسم کا بھی کوئی شرک ہو اس کو نہیں کرنا وَ لَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ یعنی جیسے سب سے بہتر ، سب سے بڑا فرمانبردار بننا ہے ویسے ہی سب سے زیادہ گناہوں سے بچنے والا اور استغفار کرنے والا اور خدا کی پناہ کی تلاش کرنے والا اور خدا کی پناہ پانے والا بننا ہے.اور اس حکم کے بعد کہ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یہ فرما یا قُلْ یہ بھی اعلان کر دو.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ اعلان کر دو انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ.میں اپنے رب کی نافرمانی کروں میں تو بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.جیسا کہ انہی آیات میں اشارہ ہے یہ ہولناک دن جو ہے یہ حشر کے دن جو معاملہ کیا جائے گا انسانی ارواح سے اور فیصلہ ہوگا کہ جہنم میں جانا ہے یا جنت میں جانا ہے یہ وہ دن ہے عَذَابَ يَوْمٍ عظیم جس کے متعلق کہا گیا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ اول المسلمین بننا ہے.حکم ہے کہ شرک کی کوئی ملونی تمہاری زندگی میں نہیں ہوئی اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں دوسری آیت جو دی ہے اس میں پھر یہ اعلان ہے کہ جو مجھے حکم تھا اس کے مطابق میں نے اپنی زندگی گزاری.ان تمام احکام کے باوجود یہ حکم بھی ساتھ ہے.حکم نہیں یہ اعلان بھی ساتھ ہے.اٹھی أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ - یہ کہنے والے میں اور تم یا اور دوسرے لوگ نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ڈرتے ہیں اٹیچ اَخَافُ میں ڈرتا ہوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے خدا کی نافرمانی کی تو میں بھی عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ سے محفوظ نہیں رہ سکتا.پانچویں بات ان آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ جس کو عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہا گیا ہے اس دن جس دن یہ عذاب ٹالا جائے گا.جسے اس عذاب سے حفاظت مل جائے گی اللہ تعالیٰ کی.اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت اس پر نازل ہو رہی ہوگی جس کی وجہ سے وہ عذاب سے بچے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں اس نے خدا کے فضل سے کامل اطاعت کی توفیق پائی ہوگی اور یہ جو ہے بچنا یہ سب سے بڑی کامیابی ہے.فَوْر عَظِیم ہے یہ.عربی زبان میں عظیم کا لفظ بولا جاتا ہے کہ جس سے بڑھ کر
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲ سورة الانعام اور کوئی چیز نہیں اور سب سے بڑی کامیابی انسان کو اپنی زندگی میں جو پھیلی ہوئی ہے دنیوی اور اُخروی ہر دو زندگیوں پر یہ ہے کہ جس وقت حشر کا دن ہوگا اور جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ عَذَابَ يَوْمٍ عظیم کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے.اس دن جن لوگوں کو عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کا مستحق نہیں ٹھہرایا جائے گا اور یہ عذاب ان سے ٹالا جائے گا اور اس عذاب سے ان کو محفوظ رکھا جائے گا ، اس سے بڑی انسانی زندگی میں اور کامیابی نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ إِنْ يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ اور اگر اللہ تجھے کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور نہیں کر سکتا.یہ ضرر پہنچانا جو ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت یہ کئی قسم کی ہے.اس زندگی میں ضرر پہنچانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جیسا میں نے ابھی کہا.اذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء: ۸۱) انسان کو اللہ تعالیٰ اس بات میں حفاظت نہیں دیتا کہ وہ غلطی نہ کرے اور بیمار نہ ہو اور اس کے نتیجہ میں بیمار ہو جائے تو یہ ضرر بھی اللہ تعالیٰ کی اس سہولت کی وجہ سے، اس اختیار کی وجہ سے ہے کہ وہ غلطی کر جائے.کھانے میں بد پرہیزی کر جائے.وہ سردی سے اپنے جسم کی حفاظت نہ کرے اور اس کے جگر کو ٹھنڈ لگ جائے.اس کا نظام ہضم خراب ہو جائے گا تو سخر لکھ کے اندر یہ آجائے گا.اسلام نے یہ عقیدہ نہیں اپنا یا کہ تکلیف پہنچانے والی کوئی اور ہستی ہے اور تکلیفیں دور کرنے والی کوئی اور ہستی ہے.وہ ایک ہی خدا ہے جو اختیار دیتا ہے انسان کو کہ غلطی کرنا چاہتے ہو، کر لو نتیجہ بھگتو گے اس کا.لیکن جہاں یہ اعلان کیا کہ جب غلطی تم کرو گے تو یہ یادرکھو کہ میں ہمیشہ تو بہ قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلا هُوَ جب غلطی کرو.اِذَا مَرِضْتُ کی مثال ہی میں پھر لیتا ہوں بیمار ہو جاؤ گے.اس کے بعد اگر یہ سمجھو کہ اس بیماری کو دور کرنے کے لئے مجھے خدا کے علاوہ بھی کسی چیز کی ضرورت ہے تو یہ شرک ہے.حقیقت یہی ہے کہ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ اس ضرر کو سوائے خدا کے اور کوئی دور نہیں کر سکتا.ہاں اس نے دوائیں پیدا کیں کسی اور نے تو نہیں پیدا کیں.اس نے انسانی ذہن یا انسانی اذہان میں سے بعض ذہنوں کو یہ قابلیت اور استعداد دی کہ وہ طب کے میدان میں آگے نکلیں اور مہارت حاصل کریں.جب طبیب کے پاس ہم جاتے ہیں تو اس لئے نہیں جاتے کہ طبیب اپنی ذات میں کوئی طاقت رکھتا ہے شفا دینے کی ، شفا خدا نے دینی ہے.بڑے بڑے ماہر طبیب غلطی کرتے اور
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۳ سورة الانعام اپنے مریضوں کی موت کا سبب بن جاتے ہیں.بڑے بڑے دعا گو چھوٹے قسم کے طبیب غلطی نہیں کرتے اور دعاؤں کے نتیجے میں اپنے مریضوں کی شفا کا موجب بن جاتے ہیں.تو فَلَا كَاشِفَ لَه الا ھو یہ شرک کے بہت سارے یا قریباً سارے ہی جو پہلو ہیں ان کو یہاں کاٹ کے رکھ دیا.وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرِ اگر تمہیں کوئی خیر اور بھلائی پہنچے تو تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہر خیر اور بھلائی کا سر چشمہ اور منبع جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تمہارا دوست تمہیں بھلائی نہیں پہنچا سکتا، خیر نہیں پہنچا سکتا جب تک خدا نہ چاہے.تم خود اپنے آپ کو خیر نہیں پہنچا سکتے.جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِہ وہ اپنے بندوں پر غالب اور متصرف بالا رادہ ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خدا تعالیٰ کی جو طاقتیں ہیں ان سے باہر نکل کے اس کے احکام اور او امر اور اس کی منشا سے دور جاسکتا ہوں.نہیں.وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، ہاں اس کا یہ جو غلبہ ہے اس کا سلوک تصرف بالا رادہ ہونے کی حیثیت کے لحاظ سے جو ہے وہ اس کی ان دوصفات کے ماتحت ہے.بڑی حکمتوں والا ہے.اپنی حکمتوں کو سامنے رکھ کے وہ اپنے فیصلے کرتا ہے اور سب حالات سے باخبر ہے.وہ باخبر تھا جس طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ ایک نیک کی اولاد کے خزانہ کی حفاظت کر لی اور ایک نیک کو برائی سے بچانے کے لئے اس کے بچے کی موت کا سامان پیدا کر دیا.تو وہ خبیر ہے اور حکمت کا ملہ کا مالک ہے.سورۃ انعام کی جو یہ آیات ہیں اس میں جو بنیادی چیز آپ کے دماغ میں میں چاہتا ہوں حاضر رہے وہ یہ ہے کہ اُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَم که نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ پاک اور مطہر اور خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب رسول ہیں.کوئی انسان ایسا نہیں جو آپ کی گرد کو بھی پہنچ سکے اور دوسرے یہ بات کہ اس کے باوجود سورۃ انعام میں آپ سے یہ بھی کہلوایا گیا انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ کہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے محمد نے بھی نافرمانی کی اپنے رب سے تو عَذَابَ يَوْمٍ عَظیم سے مجھے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا.سی نافرمانی کرنا جہاں تک خدا تعالیٰ کی اس محبت کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ساتھ تھی جہاں تک آپ کے عشق کو دیکھتے ہیں جو اپنے محبوب خدا کے ساتھ تھا بالکل ناممکن ہے.یہ اعلان کیوں کیا گیا ؟ ہمارے لئے کیا گیا.ہمیں بتانے کے لئے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہم کہلواتے ہیں ائی أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ تو تم اپنی فکر کرو.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ ۵۳۱۳۵۲۵)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۴ سورة الانعام آیت ۳۸ وَقَالُوا لَو لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرُ عَلَى أَنْ يُنَزِّلَ آيَةً وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.ط اللہ تعالیٰ کو آیات کے نازل کرنے پر قادر نہ سمجھنا یعنی یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اب آیات کے نزول پر قادر نہیں رہا ( یہ آیت کا ترجمہ ہے.میں عربی نہیں لے رہا) ان لوگوں کا کام ہے جو لا يَعْلَمُونَ جو عقل تو رکھتے ہیں لیکن پاکیزہ عقل نہیں رکھتے.جاہل ہیں اس لحاظ سے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقیناً پورا ہونے والا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اپنی پوری قدرتوں کے ساتھ اور پورے غلبہ کے ساتھ ایسی نہیں کہ وعدہ کرے اور پورا نہ کر سکے اور وہ جو طہارت کا سر چشمہ ہے اس کے وعدے ایسے نہیں کہ وہ وعدہ کرے اور پورا کرنے کا ارادہ چھوڑ دے یعنی دغا کر جائے وعدہ خلافی کر جائے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ یقیناً پورا ہونے والا ہے.ایسا سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے دیئے ہیں وہ پورے ہوں گے، یعلمون ان لوگوں کا کام ہے ( اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر تھا) کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں پاکیزہ عقل ، لب کے نتیجہ میں اس گروہ میں شامل ہیں.ایسا نہ سمجھنا جہالت ہے.یہ آیت تو ہے چھوٹی سی لیکن قرآن کریم نے تبشیر وانذار سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں وعدے دیئے ہمیں اور ایسے بھی وعدے تھے جن کا تعلق خاص گروہوں کے ساتھ ہے.ایسے بھی وعدے ہیں جن کا تعلق ہر اس شخص کے ساتھ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے.تو وعدہ ہے وہ تمہیں دے دیا جائے گا.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ یقیناً پورا کرنے والا ہے لیکن انسان دو گروہوں میں بٹ گئے.ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ پورا نہیں کرتا یا نہیں کر سکتا اور ایک وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ پہلے اپنی پوری قدرتوں اور غلبہ کے ساتھ تھا، ہے اور آئندہ ویسا ہی رہے گا.اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں نا ہوتی.ایک تو یہ گروہ ہے اور ایک وہ ہے جو کہتا ہے نہیں.وعدے تو ہیں ، پورے ہوں نہیں ہوں گے یا شک میں پڑ گئے کہ پورے شاید نہ ہوں.طارق نے جب کشتیاں
تغییر حضرت خلیفۃ المسح الثالث سورة الانعام جلائیں وہ شک میں نہیں پڑے.انہیں یہ پتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اَنْتُمُ الْأَعْلَونَ اِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۴۰) ان کو فکر اپنے ایمان کی تھی.ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بے وفائی، وعدہ کی بے وفائی کا خوف نہیں تھا.چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اخلاص کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی محبت میں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت میں یہاں آئے ہیں ان کے مخالفانہ منصوبوں کو نا کام کرنے کے لئے ، اس لئے ہمیں کسی مادی دنیوی سہارے کی ضرورت نہیں.اور پھر چودہ سوسال اور پھر پندرہویں صدی کا جو کچھ حصہ گزرا ہے جنہوں نے یہ سمجھا اور شناخت کیا اور یہ معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے، پورا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور اس کا جو تقدس ہے جو اس کی طہارت ہے سُبحان اللہ میں جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اپنے وجود کی وہ تقاضا کرتی ہے کہ جو وہ وعدہ کرے وہ پورا کرے.ہاں اس نے شرط لگائی ہے بندوں پر، ایسا کروگے میں وعدہ پورا کروں گا.ایسا نہیں کرو گے تمہارے اندر استحقاق نہیں رہے گا کہ میں وعدہ پورا کروں.اس کی ذمہ داری بندے پر ہے خدا پر نہیں ہے اور خوف کا مقام ہے.ط (خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۱۱ تا ۴۱۳) آیت نمبر ۱۱۰٬۱۰۵٬۵۸ قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّي وَ كَذَّبُتُم بِهِ مَا عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِينَ قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ، فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۚ وَ مَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ، وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظ.ج وَ اَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَبِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ کہہ دے! مجھے اپنی رسالت کی سچائی پر کھلی کھلی دلیل اپنے رب کی طرف سے ملی ہے.میں بے ثبوت نہیں آیا.میں ثبوت لے کر اپنے رب کی طرف سے آیا ہوں اور تم پھر بھی تکذیب کر رہے ہو.جس عذاب کو تم جلدی مانگتے ہو وہ میرے اختیار میں
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۶ سورة الانعام نہیں.حکم صادر کرنا خدا تعالیٰ ہی کا منصب ہے.وہی حق کو کھولے گا اور خَيْرُ الْفَصِلِينَ ہے وہ اور ہمارے درمیان بہترین فیصلہ کرے گا“.سورۃ الانعام کی آیت ۱۰۵ کا ترجمہ یہ ہے:.” خدا نے میری رسالت کی صداقت پر روشن نشان تمہیں دیئے ہیں.تمہاری آنکھیں ان بصائر کو دیکھ کر کھل جانی چاہئیں تھیں مگر یہ نہیں ہوا بلکہ ایک گروہ وہ ہے جس نے شناخت کیا اور ایک وہ ہے جس نے شناخت کرنے سے انکار کیا.فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ پس جو ان کو شناخت کرے اس نے اپنے ہی نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اور روشن دلائل کو نہ دیکھے اس کا وبال بھی اسی پر ہے.میں تو تم پر نگہبان اور محافظ نہیں“.سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۰ کا ترجمہ یہ ہے:.یہ لوگ سارے نشانات کو دیکھنے اور ان کی تکذیب کرنے اور ان کو جھٹلا دینے کے بعد بھی سخت قسمیں کھاتے ہیں اقسمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے.کہہ دو نشان تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں.جس نشان کو چاہتا ہے اسی نشان کو ظاہر کرتا ہے.اقتراح کے نشان کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے یعنی یہ کہنا کہ یہ فلاں نشان ہمیں دکھایا جائے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہی دوسری جگہ آیا ہے کہ کافروں نے کہا ہمیں یہ نشان دکھاؤ، یہ نشان دکھاؤ، یہ نشان دکھاؤ تو ان کو یہی جواب دیا گیا کہ نشان دکھانا اللہ کا کام ہے رسول کا کام نہیں.نشان کے دیکھنے میں اپنی مرضی نہیں چلے گی خدا کی مرضی چلے گی.جونشان وہ چاہے گا وہ دکھلائے گا جو نشان وہ نہیں چاہے گا وہ نہیں دکھلائے گا.“ ان آیات پر غور کرنے سے بہت سی چیزیں سامنے آتی ہیں، میں نے ہیں باتیں نوٹ کی ہیں جو ہمارے سامنے آتی ہیں.ایک تو یہ اعلان کیا کہ مجھے میرے رب نے بھیجا ہے.خدا تعالیٰ جس نے میری ربوبیت کی، اس کی طرف سے میں مبعوث ہو کر آیا ہوں.یہاں یہ نہیں کہا کہ قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنَ اللهِ کہا یہ ہے کہ قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ ربّى اس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں سے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۷ سورة الانعام ایک وجود کو منتخب کیا اور اس قدر عظیم صلاحیتیں اور استعداد میں اسے عطا کیں کہ جس قدر عظیم صلاحیتیں اور استعدادیں کسی اور کو عطا نہیں ہوئی تھیں اور افضل الرسل اور خاتم الانبیاء کی حیثیت میں اسے بھیجا تو ربوبیت کرنے والے رب کی طرف اپنی رسالت کو یہاں منسوب کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے تا کہ اس چیز کو نمایاں کیا جائے کہ عظمت والا ایک رسول ہوں اور عظمت والے وہ نشان ہیں جو خدا تعالیٰ نے میری صداقت پر قائم کئے ہیں.وَ كَذبتم بہ اور اس کے باوجود تم ہو کہ تم انکار کر رہے ہو.پہلی بات یہ کہ مجھے میرے رب نے بھیجا.دوسری بات ہمیں یہ پتا لگتی ہے کہ میرے رب نے ثبوت دے کر بھیجا بے ثبوت نہیں بھیجا اور یہ ثبوت جو ہے آپ کی صداقت کا ، یہ ایک دو دلائل یا چند ایک نشانوں پر مشتمل نہیں بلکہ دلائل کے لحاظ سے اس قدر ز بر دست دلائل کہ نہ صرف ان انسانوں کی ذہنی تسلی کے لئے کافی تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا بلکہ بعد میں آنے والے جو بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے دماغ اور ذہن رکھنے والے تھے ان کو بھی کنونس (Convince) کرنے ، باور کروانے کی طاقت رکھنے والے دلائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ہمیں قرآنِ عظیم میں ملتے ہیں.تو دوسری حکمت صفت ربّ کے استعمال کی ہمیں یہاں یہ نظر آتی ہے کہ مجھے ربوبیت عالمین کے لئے بھیجا ہے اس لئے قیامت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان اس تعلیم میں رکھ دیا گیا ہے جو قرآن عظیم کے ذریعہ مجھے دی گئی اور جس کو قیامت تک کے انسانوں تک پہنچانا میرا اور میرے ماننے والوں کا کام ہے.تیسری بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ان کھلے دلائل کے باوجود تم میری تکذیب کر رہے ہو.تمہاری اپنی بھلائی کیلئے تمہاری اپنی رفعتوں کے لئے ، تمہاری عزتوں کے قیام کے لئے، خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے، ایک زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرنے کے لئے یہ تعلیم آئی.تمہاری بھلائی دنیوی بھلائی اور اُخروی بھلائی) کے سامان بھی اس میں تھے.اتنی عظیم تعلیم ، اتنی حسین تعلیم ، اتنی مفید تعلیم تمہیں زمین سے اٹھا کر اس قدر رفعتوں تک پہنچانے والی تعلیم تمہارے پاس آئی لیکن تم ہو کہ پھر تم تکذیب کر رہے ہو.چوتھی بات ہمیں ان آیات میں یہ نظر آتی ہے کہ یہ تعلیم جو ہے اس میں بشارات بھی ہیں اور انداری پیشگوئیاں بھی ہیں تو عجیب ہو تم (منکر اور کافر) کہ جو عظیم بشارتیں یہ تعلیم لے کر آئی ان کی
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۸ سورة الانعام طرف تم توجہ نہیں دیتے اور ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے.کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ وہ وعدہ جو ہمارے کفر اور انکار پر ہمیں عذاب دینے کا ہے وہ وعدہ کیوں نہیں پورا کرتا.ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا.تم یہ نہیں کہتے کہ خدا تعالیٰ نے پیار کے جو وعدے ہم سے کئے ہمیں زمین سے اٹھا کر آسمان کی رفعتوں تک پہنچانے کے جو وعدے کئے وہ ہماری زندگیوں میں پورے ہوں اور ہم اس دنیا کی جنتوں سے بھی حصہ لیں اور اُخروی زندگی کی جنتیں بھی ہماری قسمت میں لکھی جائیں بشارتوں کی طرف تم توجہ نہیں کرتے اور اتنی عظیم تعلیم ، اس قدر وسیع اور اس قدر ارفع اور اس قدر عظیم بشارتوں کو چھوڑ کے تم کہتے ہو.(مَا تَسْتَعْجِلُونَ ) کہ ہم پر جلد تر عذاب کیوں نہیں آتا.ہم نے انکار کیا تمہارا، تو خدا ہمیں پکڑتا کیوں نہیں، ہمیں ہلاک کیوں نہیں کرتا تم بشارتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خدا کی گرفت اور اس کی قہری تجلی کے متعلق مطالبہ کرتے ہو کہ وہ قہری تجلی جلد تم پر نازل ہو اور تمہیں جلا کر رکھ دے.پانچویں بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں عذاب دینا یا ڈھیل دینا یہ میرے اختیار میں نہیں.میں رسول ہوں.میں پیغامبر ہوں.دوسری جگہ فرمایا کہ ہمارے رسول پر البلاغ کے سوا اور کچھ نہیں.پہنچادینا اس کا کام ہے.آپ کہتے ہیں میرا کام ہے پہنچادینا، میں پہنچا دوں گا، میرا کام ختم ہو جائے گا.تم عذاب ما نگتے ہو.عذاب دینا میرا اختیار نہیں.تم کہو کہ ساری بشارتیں تمہارے حق میں پوری ہو جا ئیں خواہ تم اعمال صالحہ بجالا و یا نہ بجالا ؤ.اپنے رب کریم کو خوش کرنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو، یہ بھی میرے اختیار میں نہیں.تمہیں عذاب دینا یا ڈھیل دینا میرا کام نہیں.تم اپنی گمراہیوں میں بڑھتے چلے جاؤ اور خدا اپنی نرمی کے جلوے تم پر ظاہر کرتا چلا جائے ، یہ اس کی مرضی ہے تم جانو اور تمہارا خدا.میرے اختیار میں نہیں ہے یہ.ان معاملات میں حکم صادر کرنا اس بالا ہستی کا کام ہے اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ حکم اسی کا چلتا ہے، جو صاحب حکم بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے.اس کے سارے کام حکمت سے ہیں حکمت سے خالی نہیں ہوتے.اگر وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی دور میں اپنی گرفت میں جلدی کرتا تو عکرمہ اور ان کے ایک سو چالیس کے قریب ساتھی جنہوں نے بعد میں تو بہ کی اور اسلام میں داخل ہوئے اور جنگ یرموک کے موقع پر جب انہیں ان کے دوست خالد بن ولید نے اس طرف توجہ دلائی کہ تم بڑے گناہگار ہو تم نے خدا کے رسول کے خلاف کارروائیاں کیں، ان کو
تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۶۹ سورة الانعام ایذا پہنچایا، مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے، مسلمانوں کو دکھ دیئے ، بہتوں کو شہید کیا.ایسے داغ تمہارے چہرہ پر لگے ہوئے ہیں کہ سوائے تمہارے خون کے کوئی اور چیز انہیں دھو نہیں سکتی اور آج موقع ہے، آج دھولو اپنے رھے.چنانچہ تین لاکھ فوج پر ان کم و بیش ایک سو چالیس مکہ کے رؤساء کے بچوں نے حملہ کر دیا اور ان میں سے ہر ایک نے میدانِ جنگ میں جام شہادت پیا اور اس طرح پر اپنے چہروں سے نہایت بھیانک دھبے دھونے میں کامیاب ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ اگر ان کو ڈھیل نہ دیتا تو تو بہ اور رجوع الی اللہ کا یہ نظارہ تو دنیا نہ دیکھتی.سکی زندگی کے تیرہ سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی اذیتیں دی گئیں، دکھ پہنچائے گئے لیکن خدا تعالیٰ نے نرمی کا سلوک کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی خدا سے چاہا کہ وہ نرمی کا سلوک کرے جیسا کہ طائف کے واقعہ میں آتا ہے کہ اے خدا یہ پہچانتے نہیں مجھے، ان کے ساتھ ڈھیل کا معاملہ کر.بہر حال وہ پکڑتا بھی ہے جب چاہے اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے اس کی قہری تجلی کا تصور بھی انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے لیکن وہ ڈھیل بھی دیتا ہے.وہ بڑا رحم کرنے والا بھی ہے وہ موقع دیتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرے.تو ہمیں چھٹی بات یہاں یہ نظر آتی ہے کہ تمہیں عذاب دینا یا ڈھیل دینا میرے اختیار میں نہیں ، یہ اللہ کا کام ہے.وہ صاحب حکم ہے ( الْحُكْمُ لِلهِ ) ، صاحب اختیار ہے، مالک ہے، کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو اس کو اس کی مرضی کرنے سے روک سکے اور صاحب حکمت ہے اور حکم صادر کرنا اسی کا منصب ہے جو اپنا حکم جاری بھی کر سکے اور حکمت سے کام لینے والا ہو.اور ساتویں چیز ہمیں ان آیات سے یہ پتالگتی ہے کہ تم جلدی کر رہے ہو شاید اس خیال سے کہ کبھی حق و صداقت کو خدا تعالیٰ کھولے گا نہیں.لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ خود يَقُضُ الْحَقِّ حق اور صداقت کو کھولے گا لیکن اپنے وقت پر کھولے گا.نہ میرے کہنے سے کھولے گا نہ تمہارے واویلا کرنے سے کھولے گا.وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِینَ.آٹھویں بات یہ ہے کہ وہ حق و حکمت کا سر چشمہ ہے.وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور اس لئے وہ ہمارے درمیان بہترین فیصلہ کرے گا.جیسا کہ بہترین فیصلہ اس نے کیا پہلے دن سے لے کر آج کے دن تک اور آج کے دن سے لے کر قیامت تک کرتا چلا جائے گا.خَيْرُ الْفَصِلِینَ اس میں ہمیں بتایا گیا کہ کسی بھی نسلِ انسانی کو خدا تعالیٰ سے اس قسم کے مطالبے نہیں کرنے چاہئیں اور لرزاں
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الانعام ترساں اپنی زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.خدا تعالیٰ جب چاہے گا جو چاہے گا جس رنگ میں چاہے گا اپنے حکم کو جاری کرے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان وہ جب فیصلہ کرے گا تو اس کا جو فیصلہ ہوگا وہ خَيْرُ الفصلِینَ کا فیصلہ ہوگا.وہ بہترین فیصلہ ہوگا وہ نوع انسانی کی بھلائی کا فیصلہ ہوگا.وہ ایک ایسی ہستی کا فیصلہ نہیں ہوگا جو اپنے علم میں کمزور جو اپنی طاقت میں کمزور جو اپنی حکمت میں کمزور جو اپنی رحمت میں کمزور بلکہ اس عز وجلت کا ہوگا جو رحمتی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کہنے والا ہے جس نے خَيْرُ الْفَصِلِینَ اپنے متعلق کہا.وہ اس کا ہو گا جس نے کہا کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) کہ اصل غرض تو تمہاری پیدائش کی یہ ہے کہ تم میرے بندے بنو.میرے ساتھ زندہ تعلق قائم کرو.نویں بات دوسری آیت سے ہمیں یہ پتا لگتی ہے کہ خدا جانے تمہیں کیا ہو گیا ہے.بصائر آچکے آنکھیں کھولنے والے روشن نشان ظاہر ہوئے اور تمہیں نظر نہیں آرہے.دسویں بات ہمیں یہ پتالگتی ہے کہ ان روشن نشانوں کو شناخت کرنے میں تمہارا اپنا فائدہ ہے کسی اور کا فائدہ نہیں اور اگر تم آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے ہو جاؤ تو جو اندھا ہوگا وہ خود اپنا نقصان کرے گا.کسی اور کا نقصان نہیں کرے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے انکار پہلی نسل سے لے کر قیامت تک کی انسانی نسلوں تک جو ہے اس کا نقصان منکرین کو پہنچے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، آپ کی تعلیم کو، آپ کی بشارتوں کو، آپ کے مانے والوں کو ، خدا تعالیٰ کی جو رحمتیں آپ کے ماننے والوں پر آپ کے طفیل نازل ہو رہی ہیں ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.جو اندھا ہوگا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کو دیکھ نہیں سکے گاوہ اپنا نقصان کرے گا.ایک اور بات یہ کہ میں تم پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا، محافظ نہیں ہوں ، رسول ہوں.ایک پیغام خدا نے میرے ذریعہ سے تم تک پہنچانا چاہا میں نے تمہیں پہنچادیا.خدا تعالیٰ نے اس تعلیم کے لئے دنیا کے سامنے ایک بہترین نمونہ قائم کرنا چاہا اور خدا نے توفیق دی مجھے کہ میں تمہارے لئے اسوۂ حسنہ بن جاؤں.ایک حسین تعلیم ایک حسین وجود میں عملی رنگ میں تمہیں نظر آتی ہے.نگہبان اور محافظ نہیں ہوں رسول ہوں اور اُسوہ ہوں.میری تعلیم کو دیکھو، میرے اعمال کو دیکھو.میری اس تعلیم کے نتیجہ میں انسان کو جو خدا تعالیٰ کے نعماء ملتے ہیں ان کو دیکھو.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ود اے سورة الانعام يُحبكم الله (ال عمران : ۳۲) میرے اسوہ پر چل کر خدا تعالیٰ کا جو پیار تمہیں حاصل ہوتا ہے، اسے دیکھو.ان چیزوں کو دیکھو اور اپنے خدائے واحد و یگانہ جو بڑا رحم کرنے والا اور رپ کریم ہے کی طرف واپس لوٹ کے آؤ.دوری کی راہوں کو اختیار نہ کرو.ایک اور بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ظاہر ہونے والے بینہ اور بصائر ہزاروں نشان دیکھتے اور ان کو جھٹلاتے ہیں اور ہزاروں نشانوں کو جھٹلانے کے بعد پھر قسمیں بھی کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان آ جائے تو ہم مان لیں گے مگر نشان ہماری مرضی کا ہو......پس ہمیں ایک بات ان آیات میں یہ نظر آتی ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہزار ہا ہزار ہا ہزار ہا نہیں میں کہوں گا کہ لکھوکھہا نشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اور آپ کی عظمت کے دکھائے گئے جو انہوں نے دیکھے اور دیکھے بھی اور جھٹلایا بھی اور پھر قسمیں بھی کھاتے ہیں کہ ہماری مرضی کا کوئی ایک نشان آجائے تو ہم مان جائیں گے.ایک اور بات.ہمیں یہ کہا گیا کہ یہ لوگ خدا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں.اپنی مرضی منوانا چاہتے ہیں.خدا پر تو کوئی شخص اپنی مرضی ٹھونس نہیں سکتا اور اگر یہ لوگ یہ کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت میں دخل اندازی کریں اور اسی کی حکمت میں اپنی آراء کے مطابق ہیر پھیر کریں تو یہ تو نہیں ہوگا، ہو گا وہی جو خدا چاہے گا اور ہو گا اسی وقت جب خدا چاہے گا.کسی کے کہنے پر خدا کوئی نشان کسی مقام پر کسی زمانے میں نہیں دکھایا کرتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا نے اپنی مرضی سے اپنی حکمت کاملہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پچھلے چودہ سو سال میں نشان نہیں دکھائے یا محدودنشان دکھائے ایک اور بات یہ کہ مرضی خدا ہی کی چلے گی جس نشان کو چاہے گا ظاہر کرے گا جس نشان کو......چاہے گا ظاہر نہیں کرے گا.ایک اور بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جہاں بشارتیں ہیں وہاں انذاری پیشگوئیاں بھی ہیں.گرفت کی پیشگوئی بھی ہے.وہاں عذاب کی پیشگوئی بھی ہے یہ جلدی کر رہے ہیں کہ جلدی آجائے عذاب.عذاب تو آئے گا مگر جب عذاب آئے گا تو ان کے کہنے کی وجہ سے نہیں آئے گا بلکہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے انذار کی وجہ سے آئے گا.جب عذاب آیا، ایک رنگ میں ان کا اپنا مطالبہ بھی پورا ہو گیا کہ یہ کہہ رہے ہیں جلدی آ جائے.جلدی نہیں آئے گالیکن عذاب آئے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۷۲ سورة الانعام گا ضرور.اگر یہ اصلاح نہیں کریں گے.ہرا نذاری پیشگوئی مشروط ہے یعنی اگر جن کے متعلق وہ انذار ہے وہ اپنی اصلاح کرلیں تو خدا تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.اسلام کی یہ تعلیم ہے لیکن اگر وہ اصلاح نہ کریں اور خدا کی گرفت میں آجائیں تو عذاب تو آیا لیکن مطالبہ کرنے والے کا جو مطالبہ جلدی کا تھا اس وقت نہیں آیا لیکن آیا ضرور اور جب آ گیا تو اس وقت اس کا بھی انکار کر جائیں گے.عذاب دیکھیں گے پھر بھی انکار کر جائیں گے.آخر جیسا کہ میں نے بتایا ساری دنیا نے ان انذاری پیشگوئیوں کے جلوے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لئے قرآن کریم نے بیان کی ہیں، دیکھے مغرب نے بھی دیکھے، مشرق نے بھی دیکھے، شمال نے بھی جنوب نے بھی دیکھے اور جو عذاب میں ہلاک ہو گئے ان کے تو ایمان لانے کا سوال نہیں.جو بچ گئے ان میں سے بھی بہت ساروں نے پھر بھی انکار کر دیا.اسی واسطے خدا نے کہا کہ تمہیں پتا لگ جائے گا کہ جس چیز (عذاب) کو یہ مانگ رہے ہیں ، جب خدا چاہے گا عذاب آئے گالیکن عذاب آنے کے باوجود بھی وہ انکار کریں گے ایمان نہیں لائیں گے اور بشارتیں جو دی گئی ہیں مومنوں کے لئے اس میں حصہ دار نہیں بنیں گے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۱۴۹ تا ۱۵۸) آیت ۶۷ وَكَذَابَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُلْ تَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ....ایک رنگ میں یہ بیان ہمارے جذبات کی تاروں کو چھیڑتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی ہدایت لے کر آئے لیکن قوم نے اس پیغام کی تکذیب کردی اور اسے جھوٹا قراردے دیا حالانکہ هُوَ الْحَقُّ یہ تو ایک صداقت ہے یہ تو ایک سچائی ہے لیکن فرمایا :.قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُم بوکیل اے رسول ! تم ان سے کہہ دو.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.یہ فیصلہ بہر حال تم نے کرنا ہے کہ آیا تم اپنی مرضی سے ایمان کا اظہار کرو گے اور ہدایت کی راہوں کو اختیار کرو گے اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کی تلاش کرو گے یا تم کفر کا اعلان کرو گے اور خدا تعالیٰ سے دوری کی راہوں کو اختیار کرو گے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.خدا تعالیٰ نے میرے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ میں تم پر جبر کر کے زبردستی کے طور پر کسی مادی طاقت کے ذریعہ تمہارے اس اختیار کو چھین کر جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے تمہیں ہدایت کی راہوں
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کی طرف لاؤں.۷۳ سورة الانعام ( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۲۲۶) آیت ۷۲ قُلْ اَنَدعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَ تُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدْنَا اللهُ كَالَّذِي اسْتَهُوَتْهُ الشَّيطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَةَ أَصْحَب يَدْعُونَةَ إِلَى الْهُدَى انْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدى وَأُمِرْنَا لِمُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ اور وہ بلاتا ہے ( دعا الی اللہ ) لوگوں کو اس امر کی طرف کہ خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار مسلم بن جاؤ.مسلم کے معنی ہی ہیں کامل فرمانبردار بن جاؤ.اور کامل فرمانبرداری کس کی؟ قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی اس ہدایت کی کامل اطاعت کرو، ہر حکم کی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری بھلائی کے لئے نازل کیا ہے.ہر اس چیز سے بچو جس کے بچنے کا اس نے تمہیں کہا ہے سختی کے ساتھ.یہ نہیں کر نہ کر نواہی جو ہیں.اسی لئے سورۃ الا انعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی راہنمائی.راہنمائی کیوں ہوتی ہے؟ راہنمائی ہوتی ہے.بھولا بھٹکا ہے اس کو ہدایت کی ضرورت ہے.اس کو راہنمائی کی ضرورت ہے.یہاں ربوہ میں بھی بہت سے آجاتے ہیں اور آپ میں سے کسی کو پوچھتے ہیں ہم نے فلاں جگہ جانا ہے.ایک دوست ہمارا رہتا ہے اس کا راستہ کہاں ہے؟ یہ اللہ کی ہدایت کامل ہدایت انسانوں کی تمام صلاحیتوں کی صحیح ، خالص اور پوری نشوونما کرنے والی جو ہدایت ہے یہ سوائے اللہ کے جو انسان کو جانتا اور پہچانتا ہے اس لئے کہ وہ خالق ہے اور کوئی دے ہی نہیں سکتا.میں تو آپ کو نہیں جانتا نہ مجھے آپ کے اندرونے کا پتا.نہ مجھے آپ کے خیالات کا پتا.نہ مجھے آپ کے اخلاق کا پتا.نہ مجھے آپ کی دلچسپیوں کا پتا.نہ مجھے آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں کا پتا.میں آپ کے لئے ہدایت کیسے کر سکتا ہوں پیدا.نہ آپ ایک دوسرے کی ہدایت کر سکتے ہیں.ہدایت تو وہی دے سکتا ہے جس نے پیدا بھی کیا اور جو ہر وہ علم جس کا ہماری ذات سے تعلق ہے وہ جانتا ہے اسے.وہ علم رکھتا ہے.وَاُمِرْنَا لِنُسلِمَ یہاں بھی یہ کہا ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اطاعت کریں لرب العلمین اس رب کی جو عالمین کا رب ہے.ہمارا بھی رب ہے.
۷۴ سورة الانعام تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ہماری ربوبیت کے لئے جو اس نے سامان پیدا کئے اس کی طرف وہی راہنمائی کر سکتا ہے.اس کے لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا میں جیسا کہ میں نے بتایا عربی لغت کے لحاظ سے تین پہلو پائے جاتے ہیں.زبان سے اعلان کرنا مذہبی ہدایت کے متعلق، عقائد کے متعلق دل میں اسی کے مطابق عقیدہ رکھنا اور اس کے مطابق اس کے عمل رکھنا.پھر آگے اس کی تشریح کر دی عَمِلَ صَالِحًا میں کہ اپنے ایمان کے مطابق اور لوگوں کی ضرورت اور ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے نیکی اور وعظ کی بات کرنا اور وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة: ۳) کے مطابق ان سے حسن سلوک کرنا اور ان سے تعلق کو قائم رکھنا.وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ المُسْلِمِينَ اور اپنا نمونہ ان کے سامنے رکھنا.کہنا کہ دیکھو میں نے اپنے ربّ کو پہچانا ہے.میں عرفان ذات وصفات باری رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میرے دل میں صحیح عقیدہ محض اس کی رحمت سے راسخ ہوا.اس کے مطابق میں اعلان کر رہا ہوں اور وہ اتنا راسخ ہے کہ میرے جوارح میرے دل کے تابع ہو کر ہر وقت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں مصروف رہتے ہیں.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۱۲، ۳۱۳) آیت ۹۳ وَهُذَا كِتَب اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی اس آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ یہ عظیم الشان کتاب جسے ہم نے تجھ پر اتارا ہے، برکات کی جامع ہے اور جو کلام اس سے پہلے تھا اس کو پورا کرنے والی ہے اور ہم نے اسے اس لئے اُتارا ہے تا کہ تو اس کے ذریعہ سے اقوامِ عالم کو ہدایت دے اور تا تو ڈرائے مکہ اور عرب کے بسنے والوں کو اور ان آبادیوں کو جو عرب کے چاروں طرف اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہیں.اور جولوگ پیچھے آنے والی موعود باتوں اور بشارتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان عبادتوں پر قائم ہیں جن پر انہیں ان کے رسولوں نے قائم کیا تھا.وہ اپنے تقویٰ اور ایمانی پختگی کے نتیجہ میں قرآن پر بھی ضرور ایمان لے آئیں گے.لیکن اگر وہ ان بشارتوں کو بھول چکے ہوں اور ان کا ایمان ان
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۷۵ سورة الانعام بشارتوں کے متعلق پختہ نہ ہو.اسی طرح وہ شریعت کو قائم کرنے والے نہ ہوں تو ان کو ایمان کی طرف لانے کے لئے اللہ تعالیٰ پھر ا نذاری طریق استعمال فرمائے گا.یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو مبارک کہا ہے بعض جگہ قرآن کریم کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے، لیکن یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو تمام برکات کی جامع ہے.یعنی الہی ہدایتوں پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جو برکات انسان کو حاصل ہوتی ہیں اس آیت میں ان کا بیان ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا کہ پہلی امتوں کو کامل ہدایت نہ ملی تھی ناقص ہدایت ملی تھی (بوجہ اس کے کہ وہ اپنی روحانی نشوونما میں ابھی ناقص تھے ) اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ، پوری جدوجہد، محنت اور کوشش کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کرتے جوان کو دی گئی تھی تو اس کے نتیجہ میں جو برکت انہیں حاصل ہوتی وہ اس برکت کے نتیجہ میں بہت کم ہوتی جو قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کر کے انسان حاصل کر سکتا ہے کیونکہ قرآن کریم تمام برکات کا مجموعہ ہے.اس آیت پر میں نے جب غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر یہ قرآن کتاب مُبَارَک ہے اور یقیناً قرآن كِتَابٌ مُبارک ہے اور اس نے تمام برکات روحانی کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے تو پھر عقلاً تین نتیجے نکلتے ہیں.اوّل یہ کہ اس کتاب کی کامل اتباع کی جائے.دوسرے یہ کہ اس کتاب نے تقویٰ کی جو باریک راہیں ہمیں بتائی ہیں ان پر گامزن رہا جائے اور تیسرے یہ کہ اگر اور جب ہم یہ کر لیں تب خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے ہم پر کھل سکتے ہیں.لیکن اگر ہم ایسا نہ کریں تو باوجود اس کے کہ یہ کتاب تمام برکات روحانی کی جامع ہے ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۶۲، ۳۶۳) آیت ۱۰۴ لَا تُدرِكْهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ.پھر ایک اور مسئلہ بیچ میں پیدا ہو گیا کہ جب خدا غیب الغیب ہے اور وراء الوراء اور نہایت مخفی ذات ہے تو ہماری عقل اور ہماری سمجھ تو اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتی پھر ہم اس کی معرفت کیسے حاصل کریں؟ تو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ وہ ہے تو وراء الوراء اور غیب الغیب اور نہایت مخفی ، اتنا مخفی
۷۶ سورة الانعام تغییر حضرت خلیفہ المسیح الثالث که لا تدركه الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ تمہارے حواس اس کو حاصل نہیں کر سکتے تم اس کو سمجھ نہیں سکتے.تم اس کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے جب تک خود خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے کلام سے ظاہر نہ کرے جیسا کہ اس نے اپنے کام سے ظاہر کیا ہے لیکن انسان کو چونکہ معرفت الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس بعد کو جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہمیں نظر آتا ہے، اپنے کلام یعنی مکالمہ ومخاطبہ سے پاتا ہے اور پھر اس کے مکالمہ ومخاطبہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے آسمانی نشان ہیں اور وہ زندہ تجلیات ہیں جن کو اپنے بندوں کے حق میں ظاہر کرتا ہے اور پیش خبر یاں ہیں جو اپنے بندوں کو وقت سے پہلے بتا تا ہے.تب انسان اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت کا ہاتھ اپنی زندگی میں دیکھتا ہے اور پھر یہ فاصلے جو خالق اور مخلوق کے درمیان واقع ہیں وہ معرفت الہی کے حصول کے لئے سکڑ جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۲۱۰،۲۰۹) آیت ١٠٦ وَكَذَلِكَ نُصَرِفُ الْأَنْتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسَتَ وَلِنُبَيِّنَةُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ا قرآن کریم نے خود اس مضمون کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَذَلِكَ نُصَرِفُ الْأَيْتِ وَ لِيَقُولُوا دَرَسَتَ وَ لِنُبَيِّنَةَ لِقَوْمٍ يُعْلَمُونَ یعنی ہم نے قرآن کریم کی آیتوں کو کئی طرح پھیر پھیر کے دنیا کے سامنے رکھا ہے.ایک نصرف الأبيتِ تو اس طرح ہے کہ مختلف طبائع کو اپیل کرنے والی جو باتیں تھیں وہ مختلف طبائع کے لحاظ سے قرآن کریم نے بیان کر دیں تا کہ کوئی طبیعت خدا کے حضور یہ نہ کہے کہ میری فطرت کو تو تو نے ایسا پیدا کیا تھا لیکن اس کے مطابق مجھے دلیل نہیں دی گئی اور ایک یہ ہے کہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سے نئے سے نئے دلائل اور نئے سے نئے حجج اور براہین لوگوں کو بتاتارہتا ہے اور جن کو وہ یہ دلائل اور براہین سکھاتا ہے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خلقی طور پر معلم بنادیتا ہے اور اس معلم کا کام یہ ہے کہ درست تو لوگوں کو سکھلا دے ان کے سامنے بیان کر دے لیکن صرف یہ درس کافی نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِنُبَيِّنَةُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اور اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ہم نے یہ جاری کیا ہے کہ ایسے علماءر بانی پیدا ہوتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خشیت سے معمور اور اس کے تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر قائم ہوتے ہیں اور لنبيِّنَةُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ ایسے علماء کی جماعت
سورة الانعام تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کے لئے قرآنی آیات کو کھول کر بیان کر دیتا ہے وہ مطہر نفس دنیا میں آکر قرآن کریم کے اسرار کو حاصل کرتے اور پھر ان کا درس دیتے ہیں.اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ علم و علم حقیقی کے کامل حل ہیں احکام قرآنی کو کھول کر بیان کرتے ہیں پس معلم تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے لیکن اس دنیا میں اگر کوئی کامل ظل معلم کی حیثیت میں پیدا ہوا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۱۸) ج آیت ۱۲۶ فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَ مَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيْقًا حَرَجًا كَانَمَا يَضَعَدُ فِي السَّمَاءِ كَذلِكَ يَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے.فَمَنْ يُرِدِ اللهُ اَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ جسے اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے، شرح صدر پیدا ہوتا ہے.قرآن کریم کے محاورہ میں شرح صدر کا پیدا ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبر کرنا ایک چیز نہیں بلکہ متضاد ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَينَ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا (النحل : ١٠٧) سورۃ انعام کی آیت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فرکو جبراً کافر اور گمراہ کو جبراً گمراہ بناتا ہے بلکہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے اپنی رحمت سے ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی قسم کے گند میں، گندی زیست میں نہ پڑ جائے ، گندے اخلاق اور اخلاقی لحاظ سے بدصحبت میں نہ چلا جائے ، اس کی عادات خراب نہ ہو جائیں کہ اس کے لئے دینِ اسلام کی پابندیاں اٹھانا مشکل ہو جائے ،سینہ میں انقباض پیدا ہو جائے اور بشاشت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا نباہنا اس کے لئے قریباً ناممکن ہو جائے تو جبر نہیں، رحمت ہے اور اس کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ فمن يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لإسلام اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اسلام کے لئے شرح صدر پیدا کرتا ہے.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: (۱۱۳) جو بھی انشراح صدر کے ساتھ اپنے اسلام کا اعلان کرے.من اسلم یہ اعلان کہ میں مسلمان ہوں اور اسلام کا پابند رہوں گا یہاں کسی
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۷۸ سورة الانعام جبر کا اعلان نہیں ہوا بلکہ ہر شخص نے اپنی مرضی سے اپنی رضا کے ساتھ یہ اعلان کرنا ہے کہ میں مسلمان ہوں، مسلمان ہوتا ہوں، اسلام کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے انشراح صدر کے ساتھ تیار ہوں.پس خدا تعالیٰ نے انشراح صدر کے جو سامان پیدا کئے اس میں جبر نہیں تھا، حالات ایسے پیدا کئے گئے تھے کہ اگر کوئی شخص خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے کے لئے اور اس کے قرب کی راہوں کو اختیار کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کا اپنا نفس اور اس کا اپنا شیطان اس کی راہ میں روک نہ بن جائے.یہاں فرمایا ہے جو بھی انشراح صدر کے ساتھ اپنے اسلام کا اعلان کرے اور اعمالِ صالحہ احسن طریق پر بجالائے وَهُوَ مُحْسِن تو اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بدلہ مقرر ہے اور ایسے مسلمانوں کو جو خود اپنی مرضی سے بشرح صدر اسلام کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں نہ آئندہ کا کوئی خوف ہوگا ان لوگوں کے لئے (جیسا کہ میں آگے بتاؤں گا بہت سی بشارات قرآن کریم میں ہیں ) اور نہ وہ کسی سابق نقصان اور لغزش پر غمگین ہوں گے کیونکہ ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور مستقبل الہی بشارات کی خوشیوں سے معمور ہوگا..(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۴۳، ۱۴۴) آیت ۱۴۸ فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يردُّ بَأْسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ.قرآن عظیم نے ہمیں بہت سی تعلیمات دی ہیں.ہمیں بار بار اور کھول کھول کر بتایا ہے کہ بد بداعمالیوں اور گناہوں سے بیچ کر ہی ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکتے ہیں.اسی طرح بہت سی ایسی تعلیمات بھی دی ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اللہ تعالیٰ کے پیار، اس کی محبت اور اس کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں.میں نے چھوٹی سی آیت جو ابھی تلاوت کی ہے، اس میں ہر دو پہلوؤں کے متعلق ہمیں ایک بات بتائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے رسول ! اگر نوع انسان میں سے ایک گروہ تیری تکذیب کرے اور تصدیق نہ کرے تو اس سے تیری بعثت کے مقصد پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ تیرے ماننے والے بھی موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمتوں کے مورد ہیں.یہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ ایک لفظ استعمال
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۷۹ سورة الانعام ہوتا ہے اور اس کے متضاد معنے بھی وہاں موجود ہوتے ہیں.اس لفظ کا سیاق وسباق بتاتا ہے کہ اس کے دوسرے معنوں کو بھی مد نظر رکھا جائے.پس اگر چہ اس آیہ کریمہ میں فَإِنْ كَذَّبُوكَ کہا ہے لیکن کذب اور صدق عربی زبان میں ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال ہوتے ہیں.کذب کے معنے ہیں جھٹلانا اور کذب کے معنے ہیں جھوٹ کی طرف منسوب کرنا.یہ قولاً بھی ہے اور اعتقادا بھی.یعنی وہ اعتقاد جس کے نتیجہ میں عمل پیدا ہوتا ہے اس معنی میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں اور جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا اس آیت میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ ہر دو پر حاوی ہے یعنی کذب کے ساتھ صدق کے معنے بھی مضمر ہیں یعنی اپنے قول سے بھی تصدیق کرنا اور اعتقاد بھی ایسا ہی پختہ رکھنا کہ جس کے نتیجہ میں عمل پیدا ہوتا ہے.پس جہاں یہ بیان ہوا کہ نوع انسان میں سے جن کی طرف قرآن عظیم جیسی کامل اور مکمل کتاب نازل ہوئی اور یہی وہ کامل اور مکمل شریعت ہے جسے انسانِ کامل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے مگر ان لوگوں کا ایک حصہ اسے جھوٹ کی طرف منسوب کرتا ہے اور چونکہ لوگ اسے جھوٹ سمجھتے ہیں اس لئے کہتے ہیں ہم اس پر عمل نہیں کریں گے.فرمایا ایک دوسرا گروہ ہے جو تصدیق کرتا ہے قول سے بھی کہ خدا تعالیٰ کا ایک سچا اور کامل رہبر ہماری طرف آ گیا اور دل سے بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں اور قرآنی ہدایات کے مطابق اعمال بجالاتے ہیں.چونکہ یہ دوسرا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہوتا ہے اس لئے جو اُن کی جزا تھی اُسے پہلے بیان کر دیا اور فرمایا فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ -.جیسا کہ میں نے بتایا ہے عربی محاورہ خود لفظ کے معنی اور مفہوم کو متعین کرتا ہے.اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اے رسول ! وہ لوگ جو تکذیب نہیں کرتے بلکہ تصدیق کرتے ہیں وہ لوگ جو صدق دل سے تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تیری شریعت کو حقیقتا سچی اور کامل ہدایت سمجھتے ہیں اُن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سلوک ہوتا ہے اور اُن کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ذُو رَحْمَةٍ واسعة ہے لیکن وہ دوسرا گروہ جو تکذیب کرتا ہے اور اسلام کو سچا دین نہیں سمجھتا اور چونکہ سچا نہیں سمجھتا اس لئے اس پر عمل بھی نہیں کرتا تو مکڈ بین کے اس گروہ کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ لَا يُرَدُّ بَأْسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ کہ جو لوگ مجرم ہیں اور
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۸۰ سورة الانعام بدی اور بد عملی سے چمٹے ہوئے ہیں.اُن سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹلا یا نہیں جاسکتا.انہیں خدا کا عذاب بہر حال چکھنا پڑتا ہے.جیسا کہ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةِ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہاں مکذبین کے ساتھ مصدقین کا بھی ذکر کیا گیا ہے وہاں مجرم کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ منکر کافر کے ساتھ مفسد منافق کا بھی ذکر ہے.ورنہ یہ کہا جاتا کہ لا يُرَدُّ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ مگر قرآن کریم نے ایسا نہیں کہا.عربی زبان میں مجرم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مکر وہ اعمال بجالاتا ہے.جو آدمی کا فرمنکر ہے اُس کے بُرے اعمال اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ وہ زبان سے بھی اور اعتقاداً وعملاً بھی شریعت محمدیہ پر ایمان نہیں رکھتا.لیکن ایک گروہ وہ ہے جو قولاً یہ کہتا ہے اور جس کی زبان یہ تسلیم کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ پر اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوئی ہے لیکن وہ اس پر دلی اعتقاد نہیں رکھتا اس لئے وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوتا اور شریعت کے احکام کو پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے.پس لا يُرَدُّ بَاسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ میں وہ مکذب بھی شامل ہے جو نہ زبان سے تصدیق کرتا ہے اور نہ دل سے اس پر اعتقاد رکھتا ہے اور اس میں مکذبین کا وہ گروہ بھی شامل ہے جو زبان سے تو تصدیق کرتا ہے لیکن دل سے تکذیب کرتا ہے اور فسق و فجور میں مبتلا رہتا ہے اور یہ منافق کا کام ہے چونکہ ایک کافر کے قول اور اس کے فعل میں تضاد نہیں ہوتا.مکذب کافر اور منکر زبان سے بھی صداقت کا انکار کرتا ہے اور پھر اسی کے مطابق اس کے عقائد اور اعمال بھی ہوتے ہیں کیونکہ خود تضاد بھی انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا گناہ ہے.اس لئے کا فر کا تضاد کے گناہ سے بچنا اُسے یہ فائدہ دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ایک وجہ بغاوت و فساد کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے جہنم کا سب سے نچلا درجہ مقرر نہیں کرتا لیکن جو آدمی منافق ہے وہ زبان سے تو کہتا ہے میں ایمان لا یا مگر دلی اعتقاد کے فقدان کی وجہ سے اس کے فسق و فجور میں مبتلا ہونا بتاتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لایا اور ریا کے طور پر بظاہر کچھ نیک اعمال بھی بجالاتا ہے لیکن حقیقی نیکی اس سے اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنی زمین آسمان سے دُور ہے.اس لئے اس آیت سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ تضاد والا جو گناہ ہے اس کو خدا تعالیٰ نے نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء :۱۴۶) کو اس آیت کے ساتھ ملا کر معنی کریں تو ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ اگر چہ منافق آدمی مکذب منکر اور کافر کے ساتھ اعتقادا اور عملاً
تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ΔΙ سورة الانعام شامل ہوتا ہے لیکن ایک زائد گناہ وہ یہ کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں تضاد پایا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے کہ تضاد نہ پایا جائے.ایک شخص باغی ہے وہ کھلم کھلا کہتا ہے کہ میں ایمان نہیں لاتا اور ایک وہ ہے جو کہتا ہے میں ایمان لاتا ہوں یعنی صرف زبان سے ایمان لاتا ہے مگر نہ اس کا اعتقاد ایمان کے مطابق ہوتا ہے اور نہ اس کے اعمال ایمان کے مطابق ہوتے ہیں.پس منافق کا ایک گناہ منکر اور کافر سے زیادہ ہوتا ہے باقی گناہ برابر ہوتے ہیں اس لئے فِي الدَّرُكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النار کی سمجھ آ گئی کہ کیوں منافقین کو زیادہ سزادی گئی ہے.ویسے تو ہم قرآن کریم کی ہر آیت پر ایمان لاتے ہیں چاہے اس کی ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم کو ایک حکمت والی کتاب بنایا ہے اس لئے وہ ساتھ ساتھ سمجھاتا اور دلیل بھی دیتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ رَبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ میں یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) اور اس طرح بتایا ہے کہ میں (اللہ ) رحمت واسعہ کا مالک ہوں.اگر چہ یہ درست ہے اور یقیناً درست ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ اللہ پر ایمان لانے والے.اس سے تعلق رکھنے والے، اس پر جاں نثار کرنے والے اور اس کے فدائیوں پر ظاہر ہوتا ہے اور وہ جلوہ دُنیا پر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارا رب ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ہے لیکن باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةِ ہے نوعِ انسانی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمہا ر بھی ہے.انسان پر اس کا غضب بھی بھڑکتا ہے اگر کوئی شخص خود کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا اہل بنالے تو وہ خواہ زبان سے انکار کرے اور اس کے مطابق ہی وہ کافر و منکر کہلائے خواہ زبان سے اقرار کرے لیکن دلی اعتقاد نہ رکھے اور دلی اعتقاد کے نتیجہ میں جو مخلصانہ اعمال سرزد ہوتے ہیں وہ اس سے سرزد نہ ہور ہے ہوں تو اس سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا.اس میں بڑی سخت وارننگ اور تنبیہ ہے اُن کے لئے بھی جو منکر اور کافر ہیں اور اُن کے لئے بھی جو بظاہر خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی جماعت میں ، امت محمدیہ میں شامل ہوتے ہیں لیکن اُن کا اقرار محض زبان کا ہوتا ہے.یہ اقرار دل اور دوسرے جوارح اور عمل کا نہیں ہوتا.مثلاً اعتقاد جو اُن کے زبانی اقرار سے تضا درکھتا ہے یا عمل جو ہے وہ زبانی دعوی سے مختلف ہے تو زبانی دعووں سے کوئی شخص خدا تعالیٰ کا پیار حاصل نہیں کر سکتا بلکہ وہ اس زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے.
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۲ سورة الانعام غرض جو لوگ کھلم کھلا انکار کرتے ہیں وہ تو واضح ہیں لیکن ہر وہ شخص جو خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور اُس نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنی زندگی اُس شریعت اور ہدایت کے مطابق گزارے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی یعنی قرآن کریم کو لائحہ عمل بنائے گا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلحائے امت کے جس سلسلہ کی ہمیں اطلاع دی ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ برگزیدہ اور صالحین کے ساتھ رہو گے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرو گے.چنانچہ وہ شخص بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صالحین کے ساتھ رہے گا.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے آنے کی پیشگوئی فرمائی اور اس کا یہ دعویٰ ہے کہ میں نے مہدی علیہ السلام کو پہچانا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی کو سلام بھیجا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اُسے یعنی مہدی معہود کو جو سلامتی پہنچی تھی اُس میں حصہ دار ہونے کی کوشش کی.صرف اُس کے لئے نہیں بلکہ ساری جماعت کے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنی غفلت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے اُن فضلوں سے محروم ہو جائے جو جماعت احمدیہ پر نازل ہوتے ہیں.ویسے جان بوجھ کر تو کوئی احمدی ایسا نہیں کرتا سوائے اس کے کہ کوئی منافق ہو لیکن میں اس وقت منافق کی بات نہیں کر رہا، میں اُن لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں وارننگ دی ہے اور جن کو تنبیہ کی گئی ہے کہ دیکھو قول و فعل میں تضاد بڑے خوف کا مقام ہے.اگر تمہارے قول اور تمہارے فعل اور تمہارے اعتقاد میں تضاد ہوا بایں ہمہ کہ تم نے دعوئی یہ کیا کہ ہم ایمان لائے.ہم نے تصدیق کی.لیکن اگر تمہارا اعتقاد اس سے مختلف ہوا یا تمہارے اعمال اس سے مختلف ہوئے تو یہ نہ بھولنا کہ لَا يُرَدُّ بَاسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِين تم مجرم بن جاؤ گے اور مجرم اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں.قرآن کریم تمہیں یہ بتا دیتا ہے کہ یہ عذاب ہے اس سے تم بچ نہیں سکتے اس کو ٹالا نہیں جاسکتا.اس لئے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ جس معنی میں اسلامی اصطلاح میں تصدیق کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ تکذیب کے مقابلہ میں ہے اس معنی میں ہم مصدق ہوں گے.زبان سے بھی تصدیق کرنے والے اور اس کے مطابق عملی اعتقاد رکھنے والے ہوں گے.در اصل اعتقاد صحیحه منبع بنتا ہے اعمال صالحہ کا.پس اگر ہمارے اعمال صالحہ ہوں گے تو ہم اپنی
۸۳ سورة الانعام تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث زندگیوں میں خدا تعالیٰ کو ذُو رَحْمَةٍ واسعةٍ پائیں گے.لیکن اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو خواہ ہمارا دعویٰ یہ ہو کہ ہم مصدق ہیں ہمارا مقام مصدق کا مقام نہیں ہوگا بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کے قہر کے نیچے آجائیں گے.لیکن ایک احمدی جو منافق نہیں ہے ویسے الہی سلسلوں میں منافقوں کا سلسلہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے لیکن وہ تو استثناء ہیں اور جو استثناء ہے وہ قاعدہ کو ثابت کرتا ہے.الہی سلسلوں میں بہت بھاری اکثریت مخلصین کی ہوتی ہے.میرے خیال میں منافق کا وجود تو شاید ہزار میں سے ایک بھی نہیں ہوگا شاید دس ہزار میں ایک بھی نہیں ہو گا لیکن جو شخص منافق نہیں ہے یعنی اُن لوگوں کی طرح نہیں ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے زبان سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اس کے مطابق اعتقاد نہیں رکھتے اور نہ عمل کرنے کے لئے تیار ہیں سوائے ریا اور دکھاوے کے عمل کے.منافق کے تو سارے اعمال ہی دکھاوے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ دل سے اعتقاد ہی نہیں رکھتا اور اس کا ایمان صحیح ہے ہی نہیں تو اس کا جو مومنانہ عمل ہوگا وہ ریا اور دکھاوے کا عمل ہوگا.وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا عمل نہیں ہوگا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ انسان صداقت کے پہچان لینے کے بعد بھی بشری کمزوری یا غفلت کے نتیجہ میں ایک ایسا کام کر لیتا ہے جو ایک مومن اور مصدق کا عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک منافق کا عمل ہوتا ہے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۲۷ تا ۳۳) جب کوئی بات کہو تو خواہ وہ شخص جس کے متعلق بات کی گئی ہے تمہارا قریبی ہی ہو ( یعنی تعقت اس کے حق میں بھی آسکتا ہے ) تعصب نہ آنے دو.عدل وانصاف سے کام لے کے بات کرو اور اگر ایسا کرو گے وَ بِعَهْدِ اللهِ اوفوا تو خدا نے جو عہد لیا ہے تم سے جو فرائض تم پر عائد کئے ہیں تم ان کو پورا کرنے والے ہوگے.اگر ایسا نہیں کرو گے، اگر اپنوں کے لئے حق و انصاف کی بات کو چھوڑ دو گے تو خدا تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کو توڑنے والے ہو گے اس عہد کو نباہنے والے نہیں ہو گے خیانت کرنے والے ہو جاؤ گے.پھر اللہ تعالیٰ سورۃ نحل میں فرماتا ہے.( جو آیت میں نے لی وہ تو دوسرے مضمون کا حصہ ہے ).هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَ مَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (النحل :۷۷) مفہوم میں نے پہلی آیتوں کا لیا ہے تا کہ اگلا مفہوم واضح ہو جائے.اللہ تعالیٰ دو شخصوں کی حالت بیان کرتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا ہے جو کسی بات کی طاقت نہیں رکھتا.میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں شرافت گونگی ہے.آواز نہیں نکلتی شرافت کے حق میں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو شخصوں
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۸۴ سورة الانعام کی حالت بیان کرتا ہے اللہ.جن میں سے ایک تو گونگا ہے جو کسی بات کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ ہے.جدھر بھی اس کا آقا اسے بھیجے ، جو ذمہ داری بھی اس کے سپرد کی جائے.وہ کوئی بھلائی کما کر نہیں لاتا، نا کام ہوتا ہے اپنے مشن میں، اپنے کام میں.ایک تو وہ شخص ہے کیا وہ شخص جس کا اوپر ذکر ہے جو گونگا ہے اور خیر کی طاقت نہیں رکھتا اور نا کام ہوتا ہے وہ شخص اور وہ دوسرا شخص جو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھی راہ پر قائم ہے باہم برابر ہو سکتے ہیں؟ یہاں موازنہ کیا گیا ہے اس شخص کا جو خود بھی عدل کرتا ہے علی صراط مستقیم پر قائم ہے اور اپنے ماحول میں بھی عدل کی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ شخص ہے.جہاں نفی ہوئی پہلی چیزوں کی.اس شخص کے حق میں نفی مثبت میں بدل جائے گی.یہ وہ شخص ہے کہ جدھر بھی اس کا آقا اسے بھیجے وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا اور بھلائی کما کر لاتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو گونگا نہیں جو کسی بات کی طاقت نہ رکھتا ہو اور یہ وہ شخص ہے جو اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا اس غرض کو پورا کرنے والا ہے یہ شخص اپنی زندگی اور اعمال صالحہ کے نتیجہ میں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۷۷،۳۷۶) آیت ۱۵۴ وَ اَنَّ هَذَا صِرَاطِى مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا رود السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَقُكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ بعض دفعہ محبت کا زبانی دعوی ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جس قسم کی محبت ہمارے دل میں ہونی چاہئے وہ محض زبان کا دعویٰ نہیں ہونا چاہیے.بعض دفعہ محبت حقیقی ہوتی ہے لیکن انسان اپنی عادت سے مجبور ہو کر یا بعض اپنی اخلاقی کمزوریوں سے مجبور ہوکر (اخلاقی کمزوری سے مراد میری بداخلاقی نہیں ) ایسی جرات نہیں رکھتا کہ وہ میدان جنگ میں بھی لڑ سکے.اس قسم کی کمزوریوں کے نتیجہ میں محبت کا عملی اظہار نہیں کر سکتا.یعنی گو محبت حقیقی ہوتی ہے لیکن عملاً اس کا اظہار نہیں ہوتالیکن خدا تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں آپ کی محبت کا عملی دنیا میں اظہار کریں قرآن کریم بار بار ہمیں اس کی طرف متوجہ کرتا ہے اور میں بھی اب جماعت کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۸۵ سورة الانعام وَ أَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُودُ کہ یہ راستہ جس پر میں گامزن ہوں.صراطی.یہ راستہ سیدھا خدا کی طرف لے جاتا ہے اور اس پر چل کر انسان کو خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہوتی ہے.فَاتَّبِعُوہ.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ میری محبت میں میری اتباع بھی کرو اور میرے پیچھے پیچھے آؤ.یہ قیادت کا بہترین عملی نمونہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں دکھایا چنانچہ آپ نے دنیا کو یہ نہیں کہا کہ میں دنیوی آرام حاصل کرتا ہوں.تم جاکے لڑو بلکہ ہر جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور لیڈر اور بطور قائد کے آگے ہوئے اور امت کو یہ کہا کہ میرے پیچھے آؤ.یہ بہترین قائد جوا اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں امت کو یہ آواز دیتا ہے کہ میرے پیچھے آؤ بہت ہی عظیم ہے وہ قائد اور بہت ہی عظیم ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے یہ نہیں کہا کہ خدا کی راہ میں قربانیاں دو بلکہ یہ کہا کہ جس طرح میں قربانیاں دیتا ہوں اس طرح میری سنت پر عمل کرتے ہوئے تم بھی خدا کی راہ میں قربانیاں دو.غرض آپ نے یہ فرمایا کہ یہ راستہ جس پر میں گامزن ہوں تم اس پر چلو.یہ راستہ خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے.اس لئے تم میرے پیچھے پیچھے آؤ.میری اتباع کرو اور اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے.وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( الاعراف : ۱۵۹ ) تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو گے تو تمہارا انجام بخیر ہو جائے گا.تم ان خوشیوں کو حاصل کر لو گے جن کا حاصل کرنا انسان کے لئے ممکن ہے اور سب سے بڑی خوشی تو خدا تعالیٰ کی رضا ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا مل جائے گی پس اسلام نے یہاں بھی زور دے کر فرمایا کہ تمہارا ہدایت پانا تمہارا نیک انجام ہونا بہترین جزا کا تمہیں ملنا اس بات پر منحصر ہے کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہو.اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( ال عمران : ۳۲) کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی کا نتیجہ بھی یہ ہونا چاہیے کہ جو خدا کہتا ہے وہ تم کرو اور خدا تعالیٰ تمہیں کہتا ہے.اتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف :۱۵۹) اس لئے اگر تم میری پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اس وجہ سے بھی کہ تم نے میری پیروی کی اور اس راستہ کو اختیار کیا کہ جو اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جانے والا تھا اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی کا یہ تقاضا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ کرو یہ اتباع جس رنگ میں ہونی چاہیے وہ دنیا کا عام رنگ نہیں اور یہ آپ اچھی طرح یاد
تغییر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۸۶ سورة الانعام رکھیں کہ دنیا میں مختلف رنگوں میں اتباع کی جاتی ہے کسی جگہ ڈر کے، کسی جگہ اپنے فائدہ کے لئے کسی جگہ چھپ کر اور کسی جگہ ظاہر ہو کر کسی جگہ تھوڑی کسی جگہ بہت لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا تو صحابہ نے کس رنگ میں اس کو لیا اور کس رنگ میں اطاعت کی اس کا نظارہ ہمیں جنگ حنین کے موقع پر نظر آتا ہے اس وقت بعض نئے اسلام لانے والے اور بعض وہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو گئے تھے اور جنگ کے دوران ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ بھاگے اور ساتھ ہی ان کے مسلمانوں کی سواریاں بھی بھاگیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریباً تنہا رہ گئے صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے کہا کہ ان کو میری طرف سے آواز دو آپ نے فرمایا کہ عباس بلند آواز میں پکار کر کہو کہ اے وہ صحابہ جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورۃ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے حضرت عباس نے نہایت ہی بلند آواز سے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنایا تو اس وقت صحابہ کی جو حالت تھی اس کا اندازہ صرف انہی کی زبان سے حالات سن کر لگایا جاسکتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لانے کی کش مکش میں تھے.سواریاں بدک گئی تھیں اور واپس نہیں جاتی تھیں لگام کھینچتے تھے ادھر منہ نہیں کرتی تھیں کہ حضرت عباس کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی.اس وقت ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں اور اس کے فرشتے ہم کو حساب دینے کے لئے بلا رہے ہیں.تب ہم میں سے بعض نے اپنی تلوار میں اور ڈھالیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور دوڑتے ہوئے اونٹوں سے کود پڑے اور ڈرے ہوئے اونٹوں کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا کہ جدھر چاہیں چلے جائیں اور بعض نے اپنی تلواروں سے اپنے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں.وہ بڑی تیزی سے جار ہے تھے اور ان پر سے وہ چھلانگ نہیں لگا سکتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی ادھر آؤ تو انہوں نے تلوار نکالی اور اونٹ کی گردن کاٹ دی پھر اونٹ گرا تو وہ اتر کر دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اور خود پیدل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے.اس دن انصار اس طرح دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جارہے تھے جس طرح اونٹنیاں اور گائیں اپنے بچوں کی آواز سن کر ان
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۸۷ سورة الانعام کی طرف دوڑ پڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ (خصوصاً انصار ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن کو شکست ہوگئی.“ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۲۱، ۲۲۲) تو اتباع کا یہ مفہوم صحابہ نے سمجھا تھا.اتباع کا یہ مفہوم ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر نفس کو اونٹوں کی طرح قربان کرنا پڑے یا رشتہ داروں کو اونٹوں کی طرح قربان کرنا پڑا یا بیوی بچوں کو قربان کرنا پڑا اس دنیا کے اموال اور اس کے آرام اور لذتوں اور مسرتوں کو قربان کرنا پڑا تو ہم نے خدا تعالیٰ کے برلبیک کہتے ہوئے ہر چیز پر چھری پھیر دینی ہے اور خدا کی آواز جدھر بھی اور جس طرف بھی ہمیں پکارے ہم نے اس کی اتباع کرتے ہوئے اس طرف چلے جانا ہے.اس رنگ میں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے.یہ نہیں کرنا کہ دعوئی تو یہ ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہیں اور عمل یہ ہو کہ معمولی معمولی رسموں اور بدعتوں کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اور حالت یہ ہو کہ مغربی تہذیب کے گندے اور بداثرات سے نجات پانے میں بھی تکلیف محسوس کریں.یہ نہیں ہوگا.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۲۳۲ تا ۲۳۵) آیت ۱۵۶ وَهُذَا كِتَبُ اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ ترحمون اس آیت پر میں نے جب غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر یہ قرآن كِتَابٌ مُبر ہے اور یقیناً قرآن كِتَابٌ مُبر ہے اور اس نے تمام برکات روحانی کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے تو پھر عقلاً تین نتیجے نکلتے ہیں.اول یہ کہ اس کتاب کی کامل اتباع کی جائے.دوسرے یہ کہ اس کتاب نے تقویٰ کی جو باریک راہیں ہمیں بتائی ہیں ان پر گامزن رہا جائے اور تیسرے یہ کہ اگر اور جب ہم یہ کر لیں تب خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے ہم پر کھل سکتے ہیں.لیکن اگر ہم ایسا نہ کریں تو باوجود اس کے کہ یہ کتاب تمام برکات روحانی کی جامع ہے ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.میں جب سورۃ الانعام کی تلاوت کر رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ میں اس آیت کے متعلق خطبہ دوں
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۸ سورة الانعام گا.میں نے سوچا تو یہ تینوں باتیں میرے ذہن میں آئیں.جب میں سورۃ کے آخر میں پہنچا مجھے یہ دیکھ کر لطف آیا کہ وہ تین باتیں جو اس وقت میرے ذہن میں آئی تھیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کے آخر میں وہی تین نتیجے مبارک کے ) وضاحت کے ساتھ نکالے ہیں.اس پر میرا خیال اس طرف گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر کے متعلق جو یہ ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے.یعنی قرآن کریم کی بعض آیات دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور وہی تفسیر بہتر اور اچھی اور مفید اور سب سے زیادہ صحیح تسلیم کی جاسکتی ہے جو قرآن کریم نے خود بیان فرمائی ہو اگر چہ ہر ایک کا دماغ اتنی پہنچ نہیں رکھتا کہ معلوم کر سکے کہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کے خلاف نہیں یا لغت عرب ہی خود اس تفسیر کے خلاف نہیں.لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بہترین تفسیر وہ ہے جو قرآن کریم خود بیان کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ بھی کہا یا لکھا وہ قرآن کریم کی ہی تفسیر ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم میں سے بعض بعض چیزوں یا بعض مضامین کے متعلق کچھ پریشان ہوں کہ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ یہ قرآن کریم کی کس آیت کی تفسیر ہے.لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ لاکھوں احادیث جو امت مسلمہ نے بڑی محنت اور جد و جہد سے محفوظ کیں) سب قرآن مجید ہی کی تفسیر ہیں لیکن کم لوگ ہیں جو یہ بتا سکیں کہ کون سا ارشاد کس آیت کی تفسیر ہے.جو بڑے بڑے عالم ہیں وہ تو جانتے ہیں لیکن ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں.چونکہ یہ اس نکتہ کی بڑی واضح مثال تھی اس لئے میں نے اس کا یہاں ذکر کر دیا ہے.تو اس خیال سے کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں گا.میں نے اس پر غور شروع کیا اور مذکورہ بالا تین باتیں میرے ذہن میں آئیں اور وہی تین باتیں مُبارک کی تفسیر کرتے ہوئے سورۃ انعام میں ہی آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیں.اللہ تعالیٰ سورۃ انعام آیت ۱۵۶ میں فرماتا ہے وَهُذَا كِتَابٌ اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ یہ کتاب جو میں تم پر نازل کر رہا ہوں.یہ تمام برکات کی جامع ہے فَاتَّبِعُوہ اس لئے تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اس کی کامل اتباع کرو.وَاتَّقُوا اور تقویٰ کی جو باریک راہیں یہ تمہیں بتاتی ہیں تم ان پر گامزن رہو.لعلكم تُرْحَمُونَ تا کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھولے جائیں.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ قرآن کریم جامع ہے تمام برکات روحانی کا
۸۹ سورة الانعام تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث (لیکن کتب سابقہ کے متعلق ممبرك کا لفظ استعمال نہ ہو سکتا تھا) اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ پہلی امتیں اپنی پوری جدوجہد، اپنے پورے مجاہدہ ، اپنی پوری محنت اور اپنی پوری کوشش اور ایثار اور اپنے پورے جذ بہ قربانی کے باوجود اس روحانی مقام رفعت تک نہ پہنچ سکتی تھیں جس مقام رفعت تک تم پہنچ سکتے ہو.کیونکہ تمہیں ایک کامل کتاب دی گئی ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میں تم کامل برکات کو حاصل کر سکتے ہو.کامل برکات کے حصول کا امکان تمہارے لئے پیدا ہو گیا ہے.اتنی ارفع اور اتنی اعلیٰ کتاب کے ملنے کے بعد بھی اگر تم کو تا ہی کرو اور اس طرف متوجہ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اس کی اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھاؤ تو تمہارے جیسا بد بخت دنیا میں کوئی نہیں ہوگا.پس فرمایا کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع ہے اور تمام برکات کا حصول تمہارے لئے ممکن بنادیا گیا ہے.اس لئے اٹھو! اور کوشش کرو اور محنت کرو اور قربانیاں دو اور ایثار دکھاؤ تا کہ تم ان تمام برکات اور فیوض کو حاصل کر سکو.دوسرا امر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بیان فرمایا.مُصَدِّقُ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ - دراصل یہ ملوک کی وجہ بتائی ہے کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع کیوں ہے؟ اس لئے کہ پہلی کتب میں جو بھی صداقتیں پائی جاتی تھیں ان سب کو اس نے اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے بلکہ ان سے کچھ زائد بھی ہے.اس لئے یہ مبارک ہے.ہر وہ برکت جو پہلی کسی کتاب کی ہدایت سے حاصل کی جاسکتی تھی وہ اس کتاب سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ہدایت اور بنیادی صداقت جو اس کے اندر تھی اس میں بھی پائی جاتی ہے.لیکن جوز ائد چیزیں اس میں ہیں وہ پہلی کتب میں نہیں تھیں.اس لئے ان زائد احکام پر عمل کر کے جو برکتیں تم حاصل کر سکتے ہو.وہ لوگ جن پر پہلی کتب نازل کی گئی تھیں انہیں حاصل نہیں کر سکتے تھے.مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ “ یہ قرآن پہلی کتب کی تصدیق کرتا ہے.میں جو تصدیق کا ذکر ہے اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ تصدیق کا ایک طریق قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے.مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۖ أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورة البقرة : ۱۰۷) کہ جب بھی ہم کسی پیغام کو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسا پیغام ہم دنیا میں لے آتے ہیں.اس آیت میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ پہلی کتب کی بعض باتوں کو بعض ہدایتوں کو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ میں نے پہلے جو کتاب بھیجی تھی اس کی یہ یہ ہدایتیں منسوخ کی جاتی
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة الانعام ہیں تو اس اعلان میں اس کتاب کی تصدیق بھی ہو رہی ہوتی ہے یعنی منسوخ کا اعلان خود تصدیق کر رہا ہوتا ہے.اس بات کی کہ وہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل کی گئی تھی جسے اب اللہ تعالیٰ منسوخ کر رہا ہے.دوسرے اس میں یہ بتایا کہ جو جو بنیادی صداقتیں پہلی کتب میں تھیں وہ تمام کی تمام ہم نے قرآن کریم میں جمع کر دی ہیں.مِثْلِهَا ، میں اسی طرف اشارہ ہے.مغل اس لئے کہا.پہلے مجمل طریق پر یہ صداقتیں بیان ہوئی تھیں اور حکمت بتائے بغیر.لیکن اب وہ کامل اور مکمل شکل میں قرآن کریم میں رکھ دی گئی ہیں بالکل وہی نہیں.کیونکہ بالکل وہی ہوں تو اس سے قرآن کریم میں نقص لازم آتا ہے لیکن ہیں ویسی ہی مگر زیادہ اچھی شکل میں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ....یہ ایک معنی مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ کے ہیں.دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ قرآن کریم ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس کے متعلق دنیا کی ہر شریعت نے پیشگوئی کی تھی اور بشارت دی تھی اور انہی پیشگوئیوں کے مطابق قرآن کریم اپنے وقت پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.تو فرمایا کہ یہ ایک عظیم کتاب ہے.اتنی عظیم الشان کہ کوئی ایسی شریعت دنیا کے کسی خطہ میں نازل نہیں کی گئی.جس کے نبی نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن (کتاب عظیم) کی بشارت نہ دی ہو.اور کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی قوم کو اس طرف متوجہ نہ کیا ہو کہ جس وقت بھی اور جہاں بھی خدا کا وہ برگزیدہ رحمة للعلمین کی شکل میں تمہارے سامنے آئے تو اس کو قبول کر لینا.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کتاب اسے دی جائے گی وہ میری ہر کتاب (شریعت) سے بہتر اور افضل اور اعلیٰ ہوگی.کیونکہ میری ہر پہلی کتاب میں چند برکات ہیں اور جو کتاب اسے دی جائے گی وہ مبارک جامع ہوگی تمام برکات کی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسا کہ خود قرآن مجید نے کہا ہے دعا فرمائی اور بشارت بھی دی کہ ایسا نبی جو الکتاب اور الحکمۃ سکھانے والا ہو وہ مبعوث ہوگا.اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے متواتر نبی کے بعد نبی پیدا ہوا اور ان سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئی فرمائی.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس گناہ سوز شریعت کی ان الفاظ میں بشارت دی
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۱ سورة الانعام کہ اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.اور اس بشارت کو موسیٰ علیہ السلام نے بار باردہرایا تا کہ ان کی امت گمراہ نہ ہو جائے.پھر یسعیاہ نبی نے حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگوں کو بشارت سنائی اور ہشیار بھی کیا.تا کہ جب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا ہو تو لوگ ایمان سے محروم نہ ہو جائیں.پھر بنی اسرائیل کی شریعت کے علاوہ جو شریعتیں محفوظ ہیں یا ان کا کچھ حصہ محفوظ ہے جب ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی بشارات موجود ہیں.حضرت زرتشت نے بھی آپ کی بشارت دی.ہندوؤں کی کتب میں بھی یہ بشارت پائی جاتی ہے اور بعض جگہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ایک فرزند جلیل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بشارت دی ہے.تو قرآن کریم کا چودہ سو سال پہلے یہ دعویٰ کہ وہ مُصدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ہے.یعنی پہلی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے.خود ایک عظیم صداقت اور اس کی حقانیت پر ایک ز بر دست دلیل ہے.کیونکہ نزول قرآن کے وقت بہت سی کتب سماوی ایسی تھیں جن کے متعلق کسی کو کچھ بھی پتہ نہ تھا.لیکن اب وہ باتیں ظاہر ہورہی ہیں اور چونکہ اب اشاعت کتب کی بہت سی سہولتیں ہوگئی ہیں اس لئے بہت سی چھپی ہوئی اور نا معلوم باتیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں.اور ہر نئی بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ قرآنِ کریم کی ہی تصدیق کر رہی ہوتی ہے کہ قرآن کریم کا بھیجنے والا یقیناً أَصْدَقُ الصَّادِقِین ہے.جو بات وہ کہتا ہے سچی ہوتی ہے.اس کے متعلق کسی کو کبھی بھی شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی.علم تو بڑھ رہا ہے، اگر کبھی آئندہ کوئی سابقہ شریعت ( جو اس وقت انسان کے سامنے نہیں) انسان کے سامنے آجائے تو یقیناً اس میں بھی ہم پائیں گے کہ ایک عظیم الشان نبی آنے والا ہے.پس فرمایا کہ یہ کتاب جامع ہے تمام برکات کی.اس لئے کہ یہ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ہے.پہلی تمام صداقتوں کی تصدیق کرتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نزول ہوا ہے.ہر نبی کو یہ فکر تھی کہ جو عظیم الشان نبی (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) آنے والا ہے کہیں اس کی امت غلطی سے اس کا انکار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کا مورد نہ بن جائے اور ان سب انبیاء کو اس چیز سے دلچسپی تھی.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۲ سورة الانعام کیونکہ یہ کتاب (قرآن) ہر قوم کے لئے تھی اس لئے وہ ان سب قوموں کا مشتر کہ روحانی مائدہ تھا.اور ان سب نبیوں کی قوم نے اس سے فیوض حاصل کرنے تھے اس لئے ان سب کو فکر تھی کہ کہیں ان کی قوم اس ابدی آتشی شریعت سے محروم نہ ہو جائے.اور مور دغضب الہی نہ بن جائے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا یعنی تیرے اوپر یہ فضل اس لیے کیا گیا ہے اور یہ کتاب مبارک اس لیے اُتاری گئی ہے کہ تاتو نہ صرف مکہ اور اہلِ عرب بلکہ وَمَنْ حَوْلَهَا تمام ان آبادیوں میں رہنے والی اقوام کو رائے جو عرب کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں.بشارت اور انذار دونوں ہی پہلو بہ پہلو چلتے ہیں کبھی خدا تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو کھول کر بیان کر دیتا ہے اور کبھی ایک کو بیان کر دیتا ہے اور دوسری انڈرسٹڈ(Under Stood) ہوتی ہے.یعنی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بھی یہاں مذکور ہے.اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا کہ یہ کتاب جو مبارک بھی ہے اور مصدق بھی ہے اس لئے تجھ پر نازل کی گئی ہے کہ تو تمام اقوامِ عالم کو خدائے واحد و یگانہ اور قادر وتوانا کی طرف پکارے اور ان کو دعوت دے کہ اس پاک صحیفہ کو تسلیم کرو جس کے متعلق پیشگوئیاں تمہاری کتاب میں بھی کی گئی تھیں اور اس پر ایمان لاؤ تا کہ تم تمام اُن برکات سے حصہ لو جو اس کی اتباع کے نتیجہ میں تمہیں مل سکتی ہیں لیکن اپنی کتب کی پوری اتباع کے باوجود تمہیں نہیں مل سکتیں.ام القری سے میں نے عرب مراد لی ہے اس لئے کہ ہمارے عام محاورہ میں بھی جب کبھی ملک کے دارالخلافہ کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد وہاں کی قوم، وہاں کی حکومت اور وہاں کے رہنے والے شہری ہوتے ہیں.لغوی معنی بھی اس کی تائید کرتے ہیں.کیونکہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ مکہ کو اُم القری اس لئے کہتے ہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو زمین کو بچھایا تو اس کا مرکزی نقطہ مکہ تھا اور زمین کا وجود اس نقطہ مرکزی کے گرد ظہور پذیر ہوا.ہمیں لفظی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ، مجازی طور پر ہم اس کے بڑے اچھے اور صحیح معنی بھی کر سکتے ہیں.اور وہی ہمیں کرنے چاہئیں بہر حال یہ تخیل پہلے سے موجود تھا کہ ملکہ دنیا کے لیے ایک مرکزی نقطہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ام القری کے لفظ سے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم نے مکہ کو دنیا کے لئے مرکزی نقطہ بنا دیا ہے اس لیے کہ اتم کے معنی میں وہ چیز جو دوسری چیز کے لئے بطور اصل کے ہو ، اس کے وجود، اس کی
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ابتداء، اس کی تربیت اور اس کی اصلاح کے لئے.۹۳ سورة الانعام تو فرمایا کہ ام القری یعنی مکہ کو دنیا کی اصلاح اور تربیت کے لئے ہم مرکزی نقطہ بنا رہے ہیں.اس لئے اے رسول! اُٹھ اور ان لوگوں کو تیار کر تاکہ وہ دنیا میں پھیلیں اور خدائے واحد کی تبلیغ کریں اور اس کے نام کا جھنڈا بلند کریں اور قرآن کریم کے نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کریں.لِتُنذِر ام القری پہلے عرب کو تیار کرو اور وہاں استاد پیدا کرو.وَمَنْ حَوْلَهَا پھر یہ باہر نکلیں گے اور ایک دنیا کے معلم اور راہبر بنیں گے.تاریخ کے اوراق الٹتے چلے جائیں امت مسلمہ کی تاریخ لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ہی کی کھلی تفسیر ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحافظون.کہ اگر چہ تمام انبیاء سابقین اور کتب سابقہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نزول کی پیشگوئی کی ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ تمام اقوامِ عالم آسانی کے ساتھ قرآن کریم پر ایمان بھی لے آئیں گی کیونکہ ان اقوام میں سے وہی لوگ ایمان لائیں گے.يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ جو ان موعودہ پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں.اور پختہ ایمان اس شخص کا ہوتا ہے جو ( اول ) ان پیشگوئیوں کو بھول نہیں جاتا.دیکھو ہماری اُمت مسلمہ کو بھی بہت سی پیشگوئیاں سنائی گئیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کو یاد رکھتے ہیں؟ اور کتنے ہیں جن کے ذہنوں میں وہ پیشگوئیاں مستحضر رہتی ہیں؟ بہت ہی کم ہیں !!! فرمایا وہ لوگ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ان پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں یعنی انہیں بھولے ہوئے نہیں.( دوم ) ان پیشگوئیوں کو سچی پیشگوئیاں سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں ان کو جھوٹا نہیں قرار دیتے جیسے کہ آج کل بعض لوگ جب تنگ آ جاتے ہیں اور ان سے کوئی جواب نہیں بن آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جتنی پیشگوئیاں حدیث وغیرہ میں ہیں وہ سب جھوٹی ہیں.ایسی کوئی پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی.جس شخص کا ایسا خیال ہو وہ پیشگوئی سے فائدہ بھی نہیں اُٹھا سکتا.( سوم ) ان کی غلط تاویلیں نہیں کرتے.یہ بھی پختہ ایمان کا طبعی اور لازمی نتیجہ ہے بعض لوگ غلط
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۹۴ سورة الانعام تاویلیں کرنی شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ برکات سے محروم ہو جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان پیش خبریوں کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے متعلق پچھلی تمام کتب سماویہ نے دی تھیں.بھلائے ہوئے نہیں.بلکہ ان کو اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھتے ہیں.ان کی غلط تاویلیں نہیں کرتے ، ان کو پختہ یقین ہے کہ یہ خدا کی بات ہے اور ضرور پوری ہوکر رہے گی.اور اس کے ساتھ ہی وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ وہ اپنی شریعت کے مطابق جو ہم نے ان پر نازل کی دعا اور عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی نیکی اور ثواب کا حصول خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.اس لئے ہر وقت دعا میں لگے ہوئے ہیں عبادت کر رہے ہیں اور اپنی شریعت کو حتی المقدور قائم کئے ہوئے ہیں.یہی لوگ ہیں يُؤْمِنُونَ بِہ جو قرآن کریم پر ایمان لانے کی توفیق پائیں گے.جو شخص قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتا خدا تعالیٰ اسے موردالزام ٹھہراتا ہے.کہ تم وہ لوگ ہو جو خود اپنی شریعت کے مطابق نہ دعا کرتے ہو اور نہ ہی عبادت کرتے ہو اور نہ ہی شریعت کے دوسرے احکام بجالاتے ہو اور نہ ہی اپنی شریعت کی حفاظت کرتے ہو.بلکہ جو پیشگوئیاں اور بشارتیں تمہیں ملی تھیں تم ان کا انکار کر رہے ہو.یا ان کی غلط تاویلیں کر رہے ہو، تو تم خدا تعالیٰ کے فضل کو کیسے کھینچ سکتے ہو؟ تم نے اس شریعت کی قدر نہیں کی جو تم پر نازل کی گئی تو تم اس شریعت پر کیسے ایمان لا سکتے ہو جو تمہاری قوم سے باہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی یا تمہاری قوم میں سے ایک ایسے شخص پر نازل کی گئی جو تمہارے خیال میں خدا کے نزدیک اس قدر کے قابل نہ تھا جو قدر اس کی کی گئی اور تمہارے خیال میں یہ کتاب اس شخص پر نازل ہونی چاہیے تھی جس کے متعلق تم فیصلہ دیتے کہ وہ قوم میں بڑا دیانتدار اور ہر لحاظ سے اس قابل تھا کو خدا کا کلام اس پر نازل ہوتا.تو تمام اقوامِ عالم پر الزام دھرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا قرآن کریم سے انکار کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن کریم میں کوئی نقص ہے یا قرآن کریم ان خوبیوں کا مجموعہ نہیں جن خوبیوں کا مجموعہ خدا تعالیٰ اسے قرار دیتا ہے یا وہ مصدق نہیں اور تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کے مطابق نہیں آیا.نہیں ! بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ جو شریعت تم پر نازل کی گئی تھی تم خود اس کے پابند نہیں تھے اور نہ اس پر عمل کرتے تھے.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۹۵ سورة الانعام نہ دعا کرو، نہ عبادتیں بجالا ؤ، نہ شریعت کے دوسرے احکام پر عمل کرو، نہ ان پیشگوئیوں کو سچا سمجھو جو اللہ تعالیٰ نے خود تمہاری مسلمہ کتابوں میں نازل فرمائی ہیں.تو تم کیسے برکات قرآنی سے فائدہ حاصل کر سکتے ہو.پس فرمایا کہ اگر چہ یہ قرآن مُبارك اور مُصدّق ہے لیکن اس پر ایمان وہی لائے گا جو اپنی کتاب کی پیشگوئیوں پر پختہ ایمان رکھتا ہو اور اپنی شریعت کو قائم کرنے والا ہو، دعا کرنے والا اور عبادت گزار ہو.اور جو ان تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا ہو جو اس کے لئے کھولی گئی تھیں.اگر وہ اپنے زمانہ کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکا تو وہ ذمہ داریاں جو سارے زمانوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ کیسے نبھا سکے گا؟ سارے زمانہ کی ذمہ داریاں اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے ہیں.پس وہ شخص جو اپنی قوم کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکا تو وہ ذمہ داریاں جو ساری اقوام کی ہیں وہ کیسے نبھا سکے گا؟ اس لئے وہ قرآن کریم کی برکات سے محروم رہ جائے گا.اس میں اُمت مسلمہ کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ پیشگوئیاں جو قرآن کریم یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں پائی جاتی ہیں ، بشارتوں کے رنگ میں ہوں یا انذار کے رنگ میں.ان سب کو ماننا ضروری ہے.فرمایا کہ اگر تم لوگ ان پر پختہ یقین نہیں رکھو گے.انہیں بھول جاؤ گے، ان کی تاویلیں کرنے لگ جاؤ گے کہو گے کہ یہ تو احادیث میں غیر ثقہ لوگوں نے ملادی ہیں.اور جب وہ واقع ہو جائیں گی تب بھی تمہیں سمجھ نہ آئے گی کہ غیر ثقہ لوگوں نے زمین و آسمان کی تاریں کیسے ملا دیں اور ان کا وقوعہ کیسے ہو گیا تو یقینا تم بھی قرآنی برکات سے محروم رہو گے.پھر اگر تم قرآن کریم کی بیان کردہ عبادت بجا نہ لاؤ گے.قرآن کریم کے طریق کے مطابق دعاؤں میں مشغول نہیں رہو گے، قرآن کریم کی شریعت کو اپنا لائحہ عمل اور دستور قرار نہیں دو گے تو تم کبھی ان برکات سے فائدہ حاصل نہیں کر سکو گے.جن برکات کا تعلق ان لوگوں سے ہے.جو پختہ ایمان رکھتے ہیں ، دعا کر نیوالے ہیں عبادت میں مشغول رہنے والے ہیں اور جو شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہیں پس اگر تم کتاب مبارک اور احکام شریعت کو ٹھکرا دو گے اور پیٹھوں کے پیچھے پھینک دو گے تو باوجود اس کے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہوگے.خدا کے غضب اور قہر کے مورد بن جاؤ گے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۶۲ تا ۳۷۲)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۹۶ سورة الانعام آیت ۱۶۲ تا ۱۶۵ قُلْ اِنَّنِي هَديني رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمَا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ.قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبَّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخْرى ثُمَّ إِلى رَبَّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ اللہ تعالیٰ کا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دینا کہ اے رسول! آپ دنیا کو اپنے قول اور فعل سے یہ بتا دیں کہ میری عبادت اور میری قربانی بھی، میرا جینا بھی اور میرا مرنا بھی سب اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے.اس میں در اصل عبادت اور قربانی کا تعلق بھی مماتی ہی سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا سوال ہو یا اس کی راہ میں دوسری قربانیاں دینے کا سوال ہو، اس سے دعائیں کرنے کا سوال ہو یا اس کی تسبیح کرنے کا سوال ہو ان سب عبادات اور قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنی پڑتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا بندہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے موت کو قبول کرتا ہے تو یہ موت اس کی دائمی فنا کا باعث نہیں بنتی بلکہ اس کی دائمی حیات کا باعث بن جاتی ہے اگر انسان اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ میں فنا ہو کر اس کی ہر صفت اور اس کی ہر صفت کے ہر جلوے کے سامنے اپنی گردن رکھ دے تو اُسے اپنے رب سے ہر پہلو اور ہر زاویہ سے ایک کامل اور مکمل حیات نصیب ہوتی ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چونکہ جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں اس رنگ میں کامل اور مکمل تھیں کہ کوئی انسان پہلوں اور پچھلوں میں سے ان کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتا کیونکہ آپ نے کمالِ فنا کے ذریعہ ایک کامل حیات پائی تھی.آپ نے اپنی اس حیات مقدسہ کو اپنی ذاتی اغراض کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ آپ زندگی بھر تو حید خالص کے قیام میں ہمہ تن کوشاں اور بنی نوع انسان
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۹۷ سورة الانعام کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہے.ویسے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے نفس پر موت وارد کرنے سے ذات تو پہلے ہی فنا ہو چکی ہوتی ہے اس لئے ذاتی اغراض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ تو ہمارے اس بیان میں تضاد واقع ہو جائے گا.پھر لَا شَرِيكَ لَئے میں بتایا کہ ایسا انسان شرک کی ہر راہ سے بچنے والا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوؤں کا مظہر ہوتا ہے.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں اور ان سب کا اپنے علم میں احاطہ کر کے ان کا مظہر بنا انسان کے بس کی بات نہیں تاہم انسانیت کے ساتھ جن صفات اور ان کے جلوؤں کا تعلق ہے ہر انسان بقدر استعداد اور کوشش ان کا مظہر بن سکتا ہے اور ایسے انسان کی زندگی دراصل اللہ تعالیٰ کے جلال کی مظہر اور اس کی عظمت اور کبریائی کے قیام کا باعث ہوتی ہے.ایسی مبارک زندگی میں سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہر اتم تھی.آپ نے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی عظمت اور کبریائی کو قائم کرنے میں دن رات ایک کر دیا اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق خصوصاً بنی نوع انسان کو ہر قسم کے دکھوں سے بچانے اور ہر قسم کے سکھ پہنچانے میں اپنے خلق عظیم کا بے نظیر مظاہرہ کیا.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اللہ تعالیٰ کی صفات کا کامل مظہر تھا.آپ نے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کی کبریائی کو دنیا میں ظاہر کیا اُس رنگ میں نہ کسی اور انسان نے ظاہر کیا اور نہ کر سکتا تھا کیونکہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ کا کمال مظاہرہ آپ ہی نے کیا.اللہ تعالیٰ کی صفات کا سب سے زیادہ علم آپ ہی کو تھا کیونکہ جب تک الہی صفات کا علم نہ ہو اللہ تعالیٰ کی پیروی نہیں کی جاسکتی اور اس کی صفات کا مظہر نہیں بنا جا سکتا.اگر آپ قرآن کریم پر ایک سرسری نظر ڈالیں اور پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتب جس رنگ میں بھی وہ اس وقت موجود ہیں گو پوری طرح اپنی اصلی شکل میں وہ نہیں ہیں لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بھی نورانی جھلک اُن کے اندر نہیں پائی جاتی.بہر حال ان کتب سابقہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی اس تعلیم سے جو قرآن کریم پر مشتمل ہے مقابلہ وموازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ جلوے اُن میں نظر نہیں آتے جو ہمیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ پر نازل ہونے والی تعلیم میں نظر آتے ہیں.غرض کتب سابقہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوؤں کے متعلق جو
تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۹۸ سورة الانعام تعلیم دی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و معرفت پر مشتمل تعلیم کے مقابلے میں بڑی ناقص ہے اس لحاظ سے بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بہت بلند ہے.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے نتیجہ میں ایک طرف عظمت و جلال الہی کو قائم کروں اور دوسری طرف بنی نوع انسان کی خدمت کرتا رہوں اس وقت دنیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ کے ہر دو پہلوؤں کے مظاہرے اور ہر دو جلوؤں کی محتاج ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا تعلق ہے دنیا اس سے ناواقف اور نا آشنا ہے اور وہ چیز جو اس الہی عظمت و جلال کے مقابلہ میں کروڑواں حصہ بھی نہیں ہے بسا اوقات انسان اپنا سر اس کے سامنے جھکا دیتا ہے حالانکہ ہر وہ سر جو خدا تعالیٰ کے آستانہ کے علاوہ کسی اور جگہ جھکتا ہے وہ ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ دراصل دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی ضرورت ہے لیکن لوگ آپ کے مقام کو پہچانتے اور اپنی ضرورت کو سمجھتے نہیں.دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اسلام میں انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں اُن سے بڑی بے اعتنائی برتی جارہی ہے انسانی حقوق ادا نہیں ہو رہے ہیں.دراصل حقوق اور فرائض پہلو بہ پہلو چلتے ہیں اگر ہر انسان اپنے فرض کو پورا کرے تو ہر دوسرے انسان کے حقوق ادا ہو جائیں گے.اسی لئے قرآن کریم نے حقوق اور فرائض کو متوازی رکھا ہے.ہر ایک کو فرمایا ہے کہ تم پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور تم میں سے ہر ایک کے کچھ حقوق بھی قائم کئے گئے ہیں جو تمہارا فرض ہے اس کو تم ادا کرو جو تمہارا حق ہے اس کے ملنے کے سامان پیدا ہو جا ئیں گے.......بهر حال قُلْ اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) کے مطابق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُسوہ حسنہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر ایمان لانے کے بعد اس اُسوہ پر عمل کرنا ہمارے لئے بدرجہ اولیٰ ضروری ہے یعنی ایک طرف ہم تو حید خالص پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہمارا کسی اور سے نہ کوئی رشتہ باقی رہے نہ کسی اور سے کوئی محبت باقی رہے.نہ کسی اور سے کوئی تعلق باقی رہے.صرف اللہ تعالیٰ پر ہمارا تو کل ہو.دنیا کے جتنے رشتے ہیں دنیا کے جتنے تعلقات ہیں وہ خدا میں ہو کر اس کی رضا کے لئے اور اس کی ہدایت کے مطابق ہوں.یہ دنیا اگر چہ تعلقات پر قائم ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کہے کہ ان رشتوں کو سمجھو تو اس
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۹۹ سورة الانعام وقت ہم ان رشتوں کو رشتہ سمجھیں.جب خدا تعالیٰ کہے کہ ان تعلقات کو قائم کرو تو اس وقت ہم ان تعلقات کو قائم کرنے والے ہوں.ہم خدا تعالیٰ کے حکم اور ہدایت کے مطابق بنی نوع انسان کی اس رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں کہ اس کے بندے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو سمجھنے لگیں اور دوسری طرف اس کے بندوں کی دنیوی یا نفسانی تکالیف کو دور کریں جہاں تک نفسانی تکالیف کا تعلق ہے انسان کی ہر تکلیف اس کے نفس سے شروع ہوتی ہے اِذَا مَرِضْتُ “ (الشعراء: ۸۱) والی حالت ہوتی ہے.ہر دکھ اپنے نفس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور پھر جب خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے تو اس وقت وہ مریض ٹھیک اور وہ دکھ دُور ہو جاتا ہے.66 خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۱۹ تا ۸۲۲) پہلے کی آیت میں جو میں نے نہیں پڑھی ایک ٹکڑا یہ ہے قُلْ إِنَّنِي هَدِينِي رَبِّي إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف میری ہدایت کر دی اور انشراح صدر مجھے پیدا ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس امر کا حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں.تو کہہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو رب بناؤں یا رب سمجھوں؟ حالانکہ وہ ہر ایک چیز کی پرورش کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.اس آیت کا سچا مصداق ہو تب مسلمان کہلائے گا.یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي تدبیریں دو قسم کی ہیں ایک دعا کے ساتھ تدبیر ، دوسرے مادی دنیا کی تدبیریں ہیں عمل ہے، منصوبے بنائے ہیں، ان پر چلنا ہے، ماحول ایسا پیدا کرنا ہے، گھر میں دین کی باتیں کرنی ہیں ، بچوں کی ہدایت کے لئے کوشش کرنی ہے، ان کے دل میں خدا اور رسول کا پیار پیدا کرنا ہے.ان کے کان میں دین کی باتیں ڈالنی ہیں، قرآن کریم سننا ہے ان سے، پڑھانا ہے ان کو وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کی تدبیر کی جاتی ہے.پہلی تدبیر تو صلاتی ہے کہ میری دعا جو ہے وہ ساری کی ساری اللہ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کے قرب کو پانے کے لئے ہے اور میری کوشش اور تد بیر بھی اسی راہ پر گامزن ہے.(وَمَحْيَای ( انسانی زندگی کسی ایک ٹھوس چھوٹی سی چیز کا نام نہیں.ستر سالہ زندگی میں بلوغت کے بعد سترہ ، اٹھارہ سال کے بعد چلو ہمیں سال نکال دو پچاس سال کی عملی زندگی میں دن میں
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الانعام بیسیوں بار شاید سینکڑوں بار انسانی زندگی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے یہ لمحات کس طرح گزارنے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ہے وہ یہ کہتا ہے کہ میری زندگی کی ہر کروٹ، اور ہر حرکت جو اس میں پیدا ہوتی ہے خدا کے لئے ہے اور یہ محض زندگی ہی نہیں ، یہ ایک مرکب ہے، زندگی اور موت کا اور یہ جو مرکب ہے اس کو بیان کرنے کے لئے ، اس کو واضح کرنے کے لئے میں انسانی جسم کی ایک مثال دیتا ہوں یعنی زندگی کا ہر لمحہ، جس طرح زندگی سنوار نے کی کوشش کا نام ہے زندگی کا ہرلمحہ اسی طرح موت سے بچ جانے یا بچنے کی کوشش کا نام ہے.سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ جس وقت انسانی دماغ میری اس انگلی کو حکم دیتا ہے کہ ہل، اس میں حرکت آ جاتی ہے.تو یہ ایک بجلی کی کرنٹ ہے جو نروز (Nerves) کے ذریعے میری انگلی تک پہنچتا ہے یہ حکم ، وہ کرنٹ دماغ سے حکم لے کر جب پہنچتی ہے انگلی تک تب یہ حرکت پیدا ہوتی ہے اور یہ حرکت نروز (Nerves) کے ذریعے چلتی ہے اور نرو ایک مسلسل دھاگہ نہیں جو ٹوٹا ہوا نہ ہو بلکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں نروز کے جن کے درمیان فاصلہ ہے بڑا خفیف سا فاصلہ لیکن فاصلہ ہے اور یہاں سے یہ کرنٹ بجلی کی جمپ (Jump) کر کے گزر نہیں سکتی.عجیب ہے خدا کا نظام جس وقت نرو (Nerve) حکم لے کے اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہاں ایک پل بن جاتا ہے، درمیان میں ایک کیمیکل(Chemical) آ جاتا ہے جو دونروز (Nerves) کے درمیان پل کا کام دیتا ہے جس پر سے گزر کے حکم آگے چلا جاتا ہے اور اس انگلی تک پہنچنے کے لئے اس حکم کو سینکڑوں، شاید ہزاروں پلوں کی ضرورت ہو اس قسم کے جو کیمیاوی پل ہیں جو بنتے ہیں اور کرنٹ کو آگے لے جاتے ہیں اور انہوں نے یہ تحقیق کر کے معلوم کیا کہ جس وقت وہ حکم گزرجاتا ہے اس پل پر سے، اسی وقت وہ پل ٹوٹ جاتا ہے اور پھر دونوں نروز کے درمیان ایک فاصلہ آجاتا ہے اور اگر نہ ٹوٹے تو اس وقت موت واقع ہو جاتی ہے.تو ایک معمولی سا حکم دماغ سے انگلی تک پہنچانے کے لئے، انسان ہزاروں موتوں میں سے گزرتا ہزاروں موتوں سے بچایا جاتا ہے.تو مَحْيَايَ وَمَمَاتِی میری زندگی اور میری موت یہ دونوں جسمانی لحاظ سے بھی ، اخلاق اور روحانی لحاظ سے بھی ، موت اور زندگی کے ایک مرکب کی شکل میں آگے بڑھ رہے ہیں.ایک مومن کہتا ہے کہ جس طرح میری زندگی کا ہر لحہ ، جب ایک نئی حرکت اس میں پیدا ہو، ایک نئی کوشش ہے اللہ تعالیٰ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث 1+1 سورة الانعام کی رضا اور اس کی خوشنودی اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کی ، اسی طرح جب ہر لمحہ زندگی میں شیطان میرے سامنے اخلاقی اور روحانی موت لے کر آتا ہے.تو میں اس شیطانی موت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کا بندہ ہوں، تیر اوار مجھ پر کامیاب نہیں ہوسکتا.اور اس طرح ممَاتِي لِلہ ہر لمحہ زندگی میں موت کے سامنے آنے پر میر ا رد عمل جو ہے یہ ہے کہ اخلاقی اور روحانی موت سے بچنے کی کوشش وہ اللہ خدا کی رضا کے لئے اس کے قرب کے حصول کے لئے اور انسان کے نفس کے دشمن اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو بہکانے والی جو طاقتیں ہیں اس دنیا میں، شیطانی اثر اور نفوذ کے ماتحت کرنے والی ، ان کو نا کام کرنے کے لئے ہے.رب العلمین اور یہ میں اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے اس یقین پر قائم کیا گیا ہے کہ عالمین کی ربوبیت صرف اللہ تعالیٰ کر سکتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی قوتیں اور صلاحیتیں اور استعدادیں بھی اور ہر دوسری شے کی استعداد بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے کمال کو پہنچتی ہے.لا شريك له رب ایک ہی ہے جس سے میں نے ربوبیت حاصل کرنی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس چیز کا حکم دیا گیا ہے.وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ یہ فقرہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب آیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نوع انسانی میں سب سے بڑا مسلمان میں ہوں.اسلام کو سمجھنے والا ، عرفانِ الہی رکھنے والا ، خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھنے والا، اسلام کے لئے زندگی اور اسلام کے لئے موت ہر دو کیفیات میں وقف زندگی اور رد عمل جو موت کا ہے اس میں اپنے آپ کو للہی وقف کرنے والا ، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس سے قرب کو پانے کے لئے لیکن جب ہر دوسرے آدمی کے متعلق اس کو استعمال کیا جائے تو اوّلُ الْمُسْلِمِینَ کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جو استعدادیں دی ہیں ان کی کمال نشو و نما کے بعد جو میرا مقامِ عروج ہے اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے والا.ایک مجاہدہ ہے، ایک ہجرت ہے (اس وقت وہ میرا مضمون نہیں ہے وہ اشارے ہیں ) مجاہدہ ہے ہر لمحہ جو زندگی کا ہے اس میں بھی اور مجاہدہ ہے ہر وہ موت نئی سے نئی جو انسان کے سامنے آتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے انسان کہتا ہے کہ میں تیرا نہیں، میں خدا کا ہوں بندہ.اس واسطے تیرا اثر مجھ پر نہیں ہوگا.اس واسطے تیرا اثر مجھ پر نہیں ہوگا.تو وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.قُلْ آغَيْرَ اللهِ آبغِی رَبًّا کیا اللہ کے علاوہ میں کسی اور کو رب تسلیم کروں حالانکہ میں نے اپنے
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۰۲ سورة الانعام نفس میں بھی یہ پایا کہ اس کے علاوہ کوئی ہستی میری ربوبیت نہیں کر سکتی اور دنیا کی ہر شے کا جب میں نے مشاہدہ کیا، میں نے یہی مشاہدہ کیا کہ رب العلمین کی بجائے رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ کے علاوہ اور کوئی رب نہیں جو ان کی درجہ بدرجہ ترقیوں کے سامان پیدا کر کے ان کو کمال تک پہنچانے والا ہو.تو یہ تین باتیں ہمیں ایک خاص مقام تک لے گئیں.جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے.يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسلام اس کی زندگی میں ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ اسلام قبول کرنے میں انقباض صدر نہیں ہوتا بلکہ انشراح صدر ہوتا ہے، اس کو محفوظ کیا جاتا ہے ایسے ابتلاؤں سے جس کے نتیجے میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے.چونکہ انقباض نہیں ہوتا، وہ اپنی مرضی اور رضا سے اعلان کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوتا ہوں اور ساری ذمہ داریاں قبول کرتا ہوں اور زبان سے صرف اقرار نہیں ہوتا بلکہ اس کا عقیدہ جو ہے وہ بھی اور اس کے اعمال جو ہیں وہ بھی ایسے ہیں کہ ان میں بہترین حسن پایا جاتا ہے.احسن کے معنی عربی میں ہیں بہترین طریقے پر کسی چیز کو کرنا.تو وہ صیح عقیدہ کو پہچانتا ہے اور جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قسم کے اعمال کو پسند کرتا ہے اور کون سے اعمال اسے پیارے ہیں، پھر خالی بے دلی سے وہ نہیں کرتا ، بے رغبتی سے وہ نہیں کرتا بلکہ پوری کوشش سے جس قدر حسن اور نور اپنے اعمال میں پیدا کر سکتا ہے کوشش کرتا ہے کہ وہ حسن اور نور پیدا ہو جائے اور اس کی زندگی ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ہے اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ اُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۸) آج قربانیوں کی عید ہے اور اس عید پر لاکھوں شاید کروڑوں جانور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کئے جاتے ہیں.اگر ہم یہ سمجھیں کہ اس عید پر بکری، بھیڑ ، دنبے، گائے یا اونٹ کی قربانی دے کر ہم اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں تو ہم نے بہت گھاٹے کا سودا کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان قربانیوں کے گوشت خدا تک نہیں پہنچتے.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں گوشت جس کا کھانے کے ساتھ تعلق ، جس کا زبان کی لذت کے ساتھ تعلق ، جس کا اس خطرہ کے ساتھ تعلق ہے کہ اگر جسم کو غذا نہ ملے تو کمزوری پیدا ہو جائے گی.اس کی اس ابدی اور ساری قوتوں والے خدا کو کیا ضرورت ہے.
تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۱۰۳ سورة الانعام پس یہ قربانیاں ایک یاد میں دی جاتی ہیں اور ایک علامت کے طور پر رکھی گئی ہیں جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں قربانیوں کے تین نمونے نظر آتے ہیں.پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا نمونہ ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کے دشمنوں کا دستور رہا ہے جب آپ نے اپنی قوم کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلایا اور بتوں کی بے بضاعتی اور بے بسی کی طرف توجہ دلا کر انہیں بتوں سے چھڑانے کی کوشش کی تو وہ ناراض ہو گئے کہ ہمارے باپ دادا کے دین میں رخنہ ڈالتا ہے اور ہمارے ( فاسد ) عقائد کو فاسد کہتا ہے اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے.انہوں نے اپنے فاسدانہ خیالات میں یہ سمجھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جلانے سے، انہیں آگ میں ڈال دینے سے اپنے بتوں کی مدد کی جاسکتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا حَرِّقُوهُ وَ انْصُرُوا الهتكم (الانبیاء : ۶۹) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اپنے بتوں کی مدد کرو تو اپنے معبود کی مددکا یہ نظریہ ان اقوام میں ہوتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا.قرآن کریم نے بھی اللہ کی مدد کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن تمام علمائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی کی مدد کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کی جائے وغیرہ.ان سے ہمدردی کی جائے.انسان ان کے کام آئے.بہر حال یہ تو اسلام یا الہی جماعتوں کا نظریہ ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا نظریہ یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اپنے بتوں کی مدد کرو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امتحان کو جو ان کی زندگی میں بڑا سخت تھا ( نیز دوسرے ابتلاؤں کو بھی ) اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کی رضا کے حصول کے لئے بشاشت کے ساتھ اور سکون قلب اور سینے کی ٹھنڈک کے ساتھ برداشت کیا اور اس یقین کے ساتھ برداشت کیا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ہو سلامت اور کامیاب وہی رہا کرتا ہے.چنانچہ جب آپ کے دشمنوں نے آپ کو آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو کہا کہ بردا وسلبًا (الانبیاء: ۷۰) یعنی حکم ہوا کہ یہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے احساسات میں دکھ کی آگ نہ پیدا کرے بلکہ خوشی اور سکینت اور بشاشت کی ٹھنڈک پیدا کرے.تو بردا“ کا معجزہ احساس سے تعلق رکھتا ہے اور سلما “ کا معجزہ جسم سے تعلق رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ غیر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے د ورور 66
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۰۴ سورة الانعام بندوں کو تکالیف کیوں پہنچتی ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ان سے جا کر پوچھو کہ خدا کی راہ میں انہیں جو پہنچتا ہے جسے تم تکالیف، دکھ، مصائب اور ایذا سمجھتے ہو آیا وہ بھی ان چیزوں کو تکالیف ، مصائب اور ایذا سمجھتے ہیں یا بڑی لذت اور سرور پہنچانے والی چیزیں سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال میں یہ بتایا کہ جو حقیقتا خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے اور اس کی عظمت اور اس کے جلال اور احسان اور اس کی توحید اور اس کی رحمت اور اس کی رافت کے جلوے دیکھنے والے ہیں وہ ان دکھوں کو دکھ نہیں سمجھتے ان آگوں کو آگ نہیں سمجھتے یہ آگ ان کی بلکہ ان کے غلاموں کی غلام ہو جاتی ہے.وہ ان دکھوں کو ، اس آگ کو بردا ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تیرے ذریعہ سے دنیا پر یہ ثابت کر دوں گا کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو وہ تباہ نہیں ہوا کرتاوہ سلامتی کا وارث ہوتا ہے وہ خدائے سلام سے سلامتی کو حاصل کرتا ہے اس کو ہلاکت کے چشمے اور شیطان کے منبع ہلاک نہیں کر سکتے.پس ایک قربانی جس کا تقویٰ آسمان تک پہنچا، جسے خدا نے قبول کیا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی تھی اور قرآن کریم نے ہمیں اس مثال میں بتایا کہ جو قربانیاں قبول ہو جاتی ہیں جو تقویٰ کی رو سے زندہ ہوتی ہیں وہ خدا کو محبوب ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں دو معجزے دکھاتا ہے ایک دنیا کے دکھوں کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے اور وہ خوشی کا اور لذت اور مسرت کا موجب بنتے ہیں ایذا کا موجب نہیں بنتے اور دوسرا معجزہ یہ دکھاتا ہے کہ ساری دنیا جلانے ، مارنے ، پیٹنے، ہلاک کرنے اور مٹا دینے پر تلی ہوئی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی یہ آواز فضاؤں میں گونج رہی ہوتی ہے کہ یہ وہ قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی سلامتی کو نازل کرتا ہے.پس ایک تو دشمن کا منصوبہ جو مٹانے کے لئے کیا جاتا ہے برد ہو جاتا ہے اور دوسرے وہ سلامتی بن جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ ان قربانیوں کے نتیجہ میں دو معجزے دکھاتا ہے جنہیں وہ قبول کر لیتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ جو تقویٰ کی روح سے زندہ ہوتے ہیں.قربانی یہ ابتدائی نمونہ، اسوہ کے طور پر ہمارے سامنے رکھ رہی ہے دوسری قربانی جو اُسوہ
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۰۵ سورة الانعام کے طور پر رکھی گئی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی باہمی قربانی تھی کہ ایک رؤیا میں دکھایا گیا کہ ایک عظیم قربانی لینا چاہتا ہوں اور تیرا امتحان یہ ہے کہ آیا اگلی نسل کو اس رنگ میں تربیت دی ہے کہ وہ اس قربانی کے بوجھ کو بشاشت کے ساتھ برداشت کرے چنانچہ بعض کے نزدیک وہ ظاہری طور پر خواب پوری کرنے لگے اور بعض کے نزدیک وہ محض تعبیر اً پوری ہوئی.بہر حال جو اس کی تعبیر تھی وہ یہی تھی کہ خدا کی راہ میں بظاہر موت کو قبول کرنا اور خدا کی راہ میں بظاہر موت میں اپنے پیارے بچے کو پھینک دینا.خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں یہ قربانی لینا چاہتا ہوں.تیری آزمائش ہو چکی اور تو ہماری رحمتوں کا وارث بن گیا اب ایک آزمائش اور ہے کہ آیا تیری تربیت صحیح ہے یا نہیں.حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی دے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام میری راہ میں قربانی دیں ورنہ اگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کا پیچ میں حصہ نہ ہوتا تو زبر دستی پکڑ کے ذبح کر دیتے لیکن انہوں نے اس طرح نہیں کیا بلکہ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اس طرح میں نے خواب دیکھی ہے آیا تو یہ قربانی دینے کے لئے راضی ہے؟ تو ان کا فوری طور پر بے تکلف جواب یہ تھا اِفعَلُ مَا تُؤْمَرُ (الصفت : ۱۰۳) اللہ کا جو حکم ہے وہ کر و سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ ( الصفت : (۱۰۳) خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے تو مجھے صابر نو جوانوں میں پائے گا.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۱۳۱ تا ۱۳۴) اسی لئے دوسری جگہ یہ بھی فرمایا تھا کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العلمين که کامل اطاعت کرنی ہے.نماز ہے.دوسری قربانیاں ہیں.زندگی کا ہر پہلو ہے.موت کی ہر شکل ہے.یہ اللہ رب العلمین کے لئے ہے یعنی میری ہر حرکت اور میرا ہر سکون اس لئے ہے کہ میرا تعلق ربوبیت رب العلمین کے ساتھ قائم اور پختہ رہے کیونکہ اگر وہ تعلق کٹ گیا تو پھر میں ہدایت نہیں پاسکتا اس کی طرف.لا شريك له اس کا کوئی شریک نہیں.توحید خالص پر میں قائم ہوں اور مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں مقدور بھر اطاعت کرتا ہوں.یہ عملی نمونہ ہے میرا.میرے پیچھے چلو.کہنے والا تو ایک ہی تھا، میرے پیچھے چلو، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.آپ کے منہ سے آپ کی حقیقت خدا تعالیٰ نے یہ بیان کی إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (يونس:١٦)
1+4 سورة الانعام تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث جو وحی الہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری اور نوع انسانی کی بھلائی کے لئے نازل ہوئی میں صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں اور تم ؟ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ (ال عمران : ۳۲) اگر تمہارے دل میں اللہ کی جو رب العالمین ہے، محبت ہے اور چاہتے ہو کہ وہ بھی تم سے پیار کرے فاتبعونی میری اتباع کرو.کس چیز میں اتباع کرو؟ وہی جو دوسری جگہ ہے اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی میں صرف اس وحی الہی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر اللہ نے نازل کی ہے اور تم میری اتباع کرتے ہوئے صرف اس وحی کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی اور اس کے علاوہ ہلاکت ہے.اني أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (یونس:۱۲) یاد رکھو جو اس وحی کو چھوڑتا وہ اپنے لئے ہلاکت ، ناکامی ، بدامنی ،خوف ، بے اطمینانی کے سامان پیدا کرتا ہے اس زندگی میں بھی اور آخری زندگی میں ، اُخروی زندگی میں بھی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۱۳، ۳۱۴) دوسری جگہ اوّل المسلمین ایک دوسرے معنی میں استعمال فرمایا ہے.اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے کہ اے رسول ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کی یعنی اُس نے مجھے وہ راہ بتائی ہے جس پر چل کر خدا داد قوتوں اور استعدادوں کو کامل نشو و نما ملتی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمونہ بیان کر کے بتایا کہ اگر قوتوں کی صحیح نشوونما کرنا مقصود ہو تو شرک کا کوئی شائبہ انسانی زندگی، انسانی کوشش اور انسانی محنت میں نہیں ہونا چاہیے.ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ تو خدا کی طرف جھک جائے اور کچھ غیر اللہ کی طرف جھک جائے تو نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول ! تو کہہ دے! اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمینَ.میری نماز اور میری دعائیں جن سے میں اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کرتا اور طاقت پاتا ہوں اور میری عبادتیں اور میری زندگی اور میری موت اللہ تعالیٰ کے جلال کو ظاہر کرنے والی اور اس کے بندوں کو آرام پہنچانے کے لئے ہے.لِلَّهِ رَبِّ الْعلمين اس میں اللہ کے لفظ میں خدا کے جلال کو ظاہر کرنے کی طرف اشارہ ہے اور رب العالمین میں بندوں کی خدمت کی طرف اشارہ ہے.یہاں یہی نہیں فرما یا لا شَرِيكَ لَه بلکہ یہ بھی فرمایا وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ مجھے اس چیز کا حکم دیا گیا ہے کہ جو صراط مستقیم بنائی گئی ہے.اُس پر چلوں.ملت ابراھیم کو اختیار کروں اور میری نماز
1+2 سورة الانعام تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور میری عبادت، میری زندگی اور میری موت خدا تعالیٰ کے جلال اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے وقف ہو اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنا میری زندگی کا مقصد ہو اور پھر فرما یاد بذلِكَ أُمِرْتُ یعنی ان قوتوں کی نشو ونما کا مجھے حکم دیا گیا ہے.گویا اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکی وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آنحضرت کو جسمانی اور علمی اور اخلاقی اور روحانی قوتیں عطا ہوئی تھیں وہ آپ کی ذات میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق دی تھی کہ آپ اپنی خداداد قوتوں کی نشونما کو ان کے کمال تک پہنچا دیں.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی معنیٰ میں اول المسلمین ہونا بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ کے مترادف ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عبادات کیسے کریں.ہمیں اس کی طاقت نہیں ہے میں کہتا ہوں تمہیں کسی نے یہ کب کہا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اپنی زندگی گزارو.وہ طاقتیں تم میں ہیں ہی نہیں.اُن طاقتوں کی تم نشوونما تمام کر ہی نہیں سکتے لیکن اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر چہ یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی تھیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قو تیں اور طاقتیں اور استعدادیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھیں آپ نے اپنی پوری توجہ اور انہماک اور ہر قسم کی قربانی کر کے اور ایثار دکھا کر اُن طاقتوں اور استعدادوں کو اُن کے کمال تک پہنچا دیا تھا.اس لئے ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اُس اُسوہ نبوی کے مطابق اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی اپنی طاقتوں اور استعدادوں کو ان کے کمال تک پہنچائے.گواؤلُ المسلمین کے اس معنی میں آپ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.(خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۷۸،۵۷۷)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ 1+9 سورة الاعراف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاعراف آیت ۲۶،۲۵ قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُةٌ وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعُ إِلى حِينٍ قَالَ فِيهَا تَحْيَونَ وَ فِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ سال رواں ۲۱ / جولائی کو زمین سے باہر نکل کر انسان کا پہلا قدم چاند پر پڑا اس میں شک نہیں کہ تسخیر عالم کی عظیم جدوجہد میں انسان کا یہ بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے لیکن اس عظیم کارنامہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے بعض طبقوں میں بھی اور میرے خیال میں مذہبی دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں بھی کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے ذہنی انتشار پیدا ہوا.چنانچہ تنزانیہ سے مجھے ایک خط میں یہ اطلاع ملی کہ وہاں ہمارے مبلغ کسی استقبالیہ دعوت میں شریک ہوئے اور اس موقع پر انہوں نے یہ باتیں سنیں کہ انسان کا چاند پر جانا قرآن کریم کے خلاف ہے اور اس قسم کی بات کو قبول کر لینا موجب کفر ہے.اسی طرح رنگون کے ایک خط میں یہ ذکر تھا کہ وہاں ہمارے مبلغ نے بعض پڑھے لکھے لوگوں حتی کہ بعض علماء کو یہ کہتے سنا کہ اگر چاند پر انسان پہنچ بھی چکا ہو پھر بھی ہمیں اس پر یقین کرنے اور اس پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے.غرض اس قسم کے کفر کے فتویٰ دیئے گئے اور عدم علم کی وجہ سے خلاف حقیقت باتوں کا اظہار کیا گیا.دوسری طرف خود ہمارے پاکستان میں ہمارے بعض علماء نے بڑے اچھے مقالے لکھے اور بعض مجالس میں پڑھے بھی گئے ہیں جن میں سے ایک مکرم محمد یوسف صاحب بنوری کراچی کے رہنے والے ہیں انہوں نے ابھی چند دن ہوئے اوقاف کے سیمینار میں تسخیر کائنات پر ایک بڑا اچھا اور معقول مقالہ پڑھا ہے اور اپنے مقالہ میں بعض قرآنی آیات کے حوالے سے یہ ثابت
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الاعراف کیا ہے کہ اس قسم کے کارنامے قرآن کریم کی تعلیم پر کوئی وجہ اعتراض نہیں بنتے.اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ تین سوال ہیں جن کا ہمیں جواب دینا چاہیے.ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا زمین سے باہر انسان کا زندہ رہنا ممکن ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا دوسرے اجرام یعنی گڑوں پر آبادیاں ہیں یا نہیں اور کیا انسان دوسرے اجرام تک پہنچ سکتا یا تعلق کو قائم کر سکتا ہے یا نہیں اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم میں ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں کہ کبھی کسی زمانہ میں انسان دوسرے کروں تک پہنچ جائے گا؟ یہ تین سوال اگر حل ہو جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر کسی کے دماغ میں کوئی خلفشار یا کوئی بے چینی یا مذہب سے بعد پیدا ہونے کا کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوگا.پہلا سوال یہ ہے کہ کیا انسان زمین سے باہر یعنی قرآن عظیم کی اصطلاح میں الارض کے جو معنی ہیں اس سے باہر زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس زمین یعنی الارض سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن زمین سے یہاں وہ تعریف مراد نہیں جو ایک غیر مسلم کے ذہن میں ہوتی ہے.مسئلہ زیر بحث کے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ زمین کی تعریف اور اس کے معنی سمجھنے کے لئے اس کتاب عظیم کی طرف رجوع کیا جائے جس نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے اور یہ اعلان فرمایا ہے کہ فيها تحيون تم اسی میں زندگی بسر کرو گے اس کے باہر زندگی بسر نہیں کر سکتے.اس لئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن کریم کی اصطلاح میں الارض کسے کہتے ہیں.جس وقت اِدھر اُدھر بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور میرے کانوں تک بھی آواز میں پہنچ رہی تھیں اُس وقت میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور رہنمائی کی درخواست کی کہ وہ میرا خود معلم بنے اور اس مسئلہ کی حقیقت کا علم بخشے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سارا مضمون یہ بتا کر سمجھا دیا کہ قرآن کریم سے الارض کی تعریف معلوم کر لو سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہو جائے گا.چنانچہ اس کے بعد میں نے غور کرنا شروع کیا.آیات قرآنیہ دیکھیں اور جس حد تک میری سمجھ میں آیا ہے وہ میں اس وقت دوستوں کے سامنے بیان کردینا چاہتا ہوں........قرآن کریم میں متعدد آیات ہیں جن میں زمین کے متعلق بتایا گیا ہے کہ زمین یہ ہے.ہم نے زمین کو ایسا بنایا ہے اور ہم نے زمین میں یہ یہ خاصیتیں رکھی ہیں وغیرہ.اس وقت میں چند مثالیں دوں گا تا کہ
سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث مسئلہ زیر بحث کا سمجھنا آسان ہو جائے اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین کسے کہتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا (الانبياء: ۳۳) وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَهَا بِاييرِ وَ إِنَّا لَمُوسِعُونَ (اللديت: ۴۸) وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً (النمل :٢١) آسمان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات بیان کی ہیں.میں نے ان میں سے چند کو بعض خصوصیات کی وجہ سے لے لیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ زمین وہ وجود ہے، وہ مخلوق ہے کہ جس کے گرد ہم نے آسمان کا ایک کمر بند باندھ رکھا ہے.اس کا (جیسا کہ قرآن کریم کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے ) زمین پر بسنے والے انسانوں کو ایک فائدہ تو یہ ہے کہ دوسرے کرؤں سے ریڈیائی لہریں جو زمین کی طرف آ رہی ہیں وہ اگر زمین پر اپنی اصلی حالت میں پہنچ جائیں تو انسان کی ہلاکت کا موجب بن جائیں.یہ آسمانی جو روک بن جاتی ہے اور وہ زمین تک پہنچنے نہیں پاتیں.پھر شہاب ثاقب ہیں جو بڑی تیزی سے ہماری اس آسمانی جو میں داخل ہوتے ہیں اور اس کی کثافت کی وجہ سے ان میں آگ لگ جاتی ہے.چھوٹے بچوں کے لئے تو ان میں ایک دلچپسی کا سامان ہوتا ہے اور اُن کے لئے اس میں بس ایک نظارہ ہوتا ہے کیونکہ ان کو تو حقیقت معلوم نہیں ہوتی لیکن ہمارے لئے اس لحاظ سے دلچسپی کا موجب ہے کہ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی علوّ شان کو جلوہ گر پاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز انسانوں پر کتنا بڑا رحم کیا ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ان شہب کی یلغار سے ہمیں بچالیا اور ہماری حفاظت کے لئے آسمان بنا دیا پھر اس آسمان میں ہوا بھر دی اور اس کے بے شمار کام مقرر کر دیئے.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب بادل بنتے ہیں تو یہ ان کو اللہ تعالیٰ کی مشقیت اور حکم کے ماتحت اُڑا کر ادھر ادھر لے جاتی ہے اور پھر جہاں خدا تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہاں بارش برسنے لگتی ہے.پھر ہوا ہمارے کانوں کے لئے بھی بہت ہی مفید اور ضروری چیز ہے.ہمارے کان کام ہی نہ کرتے اور بالکل بے کار چیز ہوتے اگر صوتی لہریں آواز کو ان تک نہ پہنچا ئیں.پس اگر ہوا نہ ہوتی اور اس میں صوتی لہروں کا انتظام نہ ہوتا تو ہمارے کانوں میں آواز ہی نہ پڑتی.اسی طرح انسانی زندگی کی بقا کا ایک بڑا ذریعہ ہوا ہے.ہمارے پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن لیتے ہیں اور اس طرح ہماری زندگی کی بقا کا انتظام ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی مخلوق بھی پیدا کر دی ہے جو اپنی زندگی کا
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۱۲ سورة الاعراف میہ سامان ہوا سے نہیں لیتی بلکہ پانی سے لیتی ہے.مثلاً مچھلی ہے جس ہوا پر انسانی زندگی کا مدار ہے وہی ہوا مچھلی کے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے کہ جس کے گرد ہم نے ایک آسمان بنایا ہے اور اس میں ہم نے انسان کے لئے بہت سے فوائد رکھے ہیں جن کے بغیر اس دنیا میں انسانی زندگی ممکن ہی نہیں.چنانچہ اب تک کسی بھی سائنس دان نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی کر سکتا ہے اور نہ عقل اس کو قبول ہی کر سکتی ہے کہ ہوا کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے یا اس کے بغیر انسان سن سکتا ہے یا ہوا کے بغیر انسانی پھیپھڑے سانس لے سکتے ہیں یا انسان ان ہلاکتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جن کی یورش بڑی تیزی اور بڑی وسعتوں کے ساتھ زمین پر ہورہی ہے.پس قرآن کریم کی رُو سے زمین وہ مخلوق ہے، وہ مجموعہ صفات ہے جس کے گرد آسمان حلقہ کئے ہے اور پھر یہ بھی کہ اس کے اندر بہت سی مفید خصوصیات پائی جاتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے کہ جس کے اندر جَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ (الانبياء : ۳۱) کہ جس میں ہم نے ایک ایسا پانی پیدا کیا ہے جس پر حیات کا مدار ہے یعنی ہر دنیوی مخلوق کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے یہ زندگی شجر کی ہے تب بھی اور اگر حجر کی ہے تب بھی اس کا مدار پانی پر ہے.پتھروں کے ذرے آپس میں نمی کی وجہ سے مل کر ٹھوس شکل میں نظر آتے ہیں اگر ان میں نمی نہ ہو تو یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں.یہ ہیرا ہیرا نہ رہے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہے جس کی بدولت دنیا کی ہر چیز حیات پاتی ہے.ور نہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی وجہ سے یہ جلوہ معرض تعطل میں پڑ جائے تو پانی کے بند ہو جانے سے اجزائے عناصر میں ایسا انتشار پیدا ہو جائے کہ جس سے زندگی اور بقاممکن ہی نہ رہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے جس میں الماء جاری کیا.خالی ماء نہیں فرمایا بلکہ الماء کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ یہ پانی اپنے اجزا کے لحاظ سے وہ مخصوص پانی ہے جس پر حیات اور اس کی بقا کا مدار ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین صرف وہ نہیں جس میں ہم نے پانی پیدا کیا ہے بلکہ زمین وہ ہے جس میں ہم نے پانی کی مناسب تقسیم کا سامان بھی پیدا کیا ہے اور زمین کو Pollute ( گندہ ) ہونے سے محفوظ رکھنے کے سامان پیدا کر دیئے.صاف پانی اور گندے پانی کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی.اگر چہ وہ نظر نہیں آتی لیکن در حقیقت صاف اور گندے پانی کے درمیان ایک دیوار یا حد فاصل قائم ہے.پس قرآن کریم کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے زمین کی تعریف یہ بھی کی ہے کہ جس میں ایسے مختلف اجزا پر مشتمل پانی ہو جس پر
۱۱۳ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث زندگی کا سارا دارومدار ہو.پھر ایک طرف اس کی صفائی کا انتظام کیا گیا ہو اور دوسری طرف اس کی مناسب تقسیم کا بھی انتظام کیا گیا ہو.ہمیں صفات باری کے یہ مخصوص جلوے جس وجود میں نظر آ رہے ہیں قرآن کریم اس کو الارض ( یعنی زمین ) کہتا ہے.چنانچہ اس حقیقت کا اظہار اس آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَعَلَ خِللَهَا أَنْها وَ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ( النَّمل : ٦٢ ) جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی تقسیم اور صفائی کا بھی انتظام کیا ہے.چنانچہ سورج کو کہا( سارے اجرام فلکی انسان کی خدمت پر مامور ہیں ) کہ سمندروں کے پانی کو گرما ؤ اور پھر اس سے بخارات کو اُٹھاؤ اور پھر ہواؤں کو کہا یہ کمزور بخارات ہیں یہ وہ سفر کر نہیں سکتے جو ہم ان سے کروانا چاہتے ہیں اس لئے ان کو اپنے کندھوں پر اُٹھاؤ اور جہاں ہم کہتے ہیں وہاں انہیں لے جاؤ.پہاڑوں کو کہا کہ جب تک پانی کے باریک ذرے آپس میں ٹکرائیں گے نہیں اس وقت تک پانی کی شکل میں زمین پر نازل نہیں ہو سکتے اس لئے تم ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ اس طرح بارش بر سے اور پہاڑی ندی نالے دریاؤں کی شکل میں بہہ نکلیں اور ان دریاؤں کے ذریعہ سے زمین کی سیرابی اور شادابی کا انتظام ہو.پھر ان پہاڑوں سے یہ بھی کہا کہ دیکھو بادل تو جب ہم کہیں گے وہ آئیں گے لیکن تم کچھ Store(ذخیرہ) کر لوتا کہ تھوڑے بہت پانی کا سارے سال انتظام ہوتا رہے.چنانچہ برف کی شکل میں پہاڑوں پر Reservoirs(ذخیرے) قائم کر دیئے جن میں سے تھوڑا بہت پانی سارا سال ہی بہتا رہتا ہے.پس زمین وہ ہے جس میں پانی ہے ان اجزا کے ساتھ جن پر حیات کا انحصار ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں نے اس پانی کی آگے مناسب تقسیم کا بھی انتظام کر رکھا ہے.پھر پانی میں کچھ تو لوگوں نے گند ملانے تھے اور کچھ دوسرے گند مل جانے تھے اور Stagnation (کھڑے پانی) کی وجہ سے کیڑے پیدا ہو جانے تھے اور یہ مختلف Germs (جراثیم) ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے بارش برسائی جس سے دریا بہہ نکلے اور ان کے تیز بہاؤ کے ساتھ یہ سارے گند بہہ کر سمندر میں جاملے جس سے سمندر کا پانی نا قابل استعمال ہو گیا.اگر سمندر کا یہ پانی حیات کا ذریعہ ٹھہرتا تو بیماری ہی بیماری ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بہت بڑا احسان فرمایا کہ سورج کی تپش سے سمندر سے نہایت صاف اور مصفا پانی کے بخارات
۱۱۴ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اُٹھائے.ہم ڈسٹل (Distil) کر کے جو عرق نکالتے ہیں وہ بھی اتنا صاف نہیں ہوتا جتنے یہ بخارات صاف ہوتے ہیں یا ہم پانی کو ابال کر جراثیم مارتے ہیں اس میں بھی وہ بات نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس نظام میں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ یہ دو پانی (ایک سمندر کا اور دوسرا دریاؤں وغیرہ کا آپس میں مل نہیں سکتے.اس گول زمین میں اونچائی اور نیچائی یعنی نشیب وفراز کا اصول اللہ تعالیٰ ہی چلا سکتا تھا انسان خواہ کتنا ہی سوچے اس کے دماغ میں تو یہ آہی نہیں سکتا.مثلاً اگر آپ دو گیند بنائیں اور ان میں اگر زمین کی کشش وغیرہ کا حصہ نہ ہو تو آپ کو سمجھ بھی نہیں آ سکتی کہ ان میں اونچ نیچ کیسے رکھیں یا نشیب و فراز کیسے بنائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ نشیب میں گندے پانی کو رکھا اور اونچی جگہ پر صاف پانی کو رکھا جو برسات کے موسم میں موسمی بارشوں یا چشموں یا برف سے پگھلے ہوئے پانی سے دریاؤں کی شکل میں بہہ نکلتا اور ایسا حکیمانہ انتظام کر دیا ہے کہ یہ دونوں ( سمندر اور دریاؤں وغیرہ کے ) پانی آپس میں ( خواص کے لحاظ سے ) ملتے نہیں.ایسا نہیں ہوسکتا کہ سمندر کا پانی دریاؤں کے پانی کو خراب کر دے بلکہ بادلوں کے ذریعہ، ہواؤں کے ذریعہ اور پہاڑوں کے انتظام کے ساتھ ایک ایسا نظام جاری کر دیا جس کے ذریعہ گندے پانی میں سے اچھے پانی کے انسان تک پہنچنے کا انتظام ہوتا رہتا ہے.غرض اس سارے انتظام کی بدولت ایک روک بھی ایسی پیدا کر دی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس روک کو دُور نہیں کر سکتی اور ایک پل بھی ایسا بنا دیا کہ پانی کے جتنے فوائد ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس پل کے ذریعہ ہمیں حاصل ہونے لگ گئے.پس قرآن کریم کی رُو سے یہی وہ الْاَرْضِ یعنی زمین ہے جہاں پانی ہے جو حیات اور زندگی کا منبع اور سر چشمہ ہے اور پھر زندگی کے اس سر چشمے کی آگے مناسب تقسیم کیلئے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں نے ایک عظیم انتظام کر رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے زمین کی ایک اور خاصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ ایک جیسی زمین ہوتی ہے، ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہوتی ہے مگر اس میں مختلف قسم کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں.کھیتوں کو دیکھئے زمین کے لحاظ سے یہ ایکٹر اور وہ ایکٹر دونوں برابر ہیں.ایک ہی نہر سے ہم انہیں پانی دے رہے ہوتے ہیں یا ایک ہی Tubewell ( ٹیوب ویل) یا کنوئیں کے پانی سے وہ سیراب ہو رہے ہوتے
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۱۵ سورة الاعراف ہیں یا ایک ہی قسم کی بارش بادلوں سے نازل ہوتی ہے اور فصلوں کو سیراب کرتی ہے لیکن ہم کہتے ہیں یہ زمین گندم کے لئے اچھی ہے، یہ زمین دھان کے لئے اچھی ہے، یہ زمین کپاس کے لئے اچھی ہے، یہ زمین تیل کے بیجوں کیلئے اچھی ہے، یہ زمین آم کے درخت لگانے کے لئے اچھی ہے، یہ زمین امرود کے پیڑوں کے لئے اچھی ہے، یہ زمین سنگترے مالٹے اُگانے کیلئے اچھی ہے اور یہ زمین جہاں کچھ اور نہیں اُگتا شور اور کلر والی ہے یوکلپٹس کیلئے اچھی ہے.غرض ایک جیسی زمین اور ایک ہی جیسا پانی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک خاص حکمت کے ماتحت یہ انتظام کیا کہ اس میں سے مختلف نوع کی چیز میں پیدا ہوں میں اس کی کسی قدر تفصیل آگے بیان کروں گا ) جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی رُو سے زمین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں باوجود اس کے پہلو بہ پہلو ہونے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہونے کے مختلف انواع کے اجناس اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں.پس زمین کی یہ خصوصیت بھی دراصل خدا تعالیٰ کے بے شمار جلوؤں پر مشتمل ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - أَنَّ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا ( الانبياء : ٣١) زمین میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار جلوے ہمیں نظر آتے ہیں.یہ زمین ایک ہی وقت میں بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح بھی ہے اور فتق یعنی کھلنے یا اپنے مخفی رازوں کے ظاہر کرنے کی خاصیت بھی رکھتی ہے.ورنہ اگر حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں ایک ہی نسل میں وہ ساری کی ساری ایجادات جو انسان نے انسانی عمر میں کرنی تھیں یا وہ Discoveries ( دریافتیں) یا معلومات حاصل کرنی تھیں ایک ہی وقت میں رونما ہو جاتیں اور یہ ریلیں اور ہوائی جہاز اور یہ راکٹ اور یہ مختلف قسم کی دوائیاں وغیرہ پہلے زمانوں ہی میں بنالی جاتیں تو ہمارا یہ زمانہ بڑا Bore ( اُکتا دینے والا) ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو ایک Urge ( خواہش رکھی ہے کہ وہ نئی سے نئی چیزیں تلاش کرے اس خواہش کو پورا کرنے کا اُسے کوئی سامان میسر نہ آتا.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح بھی ہیں اور اپنے اندر فتق کی خاصیت بھی رکھتے ہیں.ایجادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہے.انسان نئی سے نئی معلومات حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آسمان میں بھی
117 سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث آثار الصفات کے نوادر مخفی ہیں اور زمین میں بھی آثار الصفات کے نوار مخفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشا اور ارادہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں.پس زمین کا ایک حصہ تو عیاں ہے اور اس کا ایک حصہ گٹھڑی کی طرح بندھا ہوا بھی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس نظام کے ماتحت انسان کے اندر ایک Urge ( خواہش رکھی تھی، ایک عزم عطا کیا تھا، ایک ہمت دی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوؤں میں نئی سے نئی معلومات کو تلاش کرے.چنانچہ اس Urge ( خواہش کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیئے گئے جن سے انسان ہمیشہ فائدہ اُٹھاتا رہا ہے اور آئندہ بھی اُٹھاتا رہے گا.پس خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کی رُو سے زمین بیک وقت رتق کی بھی اور فتق کی بھی اہلیت رکھتی ہے اور یہ فتق دراصل الہی منشا اور حکم سے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان اس دنیوی زندگی میں دنیوی طور پر ارتقا کے بے شمار مدارج طے کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی طے کرتا چلا جائے گا.ہمارا دماغ اس کی حد بست کرنے سے عاجز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا کا قول اور اس کا فعل یکساں ہوتے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہوتا.قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بیک وقت وہ کتاب مبین بھی ہے اور کتاب مکنون بھی ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کا جو فعل ہے یعنی خدا تعالیٰ کی صفات نے جو حدوث کا رنگ اختیار کیا اُس کے متعلق اس آیت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا جو جلوہ زمین کی صورت میں ظاہر ہوا ہے وہ بیک وقت رتق بھی ہے اور فتق کی اہلیت بھی رکھتا ہے.یہ زمین بندھی ہوئی بھی ہے اور اپنے ظاہر ہونے کی اہلیت بھی رکھتی ہے اس میں بظاہر کوئی تضاد نہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخفی رازوں کا انکشاف انسانی کوشش کا مرہونِ منت ہے.جب انسان کوشش کرتا ہے اور تلاش و جستجو میں اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کائنات کے مخفی راز اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں جس سے ترقیات کے نئے سے نئے میدان اُس کے لئے نکلتے چلے جاتے ہیں.قرآن کریم نے زمین کی ایک اور خصوصیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے فرماتا ہے:.هُوَ الَّذِي خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ (الانبياء : ۳۴) اب خالی یہ نہیں فرمایا کہ دن اور رات کو پیدا کیا بلکہ دن اور رات جس طرح پیدا ہوئے ان کا علم بہم
۱۱۷ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث پہنچانا بھی مد نظر رکھا.چنانچہ ہمارے یہ دن اور یہ راتیں جس شکل میں ہمارے سامنے آتی ہیں اور ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اس کا دارو مدار اس حقیقت پر ہے کہ زمین سورج سے ایک معین فاصلے پر ہے اور زمین ایک معین رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہی ہے اور یہ ایک خاص زاویہ پر اپنا محور بنا رہی ہے اور پھر زمین کی اپنی رفتار بھی معین و مقرر ہے.یہ سارے حقائق جن کے نتیجہ میں یہ دن جو ہماری اس زمین کا دن کہلاتا ہے وہ دن بنتا اور یہ رات جو ہماری اس زمین کی رات ہے وہ رات بنتی ہے.کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک ایسی کتاب پڑھنے کا موقع ملا جو ایک سائنس دان نے لکھی ہے اور جس میں اس نے خدا تعالیٰ کے وجود پر بہت کچھ لکھا ہے.وہ لکھتا ہے کہ جولوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کے منکر ہیں وہ ہر چیز کو اتفاقی کہتے ہیں اور ہر چیز کے بارے میں اتفاقی ، اتفاقی کی رٹ لگاتے چلے جاتے ہیں.مگر ان سارے اتفاقات کا جمع ہو جانا اتفاقی نہیں ہو سکتا.ایک سائنس یعنی ایک خاص علم ایجاد کیا گیا ہے جسے Science of chances ( علم اتفاقات) کہتے ہیں.چنانچہ اس سائنس دان نے بھی اس خاص علم یا اس علم کے خاص اصول کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ حقائق اشیاء کی رُو سے ہستی باری تعالیٰ کا انکار نہیں ہو سکتا اس کی وہ مثال دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ دس ہند سے لکھ کر قرعہ نکالیں ۱/۱۰ چانس یہ ہے کہ ایک پہلے قرعہ میں نکل آئے اور اسی طرح ۱/۱۰۰ چانس یا ۱/۱۰۰۰ چانس یہ ہے کہ دوسری اور تیسری بار بھی ایک نکلے.علیٰ ہذا القیاس.وہ لکھتا ہے کہ زمین اور اس پر انسان کا وجود، انسانی حیات کا امکان اور بقا اور ارتقا کی سہولتیں یہ اتنی چیزوں سے وابستہ ہیں کہ ہر چیز کو اور اس لمبے سلسلے کو Chance یعنی اتفاق کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا اس کے لئے کوئی جائز وجہ ہونی چاہیے جس کو ہماری عقل بھی تسلیم کرے.پھر اس نے آگے Chances (اتفاقات ) گنوانے شروع کئے.وہ لکھتا ہے اگر زمین سورج سے اتنے فاصلے پر نہ ہوتی جتنے فاصلے پر اب ہے تو اگر اس فاصلے سے قریب ہوتی تو دنیا کی ہر چیز کوئلہ بن جاتی اور اگر تھوڑی سی دُور ہوتی تو ہر چیز یخ بستہ ہو کر رہ جاتی.اسی طرح چاند زمین سے ایک خاص فاصلے پر ہے.وہ لکھتا ہے کہ اگر چاند زمین سے ایک نیزے کے برابر بھی قریب ہوتا تو سمندر کے جوار بھاٹے کی لہریں کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں تک پہنچ جاتیں مگر چاند کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر ہونے کی وجہ سے سمندر کی لہریں اعتدال پر رہتی ہیں.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
۱۱۸ تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث سورة الاعراف آخر یہ لہریں اعتدال پر کیوں رہتی ہیں.ان میں زبر دست جوار بھاٹا کیوں نہیں اُٹھتا.اتفاق ہر چیز اتفاق.سورج سے زمین کا فاصلہ اتفاق، چاند سے زمین کا فاصلہ اتفاق ،سورج کے گردز مین کا ایک خاص زاویہ اور محور پر ایک خاص رفتار سے گھومنا اتفاق، کہاں تک اتفاق ، اتفاق کہتے چلے جاؤ گے.تمہیں ماننا پڑے گا کہ ان عالمین کے پیچھے ایک بالا رادہ ہستی ہے جس نے یہ ساری مخلوق پیدا کی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں یہ بتایا ہے کہ دن اور رات جو تمہارے سامنے ہیں اور وہ تمہاری زندگی اور اس کی بقا اور ارتقا کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ رکھنا چاہتا ہے اور یہ زمین جس پر تم زندگی گزارتے ہو اس میں یہ خصوصیت ہے کہ سورج سے ایک معین فاصلے پر واقع ہے، چاند سے اس کا ایک خاص اور موزوں فاصلہ ہے،سورج کے گردگھومنے کے لئے ایک خاص محور مقرر ہے اور ایک معین اور مقرر اندازے کے مطابق گردش کر رہی ہے وغیرہ حقائق پر مشتمل یہ حکیمانہ نظام در اصل ایک بالا رادہ ہستی کے وجود کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے.غرض ان حقائق کے نتیجہ میں ہمارے یہ دن اور یہ راتیں وجود پذیر ہوتی ہیں.فرمایا یہ وہ زمین ہے جس کے یہ دن اور ی راتیں ہیں.ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار تجلیات جلوہ فگن ہیں.پھر سورج اور چاند کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس زمین کا ایک خاص تعلق سورج اور چاند دونوں کے ساتھ ہے.مثلاً سورج زمین کو اتنی کھا د دے رہا ہے کہ اس ترقی یافتہ زمانے میں ساری دنیا کے کھاد کے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعی کھاد مجموعی طور پر اس کا کھر بواں حصہ بھی نہیں بلکہ صحیح جزو بتانے کیلئے شاید ہمارے اعداد و شمار ختم ہو جائیں.اس سلسلہ میں باتوں باتوں میں ایک نئی تحقیق میرے ذہن میں آگئی ہے وہ بھی میں بتا دیتا ہوں.سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ جب بادل آتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے ایک تو گرج کی آواز ہے جو بعض لوگوں کو ڈرا دیتی ہے اور بعض کو اللہ تعالیٰ کی حمد پر مجبور کر دیتی ہے.چنانچہ بادلوں میں چمکنے والی یہ بجلی نصف گھنٹے میں اتنی مصنوعی کھاد پیدا کر دیتی ہے جس کو ساری دنیا کے کارخانے ایک دن یا شاید ایک سال میں جا کر بھی تیار نہیں کر سکتے.بہر حال سورج اور چاند کے ساتھ زمین کا تعلق جس حد تک ہماری سائنس نے ہمیں بتایا ہے وہ ایک ظاہر و باہر حقیقت ہے.سورج کے ساتھ زمین کے تعلق کی ایک چھوٹی سی مثال میں نے ابھی دی ہے اب چاند کے زمین کے ساتھ تعلق کی بھی مثال دے دیتا ہوں جو چھوٹے بچوں کیلئے دلچسپی کا موجب بھی ہوگی.چاندنی راتوں میں یہ لمبی سی تر
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث 119 سورة الاعراف یعنی گڑی اس رفتار سے بڑھ رہی ہوتی ہے کہ اس کی آواز انسان اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ چاند کی روشنی پھلوں کو فربہی بخشتی ہے اور پھر بھی چاند میں سے کوئی چیز کم نہیں ہوئی.یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی گوناگوں صفات کے جلوے ہیں جو سورج اور چاند کے زمین کے ساتھ تعلقات میں ہمیں یہاں اور وہاں نظر آتے ہیں.یہ ہے وہ زمین جسے قرآن کریم نے الارض کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے.اب میں ان جزئیات کے ذکر کو چھوڑ کر کہ ان کا بیان کرنا بھی ضروری تھا زمین کی بعض اصولی خصوصیات کی طرف آتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَانبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوزُونِ (الحجر:٢٠) کہ ہم نے زمین میں ہر چیز موزوں پیدا کی ہے.موزوں کا لفظ ایک تو نسبت کو چاہتا ہے اور دوسرے یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جس میں متوازن ہونے کا مطالبہ ہے.چنانچہ اسی لئے قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ہم نے اس زمین میں میزان قائم کیا ہے، اس زمین سے تعلق رکھنے والے صفات باری تعالیٰ کے جلوؤں میں اصولِ تو ازن کارفرما ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں :.الا تَطْعُوا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن : 9) کہ اس اصول توازن کو توڑنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ تم سخت نقصان اٹھاؤ گے.مثلاً کھانے پینے میں Balanced Diet ( متوازن غذا کے محاورہ کو ہماری موجودہ سائنس نے بھی اختیار کر لیا ہے اور میزان کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے متوازن غذا کے اصول کو دریافت کیا ہے یعنی ہماری غذا کے جو معلوم اجزا ہیں ان میں ایک معین تو ازن ہونا چاہیے.غذا میں اتنی پروٹین ہو اتنی مقدار میں لحمیات کی ہو اس میں اتنا میدہ ہو اس کے اندر وٹامن کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو.پھر Mineral salts ( نمکیات) ہیں.Fat یعنی چکنائی ہے جو گھی اور مکھن کی شکل میں ہوتی ہے.گھی صرف گائے بھینس کا نہیں بلکہ جو گھی مصنوعی طور پر تیار کئے جاتے ہیں مثلاً تو ریہ سے مصنوعی گھی تیار کیا جاتا ہے وہ بھی گھی کی ایک قسم ہے اور اس میں چکنائی پائی جاتی ہے.پس گھی اور پروٹین ہے میں نے سمجھانے کے لئے پروٹین کا مطلق لفظ بول دیا ہے ورنہ اس کی آگے آٹھ نو معلوم قسمیں ہیں ابھی اور آگے پتہ نہیں کتنی قسمیں معلوم ہوں.غرض غذا کی ان تمام چیزوں میں توازن ہونا چاہیے.ہر
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة الاعراف ایک چیز کو ایک اندازے کے مطابق استعمال کرنا چاہیے.پس غذا کے تمام اجزا متوازن اور مناسب ہونے چاہئیں اور پھر غذا کے ہضم کا توازن بھی برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ ہر چیز میں توازن کا اصول کارفرما ہے اس لئے جتنی غذا استعمال کی جائے اس کے ہضم کرنے کا بھی انتظام ہونا چاہیے کیونکہ قدرت نے ہر چیز میں توازن قائم کر رکھا ہے.شیر کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ دو اڑھائی بلکہ تین من تک شکار کا گوشت کھا لیتا ہے لیکن پھر وہ آرام نہیں کرتا بلکہ گوشت کو ہضم کرنے کیلئے جنگلوں میں کم و بیش پچاس میل کا چکر کاٹتا ہے پھر وہ سو جاتا ہے اور جب اُٹھتا ہے تو اسی بچے کھچے گوشت کا ناشتہ کرتا ہے کیونکہ اس کی بڑی خوراک یہی گوشت ہے پس شیر کو اللہ تعالیٰ نے آزادی اور اختیار نہیں دیا بلکہ اپنے حکم کا پابند بنایا.خدا تعالیٰ نے اس کو فر ما یا کئی من گوشت تجھے کھانے کو دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میں نے میزان کا جو اصول قائم کیا ہے وہ برقرار رہے اس لئے اس کو ہضم کرنے کے لئے تجھے کم و بیش پچاس میل کی دوڑ لگانی پڑے گی اور اگر ہم بھی اسی قسم کی دوڑ لگا ئیں تو بے شک شیر جتنا گوشت تو نہ کھا سکیں لیکن ہماری خوراک ضرور بڑھ جائے.ایک بنیا جو اپنے سامنے بہی کھاتے کھول کر بیٹھا رہتا ہے اور ساتھ خوب مٹھائی (ہاں یہ بھی میزان خوراک میں ایک بڑا جزو ہے ) کھاتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں اس پر چربی چڑھ جاتی ہے اور پیٹ بڑھ جاتا ہے اتنا کہ مثال کے طور پر ہم کہہ دیں کہ اس کے اندر ایک ہاتھی چھپ جائے.غرض اس سے اپنا پیٹ سنبھالا نہیں جاتا کیونکہ ایک تو اس نے غیر متوازن غذا کھائی اور جو کھائی اس کے ہضم کا انتظام نہیں کیا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے زمین کی ہر چیز کو موزوں پیدا کیا ہے.ہر چیز میں توازن کا قانون جاری کیا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ کسی چیز کی موزونیت نسبت سے تعلق رکھتی ہے یہ انسان کی نسبت ہے کیونکہ ہر چیز کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور پھر تمام انسانوں میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفت ہے جن کے لئے یہ ساری مخلوق ظہور پذیر ہوئی.آپ انسانیت کا نچوڑ اور جوہر کامل ہیں.آپ کو انسانیت کا کمال حاصل ہوا.غرض ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ کی علوّ شان کا اظہار کر سکیں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو میں نے تمہیں پیدا کیا تمہیں بے شمار قابلیتیں عطا کیں.تمہارے اندر جسمانی قابلیتیں رکھیں.تمہارے اندر ذہنی قابلیتیں رکھیں.پھر تمہارے اندر اخلاقی قابلیتیں
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۲۱ سورة الاعراف رکھیں تمہارے اندر روحانی قابلیتیں رکھیں اور ان قابلیتوں کی صحیح نشو ونما کے لئے میں نے ہر موزوں چیز پیدا کر دی اگر تم چاہو تو تم اس سے فائدہ اُٹھا کر صحیح راہوں پر چل کر اپنی انفرادیت کی نشو ونما کو اس کے کمال تک پہنچا سکتے ہو کیونکہ میں نے ہر چیز کو موزوں شکل میں پیدا کیا ہے.ایک موٹی مثال اس موزونیت کی افیون ہے.انسان کی بیماریوں کو دُور کرنے کے بھی اس میں اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کئے ہیں.چنانچہ طب یونانی میں افیون کو بڑی کثرت سے دواؤں میں استعمال کیا گیا ہے.ایک عام اندازہ کے مطابق ۷۵ یا ۸۰ فیصد نسخوں میں افیون ضرور شامل ہوتی ہے لیکن وہ ہر دوائی کا جزو بنتی ہے اپنی قدرتی اور طبعی اور موزوں شکل میں.اسی لئے طب یونانی کی تاریخ میں کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا کہ طب یونانی کے نسخوں کے استعمال کے نتیجہ میں کسی فرد واحد کو افیون کھانے کی عادت پڑ گئی ہو کیونکہ ہر ایسے نسخہ میں خدا کے قانون کی روشنی میں تجربہ کر کے اس کی مقدار موزوں اندازے کے مطابق رکھی جاتی ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی ہونے لگا.چنانچہ اس کے بعض اجزا کے اگر کسی شخص کو دو ٹیکے کر دیئے جائیں تو اس کو افیون کی عادت پڑ جاتی ہے اور اُدھر وہ دواؤں کی شکل میں موزوں مقدار میں ساری عمر کھا تا رہے تو پھر بھی اس کی عادت نہیں پڑتی.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسبت سے یعنی انفرادی طور پر جس جس قسم کے توازن کی ضرورت تھی اس اس شکل میں اُسے پیدا کیا.پھر ایک نوعی توازن قائم کیا جو مثلاً اجناس کے اندر کارفرما ہے.اسی طرح تمام پھلوں اور کھانے پینے کی اشیاء میں توازن قائم ہے اور یہ زمین ہے جس میں یہ موزونیت یہ میزان کا عمل دخل نظر آتا ہے.قرآن کریم اسے کہے گا کہ انسان کے قومی اور اس کی قابلیتوں کی صحیح اور بہترین نشوو نما کے لئے جس غذا کی جس شکل میں جس موزوں حالت میں اور جس متوازن صورت میں ضرورت تھی یہ اس زمین میں پائی جاتی ہے.غرض جس مجموعہ آثار الصفات میں موزوں غذا پائی جاتی ہے وہ زمین ٹھہری.والسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِل وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدع (الطارق : ۱۲، ۱۳) یعنی زمین وہ ہے جو صدع ہونے کے اثر کو قبول کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یعنی زمین وہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے غیر محدود جلوؤں کے ساتھ ہمیشہ متوجہ رہتا ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ زمین آثار صفاتِ باری تعالیٰ کے مخصوص مجموعے کا نام ہے اس
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۲۲ سورة الاعراف لئے زمین کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے غیر محدود جلوؤں کے ساتھ متوجہ رہتا ہے کیونکہ یہ ان غیر محدود مؤثرات کا اثر قبول کرنے کی ہمیشہ اپنے اندر اہلیت پاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار جلوؤں کا ظہور ہورہا ہے اور زمین ان کو قبول کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو ہر وقت ظہور پذیر ہو رہے ہیں ان کے نتیجہ میں مخلوق میں نئے خواص پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً خشخاش کا دانہ ہے آج سے سو سال پہلے انسان نے اس کے جو خواص معلوم کئے تھے آج ہم نے ان سے کہیں زیادہ معلوم اور دریافت کر لئے ہیں.پس ضروری نہیں کہ یہ نئے دریافت شدہ خواص سو سال پہلے بھی اس میں موجود ہوں.ہوسکتا ہے اس سوسال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے نئے جلوؤں کی وجہ سے مزید خواص رونما ہوئے ہوں.پس صفاتِ باری تعالیٰ کے یہ جلوے اور زمین کی قبولیت کے یہ آثار ابتدائے آفرینش سے اب تک جاری ہیں.زمین صفات باری تعالیٰ کے جلوؤں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان مخصوص جلوؤں کا سلسلہ ایک لحظہ کے لئے بھی منقطع ہو جائے تو یہ سارا کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے.اگر انسان ایک لحظہ کے لئے اس دائرہ صفات باری اور دائرہ قبول اثر یعنی زمین میں جو آسمان سے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کو اپنے اندر قبول و جذب کر کے ان کو زندگی اور بقا اور تازگی اور نئے خواص کا جامہ پہنانے کی اہلیت ہے وہ نہ ہو تو اگر انسان ایک لحظہ کے لئے بھی اس دائرہ سے باہر قدم رکھے تو ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم نے جس مخلوق کو زمین کہا ہے اس سے باہر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :.لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ (الفرقان: ٣) اس مضمون پر قرآن کریم نے دو زاویوں سے روشنی ڈالی ہے.پہلے میں دوسرے نقطۂ نگاہ کو پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.وَالكُم مِّنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (ابراهيم : ۳۵) اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اس وسیع مضمون کو اس صورت میں بیان فرمایا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے اور ہر دوسری مخلوق کو اس کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے لیکن اس میں اس سوال کا جواب نہیں آتا تھا کہ ہمیں جتنے خادم درکار تھے وہ دیئے گئے ہیں یا نہیں.یعنی جو چیز ہمیں میسر آئی ہے وہ تو بہر حال خادم ہے لیکن ہماری ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے جتنے خادم چاہیے تھے آیادہ
۱۲۳ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ہمیں ملے ہیں یا نہیں اس کا جواب اس فقرہ میں نہیں آتا.پس اللہ تعالیٰ نے وَ اشْكُم مِّنْ كُلِّ مَا سالتون (ابراهیم : ۳۵) کہہ کر یہ تسلی بخش جواب دیا کہ تمہاری ساری قابلیتوں اور طاقتوں اور اجزا اور جوارح نے جس جس چیز کا مطالبہ کیا تھا وہ ساری کی ساری تمہیں عطا کی گئیں.ہم نے تمہیں کان دیئے کان کا یہ مطالبہ تھا کہ صوتی لہروں کا انتظام کیا جائے ورنہ مجھ تک آواز کیسے پہنچے گی.پھر اس کا یہ تقاضا بھی تھا کہ میرے اندر وہ نظام بھی پیدا کیا جائے کہ جو میں سنوں یا محسوس کروں وہ دماغ کے اس حصہ تک پہنچا دوں جہاں اس کو پہنچنا چاہیے.پس اللہ تعالیٰ نے کان کے سارے مطالبے پورے کر دیئے.اسی طرح آنکھوں نے پہلا مطالبہ تو یہ کیا کہ یہ جسم ایسا ہے کہ جس کے ذرے بدلتے رہتے ہیں اس لئے کھانے پینے کے ذریعہ ایسے ذرے ہمارے جسم میں داخل ہوں جن میں آنکھ کا ذرہ بنے کی قابلیت ہو ورنہ جس ذرہ میں پاؤں یا ناخن بننے کی قابلیت ہے وہ اگر آنکھ میں جائے تو آنکھ کو سُرخ تو شاید کر دے مگر اس کے کچھ کام نہیں آ سکتا.پس آنکھ کا جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے بہت ہی عجیب چیز ہے یہ فطرتی تقاضا تھا کہ اسے ایسے اجزا یا ایسے ذرات میسر آئیں جو اس کا ذرہ بنے اور اس کے جو ہر کو اُجاگر کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آنکھ کا یہ مطالبہ پورا کر دیا.آنکھ کا یہ مطالبہ تھا کہ میں ازخود کوئی چیز نہیں ہوں مجھے باہر کی روشنی کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے باہر کی روشنی پیدا کر دی.آنکھ کا یہ تقاضا تھا کہ اُس تک خاص زاویوں سے روشنی کی لہریں پہنچیں تا کہ مختلف رنگوں اور سیاہ اور سفید میں فرق کر سکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے آنکھ کے اس تقاضا کو بھی پورا کر دیا ہے.علی ہذا القیاس انسانی دل کے مطالبے تھے.اس کے ہاتھ کے مطالبے تھے.اس کی پنڈلی کے گوشت کے لوتھڑے کا یہ مطالبہ تھا کہ اے خدا جو Chemical Composition ( کیمیکل کمپوزیشن) تو نے میری بنائی ہے اس کے نتیجہ میں ایسی چیز مجھے میتر فرما کہ اگر میں بیمار ہو جاؤں تو وہ کان میں پہنچنے کی بجائے تیرے حکم سے میرے گوشت کو صحت مند کرنے کی کوشش کرے.غرض اللہ تعالیٰ نے ایک تو ہر چیز کی کیمیکل کمپوزیشن اس طرح بنائی اور پھر اس کے مناسب حال ہر چیز پیدا کر دی.فرمایا یہ دوا ٹانگ کے لئے اچھی ہے.یہ دوا ناخنوں کے لئے اچھی ہے.چنانچہ ایلو پیتھی کی رو سے بھی کان والی دوا ناک میں نہیں پڑسکتی اور نہ ناک والی کان میں.یہ امتیاز، یہ سلیقہ یہ دوائی کا انتخاب دراصل ہر جسمانی عضو کی ضرورت کے مطابق ہے.غرض
۱۲۴ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اللہ تعالیٰ نے انسان حتی کہ اس کے ہر ایک عضو کے تقاضا کے مدنظر اس کے مناسب حال چیزیں پیدا کر دیں.چنانچہ سورہ ابراہیم کی مندرجہ بالا آیہ کریمہ اسی حقیقت کی غماز ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑے پیارے انداز میں فرمایا کہ ہر وہ مطالبہ جو تمہارے وجود نے ہم سے اپنی بقا اور اپنے ارتقا کے لئے کیا وہ ہم نے پورا کر دیا.یہ تو ایک زاویہ نگاہ تھا.دوسرا نقطۂ نگاہ جو دراصل پہلے بیان کرنا چاہیے تھا لیکن مصلحتا میں نے اس کو پیچھے رکھا ہے یہ تھا کہ جو بھی تمہارے اندر قابلیت ہے اس کی بقا اور ارتقا اور کمال نشوونما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ ہم نے پیدا کر دی.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدرَة تَقْدِيرًا (الفرقان : ٣) ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی حد بندی کر دی.اب اس آیت سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ انسان کو اسی زمین پر رہنے کی ضرورت کیوں ہے اور وہ زمین سے باہر اپنی زندگی کیوں نہیں گزار سکتا اس لئے کہ اس زمینی حد بندی کو توڑنا انسان کے بس کا روگ نہیں مثلاً ہمارے پھیپھڑے ہیں.ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہوا پیدا کر دی اور ساتھ ہی یہ حد بھی لگا دی کہ ان انسانی پھیپھڑوں کی زندگی اس ہوا تک محدود ہے اس ہوا کے بغیر اور کسی چیز سے وہ زندگی حاصل کر ہی نہیں سکتے.ویسے اس میں شک نہیں کہ ہواؤں ہواؤں میں بھی فرق ہے.اگر ہم بلندی پر چلے جائیں تو سانس پھولنے لگ جاتا ہے، آکسیجن کم ہو جاتی ہے.بہت ساری چیزیں ہیں کچھ ہمیں معلوم ہیں اور کچھ آگے چل کر انشاء اللہ معلوم ہوں گی.پس فرمایا کہ ہم نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کو محدود یعنی ایک حد کے اندر مقید کر دیا ہے وہ اس سے باہر نہیں جاسکتی.پھیپھڑے صرف اس ہوا سے آکسیجن لے سکتے ہیں جو اس زمین میں پیدا کی گئی ہے.ہمارے جسم صرف اس پانی سے زندگی حاصل کر سکتے ہیں جو اس زمین میں پیدا کیا گیا ہے ہماری آنکھ صرف روشنی کی ان لہروں کو دیکھ سکتی ہے جو لہریں اس غرض کے لئے اس زمین میں بنائی گئی ہیں.ہمارے کان جن صوتی لہروں کے ساتھ Tune (ٹیون) کئے ہوئے یعنی ان کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں.ایک تو یہ کہ صوتی لہریں ہیں اور اپنی بے شمار خصوصیات کے لحاظ سے محدود ہیں اور پھر ان کو ایک تنگ دائرہ میں لہروں کے ساتھ Tune (ٹیون ) کر دیا.اب انسان نے بعض ایسی ویلیس (Whistles) بنا لی ہیں کہ جن کی آواز شکاری کتا سن لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کا آدمی نہیں سن سکتا اور جس شکار کے پیچھے وہ گیا ہوتا ہے اس کو بھی وہ آواز سنائی نہیں دیتی صرف شکاری کتے کو وہ آواز سنائی دیتی ہے.یعنی ایسی لہر
۱۲۵ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث دریافت کر لی ہے جو صرف کتے کے کان سن سکتے ہیں.غرض ہر چیز کی حد بندی کر دی یہ حد بندی کا ایک الگ وسیع مضمون ہے لیکن میں اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی صفات اس رنگ میں جلوہ گر ہوئیں کہ انسانی قوی کا جو بھی تقاضا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو اس چیز میں مخلوق کر دیا.اب یہ مضمون ہے جو اس آیہ کریمہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَةُ تَقْدِيرًا میں بیان ہوا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو بھی قوت پیدا کی اس کو محدود اور مقید کر دیا.زمین میں جو صفات باری تعالیٰ کے جلوے تھے ان کے ساتھ انسان کو باندھ دیا.کان کی شنوائی کو صوتی لہروں کے ایک خاص حصے سے جوڑ دیا یہی حال آنکھ کا ہے.یہی حال زبان کا ہے.بہت سی چیزیں ہیں جو انسان بڑے شوق سے کھاتا ہے لیکن جانوروں میں سے بعض جانور ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے آپ وہ چیز ڈال دیں تو وہ ناک چڑھا کر پرے ہٹ جاتے ہیں اس چیز کو منہ تک نہیں لگاتے یعنی جس چیز کو جانور منہ نہیں لگاتے اُسے انسان کے مناسب حال بنا دیا.اس سے انسان کو خود ہی سوچنا چاہیے تا کہ اس کے دل میں غرور اور تکبر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو عظمت بخشی ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان نے جس چیز کو دھتکار دیا جانوروں نے اس کو قبول کر لیا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جن میں سے بعض کا میں نے اس وقت ذکر کیا ہے.مثلاً ہوا ہے، پانی ہے، پھر پانی کی آگے مناسب تقسیم کا انتظام ہے، کھانے پینے کی متنوع اشیاء ہیں، متوازن غذا ئیں ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ عجیب نظارہ ہے کہ کھانے کی مختلف چیزیں ایک جیسی زمین اور ایک جیسے پانی سے پیدا ہو جاتی ہیں.پھر ہر ایک چیز میں توازن کے اصول کارفرما ہیں.غرض تم نے زبانِ حال سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا ہے زمین تمہارے مطالبات کو پورا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی صفات کے جلوے اس دنیا میں اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ تمہاری کوئی قوت بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اے میرے رب ! میں نے تجھ سے یہ مانگا تھا اور تو نے وہ مجھے دیا نہیں.یہ التجا دوسری دعا کی طرح نہیں ہے جو کبھی تو قبول ہو جاتی ہے اور کبھی رڈ کر دی جاتی ہے.یہ تو دراصل انسان کی ہر قوت، ہر عضو اور ہر استعداد کا فطرتی تقاضا ہے جس کا اظہار وہ زبانِ حال سے کر رہی ہوتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ کسی قوت کے ضائع ہونے کا امکان باقی نہیں رہا.اگر انسان از خود حماقت، تکبر یا اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی راہ اختیار نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۲۶ سورة الاعراف سے انسان کی ہر قوت اپنے نشو و نما کے کمال کو پہنچ جاتی ہے.غرض زمین یا الارض وہ ہے جس کے اندر انسان کو خدا تعالیٰ کی صفات کے بعض مخصوص جلوؤں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے.اس کی آنکھ کو بھی، اس کے کان کو بھی ، اس کی زبان کو بھی، اس کی ناک کو بھی، اس کے جسم کے گوشت کے مختلف حصوں کو بھی ، اس کے جسم کی ہڈیوں کے مختلف حصوں کو بھی ، اس کے جسم کے اعصاب کے مختلف حصوں کو بھی، انسانی دماغ اور اس کے مختلف حصوں کو بھی فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص جلوؤں کے ساتھ محدود و مقید کر دیا ہے.پس یہ ہے وہ زمین یا الارض جس میں انسان کی ہر قوت، ہر قابلیت، ہر استعداد اللہ تعالیٰ کی صفات کے مختلف جلوؤں میں سے کسی نہ کسی جلوے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ زمین ہے اور اس زمین کے بغیر تم کہیں بھی زندہ نہیں رہ سکتے.انسانی عقل بھی یہی کہتی ہے کیونکہ ہمارے پھیپھڑے اسی ہوا کے محتاج ہیں.ہمارا جسم اسی زمینی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.اگر انسان کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں صوتی لہریں اُن لہروں سے مختلف ہوں جن کے لئے کان Tune (ٹیون) کئے گئے ہیں تو کوئی آواز سنائی ہی نہ دے خواہ دنیا میں ایک ہنگامہ محشر ہی کیوں نہ بپا ہولیکن انسان سمجھ رہا ہو کہ بالکل سکون ہے.بے شک یہ فضا زندگی سے لبریز کیوں نہ ہو مگر انسان اس میں کوئی ہل چل ہی محسوس نہ کرے.اسی طرح آنکھیں ہیں اگر یہ روشنی نہ ہو دوسری قسم کی روشنی ہو تو اس میں انسان تو اندھے کا اندھار ہے حالانکہ خدا کی مخلوق روشنی میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے، خوشی سے اپنی زندگی گزار رہی ہوتی ہے.مگر اس کو کچھ نظر ہی نہ آئے.ٹٹولتا پھر رہا ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کا وہ جلوہ جس کے ساتھ انسانی آنکھ کو باندھ دیا گیا تھا وہ جلوہ وہاں نہیں ہوتا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے یہ حد بندی کی ہے.تم اس حد بندی سے باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ یہ میری تقدیر ہے میں نے اپنی تقدیر کو چلایا ہے اور ہر ایک چیز کو ایک اندازے کے مطابق بنایا ہے تم میری اس تقدیر کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتے.پس اگر زمین کی یہ تعریف ہو کہ زمین اللہ تعالیٰ کی صفات کے مخصوص مجموعہ کا نام ہے یا آثار الصفات کے ایک مخصوص مجموعہ کا نام ہے جس کے ساتھ انسانی طاقتیں ، قو تیں اور استعدادیں بندھی ہوئی ہیں اور جن کی پیدائش انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور جن کے علاوہ کوئی اور چیز اس کیلئے فائدہ مند نہیں بن سکتی کیونکہ جو کچھ پیدا کیا گیا ہے وہاں اُسے وَالكُم مِّنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ کی رُو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۲۷ سورة الاعراف سے عطا کیا گیا اور ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت تھی وہ اس زمین میں پیدا کر دی گئی.اگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ان مخصوص جلوؤں سے ملتے جلتے جلوے اس عالم کے کسی اور حصے میں بھی نظر آنے لگیں پھر تو وہ یہی زمین الارض ہوئی اس میں انسان زندہ نہیں رہ سکتا ہے.لیکن اس الارض کو جن معنوں میں قرآنِ کریم نے استعمال کیا ہے اِن معنوں کی رو سے اس قسم کی زمین سے باہر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.فيهَا تَحْيَوْنَ کی صداقت اہل ہے انسانی زندگی کا مدار صفات باری کے اسی زمینی جلوؤں کے ساتھ وابستہ ہے کیونکہ اس ارض کے باہر یہ زمینی جلوے مفقود ہیں اس لئے اس الارض سے باہر زندہ رہنا محال ہے.ہم ایک لحظہ کے لئے یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انسان کبھی ایسی دریافت یا اس قسم کی ایجاد کر لے گا جس سے قرآن کریم کی تعلیم یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو تفسیر فرمائی ہے اس پر اعتراض کرنے کے قابل ہو جائے گا.ہمارا مذہب اسلام بڑا پیارا مذہب ہے.ہماری کتاب قرآن کریم بڑی ہی عظیم اور حکمتوں سے پر کتاب ہے.دلائل دے کر سمجھاتی ہے ہر چیز کو اس نے کتاب مبین ہونے کی حیثیت میں کھول کر رکھ دیا ہے اور اس کے کتاب مکنون ہونے کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ خود اپنے بندوں کو معلم بناتا ہے.ان کو اس کی حکمتیں سکھاتا اور اس کتاب عظیم کے مخفی رازوں کو ان پر کھولتا ہے.دنیا میں کوئی ماں ایسا بچہ نہیں بنے گی جو قرآن کریم پر صحیح اور جائز اعتراض کر سکے کیونکہ جب بھی کوئی اعتراض پیدا ہو گا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے اُمت مسلمہ میں اپنا ایک ایسا بندہ پیدا کر دے گا جس کا خود وہ معلم بنے گا جس کو خو دوہ اعتراض کا جواب سکھائے گا.پس فِيهَا تَحيَونَ میں قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی زندگی اور بقا اسی الأرض تک محدود ہے.یعنی آثار صفات باری کے مخصوص جلوؤں ہی میں وہ زندہ رہ سکتا ہے.انسان اس الأرض کے ان جلوؤں سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ زندہ رہنے کا تصور ہی کر سکتا ہے.ہم چاند پر چند گھنٹے کے لئے اُترے نہ اپنے لباس سے باہر آنے کی جرات کی.نہ اپنے کھانے کو چھوڑ کر کوئی اور کھانے کا خیال آیا.نہ وہاں کوئی ہوا تھی جس میں سانس لے سکتے.پس جس کرہ پر ایک سانس بھی نہیں لیا قدم رکھ کر واپس آگئے اس سے قرآن کریم کی ابدی صداقتوں پر تو کوئی حرف نہیں آتا
۱۲۸ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث بے شک یہ ایک کارنامہ ہے اور بہت بڑا کارنامہ ہے اس کو معمولی سمجھنا غلطی ہے لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ شان نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کتنی ذہنی اور دماغی قوت عطا کی ہے کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو صحیح رنگ میں استعمال کر کے یہ کارنامہ انجام دیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمدُ لِلهِ.لیکن اس پر ہم کو غرور کیوں ؟ قانونِ قدرت کے مطابق وہاں گئے اور وہاں یہ بھی نہیں کیا اور نہ کر سکتے ہیں کہ (اس زمین سے باہر یعنی اس قسم کی ہوا کے بغیر ) سانس لے سکیں کیونکہ کسی جگہ بھی بعینہ ایک قسم کے جلوے ظاہر نہیں ہوتے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہیں کہ کوئی دو وجود یعنی مخلوقات کے کوئی دو فرد برابر نہیں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا کوئی جلوہ دہرایا نہیں جاتا البتہ صفات باری تعالیٰ کے جلوے آپس میں ملتے جلتے ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں.پس اگر کسی وقت انسان ایسے کرہ میں پہنچ جائے جہاں خدا تعالیٰ کے آثار الصفات کے جلوؤں کا وہ مخصوص مجموعہ اس زمین کے مخصوص مجموعے سے ملتا جلتا ہو یعنی ہوا ہولیکن ممکن ہے آکسیجن میں کمی ہو.کان کے لئے جو صوتی لہریں Tune ( ٹیون ) ہوئی ہیں ان کا دائرہ تنگ ہو یا Overlap ( اور لیپ) کر رہا ہو یعنی کچھ آواز میں اس کی ہم سن سکیں اور کچھ نہ سن سکیں لیکن بہر حال کام تو وہ کچھ نہ کچھ کرے گا یا آنکھوں کی روشنی اور زبان کی لذت یا وہاں جو ادویہ ہیں وہ ملتی جلتی ہوں.یوں ویسے ہم نے یہاں کب Perfect ( صحیح) دوائیاں بنالی ہیں.ابھی تو ملتی جلتی کو اکٹھا کرنے میں ہاتھ پاؤں مارر ہے ہیں.اسی حالت میں انسان زندہ رہ سکے گا کیونکہ وہ اس زمین سے ملتی جلتی زندگی ہوگی.الارض کا مفہوم اس پر بھی حاوی ہو سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی غیر محدود صفات کا تقاضا یہ ہے کہ جلوے Repeat (دہرائے ) نہ جائیں.جب سے انسان نے آم کھانے شروع کئے ہیں بے شمار آم پیدا ہوئے لیکن ہر آم کا درخت بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور ہر آم کا پھل بھی اپنی انفرادیت کا حامل ہے.حسّاس دل و دماغ سے بہت ساری ایسی اصطلاحیں نکلتی ہیں جن کو ایک عام آدمی استعمال نہیں کر سکتا اور کسی چیز کے متعلق علم کا نہ ہو ناعدم شئی پر دلالت نہیں کرتا.یعنی جس چیز کا ہمیں ابھی تک علم نہ ہو اس سے یہ نتیجہ نکالنا بڑی ہی نا معقول بات ہے کہ اس چیز کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں.بہر حال خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کی رو سے الارض ایک مخصوص مجموعہ آثار صفات کا نام
۱۲۹ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہے.اس مخصوص مجموعہ سے دامن چھڑا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان جلوؤں سے جن کے ساتھ انسان کی مختلف قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں فَقَدرَة تَقْدِيرًا کے مطابق باندھی گئی ہیں ان سے الگ تھلگ رہ کر انسان زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی الارض پر خدا تعالیٰ کے انہی جلوؤں پر ہے.آج ہم تمام سائنس دانوں کو بڑے دھڑلے سے یہ چیلنج دیتے ہیں کہ تم ان زمینی خصوصیات اور ان ارضی لوازمات کے بغیر کسی دوسرے کرہ پر رہ کر تو دکھاؤ تم تو انسان کا ایک ایسا پھیپھڑا تک نہیں بنا سکتے جو اس زمینی ہوا کا محتاج نہ ہو.تم تو ایسا انتظام بھی نہیں کر سکتے کہ پانی کے بغیر انسانی زندگی ممکن ہو.تم تو ایک ایسا نظام بھی نہیں چلا سکتے کہ جس سے متوازن غذا کے بغیر انسانی صحت کا قائم رکھنا ممکن ہو.صحت کے ساتھ ہی بقا بھی آ جاتی ہے بعض دفعہ لمبی بیماری نوعمری کی موت پر منتج ہوتی ہے.صحت کا عمر کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور اس کا دارو مدار اللہ تعالیٰ کی صفات کے انہی جلوؤں پر ہے جنہیں زمین اپنے اندر سمیٹے ہے اور قانونِ قدرت کی صورت میں ہمیں نظر آتے ہیں.اس زمینی حدود سے باہر ان ارضی صفات سے بے نیاز ہو کر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.خلاصہ آپ یاد رکھیں اور اطمینان پائیں کہ فیها تحبون ایک زندہ صداقت ہے یہ اپنی ذات میں بالکل صحیح ہے لیکن آپ کے لئے اس تشریح کو مد نظر رکھنا ہو گا جو ابھی میں نے زمین کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں بیان کی ہے ورنہ اس تشریح کے بغیر اگر آپ کسی سے بات کریں گے تو وہ آپ کو پاگل سمجھے گا.اب اس مضمون سے متعلق دوسوال یا دو حصے باقی رہ گئے ہیں یعنی فِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ کی تشریح ره گئی ہے.وقت زیادہ ہو گیا ہے تین بجے تک کا میرا وعدہ تھا سواب تین بج گئے ہیں یہ دوحصے انشاء اللہ کسی اگلے خطبہ میں آجائیں گے.آمین خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۲۶ تا ۸۴۸) آیت ۳۲ لِبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَ كُلُوا وَ اشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ.(٣٢) قرآن کریم نے جو یہ فرما یا لِبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِد تو یہاں بھی اسی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے.مسجد تذلل اور عبادت کے مقام کو کہتے ہیں اور زینت سے یہاں مراد دل کی صفائی اور پاکیزگی اور دل کا تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں حکم دیا ہے کہ جب بھی میرے حضور
۱۳۰ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث تذلل سے جھکنا چاہو اور میری اطاعت اور میری عبادت کرنا چاہو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تم اپنے دلوں کو پاکیزہ کرو اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ضمیمہ براہین احمدیہ (حصہ) پنجم میں فرماتے ہیں ”انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقوی کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے تقویٰ کی باریک راہیں، روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضا ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیراور دوسرے اعضاء ہیں باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لبَاسُ التَّقوى قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) ( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۷۱،۷۰) بنیادی طور پر قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کا یہ حق ہے کہ جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال نہ کیا جائے.ہر مخلوق کا یہ حق اسلام نے قائم کیا ہے اور اسلامی تعلیم نے اس کی حفاظت کی ہے.مثلاً فرما یالا تسرفوا (الاعراف:۳۲) اسراف نہ کرو.اسراف کے معنی ہی خدا تعالیٰ کے قانون کی حدود سے تجاوز کرنا ہیں.پس اس کے یہی معنی بنتے ہیں کہ ہر چیز کے متعلق خدا تعالیٰ نے کچھ قانون بنائے ہیں ان کی پیدائش کی کوئی غرض بیان کی ہے.اس کے خلاف تم نے اس کو استعمال نہیں کرنا.انسان جب بہکتا ہے اور بسا اوقات بہکتا اس وقت زیادہ ہے جب وہ علم کے میدان میں اور تحقیق کے میدان میں کافی آگے نکل چکا ہو تو وہ دنیا کے لئے عذاب اور ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ ایٹم کی طاقت کا غلط استعمال ہمیں بتا رہا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشیاء کے لئے بھی رحمت ہیں کیونکہ آپ ایک ایسی تعلیم لے کر آئے جس نے انسان کو یہ بتایا کہ دیکھو اشیاء خاص غرض کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان اغراض کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الاعراف لئے ہی ان کا استعمال ہونا چاہیے اور جو قوانین ان کو گورن (Govern) کرنے والے ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۸۵ تا ۱۹۱) آیت ٣٦ يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ ايتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اسی طرح فرمایا کہ تم خدا کے محتاج ہو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے.اَنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر:۱۲) انسان کا شیطان اس پر دوطرفہ حملہ کرتا ہے.اس کا ایک حملہ تو اس رنگ میں ہوتا ہے کہ وہ انسان کو جھوٹے وعدے دے کر بدیوں اور برائیوں اور گناہوں کی طرف بلاتا ہے اور دوسرا حملہ اس کا یہ ہے کہ وہ نیکیوں سے روکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو خدا کے بندوں پر مسدود کرنے کی کوشش کرتا ہے.تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ ان ہر دو حملوں سے حفاظت کے لئے اور خود کو بچانے کے لئے انسان خدا تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈے.یہ بھی کہ شیطان کا یہ وار کہ وہ انسان کو گناہ پر ، بدی پر، دوسروں کو دکھ پہنچانے پر جوا کساتا ہے خدا تعالیٰ مدد کو آئے اور ڈھال بنے اور شیطان کے اس قسم کے حملوں میں شیطان ناکام ہواور خدا تعالیٰ کی ڈھال اس کے نیک بندے کو شیطانی حملوں سے محفوظ کر دے اور پھر دوسری طرف سے شیطان یہ حملہ کرتا ہے کہ انسان نیکیاں نہ کرے یا نیکیوں میں نستی دکھائے یعنی جتنی نیکی کر سکتا ہے اتنی نہ کرے اور تَخَلَّفُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کے ماتحت اچھے اخلاق اس میں پیدا نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اس پر نہ چڑھے ہر انسان کے شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے.چنانچہ اس محاذ پر خدا تعالیٰ کو ڈھال بنانے کا یہ مطلب ہے کہ اے خدا! تیری راہ میں قدم بڑھانے کے راستے میں شیطان جو روک ڈالے، نیکیوں سے روکے، حسنِ سلوک سے رو کے انسان تیری رحمت اور رضا کے حصول کے لئے تیرے ساتھ صدق وصفا کا جو تعلق پیدا کرتا ہے اس کے رستے میں روک بنے ، تیرے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے رستے میں وہ روک بنے غرضیکہ ہر قسم کی نیکیوں کی راہوں میں جو شیطان روک بنے ہمیں اس کے اس قسم کے حملوں سے بچا اور خود ہمارے لئے ڈھال بن جا.تقویٰ کے یہ دونوں معنی ہیں.
۱۳۲ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے جو احکام اوامر ونواہی دیئے ہیں ان میں سے ہر حکم پر جو انسان نے عمل کرنا ہے اس کی بنیاد تقویٰ پر ہے.تمام بدیوں سے چھٹکارا اس وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب تقویٰ کی راہوں کو اختیار کیا جائے اور نیکیاں اسی وقت کی جاسکتی ہیں جب تقویٰ انسان کے روحانی وجود کی زینت بنے.ہر حکم کے ساتھ تقویٰ ضروری ہے.کوئی حکم جو بُرائی سے روکنے والا ہو یا اچھائی پر ابھارنے والا ہو وہ انسان بجا نہیں لا سکتا جب تک وہ تقویٰ کی راہ کو اختیار نہ کرے.اسی واسطے جب انسان بظاہر نیکی کر رہا ہو اور بظاہر تقویٰ کا مظاہرہ کر رہا ہو اس وقت بھی اگر حقیقی تقویٰ نہیں ہے تو وہ نیکی نہیں رہتی مثلاً صدقہ ہے، صدقات دینا نیکی کا کام ہے (صدقہ کے مختلف معانی ہیں میں اس وقت ان معانی میں نہیں جاؤں گا) بظاہر یہ نیک کام ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تقویٰ نہیں، اگر صدقات بجالانے والا متقی نہیں ، اگر وہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتا اور تقویٰ کی شرائط کو پورا نہیں کرتا تو صدقات نیکی نہیں رہتے.لا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ بِالْمَن وَالأذى (البقرة : (۲۶۵) اگر صدقات بھی ہیں اور من اور اڈی بھی ہے تو پھر وہ نیکی نہیں رہیں گے اس لئے تقویٰ ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ ’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے“ اگر کسی نیکی کی جڑ اور اس کی اصل اور اس کی بنیاد تقویٰ نہیں تو وہ نیکی نہیں ہے.پس خدا تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں ہمیں سینکڑوں احکام دیئے ہیں کہ یہ نہ کرو یہ کرو حقیقی متقی وہ ہے جو ان تمام احکام کو تقویٰ کے اصول پر بجالا رہا ہو، نہ کرنے والے احکام کو بھی اور کرنے والے احکام کو بھی.جو شخص ایسا نہیں وہ کامل متقی نہیں اور اگر کوئی شخص دو ایک باتیں ایسی کرنے والا ہو جو بظاہر نیکی ہوں اور باقی نہیں تو وہ متقی نہیں کہلائے گا.....پس جو لوگ احکام الہی یا جو انسانی فطرت کے تقاضے ہیں.ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ان میں سے بعض کو پورا کریں اور بعض کو نہ کریں تو وہ حقیقی متقی نہیں.حقیقی متقی بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے تمام احکام کو تقویٰ کے اصول پر بجالا رہا ہو یا ہماری دنیوی زندگی میں جو ایک جد و جہد، ایک مجاہدہ جاری ہے اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تقویٰ کے میدانوں میں آگے بڑھنے
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۳۳ سورة الاعراف کی کوشش کر رہا ہو تو اس کو بھی ہم متقی کہیں گے کیونکہ اگر چہ وہ اپنی استعداد کے انتہائی معیار پر اور ارفع معیار پر ابھی نہیں پہنچا لیکن اپنی استعداد کے ارفع معیار تک پہنچنے کے لئے حتی الوسع پوری کوشش کر رہا ہے لیکن اگر ایک شخص مالی معاملات میں دیانتدار ہے لیکن اپنے ملکوں میں بھی جہاں تک عورت کی عزت کا سوال ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا تو اس کو ہم متقی نہیں کہیں گے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان یا تو اللہ کے فضل سے اپنی استعداد کی انتہا تک پہنچ جائے اور پھر اسے قائم رکھنے کی خدا تعالیٰ سے تو فیق پارہا ہو ایسا شخص حقیقی متقی ہے.یا متقی وہ بھی ہے جو اس غرض اور اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی کوشش میں لگا ہوا ہے، جو ٹھو کر کھاتا ہو اور پھر کھڑا ہوکر شیطان کی طرف نہ دوڑتا ہو بلکہ اپنے خدا کی طرف دوڑ رہا ہو.استغفار اور تو بہ کا یہی مفہوم ہے.انسان غلطی کرتا ہے.اس کے اندر بشری کمزوریاں پائی جاتی ہیں.پھر جتنا جتنا وہ تقویٰ کی رفعتوں میں بلند ہوتا چلا جاتا ہے بار یک بار یک چیزیں جو عوام کے لے گناہ نہیں ہوتیں اس شخص کے لئے گناہ بن جاتی ہیں.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جو عارف تر ہے.وہ ترساں تر ہے.سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اس کے دل میں پائی جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو عام استعداد کا مالک ہے اس پر کوئی الزام ہے.اسی واسطے میں نے کہا تھا کہ حقیقی متقی وہ ہے جو اپنی استعداد کے لحاظ سے یا تو اپنے کمال کو پہنچ چکا ہو یا اپنی استعداد کے لحاظ سے اپنے کمال کے حصول کے لئے کوشش کر رہا ہو.ان لوگوں کے متعلق جو ہر پہلو سے خدا کا خوف رکھتے ہیں اور ہر پہلو سے خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں اور یا تو اپنی استعداد کے کمال کو قریباً پہنچ چکے ہیں ( ہمارے علم اور تجربہ کے مطابق کمال بھی بڑھتا جاتا ہے ) اور یا اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور اس میں سستی نہیں دکھا رہے ان کے متعلق یہ ہے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ یہ جوحقیقی متقی ہیں ان کو نہ پچھلا کوئی غم رہتا ہے اور نہ آگے کی کوئی فکر رہتی ہے یعنی جو غلطیاں انسان سے ہو چکی ہوتی ہیں خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز کہتی ہے کہ میری ستاری نے انہیں ڈھانپ لیا.جس کو خدا تعالیٰ کی یہ آواز پہنچ رہی ہو کہ خدا کی ستاری نے اسے ڈھانپ لیا اسے تو پھر کوئی غم اور فکر باقی نہیں رہتا اور جسے یہ وعدہ دیا گیا ہو کہ ہم تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں آگے ہی آگے لے جائیں گے اس کو بھی کوئی فکر نہیں ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّالِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷) متقیوں میں سے ایک گروہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے اور پھر کوشش کرتا ہے کہ کمال سے نیچے نہ
۱۳۴ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث گرے.بعض لوگ کمال تک پہنچنے کے بعد بھی گر جاتے ہیں.ایسی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں قرآن کریم میں بھی ان کا ذکر ہے لیکن جو گروہ کمال کو پہنچا ہوا ہے اور کمال پر رہنے کی کوشش کر رہا ہے ان کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ.کام کرتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں یعنی ان کی ہر حرکت اور سکون اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق اور اس کی رضا کے سائے میں اور اس کی برکتوں کو حاصل کرنے والی بن جاتی ہے.ہر انسان کی یہ خواہش ہونی چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کی یہ خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس قسم کا پیار کا سلوک اس کے ساتھ ہو.ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متقی بننے کے لئے انتہائی کوشش کر رہا ہو اور شیطان کی آواز کو سننے والا نہ ہو.اسلام نے جو نیکیاں ہمیں بتائی ہیں وہ آگے پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں.ایک حقوق اللہ ہیں جن کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ایک حقوق العباد ہیں جن کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے.فَمَنِ اتَّقُی وَاصْلَحَ کہا گیا ہے.صالح کے معنی عربی لغت میں یہ بتائے گئے ہیں کہ القائم بالحقوق والواجبات جو بھی حقوق اور واجبات کسی انسان پر ہیں ان کو قائم کرنے والا یعنی وہ ان کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتا ہی نہیں کرتا اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری توجہ کے ساتھ اور پوری ہمت کے ساتھ پورا کرتا ہے.ان حقوق میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور ان حقوق میں بندوں کے حقوق بھی ہیں کہ بندوں کے ساتھ مروت سے پیش آؤ ، ان سے حسن سلوک کرو، ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.وغیرہ وغیرہ.( صلاح کے معنی فساد سے الٹ ہیں) فساد کو مٹانے کی کوشش کرو، فساد کی آگ کو اور زیادہ بھڑ کانے کی کوشش نہ کرو.یہ تقی کا کام ہے، یہ ایک احمدی کا کام ہے اور جس وقت وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کو جوصلہ ملتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت ہے، بہت بڑا صلہ ہے.اس کے مقابلے میں تو ہر دو جہان قربان کئے جاسکتے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۸۷ تا ۹۲)
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۳۵ سورة الاعراف آیت ۳۷ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ تیسری چیز جس کا ذکر قرآن کریم نے اس ضمن میں کیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے جو نشانات اور آیات اتارتا ہے ایک متکبر انسان ان کو قبول کرنے کی بجائے ، ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اور ان کے نتیجہ میں اپنے رب کا عرفان حاصل کرنے کی بجائے ، ان کی تکذیب شروع کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَبِكَ اَصْحُبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (الاعراف: ۳۷) یعنی وہ لوگ جو ہماری آیات کا انکار کرتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے ان سے اعراض کرتے ہیں وہ دوزخی ہیں.وہ دوزخ میں ایک لمبے عرصے تک پڑے رہیں گے.یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اس طرف پھیری ہے کہ ہم اپنی رحمت بے پایاں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کی خاطر اور تمہارے لئے اپنے قرب اور رضا کی راہیں کھولنے کے لئے آسمانی آیات، نشانات اور معجزات اُتارتے ہیں اور اتارتے رہیں گے.لیکن تم بھی عجیب ہو کہ جب ہم تم پر اپنے قرب کی راہ کھولنا چاہتے ہیں اور آسمان سے نشانات کو اُتارتے ہیں تو تم اپنے غرور، خود پسندی، ابا اور تکبر کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان راہوں کو اپنے پر مسدود کر لیتے ہو.غرض یہاں اللہ تعالیٰ نے استکبار کا ایک نہایت ہی بد نتیجہ یہ بتایا ہے کہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کے نشانات سے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا یا وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسمان سے ان نشانات کو نازل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ میرے غضب کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور انہیں ایسا درد ناک عذاب پہنچے گا کہ وہ سمجھیں گے کہ یہ عذاب تو ختم ہونے والا نہیں ابدالآباد تک کا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۵۵،۲۵۴)
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۳۶ سورة الاعراف آیت ۴۱ إِنَّ الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ کہ وہ لوگ جو ہمارے نشانات کا انکار کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے احکام سے منہ موڑتے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری تعلیم کی طرف پیٹھ کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے اوامر و نواہی کی پابندی سے گریز کرتے ہیں اور شریعت کا جوا بشاشت کے ساتھ اپنی گردنوں پر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اس لئے کہ اسْتَكْبَرُوا عَنْهَا ان کے دلوں میں تکبر پایا جاتا ہے.انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ کہ آسمان روحانی کے دروازے ان پر ہرگز نہیں کھولے جائیں گے بلکہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے جائیں گے اور وہ زمین کے کیڑے بن کر رہ جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی لعنت کا مورد بنیں گے اور شیطان میں ہو کر شیطان بن جائیں گے اور آسمان کی بلندیوں کی بجائے جو انسان کے لئے ہی پیدا کی گئی تھیں.اندھیروں کی اتھاہ گہرائیاں ان کے حصہ میں آئیں گی.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۳۹) آیت ۵۷٬۵۶ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۖ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ.میں نے سورۃ اعراف کی جو آیات ابھی پڑھی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پکارو.اُس سے دُعائیں کرو.گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی ، اجتماعی طور پر بھی دُعا ئیں کرو اور انفرادی طور پر بھی اور اُس سے یہ دُعا مانگو کہ اے اللہ تو ہمارا رب ہے.تُو نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری پیدائش کو احسن بنایا ہے تو نے ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق قوتیں عطا کیں اور ان قوتوں کی نشو ونما کے سامان پیدا کئے ہیں.گویا ہمارے قوای میں درجہ بدرجہ ترقیات عطا کر کے خدا تعالیٰ ہمیں بلندیوں اور کامیابیوں کی طرف لے جانے والا ہے.اسی غرض کے لئے اُس نے شریعت حقہ
۱۳۷ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کو قرآن کریم کی شکل میں نازل فرمایا.اس لئے اس سے دُعا کرو کہ وہ ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اُن حدود کے اندر رہ کر اور اُن حقوق کو ادا کر کے جو اُس نے مقرر کئے ہیں اپنی ربوبیت اور نشوو نما کے سامان پیدا کریں اور یہ دُعا گڑ گڑا کر بھی کرو اور خفیہ بھی، اجتماعی طور پر بھی کرو اور انفرادی طور پر بھی اور یہ یا درکھو کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اُس کے فضل کو جذب نہیں کیا جاتا، انسان حقوق کے دائرہ میں نہیں رہتا، وہ اُن کو پامال کرتا ہے.جو شخص حقوق کو پامال کرتا ہے اُس کے متعلق فرمایا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ اللہ تعالیٰ اعتداء کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.وہ ان سے پیار اور محبت نہیں کرتا.اعتداء کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل نہیں ہوتی اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے وَلا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا دین حق کے نزول کے بعد ، حقوق کی تعیین کے بعد، حقوق کی وضاحت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے بعد کہ حقوق کی ادائیگی کے لئے مادی اور غیر مادی سامان پیدا کئے گئے ہیں اور ان کی تقسیم ان اصول پر ہونی چاہیے جن کے نتیجہ میں اس دنیا میں اصلاح کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور فساد کے حالات مٹ جاتے ہیں، امن کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور خوف کے حالات دُور کر دیئے جاتے ہیں.ان حالات کے پیدا ہونے کے بعد لا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ کی رو سے اس زمین میں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک نیا روپ لے کر دنیا کے سامنے آئی ہے.اس میں فساد کے حالات پیدا نہ کرو.پھر تاکید فرمایا کہ وَادْعُوهُ کہ خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کر کے اس کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل کرو اور اس کی نصرت اور مدد پاؤ تا کہ تم خوفا اس خوف سے نجات پاؤ جو حق تلفی کے بعد پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے وطمعا اور اس رَجَاء اور امید کے ساتھ دُعا ئیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تمہیں حقوق کی ادائیگی کے دائرہ میں رکھ کر خدا تعالیٰ کے پیار کو پانے والا بنادے.فرمایا اگر تم محسن بنو.اگر تم ہمارے احکام کو تمام بیان کردہ شرائط کے ساتھ بجالاؤ تو یاد رکھو کہ تم خدا تعالیٰ کی رحمت کو اپنے قریب پاؤ گے.پس آج کا میرا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اعتداء کو پسند نہیں کرتا انسان اعتداء کے بعد (جس کے معنے میں ابھی بتاتا ہوں) خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی زندگی میں کامیاب ہو سکتا ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۳۸ سورة الاعراف عربی کے لفظ عدو ( ع.دو ) کے مختلف معانی ہیں اور قربیاً سارے معانی کا عکس اور اُن کی جھلک اعتداء میں آجاتی ہے.اعتدوا کے معنے ہیں حق سے تجاوز کرنا.گو لغت میں یہ لفظ تین طرح بیان ہوا ہے لیکن میں اس وقت صرف دو کولوں گا.حد سے تجاوز کرنے کے ایک معنے یہ ہوتے ہیں کہ حق تو نہیں ہوتا.مگر اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے.حق سے تجاوز کرنے کے ایک معنی یہ ہیں کہ دوسرے کا حق ہوتا ہے مگر اسے دینے سے انکار کیا جاتا ہے گویا اپنے لئے یا غیر کے لئے.اپنے دوست کے لئے یا اپنے عزیز کے لئے.اپنے ہم خیال کے لئے ، اپنے ہم عقیدہ کے لئے اُن حقوق کا مطالبہ کرنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں کیا یہ حق سے تجاوز کرنا ہے.دوسری طرف اُن حقوق کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات اور اُس کے عزیزوں کے لئے قائم کیا.جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمسایوں کے لئے قائم کیا.جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم عقیدہ لوگوں کے لئے قائم کیا.جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کے لئے قائم کیا گویا وہ حقوق جو خدا کے قائم کردہ ہیں، اُن کو ادا نہ کرنا اور ان کی ادائیگی میں روک بننا، یہ بھی حد سے تجاوز کرنا ہے اور اس وجہ سے جب دوسرے کی حق تلفی کے معنی میں یہ تجاوز ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ظلم اور دشمنی کے ساتھ اور بغض سے دوسرے کو ایذا پہنچانا.یعنی دشمنی اور بغض کی وجہ سے کسی کو دُکھ دینے کی خواہش رکھنا اور دُکھ پہنچانے کے لئے کوشش کرنا اعتداء ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص حق سے تجاوز کرے گا اور حق تلفی کرے گا اور دشمنی اور بغض کے نتیجہ میں دُکھ پہنچانے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ اُس سے پیار نہیں کرے گا اور یہ ایک زبردست اعلان ہے جو ان آیات میں کیا گیا ہے.ان آیات سے جو مطلب ہم اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کے ساتھ جب تک ہم اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کو مدد کے لئے نہ پکار میں اُس وقت تک ہم اُن حدود میں جو خدا تعالیٰ نے قائم کی ہیں، رہ نہیں سکتے یعنی اپنی حدود میں رہنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.آج کی اندھی دُنیا دعاؤں پر زور دینے کی بجائے اپنی عقل پر فخر کرتی ہے.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ کے قائم کردہ دائرہ حدود میں رہنے کے لئے تمہیں عقل کی ضرورت تھی اور وہ تمہیں ہم نے عطا کر دی.قرآن کریم نے فرمایا کہ حقوق کی ادائیگی کے لئے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کے حصول کے لئے اعمال تم بجالاتے ہو اس میں تم کامیاب تبھی ہو سکتے ہو، جب دعا ئیں کرو، ٹھیک ہے عقل بھی ایک عطا ء الہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے لیکن عقل اسی وقت صحیح کام کرسکتی ہے جب اُسے
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۳۹ سورة الاعراف خدا تعالیٰ کی ہدایت اور تعلیم اور وحی کی روشنی حاصل ہو.الہی نور کے بغیر عقل کو وہ روشنی نہیں ملتی جو عقل کو صحیح راستوں پر چلا سکے اور کامیابیوں تک عقل مندوں کو لے جاسکے.اس سے ایک تو ہمیں یہ پتہ لگا کہ اپنے حقوق لینے ہوں تو بھی دوسروں کے لئے سکھ پیدا کرنے ہوں گے اور دُکھوں سے بچانا ہو تو بھی دعاؤں کی ضرورت ہے نہ کہ کسی اور چیز کی کیونکہ جب تک عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور جب تک اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو انسان جذب نہیں کرتا، اُس وقت تک وہ حق کے دائرہ کے اندر نہیں رہ سکتا.نہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اس کی کوششیں جائز ہوں گی نہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس کے اندر ایک جذبہ اور جوش پیدا ہوگا.دوسری بات ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے حقوق کے دائرہ میں نہیں رہتا اور زیادتی کرتا ہے اور تجاوز کرتا ہے اور حق تلفی کرتا ہے اور دشمنی اور بغض سے دوسرے کو ایذا پہنچا تا ہے اور اپنے لئے وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کا حق نہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھو بیٹھتا ہے.اس ضمن میں ہمیں دُنیا میں دو قسم کے لوگ نظر آتے ہیں.ایک وہ جو عادتا دوسروں کو سکھ پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اپنی بدقسمتی سے دوسروں کو دُکھ پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کم و بیش دنیا کے ہر خطہ میں نظر آتی ہے.اس وقت دنیاوی لحاظ سے جو ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے جو ترقی کی ہے اُس کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو پہچانا کہ دوسروں کو سکھ پہنچانے کے نتیجہ میں اور اُن کے دُکھ دور کرنے کی وجہ سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۷۲۴ تا ۷۲۷) آیت ۹۰ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُمْ بَعْدَ إِذْ نَجنَا اللهُ مِنْهَا وَمَا يَكُونُ لَنَا اَنْ تَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبَّنَا وسعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَومِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ.میں نے بتایا تھا کہ دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نقص نظر آتا ہے کہ ان میں علم کامل نہیں ہوتا اور اسی وجہ
۱۴۰ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث سے وہ سہارے ناقص ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرماتا ہے.وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی چیز ظاہری یا باطنی لحاظ سے اور اس کے علم سے بالا نہیں بعض اس کا جو ظاہر ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور ان باطنی قوتوں اور استعدادوں کو بھی وہ جانتا ہے جو بے شمار ہیں اور ایسی ہیں کہ انسان کو ان کا علم ہی نہیں صرف چند گنتی کی باتیں ہیں کہ جن کا علم انسان نے اپنی کوشش کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ سے صفتیں حاصل کر کے حاصل کر لیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہر چیز اس کے علم کے اندر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے کسی ہستی پر توکل کرنا ہو تو تمہیں اس ہستی پر توکل کرنا چاہیے جو کامل علم کی مالک اور ہر علم کا سر چشمہ اور منبع ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات الْعَلِيمُ ہے وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ہر چیز اس کے علم کی وسعتوں کی چادروں میں لپٹی ہوئی ہے علی اللہ تو عملنا اس لئے ہم اسی پر توکل کرتے ہیں چونکہ ہم ناقص علم کے نتیجہ میں غلط سہارے ڈھونڈتے ہیں اس لئے سہارا حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں.بہت سے لوگ میرے پاس آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں شخص کے پاس ہماری سفارش کر دیں اس شخص کا آپ کے ساتھ تعلق ہے اور میں اس کے نام سے وقف بھی نہیں ہوتا پس ناقص علم کے نتیجہ میں سہارا لینے والا بھی غلط سہارا لے لیتا ہے اور سہارا دینے والا بھی غلط سہارا دے دیتا ہے حالانکہ سہارا حاصل کرنے کے لئے انسان کو ایسی ہستی کی ضرورت ہے جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو اور وہ ایسی ہستی ہو کہ اگر سہارا مانگنے والا اس سے غلط سہارا بھی مانگ لے تو وہ اسے صحیح سہارا دے دے یعنی گو بظاہر اس کی دعا رد ہو جائے لیکن حقیقت وہ قبول ہو رہی ہو اور جو سہارا وہ دے جو مد دوہ کرے یا جو احسان وہ کرنا چاہے وہ کامل علم کے منبع سے پھوٹ رہا ہو اور انسان کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا نہ ہو.جب ایسا سہارا انسان کو مل جائے تو پھر اس کے اور اس کے مخالفوں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام اور اسلام کے منکروں کے درمیان جو فیصلہ ہو گا وہ حق کے ساتھ ہوگا اس لئے یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَتحِينَ اے ہمارے رب ! تو علم کامل کا مالک ہے اس لئے ہم صرف تجھ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں اور تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اور ہماری انسانی برادری کے درمیان سچ کے مطابق فیصلہ کر دے چونکہ یہ زمانہ ایک عالمگیر اخوت اور برادری کا ہے اس لئے اس
۱۴۱ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث زمانہ کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے اور ہماری انسانی برادری کے درمیان سچ کے مطابق فیصلہ کر دے کیونکہ تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے تیرا ہی حکم جاری ہے اور تیرے فیصلے ہی خیر و برکت والے ہیں تو علم کامل کا مالک ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۸۶ تا ۳۸۷) آیت ۱۴۷ سَاَصْرِفُ عَنْ ايْتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۖ وَ اِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۖ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ 1999 یعنی میں جلد ہی ان لوگوں کو جنہوں نے بغیر کسی حق کے دنیا میں تکبر کیا ہے اپنے نشانوں کی شناخت سے محروم کر کے اور اپنے نشانوں سے جو فائدہ انہیں پہنچ سکتا ہے اس فائدہ سے محروم کر کے انہیں اپنے سے دور کر دوں گا اور اگر وہ ہر ممکن نشان بھی دیکھ لیں تو وہ ان آیات پر ایمان نہیں لائیں گے.اگر وہ سیدھا راستہ دیکھ بھی لیں تو اسے کبھی اپنا ئیں گے نہیں اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے وہ اپنا لیں گے یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کی (بوجہ تکبر کے ) تکذیب کی اور وہ ان سے غفلت برت رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ تکبر کے نتیجہ میں جولوگ میری آیات کو جھٹلاتے ہیں، میں دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دیتا ہوں.تکبر ہمیشہ بغیر حق کے ہوتا ہے سوائے بعض شاذ اور استثنائی مظاہروں کے جو گو تکبر نہیں ہوتے لیکن تکبر سے ملتے جلتے ہیں.جیسا کہ جب مسلمان پہلی بارحج کے لئے مکہ گئے تو اس وقت باوجود جسمانی کمزوری کے وہ طواف کے دوران بڑے اکڑ اکڑ کر چلتے تھے تا مکہ والے یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان مدینہ جا کر کمزور ہو گئے ہیں.ان کی صحتیں خراب ہو گئی ہیں اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل سے جو صحت اور جسمانی مضبوطی کی صورت میں ان پر تھا محروم ہو گئے ہیں اگر صحابہ کے اس مظاہرہ کو تکبر کا نام دیا جائے تو اسے بغیر حق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا ایسا کرنا محض خدا تعالیٰ کے لئے تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تکبر جو
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۴۲ سورة الاعراف عام طور پر اپنے نفس کی بڑائی کے لئے ہوتا ہے میری کبریائی کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا وہ حق کے بغیر ہی ہوتا ہے اور جو لوگ تکبر کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اپنے آپ کو کچھ جاننے کی وجہ سے، اپنے آپ کو بڑی عظمت والا، بڑے جبروت والا، بڑی طاقت والا، بڑے مال والا، بڑی وجاہت والا اور بڑے علم والا سمجھنے کی وجہ سے میری آیات کو جھٹلا دیتے ہیں اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ( البقرہ : ۸) ان کے اندر ان بد عملیوں کی وجہ سے ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو جائے گی کہ وہ حق کے قبول کرنے سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیئے جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب بھی رشد و ہدایت اور کامیابی کا کوئی راستہ ان کے سامنے آئے گا وہ اس راستہ پر نہیں چلیں گے یعنی میری آیات کے جھٹلانے کی وجہ سے جو تکبر کے نتیجہ میں ہوگا اللہ تعالیٰ دین میں بھی اور دنیا میں بھی کامیابی کی راہیں ان پر مسدود کر دے گا.متکبر انسان کچھ عرصہ کے لئے تو شاید اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھے اور بڑا کامیاب سمجھے لیکن آخر کا راسی دنیا میں انہیں اللہ تعالیٰ ناکام اور نامراد کرتا ہے وہ کامیابی کا منہ بھی نہیں دیکھتے اور عاقبت ہمیشہ متقی لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے.آخری کامیابی صرف مومنوں کو ہی نصیب ہوتی ہے آخری فتح صرف ان لوگوں کو ہی ملتی ہے جو نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی چوکھٹ پر پڑے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان متکبران کو کامیابی کی راہیں کبھی نہیں ملیں گی اور وہ راستے جو ان کیلئے مصیبت بن جائیں گے ان کو وہ خوشی سے قبول کرلیں گے اور نہیں جانیں گے کہ ان کا انجام کیا ہے اور جب وہ اس راستہ پر چل کر اپنے زعم میں خوشی خوشی منزل پر پہنچیں گے تو اس منزل کو نارِ جہنم پائیں گے اور یہ اس لئے ہوگا کہ انہوں نے تکبر کیا ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت برتی.یہ ایک نہایت ہی بھیانک سزا ہے جو ان لوگوں کیلئے تجویز کی گئی ہے جو تکبر سے کام لیتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.الہی سلسلہ میں نشانات اور آیات کا ایک دریا بہہ رہا ہوتا ہے اور جماعت مومنین کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آیات اور نشانات کو دیکھے، ان کو سمجھے اور جس غرض کے لئے وہ نشانات ظاہر کئے گئے ہیں
۱۴۳ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اس کو وہ پورا کرے.اسی طرح جو فائدہ ممکن طور پر وہ اس سے اٹھا سکتی ہو اس سے اٹھائے اور یہ صرف کافروں کے لئے ہی نہیں، مومنوں کے لئے بھی فرض ہے کہ وہ تکبر کی باریک سے باریک راہوں سے اجتناب کرتے ہوئے آسمانی نشانات اور آیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہوں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۵۵ تا ۲۵۷) آیت ۱۵۷ وَاكْتُبُ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هدنا إليكَ قَالَ عَذَابِى أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۚ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَ الَّذِينَ هُمُ بِأَيْتِنَا يُؤْمِنُونَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ کہ میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.نیز ہر چیز جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی اور جس کا اس کی ربوبیت نے اور اس کی رحمت نے احاطہ کیا ہوا ہے وہ انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اور انسان کامل کو پیدا کرنا مقصود تھا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو.چونکہ ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمن:٢١) که ظاہر و باطن کی نعمتیں بڑی کثرت کے ساتھ انسان پر نازل ہوتی ہیں اور وہ گنی نہیں جاسکتیں.دوسری جگہ آیا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے.اس رحمت کو ظاہر کرنے کے لئے اور ایسے سامان پیدا کرنے کے لئے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ان وسیع رحمتوں کا عرفان حاصل کرے ایک ایسی ہستی ایک ایسا انسان پیدا کیا گیا جس کو کامل استعداد یں دی گئیں جو پورے طور پر نشوونما حاصل کر چکی تھیں.وہ انسان کی طرف بھیجا گیا تا کہ انسان کو بتایا جائے کہ جب خدا کا کوئی بندہ خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ سلوک یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز جو خدا نے پیدا کی ہے وہ اسی کی ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی اتنی رحمتیں اور اتنے فضل اور انعام اس بندے پر نازل ہوتے ہیں کہ جن کا حد و شمار نہیں.اسی غرض کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور کہا گیا کہ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء :۱۰۸) ہم نے تجھے عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.یہ فقرہ تو بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے معانی نے دنیا کی ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام پہچاننے کے لئے اور آپ کی عظمت اور آپ کے جلال کو جاننے کے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۴۴ سورة الاعراف لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات حاضر ہو کہ آپ کس معنی میں اور کن کے لئے رحمت ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں جو تعلیم آپ کے ذریعہ انسان کو دی جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں وہ عجیب کتاب نظر آتی ہے جسے ہم قرآنِ عظیم کہتے ہیں یا ہم قرآن کریم کہتے ہیں یا ہم قرآن مجید کہتے ہیں.ہر بات جس کی انسان کو ضرورت تھی ، جس کے نتیجہ میں انسان نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا علم حاصل کرنا تھا اور ان سے حصہ لینا تھا، وہ راہیں جن پر چل کر انسان نے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا تھا وہ سب اس عظیم کتاب میں بیان ہو گئی ہیں.قرآن کریم نے جو یہ کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ بنا کر بھیجا گیا ہے.مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ یہ کس معنی میں ہے کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمتوں اور اس کی عظیم صفات کا اس کی کبریائی اور جلال اور عظمت کا عرفان دیا جائے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں یہ علم ہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کس معنی میں رحمت ہو کر آئے.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس کی دو صفات کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، ایک اس کی رحمانیت ہے اور دوسرے اس کی رحیمیت ہے.خدا رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے.اس کی رحمان ہونے کی صفت کا ربوبیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.دنیا کی ہر چیز جس کو پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پرورش کرتا ہے اور ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ وہ انسان کے لئے فائدہ مند بن جائے کیونکہ ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم اور آپ کا وجود بے جان چیزوں کے لئے بھی رحمت ہے.ایک تو جاندار چیزیں ہیں جن میں چوپائے بھی ہیں، پرندے بھی ہیں ، چرند بھی ہیں اور انسان بھی ہیں اور ایک بے جان چیزیں ہیں مثلاً ستارے ہیں، لیلیکسیز (Galaxies) ہیں، درخت ہیں، پانی ہے، اجناس ہیں وغیرہ وغیرہ بے شمار چیزیں ہیں.قرآن کریم کی تعلیم نے بے جان چیزوں کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی اس ہدایت کے ذریعہ سے ان حقوق کی حفاظت بھی کی گئی ہے.پس آپ کی رحمت بھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی وسعتوں کے ماتحت ہے.انسان خدا تعالیٰ کی وسعتوں کو تو نہیں پہنچ سکتا لیکن اپنے کمال کو پہنچا ہوا انسان جتنا کامل بن سکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کمال کو حاصل کیا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت نے ہر چیز کا حق بتایا بھی اور اس کی حفاظت بھی کی.
۱۴۵ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث بنیادی طور پر قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کا یہ حق ہے کہ جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال نہ کیا جائے.ہر مخلوق کا یہ حق اسلام نے قائم کیا ہے اور اسلامی تعلیم نے اس کی حفاظت کی ہے.مثلاً فرما یالا تسرفوا (الاعراف:۳۲) اسراف نہ کرو.اسراف کے معنی ہی خدا تعالیٰ کے قانون کی حدود سے تجاوز کرنا ہیں.پس اس کے یہی معنی بنتے ہیں کہ ہر چیز کے متعلق خدا تعالیٰ نے کچھ قانون بنائے ہیں ان کی پیدائش کی کوئی غرض بیان کی ہے.اس کے خلاف تم نے اس کو استعمال نہیں کرنا.انسان جب بہکتا ہے اور بسا اوقات بہکتا اس وقت زیادہ ہے جب وہ علم کے میدان میں اور تحقیق کے میدان میں کافی آگے نکل چکا ہو تو وہ دنیا کے لئے عذاب اور ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ ایٹم کی طاقت کا غلط استعمال ہمیں بتا رہا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشیاء کے لئے بھی رحمت ہیں کیونکہ آپ ایک ایسی تعلیم لے کر آئے جس نے انسان کو یہ بتایا کہ دیکھو اشیاء خاص غرض کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان اغراض کے لئے ہی ان کا استعمال ہونا چاہیے اور جو قوانین ان کو گورن (Govern) کرنے والے ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے.اس کے بعد ہم جانداروں کو لیتے ہیں.یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس نے جانداروں کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی ہے.بعض جاندار ایسے ہیں کہ جن کی افادیت ان کی غذائیت میں نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ انسان ان کو کھائے.مثلاً سور ہے یا درندے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ، اسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے ہمیں کہا کہ ایسے جاندار جن کی افادیت ان کے کھانے میں نہیں بلکہ اور چیزوں میں ہے تو جس غرض کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اس غرض کے لئے ان کو استعمال کرو.یہ بڑا لمبا مضمون ہے سانپوں کے متعلق مکھیوں کے متعلق اسی طرح دیگر چیزوں کے متعلق بہت گفتگو کی جاسکتی ہے تھوڑی بہت میں بھی کر سکتا ہوں لیکن اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا.اسلامی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے قانون کو توڑنا نہیں، حدود سے تجاوز نہیں کرنا، اسراف نہیں کرنا.اسی طرح جو چیزیں انسان کے کھانے کے لئے بنائیں ان کے متعلق بھی کہا کہ اسراف نہیں کرنا.کھانے کے لحاظ سے اسراف کئی طور پر ہو سکتا ہے، جسم کی ضرورت سے زیادہ کھانا بھی اسراف ہے.جسم کی ضرورت سے کم کھانا بھی منع ہے لیکن زیادہ کھانا اسراف اور
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۴۶ سورة الاعراف ضیاع ہے.اور ایک اسراف اس طور پر ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اغذیہ یعنی غذاؤں میں سے بعض کو اپنی غفلت اور نالائقی کی وجہ سے اور بے پرواہی کی وجہ سے ضائع کر دے اور تلف کر دے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی پلیٹ میں اتنا ہی سالن ڈالا کرو کہ ایک لقمے کا سالن بھی ضائع نہ ہو.کھانے والی چیزوں میں میں نے جو سالن کی مثال لی ہے یہ غیر جاندار چیزوں پر بھی اطلاق پاتی ہے لیکن گائے کا گوشت ہے، اونٹ کا گوشت ہے، دُنبے کا گوشت ہے ان کا بھی سالن پکتا ہے.پھر کہا کہ جنگلوں میں جو آزاد جانور رہتے ہیں تم محض شوقیہ ان کا شکار نہ کیا کرو کہ تمہیں ضرورت تو نہیں ، شکار کرو اور پھر پھینک دو اس سے منع کیا.کہا کہ جتنے کی ضرورت ہے اتنا شکار کرو کیونکہ وہ پیدا ہی انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کئے گئے ہیں.پھر جو پالے ہوئے جانور ہیں مرغیاں اور دوسری چیزیں ہیں ان کو دکھ دینے سے آپ نے بڑی سختی سے منع کیا.ہر جاندار کے متعلق کہا کہ ان کی تکلیف کو دور کرنا ہے، جانداروں کے متعلق ، غیر انسان کے متعلق یہ تعلیم دی.کتے اور بلی تک کے متعلق کہ دیا کہ ان کا خیال رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے.گھر کے پالتو جانوروں کے متعلق کہا کہ ذبح کرتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھو کہ ان کو تکلیف نہ ہو کم سے کم تکلیف میں ان کی جان نکلے کیونکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ انسان ان کو کھائے اسی لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے لیکن ان کو تکلیف پہنچا کر تو انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.غرض اس معنی میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ ہیں.پھر انسان ہے، بنی نوع انسان ان میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا تعلق کا فر سے بھی ہے اور اس کے جلوے کا فردیکھتا ہے اور اس کی رحمانیت کا تعلق مومن سے بھی ہے اور اس کے جلوے مومن دیکھتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کی حیثیت سے رحمانیت کے بھی مظہر کامل ہیں.چنانچہ اسلامی تعلیم ایک غیر مومن کے جو ابھی اسلام نہیں لا یا حقوق کو قائم بھی کرتی ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتی ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ اس وقت کی مہذب دنیا کا مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدو جہد تو کر رہا ہے لیکن اسے اپنے حقوق کا علم نہیں نہیں جانتا میرا حق ہے کیا؟ یہ قرآنی ہدایت کا مجم صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ آپ نے انسان کو بتایا کہ تیرا حق کیا ہے اور پھر تعلیم دی کہ یہ حقوق بہر حال ادا ہونے چاہئیں لیکن انسان صرف مزدور کی
۱۴۷ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث حیثیت میں تو اس دنیا میں زندگی نہیں گزارتا.یہ ایک ایسا جاندار ہے جو گہرے جذبات رکھتا ہے.چنانچہ انسان مومن ہو یا کافر اس کے جذبات کا خیال رکھا اور ان میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی.بعض دوسرے مذاہب نے بعض باتوں میں تفریق کی ہے لیکن اسلام نے انسان انسان میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی.جہاں تک انسانی جذبات کا تعلق ہے مومن اور کا فر میں فرق نہیں.انسانی جذبات برابر ہیں ہرانسان یہ چاہتا ہے کہ اسے خواہ مخواہ طعن و تشنیع نہ کی جائے.ہرانسان یہ چاہتا ہے کہ بلاوجہ اس کے فضول القاب نہ رکھے جائیں ، بُرے نام نہ رکھے جائیں.خدا تعالیٰ نے یہ قید لگائے بغیر کہ وہ مسلمان ہے یا کافر یہ کہا کہ انسان کے بڑے بڑے نام نہیں رکھنے.بُرے نام رکھنے سے اور طعن و تشنیع کرنے سے منع کیا.خواہ کوئی مومن کے نام رکھے تب بھی بڑا اور اسلامی تعلیم کے خلاف اور کافر کے نام رکھے تب بھی بڑا اور بیسیوں مثالیں ہیں.لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُم اور لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات :۱۲) کے علاوہ فرمایا وَ اجْتَنِبُوا قَولَ النُّورِ (الحج: ۳۱) کہ جھوٹ نہیں بولنا.یہ نہیں کہا کہ مسلمان کے خلاف جھوٹ نہیں بولنا بلکہ اسلام نے کہا کہ کسی کے خلاف بھی جھوٹ نہیں بولنا اور ہر ایک کے حق میں اور ہر ایک کے متعلق سچی بات کہنی ہے، جھوٹ ہرگز نہیں بولنا.پھر اسلام نے کہا کہ وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مبينا (النساء:۱۱۳) کسی انسان پر بہتان نہیں باندھنا.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ کسی مسلمان پر بہتان نہیں باندھنا بلکہ کہا کہ کسی انسان پر بہتان نہیں باندھنا.انسان کے حقوق کی حفاظت کی کہ اس نے جو قصور نہیں کئے خواہ مخواہ اس پر بہتان لگا کر یہ نہ کہا جائے کہ اس نے یہ قصور کیا ہے یا گناہ کیا ہے.پھر اسلام کہتا ہے کہ انصاف پر قائم رہتے ہوئے سچی گواہی دینی ہے.كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ (النساء:۱۳۶) اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کے حق میں سچی گواہی دینی ہے اور کافر کے خلاف بے شک جھوٹی گواہی دے دو.اسلام کی یہ تعلیم نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہ رَحْمَةٌ لِلعالمین ہیں مومن اور کافرسب کے حقوق کی حفاظت کی ہے.پھر اسلام کہتا ہے کہ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اقْرَبُ لِلتَّقْوى (المائدة: 9) اسلام کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ عدل اور انصاف کو قائم رکھنا ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی غیر مومن ہے اور غیر مسلم ہے تو اس پر ظلم کرنا جائز ہے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ جتنا ایک مسلمان پر ظلم کرنا بڑا ہے اتنا ہی غیر مسلم پر ظلم کرنا برا ہے اور خدا تعالیٰ کو
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۴۸ سورة الاعراف ناپسندیدہ ہے اور گناہ ہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی بات ہے.بعض مذاہب کی طرح اسلام یہ نہیں کہتا کہ مومن یا مسلمان سے سود نہ لے، اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی سے بھی سود نہ لے خواہ وہ عیسائی ہو یا یہودی ہو یا ہندو ہو یا سکھ ہو یا کوئی بد مذہب ہو، کمیونسٹ ہو.شود کسی سے بھی نہیں لینا.میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا میں ہر چیز کی چھوٹی چھوٹی مثالیں دے رہا ہوں.جس وقت بعض قو میں کسی علاقہ پر غالب آجاتی ہیں تو وہ یہ بھی کیا کرتی ہیں کہ سود کے ذریعہ سے استحصال دولت کرتی ہیں تو اسلام نے یہ نہیں کہا کہ سُود کے ذریعہ سے دولت سمیٹنے کے لئے غیروں کو نشانہ نہ بناؤ بلکہ یہ کہا کہ کسی سے بھی سود نہیں لینا.پھر اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کو گالی نہیں دینی بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ غیر مسلم کو بھی جو اسلام پر ایمان نہیں لا یا اس کو بھی گالی نہیں دینی ، ان کے خداؤں کو بھی گالی نہیں دینی.شرک ہے یہ اتنا بڑا ظلم ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ ان کے بتوں کو بھی گالی نہیں دینی.پس اسلام نے انسان کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور انسان کے حقوق کی حفاظت بھی کی ہے.میں نے چند مثالیں دی ہیں ورنہ سارا قرآن کریم اس سے بھرا ہوا ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۸۵ تا ۱۹۱) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيْءٍ میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اس کی وسعت سے کوئی چیز باہر نہیں.پس انسان کے ساتھ مخلوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کا جو تعلق ہے وہ رحمت کی بنیاد پر ہے.اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں جن کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے ان میں سے بعض صفات ایسی بھی ہیں جن کا ناراضگی کے ساتھ تعلق ہے لیکن وہ بھی رحمت ہی کا حصہ ہیں کیونکہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی بہتوں کے لئے اصلاح کا نتیجہ پیدا کرتی ہے اور بہتوں کیلئے جو باقی رہ جاتے ہیں جن کے لئے اس دنیا میں نہیں کرتی ان کے لئے اُس دنیا میں اصلاح کا نتیجہ پیدا کرتی ہے اس واسطے وہ رحمت ہی کا ایک حصہ ہے.جس طرح بھیڑیں چرانے والا اس بھیڑ کو جو اِدھر اُدھر ہو جاتی ہے ڈانٹ کی آواز نکال کر یا اپنی سوٹی دکھا کر اس راستے پر لے آتا ہے جس پر وہ اپنے گلے کو چرانا چاہتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے کامل مظہر تھے.ہر نبی اور مامور اور وہ نیک بندے جن سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے وہ اس کی رحمت کے جلوے ہی ظاہر کرنے والے ہوتے
۱۴۹ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ہیں لیکن رحمت رحمت میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک رحمت وہ ہے جو صرف یہود کے قبائل کے لئے تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہوئی.ایک رحمت وہ ہے جو دوسرے انبیاء کی شکل میں ظاہر ہوئی یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک محدود جلوہ انہوں نے جذب کیا اور وہ افریقہ میں بسنے والے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنے اور انہوں نے ان کی خدمت کی اور ان کی خیر خواہی میں اپنی زندگی کو خرچ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جو اس علاقے کی خیر خواہی کے لئے تیار کی گئی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةٌ لِلعلمین ہیں.کسی ایک علاقے یا کسی ایک زمانے سے آپ کا تعلق نہیں.آپ کامل مظہر ہیں اس خدا کے جس کی رحمت کے احاطہ سے کوئی چیز باہر نہیں.......ہر دو جہان کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہیں.محض انسان کے لئے نہیں بلکہ ہر دو جہان کے لئے آپ کا وجود رحمت ہے اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اور آپ کے سارے ارشادات کی ، جو کہ قرآن کریم کی تفسیر ہیں ، ہم اتباع کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ کی محبت کو پانے کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے کے لئے ، اس کے قرب کے حصول کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ بنایا گیا ہے آپ کو بطور اُسوہ کے قائم کیا گیا ہے لیکن دنیا کی اکثریت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت سے ناواقف ہے اور ہمارے ایمان کے مطابق آج جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ یہ جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چل کر، اس رحمت کا دنیا کے سامنے مظاہرہ کر کے، اس رحمت کو دنیا کے سامنے بیان کر کے، اس رحمت کے مطابق عمل کر کے دنیا کو اسلام کی طرف لے کر آئے ، یہ بڑی ذمہ داری ہے.کوئی بات بھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی معمولی اور غیر اہم نہیں مثلاً یہ عقیدہ جو کہ میں نے شروع میں بیان کیا تھا کہ ایک وقت میں جہنم بھی خالی ہو جائے گی یہ محض ایک فلسفیانہ عقیدہ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے خدا تعالیٰ کی منشا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لے کر آئے اس کی عظمت ظاہر ہوتی ہے.وہ اور ہوں گے مذاہب ! جنہوں نے اس حقیقت کو نہیں پہچا نا لیکن ایک مسلمان جو قرآن کریم پر غور کرنے والا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اُسوہ کو اپنی نظر کے سامنے رکھنے والا ہے وہ یہ جانتا
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۵۰ سورة الاعراف ہے کہ یہ صداقتیں بڑے گہرے اثر رکھنے والی ہیں اور ان کے بغیر ہم دنیا کو اس پاک اور مقدس نبی ، اس رَحْمَةٌ لِلعلمین کے جھنڈے تلے جمع نہیں کر سکتے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۴۵ تا ۴۸) جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے.فَلا يَخَافُ بَخْسًا وَ لَا رَهَقًا اس کو نہ بخس کا کوئی خوف رہتا ہے اور نہ رھق کا کوئی خوف رہتا ہے.بخس کے معنے ہیں ظلم کر کے کسی کو نقصان پہنچانا مگر جو شخص مومن ہوتا ہے اس کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور جس طرح دوسرے مذاہب کا عقیدہ ہے کہ ایک دفعہ جنت میں لے جائے جانے کے بعد پھر جنت سے نکال دیا جائے گا.شریعت محمدیہ پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں وہ جنت نہیں ملتی جس سے انسان نکالا جاتا اور دھتکار دیا جاتا ہے اور اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ پھر از سر نو کوشش کرو اگر تم مستحق ٹھہرے تو تمہیں جنت مل جائے گی.پس اگر عارضی جنت کا عقیدہ درست ہو تو پھر یہ بخشا ہے.انسانی فطرت یہ کہتی ہے کہ اُس پر ظلم ہو گیا کیونکہ انسان کی طاقتیں محدود تھیں اور اُسے محدود زمانہ دیا گیا اگرتو غیر محدود زمانہ دیا جاتا تو پھر غیر محدود عمل ممکن ہوتے اور غیر محدود جنت ہو جاتی اور آپس میں CLASH ( کلیش ) ہوجاتا کیونکہ دوغیر محدود تھے.انہوں نے ایک دوسرے سے سر ٹکرا دینے تھے.جو عقلاً درست نہیں ہے مضمون دقیق ہے مگر جو سمجھنے والے ہیں وہ سمجھ جائیں گے دو غیر محدود ایک دوسرے کا نتیجہ نہیں ہو سکتے کیونکہ نتیجہ انتہاء ہوتا ہے.غیر محدود ابتلاء اور امتحان کا زمانہ اور غیر محدود جزاء اور جنت.یہ بات عقل میں نہیں آتی.پس اگر غیر محدود جنتیں ہیں جن کی انتہاء کوئی نہیں تو عمل محدود ہی ہونے تھے اور جنت غیر محدود ہو گی ، رحمت الہی غیر محدود ہوگی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ.خدا تعالیٰ کی رحمت کے مقابلے میں زمانہ کیا چیز ہے.یہ تو اس کی ایک پیداوار ہے لیکن اس کی رحمت کی موجیں تو اس کی ہر پیداوار کے اوپر سے گذر رہی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز اور ہر مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے.لیکن ہماری فطرت اور ہماری شریعت ہر دو ہمیں یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے اوپر حاوی ہے.اس واسطے کہ اگر ہماری فطرت یہ نہ کہتی تو محدود عمل کی غیر محدود جزاء کی توقع اور امید ہم کیسے رکھتے.خدا تعالیٰ نے ہماری فطرت کے اندر یہ ڈالا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے تمہیں تھوڑی عمر دی گئی
۱۵۱ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہے، تمہیں تھوڑے وسائل دیئے گئے ہیں لیکن تمہیں ایک بشارت دے دیتے ہیں کہ اگر تم اپنی اس تھوڑی زندگی میں ، اس چھوٹی زندگی میں، خلوص نیت کے ساتھ اور کامل توحید پر قائم ہوکر اور شرک کے ہر پہلو سے بچتے ہوئے محدود عمل کرو گے تو تمہیں غیر محدود جزا مل جائے گی.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں بھی یہی رکھا ہے اور شریعت سے بھی یہی کہلوایا ہے.پس یہ اسلامی شریعت ایسی شریعت ہے کہ جو آدمی اس پر ایمان لاتا ہے اُسے یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ اس پر ظلم ہوگا اور وہ گھاٹے اور نقصان میں رہے گا.قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم نے ظلم کے متعلق تو یہ اعلان کر دیا: - وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (ق:۳۰) اور اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا.تو اس سے انسان کی تسلی ہوگئی.فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصُّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كَفَرَانَ لِسَعيهِ وَإِنَّا لَهُ كُتُبُونَ (الانبياء : ٤) کہ جو ایمان لائے گا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور عمل صالح بجالائے گا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تو " فَلَا كُفْرَانَ لِسَعيِهِ “ اس کی کوشش اور اس کے عمل بوجہ انسان ہونے کے اگر ناقص رہ جائیں گے تب بھی رد نہیں کئے جائیں گے.فلا کُفَرانَ لِسَعیہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری سعی قابل قبول ہوگی رو نہیں کی جائے گی بلکہ فرمایا کہ جو شخص اعمال صالحہ بجالائے گا اور وہ مومن ہوگا اور ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرے گا تو فَلَا كُفْرَانَ لِسَعیہ اس کو ہم یہ تسلی دیتے ہیں کہ بشری کمزوری کے نتیجہ میں اگر اس کے اعمال میں کوئی کمی اور نقص رہ جائے گا تب بھی اس کے اعمال رڈ نہیں کئے جائیں گے.وہ قبول کر لئے جائیں گے.اب یہ کتنا بڑا وعدہ ہے جو فَلا يَخَافُ بَخْصًا میں انسان کو دیا گیا ہے.پھر فرمایا:- وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى ( الكهف : ٨٩) یعنی جو ایمان لایا اور مناسب حال اعمال بجالا یا اُسے بہترین جزا دی جائے گی.کسی جگہ فرمایا عشر امثالها دس گناہ زیادہ دی جائے گی.اس طرح پھر ظلم کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہتا.رحمت ہی رحمت
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۵۲ سورة الاعراف ہے.زیادہ سے زیادہ ہی ہے.انسان کا تھوڑا سا عمل ہوتا ہے اور اُسے بہت بڑی جزا مل جاتی ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۴۹۷ تا ۴۹۸) آیت ۱۵۸ ۱۵۹ الَّذِینَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّى الَّذِي ن يَجِدُونَة مَكْتُوبًا عِنْدَهُم فِي التَّوَريةِ وَ الْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِم به b الخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَذَرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي انْزِلَ مَعَةً أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ، قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا بِالَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَأُمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِي الأمّي الَّذِى يُؤْمِنُ بِاللهِ وَ كَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الرسول ہیں، النبی ہیں ، الأقمی ہیں.یہ بنیادی عقیدہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمارا.الرسول ہیں اس معنی میں کہ جو وحی آپ پر نازل ہوئی آپ نے کامل طور پر اس کی تبلیغ کی اور آگے پہنچایا.الرسول ہیں، کامل رسول ہیں یعنی جو وحی نازل ہوئی اس کو آگے پہنچانے کے لئے دو رستے ہیں ممکن ، اصولی طور پر.ایک اقوال سے.قرآن کریم کی تفسیر کر کے، زبان سے نصیحت کرتے ہوئے ، لوگوں کو یاد دہانی کروا کے اس کو بھی کمال تک پہنچایا.اور ایک فعل سے اس پر عمل کر کے بتایا.تو جہاں تک قول اور فعل کا تعلق ہے الرسول ہیں.کوئی ایسا رسول پہلے نہیں گزرا جس پر اس قدر عظیم ذمہ داری تھی اور اس نے اپنی عظمتوں کے نتیجہ میں جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کیں خدا تعالیٰ کے کلام کی عظمتوں کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب ہوئے ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معنی میں الرسول مانتے ہیں.ہم مانتے ہیں کہ آپ اللہ ہیں.اللہی اس معنی میں ( نبی کہتے ہیں اس مطہر کو جو خدا تعالیٰ کی نگاہ
۱۵۳ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث میں مطہر ہو اور خدا تعالیٰ بندوں کی اصلاح کے لئے اپنی وحی اس پر نازل کر رہا ہو.تو لیٹی ہیں یعنی کامل وحی کے حامل نبی.اور جو نتبا جو اخبار، جو وحی آپ پر اُتری وہ اپنے کمال میں انتہا تک پہنچی ہوئی ہے.اس واسطے آپ نبی نہیں آپ اللہتی ہیں.اور بڑا پیارا یہ اعلان ہے کہ آپ الاقی ہیں.قرآن کریم نے کہا.فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ - توافقی کے معنی وہ ہیں جسے اپنے نفس میں خالی ، کچھ نہیں آتا.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کانفس اپنی ذات میں بالکل خالی ہے.یہ اعلان ہوا ہے اس واسطے جو کہا وہ خدا تعالیٰ کے کہنے پہ کہا.جو معلم حقیقی ہے اس کے بلائے پر آپ بولے ورنہ خاموشی ہے چونکہ خدا تعالیٰ کے بلائے پہ بولے،اس واسطے جو وحی آپ پر نازل ہوئی النبی کے، اس کے خلاف کوئی بات آپ کے منہ سے نکل ہی نہیں سکتی.یہ اعلان ہوا ہے الدقي میں کہ جو عظیم وحی اس اللہی کو ملی ، یہ ممکن ہی نہیں تھا (اس کی تفصیل میں اور آگے دوسری آیات سے لے کے آپ کو بتاؤں گا یہ ممکن ہی نہیں تھا ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہ آپ کوئی ایسی بات کرتے یا آپ کا کوئی ایسا عمل ہوتا جو اس کے خلاف ہوتا.کیونکہ جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے.آپ محض ان پڑھ ہیں یعنی اپنی طرف سے آپ کچھ بیان کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ، قابل ہی نہیں.اپنی طرف سے کچھ بیان کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کی حامل وحی کو بیان کرنے کی اہلیت آپ رکھتے ہیں.جہاں تک اپنے نفس کا تعلق ہے آپ گونگے ہیں کہ لو لیکن جہاں تک خدا تعالیٰ کی وحی کا تعلق ہے آپ جیسا خطیب کوئی نہیں.آپ جیسا شعلہ بیان کوئی نہیں.آپ جیسا تفصیل سے بات کرنے والا کوئی نہیں.آپ جیسا مختلف پہلوؤں کو خدا تعالیٰ کی وحی کے اجاگر کرنے والا کوئی نہیں.آپ جیسا ہر شخص کی قابلیت کے مطابق بات کرنے والا کوئی نہیں.اسی واسطے آپ نے کہا کہ ہر ایک کی سمجھ کے مطابق بات کیا کرو.تو الا دقیق میں یہ اعلان کیا کہ یہ کوئی خطرہ نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ملاوٹ اللہي کے بیان میں ہو جائے گی یعنی اس طرف سے پاک ہے.ایک تو انا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر: ١٠) وہ دوسری طرف سے اس کو پروٹیکٹ (Protect) کیا ہے جہاں تک آپ کی ذات اور خدا تعالیٰ کے کلام کا باہر کا حصہ تھا.اندرونی طور پر آتی ہیں اور اُقی ہونے پر فخر کرتے ہیں.یعنی آپ کے فخر کی
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۵۴ سورة الاعراف جا یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے قابل نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر بات کہنے کے قابل بنا دیا گیا ہوں.یہ الارقی میں بڑا پیارا اعلان ہوا.ہمیں حکم ہوا فَا مِنوا اس رسول پر ایمان لا وَالرّسول النّبي ، الرقی پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس اللہ پر ایمان لاؤ جس نے الرسول ، النَّبِی الاُمّی کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا اور کھڑا کیا فَا مِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْاقی اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کیا اللہ تعالیٰ نے جو ہر چیز کا جاننے والا ہے.الَّذِي يُؤْمِنُ بِالله یہ الرسول، یہ النبی، یہ الاقی جو ہے یہ کامل ایمان رکھتا ہے.اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) دوسری جگہ کہا.اللہ تعالیٰ پر، اس کی صفات اور اس کی ذات کی کامل معرفت رکھنے والا.وحلمتے اور جو وحی نازل ہوئی ہے اس کو جاننے والا اور اس کے مطابق عمل کرنے والا ہے ایمان لا دواتَّبِعُوهُ اور اس کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ.یہ ہے ہمارا عقیدہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۴۳ تا ۲۴۵) اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے میں اس کے ایک حصہ کے متعلق دوستوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ مضمون يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ سے شروع ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بہت سے مستقل سلسلہ ہائے انبیاء اور سلسلہ ہائے شرائع قائم کئے گئے تھے.بہت سی قومیں اس وقت ایسی تھیں جن کا رشتہ اپنی شریعت سے ابھی ٹوٹا نہ تھا.وہ اپنی حالت اور اپنی سمجھ کے مطابق ان شرائع کی پیروی کرنے کی کوشش کرتی تھیں.لیکن بہت سی اقوام ایسی بھی تھیں کہ جن کا رشتہ اپنی شریعت سے ٹوٹ چکا تھا اور اس وقت وہ عملاً اہل کتاب نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی ناقص عقل سے بہت سی رسوم جاری کر رکھی تھیں اور بہت سی بدعتوں میں مبتلا ہو چکے تھے.یہی ان کا مذہب تھا یہی ان کی شریعت تھی.ایسی شریعت جس کا کوئی رشتہ آسمان سے قائم نہ تھا لیکن جو ان کے جاہل دلوں کو تسلی دے دیا کرتا تھا.تو اس آیت کے پہلے حصہ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ کا تعلق ان اقوام سے ہے.جن کا رشتہ اپنی شریعت سے منقطع نہیں تھا.اور ہر نبی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اپنی اپنی اُمت سے اللہ تعالیٰ کے نام پر عہد بیعت لیا تھا اور وہ ایک پختہ عہد پر قائم تھے.وہ میثاق اور عہد یہ
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۵۵ سورة الاعراف تھا کہ وہ قومیں اپنی اپنی شریعت کو اپنے اندر قائم کریں گی.اور ان میں سے ہر ایک شخص اس پر خود بھی عمل کرے گا اور دوسروں سے بھی عمل کرانے کی کوشش کرے گا.اگر چہ ان کی شریعت بہت حد تک محترف و مبدل ہو چکی تھی.اور بہت سی بدعتیں اور رسوم انہوں نے اپنی شریعت میں ملا دی تھیں.لیکن ان میں سے ایک جماعت سمجھتی یہی تھی کہ وہ خدا کی شریعت ہے.اور ہم نے اپنے ربّ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس شریعت پر قائم رہیں گے.اور اسے قائم کرنے کی کوشش کریں گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے.وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ لَتُبَيّنَةُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَه فَنَبَذُوهُ وَرَاء ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ (آل عمران : ۱۸۸) یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی عہد لیا تھا کہ تم ضرورا اپنی قوم کے لوگوں کے پاس اس کتاب کو ظاہر کرو گے (اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی ) اور اس کی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ اور کھول کھول کر بیان کرو گے اور عوام سے اس کو چھپاؤ گے نہیں بلکہ اس کی تعلیم کو عام کرو گے تا علی وجہ البصیرۃ اور حق الیقین کے ساتھ وہ اس پر ایمان لانے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں مگر باوجود اس کے انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا.اور اسے چھوڑ کر تھوڑی سی قیمت ( جو دنیوی مال و متاع ہیں) لے لی.اور اُخروی نعمتوں کو دنیوی لذات پر قربان کر دیا.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو وہ لیتے ہیں بہت ہی بڑا ہے.یہ وہ عہد ہے جو ہر نبی کی اُمت اپنے رب سے کرتی رہی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو قو میں اہلِ کتاب میں شمار ہوتی تھیں یا ہو سکتی تھیں وہ اقوام اظہار بھی کرتی تھیں کہ ہم خدا کی نازل کردہ ایک شریعت پر قائم ہیں اور ہم نے اپنے رب سے یہ عہد کیا ہے کہ آئندہ بھی اس پر قائم رہیں گے بلکہ اس شریعت کو قائم کریں گے اور بنی اسرائیل کا بھی اپنے رب سے یہ عہد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت تو رات کی شکل میں موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی ہے.وہ اس پر عمل کریں گے اور اس پر قائم رہیں گے.تو اگرچہ یہ شریعتیں ایک حد تک محترف و مبدل ہو چکی تھیں.اور انسانی ہاتھوں نے بہت سی بدعتیں
۱۵۶ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ان میں شامل کر دی تھیں.لیکن ان کے پیرو بہر حال انہیں روحانی صداقتیں اور روحانی حقائق بتلاتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے رب سے جو پختہ عہد انہوں نے باندھا ہے اس پر قائم رہنا ان کیلئے ضروری ہے.چونکہ اس وقت دنیا کی یہ حالت تھی اور ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لئے ، تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے مبعوث فرمایا تھا.اس لئے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کیا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے سب پہلی شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے اور پہلی قوموں نے اپنے اپنے رسول کے ذریعہ جو عہد اپنے اللہ سے باندھا تھا ان کا رب اس عہد کو ساقط کرتا اور ان امتوں کو اس عہد سے آزاد کرتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر نیا عہد باندھنے کی تلقین کرتا ہے.پس اس چھوٹے سے فقرہ ( وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ ) میں اعلان کیا گیا ہے کہ پہلی شریعتیں منسوخ اور پہلے عہد جو تھے وہ سب ساقط ہو گئے ہیں.کیونکہ اضر کے ایک معنی اس پختہ اور تاکیدی عہد کے ہیں جو عہد شکن کو عہد شکنی کی وجہ سے نیکیوں اور ان کے ثواب سے محروم کر دیتا ہے.چونکہ نیکیوں کی تعلیم آسمان سے آتی ہے اور ثواب اور اجر کا دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اس عہد سے مراد عہد بیعت ہی ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے کیا جاتا ہے.پس فرمایا کہ ہمارا یہ رسول، نبی اُمتی دنیا میں اعلان کرتا ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے ماتحت کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے سارے قدیم عہد ساقط کر دئے ہیں اور ان کی پابندی تم سے اٹھالی ہے.اب اس نبی امی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اپنے رب سے نئے عہد باندھو، تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے پہلے سے زیادہ وارث بن سکو.یہ ایک معنی ہیں يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ کے!! پھر فرمایا وَ الْأَغْللَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ بہت سی قومیں ایسی بھی تھیں جن کا رشتہ اپنی شریعتوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کہیں پہلے ٹوٹ چکا تھا اور شریعت کی بجائے من گھڑت بدرسوم اور بدعات شنیعہ میں وہ جکڑی ہوئی تھیں.اور یہی ان کا مذہب تھا.خود ساختہ قیود اور پابندیاں ان کو نیکیوں سے محروم کر رہی تھیں اور ان کی تباہی کا باعث بن رہی تھیں.اور انہیں ان کے رب سے دور کر
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۵۷ سورة الاعراف رہی تھیں.تو فرما یاوَ الْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ اللہ تعالیٰ کے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نبی اُمّی نے ان تمام رسوم اور بدعات کو یکسر مٹا دیا ہے.اگر تم قرب الہی چاہتے ہو تو رسوم اور بدعات کی بجائے قرآنی راہ ہدایت اور صراط مستقیم تمہیں اختیار کرنا پڑے گا.جب تک رسوم و بدعات کے دروازے تم اپنے پر بند نہیں کر لیتے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھل نہیں سکتے.اس کے بعد فرمایا فَالَّذِينَ آمَنُوا بِه یعنے اب وہی لوگ قرب الہی اور فلاح دارین حاصل کر سکتے ہیں جو قرآن مجید پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں اور دل سے اس نبی کو اور اس پر نازل ہونے والی شریعت کو حق ، نور اور راہ نجات یقین کرتے ہیں اور جرات اور دلیری کے ساتھ اس دلی یقین کا زبان سے اقرار کرتے ہیں.اور بر ملا اس کا اظہار کرتے اور اس ہدایت کی اشاعت میں کوشاں رہتے ہیں اور اپنے اعضا اور جوارح اور اپنے قول اور فعل اور عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے ایمان کا دعوی حقیقتا سچا ہے تو فالذِینَ آمَنُوا بِے میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.(۱) اول دل سے یقین کرنا.کوئی کھوٹ نہ ہو کوئی کمزوری نہ ہو.(۲) پھر زبان سے یہ اقرار کرنا کہ ہمارے دل اس صداقت کو مان چکے ہیں.اظہار کے مفہوم میں ہی یہ بات پائی جاتی ہے کہ پختہ ایمان والا شخص تبلیغ اسلام میں ہر وقت کوشاں رہتا ہے.دلی ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ جرات اور دلیری کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کرے اور لوگوں کو بتائے کہ جس شریعت پر میں ایمان لایا ہوں.جس خدا کی کتاب کو میں نے مانا ہے اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازے وہ اس اس طرح ہم پر کھولتی ہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہمیں حاصل ہوتی ہیں.غرض وہ زبان سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کرنے والا ہو.(۳) پھر اس کا محض زبانی دعوی نہ ہو بلکہ اس کی ساری زندگی اسلام کا ایک نمونہ ہو اور وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہا ہو کہ جو دعواے اس نے زبان سے کیا ہے اس میں کوئی فریب نہیں.تو فرمایا کہ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قسم کا ایمان لاتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فلاح دارین کے مستحق ٹھہرتے ہیں.پھر فرمایا وَعَذَرُوهُ - عَزَرَ کے معنی ہیں فَخَمَهُ وَعَظَمَهُ (منجد) اور مفردات میں تَعْزِيرُ
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۵۸ سورة الاعراف (صفحہ ۳۳۳ باب العین) کے معنی یہ لکھتے ہیں.النُّصْرَةُ مَعَ التَّعْظِيمِ نُصْرَةُ بِقَبْحِ مَا يَضُرُّهُ مِنْهُ“.تو فرمایا کہ آسمانی نصرتوں کے دروازے صرف انہی پر کھولے جائیں گے جو اس نبی اُمتی کی بزرگی اور عظمت اپنے دلوں میں قائم کریں گے اور اس کی عظمت اور جلال کے قیام کے لئے دشمن کے مکروں اور تدبیروں اور ظالمانہ حملوں کے مقابل صدق وصفا کے ساتھ سینہ سپر ہوں گے اور دشمن کے تمام منصوبوں کا اپنے ایثار اور فدائیت کے ساتھ قلع قمع کر کے اس نبی امی کی قوت کا باعث بنیں گے.اور قیامِ شریعت حقہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار بنیں گے.عزر کے مفہوم میں تعظیم بھی شامل ہے اور عذر کے معنی میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ اس کی مضبوطی کا باعث بنا اس کے دشمنوں کا مقابلہ کر کے اور ان تمام ضرر رساں چیزوں کو راستہ سے ہٹا کر جن سے اس کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو.تو مدافعت کے لئے جو جہاد مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان دشمنانِ اسلام کے خلاف کیا.جو اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار لے کر اٹھے تھے وہ اس تعزیر کے اندر آتا ہے مطلب یہ کہ انہوں نے ہر قسم کی قربانی دے کر اس ضر ر کو دنیا سے مٹانے کی کوشش کی.اب جماعت احمدیہ کے ذریعے جو لسانی اور قلمی جہاد قرآن کریم کی اشاعت و تبلیغ کے لئے کیا جا رہا ہے یہ بھی تعزیر کے معنی کے اندر آتا ہے.کیونکہ ہمارے نوجوان اپنی زندگیوں کو وقف کرتے ہیں، ہر قسم کی تکالیف جھیلتے ہیں.غیر معروف اور دور دراز علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور بہت کم رقوم میں جو انہیں دی جاتی ہیں، گزارہ کرتے ہیں.وہ ہر قسم کی تکالیف اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ عیسائیت کی جو یلغار اسلام کے خلاف جاری ہے اس کا مقابلہ کیا جائے.جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بہت پیار کرتا ہے.پس ابتداء اسلام میں جہاد بالسیف اور ہر زمانہ میں (خصوصاً زمانہ حاضرہ میں ) جہاد بالقرآن دونوں تعزیر کے اندر آتے ہیں کیونکہ تعزیر کے معنی میں یہ پایا جاتا ہے کہ کسی کی عظمت دل میں اتنی ہو کہ اس عظمت کی خاطر انسان اپنے نفس کو اور مال کو قربان کر رہا ہو ، تا کہ ان منصوبوں کو جو اسے دکھ پہنچانے اور ضر ر دینے کے لئے کئے جارہے ہوں نا کام بنادیا جائے.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۵۹ سورة الاعراف پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَصَرُوهُ فلاح دارین کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اس کی نصرت اور مدد میں کوشاں رہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی ذاتی امداد کی ضرورت نہ تھی.نہ آپ کو اس کی خواہش تھی.آپ نے دیگر انبیاء کی طرح علی الاعلان کہا مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجر کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے میں اس پر تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں مانگتا.پس ہمیں یہاں نصر کے معنی وہ کرنے ہوں گے جس معنی میں یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو.یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے اللہ تعالیٰ کی مدد کی (نصر الله ) اور لغت عرب میں اس نصرة کا مطلب یہ ہے کہ هُوَ نُصْرَتُهُ لِعِبَادِهِ وَالْقِيَامُ بِحِفْظِ حُدُودِهِ وَرِعَايَةِ عُهُودِهِ وَاعْتِنَاقِ أَحْکامِهِ وَ اجْتِنَابِ نَهْيهِ (مفردات) تو نَصَرُوهُ فرما کر یہ بیان فرمایا کہ قرب الہی کے عطر سے وہی لوگ ممسوح کئے جائیں گے اور حیات ابدی کے وہی وارث ہوں گے جو اخوت اسلامی کو قائم کرتے ہوئے بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے مد و معاون ثابت ہوں گے اور شریعت حقہ نے جو حدود قائم کی ہیں اس کی بیان کردہ شرائط کے ساتھ وہ لوگ چوکسی اور بیدار مغزی سے ان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور وہ عہد جو انہوں نے اپنے رب سے اس نبی امی کے ہاتھ پر باندھا ہے مقدور بھر اس کی پابندی کرنے والے ہوں اور جو اوامر اور احکام پر مضبوطی سے قائم رہیں گے اور ان نواہی سے بچیں گے جن سے بچنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جو اس کی نصرت کرتے ہیں.ان کا معاشرہ باہمی اخوت کے اصول پر قائم ہے.بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں.کسی کی بے جا مخالفت نہیں کرتے ،کسی کو دکھ نہیں دیتے، کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، کسی کے خلاف زبان نہیں چلاتے وغیرہ وغیرہ بہت سی حدود ہیں جو شریعت اسلامیہ میں قرآن کریم نے بیان کی ہیں.بعض جگہ لفظا کہہ دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور بعض جگہ معناً ان حدود کی طرف اشارہ کر دیا.تو نَصَرُوہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ قرآن کریم کی بتائی ہوئی حدود کی حفاظت کرتے ہیں.ان سے تجاوز نہیں کرتے.ایک اور معنی نصروں کے یہ ہیں کہ امت مسلمہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اپنے
۱۶۰ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث رب سے عہد باندھا ہے اس میں سے وہی لوگ خدا کی نگاہ میں مفلح کہلانے کے مستحق ہوں گے جو اپنے عہد کی رعایت اور پابندی کرنے والے ہوں گے.نیز وہ جو قرآن کریم کے احکام یعنی ” کرنے کی باتوں کا جو سینکڑوں ہیں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جُوا اپنی گردنوں میں ڈالنے والے ہیں.اور نواہی جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان باتوں کو نہ کرو ان باتوں سے وہ اجتناب کرتے ہیں.فرما یا أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ فلاح دارین کے حق دار ہیں.پھر فرمایا وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَۀ کہ اس نبی اُمّی کے ساتھ آسمان سے ایک نور بھی نازل ہوا ہے.اس کے ہر قول میں آسمانی روشنی جھلکتی نظر آتی ہے اور اس کے ہر فعل میں اللہ کا نور جلوہ گر نظر آتا ہے.اتَّبَعَ کے معنی ہیں قَفا آثَرَہ اور آثر کے معنی سنت کے ہیں.تو اتَّبَعُوا کے معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نورانی وجود بنا کر دنیا میں بھیجا تھا مگر یہ اس قسم کا نورانی وجود نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کے نزدیک فرض کیا گیا ہے.بلکہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم (الكهف: ۱۱۱) ہماری طرح کا ایک بشر ہونے کے باوجود بے حد اور بے شمار انوار روحانی آپ کے ساتھ اور آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے.تو اس آیت میں فرمایا کہ یہ رسول نور ہے اس کا ہر فعل نور اور اس کا ہر قول نور ہے.تم اس کی اتباع کرو گے تو أُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کے مطابق تم مُفْلِحِينَ میں شامل ہو جاؤ گے.پس فرمایا کہ جو لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں اور اس کے اُسوہ حسنہ کے رنگ میں رنگین ہو کر زندگی گزارتے ہیں.اس زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کا نور ان کے چہروں پر چمکتا ہے اور اُخروی زندگی میں بھی ان کا یہ نور نُورُهُم يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ (التحریم : ۹ ) ان کے آگے بھی چل رہا ہوگا اور ان کے دائیں بھی چل رہا ہو گا.یہ علامت ہوگی اس بات کی کہ یہ خدا تعالیٰ کے ان نیک اور پاک بندوں کا گروہ ہے جو سنت محمدیہ کی اتباع کرنے والے ہیں.غرض فرمایا کہ وہ لوگ جن کا ایمان پختہ ہے.جن کا ایثار اور جن کی فدائیت اعلیٰ ہے اور جنہوں نے احسن طور پر اپنے نفسوں کی اصلاح کی ہے اور دنیا کے سامنے اپنا پاک نمونہ پیش کیا ہے اور اسوہ رسول
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۶۱ سورة الاعراف کی کامل اتباع کی ہے اولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کے حضور فلاح پانے والے ہیں.فلاح کا لفظ عربی زبان میں اس قسم کی انتہائی اعلیٰ اور احسن کا میابی پر بولا جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی اور لفظ عربی لغت میں نہیں پایا جاتا.اس کے معنی دنیوی اور اُخروی کامیابی کے ہیں.دنیوی کامیابی اس معنی میں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحت والی زندگی دی ہے.اتنامال اور قناعت دی ہے کہ سوائے اپنے رب کی احتیاج کے اس کو کسی اور چیز کی احتیاج محسوس نہ ہو.اور عزت و جاہ عطا کیا ہے.تو جس شخص کو یہ تینوں چیزیں مل جائیں اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو فلاح مل گئی.اور اُخروی کامیابی اس معنی میں کہ اول ایسے شخص کو ایسی دائمی بقا اور دائمی حیات حاصل ہو جو فی الواقع اور فی الحقیقت حیات ہے.کیونکہ جو لوگ جہنم میں جائیں گے بظاہر وہ بھی زندہ ہوں گے لیکن ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نہ زندہ ہوں گے اور نہ مردہ لیکن حقیقی اور دائمی حیات وہ ہے جس کے اند رفتا، کمزوری یا بیماری کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے.دوم.جو چاہے اسے ملے.اللہ تعالیٰ جنتیوں کے متعلق یہی کہتا ہے کہ جو وہ چاہیں گے ان کو مل جائے گا.خدا کے نزدیک یہ بڑے پیار کا مقام ہے کہ ان کی کوئی خواہش رڈ نہ کی جائے گی.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دل میں کوئی ایسی خواہش پیدا نہ ہوگی جو خدا کی نگاہ میں رڈ کئے جانے کے قابل ہو.نیک خواہشیں ہی ان کے دل میں پیدا ہوں گی اور انہیں پورا کر دیا جائے گا.سوم.اسے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس معاشرہ میں جس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہے.اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیسا ہے ) اور جس قسم کے اجتماعی تعلقات ہوں گے اس میں اسے پوری اور حقیقی عزت حاصل ہوگی اور یہ خطرہ نہ ہوگا کہ اسے کبھی ذلیل بھی کر دیا جائے گا.اور چہارم یہ کہ معرفت میں اسے کمال حاصل ہو.اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل معرفت اور ان کا کامل عرفان اس دنیا میں مادی بندھنوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے ہم حاصل نہیں کر سکتے.اس دنیا میں ہمارے لئے جن صفات کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے اپنے کمال کو نہیں پہنچتے.اگر کسی فرد واحد کے لئے خدا تعالیٰ
۱۶۲ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کی صفت کا جلوہ اپنے کمال کو پہنچا تو وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی.اس جلوہ کو دیکھنے کے لئے ایک وقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بے تاب رہے.مگر وہ ، وہ جلوہ دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک وجود کے علاوہ خدائی صفات کا کامل جلوہ کسی اور انسان پر نہیں ہوسکتا اور نہ ہوا.جب یہ چاروں باتیں کسی انسان کو حاصل ہوں تو عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ مفلح (کامیاب) ہو گیا.پس لفظ فلاح بہت بڑی، بہت شاندار، بہت ارفع ، بہت اعلیٰ کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے.تو فرماتا ہے کہ جو لوگ حقیقی طور پر اور صحیح معنی میں ایمان لاتے ہیں ، جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویت پہنچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں.ایثار اور فدائیت کا نمونہ دکھاتے ہیں اور جو لوگ قرآنی احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالتے ہیں کہ واقعہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند بن جاتے ہیں.اور جو لوگ سنت اللہ کو قائم کر کے اللہ تعالیٰ کے اس نور سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نبی کریم کے وجود کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا.اُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ لوگ ہیں جو دنیا میں بھی فلاح پانے والے ہیں اور آخرت میں بھی فلاح پانے والے ہیں.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۷۶ تا ۳۸۴) و ما ارسلنكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ۱۰۸) عالمین میں صرف انسان نہیں بلکہ ہر غیر انسان مخلوق بھی عالمین میں شامل ہے اور ایک پہلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کا یہ ہے کہ خدا تعالی کی ہر مخلوق کے حقوق اس تعلیم نے قائم بھی کئے اور ان کی حفاظت کا حکم بھی دیا اور ان کی حفاظت کے سامان بھی پیدا کئے.اس عالمین میں انسان بھی شامل ہیں.غیر انسان بھی شامل ہیں.جن کے لئے آپ رحمت ہیں.اس کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ انسان کے متعلق فرمایا کہ ہم نے كافةً لِلنَّاسِ (سبا: ۲۹) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بھجوایا ہے اور یہ آیا کہ قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِیعًا اے انسانو! سنو! کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں یہ جو سب انسانوں کی طرف رحمت بن کے آپ آئے.اس سے آگے دوسوتے پھوٹتے ہیں اور ان میں سے ایک کے متعلق میں پہلے ابتدا کر چکا ہوں اور وہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے.اور وہ یہ ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اور
۱۶۳ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا اس کی تفصیل میں جب ہم جاتے ہیں تو بنیادی چیز جو ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ اسلام انسان کو کہتا ہے کہ میں تجھے آپس میں لڑنے نہیں دوں گا پیار سے زندگی کے دن گزارو.دنیا نے دنیوی لحاظ سے بڑی ترقی کی لیکن انسان نے انسان سے پیار کرنا ابھی تک نہیں سیکھا کیونکہ اس دنیا کے انسان نے جو دنیوی ترقیات کر چکا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی.یہ وہ پہلا مضمون ہے جس کی میں ابتدا کر چکا ہوں.دوسرا سوتا جو اس اعلان سے پھوٹا ہے کہ آپ رحمت ہیں عالمین کے لئے اور مبعوث ہوئے ہیں بنی نوع انسان کے لئے ، سارے کے سارے انسانوں کے لئے ایک رحمت بن کر آپ آئے.اس مضمون میں بنیادی چیز اسلام نے یہ قائم کی کہ انسان ، انسان میں کوئی فرق نہیں سارے انسان برابر ہیں اور قرآن کریم نے بہت جگہ اس کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک تو کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے.جب یہ کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے تو یہ نوع انسانی کے متعلق کہا گیا ہے کسی خاص گروہ کے لئے یہ نہیں کہا گیا.دوسرے قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے کہ قرآنی تعلیم تمہارے شرف اور تمہاری عزت کا سامان لے کر آئی.اور عجیب بات ہے کہ جو تعلیم تمہاری عزت کے قائم کرنے اور تمہارے اندرونی شرف کو اُجا گر کرنے کے لئے آئی تھی.اسی کی طرف تم تو جہ نہیں دے رہے.اور تیسرے یہ کہہ کر انسانی مساوات کا کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں عظیم اعلان کیا اس فقرہ میں کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف : ۱۱) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۶۲، ۲۶۳) فرق نہیں ہے.قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمُ جَمِيعًا تم سب کی طرف بلا استثناء کالے گورے، مشرق و مغرب میں بسنے والے، جنوب و شمال میں رہنے والے سب کی طرف میں مبعوث ہو کے آیا ہوں.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۶۹)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۶۴ سورة الاعراف آیت ۱۷ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَونَهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ اس مضمون کے تعلق میں (اہوائے نفس یا خواہشات نفس یا شہوات نفس ایک ہی چیز ہے ) پہلی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول سے شہوت نفس یا اہوائے نفس محرومی کا باعث بن جاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۷ میں بیان کیا ہے.وکوشتنا اگر ہم چاہتے تو اسے رفعتیں اور بلندیاں عطا کرتے.اس کے یہ معنی بھی ہیں ( تلاوت کرتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ بالکل یہ معنی ہیں ) و کوشتنا اگر ہماری مرضی پر وہ چلتا (’ہم چاہتے تبھی ہوتا نا جب ہماری مرضی پر چلتا ) لرفعته أسے روحانی رفعتیں حاصل ہو جاتیں لیکن وہ ہماری مرضی پر نہیں چلا بلکہ اہوائے نفس کی اس نے اتباع کی وَلكِنَّةُ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وہ زمین پر گر پڑا رفعتیں حاصل کرنے کی بجائے.وَاتَّبَعَ هونه یہ قرآن کریم کا ہے اَخُلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوله رفعتوں سے محرومی اسے ملی اور زمین پہ اسی طرح ، زمین کا کیڑا جس طرح زمین پہ چل رہا ہوتا ہے وہ اس کی حالت بن گئی.انسان زمینی گراوٹ کے لیے نہیں پیدا کیا گیا.انسان کو مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريت: ۵۷) کی آیت جس کی طرف اشارہ کرتی ہے ) آسمانوں کی بلندیوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی امت مسلمہ کو کہ جب تم میں سے کوئی عاجزی، انکساری اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرے گا رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۵) ساتویں آسمان کی بلندیاں اسے حاصل ہو جائیں گی.یہاں یہ فرمایا اگر وہ ہماری مرضی کی راہوں کو اختیار کرتا لرفعنہ ہم نے اس کے لیے بلندیاں مقدر کیں ہوئی تھیں لیکن اخلد إِلَى الْأَرْضِ وہ تو زمین پر گر پڑا، زمین کا کیڑا بن گیا وَاتَّبَعَ هَوله اور اپنے اہوائے نفس کی اتباع اس نے کرنی شروع کر دی.دوسری چیز جس سے کہ حصول میں روک بنتی ہے اتباع اہوائے نفس وہ یہ ہے.شہوات نفسانی کی
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۶۵ سورة الاعراف پیروی کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب ہوتی ہے.سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اہوائے نفس کی اتباع کا ، پیروی کا مرتکب ہوگا اتنا ظلم کر رہا ہوگا اپنے نفس پر کہ اللہ تعالیٰ نے جو آیات اس کی بہتری کے لیے نازل کی ہیں ان کی وہ تکذیب کر رہا ہے.اہوائے نفس کی پیروی تکذیب آیات باری ہے.یہ اعلان کیا گیا ہے.آیات جو ہیں قرآن کریم میں دو معنی میں استعمال ہوئی ہیں.دنیوی انعامات مثلاً ایٹم کے ذرے میں وہ طاقت جو آج انسان نے معلوم کی اور روحانی انعامات جو اللہ تعالیٰ نازل کرتا ہے اور فرمایا ہے کہ موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح میری آیات ، انعامات جو ہیں ،نعماء جو ہیں وہ تم پر نازل ہو رہی ہیں.ہر آیت کا انکار ہو رہا ہے.ایٹم کے ذرے ہی کو لو جو انسان کی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی اسے انسان کی تباہی کے لیے استعمال کرنے کے ہتھیار بنالئے.تو اہوائے نفس کا نتیجہ تکذیب آیات اور ناشکری آیات باری کی ہے.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۰۰،۲۹۹) آیت ۱۸۸ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ و لو كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءِ إِنْ أَنَا الا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح نذیر ہیں کافر کے لئے اس طرح بشیر بھی ہیں کافر کے لئے اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے لئے محض بشیر ہیں جو اعلان کرتا ہے کہ میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کے رب پر ایمان لایا.آپ بشیر بھی ہیں اس کے لئے اور نذیر بھی ہیں اس کے لئے یعنی جس طرح کافر کے لئے نذیر اور بشیر ہیں اسی طرح مومن کے لئے بھی نذیر اور بشیر ہیں.قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس مضمون کے ساتھ اور ایک آیت میں نے اٹھائی ہے جس میں صاف، بالکل وضاحت کے ساتھ یہ ہے کہ مومنوں کے لئے آپ نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.قرآن کریم میں ہے.إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ کہ میں صرف نذیر اور بشیر ہوں مومن قوم کے لئے.تو یہ خیال کہ مومنوں کے لئے محض بشیر اور نذیر نہیں اور کافروں کے لئے محض نذیر اور بشیر نہیں یہ غلط
۱۶۶ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ہے.اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک دفعہ ایمان کا دعوی کر دیا پھر بشارتیں ہی بشارتیں ہیں، پھر خیر ہی خیر ہے، پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی رضا ہی رضا ہے اور ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، ہمارے اوپر کوئی پابندیاں نہیں ، گناہوں سے بچنے کے لئے ہم نے کوئی کوشش نہیں کرنی.نیکیاں کرنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی جد و جہد اور سعی نہیں کرنی.یہ خیال غلط ہے.اصولی طور پر خدا تعالیٰ نے جو لِقَومٍ يُؤْمِنُونَ مؤمن قوم کو جو بشارت دی وہ بڑی زبردست ہے وَ انْتُمُ الْأَعْلُونَ (ال عمران :۱۴۰) ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی.اعلیٰ کا لفظ بولا ہے نا.ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی یہ بشارت ہے مگر اس کے ساتھ میں نے قرآن کریم پر بڑا غور کیا ہر بشارت کے ساتھ انذاری پہلو ساتھ لگا ہوا ہے.اس کے ساتھ ایک اندار ہے.اِن كُنتُم مؤْمِنین اگر تم ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہیں کرو گے تو یہ بشارت تمہارے حق میں پوری نہیں ہو گی.الاخلون والی اور تیرہ چودہ سو سالہ اسلامی زندگی میں جو مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی آپ تاریخ دیکھیں اس کے دونوں پہلو انذار کے بھی اور تبشیر کے بھی بڑے زبر دست طریقے پر پورے ہوئے.ایمان کے تقاضے جہاں بھی پورے کئے گئے ، فوقیت بشارت کے مطابق لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ انہی کو حاصل ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی وہ تو اس زمانے کا تو ہرلمحہ اس کی تائید کر رہا ہے کیونکہ آپ کی تربیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم تھے وہ تقاضوں کو پورا کر رہے تھے ایمان کے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قیادت کر رہے تھے.ہر وقت ان کی رہنمائی تھی.جس وقت انتہائی دکھوں کی زندگی تھی ان دکھوں میں سے کامیاب نکلے.تیرہ سالہ زندگی کے دکھ اٹھا کے پھر چند سال میں سارے عرب پر غالب آجانایہ کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے.ایسا معجزہ ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی قوم کو تیرہ سال تک اس طرح پیسا گیا ہو کی زندگی میں اور آٹھ سال تک حملہ آور ہو کر اس طرح کوشش کی گئی ہو ان کو نیست و نابود کرنے کی اور پھر بیس سالہ اس ظالمانہ کوشش کا نتیجہ اسلام کی موت نہیں بلکہ مسلمان کی زندگی کی شکل میں ظاہر ہوا.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۰۲ تا ۲۰۴) آیت ۱۹۷ إِنَّ وَلِي اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَبَ * وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ وَلی کے اللہ ایک مومن کا مقام یہ ہے کہ وہ مظلوم
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۱۶۷ ،، سورة الاعراف ہونے کی حیثیت میں جب اس پر انتہائی ظلم کیا جارہا ہو ظلم کے مقابلہ میں ان راہوں کو پسند نہیں کرتا جو اس کے خدا کو محبوب نہیں.وہ ان طریقوں پر چلتا ہے جن طریقوں پر چل کر وہ اپنے رب کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے.وہ کہتا ہے اِن ورلیئے اللہ میرا بھروسہ اس آقا پر ہے جس میں تمام صفاتِ حسنہ جمع ہیں اور جس میں کوئی بڑائی اور کوئی نقص اور کوئی خامی اور کوئی کمزوری نہیں اور اس نے میری ہدایت کے لئے ، مجھے اپنی پناہ میں لینے کے لئے اور مجھے دنیا کے ظلموں سے محفوظ کر لینے کے لئے ( نَزِّل الكتب ( الْكِتَاب کو نازل کیا ہے اور اس کتاب میں وہ سب سامان جمع کر دئے ہیں کہ جو ایک انسان کو خوشحال زندگی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہیں، ایسی خوشیاں جمع کر دی ہیں جو دنیوی غموں کو بھلا دیتی ہیں اور ایسی مسرتیں رکھ دی ہیں جو دنیا داروں کے تیروں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے زخموں میں درد نہیں پیدا ہونے دیتیں.یہ وہ گروہ ہے جو الکتاب پر عمل کر کے اپنے آقا کی دوستی اور اس کی مدد اور نصرت کو حاصل کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّالِحِينَ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حفاظت اور ترقی اور ربوبیت کی ذمہ داری لیا کرتا ہے جن کی نیتوں میں کوئی فتور نہ ہو اور جن کے اعمال میں کوئی فسادنہ ہو.جو صالح ہوں اور ہر قسم کے ظاہری اور باطنی فسادوں سے بچنے والے ہوں اللہ تعالیٰ ان کا متولی ہو جاتا ہے.ان کی ذمہ واری لے لیتا ہے وہ دنیا کو کہتا ہے کہ تم ان کے خلاف ہر قسم کی سازشیں کر لینے کے باوجود کامیاب نہیں ہو گے اس لئے کہ میرے یہ بندے میری پناہ میں آگئے ہیں.انہوں نے اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کی انہوں نے اپنے نفسوں کی اصلاح کی انہوں نے ہر قسم کے فساد سے خود کو بچایا یہ میری نگاہ میں صالح بن گئے اور میں ان کا ذمہ دار ہوں.میں ان کی حفاظت کروں گا.جب ان کو مدد کی ضرورت ہوگی میں ان کی مدد کیلئے آؤں گا.جب ان کو ڈھال کی ضرورت ہوگی میں ان کی ڈھال بنوں گا.جب ان پر دشمن کا وار ہوگا میری قدرت اس وار کورو کے گی اور ان کو تباہ اور نا کام نہیں ہونے دے گی.ہاں صالح کی آزمائش کے لئے یا اس اظہار کے لئے کہ یہ قوم واقعہ میں صالحین کی قوم ہے میں انہیں آزماؤں گا ضرور.انفرادی طور پر میں ان سے قربانیاں بھی لوں گا.ان کے اموال بھی لوٹے جائیں گے ان کے گھر بھی تباہ کئے جائیں گے ان کی جانیں بھی لی جائیں گی اور میری طرف منسوب ہونے والے اور میری گود میں بیٹھ کر اس کی لذت کا احساس رکھنے والے یہ افراد بڑی بشاشت سے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے تا ان کی قربانیاں اس
۱۶۸ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث حقیقت اور صداقت پر مہر بن جائیں کہ ان کے دوسرے بھائی بھی جو اس قسم کا دعوی کرتے ہیں اپنے دعوی میں بچے ہیں ورنہ زبان کے دعوے تو لا یعنی ہوا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ افراد سے قربانی لیتا ہے تا وہ جماعت کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرے اور تا وہ یہ بتائے کہ یہ وہ جماعت ہے جس کا ہر فرداس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے.اللہ تعالیٰ کی ولایت پر قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری عقل کو بھی تسلی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں تمہار اولی ہوں مگر شیطان بہر حال اپنا کام کرتا ہے اس لئے دل میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت اور ہر آن ہمیں کیسے ملے گی.دشمن خفیہ سازشیں کر رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والی جماعت کو ان سازشوں کا علم تک نہیں ہوتا.بعض ایسے دشمن ہوتے ہیں جو خفیہ ہوتے ہیں اور خدا کی جماعت کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دشمن ہیں یا دوست کیونکہ انسان کا علم تو محدود اور ناقص ہے اس لئے قرآن کریم نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا.واللهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ (النساء : ۴۶) اللہ تمہارے دشمنوں کو تم سے زیادہ جانتا ہے.وہ خفیہ دشمنوں کو بھی جانتا ہے اور دشمنوں کی خفیہ سازشوں اور ان کی خفیہ دشمنیوں کو بھی جانتا ہے اور چونکہ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور تم نے اس کو اپنا ولی بنایا ہے اس لئے تمہیں تسلی رہنی چاہیے.و کفی بِاللهِ وَلِيًّا وَ كَفَی بِاللهِ نَصِيرًا (النساء: ۴۶) وہ ہستی ہی ولی ہونے کے قابل اور اہل ہے جس کا علم وسیع ہو اور جس کی قدرت میں کوئی نقص اور خامی نہ ہو اور اس چیز کو ہمارے نفوس پر اور ہمارے ذہنوں پر واضح کرنے کے لئے بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو آتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی مرضی کے بغیر اور اس کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر اس کی مخالف بن کر کامیاب نہیں ہوسکتی.چنانچہ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّبُوتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا (فاطر: ۴۵) یعنی جب اللہ تعالیٰ ولی بنتا ہے تو اس کا عبد اور اس کا غلام اس پر اس لئے بھروسہ کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو زمین و آسمان میں کوئی چیز ناکام نہیں کرسکتی کیونکہ ان گان عَلِيمًا قَدِيرًا اس کے علم اور اس کی قدرت نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے.کوئی خفیہ وار اللہ تعالیٰ پر نہیں کیا جاسکتا اور کوئی بھر پور کامیاب وار بھی اللہ تعالیٰ پر نہیں کیا جاسکتا.خفیہ وار تو اس پر اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ علیم ہے اور کامیاب وار اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قدیر ہے.وہ سب قدرتوں کا
۱۶۹ سورة الاعراف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث مالک ہے کوئی وجود یا لوگوں کا کوئی مجموعہ اور جماعت ایسی نہیں ہوسکتی جو خدا تعالیٰ سے چھپ کر خفیہ سازشوں کے نتیجہ میں اس کے ارادوں میں خلل ڈالے اور انہیں نا کام کر دے اور نہ دنیا میں کوئی ہستی ایسی ہے اور نہ ساری دنیا ( مجموعی طور پر ) میں ایسی طاقت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شئی کا فیصلہ کرے تو اس کے فیصلہ میں روک بن جائے یا جب وہ اپنی جماعت کی حفاظت پر کھڑا ہو جائے تو وہ کامیاب وار اس کی جماعت کے خلاف کرے.وہ قدیر ہے اس کی قدرت نے ہرشئی کا احاطہ کیا ہوا ہے.اس کی مرضی کے بغیر کوئی چیز ہو نہیں سکتی اور چونکہ وہ علیم اور قدیر ہے اس لئے کوئی تدبیر اس کی تدبیر کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتی اور جس کی تدبیر کے خلاف کوئی تدبیر کامیاب نہ ہو سکے اسی کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ فَنِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الحج: ٧٩) وہ سب سے اچھا آقا، سب سے بہتر دوست ہے اور سب سے زیادہ ناصر و مددگار اسی کی ذات ہے اور اسی پر خدا کے بندے اور خدا کی جماعتیں بھروسہ کیا کرتی ہیں.ہمارے جسم انسانی جذبات کی وجہ سے دکھ تو اُٹھاتے ہیں اس سے وہ بچ نہیں سکتے لیکن ہمارے سینوں میں بزدلی کے خیالات نہیں آتے.ہمارے سینوں میں مایوسی کے خیالات نہیں آتے.ہمارے دلوں میں اپنے رب کے خلاف بدظنی کے خیالات نہیں پیدا ہوتے.ہمارے دل زخمی تو ہوتے ہیں مگر ہمارے سینے اللہ تعالیٰ کے نور اور اس پر توکل سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کی تسلی دینے والی آواز تسلی دیتی ہے کہ گھبراؤ نہیں میں جس کی تدبیر کے مقابلہ میں کوئی تدبیر نہیں ٹھہر سکتی تمہارا حامی اور مددگار ہوں.پس جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کریم کے اس ارشاد کے مطابق ”اللہ کی ولایت حاصل کرنے کی کوشش کریں جس نے الکتاب یعنی قرآن کریم کو ایک کامیاب ہدایت کے طور پر اُتارا ہے.اس کو صحیح معنی میں اپنا آقا بنا ئیں یعنی اس کی نگاہ میں بھی وہ اس کے عبد بن جائیں اور وہ ان کا آقا ہو اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے (جیسا کہ اس مختصر سی آیت میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ الکتاب پر پوری طرح عمل کریں اور ایک کامل اور مکمل کتاب سے وہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو کامل اطاعت کے ساتھ اور پوری مستعدی کے ساتھ اس کی بتائی ہوئی راہوں پر چلتا ہے.جو شخص اطاعت میں کامل نہیں جو اپنے مجاہدہ میں نقص ہے وہ اللہ تعالی کی مداور نفرت اس رنگ میں تو حاصل نہیں کر سکتا جس رنگ میں وہ شخص حاصل کرتا ہے یا وہ جماعت حاصل کرتی ہے جو اپنی اطاعت
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث 16.سورة الاعراف میں کامل ہو اور جو اپنے مجاہدہ میں کوئی خامی اور نقص نہیں رکھتی.پس اللہ تعالیٰ ولی تو ہے لیکن وہ ولی اس کا بنتا ہے جس نے اس کی کامل کتاب پر عمل کیا.جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے غیروں کی گالیاں سنیں اور انہیں برداشت کیا.جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے غیروں کے ظلم سہے اور اُف نہ کی اور ظلم کے مقابلہ میں ظالمانہ راہوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ یہ سمجھا کہ ظلم کو روکنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بند بنایا ہے.ظلم اس بند سے ٹکرائے گا اور واپس چلا جائے گا.میں ظلم کو مکان اور زمان کے لحاظ سے آگے نہیں بڑھنے دوں گا سارے ظلم اپنے پر سہہ لوں گا اور دوسروں کو ظالمانہ سازشوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کروں گا.میں ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہیں کروں گا بلکہ میں ظلم کے مقابلہ میں محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور حسن سلوک اور عمل صالح اور قولِ سدید دکھاؤں گا اس لئے کہ میرا رب مجھ سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنی پناہ میں لے لے اور حقیقی معنی میں وہ مجھے اپنا عبد اور غلام بنالے اور سچے طور پر وہ میرا آقا بن جائے.وہ میرا حامی اور مددگار بن جائے اور میرے کاموں کی ذمہ داری اُٹھا لے تب میں دشمن کے ہر شر اور ہر منصو بہ اور ہر سازش اور ہر وار سے محفوظ ہو جاؤں گا.اس صورت میں ہی میں ان سے محفوظ ہو سکتا ہوں اس کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۹۸ تا ۵۰۲)
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سورة الانفال اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانفال آیت ۵ أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَتْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ.قرآن کریم میں یہ بیان ہے کہ مومن، مومن میں بڑا فرق ہوتا ہے.جو اسلام لاتے ہیں ان کی ابتدا تو اس نچلے مقام سے شروع ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ لیا کرو.وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيْمَانُ في قُلُوبِكُم (الحجرات :۱۵) ابھی تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں لیکن وہ مبتدی جن کی ابتدا یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ درجہ بدرجہ روحانی میدانوں میں ترقی کرتے ہوئے آخر میں ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا کہ وہ سچے اور پورے اور حقیقی مومن ہیں.جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی اس میں اس آخری رفعت کا ذکر ہے اور ان لوگوں کا ذکر اشارہ ہے کہ جن کا خاتمہ بالخیر اس مقام پر ہو جاتا ہے.میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ دنیا ابتلا اور امتحان کی دنیا ہے جہاں یہ ممکن ہے کہ ایک مبتدی کا روحانی میدان میں پاؤں پھسلے اور وہ روحانی طور پر شفا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ (ال عمران : ۱۰۴) آگ کے گڑھے میں گر جائے وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص روحانی ترقیات کرتے ہوئے بہت سی منازل طے کر کے کہیں کا کہیں آگے نکل جائے اس کے پاؤں میں بھی لغزش آئے اور خدا تعالیٰ کے دربار سے وہ دھتکارا جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِكُلّ دَرَجتُ مِمَّا عَمِلُوا (الاحقاف:۲۰) جیسے جیسے کسی کے عمل، عمل صالح ہوں گے ویسے ویسے اس کا درجہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہوگا.تو جتنے انسان خدا تعالیٰ کا
۱۷۲ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث نام لے کر، اس کی عظمتوں کا کلمہ پڑھ کے اسے جل جلالہ، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں ، اتنے ہی درجات ہیں جتنے افراد ہیں.لیکن وہ ایک بار یک مسئلہ ہے جسے سمجھانے کے لئے میں یہ کہوں گا کہ جس طرح دنیا میں دو انسان کی شکل ایک نہیں اسی طرح روحانی طور پر کسی دوانسان کی روحانیت کا مقام بھی ایک نہیں.اس میں بہت سی باتیں دخل انداز ہوتی ہیں جن کی تفصیل کی طرف اشارہ بھی اس وقت نہیں کیا جا سکتا.درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے یہی لوگ ولحل دَرَجتْ مِمَّا عَمِلُوا) ایک مسلسل جد و جہد، ایک سعی، مجاہدہ ، ایک ہجرت ، (ہجرت مکانی نہیں ہجرت روحانی جو ہے کہ چھوٹے مقام کو چھوڑ کے بڑے کی طرف منتقل ہونے کی مقبول کوشش جس کے نتیجے میں ایک بلند مقام کی طرف ایک انسان منتقل ہو بھی جاتا ہے.) اس مسلسل کوشش کے بعد ایک گروہ ایسا آگیا اولك هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ جو گروہ ہے اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے بلی مَنْ أَسْلَم والی آیت میں بیان کی ہے.وہ آئیڈیل (Ideal) ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۵۰،۳۴۹) آیت ۲۵ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمُ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَ أَنَّهُ إِلَيْهِ تحشرون جو شخص روحانی زندگی کے نتیجہ میں زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے ذریعہ ہی یہ روحانی زندگی حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ سورۃ انفال میں فرمایا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ - تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کو دعوت دے رہے ہیں تو اس کا مقصد یہی ہے کہ جو ان کی آواز پر لبیک کہے وہ روحانی زندگی کو حاصل کرے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انا الحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَدَمِي ( صحيح البخاری کتاب المناقب باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ) میں حاشر ہوں کہ ایک روحانی حشر برپا کرنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں اور جو میرے
۱۷۳ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث قدموں پر گر جاتا ہے وہ زندہ کیا جاتا ہے اور روحانی زندگی کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے اور قائم کیا جاتا ہے تو جو شخص روحانی زندگی کا امیدوار ہو جو اس چیز کا امیدوار ہو کہ روحانی زندگی کے بعد اپنے زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق کو قائم کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جسے ابدی حیات دی گئی ہے اس کے ساتھ اس کا سچا تعلق قائم ہو جائے اور اس کی سنت کی وہ پیروی کرنے والا ہو.(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۲۶۹،۲۶۸) آیت ۲۶ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ج جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض عذاب اور ابتلاء اور مصائب اور آفتیں دنیا پر ایسی بھی نازل کی جاتی ہیں کہ ان کی لپیٹ میں صرف ظالم ہی نہیں آتا بلکہ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جن کا بظاہر اس فلم میں کوئی حصہ نہیں یعنی صرف ظالم کو وہ آفت یا بلا یا عذاب نہیں پہنچتا بلکہ دوسرے بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں.اصول تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخرى (الانعام :۱۶۵) کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی لیکن چونکہ یہ دُنیا دار الا بتلا ہے دار الجزا نہیں.اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اس ابتلا اور عذاب میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے.یہ ابتلا اور عذاب ان لوگوں کو بھی پہنچے گا جو ظالم نہیں ہیں اور قرآن کریم کے متعلق یہ اصول یا درکھنا چاہیے کہ اس کی آیات باہم تضاد نہیں رکھتیں.لہذا ہمیں اس آیت کے ایسے معنی کرنے پڑیں گے جو کسی دوسری آیت سے ٹکراتے نہ ہوں ان کے متضاد نہ ہوں پس یہاں ایک معنی یہ ہوں گے کہ گو ظاہری طور پر وہ لوگ ظلم میں شامل نہیں لیکن باطنی طور پر وہ ظلم میں شامل ہیں اور وہ اس طرح کہ بعض ذمہ داریاں افراد سے تعلق رکھتی ہیں.وہ انفردی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور بعض ذمہ داریوں کے بہت سے پہلو یا وہ ساری کی ساری اجتماعی رنگ رکھتی ہیں اور جو اجتماعی ذمہ داریاں ہیں اگر وہ گروہ یا وہ خاندان جن کی وہ ذمہ داریاں ہیں بحیثیت مجموعی ان کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس کے نتیجہ میں اس گروہ یا خاندان کے بعض افراد ظالم بن جائیں تو سزا اور عذاب میں سارا خاندان ہی ملوث ہو جائے گا.دنیا کی نگاہ تو یہ دیکھے گی کہ ایک پندرہ سالہ بچے نے چوری کی مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ، بہن اور بھائیوں اور خاندان کے دوسرے بڑے رشتہ داروں پر جو یہ فرض تھا کہ وہ
۱۷۴ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اس پندرہ سالہ معصوم بچے کی صحیح تربیت کریں وہ تربیت انہوں نے نہیں کی جس کے نتیجہ میں وہ چور بن گیا.پس دُنیا کا قانون تو صرف اس بچے کو سزا دے گا مگر اللہ کا قانون اُس دُنیا میں بھی اور اس دُنیا میں بھی صرف اس بچے پر گرفت نہیں کرے گا جس نے چوری کی بلکہ ان پر بھی گرفت کرے گا جن پر اس کی صحیح تربیت کی ذمہ داری تھی لیکن انہوں نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کی اگر وہ لوگ اس کی صحیح تربیت کی ذمہ داری کی طرف کما حقہ، متوجہ رہتے تو ان کا بچہ چور نہ بنتا اسی طرح اگر بعض خاندانوں کے بچوں کو گندی گالیاں دینے کی عادت ہے تو صرف ان بچوں پر گرفت نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے ماں باپ اور دوسرے ذمہ دار رشتہ داروں پر بھی گرفت کی جائے گی جن پر یہ فرض تھا کہ اپنے قول فعل اور نمونہ کے ساتھ اُن کی صحیح تربیت کرتے اگر اہل ربوہ میں سے ایک آدھ ایسا نوجوان ہو جو نظامِ سلسلہ کا وہ احترام نہیں کرتا جو ہر احمدی کو کرنا چاہیے ( اور احمدیوں کی بہت بھاری اکثریت یہ احترام کرتی ہے ) تو اس صورت میں اگر اصلاح کی خاطر ربوہ سے باہر بھجوانے کا فیصلہ ہوا تو صرف بچہ کو ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی ربوہ سے باہر جانا ہوگا.....یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض ایسے ابتلا ہوتے ہیں کہ صرف ظالم ہی ان کی گرفت میں نہیں آتے بلکہ تمہاری نگاہ جن کو ظالم نہیں سمجھتی وہ بھی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور آنے چاہئیں اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (بخاری: کتاب النکاح) اس حدیث میں مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِہ کے محض یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان پر گرفت کرے گا اور ان سے جواب طلب کرے گا کہ تم کیا کرتے ہو بلکہ مَسْئُول عَنْ رَعِيّته کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار قرار دیئے گئے ہیں ( مثلاً نظام جماعت اور خلیفۂ وقت ) وہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور اس کے اس خُلق کو اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے جواب طلبی کریں گے ان کے سامنے بھی تم مسئول ہوا اور تم سے جواب طلبی کی جائے گی.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۱۲ تا ۱۵) وہ کمزوری ایمان جو احمدیت میں نئے نئے داخل ہونے کی وجہ سے یا احمدیت میں پیدائش کے نتیجہ میں نظر آتی ہے ہم نے اس کی دو طرح حفاظت کرنی ہے ایک تو ہم ایسے کمزور ایمان والے کو نفاق کے حملہ سے بچا کر اس کی حفاظت کریں گے اور دوسرے آہستہ آہستہ اس کی تربیت کر کے اس کی
۱۷۵ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث حفاظت کریں گے ایسے کمزور ایمان والے ربوہ میں بھی ہوتے ہیں باہر سے بعض کمزور لوگ آجاتے ہیں اور ر بوہ میں آکر آباد ہو جاتے ہیں ان میں سے بعض کا تو نظارت امور عامہ کو بھی پتہ نہیں لگتا.بعض دفعہ بعض نئے احمدی اپنے علاقہ سے گھبرا جاتے ہیں یا انہیں یہاں سہولت ہوتی ہے اس لئے وہ یہاں آکر آباد ہو جاتے ہیں.ان لوگوں کی تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دینی چاہیے لیکن اگر یہاں آنے سے قبل ان کی تربیت کچھ اس قسم کی ہو کہ ہمیں یہ خطرہ پیدا ہو کہ ربوہ کے مکینوں کے بچوں پر ان کے بچوں کا برا اثر پڑے گا تو پھر صرف ان کے بچے ہی اپنی جگہ پر واپس نہیں بھیجے جائیں گے بلکہ ہم سارے خاندان کو ہی واپس بھیج دیں گے اور ہمارا یہ فعل بغیر کسی غصہ کے ہوگا کیونکہ ابھی ان کی تربیت نہیں ہوئی لیکن اگر کہیں نفاق اس قسم کا گند پیدا کرے گا تو پھر ہماری طبیعتوں میں غصہ پیدا ہونا تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے شروع میں پڑھی ہے یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ اِس آیت کریمہ میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ گو میرے بندے بھی تم پر گرفت کریں گے لیکن میرے بندوں کی گرفت میری گرفت کے مقابلہ میں بہت ہلکی ہوگی خواہ وہ کتنی ہی سخت گرفت کیوں نہ کریں میری گرفت بہر حال ان سے زیادہ ہے کیونکہ میں سب طاقتوں والا ہوں اور میر اعقاب بندوں کے عقاب سے بہر حال شدید ہے.پس یہاں ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تمہیں بھی اصلاحی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں.اس کو دُنیا سزا کہتی ہے لیکن ہم اسے اصلاحی تدابیر کہتے ہیں کیونکہ کسی انسان یا کسی مخلوق سے ہماری دشمنی نہیں سزا کا لفظ بھی ہمیں برا لگتا ہے بہر حال الہی سنت کے مطابق ہمیں بھی اصلاحی تدابیر کرنی پڑیں گی.اور لفظ عقاب میں بھی یہی بات ہے کہ تم نے جو کام کیا اس کا بدلہ تمہیں مل رہا ہے لیکن اس کی ذمہ داری نہ اللہ کے بندہ پر ہوتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو رحمت کے لئے پیدا کیا ہے اور بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو پیدا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ہوا تھا لیکن حاصل کی ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی خفگی اور ناراضگی اور غصہ اور عقاب اور عذاب اور سزا.اس آیت سے آگے دوسری آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولا دفتنہ ہیں اور پھر فرمایا ہے کہ اگر تم اس فتنہ سے بچ جاؤ گے تو جو اجر میں تمہیں دوں گا وہ بہت بڑا اجر ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اس دُنیا میں بھی میرے بندوں کے ذریعہ تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اس اجر پر تم خوش
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الانفال ہو گے لیکن یہ اجر میرے اجر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.گویا دونوں چیزیں جزا اور سزا ان آیات میں بیان ہوگئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے مرکز میں رہنے والوں کو بھی ان آیات میں مخاطب کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ الہی سلسلہ جاری ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق دی.لوگوں نے تمہاری بڑی مخالفت کی اور اس مخالفت سے بچنے کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ ایک مرکز قائم کر دیا.فاؤکم اور اس مرکز کے قیام کے ساتھ ایک كُم بِنَصْرِہ ہم نے اپنی آسمانی تائیدات سے تمہاری مدد کی اور وَرَزَقَكُمْ مِّن الطيبت (النحل : ۷۳) تمہارے لئے دُنیوی فوائد کا سامان کیا.(خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۱۷ تا ۱۹) آیت ۲۸ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَ تَخُونُوا امنتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) اے مومنو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی آپس کی امانتوں میں خیانت سے کام لو.پھر سورہ نساء میں فرمایا :.وَلَا تَكُن لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيمًا (النساء :۱۰۶) پھر سورۃ انفال میں فرمایا اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَارِنِينَ (الانفال: ۵۹) وَ لَا تَكُن لِلْخَاسِنِينَ خَصِيمًا خيانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والا نہ بن.ان کی طرف داری نہ کر.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَابِنِيْنَ کیونکہ اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اگر تو ان کی طرف سے جھگڑے گا تو تو بھی انہی میں شامل ہو جائے گا.وَ انَّ اللهَ لَا يَهْدِى كَيْدَ الْخَابِنِيْنَ (یوسف : ۵۳) اور یہ کہ خیانت کرنے والوں کی تدبیر کو ,, اللہ تعالیٰ کامیاب نہیں کرتا.خیانت کے معنی مفردات راغب میں یہ بیان ہوئے ہیں کہ " الْخِيَانَةُ وَالتَّفَاقُ وَاحِدٌ إِلَّا أَنَّ الْحَيَانَةَ تُقَالُ اعْتِبَارًا بِالْعَهْدِ وَ الْأَمَانَةِ وَالتَّفَاقُ يُقَالُ اِعْتِبَارًا بِالدِيْنِ ثُمَّ يَتَدَاخَلَانِ فَالْخِيَانَةُ مُخَالَفَةُ الْحَقِّ بِنَقْضِ الْعَهْدِ فِي السَّرِ وَنَقِيضُ الْخِيَانَةُ الْأَمَانَةُ (المفردات: زير لفظ الغاء) خیانت اور نفاق ملتے جلتے ہیں اپنے معنی کے لحاظ سے اور عہد توڑنے اور ان میں خیانت کرنے کو
162 سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث خیانت کہا جاتا ہے اور نفاق کا لفظ جو ہے وہ ان کے متعلق بولا جاتا ہے.منافق کے معنے ہیں مذہب کے لحاظ سے عقائد کے لحاظ سے اپنے دعوئی کے لحاظ سے، اپنے اعمال کے لحاظ سے نفاق کی بُو ر کھنے والا وہ لکھتے ہیں کہ پھر یہ آپس میں دونوں مل جاتے ہیں خیانت اور نفاق اور خیانت کے معنے ہیں حق اور صداقت کی مخالفت کرنا.عہد کو توڑ کے اور چھپ کے اور یہ امانت کے مقابلے میں آتی ہے.ان آیات سے جو میں نے ابھی پڑھی ہیں مندرجہ ذیل باتوں کا ہمیں پتا لگتا ہے.اول یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خیانت نہ کرو اور خیانت امانت کی ضد ہے جیسا کہ ابھی میں نے بتا یا اور امانت کے معنی ہیں مَا فَرَضَ اللهُ عَلَى الْعِبَادِ امانت کے ایک معنی یہ ہیں.سو جب یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی خیانت نہ کرو تو یہ حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرض عائد کئے ہیں اپنے بندوں پر ان فرائض کو ان ذمہ داریوں کو پورا کرو.ان عہدوں کو جو تم سے لئے گئے ہیں، نبا ہو.ان حقوق کو جو قائم کئے گئے ہیں تم قائم کرو اور خدا تعالیٰ کے بندوں میں تفریق نہ کرو.اور دوسرے ہمیں یہ فرمایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت سے پیش نہ آؤ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو عہد لیا گیا ہے ہم سے اور جو ہم پر فرض کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو اُسوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سامنے پیش کریں اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو.ہر وہ شخص جو اُسوہ نبوی کو چھوڑ دیتا ہے اور ان قدموں کے نشانوں کی پیروی نہیں کرتا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم ہیں وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کرنے والا ہے.پھر فرمایا کہ باہمی امانتوں میں خیانت نہ کرو و تَخُونُوا آمنتكم باہمی امانتوں کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے.ان کے معنے فرض کے اور عہد کے ہیں اور آپس کے جو حقوق ایک دوسرے کے اللہ تعالیٰ نے قائم کئے وہ بنیادی طور پر اور اصولی لحاظ سے بہت سے ہیں جن میں سے آج میں نے چند ایک مثالیں آپ کو سمجھانے کیلئے منتخب کی ہیں.باہمی امانتیں ہیں.مال سے تعلق رکھنے والی تو فرمایا کسی کا مال نہ کھاؤ.یہ بددیانتی ، خیانت اور امانت کے خلاف یہ فعل مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتا ہے.ایک شخص اپنے مال کا ایک حصہ دوسرے کے پاس بطور امانت کے رکھ دیتا ہے.اس کا فرض ہے کہ جب وہ مانگے اسے واپس دے.ایک مال کا یہ حق ہے کہ خرید و فروخت کے وقت جتنا پیسہ جتنی رقم کوئی شخص دے اس کے مطابق اس کو
تفسیر حضرت خلیفة اسم الثالث ۱۷۸ سورة الانفال سودا دیا جائے اگر ایک کلو کی قیمت دو روپے ہے تو جود کا ندار دورو پے لے لیتا ہے لیکن تو لتے وقت وہ ہوشیاری کے ساتھ ایک کلو کی بجائے کسی کو پندرہ چھٹانک دیتا ہے تو یہ مال کے حقوق کو اس نے غصب کیا ہے.وہ خیانت کرنے والا بن گیا.ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ یتیموں کا مال کھا لیتے ہیں.قرآن کریم نے اس تفصیل میں جا کے بھی بہت سی چیزوں کے متعلق روشنی ڈالی.کچھ ہدایتیں ہمیں اصولی طور پر دے دیں کہ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ان ہدایات سے روشنی حاصل کر کے صداقت اور حق پر اپنے اعمال کو قائم رکھ سکتے ہیں.پھر جان کے حقوق ہیں.یہ دوسرا چھوٹا عنوان ہے باہمی امانتوں کے متعلق جان کا ایک حق تو یہ ہے کہ بغیر حق کے کوئی جان نہ لی جائے.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے اور یہ بڑا زبردست اعلان ہے.پھر جان کا ایک حق یہ ہے کہ ایسا فتنہ نہ پیدا کیا جائے کہ کسی جان کو ایذا اور دکھ پہنچے.الفِتْنَةُ اشَتُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ : ۱۹۲) اور اسلام نے کسی کی جان لینے سے زیادہ اس کو اہمیت دی ہے کہ سولی پہ لٹکائے رکھنا، زندگی اجیرن کر دینا، جان کا حق یہ ہے کہ اس کی پرورش کے لئے جو کچھ اسے چاہیئے وہ اسے دیا جائے.ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں.پھر انسان کی عزت کے حقوق ہیں.ہر انسان اشرف المخلوقات کا ایک فرد اور خدا کی نگاہ میں بڑا معزز ہے.اپنی پیدائش کے لحاظ سے، اپنی خلق کے لحاظ سے، اپنی طاقتوں اور قوتوں کے لحاظ سے، رفعت کے حصول کے لئے جو مکن راہیں اس پر کھولی گئی ہیں ان کے لحاظ سے، خدا تعالیٰ کے پیار کو جس طرح وہ حاصل کر سکتا ہے کوشش کر کے اس کے لحاظ سے إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء :۱۴۰) حقیقی عزت تو وہ ہے جو کوئی شخص اپنے رب کریم کی نگاہ میں رکھتا ہے.اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے مادی اور غیر مادی سامان پیدا کئے ہیں جو عزت کے حقوق قائم کرتے ہیں اور وہ سامان ہر انسان کو ملنے چاہئیں.حقارت کی نظر نہیں ڈالنی.حقارت کا کلمہ نہیں بولنا.حقارت کا سلوک نہیں کرنا.اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھنا.کسی کے خلاف تکبر نہیں کرنا.پھر ایک بڑا حق باہمی امانتوں کا جو قائم کیا گیا ہے، وہ اُجرت کے حقوق ہیں.ایک شخص اپنا وقت دوسرے کو دیتا ہے اور اس Understanding اس معاہدہ پر اس عہد کے نتیجہ میں کہ وہ اس کے وقت کے بدلے میں اس کو یہ دے گا تو جو بدلہ میں دینا ہے وہ اس کی امانت ہوگئی نا.یہ امانتیں پڑی
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۷۹ سورة الانفال رہتی ہیں بعض دفعہ یا اجرت کے بعض حصے سال میں ایک یا دو دفعہ مزدور کو بھی اس آج کل کی اقتصادی دنیا میں بونس کی شکل میں ملتے ہیں.جب تک ان کو نہیں ملتے وہ بطور امانت کے پڑے ہوئے اس لمیٹڈ کمپنی یا کسی اور سرمایہ کاری کے یونٹ میں.پھر اہلیت کے حقوق ہیں.خدا تعالیٰ نے ہر فرد واحد کو، مرد ہو یا عورت بہت سی اہلیتیں دے کر، استعداد میں عطا کر کے، قو تیں دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے.ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق ملنا چاہیئے.یہ اس کی امانت ہے.قرآن کریم نے دوسری جگہ کہا ہے کہ جو اہل ہیں اپنی اہلیت کے نتیجہ میں اہل بن گئے وہ تم ان کی امانت ان کو دو.چوتھے یہ فرمایا کہ جو خیانت کرنے والے ہیں ان کی طرفداری نہ کرو.اتنا فساد پیدا ہوا ہے دنیا میں خدا تعالیٰ کے اس حکم کو نہ مان کر.خیانت کرنے والوں کی پناہ بن کر ، ان کے وکیل بن کر، ان کی طرفداری کر کے کہ اس نقصان کا اندازہ بھی انسانی عقل نہیں لگا سکتی اور یہ ظالمانہ کھیل دنیا کے ہر ملک میں ہی کھیلا جارہا ہے، کسی جگہ تھوڑا کسی جگہ زیادہ.اگر انسان اس اصول کو مضبوطی سے پکڑ لے کہ چونکہ خیانت نہیں کرنی اس واسطے خیانت کرنے والے کی طرفداری بھی نہیں کرنی تو دنیا کا معاشرہ ایک کروڑ گنا شاید ارب گنا زیادہ حسین ہو جائے آج کے معاشرہ سے لیکن حسن تو انسان کے سامنے اسلامی تعلیم میں پیش کیا گیا لیکن اسے قبول کرنے میں وہ ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں.پانچویں ہمیں یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ خائن کو ، خیانت کرنے والے کو اپنے پیار سے محروم کر دیتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا جو خائن کی، خیانت کرنے والے کی طرفداری کرنے والا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے پیار سے، اس کی محبت سے اس کی نعمتوں سے، اس کی طرف سے آسمانوں سے آنے والی عزت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور چونکہ خیانت کرنے والے خدا تعالیٰ کے پیار سے محروم کر دیئے جاتے ہیں، چھٹی بات ہمیں یہ بتائی ان آیات میں کہ جو خیانت کرنے والا ہے وہ اپنی تدبیر اور کوشش میں نا کام ہوتا ہے.خیانت کرنے والے جس مقصد کے حصول کے لئے خیانت کرتے ہیں حقیقی طور پر اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.مثلاً چور بھی خیانت کرنے والا ہے.دوسرے گھر میں گھستا اور بغیر حق کے ڈا کہ مارتا ہے دوسرے کے مال پر.نہ اس کی کوئی عزت، نہ اس کے مال میں کوئی برکت.کروڑوں کی چوری کرنے والے بھی فقیروں سے بھی گندے کپڑوں کے اندر پھرتے دیکھے گئے.پھر ہر وقت دل کو
۱۸۰ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دھڑکا.شاید خدا کے خوف سے وہ دل نہ دھڑکتے ہوں لیکن انسان کے خوف سے تو ضرور دھڑکتے ہیں.اندر کی ضمیر ان کو جھنجھوڑتی ہے کہ تم نے کیا کیا.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو حقیقی کامیابی ہے اس میں ایک خیانت کرنے والا کامیاب نہیں ہوسکتا.حقیقی کامیابی اسے مل نہیں سکتی اور وہ نا کام ہوتا ہے.......عزت کے حقوق ہیں.عزت کے حقوق میں جذبات کا خیال رکھنا بھی آجاتا ہے.یہ نہیں کہا کہ مسلمان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے.یہ کہا کہ شرک ہے تو سب سے بڑا ظلم اور گناہ لیکن ایک مشرک کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں پہنچے گی تیری زبان سے.لا تسبوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الانعام (۱۰۹) یہ نہیں کہا کہ اگر مزدور مسلمان ہے تو اجرت کے حقوق اسے ادا کر ، اگر غیر مسلم ہے تو نہ کر.یہ کہا کہ جس سے تو اجرت لیتا ہے وہ مسلم ہے یا غیر مسلم، مومن ہے یا کافر، موحد ہے یا مشرک، جو بھی اس کا عقیدہ ہے جو بھی اس کے خیالات ہیں، جتنا اس نے کام کیا وہ اس کا حق بنتا ہے وہ امانت ہے تیرے پاس، اس کا حق ادا کر ، اس کی اُجرت پوری دے اور وقت پر دے.یہ نہیں کہا کہ اہلیت کے لحاظ سے جو حقوق قائم ہوتے ہیں وہ مسلمانوں کے ادا کرو اور جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ پر یہ الزام لگاؤ کہ اس نے ان کو وہ اہلیت کیوں عطا کی اور غلطی کی خدا نے اور ہم اس کی اصلاح کرنے لگے ہیں.یہ کہا جس کو خدا نے اپنے فضلوں سے، اپنی ربوبیت کے نتیجہ میں ، اپنی رحمانیت کے جلووں کے ذریعہ (اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت تو مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کر رہی اہلیت پیدا کی ہے تم نے اس اہلیت کے حقوق کو ادا کرنا ہے اور اہل کو ان کی امانتیں دینی ہیں.خیانت کرنے والا مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور غیر مسلم بھی.قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ اگر خیانت کرنے والا غیر مسلم ہے تو اس کی طرف داری نہ کر اور اگر مسلمان ہے تو اس کی طرف داری کر.یہ کہا ہے کہ خیانت کرنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے اس کی تم نے طرف داری نہیں کرنی.خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ خیانت کرنے والے کو بھی اپنے پیار سے محروم کروں گا.یہ اعلان نہیں کیا کہ خیانت کرنے والا اگر غیر مسلم ہے تو میں اپنے پیار سے محروم کروں گا اگر مسلمان ہے تو پھر میں اُسے اپنے پیار سے محروم نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو خیانت کرنے والا ہے وہ اپنی تدبیر اور کوشش حقیقی اور سچی کامیابی حاصل نہیں کرے گا.یہ نہیں کہا کہ اگر وہ کا فر ہے تو حقیقی اور سچی کامیابی حاصل نہیں کرے گا.اگر وہ مومن ہے تو اسے معاف کر دیا جائے
۱۸۱ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث گا.بالکل نہیں بلکہ مومن و کافر ہر دو کو ایک مقام پر لا کے کھڑا کیا.ہر دو کے حقوق قائم کئے.ہر دو کی ذمہ داریاں بتائیں اور کوئی فرق نہیں مسلم اور غیر مسلم کا جیسا کہ میں نے بتایا موحد اور غیر موحد کا کوئی فرق نہیں کہ جی مشرک ہے اس واسطے اس کے حقوق ہم نے تلف کر لیتے ہیں یہ کوئی نہیں ، نہ ان کو حق پہنچتا ہے حقوق کے تلف کرنے کا ، نہ کسی مسلمان کو حق پہنچتا ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۶۷ تا ۳۷۴) آیت ۲۹ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمُ فِتْنَةٌ وَ أَنَّ اللَّهَ عِندَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ اللہ تعالیٰ ہمیں رشتہ ناطہ کرنے یا جائز طور پر اپنی نسل چلانے کی کوشش کرنے سے نہیں روکتا لیکن انَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ، وَ أَنَّ اللَّهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِیم مومنوں سے فرماتا ہے کہ تم اچھی طرح سے سمجھ لو کہ تمہارے اموال بھی اور اولاد بھی جو تمہیں دی جاتی ہے آزمائش اور امتحان ہے اور پھر ی امتحان معمولی امتحان نہیں کہ جس میں تم کامیاب ہو جاؤ تو کوئی معمولی سا انعام تمہیں ملے بلکہ ان الله عِندَةٌ أَجْرُ عَظیم اللہ تعالیٰ وہ قادر مطلق ذات ہے جو تمام طاقتوں کی مالک اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.وہ اپنے ان بندوں کو جو اس کی کامل اطاعت کرنے والے ہیں بڑا ہی اجر دیتا ہے.اس لئے تمہیں چاہیے کہ اس امتحان میں جو تمہارے اموال اور اولاد کے ذریعہ لیا جائے.کامیاب ہونے کی کوشش کرو.فتنہ کے معنی صرف بُری چیز کے نہیں ہیں.ہماری زبان میں یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا لیکن عربی زبان میں اس کے معنے آزمائش اور امتحان کے ہیں اور آزمائش اور امتحان جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.خیر یعنی اچھی سے اچھی چیز سے بھی لیا جاتا ہے اور ابتلاء مصیبت اور دکھ میں ڈال کر بھی لیا جاتا ہے.جیسے فرمایا كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ (الانبياء:۳۶) وَاللهُ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ (التغابن :۱۲).کہ ہر نفس نے ایک دن مرنا ہے اور اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا.وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ.ہم تمہیں مصائب اور دکھوں میں ڈال کر بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور تم پر دنیوی اور روحانی انعامات کر کے بھی تمہیں امتحان میں ڈالیں گے.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۸۲ سورة الانفال فرماتا ہے تمہارے بچے چاہے وہ تمہاری اطاعت کرنے والے ہوں.تم سے پیار کرنے والے ہوں.تمہاری عزت کرنے والے ہوں.تب بھی وہ تمہارے لئے آزمائش اور فتنہ ہیں اور اگر وہ سرکشی کرنے والے، نافرمان اور تمہاری اطاعت نہ کرنے والے ہوں تب بھی وہ تمہارے لئے آزمائش اور فتنہ ہیں اور ان ہر دو صورتوں میں اس نے جو امتحان کا نصاب مقرر کیا ہے.اس میں اگر تم کامیاب ہو جاؤ گے تو پھر تمہیں یہ خوشخبری دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تمہارے لئے اجر عظیم ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۲۴۳، ۲۴۴) تمہارے اموال اور تمہاری اولا دفتنہ ہیں اور پھر فرمایا ہے کہ اگر تم اس فتنہ سے بیچ جاؤ گے تو جواجر میں تمہیں دوں گا وہ بہت بڑا اجر ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اس دُنیا میں بھی میرے بندوں کے ذریعہ تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اس اجر پر تم خوش ہو گے لیکن یہ اجر میرے اجر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.گویا دونوں چیزیں جزا اور سزا ان آیات میں بیان ہو گئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے مرکز میں رہنے والوں کو بھی ان آیات میں مخاطب کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ الہی سلسلہ جاری ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق دی.لوگوں نے تمہاری بڑی مخالفت کی اور اس مخالفت سے بچنے کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ ایک مرکز قائم کر دیا فاؤ کم اور اس مرکز کے قیام کے ساتھ ایک كُم بِنَصْرِه ہم نے اپنی آسمانی تائیدات سے تمہاری مدد کی اور وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبت (النحل: ۷۳) تمہارے لئے دنیوی فوائد کا سامان کیا.(خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۱۹،۱۸) آیت ۳۰ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَ يُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالیٰ اس مختصر سی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے بڑا ہی لطیف مضمون بیان کرتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لانے کا دعوی کرتے ہو.جو یہ کہتے ہو کہ ہم نے اپنے رب کو ان پاکیزہ اور مقدس اور ا کامل اور مکمل صفات کے ساتھ مانا ہے جو اسلام نے اس کی پیش کی ہیں اور جو یہ دعوی کرتے ہو کہ اس کی بھیجی ہوئی آخری شریعت پر ہم ایمان لائے.جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم اس کے محبوب محمد رسول اللہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۸۳ سورة الانفال صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حقانیت کو تسلیم کرنے والے ہیں اور اس پر پختہ ایمان رکھنے والے ہیں.ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ یہ سلوک ہوگا کہ وہ تمہیں فرقان عطا کرے گا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلُ لَكُمْ فُرقانا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی تقویٰ پر قائم ہونا اور تقویٰ کی راہوں پر چلنا اور تقویٰ کے نور میں لپٹ کر اپنی زندگی کو گزارنا یہ ایک امتیازی اور ایک ممتاز زندگی ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کی خاطر دنیا کو چھوڑ کر اس کی رضا کی جستجو میں ایک ممتاز زندگی کو اختیار کرو گے تو تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے مولیٰ کا تمہارے ساتھ سلوک بھی بڑا ممتاز ہو گا اور اللہ تعالیٰ بڑے امتیاز کے سامان تمہارے لئے پیدا کرے گا تم انسان ہو گے لیکن دوسرے انسانوں سے ممتاز ہو گے.خدا تعالیٰ ہزاروں راہیں تمہارے امتیاز کے اظہار کے لئے دنیا پر کھولے گا.وہ دنیا کو یہ بتائے گا کہ یہ میرا بندہ ہے.اس نے میری خاطر دنیا کو چھوڑ دیا ہے.اور یہ ہر قسم کی تکلیف اور ہر قسم کی ایذارسانی میرے لئے بشاشت کے ساتھ قبول کرنے والا ہے، ساری دنیا اسے ذلیل کرنے کے لئے تیار ہو جائے ، ساری دنیا اسے رُسوا کرنے کے درپے ہو جائے ، ساری دنیا اسے ہلاک کرنے پر تلی ہوئی ہو تب بھی یہ دنیا کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ جب میری آنکھ میں پیار دیکھتا ہے تو ساری دنیا کے دُکھڑے بھول جاتا ہے.جب اسے میری رضا کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو دنیا کی کوئی تکلیف اس کے لئے تکلیف نہیں رہتی.یہ میرا بندہ ہے اس نے میرے لئے ایک امتیازی زندگی کو اختیار کیا ہے.میں بھی اس کے ساتھ ایک جدا گانہ سلوک اختیار کروں گا اور اس کے امتیاز کے بڑے سامان پیدا کروں گا.يَجْعَلُ لكُم فُرْقَانًا کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تقویٰ کی راہوں پر گامزن ہونے والوں کو میں ایک نور عطا کروں گا اور انہیں اس نور کے ذریعہ یہ توفیق دوں گا کہ وہ حق اور باطل میں فرق کرنے لگیں.سچی بات دنیا پر مشتبہ ہو تو ہولیکن میرے ان بندوں کے لئے حق و باطل سچی اور جھوٹی بات میں اتنا فرق ہو گا کہ کبھی بھی انہیں کوئی دھوکہ نہیں لگے گا.تقویٰ کے نتیجہ میں ان کے لئے ایک نور آسمان سے نازل ہوگا وہ نور ان کے آگے آگے چلے گا اور روشنی اور اندھیرے میں فرق کرتا چلا جائے گا، ان کے عمل بھی نور بن جائیں گے، ان کے اقوال بھی نور بن جائیں گے، ان کے خیالات بھی نور بن جائیں گے، ان کی زندگی سراپا نور بن جائے گی کیونکہ انہوں نے میرے لئے تقویٰ کی
۱۸۴ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث راہوں کو اختیار کیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کی کمزوریاں دور کر دی جائیں گی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کے دن سے اور وقت سے پہلے جو غفلتیں اور کوتاہیاں ان سے سرزد ہوئی ہوں گی اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دے گا.وہ ان کے اوپر اپنی مغفرت کی چادر ڈال دے گا اور ایک معصوم کی سی زندگی انہیں عطا کرے گا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے بندے کو بڑے پیار سے فرمایا کہ یہیں پر بس نہیں بلکہ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ لگانا بھی تمہارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے ہم ان فضلوں کو بیان نہیں کرتے.لیکن اصولی طور پر تمہیں یہ بتا دیتے ہیں کہ اللہ بڑا ہی فضل والا ہے وہ تم پر اپنے اتنے فضل کرے گا کہ جب تم ان فضلوں کے وارث بنو گے.صرف اس وقت تمہیں ان کی حقیقت محسوس ہو گی اور تب تمہیں ان کی لذت اور سرور ملے گا تب تمہیں معلوم ہوگا کہ خدا کس قدر فضل کرنے والا ہے.پھر یہیں پر بس نہیں ہوگی بلکہ فضل کے بعد فضل تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا چلا جائے گا اس لئے کہ تم نے اس کی خاطر تقویٰ کی راہوں کو اختیار کیا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ کو بھی تقویٰ عطا کرے کہ اس کے فضل کے بغیر تقویٰ کا حصول بھی ممکن نہیں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۲۰ تا ۵۲۲) إن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلُ لَكُمْ فُرْقَانَا ( الانفال :۳۰) اگر تم اپنی راہ نمائی کے لئے قرآن کریم کو چنو گے اور پسند کرو گے اور اختیار کرو گے تو تمہیں بھی ایک امتیازی مقام دیا جائے گا اور تمہیں اللہ تعالیٰ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی توفیق دے گا اور قرآن کریم کی روحانی برکات کے طفیل تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو صحیح کو غلط سے اور ظلمت کو روشنی سے جدا کرتا چلا جائے گا اور تمہاری راہ کو سیدھا اور آسان کر دے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس روحانی تاثیر کے متعلق بہت کچھ لکھا اور فرمایا ہے لیکن میں نے اس موقعہ کے لئے ایک مختصر سا حوالہ لیا ہے.آپ فرماتے ہیں.پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کے روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلے آتے ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالماتِ الہیہ سے مشریف کئے جاتے ہیں خدائے تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید و نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے ( یعنی ان کیلئے ایک فرقان بنا دیتا ہے ) یہ بھی ایسا نشان ہے جو
۱۸۵ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث قیامت تک امت محمدیہ میں قائم رہے گا“.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ ۲۲) غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ قرآن کریم میں بہت بڑی روحانی تاثیرات پائی جاتی ہیں اور تم اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق ڈھالو اور ان احکام کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار و جو قرآن نے بتائے ہیں اس کے نتیجہ میں ایک طرف تو تمہاری عقل میں جلا پیدا ہو جائے گا اور دوسری طرف جتنا جتنا تقویٰ تم حاصل کرو گے جس قدر مقام قرب کو تم پا لو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے رموز تم پر کھولے گا اور تمہیں اپنا مقترب بنالے گاوہ ایک امتیازی نشان تمہیں دے گا یہ ممتاز مقام ایک مسلمان کی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے ایک مسلمان کی ہر حرکت اور سکون میں ہمیں ایک امتیاز نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر حرکت اور سکون کے متعلق ہماری راہ نمائی فرمائی ہے مثلاً آپ نماز کیلئے آرہے ہیں نماز کھڑی ہوگئی ہے اور آپ نے خیال کیا کہ پہلی رکعت آپ کو ملتی ہے یا نہیں اور آپ دوڑنا چاہتے ہیں اس وقت اسلام آپ کے کان میں یہ آواز دیتا ب الْوَقَارَ الْوَقَار تم اپنے وقار کا خیال رکھو یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو میں نے دی ہے ورنہ ہر حرکت جو ہم کرتے ہیں اس کے متعلق ہمیں ایک ہدایت دی گئی ہے اس کے متعلق ہمیں ایک نور عطا کیا گیا ہے اسی طرح ہمار ا سکون ہے یعنی حرکت کا نہ ہونا بعض دفعہ ہمیں حرکت نہیں کرنی ہوتی مثلاً مراقبہ ہے محاسبہ نفس ہے یہ گو ویسے بھی ہو سکتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ انسان خالی الذہن ہو کر اور ہر قسم کے خیالات سے بچ کر تنہائی کے مقام پر جا کر ہی ظاہری سکون کی حالت میں ہوتا ہے اس کے اندر تو اپنی عاجزی اور خدا تعالیٰ کے غضب کے خوف کی وجہ سے اور اس کی محبت کے پالینے کے لئے ایک طوفان بپا ہوتا ہے لیکن دنیوی نقطہ نگاہ سے ہم اسے سکون کی حالت کہہ سکتے ہیں پھر انسان بولتا ہے بولنے یعنی نطلق کے متعلق اسلام نے ہمیں اتنی ہدایتیں دی ہیں کہ پہلی شریعتیں تو شاید اس کے ہزارویں حصہ تک بھی نہیں پہنچیں پھر ایک مسلمان جب خاموشی اختیار کرتا ہے یا جب اسے خاموشی اختیار کرنی چاہئے اس وقت وہ ہوائے نفس کے نتیجہ میں خاموشی اختیار نہیں کرتا بلکہ وہ اس لئے خاموش رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خاموش رہو مثلاً قرآن کریم کا درس ہو رہا ہے نماز ہورہی ہے تو خدا کہتا ہے کہ خاموش رہو مجلس میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان میں سے ایک شخص بات کر رہا ہو تو اسلام کہتا ہے کہ دوسرے سب لوگ اس کی بات نہیں یہ نہیں کہ ساری عورتیں اکٹھی بولنے لگیں یا سارے مرد
۱۸۶ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اکٹھے بولنے لگیں غرض مرد اور عورت ہر دو کو یہ حکم ہے کہ دوسرے کی بات کو خاموشی سے سنو ، ہر وقت بولنا، زیادہ بولنا، بے موقع بولنا اور بلا وجہ بولنا اسلام پسند نہیں کرتا اس نے ہزار قسم کی پابندیاں اس پر لگائی ہیں.پھر ہمارے اندر نفرت اور رغبت کا جذبہ پایا جاتا ہے یہ ایک طبعی چیز ہے لیکن اس چیز کو بھی اندھیروں میں بہکتا ہوا انہیں چھوڑا گیا بلکہ قرآن کریم نے ایک نور پیدا کیا اور کہا کہ کسی شے سے اس وجہ سے ان حالات میں اور اس حد تک تم نفرت کر سکتے ہو پھر اس نے یہ کہا ہے کہ بدی سے نفرت کرو لیکن یہ نہیں کہا کہ تم بد سے نفرت کرو یہ ایک بڑا باریک فرق اور بار یک امتیاز ہے جو قرآن کریم نے پیدا کیا ہے پھر رغبت ہے ہمیں حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت دوستی اور اخوت کے تعلقات کو ہم نے قائم رکھنا ہے.پھر غصہ ہے غصہ انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ ایک طبعی امر ہے بعض جگہ اس کا نکالنا ضروری ہے اور بعض جگہ اس کا دبا ناضروری ہے جس طرح ایک گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے اور وہ لگام اس کے سوار کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی طرح غصہ بھی انسان کے قابو میں ہونا چاہئے اور اس کا اظہار صرف اس وقت ہونا چاہئے اس کا اظہار صرف اس رنگ میں ہونا چاہئے اس کا اظہار صرف اس حد تک ہونا چاہئے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے اور جہاں اس نے کہا ہے کہ غصہ کو روکو وہاں ہمیں کاظمین بن جانا چاہیئے ہمیں غصہ کو روکنا چاہیئے گویا اللہ تعالیٰ نے ایک نور یہاں بھی عطا کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہاں غصہ کا اظہار کرنا ہے اور یہاں اظہار نہیں کرنا اور یہ نور قرآن کریم کی ہدایت ہے اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو انسان کو عقل اور فراست عطا کرتی ہیں.پھر غصہ کے مقابلہ میں خوشنودی ہے یہ بھی ہزار پابندیوں کے اندر ہے غرض ہمارے معاشرہ اور معیشت کے ہر پہلو کے متعلق اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور ہر پہلو کے بعض حصوں کو ہمارے لئے منور کر دیا ہے تا کہ ہم انہیں اختیار کریں اور بعض پہلوؤں کو اس نے ظلمات میں چھوڑا ہے تا ہماری نظر بھی ان پر نہ پڑے اس نے ہمارے لئے ان پر اندھیرا کر دیا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ جو بات اندھیرے میں ہوگی وہ ہمیں نظر نہیں آئی گی ہماری توجہ اس کی طرف نہیں ہوگی اسلامی تعلیم میں تربیت یافتہ ذہن اس چیز کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا جو خدا اور اس کے رسول کو نا پسندیدہ ہو.پھر عزم و ہمت ہے بڑے بڑے ہمت والے دنیا میں پیدا ہوئے مگر ان کی ساری ہمتیں دنیا ہی
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۸۷ سورة الانفال میں صرف ہو گئیں انہوں نے فساد بپا کیا قتل و غارت کی راہوں کو اختیار کیا اور لعنتوں کا طوق اپنی گردن میں لئے اس دنیا سے رخصت ہوئے.انسان نے ان کو بھلا دیا یا اگر اس نے یا درکھا تو لعنت سے یادرکھا.اس کے مقابلہ میں دین کے لئے بھی عزم اور ہمت کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کے قرب کے مقامات کے حصول کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے بنی نوع سے ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے اسلام کی ہدایات پر صبر اور استقامت سے قائم رہنے کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے.غرض جہاں جہاں ایک مسلمان کے لئے عزم اور ہمت کی ضرورت ہے قرآن کریم نے اس کی نشان دہی کر دی ہے اور جس غلط قسم کے عزم اور ہمت کے نتیجہ میں فساد پیدا کرنے سے اس نے ہمیں منع کر دیا ہے.پھر توجہ اور دعا ہے قرآن کریم نے اس کے متعلق بھی ہمیں بڑے لطیف پیرایہ میں ہدایات دی ہیں لیکن لوگ ان ہدایتوں کو بھول جاتے ہیں اگر کوئی بات جو انہیں پسند ہو اور جس کے لئے انہوں نے دعا کی ہو وہ قبول نہ ہو یا کوئی چیز جو انہیں پسند ہو وہ انہیں نہ ملے تو ان کے دل میں شکوہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ان بے شمار نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی دعا کے انہیں عطا کی ہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کو گزار و دعا کے لئے بعض شرائط اس نے لگائی ہیں اس کے بعض طریق اس نے بتائے ہیں دعا کی حکمتیں اور فلسفہ اس نے ہمیں بتایا ہے جہاں اس نے یہ نہایت حسین اور انمول چیز ہمارے ہاتھ میں دی ہے وہاں اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ خدا تعالیٰ خدا ہے نعوذ باللہ وہ تمہارا غلام نہیں جب وہ تمہاری بات مانتا ہے تو وہ تم پر احسان کرتا ہے اور جب وہ اپنی بات منواتا ہے تب بھی وہ تم پر احسان کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے تمہارے ساتھ دوستوں کا سا سلوک کیا ہے ورنہ کجا بندہ اور کجا خدا کا پیار اور دوستی.وہ اپنے نیک اور مقبول بندوں کو یہ نہیں کہتا کہ میں تمہاری بات اس لئے نہیں مانتا کہ میں تم سے دشمنی کر رہا ہوں بلکہ وہ انہیں تسلی دینے کے لئے کہتا ہے کہ دنیا کی دوستیوں میں بھی تو تم یہی دیکھتے ہو کہ کبھی دوست تمہاری بات مانتا ہے اور کبھی وہ اپنی بات منواتا ہے اگر میں نے تم سے اپنی بات منوالی ہے تو تم یہ سمجھو کہ میں نے ایک دوست کا سا پیار تمہیں دیا میں نے تم سے دوستانہ سلوک کیا ہے یعنی میرا جو انکار ہے وہ بھی میری دشمنی اور غصہ کی علامت نہیں غرض یہ ایک ایسا لطیف اور وسیع مضمون ایک ایسا نور جس نے دعا اور توجہ کی دنیا کو منور کر دیا
۱۸۸ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ہے قرآن کریم نے ہمیں دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہم نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جس کو فرقان کہا جا سکتا ہے اگر تم اس تعلیم پر عمل کرو گے تو تم ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے جو اپنے غیر سے امتیاز رکھتے ہیں تمہاری ممتاز حیثیت ہوگی خدا کی نگاہ میں بھی اور انسان کی نگاہ میں بھی اپنوں کی نگاہ میں بھی اور غیروں کی نگاہ میں بھی تمہارا ظاہر اور باطن نور ہی نور ہو جائے گا اور یہ نور ہی ہے جو تمہیں تمہارے غیر سے ممتاز کرے گا.19199999 نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ (التحريم : ٩) کے ایک معنی ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ چونکہ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملنا ہے اس لئے اس نور کی وجہ سے جو قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے نتیجہ میں تم حاصل کرو گے ایک مسلسل ترقی کے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے اور یہ نور تمہارے اعمال نامہ میں بھی لکھا جائے گا، وہ نور بڑھتا جائے گا، تم دیکھو گے کہ ایک یہ نورانی کام کیا ہے ایک یہ نورانی کام کیا ہے ایک یہ نورانی کام کیا ہے گویا ایک مثالی رنگ میں ہمیں بتایا ہے کہ نہ صرف تم اس دنیا میں اس نور کی اتباع کرتے ہوئے جو تمہارے آگے آگے پیدا کیا جائے گا تم آگے ہی آگے روحانی ترقیات کرتے جاؤ گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمہارا اعمال نامہ بھی چل رہا ہے اس میں بھی لکھا جارہا ہے مطلب یہ کہ صرف اس دنیا میں ہی تمہیں اس کے مطابق جزا نہیں ملے گی ، اس دنیا میں ہی تم اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کے جلوے نہیں دیکھو گے بلکہ اُس دنیا میں بھی اپنے اس روحانی ارتقاء کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ خدا کی محبت کے جلووں کے حقدار قرار دیئے جاؤ گے، تمہارے اعمال نامہ میں یہ چیزیں ساتھ ہی ساتھ لکھی جائیں گی.قرآن کریم نے ایک فرقان یعنی امتیازی مقام مسلمان کو لَيْلَةُ الْقَدْرِ میں دیا ہے اور اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اس کو تلاش کر وسارے بزرگ اس کے متعلق کہتے آئے ہیں ہماری جماعت کے خلفاء بھی جماعت کو غلط خیالات سے بچانے کے لئے اس کے متعلق بار بار توجہ دلاتے رہے ہیں میں بھی آج دوستوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں بعض ایسی گھڑیاں ہیں کہ سارا سال انسان جو بھی گناہ کرتا رہے ان میں ان کی معافی مل جاتی ہے ایک چور مثلاً یہ سمجھے گا کہ سارا سال چوری کرو، لوگوں کو لوٹو ، حرام کھاؤ ، بس اس گھڑی میں جا کر معافی مانگ لو جمعتہ الوداع میں دعا کر لو
۱۸۹ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث یا لیلۃ القدر ( ظاہری شکل جو لوگوں نے بنائی ہوئی ہے اس کے مطابق رمضان کی ستائیسویں رات کو) کو بیدار رہ کر دعا کر لو یا رمضان کے آخری عشرہ کی دس راتیں جاگ لوتو سارے گناہ معاف ہو جائیں گے.ليلة القدر تو تقدیر کی رات ہے اس دن اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرا بندہ اس نور کے نتیجہ میں جو اس کے ساتھ تھا اور اس کے اعمال نامہ میں اس کا اندراج ہوتا چلا گیا تھا اپنی زندگی کا ایک باب ختم کر چکا ہے اب جیسا کہ امتحان میں ہر پرچہ کے نمبر ہوتے ہیں اس باب کے اس کو نمبر مل جاتے ہیں اور وہی اس کی لیلتہ القدر ہے اگر وہ فیل ہو گیا اگر اس کے لئے سارا سال ہی نور نہیں رہا اگر اس نور میں اس نے ترقی نہیں کی اگر اس نے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرنے میں سستی اور غفلت سے کام لیا اگر اس کا اعمال نامہ خالی کا خالی پڑا ہے تو اس کے لئے ایک معنی میں لیلۃ القدر تو ہو گی مگر اس لیلۃ القدر میں یا جمعۃ الوداع میں یہ لکھا جائے گا کہ اس بندہ کو خدا تعالیٰ کا نور حاصل کرنے کے مواقع دیئے گئے مگر اس نے ان سے فائدہ نہیں اُٹھایا اس لئے آج اگر یہ مرجائے تو یہ جہنم میں پھینک دیا جائے پس اس کی لیلتہ القدر تو ہو گی اس کی تقدیر کا اس دن فیصلہ تو ہو گیا مگر وہ فیصلہ خوشکن فیصلہ نہیں وہ پاس ہونے کا فیصلہ نہیں وہ خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کا فیصلہ نہیں وہ خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہونے کا فیصلہ نہیں کیونکہ اعمال نامہ اس کا خالی پڑا ہے نور تھا ہی نہیں کہ اعمال نامہ میں اس کا اندراج کیا جاتا پس لیلتہ القدر کے یہ معنی نہیں جو لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں بلکہ لیلتہ القدر کے یہ معنی ہیں کہ اس دن زندگی کا ایک باب ختم ہوا اور ایک نیا باب شروع ہوا.پھر چونکہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ختم نہیں ہوں گی اس لئے اگر کوئی انسان چاہے کتنے ہی مقامات قرب حاصل کر لے تب بھی اس کے آگے بے شمار مقامات قرب ہیں جن کو وہ حاصل کر سکتا ہے لیلتہ القدر پر اس کی زندگی کا ایک باب ختم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے آج اس کی تقدیر کا فیصلہ کر دو کہ اس کی سال بھر کی خلوص نیت سے کی ہوئی عبادتوں اور اطاعتوں اور اسلام ( أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ ) یعنی فرمانبرداری کے مظاہروں کا آج میں خاص طور پر انعام دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس لیلتہ القدر میں اپنے بعض بندوں کو خاص انوار سے نوازتا ہے اور بعض کو عام انوار سے( جو معمول سے زیادہ ہوتے ہیں ) نوازتا ہے اور انکو کہتا ہے کہ پہلی لینڈنگ(Landing)(اگر
19+ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کسی عمارت میں کئی منزلوں تک سیڑھیاں چڑھ رہی ہوں تو ایک جگہ آکر ایک حصہ سیڑھیوں کا ختم ہو جاتا ہے اور ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے) تم پہنچ گئے کچھ رفعتوں کو تم نے حاصل کر لیا ہے اب ایک باب تمہاری زندگی کا ختم ہو گیا ہے نیا باب اس عزم اور ہمت اور دعا اور توجہ سے شروع کرو کہ سال گزرنے کے بعد ہم اس سے بلند مقام پر ہوں گے نیچے نہیں گریں گے اور نہ ہی موجودہ جگہ پر ٹھہریں گے پھر یہ باب بھی ختم ہو جاتا ہے پھر اگلا باب شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ اعمال نامہ کی کتاب کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ پہلے دن سے آخری دن تک یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہمارا انجام بخیر ہو کیونکہ ایک شخص اپنی زندگی کے ایک حصہ میں جتنا جتنا روحانی طور پر بلند ہوتا ہے اتنا ہی اس کے لئے زیادہ خطرہ ہے کہ اگر وہ گرا تو اس کی ہڈی پسلی قیمہ کی طرح پس جائے گی پانچ فٹ کی بلندی سے کوئی گرے تو اسے تھوڑی چوٹ لگتی ہے لیکن اگر کوئی چار منزلوں کی بلندی سے گرے تو اس کے لئے بچنا مشکل ہو جاتا ہے پس جہاں انسان کے لئے رفعتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مقامات قرب اسے عطا کئے جاتے ہیں وہاں اس کو بُرے انجام سے ڈرایا بھی جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ انجام بخیر کی دعا کرو کیونکہ اگر کسی وقت بھی شیطان کا حملہ تم پر کامیاب ہو گیا تو تمہیں زیادہ خطرہ ہے تم خدا تعالیٰ کی لعنت اور غضب کے نیچے دوسروں کی نسبت زیادہ آؤ گے.جولوگ دین العجائز اختیار کرتے ہیں آپ مشاہدہ کریں گے کہ ان میں سے بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے کہ شیطان ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ ابھی بہت تھوڑا پیارا اللہ تعالیٰ کا انہوں نے حاصل کیا ہے ابھی یہ نچلے درجہ میں ہیں اگر میں انہیں جھنجھوڑوں تو اس کا کیا فائدہ ہوگا گوشیطان چھیڑ تا توان لوگوں کو بھی ہے لیکن ان میں سے اکثر دین العجائز اختیار کرنے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں مگر جتنا جتنا کوئی بلند ہوتا ہے اتنا ہی بلعم باعور بننے کا خطرہ اس کیلئے پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی بیبیوں نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہمیں اس کی مثال ملتی ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیار اور قرب کا مقام بھی حاصل کیا لیکن بعد میں ٹھوکر لگی اور کہیں سے کہیں گر گیا غرض زندگی کا ایک باب لیلتہ القدر کو ختم ہوتا ہے پھر خدا کہتا ہے دعا کرو کہ آئندہ باب زندگی کا جب ختم ہو تو اس سے اچھا نتیجہ نکلے تم میری نگاہ میں میرے زیادہ پیار کے مستحق قرار پاؤ اور وہ لیلتہ القدر تمہارے لئے انفرادی طور پر اس سے بہتر لیلتہ القدر بن
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 191 سورة الانفال جائے اور دعا کرتے رہو کہ انجام بخیر ہو اور جب یہ کتاب بند ہو تو اس کے آخر میں یہی لکھا جائے کہ خدا کا پیارا بندہ خدا کی گود میں چلا گیا یہ نہ لکھا جائے کہ خدا نے اس بندہ سے ایک حد تک پیار تو کیا اور ایک حد تک محبت کا سلوک کیا مگر اس بندہ نے خدا کے پیار اور محبت کے سلوک کی قدر نہ کی.تب وہ خدا کی نگاہ سے دھتکارا گیا اور شیطان کی گود میں پھینک دیا گیا اس واسطے جہاں لیلتہ القدر کی تلاش کرو وہاں انجام بخیر ہونے کی دعائیں ہمیشہ کرتے رہو اور لیلتہ القدر یا کسی اور گھڑی کے غلط معنے لے کر جو نورانی نہیں ظلماتی ہوں اپنی زندگیوں کو اور اپنی نسلوں کو ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرو.ہلاکت سے اپنے کو بھی بچاؤ اور اپنوں کو بھی بچاؤ اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی بچاؤ.(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۴۲۵،۴۲۴) آیت ۴۵٬۴۴ اِذْيُرِيكَهُمُ اللهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَ لَو اَركَهُم ۖ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَ إِذْ يُرِيكُمُوهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُم فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا و يُقتلكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۖ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ دوو دو الأمور اب میں اس واقعہ کو لیتا ہوں جو گزشتہ ستمبر میں ہماری قوم اور ہمارے ملک پر گزرا.۶ ستمبر کو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے نہایت ظالمانہ طور پر اور فریب سے کام لیتے ہوئے پاکستان پرحملہ کیا.سترہ دن تک یہ جنگ لڑی گئی.یہ جنگ عام معمولی جنگوں کی طرح نہیں تھی بلکہ اس میں ہمیں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو اسے ایک خاص قسم کی جنگ بنا دیتی ہیں کیونکہ دوران جنگ پاکستانی قوم پر اللہ تعالیٰ کے مختلف اقسام کے افضال اور برکتیں نازل ہوتی نظر آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کا خیر کنند دعوی حُبّ پیمبرم ( در ثمین فارسی صفحه ۱۰۷)
۱۹۲ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحب الفیل یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھارہے تھے اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید و ناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا.یعنی اُن کا مکر الٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی، بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں.ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے.....اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں اسلام غریب ہے اور اصحاب فیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے چڑیوں سے وہی کام لے گا.“ (الحکم ۱۷ار جولائی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ہمیں بتایا ہے کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا سوال پیدا ہوگا.اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والوں کی کمزوریوں کو نظر انداز کر دے گا اور اپنے اس مقدس بندے کی عزت اور ناموس کی خاطر اس کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں ( تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ ۴۰۴) سو پاکستان وہ قلعہ ہند ہے جس پر بھارت نے حملہ کیا تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُترے
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۹۳ سورة الانفال اور مسلمانوں کی تائید میں اترے اس کے نتیجہ میں بھارت کو ذلت آمیز شکست دیکھنی پڑی.جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی.بھارت اور پاکستان کا فوجی لحاظ سے کوئی باہم مقابلہ تھا ہی نہیں.آج کل جنگی نقطۂ نگاہ سے ہوائی جہازوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور بھارت کے ہوائی جہاز ہم سے چھ گنا زیادہ تھے اور پھر وہ ہمارے جہازوں سے اچھے تھے.تیز رفتار تھے اور ان کے پیچھے بڑی ٹریننگ تھی لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللَّهِ (البقرة :۲۵۰) کہ میں یہ اذن آسمان سے نازل کرتا ہوں کہ یہ تھوڑی تعداد والے جہاز بڑی تعداد والے جہازوں پر غالب آئیں گے اور یہ ایک حقیقت ہے ایک واقعہ ہے جسے ہم نے دیکھا اور خود مشاہدہ کیا حالانکہ یہ ایک ایسی بات ہے جسے بظاہر انسانی عقل تسلیم نہیں کرتی لیکن جو واقعہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہوا.اس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا.پاکستان کی فضائیہ کے پاس جنگی جہاز بڑی کم تعداد میں تھے پھر بھی انہوں نے ایک ایسی حکومت سے مقابلہ کیا جس کے پاس ان سے چھ گنا زیادہ جنگی جہاز تھے انہوں نے اپنی تعداد کے برابر یا اس کے کچھ زیادہ دشمن کے جہازوں کو تباہ کر دیا اور ہمارے صرف بارہ ہوائی جہاز دشمن کے حملہ سے تباہ ہوئے.ہمارے ایک ہوا باز نے ایک وقت میں دشمن کے پانچ جہاز مار گرائے.جب اخباری نمائندہ اس کے پاس انٹرویو کے لئے آیا تو اس نے کہا میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مجھے تو صرف اتنا علم ہے کہ ایک وقت میں بھارت کے پانچ جہاز میرے سامنے زاویہ بنا کرلڑے میں بھی ان کے پیچھے اسی زاویہ میں مڑ گیا پھر یکدم میرے سامنے اندھیرا آ گیا میں نے اپنے جہاز کا ایک خاص بٹن دبا دیا اور کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ان میں سے چار جہاز نیچے آرہے تھے اس نے یہ بھی کہا مجھے اپنے کارنامہ پر نہ کوئی فخر ہے اور نہ میں اسے اپنی ذات سے منسوب کرتا ہوں یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے اس وقت فرمایا.یہی حال میدانی محاذ کا تھا.ایک محاذ پر ہمار ا صرف ایک بریگیڈ دشمن کی تین ڈویژن فوج کا مقابلہ چار دن تک کرتا رہا دشمن کی فوج نے ان چار دنوں میں اس پر چھ یا آٹھ حملے کئے اور ہر دفعہ خدا تعالیٰ نے اس کے حملے کو ایسا ثابت کیا جیسے کوئی دیوانہ پتھر کی دیوار پر سر مارتا ہے اور واپس ہٹ جاتا ہے قرآن کریم نے اس قسم کے مسائل پر بہت کچھ فرمایا ہے.میں اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا میں اس
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۹۴ سورة الانفال وقت ایک مضمون کو بطور مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دو آیتوں میں بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ورود ط اذْ يُرِيكَهُمُ اللهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَ لَوْ اَرْكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَ لكِنَّ اللهَ سَلَّمَ ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَ يُقتلكم في أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً وَ إِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ - اگر چه ان آیات میں ایک مخصوص جنگ کی طرف اشارہ ہے لیکن قرآن کریم میں جو واقعات بیان فرمائے گئے ہیں.ان میں بعض اصول بیان کئے گئے ہیں جو آئندہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں لہذا ان آیات میں گوا ایک مخصوص جنگ کی طرف اشارہ ہے لیکن جو اصول ان میں بیان کیا گیا ہے وہ دائمی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تیری خواب میں تجھے ان کافروں کو کم کر کے دکھایا تھا.تا کہ مومن جب یہ خواب سنیں تو اس کی تعبیر ٹن کر خوش ہوں.اگر خواب میں دشمن تھوڑا نظر آئے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شکست کھا جائے گا.چنانچہ بتایا اگر تجھے وہ کفار بڑی تعداد میں دکھائے جاتے تو تم ضرور کمزوری دکھاتے اور کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس خواب میں انذار کیا ہے کہ ہمیں شکست ہوگی اور اس معاملہ میں یعنی لڑائی کے بارہ میں آپس میں جھگڑتے کہ لڑائی کی جائے یا نہ لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو محفوظ رکھا وہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے اور یاد کرو جب کہ وہ ان کفار کو تمہاری نظر میں لڑائی کے وقت کمزور دکھا تا تھا اور قبل از جنگ تم کو ان کی نظر میں کمزور اور قلیل التعداد دکھاتا تھا تا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پورا کرے جس کا وہ فیصلہ کر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی سب باتیں لوٹائی جائیں گی.اس طرح فرما يا قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ أُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأَى الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيَّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ (ال عمران: ۱۴) یعنی ان دو گروہوں میں جو ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے تمہارے لئے یقیناً ایک نشان تھا ان میں سے ایک گروہ تو اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جنگ کرتا تھا اور دوسرا منکر تھا وہ یعنی مسلمان ان کا فروں کو آنکھوں سے اصل تعداد سے دو چند نظر آرہے تھے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی مدد سے قوت بخشتا ہے اس بات میں آنکھوں والوں کے لئے یقیناً ایک نصیحت ہے کہ کبھی آنکھیں باذن اللہ دھوکہ کھاتی
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۹۵ سورة الانفال ہیں اور اس شخص کی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں.اس آیت کو پہلی آیات سے ملا کر دیکھا جائے تو ہمیں یہ مضمون نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فروں کو لڑائی سے پہلے مسلمانوں کی تعداد کم دکھاتا ہے اور جب وہ کسی قوم کو ذلت آمیز شکست دینے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر اس کی سنت یہ ہے کہ وہ قوم جس کو وہ شکست دینا چاہتا ہے گو وہ اپنی مد مقابل قوم سے مال و اسباب کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اور اپنی اس طاقت پر بڑا گھمنڈ رکھتی ہے اپنے مقابل کی قوم کو بہت کم تعداد میں دیکھتی ہے.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ ان کے دلوں میں یہ ڈالے کہ جو قوم ان کے مقابلہ میں آرہی ہے وہ بھی بڑی طاقت ور ہے تو وہ جنگ میں ابتداء ہی نہیں کریں گے اور مسلمان بھی ابتداء نہیں کریں گے کیونکہ انہیں حکم ہے کہ تم جنگ میں ابتداء نہ کروپس اگر مد مقابل قوم مسلمانوں کو طاقتور سمجھے گی یا یہ سمجھے گی کہ ہم انہیں کسی صورت میں شکست نہیں دے سکتے تو وہ حملہ کیوں کرے گی؟ لیکن خدا تعالیٰ تو جنگ کے میدان میں انہیں شکست دینے کا ارادہ کر چکا ہے.لِيَقْضِيَ اللهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً.اس لئے خدا تعالیٰ یہ تدبیر کرتا ہے کہ جنگ سے پہلے پہلے مسلمان ان کی نظر میں حقیر، ذلیل، کمزور اور قلیل التعداد دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح ان کے دل میں جرات پیدا ہوتی ہے کہ وہ ان پر حملہ کر دیں.بالکل اسی طرح ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو ہوا.جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو ان کے بڑے بڑے لیڈروں نے لڑائی سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے لندن کی اخباروں میں 4 ستمبر کو ہی چھپوا دیا کہ لاہور شہر پر بھارت کی فوجوں کا قبضہ ہو گیا ہے اتنا غرور تھا انہیں اپنی طاقت پر.اتنی امید تھی انہیں اپنی کامیابی کی اور اتنا وثوق اور اعتماد تھا انہیں اپنی فوجوں پر کہ ہم اُس کا اندازہ بھی وہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی فوجیں اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی شکست یقینی ہے اس لئے انہوں نے لڑائی سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کر دیا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کسی ایسی قوم کو جو بڑی طاقت ور ہوتی ہے شکست دینا چاہتے ہیں.تو تد بیر کرتے ہیں کہ اس کے دشمنوں یعنی مسلمانوں کو ان کی نظر میں بہت کم کر کے دکھا دیتے ہیں حتی کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مسلمان تعداد میں ہم سے بہت کم ہیں اُن کے ہوائی جہاز ہم سے کم ہیں ان کی پیدل فوج کی تعداد اور طاقت کے لحاظ سے ہم سے کم ہے اس لئے ہم ان کے پر خچے اڑا کر رکھ دیں گے لیکن جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۹۶ سورة الانفال اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کی آنکھوں کے زاویوں کو اس طرح بدل دو کہ وہ مسلمان جو جنگ سے پہلے انہیں کم اور کمزور دکھائی دے رہے تھے زیادہ تعداد میں اور طاقت ور نظر آنے لگیں چنانچہ پچھلی جنگ میں اس قسم کے بیسیوں واقعات مشہور ہوئے ہیں لیکن میں صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں یہ واقعہ مجھ سے ایک ایسے افسر نے بیان کیا جو خود اس کا گواہ ہے اور میں اسے وثوق کے ساتھ بیان کرسکتا ہوں.انہوں نے بیان کیا کہ ایک محاذ پر شروع شروع میں چار بٹالین بھارتی فوج ہمارے علاقہ میں گھس آئی اور ہمارے ایک وسیع رقبہ پر انہوں نے قبضہ کر لیا ان کے سامنے اس وقت ہماری صرف ایک فوج بٹالین تھی.گویا دشمن کی فوجوں اور ہماری فوجوں کے درمیان ایک چار کی نسبت تھی ایک دن ہماری اس بٹالین کو حکم ملا کہ بھارت کی چار بٹالین فوج پر حملہ کر کے اپنا علاقہ خالی کروالو ہماری اس بٹالین کے پیچھے بھی کوئی فوج نہیں تھی جو وقت پڑنے پر مدد کر سکے لیکن حکم تھا کہ حملہ کر دو چنا نچہ اس بٹالین نے بھارتی فوج پر حملہ کر دیا.اس حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کی چار بٹالین فوج میں سے دو بٹالین فوج یا تو ماری گئی یا زخمی ہوئی اور بعض فوجی قیدی بنالئے گئے باقی دو بٹالین فوج بھاگ گئی اور ہمارا علاقہ خالی ہو گیا عجیب بات یہ تھی کہ ہماری بٹالین کا ایک آدمی بھی نہ مارا گیا یہ تو عملاً ایک معجزہ تھا جوان لوگوں نے دیکھا لیکن اس سے بڑھ کر ایک اور بات ہوئی وہ دوست بتاتے ہیں کہ جولوگ قیدی بنائے گئے ان کو پیچھے لانے کے لئے میری ڈیوٹی تھی ان قیدیوں میں ایک ہندو افسر تھا.جس کا عہدہ میجر کا تھا اس کو میں نے از راہ مذاق کہا کہ تمہیں کیا ہو گیا تھا تمہارے پاس چار بٹالین تھی لیکن تم اس ایک بٹالین کے حملہ کی بھی تاب نہ لا سکے.تمہاری آدھی فوج ماری گئی یا قیدی بنالی گئی اور آدھی فوج بھاگ گئی اس پر وہ ہندو افسر کہنے لگا کہ جیتنے کے بعد ایسی ہی باتیں کی جاتی ہیں ہم پر تمہاری پانچ بٹالین نے حملہ کیا تھا.وہ دوست کہتے ہیں میں نے سارا راستہ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری فوج اور تمہاری فوج میں ایک اور چار کی نسبت تھی مگر وہ نہ مانا تب مجھے خدا تعالیٰ کا یہ کلام یاد آیا کہ جنگ کے میدان میں تمہاری تعدا د شمن کو خوب بڑھ چڑھ کر دکھائی جاتی ہے اور آسمان سے مدد کے لئے فرشتے نازل کئے جاتے ہیں اور میدانی، فضائی اور سمندری جنگوں میں مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی قدرت، اپنی اخوت اور اتحاد اور باطنی طاقت کے ایسے ہزاروں جلوے دیکھے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ان دنوں ہم پر اور ہماری ساری قوم پر ہوا.
۱۹۷ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث دوسرا فضل جو خدا تعالیٰ نے ان دنوں ہم پر اور ہماری قوم پر کیا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَيْنَهُم ، إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ (الانفال: ۶۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو آپس میں باندھ دیا.اگر تو جو کچھ زمین میں ہے ان پر خرچ کر دیتا تو بھی ان کے دلوں کو اس طرح باندھ نہیں سکتا تھا اور ان میں اخوت پیارا تحا داور استحکام کی کیفیت پیدا نہیں کر سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے یقینا اللہ تعالیٰ ہی غالب اور حکمت والا ہے.b خطابات ناصر جلد ۱ صفحه ۲۲ تا ۲۸) آیت ۵۰ اِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرّ هؤُلَاءِ دِينُهُمْ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم مجھ پر بھروسہ کرو گے تو جو سہارا تمہیں ملے گاوہ حکمت سے خالی نہیں ہوگا وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ تمہارا بھروسہ اس اللہ پر ہو گا جو حکیم ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان بعض دفعہ غلط دعا کرتا ہے اور اسے یہ نظر آتا ہے کہ اس کی وہ دعا قبول نہیں ہوئی لیکن حقیقتاً اس کی وہ دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ دعاسنے والا حکیم ہے وہ حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں دعا کو سنتا ہے وہ جانتا ہے کہ جو دعا اس شخص نے مانگی تھی وہ آخر فائدہ مند اور سود مند نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے اسے ظاہری شکل میں رڈ کر دیا لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے جس کے لئے دعا کی گئی تھی اس نے کچھ ایسے سامان پیدا کر دیئے جو اس کے لئے زیادہ مفید تھے غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میری طرف آؤ مجھ پر بھروسہ رکھو، اگر تم مجھ پر بھروسہ رکھو گے تو میں تمہیں جو سہارا دوں گا وہ حکیم اللہ کا سہارا ہو گا وہ بے حکمت سہارا نہیں ہوگا، وہ بعد میں بدنتائج پیدا کرنے والا نہیں ہوگا وہ عارضی خوشیوں کے بعد دکھوں میں مبتلا کرنے والا نہیں ہوگا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۸۶،۳۸۵) الله لا إله إلا هُوَ وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ خدا ایک ہی ہے جس کی پرستش کرنی چاہیئے.وہ ایک ہی حقیقی معبود اور مقصود اور محبوب ہے ہمارا.اور جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۹۸ سورة الانفال لئے ضروری ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے وہ خدائے واحد و یگانہ پر صرف خدائے واحد و یگانہ پر تو گل کریں اور غیروں کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں.دوسری حکمت یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر اس لئے تو گل کرو کہ کمزور نہیں ہے وہ.جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ وہ غالب ہے ، طاقت والا ہے کوئی شخص اس کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتا.اگر تم پر رحم کرنا چاہے دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس کے رحم سے محروم نہیں کر سکتی.اگر تم اسے ناراض کر دو تو کوئی طاقت اس کی ناراضگی سے تمہیں بچا نہیں سکتی.عزی؟ تو اسی پر توکل کرنا چاہیئے نا، جو بنیادی طور پر ہر قسم کی طاقت کا سر چشمہ ہے اور کوئی غیر اس کے راستے میں روک نہیں اور اس پر توکل کرو کیونکہ وہ حکیم ہے ، حکمت والا ہے.انسان بعض دفعہ ایک چھوٹے بچے کی طرح جو آگ کا مطالبہ کیا اس نے ماں سے اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی بات مانگتا ہے جو اس کے علم میں ہے کہ اسے نقصان دینے والی ہے یا ایسی بات کی خواہش رکھتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کسی اور کے متعلق خواہش ہے کہ وہ جو اور ہے وہ اس کے حق میں نہیں ہے جیسے کشتی کا تختہ توڑ دینا.قرآن کریم نے وہ مثال بڑی اچھی ایک دی ہے ہمارے لئے.تو خواہش بظاہر نیک لیکن جو کامل علم رکھنے والی ہستی ہے اس کے نزدیک وہ درست نہیں.اس واسطے اس طرح نہیں دے گا کہ بچے نے سانپ مانگا اور سوٹی سے اس کی طرف سانپ پھینک دیا ماں نے.بلکہ وہ حکیم ہے وہ اپنی حکمت کاملہ سے تمہاری دعاؤں کو سنے گا اور اپنے پیار کا اظہار کرے گا.خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۶۵، ۲۶۶) آیت ۶۴۶۳ وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللهُ هُوَ b الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ ط مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا اَلَفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس نے اپنی خاص قدرت سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوطی کے ساتھ آپس میں باندھ دیا ہے اور اس رنگ میں باندھا ہے کہ اگر زمین کی ساری دولت اور زمین کے سارے اموال اس غرض کے لئے خرچ کر دئے جائیں تب بھی اس کے نتیجہ میں
۱۹۹ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث وہ اُلفت پیدا نہیں ہوسکتی تھی جو جماعت مومنین کے دلوں میں پیدا کر دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے کیا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں غالب کرے گا اور چونکہ وہ حکیم ہے اس نے اپنی حکمت کا ملہ سے جہاں اور بہت سے سامان اس مقصد کے حصول کے لئے پیدا کئے ایک سامان یہ بھی پیدا کیا کہ اس نے مومنوں کے دلوں کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اخوت اور محبت کے رشتہ میں باندھ دیا اور ایسا انعام کیا کہ آدمی جب سوچتا ہے تو شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں اور وہ یہ کہ اس آیت میں ان مومنوں کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے نہ کہ ان کی کسی خوبی کے نتیجہ میں اُلفت اور محبت کے اس رشتہ میں اس مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا ہے.یہ تعریف کی ہے کہ ايَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ یعنی تیری تائید اپنی مدد اور مومنوں سے کی، تو اپنی نصرت اور مومنوں کو بریکٹ کر دیا ایک جگہ جمع کر دیا.یہ کتنا بڑا انعام ہے کہ جو لوگ اپنے نفوس کو اور اپنی جانوں کو خدا کے حضور پیش کر دیتے اور اس کی منشا کے مطابق اور اس کے ارادہ کے پورا کرنے کیلئے ایک جان ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی نصرت کے ساتھ بیان کرتا ہے.نصرت اور مومنوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیتا ہے اس سے بڑھ کر کسی انسان کو خدا تعالیٰ سے اور کیا انعام مل سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے جن کی خاطر اس عالمین کو پیدا کیا گیا تھا خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی نصرت اور ان مومنوں کے ساتھ تیری مدد کی.جماعت مومنین کو خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا انعام دیا ہے کتنا رتبہ ان کا بیان کیا ہے.اُنہوں نے جو کچھ پایا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی پایا لیکن آپ کے طفیل مومنوں نے یہ کتنا بڑا انعام پایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور مومنوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک بڑا انعام ہے اس کو ضائع نہ کر دینا.فرمایا وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمُ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا (ال عمران : ۱۰۴) یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ جس قدرت کاملہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک جان کر دیا ہے اور بھائی بھائی بنا دیا ہے اس کی ناقدری نہ کرنا جس رستی سے اس نے تمہیں باندھا ہے اس رسی کو کبھی نہ چھوڑنا اور پراگندہ مت ہو جانا.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اللہ
۲۰۰ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث کا فضل ہے جو اس نے تم پر کیا دنیا ایذا رسانی کی دنیا تھی.بھائی بھائی کا دشمن تھا بھائیوں سے زیادہ باہمی الفت واخوت پیدا کر دی.آج بھی ساری دنیا میں ہمیں یہی نظر آتا ہے بھائی بھائی کا دشمن، خاندان خاندان کا دشمن، علاقہ علاقے کا دشمن اس رسی کو توڑ کے محبت کی اس قید و بند سے آزاد ہو گئے اس نعمت خداوندی کو ٹھکرادیا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس رستی کی قید سے باہر نکلو گے اعداء تم دشمن بن جاؤ گے اور جو اُلفت خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہارے اندر پیدا کی تھی اور تمہیں ایک جان کر دیا تھا اس نعمت خداوندی سے تم محروم ہو جاؤ گے اور جس طرح اس سے قبل آگ کے گڑھے کے کنارے پر تم کھڑے ہوئے تھے اور خدا کے فضل نے تمہیں اس سے بچالیا تھا پھر تم وہیں جا کے کھڑے ہو جاؤ گے اور آگ کے اندر گرنے کا بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا سوائے اس کے کہ تو بہ کے ذریعہ پھر تم خدا کی حفاظت میں آجاؤ تو یہ حقیقت کہ کوئی قوم یا جماعت اس طرح اُلفت کے اور محبت کے بندھنوں میں باندھی جائے.اللہ تعالیٰ کی بڑی ہی نعمت ہے جیسے کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اور اس نعمت کو جماعت پر نازل ہوتے ہم نے جلسہ سالانہ پر دیکھا ایک لاکھ کے قریب مردوزن کا اجتماع ہو اور نہ کوئی لڑائی ہو نہ جھگڑا ، نہ کوئی شور ہو نہ شرابہ یہ چند دن اس طرح سکون اور محبت کی فضا میں گزر گئے کہ ہمیں تو گزرتے ہوئے پتہ بھی نہ لگا.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۵۹،۴۵۸) آیت ۶۵ يَايُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورۃ انفال میں یہ اعلان ہوا یا يُّهَا النَّبِيُّ اے النَّبِيُّ ، اے الرسول، الاهی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَايُّهَا النَّبِيُّ اے التي حَسْبُكَ اللهُ سوائے خدا تعالیٰ کے تجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے.خدا تیرے لئے کافی ہے اور خدا تعالیٰ کے علاوہ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وہ مومنین خدا نے تیرے لئے کافی بنا دیئے ہیں جنہوں نے ہمارے حکم کے مطابق تجھے اُسوہ سمجھا اور تیری اتباع کی اور کامل مومن بن گئے.تو اس آیت میں جس جس گروہ مومنین کا ذکر ہے ویسے مومن بننے کی احمدیوں کو کوشش کرنی چاہیے.وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بڑا عظیم اعلان ہے.بہت بڑی عظمت کو ان جاں نثاروں کی ثابت کیا گیا اور اس کا اعلان کیا گیا حَسُبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ خدا تیرے لئے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۰۱ سورة الانفال کافی، خدا کے علاوہ تجھے اور کسی کی ضرورت نہیں اور جو کامل تیرے متبع بن گئے ہیں کامل طور پر اور تجھ میں فانی ہو گئے اور اپنے وجود کو تیرے وجود میں کھود یا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، تیرے کامل متبع ہو گئے اس معنی میں جس معنی میں لفظ انتباع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال کیا گیا ہے قرآن کریم میں، ویسے مومن تیرے لئے کافی ہیں.وہ جب تین تھے ( تاریخ پر اب ہم نظر ڈالتے ہیں ) اس وقت وہ تین کافی تھے، چوتھے آدمی کی مدد کی آپ کو ضرورت نہیں تھی.جب سو ہوئے وہ سو کافی تھے ، ایک سوا کویں کی ضرورت نہیں تھی.جس وقت دنیا اکٹھی ہوگئی تو دو چار ہزار کافی ہو گئے.میں نے مشاہدہ کیا اور غور کیا اور یہ واقعات پڑھے جو جنگیں ہوئی ہیں کسریٰ اور قیصر کے ساتھ ، اصل جو اسلام کے لئے کافی ہوئے اس اعلان کے بعد، وہ وہ ہارڈ کور (Hard Core) مومن تھے ، وہ فدائی جو جاں نثار تھے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور باقی تو پروانے تھے جو ان شمعوں کے گرد، انہیں کی بدولت ثبات قدم بھی دکھاتے تھے، پیچھے ہتے تھے پھر آگے بھی بڑھ جاتے تھے ان کی بدولت.تو حَسْبُكَ اللهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ یہ اعلان بھی ہے.یہ بشارت بھی ہے.یہ تاریخی حقیقت بھی ہے.یہ ایک وعدہ بھی ہے اگلوں کے لئے.اگلوں کو اکسانے کے لئے ایک کوڑا بھی ہے پیار کا کوڑ الگاتے ہیں نا ایسا تیز ہو جائے گھوڑا.تو گھوڑے کو غصے میں تو سوار کوڑ انہیں لگاتا، بڑا پیار کر رہا ہوتا ہے تو اس واسطے جماعت احمدیہ اس آیت کی روشنی میں وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ کی جماعت میں شامل ہونے کی کوشش کریں اور ہر اس چیز کو اپنی زندگی سے نکال کے باہر پھینک دیں جسے ہمارے پیارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں کیا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(خطبات ناصر جلد نم صفحه ۲۵۲،۲۵۱) آیت ۷۵ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ 609 أو وا وَ نَصَرُوا أَولَيكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَريم.اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت تو امنوا عام ایمان کی بیان کی ہے ایمان کے اصل معنی زبان اور دل کے اقرار اور تصدیق کے ہیں نیز جوارح کی تصدیق یعنی عمل بھی اس
۲۰۲ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث دعوی کے مطابق ہوں.تب حقیقی ایمان بنتا ہے.ایک منہ کا ایمان ہے لوگ عام طور پر کہہ دیتے ہیں کہ جی ہم ایمان لائے.صرف زبانی دعوی ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں وَهَاجَرُوا اور ان تمام باتوں سے رکے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے وَ جَاهَدُوا فِي سَبِیلِ اللہ اور وہ تمام کام کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ کرو.وَالَّذِينَ أَودا ونَصَرُوا اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اسلامی معاشرہ کو وہ قائم کرتے ہیں اور وہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں اپنے گھروں کو چھوڑتے ہیں.یہ لوگ ان کو اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں وَنَصَرُوا اور ہر طرح ان کی مدد کرتے ہیں تو یہ سچے مومن ہیں.هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا.تو سچے مومن کی پانچ نشانیاں یہاں بیان کی گئی ہیں.ایمان کے معنی یہاں یہ ہیں کہ وہ لوگ جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کا تمام وجود ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.یہ ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے یعنی ہم اس اعتقاد اور یقین پر قائم ہوں کہ حقیقی وجود اللہ تعالیٰ کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور مجھے بطور انسان کے اس لئے بنایا ہے کہ میں اپنا وجود اس کی راہ میں کھودوں اور اپنے ارادوں کو چھوڑ کر اس کے ارادوں اور اس کی رضا کو قبول کرلوں اور اس کی معرفت حاصل کر کے اس کے قرب کی راہوں پر چلنے کی کوشش کروں اور میرے دل میں سوائے اس پاک ذات کی محبت کے کسی اور کی محبت باقی نہ رہے.یہ کامل ایمان ہے جس کی طرف وَالَّذِينَ آمَنُوا میں آمَنُو کا لفظ اشارہ کر رہا ہے.اور دراصل اس کی دو کیفیتوں کو زیادہ وضاحت کے ساتھ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا میں بیان کیا گیا ہے هَاجَرُوا میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جائے اور اس کی اپنی کوئی خواہش یا اپنا کوئی ارادہ باقی نہ رہے اور وہ کلی طور پر ہر اس چیز سے پر ہیز کرنے والا ہو جس سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے.پس نفس امارہ کے تمام حکموں کو ٹھکرا دینے والا اور اللہ تعالیٰ کے سب حکموں کی پابندی کرنے والا اور تمام حکموں کو ماننے والا ہی پکا مومن ہوتا ہے اور پکے مومنوں کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جَاهَدُوا فِي سَبِیلِ اللهِ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ لوگ لگا دیتے ہیں اور اپنی ہر ایک قوت اور خدا داد توفیق سے وہ حقیقی
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۰۳ سورة الانفال نیکیوں کو بجالاتے ہیں اور باطنی اور ظاہری قومی سارے کے سارے خدا کیلئے اور اس کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں.تو غیر اللہ کی ہر بات ماننے سے انکار اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر اپنا سب کچھ قربان کر دینا اس طرف هَاجَرُوا اور جَاهَدُوا فِي سَبِیلِ اللہ میں اشارہ کیا گیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن کی علامت یہ ہے کہ الذین اورا وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہیں اور اپنے گھروں کے دروازے اپنے بھائیوں کے لئے کھولنے والے ہیں.ایک تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے سب کچھ اپنے شہروں میں چھوڑ دیا (زیادہ تر مکہ میں ) اور مدینہ کی طرف وہ ہجرت کر گئے ان مومنوں کو مدینہ میں رہنے والے انصار نے پناہ دی اور اپنے گھر میں ان کو ٹھہرایا اور وہ یہاں تک تیار تھے کہ اگر خدا کا یہی منشا ہو کہ ہم اپنا سب کچھ نصف نصف کر کے نصف اپنے مہاجر بھائیوں کو دے دیں تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں.یہاں تک کہ اگر اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہو کہ اگر ہماری دو بیویاں ہیں تو ہم ایک کو طلاق دے دیں اور اپنے بھائی سے یہ خواہش رکھیں کہ وہ اس بیوی سے عدت گزرنے پر شادی کر لے تو یہ بات بھی ہم کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن صرف اس حد تک اس لفظ کے معنی کو محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ جب بھی ایک مسلمان بھائی کو ضرورت پڑے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ وَالَّذِيْنَ اووا وَ نَصَرُوا پر عمل کرنے والے ہوں.یعنی جب بھی ایک مسلمان خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے اور کسی دوسرے مقام تک پہنچے تو اس دوسرے مقام پر رہنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کو اپنے مکانوں میں رہائش کے لئے جگہ دیں.جیسا کہ اب جلسہ سالانہ آ رہا ہے جلسہ سالانہ پر باہر سے آنے والے سردی کی شدت برداشت کرتے ہوئے اور اپنے بچوں کو اور بیویوں کو انتہائی جسمانی تکلیف میں ڈالتے ہوئے ربوہ میں پہنچتے ہیں.ربوہ میں آنے کی غرض یا مرکز سلسلہ میں پہنچنے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ یہاں وہ دنیا کمانا چاہتے ہیں وہ محض خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور قرآن کریم کے احکام کو سننے کے لئے اور اپنے بھائیوں سے ملنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے جو فضل سال کے دوران جماعت پر ہوتے رہے ہیں ان کو دیکھنے اور ان کا حال سننے کے لئے آتے ہیں وہ صرف اس لئے آتے ہیں اور صرف اس لئے یہ تکالیف برداشت کرتے ہیں کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو جلسہ پر بلایا تو
تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ۲۰۴ سورة الانفال وہ آواز آپ کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وہ آواز تھی.اسی لئے دوست بڑی کثرت سے آتے ہیں.ظاہری طور پر بڑا دکھ اٹھا کے اور بڑی قربانی دے کر آتے ہیں اور ہر قسم کی کوفت اور تکلیف یہاں برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں جو سہولت اور آرام پہنچا سکیں وہ تو ہمیں پہنچانا چاہئے (ربوہ کے رہنے والوں کو ) اوو او نَصَرُوا کے ماتحت !!! (خطبات ناصر جلد اول صفحه ۹۸۸ تا ۹۹۰) کو) وَ ایک دوسری جگہ مومنوں کو بشارت ملی مغفرت کی.لا تقنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر : ۵۴) بڑی زبر دست بشارت ہے رزق کریم کی.یہ کریم جو میں نے سٹڈی (Study) کیا ہے کریم کے لفظ کے معانی کو ، یہ ہر شخص کے مزاج کے مطابق اور طبیعت کے مطابق معنی دیتا ہے.تو رزق کریم نوعی لحاظ سے جو انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والا رزق ، جو انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا رزق مثلاً دو مہینے کے بچے کے لئے دودھ جو ہے ماں کا وہ رزق کریم ہے.اس کی حالت کے مطابق ہے اور اس کے لئے اگر آپ نہایت اچھا پکا ہوا پاکستان کا بہترین باور چی جو ہے وہ موٹا پلا ہوا چوزہ جو ہے پکا کے دو مہینے کے بچے کے منہ میں ٹھونسے تو وہ رزق تو ٹھیک ہے لیکن وہ کریم نہیں ہے اس کے لئے ، طیب نہیں ہے اس بچے کے لئے.تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جیسے جیسے تمہارے حالات بدلتے جائیں گے تمہارے حالات کے مطابق میں تمہاری ضروریات پوری کرنے کا سامان پیدا کرتا چلا جاؤں گا.رزق کے معنی صرف کھانا ہی نہیں ہے بلکہ ضروریات پورا کرنے کا سامان تمہیں دیتا چلا جاؤں گا لیکن ساتھ انذار بھی ہے اتنا زبردست ، مغفرت بھی ہے.حالات کے مطابق تمہیں ہر چیز میسر بھی آجائے گی.انذار ہے یہ کہ اگر تم ہجرت نہ کرو ہمارے حکم کے مطابق اور جہاد میں حصہ نہ لو اور مومن بھائیوں کو پناہ نہ دو اور بھائی بھائی کی مدد نہ کرے اور اس طرح تم سچے مومن نہ بنو یعنی قرآن کریم نے بھی مومن مومن میں فرق کر کے ایک جگہ خالی مومن کہا ہے.ایک جگہ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا کا لفظ ہے اسی آیت میں جو میں پڑھ رہا ہوں.یہ فرق خود قرآن کریم نے کیا ہے.سچے مومن نہ بنو تو یہ بشارت تمہارے حق میں پوری نہیں ہوتی.فرمایا: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ أَوَوا وَ نَصَرُوا أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمُ - ہجرت کے معنی محض اپنے گاؤں کو یا شہر کو یا اپنی جائیداد کو چھوڑ کے دوسری جگہ منتقل ہونے کے نہیں
۲۰۵ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ہجرت کے معنی ہیں ہر اس چیز کو چھوڑ دینے کے جسے چھوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہو.اس معنی کی طرف زیادہ تر توجہ ہمارے جو صوفیاء مفسر ہیں ان کی گئی ہے.وہ بہت سارے تو دوسری طرف آتے ہی نہیں.وہ اپنے ہی معنی کر جاتے ہیں لیکن وہ بھی معنی ہیں.جس نے خدا کی خاطر مکہ جیسے شہر کو چھوڑا، اپنی جائیدادیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں.ہمیشہ کے لئے میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ فتح مکہ کے بعد بھی ان جائیدادوں کو واپس لینے کا کوئی Claim نہیں کیا انہوں نے.اسی طرح واپس آگئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ، بڑاز بر دست واقعہ ہے وہ بھی.تفصیل بتا ئیں گے تمہیں یہاں کہیں.اور وہ بھی ہجرت ہے لیکن ہر وہ چیز جس سے خدا منع کرتا ہے اس کو چھوڑ دیناوہ بھی ہجرت ہے.اس کو چھوڑ دو.اس آیت میں بنیادی طور پر دراصل سارے اعمالِ صالحہ کو Cover کیا ہے ان کے متعلق بات کی ہے.جس چیز کو خدا منع کرتا ہے اس سے باز آؤ.ہجرت کرو.وَجْهَدُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اور جس چیز کے کرنے کا حکم دیتا ہے اس کے لئے پوری سعی کرو.محض سعی نہیں جہاد کے معنے ہوتے ہیں انتہائی کوشش کر دینا.ہر شخص اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق پوری کوشش کرے خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اس کے احکام کو پورا کرنے میں اور اس کی آگے پھر تفصیل کیونکہ بُنْيَان مرصوص (الصف:۵) بنانا تھا کہ تمہیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیئے.ایک دوسرے کی پناہ بننا چاہیئے دوسروں کے دکھوں کا مداوا بنا چاہیئے.أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ ہیں سچے مومن.نام کے مومن تو بہت سارے ہوتے ہیں لیکن قرآن کہتا ہے یہ سچے مومن ہیں.انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے مغفرت ہے.انسان ہے بشری کمزوریاں ہیں غلطی کرے گا ہزار جگہ اور اگر تو بہ کرے گا تو وعدہ ہے اس کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا اور مغفرت کے سامان پیدا کرے گا اور اس کی ہر ضرورت پوری کرے گا وَ رِزْقی کریم.دوسری جگہ بشارتیں دیں انتہائی کامیابی تمہیں ملے گی تمہاری کوششوں کا بہترین نتیجہ نکلے گا اپنے رب کریم کی طرف سے تمہیں عظیم الشان رحمت نصیب ہوگی.خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیار تمہیں ملے گا.دائمی نعمتوں والی جنتیں تمہارے نصیب میں ہوں گی.یہ ساری بشارتیں ہیں نا.انتہائی کامیابی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان رحمت کا ملنا اس کا راضی ہوجانا.اس کے پیار کا حاصل ہو جانا.ایسی جنتوں کا ، رضا کی جنتوں کا ملنا جو دائمی ہیں جو ایک دفعہ مل جائیں پھر چھینی نہیں جاتیں لیکن
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۰۶ سورة الانفال ساتھ انذار ہے.وہی جو دوسری جگہ ہے میں نے بتایا ہے نا کہ دراصل وہ سارے اعمال کو یعنی جو کہ کرنے کے ہیں ان کی اطاعت کرنا.اس اطاعت میں انتہائی توجہ اور انتہائی زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نمونہ ظاہر کرنا.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ الله - (التوبۃ :۲۰) انتہائی کامیابی جس کا میں نے ترجمہ کیا تھا.یہ بشارت ہوگئی نا أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ و الله أوليكَ هُمُ الْفَابِزُونَ کا میابی بڑی ہے.يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ ان کو بشارت دو.یہ ساری بشارتیں ہی ہیں جس کو میں نے کہا تھا نا بشارت.آپ میں سے کسی کا دماغ ادھر نہ چلا جائے کہ وہ تو جزا ہے.کوئی جزا نہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ (التوبة :٢١) خدا تعالیٰ اپنی رحمت کی انہیں بشارت دیتا ہے.رضوان اور اپنی رضا کی انہیں رحمت دیتا ہے.وَجَنَّتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمُ (التوبة : ۲۱) ابدی نعماء والی جنتوں کی انہیں بشارت دیتا ہے.جن میں وہ ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.اور خدا تعالیٰ بڑا اجر دینے والا ہے لیکن هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ انْفُسِهِمْ یہاں جہاد کے معانی کا تجزیہ کر کے اس کو کھول کے بیان کر دیا ہے، اپنے اموال سے اور اپنے نفسوں سے یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفوس کی تہذیب کرنا، انہیں پالش کرنا اور خدا کی ملت اسلامیہ اور اشاعت اسلام کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرنا.قرآن کریم نے جہاد کو تین بنیادی معنوں میں استعمال کیا ہے.اپنے نفس کو پالش کرنا یعنی ساری بُرائیوں کو پاک کر کے.وہ پاک ہے خدا تعالیٰ پاک ہے نا اور پاک کو پسند کرتا ہے.پاکیزگی میں اس جیسا بننے کی کوشش کرنا انسان خدا نہیں بن سکتا یہ درست ہے لیکن انسان بننے کی کوشش کر سکتا ہے.اس کے دل کی یہ تڑپ جو ہے وہ خدا تعالیٰ کو پسند آتی ہے.خدا کہتا ہے میرا یہ عاجز بندہ جو میری عظمت اور پاکیزگی ہے اس کے اربویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتا.طاقت ہی نہیں اس کو میرے مقابلے میں لیکن دل میں ایک جلن ہے، ایک آگ ہے، ایک تڑپ ہے، ایک لگن ہے وہ کہتا ہے میں بھی اپنے خدا کی طرح پاک بن جاؤں.خدا تعالیٰ کو وہ جو اس کی لگن اور تڑپ ہے اور جو نیت ہے، جو کوشش اس کے لئے وہ کر رہا ہے وہ پسند آتی ہے.بعض استاد کسی زمانے میں پرچے تول کے نمبر دے دیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ پرچے تول کے نمبر نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ تو اخلاص پر نگاہ رکھتا ہے اور اپنے پیار سے اٹھا کے اور
۲۰۷ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث اپنی گود میں رکھ لیتا ہے.اتنی عظیم بشارتیں ہیں.بشارت کا لفظ بھی یہاں استعمال ہوا ہے لیکن انذار کا پہلو بھی ہے اگر تم ہجرت اپنے پورے معانی میں جو ہجرت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے بیان کئے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوپر روشنی ڈالی ہے، آپ کے اسوہ میں وہ چیز ہمیں نظر آتی ہے، اس کے مطابق ہجرت نہیں کرو گے اگر اس کے مطابق جہاد نہیں کرو گے.میں بتا رہا تھا تین معنے ہیں ایک نفس کے خلاف جہاد.ایک قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑ کے ساری دنیا میں قرآن کریم کے نور کو پھیلانے کی کوشش وہ بھی قرآن کریم کی اصطلاح میں جہاد ہے اور ایک اس انجان ناسمجھ کے خلاف جہاد جو خدا تعالیٰ کی پیاری قوم کو مادی طاقت سے مٹانے کی کوشش کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلواریں بھی ہوں گی تو کوئی پرواہ نہ کرنا میرے نام کے اوپر کھڑے ہو جانا جیسا کہ میں مثالیں دے کر پہلے آپ کو بتا چکا ہوں.بہر حال یہ سارے اعمالِ صالحہ کے اوپر ہجرت اور جہاد کا لفظ احاطہ کئے ہوئے ہے.بشارت خدا تعالیٰ کی رحمت کی دی اور شرطیں.قرآن کریم میں بشارتوں کے ساتھ انذاری پہلو مختلف جگہ ساری تعلیم ہی یہ بھری ہوئی ہے یعنی ہر حکم جو ہے اس کا ایک پہلوانذار کا نکل آتا ہے یعنی یہ کہا کہ اپنے بھائی سے حسن سلوک کر.اسے دیکھ نہ پہنچا.دونوں معنی منفی اور مثبت دونوں چیزیں.اگر وہ دکھ پہنچاتا ہے حکم نہیں مانتا تو وہ انذار ہے اگر وہ سکھ پہنچاتا ہے تو وہ بشارت بن جاتی ہے.عملاً اگر وہ ایسا کرتا ہے اُولبِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ( التوبة : ۷) خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہوں گے.کون لوگ؟ وہ مومن مرد اور مومن عورتیں جو بعض بعض کے خیر خواہ ہیں.امر بالمعروف کرنے والے، ہمنکر سے روکنے والے، نمازوں کو قائم کرنے والے، زکوۃ کو دینے والے، غرض کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی پوری اور سچی اور کامل اطاعت کرنے والے.اوليك روووو سيرحمهم الله - تو جو شخص با ہمی دوستی اور خیر خواہی نہیں رکھتا ، امر بالمعروف نہیں کرتا، نہی عن المنکر نہیں کرتا، نماز کو شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا پڑھتا تو ہے لیکن شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا، زکوۃ کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتا.غرضیکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمی کرتا ہے وہ اندار ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ گے اگر ایسا کرو گے.یہ آخر میں میں نے دو آیتیں اس لئے لی تھیں اس کا دوسرا حصہ نبی والا حصہ بھی ایک دوسری آیت میں ہے.دونوں سامنے آجائیں
۲۰۸ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث گی تو آپ پر مضمون واضح ہو جائے گا.دوسری آیت میں ہے کہ ایک گروہ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ خدا تعالیٰ ان کی وہ کوششیں جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے بظاہر نظر آتی ہیں، قبول نہیں کرے گا.ان کے صدقات قبول نہیں کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے عذاب کا سامان پیدا کرے گا اور ہیں وہ انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اور نماز ادا کرنے والے.یہ وہ گروہ ہے جن کے متعلق خدا کہتا ہے کہ ان کی قرب الہی کی کوششیں قبول نہیں ہوں گی.خدا تعالیٰ ان کے لئے عذاب پیدا کرے گا.بظاہر وہ خرچ بھی کرتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں.مومن بھی ہیں اور کفر اللہ بھی کر رہے ہیں اور رسول کا بھی کفر کر رہے ہیں.وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إلَّا وَهُمْ كَسَالی (التوبة:۵۴) نماز پڑھتے ہیں مگر ٹھونگے مارتے ہیں یعنی شرائط اس کی قائم نہیں کرتے.ان کے دل میں خدا تعالیٰ کا پیار نہیں.وہ جو عاجزی کی کیفیت دل اور دماغ اور روح میں پیدا ہونی چاہیئے وہ نہیں.وہ خدا تعالیٰ کو ہی حاکم اور دیا ل نہیں سمجھتے بلکہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور قبروں پر مثلاً سجدہ بھی کر لیتے ہیں جاکے اور پیروں کی پرستش بھی کرتے ہیں.اس قسم کی نماز پڑھنے والے ہیں.وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ.دیتے تو ہیں مگر نفرت کے ساتھ دیتے ہیں.بشاشت کوئی نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا.ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ خرچ کرے اور بشاشت سے خرچ کرے کراہت سے خرچ نہ کرے.ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پڑھے اور نماز کو شرائط کے ساتھ قائم کرے.یہ نہیں کہ کسالی.مثلاً آگئے دوڑ کے ادھر ادھر دیکھ لیا اچھا کسی کی نظر مجھ پر پڑی ہے مجھے پھر نماز پڑھنی پڑے گی تو آگئے اور ظاہر میں ٹھونگے بھی مار لئے.ایمان کا دعویٰ بھی ہے اور عملاً کفر باللہ اور کفر بالرسول بھی ہے اور ساتھ یہ دعویٰ بھی ہے یہ ہے ہی منافقوں کے متعلق.ایسے کمزوروں کے متعلق جو نماز بھی پڑھتے ہیں آخر وہ ایمان کا دعوی کرنے والے ہیں نا جو آ جاتے ہیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے اور زکوۃ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۰۸ تا ۲۱۲) پس فرمایا کہ مجاہدہ کرو پھر فرمایا کہ تم مجاہدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اس صورت میں صرف امیدوار ہو سکتے ہو ہاں اگر تم بدیوں کو چھوڑو نہیں اور نیکیوں کو اختیار نہ کرو تو پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے
تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ۲۰۹ سورة الانفال ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحمت کا سلوک کرے گا.لیکن اگر تم ایسا کر لو تو ابھی صرف یہ ایک امید ہے.ابھی واقع نہیں.جب تک اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.اور جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے تو یہ امید حقیقت بن جاتی ہے.مجاہدہ کے معنی کو جب ہم قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتوں کو جہاد یا مجاہدہ میں شامل کیا ہے.اور یہاں میری مراد مجاہدہ سے نیکیوں کا اختیار کرنا ہے.جو مجاہدہ کا ایک پہلو ہے.بدیوں کو چھوڑ نا دوسرا پہلو ہے مگر میں اس وقت پہلے حصہ کے متعلق ہی بیان کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ اووا و نَصَرُوا أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا - اس آیت میں مجاہدہ کی مندرجہ ذیل قسمیں بیان کی گئی ہیں :.(۱) ایک مجاہدہ ہے جو ہجرت کے ذریعہ کیا جاتا ہے.ایک تو وہ بڑی ہجرت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی اور ایک وقت آنے پر آپ نے فرمایا کہ اب اس قسم کی ہجرت نہیں رہی.پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کوشش کرتے تھے.اور خدائے واحد کی صفات کو بلند آواز سے لوگوں تک پہنچاتے تھے.پھر کچھ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوئے اور اہل مکہ نے اور ان لوگوں نے جو مکہ کے گر در ہنے والے تھے اتنے دکھ اور ایذائیں اس چھوٹے سے گروہ کو دیں کہ دنیا کے تختہ پر دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا گروہ نہیں ہے کہ جس کو اتنا لمبا عرصہ اس قسم کی شدید تکالیف اور ایذاؤں میں سے گزرنا پڑا ہو.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان ایک اور طرح سے لینا چاہا.وہ یوں کہ حکم دیا ہمیشہ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ دو اور اپنے رشتہ داروں کو جو مسلمان نہیں ہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو.اور اس ماحول کو بھی جس میں تم رہتے ہو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر دوسری جگہ (مدینہ ) چلے جاؤ.چونکہ کچھ عرصہ بعد تک بھی حالات ویسے ہی رہے اس لئے یہ ہجرت قائم رہی لیکن اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ اس قسم کی ہجرت کا ماحول اب نہیں رہا اس لئے اب اس قسم
۲۱۰ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کی ہجرت بھی نہیں رہی مگر وہ ہجرت کا اطلاق تھا ایک خاص واقعہ ہجرت پر.ورنہ ہجرت اپنے عام معنی کے لحاظ سے قیامت تک کے لئے قائم ہے اس لئے قرآن کریم میں آتا ہے هَاجَدُوا اور قرآن کریم کا کوئی لفظ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا.تو فرماتا ہے کہ وہ لوگ خدا کی خاطر اپنوں کو اور اپنی املاک کو چھوڑتے ہیں ( مثلاً آج کل کے زمانہ میں واقفین زندگی اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں چلے جاتے ہیں جہاں کے رواج بھی مختلف ، جہاں کے حالات بھی مختلف جہاں کے کھانے بھی مختلف.پھر بڑی تنگی اور بڑی سختی کے دن وہاں گزارتے ہیں ) یہ بھی مُهَاجِرٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَا مُجَاهِدٌ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ ہیں.(۲) دوسرے یہاں یہ فرمایا کہ وہ لوگ بھی مجاہد ہیں الَّذِینَ اوَوُا وَ نَصَرُ وا جوان بھائیوں کو جو مظلومیت کی حالت میں ان کے پاس جاتے ہیں.اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں.اور ان کی امداد کرتے ہیں.کیونکہ یہ بھی مجاہدہ میں شامل ہے.پس فرمایا کہ یہ دو قسمیں جو ہیں ایک ہجرت کرنے والوں کی اور دوسرے مہاجروں کو پناہ دینے والوں کی.أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ وہ مجاہد ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ یہ حقیقی مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے مغفرت اور رزق کریم مہیا کرے گا.واقفین زندگی بھی تحریک جدید کے ایک مطالبہ کے تحت مانگے گئے تھے.اور یہ مطالبہ بھی ایک شکل ہے مجاہدہ کی.کیونکہ ہر وہ کام (جیسا کہ پہلی آیات سے واضح ہوتا ہے ) جو خدا کی رضا کی خاطر اور اس کے قرب کے حصول کے لئے کیا جائے.اور جس کے کرنے میں انسان اپنی پوری توجہ اور پوری قوت صرف کر رہا ہے.اور اس سے جو کچھ بن آئے کر گزرے.اسے خدا تعالیٰ مجاہدہ کے نام سے پکارتا ہے.تو قرآن کریم کی ایک آیت بڑی وضاحت سے بتا رہی ہے کہ وقف زندگی بھی مجاہدہ کی ایک قسم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت ۲۷۴ میں فرمایا کہ ہمارے احکام کے مطابق عمل کر کے اُمت محمدیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جنہیں دین کی خدمت میں لگایا گیا ہو گا.اور مشاغل دنیا سے انہیں روک دیا گیا ہو گا.(اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ) تو بتایا کہ ان کو تمام ان مشاغل سے روک دیا جائے گا کہ جو سبیل اللہ کے مشاغل نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کے علاوہ دنیا
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۱۱ سورة الانفال کمانے اور دنیا کی عزّت حاصل کرنے کے تمام راستے ان پر بند کر دیئے جائیں گے.تو جن لوگوں پر اُحْصِرُوا فی سَبِیلِ اللہ کا اطلاق ہوتا ہے وہ بھی مجاہدین ہیں.ایک قسم کا مجاہدہ اور جہاد کرنے والے ہیں.اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگ جن پر دشمن، مخالف ، منکر دنیا کی راہیں بند کر دیتا ہے.آئے دن ہمارے سامنے ایسی مثالیں آتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ بعض احمد یوں کو صرف احمدیت کی وجہ سے نوکری نہیں دیتے یا امتحانوں میں اچھے نمبر نہیں دیتے کہ وہ ترقی نہ کر جائیں.یا اگر تاجر ہیں تو ان کی تجارت میں روک ڈالتے ہیں.اگر زمیندار ہیں تو طرح طرح سے ان کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.خصوصاً جہاں نئے احمدی ہوں اور تعداد میں بھی تھوڑے ہوں وہاں اس قسم کا سلوک اکثر کیا جاتا ہے.ایسے لوگوں پر خدا کے لئے دنیا کی تمام راہیں اگر بند ہو جائیں تو قرآنی محاورہ کے مطابق وہ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللہ کے گروہ میں شامل ہوتے ہیں.دوسری قسم مجاہدہ کی انفاق فی سبیل اللہ ہے.جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیا میں نے تمہیں دی ہے.چاہو تو دنیا کا ایک حصہ خرچ کر کے مجھے حاصل کر لو میری محبت کو پالو اور اگر چاہو تو دنیا کے کیڑے بن کر میری لعنت، میرے غضب اور میرے قہر کے مورد بن جاؤ.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انفاق پر بڑا زور دیا ہے انفاق فی سبیل اللہ کی کوئی حد بندی نہیں البتہ انفاق کی بعض قسموں کی حد بندیاں ہیں.مثلاً زکوۃ ایک خاص شرح کے مطابق دی جاتی ہے لیکن عام صدقات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی شرح مقرر نہیں فرمائی.اسی طرح اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے دین کی تقویت کے لئے حسب ضرورت جو اموال مانگے جائیں ان کے لئے کوئی شرح مقر ر نہیں ہر آدمی پر فرض ہے کہ وہ اپنی ہمت کے مطابق اور حالات کی نزاکت کے مطابق خدا کی راہ میں اپنے مال کا جتنا حصہ وہ مناسب سمجھتا ہے خرچ کرے.جیسا کہ ایک وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے دین کو تمہارے مالوں کی ضرورت ہے.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندازہ لگایا کہ یہ موقع اتنا نازک ہے کہ میرا فرض ہے.کہ میں اپنا سارا مال لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دوں مگر
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۱۲ سورة الانفال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اندازہ لگایا کہ اتنا نازک وقت تو نہیں.لیکن بہر حال اتنا نازک ضرور ہے کہ مجھے نصف مال خدا کی راہ میں دے دینا چاہیے.تو ہر شخص اپنی اپنی استطاعت اور قوت اور استعداد کے مطابق اور اپنے اپنے مقام ایمان کے مطابق اندازہ لگا کر ایسے موقعوں پر خدا کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے.لیکن کوئی خاص حد بندی مقرر نہیں.جیسا کہ تحریک جدید کے چندوں کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی.لیکن اس خواہش کا ضرور اظہار کیا ہے کہ ایک مہینہ کی آمد کا ۱٫۵ سالا نہ تم دیا کرو تا کہ سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں.بعض لوگ اب بھی اس سے زیادہ دیتے ہیں.اور بعض ایسے ہیں جو ۱/۵ بھی نہیں دیتے ۱۰ / ا دیتے ہیں ۱۵ / ا دیتے ہیں ۲۰/ ۱ دیتے ہیں.مجاہدہ کی ایک شکل جو قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ قتال فی سبیل اللہ ہے.یعنی جب دشمن زور بازو سے اسلام کو مٹانا چاہے اور مادی ہتھیار لے کر اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو باوجود اس کے کہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں بہت کمزور ہوتے ہیں، دفاع کی اجازت دیتا ہے.اور پھر حکم دیتا ہے کہ ضرور دفاع کرو.اور یہ حکم اس لئے دیتا ہے تا کہ کمزوروں کی کمزوری ظاہر ہو جائے.اگر صرف اجازت ہو تو بعض کہیں گے کہ سب کو لڑائی میں جانا تو ضروری نہیں ہے.اور پھر اس وقت اپنی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں کا ایک نمونہ دنیا کو دکھاتا ہے کہ دیکھو مومن تھوڑے بھی تھے، کمزور بھی تھے، غریب بھی تھے پھر ان کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے باوجود اس کے جب وہ ہمارے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہمارے اور اپنے دشمن کے مقابلہ پر آگئے.تو انہیں فتح نصیب ہوئی.اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کا معجزانہ رنگ میں اظہار فرماتا ہے.اس کے علاوہ مجاہدہ کی ایک شکل ہمیں قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے.وَلَبِن قُتِلْتُم في سَبِيلِ اللهِ اَوْ مُثْمُ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَحْمَةٌ (ال عمران : ۱۵۸) یہاں صرف قتل کئے جانے کا ذکر ہے.ضروری نہیں کہ جنگ میں قتل ہو.اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا.کہ مسلمان صرف میدان جنگ میں ہی شہید نہیں کئے گئے.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہزاروں
۲۱۳ سورة الانفال تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث لاکھوں مسلمان ایسا ہے جسے میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ امن کی حالت میں کافروں نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا.جیسا کہ ہماری تاریخ میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو کابل میں پکڑا گیا.وہ بے گناہ، بے بس اور کمزور تھے.حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.حکومت نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے خلاف، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے ان کو پکڑا اور قتل کر دیا.اور بڑی بے دردی سے قتل کیا.تو ایک شکل مجاہدہ یا جہاد فی سبیل اللہ کی یہ ہے کہ انسان ایسے وقت میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور کمزوری نہیں دکھاتا.صداقت سے منہ نہیں موڑتا.دشمن کہتے ہیں کہ تم تو بہ کر لو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے وہ کہتا ہے کہ کس چیز سے تو بہ؟؟ تو بہ کر کے حق کو چھوڑ دوں!! صداقت سے منہ پھیروں !!! اور باطل کی طرف آ جاؤں !!! ایسا مجھ سے نہیں ہو سکتا!! مرنا آج بھی ہے اور کل بھی.تمہارا جی چاہتا ہے تو مار دو.لیکن میں صداقت کو نہیں چھوڑ سکتا.پانچویں شکل مجاہدہ کی جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے وہ ہجرت فی سبیل اللہ ہے.اس کی تفصیل کو میں اس وقت چھوڑتا ہوں.چھٹی شکل اللہ تعالیٰ نے جو مجاہدہ فی سبیل کی بتائی ہے وہ ہے خدا کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرے.سفر میں بہر حال ویسا آرام نہیں مل سکتا جیسا کہ اپنے گھر میں ملتا ہے.بعض لوگ سفر سے گھبراتے ہیں.بعض لوگ بار بار سفر کرنے سے گھبراتے ہیں.تو ہمارے مربی ، معلم اور انسپکٹر صاحبان کو جو سال کے چھ سات ماہ سفر میں رہتے ہیں خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اپنی راہ میں مجاہدہ قرار دیا ہے.اور اس کی جو برکات ایک مجاہد پر نازل ہوتی ہیں یہ لوگ بھی اس کے وارث ہیں.جیسا کہ فرمایا يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ الله (النساء : ۹۵) اگر چہ اس آیت میں اپنی کانٹیکسٹ (Context) کے لحاظ سے یعنی اس مضمون کے لحاظ سے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.یہ سفر جنگ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.لیکن جنگ کرنے کا ثواب علیحدہ ہے.اور اِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللہ کا ثواب علیحدہ یہاں بتایا گیا ہے.اسی طرح اِنْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ( التوبة : ۳۸) ہے.تو بہت دفعہ خدا کی راہ میں سفر کرنا پڑتا ہے.مثلاً وقف عارضی میں وقف کرنے والوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ تم بتاؤ کہ تم کتنا سفر کر سکتے ہو؟ اس کے جواب میں بعض دوستوں نے لکھا کہ ہم اپنے خرچ پر پندرہ میں میل سفر کر سکتے ہیں بعض نے لکھا کہ ہم پچاس ساٹھ میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ ہم سو ڈیڑھ سو میل سفر کر سکتے ہیں.بعض
تفسیر حضرت خلیفة السبع الثالث ۲۱۴ سورة الانفال نے لکھا کہ سارے پاکستان میں جہاں آپ کی مرضی ہو بھجوا دیں.ہم سفر کرنے کے لئے تیار ہیں تو ایسے مومن بھی مجاہدین میں شامل ہیں.پس خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کی ایک قسم قرار دیا ہے.ساتویں اور مجاہدہ کی سب سے اہم قسم جَاهِدُهُم بِہ جِهَادًا كبيرًا (الفرقان: ۵۳) میں بیان کی گئی ہے.یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہوں میں جہاد کرنا اور اصولی طور پر یہ جہاد دو شکلوں میں کیا جاتا ہے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتنے زبر دست اور اتنی کثرت سے دلائل جمع کر دیئے ہیں کہ دنیا کا کوئی باطل عقیدہ خواہ کسی مذہب سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.تو عقائد باطلہ کا (خواہ وہ عقائد باطلہ عیسائیوں کے ہوں یا آریوں کے یا سکھوں کے یاد ہریوں کے یا دوسرے بد مذاہب کے ہوں) دلائل حقہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ایک زبردست جہاد ہے جس کے نتیجہ میں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو انسان اس کی رحمتوں کا وارث بنتا ہے.اور دوسرے جَاهِدُهُم بِهِ جِهَادًا كبيرًا (الفرقان: ۵۳) تعلیم قرآن کو عام کرنے سے یہ جہاد کیا جاتا ہے کیونکہ مومنوں کی جماعت میں علوم قرآنیہ کو ترویج دینا.ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنا اور ان کو اس حق الیقین پر قائم کرنا کہ قرآن کریم بڑی برکتوں والی عظیم کتاب ہے اس سے جتنا پیار ہو سکتا ہے کرو.اس سے جتنی محبت تم کر سکتے ہو کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنو.تو یہ بھی ایک مجاہدہ ہے اور اسی مجاہدہ اور جہاد کی طرف اس وقت میں بار بار جماعت کے دوستوں کو متوجہ کر رہا ہوں.خطبات ناصر جلد اوّل صفحه ۴۴۳ تا ۴۴۸)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۱۵ سورة التوبة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التوبة آیت ۱۷ تا ۲۲ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْبُرُوا مَسْجِدَ اللَّهِ شَهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ * وَ فِي النَّارِ هُمْ خَلِدُونَ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكُوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَبِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ المُهتَدِينَ اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ امَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جَهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوْنَ عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي لا وو سَبِيلِ اللهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الفَائِزُونَ.يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ لا خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ (ایسے) مشرکوں کو (کوئی) حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنی جانوں پر (شرک اور فسق کی وجہ سے ) کفر کی گواہی دے رہے ہیں.یہی لوگ ہیں جن کے اعمال اکارت چلے گئے اور وہ آگ میں ایک لمبے عرصہ تک رہتے چلے جائیں گے.اللہ کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اور نمازوں کو قائم کرتا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۱۶ سورة التوبة ہے اور زکوۃ دیتا ہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا سوقریب ہے کہ ایسے لوگ کامیابی کی طرف لے جائے جائیں.کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کو آباد رکھنے کے کام ) کو اس شخص (کے کام) کی طرح سمجھ لیا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا یہ ( دونوں گروہ) اللہ کے نزدیک (ہرگز) برابر نہیں.اور اللہ ظالم قوم کو ہرگز کامیابی کی طرف نہیں لے جاتا.( وہ لوگ) جو (کہ) ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور ( پھر ) اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں (کے ذریعہ سے بھی ) اور جانوں کے ذریعہ سے (بھی) جہاد کیا اللہ کے نزدیک درجہ میں بہت بلند ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.ان کا رب ان کو اپنی عظیم الشان رحمت کی خبر دیتا ہے اور (اپنی) رضامندی اور ایسی جنتوں کی بھی جن میں ان کے لئے دائمی نعمت ہوگی.(وہ) ان میں بستے چلے جائیں گے ( یا درکھو کہ ) اللہ کے پاس یقینا بہت بڑا اجر ہے........چنانچہ وہ لوگ جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے جذبات کی وجہ سے یہ کہا تھا کہ اے خدا! ان میں سے وہ لوگ جو ایمان پر قائم ہیں تو اپنی رحمتوں کے ثمرات ان کے لئے میٹر کرنا اور خدا تعالیٰ نے جواب میں کہا کہ نہیں جو ایمان پر قائم نہیں رہیں گے ان کے لئے بھی میں دنیوی انعامات اور دنیا کی رحمتیں مہیا کروں گا.پس ان نسلوں کی ان قربانی دینے والی نسلوں کی ان فدائی نسلوں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کی تیاری کے لئے ہر چیز کی قربانی دینے کے جو ثمرات تھے اس میں ان کو بھی شامل کیا گیا حالانکہ وہ راہ راست سے بھٹک چکے تھے لیکن پھر وہی لوگ اور وہی نسل جن کے آباؤ اجداد نے اتنی عظیم قربانیاں دی تھیں ان کو خدا تعالیٰ کی یہ سرزنش بھی سننی پڑی.اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ کیا تم نے ان ظاہری چیزوں کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تمہیں خدمت کے لئے مامور کیا گیا تھا اور تم نے اس عظیم ہستی کے خلاف فتویٰ دے دیا ہے جس کے لئے یہ ساری تیاری ہورہی تھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو ان کو مسلمان سمجھنے سے انکار کر دیا اور صابی صابی کہنے لگ گئے.غرض کتنی زجر ہے اس آیت میں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الأخر پھر حالات بدلے اور وہ جو دنیا کا نجات دہندہ تھا اور وہ جو دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا اس کی امت بن گئی.پھر خدا نے کہا جو قربانی حضرت ابراہیم کی نسلوں نے
۲۱۷ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے دی تھی اس سے زیادہ قربانی ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے قیام اور دنیا کے دلوں میں توحید کو گاڑنے کے لئے اُمت محمدیہ سے لینی ہے.صرف ایک نسل نے یہ قربانی نہیں دینی بلکہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے اور ایک محدود زمانہ تک نہیں بلکہ رہتی دنیا یعنی قیامت تک قربانیاں دیتے چلے جانا ہے قیامت تک کا میں اس لئے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے رحمةٌ لِلعالمین بن کر آئے ہیں.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۱۹۱ تا ۱۹۵) سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِم جو لوگ ایمان لائے.جو لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور وہ لوگ جنہوں نے جہاد کیا اپنے نفوس کے ساتھ بھی اور اپنے اموال کے ساتھ بھی.انہیں بہت اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں بشارت دیتا ہے اپنی رضا کی جو اس زندگی سے شروع ہوتی ہے اور خاتمہ بالخیر ہو تو بغیر تسلسل ٹوٹے ہمیشہ کے لئے ساتھ رہتی ہے اور اُن جنتوں کی جن میں سے ایک، ایک اور شکل میں اس زندگی سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری ایک اور شکل میں مرنے کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے.قرآن کریم کی تمام تعلیم اس کے احکام اور او امر و نواہی ، وہ ان باتوں سے جو یہاں بیان ہوئی ہیں تعلق رکھتے ہیں یعنی ایمان ، ہجرت کرنا اور مجاہدہ کرنا خدا کی راہ میں.ایمان کا تعلق دل سے ہے اور اس کے معنی میں پھر دل کا جو پختہ عقیدہ ہے اس کا اظہار بھی ہو ساتھ اور جو دل کا پختہ عقیدہ ہے اس کے مطابق اعمال بھی ہوں.یعنی جوارح بھی لکھنے والوں نے لکھ دیا.تو زبان سے اظہار کرنا اور دل میں ایک پختہ عقیدہ رکھنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا یہ تین چیزیں ایمان کے اندر ان کی یا هَاجَرُوا والی شکل بنتی ہے یا جهَدُوا والی شکل بنتی ہے اور تمام اسلامی تعلیم اور عقائد احکام و اوامر ان ستونوں کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں.مفردات راغب میں ہے کہ ہجرت کے معنے ہیں ترک مکان.اپنا ایک مکان ، رہائش، جگہ کو چھوڑنا.انہوں نے کہا دار الکفر سے دار الایمان کی طرف.یہ اسلامی اصطلاح ہے.مہاجرین وہ بنے جنہوں نے مکہ کے ماحول کو ، مکہ کی جائیدادوں کو ، مکہ کے مکانوں کو ، مکہ کے رشتہ داروں کو جو ایمان نہیں لائے تھے چھوڑ دیا اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے سارے تعلقات قطع کر کے اور کسی قسم
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۱۸ سورة التوبة کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے مکہ چھوڑا اور مدینے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں زندگی گزارنے کے لئے چلے گئے.امام راغب مفردات میں لکھتے ہیں کہ ہجرت کے معنی - هجررَانُ الشَّهَوَاتِ انہوں نے یہاں تین معنے کئے ہیں.اہوائے نفس جو ہیں.شہوات جو ہیں اُن کو ترک کرنا.اصل اس کے معنی ترک کے ہیں نا.تو جوا ہوائے نفس ہیں.شہوات ہیں.اُن کو چھوڑ دینا ترک کرنا.دوسرے جو اخلاق ذمیمہ ہیں.بُرے اخلاق گندے اخلاق ، خدا سے دور لے جانے والے اخلاق معاشرہ میں فساد پیدا کرنے والے اخلاق، اُن اخلاق ذمیمہ کو ترک کرنا.وہ کہتے ہیں کہ ہجرت میں یہ بھی شامل ہے.اور تیسرے معنی ہیں کہ خطا یا کو ترک کر دینا.یعنی ہر وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے، اُسے چھوڑ دینا.اب قرآن کریم کی تعلیم اوامر ونواہی پر مشتمل ہے.تمام نواہی یعنی یہ جو کہا گیا ہے کہ یہ نہ کر، یہ نہ کر، یہ نہ کر ان کا تعلق انہی تین چیزوں سے ہے.اہوائے نفس کو چھوڑنے کے ساتھ.اخلاق ذمیمہ کو ترک کرنے کے ساتھ اور خطا یا جنہیں کہتے ہیں غلطیاں اور گناہ اور معصیت کے کام، ان سے عملی بیزاری اور اُن کو چھوڑ دینے کے ساتھ.اور جهَدُوا مجاہدہ کے بنیادی معنی ہیں مقدور بھر کوشش کرنا.اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرنا، پورا زور لگا دینا.اس کے اصطلاحی معنی ، اسلامی اصطلاح میں اس کے پھر آگے تین معنی بنتے ہیں.ایک اُس دشمن کے خلاف انتہائی کوشش جو زور کے ساتھ اور طاقت کے ساتھ اور ہتھیاروں کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اور جیسے ایک اصطلاحی چھوٹا سا ایک محاورہ ہمارا ہے.مُجَاهَدَةُ العَدُو اسلام کا جو دشمن ہے اس کی تمام ایسی کارروائیاں کہ جو اسلام دشمنی پر مبنی ہیں اُن کا پورے زور کے ساتھ مقدور بھر کوشش کر کے مقابلہ کرنا اور انہیں نا کام کرنا.اس کے دوسرے معنی شیطان کے خلاف مقدور بھر کوشش کرنا.مُجَاهَدَةُ الشَّيطن - شیطان بالواسطہ یہ جو انسان انسان کا دشمن بنتا ہے مُجَاهَدَةُ العَدُو کے پیچھے بھی شیطانی قوتیں ، وساوس حرکت کر رہے ہیں لیکن یہاں قرآن کریم کی تعلیم نور لے کے آئی.مُجَاهَدَةُ الشَّيْطن کے معنے ہم یوں کریں گے کہ ظلمات کو اللہ ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے ذریعے سے ٹور میں بدل دینا.ظلمت کو مٹا کے ٹور آ جائے اور قرآن کریم کے تمام نواہی نے گند مٹا کر اوامر.ہرا مر جو ہے وہ ٹور پیدا کرنے والا
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۱۹ سورة التوبة ہے کیونکہ ہر امر کی حکم کی جو اطاعت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو کھولنے والی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والے ٹور کی وارث بنانے والی ہیں اور مُجَاهَدَةُ النَّفْس کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو شیطان کے وار ہر انسان پر پڑتے ہیں اُن کا مقابلہ کرنا اور نا کام بنانا شیطان کو.شیطان نے آدم کی پیدائش کے وقت خدا تعالیٰ سے یہ اجازت لی تھی تمثیلی زبان میں کہ میں تیرے بندوں کو جنہیں تو نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے یعنی وہ تیرے بندے بن جائیں تیرے ہو جا ئیں مجھ میں فانی ہو کر ایک نئی زندگی پانے والے ہوں.میں اُن کو دوزخ کی طرف لے جانے کی انتہائی کوشش کرتا رہوں گا.قرآن کریم نے اعلان کیا جو تیرے بندے ہوں گے حقیقتاً اُن پر تیرا زور نہیں چلے گا.ہاں جو خود میرے بندے نہ بنا چاہئیں اور اہوائے نفس اور شہوات نفس کے پیچھے چلنے کی کوشش کریں وہ تیرے گروہ میں شامل ہو جائیں گے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ کے متعلق.جَاهِدُوا أَهْوَاءَ كُمُہر شخص کا، ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اہوائے نفس کے خلاف انتہائی کوشش کرے اور اُس نفس کو جو شیطان کی طرف گھسیٹنے والا ہے اُس کی ہیئت کذائی بدل کر ایسا بنا دے جو اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرنے والا ہو اور اُس کے فضلوں کو پانے والا ہو.مفردات راغب میں یہ بھی ہے کہ مجاہدہ ہاتھ سے ہو جو کوشش بھی ہوا سے بھی مجاہدہ کہتے ہیں اور جو زبان سے ہو اُسے بھی مجاہدہ کہتے ہیں.ہاتھ سے کوشش محاورہ ہے یعنی جو مادی طریقے پر کوشش کی جائے مثلاً انسان کا نفس ہے جو اپنے خلاف مجاہدہ کرتا ہے وہ ہاتھ کی کوشش ہے.انسان اپنے آپ کو وعظ نہیں کیا کرتا تقریر کر کے.وہ دوسروں کو سناتا ہے.کبھی خلوص نیت کے ساتھ کبھی بد نیتی کے ساتھ خدا کے ساتھ ایسے لوگوں کا معاملہ.لیکن ہر وہ کوشش جو زبان کی نہیں وہ کوشش ہاتھ کی کوشش کے اصطلاحی معنے میں شامل ہیں.چونکہ اسلام کی ساری تعلیم ان بنیادوں پر کھڑی ہوئی اور ان ستونوں کے اوپر وہ بلند ہوئی اس لئے جماعت احمدیہ کے بارے کام جو دینی اغراض کو پورے کرنے والے ہیں اُن کا تعلق خالص ایمان کے ساتھ ہے.جو ہجرت کے معنے ہیں هِجْرَانُ الشَّهَوَاتِ اور اخلاق ذمیمہ سے پر ہیز اور خطایا سے بچنا اس کے ساتھ ہے اور مجاہدہ اپنی جو شکلیں اختیار کرتا ہے یعنی مقدور بھر کوشش پوری سعی اپنی، پورا زور
۲۲۰ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث لگا دینا.پوری طاقت خرچ کرنا تا کہ اسلام کا دشمن ناکام ہوشیطان کے ہتھیار کند ہو جائیں اور انسانی نفس خدا کا بندہ بن کر زندگی گزارے شیطان کا بندہ بن کر زندگی نہ گزارے.اس لئے جو جماعتی پروگرام ہیں ان کو ہم نہ نظر انداز کر سکتے ہیں نہ بے توجہی سے اُن کو لے سکتے ہیں ، نہ ہمارا عمل مقدور بھر کوشش جو مجاہدہ کی جان ہے اُسے کئے بغیر کامیاب ہو سکتے ہیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۸۵ تا ۲۸۸) دوسری جگہ بشارتیں دیں انتہائی کامیابی تمہیں ملے گی تمہاری کوششوں کا بہترین نتیجہ نکلے گا اپنے رب کریم کی طرف سے تمہیں عظیم الشان رحمت نصیب ہوگی.خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیار تمہیں ملے گا.دائمی نعمتوں والی جنتیں تمہارے نصیب میں ہوں گی.یہ ساری بشارتیں ہیں نا.انتہائی کامیابی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان رحمت کا ملنا اس کا راضی ہو جانا.اس کے پیار کا حاصل ہو جانا.ایسی جنتوں کا ، رضا کی جنتوں کا ملنا جو دائمی ہیں جو ایک دفعہ مل جائیں پھر چھینی نہیں جاتیں لیکن ساتھ انذار ہے.وہی جو دوسری جگہ ہے میں نے بتایا ہے نا کہ دراصل وہ سارے اعمال کو یعنی جو کہ کرنے کے ہیں ان کی اطاعت کرنا.اس اطاعت میں انتہائی توجہ اور انتہائی زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نمونہ ظاہر کرنا.ވ.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ انْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللہ.انتہائی کامیابی جس کا میں نے ترجمہ کیا تھا.یہ بشارت ہوگئی نا أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ أُولَبِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ کامیابی بڑی ہے.يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ ان کو بشارت دو.یہ ساری بشارتیں ہی ہیں جس کو میں نے کہا تھا نا بشارت.آپ میں سے کسی کا دماغ ادھر نہ چلا جائے کہ وہ تو جزا ہے.کوئی جزا نہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.يُبَشِّرُهُم رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ خدا تعالیٰ اپنی رحمت کی انہیں بشارت دیتا ہے.رضوان اور اپنی رضا کی انہیں رحمت دیتا ہے.وَجَنْتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مقیم ابدی نعماء والی جنتوں کی انہیں بشارت دیتا ہے.جن میں وہ ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.اور خدا تعالی بڑا اجر دینے والا ہے لیکن هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَ انْفُسِهِمْ یہاں جہاد کے معانی کا تجزیہ کر کے اس کو کھول کے بیان کر دیا ہے، اپنے اموال سے اور اپنے نفسوں سے یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفوس کی تہذیب کرنا، انہیں پالش کرنا اور خدا کی ملتِ اسلامیہ اور
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۱ سورة التوبة اشاعت اسلام کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرنا.قرآن کریم نے جہاد کو تین بنیادی معنوں میں استعمال کیا ہے.اپنے نفس کو پالش کرنا یعنی ساری بُرائیوں کو پاک کر کے.وہ پاک ہے خدا تعالیٰ پاک ہے نا اور پاک کو پسند کرتا ہے.پاکیزگی میں اس جیسا بننے کی کوشش کرنا انسان خدا نہیں بن سکتا یہ درست ہے لیکن انسان بنے کی کوشش کر سکتا ہے.اس کے دل کی یہ تڑپ جو ہے وہ خدا تعالیٰ کو پسند آتی ہے.خدا کہتا ہے میرا یہ عاجز بندہ جو میری عظمت اور پاکیزگی ہے اس کے اربویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتا.طاقت ہی نہیں اس کو میرے مقابلے میں لیکن دل میں ایک جلن ہے، ایک آگ ہے، ایک تڑپ ہے، ایک لگن ہے وہ کہتا ہے میں بھی اپنے خدا کی طرح پاک بن جاؤں.خدا تعالیٰ کو وہ جو اس کی لگن اور تڑپ ہے اور جو نیت ہے، جو کوشش اس کے لئے وہ کر رہا ہے وہ پسند آتی ہے.بعض استاد کسی زمانے میں پرچے تول کے نمبر دے دیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ پرچے تول کے نمبر نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ تو اخلاص پر نگاہ رکھتا ہے اور اپنے پیار سے اٹھا کے اور اپنی گود میں رکھ لیتا ہے.اتنی عظیم بشارتیں ہیں.بشارت کا لفظ بھی یہاں استعمال ہوا ہے لیکن انذار کا پہلو بھی ہے اگر تم ہجرت اپنے پورے معانی میں جو ہجرت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے بیان کئے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوپر روشنی ڈالی ہے، آپ کے اُسوہ میں وہ چیز ہمیں نظر آتی ہے، اس کے مطابق ہجرت نہیں کرو گے اگر اس کے مطابق جہاد نہیں کرو گے.میں بتا رہا تھا تین معنے ہیں ایک نفس کے خلاف جہاد.ایک قرآن کریم کو ہاتھ میں پکڑ کے ساری دنیا میں قرآن کریم کے نور کو پھیلانے کی کوشش وہ بھی قرآن کریم کی اصطلاح میں جہاد ہے اور ایک اس انجان نا سمجھ کے خلاف جہاد جو خدا تعالیٰ کی پیاری قوم کو مادی طاقت سے مٹانے کی کوشش کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلواریں بھی ہوں گی تو کوئی پرواہ نہ کرنا میرے نام کے اوپر کھڑے ہو جانا جیسا کہ میں مثالیں دے کر پہلے آپ کو بتا چکا ہوں.بہر حال یہ سارے اعمالِ صالحہ کے اوپر ہجرت اور جہاد کا لفظ احاطہ کئے ہوئے ہے.بشارت خدا تعالیٰ کی رحمت کی دی اور شرطیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۰۹ تا ۱۲۱۱) اگر اقتدار کا جنون سوار ہو تو ایسا انسان تمام حقوق پامال کرتا چلا جاتا ہے اور کہیں اسے قرار نہیں آتا لیکن جب فطرت صحیحہ ہو اور حقیقی خوشی اور لذت اللہ تعالیٰ کے قرب میں پائی جائے تو انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرتا چلا جائے.دُنیا کی دولتیں اور دُنیا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۲ سورة التوبة کی جاہ و حشمت تو محدود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قرب اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے غیر محدود ہیں کسی جہت سے بھی اُن کا احاطہ اور ان کی حد بست نہیں کی جاسکتی.پس جس وقت انسان روحانی میدانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتے ہوئے اس کے قرب کے حصول کے لئے بڑھ رہا ہوتا ہے تو یہی کوشش ایسی ہوتی ہے کہ جو فطرت کے اس تقاضا کو پوری کر سکے کہ اُسے غیر متناہی ترقیات چاہئیں اور اُسی کی جستجو میں وہ ہمہ وقت مشغول رہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر میں یہ فرما یا ران اللهَ عِندَةٌ أَجْرٌ عَظِیم کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ جب وہ اجر دینے لگے نیکیوں کا ، جب قبول کرنے لگے تمہارے مجاہدات کو تو وہ اجر اتنا عظیم ہو گا کہ اس سے بڑھ کر کوئی اجر تصویر میں نہیں آ سکتا.غرض ان آیات میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم اپنی فطرت کی اس خواہش کو، اس Urge (ارج) کو پورا کرنا چاہتے ہو کہ غیر متناہی خوشیاں، غیر متناہی لذتیں، اللہ تعالیٰ کی غیر متناہی نہ ختم ہونے والی ) رضا تمہیں حاصل ہو تو یہ چیز تمہیں صرف اللہ سے مل سکتی ہے، اس کی طرف تم رجوع کرو اگر تم بھٹک گئے ، اگر تم نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا، اگر تم اس خواہش کو نہ سمجھے اور اس کی سیری کے لئے صحیح کوشش نہ کی تو دنیا کی حرام کمائی بہت حد تک تمہیں مل جائے گی مگر وہ عظیم نہیں ہوگی.دُنیا کا اقتدار بھی شاید تم پالو ایک وقت تک لیکن ہمیشہ کے لئے اور دنیوی لحاظ سے بھی ایسی عزت تمہیں نہیں ملے گی کہ جو اتنی بڑی ہو کہ اس سے بڑھ کر تصویر میں نہ آسکے وہ عزت، پیار کا وہ مقام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں محبت کے جلوے جو نہ ختم ہونے والے ہیں یہ ابدی اور لا متناہی اجر تم اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں محبت کے جلووں ہی میں دیکھ سکتے ہو کہیں اور تمہیں نہیں مل سکتا.پس اجر عظیم کی خواہش انسان کے دل میں ہے اجر عظیم کا حصول انسان کے لئے ممکن قرار دیا گیا ہے اور اجر عظیم اللہ کے در کے سوا کہیں اور سے مل نہیں سکتا اس لئے اس ڈر پر ڈھونی رما کر بیٹھ جانا چاہیے وہیں سے ہمیں یہ اجر مل سکتا ہے.اس اجر کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ان آیات میں بیان کی ہیں ایک ایمان، ایک ہجرت اور ایک مجاہدہ اور ان کے مقابلہ میں تین فضل اور تین قسم کے انعام کا ذکر کیا ہے رحمت ، رضوان اور جنات نعیم کا.ایمان ایک عام لفظ ہے یعنی بڑا وسیع ہے اتنا وسیع کہ اسلام کے ہر حکم پر اس نے احاطہ کیا ہوا ہے ایمان کس پر لانا ہے اور ایمان کے تقاضے کیا ہیں اس کا تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر پایا جاتا ہے اور ایمان کے مقابلے میں جو انعام رکھا گیا ہے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۲۳ سورة التوبة رحمت ہے.رحمت بھی اپنی وسعتوں میں بہت شان رکھتی ہے کیونکہ عربی لغت میں ہر قسم کے فضل اور انعام پر رحمت کا لفظ بولا جاتا ہے.پس یہ فرمایا کہ تم ایمان لاؤ تمہیں میری رحمت نصیب ہو جائے گی پھر بتایا کہ ایمان جو ہے وہ دوشاخوں میں آگے تقسیم ہوتا ہے ایک کا تعلق ہجرت کے ساتھ ہے اور دوسری کا تعلق مجاہدہ کے ساتھ ہے جس ایمان کا تعلق ہجرت کے ساتھ ہے وہ تقاضا اگر پورا کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں جو انعام ملتا ہے وہ رضوانِ الہی ہے اور جس ایمان کا تعلق مجاہدہ کے ساتھ ہے اگر اس تقاضا کو پورا کیا جائے تو اس کے بدلے میں جو انعام ملتا ہے وہ جنات نعیم ہے.میں نے بتایا ہے کہ ایمان ایک ایسا لفظ ہے جو تمام اسلامی تعلیم پر حاوی ہے اور اس کے ہمیں دو حصے کرنے پڑتے ہیں ایک وہ اعتقادات اور وہ احکام و اوامر جن پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں یہ بیان کیا ہے کہ ایمان کے تقاضے کیا ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ کی کونسی رحمت کے جلوے انسان دیکھتا ہے؟ اسی طرح ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہجرت کا صحیح مفہوم اور اس کے وسیع معنی جن معنی میں کہ اس کو قرآن کریم اور اسلام نے استعمال کیا ہے وہ کیا ہے؟ اور تیسرے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ مجاہدہ کسے کہتے ہیں؟ پھر ہمیں سمجھ آئے گا کہ ایمان کے مقابلے میں رحمت کو اور ہجرت کے مقابلے میں رضوان کو اور مجاہدہ کے مقابلے میں جنات نعیم کو کیوں رکھا گیا ہے.یہ مضمون تو اتنا وسیع ہے کہ اسلام کے سارے احکام سے اس کا تعلق ہے لیکن میں اس کا جو پہلا حصہ ہے اُسے ایک خاص مقصد کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ ایمان کا یہ حصہ ہے کہ کن پر اور کس پر ایمان لانے کا حکم ہے جب خالی ایمان امَنُوا یا امِنُوا يا يُؤْمِنُونَ استعمال ہو تو اس میں ہر اُس چیز پر ایمان لانے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی کسی دوسری جگہ فرمایا ہے.قرآن کریم پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایمان کے لفظ کو ( یعنی جن چیزوں پر ایمان لانا ہے ) مختلف آیات میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہیں.سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ (البقرة : ۱۷۸) فرمایا کہ مومنوں کو اللہ پر ایمان لانا چاہیے، یوم آخر پر ایمان لانا چاہیے، ملائکہ پر ایمان لانا چاہیے، الکتاب پر ایمان لانا چاہیے اور انبیاء پر ایمان لانا چاہیے.پانچ چیزوں کا یہاں ذکر ہے سورۃ اعراف میں اللہ
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۲۴ سورة التوبة تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا بِالَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَ ص الْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْاقِ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ كَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف: ۱۵۹) اس آیت میں ایمان باللہ اور ایمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے.ایمان تو من اللهین پر بھی لانا ہے دوسری جگہ رُسل پر بھی ایمان لانے کا ذکر ہے لیکن ان انبیاء اور رسل میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کر کے نمایاں طور پر ہمارے سامنے پیش کیا اور کہا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے.سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقرة : ۴) کہ الغیب پر ایمان لانا ضروری ہے.سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ هُمْ بِايَتِنَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۱۵۷) بِأَيْتِ الله ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے اور سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوء.(النحل :۶۱) یہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے یہ میں آگے جا کر بتاؤں گا کہ یومِ آخر اور آخرت میں کوئی فرق ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیا ہے اگر نہیں پھر تو کیوں دو مختلف طریقوں پر ان کو استعمال کیا گیا ہے؟ غرض جب اللہ تعالیٰ نے الَّذِينَ آمَنُوا کہا تو پہلا مطالبہ یہ کیا کہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں.وہ لوگ جو الکتاب پر ایمان لاتے ہیں.وہ لوگ جو انبیاء پر ایمان لاتے ہیں وہ لوگ جو کتب سماوی پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اسی طرح غیب پر ایمان لانا اور اسی طرح آخرت پر ایمان لانا اسی طرح بِآیت اللہ ایمان لانا بھی واجب قرار دیا گیا ہے.پس امنوا میں یہ ساری چیزیں آجائیں گی.اب جو چیز میرے نزدیک سمجھنی اور یا درکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ محض زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے یہ کافی نہیں ہے یا محض یہ کہ دینا کہ ہم یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں یا آخرت پر ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے.محض یہ کہ دینا کہ ہم تمام رسل پر ایمان لاتے ہیں کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ ہم اُن تمام رسل پر جو اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ دینا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم ایمان لاتے ہیں ( یعنی صرف زبان کا اقرار ) یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہ دینا کہ قرآن عظیم پر ہم ایمان رکھتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہہ
سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۵ دینا کہ غیب پر ہم ایمان لاتے ہیں یہ کافی نہیں ہے محض یہ کہ دینا کہ آیات اللہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں کافی نہیں ہے تو پھر کیا تقاضا ہم سے کیا گیا ہے؟ مطالبہ ہم سے کیا ہے؟ یہ سوال ہوتا ہے میں نے بتایا ہے کہ محض زبان کا اقرار کافی نہیں اللہ پر ایمان تب مقبول ہوتا ہے جب اللہ پر ہم وہ ایمان لائیں جس کا قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ایمان لائیں کہ اللہ وہ ہے.اللہ وہ ہے.اگر ہم اللہ کو ایک ایسی ہستی سمجھیں کہ ساری احتیاجیں اور ضرورتیں صرف اس تک لے کر جانی چاہئیں جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے تو یہ کافی ہو جائے گا، ایک حصہ اس کا لیکن اگر ہم کہیں تو یہ کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ضرورت کے وقت ہم قبر کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی صاحب اقتدار کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی مالدار کی طرف دوڑیں.ضرورت کے وقت ہم کسی ہوشیار سازشی آدمی کی طرف دوڑیں ضرورت کے وقت ہم کسی سفارش کی طرف دوڑیں.ضرورت کے وقت ہم رشوت کی طرف دوڑیں اور اس کے ساتھ یہ کہیں کہ ہم اس اللہ پر ایمان لاتے ہیں جسے قرآن کریم نے غنی کہا کہ وہ کسی کا محتاج نہیں اور سارے اس کے محتاج ہیں اور جس کو صمد کہا ہے تو یہ دعویٰ غلط ہو گا پس ایمان باللہ کا کیا مفہوم ہے؟ قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہمیں پتہ لگنا چاہیے ورنہ محض یہ کہنا کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں محض یہ کہنا کہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ یہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جس شخص نے یہ کہا کہ اللہ ایک ہے وہ جنت میں چلا گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں تھا کہ اگر مارگولیتھ یاکسی اور مستشرق معاند اسلام نے کتاب پڑھتے ہوئے اَشْهَدُ اَنْ لا إلهَ إلا الله کہہ دیا تو وہ جنت میں چلا گیا بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو شخص یہ گواہی دیتا ہے اپنے دل سے بھی اور اپنی زبان سے بھی اور جوارح سے بھی کہ میں اس اللہ کو اس طور پر مانتا ہوں جس طور پر اور جس طریقے پر اللہ کوقرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے تو جنت میں چلا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر وہ جنت ہی میں گیا کیونکہ پھر تو اس کی اپنی زندگی کوئی نہ رہی پھر تو اللہ کے در پر بیٹھا اور اپنا سب کچھ دُنیوی اموال بھی اور اپنا نفس بھی اس کے حضور پیش کر دیا اور وہ خالی ہاتھ ہو گیا اور اس نے اپنے رب کو کہا کہ اے خدا! تیری رضا کے لئے میں اپنا سب کچھ چھوڑتا ہوں اور تُو میری رُوح کو اپنی محبت اور پیار سے بھر دے.پھر وہ اللہ کو ماننے والا بھی ہوا اور اُسی کے لئے اعظمُ دَرَجَةً بھی کہا جا سکتا ہے.
۲۲۶ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث محض یہ کہنا کہ ہم آخرت پر ایمان لائے ہیں کافی نہیں.ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آخرت کا کیا مفہوم قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے.اس پر ہمارے لئے ایمان لانا ضروری ہے محض یہ کہہ دینا کہ ہم رُسل پر ایمان لائے ہیں یہ کافی نہیں ہے کیونکہ بے چارے معصوم رُسل تو ایسے بھی تھے جن پر ہر قسم کی تہمت ان کے اپنے ماننے والوں نے لگادی پس ان اشیاء پر، ان تہمتوں پر، ان الزاموں پر، اس افتراء پر ہمارے لئے ایمان لانا ضروری نہیں ہے.رسل پر اس معنی میں ایمان لانا ضروری ہے جو قرآن نے ہمارے سامنے رکھا ہے ان کی وحی پر اس معنی میں ایمان لانا ضروری ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اس معنے میں ضروری ہے اور اس مقام ارفع پر ایمان لانا ضروری ہے جو مقام کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہمیں بتایا ہے.خود قرآن عظیم پر وہ ایمان لانا ضروری ہے جو خود قرآن کہتا ہے کہ مجھے پر اس طرح ایمان لاؤ محض یہ کہہ دینا کہ ہم قرآن کریم پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے ہم امریکہ جائیں گے تو یہ قرآن کریم پر ایمان کوئی نہیں کیونکہ اگر قرآن کریم پر وہ ایمان ہو جو قرآن کریم کہتا ہے مجھ پر رکھو، جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآن کریم پر رکھو تو پھر یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور وہی حقیقی ایمان ہے.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں یہ دعویٰ کیا کہ یہ ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.اگر ہماری زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ ہو کہ جس کو سلجھانے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی بجائے امریکہ یا روس کے پاس جانا پڑے تو ہمیں یہ اعلان کرنا پڑتا ہے یوں زبان سے نہیں کہیں گے لیکن عملاً ہم یہ اعلان کر رہے ہوں گے کہ (نعوذ باللہ ) قرآن کریم کامل نہیں ، ناقص ہے اور اس نقص کو دُور کرنے کے لئے قرآن عظیم کو چھوڑ کر ہمیں امریکہ جانا پڑا یا روس جانا پڑا.پس قرآنِ عظیم پر محض زبانی ایمان کافی نہیں اس رنگ میں اور اس طور پر ایمان لانا ضروری ہے جو خود قرآن عظیم نے کہا ہے کہ اس طرح مجھ پر ایمان لاؤ یہی حال ایمان بالآیات اور ایمان بالغیب کا ہے پس جہاں جہاں بھی ایمان بالی" کا سوال ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فلاں پر ایمان لاؤ وہ ہمیں خود قرآن کریم سے تلاش کرنا پڑے گا کہ کس معنے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایمان لاؤ......لفظ ایمان جب عام ہو بغیر صلے کے وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ قرآنِ کریم سے نکال کر دیکھا جائے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۷ سورة التوبة کہ ان سارے ایمانوں کے کیا معنے ہیں تا کہ ہمارے ایمان میں تازگی اور ہماری روح میں بشاشت پیدا ہو.پس انشاء اللہ میں ایمان باللہ سے شروع کروں گا کیونکہ وہی مرکزی نقطہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.اللہ کے لفظ کے اس مفہوم کو سمجھنے کی (جس مفہوم اور معنے میں قرآن کریم نے اللہ کے لفظ کو استعمال کیا ہے ) ایک نجی اور مفتاح بھی ہمیں دے دی ہے اور یہ ایسی گنجی ہے جس سے اور بہت سے مضامین بھی گھل جاتے ہیں.میرا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ جب قرآن کریم کوئی اصطلاح یا کوئی لفظ استعمال کرے تو خود قرآن کریم میں دیکھو کہ وہ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے پس اللہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کو شروع سے آخر تک دیکھنا پڑتا ہے کہ اللہ جو اسم ذات باری ہے قرآن کریم کس مفہوم میں اس لفظ کو، اس اصطلاح کو استعمال کرتا ہے یعنی کون سی صفات ہیں جن سے قرآن کریم اللہ کو متصف کرتا ہے (غرض مختصر ہی مجھے کہنا پڑے گا) یہ مضمون بڑا لمبا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ ایمان کے سارے حصوں کو لے کر یہ بتاؤں کہ قرآن کریم نے ان کو کن معنوں میں استعمال کیا ہے اور ہم سے قرآن کریم کیا مطالبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے جب وہ یہ کہے کہ ایمان باللہ ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے؟ جب وہ یہ کہے کہ ایمان بمحمد صلے اللہ علیہ وسلم ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے؟ جب اللہ یہ کہے کہ ایمان بالقرآن ہونا چاہیے تو کیا مراد ہے؟ جب اللہ یہ فرماتا ہے کہ ایمان بالآخرہ ہونا چاہئے تو کیا مراد ہے.خود قرآن کریم ہمیں بتائے گا کہ کیا مراد ہے جب وہ ایمان بیوم آخر ہو تو اس سے کیا مراد ہے؟ ایمان بآیات اللہ سے کیا مراد ہے؟ جہاں جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ ایمان آگے دوشاخوں میں کس طرح تقسیم ہوتا ہے.ایک ہجرت جس کے انعام کا ذکر یہاں قرآن کریم نے رضوان سے کیا ہے اور دوسری شاخ مجاہدہ ہے جس کا انعام ”جنت نعیم میں بیان کیا گیا ہے یہ دونوں دراصل خدا تعالیٰ کی رحمت کے جلوے ہیں اور دونوں کا تعلق جزا کے لحاظ سے رحمت کے ساتھ اور مطالبات الہیہ کے پورا کرنے کے لحاظ سے ایمان کے ساتھ ہے.پس ایمان ہواس کے تقاضے پورے کئے جائیں جب اس کے تقاضے پورے کرنے کا سوال پیدا ہو تو وہ اصولی طور پر دو قسم کے تقاضے ہیں ایک کو ہم ہجرت کہتے ہیں ایک کو ہم مجاہدہ کہتے ہیں اور جب
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۸ سورة التوبة ایمان ہو گا اپنے صحیح مفہوم کے ساتھ ، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو گا.اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول دوشکلوں میں ہوگا ایک رضوان کی شکل میں اور ایک جنّت نعیم کی شکل میں.پس یہ مفہوم ان مختصر سی آیات میں بیان ہوا ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۳۸ تا ۴۵) اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے انسان کا نفس کسی ایک جگہ ٹھہر نا پسند نہیں کرتا بلکہ ہر ترقی کے بعد مزید ترقیات حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور ہر بلندی کے حصول کے بعد مزید رفعتوں تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.یہ خواہش اگر صحیح راستے پر گامزن رہے تو اس سے بہتر اور کوئی خواہش نہیں ہوسکتی لیکن اگر یہ خواہش صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو پھر اس سے بدتر اور گندی خواہش اور کوئی نہیں ہوسکتی.آپ دیکھتے ہیں کہ اس دُنیا میں بہت سے لوگوں کے دل میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے ماحول میں ہر طریقے سے ظلم کی سب راہوں کو اختیار کر کے اپنا اقتدار اور تسلط جمانا چاہتے ہیں جب انہیں کچھ اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو انہیں مزید اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح ظلم میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اس طرح دنیا دارلوگوں کے دلوں میں جب دولت کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو ان کی یہ بھنگی ہوئی خواہش ہر بڑی اور نا پاک راہ کو تلاش کرتی ہے اور ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے دُور سے دُور تر لے جاتی ہے.یہ سب گندگی کے دروازے ہیں جنہیں ہم رشوت کا دروازہ ، چوری کا دروازہ، دھوکہ بازی کا دروازہ ، جعل سازی کا دروازہ ، اور احتکار ( مال کو ناجائز طور پر روکے رکھنے ) وغیرہ وغیرہ کا دروازہ کہتے ہیں یہ سب دروازے اسی گندی خواہش کے نتیجہ میں کھلتے ہیں.غیر متناہی ترقیات کی خواہش ایک بڑی پاک چیز تھی لیکن جب شیطان نفس کو ورغلاتا اور اسے صراطِ مستقیم سے دور لے جاتا ہے تو وہی عظیم خواہش جو انسان کی عظمت کے لئے اسے دی گئی تھی وہ اس کی ہے ذلت اور رسوائی کا سبب بن جاتی ہے بہر حال انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی.کہ وہ ان رفعتوں کے حصول میں جو اس نے اپنے بندے کے لئے پیدا کی ہیں کسی جگہ پر بھی پہنچ کے مطمئن نہ ہو جائے بلکہ چونکہ قُرب کے غیر متناہی راستے اس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں.اس لئے وہ ایک رفعت کے حصول کے بعد اس سے بلند تر مقام پر پہنچنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے بعض جلووں کے مشاہدہ کے بعد اس کی محبت کے اور بھی روشن تر اور حسین جلوے دیکھنے کی اپنے اندر
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۲۹ سورة التوبة خواہش پیدا کرے اور ترقیات کے ان غیر متناہی راستوں پر چلتے ہوئے وہ اپنے رب کے قرب کو زیادہ سے زیادہ پائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرے.یہ خواہش جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں پیدا کی ہے اس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم اپنے نفس کا محاسبہ کرو تو تم میں سے ہر ایک شخص یہ جان لے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش عطا کی ہے کہ وہ اس کی زیادہ سے زیادہ رضا کو حاصل کر سکے.پس سوال پیدا ہو گا کہ اللہ کی رضا کو اور حقیقی مسرتوں کو اور خوشیوں کو اور کامیابیوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا طریق کیا ہے اور وہ کونسی ہستی ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ عطا دے سکتی ہے؟ چنانچہ ان آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے إِنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرُ عظیم.یعنی تمہاری اس خواہش کی تکمیل اس ہستی سے وابستہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری قوتوں اور ضرورتوں کا علم رکھتا ہے اور وہ ہر قسم کی قوت اور قدرت اور تصرف کا مالک ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے آگے انہونی ہو یا جو اس کی قدرت میں نہ ہو یا جو اس کے تصرف سے باہر ہو وہ اللہ ہے تمام صفات حسنہ سے متصف اور ہر قسم کی کمزوری اور ضعف سے پاک اور مطہر.پس تمہاری اس خواہش کی تکمیل کہ تم ترقیات میں تم رفعتوں کے حصول میں ہم حقیقی عزتوں کے پانے میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ سوائے اللہ کے اور کہیں سے نہیں ہوسکتی.وہی ہے جو اس خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے.وہی ہے جس کے قرب کی راہیں جس کے وصال کی منازل غیر متناہی ہیں.ہرمنزل کے بعد ایک دوسری منزل، ہر قرب کے بعد ایک ارفع، زیادہ حسین، زیادہ لذت اور سرور والا قرب کہ جس کی کیفیت ہماری زبان بیان نہیں کر سکتی لیکن بہر حال ہم نے اپنی زبان ہی میں بیان کرنے کی خواہش کرنی ہے تم اس کی توفیق سے یہ ساری چیزیں حاصل کر سکتے ہو.پس وہ جو خود محدود ہے وہ تمہاری اس غیر محدود خواہش کی تکمیل کیسے کر سکتا ہے خود تمہاری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کیونکہ یہ دنیا ایک محدود دُنیا ہے دُنیا کے اموال محدود، دُنیا کی عرب تیں محدود، دنیا کے اقتدار محدود، غرض محدود اشیاء ایک غیر محدود خواہش کی تکمیل کر ہی نہیں سکتیں بڑی غیر معقول بات ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ ایک محدود غیر محدود کی تکمیل کا اہل ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اندر غیر محدود اور لا متناہی ترقیات کی خواہش پیدا کی گئی ہے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۰ سورة التوبة اگر تم اپنی اس فطری خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اُس پاک ذات سے تعلق قائم کرنا پڑے گا جو ہر لحاظ اور ہر جہت سے غیر محدود ہے اُس کی حد بست نہیں کی جاسکتی اور وہ اللہ ہے.اِنَّ اللهَ عنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمُ وہ اجرجس سے بڑھ کر کوئی اجر متصور نہیں ہوسکتا.( یہ عظیم کے معنے ہیں ) جس کی عظمت اتنی بڑی ہے کہ کوئی اس کے مقابلہ پر نہیں آسکتا.وہ جزا وہ کامیابی.کامیابی کی وہ لذتیں اور سرور کہ جن سے بڑھ کر اور کسی چیز کا امکان نہیں جو ہماری عقلوں میں بھی نہیں آسکتے.وہ اجر عظیم سوائے اللہ تعالیٰ کے جس کی قدرتوں کی حد بست نہیں کی جاسکتی اور کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتا.پس إِنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ.اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے کہ جس سے ہم غیر متناہی رفعتوں کو حاصل کر سکتے ہیں جو اگر ہم پر رحم کرے، اپنی رضا کی نگاہ ہم پر ڈالے، اپنی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے کی ہمیں توفیق دے.تو پھر ہمیں اجر عظیم مل سکتا ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۳۲ تا ۳۵) آیت ۳۳ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ ليظهرة عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے رحمت ہیں اور آپ کا دین باقی ادیان پر غالب آئے گا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے پہلے دن ہی سے عالمین کے لئے بطور رحمت کے ہیں اور قیامت تک بطور رحمت کے ہیں اور پہلے دن سے ہی یہ مقدر تھا کہ دینِ اسلام تمام ادیان باطلہ پر اپنے حسن و احسان کے ذریعہ سے غالب آئے گا لیکن یہ ایک دن کا کام نہیں تھا یہ صدیوں کا کام تھا چنانچہ پہلے دن سے ہی ایک عظیم مجاہدہ کی ابتدا ہوئی اور یہ مجاہدہ پھیلاؤ میں بڑھتا چلا گیا اور اس کی ترقی کی حرکت میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی اور پیار کے ساتھ اور دلائل قاطعہ کے ساتھ اور حج ساطعہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور قبولیت دعا کے نشانوں کے ساتھ دنیا کے دل میں آہستہ آہستہ ایک انقلاب پیدا کرتا رہا.ایک نسل کے بعد دوسری نسل یہ ذمہ داری اٹھاتی رہی اور اس مہم کو آگے بڑھاتی رہی.آخر تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد اس مہدی کا ظہور ہوا جس کے متعلق تمام بزرگوں نے
۲۳۱ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث قرآن کریم کی اس آیت کریمہ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدین کلہ کی رُو سے کہا ہے کہ دینِ اسلام کے کامل غلبہ کا زمانہ مہدی کا زمانہ ہے لیکن وہ جو ایک جد و جہد تھی اور غلبہ، اسلام کے لئے قربانی اور ایثار پیش کرنے کی مہم تھی وہ تو پہلے دن سے جاری ہو چکی تھی اور آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی تھی جس نے مہدی معہود کے ذریعہ اپنی انتہا کو پہنچنا تھا.اس لئے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعہ اس زمانہ میں تمام ادیان باطلہ کے خلاف علمی لحاظ سے ایسا مواد جمع کر دیا جائے گا کہ دوسرے مذاہب کے پیرو اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.ان میں عیسائیت بھی ہے ان میں بدھ مت بھی ہے پارسیوں کا زرتشتی مذہب بھی ہے اور ہندو مذہب بھی ہے، آریہ اس کا ایک فرقہ ہے جو اسلام کی مخالفت میں بڑی تیزی سے اُبھرا.علاوہ ازیں میری فکر کے مطابق لوگوں کے وہ نظریات بھی اس میں آجاتے ہیں جو مذہب تو نہیں لیکن ازم کہلاتے ہیں یعنی وہ خیالات جن کے ذریعہ کوئی فلسفہ یا انسانی معاشرہ یا کوئی تمدن قائم ہوتا ہے مثلاً اشتراکیت ہے یا سوشلزم ہے اور اسی طرح آئے دن دوسرے بہت سے اِزم ہیں جو اُبھرتے اور مٹلتے چلے آرہے ہیں.اب یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہ اسلام اشتراکیت پر غالب نہیں آئے گا یا سوشلزم پر غالب نہیں آئے گا یا دوسرے نظریات پر غالب نہیں آئے گا بلکہ ہر وہ مذہب اور نظریہ یا دنیوی فلسفہ جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اسلام اُس پر بھی غالب آئے گا.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور آپ کی تحریرات پڑھتے ہیں یا آپ کے ملفوظات ہمارے زیر مطالعہ آتے ہیں اور اُن پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ پہلوں نے جو یہ کہا تھا کہ مہدی کے زمانہ میں اسلام ادیان باطلہ اور ہر قسم کے از مز (Isms) پر غالب آئے گا وہ درست کہا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام، تفسیر قرآن اور آسمانی نشانات اور دعاؤں کی قبولیت میں اتنا زبردست مواد ملتا ہے کہ عقل انسانی یہ بات سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ وعدہ کا دن یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ وعدہ کا زمانہ آچکا ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ایک دن کا کام نہیں اس کے لئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے.جہاں تک عیسائیت کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دُنیائے عیسائیت نے بڑے زبر دست نشان دیکھے.امریکہ میں ڈاکٹر ڈوئی تھا اس کے بڑے دعوے تھے.وہ بڑی شان
۲۳۲ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہدی کے خلاف اُٹھا تھا اور بڑی ذلّت کے ساتھ اُس نے شکست کھائی تھی اور اُس وقت کے اخبارات اس عظیم نشان سے بھرے پڑے ہیں.پھر خود ہندوستان میں عیسائیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مناظرہ ہوا جس میں دلائل کے ساتھ اور بڑے عظیم علم کلام کے ذریعہ اسلامی تعلیم کی برتری ثابت ہوئی.یہ آتھم کے ساتھ مناظرہ ہوا تھا جو جنگ مقدس کے نام سے چھپا ہے.پھر نشانوں کی دُنیا میں جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو اُن کے دشمنوں نے صلیب پر لٹکا کر مار دینا چاہا لیکن وہ نا کام ہوئے ، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے اس مسیح کے خلاف بھی عیسائی دنیا نے سازشیں کیں کہ کسی طرح وہ پھانسی چڑھ جائیں چنانچہ آپ کے خلاف مقدمے بنائے گئے، ہر قسم کی جھوٹی گواہیاں پیش کی گئیں.حکومت عیسائیوں کی تھی ، گواہیاں عیسائیوں کی تھیں، ان گواہیوں کو مضبوط کرنے والی کچھ اور گواہیاں بھی تھیں.حالات سازگار نہیں تھے لیکن خدا اپنے وعدوں کا سچا ہے جیسا کہ اُس نے کہا تھا ویسا ہی اُس نے کر دکھایا کہ لوگ تیرے ساتھ نہیں ہوں گے لیکن میں تیرے ساتھ کھڑا ہوں گا اور تجھے دشمنوں کی ہر بد تد بیر سے بچاؤں گا.اب یہ جوڈوئی کا واقعہ ہے یا جو علمی لحاظ سے عیسائیوں کے ساتھ ہندوستان میں مناظرہ ہوا تھا اور اس سے اسلام کی برتری ثابت ہوئی یہ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے ہر صدی میں اسلام کے حق میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے وقت وقت کے اولیاء کو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہونے والے اور آپ کے جاں شاروں کو روحانی علوم سکھائے اور اُنہوں نے مخالف اسلام طاقتوں کا علمی میدان میں مقابلہ کیا.اُنہوں نے مخالف اسلام طاقتوں کا مقابلہ کیا آسمانی نشانوں میں، دعاؤں کی قبولیت میں.اُنہوں نے بڑے نشان دکھائے انسانی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے.کچھ نشان انسان نے یادر کھے اور کچھ کو انسان بھول گیا.یہ تو درست ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ انسانی تاریخ معمور ہے اس قسم کے علمی نشانوں سے اور آسمانی نشانوں سے اور ان نشانوں سے بھی جن کو ہم قبولیت دعا کا نشان کہتے ہیں.پس ایک مسلسل حرکت ہے جس میں ضعف تو آیا لیکن وہ حرکت بند نہیں ہوئی جو اسلام کو غالب کرنے کے لئے پہلے دن سے شروع ہو چکی تھی اور یہ جاری رہی یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۲۳۳ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کا زمانہ آ گیا.آپ کی زندگی ایک عظیم مجاہد اسلام کی زندگی ہے.آپ کا جو عمل تھا وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند اور آپ کے ایک عظیم محبوب کا عمل تھا.خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے کے لئے آپ کو جو نشانات دیئے وہ ہر میدان میں عظیم تھے لیکن وہ پہلی جو حرکت تھی اور تحریک جاری ہوئی تھی اسلام کے غلبہ کے لئے اور جس کے اثرات آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اُن سے وہ کئی ہوئی نہیں تھی بلکہ اسی جدو جہد کے تسلسل میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک سے شروع ہوئی تھی.شاید کسی نے یہ خیال کیا ہو کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ڈوئی کے ساتھ اور عیسائیت کو اس قدر عظیم شکست ہو گئی اب شاید کوئی فوری انقلابی تبدیلی ظاہر میں نظر آنے والی پیدا ہو جائے عیسائی دُنیا میں لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ مقدر یہ ہے اور پہلے سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ جہاد جاری رہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ابھی تین صدیاں نہیں گزریں گی یعنی تین صدیاں حتمی ہیں ان کے اندر اندر ہو سکتا ہے ڈیڑھ صدی میں اور ہوسکتا ہے دوصد یاں لگ جائیں، اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه کا یہ اعلان اپنی پوری شان کے ساتھ دُنیا کے سامنے عملاً ایک صداقت کی شکل اختیار کر جائے گا اور واقعہ میں اسلام دُنیا کے ہر خطہ میں اور دُنیا کے ہر مذہب پر غالب آئے گا اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو گا اور ایک ہی خدا ہو گا جس کی پرستش کی جائے گی اور ایک ہی پیشوا ہوگا محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس کی عظمت اور جلال کے ترانے گائے جائیں گے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۳۶۹ تا ۳۷۳) قرآن کریم میں ایک آیت ہے کہ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ على الدين كله حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن عظیم کی تعلیم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو تمام دنیا میں غالب کرے گا اور یہ غلبہ بتدریج ہوگا اور یہ غلبہ اپنے عروج کو جیسا کہ تمام اولیاء اور بزرگ لکھتے چلے آئے ہیں اپنے عروج کو مہدی اور مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچے گا.قرآن کریم کا غلبہ، قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنا، قرآن کریم کے نور کو ساری دنیا میں پھیلا
۲۳۴ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دینا.اس کے لئے قرآن کریم کے اسرار مکنون کی ضرورت ہے.اس لئے جہاں یہ کہا گیا کہ آخری عروج جو چوٹی پر پہنچے گا جب نوع انسانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے سایہ تلے آ جائیں گے اور ان کے سینے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن کریم کے نور سے بھر جائیں گے تو اس کے لئے اس قرآن کریم کی تفسیر کی ضرورت تھی کہ جو اس آخری زمانہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والی اور تمام مسائل کو حل کرنے والی ہو.اس لئے جس کو خدا نے بھیجا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک غلام کی حیثیت سے، ایک روحانی فرزند کی حیثیت سے، ایک عظیم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں فاتح جرنیل کی حیثیت سے، اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اتنے عظیم اسرار قرآنی اور اس کے معانی سکھائے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.پچھلی صدی کے آخر میں اسلام پر غیروں کا زبردست حملہ تھا اور ہر مذہب یہ سمجھتا تھا کہ شاید وہ اسلام کو مٹانے میں غالب آ جائے گا اور کامیاب ہو جائے گا.عیسائیت ساری دنیا میں پھیل جانے کے خواب دیکھ رہی تھی.اور اس وقت ہندوستان بٹوارے سے پہلے جس شکل میں تھا، بڑے بڑے مسلمان علماء مثلاً عماد الدین صاحب اور دیگر بہت سارے ہیں ان کے نام چھپے ہوئے ہیں کتابوں میں ، انہوں نے اس اثر کے ماتحت اسلام چھوڑ کے عیسائیت کو قبول کر لیا تھا اور انہی حضرت عمادالدین نے یہ لکھا کہ عنقریب ایک زمانہ آنے والا ہے ہندوستان میں کہ جب سارے ہندوستان کے مسلمان عیسائی ہو چکے ہوں گے اور اگر کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ مرنے سے پہلے کسی مسلمان کا چہرہ تو دیکھ لے کہ مسلمان ہوتے کیسے ہیں تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی یعنی ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا.ہندو آریوں کی شکل میں حملہ کر رہے تھے.بدھ مذہب اپنی تیزیاں دکھا رہا تھا.فلسفیانہ خیالات جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کے اپنی عقل سے باتیں بناتے ہیں، وہ بھی یہ امیدیں رکھ رہے تھے کہ اسلام کو مٹادیں گے مثلاً کارل مارکس ہے، اپنے زمانہ کا بڑا فلسفی اور اس کے خیالات کے نتیجہ میں دنیا میں اشتراکیت آئی.جس نے یہ دعویٰ کیا ( اشتراکیت نے ) کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کومٹادیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کچھ اور تھا.اللہ تعالیٰ کا منصوبہ یہ تھا کہ اسلام کو
۲۳۵ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث غالب کرے اور ہر وہ طاقت خواہ وہ مذہب کا لباس پہن کے، خواہ وہ عقل اور فلسفے کی چادر میں لپٹ کے اسلام پر حملہ آور ہو، کر دیئے جائیں گے.اس لئے جو جرنیل بن کے آیا اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وہ سارے مذاہب اور ازم اور تحریکیں جو اسلام کو مٹانے میں کوشاں تھیں.ان کے خیالات کا جواب قرآن کریم سے سکھا یا اتنا مؤثر کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۷۰،۱۶۹) آیت ۴۶ وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُ والهُ عُدَّةً وَلَكِنْ كَرِهَ اللهُ انْبِعَاثَهُم فَتَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَعِدِينَ قرآن کریم نے کہا ہے.وَ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُ والهُ عُدنا کہ کسی کام کے کرنے سے پہلے بڑی تیاری کرنی پڑتی ہے.اگر چہ یہ منافقوں سے کہا گیا ہے کہ اگر تمہیں جہاد میں شامل ہونا تھا تو جہاد میں شامل ہونے کے لئے جس قسم کی تیاری کی ضرورت تھی وہ تمہیں کرنی چاہیے تھی.تاہم اس میں ایک اصول یہ بتایا گیا ہے کہ جس قسم کا کام ہوتا ہے اس قسم کی پوری تیاری کرنی چاہیے.کسی کام کی تیاری کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کام کرنے کی نیت ہے.اگر کوئی شخص مثلاً جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کے لئے (چھوٹی سی مثال لیتا ہوں تا کہ چھوٹے بچے بھی سمجھ جائیں) یہ کہے کہ میری یہ خواہش ہے کہ جمعہ میں شامل ہوں.اب وہ جمعہ کی نماز میں شامل تو ہونا چاہتا ہے مگر یہاں جمعہ ہوتا ہے ڈیڑھ بجے سوائے اس کے آج میں آ گیا ہوں اور وقت بدل دیا ہے اور آپ کو نصف گھنٹے تک انتظار کروایا ہے.بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے سے پہلے کھانا کھا لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے سے پہلے غسل کر کے نئے کپڑے پہن لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھر سے ایسے وقت چلے کہ ڈیڑھ بجے سے پہلے پہلے احمدیہ ہال میں پہنچ جائے.اگر ایک گھنٹے کا راستہ ہے اور کوئی شخص یہ کہے کہ جمعہ میں شامل ہونے کی میرے دل میں تو اتنی خواہش ہے اور نہ شامل ہو کر مجھے اتنا دکھ ہوتا ہے کہ کراچی میں کسی احمدی کے دل میں جمعہ چھوڑنے پر اتناد کھ نہیں ہوتا.اب وہ دعویٰ تو یہ کرے لیکن گھر میں بیٹھا رہے اور جب ڈیڑھ بجے جائے تو سستی سے آنکھیں ملتا ہوا نیم دلی سے وضو کرے اور کپڑے بدلے اور کہے دیر ہو گئی ہے اب نہانا چھوڑتا ہوں اور پون گھنٹہ اسے اپنے گھر سے یہاں
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۶ سورة التوبة پہنچنے میں لگتا ہو تو جمعہ جو ایک فرض نماز ہے اس میں تو وہ شامل نہیں ہو سکے گا اور ممکن ہے وہ اپنے دل کو طفل تسلی دینے کے لئے یہ کہہ دے کہ اوہو! بڑی دیر ہوگئی ہے.ہن تے جمعہ ملنا ہی نہیں بن جان دا کی فائدہ اے.کوئی گل نئیں گھر میں بیٹھ جاندے آں پس جس آدمی کی کام کرنے کی نیت ہو وہ اس کے لئے تیاری کیا کرتا ہے.ایک چھوٹی سی اور مثال دے دیتا ہوں.جس عورت یا جس بیوی کی یہ خواہش ہو کہ وہ اور اس کا میاں اور بچے بھوکے نہ رہیں.تو وہ چولہا جلاتی ہے.گرمیوں کے دنوں میں تکلیف اُٹھاتی ہے.آگ کے سامنے بیٹھتی ہے اور سالن تیار کرتی ہے اور روٹیاں پکاتی ہے لیکن اگر کوئی عورت ( اور ایسی عورتیں ہیں ہمارے سامنے ان کے واقعات آتے رہتے ہیں) یہ کہے کہ مجھے تو اپنے میاں اور بچوں کا بڑا خیال ہے لیکن میں گرمی برداشت نہیں کرسکتی.میں ان کے لئے کھانا نہیں پکا سکتی اس لئے وہ جائیں جہنم میں.جو مرضی آئے کرتے رہیں.اب ان سے پیار کا اظہار بھی ہے اور جہنم میں بھجوانے کی باتیں بھی کرتی ہے.اس قسم کی باتیں ایسی ہیں جن کو انسانی عقل قبول نہیں کرتی.اللہ تعالیٰ جو عقل گل کا منبع اور سر چشمہ ہے وہ ان کو کیسے قبول کرے گا.پس ہم نے تیاری کرنی ہے.یہ ہمارا فرض ہے.جماعت احمدیہ کے افراد کو انفرادی اور اجتماعی ہر دو اعتبار سے جتنی جتنی وسعت اور استطاعت ہے وہ پوری کی پوری خدا کی راہ میں خرچ کر دیں.پھر اللہ تعالیٰ کا ان کو پورا ثواب اور پیار ملے گا.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں کیا ہی خوب فرمایا ہے.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.جو کمی رہ جائے گی اس کے لئے فرمایا.لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكتسبت (البقرة: ۲۸۷) پہلے ٹکڑے میں بشارت دی گئی اور عظیم بشارت دی گئی ہے لیکن عظیم بشارت کے مطابق تم سے وہ قربانی نہیں مانگی گئی جس کی تم کو طاقت نہیں دی گئی لیکن جتنی تم کو طاقت دی گئی ہے اس کے مطابق انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور پھر کامیابی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.وہی کامیابی عطا کرتا ہے وہ آسمانوں سے سامان نازل کرتا ہے.وہ زمین سے کہتا ہے کہ میری تدبیر کو کامیاب کرنے کے لئے سامان اُگلو.چنانچہ بہتے ہوئے چشموں کی طرح سامان مہیا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے.اس کے لئے کوئی چیز ان ہونی نہیں ہے لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے وہ ہم نے بہر حال نباہنی ہے.اس کے بغیر تو کوئی چارہ کار نہیں ہے.(خطبات ناصرجلد پنجم صفحہ ۲۰۳ تا ۲۰۵)
۲۳۷ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ لَو ارادوا الخُرُوجَ لَا عَدُ والهُ عُدَّةً قرآن کریم کی یہ بھی ایک عظمت ہے کہ وہ ایک واقعہ کی اصلاح جب کرتا ہے تو چونکہ یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے اس کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہو جائے اور ایک بنیادی اصول اور حقیقت بھی بیان کر دی جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کمزوروں کے متعلق اور منافقوں کے متعلق جو جہاد میں نہیں نکلے اور بعد میں عذر کرنے شروع کئے کہ یہ وجہ تھی اور یہ وجہ تھی، ہمارے گھر ننگے تھے، ڈکیتی کا خطرہ تھا وغیرہ وغیرہ، اس لئے ہم نہیں جاسکے ورنہ دل میں بڑی تڑپ تھی ، بڑی خواہش تھی ہمارے سینوں میں بھی مومنوں کے دل دھڑک رہے ہیں وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارا ارادہ تمہاری نیست کبھی بھی جہاد میں شامل ہونے کی نہیں ہوئی اور دلیل یہاں یہ دی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے تیاری بھی ہوتی.جس شخص نے اس زمانہ کے حالات کے مطابق نہ کبھی تلوار رکھی نہ نیزہ، نہ تیر کمان نہ زرہ، نہ خود، نہ نیزے کا فن سیکھا، نہ تلوار چلانے کی مشق کی ، نہ تیر کمان ہاتھ میں پکڑا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ عارضی ضرورتوں کی وجہ سے میں اس جہاد سے محروم ہورہا ہوں ورنہ دل میں تڑپ تو بہت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دل میں اگر تڑپ ہوتی، اگر تمہارا ارادہ اور نیت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی ہوتی تو اس کے لئے تمہیں تیاری کرنی پڑتی.جو مسئلہ زیر بحث ہے یہاں یعنی جہاد بالسیف اس کے لئے تیاری دو طرح کی ہے.ایک جہاد کے لئے اسلحہ وغیرہ کی تیاری.اس وقت رضا کار فوج تھی اپنے ساتھ کھانے کا سامان لے کے جاتے تھے، اس کی تیاری اور دوسرے مشق ہے، تھوڑا کھا کے، بھوکا رہ کے مشقت برداشت کرنے کی تیاری تلوار اس طرح چلانے کی تیاری کہ جب کسری کے ساتھ مقابلہ ہوا بعد میں تو کچھ عرصہ حضرت خالد بن ولید بھی اس محاذ پر سپہ سالار کے طور پر لڑ رہے تھے.چار پانچ لڑائیاں انہوں نے وہاں لڑیں پھر وہ قیصر کے مقابلہ پہ چلے گئے.مسلمان فوج چار ہزار گھوڑ سوار اور چودہ ہزار پیادہ تھی اور ان کے مقابلہ میں ہمیشہ قریباً چار گنا زیادہ فوج کسری کی ہوتی تھی.ایک دن کی لڑائی اگر آٹھ گھنٹے کی سمجھی جائے تو ہر دو گھنٹے کے بعد کسری کی فوجوں کا کمانڈ رانگلی لڑنے والی صفوں کو پیچھے ہٹا لیتا تھا اور تازہ دم فوج آگے بھیج
۲۳۸ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کے ان کی صفیں بنالیتا تھا.طریقہ یہ ہوتا تھا کہ درمیان لڑنے والوں کے درمیان سے وہ آگے بڑھتے تھے اور محاذ کو سنبھال لیتے تھے اور لڑنے والے پیچھے ہٹ جاتے تھے اور مسلمان فوج کا ہر سپاہی آٹھ گھنٹے لڑتا تھا.کسری کا سپاہی ہر دو گھنٹے کے بعد تازہ دم آگے آتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ کسری کے تازہ دم فوجیوں کا وہ مقابلہ کر رہے ہوتے تھے، آٹھ گھنٹے (اپنی زندگی کی حفاظت کی تو انہیں پرواہ نہیں تھی لیکن ) خدا کے نام پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان نثاری کا یہ مقابلہ تھا کہ آٹھ گھنٹے لڑتے چلے جاتے تھے.کسی کے دل میں یہ خواہش ہو کہ وہ ان حالات میں آٹھ گھنٹے دشمن کا مقابلہ کرے، اس دشمن کا کہ ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج اس کے سامنے آ رہی ہے ، وہ اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک تیاری نہ کی ہو اس کے لئے یعنی آٹھ گھنٹے لگا تار تلوار چلانے کی مشق نہ کی ہو اور آٹھ گھنٹے تلوار چلانے کے بعد وہ تھکاوٹ محسوس نہ کرے مزید لڑائی کے لئے تیار ہو.تو ایک تیاری تو اسلحہ خریدنے کی ہے دوسری تیاری اس اسلحہ کے استعمال کی ہے.مسلمان کے لئے تیاری ایک ایسے استعمال کی تھی کہ اپنے سے کہیں زیادہ تعداد میں دشمن اور ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج کا مقابلہ، کبھی پانچ گنا زیادہ ان کی فوج انہی اٹھارہ ہزار کے مقابلہ میں جس کا مطلب یہ تھا کہ قریب ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج سامنے آ گئی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ تڑپ بڑی تھی، ہم بھی پکے مومن ہیں مگر مجبوریاں ایسی آگئیں کوئی بچہ بیمار ہو گیا.بہانہ جو طبیعت، گھر خطرے میں پڑ گیا، یہ ہو گیا وہ ہو گیا ور نہ پیچھے رہ نہ جاتے.خدا کہتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو اور دلیل یہ کہ اگر تمہیں خواہش ہوتی جہاد پر نکلنے کی تو اس کے لئے ہر ممکن تیاری کی ہوتی.نہ تم نے اسلحہ پر مال خرچ کیا، نہ تم نے اسلحہ چلانے کی مشق کی ضرورت کے مطابق مشق مشق اتنی کہ، مثلاً میں نے تیراندازی کا نام لیا ابھی ، ایک بار جب خالد بن ولید ہی قیصر کی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو دمشق کا محاصرہ کیا ہوا تھا.قیصر کی فوج کا جو کما نڈ رتھا اس نے جہالت سے مسلمان پر رعب ڈالنے کے لئے ، یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ مسلمان پر رعب نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ وہ تو صرف خدا سے ڈرتا ہے، یہ منصوبہ بنایا کہ نوجوان لڑکیوں اور راہبوں، پادریوں کو فوجی لباس پہنا کے اور ہاتھ میں نیزے دے کر اور تلواریں لٹکا کے فصیل کے اوپر کھڑا کر دیا.کئی ہزار مردوزن کو.خالد بن ولید کی دور بین آنکھ مومنانہ فراست رکھنے والی تھی.انہوں نے کہا اچھا میرے ساتھ مذاق
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۹ سورة التوبة کر رہے ہو تم.آپ نے اپنی پیادہ فوج کو پیچھے کیا اور تیراندازوں کو آگے بلا یا اور تیراندازوں کو یہ حکم دیا کہ تم یہ جو سامنے تمہارے کھڑے ہیں ہم پر رعب ڈالنے کے لئے ان میں سے ایک ہزار کی آنکھ نکال دو تیر سے.اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ان تیراندازوں نے ایک ہزار کی آنکھ میں نشانہ ٹھیک بٹھایا اور آنکھ نکال دی.اس کے مقابلہ میں مشہور ہے کہ ایک بادشاہ بیوقوف تھا وہ سمجھتا تھا میں بڑا بہادر، ماہر فن ہوں ، جنگ جو ہوں تو مشق کر رہا تھا اور کوئی نشانہ بھی اس کا بلز آئی (Bull's eye) پر نشانہ نہ بیٹھتا تھا.کوئی دس گزا دھر پڑتا تھا کوئی دس گز ادھر پڑتا تھا.کوئی راہی گذر رہا تھا اس نے سوچا بادشاہ سے مذاق کر رہے ہیں سارے.جہاں وہ نشانہ مار رہا تھا وہ وہاں کھڑا ہو گیا جائے.تو حواری خوشامد خورے کہنے لگے نہ نہ پرے ہٹ پرے ہٹ مرنا چاہتا ہے؟ بادشاہ سلامت تیراندازی کر رہے ہیں.اس نے کہا صرف یہ جگہ محفوظ ہے جہاں تیر نہیں لگ سکتا باقی دائیں بھی لگ رہا ہے، بائیں بھی لگ رہا ہے او پر بھی نکل رہا ہے ورے بھی پڑ رہا ہے، اس جگہ پر نہیں آرہا.ایک وہ تیرا نداز تھا اور ایک یہ تیرانداز کہ ایک ہزار انسان کی آنکھ میں نشانہ مارا ٹھیک اور وہ جو سپہ سالار نے رعب ڈالنا چاہا تھا مسلمانوں پر وہ نا کام ہو گیا.وہ سب بھاگے اس طرف سے جہاں ان پر تیر پڑ رہے تھے اور شہر کے دوسری طرف جاکے اور دروازہ کھول کے باہر نکل گئے اور سارے شہر میں شور مچادیا کہ مسلمانوں نے ہماری آنکھیں نکال دی ہیں.خدا کہتا ہے.وَ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لاعد واله عدت اور اس زمانہ کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ تیاری کا یہ مطلب ہے کہ اگر یہ حکم ہو کہ ایک ہزار آنکھ نکال دو ایک ہزار آنکھ نکال دی جائے گی.یہ ہے تیاری! تیاری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سامنے آ جائے تو آٹھ گھنٹے ایک مسلمان لڑتارہے گا کامیابی کے ساتھ لڑے گا اور فاتح ہو گا.ہر روز ، ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سے لڑنے کے بعد شام جو نتیجہ نکلتا تھا وہ کسریٰ کی اسی نوے ہزار فوج کی شکست اور ان اٹھارہ ہزار مسلمان ، دعا گو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے والے، توحید خالص پر قائم ہونے والے مسلمان کی فتح.یہ نتیجہ نکلتا تھا.تیاری اس کا نام ہے قرآن کریم کے نزدیک جو مسلمان نے سمجھا.تاریخ میں آتا ہے کہ اتنی تیاری کرواتے تھے اپنے بچوں کو کہ بارہ سال کا بچہ آٹھ سال کے بھائی کے سر پر سیب رکھ کے تیر سے اڑا دیتا تھا.اگر دو تین انچ بھی نشانہ سے نیچے پڑے تو ماتھے پہ لگے اور مرجائے بھائی لیکن اس کو پتا تھا کہ
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۴۰ سورة التوبة میرا تیر سوائے سیب کے کسی اور چیز کو نہیں لگ سکتا اور یہ مشق اور مہارت تھی.یہ ان کی کھیل تھی.زمانہ بدل گیا ہے اس واسطے میں اپنے خدام اور انصار اور اطفال اور ناصرات سے کہتا ہوں کہ آج کی جنگ جن ہتھیاروں سے لڑنی ہے ان ہتھیاروں کی مشق ، مہارت ، اور آپ کا ہنر اور پریکٹس کمال کو پہنچی ہوئی ہو.شکل بدلی ہوئی ہوگی.اس زمانے میں دفاع کے لئے اور دشمن کے منصوبہ کو ناکام بنانے کے لئے مادی اسلحہ کی بھی ضرورت تھی، غیر مادی ہتھیاروں (بصائر وغیرہ) کے استعمال میں بھی ان کو مہارت حاصل تھی.مگر ہمارے ہتھیار صرف وہ بصائر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے.بصائر سے مراد دلائل ہیں.بصیرت کی جمع بصائر ہے ایک تو ہے نا آنکھ کی نظر.ایک ہے روحانی نظر جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج: ۴۷) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں روحانی طور پر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں دھڑک رہے ہوتے ہیں.ایک تو ہماری جنگ بصائر کے ساتھ ہے اور بصائر کہتے ہیں وہ دلیل جو فکری اور عقلی طور پر برتری رکھنے والی اور مخالفین کو مغلوب کرنے والی ہو ہمارے ہتھیار ( نمبر دو ) نشان ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا اظہار جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اس لئے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ لڑرہے ہوں.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں کے ساتھ اسے جذب کیا جا سکتا ہے.اس کے لئے بصائر سیکھنے، دعائیں کرنے کے جو مواقع ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۵۳ تا ۲۵۷) آیت ۱۵۴ وَمَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَ هُم كَرِهُونَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءَ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكوة و يُطِيعُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَبِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَ قرآن کریم میں بشارتوں کے ساتھ انذاری پہلومختلف جگہ ساری تعلیم ہی یہ بھری ہوئی ہے یعنی ہر
۲۴۱ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث حکم جو ہے اس کا ایک پہلو انذار کا نکل آتا ہے یعنی یہ کہا کہ اپنے بھائی سے حسن سلوک کر.اسے دکھ نہ پہنچا.دونوں معنی منفی اور مثبت دونوں چیزیں.اگر وہ دکھ پہنچاتا ہے حکم نہیں مانتا تو وہ انذار ہے اگر وہ سکھ پہنچاتا ہے تو وہ بشارت بن جاتی ہے.عملاً اگر وہ ایسا کرتا ہے أُولَبِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہوں گے.کون لوگ؟ وہ مومن مرد اور مومن عورتیں جو بعض بعض کے خیر خواہ ہیں.امر بالمعروف کرنے والے، منکر سے روکنے والے، نمازوں کو قائم کرنے والے، زکوۃ کو دینے والے، غرض کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی پوری اور سچی اور کامل اطاعت کرنے والے.اوليك 999171 سيرحمهم الله - تو جو شخص باہمی دوستی اور خیر خواہی نہیں رکھتا، امر بالمعروف نہیں کرتا، نہی عن المنکر نہیں کرتا ، نماز کو شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا پڑھتا تو ہے لیکن شرائط کے ساتھ قائم نہیں کرتا، زکوۃ کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتا.غرضیکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمی کرتا ہے وہ اندار ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ گے اگر ایسا کرو گے.یہ آخر میں میں نے دو آیتیں اس لئے لی تھیں اس کا دوسرا حصہ نبی والا حصہ بھی ایک دوسری آیت میں ہے.دونوں سامنے آجائیں گی تو آپ پر مضمون واضح ہو جائے گا.دوسری آیت میں ہے کہ ایک گروہ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا.ہے ایمان کا دعوی کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ خدا تعالیٰ ان کی وہ کوششیں جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے بظاہر نظر آتی ہیں، قبول نہیں کرے گا.ان کے صدقات قبول نہیں کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے لئے عذاب کا سامان پیدا کرے گا اور ہیں وہ انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اور نماز ادا کرنے والے.یہ وہ گروہ ہے جن کے متعلق خدا کہتا ہے کہ ان کی قرب الہی کی کوششیں قبول نہیں ہوں گی.خدا تعالیٰ ان کے لئے عذاب پیدا کرے گا.بظاہر وہ خرچ بھی کرتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں.مومن بھی ہیں اور کفر اللہ بھی کر رہے ہیں اور رسول کا بھی کفر کر رہے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۱۱، ۲۱۲)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۲ سورة التوبة آیت ٣ ي أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ b عَلَيْهِمْ وَ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ.ایک منکرین اسلام کا گروہ ہے اور دوسرا منافقین کا گروہ ہے.منکرین اسلام کے ساتھ ہمارا جو مجادلہ ہے اور ان کو مغلوب کرنے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو ہماری جنگ اور جہاد ہے وہ اور قسم کا ہے اور جو منافق کے ساتھ ہماری جنگ ہے وہ اور قسم کی ہے ویسے اصولاً تو ہم تلوار کے ساتھ جنگ نہیں کرتے ہم نے تو ان کی روح کو اپنے قبضے میں لینا ہے ان کے جسموں کو چیلوں کے آگے ڈالنا ہمارا مقصد نہیں ہے.ہم نے ان کی روح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھیلے میں لے لینا ہے.جس طرح لوگوں نے بعض بزرگوں کے متعلق غلط سلط کہانیاں بنا رکھی ہیں (اس کی تفصیل میں میں تو اس وقت نہیں جا سکتا جس دوست کو کوئی کہانی یاد آ گئی ہو وہ حفظ اٹھا لیں ) بہر حال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اُن کی روح جیتیں.ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم ان کی گردن کاٹیں.تاہم یہ جو مقابلہ ہے یہ جو جیتنے کا ایک فعل ہے اس کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس کے لئے انتہائی ایثار کے نمونے خدا کے حضور اور دنیا کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں.غرض یہ بڑی سخت جنگ ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے.وَاخْلُ عَلَيْهِمُ (التوبة : ۷۳) جس کے معنے یہ ہیں کہ کفار اور منافقین کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کرو.یہاں بھی اس پوری آیت کی رو سے یایھا النبی کہہ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بتایا ہے.میں اس مضمون کے متعلق ابھی مزید غور کر رہا ہوں.میرا خیال ہے کہ جہاں بھی یااَيُّهَا النَّبِی کہہ کر کوئی حکم دیا گیا ہے وہاں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہ اس میں بڑا سخت حکم تھا.ایک پابندی تھی اس سے گھبرانا نہیں تمہارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے اس کی طرف دیکھ لینا.وہ تمہارا سہارا بن جائے گا.پس يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكَفَارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ میں لفظ غلظ کے معنے ایسی سختی کے ہیں کہ جس کے اندر کوئی چیز اثر انداز نہ ہو سکے.مثلاً اسپینج ہے.یہ بھی نسبتا سخت ہے.پانی کی
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۳ سورة التوبة نسبت زیادہ سخت ہے اس کو نیچے دبانے کے لئے بھی کچھ زور لگانا پڑتا ہے لیکن اس کے اندر پانی کا اثر چلا جاتا ہے.اس کے اندر خلا ہے جس میں دوسری چیز داخل ہو جاتی ہے.پانی میں مٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے ہیں.پس سختی تو نسبتا ہے لیکن اسپنج کی سختی ایسی سختی نہیں کہ باہر سے کسی چیز کا اثر اس کے اندر داخل نہ ہو سکے.مگر غلظ کی رو سے کسی چیز میں ایسی سختی مراد ہے جس پر کسی چیز کا اثر نہ ہو سکے.چنانچہ وَاغْلُظ عَلَيْهِمْ کے اس فقرے یا الفاظ کے اس مجموعہ میں دراصل دو معنے پائے جاتے.اُس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ خود اتنے سخت ہو جاؤ کہ کفر اور نفاق کا اثر تمہارے اندر گھس نہ سکے اور دوسرے یہ کہ خود اتنے سخت بن جاؤ کہ کفر اور نفاق کی سختی کے باوجود تمہارا اثر ان کے اندر چلا جائے اُن میں نفوذ کر جائے اور اُن کی جو ہیئت کذائی ہے اور ان کی (چونکہ انسان ہیں اس لئے ہم کہیں گے ) جو ذہنیت اور اخلاق ہیں.اُن کے جو منصوبے ہیں، اُن کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہو اور جو آج کافر ہے، وہ کل کو مخلص مومن بن جائے جس طرح حضرت عکرمہ بن گئے تھے.اور جو آج منافق ہے وہ کل سب کچھ قربان کرنے والا سچا مسلمان بن جائے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بہت سے لوگ نفاق چھوڑ کر سچے مومن بن گئے تھے.تاہم کئی بد بخت نفاق کی حالت میں فوت بھی ہو گئے تھے.لیکن کئی ایک کو اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور کمزور ایمان والے پختہ ایمان والے بن گئے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دو گروہ تو وہ تھے جن میں پہلا خدا کا انکار کرنے والا اور دوسرا اُخروی زندگی پر ایمان نہ لانے والا اور اُس کا منکر.ان کے علاوہ دو اور گروہ ہیں.پہلا گر وہ خدا کو مانتا ہے.اُخروی زندگی کو بھی مانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آسمانی شریعت بھی آنی چاہیے تا کہ اُخروی زندگی سنور جائے لیکن وہ اپنی بد بختی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونہیں مانتا.دوسرا گروہ منافقوں کا گروہ ہے.وہ اسلام میں دُنیوی اغراض کے لئے شامل ہو جاتے ہیں.اُخروی زندگی کے سنوار نے کے لئے شامل نہیں ہوتے پس یہ دو گروہ اور آگئے ان کے متعلق ہمیں مزید تجزیہ کرنا پڑے گا کیونکہ قرآن کریم نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق بے شمار دلائل دیئے ہیں.سارے دلائل کا احاطہ کرنا تو ایک عمر کا بھی کام نہیں اس مضمون کا احاطہ ساری عمر کی محنت بھی نہیں کر سکتی.تاہم تفصیلی نہیں تو کچھ انشاء اللہ
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث بیان کروں گا.۲۴۴ سورة التوبة جہاں تک کافروں کا تعلق ہے، وہ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.لیکن میرے اس مضمون کے لحاظ سے وہ منکر مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں.ویسے جو لوگ اللہ تعالیٰ پر نہیں لاتے ان کے متعلق جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ بھی منکر ہیں.لیکن اس وقت وہ منکرین مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُخروی زندگی پر بھی ایمان لاتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآنی شریعت پر ایمان نہیں لاتے یا وہ لوگ جو نفاق کے طور پر اسلام میں داخل ہوتے ہیں.پھر قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ منکرین یعنی کا فر بھی آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں.اُن کا بھی ہمیں تجزیہ کرنا پڑے گا لیکن اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اصلاح وارشاد اور تبلیغ واشاعت اسلام کے کام کا از سر نو جائزہ لے کر اس میں تیزی پیدا کرنی چاہیے ان طریقوں سے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں.اب مثلاً ایک دہریہ شخص ہے ہمارے پاکستان میں بھی اشتراکیت کے بڑے نعرے لگ رہے ہیں.اگر ایسے شخص کے سامنے آپ جا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ پیش کریں تو وہ کہے گا میں خدا تعالیٰ کو مانتا نہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو کیسے مان لوں.پس جب ہم ایسے لوگوں کے پاس جائیں گے تو ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں وہ دلائل پیش کریں گے جو قرآن کریم نے دیئے ہیں اور جنہیں اگر کسی کے سامنے صحیح طور پر پیش کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند انسان انکار نہیں کر سکتا.پھر اُن پر یہ ثابت کریں گے کہ اُخروی زندگی بھی ماننی پڑے گی.ورنہ اس دنیوی زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے.اُس نے ہمیں گدھے کئے اور سور تو نہیں بنایا.ہمارے اندر ہماری فطرت میں ایک ( URGE) ارج رکھی گئی ہے.ایک جذبہ پیدا کیا گیا ہے.کہ ہم اُخروی زندگی کے لئے کام کریں.اگر اُخروی زندگی نہیں تھی تو پھر جو فطرت کے اندر ایک جذبہ ہے یہ خود بخود کیسے آگیا.سو راور کتے میں کیوں نہیں آیا.پھر کفر کفر میں فرق ہے.قرآن کریم نے اسے بیان کیا ہے.قرآن کریم کی تفسیر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اسی طرح نفاق نفاق میں فرق ہے کسی آدمی کا دل
۲۴۵ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اس کے دل کو نرم کرنے کے لئے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ پر عمل کرنا پڑے گا کسی کے متعلق فرمایا کہ ان کے کان بہرے یا ان کے کانوں میں نقل اور بوجھ ہے.یا کسی کے متعلق فرما یا وہ اندھے ہیں.اُن کی آنکھیں نہیں.پس جس شخص کا کفر یا نفاق اندھے آدمی کے مشابہ ہے.پہلے اس کی بینائی کی فکر کرنی پڑے گی.یعنی وہ طریق اختیار کرنا پڑے گا جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو آدمی سنتا نہیں اسکے سامنے وہ تعلیم پیش کرنی پڑے گی جو قرآن کریم نے یہ کہہ کر ہمارے سامنے رکھی ہے کہ جو نہیں سنتے اُن کے سامنے یہ تعلیم رکھو.( خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۲۴۵ تا ۲۴۹) آیت ۹۹٬۹۸ وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَ.يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ وَ مِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُربتِ عِندَ اللهِ وَصَلَوتِ الرَّسُولِ اَلَا إِنَّهَا قُربَةٌ لَهُمْ سَيُدخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ.سورہ تو بہ کے شروع میں منافقوں کا ذکر ہے پھر منافقوں کے متعلق بہت ساری باتوں کے ذکر کے بعد ( جن کا بیان کرنا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا ) اللہ تعالیٰ ان آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے فرماتا ہے کہ اعراب یعنی دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں میں سے بھی بعض منافق ہوتے ہیں.اصل مضمون یہ نہیں کہ دیہات میں رہنے والے منافق ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد نفاق کی ایک علامت ہے جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے اور اس سے دونوں قسم کے منافق ہیں یعنی دیہاتی بھی اور شہری بھی.دیہات میں بھی جہالت کی وجہ سے کمزور ایمان والے یا منافقت رکھنے والے پائے جاتے ہیں کیونکہ منافقت کی اجارہ داری شہروں نے تو نہیں لی ہوئی.منافق ہر جگہ ہوتا ہے.غرض منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کو تو بہانہ چاہیے.قرآن کریم نے ان کی اسی ذہنیت کی طرف اشارہ کیا ہے.فرماتا ہے يَتَرَبَّصُ بِكُمُ اللوَاہر ایسے لوگ گردشوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ایک تو اس لئے کہ باتیں بنانے اور اعتراض کرنے کا موقع ملے اور دوسرے اس لئے بھی کہ ان کے دلوں میں جو مخالفت کا پہلو ہے اس کی تسلی کے سامان پیدا ہو جا ئیں اور زیادہ تر اس لئے بھی کہ ایسے
۲۴۶ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث حالات میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پہلے وہ جماعتی نظام کے دباؤ کے نیچے مجبور ہو کر خدا کی راہ میں مالی قربانی دیتے تھے تو اب بچاؤ کی ایک صورت پیدا ہو گئی ہے چنانچہ وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کے جو لوگ ہیں، انہیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ الہی سلسلوں پر گردشیں تو آتی ہی رہتی ہیں لیکن مومن کے اوپر جب گردش آئے تو یہ اس کو امتحان سمجھتا ہے اور فرسٹ ڈویثرن یعنی اول آنے کی کوشش کرتا ہے اور جو منافق ہوتا ہے وہ اس کو قربانی سے بچنے کا ایک حیلہ بناتا ہے مگر حقیقی معنوں میں روحانی طور پر وہ خود اس بڑی گردش میں جو اس کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے مبتلا ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا گردش تو آئے گی مگر ساتھ ہی تم بھی اس کی لپیٹ میں آؤ گے مومن جب اس گردش کے گرد و غبار سے اپنا سر باہر نکالے گا تو اس کا رب اسے زیادہ حسین پائے گا لیکن تم جب اس کے گردوغبار سے سر نکالو گے تو شیطان تمہیں زیادہ قریب پائے گا.اس لئے بڑی گردش تو در حقیقت تم پر آئے گی.مومن کے اوپر ان گردشوں کا کوئی اثر نہیں پڑے گا.عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوء کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.میں آج تلاوت کر رہا تھا تو اس آیت کے ایک معنی میری سمجھ میں یہ آئے کہ یہ منافق سمجھتے نہیں.گردش انہی کے اوپر آ کر پڑتی ہے.اس سے نقصان انہی کو ہوتا ہے.جو لوگ حقیقی مومن ہوتے ہیں ان کو تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آسمانی گردش کے بداثرات منافق پر پڑتے ہیں اور یہ اس لئے پڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے وہ ان کے زبانی دعووں کو بھی سنتا اور جانتا ہے اور ان کے دلی خیالات سے بھی واقف ہے ان کے زبانی دعووں اور دلی خیالات میں جو تضاد پایا جاتا ہے، وہی ان کی ہلاکت کا موجب بنتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اس تضاد کو جانتا ہے اس واسطے عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السوء کی رو سے بڑی گردش میں وہی مبتلا ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الہی سلسلوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی خدا اور اس کے رسول پر ان کا ایمان بڑا پختہ ہوتا ہے اور وہ آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لئے بڑی قربانیاں دیتے ہیں اور اس دُنیوی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر چلتے ہیں اور خدا کی راہ میں جو مال
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۷ سورة التوبة خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں.ایسے لوگوں کے وورو متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الا إِنَّهَا قُرُبَةٌ لَّهُمْ سَيْدُ خِلُهُمُ اللهُ فِي رَحْمَتِهِ یعنی ان کا ایمان لانا اور خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا ان کے لئے ضرور خدا تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا.س سے پہلے فرمایا تھا قُربتِ عِندَ اللهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ.یعنی اُنہوں نے ذریعہ بنایا تھا.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض کو جذب کرنے کا اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو فیوض کا ایک دریا چلایا ہے.ان فیوض سے حصہ لینے کا اور اس کی رحمت میں شریک ہونے کا جو رَحْمَةٌ لِلعالمین کے ذریعہ دُنیا کی طرف نازل ہوئی تھی.فرمایا کہ ہاں قربةٌ لهُمْ یعنی اسے انہوں نے قربت کا ذریعہ بنایا ہے.انہوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی رضا کے حصول اور اس کے مقرب ہونے کا ذریعہ سمجھا ہے.یعنی جو لوگ ایمان پر پختگی سے قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں جو مال دیتا ہے وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا.أَلَا إِنَّهَا قُرُبَةٌ لَهُمُ الله تعالیٰ کی رضا انہیں ضرور حاصل ہوگی.دوسرے فرمایا تھا وَ صَلَواتِ الرَّسُولِ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور ان کی قبولیت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کے لئے وہ دعائے مغفرت کرتے ہیں.پس گو ظاہری لحاظ سے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے فیوض سے بہرہ ور ہوں گے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ رَحْمَةٌ لِلعالمین ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو رَحْمَةٌ لِلعالمین کے فیوض سے حصہ پائے.پس چونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض سے حصہ لئے بغیر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل نہیں ہوسکتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرما یا سَید خِلُهُمُ اللهُ فِي رَحْمَتِهِ تو ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمایا کہ ان کی قربانیوں کی جو غرض تھی یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور آپ کے روحانی فیوض کا ورثہ ملے.یہ ان کو حاصل ہو جائے گا، کیونکہ اس کے بغیر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ نہیں لے سکتے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۸ سورة التوبة پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک تو یہ لوگ ہیں مگر ایک وہ بھی ہیں جو امت محمدیہ میں الہی سلسلہ کے لئے گردشوں کے انتظار میں رہتے ہیں.گردشیں آتی ہیں مگر امتحان کے لئے یہ مومن کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں لیکن ایک منافق اور کمزور ایمان والے آدمی کو ضرور نقصان پہنچاتی ہیں وہ گردش جس کا الہی سلسلہ کے لئے وہ انتظار کرتے تھے عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السوء کی شکل میں ظاہر ہو کر ان کو نقصان پہنچا دیتی ہے.وہ ان کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۲۱۱ تا ۲۱۴) آیت ۱۰۷ ۱۰۸ وَ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَارْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَيَحْلِفْنَ اِنْ اَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ لَا تَقُم فِيهِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيْهِ رِجَالُ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَهِّرِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک ذمہ داری تم پر یہ بھی ہے کہ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ.فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تین مساجد جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں ان کے ظل کے طور پر مساجد بھی بنائی جائیں (اگر وہ مسجد ضرار نہ ہوں یعنی وہ مسجدیں جن کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر آیا ہے وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَ كُفْرًا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ بلکہ ایسی مساجد ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُسّسَ عَلَى التَّقوی یعنی جو پہلے دن ہی خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس سے ڈرتے ہوئے اور اس کی پناہ میں آنے کی غرض سے بنائی جاتی ہیں.ایسی مسجدوں کے متعلق خدائی فیصلہ یہ ہے کہ ان کے دروازے ہر موحد کے لئے کھلے ہیں.خواہ وہ اسلام قبول کرتا ہو یانہ کرتا ہو.وہ موحد ہونا چاہئے.پس یہ وہ عمل کا مقام ہے.اگر خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ امر ہر قسم کے شر اور فساد کو دور کرنے والا ہے لیکن اس بات کو پھر واضح کر دیا.فرما یا یا درکھا فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا خدا کے اس گھر میں غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوگی.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے راستے
۲۴۹ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث میں بھی روکیں پیدا کی جائیں گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدا (جن: ۲۰) یعنی مساجد کے دروازے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں پر بند کر دیئے جائیں گے وہ پرستش کرنے والے جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ہو گی.مگر وہ جو آنکھوں سے محروم ہیں.وہ جن کو بصارت عطا نہیں ہوئی اور وہ جن کو روحانی طور پر فراست نہیں ملی وہ ایسے لوگوں پر بھی خدا تعالیٰ کی مسجدوں کے دروازے بند کر دیں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سے سوزاں ہوں گے.لیکن خدا تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو علی الاعلان یہ کہتا ہے إِنَّمَا أَدْعُوا رَبّی میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والا ہوں.اس لئے ہر وہ شخص جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مساجد کے دروازے کھلے ہیں.پھر فرمایا تم اس شخص پر مسجد کے دروازے بند کرتے ہو جو کہتا ہے وَلا اُشْرِك به احدًا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرا تا کیونکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے نظارے دیکھنے کے بعد شرک کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پس ہر شخص جو موحد ہے ہم اسکو یہ کہتے ہیں کہ شرک کی باریک راہوں سے بچنے کی کوشش کرتارہ اور ہماری مسجدوں میں آتارہ اللہ تعالیٰ ہمارے طفیل شاید تمہاری بھلائی کے سامان بھی پیدا کر دے خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱۵۵،۱۵۴) گا.مساجد کے متعلق اس وقت ضمنی طور پر بات آگئی ہے تو میں مختصر ا بتادوں کہ اصل مساجد وہ ہیں جن کے اندر مسجد کی رُوح پائی جاتی ہے اسی لئے قرآن کریم نے فرما یا لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ اَولِ يَوْمِ یعنی وہ مسجد کہ جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیا د رکھی گئی ہے اور یہی تقوی مسجد کی رُوح ہے اس کے لئے منبر اور محراب گنبد اور مینار کی ضرورت نہیں ہے.ہمارے لئے جو سب سے زیادہ مطہر اور مقدس مسجد ہے وہ وہ مسجد ہے جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ساری مدنی زندگی میں نمازیں پڑھتے رہے لیکن اس میں نہ کوئی محراب تھی اور نہ گنبد تھا اور نہ اس کے مینار تھے.کھجور کے درختوں کے ستون تھے کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں کی چھت تھی جو بارش میں ٹپک پڑتی تھی لیکن اس کے باوجود اس مسجد کی جو طہارت اور تقدیس ہے اس کا مقابلہ دُنیا کی کوئی اور مسجد نہیں کر سکتی.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۵۰ سورة التوبة یہ ہے مسجد جسے اللہ تعالیٰ نے وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (الجن : ۱۹) کہا ہے کہ مساجد کی ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے.انسان ان مساجد کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی قرآن کریم کی رو سے کسی شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مساجد کے دروازے موحدین یعنی خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والوں پر بند کر دے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عیسائی وفد آیا اُن کی عبادت کا جب وقت آیا تو وہ باہر جانا چاہتے تھے.یہ عیسائیوں کے اُس فرقے کے لوگ تھے جو موحدین تھے یعنی تثلیث کے قائل نہیں تھے.غرض آپ نے اُن سے فرمایا تمہیں باہر جانے کی کیا ضرورت ہے.یہ میری مسجد ہے اس میں تم اپنی عبادت کر لو چنانچہ انہوں نے وہاں عبادت کی.مسجد نبوی جو دنیا کی سب سے زیادہ مقدس اور پاک مسجد ہے اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کو عبادت کرنے کی اجازت دی اور اس اُسوۂ نبوی سے یہ ثابت ہوا کہ مساجد خدا کے گھر ہیں اور خدا کے گھر توحید باری کو قائم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور مساجد کے دروازے موحدین کے لئے ہر وقت کھلے رہتے ہیں.پس وہ مساجد جن کے اندر خدا کے فضل سے مسجد کی روح باقی ہے اور حیات بخش ہیں روحانی طور پر، ان مساجد کو محراب اور گنبد اور میناروں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.غرض مسجد میں عملاً مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی بنیاد ہوتی ہیں اور یہی اُن کی ایک بہت بڑی غرض ہے اس لئے جہاں بھی اور جو بھی مسجدیں بنیں وہ وہی حقیقی اور سچی مساجد ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے.لَمَسْجِد اسْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ یا اس کے طفیل اور اس کے تابع جو دوسری مساجد ہیں جو اسی کی نہج پر بنائی جائیں اور اسی ایثار کے جذبہ کے ساتھ بنائی جائیں یعنی کچھ لوگ اپنی غربت کے باوجود خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے خدا کا گھر اس لئے تیار کر دیں تا کہ وہاں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کی جاسکے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۴۳۸،۴۳۷) انَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ.قرآن کہتا ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے خدائے واحد و یگانہ کی، ایک خدا کی اگر کوئی پرستش کرنا چاہے تو خواہ وہ کسی مذہب کسی خیال کسی عقیدہ کا ہو میرے گھر کے دروازے اس کے لئے کھولو.مسجد کو خدا نے آکر تو نہیں سنبھالنا تھا وہ عظیم ہستی ہے وہ مادی چیز تو نہیں اس واسطے فتنہ وفساد کو دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے اعلان کیا کہ مسجد کا کسٹوڈین وہ ہے لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ مسجد کا کسٹوڈین اور اس کا متولی وہ ہے جو مسجد کی نیت سے خدا کا وہ گھر بناتا ہے.کسی اور
۲۵۱ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کو وہاں آ کر فتنہ کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے.قرآن کریم کو کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی مگر قرآن کریم نے فتنہ کا دروازہ بند کر دیا ہے قرآن کریم نے کہا کہ جس نے مسجد بنائی ہم اس کو مسجد ہی کہیں گے یعنی اگر کوئی گروہ ایسا ہے کہ خدا کی نگاہ میں بھی اس کی مسجد قابل قبول نہیں تو قرآن کریم نے اعلان کیا کہ تب بھی خدا اسے مسجد ہی کہے گا اور جو مجھ سے پیار کرنے والے ہیں وہ اسے مسجد ہی کہیں گے.باقی اگر کسی کی نیت میں فتور ہے تو میں آپ ہی سمجھ لوں گا اس کے ساتھ.تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے.پس ایک تو یہ کہ مسجد بنانے والا اس کا متولی ہے.یہ اعلان کیا ہے قرآن کریم نے.قرآن عظیم بڑی عظیم کتاب ہے.شرط یہ ہے کہ ہم اس کو اپنے لئے مشعل راہ بنا ئیں.چنانچہ میں نے بتایا ہے کہ دس ہزار آدمی اب تک ہمارے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے اور کوئی فتنہ نہیں کوئی فساد نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد، مسجد نبوی ، دنیا کی مقدس ترین مساجد میں سے ایک ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ سب سے زیادہ مقدس ہے وہاں آپ نے نجران کے یونیٹیرین (unitarian) یعنی موحد عیسائیوں کو کہا کہ عبادت کا وقت ہے یہیں کر لو.یہ بھی ایک روایت ہے کہ بعض صحابہ نے وہاں نماز پڑھنے پر اعتراض کیا آپ نے فرمایا کہ تم کون ہوتے ہو اعتراض کرنے والے یہ یہیں پڑھیں گے، اپنی عبادت یہیں کریں گے.آپ کی سنت نے سارے مسئلے حل کر دیئے ہیں.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۸۴، ۱۸۵) آیت ۱۰۹ أَفَمَنْ اَسسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ ام منْ اَتَسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَ اللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں کیا ہے جہاں اُس نے آن الْمَسْجِدَ لِلہ کہہ کر اس فیصلے کا اعلان فرمایا ہے کہ مساجد ہمیشہ اللہ ہی کی ملکیت رہیں گی وہاں ساتھ ہی مساجد کے کسٹوڈینز اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اَفَمَنْ اَسسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرُ اَم مَنْ اَسسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارِ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظلمين ترجمہ :.کیا وہ شخص جو اپنی عمارت ( مراد مسجد) کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور رضامندی پر رکھتا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۲ سورة التوبة ہے زیادہ اچھا ہے یاوہ جو اس کی بنیاد ایک پھسلنے والے کنارے پر رکھتا ہے جو گر رہا ہوتا ہے پھر وہ کنارہ اس عمارت سمیت جہنم کی آگ میں گر جاتا ہے اور اللہ ظالم قوم کو کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر پر زور دے کر کہ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے مسجد وہی ہے جس کی بنیاد تقوی اللہ اور رضائے الہی پر ہو مساجد کے کسٹوڈینز پر دوا ہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں :.اول.یہ کہ وہ اسے پاک صاف اور مطہر رکھیں اس میں پانی مہیا کریں اور ایسی تمام دیگر ضروریات بہم پہنچا ئیں جن کا موجود ہونا عبادات بجالانے کے لئے ضروری ہو.دوم.یہ کہ وہ مساجد میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ جو لوگ ان میں عبادت کے لئے آئیں ان کا زندہ تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ قائم ہونے میں مدد ملے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دو قسم کی مساجد کا ذکر کر کے ان کے درمیان پائے جانے والے امتیاز کو واضح فرمایا ہے چنانچہ اس آیت کی رُو سے جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہو اور وہ لوگوں کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق پیدا کرنے والی ہو وہ حقیقی مسجد ہے برخلاف اس کے وہ مسجد جس کی بنیاد ظلم کی راہ سے لوگوں کو ایکسپلائٹ (Exploit) کرنے پر ہو اور بناء بریں تقوی اللہ سے یکسر خالی ہو وہ حقیقی مسجد نہیں ہے اُس کے بنانے والوں کی اور اُس کے نگرانوں کی نیت خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا نہیں اس لئے ایسی مسجد اور اُس کے ایسے نگرانوں کا انجام فانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ بتایا جو اللہ کے فرمانبردار اور اطاعت گزار بندے ہیں وہی سچے مسلمان ہیں خدا تعالیٰ خود ان کی راہنمائی کرتا ہے اور انہیں اپنے افضال وانعامات کا مورد بناتا چلا جاتا ہے.انہیں ان افضال وانعامات کا مورد بنانے میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے.حقیقی مسجد ایک عظیم نشان سمبل (Symbol) کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک پیغام کی حامل ہوتی ہے سو ہماری یہ مسجد ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ سب لوگ خدا کی نگاہ میں برابر ہیں اور سب اس کے فرمانبردار اور عبادت گزار بندے بن کر اُس سے زندہ تعلق قائم کر سکتے ہیں اور یہ کہ انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی بے لوث خدمت ان کا طتر کا امتیاز ہونا چاہیے.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۲۱،۵۲۰)
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۵۳ سورة التوبة آیت ۱۲۹٬۱۲۸ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے.تمہارا تکلیف میں پڑنا اسے شاق گذرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور بہت کرم کرنے والا ہے.پس اگر وہ پھر جائیں تو تو کہہ دے کہ اللہ میرے لئے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں اس پر توکل کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا رب ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء جو بنی نوع انسان کی طرف بھیجے گئے ہیں وہ خاندانی لحاظ سے بھی اور اپنے خلق کے لحاظ سے بھی ہر دو جہان کے لئے رحمت ہیں.ہر دو جہان کے لئے اس طرح کہ دوسرے جہان کی تمام نعماء کا تعلق پہلے جہان کے مقبول اعمال سے ہے.پس آپ پہلے جہان کے لئے اور دوسرے جہان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رَحْمَةٌ لِلعالمین ہیں اور آپ صفت رحمن کے مظہر ہیں جس کی طرف ان دو آیات میں سے پہلی آیت کے دو لفظ عزیز اور حریص اشارہ کر رہے ہیں اور مومنوں کے لئے آپ رحیم ہیں.پس ایک عظیم شخصیت، ایک عظیم رسول ، ایک عظیم صاحب اخلاق ، صاحب خلق عظیم ، ایک عظیم انسان، اور انسانوں سے عظیم محبت کرنے والا تمہاری طرف آیا ہے.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ وہ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتا.مخلوق کی تکلیف اسے سخت گراں گذرتی ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ اے انسانو! تمہیں بڑے بڑے منافع پہنچیں.حَرِيضٌ عَلَيْكُمْ اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ عظیم رسول، خاتم الانبیاء، جو تعلیم لے کر آیا ہے وہ مخلوق کے ہر حصہ کے لئے رحمت ہے.وہ عالمین کے لئے رحمت ہے.وہ رحمت ہے اشجار کے لئے بھی اور پتھروں کے لئے بھی اور پانی کے لئے بھی اور معدنیات کے لئے بھی اور حیوانات کے لئے بھی وغیرہ وغیرہ.انسان کے علاوہ جو بھی مخلوق ہمیں اس دنیا میں نظر آتی ہے ان کے حقوق بھی اسلامی تعلیم نے بتائے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی ہے.اسلام نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہر چیز کا کیا حق ہے اور حکم دیا ہے کہ وہ اسے ملنا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۴ سورة التوبة چاہیے.اصولی طور پر یہ بتایا کہ ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے کسی چیز کو بھی ضائع نہیں کرنا یہاں تک کہ کھانے کے ایک لقمے کو بھی ضائع کرنے کی اجازت نہیں.یہ بڑی حسین تعلیم ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی رکابی میں اتنا ہی ڈالو جتنا تم کھا سکو.اس کے برعکس شیطانی وساوس انسان کو دوسری انتہا تک لے گئے.چنانچہ میں نے بعض جگہ پڑھا ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ جو ان کی رکابیوں میں بچ جاتا ہے وہ دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو سیر کرنے والا اور کفایت کرنے والا ہے یعنی وہ اتنا ضیاع بھی کرتے ہیں اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں.مگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی ہے.اس کی فلاح اور بہبود کے لئے پیدا کی ہے، اسے نفع پہنچانے کے لئے پیدا کی ہے، اس لئے کوئی چیز بھی اور کسی چیز کا کوئی ذرہ بھی ضائع نہیں کرنا.مثلاً اسلام نے حلال پرندوں کا شکار کرنے کی اور ان کی جان لینے کی اجازت دی ہے لیکن کہا کہ جتنی ضرورت ہو اتنا شکار کرو یہ نہیں کہ ضرورت دس کی ہے لیکن سو مارو اور نوے پھینک دو اور دس کو استعمال کرو.اگر کوئی ایسا شخص ہے جو سو مارتا ہے اور دس گھر میں استعمال کرتا ہے اور نوے اپنے دوستوں واقفوں اور ہمسایوں وغیرہ میں تقسیم کر دیتا ہے تو وہ ضرورت انسانی کو پورا کرتا ہے لیکن اسلامی تعلیم نے کسی چیز کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی.یہ صفت رحمانیت کی مظہر ہے جو ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے.پھر حیوان ہیں جو انسان کی خدمت کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.حیوانات میں سے بعض ایسے ہیں جو زندہ رہ کر انسان کی خدمت کرتے ہیں ان کو مارنے کی اجازت نہیں اور بعض حیوانات ایسے ہیں جن کو مار کر انسان کی خدمت لی جاتی ہے.مثلاً وہ کھانے کے کام آتے ہیں یا مثلاً ادویہ میں کام آتے ہیں یا بعض اور کاموں میں انسان حیوانوں کو استعمال کرتا ہے.اس صورت میں ان کی جان لینے کی اجازت ہے.پس بوقت ضرورت انسانی خدمت کے لئے جان لینے کی اجازت ہے لیکن اس جانور کے متعلق بھی کہ جسے ذبح کر کے کھانے کی اجازت ہے یہ اجازت نہیں کہ اسے دکھ دیا جائے اور تکلیف پہنچائی جاۓ.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم حیوانات کے لئے بھی رحمت ہیں.اس لئے کہ جس غرض کے لئے ان
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۵ سورة التوبة کے رب نے انہیں پیدا کیا اُس غرض کو پورا کرنے کی تعلیم دی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے انہیں ضیاع سے بچایا اور تکلیف اور دکھ سے بچایا لیکن انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی اجازت دی.اور آپ انسانوں کے لئے بھی رحمت ہیں جیسا کہ فرمایا عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ اس پر سخت گراں گذرتا ہے کہ انسان کو تکلیف پہنچے.اسلامی تعلیم نے ہر انسان کو خواہ وہ بت پرست ہی کیوں نہ ہو تکلیف سے بچانے کی ہدایت دی ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الانعام: ۱۰۹) کہ جولوگ خدا کے شریک بناتے ہیں ان کے شرکاء کو بھی ( باوجود اس کے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے ) گالیاں مت دو کیونکہ اس طرح بت پرستوں کے جذبات کو ٹھیس لگے گی اور انہیں تکلیف پہنچے گی.بت میں تو کوئی جذبہ نہیں ہے کہ اگر اسے گالی دی جائے تو اسے تکلیف پہنچے.انسان کو تکلیف سے بچانے کے لئے ، کافرکو اور مشرک کو تکلیف سے بچانے کے لئے گالی دینے سے منع کیا.حالانکہ شرک ایک انتہائی گناہ ہے اور اس کے متعلق اعلان کیا گیا کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے لیکن خدا کہتا ہے کہ شرک کے گناہگار کو بھی اس دنیا میں عذاب دینا یا آخرت میں جہنم میں پھینکنا میرا کام ہے.تمہیں یہی ہدایت ہے کہ تم نے کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی کیونکہ تم اس عظیم انسان کی طرف منسوب ہوتے ہو جو رحمة للعلمین بنا کر دنیا کی طرف بھیجا گیا.اور فرمایا کہ وہ عظیم انسان جیسا کہ انسانوں میں سے غیر مومنوں کے لئے مشفق اور ہمدرد ہے وہ مومنوں کے لئے مشفق اور ہمدرد ہونے کے علاوہ ان سے محبت اور پیار کرنے والا اور ان پر کرم کرنے والا ہے یعنی جہاں تک مومن کا سوال ہے وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا مظہر ہے اور جہاں تک انسانوں میں سے کافر کا سوال ہے، اہلِ کفر کا سوال ہے خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں یا عملاً اسلام سے باہر ہوں اور فاسق فاجر ہوں ان کے لئے وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا مظہر کامل ہے.آپ نے ان کی ہدایت کے لئے کوشش کی.ان کے لئے تڑپے ان کے لئے دعائیں کیں اور ان کے لئے بخع کی حالت پیدا ہوگئی.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ تو ان کی خاطر اپنی جان کو ہلاک کر دے گا.آپ نے ان سے دشمنی نہیں کی اور ہمیں بھی ان سے دشمنی کرنے سے منع کیا اور ان سے شفقت اور ہمدردی اور خدمت کا سلوک کرنے کی تعلیم دی.یہ ہمدردی یہ شفقت اور یہ خدمت کی تعلیم مومن کے لئے بھی ہے اور کافر کے لئے بھی لیکن مومن کے لئے اس کے علاوہ اور اس سے بڑھ کر محبت
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۶ سورة التوبة کی تعلیم دی اور اخوت کی تعلیم دی اور ان کی طبائع کو اور ان کی عادات کو بدل کر ان کو ایک برادری اور ایک بنیان مرصوص کی طرح بنادیا.پس وہ رحیم ہے.بڑے عظیم ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ہر انسان کا کام نہیں کہ وہ آپ کی عظمت کو پوری طرح سمجھ بھی سکے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم اور شریعت لے کر آئے وہ بھی ایک کامل تعلیم اور شریعت ہے اور وہ کامل ہدایت ہے.اس کامل تعلیم کا انکار کرنے والوں کے متعلق اگلی آیت میں کہا فان تولوا کہ اگر کوئی تمہاری عظمت کو نہ پہچانے اور اس تعلیم اور شریعت اور ہدایت سے پھر جائے ، منہ موڑ لے، پیٹھ پھیر لے تو اس کا تم پر رد عمل یہ ہے کہ قُلْ حَسْبِيَ اللهُ کہو کہ میں مُسَيْطِر نہیں ہوں کہ تمہیں زبردستی ایمان لانے پر مجبور کروں خواہ تمہارے دل میں ایمان نہ ہو اور نہ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں تمہیں اس دنیا میں کوئی سزا یا عذاب دوں.اس دنیا کے عذاب کے متعلق انداری پیشگوئیاں میری وساطت سے تم تک پہنچی ہیں لیکن ان پیشگوئیوں کو پورا کرنا اس رنگ میں جس رنگ میں کہ یہ پوری ہوں گی یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آپ قیامت تک کے نوع انسان کی خدمت کرنے والے اور حیوانوں کی خدمت کرنے والے اور دوسری مخلوقات کی خدمت کرنے والے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ اعلان کر دو کہ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور میرا تم پر کوئی احسان نہیں.میں تمہارے لئے تو یہ کام نہیں کر رہا میں تو اپنے خدا کے پیار کے حصول کے لئے یہ کام کر رہا ہوں.فَقُلْ پس یہ اعلان کرو کہ حسبی اللہ اللہ میرے لئے کافی ہے.کسی اور سے اجر کی یا بدلے کی مجھے ضرورت نہیں.نہ خواہش ہے اور نہ میں لینا چاہتا ہوں لَا اِلهَ اِلَّا هُوَ ایک واحد یگانہ ہے جس کے امر سے اور اس کے عشق میں مست ، بنی نوع انسان کی اور دوسری مخلوقات کی خدمت پر لگا ہوں عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ.اسی خدائے واحد و یگانہ پر میرا توکل ہے.وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ اور وہ مالک کو نین ہے.رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظیم کے ایک معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دو جہان کے مالک کے بھی کئے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیم کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر دو جہان سے اپنے تقدس اور اپنی بزرگی کے لحاظ سے اس بلند مقام پر ہے کہ جہاں سے ہر دو جہان اس کی نظر کے نیچے ہیں اور وہ علام الغیوب ہے، کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے پس وہ ہستی جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اس پر میرا تو کل ہے وہ جو مالک ہے اور قادر ہے اور پیار کرنے والا ہے اور اتنی نعماء
۲۵۷ سورة التوبة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دینے والا کہ جن کا کوئی شمار نہیں.اس پر میرا تو کل ہے حسبى الله وہ خدا میرے لئے کافی ہے.مجھے تمہاری ضرورت نہیں.تمہارے ساتھ میرا تعلق شفقت کا ہے، تمہارے ساتھ میرا تعلق اس پریشانی کا ہے کہ تم گناہ میں ملوث ہو کر خدا تعالیٰ سے دور کیوں جا رہے ہو اور اس کے غضب کو کیوں بلا رہے ہو.اس کے غضب کو کیوں دعوت دے رہے ہو.اگر تم انسان کے علاوہ دوسری مخلوق ہو تو تمہارے ساتھ میرا تعلق یہ ہے کہ جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس غرض کے لئے تمہارا استعمال ہو اور اگر انسان ہو تو تمہارے ساتھ میرا تعلق یہ ہے کہ میں تمہیں اس خدائے واحد و یگانہ کی طرف دعوت دوں کہ جو ہر انسان کے لئے وہی اکیلا کافی ہے اور اگر مومن ہو تو تمہارے ساتھ میرا تعلق مبشر ہونے کے لحاظ سے عظیم بشارتیں تم تک پہنچانے کا ہے اور تم سے محبت کرنے کا ہے اور تم پر کرم کرنے کا ہے لیکن تم پر توکل کرنے کا میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.خدا میرے لئے کافی ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی پر میرا تو کل ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں نہ کسی اور نے پیدا کیا اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ وہ انسان کی قوتوں اور استعدادوں کو سمجھ سکے اور ان کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، اسے پیدا کر سکے یا مہیا کر سکے اور خدا کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اسی پر توکل کرتے ہوئے میں اس کی طرف جھکتا ہوں اور اسی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان وعدوں کے مطابق اور ان بشارتوں کے مطابق سلوک کرے گا جو مجھ سے کی گئی ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۹ تا ۳۴)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۹ سورة يونس اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ یونس آیت ۶ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءَ وَالْقَمَرَ نُورًا وَ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الأيتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ کہ تمام کارخانہ عالم وقت کے ساتھ بندھا ہوا ہے عدد السنينَ وَالْحِسَابَ ہے نا کہ یہ کائنات یہ دنیا یہ عالمین جو وقت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں کا یہ جلوہ دکھایا ہے.مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ.میں نے بتایا ہے یہ مضمون بڑا وسیع ہے میں اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے رہا ہوں کہ انسان کی بدلی ہوئی حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ سلوک ہوتا ہے.حق کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں یعنی موافقت کے.انسان جب ایک سال ترقی کرتا ہوا سال کو ختم کرتا ہے تو نئے سال میں داخل ہونے والا زید وہ زید نہیں ہوتا جو پچھلے سال میں داخل ہوا تھا بدل چکا ہوتا ہے اپنی تربیت میں اپنے اخلاص میں اپنی قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ایک اور ہی انسان ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ اگر تم اور نیک انسان بنو گے اور زیادہ اخلاص رکھنے والے انسان بنو گے اور زیادہ مجھ سے محبت کرنے والے انسان بنو گے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور زیادہ فدائی بنو گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اور زیادہ پیار کرنے والے بنو گے تو میں الا بالحق یعنی میں ایک نئی شان کے ساتھ تم پر جلوہ گر ہوں گا اور تمہاری بدلی ہوئی نیک حالت کے مطابق بدلے ہوئے سامان پہلے سے بہتر محبت کا اظہار میں تم سے کرنے والا ہوں گا ایک نئے دور میں تم داخل ہو گے وہ دور تمہارے لئے بہتر ہوگا.( خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۹)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۶ سورة يونس آیت ۸ تا ۱۱ إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَ رَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ اطْمَاتُوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ لا أُولَبِكَ مَا وَلَهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِأَيْمَانِهِمْ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهُرُ فِي جَنَّتِ النَّعِيمِ دَعْوبُهُمْ فِيهَا سبحْنَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمُ وَأَخِرُ دَعْوبُهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ج العلمين جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور اس ورلی زندگی پر راضی ہو گئے اور اس پر انہوں نے اطمینان پکڑ لیا ہے اور پھر جو لوگ ہمارے نشانوں کی طرف سے غافل ہو گئے.ان سب کا ٹھکانا ان کی کمائی کی وجہ سے یقینا دوزخ کی آگ ہے.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے مناسب حال عمل کئے.انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے کامیابی کے راستہ کی طرف ہدایت دے گا اور آسائش والی جنتوں میں انہی کے تصرف کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.ان جنتوں میں خدا کے حضور ان کی پکار یہ ہو گی.اے اللہ تو پاک ہے اور ان کی ایک دوسرے کے لئے دعا یہ ہوگی کہ تم پر ہمیشہ کے لئے سلامتی ہوا اور سب سے آخر میں بلند آواز سے یہ کہیں گے کہ اللہ ہی سب تعریفوں کا مستحق ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.ان آیات میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ایسے انسان بھی بستے ہیں.الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا جو ہمارے انعامات کی امید نہیں رکھتے ایسے انسان بھی بستے ہیں جو ہمارا خوف اور ہماری خشیت اپنے دلوں میں نہیں رکھتے.لا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا یہ فقرہ بہت سی باتیں بتاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے یعنی دہر یہ جو ہیں وہ بھی خدا سے امیدیں نہیں رکھتے.جو لوگ خدا کا ایک مبہم سا تصور اپنے ذہنوں میں پاتے ہیں.ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اللہ ہے تو سہی لیکن اتنی عظیم ہستی ! اس کو کیا ضرورت پڑی کہ ہم حقیر لوگوں سے ذاتی محبت کا تعلق رکھے.انگریزی میں اسے وہ کہتے ہیں امپرسنل گاڈ (Impersonal God) یعنی ایسا خدا جو ذاتی تعلق اپنی مخلوق سے نہیں رکھتا.اس کی طرف بھی الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَلونَا اشارہ کرتی ہے.پھر وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا مبہم سا تصور اپنے دماغ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۱ سورة يونس میں رکھتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ زندگی اسی دنیا کی زندگی ہے مریں گے سب کچھ ختم ہو جائے گا اخروی زندگی نہیں.اُخروی زندگی کے ساتھ جن دو چیزوں کا تعلق ہے دوزخ اور جنت وہ بھی نہیں.اُخروی زندگی کی جنتوں کے لئے جن اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے ان کے بجالانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ہے ہی نہیں.اُخروی دوزخ سے بچنے کے لئے جن بداعمالیوں سے پر ہیز کرنے کی ضرورت ہے وہ بھی بے فائدہ ہے کیونکہ نہ اُخروی زندگی نہ اُخروی سے تعلق رکھنے والی کوئی جہنم الَّذِينَ لا يَرْجُونَ لِقَلونا کا فقرہ ان سب قسم کے دماغوں پر حاوی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دماغ اس دنیا میں جو زندگی گزارتے ہیں اس کا نقشہ یہ ہے.رَضُوا بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا وہ دنیا پر اکتفا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت سے ان کے دل خالی ہوتے ہیں.دنیا ہی دنیا ہے.جھوٹ بول کے ملے لے لو.چوری کر کے ملے لے لو.ڈاکہ مار کے ملے لے لو.دھوکہ دے کے ملے فریب سے ملے لے لو.تول کم کر کے ملے لے لو.ملاوٹ چیزوں میں کر کے پیسے ملیں لے لو.دوسروں کی جیب کتر کے ملیں لے لو.پانی ملا دو اور وزن زیادہ کر دو کمالو د نیا.روئی کے بنڈل بناؤ اس کے اندرا اینٹیں ڈال دو کرلو.یہ دنیا ہے.رَضُوا بِالْحَيوةِ الدُّنیا دنیا پر اکتفا کر لیتے ہیں.محبت الہی سے دل ان کا خالی ہوتا ہے اُخروی زندگی کی نعمتوں کا کبھی خیال آہی نہیں سکتا.ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا (الكهف: ۱۰۵) ساری کوششیں اس ورلی زندگی کے اندر ہی گھومتی اور ضائع ہو جاتی ہیں.زمین کی طرف جھکتے ہیں وہ لیکن ان رفعتوں کی طرف ان کی پرواز نہیں جن رفعتوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بنایا اور جن رفعتوں کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے ہدایت دی.جن کا پانا انسان کے لئے آسان کردیا کیونکہ اپنی سمجھ اور عقل کے ساتھ ان رفعتوں کے حصول کی راہیں اس پر روشن نہیں ہو سکتی تھیں.زمین کی طرف جھکتے ہیں ان رفعتوں میں پرواز کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول سے بے رغبتی برتتے ہیں.ساری کی ساری زندگی اس گندی دنیا، بے وفا دنیا کے لئے ہے.اور اس کے ساتھ اظہا نوا بھا تیسری بات یہ بتائی کہ یہ لوگ مطمئن بھی ہو جاتے ہیں یعنی دنیا کے حصول کے بعد کسی اور اس سے بہتر چیز کے حصول کی طرف ان کی توجہ پھر ہی نہیں سکتی.مزید ترقیات کا خیال ان کو ترک کرنا پڑتا ہے.دنیوی ترقیات کے علاوہ جو مزید ترقیات ہیں ان کا تو روحانی ترقیات سے تعلق ہے نا.ان کو تو اللہ تعالیٰ کا پیا مل جانے کے ساتھ تعلق ہے نا.ان کا تو اللہ تعالیٰ کی
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۶۲ سورة يونس رضا کے حصول کے ساتھ تعلق ہے نا.ان کا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہو جانے کے ساتھ تعلق ہے نا.ان کا تو ان راہوں پر چلنے سے تعلق ہے جن راہوں پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ہمیں نظر آئیں.ان کا تعلق تو اس خاتمہ پر ہے، خاتمہ بالخیر پر جس کی طرف قرآن کریم نے صراط مستقیم کے ذریعے ہدایت دی.ان کا تعلق تو ان جنتوں سے ہے جن جنتوں کی وسعت زمانی و مکانی جن جنتوں کی وسعت اپنی نعماء کے لحاظ سے، جن جنتوں کی وسعت خدا تعالیٰ کے پیار کے لحاظ سے اتنی زیادہ ہے کہ دنیا اس کے مقابلے میں ایک حقیر ذرے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی.وَ اطْبَانُوا بِهَا لیکن یہ لوگ بد قسمت دنیاوی زندگی پر اطمینان پکڑ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیوی زندگی کے علاوہ کچھ اور حاصل کیا ہی نہیں جاسکتا.مزید ترقیات کا خیال وہ ترک کر دیتے ہیں.دنیا دار دنیا پر ٹھہر جاتا ہے.اطمینان پکڑ لیتا ہے.اس سے کہیں بہتر احسن ارفع ترقیات کو نظر انداز کر دیتا ہے اس کے لئے کوششیں ترک کر دیتا ہے.اور یہ جو رَضُوا بِالْحَیوۃ الدنیا ہے راضی ہو گیا یہ پورے کا پورا راضی ہو جاتا ہے.اس میں پھر کسی اور رضا کی گنجائش باقی نہیں رہتی.یہ وقتی نہیں ہے رَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا بلکہ اپنے نزدیک وہ سب کچھ یہی سمجھتے ہیں اور اپنی ہلاکت کا سامان پیدا کرتے ہیں.چوتھی بات یہاں یہ بتائی وَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ ابْتِنَا غُفِلُونَ - لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا - رَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا - اطمَانُوا بِهَا کالازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی رحمت سے جو اپنی آیات نازل کیں اس معنی میں بھی کہ قرآن کریم میں تمام وہ آیات آ گئیں کہ جو تعلیم کے لحاظ سے شریعت کے لحاظ سے ہدایت کے لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے بھی کہ قرآن کریم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی ان آیات کے مشاہدے کرتا ہے کہ جوتعلیم میں نہیں بلکہ اس کائنات میں نشان ، آسمانی نشان جو خدا تعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں، وہ آسمانی نشان جو وہ اپنے بندوں کے لئے بطور مدد اور نصرت کے بھیجتا ہے ، وہ آسمانی نشان جوان لوگوں پر قہر کی تجلی کی صورت میں آسمان سے اترتے ہیں جو اس کے پیاروں کو ستانے والے ہیں ، وہ آسمانی نشان جن سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کی دنیا اور آسمان بھر پور اور معمور ہے اتنی کثرت سے نشان ، اتنے عظیم
۲۶۳ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نشان، ظاہری نشان ، باطنی نشان، تعلیم کے لحاظ سے نشان، معجزات کے لحاظ سے نشان، خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے، ان سے غافل.یہ لازمی نتیجہ نکلا اس کا.اور اس غفلت کے نتیجہ میں نشان تو جھنجھوڑتے ہیں چاہے وہ انذاری نشان ہوں خواہ وہ تبشیری نشان ہوں خواہ وہ تعلیمی نشان ہوں خواہ وہ حسن ہو ہدایت اور شریعت کا خواہ وہ کمال ہو اصول شریعت کا خواہ وہ روشن راہ ہو جس کے اوپر چلنے کی ہمیں ہدایت دی گئی ہے خواہ وہ نور ہو جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ملتا اور ان کی راہنمائی کرتا ہے جب ہر چیز سے محروم ہو گئے اپنے پہ ہدایت کے دروازے بند کر لئے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ.لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ نشانات کے دیکھنے سے آنکھیں اندھی، نشانات پڑھنے سے زبان بے حرکت، زبان حرکت کرتی ہے تو ہم پڑھتے ہیں نا.نشانات سننے سے کان بہرا، نشانات سمجھنے سے دماغ میں فراست اور ذہانت کی بجائے حمق بھرا ہوا ہے.نشانات کے اجتماعی اثر کو قبول نہ کرنا اس لئے کہ صحن سینہ نور نُور السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ سے بھرا ہوا نہیں بلکہ شیطانی ظلمات سے اندھیرا ہی اندھیرا ہے وہاں.تو یہ ایک گروہ ہے جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس کی اس آیت میں کھینچا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا.مَا وَهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ گناہ کے بعد انہوں نے تو بہ نہیں کی.پشیمان نہیں ہوئے اپنی غفلتوں پر بلکہ کسب کے معنی ہیں جمع کرنے کے بھی یعنی تو بہ کا فقدان.تو بہ جو ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تو بہ کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جس سے گناہ سرزد ہی نہیں ہوا تختی اس کی صاف ہو جاتی ہے لیکن یہاں یہ ہے کہ نہ پشیمانی ، نہ احساس گناہ ، نہ تو بہ، نہ خدا سے مغفرت کا چاہنا.گناہ پر گناہ جمع ہونا شروع ہو گیا.کسب گناہ کیا.عربی میں اسے ہم کسب گناہ کہیں گے اور جب گناہوں کا پلڑا بھاری ہو گیا نیکیوں سے.ہر گناہ گار بھی کوئی نہ کوئی نیکیاں بھی کر رہا ہوتا ہے اپنی زندگی میں، کتے کو روٹی دے دی.جہاں سو جھوٹ بولے وہاں پچاس ساٹھ سچ بھی بول دیئے لیکن یہاں يكسبون کسب گناہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی نیکیاں کم وزن ان کے گناہ بڑے وزن والے.تو بہ انہوں نے کی نہیں.پشیمانی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے.اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہی نہیں.خدا تعالیٰ نے ان کی تو بہ کو قبول نہیں کیا.ساری زندگی ایک کے بعد دوسرا گناہ جمع ہوتا رہا.اس لئے النار نار جہنم وہ ان کا ٹھکانہ ہے.جو خدا تعالیٰ کے پیار سے اپنی روح میں جلا پیدا نہیں کر سکے اللہ تعالیٰ
۲۶۴ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ان کے زنگ کو دور کرنے کے لئے جہنم میں انہیں پھینکے گا تاکہ سزا کے نتیجہ میں پھر ایک وقت ایسا آئے کہ جب وہ اتنی سزا بھگت لیں تو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہاں کہ ان کے مقابلہ میں ایک اور گروہ بھی ہے اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا چونکہ یہاں اس کے مقابلے پر آیا ہے.اس لئے ایمان کا اشارہ ان تمام باتوں کی طرف ہوگا جن کا ذکر پہلی آیت میں ہے.یہ وہ گروہ ہے جو ایمان لا یا اللہ پر اور لَا يَرْجُونَ لِقاءَنَا جن کے متعلق کہا گیا تھا اس گروہ میں شامل نہیں ہوا.یہاں ایمان اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کے اس کی معرفت حاصل کی اس کی ذات کی بھی اور اس کی صفات کی بھی.یہ وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں.اپنی ساری اُمیدیں اسی سے وابستہ رکھتے ہیں اور غیر اللہ کی طرف نگاہ نہیں رکھتے اور امید کا حقیقی مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے ہیں.امنوا وہ ایمان لاتے ہیں خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو وہ سمجھتے ہیں اس کی کبریائی کے جلوے ان پر ظاہر ہوتے ہیں.اور ان کے دل خشیت اللہ سے بھر جاتے ہیں اور لرزاں ترساں اپنی زندگیوں کے دن گزارنے والے ہیں.اور وہ ایمان لاتے ہیں اللہ پر، وہ جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی تو بہ کو قبول کرتا ہے.انسان ہیں غلطیاں ہو جاتی ہیں ان سے.مومن ہیں غلطی کرتے ہیں پشیمان ہوتے ہیں.پشیمان ہوتے ہیں اپنے رب کی طرف رجوع کرتے اور تو بہ کرتے ہیں.اپنے غفور خدا سے مغفرت چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور ایمان لاتے ہیں کہ توبہ کے نتیجہ میں گناہ جمع نہیں ہوا کرتے بلکہ تختی صاف ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے.سی وہ گروہ ہے وَعَمِلُوا الصلحت جو نیک اور مناسب حال عمل کرتے ہیں.نیک عمل حقیقت وہ ہے جو قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق کیا جائے.قرآن کریم نے ہماری ساری زندگی کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز قرآن کریم تم سے محاسبہ کرے گا کہ چھ یا سات سو جتنے بھی احکام ہیں ان کے مطابق تم نے اپنی زندگیاں گزاریں یا نہیں قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنا ہر امر اور نہی کے مطابق زندگی گزارنا یہ نیک زندگی ہے یہ پاک زندگی ہے لیکن قرآن کریم صرف یہ نہیں کہتا کہ نیک بنو اس معنی میں کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ نیک بھی بنو اور صاحب فراست بھی بنو اور نور بھی خدا تعالیٰ سے حاصل
۲۶۵ سورة يونس تغییر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کرو تا کہ جہاں قرآن کریم کی ہدایت ہی دور استے تمہارے سامنے کھولے اور تمہیں اختیار دے کہ جو مناسب حال راستہ ہے اس کو اختیار کرو تو تم واقعہ میں مناسب حال راستہ اختیار کرنے والے ہو.مثلاً کہا گیا کہ جو تیرا گناہ کرتا ہے اسے معاف بھی تو کر سکتا ہے بدلہ بھی تو لے سکتا ہے لیکن مناسب حال راہ کو اختیار کر اگر معافی سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے معاف کر دے.اگر انتقام سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے معاف نہ کر انتقام لے.بعض لوگ معافی دے کر گناہ کرتے ہیں.معافی دے کر گناہ گارکو گناہ میں بڑھانے والے بن جاتے ہیں.معاف کر کے گناہ کرنے میں اس کے ممد اور معاون بن جاتے ہیں.بہت سے احکام ہیں جن پر مناسب حال ہونے کا حکم چسپاں ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہمیں عمل کرنے کا حکم ہے.الصلحت میں جو مناسب حال ہے یعنی وَ عَمِلُوا الصّلحت اس میں جو مناسب کا مفہوم ہے اس سے ایک اور بات کا بھی ہمیں پتہ لگتا ہے اور وہ ایک اور چیز کی طرف اشارہ ہے قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ میں کتاب مبین بھی ہوں اور کتاب مکنون بھی ہوں تعلیم کا جو پہلو زمانے کے لحاظ سے مناسب حال ہے.مراد ہے تعلیم تو اپنی جگہ قائم ہے اس میں تو کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں لاہور میں کھول کے بیان کیا تھا لیکن ایک ہی تعلیم ہے اس کے بہت سے پہلو نکلتے ہیں.کچھ پہلو وہ نکلتے ہیں جن سے بدلے ہوئے حالات میں قرآن کریم کی بنیادی تعلیم کا ایک پہلو اجاگر ہوتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں مطہرین میں سے کسی کو چنتا اور اسے سمجھتا ہے کہ ہمارا جو یہ حکم ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے.وہ مکنون کا حصہ جو ہے چھپی ہوئی چیز وہ ظاہر ہو جاتی ہے، وہ روشن ہو کے ہمارے سامنے آجاتی ہے پھر وہ مبین کا ایک حصہ بن جاتی ہے.اس لئے قرآن کریم کامل اور مکمل شریعت اس لئے بھی ہے کہ وہ مسائل جونزولِ قرآن سے صدیوں بعد پیدا ہونے والے تھے ان مسائل کو بھی قرآن عظیم نے احسن رنگ میں بہترین رنگ میں حل کیا اور حل کیا اپنے ان بندوں کی وساطت سے جنہوں نے خدا کا پیار حاصل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ خود ان کا معلم بنا اور اسرار قرآنی اس نے ان کو سکھائے اور اس زمانہ پر رحم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے اس زمانہ کے ، جو بھی زمانہ تھا جو بھی صدی تھی ، اس میں نئے مسائل جوا بھرے تھے ان کا قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں حل انسان کے ہاتھ میں رکھ دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۶ سورة يونس يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِايْمَانِهِمْ جس معنی میں یہاں ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ لوگ جو اس معنی کے لحاظ سے ایمان کے ہر پہلو کے لحاظ سے مومن ہیں اللہ تعالیٰ کامیابی کی راہ پر انہیں آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے يَهْدِيهِمْ یعنی یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ انسان ایک وقت میں نیک کام کرنے والا ، مناسب حال کام کرنے والا بھی ہے لیکن جو آج کے بعد میں سالہ اس نے زندگی گزاری کسی وقت میں وہ ٹھو کر بھی کھا سکتا ہے.یہ بھی اس کے ساتھ لگا ہوا ہے اس واسطے خدا تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ہم اپنے بہتر خیر خاتمہ تک نہیں پہنچ سکتے.اس کی یہاں بشارت دی کہ تم ایمان اور عمل صالحہ پر قائم رہو.خدا تعالیٰ تمہارا خاتمہ بالخیر کرنے کا سامان پیدا کر دے گا.يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِأَيْمَانِهِمْ تمہارا خاتمہ بالخیر ہوگا یعنی آخری سانس تک تم خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھو گے تم خدا کے اخلاق اپنے اخلاق پر چڑھا کے زندگی گزارنے والے ہو گے تم فانی فی اللہ اور فانی فی محمد کی حیثیت میں اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی زندگیوں کے اوقات گزار نے والے ہو گے.تم پر خدا تعالیٰ یہ فضل کرے گا.اپنی کوشش سے انسان ایسا نہیں کر سکا.یہ جو عمل ہے اس میں مثلاً ہم کسی کو عمل صالح کسی کو اس کا حق دیتے ہیں مال کے لحاظ سے کوئی ایسا طالب علم ہو نہار آ جاتا ہے جس کا ہم وظیفہ مقرر کرتے ہیں.اس کا حق خدا نے قائم کیا ہے.یہ بھی عمل صالح ہے اور خدا تعالی کی تسبیح وتحمید کرنا اس کی کبریائی بیان کرنا اور اس کے جلال اور اس کی جو عظمت ہے اس کا ہر وقت اپنے ذہنوں میں تصور رکھنا اور دنیا کے سامنے اس کی عظمت و جلال کو پیش کرنا اس کے حسن کے جلووں سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرنا دعاؤں کے ذریعے.تو دعا بھی عمل میں شامل ہے.اسی واسطے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ جس شخص نے کامیاب ہونا ہو وہ تد بیر کو بھی اپنی انتہا تک پہنچائے جو ظاہری چیز ہے اور دعا کو بھی اپنی انتہا تک پہنچائے.جب دعا اور تدبیر دو مختلف چیزیں چلتی چلتی ایک نقطے پر اکٹھی ہو جاتی ہیں.نقطہ کمال پر تب اللہ تعالیٰ فضل کرتا اور دعا کو قبول کرتا اور تدبیر میں اپنی رحمت سے ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ کامیاب ہو جاتا ہے.انسان يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِأَيْمَانِهِم اس ایمان میں دعا شامل ہے دعا بھی عمل صالح ہے اللہ اکبر کہنا اور سُبحان اللہ کہنا خدا تعالیٰ کی صفات کا ورد کرنا یہ سب دعاؤں میں شامل ہیں.تو جو شخص دعاؤں میں لگا رہتا ہے (ایمان میں وہ بھی ہے ) اور دوسرے احکام بھی بجالاتا ہے
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۶۷ سورة يونس اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کرتا ہے کہ کامیابی کی راہ پر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ان کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے ساری عمر نیکی پر وہ قائم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ خاتمہ بالخیر یہ نویں بات بتائی اللہ تعالیٰ نے.ج دسویں یہ بتا یا د غونهُم فِيهَا سُبُحْنَكَ اللهُم وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمُ وَأَخِرُ دَعُوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعلمین زیادہ لمبی تفسیر کرنے کی بجائے میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اس آیت سے ہمیں پتہ لگا، یہ بات بڑی اہم ہے مجھ سے بھی بہت دفعہ بہتوں نے سوال کیا کہ کیا جنت میں عمل نہیں ہو گا تو یہ بھی بعض لوگوں کے دماغ میں الجھن پیدا کرتا ہے بعض نا سمجھی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کوئی عمل نہیں ہے.اس دنیا میں ہے.ہمارا محاورہ بھی ہے کہ یہ عمل کی دنیا ہے.عمل عمل میں فرق ہے.ایک وہ عمل ہے جو امتحان کے طور پر ہوتا ہے یعنی ایک وہ عمل ہے جو مثلاً بی.اے کا ایک طالب علم کر رہا ہے.محنت کرتا ہے.بڑی محنت کرتا ہے راتوں کو جاگتا ہے، جو اچھے پڑھنے والے ترقی یافتہ اقوام میں ان کے نوجوان اتنی محنت کرتے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.آکسفورڈ میں میں نے دیکھا کہ محنتی طالب علم اپنی کلاس کے علاوہ بارہ تیرہ گھنٹے روزانہ اتوار سمیت سات دن ہفتہ کے سارے دنوں میں بارہ تیرہ گھنٹے خود اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتا ہے.یہ عمل ہے جس کے بعد وہ کسی نتیجہ یعنی امتحان میں یا فیل ہوگا یا پاس ہوگا یعنی ایسا عمل جس کے نتیجے میں فیل ہونا یا پاس ہونا لگا ہوا ہے.یہ جو ساری دنیا ہے ہماری جس کو ہم عمل کی دنیا کہتے ہیں اس کو ہم جزا کی دنیا بھی کہتے ہیں یعنی یہاں کے سارے اعمال ایسے ہیں جن کے نتیجے میں یا اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوگا یا اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوگا یا ہمارے اعمال مقبول ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے گا.اپنی رحمت سے یا رد کر دیئے جائیں گے یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی جنتوں میں ہمیں داخل کرے گا مرنے کے بعد یا غضب کی آگ میں انسان کو جلنا پڑے گا.تو یہ ایسے اعمال ہیں جزا اور سزا جن سے متعلق ہیں.بعض ایسے اعمال ہیں جن کے ساتھ جزا اور سز ا تعلق نہیں جنت معمور الاوقات ہے.نکما نہیں بیٹھے گا انسان.خدا کی جنتوں میں کام کرنا پڑے گا اور اس کی دو مثالیں اس آیت میں خدا تعالیٰ نے دی ہیں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنا.دَعْوبُهُمْ فِيهَا سُبُحْنَكَ اللهُمَّ اور وَأَخِرُ دَعْوبُهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رب العلمين بڑاعمل جنتیوں کا اللہ تعالیٰ کے پیار میں اس کی تسبیح اس کی تقدیس اس کی حمد کرنا یہ عمل ہوگا
۲۶۸ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اور دوسرا انسانوں کے ساتھ تعلق رکھنے والا عمل ہوگا اور وہ یہ ہوگا.تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلم ان کے لئے دعائیں کرنا.یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں اور اس کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ نازل ہوں تم پر ایک دوسرے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے.یہ نہیں ہوگا کہ انسان مرنے کے بعد جس جنت میں جائے گا جب وہ وہاں سُبْحَانَ الله - اللهُ أَكْبَرُ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہے گا تو خدا تعالیٰ اس دنیا میں تو بعض انسانوں کو کہتا ہے کہ تم زبان سے سُبحان اللہ کہہ رہے ہو گر تمہارا عمل بتارہا ہے کہ تم خدا تعالیٰ میں ہزار عیب بھی دیکھ رہے ہو حالانکہ خدا تعالیٰ میں تو کوئی عیب نہیں ہے.وہ تو ہر لحاظ سے ہر پہلو سے ہر جہت سے اوپر نیچے ظاہر وباطن ہر لحاظ سے پاک ہے پاکیزگی کا سرچشمہ ہے لیکن تم خدا تعالیٰ کو ایک ہی زبان سے رازق بھی کہہ رہے ہوتے ہو اور اسی زبان سے تم لوگوں سے مانگ بھی رہے ہوتے ہو.تم خدا تعالیٰ کو رازق سمجھتے ہوئے.رشوت دینے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہو لیکن اس قسم کا نقص اور خامی جنت کی دعاؤں میں نہیں ہوگی کہ جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید بھی رڈ کر دی جاتی ہے بلکہ پاک زبانوں سے پاک خدا تعالیٰ کی پاک حمد کے ترانے نکلیں گے.جو خدا تعالیٰ کو پیارے لگیں گے اور اس کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر روز جنتی ان اعمال مقبولہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پیار کو پہلے دن سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں گے.تو وہاں عمل ہے لیکن یہ خطرہ نہیں کہ ناکام ہو جائیں گے.خطرات سے پاک عمل جنت میں بھی ہیں.دعا ئیں ہیں جس کی مثال یہاں دی گئی ہے.لیکن وہ لوگ لا يَرْجُونَ لِقلونا کے دائرے کے اندر آتے ہیں وہ تو جس طرح پہلے میں بتا چکا ہوں ان کی کیفیت قرآن کریم نے کیا بیان کی ہے وہ تو اس نعمت سے بھی محروم ہوں گے نا.سزا بھگتیں گے.اللہ تعالیٰ معاف کرے ہر ایک کو ، بڑا سوچا ہے ایک لحظہ کا بھی خدائی قہر جو ہے وہ انسان برداشت نہیں کر سکتا لمبا عرصہ تو علیحدہ رہا.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۵۴۱ تا ۵۵۰)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۶۹ سورة يونس آیت ۱۷۱۶ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَتِ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا انتِ بِقُرانِ غَيْرِ هَذَا اَوْ بَدِّلُهُ قُلْ مَا يَكُونُ لَى أَنْ أَبَدِ لَهُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلْ لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَكوتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا ادريكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمْرَا مِن قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنت اور جب انہیں ہماری روشن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ (اے محمد) تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آ.یا اس میں (ہی کچھ ) تغیر ( وتبدل) کر دے.تو (انہیں) کہہ ( کہ یہ ) میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے (کوئی) تغیر و تبدل) کردوں.میں ( تو ) جو ( کچھ ) مجھ پر (وحی سے حکم نازل ) کیا جاتا ہے اسی کی پیروی کرتا ہوں اور اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے ( ہولناک ) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ( کہ مجھے نہ آ پکڑے ).قُلْ لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلُوتُهُ علیکم اور تو (انہیں) کہہ کہ اگر اللہ کی (یہی) مشیت ہوتی ( کہ اس کی جگہ کوئی اور تعلیم دی جائے ) تو میں اسے تمہارے سامنے پڑھ کر نہ سنا تا اور نہ وہ (ہی) تمہیں اس ( تعلیم ) سے آگاہ کرتا.چنانچہ اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر ( بھی ) تم عقل سے کام نہیں لیتے.سورۃ انعام کی جو آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللہ ہے.یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے نہ آسمان پیدا ہو گئے ، نہ زمین معرض وجود میں آئی اور آسمانوں اور زمین پر جب تم غور کرو جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا وَ سَخَر لَكُمْ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۳) کہ اے انسانو ! تمہیں اپنی بقا کے لئے اور اپنی نشوونما کے لئے اور اپنی بھر پور زندگی کے لئے جو کچھ بھی چاہیے وہ فَاطِرِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہی کی طرف سے ملتا ہے.اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں، کوئی بغیر استثنا کے کہ جس نے تمہیں کوئی ایسی چیز دی ہو جو خدا نے نہیں دی.سب کچھ خدا نے دیا.کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے تم وہ پاؤ جو تم اللہ سے، اپنے پیدا کرنے والے رب سے نہ پاسکو.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۵۲۷،۵۲۶)
۲۷۰ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اسی لئے دوسری جگہ یہ بھی فرمایا تھا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ.(الانعام : ۱۶۳) کہ کامل اطاعت کرنی ہے.نماز ہے.دوسری قربانیاں ہیں.زندگی کا ہر پہلو ہے.موت کی ہر شکل ہے.یہ اللہ رب العلمین کے لئے ہے یعنی میری ہر حرکت اور میرا ہر سکون اس لئے ہے کہ میرا تعلق ربوبیت رَبِّ العلمین کے ساتھ قائم اور پختہ رہے کیونکہ اگر وہ تعلق کٹ گیا تو پھر میں ہدایت نہیں پاسکتا اس کی طرف.لَا شَرِيكَ لَه اس کا کوئی شریک نہیں.توحید خالص پر میں قائم ہوں اور مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں مقدور بھر اطاعت کرتا ہوں.یہ عملی نمونہ ہے میرا.میرے پیچھے چلو.کہنے والا تو ایک ہی تھا، میرے پیچھے چلو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.آپ کے منہ سے آپ کی حقیقت خدا تعالیٰ نے یہ بیان کی اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى جو وحى الهى اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری اور نوع انسانی کی بھلائی کے لئے نازل ہوئی میں صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں اور تم ؟ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ (ال عمران: ۳۲) اگر تمہارے دل میں اللہ کی جو رب العالمین ہے، محبت ہے اور چاہتے ہو کہ وہ بھی تم سے پیار کرے فَاتَّبِعُونی میری اتباع کرو.کس چیز میں اتباع کرو؟ وہی جو دوسری جگہ ہے اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی میں صرف اس وحی الہی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر اللہ نے نازل کی ہے اور تم میری اتباع کرتے ہوئے صرف اس وحی کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی اور اس کے علاوہ ہلاکت ہے.اِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيم یاد رکھو جو اس وحی کو چھوڑتا وہ اپنے لئے ہلاکت ، نا کامی ، بدامنی ، خوف، بے اطمینانی کے سامان پیدا کرتا ہے اس زندگی میں بھی اور آخری زندگی میں، اُخروی زندگی میں بھی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۱۳، ۳۱۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ اعلان کروایا ) اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى الى جو وحی مجھ پر نازل ہو رہی ہے میں صرف اس کی اتباع کرتا ہوں اور جس وقت ہمیں کہا گیا کہ آپ کی اتباع کرو تو اس کے یہ معنی ہو گے کہ جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صرف اس وحی کی اتباع کر رہے ہیں جو آپ پر نازل ہو رہی ہے.اس لئے ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ صرف اس وحی کی اتباع کرے جو آپ پر نازل ہو رہی ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۱ سورة يونس اور اس وحی سے ہمیں ایک بات جس کا اب میں ذکر کر رہا ہوں یہ معلوم ہوئی کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے اس کے علاوہ کسی پر تو گل کرنے والے نہیں تھے اور کسی کی احتیاج محسوس کرنے والے نہیں تھے بلکہ یہ اعلان کرنے والے تھے اپنے متبعین، اتباع کرنے والوں کو مُؤْمِنُونَ حَقًّا ، جنہیں قرآن کریم نے کہا ہے کہ میری طرح تم بھی خدائے واحد و یگانہ، رب العالمین پر توکل کرو اور ہر چیز اس سے مانگو.یہ عملی زندگی میں خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.عملی زندگی میں زندہ خدا سے زندہ تعلق ہم کہتے ہیں، پیدا کرو یہ ہے.ہر چیز اس سے مانگو.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۶۳، ۲۶۴) آیت ۵۹٬۵۸ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَ شفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَ بِرَحْمَتِهِ فَبِلْ لِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ.اے وے تمام لوگو! جو اس دنیا میں بستے ہو یا مستقبل میں اس دنیا کو بساؤ گے تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یقیناً ایک ایسی کتاب آ گئی ہے جو سراسر نصیحت ہے اور شفاء لما في الصدور وہ ہر اس بیماری کے لئے جو شیطان سینوں میں پیدا کر سکتا ہے شفا دینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے.تو اُن سے کہہ دے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے.پس اس پر انہیں خوشی منانا چاہیے.جو کچھ دنیا کے اموال اور اس کی لذتیں اور اس کی وجاہتیں اور اس کے اقتدار میں سے وہ جمع کر رہے ہیں ان سے یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے کہیں زیادہ بہتر ہے.اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق چار باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم مَوْعِظَةٌ ( نصیحت ) ہے اور اللہ تعالیٰ جس رنگ میں جن لوگوں کی گرفت کرتا ہے اور اپنے قہر اور غضب کا انہیں مورد ٹھہراتا ہے اور جس رنگ میں جن لوگوں پر اپنا فضل فرماتا ہے اور انہیں اپنی خوشنودی کے عطر سے ممسوح کرتا ہے.ان کے واقعات ایسے رنگ میں بیان فرماتا ہے جو دلوں پر اثر کرنے والا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور دلوں کو نرم کرنے والا ہوتا ہے.۲۷۲ سورة يونس دوسرے یہ فرمایا کہ یہ کتاب شِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ ہے.جو بیماریاں سینہ و دل سے تعلق رکھتی ہیں اس کتاب میں ان تمام بیماریوں کا علاج پایا جاتا ہے اور جو نسخے یہ کتاب تجویز کرتی ہے ان کے استعمال سے دل اور سینہ کی ہر روحانی بیماری دور ہو جاتی ہے.تیسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان فرمائی ہے.وہ ھڈی ہے.یعنی اس کی تعلیم ہدایت پر مشتمل ہے.وہ ان راہوں کی نشان دہی کرتا ہے.جو اس کے قرب تک پہنچانے والی ہیں اور منزل بہ منزل بہتر سے بہتر ہدایت ان کی طاقت و استعداد کے مطابق ان کو عطا فرماتا ہے اور ہدایت کرتا چلا جاتا ہے حتی کہ بندہ اپنے اچھے انجام کو پہنچ جاتا ہے.وہ اپنی جنت اور اپنے رب کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے.چوتھی بات قرآن کریم کے متعلق یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ ایمان والوں کے لئے یہ رحمت کا موجب ہے یعنی جو لوگ بھی قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جو بڑا احسان کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے.پہلی بات جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے قرآن کریم کے متعلق یہ بتائی گئی ہے کہ یہ مَوْعِظَةٌ ہے.مَوْعِظَةٌ یا وعظ کے عربی زبان میں معنی ہوتے ہیں.ایسی نصیحت جو جزا وسزا اور ثواب و عقاب کو اس طرح بیان کرنے والی ہو کہ اس سے دل نرم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کریں اور ان میں یہ خواہش پیدا ہو کہ دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی میں لگ جائیں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ہے کہ ہم جو وعظ کرتے ہیں اور جس کا ذکر ہم نے قرآن کریم کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِه (البقره: ۲۳۲) کہ ہم نے محض ” الکتاب“ ہی نہیں اتاری اور صرف کامل ہدایتیں ہی اس میں ہم بیان نہیں کرتے بلکہ ہم ان کی حکمتیں بھی بیان کرتے ہیں.ہر ہدایت کی وجہ بھی بتاتے ہیں، اس کے نتائج پر بھی روشنی ڈالتے ہیں.ہم تمہارے سامنے ایک تصویر لا رکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہماری ہدایات سے منہ موڑتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہوتا
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۷۳ سورة يونس ہے.وہ مسل کے رکھ دیئے جاتے ہیں اور ہمارا قہر انہیں خاک اور راکھ کر چھوڑتا ہے.اس کے برعکس جولوگ ہماری ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں ہم انہیں ایسا اچھا بدلہ دیتے ہیں اور انہیں اتنا خوشکن ثواب حاصل ہوتا ہے اور اصلاح نفس کے ایسے مواقع انہیں میسر آتے ہیں کہ نفس باقی ہی نہیں رہتا صرف ہماری محبت ہی باقی رہ جاتی ہے.مختلف رنگوں میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن کریم میں ہدایت کی راہیں بتلاتا ہے.مثلاً وہ لوگ جنہوں نے پہلے رسولوں کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی ، جس قسم کی اور جس طرح انہیں سزائیں دی گئیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا بیان کثرت سے اس کتاب مجید میں پایا جاتا ہے.اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے اور صدق و وفا سے انہیں خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہوا اور خدا تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں ان کی بھی ایک تصویر ، ایک نقشہ قرآن کریم ہمارے سامنے رکھ رہا ہے.پس قرآن نصیحت بھی کرتا ہے.بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور بعض باتوں سے روکتا ہے اور ساتھ ہی حکمتیں بھی بیان کرتا ہے کہ اس وجہ سے تمہیں ان باتوں سے روکا گیا ہے اور اس غرض کے لئے ان باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے.یہ سب باتیں مَوْعِظَةٌ کے اندر آ جاتی ہیں.فرمایا ہماری یہ کتاب جو ہماری ربوبیت کے مظاہرہ کے لئے نازل کی گئی ہے ہم اس کے ذریعہ تمہاری نشو ونما کرنا چاہتے ہیں اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ وعظ ونصیحت ہے.دوسری بات جو قرآن کریم کے متعلق یہاں بیان ہوئی ہے وہ شِفَاء لِمَا فِی الصُّدُورِ ہے.یعنی جو گند اور بیماری سینوں میں ہوتی ہے اس کے لئے یہ کتاب بطور شفا کے ہے.قرآن کریم میں تمام روحانی بیماریوں کا تعلق صدور یا دلوں سے قرار دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (النَّاسِ: ۵ تا ۷ ) اس میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ پناہ مانگو اس وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے جو ہر قسم کا وسوسہ ڈال کر شرارت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے.یہاں ایک بنیادی اصول کا ذکر فرمایا کہ تمام گناہ شیطانی وسوسہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور
۲۷۴ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة اصبح الثالث شیطان وسوسہ ڈال کر خود غائب ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ ڈالتا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وسوسہ ڈالنے والی ہستی شیطان تھی یا کوئی نیک ہستی تھی.اگر شیطان خناس نہ ہو اور وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹنے والا نہ ہوتو کوئی عقل مند انسان شیطانی وساوس کا شکار ہوکر روحانی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتا.پس شیطان صرف وسواس ہی نہیں بلکہ خناس بھی ہے.......اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم شفاء لِمَا فِی الصُّدُور ہے یعنی سینہ کی تمام روحانی بیماریوں کی شفاء اس میں پائی جاتی ہے.جو وسوسہ بھی شیطان دل میں ڈالے اسے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک ہدایت اور ایک تعلیم دی ہوئی ہے.اگر تم غور سے کام لو، اگر تم اس کے مطالب اور معارف تلاش کرنے کی کوشش کرو اور جب شیطان تم پر حملہ آور ہورہا ہو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر تم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.تو وہ تم پر غالب نہیں آ سکتا اور نہ تمہیں بیمار کر سکتا ہے بلکہ قرآنی نور تمہارے سینوں اور دلوں میں اس طرح پھیل جائے گا کہ شیطان جو ظلمت میں دیکھتا ہے اور نور سے ڈرتا ہے تمہارے سینہ و دل کے قریب بھی آنے کی جرات نہیں کر سکے گا.تو فرمایا کہ ہماری یہ تعلیم ( قرآن کریم ) ایک شفاء ہے.اور اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ جو بشارتیں یہ دیتا ہے جب وہ پوری ہو جاتی ہیں تو وہ شفاء کا کام دیتی ہیں اور شیطان کے اس وسوسہ کو دور کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو ترقیات، کامیابیوں اور فتح و نصرت کے وعدے کئے تھے وہ جھوٹے تھے وہ پورے نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی بہت سی بشارتیں ایک لمبا عرصہ گزرنے اور منکرین کوٹھٹھا اور استہزاء کر لینے کا موقعہ دینے کے بعد پوری ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُةٌ إِلَّا غُرُورًا - (احزاب: ۱۳) یعنی جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے کہنے لگ گئے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا.......دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خیالات کو دور کرنے کا ذکر سورہ تو بہ میں اس رنگ میں کیا ہے قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبُهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرُكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۵ سورة يونس مؤْمِنِينَ (التوبۃ : ۱۴) کہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں تلواریں لے کر نکلے ہیں.ہماری طرف سے تمہیں یہ بشارت ہے کہ تم کامیاب ہو گے ناکام نہیں ہو گے.نا کامی ان منکروں اور منافقوں کی قسمت اور حصہ میں ہے.تم ان سے لڑو اور جنگ کرو.اگر اللہ چاہتا تو پہلی قوموں کی طرح تمہیں جنگ کی دعوت نہ دیتا بلکہ خود آسمانی عذاب سے ان کو ہلاک کر دیتا لیکن خدا نے تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دلوائے گا اور ان کو رُسوا کرے گا اور آسانی نصرت تمہیں حاصل ہو گی ، تا دنیا دیکھے کہ جو خدا کے ہو جاتے ہیں اور جنہیں خدا کی نصرت حاصل ہوتی ہے وہ تھوڑے، کمزور اور نہتے ہونے کے باوجود اپنے طاقتور، امیر اور ہر طرح ہتھیاروں سے لیس دشمن پر غالب آتے ہیں.وَ يَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ اس طریق پر نشانات کو پورا کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو شفاء دیتا ہے اور شیطانی وساوس سے ان کی حفاظت کرتا ہے.شفاء کے معنی صرف یہی نہیں کہ پہلے بیمار ہو اور پھر اسے صحت ہو جائے شفاء کے معنی یہ بھی ہیں کہ بیماری سے محفوظ کر لے.جیسا کہ آج کل بھی بعض دوائیں بیماری سے محفوظ کرنے کے لئے دی جاتی ہیں.مثلاً ہیضہ وغیرہ کے ٹیکے لگتے ہیں.اس وقت ہیضہ کا مرض لاحق تو نہیں ہوتا بلکہ وہ ٹیکہ ہیضہ سے محفوظ رکھنے کے لئے لگایا جاتا ہے.اس معنی میں بھی کیشف کا لفظ استعمال ہوتا ہے.تو فرماتا ہے کہ جو بشارتیں ، جو آسمانی نشان اور آیات کے وعدے تمہیں دئے گئے ہیں میں انہیں پورا کرتا ہوں تا کہ تم شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہو.اور ان سے تمہیں ہمیشہ نجات ملتی رہے.قرآن کریم نے شفاء لما في الصُّدُورِ کی تفسیر میں مختلف طریقے بیان کئے ہیں.میں نے اس وقت صرف ایک مثال اپنے دوستوں اور بھائیوں کے سامنے بیان کی ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب موعظہ اور شفاء ہی نہیں بلکہ ھدی بھی ہے.جسمانی لحاظ سے اگر آپ غور کریں تو جس شخص نے جسمانی نشوونما حاصل کرنی ہو.اپنی جسمانی قوتوں اور استعدادوں کو اپنے کمال تک پہنچانا ہو اور اپنی زندگی کو کامیاب بنانا ہو اس کے لئے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی بیماری سے محفوظ ہو.تو فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم میں ایسا انتظام کر دیا
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة يونس ہے کہ تمام وہ روحانی بیماریاں جو شیطانی جراثیم سے پیدا ہوتی ہیں، پہلے ان بیماریوں کو دور کر دیا جائے اور مومنوں کے روحانی وجود میں کوئی شیطانی وسوسہ باقی نہ رہنے دیا جائے اور اس طرح ان کا وجود روحانی طور پر صحت مند وجود ہو جائے.لیکن اتنا ہی کافی نہیں.یہاں سے تو اصل کام شروع ہوتا ہے.تو فرمایا کہ چونکہ تم روحانی ترقیات کے حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہو.اس لئے اس مرحلہ پر بھی یہ کتاب تمہاری راہنمائی کرتی ہے.فرمایا ھڈی یہ قرآن تمہارے لئے ہدایت بھی ہے.عربی زبان کے لحاظ سے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کتاب میں ایسی تعلیم نازل کی گئی ہے جو آج ہی نہیں بلکہ قیامت تک انسان کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس کی راہنمائی کرتی چلی جائے گی.( کیونکہ اس آیت میں يَايُّهَا النَّاسُ سے خطاب کیا گیا ہے ) وہ قرآنی ہدایت رضاء الہی کی راہوں پر گامزن ہونے کا طریقہ بتلاتی ہے اور بتلاتی چلی جائے گی.وہ روحانی ترقیات کی غیر محدودرا ہیں اس پر کھولتی ہے اور کھولتی چلی جائے گی اور ہر منزل پر پہنچ کر اسے ایک اور نئی بلندی اور رفعت عطا کرتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر اخلاص اور وفا اور قربانی کا عملی نمونہ اسے پیش کرنے کی توفیق دیتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ مرد مومن ایثار اور محبت کی انتہائی رفعتوں کو اس کی اور محض اس کی برکت سے حاصل کر لیتا ہے اور اس کا انجام بخیر ہو جاتا ہے اور وہ اپنے محبوب، اپنے مطلوب اور اپنے مقصود اور اپنی جنت اور اپنے رب کی رضا کو پالیتا ہے.اس طرح انسان کے فطری قومی کو صحیح اور احسن راستہ پر چلانے کی طاقت اس کتاب میں رکھی گئی ہے.چوتھی بات اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کے متعلق یہ فرمائی ہے کہ یہ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ہے.رحمة کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں.انعام دینے والی ، فضل کرنے والی، احسان کرنے والی اور اپنی مغفرت میں ڈھانپ لینے والی ہستی.تو فرمایا کہ ہم جو رحمن اور رحیم ہیں رحمت کا منبع اور سرچشمہ ہیں.ہم نے قرآن مجید کو رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ( مومنوں کے لئے بطور رحمت ) نازل کیا ہے.تا اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر انسان ہماری رحمت اور مغفرت حاصل کرے اور اس کے ذریعہ سے روحانی بیماریوں کو دور کرے پھر اس کی ہدایت کے فیوض کے نتیجہ میں وہ روحانی ترقی کرتا چلا جائے اور اس کا انجام بخیر ہو.لیکن فرماتا ہے کہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۷ سورة يونس یہ بے شک هدى اور رَحْمَةً ہے.مگر هُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے.اگر وہ اس پر ایمان لانے کا اظہار اور اقرار نہ کریں اور اس کی بتائی ہوئی ہدایتوں کے مطابق اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کے مطابق نمونہ بنانے کی سعی نہ کریں اور اگر وہ خدا کی نگاہ میں حقیقی مومن نہ بنیں تو یہ کتاب ان کے لئے رحمت نہیں زحمت ہوگی.کیونکہ ان کو ایک نور دیا گیا.لیکن انہوں نے اس نور پر ظلمت کو ترجیح دی، ایک روشنی انہیں عطا ہوئی لیکن وہ اس روشنی سے بھاگ نکلے اور اندھیروں میں جا چھپے.ایک شفاء آسمان سے ان کے لئے نازل ہوئی مگر انہوں نے گند کو اختیار کیا اور بیماری کو صحت پر ترجیح دی.پس جو مومن نہیں ان کے لئے یہ رحمت نہیں ہے، مگر جو مومن ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ان پر نازل ہوگا اور اس کی رحمتوں کے وہ وارث ہوں گے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں یہ فرمایا.قُل بِفَضْلِ اللَّهِ وَ بِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کہ اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق حسنہ پر غرور نہ کرنا تم میں تکبر، خود پسندی ، خود نمائی اور ریا، پیدا نہ ہو.اپنے کو کچھ نہ سمجھنا.کسی خوبی کا مالک خود کو تصور نہ کرنا کہ تمہارا روحانی بیماریوں سے شفاء پا جانا اور رضاء الہی کی راہوں کو اختیار کر کے تمہارا انجام بخیر ہونا تمہاری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خوش ہو اور سرور ابدی کے جام پیو کہ تمہارا رب محض اپنے فضل سے تم پر رجوع برحمت ہوا اور اس نے محض احسان کے طور پر تمہیں وہ دیا جو دنیا کی تمام عزتوں اور دنیا کی تمام وجاہتوں اور دنیا کی تمام لذتوں اور دنیا کی تمام خوشیوں اور دنیا کے تمام اموال سے بہتر اور احسن ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۸۸ تا ۳۹۸) اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یقینا ایک ایسی کتاب آگئی ہے جو سراسر نصیحت ہے، موعظہ ہے اور وہ ہر اس بیماری کے لئے جو سینوں میں پائی جاتی ہو، شفاء دینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے.تو ان سے کہہ دے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وابستہ ہے.پس اسی پر انہیں خوشی منانا چاہیے جو مال و دولت وہ جمع کر رہے ہیں اس سے یہ نعمت کہیں زیادہ بہتر ہے.......
۲۷۸ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث جو آیات میں نے اس وقت تلاوت کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم سے تم بارہ فوائد حاصل کر سکتے ہو اور ان کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کوشش کریں اور کانشس ہو کے یعنی نیت ، خلوص نیت کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور جن باتوں کا میں اس وقت ذکر کروں گا جو ان آیات میں ہیں ان کی تفاصیل مختلف آیات میں پائی جاتی ہیں تلاوت کے وقت ان کو تلاش کریں اور یہ جادو نہیں کہ آپ نے پڑھ لیا اور آپ کو فائدہ ہو گیا یا آپ نے گلے میں باندھ لیا یا باز و پرلٹکالیا جیسا کہ دنیا کے بعض علاقوں میں ہو رہا ہے تو وہ تعویذ کے طور آپ کو فائدہ پہنچانے لگے.اپنی تمام عظمتوں اور تمام اثرات اور تمام وعدوں اور بشارتوں کے ساتھ آپ کے حق میں اس وقت قرآن کریم فیصلہ دیتا ہے جب آپ قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے لگیں.پہلی بات یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ قرآن عظیم موعظہ ہے.اس کے عام طور پر معنی کرتے ہیں نصیحت کے.نصیحت کا لفظ انسان کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ ایک شخص نے فلاں کو نصیحت کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی قرآن کریم میں یہ لفظ بولا گیا ہے.جب قرآن کریم میں یہ لفظ بولا جائے کہ خدا تعالیٰ نے اسے نصیحت اور موعظہ بنا کے بھیجا ہے تو اس کے معنی قرآن کریم کی لغت کے ماہر ہمارے جو بزرگ گزرے ہیں انہوں نے یہ کئے ہیں کہ ایسی تعلیم ایسی ہدایتوں پر مشتمل تعلیم جو انسان کو آمادہ کرتی ہے اصلاح نفس پر اور رجوع الی اللہ کی طرف مائل کرتی ہے.قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا تھا رمضان کی آیات میں ہی کہ اگر میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو انہیں کہو کہ میں قریب ہوں.یہاں یہ ہے کہ میں قریب ہوں.میرے سے تعلق پیدا کرو.رجوع الی اللہ کی طرف تعلیم دینے والی یہ کتاب ہے اس لئے جو طریقے اللہ تعالیٰ نے تو بہ اور رجوع الیہ کے بتائے ہیں قرآن کریم میں وہ ہمارے سامنے آتے رہنے چاہئیں.تلاوت کے وقت اس طرح نہیں تلاوت کرنی چاہیے جس طرح تیز گاڑیاں دنیا میں چل رہی ہیں یا ہوائی جہاز اڑ رہے ہیں.بعض دفعہ تو ایسی آواز نکلتی ہے.میں نے سنا ہے قرآن کریم پڑھنے والوں کے منہ سے کہ یہ ان کو بھی نہیں سمجھ آتی ہوگی کہ ہم سے کیا لفظ ادا ہورہے ہیں یعنی ان کے کانوں کو.ان کی آنکھیں تو دیکھ رہی ہوں گی لفظ لیکن ان کے کان نہیں تمیز کر سکتے ہوں گے کہ یہ کون سا نقطہ میری زبان بول گئی.اسی لئے قرآن کریم نے آہستگی سے سجے سجے رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل: ۵) کا حکم دیا تا کہ ساتھ ساتھ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح اثاث ۲۷۹ سورة يونس انسان کی توجہ غور کرے اور فائدہ حاصل کرے.سبق اسے ملے اور پھر اس کی نیت کرے کہ میں نے اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہے.دوسری چیز اس میں یہ ہے کہ شفاء لما فی الصُّدُورِ سینہ کی تمام بیماریوں کے لئے یہ شفاء ہے.یہ عربی کا یا قرآن کریم کا محاورہ ہے.انگریزی میں ایک لفظ ہے مائنڈ (mind) اور ہارٹ (Heart).یہ دونوں انگریزی زبان محض لوتھڑے کے معنی میں استعمال نہیں کرتے جو ہمارے سینے میں دھڑک رہا ہوتا بلکہ جو عقل کا نقطہ اور سرچشمہ ہے جس سے علم کے سوتے پھوٹتے ہیں اس کو بھی انگریزی میں مائنڈ (mind ) اور ہارٹ (Heart) کہتے ہیں اور عربی زبان میں عقل کہتے ہیں جو ہمارے سینہ میں دھڑک رہا ہوتا ہے اس کو بھی کہتے ہیں دل اور قلب اور اس کو بھی کہتے ہیں جو عقل اور علم کا سرچشمہ بن جاتا ہے.تو روح کا تعلق دل کے دھڑکنے کے ساتھ نہیں.روح کا تعلق اس خدا داد عقل اور فر است اور علم کے ساتھ ہے جو روح کی پرورش کرتا ہے علم اور جو راہیں روح کی نشو و نما کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ان راہوں کی طرف لے کے جاتا اور ان پر روح کی کوشش کو قائم کرتا ہے.قرآن کریم میں بعض دوسری جگہ اس کی وضاحت بھی کی.مثلاً فرمایا کہ آنکھوں کی بصارت کا ذکر ہم نہیں کرتے.وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج: ۴۷) جو دلوں میں قلوب ہیں یعنی مائنڈ (mind) اور وہ عقل کا سر چشمہ اور علم کا جو ہے وہ اندھا ہو جاتا ہے اور اس میں امام راغب کہتے ہیں عقل کی طرف اور علم کی طرف اشارہ ہے اور اندھا پن بھی ہے یعنی جو عقل اندھی بھی ہوتی ہے.ہمارے اردو میں بھی محاورہ آ گیا ہے اور عقل بہری بھی ہوتی ہے یعنی جو اس کے فائدہ کی بات ہے وہ سننے کے لئے تیار.ایک لڑائی ہو جاتی ہے.مادی دلچسپیوں کی روحانی حقائق کے ساتھ.اور عقل جو ہے وہ مادی دلچسپیوں میں کھوئی جاتی ہے اور گم ہو جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے اور مرجاتی ہے اور جس غرض کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے اس غرض کو وہ پورا نہیں کر رہی ہوتی یا اسے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق عمل کرنے کے نتیجہ میں حیات ملے.قرآن کریم میں آیا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر کان دھرو اس کے لئے کہ تمہیں وہ اس لئے بلا رہے ہیں کہ تمہیں زندہ کریں لیکن اس قسم کا بہرہ پن جو ہے یہ بھی ایک بیماری ہے.جس کی شفاء قرآن کریم کہتا ہے کہ شفَاء لِمَا فِي الصُّدُور قرآن کریم دل کی ، مائنڈ (mind) کی عقل کی ،علم
تفسیر حضرت خلیفہ مسیح الثالث ۲۸۰ سورة يونس میں جو گھن لگ جاتا ہے وہ تمام بیماریوں کی دوا ہم نے اس کے اندر رکھی ہے اور یہ ایک فلسفہ نہیں.یہ احمدیوں کو یادرکھنا چاہیے.کیونکہ اس کے بغیر ہم عملی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ محض ایک علمی مسئلہ نہیں.نہ یہ کوئی فلسفہ ہے بلکہ پہلوں کو چھوڑ و.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد لاکھوں کروڑوں وہ پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن کریم پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو پایا اور اللہ تعالیٰ پیار سے ان کے ساتھ ہم کلام ہوا اور ان کا دوست بنا.دوست بنا میں نے کہا اس لئے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ دوست بن جاتا ہے لیکن کہاں انسان اور کیا حیثیت انسان کی اور کہاں خدا اور اس کی بزرگی اور عظمت اور علو اور کبریائی لیکن یہ اس کا فضل اور رحمت ہے کہ وہ اپنے حقیر بندہ کو کہتا ہے کہ میں تیرا دوست بن جاؤں گا اگر تو میرے احکام پر چلے گا اور لاکھوں کروڑوں نے اپنی عملی زندگی میں اس کا تجربہ حاصل کیا.اور سب سے بڑی دلیل ان لوگوں کی زندگیاں دہریت کے خلاف ہیں یعنی جو خدا تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں ساری تاریخ انسانی سے وہ انکار کر رہے ہیں.بہر حال ایک چیز جو ہمیں قرآن کریم دیتا ہے اور رمضان میں خاص طور پر اس طرف توجہ کر کے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار اور سینے کی ہر قسم کی بیماریوں سے شفاء کا حصول ہے.ہدایت.ہدایت کے قرآن کریم نے اس لفظ کو یعنی راہنمائی کرنا.سیدھا راستہ دکھانا جو کامیابی کی طرف لے جانے والا ہے.کس کام میں کامیابی؟ اصل یہ سوال پھر آ جاتا ہے.تو قرآن کریم نے سینکڑوں جگہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی روحانی اور اخلاقی کامیابیوں کا ذکر کر کے قرآن کریم کو ہدایت کہا.وہ تو بیان نہیں ہوسکتیں ایک خطبہ میں نہیں ہو سکتیں.میرے خیال میں ایک زندگی میں بھی بیان ہونا مشکل ہے.مگر بہر حال بنیادی چیز یہ ہے کہ مقصدِ حیات ایک ہے ہمارا.ہمیں کیوں پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريت: ۵۷) اس لئے پیدا کیا کہ ہم اس کے عبد بنیں.اس کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھائیں.اس کے ہم رنگ ہو جائیں.وہ پاک ہے.پاکیزگی اس کے فضل سے ہماری زندگی میں پیدا ہو اور ایک ذاتی تعلق.زندہ تعلق، زندہ خدا کے ساتھ ہو جائے جس کے نتیجہ میں ہر وہ رحمت جومل سکتی ہے، وہ ہمیں ملے.
۲۸۱ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث تو بنیادی اس وقت میں نے ایک بات کی کہ ہدایت حصول مقصدِ حیات کی کوشش میں کامیابی کی را ہیں ہم پر کھولتی ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے.رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ.هُدًى وَرَحْمَةٌ بعض جگہ آ گیا.یہاں بیان کر دیا یہ ہر جگہ میں چلے گا.شرط ہے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کہا اسے کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصفت : ۱۰۳) میں نے بتایا تھا یہیں کسی خطبہ میں کہ یہ اسلام کی روح ہے.جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فارسی کلام میں ایک بڑا عجیب شعر کہا ہے آپ نے فرمایا ہے.خدا کا پیار حاصل کرنا کوئی مشکل تو نہیں ہے.وہ جان مانگتا ہے، جان دے دو.خدا کا پیار مل جائے گا.یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کا حصول اتنی عظمت رکھتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جان دینا بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَیءٍ ہر چیز کو میری رحمت نے احاطہ کیا ہوا ہے.فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ (الاعراف: ۱۵۷) اور جو میری پناہ میں آجائیں گے اپنے اعمال اور اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں ان کے لئے میں اس رحمت کو لکھ دوں گا.اور پانچویں چیز جو یہاں بیان ہوئی ہے بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِہ یہ سب کچھا اپنی جگہ درست لیکن سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ہوتا ہے یعنی اس کے فضل اور رحمت کو حاصل کرنا بھی اس کے فضل اور رحمت پر موقوف ہے.اس لئے جہاں ہمیں اعمالِ صالحہ بجالانے کا حکم ہوا وہاں دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کو جذب کرنے کا بھی حکم ہوا تا کہ ہمارے حقیر اعمال جو ہیں وہ اس کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَبِذلِكَ فَلْيَفْرَحُوا انسانی زندگی کی خوشیاں جو ہیں وہ اس بات پر موقوف ہیں.ایک نئی بات ہے یہاں ہمیں جوش دلانے کے لئے کہ جو مال و دولت وہ دنیا جمع کر رہی ہے اور بڑا جمع کر لیا کوئی شک نہیں یعنی بے شمار کہا جاسکتا ہے ان کا مال و دولت.بڑی ترقی کی.سائنس میں علم میں.ستاروں تک پہنچ گئے.زمین کے ذخائر باہر نکال لئے.وہ ہزاروں سال سے جو پٹرول زمین کی گہرائیوں میں چھپا تھا.سو یا ہوا آرام کر رہا تھا اس کو جا کے جھنجھوڑا، ہلایا، بیدار کیا باہر نکال لیا چھلانگیں مارتا ہوا وہ سوراخوں سے باہر آ گیا اور پیسے اس سے کمائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۸۲ سورة يونس ہی ان ساری چیزوں کو.اس ساری دولت کو اس سارے مال کو پیدا کیا تھا ان کے لئے.اس زندگی کے لئے لیکن جو ذکر ان آیات میں میں نے کیا ہے جو تم مجھ سے حاصل کر سکتے ہو.اصل خوشی انسانی زندگی کی اس پر ہے.جو مال و دولت وہ جمع کر رہے ہیں اس پر نہیں ہے.هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ یہ بے شمار گنازیادہ بھلائی اور خوشحالی کا موجب ہے خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کے پیار کو حاصل کرنا.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۸۵۱۷۹) آیت ۱۰۰ وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمُ جَمِيعًا افانت تكره النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَأمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا اگر جبر کرنا ہوتا اگر جبر کو جائز رکھنا ہوتا تو انسان پر کیوں چھوڑا جاتا جبر، خدا تعالیٰ خود جبر کرتا.آفانْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (یونس: ۱۰۰) اور اگر اللہ تعالیٰ ہدایت کے معاملہ میں اپنی ہی مشیت کو نافذ کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے.پس جب خدا تعالیٰ مجبور نہیں کرتا تو کیا تو لوگوں کو ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں ) مجبور کرے گا وہ مومن بن جائیں یعنی جن کے دلوں میں حق سے اتنی کراہت جو کفر کے لئے اس قدر شرح صدر رکھتے ہیں وہ زبر دستی تو ان کے دل نہیں بدلے جاسکتے نہ مَنْ شَرَحَ بالكُفْرِ صَدرًا کی جو کیفیت ہے وہ دور کی جاسکتی ہے.نہ یہ جبراً اکراہ سے کراہت دور نہیں کی جاسکتی.اس کو دور کرنے کے لئے بینات اور دلائل ہیں جو خدا تعالیٰ نے بڑی کثرت کے ساتھ اسلام کے حق میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے.دلائل قرآنی جو ہیں وہ اتنی وسعت ہے ان میں کہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے اس کلام سے ایک کے بعد دوسرا، ایک کے بعد دوسرا، روشن ستارہ نکلتا چلا آتا ہے انسان کی ہدایت کے لئے.اور علوم کے میدانوں میں عقلی علوم کے میدانوں میں روحانی علوم کے میدانوں میں ایک روشنی جو ہے وہ پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور قرآن کریم کی ہرنئی تفسیر جو ہر نئے زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ثابت کرنے والی اور آیت کی شان کو قائم رکھنے والی ہے اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اور آسمانی نشانات جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا پر ظاہر ہوئے اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک ممتد ہے اور خدا تعالیٰ کے نیک بندے
۲۸۳ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اُمت محمدیہ میں ایک ایک وقت میں بعض دفعہ لاکھوں کی تعداد میں مختلف خطوں میں پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی صداقت اور شان کو ظاہر کرنے کے لئے معجزات دکھائے انسان کو.اور یہ سلسلہ جو ہے وہ میں نے جیسا کہ بتایا قیامت تک ممتد ہے لیکن اس قدر دلائل سننے کے بعد اس قدر نشانات دیکھنے کے بعد بھی جس کا دل حق سے کراہت رکھتا اور جس کا سینہ بشاشت سے کفر کو قبول کرتا ہے اس پر جبر کر کے تو نہیں منوایا جا سکتا.(خطابات ناصر جلد هشتم صفحه ۱۲۱،۱۲۰) b آیت ۱۰۱ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ ۖ وَيَجْعَلُ الرّجُسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ پس اگر کسی شخص نے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مربی بنا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی روشنی سے اپنے لئے کور فراست اور عقل کی روشنی حاصل کرے اور قرآن کریم سے انتہائی محبت کرے، وہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا ہو.قرآن کریم کو غور اور تدبر سے پڑھنے والا ہو.قرآن کریم سیکھنے کے لئے دعائیں کرنے والا ہو اور قرآن کریم کو سکھانے کے لئے بھی دعائیں کرنے والا ہوتا کہ دنیا اپنی کم عقلی کی وجہ سے اور اپنی اس عقل کے نتیجہ میں جس میں اندھیروں کی آمیزش ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں فرمایا وَ يَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ یعنی جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل کو اس نور کی روشنی کی تاثیر سے متاثر نہیں کرتے جو قرآن کریم کے ذریعہ نازل کی گئی ہے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے.غرض ایک مربی نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے اور دنیا کو بھی.بنی نوع انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس نور سے وافر حصہ لینے کی کوشش کرے جو قرآن کریم عقل کو دیتا ہے اور دعاؤں میں مشغول رہے.وہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعامانگتا ہے کہ اسے بھی اور دنیا کو بھی اپنی کم عقلی اور اندھیروں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب نہ ملے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی عقل دے اور قرآنی انوار عطا کرے اور دنیا کو بھی سمجھ دے اور اسے قرآنی انوار دیکھنے کی توفیق عطا کرے تاکہ وہ اس کے غضب کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے ہوں.
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۸۴ سورة يونس مربی کا ایک بڑا کام جماعتی اتحاد اور جماعتی بشاشت کو قائم رکھنا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جونور میں عقل میں پیدا کرتا ہوں اسی کے نتیجہ میں قومی پجہتی قائم رکھی جاسکتی ہے جیسا کہ سورہ حشر میں فرمایا.تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ (الحشر :۱۵) یہاں ویسے تو مضمون اور ہے لیکن ایک بنیادی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم انہیں ایک قوم خیال کرتے ہو حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ قومی اتحاد اور قوم میں ایک مقصد کے حصول کے لئے بشاشت کا پیدا ہونا اس عقل کے ذریعہ سے ممکن ہے جسے خدا تعالیٰ کے قرآن اور اس احسن الحدیث کی روشنی عطا ہو جو اس نے ہمارے لئے نازل کی ہے.اگر عقل کو انوار قرآنی حاصل نہیں تو پھر عقل اس بنیادی مسئلہ کو بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ یجہتی اور اخوت اور اتحاد کے بغیر قومی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہیں کیا جا سکتا.پس ایک مربی کا یہ کام ہے کہ وہ کوشش کر کے قرآنی نور سے اپنی عقل کو منور کرے اور قرآن کریم نے جو اصول اور جو ہدایتیں اور جو تعلیم قوم میں بشاشت پیدا کرنے ، محبت پیدا کرنے اور اخوت پیدا کرنے کے لئے دی ہیں انہیں سیکھے اور پھر ان کا استعمال کرے کیونکہ اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ جماعت میں بشاشت پیدا کرے.ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہو کہ میں خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہوا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل مجھ پر ہیں جو ان لوگوں پر نہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور اس وجہ سے اسے خدا تعالیٰ کا ایک شکر گزار بندہ، اپنی عقل سے کام لینے والا بندہ اور قرآنی انوار سے نور لینے والا بندہ بن کر زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۶۹،۴۶۸) آیت ۱۰۶۱۰۵ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِّنْ دِينِي فَلَا اعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفكُمْ وَ أمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ تو مومن وہ ہے جو ہر رکی سے پاک ہے.خدا نے اعلان کیا اور جو ہر لکی سے پاک ہے اور مومن
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۵ سورة يونس ہے اس کے حق میں یہ وعدے پورے ہوں گے جن کا ذکر اس میں ہے.پس ایک عہد تو اس رمضان میں، بنیادی عہد بن گیا نا مومن بننے کے لئے.ہر احمدی کوشش کرے کجی نہ ہو یعنی بعض دفعہ ان کانشس مائنڈ (Unconcious Mind ) اس کو علم بھی نہیں ہوتا اور وہ ہیر پھیر والی بات کر جاتا ہے کہ میں ہمیشہ سچی بات کروں گا.اور نویں بات یہ ہے کہ اپنی پوری توجہ یعنی ایک بڑا مخلص سارا کچھ ہوتا ہے لیکن بیچ میں توجہ بٹ جاتی ہے.توجہ نہیں ہے.اعلان یہ ہے اپنی پوری توجہ دین پر ہمیشہ مرکوز رکھوں گا.جس کا مطلب یہ ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کمانی نہیں.یہ مطلب ہے کہ دنیا کمانے کے بعد دنیا کو اس طور پر خرچ کرنا ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس طور پر خرچ کیا جائے.حسناتِ دنیا بھی حسنات آخرت کے لئے حاصل کی جائیں.اور دسویں بات یہ ہے کہ شرف جو ہے وہ ایک موٹا شرک ہے.بت پرستی کرنا، ایک نیم موٹا شرک ہے.قبر پہ جاکے سجدہ کر دینا.بعض شرک اس سے بھی کم ظاہر ہونے والے ہیں.اپنے نفس کو کچھ سمجھنے لگ جانا خدا کے سامنے اور اپنے علم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے بتایا ہے غرور کرنا.اپنے حسن پر تکبر کرنا.اپنے جتھے پر ناز کرنا وغیرہ وغیرہ ساری شرک کی باتیں ہیں.ایمان باللہ توحید پر مضبوطی سے قائم ہونا، شرک کی ہر قسم کی فنا کا تقاضا کرتی ہے اور یہاں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مومن کے لئے ضروری ہے اگر وہ قرآن کریم کی بشارتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ شرک کی کوئی رگ باقی نہ رہے کیونکہ جو اس کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اس کے لئے سوچنا پڑتا ہے اس کے لئے چوکس رہنا پڑتا ہے اس کے لئے دعائیں کرنی پڑتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.گیارھویں یہ کہ غیر اللہ سے انسانی وجود کے سارے احساس مردہ ہوں اور سارے احساس اللہ کے لئے زندہ ہوں.اتباع وحی الہی سے یہ میں نے نکتہ اٹھایا ہے.صرف وحی الہی اور احکام الہی سے زندگی کا خمیر اٹھے.اور بارہویں یہ معاشرہ ہے نا ہر قسم کے لوگ ہیں.بارہویں یہ ضروری ہے کہ پوری استقامت اور استقلال جیسے صبر کے ایک معنی یہ بھی ہیں.پوری استقامت اور استقلال سے یہ اتباع ہو.اتَّبِعُ مَا يوحى إلى (الاعراف: ۲۰۴) ہے نا.جو وحی الہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہماری
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۲۸۶ سورة يونس خاطر اور کامل تعلیم آپ نے ہمارے ہاتھ میں دی قرآن کریم کی شکل میں ایک کامل شریعت آ گئی., اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: ٤) خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا، دنیا کی ساری طاقتیں، دنیا کے سارے علوم، دنیا کی ساری دولتیں، دنیا کے سارے جتھے ، دنیا کی ساری شیطنتیں زور لگا لیں انسان اس مقام پر نہ رہے کہ اتباع وحی الہی جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، وہ ضروری ہے ہر چیز ٹھکرا دینے کے قابل ہے.اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.جب دو قسم کے مقابلے ہوتے ہیں.ایک ایسا مقابلہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کا حکم ظاہری طور پر پوری شان و شوکت کے ساتھ اگر ظاہر نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ایک وہ مقابلہ ہے جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی عظمتوں کا اپنی قدرتوں کا اظہار کرے.تو یہاں فرمایا کہ صبر یعنی استقامت اور استقلال کے ساتھ اس وحی کو مضبوطی سے، احکام الہی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو.اس وقت تک کہ جو خَيْرُ الحکمین ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے، وہ اپنا فیصلہ کر دے.پھر جو ظاہری، جو دنیوی پریشانیاں ہیں.بہت ساری ہوتی ہیں وہ خود بخود دور ہو جائیں گی لیکن یہ کہنا کہ ہمیں کوئی دنیوی تکلیف ہی نہ پہنچے کوئی پریشانی نہ ہو.یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں تو آزماؤں گا لیکن ہوں تمہارے ساتھ.اگر تم میرے رہو گے.جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۳۹۰) اگر تم میرے ہور ہو گے میں تمہارے ساتھ ہوں.میں تمہارے ساتھ اس وقت بھی کھڑا ہوں جب دشمن کا وارتم پر پڑتا ہے اور تمہیں تکلیف پہنچ رہی ہوتی ہے.آزمانا چاہتا ہوں تمہیں.تم سے دور نہیں چلا جاتا اور اگر تم استقامت اور استقلال دکھاؤ گے میرے فیصلے تک اور یہ فیصلہ کرنا کہ کب میں فیصلہ کروں.یہ میں نے کرنا ہے تم نے نہیں کرنا اس واسطے صبر تمہارا کام ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۸۶ تا ۱۸۸)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۸۷ سورة يونس ج آیت ۱۰۹ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بوكيل مذہبی آزادی کے بارہ میں اس وقت میں صرف دو آیات کی تشریح کروں گا.پہلی تو سورۃ کہف کی آیت ہے جس کے متعلق میں مختصراً بتا چکا ہوں.اب میں دوسری آیت کو لیتا ہوں اور وہ سورۃ یونس کی یہ آیت ہے:.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ - اے رسول ! لوگوں سے کہ دو کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک کامل صداقت نازل ہوگئی ہے.چونکہ پہلے مخاطب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور پھر آپ کے متبعین ہیں ، قرآن کریم کی ہدایت چونکہ قیامت تک ہے اس لئے یہ حکم آپ کی وساطت سے آپ کے متبعین اور پھر سب انسانوں کو قیامت تک کے لئے ملا ہے فرمایا :- قَد جَاءَ كُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُم تمہارے رب کی طرف سے ایک کامل صداقت نازل ہوگئی ہے.فَمَنِ اهْتَدى اب جو شخص اپنی مرضی سے اس کی بتائی ہوئی ہدایت کو اختیار کرتا ہے فَإِنَّمَا يَهْتَدِی لِنَفْسِه تو وہ اپنی جان کے فائدہ ہی کے لئے ہدایت کو اختیار کرتا ہے.گویا انسان کو اس بات کی آزادی ہے کہ مرضی ہو تو ہدایت کو اختیار کرلے اور اگر وہ اختیار نہ کرنا چاہے تو اس پر خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی جبر نہیں البتہ وَ مَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا جوشخص اس راہ سے بھٹک جائے تو اس کے بھٹکنے کا وبال اسی کی جان پر ہے اس لئے ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خوب سوچ لے اور پھر کوئی فیصلہ کرے.غرض خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کر دیا کہ اے لوگو تمہیں مذہبی طور پر آزادی ہے.تم نے اپنا فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہدایت کی راہ پر چلنا ہے یا گمراہی کو اختیار کرنا ہے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں، میں تمہارا وکیل نہیں ہوں ، میرے اوپر تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۸ سورة يونس اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ بیان کیا.فرمایا :- إنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ اَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص: ۵۷) اے رسول ! جس کو تو پسند کرے اس کو ہدایت نہیں دے سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے یا نہ دے.یہ الگ طور پر ایک لمبا مضمون بن جاتا ہے اس کی تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاؤں گا.جو شخص ہدایت پانے کی کوشش کرتا ہے یعنی ایمان لاتا ہے اور پھر اس کے مطابق عمل بھی بجالاتا ہے تو اگر چہ بشری کمزوریاں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے.ویسے یادرکھنا چاہیے کہ جب تک دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کیا جائے اس وقت تک حقیقی کامیابی نصیب نہیں ہوتی اور بظاہر صحیح عقیدہ کے باوجود انسان کے اعمالِ صالحہ رڈ کر دیئے جاتے ہیں اور وہ عند اللہ قبول نہیں ہوتے.ان کے بیچ میں کوئی گندی چیز آ جاتی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات پاک ہے وہ کہتا ہے میں ایسے عمل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.اس لئے ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ تم اچھے عمل کرنے کے بعد دعا سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرو تا کہ تمہارا بیان خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے.فرما یا ولكنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے آخری فیصلہ اسی کے اختیار میں ہے کیونکہ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون نہیں ہے.کسی شخص کے اعمال واقعی قبول ہو جا ئیں گے اور اس کی بشری کمزوریوں کو معاف کر دیا جائے گا اور وہ ہدایت یافتہ گروہ میں آجائے گا.پھر اسی مضمون کو ایک اور جگہ بیان کیا.فرمایا :- لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُ بهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ (البقرۃ: ۲۷۳) اے رسول ! لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لانا تیرے ذمہ نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت کی راہ پر لے آتا ہے.قرآن کریم کی یہ بھی ایک عجیب شان ہے.ہم اپنے ایک خاص مضمون کے لئے آیات قرآنیہ سے ایک ایک فقرہ اٹھاتے ہیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید تکرار ہے اور ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے.بات دہرائی نہیں جاتی بلکہ ایک نئے پیرایہ میں ایک نئی بات بتائی جاتی ہے.سورۃ بقرۃ کی آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے رسول ! ہدایت دینا تیرا کام نہیں ہے یہ خدا کا کام ہے وہ جس کے اعمال قبول کرے گا اسے ہدایت یافتہ گروہ میں شامل کر دے گا.
۲۸۹ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث جیسا کہ میں بتا چکا ہوں انسان کے ساتھ داعی الی الخیر لگا ہوا ہے یعنی انسان کی فطرت کی وہ آواز جو اسے نیکی کرنے پر ابھارتی ہے لیکن صرف یہی نہیں بلکہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى(المائدة: ۳) کی رو سے بیرونی اثرات کا بھی دخل ہے.چنانچہ اس مضمون کو زیادہ واضح طور پر ذیل کی آیہ کریمہ میں بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- أدْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل : ١٣٦ ) اے رسول ! لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلا.کوئی سختی نہیں کرنی.لفظی سختی بھی نہیں کرنی سوائے اس کے کہ کسی کی بھلائی مد نظر ہو کیونکہ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ یہ تو اللہ کو علم ہے کہ واقع میں وہ کون شخص ہے جس نے پورے طور پر داعی الی الشتر کی بات مان کر خدا تعالیٰ کی راہ سے دوری اختیار کر لی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے جن کے اعمال اور مجاہدہ اور کوششوں کو قبول کرتا ہے جو ہدایت کے راستوں میں کی جاتی ہیں تو بعض جگہ سخت الفاظ بولے جاتے ہیں لیکن ان میں غصے کا اظہار نہیں ہوتا.آخر ہر سخت کلمہ غصے کے نتیجہ میں تو نہیں بولا جاتا.مثلاً ہمارا اپنا تجربہ ہے، سمجھ دار ماں باپ بھی جانتے ہیں کہ گھروں میں ڈیڑھ دو سال کا بچہ جو کچھ کچھ بات سمجھتا ہے اس کو اگر غصے والی شکل بنا کر کسی بات سے منع کریں تو وہ رونے لگ جائے گا اور وہی فقرہ مسکراتے ہوئے کہیں تو وہ بھی مسکرانے لگ جائے گا.پس خدا تعالیٰ اور اس کے بندے اس معنی میں غضب کا اظہار نہیں کرتے جس معنے میں ایک مغضوب الغضب انسان غضب کا اظہار کیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی اپنے لئے غضب کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں بھی در اصل اس کی رحمت کا ہی کوئی نہ کوئی پہلو بیان ہوا ہے اور اس میں بھی مخاطب کی بھلائی ہی مقصود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا: - فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ (الشوری:۴۱) که اگر اصلاح کی توقع ہو تو معاف کر دینا بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو کہ بڑا ڈھیٹ آدمی ہے جب تک کوئی تھوڑی سی سختی نہ کی جائے گی اس کو سمجھ نہیں آئے گی اور اس کا دماغ درست نہیں ہوگا اور وہ ظلم پر قائم رہے گا تو اس کی بھلائی کے لئے تم سختی کرو مگر اپنے غصے کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اس کی اصلاح کی خاطر.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۹۰ سورة يونس پھر ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ (الانعام :(۶۷) ایک رنگ میں یہ بیان ہمارے جذبات کی تاروں کو چھیڑتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی ہدایت لے کر آئے لیکن قوم نے اس پیغام کی تکذیب کر دی اور اسے جھوٹا قرار دے دیا حالانکہ هو الحق یہ تو ایک صداقت ہے یہ تو ایک سچائی ہے لیکن فرمایا:.قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بوکیل اے رسول ! تم ان سے کہہ دو.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.یہ فیصلہ بہر حال تم نے کرنا ہے کہ آیا تم اپنی مرضی سے ایمان کا اظہار کرو گے اور ہدایت کی راہوں کو اختیار کرو گے اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کی تلاش کرو گے یا تم کفر کا اعلان کرو گے اور خدا تعالیٰ سے دوری کی راہوں کو اختیار کرو گے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.خدا تعالیٰ نے میرے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ میں تم پر جبر کر کے زبردستی کے طور پر کسی مادی طاقت کے ذریعہ تمہارے اس اختیار کو چھین کر جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے تمہیں ہدایت کی راہوں کی طرف لاؤں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۳ تا ۲۲۶) ور آیت ١٠ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرُ حَتَّى يَحْدُمَ اللهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَكِمِينَ اس میں پہلے معنی جو شریعت کے احکام پر سختی سے کاربند رہنے کے ہیں.اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے.قرآن کریم کی شریعت نے جو احکام تمہارے سامنے رکھے ہیں ان کی اتباع کرو.واصبر “ اور پورے مجاہدہ کے ساتھ ، پورے زور کے ساتھ اپنے نفسوں کو احکام شریعت کا جو دائرہ ہے اس کے اندر باندھے رکھو اور قید رکھو.بے قیدی کی زندگی نہ گزارو.یعنی اتباع وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں صبر سے کام لو.یعنی پورے طور پر اپنے نفسوں پر زور دے کر شریعت کی پابندی کرو اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھو اور بے قید زندگی گزارنے کی کوشش نہ کرو.وَاصْبِرُ حَتَّى يَحُكم الله اور اس میں چھٹے معنی بھی آجاتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں کہ 19191
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۱ سورة يونس تم صبر کے ساتھ انتظار کرو.ہو گا وہی جو خدا نے چاہا اور پسند کیا.ہوگا وہی جس کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے لیکن ہو گا وہ اپنے وقت پر.اس واسطے بے صبری نہ دکھاؤ.صبر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے.وَهُوَ خَيْرُ الحكمين اور بہترین فیصلہ وہی کیا کرتا ہے.دنیا فیصلے کرتی اور اس کے فیصلے ٹوٹ جاتے ہیں.دنیا کا میابیوں کی خواہش رکھتی اور ناکامیوں اور نامرادیوں کا منہ دیکھتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا فیصلہ کر دیتا ہے تو وہ خَيْرُ الحکمین جو فیصلہ کرتا ہے وہی ہوتا ہے لیکن ہوتا اس وقت ہے جو اس فیصلے کے ہونے کے لئے مقدر ہو.تمہیں بشارتیں دی گئی ہیں.اپنے وقت پر پوری ہوں گی لیکن تمہیں صبر سے انتظار کرنا پڑے گا.تمہیں صبر کے ساتھ امتحانات میں سے گزرنا پڑے گا.مصائب کو برداشت کرنا پڑے گا مخالف کے منصوبوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا.ہوائے نفس سے بچنا پڑے گا.نفس کو مارنا پڑے گا خدا کے لئے موت کو اختیار کرنا پڑے گا تا تمہیں ایک نئی زندگی ملے اور احکامِ شریعت پر سختی کے ساتھ پابند رہنا پڑے گا.یہ کرنا پڑے گا اگر تم نے ان بشارتوں کا وارث اور حامل بننا ہے تو وَاصْبِرُ حَتَّى يَحْكُم الله صبر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو جائے اور فیصلے کا اجراء ہو جائے اور وہ خیر الحکمین ہے اس کے فیصلوں کے وقت کی تعیین وہی جانتا ہے اور اس کے فیصلے حق و حکمت سے پُر ہوتے ہیں اور بھلائی سے معمور ہوتے ہیں.19191 (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۰۹) وہ جو پہلے میں نے سوال دہرایا تھا نا اب اس موقع پر میں دہرا رہا ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ آپ اُسوہ ہیں اور آپ کی اتباع کئے بغیر اللہ تعالیٰ کا پیار ہمیں حاصل نہیں ہوسکتا.قرآن کریم نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.سورہ یونس میں حکم ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ جو تیری طرف میری وحی نازل ہو رہی ہے اس کی کامل اتباع کر.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے.واصبر اور استقامت سے مضبوطی کے ساتھ ،صبر کے ساتھ اس پر قائم ہو جا.کوئی غیر مسلم کہ سکتا ہے حکم ہے.یہ تو نہیں کہیں ہوا کہ اس حکم کو آپ بجا بھی لائے.سورہ اعراف میں ہے قل اعلان کر دو.یہ خدا تعالیٰ نے جو دیکھا اس کا اعلان کروایا ہے.یعنی خدا تعالیٰ نے حضرت محمد
۲۹۲ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اور نفس میں جو مشاہدہ کیا، خدا تعالیٰ نے ،اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا اس کا اعلان کر دو.قُلْ إِنَّمَا اتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَى مِنْ رَّبِّي (الاعراف: ۲۰۴) حکم تھا نا اتباع کرو.اعلان کروادیا کہ میں نے اس حکم کی اطاعت کی.میں جو میرے رب کی طرف سے وحی نازل ہوئی ہے، اس کی کامل اتباع کرنے والا ہوں.اور اُسوہ کے متعلق کہا ھذا بَصَابِرُ مِنْ ربكم تمہارے لئے اس وحی میں بصائر ہیں یعنی بصیرت پیدا کرنے والے دلائل ہیں.وھدی ہدایت کا سامان ہے، جس کے نتیجہ میں وَرَحْمَةُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں لقوم يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۲۰۴) ان لوگوں پر، اس گروہ پر، اس جماعت پر جو اپنے ایمان پر پختہ طور پر قائم ہو جاتے ہیں.تو حکم تھا اتباع کرو.اللہ تعالیٰ نے اعلان کروایا کہ آپ نے کامل اتباع کر لی اور اعلان دوسری جگہ کروا دیا.اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۴) یہ تو آپ کی ذات ہوئی نا.جو اُسوہ بنانا ہے اور آپ کی اتباع کرنی ہے اس کے متعلق روشنی پیدا کرنے کے لئے اُمت کے دل و دماغ میں حکم ہوا فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ( الحجر : ۹۵) جو وحی تیرے پر نازل ہورہی ہے(اوامر و نواہی کے سلسلہ میں.یہ محاورہ ہے عربی کا ، ایک لفظ آ جاتا ہے ).جس چیز کا تجھے حکم دیا جاتا ہے اضداغ کے معنی ہیں کھول دینا.وہ جو پتھر پر لوہے کا ایک ہتھوڑا سا رکھ کے مارتے ہیں اور پتھر کو دوٹکڑے کر دیتے ہیں اس کے معنی بھی یہی ہیں.اس کے معنی ہیں کھول دینا.تو کھول کر بیان کرو.جو وحی تم پر نازل ہوئی اسے کھول کر بیان کرو اپنے قول اور اپنے فعل کے ساتھ.سورہ مائدہ میں کہا - يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِخَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۖ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغْتَ رسالته (المائدة: ۶۸) اے رسول ! ( جو یہ اکٹھے ہیں دراصل الرّسول النَّبِي ، الأمى اور اُمّی میں آجاتا ہے محمد بلیغ کے معنی مفردات نے یہ کئے ہیں اسی آیت کے نیچے.آئی إِن لَّمْ تُبَلِّغُ هَذَا جو وحی نازل ہوئی ہے وہ کلیتاً تم وضاحت سے بیان نہ کر دو، پہنچانہ دو آ گے.اَوْ شَيْأً مِنَا مُحَملت یا اپنی ذمہ داری کے تھوڑے سے حصے میں بھی اگر کوتاہی کرو تكُنْ فِي حُكْمِ مَنْ لَّمْ يُبْلِّغُ شَيْأُ مِنْ رسالته تو اس پر حکم یہ ہوگا کہ کوئی چیز بھی نہیں پہنچائی.یعنی پوری کی پوری وحی نے جو اوامر ونواہی نوع انسانی کی ضرورتوں کے لئے بیان کئے ہیں ایک ایک کر کے سارے جو ہیں وہ پہنچانا بنی نوع انسان کو یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے.
۲۹۳ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور اعلان یہ کیا گیا ہے کہ اگر سینکڑوں ایسے اوامر اور احکام میں سے دو بھی نہیں تم پہنچاتے تو تم نے اپنی رسالت کی جو ذمہ داری تھی جو تمہارے پر ڈالی گئی (حملت ) وہ پوری نہیں کرو گے.سورہ نور میں کہا.فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُتِل ( النور : ۵۵) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف اس کی ذمہ داری ہے جو اس کے ذمے لگایا گیا.اور ذمہ داری کیا ہے؟ اسی آیت میں آگے کہا.دو دو وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلا الْبَلاغُ الْمُبِينُ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری یہ ہے الا البلاغ المبين که صرف بات کو کھول کر لوگوں تک پہنچادینا.وحی کو لوگوں تک پہنچا دینا، اُمّی ہونے کے لحاظ سے اپنی طرف سے کچھ ملاوٹ نہیں کرنی.ہو ہی نہیں سکتی آپ کی فطرت میں ہی نہیں یہ.اسی چیز کو واضح کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ ایک واقعہ ہو گیا.سورۃ یونس کی سولہویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اور جب انہیں ہماری روشن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ اے محمد! انتِ بِقُرانِ غَيْرِ هَذَا اَوْ بَدِلْهُ (يونس:۱۲) کہ تو اس کے سوا یعنی جو وحی نازل ہورہی ہے قرآن کریم کی اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آیا اس میں کچھ تغیر و تبدل کر دے.تو کہہ دے یہ میرا کام نہیں ہے.یہ اُٹھی بول رہے ہیں نا اب تو کہہ دے کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کروں.بڑاز بر دست اعلان ہے آج کی دنیا کے لئے.جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گا اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے وہ بھی یہی اعلان کرے گا کہ جو قرآن کریم میں آچکا اس میں چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی انسان کا یا کہنے والا کہے گا میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس میں کوئی تغیر و تبدل کروں.میرا یہ کام ہے سمعا و طَاعَةً میں قرآن کریم پڑھوں اور سنوں اور اس کے مطابق عمل کروں.إنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یوحی الی.یہ اسی آیت کا ہے.مجھ پر جو وحی کی جاتی ہے میں تو صرف اسی کی اتباع اور پیروی کرتا ہوں اس کے علاوہ ادھر ادھر کی نہیں.آگے اعلان کیا یعنی ممکن نہیں لیکن جو شخص قرآن کریم کی وحی میں رد و بدل کرے کوئی تغیر کرنا چاہے اس کے لئے اس کو سمجھانے کے لئے ،اس کے لئے بطور انذار کے کہ پھر تمہیں عذاب عظیم ملے گا، یہ اعلان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کروایا جن کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا.جن کی حالت یہ تھی ان کی کیفیت تھی جو خدا تعالیٰ
۲۹۴ سورة يونس تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نے مشاہدہ کی اور قرآن کریم میں بیان کی ناکہ یہ میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کروں.اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى ساتھ یہ اعلان کرا دیا.انِي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (الانعام: ۱۶) اگر میں قرآن کریم کی وحی کے خلاف کوئی بات کروں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ایسا ممکن نہیں تھا.آپ تو دوسروں کو جنت میں لے جانے والے ہیں لیکن دوسروں کے لئے ایسا ممکن تھا اس لئے یہ اعلان کروایا جیسا کہ آج کل دنیا کے مختلف حصوں میں اس قسم کی باتیں کی جاتی ہیں جو ہمارے کانوں میں پڑتی ہیں.اور جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں، جو قرآن کریم کی وحی کو قول اور فعل سے سچا ثابت کرنے والے ہیں، اس پر عمل کرنے والے ہیں، جو یہ اعلان کرنے والے ہیں کہ ہم تو خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں ہم ایک ذرہ بھر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے.مثلاً پاکستان سے باہر کسی ملک میں ( نام نہیں میں لوں گا.فتنہ پیدا ہوتا ہے ) ایک جگہ یہ فتویٰ دے دیا کہ شراب جو ہے وہ تو گرم ملک میں حرام کی گئی تھی بٹھنڈے ملکوں میں بے شک پی لیا کرو.حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوایا گیا تھا انِي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ حالانکہ شراب کے متعلق رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطن (المائدة: 91) کا اعلان کیا گیا تھا کہ ایک گند کی چیز ہے اور اس کا پینا شیطانی عمل ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۴۷ تا ۲۵۰) پس اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی رحمت اور اس کی خوشنودی اور اس کی محبت کو پانے کا ایک وسیلہ استقامت ہے.یعنی جو رشتہ اس سے جوڑ اوہ کسی حالت میں قطع نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس طور پر استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحی کی اتباع کرے گا اور شریعتِ اسلامیہ کی پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے حق میں وہ فیصلہ کر دے گا جو اس نے انہیں بشارت کے رنگ میں پہلے بتا دیا ہے.اللہ تعالیٰ سورہ یونس میں فرماتا ہے.وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الحكمين اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ کے طفیل انسان کی حقیقی بھلائی اور ابدی مسرت کے لئے قرآن کریم کی شکل میں نازل کی گئی ہے جو شخص اس کی اتباع کرتا ہے اور صبر کا نمونہ دکھاتا اور استقامت کے مقام کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اس
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۵ سورة يونس کے حق میں اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے اور بشارتیں پوری ہوتی ہیں جو امت مسلمہ کو دی گئی ہیں جو ہر اُس شخص کو دی گئی ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے آپ کو منسوب کرتا اور قرآن کریم کا جوا اپنی گردن پر رکھتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نزول کے لئے اتباع وحی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صبر اور استقامت نہایت ضروری ہے جو شخص صبر میں کمزوری دکھاتا ہے استقامت یعنی ثبات قدم میں کمزور ہوتا ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شریعت نازل ہوئی ہے اس کی اتباع صحیح طور پر اور صحیح رنگ میں نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سے مد نہیں چاہتا استغفار نہیں کرتا اور خود کو کمزور پا کر اپنے رب کی قوت کا سہارا نہیں لیتا اور اپنی محبت میں اس قدر وفا کا نمونہ نہیں دکھاتا جو دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا ہواس کے حق میں اللہ تعالیٰ کا حکم جو وعدہ کے رنگ میں اسے دیا گیا ہے نازل نہیں ہوتا اور بشارتیں پوری نہیں ہوتیں لیکن جو صبر کا نمونہ دکھاتا ہے اور کامل اتباع اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتا ہے اور سچے طور پر مستقیم بن جاتا ہے اور کسی صورت میں بھی استقامت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارتیں عملی رنگ میں اس کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور اس دنیا میں بھی اس کے لئے ایک جنت پیدا کی جاتی ہے جس کا وہ احساس رکھتا ہے اور جس کی لذت اور جس کی مسرت سے وہ محظوظ ہوتا ہے.ہم سے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ اگر ہم قرآن کریم کی شریعت کی کامل اتباع کریں گے اور اخلاص کے ساتھ اسلام پر عمل پیرا ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں اسلام کو پر غالب کرے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اگر ہم یہ خواہش رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمارے حق میں، ہماری زندگیوں میں اور ہماری نسل میں پورا ہوتو ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم صبر کا وہ نمونہ دکھا ئیں جو ہم سے پہلوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دکھایا اور ہم مستقیم بن جائیں ، ہم استقامت پر کھڑے ہونے والے بن جائیں، ہم کسی صورت میں کسی مصیبت کے وقت کسی دکھ کے وقت، کسی ابتلاء کے وقت، کسی آزمائش کے وقت، کسی طوفان کے وقت اور ساری دنیا کے حملوں کے اوقات میں اپنے خدا کے دامن کو نہ چھوڑیں.حتٰی يَحْكُم الله اس وقت تک جب خدا کا حکم نازل ہو جائے.اگر ہم اس مقام کو حاصل کر لیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے هُوَ خَيْرُ الحكمين وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۶ سورة يونس بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.اس کا فیصلہ جب نازل ہو جائے گا جب اسلام دنیا میں غالب ہو جائے گا.جب اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمارے زندگیوں میں پورے ہو جائیں گے تو ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ سے یہ آواز نکلے گی کہ اللہ ہی خَیرُ الْحَاکمین ہے.وہی خَیرُ الْحَکمین ہے اس کے مقابلہ میں کس کی حکومت اور کس کا فیصلہ چلتا ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۲۵،۵۲۴)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۷ سورة هود اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة هود آیت ۸ وَهُوَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ كَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُم اَحْسَنُ عَمَلًا وَ لَبِنْ قُلْتَ إِنَّكُمْ مبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرُ مبين دو، جب یوم کے لفظ سے زمانے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں اور عظمتوں اور اس کے جلال اور اس کی صفات کے مختلف جلوؤں کی طرف اشارہ ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کو بستة آیا م یعنی چھ زمانوں میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے یہاں یو م سے مراد وہ دن نہیں جو ہر روز ہم پر طلوع ہوتا ہے بلکہ ایک زمانہ مراد ہے اور ہر چیز کی پیدائش کے لئے ایک زمانہ مقدر ہوتا ہے مثلاً بچہ کی پیدائش کے لئے نو ماہ کا زمانہ ہوتا ہے.اس عالمین کی یا اس کے اندر جو Galaxies) کہکشاں ) ہیں ان کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا لمبازمانہ مقرر کر دیا ہے بعض سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ ستاروں کے مختلف خاندان جو بے شمار ستاروں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں Galaxy ( کہکشاں ) کہتے ہیں ان کا آپس میں ایسا تعلق ہے ایک مربوط تعلق پایا جاتا ہے کہ ان ستاروں کا سارے کا سارا جمگھٹا اکٹھا ایک جہت کی طرف بھی حرکت کر رہا ہے اور ساتھ والی دائیں بائیں یا اوپر نیچے جو دوسری Galaxies) کہکشاں ) ہیں وہ بھی ایک خاص جہت کی طرف حرکت کر رہی ہیں اور ان کا درمیانی
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث فاصلہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے.۲۹۸ سورة هود پس جس وقت دو Galaxies) کہکشاں) کے درمیان یعنی ستاروں کے ان دو خاندانوں کے درمیان جن کے افراد بے شمار ہیں اور انسان ان کو گن نہیں سکتا تو ان بے شمار ستاروں پر مشتمل دو خاندانوں کے درمیان جب اتنا فاصلہ ہو جاتا ہے کہ ستاروں کا ایک اور خاندان وہاں سما سکے تو اللہ تعالیٰ کے امر اور حکم سے وہاں ایک اور Galaxy ( کہکشاں ) پیدا ہو جاتی ہے.ستاروں کا ایک اور خاندان پیدا ہو جاتا ہے یہ صحیح ہے کہ اس وقت تک انسانی دماغ نے خواہ اس نے سائنس میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لی ہو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے کناروں پر ہی نگاہ ڈال سکا ہے اور جس طرح انسان اندھیرے میں ٹٹول کر کچھ معلوم کر لیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خلق اور اس کی ربوبیت اور اس کے حسن و احسان کے جو جلوے اس پیدائش کا ئنات میں ہمیں نظر آتے ہیں ان کے متعلق جس طرح آدمی اندھیرے میں ٹول کر کچھ علم حاصل کر لیتا ہے انسان نے اس طرح کا کچھ علم حاصل کر لیا ہے اور جو تھوڑا بہت حاصل کیا ہے اس میں ایک چیز یہ بھی آجاتی ہے کہکشاں وغیرہ.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۰۰۰،۹۹۹) آیت ٦٢ وَ إِلى ثَمُودَ أَخَاهُمُ صلِحًا قَالَ يُقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لكُم مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ هُوَ اَنْشَاَكُم مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُم فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ.جب اللہ تعالیٰ انسان سے پیار کرنے کے لئے اس کے قریب آ جاتا ہے اور اسے اپنا دوست بنالیتا ہے اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور اس کے لئے دنیا میں انقلابات عظیمہ پیدا کرتا ہے جو دنیا کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر کے انہیں غلاموں کی طرح دوڑاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھیج دیتے ہیں.اس قرب کے مختلف مدارج ہیں اور اس کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ اس قسم کا قرب پانے والے انسان پر صرف اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے جلوے ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ اس پر اس کے مجیب ہونے کے جلوے بھی ظاہر ہوتے ہیں.پس یہ قرب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا قرب ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی قریب اور مجیب صفات کے جلوؤں کا قرب ہے یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے قریب بھی ہوتا ہے اور یہ بھی
تفسیر حضرت علیلة أسبح الثالث ۲۹۹ سورة هود ظاہر کرتا ہے کہ میں مجیب ہوں.میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی ہر شئے کے قریب ہے لیکن انسان کے علاوہ جو مخلوق ہے جو ذی شعور نہیں ان کو یہ علم نہیں کہ ان کے اندر خدا تعالیٰ کا نور بھی جلوہ گر ہے اس کا حسن بھی جلوہ گر ہے اس کی ربوبیت بھی جلوہ گر ہے، اس کی خالقیت بھی جلوہ گر ہے، اس کی قیومیت بھی جلوہ گر ہے.اللہ تعالیٰ ان کے قریب تو ہے لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا جلوہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اس کام کے لئے بنے ہی نہیں.دوسری قسم کا قرب بھی گوانسان سے مخصوص ہے لیکن اس میں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کے جلوے تو ظاہر کرتا ہے مگر پیار سے اپنے مجیب ہونے کے جلوے ظاہر نہیں کرتا ہاں وہ قہر اور غضب کے جلوے ظاہر کرتا ہے.تیسری قسم کا قرب پیار کا قرب ہے اسی کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک ایسا گروہ تھے جنہوں نے انتہائی تکالیف برداشت کیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رب کا ساتھ نہیں چھوڑا اس لئے کہ ان لوگوں پر اس رب کے جلوے ظاہر ہو چکے تھے جو قریب بھی ہے اور مجیب بھی ہے.وہ اپنی زندگیوں میں زندہ خدا کی زندہ تجلی مشاہدہ کرتے تھے اور اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پیدا ہو گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو اگر پیسا جائے اور پھر ان کو نچوڑا جائے تو جو شربت اور نچوڑ نکلے گاوہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہوگی.یہ لوگ ہر قسم کے مصائب میں سے گزرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق پختہ رہتا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے وہ ادھر اُدھر نہیں ہوتے تھے اس لئے کہ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے جلوے دیکھے تھے.اس کے بغیر کوئی قوم اس قسم کی قربانیاں پیش نہیں کر سکتی جو صحابہ نے پیش کیں.اس کے بغیر انسان کی فطرت اس قسم کی تسلی نہیں پکڑ سکتی کہ ایک لگن ہے ایک جوش ہے ایک آگ ہے جو دل میں بھڑک رہی ہے کہ میرا رب مجھ سے خوش ہو جائے.اس سے میرا تعلق قائم ہو جائے.اس قسم کا قرب حاصل نہ کرنے والے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے جلوے تو دیکھ لیتے ہیں کیونکہ وہ ذی شعور ہیں اور روحانیت رکھتے ہیں لیکن وہ اسی قسم کے جلوے ہیں جو ایک درخت پر بھی ظاہر ہوتے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ درخت ذی شعور نہیں اور اسے ان کا احساس نہیں ہوتا.وہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے بھی دیکھتے ہیں جب وہ اس کے قہر کا قرب کسی اور قوم
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة هود یا گروہ پر نازل ہوتے دیکھتے ہیں لیکن انہیں یہ علم کیونکر حاصل ہو کہ ان کا رب ان سے خوش ہو گیا ہے اس بات کا تو تبھی پتہ لگ سکتا ہے جب قرب رحمت خدا تعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے جلوے دکھائے.غرض صرف خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کا جلوہ فطرت انسانی کو تسلی نہیں دے سکتا اسی لئے انبیاء علیہم السلام اور ان کی باوفا جماعتوں نے اپنے اپنے زمانہ اور استعداد کے مطابق خدائے قریب ہی کے جلوے نہیں دیکھے تھے بلکہ خدائے مجیب کے جلوے بھی دیکھے تھے اور ان کا اپنے پیدا کرنے والے سے ایک زندہ تعلق پیدا ہو گیا تھا اس کے بغیر وہ قربانیاں دے ہی نہیں سکتے تھے.اس کے بغیر وہ مقصد حاصل ہی نہیں ہو سکتا تھا جو انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور انسان کی پیدائش کا مقصد ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر نگاہ ڈالیں تو عبودیت کا ایک ایسا سمند ر نظر آتے ہیں جس کا تعلق ہمیں اس خدا سے نظر آتا ہے جو ان کے قریب بھی رہا اور جو مجیب بھی تھا.یعنی وہ سوال کرتے تھے اور یہ جواب دیتا تھا.وہ مانگتے تھے اور یہ عطا کرتا تھا.مجیب کے معنی میں یہ دونوں باتیں آجاتی ہیں یعنی اس سوال کا جواب الفاظ میں بھی دینا اور سوال میں جو بھیک مانگی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ فلاں نعمت مجھے عطا کر.اس مطلوبہ نعمت کا عطا کرنا جو وہ مانگتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت ہی تھی اور جو خدا تعالیٰ انہیں دیتا تھا وہ بھی اس کی رضا اور محبت ہی تھی اور اپنی ساری مخلوق کو اس نے کہا کہ یہ میرے خاص اور محبوب بندے ہیں تم ان کے کام میں لگ جاؤ اور یہ چیز سچے مذہب اور اس کے پیروؤں کی ایک سچی نشانی ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام کی غرض اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ انسان کا تعلق اس رب سے ہو جائے جو محض قریب ہے مجیب نہیں تو اس نے نہ اسلام کی حقیقت کو پہچانا، نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو سمجھا اور نہ مقصد حیات کا اسے کچھ علم ہے.تمام مذاہب کا یہی مقصد تھا کہ انسان کا تعلق قریب اور مجیب خدا سے ہو جائے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے یہ مقصد اپنے کمال کو پہنچ گیا یعنی کامل تعلق باللہ جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہو سکتا ہے.وہ آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی پیروی سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا.آپ کے سچے متبعین سینکڑوں سالوں سے قریب مجیب رب کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اس پر فدا ہیں اور قیامت تک یہی ہوتا چلا جائے گا.فطرت انسانی یہ چاہتی ہے اور اس کے بغیر اس کی تسلی نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے ربّ کو اس طرح پہچانے کہ اس کی ذات اور
۳۰۱ سورة هود تغییر حضرت علیلة أسبح الثالث صفات کے دونوں پہلو اس کے سامنے آجائیں.یعنی ایک قریب ہونے کا پہلو اور ایک مجیب ہونے کا پہلو.اس فطرتی تقاضا کو اسلام پورا کر رہا ہے.امتِ مسلمہ میں لاکھوں انسان ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھے اور جان و دل سے وہ اس پر فدا ہو گئے.اگر فطرت انسانی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا تعلق زندہ خدا سے اس رنگ میں پیدا ہو جائے کہ وہ اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کے قریب اور مجیب ہونے کے زندہ جلوے دیکھتی رہے اس کے بغیر وہ تسلی نہیں پاسکتی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لئے اسلام نے کونسی اصولی تعلیم دی ہے.سو اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی آیت میں جو میں نے پڑھی ہے دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس خدا کے قریب ہونا چاہتے ہو جو قریب بھی ہے اور مجیب بھی ہے اور تم اس کا قرب، اس کی رحمت اور اس کی محبت کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو دو چیزوں کو اختیار کرو اور وہ دو چیزیں استغفار اور توبہ ہیں.استغفار اس لئے کہ انسان ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا.اس کو خدا تعالیٰ نے دو قسم کی طاقتیں عطا کی تھیں ایک نیکی کی اور دوسری بدی کی.اس کو اختیار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ تم کمال قرب کو بھی حاصل کر سکتے ہو کہ تم اپنی مرضی سے اور میری راہ میں قربانیاں دے کر اس راہ کو اختیار کرو جو میری طرف لاتی ہے اور یہ مرضی ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک دونوں چیزوں کا اختیار نہ ہو یعنی بدی کا بھی اختیار نہ ہو اور نیکی کا بھی اختیار نہ ہو.یعنی انسان چاہے تو بدی کر سکے اور چاہے تو نیکی کر سکے.بدی کی طاقت انسان کے اندر ایک فطرتی نقص پیدا کرتی ہے نفس امارہ غالب آ جاتا ہے اور کمزوریوں کو بالا دستی مل جاتی ہے اور ہوائے نفس کی طرف میلان طبع ہو جاتا ہے.اس فطرتی کمزوری کو ڈھانپنے کے لئے استغفار ضروری ہے انسان اپنی ذات میں کامل نہیں لیکن وہ اپنے اس کمال تک پہنچ سکتا ہے جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے اور اس کمال تک پہنچنے کے لئے اسے ایک کامل ذات سے طاقت اور علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے.استغفار ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اپنے رب کے حضور جھکو اور اس بات کا اقرار کرو کہ اے خدا تو نے ہمیں اپنے قرب کی رفعتوں تک پہنچانے کیلئے دوسری مخلوق سے ممتاز کیا ہے اس معنی میں کہ تو نے ہم میں بدی کی طاقت بھی رکھ دی اور نیکی کی طاقت بھی رکھ دی اور کہا کہ اپنی مرضی سے نیکیوں کو اختیار کرو اور اپنی مرضی سے بدی کو چھوڑو.اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں
۳۰۲ سورة هود تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث قرب کے کمال تک پہنچا دوں گا چونکہ تو نے ہمیں بدی کی طرف میلان بھی دیا ہے اور ہم کمزور انسان ہیں اس لئے ہم اس بدی پر اور اس شیطان پر اس وقت تک غلبہ حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تو ہماری مدد کو نہ آئے جب تک تیری طاقت کا سہارا ہمیں حاصل نہ ہو پس تو ہمیں سہارا دے تو ہماری مدد کو آتا کہ ہماری بشری کمزوریاں ڈھک جائیں اور ہم سے بدیاں سرزد نہ ہوں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کثرت سے استغفار کیا کرو اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہاری مدد کو آؤں گا اور تمہاری بشری کمزوریوں کو ڈھانک دوں گا اور تمہاری ترقیات کی راہوں میں جو روکیں ہیں وہ دور ہو جا ئیں گی اور تمہاری فطرت اپنے بدی کے میلان کو بھول جائے گی اور دوسرا میلان جو روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرنے کا میلان ہے اس میں پوری توجہ سے منہمک ہو جائے گی تا وہ روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرے اور خدا تعالیٰ کے قرب کو پائے.پس اس آیت میں قریب اور مجیب خدا سے ملانے کی ایک راہ استغفار بتائی گئی ہے.دوسری راہ تو بہ کی بتائی گئی ہے جب بشری کمزوریاں دور ہو جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی طاقت سے نیکی کر سکتا ہے یا اپنے اعمال کے اچھے نتائج اپنے زور سے نکال سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم عاجزی اور انکساری کے ساتھ میری طرف رجوع کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف بھا گو.جب تم اس کی طرف رجوع کرو گے اور اسے پالینے کے لئے اس کی طرف بھا گو گے، اعمال صالحہ بجالانے کی کوشش کرو گے، دعاؤں میں منہمک رہو گے اور تمہارے سینے خدا تعالیٰ کے ذکر سے معمور رہیں گے تو جس تیزی کے ساتھ تم اس کی طرف بڑھ رہے ہو گے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ وہ رجوع برحمت ہوگا.پس استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع یہ دو باتیں اصولی طور پر ایسی ہیں جن کے نتیجہ میں خدائے قریب و مجیب کے ساتھ تعلق پیدا ہو جاتا ہے.تمام بدیوں سے رکنے کی طاقت استغفار سے ملتی ہے اور طاقت حاصل کرنے کے بعد ہر قسم کی نیکیاں بجالانے کی کوشش تو بہ کے اندر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزی اور انکساری کے ساتھ رجوع ہو یعنی انسان خود کو کچھ نہ سمجھے اور اس حقیقت پر علی وجہ البصیرت قائم ہو کہ خدا تعالیٰ سے طاقت حاصل کئے بغیر نہ میں نیک اعمال کر سکتا ہوں اور نہ اس کے فضل کے بغیر کسی ظاہری نیک عمل کا اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے.عمل کی توفیق
۳۰۳ سورة هود تغییر حضرت علیلة أسبح الثالث بھی اس کے فضل سے ملتی ہے اور عمل کا اچھا نتیجہ بھی اسی کے فضل سے نکلتا ہے.پس فرمایا کہ اگر تم استغفار کا طریق اختیار کرو اور تو بہ کی راہ پر گامزن ہو جاؤ تو اس کے نتیجہ میں تم اپنی زندگیوں میں یہ محسوس کرو گے کہ تمہارا رب قريب مجیب ہے.وہ محض قریب ہی نہیں کیونکہ قریب تو وہ ہر شے سے ہے بلکہ وہ مجیب بھی ہے.در اصل خدا تعالیٰ کے قرب کے جلوے یا اس کا علم یا اس کی معرفت یا اس پر جو دلائل ہیں وہ اس لئے ہیں کہ انسان ان کے بعد خدائے مجیب کی تلاش کرے کیونکہ انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب تو ہر ایک کو حاصل ہے کوئی شے جو اس کی پیدا کردہ ہے ( اور کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی پیدا کردہ نہ ہو) وہ اس سے دور نہیں ہو سکتی اس لئے کہ وہ خالق ہے قیوم ہے اور رب ہے.غرض ایک قسم کا قرب تو ہر شے کو حاصل ہے.وہ ہر مخلوق (چاہے وہ انسان ہو یا غیر انسان ) کو حاصل ہے.پھر انسانوں کے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جنہیں قہر اور غضب کا قرب حاصل ہے اور یہ قرب ہمیں پسند نہیں.ہم اس پر راضی نہیں جب ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تو حاصل ہوا مگر قہر اور اس کے غضب کے کوڑے کے ذریعہ سے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.کس کی طبیعت چاہتی ہے کہ اسے اس قسم کا قرب حاصل ہو؟ دوسرا گروہ انسانوں کا وہ ہے جنہیں خدا تعالیٰ کی رحمت کا قرب ملتا ہے.یہ رحمت کا قرب جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو وہ اس پر نہ صرف قریب ہونے کے رنگ میں اپنی صفات کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ مجیب ہونے کے جلوے بھی ظاہر کرتا ہے.انسان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں انسان کو اس کی ضرورتیں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے اور متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں عطا کی جاتی ہیں.وہ جو کچھ مانگتا ہے اسے عطا کیا جاتا ہے.جب تک انسان کا تعلق قریب اور مجیب رب کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک انسانی فطرت تسلی نہیں پاسکتی.اس وقت تک انسان کو روحانی مسرتیں حاصل نہیں ہو سکتیں کیونکہ روحانی مسرتیں انسان کو اسی وقت حاصل ہوتی ہیں جب خدا کے قریب ہونے کے جلوے بھی ہوں اور مجیب ہونے کے جلوے بھی ہوں جب ی تعلق قائم ہو جاتا ہے تو انسان خدا تعالیٰ کو ہر غیر سے زیادہ قریب پاتا ہے.وہ اسے ہر غیر سے زیادہ طاقتور اور محبت کرنے والا دیکھتا ہے.غیر تو انسان کی نظر میں محض ایک لاشے ہو جاتا ہے کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتا ہے تو وہ کون غیر ہے جو اس سے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۰۴ سورة هود پرے یا اس کے کناروں پر اسے نظر آ سکے کیونکہ خدا ایک عظیم ہستی ہے اس کا جلال تو انسانی درخت وجود کی جڑیں جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے.پھر اس کو غیر کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی اور نہ وہ غیر کو کچھ سمجھتا ہے.غیر سمجھتا ہے کہ میں بڑا طاقت ور ہوں اور اگر چاہوں تو خدا تعالیٰ کی جماعت کو مٹا سکتا ہوں لیکن وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی جماعت کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ہوتا ہے.وہ کسی ایسی راہ کو اختیار نہیں کر سکتے جو اس سے دور لے جانے والی اور اس کے غضب اور قہر کو بھڑ کانے والی ہو.ان لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے ہوتے ہیں اور کسی غیر کی احتیاج باقی نہیں رہتی.روحانی جذبات کی تسکین کے لئے اس کا حسن موجود ہے اور ضرورتیں اور حاجتیں پوری کرانے کے لئے اس کے احسان کے جلوے ہیں.پس نہ غیر کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ غیر کی ضرورت باقی رہتی ہے جو شخص خود کو اپنے رب کی گود میں پائے تو کیا اسے کسی اور کی گود کی نرمی اور گرمی کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ یہی وجہ تھی کہ بہتوں نے خدا کے لئے اپنی ماؤں کو قربان کر دیا حالانکہ ان ماؤں کی گود کی نرمی اور گرمی میں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا کیونکہ اس کے مقابلہ میں انہیں ان کے رب کی محبت زیادہ نظر آئی.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۳۰ تا۵۳۶) آیت ۸۹ قَالَ يُقَومِ اَرَعَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّي وَ رَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَكُمْ عَنْهُ إن يُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَالَيْهِ أُنِيبُ پھر دنیوی سہارے ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی خوشامد میں کرتے کرتے اور ان کے کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور پتہ نہیں وہ اور کیا کچھ کرتے ہیں لیکن اول تو وہ ان کی جزا دیتے ہی نہیں اور اگر وہ جزا دینا چاہیں تب بھی وہ بہترین جزا نہیں دے سکتے وہ ہر موقع پر ان کی مدد اور نصرت نہیں کر سکتے.لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کو سہارا بنالیتا ہے وہ اپنی زندگی میں یہ نظارہ جلوہ گر پاتا ہے جیسا کہ فرمایا.وَمَا تَوْفِيقِقَ إِلَّا بِاللهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أَنِيبُ نیک خیالات اور صالح اعمال کی توفیق بھی b
۳۰۵ سورة هود تفسیر حضرت خلیفة اسبح الثالث اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور محض اسے اپنا سہارا بنائے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ ہر قسم کی برائیوں اور بدیوں سے بچ سکتا ہے اور ہر قسم کے اعمال صالحہ میں بجا لانے کی قوت اور طاقت اسے حاصل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے غیر سے یہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی.اس لئے انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ ایمانیات اور اعمال کے میدان میں مجھے جو بھی توفیق ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے ملے گی اس لئے عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ میں صرف اس پر ہی بھروسہ رکھوں گا وَ الَیهِ اُنیب اور بار بار اس کی طرف میں جھکوں گا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ ۳۸۹) آیت ۱۱۳ ۱۱۴ فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا ، تَطْغَوا ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَبُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے، کہ جیسا کہ تجھے حکم دیا گیا ہے وحی کے ذریعہ سے، اس کے مطابق صبر اور استقلال سے کام لو.اسی طرح وہ لوگ وَمَنْ تابَ مَعَكَ جنہوں نے اس ہدایت، اس تعلیم کو سن کر اُسے مانا اور اپنی گندی زیست کو چھوڑ کے تیرے متبع بن گئے.تجھے انہوں نے تسلیم کیا اور تاب انہوں نے رجوع کیا اس گندی زیست سے اللہ تعالیٰ کی طرف معك تیرے ساتھ مل کے.یعنی جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم سن کے تو نے اپنی زندگی کے دن گزارے تیرے نقشِ قدم پر چل کر انہوں نے بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا.توبہ کی.ولا تطغوا اور ماننے والوں کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے یہاں کہ گناہوں میں حد سے نہ بڑھ جانا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ خدا تعالیٰ تمہارے اعمال پر نظر رکھتا ہے.کوئی چیز اس کی نگاہ سے چھپی نہیں رہتی.اگلی آیت میں ہے.وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا جو ظالم لوگ ہیں.جو اپنی فطرت کے خلاف، اپنی زندگی کے مقصود کے خلاف جو اسلامی تعلیم کے خلاف، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے خلاف عمل کرتے اور ظلم کرتے ہیں.ان کی طرف نہ جھکنا فتمسكم النَّارُ کہ جب انہیں سزا ملے تو تم بھی اس عذاب کی لپیٹ میں
٣٠٦ سورة هود تفسیر حضرت علیلة أسبح الثالث آجاؤ.وَلَا تَطْغَوا کے معنی جیسا کہ میں نے بتایا اس حکم میں یہ ہیں کہ گناہوں میں حد سے نہ بڑھو.اس کے ایک معنی یہ ہیں جو راہ اسلام نے انسان کو دکھائی.جس راہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پاشبت ہیں.جس کی وجہ سے آپ ہمارے لئے اُسوہ بن گئے.اس راہ کے اندر بھی بعض ڈسکریشن (Discretions) ہیں یعنی انسان کو انتخاب کا اختیار دیا گیا ضرورت کے مطابق جس کو ہم عملِ صالح کہتے ہیں یعنی انسان کے سامنے اسی راہ میں آگے چلتے ہوئے یہ بات آتی ہے کہ میں اس راہ کے دائیں طرف چلوں یا اس راہ کے بائیں طرف چلوں.اگر وہ غلطی کرتا ہے اور دائیں طرف نہیں چلتا.راہ وہی ہے.صراط مستقیم لیکن اس صراط مستقیم کے دائیں طرف نہیں چلتا بائیں طرف چلتا ہے.راستہ اس نے نہیں چھوڑا لیکن گناہ اس نے کر دیا کیونکہ موقع اور محل تقاضا کرتا تھا کہ وہ دائیں طرف چلے اور اس نے فیصلہ کیا اپنی سمجھ کے مطابق کہ میں بائیں طرف چلوں جو غلط فیصلہ تھا اور غلط فیصلوں پر تو ثواب انسان کو نہیں ملتا.یہ میں نے مسئلہ بیان کیا ہے.میں اب مثال دیتا ہوں اس کی.اسلام کہتا ہے اگر کوئی تمہارا گناہگار ہو جائے، تم پر زیادتی کرنے والا ہو تو تمہارے لئے اسلام کی صراط مستقیم میں دور ستے ہیں.ایک عفو کر دینے کا اور ایک انتقام لینے کا.ہر دو صراط مستقیم ہی ہیں یعنی عفو سے کام لینا موقع اور محل کے مطابق.یہ بھی صراط مستقیم پر چلنا ہے.موقع اور محل کے مطابق انتقام لینا، عفونہ کرنا، یہ بھی صراط مستقیم پر چلنا ہے لیکن ایک شخص اپنا فیصلہ کرتا ہے جو اس کو اختیار دیا گیا لیکن غلط کرتا ہے تو گناہگار بن گیالیکن گناہ میں حد سے نہیں بڑھا.وہ جو حدود قائم کر دیں اللہ تعالیٰ نے اس راستہ کی.صراط مسقیم کی.اس کے اندر ہی رہا ہے لیکن گناہ ہو گیا اس سے.وہ چیز ہو گئی جو خدا کی نظر میں پسندیدہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ نے بہت جگہ فرما یا بڑا رحم کرنے والا ہوں.معاف کر دیتا ہوں.معاف کر دوں گا.جب انسان صراط مستقیم پر ہی رہے اور جو اس کو اختیار دیا گیا تھا کہ یہ کر یاوہ کراس اختیار میں غلطی کرے تو یہ گناہ کبیرہ نہیں یہ عصیان میں حد سے بڑھنا نہیں.اس کا ذکر وَلَا تَطْغَوا میں نہیں یعنی جو یہ کہا کہ پھر تم خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آ جاؤ گے ایسے گناہ اس کے اندر نہیں آتے بلکہ ایسے جو گناہ ہیں وہ انسان کے جو دوسرے اعمال صالحہ ہیں اس کے اندر چھپ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت جو ہے اس سے انسان محروم نہیں ہو جا تا لیکن ایک گناہ وہ ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ سچ بول، جب
تغییر حضرت علیلة أسبح الثالث ۳۰۷ سورة هود بھی بول سچ بول اور ایک شخص متواتر جھوٹ ہی بولتا چلا جاتا ہے.عادت اس کی بن گئی ہے جھوٹ بولنے کی.یہ حد سے بڑھنا ہے یعنی اس نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا.جو اسلامی تعلیم کی شاہراہ تھی اس کے کبھی دائیں طرف نکل جاتا ہے باہر حدود سے اور کبھی بائیں طرف نکل جاتا ہے.تو وَلَا تَطْغَوا میں جو حکم ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم کے اندر رہتے ہوئے جو تمہیں ہم نے اختیار دیا تھا کہ خودسوچو، غور کرو دعائیں کرو اور ایسے رنگ میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ قبول کرے اور تمہیں بتادے کہ تم نے دایاں راستہ اختیار کرنا ہے یا بایاں اختیار کرنا ہے.اگر تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی ، کی بھی تم نے.تمہارے اندر کوئی اور کمزوری ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا.تو گناہ تو ہو گیا.اسلامی تعلیم کے خلاف ہوا کیونکہ اسلامی تعلیم یہ کہتی ہے کہ جہاں عفو کرنا ہے اگر تم عفو کی بجائے انتقام لو گے تو غلطی کرو گے.اسلام یہ کہتا ہے کہ سچ بولو اور قولِ سدید ہو.اس میں کوئی ایچ پیچ نہ ہو.کوئی کبھی نہ ہو.یہ تو بالکل واضح حکم ہے لیکن اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ جو سننے والا ہے تم اس کی عقل کے مطابق بات کرو.اب ایک شخص ہے وہ کسی کو سمجھارہا ہے اسلامی تعلیم کسی عیسائی کو لیکن عقل کے مطابق بات کرنے کا جو حکم تھا اس کے مطابق اس کا فیصلہ نہیں، تو یہ گناہ تو ہے لیکن بات وہ سچی کر رہا ہے لیکن اس کی سمجھ کے مطابق، اس کی عقل کے مطابق نہیں کر رہا.یہ غلطی کر رہا ہے.یہ ولا تَطْغَوا والا جو حکم ہے کہ عصیان میں، گناہ میں حد سے نہ بڑھو.یہ اس کے نیچے نہیں آتا اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.اور بڑی ایک ہدایت اور راہنمائی کی یہ بات ہمیں بتائی کہ جو ظاہر طور پر بغیر کسی شک وشبہ کے ظلم کرنے والی اور ظلم میں حد سے بڑھنے والی قومیں یا گروہ یا جماعتیں ہیں ان کی طرف جھکومت بلکہ قائم رہو سیدھے ہو کر.سیدھا راستہ ہے اس کے اوپر تم اپنے مقصود کی طرف منہ کر کے چلتے رہو.ظلموا میں یہ مراد نہیں کہ یونہی کسی کو کہہ دو کہ تم ظالمانہ راہوں کو اختیار کر رہے ہو.یہاں یہ مراد ہے وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ کہ ایسا ظلم جس کے متعلق کھلے طور پر انسان کی عقل کہتی ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے.مثلاً فساد پیدا کرنا، آپس میں لڑنا، مثلاً ناجائز علاقوں پر جانا، قبضہ کرنا اور وہاں قتل و غارت کرنا.مثلاً عالمگیر جنگیں لڑنا، دو جنگیں انسان لڑ چکا ہے.جو ان جنگوں کے ذمہ دار ہیں جو ان جنگوں کی تباہی سے انسان کو بچا سکتے تھے اور انہوں نے ایسا نہیں کیا ان کا ظلم بالکل ظاہر ہے.
تفسیر حضرت علیلة اسبح الثالث ۳۰۸ سورة هود اب اس وقت ایک تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ اُفق کے اوپر دھندلا سا ہمیں نظر آنا شروع ہو گیا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق اور ان پیشگوئیوں کے ظہور کے قرب کی جو آپ کو اطلاع دی گئی اس کے مطابق بتایا ہے ایک نہایت ہی خطر ناک جنگ کا بھی خطرہ انسان کے سامنے آئے گا.یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ تیسری عالمگیر جنگ ہوگی یا چوتھی ہوگی یا پانچویں ہوگی لیکن یہ بغیر کسی شبہ کے انسان کہہ سکتا ہے کہ ہر جنگ پہلی جنگ سے زیادہ خطرناک، پہلی سے زیادہ فساد پیدا کرنے والی انسانی زندگی میں بحیثیت انسان ساری دنیا میں جو انسان بستے ہیں وہ ہیں میرے سامنے اس وقت ، ان کے لئے بہت ہی زیادہ خرابی پیدا کرنے والی ہوگی.مثلاً جب دوسری عالمگیر جنگ میں غالباً دو ہی ایٹم بم استعمال کئے گئے تھے لیکن ان کی تباہی بھی اتنی تھی کہ پچاس سال پہلے انسان کا دماغ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی تباہی بھی انسان پر آنا ممکن ہے مگر آ گئی اس وقت زیادہ بنے بھی نہیں تھے.اس وقت ایٹم بم نے زیادہ ترقی بھی نہیں کی تھی یعنی تباہی کے جو سامان ہیں ان میں بہت زیادہ ترقی کر گیا انسان یعنی غلط راہوں پر وہ بہت زیادہ آگے نکل گیا.ہائیڈ روجن بم بنالئے اور بہت سارے ہتھیار انسان کو مارنے کے لئے بنالئے انسان نے.اور سوچیں تو اس کا فائدہ ان قوموں کو بھی نہیں جنہوں نے یہ ہتھیار بنائے.تباہی ان پر بھی اسی طرح آئے گی جس طرح ان کی طرف جھکنے والوں کے لئے خطرہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ ایسے ہتھیار بھی انسان ایجاد کر لے گا کہ علاقے سے زندگی ختم ہو جائے گی یعنی خالی انسان نہیں مرے گا بلکہ جانور بھی اور حیوان بھی ، درندے بھی چرندے بھی (چرنے والے جانور) اور کیڑے مکوڑے بھی اور بیکٹیریا بھی اور وائرس (Virus) بھی.ہر قسم کی زندگی جو ہے وہ ختم ہو جائے گی اس ہتھیار کے نتیجہ میں.اس کے ایک دو نظارے ہم نے دیکھے اور اگر خدانخواستہ اس قسم کی تیسری عالمگیر جنگ ہوئی تو دنیا کے بہت بڑے علاقے ایسے ہوں گے جہاں سے نہ صرف انسان بلکہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا ایسے ظالم جو ہیں اور یہ ظالم جو ہیں ہمیں نظر آ رہے آج وہ ، وہ ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ مہذب، سب سے زیادہ آگے نکلے ہوئے.سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ انسان کو ڈرانے والے وہ قومیں ہیں وہ ذمہ دار ہیں اس کی.
۳۰۹ سورة هود تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث لا تركنوا جو کہا گیا کہ تم نہ جھکو.اس کی بنیادی شکل جو بنتی ہے کہ نہیں جھکے ہم.وہ یہ بنتی ہے کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور انسان کی تباہی کے جو سامان ہیں ان کو استعمال کرنے کی یہ جرات نہ کر سکیں ہم میں اتنی طاقت تو نہیں کہ ہم مثلاً امریکہ کا ہاتھ پکڑ لیں یا روس کا ہاتھ پکڑ لیں یا چین کا ہاتھ پکڑ لیں یا بعض دوسری قومیں ہیں ان کا ہاتھ پکڑ لیں لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ سمجھ تو دی ہے کہ ہم اس کا دامن پکڑیں جو ان کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے.ہم خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں اور ہمارا یہ دعا مانگنا پوری بیداری کے ساتھ اور ہوش میں آکر اور سمجھ کے ساتھ اور یہ جانتے ہوئے علی وجہ البصیرت کہ انسان تباہی کے گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے اور سوائے خدا تعالیٰ کی رحمت کے اسے کوئی بچا نہیں سکتا، ہم خدا کے حضور جھکیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! انسان پر انسان ظلم کرنے کے لئے تیار ہے تو فرشتوں کو نازل کر.ان کو سمجھ عطا کر اور دنیا کے دلوں میں ایک تبدیلی پیدا کر اور نیکی کی راہ کی طرف ان کو واپس لے کے آ کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا.اگر ہم باقاعدگی کے ساتھ یہ دعا کریں تو خدا کی نگاہ میں ہم اس گروہ میں شامل ہونے سے بچ سکتے ہیں لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا میں جس کا ذکر ہے.جو ان کی طرف جھک جاتے ہیں یعنی جو ذمہ دار نہیں لیکن ان کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں.پھر خدا کہے گا کہ میرے یہ بندے ایسے ظالموں کی طرف جھکے نہیں تھے.اگر جھکتے تو میرے حضور حاضر ہو کر مجھ سے عاجزانہ ان کی ہدایت کی دعائیں نہ کرتے اور ان کے دل میں یہ تڑپ پیدا نہ ہوتی کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت بچالے ورنہ انسان بڑی ہولناک تباہی اپنے سامنے اپنی اُفق پر اس وقت دیکھ رہا ہے.تو وَ لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ جس نا ر کا یہاں ذکر ہے جس رنگ میں بھی یہ ہو.اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے اور محفوظ رہنے کے لئے جو اس نے ایک یہ بتایا ہے کہ لا تركنوا اور لا تركنوا کا میں نے بتایا کہ بہت ساری شکلیں بن سکتی ہیں نہ جھکنے کا اعلان عملا لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ ہماری دعا خدا کے حضور خدا کی نگاہ میں ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے گی کہ جو ان کی طرف جھکے نہیں بلکہ ان کی ہدایت کے سامان مانگتے ہوئے انہوں نے بے چینی اور تڑپ کے ساتھ اور عجز اور انکسار کے ساتھ خدا کے حضور دعائیں کیں.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۵۱۳ تا ۵۱۸)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۱۱ سورة يوسف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة يوسف آیت إِنَّا اَنْزَلْنَهُ قُرُ نَّا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ میں اپنے مربی بھائیوں کو آج اسی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کی نگاہ میں صحیح مربی بننے کے لئے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے.ایک نور فراست دوسرے گداز دل.قرآن کریم نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ میں عقل کے نقص کو دور کرنے والا اور اس کو کمال تک پہنچانے والا ہوں اور اس کی جو خامیاں ہیں وہ میرے ذریعہ دُور ہونے والی ہیں اور اس کے اندھیرے میرے ذریعہ روشن ہونے والے ہیں.نیز قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میرے نزول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ گداز دل پیدا کئے جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ یوسف میں فرماتا ہے.اِنَّا اَنْزَلْنَهُ قُرُ إِنَّا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ - اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم کو نازل کرنے اور ایک ایسی کتاب بنانے میں جو اپنے مضامین کو کھول کر بیان کرتی ہے ایک حکمت یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سے صحیح کام لے سکے یعنی عقل میں جو فی نفسہ ایک بنیادی خامی ہے کہ آسمانی نور کے بغیر اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے اس خامی کو قرآن کریم دور کرے.جس طرح ہماری آنکھ باوجود تمام صلاحیتوں کے اور دیکھنے کی سب قو تیں رکھنے کے اپنے اندر یہ قص بھی رکھتی ہے کہ وہ خود دیکھنے کے قابل ہے ہی نہیں.جب تک بیرونی روشنی اسے میسر نہ ہو.ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری آنکھ دیکھتی ہے لیکن وہ اندھیروں میں نہیں دیکھتی.ایسے وقت میں جب رات ہو اور بادل چھائے ہوئے ہوں تو ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتا.آنکھ کے قریب ترین ناک ہے اندھیرے میں وہ اسے بھی نہیں دیکھ سکتی.انگلی اس کے قریب لے آؤ تو اس اندھیرے میں وہ اسے
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۳۱۲ سورة يوسف بھی نہیں دیکھ سکتی.غرض باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے کی سب صلاحیتیں اس میں رکھی ہیں اسے ایک قید میں بھی جکڑا ہے اور فرمایا ہے کہ سورج کی روشنی کے بغیر یا بیرونی روشنی کے بغیر تمہاری قوتیں ظاہر نہیں ہوں گی.اس قید میں مقید کر کے اللہ تعالیٰ نے ساری قوتیں اسے عطا کر دیں.اسی طرح عقل صحیح کام نہیں دے سکتی.وہ اس وقت تک اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے جب تک کہ آسمانی نور اور روشنی اسے عطا نہ ہو.سورہ یوسف کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ عقل کے استعمال کے سب سے روشن سامان قرآن کریم کے ذریعہ نازل کر دیئے گئے ہیں.اگر بنی نوع انسان نے اپنی عقلوں سے صحیح فائدہ اُٹھانا ہو بہترین فائدہ اُٹھانا ہو تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقل کے لئے قرآن کریم کے انوار مہیا کر یں.تب ان کی عقلیں منور ہو کر صحیح طور پر کام کرسکیں گی.یہ صحیح ہے کہ دنیا میں دنیوی طور پر ایک حد تک عقل کام کر رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعویٰ قرآن کریم میں کیا ہے اس پر اس وجہ سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا اس لئے کہ قرآن کریم ہی کے کچھ حصے پہلے انبیاء کو دیئے گئے تھے.ان حصوں نے انسانی عقل میں ایک جلا پیدا کی یہ جلا دنیوی طور پر انسان کے ساتھ رہی گوروحانی طور پر یہ جلا اور روشنی انسان سے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل نہ کرے چھین لی جاتی ہے.بہر حال عقل نے ترقی کی اس نے ارتقا کی ایک منزل طے کر لی اور دنیوی لحاظ سے وہ پہلے کی نسبت بہتر ہو گئی (دینی لحاظ سے اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہدایت پر وہ چلتی رہے ) پھر ایک کے بعد دوسرا نبی آیا اور دنیوی عقل نے اور ترقی کی ، پھر اور ترقی کی ، پھر اور ترقی کی یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آ گیا اور قرآن کریم کا نزول ہوا جو اس عالمین کے لئے اور انسانی عقل کے لئے تمام اندھیروں کو دور کرنے والا نور ہے.قرآن کریم کے نزول کے وقت دنیوی عقل پہلے انبیاء کی ہدایتوں کے نتیجہ میں ایک حد تک مدارج ارتقا طے کر چکی تھی لیکن وہ پھر بھی اس کا کمال نہیں تھا.دنیوی لحاظ سے بھی قرآن کریم کی لائی ہوئی روشنی میں انسانی عقل نے ترقی کی ہے جیسا کہ پچھلے چودہ سو سال میں انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آج کل یورپ میں جو دنیوی علوم ترقی یافتہ شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں ان تمام علوم کی بنیاد ان بنیادی مسائل اور پیچیدگیوں کے حل ہونے پر ہے کہ جو بنیادی مسائل مسلمانوں نے معلوم کئے اور جن پیچیدگیوں کو مسلمانوں نے دور کیا اسی بنیاد پر یورپ کے فلسفہ اور سائنس کی عمارت کھڑی ہوئی ہے.غرض دنیوی
۳۱۳ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث لحاظ سے وہ عقل چھینی نہیں جاتی بلکہ انسان ترقی کرتا رہتا ہے اور اس نے ترقی کی ہے لیکن بہر حال ایک جگہ آ کر اس نے رک جانا تھا کیونکہ پھر اور مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہوگی جن پر زیادہ بلند ہونے والی دنیوی عمارتیں کھڑی کی جاسکیں.یہ مضبوط ترین بنیاد قرآن کریم نے کھڑی کی اور یہ اکمل اور اعلیٰ نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی عقل کو عطا کیا.یہ وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا کہ قرآن کریم کے کچھ نئے علوم سکھائے جائیں گے اور دنیوی عقلوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تیز کیا جائے گا اور پھر انسان دنیوی لحاظ سے اور بھی ترقی کرے گا لیکن اس وقت میں دنیوی عقل کے متعلق بات نہیں کر رہا یہ بات ضمنا آ گئی ہے.میں اپنے مربیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی عقل کو تیز کیا جائے اور ایک مربی کی ذمہ داری دو طرح سے عقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.ایک اس طرح کہ اس کی اپنی عقل اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے بلکہ روشنی میں چلنے والی ہو اور دوسرے اس طرح کہ اس نے خود اپنی ذات ہی کو منور نہیں کرنا بلکہ اسلام کے نور کو غیر تک بھی پہنچانا ہے.اس کے لئے بھی قرآن کریم نے بہت سے انوار ہماری عقل کو عطا کئے ہیں.مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں آیات کو مختلف طریقوں سے اور پھیر پھیر کر بیان کیا ہے (صرفنا ) تا لوگ ہماری آیات کو سمجھیں.اس میں ہمیں اور خصوصاً ایک مربی کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان ہر دلیل کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا.اس کی اپنی انفرادیت ہے، اپنی ایک دنیا ہے، اس کے جذبات ہیں، اس کی عقل ہے، اس عقل کی تربیت ہے، اس کا علم ہے، اس کا ماحول ہے، اس کی عادتیں ہیں، اس کا ورثہ ہے اور اس قسم کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو اس پر اثر انداز ہورہی ہیں.بعض دلائل کو اس کی طبیعت قبول نہیں کرتی لیکن بعض دوسری دلیلوں کو اس کی طبیعت مان لیتی ہے اور ان سے متاثر ہوتی ہے.غرض قرآن کریم نے جو دلائل کو پھیر پھیر کے بیان کیا ہے وہ اس لئے ہے کہ مربی کو ہر طبیعت کے مطابق دلیل مل جائے اور وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گویا ایک مربی کا یہ فرض ہوا کہ اول وہ ہر طبیعت کے مطابق بات کر رہا ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کی طبیعت دیکھ کر اس سے بات کرنی چاہیے.دوسرے یہ کہ وہ قرآن کریم کے اوپر عبور رکھتا ہو.قرآن کریم نے مختلف
۳۱۴ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث طبائع کے لحاظ سے جو دلائل ایک مربی کے ہاتھ میں دیئے ہیں ان کو وہ جانتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ فلاں شخص کی طبیعت ایسی ہے اور اس طبیعت کے لئے فلاں دلیل زیادہ مؤثر اور زیادہ کارگر ہوسکتی ہے.پس اگر کسی شخص نے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مربی بنا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی روشنی سے اپنے لئے نور فراست اور عقل کی روشنی حاصل کرے اور قرآن کریم سے انتہائی محبت کرے، وہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا ہو.قرآن کریم کو غور اور تدبر سے پڑھنے والا ہو.قرآن کریم سیکھنے کے لئے دعائیں کرنے والا ہو اور قرآن کریم کو سکھانے کے لئے بھی دعائیں کرنے والا ہوتا کہ دنیا اپنی کم عقلی کی وجہ سے اور اپنی اس عقل کے نتیجہ میں جس میں اندھیروں کی آمیزش ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں فرمایا وَ يَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (یونس : ۱۰) یعنی جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل کو اس نور کی روشنی کی تاثیر سے متاثر نہیں کرتے جو قرآن کریم کے ذریعہ نازل کی گئی ہے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے.غرض ایک مربی نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے اور دنیا کو بھی.بنی نوع انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس نور سے وافر حصہ لینے کی کوشش کرے جو قرآن کریم عقل کو دیتا ہے اور دعاؤں میں مشغول رہے.وہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتا ر ہے کہ اسے بھی اور دنیا کو بھی اپنی کم عقلی اور اندھیروں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب نہ ملے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی عقل دے اور قرآنی انوار عطا کرے اور دنیا کو بھی سمجھ دے اور اسے قرآنی انوار دیکھنے کی توفیق عطا کرے تا کہ وہ اس کے غضب کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے ہوں.مربی کا ایک بڑا کام جماعتی اتحاد اور جماعتی بشاشت کو قائم رکھنا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جونور میں عقل میں پیدا کرتا ہوں اسی کے نتیجہ میں قومی یکجہتی قائم رکھی جاسکتی ہے جیسا کہ سورہ حشر میں فرمایا.جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَعْقِلُونَ (الحشر : ۱۵) یہاں ویسے تو مضمون اور ہے لیکن ایک بنیادی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم انہیں ایک قوم خیال کرتے ہو حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ قومی اتحاد اور قوم میں ایک مقصد کے حصول کے لئے بشاشت کا پیدا ہونا اس عقل کے ذریعہ سے ممکن ہے 691999126
۳۱۵ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث جسے خدا تعالیٰ کے قرآن اور اس احسن الحدیث کی روشنی عطا ہو جو اس نے ہمارے لئے نازل کی ہے.اگر عقل کو انوار قرآنی حاصل نہیں تو پھر عقل اس بنیادی مسئلہ کو بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ بیجہتی اور اخوت اور اتحاد کے بغیر قومی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.پس ایک مربی کا یہ کام ہے کہ وہ کوشش کر کے قرآنی نور سے اپنی عقل کو منور کرے اور قرآن کریم نے جو اصول اور جو ہدایتیں اور جو تعلیم قوم میں بشاشت پیدا کرنے ، محبت پیدا کرنے اور اخوت پیدا کرنے کے لئے دی ہیں انہیں سیکھے اور پھر ان کا استعمال کرے کیونکہ اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ جماعت میں بشاشت پیدا کرے.ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہو کہ میں خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہوا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل مجھ پر ہیں جوان لوگوں پر نہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور اس وجہ سے اسے خدا تعالیٰ کا ایک شکر گزار بندہ ، اپنی عقل سے کام لینے والا بندہ اور قرآنی انوار سے نور لینے والا بندہ بن کر زندگی کے دن گزار نے چاہئیں.میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ قرآن کریم نے یہ دعوی کیا ہے کہ میرا نزول اس لئے بھی ہے کہ میں گداز دل پیدا کروں جیسا کہ سورۃ الزمر کی چوبیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهَا مَثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكرِ اللهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ یعنی ہم نے اس احسن الحدیث کو ، اس بہترین ہدایت کو یعنی اس قرآن کریم کو اس کتاب کو جو متشابہہ بھی ہے اور مثانی بھی ہے یعنی تمام صداقتوں کو اپنے اندر جمع بھی رکھتی ہے اور جس جس پہلی کتاب کی صداقت اس نے لی ہے اس سے وہ مشابہت رکھتی ہے اور اس کے علاوہ دیگر نہایت اعلیٰ مضامین اس کے اندر پائے جاتے ہیں جو پہلی کتب سماوی میں نہیں پائے جاتے تھے اور اس کامل اور مکمل کتاب کے نزول کی ایک غرض یہ ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وہ لوگ جو اپنی فطری خشیت اللہ سے کام لیتے ہیں وہ حقیقی معنی میں قرآن کریم کے فیوض اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے گداز دل بن جائیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے اور بنی نوع کی ہمدردی سے گداز ہو جائیں.فرمایا ذلِكَ هُدَى اللهِ یہ قرآن کریم کی ہدایت ہے لیکن کوئی شخص اپنے زور سے اسے ج
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۱۶ سورة يوسف حاصل نہیں کر سکتا يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ دعا کرو کہ اس حسین ہدایت کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کرنے والے بن جاؤ اور اس کی برکتوں سے حصہ لینے والے بن جاؤ.قرآن کریم کی ہر آیت اپنے اندر بڑے وسیع معانی رکھتی ہے لیکن اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس لئے بھی ہے کہ دلوں کو گداز کیا جائے اور فطرت انسانی کے اندر جو خشیت اللہ کا جذبہ رکھا گیا ہے اس کی ترقی اور ارتقا کے سامان پیدا کئے جائیں.جس طرح آنکھ بغیر بیرونی روشنی کے دیکھ نہیں سکتی.جس طرح عقل بغیر انوار آسمانی کے ناقص رہ جاتی ہے اور وہ اپنے کمال کو حاصل نہیں کر سکتی اسی طرح دل بھی وہی دل ( قلب سلیم) ہے کہ جو قرآنی برکات سے اللہ تعالیٰ کی خشیت اس رنگ میں اپنے اندر رکھتا ہو جس رنگ میں کہ خدا چاہتا ہے کہ وہ خشیت اللہ سے کام لے.سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَالهُم الهُ وَاحِدٌ فَلَة أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الحج: ۳۶،۳۵) یعنی تمہارا خدا اور معبود خدائے واحد و یگانہ ہے اس لئے ( اسلموا ) اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو اور اس کے حضور اس طرح اپنی گردن کو جھکا دو جس طرح ایک بکرا قصاب کی چھڑی کے سامنے مجبور ہو کر اپنی گردن جھکا دیتا ہے.تم طوعاً اور بشاشت کے ساتھ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بن جاؤ.وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ اور ہم اس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان لوگوں کو اپنے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی وہ کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تو اس کا دل کانپ اُٹھتا ہے اس کا دل گداز ہو جاتا ہے جس کا دل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر گداز نہیں وہ محبت اور عاجزی کرنے والا نہیں بن سکتا اور جو عاجز نہیں جو محبت نہیں وہ اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا اور جو مسلمان نہیں وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کرتا.پس ایک مربی کو دوسروں کی نسبت زیادہ گداز دل ہونا چاہیے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دعوی کرتے ہو کہ ہماری اس شریعت کی حفاظت کا کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے تو اس دعوی کا جو تقاضا ہے اسے پورا کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِحْلِ أَوَابِ حَفِيظٌ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَ جَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ - (ق: ۳۳، ۳۴)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۱۷ سورة يوسف یعنی میرا یہ وعدہ ہے کہ اس دنیا میں بھی جنت بعض لوگوں کے اس قدر قریب کر دی جائے گی کہ وہ اس دنیا کی حسوں کے ساتھ اسے محسوس کرنے لگیں گے اور میرا یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے ہے جو میرے حضور جھکتے ہیں.اوّاب ہیں اور (حفیظ ) وہ صرف منہ کے دعوی سے شریعت کی حفاظت کرنے والے نہیں بلکہ وہ صحیح طور پر اور حقیقی معنی میں شریعت کی حفاظت کرتے ہیں جہاں تک ان کی زندگی کا تعلق ہے وہ شریعت پر عمل کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے وہ معروف کا حکم دے کر اور منکر سے روکنے کے ساتھ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شریعت کی حفاظت وہی شخص کر سکتا ہے (مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَ جَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبٍ ) جسے رحمان خدا اس کی کسی خوبی یا عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض بخشش اور عطا کے طور پر ایک گداز اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کی عظمت کو پہچاننے والا دل عطا کرتا ہے اور خشیت کا یہ دعوی محض ایسا دعوی نہیں جو صرف لوگوں کے سامنے کیا جائے بلکہ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ اس کی تنہائی کی گھڑیاں اور اس کا باطن اس کے ظاہر کو اور اس کے ان لمحات کو جو وہ اجتماعی طور پر گزارتا ہے جھٹلاتا نہیں.من خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالغَیبِ جس طرح اجتماع میں ، لوگوں سے میل ملاقات اور معاشرہ کی ضروریات پورا کرتے وقت وہ اپنے دل کی خشیت کو اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تنہائی کی گھڑیوں میں اپنے رب کے حضور اس کی عظمت کا اقبال کرتے ہوئے اور اس کے جلال کا احساس رکھتے ہوئے وہ اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا اور اس کے مطابق اپنے رب کے حضور اؤاب بنتا ہے.یہ وہ قلب ہے جسے قلب منیب کہا جاسکتا ہے اور یہ وہ قلب سلیم اور قلب منیب ہے جو ایک مربی کے دل میں دھڑکنا چاہیے.اگر ایک مربی کے دل میں ایک قلب منیب نہیں دھڑکتا اگر اس کا دل تنہائی کے لمحات میں بھی خشیت اللہ سے بھرا ہوا اور لبریز نہیں اگر اس کا دل تنہائی کی گھڑیوں میں بھی اور میل ملاپ کے اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خشیت کے نتیجہ میں بنی نوع کی ہمدردی میں گداز نہیں تو پھر ایسا شخص جو اس قسم کا دل رکھتا ہو حفیظ نہیں یعنی شریعت کی حفاظت کرنے والا نہیں حالانکہ ہر مربی کا یہ دعوی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں ) حفیظ ہوں.میرے سپر دشریعت کی حفاظت ہے اور میں نے اپنی زندگی اس کام کے لئے وقف کر دی ہے لیکن اگر اس کا عمل ایسا نہیں اگر اس کے اندر ریا پائی جاتی ہے اگر اس کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر اس کے اندر
۳۱۸ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی نہیں.ان کے ساتھ پیار نہیں، تعلق نہیں، اگر ان کی جسمانی اور روحانی تکلیف دیکھ کر اس کا دل تڑپ نہیں اُٹھتا، اگر ایسے وقتوں میں اس کا دل گداز ہو کر اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنے لئے اور ان کے لئے عاجزانہ طور پر بخشش اور بھلائی اور خیر کا طالب نہیں تو کیا ایسا دل حفیظ ہو سکتا ہے؟ نہیں.ایسا دل تو حفیظ نہیں.اے میرے مربی بھائیو دل کو گداز رکھو اس معنی میں جس معنی میں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں (جن میں سے بعض کو میں نے اس وقت پڑھا ہے) حکم دیا گیا ہے.جس دل میں رحمان خدا کی خشیت نہیں اور جس دل میں یہ خشیت ظاہر اور باطن میں نہیں وہ دل منیب نہیں وہ قلب سلیم نہیں اور جو دل منیب وسلیم نہیں.تو جس سینہ میں وہ دھڑکتا ہے جن رگوں میں وہ خون کا دوران کر رہا ہے وہ سینہ اور وہ دل اور وہ شخص اور اس کی قوت عمل محافظ شریعت نہیں وہ مربی نہیں ، وہ خادم نہیں، وہ اپنے رب کا غلام نہیں ، عبد نہیں، وہ اس کی صفات کا مظہر نہیں.وہ تو خا کی جسم کا ایک لوتھڑا ہے جیسا کہ سور کے جسم کا ایک لوتھڑا یا کتے کے جسم کا ایک لوتھڑا ان کا دل ہوتا ہے.پس اپنے سینہ میں انسان کا منیب دل پیدا کرنے کی کوشش کرو اور حفیظ بننے کی کوشش کرو.اپنا دل خدا کے حضور ہر وقت گداز رکھو.تمہاری روح اس کے خوف سے، اس کی عظمت اور جلال کی خشیت سے پانی ہو کر اور پگھل کر اس کے حضور جھک جائے اور اپنی تمام عاجزی کے ساتھ انتہائی انکساری کے ساتھ تم اپنے بھائیوں کے سامنے ان کی ہمدردی اور غمخواری میں جھکے رہو.تمہارا نفس بیچ میں سے غائب ہو جائے یا تم ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے خادم نظر آؤ یا تم اسے اپنے خادم نظر آؤ.اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے بندے اس کی صفات کا اظہار کرنے والے ہو جاؤ.اس کی صفات کا مظہر بن جاؤ.جب دل گداز ہو جائے جب عقلوں میں جلا پیدا ہو جائے تبھی تم اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہو.تبھی تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے کہ جو توفیق دین کی خدمت کی اور عبادت کی اللہ تعالیٰ نے جو رحمن ہے حافظ مختار احمد صاحب کو دی وہی توفیق تمہیں بھی عطا کرے دین کو سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے حفیظ بننے والوں کی ضرورت ہے.پس جنہوں نے ابھی تک خود کو پیش نہیں کیا وہ آگے بڑھیں اور جو اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ اپنے عمل سے آگے بڑھیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حفیظ بننے کی کوشش کریں تب رحمن خدا انہیں ان کے اعمال کا بہترین ثواب دے گا اور ان کی پاک اور گداز نیتوں کا
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۱۹ سورة يوسف اجر بھی انہیں ملے گا.خدائے رحمن کی طرف سے.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۶۵ تا ۴۷۲) آیت ۲۲ وَ قَالَ الَّذِي اشْتَريهُ مِنْ مِصْرَ لِاِمَرَاتِهِ اكْرِمِي مَثْوَهُ عَسَى أَنْ تَنْفَعَنَا اَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذلِكَ مَكَنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَ لِنُعَلِمَة مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللهُ فَغَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ رمضان کے ان آخری دنوں میں جن میں ہم اعتکاف بیٹھتے ہیں ایک وہ رات بھی آتی ہے جو لیلۃ القدر کے نام سے موسوم ہے.لیلۃ القدر کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ رات جس میں اگر انسان چاہے اور پھر اس کا رب فضل کرے تو وہ اپنی اور اپنی قوم کی تقدیر کو اپنے رب سے بدلوا سکتا ہے یعنی لیلۃ القدر وہ رات ہے جس میں تقدیریں بھی بدل سکتی ہیں لیکن اکثر تقدیریں جو متضرعانہ دعا کے نتیجہ میں بدل دی جاتی ہیں ہمارے علم میں نہیں آسکتیں.مثلاً ایک دفعہ ہماری موٹر کا ایک حادثہ ہو گیا اور وہ حادثہ اس نوعیت کا تھا کہ اگر ایک منٹ پہلے یا ایک منٹ بعد ہماری کار جائے حادثہ پر پہنچتی تو حادثہ پیش نہ آتا اور پھر یہ فضل بھی ہوا کہ جو شخص اس حادثہ کا بری طرح شکار ہوا تھا اسے خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بچا لیا اس وقت میرے دل میں اپنے رب کے لئے بہت حمد پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ ہزاروں آفتیں اور حوادث ہم سے ٹال رہا ہے لیکن ہمیں ان کا علم بھی نہیں اور مجھے میری زندگی میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا دیا ہے تا مجھے یقین اور وثوق ہو جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کس قدر محبت رکھتا ہے.پس جو تقدیر نظر آتی ہے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی حمد کرنی چاہیے اور جو تقدیر نظر نہیں آتی اس پر بھی انسان کا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جانا چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.اللہ تعالیٰ تقدیر بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے ہاں جو تقدیر پردہ غیب میں ہے اور پردہ غیب میں ہی بدل دی جاتی ہے اس کے متعلق اکثر لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری دعا کو قبول فرما کر بہت سی دکھ دینے والی چیزوں کو بدل دیتا ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث بھر جانے چاہئیں.۳۲۰ سورة يوسف اكثر النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اکثر لوگ غیب کی ان باتوں کی طرف مومنانہ فراست سے متوجہ نہیں ہوتے اور ان کے دل حمد سے خالی رہتے ہیں.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۹۸،۹۷) آیت ۴۱ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءَ سَيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَ ابا وكُمْ مَّا اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطن اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ أَمَرَ اَلَا تَعبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيْمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ) فیصلہ کرنا اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں.(بڑے عجیب اعلان ہوئے ہوئے ہیں قرآن کریم میں ) اِنِ الْحُکم الا للہ اور اس نے حکم دیا ہے جس کے اختیار میں فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.یہی درست مذہب ہے.خالص توحید.اعلان کرنا آسان ہے.عمل کرنا مشکل بھی ہے، آسان بھی ہے.عمل کر کے جو نعماء ملتی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور فضل نازل ہوتے ہیں ان کا شمار نہیں.یہ توفیق کہ انسان کا رواں رواں یہ پکار رہا ہو مولا بس.اللہ کے سوا ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں.جو ایسا نہیں سمجھتے ، کچھ بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں کچھ بھروسہ غیر اللہ پر رکھتے ہیں لا يَعْلَمُونَ کے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی وہ لوگ جواب سے، روحانی پاکیزگی سے مومنانہ فراست سے محروم کئے گئے ہیں.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۱۳) آیت ۵۴ وَمَا أُبَرِى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِ جو فقرہ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے یعنی مَا أُبَرِى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوء خدا کا ایک برگزیدہ نبی یا وہ جو نبوت کے لئے خدا کے فرشتوں کی گود میں پرورش پا رہا تھا اس کے منہ سے یہ فقرہ نکلنا اور قرآن کریم کا اسے بیان
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۲۱ سورة يوسف کر دینا ہمارے لئے ایک بڑا سبق ہے انسان خواہ کتنا ہی مجاہدہ کیوں نہ کرے، ہزار بشری کمزوریاں، کوتاہیاں ساتھ لگی ہیں حالات سے بعض دفعہ مجبور ہو جاتا ہے بعض دفعہ شیطانی وسوسوں سے مجبور ہو جاتا ہے اور گناہ کر بیٹھتا ہے خدا کے فضل کے بغیر خدا کی رحمت کے بغیر اس کی رحمت کو بھی ہم حاصل نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رحمت کے حصول کے لئے بعض راستوں کی تعیین کی ہے بعض اعمالِ صالحہ کے بجالانے کا حکم فرمایا ہے جو شخص اباء اور استکبار سے یہ کہتا ہے کہ خدا کے حکم کو تو میں نہ مانوں گا لیکن اس کی رحمت کا میں امیدوار بنوں گا وہ یا پاگل ہے یا شیطان کے چیلوں میں سے ہے جس نے خدا کی ذات پر علی وجہ البصیرت ایمان لانے کے بعد بھی اس کے احکام کی بجا آوری سے انکار کیا پس ایک راستہ جو خدا کی رحمت کے بے پایاں سمندر تک لے جانے والا ہے وہ یہ ہے کہ کثرت سے اس کا ذکر کیا جائے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جائے جماعت کے معیار کو اس سلسلہ میں بلند کرنے کے لئے میں نے جماعت سے یہ کہا تھا کہ مختلف عمروں کے لحاظ سے مقررہ تعداد میں سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اور درود اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ پڑھنا ہے کم از کم اتنی تعداد میں پڑھنا ہے یہ نہیں کہ اس سے زیادہ نہیں پڑھنا.آیت ۶۸ وَ قَالَ يُبَنِي لَا تَدخُلُوا مِنْ بَابِ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ ابواب مُتَفَرِّقَةٍ وَ مَا أَغْنِى عَنْكُم مِّنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ.1193 (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۴۹) میں نے بتایا ہے کہ ایک بھروسہ اور توکل ایک جاہل انسان خدا تعالیٰ سے دور ہو کر حاصل کرتا ہے لیکن اس قسم کے دنیوی سامان میں یا دنیا میں بسنے والے ان عاجز انسانوں میں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جن کے سپر د انسان اپنے بعض کام کرتا ہے آٹھ قسم کی بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں ایک خامی یہ پائی جاتی ہے کہ کوئی دنیا دار جو دوسرے کے لئے کام کرتا ہے یا کوئی دوسرا اس پر اعتماد رکھتا ہے اور اس کو اپنا سہارا بناتا ہے وہ تمام صفات حسنہ سے متصف نہیں ہوتا بعض باتیں اس کی مقدرت میں ہوتی ہیں اور بعض نہیں ہوتیں اس کے اندر بعض کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ جو شخص اس کا سہارا لیتا ہے وہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲۲ سورة يوسف اس کی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا مثلاً بعض دفعہ انسان اپنے کسی اعتماد والے شخص سے دو تین یا چار مرتبہ اپنا کام کرواتا ہے تو وہ اس سے تنگ پڑ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بار بار آ کر مجھے تنگ کرتے ہو اب تم کسی اور سے اپنا کام کروالو اور بعض دفعہ کوئی کام کرنا اس کی قدرت میں نہیں ہوتا بعض دفعہ دنیا میں اس کے ایسے مخالف ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کے پاس آیا تو ہم اسے دکھ دیں گے اور اگر وہی شخص کسی دوسرے آدمی کے پاس جائے تو یہ پہلا شخص اسے تنگ کرتا ہے اتنی بات کے دوران یہ نظارہ بڑی کثرت سے نظر آتا ہے ہر پارٹی ووٹروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور بیچارا ووٹر تو ایک ہی پارٹی کو اپنا ووٹ دے سکتا ہے اور اس طرح وہ ہر دوسری پارٹی کو ناراض کر لیتا ہے.دوسری خرابی یا نقص جو دنیوی بھروسوں میں ہمیں نظر آتا ہے یہ ہے کہ دنیا والے بغیر استحقاق اور بغیر معاوضہ کے کچھ نہیں دینا چاہتے بعض اگر آپ نے ان سے کوئی کام لینا ہے تو آپ کو بھی ان کے بعض کام کرنے پڑیں گے خواہ وہ کام ناجائز اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں اگر آپ ان کے کام نہ کریں تو وہ کہیں گے چلے جاؤ ہم آپ کا کام نہیں کریں گے.تیسری خرابی اور نقص جو دنیا کے سہاروں میں ہمیں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں بقا حاصل نہیں ہوتی بہت سے خاندان کسی خاص شخص کی وجہ سے اور اس کے اثر ورسوخ کے نتیجہ میں اسی دنیا میں دنیوی کامیابیاں حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب اچانک وہ شخص فوت ہو جاتا ہے تو یہ خاندان بے سہارا ہو جاتے ہیں یا مثلاً بچے ہیں ان کا سہارا اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کو بنایا ہے اگر کوئی خاندان ایسا ہو کہ وہ اس سہارے کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کر لے اور یہ سمجھے کہ اگر والد فوت ہو گیا تو ہم بے سہارا ہو جائیں گے ہم دنیا میں کچھ نہیں کر سکیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اگر وہ زندہ رہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا سہارا ہے اس کی وجہ سے ہم دنیا میں ترقی کرتے چلے جائیں گے غرض باپ یا سرپرست کو ابدی حیات حاصل نہیں ہوتی اور وہ ایک دن مرجاتا ہے اور بچے یتیم اور بے سہارا رہ جاتے ہیں اور دنیا ان یتیموں کو سہارا نہیں دیتی اور نہ وہ دے سکتی ہے.چوتھا نقص دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ بعض دفعہ کسی کی مدد کرنا بھی چاہیں تو وہ اپنی ہر بات منوا نہیں سکتے مثلاً ایک شخص کسی بڑے حاکم کا دوست ہے وہ اس کے پاس جاتا کہ میرا فلاں کام کر دو اور اس کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دوست کا کام کر دے لیکن کام کرنے والا
تفسیر حضرت خلیفة اسم الشارقة ۳۲۳ سورة يوسف اس کا بھی افسر ہوتا ہے اور وہ اس کی بات نہیں مانتا اس طرح وہ اپنے دوست سے کہہ دیتا ہے بڑا افسوس ہے کہ میرا افسر میری بات مانتا نہیں غرض وہ اپنی بات منوانے کی قدرت نہیں رکھتا اور یہ بڑا بھاری نقص ہے اور جو سہار ا وقت پر کام نہ آئے اس کو انسان نے کیا کرنا ہے.پانچواں نقص دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ ابدی نہیں ہوتے یہ عطا غیر محدود نہیں ہوتی محدود ہوتی ہے اور انسان کی تو اپنی ساری ضرورتیں پوری ہوتیں ہیں اگر کسی کو پانچ دن کھانے کو مل جائے اور پھر پانچ دن کھانے کو نہ ملے تو دنیوی لحاظ سے وہ زندگی کوئی زندگی نہیں اگر چھ ماہ اس کی عزت قائم رہے اور اس کے بعد وہ جتنی مرضی ہو خوشامد کر لے لیکن اگلا آدمی اس کی حفاظت کے لئے تیار نہ ہو اور اس طرح اگلے چھ ماہ اسے ذلت پہنچے تو پہلے چھ ماہ کی عزت کو اس نے کیا کرنا ہے.چھٹا نقص دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ سہارا دینے والا حکمت کے پہلوؤں پر پوری نظر نہیں رکھتا اور نہ نظر رکھ سکتا ہے مثلاً ایک نوجوان نے ایف اے یا ایف ایس سی کا امتحان پاس کر لیا ہوا اور کوئی شخص اسے یہ کہے کہ تم میڈیکل کالج میں داخلہ لے لو میں تمام اخراجات برداشت کروں گا لیکن اس نوجوان کا دماغ طب کی طرف جاتا ہی نہیں اس طرح گوا سے دنیا میں تعلیم کے لئے سہارا تو مل گیا لیکن وہ دو یا چار سال کالج میں ضائع کر کے اپنی تعلیم کو چھوڑ دیتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کام کا نہیں رہتا مثلاً وہ کوئی دوسری پڑھائی کرنے تک اوور ایج(Over Age) ہوجاتا ہے غرض دنیوی سہاروں میں ہمیں حکمت کا ملہ نظر نہیں آتی.ساتواں بنیادی نقص دنیا کے سہاروں میں یہ ہے کہ وہ ربوبیت تامہ نہیں کر سکتے مثلاً ماں باپ ہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بچوں کے لئے بڑا سہارا بنایا ہے لیکن جہاں تک ربوبیت تامہ کا سوال ہے وہ نہیں کر سکتے بسا اوقات وہ بچوں کے اخلاق اور ان کی طبیعتوں کو خراب کر دیتے ہیں اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں ایک عذاب ان کے لئے پیدا کر دیتے ہیں پس گور بوبیت کے ظلی نظارے ہمیں ہر خاندان میں نظر آتے ہیں لیکن ربوبیت تامہ کا نظارہ ہمیں کسی ایک خاندان میں بھی نظر نہیں آتا.آٹھواں بنیادی نقص دنیا کے سہاروں میں یہ پایا جاتا ہے کہ چونکہ انسان کو کامل علم حاصل نہیں ہوتا اس لئے گو وہ بعض دفعہ نیک نیتی سے کسی دوسرے کو سہارا دیتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بڑا خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس کو پتہ نہیں تھا کہ چھ ماہ کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ گویا علم کامل نہ ہونے کی وجہ سے
۳۲۴ ط سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دنیوی سہارے اپنے وقت پر آ کر ٹوٹ جاتے ہیں اور اس انسان کو ایک عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں جس نے اپنے دوسرے بھائی پر بھروسہ کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ اگر انسان کے سر میں روشنی اور جلا ہو اس میں عقل ہو وہ ایک حد تک اپنے مفاد کا حقیقی علم رکھتا ہو اور حقیقی کامیابی چاہتا ہو تو اسے صرف اس ہستی پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہیے جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام نقائص سے مبرا ہے فرمایا.اِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۚ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ المُتَوَكَّلُونَ.لفظ اللہ کے معنی اسلام، قرآن کریم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں آنے والے لوگوں نے بالا تفاق یہ کئے ہیں کہ وہ وہ پاک ذات ہے جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور تمام کمزوریوں اور نقائص سے بری اور بالا ہے اور اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فیصلہ تو اسی اللہ ہی کا جاری ہونا ہے جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور اس میں کوئی کمزوری اور نقص نہیں پایا جاتا.یہاں گوشتکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے لیکن ایک اصول بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ صرف اسی ذات پر ہی تو محل کرنا چاہیے چنانچہ آگے اس کا بیان بھی ہو گیا ہے فرما یا عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِمُونَ اگر کسی نے اعتماد اور بھروسہ کرنا ہوا گر کسی کو یہ احساس ہو کہ میں اکیلا اس دنیا میں امن کی اور آرام کی اور سکون کی زندگی بسر نہیں کر سکتا مجھے دوسروں کے سہارا کی ضرورت ہے تو اسے یا درکھنا چاہیے کہ اسی کے لئے ایک ہی سہارا ہے جو کامل سہارا ہے اور جس پر پورا اعتماد کیا جا سکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اگر سہارا دینے پر تیار ہو جائے تو پھر انسان کسی اور چیز کا محتاج نہیں رہتا وہی سب کچھ کر دیتا ہے عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ انسان نے اگر دنیا میں کسی کا سہارا لیتا ہے اس نے کسی پر توکل کرنا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ تم جھوٹے سہاروں کی بجائے بچے سہارے کی تلاش کرو اور کامل تو کل اپنے رب پر رکھو کامل اعتما داس کا حاصل کرواسی کو اپنا سہارا بناؤ.قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ أَمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا (الملك : ٣٠) اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے کہ وہ احسان کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتا کہ جس پر وہ احسان کر رہا ہے اس نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے یا نہیں ( گواس پر تو احسان کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ کامل صفات والی ذات ہے اس کو کسی چیز کی کمی نہیں ) اس کے اندر استحقاق پایا جاتا ہے یا نہیں پایا جاتا اگر انسان کے اندر کوئی خامی اور کمزوری ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی اور ادا پسند آ جائے تو وہ کمزوری اور خامی دور ہو جاتی ہے ایسا شخص مغفرت
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲۵ سورة يوسف کی چادر میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور بغیر کسی استحقاق کے اللہ تعالیٰ اس کو اتنی نعمتیں عطا کرتا ہے کہ وہ عاجز بندہ اس کی طرف جھکتا ہی چلا جاتا ہے اور اس کے راستہ میں فنا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلَيْهِ توكلنا تم یہ کہ دو کہ ہم نے اپنے رحمان خدا پر ہی تو کل کیا ہے.ہمارا یہ دعویٰ کہ کامیاب اسلام نے ہی ہونا ہے کامیاب مسلمانوں نے ہی ہوتا ہے ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ في ضَللٍ مُّبِينِ (الملك :۳۰) یہ سب کچھ رحمان خدا کی رحمت کے نتیجہ میں ہوگا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام غالب آئے اس لئے بہر حال یہ فیصلہ جاری ہوگا.اگر کسی نے بھروسہ کرنا ہے اور اس کے بغیر یہ زندگی گزر نہیں سکتی تو تمام عارضی اور ناقص اور بے وفا سہاروں کی بجائے اللہ تعالیٰ پر اسے بھروسہ کرنا چاہیے جو رحمان ہے وہ اسے اتنی نعمتیں دے گا کہ ان کے مقابلہ میں اس نے کچھ بھی کیا نہیں ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں کامل حیات کا مالک یعنی الکی ہوں، مجھ پر موت وارد نہیں ہوتی اگر تم مجھ پر توکل کرو گے اور مجھے اپنا سہارا بنالو گے تو تمہیں یہ خوف نہیں ہوگا کہ جسے تم نے سہارا بنایا ہے وہ کہیں مر نہ جائے یا ان ویلڈ (Invalid) نہ ہو جائے بعض دفعہ ایسی بیماری آتی ہے کہ انسان کے ہاتھ پاؤں کام نہیں کرتے یا بعض دفعہ مثلاً انسان پاگل ہو جاتا ہے پس گواس دنیا کی زندگی کامل زندگی نہیں لیکن اس ناقص زندگی کا نسبتی طور پر جو کمال ہے وہ بھی باقی نہیں رہتا غرض الحی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے پس اے انسان! تو اسی پر توکل کر توکل علیہ.تو اس ذات پر توکل کر جو خود زندہ ہے اور سب زندگی اور حیات اس کامل حیات سے فیض یافتہ ہے اگر اس کی اس صفت کا جلوہ نہ ہو تو کوئی وجود زندہ نہیں رہ سکتا اور یہ خطرہ ہی نہیں کہ کبھی وہ مرجائے وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ ( الفرقان : ۵۹) وہ الحی ہے موت اس پر آ ہی نہیں سکتی.پھر فرمایا اگر تم نے اللہ پر توکل کرنا ہے تو پھر تمہیں اس کی عبادت میں مشغول رہنا پڑے گا اس کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہنا پڑے گا تم اسی پر توکل رکھو اور یہ سمجھ کر رکھو کہ اس کی ذات الْحَی ہے تمام زندگی کا سر چشمہ اور منبع اسی کی ذات ہے زندگی کے لحاظ سے دنیا رنگ بدلتی رہتی ہے.اس دنیا کی زندگی تو گزر جاتی ہے اور موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے پھر وہ العتی خدا ایک نئی زندگی اسے دیتا ہے پھر روحانی طور پر لوگ یہاں مرجاتے ہیں ان میں روحانیت باقی نہیں رہتی تو وہ الکی خدا ایسے سامان
۳۲۶ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث پیدا کرتا ہے کہ انسان اس میں ہو کر اور اس سے زندگی حاصل کر کے نئے سرے سے روحانی زندگی پا لیتا ہے پس فرمایا اگر تم نے تو کل کرنا ہے اور تمہیں ضرور تو کل کرنا پڑتا ہے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے تو الحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ پر توکل کرو یعنی اس زندہ ہستی پر توکل کرو جس پر موت وارد نہیں ہوتی.پھر ہمیں دنیوی سہاروں میں یہ عیب نظر آتا ہے کہ وہ سہارا دینا چاہتے ہیں اور کام بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سہارا دینے اور کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے.اس کی طاقت اور قدرت ان میں نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (الشعراء :۲۱۸) میں غالب ہوں مجھے ہر قسم کی قدرتیں حاصل ہیں میں ایک بات کا فیصلہ کر لوں تو دنیا کی کوئی طاقت میرے اس فیصلہ کورڈ نہیں کر سکتی میرا ہی حکم جاری ہے پھر دنیا دار انسان سود فعہ خوشامد کرتا ہے.دس بار خوشامدوں کا نتیجہ نکل آتا ہے باقی ضائع ہو جاتی ہیں وہ تو بار بار دنیا کے سہاروں کی طرف جھکتا ہے لیکن دنیا کے سہارے بار بار اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ایسا نہیں ہوں میں جہاں عزیز ہوں وہاں الرحیم بھی ہوں جتنی دفعہ تم میرے سامنے آؤ گے اتنی ہی دفعہ تم مجھ سے فیض حاصل کرو گے صرف خلوص نیت ہونا چاہیے اور توکل اپنی پوری شرائط کے ساتھ کیا جائے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم مجھ پر بھروسہ کرو گے تو جو سہارا تمہیں ملے گا وہ حکمت سے خالی نہیں ہو گا وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ (الانفال :۵۰) تمہارا بھروسہ اس اللہ پر ہو گا جو حکیم ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان بعض دفعہ غلط دعا کرتا ہے اور اسے یہ نظر آتا ہے کہ اس کی وہ دعا قبول نہیں ہوئی لیکن حقیقتا اس کی وہ دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ دعا سنے والا حکیم ہے وہ حکمت کاملہ کے نتیجہ میں دعا کو سنتا ہے وہ جانتا ہے کہ جو دعا اس شخص نے مانگی تھی وہ آخر فائدہ مند اور سود مند نہیں ہونی تھی اس لئے اس نے اسے ظاہری شکل میں رڈ کر دیا لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے جس کے لئے دعا کی گئی تھی اس نے کچھ ایسے سامان پیدا کر دیئے جو اس کے لئے زیادہ مفید تھے غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میری طرف آؤ، مجھ پر بھروسہ رکھو، اگر تم مجھے پر بھروسہ رکھو گے تو میں تمہیں جو سہارا دوں گا وہ حکیم اللہ کا سہارا ہوگا وہ بے حکمت سہارا نہیں ہوگا، وہ بعد میں بدنتائج پیدا کرنے والا نہیں ہوگا وہ عارضی خوشیوں کے بعد دکھوں میں مبتلا کرنے والا نہیں ہوگا.
۳۲۷ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث میں نے بتایا تھا کہ دنیوی سہاروں میں ہمیں یہ نقص نظر آتا ہے کہ ان میں علم کامل نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے وہ سہارے ناقص ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرماتا ہے.وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی چیز ظاہری یا باطنی لحاظ سے اور اس کے علم سے بالا نہیں بعض اس کا جو ظاہر ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور ان باطنی قوتوں اور استعدادوں کو بھی وہ جانتا ہے جو بے شمار ہیں اور ایسی ہیں کہ انسان کو ان کا علم ہی نہیں صرف چند گنتی کی باتیں ہیں کہ جن کا علم انسان نے اپنی کوشش کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ سے صفتیں حاصل کر کے حاصل کر لیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہر چیز اس کے علم کے اندر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے کسی ہستی پر توکل کرنا ہو تو تمہیں اس ہستی پر توکل کرنا چاہیے جو کامل علم کی مالک اور ہر علم کا سر چشمہ اور منبع ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات الْعَلِيمُ ہے وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا (الاعراف:۹۰) ہر چیز اس کے علم کی وسعتوں کی چادروں میں لپٹی ہوئی ہے عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا (الاعراف:۹۰) اس لئے ہم اسی پر توکل کرتے ہیں چونکہ ہم ناقص علم کے نتیجہ میں غلط سہارے ڈھونڈتے ہیں اس لئے سہارا حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں.بہت سے لوگ میرے پاس آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں شخص کے پاس ہماری سفارش کر دیں اس شخص کا آپ کے ساتھ تعلق ہے اور میں اس کے نام سے وقف بھی نہیں ہوتا پس ناقص علم کے نتیجہ میں سہارا لینے والا بھی غلط سہارا لے لیتا ہے اور سہارا دینے والا بھی غلط سہارا دے دیتا ہے حالانکہ سہارا حاصل کرنے کے لئے انسان کو ایسی ہستی کی ضرورت ہے جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو اور وہ ایسی ہستی ہو کہ اگر سہارا مانگنے والا اس سے غلط سہارا بھی مانگ لے تو وہ اسے صحیح سہارا دے دے یعنی گو بظاہر اس کی دعارد ہو جائے لیکن حقیقتاوہ قبول ہو رہی ہو اور جو سہارا وہ دے جو مد دوہ کرے یا جو احسان وہ کرنا چاہے وہ کامل علم کے منبع سے پھوٹ رہا ہو اور انسان کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا نہ ہو.جب ایسا سہارا انسان کومل جائے تو پھر اس کے اور اس کے مخالفوں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام اور اسلام کے منکروں کے درمیان جو فیصلہ ہوگا وہ حق کے ساتھ ہوگا اس لئے یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الفيحين (الاعراف: ۹۰) اے ہمارے رب ! تو علم کامل کا مالک ہے اس لئے ہم صرف تجھ پر بھروسہ
۳۲۸ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اور توکل کرتے ہیں اور تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اور ہماری انسانی برادری کے درمیان سچ کے مطابق فیصلہ کر دے چونکہ یہ زمانہ ایک عالمگیر اخوت اور برادری کا ہے اس لئے اس زمانہ کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے اور ہماری انسانی برادری کے درمیان سچ کے مطابق فیصلہ کر دے کیونکہ تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے تیرا ہی حکم جاری ہے اور تیرے فیصلے ہی خیر و برکت والے ہیں تو علم کامل کا مالک ہے.غرض وہ آٹھ کمزوریاں جو دنیوی سہاروں میں پائی جاتی تھیں اور جن کے نتیجہ میں ہم ان سہاروں کو وفا والے اور صحیح فائدہ پہنچانے والے سہارے قرار نہیں دے سکتے ان آٹھ کمزوریوں کے مقابلہ میں ہمارے رب اللہ میں (جہاں تک تو کل کا سوال ہے ) آٹھ ایسی بنیادی صفات پائی جاتی ہیں کہ اگر ہم اس پر کامل توکل رکھیں (اور اس پر توکل رکھنا چاہیے ) تو ہمیں کامل سہارا مل جاتا ہے پھر ہم بے سہارا نہیں رہتے پھر ہمارے بچے جو یتیم ہو جاتے ہیں وہ یتیم نہیں رہتے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یتامیٰ کے حقوق کی اتنی حفاظت کی ہے کہ ماں باپ بھی اپنے بچوں کے حقوق کی وہ حفاظت نہیں کر سکتے پھر ہم میں سے وہ جن کو دنیا دکھ دے رہی ہوتی ہے بے سہارا نہیں ہوتے ان کی بشاشت میں کوئی فرق نہیں ہوتا.وہ اسی طرح بشاشت صادقہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی میں لگے رہتے ہیں اور وہ یقین کامل پر ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم نے اللہ کو سہارا بنالیا ہے ہم صرف اسی پر ہی تو کل کرتے ہیں اس لئے وہ اپنے فضل سے ہماری ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا اور ہمیں اپنی حفاظت میں بھی لے لے گا.اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کے نتیجہ میں جو چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے اور جس کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے وہ چیز دنیا کے سہاروں کے نتیجہ میں ہمیں حاصل نہیں ہوسکتی اور جب تک اللہ تعالیٰ کو ہم اپنا سہارا نہ بنا ئیں اور اس پر توکل نہ رکھیں اپنے کام اس کے سپرد نہ کریں اس اعتماد کے ساتھ کہ ہم اپنے کام خود بھی اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک وہ ہمیں مدد نہ پہنچائے جب تک وہ ہمیں سمجھ نہ دے جب تک وہ ہمارے لئے سامان نہ پیدا کرے جب تک وہ دلوں میں ہماری محبت نہ پیدا کرے ہمارے لئے شفقت پیدا نہ کرے دنیوی سہاروں میں ہمیں وہ چیزیں نہیں مل سکتیں جو اللہ تعالیٰ کے سہارا سے ہمیں مل سکتی ہیں اور جو صرف اس وقت ہمیں ملتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ پر ہمارا کامل تو کل ہو اور اللہ تعالیٰ
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۳۲۹ سورة يوسف ہمارے اس تو کل کو قبول کر کے ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور ہمارا سہارا بن جائے.پھر دنیوی سہارے ہمیں پورے طور پر بدیوں سے نہیں بچاسکتے ، دنیوی سہارے پورے طور پر اعمال بجالانے کی ہمیں توفیق عطا نہیں کرتے بلکہ وہ تو ہمارے خیالات کو اور بھی گندہ کر دیتے ہیں پھر دنیوی سہاروں کے نتیجہ میں یہ خرابی پیدا ہوتی ہے کہ ہم بہتوں کے احسان کے نیچے آجاتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بڑی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے مثلاً ایک کام ہم نے زید سے کروایا دوسرا بکر سے کروایا.تیسر اعمر سے کروایا.چوتھا کسی اور سے کروایا اور پانچواں کسی اور سے کروایا اس طرح ہم نے دس کام مختلف دس سہاروں سے کروائے اور پھر ایک ایسا موقع آگیا کہ زید نے کہا کہ تم میرے زیر احسان ہو اس لئے تم میرا یہ کام کر و بکر نے کہا تم میرے زیرا احسان ہو اس لئے تم زید کا کام بالکل نہ کرو اور اس طرح ہمارے لئے اگر ہم دنیا کے سہارے ڈھونڈتے ہیں تو بڑی تکلیف بن گئی ہم مصیبتوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن جو شخص صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور محض اس پر توکل کرتا ہے وہ غیر اللہ سے آزاد ہو جاتا ہے پھر غیر اللہ کی اسے کوئی فکر نہیں رہتی.وہ ایک ہی ہستی ہے جس کے ساتھ اس نے اپنا پختہ تعلق قائم کر لیا جس پر اس نے تو کل کیا جس پر اس نے بھروسہ رکھا اور اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود یہ سمجھا کہ وہ پاک ذات اتنی عظیم ہے کہ وہ میری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے مجھ پر احسان پر احسان کرتی چلی جائے گی اور چونکہ انسان غیر اللہ کے احسانوں سے آزاد ہو کر بہت سے دکھوں سے بچ جاتا ہے اس لئے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ سکون کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارے اور اپنی زندگی کا اور اپنی حیات کا مقصد پورا کر لے.دوسری چیز جو ہمیں دنیوی سہاروں میں نہیں ملتی اور وہ صرف ہمیں اللہ پر ہی توکل رکھنے سے حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی غیر طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن کوئی دنیا دار شخص کسی دوسرے شخص کو اس رنگ میں سہارا نہیں دے سکتا کہ کوئی غیر چیز اسے نقصان نہ پہنچائے مثلاً وہ بیماریوں سے نہیں بچا سکتا فرض کرو وہ اس علاقہ میں حاکم اعلیٰ ہی ہے اور اس کی چلتی ہے لیکن پھر بھی وہ بیماریوں سے نجات نہیں دے سکتا آفات آسمانی سے وہ نہیں بچا سکتا اس کی اپنی اندرونی کمزوریوں سے اس کی اصلاح نہیں کر سکتا یہ ہوسکتا ہے کہ سہارا دیتے دیتے وہ اس کو اس قدر اٹھالے کہ وہ اسے اپنا وزیر بنالےلیکن پھر بعد میں کچھ عرصہ گذرنے پر اسے علم ہو کہ یہ شخص وزارت کا اہل نہیں اسی لئے وہ اسے وزارت سے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۳۰ سورة يوسف ہٹا دے اور اس طرح دنیا کا ایک چھوٹا سا آسمان جو اس نے بنایا تھا وہاں سے اسے جھٹکا دے کر نیچے گرا دے اور اس کی ہڈی پسلی توڑ دے غرض کوئی دنیا دار شخص جو کسی دوسرے کے لئے اس دنیا میں سہارا بنتا ہے اس میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اس کو ہر قسم کے نقصانوں سے بچالے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں وہ اگر کسی کا سہارا بنے تو اس کو ہر قسم کے نقصان سے بچا سکتی ہے.خطبات ناصر جلد دوم ۳۸۱ تا ۳۸۹) آیت ۸۸ يبَنِي اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَا يَسُوا مِنْ زَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَايُعَسُ مِنْ رَّوحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ ہمارے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور نہ اسے پیدا ہونا چاہیے کیونکہ خوف اپنی جگہ پر قائم ہے اور امید اپنی جگہ پر قائم ہے.گو ہمیں ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.لیکن اس کے ساتھ ہی زندگی کے کسی لمحہ میں بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی مومن کی علامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کافر کی علامت قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّه لا يَايَسُ مِنْ رَّوحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ.اصل بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کا فرلوگوں کے سوا کوئی انسان نا امید نہیں ہوتا.غرض خوف اور مایوسی میں بڑا فرق ہے اور ہمیں اس فرق کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ کہا ہے کہ وہ شخص یا قوم جو خوف کے مقام کو اختیار کرتی ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارتی ہے.وہ اسے دو جنتیں دیتا ہے ایک جنت اسے اس ورلی زندگی میں عطا ہوتی ہے اور ایک جنت اُخروی زندگی میں اسے ملتی ہے ورلی زندگی کی جنت کا اس حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر آیا ہے جو میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں سنائی تھی.کیونکہ جس معاشرہ میں غیبت نہ ہو.جس معاشرہ میں فخر و مباہات نہ کیا جائے.جس معاشرہ میں کوئی شخص بھی اپنے بھائی سے تکبر کے ساتھ پیش نہ آئے اس میں عجب اور خود پسندی کا مظاہرہ نہ ہو کوئی ایک دوسرے پر حسد نہ کر رہا ہو.بلکہ سارے ہی ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوں جس معاشرہ میں خدا تعالیٰ کی عبادت ریا کے طور پر نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ ہو یعنی ہر ایک شخص مخلصانہ دل کے ساتھ
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ٣٣١ سورة يوسف اپنے رب کو یاد کر رہا ہو.تمام لوگ اپنے تمام اعمال محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجالاتے ہوں.تو ایسا معاشرہ یقیناً جنت کا معاشرہ ہے.جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو دکھ دینے کا باعث نہیں بنتا.ہر شخص کو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کا سکون حاصل ہوتا ہے.ط خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۱۶،۱۱۵) آیت ۹۳ قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ ارحم الرحمين مجھے کئی دفعہ موقع ملا ہے یورپ میں جانے کا.اور چوٹی کے دماغوں سے بات کرنے کا.میں ان کو ہمیشہ ہی اس بات کے منوانے میں کامیاب ہوا ہوں کہ تم اندھیرے میں ہاتھ پاؤں ماررہے ہو، نہ تم اپنے مسائل کو سمجھتے ہو نہ ان کا حل تمہیں معلوم ہے جو شخص مسئلہ ہی نہیں سمجھے گا حل کیسے اس کو پتا لگے گا.مثلاً میں نے ان کو کنونس (Convince) کیا.انہوں نے مانا کہ یہ بات درست ہے کہ ہمارا مزدور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سٹرائیک کرتا ہے لیکن اس بیچارے کو یہ نہیں پتا کہ میرا حق کیا ہے تو اپنے جس حق کا اسے علم ہی نہیں اس حق کے لئے وہ سٹرائیک کر رہا ہے؟ تو بڑا عظیم ہے یہ مذہب، یہ تعلیم، یہ قرآن جو ہے یہ واقع میں قرآن عظیم ہے.زمانہ بدل رہا ہے.انسانی زندگی حرکت میں ہے ایک جگہ کھڑی نہیں ہوئی.جو معاشرہ آج سے چار سو سال پہلے تھا اس میں بڑی تبدیلیاں آگئیں.انقلابی تبدیلیاں آگئیں.عظیم انقلاب بپا ہو گئے.زرعی انقلاب صنعتی انقلاب.یہ انقلاب وہ انقلاب، پس بہت سی انقلابی تبدیلیاں ان کے اندر پیدا ہو گئیں اور انقلابی تبدیلیاں معاشرہ میں پیدا ہونے سے انقلابی مسائل پیدا ہو گئے اور دوصدیوں سے وہ مسائل حل کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور حل نہیں کر سکے.پھر بھی یہ دعویٰ کہ ہم تو بہت مہذب ہیں.ساری دنیا پر حکومت کرنے کا ہمیں حق ہے.میں نے کہا ، ابھی تک اپنے بھائی کو معاف کرنا تم نے نہیں سیکھا.جرمنی میں میں نے کہا تم دو عالمگیر جنگیں لڑ چکے ہو.جرمن اور اس کے ساتھی ایک طرف تھے اور امریکہ اور روس اور ان کے ساتھی دوسری طرف.میں نے کہا جب جنگ ہوتی ہے تو ایک نے بہر حال ہارنا ہے.اتفاق ہوا دونوں دفعہ تم ہارے تمہیں معاف نہیں کیا انہوں نے.اتنا ظلم کیا ان لوگوں نے کہ حد نہیں.وہ اچھی طرح ان کو یاد
۳۳۲ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث دلا کر کہ کن مسائل اور مشکلات میں سے گزرے ہیں.میں نے کہا کہ یہ تمہارے حل کرنے کا مسئلہ نہیں.جس نے حل کرنا تھا وہ مسئلہ حل کر چکا ایک اُسوہ پیدا کر دیا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تیرہ سال مکی زندگی میں اور پھر آٹھ سال کے قریب کم و بیش مدنی زندگی میں ہیں سال تک ہر قسم کا دکھ اور تکلیف ان کو دی گئی.عورتوں کو نہایت بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا.مردوں پر مظالم ڈھائے گئے اور بھوکا مارنے کی کوشش کی گئی.کوئی ایسی ایذا نہیں تھی جو پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی اور جب خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حالات بدل دیئے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آپ مکہ کے باہر آ کے ٹھہرے اس وقت رؤسائے مکہ جو سارا عرصہ دیکھ دینے میں اپنی زندگی گزار چکے تھے ان کو یہ نظر آ گیا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں اس وقت ہم اگر میان میں سے تلوار نکالیں گے حماقت کریں گے.انہوں نے تلواریں اپنی میانوں میں سے نہیں نکالیں.اتنے حالات بدل چکے تھے اس وقت ، ان کو یہ پتا تھا کہ شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس پوزیشن میں ہے، اتنی طاقت ہے اس کی کہ جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کرے اور سلوک کیا کیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھ دینے والوں سے؟ جنہوں نے ایک سانس سکھ کا نہیں لینے دیا تھا اس نے کہا جاؤ سب کو معاف کرتا ہوں لَا تَثْرِیبَ عَلَيْكُم الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ میں معاف ہی نہیں کرتا بلکہ تمہارے لئے دعا بھی کروں گا کہ خدا بھی تمہیں معاف کر دے.میں نے کہا وہ نمونہ ہے تمہارے سامنے تم لڑتے ہو اور معاف نہیں کرتے ، ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے.اسلام نے ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا دیکھو.اگر کوئی بڑوں کی عزت نہیں کرے گا تو وہ میرے اُسوہ پر نہیں عمل کر رہا.اگر کوئی چھوٹوں سے شفقت کا سلوک نہیں کرے گا تو وہ اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کرتا.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۱۶۱،۱۶۰) اس قدر عظیم ہے یہ خُلق خلق عظیم جسے کہا گیا ہے، یہ خلق جو ہے وہ بڑا عظیم ہے.دشمن ہوتے ہیں، بہت ہی کم لوگ ہوں گے دنیا میں جو لمبا عرصہ دشمن کے وار سہنے کے بعد اور وار بھی انتہائی، تیرہ سالہ زندگی میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے انتہائی مظالم ڈھائے آپ پر ، آپ کے متبعین پر، ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ اڑھائی سال تک ہر ممکن کوشش کی کہ بھوکوں مر جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ منصوبہ بھی نا کام کیا، پھر جو غلام تھے ان کے، جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے توان تیرہ سالوں میں جب تک کہ انہیں آزاد نہیں کیا اسلامی کوشش نے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ط
۳۳۳ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نے بڑے پیسے خرچ کئے ، اوروں نے بھی بڑی قربانیاں دیں ان لوگوں کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے ، اس سے زیادہ شدید گرمی جس کے نتیجہ میں میں آج خطبہ چھوٹا کر رہا ہوں، تپتی ریت پر ننگے جسموں کو لٹا کر کوڑے مارے گئے ان کو.یعنی جتنا انتہائی ظلم آپ سوچ سکتے ہیں اس سے آگے بے انتہا فا صلے طے کرتا ہوا اُن کا ظلم نکل گیا.اور جب تیرہ سالہ ظلم سہنے کے بعد آپ نے ہجرت کی تو پیچھا کیا اور تلوار کے زور سے آپ کو مٹانے کے منصوبے بنائے لمبا عرصہ یہ بھی ہے.بہر حال ان سب مظالم کو سہنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قوت اور عزت اور غلبہ کے نتیجہ میں (جواس کی صفات ہیں ) ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ دس ہزار قدوسیوں کا ایک گروہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ پہنچا تو جور و وسائے مکہ اس ظلم کے باپ تھے، ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی عزت کی خاطر اور اپنی عورتوں کی عزت کی خاطر تلوار میان سے نکالتے اور بغیر لڑے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ جانتے تھے، ان کی اندر کی ، ان کے نفس کی آواز یہ تھی کہ جس قدر ظلم ہم نے ڈھائے ہیں اب حق ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ ہم سے جیسا بھی سلوک کریں، کریں لیکن سلوک کیا کیا ان سے؟ سلوک ان سے یہ کیا لا تثريب عَلَيْكُمُ اليَوم تمہارے سارے گناہ ہم معاف کرتے ہیں، میں اور میرے ماننے والے اور دعا کرتا ہوں میں کہ اللہ تعالیٰ بھی معاف کر دے.(ابن ہشام غزوہ فتح مکہ ) انسان جب معافی دے دے تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ بھی اس معافی کو قبول کر لے.قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر ہے اس کا.لیکن اس مقام کے اوپر خدا تعالیٰ نے جس درد کے ساتھ رو وسائے مکہ کے لئے اور جو عرب کا ملک تھا اس کی اصلاح اور ان کے اسلام لانے کے لئے دعائیں کی تھیں اس دن اسی درد کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا بھی کی کہ اے خدا! ہم بھی معاف کرتے ہیں اور تو بھی معاف کر.اور خدا تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا.یہ خلق عظیم ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۱۵،۲۱۴) آیت ۱۰۵ وَمَا تَسْلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكرُ لِلْعَلَمِينَ کہ اے رسول ! تو جو ان کفار کو تبلیغ کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کا پیغام انہیں پہنچا رہا ہے اس پر تو ان سے کوئی اجر نہیں مانگتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے لئے سراسر
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث شرف کا موجب ہے.۳۳۴ سورة يوسف اس آیت میں قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں ( رَحْمَةٌ لِلْعَلَمينَ ) اسی طرح قرآن کریم تمام عالمین کے لئے ذکر ہے.ذکر عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے.اس جگہ ذکر کے چار معنی چسپاں ہوتے ہیں اس کے پہلے معنی الْكِتَابُ فِيهِ تَفْصِيلُ الدِّينِ وَوَضْعُ الْمِلَلِ ( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ۳۶۶) ایسی کتاب جس میں دین کی تفاصیل اور احکام شریعت کامل طور پر بیان کئے گئے ہیں.تو فرمایا کہ قرآن کریم ایک کامل کتاب شریعت ہے.کوئی شرعی حکم ایسا نہیں جو اس میں بیان ہونے سے رہ گیا ہو اور دین و مذہب کے متعلق جتنی بھی تفصیل انسان کے لئے ضروری ہے.وہ ساری کی ساری اس کتاب میں بیان کر دی گئی ہے.پس اس کی اتباع اللہ تعالی کی انتہائی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے.اس کے دوسرے معنی ہیں الشرفی ( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۶) بلند مرتبہ، رفعت اور بزرگی.تو فرمایا کہ جو احکام شریعت قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں.اگر تم ان کو سیکھو گے سمجھو گے اور ان پر عمل کرو گے.تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں بلند مرتبہ اور رفعت اور بزرگی عطا کرے گا.اور اتباع قرآن کے ذریعہ آسمانی (روحانی) رفعتوں کے وہ دروازے جو خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو ڈھونڈنے والوں کے لئے کھولے جاتے ہیں.تم پر کھولے جائیں گے.اس کے تیسرے معنی الثّناءُ ( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۶۶) کے ہیں.تعریف اور حمد.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اتباع قرآن کے نتیجہ میں روحانی رفعتوں کو تم حاصل کر لو گے تو تمہیں تعریف اور ثنا بھی حاصل ہو جائے گی.القنَا کا لفظ جس قسم کی تعریف کے متعلق بولا جاتا ہے.اس میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے.وہ یہ کہ کسی دوسرے کامل وجود کا ثانی بنا یعنی اس کے اخلاق کی اتباع کر کے اس کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرنا.پس اس میں توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن کریم نے جو تعلیم تمہارے سامنے رکھی ہے.وہ یہی ہے کہ تم تَخَلُّق بِأَخْلَاقِ اللہ حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے مظہر بن سکو.اور جب تم اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا مظہر بن جاؤ گے تو ہر صاحب عقل و بصیرت تمہاری تعریف تمہاری ثنا اور تمہاری حمد کرنے پر مجبور ہوگا.
۳۳۵ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس کے چوتھے معنی الصیت ( تفسیر کبیر جلد ۳ صفحه ۳۶۶) یعنی ذکر خیر کے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احکام قرآنی پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جو بزرگی اور رفعت حاصل ہوتی ہے اور بندہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دنیا ایسے لوگوں سے فائدہ حاصل کرتی ہے.صرف ان کی اپنی نسل پر ہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا احسان آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی ہوتا ہے.اس کی وجہ سے ان کا ذکر خیر باقی رہ جاتا ہے.کیونکہ ذکرِ خیر صرف اسی شخص ، گروہ یا سلسلہ کا ہی قائم رکھا جاتا ہے (اور رکھا جانا چاہیے ) کہ جس کا احسان آئندہ نسلوں پر ہو اور اس طرح آئندہ نسلیں اس شخص گروه یا سلسلہ کو یا درکھتی ہیں اور مجھتی ہیں کہ پہلوں نے ہم پر بڑے احسان کئے ہیں.اور ہمیں ان احسانوں کو بھولنا نہیں چاہیے.مثلاً ہم احادیث کے جمع کرنے والے بزرگوں کا ادب اور احترام اور دعا کے ساتھ ذکر کرتے ہیں.ان کا ذکر خیر اسی وجہ سے قائم ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں ہمارے فائدے کے لئے صرف کر ڈالیں.ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جمع کیا.ان کی چھان بین کی اور انہیں ہم تک پہنچانے کا انتظام کیا.اس احسان کے بدلہ میں ان کا ذکر خیر نسلاً بَعْدَ نَسل ہم تک چلا آیا اور آئندہ بھی چلتا چلا جائے گا.خطبات ناصر جلد اول صفحه (۲۹۶، ۲۹۷) آیت ۱۰۷ وَمَا يُؤْ مِنْ اَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ اللہ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی شکوک اور شبہات ہو جاتے ہیں.مثلاً اس کو قادر مطلق بھی سمجھنا اور اس کے علاوہ کسی اور کو اپنی تکلیفوں کو دور کرنے کا یا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی بنانا.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا وَ مَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ ایمان بھی ہے اور شرک بھی ہے ایک ہی ساتھ.شک میں پڑ گئے ناکہ محض تو کل کافی نہیں ، تو کل باللہ کا فی نہیں قبر پہ بھی سجدہ کر لینا چاہیے، ناجائز پیسے دے کر بھی اپنا کام بنوا لینا چاہیے، جھوٹ بول کر اپنی حفاظت کا ذریعہ ڈھونڈ نا چاہیے وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے شرک بیچ میں آ جاتے ہیں.شرک اس وجہ سے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پورا تو کل نہیں ہوتا.شبہ ہوتا ہے پتا نہیں خدا ہمیں ہمارے حق دلوا بھی سکتا ہے یا نہیں.میں نے پہلے بھی بتا یا ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ اس کے ایک عزیز پر قتل کا مقدمہ ہوگیا ہے.قتل ہوا
۳۳۶ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تھا کوئی ، قاتلوں کے نام بھی بیچ میں آئے کئی معصوموں کے نام بھی آ جاتے ہیں، غلط فہمیاں بھی ہو جاتی ہیں پیدا.لکھا کہ میرا عزیز جو ہے وہ بالکل بے گناہ ہے لیکن قتل کے مقدمے میں ملوث ہو گیا ہے اور سیشن جج نے پھانسی، پنجاب کے ہائی کورٹ نے پھانسی، سپریم کورٹ نے پھانسی سنادی.گورنر نے ہماری اپیل رڈ کر دی اور اب ہم پریذیڈنٹ صاحب کے پاس اپیل کر رہے ہیں اور وکلا کہتے ہیں کہ آج تک تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ ان حالات میں صدر مملکت اس قسم کی اپیل کو منظور کرلے.اتنا بھیا نک انہوں نے نقشہ کھینچا ہوتا تھا اپنے خلاف کہ میرے دماغ میں پہلا خیال جو آیا وہ غلط تھا.دماغ میں یہ فقرہ بنا کہ ان حالات میں پھر جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کی رضا پر راضی رہو.تو اس وقت مجھے خدا کے فرشتے نے جھنجھوڑا کہ اپنے ایک احمدی کو تم اس وقت یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا.خیر میں کانپ اٹھا بڑی استغفار کی اور ان کو میں نے یہ لکھا کہ دعائیں کرو میں بھی دعا کروں گا.خدا تعالیٰ کے سامنے تو کوئی چیز انہونی نہیں ہے.جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے.میرا خط چلا گیا.کوئی دس پندرہ دن کے بعد ان کا خط آیا کہ وہ چھٹ کے ہمارے گھر آ گیا ہے.تو قرآن کریم نے تو اعلان کیا تھا.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴) ایک اور دوست ہیں اچھے بڑے زمیندار وہ اسی طرح کسی کیس میں ملوث ہوئے.ان کا پرچے میں نام آ گیا.ان کے گھر سے بڑی فکر مند اُن کی اہلیہ صاحبہ آئیں اور بار بار کہیں دعا کریں ضمانت پر رہا ہو کے گھر آجائیں.بہت پیچھے پڑی رہیں.میں نے کہا دعا کریں گے.میں نے دعا کی تو مجھے بتایا گیا کہ ضمانت پر رہا ہو کے گھر نہیں آئیں گے بری ہو کے آجا ئیں گے.دوسری دفعہ آئیں تو میں نے انہیں کہا ضمانت کی ساری کوششیں چھوڑ دو پندرہ دن مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے ضمانت پر یہ شخص رہا نہیں ہوگا بری ہوگا اور انہوں نے میرے کہنے کے باوجود بڑی کوششیں کیں ادھر ادھر سے.ساری کوششیں ناکام.ضمانت پر رہا نہیں ہوئے بری ہو کے آگئے گھر میں.تو خدا تعالیٰ جو ہر قسم کی طاقتیں رکھنے والا ہے جو تد بیر اس نے بتائی ہے جو جائز طریقہ ہے کام کا اس سے نہیں روکتا وہ لیکن خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر نا جائز طریقوں کی طرف رجوع کرنا یہ شرک ہے.ایمان باللہ بھی ہے اور مشرک بھی ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا ہے وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا
۳۳۷ سورة يوسف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث وَهُمْ مُّشْرِكُونَن تو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے متعلق دل میں کوئی شبہ نہ رہے.ایک اس قدر کامل ذات اور صفاتِ حسنہ سے متصف ذات کہ انسانی دماغ تو اس کی محاورہ ہے ہمارا، گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.اتنی قدرتوں کا مالک ہے اس کو خوش رکھو.اس زندگی میں آزمائشیں بھی ہیں دکھ بھی ہیں.قانون دوسرا بھی چل رہا ہے مگر ہر دکھ کو وہ آرام میں تبدیل کر دیتا ہے.اب ۱۹۷۴ء میں بڑا دکھ پہنچا جماعت کو کوئی شک نہیں.میں نے کہا تھا ہنستے رہو اس لئے کہ ہماری ہنسی کا سر چشمہ یہ بشارت ہے کہ یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.اس سے بڑی اور کیا خوشخبری ہمیں مل سکتی ہے اور جماعت نے ہنستے ہوئے مسکراتے ہوئے وہ زمانہ گزار دیا اور ہر لحاظ سے اس قدر ترقی کی ہے کہ دنیوی لحاظ سے دنیا دار نگاہ دیکھتی اور حیران ہوتی ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۷۰۲ تا ۷۰۴)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطن ال ۳۳۹ سورة الرعد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الرعد آیت ۱۹ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى ، وَ الَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَ مِثْلَهُ مَعَهُ لَا فَتَدَوا بهِ أُولَبِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَ مَا وَلَهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُةَ b قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا کہا مانتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمتہ للعالمین بن کر دنیا کی طرف آئے اور قرآن کریم کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو آپ پر ایمان لائے بلکہ ہر انسان قرآن کریم کا مخاطب ہے.پس بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی یہ کہا گیا ہے کہ خدا کا کہا مانو گے تو کامیاب ہو گے ورنہ نہیں ہو گے.گذشته قریباً چودہ سو سال سے ہی یہ نظر آتا ہے کہ کچھ لوگ خدا کا کہا مانتے اور شریعت اسلامیہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لوگ کہا نہیں مانتے اور قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے.ان میں سے کچھ تو اس لئے عمل نہیں کرتے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان ہی نہیں لاتے اور کچھ اس وجہ سے عمل نہیں کرتے کہ ایمان لانے کے بعد بھی وہ اُن طاقتوں کی چالوں میں آ جاتے ہیں جو کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی پر اُبھارتی ہیں اور وہ قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سچی اور حقیقی کامیابی اسے ہی نصیب ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے.کچی اور حقیقی کامیابی کو پرکھنے کے لئے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انسانی زندگی کی مدت کیا ہے؟
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۴۰ سورة الرعد بعض لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کے آرام اور عیش کے مل جانے کے نتیجہ میں حقیقی کامیابی حاصل ہوتی ہے قطع نظر اس کے کہ ان کو اس دنیا کا عیش و آرام ملتا بھی ہے یا نہیں.لیکن چونکہ یہ مفروضہ کہ اس زندگی کے ساتھ انسانی حیات ختم ہو جاتی ہے، غلط ہے.اس لئے اگرا بدی زندگی میں جو موت کے بعد انہیں حاصل ہوتی ہے وہ ناکام رہیں تو اس دنیا کی ان کے نزدیک ان کی کامیابی کا میابی تو نہیں کہلاسکتی لیکن سوچنے والی سمجھ اور فراست جانتی ہے کہ اس دنیا میں بھی حقیقی کامیابی ان کو نہیں ملتی جو خدا کی طرف پیٹھ پھیر کر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور شیطانی اعمال کی طرف متوجہ رہتے اور اُن پر کار بند ہوتے ہیں.مثلاً اس دنیا میں جو ہماری آج کی دنیا ہے اس میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قو میں جو کہ دنیوی ترقیات کی چوٹی پر پہنچی ہوئی ہیں امریکہ اور روس اور پھر چین اور یورپین ممالک ہیں یعنی انگلستان اور جرمنی اور فرانس وغیرہ وغیرہ لیکن بحیثیت قوم جب ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور جب ان سے بات کی جائے تو جس نتیجہ پر ہم پہنچتے ہیں وہ بھی اس کا انکار نہیں کرتے ) کہ باوجود مادی ترقیات کے انہیں سکونِ قلب حاصل نہیں اور باوجود دنیوی لحاظ سے اس قدر آگے بڑھ جانے کے وہ اندھیرے میں اُس چیز کی تلاش میں پھرتے ہیں کہ جو ان کے دل کے اطمیان کا باعث بن سکے.اس دورہ میں بھی اس مضمون کے متعلق میں نے بیسیوں سے باتیں کیں اور سب نے یہی کہا کہ یہ آپ درست کہتے ہیں ہمیں اطمینان قلب حاصل نہیں ہے.جو لوگ صاحب اقتدار ہیں جن ہاتھوں میں اُن قوموں کی لگام ہے ان کی پریشانیاں تو خدا کی پناہ، اللہ محفوظ رکھے اس قدر ہیں کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.آپس کی چپقلش ، بے اعتباری، بدظنی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے ان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں.پھر حوادثات بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے.ابھی پچھلے مہینوں میں جبکہ میں دورے پر رہا ہوں پہلے وہاں پانی کی کمی ہوگئی اور انگلستان جیسے ملک میں جہاں یہ حال تھا کہ جب میں پڑھا کرتا تھا تو ان دنوں میں اگر کسی دن دو تین گھنٹہ کے لئے سورج نظر آتا تھا تو لوگ بڑے خوش ہوتے تھے کہ سورج کی شعاعوں نے ہمیں گرمی اور لذت پہنچائی وہاں اب یہ حال تھا کہ ہفتوں بلکہ مہینوں گزر گئے کہ بارش نہیں برسی بلکہ بہت سے علاقوں میں بادل دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا.یہاں تک کہ انگلستان کے بعض حصوں میں پانی کا راشن کر دیا گیا اور وہ یہ سوچ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۱ سورة الرعد رہے تھے کہ اگر مہینہ دو مہینے یہی حالت اور رہی تو ہم جہازوں کے ذریعہ، ٹینکرز کے ذریعہ ناروے سے پینے والا پانی اپنے ملک کے لئے لے کر آئیں گے.درخت جل رہے تھے، لوگوں نے گھروں میں جو پودے لگائے ہوئے تھے وہ سوکھ رہے تھے اور ہدایت یہ تھی کہ ان پودوں کو پانی نہیں دینا کیونکہ پانی کی کمی ہے اور پھر جب میں واپس آیا ہوں تو بارش ہوئی اور بارش وہ ہوئی کہ یہ خبریں آنے لگیں کہ فلاں علاقے میں سیلاب آ گیا ہزار ہا آدمی بے گھر ہو گئے، مکان بہہ گئے ، پانی کا جو ریلہ آیا وہ پورا مکان کا مکان ہی بہا کر لے گیا کئی جانیں تلف ہوئیں اور نقصان ہو گیا.پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کا حکم ماننے کے لئے تیار نہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی فلاح اور کامیابی اور خوشحال زندگی کے لئے جو تعلیم بھیجی ہے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اس لئے اپنے ہاتھ سے بھی وہ اپنی ناکامیوں کے سامان پیدا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بیدار کرنے کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کے منہ اور تو جہ کو پھیرنے کے لئے انہیں گاہے گاہے جھنجھوڑتا بھی رہتا ہے جیسا کہ اس کی سنت ہے.یہ بات کرتے ہوئے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے پیاروں کے ذریعے سے اور اب اس زمانہ میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے نہایت ہی پیارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنی رحمت کے سامان پیدا کرتا ہے.ایک دفعہ قحط پڑا.مدینہ میں بعض صحابہ نے جمعہ کے وقت کہا کہ یا رسول اللہ ! قحط پڑا ہے، چارے بھی خشک ہو گئے ہیں، جانور بھی تکلیف میں ہیں اور انسان بھی تکلیف میں ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرے اور اپنی رحمت کی بارش نازل کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ابھی جمعہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بارش شروع ہو گئی.بارش ہوتی رہی اور سات دن زمین خوب سیراب ہوئی.اگلے جمعہ میں پھر کھڑے ہو گئے کہ یا رسول اللہ بارش تو زیادہ ہو گئی ہے اب ہمیں بارش کی زیادتی نقصان پہنچا رہی ہے.یارسول اللہ ! دعا کریں کہ بارش تھم جائے.آپ نے دعا کی اور بارش تھم گئی.اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سے اس علاقے میں آپ کی صداقت اور آپ سے اپنے پیار کا ایک نشان ظاہر کرنا تھا چنانچہ اس طرح لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰی کے مطابق ان کی کامیابی اور فلاح کے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے اور اب مہینوں انگلستان پانی کے لئے تڑ پتار ہالیکن اسے پانی نہیں ملا اور جب
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۴۲ ورة الرعد پانی ملا اور اس کی زیادتی ہو گئی تو اس پانی کو بند کرنے کے لئے اور اس میں مناسب توازن قائم کرنے کے لئے ان کو کوئی سہارا نہیں ملتا تھا.وہ لوگ اسی چکر میں رہتے ہیں.میں نے تو ایک چھوٹی سی مثال دی ہے ورنہ ان کی ساری زندگیاں ہی اسی چکر میں ہیں.شراب کے نشے میں اپنے دکھوں کو بھولنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.وہ شراب جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيطن ( المائدة : 91 ) کہ یہ شیطانی عمل کی گندگی ہے اور وہ خدا کی طرف جھکنے کی بجائے ذکر اللہ کی بجائے شیطانی عمل کی طرف جھک کر اپنے لئے سکون قلب تلاش کرتے ہیں لیکن دکھ کا بھول جانا تو اطمینان قلب نہیں کہلا سکتا کہ جی ہمیں یاد نہیں رہا.جیسے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو اور درد میں تڑپ رہا ہو اسے ڈاکٹر افیم کا مارفیا کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں اور بے حس کر دیتے ہیں لیکن بے حسی سکون قلب اور خوشحالی کی علامت نہیں.بے حسی خواہ کسی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہو ٹیکہ لگانے کے نتیجہ میں یا شراب پینے کے نتیجہ میں وہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان تکلیف میں ہے لیکن اس کو کوئی مداوہ نظر نہیں آتا، اس کو کوئی چارہ نظر نہیں آتا.وہ خود کو بے حس اور بے ہوش کر کے یا نیم بے ہوشی اپنے اوپر طاری کر کے تکلیف کا احساس دور کرنا چاہتا ہے کیونکہ تکلیف کو دور کرنے کا کوئی سامان اس کے پاس نہیں ہے.خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۵۷ تا ۵۶۰) آیت ۲۳ وَ الَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَ يَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَبِكَ لَهُم عُقْبَى الدَّارِ اس آیت کریمہ میں ایک بنیادی بات بتائی گئی ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کے ہرلمحہ سے ہے اور وہ یہ ہے.وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثابت قدمی سے کام لیا.یہ جو وفا اور ثبات قدم ہے اس کا تعلق انسانی زندگی کے، فردی زندگی کے کسی خاص وقت کے ساتھ نہیں.صبح کے ساتھ نہیں کہ ظہر کے ساتھ نہ ہو اور ظہر کے ساتھ نہیں کہ شام کے ساتھ نہ ہو.زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں خرچ ہو ، اسے اس آیت کی روشنی میں ثبات قدم کہا
۳۴۳ سورة الرعد تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث جائے گا تو جو استقامت کے ساتھ ثبات قدم کی جو راہ ہے، وفا اور استقامت کا جو اُسوہ ہے اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزاریں گے.انہیں الدار جو جنت انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے.جب وہ اپنے بندے سے راضی اور خوش ہو جاتا ہے.اس جنت کا بھی بہترین بدلہ ملے گا.جنت میں جانے والے کم درجہ کے متقی اور درمیانے درجہ کے متقی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان بھی ہے اور ہر استعداد کے لوگ ترقی کرتے چلے جائیں گے.اس واسطے وہاں بھی درجات ہیں وہاں بھی ترقیات ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جنت میں مرنے کے بعد جو زندگی ہے وہ ایک علمی زندگی ہے وہاں عمل اور مجاہدہ نہیں.یہ تصور اسلام نے ہمارے سامنے پیش نہیں کیا.اسلام کہتا ہے کہ مرنے کے بعد جو زندگی ہے اس میں عمل بھی ہے، مجاہدہ بھی ہے، کوشش بھی ہے لیکن امتحان نہیں.یعنی یہ خطرہ نہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد کسی امتحان میں ناکام ہونے کی وجہ سے انسان کو باہر بھی نکالا جاسکتا ہے لیکن اس زندگی میں یہ خطرہ ہر آن موجود ہے.اسی وجہ سے کہا گیا کہ دعا کرتے رہو کہ خاتمہ بالخیر ہو کہ مرتے دم تک انسان اس راہ پر چل رہا ہو.جو راہ اللہ تعالیٰ کو پسند اور پیاری ہے جو راہ اس کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے.تو بنیادی چیز جو یہاں بتائی گئی وہ ثبات قدم پر قائم رہے.صبر سے کام لیا اور استقامت دکھائی.اس کے بعد جو باتیں بتائی ہیں ان کا تعلق بھی اسلامی شریعت کے سب احکام کے ساتھ ہے.بنیادی بات، اس صبر کی کوشش کے بعد یہ ہے کہ اقاموا الصلوۃ اللہ تعالیٰ نے فرما یا حکم تو ہے میرا کہ میری رضا کی طلب میں ثابت قدم رہو لیکن اپنی کوشش سے ایسا کرنا تمہارے لئے ممکن نہیں.اس لئے نماز کو اور دعا کو مضبوطی سے پکڑ و اقامُوا الصَّلوة - الصلوة کے معنی فرض نمازیں، جو ہم پڑھتے ہیں پانچ وقت دن میں اپنی شرائط کے ساتھ وہ بھی ہے اور الصلوۃ کے معنے دعا کے بھی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو پانچ وقت کی نماز ہے وہ تو ہر وقت کی دعا کے لئے ستون کا کام دیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے خالی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میری رضا کی طلب میں ثابت قدم رہنا چاہتے ہو تو محض اپنے زور پر، اپنے اعمال پر، اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ کرنا تمہیں ثبات قدم کے لئے میری مدد کی ضرورت ہے.اس کے لئے مجھ سے دعائیں مانگو تا کہ جو تمہیں میں دینا چاہتا ہوں تمہاری زندگیوں میں تم اس کو حاصل کر لو.
۳۴۴ سورة الرعد تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دوسری بات یہ بتائی کہ ثبات قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں جو ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم کے ہر حکم کے پابند ر ہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں نماز پڑھ لی مسجد میں آئے، یہ کافی ہے.بعض لوگ میرے علم میں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں آکر لمبے لمبے نوافل پڑھ لئے اور لوگوں کی نظر میں آگئے بزرگ بننے کے لئے یہ کافی ہے.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کے روزے بھی رکھ لئے اس کے ساتھ تو پھر تو کوئی شبہ نہیں رہا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر وہ فضل نازل کرے گا جو ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں صبر اور ثبات قدم کا نمونہ دکھاتے ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز اور روزے کے ساتھ اگر حج ہو جائے ، اگر میں زکوۃ دے دوں تو یہ کافی ہے.یہ نہیں.قرآن کریم نے سات سو سے زیادہ احکام بیان کئے جو ہماری زندگیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم قیامت کے دن تم سے سوال کرے گا تمثیلی زبان میں بات کی، کہ آیا تم قرآن کریم پر عمل کرتے رہے ہو یا نہیں ؟ قرآن کریم نے صرف یہ نہیں کہا کہ نمازیں پڑھو، دعائیں کرو، روزے رکھو، حج کرو، زکوۃ دو، قرآن کریم نے صرف یہی نہیں کہا کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ: ۴) کہ جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے اس میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق خرچ کرو.اتنا بھی نہیں یعنی سارے احکام کی پابندی بھی کافی نہیں اس کے لئے بھی ایک شرط لگا دی.وَيَدرَرُونَ بِالْحَسَنَةِ الشَّيْئَةَ تمہیں دیا تو الحَسَنَةِ گیا ہے لیکن - تمہارے اوپر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس حسنہ کے ذریعے فسادنہ پیدا ہو بلکہ برائی اور فساد اور فتنے کو دُور کرنے والے ہو تم.قرآن کریم نے صرف یہ جو موٹی موٹی چیزیں ہیں پانچ دس صرف ان کا حکم نہیں دیا.قرآن عظیم تو بڑی عظیم کتاب ہے، اس نے یہ بھی کہا ہے کہ میرے جیسی عظیم کتاب کو اتنی بلند آواز سے نہ پڑھو کہ کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے اس کی وجہ سے ہمسائے میں ایک بیمار پڑا ہے.رات کو اس کے شدید درد اٹھا (مثلاً) صبح تین بجے تک وہ تڑپتا رہا.دوائیاں اس کو دی گئیں.تین بجے اس کی آنکھ لگی اور ہمسائے اگر زور زور سے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دیں جس سے اس بیمار کی نیند خراب ہو.قرآن کریم کہتا ہے تم قرآن کریم تو پڑھ رہے ہو لیکن گناہ کر رہے ہو.قرآن کریم نے کہا ہے مجھے پڑھنا ہے تو علی مکث اس طریقے پہ پڑھو کہ کسی اور کے لئے تمہاری تلاوت تمہارا پڑھناوجہ تکلیف نہ بنے.قرآن کریم کہتا
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۳۴۵ سورة الرعد ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے بہت بڑا گناہ ہے لیکن جو شرک کا مرتکب ہونے والا ہے اس کو سزا دینا یا معاف کرنا یہ میرا کام ہے تمہارا نہیں ہے.تم نے ایک مشرک کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں پہنچانی.تو قرآن کریم کوئی معمولی کتاب نہیں.نہ پانچ دس باتوں پر اسے مشتمل سمجھا جا سکتا ہے کہ بس اسی پر مشتمل ہے یہ اور کوئی باریکیاں اور حسن اور نور اور وہ وسعت جس نے ہماری زندگیوں کا احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس میں نہیں یہ غلط بات ہے.زندگی اسلام میں ہو کر گزار جس کو ہم دوسرے لفظوں میں کہتے ہیں فنافی اللہ ہونا یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس کے ہر حکم کے سامنے سر جھکا دینا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام کے ایک معنی یہ ہیں کہ جس طرح ایک بکرا مجبوراً قصائی کی چھری کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتا ہے اسی طرح تم ، جبر سے نہیں بلکہ اپنی خوشی اور رضا سے خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی گردن رکھ دو اور اس کے بعد ایک نئی زندگی کو حاصل کرو اور اس کے بعد اوليكَ لَهُم عُقْبَى الدَّارِ میں جو وعدہ دیا گیا ہے اس کے وارث بنو.اس چھوٹی سی آیت میں دراصل اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کر دیا گیا.خدا تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑنا، وفا سے زندگی گزارنا ، ثبات قدم ہونا، کسی ایک حکم میں بھی اس کی ناراضگی مول نہ لینا.دوسرے یہ کہ ان چیزوں کے حصول کے لئے محض اپنی طاقت اور صلاحیت کو کافی نہ سمجھنا، محض اپنے اخلاص اور صحت نیت پر بھروسہ نہ کرنا بلکہ یہ جاننا سب کچھ کرنے کے بعد کہ میں نے کچھ نہیں کیا اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت میرے اعمال کے شامل حال نہ ہو اور وہ اپنی رحمت سے میرے اعمال کو قبول نہ کرے.اس وقت تک ان کی وہ جزا نہیں نکل سکتی جس کا وعدہ اس آیت میں کیا گیا.تیسرے یہ کہ جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی، مال دیا، دولت دی، اثر اور رسوخ دیا علم دیا اور فراست دی، ہزار باتوں میں مہارت کا ملکہ دیا، زندگی دی، اولا د دی.ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھنا اور ہر چیز سے سلوک اس حکم کے مطابق کرنا جو خدا تعالیٰ نے دیا اور سرًّا وَ عَلَانِيَةً احكام بجالا نا بڑا وسیع حکم ہے یہ انفاق یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بھی دیا، اس میں سے خرچ کرنا.بعض باتیں ہیں جو سرا کی جاتی ہیں بعض چیزیں ہیں جو علانیہ کی جاتی ہیں.بعض اعمال ہیں جو دونوں طرح کئے جاسکتے ہیں یعنی کبھی اعلانیہ کبھی مخفی طور پر.مثلاً تہجد ، تہجد کی نماز بنیادی طور پر سرا ہے تنہائی میں اپنے محبوب
۳۴۶ سورة الرعد تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اللہ کا اظہار کرنا خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرنا، اس کی حمد کرنا، کسی کو دکھ نہیں پہنچانا، کسی کو ستانا نہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک رات گشت کی مدینے کی.اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تم تہجد بہت اونچی آواز سے پڑھ رہے تھے.یہ کیوں ہے.انہوں نے عرض کی کہ میں اس طرح اپنے شیطان کو درے مار رہا تھا قرآن کریم سے بھاگتا ہے وہ.آپ نے کہا نہیں اس طرح اتنی اونچی آواز سے نہیں پڑھنا.آواز اتنی ہونی چاہیے بالکل خاموش بھی نہیں ، یہ یادرکھیں تہجد کی نماز کے متعلق یا اور دعا ئیں جو آدمی کرتا ہے تنہائی میں اس کے متعلق بنیادی حکم یہ ہے کہ نہ بالکل دل میں کرو دعا کہ اپنے کان تک بھی آواز نہ آئے خیال ہی خیال میں رہے، یہ صحیح ہے کہ خدا تعالیٰ کو دلوں کا حال معلوم ہے وہ جانتا ہے تمہارے دل میں کیا خیالات دعائیہ گزررہے ہیں.اسی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ سوال کیا آپ نے کہ اتنی آہستہ کیوں پڑھ رہے تھے کہ آواز ہی نہیں نکلی منہ سے.آپ نے عرض کی خدا تعالیٰ تو دلوں کا حال جاننے والا ہے اس کے سامنے اونچی بولنے کی کیا ضرورت ہے.آپ نے کہا ٹھیک ہے، اس کے سامنے تو اونچی بولنے کی ضرورت نہیں مگر تمہیں اتنا اونچی ضرور بولنا چاہیے دُعا کے وقت کہ تمہارے اپنے کان تک تمہاری آواز پہنچ جائے.اب میں نے تین دفعہ الحمد للہ کہی تو میرے اپنے کانوں نے بھی نہیں سنی آپ نے بھی نہیں سنی یہاں اور اگر میں اس طرح کہوں گھر میں لاؤڈ سپیکر تو کوئی نہیں لگا ہوا الْحَمْدُ لِلَّهِ ، الْحَمْدُ لِلهِ ، الْحَمدُ لِلهِ ( آہستہ آواز میں.ناقل ) میرے کان نے سن لی ہے اور اگر وہاں لاؤڈ سپیکر نہیں ہے تو آپ کے کان یا میرے پاس بیٹھا ہوا بھی نہیں سُن سکے گا جہاں بیچ میں ایک دیوار آ گئی وہ بھی نہیں سُن سکے گا.اپنے گھر کے جو چھوٹے بچے ہیں وہ ڈسٹرب (Disturb) نہیں ہوں گے تو وہ دعا ئیں جو تنہائی میں کی جاتی ہیں.ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ وہ سدا ہوں خصوصاً تہجد کی نماز اونچی اونچی نہ ہو.اس میں بعض استثنا ہیں.مثلاً رمضان کے مہینے میں لیکن وہ جو ہم تراویح کی شکل میں نوافل پڑھتے ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے پتا لگتا ہے کہ گھر میں پڑھنا زیادہ اچھا ہے لیکن بعض کمزور لوگ چونکہ گھروں میں نہیں پڑھ سکتے ان کو اس نیکی سے رمضان میں محروم کرنا پسند نہیں کیا گیا.اس لئے ان کے لئے تراویح مقرر کر دی گئیں ورنہ تہجد گھر کی نماز ہے.خاموشی کی نماز ہے اور میں نے بتایا اصل تو بنیاد ہے صبر اور رضاء باری یعنی ثابت قدم رہنا اللہ تعالیٰ کی
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۷ سورة الرعد رضا کی طلب میں.اس کے لئے ایک تو یہ کہا کہ دعائیں کرو اس کے بغیر تمہیں ثبات قدم نہیں مل سکتا.دوسرے یہ کہا کہ ایک آدھ چیز نہیں بلکہ ہر وہ طاقت اور صلاحیت اور قابلیت اور ہنر جو تمہیں دیا گیا ہے یا دولت یا مال یا اقتدار یا فراست کے نتیجے میں شہرت جو تمہیں ملی ہر چیز کو تم نے خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق خرچ کرنا اور استعمال کرنا ہے.اور تیسرے یہ کہا کہ وَيَدْرَرُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ یہ نیکی کے کام ہیں.نیکی کے کام کو اس طرح نہ کرو کہ اس کے نتیجہ میں فتنہ وفساد پیدا ہو بلکہ اس طرح کرو کہ جس کے نتیجے میں فتنہ اور فساد اور برائی اور ستیہ جو ہے اس کا علاج ہو جائے اور دُور ہو وہ.اور ان ساری باتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا اگر اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اپنے فضل اور رحمت سے کہ ہم اس کی رضا کے لئے اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں کہ أُولبِكَ لَهُم عُقْبَى الدَّار اپنی اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق جو کام کئے ہوں گے اور مقبول ہو جائیں گے وہ.اس کے مطابق ہمیں مقام مل جائے گا جنت میں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۱ تا ۳۶) اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد کی اس آیت میں بعض بنیادی تعلیمات کا ذکر فرمایا ہے.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ مومن اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثبات قدم دکھاتے ہیں اور ان میں استقامت پائی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور الصلوۃ کو ادا کرتے ہیں اور اسے قائم رکھتے ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ بھی عطا کیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں سرا وَ عَلَانِيَة یعنی اس رنگ میں بھی خرچ کرتے ہیں کہ ان میں ریا کا کوئی شائبہ پیدانہ ہو اور اس طور پر بھی کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ اور اُسوہ بنیں اور جب بدی کے ساتھ ان کا مقابلہ ہو تو وہ بدی کے مقابلہ میں بدی نہیں کرتے بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں لَهُم عُقْبَى الدَّارِ کہ جن کا انجام بہترین ہوتا ہے.اگلی آیات میں اس دار کا ذکر ہے اور ان جنات کو بیان کیا گیا ہے جن کا کہ وعدہ دیا گیا ہے.انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ جب اسی کی راہ میں اسے خرچ کرتا ہے تو اس میں اس کے اوقات بھی آ جاتے ہیں، اس میں اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی آجاتی ہیں اس میں اس کی جسمانی قوتیں بھی آجاتی ہیں اس میں اس کی اخلاقی طاقتیں بھی آجاتی ہیں اور اس میں اس کی روحانی
۳۴۸ سورة الرعد تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث استعدادیں بھی آجاتی ہیں جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے مومن اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور ثبات قدم دکھاتے ہیں اور آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ان کے اعمال، جب ان کی کوششیں، جب ان کی جد و جہد مقبول ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جاتا ہے تو انہیں زیادہ سے زیادہ انعام حاصل ہوتے ہیں.جو کچھ مومن خرچ کرتے ہیں اس میں ان کے اموال بھی شامل ہیں.خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کا خرچ ایک تو یہ ہے کہ کسی ایسی راہ میں یا کسی ایسے طریق پر یا کسی ایسی جگہ مال کو خرچ نہ کیا جائے جو خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو مثلاً اسراف نہ ہو یا مثلاً ایسی بداخلاقیوں پر یا عیاشیوں پر یا دنیا کی معیوب مسرتوں پر جو دنیا خرچ کرتی ہے اس قسم کا خرچ نہ ہو کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں نہیں ہے اور یہاں پر اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ہی ساری باتوں کا ذکر ہے.اسی واسطے اس آیت کو شروع ہی خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں ثبات قدم دکھانے کے مضمون سے کیا گیا ہے.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۶۷، ۳۶۸) آیت ۲۹٬۲۸ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِى إِلَيْهِ مَنْ آنَابَ الَّذِينَ امَنُوا وَ تَطْمَبِن قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ.ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پکڑتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَهْدِى إِلَيْهِ مَنْ آنَابَ خدا تعالیٰ ہدایت کی راہیں اُن لوگوں پر کھولتا ہے جو اُس کی طرف جھکتے ہیں اور اُس سے تعلق قائم کرتے ہیں.الَّذِینَ آمَنُوا جو لوگ دل سے ایمان لاتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار کرتے ہیں اور ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں.وَ تَطْمَبِن قُلُوبُهُم بذکر اللہ اور اُن کی ساری کی ساری زندگی ثابت کرتی ہے کہ اُن کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہیں.اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ الْقُلُوبُ اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے انسانی قلوب اطمینان اور تسکین خوشی اور مسرت کی کیفیت محسوس کرتے ہیں.دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں اور لوگوں کے ایسے گروہ ہیں جو دُنیوی لحاظ سے بہت ترقی
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۴۹ سورة الرعد یافتہ سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ہم ان کی زندگیوں پر غور کرتے ہیں تو اُن کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہمیں اطمینان کا فقدان نظر آتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ انہیں دنیا سے بہت کچھ ملا لیکن ان کو اطمینان قلب حاصل نہیں ہوا اور وہ اس کی تلاش میں ہیں.اگر انسان سوچے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یا د ہی انسان کو مطمئن کر سکتی ہے اور اس کے دل میں اطمینان پیدا کر سکتی ہے.انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے تسکین قلب حاصل ہو سکتی ہے.ایک دوسری جگہ انسانی زندگی پر نماز اور نماز با جماعت کے اثرات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ (العنکبوت : ۴۶) یہ جو خدا تعالیٰ کا ذکر ہے سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مؤثر نیکی ہے.خدا تعالیٰ کا ذکر سب سے زیادہ قائل کرنے والی چیز ہے.خدا سے دُوری کی لعنت سے بچانے والی چیز ہے.ذکر کے معنے ہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا.اللہ تعالیٰ کو یاد کر نے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات نازل ہوتے ہیں ہم اُن پر غور کریں.ہم اپنی بے کسی کو سامنے رکھیں اور اس کی نعمتوں پر توجہ دیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا ہے.ہماری زندگی کی کوئی ایک بھی ساعت ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہم پر نازل نہ ہو رہی ہو.ایک یا دو رحمتوں کا سوال نہیں بلکہ ہر آن اور ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں اور میں یہ جو کہتا ہوں کہ ہر گھڑی اور ہر آن بے شمار رحمتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس میں میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا.یہ ایک حقیقت ہے جس کی وسعتوں کا ہمارے الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے حقیقت اس سے بھی زیادہ ہے جتنی ہم بیان کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۳۴۳، ۳۴۴) پس محدود اختیار ہے اور محدود اختیار میں انسان کے لئے دو راستے کھلے ہیں ایک وہ راستہ ہے جو جہنم کی طرف لے جانے والا ہے اور ایک وہ راستہ ہے جو خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف لے جانے والا ہے.جو راستہ خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف لے جانے والا ہے وہ امن کا راستہ، وہ سلامتی کا راستہ، وہ اطمینان قلب کا راستہ، وہ تسکین قلب کا راستہ ہے.اسی واسطے مومن جو خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق رکھنے والا اور اس کی صفات کو سمجھنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ الا بِذِكْرِ اللهِ تَبِنُ الْقُلُوبُ - ذكر الله کے نتیجہ میں
۳۵۰ سورة الرعد تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اطمینان قلب حاصل ہو سکتا ہے اور مومن اسے حاصل کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی جماعتوں پر کشائش اور فراخی اور خوشی اور دنیوی اعتبار سے مسرتوں کے دن بھی آتے ہیں اس وقت بھی وہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی جماعتوں پر امتحان کے دن بھی آتے ہیں، آزمائش میں سے بھی ان کو گذرنا پڑتا ہے اور وہ خدا کے لئے اس آزمائش کو مسکراتے چہروں کے ساتھ سہہ جاتے ہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتے ہیں.یہ آزمائش دنیا کی نگاہ میں سختی کے دن ہیں لیکن مومن کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کے قرب کو زیادہ حاصل کرنے کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کو زیادہ حاصل کرتا ہے مومن.الا بذكرِ اللهِ تَطْمَينُ الْقُلُوبُ لغت عربی ذکر کے معنی کرتے ہوئے یہ بیان کرتی ہے کہ ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور دل کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے.زبان سے ذکر کرنے کے لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا ورد کرو، خدا تعالیٰ کی تقدیس کرو تحمید کرو، اس کی حمد کرو.اسے ہر نقص سے پاک قرار دو.زبان کے ساتھ اقرار کرو، اپنے نفس کے سامنے بھی اور دنیا کے سامنے بھی کہ جس اللہ پر ہم ایمان لائے ہیں وہ قدوس ذات ہے.وہ ہر قسم کے نقص اور عیب اور کمزوری اور بُرائی سے پاک ذات ہے.کسی قسم کی کمزوری اور برائی ہمارے اللہ کی طرف منسوب ہی نہیں ہو سکتی اور ہر قسم کی تعریف کا سرچشمہ بھی وہی ہے یعنی جہاں کہیں کسی اور میں ہمیں کوئی تعریف کے قابل چیز نظر آتی ہے اس کا سر چشمہ اور منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور تمام محامد کا مرجع اس کی ذات ہے.ہر حمد خدا تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة: ۲) ہم یہ ور بھی کرتے ہیں لیکن یہ جو ورد ہے یہ انسان کی محدود زندگی میں مزید حد بندیوں کے اندر بندھا ہوا ہے مثلاً ایک استاد ہے وہ کلاس میں ٹیچر دے رہا ہے اس وقت وہ سُبحان اللہ اور الْحَمدُ لِلہ کا ور نہیں کر سکتا لیکن اس کے دماغ کا ایک پہلو ایسا ہے جو اس محدود زندگی میں اس قسم کی حدود کے اندر بندھا ہوا نہیں اور وہ ہے ذکر بالقلب یعنی دل کے ساتھ ، اپنی فراست کے ساتھ ، اپنے ذہن کے ساتھ ، اپنے مائنڈ (Mind) کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہنا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننا اور اس کی صفات کی معرفت رکھنا اور خدا تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق کو قائم کرنا، خدا تعالیٰ سے یہ تعلق بغیر کسی ایسی وجہ کے رکھنا جس کا تعلق مادی نعمتوں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی انسان پر بے شمار مادی نعمتیں ہیں لیکن ان واسطوں کے ساتھ نہیں بلکہ بلا واسطہ تعلق قائم کرنا.امام راغب کو خدا تعالیٰ نے بڑا بزرگ دل اور بڑا صاحب فراست دماغ
۳۵۱ سورة الرعد تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دیا تھا.انہوں نے ایک جگہ ذکر کے سلسلہ میں عربی کے معنی بتاتے ہوئے بنی اسرائیل اور امت محمدیہ میں مقابلہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو یہ کہا گیا کہ میری نعمتوں کو یاد کرو اور میرا ذکر کرو اور امت محمدیہ کو کہا گیا کہ میرا ذکر کرو وہاں نعمتوں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ میرا ذکر کرو میں تمہیں اس کا بدلہ دوں گا اور یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے.ذاتی تعلق تو پہلوں نے بھی اپنے ربّ سے رکھا لیکن جس رنگ میں امت محمدیہ کو مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اپنے پیارے رب سے ذاتی تعلق رکھنے کی توفیق ملی وہ پہلی امتوں کو نہیں ملی.خدا سے ذاتی تعلق کے لحاظ سے امت محمدیہ اور پہلی امتوں میں ایک بہت بڑا فرقان تمیز پیدا کرنے والا ہے کہ کچھ ہو جائے، زمین و آسمان تہہ و بالا ہو جائیں، دنیا کے لحاظ سے زندگی اجیرن بن جائے یعنی لوگ یہ سمجھیں کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ تکلیف میں گزرنے والا ہے جیسا کہ شعب ابی طالب میں کم و بیش اڑھائی سال تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو اس طرح قید میں رکھا گیا کہ باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی نہیں جاسکا.خدا تعالیٰ نے ایسا سامان تو پیدا کیا گو تاریخ نے ہمیں نہیں بتایا کہ وہ کیا سامان تھا لیکن بہر حال ایسا سامان پیدا کیا کہ ان کو بھوکا نہیں مارا ، مگر انتہائی تنگی کے زمانہ میں سے وہ گذرے لیکن ان کے چہروں کی مسکراہٹیں تو نہیں چھینی گئی تھیں، اس زمانہ میں انہوں نے اپنے رب سے اپنا تعلق تو قطع نہیں کر لیا تھا.اس کو کہتے ہیں تعلق ذاتی، خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت کا تعلق رکھنا اور یہ قلب کے ساتھ ہے.انسان کا دل سوچتا ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے جو اس جہان کو پیدا کیا اس عالمین کو پیدا کیا اس کے مختلف پہلوؤں پر جب انسان نظر رکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے اور کہتا ہے علی وجہ البصیرت کہتا ہے کہ میرے رب نے کسی چیز کو بے مقصد نہیں پیدا کیا.يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَ رضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(ال عمران : ۱۹۲) کہ تو پاک ذات ہے تو نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی.مومنوں پر الہی سلسلوں پر جو ابتلا آتے ہیں وہ بھی بے مقصد نہیں وہ ان کو مارنے کچلنے اور ہلاک کرنے کے لئے تو نہیں آیا کرتے ، وہ ان کی شان ظاہر کرنے کے لئے وہ ان کی روحانی ترقیات کے لئے ، وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے زیادہ حصول کے سامان پیدا کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں.وہ بے مقصد نہیں ہیں ان کا مقصد ہے اور بڑا عظیم مقصد ہے.بڑا حسین ج
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۵۲ سورة الرعد مقصد ہے.بڑا پیارا مقصد ہے.مومن یہ سوچے گا کہ ایٹم کی طاقت بے مقصد نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے مقصد اصولی طور پر قرآن کریم میں یہ بتایا ہے کہ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثيه: ۱۴) کہ بلا استثنا ہر چیز کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ایٹم کی طاقت کا بھی یہی مقصد ہے لیکن جنہوں نے ایٹم کی طاقت کو نکالا وہ اس کا استعمال کچھ حد تک صحیح بھی کر رہے ہیں اور بہت حد تک غلط بھی کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں.ایسے مہلک ہتھیار بنالئے ہیں.ایک مومن کا دماغ کہے گا کہ ایٹم کا یہ مقصد تو نہیں کہ جو چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے وہ اس کی گردن اڑا دے وہ تو انسان کے فائدے کے لئے ہی استعمال ہونی چاہیے لیکن جو خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت نہیں رکھتے جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتے نہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق نہیں وہ بہکتے ہیں اور دنیا کے لئے تکلیف کا اور دُکھ کا سامان پیدا کرنے میں کوئی حجاب اور جھجک نہیں محسوس کرتے.ان میں سے بعض کو دوسروں کو تکلیف پہنچانے میں لذت محسوس ہوتی ہے..............جو شخص خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے.اس کے لئے چین اور سکون اور اطمینان کی زندگی مقدر ہو جاتی ہے.ہم صرف اپنے لئے سکھ نہیں چاہتے بلکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ساری دنیا کو اطمینان اور سکھ پہنچانے کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام کیا گیا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں.اس معنی میں کہ ہمارے دل بھی ذکر کر رہے ہوں اور ہماری زبانوں پر بھی اس کا ذکر ہو.اس معنی میں کہ ہمارا ذاتی تعلق اپنے رب کریم سے ہو.اس معنی میں کہ ہم اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق اس کی صفات اور اس کے اسمائے حسنہ کا عرفان رکھنے والے ہوں.ہمیں ان اسماء کی معرفت حاصل ہو ان کے مطابق ہم اپنی زندگیاں ڈھالنے والے ہوں.وہ رنگ ہم اپنے اعمال پر چڑھانے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کے محض انسان نہیں، خدا تعالیٰ کی مخلوق کے سکھ اور چین کا انتظام کرنے والے ہوں.اس لئے جماعت کو کثرت سے خدا تعالیٰ کے ذکر میں، دل کے ذکر میں بھی اور زبان کے ذکر میں بھی مشغول رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی آجاتا ہے دعا کرنا.انسان اپنے زور سے نہ خود اپنے لئے کچھ حاصل کر سکتا ہے نہ دنیا کے لئے کچھ حاصل کر سکتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو اس کی توفیق عطا نہ کرے ایسا نہیں ہوسکتا.پس کثرت
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۵۳ سورة الرعد سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے سکھ اور چین اور ان کی بھلائی اور خیر خواہی اور ان کے دکھ کو دور کرنے کے سامان پیدا کرے اور خدا تعالیٰ ہماری مجلسوں کو بھی ایسا بنا دے کہ ان کے نتائج اس (خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۵۸ تا ۶۲) عالمین کی بھلائی کے لئے نکلیں اور ظاہر ہوں.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنا ۳۵۵ سورة ابراهيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ابراهيم آیت ۸ وَإِذْ تَاذَنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيده جس مومن کا دل اس کے شکر سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور دور اس کے لئے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے لین شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ یعنی میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا.پس جب اللہ تعالیٰ کا انعام نازل ہوا اس لئے کہ اس نے ہماری حقیر سی کوشش کو قبول فرما لیا تو اس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوئے فرما یا لرزید لکم کہ میں تمہیں اور نیکیوں کی توفیق بخشوں گا.پھر اس کی وجہ سے اور شکر کے جذبات پیدا ہوں گے.گویا اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا.اسی تسلسل اور مخلصانہ نیت کی وجہ سے اُخروی زندگی محدود اعمال کے باوجود ابدی زندگی ہو جائے گی.(خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ ۶۲) جس مومن کا دل اس کے شکر سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور دور اس کے لئے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے لہن شكرتم لازيد لكُم یعنی میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا.آیت ۱۳ وَمَا لَنَا اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى ما اذيتُمُونَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین اصولی باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یہ کہ عقلاً صرف ایسی ہستی پر
۳۵۶ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تو گل کیا جا سکتا ہے ( کہ اس کے بغیر کوئی سہارا نہیں اور اس کی مدد سے کامیابی اور فلاح حاصل ہوگی اور عمل کے نتائج اچھے نکلیں گے ) جو ہمیں عمل کی راہیں بھی بتائے یعنی وہ شروع سے ہماری انگلی پکڑے.فرمایا وَمَا لَنَا اللَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا اللہ تعالیٰ جس نے ہماری انگلی پکڑی اور ہمیں ہدایت کی راہ یعنی صراط مستقیم پر چلایا اس پر ہم کیسے تو گل نہ کریں.دوسری بات اس آیت میں یہ بتائی کہ مخالف اور دشمن کی ایذارسانی پر صبر اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان نے کسی قادر ہستی کی انگلی پکڑی ہوئی ہو.اگر کوئی ایسا قابل اعتماد بھروسہ ہی نہ ہو تو انسان بے صبرا ہو جائے گا کیونکہ انتہائی دُکھوں میں ڈالے جانے کے بعد انتہائی تو کل وہی انسان کر سکتا ہے.(اور پھر تو کل ہی کے نتیجہ میں صبر پیدا ہوتا ہے) جسے یہ معلوم ہو اور جس کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ہستی ہے جس نے شروع ہی سے ہماری راہنمائی اور کامیابی کے سامان پیدا کر رکھے ہیں.ہماری استطاعت کے مطابق اور ہمارے ماحول کے لحاظ سے اور جو وقت کا تقاضا تھا اُسے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اگر ہم اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں گے، اُس کی ہدایتوں پر عمل کریں گے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم نا کام ہوں.غرض جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنی کمزوری اور اپنے گناہ اور اپنی بے مائیگی کا احساس انتہا تک پہنچتے ہوئے بھی ایک انتہائی قادر مطلق خدا پر اُس کا ایمان ہوتا ہے.اس کی صفات کی معرفت اُسے حاصل ہوتی ہے پھر جب وہ خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتا ہے تو غیر کی قائم کردہ روکیں اُسے ڈراتی نہیں.وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيتُمُونَنا میں مومنوں کی یہی صفت بتائی گئی ہے.اس آیت میں تیسری بات وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ ہے.اس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے نہ عقلاً نہ فطرتا، نہ شرعاً اور نہ مشاہدہ کے لحاظ سے کسی اور پر تو گل ہوسکتا ہے.ایسا ہو ہی نہیں سکتا.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ایک یہی صداقت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا.تو کل اُسی پر کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہی حقیقی سہارا ہے.پس وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ المُتوخون کی رو سے جس آدمی نے تو کل کرنا ہو خواہ وہ ایک فرد ہو یا قوم، جس کو بھی یہ احساس ہو کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا.مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہے.تو اس کی عقل بھی اُسے یہی مشورہ دے گی ، اُس کی فطرت کا بھی یہی تقاضا ہو گا اور بنی نوع انسان کی تاریخ کا بھی یہی نتیجہ نکلے
۳۵۷ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث گا کہ ایک ہی ہستی ہے جس پر تو کل کیا جا سکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے.ہم زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو دیکھنے والے اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.جس طرح بحیثیت فرداس نے ہمیں پیدا کیا ہے.اُسی طرح بحیثیت جماعت اُس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن اغراض کے لئے اُس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن راہوں پر وہ ہمیں چلانا چاہتا تھا وہ قد هَدنَا سُبُلَنَا کی رو سے واضح ہیں.اُس نے ہمیں اپنے راستے دکھائے ہیں.انسانی فطرت کے نئے تقاضے ہوتے ہیں.البتہ فطرت کے نئے تقاضے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسانی فطرت ہی بدل گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جو کچھ رکھا گیا تھا، اس کا استعمال بدل گیا کیونکہ انسان کی فطرت میں تھا دوسرے آدمی سے ہمدردی کرنا اور اس کے دُکھوں کا مداوا کرنا.اگر دنیا کے دُکھ بدل جائیں تو گو یا فطرت کے تقاضے بھی بدل گئے.پھر ایک نئے طریقے پر ، نئے دُکھوں کا نیا علاج سوچنا پڑے گا.پھر وقت کا تقاضا ہے.بدلے ہوئے حالات میں ہماری قربانیاں اور ہمارے خدمت کے طریق بدل جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اور اپنی محبوب جماعتوں کونئی راہیں بتاتا ہے اور انہیں نئے طریقے سکھاتا ہے.نئے نئے طریقوں سے انہیں ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱ تا ۳) آیت ۲۶۲۵ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِ أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ.یہ قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر ہے اَلَم تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أَكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبَّهَا وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَرُونَ.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ایک کلام پاک (یعنی قرآن کریم ) کی حقیقت کو بیان کیا ہے.یعنی وہ ایسا ( كَلِمَةً طَيِّبَةً ) ہے جس کی مثال ایک پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ متقی بناتا اور تقویٰ کی راہوں پر ثبات قدم عطا کرتا ہے اور اس طرح اس کی جڑ مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے.پھر اس سے
۳۵۸ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث شاخیں پھوٹتی ہیں جو اعتقادات صحیحہ ہیں یعنی انسان کے اعتقادات شاخوں کی شکل اختیار کرتے ہیں (تمثیلی زبان میں) جو اوامر ونواہی پر مشتمل ہے اور یہ وہ درخت ہے جس کی ہر شاخ آسمان پر جانے والی ہے اعمال صالحہ کے پانی سے پرورش پانے کی وجہ سے یعنی کوئی بدی والا حصہ اس کے اندر نہیں ہر شاخ جو ہے وہ صحت مند اور نشونما پانے والی ہے اور آسمانوں تک پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ جب تقویٰ کی جڑ مضبوط ہو اور اس جڑ سے نیکی کی اور پاکیزگی کی اور صلاح کی شاخیں نکلیں تو وہ شاخیں نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرتی ہیں اور روحانی بلندیوں تک پہنچتی ہیں بلکہ اس دنیا میں بھی (اُخروی زندگی میں تو ہوگا یہی ) ان شاخوں کو تازہ بتازہ پھل لگتا رہتا ہے جس سے انسان فائدہ حاصل کرتا ہے یعنی اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء انسان کو حاصل ہو جاتی ہے اور روح کو ہر لحظہ ایک لذت اور سرور حاصل ہوتا رہتا ہے ان پھلوں کے کھانے سے جن کا کھانا روحانی طور پر ہے لیکن جب تک وہ پھل نہ ملیں وہ خوش حالی حاصل نہیں ہو سکتی ، وہ لذت اور سرور حاصل نہیں ہوسکتا وہ پھل مل نہیں سکتے جب تک اعتقادات جو ہیں وہ صحیح نہ ہوں اور اعمال صالحہ ان کو سیراب نہ کریں اور تقویٰ کی جڑ سے نکل کر آسمانوں تک نہ پہنچیں.اسی صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ہمارے کسی فعل کو قبول کر لینا ہی اس کا پھل ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انسان کو اس کی رضا حاصل ہوتی ہے.پس ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے.جو شخص تقویٰ کی جڑ تو نہیں رکھتا لیکن بظاہر ہزار قسم کی نیکیاں بجالاتا ہے اسے فائدہ ہی کیا کیونکہ اس سے وہ شاخیں نہیں پھوٹ سکتیں جو خدائے رحمن تک پہنچتی ہیں نہ وہ پھل لگ سکتے ہیں جو پھل کہ دوسری صورت میں ان شاخوں کو لگا کرتے ہیں اور روحانی سیری کا موجب بنتے ہیں.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۶۹،۶۸) آیت ۳۲ قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمَ لَا بَيْعَ فِيْهِ وَلَا خِلكَ یہ آیت قرآنیہ جو میں نے اس وقت پڑھی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جب تمہارے تکبر، تمہارے فخر، تمہاری مبابات، تمہاری ریا، تمہارے نفاق، تمہاری
۳۵۹ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث منافقانہ اور فتنہ انداز باتیں ، نمازوں میں تمہاری ستیاں، دیگر اعمال بجالانے میں تمہاری غفلتیں غرضیکہ تمام کو تاہیاں اور خطائیں تمہارے بڑے اعمال کے بدنتائج تمہارے سامنے نہایت ہولناک شکل میں کھڑے ہوں گے اور تم میں سے ہر ایک یہ چاہے گا ( جب وہ اپنے اعمال کے بدنتائج کو اپنے سامنے دیکھے گا) کہ کاش اگر زمین بھر سونا بھی میرے پاس ہوتا ، تو آج میں اپنے رب سے یہ سودا کرتا کہ اے میرے رب! مجھ سے یہ سونا لے لے اور مجھے ان اعمال بد کے بڑے نتائج سے بچالے.تم میں سے بہت سے اپنے اعمال کے بڑے نتائج دیکھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ اگر تمام دنیا اور اس کی تمام چیزیں میرے پاس ہو تیں تو آج میں اپنے رب سے یہ سودا کرتا کہ ساری دنیا اور اس دنیا کی تمام چیزیں تو مجھ سے لے لے اور مجھے اس سزا سے بچالے جو مجھے اس وقت نظر آ رہی ہے کہ میرے گناہوں اور بدیوں اور برائیوں اور خطاؤں کے نتیجہ میں مجھے ملنے والی ہے.تم میں سے بعض اس سوچ میں ہوں گے کہ اگر دنیا و ما فیہا ہی نہیں بلکہ اتنی ہی اور چیزیں بھی ہمارے پاس ہوتیں تو ہم اپنے رب کے حضور اس سودا کی پیشکش کرتے کہ اے خدا یہ ساری دنیا اور اس کی ساری چیزیں اور اتنی ہی اور ہم سے لے لے لیکن ہمیں اپنے اس قہر کی نگاہ سے بچالے.جو تیری آنکھوں میں ہمیں چھلکتا نظر آ رہا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن کسی بیچ کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر تمہارے پاس یہ سب کچھ ہوتا بھی تب بھی تم خدا کے قہر سے اس دن بچ نہیں سکتے.وَلا خلل وہ دن ایسا بھی ہے کہ اس دنیا میں غلط راہ پر چلانے والے دوست اپنی دوستیاں چھوڑ جائیں گے شیطان جس کا کام ہی خدا کے بندوں کو گمراہ کرنا ہے وہ ایک کو نہ میں دبکا بیٹھا ہوگا اس کو اپنی فکر پڑی ہوئی ہوگی.اس وقت وہ اپنے چیلوں (اولیاء الشیطان) کی طرف توجہ نہیں دے سکے گا اور وہ غلط قسم کے مذہبی راہنما جو بعض دفعہ اس دنیا میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہارے جنت میں جانے کی ذمہ داری لیتے ہیں تم یہ کام کر دوان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور وہ اپنے منہ سے شفاعت کا ایک لفظ بھی نکالنے کی جرات نہیں کر رہے ہوں گے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا ایک دن تم نے دیکھنا ہے لَا بَيْعَ فِيْهِ وَلَا خلل اس دن نہ تو کوئی سودا ہو سکے گا اور نہ کسی کی دوستی کام آسکے گی وہ دن تو ایسا ہے جب خدا تعالیٰ جو مالک حقیقی ہے جب خدا تعالیٰ جو قادر حقیقی ہے جب خدا تعالیٰ جو رفعتوں اور عظمتوں کا مالک ہے اور جبروت حقیقی طور پر اس کی طرف منسوب ہوتی ہے.اس کی صفات کے جلوے اس میدان حشر میں اس طرح جلوہ فگن ہو رہے ہوں گے کہ انسان تو انسان فرشتے بھی لرز رہے ہوں گے.ہر ایک کو نظر آ رہا ہوگا کہ آج ہم اپنے مالک حقیقی رب کے
۳۶۰ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سامنے پیش ہیں.ہماری نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ ہمیں بخش دے وہ ہمیں اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے وہ ہم سے محاسبہ نہ کرے.کیونکہ اگر اس نے ہم سے محاسبہ کیا تو ہم یقیناً ہلاک ہونے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے محبوب رسول ! تو ان لوگوں پر جو تجھ پر ایمان لائے ہیں یہ بات کھول کر بیان کر دے کہ ایک دن ایسا بھی تمہیں دیکھنا نصیب ہے تم اس کے لئے تیاری کرو اور چونکہ خدا تعالیٰ رحیم ہے.اس لئے ہم اس دنیا میں انہیں وہ راہ بتاتے ہیں کہ جس راہ پر چل کر (اگر وہ خلوص نیت سے چلیں ) وہ حشر کے دن اس قسم کے عذاب سے بچ سکتے ہیں اور وہ راہ اللہ تعالیٰ یہ بتا تا ہے کہ اے میرے رسول تو میرے ان بندوں پر جو تجھ پر ایمان لا کر میرے حقیقی بندے بننے کی خواہش رکھتے ہیں یہ کھول کر بیان کر دو کہ وہ صلوة کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ قائم کریں.عربی زبان میں صلوۃ کے وہ معنی جو ہم سب سے پہلے اس قسم کی آیات میں کرتے ہیں.شریعت کے ہیں اس کے معنی اس نماز کے بھی ہیں کہ جو ہم ہر روز پانچ وقت ادا کرتے ہیں لیکن جہاں اس لفظ کے یہ معنی ہوں.وہاں سیاق و سباق سے اس کا پتہ لگ جاتا ہے لیکن جہاں سیاق وسباق سے اس بات کا پتہ نہ لگے کہ اس لفظ کے معنی اس نماز کے ہیں.جو ہم ہر روز پانچ وقت ادا کرتے ہیں وہاں اس کے پہلے معنی شریعت کے ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وہ اس شریعت کے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوئی ہے تمام احکام کو پوری شرائط کے ساتھ قائم کریں اور پوری شرائط کے ساتھ انہیں ادا کریں.پھر صلوۃ کے ایک معنی (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) اس نماز کے بھی ہیں جو ہم پانچ وقت ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہی یقیمُوا الصلوۃ وہ اس نماز کو بھی اس کی پوری شرائط سے ادا کریں.پھر صلوۃ کے تیسرے معنی دعا کے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ اگر تم شریعت کے قیام اور نماز کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنے میں محض اپنی طاقت پر توکل رکھتے ہو.تو یہ تمہارے لئے ممکن نہیں اگر تم شریعت کا قیام چاہتے ہو، اگر تم نماز کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا چاہتے ہو، تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم دعاؤں کے ذریعہ میری مدد کو حاصل کرو.جب تک تمہیں اللہ تعالیٰ تو فیق عطا نہ کرے تم اس وقت تک شریعت کو قائم نہیں کر سکتے تم اس وقت تک نماز کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے.اس لئے تم اپنے خدا سے اس کی تو فیق چاہو تم اس سے مدد اور نصرت مانگو.
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۶۱ سورة ابراهيم صلوۃ کے چوتھے معنی مغفرت چاہنے کے ہیں.ان معنوں کے رُو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے تم مجھ سے دعا کرو کہ اے ہمارے رب! ہم اپنی بساط کے مطابق تیرے احکام کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے لیکن تو نے شیطان کو کھلا چھوڑ رکھا ہے وہ بعض دفعہ ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور بعض دفعہ وہ ہمارے غیر کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس طرح ہمیں صراط مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور ہمارے اعمال میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.ہم اپنے زور سے تو اس سے بیچ نہیں سکتے اس لئے تو ہماری مددفرما اور ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ محض تیری خاطر تیرے احکام کو بجا لانے والے ہوں اور اس بجا آوری میں ہمیں دنیا، دنیا کی عزت یا دنیا کی کوئی وجاہت مطلوب نہ ہو پھر اے ہمارے خدا اگر ہم تیری توفیق پا کر اعمال صالحہ بجالائیں گے تو بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اندر کوئی رخنہ رہ جائے اور ایسا رخنہ رہ جائے.جس کا ہمیں بھی علم نہ ہو.اس لئے ہماری تجھ سے آخری استدعا یہ ہے کہ تو ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے تو ہماری کمزوری کو ننگا نہ کر تو ہمارے نگ کو ظاہر نہ کر.غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ اے میرے رسول ! تو ان لوگوں پر جو میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور تیرے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور شریعت قرآنیہ پر ایمان لاتے ہیں.یہ کھول کر بیان کر دے کہ وہ صلوۃ کو قائم کریں اور صلوۃ کے جو معنی ہیں وہ میں نے اس وقت آپ کے سامنے بیان کر دیئے ہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ يُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ یعنی وہ عطاء الہی کو رضاء الہی کی راہ میں خرچ کریں.اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس کو اس طرح خرچ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا انہیں حاصل ہو.رزق کے معنی میں ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو لینے والا ہے اس کی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ جب ہم تمہیں دینے لگے تھے.تو ہم نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ تمہاری ضرورتیں ( جو بھی ہیں ) پوری کرتے چلے جائیں.ہماری عطا اس رنگ کو اختیار کرے ہماری عطا اس شکل میں ہو کہ تمہاری طاقت اور استعداد اور قوت کی وجہ سے تمہاری جو ضرورتیں بھی ہوں.( جن کے بغیر تم ترقی نہیں کر سکتے ) ان کا خیال رکھا جائے اس لئے تم اب ان لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھو جنہیں اب تم دے رہے ہو........غرض وہ دن تمہیں پیش آنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس دن سے پہلے تم اپنے بچاؤ کے سامان کر
۳۶۲ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث لو کیونکہ اس دن تم سے کچھ نہیں ہو سکے گا اور تمہارا بچاؤ اس چیز میں ہے کہ قرآن کریم کی شریعت کو قائم کرو.تمہارا بچاؤ اس چیز میں ہے کہ خدا تعالیٰ کی عطا کو اس کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرو اور جب تم اپنے بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھائیوں والا سلوک کرو تو اس بات کا خیال رکھو کہ جس چیز کی انہیں زیادہ ضرورت ہے وہ چیز انہیں پہلے دی جائے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۶۴ تا ۵۶۸) یعنی میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں یا ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں کہہ دو کہ (نمازوں کو قائم کریں اور ) ہم نے انہیں بہت کچھ دیا ہے اور ہم نے جو بھی انہیں دیا ہے اس میں سے وہ ہماری راہ میں سرا وَ عَلَانِيَةً یعنی پوشیدگی میں بھی اور ظاہر میں بھی خرچ کریں اس مِنًا رَزَقْنهُمْ میں جیسا کہ احمدیوں کے سامنے یہ چیز بار بار آتی ہے صرف امول کی طرف ہی اشارہ نہیں بلکہ اوقات بھی اسی میں آجاتے ہیں استعدادیں بھی اس میں آجاتی ہیں اموال بھی اس میں آجانے چاہئے وہ غیر منقولہ ہوں یا منقولہ غرض اللہ تعالیٰ کی ہر عطا اس میں آجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں بہت کچھ دیا ہے اور جو بھی ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہماری راہ میں میرا یعنی خفیہ طور پر اور پوشیدگی میں خرچ کرو اور کچھ علانیہ یعنی ظاہر طور پر خرچ کیا کرو اور خرچ کی بہت سی راہیں ہیں اور ان میں سے مختلف راہوں کی طرف ہم احباب جماعت کو بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۱۱) آیت ۳۵ وَاتْكُم مِّنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارُ اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اس وسیع مضمون کو اس صورت میں بیان فرمایا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے اور ہر دوسری مخلوق کو اس کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے لیکن اس میں اس سوال کا جواب نہیں آتا تھا کہ ہمیں جتنے خادم درکار تھے وہ دیئے گئے ہیں یا نہیں.یعنی جو چیز ہمیں میسر آئی ہے وہ تو بہر حال خادم ہے لیکن ہماری ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے جتنے خادم چاہیے تھے آیا وہ ہمیں ملے ہیں یا نہیں اس کا جواب اس فقرہ میں نہیں آتا.پس اللہ تعالیٰ نے واشكُم مِّنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ کہہ کر یہ تسلی بخش جواب دیا کہ تمہاری ساری قابلیتوں اور طاقتوں اور اجزا اور جوارح نے جس جس چیز کا مطالبہ کیا تھا وہ
۳۶۳ سورة ابراهيم تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ساری کی ساری تمہیں عطا کی گئیں.ہم نے تمہیں کان دیئے کان کا یہ مطالبہ تھا کہ صوتی لہروں کا انتظام کیا جائے ورنہ مجھ تک آواز کیسے پہنچے گی.پھر اس کا یہ تقاضا بھی تھا کہ میرے اندر وہ نظام بھی پیدا کیا جائے کہ جو میں سنوں یا محسوس کروں وہ دماغ کے اس حصہ تک پہنچا دوں جہاں اس کو پہنچنا چاہیے.پس اللہ تعالیٰ نے کان کے سارے مطالبے پورے کر دیئے.اسی طرح آنکھوں نے پہلا مطالبہ تو یہ کیا کہ یہ جسم ایسا ہے کہ جس کے ذرے بدلتے رہتے ہیں اس لئے کھانے پینے کے ذریعہ ایسے ذرے ہمارے جسم میں داخل ہوں جن میں آنکھ کا ذرہ بننے کی قابلیت ہو ورنہ جس ذرہ میں پاؤں یا ناخن بنے کی قابلیت ہے وہ اگر آنکھ میں جائے تو آنکھ کو سرخ تو شاید کر دے مگر اس کے کچھ کام نہیں آ سکتا.پس آنکھ کا جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے بہت ہی عجیب چیز ہے یہ فطرتی تقاضا تھا کہ اسے ایسے اجزا یا ایسے ذرات میسر آئیں جو اس کا ذرہ بننے اور اس کے جو ہر کو اجاگر کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آنکھ کا یہ مطالبہ پورا کر دیا.آنکھ کا یہ مطالبہ تھا کہ میں ازخود کوئی چیز نہیں ہوں مجھے باہر کی روشنی کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے باہر کی روشنی پیدا کر دی.آنکھ کا یہ تقاضا تھا کہ اُس تک خاص زاویوں سے روشنی کی لہریں پہنچیں تا کہ مختلف رنگوں اور سیاہ اور سفید میں فرق کر سکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے آنکھ کے اس تقاضا کو بھی پورا کر دیا ہے.علی ہذا القیاس انسانی دل کے مطالبے تھے.اس کے ہاتھ کے مطالبے تھے.اس کی پنڈلی کے گوشت کے لوتھڑے کا یہ مطالبہ تھا کہ اے خدا جو Chemical Composition ( کیمیکل کمپوزیشن ) تو نے میری بنائی ہے اس کے نتیجہ میں ایسی چیز مجھے میسر فرما کہ اگر میں بیمار ہو جاؤں تو وہ کان میں پہنچنے کی بجائے تیرے حکم سے میرے گوشت کو صحت مند کرنے کی کوشش کرے.غرض اللہ تعالیٰ نے ایک تو ہر چیز کی کیمیکل کمپوزیشن اس طرح بنائی اور پھر اس کے مناسب حال ہر چیز پیدا کر دی.فرمایا یہ دوا ٹانگ کے لئے اچھی ہے.یہ دوا ناخنوں کے لئے اچھی ہے.چنانچہ ایلو پیتھی کی رو سے بھی کان والی دوا ناک میں نہیں پڑسکتی اور نہ ناک والی کان میں.یہ امتیاز، یہ سلیقہ یہ دوائی کا انتخاب دراصل ہر جسمانی عضو کی ضرورت کے مطابق ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان حتی کہ اس کے ہر ایک عضو کے تقاضا کے مدنظر اس کے مناسب حال چیزیں پیدا کر دیں.چنانچہ سورہ ابراہیم کی مندرجہ بالا آیہ کریمہ اسی حقیقت کی غماز ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑے پیارے انداز میں فرمایا کہ ہر وہ مطالبہ جو تمہارے وجود نے ہم سے اپنی بقا اور اپنے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶۴ سورة ابراهيم ارتقا کے لئے کیا وہ ہم نے پورا کر دیا.یہ تو ایک زاویہ نگاہ تھا.دوسرا نقطۂ نگاہ جو دراصل پہلے بیان کرنا چاہیے تھا لیکن مصلحتاً میں نے اس کو پیچھے رکھا ہے یہ تھا کہ جو بھی تمہارے اندر قابلیت ہے اس کی بقا اور ارتقا اور کمال نشو و نما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ ہم نے پیدا کر دی.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۴۲، ۸۴۳) آیت ۳۸ رَبَّنَا إِنّي اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفَبِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ وَارزُقُهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ اللہ تعالیٰ سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے.فَاجْعَلْ اَفْبِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَھوی الیھم لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اس دعا کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ دل جیتنے کی توفیق ہمیشہ امت مسلمہ کے ہر گروہ کو عطا کرتا چلا جائے ، محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ خدمت کے جذبہ کے ساتھ نیک نمونہ بن کر ایک ایسا اُسوہ نظر آئے ، ایک فرقان، ایک تمیز پیدا کرنے والی بات ایک احمدی مسلمان میں غیر مسلم کو نظر آئے کہ وہ مجبور ہو جائے اس طرف مائل ہونے پر اور اس کی طرف جھک کے اس سے پوچھنے پر کہ میرے اور تیرے میں جو فرق ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ بس بات شروع ہو گئی تبلیغ کی وہ مسلمان اسے کہے گا.میں تو ایک عاجز انسان ، میں تو ایک نالائق انسان ہوں.مگر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والا انسان.میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا انسان، میں قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کرنے والا انسان ہوں کہ دنیا میں جو دُکھی ہیں ان کے دُکھوں کو دُور کروں اور سکھ کے سامان جہاں تک میری طاقت میں ہے میں پیدا کروں.میں نے خدا کو پایا اور اس کے نور کو دیکھا اس کی آواز کو سنا.اس کی طاقت اور قدرت کے کرشمے میں نے اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کئے.ان ساری چیزوں نے میری زندگی میں تبدیلی پیدا کر دی ہے.تم ایسا کرو گے تمہاری زندگی میں بھی یہ تبدیلی پیدا ہو جائے گی.تو فَاجْعَلْ أَفْدَةٌ مِّنَ النَّاسِ تَهُونَی اِلَيْهِمْ یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم اس قابل ہوں کہ تیری خاطر اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ایک جہاں کے دل جیتیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر رکھ دیں.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۰۲)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶۵ سورة ابراهيم آیت ۴۱ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ پھر جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے.امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے.وہ صرف ایک نسل سے تو تعلق نہیں رکھتی نسلاً بعد نسل یہ ذمہ داری اٹھانی ہے قیامت تک یہ ذمہ داری اٹھانی ہے اس واسطے آنے والی نسلوں کے لئے دعا کرنا ضروری ہے.قرآن کریم کہتا ہے :- رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ کہ اے خدا مجھے بھی عمدگی سے نماز ادا کرنے کی توفیق دے اور میری آنے والی نسل کو بھی.میری ذریت کو بھی کہ ہم عمدگی سے نماز ادا کریں یعنی اس طور پر نماز ادا کرنے والے ہوں کہ تو ہم سے راضی ہو جائے اور ہماری ذریت اس طور پر نماز ادا کرنے والی ہو کہ تو ان سے راضی ہو جائے.مگر اپنی طاقت سے ہم یہ کر نہیں سکتے ہماری اس دعا کو قبول کر ربنا وتقبل دعاء اور اس دعا کو قبول کر کہ ہم نماز ادا کرنے والے ہوں عمدگی کے ساتھ اور ہماری ذریت اور ہماری ہر دعا کو قبول کر جو تیرے نور کو پھیلانے والی اور دنیا سے اندھیروں کو دور کرنے والی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو دنیا کے سامنے اس رنگ میں پیش کرنے والی ہو کہ وہ مؤثر بن جائے اس دنیا کے لئے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان کو ابھی پہچانتی نہیں.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۳۰۳،۳۰۲)
تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۶۷ سورة الحجر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحجر آیت ۱۰ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ قرآن کریم ایک کامل ہدایت اور ابدی شریعت کی شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.پہلی الہامی کتب چونکہ مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں خاص قوموں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی تھیں اسلئے ان کے لئے ابدی حفاظت کا وعدہ نہیں تھا لیکن قرآن کریم نے چونکہ قیامت تک کے انسان کی رشد و ہدایت کا ذریعہ بنا تھا اور انسان کی رُوحانی تشنگی دور کرنے اور اس کی دنیوی علمی ضروریات کو پورا کرنے کے سامان پیدا کرنے تھے اور پھر چونکہ شیطان نے بھی اپنا پورا زور لگانا تھا کہ وہ اس تعلیم کو اگر مثانہ سکے تو تحریف کے طور پر اس میں کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی رخنہ پیدا کر دے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ہمیں یہ تسلی دی ہے کہ اس نے قرآن کریم کی حفاظت لفظی اور حفاظت معنوی کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اب کوئی شیطانی طاقت یا کوئی منصوبہ قرآن کریم میں تحریف لفظی یا معنوی میں کامیاب نہیں ہوگا.....جہاں تک انسان کی طاقتوں کا تعلق ہے وہ بھی انسان کو اسی لئے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض پوری ہو.ان قوتوں میں سے ایک قوت، قوت حافظہ ہے جو انسان میں ودیعت کی گئی ہے.خود انسان کو اس قوت سے فائدہ اٹھانے کا بھی حکم دیا گیا ہے.بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں.مختلف مشاہدے کرتے ہیں اور پھر قوت حافظہ کے ذریعہ اپنے ذہن میں انہیں حاضر رکھتے ہیں.پس قوت حافظہ کے دنیوی لحاظ سے بھی بہت سے فوائد ہیں اور اخلاقی و روحانی لحاظ سے بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن قوت حافظہ کی اصل غرض یا قوت حافظہ کی پیدائش کا اصل مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ قرآن عظیم کو تحریف لفظی سے بچائے گویا
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۳۶۸ سورة الحجر اللہ تعالیٰ نے انسان کی قوت حافظہ کو قرآن کریم کی حفاظت لفظی کے لئے خدمت پر لگا دیا.گزشتہ چودہ صدیوں میں لاکھوں حفاظ پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن کریم کو تحریف لفظی سے محفوظ رکھا.قرآن کریم کے الفاظ میں تحریف کرنے کی کسی کو جرات نہ ہو سکی.ان لوگوں کو ایسا حافظہ دیا گیا کہ جس کی دوسری قوموں میں مثال نہیں ملتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حفاظ پیدا ہوتے رہے اور اب بھی پیدا ہورہے ہیں کہ اگر آپ قرآن کریم کا کوئی لفظ ان کے سامنے رکھیں تو وہ اس لفظ یا آیت کا سیاق وسباق تک بتا دیتے ہیں گویا کہ سارے کا سارا قرآن کریم ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے اور ذہن میں مستحضر رہتا ہے.پس اس کثیر فوج کی موجودگی میں جو ہر صدی میں لاکھوں کی تعداد میں تھی کسی معاند اور مخالف اسلام کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کر سکے اور نہ ہی مسلمانوں میں سے کسی غافل یا نا سمجھ آدمی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ قرآن کریم میں کوئی لفظی تحریف کر سکے.بعض نا سمجھ لوگوں نے بعض دوسری قسم کی حرکتیں کیں.جو ہماری مذہبی کتابوں میں اور اسلامی لٹریچر میں محفوظ ہیں.یہ آج کی باتیں نہیں بلکہ صدیوں پرانی باتیں ہیں کہ بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے بعض لوگوں نے احادیث وضع کرلیں جنہیں ہماری اصطلاح میں وضعی حدیثیں کہتے ہیں لیکن قرآن کریم کے نزول سے لے کر آج تک کسی شخص نے کامیابی کے ساتھ کوئی قرآنی آیت وضع نہیں کی.انسان کی بنائی ہوئی کوئی ایسی آیت نظر نہیں آتی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کے باوجود انسانی دماغ نے آپ کی طرف غلط روایتیں منسوب کرنے کی جرات تو کر لی لیکن حفاظ کے ذریعہ قرآن کریم کی لفظی حفاظت کا یہ کمال تھا کہ امت محمدیہ کے اندر اور باہر کوئی شخص قرآن کریم کی طرف غلط آیت منسوب کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا.اگر دشمنانِ اسلام نے کبھی کوئی جرات کی بھی تو لاکھوں کی تعداد میں حفاظ کی یہ فوج فوراً گرفت کرتی تھی کہ یہ تم کیا کر رہے ہو.بہر حال تحریف لفظی کی ایسی کامیاب جرات کہ جسے دنیا میں پھیلایا جاتا ہو نظر نہیں آتی.پس ایک تو قرآن کریم کی لفظی حفاظت کا سوال تھا جسے انسان کی قوت حافظہ کے ذریعہ حل کیا گیا.اللہ تعالیٰ نے لاکھوں حفاظ کے ذریعہ قرآن کریم کی لفظی حفاظت کے سامان پیدا کر دیئے لیکن انسان کو
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۶۹ سورة الحجر صرف قوت حافظہ ہی تو نہیں دی گئی اسے دوسری قو تیں بھی عطا کی گئی ہیں.جن میں سے ایک روحانی قوت ہے اور اس کے ذریعہ قرآن کریم کی تین اور قسم کی حفاظت بھی کی گئی ہے.چنانچہ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دوسرے ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے.جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.“ ایام الصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۸۸) پس جہاں تک تحریف معنوی کا تعلق ہے قرآن کریم کو معنوی تحریف سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقربین کا ایک سلسلہ امت محمدیہ میں جاری کیا.یہ مقتربینِ الہی پہلی صدی سے لے کر آج تک ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر صدی میں موجود رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مسلمانوں پر فیج اعوج یعنی انتہائی تنزل کا جو زمانہ آیا تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے مطہر بندوں کی جماعت سمندر کی لہروں کی طرح موجیں مار رہی تھی.تاہم مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت اسلام سے دُور جارہی تھی اور قرآن کریم کو مہجور بنا چکی تھی.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم ہے اور کتاب مکنون میں ہے اور پھر اس حصہ کے متعلق فرما يالا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) اس حصہ تک صرف پاکیزہ لوگوں یا جماعتوں کی پہنچ ہوتی ہے اور یہ واقعہ اور حقیقت کہ قرآن عظیم غیر متناہی بطون اور اسرار کا مالک ہے.دنیا پر اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ قرآن کریم منجانب اللہ ہے.اللہ تعالیٰ قرآنی ہدایت کے ذریعہ قیامت تک لوگوں کی ربوبیت اور تربیت کرنا چاہتا ہے.چنانچہ قرآنی ہدایت اور اس کے انوار کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ان پاک اور مطہر بندوں کا گروہ ہمیں تین روحانی لشکروں میں تقسیم نظر آتا ہے.ایک وہ اکابر اور آئمہ دین ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر کو تحریف معنوی سے بچایا لیکن اسلام پر ایک تیسرا حملہ فلسفیوں (اہل عقل ) کی طرف سے ہوا.اسلام کی تعلیم کے خلاف عقلی دلائل پیش کر کے وہ دنیا کو بہکانے کی کوشش کرتے رہے.انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآنی تعلیم اور انسانی عقل میں نعوذ باللہ تضاد پایا جاتا
۳۷۰ ورة الحجر تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہے حالانکہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک خلق ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ایک کامل ، اور قیامت تک رہنے والا کلام ہے اس لئے عقل اور کلام الہی کے درمیان تضاد ہو ہی نہیں سکتا.لیکن لوگوں کی طرف سے ان دونوں کے اندر تضاد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور بڑی زبر دست کوشش کی گئی.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.(ایام الصلح.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۸۸) لوگوں نے اپنی کو نہ اندیشی کے نتیجہ میں فلسفہ، منطق اور دوسرے علوم کی رو سے جونتائج نکالے انکی بنا پر قرآن کریم کی تعلیمات پر مختلف اعتراض کئے مثلاً پادریوں نے ایک زمانہ میں یہ اعتراض کر دیا کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ شہد کی مکھی کے اندر سے ایک پینے والی چیز یعنی شہر نکلتا ہے اور اس میں شفا کی بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں حالانکہ کبھی پھولوں کے رس سے شہد بناتی ہے اس کے اندر سے تو شہر نہیں نکلتا.یہ اعتراض در اصل غفلت اور عدم علم کا نتیجہ تھا.بعد میں جب مکھی اور اسکے شہد بنانے پر تفصیلی تحقیق ہوئی تو ہمیں دو چیزوں کا پتہ لگا.ایک یہ کہ کبھی پھولوں سے جو رس لاتی ہے وہ شہد کی شکل میں نہیں ہوتا.وہ تو ایک پانی کی شکل میں مائع سی چیز ہوتی ہے شیرے کے قوام کی طرح اسکے اندر شہد کا قوام نہیں ہوتا لیکھی پھولوں کا رس لا کر اس میں دو چیزیں اپنی کوشش سے زائد کرتی ہے.اس کی ایک کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس مائع کو گاڑھا قوام بنائے.چونکہ پھولوں کے رس میں پانی کی فیصد زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کے ایک ایک ذرہ کو خشک کرنے کے لئے اسے کئی سو میل حرکت کرنی پڑتی ہے.زبان کو اندر باہر لیجا کر اور بڑی محنت کرنی پڑتی ہے تب جا کر مائع قوام بنتا ہے اور پھر یہیں پر بس نہیں ہوتی بلکہ اپنے جسم میں سے وہ مختلف غدود کے رس سے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے لکھی میں پیدا کر رکھا ہے اور جن میں شہر کے قریباً نصف اور ضروری حصے پائے جاتے ہیں وہ شہد میں شامل کرتی ہے گویا شہد میں پچاس فیصد حصہ کبھی کے اپنے غدود کے رس کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں شہد میں شامل کر دیا جاتا ہے.بسا اوقات ہمارے ہاں دودھ میں ۹۵ فیصد پانی ہوتا ہے.بایں ہمہ لوگ اسے دودھ ہی کہتے ہیں تو شہد میں جبکہ پچاس فیصد سے زیادہ شہد کی مکھی
۳۷۱ سورة الحجر تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کی اپنی محنت اور فطرت کا دخل ہوتا ہے تو اس کے مکھی کے پیٹ میں سے نکلنے پر اعتراض بے معنی ہے غرض اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے اور ان سے اپنے بعض بندوں کو فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی اور خدا کے فعل نے معترضین کو ملزم قراردیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ ہم ان کا مذاق اڑائیں.وہ قرآن کریم کو استخفاف کی نظر سے دیکھنا چاہتے تھے مگر ہم نے دنیا پر یہ ثابت کر دکھایا کہ استخفاف کی نظر سے اگر کسی چیز کو دیکھا جاسکتا ہے تو وہ وہ نتائج ہیں جو اہل یورپ کے علوم، ان کی سائنس اور ان کی تحقیقات نکال رہی ہیں.وہ آج ایک دوائی بناتے ہیں اور اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور دس سال کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک زہر تھا.ہم نے اس دوائی کو بنا کر بڑی غلطی کی اسی طرح آج ایک طبی مشورہ دیتے ہیں اور اگلے چند سال کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے غلط مشورہ دیا تھا.مثلاً ایک زمانے میں یورپ کے ایلو پیتھی کے اطباء نے کہہ دیا کہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں یہ ان کے لئے نقصان دہ ہے.مگر اسلام نے یہ کہا تھا حَملُهُ وَفِضْلُهُ ثَلَثُونَ شهرا (الاحقاف : ۱۲) یعنی ماں کیلئے ایک معین وقت تک بچے کو دودھ پلانا ضروری ہے.یہ ماں کی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور بچے کی صحت کے لئے بھی ضروری ہے (اس کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے ) لیکن اسلام کے معاندین نے اسلام کی اس تعلیم پر یہ اعتراض کر دیا کہ دودھ پلانے سے بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا ماں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے.چنانچہ ساری دنیا میں اس بات کی تشہیر کی گئی کہ مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہ پلایا کریں.آسٹر ملک اور فلیکسو وغیرہ کے دودھ ( جو بند ڈبوں میں دستیاب ہوتے ہیں وہ ) پلا یا کریں.جب پندرہ بیس سال گزر گئے اور ان کی ایک نسل صحت کے لحاظ سے تباہ ہوگئی تو پھر یہ اعلان کر دیا کہ ہم نے بڑی بیوقوفی کی تھی اور غلط مشورہ دیا تھا.بچے کو دودھ پلانے سے تو عورت کی صحت بنتی ہے.بگڑتی نہیں.پس قرآن کریم کی تعلیم دراصل عقل، مشاہدہ اور سائنس کے خلاف نہیں ہے بلکہ سائنس اور عقل اور مشاہدہ قرآن عظیم کی ارفع و عظیم تعلیم کی عظمت اور رفعت کے حق میں دلائل واضحہ پیش کرتے ہیں.دنیوی علوم قرآن کریم کی تعلیم سے متضاد نہیں بلکہ اس کے تابع ہیں اس لئے دنیا جب قرآن کریم پر اس قسم کے عقلی اعتراضات کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پیدا کر دیتا ہے جو ان اعتراضات کو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۷۲ سورة الحجر رڈ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے مطہرین کے گروہ میں سے ایک ایسا شکر بنا تا ہے اور ان کو فہم قرآن عطا کرتا ہے.وہ غلط قسم کے عقلی اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم پر حملہ کرنے والوں کو پسپا کرتے ہیں اور ان پر قرآن کریم کی برتری کو ثابت کرتے ہیں.پھر ایک اور قسم کی تحریف معنوی ہے جس کا ارتکاب نادانستہ طور پر خود مسلمان ممالک میں کیا جارہا ہے اور ان کی شدت بھی معاندین کے اعتراضات سے کم نہیں ہے اور وہ یہ دُکھ دہ اور شرمناک پرو پیگنڈا اور پر چار ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنا تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں اور اسی طرح یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شراب پینا تو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ عرب کا گرم علاقہ تھا.اب ہم ان سے زیادہ اچھے اور مہذب انسان ہیں ہمیں شراب نقصان نہیں پہنچائے گی.پس یہ اور اس قسم کے دوسرے اعتراضات قرآن کریم میں تحریف معنوی کے مترادف ہیں.ان اعتراضات کو رد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے مطہر بندوں میں سے ایک گروہ کو کھڑا کرتا اور اسے فہم قرآن عطا کرتا ہے اور وہ تحریف معنوی کا ازالہ کرتا ہے.تحریف معنوی کی چوتھی کوشش یہ کی گئی کہ قرآن کریم میں جن عظیم معجزات اور نشانوں کا ذکر ہے اور جو انسانی طاقت سے بالا اور خدا تعالیٰ کے قادرا نہ تصرفات کی دلیل ہیں ان کا انکار کر دیا گیا اور بڑے اصرار کے ساتھ یہ کہہ دیا گیا کہ نعوذ باللہ وہ سب کے سب غلط ہیں.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.چوتھے روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.“ ایام الصلح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۸۸) پس یہ چار قسم کے لشکر ہیں جن میں سے تین کا تعلق مطہروں سے ہے.جنہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت لفظی اور معنوی کے لئے اس پیاری امت میں ہر صدی میں کھڑا کر تا رہا ہے.ایک لشکر کوقوت حافظہ کے اسلحہ سے مسلح کیا اور انہوں نے قرآن کریم کو تحریف لفظی سے بچایا اور دوسرے ہر صدی میں مطہرین کی ایک جماعت پیدا ہوتی رہی جن کے ذریعہ وقت کی ضرورت اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق کسی ایک قسم کی اور کبھی دوسری قسم کی اور کبھی تیسری قسم کی تحریف معنوی سے بچانے کے سامان
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۷۳ ورة الحجر پیدا کئے گئے لیکن اس آخری زمانہ میں جبکہ اسلام پر کفر کا حملہ انتہائی شدت اختیار کر گیا اور مطہرین کے گروہ کے سپر د قرآن کریم کی تین قسم کی مدافعت کرنے اور اسلامی تعلیمات کی برتری ثابت کرنے کا جوانتظام کیا گیا تھا اس کی ضرورت بیک وقت پیش آگئی.گویا تینوں قسم کے حملے ایک ہی وقت میں اسلام پر مختلف اطراف سے ہونے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حسب بشارات امت محمدیہ پر رحم کرتے ہوئے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا اور وہ امت محمدیہ کے مطہرین کی فوج کا سالا رلشکر بنا اور مطہرین کی جماعتوں کو مختلف زمانوں میں مختلف شکلوں میں جو ہرسہ روحانی قوتیں ملتی چلی آ رہی تھیں وہ سب کی سب اسے عطا کی گئیں.چنانچہ اُس نے زندہ نشانوں کے ذریعہ زندہ خدا کا ثبوت دے کر یہ ثابت کیا کہ جن نشانات کا ذکر قرآن کریم میں ہے وہ محض قصے کہانیاں نہیں اگر خدا تعالیٰ اپنے قادرانہ تصرف کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت کی خاطر آج انہونی باتوں کو ہونی کر سکتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے محبوب کی صداقت میں معجزات اور نشان کیوں نہیں دکھا سکتا تھا.غرض جب قرآن کریم پر اس قسم کے اعتراضات کر کے اس میں تحریف معنوی کرنے کی کوشش کی جارہی تھی تو خدا تعالیٰ کا جرنیل اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب روحانی فرزند کھڑا ہوا اور اس نے اسلام کی مدافعت کی اور اس کی برتری ثابت کی.فلسفیوں کا جوگر وہ کھڑا ہوا تھا اور کہتا تھا کہ قرآن کریم کی بعض باتیں عقل کے خلاف ہیں ان کو یہ کہا کہ عقل خود اندھی ہے گر نیز الہام نہ ہو یہ محض تھیوری نہیں ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کی جماعت میں آج بھی خلفاء اور ائمہ اور اکابرین کا سلسلہ جاری ہے.ہم قرآن کریم کی صداقت میں جو بات کرتے ہیں ہم اس کے ذمہ دار ہیں.دنیا کا کوئی فلسفی ہمارے سامنے آ کر بتائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت یا اس کی فلاں تعلیم خلاف عقل ہے.ہم ثابت کریں گے کہ وہ خلاف عقل نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی عقل اندھی ہے جو حقیقت کو نہیں پا رہی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدائی نشانوں کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ یہ نشان ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو نشانات ظاہر ہوئے اور جن کو قرآن کریم نے محفوظ رکھایا جن کی تفصیل احادیث سے ملتی ہے.وہ بھی محض قصے کہانیاں یا
۳۷۴ سورة الحجر تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث مبالغہ آمیز با تیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو انسان کی بھلائی کے لئے نازل کیا تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں تفسیر سکھائی گئی.تفسیر کرنے کے اصول بتائے گئے اور پھر ان اصولوں کو سامنے رکھ کر اس جماعت کے بیسیوں ہی نہیں سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق عطا کی گئی کہ وہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر کر سکیں اور جہاں غلط تفسیر ہو رہی ہو وہاں اس کی نشاندہی کر کے اصلاح کر دیں لیکن آج دنیا کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ روحانی جرنیل جس کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا اور جس کو ہر سہ قسم کے ہتھیار دیئے گئے تھے قرآن کریم کو تحریف معنوی سے بچانے کے لئے اس پر بعض لوگوں کی طرف سے تحریف قرآن کا الزام لگا دیا گیا اور یہ نہیں سوچا کہ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی کسی عظیم نعمت کا انکار کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۳۷۵ تا ۳۸۳) آیت ۲۰ وَالْاَرْضَ مَدَدْنَهَا وَ الْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِ شَيْءٍ قَوْزُون کہ ہم نے زمین میں ہر چیز موزوں پیدا کی ہے.موزوں کا لفظ ایک تو نسبت کو چاہتا ہے اور دوسرے یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جس میں متوازن ہونے کا مطالبہ ہے.چنانچہ اسی لئے قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ہم نے اس زمین میں میزان قائم کیا ہے، اس زمین سے تعلق رکھنے والے صفات باری تعالیٰ کے جلوؤں میں اصولِ تو ازن کارفرما ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں اَلَّا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن : 9) کہ اس اصول توازن کو توڑنے کی کوشش نہ کرنا ور نہ تم سخت نقصان اُٹھاؤ گے.مثلاً کھانے پینے میں Balanced Diet ( متوازن غذا کے محاورہ کو ہماری موجودہ سائنس نے بھی اختیار کر لیا ہے اور میزان کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن غذا کے اصول کو دریافت کیا ہے یعنی ہماری غذا کے جو معلوم اجزا ہیں ان میں ایک معین توازن ہونا چاہیے.غذا میں اتنی پروٹین ہو اتنی مقدار میں لحمیات کی ہو اس میں اتنا میدہ ہو اس کے اندر وٹامن کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو.پھر Mineral Salts ( نمکیات) ہیں.Fat یعنی چکنائی ہے جو گھی اور مکھن کی شکل میں ہوتی ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۷۵ سورة الحجر گھی صرف گائے بھینس کا نہیں بلکہ جو گھی مصنوعی طور پر تیار کئے جاتے ہیں مثلاً تو ریہ سے مصنوعی گھی تیار کیا جاتا ہے وہ بھی گھی کی ایک قسم ہے اور اس میں چکنائی پائی جاتی ہے.پس گھی اور پروٹین ہے میں نے سمجھانے کے لئے پروٹین کا مطلق لفظ بول دیا ہے ورنہ اس کی آگے آٹھ نو معلوم قسمیں ہیں ابھی اور آگے پتہ نہیں کتنی قسمیں معلوم ہوں.غرض غذا کی ان تمام چیزوں میں توازن ہونا چاہیے.ہر ایک چیز کو ایک اندازے کے مطابق استعمال کرنا چاہیے.پس غذا کے تمام اجزا متوازن اور مناسب ہونے چاہئیں اور پھر غذا کے ہضم کا توازن بھی برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ ہر چیز میں توازن کا اصول کارفرما ہے اس لئے جتنی غذا استعمال کی جائے اس کے ہضم کرنے کا بھی انتظام ہونا چاہیے کیونکہ قدرت نے ہر چیز میں توازن قائم کر رکھا ہے.شیر کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ دواڑ ھائی بلکہ تین من تک شکار کا گوشت کھا لیتا ہے لیکن پھر وہ آرام نہیں کرتا بلکہ گوشت کو ہضم کرنے کیلئے جنگلوں میں کم و بیش پچاس میل کا چکر کاٹتا ہے پھر وہ سو جاتا ہے اور جب اُٹھتا ہے تو اسی بچے کھچے گوشت کا ناشتہ کرتا ہے کیونکہ اس کی بڑی خوراک یہی گوشت ہے پس شیر کو اللہ تعالیٰ نے آزادی اور اختیار نہیں دیا بلکہ اپنے حکم کا پابند بنایا.خدا تعالیٰ نے اس کو فر ما یا کئی من گوشت تجھے کھانے کو دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میں نے میزان کا جو اصول قائم کیا ہے وہ برقرار رہے اس لئے اس کو ہضم کرنے کے لئے تجھے کم و بیش پچاس میل کی دوڑ لگانی پڑے گی اور اگر ہم بھی اسی قسم کی دوڑ لگا ئیں تو بے شک شیر جتنا گوشت تو نہ کھا سکیں لیکن ہماری خوراک ضرور بڑھ جائے.ایک بنیا جو اپنے سامنے بہی کھاتے کھول کر بیٹھا رہتا ہے اور ساتھ خوب مٹھائی (ہاں یہ بھی میزان خوراک میں ایک بڑا جزو ہے ) کھاتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں اس پر چربی چڑھ جاتی ہے اور پیٹ بڑھ جاتا ہے اتنا کہ مثال کے طور پر ہم کہہ دیں کہ اس کے اندر ایک ہاتھی چھپ جائے.غرض اس سے اپنا پیٹ سنبھالا نہیں جاتا کیونکہ ایک تو اس نے غیر متوازن غذا کھائی اور جو کھائی اس کے ہضم کا انتظام نہیں کیا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے زمین کی ہر چیز کو موزوں پیدا کیا ہے.ہر چیز میں توازن کا قانون جاری کیا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ کسی چیز کی موزونیت نسبت سے تعلق رکھتی ہے یہ انسان کی نسبت ہے کیونکہ ہر چیز کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور پھر تمام انسانوں میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفت ہے جن کے لئے یہ ساری مخلوق ظہور پذیر ہوئی.آپ انسانیت کا نچوڑ اور جو ہر کامل ہیں.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الحجر آپ کو انسانیت کا کمال حاصل ہوا.غرض ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ کی علو شان کا اظہار کر سکیں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو میں نے تمہیں پیدا کیا تمہیں بے شمار قابلیتیں عطا کیں.تمہارے اندر جسمانی قابلیتیں رکھیں.تمہارے اندر ذہنی قابلیتیں رکھیں.پھر تمہارے اندر اخلاقی قابلیتیں رکھیں تمہارے اندر روحانی قابلیتیں رکھیں اور ان قابلیتوں کی صحیح نشو و نما کے لئے میں نے ہر موزوں چیز پیدا کر دی اگر تم چاہو تو تم اس سے فائدہ اُٹھا کر صحیح راہوں پر چل کر اپنی انفرادیت کی نشوونما کو اس کے کمال تک پہنچا سکتے ہو کیونکہ میں نے ہر چیز کو موزوں شکل میں پیدا کیا ہے.ایک موٹی مثال اس موزونیت کی افیون ہے.انسان کی بیماریوں کو دُور کرنے کے بھی اس میں اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کئے ہیں.چنانچہ طب یونانی میں افیون کو بڑی کثرت سے دواؤں میں استعمال کیا گیا ہے.ایک عام اندازہ کے مطابق ۷۵ یا ۸۰ فیصد نسخوں میں افیون ضرور شامل ہوتی ہے لیکن وہ ہر دوائی کا جزو بنتی ہے اپنی قدرتی اور طبعی اور موزوں شکل میں.اسی لئے طب یونانی کی تاریخ میں کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا کہ طب یونانی کے نسخوں کے استعمال کے نتیجہ میں کسی فرد واحد کو افیون کھانے کی عادت پڑ گئی ہو کیونکہ ہر ایسے نسخہ میں خدا کے قانون کی روشنی میں تجربہ کر کے اس کی مقدار موزوں اندازے کے مطابق رکھی جاتی ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی ہونے لگا.چنانچہ اس کے بعض اجزا کے اگر کسی شخص کو دو شیکے کر دیئے جائیں تو اس کو افیون کی عادت پڑ جاتی ہے اور ادھر وہ دواؤں کی شکل میں موزوں مقدار میں ساری عمر کھا تارہے تو پھر بھی اس کی عادت نہیں پڑتی.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسبت سے یعنی انفرادی طور پر جس جس قسم کے توازن کی ضرورت تھی اس اس شکل میں اُسے پیدا کیا.پھر ایک نوعی توازن قائم کیا جو مثلاً اجناس کے اندر کارفرما ہے.اسی طرح تمام پھلوں اور کھانے پینے کی اشیاء میں توازن قائم ہے اور یہ زمین ہے جس میں یہ موزونیت یہ میزان کا عمل دخل نظر آتا ہے.قرآن کریم اسے کہے گا کہ انسان کے قومی اور اس کی قابلیتوں کی صحیح اور بہترین نشو و نما کے لئے جس غذا کی جس شکل میں جس موزوں حالت میں اور جس متوازن صورت میں ضرورت تھی یہ اس زمین میں پائی جاتی ہے.غرض جس مجموعہ آثار الصفات میں موزوں غذا پائی جاتی ہے وہ زمین ٹھہری.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۳۸ تا ۸۴۰)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۷۷ سورة الحجر آیت ۴۶ تا ۵۱ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتٍ وَعُيُونٍ أَدْخُلُوهَا بِسَلِمٍ أَمِنِينَ وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِينَ لَا يَمَسُّهُم فِيهَا نَصَبٌ وَ مَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ نَبِى عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) وَانَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی کتب میں اس مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب مومن بندوں کو جنہیں وہ اپنی مغفرت کی چادر کے اندر ڈھانپ لیتا ہے دو جنتوں کے لئے پیدا کیا ہے.ایک جنت اس دنیا میں ان کے لئے مقدر کی جاتی ہے اور ایک وہ جنت ہے جو اُخروی زندگی میں انہیں ملے گی جیسا کہ قرآن کریم میں یہ آتا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہو اور بصیرت اسے حاصل نہ ہو.وہ اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوگا اور نہ اس کی رضا کی جنتوں میں وہ داخل کیا جائے گا.ان آیات میں جو میں نے ابھی آپ دوستوں کے سامنے تلاوت کی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع مضمون بیان کیا ہے.اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس دنیا کی جنت جو اس دنیا کی جنت سے بہت مختلف ہے(اس میں شک نہیں ایک بڑا فرق تو یہ ہے کہ وہ جنت ایسی ہوگی جس میں سارے جنتی اکٹھے رہتے ہوں گے اور دوزخیوں کا اس جنت میں کوئی دخل نہیں لیکن اس دنیا میں جو جنت ہے ) اس میں کا فراور مومن اس دنیا کے لحاظ سے اکٹھے رہتے نظر آتے ہیں.پس ہر شخص کی اپنی ایک جنت ہے.ایک ماحول ہے یا جماعت کا ایک ماحول ہے.اس ماحول میں جنتیوں کی سی زندگی ایک احمدی گزارتا ہے یا جنتیوں کی سی زندگی گزارنے کی وہ کوشش کرتا ہے.اس جنت کی بہت سی علامات ان آیات میں بتائی گئی ہیں :.(۱) ایک تو یہ کہ امن میں اور سلامتی کے ساتھ وہ رہنے والے ہوں گے.جس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ ایک دوسرے کیلئے کثرت سے سلامتی سے دعائیں کر رہے ہوں گے.اس کا ایک ظاہری طریق یہ بھی ہے سنت نبوی کے مطابق اور وہ یہ کہ جب بھی مسلمان مسلمان سے ملے.السّلامُ عَلَيْكُمْ
۳۷۸ سورة الحجر تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه بلند آواز سے کہہ کے اس کے لئے سلامتی کی دعا مانگے.اس کی بھی عادت ڈالنی چاہئے اس کے علاوہ بھی اپنی دعاؤں میں سب اُمت مسلمہ ، سب جماعت احمدیہ کیلئے یہ دعائیں مانگتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی اور امن کی زندگی ہمیں بھی اور ہمارے بھائیوں کو بھی عطا کرے.(۲) دوسری علامت یا دوسری بات جس کا اس جنت سے تعلق ہے وہ یہ ہے کہ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمُ من غلق ان کے سینوں میں جو کینہ وغیرہ بھی ہوگا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس جنت میں ہم اسے نکال دیں گے.پس اگر دل کینہ اور بغض اور حسد سے پاک ہوں تو جنت ہے اور اگر نہیں تو وہ جنت نہیں.(۳) اسی طرح تیسری بات یہاں یہ بتائی کہ وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے اگر ہم احمدیت میں داخل ہونے کے باوجود یہ احساس نہیں رکھتے کہ ہم بھائی بھائی ہیں اور بھائیوں کی طرح ہم نے محبت سے زندگی گزارنی ہے تو پھر جو شخص ایسا ہے اس کے لئے اس دنیا میں جنت نہیں بنی.(۴) ایک اور بات یہ ہے کہ عَلى سُرُرٍ متقبلين تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے یعنی دنیوی ترقیات یا روحانی ترقیات کے نتیجہ میں وہ یہ کوشش نہیں کریں گے کہ ایک دوسرے کو نیچا کر دکھا دیں گرانے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ وہ خوش ہوں گے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے رحمت کا ، رضا کا، ایک تخت پیدا کیا ہے.(۵) ایک اور علامت یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ انہیں کوئی تھکان نہیں ہوگی یعنی قربانی کے میدان میں وہ جتنی قربانیاں دیتے چلے جائیں گے وہ کوئی تھکان محسوس نہیں کریں گے بلکہ لذت اور سرور محسوس کریں گے جو شخص سلسلہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانی نہیں دیتا یا قربانی دیتا ہے لیکن تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اسے اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ ابھی اس کے لئے اس دنیا میں جنت مقدر نہیں ہوئی.(۶) اور آخری علامت یہ بتائی کہ وَمَاهُمْ مِنْهَا بِسُخْرجين وہ اس میں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے یعنی اس فرد واحد اس فرد بشر کیلئے لیلتہ القدر کا فیصلہ ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر دے گا کہ اس شخص کو میں نے اپنے ابدی قرب اور ابدی رضا کے لئے چن لیا ہے اور جس شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر دیتا ہے.شیطان کا کوئی حملہ اس پر کامیاب نہیں ہوا کرتا.اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ایسے لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے اور شیطان کا ہر وار نا کام کر دیتا ہے.
۳۷۹ سورة الحجر تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث یعنی جس پر شیطان کامیاب وار کر دے اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالے اور وہ دل وسوسہ سے متاثر ہو جائے اور امتحان میں پڑ جائے.اسی طرح وہ شخص جسے خدا اور اس کے رسول کی خاطر قربانیاں دینے میں تھکاوٹ محسوس ہو.اسی طرح وہ شخص جو دوسرے بھائی پر جواللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو رہی ہوں ( دنیوی یا دینی ) انہیں دیکھ کے جلنے لگے اور حسد اختیار کرے اور اس کی یہ کیفیت نہ ہو کہ عَلى سُرُرٍ متقبِلِينَ.اسی طرح وہ شخص جو اخوت کا انتہائی جذ بہ اپنے بھائیوں کے لئے اپنے دل میں نہیں پاتا.اسی طرح وہ شخص جس کے دل میں دوسروں کے لئے کینہ پایا جاتا ہے.اسی طرح وہ شخص جو اپنے بھائیوں کے لئے سلامتی اور امن کی دعائیں نہیں کرتا وہ خطرے میں ہے اسے اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ وہ ابھی تک اندھا ہے اور اسے روحانی آنکھیں عطا نہیں ہو ئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایک نقشہ کھینچا ہے اس دنیا کی جنت کا بھی اس جنت کا بھی نقشہ اس کے اندر ہے لیکن وہ علیحدہ مضمون ہے ) اور ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ جب تمہارے لئے جنت اس دنیا میں مقدر ہو جائے گی تمہاری لیلتہ القدر کا فیصلہ ہو جائے گا.اس وقت تم یہ محسوس کرو گے کہ تمہارے اندر یہ خوبیاں یہ صفات جو ہیں وہ پیدا ہو چکی ہیں اور ان صفات کو ایک لحظہ کے لئے بھی چھوڑنے کے لئے تم تیار نہیں ہو.اگر ایسا نہیں تو پھر ابھی تمہیں بینائی نہیں ملی.ابھی تمہاری آنکھیں نہیں کھلیں ابھی تمہاری لیلۃ القدر کا فیصلہ نہیں ہوا ابھی تم خطرے میں ہو، ابھی شیطان کا وار تم پر کامیاب ہے پس دعاؤں کے ذریعہ بھی، تدبیر کے ذریعہ بھی اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اور عاجزی اور تذلل کے ذریعہ شیطان کے حملہ سے خود کو محفوظ کرنے کی خاطر اپنے رب کی طرف جھکو اور انتہائی قربانی دے کر بھی اس سے یہ چاہو کہ وہ تمہیں جنتٍ وَعُيُونٍ میں داخل کر دے اس دنیا میں بھی تا کہ امن کے ساتھ تم اپنی زندگی کو گزارنے والے ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۴ تا ۱۶) خدا تعالیٰ اس کائنات کا قیوم ہے اس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی اور ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اس کے سہارے کو ڈھونڈیں.فرمایا نبی عِبادِی اَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ لوگوں کو یہ بتا دو کہ میں غفور اور رحیم ہوں اور دوسری جگہ فرمایا وَاِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمُ (النحل : ۱۹) غفور اور رحیم جو دو صفات باری ہیں اس آیت میں ان کی تفسیر کی ہے کہ خدا تعالیٰ
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۸۰ سورة الحجر نے تم پر نعمتوں کی انتہا کردی ہے.بے شمار نعمتیں تمہارے لئے پیدا کی ہیں لیکن جب تک تم خودان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور تم اپنے زور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تمہاری کوششیں اور تمہاری تدبیریں بے نتیجہ ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحیمیت تمہارے شامل حال نہ ہو اور تمہاری تدبیر کی کوتاہیوں کمزوریوں کو اس کی مغفرت کی چادر ڈھانپ نہ لے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہاری کوششوں کا نتیجہ نہ نکالے.یہی اعلان پہلی آیت میں ہے کہ نبی عِبَادِي إِنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ لوگوں کو بتاؤ کہ غفور اور رحیم میں ہی ہوں اور جس دائرہ کے اندر تم صاحب اختیار ہو اگر اس دائرہ میں تم اپنی فلاح اور بہبود چاہتے ہو، اگر اس دائرہ میں تم خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ لینا چاہتے ہو، اس کی رضا پانا چاہتے ہو اور اس کی جنتوں میں داخل ہونا چاہتے ہو تو غفور اور رحیم خدا سے تعلق پیدا کرو اور ان صفات کا واسطہ دے کر اس سے دعائیں کرو کیونکہ اس کے بغیر انسان کی کوشش بے نتیجہ رہ جاتی ہے اور بے ثمر ہو جاتی ہے.یہ جو میں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت اور اس کی مغفرت سے مدد حاصل کرو.اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا: - قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) کہ اگر تم دعا کے ذریعے خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحیمیت اور خدا تعالیٰ کی دوسری صفات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ تمہاری کیا پرواہ کرے گا.دعا ہی ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرتی ہے.اگر تم بندہ ہونے کے باوجود اس سے دعا نہیں کرو گے اور اس کی پرواہ نہیں کرو گے تو وہ تو غنی اور حمید ہے وہ غنی ہوتے ہوئے تمہاری کیا پرواہ کرے گا اس کو تو تمہاری حاجت نہیں تمہیں اس کی احتیاج ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۵۹،۲۵۸)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۸۱ سورة النحل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النحل آیت ۳۱ وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَا ذَا انْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا لِلَّذِينَ احْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ.پہلا امتحان اور آزمائش ( کیونکہ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ) وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے.جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.اپنے نفسوں کو مارنا پڑتا ہے بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے.قرآن کریم چونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے کامل ہدایت مہیا کی.اور ان کامل مجاہدات کے طریق ہمیں سکھائے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم انتہائی عظیم الشان نعمتوں کے وارث بن سکتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ نَبلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (الانبياء : ۳۶) یعنی ہم تمہاری اکشر اور الخَیر کے ذریعہ آزمائش کریں گے.اور آخر ہماری طرف ہی تم کو لوٹا کر لایا جائے گا.گویا فرما یا اگر تم اس آزمائش میں پورے اترے جسے ہم الخیر کہہ رہے ہیں.اس سے تم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور جسے ہم اک شیر کہہ رہے ہیں اس سے تم زیادہ سے زیادہ بچے تو جب تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ گے تو اسی کے مطابق ہماری طرف سے تمہیں اچھا بدلہ ملے گا.قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں جن کے مطابق ہم اس کی بہت سی تفاسیر کرتے ہیں.یہاں الخیر کے ایک معنی خود قرآن کریم اور اس کے اوامر و نواہی ہیں جیسا کہ فرمایا.وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَا ذَا انْزَلَ رَبُّكُمْ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۸۲ سورة النحل قَالُوا خَيْرًا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرُ - کہ جب مخالفین اور نہ ماننے والے ( ان لوگوں سے جو تقوی کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اور اوامر کو بجالاتے اور نواہی سے پر ہیز کرتے ہیں) پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس قرآن کریم میں کیا اتارا ہے یا تمہارے رب نے کیا تعلیم تمہیں دی ہے تو وہ کہتے ہیں خیرا یعنی خیر کو اتارا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہدایت جو الخَیرُ ( کامل خیر ) ہے جو لوگ الخیر کی راہ اختیار کرتے ہیں لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةُ ) اس کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اس کی نواہی سے بچے رہتے ہیں.ان کے لئے اس دنیا میں حَسَنَةٌ ( بھلائی ) ظاہر ہوگی.وَ لَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرُ.آخری گھر میں تو کہنا ہی کیا ؟؟ اس کی خوبیاں اور اس کے انعامات کی نہ تو ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.پس اس آیت میں قرآنی تعلیم کو خیر کہا گیا ہے اس لئے میں آیت وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فتنہ کے یہ معنی کرتا ہوں کہ ہم قرآن کریم کے احکام ( اوامر ونواہی ) سے تمہاری آزمائش کریں گے اور اگر ہم غور سے کام لیں تو ہے بھی یہ ایک آزمائش.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تم ہماری راہ میں خرچ کرو تو یہ ایک بڑی آزمائش ہے.غور کیجئے کہ ایک شخص دن رات کی محنت کے بعد کچھ مال حاصل کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے اتنا مال مل گیا ہے کہ جس سے میں اور میری بیوی بچے خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں گے تب خدا تعالیٰ کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے اور اسے متوجہ کرتی ہے کہ جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کے خرچ پر جو پابند یاں ہم نے عائد کی ہوئی ہیں انہیں مت بھولنا پھر وہ اس مال کے متعلق انہیں یہ فرماتا ہے کہ اب میرے دین کو یا میرے بندوں کو تمہارے مال کے ایک حصہ کی ضرورت ہے اسے میری راہ میں خرچ کرد و تو یقیناً یہ اس بندے کی آزمائش ہوتی ہے جس میں وہ ڈالا جاتا ہے.پس وہ مومن جو تقوی پر قائم ہوتا ہے وہ بشاشت سے خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتا ہے اور اپنے مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے وہ اس امتحان میں پورا اُترتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہت سی نعمتوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں تمہاری زندگی کے لمحات بھی ہیں، عمر بھی ہے، جب ہماری طرف سے اپنی عمر اور وقت کا کچھ حصہ قربانی کرنے کیلئے تمہیں آواز
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۸۳ سورة النحل دی جائے تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس آزمائش میں بھی پورے انتر وتا ہمارے فضلوں کے وارث ٹھہرو.اسی طرح عرب تیں اور وجاہتیں بھی خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی ہیں جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنی پڑتی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم و رواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی.توالخیر جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو آزماتا ہے.وہ قرآن کریم کے احکام ہیں.اس کے مقابلہ میں الشّر کا لفظ استعمال فرمایا ہے گویا ہر وہ حکم امر ہو یا نہی جو قرآن کریم کے مخالف اور معارض ہو.اسے اکشر کہا گیا ہے کیونکہ شیطان اور اس کے پیروؤں کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کے کانوں میں قرآن کریم کے خلاف باتیں ڈالتے رہتے ہیں.کبھی یہ کہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ان مومنوں کی خاطر جو کمزور اور غریب مہاجر ہیں تم اپنے وقتوں اور عزتوں کو کیوں ضائع کرتے ہو.دیکھ لیں منافقوں کا وطیرہ اور کفار کا یہی طریق ہے کہ وہ قرآنی احکام کے مقابل معارض باتیں مومنوں کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور یہ غلط امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی باتوں پر کان دھریں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے مومن بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوا کرتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف احکام قرآنی ہیں جو تمہارے سامنے ہیں اور ایک طرف وساوس شیطانی ہیں جو تمہیں ان کی خلاف ورزی پر آمادہ کر رہے ہیں اور ان ہر دو کے ذریعہ سے تمہاری آزمائش کی جارہی ہے.اس آزمائش میں پورا اترنے کے لئے ضروری ہے کہ تم یہ یا درکھو کہ تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہو.جو شخص آخرت پر حقیقی ایمان رکھتا ہو اور اسے یہ یقین کامل حاصل ہو کہ اکینَا تُرْجَعُونَ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ کسی بھی آزمائش کے وقت کس طرح ٹھو کر کھا سکتا ہے؟ پس
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۸۴ ایک قسم کی آزمائش خدا تعالیٰ کے احکام اور شیطانی وساوس کے ذریعہ سے ہوتی ہے.سورة النحل خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۱۵ تا ۲۱۷) شریعت محمدیہ پر ایمان لانے والے کو (اگر وہ اس پر کار بند ہوتا ہے ) اشم کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اس لئے کہ یہ شریعت کامل اور مکمل ہے.اس لئے کہ یہ شریعت خیر محض ہے.قرآن کریم کے ایک لفظ خیرا “ میں شریعت محمدیہ کی حقیقت بیان کی گئی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے مَا ذَا انْزَلَ رَبُّكُمْ ط قَالُوا خَيْرًا شریعت محمدیہ بھلائی ہی بھلائی ہے اس واسطے اثمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر انسان کی فطرت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور انسانی فطرت کو نیک اور بد میں تمیز کرنے کی توفیق بھی اُسی نے عطا فرمائی ہے.انسانی فطرت (اور اس سے میری مراد وہ فطرت ہے جو مسخ نہ ہو چکی ہو ) کسی چیز کو بد قرار نہیں دے گی جسے شریعت محمدیہ نے برقرار نہ دیا ہو اور انسانی فطرت کسی چیز کو نیکی اور بھلائی اور ثواب کا موجب قرار نہیں دے گی کہ جس کا حکم شریعت محمد یہ میں نہ ہو کیونکہ خود قرآن کریم فرماتا ہے فطرتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ( الروم : ۳۱) خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیدا کیا ہے یہ اس کا عمل ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک کامل شریعت کے رنگ میں اپنی وحی کے ذریعہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے امور یہ اس کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کے فعل اور اس کے قول میں تضاد نہیں ہوا کرتا.(خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۵۰۱،۵۰۰) آیت ۴۲ تا ۴۸ وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوثَنَّهُمْ في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ لَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ آفَا مِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيَاتِ اَنْ يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ اَوْ يَأْتِيَهُمُ لا الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ أَوْ يَأْخُذَهُم فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ اَوْ يَأْخُذَهُم عَلَى تَخَونِ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) اور جن لوگوں نے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا اللہ کے لیے ہجرت اختیار کی، انہیں ضرور دنیا میں
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۸۵ سورة النحل اچھا مقام دیں گے اور آخرت کا اجر تو اور بھی بڑا ہو گا.کاش یہ منکر اس حقیقت کو جانتے.جوظلموں کا نشانہ بن کر بھی ثابت قدم رہے (ہجرت کرنے والے) اور جو ہمیشہ ہی اپنے ربّ پر بھر وسہ کرتے ہیں.پھر کیا جو لوگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف تدبیریں کرتے چلے آئے ہیں اور اس بات سے امن میں ہیں کہ اللہ انہیں اس ملک میں ہی ذلیل اور رسوا کر دے یا موعودہ عذاب ان پر اس راستے سے آ جائے جس کو وہ جانتے ہی نہ ہوں.یا وہ انہیں ان کے سفروں میں ( دوسری جگہ آیا ہے.وہ دوڑتے پھرتے ہیں دنیا میں ، اسلام کو نا کام اور کمزور کرنے کے لئے ) تباہ کر دے.پس وہ یادرکھیں کہ وہ ہرگز اللہ کو ان باتوں کے پورا کرنے سے عاجز نہ پائیں گے.(جو بشارتیں یہاں مومنوں کو دی گئی ہیں.ان باتوں کے پورا کرنے سے عاجز نہ پائیں گے ) یا وہ انہیں پہلے کہا تھا ہلاک کر دے اللہ ) آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے کیونکہ تمہارا رب یقینا مومنوں پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.ان آیات میں ان ہجرت کرنے والوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کو اختیار کرتے ہیں اور اس ہجرت کو وہ اختیار کرتے ہیں اُس وقت جب ان پر ظلم کی انتہا ہو چکی ہوتی ہے.اس وقت بھی وہ ہجرت کو اختیار کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں بشارت دی کہ لَنُبَونَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً دنیا میں بھی اچھا مقام دیں گے.دنیوی حسنات دیں گے جس کے لئے دعا سکھائی رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً (البقرة : ٢٠٢) وَلَاَجُرُ الْآخِرَةِ اكبر اور آخرت کا اجر اس دنیا کے اجر کے مقابلے میں بہت بڑا ہے.کاش اس حقیقت کو یہ منکر سمجھتے اور اپنی بدتد بیروں سے باز آ جاتے.ہجرت ، جیسا کہ ابھی حال ہی میں ماضی قریب میں میں نے ایک خطبے میں بتایا تھا ، عربی معنے کے لحاظ سے اور قرآنی اصطلاح کی رُو سے تین باتیں ، تین پہلو اپنے اندر رکھتی ہے.ہجرت کے لفظی معنی تو عربی میں ہیں قطع تعلق کرنا اور چھوڑ دینا اور ہجرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہجرت مکانی یعنی اپنی رہائش کی جگہ کو چھوڑنا.بڑی زبر دست قربانی ہے اپنے عزیزوں کو چھوڑنا، اپنے دوستوں کو چھوڑنا، اپنے تعلقات کو چھوڑنا، اپنے اموال کو چھوڑ نا خدا اور رسول کے لئے اور اس جگہ چلے جانا اس زندگی کو (جو اس وقت میرا مضمون ہے.میں یہ فقرہ اس کے لئے زائد کر رہا ہوں ) ترک کر دینا جس زندگی کو ترک کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے موعودہ انعامات کے وہ وارث بن سکتے ہیں.مفردات راغب نے ہجرت کے
۳۸۶ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث معنی میں لکھا ہے.مُقْتَضَى ذلك ہجرت کا تقاضا یہ ہے کہ هُجْرَانُ الشَّهَوَاتِ شہوات نفسانی کو ترک کرنا وَ الْأَخْلَاقِ النَّمِيمَةِ اور جو گندے اور برے اخلاق ہیں انہیں چھوڑ دینا والخطایا اور جو گناہ کی باتیں ہیں ان سے باز آجانا.خواہشات نفسانی کا ذکر بہت سی جگہ قرآن کریم میں آیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو شیطانی اثر ہیں زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ (ال عمران : ۱۵) اہوائے نفس خوبصورت کر کے دکھائے جاتے اور ان کا پیار شیطان انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے.هوی کا لفظ اس سے ملتے جلتے معنی کا ہے.اہوائے نفس بھی ہم کہتے ہیں.خواہشات نفس بھی ہم کہتے ہیں.ھوی کے معنی ہیں مَيْلُ النَّفْسِ اِلَى الشَّهْوَة شہوت کی طرف، خواہشات کی طرف انسان کا میلان جو ہے عربی میں اسے الھوی کہتے ہیں.مفردات راغب میں آیا ہے وَقَد عَظْم اللهُ دَم اِتِّبَاعِ الْهَوَىی کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی بڑی اہمیت بیان کی اور اس پر بڑا زور دیا کہ اتباع الهوی.خواہشات نفسانی کی اتباع بڑی مذموم چیز ہے، بہت بڑی چیز ہے ، بہت گندی چیز ہے.بڑا زور دیا گیا ہے اس پر اور قرآن کریم کا دعویٰ تھا کہ میں ہر چیز کھول کھول کے بیان کرنے والا ہوں ، قرآن کریم نے بہت جگہ شہوات نفسانی جن کو ترک کرنے کا حکم ہے ہجرت میں.اور یہ اہواء جو ہیں ان کے جو مضرات ہیں جس وجہ سے اس کی برائی کی گئی ہے اللہ تعالیٰ کے کلام میں ، ان کے اوپر روشنی ڈالی گئی ہے.میں نے اس خطبہ میں چند باتیں ان آیات قرآنی میں سے لی ہیں کہ شہوات نفسانی کی اتباع کرنے والے کس قسم کی محرومیوں میں خود کو ڈالنے والے اور اللہ تعالیٰ کے کن انعاموں سے وہ محروم ہو جاتے ہیں.اس مضمون کے تعلق میں (اہوائے نفس یا خواہشات نفس یا شہوات نفس ایک ہی چیز ہے) پہلی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول سے شہوت نفس یا اہوائے نفس محرومی کا باعث بن جاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۷ میں بیان کیا ہے.و کوشتنا اگر ہم چاہتے تو اسے رفعتیں اور بلندیاں عطا کرتے.اس کے یہ معنی بھی ہیں ( تلاوت کرتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ بالکل یہ معنی ہیں ) و کوشتنا اگر ہماری مرضی پر وہ چلتا ( ہم چاہتے تبھی ہوتا نا جب ہماری مرضی پر چلتا ) لرفعتہ اُسے روحانی رفعتیں حاصل ہو جاتیں لیکن وہ ہماری مرضی پر نہیں چلا بلکہ اہوائے نفس کی اس نے اتباع کی وَلكِنَّةُ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وہ زمین پر گر پڑا رفعتیں حاصل کرنے کی بجائے.وَاتَّبَعَ
تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث ۳۸۷ سورة النحل هونه یه قرآن کریم کا ہے اَخُلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوله رفعتوں سے محرومی اسے ملی اور زمین پہ اسی طرح ، زمین کا کیڑا جس طرح زمین پر چل رہا ہوتا ہے وہ اس کی حالت بن گئی.انسان زمینی گراوٹ کے لیے نہیں پیدا کیا گیا.انسان کو مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریت: ۵۷) کی آیت جس کی طرف اشارہ کرتی ہے ) آسمانوں کی بلندیوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی امت مسلمہ کو کہ جب تم میں سے کوئی عاجزی، انکساری اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرے گا رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۵) ساتویں آسمان کی بلندیاں اسے حاصل ہو جائیں گی.یہاں یہ فرمایا اگر وہ ہماری مرضی کی راہوں کو اختیار کرتا لرفعنہ ہم نے اس کے لیے بلندیاں مقدر کیں ہوئی تھیں لیکن آخلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وہ تو زمین پر گر پڑا ، زمین کا کیڑا بن گیا وَاتَّبَعَ هَواهُ اور اپنے اہوائے نفس کی اتباع اس نے کرنی شروع کر دی.دوسری چیز جس سے کہ حصول میں روک بنتی ہے اتباع اہوائے نفس وہ یہ ہے.شہوات نفسانی کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب ہوتی ہے.سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اہوائے نفس کی اتباع کا ، پیروی کا مرتکب ہوگا اتناظلم کر رہا ہوگا اپنے نفس پر کہ اللہ تعالیٰ نے جو آیات اس کی بہتری کے لیے نازل کی ہیں ان کی وہ تکذیب کر رہا ہے.اہوائے نفس کی پیروی تکذیب آیات باری ہے.یہ اعلان کیا گیا ہے.آیات“ جو ہیں قرآن کریم میں دو معنی میں استعمال ہوئی ہیں.دنیوی انعامات مثلاً ایٹم کے ذرے میں وہ طاقت جو آج انسان نے معلوم کی اور روحانی انعامات جو اللہ تعالیٰ نازل کرتا ہے اور فرمایا ہے کہ موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح میری آیات، انعامات جو ہیں ، نعماء جو ہیں وہ تم پر نازل ہو رہی ہیں.ہر آیت کا انکار ہو رہا ہے.ایٹم کے ذرے ہی کو لو جو انسان کی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی اسے انسان کی تباہی کے لیے استعمال کرنے کے ہتھیار بنالئے.تو اہوائے نفس کا نتیجہ تکذیر آیات اور ناشکری آیات باری کی ہے.تیسرے یہ کہ خواہشات نفس کی جو پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی دوستی اور اس کی مدد اور پناہ سے محروم کر دیا جاتا ہے.سورۃ الرعد کی آیت ۳۸ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.بڑا سخت نقصان ہے یہ.
۳۸۸ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اس دنیا کی دوستیاں تو تم دیکھتے ہو روز آج دوستی ہے کل دشمنی میں بدل جاتی ہے.جس کو آج سر پہ اٹھایا کل اسے زمین پر گرا دیا.جس کے لیے آج اپنی جانیں لاکھوں کی تعداد میں قربان کرنے لیے تیار ہو گئے ، اس کی جان لے لی اگلے روز تو خواہشات نفس کی پیروی اللہ کی دوستی اور اس کی پناہ سے محروم کر دیتی ہے.اور چوتھی بات یہ بتائی گئی کہ گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیار کرنا ، ہوائے نفس کی پیروی اختیار کر ناول کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے پھر تو میں ہی میں ہو جاتا ہے نا.انانیت جوش مارتی ہے.یہ خواہش ہے، پوری ہونی چاہیے.وہ خواہش ہے، پوری ہونی چاہیے.ایک اور خواہش ہے وہ پوری ہونی چاہیے.جب خواہشات کی اتباع شروع ہوگئی تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ پھر خواہشات کی کوئی انتہا نہیں رہتی.جو سب سے زیادہ امیر اس وقت ہماری دنیا میں پایا جاتا ہے اس کے دل میں پھر بھی یہ خواہش ہے کہ کچھ اور مال مجھے مل جائے لیکن جو خدا کے بندے ہیں وہ مال لٹایا کرتے ہیں، فقیر بن کے ہاتھ پھیلا یا نہیں کرتے.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے ہیں ، غیر اللہ کے سامنے جھکنے والے نہیں ہوا کرتے اور قرآن کریم سورۃ الکہف کی آیت ۲۹ میں یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیار کرنے والا انسان ایسا دل رکھتا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے اور جو دل ایک لحظہ کے لیے اپنے رب کی یاد سے غافل ہوا اس نے ہلاکت مول لی.پانچویں بات خدا تعالیٰ نے، پانچواں پہلو اس کا یہ بتایا ہے کہ ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنے سے ایمان بالآ خرت جاتا رہتا ہے یعنی قیامت پر ایمان کہ ایک اور زندگی ہوگی جہاں جواب طلبی ہوگی ، جہاں انعامات ملیں گے ، جہاں ایک ابدی زندگی عطا کی جائے گی، جہاں ایسی جنتیں ہونگی جن کی نعماء کا حسن اور نور اور لذت ہمارے جسمانی اعضا اور حواس جو ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے ، ہماری عقل میں نہیں آ سکتے.تو ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنا آخرت اور قیامت پر ایمان لانے میں روک بن جاتا ہے.پھر ایسا شخص جو اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے، وہ کہتا ہے یہی زندگی سب کچھ ہے ، جو کچھ جس طریق سے مل سکے حاصل کرو اور وہ اپنی روح کو، اپنے وجود کو ان جنتوں سے محروم کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے پیدا کیں جو قرآن کریم کی اتباع اس رنگ میں کرتے ہیں جس رنگ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھائی.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۹ سورة النحل یہ ہے وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوا فِي اللهِ.اس مضمون پر ہجرت کے معنی پر زیادہ روشنی ڈالی اس لیے کہ آگے آیا تھا الَّذِينَ صَبَرُوا.یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو شخص صحیح معنی میں ہجرت کرنے والا ہے یعنی ہر چیز خدا کے لیے ترک کرنے کی نیت اور ضرورت کے مطابق ترک کر دینے والا ہے اور جو شخص شہوات کو چھوڑتا ہے اور اخلاق ذمیمہ سے اس طرح دوڑتا ہے جس طرح شیطان لاحول سے دوڑتا ہے اور خطایا اور گناہوں سے وہ بچنے والا ہے تب وہ صبر کرتا ہے.صبر کے معنی ہیں کہ جو احکام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کئے ہیں، جو تعلیم اس نے دی ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لینا.کچھ ہو جائے خدا کے دامن کو ایک دفعہ پکڑ کے اس کو چھوڑنا نہیں.اور صبرکا نتیجہ کیا ہوگا؟ یعنی جو خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اس کے نتیجے میں خدا کے سوا اللہ کے مقابل ہر غیر کو چھوڑنا پڑے گا یعنی دوستی اگر خُدا کے مقابلے میں آئے گی دوستی قربان کرنی پڑے گی.اگر آل و اموال خدا تعالیٰ کے احکام چھوڑ کے ملتے ہوں گے تو مال کو چھوڑنا پڑے گا احکام الہی کو نہیں چھوڑ نا ہوگا وغیرہ وغیرہ.بہت لمبی تفصیل ہے اور جو شخص ایک، دو، سو، دوسو، ہزار، دو ہزار ، لاکھ، دولاکھ ، چیزیں خدا کے لیے چھوڑ رہا ہے جب تک کوئی سہارا مضبوط اس کے سامنے نہ ہو جس کو اس نے ہاتھ سے پکڑا ہوا ہو یہ قربانی نہیں دے سکتا.تو فر ما یا الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یہ صبر کرتے ہیں اس لیے کہ خدا پر ان کا تو گل ہے.جو خدا پر توکل کرتے ہیں حسبنا اللہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور جن کے لیے اللہ کافی ہے اللہ اپنے نشان اور پیار کا اظہار اس طریقے پہ کرتا ہے کہ ہماری عقلیں جو پیار وصول کرنے والی ہیں دنگ رہی جاتی ہیں.......یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ صبر کر و استقامت کے ساتھ ، مضبوطی کے ساتھ ، وفا کے ساتھ ، جاشاری کے ساتھ ، قرآن کریم کی شریعت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو پکڑو اور آپ کے اسوہ پر چلو وَ عَلى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ایسے لوگ خدا تعالیٰ پر کام تو کل صحیح تو گل ، پورا توکل کرنے کے بعد ہی صبر کر سکتے ہیں یعنی یہ کہ ہر چیز چھوڑ دیں خدا کے لئے.صبر نہیں کر سکتے جب تک ہر چیز خدا سے پانے اور اس کی بشارتیں اپنی زندگی میں پورا ہونے پر کامل یقین نہ رکھیں.اس مضمون کے لحاظ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کا ترجمہ اپنی تفسیر میں یہ کیا ہے.جو ظلموں کا نشانہ بن کر بھی ثابت قدم رہے ہجرت میں آ گیا تھا نا ظلم.شہر چھوڑا.خاندان چھوڑا، وو 66
۳۹۰ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث اموال چھوڑے، حویلیاں چھوڑیں، چھوڑ ہی دیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر جو کیا آپ کی عظمتوں کا وہ نشان ہے اور جو فتح مکہ کے روز کیا ، عظمتوں کا وہ نشان بڑاہی بلند ہو گیا.ایک لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ کہ تم سب کو میں نے معاف کر دیا.دعا کرتا ہوں کہ اللہ بھی تمہیں معاف کر دے اور دوسرے وہ مہاجر جن کی بڑی بڑی حویلیاں شاید ان میں اتنی بڑی بھی ہوں گی جو یہاں بھی ملنی مشکل ہیں پرانے طریق کی بڑی مضبوط بنی ہوئی حویلیاں تھیں.بڑے ریکس تھے.رؤسائے مکہ بڑے امیر تھے.ان میں سے جو مسلمان ہوئے سب کچھ چھوڑ کے مدینہ آئے تھے.حضرت نبی کریم صلی اللہ وسلم نے یہ سوچا ہوگا کہ اگر میں نے ذرا سا بھی یہ اشارہ کیا کہ اب تم سب کچھ واپس لے سکتے ہو تو یہاں تو بڑا فساد پیدا ہو جائے گا.آپ نے کہا میں جا رہا ہوں واپس مدینہ اس میں ایک اور بھی حکمت ہے اور وہ یہ کہ جس دن حویلیاں چھوڑ کے مدینہ چلے گئے تھے، کوئی سکتا تھا مجبوری تھی اور کیا کرتے.جس دن رہ سکتے تھے وہاں نہیں رہائش اختیار کی اور چھوڑ کے چلے گئے.کوئی نہیں کہ سکتا تھا کوئی مجبوری تھی خدا کے لیے چھوڑ دیا تھا پھر واپس نہیں لیا.ساری جائیدادیں وہیں چھوڑ کے مہاجرین کو لے کے واپس چلے گئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ کی دراصل وہ تشریح ہے کچھ آیتیں بیچ میں مضمون کی اور حصے تھے وہ میں نے چھوڑ دیتے ہیں.) آفَا مِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيَاتِ اَنْ يَخْسِفَ اللهُ بِهِمُ الْاَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لا يَشْعُرُونَ انہوں نے خدا پر توکل کیا ہے.خدا کہتا ہے یہ میرے پر تو گل کر کے میری ہر بات مان رہے ہیں.میرے لیے اپنی ہر چیز قربان کر رہے ہیں پھر کیا جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف تدبیریں کرتے چلے آرہے ہیں، انہیں امن کی گارنٹی کس نے دی ہے کہ اللہ انہیں اس ملک میں ہی ذلیل نہیں کرے گا اور رسوا نہیں کرے گا اور جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ عذاب ان پر نہیں آئے گا.سب کچھ ہو گیا.جس دن آپ نے یہ کہا کہ تمہارے جن گھروں کے مکینوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہمارے گھروں سے نکالا تھا، ان مکانوں کو میں کہتا ہوں جو تمہارے اندر چلے جائیں گے وہ امن میں آجائیں گے.میں نے بتایا نا وہ دن بڑی عظمتوں کے بڑی رفعتوں کے اظہار کا دن تھا.ہم سب کو عقل دی
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۹۱ سورة النحل ہے.سوچنا چاہیے یہ اعلان کس قدر عظیم ہے.آپ نے کہا جس گھر کے مکین نے مجھے مکہ سے نکالا تھا اس گھر کو میں یہ عظمت دیتا ہوں کہ اس گھر میں تم چلے جاؤ گے تو وہ گھر تمہیں پناہ دے گا یہ اعلان تھا کہ خانہ کعبہ کے گرد جو گھر بنائے گئے تھے وہ امن کے لیے بنائے گئے تھے.وہ لوگوں کے گھروں کو اجاڑنے کے لیے تو نہیں بنائے گئے تھے اور اس لیے یہ اعلان کردیا اور وہ عذاب ان پر آ گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوْ يَأْخُذَهُم فِي تَقَلُّبِهِمُ کہ وہ دوڑے پھرتے ہیں.یہ جو جنگ احزاب ہوئی، یہ سفروں کے نتیجے میں ہوئی.رؤسائے مکہ دوڑے پھرتے تھے عرب قبائل کو اکٹھا کرنے کے لیے اور یہودی دوڑے پھرتے تھے رؤسائے مکہ کو اکٹھا کرنے کے لیے تاکہ مٹادیا جائے اسلام کو.اعلان کیا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ تو درست ہے کہ تم بڑے انہماک کے ساتھ ، بڑے پیسے خرچ کر کے، اپنا آرام کھو کے سعی میں، کوشش میں اور دوڑ میں لگے ہوئے ہو کہ کسی طرح اسلام کو مٹایا جائے تمہیں کس نے یہ امان دی ہے کہ ان سفروں میں تمہیں تباہ کر دیا جائے گا.میں نے بتایا نابڑی دوڑ دھوپ کے بعد جنگ احزاب کے حالات پیدا ہوئے اور اللہ جل شانہ کا یہ نشان (آیت) ظاہر ہوا.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ ويولون الدبر ( القمر : ۴۶) سارے اکٹھے ہو کر آئے تھے تباہ کرنے کے لیے، تباہ و برباد ہوکر.گئے وہاں سے.اور انسان کے ہاتھ سے نہیں فرشتوں کے ہاتھ سے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے او يَأخُذَهُمُ في تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ تم اللہ تعالیٰ کو نا کام نہیں کر سکتے اس کے منصوبے میں.اَوْ يَأْخُذَهُمُ على تخوف پنجابی میں کہتے ہیں بھورنا على تخوف کے بھی یہی معنی ہیں یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے ، یہ دونوں طرح ہوتا ہے یا آگے نسل کم ہو جائے یا نسل مسلمان ہو جائے ، ایک ایک کر کے ، وہ مکہ جس کے سپوت اسلام کو مٹانے کے لیے نکلتے تھے ان میں سے خالد بھی نکلا مگر اسلام کو مٹانے کے لیے نہیں اسلام کا جرنیل بننے کے لیے تو آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ ، بھور بھور کے ان کی طاقت کو خدا کم کرتا چلا گیا اور اسلام کی طاقت اللہ بڑھاتا چلا گیا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء: ۴۵) ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کناروں کی طرف سے اس کو چھوٹا کرتے جارہے ہیں.وہ اپنی تدبیر میں کامیاب کیسے ہونگے ہر دو کو اکٹھا کر کے ایک گلدستہ جس طرح بن جاتا ہے بہت خوبصورت کہ اَوْ يَأْخُذَهُم عَلَى تَخُوفِ یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے.
۳۹۲ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اور یہ سارا کچھ کیوں کرے؟ اس لیے کہ جو تمہارا رب ہے وہ مومنوں پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے جن مومنوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا ان کے ساتھ یہ اس کا سلوک ہے اور وہ رب ہے ربوبیت کرتا ہے اور ربوبیت کے لیے دو چیزوں کی ضرورت تھی.اس کی شفقت کی اور اس کے رحم کی.تم نے دیکھا نہیں کن عظیم مظاہروں کے ساتھ اس نے اپنی شفقت کا، اپنے پیار کا بھی اظہار کیا اور اپنی رحمتوں کی بارش بھی کی مسلمانوں پر.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۹۷ تا ۳۰۶) آیت ۵۱ يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام احکام ایک کامل اور مکمل شریعت کے رنگ میں انسان کو دیئے گئے.خدا تعالیٰ کا حکم کا ئنات میں چلتا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ جو خدا نہیں کہتا ہے وہی کرتے ہیں لیکن کائنات کا ایک حصہ جو آزاد رکھا گیا تھا اس کی ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کیا.اس نے انسان کو کہا کہ تیری مرضی ہے تو اس پر عمل کر اور تیری مرضی ہے تو نہ کر.لیکن اس کے لئے یہ کہنے کی ذرہ بھر گنجائش نہیں چھوڑی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اس عالمین میں اپنے کامل حکم کے ساتھ خلق کا سلسلہ قائم کیا اور پیدائش کی اور اپنی صفات کے جلوے ان کے اندر رکھے.اسی طرح تو نے ہمارے لئے ایک کامل کتاب کیوں نہیں بھیجی بلکہ جب انسان اس کا حامل ہونے کے قابل ہو گیا تو ایک کامل کتاب اس کو دے دی گئی.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۴۷۱) آیت ۷۰۶۹ وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلى مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيْهِ شِفَاءُ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ پس جب ہم اپنے اخلاق کی صحیح تربیت کریں گے تو خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے بعض دفعہ ہنگامی حالات میں تسلی حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد
تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث ۳۹۳ سورة النحل میں احمدی میرے پاس آ جاتے ہیں اور میں انہیں تسلی دیتا ہوں اور تسلی دینے کا ایک سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ میں چھوٹے بچوں سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ تمہیں کبھی سچی خواب آئی ؟ تو بلا استثناء ہر بچہ مجھے یہی جواب دیتا ہے کہ ہاں آئی ہے اور کئی ایک سے پوچھ بھی لیتا ہوں کہ کیا آئی.بچے کو تو اپنی عمر کے لحاظ سے سچی خواب آئے گی.بچے کو اپنی عمر کے لحاظ سے یہ خواب تو نہیں آ سکتی جس طرح مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عظیم پیشگوئی بتائی گئی تھی کہ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار.یہ اور اسی قسم کی اور بہت سی پیشگوئیاں ایسی ہیں جو مہدی علیہ السلام کے کان میں پڑسکتی ہیں ہمارے بڑے لوگوں کے کانوں میں بھی نہیں پڑ سکتیں چہ جائیکہ ایک بچے کے کان میں پڑیں.چنانچہ بچہ کہے گا کہ میں نے یہ خواب دیکھی تھی کہ میری بھینس بچہ دینے والی ہے اس نے کٹا دینا ہے اور پھر مہینے بعد بھینس نے جو بچہ دیا وہ کتا تھا.اب اس میں کوئی شک نہیں کہ بھینس کا کٹا دینا ایک معمولی بات ہے.بھینسیں کئے بھی دیتی ہیں اور کٹیاں بھی دیتی ہیں.اس میں تو کوئی بڑی بات نہیں لیکن ایک مہینہ پہلے سے بچہ کو بتا دینا کہ یہ بھینس کٹا دے گی یہ بڑی بات ہے.ایک دن پہلے بھی سوائے خدا کے اور کوئی بتا نہیں سکتا.خدا تعالیٰ وحی کے ذریعہ بتاتا ہے اور جہاں تک میر اعلم ہے اور میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میرا علم کامل ہے.ساری دنیا میں خدا کی صفات کے جو جلوے ہیں انسان ان کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن جتنا علم انسان کو دیا جاتا ہے وہ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ صرف خدا تعالیٰ کی وحی شہد کی مکھی کو پہلے بتادیتی ہے کہ تیرے انڈے میں نر نکلے گا یا مادہ نکلے گی.اس لئے اس نے اپنے چھتے میں مختلف جگہیں بنائی ہوئی ہوتی ہیں.اگر نر نکلنا ہو تو ایک اور جگہ جا کر رکھتی ہے اور اگر مادہ نکلنی ہو تو اور جگہ رکھتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اولی رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ یہ بھی وحی کا ایک حصہ ہے.پس خدا تعالیٰ تو ایک ایسی پیار کرنے والی ہستی ہے ایسی حسن و احسان کی حامل ہستی ہے جو شہد کی مکھی پر بھی قرآن کریم کی اصطلاح میں وحی کے ذریعہ اپنے پیار کا اظہار کر گئی تو پھر انسان سے وہ کیوں پیار نہ کرے گا لیکن خدا کی آواز سننے کے لئے پہلے خدا کا بندہ بنا ضروری ہے.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۵۰،۱۴۹) یہ تو ایسی جاہل قومیں ہیں کہ ایک وقت میں انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآنِ کریم تو خدا تعالیٰ کا جو کہ علام الغیوب ہے کلام ہی نہیں ہو سکتا.بھلا وہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ کہ جی اس میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ شہد کی مکھی اپنے جسم میں سے شہد بناتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا اور پھر
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۹۴ سورة النحل میرا خیال ہے کہ سوڈیڑھ سو سال تک پادری مختلف ملکوں میں یہ اعتراض کرتے رہے.ہماری بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایسے سکالر پیدا نہیں ہوئے جو اس کے متعلق تحقیق کرتے لیکن خود عیسائی محقق عالموں نے شہد کی مکھی پر تحقیق کی اور اب پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی جو شہد بناتی ہے اُس میں پچاس فی صد سے زیادہ اس کے اپنے جسم کے غدود میں سے جو سیکریشن (Secretion) یا مادہ نکلتا ہے وہ اس نے شہر میں شامل کیا ہوتا ہے اور شہد کے یا اس کے چھتے کے جو مفید اور صحت مند حصے ہیں وہ سارے شہد کی مکھی کے اپنے ہیں وہ پھول کے ٹیکٹر (Nectar) میں سے یہ لے کر نہیں آ رہی ، چھ قسم کے اینٹی بائیوٹکس ہیں پنسلین وغیرہ وغیرہ کے نام آپ نے سنے ہوں گے اب تو زمیندار بھی کہتے ہیں کہ سووا لگاؤ تو ہمیں آرام آئے گا ورنہ نہیں.یعنی وہ ٹیکوں وغیرہ سے واقف ہو گئے ہیں لیکن اب دریافت ہوا ہے کہ شہد کی مکھی جو اینٹی بائیوٹکس یعنی زہر کش چیزیں بنارہی ہے انسان ابھی تک ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا اور نہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کے اندر یہ چیز رکھی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے علم کامل اور اس کی وحی کے ذریعہ سے یہ کام کر رہی ہے.أوحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ خدا تعالیٰ نے مکھی کو وحی کی کہ یہ کام کر.پھر ہر قسم کے اینٹی بائیوٹک کی ایمونٹی (Immunity) ہو جاتی ہے یعنی بیماری کے کیڑوں کو دوائی کی عادت پڑ جاتی ہے لیکن اب کوئی پچھلے دس پندرہ سال میں یہ پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی ایک جرم کش بناتی ہے کہ جو بیماری کے سارے کیڑے مار دیتا ہے اور پھر کوئی ایمونٹی (Immunity) پیدا نہیں ہوتی.یعنی یہ نہیں ہے کہ پھر کہیں کہ جی اب یہ دوائی دو گے تب بھی کیڑے نہیں مریں گے بلکہ اگر نیا حملہ ہوگا تو یہ اس کے کیڑوں کو بھی مار دے گا.اور انسان کا وہ حصہ جو Unfortunately ، بدقسمتی سے اپنے خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم بھی ہے، جو حقیقی رحمتیں ہیں لیکن لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَطی (النجم:۴۰) کے وعدہ کے نتیجہ میں جن میدانوں میں انہوں نے کوشش کی ان میں ترقیات بھی انہوں نے کیں، وہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی یہ ڈسکوریز (Disvovries) جو ہیں ،نئی سے نئی معلومات جو ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو حقیقت ہمارے سامنے رکھی ، اس کو ظاہر کر کے ہمارے سامنے پیش کر رہی ہیں.قرآن کریم نے کہا تھا کہ شہر میں تمام بیماریوں کا علاج موجود ہے.معترض نے اعتراض کیا تھا یہ تو (خطابات ناصر جلد دوم صفحه (۱۰۹)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۹۵ سورة النحل بڑا نا معقول ہے دعوئی اور اسی معترض نے یعنی قوی لحاظ سے یہ ثابت کر دیا شہد کی بعض صفات یا شہد کی مکھی کی بعض صفات سے کہ نا ممکن نہیں.یہ جو دعویٰ کیا گیا کہ فِیهِ شفاء للناس یہ نا معقول نہیں ہے.ہمارا علم ان حدود تک بھی نہیں پہنچتا (انتہا تک تو پہنچ ہی نہیں سکتا میرے اس مضمون کی روشنی میں ) کہ جوستر ، اسی سو بیماریاں سامنے آتی ہیں ان کا علاج شہد سے کیا جاسکے.اسے سمجھنے کی ، جہاں ہم سمجھ سکتے ہیں اس حقیقت اور اصول کو وہ یہ ہے کہ نئی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ شہد کی مکھی مکس (Mix) نہیں کرتی میکٹر (Nectar) کو بلکہ جب تک کسی پھول سے وہ ٹیکٹر اٹھانا شروع کرے شہر بنانے کے لئے جب تک وہ نیکٹر اسے میسر رہے وہ اسی کے پاس جاتی ہے.یعنی کوئی ہزار ڈیڑھ ہزارکھی جو ہے ان کی ورکر، وہ باہر نکلتی ہے گلاب کے پھول سے اٹھالیا تو صرف گلاب کے پھول پر جائے گی جب تک گلاب کے پھول اس کو میسر ہیں اس کے اٹھانے کے لئے.جب ختم ہو جائے گلاب تب وہ دوسرے پھول کے پاس جاتی ہے.پھر جو اس کا چھتہ ہے اس میں گلاب کے پھول کے ساتھ وہ Mix نہیں کرے گی اس شہر کو بلکہ چھتے کے اندر ایک نئی جگہ نئے شہد کو جمع کرنا شروع کر دے گی اور پرانے شہد کو وہ کھانا شروع کر دے گی.وہ اپنے لئے بناتی ہے کچھ ہمیں بھی دے دیتی ہے تحفہ.اب طب یونانی نے قریباً ہر بیماری کا علاج جڑی بوٹیوں سے اور ہومیو پیتھک نے ایک قدم آگے بڑھ کے یہ کہا کہ جڑی بوٹی (ہومیو پیتھک جس شکل میں بھی بناتے ہیں پوٹینسی ) کی دوا پہلے استعمال کرو.جب بالکل ناکام ہو جاؤ پھر معدنیات کی طرف آؤ کیلشیم دے دو، یہ دے دو، وہ دے دولیکن پہلے وہ Try کرنی ہے تم نے.تو سب سے اچھی وہ ہے اور انسانی جسم مادی دنیا میں سب سے لطیف جسم ہے اور نیکٹر (Nectar) مادی دنیا میں سب سے لطیف غذا ہے.اس واسطے عقلاً انسانی جسم کے سب سے زیادہ موافق ہے.امل تاس استعمال کرتی ہے طب جلاب کے لئے.بہترین جلاب انسان کے لئے امل تاس کے پھول کا شہر ہے اگر مکھی وہاں سے اٹھانا شروع کر دے تو چھتے میں سے خالص شہد امل تاس کا آپ کو مل جائے گا.اور یہ خاصیت کہ یہ پالی جاسکتی ہے.اب یہ مثلاً چین نے تجربے کئے ہیں وہ اپنی مرضی سے جن پھولوں سے شہد بنانا چاہیں وہ بنا لیتے ہیں.پھر اس علم کے بعد پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ Orange Blossom کا شہد ہے، مالٹے اور سنگترے وغیرہ میں پھول آتے ہیں نا بڑی خوشبو ہوتی ہے اس میں ، اس کے پھول کے اندر.اس واسطے کہ اگر مکھی کا چھتہ
۳۹۶ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث جو پلی ہوئی لکھی ہے وہاں ہو اور پھول نکل آئیں اور پہلے پھول ان کو ملنے بند ہوجائیں اور مالک باغ اور مکھی کے چھتے کو دیکھے کہ میرے چھتے کی مکھیاں ان پھولوں کی طرف،Orange Blossom کی طرف جارہی ہیں اور وہاں سے لا رہی ہیں نیکٹر تو وہ قسم کھا سکتا ہے کہ یہ اس کا پھول ہے کیونکہ Mix کرتی ہی نہیں.تو یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے اور علم کے دروازے.میں نے ایک ڈاکٹر سے کہا تھا.یہاں نہیں آئے یہ تو بلین ڈالر ریسرچ پروگرام دیئے ہیں خدا تعالیٰ نے ہمیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے.(خطبات ناصر جلد نهم ۴۱۶ تا ۴۱۸) آیت ۳۷۲ وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُم عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فضْلُوا بِرَادِى رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاءٌ ۖ أَفَبِنِعْمَةِ اللهِ يَجْحَدُونَ وَ اللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَ حَفَدَةً وَ رَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَ بِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَ : اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُم عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ کہ جو کچھ بھی انسان کو ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے اور جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملا ہے وہ قرآن کریم کی اصطلاح میں رزق کہلاتا ہے اور یہاں یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رزق کی بخشش میں جو مختلف انسانوں کو اس نے دیا ، بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.بعض کو زیادہ دیا بعض کو کم دیا ہے اور جولوگ خدا تعالیٰ کی یہ جو عطا ہے اور جو اس کا رنگ ہے اور جس شکل میں اس نے یہ تقسیم کیا ہے اپنے رزق کو اس کی حکمت کو سمجھتے نہیں.وہ خدا تعالیٰ کا عطا کردہ جو رزق ہے، اسے کسی صورت میں بھی ان لوگوں کی طرف جو ان کے ڈپنڈنٹ (Dependant) ہیں جن پر ان کے داہنے ہاتھ قابض ہیں.یہاں غلام مراد نہیں بلکہ جو ، جن کی ذمہ داریاں ان پر ہیں کہ ان کے کھانے کا، پینے کا، کپڑوں کا، رہائش کا ، ان کے علاج معالجہ کا ان کو خیال رکھنا چاہیے وہ ان لوگوں کو خدا کے دیئے ہوئے رزق
۳۹۷ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث میں حصہ دار بنانے کے لئے تیار نہیں اور خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ حصہ دار بھی وہ اس طرح بنا ئیں کہ جس کے نتیجہ میں وہ برابر کے حصہ دار بن جائیں.پھر کیا وہ اس حقیقت کے جاننے کے باوجود، یہ حقیقت جو پہلے بیان ہوئی وہ یہ کہ دینے والا اللہ اور حکمت یہ ہے کہ سارے اس میں شریک کئے جائیں اور مختلف جگہوں میں خدا تعالیٰ نے بتایا کہ ہر انسان کے لئے میں نے اس ارض اس جہان کو ، اس کی نعماء کو پیدا کیا ہے کسی خاص گروہ کے لئے نہیں پیدا کیا.انسان انسان میں اس معاملہ میں فرق نہیں کیا جاسکتا.رزق دنیا اور رزق سے مراد میری یہ پیسہ یا گندم نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے جو چیز بھی دی جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا وہ رزق کے لفظ کی اصطلاح کے اندر آ جاتا ہے.ایک تو بالکل واضح اور غیر مشکوک یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگوں میں قابلیت زیادہ ہے.ہر میدان میں استعدادیں مختلف بھی ہیں اور ہر میدان کی استعداد میں فرق بھی ہے مثلاً تجارت کو لے لیں.مشہور ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جس چیز کو مٹی کو بھی ہاتھ لگا ئیں تو وہ سونا بن جاتی ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جو سونے کو بھی ہاتھ لگا ئیں تو وہ مٹی بن جاتی ہے یعنی ان میں جو مٹی کو ہاتھ لگا ئیں جن کے متعلق کہا گیا وہ سونا بن جاتا ہے خدا تعالیٰ نے یہ استعداد اور صلاحیت پیدا کی ہے کہ وہ تجارت کے میدان میں آگے بڑھیں اور پیسے جمع کریں.مدینہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا.ایک جس وقت خدا تعالیٰ نے دنیا جہان کی دولتوں کا رخ مدینہ کی طرف پھیر دیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثاروں کے قدموں میں ساری دنیا کی دولتوں کو اکٹھا کر دیا.اس کی ابتدا تھی ابھی.تاجروں کا کوئی قافلہ ایک لاکھ اونٹ مدینہ کی منڈی کی طرف لا رہا تھا.راستہ میں ایک صحابی گزر رہے تھے اپنے کسی کام سے وہاں انہوں نے دیکھا یہ مال منڈی میں جا رہا ہے.وہ بھی تاجر تھے انہوں نے غور کیا.انہوں نے دل میں فیصلہ کیا مال اچھا ہے میں خریدوں گا.لیکن حکم یہ ہے اسلام کا کہ بھاؤ کو بگاڑو نہ منڈی میں جانے دو.وہاں جو منڈی کا بھاؤ نکلے اس کے مطابق خریدو.منڈی کے باہر بھاؤ بگاڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.انہوں نے دل میں ایک خیال قائم کیا ، سوچا، ایک فیصلہ کیا منڈی میں آگئے.ان سے پہلے ایک اور صحابی نے سودا کر لیا ایک لاکھ اونٹ کا.وہ آپس میں سارے بھائی بھائی اور دوست تھے.وہ جنہوں نے رستے میں دیکھا تھا انہوں نے آکے اپنے دوست کو کہا تم پہلے آگئے منڈی میں تم نے یہ مال خرید لیا ایک لاکھ
۳۹۸ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اونٹ.میرا تو خیال تھا میں خریدوں گا.تو انہوں نے کہا تم اب خرید لو.پوچھا کیا بھاؤ ،کس بھاؤ پر؟ انہوں نے کہا جس بھاؤ پر میں نے لیا ہے اسی بھاؤ پر تم لے لو، صرف نکیل مجھے دے دو ہر اونٹ کی.تو اب یہ بڑا تاجر، تاجر دماغ یہ سوچ سکتا ہے کہ تکمیل مجھے دے دواسی بھاؤ پہ لے لو.اگر وہ اٹھنی بھی قیمت سمجھی جائے تکمیل کی تو پچاس ہزار روپے کا انہوں نے آدھے گھنٹے میں نفع حاصل کر لیا.میں بتایہ رہا ہوں کہ یہ جو کہا ہے کہ ہم نے فضیلت دی بعض کو بعض پر ، یہ فضیلت کا پہلا محل جو ہے وہ استعداد کا دینا ہے.بعض زمیندار ہیں، میں نے خود پڑھا ہے یعنی دنیا کی بات کر رہا ہوں صرف اپنے علاقہ کی بات نہیں کر رہا.یہاں سے ہزاروں میل دور سے یہ واقعہ ہوا کہ پندرہ ایکڑ کے مالک نے ساڑھے پانچ لاکھ روپیہ خالص آمد پیدا کی اور بہت سارے ایسے زمیندار بھی ہیں کہ جو پندرہ ایکٹر کے مالک ہیں اور سرخ مرچ کی چٹنی پیس کے اور روکھی روٹی کے ساتھ ان کا گزارہ ہے.علم کے میدان میں، ہر علم کے میدان میں آپ کو نہایت ذہین ، آگے بڑھنے والے ملیں گے.ہر علم کے میدان میں آپ کو اس علم کے حصول کی صلاحیت نہ رکھنے والے یا کم رکھنے والے پیچھے رہنے والے بھی ملیں گے.انسان کی خدا تعالیٰ نے عظیم حقیقت بیان کی ہے اس کا جلوہ نظر آتا ہے.انسان کی ہر شعبہ زندگی میں آپ کو اس آیت میں جو وَ اللهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ کہ ہم نے جو عطا دی انسان کو اس میں بعض کو بعض پر فضیلت دے دی لیکن اسی آیت میں ساتھ یہ کہا کہ فضیلت اس لئے نہیں دی کہ تم میرے بندوں کے خدا بننے کی کوشش کرو بلکہ اس لئے دی ہے کہ جو تمہارے(Dependant) ہیں، جو تمہارے زیر کفالت ہیں ان کو اپنے برابر سمجھو.جو کھاؤ نہیں دو.جو پہنو انہیں پہناؤ جہاں رہو ا نہیں رکھو.یہ جو ( Dependant) ہیں اس میں سب سے نچلا درجہ اُن غلاموں کا تھا جو اسلام سے پہلے غلام بنالئے گئے تھے لیکن فوری طور پر بغیر صحیح انتظام کے ان کو آزاد کر دینا انسان پر ظلم کرنا تھا.ایسا ہی تھا جیسے چڑیا گھر کے شیر کو آزاد کرنے کے لئے لاہور میں انار کلی میں لا کے چھوڑ دیا جائے.پہلے ان کو انسانیت کے آداب، شرافت کے آداب، اخلاق ، ان کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا کرنے کا سوال تھا، بعد میں ان کو آزاد کرنے کا سوال تھا.تو یہ جو میں بات بتا رہا ہوں کہ جو زیر کفالت ہیں ان کو اپنے برابر کا حصے دار سمجھو کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو آپ کھاتے ہو وہ اپنے غلام کو کھلاؤ.
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۹۹ سورة النحل پرانے غلام جو ملے ہیں ورثے میں.اس کے بعد پھر وہ جو قابلیتیں اور صلاحیتیں ہیں اس کے نتیجہ میں مختلف چیزیں رزق کے ساتھ تعلق رکھنے والی انسان کو ملتی ہیں.ایک شخص ہے وہ علم میں ترقی کرتا ہے.اس کے اوپر دو فرض عائد ہو جاتے ہیں.ایک علم پڑھانا دوسروں تک پہنچانا اپنی قابلیت کو اور اپنے جیسے ذہین لڑکوں کے لئے یہ تدابیر سوچنا کہ وہ بھی اسی طرح انتہائی رفعتوں تک پہنچنے والے ہوں اور دوسرے یہ کہ علمی ترقی کے نتیجہ میں دنیوی اموال جو ہیں وہ حاصل ہوتے ہیں اس میں اگر ایک شخص کہے کہ جی میں آئن سٹائن بن گیا اس واسطے جو دنیا مجھے اموال دیتی ہے اس کے اوپر میں کسی کا حق نہیں سمجھوں گا قرآن کریم کہتا ہے یہ غلط ہے.تمہیں ہر دوسرے کا حق سمجھنا پڑے گا کیونکہ یہ فضیلت خدا تعالیٰ نے اس لئے نہیں دی کہ تمہاری اجارہ داری ہو جائے بلکہ بہت ساری اشیا پر اس لئے دی ہے کہ تم جہاں خدا تعالیٰ کی دنیوی مادی نعمتوں سے مالا مال ہوئے ہو وہاں تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کئے جائیں کہ ان مادی نعمتوں کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں تم روحانی نعمتوں کو حاصل کرنے والے بن جاؤ اور جو وقتی طور پر اور ہلاک ہونے والی چیزیں ہیں ان کے ذریعہ سے تم خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ان کا استعمال کرنے کے نتیجہ میں ابدی نعمتیں جو خدا تعالیٰ کی ہیں اس کی رضا کی ابدی جنتوں سے تعلق رکھنے والی ان کے تم حق دار بنو.یہاں اس آیت کے آخر میں میں نے اس کا ایک ٹکڑالیا تھا، تو آخر میں ہے کہ پھر کیا وہ اس حقیقت کے جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں.تو انکار کے ساتھ ہی اقرار اور انکار دونوں کا یہاں مضمون کے لحاظ سے ذکر ہے اور اقرار کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق کو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق خرچ کرنا اور خدا تعالیٰ کی نعمت کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے نعمت حاصل کی اور جس سے پایا اسی کی حکم عدولی شروع کر دی.یہ ہے کفرانِ نعمت.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيْبَتِ افَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَ بِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ اور اللہ نے تمہیں تمام قسم کی پاکیزہ چیزوں سے رزق بخشا ہے.کیا پھر بھی ایک ہلاک ہونے والی چیز جود نیوی عطا کی شکل میں تمہارے اوپر نازل ہوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے.اس پر تو ایمان رکھو گے اور کہو گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم میں پتا نہیں کیا خوبی دیکھی کہ دنیوی اموال سے مالا مال
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۰۰ سورة النحل کر دیا اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا تقاضا ہے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ان مادی اور دنیوی عطایا کے نتیجہ میں تم روحانی نعمتوں سے محروم ہونے کی کوشش کرو گے.وَ بِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَ اصل نعمت خدا تعالیٰ کی.ایک شخص ہے اس کو اتنا مال ملا کہ اس پر دس ہزار روپیہ زکوۃ واجب ہو گئی خدا کے لئے.وہ دس ہزار روپیہ خدا کے حکم سے دے دیتا ہے تو جو دولت اس کو ملی جس پر زکوۃ واجب ہوئی مادی دولت ہے.روپیہ ہے.سونا ہے.چاندی ہے.بھیڑ بکری ہے.اونٹ ہیں.گائے اور بھینس ہے وغیرہ وغیرہ تو وہ زکوۃ دے گا تو یہی چیز جو مادی ہے اس نے خدا تعالیٰ کا حکم ماننے کے نتیجہ میں ایک روحانی نعمت کا دروازہ کھولا نا! خدا تعالیٰ نے کہا میرے بندے نے میرے حکم کے مطابق میری راہ میں اپنے مال کو میرے بتائے ہوئے نصاب کے مطابق خرچ کر دیا.مگر خدا تعالیٰ نے محض یہ نصاب نہیں مقرر کیا بلکہ نوع انسانی کا جہاں تک تعلق ہے اس نصاب کا میں آگے آکے ابھی ذکر کروں گا.رَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبت یہاں جو الطيبت کا لفظ استعمال کیا گیا اس سے میری توجہ اس طرف پھری کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت جو ہے، وہ پاک ہے.اس معنی میں کہ وہ پاکیزگی کی طرف لے جانے والی ہے.پاکیزگی کی طرف لے جانے والی ہے صحیح استعمال کے نتیجہ میں ، اعمال صالحہ کے نتیجہ میں.تو یہاں رزقکم میں ہر قسم کی عطا اور بخشش آ گئی اور من الطیبت میں اس طرف اشارہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی ہر قسم کی عطا اور بخشش کے نتیجہ میں تم خدا تعالیٰ سے اس کے پیار کو حاصل کر سکتے ہوا گر اس کا صحیح استعمال کرو.لیکن پھر آگے کافروں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے ا فَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ جو ہلاک ہونے والی چیز ہے اس پر تو وہ ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لئے دی کہ ہم ہی اس سے فائدہ اٹھائیں اور کوئی اور اس کا شریک نہ ہو.ہم ہی اس کا استعمال کریں صحیح یا غلط جس طرح چاہیں.جس طرح قرآن کریم میں ایک نبی کے متعلق آیا ہے کہ ان کی امت نے کہا ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ جو ہمیں خدا نے چیز میں دی ہیں ہم اپنی مرضی کے مطابق ان کو خرچ نہ کریں.تو طیبات سے اس طرف ہمیں توجہ دلائی گئی کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت اگر اس کا صحیح استعمال ہوا بدی رحمتوں کے دروازے کھولنے والی ہے اور جو اس کا غلط استعمال ہے اس قرآن کریم نے باطل یعنی ایک
۴۰۱ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہلاک ہونے والی چیز قرار دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ نے ابدی نعمتوں کو نواز نے کے لئے تمہیں چھوٹی اور بڑی، دینی اور دنیوی نعمتیں عطا کی تھیں لیکن تم نے ان کا محض دنیوی استعمال کر کے اور اپنے ربّ کو بھول کر اور اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے اس کو محض ایسے طور پر استعمال کیا کہ وہ آئی اور چلی گئی.دنیا تو ہے ہی آنی جانی اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے تم وارث نہیں بنے.......پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَ الْمَحْرُومِ - وَ فِي أَمْوَالِهِمْ کی ضمیر اس آیت میں میرے نزدیک جو میں اب معنی کر رہا ہوں جیسا کہ میں نے بتایا بہت سے بطون ہیں وفي أموالهم وہ لوگ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ کہا ہے نا.وہ لوگ جن کو ہم نے دوسروں پر فضیلت دی.انہوں نے تجارت کی اور تجارت کے مال بڑے اکٹھے کر لئے.انہوں نے زراعت کی اور بڑی آمد پیدا کی اپنی زمین سے.انہوں نے کارخانے لگائے اور وہ Millionaire بن گئے وغیرہ وغیرہ.دنیوی لحاظ سے انہوں نے دولتیں اکٹھی کیں.وہ ذہین تھے ان کو اپنے ذہنوں کی نشوونما کے سامان ہم نے دیئے تھے ان کو انہوں نے استعمال کیا اور سائنس کے میدان میں اور دوسرے علوم کے میدان میں آسمانوں کی رفعتوں تک پہنچ گئے اور اس ذریعہ سے انہوں نے دنیوی اموال بھی کمائے.محاورہ ہے کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی کہ کمال حاصل کرو دنیا کی عزت بھی حاصل ہو جائے گی اور دنیا کے اموال بھی حاصل ہو جائیں گے.ان لوگوں کے اموال میں ایک تو یہ گروہ ہو گیا نا.ایک دوسرا گروہ ہے جو سائل بھی ہے اور محروم بھی ہے.جس کو ان حقوق کا جو خدا تعالیٰ نے اس کے قائم کئے ہیں علم بھی ہے اور اسے مل نہیں رہے اور وہ ان کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق کا علم نہیں اس واسطے مطالبہ ہی نہیں کر سکتا اور وہ خاموش ہے اور محروم ہے.اس کو پتا ہی نہیں میرے حقوق کیا ہیں.جیسا کہ اس وقت یہ جو ترقی یافتہ مہذب قو میں ہیں ان کے مزدوروں کو کچھ پتا نہیں کہ ان کا حق کیا ہے اور میں ان سے مذاق میں ہنسی میں مسکراتے چہروں کے ساتھ بات کرتا تھا اور یہ حقیقت ان کے سامنے رکھتا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ تمہارا مزدور اپنے حق کے حصول کے لئے سٹرائیک کرتا ہے اور اس کو یہ پتا نہیں کہ اس کا حق کیا ہے.یہ عجیب چیز بن گئی نا! کہ جس چیز کا اس کو علم ہی نہیں اس کے حصول کی وہ کوشش کر رہا ہے.تو حاصل کیسے کرے گا جس کا علم ہی نہیں اس کو.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۰۲ سورة النحل تو محروم ہے وَی اَموَالِهِمْ حَقٌّ ان کا حق ہے ان کے مال میں جن کو خدا نے دیا.مختلف طریقوں سے دیا کسی کو تجارت کا ملکہ دیا کسی کو زراعت کرنے کی صلاحیت عطا کی.کسی کو استعداد میں دیں اور صلاحیتیں دیں علوم کے حاصل کرنے میں مختلف طریقوں سے اس نے فضیلت حاصل کی اور اموال اکٹھے کئے.خدا کہتا ہے صرف تم اس کے حق دار نہیں بہت سارے اور حقوق ہیں جو تمہارے مال کے اندر ہم نے جمع کئے ہوئے ہیں اور یہ بتا دوں ضمناً کہ خدا تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت اور بھک منگا ہونے کا تصور نہیں ہمیں دیا بلکہ غریب کا حق قائم کیا ہے اور یا یہ شخص جو مالدار ہے فَضْلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بعض کے گروہ والا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ خود ان کے حقوق ادا کرے گا یا خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جو تنظیمیں ہیں یا جو حکومتیں ہیں یا جو اقتدار ہیں وہ ان کو حقوق دیں گے.جہاں سے میں نے شروع کیا تھا لوٹ کے پھر وہیں آ گیا.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولتمند اور صاحب ثروت بنایا ہے ان کے اموال میں ہر اس شخص کا حق ہے جو اپنے رب کے قائم کردہ حقوق سے محروم ہے.خواہ وہ اس حقیقت سے واقف ہو، خواہ اس کا علم اس کو نہ ہو ہر صورت میں اس کا حق خدا تعالیٰ نے قائم کر دیا ہے....قرآن کریم یہ کہتا ہے اصل تو یہ ایک فقرہ ہے جس کے لئے میں نے یہ خطبہ آج پڑھا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب انسانوں کے ایک طبقہ کو ان کے مناسب حال اور متوازن غذا نہ ملے اور اس سے وہ محروم ہوں تو سب دولتمند ان کے برابر لا کے کھڑے کر دیئے جائیں.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ میں بڑا عظیم اعلان ہوا ہے.خدا یہ کہتا ہے کہ اگر مثلاً کوئی ملک اس کو ہم کہتے ہیں جیم ہر نام لے دیتے ہیں.اس کی اسی فیصد آبادی جو ہے اس کو مناسب حال متوازن غذ انہیں ملتی تو جب تک اس طبقہ کو مناسب حال متوازن غذا نہیں ملتی کسی امیر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان سے بڑھ کے کھائے.وہاں لا کے کھڑا کر دیا جائے گا کہ جیسا یہ کھائے گا ویسا وہ کھائے گا.تمام امرا اور دولتمند صاحب ثروت جو ہیں ان کو دکھ اور تکلیف میں غریب کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا کر کے سو فیصد ان کا شریک حال بنادیا.شریک غم بنا دیا ان کا اور ان امیر کو یہ کہا ہم نے تمہیں بڑا دیا.جب ان کو مناسب حال متوازن غذا مل جائے پھر اپنی مرضی کی کھا.تیرے اوپر کوئی پابندی نہیں.بعض دوسری ( Extreme) پر چلے گئے ہیں.خیالات فلاسفی ، ازم جو ہیں وہ کہتے ہیں کسی کو بھی اس کی مرضی کا
۴۰۳ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نہیں کھانے دیں گے.یہ غلط ہے.قرآن کریم کہتا ہے فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ ہر شخص کو اس کا حق ادا کرو.پھر جوز ائد تمہارے پاس ہے پھر اپنی مرضی چلا لو اس کے اندر اور پھر جب اپنی مرضی چلانے کا وقت آئے گا پھر خدا کہتا ہے جب اپنی مرضی چلا رہے ہو تو اپنی عارضی خوشیوں کا خیال رکھنے کی بجائے اپنی ابدی خوشیوں کا خیال رکھو.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۳۷ تا ۷ ۲۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میں نے تمہارے لئے حلال رزق کے سامان اور وسائل پیدا نہ کئے ہوتے اور شیطان تمہیں بہکا دیتا تب تو شاید تمہارا کوئی عذر ہو جاتا لیکن رَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبت میں نے طیب رزق کے بے حساب سامان تمہارے لئے پیدا کئے ہیں اگر تم میرے اس عظیم اقتصادی نظام کے بعد بھی ناجائز باتوں کو اور ناجائز اختلافات سے مال اکٹھا کرنا چاہو یا دوسروں کی چیزوں سے ان کی اجازت کے بغیر فائدہ حاصل کرنا چاہو تو یہ درست نہیں ہے افَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ کیا ایسے لوگ ایک ہلاک ہونے والی باطل چیز پر انحصار رکھتے ہیں اور ان کا یہ ایمان ہے کہ دنیا کی ضرورتوں کو اس قسم کے باطل افعال پورا کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعدادیں انہیں دی ہیں اور ان کے لئے رزق طیب کے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے وہ انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تم رزق طیب کے حصول کے سامان پیدا کرو اور اس کے نتیجہ میں روحانی طور پر تم میری برکات کے وارث بنو گے لیکن تم اس کا انکار کرتے ہو، تم اس کا کفر کرتے ہو تم ناشکری بھی کرتے ہو اور اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے پھر تم اللہ تعالیٰ کے غضب سے کیسے بچ سکتے ہو.ہر احمدی بھائی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانے کی کوشش کرے اور جماعت کے نظام کا یہ فرض ہے کہ اس قسم کے باطل افعال کو رو کے چند دنوں کے لئے اور وقتی طور پر تکلیف ہوگی لیکن میں کسی کا رازق نہیں، نہ کوئی اور شخص دوسرے کا رازق ہے رازق تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس نے یہ کہا ہے کہ حلال اور طیب راہوں سے اموال کماؤ اور اسی نے یہ فرمایا ہے کہ رزق حلال اور رزق طیب کے سامان میں نے پیدا کئے ہیں اور بے شمار پیدا کئے ہیں اور خدا یہ کہتا ہے کہ اگر تم طیب رزق کے حصول کی راہوں کو چھوڑو گے، غلط قسم کے تصرفات سے ناجائز ، عارضی اور ہلاک ہونے والا فائدہ حاصل کرو گے تو تم خدا تعالیٰ کے ناشکرے بندے بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائے گا اور ہم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے یا
۴۰۴ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس کے بھائی سے ناراض ہو جائے ہم تو ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کی پناہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور جس طرح ہمیں اپنی فکر ہے اسی طرح ہمیں اپنے بھائیوں کی بھی فکر ہے اور ہم ان سے ایسے کام نہیں ہونے دیں گے (جہاں تک ہماری طاقت ہے ) جس کے نتیجہ میں وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۷۲، ۳۷۳) آیت ۹۰ وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ أَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَؤُلَاءِ وَ نَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ اس وقت میں مختصراً اپنے بھائیوں کو اس آیت کے مضمون کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن عظیم نیکی ، تقویٰ اور قرب کی سب راہوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جس شخص نے اپنی سب استعدادوں کی کامل تربیت کرنی ہو اور اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر زیادہ سے زیادہ قرب الہی کو پانا ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کرے.دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں یہ بیان فرمائی ہے کہ ہدایت کے اصول اور ان اصول کی فروع اور شاخوں کے صحیح علم کا حصول رحمت باری پر موقوف ہے اگر چہ قرآن کریم نے ہدایت کی سب راہوں کو منور کیا ہے لیکن اس نور کو دیکھنے کی آنکھ رحمت باری کی طرف سے عطا ہوتی ہے.تیسری بات اس آیہ کریمہ میں ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے سامان پیدا ہو جائیں کہ تم قرآن کریم کی بتائی ہوئی روشن اور منور راہوں کو سمجھنے لگو تو پھر ایک اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ ان راہوں پر چلنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ملتی نہیں اور اللہ تعالیٰ نے چوتھی بات اس آیہ کریمہ میں ہمیں یہ بتائی ہے کہ رحمت کے حصول کے ذرائع بھی قرآن کریم نے ہی ہمیں بتائے ہیں ان ذرائع کے حصول کے لئے قرآن کریم کی طرف توجہ کرو اور قرآنی تعلیم کے مطابق عمل کرو اور جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے دعاؤں میں لگے رہو اور خود کو نیست محض سمجھو اور سب نور اور سب رحمت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جانو اور اس سے دعا کرتے رہو کہ وہ ہمارا پیارا
سورة النحل تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث عزاسمہ تمہیں ان راہوں کے سمجھنے اور ان کے جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب اس رحمت کا نزول انسان پر ہو جاتا ہے تو اس کو اس کی خوشیاں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی وہ جنت مل جاتی ہے کہ جس کی قیمت کا تصور بھی ہمارے دماغ نہیں کر سکتے.قرآن کریم نے یہ سب باتیں بیان کرنے کے بعد مسلمانوں کے لئے عظیم بشارت کا پیغام دیا ہے قرآن کریم کی اس عظیم بشارت کا پیغام آج میں اپنے بھائیوں کو پہنچا تا ہوں اس دعا کے ساتھ ایک مسلمان کو جو بشارتیں رب رحیم نے دی ہیں وہ ہمیشہ ہی ہم احمدیوں کو ملتی رہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۵۱،۴۵۰) آیت ۱۰۷ مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِةِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مطمين بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ جولوگ بھی اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا انکار کریں سوائے ان کے جنہیں کفر پر مجبور کیا گیا ہو لیکن ان کے دل ایمان پر مطمئن ہوں وہ گرفت میں نہ آئیں گے (جن کا دل مطمئن ہے ) ہاں وہ جنہوں نے اپنا سینہ کفر کیلئے کھول دیا ہو ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب مقدر ہے اور پھر فرماتا ہے اس کے بعد اور ایسا اس سبب سے ہوگا، اگلی آیت میں ہے کہ انہوں نے اس ورلی زندگی سے محبت کر کے اسے آخرت پر مقدم کر لیا اور نیز اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کفر اختیار کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا تو ایک شخص کفر کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.ایک شخص دنیا سے اندھی محبت رکھتا ہے اور دنیا کو اپنے پیارے رب کے لئے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ایک شخص مُطمین بالکفر ہے اور شَرَحَ بِالكُفْرِ صدرا اس کا اس کے اوپر اطلاق ہوتا ہے اس کے متعلق خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ عَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہ خدا کا غضب ایسے لوگوں کے اوپر نازل ہوتا ہے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے عذاب عظیم مقدر کیا یعنی جو شخص اپنی مرضی سے دنیا سے پیار کرنے والا کفر کی راہوں کو اختیار کرنے والا اور کفر پر شرح صدر رکھنے والا ہے یہ تصویر کھینچ دی نا
۴۰۶ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس آیت نے اب اگر کوئی شخص جبراً اس کے منہ سے یہ کہلوائے کہ میں ایمان لا یا یا اگر کوئی جبراً اس شخص سے نماز پڑھوائے تو وہ تو اسے یہ کہے گا جبر کرنے والا کہ خدا تجھے جنت میں لے کر جائے گالیکن خدا کی وحی اور خدا کا کلام اسے یہ سنا رہا ہوگا فَعَلَيْهِم غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ کہ یہ جو کہتے ہیں کرتے رہیں لیکن میرا فیصلہ یہ ہے کہ تیرے اوپر میرا غضب نازل ہوگا اور تیرے لئے میں نے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے.اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے اور قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَی کے معنی کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے کہ جب دل میں ایمان نہیں تو جبر جوصرف ظاہر پر کیا جاسکتا ہے وہ بے نتیجہ ہے اور کسی کا یہ خیال کرنا کہ اس سے کوئی اچھا نتیجہ اسلام کے حق میں یا اس شخص کے لئے جس پر جبر کیا گیا ہے نکل آئے گا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۱۸) گویا تمام روحانی بیماریوں کا مصدر انسان کا سینہ یا اس کا دل ہے کیونکہ شیطانی حربوں اور حیلوں اور تدبیروں کی آماجگاہ صدر انسانی ہی ہے اور روحانی ترقیات کے لئے پہلے سینہ و دل کی صفائی اور صحت و سلامتی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سینہ و دل کفر کے لئے کھل جاتا ہے اور ایمان کے لئے مقفل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے.وَلكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ - وہ جنہوں نے شیطانی وساوس کو قبول کر کے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا.ان پر اللہ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بہت بھاری عذاب مقدر ہے.تو اس آیت میں بتایا کہ شیطانی وسوسہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سینہ کفر کے لئے کھل جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرح کے لفظ کو اس سینہ و دل پر بھی استعمال کیا ہے جو کفر کے لئے بند ہو جاتا ہے اور جس کی کھڑکیاں خدا کی طرف کھل جاتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا.فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ.(الحج: ۴۷) کیونکہ اصل بات یہ ہے.(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) کہ حق و صداقت اور نشانات اور آیات کے تعلق میں ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں بوجہ اس کے کہ شیطانی
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۰۷ سورة النحل وسوسہ ان کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے اور روحانی شعاعیں دلوں تک پہنچ نہیں سکتیں اور روحانی نورا نہیں حاصل نہیں ہوسکتا.اس لئے اس اندھے پن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۹۱، ۳۹۲) مغضوب کے معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ جو شخص انشراح صدر کے ساتھ کفر کو کفر سمجھتے ہوئے قبول کرتا ہے سب سے پہلا انشراح صدر اس سلسلہ میں ابلیس کو ہوا تھا اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں تھی وہ اپنے اللہ کو پہنچانتا تھا، اللہ سے وہ گفتگو کر رہا تھا لیکن کہتا تھا کہ میں کفر کروں گا اور لوگوں کو بھٹکاؤں گا تیرا کہنا نہیں مانوں گا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی سزا ملے گی خدا نے کہا تھا کہ میں تجھ سے اور تیرے ماننے والوں سے جہنم کو بھر دوں گا لیکن وہ کفر پر قائم رہا غرض مغضوب اس کو کہتے ہیں جو نافرمانی کی راہ سمجھتا ہے جو کفر کے راستہ کو کفر کا راستہ سمجھتا ہے جو جانتا ہے کہ اگر میں نے یہ راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ کا یقینی غضب مجھ پر نازل ہوگا لیکن کبھی اس کا شیطانی نفس یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے اسی راہ کو اختیا ر کرنا ہے اللہ تعالیٰ مغضوب کے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے سورہ نحل میں فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِةَ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَبِنٌ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ - اس آیت میں بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غضب اس گروہ یا فرد پر نازل ہوتا ہے جو انشراح صدر سے کفر کے راستہ کو قبول کرتا ہے پس غضب کے نزول کے لئے جو وجہ بنتی ہے وہ جان بوجھ کر خدا تعالیٰ کے غضب اس کی ناراضگی اور اس قہر کے راستوں کو اختیار کرنا ہے کہ اس سے خدا ناراض ہو جائے لیکن پھر جرات کرتا ہے اور خدا کی ناراضگی ،اس کے غضب اور قہر کو مول لیتا ہے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۱۱) آیت ۱۲۶ اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ اعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ط قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ایک نور بنایا ہے.اس کے ماننے والوں کے دلوں میں لمبے اور دور
۴۰۸ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دراز کے سفروں کا شوق پیدا کیا.اس جذبہ کے ماتحت کہ ہم نے قرآن کریم کی حسین تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا کے دم لینا ہے اور اس مہم میں کامیاب ہونے کے ہمیں طریق بتائے اور وہ یہ ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُدعُ إلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ.کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ کی طرف اس صراط کی طرف جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہا گیا کہ یہ صِرَاطِئُ مُسْتَقِيمًا ہے.اس صراط مستقیم کی طرف جس کے حاصل کرنے اور جس پر قائم رہنے کی ہمیں دعا سکھلائی گئی.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.اس راستہ کی طرف تم ساری دنیا کو بلاؤ قرآن کریم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور دنیا کے ملک ملک میں پھیل جاؤ اور وہاں تبلیغ قرآن کرو اور تبلیغ اسلام کرو.دو دلائل تمہیں دئے گئے ہیں یا دو طاقتیں تمہیں عطا کی گئی ہیں.ایک حکمت اور موعظہ حسنہ کی یعنی اعلیٰ ترین دلائل اور ان دلائل کو بہترین طریق پر پیش کرنے کا ملکہ.یہ تمہیں عطا کیا گیا ہے.یہ ایک ہی چیز کے دو حصے ہیں اور دوسرے ہم نے تمہیں عمل کی توفیق دی اور تمہیں یہ کہا کہ اپنا عملی نمونہ پیش کر کے دنیا کو قرآن کریم کی طرف بلانا.وَجَادِلُهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اس میں عملی نمونہ پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم ( جدال میں غالب آنے کے معنی بھی کوئی ایسی کوشش جس میں انسان غالب آتا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے ) صرف دلائل لے کے ان کے پاس گئے تو وہ دلائل سے خاموش تو ہو جائیں گے لیکن فوراً وہ مطالبہ کریں گے کہ اس پاک تعلیم کا عملی نمونہ ہمیں دکھایا جائے.کیونکہ کوئی تعلیم خود کتنی ہی حسین کیوں نہ ہواگر اس پر دنیا عمل نہ کرے تو دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی تعلیم ایسی چیز تو نہیں کہ وہ ہوا میں چکر لگاتی رہے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھالے تعلیم تو کہتے ہی اُسے ہیں جس پر عمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسری چیز ہم نے یہ دی ہے.بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ بِالَّتِی سے مراد عمل ہے وہ عمل جو احسن عمل ہو.صرف عمل صالح نہیں، صرف نیک نمونہ نہیں بلکہ جب بہترین نمونہ ہو گے.تب دنیا تمہاری طرف جھکے گی اور مائل ہوگی.بعض اپنے ماحول میں بعض لوگوں کا احسن عمل نہ بھی ہو.صرف عمل صالح ہو تب بھی گزارہ ہو جائے گا لیکن جب آپ منکر اسلام کے سامنے جاتے ہیں.اس وقت محض عمل صالح آپ کو فائدہ نہیں دیتا بلکہ عمل صالح میں سے جو احسن عمل ہے بہترین عمل ہے اس سے وہ اثر قبول کرتا ہے ورنہ وہ اثر قبول نہیں کرتا.
۴۰۹ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث میں نے بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ سے جو استدلال کیا ہے.قرآن کریم کی دوسری آیات اس کی تائید کرتی ہیں لیکن اس خیال سے کہ وقت زیادہ ہو جائے گا.میں نے ان آیات کو لیا نہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے ویسے بڑی وضاحت سے قرآن کریم نے احسن کا لفظ اعمال کے متعلق استعمال کیا ہے جہاد کے سلسلہ میں احْسَنَ مَا عَمِلُوا (الثور :۳۹) کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو.عقل سے کام لو اور کلام الہی کی ہدایات پر چلو.خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۲) تو الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ امت مسلمہ کے وہ افراد جو دونوں ہاتھوں میں قرآن کریم کے انوار تھامے دنیا کے ملک ملک میں پہنچیں گے.وہ ان کو صرف قرآنی دلائل ہی نہیں پہنچا ئیں گے بلکہ اپنے بہترین نمونہ سے ان کو متاثر کریں گے اور اسلام کی طرف انہیں کھینچیں گے.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۲۴۸ تا ۲۵۰) اللہ تعالیٰ نے انسان کی زبان کو بھی آزاد نہیں چھوڑا اس پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں اور ایک مومن کا فرض قرار دیا ہے کہ وہ صرف سچ ہی بولنے والا نہ ہو ، صرف قولِ سدید کا ہی پابند نہ ہو بلکہ احسن قول کی پابندی کرنے والا ہو اور حکمت یہ بیان کی کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دے گا.يَنْزَعُ بَيْنَهُم انسان کی زبان کا اعمال صالحہ میں سے ہر عمل کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا ہے اور ہر عمل کو انسان کی زبان ضائع بھی کر سکتی ہے اس لئے انسان کی زبان کو ، اس کے قول کو، اس کے اظہار کو اسلام نے بڑی ہی اہمیت دی ہے اور اسے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم اپنی زبان سنبھال کر نہیں رکھو گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی بجائے شیطان کے مقرب ٹھہرو گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی اصولی تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے.و بدبخت تر تمام جہاں وہی ہوا جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جا گرا
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۱۰ پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد ڈرتے رہو عقوبت رب العباد دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا ہے حدیث سیدنا سید الوری ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۹) سورة النحل غرض جہاں تک عام بول چال کا تعلق ہے، اظہار کا تعلق ہے، جب دوانسانوں کے درمیان واسطہ پیدا ہوتا ہے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں، ایک دوسرے کے افسر یا ماتحت ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی نگرانی میں ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے راعی اور رعیت بنتے ہیں ، سب کے لئے خواہ وہ دنیوی لحاظ سے بالا مقام نہ رکھتے ہوں ماتحتی کا مقام رکھتے ہوں ، خواہ وہ سکھانے والے ہوں یا سیکھنے والے ہوں ، اثر انداز ہونے والے ہوں یا اثر کو قبول کرنے والے ہوں.ہر ایک کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ جو سب سے اچھی بات ہے، جوسب سے اچھے طریقہ پر بات ہواس کی پابندی کرو ورنہ تم شیطان کے لئے رخنوں کو کھولتے ہو.زبان سے ایک بڑا کام الہی سلسلوں میں یہ لیا جاتا ہے (اور زبان کے اندر ” قول“ کے اندر ہر قسم کا اظہار ہے ) کہ تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دی جاتی ہے اس لئے آج جن کو میں مخاطب کرنا چاہتا ہوں وہ صرف پاکستان سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ میرے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اپنے کو منسوب کرتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور میں انہیں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ایک صداقت کو صداقت سمجھ کر قبول کیا ہے آپ اس یقین پر قائم ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ آپ کے لئے قرآنی ہدایت کی ان راہوں کی نشان دہی کی ہے جو قرب الہی تک پہنچانے والی ہیں اور آپ کے دل میں یہ درد پیدا ہوتا ہے کہ جس صداقت کو ، جس روشنی کو ، جس نور کو ، جس جنت کو ، جس نعمت کو آپ
تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۴۱۱ سورة النحل نے پایا ہے آپ کے دوسرے بھائی بھی اسے پائیں اور اسے سمجھیں اور اس سے فائدہ اُٹھا ئیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وہ بھی وارث ہوں.اس کے لئے آپ کو اظہار کرنا پڑتا ہے زبان سے بھی، اشاروں سے بھی بعض دفعہ خاموشی سے بھی اور تحریر سے بھی اور عمل سے بھی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے دل میں ایک زبردست خواہش پیدا ہوگی کہ وہ جنہوں نے اسلام کی صداقت کو قبول نہیں کیا اور اس کی حقانیت کو نہیں سمجھا اور اس کی روح کو حاصل نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے وہ محروم ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی فیوض سے وہ نا واقف ہیں یہ لوگ بھی ان تمام باتوں کو سمجھیں اور پہچانیں اور اس زندگی اور اُس زندگی کی بہبود کا اور کامیابی اور فلاح کا سامان پیدا کریں ہم انہیں یہ کہتے ہیں کہ تم اپنے رب کے راستہ کی طرف ان لوگوں کو ضرور بلاؤ لیکن یاد رکھو کہ یہ دعوت ( الى سَبِيلِ رَبِّكَ ) حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ہونی چاہیے.حکمت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ علم اور عقل کے ذریعہ حق کو درست پایا اور احقائق حق کے لئے علمی اور عقلی دلائل دینا ( جن سے قرآن عظیم بھرا ہوا ہے ) پس اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ علمی اور عقلی دلائل ان لوگوں کے سامنے رکھو جو اپنے رب کو پہچانتے ہیں دوسرے معنی حکمت کے قرآن کریم اور اس کے مضامین اور اس کی تفسیر کے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ قرآن کریم میں بہت سے روحانی علمی اور عقلی دلائل رکھے گئے ہیں اور وہی مضبوط تر اور بہتر دلائل ہیں یعنی تم قرآن کریم کے ذریعہ اپنے رب کے راستہ کی طرف مخلوق خدا کو بلاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے (اور یہ تیسرے معنی ہیں) کہ الصَّيْتُ حُكُمْ وَقَلِيلٌ فَاعِلُهُ (مفردات راغب میں ہے کہ یہاں حکم سے مراد حکمت ہے ) اور آپ نے یہ فرمایا کہ خاموشی بھی بعض دفعہ حکمت میں شامل ہوتی ہے لیکن کم ہیں جو اسے سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں جس وقت مخالف اسلام اپنی مخالفت میں بڑھ جاتا ہے اور امن کی فضا کو مکدر کر کے فتنہ و فساد کو پھیلانا چاہتا ہے اُس وقت اُدْعُ إلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کے جواب میں خاموشی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی راہ کی طرف تم بلاؤ کیونکہ خاموشی بھی ایک بلیغ زبان ہے جو بسا اوقات بڑی ہی مؤثر ثابت ہوتی ہے.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث عدد ۴۱۲ بڑھ گیا شور سورة النحل , فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں حکمت کے ایک معنی مَعْرِفَةُ الْمَوْجُودَاتِ وَ فِعْلُ الْخَيْرَاتِ کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق پیدا کی ہے اس کا صحیح علم حاصل کرنا اور نیکیاں بجالا نا یعنی نیک کام اور حسن سلوک کرنا.پس اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ ہر ایک مخاطب سے اس کی طبیعت ، ذہنیت اور اس کے علم اور اس کی فراست کے مطابق بات کرو ورنہ وہ سمجھ نہیں سکے گا.ایک عام آدمی کے سامنے اگر آپ فلسفہ کی بار یک باتیں پیش کریں تو وہ آپ کا منہ دیکھتارہ جائے گا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا.دعوت الی الحق کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ نے اپنی ہمہ دانی کا یا فلسفی ہونے کا اظہار کرنا ہے.دعوت الی الحق کے یہ معنی ہیں کہ وہ جو راہ سے بھٹکا ہوا ہے سیدھی راہ کی طرف آ جائے اور وہ اس راستہ کو تبھی پہچان سکتا ہے جب جو بات آپ کریں وہ اس کو سمجھنے کے قابل بھی ہو اور یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ صرف بات کا اس کے اوپر اثر نہیں ہوگا بلکہ جو سلوک اور جو برتاؤ تمہارا اس کے ساتھ ہوگا وہ اس پر بہت اثر انداز ہوگا اس لئے بِالْحِكمة نیک سلوک کے ساتھ تم اُسے اپنی طرف کھینچو اور اس کے ذہن اور فراست اور علم کے مطابق قرآنی دلائل اس کے سامنے رکھو تا کہ وہ نور جو اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں رکھا ہے اس کے دل پر اثر کرنے اور اُسے روشن کرنے والا ہو جائے.وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں جب بھی الہی سلسلے جاری کئے جاتے ہیں اس وقت ساتھ ہی ساتھ انذار کا بھی ایک پہلو ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء کے سردار اور تمام انبیاء کے حقیقتاً ( معنوی لحاظ سے ) باپ بھی ہیں کیونکہ ہر ایک نے آپ سے فیض حاصل کیا آپ کی کتاب سے فیض حاصل کیا جس کا ایک حصہ ان کو دیا گیا تھا آپ نے دنیا کی محبت میں اور اس فکر میں کہ دنیا اپنے رب کو پہچانتی نہیں اپنی زندگی کے تمام لمحات گزارے لیکن اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اور عین اس کی وحی کے مطابق آپ نے دنیا کو بہت ڈرایا بھی اس سے نہیں کہ اگر تم میری خدمت نہیں کرو گے تو تباہ ہو جاؤ گے بلکہ اس سے کہ اگر تم اپنے رب کو نہیں پہچا نو گے تو اس کے غضب کا مورد ہو گے اور تباہ ہو جاؤ گے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۱۲ تا ۱۱۵)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۱۳ سورة النحل آیت ۱۲۹٬۱۲۸ وَاصْبِرُ وَمَا صَبُرُكَ إِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ ® اللہ تعالیٰ سورہ نحل میں فرماتا ہے: واصبر صبر کرو لیکن اللہ کی توفیق کے بغیر تم صبر نہیں کر سکو گے.وَمَا صَبْرُكَ إِلا بِاللہ اللہ کی مدد کے بغیر تم صبر کر نہیں سکتے اس واسطے جب ہمارے اس حکم کی تعمیل کرنا چا ہو کہ صبر سے کام لو تو تمہارے لئے ضروری ہو کہ خدا کے حضور جھکو کہ اے خدا! تو نے ہمیں ( ان تمام معانی میں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے ) صبر کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ہم کمزور بندے جانتے ہیں اور تو بھی جانتا ہے کہ اپنے طور پر صبر کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں اس لئے تو ہماری مدد کر.وَمَا صَبُرُكَ إِلَّا بِاللہ کے تقاضا کے مد نظر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھا دی کہ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا...الخ اے ہمارے رب! ہمیں کمال صبر عطا کر کیونکہ خود ہی دوسری جگہ فرمایا تھا.وَمَا صَبُرُكَ إِلَّا بِاللہ اللہ کی مدد کے بغیر صبر نہیں ہو سکتا.صبر کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ کی مدد کو اگر ہم اپنے الفاظ میں حاصل کرنے کی کوشش کریں تو الفاظ کے نقص کی وجہ سے شاید اس کو پانہ سکیں.اس لئے ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی دعا کے ذریعہ صبر کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں جو دعائیں ہوتی ہیں وہ کامل ہوتی ہیں اس لئے اس کامل دعا کے نتیجہ میں اگر ہم خلوص نیت کے ساتھ اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ اس دعا کو کر میں اس حقیقت اور ان معانی کو سمجھتے ہوئے جو اس میں بیان کئے گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ دعا ہمارے حق میں پوری ہو جائے گی اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود وہ دعا سکھا دی یہ بتانے کے بعد کہ وَمَا صَبُرُكَ إِلَّا بِاللهِ صبر خدا کی مدد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.اللہ کی مدد کیسے حاصل کرنی ہے؟ خدا تعالیٰ کہتا ہے دعا میں تمہیں سکھا دیتا ہوں جو یہ ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا اب اس سے فائدہ اُٹھا نا تمہارا کام ہے اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ کہ جب خدا کی مدد اور خدا کے فضل سے اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں جو صبر کے حصول کے لئے ہم نے تجھے سکھائی ہے تو صبر کی طاقت پائے تو وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِم دشمن کے جو حالات ہیں وہ تجھے اس غم میں نہ ڈالیں کہ کہیں اسلام کو وہ نقصان نہ
۴۱۴ 99191 سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث پہنچا دیں اور جو تد بیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تو کوئی تکلیف محسوس نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میری ہدایت کے مطابق تم صبر کرو گے تو میں تمہارے اس غم کو دور کرنے کے سامان پیدا کر دوں گا کہ کہیں دشمن اپنی مخالفانہ تدابیر میں کامیاب نہ ہو جائے اور تمہیں دل کے اس درد اور دل کے اس احساس سے بھی نجات دے دوں گا کہ مِنا يمكرون ان کی جو سازشیں ہیں ان سے اسلام کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کہیں نقصان نہ پہنچ جائے.نہ ان کے مکر کامیاب ہوں گے نہ ان کے منصوبے اپنی مراد کو پہنچیں گے.اگر تم میری ہدایت کے مطابق صبر سے کام لو گے اور اس صبر کو دعا کے ذریعہ سے کمال طور پر حاصل کر لو گے تو پھر جو دشمن کے منصوبے اور سازشیں ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گی.تمہیں جو خوف اور غم ہے وہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ یا درکھو کہ إِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِينَ ( البقره : ۱۵۴) اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے.66 وَاللهُ يُحِبُّ الصُّبِرِينَ (ال عمران: ۱۴۷) اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو اور جسے اللہ کا پیار حاصل ہو اس کو دنیا کا کوئی مکر نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ( ال عمران : ۱۲۱) اگر تم صبر سے کام لو گے اور اللہ ہی کو اپنی ڈھال بناؤ گے اور اس کی پناہ میں آجاؤ گے تو دشمن جتنے چاہیں منصوبے کرتے رہیں، سازشیں کرتے رہیں، مکر کرتے رہیں لَا يَضُرُّكُم كَيْدُهُم شَيْئًا “.پس اس آیت میں بڑا ز بر دست وعدہ ہے جو ایک مومن کو دیا گیا ہے دشمن جو مرضی تدبیر کریں، مکر کریں، شازش کریں، ہمنصو بہ باندھیں لا يضركم وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.اگر تم صبر سے کام لو گے.اگر تم حقیقتا اللہ کی پناہ میں آجاؤ گے تو شیطان اور اس کی ذریت کے وار کبھی تمہارے خلاف کامیاب نہیں ہوں گے پس اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو.اس کی ہدایت کے مطابق صبر کے شامیانوں کے نیچے خود کو لے آؤ..خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۱۲، ۵۱۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے منصوبوں اور ریشہ دوانیوں اور کارروائیوں کو دیکھ کر اے ہمارے رسول ! غمگین نہ ہو لا تحزن کی وجہ قرآن کریم نے دوسری جگہ بتائی ہے اور دل کی مضبوطی کے سامان پیدا کئے ہیں.فرمایا کہ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ وثمن جس دروازے سے چاہے آئے وہ کامیاب
۴۱۵ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث نہیں ہوسکتا اس واسطے کہ اللہ کی مدد اور نصرت اسے ملتی ہے جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا اور نیکیوں کو احسن طور پر بجالاتا ہے تو لا تحزن میں یہ حکم ہے کہ غمگین مت ہو کیونکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر تم قائم ہو اور احسن اعمال بجالانے میں تمہارا کوئی مثیل نہیں ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے دشمن کا مکر کامیاب ہو ہی نہیں سکتا.اس کی وضاحت آپ نے فرمائی تھی.جب یہ کہا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ معنا ( التوبه :۶۱) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ نا کامی اور نامرادی کا خوف دل میں نہ لا.اِنَّ اللهَ معنا خدا ہمارے ساتھ ہے اور جو شخص تقویٰ پر قائم ہو احسن اعمال بجالانے والا ہواللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں وہ نا کام کیسے ہو سکتا ہے؟ تو یہاں پر لا تحزن کا مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے رسول ! ہم تمہارے ساتھ ہیں تم نا کام نہیں ہو سکتے اس واسطے نا کامی کا کوئی غم نہیں.دوسرے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا تھا کہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو تو ہماری مدد اور نصرت اس رنگ میں تمہارے شامل حال ہو جائے گی کہ غیر تمہارے پر فتح نہیں پاسکے گا.تمہارے مقابلہ میں کامیاب نہیں : ہو سکے گا جیسا کہ آل عمران میں فرمایا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُم مُؤْمِنِينَ (آل عمران : ۱۴۰) اگر تم حقیقی مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو تو کامیابی تمہارے نصیب میں ہے.اس واسطے تمہیں غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اول المؤمنین تھے.آپ سے بڑھ کر کوئی مؤمن نہیں تھا تو یہاں یہ فرمایا کہ تم اول المؤمنین ہو تم نے ہی کامیاب ہونا ہے اس واسطے لا تحزن پریشان ہونے کی غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے.سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کو ملائکہ کی مدد اور ان کی بشارتیں ملتی ہیں.پس یہاں یہ معنی ہوں گے کہ ملائکہ تمہاری مدد پر ہر وقت کمر بستہ ہیں لا تحزن اندرونی اور بیرونی دشمن کیسے کامیاب ہو سکتا ہے.تم یہ غم نہ کر و یعنی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ اسلام کہیں کمزور نہ ہو جائے ، ناکام نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا ہے فمن تبع هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( البقرة: ٣٩) جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآنی کی اتباع کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے نا کامی کا منہ نہیں دیکھتا وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ تو فرما یا لَا تَحْزَنُ جو ہم نے ہدایت نازل کی ہے تیری تو ساری زندگی ، سارے اخلاق ہی اس ہدایت کا عملی نمونہ ہیں یعنی تیری زندگی قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہے اس واسطے مجھے غمگین ہونے کی ضرورت نہیں.
۴۱۶ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو غم کا سوال ہی نہیں دراصل ہمیں یہ سارے سبق دیئے جا رہے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا يَحْزُنُكَ قَولُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (یونس:۶۶) اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ تجھے نا کام کریں اور ذلیل کر دیں لیکن تجھے اس یقین پر قائم کیا گیا ہے کہ عزت کا سرچشمہ اور منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس واسطے جو مرضی وہ کہتے ہیں، کرتے رہیں.عزت تو تیرے ہی نصیب میں ہے.دنیا کا سب سے معزز انسان (جب سے انسان پیدا ہوا اور جب تک انسان اس دنیا میں رہے گا ) تو ہے.تیرے طفیل پہلوں نے بھی عزت پائی اور بعد میں آنے والے بھی تیرے ہی طفیل عزت حاصل کریں گے.تمہیں اب سر چشمہ عزت بنادیا گیا ہے تو چونکہ تیرے طفیل ہی سب کو عزت ملی ہے اس واسطے ان کے قول ان کے منہ کی باتیں بے نتیجہ ہیں ، بے اثر ہیں.عزت کا مالک تو تو ہی ہوگا.لَا تَحْزَنْ غم کرنے کی ضرورت نہیں.تیرے طفیل اسلام ہمیشہ معزز رہے گا.اسلام ہمیشہ ملائکہ کی بشارتیں حاصل کرتا رہے گا اور اسلام اور اُمت مسلمہ ہمیشہ اعلیٰ رہے گی اور خدا تعالیٰ ہمیشہ متقیوں کے ساتھ رہے گا.ان متقیوں کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت قرآنی پر عمل کرنے والے ہیں.اس واسطے لا تحزن اے رسول! تجھے ان اندرونی دشمنوں کی یہ حرکتیں اور یہ منصوبے جو وہ کر رہے ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اس خیال میں نہ ڈالیں کہ وہ کامیاب اور تو نا کام ہو جائے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو یقین اور پختگی کے ساتھ اس حقیقت پر قائم تھے لیکن آیات قرآنی میں جن کے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں اس قسم کا مضمون اگر بیان ہو تو ہم لوگوں کو سبق دینے کیلئے یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے.تو (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۸۰ تا ۴۸۲) قرآن عظیم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے سے محبت اور عشق کے لئے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے لئے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے متصف ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، وہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے.ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جیسا کہ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا اور دیگر آیات میں بیان ہوا ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہیں ہوتا، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اُس
۴۱۷ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں کہ قرآن عظیم نے اس فقرہ کو استعمال کیا ہے تاہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ جلوے جن کا تعلق الہی معنیت سے نہیں ہوتا وہ ان لوگوں پر بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں یعنی جو مفهوم إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا مثلاً سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفت رب العالمین بتائی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو قوی دیئے ہیں.اس عالمین میں موجود ہر مخلوق کو جو استعداد میں عطا کی ہیں، اُس نے اُن کی ربوبیت کے سامان بھی پیدا کئے ہیں یعنی جہاں تک کھانے کا تعلق ہے، غذا کا تعلق ہے یا گندم اور دوسری اشیا کا تعلق ہے، جیسے ان لوگوں کے لئے زمین پیدا کرتی ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے ویسے ہی ان لوگوں کے لئے بھی پیدا کرتی ہے جن کے ساتھ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق اللہ نہیں ہے لیکن ایک ایسی دُنیا بھی ہے اور ایک وہ صفات بھی ہیں جو صرف ان لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے....چنانچہ ایک دفعہ پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی ( شاید کوئی کہے گا یہ پاگل پن تھا ) میں نے یہ دُعا کی کہ اے خدا! مجھے وہ لذت عطا فرما جس کا تعلق کسی مادی چیز سے نہ ہو مثلاً ایک پیاسا آدمی ہے اس کے لئے گرمیوں کے دنوں میں ٹھنڈا پانی سرور پیدا کرتا ہے پانی ایک مادی چیز ہے اسی طرح ایک بھوکا آدمی ہے اس کو کئی دن کے بعد کھانا ملے تو اسے سرور حاصل ہوتا ہے.پچھلے سال جب سیلاب آئے تھے تو ہمارے بعض نوجوان ۳۶ ۳۶ گھنٹے بھوکے رہ کر اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے اپنے علاقے کی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لئے کام کرتے رہے.وہ جب واپس آئے ہوں گے اور اُنہوں نے کھانا کھایا ہو گا تو انہیں کھانے میں غیر معمولی لذت حاصل ہوئی ہوگی.چنانچہ میں نے یہ دُعا کی کہ اے میرے رب کریم! تیرے قانون کے مطابق مادی اشیا سے سرور حاصل ہوتے ہیں ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے میں دُعا نہیں کرتا یہ تو مجھے روز ملتے ہیں.اے خدا! مجھے ایسی لذت عطا فرما جس کا تعلق مادی طور پر لذت پہنچانے والی اشیا سے نہ ہو.خدا تعالیٰ کی شان تھی کہ دُعا کرنے پر ابھی ایک گھنٹہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ میرے جسم کے روئیں روئیں میں ایک ایسی لذت اور سرور پیدا ہوا جس کی کوئی مادی وجہ نہ تھی ، صرف دُعا کی قبولیت تھی.میں اس غیر معمولی لذت اور سرور کو ۲۴ گھنٹے تک محسوس کرتا رہا یعنی میرا دل بھی اور میرا دماغ بھی میرا جسم بھی اور میری روح بھی اور میرا ذہن بھی اس سے لطف اندوز ہوتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۸ سورة النحل ہے کہ جو لوگ حقیقی معنے میں اللہ تعالیٰ کے عاشق ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ دونوں جہان اُن کو دے دیتا ہے مگر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عاشق ہیں وہ ان دو جہانوں کو لے کر کیا کریں گے....معیت کا یہی وہ مفہوم ہے جس کا قرآن کریم نے متعدد جگہ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقُوا کے الفاظ میں بیان کیا ہے.کبھی اس کی کوئی صفت بیان کی ہے اور کبھی کوئی اور صفت بیان کی ہے.اس وقت میں صرف دو باتوں کولوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ کہ اللہ تعالیٰ کی معیت ایک تو متقیوں کو حاصل ہوتی ہے دوسرے محسنین کو.چنانچہ تقویٰ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کے میں ایک دو حوالے اس وقت پڑھوں گا تا کہ احباب پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں.حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلُ لكُم فُرْقَانَا وَ يُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمُ (الانفال : ٣٠) وَ يَجْعَلُ تَكُم نُورًا تَنْشُونَ بِه (الحدید : ۲۹) یعنی اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے انتقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نو ر تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قومی کی راہیں اور تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۸،۱۷۷)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۹ سورة النحل پھر آپ ملفوظات میں فرماتے ہیں.متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری ، تلف حقوق ، ریا ، عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے اُن کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.“ یعنی متقی کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ صرف بڑے اخلاق سے بچے.متقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں جو اچھے اور نیک اخلاق بیان فرمائے ہیں اور جن کی تفصیل ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات عالیہ میں ملتی ہے ان اخلاق میں ترقی کرتا چلا جائے.چنانچہ اسی تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.لوگوں سے مروت خوش خلقی ہمدردی سے پیش آوے خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں یعنی اگر 66 ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اُسے متقی نہ کہیں گے.“ مثلاً ایک شخص عام طور پر سچ بولتا ہے.لیکن دیانت سے کام نہیں لیتا تو وہ متفق نہیں بلکہ تمام انسانی قوی اس کی تمام طاقتوں اور استعدادوں کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرنا یہ تقویٰ ہے اگر کسی شخص میں کوئی ایک خاص خلق فرد فرد پایا جاتا ہے تو اُسے متقی نہ کہیں گے.فرمایا وو ” جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( البقرۃ : ۶۳) ہے اور اس کے بعد اُن کو کیا چاہیے اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے.جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصلِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.اُن کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں.اُن کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں.اُن کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے.میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو.ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۰ سورة النحل تو خدا تعالیٰ اُس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے“.ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۸۰ - ۶۸۱ جدید ایڈیشن) پس اس آیہ کریمہ میں جو معَ الذین کہا گیا ہے یہ دو صفات کا مطالبہ کرتا ہے ایک اُس تقویٰ کا جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کے متعلق میں نے اس وقت دوحوالے پڑھ دیئے ہیں.تفسیر آپ خود سمجھ جائیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ احسان کرنے والے ہوں.احسان کے دو موٹے معنی ہیں وہ میں اس وقت بیان کر دیتا ہوں.احسان کے ایک معنے یہ ہیں کہ انسان اپنی قوتوں اور استعدادوں کو موقع محل کے لحاظ سے استعمال کر کے جو اچھے خُلق بجالاتا یا بجالا سکتا ہے اُن کو پورے حسن کے ساتھ بجالائے.اُن کو اچھی طرح ادا کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرے.ایسی کوشش کہ اس میں کوئی خامی اور کوئی کمی نہ رہے مثلاً خدمت خلق ہے.انسان کو اس کی طاقت دی گئی ہے.اس لحاظ سے احسان کے معنی یہ ہوں گے کہ خدمت خلق کے سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر اور اپنی بساط کے مطابق اس خدمت کو کمال تک پہنچانا.اسی لئے ہماری جماعت جو ایک غریب اور چھوٹی سی جماعت ہے جب کبھی خدمت خلق کا موقع پیدا ہوتا ہے تو یہ کوشش یہ کرتی ہے کہ جہاں تک اس سے ہو سکے قطع نظر اس کے کسی کا عقیدہ کیا ہے یا کسی کا سیاسی مسلک کیا ہے، خدمت کے لئے باہر نکلتی ہے اور لوگوں کی بے لوث خدمت بجالاتی ہے اور خدمت کے ہر موقع کو اس کے کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے.گو یا احسان کے ایک معنی ہر اچھے فعل کے کرنے اور ہرا چھے خُلق کے اظہار کو انتہا تک پہنچانے کے ہوتے ہیں.احسان کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو کر بنی نوع انسان پر احسان کرنا.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا صمد ہونا ہے یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور ہر شخص اس کا محتاج ہے.انسان کلی طور پر یہ صفت اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی اسے طاقت نہیں دی گئی.کسی انسان کو یہ استعداد نہیں دی گئی کہ وہ کلی طور پر یہ کہے کہ کسی کی اُسے ضرورت نہیں اور ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے.یہ تو ایک عجیب خیال ہوگا بلکہ یہ تو پھر خدائی کا دعویٰ بن جائے گا کیونکہ اب بھی دیکھ لو یہاں جتنے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اُنہوں نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ان کپڑوں کے بنانے والے آدمی کی انہیں احتیاج تھی اسی طرح اور ہزاروں مثالیں ہیں جو انسانی زندگی میں
۴۲۱ سورة النحل تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ہمیں ملتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ صد ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے.اس صورت میں تو کوئی انسان اس صفت کی نقل نہیں کر سکتا کیونکہ انسان اپنی تمام کمزوریوں کے ساتھ آخر انسان ہے لیکن وہ اس معنی میں خدا تعالیٰ کی اس صفت کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے.دوسروں پر اس کے جو حقوق ہوتے ہیں، وہ اُن سے پورے حقوق نہیں لیتا یعنی جن حقوق کی اُسے احتیاج ہے اور وہ دوسروں پر واجب ہیں اور ضرورت ہے کہ اس کے جو حقوق دوسروں پر واجب ہیں وہ سارے اُسے ملیں لیکن خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کی غرض سے وہ یہ کہتا ہے کہ میرے حقوق کی سو یونٹ یا اکائیاں دوسرے شخص پر واجب ہیں لیکن میں ان میں سے صرف ۸۰ لوں گا اور ۲۰ چھوڑ دوں گا اور جو اس کا دوسرا پہلو ہے کہ ہر ایک شخص خدائے صمد کا محتاج ہے اس رنگ میں ہر ایک انسان کا محتاج نہیں ہوتا.کچھ ہلکی سے جھلک اس میں آ جاتی ہے اور وہ اس طرح پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ جو حقوق دوسروں کے اس پر واجب ہیں، اُن سے زیادہ میں دوسروں کو دوں گا یا اُن سے زیادہ حسن سلوک کروں گا.پس پورے طور پر تو انسان صدر نہیں بن سکتا اور نہ دوسروں کی محتاجی سے وہ نجات حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہر ایک لحاظ سے اور ہر معنی میں اس کا محتاج بن سکتا ہے لیکن انسان کو جتنی طاقت دی گئی ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس صفت (صد) کا رنگ بھی اپنے اوپر چڑھائے.اس لئے جو لوگ یہ گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور وہ کیا یا اُن پر ہمارا حق ہے وہ ہمیں ملنا چاہیے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم محسن ہو تو یہ مطالبہ نہ کرو.جو تمہارے حقوق ہیں، اُن میں سے بہتوں کو چھوڑ دو.اُن کا مطالبہ نہ کرو لیکن تم نے دوسروں کے جو حقوق دینے ہیں، ہیں ، وہ تم زیادہ دو.اگر تم ایسا کرو گے اور ان دو طریقوں سے تم اپنی زندگی گزارو گے تو خدا تعالیٰ فرماتا تم ہے کہ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری معیت تمہیں حاصل ہو گی.اگر تم متقی اور محسن بنو گے تو میں تمہارا متولی اور متکفل بن جاؤں گا.تم کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرو میں ہر ضرورت کے وقت تمہاری مددکروں گا اور تمہاری ہر ضرورت کو پورا کروں گا اور تمہیں یہ توفیق دوں گا کہ تم غیروں پر احسان کرو اور احسان کے ذریعہ اُن کے دلوں کو جیتو.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۵۴۱ تا۵۴۷)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنا ۴۲۳ سورة بنی اسراءیل بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة اسراءيل آیت ١٠ ١١ اِنَّ هُذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الطَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرَانَ وَ أَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ترجمہ ان دو آیات کا یہ ہے کہ یہ قرآن کریم یقیناً اس راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے جوا قوم ہے اور مومنوں کو جو مناسب حال کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر مقدر ہے اور ( قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۷۲۳) b آیت ۲۶ رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صُلِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْاَوَّابِينَ غَفُورًا تمہارا رب تمہیں، تمہارے نفسوں کو ، تمہارے ظاہر و باطن کو، تمہارے اندرونے کو، تمہارے خیالات کو ، تمہاری خواہشات کو ، تمہارے منصوبوں کو، اور اسی طرح جب تم دوسروں سے چالاکیاں کرنے لگتے ہو تو تمہاری ان چالا کیوں کو سب سے بہتر جانتا ہے.رَبِّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ یہ ایک بڑا اہم رشتہ ہے جو ایک بندے کا اپنے رب سے ہے.......اگر یہ عظیم ہستی یعنی اللہ تعالیٰ صرف گرفت کی صفات اپنے اندر رکھتا، صرف سزا دینا اس کی صفت ہوتی معاف کرنا اس کی صفت نہ ہوتی یا اگر وہ علم رکھتا اور بوبیت کی صفت اس میں نہ ہوتی تو ایسے علم
۴۲۴ سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے نتیجہ میں انسان کو نقصان پہنچ جاتا.فائدے بہت سارے نہ پہنچ سکتے لیکن قرآن کریم نے جس اللہ تعالیٰ کو اس کی کامل اور حسین صفات کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے ان صفات میں سے ایک بنیادی صفت اس کا رب ہونا ہے اور اسی صفت کو یہاں بیان کیا گیا ہے.یہ فرما کر کہ رَبِّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا في نفوسكم یہ جو جاننے والا ہے تمہاری ہر چیز کو ، ظاہر و باطن کو ، وہ رب ہے.اس نے تمہیں اس لئے پیدا کیا کہ اس کی ربوبیت کی صفت تمہاری زندگیوں میں جاری وساری ہے.اس کے لئے اس نے شریعت کو نازل کیا.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے.ہمارے لئے اس نے آپ پر کامل شریعت نازل کی ایسی شریعت کہ جو ہماری زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی اور ہر شعبہ کے اندھیروں کو دور کر کے نور پیدا کرنے والی، ہر شعبۂ زندگی میں ترقیات کے سامان پیدا کرنے والی اور ان تمام راہوں کو جن پر چل کر بندہ خدا کی رضا کی جنتوں کو حاصل کر سکتا ہے کھول کر بیان کرنے والی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارا رب ہوں اگر چاہو تو میری اس صفت سے فائدہ اٹھاؤ اور وہ اس طرح کہ ربوبیت کی خاطر میں نے جو ایک کامل شریعت کو نازل کیا ہے اس پر عمل پیرا ہو.پھر اس پر عمل پیرا ہونے کے عظیم الشان شمر کی طرف توجہ دلانے کے لئے فرمایا اِن تَكُونُوا صلِحِيْنَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَابِيْنَ غَفُورًا اگر تم صالح ہو گے، اعمالِ صالحہ بجالا ؤ گے.اعمالِ صالحہ کے معنی ہیں شریعت کے ہر حکم پر موقع اور وقت کی مناسبت کے مطابق پوری شرائط کے ساتھ عمل کرنا.جو عمل ایسا ہے وہ اعمال صالحہ کے زمرہ میں داخل ہے.اسلام اور قرآن کریم کی اصطلاح میں صالح وہ ہے کہ جس پر وقتاً فوقتاً خدا تعالیٰ کے جو احکام لاگو ہوتے ہیں ان سارے احکام کو وہ موقع اور وقت کی مناسبت سے بجالائے.وقت کی مناسبت کے بارہ میں کوئی شبہ نہ رہنا چاہیے.مثال کے طور پر ایک وقت نماز کا ہے.اس وقت باجماعت نماز پڑھنے کا حکم لاگو ہو گیا.زکوۃ کا حکم ہے وہ سال میں ایک دفعہ لاگو ہو گیا.روزے رکھنے کا حکم ہے وہ سال کے ایک مہینے میں لاگو ہو گیا.بشاشت اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ بھائیوں سے ملاقات کرنا اور ان کے ساتھ قول حسن سے بات کرنا.یہ ایسا حکم ہے کہ ہر وقت ہی لاگو ہے.جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں اور ملاقات کریں جس وقت آدمی اکیلا ہو اس وقت یہ حکم لاگو نہیں ہوتا.لیکن جس وقت بھی اس کا ملاپ کسی
۴۲۵ سورة بني اسراءيل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دوسرے انسان سے ہوتا ہے یہ حکم لاگو ہو جاتا ہے کہ دکھ نہیں دینا کسی کوسکھ پہنچانا ہے ہمیشہ.بتائیں یہ رہا ہوں کہ ہر حکم ہر وقت انسان پر لاگو نہیں ہوتا.اسی لئے اعمالِ صالحہ کا یعنی با موقع اور مناسب حال کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے.پھر بتایا کہ اعمال صالحہ بجالانے کی کوششوں میں تمہاری ایک بنیادی کوشش اور بھی ہونی چاہیے.اس بنیادی کوشش کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں صالح کی تعریف کے طور پر ایک لفظ زائد استعمال کیا گیا ہے.فرمایا فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا پہلے تو یہ کہا کہ اِنْ تَكُونُوا صِلِحِينَ یعنی یہ کہ اگر تم صالح ہو آیت کے اگلے حصہ میں صالح کے لفظ کو چھوڑ کر آؤآپ کا لفظ لیا گیا ہے تا کہ یہ بتایا جائے کہ صالح کے معنی میں خدا تعالیٰ کی طرف بار بار رجوع کرنے کی اہمیت کو بھی ذہن میں حاضر رکھنا ضروری ہے کیونکہ انسان جب کوئی عمل کرتا ہے، تو ضروری نہیں کہ وہ عمل مقبول بھی ہو.ہزار گند ہیں جو ہمارے اعمال میں شامل ہو جاتے ہیں ہمیں ان کا علم بھی نہیں ہوتا لیکن رَبِّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نفوسلم ہمارے خدا تعالیٰ کو تو علم ہوتا ہے.اسی لئے توجہ دلائی کہ بار بار اس کی طرف رجوع کرو تا کہ تمہارے خیال میں جو اعمالِ صالحہ ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی مقبول ہو جائیں یعنی اس کی نگاہ میں بھی وہ اعمال صالحہ قرار پائیں اور اس کے نتیجہ میں تمہیں رب کریم کی ربوبیت حاصل ہو اور ہر میدان میں تم اس کی رحمت کے سایہ تلے کامیابیوں کو اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہو.(خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۱۹ تا ۶۲۲) ط اوّاب کے معنی ہیں وہ شخص جو اللہ کی طرف رجوع کرے گنا ہوں کو چھوڑتے ہوئے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرتے ہوئے اور اس کی اطاعت کا جُوا اپنی گردن پر رکھتے ہوئے.اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.ربكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صلِحِيْنَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا کہ تمہارا رب تمہارے اندرونوں کو ، تمہارے نفسوں کو جتنا جانتا ہے.اتنا کوئی اور ہستی تمہارے نفسوں کو نہیں جانتی تم خود بھی بعض دفعہ اپنے نفس کو نہیں جانتے.اس لئے ہے تو بڑے خطرہ کا مقام کہ کہیں کوئی چھپا ہوا شرک، کہیں کوئی چھپا ہوا گناہ ا کہیں کوئی چھپی ہوئی معصیت جس کو خود بندہ نہیں جانتا.وہ اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کر دے اور نار جہنم میں پھینکنے کا باعث نہ بنے.لیکن اس خطرہ کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں
۴۲۶ سورة بنی اسراءيل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث خوشخبری دیتا ہوں کہ اگر تم اپنی طرف سے صالح بننے کی کوشش کرو گے اور تمہاری نیت میں کوئی قصور نہیں ہو گا.تم جان بوجھ کر معصیت میں گناہ میں مبتلا ہونے والے نہیں ہو گے.تم جان بوجھ کر غلط اعتقاد رکھنے والے نہیں ہو گے.گندی نیت نہیں ہوگی.بشری کمزور یاں ہیں یا بعض اور کمزوریاں ہیں.وہ تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.لیکن اگر تم کوشش کرو گے کہ اعتقاد بھی تمہارا درست ہو اور تمہارے اعمال میں بھی کوئی فساد نہ ہو اور تم اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف بار بار آؤ گے.اوّاب بنو گے تو یاد رکھو فَانهُ كَانَ لِلاَ وَّابِينَ غَفُورًا کہ جو خدا کا بندہ رب کی طرف بار بار رجوع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ مغفرت کا سلوک کرتا ہے.اسی طرح سورۃ ق میں فرمایا.وَ اخْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ هُذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِ أَوَابِ حَفِيظ ( 3 : ۳۳،۳۲) کہ جنت جو ہے وہ متقیوں کے قریب کی گئی ہے.اس کے ایک معنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کئے ہیں تفسیر صغیر کے نیچے نوٹ میں کہ دین اسلام کی تعلیم کو اس طرح وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر آخری زمانہ میں بیان کر دیا جائے گا کہ انسان کا دل یہ محسوس کرے گا کہ راہیں روشن ہو گئیں.ان کو اختیار کرنا میرے لئے آسان ہو گیا.اس لئے جنت میرے قریب ہوگئی.دوری صرف فاصلہ کی نہیں ہوتی.دُوری جہالت کی بھی ہوتی ہے.اگر ایک میل آپ نے جا نا ہو تو ایک فاصلہ ہے لیکن آپ کو راستہ نہ آتا ہو.تو وہ ایک میل جو ہے ہیں میل بھی بن جاتا ہے.ہیں میل کا چکر لگا کے.کئی ڈرائیور ہیں جن کو راستہ نہیں آتا.ہمارے ایک ڈرائیور جب بھی ہمارے ساتھ گئے ہیں پنڈی.راستہ بھول جاتے ہیں جو بتانا پڑتا ہے.ایک دن وہ کہنے لگے مجھے آتا ہے راستہ، آپ نہ بتا ئیں.تو جس جگہ ہم نے جانا تھا.وہ اس موڑ سے بمشکل پونے میں تھی میں نے کہا اچھی بات ہے.ہم تمہیں نہیں بتاتے لے جاؤ انہوں نے کوئی سات آٹھ میل کا چکر دیا پھر وہاں پہنچے.تو دوری اور بعد جو ہے وہ صرف فاصلے سے نہیں ہوتا بلکہ عدم علم اور جہالت کے نتیجہ پر بھی بعد پیدا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ جنت کی راہوں کو اتنا روشن کر دیا جائے گا کہ مومن کا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۷ سورة بنی اسراءیل دل سمجھے گا کہ جنت میرے قریب آگئی ہے.میں اندھیروں میں بھٹکتا نہیں پھروں گا.واضح راستے ہیں جو میرے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں.اگر میں ان پر چلوں تو میں اپنے رب سے امید رکھوں گا کہ وہ مجھے اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا.هُذَا مَا تُوعَدُونَ اس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.لیکل آؤ آپ اس شخص کے لئے وعدہ کیا گیا ہے جو بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور شریعت کا محافظ ہے.شریعت کے ہر حکم کو بجالا نا ضروری سمجھتا ہے.اور اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ میرا فرض ہے کہ میں اس بات کی حفاظت کروں کہ شریعت کا یہ حکم تو ڑ انہیں جاتا.تو جب بندہ بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے.استغفار کرتے ہوئے.اپنی گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے.اس کی رحمت پر کامل امید اور بھروسہ رکھتے ہوئے.تو پھر خدائے تو اب اپنی صفت کا جلوہ دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں فرمایا.وَ لَو لَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَ أَنَّ اللهَ تَوَابٌ حَكِيمُ (الثور : ۱۱) کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو اور یہ حقیقت نہ ہو کہ خدا تعالیٰ رحیم ہونے کے باوجود، خدا تمہاری احتیاج نہ رکھنے کے باوجود، خدا احد ہونے کے باوجود یکتا اور منفردا اپنی ذات اور صفات میں ہونے کے باوجود یہ صفت بھی رکھتا ہے کہ وہ تو اب ہے.اگر خدا تو اب نہ ہوتا اور حکیم نہ ہوتا اور فضلوں اور رحمتوں والا نہ ہوتا.تو تم ہلاک ہو جاتے.کیونکہ خالی او اب ہونا ضروری نہیں.کوئی انسان ہے جو یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اس کے عمل میں کوئی نقص نہیں اور اس کے اعتقادات اور روحانی تجربے جو ہیں یا جو جد و جہد ہے اس کے اندر کوئی فساد نہیں.کوئی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا اور محض او اب ہونا کافی نہیں جب تک ہمارا رب تو اب بھی نہ ہو.وہ تو بہ قبول کرنے والا اور اپنی حکمت بالغہ سے بہت سے گناہوں کو معاف کرنے والا نہ ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجرات میں فرمایا.وَاتَّقُوا الله (الحجرات: (۱۳) کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر ڈر کے اپنی زندگی کے دن گزار و اگر تم ایسا کرو گے تو پھر ہم تمہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ جو کمزوریاں رہ جائیں گی.ان کے باوجود اِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمُ (الحجرات : ۱۳) خدا تعالیٰ تمہاری تو بہ کو قبول بھی کرے گا اور جو تم نے عمل کئے ہیں ان کا بدلہ اس فارمولے کے مطابق دے گا جو اس نے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۲۸ سورة بني اسراءيل قرآن کریم میں بیان کیا ہے.دس گنا، سو گنا، سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ.خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۸ تا ۲۰) آیت ۵۵٬۵۴ وَ قُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ b الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُّبِينًا b رَبُّكُم اَعْلَمُ بِكُمُ إِنْ يَشَا يَرْحَمُكُمْ أَوْ إِنْ يَشَأْ يُعَذِّبُكُمْ وَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلاً یعنی ان لوگوں کو جو خدائے واحد کی خلوص اور تذلل کے ساتھ اطاعت کرنے والے اور صفات الہیہ کے مظہر بننے کے خواہشمند ہیں میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ وہی بات کہا کریں جو سب سے زیادہ اچھی ہے اب کسی بات کا اچھا اور بُرا ہونا مختلف پہلوؤں سے ہو سکتا ہے.بعض باتیں بعض لوگوں کے نزدیک اچھی ہوتی ہیں لیکن وہی باتیں بعض دوسروں کے نزدیک بری ہوسکتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے عبادی میں بندوں کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے.اور اس طرح اس سوال کا جو یہاں پیدا ہونا تھا خود ہی جواب دے دیا ہے اور وہ جواب یہ ہے جو میری نگاہ میں بھی احسن ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کون سی چیزیں احسن ہیں.اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہیں چیزیں احسن ہیں جو اسے اچھی لگتی ہیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے.جن کو دیکھتے ہوئے اور اپنے بندوں پر رحم اور فضل کرتے ہوئے وہ اپنی قرب کی راہیں اور اپنی رضا کے طریق انہیں سمجھاتا ہے اور ثواب کے دروازے ان پر کھولتا ہے.پس یہی وہ چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہیں.اور ان کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے اور قرآن کریم میں ہی مل سکتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ تمہاری زبان تمہیں دوزخ کی طرف بھی لے جاسکتی ہے اور تمہاری زبان تمہیں میری رضا کی جنت کی طرف بھی لے جاسکتی ہے.اس لئے تم اپنے قول اپنی باتوں اور اپنی نگاہ پر قابورکھو اور اپنی زبان کو آزاد نہ چھوڑو بلکہ اگر تم میرے بندے بننا چاہتے ہوا اگر تم میری اطاعت تذلل کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، اگر تم میری وحدانیت کے قیام کی طرف متوجہ ہو، اگر تم میری صفات کے مظہر بننا چاہتے ہو، تو اپنی زبان پر وہی باتیں لاؤ جن کے زبان پر لانے کا قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے.قرآن کریم ایسی باتوں سے جو زبان پر لانی
۴۲۹ سورة بنى اسراءيل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث مناسب ہیں ، بھرا پڑا ہے میں اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.ہاں مثال کے طور پر یہ ضرور بیان کروں گا کہ مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے یا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ (ال عمران:۱۰۵) یعنی میرے بندے معروف کا حکم دیتے ہیں نیز قرآن کریم فرماتا ہے کہ میرے بندے قول صادق پر ہی نہیں قول سدید پر کار بند ہوتے ہیں اور اس قسم کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں باتیں قرآن کریم میں ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے تم اس طرح کہو اور بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جن کے متعلق وہ کہتا ہے ایسا نہ کہو کیونکہ یہ باتیں شیطان اور اس کی ذریت ہی کہا کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے بندے ایسی باتیں نہیں کہا کرتے.یہاں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے بعد ایک چھوٹے سے فقرہ میں نفی والے حصہ کو بڑے حسین پیرایہ میں بیان کر دیا ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے.إنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَینھم ایک شیطان تو معروف ہستی ہے یعنی ایک نظر نہ آنے والا وجود جو دلوں میں وسوسہ پیدا کر کے انسانوں کو خدا سے دور لے جاتا ہے انہیں غیر اللہ کی طرف بلاتا ہے اور ایک قسم شیطان کی وہ ہے جس کی ذریت انسان کی شکل میں دنیا میں بستی ہے اور شیطان کے معنی ہیں حسد اور تعصب کی آگ میں جلنے والا اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے سرکشی کرنے والا.اپنی حدود سے آگے بڑھ جانے والا اور اس طرح پر نہ صرف خود حق سے دور ہو جانے والا بلکہ لوگوں کو حق سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا اور یہاں اللہ تعالیٰ اِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ کہہ کر انسان کو ہدایت کرتا ہے کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ ہمارا حکم ہے.رورود قول احسن کہا کرو اس حکم کے راستہ میں کچھ وجود روک بننے کی کوشش کریں گے اور وہ اس طرح کہ وہ حسد یا تعصب سے کام لیتے ہوئے سرکشی عدم اطاعت اور بغاوت اختیار کریں گے اور حق سے دُور ہو جائیں گے، اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کریں گے کہ تم بھی حق سے دُور ہو جاؤ.اس طرح ہمیں بتایا کہ جو قول حسد کی وجہ سے کہا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک احسن نہیں، اسی طرح وہ بات جو تعصب کی پیداوار ہو وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں احسن نہیں.تعصب کے نتیجہ میں کہی جانے والی باتیں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں کیونکہ تعصب بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ تعصب ہوتا ہے جو دوسرے کے خلاف ہوتا ہے اور اس وقت انسان تعصب کے نتیجہ میں دروغ گوئی کر رہا ہوتا ہے.دوسرے پر جھوٹا الزام لگا رہا
۴۳۰ سورة بنى اسراءيل تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہوتا ہے جو حقوق اس شخص کو حاصل ہوتے ہیں ان کا انکار ہوتا ہے.جس مقام پر اسے رکھنا چاہیے.وہ عمل سے بھی اور زبان سے بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے وہ مقام اسے حاصل نہ ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان حسد پیدا کرتا ہے وہ تعصب پیدا کر کے بعض ایسی باتیں تمہارے منہ سے نکلوانے کی کوشش کرتا ہے جو میرے نزدیک احسن قول نہیں اس لئے تمہیں شیطان کے پیدا کردہ وساوس سے بچتے رہنا چاہیے.يَنْزَعُ بَيْنَهُمُ - نَزَغَ يَنزَخ کے ایک معنی غیبت کرنے کے ہیں.دوسرے معنی بدگوئی کے ہیں اور تیسرے معنی ایسی باتیں کرنے کے ہیں جن کی وجہ سے بھائی بھائی کے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے، تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہو جائے.پھر اس کے معنی ایسی باتیں کرنے کے بھی ہیں جن کی وجہ سے ایک کو 991919 دوسرے کے خلاف برانگیختہ کیا جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَنْزَعُ بَيْنَهُم شیطان تمہیں میرے اس حکم سے کہ تم قول احسن کہا کرو، پرے ہٹانے کی کوشش کرے گا.وہ شیطان جو حسد اور تعصب کی آگ میں جلنے والا ہے.وہ شیطان جو سرکشی اور تمرد کی راہ کو اختیار کرنے والا ہے.وہ شیطان جو خود 991919.دور حق سے دور رہنے والا ہے اور جس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے بھی حق سے دو ہو جائیں وہ غیبت اور بدگوئی کی راہ سے بھائی بھائی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے گا اور تمہیں اس بات پر اکسائے گا کہ تم بھی غیبت کرو تم بھی بد گوئی کو اختیار کر لو تم بھی امن سکون اور آشتی کی باتیں کرنے کی بجائے بعض کو بعض کے خلاف بھڑ کانے اور ایک کو دوسرے کے خلاف برانگیختہ کرنے کی کوشش کیا کرو اور فساد اور فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرو.شیطان پوری کوشش کرے گا کہ تم جادۂ صداقت سے پرے ہٹ جاؤ اور وہ تمہیں حق سے دور کر دے لیکن ہم يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ کے مختصر الفاظ میں شیطانی حربوں کا ذکر کھول کر بیان کر دیتے ہیں تا تم ان پر نہ چلو تم حسد نہ کرو اور نہ تم کسی پر یا کسی کے خلاف تعصب کی راہ کو اختیار کر و عدم اطاعت اور بغاوت کے بول نہ بولو سرکشی کی باتیں نہ کرو نہ تم خلاف حق کچھ کہو اور نہ کسی کو خلاف حق کہنے کی ترغیب دو اگر تم ایسا کرو گے تو تم شیطان کے حملوں سے بچ جاؤ گے اور اگر تم حقیقتاً شیطان کے حملوں سے بچ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی تمہارے اقوال اچھے پسندیدہ اور مرغوب ہوں گے اور تم اس کی نگاہ میں بھی اس کے بندے بن جاؤ گے.پھر آگے فرمایا.اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُبِينًا -
۴۳۱ سورة بنى اسراءيل تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث یعنی شیطان جس کی صفات ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ انسان کے لئے ایسا دشمن ہے جو مبین ہے انسان ایک تو اس مخلوق کو کہتے ہیں جو آدم علیہ السلام کی ذریت ہے لیکن عربی زبان میں اس کے معنی اس ہستی کے ہیں جوا کیلے زندگی بسر نہ کر سکے بلکہ اس کے دل میں دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہو.اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہو کہ وہ ہم جنس لوگوں سے اُنس رکھے اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ اُلفت اور محبت قائم کرنے والی ہستی اور وہ ہستی جو دوسری طرف اپنے رب کے ساتھ بھی تعلق رکھنے کی خواہش رکھتی ہے اس کے اندر یہ ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہے.پیدا کرنے والے رب کے ساتھ تعلق قائم کرے اور اس کی رضا کو حاصل کرے انسان کہلاتی.پس ان دو قسم کے قرب اور تعلق ایک طرف انسان سے محبت اور دوسری طرف اپنے خالق و مالک سے تعلق ) رکھنے والی ہستی کو ہم انسان کہتے ہیں اور اِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُمْ - إِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُّبِینا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے.حالانکہ یہاں ضمیر بھی استعمال کی جاسکتی تھی اور کہا جا سکتا تھا کہ اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لَهُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا.لیکن یہاں ضمیر استعمال نہیں کی گئی نہ عباد کا لفظ دُہرایا گیا بلکہ انسان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس میں یہ حکمت ہے که انسان دو طرفہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے ایک طرف تو وہ اپنے بھائی انسان کے ساتھ تعلق قائم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنے خالق رب کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو انسان کہا جاتا ہے.بہر کیف یہاں فرمایا شیطان انسان کا دشمن مبین ہے اور مبین کے لفظ کے معنی اُردو میں کھلے کھلے کے کئے جاتے ہیں جو درست ہیں.چنانچہ کہا جاتا ہے ابان الشی اتضح فهو مبين (المنجد) پس اس حصہ آیت کے معنی ہوں گے.شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے لیکن عربی زبان میں اس کے اور معانی بھی ہیں مثلاً کہتے ہیں ابان الشی اوضحه (المنجد ) یعنی جب کسی شیے کے متعلق ابان کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے اسے واضح کر دیا اور شیطان جب انسان پر حملہ کرتا ہے تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے اس لئے شیطان اس کی عقل کو چکر دینا چاہتا ہے اور اس کے سامنے بعض بُرائیوں کو وضاحت سے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے کہ تمہیں ان پر عمل کرنا چاہیے.حالانکہ وہ چیزیں خدا تعالیٰ سے دور.لے جانے والی ہوتی ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بھی اس نے یہی سلوک کیا تھا اور اس نے کہا تھا اگر تم یہ کام کرو گے تو تم کو ابدی جنت مل جائے
۴۳۲ سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث گی.گویا اس طرح اس نے بظاہر معقول اور روحانی دلیل دے کر آپ کو خدا تعالیٰ کے رستہ سے ہٹانے کی کوشش کی تھی.پس ان معنوں کے لحاظ سے اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُّبِينًا کے یہ معنی ہوں گے کہ شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے اور وہ اپنی ان باتوں کو جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں ایسی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ انسانی عقل انہیں صحیح سمجھنے لگ جاتی ہے اور اس میں وہ بعض اوقات کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ انسان عقل کا جہاں صحیح استعمال کرتا ہے وہاں بسا اوقات وہ اس کا غلط استعمال بھی کرتا ہے پھر ابان الشییء کے ایک معنی قطعہ و فصلہ (المنجد ) کے بھی ہیں یعنی اسے قطع کر دیا.اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.اس لحاظ سے اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مبینا کے معنی ہوں گے شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے وہ انسان کے دوطرفہ تعلقات ( یعنی ایک طرف اس تعلق کو جو انسان کا انسان سے ہوتا ہے اور دوسری طرف اس تعلق کو جو اس کا خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے ) کو قطع کرنے والا ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ انسانوں کے درمیان باہم جھگڑا لڑائی فتنہ اور فساد پیدا ہو.کبھی تو وہ مذہب کے نام پر انسانوں کے خون بہا دیتا ہے اور کبھی وہ دہریت کی آواز بلند کر کے انسانی جانیں ضائع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور فتنہ وفساد پیدا کرتا ہے اور شیطان اس مخفی وجود کا نام بھی ہے جو انسان کے اندر وساوس پیدا کر کے اسے حق سے دور کر دیتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ اور وہ قومیں بھی ہیں جو شیطان کی ذریت اور اس کے ساتھ ہیں.غرض اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ شیطان کے جن حربوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے.ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمہارے ان تعلقات پر ضرب لگتی ہے جو تمہارے آپس کے ہوں یا خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوں.پس شیطان کا حملہ بنیادی صداقتوں پر ہوتا ہے نہ وہ اس دنیا میں امن چاہتا ہے اور نہ امن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ اُخروی زندگی کے متعلق صلاح کا خواہش مند ہے بلکہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ تمہارے اپنے رب سے بھی تعلقات استوار اور مستحکم نہ ہوں.تمہارا خدا تعالیٰ سے اتنا مضبوط رشتہ نہ ہو جائے کہ تم اُخروی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک ابدی جنت کے انعام کے وارث بنووہ تمہارے دونوں تعلقات کو قطع کرتا ہے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شیطان تمہارا دشمن ہے اور وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان جو تعلقات ہیں انہیں ہمیشہ قطع کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے وہ تمہارے باہمی تعلقات کو بھی بگاڑتا ہے اور اس طرح انسان کو انسان سے علیحدہ کر دیتا ہے.
۴۳۳ سورة بنى اسراءيل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس آیت کے بعد دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ربِّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ یعنی تم ہمارے ان احکام کی بظاہر پابندی کرنے کے بعد جو ہم نے تمہیں قول احسن کہنے کے متعلق دیئے ہیں یہ نہ سمجھنا کہ تم کوئی چیز بن گئے ہو اور تمہاراحق ہو گیا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کی رضا کی راہیں کھلیں اس لئے کہ دیکھ احلم بكم تمہاری بہت سی خطائیں، غفلتیں اور کوتاہیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو خود تم سے بھی پوشیدہ ہوتی ہیں اور ان باطنی خطاؤں، غفلتوں اور کوتاہیوں کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہوتا ہے اور کسی کو نہیں ہوتا.اس لئے تمہارا رب تمہیں تمہاری نسبت بھی زیادہ جانتا ہے یعنی تم اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا تمہارا رب جانتا ہے.اس لئے تم میں سے کسی کے لئے فخر و مباہات کا جواز پیدا نہیں ہوتا.اِنْ يَشَأْ يَرْحَكُمُ اگر وہ تم پر رحم کرے گا تو یہ اس کی اپنی مرضی کا نتیجہ ہوگا وہ اگر چاہے گا تو تم پر رحم کرے گا.تم اس کے احکام پر عمل کر کے اس کے رحم کے مستحق نہیں بن جاؤ گے بلکہ اس کے رحم کے وارث ضرور بن جاؤ گے.وَإِن يَشَأْ يُعَذِبُكُم پہلے بیان فرمایا تھا.تم امید قائم رکھو کیونکہ تمہارا خدا بڑا رحمان، رحیم اور غفور ہے.وہ تم سے بڑی محبت کرنے والا اور پیار کرنے والا ہے.تم یہ امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم ہی کرے گا.لیکن ساتھ ہی دل میں خوف بھی رکھو کہ کہیں ایسانہ ہو کہ تمہاری کسی مخفی خطا یا گناہ کے نتیجہ میں تم پر اس کا عذاب وارد ہو یا وہ تمہارے حق میں عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرے.وَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا - خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ ۱۷۲ تا ۱۷۷) آیت ۱۰۷ وَ قُرْآنًا فَرَقْنَهُ لِتَقْرَاهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَ نَزَلْنَهُ تنزيلا اس کے لئے ہدایت کو سمجھنا، اس پر چلنا ضروری ہے.ہدایت کو سمجھنے کے لئے قرآن عظیم جو واقع میں عظیم ہے، اپنی تمام عظمتوں اور وسعتوں اور رفعتوں کے ساتھ کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی مت پڑھو.علی مکہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھو.رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل:۵) اس ریل کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ خوب کھول کے بیان کرو.خوب کھول کر الفاظ کو ادا کر و قرآن کریم کی تلاوت میں کہ تمہارا ذہن بھی قرآن کریم کے حقائق اور معارف کو پہچاننے لگے.امام رازی نے لکھا ہے کہ ایک ایک حرف ہر لفظ کا علیحدہ علیحدہ جس طرح لڑی میں موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اس طرح وہ حروف تمہارے
تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۳۴ سورة بنی اسراءيل آپ پڑھتے ہوئے تمہارے ذہن میں حاضر ہوں اور دوسروں کو سناتے ہوئے قرآن کریم اس طرح وہ تمہارے سامنے ہو.جماعت احمدیہ چونکہ عظمت قرآن کریم کوعلی وجہ البصیرت سمجھتی ہے اس لئے عام طور پر کہیں غلطی کرتی ہوگی اور اسی کی اصلاح کے لئے آج میں نے یہ بات چھیڑی ہے، قرآن کریم کی تلاوت پڑھنے یا سنانے کے لئے اس طرح نہیں کرتی کہ جس طرح حروف کا پتا ہی نہ لگے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کوئی ایک آدھ لفظ سمجھ آجائے سننے والے کو اور باقی سب غائب ہو جا ئیں اس کے اندر.قرآن کریم نے کھول کر یہ بیان کیا وَ قرانًا فَرَقْنَهُ ہم نے اسے قرآن بنایا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے اور آیت آیت اور سورۃ سورۃ کی شکل میں اسے محفوظ کیا ہے لِتَقُرآنا على الناس تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے پڑھ کر سناؤ.النَّاس کے معنے عربی زبان میں نوع انسانی کا ہر فرد مرد ہو یا عورت ہے کیونکہ الناس کے معنے میں مردوزن دونوں آتے ہیں اور الناس کے معنے نوع انسانی ہے، مسلم ہو یا غیر مسلم.لتقران على الناس تم اسے سناؤ دوسروں کو لیکن سناؤ اس طرح کہ جس طرح آیت آیت نازل ہوئی ہے آہستہ آہستہ ، نرمی کے ساتھ اور ٹھہر ٹھہر کے اور عجلت کی راہوں کو اختیار نہ کرتے ہوئے ، ایک ایک حرف ان کے سامنے آتا چلا جائے تاکہ ان کو سوچنے کا بھی وقت ملے سنتے ہوئے.لِتَقْرَآةُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُلْثٍ وَ نَزَلْنَهُ تَنْزِيلاًا امام رازی نے اس کے معنے یہ کئے ہیں کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے نازل کیا اول.ہمارے لئے یاد کرنا سہل ہو.سننے والے کے لئے یاد کرنا سہل ہو.یعنی اگر جلدی سے گزر جاؤ گے تو کوئی بات ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری، تیسری کے بعد چوتھا نکتہ اس کے سامنے آئے گا تو اس کا حافظہ ان عظیم باتوں کو جو قرآن کریم بیان کر رہا ہے اور ان روحانی اسرار کو سنے گا تو سہی لیکن ان کو یاد نہیں رکھے گا.اس واسطے آہستہ آہستہ اسے پڑھ کر سناؤ تا کہ یاد کر نا سہل ہو اور یا درکھنا سہل ہو.دوسرے اس لئے کہ تا کہ انسان جب آہستہ آہستہ افق کے ساتھ (مکث کے معنے کئے گئے ہیں رفق ) اور نرمی کے ساتھ اور عجلت نہ کرتے ہوئے قرآن کریم کو غور سے پڑھے گا تو قرآن کریم کے حقائق اور دقائق اس کے سامنے آئیں گے اور وہ ان سے فائدہ اٹھا سکے گا.امام رازی نے دوسرے معنے یا حکمت یہ بیان کی ہے.امام رازی نے ہی سعید بن جبیر سے یہ روایت کی ہے کہ آیت آیت
۴۳۵ سورة بنى اسراءيل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس لئے ہم نے اس کو آیت آیت نازل کیا اور کہا آہستہ آہستہ پڑھو کہ تا علی مُکث پڑھا جاسکے.تا نرمی اور محل اور آہستہ آہستہ پڑھ کر سنایا جا سکے، جلدی جلدی نہ ہو.بعض لوگ اس قدر جلدی تلاوت دوسروں کو سنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پتا ہی نہیں لگتا کہ الفاظ کیا ہیں حروف تو علیحدہ رہے.قرآن کریم تعویذ نہیں.قرآن کریم جادو نہیں قرآن کریم موعظہ حسنہ سے بھری ہوئی کتاب ہے.قرآن کریم ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنا چاہتا ہے.قرآن کریم ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی کے لئے آیا ہے.قرآن کریم ہمیں ان راستوں پر چلانا چاہتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول تک لے جانے والے ہیں.اس لئے قرآن کریم عظیم ہے کہ اعلان کیا اسی واسطے علی مل آ گیا کہ كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( ال عمران : ااا) تم ایک ایسی امت ہو جس سے کسی کو دکھ اور بے آرامی نہیں پہنچ سکتی.ہر شخص کی بھلائی کے لئے.جو دھر یہ ہے اس کے لئے بھی خیر ہو تم ، جو مشرک ہے اس کے لئے بھی خیر ہو تم اور جو اسلام سے باہر کسی دین کا تابع ہے اس کے لئے بھی خیر ہو تم تمہارا کام سکھ پہنچانا ہے دکھ پہنچانا نہیں.اس قدر تاکید کی گئی کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.(خطبات ناصر جلد نم صفحه ۱۸ تا ۲۰)
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۳۷ مورة الكهف اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الكهف آیت ۳۰ وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۖ وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءِ كَالْمُهْلِ يَشْوَى الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا جب ہم اس کائنات پر نظر ڈالتے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں غور کرتے ہیں تو یہ شکل سامنے آتی ہے اور اس سے یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر انسان آزاد ہے اپنے اعتقاد میں بھی اور آزاد ہے اپنے عمل میں بھی.وہ عقیدہ جس کا اعلان کسی کی زبان سے زبر دستی کروایا جائے وہ نیکی نہیں ہے اور نہ کسی کا یہ حق ہے کہ وہ ایسا کر وائے.اسی طرح وہ عمل صالح جو گردن پر تلوار رکھ کر کروایا جائے وہ بھی نیکی نہیں.نیکی وہی ہے اور وہی عمل خدا کو پیارا ہے جس میں احکام الہی کی اطاعت مد نظر ہو.خدا کے نزد یک ایک اچھا عقیدہ وہی ہے جسے انسان اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے.اسلامی تعلیم کے مطابق عقیدہ صحیحہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی میں اعمال بجالائے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مذہبی آزادی یعنی ایمان لانے یا نہ لانے کےاس اختیار کا جوخدا نے انسان کو دیا ہے متعدد جگہ ذکر کیا ہے.اس وقت میں دو آیات کولوں گا.لا اول.اللہ تعالیٰ سورۃ کہف میں فرماتا ہے وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۖ وَ إِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا - اے رسول ! تو لوگوں کو کہہ دے کہ یہ تو حقیقت ہے کہ قرآن کریم اور اسلامی تعلیم حق وصداقت پر مبنی
۴۳۸ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ہے جو تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے اگر چہ انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن کسی انسان پر کوئی زبردستی نہیں ہے فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْ مِن جو آدمی چاہے اپنی مرضی سے ایمان لائے ، اپنی مرضی سے اپنے ایمان کا اعلان کرے وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ اور جو چاہے اپنی مرضی سے ایمان لانے سے انکار کرے اور کفر کی راہ کو اختیار کرے.مگر کسی کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِينَ نَارًا اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا خدا تعالیٰ نے ظالموں کے لئے جو فطرت انسانی کی صلاحیتوں کو بے موقع اور بے محل خرچ کرتے ہیں ( ظلم کے معنے کسی کام کو بے موقع ومحل کرنے کے ہیں ) اور فطرت صحیحہ کے مطابق عمل نہیں کرتے ، داعی الی الخیر کی آواز کو نہیں سنتے ان کے لئے ایک ایسی آگ تیار کی گئی ہے جس کی چار دیواری نے ان کو گھیرا ہوا ہے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُو من کے متعلق قرآن کریم میں کئی اور جگہوں پر بھی اعلان ہوا ہے مثلاً یہی کہ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (حم السجدة: ۳۱) جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور مَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنُ کے مطابق وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہیں اور پھر ایمان پر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے خدا تعالیٰ کی بشارتیں لے کر یعنی خدا تعالیٰ کے پیار کے پیغام لے کر ان پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں جب خدا سے تمہارا تعلق ہے تو پھر أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا تمہیں کسی کا خوف نہیں ہونا چاہیے اور نہ کسی کا حزن تم سے جو غلطیاں ہوئیں وہ معاف ہوگئیں.وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ تم خوش ہو جاؤ کہ خدا نے اپنی پیار کی جس جنت کا وعدہ کیا تھا خدا کی نگاہ میں تم اس کے مستحق ہو گئے.پس گفتگو کے موقع پر ایک دوسرے کو آرام سے سمجھانا اور الہی بشارتوں کو یاد دلانا اور ایمان صحیح اور اعمال صالحہ کے نتیجہ میں انسان کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر کرنا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو بیان کرنا یہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی شخص نہیں مانتا تو اس سے زبردستی کوئی نہیں کرنی......غرض قرآن کریم نے یہ اعلان کیا.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِن اور یہ بھی اعلان کیا فَا مِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ یعنی تمہیں اختیار تو ہے کہ تمہاری مرضی ہو تو ایمان لاؤ اور مرضی ہو تو نہ لاؤ لیکن یہ بھی تمہیں بتادیا جاتا ہے کہ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم ایمان لے آؤ.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۳۹ مورة الكهف يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا لَكُمْ (النساء : ۱۷۱) خدا تعالی کی طرف سے رسول حق لے کر تو آ گیا ہے تمہیں اجازت بھی دے دی گئی.تمہاری مرضی ہے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ لیکن تمہیں یہ بتادینا ضروری ہے فَامِنُوا خَيْرًا تَكُمْ تم ایمان لاؤ گے تو اس میں تمہاری اپنی بھلائی ہے.غرض خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو بڑے پیار سے سمجھاتا ہے کہ بنیادی طور پر مذہبی آزادی تو ہے لیکن حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ انسان خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاکر اعمالِ صالحہ بجالائے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.مذہبی آزادی کے بارہ میں اس وقت میں صرف دو آیات کی تشریح کروں گا.پہلی تو سورۃ کہف کی آیت ہے جس کے متعلق میں مختصر آبتا چکا ہوں.اب میں دوسری آیت کو لیتا ہوں اور وہ سورۃ یونس کی یہ آیت ہے:.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيل (يونس: ١٠٩) اے رسول! لوگوں سے کہ دو کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک کامل صداقت نازل ہو گئی ہے.چونکہ پہلے مخاطب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور پھر آپ کے متبعین ہیں، قرآن کریم کی ہدایت چونکہ قیامت تک ہے اس لئے یہ حکم آپ کی وساطت سے آپ کے متبعین اور پھر سب انسانوں کو قیامت تک کے لئے ملا ہے فرمایا :- قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُم تمہارے رب کی طرف سے ایک کامل صداقت نازل ہو گئی ہے.فَمَنِ اهْتَدى اب جو شخص اپنی مرضی سے اس کی بتائی ہوئی ہدایت کو اختیار کرتا ہے فَإِنَّمَا يَهْتَدِی لنفسه تو وہ اپنی جان کے فائدہ ہی کے لئے ہدایت کو اختیار کرتا ہے.گویا انسان کو اس بات کی آزادی ہے کہ مرضی ہو تو ہدایت کو اختیار کرلے اور اگر وہ اختیار نہ کرنا چاہے تو اس پر خدا اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی جبر نہیں البتہ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا جو شخص اس راہ سے بھٹک جائے تو اس کے بھٹکنے کا وبال اسی کی جان پر ہے اس لئے ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خوب سوچ لے اور پھر کوئی فیصلہ کرے.غرض خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کرادیا کہ اے لوگو تمہیں
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۰ سورة الكهف مذہبی طور پر آزادی ہے.تم نے اپنا فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہدایت کی راہ پر چلنا ہے یا گمراہی کو اختیار کرنا ہے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں، میں تمہارا وکیل نہیں ہوں ، میرے اوپر تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے...........پھر ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- وَ كَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ (الانعام: ۱۷) ایک رنگ میں یہ بیان ہمارے جذبات کی تاروں کو چھیڑتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی ہدایت لے کر آئے لیکن قوم نے اس پیغام کی تکذیب کر دی اور اسے جھوٹا قرار دے دیا حالانکہ هو الحق یہ تو ایک صداقت ہے یہ تو ایک سچائی ہے لیکن فرمایا:.قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ ہوگیل اے رسول ! تم ان سے کہہ دو.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.یہ فیصلہ بہر حال تم نے کرنا ہے کہ آیا تم اپنی مرضی سے ایمان کا اظہار کرو گے اور ہدایت کی راہوں کو اختیار کرو گے اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کی تلاش کرو گے یا تم کفر کا اعلان کرو گے اور خدا تعالیٰ سے دُوری کی راہوں کو اختیار کرو گے.میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.خدا تعالیٰ نے میرے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ میں تم پر جبر کر کے زبردستی کے طور پر کسی مادی طاقت کے ذریعہ تمہارے اس اختیار کو چھین کر جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے تمہیں ہدایت کی راہوں کی طرف لاؤں.قرآن کریم سے تو یہ مسئلہ صاف ہے کوئی شخص کسی کو نہ تو زبردستی مومن بنا سکتا ہے اور نہ کسی کو زبر دستی کا فر بنا سکتا ہے اس لئے کہ ہدایت کے راستوں پر جس آدمی کی جدو جہد عند اللہ مقبول ہوگئی و ہی مومن ہوتا ہے.پس جہاں تک ایمانیات کا تعلق ہے قبول کرنا یا نہ کرنا بندے کا کام نہیں یہ خدا کا کام ہے.ایک شخص کہتا ہے میں خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں اور بڑا ہی کمزور انسان ہوں.میں خدا تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر ایمان لاتا ہوں.میں مومن ہوں اور اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق بڑی عاجزی کے ساتھ جتنی بھی تجھے طاقت ہے میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایسی صورت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے یہ کہے کہ نہیں ! تو ایمان نہیں لایا اور یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ تو کافر ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کرتے ہیں کہ میں کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۴۱ سورة الكهف کا فر ہو تو اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں کہتا ہوں تم کا فر ہو وہ گویا اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بنا تا ہے.پس اللہ تعالیٰ دماغ کو عقل اور سمجھ عطا کرے.ہمارا کام غصہ کرنا نہیں ہمارا کام دعائیں کرنا اور پیار سے سمجھانا ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۰ تا ۲۲۷) پھر جیسا کہ میں نے بتایا یہاں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ جو نیکی ہے اس کا بدلہ تو خدا تعالیٰ نے دینا ہے اگر میں یا آپ کسی پر جبر کر کے اس سے نیکی کے کام کروائیں تو وہ میرے سامنے ہاتھ پھیلائے گا نا کہ مجھے بدلہ دوستم نے جو مجھ سے یہ کام کروائے ہیں مجھے خدا کی رضا کی جنتوں کا پروانہ لکھ کے دو.تو کون ایسا انسان ہے جو کسی دوسرے انسان کو ایسے پروانے لکھ کے دینا شروع کر دے اور خدا تعالیٰ ان کو مان بھی لے.بدلہ تو خدا نے دینا ہے اور خدا ظاہری اعلان کو دیکھ کر تو بدلہ نہیں دیتا.خدا تعالیٰ تو ، بعض بد بخت ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے اعمال انسان کی نگاہ میں بڑے پیارے اور مخلصانہ ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں قبول نہیں کرتا بوجہ کسی ایسی خباثت کے جو ان اعمال کے پیچھے پوشیدہ ہوتی ہے اور ان کے منہ پر مار دیئے جاتے ہیں ان کے اعمال نامے.حدیثوں میں کثرت سے اس کا ذکر ہے تو جس نے بدلہ دینا ہے اور جو علام الغیوب ہے اور جس پر کوئی زبردستی کر کے اس کے قانون اس کی خواہش اور منشاء کے خلاف کچھ کر وا نہیں سکتا.اس سے کیسے جزا دلوائی جاسکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو مَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَ مَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ کا اعلان کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ کہا کہ اپنی مرضی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ اور مجھ سے اگر پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرو، اپنی مرضی سے لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ تم پر کوئی زبر دستی نہیں ہے.مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی زبردستی نہیں کیونکہ اگر مسلمان ہونے کے بعد کوئی زبردستی ہوتی تو اسلام کے اندر نہ فاسق کوئی ہوتا نہ منافق کوئی ہوتا.اپنی مرضی سے اخلاص کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت جو کامل محبت کا تقاضا کرتی ہے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا پیار ملتا ہے اس کی معرفت ملتی جس کے نتیجہ میں خدا کا عرفان حاصل ہوتا خدا کے لئے دل میں محبت کا ایک سمندر موجزن ہو جاتا ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ اس قابل سمجھتا ہے اس پاک بندے کو جو اس پاک کی خاطر خود کو پاک بناتا ہے کہ اس سے وہ پیار کرے اپنی رضا کی جنتوں میں اسے داخل کرے تو لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۱۲۱، ۱۲۲)
تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث ۴۴۲ سورة الكهف آیت ۱۰۴ تا ۱۰۷ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالات الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَان أولبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ وَلِقَابِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيْمَةِ وَزْنًا ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَ اتَّخَذُوا أَيْتِي وَرُسُلِى هُرُوا تفسیر صغیر میں اس کا ترجمہ یہ ہے.تو (انہیں) کہہ ) کہ ) کیا ہم تمہیں ان لوگوں سے آگاہ کریں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں.(یہ وہ لوگ ہیں ) جن کی ( تمام تر ) کوشش اس ورلی زندگی میں ہی غائب ہوگئی اور (اس کے ساتھ ) وہ (یہ بھی) سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے نشانوں کا اور اس سے ملنے کا انکار کر دیا ہے اس لئے ان کے (تمام) اعمال گرکر (اسی دنیا میں ) رہ گئے ہیں.چنانچہ قیامت کے دن ہم انہیں کچھ بھی وقعت نہیں دیں گے.یہ ان کا بدلہ (یعنی) جہنم اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے کفر ( کا طریق) اختیار کیا اور میرے نشانوں اور میرے رسولوں کو (اپنی) ہنسی کا نشانہ بنالیا.سورۃ کہف کی ان آیات میں دس باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں ان لوگوں کے متعلق بتائیں جو سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں اپنے اعمال کے لحاظ سے.انسان مختلف قسموں میں بٹ جاتے ہیں اپنے اعمال کے لحاظ سے.ایک وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں، ایک وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا عرفان نہیں رکھتے ، ایک وہ ہیں جو زندہ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں، ایک وہ ہیں جن کا زندہ مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، ایک وہ ہیں جو د نیوی لحاظ سے شریفانہ زندگی گزارتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو دنیوی معیار کے مطابق بھی بدزندگی گزارنے والے ہیں.ہر شخص اپنے رب سے اپنے اعمال کے مطابق بدلہ پاتا اور جزا حاصل کرتا ہے اور وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے پیار کو اپنی قوتوں اور استعدادوں کے دائرہ کے اندر اپنی اس سعی کے مطابق جو وہ اس دائرہ میں اپنے خدا کے حضور مقبول
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۴۳ مورة الكهف سعی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس کے مطابق وہ بدلہ پاتے ہیں.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو حاصل کرتے ہیں اور قہر کی آگ ان کے حصہ میں ہے لیکن ان میں بھی فرق ہے.کسی پر اللہ تعالیٰ کم غضب نازل کرتا ہے کسی پر زیادہ کرتا ہے.یہاں یہ مضمون اس بات سے شروع کیا گیا ہے کہ جو سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے ہیں ان کے متعلق ہم تمہیں کچھ بتانے لگے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے اپنے اعمال کے لحاظ سے وہ ہیں کہ جو ایک تو خدا کو پہچانتے نہیں، اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے.دوسرے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان ظاہر ہوتے ہیں ان کو پہچانتے نہیں اور جس غرض سے وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں وہ غرض ان کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہے.بدقسمت ہیں وہ اس لئے کہ ان کی ساری توجہ، ان کی ساری کوشش ، ان کا سارا عمل ان کا مقصود اور ان کی ہمت جو ہے وہ اس دنیوی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس ورلی زندگی کو انہوں نے اپنا مقصود بنالیا.دوسری بات یہاں اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتا ہے ان آیات میں اس زندگی کو ورلی زندگی کو انہوں نے اپنا مقصود بنالیا، اس کے لئے وہ عمل، کوشش، سعی اور جہد کرتے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور اپنی پوری ہمت کے ساتھ اس دنیا کو اور صرف اس دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.دنیا کے اموال کے حصول کے لئے جائز و ناجائز میں کوئی تمیز نہیں کرتے.عزت کی خاطر اپنی چوہدراہٹ کی خاطر اپنی بڑائی کی خاطر وہ ظلم اور انصاف کی کوئی تمیز نہیں کرتے اور جب حقیقت بعض دفعہ سمجھتے بھی ہیں تو ان کی عزت کی بیچ جو ہے اپنی ذاتی دنیوی لحاظ سے جو انہوں نے اپنا ایک وقار جھوٹا بنایا ہوا ہے اس دنیا میں اس کی خاطر وہ حقیقت کو اور صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹا پانے والے اپنے اعمال کے لحاظ سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ورلی زندگی ہی کو اپنا مقصود بنالیا.اسی سے انہوں نے غرض رکھی خدا کو بھول گئے جو خدا تعالیٰ نے آیات ظاہر کی تھیں ان کی اصلاح کے لئے اور جو ہدایت بھیجی تھی مختلف انبیاء کے ذریعے مختلف زمانوں میں یہ اصولی بات یہاں بیان ہو رہی ہے آدم سے لے کے قیامت تک اس کا بھی انہوں نے کوئی خیال نہیں کیا.بس دنیا ہے دنیا ہے، کھانا ہے، پینا ہے، سونا ہے، ناچ ہے، گانا ہے، کہیں ہیں، چغلیاں ہیں، بدظنیاں ہیں، اپنی گیا
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۴ سورة الكهف بڑائی کی شیخی ہے، فخر کا اعلان ہے، اپنی جھوٹی عزتوں کی خاطر ہر قسم کا ظلم ہے وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کی بُرائیاں پھر ایسے شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں چونکہ ہر قسم کی برائی ایسے شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اس لئے سب سے زیادہ گھاٹا پانے والا وہ بن جاتا ہے.اور پھر وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعا اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں.دنیا میں آگے نکل رہے ہیں.بین الاقوامی لیڈرشپ انہیں حاصل ہوگئی.بڑی طاقت ہے ایک دنیا کو دھمکی دیں تو آدھی دنیا لرز جاتی ہے کہ کہیں ہمارے اوپر کوئی آفت ہی نہ آ جائے اور اس قسم کی فضا انہوں نے پیدا کی ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی اسی چیز کو حسنِ عمل سمجھتے ہیں جو حقیقی حسن عمل ہے اس سے وہ غافل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعا یہ تیسری بات تھی.اور چوتھی بات أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات جو ہیں اس کا یہ انکار کرتے ہیں.قرآن کریم کی اصطلاح میں آیات دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو د نیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ظاہر ہوتے اور دنیا میں ان جلووں کے نتیجے میں کچھ پیدا ہوتا ہے خلق یا امر کے نتیجے میں یعنی یا تو جو چیز پیدا ہوئی ہوئی ہے اس کی خاصیتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے جلوے ان میں اضافہ کر کے ایک نئی چیز پیدا کرتے ہیں.بڑی کثرت کے ساتھ قرآن کریم نے آیات کے تحت اس قسم کے جلوے جو صفات باری کے ہیں ان کا ذکر کیا ہے اور دوسری وہ آیات ہیں جو انبیاء کے ذریعہ سے اور انبیاء کے فیضان کے نتیجہ میں ان کے متبعین کے ذریعہ سے انسان کی ہدایت کے لئے ، اس کی بہبود کے لئے، اس کی خوشحالی کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے وہ آیات ظاہر کی جاتی ہیں.اس میں سب سے آگے نکلنے والے ہمارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے معجزات کا انسان شمار نہیں کر سکتا اور وہ تمام باتیں معجزانہ رنگ میں جو ظا ہر ہوئیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے وہ بھی آیات ہیں.اسی واسطے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی کے برسنے کا ذکر کرتے ہوئے اسے آیت شمار کیا اور اس پانی سے زمین کو زندہ کرنے کو اس نے آیت کہا اور اس سے کھیتیاں اگانے کو اس نے آیت کہا اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیات باری ہمارے سامنے پیش کیں کلام باری کی شکل میں یعنی قرآن کریم ، اس کے ہر ٹکڑے کو آیت کہا گیا.ساری آیات قرآنی ہیں نا.ہم گنتے ہیں کہ اس سورت کی اتنی آیات ہیں اس سورت کی اتنی
۴۴۵ مورة الكهف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث آیات ہیں انہیں بھی آیات کہا جاتا ہے.تو یہ بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں قرآن کریم کی اصطلاح میں جن پر آیات کا لفظ بولا جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ الْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً اس لئے ہیں کہ یہ انکار کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی ان آیات کا جو خدا تعالیٰ نے اس کائنات میں ظاہر کیں اس غرض سے کہ اس کے بندے ان آیات سے ہر قسم کا فائدہ حاصل کریں اور جس غرض کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے وہ وہاں تک پہنچیں.آیت کے جو بنیادی معنی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک ایسی ظاہری علامت، جو کسی مخفی حقیقت کی طرف انسان کو لے جاتی ہے تو یہ ساری آیات ایک بنیادی حقیقت کی طرف لے جانے والی ہیں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت ہے.تو كَفَرُوا بِايْتِ رَبِّهِم خدا تعالیٰ نے جس غرض سے ان آیات کو نازل کیا تھا خواہ مادی دنیا میں جلوے ظاہر ہوئے اس کی صفات کے خواہ روحانی دنیا میں جلوے ظاہر ہوئے اس کی صفات کے انہوں نے ان آیات کا انکار کیا اور پہچانا نہیں اور جلوے اس لئے ظاہر ہوئے تھے کہ لقائے باری انسان کو حاصل ہو اور چونکہ انہوں نے آیات ہی کو نہیں پہچانا ان کا انکار کیا.نہ مادی دنیا کی آیات سے نہ کائنات میں ظاہر ہونے والی آیات سے جو خدا تعالیٰ کی طرف نشاندہی کرنے والی تھیں، ہمیں راستہ دکھانے والی تھیں خدا کی وحدانیت کا نہ ان سے فائدہ اٹھایا نہ خدا تعالیٰ کا کلام جب نازل ہوا رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ اس سے فائدہ اٹھایا اور جس غرض سے یہ آیات نازل ہوئی تھیں کہ یہ ان کو بتایا جائے کہ تم بے سہارا نہیں، تمہارا ایک سہارا ہے، تمہاری پیدائش کی ایک غرض ہے.تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہارا اس ورلی زندگی میں بھی اپنے زندہ خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتو پانچویں بات ہمیں یہ بتائی کہ وہ انہوں نے انکار کیا خدا تعالیٰ کی لقا سے یعنی وصلِ الہی اس دنیا میں ممکن ہی نہیں.نہ آیات کو مانا اور پہچانا نہ اس غرض سے واقف ہوئے اور اس کے لئے کوشش کی جس غرض کے لئے ان پر دو قسم کی آیات کو نازل کیا گیا تھا.وو اس کا نتیجہ ظاہر ہے فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ چھٹی بات یہ ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اعمال، ان کی کوششیں ان کا مقصود جو تھا ان کا تعلق آسمانی رفعتوں کے ساتھ نہیں تھا.ان کا تعلق اس بات سے نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی اس رنگ میں گزاریں کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.زمین کی طرف وہ جھک گئے اور دنیا سے انہوں نے تسلی پالی اور ایک عارضی خوشی جو
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۶ سورة الكهف تھی اس دنیا کی اسی کو سب کچھ سمجھ لیا اور ابدی خوشیوں کو اس عارضی خوشی پر قربان کر دیا.حَبِطَتْ اعْمَالُهُمْ ان کے اعمال گر کر اسی دنیا کے ہو کر رہ گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لیکن صرف یہ زندگی تو نہیں.اس کے بعد ایک اور زندگی ہے اور اس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں قیامت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے یعنی مرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَتُه کہ جو شخص انفرادی طور پر مرے اسی وقت اس کی ایک قیامت ہو جاتی ہے لیکن ایک وہ ہے جب حشر ہوگا اور سارے اکٹھے کئے جائیں گے اور خدا کا پیار حاصل کریں گے یا اس کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ان کے وہ اعمال جو دنیا کے لئے کئے گئے ہوں گے اور جن کے نتیجہ میں خدا کے پیار کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی بے وزن ہوں گے ان کا کوئی وزن نہیں ہوگا ، بے نتیجہ ہوں گے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ، لا حاصل ہوں گے ان سے کچھ حاصل نہیں ہوگا.زندگی کا مقصد تھا کہ خدا تعالیٰ کے عبد بنتے ، اس کے پیار کو حاصل کرتے ، ابدی جنتوں کے وارث بنتے وہ ان کے وارث نہیں بنیں گے.یہ ہے جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ یہ جہنم ہے یعنی کہا کہ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَزْنا قیامت کے دن ہمارا پیارا نہیں حاصل نہیں ہوگا.ذلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ یہ جہنم ان کی جزا ہے اور اس لئے ہے کہ انہوں نے انکار کیا آیات کا.خدا تعالیٰ نے جو دو قسم کی آیات جیسا کہ میں نے بتایا نازل کی تھیں انسان کی ہدایت کے لئے ایک اپنے ان جلووں کے ذریعے جو اس نے کائنات میں کئے اور جن سے اس کی عظمت ثابت ہوتی ہے، جن سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے ہر ذرے کے ساتھ ایک ذاتی اور ہمیشہ رہنے والا تعلق قائم ہے جس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ ایک لحظہ کے لئے اگر خدا تعالیٰ کا یہ قرب نہ ہو اس حي و قيوم کا تو فتا آ جائے اس چیز پر جس سے وہ قطع تعلق کرتا ہے.وہ ہلاکت ہے وہ عدم بن جاتا ہے اس کے لئے.تو چونکہ انہوں نے کائنات میں ظاہر ہونے والے جلووں کا انکار کیا اور جو روحانی ارتقاء کے لئے اور روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام اور اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.نوع انسانی کے لئے صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کی بھلائی کے لئے اب ایک زندہ نبی کی صورت میں قیامت تک
۴۴۷ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث انسانوں میں اپنے روحانی فیوض کے لحاظ سے زندہ ہیں اور موجود ہیں.اس اتنی عظیم کتاب اتنی عظیم آیات جس کا ایک ایک لفظ جو ہے وہ انسان کو حیران کر دیتا ہے اتنی ہدایتیں، اتنی خوبصورتیاں،حسن پاک کرنے کی اتنی طاقت، اتنا جذب ان کے اندر ہے لیکن اس کو پہچانا نہیں انہوں نے.اَخْسَرِينَ اعمالا تو ثابت ہو گیا.خدا کے نزدیک بدترین عمل کے لحاظ سے وہ لوگ ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں جو ایت رَبِّهِمْ ہے.خدا تعالیٰ نے اس لئے ان آیات کو ظاہر کیا تھا کہ ان کی جسمانی اور روحانی تربیت کرے، ربوبیت کرے ربّ ہے وہ ان کا.اس لئے کیا تھا کہ وہ اس کے نتیجہ میں اس کے پیار کو اس کی رضا کو اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کریں.ایک ابدی جنت ان کے نصیب میں ہو جہاں خیر ہی وہ چاہیں گے اور ہر خیر جو وہ چاہیں گے وہ ان کو ملے گی.بڑی عجیب ہے وہ دنیا جسے ہم آج سمجھ نہیں سکتے ہماری طاقت میں نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ ہماری یہ آنکھ، نہ ہمارے یہ کان ، نہ ہمارا یہ دماغ اسے سمجھ سکتا ہے لیکن تمثیلی زبان میں اشارے اس کی طرف کئے گئے ہیں.وہ اس کی حقیقت کو اس زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو جو وہاں جانے والے حاصل کریں گے ہر آن رفعتوں کے حصول کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ دھندلا سا نقشہ اس زندگی میں بتایا ہے اور پھر یہاں پیار کر کے بتایا ہے کہ اس زندگی میں جب میں پیار کرتا ہوں تمہاری امتحان کی ابتلا کی زندگی میں تمہاری غلطیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں اور گناہوں کے باوجود جہاں ہر قسم کے گناہوں سے خدا تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ پاک کر کے بھیجے گا اس کا تو نقشہ ہی کچھ اور ہوگا.بہر حال یہ ان لوگوں کا بیان ہے ان آیات میں جو اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گرے ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں.( خطبات ناصر جلد ہشتم ۴۸۵ تا ۴۹۱) تاہم دنیا میں ایک وہ انسان ہے جو دُنیا کے لئے دُنیا کماتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے.ضَلَّ سَعْيُهُمُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا یعنی ان کی تمام تر کوشش اس دُنیوی زندگی کے لئے ہوتی ہے.ان کے مقابلے میں ایک وہ انسان ہے جو دین کی خاطر اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال قربان کرنے کے لئے دُنیا کماتا ہے.اب جہاں تک دُنیا کے کمانے کا سوال ہے.دونوں برابر ہیں لیکن جہاں تک دولت کے خرچ کرنے کا سوال ہے ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ ایک تو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۴۸ مورة الكهف دنیا کما کر زمینی بن گیا اور دوسرے نے دُنیا کمائی اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے.اس لئے ہر دو میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پس رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی جب دُعا سکھائی گئی تو اس کے ایک معنے یہ ہوئے کہ ہم خدا سے یہ کہیں کہ اے خدا! ہم نے انتہائی محنت اور انتہائی تدبیر کر دی دُنیا کمانے کے لئے ہم نے اپنی تد بیر کو انتہا تک پہنچا دیا اور اسی طرح دعا کو بھی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اب اس مقام پر کھڑے ہو کر ہم یہ کہتے ہیں ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کہ اے ہمارے رب ! ہماری تدبیر اور ہماری دُعا تیرے فضل اور تیری رحمت کے بغیر نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی اس لئے تو اپنے فضل سے اس کا نتیجہ پیدا کر اور اس دُنیا کی حسنات میں ہمیں شریک اور حصہ دار بنا اور ہمیں اس کا وارث قرار دے تاکہ ہم دُنیا کی نعمتوں کو حاصل کر کے اور پھر ان نعمتوں کو تیری راہ میں قربان کر کے اپنی روحانی اور اُخروی حسنات کے لئے سامان پیدا کریں.غرض حقیقت یہی ہے کہ دُنیا کی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات مل نہیں سکتیں.میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں تا کہ بچے بھی سمجھ جائیں.جو شخص دُنیا کی حسنات سے کلی طور پر محروم ہو جاتا ہے اس کے اوپر روحانی حکم لگتا ہی نہیں.اس کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ وہ پاگل ہے.اس لئے جہاں تک ایک مجنون کی دنیوی حسنات کے بارے میں محنت اور کمائی کا تعلق ہے یا اس کی کوشش اور مجاہدہ کا سوال ہے وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پاگل ہے.اس لئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسم اور زندگی بخشی.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھائی دیئے ، اس کو دوست دیئے اور اس کے اردگرد خیال رکھنے والے انسان بنائے.چنانچہ وہ اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن جہاں تک اس کی اپنی طاقتوں کا سوال ہے.اس کی کسی طاقت کے او پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا.وہ اپنے جنون میں کسی آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو جج کہتا ہے کہ پاگل تھا اس سے قتل ہو گیا.ظلم ہو گیا لیکن اس کے اوپر کوئی الزام نہیں پس جو شخص مجنون ہے اس کے لئے دنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے بند ہیں اور چونکہ دُنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے اس کے لئے بند ہیں اسی لئے اُخروی حسنات کی کمائی کا دروازہ بھی اس کے لئے نہیں کھولا جائے گا.پس ہم ایسے شخص کو مرفوع القلم کہہ دیتے ہیں.ہم اس پر نہ نیکی کا حکم لگاتے ہیں اور نہ بدی کا ، نہ
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۴۹ سورة الكهف ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے مالی قربانی دی اور نہ یہ کہ اُس نے مالی قربانی نہیں دی مثلاً اگر کوئی مجنون یا مرفوع القلم آدمی اپنے باپ کی تجوری کو گھلا پائے اور وہاں سے دس ہزار روپے نکال کر جنون کی حالت میں کسی مستحق کو دے دے تو یہ نیکی شمار نہیں ہوگی کیونکہ اس نے جنون میں آ کر ایسا کیا ہے یہ نیکی نہیں جنون ہے.غرض یہ ایک حقیقت ہے اور قرآن کریم نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ دنیوی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات کے سامان پیدا نہیں ہوتے ، اس لئے کہ اُخروی حسنات کے سامان اللہ تعالیٰ کی راہ میں دنیوی نعمتوں کو خرچ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں.جس کے پاس نعمت ہی کوئی نہیں وہ خرچ بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص نامرد ہے وہ پاک باز ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا.کیونکہ اُسے طاقت ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار قسم کی طاقتیں اور صلاحتیں بخشی ہیں اور ان کے اوپر اُخروی نعمتوں کا انحصار ہے، یہ طاقتیں ماں ہیں اُخروی نعمتوں کے حصول کی ، ان کے بغیر کوئی اُخروی نعمت نہیں مل سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ( البقرة : ۴) اور بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور ہر طاقت اور صلاحیت سے یہ مطالبہ فرمایا ہے کہ وہ میری راہ میں قربان ہو جائے.میں آپ کی بیان کردہ تفسیر کا مفہوم بیان کر رہا ہوں.الفاظ میرے اپنے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت تو بڑی حسین ہے مگر ہم عاجز بندے ہیں اور اپنا فرض ادا کر رہے ہیں.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۲۲۱ تا ۲۲۳) اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور یہ عطا ایک خاص مقصد کے لئے انسان پر نازل ہوتی ہے.انسان کا ذہن ہے، انسان کی طاقت ہے، انسان کی استعداد ہے، اخلاقی طاقتیں اور روحانی قوتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں.غرضیکہ انسان کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ایک خاص مقصد کی خاطر ا سے ملا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے فرمایا ہے انسان میں سے دو گروہ بن جاتے ہیں.ایک وہ گروہ ہے کہ جو کچھ انہیں ملتا ہے اسے وہ صرف مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا
۴۵۰ مورة الكهف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سمجھتے ہیں اور اس سے آگے نہیں بڑھتے.خدا نے جو د نیوی سامان دیئے ہیں ان کا استعمال محض دنیا کے لئے اور دنیا کی اغراض کی خاطر کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی عطا کو دنیا کی زینت کے لئے سمجھا جاتا ہے.اسی کی طرف دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الحيوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا - پھر فرما یا ایک دوسرا گروہ ہے جو عقل رکھتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے اس گروہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا اَفَلَا تَعْقِلُونَ یہ لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے لیکن عقل سے کام لینے والوں کا بھی ایک گروہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا وہ اس لئے ہے کہ وہ اپنے وجود.اور اس کی طاقتوں کی نشو و نما اس طرح کرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا سچا، حقیقی اور پختہ تعلق قائم ہو جائے.یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا کے بعد بھی حسین جنتوں کا وعدہ دیا گیا ہے اور یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بطور جزا کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ ملتا ہے.فرمایا وَمَا عِندَ اللهِ خَيْرُ اور وہ بدلہ خیر اور بھلائی ہوتی ہے.وہ دکھوں کی طرف، وہ جہنم کی طرف اور وہ خدا تعالیٰ کے غضب کی طرف لے جانے والی چیز نہیں ہوتی بلکہ خیر محض ہوتی ہے، خدا کا عطیہ ہوتی ہے اور صرف اس دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی.خدا تعالیٰ انسان کو اس کے نیک اعمال کے نتیجہ میں اور اس کی جو قربانیاں اور ایثار ہے اور خدا کے لئے محبت ذاتی کی انسان کے دل میں جو تڑپ ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ خیر بھی ہے وابقی اور باقی رہنے والی چیز بھی ہے یعنی اس دنیوی زندگی پر موت آجانے کے بعد وہ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ باقی رہتی ہے انسان کو ایک نئی زندگی ایک جنتی زندگی ملتی ہے اور اس میں وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتا اور اس کی رضا سے انتہائی مسرتوں کو پاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گروہ جو خدا تعالیٰ کے لئے خدا ہی کی عطا کردہ دنیوی چیز میں خرچ کرتا ہے، وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور ملے گا.فرمایا وَعْدًا حَسَنًا بڑا حسین وعدہ ہے وہ حسین بھی ہے اور پورا ہونے والا بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لا يُخْلِفُ الْمِيعَاد خدا کے جو وعدے اور وعید ہیں ہر دو مشروط ہیں اور ہر دو اپنی شرائط کے ساتھ پورے ہوتے ہیں.اسی لئے انسان کو خاتمہ بالخیر کی دعا کی تحریک کی گئی ہے.
۴۵۱ سورة الكهف تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث خَيْرُ وَ اَبھی ہی کے الفاظ کے بعد خدا تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے تم سمجھتے کیوں نہیں کہ تمہاری پیدائش کی غرض کیا ہے، تم سمجھتے کیوں نہیں کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ اسی مقصد کے حصول کے لئے تمہیں ملا ہے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا نے فرما یا خیر و ابقی لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ( شوری:۳۷) فرمایا خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی ہدایت کی روشنی میں جو لوگ اپنے اموال کو اور اپنی طاقتوں کو اپنی قوتوں اور استعدادوں کو اور اپنی اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے اور خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق خدا داد قوتوں کی نشونما کرتے ہیں وہ عقل سے کام لینے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے وَ عَلَى رَبِّهِمْ يتوكلون یعنی انہوں نے اپنی انتہائی کوشش کی خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول میں مگر نتائج کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر چھوڑ دیا.دراصل ایمان کے معنے عقیدہ کا ایمان اور زبان سے اس کا اقرار اور اس کے مطابق عمل کرنا یہ سب چیزیں لغت عربی کے مطابق لفظ ایمان میں شامل ہیں.تو جو شخص ایمان لاتا اور مومنانہ زندگی گزارتا ہے اور اس کے دل میں پاکیزگی پائی جاتی ہے اور کھوٹ نہیں اور ملاوٹ نہیں اور نفاق نہیں اور فساد نہیں ہوتا اور اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی کافی نہیں ، جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے خاتمہ بالخیر نہ کرے اور اپنے فضل اور رحمت سے جنتوں کے سامان نہ پیدا کرے محض اعمال کوئی چیز نہیں...چنانچہ صحیح جہت کی طرف سائنس کی ہر ترقی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مخلوق خدا انسان کی ایک نئی شکل میں خدمت کر رہی ہے.ہر سائنسی انکشاف (Scientific Discovery) سے پتہ لگتا ہے کہ کتنا عظیم اعلان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا تھا:.وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثیه : ۱۴) لیکن پھر بھی ان سائنسدانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور اس دنیا کے متاع اور اس کی زینت کو کافی سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس دنیوی متاع اور اس کی زینت کے نتیجہ میں اُخروی متاع کے سامان پیدا کرنے کے لئے اور اُخروی زندگی کے حسن کے حصول کے لئے کوشش کرتے ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الحيوةِ الدُّنيا دنیوی عیش و آرام میں پڑ جاتے ہیں جو کہ وقتی ہے اور اس میں حقیقی لذت بھی نہیں مگر پھر بھی ایسے لوگ اپنا سب کچھ دنیوی لذتوں کی خاطر برباد کر دیتے ہیں اور خدا سے دُوری کی راہیں ان کو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۵۲ سورة الكهف خدا کے غضب کی جہنم کی طرف لے جاتی ہیں لیکن وہ لوگ بھی ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شریعت پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے ہاتھ میں دی ہے، ایمان لائے ہیں اور جن کی زندگیاں اسلام کی خاطر ہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۶۵ تا ۶۹) ضال سیدھے راہ سے بھٹکنے والے کو کہتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الحَيوةِ الدُّنْيَا پس ضالین وہ ہیں جن کی تمام کوششیں ان راہوں کی تلاش میں رہتی ہیں جو اُخروی زندگی سے ورے ورے ختم ہوتی جاتی ہے.ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وہ اس ورلی زندگی کے کناروں سے نکل کر اُخروی زندگی تک نہیں پہنچتیں.راہ بھٹک جاتی ہے کوشش جو ہے وہ آگے چل ہی نہیں سکتی ایسے راستے وہ اختیار کرتے ہیں جن کا صرف اس دنیا سے تعلق ہے حالانکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ ساری چیزیں (خواہ وہ قوتیں اور استعدادیں ہوں یا مادی سامان ہوں یا فطرت کے تقاضے ہوں ) اس لئے دی تھیں کہ اس دنیا میں وہ ختم نہ ہوں نہ صرف اس دنیا سے ان کا تعلق ہو بلکہ ان کے نتیجہ میں انسان اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت کو حاصل کرے اور اس دنیا میں بھی وہ اس رضا کی جنت کو حاصل کرے لیکن ایک گروہ انسانوں میں سے یا بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جو ان قوتوں کی انتہاء اس دنیا کے ورے ورے سمجھتے ہیں اسی طرح دنیا کے جو سامان ہیں ان کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ بس دنیا میں ہی ہمارے کام آئیں گے حالانکہ ایک عقلمند مومن یہ جانتا ہے کہ وہ بکرا جو خدا نے مجھے دیا ہے اور جو گوشت پوست ہے اور اس کی زندگی بھی چھوٹی ہے ایک ایسی چیز ہے جوصرف اس دنیا میں ہمارے کام نہیں آسکتی بلکہ اگر ہم چاہیں تو یہ اس دوسری دنیا میں بھی ہمارے کام آئے گی کیونکہ اگر ہم چاہیں تو تقویٰ کا ٹیگ لیبل اس کے ساتھ لگا دیں تو بکرا یہاں رہ جائے گالیکن وہ ٹیگ، وہ لیبل آسمانوں کے خدا کے پاس پہنچ جائے گا.لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج: ۳۸) تقویٰ کے ساتھ لگا تو بکرا اللہ کے حضور پہنچ گیا اور تمہارے لئے دوسری زندگی میں بھی مفید ہو گا ( یہ زندگی تو اس زندگی کے مقابلہ میں اتنی معمولی چیز ہے کہ ہم اس کا نام ہی نہیں لیں گے ) دوسری زندگی میں بھی وہ کام آجائے گا آپ دفتر میں جاتے ہیں سور و پیر آپ کو تنخواہ ملتی ہے اب کوئی احمق ہی کہ سکتا ہے کہ یہ چاندی کے سکے یا کاغذ کے نوٹ صرف
۴۵۳ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث اس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں قیصر کی چیز ہے اس کا ایک حصہ اس کو دے دینا چاہئے لیکن چونکہ یہ خدا کی چیز نہیں اسے نہیں دینا چاہئے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ تباہ ہو جائے گا اُسے یہ کہنا چاہئے کہ ہر چیز چونکہ خدا کی ہے اس لئے جس قدر چاہے وہ لے لے پھر جو بچ جائے گاوہ میں استعمال کرلوں گا ایک مومن کی یہی نیت ہوتی ہے اس کی یہ نیت نہیں ہوتی کہ جو مجھ سے بچ جائے گاوہ میں خدا کو دے دوں گا بلکہ اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ جو بچ جائے گا اس معنی میں وہ کہے کہ میں نے اتنالے لیا باقی تم استعمال کر لو تو پھر وہ میں استعمال کر لوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے بعض کے ساتھ یہی سلوک کیا آپ نے فرمایا نہیں اتنا مال نہیں چاہئے واپس لے جاؤ اور استعمال کرو اس نیک نیتی کے ساتھ جتنا دینا چاہا پیش کر دیا اور ہمیں یقین ہے کہ اس نے خدا سے اسی کے مطابق ثواب حاصل کر لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور اسلام کی اس وقت کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کہا سارے مال کی ضرورت نہیں واپس لے جاؤ پھر یہ بتانے کے لئے کہ جب ایک مومن خدا کے حضور اپنا سارا مال پیش کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بد نیتی نہیں ہوتی کہ سارا مال قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے سارا مال پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت ابوبکر نے جب اپنا سارا مال پیش کیا تو وہ سارا قبول کر لیا گیا اور بتایا گیا کہ ہر مومن کے دل کی یہی کیفیت ہے لیکن کچھ مومن وہ ہوتے ہیں جو جواں ہمت ہوتے ہیں اور جو انتہائی بوجھ برداشت کر سکتے ہیں (چنانچہ آپ نے ان میں سے ایک کا سارا مال لے لیا اور مثال کو قائم کر دیا) اور کچھ وہ ہوتے ہیں کہ ان کی روح تو انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوتی ہے لیکن ان کا ماحول اور ان کا جسم اس کے لئے تیار نہیں ہوتا ان کو فتنہ اور امتحان سے بچانے کے لئے ان کے مال کا ایک حصہ قبول کر لیا جاتا ہے اور ایک حصہ واپس کر دیا جاتا ہے.وووو پس مومن کی مادی کوشش دنیا میں حدود سے ورے ختم نہیں ہو جاتی اور اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا که ضَلَّ سَعْيُهُم في الحيوةِ الدُّنْیا کیونکہ روپیہ وہ خرچ کرتے ہیں زندگی کا ہرلمحہ جو وہ گزارتے ہیں اخلاق کا ہر مظاہرہ ان سے سرزد ہوتا ہے بچوں سے محبت اور پیار کا سلوک جود نیا ان سے دیکھتی ہے اس کے پیچھے یہی روح کام کر رہی ہوتی ہے کہ جس نے خدا کی رضا کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا اس نے بھی ثواب حاصل کر لیا.غرض مومن اپنے ہر دینوی کام کو اُخروی جزا اور اُخروی انعماء کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۵۴ سورة الكهف حصول کا ذریعہ بنالیتا ہے اور اس کے متعلق ہمیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ضَلَّ سَعْيُهُمُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا والے گروہ میں ہے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۱۲ تا ۲۱۴) آیت ااا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا قرآن کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہم سے کیا تعارف کروایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا کیا ایمان ہے.قرآن کریم نے ایک ہی وقت میں ہمیں دو باتیں بتائی ہیں ایک طرف ہمیں یہ کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں دیگر جو بشر ہیں ان کی طرح چنانچہ فرمایا : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الهُكُمُ اللَّهُ وَاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بعبادة ربة أحدًا مساوات انسانی کا ایک بڑا ہی عظیم نعرہ چودہ سو سال پہلے لگا یا گیا اس وقت تک انسان نے اس کی عظمت اور اس کی حقیقت کو نہیں سمجھا.ہم حیران ہوتے ہیں کہ اپنے آپ کو بڑے بڑے عقلمند کہنے والے انسانی مساوات کی حقیقت اور اس کی تعریف کو سمجھتے ہی نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان نہ کسی ماں نے ویسا بچہ جنا اور نہ جن سکتی ہے اتنی عظمتوں والے انسان کے منہ سے دورود قرآن کریم نے یہ کہلوایا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم یہ اسلام کی صداقت کی ایک بڑی دلیل ہے میں نے ۱۹۷۰ء میں اس سے فائدہ اٹھایا اور تقریروں میں اسے بیان کرتا رہا.ایک جگہ کچھ پادری منہ بنا کے بیٹھے ہوئے تھے اس ملک کا لاٹ پادری بھی وہاں تھا تو وہاں پر مجھے خیال آیا کہ ان کو اسلام سے تعارف تو کراؤں چنانچہ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو پیراماؤنٹ پرافٹ ہیں میں نے ان کی زبان کا محاورہ لیا) ان کی زبان سے خدا نے یہ کہلوا یا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ بشر ہونے کے لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تم افریقن میں کوئی فرق نہیں تو وہ جو آپ کے نائب اور جوئیر قسم کے انبیاء تھے جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام گذرے ہیں انہیں اور ان کے متبعین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو تم سے بڑا سمجھیں.اس پر وہ پادری یوں اچھلے انہوں نے کہا کہ یہ کیا بم شیل ہمارے اوپر گرا دیا ہے پس نعرے لگانا اور چیز ہے اور حقیقت کو سمجھ کر اپنی زندگی اور معاشرہ کو اس کے مطابق ڈھالنا یہ بالکل اور چیز ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق
۴۵۵ مورة الكهف تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایک حقیقت قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے اور قرآن کریم نے ہمارے محبوب آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک دوسری حقیقت یہ بیان کی کہ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورُ ( المائدة :١٢) اور آپ کو سِرَاجًا منيرا (الاحزاب : ۴۷) کہا یعنی ایک چمکتا ہوا سورج اور کہا کہ آپ مظہر اتم الوہیت ہیں اور جو کامل نور ہے جو کامل طور پر دنیا کو روشن کرنے والا سورج ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مظہر اتم الوہیت ہو.اور جو مظہر اتم الوہیت ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے متعلق یہ اعلان ہو کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ (موضوعات کبیر زیر حرف لام ).یہ دو حقیقتیں ہیں جو ایک ہی وجود میں پائی جاتی ہیں اور نوع انسانی نے ان حقائق مقام محمدیت سے دو مختلف فائدے اٹھائے ہیں قُلْ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں یہ اعلان کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اُسوہ کی شکل میں بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے کیونکہ اگر یہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ سپر مین ( super man) ہیں اور بشر سے کوئی بلند و بالا چیز ہیں تو انسان کہتا کہ میں عاجز انسان ایک ایسی ہستی کی جو بشر سے کہیں بالا ہے، پیروی کیسے کر سکتا ہوں وہ میرے لئے اُسوہ کیسے بن سکتی ہے تو بشر کہہ کے آپ کو اُسوہ بنایا اور نور کہہ کے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا کیونکہ کامل نور مظہر اتم الوہیت ہے ویسے اصل نور تو اللہ ہے اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) لیکن اللہ کے بعد مخلوق میں سے جو کامل نور کی حیثیت سے دنیا کی طرف آیا وہ خاتم الانبیاء ہے اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بشر ہونے کے لحاظ سے مختلف ہے بشر کے مقام کے نتیجہ میں آپ اُسوہ بنے اور نور ہونے کے لحاظ سے آپ ایک طرف مظہر اتم الوہیت بنے اور دوسری طرف لولاك لَمّا خَلَقْتُ الاَ فُلاك (موضوعات کبیر زیر حرف لام) کی صداقت انسان کے سامنے رکھی گئی نور ہونے کی حیثیت سے آدم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء سے نور حاصل کیا لیکن بشر ہونے کے لحاظ سے چونکہ آپ نے اس دنیا میں زندگی بعد میں گذاری اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ السلام کے لئے اُسوہ تو نہیں بن سکتے تھے.آدم نے تو آپ کی شان دیکھی ہی نہیں ہزاروں سال کے بعد آپ کی پیدائش ہوئی لیکن بعد میں آنے والی امت کے لئے بشر ہونے کے لحاظ سے آپ اُسوہ ہیں اور یہ اُسوہ قیامت تک کے لئے ہے اور نور ہونے کے لحاظ سے لولاك لما خَلَقْتُ الْاَ فُلاك کا نعرہ لگایا گیا اور اس سارے جہان میں جہاں بھی ہمیں نور نظر آتا
۴۵۶ مورة الكهف تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہے انسان کے اندر یا دوسری مخلوق میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کے طفیل نظر آتا ہے.انبیاء نے بھی نور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حاصل کیا اور ذہنوں نے نور فراست بھی وہیں سے حاصل کیا اور درختوں نے نور روئیدگی بھی وہیں سے حاصل کیا اور گھوڑے اور بیل اور یہ جو جانور ہیں انہوں نے نورِ خدمت بھی وہیں سے حاصل کیا اس لئے کہ یہ جو آپ کا مقام نور ہونے کا ہے اس کے نتیجے میں آپ کو لو لاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأفلاك ( موضوعات بير زیر حرف لام) کہا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ئنات کا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے بنایا کہ وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور اپنے بعد نور کامل کے طور پر پیدا کرنا چاہتا تھا اگر حضرت خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامل نور انسانی یعنی انسان بھی اور کامل نور بھی ، نہ بنایا ہوتا تو یہ کائنات نہ بنائی جاتی اور اگر یہ کائنات نہ پیدا کی جاتی تو پھر نہ درختوں کا نور ہوتا، نہ حسینوں کے حسن کا نور نہ کام کرنے کے حسن عمل کا نور، نہ نبیوں کا نور.یا مقربین الہی کا نور کوئی نور ہوتا ہی نہ.تو اس کا ئنات کی تخلیق کا منصوبہ نور ہے یہ نور ہے.جس کے متعلق انسان کو کہا گیا کہ وہ تمہیں بلاتا ہے تم لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑو کیونکہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندگی دے اور اس کا ئنات میں جو سب سے حسین نور اور سب سے اچھا نور ہمیں نظر آتا ہے وہ زندگی کا نور ہے یعنی وہ نور جو الحی القیوم کے ساتھ وابستگی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اور اس کے نتیجے میں یہ نور کا مقام ہے خاتم الانبیاء مقام کا نور کامل کا مقام ہے اور آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اگر ایک لاکھ بیس ہزار نبی آئے تو ایک لاکھ بیس ہزار نبی نے اور اگر دوسروں کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی نے اس نور سے نور لیا اور خاتم الانبیاء کے نتیجہ میں آدم نبی بنے اور نوح نبی بنے اور موسی نبی بنے اور عیسی نبی بنے اور ابراھیم علیہم السلام نبی بنے اگر اس کائنات میں یہ نور نہ ہوتا یعنی پلینڈ (planned) نہ ہوتا اس کا منصوبہ نہ ہوتا تو نہ آدم کی ضرورت تھی نہ نوح کی نہ ابراہیم کی نہ موسیٰ کی نہ عیسی علہیم السلام کی.کسی کی بھی ضرورت نہیں تھی.پہلوں نے بھی خاتم الانبیاء سے نور لیا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی قیامت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء سے نور لیا یا لیں گے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے مدارج ان کو ملیں گے تو ایک لاکھ بیس ہزار آ گیا اور ایک کے اوپر اعتراض پیدا ہو گیا.یہ جو خاتم الانبیاء کا مقام ہے اس کے متعلق آپ نے فرمایا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۵۷ سورة الكهف یہ میرا استدلال نہیں ہے بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں خاتم النبین تھا اور ابھی آدم پیدا نہیں ہوا تھا اس کا وجود مٹی کے ذروں میں گم ہوا ہوا تھا اور مٹی کے ذروں کے ساتھ رُل رہا تھا اور مجھے اس وقت خدا تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنادیا تھا یہ بات تو واضح ہے کہ خاتم الانبیاء کا مقام بشر کا مقام نہیں ہے خاتم الانبیاء کا مقام نور کا مقام ہے، سراج منیر کا مقام ہے جس طرح چاند ہے یا جو سورج کے گرد گھومنے والے ستارے ہیں وہ چاند اور وہ ستارے سورج سے نور لے کر اپنا نور ظاہر کرتے ہیں اسی طرح پہلوں نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کے نور سے نور لیا اور وہ دنیا میں چپکے اور بعد میں آنے والوں نے بھی آپ ہی کے نور سے نور لیا یعنی ہر قسم کا قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل ہوتا ہے صدیق بھی نہیں بن سکتے جب تک آپ سے نور نہ لیں اور شہید یا صالح بھی نہیں بن سکتے جب تک یہ نور نہ حاصل کریں ان سے بھی جو کم ہیں یعنی چھوٹے سے چھوٹا پیار بھی خدا سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اس نور کی جھلک ان کے اندر پیدا نہ ہو تب اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور :۳۶) اپنی کچھ مشابہت دیکھ کر یعنی اس نور کی جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کیا ہوتا ہے اپنے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے.یہ ہے ہمارا ایمان اور یہ ہے ہمارا عقیدہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق، کہ ایک ہی وقت میں آپ بشر بھی ہیں اور نور بھی ہیں.نور کے متعلق میں نے ذرا تفصیل سے بتایا ہے اور بشر کے متعلق میں نے مختصر بتایا ہے لیکن بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اسوہ بننے کے لئے سپر (super) کی ضرورت نہیں تھی.کوئی بن ہی نہیں سکتا.انسان انسان کے لئے اُسوہ بن سکتا ہے اور بشر بشر کے لئے اسوہ بن سکتا ہے.فرشتے بشر کے لئے اُسوہ نہیں بن سکتے.تو خدا نے آپ کو بشر بنایا اور قرآن کریم نے آپ کی وفات کا ذکر کیا.شعراء روئے کہ ہماری آنکھوں کا نور تو تھا.شاعر بھٹک بھی جاتا ہے اور یہاں بھی شاعر بھٹکا کہ میری آنکھوں کا نور تو تھا.اب میرے لئے دنیا اندھیر ہوگئی ہے یہ درست ہے کہ یہ جذبات کا اظہار ہے اور بڑا پیارا اظہار ہے لیکن آنکھوں کا نور تو ہم سے علیحدہ نہیں ہوا وہ تو جب سے دنیا بنی ہے وہ نور اس دنیا، اس کائنات کے ساتھ لگا ہوا ہے سب سے پہلا نبی جو دنیا کی طرف آیا اس نے بھی اس نور سے حصہ لیا وہ نور دنیا سے کس طرح علیحدہ ہو گیا لیکن یہ ٹھیک ہے کہ بشر کا جو وجو د تھا اس کے لحاظ سے کچھ عرصے کے بعد وفات ہو گئی لیکن بنی نوع انسان کے لئے اتنا عظیم اُسوہ آپ نے چھوڑا ہے.بنی نوع انسان تو جب تک مانے نہیں فائدہ نہیں اٹھا سکتے.
۴۵۸ سورة الكهف خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۸۰ تا ۸۴) تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث آپ نے اپنے متبعین، امت محمدیہ کے لئے اتنا عظیم اُسوہ چھوڑا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.بشر کے لحاظ سے بھی ہم آپ کی ذات اپنے تصور میں لائیں یا نور اور سراج منیر کے لحاظ سے آپ کی ذات اپنے تصور میں لائیں بے اختیار ہمارے منہ سے نکلتا ہے اللهم صلِ على محمد وعلى آل محمد انبیاء علیہم السلام ہر قوم اور ہر زمانہ میں مبعوث ہوتے رہے ہیں لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بنی نوع انسان کو انسانی شرف اور عزت اور مرتبہ کا علم نہیں دیا گیا تھا کیونکہ ابھی وہ اپنی جسمانی اور روحانی ارتقاء کے دور میں اس مقام پر نہیں پہنچے تھے جہاں وہ اس بات کو سمجھ سکتے کہ انسان اشرف المخلوقات کی حیثیت میں پیدا کیا گیا ہے اور مقصد حیات بشریت ہی کے ساتھ وابستہ ہے.اس لئے پہلی کتب کی تعلیموں کا تعلق صرف ان اقوام کے ساتھ نظر آئے گا جن کی طرف مختلف انبیاء مختلف زمانوں میں مبعوث ہوتے رہے اور پہلی کتب کی تعلیمیں صرف اخلاقی اور روحانی تربیت ہی کے لحاظ سے نہیں بلکہ دنیوی تعلقات کے لحاظ سے بھی انسان، انسان میں فرق کرتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کے انبیاء کی تعلیمات میں بہت سی تحریف اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ یہ تعلیمات انسانی مقام اس کے شرف اور مرتبہ کو قائم کرنے والی نہیں ہیں.یہی حال بنی اسرائیل کے انبیاء کا ہے ایک زمانہ میں وہ بڑی مظلوم قوم تھی.ان کی قومی عزت خطرہ میں تھی.تب اللہ تعالیٰ نے اُن کو انتقام کی تعلیم دی اُن میں عزت نفس پیدا کی.پھر گووہ اس پر قائم نہ رہ سکی اور دوسری ایکسٹریمز Extreems (انتہا) پر چلی گئی تاہم ان انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی یہ غرض نہیں تھی کہ وہ اس بات کا بھی اعلان کریں کہ بنی نوع انسان اشرف المخلوقات ہیں اور آپس میں سب برابر ہیں لیکن چونکہ ایک خاص وجہ سے اور ایک خاص مقصد کے پیش نظر جس کا ذکر میں ابھی کروں گا انسانی شرف کو قائم کرنا تھا اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسان برابر ہیں اور ہمیں ایک ایسی تعلیم دی گئی جس میں انسانی شرف اور مرتبہ کو وضاحت سے بیان کر دیا گیا اور یہ تعلیم صرف عرب کے رہنے والوں کو مخاطب کر کے نہیں دی گئی.تمام عالمین کے انسان اس تعلیم کے مخاطب ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی مرتبہ کو سمجھانے کیلئے فرمایا.وَ مِنْ آيَتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رووو ۴۵۹ مورة الكهف إذَا أَنْتُمْ بَشَر تَنْتَشِرُونَ (الروم :۲۱) اللہ تعالیٰ کی زبر دست نشانیوں اور اس کی قدرتوں کے حیرت انگیز نظاروں میں سے ایک نظارہ یہ ہے کہ اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے ہماری اس زمین کی ہر چیز مٹی سے پیدا ہوئی ہے مٹی کے اجزا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک خاص محسوس و مشہود شکل اختیار کر لیتے ہیں مثلاً پھلوں میں سے آم یا انگور وغیرہ ہیں.اناجوں میں سے گندم یا جو کی یا باجرہ ہیں لحمیات میں سے پرندوں کا گوشت ہے، چوپایوں کا گوشت ہے اور مچھلیوں کا گوشت ہے اسی طرح کی اور بھی بے شمار مختلف چیزیں ہیں مگر دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے مٹی سے پیدا ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے کہ اے انسان! ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہارے وجود میں مٹی کی خلق احسن تقویم کو پہنچی ہے مٹی کی خلق جو موزوں ترین اور بہترین شکل اختیار کر سکتی تھی وہ تمہارے وجود میں کمال کو پہنچ گئی ہے.سورۃ تین میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.غرض انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور احسن تقویم کی شکل میں انسان بطور بشر کے ہے پھر تنتشرُونَ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کی تسخیر کیلئے دنیا میں پھیلنا شروع کیا.پہلے تم نے اپنے ماحول کی چیزوں سے فائدہ اُٹھایا پھر چونکہ تمہاری فطرت میں یہ جذبہ رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول یعنی اپنے ملک کی چیزوں سے تسلی نہیں پاتی اور انسان سمجھتا ہے کہ ساری دنیا کی چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اس لئے وہ ساری دنیا میں پھرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا اور دنیا کی ہر چیز کو اس نے اپنے کام پر لگایا اور اپنے فائدہ کے لئے اُسے استعمال کیا.در اصل بشر اس مٹی کی تخلیق کی انتہا اور روحانی تخلیق کی ابتداء ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے سیر روحانی شروع ہوتی ہے.پھر آگے جتنی جتنی کسی میں ہمت ہوتی ہے وہ اس کے مطابق روحانی رفعتوں کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے البتہ بشریت سے پہلے روحانی رفعتوں کے حصول کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.بشریت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد ہی انسانی مخلوق اللہ تعالیٰ کا قرب اور لقا کا مقام حاصل کر سکتی ہے.پس بشریت کے مقام سے سیر روحانی کا آغاز ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام احسن تقویم رکھا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے رسول تم دنیا میں اعلان کر
سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث دو اور اس عظیم الشان اعلان پر مشتمل ان آیات ( انما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) کو بشریت کے کمال کے ذکر سے شروع کر کے آگے سیر روحانی پر ختم کیا.اب ایک ایسے فرد واحد نے خدائی حکم کے ماتحت یہ اعلان کیا کہ میں تم جیسا ہی بشر ہوں.وہ خدا تعالیٰ کے قریب تر ہوا جیسا کہ خود قرآن کریم کی یہ آیہ کریمہ ہے.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی (النجم :١٠) اس حقیقت کی مظہر ہے اور اس سے زیادہ قرب کسی اور فر د بشر کے لئے حاصل کرنا تو کیا اُس جتنا بھی حصول ممکن نہیں چنانچہ آپ کی علومشان پر وہ حدیث قدسی بھی روشنی ڈالتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَ فَلَاكَ یعنی اے رسول ! اگر تیرا وجود پیدا نہ کرنا ہوتا، اگر تجھے دنیا کے لئے نمونہ نہ بنانا ہوتا تو میں مخلوق ہی پیدا نہ کرتا.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں تمہارے جیسا انسان ہوں، جہاں تک انسانی عزت ، شرف اور مرتبہ کا سوال ہے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں کیونکہ جس طرح میں احسن تقویم یعنی بشریت کے لحاظ سے مٹی کا ایک پتلا ہوں اسی طرح تم بھی مٹی کے پتلے ہو، جس طرح میں اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہوں اسی طرح تم بھی اشرف المخلوقات کے فرد ہو جس طرح میں سیر روحانی میں بلند سے بلند درجات پاسکتا ہوں اسی طرح تم بھی بلند سے بلند درجے حاصل کر سکتے ہو اور یہ کہہ کر ایک طرف دنیا میں انسانی عزت اور شرف کو قائم کیا اور دوسری طرف ہر فرد بشر کو اس طرف بھی متوجہ کیا کہ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں.اگر مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلند سے بلند مقام حاصل ہو سکتا ہے تو تمہیں بھی بلند درجہ کیوں نہیں حاصل ہو سکتا.تم بھی خدا کی راہ میں مخلصانہ کوششیں کرو، سچی قربانیاں دو، حقیقی مجاہدہ اختیار کرو، جذ به فدائیت اور عاشقانہ ایثار کے نمونے پیش کرو خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرنے لگ جائے گا، تم بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کو حاصل کر لو گے...........در حقیقت یہ ایک عظیم اعلان ہے.جب ہم اس کے متعلق سوچتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں.اس قدر عظیم اعلان بنی نوع انسان کے سامنے کیا گیا ہے جس کی عظمت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھتا ہو اور اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہوتے ہوئے بشریت کے مقام سے سیر روحانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے اور ایسا عظیم قرب حاصل
۴۶۱ مورة الكهف تغییر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کیا کہ اس سے زیادہ قرب تصور میں بھی نہیں آ سکتا.نہ کسی ماں جائے نے کبھی اتنا قرب حاصل کیا اور نہ ہی آئندہ کر سکتا ہے تاہم آپ کی زبان مبارک سے یہ کہلوایا گیا کہ بشر ہونے کی حیثیت میں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.انسانی شرف اور اس کے احترام کے لئے اس سے بڑھ کر عظیم اعلان اور کیا ہو سکتا تھا آپ نے بنی نوع انسان سے فرمایا کہ جب ہر فرد بشر بطور بشر میرے جیسا ہے تو دو چیزیں لازم آتی ہیں یعنی اس سے آگے پھر دو نتیجے نکلتے ہیں.ایک یہ کہ ہر فرد بشر کی عزت واحترام لازمی ہے.اگر کوئی کسی کی بے عزتی کرے گا یا کسی کو بنظر حقارت دیکھے گا تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ تم نے میری بے عزتی کی اور مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا کیونکہ میرا مقام شرف بطور بشر کے اس سے بڑھ کر نہیں ہے تم نے کسی کی بے عزتی کی تو گویا میری بے عزتی کی.اس واسطے یہ بات یادرکھنا کہ کسی بھی شخص کی بے عزتی نہیں کرنی.کسی کو بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا ہر ایک کی عزت و احترام کرنا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں ایسی گندی عادت پڑ گئی ہے کہ بات بات میں ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ کا کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ اُن کا ہر ایسا فعل در اصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہونے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والا ہے.آج دنیا پیار کی بھوکی ہے عزت واحترام کی متلاشی ہے آج دنیا میں ہمیں جو بے چینی نظر آ رہی ہے اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو بطور بنی نوع انسان کے اشرف المخلوقات نہیں سمجھا گیا حالانکہ سارے انسان ایک ہی طرح کے ہیں اور اشرف المخلوقات کے شرف سے مشرف ہیں بحیثیت بشر کوئی بھی کسی دوسرے سے بزرگ و برتر نہیں.اس لئے ہر مسلمان کو دوسرے کی عزت و احترام کرنا چاہیے.اگر وہ دوسرے کی عزت و احترام نہیں کرتا تو وہ دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترم نہیں کرتا یہ بڑا خطرناک مقام ہے.ہر آدمی کو سمجھایا جائے تو وہ سمجھ سکتا ہے چہ جائیکہ ایک احمدی جو بدرجہ اولیٰ اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی خاطر یہ کارخانہ عالم وجود میں آیا تھا بشر ہونے کے لحاظ سے آپ کی عزت و احترام کی طرح ہر انسان کی عزت و احترام واجب ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے انسانی عزت و احترام کے قیام کا یہ ایک زبردست اعلان ہے.آج دنیا اس کی متقاضی ہے.غیر تو غیر ہیں خود ہم مسلمانوں میں بھی اس طرف توجہ نہیں رہی.ہم نے غریب کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم
۴۶۲ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نے لاوارث کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے یتیم کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے ہم نے کم علم یا ان پڑھ کی عزت کرنی چھوڑ دی ہے اس کے برعکس دولت مند کی عزت کرنی شروع کر دی گئی ہے ہم مسلمان وجاہت اور دبدبہ سے مرعوب ہونے لگے حالانکہ خدا تعالیٰ نے تو یہ فرمایا تھا کہ امیر و غریب بحیثیت انسان ہونے کے سب برابر ہیں.بشر ہونے کے اعتبار سے ایک سیاسی اقتدار کے مالک شخص اور ایک کم مایہ ، غریب لا چار اور ان پڑھ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور یہ آپس میں برابر ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا اس تعلیم کو بھول چکی ہے.انسانی فطرت اس کی بھوکی ہے.افریقہ کے رہنے والے کئی سو سال سے مختلف نعروں کے درمیان محرومی اور بے عزتی کی زندگی گزارتے چلے آ رہے تھے.ہمارے مبلغ وہاں گئے اُنہوں نے اسلام کی تبلیغ کی ، اسلامی مساوات سے روشناس کرایا تو وہ حیران ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہم بھی اتنے ہی معزز ہیں جتنے یہ باہر سے آنے والے لوگ معزز ہیں کیونکہ دوسرے مشنریز (Missionaries) نے ان کو یہ احساس ہی نہیں دلایا تھا کہ بحیثیت انسان ہونے کے وہ بھی شرف اور مرتبہ رکھتے ہیں اور عزت و احترام کے مستحق ہیں.اُن کے سامنے جب یہ تعلیم پیش کی گئی اور جب اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا کہ إِنَّمَا أنا بشر مثلكم یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو سب زمانوں اور مکانوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے جن کی عزت اربوں ارب لوگوں نے کی اور ہوتی چلی جائے گی جن کے لئے فدائیت کے بے نظیر نمونے پیش کئے گئے.آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میں بلحاظ بشر ہونے کے تمہاری طرح ایک بشر ہوں.چنانچہ اتنے بڑے اور عظیم الشان انسان کی زبان مبارک سے رنگ ونسل کی تفریق کو یکسر مٹا دینے کی اس تعلیم سے وہ بے حد متاثر ہوتے ہیں اور اس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کے دلوں میں عزت و احترام کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب وہ ہمارے مبلغوں سے گلے ملتے ہیں اور ان سے پیارو محبت کرنے لگے ہیں.غرض اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ میں اللہ تعالیٰ نے جن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کی طرف متوجہ ہونا ہر ایک احمدی کے لئے از بس ضروری ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے جیسے ایک انسان ہو کر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سیر روحانی میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں اپنی اپنی استعداد کے
۴۶۳ مورة الكهف تفسیر حضرت خلیفتہ المسح الثالث مطابق انتہائی قربانیوں کے نتیجہ میں بلند تر روحانی مقام حاصل کر سکتے ہو.چنانچہ فرما یا مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا اس سے پہلے فرمایا تھا کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں اور بشر ہونے کے لحاظ سے میری عزت بھی اتنی ہی ہے جتنی تمہاری عزت ہے اور اس سے ہمیں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ دنیاوی تفاوت عزت و احترام یا ذلت اور حقارت کا باعث نہیں بننا چاہیے.اسلام میں ان معنوں میں عزت یا ذلت کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جو زیادہ مالدار ہے وہ زیادہ باعزت ہے.کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا جو زیادہ چرب زبان ہے وہ زیادہ عزت والا ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جس کی تقریر لاکھوں کے مجمع کو مسحور کرتی چلی جاتی ہے اور وہ ایک دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ( دنیوی لحاظ سے کئی ایسے چرب زبان لوگ پیدا ہوئے ہیں) وہ زیادہ معزز ہے اور اسی طرح کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جس کو کم دولت ملی ہے یا سرے سے ملی ہی نہیں وہ ذلیل اور قابل حقارت ہے کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو شخص اپنے ماحول میں کسی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کر سکا وہ ذلیل اور حقیر ہے.کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ایک شخص جود نیوی علوم میں کمال حاصل کر لیتا ہے خدائے تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی زیادہ عزت و احترام ہے.احسن تقویم یعنی بشریت کے مقام سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی انسان کو کسی دنیوی وجہ سے معزز یا ذلیل قرار نہیں دیا.چنانچہ ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے جن کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہمارے اموال ہمیں معزز و محترم بناتے ہیں اور جو رکی اكرمن ( الفجر : ۱۲) کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن جب بشریت یعنی احسن تقویم کے مقام سے انسان سیر روحانی میں بلند سے بلند ہونے لگتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تم میں سے بعض بعض پر اعزاز و اکرام پانے میں سبقت لے جائیں گے اور بعض اپنی بدعملیوں کی وجہ سے معزز نہیں رہیں گے.غرض احسن تقویم یعنی بشریت کا مقام انسانی عزت یا ذلت کا نقطہ آغاز ہے.بنی نوع انسان نے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَنقَكُمُ (الحجرات : ۱۴) کے ان الہی الفاظ میں کہ جو زیادہ متقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ معزز ہے پہلی دفعہ بشریت کے مقام سے بلندی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے یہ سنا کہ اب تم میں سے بعض معز ز ٹھہریں گے اور بعض ذلیل اور بعض بعض سے زیادہ معزز ہوں گے اور بعض بعض سے نسبتاً کم.ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ سیر روحانی سے بلند ہونے کا مرحلہ تم طے نہیں کر سکتے جب تک تم ہماری ہدایت پر عمل نہ کرو اور قرآن کریم نے بنیادی
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۶۴ مورة الكهف طور پر ہمیں یہ ہدایت دی کہ سیر روحانی میں بلندیوں کو وہی لوگ حاصل کر سکیں گے جو اعمالِ صالحہ بجالائیں گے یعنی ایک تو یہ کہ ان کے اعمال میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور دوسرے یہ کہ ان کے اعمال وقت اور موقع محل کے مطابق ہوں گے اور تیسرے یہ کہ ان کے اعمال خالصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے.پس وہ عمل جو فساد سے خالی ہو ( اور فساد کے آگے لمبی تفصیل خود قرآن کریم نے بیان کی ہے میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتا ) اور پھر وہ موقع ومحل کے مطابق بھی ہو اور ایسا ہو کہ جس کو اختیار کر کے یہ کہا جاسکے کہ یہ وہ شخص ہے جو اس گروہ میں شامل ہو گیا جس کے متعلق آتا ہے وھدوا إلى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (الحج : ۲۵) صراط حمید اس راہ کو کہتے ہیں کہ وہ جس منزل تک انسان کو پہنچائے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قابل تعریف ہو.یعنی اللہ تعالیٰ بھی اس کی تعریف کرنے لگے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے پس جن اعمال میں یہ تین خصوصیتیں پائی جائیں گی وہ اعمال صالحہ کہلائیں گے اور ان اعمال صالحہ کے بجالانے کی کوشش کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اعمال صالحہ بجا لانے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معزز بن جاؤ گے اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جاؤ گے.چنانچہ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات (جن کی میں نے شروع میں تلاوت کی تھی) کے علاوہ اور بھی کئی جگہ بار بار دہرایا ہے یہ بتانے کے لئے کہ توحید خالص کو قائم کرنا بڑا ہی ضروری ہے.سورہ کہف کی آیہ کریمہ کو تو حید خالص کے ذکر سے شروع کیا اور اس کے آخر میں یہ فرمایا ہے کہ شرک سے پر ہیز کرو.سورہ حم سجدہ کی آیہ کریمہ میں جہاں یہ اعلان فرما یا إِنَّمَا أَنَا بَشر مثلكم وہاں شروع میں یہ فرمایا کہ اب تو حید خالص تمہیں بشر کے مقام سے اُٹھا کر قرب الہی کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتی ہے کیونکہ تو حید خالص پر عمل قائم ہونا وحی الہی یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لئے فرمایا انما الهُكُمُ اللهُ وَاحِدٌ فرما یا وحی کے ذریعہ سکھایا ہے کہ تم روحانی رفعتوں کو کن ہدایات پر عمل کر کے حاصل کر سکتے ہو.جیسا کہ میں نے ابھی تشریح کی ہے پہلے یہ فرمایا تھا کہ اعمال صالحہ بجالا نا.دوسری جگہ فرمایا کہ خالی اعمال صالحہ بجالانے کافی نہیں بلکہ استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ بجالا نا ضروری ہے.یہ نہیں کہ رمضان کے پہلے پندرہ دن روزے رکھ لئے اور دو دو گھنٹے تک نماز تراویح پڑھنے میں لگے دورود
۴۶۵ مورة الكهف تغییر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رہے لیکن اگلے پندرہ دن تاش کھیلنے میں گزار دئے.فرمایا.فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ اللہ تعالیٰ کی طرف انابت اور رجوع کی حالت میں استقلال اور استقامت پیدا کرو اور یہی کیفیت اعمال صالحہ کے بجالانے میں بھی پیدا کرو.پھر یہ فرمایا وَاسْتَغْفِرُوهُ تم اپنے زور سے ایسا کر بھی نہیں سکتے اس لئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو.پس فرمایا اگر تم استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ پر قائم رہو گے اور اعمال صالحہ کی بجا آوری میں اپنی قوت اپنی استعداد، اپنی طاقت اور اپنی قابلیت ، اپنے تقویٰ اور طہارت پر بھروسہ نہیں کرو گے ، اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر کار بند رہتے ہوئے اس سے مدد چاہو گے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی لقاء کو حاصل کر لو گے.اس کے بعد فرمایا ہے وَيْلٌ لِلْمُشرکین سورہ کہف کی آیہ کریمہ کے آخر میں فرمایا تھا لا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا کسی اور کو شریک فی العبادة نہیں کرنا.یہاں یہ فرمانے کے بعد کہ اعمال صالحہ بجالانے میں استقلال اور استقامت سے قائم رہنا یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو زور بازو سے حاصل نہیں کر سکتے.اگر تم یہ سمجھو کہ رضائے الہی کے حصول کی طاقت خود تمہارے اندر موجود ہے توتم متکبر ہو کر خدا تعالیٰ کی نگاہ سے گر جاؤ گے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو اور اس سے یہ دعا کرتے رہو کہ وہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپ لے اور اس نے جو طاقتیں اور قابلیتیں تمہیں عطا کی ہیں وہ انہیں اُجا گر کرے اور ان میں جلا بخشے.اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو تم نے مقصد حیات کو پالیا اگر کامیاب نہ ہوئے تو سمجھو کہ تم تو حید خالص سے بھٹک گئے.تم نے کچھ خدا کا اور کچھ اس کے غیر کا سمجھ لیا.تم کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے اور کبھی غیر اللہ کے سامنے جھکے.تم نے کبھی خدا تعالیٰ پر توکل کیا اور کبھی اس کی مخلوق یعنی انسان وغیرہ کے آگے ہاتھ پھیلا دیا.اس صورت میں یاد رکھو وَيْلٌ لِلْمُشرکین شرک خواہ کسی قسم کا ہی کیوں نہ ہو انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کا مورد بنادیتا ہے تم اس سے بچتے رہو.غرض اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں ایک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عظیم الشان اعلان کروایا کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.اگر میں بشر ہونے کے باوجود مقرب الہی بن سکتا ہوں تو تمہارے لئے بھی یہ راہ کھلی ہے.پس انسانی شرف اور اس کے احترام پر مشتمل اس حکیمانہ تعلیم کی موجودگی میں تم ایک لحظہ کے لئے بھی یہ کیسے سوچ سکتے ہو کہ تمہارے اور ایک غریب بھائی تمہارے اور ایک ان پڑھ بھائی تمہارے
۴۶۶ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور ایک مسکین بھائی تمہارے اور ایک محروم بھائی تمہارے اور ایک سائل بھائی کے درمیان فرق ہے جسے تم اپنی عزت اور اپنے محتاج بھائی کی ذلت پر محمول کرتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں تمہارے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آنی چاہیے اور ہر انسان کی خواہ وہ اپنی زندگی میں کسی بھی ادنیٰ مقام پر تمہیں نظر کیوں نہ آئے اس کی عزت و احترام کرنی چاہیے.اس کی ہمدردی اور خیر خواہی کرنی چاہیے اس کو اپنے سے کم تر اور ذلیل نہیں سمجھنا چاہیے.اُسے بھائیوں کا سا درجہ دیتے ہوئے اپنے برابر بٹھانا چاہیے اور اسے یہ احساس دلانا چاہیے کہ تم بھی ہماری طرح معزز ہو.پس ہمارے معاشرہ کا غریب اور کمزور حصہ اس حسن اخلاق اور اس حسن سلوک کا محتاج ہے وہ تمہارے پیار اور محبت کا بھوکا پیاسا ہے.تم ان کی اس بھوک اور پیاس کو مٹانے کی کوشش کرو تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں جاگزیں ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ تعلیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوۂ حسنہ ہی انہیں متاثر کر سکتا ہے اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دیکھو بشر کے مقام کو ایک جیسا کر کے اس میں اونچ نیچ نہ رکھ کر اس میں پہاڑیاں اور وادیاں نہ بنا کر خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک مقام پر لاکھڑا کیا ہے اس کی کوئی حکمت ہونی چاہیے، اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے.خدا تعالیٰ بغیر حکمت کے تو کوئی کام نہیں کرتا اور وہ حکمت یہ ہے کہ جب مٹی کے پتلوں نے احسن تقویم کی شکل کو اختیار کر لیا اور اس میں بلند پردازی کی طاقت رکھ دی گئی تو فر ما یا اب تم سیر روحانی شروع کرو اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کرو.تم عاجزانہ رنگ میں کوشش کرتے ہوئے ، ہر وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے ، اپنے آپ پر کوئی فخر نہ کرتے ہوئے ، تکبر کی ہر لعنت سے بچتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے جبین نیاز رکھ کر اس کی مدد طلب کرتے ہوئے ، اس سے استغفار کرتے ہوئے ہر غیر سے منہ موڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے سیر روحانی کو شروع کرو اور اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو اس کے فضل اور اس کی رحمت کو حاصل کرو.اگر آپ بشر کو بشر کے مقام سے گرا دیتے ہیں تو آپ اس کو وہ پیغام کس طرح پہنچا سکتے ہیں جو احسن تقویم سے شروع ہو کر انسان کو بلندیوں تک لے جاتا ہے.بشر کے مقام سے ورے ہمیں سیر روحانی نظر نہیں آتی.سیر روحانی کا آغاز بشریت کی سطح سے شروع ہوتا ہے اگر آپ ان کو بشر نہیں سمجھتے اور بشر کی حیثیت میں
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۶۷ سورة الكهف عزت و احترام کا وہ درجہ نہیں دیتے جو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہے تو آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام مؤثر طریق پر ان کے کانوں تک کیسے پہنچا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا ہے یا یہ کہ تم بشریت کے مقام سے سرفراز ہوئے لیکن تمہاری آخری منزل یہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا، تمہیں روحانی منزلیں طے کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور ان کی تو کوئی انتہا ہی نہیں کیونکہ جب خدا تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بے انتہا اور وراء الوراء ہے تو ظاہر ہے اس کے قرب کے بھی لامحدود درجے اور منازل ہیں.کسی بھی مقام پر جا کر وہ ختم نہیں ہوتے.پس اس نہ ختم ہونے والی منزل پر انسان کا ہر قدم جو پڑتا ہے اور ہر ساعت جو گزرتی ہے وہ اس کی زندگی کی بلکہ سارے انسانوں کی زندگیوں کی ساری لڈتوں اور سرور سے زیادہ اچھی ہوتی ہے.وہ زیادہ خوشی پہنچانے والی ہوتی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کے پیار کی جھلک دنیا کے پیار اور محبت سے کہیں برتر اور اعلیٰ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کا مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا.بہر حال آپ بنی نوع انسان تک یہ پیغام پہنچا نہیں سکتے جب تک پہلے آپ اس کو یہ خوشخبری نہ دے دیں کہ دیکھو إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم کا اعلان کر دیا گیا.ایک عظیم الشان بشارت انسان کو مل چکی.احسن تقویم کا مقام اسے حاصل ہو گیا.ہر انسان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں پیدا ہوا ہو خواہ وہ کسی بھی زمانہ سے متعلق ہو انسانی شرف اور مرتبہ ہر دوسرے انسان کے مساوی اور برابر ہے.کوئی انسان دوسرے انسان سے برتر نہیں کسی کے متعلق زیادہ معزز اور کم معزز کا فقرہ استعمال نہیں کیا جا سکتا.جب انسان اپنا یہ مقام پہچان لیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسے دور میں داخل ہو جاتا ہے جس میں داخل ہونے کے بعد انسانی عزت قائم ہو جاتی ہے اُسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے لیکن اگر انسان اس دور میں داخل ہو کر اس دور کی ذمہ داریوں کو نہیں نباہتا اور فطرت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب اور نفرت اور حقارت کا مستوجب ٹھہرتا ہے.اس کے برعکس اگر تمہاری فطرت اگر تمہاری روح اس کو برداشت نہیں کرتی تو پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سیر روحانی کو شروع کرو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شاہراہ پر قدم بقدم رفعتوں کے حصول کے بعد خدا تعالیٰ کے انتہائی قرب کو پایا وہی راہ ہم سب کے لئے کھلی ہے.اس راہ پر چل کر ہم بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتے اور اس کے غضب سے بچ سکتے ہیں.اس راہ کو اختیار کرتے
۴۶۸ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ہوئے ہوسکتا ہے کسی کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار شاید کم آئے اور کسی کے حصہ میں زیادہ لیکن ہر ایک کو خدا تعالیٰ کا پیار میسر آجاتا اور اس کی رضا حاصل ہو جاتی ہے.خدا کرے کہ بنی نوع انسان کا ہر فرد اس حقیقت کو سمجھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کے الفاظ میں جو عظیم الشان اعلان کروایا گیا ہے ہر انسان اس ندا پر کان دھرے اور اپنی زندگی میں ہرلمحہ یہ کوشش کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل ہو.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۰۴ تا ۸۱۵) یہ جو غریب غیر مسلم ہیں ان پر تو اسلامی تعلیم کا پہلا اصول ہی بڑا کارگر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان انسان میں کوئی فرق نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کہلوا دیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشر مثلکم کہ میرے اور تمہارے درمیان بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ کہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں مگر کتنے ہیں جو یہ سمجھیں کہ ہاں ہمارے اور تمہارے درمیان بھی بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.کمزور ،لاچار، ہر لحاظ سے مادی آلائشوں میں گھرا ہوا اور دلدل میں پھنسا ہوا انسان اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ جاتا ہے.خدا تعالیٰ ان شیطانی حملوں سے ہمیں محفوظ رکھے.غرض ان لوگوں کو اسلام نے گلے سے لگایا.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۹۶) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ اَحَدًا پس جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اور اسی زندگی میں خدا تعالیٰ کا وصال اسے حاصل ہو جائے تو وہ ایسے اعمال بجالائے جن میں فساد کا کوئی شائبہ نہ ہو، فساد کی کوئی ملونی ان کے اندر نہ ہو ( یہ عملاً صَالِحًا کے معنے ہیں ) اور اس کے اعمال میں شرک کا کوئی حصہ نہ ہو.شرک صرف موٹا موٹا شرک ہی تو نہیں بلکہ انسان کے صحن سینہ میں ہزار بت بعض دفعہ جمع ہو جاتے ہیں.اپنے نفس کو ان بتوں سے بچانا اور اپنے سینہ کو ان بتوں سے پاک کرنا اور اپنے خیالات کو شرک سے پاک رکھنا، اپنے اعمال کو شرک سے پاک کرنا، اپنے ماحول کو شرک سے پاک کرنا، اپنی دنیا کو شرک سے پاک کرنا اور ہر لحاظ سے لا يُشْرِكُ پر عمل کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا ہو تو پھر اس دنیا میں بھی اللہ تعالی کی لقا انسان کو حاصل ہو جاتی ہے اور یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۲۶۱،۲۶۰) مثلاً جب سوچ اور فکر بہک گئی تو سپر مین (Super Man) کا تصور پیدا ہو گیا.یعنی ایسا
۴۶۹ تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث مورة الكهف انسان جو انسانوں میں سب سے بالا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا تھا کہ جب تم انسانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق سوچنا شروع کرو تو اس اصول پر سوچو.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ که بشر ہونے کے لحاظ سے انسان انسان میں کوئی فرق نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم انسان اور دوسرے انسانوں میں بھی انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق اور امتیاز نہیں ہے اور اس اصول کو نہ سمجھنے یا بھول جانے کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں.بڑے دُکھ پیدا ہوئے.بڑی قتل وغارت کی گئی اور مذہبی زندگی میں جب انسان انسان میں تمیز روا رکھی گئی اور ارباب مِنْ دُونِ اللَّهِ بن گئے.انسان تو اس کے نتیجہ میں (میں نے ایک کتاب میں پڑھا) ایک بہت بڑے غیر مسلم مذہبی راہنما کے حکم سے ( یہ صدیوں پہلے کی بات ہے، اب تو انسان نسبتاً زیادہ مہذب ہو گیا ہے ) صرف ایک انسان کے حکم سے دس لاکھ انسانوں کی گردنیں کاٹی گئیں.تو یہ جو سوچ اور فکر جس وقت بہک جاتی ہے خرابی پیدا کرتی ہے.اس کے منبع سے فساد کے سوتے نکلتے ہیں.یہی حال اعتقادات کا ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۰) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں الناس کے علاوہ بشر کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اور کیا بھی ایک خاص محل پر.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ قل إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم - تو (انہیں) کہہ کہ میں تمہاری طرح کا صرف ایک بشر ہوں.عربی لغت کی رو سے بشر کے معنوں میں بھی مرد اور عورتیں دنوں شامل ہیں جب بشر کا لفظ بیک وقت مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے بولا جاتا ہے تو مِثْلُكُمْ میں بھی دونوں شامل ہیں سو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کر دیا کہ اے مردو! اور اے عورتو! میں تم جیسا ایک بشر ہوں.اس طرح آپ نے یہ امر ذہن نشین کرایا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور دُنیا کے تمام مردوں اور تمام عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے.سب ایک جیسے بشر ہیں.یہ انسان کو (جس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں ) زمین سے اُٹھا کر ساتویں آسمان تک لے جانے والی بات ہے یہ مساوات بلحاظ نوع کے ہے اور مردوں اور عورتوں کے یکساں شرف پر دلالت کرتی ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استعداد اور قابلیت ہر دوسرے انسان سے کہیں بڑھ کر عطا کی گئی تھی اس لئے استعدادوں کے لحاظ سے نیز اتفھی ہونے کے لحاظ سے
۴۷۰ سورة الكهف تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث اس بشر اور دوسرے بشر کے مابین بڑا فرق ہے.اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشر ہونے کے لحاظ سے اپنے وجود کو ہر بشر کے ساتھ بریکٹ کر دیا اور بتایا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تمام دوسرے انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلحاظ نوع یکسانیت کا یہ شرف مردوں اور عورتوں دونوں کو حاصل ہے اسلام نے اس شرف میں شریک ہونے کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی بلحاظ استعداد مرد.مرد اور عورت ، عورت میں بھی فرق ہے اور ہر ایک نے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ترقی کرنی ہے ان میں سے کوئی اپنی استعداد کے مطابق کتنی ہی ترقی کر جائے.اسلام کہتا ہے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے بلا تفریق و امتیاز تمام مرد اور تمام عورتیں ایک ہی سطح پر ہیں.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۶۳۵،۶۳۴) فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا - یعنی جو شخص ہمارا وصال چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک اور مناسب حال اور ہمارے احکام کے مطابق اعمال بجالائے اور کوشش کرے کہ ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے شرکوں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو پاک رکھے.اس میں کسی قسم کی آمیزش اور ملاوٹ نہ ہونے دے غرض ایسا شخص جو عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کی ہی عبادت کرتا ہے اور کسی اور کے سامنے سر نیاز خم نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کے احکام بجالانے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے.وہی امید رکھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو جائے گا اللہ تعالیٰ اسے مل جائے گا اور جس شخص کو خدا تعالیٰ مل جائے اسے نہ اس جہان کی جنت کی ضرورت رہتی ہے اور نہ اگلے جہان کی جنت اسے درکار ہے دونوں جہانوں کی جنتوں کا منبع جو اسے حاصل ہو گیا.غرض خوف اپنی جگہ پر ہے اور امید و رجاء اپنی جگہ پر ہے.اسلام نے ہمیں کسی صورت میں بھی نا امید نہیں کیا ہمیں ڈرایا ضرور ہے.تنبیہ ضرور کی ہے کہ تم ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارو.اور ان احکام پر عمل کرو جو ہم نے تمہارے لئے نازل کئے ہیں.ان بداخلاقیوں اور بداعمالیوں سے بچتے رہو جن سے بچنے کی ہم تمہیں تلقین کرتے رہتے ہیں اور ہمیں بشارت دی ہے کہ اگر تم ایسا کرو تو میں تمہارے لئے اس دنیا میں بھی جنت کا ماحول پیدا کر دوں گا.لیکن تم اپنے عمل پر کبھی بھروسہ نہ کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات اتنی ارفع ، اتنی اعلیٰ ، اتنی شان اور اتنی طاقت والی ہے کہ اگر کسی انسان کے دماغ میں معمولی عقل بھی ہے تو وہ ایک لحظہ کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ میں اس کی رضا کی
مورة الكهف تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث جنت کو زور بازو سے حاصل کرلوں گا اور میں اسے اپنے اعمال کے زور پر خوش کرلوں گا.اگر ہمارے اعمال خدا تعالیٰ کے ان احسانات کے مقابلہ میں رکھے جائیں جو اس نے ہم پر ہمارے پیدائش کے وقت سے لے کر موت تک کئے ہیں.تو ہمارے اعمال ان احسانوں کے مقابلہ میں بطور شکر کے بھی کافی نہیں.تو جب انسان نے پہلے قرضے ہی ادا نہیں کئے اور نہ وہ ادا کر سکتا ہے تو اپنے اعمال کی جزا کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.جب تک کہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہو.غرض جب تک اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے فضل اور رحمت سے نہ نوازے اس وقت تک نہ تو اسے جنت مل سکتی ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.پس ایک طرف ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی کے لمحات گزار و اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ کبھی مایوس نہ ہونا کیونکہ مایوسی کفر کی علامت ہے اور وہ اسی دل میں پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام کا منکر اور اس کے احسانوں کا ناشکر گزار ہو جو شخص خدا تعالیٰ کے ان احسانوں کو جو ہر آن اس پر ہورہے ہیں.یاد کرنے والا ہو وہ اپنے اس احسان کرنے والے رب سے کس طرح مایوس ہو سکتا ہے.غرض ہم نے زندگی کے یہ دن جو ہمیں عطا ہوئے ہیں ڈرتے ڈرتے گزارنے ہیں لیکن ہم نے خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا.کیونکہ وہ بڑا فضل کرنے والا بڑا رحم کرنے والا اور بڑا احسان کرنے والا ہے اور پھر ہمیں ہمیشہ اس سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا ہم تو نیستی محض ہیں ہم اور ہمارے اعمال کچھ بھی نہیں لیکن ہم تیری ذات پر کامل اور پوری امید رکھتے ہیں کہ تو ہم سے احسان، فضل اور رحمت کا معاملہ کرے گا.ہماری خطاؤں کو معاف کر دے گا ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل کرے گا اور ہمیں توفیق دے گا کہ ہم تیرے شکر گزار اور حمد کرنے والے بندے بنے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بندوں کے اس زمرہ میں شامل کرے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت سے انہیں نوازتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحہ ۱۱۹،۱۱۸)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۴۷۳ سورة مريم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة مريم آیت ۴۹ وَ أَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ اَدْعُوا رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيَّان علی وجہ البصیرت میں یہ بات کہہ رہا ہوں.میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ دنیا کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے اور اس کے مشاغل کچھ اس قسم کے ہیں کہ اگر آدمی ہمیشہ چوکس ہو کر اور بیدار ہوکر دعا کی طرف متوجہ نہ رہے تو دعا میں غفلت کر جاتا ہے اس لئے بار بار میں جماعت کو دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اپنے نفس کو تو ہر روز ہی توجہ دلاتا ہوں اس کی طرف.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا قرآن کریم نے ہماری راہبری کے لئے محفوظ کی ہے.عسى الا أكونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا کہ يقينا رب کے حضور جھک کر دعاؤں کے نتیجے میں میرا نصیبا سویا نہیں رہے گا.تو اپنی قسمت کو جگانے کے لئے ، بیدار کرنے کے لئے دعا کی ضروت ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہی میں ہے اور اس کی رحمت سے ہی یہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ سب کچھ پل جائے جس کے حصول کی اس نے ہم میں سے ہر فرد میں طاقت بھی رکھی اور جس کو دینے کے لئے وہ ہر وقت تیار بھی ہے.اگر ہم محروم رہتے ہیں تو ذمہ داری ہماری ہے.ہمارے رب کی نہیں.ہمارے اللہ نے تو اعلان کر دیا کہ ہر قسم کی ربوبیت کی ذمہ داری میری ہے.وہ جو رب ہے.اگر ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہوں تو اس سے جو رب نہیں ہم کیا حاصل کر سکتے ہیں کچھ بھی نہیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۹،۲۸) آیت ۸۵ فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعْتُ لَهُمْ عَدَّان اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: - فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ تم ان کے خلاف جلدی نہ کرو.مطلب
۴۷۴ سورة مريم تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث یہی ہے کہ تم خدا سے یہ نہ کہو کہ وہ نصرت و مدد کو جلدی لائے اور ان کا فروں کو مار دے جو ہمیں دکھ دے رہے ہیں، ایذا پہنچارہے ہیں.زخمی کر رہے ہیں اور بعض کو قتل کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انما نَعدُّ لَهُمْ عَدا یعنی تمہارے ساتھ بھی ایک وعدہ ہے کہ فلاں وقت مدد آئے گی اور اُن کفار کے ساتھ بھی وعدہ ہے کہ ایک وقت تک ان کو ڈھیل دی جائے گی.دراصل یہ دونوں وعدے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر مسلمان کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ اُسے عصر کے وقت اللہ تعالیٰ کی مدد ملے گی تو یہ بات لازمی ہے کہ کافر کے ساتھ بھی یہ وعدہ ہو گا کہ عصر کے وقت تک اُس پر الہی گرفت نہیں ہوگی اور اصلاح کے لئے اسے مہلت دی جائے گی تبھی وہ اپنا کام کر سکتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا نَعتُ لَهُمْ عَذَا ہم نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور یہ وہی وقت ہے جو ایک مسلمان کا اور ایک کافر کا اکٹھا ہو جاتا ہے.جس وقت مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آتی ہے، کا فر کی ہلاکت کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اس لئے تمہارا جلدی کرنا، یاقبل از وقت گھبرا جانا اور دعائیں کرنا کہ اے خدا! ہم تکلیفیں برداشت نہیں کر سکتے.تو ہماری مددفرما.یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ کہ ان کے خلاف جلد ہلاکت کی دعائیں کرنا غلط بات ہے.یہ نہیں ہو سکتا جس وقت تمہاری آزمائش پوری ہو جائے گی امتحان میں پورے اُتر و گے.ان کی ڈھیل کا وقت بھی پورا ہو جائے گا.ایک ہی وقت میں تمہاری مدد اور ان کی ہلاکت کے سامان پیدا ہو جائیں گے.پس فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُتُ لَهُمْ عَدا میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں جلدی نہیں چلے گی اللہ تعالیٰ کی مدد کے آنے تک تمہیں صبر وثبات کا مظاہرہ کرنا ہو گا چنانچہ ساری اسلامی تاریخ دیکھ لیں.اُس وقت بھی جب مسلمان اپنے ایمان کی رفعتوں پر پہنچا ہوا تھا اور اس وقت بھی جب مسلمان اپنے ایمان میں نسبتاً بہت کمزور ہو چکا تھا.ہر دوصورتوں میں مسلمان اگر عصر تک قربانیاں دیتا رہا تو کامیاب ہوتا رہا اور جب بھی اس نے صبح سات بجے یا آٹھ بجے یا نو بجے یا دس بجے یا بارہ بجے یا دو بجے خدا تعالیٰ سے یہ کہا کہ اے خدا! تو نے ہماری مدد کرنے میں جلدی نہیں کی اب ہم پیٹھ دکھا رہے ہیں تو وہ ہلاک ہو گئے.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۵۱،۵۰)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۴۷۵ سورة طه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة طه آیت ۱ تا ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِ طه مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى ل تَنزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَوتِ الْعُلَى یہاں مخاطب ایک ہے انسان نہیں مخاطب.طہ میں ایک فردِ واحد مخاطب ہے اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہ آپ کی شان اور عظمت آپ کے اندر رکھی اپنی رحمت سے، نوع انسان کے لئے رحمت بن کے آئے.ان کو مخاطب کر کے یہاں کہا گیا ہے کہ اے کامل انسان ! یعنی جو استعداد کے لحاظ سے ایسا ہے کہ کسی اور انسان میں خدا تعالیٰ نے یہ استعداد نہیں رکھی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں رکھی گئی ہے.اور دوسرا پہلو اس کا یہ ہوتا ہے کہ جو قو تیں اور استعدادیں ملی تھیں ان کی صحیح اور کامل نشود نما ہوئی یا نہیں ہوئی ایک شخص کی.اب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہٹ کے بات کرتا ہوں.آج ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے اندر بڑی استعداد میں ہیں لیکن ماں باپ خیال نہیں رکھتے.وہ گلی میں جاتا ہے، اپنے ہمسایوں سے ملتا ہے اور آوارگی کی اس کو عادت پڑ جاتی ہے اور وہ بچہ جو ذہن رکھتا تھا ایسا کہ جب وہ ایم.ایس.سی کا امتحان دیتا تو فرسٹ آتا وہ میٹرک میں فیل ہو جاتا ہے.تو استعداد کے لحاظ سے بڑی استعدادی طاقتیں تھیں لیکن عملاً نشو و نما نہیں ہو سکی.تو یہاں طلہ میں ہر دو پہلو میں کمال ہے.استعداد کے لحاظ سے کامل اور نشوونما کے لحاظ سے کامل.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا ایک لطیف فقرہ ایک جگہ لکھا ہے کہ اسلام کی تعلیم درخت وجو دانسانی کی ہر شاخ کی پرورش کرتی ہے اور اسے ثمر آور بناتی -
سورة طه تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ہے.انسان کی ہر شاخ اس کا خلق ہے نا.اس کی ہر قوت اور استعداد ہے اور یہی مضمون یہاں بیان ہونا تھا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہ اے کامل قوتوں والے انسان! تجھے استعداد میں کامل دی گئی تھیں.کامل پرورش کا ، کامل تربیت کا سامان خدا تعالیٰ نے تیرے لئے کیا تا کہ تو بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ بن جائے.مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى یہاں کامل انسان ہی مراد ہے.قرآن کریم کی تعلیم جو تجھ پر نازل ہوئی خُلُقُهُ الْقُرْآنُ وہ اس لئے نہیں تھی کہ تو دکھ میں پڑے بلکہ اس تعلیم نے تیری ساری قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشو و نما کر کے دوسرے پہلو کو بھی کامل کر دیا.اگر مخاطب انسان ہوتا اور کہا جاتا مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشفی یعنی کوئی مخاطب ہوتا.زید بکر کوئی ہوتا اور وہ عام درمیانے درجے کا انسان ہوتا تو شیطان یہ وسوسہ پیدا کر سکتا تھا کہ قرآن کریم نے صرف یہ دعوی کیا نا کہ جتنی طاقتیں محدود، کم ، اس انسان کے اندر تھیں ان کی نشوونما کا سامان قرآن کریم میں ہے.جب ہر قوت اور استعداد کی نشوونما کا سامان قرآن کریم میں ہے یہ دعویٰ کیا گیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے تو وہ انسان جن کی قوتیں اور استعدادیں بعض پہلوؤں سے ایک میں، بعض اور پہلو دوسرے میں، بعض اور پہلو جو کم ہیں ان کو بھی کوئی خطرہ نہیں کہ ہماری نشود نما نہیں ہوگی.تمہاری استعدادوں کی بھی نشوونما ہوگی.جب ہر استعداد انسانی کی نشوونما کا سامان ہے تو تمہاری استعداد کی نشوونما کا بھی سامان ہے.فرما یا اِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى دکھ کا سامان نہیں قرآن کریم میں بلکہ جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے اس کی راہنمائی اور ہدایت اور اس کی عزت کے قیام کا ، عزت کو بلند کرنے کا سامان ہے اس میں.پھر فرمایا تَنْزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ والسموات العلیٰ یہ آیت بیچ میں ایک دوسری آیت اسی کی ترتیب میں آگئی تھی لتشفی کے ساتھ یسپلینیشن (Explanation) اسی مضمون کو واضح کرنے کے لئے ویسے اَنْزَلْنَا کا تعلق تَنْزِیلا سے ہے.یہ قرآن کریم جو تجھ پر نازل کیا تجھے ہر دُکھ سے بچانے والا ہے، دکھ کا سامان پیدا کرنے والا نہیں.اس آیت میں دکھ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ انسان اپنی کسی قوت اور استعداد کی صحیح نشوونما نہ کر سکے یہ دُکھ ہے مثلاً آدمی بیمار ہو جاتا ہے تو وقتی طور پر جسمانی نشوونما میں فرق پڑ جاتا ہے.جسمانی طاقت میں کچھ کمی پیدا ہو جاتی ہے.جو قوت مدافعت کا لفظ طبیب استعمال کرتا ہے اس میں کمی پیدا ہو جاتی ہے تو دُکھ کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.اگر قوتِ مدافعت اپنے کمال میں ہو تو
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث سورة طه بیماری کا کوئی دُکھ نہیں اور یہ جو قوت مدافعت کم ہوتی ہے اس کی ذمہ داری قرآن کریم کی تعلیم پر نہیں.فرمایا وَ اذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء: (۸) بیماری انسان اپنی غفلت سے پیدا کرتا ہے اور شفاخدا تعالیٰ کا کلام اسے دے رہا ہے.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ اس میں یہ جو دوسرا حصہ ہے اس میں دو پہلو ہیں.ایک خدا تعالیٰ کے حکم سے شفا ملتی ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی ہدایت اور راہنمائی اور قرآن کریم کی تعلیم سے شفا ملتی ہے.انسان صحت جسمانی کامل طور پر اچھی رکھ سکتا ہے اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول پر گامزن رہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ اصول بتایا کہ متوازن غذا (Balanced Diet) کھاؤ.جو کھانے کی مختلف چیزیں ہیں ان میں ایک توازن پیدا کرو.قرآن کریم نے یہ بتایا کہ تَنْزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّبُوتِ العُلى جو میری مخلوق ہے اس کا علم حاصل کرو.قرآن کریم نے یہ بتا یا کہ اگر تم کوشش کرو گے تو لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعى (النجم:۴۰) تمہیں پتا لگ جائے گا کہ متوازن غذا کسے کہتے ہیں.یہ توازن جو ہے یہ آگے دو طرح کا ہے.ایک جسم کا توازن وزن کے لحاظ سے، مقدار غذا کے ساتھ یہ بھی ایک بڑا زبردست توازن ہے.اب یہ گھوڑے وغیرہ ہیں ان کے متعلق انہوں نے اچھی خاصی ترقی کر لی ہے اس علم میں.وہ کہتے ہیں کہ اتنے وزن کا گھوڑا ہوگا تو تم نے اس کو اتنا راشن دینا ہے.اتنا ہو گا تو اتنا.انسانی وزن کا انسانی غذا سے تعلق ہے.توازن ہے انسان کے جسمانی غدود کی کارکردگی اور غذا سے.اس لحاظ سے تحقیق کرنے والوں نے انسانی جسم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک وہ جو کیلریز (Calaries) انہوں نے ایک پیمانہ بنایا ہوا ہے کہ یہ چیز کیا اتی کیلریز پیدا کرتی ہے.کیلریز گرمی کا یونٹ (اکائی) ہے.مثلا وہ یہ کہیں گے کہ مچھلی دو چھٹانک ہو تو اس میں ستر کیلریز ہیں.اور مگ دو چھٹا نک ہو تو اس میں تین سواتی کیلریز ہیں.تو بعض جسم ہیں جو زیادہ کیلریز Burn کرتے ہیں.ان کے غدود اس طرح کام کرتے ہیں جو کھاتے رہیں وہ شفیع اشرف صاحب کی طرح دبلے ہی رہیں گے جو جتنا مرضی کھالیں.اور بعض ایسے ہیں جو کم کھائیں گے اور موٹے ہو جائیں گے.ہمارے ہاں کالج میں ایک کارکن کام کرتا تھا وہ بغیر کسی جھجک کے اور تکلف کے دس پندرہ ہیں روٹیاں کھا لیتا تھا.سیر دوسیر پکا پلاؤ کھا جاتا تھا اور بعد میں زردے کی دو پلیٹیں اور اس کا پیٹ ایک دوشیزہ کی طرح کمر کے ساتھ لگا ہوا تھا.پتا ہی نہیں لگتا تھا کہ یہ کھانا جاتا کہاں ہے.
۴۷۸ سورة طه تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث تو یہ ایک توازن ہے ہمارے لئے علم کے میدان کھول دیئے.جب یہ کہا کہ تم اگر تو ازن قائم نہیں رکھو گے بیمار ہو جاؤ گے تو پھر تمہیں تو ازن کی جہتیں قائم کرنی پڑیں گی.توازن یہ لحمیات، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ، نشاستہ اور دوسری چیزیں ہیں اور اس کا پھر آگے بڑا المباعلم چلا گیا ہے.تَنْزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّبُوتِ الْعُلى کہا تھا قرآن کریم کو نازل کرنے والے نے قرآن کریم کو اس لئے نازل نہیں کیا کہ تمہیں دکھ پہنچے ، اس لئے نازل کیا ہے کہ تمہارے سارے دکھوں کو دور کر دیا جائے اور دلیل یہ دی ہے تَنْزِيلاً مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَوتِ الْعُلى ان بلند آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے نے نازل کیا ہے اور یہ زمین اور سات بلند آسمان ان کی ہر چیز کے متعلق دوسری جگہ کہا سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجانيه : ١٤) تمہاری خادم ہے.تو جس خدا تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے کو تمہارا خادم بنایا وہ اپنے کلام کے نزول کے وقت تمہارا خیال نہیں رکھے گا نا معقول بات ہے یعنی کوئی عقلمند آدمی تھیوریٹیکلی (Theoratically ) ہر دنیا کا دھر یہ بھی ہے اس کو میں قائل کروں گا کہ یہ حقائق ہیں.اس میں اس کو ماننا پڑے گا کہ اگر کائنات کی ہر شے انسان کی خادم ہو تو پھر قرآن کریم کا نازل کرنے والا وہی ہے جس نے یہ اشیا بنائی ہیں تو مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى قرآن کریم تمہیں دکھ دینے کے لئے نہیں آیا، دکھوں کو دور کرنے کے لئے آیا ہے.اس لئے میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ اپنے دکھوں کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کے دکھوں سے اپنے آپ کو ، اپنے بچوں کو اپنی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لئے قرآن کریم کو سیکھیں.الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۷۸) کا اعلان کیا گیا آج کی دنیا کے لئے جب وہ قرآن کریم سے پیچھے ہٹ رہی تھی.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہا اعلان کر دو.وہ اسی آیت کی روشنی میں ہے.مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى یہ اعلان کرو کدھر جار ہے ہو تم قرآن کو چھوڑ کے.اس لئے میں کہتا ہوں علم حاصل کرو اس حد تک جس حد تک علم حاصل کرنے کی خدا نے تمہیں استعداداور قابلیت دی.تمہارے بچوں کو خدا نے دی اور اس علم سے صحیح فائدہ صرف اس وقت حاصل کر سکتے ہو جب تمہیں قرآن کریم آتا ہو اور یہ علم بھی تب تم حاصل کر سکتے ہو جب تمہیں قرآن کریم آتا ہو.آج کی دنیا بڑی علمی ترقی کر گئی ہے لیکن مفلوج علم رکھتی ہے کیونکہ وہ قرآن کریم سے کٹی ہوئی ہے اور ان کی غلطی نکالنا ہمارا کام ہے.ہم ان کی غلطی نکالتے ہیں اور ان کو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۷۹ سورة طه ماننا پڑتا ہے کہ درست کہہ رہے ہیں آپ کہ ہمارے اندر یہ خامیاں آگئی ہیں.مثلاً قرآن کریم نے دکھ دور کرنے تھے نا.اعلان کیا کہ تمہارے دکھ دور کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ انسان میں معاف کرنے کا خُلق ہو یعنی وہ موقع اور محل پر معاف کرنا جانتا ہو......ما انْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى قرآن کریم دُکھوں کو دُور کرنے کے لئے آیا ہے دُکھ پہنچانے کے لئے نہیں آیا.اس واسطے اس بنیاد پر کھڑے ہو کے علوم سیکھیں اور دنیوی علوم میں بھی دنیا والوں سے آگے نکل کے بتائیں تب وہ عظمت جو قرآن کریم کی ہے اس عظمت کو وہ سمجھ سکتے ہیں ورنہ نہیں.اگر آپ سوئے رہیں، اگر آپ اپنے بچوں سے لا پرواہ رہیں، اگر خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے جو ذہن آپ کے بچوں کو اس نے عطا کئے ہیں ان کا خیال نہ رکھیں، اگر وہ ذہن ضائع ہو جائیں اگر وہ ترقی نہ کریں، اگر وہ لوگوں سے آگے نہ نکلیں تو کیسے آپ ثابت کریں گے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے والے تم لوگوں سے آگے بڑھنے والے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم ۶۰۷ تا ۶۱۲) آیت ۵۱ قَالَ رَبُّنَا الَّذِى اَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.رَبُّنَا الَّذِى اَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى ہر چیز کو اس نے پیدا کیا.اس میں طاقتیں رکھیں اس کو صلاحیتیں بخشیں.اس کو استعدادیں عطا کیں.پھر ان کے استعمال کے لئے اس کو طریقہ سکھایا اور سامان پیدا کئے ان کے لئے.یعنی دو چیزیں اس نے پیدا کیں.سامان پیدا کئے ان کی نشوونما کے.مثلاً گندم کا دانہ ہے وہی مثال لوں پھر، گندم کے دانے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک تو عام قانون کے مطابق اس میں قو تیں رکھیں.ایک جہاں سے اس نے اپنا سامان لینا تھا.نشو ونما کا سائل (Soil) میں فرٹیلیٹی (Fertility) رکھی یعنی وہ اجزار کھے جن سے گندم کا دانہ قوت حاصل کر کے بڑھ کے ایک سے سات سو تک بھی بن سکتے ہیں خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق.ابھی تک انسان اس قابل نہیں ہوا.ناقص ہے اس کی عقل لیکن بن سکتے ہیں اور سامان پیدا کئے یعنی نشو ونما کی طاقتیں رکھیں.نشو و نما کے سامان پیدا کئے.پھر حکم ہوا کہ ان سے فائدہ اٹھاؤ.اجزا کو حکم ہوا کہ ان کو فائدہ پہنچاؤ.دوائی، بیمار ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے کہ ایک وقت میں ایک بیمار کو ایک دوا صحت نہیں دیتی دوائی کا کوئی اثر
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۴۸۰ سورة طه نہیں.ڈاکٹر کی تشخیص بھی صحیح اس کا نسخہ بھی صحیح اس کے اجزا بھی درست اس کے بیچ میں ملاوٹ نہیں چاک کی اور وہ کھا رہا ہے اس کو آرام نہیں آ رہا اور دس پندرہ دن ، ہیں دن گذر گئے پھر خدا تعالیٰ کے کسی بندے کی دعا یا اس کی اپنی دعا یا خدا تعالیٰ اگر اس کو آزمائش میں ڈال رہا تھا تو خدا نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کو آزمائش سے نکالتا ہوں زبانِ حال کی دعا اس کو ہم کہتے ہیں.اس کو اس نے سناء وہی بیمار ، وہی بیماری ، وہی دوا کھائی اس نے اور اس کو آرام آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پہلے دو حکم نازل ہوئے جب آرام نہیں آرہا تھا ایک دوا کو کہ اثر نہ کرو.ایک جسم کے اجزا کو کہ قبول نہ کرو اور جب خدا نے فیصلہ کیا کہ اب اس کو شفا دینی ہے تو دو نئے حکم نازل ہوئے.دوا کو کہا اثر کر اور جسم کے کیمیاوی اجزا کو کہا کہ اس دوا کے اثر کو قبول کر.یہ قانونِ قدرت کا حصہ نہیں ہے.یہ امر کے اندر آتا ہے یعنی ہر واقعہ یا ہر تبدیلی جو ہوتی ہے اس کا ئنات میں وہ آسمان سے ایک حکم اترتا ہے تب ہوتی ہے.بے شمار حکم ایک گھنٹے کے اندر اتر رہے ہیں کائنات میں.اللہ تعالیٰ ہماری زبان سے تو نہیں بولتا کہ مختصر زبان میں یہاں بول رہا ہوں.کسی اور جگہ بات ہی نہیں کر سکتا.میرے لئے ممکن نہیں.خدا تعالیٰ کا تو کائنات کے ہر ذرے پر کلام نازل ہوتا ہے.اس کا امر جو ہے وہ نازل ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق متصرف بالا رادہ ہے.ہر چیز میں تصرف اپنے ارادہ سے جیسے چاہتا ہے اس کے مطابق وہ کرتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۶۱، ۴۶۲) آیت ۱۱۵ فَتَعلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحِيةَ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا میں کتابیں پڑھنے والوں کے متعلق اور کتابیں لکھنے والوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے رَبّ زِدْنِي عِلْمًا.اے ہمارے رب ! ہمارے علم میں ہمیشہ زیادتی کرتا چلا جا.ایک طرف یہ اعلان ہے کہ انسان جتنی بھی نئی سے نئی تحقیق کرتا چلا جائے علم کے مختلف میدانوں میں کبھی وہ ان میدانوں کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتا.اور دوسری طرف یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو مخلوق ہے اس کی خواص غیر محدود ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی ساری صفات اس کائنات پر ہر آن اثر انداز ہو رہی ہیں اس لئے کوئی چیز بھی خدا کی بنائی ہوئی چیزوں
۴۸۱ سورة طه تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث میں سے ایسی نہیں کہ جس کے متعلق انسان کسی وقت بھی اپنی علمی تحقیق میں آگے بڑھتے بڑھتے کسی موقعے پہ بھی یہ کہہ سکے کہ اس چیز میں جتنے خواص تھے وہ میں نے حاصل کر لئے اور اب اس چیز کے متعلق اب میرا اعلم کامل ہو گیا ہے اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا آپ نے فرمایا ہے کہ شخص کا دانہ بڑی چھوٹی سی چیز ہے اس کے متعلق بھی انسان کا علم اپنی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا.اس زمانہ میں رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا کے ساتھ ایک اور دعا بھی ہمیں سکھائی گئی اور وہ ہے رَبّ آرنی حَقَائِقَ الْأَشْيَاء (التذکرہ : صفحہ ۶۱۳ جدید ایڈیشن) وہ اسی کی رَبّ زِدْنِي عِلما کی تفسیر کے طور پر ہے رَبَّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعے دعا سکھلائی اس لئے کہ یہ زمانہ کچھ عجیب سا بن گیا ہے علم علم کے لحاظ سے، جو تو ٹھوس علوم ہیں سائنسز ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بہت کچھ حقیقتیں معلوم ہو جاتی ہیں ان میں بھی حقیقتیں معلوم نہیں ہوتیں اور انسان جتنا اپنے علم میں ہر سال اضافہ کرتا ہے اتنا ہی اس کی غلطیاں جو اس نے پہلے سالوں میں کی ہوتی ہیں وہ آشکار ہو کے اس کے سامنے آ جاتی ہیں یعنی جن کو وہ حقائق سمجھتارہا تھا وہ حقیقت نہیں رہتی باقی.سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں، کئی میں پہلے بتا بھی چکا ہوں ایک نئی چیز یہ آئی سامنے، کہ ۱۹۷۵ء میں جب میں بیمار ہوا اور انگلستان گیا چیک اپ کروانے کے لئے تو وہاں کے چوٹی کے ماہر نے مجھے یہ مشورہ دیا، ( مجھے تھوڑی سی تکلیف ذیا بیطس کی بھی ہے تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ڈیاو نیز یہ اس کی ایک دوا ہے وہ مجھے موافق آئی ہوئی تھی وہ زیادہ خوراک میں کھانے کی بجائے ، ۲۵۰ mg کھانے کی بجائے ۱۰۰ mg لیں اور ایک اور دوائی وہ نہار کھانی پڑتی ہے ناشتے کے بعد ڈائیوٹین ایک اور دوائی ہے وہ ۵۰۰ mg کی لے لیا کریں اور اس کی زیادہ کھانے کی ضرورت نہیں رہے گی.خیر وہ انگلستان کے چوٹی کے ماہر کا مشورہ تھا میں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا یہ ۱۹۷۵ ء کی بات ہے اور ۱۹۷۷ء یعنی اس کو سمجھو دوسرا سال ہوا تھا کہ وہاں سے مجھے خط آنے شروع ہوئے کہ نئی تحقیق یہ ہے کہ ڈائیوٹین جو انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ناشتے کے بعد کھاؤ اور بہت اچھی دوائی ہے وہ زہر ثابت ہوئی ہے فوراً چھوڑ دیں کیونکہ اس سے موتیں واقع ہونا شروع ہوگئی ہیں.تو یہ کہنا مشکل ہے کہ آج کا سائنسدان نئی ایجادات زیادہ کرتا ہے، یا اس کے علم میں یہ اضافہ زیادہ ہوتا ہے کہ جو پہلی تحقیقات میں اس نے سچ سمجھا تھا وہ سچ نہیں بلکہ غلط بات ہے،حق نہیں بلکہ
۴۸۲ سورة طه تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث باطل ہے اور اس سے بھی زیادہ خطر ناک آج کے زمانہ میں یہ تحقیق ہوگئی ہے غیر سائنسی علوم جو ہیں ان کے متعلق ، مثلاً تاریخ ہے تاریخ سے آگے تاریخ اقتصادیات ہے، تاریخ معاشیات ہے، تاریخ تمدن ہے، تاریخ واقعات ہے، تاریخ کے مختلف شعبے ہیں، اس میں تحقیق نے ایک رنگ یہ اختیار کر لیا جو بڑا خطرناک ہے اور وہ یہ کہ سو آدمیوں نے مثلاً کسی زمانہ کے متعلق کتب لکھیں اپنی اپنی تحقیق کے مطابق ، تو ایک سو ایک آدمی نے جب لکھیں ، تو اس نے ان سوکتابوں میں سے کچھ یہاں سے، کچھ وہاں سے، کچھ وہاں سے ساری سو کتابوں میں سے لیا اور ایک ایسی چیز دنیا کے سامنے رکھ دی جس کا تاریخی حقیقت سے کوئی واسطہ بھی نہیں تھا.اور اس نے اس کو زیادہ جوش دلایا ہے ، مذہبی تعصب نے جو اسلام کے خلاف کتابیں لکھی گئیں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم بالکل غیر متعصب ہیں اسلامی مصنفین کی کتابیں لے کر اور ان کی مختلف آراء جو تھیں ان میں سے کوئی یہاں سے لیا ، کوئی یہاں سے لیا، کچھ وہاں سے لیا، اور ان کو جوڑ جوڑ کے ایک نئی تحقیقی کتاب لکھی گئی اور بڑا شور مچا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی اور خوب شاباش ملی اور تالیاں پیٹی گئیں ، اور وہ دراصل تاریخ تھی ہی نہیں ، وہ آپ ہی بنائی ہوئی تھی اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اور اسلام کے حسین چہرہ پر داغ لگانے کے لئے ، اور احسان جو اسلام نے کیا تھا بنی نوع انسان پر ، وہ اس کو چھپانے کے لئے اس قسم کی تحقیق شروع ہو گئی تو تحقیق تو ہے، لیکن حقائق نہیں ہیں.اس واسطے ضرورت پڑ گئی یہ جو الہام ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا، جو رب زدني علما کی تفسیر کرتا ہے، یہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کو اس بات کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ وہ حقائق اشیاء کی طرف متوجہ ہو، نہ یہ کہ رطب و یابس، ادھر سے لیا اُدھر سے لیا اور ایک کتاب نئی بنادی اس قسم کی کتابوں کو دیکھ کر ہمارے بعض بزرگ جو تھے انہوں نے دوسری غلطی دوسری طرف یہ کر دی کہ مثلاً ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں افریقہ میں انہوں نے اپنے متبعین کو یہ کہا کہ تم قرآن کریم پڑھا کرو، قرآن کریم کی تفاسیر جو ہیں اس کو ہاتھ بھی نہ لگایا کرو کیونکہ وہ غلط باتیں اسلام کے خلاف تمہارے سامنے آجاتی ہیں اس لئے آخر انسان غلطی کا پتلا ہے، سو آدمی جو ہیں کتاب لکھنے والے ایک ہی مضمون پر ، انہوں نے سوغلطیاں کی ہوں اگر، ہر مصنف نے ایک غلطی کی ہو اور جو ایک سو ایک واں مصنف ہے وہ سوغلطیاں اکٹھی کر کے اور ایک کتاب لکھ دے تو اس میں ایک بھی حقیقت نہیں ہوگی اور وہ تحقیق بن جائے گی اور وہ حوالہ دے گا کہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۸۳ سورة طه جی فلاں نے یہ لکھا فلاں نے یہ لکھا اور فلاں نے یہ لکھا اور وہ اغلاط کا مجموعہ اور تحقیق کی ایک کتاب بن جائے گی اس طرف رحجان ہو گیا ہے جس کو مقبولیت عطا کی ہے اسلام کے خلاف جو تعصب رکھنے والے سکالرز تھے The so called Scholars بڑے محققین سمجھے جاتے تھے، انہوں نے ، اس تعصب نے اس کو مقبولیت دی ہے.ایک دفعہ ہمارے Oxford کی یونین کی ڈبیٹ ہو رہی تھی تو اس میں امریکہ سے ٹیم آئی ہوئی تھی ایک بڑا ذہین مسخرہ تھا ہمارا مقر ر آکسفورڈ کا ، اس نے کھڑے ہو کے یہ تقریر کی کہ، جو میں نے بتایا ناں کتنا جمع کیا.اس نے کہا فلاں اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اتنے امریکن باہر چلے گئے ہیں سیروسیاحت کے لئے اور فلاں اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اتنے باہر چلے گئے ہیں ، اور ان کا جب ہم مجموعہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آج یعنی اس دن جس دن وہ بول رہا تھا امریکہ میں ایک آدمی بھی نہیں موجود، سارے کے سارے وہاں سے جاچکے ہیں.تو وہ تو اس نے ایک مذاق کیا تھا اس ٹیم کے ساتھ ، لیکن حقیقت ہے یہ، اس نے تو چند آدمی تھے نا ان کو ہنسانے کے لئے ایک بات کہہ دی ،لیکن انسانیت کے ساتھ یہ مذاق کیا گیا ہے کہ ایک یہاں سے غلط بات لی ، ایک وہاں سے غلط بات لی اور ایک کتاب لکھ دی اور بڑی شاباش مل گئی ایسے شخص کو.اس واسطے ضرورت تھی، کہ یہ کہا جاتا انسان کو ، کہ یہ دعا کرو، کہ اے ہمارے رب ہمارے محض علم میں زیادتی نہ کر کیونکہ جو غلط باتیں ہوئی ہیں اس میں بھی علم میں یہ زیادتی تو ہو جاتی ہے کہ غلط کتا بیں لکھی جارہی ہیں یہ بھی علم میں زیادتی ہے نہ ایک، کہ پہلے نہیں تھیں اب کتابیں لکھی جانے لگیں زیادتی ہوئی.تو محض اتنا نہیں کافی آج کی دنیا میں، بلکہ یہ ہے کہ جو حقائق ہیں ان کی ہمیں اطلاع دے.ربّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ تو احمدی جو ہیں مصنفین ، ان کا یہ فرض ہے کہ اس پس منظر میں جن باتوں کی ضرورت ہے ان کو سامنے رکھے اور پھر وہ کتب لکھیں دنیا کی ہدایت اور ان راہنمائی کے لئے اور ان کی خیر خواہی میں اور ہر علمی میدان میں حقائق ان کے سامنے رکھ کے اور اس لحاظ سے ان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش یہ ہمیں ہی کرنی پڑے گی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس قسم کی غلطیاں جو ہیں، احمدی جماعت کو اللہ تعالیٰ یہ روشنی عطا کرے گا، کہ وہ جو اسلام کے مخالف اسلام پہ اعتراض کر رہے ہیں نہ صرف یہ کہ ان اعتراضات کو غلط وہ ثابت کر کے دکھائیں گے بلکہ
۴۸۴ سورة طه تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے رکھیں گے اور ان کے دلوں کو اسلام کے لئے جیتیں گے.ہمارے مصنف جو ہیں وہ تعداد کے لحاظ سے اور ان کی جو کوشش ہے اس کا نتیجہ، کتب کی تعداد کے لحاظ سے اتنا نہیں جتنی کہ آج کی دنیا کو ضرورت ہے، اس طرف جماعت کے جو علماء ہیں صرف دینی علماء نہیں ، اچھے دماغ ہیں ، ڈاکٹر سلام ہیں وہ تھیوریٹیکل فزکس میں بڑے اچھے ہیں، اور ہیں، ان کو یہ چیزیں سامنے رکھ کے، اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ کس طرح تم غلطی کر رہے ہو اور اگر تم نے اصلاح نہ کی تو پھر تباہی کی طرف تم لے کے جاؤ گے دنیا کو.باہر دوروں پہ جب میں جاتا ہوں تو تھوڑا سا تنگ یہ کہہ کے بھی کیا کرتا ہوں کہ تمہاری کس بات پر ایمان لائیں آج تم کچھ کہتے ہو کل کچھ اور کہنے لگ جاتے ہو بالکل متضاد بات ایک وقت میں کہہ دیا عورت ماں بچے کو دودھ نہ پلائے ، بچہ بھی بیمار ہو جائے گا، ماں بھی بیمار ہو جائے گی دوسرے وقت میں لاکھوں شائد کروڑوں ماؤں کی صحتیں اور بچوں کی صحتیں خراب کرنے کے بعد کہہ دیا ، ہو ہو ہو بڑی غلطی ہو گئی تھی بھی معاف کرنا ہم نے یہ غلط کہا تھا کہ نہ پلا ئیں دراصل پلانا چاہئے تب صحت اچھی رہتی ہے.ایک وقت میں ایک دوائی کہہ دی بڑی اچھی ہے دوسرے وقت میں کہہ دیا کہ یہ زہر ہے اس طرح کی ہزاروں مثالیں سامنے آتی ہیں، وقت ہے کہ ہم انسانیت کو اس قسم کے خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے علمی میدانوں میں بھی کوشش کریں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور انسانیت کی ہدایت کے لئے اسلام کے نور کے نیچے کھڑے ہو کر ہم کوئی سامان پیدا کریں.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۲۴۵،۲۴۱) ہاں میں یہ بتادوں کہ قرآن کریم کا ہی ذکر ہے اس آیت میں جس میں ہے.وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي علمًا (طه: ۱۱۵) یہ دعا ہمیں سکھائی گئی ہے قرآن کریم نے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں علم میں بڑھاتا چلا جا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ قرآن عظیم غیر محدود علوم کا خزانہ ہے کیونکہ اگر وہ محدود ہوں تو اس وقت جب وہ پہلی ساری باتیں ختم ہو گئیں اس کے بعد اس دعا کا کوئی فائدہ نہیں لیکن قیامت تک آنے والے انسان کو یہ دعا سکھائی قرآن کریم نے کہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہمیں قرآنی علوم میں بڑھا تا ہی چلا جا.قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.
۴۸۵ سورة طه تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور یہ بھی ہمیں بتا یا اللہ تعالیٰ نے کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ( يه سورة بقره کی ۲۵۶ ویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے ) اس سے پہلے اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ انسان کے پیچھے ہے یعنی جو کچھ اس کے علم میں ہے اور جو کچھ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے جانتا نہیں ، جاہل ہے اُس سے، وہ سب کچھ ہی اللہ تعالیٰ جانتا ہے یعنی جو کچھ بھی ہے خواہ وہ انسان جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ الا بما شاء اللہ تعالیٰ کا ئنات کو پیدا کرنے والا ، کائنات کی کنہ کو جاننے والا ہے اور اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی کوئی شخص پانہیں سکتا.تو ہر علم میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک دہر یہ سائنس دان جب کوئی Problem حل کر رہا ہو یا اپنا کوئی فارمولا بنارہا ہو اور اس کو سمجھ نہ آ رہی ہو، دماغ میں اندھیرا ہو اور ایک تڑپ اس کے اندر پیدا ہوتی ہے کہ کہیں سے مجھے روشنی ملے ، تو وہ تڑپ ایک غافل کی دعا کی مانند ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی سمجھتا اور اس کے دماغ میں روشنی پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس جگہ کسی آیت کا حوالہ نہیں دیا.ابھی میں نے جو کہا تھا نا کہ کسی آیت کا حوالہ آپ دیں کہ وہ ہے کسی نہ کسی آیت کی تفسیر.پہلے میرے دماغ میں یہ بات دوردر نہیں تھی تب آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہ آیت آ گئی سامنے ، وہی مثال اس کی کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمة إِلَّا بِمَا شَاء.اس کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے وہ لکھا ہے کہ کوئی دہریہ، کوئی کمیونسٹ، کوئی بت پرست کوئی بد مذہب علم کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے جب ترقی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ترقی کرتا ہے اس کی منشا کے بغیر ترقی نہیں کرتا اور انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سوا اُس کے علم کے کسی حصہ کو بھی پانہیں سکتا.اور اس سے اگلا ٹکڑا آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم آسمانوں پر بھی اور زمین پر بھی حاوی ہے.کائنات کا اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس کا پیدا کرنے والا ہے اس کے اندر جو کچھ بھی خواص پائے جاتے ہیں، جو کچھ خواص میں کمی ہوتی ہے، جو بڑھوتی ہوتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے امر سے یا اس کے خلق سے وہ چیز ہورہی ہے.وہ اس سے پوشیدہ اور چھپی ہوئی نہیں.وہ انسانوں کی طرح نہیں کہ آج یاد کر لیا یا سن لیا اور کل کو بھول گیا خدا نہ کرے آپ میں سے بعض بھول ہی جائیں کہ میں آپ کو کیا نصیحت یہاں کر کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۸۶ گیا ہوں کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرتے رہنا ہے اسے بھولنا نہیں.سورة طه (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۵۶۷ تا ۵۷۰) آیت ۱۳۱ فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ أَنَا الَّيْلِ فَسَبِّحُ وَ أَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ ترضى میں نے کہا ہے کہ صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے.زبان زیادہ تر اس وقت بے قابو ہوتی ہے جس وقت ایک دوسری بے قابو زبان انسان پر اندھا دھند وار کر رہی ہوتی ہے.طبیعت میں ایک جوش اور غصہ پیدا ہوتا ہے اور زبان سختی کے مقابلہ میں سختی کی طرف جھک جاتی ہے لیکن ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں تمہیں غصہ تو آئے گا.تمہارے نفسوں میں جوش تو پیدا ہوگا.تمہاری زبان بے قابو ہونے کے لئے تڑپ رہی ہوگی مگر اس زبان پر وہ لگام ڈالے رکھو جو لگام میں نے تمہیں دی ہے.اسے بے قابو نہ ہونے دو.فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ صبر سے کام لینا کیونکہ جب تم زبان کو قابو میں رکھو گے تو آسمان سے کئی زبانیں تمہارے حق میں کھلیں گی اور فرشتے آئیں گے اور ان دُکھوں کا جواب، ان گالیوں کا جواب، ان سختیوں کا جواب، فرشتے دیں گے لیکن اگر تمہاری زبان بے قابو ہوگئی تو پھر تم فرشتوں کی مدد سے محروم ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زبان کو قابو میں رکھنے کیلئے ہم تمہیں ایک تدبیر بتاتے ہیں.ہم تمہیں ایک نسخہ دیتے ہیں جب زبان سختی کے مقابلہ میں سختی کرنا چاہے تو یہ نسخہ استعمال کرو.سیخ بحمد ربك تم اپنی زبان کو اس وقت اپنے رب کی حمد میں لگا دو اور اس کی تسبیح میں لگا دو اسی آیت کے آخر میں فرمایا.لَعَلَّكَ ترضی یعنی اس وقت اس غرض سے حمد اور تسبیح شروع کر دو تا کہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرو.پس زبان کو قابو میں رکھنے اور زبان کی سختیوں اور زبان کے طعنوں اور زبان کی ایذاء اور زبان کے وار کا مقابلہ زبان سے نہیں کرنا.فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ دشمن طعنہ دے گا.دشمن زبان سے سختی کرے گا، افتراء کرے گا، اتہام لگائے گا، سینوں کو چھلنی کر دے گا لیکن تمہاری زبان ان زبانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے نہیں بنائی گئی بلکہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۸۷ سورة طه تمہارے منہ میں زبان اس لئے رکھی گئی ہے کہ سبحْ بِحَمدِ رتك کہ خدا کی حمد کرتے رہو اور اس کی تسبیح بیان کرتے رہو.پس جب غیر کی زبان، مخالف کی زبان اسلام پر ناجائز اعتراض کر کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے ہودہ افتراء باندھ کر تمہارے دلوں کو دکھائے تو تمہاری زبان اپنے قابو میں رہے اور اس کو قابو میں رکھنے کیلئے اس زبان سے خدا کی حمد اور اس کی تسبیح کے ترانے گانے شروع کر دو.ہمیں بعض دوسری آیات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ صبر کا حمد اور تسبیح سے بڑا تعلق ہے جیسا کہ آیہ مذکورہ یعنی فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ میں بھی بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اور بعض دوسری آیات میں بھی صبر یا صبر کی بعض اقسام کا بڑی وضاحت کے ساتھ حد اور تسبیح سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے اس لئے مجھے خیال آیا کہ جہاں ہم نے تسبیح اور تحمید کرنی ہے وہاں حصول صبر کے لئے بھی دعا کریں.اس دعا میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت ہے کہ ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۱۱،۵۱۰)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطن ۴۸۹ سورة الانبياء بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانبياء آیت ۳۱ اَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ) پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے کہ جس کے اندر جَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ کہ جس میں ہم نے ایک ایسا پانی پیدا کیا ہے جس پر حیات کا مدار ہے یعنی ہر دنیوی مخلوق کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے یہ زندگی شجر کی ہے تب بھی اور اگر حجر کی ہے تب بھی اس کا مدار پانی پر ہے.پتھروں کے ذرّے آپس میں نمی کی وجہ سے مل کر ٹھوس شکل میں نظر آتے ہیں اگر ان میں نمی نہ ہو تو یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں.یہ ہیرا ہیرا نہ رہے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہے جس کی بدولت دنیا کی ہر چیز حیات پاتی ہے.ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی وجہ سے یہ جلوہ معرض تعطل میں پڑ جائے تو پانی کے بند ہو جانے سے اجزائے عناصر میں ایسا انتشار پیدا ہو جائے کہ جس سے زندگی اور بقا ممکن ہی نہ رہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین وہ ہے جس میں الماء جاری کیا.خالی ماء نہیں فرمایا بلکہ الباء کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ یہ پانی اپنے اجزا کے لحاظ سے وہ مخصوص پانی ہے جس پر حیات اور اس کی بقا کا مدار ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین صرف وہ نہیں جس میں ہم نے پانی پیدا کیا ہے بلکہ زمین وہ ہے جس میں ہم نے پانی کی مناسب تقسیم کا سامان بھی پیدا کیا ہے اور زمین کو Pollute ( گندہ) ہونے سے محفوظ رکھنے کے سامان پیدا کر دیئے.صاف پانی اور گندے پانی کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی.اگر چہ وہ نظر نہیں آتی لیکن در حقیقت صاف اور گندے پانی کے درمیان ایک دیوار یا حد فاصل قائم ہے.پس قرآن کریم کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے زمین کی تعریف یہ بھی کی ہے کہ
تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹۰ سورة الانبياء جس میں ایسے مختلف اجزا پر مشتمل پانی ہو جس پر زندگی کا سارا دارو مدار ہو.پھر ایک طرف اس کی صفائی کا انتظام کیا گیا ہو اور دوسری طرف اس کی مناسب تقسیم کا بھی انتظام کیا گیا ہو....زمین میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار جلوے ہمیں نظر آتے ہیں.یہ زمین ایک ہی وقت میں بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح بھی ہے اور فتق یعنی کھلنے یا اپنے مخفی رازوں کے ظاہر کرنے کی خاصیت بھی رکھتی ہے.ورنہ اگر حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں ایک ہی نسل میں وہ ساری کی ساری ایجادات جو انسان نے انسانی عمر میں کرنی تھیں یا وہ Discoveries ( دریافتیں ) یا معلومات حاصل کرنی تھیں ایک ہی وقت میں رونما ہو جاتیں اور یہ ریلیں اور ہوائی جہاز اور یہ راکٹ اور یہ مختلف قسم کی دوائیاں وغیرہ پہلے زمانوں ہی میں بنالی جاتیں تو ہمارا یہ زمانہ بڑا Bore ( اُکتا دینے والا) ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو ایک Urge ( خواہش رکھی ہے کہ وہ نئی سے نئی چیزیں تلاش کرے اس خواہش کو پورا کرنے کا اُسے کوئی سامان میسر نہ آتا.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین بندھی ہوئی گٹھڑی کی طرح بھی ہیں اور اپنے اندر فتق کی خاصیت بھی رکھتے ہیں.ایجادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہے.انسان نئی سے نئی معلومات حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آسمان میں بھی آثار الصفات کے نوادر مخفی ہیں اور زمین میں بھی آثار الصفات کے نوار د مخفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشا اور ارادہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں.پس زمین کا ایک حصہ تو عیاں ہے اور اس کا ایک حصہ گٹھڑی کی طرح بندھا ہوا بھی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس نظام کے ماتحت انسان کے اندر ایک Urge ( خواہش ) رکھی تھی ، ایک عزم عطا کیا تھا، ایک ہمت دی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوؤں میں نئی سے نئی معلومات کو تلاش کرے.چنانچہ اس Urge ( خواہش ) کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیئے گئے جن سے انسان ہمیشہ فائدہ اٹھاتا رہا ہے اور آئندہ بھی اُٹھاتا رہے گا.پس خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کی رو سے زمین بیک وقت رتق کی بھی اور فتق کی بھی اہلیت رکھتی ہے اور یہ فتق دراصل الہی منشا اور حکم سے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان اس دنیوی زندگی میں دنیوی طور پر ارتقا کے بے شمار مدارج طے کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی طے کرتا چلا جائے گا.ہمارا دماغ اس کی حد بست کرنے سے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث عاجز ہے.۴۹۱ سورة الانبياء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا کا قول اور اس کا فعل یکساں ہوتے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہوتا.قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بیک وقت وہ کتاب مبین بھی ہے اور کتاب مکنون بھی ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کا جو فعل ہے یعنی خدا تعالیٰ کی صفات نے جو حدوث کا رنگ اختیار کیا اُس کے متعلق اس آیت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا جو جلوہ زمین کی صورت میں ظاہر ہوا ہے وہ بیک وقت رتق بھی ہے اور فتق کی اہلیت بھی رکھتا ہے.یہ زمین بندھی ہوئی بھی ہے اور اپنے ظاہر ہونے کی اہلیت بھی رکھتی ہے اس میں بظاہر کوئی تضاد نہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخفی رازوں کا انکشاف انسانی کوشش کا مرہونِ منت ہے.جب انسان کوشش کرتا ہے اور تلاش و جستجو میں اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا ئنات کے مخفی راز اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں جس سے ترقیات کے نئے سے نئے میدان اُس کے لئے نکلتے چلے جاتے ہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۲۸ تا ۸۳۶) آیت ۳۴ تا ۳۶ وَهُوَ الَّذِى خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَأَبِنْ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ پہلا امتحان اور آزمائش ) کیونکہ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ) وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے.جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.اپنے نفسوں کو مارنا پڑتا ہے بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے.قرآن کریم چونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے کامل ہدایت مہیا کی.اور ان کامل مجاہدات کے طریق ہمیں سکھائے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم انتہائی عظیم الشان نعمتوں کے وارث بن
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹۲ سورة الانبياء سکتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ نَبلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ وَإِلَيْنَا ن یعنی ہم تمہاری الشر اور الخیر کے ذریعہ آزمائش کریں گے.اور آخر ہماری طرف ہی تم کو وورودر ترجعون لوٹا کر لایا جائے گا.گویا فرما یا اگر تم اس آزمائش میں پورے اترے جسے ہم الخیر کہہ رہے ہیں.اس سے تم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور جسے ہم اک شہر کہہ رہے ہیں اس سے تم زیادہ سے زیادہ بچے تو جب تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ گے تو اسی کے مطابق ہماری طرف سے تمہیں اچھا بدلہ ملے گا.قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں جن کے مطابق ہم اس کی بہت سی تفاسیر کرتے ہیں.یہاں الخیر کے ایک معنی خود قرآن کریم اور اس کے اوامر و نواہی ہیں جیسا کہ فرمایا.وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَا ذَا انْزَلَ رَبُّكُم b قَالُوا خَيْرًا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرُ - (النحل : ٣١) کہ جب مخالفین اور نہ ماننے والے ان لوگوں سے جو تقوالی کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اور اوامر کو بجالاتے اور نواہی سے پر ہیز کرتے ہیں) پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس قرآن کریم میں کیا اتارا ہے یا تمہارے رب نے کیا تعلیم تمہیں دی ہے تو وہ کہتے ہیں خیرا یعنی خیر کو اتارا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہدایت جو الخَیرُ ( کامل خیر ) ہے جو لوگ الخَیرُ کی راہ اختیار کرتے ہیں لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ) اس کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اس کی نواہی سے بچے رہتے ہیں.ان کے لئے اس دنیا میں حَسَنَةٌ ( بھلائی) ظاہر ہوگی.وَ لَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ - آخری گھر میں تو کہنا ہی کیا ؟؟ اس کی خوبیاں اور اس کے انعامات کی کنہ تو ہمارے تصور میں بھی نہیں آ سکتیں.پس اس آیت میں قرآنی تعلیم کو خیر کہا گیا ہے اس لئے میں آیت وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فتنہ کے یہ معنی کرتا ہوں کہ ہم قرآن کریم کے احکام ( اوامر و نواہی ) سے تمہاری آزمائش کریں گے اور اگر ہم غور سے کام لیں تو ہے بھی یہ ایک آزمائش.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تم ہماری راہ میں خرچ کرو تو یہ ایک بڑی آزمائش ہے.غور کیجئے کہ ایک شخص دن رات کی محنت کے بعد کچھ مال حاصل کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے اتنا مال مل گیا ہے کہ جس سے میں اور میری بیوی بچے خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں گے تب خدا تعالیٰ کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے اور اسے متوجہ کرتی ہے کہ جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کے خرچ پر جو
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۹۳ سورة الانبياء پابندیاں ہم نے عائد کی ہوئی ہیں انہیں مت بھولنا پھر وہ اس مال کے متعلق انہیں یہ فرماتا ہے کہ اب میرے دین کو یا میرے بندوں کو تمہارے مال کے ایک حصہ کی ضرورت ہے اسے میری راہ میں خرچ کرد و تو یقینا یہ اس بندے کی آزمائش ہوتی ہے جس میں وہ ڈالا جاتا ہے.پس وہ مومن جو تقوی پر قائم ہوتا ہے وہ بشاشت سے خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتا ہے اور اپنے مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے وہ اس امتحان میں پورا اُترتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہت سی نعمتوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں تمہاری زندگی کے لمحات بھی ہیں، عمر بھی ہے، جب ہماری طرف سے اپنی عمر اور وقت کا کچھ حصہ قربانی کرنے کیلئے تمہیں آواز دی جائے تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس آزمائش میں بھی پورے اتر وتا ہمارے فضلوں کے وارث ٹھہرو.اسی طرح عرب تیں اور وجاہتیں بھی خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی ہیں جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنی پڑتی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم و رواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی.توالخیر جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو آزماتا ہے.وہ قرآن کریم کے احکام ہیں.اس کے مقابلہ میں الشیر کا لفظ استعمال فرمایا ہے گویا ہر وہ حکم امر ہو یا نہی جو قرآن کریم کے مخالف اور معارض ہو.اسے السر کہا گیا ہے کیونکہ شیطان اور اس کے پیروؤں کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کے کانوں میں قرآن کریم کے خلاف باتیں ڈالتے رہتے ہیں.کبھی یہ کہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ان مومنوں کی خاطر جو کمزور اور غریب مہاجر ہیں تم اپنے وقتوں اور عزتوں کو کیوں ضائع کرتے ہو.دیکھ لیں منافقوں کا وطیرہ اور کفار کا یہی طریق ہے کہ وہ قرآنی احکام کے مقابل معارض باتیں مومنوں کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور یہ غلط امیدرکھتے ہیں کہ
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۹۴ سورة الانبياء وہ ان کی باتوں پر کان دھریں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے مومن بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوا کرتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف احکام قرآنی ہیں جو تمہارے سامنے ہیں اور ایک طرف وساوس شیطانی ہیں جو تمہیں ان کی خلاف ورزی پر آمادہ کر رہے ہیں اور ان ہر دو کے ذریعہ سے تمہاری آزمائش کی جارہی ہے.اس آزمائش میں پورا اُترنے کے لئے ضروری ہے کہ تم یہ یاد رکھو کہ تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہو.جو شخص آخرت پر حقیقی ایمان رکھتا ہو اور اسے یہ یقین کامل حاصل ہو کہ اليْنَا تُرْجَعُونَ “ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ کسی بھی آزمائش کے وقت کس طرح ٹھوکر کھا سکتا ہے؟ پس ایک قسم کی آزمائش خدا تعالیٰ کے احکام اور شیطانی وساوس کے ذریعہ سے ہوتی ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۱۵ تا ۲۱۷) اب خالی یہ نہیں فرمایا کہ دن اور رات کو پیدا کیا بلکہ دن اور رات جس طرح پیدا ہوئے ان کا علم بہم پہنچانا بھی مد نظر رکھا.چنانچہ ہمارے یہ دن اور یہ راتیں جس شکل میں ہمارے سامنے آتی ہیں اور ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اس کا دارو مدار اس حقیقت پر ہے کہ زمین سورج سے ایک معین فاصلے پر ہے اور زمین ایک معین رفتار سے سورج کے گرد چکر کاٹ رہی ہے اور یہ ایک خاص زاویہ پر اپنا محور بنا رہی ہے اور پھر زمین کی اپنی رفتار بھی معین و مقرر ہے.یہ سارے حقائق جن کے نتیجہ میں یہ دن جو ہماری اس زمین کا دن کہلاتا ہے وہ دن بنتا اور یہ رات جو ہماری اس زمین کی رات ہے وہ رات بنتی ہے.کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک ایسی کتاب پڑھنے کا موقع ملا جو ایک سائنس دان نے لکھی ہے اور جس میں اس نے خدا تعالیٰ کے وجود پر بہت کچھ لکھا ہے.وہ لکھتا ہے کہ جولوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کے منکر ہیں وہ ہر چیز کو اتفاقی کہتے ہیں اور ہر چیز کے بارے میں اتفاقی ، اتفاقی کی رٹ لگاتے چلے جاتے ہیں.مگر ان سارے اتفاقات کا جمع ہو جانا اتفاقی نہیں ہو سکتا.ایک سائنس یعنی ایک خاص علم ایجاد کیا گیا ہے جسے Science of chances ( علم اتفاقات) کہتے ہیں.چنانچہ اس سائنس دان نے بھی اس خاص علم یا اس علم کے خاص اصول کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ حقائق اشیاء کی رُو سے ہستی باری تعالیٰ کا انکار نہیں ہو سکتا اس کی وہ مثال دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ دس ہند سے لکھ کر قرعہ نکالیں ۱/۱۰ چانس یہ ہے
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹۵ سورة الانبياء کہ ایک پہلے قرعہ میں نکل آئے اور اسی طرح ۱۰۰ / ۱ چانس یا ۱/۱۰۰۰ چانس یہ ہے کہ دوسری اور تیسری بار بھی ایک نکلے.علی ہذا القیاس.وہ لکھتا ہے کہ زمین اور اس پر انسان کا وجود، انسانی حیات کا امکان اور بقا اور ارتقا کی سہولتیں یہ اتنی چیزوں سے وابستہ ہیں کہ ہر چیز کو اور اس لمبے سلسلے کو Chance یعنی اتفاق کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا اس کے لئے کوئی جائز وجہ ہونی چاہیے جس کو ہماری عقل بھی تسلیم کرے.پھر اس نے آگے Chances (اتفاقات ) گنوانے شروع کئے.وہ لکھتا ہے اگر زمین سورج سے اتنے فاصلے پر نہ ہوتی جتنے فاصلے پر اب ہے تو اگر اس فاصلے سے قریب ہوتی تو دنیا کی ہر چیز کوئلہ بن جاتی اور اگر تھوڑی سی دُور ہوتی تو ہر چیز یخ بستہ ہو کر رہ جاتی.اسی طرح چاند زمین سے ایک خاص فاصلے پر ہے.وہ لکھتا ہے کہ اگر چاند زمین سے ایک نیزے کے برابر بھی قریب ہوتا تو سمندر کے جوار بھاٹے کی لہریں کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں تک پہنچ جاتیں مگر چاند کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر ہونے کی وجہ سے سمندر کی لہریں اعتدال پر رہتی ہیں.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ آخر یہ لہر میں اعتدال پر کیوں رہتی ہیں.ان میں زبردست جوار بھاٹا کیوں نہیں اُٹھتا.اتفاق ہر چیز اتفاق.سورج سے زمین کا فاصلہ اتفاق ، چاند سے زمین کا فاصلہ اتفاق ، سورج کے گردزمین کا ایک خاص زاویہ اور محور پر ایک خاص رفتار سے گھومنا اتفاق ، کہاں تک اتفاق، اتفاق کہتے چلے جاؤ گے.تمہیں ماننا پڑے گا کہ ان عالمین کے پیچھے ایک بالا رادہ ہستی ہے جس نے یہ ساری مخلوق پیدا کی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں یہ بتایا ہے کہ دن اور رات جو تمہارے سامنے ہیں اور وہ تمہاری زندگی اور اس کی بقا اور ارتقا کا سامان بہم پہنچارہے ہیں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ رکھنا چاہتا ہے اور یہ زمین جس پر تم زندگی گزارتے ہو اس میں یہ خصوصیت ہے کہ سورج سے ایک معین فاصلے پر واقع ہے، چاند سے اس کا ایک خاص اور موزوں فاصلہ ہے، سورج کے گردگھومنے کے لئے ایک خاص محور مقرر ہے اور ایک معین اور مقرر اندازے کے مطابق گردش کر رہی ہے وغیرہ حقائق پر مشتمل یہ حکیمانہ نظام دراصل ایک بالا رادہ ہستی کے وجود کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے.غرض ان حقائق کے نتیجہ میں ہمارے یہ دن اور یہ راتیں وجود پذیر ہوتی ہیں.فرمایا یہ وہ زمین ہے جس کے یہ دن اور یہ راتیں ہیں.ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار تجلیات جلوہ فگن ہیں.پھر سورج اور چاند کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس زمین کا ایک خاص تعلق سورج اور چاند دونوں کے ساتھ ہے.مثلاً سورج زمین کو اتنی کھا دے رہا ہے
۴۹۶ سورة الانبياء تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کہ اس ترقی یافتہ زمانے میں ساری دنیا کے کھاد کے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعی کھاد مجموعی طور پر اس کا کھر بواں حصہ بھی نہیں بلکہ صحیح جزو بتانے کیلئے شاید ہمارے اعداد وشمار ختم ہو جا ئیں.اس سلسلہ میں باتوں باتوں میں ایک نئی تحقیق میرے ذہن میں آ گئی ہے وہ بھی میں بتادیتا ہوں.سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ جب بادل آتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے ایک تو گرج کی آواز ہے جو بعض لوگوں کو ڈرا دیتی ہے اور بعض کو اللہ تعالیٰ کی حمد پر مجبور کر دیتی ہے.چنانچہ بادلوں میں چمکنے والی یہ بجلی نصف گھنٹے میں اتنی مصنوعی کھاد پیدا کر دیتی ہے جس کو ساری دنیا کے کارخانے ایک دن یا شاید ایک سال میں جا کر بھی تیار نہیں کر سکتے.بہر حال سورج اور چاند کے ساتھ زمین کا تعلق جس حد تک ہماری سائنس نے ہمیں بتایا ہے وہ ایک ظاہر و باہر حقیقت ہے.سورج کے ساتھ زمین کے تعلق کی ایک چھوٹی سی مثال میں نے ابھی دی ہے اب چاند کے زمین کے ساتھ تعلق کی بھی مثال دے دیتا ہوں جو چھوٹے بچوں کیلئے دلچسپی کا موجب بھی ہوگی.چاندنی راتوں میں یہ لمبی سی تر یعنی لکڑی اس رفتار سے بڑھ رہی ہوتی ہے کہ اس کی آواز انسان اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ چاند کی روشنی پھلوں کو فربہی بخشتی ہے اور پھر بھی چاند میں سے کوئی چیز کم نہیں ہوئی.یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی گونا گوں صفات کے جلوے ہیں جو سورج اور چاند کے زمین کے ساتھ تعلقات میں ہمیں یہاں اور وہاں نظر آتے ہیں.یہ ہے وہ زمین جسے قرآن کریم نے الارض کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۳۶ تا ۸۳۸) دوووط آیت ۴۵ بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَابَاءَهُم حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ.أفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَفَلَا يَرَوْنَ اَنَا نَاتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الغَلِبُونَ.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اصول دو شکلوں میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور اول یہ کہ جس قوم اور سلسلہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہو کہ وہ اُسے درجہ بدرجہ ترقی کی منازل طے کراتا چلا جائے وہ اس کی طرف سے ہوتا ہے.تدریجی ترقی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ گروہ یا وہ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۹۷ سورة الانبياء سلسلہ جو اپنے آپ کو الہی سلسلہ کہتا ہے واقع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کے مقابلہ میں تدریجی تنزل اس بات کی دلیل ہے کہ جس گروہ یا سلسلہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہو گیا کہ اس کو تدریجی تنزل کی طرف لیتے چلے جاؤ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتا.وہ غلطی پر قائم ہے.اس اصول کے مد نظر جب ہم اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ایک دن آپ ( مولوی محمد علی صاحب.ناقل ) نے قادیان کی مبارک بستی کو جہاں وہ مقامات تھے جن کو خدا تعالیٰ نے شعائر اللہ کہا ہے جہاں وہ مٹی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قدم پڑے تھے جس کی سرزمین وہ سرزمین تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ارضِ حرم قرار دیا تھا آپ نے چھوڑا.اس زمین سے آپ نکلے تو آ.خوش تھے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مسیح کے گاؤں اور اس کے شہر کو سونا چھوڑ کر جا رہے ہیں.آپ نے اس وقت یہ دعوی کیا تھا کہ سو میں سے ننانوے احمدی آپ کے ساتھ ہیں اور سو میں سے ایک آدمی آپ پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں.آپ نے اس وقت ایسے سامان پیدا کر دیئے تھے کہ خزانہ اس وقت خالی تھا.اس میں شاید چند آنے تھے گویا اس سونے گھر کو آباد کرنے کا بھی آپ نے اپنے زعم میں کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا تھا اور آپ میں سے بعض نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ قادیان کے تعلیمی اداروں پر عیسائیت کا قبضہ ہوگا اور اس کے مکانوں میں اُلو بولیں گے مگر خدا تعالیٰ نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو جو اس کی نگاہ میں حقیقی انسان نہیں تھے قادیان میں نہیں رہنے دے گا اور وہ دن اور آج کا دن اللہ تعالیٰ نے جو سورج ہم پر چڑھا یا وہ ایک زیادہ طاقتور، ایک زیادہ منظم اور تعداد میں زیادہ جماعت کے اوپر چڑھا اور ہر سورج جو آپ پر چڑھا اس نے آپ کے کان میں یہ سرگوشی کی کہ تمہارا قدم تنزل کی طرف آیا ہے اور تم تنزل کے گڑھوں کی طرف جارہے ہو.اس وقت آپ کی جماعت (آپ کے کہنے کے مطابق) سو میں سے نا نوے تھی اور آج اگر میں ایک کو نہ پھاڑوں تو میں اس نسبت کو بیان ہی نہیں کر سکتا جو آپ کی جماعت کو ہماری جماعت کے مقابلہ میں ہے.آپ ہمارے مقابلہ میں سو میں سے ایک بھی نہیں رہے.یہ پاک نفوس جو آج میرے سامنے بیٹھے ہیں یا عورتوں کے جلسہ گاہ میں جو پاک ہستیاں بیٹھی ہیں ان میں سے ہر ایک اس بات پر گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ہمارے عقائد میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اس لئے کہ ۱۹۱۴ ء سے لے کر آج تک خدا تعالیٰ کے اس سلوک میں
۴۹۸ سورة الانبياء تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی جو ہمارے ساتھ رہا ہے.اس کا ہمارے ساتھ جو سلوک ۱۹۱۴ء میں تھا یا جو ۱۹۱۵ء میں تھا وہی سلوک آج بھی ہے.اگر ہمارے عقائد بدل جاتے تو خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ سلوک بھی بدل جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الرعد: ۱۲) خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہر قوم کے ساتھ چلتا ہے اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ہمارے جو عقائد ہیں وہ اس کو محبوب اور پیارے ہیں اور وہ ایسے عقائد ہیں جو اس کی جماعت کے ہونے چاہئیں تبھی تو وہ ہمیں ترقی دیتا چلا جاتا ہے اور تبھی تو ہم نے یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے تمام جلوے آپ کے لئے اے جماعت غیر مبائعین جلوہ گر ہوئے جو اس جماعت کے لئے جلوہ گر ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ تنزل کی طرف لے جارہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہر وہ جلوہ ہم پر ظاہر ہوا جو اس جماعت پر ظاہر ہوتا ہےجس کو وہ ترقی کی منازل پر چڑھا تا چلا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے عقائد نہ بدلے اور نہ غلط ہوئے اور خدا تعالی کی نگاہ میں پیارے ہیں.انہی عقائد کے ساتھ ہم نے ترقی کی ہے اور آپ نے انہی عقائد کو چھوڑ کر تنزل کی راہوں کو اختیار کیا ہے.آج آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کا حالیہ جلسہ سالانہ جو دسمبر ۱۹۶۶ ء میں ہوا.اس میں آپ کی جو زیادہ سے زیادہ تعداد تھی اس سے سولہ گنازیادہ غیر ممالک میں ایک سال کے اندر جماعت احمدیہ کی نئی بیعتیں ہوئی ہیں اور آپ کے جلسہ سالانہ کی جو کم سے کم تعداد تھی اس سے پچاس گنا زیادہ غیر ممالک میں ایک سال کے اندر جماعت احمدیہ کی نئی بیعتیں ہوئی ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہم کمزور انسانوں کو ہمارا بڑائی کا کوئی دعویٰ نہیں نہ ہم کسی طاقت کا دعوی کرتے ہیں نہ ہم کسی علم کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ ہم کسی تقوی کا دعویٰ کرتے ہیں ہم تو کچھ بھی نہیں لیکن خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ بتارہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہماری باہوں کو پکڑتے اور ہمیں ان بلندیوں تک پہنچاتے چلے جارہے ہیں جہاں تک ہم اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں پہنچ سکتے تھے.( خطابات ناصر جلد اول صفحه ۹۳ تا ۹۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوْ يَأْخُذَهُم فِي تَقَلبِهِم کہ وہ دوڑے پھرتے ہیں.یہ جو جنگ احزاب ہوئی ، یہ سفروں کے نتیجے میں ہوئی.رؤسائے مکہ دوڑے پھرتے تھے عرب قبائل کو اکٹھا کرنے کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۹۹ سورة الانبياء لیے اور یہودی دوڑے پھرتے تھے رؤسائے مکہ کو اکٹھا کرنے کے لیے تاکہ مٹادیا جائے اسلام کو.اعلان کیا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ تو درست ہے کہ تم بڑے انہماک کے ساتھ ، بڑے پیسے خرچ کر کے، اپنا آرام کھو کے سعی میں، کوشش میں اور دوڑ میں لگے ہوئے ہو کہ کسی طرح اسلام کو مٹایا جائے تمہیں کس نے یہ امان دی ہے کہ ان سفروں میں تمہیں تباہ کر دیا جائے گا.میں نے بتا یا نا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ودرو جنگ احزاب کے حالات پیدا ہوئے اور اللہ جل شانہ کا یہ نشان (آیت) ظاہر ہوا.سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُر (القمر : ۴۶) سارے اکٹھے ہو کر آئے تھے تباہ کرنے کے لیے، تباہ و برباد ہوکر چلے گئے وہاں سے.اور انسان کے ہاتھ سے نہیں فرشتوں کے ہاتھ سے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ يَأْخُذَهُم في تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ تم اللہ تعالیٰ کو نا کام نہیں کر سکتے اس کے منصوبے میں.اَوْ يَأْخُذَهُمُ على تخوف پنجابی میں کہتے ہیں بھورنا على تخوف کے بھی یہی معنی ہیں یا وہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے ، یہ دونوں طرح ہوتا ہے یا آگے نسل کم ہو جائے یا نسل مسلمان ہو جائے ، ایک ایک کر کے ، وہ مکہ جس کے سپوت اسلام کو مٹانے کے لیے نکلتے تھے ان میں سے خالد بھی نکلا مگر اسلام کو مٹانے کے لیے نہیں اسلام کا جرنیل بننے کے لیے تو آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ ، بھور بھور کے ان کی طاقت کو خدا کم کرتا چلا گیا اور اسلام کی طاقت اللہ بڑھاتا چلا گیا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا آنا نَاتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کناروں کی طرف سے اس کو چھوٹا کرتے جارہے ہیں.وہ اپنی تدبیر میں کامیاب کیسے ہونگے ہر دوکو اکٹھا کر کے ایک گلدستہ جس طرح بن جاتا ہے بہت خوبصورت کہ اَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوف یا ده انہیں آہستہ آہستہ گھٹا کر ہلاک کر دے.اور یہ سارا کچھ کیوں کرے؟ اس لیے کہ جو تمہارا رب ہے وہ مومنوں پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے جن مومنوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا ان کے ساتھ یہ اس کا سلوک ہے اور وہ رب ہے ربوبیت کرتا ہے اور ربوبیت کے لیے دو چیزوں کی ضرورت تھی.اس کی شفقت کی اور اس کے رحم کی تم نے دیکھا نہیں کن عظیم مظاہروں کے ساتھ اس نے اپنی شفقت کا، اپنے پیار کا بھی اظہار کیا اور اپنی رحمتوں کی بارش بھی کی مسلمانوں پر.(خطابات ناصر جلد نهم صفحه ۳۰۶،۳۰۵)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الانبياء آیت ٤٦ قُلْ إِنَّمَا انْذِرُكُم بِالوَحْي * وَلَا يَسْمَعُ الصُّةُ الدُّعَاءَ إذَا مَا يُنْذَرُونَ يَفْعَلُ مَا يَشَاء انسان ! انسان کا یہ فرض تھا.انسان کی پیدائش کی یہ غرض اس کی زندگی کا یہ مقصد تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا ایک زندہ تعلق پیدا کرے.اس کے لئے ایک تو وحی ، قانون قدرت کے مطابق وقتا فوقتا اللہ تعالیٰ کے نیک بندے آتے رہے.انبیاء آئے جن پر شریعتیں نازل ہوئیں.ایسے نبی پیدا ہوئے جنہوں نے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ (المائدة: ۴۵) انہوں نے پہلی شریعت کے مطابق لوگوں کی ہدایت کے اور ان کی تربیت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک کامل شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور افراد اور نوع انسانی بحیثیت مجموعی خدا کے دربار میں داخل ہو، اس کے سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے سورۃ انبیاء میں ہے.قُلْ اِنَّمَا انْذِرُكُم بِالوحي (الانبیاء: ۴۶) جو میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ ان راہوں کو اختیار نہ کرو جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا.وحی نازل ہوتی ہے کہ میں تمہیں کہوں کہ تم ان راہوں کو اختیار نہ کرو اور اس کے ساتھ وہ دوسرا پہلو بھی عربی کے محاورے قرآن کریم کے محاورے کے لحاظ سے آجاتا ہے اور میں ان راہوں کی نشاندہی کرتا ہوں جن پر چل کر تم خدا کے قرب کو حاصل کر سکتے ہو اور اس کے پیار کو پاسکتے ہو.وَلَا يَسْمَعُ الصُّةُ الدُّعَاءِ إِذَا مَا يُنَذَرُونَ اور جب اس شخص کو جس کے کان کو ابھی حکم باری نہیں ملا کہ وہ وحی کی آواز کو سنے وہ نہیں سنتا.جب وہ انذار ہو اس کو کہا بھی جائے، بتایا جائے ، نشان دہی کی جائے، عقل بھی ہے دوسرے ہوش و حواس بھی ہیں مگر خدا تعالیٰ کا حکم نہیں نازل ہوا تو یہ جو معنی میں کر رہا ہوں یہ اس آیت کے مطابق ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے میں نے مہر لگادی ہے لیکن وہ اپنا مستقل ایک مضمون ہے اپنے اپنے وقت پر بیان ہوتے رہتے ہیں.پھر سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ (الزمر : ۱۹) پہلے تو یہ تھا نا سنتے نہیں.اس میں یہ ہے کہ سنتے ہیں پھر ان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی ہدایت دیتا ہے اس فرد واحد کو، آتا ہے کہ توسن اور سمجھ.پھر وہ پوری طرح سمجھتا ہے تو ہر تعلیم کے متعلق بنیادی حکم یہ ہے کہ عمل صالح کرو جو موقعہ اور محل کے مطابق ہو.بندے کو
۵۰۱ سورة الانبياء تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث یہ اختیار دیا گیا ہے نا اور اسی وجہ سے اس کو ثواب ملتا ہے وہ سوچتا ہے کہ کون سا احسن طریق ہے اس حکم خداوندی پر عمل کرنے کا اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے تو الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَولَ جو بات کو سنتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت پھر جو سب سے بہتر عمل ہے اس کے نتیجہ میں فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ اس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں.أُولَبِكَ الَّذِينَ هَل لهُمُ اللهُ یہ عمل اس واسطے احسن کر ر ہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے رہا ہے اپنے زور سے نہیں وہ کر سکتے.ان کے اوپر احسن عمل کرنے کے لئے آسمانی ہدایت نازل ہوتی ہے اس شخص پر وَ أُولبِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ اور حقیقی اور صحیح معنی میں یہی لوگ عظمند اُولُوا الالباب کہلا سکتے ہیں کیونکہ جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی اس غرض کو وہ پورا کرنے والے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۶۲، ۴۶۳) وو آیت ۹۵ فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصُّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كَفَرَانَ لِسَعيِهِ وَإِنَّا لَهُ كُتُبُونَ اس پر اسلامی شریعت ایسی شریعت ہے کہ جو آدمی اس پر ایمان لاتا ہے اُسے یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ پر ظلم ہوگا اور وہ گھاٹے اور نقصان میں رہے گا.قرآن کریم نے مختلف پہلوؤں سے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے پیارے رنگ میں روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم نے ظلم کے متعلق تو یہ اعلان کر دیا: وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (ق:۳۰) اور اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں کہ اللہ تعالی کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا.تو اس سے انسان کی تسلی ہو گئی.پھر فرمایا: - فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفَرَانَ لِسَعيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَتِبُونَ کہ جو ایمان لائے گا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور عمل صالح بجالائے گا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تو فَلَا كُفْرَانَ لِسَعُيِهِ.اس کی کوشش اور اس کے عمل بوجہ انسان ہونے کے اگر ناقص رہ جائیں گے تب بھی رد نہیں کئے جائیں گے.فلا كُفْرَانَ لِسَعیہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری سعی قابل قبول ہوگی رد نہیں کی جائے گی بلکہ فرمایا کہ جو شخص اعمال صالحہ بجالائے گا اور وہ مومن ہوگا اور ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرے گا
تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۵۰۲ سورة الانبياء تو فلا كفرانَ لِسَعیہ اس کو ہم یہ تسلی دیتے ہیں کہ بشری کمزوری کے نتیجہ میں اگر اس کے اعمال میں کوئی کمی اور نقص رہ جائے گا تب بھی اس کے اعمال رڈ نہیں کئے جائیں گے.وہ قبول کر لئے جائیں گے.(خطبات ناصر جلد سوم ۴۹۹،۴۹۸) آیت ۱۰۸ ۱۱۰ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ.فَإِن تَوَلَّوا فَقُلْ أَذَنْتُكُمْ عَلَى سَوَاءٍ وَإِنْ أَدْرِى أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدُ ما تُوعَدُونَ ایک بڑی نمایاں خصوصیت جو ہمارے آقا میں پائی جاتی تھی اور جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور جس کے نتیجہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مقام کے لئے منتخب کیا تھا اور چنا تھا کہ آپ تمام دنیا کے لئے اور تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے ابدی شریعت لے کر آئیں اور قرآن کریم کے حامل ہوں جس کے اندر کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی اور جس کا کوئی لفظ اور کوئی حرف اور کوئی زبر اور زیر بھی کبھی منسوخ نہیں ہوئی وہ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ ہونے کی خصوصیت ہے.بنی نوع انسان سے کسی انسان نے اس قدر شفقت اور محبت نہیں کی جتنی شفقت اور محبت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی انسانوں سے کی ، نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کے سامنے تھے نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کے ملک میں رہنے والے تھے، نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کی زندگی میں ساری دنیا اور دنیا کے ہر ملک کو آباد رکھے ہوئے تھے بلکہ تمام ان انسانوں سے بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے تھے اور تمام ان بنی نوع انسان سے بھی جنہوں نے آپ کے بعد پیدا ہونا تھا آپ نے سب سے ہی اس محبت کا اس رحمت اور شفقت کا سلوک کیا.اور یہ جذ بہ اللہ تعالیٰ نے اس شدت سے آپ کے دل میں پیدا کیا تھا جس کی مثال انسان کو کہیں اور نظر نہیں آتی.یہ ایک بڑی نمایاں صفت تھی جو ہمارے آقا میں پائی جاتی تھی اور یہی وہ صفت ہے جس کی طرف میں بڑے اختصار کے ساتھ اپنے بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آج دنیا کو ضرورت ہے اس رَحْمَةٌ لِلعلمین کے جاں نثاروں کی جو دنیا کی بہتری کے لئے اپنی
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۰۳ سورة الانبياء زندگیاں قربان کر رہے ہوں.ہمارا جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ویسے تو ہر کام ہی ، ہر منصوبہ ہی ، ہر کوشش ہی اور ہر جدو جہد ہی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے لیکن ان تمام کوششوں اور ان تمام تدابیر کے علاوہ اس وقت دنیا کو ہماری دعاؤں کی بڑی ہی ضرورت ہے.دور حاضر کا انسان بڑا مغرور ہو گیا ہے اور جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کو عطا کی تھیں اس علم اور فراست کے نتیجہ میں جو آسمان سے ہی آتا ہے اسے وہ اپنی بھلائی کے لئے اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے خرچ کرنے کی بجائے اس پر اترانے لگا اور مغرور ہو گیا ہے اس حد تک کہ اسے یہ بھی پسند نہیں کہ اس کے لئے اس کا خدا فیصلہ کرے.وہ چاہتا ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ہی اپنے فیصلے کرے.اگر وہ اپنے رب کے فیصلے پر راضی ہو جاتا تو آج اس تباہی کی طرف درجہ بدرجہ اس کی حرکت نہ ہوتی جس تباہی کی طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ جارہا ہے.پس اس انسان کو جسے اللہ تعالیٰ نے طاقت دی اور اپنی عطا سے نوازا اور جس کی آواز اور جس کے فیصلے میں اثر رکھا اور جس کا صحیح فیصلہ بنی نوع انسان کو ترقی کی راہوں پر لے جا سکتا ہے لیکن جس کا غلط فیصلہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہلاکت کا خطرہ بھی پیدا کر سکتا ہے.وہ خود فیصلہ کرنا چاہتا ہے اپنے رب کا فیصلہ اسے منظور نہیں کیونکہ اگر اسے اپنے رب کا فیصلہ منظور ہوتا تو آج وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جمع ہوتا جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کا جھنڈا ہے اور جہاں جمع ہو کر وہ اس فیصلے کی طرف کان دھرتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں دیا تو ہلاکت اس کے سامنے منڈلا نہ رہی ہوتی بلکہ امن کے ساتھ سب مسائل کا حل ہو جاتا.دوسری طرف وہ خود کو بے بس اور لا چار بھی پاتا ہے اور عطاء الہی کو اپنی ہلاکت کے لئے استعمال کرنے پر ملا ہوا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں اور کس طرح فیصلہ کروں کہ عالمگیر تباہی سے خود بھی بچوں اور بنی نوع انسان کو بھی بچالوں.پس خدائی فیصلے کی طرف کان دھرنے کے لئے تیار نہیں خود کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کے وہ قابل نہیں پاتا ہلاکت اس کے سامنے ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل آسمان سے نازل نہ ہو تو اس وقت انسانیت اس قسم کے خطرات سے گھری ہوئی ہے کہ اس قسم کے خطرات میں آج سے پہلے وہ کبھی نہ گھری تھی.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۰۴ سورة الانبياء پس ضرورت ہے انسان کو ایک ایسی جماعت اور ایک ایسے الہی سلسلہ کی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو اور آپ کے اعمال کو اور آپ کی زندگی کو اپنے لئے بطور نمونہ کے بنائے اور اس رَحْمَةٌ لِلْعَلَمین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی رنگ اپنے پر چڑھاتے ہوئے ، انہی کے اشاروں پر اپنے فیصلے کے دھاروں کو موڑتے ہوئے بنی نوع انسان کے لئے بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کرنے والا ہو.(خطبات ناصر جلد اول ۵۸۸ تا ۵۹۰ ) ہم نے تجھے عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.یہ فقرہ تو بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے معانی نے دنیا کی ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام پہچاننے کے لئے اور آپ کی عظمت اور آپ کے جلال کو جاننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ بات حاضر ہو کہ آپ کس معنی میں اور کن کے لئے رحمت ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں جو تعلیم آپ کے ذریعہ انسان کو دی جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں وہ عجیب کتاب نظر آتی ہے جسے ہم قرآنِ عظیم کہتے ہیں یا ہم قرآن کریم کہتے ہیں یا ہم قرآن مجید کہتے ہیں.ہر بات جس کی انسان کو ضرورت تھی جس کے نتیجہ میں انسان نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا علم حاصل کرنا تھا اور ان سے حصہ لینا تھا ، وہ را ہیں جن پر چل کر انسان نے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا تھا وہ سب اس عظیم کتاب میں بیان ہوگئی ہیں.قرآن کریم نے جو یہ کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ بنا کر بھیجا گیا ہے.مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ یہ کس معنی میں ہے کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمتوں اور اس کی عظیم صفات کا اس کی کبریائی اور جلال اور عظمت کا عرفان دیا جائے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں یہ علم ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس معنی میں رحمت ہو کر آئے.قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس کی دوصفات کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، ایک اس کی رحمانیت ہے اور دوسرے اس کی رحیمیت ہے.خدا رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے.اس کی رحمان ہونے کی صفت کا ربوبیت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.دنیا کی ہر چیز جس کو پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پرورش کرتا ہے اور ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ وہ انسان کے لئے فائدہ مند بن جائے کیونکہ ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم اور آپ
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الانبياء کا وجود بے جان چیزوں کے لئے بھی رحمت ہے.ایک تو جاندار چیزیں ہیں جن میں چوپائے بھی ہیں، پرندے بھی ہیں، چرند بھی ہیں اور انسان بھی ہیں اور ایک بے جان چیزیں ہیں مثلاً ستارے ہیں، لیلیکسیز (Galaxies) ہیں، درخت ہیں، پانی ہے، اجناس ہیں وغیرہ وغیرہ بے شمار چیزیں ہیں.قرآن کریم کی تعلیم نے بے جان چیزوں کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی اس ہدایت کے ذریعہ سے ان حقوق کی حفاظت بھی کی گئی ہے.پس آپ کی رحمت بھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں کی وسعتوں کے ماتحت ہے.انسان خدا تعالیٰ کی وسعتوں کو تو نہیں پہنچ سکتا لیکن اپنے کمال کو پہنچا ہوا انسان جتنا کامل بن سکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کمال کو حاصل کیا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت نے ہر چیز کا حق بتایا بھی اور اس کی حفاظت بھی کی.بنیادی طور پر قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کا یہ حق ہے کہ جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال نہ کیا جائے.ہر مخلوق کا یہ حق اسلام نے قائم کیا ہے اور اسلامی تعلیم نے اس کی حفاظت کی ہے.مثلاً فرما یالا تسرفوا (الاعراف:۳۲) اسراف نہ کرو.اسراف کے معنی ہی خدا تعالیٰ کے قانون کی حدود سے تجاوز کرنا ہیں.پس اس کے یہی معنی بنتے ہیں کہ ہر چیز کے متعلق خدا تعالیٰ نے کچھ قانون بنائے ہیں ان کی پیدائش کی کوئی غرض بیان کی ہے.اس کے خلاف تم نے اس کو استعمال نہیں کرنا.انسان جب بہکتا ہے اور بسا اوقات بہکتا اس وقت زیادہ ہے جب وہ علم کے میدان میں اور تحقیق کے میدان میں کافی آگے نکل چکا ہو تو وہ دنیا کے لئے عذاب اور ہلاکت کے سامان پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ ایٹم کی طاقت کا غلط استعمال ہمیں بتا رہا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشیا کے لئے بھی رحمت ہیں کیونکہ آپ ایک ایسی تعلیم لے کر آئے جس نے انسان کو یہ بتایا کہ دیکھو اشیا خاص غرض کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان اغراض کے لئے ہی ان کا استعمال ہونا چاہیے اور جو قوانین ان کو گورن (Govern) کرنے والے ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے.اس کے بعد ہم جانداروں کو لیتے ہیں.یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس نے جانداروں کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی ہے.بعض جاندار ایسے ہیں کہ جن کی افادیت ان کی غذائیت میں نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ انسان ان کو کھائے.مثلاً سور ہے یا درندے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الانبياء ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ، اسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے ہمیں کہا کہ ایسے جاندار جن کی افادیت ان کے کھانے میں نہیں بلکہ اور چیزوں میں ہے تو جس غرض کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اس غرض کے لئے ان کو استعمال کرو.یہ بڑا لمبا مضمون ہے سانپوں کے متعلق مکھیوں کے متعلق اسی طرح دیگر چیزوں کے متعلق بہت گفتگو کی جاسکتی ہے تھوڑی بہت میں بھی کر سکتا ہوں لیکن اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا.اسلامی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے قانون کو توڑنا نہیں، حدود سے تجاوز نہیں کرنا، اسراف نہیں کرنا.اسی طرح جو چیزیں انسان کے کھانے کے لئے بنائیں ان کے متعلق بھی کہا کہ اسراف نہیں کرنا.کھانے کے لحاظ سے اسراف کئی طور پر ہوسکتا ہے، جسم کی ضرورت سے زیادہ کھانا بھی اسراف ہے.جسم کی ضرورت سے کم کھانا بھی منع ہے لیکن زیادہ کھانا اسراف اور ضیاع ہے.اور ایک اسراف اس طور پر ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اغذیہ یعنی غذاؤں میں سے بعض کو اپنی غفلت اور نالائقی کی وجہ سے اور بے پرواہی کی وجہ سے ضائع کر دے اور تلف کر دے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی پلیٹ میں اتنا ہی سالن ڈالا کرو کہ ایک لقمے کا سالن بھی ضائع نہ ہو.کھانے والی چیزوں میں میں نے جو سالن کی مثال لی ہے یہ غیر جاندار چیزوں پر بھی اطلاق پاتی ہے لیکن گائے کا گوشت ہے، اونٹ کا گوشت ہے، دنبے کا گوشت ہے ان کا بھی سالن پکتا ہے.پھر کہا کہ جنگلوں میں جو آزاد جانور رہتے ہیں تم محض شوقیہ ان کا شکار نہ کیا کرو کہ تمہیں ضرورت تو نہیں، شکار کرو اور پھر پھینک دو اس سے منع کیا.کہا کہ جتنے کی ضرورت ہے اتنا شکار کرو کیونکہ وہ پیدا ہی انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کئے گئے ہیں.پھر جو پالے ہوئے جانور ہیں مرغیاں اور دوسری چیزیں ہیں ان کو دکھ دینے سے آپ نے بڑی سختی سے منع کیا.ہر جاندار کے متعلق کہا کہ ان کی تکلیف کو دور کرنا ہے، جانداروں کے متعلق ،غیرانسان کے متعلق یہ تعلیم دی.کتے اور بلی تک کے متعلق کہہ دیا کہ ان کا خیال رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے.گھر کے پالتو جانوروں کے متعلق کہا کہ ذبح کرتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھو کہ ان کو تکلیف نہ ہو کم سے کم تکلیف میں ان کی جان نکلے کیونکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ انسان ان کو کھائے اسی لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے لیکن ان کو تکلیف پہنچا کر تو انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.غرض اس معنی میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ ہیں.
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۰۷ سورة الانبياء پھر انسان ہے، بنی نوع انسان ان میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا تعلق کافر سے بھی ہے اور اس کے جلوے کا فردیکھتا ہے اور اس کی رحمانیت کا تعلق مومن سے بھی ہے اور اس کے جلوے مومن دیکھتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کی حیثیت سے رحمانیت کے بھی مظہر کامل ہیں.چنانچہ اسلامی تعلیم ایک غیر مومن کے جو ابھی اسلام نہیں لا یا حقوق کو قائم بھی کرتی ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتی ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ اس وقت کی مہذب دنیا کا مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدو جہد تو کر رہا ہے لیکن اسے اپنے حقوق کا علم نہیں نہیں جانتا میراحق ہے کیا؟ یہ قرآنی ہدایت کا، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ آپ نے انسان کو بتایا کہ تیرا حق کیا ہے اور پھر تعلیم دی کہ یہ حقوق بہر حال ادا ہونے چاہئیں لیکن انسان صرف مزدور کی حیثیت میں تو اس دنیا میں زندگی نہیں گزارتا.یہ ایک ایسا جاندار ہے جو گہرے جذبات رکھتا ہے.چنانچہ انسان مومن ہو یا کا فراس کے جذبات کا خیال رکھا اور ان میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی.بعض دوسرے مذاہب نے بعض باتوں میں تفریق کی ہے لیکن اسلام نے انسان انسان میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی.جہاں تک انسانی جذبات کا تعلق ہے مومن اور کافر میں فرق نہیں.انسانی جذبات برابر ہیں ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے خواہ مخواہ طعن و تشنیع نہ کی جائے.ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ بلاوجہ اس کے فضول القاب نہ رکھے جائیں، بڑے نام نہ رکھے جائیں.خدا تعالیٰ نے یہ قید لگائے بغیر کہ وہ مسلمان ہے یا کافر یہ کہا کہ انسان کے بڑے بڑے نام نہیں رکھنے.بڑے نام رکھنے سے اور طعن و تشنیع کرنے سے منع کیا.خواہ کوئی مومن کے نام رکھے تب بھی بڑا اور اسلامی تعلیم کے خلاف اور کافر کے نام رکھے تب بھی بڑا اور بیسیوں مثالیں ہیں.لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُم اور لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات : ۱۳) کے علاوہ فرمایا وَ اجْتَنِبُوا قَولَ النُّورِ (الحج: ۳۱) کہ جھوٹ نہیں بولنا.یہ نہیں کہا کہ مسلمان کے خلاف جھوٹ نہیں بولنا بلکہ اسلام نے کہا کہ کسی کے خلاف بھی جھوٹ نہیں بولنا اور ہر ایک کے حق میں اور ہر ایک کے متعلق سچی بات کہنی ہے، جھوٹ ہرگز نہیں بولنا.پھر اسلام نے کہا کہ وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً اَوْ اثْمًا ثُمَّ يَرُمِ بِهِ بَرِيًّا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا (النساء:۱۱۳) کسی انسان پر بہتان نہیں باندھنا.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ کسی مسلمان پر بہتان نہیں باندھنا بلکہ کہا کہ کسی انسان پر بہتان نہیں باندھنا.انسان کے حقوق کی حفاظت کی کہ اس نے جو قصور نہیں کئے خواہ مخواہ اس پر بہتان لگا کر
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۰۸ سورة الانبياء یہ نہ کہا جائے کہ اس نے یہ قصور کیا ہے یا گناہ کیا ہے.پھر اسلام کہتا ہے کہ انصاف پر قائم رہتے ہوئے سچی گواہی دینی ہے.كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ (النساء: ۱۳۶) اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کے حق میں سچی گواہی دینی ہے اور کافر کے خلاف بے شک جھوٹی گواہی دے دو.اسلام کی یہ تعلیم نہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہ رحمتہ للعالمین ہیں مومن اور کافرسب کے حقوق کی حفاظت کی ہے.پھر اسلام کہتا ہے کہ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة: 9) اسلام کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ عدل اور انصاف کو قائم رکھنا ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی غیر مومن ہے اور غیر مسلم ہے تو اس پر ظلم کرنا جائز ہے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ جتنا ایک مسلمان پر ظلم کرنا برا ہے اتنا ہی غیر مسلم پر ظلم کرنا برا ہے اور خدا تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہے اور گناہ ہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی بات ہے.بعض مذاہب کی طرح اسلام یہ نہیں کہتا کہ مومن یا مسلمان سے سُود نہ لے، اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی سے بھی سود نہ لے خواہ وہ عیسائی ہو یا یہودی ہو یا ہندو ہو یا سکھ ہو یا کوئی بد مذہب ہو، کمیونسٹ ہو.شود کسی سے بھی نہیں لینا.میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا میں ہر چیز کی چھوٹی چھوٹی مثالیں دے رہا ہوں.جس وقت بعض تو میں کسی علاقہ پر غالب آ جاتی ہیں تو وہ یہ بھی کیا کرتی ہیں کہ سود کے ذریعہ سے استحصال دولت کرتی ہیں تو اسلام نے یہ نہیں کہا کہ شود کے ذریعہ سے دولت سمیٹنے کے لئے غیروں کو نشانہ نہ بناؤ بلکہ یہ کہا کہ کسی سے بھی سود نہیں لینا.پھر اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کو گالی نہیں دینی بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ غیر مسلم کو بھی جو اسلام پر ایمان نہیں لا یا اس کو بھی گالی نہیں دینی ، ان کے خداؤں کو بھی گالی نہیں دینی.شرک ہے یہ اتنا بڑا ظلم ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ ان کے بتوں کو بھی گالی نہیں دینی.پس اسلام نے انسان کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور انسان کے حقوق کی حفاظت بھی کی ہے.میں نے چند مثالیں دی ہیں ورنہ سارا قرآن کریم اس سے بھرا ہوا ہے.میں جب ۱۹۶۷ء میں لندن گیا تو ایک جگہ کچھ غیر مسلم اکٹھے ہوئے تھے اور مجھے وہاں تقریر کرنی پڑی.میں نے سوچا کہ ان کو یہی باتیں بتاؤں.چنانچہ میں نے ۱۰،۸ باتیں لیں اور ان کو بتایا کہ تم اگر چه اسلام پر ایمان نہیں لاتے مگر اسلام پھر بھی تمہارے جذبات کی اور تمہارے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کو مثالیں دے کر بتایا.اسلامی تعلیم بہر حال مؤثر ہے اور اس کا ان پر اثر ہوا.غرض
تغییر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۵۰۹ سورة الانبياء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے جان چیزوں کے لئے بھی رحمتہ للعالمین ہیں اور جانداروں کے لئے بھی اور کافروں کے لئے بھی رحمتہ للعالمین ہیں اور مومنوں کے لئے بھی.اب ہم انسانی حقوق سے آگے بڑھ کر اور بلند ہو کر روحانی حقوق میں داخل ہوتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی میدانوں میں انسان کے لئے اس قدر روحانی ترقیات کے دروازے کھولے ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں.روحانی ترقیات میں پہلی بات جو انسان کا دماغ سوچتا ہے مثلاً اگر کسی عیسائی یا ہندو کو اسلام کی صداقت سمجھ آ جائے تو پہلی بات وہ یہ سوچے گا کہ پچاس سال میری عمر ہوگئی میں بتوں کو پوجتا رہا، شرک کرتا رہا، کبیرہ گناہ میں نے کئے ،لوگوں کے میں نے حقوق مارے، انسانوں پر ظلم کئے ، بداخلاقیاں کیں ، غلط طریق سے مال اکٹھے کئے ،شود کے ذریعہ سے پیسہ سمیٹا، اس قدر گناہ ہیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں.گناہوں کی یہ گٹھڑیاں اٹھا کر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤں تو میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا ؟ مومن کا ایمان لانے والے کا پہلا سوال زبان حال سے یہی ہے.چنانچہ اعلان کر دیا قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر:۵۴) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں اس لئے تمہیں کوئی خوف نہیں ہے.اگر تم ایمان لے آؤ، اگر تم سچی توبہ کر لو، اگر تم یہ عہد کر لو کہ آئندہ ان گناہوں کو ترک کر دو گے اور اسلام کی بتائی ہوئی نیکیوں پر قائم ہو جاؤ گے تو تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.دوسرا میرا خیال جو ایمان لانے والے انسان کے دماغ میں آ سکتا ہے اور آنا چاہیئے اور میں سمجھتا ہوں کہ روحانی ترقیات کے لئے بڑا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ میں انسان ہوں کمزور انسان ہوں، بشری کمزوریاں میرے ساتھ لگی ہوئی ہیں.کوشش کے باوجود بھی غفلت اور ستی کے لمحات بھی میری زندگی میں آئیں گے، کچھ گناہ مجھ سے سرزد ہو جائیں گے، کچھ نیکیاں مجھ سے چھوٹ جائیں گی تو میرا حشر کیا ہوگا.کیا ایمان لانے کے بعد بھی مجھے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا؟ خدا تعالیٰ نے اسی جگہ یہ اعلان کر دیا کہ اگر تم نیک نیتی سے اور پوری توجہ کے ساتھ نیکیوں پر قائم ہو گے تو تمہاری نیکیاں اپنی جگہ پر ہوں گی لیکن تمہاری جو غلطیاں اور گناہ اور قصور ہیں وہ اللہ تعالیٰ سب معاف کر دے گا اور اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں لپیٹ لے گا.اس لحاظ سے بھی ایک مومن کے لئے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث آپ رحمت بن کر آئے.۵۱۰ سورة الانبياء تیسرا سوال جو ایک سمجھ دار انسانی دماغ سوچے گا یہ ہے کہ اگر میں اسلام لے آؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟ یہ بڑا ضروری سوال ہے انسانی فراست اور انسانی عقل یہ سوال کرتی ہے کہ اگر میں اسلام لے آؤں.اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤں.اگر میں قرآن کریم کو سچی کتاب سمجھ لوں اور اس پر عمل کروں تو مجھے ملے گا کیا؟ اس کے لئے خدا تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین کو ہمارے لئے أسوه بنا يا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب: ۲۲) اور یہ اعلان کر دیا کہ میں نے ایک مثال سامنے رکھ دی ہے یہ ہے ہمارا بندہ، ہر لحاظ سے ہمارا، کامل اور مکمل انسان جس نے اپنی ساری روحانی استعدادوں کی کامل نشو و نما پانے کی ہمارے فضل سے توفیق پائی ہے، یہ تمہارے سامنے کامل نمونہ ہے.ان کنتم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) تم اس کی اتباع کرو تو تمہیں تمہاری استعدادوں کے مطابق وہی کچھ مل جائے گا جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی استعدادوں کے مطابق خدا سے ملا.اس کو ہم محاورہ میں کہتے ہیں کہ اتنا ملنا کہ اوور فلو (Overflow) کر جائے.برتن چھلک جائے.اتنا ہو کہ جھولی میں نہ سما سکے.خدا تعالیٰ تو اتنا دیتا ہے کہ اگر انسان صحیح راستہ پر گامزن ہو تو اس کی استعداد کے مطابق اس کو سب کچھل جاتا ہے اور کوئی کمی نہیں رہتی.یہ تو اصول ہے نا.ملتا کیا ہے؟ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق جوسب کچھ ملتا ہے وہ سب کچھ ہے کیا؟ پہلے تو کہا کہ سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے، پھر فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں رحمت ہیں کہ اگر انسان آپ کی اتباع کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عشق اسے بخشا جائے گا اور معرفت الہی کے بعد خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کی جائے گی اور اس کے نتیجہ میں اسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ غیر اللہ سے کامل رہائی حاصل ہو جائے گی اور جو تکیہ کیا جاتا ہے کسی شے پر یا کسی انسان پر یا کسی جتھے پر یا کسی سیاسی اقتدار پر یا کسی حکومت پر یا کسی بین الاقوامی تنظیم پر اس کا کوئی سوال نہیں رہے گا بلکہ غیر اللہ سے پوری رہائی مل جائے گی کیونکہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا عشق انسان کے دل میں پیدا ہو جائے گا.تو محبت اور عشق کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ غیر اللہ سے رہائی حاصل ہو جائے گی اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ کو پہچاننے کے
۵۱۱ سورة الانبياء تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث بعد، خدا تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بعد، اس کی محبت دل میں پیدا ہو جانے کے بعد انسان گناہوں سے نجات حاصل کرلے گا، گناہ پر جرات نہیں کرے گا.ہمارا دماغ ہمیں یہ پوچھتا ہے کہ ہمیں اور کیا ملے گا؟ خدا کہتا ہے کہ تمہیں اس دنیا میں جنت مل جائے گی.محض جنت نہیں بلکہ اس دنیا میں تمہیں پاک زندگی اور جنت ملے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تار یک قبروں سے تم نکالے جاؤ گے اور روحانی زندگی تمہیں بخشی جائے گی.پس اس معنی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں.ہر شے کے حقوق کی تعیین کی اور ان کی حفاظت کا سامان کیا.ہر شے کے حقوق کی جب تعیین کی اور ان کی حفاظت کی تو ان کے لئے رحمت بن گئے.ہر جاندار کے حقوق کی تعیین کی اور ان کے حقوق کی حفاظت کی اور ہر جاندار کے لئے آپ رحمت بن گئے.پھر کا فرومومن ہر انسان کے حقوق کی تعیین کی اور ان کی حفاظت کی.مسلمان کے غصے سے بھی غیر مسلم کو بچایا، ایک مسلمان کے ہاتھ کے ظلم سے بھی ایک غیر مسلم کو بچایا اور کہا کہ اگر تم میری اتباع کرنا چاہتے ہو تو تم عدل اور انصاف کو نہیں چھوڑو گے.اس لحاظ سے آپ رحمتہ للعالمین ہیں.پھر جولوگ اسلام لائے ، جو مسلمان ہو گئے ، جن کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تھا اور جنہوں نے آپ کی اتباع کی ان کو خدا کی درگاہ تک پہنچادیا اور ان کو ہر چیز مل گئی.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۱۸۶ تا ۱۹۳) وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ عالمین میں صرف انسان نہیں بلکہ ہر غیر انسان مخلوق بھی عالمین میں شامل ہے اور ایک پہلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہر مخلوق کے حقوق اس تعلیم نے قائم بھی کئے اور ان کی حفاظت کا حکم بھی دیا اور ان کی حفاظت کے سامان بھی پیدا کئے.اس عالمین میں انسان بھی شامل ہیں.غیر انسان بھی شامل ہیں.جن کے لئے آپ رحمت ہیں.اس کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ انسان کے متعلق فرمایا کہ ہم نے کافةٌ لِلنَّاسِ (سبا: ۲۹) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھجوایا ہے اور یہ آیا کہ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) اے انسانو! سنو!! کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں یہ جو سب انسانوں کی طرف رحمت بن کے آپ آئے.اس سے آگے دوسوتے پھوٹتے ہیں اور ان میں سے ایک کے متعلق میں پہلے ابتدا کر چکا
۵۱۲ سورة الانبياء تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہوں اور وہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے.اور وہ یہ ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اور كَافَةَ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا (سبا:۲۹) اس کی تفصیل میں جب ہم جاتے ہیں تو بنیادی چیز جو ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ اسلام انسان کو کہتا ہے کہ میں تجھے آپس میں لڑنے نہیں دوں گا پیار سے زندگی کے دن گزارو.دنیا نے دنیوی لحاظ سے بڑی ترقی کی لیکن انسان نے انسان سے پیار کرنا ابھی تک نہیں سیکھا کیونکہ اس دنیا کے انسان نے جو دنیوی ترقیات کر چکا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی.یہ وہ پہلا مضمون ہے جس کی میں ابتدا کر چکا ہوں.دوسراسوتا جو اس اعلان سے پھوٹا ہے کہ آپ رحمت ہیں عالمین کے لئے اور مبعوث ہوئے ہیں بنی نوع انسان کے لئے، سارے کے سارے انسانوں کے لئے ایک رحمت بن کر آپ آئے.اس مضمون میں بنیادی چیز اسلام نے یہ قائم کی کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں سارے انسان برابر ہیں اور قرآن کریم نے بہت جگہ اس کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک تو کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے.جب یہ کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے تو یہ نوع انسانی کے متعلق کہا گیا ہے کسی خاص گروہ کے لئے یہ نہیں کہا گیا.دوسرے قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے کہ قرآنی تعلیم تمہارے شرف اور تمہاری عزت کا سامان لے کر آئی.اور عجیب بات ہے کہ جو تعلیم تمہاری عزت کے قائم کرنے اور تمہارے اندرونی شرف کو اُجاگر کرنے کے لئے آئی تھی.اسی کی طرف تم تو جہ نہیں دے رہے.اور تیسرے یہ کہہ کر انسانی مساوات کا کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں عظیم اعلان کیا اس فقرہ میں کہ انما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف : ) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.جب میں ۱۹۷۰ء میں افریقہ کے دورے پر گیا تو مجھے وہاں یہ احساس ہوا کہ عیسائیت ان ملکوں میں اس دعوئی کے ساتھ داخل ہوئی تھی کہ ہم خداوند یسوع مسیح کے پیار کا اور محبت کا پیغام تمہارے پاس لے کر آئے ہیں.لیکن ہوا عملاً یہ کہ نہ ان کی دولتیں ان کے ہاتھوں میں رہنے دیں گئیں ، نہ ان کی عزتیں ان کے پاس رہیں.انتہائی تحقیر کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کیا گیا اور ساری دنیا میں اس قسم
تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۱۳ سورة الانبياء کی ڈراؤنی تصویریں افریقہ کے ممالک کے رہنے والوں کی دنیا میں پھیلائی گئیں کہ عیسائی دنیا کے بچے راتوں کو تصویریں دیکھ کے بعض دفعہ سوبھی نہیں سکتے تھے.اتنی بھیا نک تصاویر، بڑی حقارت تھی جس کا اظہار کیا گیا تھا.ایک موقع پر غانا میں ٹیچی من“ کے مقام پر یورپین لاٹ پادری بھی آئے ہوئے تھے ہمارے جلسہ میں لیکن بیٹھے اس طرح تھے کہ ” میں آ گیا ہوں دیکھنے کے لئے کہ کیا سکیمیں یہ بنارہے ہیں.لیکن کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہا بے پرواہی کے ساتھ ایک طرف جھک کے لات پہ لات رکھ کے بیٹھے ہوئے ان احباب سے باتیں کرتے ہوئے اپنی تقریر میں میں نے کہا کہ دیکھو وہ جو افضل الرسل خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم وہ جو پیراماؤنٹ پرافٹ تھا اس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں تو Those who were junior to him like Musa and Christ تو جوان سے جونیئر ، نبی تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام وہ یا ان کے ماننے والے وہ تم پر اپنی برتری کا کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے.وہ جو لاٹ پادری صاحب تھے وہ یہ سن کر اس طرح اچھلے جس طرح ان کو کسی نے سوئی چھودی کہ یہ کیا کہ گئے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ عظیم اعلان ہے یہ كَافَةٌ لِلنَّاس اور میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اس تعلیم نے اس کی ابتدا یہاں سے کی کہ تم سارے ہی سارے اس نوع کے جو اشرف المخلوقات کے افراد ہو.اور مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تم عزت پانے کے حق دار ہو.اگر خود اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو بے عزت نہ کرو تو ٹھیک ہے.اگر کوئی خود اس عزت کے سامان کی طرف جو قرآن کریم ان کے لئے لے کر آیا ان کی طرف توجہ نہ کرے اور صاحب شرف وعزت بننے کی بجائے ایسے اخلاق پیدا کرے جو اچھے نہیں اور جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہیں تو اس میں خالق کا تو کوئی قصور نہیں.مخلوق نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی بے عزتی اور اپنی حقارت کے سامان پیدا کئے.جہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے اور جہاں تک اسلامی تعلیم کا تعلق ہے جہاں تک ایک مسلمان کے اخلاق کا تعلق ہے کسی انسان، انسان میں فرق نہیں کیا جا سکتا.اور محض یہ نہیں بلکہ بہت بلند مقام پر نوع انسان کو کھڑا کر کے کہا ہے کہ یہ ہے تمہارا مقام.عزت اور شرف کا مقام اور تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق
۵۱۴ سورة الانبياء تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث نہیں کیا جائے گا.مؤحد اور مشرک میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.جہاں تک ان کی بہبود کا، جہاں تک ان کی عزت اور شرف کا، جہاں تک ان کے جذبات کا سوال ہے، کوئی فرق نہیں کیا جائے گا.ساری اسلامی تعلیم اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے اور سارے بنی نوع انسان کو ان کا مقام بتایا اور وہاں لا کھڑا کیا اور کہا کہ یہ ہے تمہارا مقام اشرف المخلوقات ہونے کے لحاظ سے، بشیر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.اپنی اپنی استعداد کے مطابق تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرو اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت کے سامان پیدا کرو.عزت کا جو یہ مقام نوع انسانی کو دیا گیا.اور اخوت و مساوات کے یہ بندھن جن میں بنی نوع انسان کو باندھا گیا.یہ اسلام کی پہلی بنیادی تعلیم ہے.اس کے بعد پھر بیبیوں ہسینکڑوں اور باتیں مضمون کے اندر آتی جائیں گی.لیکن اس وقت میں صرف ایک چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چونکہ سارے انسان برابر ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس لئے اسلامی تعلیم یہ اعلان کرتی ہے کہ زمین و آسمان کی ہرشے بلا استثناء ہر انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے.قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ زمین و آسمان کی ہر شے بلا استثناء ایک مسلمان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے اور غیر مسلم کی خدمت کے لئے پیدا نہیں کی گئی.یہ اعلان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر شے بلا استثناء ہر انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے.میں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں اس کی وضاحت کے لئے یہاں بھی اب بتاؤں گا کہ جو قو تیں اور استعدادیں (جن کو انگریزی میں Faculties کہتے ہیں ) بھی انسان کو ملیں ، فرد فرد کو ملیں، مختلف شکلوں میں ملیں، فرق فرق سے ملیں، بہر حال وہ تمام قوتیں اور استعدادیں جو انسانی قوتیں اور استعداد میں کہلائی جاسکتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں کہیں اور سے تو نہیں لا یا کوئی فرد اور خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ قو تیں اور استعد ایں جو اس نے کسی فرد واحد کو دی ہیں ان کی کامل نشوونما کے سامان پیدا کئے جائیں اور جس وقت ان کی کامل نشو ونما ہو جائے تو ان قوتوں اور صلاحیتوں کو اپنے کمال پر رکھنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر فرد واحد کو مہیا ہوں.....ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.تمدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ (بنی اسرائیل: ۲۱) ہم بھی کو مدد دیتے ہیں دین والوں کو بھی دنیا والوں کو بھی.وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبَّكَ مَحْظُورًا (بنی اسرائیل: ۲۱)
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۱۵ سورة الانبياء اور تیرے رب کی عطا کسی خاص گروہ سے روکی نہیں جاتی نہ اللہ تعالیٰ روکتا ہے اور نہ اس کی تعلیم روکتی ہے.تو یہ جو مساوات ہے یہ محض نعرہ نہیں جسے اسلام نے بلند کیا ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.ایک مادی حقیقت بھی.یہ ایک حقیقت ہے ایک ذہنی حقیقت بھی اور یہ ایک حقیقت ہے.ایک اخلاقی اور روحانی حقیقت بھی کہ کسی انسان اور دوسرے انسان میں فرق نہیں کیا جائے گا جو حقوق خدا تعالیٰ نے کسی شخص کے قائم کئے ہیں.مثلاً ابھی جو میں نے مثال دی.خدا تعالیٰ نے ہر شخص کا یہ حق قائم کیا ہے کہ اس کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قوت اور استعداد عطا ہوئی ہے اس کی کامل نشوونما ہو اور اپنے کمال پر اسے قائم رکھنے کے لئے ہر ضروری چیز مہیا کی جائے.اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کا کوئی فرق نہیں.نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور اسوہ میں اور اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس : ١٢) آپ نے کہا کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی ہوئی اور نہ اس وحی کی جس کی آپ پیروی کرتے اور جس کی پیروی کر کے آپ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ بنے.تو اسلام ایک عظیم مذہب ہے اس لحاظ سے بھی کہ وہ انسان، انسان کو پیار سے زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے.اور اس لحاظ سے بھی کہ اس نے سارے انسانوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے لا کے کھڑا کر دیا اور انسان انسان میں فرق نہیں کیا.سب مساوی ہیں اس معنی میں کہ جو حقوق اللہ تعالیٰ نے ان کے قائم کئے ہیں وہ ان کو ملنے چاہئیں قطع نظر اس کے کہ ان کا عقیدہ کیا ہے.قطع نظر اس کے کہ ان کے اعمال کیا ہیں خدا تعالیٰ نے ایک حق قائم کیا ہے.کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ کسی ایسے شخص کو خدا کے عطا کردہ حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کرے.......یہ بھی بتا دوں کہ جس وقت آپ نے یہ فرمایا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (حم السجدة:۷) تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گری ہوئی اور حقیر مخلوق انسان کے پاس آسمانوں سے اتر کے اور خود کوان کے مقام پر کھڑا کر کے یہ اعلان نہیں کیا کہ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم میں تمہارے جیسا انسان ہوں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو گرے ہوئے مقام سے اٹھا کے آسمانی رفعتوں تک لے گئے اور کہا دیکھو إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ تمہاری عزت اور شرف کو قائم کرنے کے بعد میں کہتا ہوں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.میری بھی عزت تمہاری
۵۱۶ سورة الانبياء تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث بھی عزت کسی انسان کو تحقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا.گنہگار کوبھی نہیں دیکھا جائے گا.تفصیل میں جائیں گے تو بعض مثالیں ہمیں ایسی نظر آئیں گی کہ دنیا کی نگاہ میں انتہائی گناہگار انسان ہے اور اس کے خلاف ایک شخص مخلص، مومن کے منہ سے حقارت کا کلمہ نکلا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا اور سخت غصہ میں آئے اور اس کو جھڑ کا کہ اس قسم کی باتیں کیوں نکل رہی ہیں تمہارے اسلام بڑا پیارا مذہب ہے اور آج کے انسانوں کو پہلی نسلوں سے زیادہ اس کی ضرورت ہے کیونکہ پہلی نسلوں نے اپنے لئے تباہی کے اس قسم کے سامان اکٹھے نہیں کئے تھے جس قسم کی تباہی کے سامان اس دنیا نے آج کے انسانوں نے اکٹھے کر لئے ہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۳۶۲ تا ۳۶۷) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے عظیم الشان اعلان کئے ہیں.ایک تو یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تمام عالمین کے لئے ، تمام کائنات کے لئے رحمت بنایا گیا ہے اور دوسرے یہ کہا کہ آپ کی رسالت كافة لِلنّاس کے لئے ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةُ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا (سبا: ٢٩) ساری کی ساری نوع انسانی کے لئے آپ رسول، بشیر اور نذیر ہو کر مبعوث ہوئے ہیں.دو مختلف سورتوں میں یہ آیتیں ہیں اور ہر دو جگہ اس اعلان کے بعد کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے ، کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور یہ کہ آپ کی رسالت كافة لِلنَّاس کے لئے ہے یہودی اور عیسائی اور بدھ مذہب والے اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اور ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے انسان، غرضیکہ آپ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک کی ہر نسل آپ کی رسالت کے ماتحت ہے.دونوں جگہ اس اعلان کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے.رحمۃ للعالمین کے بعد فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے وہ کب پورا ہوگا.وَ اِنْ اَدْرِى اَقَرِيبٌ اَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ (الانبیاء :۱۱۰) رسول بھی بشر ہوتا ہے اور رحمۃ للعالمین بھی بشر ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے علم نہ ہو کہ وہ وعدہ جس کا ذکر کیا گیا ہے کب پورا ہوگا اور جب كَافةً لِلنّاس کہا تو وہاں یہ بتایا کہ ترقیات کی پہلی تین صدیوں کے بعد جب ایک ہزار سال گذر جائے گا تو اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ آ جائے گا یعنی چودھویں صدی سے اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہوگا.پس
۵۱۷ سورة الانبياء تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اور كَافَةً لِلنَّاسِ میں ایک وعدہ ہے.ویسے صرف نحو کے لحاظ سے وہاں وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اور وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةُ لِلنَّاسِ ہے یعنی منصوب ہے لیکن جب ہم اس کو الگ بولیں تو کہیں گے کہ آپ رَحْمَةً لِلْعلمین ہیں اور كَافَةٌ لِلنَّاس کی طرف آپ کی بعثت ہوئی.ان آیات میں یہ وعدہ نہیں کہ آپ مبعوث تو ہوئے ہیں نوع انسانی کی طرف لیکن نوع انسانی کبھی بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی.یہ وعدہ نہیں ہے بلکہ وعدہ یہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو قبول کرے گی اور سارے کے سارے انسان سوائے چند ایک استثناء کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں گے.جب وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ بتایا گیا تو پہلی تین صدیوں کا ذکر چھوڑ دیا گیا کیونکہ پہلی تین صدیاں ترقیات کی صدیاں تھیں ان میں اسلام بڑھتا چلا جارہا تھا اسلام عرب میں کامیاب ہوا پھر عرب سے باہر نکلا پھر افریقہ کے براعظم پر چھا گیا، صرف کامیاب ہی نہیں ہوا بلکہ چھا گیا، پھر وہاں سے نکلا اور ایک طرف سپین کے رستے سے یورپ میں داخل ہوا اور قریباً سارے سپین کو اپنی رحمت کے احاطہ میں لے لیا اور دوسری طرف ایک وقت میں ترکی کی طرف سے یورپ کے اندر گیا اور ان کے دل جیتتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ پولینڈ کے دل جیت کر پولینڈ.پرے جو سمندر ہے اس کے کناروں تک پہنچ گیا اور پھر ماسکو جو آجکل کمیونزم کا دارالخلافہ ہے ابھی ماضی قریب میں ہی تیمور کے زمانے میں یہ اس کی سلطنت کے ایک صوبے کا دارالخلافہ تھا.تیمور کا اطلاعات دینے کا نظام بہت تیز رفتار تھا بادشاہ کو گھوڑوں پر بڑی جلدی ان علاقوں کی خبریں آجاتی تھیں.پھر اسلام چین کی طرف بڑھا تو اس کے اندر گھس گیا.غرض کہ وہ ترقی کرتا چلا جارہا تھا حتی کہ تین صدیوں کے بعد یہ ترقی رُک گئی اور تنزل کا دور شروع ہو گیا.ترقی کے زمانہ میں نظر آ رہا تھا کہ معروف دنیا میں، معلوم خطہ ہائے ارض میں اسلام بڑھتا چلا جارہا ہے اور رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ اور كَافَةً لِلنَّاس میں جو بشارت دی گئی تھی اور جو وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہوتا نظر آتا ہے لیکن اس کے بعد تنزل آنا شروع ہو گیا.یہ تنزل بھی اس قسم کا نہیں ہے جو دوسروں پر آتا ہے اسلام پر کبھی ویسا تنزل نہیں آیا لیکن بہر حال وہ ترقی رک گئی اور ایک تنزل آنا شروع ہوا.سپین کی حکومت ختم ہوگئی اور وہ ملک مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلمان جو پولینڈ تک آگے گئے ہوئے تھے وہ علاقے ان کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۱۸ سورة الانبياء ہاتھ سے نکل گئے اور اب ترکی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو یورپ کے براعظم کے اندر ہے باقی ملک ادھر ہے اور تاشقند اور دوسرے بڑے بڑے علماء پیدا کرنے والے جو علاقے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے.چین میں بھی حکومت نہیں رہی.پس ایک قسم کا تنزل ہے گو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ اس قسم کا زوال نہیں جیسا کہ دوسری قوموں اور دوسری اُمتوں پر آیا بلکہ اس زمانے میں بھی مسلمان میں روشنی اور جان نظر آتی ہے لیکن حالات کے لحاظ سے ہم اس کو تنزل کا زمانہ کہنے پر مجبور ہیں.دوسری چیز جو ذہن میں آئی تھی پھر رہ گئی وہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام ساری دنیا میں پھیل ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ہمارے ان علاقوں کے انسان کو دنیا کے بہت سے حصے معلوم ہی نہیں تھے مثلاً امریکہ ہے، نیوزی لینڈ ہے، آسٹریلیا ہے، یہ Unknown (غیر معلوم ) علاقے تھے اور انسان کو ان علاقوں کے جغرافیہ کا ہی پتا نہیں تھا وہاں کی آبادیوں کا ہی پتا نہیں تھا.پس اگر اس وقت سارے کے سارے انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور ہم سمجھتے کہ جمع ہو گئے ہیں تب بھی ساری کی ساری نوع انسانی اسلام کے جھنڈے تلے جمع نہ ہوتی کیونکہ ایسے علاقے تھے، انسان سے آباد علاقے جن کا ہمیں علم ہی نہیں تھا اور وہاں اسلام کی تعلیم پہنچ ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان علاقوں اور ان اقوام کو ہم جانتے ہی نہیں تھے.مثلاً فجی آئی لینڈ کی جو پرانی آبادیاں ہیں انہوں نے اس زمانے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا تھا.اب ہمارا وہاں مشن ہے اور اللہ کے فضل سے اس پرانی قوم میں سے بھی (جو کہ قریباً چودھویں صدی میں ہی سامنے آئی ہے ) مسلمان ہونے شروع ہو گئے ہیں.غرض ہر دو جگہ پر یعنی جہاں رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کہا وہاں بھی اور جہاں كافة للناس کہا وہاں بھی ایک وعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک جگہ کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب پورا ہوگا.یہاں قرآن کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر کی کیفیت بیان کی ہے اور پھر دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے خود بتایا کہ میں تمہیں بتا تا ہوں کہ چودھویں صدی سے اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہو جائے گا.اب ہم اس زمانہ میں ہیں اور آج کے زمانہ کے مسلمان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اس لئے کہ جتنی بڑی بشارتیں کسی امت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے رسول کے ذریعہ سے ملتی ہیں اور
۵۱۹ سورة الانبياء تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم الانبیاء اور افضل الرسل ہیں، اتنی ہی بڑی ذمہ واریاں بھی ان پر ڈالی جاتی ہیں اور اتنا ہی یہ احساس بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے نفس میں اور اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور اس کے اندر کوئی زور نہیں اور نہ کوئی طاقت ہے کہ وہ خدائی امداد اور نصرت کے بغیر اپنے زور سے قربانیاں کر کے ان وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے.انسان کو تو یہ کہا گیا ہے کہ جتنی تجھ میں طاقت ہے وہ کر دے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے، اس کی.نصرت اور اس کی امداد سے ہوتا ہے.پس اس زمانہ میں یہ وعدہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر عملاً انسان کے سامنے یہ تصویر پیش کرے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ہیں.اعتقاداً نہیں بلکہ عملاً یہ تصویر پیش کرے گی کیونکہ الا ماشاء اللہ چند ایک استثناؤں کے علاوہ ساری دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور آپ پر ایمان لا کر آپ کے روحانی فیوض سے حصہ لیا.یہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہوگا اور اس دعا کے نتیجہ میں جو اس دل سے نکلی تھی جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ (الشعراء: ۴) اور دنیا کے سامنے عملاً یہ نقشہ آ جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک قوم کسی ایک علاقے کسی ایک ملک یا کسی ایک نسل کے لئے رسول نہیں ہیں بلکہ گافة للناس کی طرف آپ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور یہ عملاً ثابت ہو جائے گا کیونکہ انسانوں کی بھاری اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو جائے گا.گو وہ اس شکل میں بیان نہیں ہوالیکن وہ اپنے معنی کے لحاظ سے اس میں بیان ہو چکا ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے ان دونوں آیتوں کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے اور پھر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہ وعدہ کب پورا ہوگا اور پھر ایک جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ چودھویں صدی میں اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ آ جائے گا.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۳۵۷ تا ۳۶۱) قرآن کریم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.قرآن کریم نے یہ بھی کہا کہ محبوب خدا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں.چنانچہ سورۃ انبیاء میں فرمایا وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً للعلمین.گویا صفت ربوبیت کے مظہر اتم ہونے کا جلوہ رحمتہ للعالمین کی شکل میں ظاہر ہوا.آپ سے پہلے جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ رحمت تو تھے لیکن رحمتہ للعالمین نہیں تھے.ربوبیت کے مظہر تو تھے لیکن ربوبیت کا ملہ کے مظہر نہیں تھے.حضرت موسیٰ آئے تو اُنہوں نے فرمایا کہ صرف 6
تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۵۲۰ سورة الانبياء بنی اسرائیل کی اصلاح اور ترقی میرے مد نظر ہے.مجھے کسی اور قوم سے کیا غرض؟ اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے رحمت تھے.اس میں کوئی شک نہیں لیکن عالمین کے لئے رحمت نہیں تھے.خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر تو تھے لیکن رب العالمین کی صفت کے مظہر نہیں تھے.رب العالمین کی ربوبیت کا ملہ کا کامل مظہر وہ دل تھا جس پر ربّ العالمین کا جلوہ نازل ہوا اور اس نے اس پاک وجود کو رحمتہ للعالمین بنادیا.آپ کا دل بنی نوع انسان کے لئے گداز ہوا.آپ کا سارا ما حول عرب تھا لیکن آپ کا دل ہے کہ رحمتہ للعالمین کی موجوں سے لبریز تھا.آپ نے جزیرہ نمائے عرب سے یہ اعلان کیا کہ کالے اور سفید میں کوئی فرق نہیں.سرخ اور سفید میں کوئی فرق نہیں.عرب اور عجم میں کوئی فرق نہیں ہے.یہ جذبہ اور یہ انسانی قدر و منزلت رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا نتیجہ ہے.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام ( جو اپنی اپنی قوموں اور زمانوں کے لئے رحمت تھے ) ان کا نہ یہ جذبہ ہے اور نہ اُن کے بس کی یہ بات ہے.پس خدا نے فرمایا.میں ربّ العالمین ہوں اور خدا نے فرمایا کہ میرا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہے.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۱۵۹۰) اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں مساوات کا ایک اور لحاظ سے بھی ذکر کیا ہے اور وہ ہے رحمت سے بہرہ یاب ہونے میں مساوات چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ - ترجمہ: اور ہم نے تجھے تمام دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے دائرہ میں صرف مرد آئیں گے بلکہ کہا یہ ہے کہ ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے دُنیا کی ہر چیز آپ کی رحمت سے حصہ لے رہی ہے.آپ تمام انسانوں یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں.آپ کی رحمت مردوں اور عورتوں کو یکساں فیض پہنچارہی ہے یعنی آپ کی رحمت سے بہرہ یاب ہونے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۶۳۵) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمتوں سے بھر پورا احسان جو ہے وہ صرف نوع انسانی پر نہیں
۵۲۱ سورة الانبياء تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث بلکہ عالمین پر ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمین لیکن چونکہ انسانی زندگی سے باہر ہر شے انسان کی خدمت کے لئے مامور ہے اس لئے زیادہ فائدہ اس رحمت سے نوع انسانی حاصل کرتی ہے اور نبی کریم رحمتہ للعالمین اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا جو رنگ اپنے پر چڑھایا تو بہت ساری روشنیاں آپ کی ہستی اور وجود سے باہر نکلیں تو رحمتہ للعالمین اس لئے بنے کہ خدا تعالیٰ نے اعلان کیا تھا کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) میں رحیم ہوں، رحمان ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.اس واسطے وہ ایک جو کامل طور پر میرا الکس بنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وہ رحمتہ للعالمین بن گیا اور اس رحمت کے جلوے انسانی زندگی پر جو ظاہر ہوتے ہیں ان کا بیان قرآن کریم میں ہے.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۸۱)
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنا ۵۲۳ سورة الحج بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحج آیت ۳۱ تا ۳۸ ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِمُ حُرمتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَولَ الزُورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ في مَكَانٍ سَحِيقٍ ذَلِكَ وَ مَنْ يُعَظِمُ شَعَابِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ وَلِكُلِ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ، فَإِلَهُكُمُ اللَّهُ وَاحِدٌ فَلَةَ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّبِرِينَ عَلَى مَا اَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلوةِ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنَهَا لَكُم مِّنْ شَعَابِرِ اللهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَانَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَ كَذلِكَ سَخَّرْنَهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللهَ b b
تغییر حضرت خلیفہ المسیح الثالث على مَا هَدَ لَكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ.۵۲۴ سورة الحج پھر مسلمان کے متعلق یہ کہا کہ سات سو حکم میں نے تمہیں دیا ہے ان میں سے ہر حکم کوئی نہ کوئی حق ادا کر رہا ہے.اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں جس کے نتیجہ میں کوئی حق بھی ادا نہ ہورہا ہو.اسلام کے ہر حکم کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی خدا تعالیٰ کا قائم کردہ حق ادا ہو رہا ہے.پس کہا کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اس کے بندے اس کے احکام بجالائیں تو دوسرے ان کے ساتھ تعاون کریں.تعاون کی آگے پھر کئی شکلیں ہیں مین اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے وہ تو سورہ مائدہ کی ہے اور دوسری سورہ حج کی آیات میں اس اصول کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ اصل چیز اطاعت ہے.ہر بندے کے حق کی ادائیگی کی روح اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اگر وہ نہیں تو پھر کوئی ثواب نہیں ہے.فرما يا وَ مَنْ يُعَظِمُ حُرُمَتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَتے اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ عزتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ بڑی محبوب چیز ہوگی.اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے محبت کرنے لگے گا اور ساتھ ہی یہ تنبیہ کر دی کہ بکری کی یا بھیٹر کی یا دنبے کی یا گائے کی یا اونٹنی کی اس لئے عزت نہیں کرنی کہ کوئی شرک کا سوال ہے.گائے کی عزّت اس لئے نہیں کرنی کہ ہندوؤں کی طرح یہ سمجھا جائے کہ یہ گاؤ ماتا ہے یا یہ بھی ایک خدا ہے یا جو دوسرے جانور ہیں ان کے ساتھ بھی شرک نہیں آنا چاہیے اسی واسطے یہاں شرک کی نفی کی ہے اور شرک کے خلاف تعلیم دی ہے یعنی جہاں یہ فرمایا کہ وَ مَنْ يُعَظِمُ حُرمتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّہ اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ فَاجْتَنِبُوا الرّجسَ مِنَ الأوثان یعنی ان کو خدائی نہیں دینی ہاں ان کو خدا تعالیٰ کا مقررہ کردہ عزت اور احترام دینا ہے.یہاں اس فرق کو نمایاں کر دیا کہ شرک کسی خفیہ راستہ سے بھی انسان کے دل اور دماغ میں گھس کر اسے اندھیرا کرنے کی کوشش نہ کرے اور پھر فرمایا ذلِكَ وَ مَنْ يُعَظِمُ شَعَابِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی عزت قائم کرتا ہے وہ اس لئے کرتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے.وہ شرک کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا یا کسی اور سبب سے بھی نہیں کرتا.اس کو یہ پتہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کی اطاعت میری روح ہے اور میری زندگی ہے.اس کی
۵۲۵ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اطاعت سے باہر ہو کر نہ میری روح میں وہ حیات جس کے لئے وہ پیدا کی ہے پیدا ہوسکتی ہے اور نہ اسے کوئی بقا ہل سکتی ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ روح نے تو باقی رہنا ہے لیکن وہ کیا بقاء ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ جہنم کے اندر نہ زندہ ہوں گے نہ مردہ ہوں گے اور اسی پر زور دینے کے لئے پھر فرمایا کہ ان کے گوشت اور ان کے خون خدا کے حضور عزت کے ساتھ پیش نہیں کئے جاتے تا ان پر کوئی ثواب ملے بلکہ تمہارے دل کا تقویٰ خدا کے حضور پیش ہوتا ہے اور اس پر ثواب ملتا ہے اور جزا نکلتی ہے ان تمام چیزوں کو ہم نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور پھر ان میں سے بعض کو تمہارے لئے ایک خاص وقت تک کے لئے عزت اور عظمت والا قرار دے دیا چنا نچہ ان اونٹنیوں کو یا ان گائیوں کو یا ان بھیڑوں اور بکریوں اور دنبیوں کو جو قربانی کے لئے جا رہی ہوتی ہیں اس وقت سے پہلے کہ ان کو قربان کیا جائے یعنی ان کی قربانی کا وقت آجائے ان کی عزت قائم کی.پھر بعد میں ان کو ذبح کروادیا یعنی ایک وقت میں کہا کہ اگر تم ان کی عزت نہیں کرو گے تو میں ناراض ہو جاؤں گا اور دوسرے وقت میں یہ کہا کہ اگر تم ان کو ذبح نہیں کرو گے اور ان کی جان نہیں لو گے تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا.اور ہمیں بتا یا سحر کا لکھ ہم نے ان کی اس قسم کی تسخیر کی ہے کہ تمہارے ہاتھ سے ہی ان کی زندگی قائم بھی رکھتے ہیں اور تمہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ بُری نگاہ سے ان کی طرف نہ دیکھنا.گویا ایک زمانہ جانور پر یہ آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے ان کی طرف بُری نگاہ سے نہ دیکھنا اور پھر اس پر وہ زمانہ بھی آتا ہے جب خدا تعالیٰ کہتا ہے تم چھری سے ان کو ذبح کر دو پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت تک تمہارے ہی ہاتھ سے میں ان کو زندہ رکھتا ہوں اور پھر تمہارے ہاتھ سے ہی ان کی موت کے سامان پیدا کر دیتا ہوں.سَخَّرَهَا لَكُم اور یہ اس لئے کیا کہ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَد لكم تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اور اس کا جلال موجزن ہوا اور تم خدا تعالیٰ کی حمد کرو کہ کس طرح اس نے ہمیں تمام جھمیلوں سے بچا کر اپنے قدموں پر لا کر بٹھا دیا ہے اور کامل اور حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی ہدایت تمہارے ہاتھ میں دی ہے وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ اور جو حسن تمام اعمال کو حسن کے ساتھ اور توجہ کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور قربانی کے جذبات کے ساتھ اور اپنے آپ کو لا شي محض سمجھنے کے ساتھ کرتے ہیں ان کو بشارتیں دے دو اور چونکہ کبشرِ الْمُحْسِنِينَ میں بشارت کی تعیین نہیں کی اس لئے ہم اس کے یہ معنی کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کی بشارتیں ان کو ملیں گی.
۵۲۶ سورة الحج تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث اسی مضمون کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری وصیت میں بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرمتوں اور اس کے شعائر کی طرف توجہ دلائی ہے (کتاب الحج باب الخطبة ايام الملی) کیونکہ لغت عربی میں شعائر ( جو شعیرہ کی جمع ہے) کے معنی ہیں كُلُّ مَا جُعِلَ عَلَمَّا لِطَاعَةِ اللهِ یعنی وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے بطور نشان قائم کیا جائے اور قرآن کریم کی زبان میں شعیرہ (اس کی جمع شعائر ہے) کے معنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے نشان کے علاوہ اس نشان کے بھی ہیں جو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے.(کتاب الحج باب الخطبة ايام الیلی) دوسرے مذاہب گو اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے لیکن اب ان کی شکل بدل چکی ہے اور وہ محرف شکل میں ہمارے سامنے ہیں.ان میں بہت محمد ودصداقت پائی جاتی تھی اور وہ مختص القوم اور مختص الزمان تھے بعد میں ان میں انسانی ہاتھ نے بڑا رڈو بدل کیا اور ان کی شکل کو مسخ کر دیا.بہر حال جس شکل میں بھی دوسرے مذاہب ہمارے سامنے ہیں.میں تحدی کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان میں سے کسی مذہب نے اپنے مذہب سے باہر والوں کی جان ومال کی حفاظت نہیں کی اور نہ ان کے جذبات کا خیال رکھا ہے نہ ان کی عزتوں کی حرمت کو پہچانا ہے ان کے مقابلہ میں اسلام میں یہ بڑا حسن پایا جاتا ہے کہ اس نے انسان کی عزت اور اس کی جان اور اس کے مال کی حفاظت کا بیڑا اُٹھایا ہے.قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ ایک مسلمان کی ناحق جان نہ لینا ہاں اگر ایک غیر مسلم کی جان نا حق لے لو تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے قرآن کریم اس قسم کی تعلیم نہیں دیتا، اسلام یہ نہیں سکھاتا، اسلام تو یہ کہتا ہے کہ کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم تو حید پرست ہو یا دہر یہ خدا تعالیٰ کو گالیاں نکالنے والا ، انسان ہونے کے لحاظ سے وہ سب برابر ہیں اگر کوئی خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے انتقام لے گا اور اسے سزا دے گا لیکن تمہارا یہ فرض ہے کہ اس شخص کی بھی جان نہیں لینی ، اس کا مال بھی غصب نہیں کرنا اس کے ساتھ بھی دھوکا کا معاملہ نہیں کرنا، اس کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں لگانی ، اس کی وہ عزت اور احترام کرنا ہے جو انسانیت کی عزت اور احترام ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ کہلوایا کہ تم سن رکھو اور اسے یاد رکھو کہ اپنی بیویوں سے ہمیشہ اچھا سلوک کرنا کیونکہ
۵۲۷ مورة الحج تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث خدا تعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے عورت کمزور وجود ہوتی ہے اور اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی.تم نے جب ان کے ساتھ شادی کی تھی تو تم نے خدا تعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کا ضامن ٹھہراتا ہے کہ اس کی اس ضمانت کی وجہ سے جس کا واسطہ دے کر تم نے یہ ذمہ داری لی تھی عورتوں کے حقوق کی پوری طرح نگہداشت کرنا ، ان سے حسنِ سلوک کرنا، ان کی کمزوریوں کو وجہ طعن نہ بنانا بلکہ اس وجہ سے انہیں رحم اور حسن سلوک کا مقام ٹھہرانا.پھر دنیا میں ہمیشہ ہی انسان جنگیں بھی لڑتے آئے ہیں کبھی جائز اور کبھی نا جائز.جائز جنگ کے نتیجہ میں بھی جوجنگی قیدی مسلمان کے ہاتھ میں تھے ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے ایک مسلمان سے کہا کہ تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی کھلانا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی پہنا ؤ جو تم خود پہنتے ہو کیونکہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.اے لوگو! جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں تم اچھی طرح اس کو یا درکھو.پھر انسانی شرف کو اصولی طور پر قائم کرنے کے لئے یہ اعلان کیا کہ تم انسان خواہ کسی قوم اور حیثیت کے ہوانسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو اور پھر یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو اس طرح ملا دیا اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں برابر ہیں اسی طرح تم بنی نوع انسان (مسلمان نہیں ) آپس میں برابر ہو.تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۰۲۰ تا ۱۰۲۳) فَالهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ فَلَةَ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُم یعنی تمہارا خدا اور معبود خدائے واحد و یگانہ ہے اس لئے (آسلموا ) اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو اور اس کے حضور اس طرح اپنی گردن کو جھکا دو جس طرح ایک بکرا قصاب کی چھری کے سامنے مجبور ہو کر اپنی گردن جھکا دیتا ہے.تم طوعاً اور بشاشت کے ساتھ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بن جاؤ.وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْن اور ہم اس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان لوگوں کو اپنے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے
۵۲۸ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سامنے عاجزی وہ کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تو اس کا دل کانپ اٹھتا ہے اس کا دل گداز ہو جاتا ہے جس کا دل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر گداز نہیں وہ محبت اور عاجزی کرنے والا نہیں بن سکتا اور جو عاجز نہیں جو محبت نہیں وہ اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا اور جو مسلمان نہیں وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کرتا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۷۰) آیت ۴۰ أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ میں یہ بتارہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک انگوٹھی پر ”مولا بس“ کندہ ہے.اس حقیقت کو جب ایک مسلمان پہچان لیتا ہے تو پھر اس کے لئے دنیا کے اموال میں، دنیا کی قوتوں اور استعدادوں میں، دنیا کی ذہانتوں اور فراستوں میں کوئی کشش نہیں ہوتی.وہ سمجھتا ہے ”مولا بس“ اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو شروع میں ایک لمبے عرصہ تک دکھ سہنے پڑے، ان کو دھوپ میں لٹایا گیا، ان پر پتھر رکھے گئے اور جس طرح بھی ممکن تھا ان کو تکالیف دی گئیں لیکن انہوں نے انتہائی ثبات قدم کا نمونہ دکھایا کیونکہ ان کو خدا کا یہ حکم تھا کہ جو خدا نے کہا ہے وہ تم نے کرنا ہے.پھر اس کے بعد خدا تعالیٰ نے کہا:- أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین پر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے اس لئے ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ ظلم کا مقابلہ کریں.تب انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے پاس سیف ہندی یا زنگ آلود معمولی سی تلوار ہے (ہندوستان کی بنی ہوئی تلواریں بہت مشہور تھیں، بڑے اچھے لو ہے اور بڑی تیز دھار والی تھیں) غرض دنیا کی بہترین تلوار کفر کے ہاتھ میں تھی اور مسلمانوں کے ہاتھ میں زنگ آلود تلوار میں تھیں جن پر دندانے پڑے ہوئے تھے اور کچھ تو مانگی ہوئی تھیں.انہوں نے کہا.مولابس.چنانچہ ٹوٹی ہوئی تلوار میں لے کر ننگے پاؤں لڑنے کے لئے چلے گئے کیونکہ خدا نے کہا تھا لڑو.مارنے اور ہلاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ عرب میں امن اور آشتی پیدا کرنے کے لئے.یہ دفاعی جنگ تھی ظلم کو مٹانے اور جنگوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اور پھر فتح مکہ کے موقع پر تھوڑے سے ہتھیار استعمال ہوئے مگر جنگوں کا خاتمہ ہو گیا.چنانچہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۵۲۹ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کی شان ظاہر ہوئی کہ عمر بھر کے جو ویری اور دشمن تھے ان کو لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا نعرہ لگا کر خدا تعالیٰ کی رحمت کی جنتوں کی طرف دھکیل دیا.جو لوگ اسلام کے دشمن تھے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اور مسلمانوں کے دشمن تھے ان کے کانوں میں جب اس نعرہ کی آواز آئی تو وہ جا کر اسلام لے آئے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بن گئے.پس حقیقت یہی ہے کہ مولا بس.اور آج کی دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ایک ایسی جماعت ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم بھی ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں.ہماری زندگی بھی اسی بنیاد پر استوار ہے کہ مولا بس.ہماری روح کی بھی یہی آواز ہے.خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ سے اتنا پیار کرتا ہے کہ سوائے اس گروہ کے انہوں نے بہت قربانیاں دیں.ان کے ساتھ تو ہم مقابلہ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے بڑا مقام حاصل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اور آپ سے تربیت حاصل کر کے.لیکن وعدہ دیا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی صحبت اور روحانی تربیت جو ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر اور ایک شان کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تربیت اور آپ کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں اس جماعت کو بھی ملے گی جو جماعت مہدی پر ایمان لائے گی اور ليظهرة عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:۱۰) میں جو وعدہ دیا گیا تھا پیار کے ساتھ اور اسلامی تعلیم کے حسن کے نتیجہ میں ساری دنیا کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رب کریم کے لئے جیتے جائیں گے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۷۱، ۷۲) آیت ۴۷ اَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بها أوْ أَذَانَ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ فرمایا کہ آنکھوں کی بصارت کا ذکر ہم نہیں کرتے.وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج : ۴۷) جو دلوں میں قلوب ہیں یعنی Mind اور وہ عقل کا سر چشمہ اور علم کا جو ہے وہ اندھا ہو جاتا ہے اور اس میں امام راغب کہتے ہیں عقل کی طرف اور علم کی طرف اشارہ ہے اور اندھا پن بھی ہے یعنی جو عقل اندھی بھی ہوتی ہے.ہمارے اردو میں بھی محاورہ آ گیا ہے اور عقل بہری بھی ہوتی ہے یعنی جو
۵۳۰ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس کے فائدہ کی بات ہے وہ سننے کے لئے تیار.ایک لڑائی ہو جاتی ہے.مادی دلچسپیوں کی روحانی حقائق کے ساتھ.اور عقل جو ہے وہ مادی دلچسپیوں میں کھوئی جاتی ہے اور گم ہو جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے اور مرجاتی ہے اور جس غرض کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے اس غرض کو وہ پورا نہیں کر رہی ہوتی یا اسے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق عمل کرنے کے نتیجہ ( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۸۲) میں حیات ملے.آیت ۷۸ ۷۹ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَ جَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلَكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ b پس بہت سے ظاہری سجدے کرنا اور روزے رکھنا یا اسراف کرتے ہوئے اموال کو خرچ کرنا اور ظاہر یہ کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہے حالانکہ دل میں در حقیقت اس سے دنیا کو خوش کرنا مقصود ہو تو اس طرح کی عبادت وغیرہ کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے کے مترادف ہے.پس صرف ظاہر پر زور دینا مناسب نہیں ہے.یہ صحیح ہے کہ ظاہر کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے اور اس کا اپنا ایک فائدہ ہوتا ہے جس طرح اس مادی دنیا میں پھل بغیر چھلکے کے نہیں ہوتے اسی طرح روحانی دنیا میں بھی کوئی لذت اور سرور اور لذت اور سرور کا کوئی ذریعہ اور وسیلہ بھی بغیر چھلکے کے نہیں ہوتا.اس کا بھی ایک ظاہر ہوتا ہے.پس یہ درست ہے کہ باطن کے ساتھ ظاہری پاکیزگی کا جو تعلق ہے وہ بھی قائم رہنا چاہئے لیکن مغز اور حقیقت بہر حال باطن ہے.بہر حال روح ہے، بہر حال ابدی صداقت ہے جو اللہ تعالیٰ میں ہو کر انسان حاصل کرتا ہے اور جو یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور ہر خیر اور خوبی اُسی سے انسان حاصل کر سکتا ہے کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳۱ مورة الحج بہر حال عبادت جو ہے وہ روح کے بغیر ایک بے حقیقت اور بے نتیجہ چیز ہے اور اس کا کوئی ثمرہ ظاہر نہیں ہوتا اور انسان کو اس کا کوئی پھل حاصل نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ بڑے مختصر الفاظ میں لیکن بڑے زور کے ساتھ عبادت کی حقیقت کو واضح کیا ہے.آپ فرماتے ہیں :.”انسان خدا کی پرستش کا دعوی کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پرستار الہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اُس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے.اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزش محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اُس کا نام پرستش ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۴) پس جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں بنیادی نکتہ وَاعْبُدُوا رَبَّكُمُ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! تم نے ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک عظیم ذمہ داری اپنے کندھوں پر یہ اُٹھائی ہے کہ تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور جس بات کی طرف ہم تمہیں جلاتے ہیں اور جس پر ایمان لانے کا ہم تمہیں کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو.عبودیت تامہ کے حصول کی کوشش کرو اور اسی میں ہمہ تن لگے رہو اور اس کی طرف ہمیشہ متوجہ رہوتا کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک سچے بندے اور حقیقی عبد بن جاؤ.چنانچہ عبودیت تامہ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس مذکورہ آیہ کریمہ میں دو بنیادی باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے.ایک ہے تہی ہونا جس کی طرف یایھا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا کے الفاظ میں رکوع کی طرف اشارہ ہے.رکوع کے معنی تذلل اور عاجزی اختیار کرنے کے ہیں.یعنی انسان خود کو بھی اور اپنے جیسوں کو بھی
۵۳۲ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفہ مسح الثالث انتہائی طور پر عاجز تصور کرے اور اپنے میں کوئی طاقت نہ پائے اور ہر قسم کی طاقت اور قوت اور ہر قسم کی خیر اور بھلائی کا منبع وسر چشمہ اللہ تعالیٰ کو سمجھے.خدا کے سوا ہر چیز میں اسے نقص ہی نظر آئے خوبی نظر نہ آئے.اس کی نگاہ میں ہر خوبی اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والی ہو.یعنی وہ اس یقین پر قائم ہو کہ جس جگہ کوئی حسن یا جس جگہ کوئی احسان کا جلوہ یعنی آگے فائدہ پہنچانے کی طاقت اُسے نظر آتی ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہے کیونکہ یہ اُسی کے حسن کا پر تو اور اسی کے احسان کا ایک رنگ اور جلوہ ہے.پس حقیقی عبادت کے لئے پہلا مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ انسان عاجزانہ راہوں کو اور تذلل کی راہوں کو اختیار کرے یعنی خود کو کچھ بھی نہ سمجھے اور دنیا کی ہر مخلوق کو ایک مُردہ چیز تصور کرے اور خیر اور بھلائی کا سر چشمہ اور منبع سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی اور کو نہ سمجھے.پس ماسوائے اللہ کے ہر چیز کی نفی وجود ہے.حقیقتا اللہ تعالیٰ ہی باقی ہے دنیا میں یہ مختلف چیزیں تو دراصل اس کی صفات کے جلوے ہیں جو در اصل كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ (الرَّحْمن :۳۰) کے مصداق ہیں.اللہ تعالیٰ ایک جلوہ دکھاتا ہے پھر اس کو مٹا دیتا ہے اور پھر ایک اور جلوہ دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے اِن جلوؤں کو ایک چکر دیتا ہے.چنانچہ اس طرح اس کی مخلوق کے مختلف پہلو سامنے آ جاتے ہیں.مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے وہ پیدائش والے دن بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے بہت سے جلوے دکھا رہا ہوتا ہے.وہ محبت جو انسان کی فطرت میں اپنے رب کے لئے ہے اس محبت کی ظاہری اور مادی شکل پیدائش کے وقت بچے میں ہمیں نظر آتی ہے کہ وہ بے اختیار اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے حالانکہ اُس وقت نہ وہ کسی سکول میں گیا ہوتا ہے اور نہ کوئی کلاس Attend ( اٹنڈ) کی ہوتی ہے لیکن یہ اس کی طبیعت میں اور اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے سکھائی گئی ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی بزبانِ حال اپنی والدہ سے اپنی زندگی اور بھلائی اور خیر کی بھیک مانگنے لگ جاتا ہے اس کو بتایا گیا ہے کہ تو بھی فانی، تیری ماں بھی فانی ان کے ساتھ میں نے جب تیری بھلائی وابستہ کر دی ہے تو میں جو ہمیشہ حالی اور ہمیشہ قیوم ہوں اور میں جو سر چشمہ ہوں ہر قسم کی خیر کا اور منبع ہوں ہر قسم کی بھلائی کا ، میری طرف اپنی ماں سے بھی زیادہ رجوع کرو اور میرے ساتھ اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ گہرے اور شدید اور حقیقی اور سے تعلق کو قائم کرو تا کہ تم ہر قسم کی خیر اور برکت مجھ سے حاصل کرو.
۵۳۳ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث پس اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز حادث ہے وہ اپنی ذات میں زندہ نہیں.نہ اپنے زور سے وہ زندہ رہ سکتی ہے، نہ اپنے زور سے اپنی قوتوں اور طاقتوں کو قائم رکھ سکتی ہے ، نہ اپنے زور اور طاقت سے وہ اپنی استعدادوں کو صحیح طور پر نشوونما دے سکتی ہے ہر خیر اور ہر بھلائی کسی بھی رنگ کی کیوں نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ سے آتی ہے اس لئے ان چیزوں کو اس سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس پہلا سبق ہمیں یہ دیا گیا ہے کہ ہم فنا کو اپنے اوپر وارد کر یں.ایک ہی ذات کو زندہ اور قائم رہنے والی سمجھیں اور یہ ہمارے رب کی ذات ہے.توحید حقیقی کا احساس اپنے دل میں پیدا کریں اور وہ اس طرح پیدا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو ایک مردہ اور نیست اور لاشے محض سمجھیں.ہم اپنے نفس کو بھی ، اپنی طاقتوں کو بھی، اپنے دماغ کو بھی ، اپنی عبادتوں کو بھی ، اپنے اموال کو بھی ، اپنی قربانیوں کو بھی اور اپنے ایثار کو بھی اور دوسروں کو بھی، غرض ہر چیز کولاشے محض سمجھیں اور ہر چیز کو بالکل بے حقیقت قرار دیں یہ ہے رکوع اور اس کی حقیقت.حقیقی عبادت کا دوسرا مطالبہ سجدہ ہے.یعنی جب نفس پر فنا وارد کر لی تو اس سے ابھی حاصل کچھ نہیں ہوا کہ انسان وہیں ٹھہر جائے یعنی اگر ہم خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز کو زندہ اور قائم رہنے والی ذات نہ سمجھیں تو یہ ایک صداقت ہے لیکن ابھی ہم نے اس مقام پر اس سے کچھ حاصل نہیں کیا اس واسطے دوسرا حکم یہ دیا کہ سجدہ کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرو اور کامل اطاعت کے نتیجہ میں تمہیں عبودیت تامہ حاصل ہوگی.ان دونوں چیزوں یعنی ایک یہ کہ اپنے اوپر فنا وارد کرنا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنا اس کا نام عبودیت تامہ ہے.یعنی جب کامل فنا انسان کی ذات پر وارد ہو جائے اور کامل اطاعت کا نمونہ اس کی زندگی میں نظر آنے لگے تو اس صورت میں اگر حقیقتا باطن میں اخلاص اور نیک نیتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ شخص عبد تام ہوگا اور عبودیت تلتہ کو حاصل کر چکا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ میری سچی اور حقیقی عبادت کرو تو ساتھ ہی اس کے لئے تمہیں دو راہیں بھی بتا دیتا ہوں کیونکہ اپنی طرف سے تم ان راہوں کو بھی حاصل نہیں کر سکتے ، اپنی کوشش سے تم ان وسائل کو بھی نہیں پاسکتے جو کہ عبودیت تامہ پر منتج ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کو ظاہر کرتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی اور اس کے نور کے جلوے دل اور دماغ پر بٹھاتے ہیں جس کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا
۵۳۴ سورة الحج تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ایک کامل قرب حاصل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے زور اور اپنی طاقت اور اپنی عقل اور سمجھ اور اپنے مجاہدہ سے ان وسائل کو حاصل نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہیں دو باتیں بتاتے ہیں کہ اگر تم ان کو اختیار کرو گے تو عبد تام یعنی ایک کامل اور حقیقی عبد اور سچے بندے بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہیں عبودیت تامہ حاصل ہو جائے گی.ایک یہ کہ اپنے نفسوں پر فنا وارد کرو اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اتباع اور اطاعت کرو.پہلے انسان نے اپنے اوپر فنا وارد کی ، ہر چیز خالی ہوگئی، انسان کی تختی خالی اور صاف ہوگئی تو پھر اطاعت ہوگی اور اطاعت میں جوں جوں وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو وہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جائے گا جس کے نتیجہ میں پھر وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن جائے گا.پس حقیقی عبد بننے کے لئے ان دو راہوں کو ایک ہی وقت میں اختیار کرنا ضروری ہے.ایک یہ کہ کامل طور پر اللہ تعالیٰ میں فنا ہو جانا اور دوسرے یہ کہ کامل اطاعت کا نمونہ اپنی زندگیوں میں دکھانا ورنہ محض زبانی وعدوں سے انسان اللہ تعالیٰ کی اس رضا کو حاصل نہیں کر سکتا جسے اُس نے اس مذکورہ آیہ کریمہ میں فلاح کے نام سے پکارا ہے یعنی ایسی کامیابی جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی ممکن نہیں اور جو انسان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی.اللہ تعالیٰ نے یہاں اس مذکورہ آیت میں فرمایا ہے کہ جب تم فانی فی اللہ بن جاؤ گے، میرے اندر غائب ہو جاؤ گے، تمہارا اپنا وجود نہیں رہے گا اور جب تمہارا اپنا وجود نہیں رہے گا تو پھر تمہاری نگاہ میں تمہارے ماحول میں جو دوسری مخلوق ہے وہ بھی تمہیں نیست اور لاشے محض ہی نظر آئے گی اور جب تم میری کامل اتباع کو اختیار کر کے میرے کامل بندے بن جاؤ گے تو اس طرح میرا رنگ تم پر چڑھ جائے گا اور میرے اخلاق تمہارے اخلاق بن جائیں گے.اس حقیقت کو ہم بھی فَنَا فِي اخْلَاقِ الله کا نام بھی دیتے ہیں اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ اللہ کا ارشاد اسی کی طرف اشارہ کرتا اور یہی ہدایت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ اور اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ.پس عبد کامل کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حسن کے عظیم جلوے نظر آتے ہیں لیکن حسن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے تو احسان کے جلوے بھی اس دنیا میں جاری وساری ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہم جب اللہ تعالیٰ کی صفات
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳۵ سورة الحج پر غور کرتے ہیں تو اُن میں حسن ہی حسن نظر آتا ہے اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام جہانوں کا نور ہے اور یہ اس کا حسن ہے اور جب اس کا یہ حسن یعنی اس کی صفات حسنہ عملاً مخلوق میں جلوہ افگن ہوتی ہیں تو یہی صفات احسان کا رنگ رکھتی ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ کا رحمن ہونا ہے یہ اس کی بطور صفت کے ایک نہایت ہی حسین صفت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اندر یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بغیر استحقاق کے احسان کرتا چلا جاتا ہے.یہ اس کی بطور صفت کے ایک نہایت ہی حسین صفت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اندر یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بغیر استحقاق کے احسان کرتا چلا جاتا ہے وہ اپنی مخلوق پر رحمت کی بارش برساتا ہے جب کہ اس کے کسی عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ابھی کسی بدلے یا جزاء کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ فی ذاتہ ایک انتہائی حسین خوبی ہے اور ایک بڑی ہی حسین صفت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا معاملہ اس کی مخلوق سے ہونے لگتا ہے تو اس کے احسان ہی احسان نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے زید کو، بکر کو، مجھے اور آپ کو وہ نعمتیں عطا کی ہیں کہ جن کا استحقاق ہم نے اپنی کسی تدبیر یا عمل یا دعا سے پیدا نہیں کیا تھا.ابھی ہم پیدا ہی نہیں ہوئے تھے لیکن ابھی بچہ پیدا نہیں ہوتا کہ ماں کی چھاتیوں میں اس کے لئے دودھ پیدا کر دیا جاتا ہے.ابھی انسان اس دنیا میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس زمین یا اس الارض میں ایسی متوازن غذا ئیں پیدا کر دی گئی تھیں جو انسانی جسم کی ساخت کے بالکل موافق اور اس کی ضرورتوں کے مطابق تھیں.یعنی جس قسم کی کسی کو ضرورت ہو سکتی تھی اس کے مطابق مختلف اور مناسب حال غذا ئیں پہلے سے پیدا کر دی گئیں.یہ نہیں کہ پہلے تو اس نے انسان کو پیدا کر دیا ہو اور بعد میں اس کی غذاؤں وغیرہ کا خیال رکھا ہو اور یہ عمل تو شاید ہزاروں لاکھوں سال سے پہلے شروع ہو گیا تھا.پس وہ مخلوق خدا جو اس لئے پیدا کی جانی تھی کہ وہ اپنے رب سے ایک حقیقی اور زندہ اور اپنے اختیار سے ( یعنی اختیار کے رنگ میں باقی تو ہر مخلوق کا تعلق اپنے رب سے ہی ہے لیکن اختیار رکھتے ہوئے اثر رکھتے ہوئے علی وجہ البصیرت قربانیاں دیتے ہوئے ) وہ اپنے رب سے تعلق پیدا کرنے والی مخلوق ہوگی.پس جس وقت وہ اس دنیا میں پیدا ہوتو وہ بھوکی نہ مرے.چنانچہ غذاؤں کے علاوہ پانی کا انتظام پانی کی صفائی کا انتظام پانی کو جراثیم سے پاک رکھنے کا انتظام اور پھر اس کو مختلف جگہوں پر پہنچانے کا انتظام غرض پانی کی فراہمی کے سلسلہ میں ہزار قسم کے انتظام کئے اور نہ صرف کھانے پینے کی چیزوں میں بلکہ دوسری تمام
۵۳۶ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث چیزوں میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے جلوے ہی جلوے نظر آتے ہیں اور پھر یہ سارے جلوے انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت بغیر استحقاق حق کے نظر آ رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ جو صفت حسنہ بیان فرمائی ہے جس وقت اس حسین اور خوبصورت صفت کے جلوے انسان پر ظاہر ہونے لگتے ہیں تو وہ احسان بن جاتے ہیں.وہی حسن جو ہے وہ احسان کا روپ اختیار کر لیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم عاجزی، انتہائی عاجزی اور کامل اتباع کو اختیار کر کے حقیقی معنوں میں میراحسن اپنی زندگیوں میں پیدا کر لو گے تو پھر میری طرف سے تمہارے اندر یہ طاقت بھی ودیعت کر دی جائے گی کہ جس طرح تم میرے حسن کو میرے فضل اور میرے رحم سے اپنی زندگی میں سمیٹے ہوئے ہو گے اسی طرح میرے احسان کے جلوے بھی تمہارے اندر سے پھوٹ پھوٹ کر نکلنے لگیں گے.پھر تم وافعَلُوا الْخَيْرَ اس قابل ہو جاؤ گے کہ تم خیر اور بھلائی کی باتیں کرو یعنی پھر تم اس بات کے قابل ہو جاؤ گے کہ تم اپنے نفسوں پر اور اپنے بھائیوں پر یا خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق پر احسان کرو.اپنے نفس کے حقوق بھی ادا کرنے والے اور اپنے بھائیوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہو جاؤ اور اسی طرح بنی نوع انسان کے حقوق کو بھی ادا کر نے لگ جاؤ اور پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری مخلوق کے جو حقوق قائم کئے ہیں ان کی ادائیگی میں بھی کوشاں رہو.پس مذکورہ آیت میں جو مرکزی نکتہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے انسان! میں نے تجھے عبادت تامہ کے لئے پیدا کیا ہے پس کامل عبد بننے کی کوشش کر اور تو خود اپنی کوشش سے اس راہ کو پا نہیں سکتا جس کا کامل عبد بننے کے لئے حاصل کرناضروری ہے اس لئے ہم دومتوازن را ہیں تجھے بتا دیتے ہیں.ایک فنا کی راہ ہے اور دوسری اطاعت کی راہ ہے.ایک وہ راہ ہے جس کے نتیجہ میں توحید خالص پر تو قائم ہو جائے گا اور دوسری وہ راہ ہے جس کے نتیجہ میں توحید خالص پر قائم ہو کر توحید خالص کے تقاضوں کو تو پورا کرنے لگے گا یعنی اپنے رب کی اتباع اور اطاعت میں لگا رہے گا اور جس وقت تو میرا کامل بندہ بن جائے گا تو پھر تو اس قابل ہو جائے گا اور اپنے اندر یہ طاقت رکھے گا اور یہ استعداد تجھ میں پیدا ہو جائے گی کہ میں تجھے یہ حکم دے سکوں وَافْعَلُوا الْخَيْرَ یعنی دوسرے بندوں کے ساتھ یا دوسری مخلوق کے ساتھ یا خود اپنے نفس کے ساتھ خیر یعنی بھلائی کا معاملہ کرے کیونکہ میرا
۵۳۷ سورة الحج تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث حسن جس طرح میرے وجود میں ایک تو نور کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اس طرح وہ میرے وجود میں احسان کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے.جب تو میرا کامل بندہ بن جائے گا اور میری صفات کا رنگ تجھ پر چڑھ جائے گا تو پھر یہ دونوں چیزیں تیرے اندر پیدا ہو جائیں گی.میرے حسن کا نور بھی تیرے وجود میں پیدا ہو جائے گا اور میرے احسان کے جلوے بھی تیرے وجود میں میری مخلوق مشاہدہ کرے گی تو اس قابل ہو جائے گا کہ وَافْعَلُوا الخَیر کے الفاظ میں میرا یہ حکم سن کر خیر اور بھلائی کے کام کرنے لگ جائے کیونکہ اس کے عمل پیرا رہنے کی تجھ میں طاقت ہوگی.پس جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بن جاتا ہے اور عبودیت تامہ اُسے حاصل ہو جاتی ہے تو وہ گو یا اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق کے مطابق اس کے اخلاق بن جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو اس کی زندگی کے ہر زاویہ اور ہر شعبہ پر پڑتا ہے.پس انسان کے کامل عبد بن جانے کی صورت میں جہاں دنیا اُس کے وجود میں حسن باری تعالیٰ کے جلوے دیکھتی ہے وہاں دنیا اس کے وجود میں اللہ تعالیٰ کے احسان کے جلوے بھی دیکھتی ہے اور یہ کامل عبد جو اللہ تعالیٰ کا ہم رنگ بن گیا یہی وہ انسان ہے جس نے وہ حقیقی اور انتہائی کامیابی حاصل کی اور فلاح پائی جس سے بڑھ کر کسی انسان کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کامیابی اور اس فلاح کی صورت میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کا ابدی سرور حاصل ہوا.ایک ایسی لذت نصیب ہوئی جس کے مقابلے میں دنیا جہاں کی لذتیں بالکل بیچ ہیں.پس انسان کو اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ اور حقیقی عبد بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.حقیقی عبد بنے کی راہیں بتا دی گئی ہیں اور ان پر چل کر جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کو بھی بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہی ہیں کہ جب انسان ان راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن جاتا ہے تو پھر وہ ان کامیابیوں اور فلاح سے ہمکنار ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کی ہیں مگر وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے نہیں بنتے وہ بڑے ہی بد قسمت ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میرے قریب آنے کی بجائے مجھ سے دور چلے جاتے ہیں اور اس طرح فلاح اور کامیابی میں میرے پیار اور رضا کی لذت اور سرور کو پاہی نہیں سکتے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بنے کی کوشش کرنی چاہئے.عبودیت تامہ کے حصول کے لئے کوئی
۵۳۸ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کسر اُٹھا نہیں رکھنی چاہئے تا کہ ہماری زندگی کا مقصد ہمیں حاصل ہو جائے وہ کامیابی ہمیں مل جائے جو ہمارے مقدر میں ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کا سلوک ہم سے ہونے لگے اور اس کی رضا کی نگاہ ہم پر پڑنے لگے اور اس کا ایسا پیار ہمیں نصیب ہو کہ جس کے بعد انسان کسی اور چیز کی ضرورت اور احتیاج محسوس نہیں کرتا.اے خدا تو ایسا ہی کر.آمین خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۹۷۷ تا ۹۸۴) ہمارے اندر اس مجاہدہ اور اس جہاد کی صفت ہونی چاہئے کہ جو کام کرنا ہے اس کو جہاں تک ہماری طاقت اور استعداد کا تعلق ہے انتہا تک پہنچا دینا ہے راستہ میں نہیں چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمُ الله تعالیٰ ان آیات میں یہ فرماتا ہے کہ الہی احکام کی تعمیل میں اپنی گردنیں جھکا دو وَاعْبُدُوا اور کمال ادب اور کمال نیستی اور تذلل اختیار کر کے عبادت میں لگ جاؤ وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ قرآن کریم کے بتائے ہوئے سارے ہی احکام پر عمل کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.عام معمولی کام نہیں کرنے بلکہ آگے فرما یا وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَلكم اس نے تمہیں امتِ مسلمہ بنا کر ایک برگزیدہ مقام عطا کیا ہے اس لئے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ ہم نے تمہیں مجتبی بنایا ہے.برگزیدہ جماعت بنایا ہے.وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو ورنہ یہ بزرگی تم سے واپس لے لی جائے گی اور ایک وہ قوم کھڑی کی جائے گی جو اسلام کو دنیا میں غالب کرے گی.غرض اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا احسان اپنا یاد دلایا اور پھر ایک یہ مطالبہ کیا.اللہ تعالیٰ نے احسان یاد دلایا کہ دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور بعد میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک برگزیدہ جماعت قرار دیا تھا اور حقیقی معنی میں امت مسلمہ انہیں ٹھہرایا تھا.انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس پیار کے نتیجہ میں اس کی راہ میں اپنی ساری کوششوں اور طاقتوں کو خرچ کر دیا اور جہاد کا حق ادا کر دیا پھر بعض لوگوں کی غفلت اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں لیکن امت مسلمہ شروع سے لے کر قیامت تک جو ہے اس میں سے بعض کے الفاظ میں بول سکتا ہوں.ویسے تو نہیں بہر حال انہوں نے اس احسان کو یاد نہیں رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں برگزیدہ بنایا ہے اور اس اجتباء کے نتیجہ میں جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے وہ انہیں ادا کرنی چاہئے پس ان
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث سے وہ بزرگی چھین لی گئی.۵۳۹ سورة الحج خطابات ناصر جلد صفحه ۲۴۱،۲۴۰) تو دیکھو کتنا تذلل کا زمانہ آیا بعض دفعہ اپنی تاریخ کو پڑھ کر رونا آتا ہے کہ کوئی ایسی ذلت نہیں جو ہمارے تصور میں آسکے اور وہ مسلمانوں کو سہنی نہ پڑی ہو سب کچھ چھن گیا.دنیا کی عزت چھن گئی اور روحانی نعمتیں بھی چھینی گئیں اللہ تعالیٰ اب آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے آسمان پر اسلام کے غلبہ کا فیصلہ کیا اور اس غلبہ کے لئے تمہیں اے جماعت احمد یہ ایک برگزیدہ مقام عطا کیا ہے کہ تمہیں اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا ہوئی.یہ بزرگی جو تمہیں دی گئی ہے یہ تم پر ایک فرض عائد کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تم خدا اور اس کے دین کی راہ میں اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں اور اموال اور عزتوں کو خرچ کر دو.پس وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِہ پر عمل کرو تا کہ تمہاری یہ بزرگی قائم رہے.جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے بندوں اور اپنی مخلوق پر احسان پر احسان کئے جا رہی ہیں.کوئی لحظہ ایسا نہیں کہ مخلوق پر اس کے رب کا احسان جاری نہ ہو اسی طرح جب اس کا بندہ ، اس کا بندہ بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق اس کی زندگی میں اس طرح صفات باری کے جلوے دیکھتی ہے جس طرح کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب میں دیکھتی ہے اور اس وقت ہی انسان اس حکم کو صحیح طور پر بجالا سکتا ہے کہ وافَعَلُوا الخَيْرَ نیکیاں اور بھلائی اور احسان کرتے چلے جاؤ.انسان کی زندگی اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو کے نیچے اسی کے فضل سے اس کی مخلوق کے لئے بھلائی ہی بھلائی بن کر رہ جائے یہ نقشہ ہے جو اس چھوٹی سی آیت میں کھینچا گیا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ عبودیت تامہ کے حصول کے دوطریقوں اور عبودیت تامہ کے نتیجہ میں کس طرح ایک خیر اور بھلائی اور نیکی اور حسن سلوک اور احسان عظیم کا ایک عظیم دریا بہتا ہے اور اس کے ساتھ اگلی آیت وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس مقام کے حصول کے لئے محض محبت کافی نہیں بلکہ اس انتہائی محبت کی ضرورت ہے جو جہاد کے حق کو اور کوشش اور سعی کے حق کو پورا کرنے والی ہوا اور محض اطاعت کافی نہیں بلکہ ایسی اطاعت کی ضرورت ہے جو اطاعت کا حق ادا کرنے والی ہو اور محض خیر پہنچانا ہی کافی نہیں بلکہ انتہائی طور پر خیر پہنچانے کی ضرورت ہے جس پر حق جِهَادِہ صادق آئے.اور اس اگلی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم میری راہ میں عبودیت تامہ کے حصول
۵۴۰ مورة الحج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے بعد بنی نوع انسان سے اور مخلوق خدا سے عام طور پر حسن سلوک میں جو جہاد کا حق ہے کوشش اور سعی کا جو حق ہے وہ ادا کرو گے تو پھر میرے ساتھ تمہارا پختہ تعلق قائم ہو جائے گا اور تمہاری یہ زندگی ایک طرف اللہ تعالیٰ کو بڑی محبوب ہوگی اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی مخلوق تمہارے ساتھ محبت اور پیار کا تعلق رکھے گی اور اگر سارے بندے اس قسم کے ہو جائیں گے تو سارے معاشرہ کی اور تمام دنیوی تعلقات کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی محبت پر قائم ہوگی اور وہ معاشرہ بڑا ہی حسین معاشرہ ہوگا اور وہ تعلقات بڑے ہی حسین تعلقات ہوں گے اور بڑی ہی حسین زندگی ہوگی جو اس زمانہ میں اس زمانہ کے انسان گزاریں گے.اس کے لئے جماعت احمدیہ پر فرض ہے کہ وہ ہر طرح کوشش کرتی رہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے جو اس سے دور ہو گئے ہیں اپنے رب کے مقام کو پہنچا نیں اپنی زندگی کے مقصد کو جانے لگیں اور اپنے رب کی طرف لوٹیں اور اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کریں اور یہ کوشش (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۹۸۶، ۹۸۷) جاری ہے.قرآن عظیم نے مسلمان کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں.سب سے کمزور وہ مسلمان ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کے علم میں ہے یہ بات کہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا لیکن تمہیں اجازت دی جاتی ہے کہ اپنے آپ کو اگر چاہو تو مسلمان کہہ سکتے ہو.اور دوسری طرف اس مسلمان کا ذکر ہے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں مُؤْمِنُونَ حَقًا کے گروہ میں داخل ہے.ان کے درمیان بھی بعض ایسے مسلمان کہلانے والوں کا یا جن کو اللہ تعالیٰ نے دائرہ اسلام میں داخل سمجھا ہے، ذکر ہے جو ان دو کے درمیان آتے ہیں.سورہ حج کی آخری دو آیات میں مُؤْمِنُونَ حَقًّا اور وہ مومن جو مُؤْمِنُونَ حَقًّا سے ذرا کم درجے کے ہیں، وہ دونوں ہی داخل ہو جاتے ہیں لیکن وہاں مُؤْمِنُونَ حَقًّا کی بہت زبر دست تفسیر کی ہے خود قرآن کریم نے اپنی زبان میں.آخری سے پہلی آیت میں یہ ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو! جو اپنے آپ کو مومن کہتے ہو یا ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہور کوع اور سجدہ کرو.وَاعْبُدُوا رَبَّكُمُ اپنے رب کی عبادت ان تمام عبادات کے احکام کے ماتحت کرو جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے یعنی حقوق اللہ کو ادا کرنے کی کوشش کرو.اپنی قوت اور استعداد اور سمجھ اور صلاحیت کے مطابق وَافْعَلُوا الْخَيْرَ اور
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۴۱ سورة الحج خدا تعالیٰ کی مخلوق سے بھلائی کا سلوک کرو.دوسری جگہ فرمایا تھا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 1) تم خیر امت اس لئے ہو کہ لوگوں کی خیر کے لئے تمہیں قائم کیا گیا ہے.اگر تم حقوق اللہ کو ادا کرو گے اور حقوق العباد کو بھی اپنی طاقت کے مطابق ادا کرو گے لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تو تم ایسی فلاح اور کامیابی کا حاصل کرو گے جو تمہاری زندگی کا آخری مقصد ہے.آخری آیت میں پھر فرمایا وَ جَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو.قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ یہ جہاد جس کا اسلام حکم دیتا ہے یہ تین شقوں پر مشتمل ہے.ایک جہاد ہے جس کا تعلق خود انسان کے اپنے نفس کے ساتھ ہے کہ وہ انتہائی کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو قو تیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں ان کو الہی منشاء کے مطابق اور قرآن کریم کے احکام کے نیچے چلتے ہوئے کمال نشو ونما تک پہنچائے.یہی نیکی ہے حقیقتا.جو بہترین نیکی کی تعریف قرآن کریم میں مجھے نظر آئی ، ہو سکتا ہے کہ کسی اور کو کوئی اور نظر آ جائے بہر حال جو مجھے نظر آئی وہ یہی ہے کہ جو قوت اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو دی ہے اسے الہی منشاء کے مطابق نشو ونما دینا اور استعمال کرنا، یہ نیکی ہے.خدا تعالیٰ نے مثلاً جسمانی طاقتیں دیں.نیکی یہ ہے کہ جسمانی طاقتوں کی نشو ونما، اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت کی جائے.اب یورپین اقوام اپنی جسمانی طاقتوں کی نشوونما کے لئے سور کا گوشت اور اس کی چربی استعمال کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف وہ ایسا کرتے ہیں اور خود ان کے محققین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جسمانی طور پر وہ نقصان اٹھاتے ہیں اور یہ نقصان دو قسم کے ہیں.ایک ایسا نقصان جو ہر سور کھانے والے کو نہیں پہنچتا لیکن امکان ہے کہ ہرسؤر کھانے والے کو نقصان پہنچ جائے لیکن بعض کو پہنچ جاتا ہے.ایک خاص بیماری ہے بڑی خطرناک قسم کی جو سور کے گوشت کے کھانے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے اور ایک نقصان یہ ہے کہ جو ساروں ہی کو پہنچتا ہے اور وہ یہ کہ غذائیت پر خود ان لوگوں نے جو ریسرچ کی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ غذا ئیں انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں.سور کا گوشت یا اس کی چربی کھانے سے بداخلاقی پیدا ہوتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ صرف سور کا گوشت اور اس کی چربی کھانے سے بداخلاقی پیدا ہوتی ہے کیونکہ یورپ میں اور اسلام
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۲ سورة الحج سے باہر دوسری اقوام میں ایسی قومیں بھی ہیں جو سور کا گوشت اور چربی نہیں کھاتیں اور بداخلاقی میں شاید دوسروں سے بھی بڑھی ہوئی ہیں اور وجوہات بیچ میں آتی ہیں ہزار ہا ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنے کی کوشش انسان کو کرنی چاہیے وہ نہیں بچتے.تو جسمانی طاقت کی نشوو نما کے لئے خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا ضروری ہے ورنہ جسمانی طاقتوں کے استعمال میں غلطیاں سرزد ہو جائیں گی.خدا تعالیٰ نے یہ ایک بہت بڑا نظام قائم کیا ہے.ایک دوسرے کے ساتھ اس کا ملاپ ہے اور بڑا زبر دست ملاپ ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اخلاقی طاقتیں بھی دیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا کہ انسان کو جو اخلاقی صلاحیتیں دی گئیں، ان کا تعلق ہر دوسرے انسان کے ساتھ ہے.رحمتہ للعالمین ہمارے لئے یہ پیغام الہی لے کر آئے.پس انسان کو جو اخلاقی طاقت دی گئی ، اس کا استعمال رحمتہ للعالمین کے نقش قدم پر چلنے کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی کسی میں امتیاز نہ کیا جائے.مسلم و کافر میں امتیاز نہ کیا جائے مثلاً ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آیا جائے.مثلاً سینکڑوں اخلاقی باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک دو مثالیں دوں گا.مثلاً یہ نہیں کہا کہ صرف مسلمان پر افتر امسلمان نہ کرے.یہ کہا ہے کسی انسان پر بھی افتر انہیں کرنا.کسی پر تہمت نہیں لگانی.خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم کوئی امتیاز اور فرق نہیں ہے.پس جو اخلاقی طاقتیں ہیں، ان کا جو استعمال ہے ان کا جو مظاہرہ ہے وہ ایک نمونہ ہے ہمارے سامنے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.اس نمونہ کے مطابق ہماری طاقتوں کا مظاہرہ ہونا چاہیے یعنی مسلم و کافر کے درمیان کوئی امتیاز کئے بغیر ہم ہر ایک کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے اور ہر ایک کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے والے ہوں.وَجَاهِدُوا اپنے نفسوں کی تربیت کے لئے انتہائی کوشش کرو.وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ اس آیت میں آیا ہے یعنی ایسی کوشش کہ جس کو خدا تعالیٰ کی نگاہ بھی صحیح اور حقیقی کوشش سمجھے.دوسرا جہاد جو بیان ہوا وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جب ایک مومن، ایک مسلم ، ایک مقرب الہی خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو حاصل کرنے والا مسلمان دیکھتا ہے تو اس بات پر خوش نہیں ہوتا کہ مجھے ملیں اور دوسرے کو نہیں ملیں بلکہ اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دائرہ اسلام سے باہر ہیں، وہ خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور خدا تعالیٰ کی ان رحمتوں سے، اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ
۵۴۳ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث میں، اپنے تعصب کے نتیجہ میں، اپنے تکبر کے نتیجہ میں محروم ہورہے ہیں اور اس کے دل میں یہ جوش ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس حسین تعلیم کو ان تک پہنچائے اور اسلامی تعلیم کو دنیا کے کناروں تک ہر قوم اور ہر خطہ تک پہنچانے میں اپنی قوت اور اپنا وقت اور اپنا مال اور دولت خرچ کرنے کی خواہش رکھتا ہو اور جب موقع ملے وہ ایسا کرے بھی.پس یہ جو اشاعتِ حسن اسلام ہے، جسے تبلیغ بھی کہتے ہیں.جسے ہم تربیت کا نام بھی دیتے ہیں اس دائرہ کے اندر رحمتہ للعالمین کی رو سے سارے عالم کو شامل کرنا اور پھر جہاد کرنا وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جهَادِہ یہ جہاد کا حق اس طرح ادا ہوتا ہے اس دائرہ میں.اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو صداقت ہے اور حق ہے.اگر حق وصداقت کا مخالف حق کو مٹانے یا کمزور کرنے کے لئے منصوبہ بنائے تو اس منصوبہ کو نا کام کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر دی جائے.یہ تیسری قسم کا جہاد ہے.پس وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِہ میں یہ سارے شامل ہو گئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم حقوق اللہ ادا کرو گے، حقوق العباد ادا کرو گے، اگر تم ہر ایک سے بھلائی کرو گے، اگر تم جہاد ہر سہ معنی میں کرو گے تو تم قرب الہی حاصل کرو گے.هُوَ اجْتَبكُم خدا تعالیٰ کے مقترب بن جاؤ گے اور جس شخص میں یہ ساری باتیں پائی جائیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک.دعوئی کرنا آسان ہے عمل کرنا بھی اتنا مشکل نہیں لیکن مقبول اعمال کا ہونا ، یہ انسان کی طاقت میں نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت پر منحصر ہے.وہ جن کے اعمال کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور ان کو اپنا مقرب بنالیتا ہے هُوَ اجتَبكُمُ - آگے فرما یا سَتكُمُ الْمُسْلِمِین تمہیں اس حالت میں اس نے مسلمان کا نام دیا.پس یہاں جس مسلمان کا ذکر ہے وہ وہ مسلمان ہے جو ایک اور اصطلاح اور محاورہ کے مطابق ہم کہیں گے ثمرات اسلام حاصل کرنے والا ہے.قرآن کریم سچے مومن کے لئے بشارتوں سے بھرا پڑا ہے اور انہی کے حق میں وہ بشارتیں پوری ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے مقرب بن جاتے ہیں وہ مسلمان ہیں جو ثمرات اسلام حاصل کرنے والے ہیں اور هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ پھر آگے یہاں یہ فرما یا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن قرآن کریم تمہارے او پر جرح کرے گا کہ میرے اس حکم کو تم نے
۵۴۴ سورة الحج تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رڈ کر دیا.میرے اس حکم کو تم نے رڈ کر دیا.میرے اس حکم کو تم نے رڈ کر دیا.اس کی وہ جواب دہی ہوگی.یہاں یہ فرمایا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ جواب طلبی کرے گا.لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ گواہی دے گا کہ اس شخص نے اپنی تمام قوتوں کی نشو و نما اور ان کے استعمال کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ قدم کی تلاش کی اور ان پر چلا اور جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے الہی بشارتوں کے نتیجہ میں اپنی بڑی عظمتوں کے ساتھ یعنی جو فضل اور رحمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، وہ بہت بڑی عظمتوں والی تھیں.کوئی دوسرا انسان تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ہر شخص اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو وہ شخص حاصل کر سکتا ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا ہو اور اسی کو اسلامی اصطلاح ثمرات اسلام کہتی ہے.خدا تعالیٰ مددگار ہے ضرورت کے وقت.خدا غموں کو دور کرنے والا ہے ابتلاؤں کے وقت.خدا دولت میں برکت ڈالنے والا ہے حاجات اور فقر کے وقت.وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَ بَاطِنَةً (القمن : ۲۱) کہ بارش کے قطروں کی طرح آسمان سے ظاہر ہوتی ہیں.بڑا محروم اور قابل رحم ہے وہ دماغ جو سمجھتا ہے کہ اسلام کے ثمرات آج نہیں ملتے.وقت کی کوئی قید تو نہیں لگائی گئی تھی اس آیت میں اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً - قیامت تک ہر وہ شخص جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والا ہے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتا.تضاد ہے ان دو خیالات میں.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نمونہ ہمارے سامنے رکھا، وہ یہ تھا کہ اس صراط مستقیم پر چلو خدا تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے.جب خدا تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے تو تمہاری ضرورت ، تمہاری طاقت ، تمہاری صلاحیت ، تمہارے مقبول اعمال کے مطابق تمہیں نتیجہ دے گا.جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت عظیم اعمال صالحہ کے مطابق عظیم نتیجہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دے دیا.فرما یا هُوَ سَتكُمُ المُسْلِمِین اس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو مسلمان کا نام دینا صرف اس ہستی کا کام ہے جو اسلام کے ثمرات دے سکے.قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ جو شخص استقامت سے کام لے گا اور باوفا ہو گا.ثبات قدم رکھے گا.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَكَةُ (حم السجدة : ۳۱) ملائکہ اس کے اوپر نازل ہوں گے.یہ میں صرف
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۵ سورة الحج ایک مثال آپ کو سمجھانے کے لئے بتا رہا ہوں.ہر وہ انسان جو یہ دعویٰ کرے اور ایسا کر دکھائے کہ جسے وہ مسلمان کا لقب عطا کرے اس پر فرشتوں کا نزول کروانا.اس کے حکم سے اس کے اوپر فرشتوں کا نازل ہو جانا، یہ اس کے اختیار میں ہوگا.یہ ہو ہی نہیں سکتا اس واسطے میرا اور تیرا کام نہیں کہ کسی کو مسلمان کہو یا یہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا یہ یہ کام کرو.مقبول ہوں گے.مقرب بن جاؤ گے اجتبسم میں تمہیں چن لوں گا اپنے لئے تم میرے مقرب بن جاؤ گے اور جب مقترب بن جاؤ گے پھر میں تمہیں ایک لقب دوں گا هُوَ سَشْكُمُ الْمُسْلِمِينَ اور پہلی آیت کے آخر میں بھی ، دوسری آیت کے آخر میں بھی انعام بتایا ہے.فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ حقیقی معنی میں اس کے غلام ہو گے تو وہ اتنا پیارا آقا بنے گا کہ تمہاری عقل دنگ رہ جائے گی کہ خدا تعالیٰ اپنے حقیر بندہ سے اس قسم کا پیار بھی کر سکتا ہے لیکن وہ کر سکتا ہے، کرتا ہے اور کرے گا.وَنِعْمَ النَّصِيرُ اور بہترین مددگار، ہر موقع پر تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر تمہاری مدد کر نے والا اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے.پس دنیا میں مختلف خیال پھیل جاتے ہیں اور پھیلے ہوئے ہیں.احمدی سے میں اس وقت مخاطب ہوں اور یہ کہہ رہا ہوں کہ تم اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جس مقام کی طرف یہ آیات اشارہ کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرو اور ہمارے بزرگوں نے بھی جو پہلے گزرے انہوں نے بھی یہی کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی ہمیں یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کو ہم سمجھیں اور کسی قسم کا کوئی شرک نہ کریں یعنی عرفانِ باری تعالیٰ کو اور اس کی عظمتوں کو سمجھنے کے بعد بس اسی کے ہو جا ئیں اور کسی غیر کی طرف ہماری نگاہ نہ اٹھے.اور حقوق العباد کے معنی یہ ہیں وَافْعَلُوا الخَیر میں حقوق العباد سے بھی آگے نکلتا ہے اسلام، رحمتہ للعالمین میں نے کئی دفعہ تفصیل سے بتایا ہے جو انسانوں سے باہر کی دنیا ہے مثلاً جانور ہیں ان کے حقوق بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائے اور ان کی حفاظت کا سامان کیا.پس خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم ہونا ، معرفتِ ذات وصفات باری تعالیٰ پر منحصر ہے.ہر قسم کے شرک سے بچنا، ہزار ہا قسم کے شرک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں گنوائے ہیں.وہ آپ پڑھیں اور اس قسم کے شرک سے بچیں.اگر آپ ایسا کر لیں اور اعمال مقبول ہوں تو
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۴۶ سورة الحج اللہ تعالیٰ منتخب گروہ میں تمہیں شامل کرے گا اور اس کی نگاہ میں تم مسلمان ہو جاؤ گے اور ثمرات اسلام حاصل کرنے والے ہو گے اور دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان ثمرات اسلام سے تمہیں محروم نہیں کر سکیں گی اور اس کے بعد پھر تمہیں کسی کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے.کسی چیز کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے اگر تم اس عظمت کو سمجھنے لگو.ہر ایک کا احترام کرو تمہیں جو لوگ گالیاں دیتے ہیں ان کے لئے دعائیں کرو ، جو ایذا پہنچاتے ہیں ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ میں یہ ساری چیزیں آئی ہوئی ہیں لیکن جو خدا تعالیٰ سے تمہیں ملے گا وہ ہر دوسری شے سے تمہیں غنی کر دے گا.تمہیں اس کی احتیاج نہیں رہے گی.خدا کرے کہ آپ اپنے مقام کو سمجھیں اور خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ ایسے اعمال کرنے والے ہوں کہ جن اعمال کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ آپ پر رحم کرے یعنی وہ مقبول ہوں.خدا کو وہ پیارے ہوں.جس کے نتیجہ میں خدا آپ کے قرب میں آنے میں یعنی آپ کے قریب آنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے کیونکہ وہ پاک ہے اور غیر پاک کے پاس اصطلاحی زبان ہے ویسے تو وہ ہر جگہ ہے.اصطلاح میں ہم کہتے ہیں وہ پاک ہے ، پاک کو پسند کرتا ہے، پاک ہی کو اس کا قرب ملتا ہے.ہمیں ثمرات اسلام مل رہے ہیں.کثرت سے مل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر و جو وہ دے رہا ہے وہ ہمارے اعمال کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.ناشکرے نہ بنیں، غیروں کی تقلید نہ کریں، دوسروں کے گند میں نہ پھنسیں ، اپنی نسلوں کی عزت و احترام کی حفاظت کا سامان پیدا کریں.باہر آپ کے لئے کمائی کے دروازے کھلے ہیں.وہاں جا کے بعض گند میں دھنس جاتے ہیں.اس سے بچیں.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں ہماری نسل کی زندگی میں اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہر انسان بھیجنے لگے سوائے چند استثنیٰ کے.اللہ تعالیٰ اس میں ہمیں کامیاب کرے اور اپنے فضلوں کا ہمیں وارث بنائے.یہ میں بتادوں کہ آپ جا کے خود غور کریں.ان دو آیات میں بہت بڑا مضمون ہے.میں نے بڑا مختصر ایک قسم کے عنوان ہی یہاں آپ کو بتائے ہیں.خود جا کر غور کریں اس پر.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۶۱ تا ۴۶۸)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۷ سورة الحج غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اور اس کے نزدیک تم مسلمان ہو اور اس نے پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی یہ خبر دی تھی کہ امت مسلمہ پیدا ہونے والی ہے.چنانچہ پہلوں نے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور قرآن کریم نے بھی تمہارا نام مسلمان اور مومن رکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ( الانعام : ۱۶۴) اور أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) کے الفاظ کہلوائے اس کا مطلب یہی ہے کہ امت محمدیہ مسلمین مومنین کی امت ہے.اس آیہ کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ تمہیں مسلمان قرار دیتا ہے اور تمہارے اسلام کا اعلان کرتا ہے اس لئے کہ تم نمازیں پڑھتے ہو ، تم زکوۃ دیتے ہو تم اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق رکھتے ہو.تم اس بات پر یقین کے ساتھ قائم ہو کہ خدا تعالیٰ سے جب تمہارا پختہ تعلق قائم ہو جائے تو پھر تمہیں کسی اور ہستی کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ هُوَ مَوليكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۱۳۰۱۲۹)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۴۹ سورة المؤمنون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المؤمنون آیت ۴ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تہذیب اخلاق کے لئے جو احکام دیئے ہیں وہ دو حصوں پر منقسم ہوتے ہیں.ایک نہ کرنے کی باتیں ہیں.ایک کرنے کی باتیں ہیں.ان دوحصوں پر منقسم ہونے کے بعد پھر تفصیل کے ساتھ وہ تمام احکام ہمیں دے دیئے گئے جن کا تعلق ان تمام قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ تھا جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے عطا کیں کہ وہ ان کی صحیح نشو و نما کر کے اپنے رب کریم کے اخلاق کا رنگ اپنے پر چڑھا سکے.(تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله).نہ کرنے والی جو باتیں ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ سے ہے، لغو سے بچنا، کوئی ایسی بات نہ کرنا، کوئی ایسا کلمہ منہ سے نہ نکالنا، کوئی ایسا کلام نہ سننا، ایسے اعمال بجانہ لانا جولغو ہوں.لغو کے معنی یہ ہیں کہ بے مقصد ہو اور بے فائدہ ہو اور نجس ہو اور گندہ ہو اور فتیح.تو اس چھوٹے سے فقرے میں ان اخلاق کی بنیادی بات ہمیں بتائی گئی جن کا تعلق ” نہ کرنے کے ساتھ تھا.ہر وہ بات، ہر وہ فعل جس کا کوئی نتیجہ ہماری زندگی میں خوشکن نہیں نکلتا، وہ لغو میں شامل ہو جاتا ہے.فتیح باتیں نتیج اعمال جو ہیں ان کا تعلق لغو کے ساتھ ہے.پہلی چیز تو یہ ہے کہ انسان کو کچھ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، نہ کرنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.اس واسطے اچھے اخلاق کی بنیاد اس بات پر رکھی کہ ایک مومن، مسلم احمدی کے اوقات ضائع نہیں کئے جائیں گے.ایسی باتیں کرنا جن کا کوئی فائدہ نہ ہو، کہیں لگانا، وقت ضائع کرنا یہ تمام چیزیں لغو کے اندر آ جاتی ہیں.
۵۵۰ سورة المؤمنون تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث اس وقت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ہستی کا ایک بہترین نمونہ، اُسوہ ہمارے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے الہاما آپ کو کہا انتَ الشَّيحُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه کہ تیرا وقت (اور تیرے میں وہ تمام اوقات شامل ہیں جن کا تعلق آپ کی جماعت کے ساتھ ہے ) ضائع نہیں کیا جائے گا، ضائع نہیں ہوگا اس کے دو معنی ہیں.تیرے ماننے والے اچھے اخلاق کے حامل ہوں گے اور کوئی ایسے عمل نہیں کریں گے نہ کوئی ایسی باتیں کریں گے جو بے فائدہ اور بے مقصد ہوں اور وقت کا ضیاع ان سے ہورہا ہو اور یہ بشارت دی کہ خدا تعالیٰ کے منشا اور اس کے احکام کی روشنی میں تیرے ماننے والے خدا تعالیٰ کے حضور جو اعمال پیش کر رہے ہوں گے ان کا نتیجہ نکلے گا اور وہ ضائع نہیں ہوں گے.اچھا خُلق جو ہے وہ ابدی زندگی پاتا ہے.جو گندی باتیں قبیح اعمال ہیں وہ جلد ضائع ہو جاتے اور مرجاتے ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ، اب بھی وہی مثال دیتا ہوں.انسانی تاریخ میں کہیں بھی آخری فتح نفرت اور حقارت کو نہیں ہوئی.آخری فتح ہمیشہ محبت اور پیار کو ملی ہے.نفرت، آنا اور حقارت سے پیش آنا ، یہ سارے گند ہیں جو لغو کے اندر شامل ہو جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکلتا جو نتیجہ انسانی زندگی میں، اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والا بھی اللہ تعالیٰ نکالنا چاہتا ہے.نہ کرنا.نہ کرنے والی باتوں میں جو لغو کی بنیاد سے اٹھیں پھر بہت سی باتیں ہیں ان میں ایک ہے تجسس اللہ تعالیٰ نے فرمایا لا تَجَسَّسُوا (الحجرات: ۱۳) عیب جوئی نہیں کرنا، دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرنا.اپنی فکر کرو.اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے رہو.محاسبہ تو ہر وقت خدا تعالیٰ سے عشق رکھنے والا انسان کرتا رہتا ہے کہ اگر کوئی چھوٹی یا بڑی غلطی سرزد ہو جائے ، ہو چکی ہو، تو تو بہ کرے اور خدا تعالیٰ سے معافی مانگے تو بہ کی بنیاد محاسبہ پر ہی ہے.اگر کسی نے محاسبہ نہیں کیا تو حقیقی تو بہ بھی اس کے نصیب میں نہیں ہوسکتی.دوسروں میں عیب تلاش کرنا، اپنا وقت ضائع کرنا اور خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اس حد تک اس پر زوردیا کہ فرمایا جب ہم کہتے ہیں لا تجسسوا تو ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایمان کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۱ سورة المؤمنون دعوی کے ساتھ ( زبان قال سے یا زبان حال سے ) تمہیں سلام کہے ( کوئی شخص سفر کر رہا ہے، پیدل چل رہا ہے، رستے میں ایک شخص ملا اس نے سلام کیا ) لَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء: ۹۵) تمہیں تجسس کرنے کی ضرورت نہیں.اس نے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے سلام کیا ہے.تم اسے مومن سمجھو تجس کا نتیجہ تب نکلتا، اگر انسان عیوب کی سزادینے کا اختیار رکھتا اور اس کی طاقت بھی ہوتی.تو جب نہ طاقت ہے نہ اختیار ، تو بے نتیجہ بے تجسس.جسے طاقت حاصل ہے اور جس کے اختیار میں ہے سزا دینا یا معاف کر دینا، وہ تو اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے، اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں.جب تمہاری طاقت میں نہیں ، جب تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا اختیار نہیں دیا گیا تو تمہارا تجسس کرنا بے مقصد، بے نتیجہ، اپنے وقت کا ضیاع اور دنیا میں فساد اور بدامنی اور معاشرے میں الجھن پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.اگر غور کیا جائے تو ” نہ کرنے والی باتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ لغو سے ہی تعلق رکھتی ہیں.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۵۵ تا ۴۵۷) آیت ۵۶ تا ۶۲ اَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُسِدُّهُم بِهِ مِنْ مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَتِ، بَلْ لَا يَشْعُرُونَ إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُونَ وَ الَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ وَالَّذِينَ هُمُ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ ) وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوا وَ قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَجِعُونَ ) أُولَبِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَبِقُونَ اللہ تعالیٰ سورۃ المومنون کی ان آیات میں فرماتا ہے کہ ہم دنیا میں بہت سے لوگوں کو بڑا مال دیتے ہیں اولاد میں کثرت بخشتے ہیں اور جتھہ ان کو دیتے ہیں.اس طرح پر ہم ان کی بڑی مدد کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں اگر وہ یہ سمجھیں کہ انہوں نے بہت سی نیکیاں کی ہیں اور یہ ان کی جزا ہے تو ان کی سمجھ کا قصور ہے ایسا نہیں ہے.دنیا میں مال کا ملنا یا اولاد میں برکت کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے، ہمیشہ ہی (اگر پورے کا پورا
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۵۲ سورة المؤمنون امتحان نہ ہو ) ایک پہلو امتحان کا اور ایک پہلو جزا کا اپنے اندر رکھتا ہے جہاں صرف امتحان کا پہلومدِ نظر ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق یہ فرماتا ہے ااِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (التغابن :١٢) جو اموال اور اولاد میں نے تم کو دی ہے وہ تمہارے لئے ایک امتحان اور آزمائش ہے اگر تم اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تو میرا انعام پاؤ گے اور اگر اس امتحان میں ناکام رہے تو میرا غضب تم پر بھڑ کے گا.مومنوں کو جو اموال دیئے جاتے ہیں اور ان کے نفوس میں جو برکت ڈالی جاتی ہے اس میں بھی صرف انعام کا پہلو نہیں ہوتا بلکہ ایک طرف انعام ہوتا ہے تو دوسری طرف امتحان بھی ہوتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ایک وقت میں بڑے ہی اموال عطا ہوئے تھے ایک ایک دن بعض دفعہ ان میں سے بہتوں کو لاکھ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ رقوم مل جاتی تھیں مال غنیمت میں سے، مگر وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ایک انعام کی شکل میں نہیں بلکہ اس میں ہمارے لئے امتحان اور ہماری آزمائش بھی مد نظر ہے اگر وہ اس کو محض انعام سمجھتے تو دوسروں کو اس میں حصہ دار نہ بناتے اگر وہ یہ سمجھتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی محض رضا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں سے کسی اور کو حصہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ایک طرف دوسری طرف اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے ہمارا امتحان بھی لینا چاہتا ہے اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض دفعہ جس دن انہیں لاکھ لاکھ کی رقم ملتی تھی اسی دن وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ بھی کر دیتے تھے تا کہ اس کی طرف سے زیادہ انعام انہیں ملے اور اس امتحان میں وہ کامیاب قرار دیئے جائیں.تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ مال یا اولاد کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا آنا اس بات کی علامت نہیں ہے نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَيْراتِ کہ ہم ان کونیکیوں میں جلد جلد بڑھارہے ہیں اور ان کے اوپر یہ محض انعام کے طور پر فضل ہو رہا ہے کہ ان کے مالوں میں بھی برکت ڈالی جارہی ہے اور ان کی اولاد میں بھی برکت ڈالی جا رہی ہے وہ سمجھے نہیں اور اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ جو يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَها سبقُونَ نیکیوں کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق جو سورۃ آل عمران میں ہے وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السموتُ وَالْأَرْضُ (ال عمران : ۱۳۴) اور وہ جن میں مسابقت کی روح پائی جاتی ہے.ان میں چار
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث علامتیں پائی جاتی ہیں.۵۵۳ سورة المؤمنون اوّل یہ کہ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُونَ خَشِيةُ اللہ سے لرزاں رہتے ہیں اور دوسری جگہ فرما يا وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا إِلَّا الله (الاحزاب :۴۰) کہ وہ اپنے دل کی اس کیفیت میں کسی اور کو اللہ کے سواشریک نہیں بناتے.یعنی خشیتہ اللہ ہے اور صرف اللہ کی خشیت ہے کسی اور کی خشیت کو اس میں ملونی نہیں ہے یہاں اللہ نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنیادی اور اصولی صفات میں سے صفت رب کو منتخب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کی خشیت سے لرزاں رہتے ہیں.خشیتہ کے معنی ایسے خوف کے ہیں کہ جس سے خوف پیدا ہو اس کی ذات اور صفات کا علم بھی ہو اور وہ ذات ایسی ہو کہ جب اس کا علم انسان کو حاصل ہو جائے تو اس کی عظمت بھی دل میں پیدا ہوا تو خشیت کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا انسان اپنے ربّ سے یہ جانتے ہوئے کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور ر بوبیت کی انتہائی اور آخری ذمہ داری اسی پر ہے.مشاہبہ پرب شاید اس دنیا میں بھی ملیں لیکن اللہ کے علاوہ جو بھی درجہ بدرجہ جسمانی یا روحانی ارتقا کا باعث بنتے ہیں وہ اسی کے اذن اور اسی کی توفیق سے ایسا بنتے ہیں.حقیقی طور پر اب وہی واحد یگانہ ہے پس جن لوگوں میں اس معنی میں رب کی خشیت پائی جاتی ہو اور هُمْ بِأَيْتِ رَبِّهِمُ يُؤْمِنُونَ وہ سمجھتے ہوں کہ قرآن عظیم کا نزول انسان کی جسمانی اور روحانی ترقیوں کے لئے ہے.آیات سے یہاں مراد ایک تو قرآن کریم ہے اور دوسرے وہ تمام آسمانی تائیدات ہیں جو قرآن کریم کی آیات کے ظل کے طور پر اس دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتی ہیں اور نازل ہوتی رہیں گی.تو جو لوگ اپنے رب کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور اس سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں اور وہ جو قرآن کریم پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم کے فیوض کو جاری یقین کرتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی فیوض پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس طرح پر شرک کے ہر پہلو سے محفوظ ہو گئے ہیں بِرَبِّهِمْ لا يُشْرِكُونَ خفیہ یا ظاہری شرک بڑا یا چھوٹا شرک کوئی بھی ان کے قریب پھٹنے نہیں پاتا اور وہ لوگ جن کے دل اس بات سے وَجِلَةٌ خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہم اپنی سمجھ کے مطابق اعمال صالحہ بجا تو لائے ہم نے صدقہ و خیرات بھی دیا دوسری نیکیاں کرنے کی بھی کوشش کی مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ ہمارے رب کو مقبول بھی ہوں گی یا نہیں ہم نے سوائے اس کے کسی اور کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا اور جس کے سامنے ہم جواب دہ ہیں اس کے متعلق ہم کہ نہیں سکتے کہ قبولیت کو
۵۵۴ سورة المؤمنون تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہماری نیکیاں پہنچی ہیں یا نہیں پس وہ لوگ نیکیاں تو قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہر آن اور ہر وقت بجالاتے رہتے ہیں لیکن تمام نیکیاں بجالانے کے بعد بھی ان کے دلوں میں یہ خوف رہتا ہے کہ جس کے سامنے جواب دہ ہیں ہم نا معلوم اس نے ہماری نیکیوں کو قبول بھی کیا ہے یا نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن میں چار باتیں پائی جاتی ہیں وہ ہیں أُولَبِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے اس حکم کی تعمیل کی کہ وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ ( آل عمران : ۱۳۴) اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اندر مسابقت کی روح پیدا ہوسکتی ہے وہ جو اپنے رب کی خشیت کا احساس نہیں رکھتے وہ جو اپنے رب کی آیات عظیمہ ( قرآن کریم ) پر ایمان نہیں لاتے وہ جن کے دلوں میں شرک کی بار یک معصیت پائی جاتی ہے اور وہ جو جب نیکی کرتے ہیں تکبر سے کام لیتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایسے کام کئے ہیں کہ اب ہمارا رب مجبور ہے کہ ہماری ان باتوں کو قبول کرے اور ہمیں بہتر جزا دے وہ لوگ مسابقت فی الخیرات اور يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْراتِ کے مصداق نہیں ہوا کرتے نہ ان میں مُسَابَقَت فِي الْخَيْرَات پائی جاتی ہے نہ وہ جلدی جلدی نیکیوں کی طرف متوجہ ہونے والے اور حرکت کرنے والے ہوتے ہیں.اس واسطے وہ لوگ جو صرف ہمارے دنیوی احسانوں کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انہوں نے سَارِعُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمُ پر عمل کیا اور يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سِبِقُونَ کے گروہ میں شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو انہوں نے حاصل کیا حالانکہ ان کے اندر یہ چار خوبیاں پائی نہیں جاتیں.وہ غلطی پر ہیں لا يَشْعُرُونَ مومنون میں روح مسابقت کا پایا جانا ضروری ہے.یہ افراد میں بھی ہوتی ہے اور جماعتوں میں بھی اور سب سے زیادہ اس کی طرف مرکز کومتوجہ ہونا چاہیے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۲ تا ۸۵) اس دنیا میں مال و دولت ان لوگوں کو بھی دی جاتی ہے جن سے ہمارا رب ناراض ہوتا ہے اور انہیں بھی دی جاتی ہے جن پر ہمارے رب کی رحمتیں نازل ہو رہی ہوتی ہیں.یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کسی آدمی کو مال و دولت کامل جانا یا اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی یا اس کی نسل میں برکت کا پایا جانا یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ
.سورة المؤمنون تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کسی کی اولا د کو کثرت سے بڑھا رہا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں نیکیاں کرنے والے ہیں اور گو یا خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ اور بڑھ چڑھ کر نیکیاں کریں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں دولت کے غلط استعمال سے.وہ اپنے جتھے کے زور پر ظلم اور فساد بپا کرنا چاہتے ہیں.لوگوں کو تنگ کرتے ہیں اور بھلائی کی باتوں اور خیر خواہی کی راہوں کو اختیار نہیں کرتے.پس کسی کے پاس محض مال کا ہونا یا کثرت سے دولت کا ہونا یا آبادی کا زیادہ ہونا جیسا کہ آجکل یورپین ممالک ہیں اور اسی طرح دہر یہ ممالک ہیں.ان کے پاس دولت بھی بڑی ہے اور جتھہ بھی بڑا ہے.بعض ممالک کی کل آبادی سے زیادہ تو ان کی فوجیں ہی ہیں.غرض محض دنیوی اموال اور نسل کی کثرت خدا تعالیٰ کے پیار کا نشان نہیں ہوتے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے پیار کا نشان یہ ہے کہ جہاں تک خدا تعالیٰ سے تعلق کا معاملہ ہے خشیتہ اللہ ہونی چاہیے اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو راہ راست پر قائم رکھنے یا صراط مستقیم کی طرف کھینچنے کے لئے جو آسمانی نشان ظاہر کرتا ہے اس کو سمجھنے کی توفیق کا پانا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے.انسان کے دل میں کسی قسم کا شرک نہ ہو، نہ وہ اپنے مال کو کچھ سمجھے اور نہ اپنے جھتے کو کچھ سمجھے اور نہ اپنے نفس کو کچھ سمجھے بلکہ جو کچھ بھی توفیق پائے اور جو کچھ بھی حاصل کرے اسے محض اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھے اور اس کا فضل اور رحمت تصور کرے اور جو کچھ بھی اسے ملے اس کا فائدہ وہ دوسروں کو بھی پہنچانے والا ہو اور ڈرتا رہے کہ کہیں بظاہر خیر کے یہ اعمال اور نیکی کی یہ باتیں ریا کے نتیجہ میں یا تکبر اور فخر کی وجہ سے اسے خدا سے دور لے جانے والی نہ بن جائیں.انسان ہر وقت اس بات کو یادر کھے کہ ایک دن اسے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نیکیاں مقبول ہونے کے قابل تھیں یا نہیں.فرما یا أُولَبِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْراتِ یہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں جلد جلد آگے بڑھنے والے ہیں محض مال کوئی چیز نہیں.نہ اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ چونکہ کسی شخص کے پاس کثرت سے دولت پائی جاتی ہے اس لئے اللہ تعالی اس سے بڑا خوش ہے اور یہی حال کثرت نسل کا ہے جس کے نتیجہ میں ایک اقتدار پیدا ہوتا ہے.ہم نے اپنے ملک میں بھی دیکھا ہے بعض دیہاتی اور شہری خاندان اپنی خاندانی کثرت کے نتیجہ میں کمزور خاندانوں پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر اولا د تو خدا ہی دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ میرا کثرت بخشایہ نہیں ظاہر کرتا کہ تم نے نیکیاں کیں اور میں نے انعام دیا بلکہ یہ بتا تا ہے کہ
تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۵۵۶ سورة المؤمنون میں نے تمہارا امتحان لینا چاہا اگر تم امتحان میں ناکام ہو گے تو میرے فضلوں اور رحمتوں کو حاصل کرنے والے نہیں ہو گے بلکہ میرے غضب اور قہر کی تجلیات تم پر ظاہر ہوں گی لیکن اگر خشیت اللہ رکھو گے اور خدا تعالیٰ کے نشانات پر ایمان لاؤ گے تو حقیقی نیکی کرنے والے بن جاؤ گے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۷ ۳ تا۳۹) دوسری بات میں اختصار کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مومنون کی اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے اور حسنات کے حصول کے سامان پیدا کرنے کیلئے ”حق“ کو اُتارا ہے یعنی ایک قائم رہنے والی اور دائمی شریعت اور صداقت اور حق اور حکمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اسی نزولِ حق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حدود مقرر کر دیئے ہیں.ہر انسان ایک انفرادیت اپنے اندر رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے.اسی کے مد نظر اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک ڈھیل بھی دی ہے.اسی لئے فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہوں گے سات دروازے ایثار اور قربانی کی مختلف راہوں کو اختیار کرنے والوں کے لئے کھلیں گے کوئی ایک طرف سے خدا کی رضا کی جنت میں آ رہا ہے اور کوئی دوسری طرف سے لیکن کچھ وہ بھی ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور فضل کا خاص دروازہ ان کے لئے کھولا جائے گا خواہش تو ہر ایک کی ہے اور ہونی چاہیے کہ وہ خاص دروازہ جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھولا جائے گا وہی اس کے لئے کھلے کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص اپنی عاجزی کی انتہا کو پہنچ گیا اور اس نے اپنا کچھ نہ سمجھا اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر رکھا.دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضل اور بلند تر ہستی ہے کہ جس نے خدا کی راہ میں وہ قربانیاں دیں کہ کسی ماں جائے کو یہ توفیق نہ ملی اور نہ ملے گی کہ اس قسم کی قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کرے لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنا یہی مقام سمجھا اور آپ اسی مقام پر قائم رہے کہ میں کچھ نہیں.ہر چیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوسکتی ہے میرا اللہ کے اس ارفع قرب کو پالینا بھی محض اسی کے فضل کا نتیجہ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق نازل ہوا ہے اب حق تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کرے گا.اس ”حق“ نے کچھ حدود مقرر کی ہیں اور تمہاری خواہشات اور ہوائے نفس ان حدود سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اس کی تمہیں اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو لَفَسَدَتِ السَّموتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ زمین و آسمان کو جس غرض
۵۵۷ سورة المؤمنون تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور انسان کو جس مقصد کے لئے اس زمین میں بسایا گیا ہے وہ مقصد حاصل نہ ہوتا اور اس طرح صالح معاشرہ کی بجائے ایک فاسد معاشرہ کی بنارکھی جاتی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.اسی غرض کے لئے اس نے حق کو اُتارا ہے اس لئے ہر وہ چیز جو اس غرض کے منافی ہے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اس لئے حق تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کرے گا.یہ بڑا گہرا اور اہم مضمون ہے میں نے سوچا ہے کہ تمام بدعات کا سرچشمہ ہوائے نفس اور یہ اعلان ہے کہ آزادی ضمیر ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غلط قسم کی آزادی ضمیر سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آزادی ضمیر تمہیں نہیں مل سکتی اور یہ فاسد آزادی ضمیر وہ ہے جب آزادی ضمیر کا نعرہ لگا کر انسان خدا کی مقرر کردہ حدود کو پھلانگتا اور ان سے باہر چلا جاتا ہے.ہاں ان حدود کے اندر آزادی ضمیر ہے کسی کی طبیعت کسی نیکی کی طرف زیادہ مائل ہے ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق خدا کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگارہتا ہے اور اسی کے فضل سے وہ اس کی رضا کو حاصل بھی کر لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو حدود ہم نے قائم کی ہیں انہی میں تمہاری بزرگی اور عزت ہے تم آزادی کا اظہار رائے کی آزادی کا اور آزادی ضمیر کا نعرہ لگا کر اگر ہماری قائم کردہ حدود کو پھلانگ کر پرے چلے جاؤ گے تو اس کے نتیجہ میں تمہاری سر بلندی کے سامان پیدا نہیں ہوں گے تمہیں عزت نہیں ملے گی تمہارا رتبہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور بندوں کی نگاہ میں بھی بڑھے گا نہیں بلکہ گھٹ جائے گا کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی انگلی کو چھوڑ کر اپنے نفس پر بھروسہ رکھا فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمُ معْرِضُونَ (المومنون : ۷۲.مگر انسان جب بہکتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے خدا اپنا ہاتھ آگے کرتا ہے اور کہتا ہے اس ہاتھ کو پکڑ اور میری گود میں آبیٹھ اور وہ کہتا ہے نہیں میں تو اپنی مرضی چلاؤں گا اگر میری مرضی ہوگی تو تیری حدود کو توڑوں گا اور اس طرح وہ اس مقامِ عزت اور اس مقامِ احترام سے گر جاتا ہے جو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقر رکیا ہے.اس آیت میں ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ ہم حدود کی نگرانی کے لئے محافظ کھڑے کریں تا کہ خدا کی مخلوق کو خدا کی ناراضگی اور خدا کے قہر کے جہنم سے بچانے کی کوشش رسکیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۹۷ تا ۸۰۱)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۵۸ سورة المؤمنون آیت ۹۷ تا ۹۹ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ وَقُلْ رَّبِّ اَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَتِ الشَّيْطِينِ وَ اَعُوذُ بِكَ رَبِّ و للهوووو أن يحضرون ® انبیاء علیہم السلام جہاں دنیا کی بھلائی کے لئے ان کی خیر خواہی کے لے ہر قسم کے اچھے کام کرتے ہیں وہاں ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو جھنجھوڑیں اور جگائیں اور کہیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہو گے تو وہ ناراض ہو جائے گا اور تمہیں اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی گھاٹے کا منہ دیکھنا پڑے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انذار ( موعظہ کے اندر ہی اندار کا پہلو بھی آتا ہے کیونکہ موعظہ اس نصیحت کو کہتے ہیں جس میں انذار ملا ہوا ہو) تو پہنچانا ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے لیکن اچھے رنگ میں پہنچاؤ جس سے وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں اس سے نفرت اور فرار کے پہلو کو اختیار نہ کریں وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور وہ ایک غلط رائے پر قائم ہیں اور غلط عقائد پر وہ کھڑے ہیں اس لئے تم جَادِلُهُم بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ کی ہدایت پر عمل کرو.جدال کے معنی رائے کو موڑ دینے کے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ جو اختلافات وہ تم سے رکھتے ہیں ان اختلافات کو دور کرنے کے لئے فساد کی راہیں نہیں بلکہ امن اور صلح کی راہوں کو اختیار کرو اور اس طرح پران کے خیالات کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کرو.جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ (النحل : ۱۲۶) سنے یا پڑھنے کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اخسن کیا ہے کیا اس اَحْسَنُ کی تلاش ہم نے خود کرنی ہے یا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی طرف راہ نمائی فرمائی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (حم السجدۃ: ۳۴) کہ قول کے لحاظ سے احسن وہ ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے.پس ہر وقت جو صحیح طریق پر دی گئی ہو اور جس کا مقصود یہ ہو کہ خدائے واحد و یگانہ کو دنیا پہنچاننے لگے وہ احسن قول ہے وہ قول جو شرک کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو بدعت کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو دہریت کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو فساد کی طرف لے جاتا ہے وہ قول جو باہمی جھگڑوں کی طرف لے جاتا ہے وہ قول احسن نہیں احسن قول وہی
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۵۹ سورة المؤمنون ہے جو اللہ کی طرف لے جانے والا ہے اور چونکہ صرف زبان کا دنیا پر اثر نہیں ہوتا جب تک عملی نمونہ ساتھ نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ عَمِلَ صَالِحًا.پس تم پر فرض ہے کہ تم اپنے عملی نمونہ سے دنیا پر یہ ثابت کرو کہ تم واقعہ میں خدا کے مقرب اور اس کی طرف بلانے والے ہو تمہیں اپنا فائدہ مطلوب نہیں ہے.ہم تمہاری فلاح اور تمہاری نجات اس میں دیکھتے ہیں کہ تم اپنے رب کو پہچاننے لگو اور اسی کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ ہم واقعہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، اپنے فائدہ کی تلاش میں نہیں ہیں یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں یہ نہیں کہ ہم تمہیں کہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے لے مالی قربانیاں دو لیکن ہم خود مالی قربانیوں میں پیچھے ہوں ہم تمہیں کہیں کہ خدا کے لئے اپنے نفسوں کی قربانی دو اور خود ہمارا یہ حال ہو کہ ذراسی بات پر ہمارے جذبات بھڑک اُٹھیں نہیں بلکہ احسن قول اس کا ہے جو اپنی زبان سے بھی اللہ کی طرف بلانے والا ہے اور اپنے افعال سے بھی اللہ کی طرف سے بلانے والا ہے وَقالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور اس کی روح کی بھی یہی آواز ہے کہ میں مسلم ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم بھی مسلمان بن جاؤ میں تم سے کسی دنیوی فائدہ کا طالب نہیں میں نے تو اپنا سب کچھ ہی اپنے رب کے قدموں پر قربان کر دیا ہے میری تو اپنی کوئی خواہش باقی نہیں رہی ، میرا تو اپنا کوئی جذبہ باقی نہیں رہا، میرا تو اپنا کوئی مال باقی نہیں رہا جو تمہاری نظر میں میری اولاد یا رشتہ دار ہیں ہر آن میری روح کی یہ آواز ہے کہ جہاں میں اپنے نفس کو اپنے خدا کی راہ میں قربان کروں یہ بھی اس کی راہ میں قربان ہو جائیں.اگر یہ تین آوازیں تم دنیا میں بلند کرو گے زبان، عمل صالح اور روح کی پکار یعنی تمہاری دعوت بھی اللہ کی طرف ہے تمہارا عمل بھی محض اس کے لئے ہے اور تمہاری روح بھی اس کے آستانہ پر پڑی ہوئی ہے تو پھر تم لوگوں کو رب کی طرف اپنے پیدا کرنے والے کی طرف واپس لوٹا لانے میں کامیاب ہو گئے ورنہ نہیں وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ (حم السجدة : ۳۵) اور حقیقت یہی ہے کہ جو نعمت اور خوشحالی حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہاں بھی اور وہاں بھی ملتی ہے وہ اور السيئة برابر نہیں ہوتیں جو خدا کی رحمتیں ہیں جو خدا کی نعمتیں ہیں ان کے مقابلہ پر شیطان کیا پیش کر سکتا ہے کچھ بھی نہیں اس لئے اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ احسن جس کا اس آیت میں اور دوسری آیت میں ذکر ہے اس کے ذریعہ تم بُرائی کا جواب دو.
۵۶۰ سورة المؤمنون تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شر سے گلی طور پر پاک بھی ہو جاؤ تب بھی شیطان ایسا انتظام کرے گا کہ وہ اپنے ماننے والوں میں سے بعض کو فساد پر اُکسائے گا اور امن کی فضا کو مکڈ رکرے گا.پس ہر وہ مسلمان احمدی جو دنیا کے ملک ملک میں اس وقت پھیلا ہوا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر فساد اور فتنہ کے حالات طاغوتی طاقتیں پیدا کرنا چاہیں تو ہمارا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم ان کے پھندے میں نہ آنا بلکہ اپنے نفسوں پر قابورکھنا اور جو اَحْسَنُ ہے اس کے ذریعہ اپنا دفاع کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی نہایت ہی بدزبان شخص مخالف اسلام قادیان میں آئے اور ایک سال ہمیں نہایت گندی اور مخش گالیاں دیتا رہے تب بھی دنیا یہ دیکھے گی کہ ہمیں اپنے نفس پر قابو ہے اور ہم گالی کے مقابلہ پر گالی نہیں دیتے اور الشیقہ کے مقابلہ پر الشیقہ کو پیش نہیں کرتے بلکہ الشیعہ کے مقابلہ میں ہم حسنہ کو پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بغیر تم اپنے مخالفوں کے دل جیت نہیں سکتے لیکن اگر تم ہماری تعلیم کے مطابق احسن چیز کو دنیا کے سامنے رکھو گے تو وہ جو آج تمہارے مخالف اور بد گو ہیں تمہارے دوست اور بڑے جوش کے ساتھ تمہاری دوستی کا اظہار کرنے والے بن جائیں گے مگر اس کے لئے ہمیں انتہائی صبر کی ضرورت ہے انتہائی طور پر اپنے نفس کو عقل اور شرع کی پابندیوں میں جکڑنے کی ضرورت ہے یہی صبر کے معنی ہیں کہ جو پابندیاں شرع نا ہے وہ آدمی بشاشت سے اور خوشی سے خدا کی رضا کے لئے قبول کرے اور ایسا وہی کرتے ہیں جو ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ہوتے ہیں یعنی جن پر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے نہ کہ ان کے کسی عمل کی وجہ سے بہت رحمتیں نازل کرتا ہے اور جس کے متعلق صحیح معنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ روحانی طور پر ایسے ہی ہیں جیسا کہ دنیوی لحاظ سے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق دنیا کی نگاہ یہ بجھتی ہے کہ وہ حظ عظیم رکھنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے پھر یہ فرما یا اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَة کہ جو احسن ہے اس سے الشیقہ کو دُور کرو اور اس الشیعہ کے اثر سے خود کو بچاؤ اور یہ یاد رکھو کہ تمہیں تو طاقت حاصل نہیں کہ تم روحانی میدانوں کے فتح مند سپاہی بن سکو.یہ ہمارے فضل سے ہوتا ہے اور نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ جو اسلام اور صداقت اور ہدایت کے مقابلہ میں مخالفت کر رہا ہے یا کہہ رہا ہے اس کو ہم بہتر جانتے ہیں اور ہم ہی اس کا علاج کر سکتے ہیں ہمارے فضلوں کے بغیر تم اس فتح کو نہیں پاسکتے جو فتح تمہارے لئے مقدر ہے.لگاتی.
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۶۱ سورة المؤمنون پس اپنے نفسوں کے جوشوں کو دبائے رکھو اور نفسوں کی بجائے مجھ پر بھروسہ کرو کہ میں سب طاقتوں والا ہوں اور دعائیں کرتے رہو.رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَتِ الشَّيْطِيْنِ وَ اَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ کہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ہوں اللہ تعالیٰ ان کو پسپا کرے اور انہیں شکست دے اور اسلام کا نام بلند ہو اور ہر بندہ اپنے رب کو پہچاننے اور حقیقی عبد بن کر اس کے حضور جھک جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہمیں دعاؤں کی توفیق ملے اور خدا کرے کہ ہمارا خدا ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور اپنے وعدوں کو ہمارے حق میں پورا کرے.(خطبات ناصر جلد دوم ۱۱۵ تا ۱۱۸)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۶۳ سورة النور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النور آیت ا وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَ أَنَّ اللهَ تَوَّابُ حَكِيمٌ تو جب بندہ بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے.استغفار کرتے ہوئے.اپنی گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے.اس کی رحمت پر کامل امید اور بھروسہ رکھتے ہوئے.تو پھر خدائے تو اب اپنی صفت کا جلوہ دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں فرمایا.وکو لَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَ أَنَّ اللهَ تَوَابٌ حَكِيمُ کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو اور یہ حقیقت نہ ہو کہ خدا تعالیٰ رحیم ہونے کے باوجود، خدا تمہاری احتیاج نہ رکھنے کے باوجود، خدا آحد ہونے کے با وجود یکتا اور منفرد اپنی ذات اور صفات میں ہونے کے باوجود یہ صفت بھی رکھتا ہے کہ وہ تواب ہے.اگر خدا تو اب نہ ہوتا اور حکیم نہ ہوتا اور فضلوں اور رحمتوں والا نہ ہوتا.تو تم ہلاک ہو جاتے.کیونکہ خالی اوّاب ہونا ضروری نہیں.کوئی انسان ہے جو یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے عمل میں کوئی نقص نہیں اور اس کے اعتقادات اور روحانی تجربے جو ہیں یا جو جد و جہد ہے اس کے اندر کوئی فساد نہیں.کوئی ایسا دعوی نہیں کر سکتا اور محض او اب ہونا کافی نہیں جب تک ہمارا رب تو اب بھی نہ ہو.وہ تو بہ قبول کرنے والا اور اپنی حکمت بالغہ سے بہت سے گناہوں کو معاف کرنے والا نہ ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجرات میں فرمایا.وَاتَّقُوا الله (الحجرات : ۱۳) کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر ڈر کے اپنی زندگی کے دن گزار واگر تم ایسا کرو گے تو پھر ہم تمہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ جو کمزوریاں رہ جائیں گی.ان کے باوجود إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: ۱۳) خدا تعالیٰ تمہاری تو بہ کو قبول بھی کرے گا اور جو تم نے عمل کئے ہیں ان کا بدلہ اس فارمولے کے مطابق دے گا جو اس نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے.دس گنا، سوگنا، سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ.(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۲۰)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۶۴ سورة النور آیت ۲۲ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ وَ مَنْ يَتَّبِعْ خُطُوتِ الشَّيْطَنِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ لَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ جہاں تک روحانی پاکیزگی اور تقویٰ کا سوال ہے ظاہر ہے کہ روحانی طور پر پاکیزہ وہ نہیں جو اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھتا ہے.روحانی طور پر پاکیزہ وہ ہے جسے خدا پاکیزہ قرار دیتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا کہ متقی کون ہے اور کون نہیں یہ میرا اور آپ کا کام نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس سلسلہ میں قرآن کریم نے جو ہدایت دی وہ غیر مشتبہ اور واضح اور بین ہے.اس وقت میں تین آیات کو لے کے آپ کے سامنے پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے وَ لَو لَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا تو کبھی بھی تم میں سے کوئی پاک باز نہ ہو تا لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے پاک باز ا سے قرار دیتا ہے اور پاک باز اسے بنادیتا ہے.اللہ تعالیٰ بہت سننے والا ہے.سمیع ہے.تمہارے بلند دعاوی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی فیصلہ نہیں کرنا.ہر بات جو تمہارے منہ سے نکلتی ہے وہ سنتا ہے.ہر خیال جو تمہارے دل میں گزرتا ہے علیم اسے وہ سنتا..جانتا ہے.سینوں کے حالات سے واقف، جو زبانوں پر تمہاری آتا ہے وہ اس سے پوشیدہ نہیں لیکن محض تمہارے دعادی کے نتیجہ میں تمہیں وہ پاکیزہ اور مطہر نہیں قرار دے گا بلکہ جس پر چاہے گا اپنا فضل نازل کرے گا.جسے پسند کرے گا اپنی رحمت سے نوازے گا.جسے چاہے گا ایسے اعمال کی تو فیق عطا کرے گا جنہیں چاہتا ہے کہ بندے اس کے حضور پیش کریں اور جن اعمال کو چاہے گا اور پسند کرے گا انہیں وہ قبول کرے گا.انسان اپنی جہالت کے نتیجہ میں انسان کو تو یہ حق دینے کے لئے تیار ہو گیا کہ جب کچھ اشیا پیش کی جائیں اس کے سامنے تو ان بہت سی اشیا میں سے جسے چاہے پسند کر لے اور جسے چاہے واپس
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۶۵ سورة النور کردے.مسلمان بادشاہ جو حاکم رہے ہیں ہندوستان کے ایک وقت میں جب خوشامد بہت بڑھ گئی ان کی تو لوگ ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک ایک ہزار تحفہ ایک عید کے موقع پر ان کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان کا دستور یہ تھا کہ مثلاً ایک کپڑا پسند کر لیا ان پانچ سونہایت قیمتی کپڑے کے تھانوں میں سے جوان کے سامنے رکھے گئے تھے اور کہا باقی تم واپس لے جاؤ جس طرح چاہو استعمال کرو.ملک کے لحاظ سے اقتصادی طور پر فائدہ بھی تھا اس میں.لیکن ان کی ایک چیز اٹھا لیتے تھے وہ اپنی رعایا میں سے ایک فرد کو خوش کرنے کے لئے.جو انسان بادشاہ کو حق دیتا ہے کہ جس چیز کو چاہے پسند کرے اور قبول کر لے لیکن اپنے خدا سے جو خالق اور مالک ہے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہر رطب و یابس جو ہم اس کے حضور پیش کریں وہ اسے قبول کر لے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے جس چیز کو چاہتا ہے، جن اعمال صالحہ کو پسند کرتا ہے قبول کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ تمہیں پاکیزگی بخشتا ہے، طہارت پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرتا ہے.پاکیزہ اعمال تم سے سرزد ہوتے ہیں اور وہ تم سے خوش ہوتا ہے اور اپنے قرب کی راہیں تمہارے اوپر کھولتا و لكنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ اگر خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ قرار دے اس وقت تک وہ پاک نہیں ہو سکتا.اس لئے اس میدان میں عاجزانہ راہوں کو چھوڑ نا ہلاکت کی راہ کو اختیار کرنا ہے.سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ اَنْشَاكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي b بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ٣٣) خدا تعالیٰ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب تمہارے جسم کے ذرے ابھی مٹی میں ملے ہوئے تھے اور اس نے ان ذروں کو اٹھایا اور ایک مادی جسم پیدا کر دیا.وہ اس وقت سے تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا.پھر کم و بیش نو مہینے تم اپنی ماں کے پیٹ میں رہے.نہ ماں کو پتا تھا کہ یہ بچہ کیسا ہے نہ اس بچے کو ہوش تھی کہ میں کیا بنوں گا لیکن خدا جانتا تھا.پس وہ اس وقت سے تم کو خوب جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں پوشیدہ تھے.پس اپنی جانوں کو پاک مت قرار
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۶۶ سورة النور دو - فَلَا تُرَكُوا انفسکم پاک قرار دینا اسی کا حق ہے جو اس وقت سے علم رکھتا ہو جب ذراتِ زمین ابھی جسمانی روپ میں ظاہر نہیں ہوئے اور بچہ بن کے ماں کے پیٹ میں نہیں گئے اور اس وقت سے جانتا ہے کہ جب ماں بھی نہیں جانتی تھی کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ کیسا نکلے گا اور نہ اس بچے کو کوئی ہوش تھی اس لئے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ اتَّقَى یہ فیصلہ کرنا کہ متقی کون ہے اسی ہستی کا کام ہے جو اس وقت سے زمین کے ذروں کو جانتا ہو جس نے جسم بننا ہے اور جو ماں کے رحم میں بچہ کروٹیں لے رہا ہے (اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے ایک وقت کے بعد ) صرف اللہ جانتا ہے.نہ ماں جانتی ہے نہ باپ جانتا ہے نہ خود بچہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے آئندہ؟ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ صرف مجھے اختیار ہے اور مجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس کا کام ہے کہ وہ کس شخص کو تقی قرار دے، کسے متقی قرار نہ دے.اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر دے جنون کی کسی حالت میں کہ میں بھی ان ذرات کے وقت سے جب ابھی جسم نہیں بنے تھے جانتا ہوں بعض لوگوں کو اور ماں کے پیٹ میں جب وہ کروٹیں لے رہے تھے اس وقت سے میں جانتا ہوں اور میں متقی قرار دیتا ہوں، یہ تو جنون ہوگا.ہر آدمی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے اور تیرے حواس کو درست کرے.پس اعلان یہ ہو گیا قرآن کریم میں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے جو اس وقت سے تم کو جانتا ہے کہ تم زمین میں مادی ذرات کی شکل میں تھے.پھر اس نے تمہیں اکٹھا کیا اور ایک جسم دیا.انسان کو خلق کیا اور احسن صورت بنائی دوسری آیت میں ہے.اس وقت سے جانتا ہے جب یہ احسن صورت بنانے کی Process شروع ہو چکی تھی ماں کے پیٹ میں.وہ جانتا ہے کہ اس نے تمہیں کون سی صلاحیتیں اور قو تیں اخلاقی اور روحانی طور پر دیں وہ جانتا ہے کہ تم نے انہیں ضائع کر دیا یا ان کی صحیح نشو نما کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا.یہ بات خدا کا پیار ملا یا نہیں ملا یہ تو خدا ہی بتا سکتا ہے نا.اس واسطے فلا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) یہ حکم دے دیا.اور سورہ نساء میں یہ فرمایا - اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ اَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۶۷ سورة النور يُظْلَمُونَ فَتِيلًا أَنْظُرُ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ اثْمًا مُّبِينًا (النساء:۵۱،۵۰) کیا تجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جو اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں.ان کا یہ حق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتا ہے اسے پاک قرار دیتا ہے.وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انظر کیفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ کہ دیکھ وہ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں.جب وہ کسی کو پاک اور مطہر قرار دیتے ہیں تو اس کا تو مطلب یہ ہے نا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر ہے وہ.خدا تعالیٰ کہتا ہے دیکھو.وہ کس طرح خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور یہ و کفی پہ انا مبينا کھلا کھلا گناہ ہے.ایک دوسرے کو یا اپنے آپ کو متقی اور پر ہیز گار قرار دینا ، خدا تعالیٰ پر و جھوٹ باندھنا اللہ مبین ہے، ایک ایسا گناہ کرنا ہے جو چھپی ہوئی بات نہیں، کھلی بات ہے.اس واسطے کہ پاک اور متقی کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو خدا کی نگاہ میں پاک اور متقی ہو.پاک اور متقی کے معنی اسلامی تعلیم کی رو سے یہ نہیں کہ کوئی جماعت کسی دوسری جماعت کو پاک اور متقی قرار دے دے.پاک اور متقی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص پاک اور متقی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کو پاک اور متقی قرار نہیں دیتا اور ایک شخص یا ایک گروہ یا ایک علاقہ یا ساری دنیامل سے کسی کو پاک اور متقی قرار دے تو وہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے اور کھلم کھلا گناہ ہے.بہت سی اور آیات ہیں جن میں اس مضمون کے بعض دوسرے پہلو بیان کئے گئے ہیں.ان میں سے میں نے تین کو اٹھایا ہے.اس واسطے انسان کا جو کام ہے وہ انسان کو کرنا چاہیے اور انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے کبھی تکبر نہ کرے.کبھی کسی سے خود کو بڑا نہ سمجھے کبھی گھمنڈ اور فخر اس کے دل میں پیدا نہ ہو.نہ دنیوی برتریاں ، جو دنیا کی نگاہوں میں ہیں ان کے نتیجہ میں، نہ دین میں جب دین خدا اسے عطا کرے، نا سمجھی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی تلاش کرنے کی بجائے جو دعا کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہوتے ہیں خود ہی فیصلہ کرنا شروع کر دے کہ میں یا فلاں لوگ جو ہیں وہ پر ہیز گار اور متقی ہیں.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۹۴ تا ۹۸)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث b ۵۶۸ سورة النور آیت ۳۶ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبْرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَ يَضْرِبُ اللهُ الأمثالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ خدا تعالیٰ جو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس نے عقل کے لئے ایک ٹور کے حصول کا راستہ بتایا تھا اور وہ یہ کہ اللہ کا قرب حاصل کرو.اس کے ساتھ ذاتی تعلق کو قائم کرو.اس سے محبت ذاتیہ کے نتیجہ میں اپنی زندگیوں پر ایک فنا وارد کرو.ٹور کے حصول کی اس راہ کو انہوں نے اپنے اوپر بند کر لیا اور محض اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہوئے بھلائی کی بجائے دکھوں کے سامان پیدا کرلئے.ہم لوگ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں ہمارے لئے قرآن کریم نے کھول کر بیان کر دیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے نور کو حاصل کرنے کے بعد عقل کا صحیح استعمال کیا جا سکتا ہے اور جس کے بغیر عقل صحیح نتائج پیدا نہیں کر سکتی اس لئے ہمیں قرآن کریم پر تدبر کرنا چاہیے، قرآن کریم کو غور سے پڑھنا چاہیے.جن باتوں کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ انسان کی صحیح عقل اس نتیجہ پر پہنچے گی اس کو علی وجہ البصیرت سمجھنا چاہیے کہ واقعی وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.ماضی میں جائیں تو ایک وقت میں جب مسلمان اپنے عروج کو پہنچے ہوئے تھے تو قطع نظر اس کے کہ کوئی شخص عیسائی تھا یا مسلمان تھا، امت مسلمہ میں انسان کی عقل نے ہر ایک کی خوشحالی کے سامان پیدا کر دیئے تھے اور اتنا حسین معاشرہ پیدا کر دیا تھا کہ آج کی بہکی ہوئی عقل حیران ہو جاتی ہے یہ سوچ کر کہ اچھا! اس قسم کے سامان بھی عقل پیدا کرسکتی ہے.غرض ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ محض عقل خطا سے بہر حال خالی نہیں خطا بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے
عطا کرے.۵۶۹ سورة النور تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اور جب خطا ہے تو صحیح کام کرنے کے لئے کوئی ذریعہ ہونا چاہیے اور چونکہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کے زوجین پیدا کئے ہیں اس لئے عقل کا بھی ایک اور ساتھی ہے.جب یہ دونوں مل جاتے ہیں یعنی نور آسمانی عقل کے ساتھ ملتا ہے تو پھر عقل صحیح راستوں پر کام کرتی ہے اور صحیح نتائج پیدا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سمجھ عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کے صحیح نتائج نکالنے کے سامان (خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۱۲۲) پھر ہم جنہیں مقام محمدیہ کی معرفت ملی ہے ہم جانتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم نور کی حیثیت سے دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكُم نُورًا مُّبِينًا (النساء : ۱۷۵) اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ النور کی آیت نمبر ۳۶ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ مَثَلُ نُورِہِ گمشکوۃ میں حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی مثال دی گئی ہے یعنی ایک تفسیر اس کی یہ ہے کہ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ “ کا تو اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور مَثَلُ نُورِهِ كَمِشکوۃ “ سے جس کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم ہے یعنی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک طرف تو اپنی پیدائش اور خلق کے لحاظ سے ان قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا ہوئی تھیں آپ نور مجسم تھے اور اس نور مجسم پر جب آسمانوں سے اللہ تعالیٰ ( جو سر چشمہ ہے تمام انوار کا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار بھی اسی سرچشمہ سے نکلتے ہیں) کی وحی نازل ہوئی تو آپ نُورٌ عَلیٰ نُورِ ہو گئے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خدا دا د نور تھے جو روحانی قوتوں اور استعدادوں کی شکل میں آپ کو عطا ہوئے تھے ان پر جب اللہ تعالیٰ کی وحی کا نُور نازل ہوا تو کامل ٹور کی صورت آپ بنی آدم کی طرف مبعوث ہوئے اور آدم سے لے کر ہر نبی نے آپ ہی کے نور نبوت سے اپنی شمع نبوت روشن کی.پھر ہم لوگ جو حقیقت محمدیہ کو پہچانتے ہیں جانتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام اخلاق فاضلہ کو اپنے وجود اور اُسوہ میں جمع کرنے والے تھے جس کی جھلک ہمیں گزشتہ تمام انبیاء میں مختلف طور پر نظر آتی ہے.پس انبیائے ماسبق اور خدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو بعد میں پیدا ہونے والے
۵۷۰ سورة النور تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تھے ان سب کے اندر ہمیں اخلاق فاضلہ کی جو جھلک نظر آتی ہے جو متفرق طور پر آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک بنی نوع انسان میں پھیلی ہوئی ہے وہ تمام اخلاق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع نظر آتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے یہ فرمایا: " إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ “ (القلم: ۵) پھر ہم جو اس علم پر علی وجہ البصیرت قائم کئے گئے ہیں کہ حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور ختم المرسلین ہیں.ہم یہ جانتے ہیں اور دنیا میں اس کی منادی کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجد داعظم ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ اظہار صداقت کے لئے آپ جیسا کوئی اور مجدد پیدا نہیں ہوا.سچائی کے اظہار کے لئے گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لانے کے لئے آپ ہی سب سے بڑے مجدد ہیں.روحانیت کے قیام کے لئے حقیقتا آپ ہی آدم ہیں کیونکہ آدمِ اول نے آپ ہی سے سچائی کو حاصل کیا اور آپ ہی کے طفیل اس سچائی اور صداقت کو وقت کے تقاضے اور پہلی نسل کی صلاحیت کے مطابق دنیا پر ظاہر کیا لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو مجدد اعظم ہیں آپ کے طفیل تمام انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچے.پہلے کسی وجود میں یہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی.اس میں شک نہیں کہ انسان نے بعض پہلوؤں سے ترقی کی اور ایک حد تک کمال کو حاصل کیا لیکن یہ کہ ہر انسان اپنے تمام فضائل کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر کمال تک پہنچانے کے قابل ہو سکے یہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا.آپ دنیا میں آئے اور اپنا کامل نمونہ دنیا میں پیش کیا اور ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دی جس کے نتیجہ میں انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچ سکنے کے قابل ہوئے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر بھی تقاضے رکھے ہیں یا انسانی وجود کی جس قدر بھی شاخیں ہیں ان تمام کے لئے یہ سامان پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ معلم اعظم بھی حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ” وَ عَلَيْكَ مَا b لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا " (النساء : ۱۱۴) وہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوا ہے جو تم بحیثیت ایک بشر کے اپنے زور سے خود بخود حاصل نہیں کر سکتے تھے اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ آپ پر ہوا جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت جس کو ہم معارف الہیہ بھی کہتے ہیں اور اسرار اور علومِ ربانی جو ہیں ان کے جاننے میں آپ اعلم تھے یعنی آپ سے زیادہ ان کا عرفان رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہوا اور جو زیادہ جانتا ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷۱ سورة النور b وہی سب سے زیادہ سکھا بھی سکتا ہے اگر آپ علم کی سوا کا ئیاں فرض کریں تو جس شخص کو پچاس اکائی کا علم ہے وہ ساٹھ اکائی نہیں سکھا سکتا.سو کی سوا کائی وہی سکھا سکتا ہے جو خود سوا کائی کا علم رکھتا ہو.پس عَلَمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ۱۱۴) میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کے میدان میں ( علم روحانی لیکن علم جسمانی کے اصول بھی اسی علم روحانی کے نیچے آتے ہیں ) جتنا فضل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا اتنا کسی اور پر نہیں ہوا.جس قدر انسان کو علم روحانی کی ضرورت تھی وہ سب آپ کو سکھایا گیا اور آپ کے طفیل نوع انسانی اس قابل ہوئی کہ اگر وہ کوشش اور ہمت سے کام لے تو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنی علمی استعدادوں کو کمال تک پہنچاسکتی ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۶۴ تا ۶۶) یہ دو حقیقتیں ہیں جو ایک ہی وجود میں پائی جاتی ہیں اور نوع انسانی نے ان حقائق مقام محمدیت سے دو مختلف فائدے اٹھائے ہیں قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم (حم السجدۃ: ۷۱) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں یہ اعلان کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اُسوہ کی شکل میں بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے کیونکہ اگر یہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ سپر مین (super man) ہیں اور بشر سے کوئی بلند و بالا چیز ہیں تو انسان کہتا کہ میں عاجز انسان ایک ایسی ہستی کی جو بشر سے کہیں بالا ہے، پیروی کیسے کر سکتا ہوں وہ میرے لئے اُسوہ کیسے بن سکتی ہے تو بشر کہہ کے آپ کو اسوہ بنایا اور نور کہہ کے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا کیونکہ کامل نور مظہر اتم الوہیت ہے ویسے اصل نور تو اللہ ہے اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ لیکن اللہ کے بعد مخلوق میں سے جو کامل نور کی حیثیت سے دنیا کی طرف آیا وہ خاتم الانبیاء ہے اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بشر ہونے کے لحاظ سے مختلف ہے بشر کے مقام کے نتیجہ میں آپ اُسوہ بنے اور نور ہونے کے لحاظ سے آپ ایک طرف مظہر اتم الوہیت بنے اور دوسری طرف لولاك لما خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ (موضوعات کبیر زیر حرف لام) کی صداقت انسان کے سامنے رکھی گئی نور ہونے کی حیثیت سے آدم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء سے نُور حاصل کیا لیکن بشر ہونے کے لحاظ سے چونکہ آپ نے اس دنیا میں زندگی بعد میں گذاری اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ السلام کے لئے اُسوہ تو نہیں بن سکتے تھے.آدم نے تو آپ کی شان دیکھی ہی نہیں ہزاروں سال کے بعد آپ کی پیدائش ہوئی لیکن بعد میں آنے والی اُمت
۵۷۲ سورة النور تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے لئے بشر ہونے کے لحاظ سے آپ اسوہ ہیں اور یہ اُسوہ قیامت تک کے لئے ہے اور نور ہونے کے لحاظ سے لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کا نعرہ لگایا گیا اور اس سارے جہان میں جہاں بھی ہمیں نور نظر آتا ہے انسان کے اندر یا دوسری مخلوق میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کے طفیل نظر آتا ہے.انبیاء نے بھی نور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حاصل کیا اور ذہنوں نے نور فراست بھی وہیں سے حاصل کیا اور درختوں نے نور روئیدگی بھی وہیں سے حاصل کیا اور گھوڑے اور بیل اور یہ جو جانور ہیں انہوں نے نورِ خدمت بھی وہیں سے حاصل کیا اس لئے کہ یہ جو آپ کا مقام نور ہونے کا ہے اس کے نتیجے میں آپ کو لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَ فَلَاكَ ( موضوعات کبیر زیر حرف لام ) کہا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ئنات کا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے بنایا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اور اپنے بعد نور کامل کے طور پر پیدا کرنا چاہتا تھا اگر حضرت خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامل نور انسانی یعنی انسان بھی اور کامل نور بھی ، نہ بنایا ہوتا تو یہ کائنات نہ بنائی جاتی اور اگر یہ کائنات نہ پیدا کی جاتی تو پھر نہ درختوں کا نور ہوتا ، نہ حسینوں کے حسن کا نور نہ کام کرنے کےحسن عمل کانور، نہ نبیوں کا نور.یا مقربین الہی کا نور کوئی نور ہوتا ہی نہ.تو اس کا ئنات کی تخلیق کا منصو بہ نُور ہے یہ نور ہے.جس کے متعلق انسان کو کہا گیا کہ وہ تمہیں بلاتا ہے تم لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑ و کیونکہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندگی دے اور اس کا ئنات میں جو سب سے حسین نور اور سب سے اچھا نور ہمیں نظر آتا ہے وہ زندگی کا نور ہے یعنی وہ نور جو الحی القیوم کے ساتھ وابستگی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اور اس کے نتیجے میں یہ نور کا مقام ہے خاتم الانبیاء مقام کا نور کامل کا مقام ہے اور آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اگر ایک لاکھ بیس ہزار نبی آئے تو ایک لاکھ بیس ہزار نبی نے اور اگر دوسروں کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی نے اس ٹور سے نُور لیا اور خاتم الانبیاء کے نتیجہ میں آدم نبی بنے اور نوع نبی بنے اور موسیٰ نبی بنے اور عیسٹی نبی بنے اور ابراھیم علیہم السلام نبی بنے اگر اس کا ئنات میں یہ ٹور نہ ہوتا یعنی پلینڈ (planned) نہ ہوتا اس کا منصوبہ نہ ہوتا تو نہ آدم کی ضرورت تھی نہ نوح کی نہ ابراہیم کی نہ موسیٰ کی نہ عیسی علہیم السلام کی کسی کی بھی ضرورت نہیں تھی.پہلوں نے بھی خاتم الانبیاء سے نور لیا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی
۵۷۳ سورة النور تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث قیامت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء سے نور لیا یا لیں گے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے مدارج ان کو ملیں گے تو ایک لاکھ بیس ہزار آ گیا اور ایک کے اوپر اعتراض پیدا ہو گیا.یہ جو خاتم الانبیاء کا مقام ہے اس کے متعلق آپ نے فرمایا یہ میرا استدلال نہیں ہے بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں خاتم النبین تھا اور ابھی آدم پیدا نہیں ہوا تھا اس کا وجود مٹی کے ذروں میں گم ہوا ہوا تھا اور مٹی کے ذروں کے ساتھ رُل رہا تھا اور مجھے اس وقت خدا تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنادیا تھا یہ بات تو واضح ہے کہ خاتم الانبیاء کا مقام بشر کا مقام نہیں ہے خاتم الانبیاء کا مقام نور کا مقام ہے، سراج منیر کا مقام ہے جس طرح چاند ہے یا جو سورج کے گرد گھومنے والے ستارے ہیں وہ چاند اور وہ ستارے سورج سے ٹور لے کر اپنا نور ظاہر کرتے ہیں اسی طرح پہلوں نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کے نُور سے ٹور لیا اور وہ دنیا میں چمکے اور بعد میں آنے والوں نے بھی آپ ہی کے نُور سے ٹور لیا یعنی ہر قسم کا قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی حاصل ہوتا ہے صدیق بھی نہیں بن سکتے جب تک آپ سے نور نہ لیں اور شہید یا صالح بھی نہیں بن سکتے جب تک یہ ٹور نہ حاصل کریں ان سے بھی جو کم ہیں یعنی چھوٹے سے چھوٹا پیار بھی خدا سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اس نور کی جھلک ان کے اندر پیدا نہ ہو تب اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اپنی کچھ مشابہت دیکھ کر یعنی اس ٹور کی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کیا ہوتا ہے اپنے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے.یہ ہے ہمارا ایمان اور یہ ہے ہمارا عقیدہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق، کہ ایک ہی وقت میں آپ بشر بھی ہیں اور ٹور بھی ہیں.نور کے متعلق میں نے ذرا تفصیل سے بتایا ہے اور بشر کے متعلق میں نے مختصر بتایا ہے لیکن بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اُسوہ بننے کے لئے سپر (super) کی ضرورت نہیں تھی.کوئی بن ہی نہیں سکتا.انسان انسان کے لئے اسوہ بن سکتا ہے اور بشر بشر کے لئے اُسوہ بن سکتا ہے.فرشتے بشر کے لئے اسوہ نہیں بن سکتے.تو خدا نے آپ کو بشر بنایا اور قرآن کریم نے آپ کی وفات کا ذکر کیا.شعراء روئے کہ ہماری آنکھوں کا نور تو تھا.شاعر بھٹک بھی جاتا ہے اور یہاں بھی شاعر بھٹکا کہ میری آنکھوں کا نور تو تھا.اب میرے لئے دنیا اندھیر ہوگئی ہے یہ درست ہے کہ یہ جذبات کا اظہار ہے اور بڑا پیارا اظہار ہے لیکن آنکھوں کا نور تو ہم سے علیحدہ نہیں ہوا وہ تو جب سے دنیا بنی ہے وہ نور اس دنیا، اس کا ئنات کے ساتھ لگا ہوا ہے سب سے پہلا نبی جو دنیا کی طرف آیا اس نے بھی اس ٹور سے حصہ لیا وہ نُور دنیا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۴ سورة النور سے کس طرح علیحدہ ہو گیا لیکن یہ ٹھیک ہے کہ بشر کا جو وجود تھا اس کے لحاظ سے کچھ عرصے کے بعد وفات ہوگئی لیکن بنی نوع انسان کے لئے اتنا عظیم اُسوہ آپ نے چھوڑا ہے.بنی نوع انسان تو جب تک مانے نہیں فائدہ نہیں اٹھا سکتے.آپ نے اپنے متبعین، امت محمدیہ کے لئے اتنا عظیم اُسوہ چھوڑا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.بشر کے لحاظ سے بھی ہم آپ کی ذات اپنے تصور میں لا ئیں یا ٹور اور سراج منیر کے لحاظ سے آپ کی ذات اپنے تصور میں لائیں بے اختیار ہمارے منہ سے نکلتا ہے اللهم صلِ على محمد و على آل محمد.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۱ تاس ۸۴) سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ کی جن بنیادی صفات کا ذکر ہوا ہے وہ چار ہیں.ان کو اصل الاصول صفات باری یا اتم الصفات سمجھنا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ان ہی چار صفات کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں تعلق رکھتی ہیں.اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی اُتم الصفات ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ( میں قرآن کریم کی زبان میں بات کر رہا ہوں ) قرآنِ کریم کا یہ دعوی ہے کہ یہ صفات آپ کے اندر پائی جاتی تھیں.تو پھر ہمیں تاریخ دیکھنی پڑے گی.جس کو وقتی طور پر ہم ایک حد تک نظر انداز بھی کر سکتے ہیں اور کچھ مثالیں بھی دے سکتے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ رب العالمین کی صفت کامل طور پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی اور رحمانیت کی کامل صفت آپ کے اندر پائی جاتی تھی اور اسی طرح رحیمیت کی اور مالکیت کی صفت بھی آپ کی ذات میں جلوہ گر تھی اور چونکہ یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی ساری صفات کی اصل یا اُمّم الصفات ہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام صفات باری تعالیٰ کا مظہر اتم ہے.یہ چار صفات جو سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بیان کی ہیں اور جن کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ اصل الاصول اور اُم الصفات ہیں.قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اللہ تعالیٰ جو تمام صفاتِ حسنہ کا مالک ہے.اُس میں کوئی عیب یا نقص، کوئی اندھیرا یا ظلمت نہیں پائی جاتی.تمام جہانوں کا حقیقی ٹور وہی ہے.اس حقیقت کو شاید بچوں کے لئے سمجھنا مشکل ہوگا اس لئے میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سمجھا دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: یہ سورج کی روشنی نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا نور ہے جو سورج کی چادر میں چُھپ کر یا لپٹ
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷۵ سورة النور کر دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے.یہ چاند کا نو رنہیں ہے جو اندھیری راتوں کو متو رکرتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ ہی کا نور ہے.جو چاند کی چادر میں اپنے کو لپیٹتا اور اس مادی اور ابتلاء اور امتحان کی دنیا کو جگمگا دیتا ہے.یہ گلاب کی خوشبو نہیں ہے جو مشام جان کو معطر بنا دیتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے لطف و کرم کا پر تو ہے جو انسان کو لذت اور سرور بخشتا ہے اور گلاب کے پردے میں چھپ کر سامنے آتا ہے اور یہ بادل نہیں جو مینہ برساتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہیں جو بادل کی شکل اختیار کرتی ہیں اور مینہ برسانے لگ جاتی ہیں.خیر یہ ایک بڑا گہرا مسئلہ ہے جو لوگ اس کو سمجھتے ہیں وہ اس سے حظ اٹھا سکتے ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ وہ ہے.یہ گویا خدا کے حسن کا اعلان ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حسن کی خوبیاں جو کسی فرد یا گروہ کو عملاً فائدہ پہنچاتی ہیں.یہ وہی ٹور اور وہی حسن کی صفات ہیں جو مختلف شکلوں میں انسان پر ظاہر ہوتی ہیں.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۸۴،۵۸۳) اسی طرح اسلام نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے.اس مضمون کا یہ حصہ ذرا دقیق ہے آپ اسے غور سے سنیں.خدا آپ کو سمجھنے کی تو فیق دے.کا ئنات محدود ہے یعنی خدا تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ تو محدود ہے.محض انفرادی حیثیت ہی میں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی یہ کائنات محدود ہے لیکن اس کا ئنات کا صانع یعنی خدا تعالیٰ غیر محدود ہے.اس لئے جہاں اس کی صفات کے جلوے کائنات میں ظاہر ہوتے ہیں، قرآن کریم کی اصطلاح میں انہیں تشبیبی صفات کہا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی جو تنز یہی صفات ہیں وہ وراء الوراء مقام رکھتی ہیں.ہم عاجز بندے اس کو سمجھ نہیں سکتے وہ ہماری عقل سے بالا ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے عرش کو مخلوق کہنا اور اس بحث میں پڑنا غلط ہے.عرش اس وراء الوراء مقام کا نام ہے جس میں خدا تعالی کی تنزیہی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں لیکن جہاں تک کا ئنات کا تعلق ہے اس میں انسان کوشش کرتا ہے اور سائنس اور تحقیق اور خدا داد علم کے ذریعہ ترقی کرتا ہے.انسان کی یہ ترقی خدا تعالیٰ کی تشبیہی صفات کے پر تو کے نتیجہ میں ہوتی ہے.کائنات سے پرے خدا تعالیٰ کا جو بھی مقام ہے وہ انسانی عقل سے پرے ہے ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے ، مگر جہاں تک کائنات کا سوال ہے اس میں
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۶ سورة النور اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ آسمان اور زمین میں کائنات کے ہر حصے میں خدا تعالیٰ ہی کا نُور جلوہ گر ہے اور ہر مخلوق میں ہمیں خدا ہی کے چہرے کی چمک نظر آتی ہے.اس کے بغیر سب تاریکی اور ظلمت ہے.ہر چیز نور خدا تعالیٰ کی ذات سے ہی لیتی ہے.پس یہ جو کائنات ہے اور جو ماوراء کائنات ہے اس کا ہم ہلکا سا مبہم سا تصور ذہن میں لائیں تب ہمیں کچھ شعور حاصل ہو سکتا ہے.اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کس معنی میں غیر محدود ہے یہ ہمیں اسلام نے بتایا ہے کہ خدا کی ذات قطعی طور پر غیر محدود ہے اس کی حد بست نہیں کی جاسکتی.وہ کائنات کے ہر حصہ میں ہر وقت اسی طرح موجود ہے جس طرح وقتی طور پر ایکسرے کی شعاعیں انسان کے جسم کے بعض حصوں میں جہاں سورج کی روشنی نہیں کی جاسکتی وہاں موجود ہوتی ہیں.پس اصل نُور جو ہے وہ خدا کا ہے.میں نے قرآن کریم میں لفظ ”نور“ پر بڑا غور کیا ہے.نور خدا ہی کا ہے دوسری چیزوں کے لئے جب ہم ٹور کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ مجازی معنے میں کرتے ہیں.حقیقی معنے میں نور اللہ ہی کا ہے.مثلاً خدا کے نور میں اور ایکسرے کی شعاعوں میں غیر محدود فاصلے ہیں یعنی اتنی کثیف ہے ایکسرے کی شعاع خدا تعالیٰ کے نُور کے مقابلے میں کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا.سورج ہے اس کی روشنی اندر نہیں آرہی.اس کو دیواروں نے روک لیا ہے.ایکسرے کی شعائیں ایک حد تک جسم کے اندر داخل بھی ہو گئیں اور بہت سی چیزیں جو دوسری روشنی کی شعاعوں کو روکتی ہیں وہ نہ رہیں لیکن خدا تعالیٰ کا نور ہر چیز میں سرایت بھی کر رہا ہے اور اس سے جدا بھی ہے.اس سے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اس کے متعلق میں آگے بیان کروں گا.پس اصل نور خدا کا نُور ہے اور کائنات بھی اسی ٹور سے معمور ہے اور کائنات کا کوئی ذرہ بلکہ اس ذرہ کا اربواں حصہ بھی اس سے خالی نہیں اور جو ماوراء کا ئنات ہے وہ بھی خدا کے نور سے معمور ہے.پس ایک لحاظ سے خدا تعالیٰ قریب ہے.جیسا کہ فرمایا کہ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ اور پھر فرمایا وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( ق : ۱۷) اور بہت سی آیات ہیں جو بتاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کے کتنا قریب ہے گویا خدا تعالیٰ کا جونور ہے اس کا کائنات کے ہر ذرہ سے ایک پختہ تعلق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تعلق قائم نہ رہے اور جہاں وہ تعلق نہ رہے وہاں فنا آ جاتی ہے.وہ چیز جو خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرے وہ قائم نہیں رہ سکتی.جب اس کا ئنات پر فنا آتی ہے چھوٹے پیمانے پر
۵۷۷ سورة النور تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث بھی اور بڑے پیمانے پر بھی تو وہ فنا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نور کا تعلق اس سے قطع کر لیتا ہے تب اس چیز پر فتا آ جاتی ہے لیکن اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ کی رو سے انسان میں بھی خدا تعالیٰ اپنے ٹور کے ساتھ موجود ہے.پس اس لحاظ سے انسان کے ساتھ اس کا بہت گہرا تعلق ہے پاکیزگی اور طہارت کے ذریعہ.اس کے باوجود انسان کی جو مادی ترکیب ہے اور اس کا جو مادی وجود ہے وہ اپنی ہیئت کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے نور سے اتنا دور ہے اور اتنے فاصلے پر ہے کہ اس کو پھلانگنا نہ انسان کی کسی طاقت کا کام ہے اور نہ اس کی عقل کا کام ہے، آپس میں بہت زیادہ بعد ہے.قرب ہے تو ایسا کہ کوئی ذرہ بھی خدا کے نور سے خالی نہیں کیونکہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اور بعد ہے تو اتنا کہ انسان کی کیا مجال جو یہ کہے کہ میں خدا ہوں اس سے ملتا جلتا ہوں.چنانچہ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ سے ایک بد خیال پیدا ہو گیا لوگوں نے یہ سمجھا کہ پھر انسان عین اللہ بن گیا یا خدا کا وجود مخلوق کا عین بن گیا.اس قسم کی لغو اور غلط اور فلسفیانہ بخشیں ہمارے درمیان آ گئی ہیں حالانکہ ایسا سمجھنا غلط ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی جو اصلی شکل ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے.اللَّهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات غیب الغیب، وراء الوراء اور نہایت مخفی ہے ایسی مخفی کہ خالق اور مخلوق میں فرق کرنے کے لئے جتنے الفاظ بھی استعمال کر لئے جائیں کم ہیں بہر حال اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم اس دھو کے میں نہ رہنا کہ چونکہ اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ہے اس لئے انسان خدا بن گیا یا خدا انسان میں حلول کر گیا ہے.اس قسم کے غلط خیال بعض لوگوں نے اپنا لئے ہیں جو درحقیقت گمراہی کا نتیجہ ہیں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۰۷ تا ۲۰۹)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۵۷۹ سورة الفرقان بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفرقان آیت ٣ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے سلسلہ نظام قدرت میں قضا و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا اور باندھ دیا ہے سلسلۂ نظام قدرت سے مراد وہ قوانین قدرت ہیں جو ہمیں اس کا ئنات میں جلوہ گر نظر آتے ہیں اور میں نے بتایا تھا کہ قوانین قدرت نہایت ہی حکیمانہ آثار صفات کا نام ہے.گو یا سنت اللہ یا عادت اللہ ہی کو قوانینِ قدرت کہا جاتا ہے اور نظام قدرت کا جو سلسلہ ہے اس میں ہمیں اسباب کام کرتے نظر آتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے اپنی صفات کے آثار کو اس طرح پر ظاہر کیا ہے کہ اس نے کچھ اسباب مقرر کئے ہیں جن سے نتیجہ نکلتا ہے اور اِس کائنات میں بنیادی طور پر تدریج کا اصول قائم کیا گیا ہے مثلاً آم کی گٹھلی ہے وہ زمین میں لگائی جاتی ہے، اگر اس کو اسباب میسر آجائیں تو وہ زندہ رہتی ہے اور اگر اسباب میٹر نہ آئیں تو اس گٹھلی سے جو آم کا درخت پھوٹا ہے وہ اپنی ابتدائی عمر میں ہی مرجاتا ہے.پھر اگر اسباب میستر آتے رہیں تو وہ درخت بڑھتا رہتا ہے، پھر اسباب میسر آتے رہیں تو ایک خاص عمر کو پہنچ کر جو تقدیر میں مقدر ہے اس کے شگوفے نکلتے ہیں، پھول آتے ہیں اور وہ پھل دینے لگ جاتا ہے پھر وہ ایک خاص عمر تک پھل دیتا رہتا ہے.پھر ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں کہ اُس آم کی عمر ڈھلنے لگتی ہے اور پھل کم ہونے لگتا ہے اور ٹہنیوں میں خشکی کے آثار آنے لگتے ہیں اور زندگی کی طراوت کم ہونی شروع ہوتی ہے اور پتوں کا حسن ماند پڑنے لگ جاتا ہے اور پھر ایک عمر گزار کے وہ درخت مرجاتا ہے.پس اس کا ئنات میں تدریج کا اصول اور اسباب مقرر ہیں اور
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۰ سورة الفرقان اس کو ہم قانونِ قدرت کہتے ہیں اور قضا و قدرکوان اسباب کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:.خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدرَة تَقْدِيرًا ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازوں سے تو کوئی چیز باہر نہیں جاسکتی لیکن خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازوں کے اندر رہتے ہوئے اور ان کے مطابق ہی زندگی Unfold ہوتی ہے اس کے خفیہ خواص ظاہر ہوتے رہتے ہیں.ایک بالکل چھوٹے سے پیچ یا گٹھلی سے زندگی شروع ہوتی ہے اور پھر وہ نشو ونما پاتی ہے.اسی گٹھلی کے اندر یہ انتظام ہے کہ ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں پتے اپنے اپنے وقت کے اوپر نکلتے ہیں مثلاً آم کے درخت کے سارے پتے ایک موسم میں یا ایک سال میں تو نہیں نکل آتے بلکہ کچھ جھڑتے ہیں اور کچھ نکلتے ہیں.اس کے کچھ اسباب ہیں اور اس کی کوئی علل ہیں اور یہ ان کے معلول بن جاتے ہیں اور اسی طرح ایک سلسلہ چلتا ہے.میں نے پچھلے خطبے میں دعا کے سلسلے میں ایک اور رنگ میں اس کے متعلق بتایا تھا.آج میں جبر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں..فَقَدرَة تَقْدِيرًا میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے اس اندازہ کی وجہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان صاحب اختیار نہیں رہا بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اختیارات ایک اندازہ کے مطابق ہیں اور وہ اپنے اختیارات میں اس اندازہ سے باہر نہیں جاسکتا اور اس کو یہ اختیارات دینا بھی کہ اس دائرہ کے اندر انسان آزاد ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے.جب خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کا اور انسانی خو کا اندازہ کیا تو اس کا نام اس نے تقدیر رکھا جس کا اس آیت میں ہمیں علم دیا گیا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختیارات برت سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.بڑی موٹی چیز ہے.بچے بھی اس کو سمجھ جائیں گے کہ ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم ہوا کے بغیر زندہ رہ سکیں.ہم سانس روک لیں اور سانس لیس ہی نہ اور پھر بھی زندہ رہ سکیں یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے.اسی طرح ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم پانی نہ پئیں اور اپنی حیات کو قائم رکھ سکیں کیونکہ پانی کو ایک سبب اور علت بنایا گیا ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت میں اور اس
۵۸۱ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کے جو آثار الصفات ظاہر ہوئے ہیں ان کے اندر پانی کو حیات کے قائم رکھنے کا ایک سبب بنایا گیا ہے.قرآن شریف نے اس پر دوسری آیات میں روشنی ڈالی ہے.پھر غذا ہے ہمارے علم میں ماریشس کی بعض بڑی تیز مرچیں بھی آئی رہی ہیں.خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ اختیار نہیں دیا کہ تمہارے معدے میں سوزش ہو اور پیچش کی وجہ سے انتڑیوں میں خراش آئی ہوئی ہو اور تم ماریشس کی ایک چھٹانک تیز مرچیں کھا لو اور تمہیں تکلیف نہ ہو تمہیں یہ اختیار نہیں ہے.پس ہماری زندگی کے جو عام اصول ہیں ان میں یا ہمارے کھانے پینے کی جو چیزیں ہیں ان میں ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم غلط چیز استعمال کریں اور ہمیں صحیح نتیجہ مل جائے.البتہ ہمیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ہم اپنی صحت کو قائم رکھنا چاہیں تو خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق اور اس کی ہدایت کے مطابق متوازن غذا کھا ئیں کیونکہ غذا کا صرف ایک جزو نہیں ہے کہ صرف نشاستہ ہے یا صرف پروٹینز ( یعنی لحمیات) ہیں بلکہ بہت ساری چیزیں ہیں.مثلاً گوشت کی قسم کی جو پروٹینز ہیں ان کی پھر آگے کئی قسمیں ہیں.پروٹین ہمیں گوشت سے ملتی ہے، پروٹین ہمیں دودھ سے ملتی ہے، پروٹین ہمیں پنیر سے ملتی ہے، پروٹین ہمیں اُخروٹ سے اور دوسرے Nuts یعنی گریوں وغیرہ سے ملتی ہے مثلاً بادام پستہ اور درجنوں اس قسم کی چیزیں ہیں.ڈاکٹر اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق پروٹین میں بھی ایک توازن قائم رکھنا چاہیے.خدا کو تو وہ نہیں جانتے.یہ فقرہ میں کہ رہا ہوں.بہر حال ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ انسان نے اگر صحت مند رہنا ہے تو اس کو اپنی روزانہ کی پروٹین کی مقدار میں بھی آگے یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ اتنے فیصد میں گوشت سے حاصل کروں گا ( گوشت کی آگے پھر کئی قسمیں بن جاتی ہیں مچھلی وغیرہ لیکن اس کو میں چھوڑتا ہوں ) اور اتنے فیصد میں پنیر سے حاصل کروں گا اور اتنی دودھ سے لوں گا اور اتنی بادام وغیرہ سے لوں گا اور اتنی میں Legumes یعنی دالوں سے لوں گا.دالوں میں سے کسی میں کم پروٹین ہوتی ہے اور کسی میں زیادہ.بہر حال خدا تعالیٰ کی شان ہے اس نے بے تحاشا چیز میں بنادیں اور ہمیں کہا کہ وَضَعَ الْمِيزَانَ اَلَّا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ (الرحمن : ۸-۹) کہ اس نے میزان پیدا کیا ہے اور تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول میزان کو اس بیلنس (Balance) کو توڑنا نہیں.اب انگریزوں نے بالکل اسی لفظ کا ترجمہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں Balanced Diet
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۲ سورة الفرقان یعنی متوازن غذا.قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ خدا نے ہر چیز میں میزان بنایا ہے اَلَا تَطْغَوْا فِي الْميزان تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول کو نہ تو ڑنا، اس بیلنس (Balance) کو Upset نہ کر دیناور نہ تمہاری صحتیں خراب ہو جائیں گی.پس ہمیں یہ تو اختیار ہے کہ ہم متوازن غذا کھائیں، وزن کو برقرار رکھیں اور ہمیں ٹھیک صحت مل جائے یا ہم اس اصول کو توڑیں اور بیمار ہو جائیں.اِذَا مَرِضْتُ (الشعراء: ۸۱) میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان خود بیمار ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی شفا کے لئے جھکتا ہے لیکن ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم گوشت کھا ئیں اور ہماری خواہش یہ ہو کہ ہمیں نشاستہ مل جائے اور ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم کھا ئیں پنیر اور یہ سمجھیں کہ ہمارے جسم میٹھے کا فائدہ حاصل کر لیں.یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے.وہاں خدا تعالیٰ نے اپنا قانون چلایا ہے.پس ایک دائرہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے.جب انسان کی فطرت کو پیدا کیا گیا تو اس فطرت کے اندر یہ اندازہ تھا اور یہ قضا و قدر تھی کہ اس دائرہ کے اندر انسان کو آزاد رکھا جائے گا.تو تقدیر میں جبر نہیں ہے یعنی خدا تعالیٰ کا خلق کا یہ جلوہ کہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی خواور فطرت کا ایک اندازہ کیا یہ اس کی تقدیر ہے اور یہ اس کا اندازہ ہے.یہ تقدیر جبر نہیں ثابت کرتی بلکہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں یہ تقدیر انسان کے اختیار کو ثابت کرتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کا اپنا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے.انسانی فطرت کی آزادی اور اس کے جو اختیارات ہیں یہ تقدیر نے اس کو دیئے ہیں اپنی طرف سے وہ انہیں حاصل نہیں کر سکتا تھا.یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کا ئنات میں ایک حکم جاری کرے اور انسان کہے کہ نہیں میں ایک دوسرا حکم جاری کروں گا.انسان خدا تعالیٰ سے لڑنے کی قدرت نہیں رکھتا لیکن بعض دفعہ انسان اپنی حماقت یا جہالت کے نتیجہ میں یا اس کے اندر شیطانی خو جوش مارتی ہے اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے لڑ پڑتا ہے لیکن اس کا اثر وہ نہیں نکلتا جو وہ چاہتا ہے کہ نکلے.پس انسان کو آزا در کھنا اور اس کو اختیار دینا خدا تعالیٰ کی تقدیر کا حصہ ہے اور اس نظام قدرت میں جو قوانین قدرت چل رہے ہیں ان میں قضا و قدر کو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے اسباب کے ساتھ وابستہ کر دیا اور باندھ دیا ہے.خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَة تَقْدِيرًا کی یہ تفسیر جو میں بتا رہا ہوں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
۵۸۳ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث نے کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر قرآنی کے متعلق ہمیں بہت سے اصول بتائے ہیں ان کی تفصیل میں تو میں نہیں جاؤں گا وہ علیحدہ مضمون ہے.ایک بات آپ نے یہ بتائی ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مفتر ہے یعنی اپنی تفسیر خود قرآن کریم کر رہا ہے.چنانچہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تقدیرا کے یہ معنی کہ خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر سے اور اپنی قضا و قدر سے انسان کو صاحب اختیار بنادیا ہے یہ معنی دوسری آیات سے وضاحت کے ساتھ ثابت ہونے چاہئیں.اگر قرآن کریم میں کسی اور جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی ضد ہو تو پھر یہ تفسیر غلط ہو جائے گی.پس قرآن کریم اپنی صحیح تفسیر کے لئے کسی غیر کا محتاج نہیں ہے بلکہ یہ اپنی آیات کی خود تفسیر کرتا ہے.یہ ایک عظیم کتاب ہے.دیکھو! قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُرَى (النجم : ۴۱،۴۰) که اجر حاصل کرنے کے لئے عمل کرنے کی ضرورت ہے انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور ایک جگہ فرمایا ہے فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمُ (الصف:1) بعض لوگ اس پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے گمراہی کا انتظام پیدا نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ جب انہوں نے حق سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں جو حق کی مناسبت رکھی تھی اس مناسبت کو زائل کر دیا اور وہ ان کے اندر نہیں رہی اور یہ قانون قدرت ہے کہ جو آدمی بدی کرتا ہے اور بدی پر اصرار کرتا ہے وہ بدی کی نفرت کو کھو دیتا ہے اور اس کے اندر اس کو خوشی اور لذت محسوس ہوتی ہے اور یہ اس کا اپنا قصور ہے.اس کی ظاہری اور موٹی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قانون قدرت میں سورج کو روشنی دینے کے لئے بنایا ہے لیکن انسان کے لئے اس نے یہ قانون بنایا ہے کہ اگر وہ کھڑکیوں اور دروازوں والے کمرے بنائے تو اگر وہ دن کے وقت کھڑکیاں دروازے کھلے رکھے یا ان پر شیشے لگے ہوئے ہوں تو کمرے کے اندر روشنی آئے گی.ہم ایسے دروازے لیتے ہیں جن میں شیشے وغیرہ نہیں لگے ہوئے تو اگر دروازے کھلے ہوں گے تو کمرے میں روشنی آئے گی.یہ قانون قدرت ہے اور اگر کوئی شخص اپنے کمرے کے دروازے بند کر دے اور شیشہ وہاں کوئی نہیں لگا ہوا تو وہاں پر اندھیرا ہو جائے گا.یہ قانون قدرت ہے.ہر فعل جو انسان سے صادر ہوتا ہے وہ اس کی مرضی سے ہوتا ہے.اب وہ صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند کرے اور چاہے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند نہ کرے اس کو یہ اختیار حاصل ہے لیکن جب وہ دروازہ
تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ۵۸۴ سورة الفرقان بند کرتا ہے تو اس کے اس فعل پر کہ اس نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں اور وہاں کوئی شیشہ بھی نہیں لگا ہوا اللہ تعالیٰ ایک اثر پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں پر اندھیرا کر دیتا ہے.یہ انسان کا فعل ہے کہ اس نے دروازے کھڑکیاں بند کر دیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر پیدا کیا کہ وہاں پر اندھیرا کر دیا.اسی طرح اندھیرے کمرے میں کھڑکیاں دروازے کھولنے کا عمل انسان کا ہے اور اس کے بعد جو روشنی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے مطابق ہوتی ہے.پس انسان اپنے دائرہ میں صاحب اختیار ہے اور انسان کا یہ اختیار اور انسان کی یہ آزادی قضاو قدر ہے یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا اور یہ اندازہ قائم کیا اور مقرر کیا ہے کہ اس حد تک نوع انسانی اپنے دائرہ میں آزا در ہے گی اور نوع انسانی کا ہر فرد اپنے اپنے دائرہ استعداد میں آزاد رہے گا.ہر انسان کا دائرہ استعداد مختلف ہے مثلاً ہر انسان علم کے حصول میں ایک جیسی ترقی نہیں کر سکتا.لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلَّا ما سعی کا اصول تو یہ ہے کہ اجر کے حصول کے لئے تمہارا عمل ضروری ہے اگر تم عمل نہیں کرو گے تو تمہیں اجر نہیں ملے گا.اس میں جبر کہاں سے ہوا؟ بالکل پوری طرح آزادی کا اعلان کر دیا ہے لیکن ہر شخص دوسرے شخص جیسا اور اتنی عقل والا عمل نہیں کر سکتا.ہر ایک کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے جو بڑے بڑے موجد ہیں ان کی استعداد اور ہے مثلاً جس نے ایٹم کی طاقت کا علم حاصل کیا ( گو اب اسے غلط طرف لے گئے ہیں ) اس شخص کو خدا تعالیٰ نے اتنی ذہنی طاقت دی تھی کہ وہ اس میدان میں یہ چیز ایجاد کر لیتا یہ ہر شخص کا کام نہیں تھا لیکن یہ طاقت اور قوت اس کو خدا تعالیٰ نے دی تھی.پس تقدیر کو جس معنی میں قرآن کریم استعمال کرتا ہے اس میں موٹی بات یہ ہے کہ خَلَقَ حل شَيْءٍ فَقَدَّرَة تَقْدِيرًا میں تقدیر کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور یہ تقدیر خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کو ضائع نہیں کرتی کیونکہ وہ خود اسی نے دی ہیں.البتہ ان قوتوں کی تعیین اور حد بندی اور اندازہ کر کے ان کو ایک دائرہ استعداد کے اندر رکھ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس دائرے کے اندر انسان کو اختیار ہے.ہر انسان ولایت کے اعلیٰ مقام پر پہنچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کا نیک بندہ اپنے دائرہ استعداد میں خدا تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اسے پا بھی لیتا ہے.یہ تو درست ہے لیکن ہر انسان کا استعداد کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوتا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۸۵ سورة الفرقان نوع انسانی میں سب سے زیادہ اور عظیم استعدادوں کے حامل بنا کر پیدا کئے گئے تھے جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام سے ہمیں پتہ لگتا ہے نہ آپ سے پہلے کسی ماں نے اتنی عظیم استعدادوں اور طاقتوں اور صلاحیتوں والا بچہ پیدا کیا اور نہ آئندہ پیدا کرے گی.اسی وجہ سے قرآن عظیم جیسی کتاب آپ پر نازل ہوئی اور رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے آپ دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے.یہ آپ ہی کی استعداد تھی اور اتنی عظیم استعداد کے مالک نے ہمیں یہ بھی کہا کہ دین العجائز اختیار کیا کرو کیونکہ ایک گروہ ایسا ہے جو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا.پس زیادہ گہرائیوں میں نہ جایا کرو جو تمہیں حکم ہے وہ کرو اور تمہاری استطاعت کے مطابق یعنی جتنی تم میں ثواب حاصل کرنے کی طاقت اور قوت ہے اس کے مطابق تمہیں ثواب مل جائے گا ورنہ اگر تم اپنی طاقت سے آگے جاؤ گے تو شیطان کے لئے رستے کھل جائیں گے جیسا کہ اگر ایک شخص کے معدے کو اللہ تعالیٰ نے دو چھٹا نک آٹا ہضم کرنے کی طاقت دی ہے اور وہ ایک سیر کھالیتا ہے تو بد ہضمی ہو جائے گی اور اگر کسی کے معدے کو آدھ سیر آٹا کھانے کی طاقت ہے جیسا کہ عام طور پر ہمارے زمینداروں کے معدوں کو یہ طاقت ہے تو اگر وہ دو چھٹانک کھائیں گے تو وہ کمزور ہو جائیں گے اگر وہ دوسیر کھالیں گے تو وہ بھی خرابی پیدا کرے گا اور بد ہضمی ہو جائے گی.اسی طرح انسان کی ظاہری زندگی میں ہم ہزاروں مثالیں ایسی دے سکتے ہیں کہ انسان استعداد سے نہ ادھر ہوسکتا ہے نہ اُدھر ہوسکتا ہے لیکن استعداد کے اندر اس کو آزادی ہے مثلاً اس کو یہ آزادی ہے کہ اس نے اپنی ذات کے متعلق غور کر کے ، محاسبہ نفس کر کے اپنی طبیعت اور فطرت اور عادات اور اپنے جسم کے مختلف حصوں کی طاقت کو مہِ نظر رکھ کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو پروگرام بنایا ہے اس پر عمل کرے اور اپنی استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے اس کو یہ آزادی حاصل ہے اور اسی کو ہم تقدیر کہتے ہیں یعنی انسان کو صاحب اختیار بنانا اور اس کو آزادی دینا یہ الہی تقدیر ہے.اس نے یہ چاہا کہ ایسا ہو فَقَدَرَة تَقْدِيرًا اگر اللہ نہ چاہتا تو انسان کبھی آزاد نہ ہوتا.انسان کے بارے میں تقدیر اور اندازے کے متعلق قرآن کریم میں بیسیوں آیات ہیں پہلے مجھے خیال آیا کہ میں ایسی تیس آیات منتخب کر کے انہیں اس خطبے کا حصہ بنادوں لیکن پھر میں نے سوچا کہ پہلے میں اصولی بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کروں اور اس کے بعد دوسری طرف آؤں.پس
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۸۶ سورة الفرقان قرآن کریم ان آیات سے بھرا پڑا ہے جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ انسان کو اپنے عمل کی جزا ملے گی مثلاً ایک آیت یہ ہے کہ تم میں سے جو بھی اعمال صالحہ بجالائے گا مرد ہو یا عورت اس کو ان کے مطابق جزا ملے گی.میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں بیسیوں آیات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان مجبور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر جبر کا قانون لاگو نہیں ہے بلکہ اس کو صاحب اختیار بنایا گیا ہے اور اس کو آزادی دی گئی ہے لیکن اس کو ایک اندازے کے مطابق آزادی دی گئی ہے اور فَقَدرَة تَقْدِيرًا میں اس کا اعلان کیا گیا ہے اور قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے.تم میں سے کوئی شخص اپنی غفلتوں میں زندگی گزارتے ہوئے خدا تعالیٰ پر یہ الزام نہیں دھر سکتا کہ اس نے ہمیں پیار کیوں نہیں دیا حالانکہ ہم تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مہدی پر ایمان لے آئے تھے.تمہیں صرف یہ حکم تو نہیں دیا گیا تھا کہ ایمان لاؤ بلکہ تمہارے لئے اس دائرہ استعداد کے اندر جس میں تمہیں آزاد کیا گیا ہے ہزاروں راستے ایسے کھولے گئے تھے جن میں سے ہر راہ کو اختیار کرنے یا نہ کرنے میں تم آزاد تھے اور تمہیں کہا گیا تھا کہ اگر تم ان کو اختیار کرو گے تو تمہیں ثواب مل جائے گا اور اگر تم ان کو اختیار نہیں کرو گے تو جس حد تک تم ان راہوں کو اختیار نہیں کرتے اس حد تک تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مستحق نہیں ٹھہرو گے.اسی طرح ہزار ہا ر استے تمہارے اوپر بند کئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ کام نہیں کرنے ، یہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی باتیں ہیں اگر ان ممنوعہ راہوں میں سے بعض را ہوں کو تم اختیار کرو تو خدا تعالیٰ کا غضب تم پر آئے گا لیکن یہ اس لئے نہیں کہ تم مجبور ہو بلکہ اس لئے کہ تمہیں آزادی دی گئی تھی کہ تم چاہو تو ان غلط راہوں کو جو خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کی طرف لے جانے والی ہیں اختیار کر لو.تم آزاد تھے تم نے خود اپنے لئے جہنم کے سامان پیدا کر لئے لیکن اگر تم ہر غلط راہ سے بچو اور تقویٰ کی راہ کو اختیار کرو تو پھر نیکی کی راہیں تمہارے لئے آسان ہو جائیں گی.پس قضا و قدر کا جو مسئلہ اسلام پیش کرتا ہے بلکہ وہ انسان کو صاحب اختیار بنانے کا مسئلہ ہے وہ انسان کو ایک دائرے کے اندر آزا د ر کھنے کا مسئلہ ہے وہ انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات کی راہیں کھولنے کا مسئلہ ہے.یہ مسئلہ اتنا عظیم ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا ، نہ عیسائیت نہ یہودیت اور نہ کوئی اور مذہب اور نہ کوئی عقل انسانی کا تراشیدہ علم اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے.جس جگہ عیسائیوں نے قضا و قدر کی وجہ سے یہ اعتراض کیا کہ اسلام جبر کی تعلیم دیتا ہے
۵۸۷ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اس جگہ اسلام کی عظیم شان بیان کی اور اسلام کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھا.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے سمجھنے اور ہمیشہ اسے یادر کھنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ انسان کو بعض دفعہ شیطان اس طرح بھی در غلاتا ہے که انسان خود گناہ کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ کیا کریں بس تقدیر تھی اس لئے گناہ ہو گیا.خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ مقدر نہیں کیا کہ تم گناہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ مقدر کیا ہے کہ چاہو تو گناہ کرو چاہو تو گناہ سے بچو، چاہو تو نیکیاں کرو اور چاہو تو نیکیاں کرنے سے انکار کرو اور جب تم اپنے اختیار سے نیکیاں کرو گے تو خدا تعالیٰ دوڑتا ہوا آئے گا اور تمہیں اپنے دامن رحمت میں لپیٹ لے گا ور نہ تم خود ذمہ دار ہو اور خدا تعالیٰ پر یا کسی انسان پر اس کا الزام نہیں دھرا جاسکتا.پس اپنی اس آزادی اور اس اختیار کی قدر کو پہچانو جو خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر اور قضا و قدر میں تمہارے لئے مہیا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشاں رہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور خدا سے ہمیں مقبول اعمال کی توفیق ملے اور وہ اپنی نعمتوں سے ہمیں نوازے.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۴۷ تا ۳۵۶) ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی حد بندی کر دی.اب اس آیت سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ انسان کو اسی زمین پر رہنے کی ضرورت کیوں ہے اور وہ زمین سے باہر اپنی زندگی کیوں نہیں گزار سکتا اس لئے کہ اس زمینی حد بندی کو توڑنا انسان کے بس کا روگ نہیں مثلاً ہمارے پھیپھڑے ہیں.ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہوا پیدا کر دی اور ساتھ ہی یہ حد بھی لگادی کہ ان انسانی پھیپھڑوں کی زندگی اس ہوا تک محدود ہے اس ہوا کے بغیر اور کسی چیز سے وہ زندگی حاصل کر ہی نہیں سکتے.ویسے اس میں شک نہیں کہ ہواؤں ہواؤں میں بھی فرق ہے.اگر ہم بلندی پر چلے جائیں تو سانس پھولنے لگ جاتا ہے، آکسیجن کم ہو جاتی ہے.بہت ساری چیزیں ہیں کچھ ہمیں معلوم ہیں اور کچھ آگے چل کر انشاء اللہ معلوم ہوں گی.پس فرمایا کہ ہم نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کو محدود یعنی ایک حد کے اندر مقید کر دیا ہے وہ اس سے باہر نہیں جا سکتی.پھیپھڑے صرف اس ہوا سے آکسیجن لے سکتے ہیں جو اس زمین میں پیدا کی گئی ہے.ہمارے جسم صرف اس پانی سے زندگی حاصل کر سکتے ہیں جو اس زمین میں پیدا کیا گیا ہے ہماری آنکھ صرف روشنی کی ان لہروں کو دیکھ سکتی ہے جو اہرمیں اس غرض کے لئے اس زمین میں بنائی گئی
۵۸۸ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ہیں.ہمارے کان جن صوتی لہروں کے ساتھ Tune (ٹیون ) کئے ہوئے یعنی ان کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں.ایک تو یہ کہ صوتی لہریں ہیں اور اپنی بے شمار خصوصیات کے لحاظ سے محدود ہیں اور پھر ان کو ایک تنگ دائرہ میں لہروں کے ساتھ Tune (ٹیون) کر دیا.اب انسان نے بعض ایسی ویلیں (Whistles) بنالی ہیں کہ جن کی آواز شکاری کتا سن لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کا آدمی نہیں سن سکتا اور جس شکار کے پیچھے وہ گیا ہوتا ہے اس کو بھی وہ آواز سنائی نہیں دیتی صرف شکاری کتے کو وہ آواز سنائی دیتی ہے.یعنی ایسی لہر دریافت کر لی ہے جو صرف کتے کے کان سن سکتے ہیں.غرض ہر چیز کی حد بندی کر دی یہ حد بندی کا ایک الگ وسیع مضمون ہے لیکن میں اس وقت صرف یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی صفات اس رنگ میں جلوہ گر ہوئیں کہ انسانی قوی کا جو بھی تقاضا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو اس چیز میں مخلوق کر دیا.اب یہ مضمون ہے جو اس آیہ کریمہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَةُ تَقْدِيرًا میں بیان ہوا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو بھی قوت پیدا کی اس کو محدود اور مقید کر دیا.زمین میں جو صفات باری تعالیٰ کے جلوے تھے ان کے ساتھ انسان کو باندھ دیا.کان کی شنوائی کو صوتی لہروں کے ایک خاص حصے سے جوڑ دیا یہی حال آنکھ کا ہے.یہی حال زبان کا ہے.بہت سی چیزیں ہیں جو انسان بڑے شوق سے کھاتا ہے لیکن جانوروں میں سے بعض جانور ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے آپ وہ چیز ڈال دیں تو وہ ناک چڑھا کر پرے ہٹ جاتے ہیں اس چیز کو منہ تک نہیں لگاتے یعنی جس چیز کو جانور منہ نہیں لگاتے اُسے انسان کے مناسب حال بنا دیا.اس سے انسان کو خود ہی سوچنا چاہیے تا کہ اس کے دل میں غرور اور تکبر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو عظمت بخشی ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان نے جس چیز کو دھتکار دیا جانوروں نے اس کو قبول کر لیا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جن میں سے بعض کا میں نے اس وقت ذکر کیا ہے.مثلاً ہوا ہے، پانی ہے، پھر پانی کی آگے مناسب تقسیم کا انتظام ہے، کھانے پینے کی متنوع اشیاء ہیں ، متوازن غذا ئیں ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ عجیب نظارہ ہے کہ کھانے کی مختلف چیزیں ایک جیسی زمین اور ایک جیسے پانی سے پیدا ہو جاتی ہیں.پھر ہر ایک چیز میں توازن کے اصول کارفرما ہیں.غرض تم نے زبانِ حال سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا ہے زمین تمہارے مطالبات کو پورا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی صفات کے جلوے اس دنیا میں اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ
۵۸۹ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تمہاری کوئی قوت بھی یہ نہیں کہ سکتی کہ اے میرے رب ! میں نے تجھ سے یہ مانگا تھا اور تو نے وہ مجھے دیا نہیں.یہ التجا دوسری دعا کی طرح نہیں ہے جو کبھی تو قبول ہو جاتی ہے اور کبھی رڈ کر دی جاتی ہے.یہ تو دراصل انسان کی ہر قوت، ہر عضو اور ہر استعداد کا فطرتی تقاضا ہے جس کا اظہار وہ زبانِ حال سے کر رہی ہوتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ کسی قوت کے ضائع ہونے کا امکان باقی نہیں رہا.اگر انسان از خود حماقت، تکبر یا اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی راہ اختیار نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان کی ہر قوت اپنے نشو و نما کے کمال کو پہنچ جاتی ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۴۳ تا ۸۴۵) آیت ۳۱ وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ رسول نے کہا اے میرے رب ! میری یہ قوم قرآن کریم کو مہجور بنا رہی ہے.مہجور کا مصدر ہجر ہے اور عربی لغت کے لحاظ سے اس کے معنے زبان سے یادل سے یا دونوں سے قطع تعلق کرنے کے ہوتے ہیں.اس لحاظ سے ھجر کے تین معنے ہو جائیں گے.ایک یہ کہ زبان سے کہنا کہ قرآن کریم کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں.دوسرے یہ کہ انسان کی دلی کیفیت یہ ہو کہ اُس کا قرآن عظیم سے کوئی تعلق نہ ہو اور تیسرے یہ کہ زبان سے بھی کہنا اور دل سے بھی زبانِ حال سے یہی تاثر دینا کہ کوئی تعلق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عظیم قرآن کے ساتھ بھی لوگ تعلق قائم نہیں رکھتے اور اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی تو یہ عظمت اور شان ہے کہ وہ اپنی عظمت کا خود دعویٰ کرتا اور پھر اس کے حق میں دلائل بھی دیتا ہے.قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کی آخری ہدایت اور ایک کامل اور مکمل شریعت ہے.اس نے اپنی عظمت کے متعلق اور اپنی شان کے متعلق اور اپنی افادیت کے متعلق اور اپنی ہمہ گیری کے متعلق اور تمام اقوام سے اپنے تعلق کے بارے میں اور پھر ہر زمانے سے اس کا جو تعلق ہے اس کے بارے میں خود دعوی کیا ہے اور پھر دلائل سے اس کو ثابت بھی کیا ہے.قرآن کریم نے ایک بڑا ہی عجیب اور حسین دعوی یہ کیا ہے کہ انسان کی عقل ناقص ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو چوٹی کے عقلمند ہر مسئلہ کے متعلق اختلاف کرتے ہیں چنانچہ انسانوں کا باہمی
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۵۹۰ سورة الفرقان اختلاف خصوصاً اُن انسانوں کا جو صاحب عقل و فراست سمجھے جاتے ہیں، بڑے علم و تدبر والے سمجھے جاتے ہیں.اُن کا باہمی اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی عقل ناقص ہے.اگر انسانی عقل ناقص نہ ہوتی تو وہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچتی لیکن چونکہ وہ ناقص ہے اور صراط مستقیم کو بھی چھوڑ بھی دیتی ہے اور راہ راست سے بھٹک جاتی ہے اس لئے وہ متضاد نتا ئج پر پہنچتی ہے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عقلی دلیل کو بار بار اور بڑی وضاحت سے مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” خدا ہونا چاہیئے “ اور ” خدا ہے میں بڑا فرق ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق انسانی عقل زیادہ سے زیادہ صرف ”خدا ہونا چاہیے تک پہنچتی ہے یعنی انسانی عقل دنیا کی مختلف چیزوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ خدا ہونا چاہیے.جب کہ دوسرے انسان کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہونا چاہیے اور یہ بھی اپنے حق میں عقلی دلیلیں دیتے ہیں.( خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۲۶۱، ۲۶۲) يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا که قیامت تک اُمت محمدیہ میں قرآن پر بظاہر ایمان لانے والوں میں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گا جو قرآن کریم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دے گا اور کوئی توجہ نہیں کرے گا لیکن جو ایسا کرے گا وہ اس کا نتیجہ بھگتے گا، وہ ترقیات کی تمام راہیں اپنے پر بند کرے گا وہ نور سے نکل کے ظلمات میں آجائے گا اس کا سر مخالف کے سامنے ہر وقت جھکا رہے گا.اس کا ہاتھ غیروں کے سامنے ہر وقت پھیلا رہے گا.ذلت کی تمام راہیں اس پروا ہوں گی.عزت کے سارے دروازے اس پر بند ہوجائیں گے کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا.اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ بيعا (النساء: ۱۴۰) قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ تمام خزانے خدا کے ہیں اور اپنی حکمت کا ملہ سے، اپنی منشا کے مطابق وہ اپنے خزانوں کو اپنے بندوں کے لئے حصہ رسدی دیتا ہے اور اس کے دروازے ان پر کھولتا ہے.قرآن کریم اگر قیامت تک کے لئے مسائل حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو قیامت تک خدا تعالیٰ کے ایسے نیک اور پاک اور مطہر بندے پیدا ہوتے رہنے چاہئیں جو معلم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ سے سیکھیں اور انسانوں کو قرآن کریم کے اسرار اور بطون سے آگاہ کریں تا کہ جو نئی مصیبتیں انسان نے اپنے لئے پیدا کر لیں اور نئے مسائل اس کے سامنے آگئے ان کا کوئی حل ہو اور اس کی نجات کے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دروازے کھلیں.۵۹۱ سورة الفرقان اس زمانہ کے لئے اور اس ہزار سال کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآنی تفصیل میں بھی اور بیچ کی حیثیت میں بھی موجود ہے یعنی جو اس زمانہ کے مسائل ہیں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہر وہ تفسیر کر دی جس کی ضرورت تھی اور بڑا لطف آتا ہے.کئی دفعہ میں نے سوچا ہے.کوئی مسئلہ درپیش ہے اور انسانی دماغ کام کرتا ہے، دعائیں کرتا ہے اور ایک آیت کی تفسیر ذہن میں آتی ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی اس مسئلہ کو حل کرنے والی ہے اور یہ دماغ میں حاضر ہی نہیں ہوتا کہ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب میں لکھ چکے ہیں اور پھر چند دنوں کے بعد کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب میں وہ چیز موجود ہے.تو اس زمانہ میں قرآن کریم کو سمجھنے اور جاننے کے لئے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی زندگی کی ظلمات کو اور زندگی کے اندھیروں کو قرآن کریم کے نور سے نور میں بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے.ساری ہی کتب اور آپ کی سب تحریریں قرآن کریم کی تفسیر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم سے باہر ، قرآن کریم سے زائد ایک لفظ بھی نہیں لکھا نہ قرآن کریم پر کچھ زیادتی کی ، نہ قرآن کریم سے کوئی کمی کی ، تفسیر بیان کرتے چلے گئے ہیں.بعض ایسے بیان ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں لکھا کہ میں کس آیت کی تفسیر کر رہا ہوں اور ایک بیان دے دیا ہے کسی مسئلے کے متعلق کسی وقت غور کرتے ہوئے وہ عبارت پڑھتے ہوئے ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے تو نہیں لکھی لیکن ) دماغ میں ایک آیت آجاتی ہے کہ آپ فلاں آیت کی تفسیر کر رہے ہیں اس لئے کہ جس شخص کے متعلق جماعت کے ہر فرد کا یہ عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ ہونا چاہیئے کہ اس نے قرآن کریم سے باہر کچھ نہیں لکھا.اس کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ فلاں آیت کی تفسیر ہے وہ یہ جانتا ہے کہ کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.اپنے پاس سے قرآن کریم پر نہ زائد کر رہے ہیں اور نہ اس میں سے نکال کے باہر پھینک رہے ہیں.اس لئے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور آپ لوگوں کی توجہ اس طرف اتنی نہ ہونے کی وجہ سے جو ہونی چاہیئے آپ کی مدد کرنے کے لئے میرے دماغ میں ایک سکیم آئی ہے.
۵۹۲ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہاں میں یہ بتادوں کہ قرآن کریم کا ہی ذکر ہے اس آیت میں جس میں ہے.وَقُل رَّبِّ زِدْنِي علمًا ( طه : ۱۱۵) یہ دعا ہمیں سکھائی گئی ہے قرآن کریم نے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں علم میں بڑھاتا چلا جا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ قرآن عظیم غیر محدود علوم کا خزانہ ہے کیونکہ اگر وہ محدود ہوں تو اس وقت جب وہ پہلی ساری باتیں ختم ہو گئیں اس کے بعد اس دعا کا کوئی فائدہ نہیں لیکن قیامت تک آنے والے انسان کو یہ دعا سکھائی قرآن کریم نے کہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہمیں قرآنی علوم میں بڑھا تا ہی چلا جا.قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.اور یہ بھی ہمیں بتایا اللہ تعالیٰ نے کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ( يه سورة بقره کی ۲۵۶ ویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے ) اس سے پہلے اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ انسان کے پیچھے ہے یعنی جو کچھ اس کے علم میں ہے اور جو کچھ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے جانتا نہیں ، جاہل ہے اُس سے ، وہ سب کچھ ہی اللہ تعالیٰ جانتا ہے یعنی جو کچھ بھی ہے خواہ وہ انسان جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وَ لَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ علية إلا بما شاء اللہ تعالیٰ کا ئنات کو پیدا کرنے والا ، کائنات کی کنہ کو جاننے والا ہے اور اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی کوئی شخص پا نہیں سکتا.تو ہر علم میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک دہر یہ سائنس دان جب کوئی Problem حل کر رہا ہو یا اپنا کوئی فارمولا بنارہا ہو اور اس کو سمجھ نہ آ رہی ہو، دماغ میں اندھیرا ہو اور ایک تڑپ اس کے اندر پیدا ہوتی ہے کہ کہیں سے مجھے روشنی ملے تو وہ تڑپ ایک غافل کی دعا کی مانند ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی سمجھتا اور اس کے دماغ میں روشنی پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس جگہ کسی آیت کا حوالہ نہیں دیا.ابھی میں نے جو کہا تھا نا کہ کسی آیت کا حوالہ آپ دیں کہ وہ ہے کسی نہ کسی آیت کی تفسیر.پہلے میرے دماغ میں یہ بات نہیں تھی تب آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہ آیت آگئی سامنے، وہی مثال اس کی کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ - اس کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے وہ لکھا ہے کہ کوئی دہریہ، کوئی کمیونسٹ، کوئی بت پرست کوئی بد مذہب علم کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے جب ترقی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ترقی کرتا ہے اس کی منشا کے بغیر ترقی نہیں کرتا اور انسان
۵۹۳ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سوا اُس کے علم کے کسی حصہ کو بھی پا نہیں سکتا.اور اس سے اگلا کٹڑا آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم آسمانوں پر بھی اور زمین پر بھی حاوی ہے.کائنات کا اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس کا پیدا کرنے والا ہے اس کے اندر جو کچھ بھی خواص پائے جاتے ہیں، جو کچھ خواص میں کمی ہوتی ہے، جو بڑھوتی ہوتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے امر سے یا اس کے خلق سے وہ چیز ہو رہی ہے.وہ اس سے پوشیدہ اور چھپی ہوئی نہیں.وہ انسانوں کی طرح نہیں کہ آج یاد کر لیا یا سن لیا اور کل کو بھول گیا خدا نہ کرے آپ میں سے بعض بھول ہی جائیں کہ میں آپ کو کیا نصیحت یہاں کر کے گیا ہوں کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرتے رہنا ہے اسے بھولنا نہیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۵۶۷ تا ۵۷۰) آیت ۴۴ اَروَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوىهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا اے رسول! کیا تو نے اس شخص کا حال بھی معلوم کر لیا جس نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنالیا جیسا کہ آج کل یہ فیشن بنا ہوا ہے ساری دنیا کا (یورپ ہے، امریکہ ہے،سوشلسٹ، کمیونسٹ ممالک ہیں ) کہ وہ خواہشات نفس کو اپنا معبود بنائے بیٹھے ہیں.بعض ملکوں نے تو یہ اعلان کر دیا کہ ہمارے عوام ہمارا خدا ہیں تو یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنالیا ہے.پھر فرماتا ہے آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَکیلا کیا تو اس شخص پر نگران ہے کہ تو اسے جبراً گمراہی سے روکے؟ اس آیت کے متعلق بھی میں نے پرانی تفاسیر دیکھیں.مضمون لمبا ہے مگر میں چاہتا ہوں آج اسے ختم کر دوں اس لئے صرف ایک دو آیتوں کے متعلق میں نے پرانی تفسیروں کے بھی حوالے لئے تا کہ آپ پر یہ بات واضح ہو جائے.ابن جریر کہتے ہیں " يَقُولُ تَعَالَى ذِكرُهُ الله جلشانہ فرماتے ہیں أَفَأَنْتَ تَكُونُ يَا مُحَمَّدُ عَلَى هَذَا حَفِيظًا في أفعاله ( تفسیر ابن جریر جلد ۱۹ صفحه ۱۱.زیر آیت الفرقان : ۴۴ ) که اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم نے تجھے نگران مقرر کیا ہے ایسے شخص کا جو نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنالیتا ہے؟ تو یہ استفہام ایسا ہے جو عربی محاورہ کے مطابق انکار کے معنی دیتا ہے یعنی تجھے نہیں بنایا
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۹۴ سورة الفرقان وکیل.یہ ابنِ جریر نے کہا ہے.تفسیر روح البیان میں ہے کہ آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَکیلا کے معنے ہیں کہ آفَانْتَ تَكُونُ حَفِيْظًا کہ کیا تجھے ہم نے حفیظ بنایا ہے؟ یعنی نگران اور محافظ نہیں بنایا کہ تَمْنَعُهُ عَنِ الشَّرُكِ وَالْمَعَاصِي تو لوگوں کو شرک سے منع کرے اور گناہوں سے انہیں بچائے.پھر لکھا ہے.آئی لَسْتَ مُوْلًا عَلَى حفظہ ان کو شرک اور معاصی سے بچانے اور محفوظ کرنے کا کام خدا نے تیرے سپرد نہیں کیا.ان کو آزادی دی ہے.بَلْ اَنْتَ مُنْذِرُ بلکہ تیرا کام صرف انذار کرنا ہے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے.تیرا کام ہے ان سے کہے کہ وحدانیت، کائنات کی بنیاد ہے اور دلائل دے، نشان دکھائے معجزات ظاہر کرے.اور معجزہ وہ ہے عقلِ انسانی جس کو Explain نہیں کر سکتی یعنی بتا نہیں سکتی کہ یہ کیسے ہو گیا سوائے اس کے کہ خدا نے ایسا کر دیا.لیکن تیرا کام یہ نہیں ہے کہ تو شرک سے انہیں بچالے.اس بات پر مکلف نہیں ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم.نہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گناہگار نہ بنیں.تفسیر ( کبیر ) رازی میں ہے کہ آفَانتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا أَنْ حَافِظًا تَحْفُظُهُ مَنِ اتَّبَاعَ هَوَاهُ تجھے ہم نے یہ حکم نہیں دیا اور نہ یہ قدرت اور طاقت دی ہے اور نہ تجھے حافظ بنایا ہے کہ تو انہیں محفوظ رکھے نفسانی خواہشات کی اتباع کرنے سے.آئی لست كذلك کہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا دوسری جگہ فرما یا کستَ عَلَيْهِمْ بِمُضَيْطِرِ اور جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُضطر کے معنے کئے گئے ہیں لَستَ بِمُسَلَّطٍ عَلَيْهِمْ تَجْبُرُهُمْ عَلَى مَا تُرِيدُ یعنی تو نے جو ایک روشنی اور صداقت دیکھی سود دیکھی، جبر کر کے کسی کو منوانے کا کام تیرے سپرد نہیں کیا گیا اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا مَا أَنتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرما یا لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اکراہ کرنے کی تجھے اجازت نہیں.جبر کر کے، مجبور کر کے ان کو اس طرف لانے کی تجھے اجازت نہیں.( تفسیر کبیر امام رازی.زیر آیت الفرقان:۴۴) (خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۱۳ تا ۱۵) آیت ۵۳ فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَ جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا مجاہدہ کی سب سے اہم قسم جَاهِدُهُم بِه جِهَادًا كبيرًا (الفرقان: ۵۳) میں بیان کی گئی ہے.یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہوں میں جہاد کرنا اور اصولی طور پر یہ جہاد دو شکلوں میں
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کیا جاتا ہے.۵۹۵ سورة الفرقان ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتنے زبر دست اور اتنی کثرت سے دلائل جمع کر دیئے ہیں کہ دنیا کا کوئی باطل عقیدہ خواہ کسی مذہب سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.تو عقائد باطلہ کا (خواہ وہ عقائد باطلہ عیسائیوں کے ہوں یا آریوں کے یاسکھوں کے یا دہریوں کے یا دوسرے بد مذاہب کے ہوں ) دلائل حقہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ایک زبردست جہاد ہے جس کے نتیجہ میں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو انسان اس کی رحمتوں کا وارث بنتا ہے.اور دوسرے جَاهِدُهُم بِهِ جِهَادًا كبيرا (الفرقان : ۵۳) تعلیم قرآن کو عام کرنے سے یہ جہاد کیا جاتا ہے کیونکہ مومنوں کی جماعت میں علوم قرآنیہ کو تر و یج دینا.ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنا اور ان کو اس حق الیقین پر قائم کرنا کہ قرآن کریم بڑی برکتوں والی عظیم کتاب ہے اس سے جتنا پیار ہو سکتا ہے کرو.اس سے جتنی محبت تم کر سکتے ہو کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنو.تو یہ بھی ایک مجاہدہ ہے اور اسی مجاہدہ اور جہاد کی طرف اس وقت میں بار بار جماعت کے دوستوں کو متوجہ کر رہا ہوں.خطبات ناصر جلد اوّل صفحه ۴۲۱،۴۲۰) آیت ۵۸ قُلْ مَا اسْتَلْكُمُ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إلى رَبِّهِ سَبِيلًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کو لیں تو وہ ساری دنیا پر محیط ہیں.آپ کی ہدایت اور تبلیغ کوسامنے رکھیں تو وہ ساری دنیا پر مند ہیں.گویا اللہ تعالی نے آپ کو قیامت تک کے لئے فیض رسانی کا ذریعہ بنادیا.یہ چیز تھی جو آپ لائے.آپ ساری دنیا کے لئے نبی اور آپ سارے زمانوں کے لئے ہیں.نہ پہلے انبیاء کی مکانی وسعت ساری دنیا تھی اور زمانی وسعت قیامت تک کا زمانہ تھا.رحمانیت کو لیں.یعنی بغیر اجر دینے والا تو اس میں بھی آپ کی ذات اسوہ کا رنگ رکھتی ہے.رحمانیت کے جلوے مجاہدہ کے محتاج نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے سورج بنایا.ہم نے کب سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھانے کی خاطر کوئی مجاہدہ کیا تھا.یا کوئی نمازیں پڑھی تھیں.یا کوئی قربانیاں دیں
۵۹۶ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تھیں.یا کوئی خدمت خلق کی تھی.ہماری پیدائش سے ہی نہیں بلکہ آدم کی پیدائش سے بھی پہلے اس کارخانہ عالم کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا.اسی طرح بے شمار چیز میں صفت رحمانیت کی مظہر ہیں.اس کے لئے انسان کو کچھ کرنا نہیں پڑتا.اللہ تعالیٰ کی یہ صفت خود بخود جوش میں آتی ہے اور جانداروں کے لئے وہ کسی عمل کے بغیر نعماء اور فیوض کے چشمے جاری کر دیتا ہے.پس خدا کی دوسری بنیادی صفت رحمانیت ہے.یعنی بغیر کسی عمل کے فیض پہنچانا اور نفع پہنچانا اور نعمتوں سے مالا مال کر دینا.چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اس لئے آپ نے اپنی صفت رحمۃ للعالمین کی رُو سے سب اقوام اور قیامت تک کی نسلوں سے کہا ما استَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ میں تمہارے پاس جو ہدایت لایا ہوں اس پر میں تم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا.میں تمہارے کسی عمل کے نتیجہ میں تمہیں یہ کامل شریعت نہیں دینا چاہتا بلکہ اس خدا داد محبت کے نتیجہ میں دینا چاہتا ہوں جو میرے دل میں تمہارے لئے موجزن ہے.پس اس سے ظاہر ہوا کہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں ہے اور آپ رحمانیت کے بھی مظہر اتم ہیں.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۲،۵۹۱) آیت ۵۹ وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ و کفی به بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيْران قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اس ہستی پر توکل کرنا چاہیئے اور اسی کو اپنا سہارا بنانا چاہیئے کہ جو حتی ہے اور جس پر موت وارد نہیں ہوتی.اگر ایسی ہستیاں ہوں جن پر موت وارد ہو سکتی ہے اور ان پر کوئی شخص تو کل کرے تو کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے کام کرنے سے پہلے ہی ان پر موت وارد ہو جائے.اس لئے ایسی ہستی پر توکل کرنا چاہیے کہ جو الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ ہے جو زندہ ہے اور زندگی بخش ہے.الحی کے دو معنی ہیں ایک تو یہ ہے کہ وہ ہستی خود ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور دوسرے یہ کہ اس کے حتی ہونے کی صفت کا اگر جلوہ نہ ہو اور اس کا حکم نہ ہو تو کوئی اور وجود زندہ نہیں رہ سکتا.پس جس کے سہارے سے ہم زندہ ہیں اور وہ زندہ ہستی جس پر کبھی موت نہیں آسکتی اسی پر ہمیں تو کل رکھنا چاہیئے اور اسی کو سہارا بنانا چاہیئے.وَسَبِّحْ بِحَمدِ ہے اور وہ ذات تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے.کوئی حقیقی خوبی نہیں جو خدا تعالیٰ
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۹۷ سورة الفرقان میں موجود نہ ہو اور کوئی نقص نہیں جو خدا تعالیٰ میں پایا جاتا ہو.ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے وہ پاک ہے اور وہ اس بات سے بھی پاک ہے کہ صفاتِ حسنہ میں سے کوئی صفت ایسی ہو جو اس میں نہ پائی جائے.وہی ہستی ہے جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے اور وہی ہستی ہے جو ہر عیب سے پاک ہے.وہ مقدس ذات ہے تمام تعریفیں اسی کی ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتی ہیں اور اگر کہیں بھی واقعہ میں اور حقیقی طور پر کوئی ایسی خوبی نظر آئے جو تعریف کے قابل ہو تو وہ بھی اسی کی عطا ہے اور وَ كَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا (بنی اسرائیل: ۱۸) اگر کہیں کوئی کمزوری یا عیب یا کبھی نظر آئے تو اسی کی ذات ہے جو اس کو دور کرسکتی ہے اور وہ علام الغیوب خدا ہی جانتا ہے کہ کون اور کتنا کوئی شخص گناہ میں ملوث ہو گیا ہے.الزام تراشی تو انسان انسان پر کرتے ہی رہتے ہیں اور عیب جوئی بھی کرتے ہیں لیکن عیب ہے بھی یا نہیں اور گناہ ہے بھی یا نہیں اس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا کیونکہ گناہ وہی ہے جو خدا کو نا پسند ہے اور نیکی وہی ہے جو اس کی نگاہ میں نیکی ہے اور جو چیز خدا کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے اس سے اسی سے پناہ مانگی جاسکتی ہے اور جو چیز خدا کی نگاہ میں گناہ ہے اسی کی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ سکتی ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۳۰۰،۲۹۹) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں کامل حیات کا مالک یعنی الکتی ہوں، مجھ پر موت وارد نہیں ہوتی اگر تم مجھ پر تو کل کرو گے اور مجھے اپنا سہارا بنا لو گے تو تمہیں یہ خوف نہیں ہوگا کہ جسے تم نے سہارا بنایا ہے وہ کہیں مر نہ جائے یا ان ویلڈ (Invalid) نہ ہو جائے بعض دفعہ ایسی بیماری آتی ہے کہ انسان کے ہاتھ پاؤں کام نہیں کرتے یا بعض دفعہ مثلاً انسان پاگل ہو جاتا ہے پس گو اس دنیا کی زندگی کامل زندگی نہیں لیکن اس ناقص زندگی کا نسبتی طور پر جو کمال ہے وہ بھی باقی نہیں رہتا غرض الحی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے پس اے انسان! تو اسی پر توکل کر توكَّلُ عَلَیهِ.تو اس ذات پر توکل کر جو خود زندہ ہے اور سب زندگی اور حیات اس کامل حیات سے فیض یافتہ ہے اگر اس کی اس صفت کا جلوہ نہ ہو تو کوئی وجود زندہ نہیں رہ سکتا اور یہ خطرہ ہی نہیں کہ کبھی وہ مرجائے وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَهِ الْحَى موت اس پر آ ہی نہیں سکتی.پھر فرمایا اگر تم نے اللہ پر توکل کرنا ہے تو پھر تمہیں اس کی عبادت میں مشغول رہنا پڑے گا اس کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہنا پڑے گا تم اسی پر توکل رکھو اور یہ سمجھ کر رکھو کہ اس کی ذات الحی ہے تمام ہے
۵۹۸ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث زندگی کا سر چشمہ اور منبع اسی کی ذات ہے زندگی کے لحاظ سے دنیا رنگ بدلتی رہتی ہے.اس دنیا کی زندگی تو گزر جاتی ہے اور موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے پھر وہ العتی خدا ایک نئی زندگی اسے دیتا ہے پھر روحانی طور پر لوگ یہاں مرجاتے ہیں ان میں روحانیت باقی نہیں رہتی تو وہ انکی خدا ایسے سامان پیدا کرتا ہے کہ انسان اس میں ہو کر اور اس سے زندگی حاصل کر کے نئے سرے سے روحانی زندگی پا لیتا ہے پس فرمایا اگر تم نے تو کل کرنا ہے اور تمہیں ضرور تو کل کرنا پڑتا ہے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے تو الحَي الذي لا يَمُوتُ پر توکل کرو یعنی اس زندہ ہستی پر توکل کرو جس پر موت خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۸۵،۳۸۴) وارد نہیں ہوتی.آیت ۸ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ فَقَد كَذَّبْتُم فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا اللہ تعالیٰ سورہ فرقان کے آخر میں فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول تو کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو.کو لَا دُعَاؤُكُمْ لغت میں ہے دَعَادُ ناداه اس نے اس کو پکارا - رَغِبَ اِلَيْهِ (المنجد باب الدال) اس کی طرف رغبت کی استعانه (المنجد باب الدال) اس سے مدد چاہی ان معنوں کی رو سے اس حصہ آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ کو اپنا مطلوب اپنا مقصود اور اپنا محبوب اس سے امداد حاصل کرنے کے لئے اور اس کی نصرت چاہنے کے لئے اسے نہیں پکا رو گے تو مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبّی اسے تمہاری کیا پرواہ ہوگی وہ يَعْبُوا کے مفہوم کے مطابق تم سے سلوک نہیں کرے گا عَبَاءَ يَعْبَؤُا کے لغت میں یہ معنی ہیں کہ مَاعَبَأْتُ بِهِ أَى لَمْ أَبَالِ بِهِ وَأَصْلُهُ مِنَ الْعَيْنِي أَى الْفِقْلِ كَأَنَّهُ قَالَ مَا أَرَى لَهُ وَزُنًا وَقَبْرًا قَالَ: ( قُلْ مَا يَعْبَوبِكُمْ رَبِي وَقِيْلَ أَصْلُهُ مِنْ عَبَأْتُ الطَّيِّبَ كَأَنَّهُ قِيْلَ مَايُبْقِيكُمْ لَوْلادُعَاءُ كُمْ، وَقِيلَ عَبَأْتُ الجَيْشَ وَعَبَأْتُهُ هَيْئَتُهُ وَعَبَأَةُ الجَاهِلِيَّةِ مَاهِيَ مُدَّخَرَةٌ فِي أَنْفُسِهِمْ مِنْ حَمِيَّتِهِمُ الْمَذْكُورَةِ فِي قَوْلِهِ : (فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ) - (مفردات راغب کتاب العین صفحه ۳۲۰)
۵۹۹ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ان معانی کی رو سے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عباً کے مفہوم والا سلوک تم سے کرے گا سوائے اس کے کہ تمہاری دعا اس کے جلوہ حسن و احسان کو جذب کر لے.اب يَعْبَؤُا کے چار معنی بنتے ہیں.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب تک تم میرے حضور عاجزی اور انکساری کے ساتھ نہیں جھکو گے اور مجھ سے مدد طلب نہیں کرو گے اور میری قوت کا ملہ پر بھروسہ نہیں کرو گے اور یہ یقین پیدا نہیں کرو گے کہ تم میرے فضل کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے اس وقت تک میری نظر میں تمہاری کوئی قدر ومنزلت نہیں ہوگی اور تمہارے اعمال میری نظر میں کوئی وزن نہیں رکھیں گے.يغبوا کے دوسرے معنوں کے مطابق اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جب تم دعا سے کام نہیں لو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بقا کے سامان نہیں کرے گا ما يُبقِيكُمْ لَوْلاَ دُعَاؤُكُمْ یعنی عاجزانہ دعاؤں کے بغیر تمہارے لئے قیومیت باری کے جلوے ظاہر نہیں ہوں گے.تیسرے معنوں کی رو سے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبّی کی یہ تفسیر بنے گی کہ تمہیں جان لینا چاہیے کہ تمہاری تیاریاں اس وقت تک تمہیں کامیابی کا منہ نہیں دکھا سکیں گی جب تک کہ آسمان سے ملائکہ کی افواج کا نزول نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہیں بتا تا ہوں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میرے اذن اور حکم سے آسمان سے فرشتے اتریں اور تمہاری مدد کریں تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم دعا کے ذریعہ میری اس نعمت کو حاصل کرو.کیونکہ عباتُ الْجَيْش کے معنی ہیں هَيَّاتُه یعنی لشکر کو پورے ساز و سامان کے ساتھ تیار کر دیا اور اسے حکم دیا کہ جس مقصد کے لئے اسے تیار کیا گیا ہے.اس کے حصول کے لئے باہر نکلے.چوتھے حمیت کے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غیرت نہیں رکھے گا اور غیرت نہیں دکھائے گا جب تک کہ تم دعاؤں کے ذریعہ سے اس کی غیرت کو تلاش نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے.اب غیروں سے لڑائی کے معنی ہی کیا ہوئے خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۲ء.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۹)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۶۰۰ سورة الفرقان پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس غیریت کے پردہ کو صرف دعا ہی چاک کر سکتی ہے اگر تم دعاؤں کے ذریعہ اور میری محبت کے واسطہ سے میری مدد اور نصرت کے متلاشی ہو گے تو میں ایسے سامان پیدا کر دوں گا کہ ہمارے درمیان کوئی غیریت باقی نہیں رہے گی.تب میری غیرت تمہارے لئے جوش میں آئے گی اور تم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکو گے.غرض اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے وسیع مضامین بیان کئے ہیں.جن کا اختصار کے ساتھ میں نے ذکر کیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَقَد كَذَّبْتُ یعنی تم لوگ دعا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جماعت میں شامل نہیں ہوتے جو صبح و شام دعاؤں میں مشغول رہنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس بات کو جھٹلا رہے ہو کہ دعا کے بغیر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نہ اعمال کا کوئی وزن ہے اور نہ کسی قوم یا کسی انسان کی کوئی قدر و منزلت ہے تم اس بات سے بھی انکاری ہو کہ تمہاری مدد کے لئے خدائے قیوم کے حکم ، منشا اور ارادہ کی ضرورت ہے تم اس بات کو بھی جھٹلا رہے ہو کہ انسان کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب اس کے مقصد کے حصول کے لئے آسمان سے ملائکہ کی افواج نازل ہوں اور وہ بنی نوع انسان کے دلوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر دیں تم اس بات کو بھی جھٹلا رہے ہو کہ جب تک تم میں اور خدا تعالیٰ میں غیریت قائم رہے گی خدا تعالیٰ کی مددنازل نہیں ہوگی.فَسَوْفَ يَكُونُ لِزاما چونکہ تم ان صداقتوں کو جھٹلا رہے ہو اس لئے تمہاری اس تکذیب اور انکار کے نتائج تمہارے ساتھ اور تمہاری نسلوں کے ساتھ ثابت اور دائم رہیں گے یعنی تمہیں اور تمہاری نسلوں کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا.جب تک کہ تم اپنی اصلاح نہ کرلو.لزام کے ایک معنی موت کے بھی ہیں ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس بنیادی صداقت کو جھٹلاتے ہو اس لئے یا درکھو فَسَوفَ يَكُونُ لِذا ما کہ جلد ہی تمہیں ہلاکت اور موت کا منہ دیکھنا پڑے گا.پھر لِزَاماً کے معنى الْفَضْلُ فِي الْقَضِيّة (المنجد - باب اللام) کے بھی ہیں ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں اس وقت دو گروہ پیدا ہو گئے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ الہی سلسلہ کی طرف منسوب ہونے والا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اور ارادہ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا پر اسلام کو غالب کرے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے
۶۰۱ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث حصول کے لئے اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اور اسلام کی اس تعلیم کو جاننے ،اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور پر ایمان لایا جاوے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام با وجود تدابیر کی کمی کے باوجود ذرائع اور وسائل کے فقدان کے دنیا پر غالب آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے ماتحت ہی غالب ہوگا.دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پہلے گروہ کے تمام دعاوی جھوٹے اور غلط ہیں اس گروہ کا ایک حصہ تو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ہی نہیں اور سارے مذاہب ہی جھوٹے ہیں اور مذہب کے نام پر کئے جانے والے جتنے دعاوی ہیں ہم کسی کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں پھر ایک گروہ اس جماعت کا وہ ہے جو کہتا ہے کہ خدا ہے اور وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ خدا دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے انبیاء مبعوث فرماتا رہا ہے لیکن وہ یہ نہیں مانتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں اور جو شریعت اور ہدایت آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کو دی گئی ہے وہ بنی نوع انسان کی قیامت تک کی تمام الجھنوں کو سلجھانے کے لئے کافی ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے پھر اس گروہ کا ایک حصہ وہ ہے جوا اپنی زبان سے تو کہتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب ہے لیکن اپنی کسی باطنی یا ظاہری غفلت یا گناہ کے نتیجہ میں وہ یہ نہیں سمجھ سکتا یا سمجھ نہیں رہا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس مقصد اور غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ تمام اکناف عالم اور تمام اقوام عالم میں اسلام کو پھیلایا جائے حتی کہ تمام ادیان باطلہ پر اس کا غلبہ ہو جائے.غرض یہ دو گروہ ہیں ان کے درمیان ایک قضیہ ( جھگڑا) ہے اور یہ قضیہ ظاہر ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا.اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ جماعت احمدیہ کا موقف ہی صحیح اور درست ہے اور یہ کہ یہ چھوٹی سی کمزور اور حقیر سمجھی جانے والی.جماعت اموال نہ ہونے کے باوجود ذرائع و وسائل مہیا نہ ہونے کے باوجود اور دنیا میں کسی اقتدار اور وجاہت کے نہ ہونے کے باوجو د صرف اس لئے کامیاب ہوگی کہ وہ اپنے رب کریم کی طرف جھکنے والی ہے اور ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہنے والی ہے.(انشاء اللہ تعالیٰ ) غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا میرا یہ فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ عنقریب ہی وقت آنے پر تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے گا اور جب یہ حقیقت ہے کہ اگر دنیا کی ساری دولت بھی ہمارے پاس ہوتی ، دنیا کے سارے
۶۰۲ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اموال بھی ہمارے پاس ہوتے ، دنیا کے اقتدار کے بھی ہم مالک ہوتے ، دنیا کی ساری عزتیں اور وجاہتیں بھی ہمارے قدموں میں ہوتیں تب بھی ہم کسی تدبیر کے نتیجہ میں فلاح اور کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکتے تھے جب تک کہ ہم عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکنے والے نہ ہوتے اس کو اپنا مطلوب مقصود اور محبوب نہ بناتے اور اس سے مدد اور نصرت کے طالب نہ ہوتے اور اس بات پر پختہ یقین نہ رکھتے کہ کامیابی محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے نتیجہ میں نصیب ہوسکتی ہے ہماری تدابیر اور ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں.پس جب یہ حقیقت ہے تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر وقت اور ہر آن اپنے رب کے حضور یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اے خدا! تو نے ہمیں تدبیر میسر نہیں کی لیکن تو نے ہمیں گداز دل عطا کئے ہیں.ہم کو منکسر مزاج دیئے ہیں ہم تیرے حضور جھکتے ہیں تو ہم پر فضل کرے تو ہم پر رحمت کی نگاہ کر ، اور اس مقصد کے حصول کے سامان جلد پیدا کر دے جس مقصد کے لئے تو نے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے.( خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۹۷ تا ۲۰۱) فرما یا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ اللہ تعالیٰ کی ذات تو غنی ہے اسے تو تمہاری احتیاج نہیں ہے تمہیں اس کی احتیاج ہے اگر تم اس احتیاج کا احساس نہ رکھتے ہوا گر تم دنیا میں عزت کے لئے اس سے عززت حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھتے ہو، اگر تم اپنے بوٹ کے تسمہ کے حصول کے لئے خود کو طاقت ور اور اپنی طاقت اور مال کی طاقت کو کافی سمجھتے ہو، تو تم مارے گئے تم ہلاک ہو گئے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَولا دُعَاؤُكُم اگر تم دعا کے ذریعہ سے اس غنی کے دروازے کو نہیں کھٹکھٹاؤ گے (جسے تمہاری احتیاج نہیں جس کی تمہیں ہر آن احتیاج ہے ) تو مارے جاؤ گے.(خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۳۹۳) قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ کہ اگر انسان کو دعا کرنے کی قوت نہ دی جاتی اور دُعا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہ دیا جاتا اور انسان دُعا نہ کرنے کے اختیار کو چھوڑ کر دُعا کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کو نہ پکارتا تو خدا تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ خدا تعالیٰ نے اپنی کسی اور مخلوق یا کسی اور جانور سے اس طرح اپنے غصہ کا اظہار نہیں فرمایا کہ اگر وہ خدا کی تسبیح نہ کرے اور اس کی تحمید نہ کرے تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے؟ اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بنایا ہی اس صورت میں ہے کہ وہ بہر حال تسبیح و تحمید کرتے ہیں ان کو یہ اختیار ہی نہیں دیا گیا کہ وہ کسی وقت تسبیح او تحمید کو چھوڑ دیں
۶۰۳ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث لیکن انسان کو خدا نے یہ کہا ہے کہ اگر تو صاحب اختیار ہونے کے نتیجہ میں میرے قُرب کی راہوں کو تلاش کرنے کی بجائے اور اُن کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کی بجائے دُعا کرنے سے لا پرواہ ہو جائے گا اور دُعا کرنے میں رغبت نہ ہوگی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کی طرف متوجہ نہ ہو گا تو ما يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَولا دُعَاؤُكُمْ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے.غرض قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْلَا دعا و کمر کی آواز انسان کے سوا کسی اور مخلوق نے نہیں سنی لیکن اس کے ساتھ اور اس کے پہلو میں وہ عظیم بشارت بھی ہے کہ اگر تم دُعا کرو گے تو تمہارا قادر و تواناخُدا جو تمہارا خالق اور مالک ہے، وہ تمہاری پرواہ کرے گا کتنا حسین کلمہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کی محبت پنہاں ہے اور یہی وہ تیسری بات ہے جس کے متعلق میں نے اس خطبہ کے شروع میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم دُعائیں کروتا میرا پیار تمہیں حاصل ہو، دُعا ئیں کرو تا میری آواز سنو ! دُعائیں کرو تا میری قدرت کے معجزات دیکھو.دُعائیں کرنے سے لا پرواہ نہ ہو جاؤ ورنہ تمہارے کان میں میرے غضب کی وہ آواز آئے گی جو کسی اور مخلوق مثلا سکتے اور سور نے بھی نہیں سنی ہوگی.کبھی لگتے ، گھوڑے، ہیل اور بکری کے کان میں یہ آواز نہیں آتی اور نہ ہی خار دار جھاڑیوں یا کیکر کے درختوں نے جن کے لمبے لمبے کانٹے ہوتے ہیں، یہ آواز سنی ہے کہ.قُلْ مَايَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ - غرض انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں سے کسی کے کان میں یہ آواز نہیں پڑی کہ اگر تم دُعا نہیں کرو گے تو خدا تمہاری کیا پرواہ کرے گا لیکن انسان کے کان میں یہ آواز پڑی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل انسان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مخاطب کر کے فرمایا :.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَولا دُعَاؤُكُمْ اس سے انسان کا اتنا بڑا امتیاز قائم کر دیا اور اُسے اتنی عظیم بشارت دی کہ انسان خُدا تعالیٰ کی محبت میں دیوانہ ہو جاتا ہے اور خشیۃ اللہ سے اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.یہ کپکپاہٹ اور خشیت دراصل الہی پیار کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتی ہے.اسے اہتنر از کہتے ہیں.انسان کے جسم میں سر سے پاؤں تک محبت کی ایک لہر اٹھتی ہے جو اس کے جسم اور روح کے گوشہ گوشہ میں سرور بھر دیتی ہے گویا اللہ تعالیٰ نے انسان سے یہ کہا کہ اگر تم شرائط کو پورا کرتے ہوئے میرے حضور عاجزانہ جھکو گے تو میں تم پر رجوع برحمت ہوں گا.یہ کتنا ہی پیارا فقرہ ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمارے کان میں پڑا.(خطبات ناصر لد پنجم صحہ ۶۹۲ ۶۹۸۳)
۶۰۴ سورة الفرقان تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث انسانی زندگی کے ہر فعل کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو فر ما یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ اعلان ہوا.مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ عربي زبان میں يَعْبَؤُا کے کیا معنی ہیں.اس کے معنی ہمیں بتائیں گے کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے.منجد ایک چھوٹی کتاب ہے لغت کی اُس نے تو ی لکھا ہے:.لَا أَعْبَأُ بِهِ أَن لَا أُبَالِي بِهِ احْتِقَارًا کہ حقارت کے نتیجہ میں جو یعنی خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے اندر تمہارے لئے تحقیر پیدا ہوگی اور میں تمہاری پرواہ نہیں کروں گا اگر تم دعا نہیں کرو گے.مفردات نے اس کے یہ معنی کئے ہیں مَا عَبَأْتُ بِهِ أَن لَمْ أَبَالِ بِهِ كَأَنَّهُ قَالَ یعنی آپ کہتے ہیں کہ گویا خدا نے یہ اعلان کیا: - مَا آرَى لَهُ وَزُنَا وَ قَدْرًا کوئی قدر میرے دل میں ایسے بندہ کے لئے نہیں ہوگی ، نہ کوئی مقام ہو گا اس کے لئے اگر وہ دعا نہیں کرتا.پس جس طرح ہمارے جسم کے ساتھ دل کی دھڑکن اور خون کی روانی لگی ہوئی ہے اسی طرح ہماری روح کے ساتھ دعا لگی ہوئی ہے اگر انسان سمجھے.اسی لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز کے حصول کے لئے اپنے آپ کو کچھ سمجھ نہ لینا، خدا سے مانگنا یہاں تک کہ اگر تمہارے بوٹ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو بوٹ کا تسمہ بھی اپنے خدا سے مانگنا اور خود میرے مشاہدہ میں ہے کہ بعض دفعہ ایک انسان ایک چھوٹی سی غرض کے حصول کے لئے سائیکل پر سوار ہوتا اور چند فرلانگ پر اس نے جانا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اگر مقبول دعا کئے بغیر وہ روانہ ہو جاتا ہے تو مقصود تک پہنچنے سے پہلے راستہ میں اس کا دم نکل جاتا ہے.زندگی اور موت کسی کے اختیار میں نہیں.روحانی طور پر اور اخلاقی لحاظ سے کامیابیاں اور ناکامی بھی کسی کے اختیار میں نہیں.خدا تعالیٰ کی نظر سے گر جانا اور خدا تعالیٰ کی نظر میں پیار دیکھنا، یہ بھی کسی کے اختیار میں نہیں.خدا تعالیٰ کی درگاہ تک پہنچ جانا یا درگاہ سے دھتکارا جانا، یہ بھی کسی کے اختیار میں نہیں.یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اس لئے فرمایا :- قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ دعا کے ذریعہ سے اپنی تمام انسانی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کرو.دعا قبول ہوگی کامیاب ہو جاؤ گے.دعا قبول نہیں ہوگی نا کام ہو جاؤ گے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۲۱،۴۲۰)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الشعراء اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الشعراء آیت ۴ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ اور ایک وہ تھا ہمارا آقا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ نیکی بجالانے کی ذمہ داری تو ہر فرد واحد کی تھی مگر وہ ایمان اور عمل صالح نہیں بجالا رہے تھے اور ان کیلئے اور ان کی فلاح کے لئے راتوں کو تڑپ رہا ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم.یہ تو ذکر اللہ کے نتیجے میں ایک عظیم مثال ہے جس سے بڑی اور زیادہ شان والی اور کہیں نہیں ملتی.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے اُسوہ بنایا گیا ہے.آپ کا رنگ ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال پر چڑھانا ضروری ہے.اس واسطے اُمت محمدیہ کی بھی یہ صفت ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنا چاہیں ان کی یہ صفت کہ وہ کسی کا ذرا سا دُکھ بھی برداشت نہیں کر سکتے.میں نے سوچا کئی دفعہ سوچا اور میں نے بیان بھی کیا کہ مکی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو رو و سائے مکہ نے کتنا دکھ پہنچایا.بھوکوں مارنے کی انتہائی کوشش کی.اللہ تعالیٰ نے نہیں مرنے دیا یہ تو اس کی شان تھی لیکن انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی.پھر خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے جو اُسوہ رکھا تھا اس کو نمایاں کر کے ہمارے سامنے لانے کے لئے ان کو بتانے کے لئے کہ خدا کے بندے اور بتوں کے پجاری میں فرق ہے ان کے اوپر قحط کا زمانہ وارد کیا.انہوں نے پیغام بھیجا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کو شعب ابی طالب میں قید کر دیا گیا تھا اور کھانے کے سب راستے بند کر دئے گئے تھے کہ اپنے بھائیوں کو بھوکا دیکھنا پسند کرو گے؟ ہم آخر تمہارے بھائی ہیں.ہمارے اوپر قحط کا زمانہ ہے.جہاں تک میں نے سوچا اور جہاں تک میر اعلم ہے آپ نے ایک سیکنڈ بھی دیر نہیں کی ان کی اس تکلیف کو دور کرنے میں.یہ درست ہے کہ مدینے
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۰۶ سورة الشعراء میں سامان اکٹھا کرنے اور پھر مکہ تک پہنچانے کے لئے تو وقت کی ضرورت تھی لیکن اسی وقت اس نظام کی ابتدا کر دی جس نے ان لوگوں کی ، بھوکا مارنے والوں کی بھوک کو دُور کرنے اور تکلیف کو دُور کرنے کے سامان کرنے تھے.آیت ۸۱ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۶۱) إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ اس قسم کی بیماریاں جب آتی ہیں تو پھر آدمی کو علی وجہ البصیرت اس آیت کے معنی معلوم ہوتے ہیں مثلاً میں نے آرام سے کہہ دیا ہے کہ مجھے گرمی لگی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے گرمی کیوں لگی آدمی خود بیمار ہوتا ہے بے احتیاطی کے نتیجہ میں یا غلط فیصلہ کر کے اس دن بڑی سخت لو چل رہی تھی ملاقات کے لئے دوست بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے میں نے کہا مجھے نفس کی قربانی دینی چاہیے اور ان سے مل لینا چاہیے چنانچہ میں سوا دس بجے سے کوئی ایک بجے (بعد دو پہر ) تک او پر جہاں میں عام طور پر ملاقات کیا کرتا ہوں بیٹھا رہا اور جب وہاں سے اٹھا تو میر اسر پکڑا ہوا تھا اور مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ میں غلطی کر بیٹھا ہوں اور اب اس کو بھگتنا پڑے گا تو مرضتُ انسان خود بیمار ہوتا رہتا ہے اور خدا تعالیٰ فَهُوَ کشفین کے جلوے بھی دکھاتا رہتا ہے.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۳۳، ۲۳۴) ڈاکٹر اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق پروٹین میں بھی ایک توازن قائم رکھنا چاہیے.خدا کو تو وہ نہیں جانتے.یہ فقرہ میں کہہ رہا ہوں.بہر حال ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ انسان نے اگر صحت مند رہنا ہے تو اس کو اپنی روزانہ کی پروٹین کی مقدار میں بھی آگے یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ اتنے فیصد میں گوشت سے حاصل کروں گا ( گوشت کی آگے پھر کئی قسمیں بن جاتی ہیں مچھلی وغیرہ لیکن اس کو میں چھوڑتا ہوں ) اور اتنے فیصد میں پنیر سے حاصل کروں گا اور اتنی دودھ سے لوں گا اور اتنی بادام وغیرہ سے لوں گا اور اتنی میں Legumes یعنی دالوں سے لوں گا.دالوں میں سے کسی میں کم پروٹین ہوتی ہے اور کسی میں زیادہ.بہر حال خدا تعالیٰ کی شان ہے اس نے بے تحاشا چیز میں بنا دیں اور ہمیں کہا کہ وَضَعَ الْمِيزَانَ - اَلَا تَطْغَوا في الميزان (الرحمن: ۸-۹) کہ اس نے میزان پیدا کیا ہے اور تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول میزان کو اس بیلنس (Balance) کو توڑ نانہیں.اب انگریزوں
۶۰۷ سورة الشعراء تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نے بالکل اسی لفظ کا ترجمہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں Balanced Diet یعنی متوازن غذا.قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ خدا نے ہر چیز میں میزان بنایا ہے آلا تَطْغَوا في الميزان تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول کو نہ تو ڑنا ، اس بیلنس (Balance) کو Upset نہ کر دینا ورنہ تمہاری صحبتیں خراب ہو جائیں گی.پس ہمیں یہ تو اختیار ہے کہ ہم متوازن غذا کھائیں ، وزن کو برقرار رکھیں اور ہمیں ٹھیک صحت مل جائے یا ہم اس اصول کو توڑیں اور بیمار ہو جائیں.اِذَا مَرِضْتُ میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان خود بیمار ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی شفا کے لئے جھکتا ہے لیکن ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم گوشت کھائیں اور ہماری خواہش یہ ہو کہ ہمیں نشاستہ مل جائے اور ہمیں یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم کھائیں پنیر اور یہ سمجھیں کہ ہمارے جسم میٹھے کا فائدہ حاصل کر لیں.یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے.وہاں خدا تعالیٰ نے اپنا قانون چلایا ہے.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۵۱،۳۵۰) آیت ۲۱۸ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ہمیں دنیوی سہاروں میں یہ عیب نظر آتا ہے کہ وہ سہارا دینا چاہتے ہیں اور کام بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سہارا دینے اور کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے.اس کی طاقت اور قدرت ان میں نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ میں غالب ہوں مجھے ہر قسم کی قدرتیں حاصل ہیں میں ایک بات کا فیصلہ کرلوں تو دنیا کی کوئی طاقت میرے اس فیصلہ کور ڈ نہیں کر سکتی میرا ہی حکم جاری ہے پھر دنیا دار انسان سود فعه خوشامد کرتا ہے.دس بار خوشامدوں کا نتیجہ نکل آتا ہے باقی ضائع ہو جاتی ہیں وہ تو بار بار دنیا کے سہاروں کی طرف جھکتا ہے لیکن دنیا کے سہارے بار بار اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ایسا نہیں ہوں میں جہاں عزیز ہوں وہاں الرحیم بھی ہوں جتنی دفعہ تم میرے سامنے آؤ گے اتنی ہی دفعہ تم مجھ سے فیض حاصل کرو گے صرف خلوص نیت ہونا چاہیے اور توکل اپنی پوری شرائط کے ساتھ کیا جائے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۸۴) تین دلیلیں، تین حکمتیں یہاں بیان ہوئی ہیں.سورہ شعراء میں ہے وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ عزیز پہلے آ گیا ہے.یہاں دونوں کو اکٹھا کیا ہے.جو جو چاہتا ہے کر سکتا ہے، طاقتور ہے اور بار بار کرم کرنے
۶۰۸ سورة الشعراء تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث والی اس کی صفت ہے.بار بار کرم کرنے والا ہے.تو رحمتی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) جس کی صفت ہوا سے چھوڑ کے ایک ایسی ہستی کی طرف جانا جو جاہل بھی ہے خدا تعالیٰ کے مقابلے میں طاقتور بھی نہیں ہے اور جس کا رحم جو ہے وہ خدا تعالیٰ کے رحم کے مقابلہ میں اپنی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، یہ حماقت ہوگی.اس واسطے تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ اس لئے عملی زندگی میں (جو اصل چیز میں اس وقت پورے زور کے ساتھ آپ کو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں ) سوائے خدا کے کسی کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو اس معنی میں کہ صرف اس پر توکل کرو اور جو عقید تا اس کی صفات کا علم ہے، دعا کرو کہ وہ پیاری صفات تمہاری زندگی میں جلوہ گر ہوں.خدا کے سوا حقیقی خوشی اور خوشحالی کا سامان کوئی ہستی نہیں پیدا کر سکتی اور اللہ تعالیٰ اتنا پیار کرتا ہے، اتنا پیار کرتا ہے کہ انسانی عقل شرم سے سر جھکا دیتی ہے اور انسان جو ہے اس کو سمجھ نہیں آتا کہ میں کس منہ سے خدا تعالیٰ کی حمد ادا کروں.ایک ایک انعام کے بدلے میں جو شکر ادا کرنا ہے مناسب ، ساری عمر کرتے رہیں تب بھی نہیں وہ شکر ادا ہو گا لیکن کہا تو یہ گیا ہے کہ اَسْبَغَ عَلَيْكُم نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (القمن :۲۱) موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح تمہارے اوپر میری نعمتیں نازل ہو رہی ہیں.صرف ایک مثال دوں گا عملاً کس طرح خدا تعالیٰ دیتا ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۶۶، ۲۶۷)
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۶۰۹ سورة النمل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النمل آیت ۶۲ آمَنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَ جَعَلَ خِللَهَا أَنْهَرا وَ جَعَلَ b لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا وَإِلَهُ مَعَ اللهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ نے پانی کی تقسیم اور صفائی کا بھی انتظام کیا ہے.چنانچہ سورج کو کہا (سارے اجرامِ فلکی انسان کی خدمت پر مامور ہیں) کہ سمندروں کے پانی کو گرما ؤ اور پھر اس سے بخارات کو اُٹھاؤ اور پھر ہواؤں کو کہا یہ کمزور بخارات ہیں یہ وہ سفر کر نہیں سکتے جو ہم ان سے کروانا چاہتے ہیں اس لئے ان کو اپنے کندھوں پر اٹھاؤ اور جہاں ہم کہتے ہیں وہاں انہیں لے جاؤ.پہاڑوں کو کہا کہ جب تک پانی کے بار یک ذرے آپس میں ٹکرائیں گے نہیں اس وقت تک پانی کی شکل میں زمین پر نازل نہیں ہو سکتے اس لئے تم ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ اس طرح بارش برسے اور پہاڑی ندی نالے دریاؤں کی شکل میں بہہ نکلیں اور ان دریاؤں کے ذریعہ سے زمین کی سیرابی اور شادابی کا انتظام ہو.پھر ان پہاڑوں سے یہ بھی کہا کہ دیکھو بادل تو جب ہم کہیں گے وہ آئیں گے لیکن تم کچھ Store (ذخیرہ) کرلو تا کہ تھوڑے بہت پانی کا سارے سال انتظام ہوتا رہے.چنانچہ برف کی شکل میں پہاڑوں پر Reservoirs ( ذخیرے) قائم کر دیئے جن میں سے تھوڑا بہت پانی سارا سال ہی بہتا رہتا ہے.پس زمین وہ ہے جس میں پانی ہے ان اجزا کے ساتھ جن پر حیات کا انحصار ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں نے اس پانی کی آگے مناسب تقسیم کا بھی انتظام کر رکھا ہے.پھر پانی میں کچھ تو لوگوں نے گند ملانے تھے اور کچھ دوسرے گند مل جانے تھے اور
۶۱۰ سورة النمل تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث Stagnation ( کھڑے پانی) کی وجہ سے کیڑے پیدا ہو جانے تھے اور یہ مختلف Germs (جراثیم) ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے بارش برسائی جس سے دریا بہہ نکلے اور ان کے تیز بہاؤ کے ساتھ یہ سارے گند بہہ کر سمندر میں جا ملے جس سے سمندر کا پانی نا قابل استعمال ہو گیا.اگر سمندر کا یہ پانی حیات کا ذریعہ ٹھہرتا تو بیماری ہی بیماری ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بہت بڑا احسان فرمایا کہ سورج کی تپش سے سمندر سے نہایت صاف اور مصفا پانی کے بخارات اُٹھائے.ہم Distil کر کے جو عرق نکالتے ہیں وہ بھی اتنا صاف نہیں ہوتا جتنے یہ بخارات صاف ہوتے ہیں یا ہم پانی کو ابال کر جراثیم مارتے ہیں اس میں بھی وہ بات نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس نظام میں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ یہ دو پانی (ایک سمندر کا اور دوسرا دریاؤں وغیرہ کا ) آپس میں مل نہیں سکتے.اس گول زمین میں اونچائی اور نیچائی یعنی نشیب و فراز کا اصول اللہ تعالیٰ ہی چلا سکتا تھا انسان خواہ کتنا ہی سوچے اس کے دماغ میں تو یہ آ ہی نہیں سکتا.مثلاً اگر آپ دو گیند بنائیں اور ان میں اگر زمین کی کشش وغیرہ کا حصہ نہ ہو تو آپ کو سمجھ بھی نہیں آ سکتی کہ ان میں اونچ نیچ کیسے رکھیں یا نشیب و فراز کیسے بنائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ نشیب میں گندے پانی کو رکھا اور اونچی جگہ پر صاف پانی کو رکھا جو برسات کے موسم میں موسمی بارشوں یا چشموں یا برف سے پھلے ہوئے پانی سے دریاؤں کی شکل میں بہہ نکلتا اور ایسا حکیمانہ انتظام کر دیا ہے کہ یہ دونوں (سمندر اور دریاؤں وغیرہ کے ) پانی آپس میں (خواص کے لحاظ سے ) ملتے نہیں.ایسا نہیں ہوسکتا کہ سمندر کا پانی دریاؤں کے پانی کو خراب کر دے بلکہ بادلوں کے ذریعہ، ہواؤں کے ذریعہ اور پہاڑوں کے انتظام کے ساتھ ایک ایسا نظام جاری کر دیا جس کے ذریعہ گندے پانی میں سے اچھے پانی کے انسان تک پہنچنے کا انتظام ہوتا رہتا ہے.غرض اس سارے انتظام کی بدولت ایک روک بھی ایسی پیدا کر دی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس روک کو دور نہیں کر سکتی اور ایک پل بھی ایسا بنا دیا کہ پانی کے جتنے فوائد ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس پل کے ذریعہ ہمیں حاصل ہونے لگ گئے.پس قرآن کریم کی رُو سے یہی وہ الارض یعنی زمین ہے جہاں پانی ہے جو حیات اور زندگی کا منبع اور سر چشمہ ہے اور پھر زندگی کے اس سرچشمے کی آگے مناسب تقسیم کیلئے اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں نے ایک عظیم انتظام کر رکھا ہے.
تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۶۱۱ سورة النمل اللہ تعالیٰ نے زمین کی ایک اور خاصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ ایک جیسی زمین ہوتی ہے، ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہوتی ہے مگر اس میں مختلف قسم کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں.کھیتوں کو دیکھئے زمین کے لحاظ سے یہ ایکٹر اور وہ ایکٹر دونوں برابر ہیں.ایک ہی نہر سے ہم انہیں پانی دے رہے ہوتے ہیں یا ایک ہی Tubewell ( ٹیوب ویل) یا کنوئیں کے پانی سے وہ سیراب ہورہے ہوتے ہیں یا ایک ہی قسم کی بارش بادلوں سے نازل ہوتی ہے اور فصلوں کو سیراب کرتی ہے لیکن ہم کہتے ہیں یہ زمین گندم کے لئے اچھی ہے، یہ زمین دھان کے لئے اچھی ہے، یہ زمین کپاس کے لئے اچھی ہے، یہ زمین تیل کے بیجوں کیلئے اچھی ہے، یہ زمین آم کے درخت لگانے کے لئے اچھی ہے، یہ زمین امرود کے پیروں کے لئے اچھی ہے، یہ زمین سنگترے مالٹے اُگانے کیلئے اچھی ہے اور یہ زمین جہاں کچھ اور نہیں اُگتا شور اور کلر والی ہے یوکلپٹس کیلئے اچھی ہے.غرض ایک جیسی زمین اور ایک ہی جیسا پانی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک خاص حکمت کے ماتحت یہ انتظام کیا کہ اس میں سے مختلف نوع کی چیزیں پیدا ہوں (میں اس کی کسی قدر تفصیل آگے بیان کروں گا ) جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی رُو سے زمین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں باوجود اس کے پہلو بہ پہلو ہونے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہونے کے مختلف انواع کے اجناس اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں.پس زمین کی یہ خصوصیت بھی دراصل خدا تعالیٰ کے بے شمار جلوؤں پر مشتمل - ں ہے.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۳۲ تا ۸۳۴) آیت ۶۳ امَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَالهُ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ b اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق جو بات اس وقت میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں قبول کرتا ہے ، سورۃ المؤمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لكُم (المؤمن: ۶۱ ) ( مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا ) اسی طرح سورۃ البقرۃ میں اس نے فرمایا أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: ۱۸۷) ( جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں) لیکن دعا کی قبولیت کے بارہ میں یہ امر یا درکھنا چاہئیے کہ جب دعا اس کی تمام شرائط کے ساتھ کی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی تمام حکمتوں کے ساتھ اسے قبول کرتا ہے.یعنی ضروری نہیں کہ دعا
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۶۱۲ سورة النمل اسی طرح قبول ہو جس طرح بندہ مانگتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کو اس شکل میں قبول کرتا ہے جو دعا کرنے والے کے حق میں بہتر ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دعا کرنے والے کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے.پس دعا قبول ضرور ہوتی ہے لیکن ہوتی اس شکل میں ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں دعا کرنے والے کے لئے بہتر ہو نہ کہ اس شکل میں جس میں بندہ اپنی نادانی سے اس کے پورا ہونے کی خواہش رکھتا ہے.پھر سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السوء (العمل : ۶۳) یعنی بتاؤ کون کسی بے کس کی دعا کو سنتا ہے جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے.وَيَكْشِفُ السُّوءَ میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب بشارت دی ہے اور وہ یہ کہ تم دعا کرتے چلے جاؤ ایک دن وہ ضرور قبول ہوگی.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ انسان مضطر ہونے کی حالت میں دعا مانگے اور وہ قبول نہ ہو.مضطر کی دعا کی قبولیت ایک نہ ایک دن ظاہر ہو کر رہتی ہے یعنی اس کی تکلیف بہر حال دُور کر دی جاتی ہے.پس السُّوء کا دعاؤں کے نتیجہ میں دُور کیا جانا مومنوں کے دل کا (خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۴۱، ۱۴۲) مستقل سہارا ہے.
تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنا ۶۱۳ سورة القصص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القصص آیت ۲۵ فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّى إِلَى الفِلِينَ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا انْزَلَتَ إلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير 609 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بڑی پیاری بات کہی ہے جو قرآن کریم نے بھی نقل کی ہے اور وہ یہ ہے کہ رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير کہ ہر چیز کی مجھے احتیاج ہے جو بھلائی بھی تیری طرف سے آئے میں اس کا محتاج ہوں ، میں اسے اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتا جب تک تو مجھے نہ دے وہ مجھے نہیں مل سکتی غرض حقیقی خیر چاہے دنیوی ہو یا اُخروی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ملا کرتی ویسے اللہ تعالیٰ کتوں کو بھی بھوکا نہیں مار رہا ، سور بھی اس کی بعض صفات کے جلوے دیکھتے ہیں ان کو بھی خوراک مل رہی ہے اور ان کی ( مثلاً بیماریوں سے ) حفاظت بھی ہو رہی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی زمانہ میں وباء کے طور پر اس قسم کے جانوروں کو ہلاک کر دے جس طرح وہ بعض دفعہ انسان کی بعض گناہگار نسلوں کو فنا کر دیتا ہے لیکن جو سلوک ان جانوروں سے ہو رہا ہے وہ اس سلوک سے بڑا مختلف ہے جو انسان سے ہو رہا ہے اور جو سلوک ایک کتے سے ہورہا ہے جو سلوک ایک سور سے ہو رہا ہے جو سلوک ایک گھوڑے یا بیل یا پرندوں سے ہو رہا ہے اس کے مقابلہ میں جو سلوک ایک انسان سے ہو رہا ہے اس کو ہم خیر کہہ سکتے ہیں.باقی عام سلوک ہے گو ایک لحاظ سے وہ بھی خیر ہے لیکن صحیح اور حقیقی معنی میں وہ خیر نہیں اور انسان خیر کا محتاج ہے اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر نہ ملے بلکہ اس سے عام سلوک ہو تو اس دنیا میں تو اس کا پیٹ بھر جائے گا مگر اس دنیا میں بھوک کیسے دور ہوگی یا مثلاً اس دنیا میں سورج کی تپش ہے اگر اسے ایک چھوٹا یا بڑا مکان مل گیا تو وہ اس تپش سے محفوظ ہو
تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۶۱۴ سورة القصص جائے گا لیکن اس دنیا میں جہنم کی آگ سے اسے کون بچائے گا ؟ اس دنیا میں اسے کوئی بیماری ہوئی تو کسی حکیم نے اسے روپیہ کی دوائی دے دی یا کسی ڈاکٹر نے دو ہزار روپیہ کی دوائی دے دی اور اسے آرام آ گیا یہ درست ہے لیکن اس دنیا میں جہنم میں جو بیماری ظاہر ہوگی جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہو گی، کسی کو کوڑھ ہوا ہو گا.کسی کو فالج ہو گا اور کسی کو پتہ نہیں کون سی بیماری ہو روحانی طور پر جو اس کی یہاں حالت تھی وہ وہاں ظاہر ہو رہی ہو گی ، وہاں کون ڈاکٹر اس کے علاج کے لئے آئے گا؟ پس انسان کو ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے اور ہمیں ہر قسم کی قربانیاں اس کی راہ میں دینی (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۴۳، ۳۴۴) آیت ۵۷ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ اے رسول ! جس کو تو پسند کرے اس کو ہدایت نہیں دے سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے یا نہ دے.یہ الگ طور پر ایک لمبا مضمون بن جاتا ہے اس کی تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاؤں گا.جو شخص ہدایت پانے کی کوشش کرتا ہے یعنی ایمان لاتا ہے اور پھر اس کے مطابق عمل بھی بجالاتا ہے تو اگر چہ بشری کمزوریاں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے.ویسے یادرکھنا چاہیے کہ جب تک دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کیا جائے اس وقت تک حقیقی کامیابی نصیب نہیں ہوتی اور بظاہر صحیح عقیدہ کے باوجود انسان کے اعمالِ صالحہ رڈ کر دیئے جاتے ہیں اور وہ عند اللہ قبول نہیں ہوتے.ان کے بیچ میں کوئی گندی چیز آ جاتی ہے اور چونکہ خدا تعالی کی ذات پاک ہے وہ کہتا ہے میں ایسے عمل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.اس لئے ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ تم اچھے عمل کرنے کے بعد دعا سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرو تا کہ تمہارا بیان خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے.فرمایا وَ لكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے آخری فیصلہ اسی کے اختیار میں ہے کیونکہ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون نہیں ہے.کسی شخص کے اعمال واقعی قبول ہوجائیں گے اور اس کی بشری کمزوریوں کو معاف کر دیا جائے گا اور وہ ہدایت یافتہ گروہ میں آجائے گا.(خطبات ناصر جلد ہفتم ۲۲۴)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۱۵ سورة القصص آیت ٦٢٦١ وَمَا أُوتِيتُم مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ زِينَتَهَا وَمَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ وَ اَبْقَى أَفَلَا تَعْقِلُونَ & أَفَمَنْ وَعَدُنْهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيْهِ كَمَنْ مَّتَعَنْهُ مَتَاعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور یہ عطا ایک خاص مقصد کے لئے انسان پر نازل ہوتی ہے.انسان کا ذہن ہے، انسان کی طاقت ہے، انسان کی استعداد ہے، اخلاقی طاقتیں اور روحانی قوتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں.غرضیکہ انسان کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ایک خاص مقصد کی خاطر اسے ملا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے فرمایا ہے انسان میں سے دو گروہ بن جاتے ہیں.ایک وہ گروہ ہے کہ جو کچھ انہیں ملتا ہے اسے وہ صرف مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وزينتها سمجھتے ہیں اور اس سے آگے نہیں بڑھتے.خدا نے جو د نیوی سامان دیئے ہیں ان کا استعمال محض دنیا کے لئے اور دنیا کی اغراض کی خاطر کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی عطا کو دنیا کی زینت کے لئے سمجھا جاتا ہے.اسی کی طرف دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرما یا ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الحَيوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَا (الكهف: ۱۰۵) پھر فرمایا ایک دوسرا گر وہ ہے جو عقل رکھتا ہے اور اس کا استعمال کرتا ہے اس گروہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرما یا آفلا تعقلون یہ لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے لیکن عقل سے کام لینے والوں کا بھی ایک گروہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا وہ اس لئے ہے کہ وہ اپنے وجود اور اس کی طاقتوں کی نشو و نما اس طرح کرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا سچا، حقیقی اور پختہ تعلق قائم ہو جائے.یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا کے بعد بھی حسین جنتوں کا وعدہ دیا گیا ہے اور یہی تعلق ہے جس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بطور جزا کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ ملتا ہے.فرمایا وَمَا عِندَ اللهِ خَیر اور وہ بدلہ خیر اور بھلائی ہوتی ہے.وہ دکھوں کی طرف، وہ جہنم کی طرف اور وہ خدا تعالیٰ
۶۱۶ سورة القصص تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے غضب کی طرف لے جانے والی چیز نہیں ہوتی بلکہ خیر محض ہوتی ہے، خدا کا عطیہ ہوتی ہے اور صرف اس دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی.خدا تعالیٰ انسان کو اس کے نیک اعمال کے نتیجہ میں اور اس کی جو قربانیاں اور ایثار ہے اور خدا کے لئے محبت ذاتی کی انسان کے دل میں جو تڑپ ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ خیر بھی ہے و ابقی اور باقی رہنے والی چیز بھی ہے یعنی اس دنیوی زندگی پر موت آجانے کے بعد وہ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ باقی رہتی ہے انسان کو ایک نئی زندگی ایک جنتی زندگی ملتی ہے اور اس میں وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتا اور اس کی رضا سے انتہائی مسرتوں کو پاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گروہ جو خدا تعالیٰ کے لئے خدا ہی کی عطا کردہ دنیوی چیز میں خرچ کرتا ہے، وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور ملے گا.فرمایا وَعْدًا حَسَنًا بڑا حسین وعدہ ہے وہ حسین بھی ہے اور پورا ہونے والا بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُخْلِفُ المیعاد خدا کے جو وعدے اور وعید ہیں ہر دو مشروط ہیں اور ہر دوا اپنی شرائط کے ساتھ پورے ہوتے ہیں.اسی لئے انسان کو خاتمہ بالخیر کی دعا کی تحریک کی گئی ہے.خَيْرُ وَ اَبھی ہی کے الفاظ کے بعد خدا تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ،ہم سمجھتے کیوں نہیں کہ تمہاری پیدائش کی غرض کیا ہے، تم سمجھتے کیوں نہیں کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ اسی مقصد کے حصول کے لئے تمہیں ملا ہے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ خدا نے فرمایا:- خَيْرٌ وَ ابْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (شوری: ۳۷) فرمایا خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی ہدایت کی روشنی میں جو لوگ اپنے اموال کو اور اپنی طاقتوں کو اپنی قوتوں اور استعدادوں کو اور اپنی اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتے اور خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق خدا داد قوتوں کی نشو ونما کرتے ہیں وہ عقل سے کام لینے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یعنی انہوں نے اپنی انتہائی کوشش کی خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول میں مگر نتائج کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر چھوڑ دیا.دراصل ایمان کے معنے عقیدہ کا ایمان اور زبان سے اس کا اقرار اور اس کے مطابق عمل کرنا یہ سب چیزیں لغت عربی کے مطابق لفظ ایمان میں شامل ہیں.تو جو شخص ایمان لاتا اور مومنانہ زندگی گزارتا ہے اور اس کے دل میں پاکیزگی پائی جاتی ہے اور کھوٹ نہیں اور
۶۱۷ سورة القصص تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ملاوٹ نہیں اور نفاق نہیں اور فساد نہیں ہوتا اور اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد و علی رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی کافی نہیں، جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے خاتمہ بالخیر نہ کرے اور اپنے فضل اور رحمت سے جنتوں کے سامان نہ پیدا کرے محض اعمال کوئی چیز نہیں.غرض جب خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کی ترقیات کے لئے آسمانی ہدایت بھیجی جاتی ہے تو دنیا دو گروہوں میں بٹ جاتی ہے.تاریخ بتاتی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآن کریم جیسی عظیم ہدایت انسان کے ہاتھ میں دی گئی تو آپ کی اس عظمت و شان کے باوجود پھر بھی سارے ہی انسان ایسے نہیں تھے جنہوں نے آپ کو قبول کیا اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنے لگے.یہ تو بڑا لمبا مضمون ہے جو بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور انسان کی کوشش کو قبول کر لیتا ہے یعنی انسان کی بعض چھوٹی چھوٹی کوششیں ہیں جو مقبول ہوکر انسانی مغفرت کا باعث بن جاتی اور اس کی ترقیات کا زینہ ٹھہرتی ہیں اور بعض دفعہ انسان کی ذرا ذرا سی لغزش اسے خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار کر پرے پھینک دیتی ہے.یہ ساری باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.قرآن کریم ہمارے لئے کامل ہدایت ہے اس کے بعد ہمیں کسی اور ہدایت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.پس انسانوں کی دو جماعتیں یا دو گروہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر کیا ہے.ایک وہ گروہ ہے جن کو متاع زندگی اور زینت حیات خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ گویا وہ اس کے حقدار تھے، اس دنیا میں مزے لوٹنے کے لئے انہیں یہ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور مزہ لوٹنا بھی کیا جس کا انجام تبا ہی ہے.دنیا کی خوشیاں اور عیش اس دنیا میں بھی انسان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں مثلاً جسمانی طاقتیں ہیں.دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عارضی لذتوں کی خاطر خدا داد طاقتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے اس دنیا کی بقیہ زندگی میں نہایت مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا ان کی صحت ایسی گر جاتی ہے کہ اس دنیوی زندگی کا بھی کوئی لطف ان کے لئے باقی نہیں رہتا.اس لئے اصل مسرت اور لذت تو وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی روشنی یعنی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتی ہے.وہی سرور حقیقی سرور ہے اس دنیوی زندگی میں بھی اور وہی سرور اُخروی زندگی میں ایک اور شکل میں انسان کے وجود کو اور اس کی روح کو ملے گا
۶۱۸ سورة القصص تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بعض لوگ عقل سے کام نہیں لیتے.وہ سوچتے نہیں کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے باطل تو نہیں بنایا تھا.انسانی زندگی کا کوئی مقصد ہونا چاہیئے.اس کی کوئی غرض ہونی چاہیئے انسانی پیدائش کا کوئی مقصد ہونا چاہیئے.چنانچہ انسان کو مخاطب کر کے یہ اعلان کردیا گیا کہ ہر دو جہان کی ہر چیز بلا استثناء اس کی خدمت پر لگادی گئی ہے.کتنا بڑا مقام ہے جو انسان کو دیا گیا ہے.وہ اپنی ماں کے پیٹ سے تو یہ چیزیں لے کر نہیں آتا یہ خدا تعالیٰ کی عطا ہے.یہ اس کی رحمت ہے حتی کہ اس نے ان ستاروں کو بھی جن کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے.سائنس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی اور ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی پچھلے پندرہ بیس سال میں ہماری دنیا تک پہلی بار پہنچی ہے ان سب کو خدا نے ہماری خدمت پر لگایا ہوا ہے چنانچہ صحیح جہت کی طرف سائنس کی ہر ترقی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مخلوق خدا انسان کی ایک نئی شکل میں خدمت کررہی ہے.ہر سائنسی انکشاف (Scientific Discovery) سے پتہ لگتا ہے کہ کتنا عظیم اعلان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا تھا:.وووو وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجائیه : ۱۴) لیکن پھر بھی ان سائنسدانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور اس دنیا کے متاع اور اس کی زینت کو کافی سمجھتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس دنیوی متاع اور اس کی زینت کے نتیجہ میں اُخروی متاع کے سامان پیدا کرنے کے لئے اور اُخروی زندگی کے حسن کے حصول کے لئے کوشش کرتے ضَلَّ سَعْيُهُم في الحيوةِ الدُّنْيَا (الكهف : ۱۰۵) دنیوی عیش و آرام میں پڑ جاتے ہیں جو کہ وقتی ہے اور اس میں حقیقی لذت بھی نہیں مگر پھر بھی ایسے لوگ اپنا سب کچھ دنیوی لذتوں کی خاطر برباد کر دیتے ہیں اور خدا سے ڈوری کی راہیں ان کو خدا کے غضب کی جہنم کی طرف لے جاتی ہیں لیکن وہ لوگ بھی ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شریعت پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے ہاتھ میں دی ہے، ایمان لائے ہیں اور جن کی زندگیاں اسلام کی خاطر ہیں.ان کی زندگی کا ہر لمحہ اس کوشش میں صرف ہوتا ہے کہ جو بھوکی اور پیاسی دنیا ہے اور خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کی زندگی گزار رہی ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۱۹ سورة القصص واپس لوٹ کر آئے چنانچہ اس غرض کے لئے دوست دعائیں کر رہے ہیں کوشش کر رہے ہیں اور اموال کی قربانی دے رہے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اس قسم کا گروہ دنیا میں پیدا ہو گا.قرآن کریم نے جب یہ کہا تو قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی ان دو گروہوں کا ذکر اس کے اندر آ سکتا ہے.ماضی کا تو حوالہ اس میں نہیں دیا گیا ویسے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر نبی کے وقت ایسا ہی ہوتا آیا ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی بلندشان کے باوجود اور قرآن کریم کی کامل اور مکمل شریعت و ہدایت کے باوجود کچھ لوگ عقل سے کام نہیں لیں گے اور وہ شیطان کی طرف دوڑیں گے.بجائے اس کے کہ خدائے رحمان کی طرف ان کی حرکت ہو اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق ان کے قدم زمین پر پڑیں وہ شیطان کے گروہ کی طرف چلیں گے لیکن ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو ایسا نہیں ہوگا.وہ ایسے لوگ ہوں گے جو عقل رکھتے ہوں گے، جو ایمان رکھتے ہوں گے، جو خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوں گے، جو سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ سمجھتے ہوں گے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا.جو آخری چیز ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جس کے نتیجہ میں انسان چھوٹا ہو یا بڑا خدا کی رضا کی جنتوں میں داخل ہوتا ہے.یہ گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اب تک امت مسلمہ میں پیدا ہوتا رہا ہے.ایسے لوگوں نے بڑی قربانیاں دیں اور انہوں نے اپنی زندگیاں بڑی فراست سے گزاریں اور خد اس کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے اور دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کے لئے انتھک کوشش کی تاکہ ساری دنیا اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کو حاصل کرے.شروع سے ہی ایسا گروہ چلا آرہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو بڑی کثرت سے ہمیں نظر آتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں کی ، انہوں نے اپنے آراموں کی کوئی پرواہ نہیں کی ، انہوں نے اپنے عزیزوں کی ، اپنے رشتہ داروں کی اور دوستوں کی کوئی پرواہ نہیں کی.صرف ایک ہی ہستی تھی جس پر وہ مر مٹے تھے اور ایک ہی نعرہ تھا جو ان کی زبان سے نکلتا تھا اور وہ تھا مولا بس.اللہ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.( خطبات ناصر جلد هفتم ۶۵ تا ۷۰)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۰ سورة القصص آیت ۸ وَابْتَغ فِيمَا الكَ اللهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَ اَحْسِنُ كَمَا اَحْسَنَ اللهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ) پس ایمان بالآخرۃ نہایت ضروری حکم ہے اور اس کے بغیر الہی سلسلے یا جماعتیں یا ان کے افراد بشاشت کے ساتھ قربانیاں نہیں دے سکتے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا: وَابْتَغ فِيمَا أَنكَ اللهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ (القصص : ۷۸) یہ میں نے آیت کا ایک ٹکڑا لیا ہے اس سے آگے ویسے یہ بھی ہے.وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَ اَحْسِنُ كَمَا اَحْسَنَ اللهُ إِلَيْكَ الا.لیکن میں نے پہلا ٹکٹر الیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے ( فيما اشك ) اس کے ذریعہ آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو ( و ابتغ ) اس دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے ہماری یہ زندگی ہمارا جسم اور اس کی طاقتیں، ہمارا ذہن اور اس کی طاقتیں ہماری روح اور اس کی طاقتیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے گھر سے تو کچھ نہیں لائے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مادی اسباب جو تمہیں دیئے گئے ہیں اور قوتیں اور استعداد میں جو تمہیں عطا ہوئی ہیں ان کے ذریعہ سے تم دار آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ماننا ضروری ہے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے اس کے بغیر الہی سلسلے نہ قربانیاں دے سکتے ہیں اور نہ وہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے پیدا کرنا چاہتا ہے.صحابہ کرام کی زندگی پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو انہیں ایمان بالآخرت میں بھی یکتا پاتے ہیں میں نے کئی بار بتایا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لئے سونے والے کمرے سے بیٹھنے والے کمرے تک جانا شاید دل میں کچھ کوفت کا احساس پیدا کرے مگر ان لوگوں کے لئے اس دنیا سے نکل کر اس دنیا میں چلے جانا کوئی کوفت نہیں پیدا کرتا تھا وہ ہنستے کھیلتے اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دیتے حتی کہ اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے تھے ان کے نزدیک زندگی اور موت کے درمیان جو ایک بار یک سی لکیر ہے وہ نہ ہونے کے برابر تھی.عجیب شان تھی ان لوگوں کی (رضوان اللہ علیہم ) اور عجیب شان ہے مخلصین جماعت احمدیہ کی بھی.........
۶۲۱ سورة القصص تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث غرض اللہ تعالیٰ نے وَابْتَغِ فِيمَا أَنكَ اللهُ النَّارَ الْأخر تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے مادی سامان یا جسمانی اور روحانی قوتیں اور طاقتیں ان سب کے ذریعہ دار آخرت کی نعماء کے حصول کی کوشش کرو.دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ اَرَادَ الْأَخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا الخ (بنی اسرائیل : ۲۰) جو اس حکم کے نتیجہ میں اور آخرت کی نعماء کی خواہش رکھے وسطی لَهَا سَعيها اور محض خواہش ہی نہ ہو بلکہ دار آخرت کی نعماء کے حصول کے لئے جس قسم کی کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت ہے اور جس کا حکم دیا گیا ہے وہ کوشش اور مجاہدہ بجالائے ایسے حال میں کہ وہ مومن ہو یعنی آخرت پر بھی اس کا ایمان پختہ ہو.یہاں هُوَ مُؤْمِن کے ایک معنے ہم یہ بھی کریں گے کہ آخرت پر اس کا ایمان پختہ ہو دل میں شیطانی وسوسہ نہ ہو کہ پتہ نہیں مرنے کے بعد دوسری زندگی ملے گی یا نہیں ملے گی الہی سلسلوں میں کئی ایسے کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں جو قربانیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے انہیں ضائع بھی کر رہے ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں پتہ نہیں آخرت کی زندگی ہے بھی یا نہیں؟ پتہ نہیں وہاں ہمیں کس قسم کے انعاموں کا وعدہ دیا گیا ہے چونکہ ان کا ایمان پختہ نہیں ہوتا اس لئے نقصان اٹھاتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اس حکم کے مطابق انسان کی خواہش آخرت کی نعماء کے حصول کی ہو اور پھر صرف خواہش ہی نہ ہو بلکہ وسطی لَهَا سَعيها آخرت کے نعماء کے حصول کے لئے جس قسم کی سعی اور کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت ہے وہ اس قسم کی سعی اور کوشش اور مجاہدہ کر رہا ہو اور پھر فرما یا وَهُوَ مُؤْمِنْ آخرت پر اس کا ایمان بھی پختہ ہو تو پھر اس کی کوشش پر اللہ تعالیٰ اس کا شکر گزار ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اس کے مطابق انعام ملے گا.میں نے ابھی بتایا تھا کہ جب تک انسان کا دار آخرت اور اُخروی زندگی پر ایمان پختہ نہ ہو وہ قربانی نہیں دے سکتا جس کا اس سے مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ہمیں ایمان ہے تو دار آخرت پر بھی ہمیں ایمان لانا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی ایک تو یہ زندگی ہے اور اس کے بعد ایک درمیانی زندگی ہے اور پھر آخرت میں جنت کی زندگی ہے جس میں انسان کو ایسی نعمتیں عطا ہوں گی جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لئے اس دنیا کے بعض الفاظ بیان فرمائے ہیں لیکن ساتھ ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۶۲۲ سورة القصص کی زبان سے یہ بھی کہلوا دیا ہے کہ جنت میں جو نعماء تمہیں ملیں گی وہ اس قدر اعلیٰ درجہ کی ہوں گی کہ نہ اس سے پہلے تمہاری آنکھوں نے دیکھی ہوں گی نہ ان کے متعلق تمہارے کانوں نے سنا ہوگا اور نہ ہی تمہارے ذہن میں ان کا تصور ہوگا.یہ پردے کی دنیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل پردوں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں.وہاں پر دے نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ کے فضل بالکل ظاہر ہو کر سامنے آرہے ہوں گے اور شیطانی وسوسہ نہیں ہوگا.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میری عطا کے ذریعہ سے تم دار آخرت کی نعماء حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اگر تم کوشش کرو گے اور اس کے مطابق ایمان رکھو گے اگر تم خواہش کرو گے اور پھر کوشش کرو گے اور آخرت پر پختہ ایمان رکھو گے تو تمہاری سعی اور تمہارا مجاہدہ قبول ہوگا اور اللہ تعالیٰ بھی بندوں کی طرح شکر گزار ہو گا.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۳۴۲، ۳۴۳)
تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطن ۶۲۳ سورة العنكبوت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة العنكبوت آیت ۱ تا ۳ ، ۱۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُترَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ) وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الكذِبِينَ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللهِ وَ لَبِنْ جَاءَ نَصْرُ مِنْ رَّبِّكَ لَيَقُولُنَ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ او لَيْسَ اللهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَلَمِينَ.ط سورۃ عنکبوت کی ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا اس زمانہ کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہوگا اور وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا اور فتنہ میں نہ ڈالا جائے گا حالانکہ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو ہم نے آزمایا تھا اور اب بھی اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے گا اور وہ ظاہر کر دے گا ان کو جنہوں نے سچ بولا اور اپنی قربانیوں سے اپنی سچائی پر مہر لگائی اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا جن کی زبان پر ایمان تھا لیکن ان کے دل ایمان سے خالی تھے.انہوں نے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کیا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے مامور (رسول اور نبی ) پر ایمان لاتی ہے تو اس کا محض زبانی ایمان اللہ تعالیٰ کو مقبول نہیں ہوتا بلکہ اس
۶۲۴ سورة العنكبوت تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ایمان کے نتیجہ میں جب تک اسلَمتُ لِرَبِّ الْعلمين (البقرة :۱۳۲) کا مظاہرہ نہ ہو.یعنی اس وقت تک وہ قوم الہی انعامات، فضلوں ، برکتوں اور رحمتوں کی وارث نہیں بن سکتی.جب تک وہ ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں اور آزمائشوں میں پوری نہ اترے اور پوری طرح ثابت قدم نہ رہے.قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے فتنے اور آزمائشیں تین قسم کی ہیں.ان میں سے مومنوں کو گزرنا پڑتا ہے.تین قسم کی آگ ہے.جس میں اپنے رب کی رضا کے لئے انہیں چھلانگ لگانا پڑتی ہے.اگر وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اور ان کا ایمان سچا ہو.تو اللہ تعالیٰ ان تینوں قسم کی آگوں کو ان کیلئے بردا وسلمًا (الانبیاء :۷۰) بنادیتا ہے.اور وہ ان آزمائشوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیں.(۱) پہلا امتحان اور آزمائش ( کیونکہ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ) وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے.جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.اپنے نفسوں کو مارنا پڑتا ہے بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عرب تیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے.قرآن کریم چونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے کامل ہدایت مہیا کی.اور ان کامل مجاہدات کے طریق ہمیں سکھائے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم انتہائی عظیم الشان نعمتوں کے وارث بن سکتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ نَبلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (الانبياء : ٣٦) یعنی ہم تمہاری اکشر اور الخَیر کے ذریعہ آزمائش کریں گے.اور آخر ہماری طرف ہی تم کو لوٹا کر لایا جائے گا.گو یا فرما یا اگرتم اس آزمائش میں پورے اترے جسے ہم الخیر کہہ رہے ہیں.اس سے تم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور جسے ہم اک شہر کہہ رہے ہیں اس سے تم زیادہ سے زیادہ بچے تو جب تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ گے تو اسی کے مطابق ہماری طرف سے تمہیں اچھا بدلہ ملے گا.قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں جن کے مطابق ہم اس کی بہت سی تفاسیر کرتے ہیں.یہاں الخیر کے ایک معنی خود قرآن کریم اور اس کے اوامر و نواہی ہیں جیسا کہ فرمایا.وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَا ذَا انْزَلَ رَبُّكُمْ ، قَالُوا خَيْرًا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا
تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۶۲۵ سورة العنكبوت حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرُ - (النحل : ٣١) کہ جب مخالفین اور نہ ماننے والے ( ان لوگوں سے جو تقوی کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اور اوامر کو بجالاتے اور نواہی سے پر ہیز کرتے ہیں) پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس قرآن کریم میں کیا اتارا ہے یا تمہارے رب نے کیا تعلیم تمہیں دی ہے تو وہ کہتے ہیں خیر ایعنی خیر کو اتارا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہدایت جو الخَیرُ ( کامل خیر ) ہے جو لوگ اَلْخَيْرُ کی راہ اختیار کرتے ہیں لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةُ ) اس کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اس کی نواہی سے بچے رہتے ہیں.ان کے لئے اس دنیا میں حَسَنَةٌ ( بھلائی) ظاہر ہوگی.وَ لَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرُ.آخری گھر میں تو کہنا ہی کیا ؟؟ اس کی خوبیاں اور اس کے انعامات کی کنہ تو ہمارے تصور میں بھی نہیں آ سکتیں.پس اس آیت میں قرآنی تعلیم کو خیر کہا گیا ہے اس لئے میں آیت وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فتنہ کے یہ معنی کرتا ہوں کہ ہم قرآن کریم کے احکام ( اوامر ونواہی ) سے تمہاری آزمائش کریں گے اور اگر ہم غور سے کام لیں تو ہے بھی یہ ایک آزمائش.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے تم ہماری راہ میں خرچ کرو تو یہ ایک بڑی آزمائش ہے.غور کیجئے کہ ایک شخص دن رات کی محنت کے بعد کچھ مال حاصل کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے اتنا مال مل گیا ہے کہ جس سے میں اور میری بیوی بچے خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں گے تب خدا تعالیٰ کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے اور اسے متوجہ کرتی ہے کہ جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کے خرچ پر جو پابندیاں ہم نے عائد کی ہوئی ہیں انہیں مت بھولنا پھر وہ اس مال کے متعلق انہیں یہ فرماتا ہے کہ اب میرے دین کو یا میرے بندوں کو تمہارے مال کے ایک حصہ کی ضرورت ہے اسے میری راہ میں خرچ کرد و تویقینا یہ اس بندے کی آزمائش ہوتی ہے جس میں وہ ڈالا جاتا ہے.پس وہ مومن جو تقوای پر قائم ہوتا ہے وہ بشاشت سے خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہتا ہے اور اپنے مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے وہ اس امتحان میں پورا اُترتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہت سی نعمتوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں تمہاری زندگی کے لحات بھی ہیں، عمر بھی ہے، جب ہماری طرف سے اپنی عمر اور وقت کا کچھ حصہ قربانی کرنے کیلئے تمہیں آواز دی
۶۲۶ سورة العنكبوت تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث جائے تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس آزمائش میں بھی پورے اتر وتا ہمارے فضلوں کے وارث ٹھہرو.اسی طرح عزتیں اور وجاہتیں بھی خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی ہیں جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنی پڑتی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نواہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم و رواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی.توالخیر جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو آزماتا ہے.وہ قرآن کریم کے احکام ہیں.اس کے مقابلہ میں الشّر کا لفظ استعمال فرمایا ہے گویا ہر وہ حکم امر ہو یا نہی جو قرآن کریم کے مخالف اور معارض ہو.اسے اکشر کہا گیا ہے کیونکہ شیطان اور اس کے پیروؤں کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کے کانوں میں قرآن کریم کے خلاف باتیں ڈالتے رہتے ہیں.کبھی یہ کہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ان مومنوں کی خاطر جو کمز ور اور غریب مہاجر ہیں تم اپنے وقتوں اور عزتوں کو کیوں ضائع کرتے ہو.دیکھ لیں منافقوں کا وطیرہ اور کفار کا یہی طریق ہے کہ وہ قرآنی احکام کے مقابل معارض باتیں مومنوں کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور یہ غلط امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی باتوں پر کان دھریں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے مومن بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوا کرتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف احکام قرآنی ہیں جو تمہارے سامنے ہیں اور ایک طرف وساوس شیطانی ہیں جو تمہیں ان کی خلاف ورزی پر آمادہ کر رہے ہیں اور ان ہر دو کے ذریعہ سے تمہاری آزمائش کی جارہی ہے.اس آزمائش میں پورا اترنے کے لئے ضروری ہے کہ تم یہ یا درکھو کہ تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آنے والے ہو.جو شخص آخرت پر حقیقی ایمان رکھتا ہو اور اسے یہ یقین کامل حاصل ہو کہ الینَا تُرْجَعُونَ “ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ کسی بھی آزمائش کے وقت کس طرح ٹھو کر کھا سکتا ہے؟ پس وو
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۲۷ سورة العنكبوت ایک قسم کی آزمائش خدا تعالیٰ کے احکام اور شیطانی وساوس کے ذریعہ سے ہوتی ہے.(۲) دوسرا فتنہ یا آزمائش جس سے مومن آزمائے جاتے ہیں وہ قضاء وقدر کی آزمائش ہے کبھی کبھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو قضاء وقدر کی آزمائش میں ڈال کر ان کا امتحان لیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقره: ۱۵۶) کہ ہم اپنی مشیت اور اذن سے تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہارے مالوں میں نقصان کی صورت پیدا کر دیں گے.احمدیت میں بھی جو اللہ تعالیٰ کا سچا سلسلہ ہے ہر روز ایسی مثالیں ملتی رہتی ہیں مجھے کئی خطوط آتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم احمدی ہوئے تھے مگر بیعت کے بعد ہمیں نقصان ہونا شروع ہو گیا ہے.اگر یہ لوگ قرآن کریم کی ذرا بھی سمجھ رکھتے ہوں تو وہ فوراً جان لیں کہ یہ نقصان احمدیت کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے غلط یا جھوٹا ہونے کی کیونکہ قرآن کریم نے پہلے ہی بوضاحت بتا دیا تھا کہ جب تم ایمان لاؤ گے تو کبھی خدا تعالیٰ تمہارے مالوں میں تنگی پیدا کرے گا اور تمہیں آزمائے گا کہ آیا تم مال کو خدا تعالیٰ پر ترجیح دیتے ہو یا خدا تعالیٰ کی مرضی کو مال پر ترجیح دیتے ہو.والانفس اور کبھی یہ کرے گا کہ ادھر تم ایمان لائے اُدھر تمہارا بچہ مرگیا یا کوئی دوسرا رشتہ دارفوت ہو گیا.اس وقت شیطان آئے گا اور تمہارے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ یہ مذہب جو تم نے اختیار کیا بڑا منحوس ہے.دیکھوا بھی تم ایمان لائے اور تمہارا بچہ فوت ہو گیا یا تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا یا تمہارا باپ چلتا بنا وغیرہ وغیرہ لیکن اگر تم قرآن کریم کو جانتے اور سمجھتے ہوگے تو تم اس آیت کے ماتحت ایک قسم کی بشاشت محسوس کرو گے کہ کتنا سچا ہے ہمارا خدا اور کتنا مہربان ہے وہ کہ وقت سے پہلے ہی اس نے یہ بتا دیا تھا کہ ہم اس قسم کی آزمائش میں تمہیں ڈالیں گے.وَ الثَّمرات اور کبھی وہ یہ کرے گا کہ دنیا کے حصول کے لئے جو تمہاری کوششیں ہوں گی دنیوی میدان میں اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا اور ہم اس کو تمہارے لئے ایک آزمائش بنا دیں گے.تو اس قسم کی آزمائشوں کو قضاء وقدر کی آزمائش کہا جاتا ہے یہ دوسری قسم کی آزمائش ہے جس میں سے مومن کو گزرنا پڑتا ہے.(۳) تیسرا فتنہ یا آزمائش جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے وہ مخالفین کی ایذاء رسانی ہے
تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۶۲۸ سورة العنكبوت اگر ہم تاریخ انبیاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر نبی اور مامور کے ماننے والوں کو ان کے مخالفین نے ہر قسم کی ایذا ئیں پہنچائیں لیکن اس میں سے سب سے زیادہ حصہ اس نبی کے صحابہ کو دیا گیا جوسب انبیاء سے اعلیٰ، ارفع ، سب سے زیادہ مقدس اور امام المطہرین تھے یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے کی زندگی میں اور پھر اس کے بعد جہاں جہاں بھی اسلام دنیا میں پھیلتا گیا، اسلام میں داخل ہونے والوں کو تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بھی ایک آزمائش ہے جس میں سے تم میں سے ہر مومن کو گزرنا ہے.اگر تمہارے دل میں واقعی میری محبت ہے اور تم واقعی میری رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اس آزمائش سے بھی صدق و وفا کے ساتھ گزرنا پڑے گا.اس امتحان میں پورا اترنے اور ہمیں اپنے عذاب سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور تصور بھی ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے.فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ الله (العنکبوت : ۱۱) اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اعلان ایمان کے بعد ان پر آزمائش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس تیسری قسم کے فتنہ سے ان کا امتحان لینا چاہتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی وجہ سے انہیں تکلیف میں ڈالا جاتا ہے.کیونکہ لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں کبھی وہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوتے ہیں کبھی ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور کبھی ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ہزاروں قسم کے داؤ پیچ ہیں جو مخالف لوگ شیطانی وسوسوں کی وجہ سے اختیار کرتے ہیں.تو فرمایا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ان کو تکلیف میں ڈالا جاتا ہے تو وہ لوگوں کے عذاب کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے ہیں فرمایا کہ اگر تم کمزوری دکھاؤ گے تو تمہیں وہ عذاب بھگتنا پڑے گا جو میں نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے.اور اگر تم مضبوطی دکھاؤ گے اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو گے تو تمہیں صرف وہ عذاب جھیلنا پڑے گا جو یہ محدود طاقتوں والے انسان پہنچا سکتے ہیں.اب خود اندازہ کر لو کہ ان دو عذابوں میں سے کون سا عذاب زیادہ شدید اور کونسا عذاب زیادہ دیر پا ہے ان دو عذابوں میں سے ایک عذاب تمہیں ضرور ملے گا چاہو تو بندوں کی ایذاء رسانی کو قبول کر کے میرے عذاب سے بچ جاؤ ، چاہو تو اس عارضی عذاب سے بچنے کی خاطر میرا وہ عذاب مول
۶۲۹ تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة العنكبوت لےلوجس کا زمانہ اتنا لمبا ہے کہ تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.محاورہ میں وہ ابدالآباد کا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے اگر چہ وہ ہمیشہ کے لئے نہیں لیکن اس کا زمانہ اتنا لمبا اور اس کی شدت اتنی ہیبت ناک ہے کہ اگر ہم اسے ہمیشہ کا عذاب بھی کہہ دیں تو غلط نہیں ہو گا تو فرماتا ہے کہ جب لوگ تمہیں میری وجہ سے تکلیف پہنچانے لگیں ، دکھ دینے لگیں اور تمہارے لئے عذاب کے سامان مہیا کر دیں تو تمہیں میرے عذاب کا تصور بھی کر لینا چاہئے.اس تصور سے تم لوگوں کے عذاب پر صبر کرنے کے قابل ہو جاؤ گے اور تمہارے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ آیا لوگوں کے عذاب کو تم قبول کرو گے یا میرے عذاب کو جو ایک بڑا لمبا اور شدید عذاب ہے.سو کوئی عقلمند انسان جو خدا پر ایمان اور یقین رکھتا ہو کبھی یہ نہیں کہ سکتا اور نہ یہ پسند کر سکتا ہے کہ لوگوں کے عذاب سے بچ جائے اور خدا کے عذاب میں مبتلا ہو.ہاں بعض بدقسمت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کے عذاب کو دیکھ کر ٹھوکر کھا جاتے اور ارتداد کی راہ اختیار کرتے ہیں.پس ایک تیسری قسم کا فتنہ جو ایمان کے اعلان کے بعد مومن کے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ منکر اور مخالف لوگ اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ وہ مومنوں کو دکھ اور تکلیف پہنچائیں اور اس وقت ظاہر ہوتا ہے کہ کون اپنے ایمان میں صادق ہے اور کون کا ذب ہے.فرمایا کہ یاد رکھنا کہ لوگوں کا عذاب تو عارضی ہے وقتی ہے بڑا ہلکا ہے اس کے مقابل پر میرا عذاب بڑا لمبا اور بڑا شدید ہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی تمہارے سامنے آ جائے تو تم دس ہزار سال تک لوگوں کے عذاب کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.الغرض یہ تین قسم کے فتنے یا آزمائشیں یا امتحان ہیں جن میں سے خدا تعالیٰ کے مومن اور متقی بندوں کو گزرنا پڑتا ہے.......پھر قضاء و قدر کی آزمائش میں بھی ہمیں نہایت اچھا اور نیک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے.اس وقت مسلمان کہلانے والوں میں سے ایسے خاندان بھی آپ کو نظر آئیں گے جو گھر میں فوت وموت ہونے کے وقت یا تو خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا شکوہ شروع کرنے لگتے ہیں.وہ اس بشارت کے مستحق نہیں بن سکتے جس کا ذکر خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے.وَبَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرة : ۱۵۷) جس کی چیز تھی اس نے لے لی شکوہ کی گنجائش ہی کہاں ہے لیکن انسان بعض دفعہ بڑی حماقت کی
تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۶۳۰ سورة العنكبوت باتیں کرتا ہے اور اپنے رب کا بھی شکوہ شروع کر دیتا ہے.تو قضاء وقدر کی آزمائش اور امتحان جو ہمارے لئے مقدر ہیں ان میں بھی ہم نے ایسا نمونہ دکھانا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بشارتیں ہمیں ملیں اس کا غضب یا ناراضگی ہم پر نہ اترے.خطبات ناصر جلد اول ۲۱۴ تا ۲۲۲ آیت ۶۰٬۵۹ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَنُبَوثَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ) فرمایا کہ محدودے چند چیزیں نہیں ملتی بلکہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کے محبوب بن جاؤ گے تو بہترین جزا جو کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے وہ تمہیں مل جائے گی اس دنیا میں بھی دیکھو خدا تعالیٰ جب کسی پر احسان کرنے پر آتا ہے تو وہ اس کے توکل کا اس قسم کا اجر دیتا ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے.نِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ الَّذِينَ صَبَرُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ یعنی اچھے عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہوتا ہے.وہ مومن جو اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں جو اپنے عقیدہ پر پختگی سے قائم رہتے ہیں اور اعمال صالحہ بجالانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنے رب اللہ پر ہی تو کل کرتے ہیں اور اس یقین پر کھڑے ہوتے ہیں کہ اس توکل کے نتیجہ میں انہیں ایسے انعامات حاصل ہوں گے جو کسی اور جگہ سے حاصل نہیں ہو سکتے انہیں بہت اچھا اجر ملے گا اور چونکہ اس توکل کے نتیجہ میں نِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ والی ہستی ان پر واضح ہو جاتی ہے اس لئے ایمان میں بھی وہ پختہ ہوتے ہیں اور اعمال صالحہ سے بھی وہ چھٹے رہتے ہیں اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ بات ان کے دماغ میں نہیں آتی کہ ہم عمل صالح کی بجائے عمل غیر صالح کریں ہم ایسے اعمال بجالائیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں محبوب نہ ہوں محمود نہ ہوں جب وہ ایسا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو ایسا اجر دیتا ہے کہ ساری دنیا کی نعمتیں ان کو مل جاتی ہیں بہترین جنتیں انہیں عطا ہوتی ہیں انہیں وہ لذت اور سرور ملتا ہے جس کا تصور بھی ہم یہاں نہیں کر سکتے وہ آرام انہیں نصیب ہوتا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرتم مجھ پر
۶۳۱ سورة العنكبوت تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث کامل توکل کرو گے اور توکل کی شرائط پوری کرنے والے ہو گے تو پھر میں تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کروں گا تمہاری ترقیات کے لئے تمہاری خواہشات کے پورا ہونے کے لئے اور تمہاری زندگی کے مقصد کے حصول کے لئے ایسے سامان مہیا کروں گا کہ جو نہ تم خود پیدا کر سکتے ہو اور نہ دنیا کی کوئی اور طاقت پیدا کر سکتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو تا تم کامیاب ہو جاؤ اور تا اگر دنیا تمہیں ایذا پہنچانے کی کوشش کرے تمہیں دکھ پہنچانے کی کوشش کرے تو اس ایذا اور دکھ کی آگ میں سے خوبصورت گلاب کے پھول نکلیں جسے دنیا جلا دینے والی چیز سمجھ رہی ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس آگ کو تمہارے لئے بردا وسلمًا (الانبیاء:۷۰) بنادوں گا.خطبات ناصر جلد دوم ۳۹۲، ۳۹۳) b آیت ۶۵ وَمَا هُذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهُوَ وَ لَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ یہ ورلی زندگی صرف ایک غفلت اور کھیل کا سامان ہے اور اخروی زندگی کا گھر ہی درحقیقت اصلی زندگی کا گھر کہلا سکتا ہے.اب ہر ایک جو یہاں بیٹھا ہے یا جس تک میری آواز پہنچے اگر وہ دوسیکنڈ کے لئے سوچے کہ جو زمانہ گزار گیا ستر سال کا یا پچاس سال کا اپنی عمر کے لحاظ سے بیس سال کا یا دس سال کا گزرنے کے بعد اس کے سوا کوئی احساس باقی نہیں رہتا کہ شاید چند سیکنڈ ہی ہیں جو گزرے لیکن اخروی زندگی پر یقین جو ہے ہیں ، وہ ہمیں پیسلی دیتا ہے کہ وہ ابدی زندگی ہے، نہ ختم ہونے والی.بنیادی طور پر اخروی زندگی کی دو عجیب خصوصیات اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھیں.ایک یہ کہ وہ نہ ختم ہونے والی ہے.دوسرے یہ کہ ہمیشہ حرکت کرنے والی ہے.حرکت رفعت کی طرف، خدا تعالیٰ کے زیادہ پیار کی طرف اللہ تعالیٰ کے عرفان کو زیادہ حاصل کرنے کی طرف ، لذت وسرور کا احساس پہلے سے ہر آن زیادہ ہو جانے کی طرف حرکت.لیکن یہ ورلی زندگی غفلت اور کھیل کا سامان ہے.اس میں خوشیاں بھی زندگی کے اندر، اسی زندگی کے دائرے میں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہوتیں.خوشی ہوتی ہے، چند گھنٹوں کے لئے ہوتی ہے.کئی یہاں بھی شاید نو جوان بیٹھے ہوں جن کو مثلاً ہا کی کی
۶۳۲ سورة العنكبوت تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث کھیل سے بہت پیار ہے اور وہ دیکھتے ہیں.میں نے پیچھے بتایا تھا باسکٹ بال والوں کو کہ ہم تو ہر خوبصورتی میں خدا تعالیٰ کے حسن کا جلوہ دیکھتے ہیں.اس واسطے جہاں بھی ہمیں خوبصورتی نظر آئے ہم الحمد للہ پڑھنے والے ہیں.تو کھیل میں بھی بڑی خوبصورت مود (Move) کہتے ہیں ان کو، وہ ہوتی ہیں اور بڑی بھیانک، بدشکل کہہ دیں ہم، بڑی مود بھی ہوتی ہیں لیکن جو ہا کی کا میچ دیکھتا ہے وہ ایک گھنٹہ کچھ منٹ کے بعد ختم ہو گیا.لیکن جو جنت کی خوشی ہے وہ ایک گھنٹہ یا ایک دن یا ایک مہینہ یا ایک سال یا ایک صدی یا ایک Million کا زمانہ (لفظ مجھے پوری طرح نہیں رہا ذہن میں ) یعنی لاکھوں سال یا اربوں سال یا کھربوں سال کا زمانہ تو نہیں ہے.وہ تو نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.پھر اس میں حکمت یہ ہے، یہ جو تبدیلی ہے یعنی لذت کا بڑھتے چلے جانا اس واسطے کہ اگر لذت اور سرور خواہ وہ روحانی ہو خواہ اس کا تعلق اُخروی زندگی کے ساتھ ہو اگر اس میں ٹھہراؤ آ جائے تو بور ہو جائے گا آدمی.ایک ہی چیز اگر آپ کو بہت اچھی لگتی ہے اور صبح شام آپ کی بیوی وہی پکا کے آپ کو کھلا نا شروع کر دے تو دو، چار، پانچ دس دن کے بعد آپ کہیں گے کہ یہ کیا شروع کیا ہوا ہے میرے ساتھ تم نے سلوک؟ تو بوریت کوئی نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ اب میں یہ کھاتے کھاتے تھک گیا ہوں اس لئے کہ وہ پینج (Change) ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صبح انسان جنت میں جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرے گا شام کو اس سے بڑھ کے کرے گا.اگلی صبح اس سے بھی بڑھ کے کرے گا.اس واسطے ان لوگوں کا خیال بالکل غلط ہے کہ وہاں عمل نہیں ہے.جنت میں عمل ہے، امتحان نہیں ہے.عمل ہے، اس کی جزا ساتھ ساتھ ملتی ہے یعنی اگر ( میں فلسفہ بتانے لگا ہوں آپ کو، بہت سارے سمجھ جائیں گے ) جنت میں داخل کئے جانے کا استحقاق ہماری ورلی زندگی کے مقبول اعمال نے پیدا کر دیا تو جو پہلے دن جنتی نے عمل کیا اس کا استحقاق کیسے پیدا ہوسکتا ہے.وہ یہی ہے.پھر وہ پلس (Plus) ہو گیا نا اس استحقاق کے ساتھ.اس لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے پہلے سے زیادہ ان کا احساس خوشی کا پہلے سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۳ ۴ تا ۴۱۵)