Anwarul-Quran Volume 1

Anwarul-Quran Volume 1

انوار القراٰن (جلد ۱)

Chapters: 1-4
Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد، خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے خطبات و خطابات سے ماخوذ


Book Content

Page 1

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسح الثالث کے خطبات وخطابات سے ماخوذ انوار القرآن جلد اول سورة الفاتحة تأسورة النساء

Page 2

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث کے خطبات وخطابات سے ماخوذ انوار القرآن جلد اوّل سورة الفاتحة تأسورة النساء

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض ناشر حضرت حافظ مرزا ناصراحمد خلیفۃ المسح الثالث کو قرآن کریم سے غیر معمولی محبت اور عشق تھا.آپ نے بچپن میں قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق پائی.قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مضامین پر غوروخوض اور فکروتد بر آپ کا معمول زندگی رہا.قرآنی معارف اور دقائق کی تلاش میں گہرا شغف رکھتے تھے اور قرآن کریم کے انوار سے اپنے سینہ کو منور کرنے میں عمر بھر ہمہ تن مشغول و مشغوف رہے.آپ کی دلی تمنا اور قلبی تڑپ تھی کہ ہر احمدی قرآن کریم کو سیکھنے ، تلاوت کا تعہد رکھنے اس کا ترجمہ جاننے اور اس کی تشریح و تفسیر میں منہمک ہو کر اس کے انوار کو جذب کرنے والا ہو چنانچہ آپ فرماتے ہیں.ہر احمدی مرد اور احمد کی عورت ، ہر احمدی بچہ ، ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن کریم سیکھے ، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کر لے.ایک نور مجسم بن جائے.قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے ، قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور نظر آئے اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآنی

Page 4

سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.اے خدا ! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں.اے زمین اور آسمان کے نور ! تو ایسے حالات پیدا کر دے کہ دنیا کا مشرق بھی اور دنیا کا مغرب بھی دنیا کا جنوب بھی اور دنیا کا شمال بھی نور قرآن سے بھر جائے اور سب شیطانی اندھیرے ہمیشہ کے لئے دور ہو جا ئیں....ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ واقعتا اور حقیقتاً خدا ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم قرآنی انوار میں ایسے گم ہو جائیں کہ سوائے انوار قرآنی کے ہمارے وجود میں اور کوئی چیز نظر نہ آئے.آمین حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے خطبات اور خطابات میں متعدد مقامات پر قرآنی آیات کی تفسیر فرمائی اور قرآنی معارف کو پیش کیا.حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر قرآنی تفسیر کے یہ حصے یکجا کر کے ان کو کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے.اس کی تین جلدیں ہیں اور پہلی جلد آپ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالی احباب جماعت کو قرآن کریم کے معارف سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق دے اور اس اشاعت کے سلسلہ میں جن دوستوں کو کام کرنے کی توفیق ملی ان کو جزائے خیر دے اور ان کے علم میں برکت عطا فرمائے.آمین

Page 5

i اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت اتا سورة الفاتحة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ....وَلَا الضَّالِّينَ سورة البقرة اتا ۱۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ....مُهْتَدِينَ ۲۰ ۴۶ ۴۷ ۸۸ 1+2 و كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة..الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَلَقَد أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتب وَقَفَّينا.مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نَفْسِهَا نَأْتِ.۱۱۲ ۱۱۳ وَقَالُوا لَنْ يَدخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ..۱۲۰ انَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا.۱۲۶ تا ۱۳۰ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ.۱۵۱ ۱۵۲ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ.۱۵۴ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ.۱۵۶ تا ۱۵۸ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ ۱۷۸ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ.۱۸۴ تا ۱۸۸ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصّيَامُ ۲۰۱، ۲۰۲ فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا..۲۰۵ تا ۲۰۷ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَولُه.۲۰۸ آیت وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ.صفحہ ۳۱۳ ۲۱۸ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ.۳۱۴ ۲۱۹ انَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا....۲۳۲ ۲۳۴ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ.وَالْوَالِدتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ..۲۴۶ ۹۰ ۲۴۸ ۱۲۶ ۲۵۰ ۱۲۶ ۱۳۰ ۲۵۴ ۱۳۳ ۲۵۶ ۱۳۴ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا....وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ....۳۱۵ ۳۱۶ ۳۲۲ ۳۲۴ ۳۳۲ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ.۲۵۱، ۲۵۲ وَلَمَّا بَرَزُ و الجَالُوتَ وَجُنُودِه..تلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمُ.عَلَى...اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ....۲۵۸،۲۵۷ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ.۲۶۵ ۱۵۳ ۲۷۳ ۱۶۴ ۲۷۴ ۱۸۴ ۲۸۷ ۱۹۳ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ أَمَنُوالَا تُبْطِلُوا صَدَ قَتِكُم..۳۳۴ ۳۳۶ ۳۴۵ ۳۵۲ ۳۵۴ ۳۶۷ ليْسَ عَلَيْكَ هُل لهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ...۳۶۸ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا...۳۶۹ ۱۹۸ ۲۰۱ ۹،۸ ۲۰۵ ۱۵ ۲۸۰ ۲۰ ۲۹۴ سورة ال عمران هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ.زين لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ مِنَ النِّسَاءِ.إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ.۳۷۳ ۳۸۰ ۳۸۴

Page 6

ii ۱۵۸،۱۵۵ ۱۳۲ تا۱۴۰ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِى أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ.۱۴۷ ۱۴۸ وَكَايَّنْ مِنْ نَبِي قَتَلَ مَعَهُ رِبيُّونَ...۱۶۰ تا ۱۶۲ ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُم مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ آمَنَةً...۵۰۴ ۴۹۶ نمبر آیت ۲۱ آیت فَإِن حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ...۳۹۵ ۳۲، ۳۳ قُلْ إِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونى..LL ۹۳ قُلْ يَاهْلَ الْكِتب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ.بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا.۹۸،۹۷ اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ.۱۰۲ تا ۱۰۵ ۱۱۱،۱۰۹ وكيفَ تَكْفُرُونَ وَانْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ.۳۹۸...۲،۱ ۴۰۳ ۱۸ ۴۱۲ ۲۴ ۴۱۶ ۲۹ ۴۱۹ ۳۵ ۴۵۵ ۴۷۹ صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ سورة النساء بِسْمِ اللهِ....كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ۵۴۵ إنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ...۵۴۷ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ وَبَنْتُكُم.اورود يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ...الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ.۵۱،۵۰ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ أَنْفُسَهُمْ.۵۸ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ.۱۹۱ تا ۱۹۶ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ..۱۶۳ تا ۱۶۵ اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ...۵۲۰ إنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيطنُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَه ۵۲۹ ۱۷۶ ۱۸۱ ، ۱۸۲ وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا الهُمُ ۱۸۹، ۱۹۰ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوُا...۵۳۰ ۱۱۱ تا ۱۱۴ وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ....۱۴۶ ۵۳۲ ۵۳۴ ۵۹ ۹۵ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله..يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّارُكِ الْأَسْفَلِ.ياتهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ.۱۷۶،۱۷۵ يايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانَ.۵۴۸ ۵۴۹ ۵۵۴ ۵۵۷ ۵۵۹ ۵۶۰ ۵۶۱ ۵۶۲ ۵۷۲ ۵۷۲ ۵۷۳

Page 7

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ آیت اتا۷ سورة الفاتحة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفاتحة بیان فرموده سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ b (۵ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لى صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد آیات میں یہ بیان کیا ہے کہ اس عالمین کی پیدائش بلا وجہ اور بغیر مقصد کے نہیں.......اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں قرآن کریم کے شروع میں ہی اس بنیادی اصول کی طرف یہ کہہ کر توجہ دلائی تھی کہ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین کہ اس عالمین کی ربوبیت ہوئی ہے.رب کے معنے ہیں پیدا کر کے درجہ بدرجہ مدارج ارتقا طے کرواتا چلا جانے والا یعنی وہ پیدا کرتا ہے اور وہ خود درجہ بدرجہ مختلف مدارج میں سے گزار کے اس کی جو استعداد ہے اس کو اپنے مخصوص دائرہ استعداد کمال تک پہنچاتا ہے.مثلاً گندم کا بیج ہے ہمارے ہزاروں زمیندار بھائی یہاں بیٹھے ہیں وہ گندم کا پیچ اپنے کھیتوں میں ڈال کے جلسہ سننے کے لئے آ جاتے ہیں.اب یہ بھی نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر گندم کا بیج گندم کی فصل کی شکل اختیار کر کے گندم پیدا کرتا ہے.اس کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنے بعض بندوں کا تیرے ذریعہ سے پیٹ بھرنا چاہتا ہوں اس لئے تو ایک کی بجائے ستر یا سویا دوسو

Page 8

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة یا استعداد کے مطابق سات سو تک یا اس سے بھی بڑھ کر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے.بڑھنا ہے لیکن خدا تعالیٰ کا یہ حکم مختلف دوروں میں سے اس بیچ کو گذارتا ہے پہلے اس کی جڑیں نکلتی ہیں اور زمین کے اندر پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں اور جو نئے نئے زمیندار بنتے ہیں ان کو پہلے دن بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ پتہ نہیں اس سے روئیدگی باہر آئے گی یا نہیں اور ہر دوسرے تیسرے دن جب تک وہ باہر نہیں آ جاتا جا کے اس مٹی کو کرید کے جسے پنجابی میں پھولنا کہتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ نیچے جڑیں بن رہی ہیں یا نہیں.پھر وہ کچھ دنوں کے بعد باہر نکل آتی ہیں.جس طرح زرد رنگ کا نحیف کمزور بچہ ہوتا ہے وہ اس کی شکل ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے اور پانی سے وہ اپنی غذا کو لیتا ہے اور بڑھتا ہے.پہلے پتے نکالتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ پتے جب زمین اور سورج کی شعاعوں سے اپنی طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو اس سٹاک کو جس میں بعد میں گندم کے دانے لگتے ہیں.اس کو یہ طاقت دیتا ہے اور وہ بڑھنی شروع ہو جاتی ہے.پھر سٹہ نکل آتا ہے اس کو ، اور پھر پتے اور اس کا جو سٹاک ہے تنا چھوٹا ساوہ اپنی ساری طاقت بیچ کی طرف منتقل کر کے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور اس کی کمر بعض دفعہ دہری ہو جاتی ہے چہرہ زرد ہو جاتا ہے اور کوئی جان اُن میں نہیں رہتی.خون سب خشک ہو جاتا ہے اور دانے موٹے ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس ایک لمبا سلسلہ درجہ بدرجہ ترقی کرنے کا ہر چیز میں ہمیں نظر آتا ہے یہ ایک مثال میں نے دی ہے.قرآن کریم نے ہمیں فرمایا کہ اس عالمین میں بنیادی طور پر تدریجی ترقی کا اصول قائم کیا گیا ہے.اس تدریجی ترقی کا اصول کس لئے قائم کیا گیا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تدریجی ترقی کا اصول اس مقصد کے حصول کے لئے ہے جس مقصد کے حصول کے لئے اس عالمین کو پیدا کیا گیا یعنی عالمین کو پیدا کیا گیا ایک خاص مقصد کے لئے اور اس تدریجی ترقی اور تدریجی ارتقا کا اصول قائم کیا گیا ہے تا کہ وہ مقصد حاصل ہو جائے.اللہ تعالیٰ سورۃ عنکبوت میں فرماتا ہے خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (العنكبوت: (۴۵) که اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ سورۃ روم قف میں فرماتا ہے.اَو لَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمُ مَا خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى وَ إِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَائِ رَبِّهِمْ لَكَفِرُونَ (الروم :۹) کیا وہ سوچتے

Page 9

تفسیر حضرت خلیفة امسیح الثالث سورة الفاتحة نہیں اور فکر اور غور نہیں کرتے اپنے نفسوں میں کہ اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین کو ایک خاص مقصد کے لئے اور ایک مقررہ وقت کے لئے پیدا کیا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ احقاف میں فرماتا ہے.مَا خَلَقَ اللهُ السَّيوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى (الاحقاف: ۴) کہ اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے درمیان پایا جاتا ہے بلا وجہ اور حکمت کے بغیر پیدا نہیں کیا اور نہ کوئی مدت مقرر کرنے کے بغیر پیدا کیا ہے.اسی طرح اور بہت سے مقامات پر قرآن کریم نے بڑے زور کے ساتھ اس دعویٰ کو انسان کے سامنے پیش کیا ہے کہ اس کائنات کی پیدائش ایک خاص مقصد کے حصول کے پیش نظر کی گئی ہے.یہ چاند، یہ ستارے، یہ سورج، اب جب ہمارا علم بڑھ گیا ہے تو ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بے شمار سورج ہمارے نظام شمسی کی طرح اس عالمین میں پائے جاتے ہیں.پھر آسمانوں کے متعلق تو بڑا تھوڑا علم ہے.کم از کم تھوڑا بہت علم ہم نے حاصل کر لیا ہے کہ بعض ستارے زیادہ روشن ہیں اور بعض کم اور بعض ستارے ہم سے قریب ہیں اور بعض بہت دور یعنی یہ محض فلسفیانہ رنگ میں نہیں بلکہ دور بینوں سے ہم نے یہ پستہ لیا اور ہم نے شعاعوں کے متعلق یہ بھی پتہ کر لیا کہ کتنے لائٹ ایرز میں، یعنی کتنے ایسے سالوں میں کہ جس میں شعاعوں کی ایک سال کی رفتار جو ہے (اسے لائٹ ایرز (Light years) کہتے ہیں) وہ روشنی یہاں تک پہنچی وغیرہ وغیرہ اور اس سے جو علم حاصل ہوا جس سے ہمیں فائدہ پہنچ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح چاند اور سورج کی روشنی ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اندر بعض خاص خصوصیتیں پیدا کرتی ہے اسی طرح ستاروں کی روشنی بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج گندم کا دانہ جس میں مثلاً تعداد تو نہیں یاد، کسی کو پتہ بھی نہیں، گنا بھی نہیں جاسکتا ہے لیکن مثال دے دیتے ہیں، جس کی پرورش میں ایک ہزار ستاروں نے دودھ پلایا.وہ اس دانہ سے مختلف ہے.جو آج سے پانچ ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور جس کی پرورش میں صرف نو سوستاروں کی روشنی کا حصہ تھا.عقلاً اس میں اختلاف ہونا چاہیے تھا کیونکہ زیادہ ستاروں کی روشنی پرورش کا باعث بنی تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ جو میں نے ستارے بنائے، پھر زمین بنائی اور پھر میں نے بے شمار چیزیں بنادیں مختلف انواع کے کچھ حیوان ہیں.کچھ نباتات سے تعلق رکھنے والی ہیں.کچھ معد نیات سے تعلق رکھنے والی ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر ہر چیز میں میری جس جس صفت کا جلوہ ہوا ہے چونکہ میری ہر صفت اور اس

Page 10

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة کے جلوے غیر محدود ہیں.اس چیز کے جو خواص ہیں وہ غیر محدود ہیں.تو اتنا بڑا کارخانہ اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی اور اپنی گہرائیوں کے لحاظ سے بھی بے فائدہ اور بلا مقصد نہیں ہے، کوئی بات میرے سامنے تھی، کوئی مقصد میرے پیش نظر تھا جس کے لئے میں نے اس کا رخانہ عالم کو بنایا.دوسری صداقت جو قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پیدائش عالمین کا جو بھی مقصد ہے اس کا تعلق انسان سے ہے یعنی انسان نے اس مقصد کو پورا کرنا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ( البقرة : ۳۱) کہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش عالم کے وقت ملائکہ سے یہ کہا کہ میں ایک ایسی نوع پیدا کرنے لگا ہوں جو میرے خلیفہ اور میرے نائب ہو کر زندگی گزاریں گے.جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایک ایسی نسل ، ایسی نوع انسانی پیدا کرنے لگا ہوں جن میں یہ استعداد اور قوت رکھی جائے گی کہ وہ میری صفات کا مظہر بن سکیں کوئی خلیفہ اور نائب ایسا نہیں جو اس کی صفات کا مظہر نہ بنے.تو اس آیت میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان اور جو اس کے درمیان ہے اس کی پیدائش کا مقصد انسان سے تعلق رکھتا ہے اور انسان کو یہ کہا کہ تم غور کرو کہ اگر پیدائش عالمین کا مقصد تم سے تعلق نہ رکھتا تو پیدائش کی ہر چیز کو تمہاری خدمت میں نہ لگایا جاتا.اگر وہ مقصد جو اس عالمین کی پیدائش کا ہے مثلاً ہمارے سورج سے تعلق رکھتا تو ہم غلاموں کی طرح اس سورج کی خدمت کر رہے ہوتے جس طرح خدا چاہتا کہ ہم خدمت کریں لیکن ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ نہ صرف یہ سورج بلکہ دنیا میں جو بے شمار سورج پائے جاتے ہیں سارے کے سارے انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور نہ صرف یہ عالمین بلکہ جو ان کا سہارا ہیں یعنی ملائکہ اور ان کی قوتیں وہ بھی انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے بار بار اس طرف متوجہ کیا کہ ہم نے جس چیز کو بھی پیدا کیا تمہاری خدمت میں لگا دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا کتب منير (القمن: ۲۱) کیا تم لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسے تمہاری خدمت پر لگایا ہوا ہے اور اس رنگ میں لگایا ہوا ہے کہ اپنی اس خلق کو تمہاری خدمت پر لگانے کے نتیجہ میں تمہارے لئے جن نعمتوں کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں انہیں تم شمار

Page 11

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة نہیں کر سکتے ، انہیں تم گنتی میں نہیں لا سکتے.وَ اَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً اور تم پر اپنی نعمتیں ظاہری ہوں یا باطنی پانی کی طرح بہادی ہیں جس طرح سمندر کے پانی کے قطرے نہیں گنے جا سکتے (شائد وہ گنے جائیں لیکن ) اس سے زیادہ بڑھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مہر بانیوں اور اس کے احسانوں کا شمار نہیں ہے.اس سے تمہیں یہ سبق لینا چاہیے اس سے یہ حقیقت تم پر واضح ہونی چاہیے کہ پیدائش عالم کا مقصد انسان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کے باوجو دلوگوں میں سے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں بات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا تو خدا ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس کو ہمارے ساتھ کیا غرض ؟ اور اس بحث میں ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہوتی ہے وَلا ھڈی.نہ صحف سابقہ میں سے کسی آسمانی صحیفے کا ان کے پاس کوئی استدلال ہوتا ہے وَلا کتبِ منیر اور نہ قرآن کریم سے کوئی استدلال وہ ایسا کر سکتے ہیں.تو عقل ، پہلی کتابیں جو ان میں سے سچائیاں قائم رہ گئی ہیں اور دنیا کو روشن کرنے کے لئے جو کتاب منیر قرآن کریم میں نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی پختہ دلیل نکال کر وہ اپنے موقف کی تائید میں بیان نہیں کر سکتے اور اس بات سے وہ انکار کرتے ہیں کہ یہ دنیا کسی مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہے اور آخرت پر جو شخص ایمان نہیں لاتا ( اور دنیا میں ایسے انسانوں کی بڑی کثرت ہے ) اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پیدائش انسانی کی کوئی غرض نہیں.ساری دنیا کو، کائنات کو ، موجودات کو جو پیدا کیا گیا ہے یہ بے مقصد ہے.انسان اس دنیا میں آیا ہے اور مرجائے گا اور ختم ہو جائے گا یہ قصہ ہے.اسی طرح سورہ جاثیہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ - قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللهِ لِيَجْزِى قَوْماً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ - مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلى رَبَّكُمْ تُرْجَعُونَ (الجاثية : ۱۴ تا ۱۶) کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اُس نے تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے اور جو فکر کرنے والی اور تدبر کرنے والی اور غور کرنے والی قوم ہے ان کے لئے اس میں ایک بڑا نشان ہے اور وہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس کائنات کی پیدائش اور انسان کی پیدائش کے پیچھے کوئی مقصد ہے.اس لئے قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا تو مومنوں سے کہہ دے کہ تم اللہ تعالیٰ کی جزا کی اُمید رکھو

Page 12

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة الفاتحة.کیونکہ ایک مقصد کے پیش نظر تمہیں پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کے مظہر بنو اور جو شخص اپنی استعداد کے مطابق صفات باری کا مظہر بن جاتا ہے وہ منبع مسرت اور خوشیوں کے سرچشمہ سے پرسکون اور خوشحال زندگی حاصل کرتا ہے جس پر کبھی فنا نہیں آتی ہے.اس لئے تم اللہ کی سزا سے ڈرو کیونکہ اللہ تعالی کی گرفت کے یہ معنے ہوں گے کہ جو مقصد تم سے وابستہ کیا گیا تھا اس میں تم ناکام ہوئے اور جو خوشیاں تمہارے لئے مقدر کی گئی تھیں ان سے تم محروم ہوئے اور خدا تعالیٰ سے دوری کے نتیجہ میں جو عذاب مقدر کیا گیا تھا اس کے تم حق دار ٹھہرے.خود ہی نہیں بلکہ جو سزا سے نہیں ڈرتے اور اپنے رب کو نہیں پہچانتے ان کو بھی معاف کریں اور ایسے سامان پیدا کریں کہ ان کی توجہ محبت اور پیار کے ساتھ ان کے رب کی طرف پھیری جا سکے اور خودسزا دینے کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نہ خدا سے یہ کہیں کہ جلد انہیں سزا دے بلکہ کوشش یہ کریں کہ ایسے لوگ بلکہ ساری دنیا ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو تم اچھی طرح سمجھا دو کہ ہمارا جو یہ مطالبہ ہے کہ ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے ارشادات کی روشنی میں مناسب حال نیک اعمال بجالایا کرو فلنفیسہ اس میں تمہارا فائدہ ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں تم اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہو جو تمہاری زندگی کا مقصد ہے.تو دوسری بات قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس مقصد کے لئے کائنات اور موجودات کی پیدائش ہوئی ہے اس کا تعلق انسان سے ہے اور اس کا یہ تعلق انسان سے ہے کہ وہ اپنی قوتوں اور استعدادوں کے دائرہ کے اندر مظہر صفات باری بن سکے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی ہدایتوں کے سامان پیدا کئے ہیں کہ جو شخص اپنی زندگی کے مقصد کے حصول کی کوشش کرے وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائے.اسی لئے جو بنی نوع انسان کے مختلف ادوار ہیں اپنے اپنے دائرہ میں جو اس وقت کے انسان کو اس کے کمال تک پہنچانے کے لئے ضرورت تھی اس کے مطابق خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے نبی اُس قوم کے نبی کو ہدایت دے دی اور اس آیت استخلاف میں جو ابھی میں نے پڑھی اس میں جو کہا گیا ہے کہ میں اپنا ایک خلیفہ بنانا چاہتا ہوں اس سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اگر چہ عام طور پر اس کا ئنات کو پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ ایک ایسی نوع پیدا ہو کہ جو مظہر صفات باری بن سکے.لیکن اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسا وجود پیدا ہو جائے کہ جو اللہ کا مظہر اتم ہو یعنی تمام صفات

Page 13

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 2 سورة الفاتحة باری کا وہ کامل مظہر ہو.صرف اللہ کی اس صفت کا وہ مظہر نہ ہو کہ وہ ذوانتقام ہے.خدا تعالیٰ بدلہ لیتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نمایاں طور پر خدا کی اس صفت کا مظہر بنے اور انتقام لینے پر آپ نے زور دیا، یا وہ اللہ کی صرف اس صفت کا مظہر نہ بنے کہ وہ غفور ہے معاف کر دیتا ہے.جیسے حضرت مسیح علیہ السلام صرف اس صفت کا نمایاں طور پر مظہر بنے اور صفات کا بھی بنے لیکن نمایاں طور پر اس صفت کا مظہر بنے اور یہ کہا کہ اگلا آدمی خواہ بدیوں میں ترقی کرتا چلا جائے تم اس کو معاف کرتے چلے جاؤ اور یہ نہیں بتایا کہ سوچ لیا کرو کہ تمہارے معافی دینے کے ساتھ کہیں وہ اپنی بدیوں میں تو ترقی کر کے اللہ تعالیٰ سے اور بھی بعد تو نہیں حاصل کر لیتا.تو ان آیات سے خصوصاً اس آیت سے کہ میں اپنا ایک نائب اور خلیفہ بنانا چاہتا ہوں اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ کائنات کی پیدائش کا اصل اور حقیقی مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا انسان وجود پذیر ہو جو اللہ (اور اللہ کے معنے ہیں متجمع جمیع صفات کا ملہ حسنہ.وہ ذات جو تمام کامل اور اچھی صفات کی جامع ہے ) کا مظہر اتم بن جائے یعنی اس کے اندر بھی ظلی طور پر تمام صفات الہیہ جمع ہو جا ئیں.تو اس سے ہمیں تین چیزوں کا پتہ لگا ایک یہ کہ مقصد کا تعلق انسان سے ہے.دوسرے یہ کہ یہ مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ پیدائش عالم کا یہ مقصد حاصل ہو سکے کہ ایک ایسی نوع پیدا ہو جائے جو صفات باری کی مظہر بنے کی قوت اور استعدادا اپنے اندر رکھ سکتی ہو اور ہمیں یہ پتہ لگا کہ اصل اور حقیقی مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا انسان کامل پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کا مظہر اتم ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر ہو تمام صفات کا جو مظہر ہو گا اصولی طور پر وہ اللہ کا مظہر ہوگا.وہ إِنَّ بَطْشَ رَبَّكَ لشديد (البروج : ۱۳) کی صفت کا بھی مظہر ہو گا جب گرفت کرے گا تو اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہو گی اس میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہوگا اور وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) کی ایک صفت باری ہے.جب وہ رحمت کرنے پر آئے گا تو اس میں بھی وہ کامل طور پر اللہ کی اس صفت کا مظہر ہو گا.جب وہ معاف کرے گا تو لا تثریب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف:۹۳) کا ایسا نعرہ لگائے گا کہ انسانی تاریخ اس کی مثال نہیں پیش کر سکے گی.جب وہ عزیز ہونے کی صفت کا مظہر بنے گا تو سارا عرب جب اکٹھا ہو جائے گا تو وہ قدرت الہی جو اس میں جلوہ گر ہوگی ہوا کے ذروں کی طرح اسے اڑا کے رکھ دے گی.پس تمام صفات کا وہ مظہر ہو گا.اس مقصد کے حصول کے لئے ایک

Page 14

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث سورة الفاتحة ایسے ہی انسان کامل کی ضرورت تھی.(خطابات ناصر جلد اوّل صفحہ ۳۰۵ تا ۳۱۲) الحمد للہ.اللہ جس پر قرآن کریم کی رو سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے ہم ایمان لاتے ہیں وہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے کسی چیز یا کسی وجود کی تعریف بنیادی طور پر دو وجوہ سے کی جاتی یا کی جا سکتی ہے.ایک تو اس کے ذاتی حسن کی وجہ سے اور دوسری اس کے احسان کی قوتوں اور احسان کی صفات کی وجہ سے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ حسن حقیقی صرف اس کی ذات میں پایا جاتا ہے سورۃ فاتحہ کو ہی لیں سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم بیان ہوئی ہے اور جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے روشنی ڈالی ہے.وہ ایک نہایت ہی حسین تعلیم ہے لیکن سورۃ فاتحہ میں جو حسن انسان کو نظر آتا ہے وہ اس سورۃ کا ذاتی حسن نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کچھ جلووں نے سورۃ فاتحہ کی شکل اختیار کی ہے.اسی طرح گلاب جو اچھا پرورش یافتہ ہو وہ نہایت خوبصورت شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے لیکن گلاب کی خوبصورتی اور اس کی دل کشی اور اس کا حسن اس کا اپنا حسن نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بعض اور صفات گلاب کی شکل میں مجسم ہوئی ہیں اور اتنا عظیم حسن گلاب کے اندر پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سورۃ فاتحہ گلاب کی شکل میں دکھائی گئی.غرض نہ تو سورۃ فاتحہ کا حسن جو ہمارے دلوں کو موہ لیتا ہے اس کا اپنا حسن ہے اور نہ گلاب کے پھول جو ایک نہایت ہی خوبصورت پھول ہے) کا حسن اس کا اپنا حسن ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں جو ایک جگہ ہمیں سورۃ فاتحہ کی خوبصورت شکل میں نظر آتے ہیں اور دوسری جگہ وہی اللہ تعالیٰ کے جلوے گلاب کی شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ فاتحہ اور گلاب کی مماثلت کو خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ میں مختصراً جو مضمون بیان کر رہا ہوں اس کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے.بہر حال حسن جہاں بھی اس دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے وہ اس چیز کا ذاتی حسن نہیں جس میں وہ اس مادی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے.دنیا کی مخلوق میں (اور دنیا ساری مخلوق ہے اس میں کوئی استثنا نہیں ) خواہ ہماری نظر کسی جگہ پر پہنچے یا ہماری نظراب تک پہنچی ہو یا ابھی تک ہماری نظر نہ پہنچی ہو یا کبھی بھی ہماری نظر نہ پہنچ سکے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا.جو بھی خوبصورتی اور دل کشی اور حسن انسان کو نظر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات یا اللہ تعالیٰ کی کسی ایک صفت کا کوئی

Page 15

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة جلوہ ہے جس نے وہ رنگ اختیار کر لیا ہے مثلاً سورج ہے اس نے ایک جہاں کو روشن کیا ہوا ہے.پھر وہ صرف زمین کو ہی روشن نہیں کرتا بلکہ اس نے بعض اور سیاروں کو بھی روشن کیا ہوا ہے.چاند کو لے لو وہ سورج سے روشنی لیتا اور پھر اس کو آگے پہنچاتا ہے لیکن یہ روشنی جو سورج میں انسان کو دکھائی دیتی ہے یہ سورج کی اپنی روشنی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی نور ہے جو اس دنیا کو جو سورج کی دنیا ہے منور کر رہا ہے اور سورج کے پردہ میں منور کر رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی انسانی آنکھ کو ظاہراً نظر نہیں آ سکتی.اس مادی دنیا میں اسباب کے پردوں میں اس کی صفات انسان کے سامنے آتی ہیں اور اس طرح پر وہ نیک اور پاک اور عقل مند لوگوں کو اپنا چہرہ دکھاتا ہے.غرض جہاں بھی کوئی خوبی یا حسن پایا جائے وہ اس چیز کا نہیں ہے جس میں وہ پایا جاتا ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حسن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی ہے اور اس وجہ سے انسان جو غور کرتا اور صحیح لائنوں پر اور صحیح طریقوں پر فکر اور تدبر کرتا اور دعاؤں سے حقیقتہ الاشیاء سمجھتا ہے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ الحمد لله یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں کوئی اور وجود یا ہستی یا شے یا کره یا انسان یا درخت یا کوئی اور شکل جس میں کوئی حسن پایا جاتا ہے ان کے اندر حقیقتا کوئی حسن نہیں پایا جاتا بلکہ یہ حسن اللہ تعالیٰ کا حسن ہے یہ ایک جلوہ ہے خدا کا جو اس شکل میں ہمارے سامنے آ گیا.دوسری وجہ تعریف کی احسان بنتا ہے.آپ نے اپنی زندگی میں بیسیوں یا شایدسینکڑوں دفعہ سنا ہوگا کہ بڑا اچھا ہے فلاں شخص وہ مخلوق کا بڑا ہمدرد ہے یا بڑا اچھا ہے فلاں شخص اور پھر انسان اس کی بڑی لمبی چوڑی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے فلاں موقعہ پر مجھ پر احسان کیا تھا یا بڑا اچھا ہے لاں شخص.اس کا اپنی بیوی کے ساتھ بڑا اچھا سلوک ہے یا بڑا اچھا ہے فلاں شخص کیونکہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتا ہے اور انہیں اسلام کا خادم بنانے کی کوشش کر رہا ہے یا بڑا اچھا ہے یہ درخت کیونکہ اس کے پھل بڑے میٹھے ہیں یا بڑا اچھا ہے زمینی ذرات کا یہ مجموعہ.دیکھو یہ کس طرح چمکتا ہے کتنا قیمتی ہیرا بن گیا ہے اور اس سے ہم ہزار قسم کے فائدے اٹھاتے ہیں آگے یہ ہیرا خود ایک محسن ہے بلکہ ہر چیز دوسرے پر احسان کرنے والی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی چیز کو لغو پیدا نہیں کیا اس لئے ہر مخلوق محسن کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے لیکن اس میں احسان کی قوت اس کے کسی ذاتی ہنر کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا کوئی جلوہ وہ شکل

Page 16

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة الفاتحة اختیار کر گیا.میٹھے پھل دینے والا آم کا درخت یا وٹامن (Vitamin) سے بھرا ہوا کھٹے آم کا درخت (اس کے اپنے فائدے ہیں) اپنی جگہ پر احسان پر احسان کر رہا ہے ہر چیز انسان پر یا تو بلا واسطه احسان کر رہی ہے یا بالواسطہ احسان کر رہی ہے مثلاً لوسن یا برسیم گھوڑے پر احسان کر رہا ہے کیونکہ یہ گھوڑے کی بڑی اچھی خوراک ہے اور جس وقت گھوڑا مضبوط ہو جاتا ہے تو پھر وہ انسان پر احسان کر رہا ہے کہ وہ اس کی سواری کے کام آتا ہے اور اس کی زینت بنتا ہے یہ ساری احسان کی ہی شکل ہے جو اس کے سامنے آئی لیکن حقیقتا نہ گھوڑے میں احسان کی طاقت ہے نہ لوسن یا برسیم میں احسان کی طاقت ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی کسی صفت کا جلوہ ہے جو ان کے اندر ہمیں نظر آتا ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ نہ چاہتا کہ کوئی ایسا چارہ ہو جو گھوڑے کو صحت مند اور خوبصورت بنائے تو کوئی چارہ دنیا میں ایسا پیدا نہ ہوتا.اگر اللہ یہی چاہتا ہے کہ گھوڑے کو لاغر ہی رکھا جائے اور اسے بدصورت ہی بنایا جائے اور اس میں کوئی اور فائدہ اس کے مدنظر ہوتا یعنی فائدہ تو ہوتا لیکن وہ کسی اور رنگ میں ہوتا اس شکل میں نہ ہوتا تو اس رنگ کا احسان ہمیں نہ گھوڑے میں نظر آتا نہ گھوڑے کے چارہ میں کوئی ایسا احسان نظر آتا جو گھوڑے پر ہو رہا ہے غرض ہر چیز میں اور جہاں بھی اللہ تعالیٰ کا حسن نظر آتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے احسان کے جلوے بھی ہمیں نظر آتے ہیں اور وہ جلوے اللہ کے ہیں.ان چیزوں کے جلوے نہیں ہیں.پس چونکہ حسن کا منبع اور سرچشمہ اور حقیقی مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور چونکہ احسان کا حقیقی سرچشمہ اور احسان کی صفات کا حقیقی حقدار اور اپنے اندر ان صفات کو جمع کرنے والا اللہ تعالی ہی کا وجود ہے اس لئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ سب جگہ جہاں حسن نظر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حسن ہے جو ہمیں نظر آتا ہے اور ہر جگہ جہاں ہمیں احسان کے جلوے نظر آتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی احسانی صفات کے ہی جلوے ہیں اور کوئی چیز نہیں.جب ہم اس حقیقت کو سمجھتے ہیں تو بے اختیار نہ صرف ہماری زبان سے بلکہ ہمارے وجود کے ذرہ ذرہ سے یہ نکلتا ہے الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.الْحَمْدُ لِلَّهِ - اَلْحَمْدُ لِلهِ خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۰۱۰ تا ۱۰۱۲) زندہ خدا کی زندہ طاقتوں کا مشاہدہ اس پاک وجود کی صفات کے جلووں کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو صفات باری انسان سے تعلق رکھتی ہیں ان کا کامل علم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیا ہے.ان

Page 17

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة صفات میں سے چار امہات الصفات ہیں یعنی بنیادی صفات باری ہیں جن کا ذکر سورۃ فاتحہ میں آتا ہے.رب رحمن رحیم ، اور ملك يوم الدين ان صفات میں سے رحمن اور رحیم کے متعلق اس وقت میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں.صفت رحمن کے جلوے ہمیں دو قسم کے (اصولی طور پر نظر آتے ہیں ایک وہ احکام و قوانین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری پیدائش سے بھی پہلے اس عالمین میں اس لئے جاری ہوئے کہ انسان کو اس کے نتیجہ میں فائدہ پہنچے مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہماری بقا کے لئے ہماری پیدائش سے بھی پہلے اور ہمارے کسی عمل کے نتیجہ کے طور پر نہیں بلکہ محض رحمانیت کی صفت کے اظہار کے لئے ہوا کو پیدا کیا تا کہ ہم سانس لیں اور زندہ رہیں ہماری غذائی احتیاجوں اور ہمارے جسمانی نظام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سورج بنادیا اور اس کا ایک خاص تعلق زمین سے قائم کیا.سورج اور زمین کا باہمی تعلق دن اور رات کو پیدا کرتا ہے اور ہمارے آرام اور ہمارے کام کے سامان اس کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اگر بارہ مہینے رات ہی رہتی تو انسان اس قسم کی دنیوی ترقیات حاصل نہ کر سکتا جو وہ کر چکا ہے، کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا اس لئے بھی کہ روشنی کے ذریعہ بہت سے کام کئے جاتے ہیں.ہماری ترقی میں روشنی یا سورج کی کرنوں کا بڑا دخل ہے مثلاً سائنس کی ترقی میں اس طرح کہ سورج کی کرنوں کے اثر کے نتیجہ میں ہماری زمین میں بہت سی خاصیتیں پیدا ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں زراعت کا علم ترقی کرتا ہے اور زراعتی علم نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی ترقی کرتا رہے گا اور پھر اگر سردی زیادہ ہو جاتی ہمیشہ اندھیرا رہنے کے باعث تو انسان کے لئے کام کرنا بڑا مشکل ہو جاتا اگر بارہ مہینے سورج ہی نکلا رہتا تو زمین جل کے کوئلہ ہو جاتی اس معنی میں کہ اس کی بہت سی خصوصیات مرجاتیں اور انسان اس سے فائدہ نہ اٹھاتا اور آرام کرنا بھی اس کے لئے مشکل ہو جاتا اور یہ زمین انسانی رہائش کے قابل نہ رہتی اور بے آباد ہوتی پس بے شمار ایسی چیزیں اور ایسی خاصیتیں اور ایسے ستارے جو ہم سے دور ہیں اور ایسے سامان جو اس دنیا میں ہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے تاکہ انسان جسمانی اور روحانی لحاظ سے ترقی کر سکے کیونکہ دن کے بعد جو رات آتی ہے وہ قرب الہی ، مقام محمود کے حصول کے سامان بھی پیدا کرتی ہے اگر دن ہی ہوتا بارہ مہینے کا تو انسان کے لئے روحانی طور پر مقام محمود تک پہنچنا مشکل ہو جاتا بہر حال یہ ایسی چیزیں ہیں کہ ہماری پیدائش سے پہلے نسل انسانی کی پیدائش سے بھی پہلے رحمن خدا نے اپنے کامل

Page 18

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۱۲ سورة الفاتحة علم اور کامل رحمت کے نتیجہ میں انسان کے لئے پیدا کی ہیں.ایک دوسری قسم کے رحمانیت کے جلوے ہیں جو روز بروز لحظہ بہ لحظہ، گھڑی یہ گھڑی ہمیں نظر آتے ہیں.ان کی طرف میں بعد میں جاؤں گا پہلے میں رحیمیت کو لیتا ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی صفت رحیمیت ہماری تدبیر میں برکت ڈالتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے لطیف پیرا یہ میں ہمیں بتایا ہے کہ دعا بھی ایک تدبیر ہی ہے اور جب مادی تدبیر ہم انتہا کو پہنچا دیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مادی تدبیر کے لحاظ سے جو احکام جاری کئے جو قانون وضع کئے تھے وہ تدبیر تو ہم نے کمال کو پہنچا دی لیکن یہ ایک مومن کا دل کہتا ہے کہ اب بھی مجھے میرے رب رحیم کی ضرورت ہے اور وہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے رحیم خدا میری تدبیر کے بہتر نتائج نکال پس ایک مومن کے لئے کوئی تدبیر مکمل نہیں ہوتی جب تک دعا اس کا جز ولازم نہیں ہوتا.پس رحیمیت کے ساتھ عاجزانہ پر سوز دعاؤں کا بڑا گہرا تعلق ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان مشرک بن جائے اگر وہ یہ سمجھے کہ مادی تدبیر کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی کوئی ضرورت نہیں تو وہ مشرک بن گیا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ تو بتایا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں دنیا میں کہ اگر چہ وہ ہم پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی ہماری معرفت رکھتے ہیں لیکن دنیا کمانے کے لئے جو دنیوی تدابیر وہ اختیار کرتے ہیں ان میں ہم انہیں کامیاب کر دیتے ہیں اور اس ورلی زندگی کا آرام و آسائش انہیں حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ سعی اور کوشش میں بھی دعا مخفی ہوتی ہے لیکن خدا کا ایک مومن بندہ صرف اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ اس نے تدبیر کی اور خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے اس کی تدبیر کوصرف اس دنیا میں کامیاب کر دیا اور اُخروی دنیا میں اس کے لئے اس کے نتیجہ میں کوئی ثواب مقدر نہیں کیا کیونکہ ایک مومن جانتا ہے کہ چونکہ اُخروی زندگی یقینی ہے اس لئے ایک تسلسل زندگی کا ہے موت تو ایک پردہ ہے گرا رہتا ہے پھر اُٹھ جاتا ہے پھر انسان دوسری دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ میری زندگی کا تسلسل خدا کی رحمت کے سائے میں رہے گا اسے حقیقی آرام نہیں حاصل ہو سکتا.پس دعا تد بیر کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ یہ بھی ایک تدبیر ہی ہے.ایک تدبیر ہم مادی ذرائع سے کرتے ہیں اور ایک تدبیر ہم دعا کے ذریعہ سے کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اشیاء میں اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہم کوئی تدبیر کرتے ہیں تو اس کا فضل مومن کے شامل حال اس

Page 19

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۳ سورة الفاتحة رنگ میں ہوتا ہے کہ دنیا میں بھی وہ کامیاب ہوتا ہے اور اُخروی زندگی میں بھی لیکن جو لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ساری کوششیں اسی دنیا میں گم ہوگئیں اور ان کی ساری زندگیاں اسی دنیا کے لئے ہو گئیں جنہوں نے اپنے پیدا کرنے والے رب کو بھلا دیا اور اس سے نہ کسی خیر کی امید چاہی اور نہ کوئی خیر انہیں ملی اسی دنیا کی تدبیر کے نتیجہ میں صرف اس دنیا کی کامیابیاں انہیں رحیمیت کے طفیل حاصل ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے اس قسم کے جلوے روز ہمیں نظر آتے ہیں پس بعض خدائے رحیم سے محض دنیا کے فوائد حاصل کرتے ہیں.(اس کے وعدہ کے مطابق ) بعض وہ بھی ہیں جو اپنے خدائے رحیم سے اس دنیا کے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں اور اُخروی زندگی کے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہ اس یقین کامل پر قائم ہوتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے لینا ہے اپنے رب سے لینا ہے.خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے ایک دوسرے رنگ میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں وہ اس طرح پر کہ بعض دفعہ ہر تد بیر نا کام ہو جاتی ہے بعض دفعہ کوئی تدبیر سوجھتی ہی نہیں مثلاً ایک مریض ہے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم صحیح تشخیص پہ پہنچے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ اس مریض کو کینسر کی بیماری ہے اور جتنی دوا میں ہیں کہ " اس وقت تک انسان کو اس مرض کے علاج کے لئے معلوم ہیں وہ استعمال کرتے ہیں ایلو پیتھک بھی، طب یونانی، ہومیو پیتھک بھی اور صدری نسخے بھی لیکن ہر قسم کی دوا دینے کے بعد بھی مریض کو افاقہ نہیں ہوتا.ایک ایسا مریض ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے دنیا کے چوٹی کے ڈاکٹر معائنہ کرتے ہیں اور نہیں سمجھ سکتے کہ اس کو مرض کیا ہے؟ مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو سکتی.ابھی پچھلے دنوں ہمارے ایک احمدی دوست چوہدری عبد الرحمن صاحب جو انگلستان میں ہیں ان کو بخار آنے لگا ( پہلے بھی اسی قسم کی بیماری میں وہ مبتلا ہوئے تھے پھر آرام آ گیا اور اب پھر ان کو اسی بیماری کا حملہ ہوا ) ہسپتال میں رہے بڑا ترقی یافتہ ملک ہے بڑے ماہر ڈاکٹر ہیں بڑے تجربہ کار معالج ہیں مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہسپتال میں رکھا پتہ نہیں لگتا کہ بیماری کیا ہے؟ اگر بیماری کا پتہ ہی نہ لگے تو علاج کیسے ہو؟ کیا دوا دینی چاہیے اس کا بھی پتہ نہیں لگ سکتا اور اگر دوا کا پتہ نہ لگے تو مادی تدبیر نہیں کی جاسکتی اور رحیمیت کے جلوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا رحیمیت کا جلوہ تو وہاں نظر آتا ہے جہاں تد بیر اپنے کمال کو پہنچے.پس بعض دفعہ تد بیر ناکام ہو جاتی ہے ہر قسم کی تدبیر کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکلتا کئی

Page 20

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۱۴ سورة الفاتحة دوست خط لکھتے ہیں کہ تجارت کرتے ہیں ہر قسم کے جتن کر دیکھے ہیں فائدہ نہیں ہوتا جس چیز میں ہاتھ ڈالتے ہیں نقصان ہوتا ہے ہر قسم کی تدبیر کی ، احمدی تو تدبیر کا ایک لازمی حصہ چونکہ دعا کو بھی سمجھتا ہے اس لئے وہ دعا جو تدبیر کا حصہ بنتی اور مادی تدبیر کی کامیابی کے لئے کی جاتی ہے اور خدا کی صفت رحیمیت کو جوش میں لاتی ہے وہ بھی کی گئی اور ناکام ہو گئی.پس انتہائی تدبیر کی کیونکہ مادی تد بیر بھی کی اور اس کے بہتر نتائج کے لئے دعا کی صورت میں روحانی تدبیر بھی کی لیکن نتیجہ سوائے ناکامی کے کچھ نہ نکلا ایسے دوست بہت پریشان ہوتے ہیں اور پریشانی کا باعث یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کی صفت کیوں ہمارے حق میں جوش میں نہیں آتی پس بعض دوست پریشانیاں اٹھاتے ہیں ناکامیوں کا منہ دیکھتے ہیں اور میں بھی ان کے لئے پریشان ہوتا ہوں.پس اگر تد بیر ناکام ہو جائے یا اگر تذ بیر سو جھے ہی نہ ہر دو صورتوں میں ہمیں خدائے رحمن کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے جس وقت مریض لاعلاج قرار دے دیا جاتا ہے اور مادی تدبیر کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے کی گئی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر مبرم ہے اس وقت اگر رحمان کی صفت رحمانیت کے آگے عاجزی اختیار کی جائے اور اپنے رحمان خدا سے یہ کہا جائے کہ اے ہمارے رب ! تو رحیم بھی ہے، تو رحمن بھی ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تیری صفت رحیمیت کا دروازہ کھلوانے میں ناکام ہوئے ہیں اب ہم تیری رحمن ہونے کی صفت کے حضور جھکتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ نہ ہمارا کوئی عمل نہ کوئی تدبیر جس طرح تو نے سورج اور چاند کو نیز بے شمار ستاروں کو ہماری فلاح اور بہبود کے لئے پیدا کیا ہے اب بھی اپنی رحمانیت کی صفت کا ایک جلوہ دکھا اور یہ کام کر دے.تو جب رشتے دار مایوس ہو جاتے ہیں اور طبیب مریض کو لاعلاج قرار دیتا ہے اور وہ دعائیں جو تد بیر کا ہی حصہ ہیں ، تدبیر بھی ہیں ، وہ بھی قبولیت حاصل نہیں کرتیں اس وقت اگر ہم رحمن خدا کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو بسا اوقات وہ ہمارے لئے کھولا جاتا ہے.ہمارے رب نے جس طرح بے شمار چیزیں ہمارے اعمال سے بھی پہلے ہمارے لئے پیدا کر دی تھیں اور ان کو ہماری خدمت میں لگا دیا تھا وہ خدائے رحمان اپنی تمام قدرتوں اور طاقتوں کے ساتھ آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح آج سے پہلے تھا.غرض جب رحیمیت کا دروازہ نہ کھلے تو ہمیں رحمانیت کے دروازے پہ جاکے کھڑے ہو جانا چاہیے اور یہ عرض کرنا چاہیے کہ تدبیریں تو نے پیدا کیں، ان کے استعمال کا ہمیں حکم دیا ، تدبیروں کو کمال تک

Page 21

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۵ سورة الفاتحة پہنچانے کے لئے تدبیر کا ہی ایک حصہ بنا کر تدبیر کی کامیابی کے لئے دعا کا ہم کو حکم دیا ، ہم نے اپنے جتن کئے ، ہم کامیاب نہیں ہوئے اس لئے تو ہمارے لئے اپنی صفت رحمانیت کو جوش میں لا اور ہماری ضرورت کو پورا کر جس طرح بے شمار ضرور تھیں تو نے ہمارے بغیر کسی عمل اور استحقاق کے اس سے پہلے پوری کر دیں.....رحیمیت کی صفت ہم پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لئے جو سامان پیدا کہتے ہیں ان سامانوں کو بہترین رنگ میں ہم استعمال کریں اور ساتھ ہی روحانی تدبیر سے بھی کام لیں اور اس طرح اپنی تدبیر کو کمال تک پہنچائیں کیونکہ اگر تد بیر اپنے کمال کو نہ پہنچے تو بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے پس تدبیر کو انتہا تک پہنچانا ضروری ہے عقلاً بھی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی روشنی میں بھی جب انسان اس دنیا میں تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں صفت رحیمیت کا وہ جلوہ دیکھتا ہے اور کامیاب ہو جاتا ہے دنیا دار انسان جو خدا پر یقین نہیں رکھتا وہ رحیمیت کا جلوہ تو دیکھتا ہے مگر وہ بدقسمت اسے پہچانتا نہیں وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے زور سے کامیاب ہوا وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس کی طرح ہی تدبیر کو اپنی انتہا ء تک پہنچایا مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے مثلاً سائنس دان ہیں ایک ایک مسئلہ کے حل کے لئے بعض دفعہ دو دو سو سائنسدان تحقیق میں لگے ہوتے ہیں اور صرف ایک یا دو اس مسئلے کو حل کر پاتے ہیں اور باقی نا کام رہ جاتے ہیں حالانکہ تدبیر بظاہر ایک جیسی تھی اب جو دو کامیاب ہوئے یا ایک کامیاب ہوا تو وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی تدبیر سے کامیاب ہوا اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ایک سو ننانوے دوسرے سائنسدان جو ہیں وہ اسی قسم کی تدبیر کرنے کے باوجود نا کام کیسے ہو گئے؟ پس اللہ تعالیٰ بعض پر رحیمیت کا جلوہ ظاہر کر دیتا ہے یہ جلوہ تو وہ دیکھتے ہیں لیکن صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں روحانی بینائی سے محروم ہیں اس لئے ان جلووں کے باوجود وہ خدائے رحیم کی معرفت سے محروم رہ جاتے ہیں.رحیمیت کے جلوے جماعت مومنین بھی ہر روز ہی دیکھتی ہے کیونکہ بعض کام ایسے ہیں کہ ان کے لئے بیس منٹ کی تدبیر کرنی پڑتی ہے اور بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے گھنٹہ کی تدبیر کرنی پڑتی ہے اور بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے دو گھنٹے کی تدبیر کرنی پڑتی ہے ہر کام کے لئے ایک وقت اللہ تعالیٰ

Page 22

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۶ سورة الفاتحة نے مقرر کیا ہوا ہے اور بہت سی تدبیریں دن کے ایک حصہ میں ہی کمال کو پہنچ جاتی ہیں مثلاً عورت نے گھر میں کھانا پکانا ہوتا ہے کوئی ایک گھنٹہ میں کھانا تیار کر لیتی ہے کوئی دو گھنٹہ میں اگر کوئی عورت یہ سمجھے کہ میں نے تدبیر کر لی اور کھانا پک گیا اب مجھے اپنے رب کی رحمت کی ضرورت نہیں تو ایسی عورت کو سبق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کبھی اس طرح بھی کرتا ہے کہ جس وقت بڑے شوق اور محنت سے وہ سالن تیار کر چکی ہوتی ہے اور خوش ہوتی ہے کہ میرے بچوں کو ، میرے خاوند کو اچھی غذامل جائے گی تو ایک بچہ دوڑ تا آتا ہے اور اس کی ٹھوکر سے ساری ہنڈیا چولہے کے اندر گر جاتی ہے اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا ہے کہ تیری تدبیر کافی نہیں میر افضل جب تک ساتھ نہ ہو انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.کا فر اور منکر کہتا ہے یہ حادثہ ہے مومن کہتا ہے اَسْتَغْفِرُ اللہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میری تدبیر کے ساتھ شامل نہ ہوئی اس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تک میری رحیمیت کا جلوہ تمہاری تدبیر کے ساتھ نہیں ہو گا تم کامیاب نہیں ہو سکتے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۶۸ تا ۱۷۴) رحیمیت کی صفت تقاضا کرتی ہے کہ انسان اعمال کے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑے اور اس حقیقت کو پہچانے کہ تدبیر کرنا انسان کا کام ہے اور نتیجہ نکالنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس دنیا میں جو اسباب کی دنیا ہے خدا تعالیٰ کی اس صفت کے جلوے بہت سے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہتے ہیں کیونکہ اسباب کے پردے میں وہ جلوے بہت حد تک مستور ہوتے ہیں لیکن ایک مومن بندہ یہ جانتا ہے کہ انسان خواہ کتنی ہی تدبیر کیوں نہ کرے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان کا بہترین استعمال کرے، اپنی قوتوں اور استعدادوں کو ضائع نہ ہونے دے اور ان کا صحیح استعمال کرے اور دعا بھی کرے کہ یہ بھی تدبیر ہی ہے پھر بھی دعا کو قبول کرنا اور اسباب کا وہ نتیجہ نکالنا جو یہ شخص چاہتا ہے کہ نکلے جس نے تدبیر کے ذریعے ان اسباب کو استعمال کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.محض تد بیر کرنے سے یقینی طور پر وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو تد بیر کرنے والا چاہتا ہے نہ ساری دعائیں قبول ہوتیں ہیں.ہماری اس زندگی میں ہزاروں بار یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ تدبیر کو انسان اپنی انتہا تک پہنچا دیتا ہے دعاؤں میں کوئی کمی نہیں رکھتا بظاہر لیکن دعا ئیں بھی رڈ کر دی جاتی ہیں اور تدابیر بھی بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں اور انسان حیران اور پریشان ہوتا ہے کہ میں نے کیا کچھ تھا اور چاہتا کچھ تھا لیکن ہوا کچھ اور.اور میری خواہش کے

Page 23

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۷ سورة الفاتحة مطابق میری تدبیر کا نتیجہ نہیں نکلا بیبیوں خطوط مجھے آتے رہتے ہیں پوری کوشش کرتے ہیں اپنی سمجھ کے مطابق لیکن جس قسم کی تجارت بھی کرتے ہیں اس میں ناکام ہو جاتے ہیں اور سرمایہ ضائع ہو جاتا ہے.تو تد بیر کرنا انسان کے لئے ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اسباب کی دنیا بنایا ہے اور انسان کو بہت سی قوتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ تدبیر کر سکتا ہے اسی لئے وہ اس قابل ہے کہ تدبیر کرے، وہ کام کرے، وہ محنت کرے، وہ سوچے، وہ اپنی عقل سے کام لے، وہ کامیابی کے بہترین طریقے جو ہیں ان پر چلے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگر وہ یہ سمجھے کہ جس طرح ایک اور ایک مل کے دو بن جاتے ہیں اسی طرح میری تدبیر اور دعا کا ضرور نتیجہ نکلے گا تو وہ غلطی پر ہوتا ہے اور اپنی دنیا میں اس ٹھوس اور مادی دنیا میں ساری تدبیروں کو بے نتیجہ ہوتے ، ساری دعاؤں کو رڈ ہوتے وہ دیکھتا ہے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ خدائے رحمن کی طرف متوجہ ہو جائیں یعنی اپنے پر ایک قسم کی موت وارد کر کے اس کے حضور جھکو ( اور یہ دعا عام دعاؤں کی قسم کی نہیں ہوتی ) اور اس سے کہو اے ہمارے رحمن ربّ! تو نے ان گنت اور بے شمار نعمتیں ہمارے لئے پیدا کیں اور ہمارے عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا کیونکہ وہ پیدائش سے بھی پہلے وجود میں آچکی تھیں ان اسباب ان نعمتوں سے آج ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اٹھا نہیں سکتے ہم اگر تیری رحیمیت کا جلوہ دیکھنے کے قابل نہیں تو اے رحمان خدا! ہمیں اپنی رحمانیت کا جلوہ دکھا.ان دو کے علاوہ دو اُمہات الصفات ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.ایک پہلی صفت جو ربوبیت کی صفت ہے اور ایک چوتھی صفت جو مالکیت یوم الدین کی صفت ہے.یہ چار صفات ایسی ہیں جن کے جلووں کا تعلق پیدائش عالم سے لے کر جزا سزا کے دن تک پھیلا ہوا ہے.ربوبیت کی صفت جلوہ گر ہی اس وقت ہوتی ہے جب پیدائش شروع ہو جائے جب خالق خلق کرتا ہے اور وہ تمام سامان پیدا کرتا ہے کہ اس کی مخلوق ان استعدادوں کو اپنے کمال تک پہنچا ئیں جو اس نے ان کے اندر رکھی ہیں خصوصاً انسان کے اندر بڑی استعداد میں اور قوتیں اس نے رکھی ہیں اور بڑی طاقتیں اس میں ودیعت کی ہیں تو ربوبیت کا جلوہ پیدائش کے وقت سے شروع ہو گیا.کیونکہ ربّ کے معنی ہیں خالق، پیدا کرنے والا.جو بہت سی قوتیں اور استعدادیں بھی ہر چیز میں پیدا کرتا ہے اور درجہ بدرجہ ان کو نشو و نما کرتے ہوئے اس چیز کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے دنیا کی ہر چیز جو ہے

Page 24

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۸ سورة الفاتحة وہ ربوبیت کے اس دور میں گزررہی ہے مثلاً ہیرا بنتا ہے شاید لاکھوں سال اس پہ گزرتے ہیں تب وہ ہیرے کی شکل اختیار کرتا ہے درجہ بدرجہ اس میں تبدیلیاں ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہی مٹی کے ذرات جو آپ لوگوں کی جوتیوں کے تلوے کے نیچے حقیر اور بے قیمت ہوتے ہیں وہی ذرے ہیرے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں.........اسلام نے رب کا تخیل جو ہمیں دیا ہے وہ یہ نہیں کہ اللہ نے پیدا کیا اور پھر آرام کرنے لگ گیا یا دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا اور پیدائش کے ساتھ جو پہلے کر چکا ہے اس کا ہر وقت زندہ تعلق قائم نہ رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی جو صفت ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک چھوٹے سے فقرے میں بڑی بنیادی چیز ہمیں بتائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ربوبیت کا فیضان تمام کائنات کی جان ہے پھر فرماتے ہیں ایک لمحہ کے لئے یہ فیضان منقطع ہو جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے تو اس نے پیدا کیا، نشوونما کے سامان پیدا کئے اور ہر وقت ایک زندہ تعلق اپنی مخلوق کے ساتھ اس نے قائم رکھا ہے اگر ربوبیت کا یہ تعلق ایک لحظہ کے لئے بھی منقطع ہو جائے مخلوق کے ساتھ تو وہ قائم نہ رہے جس طرح وہ نیست سے ہست ہوئی تھی بہت سے نیست ہو جائے فنا ہو جائے فوری طور پر.تو رب کا تعلق ہر وقت، ہر آن، ہر چیز سے ہے جس کو اُس نے پیدا کیا ہے.یتعلق انسان کے ساتھ بھی ہے اور انسان کو اس نے بڑی استعدادیں دیں اور اپنے قرب کے لئے اس نے اسے پیدا کیا اور اپنی صفات کا مظہر بننے کی قابلیت اس کے اندر رکھی اور ہم دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کو بحیثیت ایک نوع کے ایک بڑے ہی نچلے درجے سے آہستہ آہستہ اٹھا کر اس نے اس مقام پر پہنچایا کہ جہاں انسان کامل کی پیدائش ممکن ہو سکتی تھی اور انسان کامل کی پیدائش کر دی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور ایک کامل کتاب آپ کے ذریعہ بنی نوع انسان کو ملی.انسانی شعور اور انسانی عقل آپ کے زمانے میں اپنے کمال کو پہنچا اور اس کمال کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کی تدبیر، جس طرح اور تدبیریں اس نے کیں ، قرآن کریم کی شکل میں انسان کو دی کہ اگر اسی پر انسان غور کرتا رہے اور اس کے احکام کی پیروی کرے تو انسان کی عقل بھی اپنے معراج پر قائم رہے گی اور اس کی روحانیت بھی اپنی رفعتوں سے نیچے نہیں گرے گی.رب کی جور بوبیت ہے اس کے جلوے انسان سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور مٹی کے ذرات سے بھی

Page 25

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۹ سورة الفاتحة تعلق رکھتے ہیں، ہر مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں اور اس خلق کا عالمین کی پیدائش کا خلاصہ اور لب جو تھا وہ انسان کامل تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ سے انسان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی عقل کے معیار کو بھی بلند تر مقام پر رکھ سکتا ہے اور روحانی رفعتوں کو بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکتا ہے.جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو صحیح طور پر نہ پہچانیں ہم غافل ہو جائیں گے اگر ہم یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو ہم سے تعلق رکھتا ہے کبھی ہم سے غافل ہو جاتا ہے تو پھر اس ٹوہ میں وہی رہیں گے نا کہ جو اس کی (نعوذ باللہ ) غفلت کا زمانہ ہے اس میں ہم ایسی باتیں بھی کر جائیں جسے وہ پسند نہیں کرتا ( العیاذ باللہ ) لیکن اس کا تعلق تو ہر آن اور ہر وقت ہم سے ہے دوسری مخلوق سے بھی ہے لیکن انسان سے بھی ہے اور ربوبیت کا یہ تعلق ہی ایک زندہ تعلق ہے جو انسان سے ہے.اس نے انسان کے لئے اس بات کو ممکن بنا دیا ہوا اپنی جسمانی اور روحانی بقا کو حاصل کر سکے اور رفعتوں کو پاسکے یہ تو تھی وہ صفت کہ خلق کے ساتھ ہی اس کے جلوے ہر آن ہمیں نظر آنے لگیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے بہترین اور عظیم جلووں کے لئے پیدا کیا ہے یہ دنیا جو ہے وہ مادی دنیا ہے اور خدا تعالیٰ کے جو جلوے یہاں ہمیں نظر آتے ہیں وہ اسباب کے پردہ میں چھپے ہوئے ہیں اس وجہ سے بہت ہیں اندھے آنکھوں کے اور دل کے جو خدائے رحیم کے جلوے دیکھ ہی نہیں سکتے سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے حاصل کرنا ہے اپنے زور ، طاقت ، مال، اثر ، رسوخ ، اقتدار یا علم سے حاصل کرنا ہے یہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے علم دیا ہے عقل دی ہے وہی خدا جب غضب میں آتا ہے تو عقل وعلم کو جنون سے بدل دیتا ہے، نہیں سمجھتے کہ جس ہستی نے مال دیا ہے وہ ہستی اتنی قادر و توانا ہے کہ جب اس کا غصہ انسان خرید لے تو وہ دولت کو فقیری میں بدل دیتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میری صحت بڑی اچھی ہے اور میں اکیلا ہی سو آدمیوں پر بھاری ہوں اور اپنے جسم کی صحت کے نتیجہ میں وہ تکبر اختیار کرتا ہے وہ نہیں جانتا کہ ایک سکینڈ کے ہزارویں حصہ میں خدا کے قہر کا جلوہ اس پر فالج وارد کر سکتا ہے اور ساری اس کی طاقتیں اور سارا اس کا تکبر اور گھمنڈ خاک میں مل جاتا ہے اور کچھ بھی باقی اس کا نہیں چھوڑتا لیکن چونکہ یہ اسباب کی دنیا ہے انسان بعض دفعہ غفلت برتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحیمیت کے جلووں ، اس کی رحمانیت کے جلوؤں کو دیکھ نہیں سکتا.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مادی دنیا ہے اسباب کی دنیا ہے

Page 26

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الفاتحة خدا تعالیٰ سے اپنی پوری شان کے ساتھ اس مادی دنیا میں نظر ہی نہیں آسکتے.وہ جلوے عدم کو چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت یہاں ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بیان کی.یہ صفت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جس عالمین کو رب العالمین نے پیدا کیا تھا اس عالمین کو وہ اللہ جو تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور قدرتوں کا مالک ہے ایک وقت میں فنا کر دے اور سارے حجاب دور ہو جائیں اور اس کے عظیم جلوے انسان پر ظاہر ہونے لگیں اور اس کو نظر بھی آنے لگیں کوئی حجاب بیچ میں نہ رہے اس کے قہر کے جلوے شقاوت عظمیٰ رکھنے والے دیکھیں اور اس کے پیار کے جلوے اور اس کے جمال کے جلوے اور اس کے حسن اور احسان کے جلوے وہ دیکھیں جو سعادت عظمیٰ رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے یہ جلوے ہر قسم کے حجاب سے باہر نکل کے اس کے سامنے آئیں.اس غرض کے لئے اس نے جزا سزا کا دن رکھا ہے اور ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اس دنیا کی بھول اور خطا اور نسیان اور غفلت اور گناہ اور عصیان اور خدا سے دوری کی برداشت انسان کو ایک سکینڈ کے لئے بھی نہ کرنا چاہیے.اعمال کا نتیجہ اس دن نکلے گا اور وہ نتیجہ کوئی معمولی نہیں وہ نتیجہ اس دن نکلے گا جو جزا سزا کا دن ہے اور تمہارا رب جو رحمان اور رحیم ہے وہ مالک کی حیثیت سے تمہارے سامنے جلوہ گر ہو گا چونکہ وہ مالک کی حیثیت سے جلوہ گر ہو گا تم میں سے کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اے ہمارے ربّ ہمارا تجھ پر یہ حق ہے ہمیں دے کیونکہ جو مالک ہے ہر ایک چیز کا اس پر کسی کا کوئی حق نہیں ہوسکتا عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے اور چونکہ وہ مالک ہے اس لئے امید بھی دلا دی کہ اگر وہ چاہے تو جتنا چاہے دے دے وہ جتنے گناہ چاہے معاف کر دے، وہ جتنا فضل کرنا چاہے فضل کرے لیکن ایک دولت مند امیر جس کے کارخانے میں ایک ہزار مزدور کام کر رہا ہے یہ مزدور اس سے ڈرتے نہیں کیونکہ کچھ حقوق ہیں ان کے کچھ ایسے حقوق ہیں جو مالک نے تسلیم کئے ہیں کچھ ایسے حقوق ہیں جو دنیا تسلیم کرتی ہے اور حق دلواتی ہے کچھ ایسے حقوق ہیں جو حکومتیں دلواتی ہیں کچھ ایسے حقوق ہیں جو حکومتوں کا تختہ الٹ کے حاصل کر لئے جاتے ہیں یہ دنیا ایسی ہے لیکن وہاں تو اس طرح نہیں ہوگا مالک کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا نہ یہاں نہ وہاں لیکن وہاں تو اس کے جلوے اس قدر عظمت اور جلال اور شان کے ساتھ ظاہر ہوں گے کہ کسی شخص کو یہ جرات ہی نہ ہو سکے گی کہ وہ سمجھے کہ میرا کوئی حق ہے جو مجھے ملنا چاہیے.حق کوئی نہیں کسی کا جس نے پیدا کیا سارے

Page 27

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۱ سورة الفاتحة حقوق اسی کے ہیں جو ہمارا رب ہے جس کی رحمانیت کے ہم نے جلوے دیکھے ہیں جس کی رحیمیت کے پیار کو ہم نے محسوس کیا ہے جب اس کے سامنے ہم جائیں گے تو ہماری روح پکار رہی ہوگی کہ اے ہمارے رب ! ہمارا تجھ پر کوئی حق نہیں لیکن ہم تیرے فضل اور تیری رحمت کے بھکاری ہیں ہم اس کی صدا دیتے ہیں کہ اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں نواز.ہماری غفلتوں کو نظر انداز کر دے تو مالک ہے اگر ہم نے تیرا گناہ کیا اگر ہم نے کچھ خطائیں کی ہیں اگر ہم نے تیری دنیا میں وہ کیا جو تو نا پسند کرتا تھا تو آج اس دنیا میں مالک کی حیثیت سے ہمیں معاف کر دے.مالک کا جلوہ جو ہے وہ حقیقی معنی میں حقیقی رنگ میں اس دنیا میں نظر نہیں آتا کیونکہ یہ پردے کی دنیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ جزا سزا کا دن مقر رکیا جاتا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل اور مکمل اور اصفی جلوے کسی قسم کی کدورت کے بغیر وہ ہم پر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر ہمیں وہ لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میں حاصل ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہاں ہے اسباب کی دنیا.جلوے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں....ملِكِ يَوْمِ الدين کی صفت انتہا ہے ان چاروں امہات الصفات کی ، پیدا کیا ، ترقی دی، نشوونما کے سامان پیدا کئے اس دنیا میں بے شمار، ان گنت جیسا کہ خود قرآن نے دعوی کیا ہے اور ایک عقلمند اس کو صحیح سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے، ان گنت نعمتیں اس نے عطا کیں اور جسمانی لحاظ سے اور ذہنی لحاظ سے اور اخلاقی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے رفعتوں پر پہنچاتا چلا گیا لیکن بسبب انسان جو حقیقتاً اپنے ربّ کی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کر لیتا ہے جب اس مقام پر پہنچا کہ اُس نے سمجھا کہ میں نے انتہائی رفعت کو پا لیا اس وقت اُس کے سامنے اُس کا مالک آجاتا ہے یعنی خدا جو مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے اور اُس کو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کا سہارا تھا اُس نے سہارا دیا اور بلندیوں پر لے گیا اپنے نفس کو دیکھتا ہوں تو خالی ہاتھ پاتا ہوں تب ایک انتہائی خوف اور قلق دل میں پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا کسی نیکی کا کسی بزرگی کا کسی پاکیزگی کا میں دعویدار نہیں ہوں لیکن اے میرے پیارے ! تو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے اس واسطے مالک کی حیثیت سے مجھے پر اپنی رحمت کو نازل کر اُس دن جس دن تو سب دنیا کو اکٹھا کرے گا اور تیرا فیصلہ حق کا فیصلہ ہوگا.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۷۸ تا ۱۸۵) اسلام کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ربّ العالمین ہے.جو چیز بھی اس نے اس عالمین میں پیدا کی اس کی

Page 28

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۲ سورة الفاتحة ربوبیت کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے.ہر چیز کو مناسب حال قو تیں عطا کیں اور ہر قوت کے مناسب حال غذا یا دوسری ضروریات جو ان کی نشوونما کے لئے چاہئیں تھیں وہ مہیا کیں.انسانوں کے لئے خاص طور پر پیدائش نوع انسانی سے پتا نہیں کتنے کروڑ سال پہلے سے ایسی اشیاء کی پیدائش کا سامان کیا جو انسان کو کئی کروڑ سال بعد چاہیے تھا.تو جو صفت ربوبیت ہے اس کا تعلق مخلوق کی ہر شے سے ہے.رب کے معنی عربی میں ہیں پیدا کرنے والا اور صحیح نشوونما کے سامان پیدا کر کے کمال مقصود تک پہنچانے والا.مثلاً ( عام مثال میں لے لیتا ہوں سب کو سمجھانے کے لئے ) ایک اچھا دنبہ چاہیے ایک صحت مند جسم کی صحت کو قائم رکھنے کے لئے تو دنبہ پیدا کیا اس نے اور اس کو صحت مند رکھنے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی وہ پیدا کر دی.اس لئے کہ تمام اشیاء آخر کار انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں.تو اسلام کہتا ہے کھیلو اس لئے کہ کھیلنے کے نتیجہ میں تمہارے اجسام کی تمہارے جسموں کی نشوونما اس طور پر ہو کہ تم وہ بوجھ برداشت کر سکو جو دوسری تمہاری صلاحیتوں کے نتیجہ میں تمہارے جسموں پر پڑنے والے ہیں......تو یہ جور بوبیت ہے اس میں ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے گئے ہیں کہ جو اس کی صحیح نشوونما کریں انگلی صلاحیتوں کی، جو بعد میں بلندی کی طرف لے جانے والی ہیں.تو جسمانی صحت کے بعد ذہنی قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں تو اسلام کہتا ہے کہ ایسی کھیلیں کھیلو کہ تمہارے جسم ذہنی طور پر صحیح اور بہترین نشو نما حاصل کر سکیں....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو چار بنیادی صفات اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہیں، ان کے متعلق جو روشنی ڈالی ہے اپنی تفسیر میں مختصر میں اس کو لیتا ہوں کیونکہ اصل جوڑ میرے دماغ نے انہی کے ساتھ باندھا ہے ان باتوں کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ( الفاظ میرے ہیں کیونکہ میں نے نقل نہیں کئے ، مفہوم نوٹ کیا ہوا ہے ) فرماتے ہیں کہ اللہ رب العالمین ہے یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا تمام عالموں میں جاری وساری ہے.اس میں انسان میں اور دوسری چیزوں میں فرق نہیں بلکہ حیوانات سے بھی آگے چلتے ہیں.آپ فرماتے ہیں یہ ربوبیت باری تمام ارواح واجسام حیوانات میں، نباتات میں، جمادات وغیرہ پر مشتمل ہے اسے آپ نے فیضانِ عام کا نام دیا اور یہ جو تقسیم کی ہے آپ نے ، نباتات

Page 29

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۳ سورة الفاتحة و جمادات کا ایک گروپ اور اجسام و حیوانات کا دوسرا اور ارواح کا تیسرا اس میں یہ شکل بنتی ہے کہ اس سارے عالمین میں وہ اشیاء جن کا تعلق نباتات و جمادات سے ہے مثلاً کا نین ہمیشیم اس کے اندر نمک آ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.اور یہ جو نباتات ہیں کھیتیاں ہیں، یہ درخت ہیں، یہ جنگل والے درخت ہیں، یہ پھل والے درخت ہیں یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ نباتات میں آتی ہیں.یہ ساری کی ساری چیزیں حیوانات کی خدمت کر رہی ہیں، حیوانات و اجسام کی خدمت کر رہی ہیں اور جو حیوانات واجسام ہیں یعنی حیوانات کے اجسام، وہ سارے کے سارے آگے انسان کی خدمت کر رہے ہیں، تو کچھ خدمت نباتات و جمادات اجسام و حیوانات کی وساطت سے انسان کی کر رہے ہیں.نباتات و جمادات کچھ خدمت بالواسطہ نہیں، بلا واسطہ ارواح کی یعنی انسان کی جس کو خدا تعالیٰ نے قائم رہنے والی روح عطا کی ہے اس کی کر رہے ہیں.سَخَرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجالية: ۱۳) کہا - گیا ہے.تو رب العالمین کی ربوبیت کا تعلق تمام اجسام سے ہے، ہر چیز جو مخلوق ہو اور ارواح سے بھی ہے اور تمام اجسام جو ہیں وہ ایک جہت کی طرف جارہے ہیں.پہلے وہ ملتے ہیں انسانی زندگی کے ساتھ.پھر انسان کی جو ہے کوشش اور تگ و دو اور دوڑ یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن میں روشنی پیدا کرے، اچھے اخلاق کا مالک ہو، روحانی میدان میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے اور اپنے لئے ایک ایسی پیاری ، خوشحال ابدی زندگی پائے جو مرنے کے بعد ملتی ہے انسان کو.تو ہم کھیل اس لئے کھیلتے ہیں کہ ہمارے لئے جنت میں جانا آسان ہو جائے.ہم وہ بوجھ اٹھا سکیں جن بوجھوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ جنت میں بھیجنے کے سامان پیدا کرتا ہے اپنے فضل سے.یہ جسمانی استعداد میں اور صلاحیتیں جو ہیں ان کا تعلق ربوبیت رب العالمین سے ہے.دوسرے ہیں ذہنی صلاحیتیں ، ان کا تعلق خدا تعالیٰ کی صفت رحمن سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ہر جاندار کو جس میں انسان بھی شامل ہے اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی.جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضا کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کر دیئے.تو صفت رحمانیت کا تعلق سارے جانداروں سے ہے، حیوانات سے ہے اور تمام حیوانات کم یا

Page 30

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۴ سورة الفاتحة زیادہ ذہن رکھتے ہیں، فوری نتیجہ نکالا.شکاری جانتے ہیں کہ ہرن جب شکاری کے سامنے جھاڑیوں میں سے نکل کے آتا ہے تو اسے ایک سیکنڈ سے زیادہ وقت نہیں لگتا یہ نتیجہ نکالنے میں کہ یہاں مجھے خطرہ ہے اور اس پھرتی سے وہ گھومتا اور پھر جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا ہے.اس کا تعلق ذہن سے ہی ہے نا.اس کے گھٹنوں سے یا اس کے پیروں سے یا اس کے سینگوں سے تو نہیں اس کا تعلق.لیکن سب سے زیادہ ذہن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا.بہر حال رحمانیت کا تعلق جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فیضان عام فرمایا ، تمام حیوانات سے ہے کیونکہ اس کا تعلق ذہنی صلاحیتوں سے ہے.آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ملا.ہر چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے.اس واسطے انسان کو ایسا ذہن ملا کہ اس کا ئنات کی ہر چیز سے جو اس کی خدمت پر مقرر کی گئی ہے فائدہ اٹھا سکے اور کام لے سکے.رحمانیت کا تعلق ذہنی صلاحیتوں سے ہے.رحیمیت کا تعلق اخلاقی استعدادوں سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اسے فیض خاص کہتے ہیں اور اس کا تعلق صرف انسان سے ہے.صرف انسان ہے جو با اخلاق یا بداخلاق ہے.جب مثلاً شکاری پر ریچھ حملہ کرتا ہے (ایسے علاقوں میں شکاری جاتے ہیں جہاں ریچھے رہتے ہیں، ان کے شکار کے لئے ) تو کبھی انسان ریچھ کا شکار کر لیتا ہے کبھی ریچھ انسان کا شکار کر لیتا ہے.تو جب ریچھ حملہ کرتا ہے انسان پر تو کوئی دنیا کا انسان اسے بد اخلاق نہیں کہتا.اسے خونخوار جانور تو کہتا ہے لیکن اخلاق کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ اس کی فطرت جو ہے، رحمانیت نے جو اس کو ایک دیا ہے کہ جہاں خطرہ ہے اس کا مقابلہ کر اپنی زندگی بچانے کے لئے ، اس لئے وہ حملہ کرتا ہے لیکن اس کو ہم اچھے خلق والا یا بداخلاق نہیں کہہ سکتے.جو مرغی آپ ذبح کر کے کھا جاتے ہیں اسے نہیں کہہ سکتے کہ بڑی اچھی ، اخلاق والی دیکھو انسان پر قربان ہوگئی.مرغی کا اخلاق کے ساتھ کیا تعلق؟ اخلاق کا تعلق صرف انسان سے ہے اور خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ہے اس لئے کہ اب یہاں قائم رہنے والی روح کا ایک بنیادی ہلکا ساتعلق ہو گیا پیدا.یعنی ایک ایسا فعل جس کے نتیجہ میں استحقاق پیدا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کا.ملتا نہیں لیکن حقدار بن جاتا ہے یعنی اخلاقی نشود نما، روحانی نشو ونما کے لئے راہ ہموار کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ رحیمیت کے معنی یہ ہیں کہ رحمن خدا لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور

Page 31

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث تجزیہ اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے.۲۵ سورة الفاتحة پھر آپ فرماتے ہیں صرف انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نطق عطا کیا.جس طرح میں اس وقت بول رہا ہوں اور جو بھی میرے خیالات ہیں وہ بیان کے ذریعے آپ تک پہنچارہا ہوں ، اس کو کہتے ہیں نطق عطا کیا.صرف انسان کو نطق عطا کیا اس معنی میں.اشارے کرتے ہیں جانور بھی ایک دوسرے کو.مثلاً کو اکائیں کائیں کر کے دوسرے کو وں کو کہتا ہے خطرہ ہے، اڑ جاؤ یہاں سے.لیکن وہ بولنا نہیں ، وہ نطق نہیں ہے وہ تو رحمانیت کے اندر آ جاتی ہے چیز.آپ فرماتے ہیں.اس لئے ( یہ میں بیچ میں لے آیا ہوں ویسے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا لیکن ایک بہت ہی لطیف بات یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ) انسان کا دعا کرنا ( یہ اچھی طرح سمجھیں.بعض لوگ دعا کی طرف توجہ نہیں کرتے.اصل میں تو چوبیس گھنٹے انسان کو دعا میں گزارنے چاہئیں) اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے.تو جو ہماری فطرت کہتی ہے کہ ہم ہر ضرورت ، حاجت، تکلیف یا ایک خواہش کے پورا ہونے کا خیال جب آئے تو ہم ایک خالق اور مالک ، سب قدرتوں والے خدا کی طرف رجوع کریں.آپ فرماتے ہیں.رحیمیت کے ذریعہ سے استحقاق پیدا ہوتا ہے، جز انہیں ملتی یعنی ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ پھر وہ روحانیت میں ترقی کرے جنت میں جائے اور اس کو جزا ملے.ثمرہ اعمالِ صالحہ حقیقتا پورے طور پر وہاں ملتا ہے.یہاں بھی مل جاتا ہے اس دنیا میں بھی.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ دو جنتیں ہیں.ایک کا تعلق چھوٹی سی ، محدودی، کم وسعت والی جنت جس کا تعلق ہماری زندگی سے ہے اس ورلی زندگی سے اور ایک وہ جہاں اللہ تعالیٰ کا پیار پوری عظمتوں کے ساتھ ، انسان کی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق ظاہر ہوگا اور ہر قسم کے خوف و ہراس سے محفوظ زندگی ، خوشحال زندگی ، امن والی زندگی ، سلامتی والی زندگی، پیار والی زندگی ، دکھوں سے محفوظ زندگی اس کو عطا ہوگی اور نہ ختم ہونے والی زندگی ہمیشہ ایک مقام پر نہ شہر نے والی زندگی، خدا تعالیٰ کے پیار میں ہمیشہ زیادتی

Page 32

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۶ سورة الفاتحة دیکھنے والی زندگی ، ایک وہ جنت ہے.تو رحیمیت کا تعلق اخلاقی استعدادوں سے ہے اور جو اوپر کی منزل ہے سب سے اور جو مطلوب ہے پیدائش انسان کا وہ روحانی طاقتیں ہیں.روحانی طاقتیں دیں تا کہ انسانی روح جو قائم رہنے والی ہے اپنے مقصود کو پالے یعنی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اس کا قائم ہو جائے اور اس کے پیار کو ہمیشہ پالینے والی بنے.اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فیضان اخص کہتے ہیں.مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی یہ صفت ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی صفت کا فیضان فیضان احص ہے اور یہ استحقاق کے بعد ثمرہ عطا کرنے والی سند ہے.جزا ملتی ہے اس سے اور استحقاق پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رحیمیت جو ہے اس نے ایسے سامان پیدا کئے کہ انسان اپنے لئے خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کا استحقاق حاصل کر لیتا ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے نتیجہ میں شمر مل جاتا ہے، خالی استحقاق نہیں.اب دیکھونا اس دنیا میں بہت سارے ایم.اے، بی.اے ہیں جن کو نوکری کوئی نہیں ملتی لیکن نوکری کا حق ہے ان کا ملتی نہیں.تو رحیمیت استحقاق پیدا کر دیتی ہے مالکیت یوم الدین اس کو وہ شمرہ دے دیتی ہے وہ صفت فیضان اخص کی.آپ فرماتے ہیں:.اس کے دو پہلو ہیں.وسیع اور کامل طور پر عالم معاد ( یعنی مرنے کے بعد جو زندگی ہے ) میں یہ صفت متجلی ہوتی ہے، اس کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے اور دوسرے اس عالم میں بھی ، یہ جو ہماری دنیا، اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفتیں جس میں مالک یوم الدین بھی ہے بجلی کر رہی ہیں اور انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمانی رفعتوں تک پہنچاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں لا بٹھاتی ہیں.قرآن کریم میں ایک جگہ یہی جو ہے ایک حرکت انسان کی یا تنزل کی طرف یا روحانی طور پر رفعتوں کی طرف اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے تو اسے رفعت دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ زمین کا کیڑا بن گیا.تو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زمین کا کیڑا بن جانے سے محفوظ رکھے اور جو اس کی خواہش ہے کہ ہم اس کے پیار کو اپنے مقبول اعمال صالحہ کے نتیجہ میں حاصل کریں ، اس میں وہ ہمیں کامیاب کرے.آمین.

Page 33

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۲۷ سورة الفاتحة اور یہ صفت جو ہے یہ فیض کا ثمرہ بخشتی ہے یعنی وہ مل جاتی ہے.جنت مل جاتی ہے مالکیت یوم الدین کے نتیجے میں اور اس کے لئے انسان کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھنا نہیں بلکہ شروع کرنا ہے اپنے جسم کو مضبوط کرنا خاص مقاصد کے لئے یعنی کھیلنا، کھانے کو ہضم کرنا، جسم میں صلاحیت پیدا کرنا لیکن مقصد دنیا نہ ہو بلکہ دین ہو.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۵) اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اپنی چار صفات کا ذکر فرمایا ہے.اس میں ہمیں بتایا کہ وہ ربّ ہے.اس نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری پرورش کے لئے سامان مہیا فرمائے.جن کے ذریعہ ہم درجہ بدرجہ پرورش پاتے اور درجہ بدرجہ ترقی کی منازل طے کرتے ہیں.وہ رحمن ہے.ہمارے استحقاق کے بغیر اس نے ہمارے لئے ہماری تمام ضروریات مہیا فرما ئیں.وہ رحیم ہے.جب ہم تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس کی راہوں پر چلتے ہیں تو وہ ایسا کرتا ہے کہ آئندہ کی تکلیفوں سے ہمیں بچا لیتا ہے.وہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے جب ہم اس کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اعمال صالحہ بجالاتے ہیں تو وہ مقام صالح جو ابدی سرور اور خوشحالی کا مقام ہے ہمیں عطا کرتا ہے.یہ چارصفات، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اتم الصفات ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی جو سیجی صفات ہیں ان کی بنیادی صفات یہ چار ہیں.جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ چاروں صفات اس کے وجود، کرم اور رحمت پر دلالت کرتی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس کا منشا بھی ہے کہ وہ ہم سے رحم اور کرم کا سلوک کرے مگر کئی بد قسمت لوگ اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو صفات الہی کے پرتو سے دور کرتے ہیں اور پھر دکھ اٹھاتے ہیں.ہمیں ہر وقت خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی راہوں سے بھٹک نہ جائیں اور عاجزانہ راہوں سے چاہئیں کہ ان چار صفات کے پر تو کے نیچے رہیں کیونکہ جو شخص ان چار صفات کے پرتو سے نکل جاتا ہے تو وہ دکھ اٹھاتا ہے.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۳۴۱،۳۴۰) توحید کے قیام کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہے دو ذمہ داریاں ہیں.(۱) اپنے نفسوں میں توحید کو قائم کرنا (۲) دنیا میں توحید کو قائم کرنا.اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے تو بے شمار ہیں وہ گنے نہیں جا سکتے.اس کی صفات بھی بے شمار ہیں لیکن جن صفات کو اس نے ہماری زندگی میں ظاہر کیا ہے ان میں

Page 34

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۸ سورة الفاتحة سے چار اُمہات الصفات کہلاتی ہیں.یعنی اس کا رب ہونا ، اس کارحمٰن ہونا، اس کا رحیم ہونا اور اس كا مالك يوم الدين ہونا.اگر ہم ان چار صفات کو پوری طرح سمجھنے لگیں ، اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے اور اس حقیقت کا اظہار ہم پر ہو جائے کہ رب کے کیا معنی ہیں.رحمن کی صفت کے جلوے کس طرح ظاہر ہوتے ہیں.رحیمیت اپنا ظہور کس طرح کرتی ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ اپنے قادرانہ تصرف کو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کرتا ہے تو دوسری صفات کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے.اس لئے سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ان چار امہات الصفات کو بیان کیا اور ان کی طرف توجہ دلائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کے مطابق ہم پر بڑا زور دیا کہ ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرو اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا حکم اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کریں کیونکہ اگر ہم ان اُمہات الصفات کو جو تعداد میں چار ہیں خود نہ سمجھیں اور ہماری عقل میں ان کی کیفیت اور ان کی ماہیت ( جس حد تک ہماری سمجھ ہے ) نہ آئے تو ہم اس کے مطابق اپنی زندگی میں وہ صفات کیسے پیدا کر سکتے ہیں.صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کیلئے ان صفات کی معرفت کا حصول ضروری ہے ورنہ ہم اپنی زندگیوں میں ان صفات کے پیدا کرنے کی نتیجہ خیز اور ثمر آور کوشش نہیں کر سکتے.رب العلمین کے معنی بڑے وسیع ہیں اس وقت میں اس صفت کے متعلق صرف ایک اصولی بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ رب العلمین کے معنی ہیں پیدا کرنے کے بعد تکمیل کا متکفل ہو جانا یعنی جو فطری مطلوب تھا اس کو پورا کرنا.اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو کسی خاص غرض کے لئے پیدا کیا ہے.انسان کو جس غرض کے لئے اس نے پیدا کیا ہے اور اس غرض کے حصول کے لئے اس کو جن قومی کے ساتھ پیدا کیا ہے ان قومی کے تدریجی ارتقاء کے بعد ان کو کمال تک پہنچانے کی ذمہ داری اس نے اپنے اوپر لی ہے.اس معنی میں وہ رب العالمین ہے.ذمہ داری اس معنی میں اس نے اپنے پر لی ہے کہ اس نے فرمایا کہ میں رحمن ہوں تمہاری تکمیل کے لئے اور جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس کے حصول کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ میں تمہیں دوں گا.انسان کو اللہ کا بندہ بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور حقیقی معنی میں ایک عبد ہونے کے لئے جس جسمانی قوت یا روحانی طاقت و استعداد کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے وہ طاقت اسے دی

Page 35

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۹ سورة الفاتحة اور اس کی نشوونما کے لئے جن اسباب مادیہ کی ضرورت تھی وہ اسباب مادیہ پیدا کئے.اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے ہم پر ظاہر ہوئے.ہمارے لئے وہ جلوے اس وقت بھی ظاہر ہوئے کہ ابھی زمانہ کروڑوں سال بعد ہماری پیدائش کا منتظر تھا مگر خدائے علام الغیوب کو چونکہ ہمارا پتہ تھا کہ اس طرح ہم اس کی مشیت سے پیدا ہونے والے ہیں اس لئے کروڑوں اربوں سال پہلے جن چیزوں کی ہمیں اس وقت پیدائش کے بعد ضرورت تھی اور جن کی پیدائش پر کروڑوں اربوں سال گزر جانے تھے وہ کروڑوں اربوں سال پہلے پیدا کر دیں.رحمانیت کے جلوؤں میں بڑا ہی حسن و احسان ہمیں نظر آتا ہے.ہر چیز جو ہمیں ملی یہ زمین اور اس کا جو فاصلہ سورج اور چاند سے ہے پیدا کی اور پھر زمین میں یہ قابلیت رکھی کہ وہ پانی کے بعد اس قسم کی غذا پیدا کرتی ہے کہ جو ہمارے جسم کو متوازن غذائیت (Nutrition) دے سکے.متوازن غذا دے سکے اگر زمین میں مثلاً تیز اب جو ہماری غذا کا ایک حصہ ہے اتنا ہوتا جتنا اس وقت اس میں سٹارچ (Starch) یعنی نشاستہ ہے تو یہ غذا ہم کھا کر زندہ نہ رہ سکتے.غرض ہمارے جسموں کو جس متوازن طبیب غذا کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں وہ خصوصیات پیدا کیں کہ وہ ایک خادم کی حیثیت سے اس متوازن غذا کے ہمارے لئے سامان کرے.پھر رحیمیت ہے رحیمیت کے معنی ہیں کہ متضرعانہ دعاؤں اور اعمالِ صالحہ کو قبول کرتے ہوئے ان کا اچھا اور نیک بدلہ ہمیں دیتا ہے.ہماری متضرعانہ دعاؤں اور اعمال صالحہ میں بہت سے نقائص رہ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے اور جو نقص رہ جاتا ہے اس کو دُور کر دیتا ہے تا عملِ صالح ضائع نہ ہو.غرض رحیمیت کے معنی میں پردہ پوشی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور رحیمیت کے معنی میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ عمل صالح کا نیک نتیجہ جس صورت میں نکل سکتا تھا عمل وہاں تک نہیں پہنچا اس میں کچھ نقص رہ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اس نقص کو دور کرتی ہے اور اس طرح چشم پوشی سے کام لے کر عمل صالح کا وہ نتیجہ نکال دیتی ہے جو اس کا بہتر نتیجہ (شمره حسنہ) نکلنا چاہئے تھا.غرض چشم پوشی کرنا اور نقص کو دور کرنا تا تفضیح اعمال نہ ہو.اعمال صالح ضائع نہ ہو جائیں.رحیمیت کا کام ہے.انسان اپنی انتہائی کوشش اور اپنی نہایت عاجزانہ دعاؤں کے باوجود اس بات پر یقین نہیں کر سکتا اس بات پر تسلی نہیں پاسکتا کہ اس کے اعمال میں کوئی نقص نہیں

Page 36

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة رہ گیا.اگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت کے جلووں میں اس نقص کو دور کرنے اور چشم پوشی کے جلوے شامل نہ ہوتے تو ہمارے نیک اعمال کا نیک نتیجہ ہر گز نہ نکلتا.غرض اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کا نیک نتیجہ نکالتا ہے اور اس نیک نتیجہ کے نکالنے میں جس حد تک چشم پوشی کی ضرورت ہوتی ہے وہ چشم پوشی کرتا ہے اور جس حد تک ہمارے اعمال کے نقائص کو دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان نقائص کو دور کرتا ہے اور ہمارے اعمال اور ہماری دعاؤں کا نیک نتیجہ نکال دیتا ہے.پھر نیک نتیجہ رحیمیت کے جلووں میں صرف استحقاق پیدا کرتا ہے.جس طرح ایک طالب علم ج امتحان دیتا ہے تو اس کی کوششوں کا نیک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بی.اے یا ایم.اے پاس کر لیتا ہے.یہ ایک نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دعائیں کرنے والے اور محنت کرنے والے طلباء کی کوششوں کا نکالتا ہے.لیکن بی.اے پاس کر لینا یا ایم.اے پاس کر لینا جو نتیجہ ہے یہ پورا بدلہ نہیں ہے بلکہ اس نتیجہ سے بدلہ کا استحقاق پیدا ہوتا ہے یعنی بی.اے پاس کرنے کے بعد جس قسم کی نوکری کسی کو مل سکتی ہے اس قسم کی نوکری اسے مل جانی چاہئے.ایم.اے پاس کرنے کے بعد جس قسم کی نوکری اُسے مل سکتی ہے وہ نوکری اُسے مل جانی چاہئے.یہ نتیجہ ہے جو رحیمیت کے جلووں کے بعد کسی کے اعمال کا نکلتا ہے یعنی ایک استحقاق پیدا ہو جاتا ہے لیکن دنیا میں استحقاق پیدا ہونے کے باوجود وہ بدلہ نہیں ملتا جس کا وہ استحقاق مطالبہ کر رہا ہوتا ہے.ہزاروں بی.اے اور ایم.اے مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا نہیں.ابھی کراچی کے قیام کے دوران مجھے ایک احمدی دوست نے بتایا کہ میں سڑک پر جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر سڑک پر کام کرنے والے مزدوروں پر پڑی.وہ مزدور اِدھر اُدھر سے مٹی اُٹھا کر سٹرک پر ڈال رہے تھے.میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک مزور عام مزدوروں کی طرح کا نہیں.اس میں کوئی ایسی بات پائی جاتی تھی کہ اس نے میری توجہ کو جذب کر لیا.یہ مزدور مجھے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا.یہ ان کا تاثر تھا بہر حال انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنی کار کھڑی کر لی اور اس مزدور کے پاس گیا.میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں بی.اے پاس ہوں لیکن نوکری نہیں ملتی اس لئے میں نے سڑک کوٹنے یا سڑک پر مٹی ڈالنے کی مزدوری کر لی ہے.پس اگر دنیا رحیمیت کے جلووں کے پر تو کے نیچے کسی طالب علم کو پاس کر دے ( یعنی کوئی مثلاً بی.اے پاس کر لے ) تو کر دے لیکن ضروری نہیں کہ دنیا مالکیت یوم الدین کا نتیجہ ظاہر کرنے کی طاقت بھی

Page 37

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۳۱ سورة الفاتحة رکھتی ہو.خیر اللہ تعالیٰ نے اس احمدی افسر کے ذریعہ اپنی مالکیت کا جلوہ دکھانا تھا چنانچہ اُنہوں نے اس مزدور کو کہا کہ میں فلاں فیکٹری میں ہوں تم وہاں میرے پاس آجانا میں تمہارے لئے کوئی نوکری تلاش کروں گا.چنانچہ وہ مز دور دوسرے دن ان کے پاس گیا اُنہوں نے اس کے لئے کوئی جگہ معلوم کرنے کی کوشش کی.انہیں معلوم ہوا کہ اس وقت فیکٹری میں کوئی ایسی جگہ خالی نہیں جہاں کسی بی.اے پاس کو لگایا جائے.اس لئے انہوں نے اس کو ایک ایسے مزدور کی جگہ دلوا دی جس کو فیکٹری دس روپے یومیہ دیتی تھی.ممکن ہے کہ وہ باہر تین چار روپیہ لے رہا ہو اور اس طرح اسے قریباً تین سو روپے ماہوار کی نوکری مل گئی.غرض اللہ تعالیٰ صرف رحیم نہیں یعنی یہ نہیں کہ جو شخص امتحان دے وہ صرف اس کا نتیجہ نکال دے اور اسے پاس کر دے بلکہ وہ ملِكِ يَوْمِ الدین ہے.ویسے تو بندہ بڑا ہی عاجز ہے.اللہ تعالیٰ ہی اپنی رحمت کے نتیجہ میں اس کی دعاؤں کو قبول کرتا اور اس کی کوششوں کو سراہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایک استحقاق پیدا کر دیتا ہے یعنی وہ کہتا ہے تمہارا میں نے یہ حق قائم کر دیا ہے پھر وہ اس سے وہ حق چھینتا نہیں بلکہ جو حق رحیمیت کے جلوے نے قائم کر دیا تھا وہ حق اسے دیتا ہے اس کے سامان پیدا کرتا ہے.ایک تو ہمیں یہ معرفت حاصل ہونی چاہئے کہ سوائے اللہ کے کوئی ذات ایسی نہیں جو تربیت کی متکفل ہو جونشو و نما کو کمال تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتی ہو.ماں باپ بھی یہ ذمہ داری نہیں لے سکتے.کتنے ماں باپ ہیں جن کے بڑے ذہین بچے ہوتے ہیں لیکن وہ ان کی تربیت نہیں کر سکتے دنیا کی کوئی مخلوق بھی یہ تربیت نہیں کر سکتی لیکن ہمیں انسان کی بات کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات کے مقام پر کھڑا کیا ہے.کوئی انسان اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ربوبیت نہیں کر سکتا.انسان اگر یہ کہے کہ میں اپنے زور سے یہ کروں گا تو وہ نہیں کرسکتا.بہتوں نے دعوے کئے لیکن وہ اپنے دعوؤں کو سچا کر کے نہ دکھا سکے.آپ روس کے کمیونزم کو لے لیں آپ سوشلسٹ ممالک کے سوشلزم کو لے لیں آپ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے دعاوی کو لے لیں کسی جگہ بھی آپ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ ہر شخص کی اس معنی میں ربوبیت ہو رہی ہے.بعض کی وہ ربوبیت کرتے ہیں مثلاً فیورٹزم (Favouritism) ہے لیکن یہاں بعض کا سوال نہیں یہاں سوال یہ ہے کہ وہ ہر مخلوق کی تربیت کے متکفل ہوں اور ایسا وہ نہیں کرتے بلکہ انہوں نے تو مزدور کی تنخواہ اور ڈیلی ویجز

Page 38

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الفاتحة (Daily Wages) کے ساتھ ایسا قانون باندھ دیا ہے کہ کم ہی مزدور ہیں جن کے حقوق انہیں ملتے ہیں جن کی ربوبیت کے یہ لوگ متکفل کہلائے جا سکتے ہیں.یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہاری جسمانی اور روحانی استعدادوں کی نشو و نما کریں گے اور اس کے لئے تمام سامان مہیا کرنے کے ہم ذمہ دار ہیں لیکن وہ عملاً ایسا کر نہیں سکے.غرض ربوبیت کی صفت کے اندر جو یہ ذمہ داری ہے یہ کہیں نہیں پائی جاتی صرف خدا کے بندوں میں ہمیں یہ نظر آ سکتی ہے اور جو دوسری ذمہ داری ہم پر ہے اس کے ماتحت ہمیں خدا کا بندہ بننا چاہئے.اگر ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو محض اس کی صفات کا عرفان کافی نہیں بلکہ اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ تو یہ ایک فلسفہ ہے جس کا حسن اور نہ احسان غیر کا دل موہ لینے کے قابل ہے جب تک وہ حسن اور احسان کا جذ بہ ہمارے اندر پیدا نہ ہو اس وقت تک ہم دنیا میں تو حید کو قائم نہیں کر سکتے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے اور جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق اور طاقت عطا کی ہے وہ اپنے دائرہ میں پرورش کا متکفل ہو مثلاً اگر وہ خاندان کا بڑا فرد ہے تو وہ اپنی استعداد کے مطابق پرورش کا متکفل ہو.اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور پھر جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے بھی وہ ربوبیت کی صفت اپنے اندر پیدا کرے.جماعت بحیثیت جماعت اپنے اندر ربوبیت کی صفت پیدا کرنے کیلئے.اس لئے کوشش کرے کہ وہ سمجھے کہ دنیا میں ہم نے تو حید باری کو قائم کرنا ہے اور جب تک ہم اپنے نظام میں، اپنے کام میں اور اپنے عمل میں ربوبیت کی صفت پیدا نہیں کریں گے ہم دنیا میں توحید کو قائم نہیں کر سکتے.غرض جس وقت تک ہر فرد جماعت بحیثیت ایک فرد جماعت، جماعت کے کام میں اپنی ذمہ داری کو نہ نہا ہے اس وقت تک تو حید حقیقی دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی.پس ہم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ربوبیت کی صفت انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنے اندر پیدا کریں.پھر رحمانیت کے جلوے ہیں.ہمارے پہلوں نے بڑی خوبصورتی اور بڑے حسن کے ساتھ ان جلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کا واقعہ ہے کہ آپ نے ایک بچے کو روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ یہ کیوں روتا ہے.اس بچے کی ماں نے بتایا کہ چونکہ دودھ پیتے بچے کا راشن منظور نہیں کیا جاتا اس لئے میں نے

Page 39

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ٣٣ سورة الفاتحة اس کا دودھ چھڑا دیا ہے.اب بچہ گندم یا کھجوریں وغیرہ نہیں کھا سکتا لیکن چونکہ دودھ چھڑانے کے نتیجہ میں اس کی جسمانی تربیت اور نشونما پر ایک بڑا اور گندہ اور مہلک اثر پڑتا ہے اور اس کا اثر پھر روحانی تربیت پر بھی پڑے گا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خدائے رحمن کی صفت کو اپنے نظام میں جاری فرمایا اور دودھ پیتے بچوں کے لئے راشن مقرر کر دیا.ہم سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ایسی دے سکتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم ہر وقت چوکس اور بیدار رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے دنیا کو ان کی زندگی میں اور ان کے نظام میں نظر آئیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے حسن اور اس کے احسان سے دنیا متعارف ہو جائے اور اس کی طرف کھینچی چلی آئے اور غیر اللہ کے سارے رشتے اس کے نتیجہ میں کٹ جائیں اور صرف خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ تعلق اطاعت اور تعلق عبودیت اور تعلق غلامی قائم ہو اور قائم رہے.یہ ذہنیت ہماری جماعت میں پیدا ہونی چاہئے اگر یہ ذہنیت ہماری جماعت میں پیدا نہ ہو اور اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے دنیا کو نہ دکھا سکیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو بھی دنیا میں قائم نہیں کر سکتے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ میری اور کوئی غرض نہیں کہ میں توحید باری قائم کرنا چاہتا ہوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنا چاہتا ہوں.رحیمیت کے جلوے بھی (جیسا کہ میں نے کہا ہے ) ہمیں دکھانے چاہئیں، مالکیت کے جلوے بھی ہمیں دکھانے چاہئیں.اگر آپ غور کریں تو آپ بھی میری طرح اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اگر ہم اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی ان چاروں امہات الصفات کے جلوے دکھانے میں کامیاب ہو جا ئیں تبھی اور صرف اسی صورت میں ہم خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے.پس اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام کے سلسلہ میں ہماری ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کر کے اپنی زندگی میں ان صفات کو قائم کر دیں اور دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنی زندگی میں دکھا کر دنیا کو اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دکھانے کے بعد اس کی معرفت کے حصول کا ذریعہ بنیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید قائم ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عزت عطا کی ہے کہ انسان کا تصور بھی اس عظیم عزت کا

Page 40

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴ سورة الفاتحة احاطہ نہیں کر سکتا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ہم آپ کے ہر قول اور ہر فعل کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں.آپ کے ہر قول کو اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن کریم کی تفسیر سمجھیں اور آپ کے ہر فعل کو ایسا حسین سمجھیں کہ اس کو اپنے لئے اسوہ اور ایک قابل تقلید نمونہ سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو ، آپ کی زندگی کے مختلف پہلووں کو اپنے لئے اُسوہ نہ سمجھیں اور اس کی بجائے کوئی اور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو نہ سمجھا اور نہ اُسے قائم کرنے کی کوشش کی.یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو جیسا کہ وہ حسین ہے اور احسان کرنے والا ہے سمجھنے لگیں اور اپنی زندگی کیلئے اسے نمونہ بنا ئیں اور اس طرح پر دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کی کوشش کریں تو دنیا بڑی جلد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کی گرویدہ ہو جائے گی.کیونکہ اس وقت دنیا میں حقیقی معنی میں نہ کہیں حسن نظر آتا ہے اور نہ کہیں کوئی محسن نظر آتا ہے.محسن حقیقی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.جسمانی اور دنیوی طور پر بھی اور روحانی اور اُخروی لحاظ سے بھی آپ ہی کی ذات محسن اعظم ہے اور آپ ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو انسان نے اس رنگ میں اور اس شان میں اور اس حسن میں اور اس احسان میں پہچانا اور اس سے تعلق رکھا.اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی ذات کے لحاظ سے بھی اور اپنی صفات کے لحاظ سے بھی بے مثال و مانند ہے لیکن اس کے قریب تر اور اس کے مشابہ تر جووجود پیدا ہوا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کہا.میری صفات کے مظہر اتم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں اگر ہم آپ کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنے لئے اُسوہ اور نمونہ سمجھیں اور بنا ئیں تو اپنی استعداد کے مطابق ہم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوں گے اور ایک لحاظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کا موجب بنیں گے اور دوسرے لحاظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو دنیا میں قائم کرنے کا وسیلہ بنیں گے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۷۰ تا ۸۷۷)

Page 41

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۵ سورة الفاتحة جو قرآنِ کریم نے ہمیں بتایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں ہمیں حسنِ کامل اور احسانِ کامل نظر آتا ہے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں.قریباً قریباً ساری خدائی صفات آپ کی زندگی میں جلوہ گر ہیں.اس لئے ہم خدا تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ خدا کی مخلوق خدا نہیں بن سکتی لیکن خدا کی مخلوق جب خدا کے قریب تر پہنچ سکتی ہے اور حضرت محمد کی ذات میں پہنچی ہے تو ہمیں آپ کی ذات میں خدا کی وہی شکل اور کیفیت نظر آتی ہے.جو قرآن کریم میں بیان ہوئی.پس ایک تو جہاں تک انسان اپنے حسن کو دوبالا کر سکتا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ دوبالا ہو چکا ہے اور جہاں تک کوئی انسان خدا تعالیٰ کے احسان کی صفات کو اپنی زندگی میں جلوہ گر کر سکتا تھا.وہاں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احسان کی صفات جلوہ گر ہیں.گویا آپ حسن و احسان صفات باری کے مظہر اتم ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفت محسن سے کیا مراد ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی صفتِ احسان سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کی صفات اپنے نفس میں حسنِ باری ہیں.مثلاً یہ تصور کہ ایک ایسی ذات ہے جس نے تمام عالمین کو پیدا کیا اور وہ اُن کی ربوبیت کرنے کی طاقت رکھتا ہے.یہ ربوبیت کی صفت ایک حسن ہے.رحمانیت کی صفت ایک حسن ہے.رحیمیت کی صفت ایک محسن ہے اور مالکیت یوم الدین کی صفت ایک حُسن ہے لیکن جب یہی صفات جو اپنے نفس میں حُسنِ باری تعالیٰ کو ظاہر کر رہی ہیں کسی فرد یا جماعت پر جلوہ گر ہوتی ہیں اور ان کو فائدہ پہنچاتی ہیں تو فرد یا جماعت کے لئے احسان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں.خدا تعالیٰ کا رب ہونا اس کے حسن کی علامت ہے اور خدا تعالیٰ کا اپنے رب ہونے کے لحاظ سے ہر کس و ناکس کی ربوبیت کرنا اُس کے احسان کی علامت ہے گویا اللہ تعالیٰ کا ہر فرد بشر کی یا جماعت پیدا کر کے اُس کی ربوبیت کے طور پر اس میں ایک انقلاب عظیم بپا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کو ظاہر کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی صفات میں حسن بھی کامل اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں احسان کے کامل جلوے بھی نظر آتے ہیں اور یہی حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بھی ہے.آپ کی زندگی میں بھی حسن و احسان کے جلوے نظر آتے ہیں.انسان ہونے کی جو حد ہے اُس میں ہم سب برابر ہیں لیکن

Page 42

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶ سورة الفاتحة چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسن و احسانِ باری میں یکتا اور انسانِ کامل ہیں اس لئے وہ منفرد ہیں.ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اس بات میں ہم نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے لئے اسوہ حسنہ بنایا ہے.تم حسن و احسان باری تعالیٰ کے مظہر اتم تو نہیں بن سکتے لیکن تم اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق مظہر محسن اور احسان باری ضرور بن سکتے ہو.اس لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے تمہیں بھی اپنے اندر اپنی زندگیوں میں اپنے معاملات میں اپنے تعلقات میں اپنے پیار میں اپنے غضب میں حسن و احسانِ باری کا اس رنگ میں مظہر بننے کی ضرورت ہے جس رنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں حسن و احسانِ باری کو ظاہر کیا.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؐ صفات باری کے مظہر اتم ہیں تو ہمیں کچھ مزید بھی بتانا پڑے گا.ور نہ تو یہ ایک فلسفہ بن جاتا ہے اور ہر آدمی اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر بڑے حسین رنگ میں روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ کی جن بنیادی صفات کا ذکر ہوا ہے وہ چار ہیں.ان کو اصل الاصول صفات باری یا اُم الصفات سمجھنا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ان ہی چار صفات کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں تعلق رکھتی ہیں.اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی اُم الصفات ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ( میں قرآن کریم کی زبان میں بات کر رہا ہوں ) قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ صفات آپ کے اندر پائی جاتی تھیں.تو پھر ہمیں تاریخ دیکھنی پڑے گی.جس کو وقتی طور پر ہم ایک حد تک نظر انداز بھی کر سکتے ہیں اور کچھ مثالیں بھی دے سکتے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ رب العالمین کی صفت کامل طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی اور رحمانیت کی کامل صفت آپ کے اندر پائی جاتی تھی اور اسی طرح رحیمیت کی اور مالکیت کی صفت بھی آپ کی ذات میں جلوہ گر تھی اور چونکہ یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی ساری صفات کی اصل یا اُتم الصفات ہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام صفات باری تعالیٰ کا مظہر اتم ہے.یہ چار صفات جو سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بیان کی ہیں اور جن کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ اصل الاصول اور اُم الصفات ہیں.قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) اللہ تعالی جو تمام صفاتِ حسنہ

Page 43

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۷ سورة الفاتحة کا مالک ہے.اُس میں کوئی عیب یا نقص، کوئی اندھیرا یا ظلمت نہیں پائی جاتی.تمام جہانوں کا حقیقی نور وہی ہے.اس حقیقت کو شاید بچوں کے لئے سمجھنا مشکل ہوگا اس لئے میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سمجھا دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: یہ سورج کی روشنی نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا نور ہے جو سورج کی چادر میں چُھپ کر یا لپٹ کر دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے.یہ چاند کا نور نہیں ہے جواندھیری راتوں کومنو رکرتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ ہی کا نور ہے.جو چاند کی چادر میں اپنے کو لپیٹتا اور اس مادی اور ابتلاء اور امتحان کی دنیا کو جگمگا دیتا ہے.یہ گلاب کی خوشبو نہیں ہے جو مشامِ جان کو معطر بنا دیتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے لطف و کرم کا پر تو ہے جو انسان کو لذت اور سرور بخشتا ہے اور گلاب کے پر دے میں چھپ کر سامنے آتا ہے اور یہ بادل نہیں جو مینہ برساتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں ہیں جو بادل کی شکل اختیار کرتی ہیں اور مینہ برسانے لگ جاتی ہیں.خیر یہ ایک بڑا گہرا مسئلہ ہے جو لوگ اس کو سمجھتے ہیں وہ اس سے حظ اٹھا سکتے ہیں.“ بہر حال خدا تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ وہ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے.یہ گویا خدا کے حُسن کا اعلان ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حسن کی خوبیاں جو کسی فرد یا گروہ کو عملاً فائدہ پہنچاتی ہیں.یہ وہی نور اور وہی حسن کی صفات ہیں جو مختلف شکلوں میں انسان پر ظاہر ہوتی ہیں.پس جیسا کہ میں بتا رہا ہوں چار اُم الصفات جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے پہلی صفت ربوبیت ہے، ربوبیت کا مطلب ہے پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا.یہاں تاریخ کا قانون رائج ہے.بچہ پہلے ماں کے پیٹ میں پیدا ہوتا ہے.جہاں نو ماہ تک اس کی پرورش کی جاتی ہے.پھر وہ اس دنیا میں آتا ہے اور سانس لیتا ہے.بعض دفعہ سانس نہیں لیتا.بہر حال جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت اس کے اندر کوئی طاقت نہیں ہوتی.اس کو دودھ کی ضرورت ہے جو خود بخود اس کی ماں کی چھاتیوں میں اُتر آتا ہے مگر دنیا کی کون سی عورت ہے جو خدا تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے بغیر اپنی چھاتیوں میں اپنے یا کسی اور کے بچہ کے لئے دودھ پیدا کر دے.اگر ماں اپنی مرضی سے اپنے بچے کے لئے دودھ پیدا کرنے پر قادر ہوتی تو وہ اپنی عزیز اور پیاری سہیلی کے بچہ کے لئے جسے دودھ نہیں

Page 44

۳۸ سورة الفاتحة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث مل رہا اس کے لئے دودھ پیدا کر دیتی مگر وہ نہیں پیدا کرتی اور نہ پیدا کرسکتی ہے.ظاہر ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دودھ پیدا نہیں کر سکتی.خدا کا منشاء ہو تو دودھ پیدا ہوتا ہے ورنہ دودھ پیدا نہیں ہوتا.بچہ کی پیدائش سے ربوبیت شروع ہو جاتی ہے.چند دنوں کا بچہ پھر طفل بنتا ہے.پھر وہ طفل کی عمر سے نکل کر خادم کی عمر میں داخل ہوتا ہے.علم میں کمال حاصل کرتا ہے پھر وہ علمی کمال حاصل کر لیتا ہے تو عمل کے میدان میں آجاتا ہے.ہر جگہ اور ہر قدم پر اسے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی ضرورت ہوتی ہے دراصل خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت اور عرفان کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا ہے.انسان کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا ہے مظہر صفات باری بننے کے لئے پہلے سانس سے لے کر آخری سانس تک اُسے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ ساری اس کے لئے مہیا کر دی گئیں.انسان کو زندگی کی ضرورت تھی اُسے طاقتوں کو بحال رکھنے کے لئے اور اپنی ذہنی قوتوں سے صحیح اور بھر پور کام لینے کے لئے غذا کی ضرورت تھی.اس کو اخلاق کے اظہار کے لئے مادی ذرائع کی ضرورت تھی.اخلاق کا اظہار بھی مادی ذرائع کا محتاج ہے.یہ نہیں کہ آپ اپنے اخلاق کا اظہار سفر بغیر کسی مادی ذریعہ سے کر سکیں.مثلاً ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے کپڑے کی ضرورت ہے.آپ اس سے پیار کرتے ہیں اور اس کے لئے کپڑے کا انتظام کر دیتے ہیں.اگر آپ کے پاس کپڑا ہی نہ ہو تو آپ کیا کریں گے.ایک شخص کو گندم کی ضرورت ہے ایک شخص کو اس بات کی ضرورت ہے جذباتی لحاظ سے کہ جو اس کو ملے وہ مسکراتے چہرے سے ملے.میں نے جماعت کو کہا تھا.اس جلسہ سے پہلے بھی اور یہاں بھی آ کر کہا کہ دُنیا تیوریاں چڑھا کر اور سُرخ آنکھیں نکال کر تمہاری طرف دیکھتی ہے.تم اس کی طرف مسکراتے چہروں سے دیکھو.چنانچہ مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ چھوٹے چھوٹے بچے ملاقاتوں کے دوران مسکراتے اور کھلے ہوئے چہروں کے ساتھ ملتے تھے.دنیا قطع نظر اس کے کہ غلط ہے یا صحیح وہ اپنا طریق اختیار کرتی ہے.ہمیں اس سے سروکار نہیں.ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ جس چیز کی انسان کو اس وقت ضرورت ہے وہ اس کو ملنی چاہیے اور عام طور پر انسان کو مسکراتے چہروں کی ضرورت ہے.اس لئے دوستوں کو ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا چاہیے.یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر ضرورت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ مسکرانے والا چہرہ عطا نہ کرتا.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ

Page 45

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۹ سورة الفاتحة زور زور سے تو نہیں ہنستے تھے البتہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے.غرض اللہ تعالیٰ رب ہونے کے لحاظ سے تمام عالمین کی اور اس عالمین کے ہر فرد کی ربوبیت کر رہا ہے اور ہر ایک کو کمال مطلوب تک پہنچا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ مثلاً جو درخت اُگیں عام قانون کے مطابق جب اُن کی پرورش کی جائے اور وہ بڑے ہوں تو ثمر آور ہوں.ہمارے اکثر زمیندار بھائی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ آخر کس کے بھروسے پر گندم کا بیج زمین میں ڈال آئے ہیں.اپنے اس رب کریم کے بھروسے پر جس نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُونَةً أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ (الواقعة : ۶۵) کیا کھیتیاں تم اُگاتے ہو؟ نہیں! کھیتیوں کو تو میں اُگاتا ہوں اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی بناء پر تم نے خدا پر بھروسہ کیا کیونکہ وہ ربّ ہے.اب دیکھو گندم جس کو مالک نے زمین میں ڈال دیا اس کے متعلق ہمارے رب کریم نے کہا میں اس کی پرورش کر دوں گا اور ایک سے سات سو بنادوں گا اور یہ اس لئے کہ اس کی ربوبیت سارے عالمین میں کارفرما ہے.سورج، چاند اور ستاروں کے علاوہ بعض ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچی.غرض یہ کائنات اور اس میں موجود کروڑوں کیڑے جو انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اُن کو پیدا کیا اور ان کی ربوبیت کرتا چلا جا رہا ہے.احسان کی دوسری خوبی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت میں مضمر ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جاندار کو (صفت ربوبیت میں جاندار یا غیر جاندار کا سوال نہیں ہے ) درخت ہیں.پتھر ہیں، کائنات کے یہ ایسے ذرے ہیں جن میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ زمرد بنا دیتا ہے.ایک کو حل بنادیتا ہے اور ایک کو سنگ مرمر بنا دیتا ہے اور کسی ذرے کو حکم دیتا ہے کہ تو مٹی کا ذرہ اسی طرح بنارہ لیکن تیری قیمت زیادہ ہے.اب اگر ساری دنیا میں زمیندار کو آپ پوچھیں کہ اگر اللہ کہے کہ اس کے کھیت کے ذروں کو ہیرے اور جواہرات بنا دیتے ہیں تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب میں کھاؤں گا کیا؟ پس مٹی کے جو ذرے، ہیرے اور جواہرات نہیں بنے اُن کی قیمت ہیرے اور جواہرات سے بھی زیادہ ہے.کیونکہ انسان بحیثیت مجموعی اُن کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا.پس ربوبیت کے جلوے ہر مخلوق دیکھتی ہے.پتھر ہو یا مٹی یا درخت ہوں یا پانی ہو یا ہماری کھیتیاں ہوں، جانور ہوں، انسان ہو.سب ربوبیت کے سائے تلے ہیں.رحمانیت فرمانِ خداوندی

Page 46

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۰ سورة الفاتحة ہر جاندار پر ہے اور ہر جاندار کو اس نے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی ہے یعنی اس کو شکل بھی ایسی دی کہ جو کام اس سے وہ لینا چاہتا تھا وہ لے اور اس کو سیرت بھی ایسی بخشی وہ صفات الہی کا مظہر بنے.گویا اس کو جسمانی لحاظ سے ایسی ظاہری اور باطنی شکل عطا کی کہ وہ خدا کی صفات کے رنگوں میں رنگین ہو سکے.بکری سے کہا کہ ہم تجھے ایسا جسم دیتے ہیں کہ تو درخت کے پتے بھی کھا جایا کر اور بھیٹر جس کی بہت ساری قسمیں ہیں اُن سے کہا کہ تو درخت کے پیتے نہ کھا بلکہ گھاس پھوس میں منہ ماراس میں سے تیرے لئے خوراک مل جائے گی.اونٹ سے کہا کہ جہاں بکری کا منہ نہیں پہنچتا وہاں تک اپنی گردن لے جا اور وہاں سے پتے کھا لے.پس اللہ تعالیٰ نے اُن جانوروں کی جو مختلف اغذیہ بنائی ہیں جن کے گوشت کو ہمارے لئے حلال کیا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا.اس نے ایسا اس لئے کیا کہ دوسری جگہ فرمایا تھا کہ میں نے تمہارے لئے متوازن غذا بنائی ہے اگر صرف درختوں کے پتے اور گھاس پھوس کھانے سے گوشت بنتا ہوتا تو پھر بکری ہی ہوتی اونٹ اور گائے بیل نہ ہوتے تو گوشت کے لحاظ سے انسان کی غذاؤں میں فرق آ جاتا.اس لئے انسانی جسم کو متوازن غذا بہم پہنچانے کی خاطر مختلف جانور پیدا کئے جو مختلف قسم کا چارہ کھاتے ہیں اور مختلف تاثیر رکھتے ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ انسان نے اُٹھایا کیونکہ اس کے لئے خدا نے بکری کو بھی قربان کر دیا اور بھیڑ کو بھی قربان کر دیا اس کے لئے اونٹ کو بھی قربان کر دیا اور بیل کو بھی قربان کر دیا حتی کہ جتنے حلال جانور ہیں ان کو قربان کر دیا.تا کہ انسان کے جسم کو متوازن قسم کی پروٹین مل جائے.جہاں تک انسان کا تعلق ہے ہر چیز اُس کے جذبات پر اثر انداز ہوتی ہے یعنی انسان کا جو مطلوب و مقصود ہے وہ ہے اپنے اپنے دائرہ میں مظہر صفات باری بننا.اب منظہر صفات باری بننے کے لئے تفصیل میں جاؤں تو بات لمبی ہو جائے گی.آپ یہاں بھی سوچیں اور گھروں میں بھی جا کر سوچیں ) مثلاً ٹانگیں عطا ہوئیں.مجھے اور آپ کو دوسری جگہ چل کر بھی جانا ہوتا ہے.کیونکہ بہت ساری صفات کے مظہر ہونے کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ چل کر جانا پڑتا ہے.استاد کو اپنے گھر سے اسکول جانا آنا پڑتا ہے اور اس کے لئے اس کے سکول پہنچنے کا انتظام ہونا چاہیے.غرض انسان نے صفات باری کا مظہر بننا تھا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی کروڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں.مثلاً انسان کو آنکھیں دیں.اس کو کان دیئے اس کو آنکھیں اور کان اس لئے دیئے کیونکہ

Page 47

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الفاتحة اس نے دنیا کا معلم بھی بننا تھا اور اس طرح دوسرے حواس دیئے علم کی ابتداء حواس کے ذریعہ کی حواس سے حاصل ہونے والی معلومات کو علم کہتے ہیں آنکھوں نے جو دیکھا اور کانوں نے جو سنا.ایک ایسا علم ہے جس کا ذریعہ گویا ہمارے حواس ہوتے ہیں.جہاں تک آنکھ کا تعلق ہے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے سامنے ایک خاص شکل کا میدان ہے.اس کے پرلے سرے پر کچھ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور خلقت کا ایک ہجوم بیٹھا ہوا ہے مگر میری آنکھ اس پیار کو نہیں دیکھ سکتی جو میرے دل میں سے چشمہ کی طرح نکل کر آپ تک پہنچتا ہے اور نہ آپ کا وہ تعلق دیکھ سکتی ہے جو آپ کی طرف سے مجھے ملتا ہے.(نعرے) لیکن میرے کان اظہارِ مسرت کے ان کلمات کو سنتے ہیں جو اس مجمع میں کہے جاتے ہیں مگر میرے کانوں نے اس کے پیچھے محبت و پیار کا جو جلوہ تھا وہ نہیں سنا.صرف ایک آواز سُنی ہے.علم حاصل کرنے کی ابتداء حواس کے ذریعہ ہوئی.پھر اللہ تعالیٰ نے زبان دی ہے.ہم سوال کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعہ علم کو بڑھا سکتے ہیں.سوال کرنا حصول علم کے لئے بڑا ضروری ہے اس لئے چھوٹے بچوں کو سوال کرنے دینا چاہیے.بعض دفعہ بچے اتنی کثرت سے سوال کرتے ہیں کہ استاد یا ماں باپ انہیں چھیڑ لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں چُپ کرو کیوں ہمارے کان کھاتے ہو.یہ طریق غلط ہے.اس طرح تو گویا تم حصول علم کا ایک دروازہ بند کر رہے ہو.بچوں کو سوال کرنے دو اور صبر سے اُن کو جواب دو.تمہیں اللہ تعالیٰ نے کان دیئے ہیں اس کے سوال کو سُننے کے لئے اور انہیں زبان دی ہے سوال پوچھنے کے لئے.پس اللہ تعالیٰ نے جس قسم کا کام لینا تھا اس کے مطابق انسان بنا دیا.انسان اپنے جسم اور اپنی طاقت کے لحاظ سے ہر دوسری مخلوق سے زیادہ طاقتور ہے.اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو شریعت نہیں دینی تھی.اس لئے گھوڑے کو وہ جسم نہیں دیا.نہ عقل اور سمجھ دی اور نہ علم کے حصول کے ذرائع دیئے ہیں.یہ انسان کا خاصہ ہے.اُسے عقل شعور عطا کیا کیونکہ اس نے حامل شریعت بننا تھا.دراصل وہ فکر جو حواس سے حاصل شدہ علوم اکٹھا کرتی ہے اور نتیجہ نکالتی ہے وہ جانوروں کو نہیں دی گئی.البتہ وہ عقل بتائی جو تحریر کی لیبارٹری میں جا کر دیکھتی ہے کہ میرے فکر نے صحیح نتا ئج بھی نکالے ہیں یا نہیں.گدھے اور شیر کو یہ عقل نہیں دی.خدا نے اُن سے جو کام لینے تھے اس کے مطابق انہیں جسم دے دیا اور جو انسان سے کام لینے تھے ان کے مطابق انسان کو جسم دے دیا.یہ تمام جلوے جو مخلوق خدا بالخصوص

Page 48

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۲ سورة الفاتحة انسان کی ذات میں ظاہر ہوئے.صفت رحمانیت کے مظہر ہیں.پھر ان حواس کے بقاء کے لئے انسان کو صورت اور سیرت بخشی.وہ خود باقی نہیں رہ سکتا.اس کو اس طرح نہیں بنایا کہ جس طرح ہم توپ کا گولہ پھینکتے ہیں اور وہ تباہی مچادیتا ہے اس میں بھی ایک جان ہوتی ہے.اس میں بھی ایک حرکت پیدا ہوتی ہے.وہ بھی زندگی کے مترادف ہے مگر توپ سے جو گولہ نکلا وہ جہاں گیا وہاں پھٹ گیا.بس قصہ ختم ہوا لیکن انسان نے تو ایک معینہ مدت تک باقی رہنا تھا.جب تک خدا تعالیٰ اسے زندہ رکھنا چاہے وہ زندہ رہتا ہے.اس کی قوتوں کو اُٹھانے اور پیدا کرنے اور بڑھانے والے سامان پیدا ہونے چاہیے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس کی بقاء کے لئے جن جن چیزوں کی اُسے ضرورت تھی وہ ان کے لئے مہیا فرما ئیں گویا یہ اس کا احسان ہے اور صفت رحمانیت کا مظہر ہے.پس صفت رحمانیت اُم الصفات اور اصل الاصول میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ انسان اُٹھاتا ہے کیونکہ جانوروں کو بھی انسان کی خاطر قربان کر دیا جاتا ہے.احسان کی تیسری صفت رحیمیت بھی ہے.اس کا بھی محض انسان سے تعلق ہے صفت رحیمیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی دُعا اور اس کی تفریح اور اعمال صالحہ کو قبول فرماتا ہے یہ اس کی رحیمیت ہے.اس طرح وہ انسان کو آفات اور بلاؤں سے بچاتا ہے اور اس کی کوشش میں جو خامی اور نقص اور کمزوری رہ جائے اس کو دُور کر دیتا ہے.اس کی کوشش کو ضائع ہونے سے بچالیتا ہے.سو ہمارا خدا بڑا رحیم خدا ہے.آپ میں سے ہر ایک دوست سوچے.بہت سے زمیندار دوست بیٹھے ہیں.وہ سوچیں کہ انسان سے سُستی اور غفلتیں ہوجاتی ہیں.کبھی نیند آ جاتی ہے اور اس عرصہ میں کھیتوں کا پانی ٹوٹ جاتا ہے.یا نہر کے پانی کی باری ہوتی ہے آدمی اُٹھ نہیں سکتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمین کے کچھ حصہ کو سو کا آ جاتا ہے.اسی طرح ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں جہاں انسان سے غفلتیں ہو جاتی ہیں.تاہم ایک طرف انسان کی کوشش ہے.دوسری طرف اس کی کمزوری ہے یہ دونوں ساتھ ساتھ بلکہ متوازی چل رہی ہوتی ہیں.خدائے رحیم اپنی رحیمیت کی صفت کے ماتحت انسانی کوششوں میں کمزوریوں کو دُور کرتا ، انسان کی کوششوں کو ضائع ہونے سے بچاتا اور سچی کوشش اور محنت کا پھل دیتا ہے.احسان کی چوتھی صفت صفت مالکیت یوم الدین ہے.صفت رحیمیت دُعا اور عبادت کے ذریعہ

Page 49

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۳ سورة الفاتحة w کامیابی کا استحقاق پیدا کرتی ہے.جس طرح بی.اے کا ایک نوجوان طالبعلم بڑی محنت کرتا ہے اور بڑے اچھے پرچے کرتا ہے.نتیجتاً وہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہو جاتا ہے.بظاہر وہ کامیاب تو ہو گیا لیکن اس معنی میں وہ کامیاب نہیں ہوا کہ اس کو نوکری بھی مل گئی.اس کو یہ کہہ دیا گیا کہ تم اس قابل ہو گئے ہو کہ جہاں ایک اچھے گریجوایٹ کو لگایا جاتا ہے.وہاں تمہیں بھی لگایا جا سکتا ہے اور بس لیکن دُنیا کی بادشاہتیں جس چیز کو نظر انداز کر دیتی ہیں ہمارا مالک خدا اپنی صفت مالکیت کے نتیجہ میں اس کا ثمرہ بھی عطا کرتا ہے.ہمارارب انسان کو صرف یہی نہیں کہتا کہ اے میرے بندے تو میری رضا کی جنت کا مستحق ہو گیا.بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے اُدْخُلِي جَنَّتِي ( الفجر : ۳۱) آ اور میری جنت میں داخل ہوجا کیونکہ میں مالک ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کی وہ چار بنیادی صفات ہیں جن کو اُتم الصفات اور اصل الاصول صفات کہا گیا ہے اور قرآن کریم کی سورۃ الحمد میں بیان ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان اصل الاصول چار صفات باری کی پہلی جلوہ گاہ انسان کامل کے دل کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکی.ان صفات کی پہلی جلوہ گاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے.آپ کے دل پر ان صفات کا جلوہ نازل ہوا.پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ آپ ان چار ام الصفات کے مظہر اتم ہیں.مثلاً قرآن کریم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.قرآن کریم نے یہ بھی کہا کہ محبوب خدا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں.چنانچہ سورۃ انبیاء میں فرما یا مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) - گویا صفت ربوبیت کے مظہر اتم ہونے کا جلوہ رحمتہ للعالمین کی شکل میں ظاہر ہوا.آپ سے پہلے جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ رحمت تو تھے لیکن رحمتہ للعالمین نہیں تھے.ربوبیت کے مظہر تو تھے لیکن ربوبیت کاملہ کے مظہر نہیں تھے.حضرت موسیٰ آئے تو اُنہوں نے فرمایا کہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح اور ترقی میرے مد نظر ہے.مجھے کسی اور قوم سے کیا غرض ؟ اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے رحمت تھے.اس میں کوئی شک نہیں لیکن عالمین کے لئے رحمت نہیں تھے.خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر تو تھے لیکن رب العالمین کی صفت کے مظہر نہیں تھے.رب العالمین کی ربوبیت کا ملہ کا کامل مظہر وہ دل تھا جس پر ربّ العالمین کا جلوہ نازل ہوا

Page 50

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۴ سورة الفاتحة اور اس نے اس پاک وجود کو رحمتہ للعالمین بنا دیا.آپ کا دل بنی نوع انسان کے لئے گداز ہوا.آپ کا سارا ما حول عرب تھا لیکن آپ کا دل ہے کہ رحمتہ للعالمین کی موجوں سے لبریز تھا.آپ نے جزیرہ نمائے عرب سے یہ اعلان کیا کہ کالے اور سفید میں کوئی فرق نہیں.سرخ اور سفید میں کوئی فرق نہیں.عرب اور عجم میں کوئی فرق نہیں ہے.یہ جذبہ اور یہ انسانی قدر و منزلت رحمتہ للعالمین کا نتیجہ ہے.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام ( جو اپنی اپنی قوموں اور زمانوں کے لئے رحمت تھے ) ان کا نہ یہ جذبہ ہے اور نہ اُن کے بس کی یہ بات ہے.پس خدا نے فرمایا.میں رب العالمین ہوں اور خدا نے فرمایا کہ میرا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کو لیں تو وہ ساری دنیا پر محیط ہیں.آپ کی ہدایت اور تبلیغ کو سامنے رکھیں تو وہ ساری دنیا پر مند ہیں.گو یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیامت تک کے لئے فیض رسانی کا ذریعہ بنادیا.یہ چیز تھی جو آپ لائے.آپ ساری دنیا کے لئے نبی اور آپ سارے زمانوں کے لئے ہیں.نہ پہلے انبیاء کی مکانی وسعت ساری دنیا تھی اور زمانی وسعت قیامت تک کا زمانہ تھا.رحمانیت کو لیں.یعنی بغیر اجر دینے والا تو اس میں بھی آپ کی ذات اُسوہ کا رنگ رکھتی ہے.رحمانیت کے جلوے مجاہدہ کے محتاج نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے سورج بنایا.ہم نے کب سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھانے کی خاطر کوئی مجاہدہ کیا تھا.یا کوئی نمازیں پڑھی تھیں.یا کوئی قربانیاں دیں تھیں.یا کوئی خدمت خلق کی تھی.ہماری پیدائش سے ہی نہیں بلکہ آدم کی پیدائش سے بھی پہلے اس کارخانہ عالم کی ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا.اسی طرح بے شمار چیز میں صفت رحمانیت کی مظہر ہیں.اس کے لئے انسان کو کچھ کرنا نہیں پڑتا.اللہ تعالیٰ کی یہ صفت خود بخود جوش میں آتی ہے اور جانداروں کے لئے وہ کسی عمل کے بغیر نعماء اور فیوض کے چشمے جاری کر دیتا ہے.پس خدا کی دوسری بنیادی صفت رحمانیت ہے.یعنی بغیر کسی عمل کے فیض پہنچانا او نفع پہنچانا اور نعمتوں سے مالا مال کر دینا.چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہیں اس لئے آپ نے اپنی صفت رحمتہ للعالمین کی رُو سے سب اقوام اور قیامت تک کی نسلوں سے کہا ما اسلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ (الفرقان: ۵۸) میں تمہارے پاس جو ہدایت لایا ہوں اس پر میں تم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا.میں تمہارے کسی عمل کے نتیجہ میں تمہیں یہ کامل شریعت نہیں دینا چاہتا بلکہ اس خداداد محبت کے نتیجہ میں دینا چاہتا ہوں جو

Page 51

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۴۵ سورة الفاتحة میرے دل میں تمہارے لئے موجزن ہے.پس اس سے ظاہر ہوا کہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں ہے اور آپ رحمانیت کے بھی مظہر اتم ہیں.خدا کی تیسری صفت صفت رحیمیت ہے.آپ صفت رحیمیت کے بھی مظہر اتم ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب: ۴۴) یعنی مومنین کے لئے آپ کی ذات بحیثیت رحیم کے ہے.مال کو ضائع ہونے سے بچانا.نیکیوں کا اجر دینا، یہ صفت رحیمیت باری تعالیٰ میں اصل ہے.اس کے مقابلہ میں فرمایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی تمام بنی نوع انسان کے لئے رحیم ہیں.جو شخص خدا کی آواز پر لبیک کہتا ہوا (خواہ وہ کسی زمانے یا کسی ملک یا کسی قوم کا فرد ہو ) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آجائے گا اور آپ کی اتباع کرے گا اور آپ کی ہدایت اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھے گا.اس کا عمل ضائع نہیں ہو گا.اس کا اُسے ثمر مل جائے گا.یا کم از کم اس کے ثمرہ کا استحقاق ضرور پیدا ہو جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." آپ کے صحابہ نے جو منتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھائیں وہ ضائع نہیں ہوئیں.بلکہ اُن کا اجر دیا گیا.(احکام ۱۰ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰) گویا آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کی قوت قدسیہ کے ذریعہ ثمرہ کا استحقاق پیدا ہو جائے گا.خدا تعالیٰ کی چوتھی صفت مالک یوم الدین ہے اور یہ بھی اُتم الصفات میں سے ہے.اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے دعویٰ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالکیت یوم الدین کے کامل اور اتم مظہر ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی کئی آیات میں اس کا ذکر ہے.اس وقت میں ایک آیت پڑھوں گا.قرآن کریم نے کہا.إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحاً مبينا (الفتح : ٢ ) اور اس فتح مبین اور فتح عظیم کی ایک بڑی زبر دست متجلی فتح مکہ کے موقع پر ظاہر ہوئی.اس دن ایک مالک اور قادر کی حیثیت سے (اللہ تعالیٰ کے مظہر ہونے کی حیثیت سے اس میں کوئی شک نہیں) آپ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے.عدل کرنے کے لئے بلکہ مالکیت کا جلوہ دکھانے کے لئے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھا.وہ لوگ جنہوں نے مگی زندگی کے تیرہ سال آپ کو اور آپ کے متبعین کو انتہائی تکالیف اور دُکھ پہنچائے تھے اُن سے کہا بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی توقع رکھتے ہیں جو

Page 52

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۶ سورة الفاتحة یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.اس وقت تک اہلِ مکہ یہ سمجھ چکے تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے بھی مظہر اتم ہیں.چنانچہ اس فتح عظیم کے دن جب کہ اہل مکہ کی قسمتوں کا فیصلہ ہو چکا تھا.آپ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ تمہیں معاف کیا اور معاف بھی کیا تو اس رنگ میں کیا کہ کہا میں تمہارے پاس نہیں ٹھہرتا کیونکہ اس سے میری اس صفت میں فرق آتا ہے.آپ اور آپ کے صحابہ کی جائیداد میں آپ کے وہ مکانات اور حویلیاں جو مکہ اور اس کے گردو نواح میں چھوڑی تھیں وہ آپ نے واپس نہیں لیں.آپ نے فرمایا میں خدا کا پیغام لے کر تمہاری طرف آیا تھا.تم نے مجھے قبول نہیں کیا اور تم نے ہماری جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور ہمیں مکہ سے باہر نکال دیا.اب میں خدا کی صفتِ مالکیت کا مظہر اتم ہونے کی حیثیت میں تمہارے پاس آیا ہوں.یہ جائیدادیں یہ مال و متاع یہ کوٹھیاں یہ حویلیاں سب تمہیں دیتا ہوں.یعنی مالک ہونے کے لحاظ سے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کسی چیز کا بھی تم سے بدلہ نہیں لیا جائے گا.جاؤ خدا کی فوج میں داخل ہو جاؤ اور خدا کی نعمتوں پر شکر بجالاؤ.پس قرآن کریم کا یہ دعوی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاروں ام الصفات کے کامل اور اتم طور پر مظہر ہیں.یہ چاروں صفات وہ ہیں جس کا بیان ہمیں سورۃ فاتحہ میں نظر آتا ہے.ایک حدیث بھی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے لوائے حمد عطا کیا گیا ہے اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آپ نے صفات باری کے مظہر اتم تھے جو بنیادی طور پر سورہ حمد میں پائی جاتی ہیں.اُن کا آپ کو جھنڈ ا عطا کیا گیا ہے.میں نے وقت کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی مثالیں دی ہیں.قرآن کریم نے سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات بیان کی ہیں.جنہیں اُم الصفات یا اصل الاصول کہہ سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری صفات کے مظہر اتم ہیں.تمہیں ہر صفت کے متعلق تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں.میری بنیادی صفات ہیں اُن کے آپؐ مظہر اتم ہیں.تم دیکھ لو.آپ رحمتہ للعالمین ہیں.آپ کی زندگی میں رحمانیت کے جلوے نظر آتے ہیں.آپ کی زندگی میں رحیمیت اور مالکیت کے جلوے کامل طور پر نظر آتے ہیں ایسے جلوے نہ کسی نے پہلے دکھائے اور نہ کوئی آئندہ دکھا سکتا ہے.کیونکہ نہ پہلوں کو وہ استعداد ملی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اور نہ بعد میں آنے والوں کومل سکتی ہے.

Page 53

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۴۷ سورة الفاتحة یہ نکتہ اور یہ مسئلہ بڑا اہم ہے کہ گو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صفات کا مظہر اتم بنایا گیا مگر خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بت بنالو اور ان کی پوجا کرنے لگو.بلکہ خدا نے یہ فرمایا کہ میرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے اتنے قریب آ گیا ہے کہ کوئی طاقت اتنی قریب نہیں آسکتی یہ صرف صرف میرے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حاصل ہوا ہے اس نے انسانی طاقتوں کے لحاظ سے جتنا قرب حاصل کیا جا سکتا تھا اُس نے اتنا قرب حاصل کر لیا ہے.اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہیں.ہم بھی اپنی اپنی طاقت کے مطابق تقرب الہی حاصل کر سکتے ہیں.غرض پہلی بات یہ تھی کہ اپنی قوتوں کی نشوونما کو کمال تک پہنچاؤ.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وس کے اُسوہ حسنہ کو مد نظر رکھو.دوسرے یہ کہ انسان کو تمام قو تیں اور طاقتیں صفات باری تعالیٰ کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں.تیسرے یہ کہ انسان کے صفات باری کا مظہر بننے کی علامت یہ ہے کہ اس کے وجود میں بھی حسن و احسان کے جلوے نظر آنے لگیں.کیونکہ خود صفات باری میں بھی ایک جلوہ حسن کا اور دوسرا احسان کا نظر آتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ایک جلوہ حسن کا اور دوسرا احسان کا نظر آتا ہے.جس طرح خدا نور ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ٹو ر کہا گیا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفات باری کے مظہر اتم ہونے کے لحاظ سے اور لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك (موضوعات كبير حرف اللام) کے بلند ترین شرف سے مشرف ہونے کی وجہ سے اس سارے جہان کا نور ہیں.آپ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک ذریعہ بن گئے ہیں.اُسوۂ نبوی کا تیسرا بنیادی نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اور اُن کے مظہر اتم کی صفات کے جلوؤں میں ایک پہلوحسن کا ہے اور دوسرا احسان کا ہے.اس لئے تمہارے اندر بھی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے لحاظ سے حسن و احسان کے جلوے ظاہر ہونے چاہئیں اور اس غرض سے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.قرآن کریم نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے اور ہم سے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) کی رُو سے وعدہ کیا گیا ہے

Page 54

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۸ سورة الفاتحة کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو اُسوہ حسنہ رکھا ہے اپنے دائرہ استعداد میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اندر صفات باری کے مظہر بنیں گے اور دُنیا کو حسن و احسان کے جلوے دکھا ئیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر لیں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.آپ کے نقش قدم پر چلنا انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتا ہے ).جب ایک انسان کچے دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کر پورے صدق وصفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپ کے ساتھ ہو جاتا ہے.وہ الہی نور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا ہے.اس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے اور اس کے ہر ایک عضو میں سے محبت الہی کا نور چمک اُٹھتا ہے تب اندرونی ظلمت بکلی دور ہو جاتی ہے.علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہو جاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہو جاتا ہے.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۸۱ ) جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والوں کا پہلا فرض یہی ہے کہ یہ چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا یہی تقاضا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بنا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بہرہ نہ رکھنا ایک ایسا امر ہے کہ اللہ کی سچی عبادت کرنے والا کمال محبت سے اس الہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے اور خود بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر پیدا کرتا اور اپنے اندر پیدا ہے تا اپنے محب کے رنگ میں آجائے.“ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنے کا جوحکم دیا اس کو یاد دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے اندر صفت ربوبیت پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں انسان اور غیر انسان کے مربی بننے کی کوشش کریں.یعنی انسان تو کیا جانوروں کو بھی اپنی مربیانہ صفت سے بے بہرہ نہ رکھیں.ہمارے جماعتی پروگرام اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں.دنیا دیکھتی 66

Page 55

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۹ سورة الفاتحة ہے اور بڑی حیران بھی ہوتی ہے کہ ہمیں اس ملک میں اپنے آرام اور سکھ بھی عام لوگوں جتنے نصیب نہیں ہیں ہم ایک غریب قوم ہیں مگر خدا تعالیٰ کی رضا کو ہر حال میں دنیوی مرضیات پر ترجیح دیتے ہیں.ہمارا زمیندار اگر ہفتہ میں ایک دفعہ مزیدار سالن کے ساتھ روٹی کھا سکتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں وہ بھی نہیں کھاتا میں اس لذت کو کھوتا ہوں آخر وہ کیا چیز ہے جو اس جذبہ کے پیچھے کام کر رہی ہے.دنیا حیران ہے بعض دفعہ وہ ہمیں بیوقوف بھی سمجھتی ہے.کیونکہ وہ خدا اور اُس کے حسن سے بے بہرہ ہے اور یہ امر ہمارے لئے غم اور افسوس کا باعث ہے کہ لوگ خدا کی صفات سے کیوں غافل ہیں.پس ہمارے پروگرام بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور ہمیں اس کی طرف توجہ دینی چاہیے.بعض جاہل اور کم علم لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں کہ اپنے ملک میں تو کچھ نہیں کرتے اور غیر ملکوں میں توجہ دیتے ہیں.ہم تو پیدا ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ غیروں کی خدمت کریں.اگر غیروں سے تمہاری مراد باہر کے ممالک ہیں تو وہ بھی مستثنی نہیں ہو سکتے.ہمیں پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ہر وہ جگہ جس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جلوے نظر آتے ہیں وہاں ہم پہنچیں اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے جلوؤں کے ساتھ اپنی استعداد کے مطابق اپنی ربوبیت کے تھوڑے بہت جلوے بھی شامل کر دیں.پھر خدا تعالیٰ چونکہ بڑا مہربان ہے وہ کہتا ہے میرے بندوں نے سب کچھ کیا ہے حالانکہ کیا اُس نے خود ہوتا ہے لیکن وہ اپنی رحمت سے ہمارے لئے برکتوں کے سامان پیدا کر دیتا ہے.میں نے کل آپ کو بتایا تھا پندرہ مہینے میں طبی مراکز اور سکولوں کی آمد پنتالیس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے.فالحمد لله على ذلك.پھر اسی آمد میں سے ہم نے خرچ کیا گو ابتدائی خرچ تو اس پیسے میں سے ہوا تھا جو جماعت نے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں دیا تھا لیکن بعد میں اصل سرمایہ واپس آگیا اور آمد میں سے خرچ کیا گیا.دنیا کہتی ہے جماعت احمدیہ نے خرچ کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.ایک ملک کے ہائی کمشنر ( مصلحت میں ملک کا نام نہیں لوں گا ) نے کہا جس رنگ میں جماعت احمد یہ کام کر رہی ہے ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اگلے آٹھ سال میں ہمارے ملک کی ۸۰ فیصد آبادی احمدی ہو چکی ہوگی اور اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو کہہ دیا کہ ابھی سے احمدیت میں داخل ہو جاؤ آٹھ سال کے بعد احمدی ہوئے تو کوئی مزہ نہیں ہوگا.ایک پاکستانی دوست

Page 56

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة الفاتحة نائیجیریا میں تھے.وہاں سے اُن کا کسی اور ملک میں تبادلہ ہوا تو وہ ایک احمدی دوست سے کہنے لگے کہ خاموشی کے ساتھ مگر نہایت تندہی کے ساتھ جماعت احمدیہ نائیجیریا میں تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے.اب دیکھو وہ خود احمدی نہیں ہے لیکن اس کا تاثر یہ تھا کہ جماعت احمد یہ ترقی کر رہی ہے.تاہم جماعت احمدیہ نہ تو خاموشی سے کام کر رہی ہے اور نہ دنیا کی واہ واہ اس کے مد نظر ہے.ہم نے لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا (الدھر:۱۰) کی رُو سے دُنیا سے یہ نہیں کہنا کہ وہ ہمارا شکر ادا کرے.پس یہ ہے ہمارا علم اور یہ ہے ہمارا لائحہ عمل.ہم دنیا سے نہ شکر گزاری کے متمنی ہیں اور نہ کسی سے کوئی بدلہ مانگتے ہیں.ہم تو خدا تعالیٰ کے بندے بن کر بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے میدانِ جہاد میں برسر پیکار ہیں.خدا نے فرمایا کہ میں جن و انس اور انسان اور غیر انسان کا رب ہوں.ہم اپنے ملک سے باہر نکلے اور ہم نے کہا کہ اپنے رب کی اس صفت کا صحیح مظاہرہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ہم دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر اپنے رب سے کہیں کہ ہمیں جتنی طاقت ہے اتنے ہم پھیلے اور تیری ربوبیت کے جلوؤں میں اپنی حقیری کوشش ہم نے بھی شامل کر دی.اے خدا تو اپنے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرما اور ان کے بہترین نتائج پیدا کر.پس یہ ہے ہمارا پروگرام اور یہ ہے ہماری کوششوں کا منتہائے مقصود.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں رحمان ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے کسی چیز کا اجر نہیں مانگتا یہ رحمانیت کے معنی اور مفہوم کا بنیادی تصور ہے.یعنی بغیر کسی عوض کے خدمت کرنا اور مخلوق خدا پر رحم کرنا.جو شخص خدا تعالیٰ کا سچا عاشق ہے اور اس کے جلوؤں کو دیکھتا ہے اور اس کی صفات کی معرفت رکھتا ہے اور اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو اور بنی نوع انسان کی خدمت بغیر کسی اجر کے کرتا رہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.گالیاں سن کر دُعا رو اب گالی دینا کوئی خدمت تو نہیں جس کے بدلے میں کسی کو دُعا دی جائے کہ گویا کسی کی خدمت کا بدلہ اُتارا جا رہا ہے.بلکہ وہ تو خدمت کی ایک بھیانک شکل میں نفی ہے مگر گندہ دہانی کرنے والا شخص جس کی گندہ دہانی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو وہ بھی یہ یادر کھے کہ وہ ہمارے احسان سے بچ نہیں سکتا.وہ اپنی محفلوں کو ہمیں گالیاں دے کر سجاتا ہے.ہم اپنی راتوں کو ان

Page 57

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۱ سورة الفاتحة کے لئے دعائیں کر کے منور رکھتے ہیں.ہمارا خدا رحمان ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اس کی صفت رحمانیت کے مظہر کے طور پر اس کے جلوؤں میں اپنی طرف سے تھوڑی سی چاشنی ملا دیں.تاکہ اس کی رحمتوں کے ہم بھی وارث بن جائیں.یہ ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں.خصوصاً اس ضمن میں وہ بڑی ضروری ہیں.کئی لوگ ایسے موقع پر غصے میں آ جاتے ہیں.ویسے تو یہ انسانی فطرت ہے.غصہ میں آنا نہ بُرا ہے اور نہ قابلِ اعتراض ہے.تاہم غصے کو نہ دبانا یہ بُری بات ہے.میں نے بتایا تھا کہ ایبٹ آباد میں ہمارے مکان بن رہے تھے.بعض لوگوں نے ان کو آگ لگادی جس سے ہمیں پچیس ہزار روپے کا نقصان ہو گیا.ہمارے بعض احمد یوں نے بڑے غصے کا اظہار کیا.میں نے اُن سے کہا تم بڑے عجیب لوگ ہو.تم یہ بنیادی بات بھول جاتے ہو کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اتنا بلند مقام عطا فرمایا ہے اور اس کے اندر اتنی طاقت اور وسعت پیدا کر دی ہے کہ یہ ہیں پچیس ہزار روپے کی رقم اس کے لئے ایسی ہے جیسے ایک مضبوط جسم پر ایک مکھی آکر بیٹھ جائے.کیا وہ مضبوط جسم اس مکھی کے بوجھ تلے دب جایا کرتا ہے.نہیں ! ہرگز نہیں!! ہم ان کی ان حرکتوں کے نتیجہ میں ان کے دشمن نہیں بنتے.بلکہ ہمارے دل میں اُن کے لئے رحم کی موجیں اور زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہیں کہ قرآن کریم ایک حسین تعلیم تھی یہ اس سے غفلت برتنے والے ہیں اور اس کے کمالات سے بے خبر ہیں.قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کوئی شخص اگر تم پر احسان نہ بھی کرے تب بھی تم اس پر احسان کرو.یہ وہ لوگ ہیں جن پر ہم احسان کرتے ہیں وہ ہمیں مٹانے کے درپے ہیں.ہم ان سے جزا اور شہ رشکر کا مطالبہ نہیں کرتے مگر وہ ہمیں مٹانے کے درپے ہیں.وہ قرآن کریم کی تعلیم کو بھول جاتے ہیں.ہم ان کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور وہ ہمیں گالیاں دے رہے ہیں اور نقصان پہنچانے کے درپے ہیں.قرآن کریم نے ایک جگہ کہا ہے کہ یہ لوگ استہزاء کر رہے ہیں اور اے رسول! تو ان کی ان حرکتوں پر تعجب کر رہا ہے.خدا نے ان کے لئے ایک عزت کا سامان آسمان سے بھیجا.اور وہ اپنی عزیت اور شرف کے سامان کو پہچانتے ہی نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو بھی بطور مظہر اتم کے دنیا پر ظاہر فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نصیحت فرمائی ہے کہ اپنے اپنے

Page 58

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۲ سورة الفاتحة دائرہ استعداد میں کمال کو پہنچانی چاہیے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو ٹھیک کام کرنے والے ہیں ان کے کام کی تکمیل میں اُن کی مدد کرنا ضروری ہے.صفت رحمانیت کے زیادہ ظاہری جلوے وہاں عیاں ہوں گے جہاں یہ جلوہ ظاہر ہورہا ہے.اس کا جماعت سے تعلق نہیں اور رحیمیت کا جلوہ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المائدة: (۳) کے ماتحت ظہور پذیر ہوگا.کوشش کرو کہ جو نیک کوشش میں مصروف ہے وہ اپنے مطلوب کو حاصل کر لے.یعنی اپنی زبان میں احمدیت کی زبان میں یا اسلام کی زبان میں بات کریں تو کوشش کرو کہ تمہاری نوجوان نسل جو اس لئے پیدا کی گئی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے ان کی تربیت درست ہو اور وہ جو کوشش کر رہے ہیں اس میں تم ان کے مددگار بنو اور ان کا ہاتھ بٹاؤ.ان کے ساتھ چلو.ان کی رہنمائی کرو اور ان سے پیار کرو اور ایسا پیار کہ اس دُنیا میں اس سے زیادہ پیارا نہیں کہیں نظر نہ آئے.وہ سمجھ جائیں اور یہ حقیقت پہچان جائیں کہ وہ کس غرض کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.یادرکھو اپنے مطلوب کو حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.اپنی کوشش اور اپنے بھائی کی مدد اور اس کا ساتھ دینا.اس طرح کرنے سے ہم صفت رحیمیت کے مظہر بن جائیں گے اور جماعت کو ایک بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بنا دیں گے.اس لئے نہیں کہ اس سے میں نے یا آپ نے کوئی ذاتی فائدہ اُٹھانا ہے بلکہ اس لئے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے اور وہ اس عظیم ہستی کی عظیم فوج کا ایک سپاہی بن جائے.جس کے ذریعہ سے دنیا کے گھر گھر میں اللہ تعالیٰ کے نور کے چراغ روشن ہوئے ہیں اور جن مکانوں کے او پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا لوائے حمد لہرایا جانا ہے.پھر جماعت کو مالکیت یوم الدین کا بھی مظہر بننا ہے.ہم اس کی بھی کوشش کرتے ہیں.ساری جماعت مل کر کوشش کرتی ہے.اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے.کوئی فیصلہ نفس کے جوش سے نہیں کرنا چاہیے ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اسلامی تعلیم کے مطابق ہونا چاہیے اور اس فیصلہ سے فضائی فیصلہ مراد نہیں ہے.اس فیصلہ سے ثالثی فیصلہ مراد نہیں ہے.بلکہ ہر کام کے کرنے سے پہلے جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ فیصلہ مراد ہے.صبح سے لے کر شام تک آپ کا جو وقت گذرتا ہے.اس میں آپ اس قسم کے سینکڑوں فیصلے کرتے ہیں.مثلاً آپ نے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے.ان میں سے ہر ایک سے بوجہ طبیعتوں کے اختلاف کے علیحدہ علیحدہ سلوک کرنا ہے.آپ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اگر مثلاً

Page 59

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۵۳ سورة الفاتحة کسی کی بیوی غفلت کر جائے تو غصہ میں نہیں آنا.پچھلے دنوں مجھے بڑا ڈکھ پہنچا جماعت کے ایک کارکن کی بیوی آپا مریم صدیقہ اور منصورہ بیگم کے پاس آئی اور بتایا کہ اُس کے خاوند نے اسے اتنی بے رحمی سے مارا ہے کہ اس کا سارا جسم نیلا ہوا ہوا ہے.تم خدا کی طرف اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور اس کے محبوب مہدی کی طرف منسوب ہوتے ہو.تمہارے کان میں تو یہ آواز پڑ رہی ہے کہ مالکیت یوم الدین کی صفت کے مظہر ہو لیکن اپنے نفس کے جوش سے ظلم اور وحشت کا مظاہرہ کرتے ہو.احباب جماعت ایسے لوگوں کے لئے دُعا بھی کریں.پس مالکیت یوم الدین کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ نفس کے سارے جوش ٹھنڈے ہو جائیں.سوچو اور غور کرو.بعض دفعہ جوش آ بھی جاتا ہے.اس قسم کی کیفیت فطرتی لازمہ ہے.مثلاً کہیں جلسہ ہو رہا ہے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جا رہی ہیں.ایک وقت میں غیر ملکوں میں اسلام کے خلاف سخت گندے اعتراض کر دئیے جاتے تھے.دنیا کے ایک حصے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی گئی اور گندہ اعتراض کیا گیا اور دنیا کے دوسرے حصہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی معہود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں اور گندے اعتراضات کر دیئے گئے.جہاں بھی یہ اعتراض ہو وہاں ہمارے نفس جوش میں نہیں آنے چاہئیں.خدا تعالیٰ کے ایک بندے کی روح میں وہ رد عمل پیدا ہونا چاہیے کہ خود خدا کہے کہ میرا بندہ میرا محبوب ہے یہ غلط قدم نہیں اٹھاتا.گالیوں میں گالیاں ملا کر گند اور عفونت کی آواز کو ہم نے بلند نہیں کرنا بلکہ گالیوں کے گندے شعلوں کو اپنے آنسوؤں اور دعاؤں سے بجھانے کی کوشش کرنی ہے.اس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.یہی ہماری زندگی ہے.یہی ہماری روح ہے اور یہی ہمارا شعار ہے.اس کے بغیر تو کوئی زندگی نہیں ہے.اگر ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ دینا ہے.اگر ہم نے اس سے کوئی پیار نہیں کرنا.اگر ہمارے دل میں مہدی معہود کے لئے کوئی پیار نہیں تو کیا کرنا ہے زندہ رہ کر.اگر خدا سے دور ہی رہنا ہے تو پھر زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے.مزہ تو اس میں ہے کہ خدا کہے کہ تکلیفیں برداشت کرو.ہم ان تکلیفوں کو برداشت کریں اور ہمیں پتہ یہ لگے کہ ان میں خدا نے ہمارے لئے سرور پیدا کر دیا ہے.ایک دفعہ خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ جن لوگوں کو آپ خدا کے پیارے اور محبوب کہتے ہیں اُن پر دُکھ کیوں آتے ہیں ان پر ابتلاء کیوں نازل ہوتے ہیں.آپ چونکہ خود صاحب تجربہ تھے

Page 60

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۵۴ سورة الفاتحة آپ نے مسکرا کر دیکھا اور فرمایا تم ان سے جا کر پوچھو ان ابتلاؤں اور امتحانوں کو ( جودشمن کی نگاہ میں دُکھ اور تکلیف کا موجب ہیں ) دکھ اور تکلیف سمجھتے ہیں یا ان میں نہایت لذت اور سرور پاتے ہیں.جب وہ اسے تکلیف ہی محسوس نہیں کرتے تو تم اسے تکلیف کیوں کہتے ہو.پس یہ خدا کی چار صفات ہیں جو اصول کے طور پر سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ ان چار صفات کا مظہر بنے اور اپنی زندگیوں پر ان کا رنگ چڑھائے.اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے اپنے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق کیا اُن کی اُنگلی پکڑی.ان کا ساتھی اور دوست بنا.ان سے پیار کرنے والا بنا.اُن کو اپنا محبوب بنایا.خود اُن کا محبوب بھی بنا اور اس طرح گویا ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اس عالمین کی یا ان افلاک کی جو غرض تخلیقی تھی وہ پوری ہو جائے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے اپنا عمدہ نمونہ پیش کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنانے کے لئے تمہارے سامنے جو نمونہ رکھا ہے.اس میں کوئی خامی کوئی کمزوری اور کوئی نقص نہیں ہے.جو صفات باری کا مظہر اتم اور مظہر اکمل ہے اور وہ ایک کامل اور مکمل اُسوہ حسنہ بن کر تمہارے سامنے آیا.اس اُسوہ حسنہ کے مطابق جو تمہیں قومی دیئے گئے.تعبد ابدی کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے ان کی نشو و نما کو کمال تک پہنچاؤ.خدا تعالیٰ کی صفات کے حسن و احسان کے جو جلوے خدا کی صفات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں نظر آتے ہیں وہ حسن و احسان کے جلوے تمہاری زندگیوں میں بھی نظر آئیں.تم رب بھی بنو خدا کے فضل اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر اندر اور اس طرح رحمان بھی بنور حیم بھی بنو اور مالک یوم الدین بھی بنو اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے جو دائرہ مقرر کیا ہے اس کے اندر رہو گے تو میری رضا کی جنتوں میں میری رضا کے ماحول میں رہو گے.باہر نکلو گے تو جہنم میں جا پڑو گے.اس لئے باہر نہ نکلنا.اپنے اپنے دائرہ میں اپنی زندگی گزارو.آپ کے سارے پروگرام، آپ کے سارے کام اور سارے فیصلے اور ساری تمنائیں اور دعائیں اور آپ کی زندگی کے سارے پہلو اسی حقیقت کے غماز ہونے چاہئیں حتی کہ آپ کے آخری لمحات میں بھی یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہونی چاہیے جب کہ انسان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوتا ہے اور خدائے رحمان سے کہتا ہے یا خدائے رحیم سے

Page 61

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث سورة الفاتحة کہتا ہے کہ اے خدا اس قسم کی ہزاروں موتیں بھی آئیں تیری رحمت اور تیرے فضل اور تیرے پیار کے مقابلہ میں یہ موتیں ہمیں کیسے ڈرا سکتی ہیں موت ہمارا منتہا نہیں.تیری رضا ہمارا منتہائے مقصود ہے اور تیرے فضل اور رحم پر منحصر ہے.خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۸۱ تا ۶۰۲) ہماری دعائیں سورۃ فاتحہ سے شروع ہوتی ہیں.سورۃ فاتحہ جو کہ پہلی سورۃ ہے اس میں اتنی زبر دست دُعائیں ہیں اور اتنی وسیع دُعائیں ہیں کہ ان کی وسعتوں میں تو اس مختصر سے وقت میں میں نہیں جا سکتا لیکن اس وقت کی دُعا بہر حال سورۃ فاتحہ سے ہی شروع کرتا ہوں.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات کا ذکر ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُمہات الصفات کہا ہے.یعنی ہمارا اللہ رب العالمین ہے.ہمارا اللہ رحمن ہے.ہمارا اللہ رحیم ہے.ہمارا اللہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے اور ہمیں یہ حکم ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا رنگ اپنے پر چڑھاؤ.اور پھر سورۃ فاتحہ میں یہ ذکر ہے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات ہیں ان صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ.ان صفات کے جلووں کے نتیجہ میں انسان کو بہت سی طاقتیں اور استعداد یں حاصل ہوتی ہے.اس لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ خدا سے یہ دُعا کرو کہ اے خدا جو قو تیں اور استعداد میں تو نے دی ہیں انہیں احسن اور بہتر رنگ میں استعمال کرنے اور ان استعدادوں سے پورے طور پر فائدہ اُٹھانے کی ہمیں توفیق عطا کر پھر چونکہ انسان ہمیشہ کی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی اے خدا جو کچھ تو نے دیا ہے اس سے جب ہم پورا فائدہ اُٹھا لیں تو وہ ہماری آخری منزل تو نہیں ہے اس کے بعد مزید منزلوں نے آنا ہے.پس ان کے لئے جن استعدادوں اور قوتوں کی ہمیں ضرورت ہو وہ ہمیں عطا کر اور اپنے صراط مستقیم پر ہمیں قائم کر دے اور اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرلے.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۸۸٬۸۷) خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تو یہ سلوک نہیں ہوتا وہ تو صرف پاس ہی نہیں کرتا ، وہ صرف رحیم ہی نہیں ہے، صرف استحقاق ہی پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ ملِكِ يَوْمِ الدین بھی ہے.ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے.وہ جب استحقاق پیدا کرتا ہے تو ساتھ یہ بھی کہتا ہے، یہ لو اور دنیا حیران ہے اور ہم اپنے پیارے ربّ کے پیارے جلوؤں کو دیکھ کر خوشی سے اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ میں تمہیں دُنیا کی طرح اجر نہیں دوں گا بلکہ میرا اجر تو اجر عظیم

Page 62

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة الفاتحة ہے.( عظیم عربی لغت کے لحاظ سے اس عظمت کو کہتے ہیں جس سے بڑھ کر کوئی عظمت نہ ہو ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اجر میں نے دینا ہے، اس سے بڑھ کر اجر تمہیں کہیں اور نہیں مل سکتا پس یہ عظیم اجر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور یہ عظیم اجر ہے جسے ہم عملا اللہ تعالیٰ سے وصول کر رہے ہیں اور جس پر ہم خوش ہیں.(خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۴۵۴) اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر چونکہ حقیقی پرستش نہیں کی جاسکتی اس لئے عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اس کے حضور عاجزانہ دعاؤں سے جھکیں کہ اپنی کوشش سے ہم اس حق کو ادا نہیں کر سکتے اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فرمایا اور ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اگر تم صحیح طریق پر عبادت کرنا چاہتے ہو تو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ یہ دعا کرتے رہا کرو کہ اے خدا ! عبادت کی خواہش تو ہم رکھتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اپنی قوت اور طاقت سے ہم اس فرض کو پورا نہیں کر سکیں گے جب تک تیری مدد ہمارے شامل حال نہ ہو اس لئے تو ہم پر رحم کر اور ہماری مد دکو آ اور ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تیری عبادت کو کما حقہ پورا کر سکیں.اس سورۃ میں انعام کی طرف بھی اصولاً اور بڑے حسین پیرایہ میں متوجہ کیا ہے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنے اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کی وجہ سے ہمارے دل میں جو سب سے بڑی تڑپ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنے رب کو پہچانیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کو مانتے ہوئے آپ پر درود بھیجنے لگیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ہوں اگر اور جب ہماری عبادت قبول ہو جائے اور خدا ہمیں کہے کہ میں جیسا کہ تیری خواہش تھی تمہاری مدد کو آیا اور میں نے تمہیں تو فیق عطا کی کہ تم صحیح معنی میں میرے عبادت گزار بندے بن جاؤ اب میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں بتاؤ کیا لینا چاہتے ہو؟ تو ہم میں سے ہر احمدی کی یہ ندا ہو کہ اے میرے رب تو نے ہم پر بڑا احسان کیا کہ ہمیں عبادت کی توفیق عطا کی تو نے ہم بڑا احسان کیا کہ تو نے ہماری ان عبادتوں کو قبول کیا اور تو ہم پر بڑا احسان کر رہا ہے کہ ان عبادتوں کو قبول کرنے کے بعد ہمیں اپنے فضلوں اور انعاموں سے نوازنا چاہتا ہے.ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اس دنیا میں بسنے والے تمام ہمارے انسان بھائی تمہیں پہچاننے لگیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم دنیا کی بہتری کے لئے لائے تھے وہ اپنی گردنیں اس تعلیم کے جوئے کے نیچے رکھ دیں اور ابدی

Page 63

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷ سورة الفاتحة جنتوں کے ہماری طرح وہ بھی وارث ہوں.پرستش کا دعوی کرنا اور یہ کہنا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں آسان ہے لیکن کرنا مشکل ہے کیونکہ عبادت صرف نمازیں پڑھنے کا نام نہیں قیام رکوع اور سجود کو ظاہری شکل میں بجالانے کا نام ہی عبادت نہیں ہے خالی زکوۃ دے دینا بھی عبادت نہیں محض روزے رکھنا بھی عبادت نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک روح ہے جس کی ضرورت ہے اگر ہماری نماز ، اگر ہمارے روزے، اگر ہماری زکوۃ اور اگر ہماری دوسری عبادات زندہ ہیں تو وہ قبول ہوں گی اگر مردہ ہیں تو جو مردوں سے سلوک کیا جاتا ہے وہی ان سے کیا جائے گا پرستش کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے پس روح کی ضرورت ہے جس کے لئے ہم اپنے رب سے دعائیں مانگتے ہیں وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم غیر اللہ کے وجود کو مٹائیں اور غیر اللہ میں پہلا وجود ہمارے اپنے نفس کا ہوتا ہے اگر ہم اپنے ہی ہاتھ سے اپنی نفسانی خواہشات کی گردن پر چھری پھیر کر انہیں اپنے رب کے قدموں میں نہ لا ڈالیں تو ہماری عبادت کیسے قبول ہوگی اللہ کہے گا کہ آدھے تم میری طرف جھکے اور آدھے تم اپنے نفسوں کی پرستش میں مصروف رہے اس قسم کی عبادتوں کو میں پسند نہیں کرتا حقیقی عبادت جیسا کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اس کی کریں اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے جو میں اس وقت پڑھ دیتا ہوں اور جس پر میں آج اپنے مختصر سے خطبہ کو ختم کروں گا.آپ فرماتے ہیں..انسان خدا کی پرستش کا دعوی کرتا ہے.مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پرستار الہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اٹھ جائے اول خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۴) اس طرف ہمیں خاص توجہ دینی چاہئے نام تو ہم اللہ کا لیتے رہتے ہیں اس کے نشان بھی بڑی کثرت سے ہماری جماعت دیکھتی ہے مگر وہ یقین کامل جو اس کی کامل ہستی اور اس کی قدرت اور اس کی دوسری صفات حسنہ پر ہونا چاہئے بعض دفعہ بعض احمدیوں کے دل میں بھی ان کے متعلق کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اس متاع حسین اور بڑی قیمتی متاع کی حفاظت ہر وقت ہر احمدی کو کرتے

Page 64

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رہنا چاہیے.آپ فرماتے ہیں.۵۸ سورة الفاتحة ”اول خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزش محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اس کی ذات سے وابستہ ہو اور اس کی درد میں لذت ہو اور اسی کی خلوت میں راحت ہو اور اس کی بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اسی پر توکل کرے اور اسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اس کی یاد کو سمجھے اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجالائے اور رضا جوئی اپنے آقائے کریم میں اس حد تک کوشش کرے کہ اس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت تلخ شربت ہے تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے ہیں اور اس شربت کو پیتے ہیں زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہنر نہیں مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور سچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا.یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اور جو

Page 65

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۵۹ سورة الفاتحة نص یہ عبادت بجالاتا ہے تب تو اس کے اس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵۰۵۴) 66 ވ خطبات ناصر، جلد دوم صفحه ۱۶۲ تا ۱۶۶) سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے الفاظ میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ مجھ سے مدد مانگنے سے قبل میری پہلی عطایا کی قدر کرو.میں نے تمہیں قو تیں، قابلیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں.تمہارے اندر رفعتوں کے حصول کا مادہ ودیعت کیا ہے.تمہارے لئے اپنے قرب کی راہوں کو آسان کیا ہے.میں نے تمہیں اپنا مقرب بنانے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے ان رفعتوں کے حصول اور ان سیدھی راہوں پر چلنے کے لئے میں نے جو سامان پیدا کئے ہیں تمہارا فرض ہے کہ تم ان کی قدر کرو اور اپنی تدبیر میں پوری طرح انہماک اور جدو جہد کے ساتھ مشغول رہو.......پس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں کو بھی اور اسی طرح انسان کو ملنے والی دوسری ہر قسم کی نعمتوں کو بھی صحیح اور پورے طور پر استعمال میں لانا نہایت ضروری ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے إيَّاكَ نَسْتَعینُ کے الفاظ میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ جب تم ہر عطائے الہی کو فضل الہی کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر لو گے اور اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دو گے تو پھر میرے پاس آنا اور نہایت عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر میرے حضور یہ عرض کرنا کہ اے خدا! تو نے اپنے فضل سے مجھے یہ قوتیں عطا کیں اور ان کی نشو و نما کے لئے ہر قسم کے سامان پیدا کئے.میں نے اپنی قوت کے مطابق اپنی طاقت کے مطابق اور اپنی استعداد کے مطابق تیرے عطا کردہ سامانوں کو تیری رضا کے حصول کے لئے استعمال کیا لیکن نہ تو میرا بھروسہ اپنی ان قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں پر ہے جو تو نے مجھے عطا کی ہیں اور نہ میرا تکیہ اُن اسباب پر ہے جو تو نے میرے لئے پیدا کئے ہیں.یہ قوتیں اور طاقتیں بے نتیجہ اور یہ استعدادیں بے کار ہو جاتی ہیں اور یہ اسباب بے سود ہو کر رہ جاتے ہیں اگر تیرا فضل شامل حال نہ ہو اس لئے تو اپنا فضل فرما اور اپنی رحمت سے ہماری کوششوں میں برکت ڈال تا کہ ہمیں اپنی زندگی کا مقصد حاصل ہو جائے.پس ايَّاكَ نَعْبُدُ میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں اور دوسری نعما کماحقہ استعمال کریں.اُن سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں، تدبیر کریں اور پھر اس کو انتہا تک پہنچائیں وو

Page 66

تفسیر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۶۰ سورة الفاتحة اور پھر اپنی کوششوں پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اُسی سے دعا کرتے رہیں اور اس کے حضور جھکے رہیں کیونکہ دین و دنیا کی کوئی بھی بھلائی اور بہتری اُس کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے سب سے بڑی نعمت قرآن عظیم ہے.یہ ایک مکمل ہدایت نامہ اور کامل شریعت ہے یہ سر چشمہ ہے ہر خیر کا، یہ منبع ہے ہر برکت کا اور یہ ذریعہ ہے ہر فیض کے پانے کا.لاریب یہ ایک عظیم کتاب ہے جس کی عظمتوں کی کوئی انتہا نہیں.اس عظیم کتاب کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ یہ کتاب مبین ہے یعنی اس کے وہ عمیق اسرار جو ہم سے پہلوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کئے اور ہم تک پہنچائے.جب تک اُن کے لئے ان اسرار اور ان رموز اور ان نئی سے نئی حکمتوں ، دلائل عقلیہ اور فلسفہ یا اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی نئی راہوں کی نشاندہی نہیں ہوئی تھی یہ ساری چیزیں قرآن کریم کے دوسرے حصے یعنی کتاب مکنون کا حصہ تھیں لیکن جب ہمارے اسلاف میں سے نامور بزرگوں نے قرآن کریم کے بعض حقائق کو ہمارے سامنے پیش کیا، اس کے اسرار اور رموز سے پردہ اُٹھایا، عقلی اور نقلی دلائل سے اس کی صداقتوں کو ثابت کیا تو ان کی اس تشریح و توضیح کے نتیجہ میں ہمارے لئے یہ کتاب مبین بن گئی کیونکہ اس کے رموز و اسرار پر سے پردہ ہم سے پہلے آنے والوں نے اُٹھایا تھا لیکن جس طرح گلاب کے پھول کی پتیاں ایک کے بعد دوسری کھلتی ہیں اور خود نمائی اور حسن و خوبصورتی کو دوبالا کرتی چلی جاتی ہیں.اسی طرح قرآن عظیم کی علم و عرفان کی باتیں گلاب کے پھول کی پتیوں کے مشابہ ہیں.جب اس کے پر حکمت کلمات پر سے پردہ اُٹھتا ہے تو ہمیں نیچے اور پتیاں نظر آتی ہیں.ایک نیا زمانہ آتا ہے ایک نئی نسل پیدا ہوتی ہے وہ قرآن مبین سے یعنی جو پہلے تفسیر ہو چکی ہے اس سے فائدہ اُٹھاتی ہے.پھر لوگ دعائیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے ان کیلئے نئی پتیاں کھلتی ہیں اسرار روحانی سے پردہ اُٹھاتے جاتے ہیں انہیں نئے طریقوں کا علم ہوتا ہے نئے علوم کا پتہ لگتا ہے.قرآن کریم کا ایک پہلو تو مبین ہے اور اس پہلو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر نسل اضافہ کرتی چلی آئی ہے اور ہر نسل ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کتاب مکنون اور اس کی حکمتوں کی وارث بھی بنتی رہی ہے.ہر نسل کو نئے سے نئے علوم حسب ضرورت اور بتقاضائے حالات دیئے جاتے رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے.اس نے کسی چیز کو بے سہارا نہیں چھوڑا.

Page 67

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث บ سورة الفاتحة ہمارے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تا شیروں نے اس انتہائی جوش کی حالت میں آئندہ زمانوں کے لئے بہت سے اسرار کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیئے اور جن کا ابھی وقت نہیں آیا تھا.اُن کے لئے یہ سامان پیدا کر دیئے کہ ان کا سمجھنا نسبتاً آسان ہو جائے کیونکہ ایک حد تک تفسیر ہو چکی ہے اور ایک حد تک باقی ہے.بہر حال اس وقت اس قرآن عظیم کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی کتب میں پائی جاتی ہے اگر ہم قرآن عظیم سے دین اور دنیا کی خیر حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں اگر ہم قرآن کریم کی ہدایتوں کی طرف متوجہ نہ ہوں گے اگر ہم قرآن کریم کے احکام کی پابندی نہیں کریں گے اگر ہم قرآن کریم سے اس قسم کا عشق نہیں کریں گے تو ہمیں دین اور دنیا کی بھلائی کس طرح مل سکتی ہے؟ ہمیں اس نعمت کی حتی المقدور قدر کرتے رہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تاثیرات سے ہمیں بھی کتاب مکنون کا حصہ ملتا ر ہے جو ہماری زندگی کی پریشانیوں کو دور کرنے والا اور اُلجھنوں کو سلجھانے والا ہو.پس اگر ہم مبین والے حصے کی جو دراصل ایک عظیم نعمت ہے جو ہمیں دی گئی ہے اس کی قدر نہ کریں اور اس سے فائدہ نہ اُٹھا ئیں تو ہماری دعائیں قبول نہیں ہوں گی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جو کچھ تمہیں دیا ہے پہلے اُس کی قدر کرو یعنی اُسے پورا پورا استعمال کرو اور اس سے کما حقہ، فائدہ اُٹھاؤ.پھر میرے پاس آؤ اور کہو اے خدا! تو نے ہماری فطرت میں ایک غیر محدود Urge ( خواہش ) ایک جذبہ اور ایک شوق رکھا ہے.ہم پہلوں سے جو حاصل کر سکتے تھے وہ ہم نے حاصل کیا اب ہم دعا کرتے ہیں کہ تو اپنے فضل سے ہم پر مزید ترقیات کے دروازے کھول دے اور ہمیں قرآن عظیم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اور قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے کی توفیق عطا فر مالیکن اگر ہم پر جو عطا ہو چکی ہے جو کچھ ہمیں مل چکا ہے ہم اس کی قدر نہ کریں اُس کا صحیح استعمال نہ کریں.اُس سے پورا فائدہ نہ اُٹھا ئیں تو ہماری دعا رد کر دی جائے گی.اس قسم کی دعا ہمارے منہ پر مار دی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میں نے تمہیں دیا ہے اس کی تو تم نے صحیح قدر نہیں کی اور اس سے تو تم نے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا اب جس چیز کو مجھ سے مانگ رہے ہو اس سے تم کیسے فائدہ حاصل کرو گے یا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کیسے کر سکو گے؟ پس

Page 68

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۶۲ سورة الفاتحة ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جو کچھ مل چکا ہے اس کی قدر کرو اور اس سے حتی المقدور فائدہ اُٹھاؤ ، اپنی قوت اور طاقت کے مطابق اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دو اور اس کے بعد میرے پاس آؤ اور مجھے سے مانگو ، میں تمہیں نبی نعمتیں دوں گا، میں تم پر اپنے فضلوں کے دروازے کھولوں گا.حضرت مسیح موعود ووو علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ ریاء اور نمائش کے زہر کا تریاق ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں جتنی قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر صرف اس کی رضا کے حصول کے لئے ہیں.اُس کے اخلاق کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کے لئے ہیں.پس جب انسان اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں اور دوسری ہر قسم کی نعمتوں کا استعمال اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش محض اس لئے کرے کہ خدا تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل ہو تو پھر ریا نہیں ہو گا نمائش نہیں ہوگی، کسی کو دکھانے کی خواہش نہیں ہوگی.نمائش کے ذریعہ سے لوگوں کی واہ واہ حاصل کرنے کی خواہش اور ارادہ نہیں ہو گا.یہ مقام تو فنا کا مقام ہے جب غیر اللہ سے دل تہی ہو جاتا ہے تو اس میں صرف اللہ تعالی کا خیال رہ جاتا ہے جو شخص ہر مخلوق شجر حجر وغیرہ کو استعمال میں لاکر فائدہ اُٹھا سکتا ہے ہر نعمت کو جو آسمان سے آتی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ذریعہ سے نازل ہوتی ہے اس کو محض اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اور جو بھی میں نے کرنا ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے کرنا ہے تو پھر انسان کے کسی بھی عمل میں ریاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایسے انسان کے کسی بھی کام میں حتی کہ اس کے دماغ کے کسی گوشہ میں بھی ریاء کا کوئی دخل ہی نہیں ہوسکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ايَّاكَ نَعْبُدُ ریاء کی بیماریوں کا علاج ہے کیونکہ انسان جب سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے یہ اپنی کسی قوت پر اور نہ اپنی کسی قابلیت پر بھروسہ کرنا ہے اور نہ ہی دوسری نعمتوں کو خدائی کا درجہ دینا ہے بلکہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھنا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا، سب کچھ کر لینے کے بعد اور تد بیر کو انتہا تک پہنچانے کے بعد بھی میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتے ہوئے جھکنا ہے اور یہ کہنا ہے کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا وہ میں نے کر لیا ہے جو کچھ میں کر سکتا تھایا جو میرے بس میں تھا وہ تو ہو چکا لیکن میں جانتا ہوں کہ اس کے باوجود میں تیرے فضلوں کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک تیرا ارادہ، تیری مدد، تیری نصرت میرے

Page 69

۶۳ سورة الفاتحة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ارادے اور میری کوشش کے شامل حال نہ ہو.پس اس صورت میں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے دعائیہ الفاظ انسانی تکبر اور غرور اور نخوت کے بھوت کی گردن پر ایک تیز چھری کا کام دیتے ہیں.اس دعا کے ذریعہ انسانی تکبر اور غرور اور نخوت کے بھوت کا سر کچل دیا جاتا ہے اور انسان تکبر اور غرور، نخوت اور خود بینی کے زہر سے ہلاک ہونے سے بچ جاتا ہے کیونکہ انسان کے لئے اس دنیا میں اس زندگی میں ایک ہی موت ہے اور وہ اللہ تعالی کے لئے فنا ہو جانے کی موت ہے یہ موت بھی ہے اور ایک لِقا بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا اور اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے بقا اور زندگی کا حصول ہے.پس اس وقت جو سب سے بڑی نعمت مجھے نظر آتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ بھی غور کریں تو اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ سب سے بڑی نعمت جو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآن کریم کی تفسیر کے خزانے ہیں کہ جن سے ہم جتنا بھی فائدہ اُٹھا ئیں یہ خزانہ ختم ہونے والا نہیں ہے.اس لئے اس خزانے کی قدر کرنا ضروری ہے اور اپنے چھوٹے بڑے ہر قسم کے مسائل کو اس کی روشنی میں سلجھانا ضروری ہے.اگر ہم اپنی طرف سے اپنی زندگی کے مسائل کو سلجھانا شروع کریں گے تو نا کام ہوں گے.قرآن کریم کی ہدایت ہی کے ذریعہ انفرادی اور اجتماعی مسائل کا صحیح حل تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے بغیر ممکن نہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ہمارے لئے ایک کامل ہدایت نامہ بنایا اور پھر قرآن کریم کی اس کامل ہدایت اور حسین تعلیم کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ایک نہایت ہی اہم چیز یعنی آپ کی تفسیر ہمارے ہاتھ میں دے دی اگر اس کے بعد بھی ہم غافل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر بدقسمت انسان کوئی نہیں ہوگا.اس لئے میں بار بار جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ایک خزانہ ہے اس کے دروازے کھولو، کتابیں پڑھو اور اُن پر غور کرو......میں قرآن کریم کی تفسیر کے سمجھنے کے سلسلہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی اعلیٰ درجہ کی قوت دی ہے اور یہ ہے فکر اور غور کرنے کی قوت اور یہ اس لئے دی ہے کہ ہم قرآن اور اس قرآن عظیم کی جو تفسیر میں پہلے بزرگوں نے کی ہیں اور اب اس زمانے میں جو بہترین تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے اور جس کا دائرہ قیامت تک وسیع ہے اور پھر جو تفسیر آپ کے خلفاء کی کتابوں میں پائی جاتی ہے اس کو ایک نعمت سمجھتے ہوئے اس کے سمجھنے سمجھانے کے لئے غور و فکر کریں اور ان حقائق سے پر کتابوں کو مہجور کر کے

Page 70

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۶۴ سورة الفاتحة نہ چھوڑ دیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے ذریعہ قرآن کریم کے حقائق سمجھ کر ان پر عمل پیرا رہنے پر ہماری نجات منحصر ہے اسی میں ہماری اپنی خوشحالی اور ہماری اگلی نسلوں کا آرام اور خوشحالی کا راز مضمر ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو بار بار ވ ވ پڑھنا اور ان سے فائدہ اُٹھا نا ايَّاكَ نَعْبُدُ کے ماتحت آتا ہے کیونکہ یہ ایک عطا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل ہے تم اس سے فائدہ اُٹھاؤ اور جب فائدہ اُٹھانے کی پوری تدبیر کر لو اور جب ان تفسیروں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں اور سامانوں کے استعمال پر اپنا پورا زور لگا چکو تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے پھر میرے حضور آؤ اور مجھ سے مانگو اور کہو کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر بڑی نعمتیں نازل کیں اور تو نے سب سے بڑی نعمت قرآن عظیم کی شکل میں عطا کی اور پھر ان کی تفسیر کرنے کے لئے تو نے دنیا میں اپنے مطہرین کا گروہ بھیجا، انہوں نے تفسیریں لکھیں، پھر تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور ہمیں اُن پر ایمان لانے کی توفیق بخشی ، ہم نے آپ کی کتابوں کو پڑھا اپنی طرف سے ان کو سمجھنے کی مقدور بھر کوشش کی ، اپنی طرف سے یہ کوشش بھی کی کہ جن ہدایتوں پر وہ مشتمل ہیں اُن پر عمل پیرار ہیں لیکن ہماری یہ ساری کوششیں بے کار ہیں.اگر تیرا دست قدرت یاوری نہ کرے، ہم فائدہ تو تب ہی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ تیری مدد ہمارے شامل حال ہو، جب تیری نصرت کے ہم مستحق ٹھہریں.پس ايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیرے پاس مدد و نصرت لینے کے لئے آئے ہیں.اس یقین کے ساتھ کہ تیری مدد کے بغیر ہماری کسی کوشش یا تدبیر کا کوئی نتیجہ کہیں نکل سکتا ہے اور نہ اسباب کے کسی استعمال کا فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ کسی فکر اور غور اور تدبر کا نہ خشوع کا کیونکہ خشوع و خضوع میں بھی بعض دفعہ شیطان کا دخل آ جانے سے بناوٹ آ جاتی ہے.انسان خودرو ر ہا ہوتا ہے اور دراصل وہ شیطانی آنسو ہوتے ہیں، اُسے خود بھی پتہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھتے تو امان ہے ورنہ امان کہیں بھی نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عبادت کے تقاضے کو پورا کر لو گے تو پھر میں تمہارے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کی رو سے تم نے جو مجھ سے مدد مانگی ہے اور نصرت طلب کی ہے وہ میں تمہیں عطا کروں گا میں تمہاری مدد کے لئے آ جاؤں گا لیکن میری مدد تم کے حصول سے قبل تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں عبادت کے جن نقاضوں کا ذکر ہے تم ان تقاضوں کو پورا کرنے والے بنو کیونکہ جو شخص خدا دا د قوتوں اور طاقتوں اور اس کی عطا کردہ و

Page 71

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة دوسری نعمتوں سے لا پرواہی برتتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور شوخی اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے.پس ادب کا طریق اور عاجزی کی راہ یہی ہے کہ ہم اس کی عطا کردہ قوتوں یا صلاحیتوں یا دوسرے مادی اسباب اور روحانی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن اُن کو بت بھی نہ بنائیں یہ سمجھنا تو حماقت ہے کہ کوئی شخص اپنی قوت، اپنی قابلیت یا اپنی عقل وفراست یا اپنے فکر و تدبر کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے.نہیں ہرگز نہیں.یہ ساری چیزیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو روحانی نعمتیں بخشی ہیں ان کے صحیح استعمال کے باوجود ہم روحانی رفعتیں حاصل نہیں کر سکتے جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو کیونکہ روحانی رفعتیں یا روحانی بلندیاں جن ستونوں کے سہاروں پر کھڑی ہیں وہ انسان کے بنائے ہوئے ستون اور سہارے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ستون اور سہارے ہیں.ان سہاروں کے بغیر انسان رفعتوں اور بلندیوں پر کھڑا رہ ہی نہیں سکتا جو شخص اپنے آپ کو بڑا بلند سمجھنے لگتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا سہارا نہیں لیتا وہ بلندیوں سے گرتا ہے اور اس کے پر نچے اُڑ جاتے ہیں اور اس کا درخت وجود ذرہ ذرہ ہو کر رہ جاتا ہے......پس اللہ تعالیٰ کی بنیادی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت قرآن عظیم ہے اور اس کی خصوصا وہ تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو جو نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات ہر وقت تمہارے سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مختلف نعمتیں عطا کی ہیں مثلاً مختلف قوتوں یا قابلیتوں کی شکل میں مختلف اسباب کی شکل میں یا قرآن کریم کی مختلف تفاسیر کی شکل میں یا زبان کی شکل میں یا خشوع و خضوع کی شکل میں یا فکر و تدبر کی شکل میں یہ ساری خدا داد قو تیں اور قابلیتیں اور یہ سارے ساز و سامان اور یہ سارے خداداد ملاکات خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں خرچ ہونے چاہئیں.جب اس طرح عبادت کی جائے اور دنیوی اعمال بجالائے جائیں تو پھر تم ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کے مستحق ٹھہرتے ہو پھر تمہیں میرے حضور دعا کرنی چاہیے اور مجھ سے ہی مانگتے رہنا چاہیے اور یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبول فرمائے اور مزید رفعتوں کے حصول کے دروازے کھول دے.پس اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت تو قرآن کریم ہے اور

Page 72

تفسیر حضرت خلیفۃ المسح الثالث ۶۶ سورة الفاتحة پھر اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نعمت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر کی شکل میں عطا کی ہے.اس لئے اس کی قدر اسی طرح ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے ہمیشہ پڑھتے پڑھاتے رہنے کا تسلی بخش انتظام ہوتار ہے.....اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جب یہ کہا کہ میرے حضور جھکو اور یہ کہو کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی یہ کہ جو نعمتیں تو نے ہمیں عطا کی ہیں ہم ان کی قدر کرتے اور ان کو صحیح استعمال کرتے اور تیری رضا کے حصول کی کوششوں میں انہیں لگاتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسری نعمت عظمی شرف انسانی کے قیام کی صورت میں رونما ہوئی ہے یعنی ہم نے تمام بنی نوع انسان کی بحیثیت انسان عزت اور شرف اور احترام کو قائم کرنا ہے اور ایک دوسرے سے معاملہ کرتے ہوئے انسان کی عزت نفس اور اس کے انسانی شرف کا خیال رکھنا ہے اور ہمیشہ یہ یا درکھنا ہے کہ جس سے میں مخاطب ہوں یا جس سے میں کوئی معاملہ کر رہا ہوں یا جو اپنی ضرورت کے پورا کر وانے یا اپنے حق کے حصول کے لئے میرے پاس آیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بحیثیت انسان میری طرح ہی عزت اور شرف رکھتا ہے یہاں تک کہ عزت نفس اور شرف انسانی کے اعتبار سے فخر انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ویسے ہی انسانی شرف کے مالک ہیں جیسے ایک دوسرے آدمی کا انسانی شرف قائم کیا گیا ہے.آپ یہ یادرکھیں کہ شرف انسانی کے لحاظ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس شرف انسانی کی بنیاد پر اخلاقی رفعتوں اور روحانی بلندیوں کے سامان پیدا کئے اور خدا تعالیٰ کے پاک بندوں میں ایک حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے انتہائی سے انتہائی بلند ہونے کی کوشش کی تو اس بلند پروازی میں سیدنا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے نکل گئے اور ایسے بلند ترین مقام کو حاصل کیا کہ اس سے زیادہ تو کیا اس جتنا بھی کسی کے لئے پانا نہ پہلوں کے لئے ممکن ہوا اور نہ پچھلوں کے لئے بھی ممکن ہوگا بعض فلسفی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیوں پابندی لگا دی؟ پابندی کا یہاں سوال نہیں ہے روحانی انعامات کے حصول میں کوئی روک نہیں ہے لیکن ہمارے علام الغیوب خدا نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ نہ پہلے اور نہ بعد میں آنے والے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اس بلند ترین مقام کو پہنچ سکیں گے جس بلند ترین مقام پر آپ پہنچے تھے.انسان کی تمام قوتیں جن کی شرف انسانی کے قائم ہونے کے بعد ابتدا ہوئی ہے ان کے لحاظ سے اس دوڑ میں تو آپ ہی

Page 73

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة آگے نکلے لیکن مقابلے میں جہاں سے دوڑ Start ( سٹارٹ ) یعنی شروع ہوتی ہے آپ نے دیکھا ہوگا دس پندرہ آدمی قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر دوڑ شروع ہوتی ہے، اگر قطار میں سارے Competitor ( مقابلہ میں حصہ لینے والوں) کو کھڑا کر دیا جائے تو بحیثیت انسان سب برابر ہیں.اس لحاظ سے قطار میں کھڑے ہونے کی حیثیت میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جب روحانی میدان میں دوڑ شروع ہوگئی تو دوسرے آپ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے.......پس یہ دوسری بنیادی نعمت عظمی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے اور ايَّاكَ نَعْبُدُ کے تقاضے میں یہ تھا کہ میں نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا صحیح اور پورا استعمال کر وجس کو ہم دوسرے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ تدبیر کو انتہا تک پہنچاؤ.ایسا کرنے کے بعد پھر میرے پاس آؤ تب میں تمہاری دعا قبول کروں گا.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۹۰۸ تا ۹۲۳) سورۂ فاتحہ میں ایک حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے اور بندہ اپنے رب کا عبد اُسی وقت بنتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اُس پر چڑھ جائے اور اُس کے رنگ میں وہ رنگین ہو جائے اور چونکہ انسان اپنی طاقت یا اپنے کسی حیلہ یا تدبیر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں خود کو رنگین نہیں کر سکتا اس لئے سورۂ فاتحہ میں ہمیں یہ دعا سکھلائی اِيَّاكَ نَعْبُدُ.اِس میں دُعا کا پہلو ہے اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی، جو تمام عیوب اور نقائص سے منزہ ہے اور تمام صفات حسنہ کا جامع ہے، اُس کی صفات کی معرفت حاصل کرو گے تو اس کی عظمت اور جلال تم پر ظاہر ہو گا اور جب اُس کی عظمت اور جلال اور اُس کی صفات کی عظمت اور جلال کا عرفان تمہیں حاصل ہوگا تو صرف اُس صورت میں ہی تم اُس کی صفات کی پیروی کر سکتے ہو اور اُس کی عظمت اور جلال کا جلوہ انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ وہ فی ذاتہ کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں رکھتا اور ریا کاری جو تمام نیکیوں کو کھا جانے والا گناہ ہے اُس سے انسان اُس عظمت کے جلوہ کے نتیجہ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے پر چڑھانے کی کوشش کرتا ہے.دوسری بدی جو اس سعادت عظمیٰ سے انسان کو محروم رکھتی ہے اور وہ بہت بڑی بدی ہے بلکہ تمام بدیوں کی بسا اوقات وہی جڑا اور موجب بن جاتی ہے.وہ بدی تکبر کی بدی ہے.

Page 74

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۶۸ سورة الفاتحة انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھ میں وہ طاقت، وہ قوت وہ استعداد ہے کہ میں اپنی قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں کے نتیجہ میں کچھ بن سکتا ہوں لیکن اِيَّاكَ نَسْتَعِین کی دُعا تکبر کی جڑ کو کاٹنے والی ہے اس دو طرح پر کہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہمیں ان نعمتوں اور اُن احسانوں کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے ہم پر کئے.اس کی رحمانیت کے جلوے جو بغیر استحقاق کے ذی ارواح پر نازل ہوتے ہیں اُن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ جب تک وہ نعمتیں ہمارے کسی عمل کے بغیر ہمیں حاصل نہ ہو تیں ہم کسی قسم کی ذاتی کوشش اور جدو جہد کرنے کے قابل ہی نہیں تھے.مثلاً رحمانیت نے انسان کے لئے روشنی اور اندھیرے کا انتظام کیا ہے.ایک نظام بنایا ہے اس دُنیا میں جہاں انسان کی قوتیں اپنی جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں اور جہاں ہماری قوتیں تھک کر رات کے اندھیروں میں سکون کی تلاش کرتی ہیں اور کوفت کو دور کر کے وہ آرام کی حالت اپنی طاقت کو از سر نو زیادہ سے زیادہ کوشش کے لئے تیار کر دیتی ہیں.بادلوں کا برسنا، زمین کی یہ ساری قوتیں جو ہماری جسمانی غذا کا سامان پیدا کرتی ہیں اور ہماری بیماریوں کے علاج کے لئے مختلف جڑی بوٹیاں پیدا کرتی ہیں.یہ چیزیں انسان کی پیدائش سے پہلے یہاں تھیں.کوئی احمق کھڑا ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میں نے نیکیاں کیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورج بنایا اور آسمان بنایا اور یہ پانی بنایا اور یہ زمین بنائی.تم تو تھے ہی نہیں جب یہ سب کچھ بنایا گیا.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دُعا اور یہ دُعائیہ فقرہ ہمیں یہ دعا سکھلانے والا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے یہ رحمانیت کے مقابلہ پر رکھا گیا ہے اور رحمانیت کے جلووں کا احساس اور اُن کا عرفان اور اُن کی معرفت انسان کو اس حقیقت سے آشنا کرتی ہے کہ وہ خود اپنی کوشش اور اپنی جد و جہد سے کچھ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ جن چیزوں پر اُس کی کوشش کی بنیاد ہے وہ اُس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کر دی گئی تھیں.پس جو نعمتیں اُس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کردی گئیں اور جن کے بغیر اُس کی کوئی کوشش ممکن ہی نہیں.جب یہ معرفت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اُس کے اندر تکبر کا کوئی سوراخ باقی نہیں رہتا جو اُس کے وجود کے اندر، جو اُس کی شخصیت کے اندر داخل ہو اور اُس کی تمام نیکیوں کو اور تمام نیکی کی کوششوں کو جڑ سے اکھیڑ دے.پس إِيَّاكَ نَعْبُدُ ریا سے انسان کو بچاتا ہے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تکبر سے انسان کو بچاتا ہے لیکن تیسری چیز جو کہ انسان کی روحانی رفعتوں کے لئے ضروری وہ اس معرفت کے علاوہ ایک اور چیز ہے.ہمیں یہ معرفت حاصل و و

Page 75

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۶۹ سورة الفاتحة ہوئی کہ خدا تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور کوئی نقص اور کمی اُس میں نہیں ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں یہ بتایا ہے خصوصاً سورہ فاتحہ میں اس پر روشنی ڈالی کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی پیروی کرے اور تخلق باخلاق اللہ ہو اور اُس کے رنگ میں وہ رنگین ہونے کی کوشش کرے اور اس عرفان کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں جو انسان کو یہ بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اُس کے پاس کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان شو (show) کر سکے اور جس پر بنیادرکھ کر ریا کاری کر سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے اُس پر اپنی رحمانیت کے جلوے ظاہر کئے اور رحمانیت کے جلووں نے اُس کو یہ بتایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار، بے حد و حساب ایسی نعمتیں ملی ہیں جن میں تیرے عمل کا کوئی دخل نہیں ہے.تیری پیدائش سے بھی پہلے وہ نعمتیں تیرے لئے پیدا کر دی گئیں اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کہ ان کے بغیر تیری قو تیں اور تیری استعداد میں جو خود خدا داد ہیں وہ اپنا کام نہیں کر سکتی تھیں تو تیری ہر حرکت خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کی محتاج ہے.تو تکبر کس بات پر ؟ انسان ایک انگلی نہیں ہلا سکتا اگر رحمانیت کا جلوہ اس سے قبل نہ ہو.اللہ تعالیٰ یہی ظاہر کرنے کے لئے بہت سے بچوں کو پیدائش کے وقت اپنی رحمانیت کے جلووں سے محروم کر دیتا ہے.بعض دفعہ بڑا تندرست، بڑا خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے اور ہوا جو رحمانیت کا جلوہ ہے جو انسان کی پیدائش سے پہلے اُس کے لئے بنائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو کہتا ہے کہ تو اس پر وہ اثر نہ کر جو عام انسانوں پر تو کرتی ہے.وہ سانس نہیں لے سکتا.ہمارے ہی گھر میں ، میری بڑی بیٹی کے ہاں پہلا بچہ جب پیدا ہوا تو اُس نے سانس نہیں لیا اور اتنا خوبصورت اور اتنا تندرست اور خوب موٹا تازہ بچہ میں نے اپنی ساری عمر میں کبھی نہیں دیکھا.خدا کی شان تھی کہ عین اُس وقت جب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے اس دُنیا میں آیا تو رحمانیت کے جلوے اُس بچے کے لئے بند کر دیئے گئے اور یہ میری اُس بچی کو اور دوسری کو سبق دینے کے لئے ہوا کہ جب تک تمہارے عمل سے پہلے کی نعمتیں نہ ملیں اُس وقت تک تمہارا اپنا کام شروع ہی نہیں ہو سکتا.سانس ہم اپنی ماں کے پیٹ سے تو لے کر نہیں آتے.پھر پانی ہے.غذا ئیں ہیں.آب و ہوا ہے.گرمی اور سردی کا ایک متوازن نظام ہے جسے زمین میں مختلف شکلوں میں خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.اس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاسکتا وہ بڑی عجیب مختلف مؤثرات اور تاثیریں ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کے جسم اور اس

Page 76

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة الفاتحة کے اخلاق بنتے ہیں.بہر حال اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دُعا کو ٹھیک طرح سمجھ لینا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا یہ چیز تکبر کو بالکل مٹادیتی ہے کیونکہ انسان کو پتہ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا.کسی میدان میں بھی میری کوئی حرکت آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک اس حرکت سے پہلے خدا تعالی کی رحمانیت کے جلوے موجود نہ ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال بھی ہو اور رحمانیت کی صفت کو بھی انسان پہنچانے تو پھر بھی خود اپنے لئے اپنی کوشش سے راہ راست اور صراط مستقیم تلاش نہیں کر سکتا.اس میں بھی اُسے خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے.جس کے بغیر وہ راہ راست پر چل نہیں سکتا.راستہ پر تو وہ چلنا شروع کر دے گا لیکن وہ صرف ”صراط “ ہو گا صراط مستقیم نہیں ہو گا.راستہ پر اس لئے چلے گا 66 کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس پر ظاہر ہوئے اور صفت رحمانیت کے جلوے ظاہر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا تعلق رحمانیت سے ہے اور نیکوں کی کوششوں کو نقص سے پاک کرنا اور اچھے نتائج نکالنا یہ رحمانیت کا کام ہے.انسان خواہ کتنا ہی جہاد خدا کی راہ میں کر رہا ہو اور محاسبہ نفس کر رہا ہو اس کے اعمال میں تھوڑا یا بہت نقص رہ جاتا ہے اور عام قانون یہ ہے کہ تھوڑا یا بہت نقص رہ جائے تو انسان منزلِ مقصود تک پہنچ نہیں سکتا مثلاً ایک موٹی مثال میں اس وقت دیتا ہوں جسے بچے بھی سمجھ جائیں گے کہ ایک شخص نے سو قدم چل کر وہاں پہنچنا ہے جہاں اُس کا مقصود اُ سے حاصل ہو سکتا ہے.اگر وہ نانو سے قدم چلے اور سواں قدم نہ چلے تو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا.تو صرف ایک قدم کی کمی ہے نانوے قدم اُس نے اُٹھائے ہیں لیکن ایک قدم نہیں اُٹھا سکا اس لئے وہ اپنے مقصود کو نہیں پاسکتا.پس ہر انسان کی کوشش اور عملِ صالح میں کوئی نہ کوئی کمی اور غفلت رہ جاتی ہے.اس وقت رحمانیت آتی ہے اور انسان کی انگلی پکڑتی ہے اور کہتی ہے جو قدم تو نے نہیں اُٹھا یا وہ میں تمہیں اُٹھا دیتا ہوں اور اُس کے عمل صالح کی کفیل ہو جاتی ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہی دُعا سکھائی ہے کہ وہ سیدھا راستہ ہمیں دیکھا جو منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو.جس کا مطلب ہے کہ سارے قدم اور ساری کوششیں انتہا تک پہنچانے والی ہمیں نصیب ہوں.اس کے بغیر تو کوئی دو قدم سیدھا چل کر، کوئی نہیں قدم سیدھا چل کر ، شاید کوئی ننانوے قدم سیدھا چل کر بھی اپنے عمل کے نتیجہ سے محروم ہو جاتا ہے پس یہاں بتائی گئی تین دعاؤں کے نتیجہ میں انسان

Page 77

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اے سورة الفاتحة کو ایک طرف ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے محفوظ رکھنے کا سامان پیدا کیا گیا جو اس کی کوششوں کو بے نتیجہ اور بغیر شمر کے بنادیتی ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی انگلی پکڑ کر انتہائی کامیابی تک پہنچانے کے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں سامان پیدا کر دئیے.یہ مضمون بیان کرنے کے بعد آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کچھ تفصیل اور فروعی ذمہ داریوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے.وہ چند ہدایات میں پڑھ دیتا ہوں.یہ ان باتوں کا ایک قسم کا خلاصہ ہے جو باتیں میں نے بیان کی ہیں.(ترجمہ) اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کسی بندہ کے لئے ممکن نہیں کہ اُس وَحْدَهُ لا شَرِيكَ سے تو فیق پانے کے بغیر عبادت کا حق ادا کرے اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے ( میں نے بتایا تھا کہ آپ نے یہاں عبادت کی فروع بتائی ہیں ) کہ تم اُس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلا تکلف اور تصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دُکھ نہ دو اور نہ کسی بات سے اس (کے دل ) کو زخمی کرو بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر لو اور جو کوئی ( ملنے کے لئے ) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی ) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو.(اجاز مسیح - روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ صفحه ۱۲۸، ۱۶۹) پس میں نے مختصر آ ہی تین اصولی باتیں بیان کی تھیں.ایک یہ کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر آن یہ کوشش کرتے رہیں کہ تخلق باخلاق اللہ کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ سے ہمارا وجود رنگین ہو اور ریا کاری ہماری زندگی میں داخل نہ ہو.دوسرے یہ کہ ہم یہ دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اُن رحمانیت کے جلووں سے ہمیں نوازے جن کی ہمیں ذاتی جدوجہد کے لئے

Page 78

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۷۲ سورة الفاتحة ضرورت ہے.تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اُسی کی عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں کو اُس کے قرب اور اُس کی رضا کے حصول پر لگائیں تو وہ خود ہماری رہنمائی کرے ہمیں صراط مستقیم دکھائے اور اُس پر چلنے کی اور انتہا تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اُس کی فروع وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند سطروں میں آئیں ہیں اور میں نے بیان کی ہیں.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۶۰۹ تا ۶۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تفسیر میں یہ مضمون بیان کیا ہے اور بڑا حسین نکتہ نکالا ہے کہ خدا کے کسی بندے کو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کا حق تبھی حاصل ہوتا اور ہے جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہنے کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنی ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور تو نے ہمیں روحانی قوتیں عطا کرنے کے بعد ایسی تمام مادی اشیاء بھی عطا کیں جن کی ضرورت ان قوتوں کی نشوو نما کے لئے تھی اور ہم نے تیری توفیق سے تیری عطا کردہ قوتوں کو انتہائی طور پر استعمال کر کے تیرے حضور اپنی پیشکش کی.جب تک ان قوتوں سے انسان فائدہ نہ اٹھائے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں، اس وقت تک وہ حقیقی معنی میں ايَّاكَ نَعْبُدُ نہیں کہہ سکتا.جب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب قوتوں سے انتہائی فائدہ حاصل کر لے تب وہ کہہ سکتا ہے کہ تو نے اپنا بندہ اور عبد بننے کے لئے جو طاقتیں ہمیں دی تھیں ہم نے ان کا صحیح اور انتہائی استعمال کر لیا اور چونکہ تو نے ہمارے اندر آگے ہی آگے بڑھنے کا جذبہ اور جوش پیدا کیا ہے.اس لئے اس مقام پر ہمارے دل تسلی نہیں پکڑتے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہم یہیں کھڑے رہیں.اس لئے جو قو تیں تو نے ہمیں عطا کیں ان کے مطابق ہم نے اپنی طرف سے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی، اب آگے بڑھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری قوت میں اضافہ ہو، اس واسطے إيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری مدد مانگتے ہیں تجھ سے استعانت چاہتے ہیں کہ تو ہمیں مزید طاقت دے تا کہ تیری راہ میں ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.کئی فقیر آپ کو نظر آئیں گے یا بعض ہنگامی حالات میں ان کی یہ حالت آپ کے سامنے آئے گی کہ دس دس ہزار، ہیں ہیں ہزار، پچاس پچاس ہزار روپیہ ان کے پاس جمع بھی ہے اور گلیوں اور بازاروں میں اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے مانگنے والا ہاتھ انہوں نے آگے بھی کیا ہوا ہے اسی

Page 79

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۷۳ سورة الفاتحة طرح کئی لوگ ایسے ہیں کہ جو ان کے پاس ہے اسے خرچ نہیں کرتے اور خدا کو کہتے ہیں کہ اور دے.فقیر جس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اسے تو معلوم نہیں کہ اس کے گھر میں رات کی روٹی ہے یا نہیں.نہ اسے یہ علم ہے کہ اس کی تجوری یا تھیلی میں پانچ دس میں پچاس لاکھ روپیہ ہے.جب نوٹ کینسل (Cancel) ہوئے اور کہا گیا کہ پرانے نوٹ لاؤ تو بعض ایسے فقیروں کا ذکر بھی اخباروں میں آیا (واللہ اعلم کہاں تک یہ درست ہے ) جن کے پاس لاکھوں روپیہ تھا اور پھر بھی وہ بھیک مانگ رہے تھے اور دینے والا ان کو دے رہا تھا اور اس کے بھائی کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ بے چارہ! اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں.پیسہ اس کے پاس نہیں کہیں رات کو بھوکا نہ سو جائے اس کو دے دولیکن جو ہاتھ خدا تعالیٰ کے سامنے پھیلایا جاتا ہے وہ ایک ایسی ہستی کے سامنے پھیلایا جاتا ہے جس سے کوئی چیز غائب نہیں.خدا تعالیٰ کہتا ہے میں نے تجھے دیا اور تو نے میری راہ میں خرچ نہیں کیا.اب میرے 999 سامنے ہاتھ کیوں پھیلا رہا ہے.آگے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مقام جو آج کے دن کا مقام ہے اسے حاصل کر.جو کچھ میں نے تجھے دیا قوت اور طاقت اور استعداد کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے اور مادی اشیاء کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا عقل اور فراست کے لحاظ سے، جو کچھ میں نے تجھے دیا قرآن عظیم جیسی ہدایت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے لحاظ سے.یہ جو تجھے چیزیں ملیں پہلے ان سے انتہائی فائدہ اٹھا.پھر میرے پاس آ.میرے خزانے خالی نہیں ہیں لیکن تیری ساری قوتیں میری راہ میں خرچ ہونے کے بعد میرے سامنے تیرا دست سوال پھیلنا چاہیے.پھر انسان خرچ کرنے کے بعد یعنی ” جو کچھ ہے پورے کا پورا خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے کے بعد خدا سے کہتا ہے کہ جہاں تو نے مجھے اتنا کچھ دیا اور مجھے یہ تو فیق بھی دی کہ میں تیری راہ میں سارا کچھ خرچ کر دوں وہاں تو نے مجھے یہ جذبہ اور جوش بھی دیا کہ میں کسی مقام سے تسلی نہ پکڑوں کیونکہ تیرے قرب کے مقامات کی کوئی انتہا نہیں.آگے بڑھنے کے لئے میرے رب مجھے اور دے.پھر جب ايَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد مخلصانہ دعا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کی ہوتی ہے تب خدا تعالیٰ اسے اور قوت دیتا ہے اور تب خدا تعالیٰ اسے جو قوت دیتا ہے اسے لے کر وہ آگے بڑھتا ہے پھر ایک اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوتا ہے پھر کہتا ہے اے خدا! تو نے مجھے جو طاقتیں دیں وہ تیری راہ میں خرچ ہو گئیں اب مجھے اور دے کیونکہ جو طاقتیں ملیں ان کے خرچ کرنے پر تو ایک جیسا ثواب ملتا رہے گا.اگر مجھے مزید ثواب ملتا ہے

Page 80

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۷۴ سورة الفاتحة اور ترقی کی مزید راہیں کھلتی ہیں تو ضروری ہے کہ تو مجھے اور طاقتیں دے پھر ايَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ اے خدا! میری مدد کو آ میں یہاں کھڑا ہو گیا ہوں جو کچھ تو نے دیا تھا وہ اب استعمال کر چکا.یہ سلسلہ چند گھنٹوں کا بھی ہے چند گھنٹے انسان خدا کی راہ میں کام کرتا ہے.پھر ہر نماز میں کہتا ہے.پھر ہر نماز میں کہتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.یعنی جو کچھ تو نے مجھے دیا میں نے وہ تیری راہ میں خرچ کر دیا.کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس دو گھنٹے کے وقفہ میں مثلاً جو آج کل ظہر اور عصر کے درمیان ہوتا ہے.اس میں خدا نے کچھ نہیں دیا کیونکہ خدا تعالیٰ کے بندے تو ہر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس سے مزید حاصل کر رہے ہوتے ہیں.عصر کے وقت حقیقتا ( مبالغہ کے طور پر نہیں ) بندے کا اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مقام ظہر کے مقابلہ میں آگے ہوتا ہے اور پھر کہتا ہے اے خدا! مغرب کے وقت تک مجھے اور آگے لے جا.یہ حرکت روحانی جو لازمی قرار دی گئی ہے ( یعنی نمازوں کی ادائیگی حرکت روحانی ہے ) اس میں دو گھنٹے کا وقفہ ہے اور ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کو پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز میں ہمیں کہا گیا ہے کہ خدا سے یہ دعا کرو کہ جو تو نے ہمیں اس عرصے میں بھی دیا اسے بھی ہم نے تیری راہ میں خرچ کر دیا تیرا ہی عطا کردہ ابدی ترقیات کا جو جذ بہ ہے اس کی وجہ سے ہم ایک جگہ کھڑے نہیں رہ سکتے.پھر مغرب کی نماز میں پھر عشاء کی نماز میں ( نوافل میں چھوڑ رہا ہوں) پھر صبح کی نماز میں نوافل کی توفیق ملتی ہے.نوافل کی توفیق مغرب اور صبح کے درمیان اس لئے ملتی ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ عشاء کے وقت کہنے کے بعد اس نے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی بھی دعا کی تھی.تو یہ چھوٹے سے چھوٹا جو وقفہ ہمارے سامنے ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے تسلسل کو قائم رکھنے اور جاری رکھنے کا آتا ہے.نمازوں کے درمیان ہے.جیسا کہ میں نے بتایا یہ چھوٹے سے چھوٹا وقفہ ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ خدا نے تمہارے لئے عید بنا دیا ہے یہ ایک دوسری اکائی ہے یعنی جمعہ سے جمعہ تک ہر روز لازمی طور پر پانچ دفعہ توفیق دیتا ہے.اس کا مطلب ہے کہ ہر ہفتہ پینتیس دفعہ لازمی طور پر اس نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ بھی کہا اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ بھی کہا پھر جمعہ آتا ہے اور اس کی عبادت کرتے ہیں.پھر انياكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں اور خدا سے کہتے ہیں اے خدا پچھلے جمعہ ہم نے کہا اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور ہم ވ ވ نے کہا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ تو نے ہماری دعا کو قبول فرمایا.(جمعہ کی نماز ایسی ہے کہ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو قبولیت دعا کی گھڑی ہے)

Page 81

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۷۵ سورة الفاتحة دو میں اس گھڑی کو لیتا ہوں.میں جماعت کی اجتماعی زندگی کے متعلق بات کر رہا ہوں.کوئی ہم میں سے کمزور ہے، کوئی بزرگ ہے.اجتماعی زندگی کے لحاظ سے میں یہ لے رہا ہوں کہ جمعہ کو وہ دعا کی گھڑی آئی تو بعض احمد یوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ( جو نہیں اٹھا سکے انہیں اللہ تعالیٰ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ) اور اس گھڑی میں خدا تعالیٰ کے مومن بندے نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - یعنی جو قوتیں اور طاقتیں تو نے دیں ان کے مطابق میں نے تیری عبادت کی اور پرستش کی اور میں نے آگے بڑھنا ہے اس واسطے مجھے اور قوتیں عطا کر میری قوتوں میں اور مضبوطی اور استحکام پیدا کر اور خدا نے اس گھڑی میں وہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا قبول کی اور اس کا ایک قدم اگلے جمعہ کو اور آگے بڑھ گیا.پھر اگلا جمعہ آیا، پھر اگلا جمعہ، پھر اگلا جمعہ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کا انجام بخیر ہو جائے.یہ ایک دوسری اکائی ہے جمعہ سے جمعہ آٹھ دن اور معنی میں ثواب کی اکائی ہے.ہمارے لئے سارے معنی برکت کے معنی ہیں پھر اس کے بعد سال آجاتا ہے کیونکہ جو اگلی عید ہے وہ ایک سال کے بعد آتی ہے.بعض عبادتوں کے لحاظ سے ایک وقت میں عید آ جاتی ہے اور دوسری عبادتوں کے لحاظ سے دوسرے وقت میں.اور ہمارے لئے جلسہ سالانہ ہے جو سال کے بعد آتا ہے آج کے جلسہ پر ہم نے کہا ايَّاكَ نَعْبُدُ لیکن ساتھ ہی ہم نے کہا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ آئندہ جلسہ پر اے خدا ہم تیری رحمتوں کے زیادہ وارث بننے والے ہوں بوجہ اس دعا کے جو تو نے ہمیں سکھلائی اور جو تو نے ہمارے منہ سے بار بار کہلوائی.ہم تجھ سے زیادہ طاقتیں حاصل کرنے کے بعد تیرے حضور زیادہ حسین قربانیاں پیش کرنے والے ہوں..حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ الحمد للہ کے مقابل اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو رکھا گیا و و ہے.اسی واسطے میں نے اس طرح اس حصہ سورۃ کو پڑھا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ.جو کچھ ہمیں اس کے عبد بننے میں ملا اس پر ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں اور ہم اس کے ممنون ہیں اور ہماری زبانیں اس کی حمد کرتے ہوئے تھکتی نہیں ہمارے گلے خشک ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے دل کی دھڑکنیں اور روح کی امواج خدا تعالیٰ کی حمد کر رہی ہوتی ہیں اس اتنے بڑے اجتماع کی برکتیں ہمارے دوسرے کاموں پر بھی اثر انداز ہوں گی اور ان کا ایک عکس پڑے گا روشنی پڑے گی.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۵۸۵ تا ۵۹۱)

Page 82

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ZY سورة الفاتحة اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک عجیب دعا بڑی حسین اور بڑی وسعتوں اور بڑی گہرائیوں اور بڑی تاثیروں والی دعا سکھائی اور ہمیں بتایا کہ یہ دعا کرو کہ اے خدا عقل بھی ہمیں یہی بتاتی ہے ہماری فطرت بھی اسی طرف راہ نمائی کرتی ہے کہ ہر مقصود پانے کے لئے ایک سیدھی راہ ہوا کرتی ہے اور جو اس سیدھی راہ کو اختیار کرتا ہے وہی اپنے مقصود کو حاصل کرتا ہے اس لئے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو ہمیں تجھ تک پہنچا دے تو ہمیں مل جائے تیرے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو جائے تجھے ہم پالیں ، تیری رحمتوں کے ہم وراث بن جائیں اور بتایا کہ یہ راہ آج پہلی دفعہ انسان کو نہیں بتائی جارہی بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور انبیاء سے تعلق رکھنے والے بزرگ خدا کی راہ میں قربانی دینے والے، خدا کی محبت کو پانے والے پیدا ہوتے رہے پس جس طرح پہلوں پر اصولی طور پر تیرے انعام نازل ہوئے تو ہمیں ایسی راہ دکھا کہ ہم بھی ان جیسے بن جائیں اور اس قسم کے انعام ہمیں بھی تیری طرف سے ملیں......اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ منعم علیہم گروہ کے علاوہ ایک گروہ وہ بھی ہے جو منعم علیہم نہیں اور آگے وہ دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے ایک گروہ وہ جو مغضوب بن جاتے ہیں اور ایک جو راہ سے بھٹک جاتے ہیں مغضوب کے معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ جو شخص انشراح صدر کے ساتھ کفر کو کفر سمجھتے ہوئے قبول کرتا ہے سب سے پہلا انشراح صدر اس سلسلہ میں ابلیس کو ہوا تھا اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں تھی وہ اپنے اللہ کو پہچانتا تھا، اللہ سے وہ گفتگو کر رہا تھا لیکن کہتا تھا کہ میں کفر کروں گا اور لوگوں کو بھٹکاؤں گا تیرا کہنا نہیں مانوں گا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی سزا ملے گی خدا نے کہا تھا کہ میں تجھ سے اور تیرے ماننے والوں سے جہنم کو بھر دوں گا لیکن وہ کفر پر قائم رہا غرض مغضوب اس کو کہتے ہیں جو نا فرمانی کی راہ سمجھتا ہے جو کفر کے راستہ کو کفر کا راستہ سمجھتا ہے جو جانتا ہے کہ اگر میں نے یہ راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ کا یقینی غضب مجھ پر نازل ہوگا لیکن کبھی اس کا شیطانی نفس یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے اسی راہ کو اختیار کرنا ہے اللہ تعالیٰ مغضوب کے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے سورہ نحل میں فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِةٍ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ W قَلْبُهُ مُطْمَن بِالإِيمَانِ وَ لكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہ.(النحل:١٠٧)

Page 83

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث 22 سورة الفاتحة اس آیت میں بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غضب اس گروہ یا فرد پر نازل ہوتا ہے جو انشراح صدر سے کفر کے راستہ کو قبول کرتا ہے پس غضب کے نزول کے لئے جو وجہ بنتی ہے وہ جان بوجھ کر خدا تعالیٰ کے غضب، اس کی ناراضگی اور اس قبر کے راستوں کو اختیار کرنا ہے کہ اس سے خدا ناراض ہو جائے لیکن پھر جرات کرتا ہے اور خدا کی ناراضگی ، اس کے غضب اور قہر کو مول لیتا ہے.اسی طرح سورۃ بقرہ کی آیات ۹۰ اور ۹۱ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے میں چونکہ اختصار کرنا چاہتا ہوں اس لئے نہ میں پوری آیات پڑھ رہا ہوں نہ میں ان کا ترجمہ کروں گا نہ تفسیر بیان کروں گا میں اس مطلب کے ٹکڑے لوں گا ، آیت ۹۰ میں ہے.فَلَمَّا جَاءَ هُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِہ کہ ان کے پاس جب کافروں پر فتح اور کامرانی حاصل کرنے کے سامان آگئے تو باوجود اس عرفان کے، باوجود اس کے سمجھ کے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت کے سامان پیدا ہوئے ہیں، كَفَرُوا پہ انہوں نے اس کا انکار کر دیا اور آیت ۹۱ میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اس بات پر بگڑتے ہیں کہ اللہ اپنی مرضی سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے کلام نازل کر دیتا ہے یہ کیا بات ہوئی ہم جس پر چاہیں اللہ کا فضل ہے (نعوذ باللہ ) کہ وہ اس پر کلام نازل کرے غرض وہ جانتے تھے کہ کلام اللہ کا ہے وہ یقین رکھتے ہیں کہ جس پر یہ کلام نازل ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اسی کو پسند کیا ہے اور اس کو اپنا محبوب بنانا چاہا ہے.اپنے قرب سے نوازنا چاہا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل کیا ہے اور یہ جانتے بوجھتے انکار کرتے ہیں نتیجہ کیا ہوا؟ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبِ ایک غضب کے بعد دوسرے کا وہ مورد بن گئے جَاءَهُمُ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِہ کی وجہ سے ایک غضب مول لے لیا اور اس بات سے ناراض ہوئے کہ خدا نے اپنی مرضی سے اپنی پسند سے اس شخص پر اپنا کلام کیوں نازل کیا جسے اس نے مقرب بنانا چاہا ہماری مرضی چلنی چاہیے تھی وہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کلام خدا کا ہے اور جس پر نازل ہوا ہے وہ خدا کا مقرب بھی ہے انکار کر جاتے ہیں فَبَاءُوا بِغَضَبِ عَلَى غَضَبِ ایسے لوگ غضب کے بعد غضب کے مورد ہو جاتے ہیں.غرض غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اے خدا کبھی ایسا نہ ہو کہ ہم شیطان کی طرح تیری معرفت رکھنے کے باوجود اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ تیری طرف لے جانے والی صراط مستقیم کون سی ہے پھر بھی اس راہ کو چھوڑ دیں اور شیطان کی راہوں کو اختیار کر لیں اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک تیر افضل اور تیری رحمت

Page 84

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ZA سورة الفاتحة ہمارے شاملِ حال نہ ہو اس لئے تجھ سے یہ عاجزانہ دعا ہے کہ ہمیں مغضوب کبھی نہ بنانا.وَلَا الضَّانِينَ اور نہ کبھی ہمیں ضال بنانا.خال سیدھے راہ سے بھٹکنے والے کو کہتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ الَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ( الكهف : ۱۰۵) پس ضالین وہ ہیں جن کی تمام کوششیں ان راہوں کی تلاش میں رہتی ہیں جو اُخروی زندگی سے ورے ورے ختم ہوتی جاتی ہے.ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وہ اس ورلی زندگی کے کناروں سے نکل کر اُخروی زندگی تک نہیں پہنچتیں.راہ بھٹک جاتی ہے کوشش جو ہے وہ آگے چل ہی نہیں سکتی ایسے راستے وہ اختیار کرتے ہیں جن کا صرف اس دنیا سے تعلق ہے حالانکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ ساری چیزیں (خواہ وہ قو تیں اور استعدادیں ہوں یا مادی سامان ہوں یا فطرت کے تقاضے ہوں ) اس لئے دی تھیں کہ اس دنیا میں وہ ختم نہ ہوں نہ صرف اس دنیا سے ان کا تعلق ہو بلکہ ان کے نتیجہ میں انسان اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت کو حاصل کرے اور اس دنیا میں بھی وہ اس رضا کی جنت کو حاصل کرے لیکن ایک گروہ انسانوں میں سے یا بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ جو ان قوتوں کی انتہا اس دنیا کے ورے ورے سمجھتے ہیں اسی طرح دنیا کے جو سامان ہیں ان کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ بس دنیا میں ہی ہمارے کام آئیں گے حالانکہ ایک عقلمند مومن یہ جانتا ہے کہ وہ بکرا جو خدا نے مجھے دیا ہے اور جو گوشت پوست ہے اور اس کی زندگی بھی چھوٹی ہے ایک ایسی چیز ہے جو صرف اس دنیا میں ہمارے کام نہیں آسکتی بلکہ اگر ہم چاہیں تو یہ اس دوسری دنیا میں بھی ہمارے کام آئے گی کیونکہ اگر ہم چاہیں تو تقویٰ کا ٹیگ لیبل اس کے ساتھ لگا دیں تو بکرا یہاں رہ جائے گا لیکن وہ ٹیگ، وہ لیبل آسمانوں کے خدا کے پاس پہنچ جائے گا.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج : ۳۸) تقویٰ کے ساتھ لگا تو بکرا اللہ کے حضور پہنچ گیا اور تمہارے لئے دوسری زندگی میں بھی مفید ہو گا ( یہ زندگی تو اس زندگی کے مقابلہ میں اتنی معمولی چیز ہے کہ ہم اس کا نام ہی نہیں لیں گے ) دوسری زندگی میں بھی وہ کام آجائے گا آپ دفتر میں جاتے ہیں سو روپیہ آپ کو تنخواہ ملتی ہے اب کوئی احمق ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ چاندی کے سکے یا کاغذ کے نوٹ صرف اس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں قیصر کی چیز ہے اس کا ایک حصہ اس کو دے دینا چاہیے لیکن چونکہ یہ خدا کی چیز نہیں اسے نہیں دینا چاہیے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ تباہ ہو جائے گا اُسے یہ کہنا چاہیے کہ ہر چیز چونکہ خدا کی ہے اس لئے جس قدر چاہے وہ لے لے پھر جو بچ

Page 85

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۷۹ سورة الفاتحة جائے گا وہ میں استعمال کرلوں گا ایک مومن کی یہی نیت ہوتی ہے اس کی یہ نیت نہیں ہوتی کہ جو مجھ سے بچ جائے گا وہ میں خدا کو دے دوں گا بلکہ اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ جو بچ جائے گا اس معنی میں وہ کہے کہ میں نے اتنا لے لیا باقی تم استعمال کر لو تو پھر وہ میں استعمال کر لوں گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے بعض کے ساتھ یہی سلوک کیا آپ نے فرمایا نہیں اتنا مال نہیں چاہیے واپس لے جاؤ اور استعمال کرو اس نیک نیتی کے ساتھ جتنا دینا چاہا پیش کر دیا اور ہمیں یقین ہے کہ اس نے خدا سے اسی کے مطابق ثواب حاصل کر لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور اسلام کی اس وقت کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کہا سارے مال کی ضرورت نہیں واپس لے جاؤ پھر یہ بتانے کے لئے کہ جب ایک مومن خدا کے حضور اپنا سارا مال پیش کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بد نیتی نہیں ہوتی کہ سارا مال قبول نہیں کیا جائے گا اس لئے سارا مال پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت ابوبکر نے جب اپنا سارا مال پیش کیا تو وہ سارا قبول کر لیا گیا اور بتایا گیا کہ ہر مومن کے دل کی یہی کیفیت ہے لیکن کچھ مومن وہ ہوتے ہیں جو جواں ہمت ہوتے ہیں اور جو انتہائی بوجھ برداشت کر سکتے ہیں (چنانچہ آپ نے ان میں سے ایک کا سارا مال لے لیا اور مثال کو قائم کر دیا ) اور کچھ وہ ہوتے ہیں کہ ان کی روح تو انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوتی ہے لیکن ان کا ماحول اور ان کا جسم اس کے لئے تیار نہیں ہوتا ان کو فتنہ اور امتحان سے بچانے کے لئے ان کے مال کا ایک حصہ قبول کر لیا جاتا ہے اور ایک حصہ واپس کر دیا جاتا ہے.پس مومن کی مادی کوشش دنیا میں حدود سے ورے ختم نہیں ہو جاتی اور اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا که ضَلَّ سَعْيُهُم في الحیوۃ الدنیا کیونکہ روپیہ وہ خرچ کرتے ہیں زندگی کا ہر لمحہ جو وہ گزارتے ہیں اخلاق کا ہر مظاہرہ ان سے سرزد ہوتا ہے بچوں سے محبت اور پیار کا سلوک جو دنیا ان سے دیکھتی ہے اس کے پیچھے یہی روح کام کر رہی ہوتی ہے کہ جس نے خدا کی رضا کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا اس نے بھی ثواب حاصل کر لیا.غرض مومن اپنے ہر دنیوی کام کو اُخروی جزا اور اُخروی نعماء کے حصول کا ذریعہ بنالیتا ہے اور اس کے متعلق ہمیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا والے گروہ میں ہے لیکن بہت سے لوگ ہمیں ایسے بھی نظر آتے ہیں بہت سی قومیں ہمیں ایسی نظر آتی ہیں جو راہ بھول گئے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ سیدھا راستہ کونسا ہے اس لئے وہ مغضوب علیہم کے گروہ

Page 86

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۸۰ سورة الفاتحة میں شامل نہیں کئے جاسکتے وہ ضال کے گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کے ذرائع تو اختیار کرے گا اور وہ انہیں سخت بھی محسوس ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع ہی میں سورۃ فاتحہ میں ان دو گروہوں کے (درمیان) ایک فرق کر دیا یعنی ایک کو مغضوب کہا ہے اور ایک کو ضال کہا ہے یہ لوگ صراط مستقیم کو پہچانتے نہیں.ضالین یہ سمجھتے ہیں کہ جس راستہ پر وہ ہیں بس وہی ٹھیک ہے نہ وہ خدا کو پہچانیں نہ کوئی آسمانی تعلیم ایسی ہے جس کے اوپر ان کا پختہ یقین ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بس یہ دنیا پیدا ہوئی یا اگر ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دنیا کو اللہ نے پیدا کیا ہے مگر اتنی بڑی ہستی اور عاجزوں سے ایک زندہ تعلق قائم کیوں رکھے گی اس لئے اس کا ہمارے ساتھ کوئی زندہ تعلق نہیں غرض اپنی حماقت اپنی بیوقوفی اپنی روایات ( ہزار قسم کی وجوہات ہوسکتی ہیں ان سب وجوہات ) کے نتیجہ میں وہ راہ گم کر بیٹھتے ہیں اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر یہ جماعت مؤمنین جو احیائے اسلام کے لئے پیدا کی گئی ہے ضالین کے سامنے بھٹکتے ہوئے راہی کے سامنے ہدایت پیش کرے گی تو ان سے بہت سے اسے قبول کر لیں گے کیونکہ ان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے وہ جان بوجھ کر انشراح صدر کے ساتھ ضلالت کی راہوں کو اختیار نہیں کرتے بلکہ بھٹکے ہوئے ہیں.ان کو صراط مستقیم کا پتہ ہی نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دعا کرتے رہو کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی فرد یا جماعت گمراہی میں کفر میں پڑکر ایک حصہ ان کا مغضوب بن جائے اور ایک حصہ ان کا ضال بن جائے یعنی ہر شخص دعا کرنے والا اپنے اور اپنوں کے لئے یہ دعا کرے کہ اے خدا میری فطرت میں شیطنت کو کبھی پیدا نہ ہونے دینا کہ میں تیری راہ کو جانتے بوجھتے انشراح صدر کے ساتھ چھوڑ نے لگ جاؤں اور نہ ایسے حالات پیدا کرنا کہ میں تیری راہ کو گم کردوں اور بھٹک جاؤں اور شیطان کی راہوں کو اختیار کرلوں.غرض جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے متعدد جگہ تحریر فرمایا ہے سورۃ فاتحہ ایک عظیم دعا ہے اس وقت میں صرف اس چھوٹے سے ٹکڑے کا مضمون بیان کر رہا ہوں اور اس سورۃ کا یہ ٹکڑا بھی عظیم دعا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ میرے غضب سے بچنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر اختیار کرنے کے بعد میرے حضور آؤ اور دعائیں کرو اور ضلالت کی راہوں کو اختیار کرنے سے بچنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر اختیار کرو اور میرے پاس آؤ اور دعا کرو اگر خلوص نیت سے میرے حضور دعا کرو گے تو ضال

Page 87

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ΔΙ سورة الفاتحة ہونے سے بھی تجھے اے انسان بچایا جائے گا مغضوب ہونے سے بھی تجھے بچایا جائے گا اور صراط مستقیم تجھے دکھائی جائے گی اس راہ پر چلنے کی تجھے تو فیق عطا کی جائے گی میرے قرب کو تو حاصل کر لے گا میری رضا کی جنت میں تو داخل ہو جائے گا اور اس گروہ میں شامل ہو جائے گا جو منعم علیہم کا گروہ ہے جسکا ذکر متعدد آیات قرآنیہ میں پایا جاتا ہے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۱۰ تا ۲۱۵) قرآن کریم نے ہمیں صرف یہ دعا نہیں سکھائی کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرے.اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں صراط مستقیم کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ راستہ جو کم سے کم کوشش کے نتیجہ میں منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو.دُنیا کی ہر خواہش کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ایک راستہ ہے اور جب تک اُس راہ کا علم انسان کو نہ ہو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یا بہت تکالیف اُٹھانے کے بعد بہت چکر کاٹ کر اور تکلیف اُٹھا کر اپنی منزل تک پہنچتا ہے.ہمیں صرف یہ دعا نہیں سکھائی بلکہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کی قبولیت کے ساتھ جو ذمہ واری ہم پر عائد ہوتی ہے اُس کے نبھانے کے لئے دعا ہمیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں پہلے سکھائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ اے خدا! ہمیں تو فیق عطا کر کہ جو طاقتیں تو نے صراط مستقیم پر چل کر منازل مقصودہ تک پہنچنے کے لئے عطا کی ہیں ہم ان کا صحیح اور پورا استعمال کر سکیں.اس تفسیر کی روشنی میں اتناكَ نَعْبُدُ کے یہ معنی ہیں.پھر وَايَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ بتدریج ارتقا کا قانون اس مادی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے اور کسی منزل کو بھی آخری منزل سمجھ کر تسلی پا جانے کی فطرت ہمیں تو نے دی نہیں اس لئے ہر منزل پر پہنچ کر اگلی منزل کی تلاش دل میں پیدا ہوتی ہے اور تیری محبت کی جس منزل پر بھی ہم پہنچے ہوتے ہیں اُس سے زیادہ کے حصول کی خواہش ہمارے دل میں مچلتی ہے اس لئے ہر منزل جس تک ہم پہنچیں (ان طاقتوں اور کوششوں اور تدابیر کو انتہا تک پہنچا کر ان طاقتوں کے ذریعہ جو تو ہمیں دے چکا ہے یعنی اپنی انتہائی کوشش کے نتیجہ میں ) وہ تیری پیدا کردہ فطرت کے مطابق ہماری آخری منزل نہیں بلکہ انگلی منزل کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس کے لئے پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کی ضرورت ہے اور جب تیری توفیق سے اپنی طاقتوں کا صحیح اور پورا استعمال کر کے ہم ایک جگہ پہنچیں تو پھر ہماری دعا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں مزید طاقتیں عطا کر.چنانچہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اس طرف اشارہ ہے اور

Page 88

۸۲ سورة الفاتحة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اس طرح پر یہ صراط مستقیم جو ایک معنی میں منزل بہ منزل انسان کی خوشیوں کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اور دوسرے معنی میں ہر منزل اگلی منزل کی نشاندہی کرتی ہے اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو مزید حاصل کرنے کی جو خواہش دل میں مچلتی ہے اُس کے لئے مزید طاقتوں کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں دعا سکھائی.پس صرف یہ نہیں کہا کہ ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ صراط مستقیم کی ہدایت ملنے کے بعد بھی بعض بد قسمت راہ راست کے کنارہ پر گر کر مر جاتے ہیں اور ان کا جسم اور رُوح سرگل جاتی ہے اور تعصب اُن میں پیدا ہو جاتا ہے.آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زندگی میں ہمیں یہ نظارہ نظر آیا کہ بعض ایسے بد قسمت تھے جن کو یہ کامل اور مکمل ہدایت ملی یعنی قرآن عظیم کی شریعت اور جن کو ایک بہترین اُسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ملا اُنہوں نے اس کو ایک حد تک پہچانا اور اس سے فائدہ حاصل کیا اور ایک وقت کے بعد وہ مرتد ہو گئے.پس صراط مستقیم کے کنارے پر ان کی رُوحانی یا بعض دفعہ رُوحانی اور جسمانی ہلاکت واقع ہوئی.پس محض صراط مستقیم کا عرفان حاصل کر لینا کافی نہیں یعنی اس ہدایت کا مل جانا کہ یہ سیدھا راستہ ہے بلکہ اس پر چلنا ضروری ہے اور محض چلنا ضروری نہیں بلکہ ہر لمحہ اور ہر آن پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ راہ راست پر حرکت کرنا ضروری ہے تب انسان کو آخری خوشیاں اور جو انتہائی لذتیں ہیں اور انتہائی خوشی ہے وہ ملتی ہے جس کا نام اس دُنیا کی جنت بھی رکھا گیا ہے اور جس کی آخری شکل اس جہان سے گذرنے کے بعد دوسری زندگی کے اندر انسان کے سامنے آئے گی لیکن وہاں بھی صراط مستقیم کی منازل کی انتہا نہیں ہوگی.قرآن کریم نے بھی اور احادیث نے بھی قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ وہاں بھی اگر چہ امتحان نہیں ہو گا مگر عمل ہو گا.امتحان کا مطلب ہے کہ جہاں یہ خطرہ ہو کہ عمل درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے.عمل اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل بھی کر سکتا ہے یعنی عمل صالح بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی بھڑکا سکتا ہے یعنی عمل غیر صالح بھی ہو سکتا ہے.پس یہاں عمل ہے اور امتحان ہے اور دوسری زندگی میں عمل تو ہے ( نکتا پن نہیں کہ پوستیوں کی طرح افیم کھا کر بیٹھ گئے اور اونگھتے رہے ) عمل ہے مگر امتحان نہیں.یہاں عمل ہے اور امتحان ہے.

Page 89

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۸۳ سورة الفاتحة وہاں عمل ہے اور ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.وہاں پیچھے ہٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے آگے ہی آگے بڑھنا ہے ہر روز زیادہ ترقیات ملتی ہیں اور ہر روز زیادہ عمل کی توفیق ملتی ہے.پس یہ شکل ہے ایک مومن کی زندگی کی.پھر دنیا میں اُس کے اعمال بھی یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.اور دوسری دُنیا میں بھی اُس کے اعمال یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.اس دنیا میں انسان مومن صالح ، خدا کا محبوب اور مقرب دو قسم کا عمل کرتا ہے.ایک عمل ہے اُس کا شکر ادا کرنے کے لئے اور ایک عمل ہے مزید شکر کے سامان کے حصول کے لئے یعنی پہلے سے زیادہ ملے اور زیادہ وہ شکر ادا کرے.ہمیں اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة : ۲۰۲) کی دعا سکھائی کہ ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا کر کہ اس دنیا کی حسنات بھی ہمیں ملیں ( مثلاً درخت لگے ہوئے ہوں اور گرمی کم ہو.یہ دنیا کے حسنات میں سے ہے ) اور ہمیں ایسے مقبول اعمال کی توفیق عطا کر کہ تیری جنتیں ہمیں یہاں سے جانے کے بعد حاصل ہوں.جنتوں کے ہم حقدار ٹھہریں وہاں جانے کے بعد ایک ہی زندگی ہے یہاں ہمارے سامنے دو زندگیاں ہیں.ایک اس دنیا کی زندگی اور ایک اُس دنیا کی زندگی اس لئے اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ہمیں سکھایا لیکن اُس دنیا میں ایک ہی زندگی ہے یعنی جنت کی زندگی اور اس میں امتحان نہیں ہے لیکن ترقیات ہیں اس لئے وہ ایک ہی قسم کے اعمال ہیں.وہ اعمال شکر بھی ہیں اور مزید ترقیات کے حصول کے بھی ہیں یہاں فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ کی جو دعا ہے وہ شکر کے لئے ہے اور ناکامیوں سے بچنے کے لئے بھی ہے کہ جو تو نے دنیا کی نعمتوں کے حصول کے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں.ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ان پر تیرا شکر ادا کرسکیں اور کبھی محروم نہ رہ جائیں.بہر حال یہ مومن کی زندگی کی تصویر ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جب حقیقی مومن بن جاتا ہے تو اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ استقامت اور صراط مستقیم قریباً ایک مفہوم میں استعمال ہو جاتے ہیں.پس استقلال کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ کام کرتے چلے جانا یہ مومن کی زندگی کی ایک نمایاں علامت ہے.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۴۷۹ تا ۴۸۲) اسلام ایک کامل مذہب ہے.اسلام نے ہمیں ایک کامل دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ میں سکھاتی ہے.دراصل جس طرح ایک نگینہ کسی زیور میں جڑا ہوتا ہے اسی طرح یہ دعا بہترین دعا کی

Page 90

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۸۴ سورة الفاتحة شکل میں سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہے.گوساری سورۃ فاتحہ ہی ایک نہایت اعلیٰ رنگ کی دعا ہے لیکن اس میں دعا کے لحاظ سے ایک بنیادی نکتہ ہمیں یہ سوجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا ہے.انسان کو خلق کیا اسے بہت سی قو تیں اور استعدادیں بخشیں اور اس کی زندگی کا یہ مقصد ٹھہرایا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے حی و قیوم خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرے لیکن چونکہ اس تعلق کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے سورہ فاتحہ کی شکل میں ایک کامل دعا سکھا دی تا کہ ہم اس دعا کے ذریعہ خدا کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو حاصل کر سکیں.چنانچہ سورۃ فاتحہ کی اس آیہ کریمہ میں جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے، اللہ تعالی اسی اصول کی رہنمائی کرتا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے میری صفات کی جو تجلیات تمہیں اپنی زندگیوں اور اپنے ماحول میں نظر آتی ہیں اگر تم ان کا غور سے مشاہدہ کرو گے تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ہر شے کے حصول کے لئے ایک سیدھا اور مقررہ راستہ ہوتا ہے.وسائل ہوتے ہیں جن کے بغیر انسان کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا سیدھی راہیں ہوتی ہیں جن پر چلے بغیر انسان منزل مقصود تک پہنچ نہیں سکتا.پس اگر یہ درست ہے اور یقیناً یہی درست ہے تو بنیادی دعا جو ایک انسان کو مانگنی چاہیے وہ یہی ہے کہ اے ہمارے خدا! ہمارا جو بھی نیک مقصد ہو اس کے حصول کے لئے جو سیدھی راہ ہے یعنی صراط مستقیم وہ ہمیں دکھا اور چونکہ انسان کی پیدائش کی اصل غرض خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق کو قائم کرنا ہے.اس لئے یہ دعا یوں بنے گی کہ اے ہمارے خدا! ہمیں وہ سیدھا راستہ دکھا جس پر چل کر ہم تجھ تک پہنچ سکیں اور تیرا قرب حاصل کر سکیں.غرض جب تک اللہ تعالیٰ وہ راہ نہ دکھائے جب تک انسان محنت اور کوشش اور مجاہدہ کے ذریعہ اور دعا اور تضرع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو جذب نہ کرے جس کے نتیجہ میں اسے سیدھی راہ دکھائی جاتی ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اس کا مقرب بن جانا اس کا محبوب بن جانا ممکن ہی نہیں.پس جہاں تک مقصدِ حیات کا تعلق ہے یہ دعا کامل اور مکمل ہے لیکن یہیں بس نہیں بہت ساری ذیلی چیزیں ہیں جو حقیقتاً اسی مقصود کے حصول کے لئے ہیں مثلاً صحت کا قائم رہنا صحت کے قیام کے ساتھ اصل مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش اور

Page 91

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث محنت کی جاسکے اور دعائیں کی جائیں.۸۵ سورة الفاتحة ایسی دعائیں جو نسل کی طرح تڑپا دیتی اور خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں ہمارے جسم اور ہماری روح کو اس مشقت کے برداشت کرنے کی توفیق ملے.چنانچہ قیام صحت کے لئے اللہ تعالی نے کچھ راہیں یعنی کچھ طریقے مقرر کئے ہیں.کچھ وسائل پیدا کئے ہیں ان راہوں کا علم حاصل کئے بغیر اور ان وسائل کے حصول کے بغیر ہم اپنی صحت کو قائم نہیں رکھ سکتے.ہم وہ محنت اور کوشش وہ تضرع اور دعا نہیں کر سکتے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی کے حقوق کی ادائیگی کے علاوہ دو قسم کے اور حقوق بھی ہوتے ہیں.ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے ایک تو حقوق العباد ہیں اور دوسرے حقوق النفس ہیں جب تک یہ حقوق ادا نہ ہوں.انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے میں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا.پس ہر وہ چیز جو ہم نے حاصل کرنی ہے ہمارا جو بھی مقصود و مطلوب ہے اور جس کے حصول کے لئے ہم نے کوشش اور دعا کرنی ہے اس کے لئے پہلی اور بنیادی چیز یہی ہے کہ ہمیں صراط مستقیم مل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صراط مستقیم کو توحید کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے اور بالکل سچی بات ہے اور ہماری عقل بھی اسے تسلیم کرتی ہے.چنانچہ آپ نے قریباً نو چیزوں سے توحید کا تعلق گنوایا ہے.یہ تو ایک لمبا مضمون ہے.اس وقت تو میں مختصراً چند باتیں کہنے پر اکتفا کروں گا.میں نے بتایا ہے کہ صراط مستقیم کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر میسر نہیں آ سکتا.اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے اور اپنا مقصود پانے کے لئے ہمیں اپنی کوشش اور محنت ، تضرع اور دعا کو ذریعہ بنانا چاہیے.یہی وہ صراط مستقیم ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا اور انسان اس کے پیار اور اس کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس زمانے میں ہم پر ایک اور بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تمام بنی نوع انسان کو اس خدا کی طرف کھینچ کر لے آئیں جس نے ان کو پیدا کیا ہے گویا جماعت احمدیہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے دل میں اس بات کو جانشین کر دے کہ تمہاری زندگی کا وہ مقصد نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ تمہاری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لوٹو اور جس پیار کے

Page 92

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۸۶ سورة الفاتحة حصول کے لئے اس کی رحمت نے تمہیں پیدا کیا ہے اس پیار کے حصول کی کوشش کرو.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۱۶۵ تا ۱۶۷) اس سورۃ میں جو بڑے وسیع اور بڑے گہرے اور بڑے حسین مضامین اپنے اندر لئے ہوئے ہے اس میں ایک آیت یہ بھی ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ ہر چیز کے حصول کا ایک صحیح راستہ ہے اور اسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے غلط راستوں پر بھی چلے جاتے ہیں مثلاً ایک موٹی مثال ہے ایک شخص اپنے اس علم کی وجہ سے اور اس تجربہ کی وجہ سے جو علم اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا اور جس تجربہ کے حصول کی اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی تجارت میں مہارت حاصل کر چکا ہے اور وہ دولت کما رہا ہے وہ تمام تجارتی اصول سامنے رکھ کے تجارتی معاملات کرتا ہے اور پھر دعائیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور اس کی عقل اور فراست کو روشن رکھتا ہے اور سیدھا راستہ اس کو دکھا دیتا ہے اور بڑا مالدار ہو جاتا ہے ایک دوسراشخص مالدار ہونے کے لئے چوری کرتا ہے اور دنیا میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ مبالغہ نہیں ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ پچاس فیصدی چور یقیناً ایسے ہیں جو پکڑے نہیں جاتے اور چوری کے مال سے وہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو وہ بھی ایک راستہ تھا مال کے حصول کا جو اختیار کیا گیا اور کامیابی سے اختیار کیا گیا بظاہر دنیا دار جو ہے وہ دنیوی نقطہ نگاہ سے جب دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ بھی مال دار ہے ایک شخص کہتا ہے کہ تم کہتے ہو سیدھا راستہ اختیار کرو اپنے ملک کی حالت دیکھو کتنے ہیں جنہوں نے بلیک مارکیٹنگ کے نتیجے میں اور بددیانتی کے نتیجہ میں مال کو جمع کر لیا ہے اور اب دنیا میں ان کی بڑی عزت ہے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ سیدھے راستے سے اگر تم وہ چیز حاصل کرو گے جو کرنا چاہتے ہو د نیوی مال تو ایک نعمت ہے نا، دنیا میں ہزاروں نعمتیں ہیں اگر سیدھے راستے پہ چل کے تم اپنے مقصد کو حاصل کرو گے تو یہ تو ہوگا انعام اللہ کی طرف سے اور اگر غلط راستہ اختیار کرو گے تو وہ انعام نہیں ہو گا اس کے ساتھ سزا لگی ہوئی ہے اس دنیا میں بھی سز املتی ہے جب چور پکڑا جاتا ہے جب بددیانت پکڑا جاتا ہے جب بلیک مارکیٹ کرنے والا پکڑا جاتا ہے اور یہ گرفت کئی قسم کی ہوتی ہے کبھی اللہ تعالیٰ آسمان سے گرفت نازل کرتا ہے مثلاً بڑا مال کمالیا اور کھانا ہضم نہیں ہوتا کئی ایسے بھی ہم نے دیکھے ہیں بڑے امیر ہیں امارت پیسہ جو ہے مال جو ہے اس کا ایک خرچ یہ ہے کہ زبان کا چسکا جو ہے وہ پورا کیا جائے لیکن وہ شخص کھا ہی نہیں سکتا پیسے رکھے

Page 93

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۸۷ سورة الفاتحة ہوئے ہیں اس کے ارد گر دلوگ کھا رہے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں تو مصیبت میں پھنسا ہوں کھا ہی کچھ نہیں سکتا ہضم نہیں ہوتا بیمار ہو جاتا ہوں جب بھی کوئی ثقیل چیز کھالوں پر ہیزی کھانا کھا رہے ہیں لاکھوں روپیہ تجوری میں ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جسم میں، جلد میں ایسی بیماری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اچھا کپڑا پہن نہیں سکتے اب وہ دھوتی پہنی ہوئی ہے پھر رہے ہیں پیسہ بڑا ہے دل کرتا ہے کہ پانچ سو روپیہ گز والا کپڑا خرید کے سوٹ بنائیں لیکن وہ پہن ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے ہیں ہزاروں مثالیں اس قسم کی دی جا سکتی ہیں بعض کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ پکڑ لیتا ہے بعض کو اُخروی زندگی میں پکڑ لیتا ہے بعض کو میں اس لئے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تو مالک ہے کسی کو معاف کر دے تو یہ بھی اس کی شان میں ہے اس کی صفات کی شان کے عین مطابق ہوگا لیکن بعض کے متعلق یقیناً اس نے کہا ہے کہ میں گرفت کروں گا اس واسطے انسان کو مطمئن نہیں رہنا چاہیے تو یہاں یہ فرمایا کہ ہر چیز کے حصول کے لئے ایک سیدھی راہ ہے یا ایک سے زائد بھی بعض دفعہ ہو سکتی ہیں اگر زیادہ وسعت والا مضمون ہمارے ذہن میں ہو مثلاً قرب الہی کے ایک سے زائد رستے ہیں مثلاً جنت کے سات دروازے ہیں جن کا مطلب ہے سات راہیں جنت کی طرف جارہی ہیں لیکن اس دنیا میں عام طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے مقاصد کے حصول کے لئے ایک سیدھی راہ ہے اس راہ پر اگر انسان چلے تو اسے یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ہر سیدھی راہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا انعام اس کا منتظر ہوتا ہے اگر وہ سیدھی راہ پر نہیں چلتا تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اس کا انتظار کر رہی ہو کیونکہ مغفرت کے اوپر انسان کی تو کوئی اجارہ داری نہیں ہے نالیکن ہوسکتا ہے کہ اس کا عذاب، اس کا قہر، اس کا غضب، اس کا انتظار کر رہا ہو اس کو وعدہ یہ نہیں ہے کہ تمہیں انعام ملے گا انعام مل جائے تو اور چیز ہے.......کیونکہ اس سورۃ میں اس نے اپنی صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بیان فرمائی ہے کہ مالک کی حیثیت سے وہ انسان سے معاملہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا ان سے تو یہ کوئی وعدہ نہیں بلکہ وعید بڑا ہے کہ غلط راہوں کو اختیار کرو گے تو عام قانون سزا کا ہے استثنائی طور پر معافی کا ہے ٹھیک ہے مالک ہے معاف کر دے لیکن اس نے ہمیں وعید یہ دیا ہے ہمیں کہا یہ ہے کہ اگر تم غلط راہوں کو اختیار کرو گے.غلط نتائج نکلیں گے.....تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اچھے مقاصد کے حصول کے لئے کچھ نیک راہیں معین کی گئی ہیں ان راہوں پر چلو تو کیا دیکھو گے آگے تمہیں کیا انعام

Page 94

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ٨٨ سورة الفاتحة ملے گا خالی یہ نہیں کہا انعام ملے گا ان لوگوں کا انعام ملے گا جو تم سے پہلے گزرے جنہوں نے ہم سے انعام حاصل کئے اور تمہیں پتہ ہے کہ کس قسم کے انہوں نے انعام حاصل کئے ، انبیاء ہیں ، صدیق ہیں، شہید ہیں، صالح ہیں انہوں نے اس دنیا میں بھی انعام حاصل کئے تم نہیں یہ کہہ سکتے کہ جو مثال ہمارے سامنے رکھی جا رہی ہے وہ ہم سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ان انعاموں کا جن کا ذکر کیا جارہا ہے دوسری زندگی میں ملنا ثابت ہے ان لوگوں کو اس دنیا میں بھی انعام ملا دنیا نے ان کو بے عزت کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بے عزت نہیں ہونے دیا ہر قسم کی عزت ان کو عطا کی سب سے زیادہ عزت تو اللہ تعالی کی آنکھ میں رضا کی چمک جب بندہ دیکھ لیتا ہے تو اس سے زیادہ اس کو کسی اور عزت کی ضرورت ہی نہیں رہتی، انبیاء ہیں ساری دنیا مخالفت کرتی ہے ایک شخص کھڑا ہوتا ہے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ سامنے ہوتا ہے کہ ساری دنیا نے میری مخالفت کرنی ہے اس کو پستہ ہوتا ہے کہ دنیوی سامان میرے پاس نہیں ہیں کتنا بڑا توکل کا مقام ہے جو اسے حاصل ہوتا ہے ساری دنیا پر اپنے رب کو وہ ترجیح دیتا ہے اس پر وہ تو گل رکھتا ہے پھر دنیا اپنا زور لگا لیتی ہے لیکن اس شخص کو بے عزت اور نا کام نہیں کر سکتی بے عزباتی تو نا کامی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا کوئی بھی ساتھ نہیں تھا.آدمی برداشت نہیں کر سکتا اس زمانے کے حالات جب اپنے ذہن میں لاتا ہے آپ نے خود نثر اور نظم اردو اور عربی میں لکھا ہے کہ گھر والے پرواہ نہیں کرتے تھے وہ جو برابر کا شریک تھا اس کو اپنے دستر خوان کے ٹکڑے بھیج دیتے تھے یہ عزت اس خدا کے برگزیدہ کی تھی اپنے خاندان کے دل میں.لیکن خدا نے جو وعدے دیئے وہ پورے کئے آپ نے فرمایا اپنے زمانہ میں کہ کبھی تو دسترخوان کے ٹکڑے مجھے ملتے تھے اب ہزاروں خاندان ہیں جو میری وجہ سے پل رہے ہیں انہیں روٹی مل رہی ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۹۱ تا ۱۹۶)

Page 95

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۸۹ سورة البقرة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البقرة آیت ا تا ۱۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.b ق ج 8 المن ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءِ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ.خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِم وَ عَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ هُ يُخْدِعُونَ اللهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيم بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ حنُ مُصْلِحُونَ.اَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلكِن لَّا يَشْعُرُونَ وَإِذَا.قِيْلَ لَهُمُ امِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا اَنْوَ مِنْ كَمَا أمَنَ السُّفَهَاءُ اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلكِنْ لاَ يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا أَمَنَا رووور 1 و لا

Page 96

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۰ لا سورة البقرة ۱۵ وَ إِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِينِهِمْ ، قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ اللَّهُ يَسْتَهْزِئَ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ أُولبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوا الصَّللَةَ بِالْهُدى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ.قرآن کریم نے دعوی کیا ہے کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ یہ قرآن ایک کامل اور مکمل شریعت ہے اور اس دعوی کے دلائل قرآن کریم نے یہ دیئے کہ لَا رَيْبَ فِيهِ - ریب کے چار معنی جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں ان کی رو سے یہاں ہمارے سامنے چار دلائل بیان کئے گئے ہیں اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ واقعہ میں یہ قرآن، یہ کتاب ہر لحاظ سے مکمل کامل اور اکمل اور اتم ہے.ریب کے ایک معنی کی رو سے قرآن کریم کی تعریف یہ نکلتی ہے کہ انسان کی روحانی اور جسمانی اور معاشرتی اور اخلاقی اور اقتصادی اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف یہی ایک کامل کتاب ہے اور یہی ایک کامل کتاب ہے جو فطرت انسانی کے سب حقیقی تقاضوں کو پورا کرتی ہے.کیونکہ یہ اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کرتی ہے.اگر میں اس دلیل کو پھر ایک دعوی قرار دے کر اس کے دلائل بیان کرنے لگوں تو اس ایک دلیل پر ہی بڑا وقت خرچ ہو جاتا ہے قرآن کریم کو ایک حد تک سمجھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کے دلائل اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات اس قسم کی ہیں کہ جو تمام پہلی کتب پر اس کو افضل ثابت کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب بنی اسرائیل کی الہامی کتب کے متعلق یہ سوال کیا گیا کہ ان کے ہوتے ہوئے قرآن کریم کی کیا ضرورت تھی ؟ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ سارے قرآن کریم کا نام نہ لو وہ تو بہت وسیع کتاب ہے بڑے علوم اس کے اندر پائے جاتے ہیں.اس کے شروع میں سورۃ فاتحہ ہے اور سورۃ فاتحہ میں جو معارف اور حقانی دلائل بیان ہوئے ہیں ان معارف اور دلائل کے مقابلہ پر اپنی تمام روحانی کتب سے اگر تم وہ دلائل اور معارف نکال کر دکھا دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہاری کتابیں قرآن کریم کا مقابلہ کر سکتی ہیں.اس دعوت مقابلہ پر ایک لمبا زمانہ گذر چکا ہے اور کیتھولک ازم میں کئی پوپ یکے بعد دیگرے پیدا ہوئے اور کیتھولک چرچ کی سر براہی

Page 97

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۱ سورة البقرة انہیں حاصل ہوئی.اسی طرح دوسرے فرقے تھے عیسائیوں کے ان میں سے کسی ایک کے سر براہ کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ سورہ فاتحہ کے مقابلہ میں اپنی کتب سماوی سے اس قسم کے دلائل نکال کر پیش کر سکے.جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تھا کہ ہم اس سورۃ سے نکال کر تمہارے سامنے رکھیں گے.پس لا رَيْبَ فِيهِ کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب جو اپنے ذاتی کمالات اور فضائل اور بے نظیر تعلیمات کے ساتھ اپنی ضرورت اور صداقت کو ثابت کر سکتی ہے اور جب آپ سے سوال کیا گیا کہ قرآن کریم کی ضرورت کیا ہے تو اس کا جو جواب دیا گیا اور اس جواب میں جس دعوت فیصلہ کی طرف بلایا گیا اس کو آج تک عیسائی فرقوں کے سر براہوں نے قبول نہیں کیا اور اس سے واضح.ثابت ہوا کہ وہ سورہ فاتحہ کے مضامین کے مقابلہ میں اپنی کتب سماوی کے مضامین کو پیش نہیں کر سکتے.طور پر الكتب كامل کتاب ہونے کی دوسری دلیل لا رَيْبَ فِیهِ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دی ہے کہ قرآنی تعلیم انسان کو ظن اور گمان کے بے آب و گیاہ ویرانوں سے اٹھا کر دلائل اور آیات بینات کے ساتھ یقین کی رفعتوں تک پہنچاتی ہے اور یہ خوبی ہمیشہ اس میں قائم رہے گی.کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے محفوظ کیا ہوا ہے.ریب کے ایک معنی کے لحاظ سے یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے.شیطانی دجل اس میں راہ نہیں پاسکتا.اس لئے اس کا جو اثر انسان کی روح پر آج پڑ رہا ہے وہی اثر اس کا قیامت تک انسان کی روح پر پڑتا چلا جائے گا.اس لئے یہ الکتب ایک کامل کتاب ہے.لاریب فیہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی ایسی ہدایت اور صداقت جو ایک کامل کتاب میں ہونی چاہیے وہ اس سے باہر نہیں رہی اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متعدد مقامات پر غیر ادیان کو فیصلہ کی طرف بلایا ہے.مثلاً آپ نے فرمایا کہ ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کوئی ایسی سچی اور حقیقی دلیل تم اپنی کتابوں سے نکال کر دکھا دو جو میں قرآن کریم سے نکال کر نہ دکھا سکوں.پس ہر وہ صداقت جس کا کوئی دوسری کتاب دعوی کر سکتی ہے وہ اس کے اندر پائی جاتی ہے اور بہت سی ایسی صداقتیں بھی اس میں پائی جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتیں اس لئے یہ کتاب ایک کامل کتاب ہے.

Page 98

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۹۲ سورة البقرة لا رَيْبَ فِيهِ کے چوتھے معنی کی رو سے یہاں یہ دلیل دی گئی ہے کہ اس پر عمل کر کے تو دیکھو تم ہر قسم کے مصائب اور آفات سے محفوظ ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ گے پھر دنیا کا کوئی دجل یا دنیا کی کوئی طاقت یا دنیا کی کوئی سازش تمہارا حقیقی اور واقعی نقصان نہیں کر سکتی.نقصان تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی چیز حقیقتا ضائع ہو جائے لیکن اگر کسی کے پانچ روپے گم ہو جائیں اور اس کا والد اس کو کہے کہ پانچ روپے تو تمہارے پانچ روپے کے بدلہ میں میں دیتا ہوں اور یہ دس روپے اس تشویش کے بدلہ میں ہیں جو تم کو اُٹھانی پڑی ہے اور اس طرح اسے پندرہ روپے مل جائیں تو دنیا کا کوئی عظمند یہ نہیں کہے گا کہ اس کا پانچ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ اس کے بدلہ میں اس کو پندرہ روپے مل گئے ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ دعویٰ کیا کہ تم اس پر عمل کر کے کسی نقصان یا مصیبت میں نہیں پڑو گے.یہ نہیں کہا کہ تمہیں کوئی دکھ نہیں دے سکے گا کیونکہ ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن حقیقی مومن اس چیز کو جسے دنیا تکلیف سمجھتی ہے اپنے لئے راحت سمجھتا ہے اور اس کا خدا اور اس کا رب اور وہ جو اس کا مالک ہے اور جس کی خاطر وہ یہ تکالیف برداشت کر رہا ہوتا ہے اس کے سرور کے، اس کی مسرت کے اور اس کے آرام کے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دیکھ دینے والے نے مجھے تھوڑا دکھ دیا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اگر وہ اس سے زیادہ دکھ دیتا تو میرے ربّ کا مجھے اس سے بھی زیادہ پیار حاصل ہو جاتا.تو چونکہ یہ ایسی کتاب ہے جس پر عمل کرنے والا حقیقی مومن کبھی بھی گھاٹے میں نہیں رہتا اور اس کے مقابلہ میں جو دوسری کتب ہیں ان کا یہ حال نہیں اس لئے یہ ثابت ہوا کہ یہی کتاب الکتب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا کہ ياأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَى مِن رَّبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا لَكُمْ - (النساء : ۱۷) اے تمام بنی نوع انسان سنو کہ ایک کامل رسول کامل صداقت لے کر تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس پہنچ چکا ہے.تمہارا رب جس نے تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا تھا نشو ونما اور ارتقاء کے مختلف مدارج میں سے تمہیں گزارتا ہوا وہ اس مقام پر تمہیں لے آیا ہے کہ اپنی کامل جنتوں میں تمہیں داخل کرے.سن لو کہ یہ رسول آگیا فَا مِنوا جو وہ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ زبان سے بھی، دل سے بھی اور اپنے جوارح سے بھی تم اسے مانو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تم اس کامل رسول پر ایمان لاؤ گے اور جو اکمل شریعت ہے اس کے مطابق تم اپنی زندگیاں گزارو گے تو تم خیر امت بن جاؤ جو

Page 99

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۹۳ سورة البقرة گے اور جب تم خیر امت بنو گے اور صرف اس وقت جب تم خیر امت بنو گے تو تم اس قابل ہو گے کہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکو تمہارے ذریعہ سے تمام اقوام اور ہر زمانہ کے لوگ دینی اور دنیوی فوائد حاصل کریں گے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۶۴۹ تا ۶۵۲) ایک کامل اور مکمل ہدایت نامہ جس کے بغیر ہم حقیقی معنی میں نہ دنیوی ارتقائی منازل طے کر سکتے ہیں نہ روحانی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جا رہا ہے.الکتب اور لا رَيْبَ فِيْهِ اس کی صفات ہیں لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ایک ہدایت نامہ نہایت حسین تعلیم ایک ایسی شریعت جو زمین کی پستیوں سے اُٹھا کر آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچانے والی ہے تمہارے ہاتھ میں دی جا رہی ہے لیکن یہ نہ بھولنا کہ یہ شریعت صرف ان لوگوں کو کامیابی تک پہنچانے والی ہے جو مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کو اختیار کرتے ہیں اگر کوئی شخص بڑی نمازیں پڑھنے والا ہو، اگر کوئی شخص بظاہر اپنے مال کو مستحقین میں بڑا ہی خرچ کرنے والا ہو، اگر کسی شخص ( کی ) زبان نہایت ہی میٹھی ہو ، اگر کوئی بظاہر انتہائی ہمدردی اور خیر خواہی کرنے والا ہولیکن اگر اس کے یہ اعمال تقویٰ کی بنیادوں پر قائم نہیں کئے جاتے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قبول نہیں ہو سکتے.اس لئے باوجود اس کے کہ مکمل ہدایت نامہ ہے پوری طرح اس پر عمل کر کے بھی اگر تقویٰ سے خالی ہو کا میابی کو تم نہیں پا سکتے کامیابی کو وہی پائیں گے جو تقویٰ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اسلامی احکام کی پابندی سدو کریں گے.دوسری جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ المُتَّقِينَ (المائدہ :۲۸) جو شخص تقویٰ کی باریک راہوں کو اختیار کرے گا اس کے اعمال قبولیت کا درجہ حاصل کریں گے ورنہ وہ رڈ کر دیئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان پر کسی ثواب کا فیصلہ نہیں کرے گا تو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہی لوگ اس ہدایت سے فائدہ اٹھائیں گے اور اٹھانے والے ہوں گے جو اتقاء کی صفت میں استحکام اختیار کریں گے جن کا تقویٰ بڑی مضبوط بنیادوں کے اوپر قائم ہوگا ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو قبول نہیں کرے گا.تقویٰ بھی جیسا کہ ہر دوسری چیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے جیسا کہ سورۃ فتح ۲۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقوی کے تقویٰ کے طریق پر ان کے قدم کو خود اس نے مضبوط کر دیا ہے.انسان اپنی کوشش سے اور

Page 100

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۴ سورة البقرة اپنی جدو جہد سے تقویٰ کی راہوں پر مضبوطی سے قدم نہیں مارسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کے یہ معنی کئے ہیں.آپ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے“.(براہین احمدیہ جلد پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۰) قرآن کریم نے تقویٰ کے اس معنی کو مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَه فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّةَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أوليكَ هُمُ الرَّشِدُونَ.(الحجرات : ۸) یہاں بھی تقوی کے معنی ایک نہایت حسین پیرا یہ میں بیان کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ایمان کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کی وَ زَيَّنَة فِي قُلُوبِكُمْ اور تمہارے دلوں کو اس نے اپنے فضل سے اس حقیقت تک پہنچا دیا کہ حقیقی روحانی خوبصورتی تقوی کے بغیر ممکن نہیں اور نہ روحانی بدصورتی سے تقویٰ کے بغیر بچا جا سکتا ہے.تو ایک طرف تقویٰ ہر حکم الہی کی بجا آوری میں بشاشت پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف ہراس چیز سے نفرت پیدا کرتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکالنے والی اور اس کی ناراضگی کو مول لینے والی ہو.یہاں تقویٰ کے متعلق ہی ایک لطیف مضمون بیان ہوا ہے جس کی تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاؤں گا بہر حال یہ اشارہ کافی ہے.اسی وجہ سے سورہ بقرہ کے شروع میں ہی فرمایا تھا ھدی للْمُتَّقِينَ اور سورہ بقرہ میں ایک دوسری جگہ آگے جا کے آیت ۱۹۰ میں یہ فرمایا وَ لكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى - وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ کی تمام راہوں کو اختیار کرتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ البر کامل نیک وہ شخص نہیں جو اپنے اوقات کو نمازوں میں زیادہ خرچ کرتا ہے اپنے اموال کو خدا کی مخلوق کی محبت میں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے یا حج کرتا ہے یا رمضان کے روزے رکھتا ہے بلکہ کامل نیک وہ ہے جو تقویٰ کی راہوں کا خیال رکھتا ہے جو شخص تقویٰ کی راہوں کا خیال رکھتا ہے باقی اعمال صالحہ یا اقوال پاکیزہ جو ہیں وہ اسی طرح اس سے نکلتے ہیں جس طرح ایک جڑ سے کسی درخت کی شاخیں نکلتی ہیں جس کی مثال دی گئی ہے تقویٰ کے سلسلہ میں

Page 101

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۹۵ سورة البقرة ہی اور اس کے متعلق آگے جا کر میں کچھ بیان کروں گا.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کامل نیک (آل پر ) وہ ہے جو تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہے اور فرما یا اتقوا اللہ کہ بنیادی حکم تمہیں یہ دیا جاتا ہے کہ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو تمام نیکیاں بھی بجالاؤ گے اور تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.ایسی کامیابی کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ، تقویٰ کے بغیر تم نہیں پاسکتے.حقیقت یہی ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایام الصلح (ایاما میں فرمایا ہے.تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے.ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۲) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ جب تک انسان تقومی کی راہوں کو اختیار نہ کرے روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے.یہ بھی وہی مضمون ہے جو ھدًی لِلْمُتَّقِينَ میں بیان کیا گیا ہے کہ تقویٰ کے بغیر روح کے ان خواص اور قومی کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا حالانکہ قرآن کریم تو وہاں موجود ہے جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے.اس مضمون کو کہ تقویٰ کا تعلق تمام ہی نیکیوں سے ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ” تقویٰ ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے“.(ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۴۲) تقویٰ ایک ایسا قلعہ ہے کہ جب اس کے اندر نیک اقوال اور صالح اعمال داخل ہو جائیں تو وہ شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں.لیکن اگر کوئی عمل بظاہر کتنا ہی پاکیزہ اور صالح کیوں نظرنہ آتا ہوا گر وہ اس قلعہ میں داخل نہیں تو شیطان کی زد میں ہے، کسی وقت وہ اس پر کامیاب حملہ کر سکتا ہے کیونکہ اگر تقویٰ نہیں تو کبر پیدا ہو سکتا ہے، ریاء پیدا ہو سکتا ہے، جب پیدا ہو سکتا ہے اگر تقویٰ ہے تو ان میں سے کوئی بدی پیدا نہیں ہو سکتی یعنی شیطان کا میاب وار نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابھی جو فقرہ میں نے پڑھا ہے وہ معنوی لحاظ سے اسی کا ترجمہ ہے.اللہ تعالیٰ سورہ دخان : ۵۲ میں

Page 102

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۹۶ سورة البقرة فرماتا ہے: اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامِ آمِيْنِ کہ متقی یقینا ایک امن والے اور محفوظ مقام میں ہیں تو یہی وہ حصن حصین ہے.یہی "امین" کے معنی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے ہیں کہ محفوظ اور امن میں وہی ہے جو تقویٰ پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے جو تقویٰ پر قائم نہیں وہ امن میں نہیں وہ خطرہ میں ہے وہ حفاظت میں نہیں خوف کی حالت میں ہے اور ایسا شخص مقام امین میں نہیں ہے بلکہ اس مقام پر ہے جسے دوسرے لفظوں میں جہنم کہا جاتا ہے.پس قرآن کریم نے ہی تقویٰ کے معنوں کو بیان کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے حصن حصین کا تخیل پیش کیا ہے کہ سوائے تقویٰ کی راہوں پر چل کر کوئی شخص امن میں نہیں رہ سکتا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اس مضبوط قلعہ میں داخلہ ہونے کا سوائے تقویٰ کے دروازے کے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے.ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے ہر نیکی خواہ وہ قولی ہو یا فعلی وہ تقویٰ کی جڑ سے نکلتی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو سینکڑوں احکام دیئے ہیں جب ہم ان پر عمل کرتے ہیں اور اس رنگ میں عمل کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنیں اور اللہ تعالیٰ کی جنت کے درختوں کی شاخیں ہو جائیں اور ان درختوں کے لئے پانی کا کام دیں تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ شاخیں تقوی کی جڑ سے نکلیں......پس ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے.جو شخص تقویٰ کی جڑ تو نہیں رکھتا لیکن بظاہر ہزار قسم کی نیکیاں بجالاتا ہے اسے فائدہ ہی کیا کیونکہ اس سے وہ شاخیں نہیں پھوٹ سکتیں جو خدائے رحمن تک پہنچتی ہیں نہ وہ پھل لگ سکتے ہیں جو پھل کہ دوسری صورت میں ان شاخوں کو لگا کرتے ہیں اور روحانی سیری کا موجب بنتے ہیں.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے ایک دوسری جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ 66 حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۷) ہر وہ پاک اعتقاد یا عمل صالح جونور کے ہالہ میں لپٹا ہوا نہیں وہ رڈ ہونے کے قابل ہے اور رڈ کر دیا جاتا ہے لیکن جب انسان کا قول اور فعل تقویٰ کے نور کے ہالہ میں لپٹا ہو تو اللہ تعالیٰ کو

Page 103

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۹۷ سورة البقرة وہ بڑا ہی پیارا اور محبوب ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تشریح بھی کی ہے آپ ہی کے الفاظ میں اس مضمون سے متعلق ایک چھوٹا سا اقتباس میں نے لیا ہے جو یہاں بیان کرتا ہوں آئینہ کمالات اسلام میں ہی آپ فرماتے ہیں: اللہ جل شانہ فرماتا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمُ (الانفال :٣٠) وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه (الحدید: ۲۹) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا (ایک فرقان تمہیں عطا کرے گا) وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں پر تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گئے.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۸،۱۷۷) تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ به یه اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جو تقویٰ کی جڑ سے نہیں نکلا، جو تقویٰ کے قلعہ میں محفوظ نہیں، جو تقویٰ کے نور کے ہالہ میں روحانی زنیت نہیں رکھتا وہ رڈ کر دیا جاتا ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ تقویٰ عطا کرتا ہے اس کی ساری زندگی کو، اس کے سارے افعال کو ، اس کے سارے اقوال کو اس کی ساری حرکات اور سکنات کو وہ نور عطا کرتا ہے جس نور سے ایسا متقی غیروں سے علیحدہ ہوتا اور ایک خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کو ایک اور رنگ میں بھی بیان فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زنیت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.دراصل روحانی

Page 104

۹۸ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث خوبصورتی نام ہے ( اور خوبصورت سے ہماری مراد ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں خوبصورت ہو ) خوبصورت افعال اور خوبصورت اعمال کا یعنی جب تک ہمارے اقوال اور ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں روحانی خوبصورتی پانے والے نہ ہوں دعوئی خواہ کوئی انسان کتنا ہی کرتا رہے وہ خوبصورت نہیں ہوا کرتے.قرآن کریم نے جو یہ فرما یا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِد (الاعراف: ۳۲) تو یہاں بھی اسی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے.مسجد تذلل اور عبادت کے مقام کو کہتے ہیں اور زینت سے یہاں مراد دل کی صفائی اور پاکیزگی اور دل کا تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں حکم دیا ہے کہ جب بھی میرے حضور تذلل سے جھکنا چاہو اور میری اطاعت اور میری عبادت کرنا چاہو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تم اپنے دلوں کو پاکیزہ کرو اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے مجھے تک پہنچنے کی کوشش کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ضمیمہ براہین احمدیہ (حصہ ) پنجم میں فرماتے ہیں.انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقوی کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے تقویٰ کی باریک راہیں، روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضا ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ جملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لِباسُ التَّقْوى قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقوی سے ہی پیدا ہوتی ہے“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) تو تقویٰ ایک ایسا حکم ہے جس کا براہ راست اور نہایت ہی گہرا اور ضروری تعلق تمام دوسرے احکام سے ہے، خواہ وہ احکام ہمارے اقوال سے تعلق رکھتے ہوں یا اعتقادات سے تعلق رکھتے ہوں یا اعمال سے تعلق رکھتے ہوں ، خواہ وہ احکام مثبت ہوں کہ کرنے کا حکم دیا گیا ہو، خواہ وہ احکام منفی ہوں

Page 105

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث الثالثة ۹۹ سورة البقرة کہ برائیوں سے روکا گیا ہو.ہر حکم کی بجا آوری اس رنگ میں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہمارا وہ فعل مقبول اور محبوب ہو جائے ممکن نہیں جب تک تقویٰ کی بنیاد پر اس کی عمارت نہ ہو، جب تک تقویٰ کی جڑ سے اس کی شاخیں نہ پھوٹیں، جب تک تقویٰ کے نور کے ہالہ میں وہ لپٹا ہوا نہ ہو، جب تک تقوی کی روحانی زینت اسے خوبصورت نہ کر رہی ہو ہمارے رب کی نگاہ میں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر دوسرے احکام کے مقابلہ میں بہت ہی زور دیا ہے اور اس لئے بھی زور دیا ہے کہ اس حکم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ خود کو بڑا بزرگ سمجھنے یا کہنے لگ جاتے ہیں یا کسی دوسرے کو بڑا بزرگ سمجھنے یا کہنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ اس بنیادی حقیقت کے مد نظر ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا ہے کہ فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُم هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ۳۳) جب تقویٰ کا تعلق دل سے ہے، جب تقویٰ : کا تعلق نیت سے ہے، جب تقویٰ کا تعلق اس پوشیدہ تعلق سے ہے جو ایک بندے کا خدا سے ہوتا ہے تو پھر بندوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود فیصلہ کریں اور حکم نہیں.یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُی انسان کو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے بنیادی فضل اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا چاہیے کہ اے ہمارے رب! ہمیں تقویٰ دے، اے ہمارے رب! ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی طاقت اور استعداد دے، اے ہمارے رب، ہمارے اعمال کو تقویٰ کے قلعہ میں محفوظ کر لے.اے ہمارے ربّ! ہمارے اعمال کو تقویٰ کے نور میں لے لے اور منور کر دے اور اے ہمارے رب ! تقویٰ کی روحانی خوبصورتی ہمارے اعمال پر چڑھا وہ تجھے مقبول ہو جا ئیں اور تو ہم سے راضی ہو جائے.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۶۴ تا ۷۲) سورۃ بقرہ میں پہلے قرآن کریم کو ایک عظیم ، ایک کامل ، ایک مکمل کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے رکھا اور یہ اعلان کیا کہ یہ عظیم کتاب ہر قسم کے شکوک وشبہات اور نقائص سے مبرا اور پاک ہے اور اس کے بعد اُمت مسلمہ کو بیدار اور چوکس کیا یہ کہہ کر کہ تم کو ہر وقت تین محاذوں پر، تین فرنٹیرز پر ہوشیاری کے ساتھ شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور اس کے لئے تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے.ایک محاذ جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا وہ اندرونی محاذ ہے تربیت کا محاذ تربیت کے محاذ کے دو پہلو ہیں.ایک تربیت یافتہ کو تربیت کے اعلیٰ مقام پر قائم رکھنے کی کوشش کرنا اور یہ کوشش کرنا کہ وہ مزید

Page 106

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث امسح سورة البقرة ترقیات روحانی راہوں پر کرتا چلا جائے.تربیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ جو امت مسلمہ میں نئے نئے شامل ہوں بیعت کر کے یا ولادت کے نتیجہ میں، ان کو اسلام کے رنگ میں صحیح طور پر رنگنا اور سچا مسلمان بنانے کی کوشش کرنا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کتاب هدی لِلْمُتَّقِينَ ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا کہ تقویٰ کے بلند مقام پر پہنچنے کے باوجود انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت رہتی ہے اور اس ضرورت کو یہ قرآن پورا کر رہا ہے.متقیوں کے لئے ہدایت کا سامان اس کے اندر پایا جاتا ہے.اللہ تعالی نے اسی مضمون کو دعائیہ الفاظ میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ اذْهَدَيْتَنَا ( ال عمران:۹) کہ ہدایت تیرے فضل سے ہمیں حاصل ہو جائے پھر بھی یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ ہمارے دلوں میں کسی قسم کی کجی نہ پیدا ہو جائے.پس ہم تیرے حضور عاجزانہ دعا کے ذریعہ جھکتے ہیں اور یہ التجا کرتے ہیں کہ جب ہمیں ہدایت حاصل ہو جائے ، صراط مستقیم ہمیں مل جائے ، ہمارے دل سیدھے ہو جا ئیں ، تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کوئی کبھی نہ پیدا ہو......بهر حال هدى لِلْمُتَّقِينَ میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ایک تو یہ فرمایا کہ ہدایت پا جانے کے بعد بھی تمہیں ہدایت پر قائم رہنے کے لئے ایک ہدایت کی ضرورت ہے اور وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے اشارہ یہ فرمایا کہ قرآن کریم ہدایت کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے ( دوسری جگہ بڑی وضاحت سے اسے بیان کیا ہے ) اور اشارہ بتایا گیا ہے کہ جو ہدایت یافتہ نہ ہوں بڑے ہوں، شعور رکھنے والے ہوں لیکن ابھی ان پر اسلام کی حقیقت واضح نہ ہوئی ہو یا بچپن سے بڑے ہو رہے ہوں اور ابھی اس قسم کا شعور ان میں پیدا نہ ہوا ہو جو بھی صورت ہو نئے سرے سے ہدایت دینے کے سامان قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور قرآن کریم نے بڑا زور دیا ہے کہ تربیت کے اس پہلو کو بھی ہمیشہ مد نظر رکھو اور اس میں بھی غفلت سے کام نہ لو.دوسرا محاذ جہاں ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور اس کی طرف سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے مضمون کے متعلق آیات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَانْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ کہ ایک دوسری جماعت یا

Page 107

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 1+1 سورة البقرة دوسرا گروہ وہ ہے ( اس کامل کتاب کے نزول کے بعد ) کہ جن کے دل اور دماغ اور روح کی کیفیت یہ ہے کہ تم انہیں انذاری پیشگوئیاں بتا کر انذار کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہوگا.وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نبی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں دنیا کی طرف بھیج دیا ہے اور قیامت تک دنیا کی قسمت کو آپ کے پاک وجود کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور جوشخص آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا وہ اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی گھاٹے میں رہتا اور خسران پانے والا ہے تو جب تک ان کے ذہنوں کی یہ کیفیت رہے کہ تمہارا ڈرانا نہ ڈرانا ان کے لئے برابر ہی ہو تو اس وقت تک وہ ایمان کیسے لا سکتے ہیں اس لئے تم پر یہ فرض عائد کیا جاتا ہے کہ تم ان کے ذہنوں کی اس کیفیت کو بدلنے کی کوشش کرو اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں ہدایتیں دی ہیں ہمیں یہ کہا ہے کہ تمہارے دل میں ایسے لوگوں کے لئے رحم کا جذبہ اس شدت کا پیدا ہو جائے کہ تم ہر وقت ان کے لئے دعائیں کرتے رہو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں اس کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے ایک جہنم اپنے لئے پیدا کر رہے ہیں اے خدا! تو اپنے ان بندوں کو اس جہنم سے نجات دلا ان کی آنکھیں کھول ان کے دلوں کی اس کیفیت کو بدل دے.اس کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے بڑی تفصیل سے قرآن کریم نے ہدایتیں ہمیں دی ہیں.جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : ۱۲۶) کہہ کے عملی نمونہ دکھاؤ وغیرہ وغیرہ سینکڑوں ہدایتیں ہمیں دی گئی ہیں اس محاذ پر بھی ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا چاہیے......- تیسرا ایک اور محاذ ہے جس کا ذکر شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور پھر مختلف صورتوں میں کافی لمبی بحث بھی اس مسئلہ پر قرآن کریم نے کی ہے اور وہ ہے نفاق کا محاذ ،سورۃ بقرۃ کے شروع میں ہی نفاق کے متعلق جب بحث ہوئی ہے تو بہت سی آیتوں میں زیادہ تفصیل سے بات کی گئی ہے کیونکہ نفاق ایک ایسی بیماری ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزا ملتی ہے اتنی بڑی سزا کسی اور گناہ کے نتیجہ میں نہیں ملتی.قرآن کریم نے کہا ہے.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء : ١٤٦) یعنی جو سزا خدا کے حضور منافق کے لئے مقدر ہے وہ مشرک کے لئے بھی مقدر نہیں ، کافر کے لئے بھی مقدر نہیں.اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی ان آیات میں جو نفاق اور منافقوں کے متعلق ہیں بڑی تفصیل سے ان

Page 108

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۰۲ سورة البقرة.کی عادتوں اور طریقوں پر بحث کی ہے قرآن کریم نے دوسری جگہ ان آیات کے مضامین کو اور وضاحت کے ساتھ کھولا ہے ہمیں جس بنیادی چیز کی طرف متوجہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ منافق مصلح کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے یعنی اعلان یہ ہوتا ہے کہ میں جماعت میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں.مقصد یہ ہوتا ہے کہ جماعت میں فساد پیدا کیا جائے اس واسطے بہت ہی زیادہ ہشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اس کیلئے جو بنیادی تعلیم ہمیں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت یا امام وقت یا اگر رسول زندہ ہو تو رسول کے ساتھ چمٹ جاؤ.اس کے ساتھ لگے رہو تب تم نفاق کے حملوں سے بچ جاؤ گے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مخاطب تھے قرآن کریم کے اور ابدی زندگی آپ کو عطا ہوئی تو سارا زور اس پر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹوروحانی طور پر کیونکہ آپ قیامت تک کے لئے زندہ ہیں اس لئے حقیقت یہی ہے کہ اب بھی یہی حکم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ کے چمٹ جاؤ اور آپ کو اُسوہ بناؤ منافق کے شر سے بچ جاؤ گے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اللہ تعالیٰ دنیا میں پیدا کرتا رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سب سے بڑے نائب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب روحانی فرزند کی شکل میں دنیا کی طرف بھیجا اور پھر ایک سلسلہ خلافت دنیا میں قائم کیا.اصل چیز تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اصلی زندگی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے نفاق اور کفر سے بچنے کا اصل ذریعہ تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار اور محبت ہے اور پھر ان سے جن کے متعلق خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ ان کی اطاعت کرو اور ان سے پیار کا تعلق قائم کرو.جوطریق منافق اختیار کرتا ہے اس پر قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.مثلاً ایک طریق اس کا یہ بتایا ہے کہ وہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ هُوَ اُذن کہ یہ تو کان ہیں لوگ آتے ہیں کان بھر جاتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (نعوذ باللہ ) اور غلط فیصلے ان سے ہو جاتے ہیں.وہ دن اور آج کا دن اور پھر قیامت تک یہی ہوتا رہے گا.جو آپ کے عاجز اور نا چیز بندے آپ کے نام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے جاتے ہیں بطور نائب کے بطور خادم کے، بطور پیار کرنے والے کے، بطور اس ذرہ ناچیز کے جسے خدا تعالیٰ اپنی دوانگلیوں میں لے اور اعلان کرے کہ اس ذرہ کے

Page 109

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۰۳ سورة البقرة ذریعہ میں اپنی قدرت کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں ان پر یہ اعتراض ہوتے رہیں گے ہور ہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے.تو یہ ایک بڑی واضح علامت اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے منافق کی، کہ کہتے ہیں کہ کان بھرنے والے کان بھر دیتے ہیں اور یہ فیصلہ کر دیتا ہے بغیر سوچے سمجھے حالانکہ جسے اللہ تعالیٰ اس مقام پر کھڑا کرتا ہے اسے فراست بھی عطا کرتا ہے اور وہ فراست بہر حال عام مومن کی فراست سے زیادہ ہی ہوتی ہے عام مومن کی فراست سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے.مومن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی فراست دی ہوتی ہے تو جو مقام ایک مومن کا بتایا گیا ہے تم وہ مقام بھی خلیفہ وقت کو دینے کے لئے تیار نہیں اور کہتے ہو هُوَ اذن خلیفہ وقت کی کیا حیثیت ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں؟ جب تمہارے بڑوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑا تو تم مجھے پر یا مجھ سے پہلوں پر یا بعد میں آنے والوں پر اس طرح پر اعتراض کرو تو کیا حقیقت ہے اس اعتراض کی ! اللہ تعالیٰ نے وہاں یہ نہیں جواب دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُخن نہیں ہیں بلکہ ان کے اس قول کو صحیح تسلیم کیا ہے کہ ہاں اُخن ہیں سنتے ہیں باتیں، مگر اس کے بعد جو فیصلہ کرتے ہیں وہ تمہاری خیر کا ہوتا ہے اور تمہارے لئے شرکا فیصلہ نہیں ہوتا اور سنا ضروری ہے کیونکہ ہر جگہ کی ہر قسم کی بات پہنچنی چاہیے ور نہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچا جاسکتا یعنی ہر جگہ سے بات کا کانوں تک پہنچنے سے منافق کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اس سے ر پیدا ہوگا یہ احمقانہ بات ہے کیونکہ خدا کا کوئی بندہ بغیر سیح نتیجہ پر پہنچنے کے کوئی کام نہیں کرتا اللہ تعالیٰ خود اس کی رہنمائی کرتا ہے اور صحیح نتیجہ پر وہ پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُذن تو ہے لیکن اُذْنُ خَيْرٍ لکھ تمہاری بھلائی کے لئے کان ہے جو فیصلہ کرے گا باتیں سننے کے بعد وہ تمہارے لئے بہتر ہوگا.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۰ تا ۳۷) قرآن عظیم کا یہ دعوی ہے.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ یہ ایک کامل کتاب ہے جس میں شک اور شبہ نہیں.کے بہت سے معانی کئے گئے ہیں.ایک معنی یہ ہیں کہ اس کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں جو حقیقت سے بعید ہو اور شک اور شبہ والی نہیں.ایک معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو صاحب فراست، غور کرنے والوں اور نیک نیتی سے اس کا مطالعہ کرنے والوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نہیں چھوڑتی اور اس راہ کو جو خدا تعالیٰ

Page 110

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۰۴ سورة البقرة کی رضا کی طرف لے جانے والی ہے روشن کر کے خدا کے بندہ کے سامنے رکھ دیتی ہے.قرآن کریم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ قرآن ہے.بار بار پڑھی جانے والی کتاب.بار بار پڑھی جانے والی کتاب کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہر فرد پر جو اسلام پر ایمان لایا اسے اپنی زندگی کی راہوں کو ہموار کرنے کے لئے قرآن کریم کا بار بار مطالعہ کرنا اور اس کو پڑھنا اور اس پر غور کرنا ضروری ہوگا.اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ہر آنے والی نسل اسے پڑھے گی اس طرح نوع انسانی قیامت تک اس کتاب عظیم سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی کے مسائل کو حل نہیں کر سکے گی بلکہ ہر بعد میں آنے والی نسل مجبور ہوگی کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم کی طرف رجوع کرے.یہ ایک کامل کتاب اس معنی میں بھی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرنے کی طاقت اس میں پائی جاتی ہے لیکن محض یہ اعلان نہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ غیر مسلموں کو کوئی تسلی دے سکتا ہے.ان کے سامنے صرف یہ کہہ دینا کہ قرآن عظیم بڑی ہی عظیم کتاب ہے کیونکہ تمام مسائل کو یہ حل کرتی ہے انہیں تسلی نہیں دے سکتا.اس تسلی کے لئے ضروری ہے کہ ہم مثالیں دے کر اُن کو بتا ئیں کہ یہ عظیم کتاب تمہارے ان مسائل کو حل کرنے کے قابل ہے اور حل کرتی ہے جنہیں تم حل نہیں کر سکے اپنی زندگی میں.اس کے لئے یعنی مثالیں دینے کے لئے قرآن کریم کی روح کو سمجھنا، سات سو سے او پر جو احکام اس میں پائے جاتے ہیں ان پر غور کرنا اور اپنی زندگی ان راہوں پر ڈھالنا جو بیان کی گئی ہیں اور اپنی گردن ان سات سو سے زائد اس زنجیر کے جو حلقے ہیں ان میں باندھ دینا اور جس طرح ایک بکری مجبوراً قصائی کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتی ہے اور کہتی ہے لے چھری چلالے اس طرح برضاور غبت پوری بشاشت اور خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کو تسلیم کرنا اور خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنا اور علی وجہ البصیرت اس بات کے قابل ہو جانا کہ غیروں کے سامنے مثالیں دے کر آپ یہ کہیں کہ قرآن عظیم واقع ہی عظیم ہے کیونکہ تمہارے یہ دیکھو من ایک دو تین جتنی مثالیں اس وقت آپ دے سکیں دے کر ان کو بتا ئیں کہ تم ان مسائل کو حل نہیں کر سکتے ، نہ کر سکے ہو لیکن قرآن کریم کی یہ تعلیم انہیں حل کر رہی ہے.(خطبات ناصر جلد نم صفحہ ۱۸،۱۷) ایمان کے مفہوم میں بنیادی طور پر یہ بات پائی جاتی ہے کہ کچھ پہلو غیب میں ہے جس پر ہم ایمان لاتے ہیں اسی واسطے قرآن پاک کے شروع میں ہی يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کہا گیا ہے.پس غیب

Page 111

۱۰۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کی باتوں کو مان لینا یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے.اسکے بغیر ایمان ایمان ہے ہی نہیں.مثلاً اس علم پر کہ آج جمعہ ہے اور اس وقت دن کا ایک حصہ ہے کوئی ثواب نہیں کیونکہ یہ بات اتنی ظاہر ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ چمگادڑ کو بھی پتہ ہے اسی لئے جب دن غائب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے کمین گاہوں سے باہر نکل آتی ہے.پس دن کے وقت اس کا چھپ جانا اور رات کو باہر نکل آنا یہ بتاتا ہے کہ دن اور رات اتنی واضح چیز ہے کہ انسان کے علاوہ بہت سی دوسری مخلوقات کو بھی پتہ ہے.سارے جاندار حیوانات کو پتہ ہے.پھر درختوں کو پتہ ہے کیونکہ ان کا دن اور رات کا رد عمل مختلف ہے.انکار و عمل دن کے وقت اور ہے اور رات کے وقت اور ہے مثلاً دن کے وقت درخت آکسیجن باہر نکالتے ہیں اور رات کے وقت کھا رہے ہوتے ہیں تو دن اور رات کے رد عمل میں فرق ہے کہ جس قسم کی بھی حس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں دی گئی ہے وہ اس میں تمیز کر رہی ہے لیکن سب مخلوقات میں سے صرف انسان کو ثواب ملتا ہے ثواب علم پر نہیں ملتا ایمان پر ملتا ہے اور ایمان کا لازمی حصہ غیب پر ایمان لانا ہے.غیب پر ایمان عقلاً آگے دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے.ایک وہ غیب ہے جس کے حق میں قرائن مرتبہ نہیں ہیں.قرائن قویہ نہیں ہیں اور جس غیب کا میلان یقین کی نسبت شک کی طرف زیادہ ہے.اسلام نے ہمیں اس غیب پر ایمان لانے کے لئے نہیں کہا جیسا کہ قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے یہ بات عیاں ہے.ایک غیب وہ ہے جس کا میلان شک کی نسبت یقین کی طرف زیادہ ہے.پس قرائن قویہ مرتبہ جہاں پائے جائیں ایک مومن اس پر ایمان لاتا ہے.مثلاً ایمان با اللہ ہے.اس ایمان کا ایک پہلو علم کی طرح عیاں ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا تعلق ہے اس کا ایک پہلوعیاں بھی ہے لیکن جو تصور اسلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیا ہے اس کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی وسعتوں کے مقابلہ میں یہ عیاں پہلو اتنا بھی نہیں جتنا سمندر میں سے ایک قطرہ اٹھا لیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کی صفات کے جلووں کی حد بندی نہیں کی جاسکتی وہ ذات غیر محدود ہے اور کسی محدود کی غیر محدود کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں.پس اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا ایک حصہ تو ہمارے سامنے آگیا لیکن بڑا حصہ ہم سے پوشیدہ ہے.اس پر ہم ایمان بالغیب لاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے ان جلووں پر جو ہنوز پردہ غیب میں ہیں پھر ایمان بالغیب کا تعلق ملائکہ اور حشر و نشر سے ہے.وہ ایمان بالغیب کی ایک اور لائن ہے ایمان بالغیب

Page 112

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث 1+4 سورة البقرة کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جنہیں میں مثال کے طور پر بیان کر دیتا ہوں.ایمان بالغیب کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی شخصیت اور وجود پر ایمان لانے سے بھی ہے اس پاک و مطهر وجود کا ایک حصہ ایک دور کے انسان پر ظاہر ہوتا اور ایک بڑا حصہ ہر دور کے انسان کی نظر سے غائب رہتا ہے مثلاً ایک پہلو جو ہم آپ کی ذات کا لیں وہ محسن ہونے کا ہے ہر صدی کے حالات واحوال کے اختلافات کی وجہ سے اس احسان عظیم کی بعض پوشیدہ باتیں سامنے آتی ہیں.پہلی صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس ایمان پر قائم ہونا کہ قیامت تک کے لئے آپ ایک عظیم محسن کی حیثیت رکھتے ہیں آپ پر ایمان لانے کا ایک پہلو ہے پہلی صدی میں اس احسان عظیم کے کچھ جلوے ظاہر ہوئے لیکن وہ جلوے تو ظاہر نہیں ہوئے جن کے نتیجہ میں ہم یہ کہہ سکیں کہ آپ قیامت تک کیلئے دنیا کے محسن اعظم ہیں پہلی صدی کے بعد قیامت تک آپ کے احسان کے جو پہلو انسان کے سامنے آنے تھے پہلی صدی کے لئے وہ جلوے پردہ غیب میں تو تھے لیکن ان پر ایمان لانا ضروری تھا ورنہ ایمان بالرسول نہ ہوتا لیکن صرف یہ فقرہ کہ ہمارے محسن ہیں، حقیقی ایمان نہیں حقیقی ایمان یہ ہے کہ ہمارے بھی محسن ہیں اور قیامت تک بنی نوع انسان کے بھی محسن ہیں اور یہ ایمان بالغیب ہے جس کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے مثلاً آج کی دنیا انقلابات کی دنیا ہے ایسے انقلابات بھی آئے کہ جن کا ایک حصہ غلبہ اسلام کی مہم میں ممد ثابت ہوا اور ہو رہا ہے لیکن ایک حصہ ایسا تھا جو نوع انسانی کے ایک بڑے حصہ کو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور لے جانے والا تھا.یہ جو مسائل آج کی دنیا کے لئے پیدا ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمارے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم بھی دی اور ان حالات میں اپنا ایک اُسوہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا.یہ باتیں پہلی صدیوں کے انسانوں کے لئے غیب کا حکم رکھتی ہیں اور آج کے بعد قیامت تک جو مسائل نوع انسانی کے لئے پیدا ہوں گے ان کے حل کے لئے قرآنی تعلیم کے وہ پہلو جن کا ان مسائل کے ساتھ تعلق ہے اور آپ کے اُسوہ کے وہ جلوے جن کا اس زمانہ کے انسان کے ساتھ تعلق ہے آج ہمارے لئے غیب ہیں.پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کیلئے نوع انسانی کا محسن سمجھ کر ایمان لانا اس ایمان میں غیب کا ایک بڑا حصہ ہے اور قرائن قویہ مرتجمہ کی وجہ سے ہم ایمان لاتے ہیں مثلاً پہلی صدی کے انسان

Page 113

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث 1+2 سورة البقرة نے کہا کہ میرے اوپر احسان کیا اور یہ کہنے کے بعد احسان کیا کہ میں تمہارے لئے محسنِ اعظم ہوں آپ نے جو کہا وہ ہماری زندگیوں میں پورا ہوا.جو آئندہ کے متعلق کہا گیا ہے وہ پورا ہوگا.اسی طرح اور بیبیوں پہلو پیش کئے جاسکتے ہیں جو قرآئن کا حکم رکھتے ہیں جن کے نتیجہ میں ترجیح اس بات کو دی گئی کہ ہم یقین کی طرف مائل ہو جا ئیں اور ایمان لے آئیں.قرآن کریم نے اسی تسلسل میں یہ دعوی کیا کہ میں اب ہمیشہ کے لئے نوع انسانی کے ہر قسم کے مسائل کو حل کروں گا اور ان کی روحانی ضروریات کو اور ان کی دنیاوی ضروریات کے بنیادی مسائل کو حل کروں گا اور قرآنِ کریم نے ایک بڑا قوی قرینہ جو قائم کیا وہ یہ ہے کہ قرآن کو ہمیشہ مطہر بندے سمجھ سکیں گے.لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة) :۸۰) میں جہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مظہرین پر نئے سے نئے اسرار قرآنی کھولے جاتے ہیں وہاں یہ بھی تو ذکر ہو گیا نا! کہ قرآن کریم میں اسرار ورموز چھپے ہوئے ہیں ورنہ مطہر کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی.اگر ہر چیز قرآن کریم کی پہلی صدیوں میں ظاہر ہوگئی تو پھر نہ قرآن کریم پر ایمان بالغیب کی ضرورت ہے نہ آئندہ کسی مطہر کی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کریم کے علوم میں کوئی اسرار ورموز اور بنیادی حقیقتیں جو آئندہ زمانہ سے تعلق رکھتی تھیں وہ باقی نہیں رہیں تو قرآن کریم پر ایمان ایمان بالغیب سے بھی تعلق رکھتا یعنی کتاب مبین کے ساتھ ساتھ ایک بڑا حصہ ایمان بالغیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی کتاب مکنون پر ایمان.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۱۷۰ تا ۱۷۳) میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہیے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ مستحضر بھی رہنی چاہیے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر اسی صفحات کا ایک رسالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تفاسیر کے متعلقہ اقتباسات پر مشتمل ہوگا شائع بھی کر دیں گے.مجھے آپ کی سعادت مندی اور جذبۂ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن اللہ تعالیٰ آپ پر نازل کر رہا ہے امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کریں گے.مرد بھی یاد

Page 114

1+A سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کریں گے عورتیں بھی یاد کریں گی.چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو از بر کرلیں گے پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مضمون بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم افضل الرسل ہیں.آپ انسان کامل ہیں.آپ پر کامل شریعت نازل ہوئی آپ خاتم النبیین کے لقب سے سرفراز ہوئے.آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو جلوہ اپنے وجود میں دکھایا اس کے نتیجہ میں یہ دنیا تین گروہوں میں بٹ جائے گی ایک گروہ وہ ہے جو ایمان لائے گا.فرمایا ان کی بنیادی خصوصیات یہ ہوں گی کہ وہ اپنی تمام جسمانی اور ذہنی قوتوں اور صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دیں گے.اپنی اخلاقی اور روحانی قوتوں کو انوار الہیہ سے منور بنا کر اس سے ساری دنیا کو مستفید کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے اور ان کی تیسری بنیادی خصوصیت یہ بتائی کہ اس دنیا میں آئندہ ظہور پذیر ہونے والے واقعات پر مشتمل جو پیش خبریاں دی گئی ہیں اور بشارتیں دی گئی ہیں.وہ ان پر اس طرح ایمان لاتے ہیں گویا کہ یہ باتیں پوری ہو چکی ہیں.انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات، اس کی قوتوں اور اس کی طاقتوں پر یقین ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ ہو چکی ہو اور اگر اس کے راستہ میں کوئی روک پیدا ہو تو وہ اس روک کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی قربانی سے گریز نہیں کرتے.ان کو یہ پتہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے ضرور ہوکر رہے گی.اگر کوئی روک پیدا ہوئی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ہماری کوئی آزمائش مقصود ہے لہذا ہمیں اس آزمائش میں پورا اتر نا چاہیے تا کہ ہمیں ثواب اور اجر کے زیادہ مواقع عطا ہوں.وہ اس یقین پر بھی قائم ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جسمانی اور روحانی ترقیات کے لامحدود دروازے کھول رکھے ہیں اور ان کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ روحانی رفعتوں کو حاصل کرتے ہوئے کسی ایک مقام پر جا کر رک نہیں جاتے یا اسی کو کافی سمجھ کر وہیں بیٹھ نہیں جاتے بلکہ ان کی زندگی غیر محدود ترقیات کے حصول میں ایک غیر محدود جد و جہد میں رواں دواں رہتی ہے.غرض سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس ہدایت یافتہ گروہ کی بنیادی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دوسرا گروہ منکرین اسلام کا گروہ ہے اور ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صداقت حقہ کے قبول کرنے اور دلی بشاشت کے ساتھ قربانیاں دینے

Page 115

1+9 سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کی جو قابلیتیں اور قوتیں عطا کی تھیں یہ ان کو کھو بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں روحانی اثر کے قبول کرنے کی صلاحیت بخشی تھی جس سے یہ بہت کچھ سیکھ سکتے تھے لیکن ان کے دل پتھر ہو گئے اور اپنی فطرتی حالت میں نہیں رہے جو رقت کی اور رجوع کی اور توبہ کی اور عاجزی کی حالت ہے اور چونکہ ان کے دل پتھر ہونے کی وجہ سے اپنی فطری حالت پر نہیں رہے اس لئے فطرتی دینی اعمال بجالانے کے قابل نہیں رہے.پھر اللہ تعالیٰ نے دل کی بہت سی دوسری امراض بتا ئیں اور ان کے علاج بھی بتائے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اندر ایک چیز یہ بھی نظر آتی ہے کہ ہم نے انہیں سننے کیلئے کان دیئے تھے اور سماع سے ہماری مراد یہ تھی کہ جب صوتی لہریں ہوا کے دوش پر ان کے کانوں تک پہنچیں تو پھر آگے ان کے اثرات ذہن پر پڑیں جس سے دل بھی متاثر ہوں کیونکہ قبول ہدایت کا ایک بڑا ذریعہ دل ہی ہے.انسان جب نیکی کی باتیں غور سے سنتا ہے تو اس کا ذہن تدبر سے کام لیتے ہوئے ان کے اثرات کو دل کی طرف منتقل کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں دل کے اندر ایک ایسا انقلاب اور ایک ایسا تغیر رونما ہوتا ہے کہ انسان قبول ہدایت کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں کانوں پر مہر لگا دی ہے.کوئی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہی نہیں صوتی لہریں ان کے کانوں سے ٹکراتی اور واپس ہو جاتی ہیں یا ایک کان میں گھستی ہیں اور دوسرے کان سے نکل جاتی ہیں.پھر ان کو آنکھیں اس لئے دی تھیں کہ وہ اس دنیا میں خدائے کی وقیوم کے قادرانہ تصرفات کا مشاہدہ کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے.تاریخ عالم پر نگاہ ڈالتے مختلف آسمانی کتابوں کو غور سے پڑھتے اور پھر فکر و تدبر سے کام لیتے تو انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جب سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ یہ سلوک رہا ہے کہ جب بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہی اس کی طرف سے نازل ہونے والی ہدایت کو قبول کیا اس کی بارگاہ پر جھک گئے اور اس کی راہ میں قربانیوں سے دریغ نہ کیا.اللہ تعالیٰ نے ان پر کس طرح اپنے انعامات نازل کئے اور انہیں کس طرح اپنے فضلوں کا وارث بنا یا.مگر جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی اس آواز پر کان نہ دھرے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو ٹھکرا دیا اور اس کی قدر نہ کی وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب کے بھنور میں پھنس کر ہلاکت سے دو چار ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان منکرینِ اسلام کی تو یہ حالت ہے کہ گویا ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ فطرتی لحاظ

Page 116

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث 11+ سورة البقرة سے ان کی آنکھوں پر کوئی غلاف نہیں تھا.یہ تو انہوں نے خودا پنی آنکھوں پر چڑھا لیا ہے.ان کی اس حالت گھوڑے یا گدھے کی مانند ہے جس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ چلتے وقت کسی چیز کے خوف سے ڈر نہ جائے.پس انہوں نے بھی اس خوف سے کہ کہیں روحانیت کی کوئی جھلک ان کی آنکھوں میں نہ پڑ جائے ( جود نیوی عارضی مسرتوں سے ان کو دور لے جائے ) اپنی آنکھوں پر غلاف چڑھالئے ہیں جس کی وجہ سے یہ حسن و احسان کے روحانی جلوے دیکھنے سے قاصر ہیں.بہر حال سورۃ بقرہ کی ان ابتدائی سترہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے منکرین کا ذکر کر کے ان کی جسمانی کیفیات اور ان کے روحانی امراض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے سامان عبرت مہیا فرمایا.پھر ان کو جھنجھوڑ کر یہ انتباہ فرمایا کہ اگر تمہاری حالت یہی رہی تو تم حق کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے.تم قبول حق کی توفیق صرف اسی صورت میں پاسکتے ہو کہ تمہاری روحانی اور اخلاقی کیفیت یہ نہ ہو کہ ہمارے اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈرانا یا نہ ڈرانا تمہارے لئے برابر ہو.چاہیے کہ اس کا ڈرانا تمہارے دلوں پر اثر انداز ہو.جب تک تمہارے اندر یہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی جب تک وہ مہریں جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے قلوب اور اپنے کانوں پر لگالی ہیں ان کو تم توڑ نہ دو اور ہم نے آسمانی مؤثرات کو قبول کر لینے کیلئے تمہارے دل میں جو کھڑکیاں بنا رکھی ہیں.ان کو تم کھول نہ دو جب تک تم ان غلافوں اور ان پردوں کو جنہیں تم نے اپنی آنکھوں پر ڈال لیا ہے جو اللہ تعالی کے نور سے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے نور کے جلووں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے خود ہی تم نے اپنی آنکھوں پر پٹی کے طور پر باندھ رکھے ہیں تم ان کو ہٹا نہ دو، اس وقت تک تمہاری یہ حالت مبدل بہ اسلام نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کی توجہ کو تم حاصل نہیں کر سکتے.تم جب تک اپنی یہ حالت نہیں بدلتے خدا تعالیٰ سے دُور و مہجور رہو گے.دنیا کی جھوٹی اور عارضی لذت سے تم لطف اندوز تو ہو سکتے ہو لیکن اگر تمہاری یہی حالت رہے تو تم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کی حقیقی اور سچی لذت اور ابدی سرور کو کبھی حاصل نہیں کر سکتے.پس جب تک منکرین دین کی حالت نہیں بدلتی.اس وقت تک قرآن کریم کی تعلیم یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- ایک اور گروہ بھی دنیا میں پیدا ہوگا اور یہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت

Page 117

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث !!! سورة البقرة پر ایمان لائے لیکن در حقیقت وہ ایمان نہیں لاتے.ان کا یہ دعویٰ ایمان سراسر جھوٹا ہوتا ہے.پہلے دو گروہوں کا ذکر نسبتا مختصر الفاظ میں فرمایا کیونکہ اس متن اور مضمون میں ان دو گروہوں کے بارے میں زیادہ کہنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں تھی کہ ان دونوں گروہوں کی خصوصیات اور کیفیات ظاہر و باہر ہوتی ہیں مگر جس گروہ کا ذکر وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے اس کے متعلق نسبتاً زیادہ باتیں بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ گروہ مار آستین بن کر اندر ہی اندر جماعت کے اجتماعی جسم کو ڈستا رہتا ہے.منکرینِ اسلام ظاہری طور پر باہر سے علی الاعلان حملہ آور ہوتا ہے اور مومن بندے اپنے اپنے اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس کے سامنے سینہ سپر رہتے ہیں وہ ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اس کے شب خون سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ایک مومن جس طرح دن کو بیدار اور باخبر رہتا ہے اسی طرح وہ شب بیدا ر بھی ہوتا ہے کیونکہ جولوگ رات کو سو جاتے ہیں دشمن ان پر تو شب خون مارتا اور بے خبری میں ان کو شدید نقصان پہنچاتا ہے لیکن وہ جو دن کو بھی ہوشیار ہو اور جو راتیں بھی خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی ثناء کرتے ہوئے گزارتا ہو شیطان اس پر شب خون مارنے کی جرات نہیں کر سکتا.اس لئے منکرین اسلام کی بعض بنیادی باتوں کے اظہار پر اکتفا فرماتے ہوئے یہ سبق دیا کہ منکرین کی بیماریوں کی تشخیص کو میں نے آسان کر دیا ہے.اس لئے میری ان ہدایتوں کی روشنی میں اپنی دلی ہمدردی اور غم خواری سے ان کے علاج میں کوشاں رہنا تمہارا فرض ہے لیکن یہ جو تیسرا گروہ ہے یہ ایک مومن کے لباس میں مگر ایک فتنہ گر کی حیثیت میں امت مسلمہ میں داخل ہوتا ہے اور اندر ہی اندر مفسدانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے اس لئے اس بات کی زیادہ ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ اس گروہ کی برائیوں اور بد خصلتوں کے متعلق زیادہ تفصیل سے بیان فرمائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو با تیں اس گروہ کے متعلق ان چند آیات میں بیان فرمائی ہیں وہ بنیادی حیثیت کی حامل ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مومنوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.مجھے پہلے بھی کئی بار یہ خیال آیا ہے ابھی جب میں یہاں آرہا تھا تو مجھے پھر یہ خیال آیا کہ ہمارے رب نے کسی پیار اور کس اعتماد کے ساتھ ہمارا ذکر فرمایا ہے.فرماتا ہے کہ جس طرح یہ لوگ مجھے دھوکا نہیں دے سکتے کیونکہ میں علام الغیوب ہوں، میرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، مجھ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں، مجھ پر کبھی غفلت طاری نہیں ہوتی غرض اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی صفات کی مالک ہے کہ اسے کوئی اور

Page 118

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۱۲ سورة البقرة دھوکا نہیں دے سکتا کیونکہ اس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے.لاریب یہ خدا تعالیٰ کی بلندشان ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ اسی طرح میرے مومن بندوں پر بھی منافقت کی کوئی چال کارگر نہیں ہو سکتی.منافق انہیں بھی کوئی دھوکا نہیں دے سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندے کو کتنا بڑا مقام عطا کیا ہے کہ اس کو بھی اپنے ساتھ.(اس بات میں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کو منافق دھوکا نہیں دے سکتے یہاں منافق کے دھوکے سے بچنے میں اللہ تعالیٰ نے مومن بندے کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا.) یہ در حقیقت بڑے ہی پیار اور اعتماد کا اظہار ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہم پر بڑی بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ بالواسطہ طور پر اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس کے مومن بندے بھی اس کی طرح ہر وقت چوکس اور بیدار رہیں اور اپنے دائرہ عمل میں ہر چیز کا علم حاصل کریں.انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوئی چیز ان سے پوشیدہ نہ رہے.اب مثلاً میر اعلم جو ہے اس کا ایک حصہ ایک لحاظ سے دراصل آپ کا ہی علم ہے کیونکہ مجھے کراچی کی بیدار اور چوکس جماعت بھی اطلاع بھجوا رہی ہے، مجھے راولپنڈی کی بیدار اور چوکس جماعت بھی اطلاع بھجوا رہی ہے، مجھے پشاور کی بیدار اور ہوشیار جماعت بھی اطلاع دے رہی ہے غرض ہر جگہ سے جہاں بھی ہماری جماعت قائم ہے وہاں سے مجھے اطلاع مل رہی ہے اور چونکہ میرا اور آپ کا وجود ایک ہی ہے.اللہ کے فضل سے آپ میری آنکھیں ہیں جن کے ذریعہ سے میں دیکھتا اور علم حاصل کرتا ہوں آپ میرے کان ہیں جن کے ذریعہ سے میں سنتا اور حالات کی روش کو محسوس کرتا ہوں.چنانچہ آپ کی فراست اور میری فراست در اصل ایک ہی تصویر کے دو رخ یا ایک ہی پیالے کے مختلف اطراف ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح مجھے کوئی منافق دھوکا نہیں دے سکتا اس طرح میرے مومن بندے کی بھی یہی شان ہے اسے بھی کوئی منافق دھوکا نہیں دے سکتا.بڑے ہی پیارکا اظہار ہے لیکن ساتھ ہی بڑا بے چین اور پریشان کر دینے والا بیان بھی ہے.پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہونی چاہیے کہ یہاں جس اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ہم اس اعتماد پر پورا اترنے والے ثابت ہوں.فرما یا ان منافقوں کی دوسری علامت یہ ہے کہ ان کے دل میں مرض پیدا ہو چکا ہے اور یہ خود اپنے علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس لئے خدا تعالیٰ کی صفات کا جو عام جلوہ ہے کہ جیسا کوئی بندہ ہوتا

Page 119

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۱۳ سورة البقرة ہے اسی کے مطابق اس سے اس کا سلوک بھی ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض گھٹتا نہیں بلکہ فطرتی تقاضوں کی غلط روش سے ان کا مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم نے امراض قلوب پر متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے.دل کی ایک مرض نہیں ہوتی بلکہ متعدد امراض ہیں جس طرح جسم کی بھی ایک مرض نہیں انسان مختلف قسم کی غلطیاں کرتا رہتا ہے.صبح ایک قسم کی غلطی کر بیٹھتا ہے اور شام کو دوسری قسم کی غلطی کا مرتکب بن جاتا ہے ہر مرض کا تعلق انسان کے کسی نہ کسی غلط اقدام سے ہے انسان کی کسی نہ کسی غلط روش کے نتیجہ میں مرض لاحق ہوتی ہے اور ان آیات میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.......بہر حال منافق کی دوسری علامت یہ بتائی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کو تو دھوکا دینا چاہتا ہے مگر اس کا اپنا یہ حال ہے کہ ہر قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہے.منافقت نے اس کے درخت وجود کو پراگندہ کر کے رکھ دیا ہے اس کا جسم ایک آتشک زدہ کے جسم کے مشابہ ہے.جس طرح آتشک وغیرہ کے مریض کے اعضاء گلنے سڑنے لگ جاتے ہیں اس صورت میں وہ انسانی جسم کہلانے کا مستحق نہیں رہتا بلکہ عفونت اور گندگی کے ایک لوتھڑے کا مصداق بن جاتا ہے اسی طرح منافق بھی روحانی طور پر گندگی اور نا پاکیزگی اور عدم طہارت کی وجہ سے ایک لوتھڑا ہی ہوتا ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا حالانکہ وہ انسان کے زمرہ میں شامل ہے اور انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے لا محد و دروحانی ترقیات کے لئے پیدا کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کی تیسری بیماری یا کمزوری یہ بتائی ہے کہ یہ اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں یعنی یا تو اپنی جہالت کے نتیجہ میں خود ہی مصلح بنے پھرتے ہیں اور یا پھر شرارت کی نیت سے ایک مصلح کا روپ دھار لیتے ہیں.بہر حال وہ ایک مصلح کے لباس میں اُمت مسلمہ میں گھسے رہتے ہیں اور اسے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دینے کے لئے منافقانہ کارروائیوں میں سرگرداں رہتے ہیں.چنانچہ ہماری تاریخ میں اس قسم کی منافقانہ سرگرمیوں کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ بیسیوں مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بعض یہودی مسلمان علماء کی شکل میں مسلم معاشرہ کے جزو بن کر تباہی و بربادی پھیلاتے رہے.سپین میں مسلمانوں کی صدیوں تک حکومت رہی اور ایک وقت تک ان کے رعب اور ان کے علم وفضل اور ان کے اخلاق فاضلہ نے سارے یورپ پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی.بڑے بڑے مشہور پادریوں نے

Page 120

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۱۴ سورة البقرة سپین میں آکر مسلمانوں سے علوم وفنون سیکھے.اگر چہ ظاہری طور پر یا سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کا اقتدار سپین کے خطہ ہی پر تھا لیکن حقیقت میں ان کی حکومت سارے یورپ کے ذہن پر اور سارے یورپ کے دل پر تھی لیکن بعض یہودی مسلمانان اندلس کی صفوں میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کی عبرتناک تباہی کا باعث بنے.شروع میں اُنہوں نے مسلمانوں سے کتابی علوم سیکھے کیونکہ اسلامی علوم سیکھنے کے لئے ایمان لانے کی شرط نہیں ہے.اب عام آدمی بھی مسلمان ہوئے بغیر اپنے ذہن اور حافظہ کی مدد سے اسلامی علوم کے ظاہری حصہ پر حاوی ہو سکتا ہے البتہ کتاب مکنون والے حصے میں جا کر حقیقی نیک اور ظاہری نیک میں عقل و فکر اور غورند برکرنے والے فرق کر لیتے ہیں.بہر حال یہ لوگ دشمنی کی نیت سے اسلام میں داخل ہوئے ظاہری علوم سیکھ کر حضرت مولانا‘ بن بیٹھے اور پھر اندر ہی اندروہ فتنہ بپا کیا کہ چشم فلک نے شاید ہی پہلے بھی دیکھا ہو.مگر ایمان رکھنے والے اللہ تعالیٰ سے محبت کا دم بھرنے والے مسلمانوں نے اُس وقت اپنی اس عظیم ذمہ داری کو فراموش کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے اعتماد سے فرمایا تھا کہ مجھے اور میرے مومن بندوں کو یہ منافق دھوکا نہیں دے سکتے.مگر مسلمانان اندلس نے ایسے منافقوں کے فتنوں سے بچنے کیلئے ہوشیاری اور بیدار مغزی کا ثبوت نہ دیا.دراصل ایک منافق کا ایک بہت بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان بن کر ایک آدمی کے پاس چلا جاتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ دیکھو آپ اتنے نیک اور بزرگ اور یہ اور وہ ہیں اور خلیفہ وقت کتنا ظالم ہے کہ اس نے پبلک میں آپ کو جھاڑ دیا حالانکہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے بڑی عقل دی ہے آپ بڑے بزرگ ہیں.اگر وہ آدمی بد بخت ہے تو وہ اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے لیکن اگر اس آدمی پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے تو وہ آگے سے اسے جواب دیتا ہے کہ تم غلطی سے میرے دروازے پر آگئے ہو تمہیں کسی اور طرف جانا چاہیے تھا.مجھے تو یہ پتہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کو کبھی نہ نیند آتی ہے اور نہ کبھی اُونگھ اور نہ ہی کبھی اس پر غفلت طاری ہوتی ہے میں بھی ظلی طور پر خدا تعالیٰ کی ان صفات سے متصف ہونے کی حیثیت میں ہوشیار اور بیدار ہوں تم میرے پاس کیا لینے آگئے ہو ہماری جماعت میں ایسے دس ہیں، سو دو سو واقعات سال میں رونما ہو ہی جاتے ہیں مجھے اطلاع ملتی رہتی ہے لکھا ہوتا ہے کہ میرے پاس منافق آیا تھا اور میں نے اسے یہ جواب دیا ہے.لیکن جن پر غفلت طاری ہوتی ہے یا جن کی حالت ایمان اور نفاق کے درمیان ہوتی ہے دل اور

Page 121

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۱۵ سورة البقرة دماغ اور روح میں کچھ روحانی کمزوری ہوتی ہے.جن کو اللہ تعالیٰ نے منافق نہیں قرار دیا بلکہ فرمایا ہے کہ یہ کمزوری ایمان رکھنے والے ہیں دل کی ساری امراض کو نفاق نہیں کہا اگر چہ یہ امراض نفاق کا حصہ ضرور ہیں لیکن ان کو کلیہ نفاق بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر کسی کے دل میں ایک فیصدی نفاق ہے تو وہ منافق نہ ہوا مگر اس کی حالت خطرہ سے باہر بھی نہیں ہوتی ایسے شخص کی اصلاح اور تربیت آسانی سے کی جاسکتی ہے.پس منافق مصلح کے لباس میں دوست اور ہمدرد کی حیثیت سے لوگوں کے پاس جاتے اور ان کے ایمان کے اندر رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ رخنہ ابتداء میں سوئی کے ناکے کے برابر ہوتا ہے بظاہر بالکل معمولی سا نظر آتا ہے لیکن اندر سے گند کا ایک لوتھڑا بن جاتا ہے مثلاً آج کل سیب کا پھل عام ہے آپ نے دیکھا ہو گا بعض کیڑے سیب پر حملہ آور ہوتے ہیں آپ ایک سیب اُٹھا ئیں اس پر سوئی کے ناکے کے برابر داغ نظر آئے گا اور جب اسے کھولیں گے تو دیکھیں گے کہ اندر موٹی موٹی سونڈیاں پھر رہی ہوں گی حالانکہ اس سیب پر بظاہر شوئی کے ناکے سے زیادہ سوراخ نظر نہیں آئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ منافق ایک مصلح کے روپ میں تمہارے سامنے آئے گا جب کبھی وہ تمہارے سامنے اس روپ میں آئے تو ہم تمہیں ایک جواب سکھاتے ہیں وہ جو اب تم اس کو دے دیا کرو تم اس سے کہہ دیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ تم اصلاح کا جو بھی جامہ پہنو ہم تمہیں پہچانتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ تم ہی مفسد ہو تمہارا مصلح کے روپ میں ہمارے سامنے آنا ہمیں دھوکا نہیں دے سکتا.منافق کی چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ منافق لوگ اپنے آپ کو بڑا عقل مند اور ہوشیار سمجھتے ہیں اور اپنے نفاق کو اپنی ہوشیاری کا نتیجہ سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی یہ حالت اول درجے کی حماقت کے مترادف ہوتی ہے لیکن یہ بات ان کے دماغ میں آتی ہی نہیں ان کا مرض لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ان سے کہا جائے کہ آخر یہ سارے مسلمان جو ہیں ان کے دلوں میں ایمان اور بے نفسی پائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے خلوص اور ایثار پایا جاتا ہے جس طرح اُنہوں نے اپنی تمام خواہشات اور اپنی بزرگیوں اور بڑائیوں کو اللہ تعالیٰ کی عزت اور عظمت پر قربان کر دیا ہے تم کیوں

Page 122

١١٦ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث نہیں ان کے رنگ کو اختیار کرتے اور اپنے اندر ایمان اور بے نفسی پیدا کرتے منافق یہ سن کر جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم ان بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں.یہ تو احمق ہیں مالی قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے تو یہ اپنے بیوی بچوں کو بھوکا مار دیتے ہیں مگر قربانی ضرور دیتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی عقلمندی ہے کہ بیوی بچے بھوکے مرتے رہیں اور مالی قربانیوں پر زور ہو پھر جن منافقین کے گھر باہر ہوتے ہیں اور بظاہر ان کے گھروں کے پہرے یا حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ادھر انہیں وقت کی قربانی دینے سے بھی گریز ہوتا ہے اور بہانہ بنا لیتے ہیں کہ اِن بُيُوتِنَا عَورَةُ (الاحزاب : ۱۴) ہمارے یہاں تو پہرے کا انتظام نہیں اس لئے ہم سے وقت کی قربانی کا مطالبہ نہ کریں اور ہمیں باہر نہ بھیجیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حفاظت کا سارا دارو مدار ان کی موجودگی پر ہے حالانکہ حقیقی محافظ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ہوتے ہیں ہمارے ملک میں بھی مختلف مواقع پر فسادات رونما ہوتے رہے ہیں اور بہت سے احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کی شان کو بچشم خود دیکھا ہے.بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ احمدی کا اکیلا گھر تھا ایک بھرا ہوا مجمع اس پر حملہ آور ہوا مگر واپس چلا گیا اور اس گھر کے مکین احمدیوں کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچ سکا اور بعض دفعہ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ بعض احمدی گھرانوں میں مرد موجود نہیں تھے صرف عورتیں تھیں.چنانچہ جب بھی اس قسم کے گھر پر مشتعل ہجوم حملہ آور ہوا تو ان کے سامنے اکیلی عورت کھڑی ہو گئی اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اس گھر کو اپنی حفظ و امان میں لے لیا اس حفاظت کا ایک زبر دست نظارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت دکھا یا جب آپ صرف بارہ آدمیوں کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے تھے جہاں ایک بڑے مشتعل ہجوم نے آپ پر حملہ کیا اور یہ نہتے دُہری چاردیواری کے اندر اپنے قادر و توانا خدا کے سہارے بیٹھے تھے.مادی لحاظ سے یا دنیوی سامانوں کے لحاظ سے اپنی مدافعت کا کوئی سامان ان کے پاس نہ تھا مگر اللہ تعالی جو عظیم قدرتوں کا مالک ہے اس کی حفاظت کا شرف انہیں حاصل تھا چنانچہ ہجوم باہر کا دروازہ توڑ کر اندر صحن میں داخل ہو گیا پھر اندر کے صحن کا دروازہ توڑ ہی رہے تھے کہ کسی نامعلوم وجہ سے اپنے آپ ہی واپس چلے گئے اب دنیا کو تو وہ وجہ نظر نہیں آتی لیکن ہمیں تو وہ وجہ نظر آتی ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کا زبر دست رُعب تھا جوان کے دلوں پر ڈالا گیا اور وہ اس وجہ سے ڈر کر واپس چلے گئے چنانچہ یہ ایک عظیم معجزہ اور اللہ تعالیٰ کے پیار کا ایک عجیب مظاہرہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں رونما ہوا.جس

Page 123

تفسیر حضرت خلیفة لمسیح الثالث 112 سورة البقرة سے ہمیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ پر توکل کریں گے تو ہمیں بھی اس طرح اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان حاصل رہے گی اور مخالف کا کوئی وار کامیاب تو کیا ہوگا وہ اس موقعہ پر خود ہی خائب و خاسر ہو کر لوٹ جائے گا.پس یہاں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر بار کو خدا کے سپر د کر کے خدا تعالیٰ کے لئے اپنا وقت دینے کیلئے چلا جاتا ہے وہی عقل مند ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ میرا گھر نگا ہے پہرے کا کوئی انتظام نہیں اجازت دیجئے کہ میں جہاد میں شامل ہونے کی بجائے گھر بار کی حفاظت کروں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا شخص دراصل غیر محفوظ ہے وہ چاہے جتنے مرضی انتظام کرے،مضبوط سے مضبوط قلعے بنا لے وہ ملک الموت سے بچ نہیں سکتا وہ ایسے وقت میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا.بعض دفعہ دشمن الہی سلسلہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور ظاہری لحاظ سے وہ سمجھتا ہے کہ میں غالب آ گیا ہوں چنانچہ وہ جماعت کے امام کو کہلا بھیجتا ہے کہ آپ لوگوں کی جان صرف اس صورت میں بیچ سکتی ہے کہ آپ اس قسم کا ایک بیان جاری کردیں لیکن اسے یہی جواب سنا پڑتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں تم کیا تمہارے جیسے کروڑوں بھی آجائیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے ہمیں اپنے قادر و توانا خدا پر بھروسہ ہے اور یقین ہے کہ اس کی حفاظت ہمارے شامل حال ہے.اس حقیقی حفاظت اور سچی امان کو چھوڑ کر ہمارا جھوٹے وعدوں کی طرف متوجہ ہو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس الہی سلسلوں کا یہی حال ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی جذبہ عقلمندی کہلاتا ہے لیکن جو منافق ہیں جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں دیکھو ہم نے دنیوی حفاظت کیلئے کیسی عقلمندی، ہوشیاری اور چالا کی سے کام لیا کہ بیک وقت دعوئی ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کی صفوں میں بھی شامل رہے اور پس پردہ منکرین اسلام سے بھی بنائے رکھی.وہ اپنی اس حماقت کو عقلمندی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد ہیں ان کے سروں پر اللہ تعالیٰ کے غضب کا کوڑا اسی طرح لہراتا ہے جس طرح بجلی آسمان سے کوندتی ہے اور جس چیز پر گرتی ہے آنکھ جھپکنے میں اس کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے.کراچی میں پتہ نہیں آپ کو ایسے موقعے ملتے ہیں یا نہیں مگر خدا تعالیٰ کے اس قہر کے کئی نشان دیہاتوں میں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنے قہر

Page 124

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۱۸ سورة البقرة سے بچائے.انسانی ہمدردی کے لحاظ سے احمدی یا غیر احمدی سب برابر ہیں.چنانچہ ابھی پچھلے دنوں کا یہ واقعہ ہے کہ ہماری زمینوں کے قریب ہی ایک غیر از جماعت زمیندار کے پانچ جانور ( تین ایک طرف اور دو دوسری طرف آمنے سامنے ) باندھے ہوئے تھے.اچانک بجلی گری اور ایک طرف کے دونوں جانوروں اور پاس کے درخت کے ایک حصے کو ایک سیکنڈ کے اندر بالکل راکھ بنا کر رکھ دیا اگر انسان اس درخت کو کاٹ کر اس کی راکھ بنانا چاہتا تو شاید اس کو کئی دن لگ جاتے مگر خدا تعالیٰ کے قہر کے اس ایک جلوے نے ایک سیکنڈ کے اندر درخت کو جلا کر راکھ کر دیا.اللہ تعالیٰ کے یہ جلوے بھی اپنے اندر کئی سبق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھو میرے فضل اور میری رحمت کے بغیر ایک پل بھر کے لئے بھی تمہاری زندگی اس کی صحت اور بقاء قائم نہیں رہ سکتی.اگر میر افضل شامل حال نہ ہو تو میرے قہر کا ایک معمولی سا جلوہ تمہارے درخت وجود کو جلا کر خاکستر کر دے.اس لئے اپنی حفاظت کے لئے میری پناہ میں آجاؤ اور میرے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کر لو.پس مومن بندہ اس حقیقت سے آگاہ اور باخبر ہوتا ہے اور اسی لئے وہ ہمیشہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز رہتا ہے لیکن جب ایک منافق سے یہ کہا جائے کہ اپنے رب سے بے نفس ایثار اور سچے خلوص کا تعلق قائم کرو اور اس کے لئے جس قربانی کا مطالبہ ہو اس کو پورا کرو تو وہ آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان تو دراصل ایک پاگل پن کی دلیل ہے ایک مجنونانہ فعل اور احمقانہ حرکت ہے.ہم اتنے عقلمند ہو کر بھلا کیوں اس قسم کا ایمان لائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دو هُمُ السُّفَهَاءُ بیوقوف اور احمق تو دراصل تم ہی ہو لیکن بیوقوف اور احمق ہونے کے علاوہ بڑے بد بخت بھی ہو کہ تمہیں اپنی بیوقوفی اور حماقت کا احساس بھی نہیں ہوتا.وہ احمق جو اپنی حماقت کا احساس رکھتا ہے وہ خود بھی بہت سی تکلیفوں سے محفوظ رہتا ہے اور دوسرے بھی اس کے آزار سے بہت حد تک محفوظ رہتے ہیں کیونکہ اسے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا دماغ نہیں دیا جتنا دوسروں کو دیا گیا ہے لیکن جو شخص اپنی حماقت کا احساس نہیں رکھتا وہ ہر وقت معرض خطرہ میں رہتا ہے اور نقصان سے دو چار رہتا ہے.اسی واسطے دانشمندوں کا یہ قول ہے کہ ایک بیوقوف دوست کی نسبت ہزار عقلمند دشمن اچھے ہوتے ہیں کیونکہ بسا اوقات ہزار عقلمند دشمن کسی کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو ایک بیوقوف دوست کے ہاتھوں اسے اُٹھانا پڑتا ہے.

Page 125

١١٩ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ میری نگاہ میں اور میری صفات سے متصف میرے بندوں کی نگاہ میں بھی بیوقوف تم ہی ہو خواہ تم کتنے ہی عقلمند کیوں نہ بنتے پھرو.پس منافقین کی یہ بنیادی علامات ہیں جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے.جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنی منافقت کو عقلمندی سمجھتے ہیں خدائے رحمن کو بھی اپنا سردار سمجھتے ہیں اور شیطان کو بھی اپنا سردار سمجھتے ہیں اور جو خدا کا بندہ خدا کی صفت رحمانیت کا مظہر ہے وہ بھی ظلی طور پر رحمن ہے ہر انسان اپنے محدود دائرہ میں ظلی طور پر اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کو منعکس کر کے رب بھی ہے رحمن بھی ہے رحیم بھی ہے اور مالک بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ ہماری جماعت پر یہ فرض لازم ہے کہ دوست ان صفات باری تعالیٰ کو ظلی طور پر اپنے اندر بھی پیدا کریں.پس ایک ایسا شخص جو رحمن اور شیطان میں فرق نہیں کر سکتا وہ بھلا عقلمند کیسے ہوسکتا ہے؟ منافق بے شک اپنے آپ کو عظمند سمجھتے پھریں اللہ تعالیٰ کا ان کے متعلق فیصلہ یہ ہے کہ وہ پرلے درجے کے سفیہ بڑے ہی بیوقوف اور سخت احمق ہیں کیونکہ یہ تو رحمن اور شیطان میں بھی فرق نہیں کر سکتے.یہ ان کی بیوقوفی اور حماقت کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے اس دورنگی کو عقلمند کون کہہ سکتا ہے کہ جب اپنے شیطان سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں لیکن مومنوں کے پاس آکر اسی زبان سے مومنانہ جذبات کا اظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں اور بڑی چرب زبانی سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص خدائے رحمن اور شیطان ملعون میں فرق نہ کر سکے وہ سفیبہ یعنی پرلے درجے کا بیوقوف نہیں تو اور کیا ہے لیکن اپنی سفاہت کا احساس نہ رکھنے کی وجہ سے یا محض شرارت کی نیت سے عقلمند کے روپ میں تمہارے سامنے آئیں گے.بظاہر بڑے عقلمند بڑے مصلح نہایت ہمدرد اور پکے مومن.لیکن در پردہ منافق ہوں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے جماعت مومنہ ! میں تم پر یہ اعتماد کر رہا ہوں اور تمہارے سامنے ان کی علامات کو کھول کھول کر اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ تم بھی ہمیشہ ایسے گروہ سے چوکس اور بیدار رہو جس طرح یہ لوگ مجھے بیوقوف نہیں بنا سکے اسی طرح یہ تمہیں بھی بیوقوف نہیں بنا سکتے.(بِقُدْرَتِهِ الْكَامِلَةِ ) پس اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہر سہ جماعتوں کے متعلق ان کی خصوصیات، کیفیات اور علامات

Page 126

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۲۰ سورة البقرة کو ظاہر فرما دیا ہے مومنوں کے لئے غیر محدود ترقیات کے دروازے کھولے.منکرینِ اسلام کے متعلق فرمایا کہ جب تک ان کی یہی کیفیت رہے گی یہ ایمان لانے کی سعادت سے محروم رہیں گے انہیں اس وقت تک ایمان کی توفیق نہیں مل سکتی جب تک اپنی اس بنیادی کمزوری کو دور نہ کریں کہ اپنے ہاتھوں سے انہوں نے جو غلط قسم کی مہریں اور پر دے اپنے دل ، کان اور آنکھ پر ڈال لئے ہیں وہ ہٹا نہ دیں.جب تک ان کی یہ حالت تبدیل نہیں ہوتی انہیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برا بر ہے.اس سے ہمیں بھی یہ بتانا مقصود ہے کہ تم بھی دیکھو کہ وہ مہریں کیسی ہیں ان کو کس طرح تو ڑا جا سکتا ہے تا کہ ایمان سے محروم اپنے ان بھائیوں کی خدمت کر سکو چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ وہ پر دے اس شکل کے ہیں، اس رنگ کے ہیں اور ان اثرات کے حامل ہیں لہذا تم ان پردوں کو ہٹا کر اپنے بھائیوں کو جو اس وقت تک ایمان کی دولت سے محروم ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھنے اور ان پر ایمان لانے کے قابل بنا سکتے ہو.پھر اس گروہ کا ذکر فرمایا جو مومن ہونے کا لیبل لگا کر مومن ہی کے روپ میں امت مسلمہ میں گھسے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفاق کا بیج بوتے ہوئے اُمت کے شیرازہ کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں.ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم نے کئی دوسری جگہ اس گروہ کی مختلف روحانی بیماریوں اور اس کی مفسدانہ کارروائیوں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن یہاں ان آیات میں اس گروہ سے متعلق چند بنیادی علامات کو واضح کیا گیا ہے جہاں تک ان کی بیماریوں اور ان کے فتنوں کا تعلق ہے ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جب بیماری کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا اس کی اپنی ذات کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن جب فتنہ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے.یوں دراصل ان کی بیماریاں اور ان کے فتنے ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں پس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے منافق کی بیماریوں، اس کے فتنوں وغیرہ کے متعلق اور پھر ان کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے اس کے متعلق وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ ان بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے لیکن چونکہ اس کے مومن بندے اس کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہونے کی حیثیت میں ان کی بیماریوں کے علاج میں کوشاں رہتے ہیں.پس ان آیات میں منافقین کی بنیادی کمزوریوں کو بیان فرمایا.ان سے بچنے کی تلقین فرمائی اس لئے یہ مضمون اس اعتبار سے بنیادی.

Page 127

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۲۱ حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں ان بیماریوں سے بچنے کی راہیں بتائی گئی ہیں.سورة البقرة خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۵۰ تا ۸۶۵) اگر چہ ہر نبی کے ساتھ یہی معاملہ رہا ہے لیکن بڑا نمایاں ہوکر ہمارے محبوب آقامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر ہمیں یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے کہ کچھ لوگ تو ایمان لائے سچا اور حقیقی ایمان اور اُنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیں.وہ ہر دم اور ہر آن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے رہے اور اسی میں اپنی عزت سمجھتے رہے اور اسی میں اپنی فلاح پاتے رہے اور اسی کے ذریعہ اُخروی زندگی میں اپنے لئے جنتوں کی تلاش کرتے رہے.ایک گروہ تھا جو آپ کی صداقت کا منکر ہوا.اس گروہ میں سے آہستہ آہستہ ایمان لا کر کئی لوگ جماعت مومنین میں شامل ہوئے یا پھر اپنے اپنے وقت پر اس جہان سے گوچ کر گئے اور اُن کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے جا پڑا.جس سلوک کے وہ مستحق تھے وہ اُن سے ہوا ہوگا لیکن چونکہ اُس زندگی سے ہمارا تعلق نہیں اس لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے جو وعدہ کیا ہے اس کے مطابق اُن کو یقینا سزادی ہوگی.ایک تیسرا گروہ جو بڑا نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آتا ہے وہ منافقین کا گروہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں جس قسم کا خیا نہ نفاق پایا جاسکتا ہے اور جس کا ذکر خود قرآن کریم نے کیا ہے اُس کے متعلق یہ سمجھنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں ایسا نفاق ظاہر نہیں ہوگا صحیح نہیں ہے.اس بات کو عقل تسلیم نہیں کرتی.قرآن کریم نے ایک جگہ پر یہ ہدایت کی ہے کہ منافقوں کی سال میں ( مَرَّةٌ أو مرتين ) ایک دو بار آزمائش کرتے رہنا چاہیے اور اُن کو ٹولتے رہنا چاہیے.اس سے بھی بعض اصلاح کر لیتے ہیں اور بعض گند کے اس مقام پر جہاں کھڑے تھے وہاں کھڑے رہتے ہیں یا بعض اس گند میں ترقی کرتے ہیں بہر حال الہی سلسلوں کو چوکس اور بیدار رہ کر اپنی اجتماعی ، اخلاقی اور روحانی زندگی گزارنی چاہیے.اِس وقت میں اس سلسلہ میں بعض آیات جن کا میں نے انتخاب کیا ہے پڑھوں گا اور ساتھ اُن کا ترجمہ کروں گا.ویسے قرآن کریم نے بہت سے دیگر مقامات پر بھی منافقین کا ذکر کیا ہے لیکن اگر وہ آیات بھی میں پڑھنے لگوں تو یہ بہت لمبا مضمون بن جائے گا اس لئے میں نے چند آیات کو منتخب کیا

Page 128

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۲۲ سورة البقرة ہے دوست ان کو غور سے سنیں.قرآن عظیم نے ہماری بھلائی اور ہدایت کے لئے جو باتیں بیان کی ہیں انہیں سمجھنے کی کوشش کریں انہیں یا درکھیں اور ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.سورۃ بقرہ کی ابتدا میں تینوں گروہوں کا ذکر ہے تیسرے گروہ کا ذكر وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا باللہ سے شروع ہوتا ہے.ان آیات کی میں نے آغاز خطبہ میں تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے:.اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آنے والے دن پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ہرگز ایمان نہیں رکھتے.وہ اللہ کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر ( واقعہ میں ) وہ اپنے سوا کسی کو دھوکا نہیں دیتے لیکن وہ سمجھتے نہیں.اُن کے دلوں ا میں ایک بیماری تھی پھر اللہ نے اُن کی بیماری کو (اور بھی) بڑھا دیا اور اُنہیں ایک دردناک عذاب پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے.اور جب اُن سے کہا جائے (کہ ) زمین میں فساد نہ کرو ( فتنہ نہ پیدا کرو ) تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں.( کان کھول کر ) سنو ! یہی لوگ بلا شبہ فساد کرنے والے ہیں.مگر وہ (اس حقیقت کو ) سمجھتے نہیں اور جب اُنہیں کہا جائے کہ (اسی طرح) ایمان لاؤ جس طرح ( دوسرے مخلص ) لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا ہم (اس طرح) ایمان لائیں جس طرح بیوقوف (لوگ) ایمان لائے ہیں.یا درکھو! ( یہ جھوٹ بول رہے ہیں ) وہ خود ہی بیوقوف ہیں مگر (اس بات کو ) جانتے نہیں.اور جب وہ اُن لوگوں سے ملیں جو ایمان لائے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو (اس رسول کو ) مانتے ہیں اور جب وہ اپنے سرغنوں سے علیحدگی میں ملیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان مومنوں سے ) ہنسی کر رہے تھے.اللہ انہیں (اُن کی جنسی کی سزا دے گا اور انہیں اپنی سرکشیوں میں بہکتے ہوئے چھوڑ دے گا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو انہیں دنیوی فائدہ پہنچا اور نہ اُنہوں نے ہدایت پائی.“ پھر اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے:.لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَبُوا لَكَ الْأَمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَ ظَهَرَ اَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ج كرِهُونَ إِن تُصِبُكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَد أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ

Page 129

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۲۳ سورة البقرة وو ج قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَهُمْ فَرِحُونَ قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلنَا ۚ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِرُكَ فِي الصَّدَقَتِ : فَإِنْ أَعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطُوا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِ وَ يَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أَذُن خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمُ.يَحْلِفُونَ بِاللهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ ۚ وَاللَّهُ وَرَسُولُةٌ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ وَلَبِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللهِ وَ ايته وَ رَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِعُونَ الْمُنْفِقُونَ وَ الْيُنْفِقْتُ بَعْضُهُمْ مِّنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ الْفَسِقُونَ.وَعَدَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خُلِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ (التوبة: ۶۸،۶۷،۶۵،۶۲،۶۱،۵۸،۵۱،۵۰،۴۸) انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ (پیدا کرنا ) چاہا تھا اور تیرے لئے حالات کو کئی کئی طرح بدلا تھا یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا فیصلہ ظاہر ہو گیا اور وہ اس فیصلہ کو نا پسند کرتے تھے.اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو اُن کو بڑا لگتا ہے اور اگر تجھ پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی سے اپنے پیش آنے والے دنوں کا انتظام کر لیا تھا اور وہ خوشی کے مارے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں.تو (اُن سے ) کہہ دے ہم کو تو وہی پہنچتا ہے جو اللہ نے ہمارے لئے مقرر کر چھوڑا ہے وہ ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ پر ہی تو کل رکھیں.اور اُن میں سے کچھ (منافق) ایسے ہیں جو صدقات کے بارے میں تجھ پر الزام لگاتے ہیں اگر ان صدقات میں سے کچھ اُن کو دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جاتے ہیں اور اگر ان میں سے انہیں کچھ نہ دیا جائے تو فوراً خفا ہو جاتے ہیں.اور اُن میں سے بعض ایسے (منافق) بھی ہیں جو نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ( کان ہی) کان ہے تو کہہ دے کہ وہ تمہارے لئے بھلائی سننے کے کان رکھتا ہے وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور جو تم میں سے مومن ہوں اُن (کے وعدوں ) پر ( بھی ) یقین رکھتا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت کا موجب ہے اور وہ لوگ جو اللہ

Page 130

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۲۴ سورة البقرة کے رسول کو دُکھ پہنچاتے ہیں اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے.وہ تمہارے خوش کرنے کے لئے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں حالانکہ اللہ بھی اور اس کا رسول بھی زیادہ حق دار ہیں کہ اُس کو خوش کیا جائے بشرطیکہ یہ (منافق) سچے مومن ہوں.اور اگر تو اُن سے پوچھے ( کہ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو) تو وہ ضرور یہی جواب دیں گے ہم تو صرف مذاق اور ہنسی کرتے تھے.تو ان کو جواب دیجیو کہ کیا اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول سے مذاق اور ہنسی کرتے تھے؟ منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.وہ بُری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں کے خلاف تعلیم دیتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو ( خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے ) روکتے ہیں.اُنہوں نے اللہ کو ترک کر دیا سو اللہ نے بھی ان کو ترک کر دیا.منافق یقیناً اطاعت سے نکلنے والے ہیں.اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کفار سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے.وہی ان ( کی پوری تو جہ کھینچنے کے لئے کافی ہے (اور اس کے علاوہ) اللہ نے ان کو (اپنی درگاہ سے ) دھتکار بھی 66 دیا ہے اور اُن کے لئے ایک قائم رہنے والا عذاب ( مقدر) ہے.“ پھر غزوہ احزاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا - هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا - وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولةَ اللَّا غُرُورًا - (الاحزاب :۱۱ تا ۱۳) ہاں ! اس وقت کو یاد کرو) جب کہ تمہارے مخالف تمہاری اوپر کی طرف سے بھی (یعنی پہاڑی کی طرف سے بھی) اور نیچے کی طرف سے بھی (یعنی نشیب کی طرف سے بھی ) آگئے تھے اور جب کہ آنکھیں گھبرا کر ٹیڑھی ہو گئی تھیں اور دل دھڑکتے ہوئے حلق تک آگئے تھے اور تم اللہ کے متعلق مختلف شکوک میں مبتلا ہو گئے تھے.اس وقت مومن ایک ( بڑے ) ابتلا میں ڈال دیئے گئے تھے اور سخت ہلا دیئے گئے تھے اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب کہ منافق اور جن لوگوں کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگ گئے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے

Page 131

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث صرف ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.۱۲۵ سورة البقرة هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَايِنُ السَّيُوتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ - يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْآعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ.( المتفقون : ٩،٨) یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے پاس جولوگ رہتے ہیں اُن پر خرچ نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ( فاقوں سے تنگ آکر ) بھاگ جائیں حالانکہ آسمان اور زمین کے خزانے اللہ کے پاس ہیں ، لیکن منافق ( اس حقیقت کو ) سمجھتے نہیں.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہے ( یعنی عبد اللہ بن اُبی بن سلول اپنے زعم میں ) وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی کو اس سے نکال دے گا.اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے لیکن منافق جانتے نہیں.قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر مختلف رنگ میں منافقوں کا ذکر کیا ہے ان کی علامتیں بتائی ہیں اور وہ فتنہ پھیلانے کی جورا ہیں اختیار کرتے ہیں ان کا ذکر کیا ہے چونکہ قرآن کریم صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے لئے نہیں اُتر ا تھا بلکہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے نازل ہوا تھا اور لوگوں کے لئے ہدایت، کامیابی اور فلاح کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے آیا ہے اس لئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے جن جن مضامین کا ذکر ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن مضامین کو ذہن نشین کیا کریں.ہم اپنے ماحول میں اور اپنے معاشرہ میں شیطان کے لئے کوئی راہ کھلی نہ رہنے دیں اور جو طریقے قرآن کریم نے بتائے ہیں وہ واضح ہیں البتہ اُن میں یہ طریقہ نہیں ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے بلکہ دُعا کا طریقہ ہے سمجھانے کا طریقہ ہے اور پھر یہ یقین ہے کہ اگر منافق اصلاح نہیں کریں گے تو اُن کو سزا دینا انسان کا کام نہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اُن کو اس دُنیا میں بھی سزا دوں گا اور وہ اُخروی زندگی میں جہنم میں جائیں گے.یہ خدا کا کام ہے یہ انسان کا کام نہیں ہے لیکن انسان کا یہ کام ہے کہ وہ کسی منافق کو اپنے معاشرہ میں فتنہ پیدا نہ کرنے دے اللہ تعالیٰ ہمیں چوکس رہنے کی توفیق عطا فرمائے.( خطبات ناصر جلد ششم ۲۶۱ تا ۲۶۷)

Page 132

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۲۶ سورة البقرة آیت ۲۰ اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ ط يَجْعَلُونَ اَصَابِعَهُمْ فِى أَذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ، وَاللهُ مُحِيطٌ بِالْكُفِرِينَ ج والله محيط بالكفرين کہ وہ ان لوگوں کو جو اس کے منکر ہیں اور اس کی ذات اور صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے اس سے دوری کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں اپنے غضب کا نشانہ بنانے کیلئے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ ان پر اپنا غضب نازل کرتا ہے اور اس طرح انہیں پھر واپس لے آتا ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۳۰ تا ۵۳۹) آیت ۴۶ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبُرِ وَ الصَّلوةِ ۖ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ ۴۶ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے بندوں کی جو عاجزی ہے اور تواضع ہے اس میں زیادتی پیدا کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے اور ہماری روحانی ترقی کے لئے عجز و انکسار کا پایا جانا ہماری فطرت میں اور اس کی کامل نشو و نما ہونا ضروری ہے.اس لئے کہ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو مضبوطی سے پکڑو گے نہیں، جو کہتا ہے وہ کرو گے نہیں ، جس سے روکتا ہے اس سے باز نہیں آؤ گے اور دعا اور وہ دعا جس کو صلوٰۃ کے لفظ میں یاد کیا گیا ہے اس کے ذریعے سے میرے فضل اور رحمت کو جذب نہیں کرو گے تم میرے قرب کو حاصل نہیں کر سکتے.سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اور صبر اور دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو.بہت جگہ اور بھی آیا ہے.اس آیت کا انتخاب میں نے اس لئے کیا کہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صبر و صلوۃ کے بغیر کوئی استعانت ، مدد نہیں مل سکتی ، اس کی رحمت اور اس کا فضل اور اس کی برکتیں تمہیں حاصل نہیں ہوسکتیں اور صبر اور صلوۃ ، عجز اور انکساری کی بنیادوں کے اوپر اٹھتے ہیں.وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلا عَلَى الْخَشِعِينَ اور بے شک فروتنی اختیار کرنے والوں کے سوا دوسروں کے لئے یہ امر مشکل ہے یعنی جو فروتنی کرنے والے ہیں صرف ان کے لئے یہ مشکل نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اور اس کی ہدایت کے

Page 133

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۲۷ سورة البقرة مطابق صبر اور صلوٰۃ پر کار بند ہوں.صبر کے بنیادی معنی تو ہیں استقلال کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننا اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنا.لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام جو ہیں وہ ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور عربی زبان بہت سے بنیادی ایسے پہلوؤں کے ساتھ صبر کا لفظ استعمال کرتی ہے اس لئے مفردات راغب نے اس کے معنی کرتے ہوئے یہ کہا کہ صبر کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ حق النَّفْسِ عَلَى مَا يَقْتَضِيْهِ الْعَقْلُ وَالشَّرْعُ کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے نفس کو اس مقام پر قائم رکھنا جس مقام پر قائم رہنے کا عقل اور شریعت مطالبہ کرتی ہے، تقاضا کرتی ہے لیکن اس کی وہ کہتے ہیں مختلف شکلیں نکل آتی ہیں.مصیبت کے وقت صبر کرنا، جس کا مطلب ہے واویلا نہ کرنا اور کوئی ایسی بات نہ کرنا ، نہ بولنا جس سے یہ معلوم ہو کہ انسان کا تعلق خدا تعالیٰ سے نہیں بلکہ اس کے غیر کی طرف وہ رجوع کر رہا ہے یا خدا تعالیٰ پر اسے کامل بھروسہ نہیں اور اس کے جو احکام ہیں جس شکل میں بھی وہ آتے ہیں ان پر وہ پوری طرح راضی نہیں.دوسرے اس کے معنی میدان جنگ میں ایک کیفیت ہے اس کے متعلق بولا جاتا ہے.وہ شجاعت ہے جس معنی میں اسلام نے اسے استعمال کیا ہے.شجاعت کے معنی ہیں وہ بہادری جس کا تقاضا احکام قرآنی کر رہے ہیں.مثلاً قرآن کریم نے شجاعت کے معنوں میں یہ تقاضا کیا کہ ایک وقت میں کہا کہ اگر ایک ہو گے تو دو پر بھاری یعنی ایک ہزار تم ہو گے میدانِ جنگ میں تو دو ہزار پر بھاری ہو گے.پھر کہا تمہیں ہم روحانیت میں ترقی دیں گے تم ایک ہزار ہو گے دس ہزار پہ بھاری ہو گے.تو یہ شجاعت، یہ ہے شجاعت جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں صبر کہہ سکتے ہیں میدانِ جنگ میں.بڑا بہادر تھا طارق جس نے اپنی کشتیاں جلائیں اور کامل تو کل خدا تعالیٰ پر کیا.اس نے سوچا ہوگا شاید کہ میرے مقابلہ میں ایک وقت میں میرے پاس ( کچھ اور فوج مل گئی تھی ان کو ) بارہ ہزار ہیں تو ایک لاکھ بارہ ہزار سے زیادہ تو کسی میدان میں جمع نہیں ہوں گے اس واسطے مجھے کشتیوں کے سہارے کی ضرورت نہیں، میرے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کافی ہے.کس قدر شجاعت کا مظاہرہ کیا خدا تعالیٰ کے احکام پر قائم ہو کر اور دنیا کے لئے ایک حیرت اور ایک عجوبہ بن گیا طارق.لیکن صرف طارق ہی تو نہیں جس جگہ ہماری ساری تاریخ میں خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی ہدایت

Page 134

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۲۸ سورة البقرة کے مطابق صبر کا نمونہ دکھا یا مسلمان نے اور کامل تو کل کیا اپنے رب پر دشمن کے تیر ان کی پیٹھ پر نہیں پڑے سینوں پر کھائے.ایک صبر کے معنی ہیں آفات سماوی آتی ہیں آزمائش کے لئے اس وقت زجر نہ کرنا.چوتھے معنی ہیں زبان پر قابو رکھنا.بہت سارے لوگوں کو عادت ہے ویسے ہی بولتے رہتے ہیں اور فتنہ پیدا ہوتا ہے اور وہ خوشحال معاشرہ اور پر امن معاشرہ جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ان کی زبان اس میں رخنے پیدا کر دیتی ہے.زبان پر قابو رکھنا اس معنی میں بھی صبر کا لفظ آیا ہے کہ اپنی زبان کو احکام الہی کی رسیوں میں باندھو اور جتنی ، جب اجازت ہو جس حد تک بولنے کی اس سے زیادہ نہ بولو.نہ کرنے والی بات کر نہ دینا، گالی نہ دینا، افترا نہ کرنا، اتہام نہ لگانا، بدظنی نہ کرنا وغیرہ وغیرہ خدا تعالیٰ نے بہت سے احکام ایسے ہیں جن کے ذریعے سے زبان پر پابندیاں لگائی ہیں اور ان احکام کے مطابق اپنی زبان کا استعمال کرنا اللہ تعالیٰ کی اصطلاح میں ایک یہ بھی صبر ہے.پانچویں ، مفردات راغب میں ہے، یہ معنی ہیں اس کے کہ عبادت الہی میں جس حد تک ممکن ہو مشغول رہنا اور ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ہر وقت مشغول رہنے کا سامان پیدا کر دیا.جس وقت ہم باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں وہ بھی عبادت میں مشغول ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک اجتماعی نماز کے وقت بھی میری عبادت میں تم مشغول ہو، کھڑے ہونے کی حالت میں، بیٹھے ہونے کی حالت میں، لیٹے ہونے کی حالت میں تم میرا ذکر کر سکتے ہو اور میری عبادت میں مشغول رہ سکتے ، میری صفات کا ورد کر سکتے ہو، ان کے واسطے سے مجھ سے مانگ سکتے ہو اور دعائیں کر سکتے ہو، اپنی ضرورتیں میرے سامنے پیش کر سکتے ہو ، دعا اور صلوٰۃ میں ہر وقت مشغول رہ سکتے ہو اور جو دعا کرتے ہوئے سو جاتا ہے سوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ہی ثواب دے دیتا ہے.اور چھٹے یہ کہ اہوائے نفس کے خلاف ہر وقت جہاد میں مشغول رہنا.یہ جو انسان کا نفس ہے نا یہ بڑا تنگ کرتا ہے انسان کو اور چوکس اور بیداررہ کے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی عظمت اور اس کے جلال کو سامنے رکھے بغیر انسان اپنے نفس سے کامیاب جنگ نہیں کر سکتا.تو وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ میری مدد حاصل کرو مبر کے ساتھ.اور جوصبر ہے وہ عاجزی کے بغیر تم نہیں کر سکتے.مثلاً ہم نے صبر کے معنی کئے تھے مصیبت کے وقت جزع فزع نہ کرنا.جو عاجز بندہ ہے وہ تو

Page 135

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۲۹ سورة البقرة کہے گا کہ جو جتنی دیر میں اس مصیبت سے امن میں رہا اس کا بھی میرا کوئی میرے رب پر حق نہیں.تو جب وہ چیز مجھ سے لے لی گئی اور میرے پر بے اطمینانی کے حالات پیدا ہو گئے تو میں کیا شکوہ کروں خدا سے.جب وہ اطمینان جو میرے پاس تھا وہ میرا حق نہیں تھا تو جو مجھ سے لیا گیاوہ میرا حق چھینا نہیں گیا لیکن اگر کوئی شخص کہے اتنا بڑا میرے رب نے میرے پر یہ ظلم کر دیا، بے صبری کی بات ہوگئی نا، عاجزی کی بات نہ رہی نا، تکبر کی بات ہو گئی نا فخر کی بات ہو گئی نا، اباء کی بات ہو گئی نا، شیطانی کلمہ منہ سے نکل گیانا، زبان پر قابونہ رکھنا مثالوں پر گیا تو بہت مثالیں دیں تو دیر ہو جائے گی.اکثر زبان کا وار جو ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنے والا ، وہ اپنی بڑائی کے نتیجے میں ہوتا ہے.ایک عاجز بندہ اپنی زبان سے دوسرے کو دکھ دے ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے تو یہاں تک حکم دیا کہ شرک سب سے بڑا گناہ، مشرک کو میں اس کا گناہ معاف نہیں کروں گا لیکن تمہیں میں تمہاری زبان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ جن بتوں کی وہ پرستش کر رہے ہیں ان کو تم گالی دو وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الانعام : ١٠٩) کہ جو شخص خدا کے اس حکم کو توڑ کے بت کو گالی دیتا یا کسی اس کے بندے کے خلاف بدزبانی کرتا ہے وہ جس کے خلاف بدزبانی کرتا ہے اس سے خود کو بڑا سمجھتا ہے نا بھی اس نے اپنا یہ حق سمجھانا کہ اس کو گالیاں دینی شروع کر دیں، بدزبانی اس کے خلاف شروع کر دی.تو جب تک صحیح اور حقیقی خشوع نہ ہو، عاجزی نہ ہو، انکسار نہ ہو، تواضع نہ ہو صبر کے تقاضے نہیں پورے کئے جاسکتے اور اسی واسطے میں نے شروع میں کہا کہ جو صبر ہے وہ عاجزی اور انکسار کی بنیادوں پر کھڑا ہوتا ہے.دوسرے ہے صلوٰۃ.صلوۃ کے معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.دعا سے وو مختلف ہیں.صلوٰۃ دعا بھی ہے لیکن ہر دعا جو ہے وہ صلوٰۃ نہیں ہے.آپ فرماتے ہیں: جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں.( یہ بات میں اپنی طرف سے واضح کر دوں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم خدا سے مانگیں لیکن یہاں یہ سوال نہیں کہ وہ حکم ہے یا نہیں، یہاں یہ ہے کہ اس کو دعا نہیں ہم کہتے.ضروری ہے آپ نے فرمایا جوتے کے تسمے کی بھی ضرورت ہے تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی دکان تمہیں تسمہ دے دے گی، مجھ سے مانگو ) لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا

Page 136

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور عجز ، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.“ اور پھر آپ دوسری جگہ فرماتے ہیں وو دل پگھل جائے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے ( یہ ہے صلوۃ) تو جو معنی صلوٰۃ میں صلوٰۃ کے لفظ میں ، موٹے تو ہر ذہن میں آتے ہیں دعا کرنا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک خاص دعا ہے، یہ آتے ہیں لیکن اس کے معنی میں عجز اور انکساری بھی شامل ہے وہ جو چھپا ہوا حصہ تھا اس معنی کا اس آیت نے اسے کھول کر بیان کر دیا إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلا عَلَى الخشعِينَ کہ جب تک عجز وانکسار کی راہوں کو اختیار نہ کیا جائے تم وہ حقیقی دعا جسے ہم صلوۃ کہہ سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مانگ نہیں سکتے.خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۹۳ تا ۱۹۷) آیت ۴۷ الَّذِيْنَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَجِعُونَ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ماہ رمضان ) کو صبر کا مہینہ بھی کہا ہے اور جو آیت ابھی میں نے تلاوت کی ہے یعنی وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے.اس کا ایک بطن میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صبر کے ذریعہ یعنی رمضان کی ذمہ داریاں نبھا ہنے ، عبادات بجالانے اور دعا کے ساتھ مجھ سے مدد مانگو وہ دعا جو عبادت ہے وہ تو صبر کے اندر آجاتی ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا ہے.یہ ماہ صبر یاماہ رمضان پانچ عبادات پر مشتمل ہے.ان عبادات میں دعا بھی شامل ہے.رات کے نوافل بھی شامل ہیں لیکن اس ماہ کی دعا یعنی ماہ رمضان کی دعا جو نوافل ہیں اور جو عبادات کے طور پر ہیں اس کے علاوہ ایک اور دعا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.نماز جو عبادت ہے وہ تو صبر کے اندر آتی ہے لیکن یہاں الصلوۃ کے لفظ سے اس معنی میں جو میں کر رہا ہوں ایک خاص دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اس لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے استعانت حاصل کرنے ، مجھ سے مدد حاصل کرنے اور استمداد کی خواہش ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ جتنی طاقت اور قوت اب تک تمہیں مل چکی ہے اور عطا ہو چکی ہے اسے تم میری راہ میں خرچ کرو یعنی اپنی تد بیر کو اپنی انتہاء تک پہنچاؤ.

Page 137

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۳۱ سورة البقرة صبر جن عبادات کی طرف اشارہ کر رہا ہے (میں نے بتایا ہے کہ یہ لفظ اصولی طور پر تمام ذمہ داریوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ) وہ یہ ہیں.ا.دنیا کو خدا کے لئے چھوڑنا.۲.خدا کے لئے آفات نفس سے بچنا.۳.اللہ کی رضا کے لئے دوسروں سے عدل و انصاف سے بڑھ کر جو دوسخا کا معاملہ کرنا.۴.اپنے محبوب کی محبت کی تڑپ کی وجہ سے راتوں کی نیند بھول جانا اور اس کا احساس بھی نہ رکھنا.ہر وقت اور راتوں کو اُٹھ کر بھی اللہ کے حضور جھکنا اس سے پیار کا اظہار کرنا اور اس کے پیار کو طلب کرنا.۵.آفات نفس سے بچنا.یہ پانچوں چیزیں اس جگہ صبر کے لفظ کے اندر آ جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ماہ رمضان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شَهْرُ الصَّبْرِ ( یعنی صبر کا مہینہ ) بھی کہا ہے اور صبر کے معنی ہیں استقلال کے ساتھ ان باتوں پر کار بند رہنا اور بندھے رہنا ( جیسے ایک آدمی دو چیزوں کو باہم باندھ دیتا ہے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتیں) اسی طرح صبر کے معنی میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان خود کو ان چیزوں سے جن کا ہماری عقل تقاضا کرتی ہے یا جن کا ہماری شریعت ( قرآن کریم ) تقاضا کرتی ہے اس طرح باندھ لے کہ پھر جُدائی کا امکان ہی باقی نہ رہے اور اس معنی کے لحاظ سے صبر کے اندر تمام ذمہ داریاں اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے ثبات قدم کا حصول اور ان کو پوری ہمت اور عزم کے ساتھ ادا کرنا سب چیزیں آجاتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم رب العالمین کی مدد چاہتے ہو تو تمہیں آج تک رب العالمین نے جو کچھ دیا ہے وہ اس کی راہ میں خرچ کرو.صلوٰۃ کا لفظ جو یہاں نمایاں کر کے دیا گیا ہے اس سے مراد عام عبادت یعنی نماز نہیں.ایک دعا تو وہ ہے جو تدبیر اور دعا کو بریکٹ کرنے کی کیفیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.یعنی دعا کرتے وقت انسان خدا کی حمد بیان کرتا ہے اس کی قدوسیت بیان کرتا ہے اور اس کی تمام صفات کو اپنے ذہن میں حاضر رکھتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اے خدا ہم کمزور ہیں ہم حتی الوسع طاقت خرچ کر رہے ہیں.ہم خلوص رکھتے ہیں اور نیک نیت بھی ہیں.مگر نہیں کہہ سکتے کہ ہماری نیتیں نیک ہیں اور ہمارا خلوص واقعہ میں خلوص ہے اور ہماری جو کوشش ہے واقعہ میں مقبول ہونے والی ہے تو ہماری کوششوں کو قبول کر.اس آیت میں صلوۃ کے لفظ کو جو علیحدہ کیا گیا ہے یہ میرے نزدیک یہ بتانے کے لئے ہے کہ یہ دعا بھی ہونی چاہیے کہ اے خدا تو ہماری دعا قبول کر.پس دعا ئیں دو قسم کی ہیں ایک دعا وہ ہے جو انسان تسبیح اور تحمید کے ساتھ

Page 138

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۳۲ سورة البقرة خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر مانگتا ہے اور ایک دعاوہ ہے جو انسان خدا سے مانگتا ہے کہ اے خدا تو ہماری دعاؤں کو قبول کر کیونکہ محض دعا سے ہمیں تسلی نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ قبول نہ ہو.اسی لئے اس آیت میں صلوۃ کے لفظ کو دوبارہ لایا گیا ہے کیونکہ عام نماز تو صبر کے لفظ کے اندر آ جاتی ہے.یہاں وہی مضمون نسبتاً وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے جو سورہ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَستَعِينُ میں بیان ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی بڑی لطیف تشریح کی ہے کہ ايَّاكَ نَعْبُدُ ( ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ تو نے ہمیں جو بھی قو تیں اور طاقتیں عطا کی ہیں ہم ان سب کو خرچ کرتے ہوئے تیری عبادت کرتے ہیں.اگر کوئی شخص عمل نہ کرے اور صرف دعا کرے تو وہ شوخی دکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ میں نے جو تمہیں دیا تھا.اس سے تو تو نے فائدہ نہیں اُٹھا یا پھر تو مجھ سے اور کیوں مانگ رہا ہے..نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کو صبر کا مہینہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصلوۃ رمضان کی عبادتوں کو توجہ ، ہمت اور عزم سے ادا کرو اور اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ ادا کرو.عاجزی، فروتنی اور انکسار کے ساتھ ادا کرو.دوسروں پر صرف عدل اور انصاف ہی کا ہاتھ نہ رکھتے ہوئے بلکہ ان کے سروں پر جود اور سخا کا ہاتھ رکھتے ہوئے اور اپنے نفس کو بُرائیوں سے بچاتے ہوئے ان عبادات کو ادا کرو اور اپنے نفس کو شریعت کے احکام کا اس طرح پابند کرتے ہوئے ادا کرو کہ پھر احکام شریعت اور نفس انسانی میں دُوری پیدا نہ ہو سکے.پھر اللہ تعالیٰ سے یہ بھی کہو کہ اے خدا تو نے مجھے جو کچھ دیا تھا میں نے اس سے کام لیا ہے اور اتنا کام لیا ہے جتنی میری طاقت تھی.لیکن اے میرے رب تو نے ہمیں مزید رفعتوں کے حصول کی استعداد عطا کی ہے.ان مزید رفعتوں کے حصول کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ ہمیں عطا کر.ہم تیرے ناشکرے بندے ثابت نہیں ہوئے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اپنی طاقت سے آئندہ بھی نا شکر گزار بندے نہیں بنیں گے.اس لئے تیرے حضور ہماری یہ التجا بھی ہے کہ تو ہمیں ہمیشہ اپنے ہاتھ کا سہارا دے تو ہمیں ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھتا کہ ہم ہمیشہ ہی تیرے شکر گزار بندے بنے رہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۹۶۷ تا ۹۷۱)

Page 139

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۳۳ سورة البقرة آیت ۸۸ وَ لَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَب وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَ أتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ اَيَّدُنْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلَّمَا ، جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهْوَى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَبْتُمْ وَ دووور فَرِيقًا تَقْتُلُونَ (۸۸) دوسری چیز جو تکبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ الہی اور آسمانی تعلیم سے محرومی ہے اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے:.افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهُوَى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكَبر تم یعنی جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول اس تعلیم کو لے کر آیا جسے تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم نے تکبر کا مظاہرہ کیا یعنی اپنی بد عادات، گندی روایات ، بد رسوم اور جھوٹے اعتقادات کو اپنے تکبر کی وجہ سے آسمانی تعلیم سے بہتر سمجھا اور آسمانی تعلیم کو اپنے تکبر کی وجہ سے تم نے ٹھکرا دیا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں میں تکبر پایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو صاحب عظمت، صاحب رفعت اور صاحب طاقت و دولت سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اپنے جیسا نہیں سمجھتے ، پھر اس تکبر کے نتیجہ میں ہر وہ رسم ہر وہ عادت ہر وہ خیال اور ہر وہ اعتقاد جو وہ بچپن سے سنتے آئے ہیں قبول کر لیتے ہیں اور جب ان گندی چیزوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے اور صحیح عقائد ان کے سامنے رکھنے کے لئے اپنے رسول کو بھجواتا ہے اور وہ اس کی لائی ہوئی آسمانی ہدایت کو سنتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور کہیں کہ ہمارے رب نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے لئے ہمارے کسی عمل کے بغیر اور ہمارے کسی استحقاق کے بغیر آسمان سے ہدایت کو نازل کیا تا کہ ہم اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کو پاسکیں انہوں نے وَاتَّبَعَ هَواهُ (الاعراف : ۱۷۷) کے ماتحت اپنی ہی پسند ، اپنی ہی خواہش اور اپنی ہی عادتوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت، اس کی تعلیم اور آسمانی نور کے مقابلہ میں افضل، اعلیٰ اور ارفع سمجھا اور اس طرح وہ الہی ہدایت اور آسمانی نور کے قبول کرنے سے محروم ہو گئے.سو یہ بھی

Page 140

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۳۴ سورة البقرة ایک نہایت ہی بھیانک، بڑا اور مہلک نتیجہ ہے جو تکبر کی وجہ سے نکلتا ہے.اس کے علاوہ یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو کافر ہوئے جو منکر ہوئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے رسول کو نہیں مانا یہ لوگ تو خدا تعالیٰ کی ہدایت اور نور سے محروم تھے ہی لیکن جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں وہ بھی بعض دفعہ اپنے تکبر کی وجہ سے الہی ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کا نفس مثلاً پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص ان کے پاس آئے اور ان کو یہ بتائے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری پائی جاتی ہے تم اسے دُور کرو.وہ کہتے ہیں ہماری بے عزتی ہو گئی یا مثلاً کوئی شخص کسی بڑے مالدار کو یہ کہے کہ دیکھو تم غریبوں پر رحم کیا کرو تو وہ سمجھتا ہے کہ اس شخص نے میری بے عزتی کی ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو اسلامی حکم سے بالا سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو ان فیوض سے محروم کر لیتا ہے جن فیوض کو وہ اسلامی تعلیم کے ذریعہ حاصل کر سکتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۵۳ تا ۲۵۴) آیت ۱۰۷ مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا اَلَم تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ یہ قرآن پہلی کتب کی تصدیق کرتا ہے.میں جو تصدیق کا ذکر ہے اس کے متعلق یا د رکھنا چاہیے کہ تصدیق کا ایک طریق قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے.مَا نَنْسَخُ مِنْ أيَةٍ اَوْ تُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کہ جب بھی ہم کسی پیغام کو منسوخ کریں یا بھلادیں اس سے بہتر یا اس جیسا پیغام ہم دنیا میں لے آتے ہیں.اس آیت میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ پہلی کتب کی بعض باتوں کو بعض ہدایتوں کو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ میں نے پہلے جو کتاب بھیجی تھی اس کی یہ یہ ہدایتیں منسوخ کی جاتی ہیں تو اس اعلان میں اس کتاب کی تصدیق بھی ہو رہی ہوتی ہے یعنی منسوخ کا اعلان خود تصدیق کر رہا ہوتا ہے.اس بات کی کہ وہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل کی گئی تھی جسے اب اللہ تعالیٰ منسوخ کر رہا ہے.

Page 141

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۳۵ سورة البقرة دوسرے اس میں یہ بتایا کہ جوجو بنیادی صداقتیں پہلی کتب میں تھیں وہ تمام کی تمام ہم نے قرآن کریم میں جمع کر دی ہیں.مثلھا میں اسی طرف اشارہ ہے.مثل اس لئے کہا.پہلے مجمل طریق پر یہ صداقتیں بیان ہوئی تھیں اور حکمت بتائے بغیر.لیکن اب وہ کامل اور مکمل شکل میں قرآن کریم میں رکھ دی گئی ہیں بالکل وہی نہیں.کیونکہ بالکل وہی ہوں تو اس سے قرآن کریم میں نقص لازم آتا ہے لیکن ہیں ویسی ہی مگر زیادہ اچھی شکل میں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ.بِخَيْرٍ مِنْهَا وہ باتیں جن کی پہلی امتیں حامل نہ ہو سکتی تھیں بیان کر دیں اس لئے اس میں وہ ابدی صداقتیں بھی ہیں جو پہلی ہدایتوں کی جگہ آئیں اور ان سے زیادہ خوبصورت شکل میں.اس میں ضمناً یہ بھی بتا دیا کہ چونکہ پہلی کتب محرف و مبدل ہو گئیں اس لئے مجموعی طور پر ان شریعتوں کو منسوخ کرنا پڑا مجموعی طور پر اس لئے کہ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اب بھی بعض باتیں اسی شکل میں موجود ہیں جس شکل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں.لیکن مجموعی طور پر وہ شریعت انسانی دخل کی وجہ سے اس قدر محترف ہو چکی ہے کہ اس میں وہ برکت، وہ حسن اور اللہ تعالیٰ کا وہ جلوہ نظر نہیں آ رہا ہے جو برکت، جو حسن اور جو جلو ہ الہی اس میں نزول کے وقت تھا اس لئے قرآن کریم نے اسے منسوخ کر دیا لیکن اس کی بنیادی صداقتوں کو لے لیا.یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور بات بھی بتائی ہے وہ یہ کہ ہم انسان کے ذہن سے شریعت کو مٹا کر ( کہ وہ اسے بالکل بھول جائے ) بھی منسوخ کیا کرتے ہیں.اگر قرآن کریم ان نامعلوم شریعتوں کا (جو نا معلوم تعداد میں دنیا کی طرف بھیجی گئیں اور جن کا اب نام ونشان نہیں ) نام لیتا تو ہمارے دماغوں میں بڑی الجھن پیدا ہو جاتی.مثلاً اگر کہا جاتا کہ افریقہ میں فلاں نبی پر فلاں شریعت نازل ہوئی.حالانکہ نہ دنیا کی تاریخ نے اس نبی کے نام کو محفوظ رکھا ہوتا، نہ اس کی شریعت کے نام کو محفوظ رکھا ہوتا.اور نہ اس کی کتاب کے کسی حصے کو محفوظ رکھا ہوتا تو کیسی مشکل پیش آتی ؟ تاریخ انسانی ان چیزوں کو بھلا چکی ہے.فرمایا کہ بعض شریعتوں کو اور بعض کتب سماوی کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزری تھیں ہم نے ذہن انسانی سے بھلا کر انہیں منسوخ کر دیا ہے.خدا تعالیٰ تو علیم ہے وہ تو نام بھی لے سکتا تھا لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنتا.اس واسطے اس کے رحم نے تقاضا کیا کہ ان کو بھولا رہنے دے اور اس طرح

Page 142

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة البقرة ان کو منسوخ کر دے.سو یہ بھی منسوخ کرنے کا ہی ایک طریق ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ شریعت یا اس کا کوئی حصہ منسوخ کیا جائے (کسی اعلان کے نتیجہ میں ) یا شریعت کا کوئی حصہ زیادہ اچھی شکل میں قرآن کریم میں نازل کر دیا جائے یا یہ اعلان کر دیا جائے کہ ہم نے نام لئے بغیر بعض شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے.ہر سہ صورتوں میں قرآن کریم مصدق بنتا ہے.ان سب پہلی شریعتوں کا کیونکہ اعلان تنسیخ اور اعلان نسیان خود تصدیق ہے کہ وہ شریعتیں یا ان شریعتوں کے وہ حصے جو بنیادی صداقتیں تھی جن میں انسان کی طرف سے کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۶۵ تا ۳۶۷) آیت ۱۱۲ ۱۱۳ وَقَالُوا لَنْ يَدخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أو b نَطرى تِلْكَ آمَانِتُهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُم صُدِقِينَ بَلَى - ص ق مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( ترجمہ ) اور وہ (یعنی یہودی اور مسیحی) کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے ان کے جو یہودی ہوں یا مسیحی ہوں ہر گز کوئی داخل نہیں ہوگا.یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں.تو انہیں کہہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو.بھلا کیوں داخل نہ ہوں گے.جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے اور وہ نیک کام کرنے والا بھی ہو تو اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بدلہ مقرر ہے اور ایسے لوگوں کو نہ کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.سورۃ بقرہ کی ان دو آیات میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ یا بعض فرقے یہ سمجھتے ہیں کہ جنت کے دروازوں کی چابی ان کے پاس ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ ان سے تعلق رکھنے والے ہیں صرف وہی اس تعلق کی بنا پر جنت کے مستحق ہیں اور تمام وہ لوگ جو ان سے تعلق نہیں رکھتے محض ان سے تعلق نہ رکھنے کی بنا پر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے.یہ لوگ محض خوش فہمی میں مبتلا ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ جو

Page 143

۱۳۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث خلوص نیت کے ساتھ اپنا سارا وجود خدا کے سپرد کر دے یعنی اس کا ہور ہے اور جو احکام خدا نے دیئے ہیں انہیں پورے اخلاص اور تعہد کے ساتھ بجالائے اور اس طرح نیک اعمال بجالانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے.ان آیات سے صاف عیاں ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق قرار دے.یہ فیصلہ تو خدا نے کرنا ہے کہ کون بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِن کا مصداق ہونے کے باعث جنت کا مستحق ہے اور کون خدا تعالیٰ کا نافرمان ہونے کے باعث جہنم کا حقدار ہے.محض نام کی بنا پر کوئی شخص بھی جنت کا مستحق نہیں ٹھہر سکتا.خدا تعالیٰ تو صرف اُس کو ہی جنت کا مستحق قرار دے گا جو اس کے احکام پر چلنے والا ہوگا......اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی ان دو آیات میں یہ بتایا ہے کہ یہود اور نصاریٰ کا اپنی اپنی جگہ یہ کہنا کہ بجز یہودیوں کے اور کوئی جنت میں نہیں جائے گا یا بجز نصاریٰ کے جنت میں جانے کا اور کوئی مستحق قرار نہیں پائے گا ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس حقیقی مسلمان کو جنت میں جانے کا حقدار قرار دے گا جو اپنے وجود کو اعتقادی اور عملی طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دکھائے اور جو اس درجہ محسن اللہ ہو کہ بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اس میں اور کچھ باقی نہ رہے اس کے جنت کا مستحق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ فَلَةٌ أَجُرُه عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کی رو سے خدا تعالیٰ ایسے حقیقی اور کامل فرمابردار مومن کو اسی دنیا میں جنت عطا کر دیتا ہے.وہ جس حال میں بھی ہو دم نقد بہشت میں ہوتا ہے.پھر وہ اگلے جہان میں بھی اسے جنت عطا کرے گا.سو گویا وہ ایک جنت سے نکل کر دوسری جنت میں داخل ہو جائے گا.دو ص سورۃ بقرۃ کی ان آیات کی رُو سے کسی کے جنت کا مستحق ہونے کا فیصلہ خدا نے کرنا ہے.انسانوں کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ خود اپنے یا کسی اور کے جنّت میں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کریں.جو یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.اصل چیز تو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف رکھنا ہے جس نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اور محسن اللہ ہو کر اسی دنیا میں جنت حاصل نہیں کی وہ محض رسمی تعلق کی بنا پر اگلے جہان میں جنت میں کیسے چلا جائے گا جائے گا وہی جو بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ کا مصداق ہوگا اور کون اس کا مصداق ہے اور کون نہیں ہے یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اس کا فیصلہ اس نے ہی کرنا ہے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار بجز اس

Page 144

۱۳۸ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے اور کسی کو حاصل نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، وہی راستہ جو اسلام کا راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس پر چل کر اپنے آپ کو ایسا بنا ئیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مومن اور جنت کے مستحق قرار پاتے چلے جائیں.پس ہم اس امر کی پرواہ کئے بغیر کہ دائیں طرف سے آوازیں آرہی ہیں یا بائیں طرف سے آواز میں آرہی ہیں اس راستہ پر چلتے چلے جائیں گے.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۸) جہاں تک کمیونزم (اشتراکیت ) یا سوشلزم یا دوسرے مختلف ازم جن میں کیپٹیل ازم بھی شامل یاد ہے، کا تعلق ہے ان کے متعلق ہم مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام اس قدر کامل اور مکمل نظام زندگی پیش کرتا ہے کہ دنیا میں معاشی اور اقتصادی مساوات کے قیام کی کوئی انسانی کوشش اس کی ہوا کو بھی نہیں پہنچتی وہ اس کی رفعتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتی.اس لئے ہمیں اسلامی نظام زندگی کو سمجھنے اور اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اسلام کا نظام زندگی جس میں معاشیات اور اقتصادیات بھی شامل ہیں ایک مرکزی نقطہ پر قائم ہے اور وہ ہے اللہ اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تمام صفات حسنہ سے متصف اور اپنی ذات میں اور صفات میں کامل ہے ہمارا پیدا کرنے والا ہے، وہ ہمارا آقا ہے، ہمارا رب ہے وہ ہمیں زندگی بخشتا ہے اور ہماری زندگی کو قائم رکھنا بھی اسی کا کام ہے اور ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اس لئے ہمیں ہر وقت اس سے ایک زندہ تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے ہر مخلوق کا وہی خالق ہے اور ہر خلق کا کوئی مقصد ہے اور وہ مقصد یہ ہے اے انسان! کہ ہر چیز کو تیرے لئے پیدا کیا گیا ہے پس کسی فرد واحد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حقیقی اور غیر مشروط ملکیت کا دعویٰ کرے.ہر انسان کے پاس جو چیز بھی ہے وہ بطور امانت کے ہے اور اپنی امانتوں کو دیانتداری کے ساتھ ادا کرنا اس کا فرض ہے.اسلام نے اللہ تعالی کی تمام ایسی صفات کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے اور وہ شبیہی صفات کہلاتی ہیں.اس مرکزی نقطہ یعنی اللہ کے تصور سے دو خط ممتد ہوئے یعنی دو لکیریں نکلیں ایک خط یا لکیر کو ہم وہ صراط مستقیم" کہتے ہیں جو بندے کو خدا تک پہنچاتا ہے یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی اور دوسرا وہ خط ہے جو بندہ کو بندہ کے ساتھ اخوت اور محبت اور ہمدردی اور غم خواری اور احسان اور ایتاء ذی القربی“ کے رشتوں کے ساتھ باندھتا ہے اسے ہم حقوق العباد کا راستہ کہتے ہیں یعنی وہ راستہ جس پر چل کر اسلام کی

Page 145

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۳۹ سورة البقرة تعلیم کے مطابق حقوق العباد حاصل کئے جانے چاہئیں.ان دونوں خطوط یا لکیروں کا ذکر اس آیۃ کریمہ میں ہے جو ابھی میں نے تلاوت کی ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم دوحصوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک یہ کہ اللہ کی رضا کے لئے اپنی تمام خواہشات کو ترک کر دیا جائے اور اس کی رضا کے لئے اپنے پر موت وارد کی جائے اور اس سے ایک نئی اخلاقی اور روحانی زندگی حاصل کی جائے.اس حصہ كا ذكر مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ میں ہے دوسرا خط یا لکیر جو اس مرکزی نقطہ سے نکلی وہ " وَهُوَ مُحْسِنٌ وه “ کا خط یا لکیر ہے اسلام کی مادی، تمدنی، معاشی، سیاسی ، اقتصادی تعلیم اسی سے تعلق رکھتی ہے.احسان کے ایک معنی ہیں خوبصورت بنانا اور دوسرے معنی ہیں نیک عقائد اور نیک تعلیم کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا.انسان کو انسان سے باندھنے والے اس خط کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ہم نے انسانی معاشرہ کی جو تعلیم دی ہے اگر تم اس پر چلو تو دنیا میں ایک نہایت حسین اور جمیل معاشرہ قائم ہو جائے گا تو اس معاشرہ کی بنیا د احسان پر ہے.احسان کے معنی ہیں جتنا حق دوسرے کا مجھ پر ہے میں اسے اس سے زیادہ دوں اور جتنا حق میرا دوسرے پر ہے میں اس سے کم حق اس سے وصول کروں.جتنے جھگڑے آج دنیا میں یا آج کل بد قسمتی سے ہمارے ملک میں پیدا ہو گئے ہیں یہ احسان کی نیگیشن (Negation) یعنی نفی ہے یعنی ہر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ دو یا وہ یوں کہتا ہے کہ جو میر احق ہے وہ مجھے دو اور جو تمہاراحق ہے وہ میں دینے کے لئے تیار نہیں اور اس طرح فتنہ کا دروازہ کھل گیا ہے.اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلامی معاشرہ احسان کی بنیاد پر قائم ہے یعنی ہر شخص اور ہر گروہ اپنے حق سے کم وصول کرنے میں بشاشت محسوس کرے اور جو حق دوسرے کے اس پر ہیں اسے اس سے زیادہ دینے میں خوش ہو اگر یہ معاشرہ قائم ہو جائے تو کوئی جھگڑا باقی نہیں رہتا مثلاً قرآن کریم نے ہر انسان کا یہ حق قائم کیا ہے کہ وہ بھوکا نہیں رہے گا یعنی کم سے کم خوراک جو اس کی زندگی کے قیام اور اس کی صحت کی بحالی کے لئے ضروری ہے وہی اسے ملنی چاہیے اگر قرآن کریم میں صرف اسی قدر بیان ہوتا تو پھر بھی جھگڑا پیدا ہونے کا احتمال تھا کہ معلوم نہیں ابھی ضرورت پوری ہوئی ہے یا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ انسان کی زندگی کے قیام اور صحت کی بحالی کے لئے جو کم سے کم خوراک درکار ہے اس کو اس سے کچھ زیادہ دوتا کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، بدظنی پیدا نہ ہو، اگر مثلاً ایک کارخانہ دار ایک مزدور کو اس کے حق سے کچھ زائد دینے پر اصرار کرے اور.

Page 146

۱۴۰ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث مزدور سے اپنے حق سے کچھ کم لے رہا ہو تو بڑا پر سکون اور اطمینان بخش معاشرہ پیدا ہو جاتا ہے اگر کوئی مزدور اپنے حق سے کچھ لینے پر بھی غصہ میں نہ آئے اور دوسرے کو اس کے حق سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہو تو پھر بھی کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا یعنی ہر شخص کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ میں نے دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینا ہے.ایک سرمایہ دار کی یہ کوشش ہوگی کہ مزدور یا کسان کو اس کے حقوق سے زیادہ ہل جائے اور مزدور اور کسان یہ کوشش کریں گے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق دوسروں کا اس پر جو حق بنتا ہے ہم اس سے کچھ زیادہ ہی دے دیں تو کوئی حرج نہیں اگر اس بات میں مقابلہ ہو جائے تو بڑا ہی حسین اور اطمینان بخش معاشرہ قائم ہو جاتا ہے.اللہ تعالی خالق کل مالک کل کے مرکزی نقطہ سے نکلا ہوا پہلا خط ( یعنی حقوق اللہ ) جو ہے اس کا بھی ایک اثر اور ایک عکس آپس کے تعلقات پر پڑتا ہے اور اس آیت سے جو میں نے تلاوت کی ہے تعین باتوں کا پتہ لگتا ہے جن کی طرف میں مختصراً اشارہ کر دیتا ہوں.ق اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق بندہ پر ہیں ان کو ادا کیا جائے وہ ہمیں پیدا کرنے والا ہمیں زندگی بخشنے والا ، ہمیں قائم رکھنے والا، ہماری ربوبیت کرنے والا ہمیں استعدادیں بخشنے والا اور ان استعدادوں کو کمال تک پہنچانے والا اور ساری دنیا کو ہماری خدمت پر لگانے والا ہے ہر آن ہمارا ہر ذرہ اس کے احسانوں کے نیچے دبا ہوا ہے ہمیں اس کے شکر گزار بندے کی حیثیت سے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں اور جو شخص ان حقوق کی ادائیگی میں اپنے نفس پر ایک موت وارد کرتا اور اپنی خوشیوں کو اس کی رضا کے لئے چھوڑتا ہے اس کے اس فعل کا اثر انسان کے آپس کے تعلقات پر بھی بہت گہرا پڑتا ہے مثلاً پہلی بات ہمیں ایسے مسلم کے متعلق جو بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کی تعلیم پر کار بند ہے یہ نظر آئے گی کہ وہ ایک خوف زدہ دل سے اپنے مخالف کی بات سنے گا اور تحمل سے اس کو جواب دے گا.جو شخص خوف زدہ دل کے ساتھ اپنے مخالف کی بات نہیں سنتا اس میں انانیت ابھی باقی ہے اور جو عمل کے ساتھ اسے جواب نہیں دیتا اس کا نفس ابھی موٹا ہے اس نے ابھی اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان نہیں کیا.دوسرا اثر ان حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ پر یہ پڑتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو دیانت داری کے ساتھ اور ایثار اور قربانی اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں اور

Page 147

۱۴۱ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث وحدت باری میں گم اور فنا ہیں وہ خشک جھگڑوں میں کبھی نہیں پڑتے وہ سخت گوئی اور بدزبانی کو بھی اپنا شیوہ نہیں بناتے وہ دوسروں پر وحشیانہ حملے نہیں کیا کرتے ان کو تو ہر وقت اپنی فکر رہتی ہے وہ اپنے نفسوں کی اصلاح میں لگے رہتے ہیں ان کا دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے کہ جس کے نتیجہ میں وہ اپنے محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا کرنے میں نا کام ہو جائیں اور اس کے غضب کو مول لے لیں.غرض حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں باہمی محبت اور پیار اور انکساری اور عاجزی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور انسان ایک دوسرے کو کھانے کو نہیں دوڑتا.زبانیں تیز نہیں کی جاتیں بلکہ دعائیں دی جاتی ہیں کیونکہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں.تیرا ارجو حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ پر پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کے عقائد اور خیالات اور نظریات کا مخالف ہو وہ اپنے مخالف کی جان اور مال اور عزت کو تباہ کرنے کے پیچھے نہیں پڑتا، اس کا دشمن نہیں بن جاتا اور اسے نابود کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، وہ تشدد کا نعرہ نہیں لگاتا اور نہ ظالمانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے بلکہ انصاف اور خدا ترسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے وہ پیار اور محبت سے اپنے نظریات کو قائم کرنا چاہتا ہے اور پیار اور محبت کے ساتھ اپنے حقوق کو لینا چاہتا ہے کیونکہ جو شخص غیر کی جان یا اس کے مال یا اس کی عزت کا دشمن ہوا اس کے دل میں ایک بت ہے وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کر رہاوہ خدا میں ہو کر اپنے حقوق کے حصول کی کوشش نہیں کر رہاوہ اپنے نفس کو اتنا مضبوط اور طاقت ور سمجھتا ہے کہ کہتا ہے کہ جس بات کو میں صحیح سمجھتا ہوں وہ ہونی چاہیے نہیں تو میں دوسرے کی گردن کاٹ دوں گا لیکن وہ شخص جو بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کی ہدایت کا قائل ہو اور اس پر عمل پیرا ہو وہ اپنے مخالف کے عقائد اور اس کے نظریات کو سن کر اس سے دشمنی کی بجائے محبت کا سلوک کرتا ہے اور اس کو کاٹنے کی بجائے اس کی مد کو آتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے سے اس کی مدد کر.(صحیح البخاری کتاب المظلوم باب آین اتحاك طالعا أو مظلوما ( پھر دشمنی کہاں رہی پھر تو محبت قائم ہوگئی.غرض یہ تین موٹے اثر ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں حقوق العباد، باہمی تعلقات اور نظام حیات پر پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صحیح معنی میں مسلم بن جاؤ اور اپنے پر ایک موت وارد کر کے اپنی ساری خوشیوں کو خدا کی خوشی اور رضا پر قربان کر دو تو اس کے دو نتیجے نکلیں گے، ایک تو

Page 148

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۴۲ سورة البقرة حقوق اللہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر پاؤ گے دیکھو دنیا میں کوئی ایسا معاشرہ یا کوئی ایسا نظریہ یا کوئی ایسی جدو جہد نہیں جس کا یہ دعویٰ ہو کہ ہم غریب کو اس کا حق دلاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ سے ہمیں اجر ملے گا.کمیونزم کیپیٹل ازم یا دوسرے جو ازم ہیں ان میں یا تو خدا کا تصور نہیں یا اللہ تعالی کی طرف سے جزا ملنے کا تصور نہیں کیپیٹیلسٹ اقوام اگر چه زبانی طور پر اپنے ایک خود تراشیدہ معبود کو مانتی ہیں لیکن وہ یہ دعوی نہیں کرتیں کہ اگر ہم نے اقتصادی مساوات قائم کی تو اس کے بدلہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا اپنے محبوب کی طرف سے اجر ملے گا لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نتیجہ میں سب سے بڑا فائدہ تمہیں یہ ہو گا کہ اس دنیا میں بھی تمہیں ایک جنت مل جائے گی اور اُخروی دنیا کے جنت کے بھی تم وارث بنو گے ( فَلَةٌ أَجُرُهُ عِندَ رَبِّهِ ) پھر جو جنت اس دنیا میں ملے گی اس میں دو خصوصیتیں ہوں گی ایک تو خوف نہیں ہوگا دوسرے حزن نہیں ہوگا.جب ہر شخص دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینے کے لئے تیار ہوگا تو کسی کو یہ ڈر تو نہیں ہوگا کہ میرا حق مارا گیا ہے یا مارا جا سکتا ہے خوف کا تو سوال ہی نہیں رہتا ہر شخص اس کوشش میں ہوگا کہ وہ اپنے بھائی کو اس کے ان حقوق سے کچھ زیادہ دے جو اسلام نے مقرر کئے ہیں اور جب ہر شخص کو اس کے حق سے بھی زیادہ مل جائے گا تو غم کس بات کا ؟ خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۷ ۵۴ تا ۵۵۱) و الہی سلسلوں کے دو امتیازی نشان ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ الہی سلسلوں میں داخل ہونے والا اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کا فرد عبد مسلم ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ عبد محسن ہوتا ہے.میں نے جو آیت ابھی تلاوت کی ہے اس میں ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ ہے.اسلام نام ہے اس بات کا کہ انسان کا اپنا کوئی ارادہ باقی نہ رہے اور اس پر ایک موت وارد ہو جائے.انسان اپنی تمام خواہشات کے ساتھ اور اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اپنے رب کے پاؤں پر گر جائے اور اس سے یہ کہے کہ اے میرے پیدا کرنے والے محبوب! جو کچھ مجھے ملا وہ تیرے فضل سے ملا.جو کچھ مجھے مل رہا ہے وہ تیرے فضل سے مل رہا ہے اور جو کچھ مجھے ملے گا وہ بھی تیرے فضل سے ہی ملے گا کیونکہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں.میری آنکھ صرف اس وقت دیکھ سکتی ہے جب تیرا فضل اسے کہے کہ وہ دیکھے.میری زبان صرف اس وقت بول یا چکھ سکتی ہے، جب زبان پر تیرا حکم نازل ہو کہ وہ بولے اور لذت

Page 149

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۴۳ سورة البقرة اور سرور حاصل کرے.اسی طرح میرے کانوں کی شنوائی بھی تیری رحمت کی محتاج اور میرے حواس کی جس بھی تیرے فضل کے بغیر زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی.اے خدا ! تو نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے.تو قادر وتوانا ہے اور بہت کچھ دے سکتا ہے.ہماری امیدوں سے بھی زیادہ، ہماری توقعات سے بھی زیادہ، ہمارے تخیل اور تصور سے بھی زیادہ دے سکتا ہے.ہمیں جو کچھ بھی مل سکتا ہے، وہ تیری رحمت کے طفیل ہی مل سکتا ہے.ہم تیرے حضور جھکتے اور تیری رضا کی خاطر اور تیرے وصال کے لئے تیری محبت پانے کے لئے ہم اپنے اوپر ایک موت وارد کرتے ہیں.اے زندہ اور زندگی بخش ! تو ہماری اس موت کو اپنی راہ میں قبول کر اور ہمیں وہ زندگی دے جس پر فرشتے بھی رشک کریں......دوسرا امتیازی نشان الہی جماعتوں اور ان جماعتوں کے افراد میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ عبد محسن ہوتے ہیں.ان میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں تمام شرائط کے ساتھ اعمالِ صالحہ کو بجالانے والا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان کرنے والا ہوتا ہے.احسان کے لفظ کو جب دوسروں پر احسان کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو حقوق دیئے تھے، وہ اپنے یہ حقوق بھی اپنے بھائیوں کو دے دیتا ہے اور اسی طرح اپنے حق سے کم لینے پر اس لئے تیار رہتا ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی رضا مل جائے اور پھر احسان کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے ہر فرد واحد کے جو حقوق قائم کئے ہیں، انسان ان حقوق سے زیادہ دینے کے لئے تیار ہو جائے.ایسا شخص محسن ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.قرآن میں آیا ہے کہ محسنوں سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.یہ وہ محسن ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے.پس جب ہم عبد مسلم بننے کے بعد عبد محسن بھی بن جائیں ( یا مجھے شاید یوں کہنا چاہیے کہ ) عبدِ مسلم بنے بغیر کوئی شخص حقیقی معنے میں محسن نہیں بن سکتا، اس لئے عبد مسلم بھی بنے اور عبد محسن بھی بنے اور خدا تعالیٰ کے بندوں سے پیار کرنے لگے اور ان کے لئے اپنے حقوق کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور اُن کے اللہ تعالیٰ نے جو حقوق قائم کئے ہیں اُن سے زائد دینے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ وہ محسن ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ - (العنكبوت : ۷۰ ) غرض جسے اللہ تعالی کی معیت

Page 150

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۴۴ سورة البقرة حاصل ہو جائے اُسے کسی غیر کی احتیاج کہاں باقی رہتی ہے مگر جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نہ ہو، وہ ساری دنیا پر غرور کر کے بھی کامیاب نہیں ہوسکتا.( خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۷ ۴۵ تا ۴۵۹) قرآن کریم میں یہ بیان ہے کہ مومن، مومن میں بڑا فرق ہوتا ہے.جو اسلام لاتے ہیں ان کی ابتدا تو اس نچلے مقام سے شروع ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ لیا کرو.وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيْمَانُ في قُلُوبِكُمُ (الحجرات : ۱۵) ابھی تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں لیکن وہ مبتدی جن کی ابتدا یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ درجہ بدرجہ روحانی میدانوں میں ترقی کرتے ہوئے آخر میں ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ( الانفال : ۵ ) کہ وہ سچے اور پورے اور حقیقی مومن ہیں.جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی اس میں اس آخری رفعت کا ذکر ہے اور ان لوگوں کا ذکر اشارہ ہے کہ جن کا خاتمہ بالخیر اس مقام پر ہوجاتا ہے......أوليكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ جو گروہ ہے اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے بَلَى مَنْ أَسْلَم والی آیت میں بیان کی ہے.وہ آئیڈیل (ldeal) ہے.کوئی شخص اس آیت کوشن کے اور اس کی تفسیر ( جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کی ہے جسے پڑھ کر سناؤں گا آپ کو اسے ) سُن کے اس شبہ میں نہ رہے.ایک: کہ سارے کے سارے مومن اس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں.نہیں، سارے نہیں پہنچے ہوئے لیکن جو پہنچے ہوئے ہیں وہ بھی اور جو نہیں پہنچے ہوئے اس مقام کو، وہ بھی مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ زندگی کے ہر آنے والے لمحہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی اس سے زیادہ برکات نازل ہوں جو گزرنے والے لمحے میں ان پر نازل ہوئیں.یہ ایک مسلسل حرکت روحانی میدانوں میں جاری ہے.نہ یہ غلط فہمی ہونی چاہیے کہ جو مُؤْمِنُونَ حَقًّا بن گئے ، مرتے دم تک ان کو کوئی خطرہ نہیں.دوم :.اس لئے کہ اس میدان کا کوئی کنارہ نہیں کہ جہاں پہنچ کے انسان کی کنارے پر پہنچنے کی کوشش ختم ہو جاتی ہے کیونکہ یہ ساری کوشش خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے ہے اور جو بعد انسان اور خدا میں ہے وہ غیر محدود ہے، نہ ختم ہونے والا ہے لیکن قریب سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پیار انسان اللہ تعالیٰ کا حاصل کرتا رہتا ہے اپنی زندگی میں.یہ صحیح ہے کہ یہ آئیڈیل ہے بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ میں جو بیان ہوا.سارے یہاں تک نہیں پہنچے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہر ایک کو اس

Page 151

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۴۵ سورة البقرة آئیڈیل ، اس اعلیٰ ترین مقام تک پہنچنے کے لیے کا نسلی (Consciously) بیدار زندگی گزارتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے ورنہ ہلاکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مقام کے متعلق جو فرماتے ہیں ایک مختصر سا اقتباس اس وقت میں پڑھ کے دوستوں کو سناؤں گا.اس کا ایک ایک حرف جو ہے وہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے...حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَةً أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی مسلمان وہ ہے (وہ مسلمان جسے مُؤْمِنُونَ حَقًّا کے گروہ وَلَاهُمْ میں اللہ تعالیٰ نے شامل کیا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ) جو خدا تعالی کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوئے ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸) ( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۴۹ تا ۳۵۱) میں نے بتایا ہے کہ اصطلاحی معنے لغوی معنی کو محدود کرتے ہیں.اسی لئے جب میں ۱۹۶۷ء میں یورپ کے دورے پر گیا تو ایک موقع پر یہ لطیفہ ہوا کہ تین مختلف سوسائٹیز کے چار چار نمائندے بارہ کی تعداد میں جب مجھے ملے (جن میں دو گروہ عیسائی پادریوں کے تھے اور ایک گروہ سکالرز کا تھا ) تو اُن سے بڑی اچھی طرح باتیں ہوتی رہیں لیکن ایک پادری کچھ شوخ اور بے ادب تھا.اسلام کے متعلق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جب اس کی زبان سے بے ادبی کا کلمہ نکلا تو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ تفہیم کے پیش نظر میں نے اس کو اس معاملے میں جواب نہ دیا بلکہ باتوں باتوں میں یہ کہا کہ سن آف مین (Son of man) نے یہ کہا ہے کہ وہ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بھی مانتے ہیں.(حالانکہ سن آف مین کا محاورہ انجیل میں بڑی کثرت سے استعمال ہوا ہے ) اس لئے وہ بڑا سٹپٹا یا.اس پر ان سب کی توجہ بٹ گئی اور وہ حملہ سے دفاع کی طرف آگئے.کہنے لگے یہ تو ہماری اصطلاح ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے یہ تمہاری اصطلاح ہے لیکن سن آف مین ( Son of

Page 152

۱۴۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث man) کے معنے سن آف مین (Son of man) کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اصطلاح لغوی معنے کو محدود کرتی ہے اس میں وسعت پیدا نہیں کرتی وہی پادری کہنے لگا نہیں.میں نے دل میں کہا میرا مقام بحث کرنے کا نہیں بلکہ اللہ پر توکل کرنے کا ہے چنانچہ جو ان کا لیڈر تھا اس کو میں نے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا.میں اس کو جواب دینا نہیں چاہتا تم اس کا جواب دو.ان کے لیڈر نے کہا یہ ٹھیک کہتے ہیں تم غلط کہتے ہو.غرض اسلام میں اسلام کی اصطلاح لغوی معنی کو بہر حال محدود کرے گی یعنی لغت اگر اسلام کے لفظ کو چار معانی میں استعمال کرتی ہے تو یہ اس سے کم معانی میں استعمال کرے گی.چنانچہ اسلام کی اصطلاح بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ میں استعمال ہوتی ہے.اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلام کے اصطلاحی معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا تمام وجود اللہ تعالیٰ کو سونپ دینا.گو یا لغوی معنی کے برعکس اپنے آپ کو کسی کے سونپ دینا اصطلاحی معنے ہیں اسلام کے اور بھی معنی ہیں لیکن باقیوں کی نسبت اس کو اصطلاحی معنوں کے لحاظ سے اسلام نے پیش کیا ہے اور یہ اللہ کے حضور اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے متعلق ہے زید بکر یا یہ اور وہ یا بہت یا قوم کی طاقت یا سٹیٹ (State) کمیونسٹ بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ عوام ہمارا خدا ہے ان سب کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو اسلام نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ گویا انسان اپنا سب کچھ اس کو سونپ دیتا ہے یہ اور دو قسم کا ہوتا ہے ایک اعتقادا اور ایک عملاً.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ مختصراً یہ مضمون بڑے لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے.آپ کے نزدیک اعتقاداً سونپ دینے کے معنے یہ ہیں کہ انسان یہ اعتقاد رکھے کہ میرا وجود خدا تعالیٰ کے ارادوں کے ماتحت ارادے رکھنے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ایک مسلمان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی پیدائش کی کیا وجہ ہے.خدا نے اُسے کیوں پیدا کیا ہے؟ اعتقاد مسلمان وہ شخص ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میرے رب نے مجھے اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں آوارہ ارادوں کا مالک نہ بنوں بلکہ اپنے ارادے اور خواہشات کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دوں اپنی ہر خواہش کو اُس کے ارادوں کے ماتحت کر دوں.جو اللہ کا ارادہ ہے وہی ہمارا ارادہ ہو جائے.جو اللہ کی رضا ہے وہی ہماری رضا بن جائے اور عملاً مسلمان ہونا اور اپنے وجود کو اللہ کو سونپ دینے کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی طاقتیں دی ہیں وہ ساری کی ساری نیکی

Page 153

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۴۷ سورة البقرة کے کاموں پر خرچ ہوں اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتیں دی ہیں.اتنی طاقتیں دیں کہ اگر وہ اپنی ساری قوتوں کو بحیثیت انسان مجموعی طور پر استعمال کرے تو زمین و آسمان کو اپنا خادم بنا سکتا ہے اسی لئے انسان کو نہ صرف جسمانی اور ذہنی اور علمی قو تیں عطا کی گئیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اخلاقی اور روحانی قوتیں بھی بخشیں.جس طرح خلق خدا میں اتنی وسعت ہے کہ اسے ہم غیر محدود کہتے ہیں اسی طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محدود طاقتیں اور قو تیں عطا کی گئی ہیں.انسان کہتے ہی اس وجود کو ہیں جو خداداد طاقتوں اور استعدادوں کا مجموعہ ہوتا ہے.اگر آپ سوچیں کہ یہ میرا جسم ہے یہ آپ کا جسم ہے ویسے دراصل انسان صرف جسم کا نام نہیں ہے کیونکہ مادی جسم کے لحاظ سے گدھے کا جسم بھی مٹی کے اجزاء سے بنا ہے اور کتے کا بھی بنا، اونٹ اور بیل اور شیر اور ہاتھی اور بے شمار مخلوق دُنیا کی چرند پرند اور درندے ہیں ان کے وجود بھی بنے اس لئے جہاں تک انسانی نفس کے مادی وجود کا تعلق ہے.انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں.اس واسطے صرف مادی جسم کے لحاظ سے کسی کو ہم انسان نہیں کہہ سکتے.آخر جانور اور انسان میں کوئی امتیاز پیدا ہونا چاہیے.جہاں تک احساس کا تعلق ہے ایک درخت میں بھی جس ہے اور ایک انسان میں بھی حِس ہے.ایک درخت ایسا بھی ہے کہ اگر انسان اس کو جرات کر کے ہاتھ لگالے تو اس کے پتے شرما کر سکڑ جاتے ہیں.درخت میں جس ہے تو سکڑتے ہیں.ان کو اگر آپ ضرورت سے زیادہ غذا دے دیں تو جس طرح انسان کو نقصان پہنچتا ہے.اسی طرح اس درخت کو بھی نقصان پہنچتا ہے.بعض دفعہ انسان زیادہ کھانے سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے.میں اس کا عینی شاہد ہوں.ایک دفعہ غلطی سے ایک درخت کو شام کے وقت میں نے ضرورت سے زیادہ غذا دے دی.اور صبح جب میں اُٹھا تو وہ مرا ہوا تھا.تو یہ جس انسان اور درختوں کی زندگی میں برابر ہے.یہ زندگی حیات کا نام ہے.اس میں حیوان اور انسان برابر ہیں پس وہ کیا چیز ہے جو فرق پیدا کرتی ہے اور امتیاز پیدا کرتی ہے اور فرقان پیدا کرتی ہے انسان اور دوسری خلق میں وہ یہی انسانی قوت اور استعداد ہی تو ہے.تمام قوتوں کے حصول کے نتیجہ میں انسان کے لئے تسخیر عالمین کا امکان پیدا ہوا.اگر انسان کو قو تیں دی جاتیں لیکن اس کے اندر ہمت نہ ہوتی اسے عزم نہ عطا کیا جاتا اس کے دل میں کوئی خواہش نہ پیدا ہوتی.وہ کوئی بڑا ارادہ نہ رکھتا.اس

Page 154

۱۴۸ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے دل میں کوئی امنگ نہ ہوتی تو ساری قوتیں بیکار تھیں.اس لئے ایک طرف تسخیر عالمین کے لئے اس کو قو تیں عطا کی گئیں دوسری طرف اس کے دل میں خواہشات اور ہمت اور ارادہ پیدا کیا گیا.کس کام کے لئے تھا یہ عزم اور خواہش اور ارادہ ؟ اس کام کے لئے کہ میں اپنی تمام قوتوں کو انتہائی طور پر استعمال کروں گا اور جب اس نے اپنے روحانی مقام کو پہچانا اور روحانی قوتوں کا اُس نے اندازہ لگایا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ میں اپنے وجود میں کوئی ایسا ارادہ نہیں رکھوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے تضاد رکھنے والا ہو اور اس کے مخالف ہو.جو خدا کا ارادہ ہو گا وہی میرا ارادہ ہوگا.جو خدا تعالیٰ کی خواہش ہو گی وہی میری خواہش ہوگی.تاہم خدا تعالیٰ کے متعلق ہمارے نو جوان سمجھ لیں کہ یہ الفاظ اُس پر پوری طرح چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہر پہلو ہر لحاظ سے ایک منفرد واحد اور یگانہ ذات ہے لیکن ہم خودان کو سمجھتے اور دوسرے کو سمجھانے کے لئے اپنے وہ محاورے اور الفاظ استعمال کرتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے متعلق ہیں.دوسرے معنی میں بھی اللہ تعالیٰ کا عزم اور اس کی خواہش اور اس کا ارادہ ہے مگر جہاں تک انسان کا تعلق ہے اس کے ماتحت اس کے سائے میں اس کے عکس کے طور پر اس کی تشریح کے طور پر انسان کا ارادہ اور اس کی خواہش ہونی چاہیے.خدا نے کہا میں نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری صفات کا مظہر بنے.اس لئے انسان کو یہ چاہیے کہ بنیادی طور پر اُس کی ایک ہی خواہش ہو اس کا ایک ہی ارادہ ہو اور وہ یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنوں گا.اسلام کے یہ معنے بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ کے اندر آتے ہیں.اعتقادی طور پر اس طرح کہ میری کوئی ایسی خواہش نہ ہوگی میرا کوئی ایسا عزم نہ ہوگا میری کوئی ایسی ہمت نہ ہوگی کوئی ایسا ارادہ نہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے خلاف ہو.جو اس کے عزم اور اس کی ہمت سے متضاد ہو تا ہم انسان اور اللہ تعالیٰ کی ہمت میں بڑا فرق ہے.اس لئے ظاہر ہے کہ تمہاری اور اس کی ہمت میں بھی بڑا فرق ہے.ہم بڑی کوشش کرتے ہیں اور بڑی محنت کرتے ہیں اور بڑی تکلیف اُٹھاتے ہیں اور بڑا مجاہدہ کرتے ہیں.تب اس کے فضل سے نتائج کو پاتے ہیں لیکن وہ تو کسی امر کے متعلق گن کہتا ہے اور وہ وجود میں آجاتا ہے.یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ارادے اور عزم اللہ تعالیٰ کے عزم اور ارادہ کے ماتحت ہونے چاہئیں.انسان کا عزم اور ارادہ تو بہر حال اتنا نہیں ہوتا جتنا خدا کا ہوتا ہے پھر انسان انسان کے عزم وارادہ میں بھی فرق ہوتا ہے.اس مضمون میں

Page 155

۱۴۹ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث جانے کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ نے جتنی طاقتیں دی ہیں خواہش اور ارادے سے استعمال ہونی چاہیں گویا ان کا استعمال اس رنگ میں ہونا چاہیے کہ تسخیر عالمین کا مقصد پورا ہو جائے اور اس رنگ میں تسخیر عالم ہو کہ سارے عالمین زمین و آسمان میں جو کچھ ہے ان کو اس رنگ میں خدمت پر لگایا جائے کہ نیکی دُنیا میں قائم ہو جائے.انسان کا نیکی پر پختگی سے قائم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان عملی طور پر اپنی زندگی وقف کر دے یا اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دے.اس کو سونپ دے اعتقادا اور عملاً ہر دوطریق پر اپنے سارے وجود اور اپنے وجود کی سب خواہشات اور ہر عزم اور ہمت جو ہے اور ہر قوت اور اس کا استعمال خدا کو سونپ دیا جائے.اس کی خواہش کے مطابق ہماری خواہشات اور اس کے حکم کے مطابق ہماری اپنی قوتوں کا استعمال تسخیر عالمین کی کوشش کے لئے وقف ہو جائے.بعض نادان کہہ دیتے ہیں کہ مذہب کا مطلب ہے درویش پین.یہ غلط ہے.مذہب کا اگر یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالی تسخیر عالمین کی قوتیں انسان کو عطا نہ کرتا.اس لئے مذہب کا یہ مطلب نہیں کہ درولیش بن جاؤ.گوشہ نشین بن جاؤ، دُنیا سے قطع تعلق کر لوجنگل میں چلے جاؤ، درخت کے نیچے اپنا ڈیرہ ڈال لو اور صبح شام اللہ ھو اللہ ھو کہتے رہو.مذہب کا یہ مطلب نہیں.مذہب کا تو یہ مطلب ہے کہ اصلاح ہو یعنی اعتقاداً اور عملاً اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کے حضور سونپ دینا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمین جس کی تسخیر کے لئے جو قو تیں عطا کی گئیں ہیں اس سے ہم قطع تعلق نہیں کر سکتے.یہ تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہے ورنہ وہ ہمیں طاقت ہی نہ دیتا لیکن تسخیر عالمین کے لئے اپنی قوتوں کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ انہیں خدا کے منشاء کے مطابق استعمال کرنا چاہیے.اس کے حکم کے نیچے ہونا چاہیے ورنہ پھر آدمی بیٹھ جائے پھر وہ اس سے تو ایک قدم آگے بڑھے گا جس نے کہا تھا کہ اس عالمین سے انسان کا کیا تعلق؟ گودہ ایک قدم آگے بڑھا اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہاں آکر وہ ٹھہر گیا.وہ روسی کمیونسٹ بن گیا اور کہہ دیا میں اپنی قوتوں کو استعمال کر کے اس عالمین کی تسخیر اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی منشاء کو پورا کرنے کے لئے کروں گا.پھر انسانی جان کی کوئی قدر نہیں رہے گی.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ عالمین اور یہ ساری خلق یعنی زمین و آسمان کے اندر جو کچھ پایا جاتا ہے ان

Page 156

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۵۰ سورة البقرة سے خدمت لو.گویا انسان کی خدمت کرنے کے لئے کائنات معرض وجود میں آئی لیکن ایسے آدمی پیدا ہو گئے جو کہتے ہیں ہم ان سے خدمت لیں گے.انسان کو دکھ پہنچانے کے لئے انسان کی ایذاء دہی کے لئے انسان کو قتل کرنے کے لئے انسان کا گلا گھونٹنے کے لئے ، انسان کی نورانیت کو اندھیروں میں تبدیل کرنے کی کوشش کے لئے.یہ تو اسلام نہیں سکھاتا.اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو مسلمان اس لئے بنایا ہے اور اس لئے ہدایت نازل کی ہے کہ وہ اس ارادہ کے ماتحت رہتے ہوئے اپنی تمام قوتوں کو تسخیر عالمین کے لئے استعمال کرے اور اس استعمال کی جو غرض ہے اس غرض کو بھی سامنے رکھے اور وہ ہے حقوق العباد کی ادائیگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار فرمایا ہے کہ اسلام کا خلاصہ حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے.جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی قائم کئے ہیں.انسان کو اتنی سمجھ بوجھ نہیں کہ وہ حقوق العباد قائم کر سکے لیکن اسلام نے انہیں کھول کر بیان کر دیا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ حقوق العباد کو قائم کرنا ضروری ہے.اس طرح اعتقاداً اور عملاً اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینا اُسے سونپ دینا اپنی ساری خواہشات اور ارادے اپنی انتہائی ہمت اور اپنے عزم کو اس کی منشاء کے مطابق کر دینا حقیقی اسلام ہے یعنی انسان کہے کہ اے میرے خدا میں وہی خواہش کروں گا جو تیری خواہش ہوگی میں وہی کام کروں گا جو تیری منشاء ہوگی.اعتقاد کے بعد عمل شروع ہوتا ہے.اگر اعتقاد صیح ہے توعمل صحیح ہوگا اور اعتقاد غلط ہے تو عمل بھی غلط ہوگا.گو یا عملاً بھی خود کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی قوتیں عطا کی ہیں ان کو استعمال کرنا چاہیے جو شخص استعمال نہیں کرتا وہ بھی خدا سے دور چلا جاتا ہے کیونکہ خدا اسے انعام دینا چاہتا ہے مگر وہ کہتا ہے میں نہیں لیتا.یہ تو شوخی کرنے ، استکبار کرنے اور اباء کرنے کے مترادف ہے.خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا ہے کہ اس نے جو طاقت اسے دی ہے وہ اس کا استعمال کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے.جنگلوں میں جا کر اس کا نام جپنا یہ تو انسان کے سپرد نہیں کیا گیا.اس کو خدا تعالیٰ نے طاقت دی یہاں تک کہ اس نے کہا کہ انسان چاند پر کمند ڈال سکتا ہے اور ڈال رہا ہے اور چاند تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا ہے لیکن اس کوشش کے نتیجہ میں سیٹلائٹ تو بنا لیا مگر عجیب مضحکہ خیز باتیں کرنے لگ گئے کہتے

Page 157

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۵۱ سورة البقرة ہیں ان مصنوعی سیاروں کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر ایٹم بم گرائیں گے.بھلا ان سے پوچھو تمہارا دشمن کون ہے کیا خدا کا بنایا ہوا تمہارا ایک بھائی دشمن ہے؟ لیکن جب خدا کو نہیں پہچانا اور اسلام کی روشنی سے منور نہ ہوئے تو اس قسم کی باتیں نہ کریں تو اور کیا کریں؟ غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے ارادے میرے ارادے ہو جائیں اور تمہاری قوتوں کا استعمال میرے حکم میرے امر کے نیچے آجائے.اگر اپنی طاقتوں کو غلط جگہ استعمال کرنے سے رُک جاؤ.آخر او امر و نواہی دیئے ہی اس لئے گئے ہیں کہ تم اپنے اچھے بُرے اعمال کا جائزہ لے سکو اور نیک و بد میں تمیز کر سکو تو تم میرے نیک بندے بن جاؤ گے.انسانی قوت کا استعمال صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے.اگر تم میرے اوامر ونواہی کے مطابق اعمال بجا لاؤ گے تو فَلَة اجْرُهُ عِنْدَ رَبِّہ کی رو سے تم میرے بندے بن جاؤ گے.میری صفات کا مظہر بن جاؤ گے.یہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ کی جزا ہے جو حقیقی مسلمان ہوتا ہے اس کو 6991 فائدہ کیا ہوتا ہے؟ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ان کے اعتقادات جو انہوں نے رکھے اور وہ جو نیک اعمال انہوں نے کئے اس کا اجر انسان نہیں دے گا خود خدا دے گا یہ بڑا عظیم اور خوشکن وعدہ ہے.انسان جب بدلہ نہیں دے گا تو اور کون دے گا.انسانی اعمال کا بدلہ اللہ دے گا.فرما یا فلةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّہ اور یہاں اللہ نہیں کہا رب کہا ہے اس میں ایک حکمت ہے کیونکہ جس نے پیدا کیا ہے وہ تمہیں پہچانتا ہے.تمہاری قوتوں اور استعدادوں کو پہچانتا ہے.تم تھوڑا مانگو گے اپنی قوت اور استعداد سے وہ تمہیں زیادہ دے گا کیونکہ وہ ربّ ہے کیونکہ کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور تم زیادہ مانگو گے جو کہ تمہاری تباہی اور ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے.یہ زیادتی ہے تو وہ تمہیں تھوڑا دے گا کیونکہ وہ رب ہے تم جتنا برداشت کر سکتے ہو اتنا دے گا.ماں اپنی ساری محبت کے باوجود بعض دفعہ بیٹے کو کم دے دیتی ہے اور بعض دفعہ زیادہ دے دیتی ہے.میرے پاس دوست آتے رہتے ہیں کوئی کہتا ہے میرا یہ بچہ ہے کچھ کھا تا نہیں ہے اور عام طور پر یہ بات صحیح ہوتی ہے.سوال یہ نہیں کہ یہ کھاتا ہے یا نہیں کھاتا بلکہ سوال تو یہ ہے جو یہ کھانا چاہتا ہے وہ تم دینے کے لئے تیار ہو یا نہیں.یہ کہتا ہے میں نے چنے کھانے ہیں تم کہتے ہو نہ ! نہ !! نہ!!! ماں وہمی

Page 158

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۵۲ سورة البقرة ہوتی ہے باپ وہمی ہوتا ہے کہتے ہیں تمہارے پیٹ میں درد ہو جائے گی حالانکہ اس کے اندر سے جسم کی اپنی فطرت کی آواز یہ ہوتی ہے اس لئے چنا اس کو ملنا چاہیے.جو اندر سے آواز آ گئی ہے کہ اتنا مجھے کھانے کے لئے ملنا چاہیے تم اس سے کم دیتے ہو.بعض دفعہ ہم نے خود دیکھا ہے ماں دو سال کے بچے کو چھپڑ مار دیتی ہے اور کہتی ہے دودھ پیتے ہو یا نہیں تم اسے زیادہ دودھ دے دیتی ہو اس کا جسم کہتا ہے میں نے نہیں پینا.کیوں اسے زیادہ دے رہی ہو لیکن جو رب ہے اس کو پتہ ہے کہ میرے اس پیارے بندے کی اس انسان کی اس فرد کی جس نے کوشش کی میری صفات کا مظہر بننے کی اس کا دائرہ استعداد کتنا ہے.میں اس کے مطابق اسے دوں گا.اس واسطے اس جزا اور اس اجر میں کوئی تکلیف کا پہلو نہیں ہے کیونکہ اللہ دینے والا ہے.دوسرے یہ فرمایا کہ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ تم میرے بن جاؤ پھر دُنیا میں جو تمہیں ستانے کی کوشش کرتا ہے، کرتا رہے تمہاری ہلاکت کی کوشش کرتا ہے، کرتا ر ہے تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے.جب انسان اللہ تعالیٰ کا بن گیا تو پھر اُسے دُنیا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے کے لئے تیار نہیں اس کی عطا کردہ خواہشات اور قوتوں کو صحیح استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں اس سے تمہیں کیا ڈرنا ہے؟ تم اللہ کی حفاظت میں ہو.اس لئے انبیاء اور مامورین کی جماعتیں جو ہیں ان کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ چودہ سو سال کے بعد آج مورخ حیران ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا اور قریباً ستر ، اسی سال کے بعد ہم بھی حیران ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بارہ ساتھیوں کو لے کر دہلی کے شور شرابے کے باوجود اور ان کی بے وفائی اور دھوکہ دہی کے باوجود جو اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم انتظام کریں گے کہ کوئی نقص امن نہ ہو اس وقت علماء ظاہر کے کہنے پر بارہ ساتھیوں کے ساتھ دہلی کی بہت بڑی جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور ان کو کہلا بھیجا.میں تمہارے پاس آرہا ہوں اور اس لئے آ رہا ہوں کہ تم نے کہا تھا کہ تم امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہو.تم نے دھوکہ دہی کی اب میں نے اپنی حفاظت کا انتظام کر لیا ہے اب میں آرہا ہوں.اتنے بڑے ہجوم کے اندر آپ بے دھڑک چلے گئے.اگر کسی کو حالات کا پتہ نہ ہو اور وہاں یورپ میں جا کر آدمی یہ بتائے وہ کہے گا اُنہوں نے کہانی بنالی ہے.کسی کو سمجھ نہیں آسکتا ایسا دماغ جس نے خدا کی معرفت کو حاصل نہیں کیا اور اس نے خدا تعالیٰ کی

Page 159

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۵۳ سورة البقرة صفات سے لذت وسرور نہیں پایا.وہ کہے گا یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں.لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے خدا نے فرمایا وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں فکر کی کیا بات ہے؟ جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں.اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی ایک انگریز (S-P) ایس پی تھا.غالباً وہ وہاں پولیس لے کے گیا ہوا تھا وہ تو مسجد سے باہر رہا اور آپ تو مسجد کے اندر چلے گئے تھے.جب واپس آئے تو ہجوم حملہ آور ہوا ایک وہ ایس پی تھا انگریز جس پر دوسروں کی حفاظت کی ذمہ داری تھی اور ایک وہ خدا کا بندہ مہدی معہود جس کو خدا نے کہا تھا کہ تم میری حفاظت میں ہو.دونوں باہر آئے.ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے.ایس پی صاحب کے پتھر پڑے اور چوٹ آگئی لیکن خدا کے اس محبوب کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور بڑے آرام سے گزر گئے.جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر کوئی خوف باقی رہتا ہے اور نہ کوئی حزن رہتا ہے.پس خدا کی گود میں خود کو بٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے جو بلی مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن کے مطابق حقیقی معنی میں مسلمان ہو گیا.اعتقادا اور عملاً اس نے اپنے وجود کو اللہ کے حضور پیش کر دیا اور اسے سونپ دیا اسے کوئی خوف اور حزن نہیں ہوسکتا.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۴۵ تا ۵۴) آیت ۱۲۰ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ اس آیت میں حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخاطب ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ، مبعوث کیا ہے بشیر اور نذیر بنا کر اور اصحبُ الْجَحِيمِ کے متعلق تجھ سے باز پرس نہیں کی جائے گی.قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں کہا کہ کافروں کے متعلق تجھ سے باز پرس نہیں کی جائے گی بلکہ یہ کہا کہ اصحبُ الْجَحِيمِ کے متعلق تجھ سے باز پرس نہیں ہوگی.تیری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ کوئی دوزخ میں جاتا ہے یا نہیں جاتا.اَصْحَبُ الْجَحِيمِ کے معنی سمجھنے کے لئے جب ہم قرآن کریم ہی کو دیکھتے ہیں اور وہیں سے ہمیں صحیح

Page 160

۱۵۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث معنی پتا لگ سکتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اَصْحَبُ الْجَحِيمِ يَا أَصْحَبُ النَّارِ ، دوزخ کی آگ میں پڑنے والوں کا جہاں ذکر کیا ہے وہاں تین بڑے گروہ ہیں جن کا ذکر اصحب الْجَحِيمِ يا أَصْحَبُ النَّارِ کے الفاظ سے کیا گیا ہے.ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تجھ سے ان تینوں گروہوں کے جہنم میں جانے کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی.پہلا گروہ ان میں سے وہ ہے جس کا ذکر سورۃ مائدہ کی آیت میں بیان ہوا.فرمایا وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِأيتِنَا أوتيكَ اَصْحَبُ الْجَحِيمِ وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہوں کو اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا، جو دلائل صداقت کے تھے ان کی تکذیب کی اور خدا تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلا یا اوليك اَصْحَبُ الْجَحِيمِ ـ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک اصحُبُ الْجَحِيمِ ہیں، دوزخ میں پھینکے جائیں گے.یہ گروہ جو ہے آگ میں پڑنے والا ہے.دوسرا گروہ جو آگ میں پڑنے والا ہے قرآن کریم کی اصطلاح میں ، یہ بھی ایک بڑا گروہ ہے جس کا ذکر سورۃ نساء کی آیت ۱۴۶ میں ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النّارِ کہ منافق یقیناً جہنم کی گہرائی کے سب سے نچلے حصہ میں ہوں گے.پس ایک تو کفار ہوئے جن کا پہلے ذکر تھا اور دوسرے منافق ہوئے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں اَصْحَبُ الْجَحِيمِ یا اصحب النَّارِ ہیں.ج اور تیسرا گروہ جن کا ذکر قرآن کریم نے اصحبُ النَّارِ کے زمرہ میں کیا ہے وہ یہ ہے.سورۃ بقرہ کی آیت ۲۱۸ میں اللہ تعالی فرماتا ہے وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ أ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے اور راہ ارتداد اختیار کرے پھر وہ طبعی موت مرے اس حالت میں کہ وہ ارتداد کے ذریعہ سے جس کفر میں داخل ہوا تھا ( ایمان کو چھوڑ کے ) اس کفر پر وہ قائم تھا.تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں جو نیکیاں کی تھیں اور جو بظا ہر قربانیاں دی تھیں لیکن بعد میں ارتداد اختیار کیا تو حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وہ نیک اعمال بھی ان کے کسی کام نہیں آئیں گے اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کی نیکیوں کا بدلہ ثواب اور خدا تعالیٰ کی رضا کی شکل میں نہیں ملے گا.وأوليك اصحبُ النَّارِ اور ایسے مرتد جو ہیں وہ اصحبُ النَّارِ ہیں، اَصْحَبُ الْجَحِيمِ ہیں.دوزخی ہیں، دوزخ

Page 161

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۵۵ سورة البقرة کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور لمبا عرصہ اس میں رہنے والے ہیں.ان آیات کی روشنی میں ہمیں تین گروہ نظر آئے اور وَلَا تُسْعَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ کے یہ معنی ہوں گے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تجھ سے اس بات پر باز پرس نہیں ہوگی کہ جب تو نے دنیا پر اسلام کو پیش کیا اور صداقت کے دلائل جو خدا تعالیٰ نے ظاہر کئے تھے اور نشانات آسمانی جو تیری صداقت کے لئے آئے تھے وہ تو نے بتائے اور تبلیغ کی اور دعوت دی کہ یہ حق ہے اس کی طرف آؤ.لیکن جہاں ایک حصہ نے اس کو قبول کیا وہاں ایک دوسرا حصہ تھا جنہوں نے قبول نہیں کیا اور وہ کافر بن گئے تو کافروں کے متعلق تجھ سے یہ باز پرس نہیں ہوگی، یہ پوچھ کچھ نہیں ہوگی کہ کیوں وہ کفر کی حالت میں مرے اور ایمان نہیں لائے.یہ تیری ذمہ داری نہیں ہے.تیرا کام صرف البلاغ ہے، دعوت دینا ہے، سمجھانا ہے، ان کے لئے دعائیں کرنا ہے لیکن ہدایت پانے والے نے خود اپنی مرضی سے ہدایت پانی ہے اگر اللہ تعالیٰ اُسے اس کی توفیق دے یا بدقسمت ہوگا اور توفیق نہ پائے گا تو انکار کرے گا.بہر حال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا کہ کیوں اتنے دلائل سننے کے بعد اور معجزات دیکھنے کے بعد ایک دنیا منکرین کے گروہ میں شامل ہوئی اور انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کے خدا کا کفر کیا.دوسرے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وَلَا تُسْلُ عَنْ اَصْحِبِ الْجَحِيمِ کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ، جنہوں نے کہا کہ ہم خدا اور رسول کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھتے ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ صرف زبان سے تھا عملاً انہوں نے ایثار اور قربانی اور وفا اور ثبات قدم کی راہوں کو اختیار کرنے کی بجائے نفاق کی راہوں کو اختیار کیا اور خدا اور رسول سے محبت کر کے اور خدا کی مخلوق سے شفقت کر کے ان کی اسلامی تعلیم اور ہدایت کے مطابق خدمت کرنے کی بجائے فتنہ پیدا کیا اور فساد پیدا کیا اور وسوسے پیدا کئے اور نفاق کی چالوں کو پسند کیا وفا کو چھوڑ کر اور منافق نے کیوں نفاق اختیار کیا؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے باز پرس نہیں ہوگی.فرمایا، تیرا کام یہ نہیں کہ ایمان لانے والے کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے والا ہو.ایمان کے تقاضوں کو اپنی مرضی سے پورے کرنے والے جو ہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے.ان کے اوپر کوئی جبر نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی منافق منافقانہ مفسدانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے ( منافق تو پہلے دن سے ہی ہمارے ساتھ

Page 162

ܪܬܙ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث لگے ہوئے ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ خطرناک نفاق کا مظاہرہ کرنے والے عبد اللہ بن ابی ابن سلول جیسے لوگ موجود تھے ).پس حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بری قرار دیا گیا اس الزام سے کہ کیوں بعض نے نفاق کی راہوں کو اختیار کیا.وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ یہ منافق جو إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کی رو سے جہنم کے بدترین حصوں میں پھینکے جانے والے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی وجہ سے کوئی الزام عائد نہیں ہوتا، نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی وجہ سے کوئی باز پرس ہوگی.تیسرے وَلَا تُسْلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ کے تیسری آیت جو میں نے پڑھی ہے اس کی روشنی میں، یہ ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر باز پرس نہیں کرے گا خدا کہ ایمان لانے کے بعد لوگ مرتد کیوں ہو گئے.یہ ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے کہ جو ایمان لے آیا اسے زبردستی دائرہ اسلام کے اندر پکڑ کے رکھیں.سی اس کا کام ہے.ساری بنا ہی آزادی پر ہے جزا اور سزا.خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کے قہر کا جلوہ جو ہے، اس کا انحصار ہر شخص کے اپنے افعال پر ہے حضرت 66 محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ کوئی ذمہ داری ہے نہ آپ سے کوئی پوچھ کچھ اس کے متعلق کی جائے گی.جماعتوں اور گروہوں کے لحاظ سے یہ تین گروہ ہی ہیں.کفر کرنے والے، نفاق کی راہوں کو اختیار کرنے والے اور ارتداد اختیار کرنے والے.اور تینوں وَ لا تُسْلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ “ کے مفہوم کے اندر آتے ہیں کیونکہ تینوں کے متعلق قرآن کریم نے دوزخی اور دوزخ کی آگ میں پڑنے والوں کا لفظ استعمال کیا ہے.تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا.پہلے مفسرین اس بحث میں بھی پڑے ہیں کہ اس آیت میں بشیر اور نذیر کا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے یا حق کے ساتھ ہے کہ ہم نے ایسے حق کے ساتھ تجھے بھیجا ہے جو حق بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا ہے مگر دوسری جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق واضح طور پر بشیر اور نذیر کا لفظ استعمال ہوا ہے.بات یہ ہے کہ یہ بحث لفظی ہے اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا ، خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروایا اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى ، پس محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 163

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۵۷ سورة البقرة نے اگر کسی کو بشارت دی ہے تو وحی کے نتیجہ میں دی ہے اپنی طرف سے تو نہیں دی کوئی بشارت، اور اگر کسی کو کوئی تنبیہ کی ہے اور ڈرایا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے تو اللہ تعالی ناراض ہو جائے گا تو اپنی طرف سے تو نہیں ڈرایا.وہ تو اسی واسطے ڈرایا کہ خدا نے کہا تھا کہ میں ناراض ہو جاؤں گا اگر تم ایسے کام کرو گے.تو محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا بشیر اور نذیر ہونا ہی بتاتا ہے کہ جو تعلیم آپ لے کر آئے ، جو قرآن کریم آپ پر نازل ہوا وہ قرآن کریم خود بتا رہا ہے کہ کن لوگوں کو خدا تعالی بشارتیں دے رہا اور کن لوگوں پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہونے والا ہے اور قرآن کریم ان کو ڈرا رہا ہے کہ دیکھو ایسے کام نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا.تو اس آیت سے بھی ہمیں پتا لگتا ہے کہ اسلام نے کامل مذہبی آزادی دی ہے اور ایک مفسر نے جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا یہ کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے دلوں پر تصرف کرنے کی طاقت ہی نہیں دی گئی تھی.جب طاقت ہی نہیں دی گئی تو الزام کیسے.یعنی لا تسل کا لفظ بتاتا ہے کہ آپ کو یہ طاقت نہیں دی گئی تھی کہ زبر دستی کسی کے دل کی حالت کو بدلیں.جب طاقت ہی نہیں تھی تو الزام بھی نہیں.پوچھ کچھ بھی نہیں ، باز پرس بھی کوئی نہیں.اس سلسلہ میں میں نے چند ایک نمونے مشہور مفسرین کے بھی لئے ہیں کیونکہ جب ہم بات کرتے ہیں تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہمیں کہتا ہے کہ تم خود ساختہ تفسیر کر رہے ہو.پہلوں نے بھی اس کے متعلق کچھ کہا ؟ اس لئے میں کچھ نمونے پہلوں کے بھی اس سلسلہ میں لیتا ہوں اور ان کو بیان کر دیتا ہوں.ایک مشہور مفسر امام رازی جن کی تفسیر تفسیر کبیر" کے نام سے مشہور ہے إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَق کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.دو إِعْلَمُ أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا أَصَرُوا عَلَى الْعِبَادِ وَ التَّجَاجِ الْبَاطِلِ وَاقْتَرَحُوا الْمُعْجِزَاتِ عَلى سَبِيلِ التَّعَتُتِ بَيْنَ اللهُ تَعَالَى لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لا مَزيلٌ عَلى مَا فَعَلَهُ فِي مَصَالِحٍ دِينِهِمْ مِنْ إظْهَارِ الْآدِلَّةِ وَ كَمَا بَيَّنَ ذلِكَ بَيْنَ أَنَّهُ لَا مَزِيدٌ عَلَى مَا فَعَلَهُ 66 الرَّسُولُ فِى بَابِ الإِبلاغ وَالتَّنْبِيْهِ لِكَى لَا يَكْثُرَ عَنهُ بِسَبَبِ إِحْدَارِهِمْ عَلَى كُفْرِهِمْ “ پھر لکھتے ہیں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہ اس کے معنی یہ ہیں.وو ” قَالَ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ يَا مُحَمَّدُ! بِالْحَقِّ لِتَكُونَ مُبَشِّرًا لِمَنِ اتَّبَعَكَ وَ اهْتَدَى بِدِينِكَ

Page 164

۱۵۸ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث وَمُنْذِرًا لِمَنْ كَفَرَبِكَ وَ ضَلَّ عَنْ دِينِكَ أَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحُبِ الْجَحِيمِ.....فَفِي التَّأْوِيلِ وُجُوهٌ کہتے ہیں بہت سارے معنے لا تُسْلُ کے ہو سکتے ہیں.اَحَدُهَا : أَنَّ مَصِيرَهُمْ إِلَى الْجَحِيمِ فَمَعْصِيَتُهُمْ لَا تَضُرُّكَ وَ لَسْتَ يَمَسْئُوْلٍ عَنْ ذُلِكَ وَهُوَ كَقَوْلِهِ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ وَقَوْلُهُ عَلَيْهِ مَا حُمِلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُلْتُمْ - (الثاني) إِنَّكَ هَادٍ وَ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْ ءٍ فَلَا تَأْسَفُ وَلَا تَغْتَمَّ لِكُفْرِهِمْ 66 وَمَصِيرِهِمْ إِلَى الْعَذَابِ وَنَظِيرُهُ قَوْلُهُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ - (الثالث ) لا تَنْظُرُ إِلَى الْمُطِيعِ وَالْعَاصِي فِي الْوَقْتِ فَإِنَّ الْحَالَ قَدْ يَتَغَيَّرُ فَهُوَ غَيْبٌ فَلَا تُسْئَلُ عَنْهُ وَ فِي الْآيَةِ دَلَالَةٌ عَلى أَنَّ أَحَدًا لَا يُسْتَلُ عَنْ ذَنْبٍ غَيْرِهِ وَ لَا يُؤْخَذُ تِمَا اجْتَرَمَهُ سِوَاهُ سَوَاءٌ كَانَ قَرِيبًا اَمَ بَعِيدًا " امام رازی لکھتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں کہ تمہیں علم ہونا چاہیے کہ جب کفار نے مخالفت اور بے فائدہ ضد پر اصرار کیا اور ہٹ دھرمی کے طور پر اقتراحی معجزات کا متواتر مطالبہ کیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو کہا کہ اس نے یعنی اللہ تعالی نے دلائل ظاہر کر کے ان لوگوں کی دینی بہتری کے لئے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا یعنی خدا تعالیٰ نے اس سے زیادہ نہیں کیا دلائل دے دیئے.آیات آسمانی نازل کر دیں.امام رازی کہتے ہیں اس آیت میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتا ہے کہ جو میں کر چکا ہوں اس سے زیادہ میں ان لوگوں کی دینی صلاح کے لئے ، دینی مصالح کے لئے نہیں کر سکتا.میں نے دلائل قائم کر دیئے ، حج قاطعہ ظاہر کر دیں، آیات آسمانی آگئے صداقت کے اظہار کے لئے اور جیسے خدا تعالیٰ نے یہ بات بیان کی ہے خدا تعالیٰ نے یہ بھی بیان کر دیا کہ جو کچھ رسول نے انہیں تبلیغ کرنے اور تنبیہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا تھا اور ایسا اس لئے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کا غم ان کے کفر پر مصر ہو جانے کی وجہ سے زیادہ نہ ہو جائے.پھر یہ لکھتے ہیں کہ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ تو ان لوگوں کو جو تیری پیروی کریں اور تیرے دین کے ذریعہ ہدایت پائیں بشارت دے اور جو تیرا انکار کریں اور تیرے دین سے گمراہ ہو جائیں انہیں ڈرائے اور خدا تعالیٰ کا جو فرمان ہے کہ وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ “ مختلف پہلوؤں سے اس کی تفسیر کی جاسکتی ہے اوّل یہ کہ اصحبِ الْجَحِيمِ

Page 165

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۵۹ سورة البقرة ہیں وہ.ان کفار کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور ان کی نافرمانی تجھے کوئی نقصان نہیں دے گی یعنی جو ان کی نافرمانی ہے، خود ان کو اس کا نقصان پہنچے گا تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور نہ ہی تجھ سے اس کے متعلق پوچھ کچھ ہوگی.جیسے کہ خدا تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تیرا فرض تو تبلیغ ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے اور ایک اور جگہ فرمایا کہ اس رسول پر وہ کام کرنا ضروری ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا اور تم پر وہ کام کرنا ضروری ہے جو تمہارے ذمہ لگایا گیا.نمبر دو کہتے ہیں کہ دوسرے اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہدایت دینے والا ہے.ہدایت دینے والا دعوت دینے والا، ہدایت پہنچا دینے والا ہے ان تک اور اس معاملہ میں تیرا کوئی اختیار نہیں یعنی اس معاملہ میں کہ وہ مانتے ہیں کہ نہیں تیرا کوئی اختیار نہیں.پس تو ان کے کفر اور دوزخ میں جانے کی وجہ سے غم نہ کر.اس مطلب کی ایک دوسری آیت بھی ہے جس میں فرمایا کہ تیری جان ان پر افسوس کرتے ہوئے ضائع نہ ہو جائے.تیسرے فرمایا کہ تو موجودہ وقت میں مطیع اور نا فرمان کا خیال نہ کر حالات بدلتے رہتے ہیں.انہی میں سے تو پھر مسلمان ہو گئے.پھر وہ کہتے ہیں اس آیت سے ایک اور بات کا بھی پتا چلتا ہے وہ یہ کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے نہ پوچھا جائے گا اور نہ ہی کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے اس کا مؤاخذہ ہو گا خواہ وہ گنہگار قریبی ہو یا قریبی نہ ہو.وو ابن جریر ایک مشہور مفسر ہیں اپنی تفسیر جامع البیان میں وہ لکھتے ہیں.وَ مَعْلَى قَوْلِهِ جَلَّ شَانُهُ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا إِنَّا أَرْسَلْنَكَ يَا مُحَمَّدُ بِالْإِسْلَامِ الَّذِي لَا أَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ غَيْرَهُ مِنَ الْأَدْيَانِ وَهُوَ الْحَقُّ مُبَشِّرًا مَنِ اتَّبَعَكَ فَأَطَاعَكَ وَ قَبِلَ مِنْكَ مَا دَعَوْتَهُ إِلَيْهِ مِن الْحَقِّ بِالنَّصْرِ فِي الدُّنْيَا وَ الظَّفَرِ بِالثَّوَابِ فِي الْآخِرَةِ النَّعِيمِ الْمُقِيمِ فِيْهَا وَ مُنْذِرًا مَنْ عَصَاكَ فَخَالَفَكَ وَرَدْعَلَيْكَ مَا دَعَوْتَهُ إِلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِالْخِزْيِ فِي الدُّنْيَا وَالنَّلِ فِيْهَا وَالْعَذَابِ الْمُهِيْنِ فِي الْآخِرَةِ ( وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحب الْجَحِيم ) وہ کہتے ہیں اس کے معنے ہیں يَا مُحَمَّدُ إِنَّا اَرْسَلْنَك بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَبَلَّغْتَ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ وَ إِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَالْإِنْذَارُ وَلَسْتَ مَسْئُولًا عَمَّنْ كَفَرَ مَا آتَيْتَهُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَحِيمِ “ ( تفسیر جامع البیان) وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے اس دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے جس کے سوا میں کسی اور دین کو کسی سے قبول نہیں کروں گا اور دینِ اسلام

Page 166

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث حق ہے.جو ۱۶ 17.سورة البقرة جو شخص تیری پیروی کرے، تیری اطاعت کرے اور جس حق کی تو نے اسے دعوت دی ہے اسے وہ قبول کرے تو یہ حق جو ہے وہ اسے بشارت دیتا ہے کہ دنیا میں اس کی مدد کی جائے گی اور آخرت میں اسے ثواب دیا جائے گا اور اسے دائمی نعمتوں سے نوازا جائے گا.اس کے برعکس جو تیری بات نہ مانے ، تیری مخالفت کرے اور جس حق کی طرف تو نے اسے دعوت دی ہے اسے وہ رڈ کر دے تو اسے یہ حق جو ہے وہ تنبیہ کرتا ہے کہ اسے دنیا میں ذلت پہنچے گی اور وہ خوار ہو گا اور آخرت میں اسے ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا.وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ کہتے ہیں پس معنی یہ ہوئے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے.پس جو پیغام تجھے دیا گیا تو نے وہ پہنچا دیا اور تیرا کام پہنچادینا اور تنبیہ کر دینا ہے اور تجھ سے ان لوگوں کے متعلق سوال نہ کیا جائے گا جنہوں نے اس حق کا انکار کیا جو تو ان کے پاس لے کر آیا اور وہ دوزخیوں میں شامل ہو گئے.تیسرا حوالہ میں نے لیا ہے امام قرطبی کی تفسیر سے.وہ اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ الْمَعْلى إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بَشِيرًا وَنَذِيرًا غَيْرَ مَسْئُوْلٍ کہ ہم نے تجھے بشیر اور نذیر کر کے بھیجا ہے اور تجھ سے ان لوگوں کے بارہ میں پوچھ کچھ نہ ہوگی ، باز پرس نہ کی جائے گی.علامہ محمود الوسی کی ایک مشہور تفسیر ہے روح المعانی اس میں اس آیت کی تفسیر یوں آئی ہے.انَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّقِ اى مُتَلَبِّسًا مُؤَيَّدًا بِه.....وَ الْمُرَادُ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ لِأَنْ تُبَيَّرَ مَنْ أَطَاعَ وَتُنْذِرَ مَنْ عَلَى لَا لِتُجْبِرَ عَلَى الْإِيْمَانِ فَمَا عَلَيْكَ إِنْ أَصَرُّوا وَكَابَرُوا.اور وہ وَلَا تُسْلُ کے متعلق کہتے ہیں آئی آر سَلْنَك غَيرَ مَسْئُولٍ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيْمِ مَا لَهُمْ يُؤْمِنُوا بَعْدَ أَنْ بَلَّغْتَ مَا أُرْسِلْت بِهِ وَالْزَمْتَ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ “ (روح المعانی).وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے ذریعہ تیری تائید کی گئی ہے اور کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اے رسول ہم نے تجھے اس لئے بھیجا ہے تاتو ان کو جو اطاعت اختیار کریں خوشخبری دے اور جو نا فرمانی کریں تنبیہ کرے.مجھے اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ تو کسی کو ایمان لانے پر مجبور کرے.یہاں میں یہ زائد کروں گا کہ اصحبُ الْجَحِيمِ کے جو قرآن کریم نے تین گروہ بیان کئے تھے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تجھے اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ تو کسی کو ایمان لانے پر مجبور کرے یا کسی کو ایمان کے

Page 167

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة تقاضوں کے پورا کرنے پر مجبور کرے کہ وہ نفاق کی راہوں کو اختیار نہ کریں یا کسی کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار نہ کریں.پس اگر وہ کفر پر اصرار کریں یا نفاق کی راہوں کو اختیار کریں یا ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار کریں اور فضول جھگڑا کریں تو اس میں تیرا کوئی نقصان نہیں اور تجھ پر کوئی الزام نہیں.شیخ اسماعیل حقی کی تفسیر ہے روح البیان، وہ لکھتے ہیں.(إِنَّا أَرْسَلْنَك حَالَ كَوْنِكَ مُتَلَيّسًا ( بِالْحَقِّ ( مُؤَيَّدًا بِهِ وَالْمُرَادُ الْحُجَجُ وَالْآيَاتُ وَسُمِّيَتْ بِهِ لِتَأْدِيَتِهَا إِلَى الْحَقِّ (بَشِيرًا حَالَ كَوْنِكَ مُبَشِّرًا لِمَنِ اتَّبَعَكَ...وَنَذِيرًا ) أَتَى مُنْذِرًا وَمُخَوْفًا لِمَنْ كَفَرَبِكَ وَعَصَاكَ وَالْمَعْنَى أَنَّ شَأْنُكَ بَعْدَ إِظْهَارِ صِدْقِكَ فِي دَعْوَى الرَّسَالَةِ بِالدّلائِلِ وَالْمُعْجِزَاتِ لَيْسَ إِلَّا التَّعْوَةُ وَالْإِبْلَاغُ بِالتَّبْشِيْرِ وَالْإِنْذَارِ لَا أَنْ تُجْبِرَهُمْ عَلَى الْقُبُولِ وَالْإِيْمَانِ فَلَا عَلَيْكَ إِنْ أَصَرُّوا عَلَى الْكُفْرِ وَالْعِنَادِ (روح البيان) کہتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد دلائل اور نشانات ہیں اور بشیرا تو بشارت دینے والا ہے ان کو جو تیری پیروی کریں اور نذیرا اور تو ڈراتا ہے انہیں جو تیرا انکار کریں، تیری نافرمانی کریں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ دلائل اور معجزات کے ذریعہ تیرے دعوی رسالت کی سچائی کے اظہار کے بعد تیرا کام یہی ہے کہ تو اس حق کی طرف دعوت دے اور اسے لوگوں تک پہنچا دے خواہ خوشخبری دے کر یا ڈرا کر.تیرا یہ کام نہیں کہ تو ان کو حق کے قبول کرنے یا اس پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے اور تیرے پر کوئی الزام نہیں کہ دلائل اور معجزات کے بعد انہوں نے کفر اور مخالفت پر اصرار کیوں کیا.تیرا کام پہنچانا تھا تو نے پہنچادیا اور لَا تُسْلُ عَنْ أَصْحَب الْجَحِيمِ یہ باز پرس نہیں ہوگی کہ کیوں وہ ایمان نہیں لائے.ایک تفسیر ہے تفسیر المنار الامام الشیخ محمد عبدہ لیکچر دیا کرتے تھے ان کے ایک شاگرد ہیں سید رشید رضا صاحب انہوں نے ان کے جو لیکچر تھے یعنی قرآن کریم کے درس ان کو اکٹھے کر کے شائع کئے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ انَّا اَرْسَلْنَاكَ بِالْعَقَائِدِ الْحَقِ الْمُطَابِقَةِ لِلْوَاقِعِ وَالشَّرَائِحِ الصَّحِيحَةِ الْمُوْصِلَةِ إِلَى سَعَادَةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ بَشِيرًا لِمَنْ يَتَّبِعُ الْحَقَ بِالسَّعَادَتَيْنِ (یعنی سعادت دنیا اور آخرت) وَ نَذِيرًا لِمَنْ لا يَأْخُذُ بِهِ بِشَقَاء الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ ۖ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ أَصْحَابِ

Page 168

۱۶۲ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث الْجَحِيمِ أَى فَلَا يَضُرُكَ تَكْذِيبُ الْمُكَذِّبِينَ الَّذِينَ يُسَاقُونَ بِجُعُوْدِهِمْ إِلَى الْجَحِيمِ لأَنَّكَ لَمْ تُبْعَثْ مُلْزِمًا لَّهُمْ وَ لَا جَبَّارًا عَلَيْهِمْ فَيُعَدُ عَدُهُ إِيْمَانِهِمْ تَقْصِيرًا مِّنْكَ تُسْأَلُ عَنْهُ بَلْ بُعِثْتَ مُعَلَّها وَ هَادِ بِالْبَيَانِ وَ الدَّعْوَةِ وَ حُسْنِ الْأَسْوَةِ لَا هَادِيًا بِالْفِعْلِ وَلَا مُلزمًا بِالْقُوَّةِ.لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ " (تفسیر المنار) یہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے عقائد حقہ کے ساتھ جو واقعات کے مطابق ہیں اور صحیح احکام کے ساتھ جو دینی اور دنیوی سعادت تک پہنچانے والے ہیں بھیجا ہے.بشيرا اور تُو بشارت دینے والا ہے دونوں قسم کی سعادت کی ہر اس شخص کو جو حق کی پیروی کرے.وَنَذِيرًا اور ڈرانے والا ہے دنیا اور آخرت کی بدبختی سے اسے جو اسے اختیار نہ کرے.وَلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحِبِ الْجَحِيمِ اُن مکذبین کی تکذیب تجھے کوئی ضرر نہیں پہنچائے گی جو اپنے انکار اور تکذیب کی وجہ سے جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے کیونکہ تو اس لئے مبعوث نہیں کیا گیا کہ تو ان پر دباؤ ڈالے یا انہیں مجبور کرے ایمان پر کہ ایمان نہ لانے کو تیری کو تا ہی شمار کیا جائے اور اس کے متعلق تجھ سے باز پرس کی جائے بلکہ تو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تو تعلیم اور ہدایت دے.حق کو بیان کرے.اس کی دعوت دے اور نیک نمونہ پیش کرے.اپنے اُسوہ سے ان کو صداقت کی طرف بلائے نہ اس لئے کہ تو انہیں عملاً مجبور کر کے بالجبر ہدایت یافتہ بنائے یا اپنی طاقت سے ان پر دباؤ ڈالے.دوسری جگہ فرمایا تیرا ذمہ نہیں کہ تو انہیں ضرور ہدایت تک پہنچائے لیکن اللہ تعالیٰ خود ہدایت دیتا ہے اسے جسے چاہتا ہے اور اس آیت میں ایک سبق بھی ہے کہ انبیاء کو بطور معلم کے بھیجا جاتا ہے نہ کہ بطور داروغہ کے اور نہ انہیں لوگوں کے دلوں میں تصرف کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے یعنی ان کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ لوگوں کے دل بدلیں.کسی نبی کو نہیں دی گئی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا تعالیٰ نے دل بدلنے کی طاقت نہیں دی تھی.اس میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں نے دلائل مہیا کر دیئے ، آسمانی نشان ان کو دکھا دیئے.اس سے زیادہ ان کی دینی بہبود کے لئے میں (خدا جو ساری طاقتوں کا مالک ہے ) بھی اور کچھ نہیں کروں گا.ان کی مرضی پر چھوڑا ہے وہ میری رضا کی راہوں پر چلتے ہیں یا اپنے بد عملیوں کے نتیجہ میں میرے غصے کو بھڑکاتے ہیں.تو یہ کہتے ہیں کہ انبیاء کو بطور معلم کے بھیجا جاتا ہے نہ کہ بطور داروغہ کے اور نہ انہیں لوگوں کے دلوں

Page 169

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۶۳ سورة البقرة وہ میں تصرف کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے نہ انہیں جبر و اکراہ کے لئے حکم ہوتا ہے.پس جب کبھی جہاد کرتے ہیں تو صرف حق کے دفاع کے لئے نہ اس لئے کہ لوگوں کو وہ حق ماننے پر مجبور کریں.آخری حوالہ بہت پرانی تفسیر کا نہیں بلکہ ماضی قریب کی ہے یہ تفسیر.تو جیسا کہ پہلے بھی خطبوں میں میں بیان کر چکا ہوں ایک آیت اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے.ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کہتا کیا ہے؟ حکم تو شریعت قرآنیہ کا چلے گا اور خدا کہتا ہے کہ میں بھی جبر نہیں کرتا اور میر احمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی جبر نہیں کرتا.اس آیت کے یہی معنے کئے ہیں ان مفسرین نے کہ خدا نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میں جبر نہیں کرتا.میر امحمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی جبر نہیں کرتا اور اس وجہ سے وَلَا تُسْتَلُ عَنْ أَصْحَب لجَحِيمِ اگر کوئی انکار کرتا ہے، کوئی نفاق کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.کوئی مرتد ہوجاتا ہے ایمان لانے کے بعد ، کسی پہ جبر کوئی نہیں.لیکن کام یہ ہے کہ ڈراؤ اُن کو نہیں مانو گے تو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ میں جلو گے.منافقانہ راہوں کو اختیار کرو گے تو قہر الہی کی وہ تجلی ظاہر ہوگی کہ تمہاری نسلیں بھی کانپ اٹھیں گی.یہ انذار کیا ہے اور اگر ارتداد کی راہوں کو اختیار کرو گے تو خدا تعالیٰ کی گرفت میں آؤ گے.یہ انذار کردو، ان کو سمجھا دو اور اگر مانو گے خدا کے پیار کو پاؤ گے....اگر کوئی منافق بننا چاہتا ہے تو جبرا اسے روکا نہیں جاسکتا لیکن سزا اس کی بڑی سخت ہے.إِنَّ الْمُنْفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ.اگر کوئی ارتداد اختیار کرتا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدایا میں نے بیس سال تو تیری پاک جماعت میں شامل رہ کر تیری راہ میں قربانیاں دی تھیں ان کا بدلہ تو مجھے دے.حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدنیا ان کے ایسے اعمال ضائع ہو جائیں گے ان کا بھی کوئی بدلہ نہیں ملے گا مرتد کو یہ یا درکھنا چاہیے اور مرتد بنانے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں شیطان کا یہ بھی کام ہے.اَصْحَبُ الْجَحِيمِ کے جو تین معنے ہیں ان کی رو سے شیطان کے بھی تعین کام ہیں.ایک اس کا کام ہے کہ انسان سے کفر کروائے یعنی قبول ہی نہ کرے صداقت کو جو إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَكَذَبُوا بِایتنا میں بیان ہوا ہے.دوسرے شیطان کا یہ کام ہے جس وقت کوئی ایمان لے آتا ہے تو بڑا تلملاتا ہے شیطان.یہ کیا ہو گیا.میرے ہاتھ سے نکل گیا.پھر وہ وسوسے پیدا کر کے انسان کو نفاق کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے اور یا وسو سے پیدا کر کے اسے ارتداد کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۹۵۳۸۳

Page 170

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۶۴ سورة البقرة ط آیت ۱۲۶ تا ۱۳۰ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى ، وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْراهِمَ وَ اِسْعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ وَ اِذْ قَالَ إِبْرَاهِم رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَدًا مِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَأَمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اَضْطَرُّةٌ إِلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَاذْيَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْعِيلُ ، رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنْتَ التّوابُ الرَّحِيمُ.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَ b (۱۲۹) ص b (١٣٠ يُعلِمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.آٹھویں غرض یا آٹھواں مقصد بیت اللہ کی تعمیر کا یہ بتایا کہ یہ مقابةٌ ہے.اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا کی اقوام فرقہ فرقہ بن گئی ہیں اور جس وقت یہ فرقہ بندی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی اس وقت ایک ایسا رسول مبعوث کیا جائے گا جو بیت اللہ کی اس غرض کو پورا کرنے والا ہو گا اور ان متفرق اقوام کو ایک مرکز پر لا جمع کرے گا.وہ سب کو علی دینین واحد لے آئے گا.پس یہاں بتایا کہ باوجود اس کے کہ تفرقہ ایک وقت پر اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس وقت ایک ایسے رسول کو مبعوث فرمائے جو تمام اقوام کو اُمَّةً واحدةً بنادے.نواں مقصد یہاں یہ بیان کیا کہ آمنا یعنی یہ گھر جو ہے یہ آمنا لِلنَّاسِ ہے.یہاں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے اپنے اس گھر کو ایسا بنانا چاہا ہے کہ اس کے ذریعہ اور صرف اس کے ذریعہ دنیا کو امن نصیب ہوگا کیونکہ صرف یہ ایک گھر ہو گا جسے بیت اللہ کہا جاسکتا ہے اس کو چھوڑ کر اور ان تعلیموں کو نظر انداز کر کے جن کا تعلق اس گھر سے ہے دنیا کی کوئی تنظیم امن عالم کے لئے کوشش کر کے دیکھ لے وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوگی.حقیقی امن دنیا کو صرف اس وقت اور صرف اسی تعلیم پر عمل کرنے

Page 171

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ܬܪܙ سورة البقرة کے نتیجہ میں مل سکتا ہے جو تعلیم وہ نبی دنیا کے سامنے پیش کرے گا جو خانہ کعبہ سے کھڑا کیا جائے گا.امن کے ایک دوسرے معنی کے لحاظ سے آمنا للناس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا روحانی طور پر اطمینان قلب صرف مکہ معظمہ اور صرف اس آخری شریعت کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں حاصل کر سکے گی جو آخری شریعت مکہ میں ظاہر ہوگی اور تمام اقوام عالم کو پکار رہی ہوگی اپنے ربّ کی طرف اور چونکہ اطمینانِ قلب ہر انسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے فطری تقاضوں کو وہ تعلیم پورا کرنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جتنی قوتیں اور استعدادیں پیدا کی ہیں ان سب کی راہ نمائی اور نشوونما کرنے کے قابل ہو بس یہاں یہ فرمایا کہ مکہ گھر ہوگا ایک ایسی تعلیم کا جو حقیقی طور پر دنیا کو اطمینانِ قلب پہنچانے والی ہوگی یعنی ہر دو معنی یہاں چسپاں ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ دنیا کو اگر امن نصیب ہو سکتا ہے تو وہ مکہ کی وساطت سے دوسرے یہ کہ دنیا کی ارواح اگر اطمینان قلب حاصل کر سکتی ہیں.دنیا کی عقلیں اگر تسلی پاسکتی ہیں تو صرف اس تعلیم کے نتیجہ میں جومکہ میں نازل ہوگی.دسویں غرض اور دسواں مقصد ان آیات میں خانہ کعبہ کا اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے.کہ اتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرهِم مُصلَّی اس سے پہلی ایک آیت میں مَقَامُ البرھم کا ذکر تھا.اس سے مراد یہ تھی کہ یہ مقام ایسا گھر ہے جہاں بنیاد ڈالی گئی ہے اس حقیقی عبادت کی جو محبت اور ایثار اور عشق الہی کے چشمہ سے بہہ نکلتی ہے اور اتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّی میں اس عبادت کا ذکر ہے جو تذلل اور انکسار کے منبع سے پھوٹتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے کہ ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو تذلل اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے والی ہوا اور جو تذلل اور انکسار کی عبادت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام کے ظل ساری دنیا میں قائم کرے اور اشاعت اسلام کے مراکز کو قائم کرنے والی ہو.گیارھویں غرض تعمیر بیت اللہ کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ظفرا بنتی اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو ظاہری صفائی اور باطنی طہارت کا سبق سیکھنے کے لئے ساری دنیا کے لئے بطور ایک جامعہ اور یو نیورسٹی اور ایک مرکز کے بنایا جائے.بارھویں غرض تعمیر کعبہ کی یہ بتائی گئی ہے کہ للطابفین یعنی اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں

Page 172

۱۶۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالثة جمع ہوا کریں گے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے یہ بتایا تھا کہ تمام اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں آئیں گے طواف کرنے کے لئے بھی اور دوسری ان اغراض کے پورا کرنے کے لئے بھی جن کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے.تیرھواں مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ والعکفین خانہ کعبہ اس غرض سے از سر نو تعمیر کروایا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے والے ہوں اور اس طرح بیت اللہ کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں.چودھواں مقصد یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ والدرع السُّجُودِ ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو توحید باری پر قائم ہو اور جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے اپنی زندگیوں کو گزار نے والی ہو.پندرھواں مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ بلدا امنا.امن کا لفظ ان آیات میں تین مختلف مقاصد کے بیان کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس گھر کو دنیا کے ظالمانہ حملوں سے اپنی پناہ میں رکھیں گے اور کوئی ایسا حملہ جو خانہ کعبہ کو مٹانے کے لئے کیا جائے گا وہ کامیاب نہیں ہو گا بلکہ حملہ آور تباہ و برباد کر کے رکھ دیئے جائیں گے تا دنیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ وہ نبی جسے ہم یہاں سے مبعوث کرنا چاہتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہوگا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی ذات کو ہلاک یا اس کے مشن کو نا کام نہیں کر سکے گی اور تا دنیا یہ بھی نتیجہ نکالے کہ جو شریعت نبی معصوم کو دی جائے گی وہ ہمیشہ کے لئے ہوگی اور خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوگا.سولہویں غرض جو خانہ کعبہ سے وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ وارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ میں بیت اللہ کو از سر نو تعمیر کروا رہا ہوں اس غرض سے بھی کہ تا بیت اللہ اور اس کی برکات کو دیکھ کر دنیا اس نتیجہ پر پہنچے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے پر موت وارد کرتے ہیں اور اس کے ہو کر اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں اور دنیا سے کٹ کر صرف اسی کے ہی ہو رہتے ہیں ان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے بلکہ شیریں پھل انہیں ملتا ہے اور عاجزانہ اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج ان کے لئے مقدر کئے جاتے ہیں.سترھویں غرض بیت اللہ کے قیام کی یہ بتائی کہ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِن بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے

Page 173

172 سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کہ تا دنیا یہ جانے اور پہچانے کہ روحانی رفعتوں کا حصول دعا کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے.جب دعا میں انسان کا تضرع اور ابتہال انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور موت کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تب فضل الہی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور معرفت کی راہیں بندہ پر کھولی جاتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں بیت اللہ کے قیام کی غرض بتائی کہ یہاں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا اپنی تمام شرائط کے ساتھ کرے گی اور دعا میں ان پر ایک موت کی سی کیفیت وارد ہو گی اور ان کا وجود کلیۂ فنا ہو جائے گا اور پانی بن کر آستانہ رب پر بہہ نکلے گا اور وہ جانتے ہوں گے کہ ہم اپنے اعمال کے نتیجہ میں ( محض اعمال کے نتیجہ میں ) کچھ حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہ کریں اس لئے انتہائی قربانیاں دینے کے بعد بھی وہ اپنی قربانیوں کو کچھ چیز نہ سمجھیں گے اور ہر وقت اپنے رب سے ترساں اور لرزاں رہیں گے اور انتہائی قربانیوں کے باوجود ان کی دعا یہ ہوگی کہ جو کچھ ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں وہ ایک حقیر سا تحفہ ہے.تیری شان تو بہت بلند ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ تیرے حضور ہمارا یہ تحفہ قبول ہونے کے لائق نہیں لیکن تو بڑا رحم کرنے والا رب ہے ہمارے اس حقیر تحفہ کو قبول فرما اور ہماری غفلتوں اور ہماری حقیر مساعی کو چشم مغفرت سے دیکھ اور رحمت کے سامان پیدا کرتا کہ ہماری مساعی اور کوششیں تیرے حضور قبول ہو جائیں.غرض اس قسم کی قوم پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیا د رکھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر سے اٹھارہواں مقصد یہ ہے کہ دنیا یہ جانے کہ جولوگ خدا تعالیٰ کے حضور اس رنگ میں دعائیں کرتے ہیں وہی ہیں جو اپنے رب کی صفت سمیع کا نظارہ دیکھتے ہیں اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ ہمارا رب جو ہے وہ سننے والا ہے.وہ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری دعاؤں کو سنا.پس خانہ کعبہ کے قیام کے نتیجہ میں خدائے سمیع کی معرفت دنیا حاصل کرے گی.انیسواں مقصد یہ ہے کہ دنیا اس کے ذریعہ سے خدائے علیم کی معرفت حاصل کرے گی یہ نہیں ہوگا کہ بندہ نے اپنے علم ناقص کے نتیجہ میں جو دعا کی اسے اللہ تعالیٰ نے اسی رنگ میں قبول کر لیا بلکہ بندہ دعا کرے گا اور دعا کو انتہاء تک پہنچائے گا تو اس کا رب اس کی دعا کو سنے گا اور قبول کرے گا مگر قبول کرے گا اپنے علم غیب کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے یعنی جس رنگ میں وہ دعائیں قبول ہونی چاہئیں :

Page 174

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۶۸ سورة البقرة اس رنگ میں بعض دعاؤں کا رڈ ہو جانا یا بعض دعاؤں کا اس شکل میں پورا نہ ہونا جس رنگ میں کہ وہ کی گئی ہیں یہ ثابت نہیں کرے گا کہ خدا سمیع نہیں ہے یا قادر نہیں ہے بلکہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات علام الغیوب ہے.تو خانہ کعبہ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی کہ خدا تعالیٰ کے بندے خدائے علیم سے متعارف ہو جائیں اور اس کو جانے لگیں اور پہچانے لگیں.بیسویں غرض یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ یعنی اُمّتِ مسلمہ ہماری ذریت میں سے بنائیو.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا ہے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث ہوں تو آپ کی قوم اُمَّةٌ مُسلِمَةٌ بننے کی اہلیت رکھتی ہو اور ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں وہ اُمَّةً مُسْلِمَةٌ بن بھی جائے گی اور اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ نبی جس کا وعدہ دیا گیا ہے کہ وہ مکہ میں پیدا ہو گا مگر تم دعا کرتے رہو کہ اے خدا ! ہماری اور ہماری نسلوں کی کسی غفلت اور کوتا ہی کے نتیجہ میں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے نزدیک ہم اس قابل نہ رہیں کہ وہ وعدہ ہمارے ساتھ پورا ہو بلکہ کسی اور قوم میں وہ نبی مبعوث ہو جائے تو فرمایا میری اولاد کو ہی اُمت مسلمہ بنانا.پہلے مخاطب وہی ہوں اور سب کے سب قبول کرنے والے بھی وہی ہوں.پس یہاں یہ بتایا ہے کہ وہ اُمت جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی ذریت سے پیدا ہونے والی ہے وہ اُمت مسلمہ بنے.اس نبی کا انکار نہ کرے.اس نبی پر ایمان لا کر جو ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر پڑیں وہ ان کو نباہنے کی قوت اور استعدا در رکھنے والی ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کو ایسی ہی قوم بنانا چاہتے ہیں اور اسی غرض سے ہم نے خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر کروائی ہے.اکیسواں مقصد یہاں یہ بیان فرمایا کہ آرنا مناسگنا اس میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ مکہ معظمہ سے ایک ایسا رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہو گا جو دنیا کی طرف اس وقت آئے گا جب وہ اپنی روحانی اور ذہنی نشوونما کے بعد ایسے مقام پر پہنچ چکی ہوگی کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کی حامل بن سکے.ایسی شریعت جس میں پہلی شریعتوں کے مقابلہ میں لچک ہے.ایسی شریعت جس میں مناسب حال عمل کرنے کی تعلیم دی گئی ہو اور ایسی شریعت جو ہر قوم اور ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو.آرنا مناسگنا ہمارے مناسب حال جو کام اور جو عبادتیں ہیں جو ذمہ داریاں ہیں وہ ہمیں دکھا اور سکھا.یعنی قرآنی شریعت کو ہم پر نازل فرما.

Page 175

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۶۹ سورة البقرة پس آرنا مناسگنا میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ رسول آئے گا اس کا تعلق دنیا کی ساری اقوام سے ہوگا اور ہر زمانہ سے ہوگا.پس دعا کرتے رہو کہ اے ہمارے رب قوم قوم کی ضرورتوں اور طبیعتوں میں فرق اور زمانہ زمانہ کے مسائل میں فرق کے پیش نظر شریعت ایسی کامل اور مکمل بھیجنا کہ جو ہر قوم کے فطرتی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہو اور ہر زمانہ کے مسائل کو وہ سلجھانے والی ہو.قیامت تک زندہ رہنے والی ہوتا جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی ہے وہ پوری ہو.بائیسویں غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تب عَلَینا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو آخری شریعت یہاں نازل کی جائے گی اس کا بڑا گہرا تعلق آپ تواب سے ہوگا اور اس شریعت کے پیرو اس حقیقت کو پہچاننے والے ہوں گے کہ تو بہ اور مغفرت کے بغیر معرفت کا حصول ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بار بار اس کی راہ میں قربانیاں بھی دینے والے ہوں گے اور بار بار اس کی طرف رجوع بھی کرنے والے ہوں گے اور کہیں گے کہ اے خدا! ہماری خطاؤں کو معاف کر دے.وہ ایسی قوم ہوگی کہ جو نیکی کرنے کے بعد بھی اس بات سے ڈر رہی ہوگی کہ کہیں ہماری نیکی میں کوئی ایسا رخنہ نہ رہ گیا ہو جس سے ہمارا رب ناراض ہو جائے وہ ہر وقت استغفار اور تو بہ میں مشغول رہنے والی قوم ہوگی.تیسواں مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ کہ ہم محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مولد اسے بنانا چاہتے ہیں ہم اسے ایسا مقام بنانا چاہتے ہیں کہ جس کے ماحول میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ ، عاجزی اور انکسار کے ساتھ عشق اور محبت کے ساتھ کی گئیں دعاؤں کے نتیجہ میں ہم اپنے ایک عبد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو محمدیت کے مقام پر کھڑا کریں گے اور اس کے ذریعہ سے ایک ایسی شریعت کا قیام ہوگا اور ایک ایسی اُمت کو جنم دیا جائے گا کہ جو زندہ نشان اپنے ساتھ رکھتی ہوگی يَتْلُوا عَليهم اليك اور زندہ خدا کے ساتھ اور زندہ نبی کے ساتھ اور زندہ شریعت کے ساتھ ان کا تعلق ہو گا اور ان کو کامل شریعت کا سبق دیا جائے گا لیکن ناسمجھ بچوں کو جس طرح کہا جاتا ہے ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہم کہتے ہیں اور تم مانو.اللہ تعالیٰ ان کی عقل اور فراست کو تیز کرنے کے لئے اپنے احکام کی حکمت بھی ان کو بتائے گا اس نبی کے ذریعہ اور اس طرح وہ کچھ ایسے پاک کر دئے جائیں گے کہ اس قسم کی پاکیزگی کسی پہلی قوم کو حاصل نہ ہوئی ہوگی اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہماری عقل بھی تسلیم کرتی ہے کیونکہ اگر پہلی امتوں پر نسبتاً ناقص شریعتوں کا نزول ہوا اور اس ناقص

Page 176

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة البقرة راہ نمائی کے نتیجہ میں ان کا تزکیہ ہوتو وہ تزکیہ کامل نہیں وہ ان کی فطرت کے مطابق ان کی استعداد کے مطابق، ان کی قوت کے مطابق تو ہے لیکن وہ کامل تزکیہ نہیں ہے کیونکہ جو تعلیم انہیں دی گئی ہے وہ کامل نہیں کیونکہ ان کی استعدادا بھی کامل نہیں.پھر جب وہ قوم پیدا ہو گئی جو کامل شریعت کی حامل ہونے کی استعداد رکھتی تھی تو ان میں سے جن لوگوں نے انتہائی قربانیاں دے کر اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے تمام احکام پر عمل کر کے اور تمام نواہی سے بچتے ہوئے اس کے حضور گریہ وزاری میں اپنی زندگی گزاری ان کو جو تزکیہ نفس حاصل ہوگا ( محض خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ کہ ان کے اعمال کے نتیجہ میں ) وہ ایک ایسا کامل تزکیہ ہو گا.وہ ایک ایسی مکمل طہارت اور پاکیزگی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی ایسی خوشنودی اور رضا ہوگی کہ اس قسم کی رضا پہلی قوموں نے حاصل نہیں کی ہوگی..خطبات ناصر جلد اول صفحه ۶۳۸ تا ۶۴۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی اور جسے میں نے اپنے خطبوں میں تیئیسواں مقصد بیان کیا تھا وہ دعاية تى رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اے ہمارے رب ہماری یہ بھی التجا ہے کہ تو انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو ہی غالب اور حکمتوں والا ہے.یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے قبول ہوئی اور جو رسول اس دعا کے ذریعہ سے مانگا گیا تھا عاجزانہ جھک کر خدا کے حضور، وہ آگیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، قبولیت دعائے ابراہیمی کے نتیجہ میں، اللہ تعالیٰ کی یہ ساری تدبیر تھی انسان کے ہاتھ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے خدا کا ہی منصوبہ تھا ، وہ ہمیں میں یہ جو ابھی ایک آیت پڑھوں گا اس سے پتا لگے گا لیکن اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ التكَ وَيُعَلِمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یہ جو چار مقاصد لے کے دنیا کی طرف آنے والے رسول کے لئے دعا کی گئی تھی یہ قرآن عظیم میں اس یہ البقرۃ کی آیت ۱۳۰ ہے اس کے علاوہ چار اور جگہ بالکل انہیں چار مقاصد کا ذکر ہے کچھ زوائد کے ساتھ.سورۃ بقرہ کی ہی ایک اور آیت ہے اور وہ ۱۵۲ ہے اور اس سے ہمیں پتا لگتا ہے اس میں یہ بتایا گیا دو

Page 177

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث 121 سورة البقرة ہے اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول کیا گیا اور وہ نبی جو ان کو دعا خدا نے سکھائی تھی کہ یہ دعا کرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے ہیں.....تو یہ جو دعا جو قبول ہوئی اس کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی میں نے بتایا ۱۵۱ تا ۱۵۴ آیات میں ہے وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ یہ آیات یہاں سے شروع ہوتی ہیں بتانے کے لئے کہ اس دعا کے ساتھ اس کا تعلق ہے.وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اور تو جس جگہ سے بھی نکلے اپنی پوری توجہ مسجد حرام کی طرف پھیر دے وَحَيْثُ مَا كُنتُم فَوَلُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ اس کی طرف کیا کرو فولُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُم تا ان لوگوں کے سوا جو ان مخالفوں مرتکب ہوئے ہیں باقی لوگوں کی طرف سے تم پر الزام نہ رہے.الزام ایک، بہت سے معانی ہیں قرآن کریم کے، ایک یہ الزام بھی تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا تمہارے متعلق نہیں قبول ہوئی تم اس گروہ میں نہیں ہو یہ الا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمُ الزام باقی نہ رہے فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوني ان ظالموں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو.یہ حکم میں نے اس لئے دیا ہے کہ تم پر لوگوں کا الزام نہ رہے تا کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کردوں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ آگے پھر وہ كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ايتنا اسی طرح جس طرح ہم نے تم میں تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے.پس جب میں اس قدر فضل کرنے والا ہوں تو تم مجھے یاد رکھو، میں بھی تمہیں یاد کرتا رہوں گا اور میرے شکر گزار بنواور میری ناشکری نہ کرو اس میں لمبی تفصیل بھی ہو سکتی ہے لیکن اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہی چار مقاصد لے کے مبعوث ہوئے.اعلان کیا گیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں جن چار مقاصد کا ذکر تھا ان مقاصد کے ساتھ مبعوث ہو گئے.اور اس دعا کے ساتھ تعلق ہے تبھی کہا ہے ناں شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا ذکر کر کے اور واضح اشارہ کر دیا کہ اس کے ساتھ تعلق ہے.باقی جو ہیں پوائنٹس وہ میں چھوڑتا ہوں پھر چار جگہ یہ ذکر ہے چوتھی جگہ سورہ جمعہ میں ہے یہ اتفاق ہوا ہے 141 کہ میرے کہے بغیر آج قاری صاحب نے وہی سورۃ جمعہ کی آیات پڑھ دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَمَن

Page 178

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۷۲ سورة البقرة b اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللهِ وَمَاونَهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (ال عمران : ۱۶۳) کہ وہ شخص جو اللہ کی رضا کے پیچھے چلتا ہے یعنی جو خدا چاہتا ہے وہ کرتا ہے کوئی ایسا کام نہیں کرتا کہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہوگا، ہر وہ کام سمجھتا ہے کہ اللہ خوش ہوگا اللہ کو خوش کرنے کے لئے وہ مارے حصے نید کام کرتا ہے.پھر میں سارے حصے نہیں لے رہا اس کے بعض چیزیں لے رہا ہوں آپ کو بات سمجھانے کے لئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُم دَرَجتْ عِنْدَ اللهِ ( ال عمران : ۱۶۴) وہ جماعت وہ اُمت مسلمہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدا کی خواہش کے مطابق اس کی ہدایت کی اتباع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں، اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہیں.هُمْ دَرَجتُ عِندَ اللهِ وہ ایک جیسے درجات رکھنے والے نہیں وہ مختلف درجات رکھنے والے لوگ نہیں اور وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ اور یہ جو چھوٹا درجے کا مومن خدا کا پیارا لیکن درجے میں بڑا کم اس سے ذرا اوپر ، اس سے ذرا اوپر سب سے اوپر یہ جو ہے یہ اس لئے نہیں ہے بڑا کہ ویسے ہی فیصلہ کر لیا بغیر کسی حکمت اور دلیل کے بلکہ واللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ہر شخص نے اپنے اعمال کے مطابق ثواب حاصل کرنا اور ایک مقام کو ، ایک رفعت کو حاصل کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ والله بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ہے اور وہ عالم الغیب ہے وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق ، اس کے خلوص کے مطابق، اس کی نیت کے مطابق ، ثواب دے گا اور اسی کے مطابق اس کا ایک درجہ ہوگا.سارے ایک درجہ کے نہیں ہیں بلکہ ترجیحات ہیں کچھ لوگ خدا کو بہت پیارے، کچھ لوگ اس سے کم پیارے، کچھ لوگ اس سے کم پیارے لیکن سارے کے سارے ہی خدا کے پیار کی جنتوں میں جانے والے ہیں پھر فرمایا کہ اے وہ لوگوں جو ہمارے اس رسول پر ایمان لائے اور جس کے نتیجہ میں تم نے اپنے عقائد کو درست کیا اور اعمال صالحہ بجالائے اور وہ درجے درجے میں تقسیم ہوئے لیکن میری رضا کی جنتوں میں تم داخل ہوئے.لَقَد مَنَ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۶۵) ایسے مومنوں جنہوں نے اس طرح میرے پیار کو حاصل کیا ہے تم پر خدا کا احسان ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ہدایت پانے کی خدا کا پیار حاصل کرنے کی خدا کی رضا کی جنتوں میں جانے کی توفیق عطا کی.تمہارا احسان نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور نہ خدا تعالیٰ پر ہے ایک جگہ فرمایا خدا نے لَا تَمُنُّوا عَلَى اِسْلَامَكُمُ ( الحجرات : ۱۸).احسان نہ جتاؤ مجھ

Page 179

۱۷۳ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالثة پر کہ ہم مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہونے کے بعد جن قربانیوں کا اور جس شر کا اور جس تکلیف کو برداشت کرنے کا اور جس قسم کا جگراتا کرنے کا اور دن کے اوقات میں روزے رکھنے کا اور بھوکے رہنے کے متعلق کئے گئے تھے یہ ہم نے کسی پر احسان کیا لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اور وہاں کہا لا تمنوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ : بَلِ اللهُ يَمُنُ عَلَيْكُمْ (الحجرات : ١٨) - خدا کا احسان ہے تم پر اگر تم اس دعوی میں سچے ہو کہ تم واقعہ میں مومن اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہو تو خدا کا احسان ہے اپنے زور سے تم ایسا نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر یہ ہدایت نہ نازل ہوتی اور اگر اتنی عظیم تعلیم نہ آتی اگر اتنی بشارتیں ساتھ نہ لاتی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وعدے نہ دیئے جاتے کہ تیری اُمت کے وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ میری محبت کو میرے پیار کو، حاصل کر لیں گے.تو پھر کہاں سے تم پاتے یہ سب چیزیں فرما یا لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ خدا تعالیٰ نے ان مومنوں پر احسان کیا اِذْ بَعَثَ فِيهِمُ کہ جب ان میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہی میں سے ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ وہی چار مقاصد آگئے جو خدا تعالیٰ کی آیات ان کے اوپر پڑھتا ہے وہ کھول کے ان کے سامنے بیان کرتا ہے اور سمجھاتا ان لوگوں کی طبیعتوں پر اثر پیدا کرتا ہے خیر کل جو ہے اس کو وہ قبول کرو اور اس سے استفادہ کرے اور خالی یہ نہیں کہتا، کرو، بلکہ بتاتا ہے اگر ایسا کرو گے تمہیں فائدہ ب وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ اس میں ایک اور چیز بڑی زائد آگئی کہ وہ باتیں بتا تا ہے جو تمہیں پہلے پتا نہیں تھیں.اگر چہ تم یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے پہلے، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ پر شریعت قرآنیہ نازل ہوئی ایک عظیم کتاب اور بحر بے کنار جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اتنے علوم اس میں بھرے ہوئے ہیں آگے ہی ، کہ ہر ایک نے اپنی ہمت کے مطابق غوطے لگائے ہر ایک نے اپنی صلاحیت کے مطابق، اس سمندر کی تہہ سے بڑے قیمتی موتی اور جواہرات نکالے خدا کا احسان ہے اگر یہ نہ ہوتا تو تم خدا کے پیار کو حاصل نہ کر سکتے ، اس کی ترتیب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں ترتیب یہ رکھی تھی تو ایسا رسول آئے جو ان کو تیری آیات ج ورسووو پڑھ کر سنائے پہلے آیات و يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب پھر کتاب کا ذکر و الحكمة پھر حکمت کا ذکر اور اس کے بعد چوتھی بات حضرت ابراہیم کی دعا میں تزکیہ نفس کا ذکر لیکن جو قبولیت دعائے ابراہیمی ہے اس میں اس ترتیب کو بدل دیا گیا اور اس میں یہ کیا گیا کہ آیات پڑھ کے سنائے اور ان کا تزکیہ کرے.پھر

Page 180

۱۷۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کتاب سکھائے اور حکمت سکھائے اور اس میں علاوہ اور بہت سارے مضمون کے جن سے قرآن بھرا پڑا ہے ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو ترتیب اختیار کی اس وقت کی ہدایت، آسمانی ہدایت اسی ترتیب کو چاہتی تھی اس وقت کی آسمانی ہدایت کیونکہ تزکیہ نفس پر ساری کوشش ختم ہو گئی ابدی ترقیات کا وعدہ نہیں تھا ان کو الکتاب کامل کتاب اُو تُوا نَصِيبًا مِّنَ الكِتب ایک حصہ دیا گیا تھا.اس واسطے ان کی روحانی ترقیات اور دوسری خیر جوان ہدائتوں کے ذریعے سے ان کو ملتی تھی وہ ایک جگہ پر ختم ہو جاتی تھی ابدی طور پر نہ ختم ہونے والی ترقیات ہمیشہ بڑھتے رہنے والا ہر آن بڑھتے رہنے والا اللہ تعالیٰ کا پیار یہ وعدہ ان ہدایتوں ان شریعتوں میں نہیں دیا گیا تھا.اس واسطے ان کے نزدیک کمال جو ہے وہ تزکیہ نفس ہے اور اسی ترتیب سے انہوں نے ذکر کر دیا لیکن جو ہدایت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آئی وہ نہ ختم ہونے والی ترقیات، نہ ختم ہونے والے انعامات ، ہمیشہ مسلسل بڑھتے چلے جانے والے اللہ تعالیٰ کے انعام کا وعدہ اس کے اندر ہے اور لیکن جو نشان ہیں ، سکتے ، وہ صرف چار ہیں آیات سے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میں ترتیب لیتا ہوں آیات ہیں اور کتاب ہے اور حکمت ہیں اور تزکیہ نفس ہے.یہ چارہی ہے ناں.وہاں آکے ان کی شریعت ترقیات کو ختم کر دیتی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ختم ہونے والی ترقیات ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے والی.تو یہ چار جو ہیں پوائنٹ ( نکتے ) اس میں تو محدود بن جاتے ہیں یعنی جب چوتھے پہ پہنچیں گے تو پانچواں نہیں آئے گا لیکن اگر چکر چلے تو پھر نہ ختم ہونے والا بن گیا اور چکر اس طرح چلا یہ میں آپ کو بتاتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے اس کو مختصر اشروع میں بیان کیا تھا ھدی للمتقین جو تقی ہیں ان کے لئے بھی ہدایت ہے متقی بناتی بھی ہے متقیوں کو مزید ہدایت دیتی ہے.پھر پہلے سے بڑا ایک بڑھ کر متقی بن جاتا ہے انسان.پھر جب بڑھ کر متقی بن جاتا ہے بڑھ کر انعام حاصل کرتا ہے.جب بڑھ کر انعام حاصل کرتا ہے جو اس کی صلاحیت ہے وہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ اسے پہلے کی نسبت زیادہ ہدایت نصیب ہو، پھر اس کو جب زیادہ ہدایت نصیب ہوتی ہے زیادہ تزکیہ نفس نصیب ہوتا ہے زیادہ تزکیہ نفس ہوتا ہے زیادہ پیار ملتا ہے، جب زیادہ تزکیہ نفس ہوتا تو پھر ، وہ حقدار ہو جاتا ہے ہدایت اس کو اور ملے تو اس تسلسل کی وجہ سے جو ایک دائرہ ہے چھوٹا ہو یا بڑا جب اس کے گرد آپ چکر لگائیں وہ نہ ختم ہونے والی حرکت ہے ہماری عقل کہتی ہے.بے شک

Page 181

۱۷۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث پنسل سے لگا کے دیکھ لو اپنے کاغذوں کے اوپر ختم ہی نہ ہوگی ختم تو وہ ہوتی ہے جو ایک جگہ آگے آگے ختم ہو گئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دماغ میں جس شریعت کا تصور تھا اپنی ، وہ وہ تصور تھا ایک نَصِيبٌ مِّنَ الكتب كامل کتاب کا ایک حصہ ہے ان کے پاس اور آیات ہیں آسمانی نشان ہیں پھر ہدایت ہے چھوٹا سا، اس کی تھوڑی بہت حکمت بھی بیان کی گئی ہے، اس طرح کی نہیں لیکن کچھ نہ کچھ ہے ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ہے کامل سمجھ کامل فراست کے مطابق نہیں.پھر اطمینان مل گیا پھر ختم ہو گیا وہ شخص اپنی استعداد کی انتہا کو پہنچ گیا.اُمت مسلمہ میں کوئی شخص بھی اپنی وقتی استعداد کی انتہا کو پہنچنے کے بعد وہاں ٹھہرتا نہیں کیونکہ جو وقتی استعداد تھی اللہ تعالیٰ کا فضل اس استعداد میں شدت اور وسعت پیدا کرتا ہے اور مزید ہدایت کے قبول کرنے کے سامان پیدا کرتا اور مزید فضلوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیتا ہے،اسباب پیدا کر دیتا ہے.دوسری تین جگہ جہاں آیا ہے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جہاں آیا ہے کہ خدا نے وہ رسول مبعوث کر دیا کہ جس کے لئے دعا مانگی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور جو وہ چار مقاصد لے کے آ گیا جن چار مقاصد والے رسول کے لئے دعامانگی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہ تو ایسا رسول ہے، فرق کر دیا پہلے سے کہ جس کے متبعین جو ہیں وہ غیر محدودترقیات کے وارث بن سکتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت شامل حال ہو.......حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تزکیہ نفس آخری پوائنٹ پر ختم کر دیا تھا.شریعت محمدیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمہ وقت نازل ہونے والے فرزند کے نتیجہ میں اس چکر کی وجہ سے ہمیشہ ترقیات، ابدی ترقیات کا حصول ممکن ہو گیا اور ترتیب کا بدلنا ضروری ہو گیا.جیسا کہ میں نے کہا اس میں جو آل عمران ہے اس میں (چیک کرلوں ) یہ جو میں نے بتایا ناں فرق جو ہے یہ اس وجہ سے ہے اس کو خود الفاظ میں بھی ظاہر کیا ہے تینوں جگہ دوسری جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کا ذکر ہے ان تینوں جگہ پہ ہے کہ تمہیں وہ دیا جاتا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے.یہی میں نے بتایا ہے ناں.تزکیہ آپ آتا ہے پھر وہ چیز دی جاتی ہے جو پہلے ان کے پاس نہیں تھی پھر ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، پھر ایک نیا دور شروع ہوتا ہے کیونکہ ہر دور کے بعد يُعلمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اور وَإِنْ

Page 182

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة البقرة كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَللٍ مُّبِينٍ ( الجمعة : ۳) اور جو چوتھی قرآن کریم کی ترتیب میں بھی آخری موقعے پر یہ دوہرائے گئے ہیں چار مقاصد وہ سورہ جمعہ ہے.یہ جو ابدی ترقیات کا حصول ممکن ہونا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں یہ خیال گزرسکتا تھا کہ یہ انفرادی طور پر ہوتا ہے اور اس کا ذکر کیا گیا ہے لیکن سورۃ جمعہ میں امت محمدیہ کے لئے ، اُمت محمدیہ بحیثیت امت محمد یہ ان دائروں میں سے گزرتی چلی جائے گی.سمجھ نہیں آئے گی ان کو اور دنیا کے بدلے ہوئے حالات میں جو فضل اخَرِينَ مِنْهُم پر نازل ہوں گے وہ بعض پہلوؤں کے لحاظ سے اس میں کہیں خلط کر جائیں کیونکہ پہلوں کو جو ملا ہے.وہ بڑا عظیم تھا.وہ بے حد عظیم تھا لیکن بعض پہلوؤں کے لحاظ سے ہر آنے والی نسل پہلوں سے کچھ زیادہ فضل بھی لے رہی ہے اس لئے چودہ سوسال جو گزرے اس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر صدی نئے مسائل لے کر آتی ہے جب ہر صدی نئے مسائل لے کر آئی ہے تو ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جو بطون قرآنی ہیں اور قرآن کریم کے بطون ہر چار چیزوں سے تعلق رکھنے والے ہیں یعنی آیات جو پہلے ظاہر نہیں ہوئیں وہ ظاہر ہونی شروع ہو ئیں کتاب کے معنی جو یعنی اصول اور فلسفہ مثلاً اشتراکیت کے مقابلے میں ہی جا کے بات کرتا ہوں پہلوں کو ضرورت ہی نہیں تھی قرآن کریم کی آیات سے اس استدلال کی جو مجھے آج ضرورت پڑ گئی، میرے رب نے مجھے وہ سکھا دیئے اور حکمت اور حکمت تو اب بہت پوچھتے ہیں جب نیا مسئلہ ہوگا نئے معنی ہوں گے تو نئی حکمت بھی بتانی پڑے گی اور اگر ان تین کے نتیجہ میں نیا تزکیہ ہوگا تو وہ پہلوں سے بہر حال مختلف ہوگا اور پہلے تو معروف ہیں یعنی ہر شخص جانتا ہے تو یہاں کچھ زیادہ مل گیا لیکن اپنی عظمت اور شان کے لحاظ سے وہ جو دیوانہ وار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومے اور جنہوں نے آپ کی جسم کی بھی حفاظت کی اور آپ کے پیغام کی بھی حفاظت کی ان کے رہتے تو بہت بلند ہیں، اس لئے بھی کہ اس وقت سے لے کے آج تک ہم ان پر بھی درود بھیج رہے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے وقت اور ہماری دعائیں چودہ سو سال کی قبول ہونے والی دعائیں جو ہیں انہوں نے ان کی رفعتوں کو بلند کر دیا ہے اس لحاظ سے وہ بلند ہیں بعض دوسرے پہلوں سے آنے والے زیادہ تزکیہ نفس حاصل کر لیتے ہیں.بہر حال ان کا مقام ، آنے والوں کا مقام آنے والوں کا مقام ، سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے وہ بادشاہ ہے ہر چیز اس کی

Page 183

122 سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث بادشاہت اور اس کی پاکیزگی اور اس کے غلبہ اور اس کے حقیر ہونے کا اظہار کر رہی ہے.وہ جو ہر زمانے میں نئے سے نئے علوم قرآن کریم سے نکلتے ہیں اس میں بھی خدا تعالیٰ نے جو کہا وہ میں بتا دیتا ہوں آپ کو اِنَّه لَقُرْآن كَرِيمُ فِي كِتَب مَكْنُونٍ لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ العلمين (الواقعة : ۷۹ تا) نئے علوم جو ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم رب العالمین کی طرف سے آئی ہے تا کہ ہر زمانے کے مسائل کو حل کر دے اور رب العالمین ہے صرف پہلے زمانوں کا رب نہیں تھا بلکہ قیامت تک کے لئے ہر زمانے کا وہ ربّ ، ہر زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس نے قرآن عظیم کو نازل کیا ہے.اس واسطے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ جو بادشاہ بھی ہے اور پاکیزگی مجسم اور پاکیزگی کا سر چشمہ اور منبع اور سب خوبیوں کا جامع اور غالب اور حکمت والا اور قرآن کریم کو ہر زمانہ کے لئے نئی سے نئی حکمتوں سے معمور کر دینے والا ہے، هُوَ الَّذِي بَعَثَ في الأمتينَ رَسُولاً مِنْهُم اللہ تعالیٰ کے متعلق پہلی آیت میں ذکر کا یہ اعلان کیا وہ اللہ جس کی تسبیح کر رہے ہیں مَا فِي السّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وہ خدا جو بادشاہ بھی ہے، پاک بھی، سب خوبیوں کا جامع بھی ہے، غالب اور حکمت والا بھی اس خدا نے بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ اُمیوں میں سے ہی ! دنیوی لحاظ سے ان پڑھ لوگوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کے بھیج دیا اُٹی میں سے رسول اور رسول وہ جو رسولوں کا سرتاج جو خاتم الانبیاء جس کے سامنے ہر ایک نے ہر آن گزشتہ پہلے نبی نے اس کی عظمت کا اقرار کیا اور اس کے مقابلے میں اپنے لاشئے ہونے کا اقرار کیا.اس اُمّی کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا اور آپ پہ جو کلام نازل ہوا اس کا ایک کامل اور مکمل ہونا اور اتمام نعمت کرنے والا ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہ کلام جو ہے اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جو اس کی تسبیح کر رہی ہے، ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو بادشاہ بھی ہے پاک بھی ہے پاکیزگی کا سرچشمہ بھی ہے.غلبہ کا مالک بھی ہے اور ہر ایک کو اسی کا غلبہ عطا ہوتا ہے وہ حکیم بھی ہے حکمت والا بھی ہے اس کی تعلیم حکمتوں سے بھری ہوئی اس کے نیک بندے اس معنوں میں حقیقی تھے نئے ضرورتوں میں نئی حکمتیں سیکھتے اور دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی عظمتوں کو بیان کرتے اور اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اس کی عظمت کے نعرے لگانے والے ہیں.

Page 184

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث 12A سورة البقرة دو ان آیات میں جو پہلی آیت ہے يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ب وَآخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کہ یہ ایک نسل یا ایک صدی یا صرف ایک محدود زمانہ کے اندر اس کی برکتیں اور اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں اور اس کے پاک کرنے اور تزکیہ کرنے کی قوت جو ہے اور اس کا حسن جو ہے وہ ختم نہیں ہو جائے گا کیونکہ اس خدا کی طرف سے اُمّی کے اوپر نازل ہوا ہے، ایک اور جماعتیں اس میں شامل ہوتی رہیں گی.وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور آخرین میں بھی ایک جماعت ہے جو انہیں کے ساتھ ، پہلوں کے ساتھ صحابہ کے ساتھ جاملے گی اور ان کے سپرد جو کام ہوگا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ان کی کامیابیاں غلبہ اسلام کی جدو جہد اور جہاد میں دنیا پر یہ ثابت کریں گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا کلام غالب ہستی کی طرف سے نازل ہوا اور اس ہستی کی طرف نازل ہوا جو حکیم ہے حکمت والا ہے اور حکمت سکھانے والا ہے پھر جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ جب یہ آخرین پیدا ہو جائیں گے تو دنیا میں ایک طمانیت اٹھے گی ، یہ ذلیل لوگ یہ غریب لوگ یہ بے سہارا لوگ یہ بے بس لوگ یہ بے مایہ لوگ جن کی کوئی قدر نہیں ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں اس میں کوئی دلچسپی بھی نہیں.انہیں کو چنا تھا خدا نے.اسی واسطے یہاں امتین کا لفظ پہلے پڑھایا گیا کہ جس طرح امتین میں سے ایک کو چنا اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنا دیا اسی طرح وہ عزیز اور حکیم خدا آخرین میں سے ایک کو چنے گا اور اسے مہدی بنا دے گا اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم روحانی فرزند بنادے گا اور اس حقیر جماعت دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت سے خدا جو قدرتوں والا خدا ہے کام لے گا تا کہ انسان کا دل شیطانی امور سے نہ بھر جائے بلکہ ہر نفس اپنے گریبان میں جھانکے اور اعلان کرے کہ میں خدا کا عاجز بندہ مجھے خود پتا نہیں کہ یہ انقلاب کیسے اور کیوں بپا ہورہا ہے لیکن خدا تعالی کا منشا یہ ہے کہ بپا ہو اور اسلام غالب آئے خدا تعالیٰ نے بشارت دی تھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وہ زمانہ آ گیا ، وہ حالات پیدا ہو گئے ، انقلاب پہ انقلاب، انقلاب پر انقلاب دیکھنے والی آنکھ دیکھتی ہے کم از کم پندرہ سولہ سال سے کچھ تھوڑا بہت دھند لکا سا تھا پہلے بھی، میرے دماغ میں.ہر تبدیلی انسانی زندگی میں اس لئے آرہی ہے کہ آخر کار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو ہے وہ انسان پر ظاہر ہو اور وہ تبدیلیاں ہم کر رہے ہیں تم کر رہے ہو کون کر رہا ہے ہمارے مرد کر رہے ہیں عورتیں کر رہی ہیں خدا کر رہا ہے خدا کے فرشتے جو انسان کو نظر نہیں آتے وہ آسمانوں

Page 185

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة البقرة سے نازل ہوتے اور دلوں میں تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں وہ لوگ جن کی زبانیں اسلام کو برا بھلا کہتے تھکتی نہیں تھیں ان کی آنکھوں سے آنسوؤں سے خود میری آنکھوں نے اسلام کی تعریف سننے کے بعد آنسو ٹپکتے دیکھے ہیں.یہاں پہلی بات پہلا مقصد یہ بتایا گیا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ البتہ یہ جو آیات ہیں یہ خانہ کعبہ کا مقصد بھی ہے ای بینت چوتھی غرض میں نے بتائی تھی ایسے بسنت اور میں نے بتایا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ سے ظاہر ہونے والا نور ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گے آسمانی نشانوں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولا گیا ہے فرمایا بَلْ هُوَ ایتا یہ دوسری آیت ہے قرآن کریم کی بَلْ هُوَ ايْتَ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلم کہ قرآن کریم کا حقیقی علم رکھنے والوں کے سینوں کے اندر ایک بینت ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ان کے سینوں میں پیدا ہوئیں اور ہر لحظہ وہاں سے نکلتی اور دنیا کو عظمت قرآنی اور عظمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہی ہیں.آیت کے معنی ہیں يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ آیات کا مفرد ہے الا یہ اور اس کے معنی لغت میں لکھے ہیں هِيَ الْعَلَامَةُ الظَّاهِرَةُ ظاہری علامت، ہر وہ ظاہری چیز ، ظاہری علامت جس کے ذریعے کسی دوسری خفی چیز کا پتہ لگے، ایک معنے اس کے یہ ہیں اور دوسرے یہ جو آیات ہیں، آیات وہ عقلی امور ہیں جو خدا کی ذات یا صفات کی نشاندہی کرتی ہیں ان کی طرف راہنمائی کرنے والی ہیں ان میں دلائل عقلیہ بھی آتے ہیں وہ بھی آیت بنتی ہے دلائل عقلیہ جو قرآن کریم میں زبردست عقلی دلائل ہیں ان کو بھی قرآن کریم کی زبان میں آیت کہا گیا ہے.قرآن کریم کی ہر آیت ، آیت کہلاتی ہے ناں.ہم کہتے ہیں اس سورۃ کی اتنی آیات، اتنی آیات، جو دلائل عقلیہ ، جو خدا تعالیٰ کی معرفت عطا کرنے والی ہیں.اسی طرح آیات سے وہ آسمانی نشانات اور معجزات مراد لئے جاتے ہیں جو اپنے پاک بندہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا اور ان کے نتیجہ میں انسان کی ہدایت کے سامان پیدا کرتا ہے.آسمانوں اور زمین کی پیدائش کو بھی ، یہ یادرکھیں بہت سارے لوگ اس چیز کو بھول جاتے ہیں، آسمانوں اور زمین کی پیدائش حرکت اور زمانہ کو بھی آیت کہا گیا قرآن کریم میں ، یعنی سورج کی پیدائش یہ آیت اللہ ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے سورج نہیں بنایا تو تم نے بنا یا کسی اور نے بنایا.کون ہے دعوی کرنے والا کہ میں نے جا کے سورج کو بنادیا تھا.

Page 186

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۸۰ سورة البقرة جو چیز بھی اس کا ئنات میں، اس مادی دنیا میں اور جو غیر مادی ہے اس میں بھی ظہور پذیر ہوتی ہے جو عدم سے وجود میں ظاہر ہوتی ہے یعنی پہلے نہیں تھی ہو گئی ، وہ آیت ہے......والكتب یہ جو کتاب ہے یہ تو مضمون ویسے ساری دنیا کو ہی اپنے اندر سمیٹنے والا ہے قرآن کریم کی تعلیم جو ہر شعبہ زندگی کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے متعلق حکم دیا قرآن کریم نے یا قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے.مثلاً کھانا، کتنے لوگ ہیں شرم آتی ہے مجھے آپ سے بھی پوچھتے ہوئے کہ آپ سے آپ تو بڑے آگے نکل گئے دین میں لیکن ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے جو کھانے کے متعلق کی سوچتے ہیں کیا ہمیں تعلیم دی اتنی چھوٹی بات که كُل يييييك وكُل مِمَّا يليك اس وقت تھال میں سارے کھاتے تھے کہا دائیں ہاتھ سے کھا اور جو سامنے تیرے کھانا پڑا ہوا ہے پرات میں اسی میں سے لقمہ لو ادھر ادھر بوٹیوں کی تلاش نہ کر دوسرے کو متلی شروع ہو جائے گی.یعنی اس کو با اخلاق با ادب بنایا دوسرے کو گھن کی تکلیف سے بچایا بڑے احسان کئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ پر.پہلے اس سے کہہ دیا تھا کہ گندے ہاتھ لے کے.مثلاً آدمی ورکشاپ میں کام کرتا ہے کوئی اعتراض کی بات نہیں گریس لگی ہوئی ہوتی ہے موبل آئل لگا ہوا ہے موٹر ورکشاپ میں اور اسی طرح ہاتھ دھوئے بغیر آکر وہ خوراک والے شوربے میں سے بوٹیاں یا لقمے لینے شروع کر دے دوسرے آدمی کو گھن آئے گی.کہا ہاتھ دھو پہلے آئے.پاکیزگی کے متعلق اتنی تفصیل سے تعلیم دی گئی ہے جسم کے حصے ہیں میں نے اسی مضمون کے سلسلے میں بہت سارے حوالے نکلوالیا کرتا ہوں.وقت کے لحاظ سے مجھے پتا ہوتا ہے کام نہیں آئیں گے علم بڑھ جاتا ہے زبان کی پاکیزگی ، اب زبان کی پاکیزگی کئی طرح کی ہے کتاب کے متعلق یعنی جو تعلیم قرآن کریم نے دی الکتب ہے ناں اس کی تفاصیل بتا رہا ہوں ، جھوٹ نہ بول، ہر وقت بیچ نہ بول، موقع اور محل کے مطابق بات کر محض سچ نہیں بولنا بلکہ قول سدید کرنا ہے بعض آدمی اس طرح سچ بولتے ہیں وہ تھوڑا سا پیچ دار بھی کر دیتے ہیں اس کو یہ نہیں کرنا اور طبیب کہنا ہے اور قول حمید یعنی ایسی بات کہو منہ سے نکالو اپنے ، معاشرے میں، کہ دنیا تمہاری تعریف کرے منگا لے کر تمہارے پیچھے نہ پڑے ایسے بھی سچ ہیں جو غصہ دلا دیتے ہیں اگلے آدمی کو کیوں دلاتے ہو غصہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے منع فرمایا ہے.یہ زبان کی پاکیزگی چل رہی ہے دھونے کے علاوہ کسی کی چغلی نہیں کرنی، کسی کی

Page 187

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۸۱ سورة البقرة غیبت نہیں کرنی ، زبان سے کرتے ہیں ناں آپ کسی پر تہمت نہیں لگانی، کسی کو گالی نہیں دینی ، کسی کو زبان سے ایذا نہیں پہنچانی ، دکھ نہیں دینا وغیرہ وغیرہ.اتنی تفصیل میں گئی ہے شریعتِ اسلامیہ اور کوئی فلسفے تو نہیں ہیں جن کو سمجھانے کے لئے کسی بہت بڑے فلاسفر کی ضرورت ہو اور آپ کو سمجھنے کے لئے مہینوں کی ضرورت ہو.......اور آپ کی تعلیم چار حصوں میں تقسیم ، جن میں سے دو کے متعلق مختصراً میں نے کہا ہے اور تیسری چیز ہے حکمت اس کے بڑے پہلو ہیں.قرآن کریم کے ہر حکم میں، میں ایک دو بنیادی حکمتیں ہیں وہ بیان کرنے لگا ہوں ہر حکم جو ہے اس کے اندر اعتدال کے پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے تاکہ انسان تھک نہ جائے اور دلبرداشتہ نہ ہو جائے، اعتدال کا پہلو مثلاً کھانے پینے کے متعلق اعتدال کا حکم، روزہ رکھنے کے متعلق اعتدال کا حکم، ایک تو یہ کہ ہر روزہ مہینے کے سارے دنوں کے چوبیس گھنٹے کا روزہ نہیں بلکہ دن کا روزہ رکھا ، تو دن اور رات میں ایک اعتدال پیدا کر لیا جو دن کی جسمانی کوفت تھی یا جسمانی تکلیف تھی یا جو جسمانی طور پر روز مرہ کی عادت میں فرق پڑا تھا عام طور پر لوگ کھانا کم نہیں کرتے ، میں نے بڑا مطالعہ کیا ہے کچھ زیادہ ہی کھا لیتے ہیں مثلاً جو لوگ رمضان سے باہر پر اٹھا نہیں کھاتے وہ رمضان میں کھا لیتے ہیں باقاعدہ بھی کے ساتھ، قطع نظر اس کے فوائد اس کے پھر بھی ہیں اس بحث میں نہیں میں اس وقت پڑتا......جب طبعی قوتوں کو موقع محل اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے وہ اخلاق فاضلہ بن جاتے ہیں.پھر پاکیزگی ہے، پاکیزگی کے متعلق دو باتیں اصولی بیان کیں ایک انسان کو یہ کہا فلا تركوا اَنْفُسَكُم (النجم : ۳۳) اپنے آپ کو پاک نہ کہا کرو گنہگار ہو جاؤ گے غرور پیدا ہو جائے گا شیطان کی گود میں چلے جاؤ گے ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کبھی جوش میں آئے نہ کہو میں بڑا پاک، میں بڑا ولی میں بڑا یہ میں بڑا وہ ہر شخص خدا کے حضور ایک عاجز وجود ہے اور جس چیز کو اسلام پاکیزگی کہتا ہے وہ یہ لپ سٹک اور سرخی کلوں پر لگانے کا نام نہیں ہے ظاہری آنکھ نے جسے دیکھنا ہے اس کا دل سے تعلق ہے قرآن نے کہالا تُرَكُوا انفسکم دیکھ بھی اپنے آپ کو پاک نہ کہنا هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : ۳۳) اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں ہے.جب یہ کہا کہ خدا کو ہی علم ہے کہ کون پاک اور کون نہیں اور کون مطہر اور کون نہیں کون متقی اور کون

Page 188

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۸۲ سورة البقرة نہیں تو پھر انسان کو تو تبھی پتا لگے گا، جب خدا بتائے گا کسی استاد سے اس کی سند نہیں لے سکتے قرآن کہتا ہے نہیں نہیں هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی اللہ کو پتا ہے یہ بھی استاد کو نہیں پتا کسی مجسٹریٹ سے لے کے جاکے کوئی پرانا کا غذ جو ہے اس کی تصدیق اور ثبوت مہیا نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے سامنے، گواہوں کے ساتھ ، کیونکہ گواہ بھی نہیں دے سکتے کہ کیا بات ہے اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں پاک اور متقی ہوگا خدا تعالیٰ خود اس کے متقی اور پاک ہونے پر گواہی دے گا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جو میری نگاہ میں پاک اور مطہر ہوں میں ان کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتا ہوں.ایک جگہ فرمایا إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ( حم السجدة : ۳۱) جنہوں نے کہا کہ رب حقیقی ہمارا اللہ تعالیٰ ہے ہم ہر قسم کی ربوبیت اور نشوونما کے لئے اس کے محتاج ہیں اسی سے مانگیں گے اسی سے لیں گے وہ دے گا تو ہماری نشو و نما ہوگی ورنہ نہیں ہوگی ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر وہ اپنے ا اس عہد پر سختی سے قائم رہتے ہیں استقامت سے قائم رہتے ہیں تتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ان کے پاس بھیجتا ہے انہیں تسلی دیتا ہے خوف کے اوقات میں، ان کو نسلی دیتا ہے جس وقت کوئی کوتاہی اور غفلت ہو جائے اور وہ بے چین ہوکر خدا سے تو بہ اور استغفار کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کی تو بہ اور استغفار قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں اور بے چینی میں ان کے اوقات گزر رہے ہوتے ہیں آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں لا تَحْزَنُوا غم نہ کرو خدا نے تمہیں معاف کر دیا.آسمانی نشانوں کے ساتھ وہ ان کی پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے اس نے قرآن کریم کی عظمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا تھا لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ( الواقعة: ۸۰) که قرآن کریم کا فہم وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو پاک اور مطہر ہو کیونکہ یہ پاک کا کلام ہے اور پاک کے سینے میں ہی یہ نور پیدا کر سکتا ہے.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۳۰ تا ۴۵۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک الہامی دعا سکھائی گئی اور آپ نے وہ دعا خود بھی کی اور اپنی نسل سے بھی کروائی.جو یہ تھی کہ اے ہمارے ربّ! انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب سکھائے اور حکمت اور دلائل سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو ہی غالب ہے اور

Page 189

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۸۳ سورة البقرة دو تیری قدرتوں کا مظاہرہ حکمت کی بنیاد پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کروائی اسے قبول بھی کرنا تھا اور قبول کیا اور اس کا اعلان قرآن کریم میں کیا گیا ، سورۃ جمعہ میں کہ وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی قوم میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو اُن کو خدا کی آیات سناتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُن کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے الفاظ کی ترتیب ان دو آیات میں بدلی ہوئی ہے اور جس میں حکمت ہے کیونکہ قرآن کریم ، قرآن حکیم ہے حکمت بتاتا اور دلیل دیتا ہے.جو قبولیت دعائے ابراہیم کا اعلان ہے اور جس آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الأقمان میں بھی انہیں میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے عظیم آیات دے کر مبعوث کیا ويزكيهم تا کہ وہ ان آیات کے نتیجہ میں حصول تزکیہ نفس کی راہ پر چلنا شروع کر دیں.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب اور تزکیہ نفس کرتے ہوئے جو عظیم شریعت قرآن کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعہ سے اس قوم کو دی گئی ہے اُس کا علم زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے لگیں اور اس کی حکمتیں سیکھنے لگیں اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ نشانات کے ذریعے قبول ہدایت کا سامان پیدا ہوا اور ایک حد تک تزکیہ ہو گیا لیکن قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) کہ اس کے علوم حقیقی حقیقی طور پر وہی سیکھ سکتے اورسمجھ سکتے ہیں جن کے اندر تزکیہ نفس پایا جائے تو آیات کے نتیجہ میں ایک حد تک تزکیہ نفس پیدا ہو گیا اور تزکیہ نفس کے نتیجہ میں قرآنی علوم پہلے سے زیادہ انہیں ا حاصل ہوئے اور قرآنی آیات اور تعلیم کی حکمتیں پہلے سے زیادہ ان کی سمجھ اور فراست اور عقل میں آئیں جس کے نتیجہ میں ان کا تزکیہ ترقی کر گیا اور اس راہ پر وہ آگے بڑھ گئے مزید تزکیہ کے حصول کے بعد انہیں قرآن کریم کے چھپے ہوئے مزید بطون حاصل ہوئے حکمتیں انہوں نے پائیں اور تزکیہ نفس اور آگے بڑھ گیا زیادہ طہارت اور پاکیزگی انہیں حاصل ہوئی اور اس کے نتیجہ میں قرآنی علوم اور زیادہ انہیں ملے اور کیونکہ قرآن کریم کے علوم غیر محدود ہیں اس لئے اُمت محمدیہ کے لئے غیر محدود ترقیات اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کی راہیں کھول دی گئیں.(خطابات ناصر جلد دوم صفحہ ۵۱۳ و ۵۱۴)

Page 190

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۸۴ سورة البقرة آیت ۱۵۱، ۱۵۲ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُم حُجَّةُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَبُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَونِي وَلِأَئِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا (۱۵۱ ق عليكم ايتِنَا وَيُزَرِّيكُمُ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَم (۱۵۲ b تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو.تمہیں اپنی زندگی کا یہ مقصد کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تمہاری بہتری کے تمام سامان اور تمہارے مقاصد کی یاد دہانی کرانے والی ساری علامتیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد حرام یعنی بیت اللہ سے تعلق رکھتی ہیں.کچھ عرصہ ہوا میں نے بیت اللہ پر متواتر کئی خطبات دیئے تھے جو چھپ چکے ہیں.ان خطبات میں میں نے بتایا تھا ( اور جن کے بتانے کا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن ملا تھا) کہ مسجد حرام کے ساتھ سیکس مقاصد وابستہ ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مکان کے لحاظ سے یا زمان کے لحاظ سے دونوں پہلو اس کے اندر آتے ہیں) تمہیں اپنی وجہ یعنی تو جہ کو مسجد حرام کی طرف رکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرمایا: وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: ۲۸) اس کے معنے کرتے ہوئے امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے.جو باقی رہنے والی چیز ہے وہ ایسے اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں.یعنی وہ اعمال صالحہ جنہیں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر بجالاتا ہے وہ گویا وَجهُ رَيْكَ کے مترادف ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو کوشش کی جاتی ہے.وہ قائم رہتی ہے اور باقی تو ہر عمل ضائع ہو جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرماتا ہے : كلُّ شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص : ٨٩) امام راغب نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ حل تمنی ءٍ مِنْ أَعْمَالِ الْعِبَادِ هَالِكَ وَبَاطِلُ إِلَّا

Page 191

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۸۵ سورة البقرة مَا أُرِيدَ بِهِ الله یعنی انسانوں کے اعمال میں سے ہر عمل ہلاک ہونے والا اور لایعنی اور باطل ہے سوائے اس عمل کے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.پس اس اعتبار سے فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کے یہ معنے ہوں گے کہ تم اپنی نیتوں کو ایسا بناؤ کہ وہ ہمیشہ تعمیر بیت اللہ کے مقاصد کی طرف متوجہ اور مائل رہیں.تمہیں چاہیے کہ تعمیر بیت اللہ کے سلسلہ میں قرآن کریم میں جو مقاصد بیان ہوئے ہیں تم اُن سے نظر نہ ہٹاؤ.جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُم حُجةٌ عملاً ظاہری طور پر بھی خانہ کعبہ کی حکومت تمہیں مل جائے گی.اس لئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں ابراہیمی دعاؤں کا پھل اور ثمرہ ہوں.اگر میری بعثت کے مقاصد میں بنی نوع انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات اور رفعتوں کے حصول خانہ کعبہ کے مقاصد میں بیان ہوئے ہیں اور جن کے آخر میں یہ دعا کروائی تھی کہ ایسا نبی ہو جو تزکیہ کرنے والا ، حکمت سکھانے والا ، آیات بیان کرنے والا ہو وغیرہ اس سچے دعوی کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خانہ کعبہ پر کوئی غیر مسلم یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے علاوہ اور کوئی قابض رہے.پس ایک تو اس میں دوبارہ اس کو حاصل کرنے کی سعی کا بھی ذکر ہے کیونکہ اس کے بغیر تو وہ وعدے پورے نہیں ہوتے اور الزام آتا ہے یعنی اگر ایسا نہ ہوا تو غیر لوگ یہ الزام لگا ئیں گے کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم ابراہیمی دعاؤں کے نتیجہ میں مبعوث ہوئے ہیں اور حالت یہ ہے کہ وہ مسجد حرام ، وہ بیت اللہ جو حضرت ابراہیم کے ذریعہ از سر نو تعمیر کروایا گیا تھا اور اس کے جو مقاصد بیان ہوئے تھے ان کے ساتھ تمہارا عملاً کوئی تعلق نہیں وہ تو غیر کے ہاتھ میں ہے.فرمایا یہ تو تمہیں ملے گا.تمہیں ملنا چاہیے مگر اس کے لئے تمہیں جدو جہد کرنی پڑے گی اور تمہیں جدو جہد کرنی چاہیے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی.اصل بات تو یہ ہے کہ تمہاری تو جہ قیامت تک اس خانہ کعبہ کی طرف رہنی چاہیے.تمہاری نگاہ ہمیشہ اس کی طرف اٹھنی چاہیے تا کہ تمہیں معلوم ہوتا رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس عظمت اور جلال کا اعلان بنی نوع انسان کے سامنے کیا ہے، آپ اس کے مستحق ہیں کیونکہ آدم کے وقت میں پہلے نبی کے وقت میں جو انسان کی طرف آیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک گھر تیار کروایا اور

Page 192

۱۸۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ہزار ہا سال تک اس کی حفاظت کروائی.جب آپ کی بعثت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اس کھوئے ہوئے خزانہ کو ڈھونڈیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی وحی کے ذریعہ انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کی از سر نو تعمیر کرو کیونکہ جس کی یہ چیز ہے وہ مبعوث ہونے والا ہے.پس اس دعویٰ کے بعد مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ یا بیت اللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے سوا کسی اور کے پاس رہ ہی نہیں سکتا.اس حقیقت کو جاننے کے بعد وہ مسلمان بڑا ہی ناشکرا ہوگا جو اس کی طرف اپنے وجہ کو نہیں کرتا یعنی اپنی توجہ کو اس طرف نہیں رکھتا اور اپنے اندر یہ احساس نہیں پیدا کرتا کہ ہماری ساری ترقیات کا راز ان مقاصد کے حصول کی کوشش میں ہے جو خانہ کعبہ کے تعلق میں بیان کئے گئے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! خانہ کعبہ کی تعمیر کے جملہ مقاصد حاصل کرنے کی جدو جہد کرتے رہو تا کہ تم پر دشمن کا کسی طور پر بھی الزام نہ آئے نہ ظاہری طور پر کہ خانہ کعبہ تمہارے پاس نہیں اور نہ روحانی طور پر کہ دعویٰ تو کرتے ہو مگر تم اس کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں گزارتے اس واسطے تمہارا یہ فرض ہے کہ فَوَلُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَة تم ہمیشہ اپنی نیت اور مقصد یہ رکھو کہ خانہ کعبہ کے ساتھ جو برکات اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں یا خانہ کعبہ کے جو مقاصد اس نے بیان فرمائے ہیں.ہم اُن مقاصد کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے.پھر اللہ تعالیٰ کے اس عظیم اور نہایت پر جلال فعل کو دیکھیں کہ اس نے کس طرح ہزار ہا سال پہلے ایک منصوبہ بنایا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابرکت ظہور کا.جس سے آپ کی عظمت اور جلال بھی ظاہر ہوتا ہے.انسانوں کو پتہ ہی نہیں تھا.انبیاء علیہم السلام کو اسی نور کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی تھی یعنی علم الہی میں اس نور کا ادھر بھی اور اُدھر بھی پر تو پڑ رہا تھا.ایک روشنی تھی جو ماضی کو بھی منور کر رہی تھی.ایک روشنی تھی جو مستقبل کو بھی روشن کر رہی تھی اور قیامت تک پھیلی ہوئی تھی.باوجود اس کے کہ ایک لحاظ سے آپ اس مادی دنیا کے مادی بشر تھے مگر روحانی طور پر آپ کی عظمت اور جلال کا اظہار دیکھو.فرمایا میرا وہ محبوب آرہا ہے جو انسانیت کا نچوڑ ہوگا.وہ میرے قریب تر ہونے والا ہے اور عملاً قریب تر رہے گا.کیونکہ روحانی طور پر آپ کی زندگی ماضی، حال اور مستقبل پر

Page 193

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۸۷ سورة البقرة اثرانداز ہے ایک ابدی حیات.باقی جب سے اور جب تک خدا تعالیٰ نے چاہا آپ کو زندگی عطا فرمائی.ہم تو عاجز بندے ہیں.ہمارا تخیل تو ان چیزوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.بہر حال اتنا ہمیں مانا پڑتا ہے کہ پہلے نبی کے وقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا تھا اور علم الہی میں تو یہ ہمیشہ سے موجود تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عظمت اور جلال کو دیکھنے کے بعد کیا تم غیر اللہ سے ڈرو گے اور تمہارے دل میں اُن کا خوف پیدا ہو گا.تم خدا تعالیٰ سے ڈرو جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کو دنیا میں پھیلانے اور بڑھانے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے انسان کے ذریعہ اپنا کام شروع کروایا تھا اور کہا تھا کہ میرا پیارا آنے والا ہے تم اس کے لئے تیاری کرو اور پھر اس کی عظمت کو دیکھو کہ ہزار ہا سال تک ایک نبی کے بعد دوسرا نبی ، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی رہی لیکن اللہ تعالیٰ کی جو سکیم تھی وہ جاری رہی.پس یہ اس کی عظمت اور جلال کا اظہار ہے.اب خانہ کعبہ اور اس کے مقاصد کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد خالی از حکمت نہیں ہے کہ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَونی یعنی غیر اللہ سے نہیں ڈرنا.صرف میرا خوف تمہارے دل میں ہونا چاہیے.چنانچہ جیسا کہ ہم میں سے سب چھوٹے بڑے جانتے ہیں اور یہ بات اکثر ان کے کانوں میں پڑتی رہتی ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں یہ خوف ہے کہ کہیں خدا تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے ہمارے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم اپنے گناہوں اور غفلتوں کی وجہ سے خود کو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے محروم نہ کر لیں جنہیں وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہمیں عطا کرنا چاہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا یہی خوف ہے جو ہمیں ہر وقت لاحق رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس عظمت اور جلال کا خوف رہتا ہے جس کے احساس سے انسان خود کو اور ہر دوسری مخلوق کو لاشئی محض سمجھتا ہے.فرمایا تم نے اس عظمت اور جلال کو خانہ کعبہ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں دیکھا ہے اس لئے فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَون کسی اور سے نہ ڈرنا.مجھے سے ڈرتے رہنا فرما یا قرآن کریم میں ہم نے خانہ کعبہ کے جملہ مقاصد بیان کر دیئے ہیں.اس لئے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ

Page 194

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۸۸ سورة البقرة سارا منصوبہ بنی نوع انسان کی بھلائی اور رفعتوں کے لئے ہے اور یہ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ ولاتم نعمتى عَلَيْكُم تا کہ میں اپنی کامل نعمتیں تم پر بارش کی طرح نازل کروں اور اس اتمام نعمت کے نتیجہ میں لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون تتم ایسی فلاح اور کامیابی حاصل کرو کہ جس سے بہتر اور جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی ہو ہی نہیں سکتی.جن آیات میں خانہ کعبہ کے مقاصد بیان ہوئے ہیں ان کے آخر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دعا کی گئی ہے جو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے.فرمایا:.كما اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ تا انسان کو یہ یاد دہانی کرائی جائے کہ فَولُوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کے اصل معنے کیا ہیں.قرآن کریم کی ہر آیت کے ایک سے زائد بطون اور بہت سے معافی ہوتے ہیں لیکن مضامین اور معانی کا جو سلسلہ میں اس وقت بیان کر رہا ہوں اس میں قولوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ کے معنے کی وضاحت کے لئے آگے یہ نتیجہ آ گیا ہے کہ كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ فرمایا وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وہ خدا کا پیارا اور محبوب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ اور امیدوں کا مرکز اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش گوئیوں پیش خبریوں اور بشارتوں کے مطابق مبعوث ہونا تھا.وہ آ گیا اور جن مقاصد کے لئے اسے مبعوث کیا جانا تھا اُن مقاصد کے پورا ہونے کا زمانہ آگیا.اس لئے فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَة تم أن مقاصد کو نظر انداز نہ کر دینا اور نہ تم پر الزام بھی آئے گا.تم شیطان کے حربوں سے نقصان بھی اٹھاؤ گے.اتمام نعمت کے راستے میں روکیں بھی پیدا ہوں گی اور اس طرح تم آخری فلاح حاصل نہیں کر سکو گے لیکن اگر تم نے اپنی پوری توجہ خلوص نیت اور پختہ عزم کے ساتھ ان مقاصد کو یادر کھا اور ان کے حصول کے لئے کوشش کی جن کا تعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ہے تو پھر یا درکھو! دنیا تم پر الزام نہیں دھر سکے گی کیونکہ تم سے خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت کا سلوک دنیا کے سارے الزاموں کو مٹا دے گا.پس تم اس پیار کو حاصل کرو.دنیا اگر إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُم کی رو سے ظلم کی راہ اختیار کرے اور

Page 195

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۸۹ سورة البقرة خدا تعالیٰ کے پیار کو دیکھتے ہوئے بھی تم پر الزام لگائے تو تم اس کی پرواہ نہ کرو کیونکہ بصارت رکھنے والی دنیا، آنکھیں رکھنے والی دنیا اور عقل رکھنے والی دنیا اعتراض نہیں کر سکے گی.دنیا یہ اعتراض نہیں کر سکے گی کہ تم ان مقاصد کو بھول گئے ہو یا یہ کہ اس زمانے میں خانہ کعبہ تمہارے قبضے میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرما یا مسلمانو! خانہ کعبہ یا بیت اللہ تمہیں ملے گا اور پھر قیامت تک تمہارے پاس رہے گا لیکن جن ذمہ داریوں کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تحفظ اپنے پیارے بندے، اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا تھا.ان ذمہ داریوں کو ہمیشہ اپنی نگاہ میں رکھنا.ان کو کبھی نظر انداز نہ کر دینا.پھر سوائے ظالموں کے کسی اور کا تم پر اعتراض نہیں رہے گا.کوئی حجت نہیں ہوگی.تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھنے لگو گے.پھر اندھیرے تمہاری نگاہ کے سامنے نہیں آئیں گے کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کر لو گے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے جلوے دیکھو گے اور تم پر اس کی نعمتیں نازل ہوں گی.فرمایا وَلِأُتِمَّ نِعْمَى عَلَيْكُمْ ال محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی امت ( جسے ہم امت مسلمہ کہتے ہیں) تم پر اتمام نعمت ہو جائے گی.پھر دنیا یہ مانے پر مجبور ہو جائے گی کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام بنی نوع انسان اور تمام مخلوق کے رب نے وہ پیار جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت سے کیا وہ پیار اور کسی سے نہیں کیا.پھر فرمایا وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اس پیار کے نتیجہ میں کامل اور آخری کامیابی تمہیں نصیب ہوگی.مگر دامن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دفعہ پکڑ کر پھر اس کو چھوڑ نا نہیں.پھر تم خدا تعالیٰ کی آنکھوں میں اپنے لئے وہ پیار دیکھو گے جو دنیا کے سارے خزانوں اور دنیا کی ساری نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہے پھر تمہیں کسی کی کیا پر واہ رہے گی.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱۴۸ تا ۱۵۴) اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت کے اس ٹکڑے میں جس کی میں نے ابتداء میں تلاوت کی تھی فرمایا ب فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوني یعنی تم ان شیطانی وساوس یا شیطان صفت لوگوں سے مت ڈرو اور مجھے سے ڈرو.اسی ضمن میں اللہ تعالی قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَنُ يُخَوفُ اَوْلِيَاءَة فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران : ۱۷۶) یعنی شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے.جو لوگ شیطان کے دوست بن جاتے ہیں اور خدا کے دوست نہیں رہتے ان کے دل میں شیطان خوف پیدا کرتا ہے کہتا ہے دیکھو! دولت چلی گئی تو پھر پتہ

Page 196

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۹۰ سورة البقرة نہیں تمہیں ملے یا نہ ملے اور وہ بیوقوف یہ نہیں سمجھتا کہ پہلے جو دولت آئی تھی وہ شیطان نے تو نہیں دی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دولت کو پیدا کیا.اور ان طاقتوں کو بھی پیدا کیا جن کی بدولت اسے وہ دولت ملی.اس کا اپنا تو کچھ نہیں.اسی طرح جو شخص صاحب اقتدار بن جاتا ہے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ کہتا ہے اگر میں انصاف کروں تو شاید میرا اقتدار جاتا رہے کیونکہ صاحب اقتدارلوگوں سے بے انصافی کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں.ان سے ظلم کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں.آخر شیطان کو قیامت تک جو مہلت دی گئی ہے تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شیطان کو قیامت تک دوست ملتے رہیں گے جن کو وہ ڈراتا اور خوف دلاتا رہے گا.چنانچہ مطالبہ ہوتا ہے کہ فلاں حصہ ملک پر یا فلاں جماعت پر یا فلاں گروہ پر ظلم کرو ورنہ ایجی ٹیشن ہوگی، ورنہ اقتدار تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے گا.پس شیطان اپنے دوستوں کو اس قسم کی باتوں سے ڈراتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے کہ فَلا تَخْشَوهُم - شیطان کے دوست الہی احکام کے خلاف الہی شریعت کے خلاف اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے خلاف لوگوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ڈراتے ہیں مگر تم نے ان سے نہیں ڈرنا.ایک ہی چیز ہے ایک ہی وجود ہے اور ایک ہی ہستی ہے جس کے خوف سے انسان کے دل میں خشیت پیدا ہونی چاہیے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا فَلَا تَخْشَوهُم وَاخْشَونِ شیطان کے دوستوں سے مت ڈرو صرف مجھ سے ڈرو اور میری خشیت اختیار کرو.میں نے اس وقت دنیا کی نعمتوں کے ضیاع کے خوف کا حصہ زیادہ نمایاں کیا ہے ورنہ یہ چیز ہر قسم کے خوف کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.تاہم نعمتوں کے ضیاع کے خوف کی طرف میری توجہ ولاتم نعمتى عَلَيْكُمْ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس عالمین کو پیدا کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ تمہاری خدمت کر سکے.تم اُسے مسخر کر سکو تسخیر کائنات کے لئے تمہیں ہر قسم کی طاقتیں دیں.اس کائنات کی ہر چیز حتی کہ ان ستاروں سے لے کر جن کی روشنی ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی زمین کے ذروں تک کو تمہاری خدمت پر لگا دیا کہ تم اُن پر حکومت کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو بڑی طاقتیں اور

Page 197

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۹۱ سورة البقرة صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں جن کی بدولت انسان دولت اور اقتدار کا مالک بنتا ہے.مگر شیطان اُسے یہ کہتا ہے کہ تجھے دولت ملی ہے اس کو سمیٹنے اور جمع کرنے کی فکر کرو.خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو کیونکہ خدا کی یہ مخلوق اور یہ عالمین اور تیری طاقتیں تیرا ساتھ چھوڑ دیں گی تو پھر کیا کرو گے؟ آج دولت ملی ہے کل نہیں ملے گی.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح میں نے آج دولت دی ہے کل بھی دوں گا.مگر شرط یہ ہے کہ تم نے شیطانی خوف دل میں نہیں رکھنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا ہے اور صرف میری خشیت کو اپنے دل پر وارد کرنا ہے.خشیت کے معنی دراصل ایسے خوف کے ہوتے ہیں کہ جس ہستی سے خوف کھایا جائے اس کی عظمت اور جبروت کا دل پر اثر ہو.چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت اور جلال کی دہشت، اس کی عظیم قدرتوں کا احساس اور اس کے حاکم گل ہونے کا یقین ہے جو انسان کو خشیت اللہ پر مجبور کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم اپنے دل میں شیطانی وساوس پیدا نہیں ہونے دو گے، میری عطا کردہ دولت اور اقتدار یا میں نے جو دوسری چیزیں (مثلاً ) صلاحیتوں کے رنگ میں یا عقل کے رنگ میں یا اخلاق کے رنگ میں عطا ہیں اُن کو میرے قرب کا ذریعہ بناؤ گے تو میں تم پر اور زیادہ انعام کروں گا.....پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ شیطان کے دوست ہیں شیطان انہیں خوف دلاتا رہتا ہے.مثلاً وہ خوف دلاتا ہے کہ تمہاری دولت نہیں رہے گی.وہ خوف دلاتا ہے کہ تمہارا اقتدار نہیں رہے گا.چنانچہ شیطان جس قسم کا بھی خوف دلاتا ہے اس کا مقصد اور مطلوب یہ ہوتا ہے کہ انسان نیکیوں سے محروم ہو جائے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شیطان کی آواز سنو گے تو نیک نہیں بنو گے.تم ان عظیم نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکو گے.جن کو میں نے اس دُنیا میں تمہارے لئے پیدا کیا ہے.لیکن اگر تم شیطان کے دوست نہیں بنو گے اس کے خوف دلانے سے اثر قبول نہیں کرو گے.بلکہ اللہ سے خوف کھاؤ گے اس کی عظمت اور جلال کا احساس اور اس کی صفات حسنہ کی معرفت رکھو گے اور یہ یقین رکھو گے کہ یہ کائنات یہ عالمین ہمیشہ تمہارے خادم رہیں گے.اور یہ کہ تمہارے اندر وہ قوتیں موجود ہیں جن کے ذریعہ تم ان سے خدمت لے سکتے ہو تو پھر میں (اللہ ) تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری اس خشیت ( کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.کہیں ہم اس کی رحمتوں سے محروم نہ ہو جائیں ) اس

Page 198

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۹۲ سورة البقرة خوف کے نتیجہ میں لاتم نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ میں تم پر اتمام نعمت کروں گا.چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ میں اتمام نعمت کی حسین شکل یہ ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : ٤) اس آیہ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اتمام نعمت یعنی کامل شریعت تمہیں مل چکی ہے اگر تم اس کامل ہدایت پر عمل کرو گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو گے اپنی زندگی کو اسلامی تعلیم کے رنگ میں رنگین کر لو گے تو اس دُنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی تم پر اتمام نعمت ہو جائے گا تمہیں حسنات دُنیا بھی اپنے کمال میں ملیں گی اور حسنات اُخروی بھی کامل رنگ میں ملیں گی.اب اگر ہمیں یہ حسنات نہیں ملتیں تو اس میں ہمارا اپنا قصور ہے ہم نے خدا تعالیٰ کی بجائے بنی اسرائیل کا خوف اپنے دل میں بٹھالیا یا خدا تعالیٰ کی بجائے روس کا خوف اپنے دل میں پیدا کر لیا یا ہم خدا تعالیٰ کی بجائے امریکہ سے ڈرنے لگے اور یہ نہ سو چاھوَ الرَّحْمٰنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا (الملك :٣٠) یہ خدائے رحمان ہی ہے جس نے ہماری پیدائش سے قبل ہمارے لئے ان گنت نعمتیں پیدا کیں.دُنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی نہیں ہے جو عمل سے پہلے انعام دے رہی ہو.جو لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کی پر چھائیاں اور سائے سے نظر آئیں تو آئیں.اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل جلوے اسی انسان پر نازل ہوتے ہیں جو اس کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے......یہ تو شیطان کے دوست ہیں جن کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے.شیطان خود سرکش اور اپنے دوستوں کو خدا سے دور لے جانے والا ہے.جو شخص خدا سے دور لے جانے والے کا دوست ہوگا اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے.اگر کسی کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوگی تو ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوں گے کہ شیطان کے ساتھ اس نے دوستی لگالی ہے.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب کسی کے دل میں غیر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو یہ علامت ہوتی ہے شیطان کی دوستی کی.ہمیں ہر حال میں اس تعلیم پر عمل پیرا رہنا چاہیے جس کے متعلق قرآن کریم نے بار بار زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ (ابراهیم : ۱۳) بھروسہ کرنے والوں کو تو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے.پھر فرمایا وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (المجادلة:1) اور چاہیے کہ مومن صرف اللہ پر توکل کریں.خطبات ناصر جلد چهارم صفحه ۳۹۶ تا ۴۰۳)

Page 199

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۹۳ سورة البقرة ایک تقاضا ہے محبت کا اس خوف کا پیدا ہو جانا کہ ہمارا محبوب ہم سے کہیں ناراض نہ ہو جائے اس کو اسلام کی زبان میں خشیت اللہ کہتے ہیں.خشیت وہ خوف نہیں جو ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے خشیت وہ جذبہ ہے جو اللہ ، اس عظیم ہستی کے جلال کو دیکھ کر اور اس کے حسن کا گرویدہ ہو کر اس کے احسان تلے پس کر اس احساس کے ساتھ کہ اتنے احسانات ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتے.یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ عظیم اور صاحب جلال واقتدار ہستی ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں ہم اس کی محبت کو کھو بیٹھیں اور اپنی اس کوشش میں کہ ہم اس کی رضا کو حاصل کریں ناکام ہو جائیں.یہ ہے خشیت جو اللہ تعالیٰ کی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ میری معرفت کے حصول کے بعد جب تم محبت کے میدانوں میں داخل ہو گے.فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَونی اس وقت یہ یا درکھنا کہ صرف میری ہی ذات وہ صاحب جلال ذات ہے کہ جس کے متعلق جذ بہ خشیت انسان کے دل میں پیدا ہونا چاہیے کسی اور ہستی میں نہ وہ جلال ہے نہ وہ عظمت نہ اس کا وہ حسن نہ اس کا وہ احسان کہ انسان کے دل میں اس کے لئے خشیت پیدا ہو.ایک جابر اور ظالم بادشاہ کے لئے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے خشیت نہیں پیدا ہوتی یعنی دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس کے ظلم کا نشانہ ہم نہ بن جائیں لیکن اللہ تعالیٰ تو ظالم اور جابر نہیں وہ تو رحیم اور رحمان ہے.ہم کچھ بھی نہیں کرتے تب بھی وہ ہمیں اپنی عطا سے نوازتا ہے وہ رحمان ہے.اور جب ہم اس کے حضور کچھ پیش کرتے ہیں تو وہ کمال رحیمیت کی وجہ سے نہ ہمارے کسی حق کے نتیجہ میں ہمارے اعمال کو قبول کرتا اور بہتر جزا ہمیں دیتا ہے اور انسان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ اس کے کسی گناہ کے نتیجہ میں اس کی کسی کمزوری کی وجہ سے وہ عظیم حسن و احسان کا مالک ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور اس کی محبت اور اس کی رضا سے ہم محروم نہ ہو جائیں.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۶۲۳) آیت ۱۵۴ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصبرين (۱۵۴) یعنی اے میرے مومن بندو! جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ میں خدائے قادر و توانا ہوں اور اپنی

Page 200

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۹۴ سورة البقرة تمام صفات حسنہ کے ساتھ اپنی تمام قدرتوں کے ساتھ اور اپنے جلال کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندہ رکھنے والاحتی و قیوم خدا ہوں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی تمام اقوام کے لئے اور قیامت تک ہر زمانہ کے لئے نجات دہندہ کی شکل میں بھیجے گئے ہیں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ قرآن کریم انسان کے تمام دینی اور دنیوی مسائل کو حل کرتا ہے جو اس بات پر ایمان لاتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہی مبعوث فرمایا ہے.جو ایمان لاتے ہو کہ جس مقصد کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث کئے گئے ہیں.اس مقصد میں آپ اور آپ کی جماعت ضرور کامیاب ہوگی تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں بے شک مشکل بڑی ہے اور کام اس نوعیت کا ہے کہ عقل انسانی بظاہر یہ فیصلہ نہیں دے سکتی کہ اس میں ضرور کامیابی حاصل ہو گی لیکن خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ پورا ہوگا.اس لئے ہم تمہیں ہدایت دیتے ہیں کہ جس وقت یہ دیوار تمہارے سامنے آجائے اور تم کو محسوس ہونے لگے کہ آگے بڑھنے کا راستہ مسدود ہو گیا ہے اور ان اقوام کے دلوں کو فتح کرنا بظاہر ناممکن ہے یا درکھو کہ اس وقت صبر اور صلوۃ کے ساتھ میری مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا.صبر کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ انسان استقلال کے ساتھ بُرائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہے.یعنی اُسے اپنے نفس پر اتنا قابو ہو کہ وہ کبھی بے قابو ہو کر گناہ کی طرف مائل نہ ہو دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان نیکی پر ثابت قدم رہے اور دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی وسوسہ اور دنیا کا کوئی دجل صدق کے مقام سے مومن کا قدم پرے نہ ہٹا سکے اور صبر کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی نازک وقت اور مشکل پیش آئے اور دل میں شکوہ پیدا ہو تو وہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرے.إِنَّمَا أَشْكُوا بَقِى وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (يوسف : ۸۷) یعنی اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہاری امداد اور نصرت کے سامان پیدا کرے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ ہم نے تمہیں مادی سامان بہت کم دیئے ہیں لیکن جتنا بھی تمہیں ملا ہے مال کے لحاظ سے، طاقت کے لحاظ سے، وقت کے لحاظ سے ، عزت کے لحاظ سے کروڑوں نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں ) جو کچھ بھی ہماری نعماء سے تمہیں ملا ہے.اگر تم اس کا صحیح استعمال کرو اور قربانی کے ان تقاضوں کو پورا کرو جوتم پر عائد ہوتے ہیں اور کبھی اپنی نگاہ میری ذات سے ہٹا کرکسی

Page 201

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۹۵ سورة البقرة اور کی طرف نہ لے جاؤ بلکہ اپنی کمزوری، ناتوانی، بے بضاعتی اور بے بسی کا رونا صرف میرے سامنے ہی روڈ اور خوشی کے ساتھ نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور جو تدابیر بھی تم کر سکتے ہو.ان تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچاؤ تو میں تمہاری مدد اور نصرت کے سامان کردوں گا.پھر صلوۃ ہے اس کے ایک معنی تو اس نماز کے ہیں جو ہم پنج وقتہ ادا کرتے ہیں پھر کچھ سنتیں ہیں کچھ نوافل ہیں ( جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں ) یہ سارے معنی صلوۃ کے لفظ میں آجاتے ہیں.پس صلوۃ کے ایک معنی اس خاص عبادت کے ہیں جو اسلام میں ایک مسلمان کے لئے لازم کی گئی ہے.پھر صلوۃ کے ایک معنی رحمت کے ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے صلی اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے.ہمارے کاموں میں برکت ڈالے.ہم پر احسان کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے.(استغفار کے معنی بھی صلوۃ کے اندر آ جاتے ہیں ) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایک طرف اپنی تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچا دو اور جو کچھ تم کر سکتے ہو وہ کرگز رو اور پھر ہمارے پاس آجاؤ اور کہو اے خدا! جو کچھ تو نے ہمیں دیا تھا وہ ہم نے تیری راہ میں قربان کر دیا ہے مگر وہ اتنا کم ہے کہ دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں.ہم اگر اپنا سارا مال بھی تیری راہ میں قربان کر دیں تو بھی ہم امریکہ کی دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اگر ہم میں سے ہر ایک احمدی فرد لنگوٹا کس لے اور بھوکا رہنے کیلئے تیار ہو جائے اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی ہم روس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پس خدا تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ جتنی دولت روس کے پاس ہے اتنی دولت تم میری راہ میں خرچ کرو اور نہ میرا تم سے یہ مطالبہ ہے کہ جتنی دولت امریکہ اور انگلستان کے پاس ہے یا جتنی دولت دوسرے ممالک کے پاس ہے اتنی ہی تم میری راہ میں خرچ کرو میں تم سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جتنا کچھ میں نے تمہیں دیا ہے اُسے میری راہ میں خرچ کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہو جب امام وقت کی آواز آئے تو تم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار رہو اور جب تم یہ سب کچھ کر گزرو تو میرے پاس آؤ اور کہو ہم نے تیرے ارشاد کے ماتحت جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا تیری راہ میں قربان کر دیا ہے یا قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہماری یہ قربانیاں

Page 202

۱۹۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ان طاقتوں کے ساتھ تو ٹکر نہیں لے سکتیں جن کو تو نے دنیا میں قائم رہنے کی اجازت دی ہے تو اے ہمارے رب! ہم جو کچھ کر سکتے تھے وہ کر دیا ہے.ہم انسان ہیں ہم میں کمزوریاں بھی ہیں.ہم سے خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں اس لئے ہم تیرے پاس آئے ہیں.ہم تیری مغفرت کی چادر کے متلاشی ہیں تو ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے.پھر ہم چاہتے ہیں کہ تو ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں اپنی رحمت سے نوازے ہمارے کاموں میں برکت دے اور ہمیں محض اپنے فضل سے اس مقصد میں کامیابی عطا کرے جس کے لئے تو نے جماعت کو قائم کیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم یہ دو باتیں کر لو گے یعنی ایک طرف صبر اور تد بیر کو انتہا ء تک پہنچا دو گے اور پھر صرف مجھ پر بھروسہ کرو گے اور اپنے نفس کو کلیۂ میری راہ میں فنا کر کے کامل توحید پر قائم ہو جاؤ گے تو یہ یا درکھو کہ إِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِينَ میں تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اتروں گا اور جب میں آسمان سے اپنی تمام صفات حسنہ کے ساتھ اپنی عظمت اور کبریائی کے ساتھ اور اپنے حسن اور جلال کے تمام جلوؤں کے ساتھ تمہاری مدد کیلئے نازل ہوں گا تو اس وقت نہ روس کی طاقت تمہارا مقابلہ کر سکے گی اور نہ ہی تمہارے سامنے چین کی کوئی حیثیت رہے گی.امریکہ اور انگلستان کا غرور بھی توڑ دیا جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوگا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا اور تمام اقوام عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.لیکن ہمیں بہر حال یہی ارادہ اور نیت رکھنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صبر اور صلوٰۃ کی جو تعلیم دیتا ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۹۱ تا ۱۹۴) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة که حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا دعویٰ کرنے والو اللہ پر ایمان کا دعویٰ کرنے والو کہ ہم خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے جو بشارتیں تمہیں ملی ہیں اگر تم انہیں حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ بلند تر مقام جو تمہارے مقدر میں ہے اس بلندی اور رفعت تک تم پہنچنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اپنے زور سے وہاں نہیں پہنچ سکتے.نہ اپنی کوششوں سے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتے ہو.اس کے لئے ضروری ہے خدا تعالیٰ کی مدد کو حاصل کرنا.اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اس کی مدد تمہارے شامل حال ہو.اگر اس کی نصرت تمہیں

Page 203

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۱۹۷ سورة البقرة توفیق دے کہ تم اس کے حضور قربانیاں پیش کر سکو.اگر اس کی رحمت اور اس کا فضل تمہاری کوششوں میں تمہارے اعمالِ صالحہ میں ایک حسن پیدا کرے.ایک نور پیدا کرے تب یہ ممکن ہے اور صرف اس وقت ممکن ہے.اس کے بغیر ممکن نہیں ہے.اس لئے اگر اپنا مقدر حاصل کرنا چاہتے ہو.یعنی جہاں تک تم پہنچ سکتے ہو جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا امت مسلمہ میں، اس غرض کو اپنے زندگی کے اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اس مقدر کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو خدا سے استعانت چاہو، اس کی مدد، اس کی نصرت ، اس کا فضل، اس کی رحمت حاصل کرنے کی کوشش کرو.کیسے کوشش کرو، صبر کے ساتھ اور صلوۃ کے ساتھ.صبر کا تعلق انسان کی اپنی جدوجہد، اس کی اپنی سعی کے ساتھ ہے.اپنے مجاہدہ کے ساتھ ہے جو روحانی میدانوں میں وہ بجالاتا ہے.صبر کا ایک پہلو یہ ہے کہ استقامت کے ساتھ برائیوں سے بچے ، اپنے نفس کو نواہی سے بچنے پر باندھے رکھے.یہ ہیں صبر کے معنی ایک پہلو کے لحاظ سے.پوری کوشش کرے کہ کوئی ایسا عمل اس سے سرزد نہ ہو جو ( خدا کے فرمان کے مطابق ) خدا کو ناراض کرنے والا ہے اور صبر کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جرات اور شجاعت کے ساتھ نیکیوں کی راہوں پر گامزن رہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری مدد حاصل کر وصبر کے ذریعہ سے کوشش کرو کہ تم سے گناہ سرزد نہ ہو اور کوشش کرو کہ ہمیشہ نیکیاں سرزد ہوتی رہیں.اعمالِ صالحہ تم بجالاتے رہو اور یہ تمہاری کوشش ہو.لیکن یہ کافی نہیں اس کے لئے بنیاد بناؤ اپنے عمل کو ، اور صلوٰۃ کو ، خدا سے دعائیں مانگو ، خدا کو یا درکھو، خدا کی صفات اور اس کی ذات کی معرفت حاصل کرو اور خدا تعالیٰ کی عظمتوں کو اپنے ذہن میں حاضر رکھتے ہوئے ان عظیم صفات کا واسطہ دے کر اس سے مانگو (مدد) کہ وہ قدم صدق ظاہر و باطن طور پر جو ایک کامل درجہ مقرر ہے وہاں تک تمہیں پہنچا دے.اعمالِ صالحہ بجالا و بدیوں سے پر ہیز کر دمگر اس کے نتیجہ میں نخوت پیدا نہ ہو بلکہ سمجھو اور یقین کرو کہ اپنی کوشش کوئی شے نہیں جب تک اس کے ساتھ صلوٰۃ دعا اور مقبول دعا کا جو نتیجہ ہے یعنی خدا تعالیٰ کا فضل، اس کا نزول نہ ہو اس وقت تک کچھ ہو نہیں سکتا.اگر اس استعانت میں مدد کے حاصل کرنے میں تم اپنی نیت کے خلوص کے نتیجہ میں، اگر تم اپنے جذبۂ ایثار اور قربانی کے نتیجہ میں ، اگر تم اپنے پیار کی

Page 204

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۱۹۸ سورة البقرة شدت کے نتیجہ میں اگر تم اپنے فدائیت کے حسن کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کر سکو گے تو تمہارے اعمال مقبول ہو جائیں گے جو صبر کی تعلیم کی روشنی میں تم بجالائے اور جب تمہارے اعمال مقبول ہو جائیں گے تب تم اس قسم کے مومن بن جاؤ گے.وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا کہ جن کے متعلق بشارت دی گئی ہے آن لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ جن کا خدا تعالیٰ کے حضور ظاہر و باطن طور پر اَنَّ ایک کامل درجہ ہے.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۸۴۲۴۸۲) آیت ۶ ۱۵ تا ۱۵۸ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ ، ربِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.* اللہ تعالی نے اس جگہ ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ آزمائش کے بغیر، امتحان کے بغیر تمہیں چھوڑا نہیں جائے گا.جو دعاوی محبت اور پیار کے اور فدائیت اور ایثار کے تم کرو گے اس سلسلہ میں تمہاری آزمائش بھی کی جائے گی، تمہارا امتحان بھی لیا جائے گا.کسی قدر خوف پیدا ہوگا بِشَی ءٍ مِنَ الْخَوْفِ خوف کے حالات مختلف قسموں کے ہیں.دو ایکسٹریمز (Extremes) یعنی سب سے زیادہ خوف، سب سے کم خوف.سب سے زیادہ خوف اس وقت ہوتا ہے جب انسان یہ دیکھے کہ دنیوی طاقتیں اسے مٹا رہی ہیں اور سب سے کم خوف نہ ہونے کے برابر اس وقت ہوتا ہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ جو سب سے زیادہ طاقت ور ہے اللہ ہمارا، وہ ہماری مدد کے لئے ہمارے پاس کھڑا ہے اور دشمن ہمیں ایذا تو پہنچا سکتا ہے کچھ خوف کے حالات تو پیدا کر سکتا ہے لیکن اپنے منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بھوک سے بھی تمہاری آزمائش کی جائے گی.جو صنعت و تجارت سے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت اُس کی تم حاصل کرو گے اس میں کمی اموال تمہارے ہوں گے، ان تجارتوں میں گھانا، صنعتی جو تمہارے منصوبے ہیں ان میں نقصان ہوگا اور ہم تمہاری آزمائش کریں گے.تمہاری

Page 205

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۱۹۹ سورة البقرة جان لے کر بھی تمہاری آزمائش کریں گے یعنی جان لے کر آزمائش تو اس کی ہے جس کی جان نہیں لی گئی.یعنی تمہاروں کی جان لوں گا میں اور تمہاری آزمائش کروں گا وہ تمام فدائی جو پہلے زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وقت اپنی جان شماری کا ثبوت دے رہے تھے اور شہادت حاصل کر رہے تھے وہ توججوں میں چلے جاتے تھے.تکلیف اٹھانے والے، امتحان میں پڑنے والے تو وہ رہ جاتے تھے جو پیچھے زندہ چھوڑے جائیں.اور پھلوں کا نقصان ہو گا.باغات ہیں زراعت ہے، ثمرات کے لفظ میں صرف درخت کا پھل نہیں آتا بلکہ زمین کی پیداوار ساری کی ساری اس کے اندر آجاتی ہے.تو تمام ذرائع آمد کا ذکر کیا ہے مختلف پہلوؤں سے، مختلف وقتوں میں، مختلف شکلوں میں اللہ تعالیٰ نقصان کے ذریعے ان چیزوں میں ہماری آزمائش کرتا ہے.دوسری بات جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مصیبتیں جو تم پر نازل ہوں گی ، وہ ایک دوسری قسم کی مصیبت جو ہے ویسی نہیں ہوں گی.قرآن کریم سے ہمیں پتا چلتا ہے اور اس آیت میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ مصیبت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک آزمائش ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی شکل میں آتی ہے اور ایک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے امتحان کی شکل میں آتی ہے.تو یہاں یہ فرمایا کہ یہ مصیبتیں عذاب نہیں، آزمائش ہیں.جو مصیبتیں عذاب یہ کی شکل میں ہوتی ہیں ان کا تعلق انذار اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی جہنم سے ہے لیکن جو مصیبتیں آزمائش کے رنگ میں آتی ہیں ان کا تعلق بشارتوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے ساتھ ہے.اس لئے یہاں اعلان کیا گیا کہ یہ مصیبتیں جو تم پر آئیں گی یہ تمہاری آزمائش کے لئے ہوں گی.یہ بریکیٹڈ (Bracketed) ہوں گی ہماری بشارتوں کے ساتھ ہمارا عذاب نہیں ہوگا.جس پر آئیں گی ، اس سے یہ نہیں ثابت ہوگا کہ خدا ان سے ناراض ہوا یہ ثابت ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے جلوے ان پر ظاہر کرنا چاہتا ہے.تیسری بات یہاں یہ بیان کی گئی کہ اس امتحان میں ہر امتحان کے ساتھ یہ لگا ہوا ہے کہ فیل بھی ہو جاتے ہیں لوگ اور کامیاب بھی ہوتے ہیں.تو یہاں یہ اعلان کیا گیا کہ اس امتحان میں ) پورے وہ اترتے ہیں جو آزمائشی مصیبت، امتحان کے رنگ میں جو مصیبت آتی ہے جب وہ آئے تو ان کی توجہ اپنے دکھ اور درد کی طرف نہیں ہوتی ، اپنے نقصان کے خیال سے وہ اذیت نہیں اٹھارہے ہوتے بلکہ

Page 206

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة آزمائش والی مصیبت ان کو دھکا دے کر اور بھی ان کے رب کے انہیں زیادہ قریب کر دیتی ہے اور وہ شیطانی وسوسوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کے وجود کا ذرہ ذرہ یہ پکارتا ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہم اور ہماری ہر چیز اللہ کی ہے اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کے جانا اور اسی سے ہم نے اس کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے.اور چوتھی بات یہاں یہ فرمائی کہ اگر تم اپنے امتحان میں پورے اُتر و گے توایسوں پر ہی اس کی رحمت کا نزول ہوتا ہے نمبر ایک أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ (ایسوں پر ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے ) و أولبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ اور ایسے ہی ان تمام انعامات کے وارث ہوتے ہیں جو ہدایت یافتہ جماعتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کئے ہیں اور جن کی بشارتیں ہمیں قرآن کریم میں نظر آتی ہیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۳۳۳ تا ۳۳۵) فتنه یا آزمائش جس سے مومن آزمائے جاتے ہیں وہ قضاء و قدر کی آزمائش سے کبھی کبھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو قضاء و قدر کی آزمائش میں ڈال کر ان کا امتحان لیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ کہ ہم اپنی مشیت اور اذن سے تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہارے مالوں میں نقصان کی صورت پیدا کر دیں گے.احمدیت میں بھی جو اللہ تعالیٰ کا سچا سلسلہ ہے ہر روز ایسی مثالیں ملتی رہتی ہیں مجھے کئی خطوط آتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم احمدی ہوئے تھے مگر بیعت کے بعد ہمیں نقصان ہونا شروع ہو گیا ہے.اگر یہ لوگ قرآن کریم کی ذرا بھی سمجھ رکھتے ہوں تو وہ فوراً جان لیں کہ یہ نقصان احمدیت کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے غلط یا جھوٹا ہونے کی کیونکہ قرآن کریم نے پہلے ہی بوضاحت بتا دیا تھا کہ جب تم ایمان لاؤ گے تو کبھی خدا تعالیٰ تمہارے مالوں میں تنگی پیدا کرے گا اور تمہیں آزمائے گا کہ آیا تم مال کو خدا تعالیٰ پر ترجیح دیتے ہو یا خدا تعالیٰ کی مرضی کو مال پر ترجیح دیتے ہو.و الانفس اور کبھی یہ کرے گا کہ ادھر تم ایمان لائے اُدھر تمہارا بچہ مر گیا یا کوئی دوسرا رشتہ دار فوت ہو گیا.اس وقت شیطان آئے گا اور تمہارے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ یہ مذہب جو تم نے اختیار کیا بڑا منحوس ہے.دیکھوا بھی تم ایمان لائے اور تمہارا بچہ فوت ہو گیا یا تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا یا تمہارا باپ چلتا بنا وغیرہ وغیرہ لیکن اگر تم قرآن کریم کو جانتے اور سمجھتے ہو گے تو تم اس آیت کے ماتحت ایک قسم کی

Page 207

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۰۱ سورة البقرة بشاشت محسوس کرو گے کہ کتنا سچا ہے ہمارا خدا اور کتنا مہربان ہے وہ کہ وقت سے پہلے ہی اس نے یہ بتا دیا تھا کہ ہم اس قسم کی آزمائش میں تمہیں ڈالیں گے.و الثَّمرات اور کبھی وہ یہ کرے گا کہ دنیا کے حصول کے لئے جو تمہاری کوششیں ہوں گی دنیوی میدان میں اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا اور ہم اس کو تمہارے لئے ایک آزمائش بنادیں گے.تو اس قسم کی آزمائشوں کو قضاء و قدر کی آزمائش کہا جاتا ہے یہ دوسری قسم کی آزمائش ہے جس میں سے مومن کو گزرنا پڑتا ہے....پھر قضاء و قدر کی آزمائش میں بھی ہمیں نہایت اچھا اور نیک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے.اس وقت مسلمان کہلانے والوں میں سے ایسے خاندان بھی آپ کو نظر آئیں گے جو گھر میں فوت وموت ہونے کے وقت یا تو خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا شکوہ شروع کرنے لگتے ہیں.وہ اس بشارت کے مستحق نہیں بن سکتے جس کا ذکر خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے.وبَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - جس کی چیز تھی اس نے لے لی شکوہ کی گنجائش ہی کہاں ہے لیکن انسان بعض دفعہ بڑی حماقت کی باتیں کرتا ہے اور اپنے رب کا بھی شکوہ شروع کر دیتا ہے.تو قضاء و قدر کی آزمائش اور امتحان جو ہمارے لئے مقدر ہیں ان میں بھی ہم نے ایسا نمونہ دکھانا ہے کہ خدا تعالی کی بشارتیں ہمیں ملیں اس کا غضب یا نا راضگی ہم پر نہ اترے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۱۷ تا ۲۲۱) آیت ۱۷۸ لَيْسَ الْبِرَّ اَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ ج الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ وَأَتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِى الْقُرْبى وَالْيَتَى وَ الْمَسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَ أَتَى الزَّكَوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عُهَدُوا ۚ وَالصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَاسِ أولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اکبر کا لفظ دو دفعہ مختلف معانی میں استعمال کیا ہے.البر کے ایک معنی

Page 208

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة ہیں الطاعَةُ - الصلاح الصدق (المنجد زير لفظ بر) اس لحاظ سے اکبر کے معنی یہاں یہ ہوں گے ہر قسم کے فساد سے پاک ہونا اور ہر قسم کے حقوق اور واجبات پوری اطاعت کے ساتھ ادا کریں.پس فرمایا حقیقی نیکی یہ نہیں کہ تم نمازوں کی ادائیگی کے وقت مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرو.یا ان بشارات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں قرآن مجید میں دی ہیں کہ مشرق و مغرب کے تمام ممالک پر تمہارا قبضہ ہوگا.اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں گے اَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقره: ۱۱۲) کہ جس طرف تم رُخ کرو گے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور اس کے ملائکہ کی فوج کو اپنی امداد کے لئے پاؤ گے.تو فرمایا ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے تم مشارق اور مغارب کی طرف نکلو یا عبادت کی غرض سے تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو تو محض یہ بات وہ نیکی نہیں جس کا تمہارا رب تم سے تقاضا کرتا ہے.فرمایا وَلكِنَّ الْبِرِّ (اور یہاں البر کا لفظ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے.( مَنْ آمَنَ بِاللهِ کہ ہر قسم کے مفاد سے پاک اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پوری اطاعت اور فرمانبرداری سے ادا کرنے والا وہ ہے جو ایمان باللہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو.یعنی علی وجہ البصیرۃ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہو.اور اس کی ذات اور صفات میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ صحیفہ فطرت صحیحہ انسانیہ پر اس کی صفات کا انعکاس ہے اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ اللہ ہی سب نیکی ہے اور أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة : ۱۳۲) کا نعرہ لگاتے ہوئے فنا فی اللہ کے سمندر میں اپنی ذات کو غرق کر دینا ہی سچی اور صحیح اور حقیقی اطاعت ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں نیکی کی اصل صفت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ ہے مَنْ آمَنَ بِاللهِ یعنی نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے اور کہ وہ واحد یگانہ ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور وہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اس زندگی کے ساتھ تمہاری حیات ختم نہیں بلکہ حشر کے روز پھر تمہیں اکٹھا کیا جائے گا ضرور پورا ہوگا اور اس روز ہم اپنے اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور وہ بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو اس کا رخانہ علت و معلول میں آخری مخلوق علت قرار دیا ہے اور اپنے اور مخلوق کے درمیان بطور واسطہ کے قائم کیا ہے اور وہ یہ بھی ایمان لاتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ عَلَامُ الْغُيُوبِ ہے اور انسان کی انفرادی نشو ونما اور ارتقاء اور انسان کی اجتماعی نشو ونما اور ارتقاء ایک خاص الہی منصوبہ کے ماتحت ہی ہے.اس لئے اس نے اپنے علم

Page 209

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة کامل کے مطابق ابتدائے پیدائش سے ہی الکتاب قرآن کریم کو ربانی ہدایت مقرر فرمایا ہے بے شک حضرت آدم کے زمانہ سے ہی انبیاء پیدا ہوتے رہے جو انسان کو درجہ بدرجہ پست مقامات سے اُٹھا کر بلند مقامات کی طرف لے جاتے رہے لیکن ان کو جو کچھ بطور شریعت کے ملا وہ کامل اور مکمل شریعت نہ تھی بلکہ نَصِيبًا مِنَ الكتب ( النساء :۵۲) ای کامل کتاب کا ایک حصہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا ہوا تھا.اصل کتاب، اصل شریعت اور ہدایت جو اللہ تعالیٰ کے علم کامل میں ہے وہ قرآن کریم میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامل نیک جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو صحیح طور پر بجالاتا ہے اور اپنے رب کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کرتا ہے.وہ ہے جو الکتاب پر ایمان لاتا ہے.یعنی قرآن کریم کو اس کا حق دیتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے جیسے کہ واقعی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہی وہ کامل کتاب ہے جس کے بعض حصوں نے آدم علیہ السلام کی تربیت کی، بعض حصوں نے نوح علیہ السلام کی تربیت کی ، ان کے بعد موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی تربیت کی اور آخر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اصلی اور حقیقی اور کامل اور مکمل شکل میں نازل ہوئی.پس کامل تربیت پانے والے صرف حامل قرآن ہی ہیں.والتبيين وہ شخص تمام انبیاء اللہ پر بھی ایمان لاتا ہے.ایمان بالنبوۃ کے لئے بھی کامل فرمانبرداری کی ضرورت ہے حتی کہ اس کے اپنے نفس کا کچھ بھی باقی نہ رہے اور انسان اپنا سب کچھ اپنے رب کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائے اپنی عزت بھی، اپنی روایات بھی، اپنے تو ہمات اور خوش اعتقادیاں بھی......آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ أَتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِى الْقُرْبَى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِی الرِّقَابِ کہ وہ اپنا مال دیتا ہے.رشتہ داروں کو ، بیتامی ، مسکینوں اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لئے بھی.لیکن یہ نیکی نہیں جب تک على حبه نہ ہو.یہ خرچ مومن بھی کرتا ہے اور کافر بھی کرتا ہے کیونکہ بہت سے دنیا دار آپ کو نظر آئیں گے.جو اپنے رشتہ داروں پر اس لئے خرچ کر رہے ہوں گے کہ اس طرح خاندانی اتحاد اور اتفاق قائم رہے گا اور ان کی عزت اور وجاہت قائم رہے گی وہ اپنے خاندان میں بھی بڑے سمجھے جائیں گے اور دنیا بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے گی.

Page 210

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۰۴ سورة البقرة اسی طرح بہت سے دنیا دار مختلف اغراض کے پیش نظر یتامی کی پرورش کے لئے خرچ کرتے ہیں اسی طرح مساکین کی حمایت کا دم بھرنے والے دنیا دار محض دنیا کی خاطر اپنے مال دیتے ہیں.بہت سی پارٹیاں آپ کو انگلستان اور امریکہ میں نظر آئیں گی کہ جنہیں کمزوروں کے ساتھ کوئی محبت اور پیار نہیں ہوتا.لیکن اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو اپنے سینے سے لگایا تو ہمیں سیاسی برتری حاصل ہو جائے گی.وہ ان کے لئے دوڑ دھوپ کرتی رہتی ہیں.اسی طرح مسافروں پر بھی اپنا پیسہ خرچ کر کے احسان کیا جاتا ہے تا کہ جب وہ اپنے وطن جائیں تو وہ کہیں کہ زید بڑا اچھا، بڑا خرچ کرنے والا اور بڑا پیار کرنے والا ہے اور مسافروں کا بڑا خیال رکھنے والا ہے ہم اس کے ہاں گئے تو اس نے ہماری بڑی خاطر کی یہی حال اس خرچ کا ہے جو غلاموں کے لئے کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نیکی نہیں، نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے پیسے یا مال کو مال کے معنی مملوکہ چیز کے ہیں انسان اپنے نفس کا بھی مالک ہے، اپنی عزت کا بھی مالک ہے.اپنے پیسے کا بھی مالک ہے.وغیرہ ) خرچ کرے تو عَلى حُبه صرف خدا تعالیٰ کی محبت میں خرچ کرے.خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی کے سوا کوئی غرض اسے مد نظر نہ ہو.نہ تو اسے عزت کی خواہش ہو.نہ وجاہت کی خواہش ہو نہ دنیوی شہرت کی خواہش.اور نہ اس کا ذہن فخر و مباہات کے غبار سے آلود ہو بلکہ جب بھی اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے نتیجہ میں اور اس کی خوشنودی کے حصول اور اس کی رضا کے پانے کے لئے خرچ کرے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ نیک شمار نہیں ہوگا اور کسی ثواب کا مستحق نہیں ٹھہرے گا.اسی طرح فرما یا کہ عبادت بجالا نا خواہ وہ نماز ہو.یا مالی فرائض ( مثلاً زکوۃ ) ہوں یہ بھی حقیقی نیکی نہیں بلکہ نماز کو ان شرائط کے ساتھ بجالا نا جواللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں حقیقی نیکی ہے.ان شرائط میں سے بنیادی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے سوائے اس کے اور کوئی غرض نہ ہو کہ اس کی خوشنودی حاصل ہو.تب یہ عبادت صحیح عبادت شمار ہوگی.اگر کسی نے اپنے نفس کو پالا اور اسے موٹا کیا اور قربانی دینے کے لئے تیار نہ ہوا تو اس کے متعلق یقیناً نہیں کہا جا سکتا.واقام الصلوة کہ اس نے نماز کو پورے شرائط کے ساتھ ادا کیا.

Page 211

۲۰۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث وَابْنَ السَّبِيلِ (مسافر) کے متعلق میں ایک بات بیان کر کے اپنے خطبہ کو بند کر دوں گا.(ورنہ اس آیت کے مضامین بہت وسیع ہیں) اللہ تعالیٰ نے مسافر کے ساتھ ہمدردی، اخوت کا سلوک کرنے اور اسے مالی امداد دینے پر بڑا زور دیا ہے اور مختلف مقامات میں زور دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم ہر اس شخص سے جو ہمیں اپنے ماحول میں اجنبی نظر آئے واقفیت پیدا کریں ورنہ ہم اس کی خدمت نہیں کر سکیں گے.ابھی چند روز ہوئے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ میں باہر کی ایک جماعت میں گیا مسجد میں پہنچ کر میں نے اپنا بیگ رکھا اور نماز ادا کی وہ دوست کہتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں کی مہمان نوازی کی ضرورت یہ تھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا ہوا ہے، میری جیب میں پیسے تھے اور مجھے خیال بھی نہ تھا کہ میں کسی کے پاس جا کر کھانا کھاؤں.لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مسافر کا خیال رکھو مگر ہمارے ان دوستوں نے میری طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی.ہو سکتا ہے کہ میری طرح کوئی اور مسافر یہاں آئے اور وہ ضرورت مند ہو.اگر اس سے بھی ایسا ہی بے توجہی کا سلوک ہو تو اس کی ضرورت پوری نہ ہو گی اسی احساس کے ماتحت میں یہ رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ دوستوں کو اس طرف متوجہ کریں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۲۷۰ تا ۲۷۴) آیت ۱۸۴ ۱۸۸ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتِ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ اِن كُنتُم تَعْلَمُونَ شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى ® لِلنَّاسِ وَ بَيّنَتِ مِنَ الْهُدى وَ الْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَهرَ b b فَلْيَصُهُ ، وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ - يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ

Page 212

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ٢٠٦ سورة البقرة عَلى مَا هَدَيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا فِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ أَحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَا بِكُم هُنَّ ط لِبَاسٌ تَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا القِيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَ ص ص ج اَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ ايَتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۱۸۸ آیات کی تو میں نے تلاوت کر دی، ان کا ترجمہ تفسیر صغیر کے ترجمہ کی روشنی میں یہ ہے یایھا الَّذِينَ آمَنُوا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو خدا اور اس کے رسول اور اس عظیم کتاب پر تم پر بھی روزوں کا رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو.آیا ما معدودت سو تم روزے رکھو چند گنتی کے دن اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اسے اور دنوں میں تعداد پوری کرنی ہوگی اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں یعنی روزے کی بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو اس کے لئے بہتر ہوگا اور تم سمجھوتو تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے.رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا.( میں ترجمہ میں کوئی تھوڑا سا رد و بدل بھی کر رہا ہوں ) اور جس مہینے میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جسے تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے.ایسے دلائل جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قرآن کریم میں الہی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں

Page 213

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۰۷ سورة البقرة سے جو شخص بھی اس مہینہ کو پائے یا دیکھے، اس حالت میں کہ نہ وہ مریض ہونہ مسافر اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنا واجب ہوگی.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور تاکہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو اس نے تم کو ہدایت دی ہے تا کہ تم اس کے شکر گزار بنو.اور اے رسول ! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دو کہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.سو چاہیے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے وہ تمہارے لئے ایک قسم کا لباس ہیں اور تم ان کے لئے ایک قسم کا لباس ہو.اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے.اس لئے اس نے تم پر فضل سے توجہ کی اور تمہاری اس حالت کی اصلاح کر دی.سواب تم ہلا تامل ان کے پاس جاؤ اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی جستجو کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے.اس کے بعد صبح سے رات تک روزوں کی تعمیل کرو اور جب تم مساجد میں مختلف ہو تو ان بیویوں کے پاس نہ جاؤ.یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس لئے تم ان کے قریب بھی مت پھٹکو.اللہ اسی طرح لوگوں کے لئے اپنے احکامات بیان کرتا ہے.تا کہ وہ ہلاکتوں سے بچیں.ان آیات میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ یہ ہیں.اب میں مفہوم بتاؤں گا.نمبر ایک روزہ رکھنا تم پر اس طرح فرض ہے جس طرح پہلوں پر فرض کیا گیا ہے.اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلوں پر ماہ رمضان میں اسی طرح روزے فرض کئے گئے تھے جس طرح مسلمان پر کئے گئے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے اور انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنی اپنی شریعت کے احکام کے مطابق روزے رکھو تو جس طرح پہلوں پر فرض تھا کہ وہ اپنی شرائع کے مطابق اور ان کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے روزے رکھیں.اسی طرح تم پر فرض ہے کہ تم اپنی شریعت کے مطابق اور ان کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے روزے ان دنوں میں جن دنوں میں روزہ رکھنے کا حکم ہے.ان

Page 214

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۰۸ سورة البقرة شرائط کے ساتھ جن شرائط کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم ہے.تو روزہ رکھنے کا جو حکم ہے وہ مختلف ہے شریعت ، شریعت میں.لیکن بنیادی حکم جو ہے وہ ایک ہی ہے کہ اپنی شریعت کے مطابق جو شریعت کے احکام ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائے ہوئے طریق پر روزے رکھو.دوسرے یہ کہا گیا ہے کہ روزہ رکھنا روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دُور کرنے کا ذریعہ ہے.تقویٰ پیدا کرتا ہے.اب ظاہر ہے (پہلا مضمون بھی اس سے واضح ہوتا ہے ) کہ پہلوں کی روحانی کمزوریاں اور قسم کی تھیں اور ان کی اخلاقی حالتیں کچھ اور رنگ رکھتی تھیں.لیکن انسان ارتقائی مدارج میں سے گزرتا ہوا اس حالت کو پہنچ گیا کہ قرآن کریم کی شریعت کا متحمل ہو سکے تو اب اس کی ضرورت کے مطابق اور اس کی طاقت اور قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اس کو قرآن کریم نے حکم دیئے.پہلی شریعتوں کا بھی مقصد یہی تھا کہ ان کے ماننے والوں کی روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور ہوں.لیکن ضرورتیں اور تھیں احکام اور تھے اور شریعت محمدیہ کا بھی یہ مقصود ہے کہ ایک ایسے شخص کی جو اُمت محمدیہ کی طرف منسوب ہوتا اور جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑا ہے اس کی روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور ہوں.یہ جو کہا گیا کہ روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دُور کرنے کا ذریعہ ہے.تقویٰ کا ذریعہ ہے اس میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے اس عبادت کے چھلکے پر اگر تم نے اکتفا کیا اور سمجھا کہ یہ کافی ہے اور اس کی روح کو پانا اور اس سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں تو تمہاری روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دُور نہیں ہوں گی تو سوچو اور غور کرو کہ وہ تمام حکمتیں جو قرآن کریم نے بیان کی اور وہ تمام روحانی اور اخلاقی بیماریاں جن کے متعلق کہا گیا کہ قرآن کریم شفا ہے ان کے لئے.وہ کونسی ہیں اور روزے کے دنوں میں Consciously اور بیدار مغزی کے ساتھ اس عبادت کو اس رنگ میں ادا کرو کہ روحانی اور اخلاقی کمزوریاں دور ہو جائیں اور تم شریعت محمدیہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہو.تیسرے یہ کہا گیا ہے کہ مقررہ گنتی پوری کرنا فرض ہے.یہ مضمون پہلی شریعتوں اور شریعت محمدیہ دونوں کے ساتھ Parallel چل رہا ہے.ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کہ مقررہ گنتی پوری کرنا ضروری ہے.جس شریعت میں جس گنتی میں روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے.یہ نہیں کہا کہ سب شریعتوں میں رمضان کے روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے اس واسطے کہ جہاں پہلوں کا ذکر تھا ان کی گنتیاں کچھ اور

Page 215

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۰۹ سورة البقرة تھیں اور تمہاری کچھ اور ہیں.ان کے روزے کے اوقات کچھ اور تھے تمہارے کچھ اور ہیں.اس واسطے یہ الفاظ کر دیئے کہ جو تمہیں کہا گیا اس اس کے مطابق گنتی کا پورا کرنا فرض ہے اور جو ان کو کہا گیا اس کے مطابق ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ گنتی کو پورا کریں.جو دائم المریض ہوں.یہ دو جگہ آیا ہے دو آیتوں میں.مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ پہلى آیت میں جو مریض کا لفظ ہے اس سے مراد دائم المریض ہے اور اس کی طرف اشارہ کرتا ہے آیت کا یہ اگلا ٹکڑا کہ جو روزے کی طاقت کھو بیٹھے ہوں کیونکہ اطاق يُطِيقُ باب افعال جو ہے اس کی ایک خاصیت سلب کی ہے تو جو روزہ رکھنے کی طاقت کھو بیٹھے ہوں یعنی روزہ رکھ ہی نہ سکتے ہوں وہ روزہ نہ رکھیں اور اگر طاقت رکھتے ہوں تو ہر روزہ کے بدلہ میں بطور فدیہ کے طَعَامُ مِسکین چوبیس گھنٹے کا کھانا جو ہے وہ فدیہ کے طور پر دیں.یعنی وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہوگئی ہے، ان کا روزہ نہ رکھنا کیونکہ ایک اجتہادی امر ہوگا.یہ فیصلہ تو ہر شخص نے خود کرنا ہے کہ میں اتنا کمزور ہو چکا ہوں.بیماریوں کی کثرت کے نتیجہ میں یا عمر کی زیادتی کے نتیجہ میں یا ڈاکٹروں کے مشورہ کے نتیجہ میں کہ اب مجھ میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی.زیادہ لمبا فاقہ نہیں میں کر سکتا.تو یہ اجتہاد ہوگا اور جب اجتہاد ہوگا تو اجتہادی غلطی کا بھی امکان ہوگا.جب اجتہادی غلطی کا امکان ہوگا تو اس نامعلوم یا غیر محسوس گناہ پر مغفرت کی چادر ڈالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انتظام کیا ہے کہ طَعَامُ مِسکین بطور فدیہ کے دے دیا کرو.کہ اگر تو اجتہادی امر ہے اس میں غلطی نہیں مزید تو اب تمہیں مل جائے گا اور اگر اجتہادی امر جو ہے اس میں غلطی ہے کچھ تو خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری مغفرت کر دے گا.ایک اور ذریعہ سے تم اس کے فضل کو حاصل کرنے والے ہو گے.اور چھٹے یہ کہ اگر سفر پر ہو تو روزہ نہ رکھو.ساتویں یہ کہ اصل چیز یہ ہے کہ نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی کی پوری اور سچی اور حقیقی فرمانبرداری کرتی ہے.آٹھویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ روزوں کا حکم تمہاری بہتری کے لئے ہے اب جو درس دینے والے ہیں وہ آپ کو بتا ئیں گے کہ بہتری کی کتنی قسمیں ان کو نظر آئیں.بے شمار قسمیں ہیں بہتری کی.نویں بات ہمیں یہ بتائی گئی کہ ماہ رمضان کا دوہرا تعلق قرآن کریم سے ہے.اس لئے کہ قرآن کریم

Page 216

۲۱۰ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث میں اس کے احکام ہیں.ماہ رمضان کی عبادات صوم کی جو عبادات ہیں اس کے احکام جو ہیں وہ قرآن کریم میں نازل ہوئے اور دوسرے یہ کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہوا.حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا قرآن نازل ہوتا تھا فـ اس کا دور کیا کرتے تھے.تو ماہ رمضان کا ایک گہرا تعلق اور دو ہرا تعلق قرآن کریم سے ہے.پھر دسویں یہ بتایا گیا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے انسانوں کے کسی ایک گروہ کے لئے نہیں.کسی ایک خطہ ارض کے لئے نہیں اور ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی کہ ماہ رمضان میں قرآن کریم کے پڑھنے اور اس کے مطالب سیکھنے کی طرف دوسرے دنوں کی نسبت زیادہ توجہ دیا کرو.اور جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اس لئے جو ماننے والے ہیں اس حقیقت کو کہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے ان کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ اس عالمگیر ہدایت کی طرف بنی نوع انسان کو ( جو ابھی تک اس سے واقف نہیں ) لانے کے لئے قرآن کریم کے علوم سیکھیں.گیارھویں ہمیں یہ بات بتائی گئی.قرآن کریم جس کا ماہ رمضان سے گہرا تعلق ہے ایسے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے جو ہدایت پیدا کرتے ہیں.یعنی یہ تصور اسلام نے نہیں دیا کہ مسلمان ہوتے ہی یا اصلاح نفس کے ابتدائی دور میں ہی انسان ہدایت کے عروج کو اس کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے قرآن کریم نے ہمیں یہ علم عطا کیا ہے.قرآن کریم نے ہمیں اس بات کے لئے ابھارا ہے کہ دیکھو وصلِ الہی اصلی اور آخری انتہائی مقصود ہے اور انسان اور خدا کے درمیان غیر محدود بعد ہے.وہاں تک پہنچنے کے لئے ایک ہدایت کے بعد دوسری ہدایت کا پانا ضروری ہے.اس کی رضا کو تم پاؤ گے تمہیں روحانی سرور ملے گا.تم خدا کے پیارے ہو گے اس حد تک.لیکن یہ پیار وہ انتہائی پیار تو نہیں ہوگا.جو تم حاصل کر سکتے ہو اس لئے قرآن کریم میں شروع میں ہی کہہ دیا گیا تھا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ہدایت کے بعد دوسری ہدایت.نئی راہیں ہدایت کی جو اور آگے لے جانے والی ہیں.ایک منزل کے بعد اگلی منزل پر پہنچیں گے پھر ہدایت ملے گی.یہ تو نہیں تمہاری منزل آگے چلو.پھر اور راہ دکھا دی.پھر اور آگے لے گئے.پس اپنے نفس کے لئے اور دوسروں کی ہدایت کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی جو یہ صفت ہے کہ وہ ہدایت کے بعد ہدایت دیتا چلا جاتا ہے اس کا ہمیں علم ہو اور اس کے لئے ہماری جدو جہد اور

Page 217

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث جہاد اور مجاہدہ ہو.۲۱۱ سورة البقرة اور بارھویں یہ ہے کہ ہدایت کی نئی راہیں کھولنے والے دلائل ہیں.دوسرے نئی راہوں کی ضرورت پڑتی ہے نئے زمانوں کے ساتھ.ہر زمانہ نئے مسائل انسان کے سامنے رکھتا اور نئے علوم قرآنی کا تقاضا کرتا ہے تو پچھلے دروازے پچھلی راہیں بند ہو جاتی ہیں آگے نہیں چلتیں.انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے انسان کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتیں.نئی راہیں کھلنی چاہیے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے ایسے محبوب بندے اُمت محمدیہ میں موجود رہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے نئے علوم روحانی سیکھ کر ہدایت کی نئی راہوں کا علم حاصل کر کے زمانہ کے نئے مسائل کو حل کرنے کا سامان پیدا کرتے ہیں.اور تیرھویں ہمیں یہ بتایا گیا کہ قرآن کریم ایک ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس کے ساتھ محض دلائل کا یا تعلیم کا ، ہدایت کا ہی تعلق نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فرقان بھی اس کو دیا گیا اور اس کے ساتھ الہی نشان بھی ہیں.پہلے کہا گیا تھا کہ روزے تم پر فرض کئے گئے جس طرح پہلوں پر فرض کئے گئے.اب چودھویں بات ہمیں یہ بتائی گئی کہ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ رمضان کے روزے رکھو امر کے صیغہ میں.پہلے فرضیت بتائی تھی، اب حکم کا رنگ ہے.تمہیں حکم ہے کہ رمضان کے روزے رکھو.اور پندرھویں یہ کہ اگر عارضی وقتی بیماری ہو.پہلے جس بیماری کا ذکر تھا وہ دائی تھی جب روزہ رکھنے کی طاقت ہی جاتی رہتی ہے لیکن اب یہ ذکر ہے کہ عارضی طور پر انسان بیمار ہو جاتا ہے مثلاً بہت ساری بیماریاں ہیں ایک کو بطور مثال کے لے لیتے ہیں.رمضان سے دو چار دن پہلے آٹھ دس دن پہلے اگر کسی نوجوان بالغ کو ٹائیفائیڈ ہو جاتا ہے ڈاکٹر اس کو کہے گا تم روزہ نہیں رکھ سکتے تو اگر وقتی بیماری ہو تو تعداد جو ہے، جتنے چھٹ گئے مثلاً بیماری جو ہے وسط رمضان میں بھی آسکتی ہے شروع میں بھی آسکتی ہے پہلے بھی آسکتی ہے.کچھ روزے بھی چھڑوا سکتی ہے.سارے روزے بھی چھڑوا سکتی ہے تو جو تعداد رہ گئی ہے وہ تعداد اور دنوں میں پورا کرو اور تمہیں ثواب رمضان کے روزوں کا ہی ملے گا یہ شان ہے اسلامی تعلیم کی.اگر وقتی بیماری ہے اور عذر صحیح ہے اور نیت میں اخلاص ہے تو دوسرے وقت میں ماہ رمضان سے باہر جو تم فرض روزے پورے کر رہے ہو گے تمہیں تو اب وہی ملے گا جو رمضان کے دوران روزہ رکھنے والوں کو ثواب ملے گا اور اگر مسافر ہو تب بھی اور دنوں میں تعداد پوری کرنا واجب ہے.

Page 218

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۱۲ سورة البقرة و سولہویں بات ہمیں یہ بتائی (اللہ بدعات سے محفوظ رکھے ) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے.ایک یہ بتایا کہ ان آیات میں يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْر اللہ تعالی تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اللہ آسانی چاہتا ہے اس کی بڑی مہربانی ہے پر ہم تکلیف اٹھا کے اس کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے.اسلام کہتا ہے کہ تم اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے.کامل فرمانبرداری کے نتیجہ میں اس کی رضا کو حاصل کرو گے تو سولہویں کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے.اور ستر ہوئیں ہمیں کہا وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر.اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے تنگی پیدا کرو تو جو شخص اپنے لئے تنگی پیدا کر کے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو میسر اور آسانی ( يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ ) کی سہولت دی گئی ہے اس کے خلاف کام کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کر رہا ہے کیونکہ اعلان کیا گیا ہے وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے تنگی پیدا کرو تو خدا تعالیٰ کچھ چاہتا ہے اور تم اس کے خلاف چاہتے ہو اس کو کیسے خوش کرو گے.اور اٹھارہویں بات اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنے لئے تنگی پیدا کرو.اس لئے اللہ کہتا ہے دوسرے وقتوں میں تعداد کو پوری کرو.اگر مریض ہو تب بھی اگر عارضی طور پر مریض ہو تب بھی اور اگر مسافر ہو تب بھی اور یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور تعداد کو بھی پورا کر لو یعنی تنگی میں پڑے بغیر روزوں کی تعداد پوری کر کے اس کی رضا بھر پور جو لے سکتے ہو تم حاصل کر لو.اور انیسویں یہ کہ روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جا سکتے ہو.اور بیسویں یہ کہ تم ایک دوسرے کے لئے لباس ہو.اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دو کے تعلقات ایسے ہیں اور ہر دو کی ذمہ داریاں ایسی ہیں ( مرد اور عورتیں دونوں سن لیں ) کہ خاوند بیوی کی عزت کا نگہبان اور بیوی خاوند کی عزت کی نگہبان بن جاتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کسی فرانسیسی مترجم نے فرانسیسی میں قرآن عظیم کا ترجمہ کیا تو اس آیت کا یہ ترجمہ کر دیا کہ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ انْتُمْ لِبَاسٌ گھن کہ عورتیں تمہاری پتلونیں ہیں اور تم ان کے گھگرے ہو They are your trousers and you are their shirts تو یہ مطلب نہیں ہے ظاہری لباس مراد نہیں.لباس ڈھانکتا

Page 219

تفسیر حضرت خلیفہ لمسح الثالثة امسح ۲۱۳ سورة البقرة ہے.لباس سردی گرمی سے حفاظت کرتا ہے.لباس زینت بنتا ہے.لباس کے متعلق خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بہت سے فوائد بتائے ہیں.یہاں روحانی فوائد مراد ہیں اور صرف اتنا کہا ہے کہ تم ان کے لئے لباس اور وہ تمہارے لئے لباس.اکیسویں بات یہ بتائی گئی کہ کھاؤ پیوروزہ کھولنے کے بعد کوئی پابندی نہیں یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے.شروع میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بعض ایسے مخلص مسلمان تھے ( پوری طرح احکام ابھی واضح نہیں تھے ) کہ جب روزوں کا حکم ہوا تو انہوں نے روزے سے روزہ ملانا شروع کر دیا یعنی دو دن کا روزہ اکٹھا رکھ لیا اور بہت زیادہ تنگی میں اپنے آپ کو ڈالا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع کیا.اب یہ حکم ہے کہ روزہ کھولنے کے بعد سحر تک جوسحری بند ہونے کا وقت ہے جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں روشنی کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگ جاتی ہے کہتے ہیں اس وقت تک کھاؤ پیوا اپنی ضرورت کے مطابق.یہ نہیں کہ اسراف کرو.اپنی ضرورت کے مطابق ہر شخص کھائے اور پئے.کسی کی دو چھٹانک کی ضرورت ہے ممکن ہے کسی کی ایک سیر کی ہو جائے لیکن بہر حال کہا ہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق کھاؤ اور پیو صبح تک.اور بائیسویں یہ بتایا کہ اس کے بعد جس وقت سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد رات تک غروب آفتاب تک روزوں کی تکمیل کرو.ادھورے روزے نہیں جس طرح چڑی روزہ بچے رکھا کرتے ہیں یعنی دن میں چار پانچ روزے بالغ مسلمانوں کے لئے وہ روزے " نہیں ہیں.تنمیسویں یہ ہے کہ اعتکاف کی حالت میں رات کو بھی بیویوں کے پاس نہ جاؤ اور یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے بنیادی باتیں بیان کرنی شروع کیں.اور چوبیسویں یہ بتایا کہ یہ جو میں نے حکم نازل کئے ہیں ان کو ایسا سمجھو کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے قائم کردہ حدود ہیں.ان کے قریب بھی مت جاؤ.بعض لوگ دیر بعد سحری شروع کرتے ہیں اور دیر تک کھاتے رہتے ہیں اور حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں.یہ تو صحیح ہے کہ ایک مؤذن مدینہ میں کوئی آدھ منٹ یا ایک منٹ پہلے صبح کی اذان دے دیتے تھے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ

Page 220

۲۱۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث زیادہ محتاط ہیں وہ جو آخری ایک منٹ ہے وہ تو تمہارا ہے کھانے کا.اس میں بے شک کھالیا کرو لیکن اصل یہ ہے کہ سفید دھاری روشنی کی ، کالی دھاری سے الگ نظر آنے لگ جائے.اس کے بعد کچھ نہیں کھانا.یہ حد ہے اس کے قریب بھی مت جاؤ اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ جو اس تفصیل کے ساتھ اپنے احکام بیان کرتا ہے.اس طرح لوگوں کے لئے احکام بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ ہلاکتوں سے بچ جائیں تو یہ باتیں تفصیل سے تمہیں بتادیں.روزہ کی مصلحتیں بتا دیں.روزے کے آداب بتا دیئے.روزہ کے آداب میں سے سب سے بڑا ادب قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت.کثرت سے دعائیں کرنا ہے اور بیچ میں سے ایک آیت میں چھوڑ گیا تھا کیونکہ میں اس کے اوپر ذرا لمبا کہنا چاہتا تھا میرا خیال تھا کہ اگر وقت ہوا تو بتا دوں گا.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِ فَانِ قریب اس کا روزوں کے ساتھ اور ماہ رمضان کے ساتھ اور کثرت عبادت کے ساتھ اور کثرت قراءت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے (خطبات ناصر جلد ہشتم ۲۸۱ تا ۲۹۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزوں کا رکھنا فرض کیا گیا ہے.جس طرح ان لوگوں پر (ان کی شریعتوں کے مطابق ) فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم روحانی اخلاقی کمزوریوں سے بچو.سو تم روزے رکھو چند گنتی کے دن (رمضان کا مہینہ ) اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا مسافر تو اور دنوں میں تعداد پوری کرنی ہوگی اور ان لوگوں پر جو اس روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا واجب ہے یعنی جتنے روزے پھٹے ہیں اس کے مطابق بشرط استطاعت.رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم اترا یا جس کے بارہ میں قرآن کریم نے ہدایت فرمائی.یہ بھی درست ہے کہ رمضان میں پورے کا پورا قریباً قرآن اترا کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان میں اس وقت تک جس قدر قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا دور کرتے تھے.رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے جو کھلے دلائل، جو ہدایت کا رنگ رکھتے ہیں اپنے اندر رکھتا ہے اور فرقان ہے، مابہ الامتیاز پیدا کرتا ہے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان.اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو دیکھے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنی واجب ہوگی.اللہ

Page 221

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۱۵ سورة البقرة تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم اس کے شکر گزار بندے بنو.اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سوچاہیے کہ وہ بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.یہ تو درست ہے کہ حکومت وقت نے اپنے ایک فیصلہ کے ذریعے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے.اس لئے جو ان کے فیصلے ان کے معین کردہ دائرہ اسلام کے اندر نفوذ اسلام کے لئے ہوں ان کا اطلاق جماعتِ احمدیہ پر نہیں ہوتا ، نہ ہو سکتا ہے.اپنی جگہ یہ درست لیکن جو ہدایت اس نے قرآن عظیم کے ذریعے دی ہے ہماری اپنی ہی بھلائی کے لئے اور ترقیات کے لئے اس کی پابندی کرنا ہم میں سے ہر ایک پر ایک بنیادی فرض ہے ان ہدایات کے مطابق جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں دی ہیں.قرآن کریم نے شہر رمضان کی جو خصوصیات اور ذمہ داریاں ہیں وہ بیان کر دی ہیں ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کر کے وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے عملی تفسیر ان آیات کی رکھ دی ہے.میں نے جو طریق اس وقت منتخب کیا ہے وہ یہ نہیں کہ میں ان آیات کی تفسیر کروں بلکہ اس میں سے میں نے بارہ پوائنٹس (Points) اٹھائے ہیں اور وہ یہ ہیں.نمبر ایک یہ کہ روزہ رکھنا ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے، ہر اس احمدی کے لئے ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنا ضروری قرار دیا ہے.بعض آسانیاں پیدا کیں اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بعد میں آئے گا لیکن کسی احمدی کی خو” بہانہ جو نہیں ہونی چاہیے کہ بہانہ ڈھونڈ کے روزوں سے بچنے کی راہ کو اختیار کرے.روزہ فرض ہے روزہ رکھنا ہر اس احمدی پر جس کو رکھنا چاہیے فرض ہے اور ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو اس کی سزا مقرر کی نہ رکھنے کی ، اس کے حکم توڑنے کی ، وہ کوئی دنیوی سزا نہیں ہے اور یہ یا درکھیں کہ دنیا کی کوئی سزا اللہ تعالیٰ کی سزا کا کفارہ نہیں بن سکتی کہ آپ سمجھیں کہ دنیا میں چونکہ انسان کی بنائی ہوئی سزا مل گئی اس لئے کفارہ ہو جائے گی.قرآن کریم میں بعض ایسی سزاؤں کا ذکر ہے جو کفارہ بن جاتی ہیں.تفصیل میں اس وقت نہیں جاؤں گا.ابھی یہ مضمون چلے گا وو

Page 222

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۱۶ سورة البقرة انشاء اللہ تعالیٰ پھر موقع ہوا تو اس کو بھی بتا دوں گا.بہر حال خدا تعالیٰ کا یہ حکم توڑنا کہ خدا کہے کہ اے فرد واحد، ( ہر فرد کو مخاطب کیا ہے قرآن کریم نے ) اے احمدی! تجھ پر روزہ فرض ہے کیونکہ فرض کی جو شرائط ہیں وہ تیرے وجود میں، تیری ذات میں تیری زندگی میں پوری ہوتی ہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کو توڑے تو خدا تعالیٰ کی سزا کا عذاب کا وہ مستحق ٹھہرے گا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور دنیوی کوئی سزا بطور کفارہ کے اس کے لئے نہیں بن سکتی کہ انسان کی سزا خدا تعالیٰ کی سزا سے اسے بچالے.قرآن کریم، قرآن حکیم ہے دلیل دیتا اور ہمیں سمجھاتا ہے کہ جو میرا حکم ہے اس پر کیوں عمل کرو.تو یہاں دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا.ایک یہ کہ اخلاقی بیماریاں ہیں بہت سی ، روزہ ان سے بچاتا ہے کیونکہ پاکیزگی پیدا کرتا اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں کھولتا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں کھولی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کر دیتا ہے کہ ان راہوں پر چل کر اخلاقی اور روحانی بیماریاں پیدا نہیں ہوسکتیں اور نہ ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایسے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے جو نیک نیتی کے ساتھ اور پورے اخلاص کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ اور انتہائی عاجزانہ جھک کے اس کے حضور روزہ بھی رکھتے ہیں اور قبولیت روزہ کے لئے اس کے حضور دعا ئیں بھی کرتے ہیں.تیسری بات جو ان آیات سے ہمیں پتا لگتی ہے، ظاہر ہے کہ جو بیمار ہو روزہ نہ رکھے.اور چوتھی بات یہ کہ جو سفر پر ہو وہ روزہ نہ رکھے.سفر پر ہونے کے متعلق نہ یہ بتایا ہے قرآن کریم نے کہ دس دن کے سفر پر ہو یا دس مہینے کے سفر پر ہو یا تین دن کے سفر پر ہو، نہ یہ بتایا ہے کہ دس میل کے سفر پر ہو یا پچاس میل کے سفر پر ہو یا پانچ ہزار میل کے سفر پر ہو.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس لئے فرمایا ہے کہ جو عرف عام میں سفر کہلاتا ہے وہ سفر ہوگا.آپ نے فرمایا ہم سیر کے لئے نکلتے ہیں، کئی میل سیر کے لئے چلے جاتے ہیں کسی کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم سفر پر ہیں اور ہم سفر کی نیت سے نکلتے ہیں اور ابھی دو میل نہیں گئے ہوتے تو ہمارا دماغ جان رہا ہوتا ہے کہ ہم سفر پہ نکلے ہوئے ہیں.جو بیمار یا جو سفر پہ ہو، اس کے لئے جو سہولت دی گئی یہ اختیاری نہیں جس طرح یہ حکم ہے کہ جب روزہ رکھنا تم پر واجب ہو جائے شرائط کے لحاظ سے، روزہ رکھو.اسی طرح یہ حکم ہے کہ جب تم بیمار ہو یا سفر پہ ہو تو روزہ نہ رکھو.اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے.اصل چیز یہ ہے کہ جو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے

Page 223

۲۱۷ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا تھا جب انہوں نے کہا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں خدا تعالیٰ کی راہ میں تو انہوں نے بڑا ہی لطیف جواب دیا.انہوں نے یہ نہیں کہا پھر ذبح کر دو.انہوں نے یہ کہ تابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ ( الصفت : ۱۰۳) جو حکم ہے اس پر عمل کرو.تو اصل روح یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے اس کی اطاعت میں برکت اور ثواب اور خدا کی رضا کا راز ہے.اپنے زور بازو سے تم خدا تعالیٰ کے پیار کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتے.کوشش کرنے والے تو بعض لوگ ایسے ہیں جو غلط راہ پر چل کے ساری عمر اس طرح ہاتھ اونچار کھتے ہیں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یہاں تک کہ دورانِ خون ختم ہو کے سارا باز وخشک ہو جاتا ہے.ناسمجھ دماغ کہے گا کہ اس نے خدا کے لئے بڑی قربانی دی لیکن جو صاحب فراست اور جس کو تفقه في الدِّینِ حاصل ہے وہ کہے گا کہ اس نے اطاعت باری تعالی سے گریز کیا اور خدا تعالیٰ کو ناراض کیا تو اس نکتے کو سمجھو.صرف جماعت احمدیہ کو کہ ان کو سمجھانا میرا فرض ہے.یہ کہہ رہا ہوں کہ کوئی بدعت بیچ میں نہ آئے.خدا نے جو کہا ہے وہ کرو.جو خدا نے کہا ہے وہ کرو گے تمہیں خدا کا پیا مل جائے گا.اگر اپنی طرف سے بیچ میں بدعات کو شامل کرو گے خدا تعالیٰ کو ناراض کر دو گے.پانچویں بات ہمیں یہ پتا لگی کہ ایسے لوگ جو عارضی طور پر بیمار اور روزہ چھوڑ رہے ہیں.مثلاً تین دن ۱۰۶ بخار ہو گیا ملیر یا ہمارے ملک میں بڑا ہے دودن ، تین دن اس کی کمزوری رہی پانچ چھ دن میں وہ روزہ نہیں رکھ سکا، پھر رمضان میں ( رمضان تو انتیس ، تیس دن کا ہے ) اس نے روزے رکھنے شروع کر دیئے لیکن پانچ چھ روزے جو چھٹ گئے اس کے تو حکم یہ ہے کہ بعد میں رکھے، اگلے رمضان سے پہلے ان روزوں کو پورا کرے اور مسافر ساری عمر کے لئے تو مسافر نہیں ہوتا.کوئی پانچ دن کے لئے باہر جائے گا اس کے پانچ روزے چھوٹیں گے اگر رمضان میں گیا، کوئی ممکن ہے کہ سارا رمضان بھی سفر میں گزارے حکم ہے کہ چھٹے ہوئے روزے انتیس دن کا اگر رمضان تھا تو انتیس روزے اگلے رمضان سے پہلے رکھے.اگر وہ تیس دن کا رمضان ہے تو اگلے رمضان سے پہلے وہ تمیں روزے اپنے پورے کرے.یہ حکم ہے ان آیات میں.کچھ لوگ ایسے ہیں جو، جو بیمار ہے، جو سفر پہ ہے قسم کی کیٹیگری (Categary) میں نہیں آتے.یہ وہ لوگ ہیں جو آگے دو قسمیں ہیں ان کی ، جو ہمیشہ کے لئے اپنی عمر میں روزہ رکھنے کی طاقت کو کھو بیٹھے ہیں.ایک پچھتر اسی سال کا بوڑھا ہے، وہ بالکل ہی

Page 224

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۱۸ سورة البقرة کمزور ہو گیا ہے، چلنے پھرنے کی بھی طاقت نہیں، لوگوں کے سہارے سے اٹھ رہا ہے اور اس حالت میں رمضان آیا پھر خدا تعالیٰ نے اس کو دس سال اور زندگی دی تو دس رمضان کے روزے اس نے گزارے ہیں.اس کے لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ رمضان کے روزے جو چھوٹ گئے ہیں وہ بعد میں رکھ لے.ایک یہ گروہ ہے.یا مثلاً ٹی بی کا بیمار ہو گیا نو جوان اور بیمار ہی رہا اس کو آٹھ ، دس، پندرہ بیس سال خدا نے زندگی دی اور ڈاکٹر اس کو دن میں پانچ دفعہ انجیکشن (Injection) لگاتے ہیں یا دوائی دیتے ہیں یا کینسر کا بیمار ہے وہ کہتے ہیں اتنے اتنے وقفے کے بعد ایک دن میں چار خوراکیں دوائی کی کھاؤ، روزہ رکھنے کا سوال ہی نہیں اس کے لئے اور چند سالوں کے بعد اس کی وفات ہو جاتی ہے.یہ دوسری قسم ہے اور یا ایسا عذر ہے جو سال بھر اس کو روزہ نہیں رکھنے دے گا چونکہ اگلے سال سے پہلے پورے کرنے تھے نا اس واسطے اس کے روزے نہیں رکھے یعنی اس ماہ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دئیے.مثلاً ایک حاملہ ہے، حاملہ کے لئے روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے.ایک حاملہ ہے جس نے بچہ جننے کے بعد دودھ بھی پلانا ہے اپنے بچے کو دودھ پلانے والی ماں نے روزہ نہیں رکھنا.تو سال گذر گیا ممکن ہے اس سے بھی زیادہ زمانہ گذر جائے لیکن ایک سال تو یقیناً گذر گیا نا.رمضان میں وہ حاملہ ہے، چھ مہینے کے بعد اس نے بچہ جنا، دودھ پلانا شروع کر دیا وہ اگلے رمضان تک کے جو گیارہ مہینے ہیں ان میں وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہوئی، یہ اجازت اس کو ملی ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ بھی اس کے روزے نہیں رکھیں گی اور نہ روزے پورے کریں گی بعد میں.اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر، ٹیسر پر رکھی ہے عسر پہ نہیں رکھی اور ہمیں دعا بھی سکھائی وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِه (البقرة: ۲۸۷) اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ ہمارے اوپر ایسا بوجھ ڈال دے جس کے اٹھانے کی اس نے ہمیں قوت ہی نہ عطا کی ہو خدا تعالی تو ایسا کر ہی نہیں سکتا اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم تیرے دین کے احکام کی ایسی انٹر پر ٹیشن (Inter-Pretation) ایسی تفسیر نہ کر لیں کہ اس پر عمل ما لا يطاق بن جائے ہمارے لئے ہمیں فراست عطا کر کہ تیری مرضی کے مطابق ہم تیرے احکام کو بجالانے والے ہوں اور مَا لَا طَاقَةَ لَنَا نہ ہو بلکہ بشاشت اور شرح صدر کے ساتھ ہم تیرے احکام کو پورا کرنے والے ہوں.

Page 225

۲۱۹ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ساتویں بات یہاں یہ بتائی گئی ہے کہ تمہیں سوچنا چاہیے کہ ہم جو تمہارے پیدا کرنے والے ہیں جو تمہیں قو تیں اور استعدادیں عطا کرنے والے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ تم میں کس قسم کی صلاحیت پائی جاتی ہے ہم نے اپنے کامل علم کی بنا پر اور حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں یہ فیصلہ کیا کہ تمہاری طرف جو ایک کامل اور مکمل شریعت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعہ سے بھیجی جائے اس کی بنیاد آسانی پر رکھی جائے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وہ تنگی نہیں چاہتا اور حکم ہے تمہارے لئے کہ جب خدا تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا تو تم بھی اپنے لئے تنگی نہ چاہو.آٹھویں بات یہ ہے کہ اسلام کی روح بشاشت اور شرح صدر ہے یہ روح نہیں ہے کہ مشقت کرو مشقت سمجھو کوئی بھی عبادت مشقت نہیں کیونکہ جو سچا اور حقیقی مسلمان ہے وہ شرح صدر سے احکام بجالاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا یہ اس کے لئے بہتر ہو گا یعنی اصل بنیا د فرمانبرداری ہے.نویں بات یہ کہ جو شخص رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ زور بازو سے خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے، یہ جہالت ہے، یہ بیوقوفی ہے.کوئی شخص دنیا میں، کوئی وجود دنیا کا اپنے زور سے اپنے رب کو خوش نہیں کر سکتا.اس کی اطاعت کر کے، اس کے حضور عاجزانہ جھک کے، اس سے دعائیں کر کے، اس کی رحمت کو ، اس کے فضل کو ، اس کی برکتوں کو جذب کر کے، اس کو خوش کر سکتا ہے ویسے نہیں کر سکتا.دسواں یہ کہ رمضان کا مہینہ بڑی عظمتوں والا ہے.یہ ایک بنیادی چیز ہے اور سمجھنے والی اور یا درکھنے والی، رمضان کا مہینہ بڑی عظمتوں والا ہے اس لئے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کہ یہ وہ وه مہینہ ہے جس میں قرآن کریم جیسی ہدایت نازل ہوئی.ھدی للناس یہ انسانوں کے لئے ہدایت ہے.وَبَيِّنةٍ من الهدی اور ایسے دلائل اپنے اندر رکھتی ہے ( انسان کو سمجھاتی ہے کہ جو تمہارے سامنے تعلیم رکھی جارہی ہے وہ ان راہوں کی طرف ہدایت دیتی ہے ) جو خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہیں اور ایسی تعلیم ہے جو فرقان ہے، حق و باطل میں تمیز کرنے والا ہے.گیارہویں بات اور یہ جو یہاں روزہ رکھنے کا حکم ہے پہلا حکم تھا نماز پڑھنے کا وہ ان آیات میں نہیں ہے لیکن صوم کی وجہ سے اس کا ذکر ضروری ہے.نماز جو ہے الصَّلوةُ الدُّعَاءُ نماز پڑھتے ہی ہم دعا کے لئے ہیں نماز میں دو قسم کی دعائیں ہیں، ایک وہ مسنون دعائیں ہیں یعنی قرآن کریم

Page 226

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة البقرة کی آیات اور وہ دعائیں ہیں جو مروی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اور ایک وہ دعائیں ہیں اور یہ یا درکھو اس میں بھی بدعت پیدا ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے بلکہ پسند کیا ہے کہ تم مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو اور اس سے ما نگو نماز کے اندر.سید نا حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نماز جو ہے صلوۃ ، یہ تزکیہ نفس کرتی ہے اور تزکیہ نفس ( آپ فرماتے ہیں ) یہ ہے کہ نفس اتارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہوتا ہے یعنی اہوائے نفس جو ہیں نفسانی خواہشات جو ہیں ان سے انسان بچتا ہے.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت:۴۶) اور جو روزہ ہے یہ محلی قلب کرتا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کئے ) کہ کشف کا دروازہ کھلتا ہے اور دیدار الہی کے سامان پیدا ہوتے ہیں.تو کتنی عظمت ہے ماہ رمضان میں کہ اگر نیک نیتی سے مقبول روزے رکھ لو گے تو دیدار الہی کے سامان پیدا کئے جائیں گے اور قرب کی راہیں جو ہیں وہ کشادہ کی جائیں گی تمہارے لئے.بارہویں بات اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت اس مہینے میں کی جائے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی اور جیسا کہ میں نے بتایا حضرت جبرائیل علیہ السلام ماہ رمضان میں دور کیا کرتے تھے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے صرف 66 یہی کتاب پڑھنے کے قابل ہے اس واسطے میں کہتا ہوں جماعت کو کہ آپ کثرت سے قرآن کریم پڑھیں خصوصا رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ زور تلاوت قرآن کریم کے اوپر ڈالیں.ایک محدث یا فقیہ تھے ( مجھے یاد نہیں رہا امام بخاری تھے یا دوسرے ) ان کے متعلق آتا ہے کہ رمضان کا جب مہینہ شروع ہوتا تھا تو ساری کتابیں بند کر کے رکھ دیتے تھے اور صرف قرآن کو پکڑ لیتے تھے ، سارے رمضان میں سوائے قرآن کریم کے اور کچھ نہیں پڑھتے تھے آپ فرماتے ہیں.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہیں سکتی“ آپ فرماتے

Page 227

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث الثالثة ۲۲۱ سورة البقرة ہیں غلبہ اسلام کے لئے یہ حربہ ہاتھ میں لو اس کام کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو اللہ تعالیٰ تمہیں تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دے گا کیونکہ یہ فرقان بھی ہے نا.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى جو لوگ اللہ ( سید نا حضرت اقدس علیہ السلام کا ترجمہ ہے بعض لفظی تبدیلیوں کے ساتھ ) اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں یہ پوچھنا چاہیں اگر کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں سے، جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاتی ہوں.( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِی کے یہ معنی آپ نے کئے ہیں ) تو ان کو کہہ دے میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دُور ہیں.جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دعا کرے، دعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہم کلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دعا کو پایہ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں.(خطبات ناصر جلد نم صفحه ۱۵۹ تا ۱۶۷) ان دو آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنے کے فوائد اور جن طریقوں سے وہ فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں ان کے متعلق ہمیں ایک حسین رنگ میں تو دی ہے.تعدی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ اس مہینے کا نام اسلام سے قبل ناتق تھا اسلام نے اس مہینے کو رمضان کا نام دیا ہے اور اس نام کے اندر اتنے وسیع معانی ہمیں نظر آتے ہیں کہ دل انہیں معلوم کر کے خدا تعالیٰ کے کمال قدرت کو دیکھ کر اس کی حمد کے جذبہ سے بھر جاتا ہے.رمضان کا لفظ رمض سے نکلا ہے اور جب ہم رمض کے مختلف معانی پر غور کرتے ہیں تو اس کے بہت سے معنی ایسے ہیں جن کا ماہ رمضان سے تعلق واضح ہو جاتا ہے.چنانچہ جب عربی میں ارمَضَ الشيئ کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اخرقۂ اسے جلا دیا.اس لفظ میں سوزش کا تصور پایا جاتا ہے.اگر کہا جائے آرمضَ الرّجُلَ تو اس کے معنی ہوتے ہیں اَو جَعَہ اس کو دکھ پہنچایا.تکلیف دی.جب ہم ان دو معانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ماہ رمضان سے تعلق ہے.اس طرح پر کہ وہ لوگ جو دین اسلام کے منکر ہیں یا اسلام میں تو داخل ہیں لیکن ان کے اندر روحانی

Page 228

۲۲۲ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کمزوری ہے.وہ اس مہینہ کو محض دکھ اور درد ، بھوک اور پیاس اور بے خوابی کا مہینہ سمجھتے ہیں.انہیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کی برکات سے وہ کوئی حصہ لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے جو نیک اور مومن بندے ہیں وہ اس مہینہ کی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے.رَمَضَ النَّصْل کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تیر کے پھل کو ، یا نیزے کے پھل کو یا چھری کے پھل کو پتھر پر رگڑ کر تیز کیا.مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اس مہینہ کے اندر اپنے سہام اللیل یعنی رات کے تیروں کو جو دعاؤں کی صورت میں آسمان کی طرف چلا رہے ہوتے ہیں تیز کرتے ہیں اس طرح ان تیروں کا اثر اس ماہ میں بڑھ جاتا ہے.اور ان کی کاٹ تیز ہو جاتی ہے.اور جن اغراض کیلئے ان تیروں کو استعمال کیا جاتا ہے وہ اغراض اس ماہ میں بطریق احسن حاصل ہو جاتی ہیں.پھر لغت میں ترمَّضَ الصَّيْدَ کا محاورہ بھی لکھا ہے.یعنی جنونی شکاری شدت گرما کی پرواہ نہ کرتے ہوئے.گرمی کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں نکلا.گویا اللہ تعالی کا مومن بندہ بھوک اور پیاس اور دوسری سختیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے.گرمی کی شدت یا تکلیف، یا بھوک اور پیاس، یا بے خوابی وغیرہ اس کے راستہ میں روک نہیں بن سکتیں.اور وہ جو کچھ تلاش کرتا ہے اس کا مفہوم بھی ہمیں اسی لفظ سے ہی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس کا مطلوب ہرن اور تیتر کا شکار نہیں ہوتا چنانچہ الرّمضُ کے ایک اور معنی عربی میں الْمَطْرُ يَأْتِ قَبْلَ الخَرِيفِ فَيَجِدُ الْأَرْضُ حَارَّةً مُختَرِقَةٌ (اقرب ) ہیں یعنی وہ بارش جو گرمی کی شدت کے بعد اور موسم خزاں سے پہلے آسمان سے نازل ہوتی ہے.اور جب وہ نازل ہوتی ہے تو زمین پوری طرح تپی ہوئی اور جلی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب وہ بارش نازل ہوتی ہے تو اس تپش کو دور کر دیتی ہے.اس جلن کو مٹا دیتی ہے اور سکون کے حالات پیدا کر دیتی ہے.تو یہاں سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ رمضان کے مہینے میں جنونی شکاری کی طرح بھوک اور پیاس اور دوسری تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جس مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہے.وہ سمجھتا ہے کہ اس رحمت کی بارش کے بغیر میرے دل کی جلن دور نہیں ہوسکتی میرے اندر جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بجھ نہیں سکتی جب تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی

Page 229

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث الثالثة ۲۲۳ سورة البقرة بارش نازل نہ ہو پس یہ تمام مفہوم لفظ رمضان کے اندر ہی پایا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ میرے بندوں کو چاہیے کہ وہ راتوں کے تیروں ( دعاؤں) کو تیز کریں اور جنونی شکاری کے جنوں سے بھی زیادہ جنوں رکھتے ہوئے میری رحمت کی تلاش میں نکل پڑیں تب میری رحمت کی تسکین بخش بارش ان پر نازل ہوگی اور میرے قرب کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي انْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ - فرمایا یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو بہت ہی برکتوں والا ہے.کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا یا جس کے بارے میں قرآن کریم نے تعلیم دی یا جس میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا.اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کے اندر تین باتیں بیان کی گئی ہیں : اوّل یہ کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نزول قرآن کریم کی ابتداء ہوئی.احادیث اور دوسری کتب ( تاریخ ) سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے آخری حصہ میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا.تو مہینے کا انتخاب اور پھر رمضان کے آخری حصہ کا انتخاب جو خدائے تعالیٰ نے کیا وہ بغیر کسی حکمت اور وجہ کے نہیں ہوسکتا.دوسرے اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرآن کے یہ معنی بھی ہیں کہ اس کے بارے میں قرآن کریم نے تاکیدی اور تفصیلی احکام نازل کئے ہیں اور جب اللہ تعالی قرآن کریم میں کوئی حکم تاکید کے ساتھ نازل فرماتا ہے تو اس لئے نازل فرماتا ہے کہ اس حکم کو بجالا کر بندہ اپنے رب کی بہت سی برکتوں کو حاصل کر سکے.تیسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں کہ بار بار سارا قرآن کریم نازل ہوتا رہا.کیونکہ احادیث میں یہ امر بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ ہر رمضان کی پہلی رات سے آخری رات تک حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول فرماتے اور اس وقت تک جتنا قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا.آپ سے مل کر اس کا دور کرتے.اس طرح وہ نازل شدہ قرآن آپ پر پھر ایک دفعہ بذریعہ وحی نازل ہوتا اور ہر سال ایسا ہوتا تھا.بخاری میں یہ حدیث یوں درج ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ

Page 230

تغییر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ۲۲۴ سورة البقرة الْقُرْآنَ.( بخاری باب كَيْفَ كَانَ بَدهُ الْوَحْي إلى رَسُولِ اللهِ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ بھی تھے.آپ کی جود وسخا کو کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا تھا نہ پہنچا اور نہ ہی آئندہ بھی پہنچے گا.لیکن آپ کی یہ سخاوت رمضان شریف کے مہینہ میں اور بھی بڑھ جاتی.اور وہ اس لئے کہ رمضان میں جبریل علیہ السلام نازل ہوتے فَيُدَارِسُهُ الْقُرآن اور آپ سے مل کر قرآن مجید کا دور کرتے.ان دنوں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بارش کی طرح اترتے دیکھتے تو آپ کی سخاوت اور جو دو کرم میں بھی ایک تیزی پیدا ہو جاتی اور آپ ان ہواؤں کی نسبت بھی جو موسلا دھار بارش لاتی ہیں زیادہ سخی نظر آتے.أنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ فرما کر گویا یوں کہا کہ اے میرے بندو! دیکھو یہ رمضان وہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو اسی مہینہ میں شروع ہوا.دوسرے گیارہ مہینے بھی تو تھے ان میں بھی نازل کیا جا سکتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے اپنی بالغ حکمت اور اپنے کامل علم کی بناء پر نزول قرآن کریم کے لئے اسی مہینہ کو چنا اور اسی میں اس کے نزول کی ابتدا ہوئی.پھر کتنی تاکید کے ساتھ، کتنی حکمتیں بیان کرنے کے بعد اور کتنے دلائل دے کر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا کہ رمضان کے مہینے میں روزے رکھو اور عبادات پر زوردو تا الہی فضلوں کے تم وارث بنو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری نگاہ میں اس مہینے کی اتنی قدر ہے کہ میں ہر سال اس مہینہ میں جبرئیل کو بھیجتا ہوں تا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر قرآن کریم کا دور کرے.پس ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تم خود اندازہ کر سکتے ہو کہ کتنی برکتیں ہیں جن کا تعلق اس مہینہ سے ہے اور تمہیں کس قدر کوشش کرنی چاہیے کہ تم ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کر سکو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن جو رمضان کے مہینہ میں اترنا شروع ہوا اور پھر بار بار اس میں نازل ہوتا رہا.یہ کوئی معمولی کتاب نہیں جس کے لئے اس مہینہ کو چنا گیا ہے.بلکہ ھڈی لِلنَّاسِ یہ وہ پہلی کامل شریعت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بطور ہدایت بھیجی گئی ہے.ہدایت کے ایک معنی اس الہی شریعت کے ہیں جو انبیاء اللہ اپنے ساتھ لے کر دنیا کی طرف آتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب رمضان کے مہینہ میں اُتری ہے.ھدی للناس یہ تمام بنی نوع

Page 231

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۲۵ سورة البقرة انسان کو قیامت تک بحیثیت ایک شریعت کا ملہ فائدہ اور برکت پہنچاتی رہے گی.ایک معنی ہدایت کے یہ بھی ہیں کہ یہ کتاب بنی نوع انسان پر ٹھونسی نہیں گئی بلکہ اس میں انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق لوگوں کو عبادات اور اعمال صالحہ بجالانے کا طریق بتایا گیا ہے.مطلب یہ ہوا کہ یہ شریعت جو انسان کے لئے نازل کی گئی ہے وہ اس کی استعدادوں، صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مد نظر رکھ کر نازل کی گئی ہے.اور قیامت تک انسان میں جو جونئی سے نئی قابلیتیں پیدا ہوتی رہیں گی وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں.کیونکہ ہم عالم الغیب ہیں.اس لئے آج کے انسان سے لے کر اس آخری انسان تک جو اس دنیا میں پیدا ہو گا.اور ملک عرب سے لے کر تمام ان ملکوں کی اقوام تک جو اکناف عالم میں آج موجود نہیں یا آئندہ پیدا ہوں گی ان سب کی صلاحیتوں اور استعدادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ عظیم الشان کتاب بنی نوع انسان کے ہاتھ میں دی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ قرآن ہے.اتنا عظیم الشان قرآن کہ جس کا تعلق ہم نے ماہ رمضان کے ساتھ بڑی مضبوطی سے قائم کر دیا ہے.پھر ھدی للناس میں یہ بھی فرمایا کہ قرآن کریم صرف انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق ہی نہیں بلکہ اس میں ایک یہ بھی خوبی پائی جاتی ہے کہ بندے کی ہدایت کو درجہ بدرجہ بڑھاتا چلا جاتا ہے کیونکہ جس طرح ایک طالب علم پہلی جماعت کا نصاب ختم کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ دوسری جماعت میں بیٹھے اور دوسری جماعت کا نصاب ختم کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ تیسری جماعت میں بیٹھے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے جو نیک بندے ہیں جب وہ ہدایت کے ایک درجہ پر پہنچتے ہیں اور الہی احکام کو بجالاتے ہوئے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتے ہیں کہ اس درجہ کی ہدایات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کو اور بلند کر دیتا ہے اور ہدایت کی نئی راہیں ان پر کھولتا ہے.تو ہدایت کے معنوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مزید ہدایت کی جو خواہش یا استعداد پیدا ہو جاتی ہے اس کے مطابق مزید ہدایت کے سامان بھی اس میں موجود ہیں.پس فرمایا کہ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں بلکہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ صرف ایک دفعہ ہدایت دے کر پھر پیچھے ہٹ کر کھڑی نہیں ہو جاتی بلکہ ہمیشہ تمہیں اس کی ضرورت رہتی ہے.جتنی جتنی تم ایمان اور عرفان میں ترقی کرتے جاتے ہو.قرآن کریم تمہیں اس سے آگے ہی راستہ دکھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا

Page 232

۲۲۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہے کہ تمہاری انتہائی منزل ابھی نہیں آئی.آؤ میں تمہیں اس سے بھی آگے لے جاؤں.پھر وہ تمہارا ہاتھ پکڑتا ہے اور انگلی ہدایات کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور اپنے قرب کی نئی راہیں تم پر کھولتا ہے.تو فرمایا کہ اتنی عظیم الشان کتاب کو ہم نے رمضان شریف میں نازل فرمایا ہے.ھدی للناس میں ایک بڑا ز بر دست دعوئی پیش کیا گیا ہے.فرمایا کہ اب یہی ایک کتاب ہے جس پر عمل کر کے تمہارا انجام بخیر ہوسکتا ہے اور تم جنّت موعودہ کو پاسکتے ہو.دنیا کی دوسری تعلیمیں فلسفیانہ ہوں یا مذہبی، ان کے اندر کچھ ایسی باتیں تو ضرور پائی جاتی ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہم اس دنیا میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن یہاں فرمایا کہ قرآن کریم کے علاوہ دنیا میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جو انسان کی ضرورتوں کو اس طور پر پورا کر سکے کہ اس کی اُخروی زندگی بھی اس کیلئے جنت بن جائے.یہ صرف قرآن کریم ہی ہے جس کے ذریعہ انسان کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اس کو جنت نصیب ہوتی ہے.پھر فرمایا وَ بَيِّنةٍ مِنَ الْهُدی یعنی جب قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ قرآن مجید ہدایت ہے.اور دوسری جگہ ہمیں اسلامی تعلیم میں یہ بھی ملتا ہے کہ انسان اس دنیا میں نسلاً بعد نسل ہر لحاظ سے ترقی کرتا چلا جائے گا.اس کا علم بھی، اس کی عقل بھی اور اس کا انداز فکر بھی ترقی کی راہ پر چلتا چلا جائے گا.تو آخر ایسا زمانہ آجائے گا کہ جب انسان یا انسانوں میں سے اکثر حصہ محض دین العجائز پر قانع نہیں رہے گا بلکہ وہ کہے گا کہ ہم نے مان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور کہ اس پر ہمیں عمل بھی کرنا ہے لیکن ہمیں تسلی نہیں جب تک کہ ہمیں اس حکم کی حکمتیں نہ بتائی جائیں اور دلائل نہ سمجھائے جائیں وغیرہ وغیرہ گویا اس میں ایک پیشگوئی بھی مضمر تھی.تو فرماتا ہے کہ اس تعلیم میں جہاں جہاں دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کے عقلی دلائل بھی پیش کر دیئے گئے ہیں جہاں کہیں حکم دیا گیا ہے ساتھ ہی اس کی حکمتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں.انسانی دماغ خواہ ترقی کی کتنی منازل طے کرتا چلا جائے خواہ کتنے ہی بلند مقام پر پہنچ جائے.بہر حال وہ قرآن کریم کا محتاج رہے گا.وَالْفُرْقَانِ اور اس قرآن میں ایسے نشانات اور دلائل رکھے گئے ہیں جو حق اور باطل کے درمیان امتیاز قائم کر دیتے ہیں حتی کہ کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ خود انہی آیات میں اللہ تعالیٰ نے

Page 233

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۲۷ سورة البقرة قبولیت دعا کا ذکر کیا ہے یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے باطل ٹھہر ہی نہیں سکتا.الغرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان میں روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ تم سہام اللیل ( دعاؤں) کے پھلوں کو تیز کرو اور اپنے مطلوب ( رضاء الہی) کی تلاش میں نکلو.پیاس اور بھوک کو برداشت کرو.اور بے خوابی کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو.کیونکہ یہ ایسا برکتوں والا مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کریم جیسا کلام الہی نازل کیا گیا ہے.اس لئے فمن شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ تم میں سے جو شخص بھی بلوغت.صحت اور حضر میں یہ ماہ پائے وہ اس کے روزے رکھے.شھد کے ایک معنی ہیں عَايَنَهُ وَاطَّلَعَ عَلَيْهِ کہ اس کا معائنہ کیا اور اس پر اطلاع پائے.یعنی ہم نے جو اس روزہ کی حکمتیں بیان کی ہیں.اگر تم ان کا اچھی طرح مطالعہ کرو اور ان پر اطلاع پاؤ تو پھر تمہیں اس ماہ کے روزے پوری طرح اور مقرر کردہ شرائط کے مطابق رکھنے چاہئیں بلکہ تم خود بخو داس کے روزے رکھو گے سوائے اس کے کہ کوئی روحانی کمزوری تم میں موجود ہو.آگے فرما یا يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ کہ اللہ تعالی تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو تنگیاں تمہیں نظر آتی ہیں کہ صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑ نا جس کی وجہ سے بھوک اور پیاس لگتی ہے.پھر سخت گرمی کے موسم میں اور سخت سردی کے موسم میں کچھ اور تکالیف پیش آتی ہیں.فرمایا یہ جو تکالیف تمہیں پیش آتی ہیں یہ محض عارضی اور وقتی ہیں.اتنا پیارا خدا اتنا پیارا رب جس نے قرآن کریم جیسی اعلیٰ تعلیم تم پر نازل کی اور بے شمار دنیوی نعمتوں سے تمہیں محض اپنے فضل سے نوازا، وہ ہر گز پسند نہیں کرے گا کہ وہ تمہیں ان تکالیف میں اس لئے مبتلا کرے کہ تا تمہیں دکھ پہنچائے نہیں بلکہ وہ تو تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر تم ان خفیف سی وقتی تکالیف کو برداشت کر لو گے تو ان کے بدلے میں وہ تمہیں وہ انعام اور اکرام بخشے گا کہ انہیں پا کر تمہیں یہ دکھ، دکھ ہی نظر نہ آئے گا.پھر فرما یا ولِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہم نے تم پر روزے فرض کئے تو یہ حکم بھی دیا کہ سارے رمضان کے روزے رکھو تا کہ تم اس کی گفتی کو پورا کرو.اگر صرف یہ حکم ہوتا کہ روزے رکھو تو کوئی بیس دن کے روزے رکھتا.کوئی دس دن کے، کوئی رمضان کے مہینے میں رکھتا کوئی دوسرے مہینوں میں.پس ہم نے رمضان میں روزے رکھنے کا اس لئے حکم دیا تا کہ اُمتِ مسلمہ ساری کی ساری اس

Page 234

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۲۸ سورة البقرة سارے مہینے میں روزے رکھے اور ان اجتماعی برکات سے فائدہ اٹھائے جو اجتماعی عبادات سے تعلق رکھتی ہیں.دوسرے اس کے معنی یہ ہیں اور یہ زیادہ لطیف ہیں کہ جو زندگی تمہیں دی گئی ہے اسے تم پورا کرو.اس کا کمال تمہیں حاصل ہو.اس میں اشارہ ہمیں بتایا کہ اگر کسی شخص کے پاس مثلاً سوروپیہ ہے.اگر اس میں سے ہیں رو پے گم ہو جائیں یا چوری ہو جائیں اور باقی وہ خرچ کرے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے تمام سو روپیہ خرچ کیا ہے کیونکہ اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے تو صرف اتنی روپے رہ گئے تھے سو کا سور و پیہ وہی خرچ کرتا ہے جس کے پاس وہ سو کا سور و پیہ موجود بھی ہو.فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو ہم نے ایک پیمانہ کے مطابق عمر دی ہے اور ہم نے تم پر دینی فرائض اس لئے واجب کئے ہیں تا کہ تم اپنی عمر کو پوری طرح گزار سکو اور اس کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو.ایک شخص کی عمر سوسال ہو اس میں سے ۲۰ سال اس نے دنیا کی لہو ولعب میں ضائع کر دئے ہوں تو حقیقتاً اس نے سو سال کی زندگی نہیں گزاری کیونکہ میں سال اس نے مردہ ہونے کی حالت میں گزارے ہیں.سو سال کی عمر پانے والا سو سال کی زندگی اسی صورت میں صحیح طور پر گزارتا ہے جس صورت میں کہ اس نے ساری زندگی اپنے اللہ کی اطاعت میں گزاری ہو.جس شخص نے اپنی زندگی کے چند لمحات یا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے پہلو تہی کرتے ہوئے ، اس سے منہ موڑتے ہوئے ، نیک نیتی اور اخلاص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گزارا ہو اس کی عمر کا وہ حصہ ضائع ہو گیا.اور نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اپنی پوری عمر جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی تھی وہ حقیقتاً اس نے اس دنیا میں گزاری کیونکہ یہاں کی پیدائش کا ایک مقصد ہے اور جو حصہ عمر اس مقصد کے خلاف خرچ ہوتا ہے وہ عمر ضائع جاتی ہے.پس فرمایا کہ اگر تم ماہ رمضان کی برکات سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہتے ہو اور اس کے لئے اپنی عمر کو خرچ کرتے ہو تو دیگر برکات کے علاوہ تمہیں ایک یہ برکت بھی حاصل ہوگی کہ تمہیں اللہ تعالیٰ عمر دوسری نیکیاں کرنے کی بھی توفیق دے گا اور اس مہینہ کے بعد جو گیارہ ماہ اور تمہاری زندگی میں آنے والے ہیں وہ بھی حقیقی معنی میں تم خدا کی راہ پر خرچ کرنے والے ہو گے.تو جو شخص رمضان شریف کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ گزارتا ہے تو بقیہ سال کے گیارہ مہینوں

Page 235

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث خلیفہ ۲۲۹ سورة البقرة میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کی توفیق پاتا ہے اور اس طرح اس کی ساری زندگی نیکیوں میں گزرتی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی ساری عمر اس مقصد کے لئے گزاری جس کیلئے اسے پیدا کیا گیا تھا.ولتكبروا اللهَ عَلَى مَا هَدْكُمْ الله تعالی فرماتا ہے کہ اس مہینہ میں میں تم پر اتنی روحانی نعمتیں اور برکتیں نازل کروں گا کہ تم اپنے آپ کو مجبور پاؤ گے کہ اللہ تعالی کی کبریائی کا اعلان کرتے پھرو اور پھر تم قربانی کے ہر موقع کو تکلیف اور دکھ نہیں سمجھو گے بلکہ فضل الہی جانو گے وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اور يفضل تم پر اس لئے بھی نازل ہوں گے کہ تمہارے دل اس کے شکر سے بھر جائیں اور جس مومن کا دل اس کے شکر سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور دور اس کے لئے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم : ۸) یعنی میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا.ا پس جب اللہ تعالی کا انعام نازل ہوا اس لئے کہ اس نے ہماری حقیر سی کوشش کو قبول فرمالیا تو اس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوئے فرمایا لازید نکھ کہ میں تمہیں اور نیکیوں کی توفیق بخشوں گا.پھر اس کی وجہ سے اور شکر کے جذبات پیدا ہوں گے.گویا اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا.اسی تسلسل اور مخلصانہ نیت کی وجہ سے اُخروی زندگی محدود اعمال کے باوجود ابدی زندگی ہو جائے گی.پھر فرمایا.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ جب میں نے اپنے بندوں کو یہ بتایا کہ تم پر بڑے انعامات نازل ہوں گے بڑا فضل نازل ہوگا اور تم خدا کے مقرب بن جاؤ گے تو اس پر میرے بندے کہیں گے کہ ہمارا رب تو محض کبریائی ہے.محض پاکیزگی ہے.رفیع الدرجات ہے.تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے کمال تام اسی کو حاصل ہے اور وہ اتنا ارفع اور اعلیٰ ہے کہ اس کی رفعتوں تک ہمارا تخیل بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اس کی رفعتوں کی کوئی انتہا ہے.لیکن جب ہم اپنے کو دیکھتے ہیں تو اپنے کو خطا کار، گنہگار اور نہایت ضعیف پاتے ہیں.اس طرح ہمارے درمیان اور ہمارے رب کے درمیان لامتناہی فاصلے پائے جاتے ہیں.کیا ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوسکتا ہے؟

Page 236

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث سورة البقرة فرمایا.جب میرے بندے تجھ سے اس معاملہ کے متعلق سوال کریں تو تم انہیں کہہ دو کہ بے شک تم کمزور بھی ہو.تم گنہگار بھی ہو.تم خطار کار بھی ہو.میں تمام بلندیوں کا مالک اور تمام رفعتیں میری طرف ہی منسوب ہوتی ہیں لیکن میری ایک اور صفت بھی ہے اور وہ یہ کہ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جبيعًا ( الزمر : (۵۴) کہ اگر میں چاہوں تو ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہونے کی وجہ سے اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو بخش بھی دیا کرتا ہوں اور جب گناہ میری مغفرت کی چادر کے نیچے چھپ جائیں تو پھر میرے اور تمہارے درمیان جو گناہوں کے فاصلے ہوں گے وہ مٹ جائیں گے اور میں خود آسمانوں سے اتروں گا اور تمہارے قریب آجاؤں گا اور تمہیں اپنا مقرب بنالوں گا.أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ اور اس کی علامت یہ ہوگی کہ تم دعا کرو گے تو میں اسے قبول کرلوں گا تا کہ دنیا یہ نہ کہہ سکے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا جو قرب حاصل ہے وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی برکت سے حاصل ہوا ہے یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں.اس قرب کی دلیل مہیا کرنے کیلئے میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا تا کہ دنیا یقین کرلے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو.واقعی سچا ہے.اگر تم گریہ وزاری اور عجز و انکسار اور تذلل کے ساتھ میرے سامنے جھکتے رہو گے تو دنیا أَجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے نظارے بھی دیکھتی چلی جائے گی.دعا اور قبولیت دعا کے متعلق ہمیں یہ یا درکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا رب ہماری دعائیں قبول تو کرتا ہے لیکن اپنے فضل اور اپنی مرضی سے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گو یا خدا تعالیٰ ہمارا غلام ہے نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ ) اس کا فرض ہے کہ ہماری دعا کو اس رنگ میں قبول کرے جس رنگ میں کہ ہم چاہتے ہیں.لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ وہ تو تمام طاقتوں کا مالک ہے اور وہ محض اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے ہمارے لئے قرب کی راہیں کھولتا ہے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرتا ہے.چونکہ وہ علام الغیوب ہے.ہم نہیں جانتے مگر وہ جانتا ہے کہ جو دعا ہم اپنے لئے جس رنگ میں مانگ رہے ہیں وہ ہمارے لئے اچھی بھی ہے یا نہیں.تب بعض دفعہ وہ ہماری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لئے خیر کی راہیں اس طرح کھول دیتا ہے کہ جو ہم نے مانگا تھا وہ نہیں دیتا اور جو ہم نے نہیں مانگا تھا وہ ہمیں دے دیتا ہے.پھر وہ ہمارے اخلاص اور محبت کے دعویٰ کی آزمائش بھی کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے دعوی میں سچے بھی

Page 237

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۱ سورة البقرة ال ہیں یا نہیں.پھر بسا اوقات ہماری دعا اور قبولیت دعا کے درمیان بڑا زمانہ گزرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں اس کے متعلق ایک بڑا لطیف نوٹ دیا ہے.فرمایا:- غرض ایسا ہوتا ہے کہ دعا اور اس کی قبولیت کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ابتلاء بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے بعد نصرت آتی ہے اور ان ابتلاؤں کے آنے میں پھر یہ ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے“.پھر فرما یا فَلْيَسْتَجِيبُوا ني کہ دعا کا نشان دیکھ کر مومن بندوں کو یقین کر لینا چاہیے کہ میں نے جو احکام بھی ان کے لئے آسمان سے نازل کئے ہیں وہ ان کی بہتری کے لئے ہی ہیں.وَلْيُؤْمِنُوانی چاهے کہ وہ میری توحید پر ایمان لائیں اور میری صفات کی معرفت حاصل کریں اور مخلق باخلاق اللہ کی طرف وہ متوجہ ہوں اور اس کی توفیق انہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ کہ وہ ہدایت پر استقامت سے قائم ہو جائیں.رشد کے معنی ہیں نیکیوں پر دوام اور یہ بڑی ضروری چیز ہے جو شخص چند روزہ نیکیوں کے بعد پھر اپنی زندگی کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی بغاوت میں گزارتا ہے وہ اس کے فضلوں کو کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے رشد کی ضرورت ہے اور رشد کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں کہ ہدایت پا گیا اور اس پر قائم رہا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے ہدایت کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں اور پھر تم ماہ رمضان میں قبولیت دعا کے نمونے بھی دیکھتے ہو لیکن اگر تم مستقل طور پر میری اطاعت کو اختیار نہیں کرو گے تو میرے فضل بھی تم پر مستقل طور پر نازل نہیں ہوں گے اور نہ ہی تمہارا انجام بخیر ہو گا.انجام بھی تم بخیر اسی کا ہوتا ہے جو اپنی زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جو اپنی گردن پر رکھے.الغرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دو چھوٹی سی آیات میں جو حکمت اور ہدایت کی باتیں بتائی ہیں اس سے جو نتیجے نکلتے ہیں ان میں سے اول تو یہ ہے کہ رمضان شریف کا قرآن مجید کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اس لئے رمضان شریف میں تلاوت قرآن مجید بڑی کثرت سے کرنی چاہیے.ہمارے بعض بزرگ تو

Page 238

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۲ سورة البقرة ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے جمع کرنے میں گزار دیں.لیکن جب رمضان آتا تو وہ حدیث کا سارا کام بستوں میں لپیٹ دیتے اور کہتے کہ اب یہ قرآن مجید پڑھنے کا مہینہ ہے.حتی کہ ان میں سے کئی ایک تو ایک ایک دن میں قرآن کریم کا دور ختم کرتے یعنی رمضان شریف کے ایک مہینے کے اندر وہ تھیں دفعہ قرآن کریم کو پڑھتے.دوسری بات یہ کہ جب قرآن ھدی لن کیس ہے.اور اس میں بینات ہدایت بھی درج ہیں اور پھر وہ الفرقان بھی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم تلاوت کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات پر غور کریں اور فکر اور تدبر سے کام لیں اور ساتھ ہی دعا بھی کریں کہ اے اللہ ! ہمیں علم قرآن عطا کر اور اس کے حقیقی معنی سمجھا.تیسری بات جو بیان ہوئی ہے.وہ فلیصمہ ہے.کہ اس مہینے کے روزے رکھے.یہ ایک حکم ہے.کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے اس پر عمل کرنا ضروری ہے.کیونکہ مسلمان کا اتنا تو ایمان ضرور ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے.اور اس میں روزے رکھنے کا حکم ہے.اس لئے روزے رکھنے چاہئیں.چوتھی بات یہ کہ جو شخص سفر پر ہو یا بیمار ہو تو وہ اتنے دن کے روزے بعد میں رکھے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ جو سفر پر ہو یا بیمار ہو اور وہ روزے نہ رکھ سکے تب وہ ان روزوں کو پورا کرے.تو ان الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے بیماری میں روزہ رکھ لیتا ہے یا سفر میں روزہ رکھ لیتا ہے تو قرآن کریم کی اس آیت پر تبھی وہ کار بند رہ سکتا ہے کہ ان روزوں کے باوجود کسی اور وقت میں روزے رکھے.کیونکہ قرآن کریم نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ روزے چھوٹیں تب اور وقت میں روزے رکھو.قرآن کریم نے تو صرف یہ فرمایا ہے کہ جو دن رمضان کے ایسے آئیں جن میں تم بیمار ہو یا سفر میں ہو تو ان دنوں کے روزے تم نے دوسرے دنوں میں رکھنے ہیں.مگر بہا نہ بھو بھی نہیں بننا چاہیے بات یہ ہے کہ سفر کے متعلق بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ”جی آج کل دے سفردا کی اے.بڑا آرام ہے ریل وچ بیٹھے ایتھوں اوتھے پہنچ گئے، لیکن اگر روزہ رکھنا عبادت ہے.تو عبادت خواہ جونسی بھی ہو.اسے ہم نے اس کی پوری شرائط کے مطابق ادا کرنا ہے.مثلاً قرآن کریم کا پڑھنا، نوافل ادا کرنا، رات کو جا گنا، دن کو بھو کے اور پیاسے رہنا.پھر بُری عادتوں کو چھوڑنا اور کئی نیکیوں کے کرنے کا اپنے ربّ

Page 239

۲۳۳ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سے وعدہ کرنا.وغیرہ کئی چیزیں ہیں جن کا تعلق رمضان کے مہینے سے ہے.سواگر رمضان کی عبادت کما حقہ ہم نے ادا کرنی ہے تو یقینی بات ہے کہ چاہے ریل کا سفر ہو.یا ہوائی جہاز کا ہم اس عبادت کو سفر میں یا بیماری میں کما حقہ ادا نہیں کر سکتے.ایک شخص بیماری کی وجہ سے مثلاً نوافل ادا نہیں کر سکتا.اور نہ ہی رات کو دعا کرنے کا موقع پاتا ہے.تو ایک طرح اس نے اس عبادت سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھایا صرف بھوکا پیاسا رہنا ہی تو روزے کا مقصد نہیں کہ صبح صبح کسی کو اس کے گھر والے اٹھا ئیں.یا سوئے سوئے اس کے منہ دودھ کا پیالہ یا ہارلکس کا ایک گلاس ڈالدیں اور پھر وہ لیٹ جائے.اور سارا دن سوتا ر ہے اور پھر شام کے وقت اس کو افطاری کے لئے اٹھادیا جائے.یہ کوئی روزہ نہیں نہ یہ رمضان کی عبادت کہلائے گی بہر حال بہانہ بھی نہیں کرنا چاہیے.کہ کسی طرح روزے کو چھوڑ دیا جائے.بیماری کے متعلق تو بہانہ بنانا آسان ہے اس لئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے یہ صرف ڈاکٹر ہی فیصلہ دے سکتا ہے.کہ یہ بیماری ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے روزہ چھوڑا جائے.بعض بیمار ایسے ہوتے ہیں کہ بظاہر چنگے بھلے معلوم ہوتے ہیں چلتے پھرتے بھی ہیں لیکن ڈاکٹر یہ فیصلہ دے دیتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں.مثلاً ایک شخص بلڈ پریشر کا بیمار ہے.اور ڈاکٹر کے نزدیک اس کا روزہ رکھنا اس کے لئے خطرناک ثابت ہو حالانکہ وہ چلتا پھرتا ہوگا.باتیں بھی کرتا ہوگا.اسی طرح بعض ایسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں کہ ڈاکٹر یہ فیصلہ دے.کہ اس بیماری میں روزہ رکھنا مضر نہیں بلکہ مفید ہوگا.پس ہمیں بہانہ بنا کر روزہ نہ چھوڑنا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں اور نہ کسی کی حالت چھپی ہوئی ہے.ہم اس کے ساتھ فریب یا چالا کی سے کام نہیں لے سکتے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۴ تا ۶۶ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا اُسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح اُن لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم (روحانی ترقیات کے لئے اللہ تعالیٰ کا فیض حاصل کرو اور اسی طرح اخلاقی ترقیات کے لئے اس کی برکت سے ) اپنے اندر ایک طاقت پیدا کرو ( سوتم روزے رکھو) چند گنتی کے دن اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو ( اُسے ) اور دنوں میں تعداد پوری کرنی ) ہوگی اور اُن لوگوں پر جو اس (یعنی روزہ) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور

Page 240

۲۳۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث فدیہ) ایک مسکین کا کھانا دینا (بشرط استطاعت ) واجب ہے ( اس کے ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ اُن لوگوں پر جو فدیہ کی طاقت رکھتے ہوں فدیہ دینا واجب ہے ) اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اُس کے لئے بہتر ہوگا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو ( سمجھ سکتے ہو کہ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے.رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے جس میں ( قرآن کریم ) بار بار نازل کیا گیا ہے.(وہ قرآن) جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ( بنا کر بھیجا گیا) ہے ( یعنی پہلا الہام الہی جس کے مخاطب تمام بنی نوع انسان ہیں ) اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے (ایسے دلائل ) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ( قرآن میں ) الہی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو اس حال میں ) دیکھے ( کہ نہ مریض ہو نہ مسافر ) اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہوتو اس پر اور دنوں میں تعداد ( پوری کرنی واجب ہوگی اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.(اس لئے تم خود اپنے نفسوں کے لئے تنگی نہ چاہو بلکہ اللہ کی دی ہوئی آسانی سے فائدہ اُٹھاؤ ) اور (یہ حکم اُس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور ) تا کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس (بات) پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم (اس کے ) شکر گزار بنو.اور (اے رسول) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو ( تو جواب دے کہ ) میں ( اُن کے ) پاس (ہی) ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہیے کہ وہ ( دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے.وہ تمہارے لئے ایک قسم کا لباس ہیں اور تم اُن کے لئے ایک ( قسم کا لباس ہو اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے.اس لئے اُس نے تم پر فضل سے توجہ کی اور تمہاری (اس حالت کی ) اصلاح کر دی.سواب تم ( بلا تامل ) اُن کے پاس جاؤ اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے اس کی جستجو بھی کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد ( صبح سے ) رات تک روزوں کی تعمیل کرو اور جب تم مساجد میں معتکف ہو تو اُن کے ( یعنی

Page 241

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۳۵ سورة البقرة بیویوں کے ) پاس نہ جاؤ.یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں اس لئے تم اُن کے قریب ( بھی ) مت جاؤ.اللہ اسی طرح لوگوں کے لئے اپنے احکامات بیان کرتا ہے تا کہ وہ ( ہلاکتوں سے ) بچیں.اس رکوع میں جو رمضان کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ایک یہ آیت ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - دو اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں انسان یا بشر کو مخاطب نہیں کیا بلکہ عباد“ کو مخاطب کیا ہے اور یہ سارا مضمون اللہ کے ”عبد“ سے تعلق رکھتا ہے اس عبد سے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات کی اس آیت میں بھی کیا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ (اللديت : ۵۷) فرمایا میں نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے جو شخص حقیقت امیر اعبد بنا چاہتا ہے اور میری صفات کا مظہر بننے کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لئے مجاہدہ کرنے کیلئے بھی تیار ہے تو اسے یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ میں اس کے بہت قریب ہوں.چنانچہ جب ہم عبد کی حقیقت یا عبد بننے کی حالت یا عبد بننے کی اہلیت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مادی وجود دیا اور اس کو بروئے کارلانے کیلئے مختلف قومی عطا فرمائے.ماڈی قومی اور ان کی پرورش کے لئے بہت کچھ چاہیے تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مادی قومی اور بالواسطہ روحانی قومی کی پرورش کے لئے اس کائنات کو بنایا.اب کامل قومی (مادی لحاظ سے ) عطا کرنا ، پھر اُن کی ساری حکمتوں کو اور سارے پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر اُن کے لئے ضرورت کی ہر چیز کو پیدا کرنا یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور کوئی نہیں کر سکتا.(ویسے تمثیلاً ہم اپنی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی صفات تو بڑی مختلف ہیں.ہمیں سمجھانے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ) پس بار یک در باریک طاقتوں اور ان کی نشوو نما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی اس کو پیدا کرنے کے لئے انتہائی قرب کی ضرورت تھی کیونکہ جو شخص دُور ہوتا ہے وہ کسی کی ضرورتوں کو پہچانتا اور سمجھتا ہی نہیں اس لئے وہ مادی قومی کی نشو و نما کے لئے کچھ پیدا ہی نہیں کر سکتا یا اگر پیدا کر سکتا ہے تو وہ ادھوری چیزیں ہوتی ہیں.جس طرح مثلاً انسان کی نشو و نما کے لئے جس حد تک اس کی ذمہ داری

Page 242

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۶ سورة البقرة ہے اس کے متعلق بھی ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ نقص پیدا ہو جاتا ہے یا بھول چوک ہو جاتی ہے.ماں اور مامتا کے باوجود اور باپ اپنے پیار کے باوجود تربیت اولاد میں غلطیاں کر جاتا ہے خواہ اولاد کی جسمانی تربیت ہو یا اخلاقی اور روحانی تربیت ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! تمہارے عبد بننے ہومگر کے لئے جن طاقتوں اور جن صلاحیتوں کی ضرورت تھی وہ ساری کی ساری تمہیں دے دی گئی ہیں.نہ صرف یہ بلکہ اُن کی کامل نشو ونما کے لئے جس قسم کے مادی ذرائع کی ضرورت تھی، وہ بھی پیدا کر دیئے گئے ہیں.پس ان طاقتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ان کی نشوونما کے لئے مادی ذرائع کا پیدا کر دینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ماڈی قومی اور ان کی تربیت اور نشوونما کے لئے زمین و آسمان پیدا کئے.چنانچہ فرمایا : سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٣) زمین و آسمان میں بے شمار چیزیں ہیں جو انسانی پیدائش سے بھی پہلے پیدا کی گئی ہیں.یہ پیدائش یعنی انسان کی قوتوں میں استعدادی کمال کا پایا جانا اور اُن کی نشوو نما کے لئے ہر ضروری چیز کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کے قرب کی دلیل ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے عبد بننے کے لئے صرف مادی قومی کافی نہیں تھے.روحانی صلاحیتوں اور قوتوں کی بھی انسان کو ضرورت تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی صلاحیتیں بھی عطا فرمائیں.پس اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے روحانی قوت اور استعداد کا پیدا کر دینا بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے بہت قریب ہے.پھر جہاں تک روحانی قوتوں کا تعلق ہے انسان از خود اُن سے کام نہیں لے سکتا اس لئے روحانی قوتوں کی کمال نشو و نما کے لئے ہر آن ہدایت باری تعالی کی ضرورت ہے.غرض تخلیق کائنات کا یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جس کی طرف پہلی آیت میں اشارہ ذکر کیا گیا ہے اور پھر وضاحت کے ساتھ اس مضمون کے متعلق قرآن عظیم میں ایک لمبا سلسلہ چلتا ہے.چنانچہ خالی ہی نہیں فرمایا کہ آدم کو ایک ہدایت دے دی اور انسان کو کہا کہ تم اس کے مطابق روحانی ترقیات کرتے چلے جاؤ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت انسان کو اپنی نشو و نما کے جس درجہ اور جس مقام پر پہنچنا تھا اور اس کے لئے جس قسم کی آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی وہ ان کو دے دی گئی.پھر اس کے بعد

Page 243

۲۳۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث یکے بعد دیگرے انبیاء آئے.انسان دنیوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ترقی کرتا چلا گیا.پس جہاں تک آسمانی ہدایتوں کا تعلق تھا اور زمین کے اندر قوتوں کے پیدا کرنے کا سوال تھا اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر درجے میں مختلف ہدایتیں نازل کرتا اور قوتیں پیدا کرتارہا کیونکہ وہ ہر آن اتنا باخبر اور قریب ہے کہ انسان کی ہر بدلی ہوئی حالت کا اُسے علم ہوتا ہے ویسے تو وہ علام الغیوب ہے.ہر چیز اس کے علم میں بھی ہے.یہ اور چیز ہے.میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی توجہ بھی انسان کی طرف رہتی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر بدلی ہوئی حالت کے مطابق اس کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا سامان پیدا کیا اور پھر بالآخر قرآن کریم کی شکل میں اُس نے ایک کامل ہدایت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی.کیونکہ بعثت نبوی کے وقت انسان اپنے شعور میں اس مقام تک پہنچ چکا تھا اور انسان اس قابل ہو گیا تھا کہ ایک کامل ہدایت اور مکمل شریعت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا سکے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے لوگو! تم دیکھتے نہیں.میں نے تمہارے لئے رمضان کے مہینے میں ایک ایسی ہدایت نازل کی ہے جو ھدی لینا کس ہے جس میں سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کے سامان موجود ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پہلی ہدایتیں محدود تھیں اور محدود ہونا بھی ایک نقص ہے اس لئے جب ہم پہلی ہدایتوں کو ناقص کہتے ہیں تو اس معنی میں ناقص کہتے ہیں کہ وہ محدود تھیں بوجہ اس کے کہ اس زمانے کی ضرورتیں محدود تھیں اور بوجہ اس کے کہ انسان اپنی مادی اور روحانی نشوونما میں اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا.اس لئے فرما یا اس قرآن عظیم کے ذریعہ وہ علم بیان کر دیئے گئے ہیں جن کا ذکر پہلی ہدایتوں میں نہیں ہے.یہ قرآن کریم ہی ہے جو ایک کامل ہدایت کی شکل میں نازل ہوا ہے.اس کے نزول سے پہلے انسان کے ذہنی، اخلاقی اور روحانی قومی اس قابل نہیں تھے کہ اُن کی نشوونما کے لئے کامل ہدایت نازل ہوتی.اس لئے اگر چہ بعض ہدایات کا انہیں اجمالاً علم دیا جاتارہا لیکن مکمل علم نہیں دیا گیا کیونکہ وہ اس کو کماحقہ حاصل کرنے کے قابل نہیں تھے لیکن قرآن عظیم کے زمانے کا انسان اس قابل ہو گیا کہ وہ بَيِّنَتِ مِنَ الْهُدى کا حامل بن سکے.چنانچہ وہ جو پہلی ہدایتوں میں اجمال پایا جاتا تھا قرآن کریم نے اس کی تفصیل بیان کی گویا انسان کو ایک ارفع مقام پر پہنچ جانے کی وجہ سے قرآن کریم کے ذریعہ

Page 244

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۳۸ سورة البقرة ہدایت کی نئی اور پر حکمت باتیں بتائی گئیں یعنی وہ ہدایتیں جو مجملا پہلوں کو دی گئی تھیں وہ تفصیل کے ساتھ سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسان کو بتادی گئیں.پھر قرآن کریم کی تیسری خوبی یہ ہے کہ یہ فرقان ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قریہ قریہ اور ملک ملک خدا کے رسول آئے.اللہ تعالیٰ نے اُن کی ضرورتوں اور طاقتوں کے لحاظ سے انہیں آسمانی ہدایت عطا فرمائی.چنانچہ پہلے زمانہ میں رسولوں کی کثرت جہاں اللہ تعالیٰ کے قرب پر دلالت کرتی ہے.وہاں ضرورتوں اور استعدادوں میں اختلاف بھی ظاہر کرتی ہے ہر علاقہ بلکہ بعض دفعہ تو قریب کے دو شہروں کی ضرورت کے اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول مبعوث ہوئے تا کہ خدا کی آواز ہر جگہ پہنچ جائے.یہ کام ایک عظیم اور قریب ہستی ہی کر سکتی ہے اور وہی اس کا خیال رکھ سکتی ہے یعنی ہر زمانہ میں ہر علاقہ کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کا انبیاء کو بھیجنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر اور اس کا علم زمان و مکان کی وسعتوں پر محیط ہے.پس پہلے زمانہ میں انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے ملک اور علاقہ کے حالات کے لحاظ سے اور اپنے قومی کی نشوونما اور اس کے استحقاق کے لحاظ سے جن چیزوں کو حاصل کیا ، اُن میں اختلاف پایا جاتا تھا.چنانچہ بنی اسرائیل کے رسولوں کو جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ اُن کو دی گئی.ہندوستان اور چین میں بسنے والوں کو جس ہدایت کی ضرورت تھی وہ ان کو دی گئی.ہر دو قسم کی ہدایت خدا کے رسول لے کر آئے مگر ان دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.مذہبی دُنیا میں دوسرا اختلاف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت نازل ہوئی.اس کے ماننے والے مختلف الخیال ہو گئے ہر ایک گروہ نے اپنے مطلب کا ایک حصہ لے لیا اور اس پر فخر کرنے لگ گئے یعنی ایک ہی نبی کی امت جب بعد میں بگڑی تو اس نے آپس میں اختلاف کیا اور لوگ مختلف گروہوں میں بٹ گئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآن کریم تمہارے لئے فرقان بن کر آیا ہے.وہ تمام مذہبی اختلافات خواہ پہلی قسم سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہوں یہ اُن کو دور کرنے والا ہے.کیونکہ یہ فرقان ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے دراصل عبد کا لفظ اس آیت کے مفہوم کے سمجھنے کی کنجی ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے جس قسم کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ ہدایت دے دی گئی یعنی انسان مختلف

Page 245

۲۳۹ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث مدارج میں سے گزرا ہے اُسے تاریخ کے مختلف مراحل میں مختلف قسم کی ہدایتوں کی ضرورت تھی وہ اسے دے دی گئیں اور اب اُسے ایک کامل ہدایت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے.اس ہدایت پر چلنے کیلئے ، اس کو اپنانے کے لئے اس کی روشنی میں یہ حصہ رسدی اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر کامل بننے کے لئے یعنی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مظہر صفات باری بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیض کی ضرورت ہے دراصل انسان کا روحانی قویٰ کا مالک بن جانا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر جو قومی پیدا کئے ہیں اُن کی کمال نشو و نما کے لئے صرف آسمانی ہدایتوں کا نازل ہونا ہی کافی نہیں ہے.انسان اُن سے اس وقت تک فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان دعاؤں کے ذریعہ جذب کر سکتا ہے.....غرض تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کا یہی مقصد ہے جس کے پیش نظر اُس نے انسان کو دُنیا میں پیدا کیا.اس کی قوتوں کی کمال نشو و نما کے لئے زمین و آسمان پیدا کئے.آسمان سے ہدایت نازل فرمائی.زبان حال کی دعائیں قبول ہوئیں اور اس رنگ میں پوری ہو ئیں کہ انسانی زندگی کے ہر زمانے اور ہر مرحلہ پر یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ یہ قرآن کریم ہی جو انسان کو دینی اور دنیوی ہر دو اعتبار سے صحیح اور حقیقی راہ عمل دکھاتا ہے.غرض یہ کہ جب انسان کو روحانی قومی بھی مل گئے اور ایک کامل آسمانی ہدایت بھی مل گئی تو اُسے اپنی زبان سے یہ دعا بھی کرنی پڑے گی کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم بھی عطا فرما اور اس پر چلنے کی توفیق بھی بخش ہمیں اپنی صفات کا عرفان بھی عطا فرما اور ہمارے لئے الہی صفات کا مظہر بننے کے سامان بھی پیدا کر.ایسی دعا اور التجا ایک ایسی ہستی ہی سے کی جاسکتی ہے جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ قریب اور مجیب الدعوات ہے.چنانچہ یہ بزرگ و برتر ہستی اللہ تعالی ہی کی ہے جس نے قرآن کریم میں فرمایا: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں لفظ عبد قابل ذکر ہے چنانچہ انسان کی پچھلی تاریخ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے بہت قریب ہے اور وہی تاریخ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان اور انسانی فطرت کے مطابق بھی اور پھر عقلاً بھی یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے دُعا کی ضرورت ہے.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۴۵۰ تا ۴۶۰) و دو

Page 246

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۰ سورة البقرة اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے یہ ھدی ہے یعنی احکام شریعت پر مشتمل نازل کی گئی ہے ہدایت کے معنی اس آسمانی شریعت کے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی محبوب نبی اور رسول کے ذریعہ دنیا میں نازل کرتا ہے تاکہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اس کی طرف رجوع کر سکیں اور اس کے انعامات کو حاصل کر سکیں اور اس کا قرب پاسکیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا ہے یہ ایک ایسی شریعت آسمانی ہے کہ للناس جس کا تعلق کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک یا کسی ایک زمانہ کے ساتھ نہیں ہر زمان و مکان میں بسنے والے انسانوں سے اس کا تعلق ہے یہ ان کے لئے ایک کامل اور مکمل شریعت ہے اور ہدایت کے دوسرے معانی کی رو سے اللہ تعالیٰ یہاں یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسی شریعت ہے کہ جو شخص ابتدا میں بعض باتوں کو سمجھتے ہوئے اس پر ایمان لاتا ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کرتا ہے یہ کتاب اس کے دل پر مزید روحانی ترقی کا شوق پیدا کرتی ہے اور مزید روحانی ترقی کی تڑپ کو پورا کرنے کے سامان بھی اس میں پائے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر وقت ایسے انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کی روحانی راہ نمائی کرتے ہوئے بلند سے بلند مقام تک اسے پہنچاتا چلا جاتا ہے اور ایسے انسان کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے انجام بخیر ہو جاتا ہے اور وہ اس کی رضا کی جنت میں داخل ہو جاتا ہے.پھر فرمایا کہ یہ صرف ھدی للناس ہی نہیں بلکہ بنتِ مِنَ الْهُدی بھی ہے.واضح دلائل اور حکمتیں بتا کر اپنی شریعت ( اپنے احکام کو ) منوانے والی کتاب ہے دنیا میں بہت سے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو دین العجائز کو اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ وافر پاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور فراست دی ہوتی ہے فکر اور تدبر کے وہ عادی ہوتے ہیں اگر ان لوگوں کی تسلی کا سامان بھی اس کتاب میں نہ ہوتا.تو وہ ٹھوکر کھا جاتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایسے ذہنوں کی ترقی کا سامان بھی اس میں کر دیا ہے یہ کتاب حکمت اور دلائل کے ساتھ اپنے احکام کو منواتی ہے اور یہ کتاب ایسی ہے جو فرقان ہے یعنی حق اور باطل میں تمیز کرنے والی ہے (جہاں تک اعتقادات کا سوال ہے ) اور عمل صالح اور ایسے عمل کے مابین جو فساد سے پر ہو امتیاز کرنے والی ہے.اس کی تعلیم ہمیں بتا دیتی ہے کہ یہ اعمال ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کو محبوب ہیں اور یہ ایسے ہیں جن میں فساد پایا جاتا ہے اور فساد کو پسند کرنے والا اور فساد سے

Page 247

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۴۱ سورة البقرة پیار کرنے والا شیطان ہی انہیں پسند کر سکتا ہے.اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس قسم کے فساد والے اعمال سے تمہیں پر ہیز کرنا ہوگا یہ کتاب عمل صالح اور عمل غیر صالح (جسے عربی زبان میں طالح بھی کہا جاتا ہے ) کے درمیان فرق کر کے دکھا دیتی ہے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قدر عظیم کتاب کو ہم نے رمضان کے مہینے میں نازل کرنا شروع کیا تھا شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ اور اسے (سارے کے سارے کو ) اپنے اپنے وقت پر رمضان کے مہینے میں نازل کرتے رہے ہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام نزول فرماتے اور میرے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے.اس رمضان میں جتنا حصہ قرآن کریم کا نازل ہو چکا ہوتا اس کا دور نزول کے ذریعے جبرائیل علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ایک دفعہ پھر دوسری دفعہ پھر تیسری دفعہ نزول ہوتا رہتا تھا اور آخری سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے میرے ساتھ دو دفعہ قرآن کریم کا دور کیا ہے.غرض اتنی عظیم کتاب کا اس مہینے میں بار بار نزول ہونا اور پھر اسی مہینہ میں نزول ہونا بتاتا ہے کہ یہ ماہ بھی بہت سی برکتیں اپنے اندر رکھتا ہے پس فرمایا کہ یہ مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم کے احکام بھی پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ اس کا قرآن کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور جو قرآنی برکتیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہیں جن کا اختصار کے ساتھ ابھی میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم ان برکتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو رمضان کی عبادتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ.رمضان میں انسان رمضان کی عبادات یعنی روزہ وہ نوافل جو کثرت سے پڑھے جاتے ہیں اور وہ دینی مشاغل جن میں انسان مصروف رہتا ہے مثلاً سخاوت ہے کمزور بھائیوں کا خیال رکھنا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں اس طرف خاص توجہ فرماتے تھے.غرض وہ تمام عبادات جن کا تعلق رمضان سے ہے اگر تم بجا لاؤ گے تو تین باتیں تمہیں حاصل ہو جائیں گی تین برکتوں کے تم وارث ہو گے اور وہ تین برکتیں یہ ہیں کہ تمہیں ہدایت ملے گی.ہدایت تمہارے دلوں میں بشاشت پیدا کرے گی اور یہ شوق پیدا کرے گی کہ ہدایت کے اس مقام پر ٹھہرنا تو ٹھیک نہیں جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ استعداد دی ہے کہ ہم ہدایت کی سیڑھیوں پر درجہ بدرجہ بلند سے بلند تر

Page 248

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۲ سورة البقرة ہوتے چلے جائیں تو پھر ہمیں آگے چلنا چاہیے اور مزید رفعتوں کو حاصل کرنا چاہیے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے احکام اور اس شریعت کی برکت اور اس پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں تم اپنی ہدایت میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے.رمضان میں یہ دروازے زیادہ فراخی کے ساتھ تمہارے اوپر کھولے جائیں گے پھر تم میں سے جو زیادہ سمجھ دار اور فراست رکھتے ہیں اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے مانا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے کامل اور مکمل شریعت ہے اور ہم آنکھیں بند کر کے بھی اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اے خدا جب تو نے ہمیں عقل اور فراست اور فکر اور تدبر کا مادہ عطا کیا ہے تو ہماری ان قوتوں اور استعدادوں کو بھی تو تسکی دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بھی رمضان کے مہینہ میں بینات حکمتیں جو قرآن کریم کے احکام کی ہیں.وہ بھی کھولتا ہے علم قرآن اس رنگ میں بھی عطا کیا جاتا ہے اور رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر عطا کیا جاتا ہے.پھر چونکہ یہ فرقان ہے ایسے شخص کو جو خلوص نیت کے ساتھ رمضان کی عبادات بجالاتا ہے اور اس کی عبادات مقبول ہو جاتی ہیں.اللہ تعالی فرقان عطا کرتا ہے فرقان کا لفظ جب ہم انسان کے متعلق استعمال کرتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک نور عطا کرتا ہے اور اس نور کے استعمال کی توفیق عطا کرتا ہے اور وہ نورا سے قرب الہی کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ نور ہی نور کی طرف جا سکتا ہے.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ زمینوں اور آسمانوں کا نور اللہ ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو رمضان کے مہینہ میں بہتر نور اور کثرت سے نور عطا کرتا ہے اور قرب کی راہیں اس پر کھولتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اتنی برکتوں والا مہینہ ہے جو تمہاری روحانی اور جسمانی ترقیات کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے اس لئے ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ جسے اللہ تعالی زندگی اور صحت میں رمضان دکھائے اس کا فرض ہے کہ وہ رمضان سے فائدہ اُٹھائے اس لئے جو شخص بھی رمضان میں زندہ ہو اور صحت مند ہو وہ رمضان کے روزے رکھے اور دیگر عبادات بجالائے کیونکہ رمضان کی عبادت محض یہ نہیں کہ انسان بھوکا ر ہے بھوکا رہنے سے خدا کو یا خدا کے بندوں کو کیا فائدہ، اگر یہ شخص اس بھوکا رہنے کی حکمت کو نہیں سمجھتا اور اس کے لوازم کو ادا نہیں کرتا.

Page 249

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۳ سورة البقرة رمضان کے مہینہ میں ہم خاص طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور نوافل کی ادائیگی کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صحت میں رمضان کا مہینہ پائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے روزے بھی رکھے.نوافل بھی ادا کرے غرباء کا خیال بھی رکھے خدا تعالیٰ کی راہ میں سخاوت کا مظاہرہ بھی کرے اپنے بھائیوں کی غم خواری اور ان سے ہمدردی بھی کرے تمام بنی نوع انسان سے محبت کا سلوک کرے اور اپنی زبان کو اور دوسرے جوارح کو ان اعمال سے بچائے رکھے جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کثرت تلاوت اور کثرت نوافل اور روزے رکھنے کے نتیجہ میں ہدایت کے بینات کے اور نُورٌ مِنَ اللہ کے سامان پیدا کرے گا.اللہ تعالیٰ یہاں بیان فرماتا ہے کہ جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ کسی اور وقت رمضان کے روزوں کی گفتی کو پورا کرے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ اس طرح میں اپنے بندوں کے لئے سہولت کے سامان پیدا کروں مومن وہی ہوتا ہے جو اپنے ارادہ اور خواہش کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کے ارادہ کو قبول کرتا ہے پس یہ مومن کی علامت ہے کہ وہ سفر میں اور بیماری میں اپنی شدید خواہش کے باوجود اپنی اس ترپ کے باوجود کہ کاش میں بیمار نہ ہوتا یا سفر میں نہ ہو تا روزہ نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیکی اس بات میں نہیں کہ میں بھوکا رہوں بلکہ نیکی یہ ہے کہ میں اپنے ارادہ کو خدا تعالیٰ کے ارادہ کے لئے چھوڑ دوں.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسُر میں ایک تو اس ارادہ کا اظہار کیا گیا ہے دوسرے اس ارادہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ میں نے رمضان کی عبادتیں تم پر اس لئے واجب کی ہیں اور قرآن کریم کی شریعت تم پر اس لئے نازل کی ہے کہ تم پر میرے قرب کی وہ راہیں کھلیں جو تمہاری روحانی خوشحالی کا باعث ہوں اور جو مشکلات تمہاری روحانی تشنگی کے نتیجہ میں پیدا ہوسکتی ہیں ان سے تم محفوظ ہو جاؤ.پس تمہیں اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ اس کے کئی معانی ہو سکتے ہیں لیکن ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تا تمہاری زندگی کے یہ چند روز جو تم اس دنیا میں گزارتے ہو اپنے کمال کو پہنچ جائیں کمال کے معنی عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ جس غرض کے لئے کوئی چیز پیدا کی گئی ہے وہ غرض پوری ہو جائے اور انسان کو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سارا انتظام

Page 250

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۲۴۴ سورة البقرة میں نے اس لئے کیا ہے کہ تا تم اس غرض کو پورا کر لو اور اپنے اس مقصد کو حاصل کر لو جس غرض کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اور جو مقصد تمہارے سامنے رکھا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر تم واقعہ میں خلوص نیت سے یہ عبادتیں بجا لاؤ گے تو میری طرف سے ہدایت اور بینات اور نور کو حاصل کر لو گے لیکن شیطان خاموش نہیں رہے گا وہ کوشش کرے گا کہ تمہیں اس مقام سے گرا دے.پس اپنی ہدایت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان نعماء کو زوال سے بچانے کے لئے جو اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینہ میں تمہیں عطا کرے ایک گرہم بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدْكُمْ کہ ہدایت اور روشنی اور حکمت سیکھنے کے بعد تمہارے دل میں کبر نہیں پیدا ہونا چاہیے.تمہیں یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ تم نے اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں اس مقام کو حاصل کیا ہے بلکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت تم پر نازل ہو تكتبرُوا اللہ تم اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی عظمت کو بیان کرو اور اپنے نفس کو بھول جاؤ اس طرح وہ نعمتیں جو تمہیں عطا کی جائیں گی انجام تک تمہارے ساتھ رہیں گی تمہارا انجام بخیر ہوگا اور یہ طریق ہے شکر ادا کرنے کا.لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اس کے بغیر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل سے کوئی ہدایت یا بینہ یا کوئی نور عطا کرتا ہے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ تمہاری کسی خوبی کے نتیجہ میں تمہیں ملا ہے تو تم شکر کس کا ادا کرو گے تم اپنے نفس کا ہی شکر ادا کرو گے نالیکن اگر تم اس یقین پر قائم ہو کہ جو ہدایت بھی ہمیں ملتی ہے صراط مستقیم کی شناخت کے رنگ میں یا حکمتوں کے نزول کے رنگ میں یا اُس نور کے رنگ میں جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اور انسان کے دل کو منور کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو کھولتا ہے یہ سب کچھ تمہاری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہے اور اس سے اس کی عظمت اور اس کی کبریائی ثابت ہوتی ہے پس اگر تم ہدایت پانے کے بعد خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کبریائی کا اعلان کرو گے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کبریائی کو اپنے دلوں میں محسوس کرو گے اور اپنے نفس کو اس کی راہ میں مٹا دو گے تب تم شکر کرنے کے قابل ہو گے ورنہ تم شکر کے قابل نہیں ہو گے تمہارا شکر زبانوں پر تو ہوگا لیکن تمہارے دل اور تمہارے اعمال اور تمہاری روح اور تمہارے جوارح خدا تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر رہے ہوں گے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہتے ہو تو جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کوئی نعمت ملے تكبروا اللہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان کرو اور اپنے دل اور سینہ میں اس عظمت

Page 251

۲۴۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے احساس کو زندہ اور اجاگر اور شدت کے ساتھ قائم کرو اور تم شکر گزار بندے بن جاؤ اور جب تم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جاؤ گے تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ تمہیں مزید نعمتیں عطا کرے گا مزید ترقیات کے دروازے تم پر کھولے گا مزید حکمتیں اور علوم قرآنی تمہیں عطا کرے گا اور تمہارے نور میں اور زیادہ نورانیت پیدا کرے گا اور پھر ایک حسین اور مفید چکر اور دائرہ قائم ہو جائے گا.تم خدا تعالیٰ سے نعماء حاصل کرتے رہو گے اور اپنی ہدایت اور اپنی فراست اور اپنی روحانیت کے نتیجہ میں ہر موقع پر اپنے نفس کو قربان کر کے اللہ ہی کی عظمت اور کبریائی کا اعلان کرو گے اور اس طرح اس کا شکر ادا کرو گے تو پھر وہ اور نعمتیں تمہیں دے گا پھر تم اور شکر ادا کرو گے تو وہ اور نعمتیں تمہیں عطا کرے گا.غرض رمضان کے مہینہ میں ایک ایسا دائرہ شروع ہو جاتا ہے جو غیر متناہی روحانی اور جسمانی، دینی اور دنیوی ترقیات کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور انسان کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں اور انسان کا دشمن شیطان جو کبھی نفس اتارہ کی سرنگ سے اور کبھی بیرونی حملوں کے ذریعہ انسان کو خدا ا سے دور کرنا چاہتا ہے وہ اپنے تمام حملوں میں نا کام ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہی شیطانی حملوں سے بچائے رکھے اور محفوظ رکھے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۹۶۸ تا ۹۷۴) اس آیت میں یہ بتانے کے بعد کہ قرآن کریم کا رمضان کے مہینہ سے ایک گہرا تعلق ہے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں تم تین برکات حاصل کر سکتے ہو اور ان برکات کے حصول کی طرف تمہیں متوجہ ہونا چاہیے.ایک یہ کہ قرآن کریم جس میں رمضان کی برکات کا ذکر ہے اور جو رمضان میں بار بار نازل ہوتا رہا ہے وہ ایک کامل ہدایت کے طور پر دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے.رمضان میں جس حد تک ممکن ہو علیحدہ ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کی طرف متوجہ ہونے کا ارشاد ہے اور ہر شخص قرآن کریم کی ہدایت یعنی وہ مذہبی تعلیم جو یہ لے کر آیا ہے اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے تو ایک تو یہ هُدًى لِلنَّاسِ ہے ہر شخص کے لئے یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت کا جو حصہ ہے وہ آسانی سے سمجھ لے اس کی چند ایک مثالیں میں دوں گا سارا قرآن مجید اس ہدایت سے بھرا ہوا ہے مثلاً یہ کہ نماز پڑھوا اپنی شرائط کے ساتھ اس حد تک ہر شخص سمجھ سکتا ہے بلکہ جو مسلمان نہیں وہ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے کہ بعض مخصوص شرائط کے ساتھ التزام کے ساتھ نماز ادا ہونی چاہیے.قرآن کریم میں ایک ہدایت یہ بھی ہے کہ لا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ کہ ناجائز طریقوں

Page 252

۲۴۶ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث سے ایک دوسرے کے اموال سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا کریں ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ دوسروں کے اموال سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا اور دوسروں کے اموال کو نا جائز نقصان نہیں پہنچانا اس میں وسیع مضمون آ جاتا ہے لیکن وسعت میں جائے بغیر اتنی بات کہ دوسروں کے اموال باطل راہوں سے کھانے نہیں میں سمجھتا ہوں کہ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے چھ سات سال کے بچے کے سامنے یہ تعلیم رکھیں تو وہ سمجھ جائے گا کہ قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے ایک تو ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ ہر مسلمان کو قرآن کریم کی ہدایت کا علم ہونا چاہیے قرآن کیا کہتا ہے قرآن کس چیز سے روکتا ہے تو یہ ایسی چیز نہیں کہ جس کے متعلق کوئی شخص کہے کہ چونکہ میں پڑھا ہوا نہیں اس لئے ہدایت کا میں علم حاصل نہیں کر سکتا جو پڑھا ہوا نہیں وہ سن کر اس بات کو سمجھ سکتا ہے مثلاً یہاں اس خطبہ کے دوران بھی بہت سے دوست ایسے ہیں کہ جن کو مروجہ علم جو ہے اسے حاصل کرنے کی توفیق نہیں ملی لیکن وہ بھی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے اور اس میں کوئی پیچیدگی نہیں پائی جاتی کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ نماز اپنی شرائط کے ساتھ ادا کرو اور دوسروں کے اموال نہ کھایا کرو یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے چاہے وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہے یا نہیں جانتا تو فرمایا یہ ھدی للناس ہے ہر شخص اس کی ہدایت کا علم حاصل کر سکتا ہے رمضان کے مہینہ میں کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور اس نیت سے کرنی چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ قرآن کریم نے جو ہدایتیں دی ہیں ہمیں اس زندگی میں تاکہ یہاں کی زندگی بھی کامیاب ہو اور وہاں کی زندگی بھی پرسکون اور راحت بخش ہو وہ کیا ہیں؟ دوسری بات جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ صرف ہدایت ہی نہیں دیتا بلکہ یہ حکیم کتاب ہے اور حکیم خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے وہ دلائل بھی دیتا ہے تو جن کو دلائل کے سمجھنے کی قوت اور استعداد حاصل ہو تو اس استعداد کو کام میں لا کر رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کی جائے تو یہ حکمت معلوم کرنے کی بھی کوشش کریں جس سے قرآن کریم بھرا ہوا ہے.اور تیسری بات جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ فرقان بھی ہے یعنی حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والا ہے اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم پر غور کرو گے اور اس پہلو کی برکت سے بھی حصہ لینے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بھی ایک امتیازی مقام اللہ کی طرف سے حاصل ہوگا.

Page 253

۲۴۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ روزہ جو ہے اس روزے کے اندر رمضان کے اندر ساری چیزیں آتی ہیں خاص وقت تک خاص شکل میں کھانے پینے سے رکے رہنا خالی یہی روزہ نہیں ہے بلکہ بہت ساری اور باتیں رمضان سے تعلق رکھتی ہیں احکام رمضان سے تعلق رکھتی ہیں ان کو بجالانا اور خیال رکھنا کہ کوئی غلط چیز نہ ہو جائے تا کہ ہمارا روزہ کامل شکل میں ہمارے رب کے حضور پیش ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اسی رنگ میں روزہ رکھا جائے اور خدا تعالیٰ اسے قبول کر لے تو اس کے نتیجہ میں تنویر قلب حاصل ہوتی ہے اور انسان کا دل منور ہو جاتا ہے یہی فرقان ہے اور اس سے کشف کا دروازہ کھلتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی مادی دنیا میں جس حد تک انسان کی سمجھ اور پہچان اور علم اور نظر اور بصارت میں آسکتا ہے وہ آجاتا ہے.اللہ تعالی کو دیکھنے کا دروازہ کھل جاتا ہے یہ تنویر قلب ہے جس یہ تمام اکابر صوفیاء کا اتفاق ہے کہ روزہ کے نتیجہ میں تنویر قلب حاصل ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وجود کے نور کی نہریں ایسے لوگوں کے لئے جاری کرتا ہے اور اپنے نور کی لہریں انہیں دکھاتا ہے تنویر قلب ہوتی ہے جو حجابات ہیں وہ دُور ہو جاتے ہیں کشف الغطاء ہو جاتا ہے دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس حد تک انسان کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق اس نور کو حاصل کرنا ہے اور اس نور کی پیدائش کے بعد انسان کے اس منور دل کا اس ہستی کے ساتھ ایک زندہ اور پختہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ہے اور پھر وہ اس نور کے جلوے دیکھنے لگتا ہے یہ معنی ہیں تنویر قلب کے اور یہ معنی ہیں کشوف کے اور پہلا درجہ اس کا یہ ہے کہ ایسا شخص انا الْمَوْجُودُ کی آواز سنتا ہے کیونکہ تعلق کا پیدا ہو جانا کوئی فلسفہ تو نہیں یہ تو ایک حقیقت ہے یا اس کا عدم ایک حقیقت ہے کہ یا وہ تعلق پیدا ہو گیا یا نہیں ہوا یہ کوئی فلسفیانہ خیال نہیں تو روزہ کے نتیجہ میں امتیازی مقام حاصل ہوتا ہے.روزہ کے نتیجہ میں وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو انسان دوسرے مذاہب سے علی وجہ البصیرت یہ بات کر سکتا ہے کہ ہم نے اسلام کی برکات سے جونور حاصل کیا ہے وہ تمہیں حاصل نہیں اور ان چیزوں کے لئے پھر دعا کی ضرورت ہے.اسی واسطے ان آیات کے ساتھ ہی دعا کی طرف متوجہ کیا کہ اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور کامل عاجزی کے ساتھ دعا کرو گے تو میں اسے قبول کروں گا میں نے بتایا تھا کہ ھدی للناس والا حصہ جو ہے یعنی ہدایت کا معلوم ہو جانا وہ عام ہے ہر

Page 254

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۴۸ سورة البقرة شخص اسے سمجھ سکتا ہے لیکن اس ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق پانا مشکل ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ تو فیق حاصل نہ ہو تو اگرچہ ہدایت کا سمجھ لینا علم کا حاصل کر لینا آسان ہے لیکن ہدایت پر عامل ہو جانا بڑا مشکل ہے اس لئے ہمیں دعا کی ضرورت ہے جب تک دعا کے ذریعہ اللہ تعالی کی توفیق کو ہم حاصل نہ کریں ہدایت کی راہوں کا علم ہو جانے کے باوجود بھی ہدایت کی ان راہوں پر چلنے کے ہم قابل نہیں ہوتے.پھر بینات یعنی حکمت کی باتیں ہیں اس کا تو ہے ہی دعا کے ساتھ تعلق اپنا تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں یعنی جو عام استعداد انسان کو خدا نے دی ہے اس استعداد اور عقل کے نتیجہ میں ہدایت کو حاصل کیا ہے اس پر عمل کرنے کے لئے دعا سے اللہ کی توفیق پانا ضروری ہے لیکن حکمت کی باتیں، رموز جو ہیں ہدایت کے اندر چھپے ہوئے کہ کیوں یہ احکام دیئے گئے ہیں ان کا تعلق دعا صرف دعا سے ہے قرآن کریم سے علوم کا حاصل ہو جانا طہارت پر منحصر ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ( الواقعه : ٨٠ اور وہ تزکیہ نفس جس کے نتیجہ میں قرآن کریم کے علوم کھلتے ہیں وہ بازار سے نہیں خریدے جا سکتے نہ کسی مدرس سے حاصل کئے جاسکتے ہیں وہ تو خدا تعالیٰ سے ہی مل سکتے ہیں اور دعاؤں سے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں پھر تنویر قلب یعنی پردوں کا ہٹ جانا اور خدا کے نور کا سامنے آجانا اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق جو دل میں نور پیدا ہوا ہے اس کا اس نور کے ساتھ جو نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے ملاپ پیدا ہو جانا یا انا المَوْجُودُ کی آواز سن لینا یہ تو حض اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہے اور اسے بھی دعا سے حاصل کیا جا سکتا ہے تو یہ تین چیزیں جن کی طرف اس آیت میں ہمیں متوجہ کیا گیا ہے ہرسہ کے ساتھ دعا لگی ہوئی ہے ھدی للناس والے حصہ کے ساتھ بھی ، بینات کے حصہ کے ساتھ بھی، اور فرقان کے حصہ کے ساتھ بھی اسی وجہ سے اکا بر مسلمان رمضان کے مہینہ میں ہمیشہ دعاؤں پر بڑا زور دیتے رہے ہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۲) قرآن کریم کا ماہ رمضان سے بڑا گہرا تعلق ہے اور ماہ رمضان ہمیں ایک موقعہ عطا کرتا ہے کہ ہم قرآن کریم کی ان تین اصولی برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکیں استفادہ کر سکیں جو اس آیہ کریمہ میں بیان ہوئی ہیں.کثرت تلاوت (هُدًى لِلنَّاسِ ) قرآنی تعلیم اور شریعت کے احکام سامنے لائے گی اور انسان کا ذہن انہیں یادر کھے گا کثرت فکر و تدبر اور دعاؤں کی کثرت اور عاجزی اور انکساری کا

Page 255

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۴۹ سورة البقرة اپنے رب کے حضور پیش کرنے سے قرآن کریم کی حکمتیں اور اسرار روحانی ایسے شخص پر کھلیں گے نیز اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ ہر شخص اپنی استعداد اور اخلاص اور صدق و وفا کے مطابق ایک ایسے مقام کو حاصل کرے گا جو اسے غیروں سے ممتاز کر دے گا.آج میں هدى للناس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں قرآن کریم میں سات سو احکام ہیں اور ان میں سے ہر ایک حکم کو جاننا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ایک مسلمان کا فرض ہے جو شخص جان بوجھ کر (اگر چہ وہ بعض احکام بجالا رہا ہو ) بعض احکام کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا نافرمان اور اس کے غضب کے نیچے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے خیال تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الْخَيْرُ كُلُهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۲۶-۲۷ ) قرآن کریم کے ان سات سو احکام میں سے اس وقت پہلے تو میں یہی بیان کروں گا کہ فَمَنْ شَهِدَ منكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمه کہ جو شخص بھی صحت کی اور روزے کی بلوغت کی حالت میں رمضان کا مہینہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی بتائی شرائط کے مطابق روزہ رکھے.وو خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۰۶، ۴۰۷)

Page 256

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۰ سورة البقرة آج میں بَنتِ مِنَ الْهُدی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی دوسری برکت جس کا ذکر اس نے اس آیت میں کیا ہے یہ بیان ہے کہ قرآن کریم صرف ہدایت کی راہ ہی نہیں بتاتا بلکہ حکمت بھی بتاتا ہے دلائل بھی دیتا ہے اور ان ہدایت کی راہوں سے جو چیزیں یا ماحول کے دباؤلے جانے والے ہیں ان پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور ہمیں ان غلط راہوں کے فساد پر آگاہ کرتا ہے اور جو نیکیاں ہیں ان کو بھی بیان کرتا ہوں اصولاً تو وہ ایک ہی ہیں لیکن حالات اور زمانہ کے لحاظ سے عمل صالح بھی بدلتے رہتے ہیں مثلاً جس وقت منکرِ اسلام نے تلوار سے اسلام کو مٹانا چاہا اس وقت ایک مسلمان کی ذمہ داری کچھ اور تھیں اور جب اس میں ناکام ہو کر ہر قسم کے دجل کے حربوں کو اس کے خلاف استعمال کیا گیا تو اسی وقت ایک مسلمان کی ذمہ داریاں پہلی ذمہ واری سے مختلف ہوگئیں گو اصولی طور پر ان کی ایک ہی ذمہ داری رہی کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے اسلام کا دفاع اور اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ اصولی ذمہ واری ہے لیکن ایک زمانہ میں اس اصولی ذمہ واری کی کچھ اور شکل تھی اور دوسرے زمانہ میں اس اصولی ذمہ واری کی شکل کچھ اور بن گئی غرض قرآن کریم نے اپنے احکام کی حکمت اور دلائل بیان کئے قرآن کریم کے اسی فقرہ یا اسی حصہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اور اس کے معنی بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ایک مطلب اور مدعا کو حج اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقین کامل اور معرفتِ تام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دُور کرتا ہے پھر اسی تسلسل میں آگے جا کر اصولی طور پر آپ نے بیان کیا.بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے وو 66 والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار ص روحانی خزائن جلد صفحه ۸۲) اور اس آیت کے ایک معنی یہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں بیان کئے ہیں کہ قرآن کریم ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے احکام کی حکمتیں اور اس زمانہ کے فساد کو دور کرنے کے لئے جن دلائل کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے

Page 257

۲۵۱ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ایسے لوگ کھڑے کئے جاتے ہیں جنہیں یہ دلائل سکھائے جاتے ہیں پس اس برکت سے حصہ لینے کے لئے انتہائی جہاد تزکیہ نفس کے حصول کے لئے اور نہایت متضرعانہ دعا ئیں اس مجاہدہ کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ فضل نہ کرے کوئی شخص اپنی طاقت یا زور یا علم یا فراست یا عقل سے خدا کی نگاہ میں اپنے آپ کو پاک اور مطہر نہیں بنا سکتا اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور جو اس کے فضل سے طہارت اور تزکیہ کے نہایت ہی اعلیٰ مقام کو حاصل کر لیتے ہیں اور ان پر قرآنی انوار اور قرآنی اسرار اور قرآنی معارف کے دروازے کچھ اس طرح کھولے جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک خارقِ عادت حیثیت رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے میں حضور کا ایک اقتباس اس وقت پڑھوں گا لیکن اس کے پڑھنے سے قبل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے خود اس مضمون کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَذلِكَ نُصَرِفُ الْأَيْتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَةَ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (الانعام : ١٠٦) یعنی ہم نے قرآن کریم کی آیتوں کو کئی طرح پھیر پھیر کے دنیا کے سامنے رکھا ہے.ایک نُصَرِفُ الْأَیتِ تو اس طرح ہے کہ مختلف طبائع کو اپیل کرنے والی جو باتیں تھیں وہ مختلف طبائع کے لحاظ سے قرآن کریم نے بیان کر دیں تا کہ کوئی طبیعت خدا کے حضور یہ نہ کہے کہ میری فطرت کو تو تو نے ایسا پیدا کیا تھا لیکن اس کے مطابق مجھے دلیل نہیں دی گئی اور ایک یہ ہے کہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سے نئے سے نئے دلائل اور نئے سے نئے حج اور براہین لوگوں کو بتاتا رہتا ہے اور جن کو وہ یہ دلائل اور براہین سکھاتا ہے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ظلمی طور پر معلم بنا دیتا ہے اور اس معلم کا کام یہ ہے کہ درست تو لوگوں کو سکھلا دے ان کے سامنے بیان کر دے لیکن صرف یہ درس کافی نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِنُبَيْنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اور اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ہم نے یہ جاری کیا ہے کہ ایسے علماء ربانی پیدا ہوتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خشیت سے معمور اور اس کے تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر قائم ہوتے ہیں اور لنبيِّنَة لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اللہ تعالیٰ ایسے علماء کی جماعت کے لئے قرآنی آیات کو کھول کر بیان کر دیتا ہے وہ مطہر نفس دنیا میں آکر قرآن کریم کے اسرار کو حاصل کرتے اور پھر ان کا درس دیتے ہیں.اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم حقیقی کے کامل ظل ہیں احکام قرآنی کو کھول کر بیان کرتے ہیں پس معلم تو

Page 258

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۲ سورة البقرة اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے لیکن اس دنیا میں اگر کوئی کامل ظل معلم کی حیثیت میں پیدا ہوا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ ( الجمعة : ٣) کہ اللہ تعالی نے ایک ان پڑھ قوم میں انہی میں سے ایک فرد کو رسول بنا کر بھیجا ہے جو رسالت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اليه وہ تمام احکام شریعت ان کے اوپر پڑھتا ہے جس بات کا ھدی للناس کے ساتھ تعلق ہے اس کو وہ کھول کر ان کو بتاتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں روزے رکھو دوسری شرائط کو پورا کرو، شور وغوغانہ کرو، گالیاں نہیں دینی اپنی پوری توجہ قرآن کریم اور اس کی برکات کے حصول کی طرف پھیرنی ہے اپنے نفس کو ( اس ماہ میں خصوصاً) مارنے کی کوشش کرنی ہے اور اسلَمتُ لِرَبِّ الْعلمین میں جس مقام کا ذکر ہے اپنی استعداد کے مطابق اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے ویزکیھم پھر اپنی قوتِ قدسیہ کے نتیجہ میں وہ ان کے نفوس میں بھی تزکیہ نفس پیدا کرتا ہے جب یہ تزکیہ نفس پیدا ہو جاتا ہے یعنی آپ کی قوت قدسیہ سے فائدہ اُٹھا کر اور آپ کے اُسوہ پر عمل کر کے انسان خدا کی نگاہ میں محبوب اور پیارا اور مطہر بن جاتا ہے تو پھر وہ يُعَلِّمُهُمُ الكتب کے اسرار روحانی ان کو سکھاتا ہے و الحكمة اور اس قرآن عظیم کی حکمت کی باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے طفیل ان پر ظہور ہونے لگ جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کامل اور مکمل ظلی معلم کے فیوض جاری ہوتے ہیں اور قیامت تک ایسے لوگ آپ کے فیض کے نتیجہ میں پیدا ہوتے رہیں گے جس طرح آپ ہی کے فیض کے نتیجہ میں آپ سے قبل آدم سے لے کر آپ کے زمانہ تک خدا تعالیٰ کے مقرب پیدا ہوتے رہے غرض اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ تزکیہ نفس کے بعد ہی تعلیم الکتاب کا امکان پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۱۶ تا ۴۱۹) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کا رمضان کے مہینہ سے بڑا گہرا تعلق ہے قرآن کی اصولی برکات میں سے جو فرقان ہونے کی برکت ہے اس سے بھی اگر تم چاہو اور مجاہدہ کرو تو رمضان کے مہینہ میں زیادہ حصہ لے سکتے ہو فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق و باطل میں ایک امتیاز پیدا کر دے قرآن کریم کے متعلق جب فرقان کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی لئے جاتے ہیں کہ یہ ایک کامل اور مکمل ہدایت ہے جو ہر غلط اعتقاد کی نشان دہی بھی کر رہی ہے اور ہر صحیح اعتقاد کی طرف راہ نمائی بھی کر رہی ہے اور اعتقادات کے لحاظ سے حق اور صداقت اور باطل کے درمیان ایک نمایاں امتیاز پیدا کر دیتی

Page 259

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۳ سورة البقرة ہے اسی طرح یہ ایسی کامل شریعت ہے جو صدق اور کذب کے درمیان بڑے نمایاں طور پر ایک امتیاز پیدا کرتی ہے ایک سمجھدار کو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ دکھا دیتی ہے اسی طرح جہاں تک اعمال کا تعلق ہے قرآنی تعلیم بتاتی ہے کہ کس قسم کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالح اور حمید ہیں اور کس قسم کے اعمال اور کون سے اعمال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہیں اور چونکہ یہ ایک کامل اور مکمل ہدایت نامہ ہے اس لئے یہ کتاب بڑی تاثیروں کی مالک ہے اس کتاب سے پہلے بھی شریعتیں نازل ہوتی رہی ہیں لیکن اضافی طور پر قرآن کریم کے مقابلہ میں وہ ناقص تھیں.جب انسان اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی میں انتہائی مدارج تک پہنچ گیا اور انسان کی بحیثیت انسان استعداد روحانی اس قابل ہو گئی کہ وہ کامل شریعت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکے تو اس وقت قرآن کریم کا نزول ہوا اور اس نے ہر قسم کے غلط اور سیچ، سچ اور جھوٹ، اعمال صالحہ اور نا پسندیدہ اعمال کے درمیان ایک فرق اور امتیاز پیدا کیا پہلی کتب گواپنے زمانہ کے لحاظ سے کامل کتابیں تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو حق و باطل میں ہر قسم کا امتیاز پیدا کرنے والی ہو اس لئے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہم سے یہ وعدہ کیا ہے.إن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُم فرقان (الانفال :۳۰) اگر تم اپنی راہ نمائی کے لئے قرآن کریم کو چنو گے اور پسند کرو گے اور اختیار کرو گے تو تمہیں بھی ایک امتیازی مقام دیا جائے گا اور تمہیں اللہ تعالیٰ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی توفیق دے گا اور قرآن کریم کی روحانی برکات کے طفیل تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو صحیح کو غلط سے اور ظلمت کو روشنی سے جدا کرتا چلا جائے گا اور تمہاری راہ کو سیدھا اور آسان کر دے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس روحانی تاثیر کے متعلق بہت کچھ لکھا اور فرمایا ہے لیکن میں نے اس موقعہ کے لئے ایک مختصر سا حوالہ لیا ہے.آپ فرماتے ہیں." پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کے روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلے آتے ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالمات الہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں خدائے تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید و نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے ( یعنی ان کیلئے ایک فرقان بنا دیتا ہے ) یہ بھی ایسا نشان ہے جو قیامت تک

Page 260

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۵۴ سورة البقرة اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ ۲۲) غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ قرآن کریم میں بہت بڑی روحانی تاثیرات پائی جاتی ہیں اور تم اپنی زندگیوں کو قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق ڈھالو اور ان احکام کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار و جو قرآن نے بتائے ہیں اس کے نتیجہ میں ایک طرف تو تمہاری عقل میں جلا پیدا ہو جائے گا اور دوسری طرف جتنا جتنا تقویٰ تم حاصل کرو گے جس قدر مقام قرب کو تم پا لو گے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے رموز تم پر کھولے گا اور تمہیں اپنا مقرب بنالے گا وہ ایک امتیازی نشان تمہیں دے گا یہ ممتاز مقام ایک مسلمان کی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے ایک مسلمان کی ہر حرکت اور سکون میں ہمیں ایک امتیاز نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر حرکت اور سکون کے متعلق ہماری راہ نمائی فرمائی ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۲۵،۴۲۴) اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھو میں تم سے بڑا ہی پیار کرنے والا ہوں میں نے جو احکام تمہیں تمہاری ترقیات کے لئے دیئے ہیں ان میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ تمہارے لئے کوئی تنگی نہ پیدا ہو بلکہ آسانی اور سہولت کے ساتھ تم ان ذمہ داریوں کو بجالاتے رہو جو تم پر ڈالی گئی ہیں ( یہ اور بات ہے کہ کبھی فطرت بہا نہ سہولت کو بھی تنگی سمجھے لگتی ہے اور انعام کو بھی ایک کوفت محسوس کرتی ہے ) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام بھی دیئے ہیں وہ اس لئے دیئے ہیں کہ ہم جسمانی لحاظ سے بھی اور دنیوی زندگی میں بھی اور روحانی طور پر بھی اور اُخروی زندگی میں بھی فلاح کو حاصل کریں اور ان احکام میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ ہمارے لئے تنگی اور مجبوری کے حالات نہ پیدا ہوں اور ایسا نہ ہو کہ انسان کو یہ احساس ہو کہ مجھ میں ان احکام کو بجالانے کی قوت اور طاقت تو نہیں ہے لیکن میرا رب مجھے سے یہ مطالبہ کر رہا ہے.چونکہ یہاں ہمارا محبوب آقا ہمیں رمضان کے متعلق ہدایات دے رہا ہے اس لئے اس نے دو چیزوں کو ہمارے سامنے رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو تو پھر رمضان کے روزے نہیں رکھنے اور جب ہم اسلام کی اور قرآن کریم کی مجموعی تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو اگر تم مریض ہو تو میں نے مریض کے بہت سے حقوق

Page 261

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۵ سورة البقرة قائم کئے ہیں اور اگر تم سفر پر ہو تو میں نے مسافر کے بہت سے حقوق قائم کئے ہیں لیکن ان تمام حقوق کے باوجود گھر میں جو آرام و آسائش ہے وہ سفر میں نہیں مل سکتا اس لئے میں تمہارے لئے سہولت پیدا کرتا ہوں اور تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم سفر میں ہونے کی حالت میں رمضان کے روزے نہ رکھو جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس سہولت کی قدر نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے اس پیار کو نہیں سمجھتا وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس قدر محبت اور پیار کا سلوک ہم سے کیا ہے کہ انسان شرم کے مارے اپنی گردن جھکا لیتا ہے اور پھر وہ گردن جھکی ہی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پیشانی نیستی کے آثار لئے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے حقوق سفر کا ذکر کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات قرآنیہ کی نہایت ہی حسین تفسیر بیان کی ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں یہ فرماتا ہے کہ کامل نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے مسافر پر اپنا مال خرچ کرتا ہے سورہ بقرہ ہی کی آیت ۲۱۶ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو اموال تم خرچ کرتے ہو یا دوسری نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہیں مثلاً وقت ہے خدمت کرنے کی اہلیت ہے ( یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں ) اور تم اس کی رضا کے حصول کے لئے اس راہ میں خرچ کرتے ہو ان میں مسافروں کا بھی حق ہے یعنی اگر تم مسافر پر ان چیزوں کو خرچ کرو گے تو اس مسافر پر تمہاری طرف سے احسان نہیں ہوگا بلکہ یہ اس کا حق ہے جو تم ادا کر رہے ہو گے سورہ نساء کی ۳۷ ویں آیت میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسافر کے ساتھ بہت احسان کا سلوک کرو اور سورۃ الاسراء کی ۲۷ ویں آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مسافر کو اس کا حق دو اور اسراف کا رنگ اختیار نہ کرو جیسا کہ فرمایا.وَآتِ ذَا الْقُرْني حَقَةَ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا ( بنى اسرائیل : ۲۷) یعنی اسراف سے ورے ورے مسافر کی ہر ضرورت کا خیال کرو یہ تو نہیں کہ مسافر کی خاطر اور اس کی خدمت میں خدا تعالی کے دوسرے احکام کو انسان بھول جائے اسراف سے ورے ورے، ہر خدمت جو ممکن ہو سکتی ہے وہ مسافر کی کرو.غرض اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ دیکھو جب تم سفر میں ہوتے ہو تو ہم نے تمہارے لئے کس قدر آرام کا ماحول پیدا کیا ہے ہم نے تمہارے بھائیوں کو کہا ہے کہ تم

Page 262

۲۵۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ہماری محبت کی وجہ سے اور ہماری رضا کے حصول کے لئے جو اموال خرچ کرتے ہو ان میں مسافر کا بھی حق ہے ہم نے اس خرچ کو تمہارا حق قرار دیا ہے اور تمہارے بھائیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ تمہارا حق تمہیں ادا کیا جائے پھر یہی نہیں کہ تمہارا حق ادا کیا جائے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ حق سے زائد دو احسان کرو اور بہت احسان کرو اور اس قدر احسان کرو کہ اسراف سے ورے ورے ہر ممکن خدمت اس کی بجالاؤ.ان تمام باتوں کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ پھر بھی سفر میں تمہیں تمہارے جیسی سہولت نہیں ملے گی ہم تمہارے لئے سہولت چاہتے ہیں اس لئے ہم نے تمہیں اجازت دے دی ہے اور کہا ہے کہ رمضان کے روزے سفر کی حالت میں نہ رکھا کر واب دیکھو یہ کتنی پیاری تعلیم ہے اور کس قدر محبت کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے.اس محبت اور پیار کے اظہار کی وجہ سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایک تو ہم ہر وقت خدا تعالیٰ کی حمد کرتے رہیں خدا تعالی کی کبریائی ہر آن بیان کرتے رہیں اور دوسرے خدا تعالیٰ کی کامل صفات کو ہر وقت اپنے تصور میں رکھیں اور جس محبت کا وہ ہم سے اظہار کرتا ہے اس کا جواب اسی قسم کی محبت سے دیں انسان بشری کمزوریوں سے تو بچ نہیں سکتا لیکن اپنے ماحول میں جس قدر پیار کسی سے کر سکتا ہے جس قدر محبت وہ کسی سے کر سکتا ہے وہ سب سے زیادہ پیار اور محبت شکر کے طور پر اپنے رب سے کرے چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی ہے اور پھر ہدایت کے ساتھ ہماری سہولتوں اور آسانیوں کا خیال رکھا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم کسی موقع پر بھی کمزوری نہ دکھا ئیں اور اس کی حمد کرتے ہوئے ان سہل راستوں پر جو مستقیم راستے ہیں اس کے قرب کی طرف بڑھتے چلے جائیں (صراط مستقیم ہی ایک سہل راستہ ہے کیونکہ جو چکر اور بل کھا تا ہوا راستہ ہے وہ سہل نہیں ہوا کرتا جو راستہ ایک میل مسافت طے کرانے کی بجائے دس میل کی مسافت طے کرا کے منزل مقصود تک پہنچاتا ہے وہ سہل نہیں ہوسکتا ).غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں چونکہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہوں اس لئے میں نے تمہارے لئے ایک صراط مستقیم بنا دیا ہے اور اس راستہ پر بھی جگہ بہ جگہ تم ایسے احکام پاؤ گے کہ جو تمہاری سہولت کا سامان پیدا کر دیں گے تم اس راستہ پر چلتے ہوئے رمضان کے روزے رکھو گے تو تمہارے کانوں میں تمہارے رب کی نہایت ہی محبت بھری آواز آئے گی کہ اگر تم سفر پر ہو تو روزہ نہ

Page 263

۲۵۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رکھنا میں تمہاری سہولت کے سامان پیدا کرنا چاہتا ہوں اگر مریض ہو ( طبیعت بہانہ جو نہ ہو ) انسان واقعہ میں مریض ہو اور ڈاکٹر کہتا ہو کہ روزہ تمہاری صحت کو مستقل طور پر خراب کر دے گا یا تم اس روزے کو برداشت نہیں کر سکتے یا تمہارے لئے مثلاً ہر دو یا تین گھنٹے کے بعد دوا کھانا ضروری ہے تو تم روزے نہ رکھو پھر بعض ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جن کو ڈاکٹر کہتا ہے کہ ہر دو گھنٹہ یا تین گھنٹہ کے بعد تم کچھ کھاؤ ورنہ تم مرجاؤ گے ان کی کانسٹی ٹیوشن (Constitution) یعنی جسم کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ ان کے معدہ میں غذا نہیں رہتی یہ مستقل نیم بیماری کی قسم ہے ان کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کھانے کی ضرورت پڑتی ہے ایسے مریضوں کو ڈاکٹر کہے گا کہ اگر تم نے اپنی صحت کو برقرار رکھنا ہے اور خود اپنے آپ کو جسمانی طور پر ہلاکت میں نہیں ڈالنا تو تمہیں ہر دو تین گھنٹہ کے بعد کچھ کھانا چاہیے پھر بعض بیماریاں ایسی ہیں جن میں خون کی شکر کم ہو جاتی ہے اور اگر وہ شکر جسم کو نہ ملے تو انسان بے ہوش ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ موت واقع ہو جاتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ بعض دفعہ آدھ آدھ گھنٹہ کے بعد میٹھے کی طرف دوڑتے ہیں کیونکہ جسم میٹھا مانگ رہا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے میٹھا دو ورنہ میں گیا ایسے شخص کو خدا کہتا ہے کہ تم رمضان میں روزہ نہ رکھو اور اس لئے روزہ نہ رکھو کہ تمہارے لئے یہ سیدھا راستہ ہم نے ہلاکت اور سختی اور تنگی پیدا کرنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ سہولت اور آسانی کے لئے بنایا ہے ہم اپنے پیار کی وجہ سے جو سہولتیں تمہیں دے رہے ہیں ان کو پیار اور شکر اور حمد کے ساتھ قبول کرو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم نا شکر گزار ہو جاؤ گے.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۳۴ تا ۷ ۴۳) قرآن کریم کی اپنی ایک عظمت ہے اور بڑی ہی عظمت ہے.اس آیت میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے یہ بتایا گیا ہے کہ تین باتیں قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرنے والی ہیں.ایک تو یہ کہ هُدًى لِلنَّاسِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آیت کے اس ٹکڑا کی بہت سی تفسیریں کی ہیں.ایک تفسیر آپ نے یہ کی ہے کہ ھدی للناس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہدایت لوگ بھول چکے تھے اسے دوبارہ پیش کرنے والا.ہدایت تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے آنی شروع ہوئی اور بہت سی ا شریعتیں نازل ہوئیں لیکن وہ اُمتیں جن کی طرف مختلف اوقات میں شریعتیں نازل ہوئیں.ایک وقت گزرنے کے بعد ان کی زندگی میں روحانی طور پر دو تبدیلیاں آئیں.ایک تو یہ کہ روحانی طور پر ارتقاء کے کچھ مدارج وہ طے کر چکے تھے اور روحانی طور پر زیادہ بوجھ کو اُٹھانے کے قابل ہو چکے تھے

Page 264

۲۵۸ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث اور دوسری تبدیلی یہ آئی کہ جو شریعت ان پر نازل ہوئی تھی اس کو بھی بہت حد تک وہ بھول گئے اور بہت سی بدعات اس میں شامل ہو گئیں.پس قرآن کریم نے وہ بنیادی صداقتیں جو پہلی شریعتوں کے اندر پائی جاتی تھیں لیکن پہلی شریعتوں کے مخاطب انہیں بھول چکے تھے وہ ہدا یتیں پھر لوگوں کو سکھائیں اور انسان کو ان سے متعارف کرایا.یہ ھدی للناس کے ایک معنی ہیں.وَبَيِّنَةٍ مِنَ الهُدی دوسری بات جو قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ پہلی شریعتوں اور ہدایتوں میں جو باتیں اور جو صداقتیں مجمل طور پر پائی جاتی تھیں قرآن کریم نے ان کے اجمال کو دور کیا اور پوری حقیقت کھول کر انسان کے سامنے رکھ دی اور تیسری بات یہ ہے کہ وَالْفُرْقَانِ.چونکہ پوری کتاب اور کامل ہدایت جو قرآن میں نازل کی گئی وہ پہلی شریعتوں اور ہدایتوں میں نہیں تھی اس لئے وقت گذرنے پر ان کے اندر اختلاف پیدا ہوا اور چونکہ زمانہ زمانہ کی ہدایت اور ملک ملک کی ہدایت میں فرق تھا اس لئے بنیادی طور پر جو مذہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی طرف بھیجا گیا تھا اس کے اندر ایک اختلاف پیدا ہو گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کچھ کہا، آپ نے کہا کہ اگر کوئی تجھے تھپڑ لگاتا ہے تو تو کبھی اسے تھپڑ لگا اور حضرت عیسی علیہ السلام نے کچھ اور کہا، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ لگاتا ہے تو تو دوسرا گال بھی آگے رکھ دے.پس ہدایت میں اور تعلیم میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی فرق پیدا ہو گیا اور اختلاف پیدا ہو گیا لیکن یہ اختلاف تب پیدا ہوا جب یہود نے حضرت مسیح کے ماننے سے انکار کر دیا اور بدلے ہوئے حالات کے مطابق ان کی اصلاح کے لئے جو حکم نازل ہوا تھا کہ نرمی اختیار کرو تمہارے اندر سختی زیادہ پیدا ہو چکی ہے.چونکہ انہوں نے حضرت مسیح کو نہیں مانا اس لئے ان کی اس تعلیم کو بھی نہیں مانا اور پہلی تعلیم جو جزوی اور غیر مکمل تھی ، جو حقیقی تعلیم کا ایک حصہ تھی اس پر قائم رہے اور حقیقی تعلیم کا جو دوسرا حصہ حضرت مسیج لے کر آئے تھے اس کو ماننے سے انکار کیا اور اس طرح اختلاف پیدا ہو گیا.انہوں نے کہا کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف سے کیسے ہو سکتے ہو جب کہ پہلی شریعتوں سے اس قسم کے اختلاف کرنے والے ہو حالانکہ انسانی فطرت بھی اپنی ترقی یافتہ حالت میں پہلی شریعتوں کے ساتھ پورے طور پر اتفاق نہیں کر سکتی تھی.اس واسطے تیسری بات قرآن کریم میں یہ پائی جاتی ہے کہ اس نے حق و باطل میں کھلا فرق کر کے ان میں تمیز پیدا کر کے تمام پہلی ہدایتوں کے ماننے والوں میں جو اختلاف

Page 265

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۵۹ سورة البقرة پیدا ہو گئے تھے ان کو دور کرنے کا سامان پیدا کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی شکل میں ایک کامل اور مکمل شریعت انسان کے ہاتھ میں دے دی گئی.ان تینوں باتوں کی تفسیر تو لمبی ہے لیکن میں نے مختصرا ان کی طرف اشارے کر کے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے.جب کامل شریعت آگئی اور اس نے فرقان ہونے کا دعوی کیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبُ اس کی ایک تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمائی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے یہ پوچھیں کہ اس شریعت پر ہم ایمان لے آئے ہیں اب ہمارے اور پہلوں کے درمیان قرآن کریم نے کیا فرق، کیا تمیز پیدا کی ہے، ہم میں اور پہلی شریعتوں کے ماننے والوں میں شریعتِ اسلامیہ نے کیا امتیاز پیدا کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیا فانی قریب کہ پہلوں کو دیکھو وہ میرے قرب سے محروم ہو چکے ہیں میرے دربار سے دھتکارے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اور آپ کو اُسوہ بنا کر اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے تمہارا یہ مقام ہے کہ تم ان کی طرح دُور اور مہجور نہیں ہو بلکہ میرے مقرب ہو فانی قریب تم میں اور تمہارے غیر میں امتیاز یہ ہے کہ میں مسلمان کے قریب ہوں أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ اور جب وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں اور اپنے الہام کے ذریعے اس قبولیت کی بہتوں کو بشارت دیتا ہوں لیکن یہ شرط اپنی جگہ قائم ہے کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي بشرطیکہ تم میرے حکم کو قبول کرو وَلْيُؤْمِنُوا ٹی اور اپنے ایمان پر حقیقی طور پر ثابت قدم رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا نتیجہ ہے ایک اور چیز کا اور وہ سلسلہ چلتا ہے فضل سے.اصل یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت کرتا ہے تو اس میں اور ایک غیر مسلم میں جو امتیاز پیدا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے وہ معرفت حاصل کرتا ہے یعنی خدا تعالی کی صحیح شناخت کرتا ہے، اس کی عظمت اس کے دل میں بیٹھتی ہے اور اس کی کبریائی اور اس کے جلال سے وہ آشنا ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک ہی وقت میں ایک ہی ہستی اللہ کے متعلق اس کے دل میں محبت اور خوف پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۴۶ تا ۱۴۸)

Page 266

۲۶۰ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے ایسے دلائل جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قرآن میں الہی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ماہ رمضان کا بہت گہرا تعلق قرآن سے ہے.جہاں تک قرآن کے رمضان میں نازل ہونے کا تعلق ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جبریل علیہ السلام رمضان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کا دور کیا کرتے تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری کی ساری آیات رمضان میں بھی نازل ہوئیں.اس لحاظ سے یہ بیان بھی درست ہے کہ سارا قرآن رمضان میں اُترا.پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تین بنیادی صفات کا ذکر کیا ہے.پہلی صفت یہ بتائی کہ قرآن هدى للناس ہے یعنی یہ نوع انسان کے لئے ہدایت کا موجب ہے.النّاس کے لفظ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت كافة للناس کی طرف ہوئی ہے یعنی مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف.اسی لئے قرآن کی ہر آیت دونوں کے لئے ہے اور ہر قرآنی حکم میں مردوزن دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے.بعض آیات ایسی ہیں جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے اور انہی سے ہوسکتا تھا.جیسے حمل اور دودھ پلانے سے متعلق آیات.یہ استثنائی احکام ہیں ورنہ ہر آیت النّاس کے لئے ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں.قرآن دونوں ہی کے لئے ہدایت کا موجب ہے.ہدایت کے حقیقی اور بنیادی معنے یہ ہیں کہ اسلامی تعلیم ان راہوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو خدا تک پہنچانے والی ہیں.خدا غیر ذاتی نہیں بلکہ ذاتی خدا ہے یعنی ہر وہ شخص جو اسلام پر عمل کرتا ہے وہ خدا سے ایک زندہ تعلق قائم کرتا ہے.دوسری بنیادی صفت قرآن کی وَ بَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک محدود دائرہ میں آزادی دے کر انسان کو قرآن کی شکل میں ایسی تعلیم دی ہے جو خدا تک پہنچانے والی ہے.انسان کو چونکہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرے اس لئے وَ بَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَی کی رو سے قرآن ہر بات کی دلیل دیتا ہے.پر

Page 267

۲۶۱ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث تیسری بنیادی صفت قرآن کی یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ الفرقان ہے.یہ قرآن پر عمل کرنے والے اور عمل نہ کرنے والے کے درمیان ایک ما بہ الامتیاز پیدا کر دیتا ہے.اسی لئے ایک بچے مخلص احمدی کی زندگی دوسروں سے مختلف ہوتی ہے.۱۹۷۶ ء میں جب میں ڈیٹن (امریکہ ) گیا اور وہاں کے میئر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ڈیٹن کے شہریوں میں سے جو لوگ آپ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور جن کی آپ نے تربیت کی ہے وہ دوسرے شہریوں سے مختلف انسان نظر آتے ہیں.ان میں سے کسی ایک کے خلاف آج تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور کسی بھی احمدی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنا.سو یہ ہے ایک فرقان.لیکن اصل فرقان وہ ہے جو خدا کی نگاہ میں فرقان ہو.اس کے لئے خدا نے حکم دیا ہے کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ کہ جو بھی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے.سورمضان کے روزے مومنوں میں مابہ الامتیاز پیدا کرنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہیں ان کی وجہ سے ایک مومن کی رسائی خدا تک ہوتی ہے اور اس کے ساتھ مومن کا ایک زندہ تعلق قائم ہوتا ہے اور یہ زندہ تعلق ما بہ الامتیاز پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے.ایک مومن کے دل میں سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اللہ کی ہستی اور بندہ کی ہستی میں تو بڑا فرق ہے.دونوں میں بڑا بعد ہے.یہ فاصلہ کیسے پاتا جائے گا اور اللہ کے ساتھ بندہ کا تعلق کیسے قائم ہوگا ؟ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمائی.چنانچہ فرمایا: وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.یعنی یہ کہ (اے رسول!) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہیے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.سوخدا کے ساتھ بندہ کے زندہ تعلق کی ایک زندہ علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندہ کی دعا کو بطور خاص قبول کرتا ہے اور رمضان کے روزے رکھنے کے نتیجہ میں یہی وہ ما بہ الامتیاز ہے جو ایک مومن کو عطا ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں فرقان کا حامل قرار پاتا ہے.یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں روزے رکھنے والوں کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے اور روزے مابہ الامتیاز فرقان پیدا کرنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ

Page 268

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۲ سورة البقرة رمضان کے علاوہ عام دنوں میں وہ دعائیں قبول نہیں کرتا.وہ ہر وقت دعائیں قبول کرتا ہے.جب بھی اس کا کوئی بندہ مضطر ہو کر اس کے حضور جھکتا اور اس سے دعا مانگتا ہے وہ اس کی دعا کو قبول کر کے اس کے لئے ایک عید پیدا کر دکھاتا ہے.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ ایک عید تو وہ ہے جس کا درواز ہ ماہ رمضان میں کھلتا ہے اور ایک عید وہ ہے جو عاجزانہ دعائیں کرنے والے ایک مومن کو ہر وقت حاصل ہوتی رہتی ہے.أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ سے بڑھ کر ایک مومن کے لئے اور کیا عید ہوگی.اصل بات یہ ہے کہ ہر احمدی کو خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنا چاہیے تا کہ قبولیت دعا کا حظ اسے حاصل ہو.لیکن یہ یاد رکھنا چا.کہ وہ خالق اور مالک ہے کبھی بندے کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے اور دونوں ہی حالتیں مومن کے لئے عید کی آئینہ دار ہوتی ہیں اس لئے کہ اس کی اصل عید رضائے الہی میں ہوتی ہے.(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۰۷ تا ۱۱۰) ا قرآن کریم کی یہ بھی شان ہے کہ وہ بنیادی اصول ایسی جگہ بیان کر دیتا ہے جہاں اس کے پہلے مضمون کے ساتھ خاص تعلق ہو.گو وہ مضمون ماقبل کے ساتھ بندھا ہوا تو نہ ہولیکن اس کا خاص تعلق ہو.رمضان کے ساتھ دعا کا ذکر کرد یا فرمایا: وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ - اب دعا صرف رمضان کے مہینے میں ہی تو نہیں کرنی ہوتی لیکن رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی عبادات کو اکٹھا کر کے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ انسان اگر چاہے تو خاص طور پر اپنے رب کریم کی طرف زیادہ خشوع و خضوع اور ابتہال کے ساتھ متوجہ ہونے کے مواقع پاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اُس کی دعائیں عام حالات کی نسبت زیادہ کثرت سے خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہو سکتی ہیں اگر دل میں اخلاص ہو اور کوئی کجی اور فساد نہ ہو لیکن ویسے یہ ایک عام اصول ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ تو ہر آن اور ہر گھڑی ہر شئے کا تعلق ہے اور خدا سے زندہ تعلق قائم کرنا یہ ایک مسلمان کا فرض ہے.خدا تعالیٰ کی خدائی تو اپنا کام کر رہی ہے خواہ انسان اس کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو اس کے جسم میں ہزار ہا تغیر اللہ تعالیٰ کے براہ راست حکم سے پیدا ہور ہے ہیں......اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر میرے بندے میرے متعلق پوچھیں یعنی قرب الہی

Page 269

دوو دو ۲۶۳ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے حصول کا خیال آئے کہ وہ کس طرح اپنے رب سے تعلقات پیدا کر سکتے ہیں تو ان سے کہہ دو میں تم سے دور تو نہیں ہوں.اُجیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.میرے قرب کی علامت اور نشان یہ ہے کہ میں دعاؤں کو سنتا ہوں اور دعا سننے کے بعد یہ اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے دعا کو قبول کر لیا ہے.ا جیب میں محض اجابت یعنی قبول کرنا ہی نہیں بلکہ بسا اوقات اس کی اطلاع دینا بھی شامل ہوتا ہے.یہ اطلاع یا تو عملاً ہوتی ہے اور یا لفظاً بھی.رؤیا اور کشوف کے ذریعہ یا الہام کے ذریعہ بھی ہوتی ہے.دعا کرنے والے کے روحانی مقام اور ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا سلوک ہوتا ہے یہ لبی تفصیل ہے اس میں اس وقت جانے کا وقت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں کی دعا کے نتیجہ میں پیار اور قبولیت کی کیفیت تب پیدا ہوگی جب وہ میرا حکم مانیں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں گے اور میری نازل کردہ ہدایت پر قائم ہو جائیں گے تا کہ جس غرض کے لئے میں نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ غرض پوری ہو.دعا کے سلسلہ میں یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ ہر انسان دعا اپنے لئے بھی کرتا ہے اور دوسرے فرد کے لئے بھی کرتا ہے اس سلسلہ میں جیسا کہ پہلے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے ترجمہ میں میں بتا چکا ، ہوں خدا تعالیٰ بتاتا ہے انسان اپنے لئے بھی دعا کرتا ہے.دوسرے فرد کے لئے بھی دعا کرتا ہے.حدیث میں آتا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تیری ویری لہ کہ اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو خواب کے ذریعہ اطلاع دیتا ہے اور دوسرا آدمی اس کے لئے دعا کر رہا ہو تو اسے بھی اطلاع دیتا ہے کہ اس کے دوست یا بزرگ یا بھائی یا بیٹے یا خلیفہ وقت کے متعلق دعا قبول ہو گئی ہے اور دعا اجتماعی بھی ہے.اجتماعی دعا بعض حالات میں اور بعض زمانوں میں بہت ضروری ہو جاتی ہے اور اگر انسان انفرادی دعائیں اجتماعی دعا پر قربان کر دے تو میری یہ ذاتی رائے ہے اور جو تاریخ میں نے پڑھی ہے اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پھر اپنے لئے نہیں بھی دعا کر رہا ہوتا تب بھی اس کی دعا قبول کر لی جاتی ہے کیونکہ وہ خدا کی مخلوق کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آپ نے عرب میں ایک عظیم روحانی انقلاب بپا کر دیا.عرب وحشی اور درندہ صفت تھے عمل کرنا تو در کنار ان کو حسن اخلاق کا علم ہی نہیں تھا.کتوں اور سوروں کی طرح وحشیانہ زندگی گزار رہے تھے لیکن

Page 270

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۴ سورة البقرة د و حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قوم کی زندگی کے اندر ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا.آپ فرماتے ہیں تمہیں پتا ہے یہ انقلاب کیوں پیدا ہوا یہ ایک فانی فی اللہ کی راتوں کی عاجزانہ دعاؤں کا نتیجہ تھا.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے اتنی دعائیں کیں، پہلے عرب کے لئے اور پھر سب بنی نوع انسان کے لئے ( کیونکہ اسلام کا پیغام ساری دنیا میں پہنچنا تھا ) کہ ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا ایسا انقلاب جسے آج کی دنیا بھی سمجھنے سے قاصر ہے حالانکہ سائنس بہت ترقی کر چکی ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۳۸۶۲۳۸۳) قرآن کریم نے میں نے پچھلے چند ہفتوں میں ہی یہ بیان کیا ہے اب مختصر کروں گا.ایک تو یہ اعلان کیا.میرے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو مجھے پانے کے لئے تمہیں راکٹ میں بیٹھ کے چاند پہ جانے کی ضرورت نہیں یا کسی اور ستارے یا ساتویں آسمان تک پہنچنے کی ضرورت نہیں.إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ میں تمہارے پاس ہوں لیکن پاس ہوتے ہوئے بھی دُور ہوں.اُجیب دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جو مجھے اپنے پاس سمجھے گائیں تو پاس ہوں لیکن انسانوں میں سے جو مجھے اپنے پاس سمجھے گا اور پاس سمجھنے کے نتیجہ میں اس کی روح پر میری عظمت اور کبریائی جو ہے وہ سایہ ڈال رہی ہوگی اور میری عظمت اور کبریائی کی خشیت اس کے دل میں پیدا ہوگی اور میری صفات کو دیکھ کے وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ سے مانگے بغیر میری زندگی ناکارہ ہے اور اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ وہ دعا کرے گا مجھ سے.مجھے پکارے گا میں اس کی دعا کو قبول کرلوں گا.اور دوسری طرف یہ کہا.اس میں تو ایک اصول بیان کیا نا کہ جو پکارے گا اس کی پکار کو میں قبول کروں گا.دوسری طرف یہ کہا کہ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) اب ہماری خدا تعالیٰ کو یہ ضرورت تو نہیں ہے کہ ہم مزدوری کریں اس کی اور فائدہ پہنچائیں اسے.اس نے مکان بنانے ہیں ہم راج اس کے جاکے راجگیری کریں اور مزدور اس کی مزدوری کریں تا کہ اس کو فائدہ پہنچے.یہ تو نہیں ہمارا اللہ.وہ تو كُن فَيَكُونُ (البقرة : ۱۱۸) اس کی صفات کی بنیاد یہ ہے کہ ہر صفت کا جلوہ جو ہمارے وقت کا سیکنڈ ہے اس سے شاید کروڑویں حصہ میں ظاہر ہوتا اور وہ چیز بن جاتی ہے.تو قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّی کس چیز کی پرواہ کا یہاں ذکر ہے.اعمالِ صالحہ کہ تمہارے اعمال صالحہ کو میں کیوں قبول کروں.اگر تم اس حقیقت سے نا آشنا ہو کہ تمہیں دعا کے ذریعہ میری رحمت کو جذب کرنا چاہیے اس کے بغیر تمہارے دو

Page 271

۲۶۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اعمال جو ہیں وہ مقبول اعمال نہیں بن سکتے.آگے ہے فَقَدْ كَذَّ بتُم تم نے میری صفات کا انکار کر دیا.تم نے میری ہدایت پر چلنے سے انکار کر دیا.تمہارے اعمال جو تم بظاہر بے تحاشا پیسے خرچ کر کے علیحدہ دوسری جگہ ذکر آیا اس کا ، مجھے خوش کرنا چاہتے ہو بالکل خوش نہیں کر سکتے.تمہارے اعمال مجھے خوش نہیں کر سکتے.جب تک تم دعاؤں کے ذریعہ سے میری رحمت کو جذب کر کے اپنے اعمال صالحہ کو اعمال مقبولہ نہ بنالو.یہ دو باتیں سمجھانے کے لئے رکھ رہا ہوں میں ایک آپ کے دائیں طرف اور ایک بائیں طرف.پھر فرمایا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : 1) حکم دیا ہے پھر.یعنی محض بندہ پر یہ کہہ کے بندہ پر یہ بات نہیں چھوڑی کہ دعا کرتا ہے یا نہیں.ایک طرف یہ کہا میں تمہارے قریب ہوں.مجھ سے ملنا چاہتے ہو دعائیں کرو.میں قبول کروں گا.دوسری طرف یہ کہا کہ تم مجھ سے میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو اس لئے تم اعمال صالحہ بجالاتے ہو میری ہدایت کے مطابق جو قر آنی شریعت میں نازل ہوئی نہیں قبول کروں گا جب تک کہ تم دعا کے ذریعہ سے میرے فضل اور میری رحمت کو حاصل کر کے وہ ہزاروں لاکھوں رخنے اور سوراخ جو تمہارے اعمال میں ہوتے ہیں اور اس قابل نہیں چھوڑتے تمہارے اعمال کو کہ قبول کئے جائیں ان پر دعا کے ذریعہ سے میری مغفرت کی چادر نہ ڈالو.میں خود ہی چادر ڈالوں گا ان پر اگر دعا تمہاری قبول ہو جائے گی اور تمہارے اعمال کو اس قابل سمجھ لوں گا کہ میں انہیں قبول کرلوں لیکن یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بیان ہیں، حکم نہیں.حکم یہ ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم دعائیں کرو.میں دعاؤں کو قبول کروں گا.(خطبات ناصر جلد نم صفحه ۲۰۰ تا ۲۰۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.چاہیے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کامیابی کی راہیں ان پر کھلیں اور ان کی دعائیں قبول ہوں.ماہِ رمضان دعاؤں کا مہینہ ہے خاص طور پر.روزے کے علاوہ ہم نوافل پر بھی خصوصاً زور دیتے ہیں اس ماہ میں تراویح ہوتی ہیں وہ نوافل ہیں.اصل تو یہ تھا کہ علیحدہ علیحدہ ہر شخص رات کی تنہائی میں اپنے رب کے حضور جھکتا اور اس سے دعائیں مانگتا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب آپ

Page 272

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۶ سورة البقرة نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں کی بجائے ( مجبوریوں کے نتیجہ میں ) مسجد نبوی میں آکر یا مسجد نبوی کی برکت کے حصول کے لئے تراویح پڑھتے ہیں تو آپ نے ان سب کو اکٹھا کر کے اور با جماعت یہ نوافل شروع کروا دیئے.پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں تراویح باجماعت شروع ہوئی.انفرادی نوافل ( رات کے آخری حصہ میں پڑھنے میں ) اپنا ایک مزہ رکھتے ہیں لیکن جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں بہت سے وہ لوگ جو انفرادی طور پر اس رنگ میں نوافل ادا نہیں کر سکتے.وہ لوگ جو قرآن کریم کا دور نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو قرآن کریم حفظ نہیں ، مسجد میں آکے ایک حافظ کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اور پورے قرآن کریم کا دور بھی ہو جاتا ہے اور دعائیں بھی کر لیتے ہیں.بہت سے دوست ہیں میں جانتا ہوں ، جو مثلاً شروع رات میں جو با جماعت تراویح پڑھی جاتی ہیں اس میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور پھر آخری حصہ رات میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں.رمضان مبارک میں شروع رات میں تو بہت سے نوجوان اور بچے اور بہت سی مستورات بھی شامل ہو جاتی ہیں اس کے اپنے فوائد ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ دعاؤں کا عام دنوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ موقع ملتا ہے انسان کو اور قبولیت دعا کے لئے انسان اپنے رب کو راضی کرنے کی خاطر اور بہت ساری عبادتیں خاص طور پر اس ماہ میں دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ بجالاتا ہے.مثلاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آیا ہے کہ آپ بڑے سخی تھے لیکن رمضان کے مہینہ میں آپ کی سخاوت میں اتنی شدت پیدا ہو جاتی تھی کہ دوسرے مہینوں میں وہ شدت نہیں ہوا کرتی تھی.غرباء کا خیال رکھنا نیز مسکینوں کا ، جو نسبتاً غریب ہیں ان کو سہارا دینا دعاؤں کے ساتھ ، ان کی دنیوی ضروریات کو پورا کر کے.تو یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چیخنے کی ضرورت نہیں میں دُور تو نہیں ہوں کہ زور زور سے چیخ کے مجھے پکارو گے میں قریب ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علیحدہ بھی نماز پڑھ رہے ہو یعنی نوافل بالکل خاموشی سے اور بے آواز بھی قرآن کریم نہ پڑھو اور بہت اونچی آواز سے بھی نہ پڑھو.ویسے عام طور پر جس طرح پڑھا جاتا ہے نوافل میں اس طرح نہیں بلکہ آواز نکالومنہ سے، سنتِ نبوی یہ ہے.اس آیت میں ایک اہم چیز بھی ہمیں پتالگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ دعا کرنے والا جب مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.اسلام بنی نوع انسان کا

Page 273

۲۶۷ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث مذہب ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت كافة للناس ہے، تمام انسانوں کے لئے ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں ان تمام زبانوں کے بولنے والوں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ نے کہا اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ تم دعا کرو تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا.جس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ دنیا کی ہر زبان میں خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر دعا کرنے کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.اتنا عرصہ گزر گیا چودہ سوسال ہونے کو آئے ہیں.اتنے لمبے زمانہ میں بھی عربی زبان جو ہے وہ ساری دنیا کی زبان تو نہیں بن سکی.یہ صحیح ہے کہ بعثت نبوی کے وقت عربی ایک چھوٹے سے خطہ میں بولی جاتی تھی لیکن جس وقت اسلام کا اثر اور رسوخ پھیلا اس وقت مثلاً مصر جو عربی بولنے والا نہیں تھا وہاں عربی بولی جانے لگی.اسی طرح جو اس وقت مرا کو اور الجزائر وغیرہ ممالک ہیں یہ افریقہ کے ممالک ہیں ان میں بھی اسلامی تمدن کے اثر کی وجہ سے عربی بولی جانے لگی.اسی طرح مشرق کی طرف بہت سے ممالک ہیں جن میں عربی زبان رائج ہوگئی لیکن ہر انسان تو عربی زبان نہیں بول سکتا.جس وقت قرآن کریم نازل ہوا اور یہ آیت اتری اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چھوٹا ساخطہ تھا انسانوں کا جو عربی بولنے والا تھا.کہا یہ گیا اس وقت کہ تم دعا کرو میں قبول کروں گا اور مخاطب ہیں قرآن کریم کے تمام بنی نوع انسان.اس آیت کے ٹکڑے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے.کی جاسکتی ہے کیونکہ کہا گیا سب کو مخاطب کر کے پکارو مجھے، تو جو عربی جانتا نہیں وہ کیسے پکارے گا عربی میں وہ تو اپنی زبان میں ہی پکارے گا اور دوسرے دعا کرنی چاہیے اس لئے بھی کہ اگر کسی کوٹوٹی پھوٹی عربی آتی بھی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کے اپنی ضرورتوں کو اس زبان میں ادا نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بندے کو تو تسلی تب ہوتی ہے جب وہ اپنی زبان میں اپنا مافی الضمیر دوسرے کے سامنے بیان کر دے.اس لئے جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز میں بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون عربی دعا ئیں اسی طرح عربی میں پڑھنی چاہئیں.ہر مسلمان کو وہ عربی عبارتیں یاد ہونی چاہئیں خواہ وہ بچہ ہو خواہ اس کے معنی اس نے ابھی سیکھے ہوں یا نہ سیکھے ہوں لیکن نماز میں ان دعاؤں کے علاوہ جو ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ورثہ میں ملیں اور جن سے ہماراعشق اور پیار کا تعلق ہے (اس لئے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وہ دعائیں نکلتی تھیں

Page 274

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۸ سورة البقرة یہ ہمارا پیار کا تعلق ہے ) وہ پڑھ لینے کے بعد ہم اپنے رب کے حضور اپنی زبان میں دعا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور ضرورت کے وقت یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ ایک یوگوسلاوین عربی کی دعائیں پڑھنے کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرے.ایک انگریز انگریزی میں بھی دعا کرے.ایک البانین ، البانین زبان میں بھی دعا کرے.ایک افریقن جس کی زبان تحریر میں بھی ابھی نہیں آئی لیکن اہل افریقہ اسے بولتے ہیں وہ اپنی زبان میں دعائیں کریں تا کہ وہ ایک قریبی تعلق محسوس کریں اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ.اجیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جس زبان میں بھی دعا میرے سامنے کی جائے گی اسے میں قبول کروں گا.شرائط یہ ہیں کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا ني - فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي دو معنی میں ہے.قرآن کریم نے اور قرآن کریم کی تفسیر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیت دعا کے لئے جو شرائط بیان فرمائی ہیں وہ بھی ایک حکم ہے اس کو قبول کریں.دعا کو دعا کی شرائط کے ساتھ کریں اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا ظاہری یا باطنی شرک نہیں کرنا.ایک شخص مشرک ہے اور وہ دعا کرتا ہے خدا سے تو اس سے قبولیت کا وعدہ یہاں نہیں لیکن وہ خالق مالک بھی ہے وہ ان کی بھی بعض دفعہ سن لیتا ہے.بڑا دیا لو ہے وہ.لیکن کہا یہ گیا ہے کہ میرے پیار کو حاصل کرنا ہے اگر تو جو شرائط میں نے دعا کے لئے قائم کی ہیں ان کے مطابق دعا کرو.اور جو اسلام کے احکام ہیں قرآنی احکام ہیں ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو.وَلْيُؤْمِنُوا بِي اور خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کر وجس کا ایک ذریعہ عاجزانہ دعا ئیں بھی ہیں.تو تمہیں کامیابی اور ہدایت مل جائے گی.قرآن کریم نے محض یہ نہیں کہا کہ دعائیں کرو میں قبول کروں گا بلکہ قرآن کریم نے ایک عالم کا عالم دعاؤں کا ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیا ہے.اس میں سے (جو ایک لمبا مضمون ہے) کچھ حصے میں نے چنے ہیں آج کے خطبہ کے لئے.اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( البقرة : ۲۰۲) یہاں دعاؤں کی بنیاد رکھی گئی.یہاں یہ فرمایا گیا کہ دنیوی نعماء کے حصول کے لئے بھی دعائیں کریں اور اُخروی نعماء کے حصول کے لئے بھی دعائیں کرو اور وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کا فقرہ ورلی زندگی اور اخروی زندگی کو باندھ دیتا ہے کیونکہ اسی زندگی کی بنیاد پر اخروی زندگی کی جنتوں کا انحصار ہے تو بہت بڑا عالم ہمارے سامنے رکھ دیا گیا.

Page 275

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۶۹ سورة البقرة في الدُّنْيَا حَسَنَةً دنیا کی ساری نعمتیں جو خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں تم ان کے حصول کے لئے دعائیں کرو.صرف یہ کہہ کر کہ دعائیں مانگو خاموشی نہیں اختیار کی بلکہ کیا دعائیں مانگو اس کے او پر بھی بڑی وسیع روشنی ڈالی گئی ہے.فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے دو پہلو ہیں.ایک ایسی نعمتیں ہیں ہماری اس ورلی زندگی سے تعلق رکھنے والی جن کا تعلق خود ہمارے نفس کے ساتھ ہمارے وجود کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بے شمار قو تیں اور استعداد میں عطا کی ہیں ان کے لئے دعائیں مانگو کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق پروان چڑھیں اور ان قوتوں کو اس لئے دیا گیا انسان کو کہ جو یہ کہا گیا تھا کہ تمہاری خدمت پر ہر شے کو مامور کیا گیا ہے وہ ہر شئی سے خدمت لینے کے قابل ہو جائے.وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية:۱۴) تمہیں ہر طاقت دے دی گئی تا تم ہر شے سے خدمت لے سکو تو دعا مانگو کہ اس قدر عظیم نعمتیں جو تمہیں ملیں ، آنکھ ہے خدا تمہیں توفیق دے کہ آنکھ سے بہترین اور اعلیٰ ترین اور پورے کا پورا فائدہ اٹھانے والے بنو تم.یہ دعا خدا تعالیٰ سے مانگو.بہت سے آنکھوں والے ہیں جو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا ر ہے اور اندھے کے اندھے اس دنیا سے گزر جاتے ہیں.قرآن کریم میں بہت جگہ ان کا ذکر آیا ہے.کان ہیں جن سے ایک تو تمہارا اپنا مشاہدہ تعلق رکھتا ہے ایک تو تمہارا اپنا حصول علم تعلق رکھتا ہے مثلاً کلاس میں بیٹھا ہوا طالب علم اگر کان کھول کے نہ رکھے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا.تو رَبّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) کی دعا میں یہ ساری چیزیں آگئیں.تو یہ جتنی نعمتیں ہیں ان سب کے حصول کے لئے دعا کرو.انسان یہ دعا کرے اپنے رب سے کہ اے خدا! جو تُو نے مجھے تو تیں اور استعداد میں دی ہیں اپنے فضل سے مجھے یہ تو فیق عطا کر کہ میں اپنی ہر قوت اور استعداد کی نشو و نما کروں اور اسے کمال تک پہنچاؤں اور ان سے بہترین فائدہ تیری رضا کے حصول کے لئے میں حاصل کروں اور اپنے نفس کی اس کامل اور صحیح نشوونما کے بعد جب خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے انسان کے تو جو دنیا کی نعمتیں ہیں ان کو حاصل بھی کروں اس رنگ میں جو تجھے پسند ہو اور استعمال بھی کروں اس طریق پر جو تیری رضا کے حصول میں ممد اور معاون ہو.بہت سارے لوگ ہیں جو غلط طریق سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کر کے گناہگار بن جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو صحیح طریق پر تو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرتے ہیں لیکن غلط استعمال کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتے ہیں.تو ایک نہ ختم ہونے والا سمندر ہے دعاؤں کا

Page 276

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۷۰ سورة البقرة في الدُّنْيَا حَسَنَةً کے اس فقرے کے اندر جو خدا تعالیٰ نے بیان کر دیا.وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں جو میں نے نعماء عطا کیں جو رحمت اور فضل موسلا دھار بارش کی طرح تم پر نازل ہوئے وہ تمہاری دُنیوی اور ور لی زندگی کے ساتھ ہی تو تعلق نہیں رکھتے اُخروی زندگی کے ساتھ بھی ان کا تعلق ہے بلکہ اُخروی زندگی کے ساتھ ہی ان کا صحیح تعلق ہے اور یہ ساری چیزیں اسی لئے تمہیں دی گئی ہیں کہ تم اپنی آخرت کو سنوارو.اس واسطے دعا کرو کہ اے خدا! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا اور یہ دنیا کی نعمتیں ہمیں اُخروی زندگی کی جنتوں کی راہوں پر چلا کر ان جنتوں تک پہنچانے والی ہوں تجھے ناراض کر کے ہمیں جہنم کی طرف لے جانے والی نہ ہوں.میں نے بتایا کہ یہ دُعا جو ہے اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِيهِ ایک ایسی دعا ہے جس میں دُعا کا ایک عالم کا عالم کھولا گیا اور ہمیں اس چھوٹی سی آیت میں بہت کچھ خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ کیا مانگنا ہے کس طرح مانگنا ہے پھر اسی سے آگے ہم چلتے ہیں اس دروازے میں داخل ہو کر.سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( التحريم :٩) اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے فائدے کے لئے کامل کر دے اور ہمیں معاف فرما تو ہر چیز پر قادر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کمزور انسان ہیں گناہ بھی سرزد ہوتے ہوں گے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوں گی ہمارے گناہوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور ہمیں اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا اپنے دائرہ استعداد کی انتہائی روحانی رفعتوں تک اپنے فضل سے پہنچا دے اور ہم تیرے حضور عاجزی سے متضرعانہ دعا کرتے ہیں کہ تو خود ( جو ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے ) ہماری اس بات میں مدد کر کہ جو تو نے ہمیں نور دیا وہ نور مکمل ہو جائے ہماری زندگی میں اور جن انتہاؤں تک پہنچنا ہمارے لئے مقدر تھا ہمیں وہاں تک پہنچا ہماری غلطیاں کوتاہیاں روک نہ بن جائیں اور تیری رضا کی انتہا کو ہم حاصل نہ کر سکیں.پھر ایک اور وسیع مضمون ہے دعاؤں کا.وہ یہ کہ ہر نبی اپنی اُمت کو بشارتیں دیتا ہے.سارے قرآن کریم کو پڑھ لو کہیں اختصار سے ذکر ہے بعض جگہ تفصیل سے بھی ذکر آ گیا ہے.تو ہر نبی اپنی اُمت کے لئے یا ان کے لئے یا ان لوگوں کے لئے جو اس کا کہا مان کر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے

Page 277

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۱ سورة البقرة ہیں بشیر ہے انہیں بشارتیں دینے والا ہے وعدے ہیں جو ان انبیاء کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے ان کی اُمتوں سے کئے سب سے زیادہ وعدے بڑی وسعتوں والے بڑی گہرائیوں والے بڑی رفعتوں والے بڑے عظیم وعدے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے امت محمدیہ کو دیئے گئے ہیں.پچھلے ایک خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ نبی اپنی اُمت کے لئے صرف بشیر ہی نہیں ہوتا بلکہ نذیر بھی ہوتا ہے کیونکہ ہر بشارت کے ساتھ شرائط ہیں اور نبی ہوشیار کرتا ہے اور تنبیہ کرتا ہے کہ اگر تم نے ان شرائط کو پورا نہ کیا تو تمہارے حق میں جو بشارتیں دی گئی ہیں وہ پوری نہیں ہوں گی.مثلاً آپ کو سمجھانے کے لئے ایک آیت میں اس وقت لے لیتا ہوں وعدہ دیا گیا اُمتِ محمدیہ کو، اور یہ ایک عظیم وعدہ ہے.اعلان کیا گیا انتم الاعلون (ال عمران :۱۴۰) زندگی کے ہر شعبہ میں فوقیت ہمیشہ تمہیں ہی حاصل رہے گی مگر ایک شرط لگائی اِن كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ اگر تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے.یہ وہ نذیر والا حصہ آ گیا اِن کُنتُم مُؤْمِنین میں تو وعدے تو بے شمار ہیں اور انسان کی کوتاہیاں اور کمزوریاں اور غفلتیں بھی کم نہیں.اس واسطے دعاؤں کا سہارا لینا ضروری ہے.اسی واسطے کہا گیا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) اس میدان میں ہمیں قرآن کریم نے یہ دعا سکھائی ربِّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ (ال عمران : ۱۹۵) که اے ہمارے خدا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں، آپ کے سمندر میں تو سارے پچھلے انبیاء مدغم ہو جاتے ہیں کیونکہ نَصِيباً من الكتب ہی ان کو ملا تھا یعنی قرآن کریم کا ایک حصہ اور قرآن کریم کی برکتوں کا ایک حصہ ہی ان کو دیا گیا تھا، تو جو ) تیرے رسولوں کے ذریعے ہمیں وعدے ملے ہیں ہمیں وہ سارا کچھ دے ایسے حالات پیدا کر دے ہمیں توفیق دے کہ ہم ان شرائط کو پورا کرنے والے بنیں جن شرائط کی ادائیگی ان وعدوں کے ساتھ لگائی گئی ہے اور وہ تمام وعدے ہمارے ہماری نسلوں کی زندگی میں پورے ہوں اور یہ نہ ہو کہ قیامت کے دن جب خدا کے حضور ہم سب اکٹھے ہوں تو کہا جائے کہ بشارتیں تو تمہیں بہت دی گئیں وعدے تو خدا تعالیٰ نے تم سے بہت عظیم کئے تھے لیکن اے نادانو ! تم نے اپنی غفلتوں، کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں اور خدا تعالیٰ کے احکام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان وعدوں سے حصہ نہ لیا اور اس طرح ہم قیامت کے دن ذلیل اور رسوا ہو کے رہ جائیں.تو ایک یہ دعا ہے جو بڑی وسعتیں اپنے اندر رکھتی ہے کہ اے خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 278

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۲ سورة البقرة ذریعہ تو نے بے انتہا بشارتیں ہمیں دیں، ہم سے وعدے کئے وعدہ کے لفظ کے ساتھ بھی قرآن کریم نے امت محمدیہ کو بشارتیں دی ہیں ) ایسا کر اور ہمیں توفیق دے کہ ہم شرائط کو پورا کریں ہم تیری راہ میں وہ قربانیاں دیں جن کا تو ہم سے مطالبہ کرتا ہے ہم تیرے پیار کے حصول کے لئے اپنے نفسوں پر اس موت کو طاری کریں جو تیری محبت کو پیدا کرنے والی ہے اور ایک نئی زندگی جس کے نتیجہ میں تیری طرف سے عطا ہوتی ہے اور وہ سارے وعدے ہماری زندگیوں میں بھی پورے ہوں جس طرح ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں جنہوں نے تیری راہ میں قربانیاں دی تھیں وہ پورے ہوئے اور یہ نہ ہو کہ ہم قیامت والے دن اپنی کوتاہیوں کے نتیجہ میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں.انسانی زندگی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس زندگی میں ہدایت کے ساتھ گمراہی بھی لگی ہوئی ہے یعنی ایک شخص ہدایت پالے تو ضروری نہیں ہوتا کہ مرتے دم تک وہ ہدایت پر قائم رہے.عرب کا ایک حصہ مرتد ہو گیا اور ہزاروں ارتداد کی حالت میں مر گئے.اسلام نے دعا سکھائی اس سلسلے میں کہ خاتمہ بالخیر کی دعا کیا کرو خا تمہ بالخیر کی دعا در اصل اس آیت میں ہے.رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (ال عمران:۹) اے ہمارے رب! تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت کے سامان عطا کر یعنی ہدایت دینا بھی خدا کا کام ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ جسے خدا پسند کرتا ہے اسی کو ہدایت کی راہ پر چلا دیتا ہے.پھر ہدایت کے حصول کے بعد ٹھوکروں کے دروازے کھلے ہیں.ارتداد کا دروازہ.اسلام سے باہر نکلنے کا دروازہ.اسی طرح کھلا ہے جس طرح اس شخص کے لئے اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ کھولا گیا.اس واسطے هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اے خدا ! تیری رحمت اور تیرے فضل کے بغیر ہم ہدایت پر قائم رہتے ہوئے خاتمہ بالخیر تک نہیں پہنچ سکتے.تجھ سے استدعا کرتے ہیں کہ جس طرح تو نے ہمارے لئے ظلمات سے نکل کر اپنی رضا کی روشنی میں داخل ہونے کے سامان پیدا کر دیئے تیرے ہی فضل کے ساتھ ایسا ہو کہ مرتے دم تک ہم تیرے قدموں میں پڑے رہیں.تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کا جو تعلق ہے وہ ٹوٹنے نہ پائے کہ تیری رحمت اور تیری عطا کے بغیر یہ نہیں ہو سکتا.یہ بھی ایک بنیادی دعا ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے یہ في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً دونوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کہ دنیا میں گمراہی اور ناراضگی

Page 279

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۷۳ سورة البقرة نہ ہو اور مرتے دم تک ہم ہدایت پر قائم رہیں اور ظالموں کے گروہ میں شامل نہ ہو جا ئیں لا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (الاعراف: ۴۸) بھی کہا گیا ہے.ایک ذمہ داری مسلمان کی یہ تھی کہ وہ اسلام کو دنیا میں پھیلائے ، اس کی تبلیغ کرے نمونہ بنے دوسروں کے لئے کیونکہ بغیر نمونے کے دنیا توجہ نہیں کرتی.تو یہ بھی بہت وسیع ذمہ داری ہے اور ہر مسلمان کا تعلق اس ذمہ داری کے نتیجہ میں ہر غیر مسلم کے ساتھ ہے.جہاں تک ممکن ہو.یہ نہیں کہ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ مشرق و مغرب و شمال و جنوب کے ہر غیر مسلم کے پاس جا کے تبلیغ کرے لیکن مجموعی طور پر امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کے حسن کو اور اللہ تعالیٰ کے نور کو پھیلانے والے ہوں اور اس کے لئے اُسوہ چاہیے اور اس کے لئے جذب چاہیے ایسا نمونہ جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے والا ہو.یہ دعا سکھا دی.یہ دعا ئیں قرآن کریم میں یا تو اس رنگ میں ہیں کہ پہلے انبیاء کو وہ دعا سکھائی گئی اور قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا اس غرض سے کہ ہم بھی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے.فَاجْعَلْ أَفْهِدَةٌ مِنَ النَّاسِ تَهْوِ إِلَيْهِمُ (ابراہیم : ۳۸) لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اس دعا کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ دل جیتنے کی توفیق ہمیشہ اُمت مسلمہ کے ہر گروہ کو عطا کرتا جیلا جائے ، محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ ، خدمت کے جذبہ کے ساتھ ، نیک نمونہ بن کر ایک ایسا اسوہ نظر آئے ، ایک فرقان ، ایک تمیز پیدا کرنے والی بات ایک احمدی مسلمان میں غیر مسلم کو نظر آئے کہ وہ مجبور ہو جائے اس طرف مائل ہونے پر اور اس کی طرف جھک کے اس سے پوچھنے پر کہ میرے اور تیرے میں جو فرق ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ بس بات شروع ہو گئی تبلیغ کی وہ مسلمان اسے کہے گا.میں تو ایک عاجز انسان، میں تو ایک نالائق انسان ہوں.مگر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والا انسان.میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا انسان ، میں قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کرنے والا انسان ہوں کہ دنیا میں جو دُکھی ہیں ان کے دُکھوں کو دور کروں اور سکھ کے سامان جہاں تک میری طاقت میں ہے میں پیدا کروں.میں نے خدا کو پایا اور اس کے نور کو دیکھا اس کی آواز کو سنا.اس کی طاقت اور قدرت کے کرشمے میں نے اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کئے.ان ساری چیزوں نے میری زندگی میں تبدیلی پیدا کر دی ہے.تم ایسا کرو گے تمہاری زندگی میں بھی یہ تبدیلی پیدا

Page 280

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۴ سورة البقرة ہو جائے گی.تو فَاجْعَلْ أَفْهِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا ! ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم اس قابل ہوں کہ تیری خاطر اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ایک جہاں کے دل جیتیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لاکر رکھ دیں.پھر جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے.اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے.وہ صرف ایک نسل سے تو تعلق نہیں رکھتی نسلاً بعد نسل یہ ذمہ داری اٹھانی ہے قیامت تک یہ ذمہ داری اٹھانی ہے اس واسطے آنے والی نسلوں کے لئے دعا کرنا ضروری ہے.قرآن کریم کہتا ہے :- رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء (ابراہیم : ۴۱) کہ اے خدا مجھے بھی عمدگی سے نماز ادا کرنے کی توفیق دے اور میری آنے والی نسل کو بھی.میری ذریت کو بھی کہ ہم عمدگی سے نماز ادا کریں یعنی اس طور پر نماز ادا کرنے والے ہوں کہ تو ہم سے راضی ہو جائے اور ہماری وریت اس طور پر نماز ادا کرنے والی ہو کہ تو ان سے راضی ہو جائے.مگر اپنی طاقت سے ہم یہ کر نہیں سکتے ہماری اس دعا کو قبول کر ربنا وتقبل دعاء اور اس دعا کو قبول کر کہ ہم نماز ادا کرنے والے ہوں عمدگی کے ساتھ اور ہماری ذریت اور ہماری ہر دعا کو قبول کر جو تیرے نور کو پھیلانے والی اور دنیا سے اندھیروں کو دور کرنے والی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو دنیا کے سامنے اس رنگ میں پیش کرنے والی ہو کہ وہ مؤثر بن جائے اس دنیا کے لئے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان کو ابھی پہچانتی نہیں.باہمی تعلقات ہیں.بھائی چارہ بنا دیا نا اُمتِ مسلمہ کو ایک خاندان بنادیا.اور سورہ حشر آیت ۱۱ میں ہمیں یہ دعا سکھائی کہ ہمیں اور ہم سے پہلے آنے والے بھائیوں کو بخش دے.جو پہلے بزرگ گزرے ہیں (صرف اپنے زمانہ میں بسنے والے نہیں) بلکہ اس تعلق کو اگلے اور پچھلوں کے ساتھ باندھا گیا ہے دراصل اور ہمارے دلوں میں مومنوں کا کینہ کبھی پیدا نہ ہو.بڑی عجیب دعا ہے سارے فتنوں کو دور کرنے والی.بعض دفعہ انسان حق لے کر بعض دفعہ حق چھوڑ کر فتنہ دُور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ( الممتحنة :۶ ) اے ہمارے رب ہمیں مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور ہماری غلطیاں اور کمزوریاں اگر کوئی ہوں بھی تو ایسے رنگ کی نہ

Page 281

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۷۵ سورة البقرة ہوں کہ کفار کے لئے ٹھوکر اور گمراہی اور تجھ سے دور جانے کا ذریعہ بن جائیں.ہمیں غیروں کے لئے اچھا نمونہ قائم کرنے کی توفیق عطا کر.انسان کا اپنا نفس ہے وَ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ ( بخاری کتاب الصوم) اپنے نفس کے لئے بھی دعائیں کرنا ضروری ہے.ورنہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعماء کو حاصل نہیں کر سکتا.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ شَيْتُ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة : ۲۵۱) اے ہمارے رب ہم پر قوت برداشت نازل کر صبر عطا کر اور ہمیں ثبات قدم عطا کر اور منکر مخالف کے خلاف ہماری مدد کر.صبر کے معنی عربی زبان اور قرآنی محاورہ میں بڑے وسیع ہیں.صبر کے معنی ہیں عقلی قوانین اور شریعت کے احکام کی روشنی میں اپنے نفس کو قابو میں رکھنا یہ ہے صبر اور مختلف شکلوں میں یہ ہماری زندگی میں ابھرتا ہے.مثلاً اگر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو اس پر بھی صبر کرتا ہے انسان میدانِ جنگ ہو تو مومنانہ شجاعت کے مظاہرے کو عربی زبان اور قرآنی اصطلاح صبر کہتی ہے.میدانِ جنگ میں اور ثبات قدم.اگر قضا و قدر کے امتحان و ابتلا میں مبتلا ہو کوئی شخص جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں آزماؤں گا.تو ایسے امتحان کے وقت بشافت قلب سے اس ابتلاء کو برداشت کرنا یہ بھی صبر ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا یہ بھی صبر ہے.بے موقع اور بے محل بات سے رکے رہنا.زبان کو قابو میں رکھنا اس کو بھی صبر کہتے ہیں.یعنی ہر پہلو سے جہاں نفس کو قابو میں رکھنا ہو عقل کے قانون کے ماتحت یا شریعت کے احکام کے نتیجہ میں.عربی زبان اور قرآن کریم کی اصطلاح اسے صبر کہتی ہے.تو ربَّنا افرغ عَلَيْنَا صَبرًا میں یہ دعا ہوئی کہ اے خدا! ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے نفس کو اس طرح قابو میں رکھیں کہ کبھی بھی وہ بے قابو ہو کر تیری ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۹۳ تا ۳۰۴) اس آیہ کریمہ میں روزہ کے متعلق ایک بڑے حسین پیرایہ میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صوم ( روزہ) کسے کہتے ہیں.اس آیت کی تفسیر یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے.عرب کے دستور کے مطابق اور ان کے خیال کی رو سے روزے کے دنوں میں ایسا فعل رات کو بھی

Page 282

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة البقرة جائز نہیں خیال کیا جاتا تھا فرمایاوہ تمہارے لئے ایک قسم کا لباس ہیں.یعنی تقویٰ کا ایک پیر بہن تم ان کے ذریعہ حاصل کرتے ہو.اسی طرح تم بھی ان کے لئے تقویٰ کا پیرہن ہو.گویا تم ایک دوسرے کے لئے تقویٰ اللہ کے بعض تقاضوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنتے ہو.اس کے بعد فرمایا عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَم کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے یہ حق تلفی کرنے کے معنی نئے ہیں.کیونکہ پہلی بار غالباً حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں یہ معنی بیان فرمائے ہیں.ورنہ پہلے مفسر اس کا کچھ اور ہی ترجمہ و تفسیر کیا کرتے تھے.تو فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے اور جہاں تک تسکین نفس کی تمہیں اجازت دی گئی ہے.تم اس سے بھی پرہیز کرتے تھے.یہ دیکھ کر اس نے اپنے فضل سے اپنا یہ حکم تمہارے لئے کھول کر بیان کر دیا.اور عفا عنكم اس طرح تمہاری حالت کی اصلاح کر دی اور تمہاری عزت کے سامان کر دیئے.یہاں خدا تعالیٰ نے ایک بنیادی اصول کی طرف بھی متوجہ کیا ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں کی تعیین اگر بندہ اپنے طور پر کرنے لگے.تو وہ اپنے حقوق بھی تلف کر جاتا ہے اور دوسروں کے ا حقوق کا تو کہنا ہی کیا.اس لئے دین کے معاملہ میں یہ ضروری تھا کہ قرب کی راہوں اور شریعت کے اصول کی تعیین آسمان سے وحی الہی کے ذریعہ کی جائے.ورنہ انسان غلطیاں کرے گا.اور اپنے بھی اور دوسروں کے حقوق بھی تلف کر دے گا.تو فرمایا قالن باشِرُوهُنَّ اس لئے ہم نے تمہارے حقوق کی حفاظت کے لئے اس شریعت کو نازل کیا ہے اور تمہارے فائدے کے لئے ہی سب احکام اُتارے گئے ہیں.پس اب تم بلاخوف لَوْمَةَ لائِمٍ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ.وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ الله لكم اور جو کچھ اللہ تعالی نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے.اس کی جستجو کرو.وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ کے دو اور معنی بھی ہیں.اوّل بغی کے معنی طلب کرنے کے ہوتے ہیں اور کتاب ان فرائض کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو وحی کے ذریعہ بطور شریعت انسان کو دیا جاتا ہے.فرمایا کہ تم روزے اس نیت سے رکھو.یا یہ کہ ہم نے روزوں کو تم پر اس لئے فرض کیا ہے کہ تا تم یہ

Page 283

۲۷۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سبق سیکھو کہ کتاب اللہ ( یعنی آسمانی شریعت) کو اور اس کے تمام احکام کو اپنا مطلوب بنانا ہے.گویا وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرائض تمہارے لئے مقرر کئے ہیں.ان کو اپنا مطلوب اور مقصود بناؤ.(اس کی قدرے زیادہ تفصیل میں آئندہ جا کر بیان کروں گا.جہاں روزہ کی حکمت بیان کی جائے گی ).تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کے دو حصے ہیں.ان دونوں کے درمیان اس بنیادی اصل کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا.کہ ہم نے روزے کو اس لئے فرض کیا ہے تا تم یہ سمجھ لو اور خوب پہچان لو کہ تمہاری ترقیات کے لئے یہ ضروری ہے کہ تم سب فرائض کو اپنی زندگی کا مقصود اور مطلوب ٹھہراؤ.ابتغاء کا ایک اور مفہوم بھی چسپاں ہوسکتا ہے.وہ مفہوم ہے تجاوز کر جانا.یہ تجاوز کبھی برا ہوتا ہے کبھی اچھا یہ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو یہاں فرمایا وَ ابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ کہ اگر تم مقام محمود کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو فرائض تک ہی نہ ٹھہر جانا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھنا اور نوافل کے ذریعہ مقام محمود کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا.اسی لئے رمضان کے روزوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نوافل جیسا کہ میں بعد میں بتاؤں گا بیان فرما دیئے ہیں.تو وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ الله للھ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ تم فرائض کے علاوہ نوافل کی طرف بھی متوجہ رہنا.اس کے بغیر تمہیں مقام محمود حاصل نہیں ہوسکتا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد صبح سے رات تک روزوں کی تعمیل کرو.ماہ رمضان کے ساتھ جو فرض تعلق رکھتا ہے وہ ہے روزہ رکھنا.اب یہاں ہمیں یہ بتایا کہ روزہ صبح سے لے کر شام تک رکھنا ہوگا اور اس روزے کے وقت میں جہاں کھانے پینے سے رکنا ہو گا وہاں جنسی تعلقات سے بھی احتراز ضروری ہوگا.ہر مومن بالغ اور عاقل کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزہ رکھے اگر وہ بغیر جائز عذر شرعی روزہ نہیں رکھے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک گنہگار ٹھہرے گا.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۶۸ تا ۷۰ ) میں نے فاسق فاجر کے متعلق کہا تھا کہ وَمَا دُعَاء الكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَلل ( المؤمن :۵۱) قرآن کریم نے اعلان کیا کہ جو مومن اور مسلم نہیں ناٹ مسلم Not Muslim) ہیں ان کی دعا اور چیخ و پکار

Page 284

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۲۷۸ سورة البقرة ضائع ہو جاتی ہے قبول نہیں کی جاتی.مومن کے متعلق کیا کہا ؟ مومن کے متعلق یہ کہا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ جو میرے بندے بن جائیں حقیقی معنی میں میرے ہو جا ئیں تو ان کے دل میں تڑپ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور ہم سے ہم کلام ہو.پس قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں.قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارے اپنے نفوس اور تمہارے رشتہ داروں سے بھی تمہارے زیادہ قریب ہوں.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جو پکارے گا مجھے مومن اور مسلم اس کو میں جواب دوں گا اور ان کو بھی چاہیے کہ وہ میرے حکم کو قبول کریں یعنی سچے مومن رہنے کی، سچے مسلمان بننے کی کوشش کرتے رہیں اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں تا کہ قبولیت دعا کے نتیجہ میں ہدایت پر اور زیادہ پختہ ہو جا ئیں.یہ ہدایت کوئی ایسی ٹھوس چیز نہیں کہ جو بس ایک دفعہ مل گئی ایک جیسی ہر ایک کومل گئی اور ختم ہو گیا معاملہ بلکہ اس ساری زندگی میں بھی ہدایت میں ، قرب الہی میں ، خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول میں اس کی رضا کی جنتوں کا جو تخیل ہے کہ آدمی کو حاصل ہو جاتی ہیں اس کی رضا کی جنہیں وہ اس میں ٹھہرتی نہیں بلکہ ہر آن ، ہر روز، ہر مہینے میں اس میں زیادتی ہونی چاہیئے اور جو سچا حقیقی مومن ہے ہوتی ہے زیادتی اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد جس جنت کا وعدہ دیا گیا ہے اس میں عمل کوئی نہیں.قرآن کریم کی آیات اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہمیں بتارہی ہے کہ عمل میں وہاں لیکن امتحان نہیں یعنی عمل ہے اس کی جزا ملے گی ، وہاں یہ خطرہ نہیں ہے کہ امتحان میں کوئی شخص فیل ہو جائے گا اور جنت سے نکال دیا جائے گا.یہ خطرہ نہیں ہے اطمینان کی زندگی ہے، خدا کا پیار جو ہے وہ ہر روز بڑھتا چلا جائے گا.یہاں تو یہ کہا گیا تھا جو دعا کرنے والا مجھے پکارے تو اس کی دعا قبول کرتا ہوں یہاں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ہر مسلمان مومن کو ضرور مجھے پکارنا چاہئے.ایک اصول بیان کیا.سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ۶۱) دعا ئیں کرو مجھ سے، پکارو مجھے.وہاں حکم دیا ہے اور اتنا زور دیا ہے دعا کرنے پر کہ مومن مسلمانوں کو کہا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم میرے حضور عمل کی دنیا میں کچھ پیش کر رہے ہو.نماز پڑھ رہے ہو، زکوۃ دے رہے ہو، دوسرے نیک اعمال بجالا رہے ہو مَا يَعْبَوا بكُمُ رَبِّي لَولا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۸) اگر تم دعا نہیں کرو گے تمہارے دوسرے اعمال بھی قبول

Page 285

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۲۷۹ سورة البقرة نہیں کئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ تمہاری پر واہ کیا کرتا ہے.تو وَمَا دُعَوُا الكَفِرِينَ الا فی ضَل کے مقابلے میں مومن کو یہ بشارت دی گئی کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرے گا.یہ انداری پہلو مومن کے سامنے رکھا گیا کہ اگر دعا نہیں کرو گے خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ نہیں کرے گا اور ان دو چیزوں کے بعد حکم دیا گیا اُدْعُوئی دعا کرو مجھ سے، میں قبول کروں گا.یہ پہلی بشارت ہے جو بشری لِلْمُؤْمِنِينَ - بُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ کے ماتحت ملی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۳) اللہ تعالیٰ کی ہستی کے متعلق جو بات اس وقت میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں قبول کرتا ہے ، سورۃ المؤمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لكُمْ (المؤمن: ۶۱ ) ( مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا ) اسی طرح سورۃ البقرہ میں اس نے فرمایا أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة : ۱۸۷) (جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں) لیکن دعا کی قبولیت کے بارہ میں یہ امر یا د رکھنا چاہئیے کہ جب دعا اس کی تمام شرائط کے ساتھ کی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی تمام حکمتوں کے ساتھ اسے قبول کرتا ہے.یعنی ضروری نہیں کہ دعا اسی طرح قبول ہو جس طرح بندہ مانگتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کو اس شکل میں قبول کرتا ہے جو دعا کرنے والے کے حق میں بہتر ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دعا کرنے والے کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے.پس دعا قبول ضرور ہوتی ہے لیکن ہوتی اس شکل میں ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں دعا کرنے والے کے لئے بہتر ہو نہ کہ اس شکل میں جس میں بندہ اپنی نادانی سے اس کے پورا ہونے کی خواہش رکھتا ہے.پھر سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (القمل : (٦٣) یعنی بتاؤ کون کسی بے کس کی دعا کو سنتا ہے جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے.وَيَكْشِفُ السُّوءَ میں اللہ تعالی نے ایک عجیب بشارت دی ہے - اور وہ یہ کہ تم دعا کرتے چلے جاؤ ایک دن وہ ضرور قبول ہوگی.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان مضطر ہونے کی حالت میں دعا مانگے اور وہ قبول نہ ہو.مضطر کی دعا کی قبولیت ایک نہ ایک دن ظاہر ہو کر رہتی ہے یعنی اس کی تکلیف بہر حال دور کر دی جاتی ہے.پس السوء کا دعاؤں کے نتیجہ میں

Page 286

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۸۰ سورة البقرة دور کیا جانا مومنوں کے دل کا مستقل سہارا ہے.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۴۱، ۱۴۲) آیت ۲۰۱، ۲۰۲ فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ أبَاءَكُمْ اَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْأَخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (٢٠٢ ترجمہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس دنیا کے آرام و آسائش دے اور آخرت کے متعلق ان کو نہ کوئی یقین ہوتا ہے اور نہ دعائیں ہوتی ہیں نہ اس کے لئے کوشش ہوتی ہے.ان کی ساری توجہ اور ان کے اعمال کا سارا دائرہ اس دنیا تک محدود رہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہیں ہوتا.ایک تو لوگوں کا گروہ یہ ہے.انسانوں کا ایک دوسرا گروہ ہے جو یہ دعا کرتا ہے.فرمایا: ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا کی زندگی میں بھی آرام و آسائش اور کامیابی و فلاح عطا کر اور اُخروی زندگی میں بھی خوشحالی کے سامان ، کامیابی کے سامان اور اپنی رضا کے حصول کے سامان پیدا کر.اس طرح پر ہر دو جنتوں کا ہمیں وارث بنا، دنیوی جنت کا بھی اور اُخروی جنت کا بھی اور ہر دو جہنم سے ہمیں محفوظ کر ، دنیوی جہنم سے بھی اور اُخروی جہنم کی آگ اور اس آگ کے عذاب سے بھی ہمیں بچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ دوسری آیت وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً جو ہے، اس میں رَبَّنَا کا لفظ پورے پورے شعور کے ساتھ اور اس کے معنی کو سمجھتے ہوئے بولا گیا ہے اور اس میں تو بہ کی طرف اشارہ ہے.اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ربنا اور مانگتے ہیں صرف اس دنیا کے آرام و آسائش کو ، نہ انہیں ربّ کی معرفت حاصل ہوتی ہے نہ اس کے معنی کو وہ پہچانتے ہیں اور نہ اپنے زندگی کے مقصود کا انہیں احساس ہوتا ہے اور نہ اس کے لئے وہ کوشاں ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 287

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۱ سورة البقرة فرمایا کہ تو بہ کا جو اشارہ ہے اس میں، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان ایک وقت تک اللہ کے علاوہ ، رب حقیقی کے علاوہ بعض دیگر ارباب بھی اپنے سامنے رکھتا ہے.اس نے حقیقی رب ، رب کریم کو چھوڑ کے یا اس کے ساتھ ہی دوسرے خدا، ارباب بنالئے ہیں.تو یہاں جو اشارہ ہے تو بہ کا اس کے یہ معنے ہیں کہ جو ہم نے بہت سے ارباب اس سے پہلے بنائے ہوئے تھے اب ہم ان کو چھوڑتے ہیں اور ان سے تعلق جو تھا ہمارا اس سے تو بہ کرتے ہیں اور اے رب حقیقی ! ربنا ! ہم تیری طرف آتے ہیں اس تو بہ کے بعد.اور جب یہ حقیقی معنے میں استعمال ہو دعا میں تو اس میں درد بھی ہے اس احساس کی وجہ سے کہ غیراللہ کو رب بنائے رکھا اور سوز و گداز بھی ہے اس غم کی وجہ سے کہ جورب حقیقی تھا اس سے پورا اور کامل اور حقیقی اور ذاتی تعلق ہم نے قائم نہیں کیا اور اس ہستی کو جو رب ہے اور بتدریج کمال کو پہنچانے والی اور پرورش کرنے والی ہے اس سے ہم دور رہے اور اس حقیقت کو نہیں پہچانا کہ انسان کی زندگی کا ایک مقصد تھا اور یہی دنیا سب کچھ نہیں تھی.مرنے کے بعد زندہ رہنا تھا انسان کی روح نے اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو بتدریج ارتقائی ادوار میں سے گزرنے کے بعد پہلے سے زیادہ حسن میں، پہلے سے زیادہ لذت والی خاصیت رکھنے میں ہمیں وہ نعما ملتی تھیں اور ان کو ہم بھول گئے اور اسی کو سب کچھ سمجھ لیا تو اس درد اور سوز وگداز کے ساتھ انسان کہتا ہے رہنا اے ہمارے حقیقی رب ! اے رب کریم !! ہم بھٹکے ہوئے تھے، ہمیں تو نے روشنی دکھائی اور اب ہم تیری طرف لوٹتے ہیں.اس معنی میں اس ندا اور التجا میں تو بہ کا ایک پہلو بھی ہے لیکن جو ربنا کہنے والے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کا ذکر پہلی آیت میں ہے انہیں تو غیر اللہ سے انہوں نے جوار باب بنالئے اللہ کے علاوہ ان سے ) انہیں چھٹکارا نہیں ملا، وہ اللہ پر بھی ایمان لاتے ہیں بظاہر ، اپنے حیلوں پر اور دغابازیوں پر بھی بھروسہ رکھتے ہیں جھوٹ اور افتراء پر ان کا تو کل ہے.اپنے علم اور قوت پر ان کو گھمنڈ ہے، اپنے حسن یا مال یا دولت پر ان کو فخر ہے، چوری اور راہنر نی اور فریب کو انہوں نے اپنا رب بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی رب حقیقی کو بھی پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کا مال ہمیں دے، مال حلال ہو یا حرام ہو ہمیں دنیا کا مال چاہیے، اس دنیا کا اقتدار دے خواہ وہ تیرے بندوں کی خدمت کرنے والا ہو یا نہ ہو، جو خیلے اور دغا بازیاں ہم کریں، جو جھوٹ اور افتر اہم باندھیں ، جو علم ہم نے حاصل کیا ہو، جو قوت تو نے ہمیں عطا کی ہے اس کو صحیح استعمال کریں یا غلط ہماری منشاء کے مطابق ان کا نتیجہ نکال اور اس دنیا میں ہمیں کامیاب کر،

Page 288

۲۸۲ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہمارے ذاتی حسن ، جسمانی حسن کے لوگ عاشق بنیں اور حقیقی حسن جو اخلاق کا حسن ، روح کا حسن ہے وہ ہم میں پیدا ہو یا نہ ہو وغیرہ وغیرہ، سینکڑوں بت ہیں جو بنائے ہوئے ہیں.رب کے علاوہ سینکڑوں رب ہیں جن کی پرستش کرتے ہیں اور جو رب حقیقی ہے اس کی دھندلی سی تصویر کو جس کی حقیقت اور معرفت ابھی انہوں نے حاصل نہیں کی اس کو بھی اپنے سامنے رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور دعا یہی ہوتی ہے کہ یہی دنیا ہے سب کچھ اس دنیا میں صحیح یا غلط طور پر ہمارے رفعتوں کے سامان دنیوی لحاظ سے کر دے اور ہمیں اونچا کر دے، ہماری قوت کو زیادہ کر دے خواہ وہ ظالمانہ ہی کیوں نہ ہو.ہمارے فریب کو اور ہماری چوری کو ننگا نہ ہونے دے اور جو ہم فائدہ حاصل کریں چوری کے ذریعہ سے وہ مال ہمارے پاس ہی رہے اصل مالک کے پاس واپس نہ جانے پائے.یہ دعا ہے ان کی جب وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا کی چیز ہمیں دے دے اس حال میں کہ آخرت کا، خدا کے پیار کا ، خدا کی نعمتوں کا ان کے دماغ میں صحیح تصور قائم نہیں ہوتا.وہ جو ربنا کہا گیا ہے.پہلی آیت میں جس کا تعلق مانگنے والوں کا تعلق ، وہ ندا کرنے والوں کا تعلق صرف اس دنیا اور اس دنیا کی زندگی کے ساتھ ہے لیکن یہ جو دوسرا گروہ ہے وہ تو رب حقیقی کو ماننے والا ہے اور غیر اللہ سے کامل طور پر قطع تعلق کرنے کے بعد جو حقیقی مولا اور رب ہے اس کی طرف وہ رجوع کرنے والا ہے اور اسی کے سامنے سر نیاز کو جھکانے والا ہے اور اس کے علاوہ ہر شے کو مرے ہوئے کیڑے جتنی بھی وقعت نہیں دیتا.تو جو رہنا یہاں دو آیتوں میں ہے ان کے معانی میں فرق ہے ایک معنی وہ ہیں جو ایک دنیا دار، دماغ کے ذہن میں ہیں اور جو حقیقی معنے نہیں، جس میں خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے ربنا کی ندا نہیں کی جاتی.اور ایک دوسرے معنی ہیں جو ایک عارف کی ندا ہے، جو خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت رکھنے والے کی دعا ہے جو خدا کے علاوہ ہر شے سے بیزار ہونے والے کی دعا ہے جو ہر چیز اپنے ربّ سے پانے کی امید رکھنے والے کی دعا ہے اور وہ دعا یہ نہیں کہ صرف یہ دنیا مجھے چاہیے.دعا یہ ہے کہ اے خدا! اس دنیا کی وہ چیز مجھے نہ دے جو آخرت کی نعماء سے مجھے محروم کرنے والی ہو.صرف وہ نعماء اس دنیا کی مجھے دے جو بتدریج تیری ربوبیت کے سایہ میں تیری بہتر سے بہتر نعماء تک لے جانے

Page 289

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۳ سورة البقرة والی اور تیرے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے میں میری ممد اور معاون ہونے والی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں آنے والے مصائب، شدائد، ابتلا وغیرہ جو ہیں ان سے وہ امن میں رہے.( یہ بیان میں اپنے الفاظ میں کر رہا ہوں ) اور دوسرے یہ کہ فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں، دنیوی نعمتوں کا غلط استعمال، دنیوی نعمتوں کا مہلک استعمال جن کے نتیجہ میں جسمانی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں جن کے نتیجہ میں ذہنی تنزل بھی پیدا ہوتا ہے، جن کے نتیجہ میں اخلاق بھی جل کے راکھ بن جاتے ہیں، جن کے نتیجہ میں وہ روحانی طاقتیں جو اس لئے انسان کو دی گئی تھیں کہ اللہ تعالیٰ زمین سے اٹھا کر اسے آسمانوں پر لے جائے وہ ضائع ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ تو بعض لوگ جو ایک حد تک رفعتیں حاصل کرتے ہیں وہاں سے گرتے ہیں زمین پر اور ریزہ ریزہ کر دیئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے تو فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دور لے جانے والی ہیں وہ اس سے نجات یا دے.دو چیزوں کی اپنی خوشحالی کے لئے انسانی نفس کو ضرورت ہے.مصائب اور شدائد اور ابتلا ان سے امن میں رہے اور فسق و فجور اور روحانی بیماریوں سے نجات اسے حاصل ہو.پس دوسری آیت میں اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً جو کہا گیا ہے دنیا کا حسنہ یعنی دنیا سے تعلق رکھنے والی خدا کی نگاہ میں جو اچھی چیز انسان کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی، انسان ہر ایک بلا اور گندی زیست اور ذلت سے محفوظ رہے یعنی خدا ہر ایک پہلو سے، دنیا کا ہو یا آخرت کا، اسے ہر بلا سے محفوظ رکھے اور جس رنگ میں خداد یکھنا چاہتا ہے انسان کو اور اس کے اعمال کو اس رنگ میں اسے اعمال صالحہ بجالانے کی توفیق عطا ہو.یہ ہے فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے معنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے ہیں اور وفی الْآخِرَةِ حَسَنَةً کے معنے آپ نے یہ کئے کہ دنیوی حسنہ کا اس طور پر استعمال کہ جس کے نتیجہ میں اُخروی حسنات انسان کو ملیں اور آپ فرماتے ہیں آخرت کا جو پہلو ہے وہ دنیا کی حسنہ کا ثمرہ ہے.اس تمثیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کی حسنات کو ایک درخت کی شکل میں پیش کیا

Page 290

۲۸۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور اُخروی زندگی کی حسنات کو ان درختوں کے پھل کی حیثیت سے پیش کیا تو جو خدا کا مومن بندہ اور معرفت الہی رکھنے والا ہے وہ دعا کرتا ہے رہنا ! اے ہمارے رب! تو بہ کرتے ہوئے تیری طرف واپس لوٹتا ہوں، تیرے غیر کو کچھ چیز نہیں سمجھوں گا، کامل بھروسہ تجھ پر رکھوں گا، ساری امیدیں تجھ سے وابستہ رہیں گی میری ، مجھے جو اس دنیا میں تو نے (جیسا کہ قرآن کریم نے اعلان کیا ) ان گنت نعماء سے نوازا ہے ان کے استعمال کی صحیح توفیق دے.جس کے نتیجہ میں میری قوتیں اور استعدادیں صحیح نشو نما حاصل کر کے ایسے اعمال صالحہ بجالانے والی ہوں جو تجھے پسندیدہ ہوں جن پر تو مجھے انعام بھی دے، مقبول اعمال صالحہ کی مجھے توفیق دے اور اس کی شکل یہ بن جاتی ہے کہ اگر دنیا کے اعمال اور دنیا کی جد و جہد اور مجاہدہ حسنہ جسے کہا گیا ہے وہ درخت ہے تو اُخروی حسنہ جو ہے وہ ان درختوں کے پھل ہیں،اس لئے جب یہ شکل بنی تو ضمناً یہ بات بھی ہمارے سامنے آگئی کہ اسلام جو ہے وہ رہبانیت ان معنی میں کہ دنیا کی بہت سی جائز چیزوں کو بھی چھوڑ دینا، اس کو جائز نہیں سمجھتا.اسلام یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو چھوڑ اور میرے پاس آ.اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کا صحیح استعمال کر اور میرے پاس آ.اگر چھوڑے گا ناشکرا ہوگا اور خدا کے نزدیک ناشکرا اور کافرہم معنے لفظ ہیں اور اگر دنیا کو چھوڑے گا نہیں میرے بتائے ہوئے طریق پر میری نعمتوں کو استعمال نہیں کرے گا، میری عطا کردہ قوتوں کو میرے بتائے ہوئے طریق پر خرچ نہیں کرے گا تو جنت سے نکال دوں گا تجھے.دنیا کو چھوڑنا نہیں، دنیا میں رہ کر خدا کا بنا ہے، خدا کا ہو کر خدا کے لیے دنیوی زندگی گزارنی ہے، یہ ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً دنیا میں جو حسنہ ملتی ہیں جو چیزیں جو نعما ملتی ہیں وہ سب اُخروی حسنہ کے حصول کا سامان پیدا کرنے والی ہیں.موٹی مثال ہے صحت جسمانی صحت کا ہونا خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے اور ایک صحت مند بد معاشیوں میں بھی اپنی صحت خراب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتا ہے لیکن خدا کا صحت مند بندہ خدا کے حضورا اپنی صحت کے نتیجہ میں ایثار و اخلاص کے وہ کارنامے دکھاتا ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.مثلاً صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو کسرگئی اور قیصر سے جنگیں ہوئیں ان میں ( تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے ) اتنا فرق ہوتا تھا تعداد میں.مسلمانوں کی تعداد اس قدر کم اور کسریٰ کی حکومت جو بہت بڑی ایمپائر تھی اس وقت کی دنیا میں اور قیصر کی حکومت جو بہت بڑی ایمپائ تھی اس وقت کی دنیا میں ان کی فوجیں پانچ گنا سات گنا بعض

Page 291

۲۸۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دفعہ آٹھ گنا زیادہ ہوتی تھیں.اگر پانچ گنا زیادہ بھی ہوں اور ساڑھے سات گھنٹے لڑائی ہو دن میں تو ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد نئی تازہ دم فوج مسلمان کے سامنے آجائے گی اور ایک مسلمان ساڑھے سات گھنٹے لڑتا رہے گا ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج میں سے کسرئی اور قیصر کی فوجوں کا ہر سپاہی صرف ڈیڑھ گھنٹہ لڑے گا.مسلمان سپاہی ساڑھے سات گھنٹے ان کے مقابلہ میں لڑ رہا تھا.یہ شکل بنی لڑائی میں.میں نے بڑا سوچا اور بڑا ہی حیران ہوا ہوں کہ کس قدر صحت اور عزم ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ نے دیا.اگر عزم ہوا اور صحت نہ ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا.اگر صحت ہو اور عزم نہ ہو تو کچھ نہیں ہوگا.میں نے کہا ہے کچھ ہو نہیں سکتا.اب میں کہتا ہوں کچھ نہیں ہو گا تو ان کو صحت بھی دی خدا نے.عزم بھی دیا خدا نے.تو صحت جسمانی دنیوی حسنہ ہے اس دنیا سے جسم کا تعلق ہے.خدا کہتا ہے مجھ سے مانگو صحت اس لئے نہیں کہ عیاشی میں اسے ضائع کرو گے اس لئے مانگو کہ میری راہ میں اس کو خرچ کرو گے اور میرے پیار کو حاصل کرو گے.ہر دنیوی نعمت کی ایسی ہی مثال ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.صحت کے علاوہ عزت ہے، دنیوی مال و دولت ہے.دنیا کی اولاد ہے خاندان ہیں، عافیت کی فضا ہے وغیرہ وغیرہ.ہر چیز جو ہے خدا کہتا ہے مجھ سے مانگو لیکن مجھ سے لے کر میری خوشنودی کے لئے میری بتائی ہوئی راہ پر اسے خرچ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی تجربہ بتاتا ہے کہ جہنم اس دنیا کی بھی ہے.جہنم وہ بھی ہے جو مرنے کے بعد ہے (اللہ محفوظ رکھے ).خدا تعالیٰ ان پر اپنے قہر کی بجلی نازل کرنا چاہے گا جہنم میں بھیج دے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انسان کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس ورلی زندگی کے ساتھ طرح طرح کے عذاب اور تکلیفیں لگی ہوئی ہیں.خوف کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.خون خرابہ لڑائی ہو جاتی ہے.یہاں میں بعض دفعہ کھیتوں کے کنارے، زمیندار آدھے مرلے پر بھی لڑ مرتے ہیں.فقر وفاقہ کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.ایک غربت ہے جو ورثہ میں ملتی اور آگے اگلی نسل کو ورثہ میں چھوڑی جاتی ہے.ایک غربت ہے جو ایک امیر آدمی دیوالیہ ہو جاتا ہے اور وہ جو لاکھوں کا مالک ہوتا ہے وہ چند لقموں کے کھانے کی بھی توفیق نہیں رکھتا، مانگنا پڑتا ہے اس کو،.بیماریاں ہیں، کوشش انسان کرتا ہے ، اس کے مختلف اور سینکڑوں میدان ہیں، ناکامیاں بھی سینکڑوں

Page 292

۲۸۶ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہیں.ذلّت واد بار کے اندیشے ہیں.ہزار قسم کے دوسرے دکھ ہیں.اولا د بیوی وغیرہ کے متعلق تکلیف ہے.بچہ بیمار ہو جائے رات کا چین اٹھ جاتا ہے.بیوی کے ساتھ ناراضگی پیدا ہو جائے وہ پریشانی کا باعث بن جاتی ہے.پھر رشتے داریاں ہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے.کبھی ورثہ کی کبھی یہ کہ مجھ سے پیار کا اتنا سلوک نہیں کیا جتنا کسی دوسرے رشتہ دار سے کر دیا وغیرہ وغیرہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ ساری تکالیف اور پریشانیاں جو ہیں یہ دنیا کی جہنم ہے اور مومن دعا کرتا ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کہ اے خدا! اس دنیا کی آگ سے ہمیں بچا.ہر قسم کی تکلیف، دکھ درد پریشانی جو ہے اس سے تو ہمیں محفوظ رکھ اور ہماری زندگی کبھی بھی تلخ نہ ہو اور انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا! تو ہمیں صحت سے رکھ ، ہم سب کو ساری جماعت کو خدا صحت سے رکھے.ہر نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ساری جماعت کو خدا صحت سے رکھے اور بیماروں کو شفا دے.ہمیں وعدے دیئے گئے کہ تمہارے مال میں کثرت بخشی جائے گی اولاد میں کثرت بخشی جائے گی.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۴۱۹ تا ۴۲۶) اسلامی شریعت ایک کامل شریعت ہے اس میں انسان کے لئے کسی قسم کی تنگی اور حرج نہیں ہے بلکہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ یہ شریعت ہر پہلو سے تمہارے لئے بزرگی اور شرف کے سامان پیدا کرتی ہے.اسلامی شریعت جہاں روحانی ترقیات پر روشنی ڈالتی ہے اور ان کے حصول کے لئے ہدایت دیتی اور نصیحت کرتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی جو دنیوی نعماء ہیں ان سے بھی انسان کو محروم نہیں کرتی اور اس کے لئے ہمیں یہ دعا سکھائی.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ دنیا کی حسنات کے لئے کوشش کرنے کا بھی حکم ہے.ہماری دعا تد بیر اور تد بیر دعا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حسناتِ دنیا کے حصول کی کوشش کرو لیکن صرف اپنی کوششوں پر بھروسہ نہ رکھو بلکہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کی ہدایت دے اور پھر ایسے طریقوں سے تمہیں وہ دنیوی حسنات عطا کرے جو تم پر خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں کھولنے والی ہوں اور خدا سے دور لے جانے والی نہ ہوں.پس تم دعا کرو کہ حقیقی معنے میں جو حسنات ہیں وہ تمہیں ملیں یعنی محض کوشش اور تدبیر ہی نہ کرو بلکہ

Page 293

۲۸۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث دعا بھی کرو.چنانچہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے الفاظ میں خدا نے خود ہی دعا بھی سکھا دی اور چونکہ دنیا کی اس مختصری زندگی کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی اُخروی زندگی ملنی ہے اس لئے ساتھ ہی وَ في الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ أخر وى حسنات کے ملنے کا بھی ذکر کر دیا اور پھر وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے الفاظ میں اُخروی زندگی کی تکالیف سے بچنے کا بھی ذکر ہے.بہر حال جب ہم دنیوی لحاظ سے سوچتے ہیں تو اسلامی تعلیم ہمارے لئے دنیوی حسنات اور شرف اور بزرگی کے سامان پیدا کرتی ہے بشرطیکہ انسان کی تدا بیر دعاؤں کی بنیاد پر استوار ہوں.دنیوی حسنات میں سے مثلاً تجارت ہے.اسلام میں تجارت کے جو اصول بتائے گئے ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر تجارتیں کامیابی سے چلتی ہیں.اگر چہ کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت تو دعا ہے لیکن اس کے جو دوسرے اصول بتائے ہیں ان کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے.مثلاً دیانت داری ہے اسلام نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ لین دین میں دیانت داری سے کام لو اور کوئی کھوٹ نہ ہو نہ طبیعت میں کھوٹ ہو اور نہ مال میں تو اس سے تجارت خوب چمکتی ہے.چنانچہ دنیا کی تجارت کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں تجارت میں وہی افراد اور قو میں کامیاب نظر آتی ہیں جن کی ساکھ قائم تھی.وہ جو کچھ کہتے تھے اس کے مطابق مال سپلائی کرتے تھے لیکن اگر یہ ساکھ نہ ہو تو تجارت چل نہیں سکتی.مثلاً چند دن ہوئے اخبار میں یہ خبر آئی تھی کہ فیصل آباد میں حکومت نے مسالے بنانے والی ایک کمپنی پر چھاپہ مارا تو اخبار کے کہنے کے مطابق انہیں پتا لگا کہ ایک من ہلدی میں صرف تین سیر ہلدی ہے اور باقی گند ڈالا ہوا ہے.پس یہ جو تجارتی بددیانتی ہے اور اشیاء خوردنی میں کھوٹ کی ملاوٹ ہے اس سے تجارت چمکتی نہیں.اسی لئے جن خطوں میں تجارتی لحاظ سے بددیانت دماغ ہیں ان کی تجارت کا گراف اس طرح بنتا ہے کہ شروع میں وہ بڑی دیانتداری کے ساتھ اچھی طرح گاہکوں کو دیتے ہیں لیکن جب ان کی تجارت چمک اٹھتی ہے تو پھر وہ دھوکا دہی کے ذریعہ سے پیسے کمانے لگتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں کیونکہ جب لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ مثلاً ہلدی کے علاوہ اس میں مضر صحت چیزیں بھی پڑی ہوئی ہیں تو لوگ ایسا مال نہیں خریدیں گے.آج کی دنیا میں ترقیات کا ایک بہت بڑا حصہ بین الاقوامی تجارت سے وابستہ ہے اور بین الاقوامی

Page 294

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۸۸ سورة البقرة تجارت صرف ساکھ پر قائم ہے مثلاً یہاں کا آدمی انگلستان سے مال منگواتا ہے اور انگلستان والا پاکستان سے مال منگواتا ہے یا اس سے بھی دور دراز کے علاقے ہیں وہاں سے سامان آتا اور جاتا ہے.اگر اس میں دیانتداری سے کام نہیں لیا جائے گا تو شاید عارضی طور پر کچھ فائدہ ہو جائے لیکن انجام کار پریشانیاں اٹھانی پڑیں گی.انکوائریاں ہوں گی.مقدمے چلیں گے.پس مستقل کامیابی اس قسم کی بددیانت تجارت میں ہمیں نظر نہیں آتی.تجارت کے لئے فراست کی بھی ضرورت ہے اور یہ تو ہے ہی اللہ کی عطا اور دعا ہی سے مل سکتی ہے یا دعا سے قائم رہ سکتی ہے.ایک بزرگ صحابی جو کسی زمانے میں مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں پیٹ پر پتھر باندھ کر پھرتے تھے مگر بعد میں ان کے اموال میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت ڈال دی اور وہ اسی کتاب کی وجہ سے تھی جسے خدا تعالیٰ نے نازل کیا اور فرمایا فِیهِ ذکر کر اس میں تمہاری بزرگی اور شرف کے سامان رکھے گئے ہیں.پس صحابہ رضوان اللہ علیہم کو جو بزرگی اور عزت حاصل ہوئی تھی وہ اس کتاب کے ذریعہ لی تھی.انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اور خدا سے برکات حاصل کر کے تجارت میں بھی فراست پائی تھی چنانچہ اس بزرگ صحابی کے متعلق آتا ہے کہ جب مدینہ میں اموال آئے اور وہاں بڑی دولت جمع ہوگئی اور تجارت کی ایک بہت بڑی منڈی بن گئی تو اس منڈی میں ایک صبح کو کچھ تجار ایک لاکھ اونٹ لے کر آگئے تو انہوں نے جا کر سودا کیا.ان کے دوست ایک اور صحابی نے کہا میں باہر گیا ہوا تھا میں نے ان اونٹوں کو باہر دیکھا تھا لیکن چونکہ اس بات کی اجازت نہیں کہ منڈی میں آئے بغیر سودے ہوں اس لئے میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی لیکن میری نیت یہ تھی کہ جب یہ اونٹ منڈی میں آجائیں گے تو میں خریدوں گا لیکن تم پہلے پہنچ گئے اس لئے تم نے خرید لئے.انہوں نے کہا کہ اب تم لے لو.کہا کس دام پر.بولے جس دام میں میں نے لئے ہیں سوائے اس کے کہ ان کی تکمیلیں مجھے دے دو.تو اگر ایک نکیل کی قیمت ایک روپیہ ہو تو چند منٹوں میں ان کو ایک لاکھ روپے کا فائدہ ہو گیا.اگر نکیل اٹھنی سمجھ لی جائے تب بھی پچاس ہزار روپے کا فائدہ ہو گیا.پس جو خدا دادفراست ہے اس کا اثر دنیوی مال و دولت کی تجارت میں بھی نظر آتا ہے.اس کا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے ساتھ تعلق ہے.تاریخ اسلام میں ہمیں اس قسم کی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی تجارت بھی خوب چھمکی اور اسی طرح ہر دوسری چیز میں

Page 295

۲۸۹ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث بھی جو دنیوی حسنات میں شامل ہے انہوں نے بہت ترقی کی.مثلاً زراعت ہے اس میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی.سپین میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی اگر چہ مسلمانوں کو وہ ملک چھوڑنا پڑا اور اس وقت ان پر بڑا ظلم ہوا لیکن اپنے زمانہ حکومت میں انہوں نے درختوں پر بعض ایسے پیوند کئے جو حیرت انگیز تھے.انہوں نے بادام وغیرہ کے درختوں پر گلاب کا کامیاب پیوند کیا چنانچہ جس طرح آڑو اور بادام کے بڑے بڑے درخت ہوتے ہیں اسی طرح وہاں گلاب کے درخت تھے جن پر گلاب کے پھول لگتے تھے.غرض شجر کاری اور پھول اُگانے اور ترکاریاں وغیرہ لگانے کے میدان میں مسلمانوں نے جو ترقی کی اس کو دیکھ کر اب بھی دنیا حیران رہ جاتی ہے.یہ بھی ایک حیرت انگیز دنیوی حسنہ ہے جو اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو نصیب ہوئی.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۲۸۷ تا ۲۹۰) کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام نے دعا کرنے پر بھی زور دیا اور یہ دعا سکھادی ربنا اتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ اس دعا میں صرف یہی نہیں کہا کہ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ بلکہ آخرت کی بھلائی کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی چاہنے کی بھی دعا سکھلا دی.ظاہر ہے دُنیا کی حسنات ہم نے دنیوی مخلوقات سے حاصل کرنی ہیں.انہی سے فائدہ اٹھا کر اپنی آخرت سنوارنی ہے.اس لئے اسلام نے یہ اعلان کیا کہ مذہب افیون نہیں ہے.وہ شخص بڑا بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام بھی افیون کا کام دیتا ہے.اسلام نے تو یہ کہا ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور انسان کی خدمت پر لگا رکھی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ الا مَا سَعى (النجم : ٤٠) کی رو سے انسان کو اتنا فائدہ ملے گا جتنا وہ اسکے لئے کوشش کرے گا.تب سَعْيَة سَوْفَ يُرى (النجم : ۳۱) کی رو سے اور عام قانون کے مطابق کوشش نتیجہ خیز ہوگی.انسان کو محنت کا پھل مل جائے گا ایک شخص مثلاً ہزار یونٹ کوشش کرتا ہے اس کو ہزار یونٹ کا پھل مل جاتا ہے.میں عام تقدیر کے مطابق بات کر رہا ہوں جو اس دُنیا میں کارفرما ہے خاص تقدیریں جن کو ہم معجزات کہتے ہیں اُن کے متعلق میں بات نہیں کر رہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افیون کھا کر سونہ جانا اور تقدیر کا یہ مطلب نہ لینا کہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اگر تم نے اپنی جھولیاں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق سے فائدہ اُٹھا کر بھرنی ہیں تو تمہاری جھولیاں تبھی بھریں گی جب تم اس کے لئے محنت، کوشش

Page 296

۲۹۰ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث اور مجاہدہ کرو گے.محنت نہیں کرو گے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۴۹۹) اللہ تعالی سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النّارِ یہاں دعاؤں کی بنیاد رکھی گئی.یہاں یہ فرمایا گیا کہ دنیوی نعماء کے حصول کے لئے بھی دعائیں کریں اور اُخروی نعماء کے حصول کے لئے بھی دعائیں کرو اور وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کا فقرہ ورلی زندگی اور اُخروی زندگی کو باندھ دیتا ہے کیونکہ اسی زندگی کی بنیاد پر اخروی زندگی کی جنتوں کا انحصار ہے تو بہت بڑا عالم ہمارے سامنے رکھ دیا گیا.فی الدُّنْيَا حَسَنَةً دنیا کی ساری نعمتیں جو خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں تم ان کے حصول کے لئے دعائیں کرو.صرف یہ کہہ کر کہ دعائیں مانگو خاموشی نہیں اختیار کی بلکہ کیا دعائیں مانگو اس کے اوپر بھی بڑی وسیع روشنی ڈالی گئی ہے.في الدُّنْيَا حَسَنَةً کے دو پہلو ہیں.ایک ایسی نعمتیں ہیں ہماری اس ؤر لی زندگی سے تعلق رکھنے والی جن کا تعلق خود ہمارے نفس کے ساتھ ہمارے وجود کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بے شمار قوتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں ان کے لئے دعائیں مانگو کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق پروان چڑھیں اور ان قوتوں کو اس لئے دیا گیا انسان کو کہ جو یہ کہا گیا تھا کہ تمہاری خدمت پر ہر شے کو مامور کیا گیا ہے وہ ہر شے سے خدمت لینے کے قابل ہو جائے.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) تمہیں ہر طاقت دے دی گئی تا تم ہر شے سے خدمت لے سکو تو دعا مانگو کہ اس قدر عظیم نعمتیں جو تمہیں ملیں ، آنکھ ہے خدا تمہیں توفیق دے کہ آنکھ سے بہترین اور اعلیٰ ترین اور پورے کا پورا فائدہ اٹھانے والے بنو تم.یہ دعا خدا تعالیٰ سے مانگو.بہت سے آنکھوں والے ہیں جو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا رہے اور اندھے کے اندھے اس دنیا سے گزر جاتے ہیں.قرآن کریم میں بہت جگہ ان کا ذکر آیا ہے.کان ہیں جن سے ایک تو تمہارا اپنا مشاہدہ تعلق رکھتا ہے ایک تو تمہارا اپنا حصول علم تعلق رکھتا ہے مثلاً کلاس میں بیٹھا ہوا طالب علم اگر کان کھول کے نہ رکھے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا.تو رب زدني علمًا (ظہ : ۱۱۵) کی دعا میں یہ ساری چیز میں آگئیں.تو یہ جتنی نعمتیں ہیں ان سب کے حصول کے لئے دعا کرو.انسان یہ دعا کرے اپنے رب سے کہ اے خدا! جو تو نے مجھے قو تیں اور استعدادیں دی ہیں اپنے فضل سے مجھے یہ توفیق عطا کر کہ میں اپنی ہر قوت اور استعداد کی نشو نما کروں اور اسے کمال تک پہنچاؤں اور ان سے بہترین فائدہ تیری رضا کے حصول

Page 297

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۱ سورة البقرة کے لئے میں حاصل کروں اور اپنے نفس کی اس کامل اور صحیح نشوونما کے بعد جب خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے انسان کے تو جو دنیا کی نعمتیں ہیں ان کو حاصل بھی کروں اس رنگ میں جو تجھے پسند ہو اور استعمال بھی کروں اس طریق پر جو تیری رضا کے حصول میں مرد اور معاون ہو.بہت سارے لوگ ہیں جو غلط طریق سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کر کے گناہگار بن جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو صحیح طریق پر تو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرتے ہیں لیکن غلط استعمال کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتے ہیں.تو ایک نہ ختم ہونے والا سمندر ہے دعاؤں کا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے اس فقرے کے اندر جو خدا تعالیٰ نے بیان کر دیا..وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں جو میں نے نعماء عطا کیں جو رحمت اور فضل موسلا دھار بارش کی طرح تم پر نازل ہوئے وہ تمہاری دُنیوی اور ور لی زندگی کے ساتھ ہی تو تعلق نہیں رکھتے اُخروی زندگی کے ساتھ بھی ان کا تعلق ہے بلکہ اُخروی زندگی کے ساتھ ہی ان کا صحیح تعلق ہے اور یہ ساری چیزیں اسی لئے تمہیں دی گئی ہیں کہ تم اپنی آخرت کو سنوارو.اس واسطے دعا کرو کہ اے خدا! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا اور یہ دنیا کی نعمتیں ہمیں اخروی زندگی کی جنتوں کی راہوں پر چلا کر ان جنتوں تک پہنچانے والی ہوں تجھے ناراض کر کے ہمیں جہنم کی طرف لے جانے والی نہ ہوں.میں نے بتایا کہ یہ دعا جو ہے اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِيهِ ایک ایسی دعا ہے جس میں دعا کا ایک عالم کا عالم کھولا گیا اور ہمیں اس چھوٹی سی آیت میں بہت کچھ خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ کیا مانگنا ہے کس طرح مانگتا ہے پھر اسی سے آگے ہم چلتے ہیں اس دروازے میں داخل ہوکر.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۹۸،۲۹۷) پس رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی جب دُعا سکھائی گئی تو اس کے ایک معنے یہ ہوئے کہ ہم خدا سے یہ کہیں کہ اے خدا! ہم نے انتہائی محنت اور انتہائی تدبیر کر دی دُنیا کمانے کے لئے ہم نے اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا دیا اور اسی طرح دعا کو بھی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور اب اس مقام پر کھڑے ہو کر ہم یہ کہتے ہیں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کہ اے ہمارے رب! ہماری تدبیر اور ہماری دُعا تیرے فضل اور تیری رحمت کے بغیر نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی اس لئے تو اپنے فضل سے اس کا نتیجہ پیدا کر اور اس

Page 298

۲۹۲ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث دُنیا کی حسنات میں ہمیں شریک اور حصہ دار بنا اور ہمیں اس کا وارث قرار دے تاکہ ہم دُنیا کی نعمتوں کو حاصل کر کے اور پھر ان نعمتوں کو تیری راہ میں قربان کر کے اپنی روحانی اور اُخروی حسنات کے لئے سامان پیدا کریں.غرض حقیقت یہی ہے کہ دُنیا کی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات مل نہیں سکتیں.میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں تا کہ بچے بھی سمجھ جائیں.جو شخص دُنیا کی حسنات سے کلی طور پر محروم ہو جاتا ہے اس کے اوپر روحانی حکم لگتا ہی نہیں.اس کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ وہ پاگل ہے.اس لئے جہاں تک ایک مجنون کی دنیوی حسنات کے بارے میں محنت اور کمائی کا تعلق ہے یا اس کی کوشش اور مجاہدہ کا وہ.سوال ہے وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پاگل ہے.اس لئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسم اور زندگی بخشی.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھائی دیئے ، اس کو دوست دیئے اور اس کے ارد گر دخیال رکھنے والے انسان بنائے.چنانچہ وہ اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن جہاں تک اس کی اپنی طاقتوں کا سوال ہے.اس کی کسی طاقت کے اوپر کوئی حکم نہیں چلا سکتا.وہ اپنے جنون میں کسی آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو حج کہتا ہے کہ پاگل تھا اس سے قتل ہو گیا.ظلم ہو گیا لیکن اس کے اوپر کوئی الزام نہیں پس جو شخص مجنون ہے اس کے لئے دنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے بند ہیں اور چونکہ دنیوی حسنات کی کمائی کے دروازے اس کے لئے بند ہیں اسی لئے اُخروی حسنات کی کمائی کا دروازہ بھی اس کے لئے نہیں کھولا جائے گا.پس ہم ایسے شخص کو مرفوع القلم کہہ دیتے ہیں.ہم اس پر نہ نیکی کا حکم لگاتے ہیں اور نہ بدی کا، نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے مالی قربانی دی اور نہ یہ کہ اُس نے مالی قربانی نہیں دی مثلاً اگر کوئی مجنون یا مرفوع القلم آدمی اپنے باپ کی تجوری کو گھلا پائے اور وہاں سے دس ہزار روپے نکال کر جنون کی حالت میں کسی مستحق کو دے دے تو یہ نیکی شمار نہیں ہوگی کیونکہ اس نے جنون میں آکر ایسا کیا ہے یہ نیکی نہیں جنون ہے.غرض یہ ایک حقیقت ہے اور قرآن کریم نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ دنیوی حسنات کے بغیر اُخروی حسنات کے سامان پیدا نہیں ہوتے ، اس لئے کہ اُخروی حسنات کے سامان اللہ تعالیٰ کی راہ میں دنیوی نعمتوں کو خرچ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں.جس کے پاس نعمت ہی کوئی نہیں

Page 299

۲۹۳ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث وہ خرچ بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو شخص نامرد ہے وہ پاک باز ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.کیونکہ اُسے طاقت ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار قسم کی طاقتیں اور صلاحیتیں بخشی ہیں اور ان کے اوپر اُخروی نعمتوں کا انحصار ہے، یہ طاقتیں ماں ہیں اُخروی نعمتوں کے حصول کی ، ان کے بغیر کوئی اُخروی نعمت نہیں مل سکتی.خطبات ناصر جلد ۴ صفحه ۲۲۲ ۲۲۳) پس یہاں عمل ہے اور امتحان ہے اور دوسری زندگی میں عمل تو ہے ( نکما پن نہیں کہ پوستیوں کی طرح افیم کھا کر بیٹھ گئے اور اونگھتے رہے ) عمل ہے مگر امتحان نہیں.یہاں عمل ہے اور امتحان ہے.وہاں عمل ہے اور ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.وہاں پیچھے ہٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے آگے ہی آگے بڑھنا ہے ہر روز زیادہ ترقیات ملتی ہیں اور ہر روز زیادہ عمل کی توفیق ملتی ہے.پس یہ شکل ہے ایک مومن کی زندگی کی.پھر دنیا میں اُس کے اعمال بھی یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.اور دوسری دُنیا میں بھی اُس کے اعمال یہی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں.اس دنیا میں انسان مومن صالح ، خدا کا محبوب اور مقرب دو قسم کا عمل کرتا ہے.ایک عمل ہے اُس کا شکر ادا کرنے کے لئے اور ایک عمل ہے مزید شکر کے سامان کے حصول کے لئے یعنی پہلے سے زیادہ ملے اور زیادہ وہ شکر ادا کرے.ہمیں اتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً کی دعا سکھائی کہ ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا کر کہ اس دنیا کی حسنات بھی ہمیں ملیں ( مثلاً درخت لگے ہوئے ہوں اور گرمی کم ہو.یہ دنیا کے حسنات میں سے ہے ) اور ہمیں ایسے مقبول اعمال کی توفیق عطا کر کہ تیری جنتیں ہمیں یہاں سے جانے کے بعد حاصل ہوں.جنتوں کے ہم حقدار ٹھہریں وہاں جانے کے بعد ایک ہی زندگی ہے یہاں ہمارے سامنے دو زندگیاں ہیں.ایک اس دنیا کی زندگی اور ایک اُس دنیا کی زندگی اس لئے اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ہمیں سکھایا لیکن اُس دنیا میں ایک ہی زندگی ہے یعنی جنت کی زندگی اور اس میں امتحان نہیں ہے لیکن ترقیات ہیں اس لئے وہ ایک ہی قسم کے اعمال ہیں.وہ اعمال شکر بھی ہیں اور مزید ترقیات کے حصول کے بھی ہیں یہاں فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی جو دعا ہے وہ شکر کے لئے ہے اور ناکامیوں سے بچنے کے لئے بھی ہے کہ جو تو نے دنیا کی نعمتوں کے حصول کے دروازے ہمارے لئے کھولے ہیں.ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ان پر تیرا شکر ادا کر سکیں اور کبھی محروم نہ رہ

Page 300

۲۹۴ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث جائیں.بہر حال یہ مومن کی زندگی کی تصویر ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ مومن جب حقیقی مومن بن جاتا ہے تو اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ استقامت اور صراط مستقیم قریباً ایک مفہوم میں استعمال ہو جاتے ہیں.پس استقلال کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ کام کرتے چلے جانا یہ مومن کی زندگی کی ایک نمایاں علامت ہے.خطبات ناصر جلد ۵ صفحه ۴۸۲،۴۸۱) آیت ۲۰۵ تا ۲۰۷ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَولُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ يُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ الدُّ الْخِصَامِ وَ إِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَه (۲۰۵) b وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَ لَبِثْسَ الْمِهَادُ اسلامی تعلیم نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا.وہ اس سے نفرت کرتا ہے.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ عربی زبان میں فساد کا لفظ صلاح کے مقابلے پر آتا ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں لفظ آپس میں متضاد ہیں.صلاح کے لفظ کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ انسانی حقوق و واجبات کو ادا کیا جائے اور حقوق و واجبات کی ادائیگی کی اہلیت بھی ہو.اس کے مقابلے میں فساد کے معنے یہ ہونگے کہ حقوق و واجبات کی اہمیت نہیں.یا اُنہیں جان بوجھ کر ادا نہیں کیا جا رہا.تا ہم اہلیت نہیں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق واجب قرار دیا اور اہلیت پیدا نہیں کی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں اہلیت تو رکھی تھی لیکن اس کی نشو و نما نہیں ہو سکی اور نشوو نما اس لئے نہیں ہوسکی کہ جس شخص کو وہ خداداد قوتیں ملی تھیں اس نے ان کی نشوو نما کی طرف توجہ نہیں کی اور خود گناہگار بنا یا ماحول نے اسے نشو نما کا موقع نہیں دیا.اس کے لئے سامان میسر نہیں آسکے.اس لئے اس کی نشو و نما نہیں ہوسکی.بہر حال فساد کے حقیقی اور بنیادی معنی ادا ئیگی حقوق کی اہلیت کے فقدان نیز حقوق و واجبات کے ادا

Page 301

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۵ سورة البقرة نہ کرنے کے ہوتے ہیں.اس کے مقابلے میں صلاح کے معنی بنیادی طور پر یہ ہیں کہ حقوق وواجبات کے ادا کرنے کی اہلیت بھی ہو اور حقوق و واجبات ادا بھی کئے جائیں.غرض فساد اور صلاح کے معنوں پر میں نے پچھلے خطبہ میں بھی مختصر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا فساد کا وہ خوشکن اور حسین نتیجہ نہیں نکلتا جو صلاح کا لکھتا ہے اور جو اس دنیا کو بھی جنت میں تبدیل کر دیتا ہے کیونکہ اگر انسانوں کے حقوق و واجبات ادا نہ ہوں.اگر انسان انسان کے حقوق پامال کر رہا ہو تو وہ جنت پیدا نہیں ہو سکتی جو اس صورت میں پیدا ہوتی ہے کہ جب ہر شخص کے جو بھی حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کو مل جائیں.پھر میں نے اپنے گذشتہ خطبہ میں یہ بھی بتایا تھا کہ فطرتی اہلیت یعنی وہ قو تیں اور استعدادیں جو انسان کو دی گئی ہیں وہ حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کے لئے دی گئی ہیں.صلاح میں ہمیں صفات باری تعالٰی کا عکس نظر آتا ہے.فساد اس کے الٹ ہے.کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابلے پر آتا ہے، اس کے اعمال کا وہ نتیجہ تو نہیں ہو سکتا جو اس شخص کے اعمال کا نتیجہ ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے جس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہریت کے جلوے دکھا رہے ہوں.چنانچہ سورۃ بقرہ کی ان آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْله في الحیوۃ الدنیا تمہیں دنیا میں ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جو بظاہر بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں.سیاست کے متعلق، سیاسی حقوق کے متعلق، معاشرہ میں حسن پیدا کرنے کے متعلق اور اقتصادی حقوق کو ادا کرنے کے متعلق بڑی دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں.جن میں حقیقت تھوڑی اور لفاظی زیادہ ہوتی ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وہ ساتھ ہی ساتھ قسمیں بھی کھاتے ہیں اور اپنی ہر بات پر خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہیں.وہ ہر ایک سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھو! جس طرح ہماری زبان سے یہ باتیں نکل رہی ہیں اسی طرح ہمارا دل بھی خلوص سے پُر ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ الدُّ الخِصَامِ ایسا شخص سخت جھگڑالو ہوتا ہے.یہ اس کی خصوصیت ہوتی ہے.یہ اس کی طبیعت ہوتی ہے جو اس کی لچھے دار تقریروں کے بعد ہر ایک کے سامنے ظاہر ہو جاتی ہے.اس کے برعکس کوئی بھی شخص جو صلاح چاہتا ہے.وہ اک الْخِصَامِ کے زمرہ میں شامل نہیں ہوسکتا کیونکہ صلاح

Page 302

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۲۹۶ سورة البقرة خلوص اور ایثار پر مبنی ہوتی ہے.ایسا شخص دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی بھی دیتا ہے.کیونکہ اس قسم کے خلوص اور ایثار کے بغیر باہمی جھگڑے ختم نہیں ہوتے.مگر جو شخص جھگڑالو ہوتا ہے وہ ایثار کی جڑیں کاٹتا ہے.وہ دوسرے کی ہر بات کو اپنی بے عزتی پر محمول کرتا ہے.کہنے والے کے ذہن میں وہ بات نہیں ہوتی مگر یہ اس کی بات کو نئے رنگ میں دوسرے لوگوں کے دماغ میں ڈال دیتا ہے.جس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو اور وہ جھگڑا کریں.اب یہ تو ظاہر ہے کہ جھگڑے کے نتیجہ میں فساد ہوتا ہے.صلاح تو پیدا نہیں ہوتی.پس يُعْجِبُك قوله في الحيوةِ الدُّنْيَا کی رو سے اس کا دعویٰ تو صلاح کا ہوتا ہے لیکن اس کے قول اور فعل کا تضاد نمایاں ہو کر سامنے آجاتا ہے.گو بعض چیزیں تو لوگ اپنی منافقت کی وجہ سے چھپا لیتے ہیں.تاہم جو چیز چھپائے نہیں چھپتی.وہ ان کا اللُّ الْخِصَامِ ہونا ہے.وہ ذرا ذراسی بات پر جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں اور اس سے ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے.دو 66 66 اب آج کل جو سیاسی فساد ہمارے ملک میں رونما ہے اگر آپ اسے غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے پس پردہ الدُّ الخِصَامِ کی خصوصیات کارفرما ہیں.مثلاً ( اور ب دو سیاسی پارٹیاں ہیں کہتی ہے ”ب“ نے میرے خلاف یہ کہا ہے اور ”ب“ ” کے خلاف الزام لگاتی ہے کہ تم نے جو بات کہی ہے اس کا مطلب یہ ہے.چنانچہ جھگڑا کرنے کے لئے اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جو شخص آلن الْخِصَامِ کے گروہ میں ہے وہ خواہ کتنا ہی مَنْ يُعْجِبُكَ قوله في الحيوةِ الدُّنیا کے زمرہ میں آجائے اور خواہ کتنی ہی چرب زبانی سے کام لے اور بظاہر بڑی ہی پسندیدہ باتیں کرے اور قسمیں کھا کھا کر کہے میں بڑا مخلص ہوں.ملک کا استحکام میرا مقصد ہے اور یہ ہے اور وہ ہے.یا وہ یہ کہے کہ ہم بھی دنیا میں غلبہ اسلام چاہتے ہیں، اسلامی معاشرہ کے لحاظ سے برسر اقتدار جماعت کی طرح ہم بھی مساوات محمد ی چاہتے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے بعد ذراسی بات میں نہ وہ مساوات باقی رہتی ہے اور پھر جہاں تک انسان کے اقتصادی حقوق کا تعلق ہے نہ وہ حقوق کی ادائیگی باقی رہتی ہے.نہ وہ حب الوطنی باقی رہتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے استحکام کا خیال باقی رہتا ہے.وہ لڑائی شروع کر دیتا ہے کہتا ہے اچھا تمہارا مطلب یہ ہے یا جو تم نے فقرے کہے ہیں،

Page 303

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۲۹۷ سورة البقرة اس میں تم نے ہمیں گالیاں دی ہیں.کہنے والے کی بات کچھ اور ہوتی ہے مگر یہ اس میں سے اپنے مفسدانہ مطلب کی بات نکالتا ہے اور اسے گالی بنالیتا ہے اور پھر اپنے حریف کو بغیر مطلب کے بے نقط گالیاں دینے لگ جاتا ہے.ہمیں یعنی امت محمدیہ کے ان افراد کو جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خلوص پیدا کیا ہے اور جو اپنے دل میں غلبہ اسلام کی تڑپ رکھتے ہیں اور ملکی اتحاد چاہتے ہیں اور نیکی اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا چاہتے ہیں.ہمیں یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے.ہمارے دل میں بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ کیا مسخرہ پن ہے.یہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے.ایک طرف مذہب سے ، دوسری کہ.طرف ملک سے، تیسری طرف معاشرہ سے اور چوتھی طرف اقتصادی حقوق کی ادائیگی سے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگ جن کی زبان بظاہر بہت میٹھی اور باتیں بڑی اچھی معلوم ہوں.اصولی طور پر وہ دعوے بھی بڑے کریں کہ ہم یہ ہیں، ہم وہ ہیں.ہم یہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم وہ کرنا چاہتے ہیں.مگر ذرا ذراسی بات پر جھگڑا شروع کر دیں یعنی ایک طرف زبان بڑی میٹھی بھی ہے اور دوسری طرف وہ تلوار کی تیز دھار بھی ہے.ایسا شخص اپنے دعویٰ میں سچا نہیں ہوتا.وہ عملاً فسادی ہوتا ہے.(پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ) واذا توٹی یہ وہ لوگ ہیں کہ جس وقت ان کو کسی سیاسی جماعت کی قیادت ملے.دراصل تولی کے معنے صرف صدر مملکت یا بادشاہ وقت کے نہیں ہوتے بلکہ ہر چھوٹی موٹی قیادت پر توٹی کا لفظ بولا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بھی ان کو کسی قسم کے چھوٹے یا بڑے دائرہ میں قیادت مل جائے ) تو سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا کے مصداق بن جاتے ہیں.ملک میں خوب دورے کرتے پھرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں فساد اور بدامنی پیدا ہو.پھر فرمایا : يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے اقتصادی اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی فرمائی ہے.مالک اور مزدور یا صاحب اقتدار اور حزب اختلاف کے جھگڑوں کی نوعیت کو اس چھوٹے سے فقرے میں بیان کر دیا ہے.دراصل میرے پچھلے خطبہ کی تمہید اسی فقرے کے معانی اور مفہوم کو بیان کرنے کے لئے تھی.اس حصہ آیت یعنی يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنِّسْلَ کے تینوں لفظ بڑے اہم ہیں.ان کے معانی اگر ہمارے ذہن میں حاضر ہوں تو پھر اس فقرے کا مفہوم واضح ہو جائے گا.عربی زبان میں لفظ أهلَكَ يا اَلهَلاک کے تین معنے بیان ہوئے ہیں.یہ معنے میں نے مفردات

Page 304

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالثة ۲۹۸ سورة البقرة امام راغب سے لئے ہیں.اس لفظ کے ایک معنے انہوں نے کسی چیز کا انسان کے ہاتھ سے نکل جانا کے کئے ہیں.اگر چہ وہ چیز تلف نہیں ہوتی ، ضائع نہیں ہوتی لیکن وہ ایک انسان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے.تو اس معنی میں بعض دفعہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز ہلاک ہوگئی یا مثلاً یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کی دولت میں سے اس قدر سونا ہلاک ہو گیا.عربی محاورہ میں اس کے معنے ہونگے رات کو چور آیا اور سونا چرا کر لے گیا.اگر چہ ایک انسان کے ہاتھ سے تو وہ سونا نکل گیا لیکن سونا تو ضائع نہیں ہوا.وہ تو اپنی شکل میں موجود ہے.اور نہ ہی سونے کی خصوصیت میں کوئی فرق پڑا.وہ بازار میں مارکیٹ کے نرخ پر بک جائے گا اور چور کو اس کے پیسے مل جائیں گے یا کسی سنار کے ہاتھ میں یہ مال حرام چلا جائے گا اور وہ اس سے کسی کی بیوی یا لڑکی کے لئے زیور بنا دے گا.غرض سونا چونکہ ایک بڑی قیمتی دھات ہے.اس کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی قیمت میں اس قسم کی ہلاکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب یہ چوری ہو جاتا ہے تو گویا جو اس کا مالک تھا اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس کا جو حق دار نہیں تھا اس کے پاس چلا گیا.پس اس معنی میں عربی زبان میں أَهْلَكَ یا الْهَلَاكُ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز مثلاً سونا ہے وہ ضائع نہیں ہوا لیکن ایک آدمی کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا گیا.جس کے ہاتھ سے نکلا اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کا سونا بلاک ہو گیا.اس کے دوسرے معنے ہیں هَلَاكُ الشَّيْء بِاسْتِحَالَةٍ وَ فَسَادٍ یعنی کوئی چیز خراب ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گئی.مثلاً کھانے کے متعلق جب عربی میں یہ کہیں گے کہ هَلَكَ الطَّعَامُ تو اس کے معنے ہوں گے کھانا خراب ہو گیا ہمارے جلسہ سالانہ پر صبح دال کی دیگیں پکتی ہیں بعض دفعہ اگر وہ بچ جائیں تو دوسرے وقت تک وہ اہل رہی ہوتی ہیں ایسے موقع پر عربی میں کہیں گے هَلكَ الطَّعَامُ کھانا ہلاک ہو گیا یعنی خراب ہو گیا.پھر اِسْتِحَالَةٌ کے ایک معنی تَحَولَ مِنْ حَالٍ إلى اخر کسی چیز کی حالت بدل کر دوسری حالت میں آگئی.دراصل هَلَكَ الطَّعَامُ کے بنیادی معنی بھی یہی ہیں تاہم اس کی شکل تھوڑی سی بدلی ہوئی ہے.استحالة کے دوسرے معنے صَارَ مَحَالا کے ہوتے ہیں اور محال کے معنے باطل کے ہیں یعنی ایسی چیز جو ہر جہت سے فساد کی مقتضی ہو عربی زبان میں محال کہلاتی ہے.

Page 305

۲۹۹ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث أَهْلَكَ يا ( الْهَلَ) کے تیسرے معنے موت کے ہوتے ہیں.یعنی انسانی زندگی میں بنیادی تبدیلی کا رونما ہونا ہم تو روح کو زندہ سمجھتے ہیں ہم روح اور مادی اجزاء کے ملاپ کو دنیوی زندگی سمجھتے ہیں.اس ملاپ کے نتیجہ میں ایک نئی چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ انسان ہے جسے اس دنیا کا عقل اور شعور دیا گیا ہے.جب انسان کی یہ کیفیت باقی نہ رہے تو اس پر موت وارد ہو جاتی ہے.البتہ جسم کے ذرے بالکل ضائع نہیں ہو جاتے یہ موت والی ہلاکت بھی ایک خاص معنی میں استعمال ہو سکتی ہے.چنانچہ اسی واسطے امام راغب نے اس کو علیحدہ تیسری شکل میں ہمارے سامنے رکھا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ صلاح کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں.یہ در حقیقت دنیا میں فساد کرنا چاہتے ہیں.یہ ہر قسم کی (ہر سہ معنی میں ) ہلاکت کی تدبیریں کرتے ہیں.ایک یہ کہ جن لوگوں کا کسی چیز کا حق بنتا ہے ایسے سامان پیدا کر دیتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں وہ چیز نہ رہے یعنی وہ چیز تو قائم رہے مگر جس کا اس پر حق تھا اس کے پاس نہ رہے دوسرے یہ کہ جو چیز ان کے پاس ہواس کے اندر خرابی پیدا ہو جائے جیسا کہ مثلاً ( ذرا سوچنے کی بات ہے ) بلیک مارکیٹنگ ہے.یہ کھانے میں پیدا ہونے والی خرابی تو نہیں لیکن انسان کے ہاتھ میں مثلاً نقدی ہے اس میں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ پہلے ایک روپے میں مثلاً تین سیر آٹا ملتا تھا مگر بلیک مارکیٹنگ کے نتیجہ میں اسی روپے سے ڈیڑھ سیر آٹا ملتا ہے.پس اس روپے کا جو استعمال اور استفادہ ہے اس کے اندر خرابی پیدا ہوگئی.گو یہ دال کے ابلنے والی خرابی تو نہیں ہے مگر روپے کی قدر یا قیمت میں خرابی کے مترادف ضرور ہے.پھر یہ کہ ایسی صورت میں صلاح کی بجائے فساد کی حالت پیدا ہو جاتی ہے مثلاً یہ کارخانوں کی جو تالہ بندی ہے اس سے بھی فساد پیدا ہوتا ہے.اس سے صلاح کی حالت فساد کی حالت میں بدل جاتی ہے.اس ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مزدوروں کو کام کرنے کی جو قو تیں اور طاقتیں عطا فرمائی ہیں کارخانے داران کا وہ حق ادا نہیں کر سکتے.مگر جتنا وہ کام کر سکتے تھے تالہ بندی کے نتیجہ میں اس کے دروازے بھی الٹے بند ہو گئے.دوسرا کام ان کو کوئی ملا نہیں تو ظاہر ہے وہ خود بھوکے رہیں گے.ان کے بچے بھوکے رہیں گے جیسا کہ میں نے بتایا ہے.حالت صلاح کی بنیادی کیفیت یہ ہے کہ حقوق ادا ہوں لیکن جس مزدور کے اوپر تالہ بندی کے نتیجہ میں کام کا دروازہ بند کر دیا گیا تو ایک طرف اس کی طاقتوں اور قوتوں کی نشو و نمارک گئی دوسری طرف اس کے حقوق کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اور

Page 306

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة بھی زیادہ مفلوک الحال ہو گیا.پس هَلَاكُ الشَّيْء بِاسْتِحَالَةٍ وَ فَسَادٍ کی رو سے صلاح یعنی امن کے حالات میں تالہ بندی کے نتیجہ میں فساد کی کیفیت پیدا کرنا ہلاکت ہے اور یہ عمل سراسر باطل ہے اور حق کے صریحاً خلاف ہے.اس سے باہمی طور پر ہم آہنگی نہیں بلکہ دوری پیدا ہو جاتی ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بنیادی طور پر استعدادیں بخشی ہیں اور اس دنیا کی ہر چیز کو استعدادوں کے ذریعہ استعمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کا نام ہم تسخیر عالمین رکھتے ہیں.چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ہم نے اس عالمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے دنیا کی ہر چیز کو تمہارا خادم بنا دیا ہے.تمہاری قوتوں سے اثر قبول کرنے کے لئے اس کائنات کی ہر چیز کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک خاصیت رکھ دی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار فرمایا ہے کہ تم کوشش کرو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ.أهلك يا الهَلاک کے تیسرے معنے موت کے ہوتے ہیں.ظاہر ہے جب فساد ہوتا ہے تو مزدور مارا جاتا ہے اور مارا وہ جاتا ہے جو معصوم ہوتا ہے.مثلاً پچھلے دنوں خواہ مخواہ زبان کا جھگڑا کھڑا کر دیا گیا تھا.چنانچہ ہنگامے ہوئے جلوس نکالے گئے.اب جس وقت جلوس نکلتا ہے تو وہ بیچارا غریب مزدور جسے پانچ روپے دے کر کہا کہ جا کر جلوس نکالو یا کسی کے خلاف غلط باتیں بتا کر کہا کہ جا کر جلوس نکالو دراصل وہ گنہگار نہیں وہ تو دھو کا خوردہ اور فریب خوردہ ہے.گناہگاروہ ہیں جو غریب آدمیوں کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں.چنانچہ جب جلوس نکلتے ہیں تو مرتے ہیں تو بیچارے مزدور.جو لوگ انہیں دھوکا دیتے ہیں وہ پیچھے مزے سے بیٹھے ہوتے ہیں.پس یہ جو موت ہے یہ صریح طور پر فساد ہے.کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ بغیر حق کے کسی کی جان نہیں لینی.اس لئے ان بیچاروں کی جان لینے کا تو حق ہی نہیں بنتا لیکن ہنگامہ کھڑا کر کے شکل ایسی بنا دی کہ جان لینے والوں نے کہا کہ ان کو مارو.حالانکہ وہ فسادی نہیں ہوتے فسادی تو پیچھے کوئی اور دماغ ہے کوئی جیب ہے جس میں پیسے بھرے ہوئے ہیں.وہ فسادی ہے.اس کے اوپر فساد کو دور کرنے والی تلوار چلنی چاہیے نہ کہ اس بیچارے معصوم پر جس کا دراصل قصور نہیں ہے کیونکہ وہ یا تو دھو کے میں آکر یا اپنی غربت کی وجہ سے یا پھر اس وجہ سے کہ پہلے اس کے حقوق ادا نہیں ہوئے جلوس میں شامل ہوتا ہے جس شخص کو اس کے حقوق مل چکے ہیں وہ پانچ روپے کی خاطر فساد نہیں کرے گا.وہ

Page 307

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ٣٠١ سورة البقرة اتنی تھوڑی سی رقم کی خاطر اپنی موت کو دعوت نہیں دے گا.فساد کرنے پر وہی شخص آمادہ ہوگا جسے یا تو بہکایا، ورغلایا گیا ہو یا جس کے حقوق تلف کئے گئے ہوں اور اس کو اس حالت میں کر دیا گیا ہو کہ وہ فساد میں کود پڑے یعنی خدا تعالیٰ نے اس کی جو حالت بنائی تھی اس کو بدل کر اس حالت میں کر دیا جائے کہ وہ مجبوراً پیسے لے کر فسادی گروہ میں شامل ہو جائے.اب یہ تو ظلم ہے کہ جنہوں نے دوہرا گناہ کیا وہ تو چھوڑ دیئے جائیں لیکن جو در حقیقت معصوم تھے وہ گولیوں کا نشانہ بن جائیں.ویسے ہم تو خدا تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں.اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے.اس کا علم کامل ہے وہ جانتا ہے کہ کون فسادی ہے اور کون نہیں ہے لیکن بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ایسے شخص کا بھی گناہ کا منشاء نہیں ہوتا بلکہ وہ دھوکے میں آجاتا ہے.جس طرح حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے دھوکے میں آگئے تھے یہ مزدور بیچارے بھی دھوکے میں آجاتے ہیں اور بعض اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.بهر حال يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ میں يُهْلِكَ کے یہ تین معنے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ اس وقت صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کی حالت ہمیں نظر آتی ہے.قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے مطابق ہمیں ہر جگہ فتنہ وفساد دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مفسد ہے وہ ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے.چنانچہ اردو میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے یا عربی زبان میں کہیں اهلک تو اس کے تین معنے ہوتے ہیں.ایک یہ کہ جن چیزوں پر ان کا ( مزدور کا حق تھا اور جو ان کو ملی تھیں وہ ان سے چھین لی جائیں اور وہ کسی اور ا کے پاس چلی جائیں.یہ معنے آج کی دنیا پر چسپاں ہوتے ہیں.دوسرے معنے کچھ تھوڑے سے اختلاف اور شاخوں کے ساتھ تَحَوَّلَ مِنْ حَالٍ إلى آخر اور صَارَ مَحَالًا کے لحاظ سے یہ ہیں کہ مفسد ہلاکت کے اسباب پیدا کر دیتے ہیں جن کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا.جن سے اللہ تعالی پیار نہیں کرتا بلکہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.تیسرے معنے موت کے ہیں.مفسد بے گناہوں کی موت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.غرض تینوں معنوں میں ہلاکت کا لفظ اس دنیا کے فساد کے ماحول پر چسپاں ہوتا ہے لیکن آگے ہلاکت کے بنیادی طور پر عقلاً اور مشاہدۂ دومفعول بن سکتے ہیں ایک حرث " کی ہلاکت اور دوسرے نسل کی ہلاکت.عربی زبان کے لحاظ سے حرث کے جو معنے ہیں وو 66

Page 308

سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اور جس رنگ میں اسے اس آیت میں رکھا گیا ہے اس سے ایک بڑا عجیب مفہوم پیدا ہوتا ہے اور در حقیقت یہ لفظ ایک وسیع معنوں کی نشاندہی کر رہا ہے.چنانچہ حرث کے معنی عربی زبان میں صرف کھیتی کے نہیں ہوتے.ویسے کھیتی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی جو محروث ہے اسے بھی حرث کہتے ہیں لیکن اس کے اصل معنے کھیتی کے نہیں ہوتے.اس کے اصل معنے مادی ذرائع پیداوار کے ہیں.جن کے اندر انسان کا اپنی محنت سے ایسی تبدیلیاں پیدا کرنا مقصود ہے کہ وہ انسان کی فلاح کے سامان کا ذریعہ بن جائیں تاہم یہ لفظ جب زمین میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں.الْقَاءِ الْبَشْرِ فِي الْأَرْضِ وَ تَهَيُّوهَا لِلزِّرْع یعنی کھاد وغیرہ ڈال کر اور ہل وغیرہ چلا کر زمین کو کاشت کے قابل بنا دینا یعنی جو اس سے ہم نے پیداوار لینی ہے زمین کو اس کے قابل بنادینا اسی طرح کھیتی کو یا کمائی کو جو ہم اس سے حاصل کرتے ہیں اس کو بھی حرث کہتے ہیں.تا ہم اس کا اصل اور بنیادی مفہوم یہ ہے کہ مادی ذرائع کو اپنی کوشش کے نتیجہ میں اس قابل بنا دینا کہ اس سے ہم اپنی انفرادی اور خاندانی اور ملکی اور عالمگیر فلاح و بہبود کے سامان پیدا کر سکیں.یہ ہیں حرث کے اصل معنے.ویسے جب عربی میں ہم یہ کہتے ہیں کہ حَرَت ناقتہ تو اس کے معنے ہوتے ہیں إِذَا اسْتَعْمَلَهَا یعنی اونٹنیوں کا استعمال کیا اور اونٹنیوں کا استعمال تو ان کی سواری ہوتی ہے.اس کے علاوہ بھی اونٹ بڑا مفید جانور ہے.اس کا گوشت کھائیں تب فائدہ پہنچتا ہے.اس کی کھال کو استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے.اس کی ہڈیوں کو مختلف کاموں میں استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے.اس کے دودھ کو استعمال کریں تب فائدہ پہنچتا ہے یا پھر اس پر سواری کریں خصوصاً خلوص نیت کے ساتھ حج کے لئے جائیں تب فائدہ پہنچتا ہے.چنانچہ ایک صحابی سے کسی نے پوچھا کہ فلاں موقع پر تم نے اپنی اونٹنیوں کا کیا کیا تھا.تو انہوں نے کہا حر تتھا ہم نے ان کا موقع کے لحاظ سے استعمال کیا یعنی ان پر سواری کی.یہ سارے معنے امام راغب نے کئے ہیں نیز وہ لکھتے ہیں: " كَمَا أَنَّ بِالْأَرْضِ زَرْعُ مَابِهِ بَقَاءُ اشْخَاصِهِمْ یعنی زمین مادی ذرائع پیداوار کی علامت ہے.سورج کی شعاعیں زمین کے اندر جذب ہونے کے بعد ہمارے کام آتی ہیں.زمین سے مراد یہ سارا کرہ ارض اور اس کی ہوا وغیرہ ہے اسے قرآن کریم کی رو سے الارض کہا جاتا ہے اور یہ ذرائع پیداوار کی ایک علامت ہے.پس قرآن کریم نے زمین کو ذرائع پیداوار کی ایک علامت ٹھہرایا ہے.66 وو

Page 309

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة البقرة چنانچہ ان معنوں کی رو سے حرث سے یہ مراد لی جائے گی کہ زمین سے ایسا کام لیا جائے جس سے انفرادی اور اجتماعی بقاء کے سامان پیدا ہو جائیں.اس کو اصل میں حرث کہتے ہیں.اب زمین سے کام لینے کا مطلب یہ ہے انسان کی جو جسمانی طاقتیں ہیں انکی کمال نشو ونما کے لئے ذرائع پیداوار سے کام لیا جائے کیونکہ جب تک انسان کی جسمانی طاقتیں اپنے نشو نما کے کمال تک نہیں پہنچتیں اس وقت تک دوسری صلاحیتیں اور استعدادیں مثلاً ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادوں کی نشوو نما ممکن ہی نہیں جسمانی طاقت دوسری استعدادوں کے پہنچنے کے لئے بنیاد کا کام دیتی ہے مثلاً انسانی جسم میں دماغ کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کو ہم کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہو گیا ہے.اس خاص قسم کی خرابی کے نتیجہ میں نہ وہ ذہنی نشو و نما حاصل کر سکتا ہے نہ اخلاقی اور روحانی نشو ونما حاصل کرسکتا ہے یا جب کوئی شخص لنگڑا ہو جائے یا کسی اور وجہ سے معذور ہو جائے تو وہ جسمانی طاقتوں کے نشو ونمانہ پانے کی وجہ سے ذہنی اور اخلاقی استعدادوں کی نشو ونما سے ایک حد تک محروم ہو جاتا ہے.مثلاً ایسا شخص جہاد میں شامل نہیں ہو سکتا.وہ جہاد کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے.جہاد میں شامل نہ ہو کر انسان صرف اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو و نما ہی سے محروم نہیں ہوا وہ ذہنی قوتوں کی نشو و نما سے محروم ہو گیا.انگریزی کا محاورہ ہے یو لوٹولرن (You live to learn) یعنی زندگی کا ہر مشاہدہ ہمارے لئے بڑا اہم ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ہمارے لئے معلم کے طور پر بنایا ہے.ہمارا مشاہدہ ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتا ہے.اگر ہماری جسمانی طاقتیں کسی لحاظ سے ہمارے مشاہدات کو ایک حد تک محدود کر دیں تو ہماری ذہنی نشو ونما اتنی وسیع نہیں ہو سکے گی جو دوسری صورتوں میں ممکن ہے.پس حرث کے معنے بنیادی طور پر یہ ہیں کہ بنیادی ذرائع پیداوار کو ایسے رنگ میں استعمال کرنا کہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنے نشو و نما کے کمال کو پہنچ جائیں.جہاں تک نسل کی ہلاکت کا سوال ہے.نسل کے معنے ولد یا اولا دہی کے نہیں ہوتے نسل کے بنیادی اور حقیقی معنے جس سے آگے شاخوں کی طرح دوسرے معنے نکلتے ہیں (امام راغب لکھتے ہیں ) یہ ہیں الْإِنْفِصَالُ عَنِ القَنی کسی چیز سے علیحدہ ہو کر اس کا حصہ نہ رہنا نسل کہلاتا ہے.یعنی اس رنگ میں حصہ نہ رہنا اور نہ تو بہت سے پہلوؤں کے لحاظ سے حصہ رہتا ہے اسی وجہ سے جو شخص جگہ کو جلدی جلدی چھوڑے تو ہم کہتے ہیں وہ دوڑ رہا ہے.عربی میں کہتے ہیں نَسَلَ - يَنْسَلُ إِذَا سَرَعَ یعنی جب آدمی

Page 310

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۰۴ سورة البقرة تیزی سے دوڑنے کے نتیجہ میں جلدی جلدی جگہ بدلتا ہے تو اس کونسل کہتے ہیں.امام راغب نے مفردات میں ایک عجیب محاورہ دیا ہے.دراصل میں اسی چیز کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ نسل کا لفظ اس محاورے میں استعمال ہوا ہے.إِذَا طَلَبْتَ فَضْلَ إِنْسَانٍ فَخُذُ مَا نَسَلَ لَكَ مِنْهُ عَفُوا یعنی اگر تم کسی آدمی کی بزرگی کو دیکھنا چا ہو تو تم اس کے حسن سلوک کو دیکھو جو رضائے الہی کے لئے وہ تم سے کر رہا ہے.تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ وہ کس قسم کا انسان ہے.دراصل عَفُوا کے معنے ہوتے ہیں رضائے الہی کے حصول کے لئے حسن سلوک کرنا.کیونکہ عفوا کہیں تو اس سے الْقَصْدُ لِتَنَاوُلِ الشيء مراد ہوتی ہے.پس مَا نَسَلَ لَكَ مِنْهُ عَفُوًا کے معنے ہوں گے جو اس نے تجھ سے حسن سلوک کیا عفو کے طور پر یعنی کسی چیز کے حصول کے لئے تو چونکہ انسانی فضل رضائے الہی ہی کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے.اس لئے میں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ جو شخص رضائے الہی کے حصول کے لئے تجھ سے حسن سلوک کرتا ہے اس سے اس کا فضل ظاہر ہوتا ہے.اسی طرح نسل کے معنے چھوڑ دینے کے بھی ہوتے ہیں مثلاً جب شہد اپنے چھتے سے خود بخود نکلے تو اس شہد کو النَّسِيْلَةُ کہتے ہیں یعنی اس کو آگ کے اوپر گرم کر کے نہیں نکالا جاتا بلکہ بعض دفعہ وہ خود بخود بہہ نکلتا ہے.ہمارے پاس بہت سارے دوست شہد لے آتے ہیں یا ہم خود اپنے باغ سے چھتے اتر واتے ہیں.چنانچہ ہم شہد نکالنے کے لئے یہ آسان طریق اختیار کرتے ہیں کہ ایک ململ کے کپڑے میں چھتے کا شہر والا حصہ باندھ کر لٹکا دیتے ہیں اور نیچے برتن رکھ دیتے ہیں.اس طرح شہد اپنے ہی وزن سے کشش ثقل کی وجہ سے بہہ نکلتا ہے غرض جس شہد کونکالنا نہ پڑے بلکہ خود بخود بہہ نکلے.اس کو نسيلة کہتے ہیں.اسی طرح جب دودھ دینے والے جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکالا نہ جائے بلکہ خود بخود بہہ نکلے تو ایسے دودھ کو اک نسل کہتے ہیں.بعض عورتوں کے پستان سے بھی دودھ بہہ نکلتا ہے اور کپڑوں کو خراب کر دیتا ہے عورتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے کپڑے خراب ہو گئے اسی طرح بھینس یا بکری کا دودھ بھی بعض دفعہ خود بخو دگر تا رہتا ہے.پس اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز جو خود بخو دعلیحدہ ہو جائے وہ نسئلة کہلاتی ہے.اس جگہ نسل

Page 311

۳۰۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کے معنے ہوں گے کہ انسان کی وہ قوتیں اور طاقتیں جن سے اس کے اعمال خود بخو د فطری بہاؤ کے ساتھ سرزد ہوتے ہیں مثلاً ایک صاف شفاف اور ٹھنڈے اور لذیذ پانی کے چشمے سے جس طرح پانی خود بخود بہہ نکلتا ہے اسی طرح انسان کے اعمال اس کی طاقتوں سے خود بخود بہہ نکلتے ہیں.........اللہ تعالی نے ہمیں جو طاقتیں اور استعداد میں دی ہیں جتنا جتنا ہم ان کا استعمال کرتے اور ان کی نشو و نما کرتے چلے جاتے ہیں اتنا اتنا وہ چشمہ سے بہنے والے پانی کی طرح خود ہی فلو آؤٹ (Flow out) یعنی اہل کر باہر نکل رہی ہوتی ہیں اور اسی معنی میں نسل کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی انسانی قوتوں اور استعدادوں سے افعال اور اعمال خود بخودسرزد ہونے لگتے ہیں مثلاً مال ہے، روپیہ پیسہ ہے سوائے چند کنجوس لوگوں کے جو دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں باقی لوگ اپنے مال و دولت کو خرچ کرتے ہیں.روپیہ خرچ کے ذریعہ خود بخود ہماری جیبوں سے علیحدہ ہوتا رہتا ہے.اب مثلاً آپ اپنے بچے کو پڑھانے کے لئے استاد مقرر کرتے ہیں اور اسے روپے دیتے ہیں تو گویا اس طرح آپ کے ہاتھ سے روپیہ نکل گیا یا مثلاً گندم ہے آپ اسے کھاتے ہیں اسے کنزیوم (Consume) کر جاتے ہیں گندم کی شکل میں کھاتے ہیں اس سے آپ کو مثلاً چلنے کی طاقت مل گئی آپ نے آٹھ میل سیر کی.کچھ طاقت آپ کے جسم سے نکل گئی.انسانی وجود کے اندر ساری قوتیں بند تو نہیں رہتیں.وہ انسانی جسم سے باہر نکل رہی ہوتی ہیں.غرض جسمانی طاقتوں کے آؤٹ فلو (Out flow) کو باندھ دیا ہے نشوونما کے ساتھ.ہم جتنا جتنا ان طاقتوں کو استعمال کرتے ہیں اتنا ہی یہ چیزیں نشود نما میں مد و معاون بن جاتی ہیں.پس بنیادی طور پر یہی دو چیزیں اس دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر رہی ہیں مثلاً ایٹم کی ایجاد ہے.ایٹم پاور کی ایجاد ہے.دوسری مادی چیزیں ہیں جنہوں نے مختلف شکلیں اختیار کر رکھی ہیں.پھر یہ ساری یو نیورس ہے.یہ ذرائع پیداوار کی علامت ہے.ذرائع پیداوار کے اندرنسل یعنی انسانی طاقتیں تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور اس طرح یہ کام کی چیزیں بن رہی ہیں.گویا آسمان سے لے کر زمین تک ہم نے انسانی ہاتھ کا تصرف دکھا دیا مثلاً انسان چاند پر پہنچ گیا.اب چاند پر پہنچنے کے لئے آسمان سے کوئی اڑن کھٹولا تو نہیں آگیا تھا.یہ انسان کی استعداد میں اور قو تیں تھیں جو پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی تھیں یعنی سائنس دانوں نے فزکس کے اصول پر سائنسی تحقیق کی ان قواعد اور قوانین کے مطابق عمل کیا جو خدا تعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں تو وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے.اب مثلاً جو

Page 312

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۰۶ سورة البقرة حساب دان سائنٹسٹ ہیں انہوں نے اپنی دریافت اور ایجاد کی بنیاد حساب پر رکھی.حساب بھی ایک سائنس اور فلسفہ بن گیا ہے.چنانچہ وہ از روئے حساب سوچ رہے تھے فکر و تدبر کر رہے تھے.خود ہمارے ڈاکٹر سلام بھی فکر و تدبر میں لگے رہتے ہیں اس کی کچھ خصوصیتیں علم طبعی سے ملتی ہیں.تاہم جہاں تک سائنسی تحقیق میں حساب کا تعلق ہے سائنس دان بے شمار ار بعے لگاتے ہیں اور بڑی لمبی لمبی ضر ہیں اور سیمیں کرتے ہیں.یہ چونکہ بڑا لمبا حساب بن جاتا ہے اس لئے انسان نے اس کو آسان کرنے کے لئے ایک مشکل سا مضمون بنا دیا ہے جسے الجبرا کہا جاتا ہے.چونکہ مجھے یہ مضمون سکول کے زمانے میں مشکل لگتا تھا اس لئے میں نے اسے مشکل کہہ دیا ہے.بہر حال حساب کے مضمون کو آسان کرنے کے لئے لوگوں نے الجبرا بنادیا.اور اس کی علامتیں بنالیں مثلاً کہہ دیا ا.ب.ج کا یہ مطلب ہے اور پھر لوگ اس سے اصولاً کچھ نتائج اخذ کرتے ہیں.چنانچہ سائنس دانوں نے انہی اصول وقواعد کے مطابق کچھ نتائج اخذ کئے اور چاند پر جانے کے قابل ہو گئے یا زمین میں اٹامک انرجی کو استعمال کرنے لگے.وغیرہ وغیرہ.غرض سائنس دانوں نے اپنی خداداد طاقتوں اور قوتوں کو قوانین قدرت کے مطابق استعمال کیا.آخر ایٹم کی طاقت کا پتہ کیسے لگا؟ یہ انسان کی طاقت تھی، یہ اس کی استعداد تھی جو اس کے جسم سے باہر نکل آئی گویا اس کی طاقت کی نسل ہوگئی.اس کا انفصال ہو گیا.یہ باہر نکلی اور باہر نکلتی چلی جارہی ہے.یہ ایک چشمہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا.اسی طرح جب تک انسان زندہ ہے اس کی طاقتیں باہر نکلتی چلی جائیں گی.یہ ایک تبدیلی ہے جو مسلسل رونما ہوتی چلی جائے گی.پس حرث سے مراد مادی ذرائع ہیں اور نسل انسان کی محنت ہے.انسان اپنی طاقتوں کو کام پر لگاتا ہے.یہ دو بنیادی چیزیں ہیں یہ دو بنیادی نعمتیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں.انسان اپنی فطرتی اہمیت کے صحیح استعمال کرنے پر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن مفسدان ہر دو قسم کی نعمتوں کو ہلاک اور برباد کر دیتا ہے.ہلاکت کے سامان پیدا کرتا ہے وہ کبھی ایٹم بم سے زمین کی پیداوار کو ختم کر دیتا ہے کبھی وہ کیمیکل اجزاء چھڑک کر اچھے پودوں کو ضائع کر دیتا ہے.ایسے مفسد آدمی نے ایک وقت میں کہا یہ تھا کہ اس نے یہ کیمیکل اجزاء اس لئے بنائے ہیں کہ وہ ان سے مضرت رساں کیڑوں کو ہلاک کرے گالیکن جب وہ تحقیق کرتے ہوئے ایسے کیڑوں پر پہنچا جو مفید ہیں مضرت رساں نہیں تو ایسے مفسد اور

Page 313

۳۰۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ناشکرے انسان نے ان کیڑوں کو بھی ہلاک کر دیا.اب مثلاً یہ اینٹی بائیوٹک وغیرہ قسم کی دوائیاں ہیں.اللہ تعالیٰ معاف کرے کبھی مجبوری ہو تو استعمال کرنی پڑتی ہیں مگر ان کے غلط استعمال سے بے شمار کیڑے جو مفید اور زندگی رکھنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مثلاً انسان کے معدے، جگر اور انتڑیوں میں پیدا کیا ہے اور وہ نظام ہضم میں ممد و معاون ہیں.یہ ایک نابینا ہتھیار ( اینٹی بایوٹک ادویہ ) انسان کے جسم میں جو مضرت رساں کیڑے ہیں یعنی پیچش اور ہیضہ کے کیڑے ہیں ان کا بھی قتل عام کر دیتا ہے اور جو مفید کیڑے ہیں اُن کا بھی قتل عام کر دیتا ہے.بہر حال میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہ ہماری استعدادیں ہیں جو باہر نکلیں ان کا صحیح استعمال کرنے والے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں صالح کہلائے اور ان کا غلط استعمال کرنے والے مفسد کہلائے قرآن کریم نے کہا ہے کہ تم ان مفسدوں کے کاموں کا بھی جائزہ لو، غور اور تحقیق کرو اور ان کے دل اور معدہ کو پھاڑ و یعنی ان کی تھیوریز جس رنگ میں روبہ عمل ہیں اور ان کی طاقتیں جس رنگ میں باہر نکل کر کام کر رہی ہیں اور جس رنگ میں ان کی استعداد میں مادی اشیاء میں کام کر رہی ہیں ان کو غور سے دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ ہلاکت کی تینوں قسمیں ان کے اندر پائی جاتی ہیں.یہ ہے مفسد جسے قرآن کریم نے بھی کہا ہے.اب جہاں تک مادی ذرائع پیداوار کا تعلق ہے اس کی ایک تو بہت خطرناک شکل ایٹم کی طاقت کے غلط استعمال کی شکل میں نظر آتی ہے.دوسرے کارخانوں کا بند رہنا ہے.کارخانہ بھی ایک ذریعہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری کے لئے پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی اور اس نے مادی ذرائع کو بروئے کار لا کر کارخانہ قائم کر دیا.اب جس دن کا رخانہ بند رہا اس دن کی پیداوار سے نہ صرف مزدور بلکہ بنی نوع انسان اور ملک بھی محروم ہو گیا.ایک کارخانہ مثلاً دولاکھ گز کپڑا ایک دن میں تیار کرتا ہے اگر وہ کارخانہ تالہ بندی یا ہڑتال کی وجہ سے ایک دن بند رہتا ہے تو اس ملک کے باشندے دو لاکھ گز کپڑے سے محروم ہو گئے.غرض اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے اس کے کیا نتیجے نکلے یہ ایک الگ اور مستقل مضمون ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فساد پیدا ہو گیا.حقوق کی ادائیگی پر یہ چیز بہر حال اثر انداز ہوگی مثلاً کپڑے کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جائیں گی وہ غریب آدمی جو یہ سوچ رہا تھا کہ اب میرے پاس اتنے پیسے ہو گئے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو کپڑے بنادوں.اس کے پاس اتنے پیسے نہیں رہیں گے کیونکہ کپڑے کی قیمت زیادہ ہوگئی اب اس کے پاس

Page 314

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة البقرة اتنے پیسے نہیں رہے کہ وہ کپڑا خرید سکے.پھر وہ کہے گا کہ میں پانچ دن اور مزدوری کرتا ہوں تا کہ بچوں کے کپڑے بن جائیں.....اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں تک عزت کا تعلق ہے لوگ فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں یعنی ذرائع پیداوار سے انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر جتنی پیداوار حاصل کر سکتا ہے اس کے راستے میں وہ روک بن جاتے ہیں.انسانی طاقتوں اور قوتوں کے استعمال میں مخل ہوتے ہیں.اس لئے کہ ذرائع پیداوار کے ساتھ جب تک محنت شامل نہ ہو اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.چنانچہ انسانی قوتوں اور استعدادوں کے تعطل کی وجہ سے انسان کو گویا بھوکا مار دیا.اس کی قوتوں کی نشوونما میں روک پیدا کر دی.اس کا جتناد ماغ تھا اس کے مطابق اس کے لئے سامان نہیں پیدا کئے.مثلاً ایک غریب آدمی ہے اس کے گھر ایک ذہین بچہ پیدا ہو جاتا ہے.دسویں تک تو وہ اسے جوں توں کر کے پڑھاتا ہے مگر پھر اس کی غربت آڑے آتی ہے بچے کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے.اب وہ لڑکا جو مثلاً ڈاکٹر سلام کا ہم پلہ بن سکتا تھا اس کا دماغ اور اس کی ذہانت ضائع ہو جاتی ہے.وہ کلر کی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے.ہمارے پھوپھا جان حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ دھوبی کے لئے اشتہار دیا تو ایک بی.اے یا ایم.اے پاس کی درخواست آگئی وہ تو خیر پڑھ گیا تھا پھر بھی اس کو ملازمت نہ ملی لیکن کسی بیچارے کو تو مزید پڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا.پس یہ نسل کشی ہے.نسل کشی کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ غلط فیملی پلاننگ کی جائے یا بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا جائے یا انہیں بھوکا رکھ کر مار دیا جائے یا جس طرح بعض ظالم عیسائی بادشاہ کیا کرتے تھے کہ پہلے وہ عیش کرتے اور پھر نا جائز بچوں کو قتل کر کے تہہ خانوں میں پھنکوا دیتے یہ اور اس طرح کے ہزاروں ظلم ہیں جو انسان انسان پر کر رہا ہے.غرض قوتوں اور استعدادوں کا ضیاع بھی نسل کشی ہے.اللہ تعالیٰ نے در حقیقت بنیادی طور پر ہمیں دو ہی چیزیں دی ہیں اور ایک ایسی بڑی نعمت ہے جو نہ ہمارے تصور میں آسکتی ہے اور نہ اس کی وسعتوں کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر اللہ تعالیٰ کا کما حقہ شکر ادا کیا جاسکتا ہے.ایک تو انسان کے اندر یعنی انسانی فطرت کے اندر جو استعدادیں پیدا کیں اور ان استعدادوں کی کامل نشوونما ہے.تسخیر کائنات کے لئے اور دوسرے انسان کی بہبود کے لئے تخلیق کا ئنات یعنی اس عالمین کی مادی اشیاء یا ذرائع پیداوار ہیں.یہ دونوں چیزیں ہیں یعنی مادی

Page 315

٣٠٩ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ذرائع پیداوار اور ان سے کما حقہ مستفید ہونے کے لئے.دو.انسانی قوتیں اور استعداد یں.ایک کو قرآن کریم کہتا ہے حرث اور دوسرے کونسل.ایک وہ ہے جس کو انسان تیار کرتا ہے.پھر اس سے کچھ حاصل کرتا ہے.بعض دفعہ اچھی نیت سے بعض دفعہ بری نیت سے بہر حال انسان جس چیز کو تیار کرتا ہے اس سے پیار کرتا ہے.مثلاً زمین کو تیار کرتا ہے تا کہ اس سے گندم حاصل کرے، کپاس حاصل کرے وغیرہ وغیرہ.وہ کارخانوں کو تیار کرتا ہے کارخانے بھی مادی چیزوں کی تیاری کی جگہ ہیں.کچھ اینٹیں ہیں، کچھ لوہا ہے، کچھ مشینری ہے.یہ ساری چیزیں مل کر کارخانے کی شکل اختیار کرتی ہیں.تا کہ انسان اس سے مثلاً کپڑا پیدا کرے یا اس سے کھاد پیدا کرے یا لوہا پیدا کرے یا اس میں موٹریں بنائے.وغیرہ.اب تو بے شمار قسم کی چیزیں بنے لگی ہیں.بے شمار سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کو گن نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ کو تو ان سب کا علم ہے.غرض ایک مادی ذرائع پیداوار اور دوسرے انسانی استعداد یں.یہ دو بنیادی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں اور ایک مفسدان دونوں کی ہلاکت کا موجب بنتا ہے یا ہلاکت کی کوشش میں مشغول نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مفسد بھی بنو یعنی جو مادی ذرائع پیداوار ہیں ان کو تم ہلاک کرو.ان کو تم ضائع کرو.دوسرے جو تمہیں استعداد یں دی ہیں ان سے تم غفلت بر تو اور ان کی نشوونما نہ کرو.ان کا صحیح استعمال نہ کرو اور پھر یہ سمجھو کہ میں تمہارے ان بد اعمال اور مفسدانہ اعمال کا صالحانہ اعمال جیسا نتیجہ نکال دوں گا تو یہ خیال غلط ہے.ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے پیار نہیں کرتا یعنی جو لوگ حرث اور نسل کو فساد میں مبتلا اور معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں.اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا پیار تو نہیں ملے گا.اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا قہر ملے گا.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی جہنم انہیں ملے گی.اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی رضا کی جنتیں تو ان کو نہیں ملیں گی.خطبات ناصر جلد چهارم صفحه ۳۲۱ تا ۳۴۲) قرآن کریم کا ایک حکم یہ ہے کہ فساد نہ کرو اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کر نے والوں سے پیار نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگ اس کے غضب کے نیچے آجاتے ہیں فساد کے لغوی معنی ہیں حد اعتدال سے نکل جانا معنی کی اس وسعت کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے ہر حکم سے بغاوت فساد ہے کیونکہ قرآن کریم کا ہر حکم استقامت اور اعتدال پر قائم رکھتا ہے فساد کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور

Page 316

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ٣١ سورة البقرة کسی شکل میں بھی وہ ہمارے محبوب کو محبوب نہیں.اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے کہ دنیا میں بعض لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی باتیں پسندیدہ معلوم ہوتی ہیں وہ ملک اور قوم کے خیر خواہ دین کے بھائی اور خدا سے پیار کرنے والے سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ - یعنی جب بھی اسے موقع اور طاقت ملے وہ فساد پیدا کرنے کی غرض سے سارے ملک میں دوڑتا پھرتا ہے اور اس طرح حرث اور نسل کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں.ایک معنی یہ بھی ہیں ایسا شخص جو خود کو ملک اور قوم کا ہمدرد اور خیر خواہ ظاہر کرتا ہے ان ذرائع اور اسباب پر ضرب لگاتا ہے جو دنیوی لحاظ سے قومی تعمیر کے کام آنے والے ہیں اور اُخروی لحاظ سے وہ کسی کو ان جزاؤں اور ان انعامات کا وارث کرتے ہیں جن کے لئے خدا تعالیٰ کا ایک مومن بندہ اس دنیا میں اس امید پر ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ کر کھیتی کو کاٹے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْأَخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ - (الشورى: ۲۱) * کہ جو شخص آخرت کے انعامات کے لئے اس دنیا میں کام کرتا ہے اسے بہت ملے گا اس نے جو کام کئے ہیں ان سے بھی بہت زیادہ ملے گا اور جو اس دنیا کے لئے کام کرتا ہے اسے بھی ہم عام قانون کے ماتحت محروم نہیں رکھیں گے اس کو بھی ہم اس دنیا میں اس کے کام کا اجر دیں گے.لغت نے یہاں حرث کے معنی تعمیری کاموں کے بھی کئے ہیں یعنی ایسے کام جن کے نتیجہ میں ملک اور قوم کی تعمیر ہوتی ہے پس جو لوگ قوم کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں توڑ پھوڑ کے ذریعہ یا لوٹ کے ذریعہ یا کوئی اور خرابی پیدا کرنے کے نتیجہ میں، وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کو توڑنے والے ہیں کیونکہ جہاں عقل، اخلاق اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کسی دوسرے کی املاک کو یا قومی املاک کو نقصان پہنچایا جائے وہاں شریعت اسلامیہ اس سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ اس بات سے روکتی ہے کہ ان اموال کو نقصان پہنچایا جائے جو دوسروں کے ہیں یا خود اپنے ہیں کیونکہ اموال کے متعلق اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اصل ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے اسی لئے اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ جان تیری نہیں جان تو خدا کی ہے تجھے کس نے حق دیا ہے کہ تو جان کو لے چاہے وہ تیری اپنی ہی کیوں نہ ہو اور اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی

Page 317

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ٣١١ سورة البقرة پلیٹ اور رکابی میں اتنا سالن نہ ڈالو کہ اس میں سے ایک لقمہ بھی ضائع ہو جائے کیونکہ کھانے کا جو لقمہ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے وہ تمہارا نہیں تم تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھا رہے تھے اس نے تمہیں اس لقمہ کو ضائع کرنے کا اختیار نہیں دیا غرض کھانے کے ایک لقمہ کا ضیاع بھی خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند کیا ہے کجا یہ کہ لاکھوں روپیہ کی املاک کو ضائع کر دیا جائے.پس دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچانے یا ان پر قابض ہو جانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک مہینہ ہوا میں نے اعلان کیا تھا کہ ربوہ میں ہر وہ دکان دار یا مکان والا جس نے غیر کی زمین پر (جو نہ تو اس کی ذاتی ملکیت ہے اور نہ اس نے وہ کرایہ پر لی ہے ) دکان یا مکان بنایا ہوا ہے تو اسے اپنا وہ مکان یا دکان ۳۰ / نومبر تک اٹھا لینی چاہیے اور یہ میعاد اس لئے دی گئی تھی کہ ایسا کرنے پر کچھ وقت لگتا ہے اور ایسا حکم نہیں ملنا چاہیے جو طاقت سے بالا ہو اعلان کرتے وقت میرا اندازہ تھا کہ اس عرصہ میں ایسی دکانیں اور مکان اٹھائے جا سکتے ہیں اور کاروبار سمیٹے جا سکتے ہیں اب تو رمضان کی ذمہ داری بھی آگئی ہے رمضان کے مقدس مہینہ میں خصوصاً کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں اس بات کی اجازت کسی کو دی جاسکتی ہے کہ قرآن کریم کے احکام کے خلاف دوسرے کی ملکیت پر نا جائز تصرف قائم رکھے ابھی تک جور پورٹ مجھے ملی ہے وہ یہی ہے کہ دوست اس طرف متوجہ ہوئے ہیں اور انشاء اللہ کل ۳۰ ر نومبر تک یعنی وقت کے اندراندرنا جائز طور پر تعمیر کردہ دکانیں اور مکانات خالی کر دیئے جائیں گے جو ایسا نہیں کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے اس انذار کے مطابق کہ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (القصص :۷۸) یعنی اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا.خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے خلفاء اس کے صلحاء اور نیک بندوں کی محبت سے محروم ہو جائے گا اور اگر کوئی ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت دے امید تو یہی ہے کہ ایسا ہم میں سے کوئی نہیں نکلے گا.فساد جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ وَاِذَا تَوَلّى سعى في الْأَرْضِ اس سے مراد روحانی اور مذہبی فساد بھی ہے جب ملک میں بدامنی کے حالات پیدا کر دیئے جائیں تو وہ لوگ جو اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں خرچ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی روحانی غذا کے حصول کی طرف اپنی توجہ اس طرح قائم نہیں رکھ سکتے جس طرح وہ دوسرے حالات میں رکھ سکتے ہیں ان کے لئے

Page 318

تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۱۲ سورة البقرة بہت سی فکریں اور پریشانیاں پیدا کر دی جاتی ہیں غرض قرآن کریم نے فساد کو پسند نہیں کیا اسی طرح فرماتا ہے: فَاذْكُرُوا الآء الله وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (الاعراف : ۷۵ ) اگر چه یہ آیت حضرت صالح کی قوم ثمود سے تعلق رکھتی ہے لیکن جہاں پرانے انبیاء کی زبان سے اصولی احکام بیان ہوتے ہیں ان کا تعلق ہر مسلمان سے بھی ہے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں جان بوجھ کر فساد مت کرو گویا اللہ تعالیٰ نے فساد کی طرف مائل ہونے کو اس کی نعمتوں کی ناشکری قرار دیا ہے اور فرماتا ہے اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو یا درکھو اور اس کے شکر گزار بندے بنو تو پھر تم فساد نہیں پیدا کر سکتے اس لئے کہ (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) نہ جان تمہاری اپنی ہے، نہ مال اپنا ہے، نہ مکان اپنا ہے، نہ زمین اپنی ہے ہر چیز خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے اللہ تعالیٰ ہی ان سب کا حقیقی مالک ہے ان اشیاء میں کسی فرد یا قوم کو اس حد تک تصرف کرنے کی اجازت ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اس فرد یا قوم کو اجازت دی ہو ورنہ نہیں پس یہ ساری نعمتیں ہیں تم خدا کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرو، اگر تم فساد کرو گے، توڑ پھوڑ سے کام لو گے، لوٹ مچاؤ گے، لوگوں کی جانوں کو یا ان کے اوقات کو نقصان پہنچانا چاہو گے تو تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر رہے ہو گے مثلاً ایک شخص ہے اس نے آٹھ گھنٹے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے اور تم نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ وہ اپنے کام پر جا نہیں سکتا فساد کی وجہ سے اس کے رستے رک گئے ہیں تو اس کے بچے بھو کے رہیں گے گویا خدا تعالیٰ نے اسے ایک نعمت دی تھی اور تم اس نعمت سے اسے محروم کرنے والے بن گئے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ نعمت خداوندی کو یا در کھتے اور اس کا شکر بجالاتے ہیں وہ فساد نہیں کیا کرتے بلکہ اپنے مال کی ، اپنی جانوں اور اپنے ہمسائیوں.بھائیوں.ہم ملک ہم قوم اور دنیا میں بسنے والے ہم عصروں کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے اموال کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ ہر چیز اور ہر مخلوق جو ان کی بصیرت اور بصارت کے سامنے آتی ہے اسے وہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھتے ہیں اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے نہ وہ خود کو محروم کرنا چاہتے ہیں نہ دوسروں کو محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۰۷ تا ۴۱۰)

Page 319

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۱۳ سورة البقرة آیت ۲۰۸ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللهُ رءوف بِالْعِبَادِه یہ حکم سننے کے بعد کہ ایک کامل اور مکمل شریعت کا نزول ہو چکا اور ایک حقیقی اور سچے تعلق باللہ کا سامان پیدا ہو گیا اس لئے اے نوع انسان فَاسْتَقِیمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جنہوں نے اپنے نفوس کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے حصول کے لئے بیچ ہی ڈالا اور عمر بھر کا سودا کر لیا یہ نہیں کہ آج ایک عہد باندھا اور کل اسے توڑ دیا.یہ نہیں کہ آج تو اپنے رب سے ایک سودا کیا اور کل اسے فسخ کیا اور بلکہ عمر بھر کے لئے انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے نفوس کا اپنے رب کی رضا کے لئے سودا کر لیا اور اس طرح پر انہوں نے اپنے اس رب کی رافت اور رحمت کے جلوے دیکھے جو ان لوگوں کے لئے رؤوف ہے جو اس کے حقیقی بندے بن جاتے ہیں اور اس قدر حسین جلوے دیکھے کہ ان کی وجہ سے اُمم سابقہ امت مسلمہ پر رشک کریں.جس نفس کے سودے کا یہاں ذکر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو جو اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں اسے جو باطنی اور ظاہری قوتیں اور استعداد میں عطا ہوئی ہیں وہ اس غرض کے لئے ہیں کہ انسان اپنے رب سے سودا کر لے یعنی یہ عطا ہے وہ ظاہری اعضاء کے لحاظ سے ہو یا باطنی اور روحانی قوتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے ہو، ہے ہی اس غرض کے لئے کہ انسان اپنے رب سے ایک زندہ اور سچا تعلق پیدا کر لے اور اس کی نعمتوں کا وارث بنے.جو قو تیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں ان کی اصل غرض یہی ہے کہ ایک اسے اللہ تعالیٰ کی کمال معرفت حاصل ہو جائے دوسرے اس معرفت کے نتیجہ میں حقیقی پرستش اور عبودیت پر دوام اسے مل جائے اور تیسرے اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھنے کے بعد وہ اس کی محبت میں فنا ہو جائے.انسانی فطرت بھی اسی کی گواہی دیتی ہے اور اس پر شاہد ہے کہ انسان نے جب بھی اپنے اعضاء کو جو خدا تعالیٰ کی عطا تھے اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کو جو روحانی ارتقاء کے لئے اسے دی گئی تھیں غلط راہوں پر استعمال کیا تو اس کے نفس نے تسلی نہیں پائی.ہم ایک موٹی مثال لے لیتے ہیں آج کی دنیا میں انسان نے خداداد قوتوں اور طاقتوں کے استعمال سے ذرے کی طاقت (جسے ایٹامک انرجی Atomic

Page 320

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۱۴ سورة البقرة Energy کہتے ہیں ) کا علم حاصل کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ذرہ میں جو قوت چھپر کھی تھی انسان نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عقل، فراست اور سائنس ( انسان جو سائنس کے تجربے کرتا ہے ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی روشنی پیدا ہوتی ہے ) کے نتیجہ میں اس کا علم حاصل کیا لیکن جہاں اس نے اس کا ایک حد تک صحیح استعمال کیا یعنی اس نے اسے انسان کے فائدہ کے لئے استعمال کیا وہاں بڑی حد تک اس کا استعمال اس رنگ میں بھی کیا کہ وہ انسان کی ہلاکت کا موجب بن جائے.اب دیکھو یہ ایک قوت ہے اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ انسان نے اس کا ایک حد تک غلط استعمال کیا ہے اور اس غلط استعمال یا غلط استعمال کے امکان کے خلاف وہ لوگ بھی آئے دن مظاہرے کر رہے ہیں جو خدا تعالیٰ کے بھی منکر ہیں.ایٹمی قوت کے غلط استعمال کے خلاف یہ مظاہرے اس بات پر شاہد ہیں اور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسانی فطرت ان چیزوں کو پسند نہیں کرتی.ابھی ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم نہیں ابھی انہوں نے اس کا عرفان حاصل نہیں کیا اس کے باوجود ان کے اندر سے یہی آواز نکل رہی ہے کہ ان قوتوں اور استعدادوں کو غلط طریق پر استعمال نہیں کرنا.انہیں اس کے صحیح استعمال کا پتہ بھی نہیں لیکن اس کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج جاری ہے.اسی طرح اور ہزاروں مثالیں ہیں کہ جب انسان اپنے اندرونی اور بیرونی اعضاء کو یا اپنی ظاہری اور باطنی قوتوں اور استعدادوں کو اس رنگ میں استعمال کرتا ہے کہ وہ اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے تو انسانی فطرت اندر سے اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو اور یہ اس بات پر شاہد ہے کہ یہ ہے؟ تمام قومی اور قوتیں اور طاقتیں اور استعدادیں انسان کو اس لئے ملیں کہ وہ اس مقصد کو حاصل کر لے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہو جائے.اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا دائمی مقام اسے حاصل ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھ کر اس کی محبت کا شعلہ اس طور پر انسان کے صحن سینہ میں بھڑ کے کہ اس کا وجود بالکل فنا ہو جائے کیونکہ اس کے بغیر وہ دلی سکون اور اطمینان اور خوش حال زندگی کا احساس اپنے اندر نہیں پاتا..خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۱۹ تا ۵۲۱) b آیت ۲۱۸ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ قُلْ قِتَالُ فِيهِ

Page 321

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث b ج ۳۱۵ سورة البقرة كَبِيرُ - وَصَدُّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ كُفْرَ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللّهِ ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتُ وَهُوَ كَافِرُ فَأُوليكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.ووو (۲۱۸) تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے اور راہ ارتداد اختیار کرے پھر وہ طبعی موت مرے اس حالت میں کہ وہ ارتداد کے ذریعہ سے جس کفر میں داخل ہوا تھا ( ایمان کو چھوڑ کے ) اس کفر پر وہ قائم تھا.تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں جو نیکیاں کی تھیں اور جو بظاہر قربانیاں دی تھیں لیکن بعد میں ارتداد اختیار کیا تو حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وہ نیک اعمال بھی ان کے کسی کام نہیں آئیں گے اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کی نیکیوں کا بدلہ ثواب اور خدا تعالیٰ کی رضا کی شکل میں نہیں ملے گا.وَ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ اور ایسے مرتد جو ہیں وہ اصحبُ النَّارِ ہیں، أَصْحَبُ الْجَحِيمِ ہیں.دوزخی ہیں، دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور لمبا عرصہ اس میں رہنے والے ہیں.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۸۵،۸۴) آیت ۲۱۹ اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أولبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ٥ (۲۱۹) لا جس تجارت کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں اور جس کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں.وہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اپنی جانوں کو مجاہدہ میں ڈالو.اور تمہارا یہ مجاہدہ اور تمہارا یہ جہاد اموال کے ذریعہ سے بھی ہو.اور تمہارے نفوس کے ذریعہ سے بھی ہو ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُم تعْلَمُونَ اور اگر تمہیں حقیقت کا علم ہو جائے تو تم سمجھ جاؤ کہ دراصل اسی چیز میں تمہاری بھلائی ہے.اس خیر لکم کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت ۲۱۹ میں یوں فرمائی ہے.اِنَّ الَّذِينَ کہ امَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - که

Page 322

٣١٦ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے مجاہدہ کیا اس رنگ میں کہ انہوں نے خواہشات نفسانی کو خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑا.اس رنگ میں کہ انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی کے حصول کے لئے گناہوں سے اجتناب کیا.( هَاجَرُوا ) اور انہوں نے اپنے ماحول، اپنے املاک (اپنی جائدادوں ) اپنے کنبہ اور اپنے شہر اور اپنے علاقہ کو خدا تعالیٰ کی خاطر ترک کیا.اور خدا تعالیٰ کی رضاء کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئے.وَجَاهَدُوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے نیکی کے راستوں پر شوق اور بشاشت کے ساتھ قدم مارا.أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللہ یہی وہ لوگ ہیں جو امید رکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں حاصل ہو جائے گی.أولبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں ضرور مل جائے گی.پھر اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جو شخص بدیوں کو ترک نہیں کرتا اور نیکیوں کو اختیار نہیں کرتا.وہ یہ امید نہیں رکھ سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحمت کے ساتھ سلوک کرے گا.یہ امید کہ میرا رب میرے ساتھ رحمت کا سلوک کرے گا وہی رکھ سکتا ہے جو بدیوں کو ترک کرتا اور نیکی کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۴۰،۴۳۹) آیت ۲۳۲ وَ اِذَا طَلَقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرْحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ صِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَ مَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفْسَهُ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا أيتِ اللهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَ اتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (٢٣٢ وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْتِ اللهِ هُزُوا خدا تعالیٰ کی جو آیات ہیں انہیں معمولی سمجھ کے محل تمسخر اور استہزا نہ بناؤ کیونکہ اس کے بغیر ان آیات کے سمجھنے کے بغیر تم خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ، خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کئے بغیر تم خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں کر سکتے ، خدا تعالیٰ کا ذکر صحیح رنگ میں کئے بغیر تم حقیقی نجات اور کامیابی اور فلاح نہیں حاصل کر سکتے اپنی زندگی میں.

Page 323

۳۱۷ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اس آیت میں پھر آیات اللہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہمارے سامنے یہ مضمون بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ آیات اللہ کو حلِ استہزا نہ بناؤ بلکہ خدا تعالیٰ کی جو مادی دنیا میں صفات ظاہر ہوئی ہیں.اس مادی دنیا میں نعماء باری جو ہیں ان کو سمجھو اور ان کی معرفت حاصل کرو تا کہ ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کر سکو تو نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ یہ قرآن کریم کے محاورہ میں جسمانی روحانی ہر دو قسم کی نعمتوں پر بولا جاتا ہے ( یہاں چونکہ مقابلہ ہوا ہے ہدایت کے ساتھ اس لئے ، ویسے تو خدا تعالیٰ کی روحانی نعمتیں اور اس کا کلام بھی بڑی نعمت ہے اور جو انسان کو صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ بڑی نعمتیں ہیں) لیکن یہاں چونکہ کتاب و ہدایت کا ذکر بعد میں آیا ہے اس لئے یہاں مراد ہوگی ہر دو جہان کی ہر چیز جس کا ذکر سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجائية : ۱۴) میں آتا ہے یعنی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے تم ان کے متعلق علم حاصل کرو اور ان کے حسن کو دیکھو، دیکھو کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے بعض چیزوں کو لاکھوں سال پہلے پیدا کیا اس معنی میں ارتقائی دور میں سے گذرنے کے لئے ان میں حرکت پیدا کی اور پھر بعض چیزیں ایسی ہیں جو کئی لاکھ سال کے بعد اس شکل میں آئیں جس شکل میں آج انسان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے یہ بھی خدا تعالی کی نعمتیں ہیں نعماء ہیں ان کو یاد کرو اور یاد رکھو اور ان کے علاوہ انْزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةِ (البقرة:۲۳۲) خدا تعالیٰ نے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تمہارے لئے ایک کامل کتاب نازل کی ہے ایک ہدایت کا ملہ تمہیں دی اور ایک حکمت کی کتاب یعنی ایسی شریعت جو فطرت کے مطابق ہے اور بات حکم سے نہیں بلکہ حکمت سے منواتی ہے یعنی ہر حکم جو ہے شریعت کا اس کی وجہ قرآن کریم نے بیان کی کہ یہ حکم تمہارے کس فائدے کے لئے ہے اس لئے تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے یہ تمہارے اوپر کوئی چٹی نہیں ہے کوئی بیگار نہیں لی جارہی تم سے جس کو قربانی کہا جاتا ہے وہ تم اپنے نفس کے لئے قربانیاں دے رہے ہو اس کا فائدہ تمہیں پہنچے گا ، تمہاری نسلوں کو پہنچے گا کسی چیز سے تمہیں محروم نہیں کیا جارہا.جو مال کی مثلاً قربانی ہے اس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ خدا مال کو لیتا ہے تا کہ بڑھا کر واپس کرے.غرض قرض نہیں رکھتا وہ (یہ عجیب قربانی ہے کہ پانچ روپے لئے اور پانچ سو دے دیئے اور انسان کہے کہ ہم نے خدا کی راہ میں بڑی مالی قربانیاں دے دیں) مگر یہ اس کی شان ہے جو سب سے بڑا ہے کہ وہ اسی کو قربانی سمجھتا

Page 324

۳۱۸ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث اور اپنے پیار سے اپنے بندے کو نوازتا ہے.تو انسان خدا کا جو ذکر کرتا ہے وہ صحیح ذکر صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس کی صفات کا علم ہو اور صفات کے علم کے لئے ہر قسم کی تحقیق ( علمی تحقیق جو ہے وہ ضروری ہے یعنی جو خدا نے پیدا کیا اس کی عظمت جاننے کی کوشش کرنا اس کی جو پیدائش ہے اس کے دست قدرت سے جو چیز نکلی ہے اس میں بھی بڑی عظمت ہے اس میں بھی بڑا حسن ہے اس میں بھی بڑی افادیت ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر ضروری چیز کو پیدا کیا.جب تک ان چیزوں کا علم نہ ہو.صحیح طور پر انسان اپنی فطرت پر اپنی صفات پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھا نہیں سکتا.تو خالی یہ نہیں کہا کہ ذکر کرو بلکہ ذکر کا طریقہ بھی بتایا کہ ذکر کا مطلب یہ ہے.ایک بچے کا سُبحان اللہ کہناذ کر کی ابتدا تو کہلا سکتا ہے مگر ذکر نہیں کہلا سکتا یا ایک کم علم اور ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرنے والے بالغ انسان کا سُبحان اللہ کہنا تو اب تو ہے لیکن خدا تعالیٰ جس رنگ میں اس سے پیار کرنا چاہتا ہے وہ پیار اس کو بھی حاصل ہو سکتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کے حسن اور اس کے رنگ کو پہچانے اور اس کی عظمت اور اس کا جلال اور اس کی رفعت اور اس کی شان جو ہے اور اس کی قدرتوں کے جو جلوے ہیں اور ان میں جو حسن ہے اور جو احسان خدا تعالیٰ بے شمار شکلوں اور صورتوں میں ایک فرد واحد کی ذات پر کر رہا ہے اس کا علم اسے حاصل ہوتا ہے.تب اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے جس سے وہ بھی سیراب ہوتا ہے اور اس کا خاندان اور نسل بھی سیراب ہوتی ہے اور بہت سارے دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھانے والے بن جاتے ہیں.اسلام یہ نہیں کہتا کہ جود نیوی علوم ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں.اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیوی علوم کی ہر برانچ ہر شعبہ کا جاننا اس لئے ضروری ہے کہ اگر تم مومن ہو اور خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو تو جب تک تمہیں ان باتوں کا علم نہیں ہو گا تم خدا تعالیٰ کی صحیح معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتے مثلاً ستاروں کا علم ہے،افلاک کا علم ہے تو یہ سمجھنا کہ رات کو بچے بھی دیکھتے ہیں.بچپن میں میرے خیال میں ہر بچہ کبھی سوچتا ہو گا کہ میں گنوں کتنے ستارے مجھے نظر آ رہے ہیں جو گن نہیں سکتا بالکل چھوٹی عمر میں بچے کہہ دیتے ہیں (ماں یا باپ کو) کہ مجھے یہ ستارہ لا کے دو.یعنی ان کو پتا کچھ نہیں ہوتا لیکن نظر آ رہا ہے.لیکن جب تک افلاک کا یہ علم نہ ہو کہ کس قدر وسعت خدا تعالیٰ کی اس پیدائش میں ہے جس کو ہم زمین و آسمان کہتے ہیں اب تک جو علم انسان نے بہت دور دیکھنے والی دور بینیں ہیں ان سے حاصل کیا ہے اور وہ سائنس کے نئے

Page 325

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ٣١٩ سورة البقرة طریقے یہ ہیں وہ جو پہلے شیشے سے دیکھنے والے طریقے تھے وہ اب نہیں رہے.بہت زیادہ آگے بڑھ چکا ہے انسان.جو اب تک معلوم کیا وہ بھی یہ ہے کہ اس ہر دو جہان میں ان آسمانوں میں بے شمار ایسے قبائل ہیں.ستاروں کے بے شمار ایسے قبیلے ہیں جن کو یہ سیلیکسیز (Glaxies) کہتے ہیں سیکسی ستاروں کے ایک ایسے قبیلے کا نام ہے جو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتا ہے اور بے شمار سورجوں پر مشتمل یہ قبیلہ بحیثیت مجموعی ایک نامعلوم جہت کی طرف حرکت کر رہا ہے اور دوسروں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.جو دوسری کیلیکسیز دوسرے قبائل ہیں ان کا ایک مستقل وجود ہے قبیلے ہونے کے لحاظ سے اور قبیلہ ہونے کے لحاظ سے.اس کے اندر ان گنت ( یعنی جس کو انسان گن نہیں سکا ) سورج ہیں اور ان سورجوں کے گردستارے گھوم رہے ہیں.تو سورج بھی ان گنت ہیں تو جو ان کے ساتھ ستارے مل جائیں تو ان کی تعداد کیا بن جاتی ہے، بے شمار گیلیکسیز ، بے شمار قبائل ہیں.ہر یلیکسی میں بے شمار سورج ہیں اور پھر حرکت کر رہے ہیں یہ ، اور ان کی حرکت متوازی نہیں بلکہ ہر آن ایک دوسرے سے پرے ہو رہا ہے ہر قبیلہ ہر سیلیکسی اور درمیان میں ان کا فاصلہ بڑھتا چلا جارہا ہے اور سائنسدان کہتے ہیں کہ جب دو سیلیکسیز میں یعنی ستاروں کے ایسے قبیلے میں جس کے اندر بے شمار سورج ہیں جن کے گرد دوسرے ستارے پھر رہے ہیں اتنی جگہ ہو جائے کہ ایک میسی بے شمار ستاروں کی وہاں سما سکے تو وہاں کیلیکسی کن فیکون سے ایک نئی لیلیکسی (ستاروں کا قبیلہ ) پیدا ہو جاتی ہے.بے شمار سورجوں پر مشتمل ایک میلیکسی وہاں پیدا ہو جاتی ہے.ہورہا.یہ کہنا کہ اس علم کی ایک مومن متقی کو ضرورت نہیں غلط بات ہے.قرآن کہتا ہے لَا تَتَّخِذُوا آیتِ اللهِ هُزُواً خدا تعالیٰ کی مخلوق جو ہے اس کی گہرائیوں میں جو جاتے ہیں وہی معرفت صفات باری حاصل کر سکتے ہیں.ہر آدمی تو ان گہرائیوں میں جانہیں سکتا.اتنا بڑا علم ہے یہ اور اس میں پھر خدا کی ایک اور شان نظر آتی ہے.پھر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ ساری بے شمار کیلیکسیز ( ان گنت قبائل جو ہیں یہ ) قانون کی پابندی کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کے لئے جو قانون اور قواعد بنائے ہیں.ان کے پابند ہیں.آپس میں نہ لڑتے ہیں نہ جھگڑتے ہیں.کبھی یہ نہیں ہوا کہ ایک قبیلہ کا ستارہ دوڑ کے دوسرے قبیلے میں چلا جائے یا ادھر کا ادھر آ جائے یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچا ئیں بلکہ جو حکم ہے وہ کر رہے ہیں اور پھر یہ کہ (ایک تو نئی ٹیلیکسیز پیدا ہو رہی ہیں ) جو موجود ہیں ان کی صفات میں زیادتی

Page 326

٣٢ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ہورہی ہے خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کے نتیجہ میں جس شخص کو صرف اتنا علم ہی حاصل ہو جائے باقی ( سمجھیں آپ بالکل اندھیرا ہے.صرف یہ روشنی اس کے سامنے آئی ہے اپنے رب کے متعلق تب بھی اس کے دل سے نکلتی ہے تکبیر کہ خدا سب سے بڑا ہے بڑا بلند ہے اور سُبحان اللہ.ایسا قانون بنا دیا کہ جتنا گہرائیوں میں بھی جاؤ یہ پتا لگتا ہے کہ کوئی عیب اس کے فعل میں نظر نہیں آتا اور کوئی تضاد ہمیں وہاں نظر نہیں آتا.قرآن کریم میں کئی جگہ کہا ہے.سورۃ ملک میں بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کے جلووں میں تمہیں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.یہ بڑا لطیف مضمون ہے.ایک ہے سائنس، آپ یہ کہیں گے کہ ہر ایک کیسے ہر سائنس پر عبور حاصل کرلے.ایک ہے وہ سائنس جس کی تحقیق میں ایک جماعت سائنس دانوں کی مشغول ہوتی ہے اور بڑے پیسے خرچ کرتی رہی ہے دنیا.انتہائی قیمتی آلات بناتے ہیں مثلاً ستاروں کا جو یہ علم ہے اس کے لئے کروڑوں کروڑوں ڈالر کی انہوں نے دور مینیں بنائی ہیں ستاروں کو دیکھنے کے لئے.ہر علم کی ان باریکیوں اور گہرائیوں میں تو ہر انسان نہیں جاسکتا لیکن جو ان کے اندر بنیادی اصول کام کر رہے ہیں وہ ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنا چاہیے تا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا جو سایہ ہے وہ ہماری روح کے اوپر پڑے اور ہم بہکنے سے محفوظ ہو جائیں.پھر ایٹم کی طاقت ہے ایک ذرے کے اندر اتنی طاقت خدا تعالیٰ نے بند کر کے رکھ دی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک طرف وسعت اتنی کہ گیلیکسیز کا شمار نہیں اور ہر گیلیکسی میں اتنے سورج کہ کسی ایک گیلیکسی کے سورجوں کی تعداد بھی ہم پتا نہیں لگا سکے اور دوسری طرف ایک ذرہ (ایٹم) لے لو اس کے اندر اتنی طاقت خدا تعالیٰ نے بند کی ہوئی ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.اس کی طاقت جو ہے وہ انسان کو فائدہ بھی پہنچا رہی ہے لیکن غلط استعمال کے نتیجہ میں ہلاکت کا بھی سامان پیدا کر رہی ہے.خدا تعالیٰ کا اگر ذکر کرے انسان یعنی یہ علم جب اس کے سامنے آئے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی عظمت اور خدا تعالیٰ کی معرفت بھی اسے حاصل ہو اور عظمت کا جلوہ بھی اس پر ظاہر ہو تو پھر وہ سمجھے گا کہ خدائے قادر و توانا نے جو یہ عظیم چیز پیدا کی ہے اس سے خدا کی مخلوق کو ہلاک کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے لیکن اندھی ہے دنیا جو خدا کی معرفت حاصل کرنے کی بجائے خدا کے بندوں کو دکھ دینے کے سامان پیدا کر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے دماغوں کو ہدایت عطا کرے اور خدا ایسے سامان پیدا کرے کہ سارے ہی انسان خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے والے ہوں.

Page 327

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث الثالثة ۳۲۱ سورة البقرة گیلیکسیز کے متعلق ابھی جو میں نے آپ کو بتایا اس کے نتیجہ میں جب انسان کے سامنے یہ باتیں آئیں تو اس میدان کے سائنسدانوں میں سے ایک حصہ جو پہلے دہریہ تھا انہوں نے کہا اب ہمیں خدا تعالی کی ہستی پر یقین آگیا ہے.یہ جوئی کیلیکسیز پیدا ہو ئیں تو یہ چیزیں سائنس دانوں کو اس طرف لا رہی ہیں.لَا تَتَّخِذُوا آیت الله هووا یعنی خدا تعالیٰ کی جو آیات ہیں (اور خدا تعالیٰ کے دست قدرت سے پیدا ہونے والی ہر چیز قرآن کریم کی اصطلاح میں خدا تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت ہے نشان ہے.ایک ایرو (Arrow) ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف اور اس کی صفات کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے ) ان کو محلِ استہزا نہ بناؤ کہ تم خدا کی طرف آنے کی بجائے اس سے دور ہونے لگ گئے بلکہ ان چیزوں کو ذریعہ بناؤ خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی معرفت حاصل کرنے کا تاکہ اس کے نتیجہ میں جو ایک عظیم ہدایت خدا تعالیٰ نے (ما انْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الكِتب وَالْحِكْمَةِ ) نازل کی ہے جو حکمت سے پر اور دلیل دے کے انسانی عقل کی تسلی کرتی اور اسے سمجھاتی ہے کہ تمہارے فائدے کے لئے یہ سارے احکام دیئے گئے ہیں، اسی طرح جس طرح تمہارے فائدے کے لئے ہر دو جہان کی ہر چیز پیدا کی گئی ہے یعنی ایک ہی خدا دنیا کی ہر چیز کو انسان کے فائدے کے لئے پیدا کرے اور اس کے متعلق انسان یہ سمجھے کہ جو اس نے اپنی وحی کے ذریعہ شریعت اور ہدایت نازل کی اس کا کوئی حکم انسان کو دکھ دینے کے لئے ہے یا اس کے فائدے میں نہیں ہے یہ تو ایسی نا معقول بات ہے کہ میرے خیال میں اگر سمجھایا جائے تو ایک بچے کو بھی آسانی سے سمجھ آجائے گی یہ بات.اتنی بڑی دنیا جس کے ایک حصے، چھوٹے سے نقطے کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تو اس نے پیدا کی انسان کے فائدہ کے لئے اور بے شمار چیزیں ایسی بنادیں کہ انسان فائدہ ان سے حاصل کرتا ہے، فائدہ حاصل کرتا چلا جاتا ہے اور نئی سے نئی چیز اس کے علم میں آتی ہے اور اس کو پھر افسوس ہوتا ہے کہ میں نے پہلے کیوں نہیں یہ علم حاصل کیا.پہلے اس سے فائدہ حاصل کر لیتا لیکن اس کے مقابلہ میں جو اس نے انسان کی ہدایت کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل شریعت نازل کی وہ انسان کے فائدے کے لئے نہیں یا اس میں کوئی ایک بھی ایسا حکم ہے جو اس کے فائدے کے لئے نہیں.یہ نا معقول بات ہے.انسانی عقل، انسانی فطرت اسے قبول نہیں کرے گی.اس واسطے خدا تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے دنیا کی نعماء کا ذکر کیا کہ ہر چیز انسان کے فائدے

Page 328

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث خلیفہ ۳۲۲ سورة البقرة کے لئے پیدا کی گئی ہے.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُم خدا تعالیٰ نے کہا دیکھو ہر چیز جو ہے وہ نعمت کے طور پر پیدا ہوئی ہے تو اس سے تمہیں نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ مَا انْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ اس کی طرف سے آنے والی کامل ہدایت بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی لے جانے والی ہے وہ بھی ایک نعمت روحانی ہے اس کو ہم ہدایت ، شریعت ، حکمت، اس کو ہم ایک حسین تعلیم ، اس کو ہم انسان کو ایک بہترین انسان بنانے والی، اس کو ہم ایک وحشی کو متمدن، متمدن کو با اخلاق، با اخلاق کو روحانی انسان بنانے والی تعلیم سمجھتے ہیں، اس طرح جس طرح دنیا کی ہر چیز سَخَّرَ لَكُمْ کے ماتحت انسان کے فائدے کے لئے ہے.اسی طرح قرآن کریم کا ہر حکم انسان کے فائدے کے لئے ہے اور جو شخص یہ نہیں سمجھتا وہ بد قسمت اور محروم ہے کہ خدا تعالیٰ اسے دینا چاہتا ہے اور وہ لینے سے انکار کر رہا ہے.مگر اس زمانہ میں یہ اندھی دنیا خدا سے دور جا چکی ہے اور خدا کی طرف واپس انہیں لے آنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپر د کیا گیا ہے اور اس کے لئے جماعت کو نمونہ بننا چاہیے اور نمونہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت انہیں حاصل ہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیوی علوم بھی سیکھیں اور قرآن کریم کے علوم بھی سیکھیں اور خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں اور اس کے پیار کو پائیں اور جو پیار کے ڈر اس نے محض اپنی رحمت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے اوپر کھولے وہ ڈران کی زندگی میں عملاً ان پر کھلے ہوں اور خدا تعالیٰ کے ہر رنگ کا پیارا نہیں ملے.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ ۷۴ تا ۸۱ ) اور آیت ۲۳۴ وَالْوَالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ اَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَ عَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلِّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَ وَالِدَهُم بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَ اِنْ اَرَدتُّمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا أَتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ

Page 329

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۲۳ سورة البقرة اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ اسی طرح عورتوں کا اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہے.انسان نے ایک وقت میں یہ کہہ دیا کہ اس کے بڑے فائدے ہیں دوسرے وقت میں کہہ دیا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.جب کہا ماں کا دودھ پلانے کے فائدے ہیں یا جس نے کہا فائدے ہیں تو اس نے گویا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہا کیونکہ دودھ بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے فائدہ رکھا ہے اسلئے ظاہر ہے کہ ماں کی چھاتیوں کے دودھ میں بچے کے لئے فائدہ ہے.مگر جب اس دودھ کو بے فائدہ قرار دے کر عورتوں کی ایک یا دو نسلوں کی صحتیں اپنی تھیوریز اور اصول بیان کر کے اور اُن پر عمل کروا کر خراب کر دیں تو پھر انسان نے بڑے آرام سے یہ کہہ دیا کہ اوہ ہو! ہم سے غلطی ہوگئی تھی.اب تو ہماری نئی ریسرچ یہ ہے کہ اگر ماں بچے کو دودھ نہ پلائے گی تو نہ بچ صحتمند ہوگا اور نہ زچگی کے بعد ماں کی صحت عود کرے گی.اور یہ سب کچھ اس انداز میں کہا کہ گویا انسان نے ہلاکت کا کوئی کام ہی نہ کیا تھا.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم نے جو فیملی پلاننگ ( خاندانی منصوبہ بندی ) کی ہے اس کی اپروچ (Approach) اور طریق تعلیم آجکل کے سائنسدانوں ، ڈاکٹروں اور سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جو شخص اپنے بچے کی رضاعت کو مکمل کروانا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ پلائے اور دودھ پلانے کے زمانہ میں عورت کو حمل نہیں ہونا چاہیے.اس طرح دو بچوں کے درمیان قریباً ۳ سال کا وقفہ پڑ جاتا ہے.اب کل ہی ایک دوست ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ایک کتاب کا ذکر کیا جو حال ہی میں چھپی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی نوے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقتیں دو سال کے اندر بتدریج ترقی کر رہی ہوتی ہیں گویا نوے فیصد سے زیادہ ذہنی طاقت پہلے دو سال کے اندر نشو ونما پاتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے رضاعت کا زمانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ماں بچے کو دو سال تک دودھ پلائے.دودھ ویسے بھی بڑی اچھی غذا ہے لیکن ماں کا دودھ بچے کی نشو و نما کے لئے بہترین غذا ہے مگر ایک وقت میں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں.اس طرح ماں بھی بیمار ہو جائے گی اور بچے کو بھی فائدہ نہ ہوگا.

Page 330

۳۲۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث جب دیکھا کہ اس طرح عورتوں کی صحت تباہ ہو رہی ہے تو پھر کہہ دیا کہ اس میں فائدہ ہے اور پھر اب حال ہی میں یہ کہہ دیا کہ بچے کے نوے فیصد سے زیادہ ذہنی قومی دو سال کے اندر نشو ونما پاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو سال تک اس کو بہترین غذا ملنی چاہیے تا کہ اس کے دماغ کی بہترین نشوونما ہو اور بہترین غذا ماں کا دودھ ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم پر لوگوں نے اعتراض شروع کر دیئے پھر وہ اعتراض واپس لے لئے.پھر خود ہی ریسرچ کی اور قرآن کریم نے جو پر حکمت تعلیم دی تھی اسکی تائید میں باتیں کرنی شروع خطبات ناصر جلد ۵ صفحه ۴۹۵ تا ۴۹۷) کردیں.آیت ۲۴۶ مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَةَ ص اَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَبْطُ وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ.کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر بطور قرض دے تا کہ وہ اس مال کو اس کے لئے بہت بڑھائے اور اللہ ہی ہے جو بندہ کے مال میں تنگی یا فراخی پیدا کرتا ہے اور آخر تمہیں اس کی طرف لوٹایا جائے.اللہ تعالیٰ کے حضور تم جو مال بھی پیش کرتے ہو وہ اس کا ہے اس سے تم نے لیا اور اسی کو پیش کر دیا.اپنے پاس سے تو تم نے کچھ نہیں دیا.نہ تمہارا مال اپنا، نہ تمہاری جان اپنی ، نہ عزت اپنی ، نہ وقت اپنا، اور نہ عمر اپنی ، غرض تمہارا اپنا کچھ بھی نہیں.محض خدا تعالیٰ کی دین تھی.اللہ تعالیٰ نے ہی یہ سب کچھ تمہیں دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر فضل کیا جیسا کہ وہ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اگر تم میری دین اور میری عطاء میں سے کچھ مجھے دو گے تو میں تمہیں اس کا ثواب دوں گا دراصل غور کے ساتھ دیکھا جائے تو ہماری سب عبادتیں اللہ تعالیٰ کی سابقہ عطاؤں پر بطور شکر کے ہوتی ہیں.یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ ادائے شکر پر مزید احسان کرتا ہے اس طرح شکر اور عطائے الہی کا ایک دور اور تسلسل قائم ہو جاتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیتے ہو تو وہ اسے بطور قرض کے لیتا ہے اور قرض دی ہوئی رقم خرچ نہیں سمجھی جاتی دیکھو اس دنیا میں بھی ایک بھائی دوسرے بھائی کو قرض دیتا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اس کا بھائی

Page 331

تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۳۲۵ سورة البقرة اسے کہتا ہے بھائی مجھے اس میں سے تین ہزار روپیہ بطور قرض حسنہ دے دو.میں چند ماہ کے بعد اسے واپس کر دوں گا تو اب یہ تین ہزار روپے خرچ تو نہیں ہوئے اس کے پاس دس کا دس ہزار ہی رہا.کیونکہ یہ تین ہزار بھی کچھ عرصہ کے بعد اسے واپس مل جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہو وہ خرچ نہیں ہوتا.نہ وہ ضائع ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ نے قرض کے طور پر لیا ہے وہ اسے واپس کرے گا اور پھر اس شان سے واپس کرے گا جو ایک قادر اور رزاق خدا کے شایان شان ہے.ص وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَبْقَطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ میں اللہ تعالیٰ نے تین بڑے لطیف مضامین بیان کئے ہیں.يَقْبِضُ وَيَبْقُطُ کے ایک معنی ہیں.يَسْلُبْ قَوْمًا وَيُعْطِي قَوْمًا (المفردات راغب كتاب القاف صفحه (۳۹) یعنی جسے چاہے غریب کر دیتا ہے اور اس کا مال لے کر دوسرے کو دیتا اور اسے امیر کر دیتا ہے.دوسرے معنی یہ ہیں.يَسْلُبُ تَارَةً وَيُعْطِي تَارَةً (المفردات راغب كتاب القاف صفحه ۳۹۱) یعنی جب چاہے ایک شخص کا مال چھین لیتا ہے اور جب چاہے پھر اسے اموال عطا کر دیتا ہے.تیسرے معنی قبض کے یہ ہیں.تَنَاوُلُ الشَّنِی بِجَميعِ الْكَلِ (المفردات راغب كتاب القاف صفحه ۳۹۱) گویا اس آیت میں يَقْبِضُ وَ يَبقُط اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اور پہلے معنی کی رو سے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا اظہار ایک بنیادی اقتصادی مسئلہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جسے اقتصادیات میں تقسیم پیداوار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی ملک کی پیداوار آگے مختلف افراد کے ہاتھوں میں کس طرح پہنچے گی اور ملکی پیداوار کی تقسیم کے متعلق آزاد اقتصادیات میں بھی اور ایک حد تک بندھی ہوئی اور مقید اقتصادیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقت تک ایک شخص جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا ہے سونا بن جاتی ہے لیکن پھر بغیر کسی ظاہری سبب اور وجہ کے اس شخص پر فراخی کی بجائے تنگی آ جاتی ہے وہی شخص ہوتا ہے وہی سرمایہ ہوتا ہے.وہی حالات ہوتے ہیں وہی کا روبار ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس سے برکت چھین لیتا ہے وہ جہاں بھی ہاتھ ڈالتا ہے اسے نقصان ہی نقصان ہوتا ہے اس کی مالی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور وہ مفلس و قلاش ہو جاتا ہے ابھی چند دن ہوئے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے.وہ تاجر ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک وقت تھا اللہ تعالیٰ نے میرے اموال اور میرے کاروبار میں برکت ڈال دی تھی اس نے مجھے وافر رزق دیا تھا اور اس قسم کے حالات پیدا کر

Page 332

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۲۶ سورة البقرة دیئے تھے کہ میں جو بھی کام کرتا رہا اس کے نتیجہ میں مجھے مال میں فراخی نصیب ہوئی لیکن اب اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ گو کام میں اب بھی وہی کرتا ہوں جو پہلے کرتا تھا لیکن اب مجھے وہ نفع نہیں ہوتا جو پہلے ہوتا تھا.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل قادر ذات جو اپنے ارادہ کے ساتھ اس دنیا میں تصرف کر رہی ہے وہ میری ہی ذات ہے اور کوئی نہیں میں ہی ہوں جو تقسیم پیداوار کے سلسلہ میں ایسی تاریں ہلا دیتا ہوں کہ ایک شخص کے پاس وہی کاروبار ہوتا ہے وہی سرمایہ ہوتا ہے لیکن اس قسم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ پہلے وہ بہت کما رہا ہوتا ہے اور اب وہ کم کمانے لگ جاتا ہے.اس کی برکت اللہ تعالیٰ کسی دوسرے کو دے دیتا ہے اور اس کو حاصل ہونے والا نفع اب دوسرے کو ملنا شروع ہو جاتا ہے.لاہور میں ہم کچھ عرصہ رہے ہیں وہاں ہم نے دیکھا کہ کبھی کوئی ریسٹورنٹ مقبول ہو جاتا تھا اور کبھی کوئی ایک ریسٹورنٹ کی مینجمنٹ (Mangement) اور انتظام بھی وہی ہوتا تھا.عمارت بھی وہی ہوتی تھی.فرنیچر بھی وہی ہوتا تھا باقی سہولتیں بھی وہی ہوتی تھیں.اس کے کھانا پکانے والے بھی وہی ہوتے تھے.اور ایک عرصہ تک وہ ہوٹل اپنے مالکوں کے لئے بہت زیادہ آمد کا موجب بنا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکدم کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو جاتی جو انسان کے اختیار اور سمجھ سے باہر ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی مقبولیت جاتی رہی.لوگوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مالک کو وہ ہوٹل بند کرنا پڑا اگر انسان اپنے ماحول پر گہری نظر ڈالے اور فکر و تدبر سے کام لے تو اسے اس قسم کی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں کوئی ظاہری سبب نظر نہیں آتا لیکن یکدم برکت چھن جاتی ہے.اسی طرح بعض اوقات اموال اور کاروبار میں برکت دے دی جاتی ہے اور اس کا کوئی ظاہری سبب نہیں ہوتا.ایک انسان عرصہ تک ابتلاء اور مصائب میں مارا مارا پھرتا ہے اور بڑی تکلیف میں زندگی گزارتا ہے ایک دن اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اس کے اموال اور اس کے کاروبار میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس پر فراخی اور کشائش کا دور آجاتا ہے ابھی چند دن ہوئے مجھے اس قسم کی بھی ایک مثال ملی ہے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ایک غریب گھرانہ کا فرد ہوں میری آمد بہت کم تھی اور گزارہ مشکل سے ہوتا تھا لیکن ایک دن اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی کہ اب میرے کاروبار میں برکت ہی برکت ہے اور خدا تعالیٰ بہت کچھ دے رہا ہے میری غربت اور افلاس کی حالت دور ہوگئی

Page 333

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث المسح ۳۲۷ سورة البقرة ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے رزق میں فراخی پیدا ہوگئی ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال کو روک رکھنا کہ وہ کسی خاص فرد کو نہ ملے یا مال کو حکم دینا کہ فلاں کے پاس چلے جاؤ.یہ صرف میرا کام ہے اور کسی کا نہیں اور اگر یہ میرا کام ہے تو جب بھی کوئی شخص میری راہ میں خرچ کرے گا تو اسے امید رکھنی چاہیے کہ میں جس نے اپنی قدرت کی تاریں ساری دنیا میں پھیلا رکھی ہیں اسے مایوس نہیں کروں گا بلکہ اس کے مالوں میں اور اس کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ برکت ڈالتا چلا جاؤں گا.دوسرے معنی يَقْبِضُ وَ يَبضُطُ کے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی ملک یا کسی خاندان یا کسی فرد کے سرمایہ یا جائیداد کی پیداوار میں اضافہ کر دیتا ہے یا کمی کر دیتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ مال یہاں سے لیا اور وہاں رکھ دیا اس سے لیا اور اسے دے دیا.پہلے معنوں کی رو سے تو یہ تھا کہ مال کسی سے لیا اور دوسرے کو دے دیا ایک کے کاروبار میں بے برکتی ڈالی اور دوسرے میں برکت ڈال دی.لیکن ان معنوں کی رو سے یہ شکل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ بغیر اس کے کہ کس کے کاروبار اور اموال میں بے برکتی ڈالے.وہ دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی اور افزائش پیدا کر دیتا ہے یا دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی کئے بغیر اس کے اموال اور کاروبار کو کم کر دیتا ہے مثلاً ایک زمیندار ہے اس کی زمین بنجر تھی اس میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی یا اگر ہوتی تھی تو بہت کم.اللہ تعالیٰ نے سمندروں سے پانی کو بادلوں کے ذریعہ اُٹھایا پھر وہ بادل ایسی جگہ بر سے کہ بعض دریاؤں میں طغیانی آگئی.اللہ تعالیٰ نے اس طغیانی کے پانی کو اس شخص کی بنجر زمین میں پھیل جانے کا حکم دیا یہ پانی اپنے ساتھ پہاڑوں سے پیداوار بڑھانے والی مٹی کے اجزا لے آیا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان ذرات ارضی کو حکم دیا کہ اس شخص کی زمین میں ٹھہر جاؤ.تمہارا سفر ختم ہو چکا چنانچہ وہ ذرات ارضی اس کی بنجر زمین میں ٹھہر گئے اور اس طرح جس ایکڑ سے وہ شخص بمشکل دو تین من گندم سالانہ پیدا کرتا تھا اور ادھی پچدھی کھا کر گزارا کرتا تھا اسی زمین میں اتنی طاقت اور زندگی پیدا ہو گئی کہ اب اس میں پندرہ پندرہ من گندم سالانہ پیدا ہونے لگی.اسی طرح ایک اور زمیندار ہے اس کی زمین بڑی اچھی ہے اس میں بہت زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور اس کی زرخیزی مالک کی آمد میں بہت اضافہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ جو آسمان سے حکم بھیج کر غریب اور مفلس لوگوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور مالداروں کو مفلس اور قلاش بنادیتا ہے اس زرخیز زمین میں تھور اور

Page 334

۳۲۸ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سیم پیدا کر کے اسے بنجر بنا دیتا ہے اور اس طرح اس کی آمد کم ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ کسی مالدار کو مفلس اور قلاش بنادینا یا کسی غریب اور مفلس کو مالدار اور غنی بنادینا میرے یا اور اختیار میں ہے اس لئے اگر تم مجھ سے کوئی سودا کرو گے تو اس میں تمہیں کوئی گھاٹا نہیں ہوگا.کیونکہ میں قادر مطلق اور رزاق ہوں.پھر قبض کے معنی مضبوطی سے پکڑ لینے کے بھی ہوتے ہیں اور مضبوطی سے اس شئے کو پکڑا جاتا ہے جس کے متعلق فیصلہ ہو کہ اسے چھوڑنا نہیں.کیونکہ اگر اسے چھوڑا تو نقصان ہوگا.ان معنوں کے رو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بیان فرماتا ہے کہ جو مال تم میرے سامنے بطور ہدیہ پیش کرو گے میں اسے مضبوطی سے پکڑ لوں گا یعنی اسے ضائع نہیں ہونے دوں گا یہ میرا تمہارے ساتھ وعدہ ہے جسے میں بہر حال پورا کروں گا ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو بڑی امید دلاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ غنی ہے اور اسے تمہارے اموال کی حاجت نہیں لیکن تمہاری پاک نیتوں اور محبت اور فنافی الہی کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی رحمت سے تمہیں نوازتا ہے اور شکر اور پیار کے ساتھ تمہاری مالی قربانیوں کو قبول کرتا ہے اور مضبوطی کے ساتھ انہیں پکڑ لیتا ہے اور انہیں ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ و ينقط اپنی بے پایاں عطا بھی اس میں شامل کرتا ہے اور انہیں بڑھا کر اور وسعت دے کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور وہ تمہیں اس دنیا میں بھی اپنی عطائے کثیر کا حقدار بنا دیتا ہے اور جب تم لوٹ کر اس کی طرف جاؤ گے تو وہ بڑے پیار سے تمہیں کہے گا یہ لو اپنے مال جو تم نے میری راہ میں خرچ کئے تھے دیکھو میں نے تمہارے لئے انہیں کس قدر بڑھایا اور ان میں کس قدر کثرت اور وسعت بخشی.پس خوش ہو کر اپنے ربّ کے ساتھ بھی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا..(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۴) اس میں جو مضمون بیان ہوا اس میں سے میں نے چھ باتیں اٹھائی ہیں.پہلی بات یہ کہی گئی کہ مَنْ ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے؟ کیا کوئی ہے؟ یہ اعلان ہے انسانیت کی طرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رنگ میں مالی قربانی کا اعلان غالباً تاریخ انبیاء میں پہلی دفعہ کیا.مَنْ ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے؟ اس وقت تو جن کی پرستش کرتے تھے ، بتوں کی رؤسائے مکہ، ان کے لئے بھی خرچ نہیں کرتے تھے،

Page 335

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالثة ۳۲۹ سورة البقرة ان پر بلکہ ان کی وجہ سے پیسے بناتے تھے اور آمد پیدا کرتے تھے.وہ دولت کمانے کا ذریعہ تھے اس دنیا میں.وہ اخروی زندگی میں کچھ حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھے اور یہ اعلان، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں اُمت محمدیہ کے جو چودہ سو سال گزرے ہیں اس میں تمام خدا تعالیٰ کے مقرب مصلح اور ولی جو ہیں، یہ آواز دیتے رہے ہیں کیونکہ مختلف خطہ ہائے ارض میں ایک چکر کے اندر مسلمانوں کے گروہ غافل ہوتے رہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کے میدان میں ا اور ان کو یہی کہا گیا.مَن ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے والا ہو؟ تاریخ کی باتیں تو دور کی باتیں ہیں، ہماری اپنی زندگی کی ابتدا میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہونے کے لئے ایک جماعت کو قائم کیا تو اس وقت جو ہماری شروع کی تاریخ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو آنے پیش کرنا بھی بڑا بار محسوس کرتا تھا، اس وقت کا ایک مسلمان، ایمان تھا، دعویٰ تھا لیکن بہت سارے ایسے حالات پیدا ہو چکے تھے کہ وہ مالی قربانی کو بالکل بھول چکا تھا.اس واسطے ہمیں نظر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو آپ پر شروع میں ایمان لائے اور انہوں نے مالی قربانی میں حصہ لینا شروع کیا تو جس نے دو آنے دیئے یا چار آنے دیئے ، ان کے نام بھی اپنی کتابوں میں لکھ کے قیامت تک ایک دعا حاصل کرنے کی زندگی انہیں بخش دی.ایک خاندان ایک اور ضمن میں میرے سامنے آیا.ایک شخص اپنے اخلاص سے لنگر خانے میں کام کرتا تھا اور چی کا اور اس کو تین روپے تنخواہ ملتی تھی مہینے کی اور کھانا لنگر خانے میں ملتا ہی ہے ہر ایک کو، اس کا حق ہے اور تین روپے کے اوپر اگر وصیت بھی ہے تو پانچ آنے سے کچھ کم رقم بنتی ہے.ماہانہ.یہ قربانی تھی لیکن اصل قربانی ی تھی کہ اپنی زندگی ایک طرح وقف کی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ فضل کیا کہ اس کے بچوں میں سے پانچ کے متعلق تو مجھے علم ہے کہ ہر ایک آٹھ ، دس ہزار ماہانہ کمانے تو لگ گیا ہے.جس کا باپ تین روپے سے خدمتِ سلسلہ اور خدمت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کر رہا تھا.مَنْ ذَا الَّذِی کیا کوئی ہے؟ یہ نعرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لگایا.اور یہ ایک نعرہ ہے جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ لوگ مالی میدان میں خدمت کا شوق بھول چکے ہیں اور ان میں شوق پیدا

Page 336

۳۳ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کیا گیا اور دوسرا پہلو یہ ہے، ( جو آگے اگلی باتیں میں بتاؤں گا ان میں وہ نمایاں ہوتا ہے ) دوسری بات اس میں یہ کی کہ مالی قربانی کرنے والے کیا ایسے ہیں کہ جو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کردیں؟ يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا پھر جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہ جو دو دو آنے دینے والے تھے ان میں سینکڑوں ہزاروں نے ، جب جائیداد بنائی تو اس کا ایک حصہ دے دیا اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے، جب ضرورت پڑی تو قریباً سارا مال ہی پیش کر دیا.تو اچھا ٹکڑا کاٹ کر دیا.دو آنے سے وسعت پیدا ہوئی اور ہزاروں لاکھوں کی رقم ایک وقت میں دینے والے پیدا ہو گئے.یعنی اب جماعت احمدیہ کے اخلاق اور کردار کا یہ حال ہے روحانی ترقی کے نتیجہ میں کہ صد سالہ جو بلی میں بعض دوستوں نے لاکھوں میں وعدے لکھوائے ہیں.پھیلا ہوا ہے وہ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے وعدہ کیا ہے ہم ہر سال ایک لاکھ روپیہ دیتے چلے جائیں گے.تو انہوں نے یا ان کے آباء نے آنوں میں قربانی دی خدا تعالیٰ نے دولت کے پہاڑ ان کے قدموں میں لا کے رکھ دیئے اور دل میں جو جذبہ تھا قربانی کا اس میں اور جوش پیدا کیا اور اگلی نسل نے آنوں کی قربانی کے مقابلے میں لاکھوں کی قربانی دینی شروع کر دی.تیسری بات اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے حضور پیش کر دو گے فَيُطْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بہت بہت بڑھائے گا.آپ میں سے جو مشاہدہ کرنے والے ہیں اور غور اور فکر اور دور بینی سے اپنے ماحول کا جائزہ لینے والے ہیں ان کے سامنے بہت ساری ایسی مثالیں آئیں گی کہ جو أَضْعَافًا كَثِيرَةً بہت بہت بڑھا کر پیش کرنے والے ہیں.ابھی جو اٹلی اور برازیل کی مساجد کے لئے خدام الاحمدیہ چاہتی تھی کہ ہمیں اجازت دی جائے ہم قربانی پیش کریں ، تو لنڈن کے ایک احمدی نوجوان نے کئی سو پونڈ اپنے بنک سے قرض لے کر دے دیئے.پہلے وعدہ لکھایا، پھر اس کو خیال آیا کہ وعدے سے تو کچھ نہیں بنتا، بنک سے کہا مجھے قرض دے دو.اس کا لین دین بنک والوں سے اچھا تھا، انہوں نے قرض دے دیا اور ( صحیح مجھے یاد نہیں) شاید ایک ہفتہ ہی گزرا تھا ( بہت کم وقت گزرا تھا ) کہ اسی بنک کی طرف سے اس کو چٹھی آئی کہ پچھلے سال ہم نے تمہارا انکم ٹیکس ادا کرنے کے لئے جو قوم کاٹی تھیں غلطی سے زائد کاٹ لی تھیں اور یہ اب ہم تمہیں

Page 337

" ٣٣١ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث واپس کر رہے ہیں اور بالکل وہ رقم جو اس نے چندے میں دے دی تھی اس کا چیک دیا.تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک چھپی ہوئی دولت جو تھی وہ اس کو لوٹا دی اور عملاً ذہنی لحاظ سے اس کو کوئی کوفت یا تکلیف بھی نہیں ہوئی.یہ بھی تکلیف نہیں اللہ تعالیٰ نے پہنچائی کہ میں نے آہستہ آہستہ بنک کو جو قرض واپس کرنا ہے وہ کیسے کروں گا؟ بہت ساری جگہ لمبا سلسلہ چل پڑتا ہے قرض کی ادائیگی میں اور وہ دے دیا.بہت ساری مثالیں ہیں ایسی.تو تیسری بات اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جو شخص اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتا ہے خدا تعالیٰ فیضعِفَهُ لَه أَضْعَافًا كَثِيرَةً ( یہ میں اب ترجمہ نہیں کر رہا، مفہوم بیان کر رہا ہوں ) بہت بہت اضافہ کر کے اس کا مال اسے لوٹاتا ہے.يه أَضْعَافًا كَثِيرةً دورنگ میں سامنے آتا ہے.ایک اس دنیا میں ، اس زندگی میں اور ایک مرنے کے بعد.مرنے کے بعد جو فدائیت اور ایثار خدا تعالیٰ قبول کر لیتا ہے اس کا بدلہ جو ہے وہ تو ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتی.اتنی دولت ہے وہ اتنی قیمت ہے اس عطا کی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (پہلے تو مومنوں کو کہا نا مَنْ ذَا الَّذِی میرے حضور قربانی پیش کرے گا قرضا حَسَنا کی شکل میں.پھر بشارت دیتا ہے کہ میں اسے بڑھاؤں گا.جیسا کہ میں نے ذرا مختصر تفصیل سے بتایا یعنی اختصار بھی ہے تھوڑی تفصیل بھی ہے ) کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.يَقْبِضُ وَ يَبْطُ کہ اس دنیا میں جو اموال خدا بندوں کو دیتا ہے وہ لیتا ہے، دیتا بھی ہے اور اسے بڑھاتا بھی ہے.یہاں لیتا بھی ہے ( یہ عربی کا محاورہ ہے، قرآن کریم کی بہت ساری آیات سے بھی یہ ہمیں پتہ لگتا ہے ) کے معنی ہم یہ کریں گے.وہ لیتا بھی ہے اور کبھی نہیں بھی لیتا.بعض دوسری جگہ اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو بس دنیا کے ہور ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے اچھا! پھر دنیالےلواور ان کو انذار یہ ہے کہ آخری زندگی میں پھر جو تمہارا حال ہو گا خدا کی پناہ.پھر تمہیں پچھتاوا ہوگا کہ کیوں ہم نے یہ حرکت کی.تو اللہ تعالی بعض سے نہیں لیتا ، بعض سے لیتا ہے، جن سے وہ لیتا ہے ان کی شکل دو طرح سامنے آتی ہے، دو شکلیں بنتی ہیں.ایک یہ کہ یبط جو مال لیتا ہے اس میں بڑھوتی کرتا ہے اور ایک یہ شکل ہے کہ مال لیتا ہے اور بڑھوتی نہیں کرتا.سزا کے طور پر ہو تو وہ انعام نہیں نا ملتا.دو

Page 338

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۲ سورة البقرة جو شخص اپنے مال کے بھروسے پر اور اس کو ذریعہ بنا کر خدا تعالیٰ کے منصوبہ کو نا کام کرنے کی کوشش کرے، جب ایسے گروہ سے دولت اللہ تعالیٰ واپس لیتا ہے تو بڑھا کے دینے کا تو سوال نہیں پیدا ہوتا.یہ تو سزا ملی ہے ان کو.تو ویبضط کے بھی دو معنی ہوں گے یعنی ایک ذکر جس کا نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں کہ وہ بڑھاتا ہے اور ساتھ اس کے یہ کہ وہ چاہے تو نہیں بھی بڑھاتا“.اور جن کا مال وہ لیتا ہے اور اپنے فضل اور اپنی رحمت سے یہ مالی قربانی وہ قبول کرتا ہے اور اس قربانی کو قبول کرنے کے نتیجہ میں سبط وہ ان کی دولت کو ، ان کے اموال کو ، مادی اموال کو بھی ، مادی دولت کو بھی ۱ ص وو اور روحانی طور پر بھی جو نعمتیں ہیں ان میں وہ برکت ڈالتا ہے اور بہت بڑھوتی ہے ان میں.یہ جو میں نے دوسری زندگی کے متعلق کہا ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہے اس کی طرف یہی آیت اشارہ کر رہی ہے کیونکہ اسے ختم کیا ( چھٹی بات یہ بتائی).آخر تمہیں اسی کی طرف لوٹایا جائے گا.وَاللهُ يَقْبِضُ وَ يَبْقُطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اور جب اس کی طرف لوٹا یا جائے گا تو جو اموال خدا نے تمہارے قبول کئے ہوں گے.جب تم پیش کرو گے اللہ تعالیٰ قبول کرے گا.جب قبول کرے گا ان میں بڑھوتی کرے گا.جب بڑھوتی کرے گا تو اس زندگی میں بھی وہ اس کا بدلہ دیتا ہے لیکن مرنے کے بعد جو ہے بدلہ وہ تو اس قدر حسین اور وسعتیں رکھنے والا ہے کہ عَرْضُهَا السَّمواتُ وَالْأَرْضُ (ال عمران : ۱۳۴) کہ آسمان وزمین کی دولت ایک آدمی کی جنت کی دولت کے برابر ہے.خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۴۷۰ تا ۴۷۴) آیت ۲۴۸ وَقَالَ لَهُمُ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِحًا قَالُوا إِلى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللهَ اصْطَفْهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَةَ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ b وَالْجِسْمِ وَاللهُ يُؤْتِى مُلكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 66 (۲۴۸ ہمارے ہاں کہتے ہیں اللہ مالک ہے یہ محاورہ بڑا پیارا ہے حقیقت یہی ہے کہ اللہ ہی مالک ہے.اللہ کے سوا وہ کونسی ہستی ہے جو کسی چیز کی بھی مالک ہو اور جو بھی غلبہ اور طاقت ملتی ہے وہ خدا تعالیٰ سے ہی

Page 339

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۳۳۳ سورة البقرة روو ملتی ہے.وَاللهُ يُؤْتِ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة: ۲۴۸) اللہ جسے چاہتا ہے طاقت اور غلبہ اور حکومت دیتا ہے.حکومت سے مراد صرف کسی قوم یا ملک کی بادشاہت نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر ایک گھر کا ایک بادشاہ ہے.اپنے ماحول کا ایک بادشاہ ہے سکول کا ایک بادشاہ ہے یعنی اپنے اپنے ماحول میں ہر ایک کو طاقت اور غلبہ حاصل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ملک اور طاقت اور غلبہ اور بادشاہت تو اللہ کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کا ملہ سے اپنے بندوں میں سے بعض کو کسی نہ کسی رنگ میں غلبہ یا اثر ورسوخ دیتا ہے.طاقت عطا کرتا ہے اس لئے تم اس طاقت اور غلبہ اور اثر کو اسی طرح استعمال کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جس طرح اس نے ایک اور آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكُمُ اللهُ رَبَّكُم لَهُ الْمُلْكُ (فاطر: ۱۴) لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ) التغابن : ۲) یعنی اللہ تعالی رب ہے.ساری بادشاہت اور غلبہ اور طاقت اس کو حاصل ہے جہاں تک تمہارا تعلق ہے لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ تم اپنی زندگیوں کو اس طرح گزارو کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اور اس کے مالک ہونے کا احساس دنیا میں پیدا ہو اور یہ احساس پیدا ہو کہ وہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے کیونکہ جو اس کے بندے بن جاتے ہیں وہ ایسے کام کرتے ہیں کہ انسان کو مجبور ہو کر ان کی تعریف کرنی پڑتی ہے اور جب انسان کو مجبور ہو کر اللہ کے بندوں کی تعریف کرنی پڑتی ہے تو اللہ جس نے اس بندہ کو پیدا کیا کس قدر تعریف اور حمد کا مستحق ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی طاقت کے استعمال میں تمام بدیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائے کہ انسانی عقل اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ جس اللہ کی طرف یہ منسوب ہونے والا ہے اس کی حمد.اس کی تعریف الفاظ اور بیان سے باہر ہے.ایسے انسان میں تکبر نہیں پیدا ہوتا کیونکہ جب انسان اس یقین پر قائم ہو کہ تمام طاقت اور غلبہ اور بادشاہت اللہ کی ہے.وَاللهُ يُؤْتِي مُلكَهُ مَنْ یشاء انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی منشا اور ارادہ سے ملتا ہے تو پھر اس کی اپنی تو کوئی خوبی نہ رہی.اس لئے اس کی زبان پر اپنی بڑائی کی بجائے لا فخر کا نعرہ ہوتا ہے.یعنی وہ کہے کہ مجھ میں کوئی فخر کی بات نہیں.میں اپنے اندر کوئی خوبی نہیں پاتا.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے رحم اور فضل سے مجھے یہ عطا کیا ہے اور ایسا شخص کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اللہ ی مخلوق کو دکھ پہنچانے والا ہو.ایسا انسان کبھی ظالم نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس یقین پر کھڑا ہوگا کہ بادشاہت اللہ کی ہے.اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت

Page 340

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۴ سورة البقرة سے (باپ ہونے کی حیثیت سے، ماں ہونے کی حیثیت سے، ماسٹر ہونے کی حیثیت سے یا پرنسپل ہونے کی حیثیت سے، اپنی جماعت کے صدر یا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے یا دوسری ہزار حیثیتوں میں ) انسان کو طاقت اور غلبہ ملتا ہے صرف کسی ملک یا قوم کی بادشاہت کی حیثیت سے ہی نہیں.انسان یہ کہتا ہے کہ یہ طاقت اور غلبہ تو دراصل خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے.وہی ہر چیز کا مالک ہے اس نے مجھے طاقت اور غلبہ میں جس کا وہ منبع اور سر چشمہ اور حقیقی مالک ہے اس لئے شامل کیا ہے کہ میں اس کی مخلوق کی بھلائی کے کام کروں.ایسا انسان ظلم کر ہی نہیں سکتا.لا خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۸۵ تا ۵۸۷) آیت ۲۵۰ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنَى وَمَنْ لَمْ يَطْعَمَهُ فَإِنَّهُ مِنّى إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةٌ بِيَدِهِ فَشَرِ بُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَةً هُوَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً لا لا بإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصُّبِرِينَ.۲۵۰ اب میں اس واقعہ کو لیتا ہوں جو گزشتہ ستمبر میں ہماری قوم اور ہمارے ملک پر گزرا.۶ ستمبر کو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے نہایت ظالمانہ طور پر اور فریب سے کام لیتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا.سترہ دن تک یہ جنگ لڑی گئی.یہ جنگ عام معمولی جنگوں کی طرح نہیں تھی بلکہ اس میں ہمیں بعض ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو اسے ایک خاص قسم کی جنگ بنا دیتی ہیں کیونکہ دوران جنگ پاکستانی قوم پر اللہ تعالیٰ کے مختلف اقسام کے افضال اور برکتیں نازل ہوتی نظر آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کارخیر کنند دعویٰ حُبّ پیمبرم ( در ثمین فارسی صفحه ۱۰۷)

Page 341

تفسیر حضرت خلیفہ امسیح الثالث آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا ۳۳۵ سورة البقرة اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے الم ترَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحب الفيل (الفيل : ۲) یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کونسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید و ناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا.یعنی اُن کا مکر اُلٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورہ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں.ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے.....اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں اسلام غریب ہے اور اصحاب فیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے چڑیوں سے وہی کام لے گا.‘ ( الحکم ۷ ارجولائی ۱۹۰۱ صفحہ ۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ہمیں بتایا ہے کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا سوال پیدا ہو گا.اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والوں کی کمزوریوں کو نظر انداز کر دے گا اور اپنے اس مقدس بندے کی عزت اور ناموس کی خاطر اس کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ وو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ ۴۰۴)

Page 342

۳۳۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث سو پاکستان وہ قلعہ ہند ہے جس پر بھارت نے حملہ کیا تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُترے اور مسلمانوں کی تائید میں اترے اس کے نتیجہ میں بھارت کو ذلت آمیز شکست دیکھنی پڑی.جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی.بھارت اور پاکستان کا فوجی لحاظ سے کوئی باہم مقابلہ تھا ہی نہیں.آج کل جنگی نقطۂ نگاہ سے ہوائی جہازوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور بھارت کے ہوائی جہاز ہم سے چھ گنا زیادہ تھے اور پھر وہ ہمارے جہازوں سے اچھے تھے.تیز رفتار تھے اور ان کے پیچھے بڑی ٹرینگ تھی لیکن خدا تعالی فرماتا ہے.كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللهِ کہ میں یہ اذن آسمان سے نازل کرتا ہوں کہ یہ تھوڑی تعداد والے جہاز بڑی تعداد والے جہازوں پر غالب آئیں گے اور یہ ایک حقیقت ہے ایک واقعہ ہے جسے ہم نے دیکھا اور خود مشاہدہ کیا حالانکہ یہ ایک ایسی بات ہے جسے بظاہر انسانی عقل تسلیم نہیں کرتی لیکن جو واقعہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہوا.اس کو جھٹلا نہیں جاسکتا.پاکستان کی فضائیہ کے پاس جنگی جہاز بڑی کم تعداد میں تھے پھر بھی انہوں نے ایک ایسی حکومت سے مقابلہ کیا جس کے پاس ان سے چھ گنا زیادہ جنگی جہاز تھے انہوں نے اپنی تعداد کے برابر یا اس کے کچھ زیادہ دشمن کے جہازوں کو تباہ کر دیا اور ہمارے صرف بارہ ہوائی جہاز دشمن کے حملہ سے تباہ ہوئے.ہمارے ایک ہوا باز نے ایک وقت میں دشمن کے پانچ جہاز مار گرائے.جب اخباری نمائندہ اس کے پاس انٹرویو کے لئے آیا تو اس نے کہا میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مجھے تو صرف اتنا علم ہے کہ ایک وقت میں بھارت کے پانچ جہاز میرے سامنے زاویہ بنا کر لڑے میں بھی ان کے پیچھے اسی زاویہ میں مڑ گیا پھر یکدم میرے سامنے اندھیرا آ گیا میں نے اپنے جہاز کا ایک خاص بٹن دبا دیا اور کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ان میں سے چار جہاز نیچے آرہے تھے اس نے یہ بھی کہا مجھے اپنے کارنامہ پر نہ کوئی فخر ہے اور نہ میں اسے اپنی ذات سے منسوب کرتا ہوں یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے اس وقت فرمایا.خطابات ناصر جلد ا صفحه ۲۲ تا ۲۴) آیت ۲۵۱ ۲۵۲ وَ لَمَّا بَرَزُوا لِجَارُوتَ وَ جُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِعْ ط عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ فَهَزَمُوهُمْ (۲۵۱

Page 343

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۷ سورة البقرة باذْنِ اللهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَاللهُ اللهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَمَة لا مِمَّا يَشَاءُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَاتِ الْاَرْضُ وَلكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِينَ ۲۵۲ یہ دعا قرآن کریم میں روایتاً ہی بیان ہوئی ہے لیکن اللہ تعالی ہی انبیاء علیہم السلام کو دعائیں سکھاتا رہا ہے اور جب ان کو قرآن کریم میں دوہرایا گیا ہے تو اسی غرض سے دو ہرایا گیا ہے کہ ایک مسلمان بھی ان دعاؤں کی طرف متوجہ ہو اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دعا میں یہ سکھایا ہے کہ یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا! ہمیں کمال صبر عطا کر اور ہمیں ثبات قدم بخش.پاؤں میں کبھی لغزش نہ آئے اور وہ جو تیرے اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اور مخالف اور تیری توحید کے خلاف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے خلاف منصوبے باندھنے والے اور سازشیں کرنے والے ہیں ان کے مقابلہ میں خود ہماری مدد کو آتا کہ تیری توحید قائم ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت کو انسان کا دل تسلیم کرنے لگے اور وہ آپ کی برکات اور فیوض سے حصہ لے.أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبُرا - آفرغ کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ جب کنوئیں سے ڈول میں پانی نکالا جائے تو اس کو اس طرح اُنڈیلا جائے کہ وہ خالی ہو جائے.یعنی پورے کا پورا پانی ڈال دیا جائے.پس اس ڈول کو خالی کر دینے کو افراغ کہتے ہیں.آفرغ عَلَيْنَا صَبُرا کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمیں صبر کا کمال عطا کر ہم پر سارے کا سارا صبر نازل کر.قرآنی محاورہ میں صبر کے بہت سے معانی ہیں.صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے نفس کو سختی کے ساتھ احکام شریعت کا پابند بنایا جائے اور ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کے خلاف کمال مجاہدہ کیا جائے.یعنی اوامر کی اتباع اور پیروی اور تعمیل احکام اور جونواہی ہیں ان سے پورے طور پر بچنا اور اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کرنا کہ وہ کہیں ہوائے نفس کا شکار نہ بن جائے اور یہ سب کچھ رضائے الہی کی خاطر کرنا.تو یہ دعا ہے کہ اے خدا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا ہمیں اس رنگ میں کمال صبر عطا کر کہ ہم تیری

Page 344

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۳۸ سورة البقرة شریعت کے کامل اور بچے متبع بن جائیں اور وہ راہیں جو تیری ناراضگی کی طرف لے جانے والی ہیں ان راہوں کو اپنے نفس پر گلی طور پر مسدود کر لیں.ہوائے نفس کا شکار نہ بنیں اور یہ اس لئے نہ کریں کہ ہمیں دنیا کے اموال ملیں اور ہمارے دل میں اس دنیا کی لذتوں کی جو خواہش ہے وہ پوری ہو بلکہ یہ اس لئے کریں کہ ہمیں تیری رضا مل جائے.اللہ تعالیٰ نے فرما یا آفرغ عَلَيْنَا صَبْرًا کی یہ دعا کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ اوامر پر کار بند ر ہو اور نواہی سے بچتے رہو کہ عمل کی توفیق اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور دعا سے اسے حاصل کرنا چاہیے.صبر کے ایک معنی یہ ہیں (اگر اس پہلے معانی کو دو کہہ دیں یعنی شریعت کے احکام کی پابندی اور نواہی سے بچنا تو ) اس کے تیسرے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصائب آئیں ان سے انسان گھبرائے نہیں بلکہ انہیں بشاشت کے ساتھ برداشت کرے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم میری شریعت پر عمل کرو گے اور منکر سے بچو گے.جب تم میری بتائی ہوئی تعلیم کی دنیا میں اشاعت کرو گے.جب وہ دنیا جو نفس پرستی اور عیش پرستی میں محو ہے ان کو ان کی برائیوں سے روکو گے تو یقیناً وہ تمہارے خلاف ہر قسم کے منصوبے کریں گے.سازشیں کریں گے ان کے شر سے بچنے کیلئے مجھ سے دعا کرو.أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبُرا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے منہ کی خاطر تیرے حکم پر کار بند ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور تیری ناراضگی کے خوف سے تیری بتائی ہوئی نواہی سے بچتے ہیں لیکن ہمیں یہ اندھی دنیاستا نے لگ جاتی ہے.ہمیں دکھ دینے لگ جاتی ہے یہ نہیں چاہتی کہ تیرا بول بالا ہو.تیری شریعت قائم ہو.یہ اندھی دنیا نہیں چاہتی کہ اسلام کی جو مسرتیں ہیں وہ انہیں ملیں کیونکہ اس طرح انہیں دنیا کی مسرتیں اور لذتیں اور عیش چھوڑنے پڑتے ہیں.ہم تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اگر اس راہ میں مصائب آئیں جیسا کہ الہی جماعتوں پر آیا کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے فضل سے یہ توفیق دینا کہ ہم ان مصائب کے مقابلہ میں صبر سے کام لیں اور ہمارے دل گھبرا نہ جائیں اور ہم ان مصائب کے وقت ایسا نمونہ دکھا ئیں کہ دنیا پر ان کا اچھا اثر ہو اور دنیا یہ سمجھنے لگے کہ جب خدا کے اتنے کمزور بندے ہر قسم کے مصائب کو برداشت کر رہے ہیں تو ضرور کوئی بات ہے ان کی توجہ اس طرف پھرے کہ یہ تہی دست اور قوتوں سے خالی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ایسی قوت اور طاقت ہے جس قوت اور طاقت کا انسان مقابلہ نہیں کر سکتا.

Page 345

۳۳۹ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث پس صبر کے ایک معنی ہیں دشمن کے منصوبوں اور سازشوں کا حو صلے اور جرات کے ساتھ مقابلہ کرنا.اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہا کرو کہ اے ہمارے ربّ! أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا جو منصو بے اسلام کے خلاف باندھے جائیں جو سازشیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جائیں تو ہمیں حوصلہ اور جرات عطا کر کہ ہم ان کا مقابلہ کریں اور انہیں تیرے فضل سے ناکام بنا دیں.پھر صبر کے چوتھے معنی اس امتحان کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا لیتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ صرف ایمان کا اقرار اور دعویٰ یا اعلان جو ہے وہ تمہارے کام نہیں آئے گا.تمہارے ایمان کی صداقت کو پر کھنے کیلئے تمہارا امتحان لیا جائے گا اور وہ امتحان مختلف طریقوں سے ہوگا.ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی حوادث زمانہ کی شکل میں امتحان کا پرچہ ڈالے گا.بچے فوت ہو جائیں گے.حوادث آئیں گے فصلیں تباہ ہو جائیں گی.تجارتوں میں گھاٹے پڑیں گے لوگ طعنے دیں گے کہ مسلمان ہو گئے، احمدی ہو گئے دیکھو! تمہیں کتنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو خالی دعوی کافی نہیں بلکہ اللہ تعالی تمہارا امتحان لے گا اور تمہیں حوادث زمانہ کا سامنا کرنا پڑے گا.اس وقت پورے صبر سے ان حوادث کو برداشت کرنا تمہارا کام ہے.تمہارا سینہ ایسے امتحان کے وقت تنگ نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمہارے سینہ میں ایک بشاشت پیدا ہونی چاہیے کہ خدا نے میرا امتحان لیا اور خدا نے اپنے فضل سے مجھے توفیق دی کہ میں اس کے اس امتحان میں کامیاب ہو جاؤں.فَالْحَمْدُ لِلهِ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہو أفْرِغْ عَلَيْنَا صَبُرا کہ اے ہمارے رب ! تو جب بھی ہمارا امتحان لینا چاہے ساتھ ہمیں اس کی توفیق بھی دے کہ ہم تیرے اس امتحان میں کا میاب بھی ہوں اور جو ہمارے حقیر اعمال ہیں ان کا نتیجہ تیری خوشنودی اور رضا کی شکل میں نکلے.صبر کے پانچویں معنی ہیں زبان پر قابورکھنا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہو ا فْرِغْ عَلَيْنَا صَبُرا کہ اے خدا! ہمیں اس بات کی قوت بخش کہ ہم اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھیں اور اسلام کی اشاعت میں اور اسلام کے حق میں جو جدو جہد کی جائے اس کے وہ پہلو جو اخفاء میں رکھے جانے چاہئیں ہم انہیں اخفاء میں رکھیں ، ان کو ظاہر نہ کریں اور تو نے ہماری زبان پر جو پابندیاں لگائی ہیں ہم صبر کے ساتھ ان پابندیوں کو اُٹھانے والے ہوں.صبر کے چھٹے معنی ہیں برداشت کے ساتھ انتظار کرنا، بےصبری نہ دکھانا.

Page 346

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۰ سورة البقرة سواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دعا کرتے رہا کرو کہ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا اے ہمارے رب ! ہمیں کمال صبر عطا کر.تو نے ہم سے بہت سے وعدے کئے ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہوں گے ایسا نہ ہو کہ ہمارے نفس جلدی کی خواہش کریں اور وہ یقین جو ایک مومن کے دل میں اپنے رب کے وعدوں پر ہونا چاہیے وہ یقین قائم نہ رہے اور ہم بے صبری دکھا ئیں اور پھر بے صبری کے نتیجہ میں ایسے بول بول دیں یا ایسے اعمال کرلیں جو تجھے ناراض کر دیں اور ہم تیری بشارتوں سے محروم ہو جا ئیں.پھر تو کوئی اور قوم یا کوئی اور نسل پیدا کرے جو تیرے وعدوں کی حامل ہو.جن کے حق میں تیری بشارتیں پوری ہوں.اے خدا! ایسا نہ ہو بلکہ ہمیں صبر کے ساتھ انتظار کرنے کی توفیق عطا کر اور ہمیں اس میں بھی کمال بخش تاہم بے صبری کی مضرات سے بچنے والے ہوں اور صبر کے ساتھ تیرے وعدوں کا انتظار کرنے والے ہوں کیونکہ تو اپنے وعدوں کا سچا ہے تو نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو تمام دنیا میں تو غالب کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت سب انسانوں کے دلوں میں بٹھائے گا.اس آسمانی فیصلے کا اس دنیا میں اجراء تو ضرور ہوگا لیکن اپنے وقت پر ہوگا.اس کیلئے ہمارے امتحان لئے جائیں گے اس کیلئے ہم سے مجاہد ے طلب کئے جائیں گے.اس کے لئے ہمیں مصائب میں سے گزرنا پڑے گا.اس کیلئے ہمیں ان منصوبوں اور سازشوں کے خلاف تدابیر کرنی پڑیں گی جو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جارہی ہیں.اے خدا تو ہمیں ہر حالت میں اور ہر معنی میں صبر کی توفیق عطا کر ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ شَيْتُ أَقْدَامَنَا صبر کے جو مختلف معنی مفردات راغب میں بیان کئے ہیں وہ دراصل مختلف آیات قرآنی کی تفسیر ہی ہیں اور جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ان معانی کو خود قرآن کریم میں پاتے ہیں جیسا کہ سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَكِمِينَ (يونس: ١١٠) اس میں پہلے معنی جو شریعت کے احکام پر سختی سے کار بند رہنے کے ہیں.اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے.قرآن کریم کی شریعت نے جو احکام تمہارے سامنے رکھے ہیں ان کی اتباع کرو.واصبر اور پورے مجاہدہ کے ساتھ ، پورے زور کے ساتھ اپنے نفسوں کو احکام شریعت کا جو دائرہ ہے اس کے اندر باندھے رکھو اور قید رکھو.بے قیدی کی زندگی نہ گزارو.یعنی اتباع وحی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں صبر سے کام لو.یعنی پورے طور پر اپنے نفسوں پر زور دے کر شریعت کی

Page 347

۳۴۱ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث پابندی کرو اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھو اور بے قید زندگی گزارنے کی کوشش نہ کرو.وَاصْبِرُ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ اور اس میں چھٹے معنی بھی آجاتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں کہ تم صبر کے ساتھ انتظار کرو.ہوگا وہی جو خدا نے چاہا اور پسند کیا.ہوگا وہی جس کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے لیکن ہوگا وہ اپنے وقت پر.اس واسطے بے صبری نہ دکھاؤ.صبر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر لے....صبر کے ایک معنی مصائب کو خدا کی راہ میں برداشت کرنا اور ان پر گھبراہٹ ظاہر نہ کرنا ہے.اس کے متعلق سورہ لقمان میں فرمایا - وَاصْبِرُ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (لقمان: ۱۸) کہ تجھے خدا کی راہ میں جو تنگی و ترشی، دکھ اور مصیبت پہنچے اس پر صبر سے کام لے اور یقیناً یہ بات ہمت والے کاموں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں ہی کو پسند کرتا ہے جن کے اندر ایک عزم ہوتا ہے جن کے اندر یہ یقین ہوتا ہے کہ میں خدا کے لئے اپنی زندگی گزار رہا ہوں اور جو شخص خدا کے لئے اپنی زندگی کو گزارتا ہے وہ ناکام اور نامراد نہیں ہوا کرتا بلکہ اللہ تعالی کی بشارتیں اس کے حق میں پوری ہوتی ہیں اور وہی جماعت آخر کار دنیا میں کامیاب ہوتی ہے جس جماعت کے متعلق خدا تعالی کا یہ وعدہ ہو کہ وہ اسے کامیاب کرے گا.......میں نے کہا ہے کہ صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے.زبان زیادہ تر اس وقت بے قابو ہوتی ہے جس وقت ایک دوسری بے قابو زبان انسان پر اندھا دھند وار کر رہی ہوتی ہے.طبیعت میں ایک جوش اور غصہ پیدا ہوتا ہے اور زبان سختی کے مقابلہ میں سختی کی طرف جھک جاتی ہے لیکن ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ ( طه : ۱۳۱) جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں تمہیں غصہ تو آئے گا.تمہارے نفسوں میں جوش تو پیدا ہو گا.تمہاری زبان بے قابو ہونے کے لئے تڑپ رہی ہوگی مگر اس زبان پر وہ لگام ڈالے رکھو جو لگام میں نے تمہیں دی ہے.اسے بے قابو نہ ہونے دو.....ان آیات میں جو میں نے بعد میں دوستوں کے سامنے رکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے صبر کے مختلف معانی اور اس کی حکمتیں بیان کی ہیں رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبرًا الخ دعائیہ الفاظ میں ہے ہمیں اس طرف متوجہ کرنے کیلئے اور ہمارے دل میں ایک تڑپ پیدا کرنے کیلئے کہ ہمیں صبر کے حصول کیلئے دعا کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ سورہ نحل ( آیت : ۱۲۸) میں فرماتا ہے: واصبر صبر کر ولیکن اللہ کی توفیق کے بغیر تم صبر نہیں کر سکو گے.وَمَاصَبُرُكَ إِلَّا بِاللہ اللہ کی مدد کے بغیر تم صبر کر نہیں سکتے اس واسطے جب

Page 348

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۲ سورة البقرة ہمارے اس حکم کی تعمیل کرنا چاہو کہ صبر سے کام لو تو تمہارے لئے ضروری ہو کہ خدا کے حضور جھکو کہ اے خدا! تو نے ہمیں ( ان تمام معانی میں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے ) صبر کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ہم کمزور ہندے جانتے ہیں اور تو بھی جانتا ہے کہ اپنے طور پر صبر کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں اس لئے تو ہماری مددكر - وَمَا صَبْرُكَ إِلا بالله کے تقاضا کے مد نظر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھا دی کہ ربنا افرغ علينا صبرا الخ اے ہمارے رب! ہمیں کمال صبر عطا کر کیونکہ خود ہی دوسری جگہ فرمایا تھا.وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللہ اللہ کی مدد کے بغیر صبر نہیں ہو سکتا.صبر کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ کی مدد کو اگر ہم اپنے الفاظ میں حاصل کرنے کی کوشش کریں تو الفاظ کے نقص کی وجہ سے شاید اس کو پانہ سکیں.اس لئے ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی دعا کے ذریعہ صبر کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں جو دعائیں ہوتی ہیں وہ کامل ہوتی ہیں اس لئے اس کامل دعا کے نتیجہ میں اگر ہم خلوص نیت کے ساتھ اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ اس دعا کو کریں اس حقیقت اور ان معانی کو سمجھتے ہوئے جو اس میں بیان کئے گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ دعا ہمارے حق میں پوری ہو جائے گی اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود وہ دعا سکھا دی یہ بتانے کے بعد کہ وَمَا صَبُوكَ إِلَّا بِاللهِ صبر خدا کی مدد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.اللہ کی مدد کیسے حاصل کرنی ہے؟ خدا تعالیٰ کہتا ہے دعا میں تمہیں سکھا دیتا ہوں جو یہ ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبرًا اب اس سے فائدہ اُٹھانا تمہارا کام ہے اور اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمُ (النحل : ۱۲۸) کہ جب خدا کی مدد اور خدا کے فضل سے اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں جو صبر کے حصول کے لئے ہم نے تجھے سکھائی ہے تو صبر کی طاقت پائے تو ولا تَحْزَنْ عَلَيْهِم دشمن کے جو حالات ہیں وہ تجھے اس غم میں نہ ڈالیں کہ کہیں اسلام کو وہ نقصان نہ پہنچا دیں اور جو تدبیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تو کوئی تکلیف محسوس نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میری ہدایت کے مطابق تم صبر کرو گے تو میں تمہارے اس غم کو دور کرنے کے سامان پیدا کر دوں گا کہ کہیں دشمن اپنی مخالفانہ تدابیر میں کامیاب نہ ہو جائے اور تمہیں دل کے اس درد اور دل کے اس احساس سے بھی نجات دے دوں گا کہ منا يمكرُونَ (النحل: ۱۲۸) ان کی جو سازشیں ہیں ان سے اسلام کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کہیں نقصان نہ پہنچ جائے.نہ ان کے مکر کامیاب ہوں گے نہ ان کے منصوبے اپنی مراد کو پہنچیں گے.اگر تم میری ہدایت کے مطابق صبر سے کام لو گے اور اس صبر کو دعا کے

Page 349

۳۴۳ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث الثالثة ذریعہ سے کمال طور پر حاصل کر لو گے تو پھر جو دشمن کے منصوبے اور سازشیں ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گی.تمہیں جو خوف اور غم ہے وہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ یا درکھو کہ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ ( البقره : ۱۵۴) اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے..........دوسرے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ثبت اقدامنا پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرو اور صبر پر دوام کے حصول کے لئے بھی دعا کر د یعنی یہ بھی دعا کرو کہ تمہیں کمال صبر کی توفیق ملے اور یہ بھی دعا کرو کہ تمہیں صبر پر دوام کی توفیق بھی ملے.ہمیشہ ملتی رہے یہ نہیں کہ چند سال تو خدا کے لئے تکالیف برداشت کر لیں اور پھر دل ٹوٹ گیا اور ہمت ہار بیٹھے اور جو کچھ حاصل کیا تھا وہ بھی کھو بیٹھو اور انجام بخیر نہ ہوا.اس واسطے ثبات قدم کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو اور ثبات قدم خدا کے فضل سے اس کو ملتا ہے جو صبر سے کام لیتا ہے.سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُثَبِّتُ اقدامكم (محمد: ۸) اے مومنو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو یقینا تمہیں اس کی مدد حاصل ہو جائے گی اور جب اس کی مدد حاصل ہوگی تو تمہیں ثبات قدم بھی مل جائے گا.یہاں اِنْ تَنْصُرُوا اللہ کا فقرہ استعمال کیا گیا ہے اور مفردات راغب ہمیں بتاتی ہے کہ جب قرآن کریم نے یہ محاورہ استعمال کیا ہو کہ انسان اگر اللہ کی مدد کرے.وہ اللہ جو کہ قادر مطلق اور غنی اور بے نیاز ہے اس کو اللہ کی مدد ملتی ہے تو جب یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہو کہ جو شخص اللہ کی مدد کرے تو یہ نتیجہ نکلے گا یا وہ نتیجہ نکلے گا تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کا محتاج ہے بلکہ اس کے معنی ہوتے ہیں.اول یہ کہ اس کے بندے کی مدد کرے.دوسرے یہ کہ اس کے دین کی مدد کرے.تیسرے یہ کہ اپنی مدد کرے اللہ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کرنے سے اپنی مدد کرے اس عہد کی رعایت کرنے سے جو اس نے اپنے رب سے باندھا ہے پس اللہ کی مدد کرنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کا جوا اپنی گردن پر رکھ لے اور جن باتوں سے اللہ نے اسے روکا ہے ان سے وہ بچے ، یہ معنی ہیں اللہ کی مدد کرنے کے اور یہی معنی جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں صبر کرنے کے ہیں.یعنی صبر اور نصرت ایک مفہوم کے لحاظ سے قریباً ہم معنی ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر چہ یہاں نصرت کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن اس معنی میں استعمال کرتا ہے جس معنی میں صبر کے لفظ کو بھی استعمال کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں

Page 350

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۴ سورة البقرة دو بالفاظ دیگر یہ فرمایا کہ ان تَنْصُرُوا اللہ اگر تم صبر سے کام لو گے ینصرکم تو وہ تمہاری مدد کو آئے گا اور اُس کی مدد کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں نیکیوں پر دوام حاصل ہو جائے گا.تمہیں مصائب کے برداشت کرنے کی اور دکھوں اور سازشوں اور دشمن کے مکر کے برداشت کرنے کی اور زبان کو قابو میں رکھنے کی دائمی قوت عطا ہو جائے گی ، ثبات قدم عطا ہوگا یعنی یہ نہیں کہ ایک سال تو نہیں طاقت ملی اور اگلے سال پھر تم جہنم میں چلے جاؤ بلکہ جب تم اللہ کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہارا ثبات قدم تمہیں اس جنت سے پھر نکلنے نہیں دے گا کیونکہ وقت جو بھی تقاضا کرے گا تم اس کو پورا کرنے والے ہو گے.آج کا دن اسلام کے غلبہ کے لئے جو تقاضا کرتا ہے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس کو پورا کرے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر صبر سے کام لو گے تو تمہیں ثبات قدم عطا ہوگا.پھر تم نیکیوں پر ایک دوام پاؤ گے اور رضائے الہی کے حصول کے بعد تمہیں اس کی ناراضگی کبھی نہیں ملے گی.پھر فرمایا : وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اسلام کا جو منکر اور مخالف ہے وہ اسلام کو کمزور کرنے کیلئے جو بھی تدبیر کرے اس کے خلاف ہماری مدد کر.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں مرد تو کرتا ہوں لیکن میں مددان لوگوں کی کرتا ہوں جو میرے احکام کو مانتے اور میری خاطر اور میرے حضور ہر قسم کی مطلوبہ قربانیوں کو پیش کرتے ہیں اور تم اس کی توفیق بھی مجھ سے ہی پاسکتے ہو اس لئے تم دعا کرتے رہا کرو.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ پس میں آج اس دعا کے کرنے کی تحریک کر رہا ہوں.اس دعا کے جو وسیع معانی ہیں میں نے ان کو ایک حد تک بیان کر دیا ہے.ان معانی کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جس حد تک ممکن ہو یہ دعا کریں.میں چاہتا ہوں کہ آپ دن میں کم از کم ۳۳ بار یہ دعا کیا کریں.اس پر زیادہ وقت نہیں لگے گا اور یہ کام زیادہ قربانی نہیں چاہتا لیکن اگر آپ ان معانی کو ذہن میں رکھ کر یہ دعا کریں تو یہ بات بڑی برکتوں کا موجب ہوگی.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۵۰۵ تا ۵۱۵) أفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ شَيْتُ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اے ہمارے رب ہم پر قوت برداشت نازل کر صبر عطا کر اور ہمیں ثبات قدم عطا کر اور منکر مخالف کے خلاف ہماری مدد کر.صبر کے معنی عربی زبان اور قرآنی محاورہ میں بڑے وسیع ہیں.صبر کے معنی ہیں عقلی قوانین

Page 351

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۵ سورة البقرة اور شریعت کے احکام کی روشنی میں اپنے نفس کو قابو میں رکھنا یہ ہے صبر اور مختلف شکلوں میں یہ ہماری زندگی میں ابھرتا ہے.مثلاً اگر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو اس پر بھی صبر کرتا ہے انسان میدانِ جنگ ہو تو مومنانہ شجاعت کے مظاہرے کو عربی زبان اور قرآنی اصطلاح صبر کہتی ہے.میدان جنگ میں اور ثبات قدم.اگر قضا و قدر کے امتحان و ابتلا میں مبتلا ہو کوئی شخص جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں آزماؤں گا.تو ایسے امتحان کے وقت بشاشت قلب سے اس ابتلاء کو برداشت کرنا یہ بھی صبر ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا یہ بھی صبر ہے.بے موقع اور بے محل بات سے رکے رہنا.زبان کو قابو میں رکھنا اس کو بھی صبر کہتے ہیں.یعنی ہر پہلو سے جہاں نفس کو قابو میں رکھنا ہو عقل کے قانون کے ماتحت یا شریعت کے احکام کے نتیجہ میں.عربی زبان اور قرآن کریم کی اصطلاح اسے صبر کہتی ہے.تو رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبُرا میں یہ دعا ہوئی کہ اے خدا!! ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے نفس کو اس طرح قابو میں رکھیں کہ کبھی بھی وہ بے قابو ہو کر تیری ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.( خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۳۰۴) آیت ۲۵۴ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُم مَّنْ كَلَمَ اللهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ ايَّد لهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنْتُ وَلكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّنْ كَفَرَ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ قف rom اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن عظیم میں نبوت اور رسالت کے متعلق بہت سی بنیادی باتیں بتائی ہیں.میں اس وقت اُن میں سے بعض کا ذکر کروں گا.پہلی بات ہمیں یہ بتائی گئی ہے کہ انبیاء اور مرسلین میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بعض اس کے علاوہ بھی انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت کا ذکر آتا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کی

Page 352

۳۴۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث تفصیل نہیں بتائی البتہ بعض باتیں بتائی ہیں اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض باتوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی مثلاً تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ( جو تیسرے سپارے کی پہلی آیت ہے اس میں فضیلت کی ایک وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ بعض انبیاء صاحب شریعت ہوتے ہیں اور بعض انبیاء صاحب شریعت نہیں ہوتے.شاید بعض دوسری جگہ کوئی دوسری وجہ فضیلت بیان ہوئی ہولیکن اس وقت میرے ذہن میں مستحضر نہیں لیکن قرآن کریم سے ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فضیلت کی بعض وجوہ کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی باوجود اس کے کہ بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی گئی ہے پھر بھی ہمیں یہ بتایا گیا ہے لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقرۃ: ۲۸۲) یعنی فی نفسِ رسالت رسول اور رسول میں فرق نہیں کرنا.اسی قسم کی بعض دوسری آیات میں بھی اسی قسم کا مفہوم بیان ہوا ہے.پس فضیلت بھی ہے اور ان رسل میں فرق بھی نہیں کرنا یعنی نفسِ رسالت میں کوئی فرق نہیں ہے جو صاحب شریعت رسول ہے اور جو صاحب شریعت رسول نہیں ان دونوں رسالتوں میں نفسِ رسالت میں کوئی فرق نہیں دونوں رسول ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنی حکمت کا ملہ سے مختلف زمانوں اور مختلف ممالک میں بسنے والی قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا.ان میں ایک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے بھی ہیں جن کو ساری دُنیا کی طرف سارے زمانوں کیلئے اور تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے بھیجا گیا.بایں ہمہ نفسِ رسالت میں ان میں اور دیگر رسل میں کوئی فرق نہیں.پس فضیلت بھی ہے نفسِ رسالت میں کوئی فرق بھی نہیں ہے.یہ رسل کے بعض بنیادی حقائق ہیں جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر قرآن عظیم صرف رسول کہتا تو نفس رسالت میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی فرق نہ رہتا یا حضرت بیٹی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان نفسِ رسالت میں کوئی فرق نہ رہتا اگر چہ فضیلت اپنی جگہ پر ہوتی لیکن اتنی نمایاں فضیلت کہ جو تمام انبیاء سے آپ کو ممتاز کر دے اس کی ہمیں سمجھ نہ آتی.اس لئے قرآن کریم نے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کہہ کر رسالت کے مقام پر تمام رسل اور انبیاء کے برابر کھڑا کر دیا وہاں آپ کو ایک اور اعلیٰ مقام عطا فر ما یا جس کا ذکر سورۃ احزاب کی آیت ۴۱ میں موجود ہے.اس لحاظ سے آپ رسول بھی ہیں

Page 353

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۷ سورة البقرة اور خاتم الانبیاء بھی ہیں.خاتم الانبیاء یا ختم المرسلین ختم نبوت یا ختم رسالت کا جو مقام ہے اسے اسلامی خاتم اصطلاح میں مقام محمد بیت کہتے ہیں اور اس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منفرد ہیں.یہ وہ فضیلت نہیں جس کا فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ میں ذکر ہے نسبتی فضیلت میں بھی نسبتی لحاظ سے اوّل اور آخر ہوتا ہے.اگر نفسِ رسالت میں کوئی فرق نہ ہو اور چشم تصور میں تمام انبیاء ا یک میدان میں کھڑے ہوں تو مشرق کی طرف سے دیکھیں گے تو شمال والا آخری ہوگا.جنوب کی طرف سے دیکھیں گے تو جو نبی غربی کونے میں ہے وہ آخری نبی ہوگا.پس ایک تو یہ نسبتی طور پر آخری ہے.اس میں کسی فضیلت کا ذکر نہیں بلکہ یہ ایک نسبتی چیز ہے جس زاویہ سے آپ دیکھیں گے مقابلہ کی انتہا آخری بن جاتی ہے.پس فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ایک بنیادی حقیقت ہے اور لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ بھی اپنی جگہ ایک بنیادی حقیقت ہے دراصل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیدا کرنے والے ربّ کے حضور جو منفرد مقام حاصل تھا اس کے اظہار کے لئے آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے تم النبین یعنی مقام محمدیت قرب اتم کا مقام ہے.بالفاظ دیگر آپ صفات باری کے مظہر اتم تھے.یہ شرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے دوسرا کوئی نبی اس مقام تک پہنچ نہیں سکا.کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ رسالت میں ایک لاکھ بیس ہزار رسول شامل ہیں.ان میں ہم نے کوئی فرق نہیں کرنا لیکن مقام محمدیت کے لحاظ سے آپ کو جو منفرد مقام حاصل ہے وہ صفات باری کے مظہر اتم ہونے کا مقام ہے اس مقام کو انسانوں کے مقابل میں انسان کامل کہتے ہیں اور قرب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے قریب تر دوسرا کوئی شخص خدا کے پیار کے حصول میں آپ سے زیادہ اور قریب تر ہوا نہ ہوسکتا ہے غرض اس مقام محمدیت کو بیان کرنے کے لئے مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں.پس سورہ احزاب کی آیت ۴۱ میں ایک تو یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں اور اس جہت سے رسول رسول میں فرق کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور دوسرے آپ خاتم النبیین ہیں اس جہت سے آپ بے مثل و مانند ہیں اور کوئی رسول آپ کے ہم پلہ نہیں.اس حیثیت میں کسی کو آپ کے ساتھ منسلک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.اس مقام محمد یت کے لحاظ سے آپ تمام رسولوں میں منفر دو ممتاز ہیں.

Page 354

۳۴۸ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث پھر سورہ احزاب کی اس آیہ کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ كَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب: ۴۱ ) کہ ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بیان کا ایک گہرا اور ضروری تعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت یعنی مقام محمدیت کے ساتھ ہے ورنہ بظاہر یہ کہہ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر کسی مرد کے باپ نہیں لیکن (۱) اللہ کے رسول ہیں اور (۲) خاتم النبیین ہیں اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک چیز کا علم ہے اس میں کوئی حکمت ہونی چاہیے.اس میں کوئی فلسفہ ہونا چاہیے ؟ اس میں کسی گہرے اور عمیق مضمون کا بیان ہونا چاہیے؟ چنانچہ میرے نزدیک علاوہ اور معانی کے ایک معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا کہ خاتم النبیین کے خود معنے نہ کرنا ختم نبوت کے معنے تمہارا پیدا کرنے والا رب تمہیں بتائے گا.اگر خود معنے کرو گے تو غلطی کھاؤ گے اسلئے خود قرآن کریم نے اس کے معنی کئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ رَفَعَ بَعْضَهُم دَرَجت جس کے ایک معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش رب کریم تک رفعت روحانی بخشی.قرآن کریم کی ہر آیت اور ہر فقرے اور فقرے کے ہر لفظ کے بہت سے بطون ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ایک معنے یہ کئے ہیں کہ ایک وہ رسول جو ارفع ہے اپنے درجات کے لحاظ سے اور منفرد ہے رفعت روحانی میں.کوئی رسول اس مقام میں آپ کا شریک نہیں ہے.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : ۵) که متخلق با خلاق اللہ کے مقام میں کوئی دوسرا انسان تو کیا کوئی دوسرا نبی بھی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا بلکہ کوئی انسان آپ کے بلند مقام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.یہ آپ کا مقام محمدیت ہے جس میں آپ تمام رسولوں میں افضل ہیں.قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ آپ کا کلام خدا کا کلام اور آپ کا ظہور خدا کا ظہور اور آپ کا آنا خدا کا آنا ہے (پہلے آسمانی نوشتوں نے بھی اسی رنگ میں اس مفہوم کو بیان کیا ہے ) فرمایا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسراءیل: ۸۲) اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق کے لفظ سے اللہ تعالیٰ قرآن عظیم کی آخری اور کامل شریعت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہر سہ مراد ہیں.ان پر حق کا لفظ حقیقی طور پر چسپاں ہو سکتا ہے.قرآن کریم نے مقام محمدیت یعنی مذکورہ منفرد مقام کو مختلف طریقوں اور مختلف زاویوں سے بیان کیا ہے.چنانچہ ہم عاجز بندوں کو تصویری زبان میں مقام محمدیت کی حقیقت کے سمجھانے کے لئے

Page 355

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۴۹ سورة البقرة اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج سے نوازا.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام محمدیت مقام خاتم النبیین اور اس نسبت سے دوسرے انبیاء کے ساتھ آپ کا تعلق بڑی وضاحت سے ظاہر ہو جاتا ہے.اس کو حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے.حضرت مصلح موعو رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے تفسیر صغیر کے نوٹوں میں بھی بیان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ ”معراج میں مقام محمدیت کی حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کی امت مسلمہ کے سامنے یہ تصویر رکھی گئی کہ اہل زمین جو نبی نہیں عوام ہیں ( اور امت محمدیہ کے فرد ہوں یا دیگر تمام بنی نوع انسان ہوں ان کو ہم کہیں گے وہ اہل زمین ہیں یعنی زمین میں بسنے والے انسان ہیں ) اور جنہیں روحانی رفعت کا وہ مقام حاصل نہیں جسے ہم رسالت کے نام سے منسوب کرتے ہیں.آپ نے گویا اہل زمین کو فر ما یا کہ اپنے زمینی مقام سے اوپر نگاہ کرو تمہیں پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام نظر آئیں گے تمہیں دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ اور حضرت بیحجمی علیہما السلام نظر آئیں گے ( واضح رہے کہ ہر آسمان پر ایک ایک یا دو دو کا گروہ علامت کے طور پر ہے یعنی وہ سارا گر وہ جو حضرت آدم علیہ السلام کا مقام رکھتا ہے اُن کے لئے پہلا آسمان ہے جن کی روحانی رفعت حضرت عیسی اور حضرت کیمیا علیہما السلام کے ساتھ نسبت رکھتی ہے اُن کے لئے دوسرا آسمان ہے.وعلی ھذا القیاس ) تمہیں تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نظر آئیں گے.چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام نظر آئیں گے.پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نظر آئیں گے.چھٹے آسمان پر صاحب شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام نظر آئیں گے.ساتویں آسمان پر غیر شرعی نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نظر آئیں گے اور اس سے بھی او پر یعنی عرش رب کریم پر حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے.گویا حقیقت معراج میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عرشِ ربّ کریم ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا جو تمام صفات کا ملہ حسنہ سے متصف ہے اُس نے اپنے نہایت ہی پیار کے ساتھ مظہر اتم الوہیت بنا کر اپنی دائیں طرف آپ کو بٹھایا.یہ ہے مقام ختم نبوت جو حقیقت معراج میں تصویری زبان میں بتایا گیا ہے.جسے ایک عام انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسی اور حضرت یحیمی علیہما السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت اور میں علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام ، چھٹے آسمان پر

Page 356

۳۵۰ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے اور اس کے بھی اوپر مقام محمدیت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدائے ذوالعرش کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں، یہ شرف آپ کے مقام کے لحاظ سے اور اس محبت کی وجہ سے ہے جو آپ کو اپنے خدا سے تھی اور اس پیار کی وجہ سے جس سے آپ کو نوازا گیا تھا.یہ ہے وہ مقام ختم نبوت جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا.اب اہل زمین جب اس تصویر میں زمین سے آسمانوں کی طرف دیکھیں گے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک ایک نبی ( اور ایک آسمان پر دونبیوں) کا ذکر آیا ہے وہ محض نبیوں کے گروہ کی علامت کے طور پر ہے کیونکہ اگر واقع میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر دنیا کی طرف آئے تو پھر تو پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ بہت سے اور انبیاء بھی ہوں گے.اسی طرح دوسرے حتی کہ ساتویں آسمان پر بھی بہت سارے انبیاء ہوں گے.تاہم ساتویں آسمان تک پہنچ کر یہ سارے انبیاء ختم ہو جائیں گے.اس کے بعد صرف ایک وجود ہو گا.وہ اپنے رب سے اتنا پیوست اور ایک جان ہوگا کہ اس کا آنا خدا کا آنا اور اس کا کلام کرنا خدا کا کلام کرنا اور اس کی حرکات خدا کی حرکات متصور ہوں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے.آپ نے فرمایا جنگ بدر کے موقع پر کنکریوں کی جو ٹھی پھینکی گئی تھی وہ دعاؤں کے نتیجہ میں نہیں بلکہ آپ کے اس قرب الہی کے نتیجہ میں تھی اور آپ کے صفات باری کے مظہر اتم ہونے کی وجہ سے تھی.یہ آپ کے بلند مقام کا کرشمہ تھا کہ وہ کفار کی آنکھوں میں پڑی اور اُن کی تباہی کا باعث بن گئی سرداران مکہ میدان جنگ میں اپنی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے یہ ایک مستقل اور لمبا مضمون ہے.اس وقت اس کے بیان کا موقع نہیں.میں بتایہ رہا ہوں کہ یہ مقام یعنی عرش رب کریم پر مقام محمدیت یا مقام ختم المرسلین یا مقام خاتم النبین اس تصویر میں اور حقیقتاً بھی اتنا اعلیٰ اور ارفع مقام ہے کہ وہاں تک کوئی اور انسان پہنچ ہی نہیں سکتا.یہی وہ مقام اور صاحب مقام ہے جس کی خاطر اس ساری کائنات کو پیدا کیا گیا ہے.حدیث قدی لولاك لَمَا خَلَقْتُ الأفلاك ( موضوعات کبیر صفحہ ۵۹) اسی حقیقت کی مظہر ہے اور اسی لئے یہ وہ مقام ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی ملا ہو ا تھا جب آدم ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی خاتم النبین تھے جب کہ آدم کا وجود مٹی میں کروٹیں لے رہا تھا.یہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے.یہی تو آپ کا آخری مقام ہے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ

Page 357

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث وو ۳۵۱ سورة البقرة اَحَدٍ مِنْ رُسُلِے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولوں میں سے ایک رسول کہا گیا ہے.یہ وہ مقام ہے جو سورہ احزاب کی آیہ کریمہ میں ولکن رَّسُولَ اللہ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے جس کے بعد آپ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے یعنی آپ رسول ہیں مگر ایسے رسول کہ آپ خاتم النبیین بھی ہیں اور اس لحاظ سے آپ تمام رسولوں سے منفرد ہیں.غرض ایک طرف فرما یا رسول رسول میں فرق نہیں کیا جا سکتا باوجود فضیلت کے فرق نہیں کیا جا سکتا.آخر فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ کی آیت کو لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْ رُسُلِہ کی آیت یا آیت کے ٹکڑے نے منسوخ تو نہیں کر دیا کیونکہ قرآن کریم کی کوئی آیت کوئی فقرہ کوئی لفظ کوئی شعشہ کوئی زیر اور کوئی زبر منسوخ نہیں ہوتی اور نہ کبھی ہوئی ہے.پس فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ اپنی جگہ پر صیح اور لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ اپنی جگہ پر درست ہے.لفظ رسالت میں کوئی فرق نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول بھی ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.رسالت کے اعتبار سے آپ میں اور آدم میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ محض ایک رسول ہی نہیں بلکہ آپ خاتم النبیین بھی ہیں.خاتم النبیین کے ارفع مقام کے لحاظ سے کسی اور نبی کو یہ حجرات نہ ہوسکتی کہ وہ اس ارفع و اعلیٰ مقام کا دعویدار بنے.اس میں آپ منفرد ہیں.آپ کا مقام خدائے ذوالجلال کے داہنی جانب عرش رب کریم پر ہے.جسے ہم مقام محمدیت کہتے ہیں.اس معنی میں حقیقتا آپ ایک عظیم الشان آخری نبی ہیں اور ہم علی وجہ البصیرت آپ کے آخری نبی ہونے پر ایمان لاتے ہیں وہ آخری مقام جو آپ کو معراج میں دکھایا گیا اور آپ نے اس کی جو تصویر کھینچی ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو آخری نبی مانتے ہیں.ہم تو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے عظیم رویا اور کشوف اور عظیم روحانی تجربات سے انکار کریں.اس معنی میں آپ تمام انبیاء پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور یہی معنی آپ پر چسپاں ہوتے ہیں.لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ اپنی جگہ درست مگر مقام محمدیت مقام ختم نبوت جس کا سورہ احزاب میں ذکر ہے.اس مقام محمدیت میں منفرد ہونے کے لحاظ سے آپ آخری نبی ہیں اور خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہیں.(خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۷۹ تا ۸۶)

Page 358

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۵۲ سورة البقرة آیت ۲۵۶ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ : لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم لَهُ مَا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةٌ إِلَّا دو b ج بِاِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ علمةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَعُودُه حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ہاں میں یہ بتا دوں کہ قرآن کریم کا ہی ذکر ہے اس آیت میں جس میں ہے.وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵) یہ دعا ہمیں سکھائی گئی ہے قرآن کریم نے کہ اے ہمارے رب! ہمیں علم میں بڑھاتا چلا جا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ قرآن عظیم غیر محدود علوم کا خزانہ ہے کیونکہ اگر وہ محدود ہوں تو اس وقت جب وہ پہلی ساری باتیں ختم ہو گئیں اس کے بعد اس دعا کا کوئی فائدہ نہیں لیکن قیامت تک آنے والے انسان کو یہ دعا سکھائی قرآن کریم نے کہ یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہمیں قرآنی علوم میں بڑھاتا ہی چلا جا.قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا.اور یہ بھی ہمیں بتایا اللہ تعالیٰ نے کہ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمة إِلَّا بِمَا شَاءَ ( يه سورة بقره کی ۲۵۶ ویں آیت کا ایک ٹکڑا ہے ) اس سے پہلے اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو کچھ انسان کے سامنے ہے اور جو کچھ انسان کے پیچھے ہے یعنی جو کچھ اس کے علم میں ہے اور جو کچھ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے جانتا نہیں ، جاہل ہے اُس سے ، وہ سب کچھ ہی اللہ تعالیٰ جانتا ہے یعنی جو کچھ بھی ہے خواہ وہ انسان جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِةَ الا بِمَا شَاءَ اللہ تعالیٰ کا ئنات کو پیدا کرنے والا ، کائنات کی کنہ کو جاننے والا ہے اور اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی کوئی شخص پا نہیں سکتا.تو ہر علم میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک وہر یہ سائنس دان جب کوئی Problem حل کر رہا ہو یا اپنا کوئی فارمولا بنا رہا ہو اور اس کو سمجھ نہ آرہی ہو، دماغ میں اندھیرا ہو اور ایک تڑپ اس کے اندر پیدا ہوتی ہے کہ کہیں سے مجھے روشنی ملے ، تو وہ تڑپ ایک غافل کی دعا کی مانند ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی سمجھتا اور اس کے دماغ میں روشنی پیدا کر دیتا

Page 359

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۵۳ سورة البقرة ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس جگہ کسی آیت کا حوالہ نہیں دیا.ابھی میں نے جو کہا تھا نا کہ کسی آیت کا حوالہ آپ دیں کہ وہ ہے کسی نہ کسی آیت کی تفسیر.پہلے میرے دماغ میں یہ بات نہیں تھی تب آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہ آیت آگئی سامنے، وہی مثال اس کی کہ وَلا يُحيطون بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاء.اس کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے وہ لکھا ہے کہ کوئی دہریہ، کوئی کمیونسٹ، کوئی بت پرست کوئی بد مذہب علم کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے جب ترقی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق ترقی کرتا ہے اس کی منشا کے بغیر ترقی نہیں کرتا اور انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سوا اُس کے علم کے کسی حصہ کو بھی پا نہیں سکتا.اور اس سے اگلا ٹکڑا آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم آسمانوں پر بھی اور زمین پر بھی حاوی ہے.کائنات کا اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے وہ اس کا پیدا کرنے والا ہے اس کے اندر جو کچھ بھی خواص پائے جاتے ہیں، جو کچھ خواص میں کمی ہوتی ہے، جو بڑھوتی ہوتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اس کے امر سے یا اس کے خلق سے وہ چیز ہورہی ہے.وہ اس سے پوشیدہ اور چھپی ہوئی نہیں.وہ انسانوں کی طرح نہیں کہ آج یاد کر لیا یاسن لیا اور کل کو بھول گیا خدا نہ کرے آپ میں سے بعض بھول ہی جائیں کہ میں آپ کو کیا نصیحت یہاں کر کے گیا ہوں کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرتے رہنا ہے اسے بھولنا نہیں.درووو (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۶۸ ۵ تا ۵۷۰ ) پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مخلوق کے ساتھ شدید تعلق رکھنے کے باوجود یعنی ہر ایک جان کی جان، ہر ہستی کا سہارا اور ہر بستی کو قائم رکھنے کے باوجود وہ الگ ہے.وہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہے.اَلْحَيُّ کے معنے نیست سے ہست کرنے اور القیوم کے معنی اس کو قائم رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں.وہ الحی ہے انسان کو زندگی دیتا ہے.وہ القیوم ہے اس کی زندگی کو قائم رکھتا ہے اور اس میں ایک پہلو تو اللہ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا اس کی مخلوق سے.القیوم کی رو سے وہ سہارا بنتا ہے ہر ایک چیز کا ، تب وہ قائم رہتی ہے لیکن اس تعلق کے باوجود وہ کیس كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری:۱۲) بھی ہے اور اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف: ۵۵) بھی ہے.وہ سب سے برتر اور تمام مخلوق سے وراء الوراء بھی ہے اور تقدس کے مقام پر جلوہ گر ہے اور اس طرح الگ کا الگ بھی رہا، وہ انسان کے ساتھ مل بھی گیا.اس نے انسان کے ساتھ تعلق بھی قائم کیا.انسان نے اس کے پیار کی باتیں بھی سنیں.انسان نے اس کی

Page 360

۳۵۴ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالثة قدرت کے زبردست ہاتھ کے کرشمے بھی دیکھے.گویا وہ دور ہونے کے باوجود انسان کے قریب بھی آگیا.انسان کیا ہے؟ خدا کی ایک عاجز مخلوق ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے عاجز بندے سے شدید تعلق بھی قائم کر لیا.وہ اپنے بندے کی جان کی جان بھی بن گیا اور اس کی ہستی کا سہارا بھی بن گیا.اس کے باوجود وہ الگ کا الگ بھی رہا اور مخلوق کے ساتھ مخلوط نہیں ہوا اور اس کا ئنات میں سب کچھ پیدا کر کے پھر بھی وہ مخلوق کا عین نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں اکیلا اور حقیقی تقدس اور توحید کے مقام پرجلوہ افروز ہے.خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۱۰ تا ۲۱۱) ج على آیت ۷ ۲۵ تا ۲۵۸ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرُوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اَللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظلمتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا اَولِيَهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلمتِ أَوَلَيكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.لا ۲۵۸ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں کیونکہ ہدایت اور گمراہی کا باہمی فرق خوب ظاہر ہو چکا ہے.پس سمجھ لو کہ جو شخص اپنی مرضی سے نیکی سے روکنے والے کی بات ماننے سے انکار کرے اور اللہ پر ایمان رکھے تو اس نے ایک نہایت مضبوط قابل اعتماد چیز کو جو بھی ٹوٹنے کی نہیں مضبوطی سے پکڑ لیا اور اللہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لاتے ہیں.وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست نیکی سے روکنے والے ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں.وہ لوگ آگ میں پڑنے والے ہیں وہ اس میں رہیں گے.پھر فرمایا.لا إكراه في الدِّينِ دین میں کوئی جبر نہیں.دین کے معنی لغت عربی نے یہ کئے ہیں الطاعَةُ وَالْجَزاءُ اطاعت کرنا یا اعمال پر جزا کا دیا جانا.وَاسْتَعِيرُ لِلشَّرِيعَةِ اور استعارہ اسے شریعت اور مذہب کے لئے بولا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے معنی کو اس آیت میں ظاہر کیا ہے وَ اَخْلَصُوا دِینَهُم لِلهِ کہ انہوں نے اپنی اطاعت خدا

Page 361

۳۵۵ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے لئے جو انہوں نے اطاعت کی ، خدا کے حکم کو مانا اس میں انہوں نے اخلاص کا ثبوت دیا.مخلص ہوکر اطاعت کی اور مفردات راغب میں ہے کہ اس کے معنے جو الطاعة اطاعت کے ہیں.فَإِنْ ذلِكَ لا يَكُونُ فِي الْحَقِيقَةِ إِلَّا بِالإخلاص که حقیقی اطاعت اخلاص کے بغیر ممکن نہیں اور اخلاص جو ہے وہ جبر کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتا.والا خلاص لا يتأتى فِيْهِ الْإِكْرَاه جبر کے نتیجہ میں اخلاص نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے اور اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے حقیقی اطاعت نہیں ہوتی اور حقیقی اطاعت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جزا سزا کا سوال نہیں پیدا ہوتا..دین کے معنی اطاعت اور جزا یا شریعت کے ہیں لیکن یہاں دین کا لفظ نہیں بلکہ الدین کا لفظ ہے یعنی وہ اطاعت جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شریعتِ اسلامیہ میں کرتا ہے.وہ اطاعت جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس کے عرفان سے اس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد دلوں میں پھوٹتی اور جوارح سے ظاہر ہوتی ہے.یہ وہ اطاعت ہے جس کا مطالبہ اسلام کرتا ہے اور یہ وہ اطاعت ہے جس پر اللہ تعالیٰ وہ انعامات عطا فرماتا ہے جس پر ان جنتوں کا خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا گیا ہے، جس کی بشارتیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور اگر اس کے معنی شریعت کے ہوں تو الدین کے معنے ہوں گے کامل شریعت جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوع انسانی کے ہاتھ میں دیا گیا.یہاں یہ بات بڑی وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ اطاعت حقیقی کا امکان ہی نہیں جبر کے ذریعہ سے.کیونکہ اس کی بنیاد اخلاص پر، اس کی بنیاد خدا تعالیٰ کے پیار پر، اس کی بنیاد خدا تعالیٰ کی معرفت کے حصول پر، اس کی بنیاد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی بن کر خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول پر ہے اور جبر کے ساتھ اگر کسی سے ایمان کا اعلان کروایا جائے یا جبر کے ساتھ اگر کسی سے نیکیاں کروائی جائیں یا جبر کے ساتھ کوئی شخص یہ کہے کہ میرا دل بھی تصدیق کرتا ہے کہ اسلام ایک صداقت اور بنی نوع انسان کے شرف کے لئے آیا ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ جو علام الغیوب ہے وہ ہستی تو کوئی جزا اس کے اوپر نہیں اس کو دے سکتی.تو اس اطاعت و جزا کو میں نے ایک مفہوم میں بریکٹ کر دیا ہے کہ اطاعت کے ساتھ جزا کا تعلق ہے خالص اطاعت موعودہ جزا کی بشارت دیتی ہے یعنی جو مقبول اعمال ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرتا ، ان سے پیار

Page 362

۳۵۶ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث کرتا، ان کا دوست بن جاتا ہے، ان کو جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے.ان راہوں کو منور کرتا ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کے پیار کی طرف لے جانے والی ہیں.جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں ہیں وہ ان پر کھولی جاتی ہیں، ان پر چلنے کی انہیں تو فیق عطا کی جاتی ہے.یہ چیزیں جبر سے نہیں ہوتیں اور نہ اس قسم کی کوئی جزا یا ثواب مل سکتا ہے جو جبر کروائے جائیں.یہاں خدا تعالیٰ نے ایک دلیل بڑی واضح کر کے دے دی قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى ضلالت اور گمراہی کا فرق کھول کر بیان کر دیا.ہر شخص جو اپنی فطرتی قوتوں کی صحیح نشو نما کرنے والا ہے اگر اسے صحیح غور و فکر کی توفیق ملے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا بغیر کسی جبر کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اس کی بھلائی اور خیر کے لئے ہے لیکن جو شخص ہوائے نفس کے بندھنوں میں خود کو باندھ لے اور شیطان کا غلام ہو جائے تو ظاہری اور مادی سختیاں اور جبر و تشدد جو ہے وہ شیطان کی رسیاں ہیں جو انسان کے لئے تیار کی ہیں، گمراہ کرنے کے لئے انسان کو ، ان کو تو نہیں کاٹا کرتیں.لا اکراہ فی الدین کے جو اکراہ کے معنی ہیں کہ دوسرے کو مجبور کرنا حالانکہ وہ کراہت محسوس کرتے ہیں دین اسلام سے لیکن مجبور کرنا کہ اس کے برعکس تم اپنی محبت کا اعلان کرو اس پر بعض اور آیات قرآنی بھی روشنی ڈالتی ہیں سورۃ محل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِةِ إِلَّا مَنْ أَكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَبِنٌ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبْ مِنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل : ۱۰۷) جو لوگ بھی اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا انکار کریں سوائے ان کے جنہیں کفر پر مجبور کیا گیا ہو لیکن ان کے دل ایمان پر مطمئن ہوں وہ گرفت میں نہ آئیں گے (جن کا دل مطمئن ہے ) ہاں وہ جنہوں نے اپنا سینہ کفر کیلئے کھول دیا ہو ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب مقدر ہے اور پھر فرماتا ہے اس کے بعد اور ایسا اس سبب سے ہوگا، اگلی آیت میں ہے کہ انہوں نے اس ورلی زندگی سے محبت کر کے اسے آخرت پر مقدم کر لیا اور نیز اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کفر اختیار کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا تو ایک شخص کفر کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.ایک شخص دنیا سے اندھی محبت رکھتا ہے اور دنیا کو اپنے پیارے رب کے لئے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ایک شخص مطمين بالكفر ہے اور شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدرًا اس کا اس کے اوپر اطلاق ہوتا ہے اس کے متعلق

Page 363

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۵۷ سورة البقرة خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ عَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ خدا کا غضب ایسے لوگوں کے اوپر نازل ہوتا ہے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے عذاب عظیم مقدر کیا یعنی جو شخص اپنی مرضی سے دنیا سے پیار کرنے والا کفر کی راہوں کو اختیار کرنے والا اور کفر پر شرح صدر رکھنے والا ہے یہ تصویر کھینچ دی نا اس آیت نے اب اگر کوئی شخص جبرا اس کے منہ سے یہ کہلوائے کہ میں ایمان لایا یا اگر کوئی جبرا اس شخص سے نماز پڑھوائے تو وہ تو اسے یہ کہے گا جبر کرنے والا کہ خدا تجھے جنت میں لے کر جائے گالیکن خدا کی وحی اور خدا کا کلام اسے یہ سنا رہا ہوگا فَعَلَيْهِم غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیم کہ یہ جو کہتے ہیں کرتے رہیں لیکن میرا فیصلہ یہ ہے کہ تیرے اوپر میر ا غضب نازل ہوگا اور تیرے لئے میں نے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے.اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ لا اکراہ فی الدین کے اور قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَی کے معنی کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے کہ جب دل میں ایمان نہیں تو جبر جو صرف ظاہر پر کیا جا سکتا ہے وہ بے نتیجہ ہے اور کسی کا یہ خیال کرنا کہ اس سے کوئی اچھا نتیجہ اسلام کے حق میں یا اس شخص کے لئے جس پر جبر کیا گیا ہے نکل آئے گا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے.ایک اور جگہ سورہ مومنون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آیت تو میں نے ایک لی ہے جو میں اب پڑھوں گا لیکن اس کے علاوہ کچھ آیتیں آئی ہیں ان کا میں ترجمہ صرف سناؤں گا آپ کو تا کہ مضمون آپ کے ذہن میں آجائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَم يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ أَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَرِهُونَ (المؤمنون : ۷۱، ۷۲) کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو جنون ہے ( مگر ایسی بات نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو نا پسند کرتے ہیں.اگر حق ان کی خواہشات کی اتباع کرتا تو آسمان اور زمین اور جوان کے اندر بستے ہیں تباہ ہو جاتے.حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کی عزت کا سامان لے کر آئے ہیں اور وہ اپنی عزت کے سامان سے اعراض کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجرم یقیناً جہنم کے عذاب میں مدتوں مبتلا رہیں گے.ان کے عذاب میں وقفہ نہیں ڈالا جائے گا اور وہ اس میں مایوس ہو جائیں گے اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے اور وہ پکاریں گے کہ اے مالک ( جو دوزخ کے داروغہ کا نام ہے ) تیرے رب کو چاہیے کہ ہمیں موت دے دے.(آگے سے مالک ان کو جواب دے گا اور ) کہے گا تم دیر تک اس میں رہو گے.لَقَدْ جِثْنَكُمْ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَرِهُونَ (الزخرف :٩):

Page 364

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۵۸ سورة البقرة اور خدا ان سے کہتا ہے ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تم میں سے اکثر حق سے نفرت اور کراہت کرتے تھے.وہ شخص جو دل سے یہ نفرت اور کراہت کرنے والا ہے حق سے، زبان سے کچھ کہلوالینا اس سے نہ اس کی بہتری کے لئے ہے نہ اسلام کی بہتری کے لئے ہے.یہ دو آیات میں نے اس لئے آپ کے سامنے رکھی ہیں کہ لا اكراه فی الدین میں ایک کراہت کو دور کرنے کا جبر ذکر کیا ہے تو اور دونوں جگہ ایک جگہ وَ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَرِهُونَ اور دوسری جگہ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدرًا یعنی حق سے کراہت کرنے والے اور کفر کے لئے شرح صدر رکھنے والے اور مطمئن، ان کے دل مطمئن ہیں کفر پر اور شرح صدر ہے ان کا کفر پر اور حق سے وہ کراہت رکھنے والے ہیں.یہ ہے ان کی کیفیت ان آیات میں بتائی گئی.ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدین دین کے معاملہ میں ایسے لوگوں کو جبراً تم مسلمان نہیں بنا سکتے جبر ا تم نیکیاں نہیں کروا سکتے کیونکہ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى دلائل کے ساتھ اور بینات کے ساتھ حقیقت کو واضح کر دیا گیا اور کھول کر بیان کر دیا گیا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے :- وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لا مَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ( يونس : ۱۰۰ ) اگر جبر کرنا ہوتا اگر جبر کو جائز رکھنا ہوتا تو انسان پر کیوں چھوڑا جاتا جبر، خدا تعالیٰ خود جبر کرتا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (یونس: ۱۰۰ ) اور اگر اللہ تعالیٰ ہدایت کے معاملہ میں اپنی ہی مشیت کو نافذ کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے.پس جب خدا تعالیٰ مجبور نہیں کرتا تو کیا تو لوگوں کو ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں ) مجبور کرے گا وہ مومن بن جائیں یعنی جن کے دلوں میں حق سے اتنی کراہت جو کفر کے لئے اس قدر شرح صدر رکھتے ہیں وہ زبر دستی تو ان کے دل نہیں بدلے جاسکتے نہ مَنْ شَرَحَ بِالكُفْرِ صَدْرًا کی جو کیفیت ہے وہ دور کی جاسکتی ہے.نہ یہ جبراًاکراہ سے کراہت دور نہیں کی جاسکتی.اس کو دور کرنے کے لئے بینات اور دلائل ہیں جو خدا تعالیٰ نے بڑی کثرت کے ساتھ اسلام کے حق میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے.دلائل قرآنی جو ہیں وہ اتنی وسعت ہے ان میں کہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے اس کلام سے ایک کے بعد دوسرا، ایک کے بعد دوسرا، روشن ستارہ نکلتا چلا آتا ہے انسان کی ہدایت کے لئے.اور علوم کے میدانوں میں، عقلی علوم کے میدانوں میں روحانی علوم کے میدانوں میں ایک روشنی جو ہے وہ پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور قرآن

Page 365

۳۵۹ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث کریم کی ہر نئی تفسیر جو ہر نئے زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ثابت کرنے والی اور آیت کی شان کو قائم رکھنے والی ہے اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اور آسمانی نشانات جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا پر ظاہر ہوئے اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک ممتد ہے اور خدا تعالیٰ کے نیک بندے اُمت محمدیہ میں ایک ایک وقت میں بعض دفعہ لاکھوں کی تعداد میں مختلف خطوں میں پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کی صداقت اور شان کو ظاہر کرنے کے لئے معجزات دکھائے انسان کو.اور یہ سلسلہ جو ہے وہ میں نے جیسا کہ بتایا قیامت تک ممتد ہے لیکن اس قدر دلائل سننے کے بعد اس قدر نشانات دیکھنے کے بعد بھی جس کا دل حق سے کراہت رکھتا اور جس کا سینہ بشاشت سے کفر کو قبول کرتا ہے اس پر جبر کر کے تو نہیں منوایا جاسکتا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا یہاں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ جو نیکی ہے اس کا بدلہ تو خدا تعالیٰ نے دینا ہے اگر میں یا آپ کسی پر جبر کر کے اس سے نیکی کے کام کروائیں تو وہ میرے سامنے ہاتھ پھیلائے گا نا کہ مجھے بدلہ دوستم نے جو مجھ سے یہ کام کروائے ہیں مجھے خدا کی رضا کی جنتوں کا پروانہ لکھ کے دو.تو کون ایسا انسان ہے جو کسی دوسرے انسان کو ایسے پروانے لکھ کے دینا شروع کر دے اور خدا تعالیٰ ان کو مان بھی لے.بدلہ تو خدا نے دینا ہے اور خدا ظاہری اعلان کو دیکھ کر تو بدلہ نہیں دیتا.خدا تعالیٰ تو ، بعض بد بخت ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے اعمال انسان کی نگاہ میں بڑے پیارے اور مخلصانہ ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں قبول نہیں کرتا بوجہ کسی ایسی خباثت کے جو ان اعمال کے پیچھے پوشیدہ ہوتی ہے اور ان کے منہ پر مار دیئے جاتے ہیں ان کے اعمال نامے.حدیثوں میں کثرت سے اس کا ذکر ہے تو جس نے بدلہ دینا ہے اور جو علام الغیوب ہے اور جس پر کوئی زبردستی کر کے اس کے قانون اس کی خواہش اور منشاء کے خلاف کچھ کروا نہیں سکتا.اس سے کیسے جزا دلوائی جاسکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو مَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِن وَ مَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف : ۳۰) کا اعلان کیا.خدا تعالیٰ نے تو یہ کہا کہ اپنی مرضی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ اور مجھے سے اگر پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرو، اپنی مرضی سے لا إِكْرَاةَ في الدايين تم پر کوئی زبر دستی نہیں ہے.مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی زبردستی نہیں کیونکہ اگر مسلمان ہونے کے بعد کوئی زبر دستی

Page 366

۳۶۰ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہوتی تو اسلام کے اندر نہ فاسق کوئی ہوتا نہ منافق کوئی ہوتا.اپنی مرضی سے اخلاص کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت جو کامل محبت کا تقاضا کرتی ہے جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا پیار ملتا ہے اس کی معرفت ملتی جس کے نتیجہ میں خدا کا عرفان حاصل ہوتا خدا کے لئے دل میں محبت کا ایک سمندر موجزن ہو جاتا ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ اس قابل سمجھتا ہے اس پاک بندے کو جو اس پاک کی خاطر خود کو پاک بناتا ہے کہ اس سے وہ پیار کرے اپنی رضا کی جنتوں میں اسے داخل کرے تو لا إكراه في الدِّينِ - پہلوں نے بھی باوجود اس کے کہ بہت سی غلط قسم کی روایتیں بھی ان کے پاس پہنچ چکی تھیں لیکن جو حقیقت تھی وہ بھی انہوں نے کھول کے بیان کر دی.ان میں سے چند حوالے اس وقت میں پڑھ کے سناؤں گا آپ دوستوں کو.ہمارے ایک مشہور بزرگ مفسر قرآن ہیں امام رازی.یہ ساتویں صدی ہجری کے ہیں.ان کی وفات ہوئی یعنی چھٹی کہنا چاہیے زیادہ زندگی انہوں نے گذاری چھٹی میں ، ۶۰۶ ہجری میں.لا اکراه فی الدین کے نیچے وہ لکھتے ہیں بعض حوالے دے کر پہلوں کے کہ خدا تعالیٰ نے لا إِكْرَاةَ في الدِّینِ کی تفسیر کرتے ہوئے :- خدا تعالیٰ نے ایمان کی بنیاد جبر و اکراہ پر نہیں رکھی بلکہ ہر انسان کی طاقت اور اختیار پر رکھی ہے.توحید کے متعلق فیصلہ کن اور واضح بیان دینے کے بعد فرمایا کہ ان دلائل کی توضیح کے بعد کافروں کے لئے کفر پر قائم رہنے کا کوئی عذر باقی نہیں رہا.سوائے اس کے کہ اس کو ایمان پر مجبور کر دیا جائے ( یعنی جتنے دلائل دیئے جانے چاہیے تھے وہ دے دیئے گئے.حق آگیا نا، جاء الحق اور معجزات بھی دکھائے گئے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ ایمان نہ لائیں.اب جو وہ ایمان نہیں لاتے تو ایک ہی صورت رہ جاتی ہے باقی کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایمان لائیں لیکن وہ کہتے ہیں) اور کسی پر جبر واکراہ دنیا میں جو دار الابتلا اور دار الامتحان ہے جائز نہیں کیونکہ دین میں جبر و اکراہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ابتلا اور امتحان کا مقصد باطل ہو گیا.اسی فرمان کی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( آیت کا میں ترجمہ کروں گا) کہ جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کفر اختیار کرے اور ایک دوسری سورۃ میں فرمایا کہ اگر تمہارا رب جبر کرنا چاہتا تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا.پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں اور پھر ایک اور جگہ فرمایا کہ شاید کہ تو تباہ کر دے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ

Page 367

۳۶۱ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالثة نَّفْسَكَ (الشعراء: ۴) شاید کہ تو تباہ کر دے اپنی جان کو اس فکر سے کہ وہ ایمان نہیں لاتے.اگر ہم انہیں مجبور کرنا چاہتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی ایسا نشان نازل فرما دیتے کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھکنے پر مجبور ہو جاتیں اور اس معنی کی تائید اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے (جو اسی آیت میں لا اکراہ فی الدین کے آگے ہے قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ اس کی طرف اس کے معنی کر رہے ہیں ) اور اس معنی کی تائید اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد ہے (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کے بعد ہے ) کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے یعنی اس کے دلائل ظاہر ہو چکے ہیں اور اس کے بعد ان کو ایمان کی طرف لانے کے لئے کوئی طریق باقی نہیں رہا.( یعنی ہر وہ طریق جو کسی کو کنونس (Convince) کرنے کے لئے جو کسی کو سمجھانے کے لئے جو کسی پر ہدایت کھولنے کے لئے ممکن تھا وہ طریق اختیار کیا گیا وہ دلائل دے دیئے گئے معجزات دکھا دیئے گئے ) اور یہ جائز نہیں ، کوئی طریق باقی نہیں رہا سوائے جبر کے اور یہ جائز نہیں کیونکہ یہ ذمہ داری کے خلاف ہے کہ ہر آدمی پر جو ذمہ واری ہے کہ اپنی مرضی سے کرے یہ اس کے خلاف ہے جو بنیادی.پہلے میں نے بتایا تھا کہ یہ جو انسان کی پیدائش کا منصوبہ باری ہے اس کے خلاف ہے).پھر یہ لکھتے ہیں کہ : " لا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ کا بعض کے نزدیک یہ مطلب بھی ہے جو شخص جنگ کے بعد دین میں داخل ہوا ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مجبور ہوکر دین میں داخل ہوا ہے.اسلام جب آیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری دنیوی کمزور حالت میں رہے لمبا عرصہ مکی زندگی میں، تیرہ سال پھر مدینے ہجرت کر کے تشریف لے گئے.پھر وہاں حملہ آور ہوئے رؤسائے مکہ اور انہوں نے سارے عرب کو اپنے ساتھ ملایا اور یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو دنیا سے مٹادیں گے اس وقت تو وہی چند مسلمان تھے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو چکے تھے، تو دفاعی جنگیں اسلام کو لڑنی پڑیں.دفاعی جنگیں بھی لڑیں لیکن جنگ کی بعض شکلیں معجزانہ صورتیں بھی اختیار کر جاتی ہیں عقلمند آدمی کے لئے مثلاً بدر میں تین سو کچھ صحابہ کا نہتے ، نہ کپڑے ٹھیک نہ ہر ایک کے پاس جوتا بھی تھا اور اس کے مقابلے میں بڑے کتر وفر کے ساتھ رو و سائے مکہ حملہ آور ہوئے تھے لیکن ان کا سر وہاں کٹ گیا اور شکست کھائی اور وہ واپس آئے اس وقت بہتوں نے سمجھا ہو گا کہ اتنی کوشش جو کی ہے جب تک اس چھوٹی سی جماعت کے پیچھے کوئی زبر دست خدائی ہاتھ نہ ہو اس وقت تک یہ چیز نہیں ہے، یہ نظارہ

Page 368

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶۲ سورة البقرة نہیں ہماری آنکھیں دیکھ سکتیں تو وہ ایمان لے آئے تو لا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ کا بعض لوگوں نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ جنگ کے بعد اس قسم کی دلی تبدیلی پیدا ہو جانے کے نتیجہ میں اگر کافر کچھ ، مومن بھی ہو جائیں تو یہ نہ کہو کہ جنگ کی وجہ سے مجبور ہو گئے وہ.جنگ کی وجہ سے مجبور نہیں ہوئے جنگ تو دفاعی کی گئی تھی جنگ میں تو کمزوری کی حالت میں جب وہ جنگ کی گئی تھی.ظاہری حالات میں اس جنگ میں جیتنا نا ممکنات میں سے تھا لیکن اس جنگ نے بعض عقلمندوں کو ایک نشان دکھا یا خدا کا اور اس نشان میں انہیں خدا تعالیٰ کا ہاتھ نظر آیا.اس ہاتھ کو انہوں نے پکڑا اور وہ اسلام کی طرف آگئے.تو ایسوں کو یہ نہ کہو کہ تم دل سے ایمان نہیں لائے مجبور ہو گئے ہو.اس کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں.کیونکہ جب وہ جنگ کے بعد دین میں داخل ہونے کے لئے راضی ہو گئے دل سے اور اس کا اسلام صحیح ہوا تو وہ مجبور نہیں کہلائیں گے.مطلب یہ ہوا کہ تم ایسے لوگوں کوا کراہ و جبر کی طرف منسوب نہ کرو.اس کی مثال دوسری جگہ یہ ملتی ہے ( یہ امام رازی ابھی فرمارہے ہیں ) جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص تمہیں سلام کہے تم اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں صرف ظاہر سے اسلام کا اعلان کر رہا ہے.علامہ آلوسی ہیں.ان کی ایک تفسیر ہے روح المعانی.وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں.انہوں نے یہ، ان کی وفات ہوئی ہے ۱۲۷۰ء میں تو مختلف روایتیں جو ان تک پہنچیں مختلف تفاسیر ان کا ذکر کر کے وہ کہتے ہیں : اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ دین کے متعلق خدا کی طرف سے کسی قسم کا جبر نہیں بلکہ اس کا سارا دارو مداراختیاراور رضا پر ہے.اگر ایسا نہ ہو تو پھر ابتلا اور امتحان کا وجود ہی بے فائدہ ہو جائے اور یہ آیت ویسی ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا کہ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے“.اور تفسیر المنار محمد عبدہ کی ہے وہ درس دیتے تھے ان کے شاگرد نے لکھی ہے.وہ لکھتے ہیں کہ ”ابن جریر نے بہت سی روایات جمع کی ہیں جن میں ہے کہ جاہلیت میں عورتیں نذرمانا کرتی تھیں.( جاہلیت کے زمانہ میں یہودی مذہب اور عیسائی وہاں بستے تھے.مدینے میں بھی تھے تو یہ مدینے کی بات ہے ) جاہلیت میں عورتیں نذر مانا کرتی تھیں کہ ہم اپنے بچوں کو یہودی بنادیں گے تا کہ وہ زندہ رہیں.( جن عورتوں کے بچے مر جاتے تھے وہ حب اٹھرا کھانے کی بجائے نذر مانتی تھیں کہ یہودی بنادیں گے تاکہ وہ زندہ رہیں).پھر مسلمانوں کو اسلام نصیب ہوا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے ان بچوں کو جو اہل کتاب کے دین پر ہیں مجبور کریں کہ وہ اسلام لے آئیں“.( جو بچے 66

Page 369

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۶۳ سورة البقرة یہودیوں نے لے لئے تھے ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی.ابن جریر یہ کہتے ہیں بہت سی روایات جمع کی ہیں اور یہ ان کا آپس میں پھر جھگڑا ہو گیا نا.جواصل ماں باپ تھے وہ کہتے تھے کہ پہلے اسلام تھا ہی نہیں.ہم نے یہودی مذہب کو اپنے سے بہتر سمجھا اور نذر مانی.اب یہودی مذہب سے زیادہ اچھا ایک کامل اور مکمل مذہب ہمیں مل گیا ہے اسلام کی شکل میں اب تمہارے پاس کیوں رہنے دیں اپنی اولاد کو.یہ اختلاف ان میں پیدا ہو گیا اور اس اختلاف کا فیصلہ کیا.یعنی اس آیت کے نزول کی وجہ جو ہے وہ یہ بیان کرتی ہیں روایات.اور سعید بن جبیر کی روایت میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے اترنے پر فرمایا.اللہ تعالیٰ نے تمہارے لوگوں کو اختیار دیا ہے اگر وہ چاہیں وہ بچے جو یہودی لے چکے تھے یا عیسائی خاندان لے چکے تھے اگر وہ چاہیں تو تمہیں ترجیح دیں اور تم میں داخل ہو جائیں.اگر وہ چاہیں تو وہ ان کو ترجیح دیں اور ان میں داخل رہیں.اس کے بعد وہ اپنی تفسیر جو انہوں نے کی وہ کہتے ہیں." میں کہتا ہوں کہ یہ حکم.بڑا ان کے دماغ نے یہاں کام کیا ہے.میں کہتا ہوں کہ یہ حکم اس دین کا ہے جس کے متعلق اس کے دشمن“، اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے کو اس دین کا دوست خیال کرتے ہیں.میں کہتا ہوں.میں پڑھتا ہوں دوبارہ.میں کہتا ہوں کہ یہ حکم ہے اس دین کا جس کے متعلق اس کے دشمن اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ طاقت اور تلوار کے ساتھ کھڑا ہوا اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا (طاقت کے بل ہوتے ) اس حال میں کہ طاقت اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا اس حال میں کہ طاقت اس کے دائیں ہوتی اور جو اسے قبول کرتا وہ نجات پا جاتا اور جو اسے قبول نہ کرتا تو تلوار اس کا فیصلہ کر دیتی“.کہتے ہیں یہ اُس مذہب نے فیصلہ دیا ہے جس کی روایتیں ہیں.”ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ تلوار اس وقت بھی کام کر رہی تھی جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ چھپ کر نماز ادا کیا کرتے اور جب کہ اسلام لانے پر مسلمان کو قسم قسم کے عذاب دیئے جاتے اور کوئی نہ تھا جو ظالموں کو ظلم سے رو کے حتی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ہجرت پر مجبور ہو گئے.یا کیا وہ کہتے ہیں کہ جبر و اکراہ مدینہ میں استعمال کیا گیا بعد اس کے کہ اسلام سر بلند اور غالب ہو چکا تھا اور یہ آیت تو اس غلبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہو چکی تھی.آیت کا نزولِ زمانہ جو ہے وہ امام بخاری کے نزدیک ۳ھ میں غزوہ احد ہے اور یہ اس سے پہلے آیت نازل ہو چکی تھی.تو بالکل ابتدائی زمانہ میں تھی اس

Page 370

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶۴ سورة البقرة وقت کب عروج ہوا تھا؟ وہ تو جنگ احزاب میں بھی پیٹ پر پتھر باندھ کے پھرتے تھے اور جانوں کی فکر لگی ہوئی تھی اور منافق جو تھے وہ ریشہ دوانیوں میں تھے اور یہود جو تھے وہ اپنا فتنہ تیز کرنے کی کوشش میں تھے.اس وقت تو بڑی کمزوری کی حالت تھی ۳ھ میں اور مکہ کے کفار ہمیشہ مسلمانوں سے جنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے.بنو نضیر نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور دو دفعہ آپ کو ہلاک کرنے کی تدبیر کی.یہ وہ زمانہ ہے اس آیت کے بعد یہ واقعات ہوئے ہیں حالانکہ وہ مدینہ میں آپ کی پناہ میں رہ رہے تھے.آخر حضور نے ان کا محاصرہ کیا اور وہ ہار کر مدینہ سے نکل گئے اور جن مسلمانوں نے اجازت مانگی تھی جب یعنی ان کی شرارتوں کی وجہ سے ان کو مدینہ چھوڑنا پڑا تو مسلمانوں نے جب وہ جانے لگے تو مسلمانوں نے اجازت مانگی ہم اپنے بچے جو ہیں وہ ان کے پاس نہیں رہنے دیتے اور جن مسلمانوں نے اجازت مانگی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو جو یہودی ہو چکے تھے مجبور کر کے مسلمان بنا ئیں انہیں اس کی اجازت نہ فرمائی.یہ اُستاد امام شیخ محمد عبدہ نے لکھا ہے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ دراصل وہی پہلا دن تھا جس میں مسلمانوں کو کسی قدر جبر و اکراہ کا خیال آیا.یہ محمد عبدہ نے لکھا ہے اپنی تفسیر میں دراصل وہی پہلا دن تھا جس میں مسلمانوں کو کسی قدر جبر و اکراہ کا خیال آیا اور اسی دن یہ فرمان نازل ہوا کہ دین میں جبر و اکراہ جائز نہیں.استاد امام شیخ محمد عبدہ نے فرمایا کہ عام مذاہب میں خصوصاً عیسائیوں میں یہ دستور تھا کہ وہ لوگوں کو جبرا اپنے مذہب میں داخل کرتے اور یہ مسئلہ در اصل دین کی نسبت سیاست سے زیادہ تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایمان جو دین کا اصل اور جو ہر ہے اس کے معنی ہیں نفس کا جھک جانا اور فرمانبردار ہوجانا.اور نا ممکن ہے کہ یہ جھکنا اور یہ فرمانبرداری جبر اور زبردستی سے پیدا ہو.یہ صرف وضاحت اور دلیل سے ہی پیدا ہوسکتی ہے.اس لئے جب اکراہ و جبر کی نفی فرمائی تو فرما یا قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيْ کہ ظاہر ہو چکا ہے کہ اس دین میں ہدایت فلاح اور نور کی طرف پیش قدمی ہے اور جو مذاہب اس کے خلاف ہیں وہ گمراہی اور بے راہ روی میں مبتلا ہیں.یہ چند ایک مثالیں میں نے اس وقت دینی تھیں.اسلام نے بڑی وضاحت سے دلائل دے کر سمجھا کر حقیقت کھول کر پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ اس عظیم دین میں اس کامل دین میں اس مکمل دین

Page 371

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۶۵ سورة البقرة میں اس حسین تر دین میں بنی نوع انسان پر عظیم احسان کرنے کی طاقت رکھنے والے دین نے دین کے معاملہ میں جبر کو جائز قرار نہیں دیا.نہ مذہب کے معاملہ میں جائز قرار دیا نہ کسی مسلمان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہونے دی کہ اطاعت حقیقی جبر سے بھی کروائی جاسکتی ہے یعنی ہماری عقلوں کو بھی یہ باور کروایا کھول کے بیان کیا ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی عظمند سوچ نہیں سکتا کہ جبرا حقیقی اطاعت کروائی جاسکتی ہے.جبراً ظاہری اطاعت کا تو امکان ہے لیکن جبرا حقیقی اطاعت جب دل میں بشاشت پیدا ہو جب سینوں میں شرح پیدا ہو فراخی اور وسعت پیدا ہو جب روح میں نور پیدا ہو جب انسان کے وجود میں خدا تعالیٰ کا پیار سمندر کی لہروں کی طرح موجزن ہو جائے.یہ جبر سے ہوسکتا ہے؟ تو ہمیں جب کہا خدا نے کہ جب یہ ناممکن ہے کہ جبر اور اکراہ اور زور کے ساتھ اور طاقت کے ذریعہ سے کسی کے دل میں تبدیلی پیدا کی جائے تو ہر وہ ازم یا ہر وہ مذہب جو اس کے برعکس خیال کرتا ہے وہ خدا کی مرضی کے خلاف باتیں کر رہا ہے.اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی.قف (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۱۱۵ تا ۱۲۷) ایک وقت میں ایسے لوگ خود اسلام کے اندر پیدا ہو گئے جو اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے تلوار کی طاقت اور زور کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہ تو اسلامی دلائل کا علم رکھتے تھے اور نہ وہ کوئی ایسا روحانی مرتبہ رکھتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے حصہ لے کر دنیا کو نشانات دکھانے کے قابل ہوتے.غرض جہالت اور عدم قابلیت کے نتیجہ میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ اسلام صرف تلوار کے زور سے پھیل سکتا ہے..........لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى یعنی جو ہدایت ہے اور جو ضلالت ہے اس کے درمیان ایک بین اور نمایاں فرق کر کے بتادیا گیا ہے اس مفہوم کو سورۃ بقرہ ہی میں ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے.هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة: ۱۸۶) که جو علوم دین ایسے تھے جن سے دُنیا واقف نہیں تھی قرآن کریم ان علوم کو لانے والا ہے چونکہ یہ ھدی للناس ہے اور بَيِّنَتِ مِنَ الهُدی جن دینی ہدایات میں اجمال پایا جاتا تھا اور کچھ پہلو ضرورت زمانہ کی وجہ سے پہلے نمایاں نہیں کئے گئے تھے قرآن کریم نے اس اجمال کی تفصیل بتائی اور اُن مشتبہ چیزوں کی وضاحت کر دی اور پھر فرمایا یہ الفرقان ہے قرآن کریم حق اور باطل میں ایک امتیاز پیدا کرتا ہے کیونکہ

Page 372

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶۶ سورة البقرة قرآن کریم یا اسلامی شریعت میں اس قدر زبردست دلائل ہیں اور اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانات کا اتنا وسیع سمندر عطا کیا گیا ہے کہ ان دلائل اور ان آسمانی نشانات کے بعد اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے کسی مادی طاقت اور قوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہاں جو لوگ دلائل سے غافل اور آسمانی نشانات کے حصول کی اہلیت نہیں رکھتے وہ دھوکا کھاتے ہیں.قرآن کریم نے دلیل کے ساتھ (چند باتیں میں نے بیان کی ہیں ورنہ قرآن کریم کے سارے دلائل تو میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا ) انسان کے سامنے یہ بات بڑی وضاحت اور زور سے رکھی کہ اسلام کو ، قرآن کریم کو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا دین پھیلانے کے لئے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے فرما یا لا اکراہ فی الدین.دین کے بارہ میں جبر جائز نہیں لیکن انسان بھی کیا عجیب ہے اس عظیم اعلان کے باوجود اور اس عظیم اعلان کے حق میں زبردست دلائل کے ہوتے ہوئے جبر کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے.ہم ایک کہاوت سنا کرتے تھے کہ کسی آدمی کو موقع مل گیا اُس نے ایک غیر مسلم کو قابو کیا اور چھرا نکال کر کہنے لگا پڑھ کلمہ.وہ حیران کہ یہ کیا بات ہوئی کہ چھرے کے زور پر مجھے کہتا ہے پڑھ کلمہ.خیر اُس نے کوئی دلیل اپنی چاہی اور کہا مجھے سمجھاؤ تو سہی مگر اُس نے کہا یا تو کلمہ پڑھو یا میں چھرے سے تمہاری گردن کا تھا ہوں.چنانچہ جب اُس نے یہ دیکھا کہ یہ شخص سنجیدگی کے ساتھ چھری کی دھار پر مجھے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنا چاہتا ہے تو چونکہ اُس نے جان بچانی تھی اس لئے کہنے لگا اچھا تو پھر پڑھاؤ کلمہ تو وہ آگے سے کہنے لگا اوہو! کلمہ تو مجھے بھی نہیں آتا.تو بڑا خوش قسمت ہے تیری جان بچ گئی ورنہ یا تو کلمہ پڑھتا یا میں تجھے مار دیتا.پس جبر کے زور سے اسلام منوانے والے، اسلام کی حقانیت کے روشن نشانات سے خود بے نیاز ہو جاتے ہیں.یہ ایک بڑا پرانا اور مشہور قصہ ہے لیکن اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس شخص کو اسلام کے حسن واحسان کا علم نہیں وہ چھرے یا تلوار یا طاقت یا ایٹم بم سے دل کے عقائد بدلنے کی کوشش کرے گا.حالانکہ دین کے بارہ میں جبر سے کام لینے کی ہرگز اجازت نہیں ہے.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کے کئی تفسیری معنے لئے جاسکتے ہیں.دین کے معنے اگر دل سے اطاعت کے لئے جاویں اور یہ لغت عربی کی رو سے صحیح ہیں.تو یہ واضح ہے کہ اطاعت میں جبر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اطاعت کا تعلق اخلاص سے ہے

Page 373

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۶۷ سورة البقرة اور اخلاص کا تعلق دل سے ہے اور دل کا کوئی تعلق طاقت کے ساتھ نہیں یعنی زبان سے تو ز بر دستی کہلوایا جا سکتا ہے اگر کوئی بز دل قابو آ جائے لیکن دلی اخلاص کے ساتھ زبر دستی اطاعت نہیں کروائی جاسکتی.اس کے لئے اخلاقی اور روحانی طاقتیں ہیں جن کی ضرورت پڑا کرتی ہے.(خطبات ناصر جلد ششم ۳۵۸ تا ۳۶۱) آیت ۲۶۵ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُم بِالْمَنِّ وَالْاَذْى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانِ عَلَيْهِ تُرَابُ فَاَصَابَهُ وَابِل فَتَرَكَهُ صَلَدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ ) (۲۶۵) اسی واسطے جب انسان بظاہر نیکی کر رہا ہو اور بظاہر تقویٰ کا مظاہرہ کر رہا ہو اس وقت بھی اگر حقیقی تقویٰ نہیں ہے تو وہ نیکی نہیں رہتی مثلاً صدقہ ہے، صدقات دینا نیکی کا کام ہے (صدقہ کے مختلف معانی ہیں میں اس وقت ان معانی میں نہیں جاؤں گا) بظاہر یہ نیک کام ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تقویٰ نہیں، اگر صدقات بجالانے والا متقی نہیں، اگر وہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتا اور تقویٰ کی شرائط کو پورا نہیں کرتا تو صدقات نیکی نہیں رہتے.لا تُبْطِلُوا صَدَ قُتِكُم بِالمَن والاذی اگر صدقات بھی ہیں اور من اور اڈی بھی ہے تو پھر وہ نیکی نہیں رہیں گے اس لئے تقوی ضروری ہے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ ۸۸) آیت ۲۷۳ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُ بهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا b * تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ) اے رسول ! لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لانا تیرے ذمہ نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت کی راہ پر لے آتا ہے.قرآن کریم کی یہ بھی ایک عجیب شان ہے.ہم اپنے ایک خاص مضمون

Page 374

۳۶۸ سورة البقرة تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث کے لئے آیات قرآنیہ سے ایک ایک فقرہ اٹھاتے ہیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید تکرار ہے اور ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے.بات دہرائی نہیں جاتی بلکہ ایک نئے پیرا یہ میں ایک نئی بات بتائی جاتی ہے.سورۃ بقرۃ کی آیت کے اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے رسول! ہدایت دینا تیرا کام نہیں ہے یہ خدا کا کام ہے وہ جس کے اعمال قبول کرے گا اسے ہدایت یافتہ گروہ میں شامل کر دے گا.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۵،۲۲۴) ز آیت ۲۷۴ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيْهُمْ لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِيمٌ تو قرآن کریم کی ایک آیت بڑی وضاحت سے بتارہی ہے کہ وقف زندگی بھی مجاہدہ کی ایک قسم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت ۲۷۴ میں فرمایا کہ ہمارے احکام کے مطابق عمل کر کے امت محمدیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جنہیں دین کی خدمت میں لگایا گیا ہو گا.اور مشاغل دنیا سے انہیں روک دیا گیا ہو گا.(اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ) تو بتا یا کہ ان کو تمام ان مشاغل سے روک دیا جائے گا کہ جو سبیل اللہ کے مشاغل نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کے علاوہ دنیا کمانے اور دنیا کی عزت حاصل کرنے کے تمام راستے ان پر بند کر دیئے جائیں گے.تو جن لوگوں پر اُحْصِرُوا فِي سَبِیلِ اللہ کا اطلاق ہوتا ہے وہ بھی مجاہدین ہیں.ایک قسم کا مجاہدہ اور جہاد کرنے والے ہیں.اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگ جن پر دشمن، مخالف ،منکر دنیا کی راہیں بند کر دیتا ہے.آئے دن ہمارے سامنے ایسی مثالیں آتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ بعض احمد یوں کو صرف احمدیت کی وجہ سے نوکری نہیں دیتے یا امتحانوں میں اچھے نمبر نہیں دیتے کہ وہ ترقی نہ کر جائیں.یا اگر تا جر ہیں تو ان کی تجارت میں روک ڈالتے ہیں.اگر زمیندار ہیں تو طرح طرح سے ان کو تنگ کرنے کی کوشش

Page 375

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۳۶۹ سورة البقرة کرتے ہیں.خصوصاً جہاں نئے احمدی ہوں اور تعداد میں بھی تھوڑے ہوں وہاں اس قسم کا سلوک اکثر کیا جاتا ہے.ایسے لوگوں پر خدا کے لئے دنیا کی تمام راہیں اگر بند ہو جائیں تو قرآنی محاورہ کے مطابق وہ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللہ کے گروہ میں شامل ہوتے ہیں.b (خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۴۵،۴۴۴) آیت ۲۸۷ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا ج وقفة وقفة بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرُ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (TAV لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں ہر دو پہلو بیان ہوئے ہیں.ایک یہ کہ اللہ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا.یہاں طاقت سے مراد دائرہ استعداد ہی ہے جس پر میں متعدد بار روشنی ڈال چکا ہوں.پس کسی کا جتنا دائرۂ استعداد یا دائرہ صلاحیت یا دائرہ قوت و طاقت ہو، اس سے زیادہ بوجھ فرد، گروه یا نوع پر نہیں ڈالا گیا.دوسرا پہلو یہ ہے کہ دائرہ استعداد میں جتنی بھی طاقت تھی ، اس پر پوراسو فیصد بوجھ ڈال دیا گیا اور انسان کو اس کا مکلف بنا دیا گیا.اللہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے اور جو طاقت سے باہر ہے وہ اس کا بھی مطالبہ نہیں کرتا.وہ اپنے کسی بندے پر اس وجہ سے بھی خوش نہیں ہو گا کہ اس نے اپنے بھائیوں سے طاقت سے زیادہ مطالبہ کیا لیکن طاقت اور اس دائرہ کے اندر ذمہ داریوں کا جو زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جاسکتا ہے، وہ ڈالتا ہے چونکہ قوت وطاقت کی نشو نما ہوتی رہتی ہے اس لئے افراد کے بوجھ اور ان کی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ تیری وحی سے منہ پھیر لیتے ہیں وہ بھی دو قسم کے ہیں.ایک تو مقر اور ایک وہ جو ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو جان بوجھ کر یا غفلت کے نتیجے میں نباہنے کی کوشش نہیں کرتے اور ان کا حال یہ ہے واعظی قلِيلا و اندی (النجم : ۵۴) کہ تھوڑا سا

Page 376

٣٧٠ سورة البقرة تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرنے لگتے ہیں.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں جو بات بتائی گئی تھی وہ یہاں کھول کر بتا دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تھوڑا دینے پر راضی نہیں بلکہ وہ طاقت کے مطابق پورا دینے پر راضی اور خوش ہوتا اور اس کی جزا دیتا ہے.باقی اس کی رحمت وسیع ہے وہ اپنے بندوں سے بعد میں 66 جزا سزا کے وقت جو چاہے سلوک کرے ( بعد میں سے یہ مراد ہے کہ اس زندگی کے بعد اُخروی جزا کا وقت یا اسی زندگی میں جزا کا وقت یعنی ایک محدود کوشش کا نتیجہ نکلنے کا وقت ) وہ مالک ہے جو مرضی ہو کرے اسکے متعلق ہم بات نہیں کیا کرتے لیکن جو خدا نے ہمیں کہا اور تعلیم دی ہے، ہم سے جو چاہتا اور خواہش رکھتا ہے اور جس بات پر وہ کہتا ہے کہ میں راضی ہوتا ہوں.وہ یہ ہے کہ جتنا دے سکتے ہواُتنا دے دو تو میں راضی ہوں گا ورنہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ ڈالا ہے اور اس کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کام نہ کرے بلکہ اس سے کم کرے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کی لغوی بحث میں امام راغب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی طاقت سے جو زائد ہے، وہ اس کا مکلف نہیں لیکن اس دائرے کے اندر مکلف ہے.سورہ نجم میں یہی چیز کھول کر بیان کر دی گئی ہے کہ تھوڑا دینا اور بقیہ کے متعلق بخل کرنا.اگر تمہاری قوتِ استعدا دسوا کائی ہو اور تم خدا کی راہ میں خدا کے بتائے ہوئے طریق اور اسکی تعلیم کے مطابق اور اس کی شریعت کے اصول کے لحاظ سے ننانوے اکائیاں دے دو اور ایک کے متعلق روگردانی اور بغاوت کا طریق اختیار کرو تو تم باغی ہو.اگر بھول جاؤ تو تم خدا تعالیٰ کے بعض فضلوں کو کھونے والے ہو سوائے اس کے کہ پھر ایک اور کوشش کر و یعنی استغفار اور دعاؤں اور خدا کے سامنے عاجزانہ تڑپنے کی.یہ ایک اور کوشش ہے جو اس کمی کو پورا کرتی ہے پس کوشش بہر حال کرنی پڑے گی....اللہ تعالیٰ سورہ نجم کی ان دو آیات کے بعد ان لوگوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے جو کچھ دیتے اور بقیہ کے متعلق بخل کرتے ہیں کہ کیا ان کو علم نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے.جو پہلی الہامی کتب میں بھی نظر آتا ہے.یعنی اَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.وَزَر کے ایک معنے تو گناہ کے ہیں لیکن میں جو تفسیر کر رہا ہوں وہاں گناہ کے معنی چسپاں نہیں ہوتے.میری تفسیر کے مطابق بوجھ کے معنے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جس کی استعداد پچاس اکائیاں ہے وہ اتنی اکائیوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی جو پچاس اور ساٹھ کے درمیان فرق ہے یا پچاس اور سو

Page 377

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة البقرة کے درمیان فرق ہے وہ تو دوسرے کا بوجھ ہے ( جس کی طاقت زیادہ ہے اور ) اس کے اوپر نہیں پڑسکتا.اس کی جان پر اتنا ہی بوجھ پڑے گا جتنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے مطابق اٹھانے کے قابل ہے اس سے زیادہ نہیں لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ میں نے جو کوتاہی کی ، میں نے جو غفلت کی ، میں نے جو کمزوری دکھائی اور جو قربانی مجھے پیش کرنی چاہیے تھی ، میں نے پیش نہیں کی تو کوئی اور شخص اس کی خاطر اس کمی کو پورا کر دے گا.یا ناممکن ہے اس واسطے کہ اس میں بھی تو اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی اہلیت نہیں ہے اگر اس کی ذمہ داری اپنی اکائیاں ہے تو اسی اکائیوں پر اس کی طاقت ختم ہوگی.وہ دوسرے کی دس اکائیاں کہاں سے پوری کرے گا اگر اس کی طاقت سوا کائیاں ہے تو سو اس نے دے دینی ہیں ایک سو دس وہ کہاں سے لائے گا.پس اَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری یہ ایک اٹل قانون ہے.اگر زید اپنی پوری طاقت کے مطابق خدا کے حضور پیش نہ کرے تو زید کی طاقت کے اظہار یعنی محنت اور جانفشانی میں جو کمی رہ گئی ہے یہ کمی کوئی دوسرا پوری نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا اپنا ایک دائرہ استعداد ہے اور اس دائر ک استعداد کی انتہا تک اس کی ذمہ داری ہے.دوسرے کی ذمہ داری وہ کیسے اُٹھائے گا.اَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.دوسرے کا بوجھ تو وہ اُٹھا ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے کیونکہ یہ اٹل قانون ہے کہ انسان دوسرے کا بوجھ اور ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا.زید بکر کی ذمہ داریاں نہیں اُٹھا سکتا اور بکر زید کی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا.ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں خود ہی ادا کرنی پڑیں گی اور ادا بھی اس طرح نہیں کرنی ہوں گی کہ کچھ دیا اور بقیہ کے متعلق بخل کر دیا بلکہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنی طاقت کو انتہا تک پہنچا کر اس کا آخری حصہ تک ادا کرنا پڑے گا کیونکہ دوسرا کوئی ہے ہی نہیں جو کمی کو پورا کر سکے.عقلاً بھی کوئی دوسرا اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا.یہ خدا کا اٹل قانون ہے کیونکہ جو دوسرا ہے اس کو جتنی طاقت دی گئی تھی اس کے مطابق کام کرنے کی تو اس کی اپنی ذمہ داری تھی اور دوسرے کی ذمہ داری اُٹھانے کی اسے طاقت ہی نہیں ملی.اس کی طاقت کا کوئی حصہ ایسا نہیں رکھا گیا جس کے بارہ میں اسے کہا گیا ہو کہ تو دوسرے کی ذمہ داری اٹھا لے.وہ دوسرے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا.ہرگز نہیں اٹھا سکتا.پس جو قوم اپنے مقام کی انتہا کو پہنچنا چاہے، اس کے ہر فرد کی ایسی تربیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انتہا تک پہنچانے والا ہو.فرض کرو ایک لاکھ کی کوئی قوم ہے اگر ان میں سے توے ہزا ر اپنے دائرہ استعداد ۱

Page 378

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث خلیفة ۳۷۲ سورة البقرة کے مطابق یعنی لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں جس قسم کے مکلف ہونے کا ذکر ہے اس کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک پہنچا دے اور دس ہزار نہ پہنچا ئیں تو جو کام دس ہزار سے رہ گیا ہے، کسی اور کی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پورا کر سکے.یہ بالکل ناممکن ہے خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں دی پس اگر یہ کی رہ گئی تو ایک لاکھ آدمی اپنے مقام کی انتہا کو نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ دس ہزار نے کمزوری دکھا دی.( خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۲۳ تا ۲۶) تمہاری وسعت کے مطابق تم پر بار ڈالا جائے گا اس میں کسی فلسفے کی ضرورت نہیں ہے.شریعت میں اتنی لچک ضرور ہونی چاہیے کہ ہر فرد کی طاقت کے مطابق اس کی ہدایتیں بدلتی چلی جائیں.قرآن کریم کے بہت سے احکام میں سے مثلاً روزہ کو لے لو.ایک صحت مند بچہ ہے اور نظر آ رہا ہے کہ وہ پہلوان بننے والا ہے لیکن دس سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ روزہ نہیں رکھنا کیونکہ ابھی تم میں روزے کی طاقت پیدا نہیں ہوئی.اب امریکہ میں جو نئے تجربے کئے گئے ہیں واللہ اعلم کب تک ان کو صحیح سمجھا جائے گا.ان تجربات کی رُو سے اٹھارہ سال کی عمر تک انسان کھانے کے اعتبار سے بچہ متصور ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے غذا کا ایک فارمولا بنایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک کا بچہ ( کھانے کے لحاظ سے وہ بچہ ہے ) جس وقت جس چیز کی جتنی مقدار میں خواہش کرے وہ اسے ملنی چاہیے.تب اس کی (جسمانی) صحیح نشو نما ہو سکتی ہے اسی واسطے اٹھارہ سال کی عمر سے کم کے بچوں کو عادت ڈالنے کے لئے تو کچھ روزے رکھوانے چاہئیں لیکن ایک مہینہ کے لگا تار روزے نہیں رکھوانے چاہئیں کیونکہ رمضان کے لئے وہ عمر بلوغت نہیں ہے رمضان کا تعلق انسان کی روح سے بھی ہے مثلاً تنویر قلب ہوتی ہے.رُوح میں روشنی اور بشاشت پیدا ہوتی ہے.انسان پر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو جائے تو وہ روحانی طور پر ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے......بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَطَافُ رَهَقًا کہ اے انسان! خواہ تیری صحت کیسی ہو! خواہ تیری عمر کتنی ہو! خواہ تیرا ماحول کیا ہو! تیری طاقت کے خلاف یا تیری طاقت سے بڑھ کر بوجھ تمہارے اوپر خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۵۰۵ تا ۵۰۷) نہیں ڈالا جائے گا.

Page 379

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۳۷۳ سورة ال عمران اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ال عمران مج آیت ۸، ۹ هُوَ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيْتَ مُحْكَمْتُ هُنَّ أَمْ الكتب وَ أَخَرُ مُتَشْبهتُ ، فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةَ إِلَّا الله وَالرَّسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا ۚ وَمَا يَنكَرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.لا وہی ہے جس نے تجھ پر ایک کامل کتاب نازل کی ہے جس کی بعض آیتیں تو محکم آیتیں ہیں جو اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اور ہیں جو متشابہ ہیں.پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو فتنہ کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ان آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو اس کتاب میں سے متشابہ ہیں حالانکہ اس کی تاویل اور تفسیر کو سوائے اللہ کے اور علم میں کامل دستگاہ رکھنے والوں کے کہ جو کہتے ہیں کہ ہم اس کلام پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہے کوئی نہیں جانتا اور عقلمندوں کے سوا کوئی بھی نصیحت حاصل نہیں کرتا.اے ہمارے رب تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت کے سامان عطا کر یقیناً تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے.جیسا کہ ہم احمدی جانتے ہیں قرآن کریم کے بے شمار بطون ہیں اور اس وجہ سے قرآنِ عظیم کی

Page 380

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۳۷۴ سورة ال عمران بڑی شان ہے.میں نے ان آیات میں سے ۹ با تیں منتخب کی ہیں جن کے متعلق میں مختصراً کچھ بیان کروں گا.......جو دو آیات میں نے پڑھی ہیں ان میں سے پہلی کے ساتھ آٹھ باتوں کا تعلق ہے اور پھر آگے دعا ہے.پہلی بات جو اس آیت سے ہمیں پتہ لگتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ ایک کامل کتاب نازل کی جارہی ہے اور اس کی دلیل یہ دی کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ایت محکمت بھی ہیں اور ایت متشبهت بھی ہیں.اس میں قرآن کریم کے کمال کی دلیل دی گئی ہے.ایک تو اس میں ایسی آیات ہیں کہ جو ابدی صداقتوں پر مشتمل ہیں.ایسی آیات ہیں کہ ظاہری طور پر ان کے دو معنی نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے ایک ہی معنی ہو سکتے ہیں اور وہ کھلی کھلی صداقتیں ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کے متعلق جو قرآن کریم نے کہا کہ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (الاخلاص : ۲) یہ ایک ابدی صداقت ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق بنیادی چیز ہے کہ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں.اب اس کی تاویل نہیں ہو سکتی.خدا ایک ہے.یہ حقیقت ہے.پس اس میں ابدی صداقتیں بھی بیان ہوئی ہیں اور دوسرے اس میں وہ باتیں بھی بیان ہوئی ہیں جن کے ان ابدی صداقتوں کی روشنی میں مختلف معانی ہو سکتے ہیں.بہت سے صحیح معانی ہیں جن کے اوپر ابدی صداقتوں کی روشنی پڑتی ہے اور وہ ان کو منور کر رہی ہوتی ہے.ایک معنی بھی درست اور دوسرا بھی درست اور تیسرا بھی درست اور ہزارواں بھی درست اور شاید لاکھواں بھی درست کیونکہ خدا تعالیٰ کے جلوے بے شمار ہیں اور یہ اسی کا کلام ہے اس کے اندر بھی اس کے بے شمار جلوے چھپے ہوئے ہیں اور بے شمار اسرار روحانی اس کے اندر پائے جاتے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں.اسی طرح پیشگوئیاں ہیں اگر قرآن کریم ایک کامل کتاب نہ ہوتی اور اس کا تعلق قیامت تک پیدا ہونے والے انسان سے نہ ہوتا تو اس میں ایسی پیشنگوئیاں بھی نہ ہوتیں جن کا تعلق قیامت تک کے انسان سے ہے اور جن کا تعلق بعد میں آنے والے زمانوں سے ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نے ، خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے ہمیں بتایا ہے ساری ہی پیشنگوئیاں اپنے اندر اخفا کا کچھ پہلو رکھتی ہیں.متشابہات کے بھی یہی معنی ہیں اور اس زمانہ کے حالات، چودھویں صدی کے حالات جو پہلی صدیوں سے مختلف ہیں اس زمانہ کے لئے قرآن کریم کی تفسیر ایسی ہے جس کا تعلق اس زمانہ سے ہے لیکن یہ تفسیر ابدی صداقتوں کی روشنی

Page 381

۳۷۵ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث میں ہوگی اور آیات محکمات سے باہر نہیں جاسکتی بلکہ وہ ڈیٹر من( Determine) کرتی ہیں.وہ معین کرتی ہیں کہ کونسی تاویل یا تفسیر کسی آیت کی درست ہے اور کونسی نہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک کامل کتاب ہے جو نوع انسانی کو دی گئی ہے اور ہمیشہ کے لئے ان کی رہنمائی کرے گی.کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ انہیں قرآن کے علاوہ کسی اور ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت پیش آئے.قرآن کریم نے آئندہ کی خبریں دی ہیں اور ہر صدی کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں جو اپنے وقتوں پر ظاہر ہوتی ہیں.مثلاً چاند اور سورج گرہن ہونے کی پیش گوئی تیرہ سو سال کے بعد جا کر پوری ہوئی.اب اگر انسان پر قرآن کریم کی حکومت تیرہ سو سال پر پھیلی ہوئی نہیں تھی تو قرآن کریم میں تیرہ سوسال کے بعد پوری ہونے والی کسی پیشگوئی کی ضرورت نہیں تھی اور اگر قرآن کریم کی حکومت قیامت تک پھیلی ہوئی نہیں ہے تو قیامت تک کی پیشگوئیاں اس میں نہیں ہوں گی لیکن قیامت تک پھیلی ہوئی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں.قرآن کریم کے نزول پر، اس کامل کتاب کے نزول پر اب قریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں.اس کا ماضی بھی عملا یہ بتاتا ہے کہ مستقبل میں بھی خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ سے انسان کے ساتھ یہی سلوک کرے گا کہ نئی سے نئی باتیں قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق ظہور میں آئیں گی اور پیشگوئیاں پوری ہوں گی، جب نئے مسائل پیدا ہوں گے قرآنِ کریم کی نئی تفسیر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو سکھائے گا، اپنے مقربین اور اپنے محبوب بندوں کو اور پھر وہ ان مسائل کو حل کریں گے.پس قرآن کریم میں انت محكمت کے علاوہ ایت مُتشبِھت کا پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.خدا کہتا ہے کہ یہ ایسی مکمل اور کامل کتاب ہے جس میں متشبھت بھی پائی جاتی ہیں اس معنی میں كه وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةَ إِلَّا اللهُ وَالرَّسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا اس معنی میں جو متشابہات تھیں، جو قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے والی اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعتوں کی طرف اشارہ کرنے والی تھیں منافق انہی متشابہات کی غلط تاویل سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جو دنیا کی روشنی کے ذرائع تھے منافق ان کے ذریعے خود اپنے آپ کو بھی اندھیروں میں لے جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اندھیروں کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور جو مومن ہے وہ ایسا نہیں کرتا لیکن قرآن کریم نے متشبهت سے پہلے محکمت کہا ہے کیونکہ پہلے تو اس کی عظمت ہے یعنی ایک کامل

Page 382

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث و سورة ال عمران کتاب ہونا اور اس کا مدلل ہونا اور ابدی صداقتوں پر اس کا مشتمل ہونا.پس دوسری بات یہ ہے کہ قرآن عظیم میں ایک مُحْكَمت پائی جاتی ہیں جن میں کوئی استعارہ نہیں اور جو کسی تاویل کی محتاج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ محکمت کے معنی ہیں کہ جن میں کوئی استعارہ نہیں پایا جاتا اور جو کسی تاویل کی محتاج نہیں ہیں.میں نے کہا تھا کہ اس کے اندر ابدی صداقتیں ہیں اور بینات ہیں.بینت ، محكمت ہیں.ایک ظاہر چیز ہے جس میں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ میں ایک ایسی کتاب ہوں جو بالکل مہین ہوں، ظاہر ہوں اور کوئی چیز مجھ میں چھپی ہوئی نہیں ہے، وہ ان آیات محکمات کے متعلق ہی کہا گیا ہے.یا وہ تفاسیر قرآنی جوان متشابہات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا تعلق ماضی سے تھا جس وقت وہ واقع ہو گیا تو وہ مبین کے اندر شامل ہوگئیں.تیسری بات ہمیں یہ پتنگتی ہے کہ قرآن عظیم میں ایت محکمت بھی ہیں جو تاویل کی محتاج ہیں.ان متشبهت کی بہت سی باتیں بعض استعارات کے پردہ میں مجوب ہیں اور اپنے اپنے وقت پر آ کر کھلتی ہیں اور جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا یہ قرآن کریم کی عظمت ہے، بہت بڑی عظمت ! کہ وہ ایک ایسا کلام ہے جس نے قیامت تک کے لئے انسان کی بہتری کے سامان کر دیئے.ہر صدی کا ، ہر زمانے کا، ہر علاقے کا، ہر ملک کا انسان قرآن کریم کا محتاج اور اس کی احتیاج سے وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکتا.جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں متشبھت میں پیشگوئیاں بھی ہیں اور متشبھت میں قرآن کریم کی وہ تفسیر بھی ہے جو زمانہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ ابدی صداقتوں کی روشنی میں ہے اس سے با ہر نہیں اور ابدی صداقتوں کی ضد نہیں ہے بلکہ ان کی تائید کرنے والی ہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے میں مختصر کروں گا.یہ تین باتیں ہوگئیں.چوتھی بات ہمیں یہ پسینگتی ہے کہ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے لیکن پھر بھی جن کے دلوں میں کبھی اور نفاق ہے وہ ان آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں.یہ ان آیات سے پتہ لگتا ہے ایک تو وہ ان آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں اور محکمات کی طرف نظر ہی نہیں اٹھا کر دیکھتے یعنی جو چیز واضح ہے، قطعی ہے، جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اس کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور جس میں تاویل ہوسکتی

Page 383

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۳۷۷ سورة ال عمران.ہے، جس کے ایک سے زائد معنی ہو سکتے ہیں، جس کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو تب خدا تعالیٰ خود وہ معانی سکھاتا ہے وہ ان متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور پھر یہ کہ ان کے پیچھے پڑ کر ایک ایسی تاویل کرتے ہیں جو غلط ہوتی ہے.وہ حقیقت سے دور لے جانے والی ہے.آیات محکمات سے پرے لے جانے والی، اس کی ضد اور اس سے متضاد ایک تفسیر اور تاویل کر دیتے ہیں اور ان کا جو ارادہ ہوتا ہے، ان کی جو نیت ہوتی ہے وہ بھی شیطانی ہوتی ہے.ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وہ فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، آیات قرآنیہ کے معانی کو ان کی حقیقت سے دور لے جاتے ہیں اور آیات محکمات کی ضد میں ان سے متضاد ایک معنی کر رہے ہوتے ہیں اور نیت ان کی ہوتی ہے فتنہ پیدا کرنا اور دعویٰ ان کا یہ ہوتا ہے کہ ہم تو صالحین کا گروہ ہیں ہم تو مصلح ہیں، ہم تو اصلاح چاہتے ہیں.پانچویں بات اس آیت سے یہ پتہ لگی کہ ایت متشبهت کی تفسیر اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ما يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا اللهُ - خدا نے اعلان کر دیا کہ متشابہات کی تفسیر خدا کے سوا اور کوئی جانتا ہی نہیں.کوئی انسان یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ میں اپنی عقل یا فراست سے قرآن کریم کی آیت متشبهت یعنی متشابہ آیات کی تفسیر کر سکتا ہوں.کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةٌ إِلَّا اللہ سوائے خدا تعالیٰ کے ان کی تاویل کوئی نہیں جانتا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انسانوں میں سے وہ گروہ جو میرے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے وہ گروہ جو علم میں کامل دستگاہ رکھنے والا ہے.الرسخُونَ فِي الْعِلْمِ بطونِ قرآنی کو جانتے ہیں.یہ اعلان کیا خدا تعالیٰ نے کہ اللہ کے سوا کوئی جانتا نہیں اور جو علم میں کامل دستگاہ رکھنے والے ہیں وہ بطونِ قرآنی کو جانتے ہیں.اور ساتویں بات ہمیں یہ پتہ لگی کہ وہ اس لئے جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ اسرار روحانی سیکھتے ہیں.وہ اس کلام پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا اور ان کا یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے تفسیر نہیں کر رہے بلکہ ان ایت متشبهت کی تفسیر خدا تعالیٰ ہمیں سکھاتا ہے اور تب ہم بتاتے ہیں.کوئی انسان اپنی طاقت سے اپنے زور سے اپنی فراست اور اپنی عقل سے ایک متشبت کی صحیح تفسیر بیان ہی نہیں کر سکتا.اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا

Page 384

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۷۸ سورة ال عمران فضل اس کے اوپر نازل ہو اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں وہ یہ تفسیر سیکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں وہ راسِخُ فِي الْعِلْمِ بن جائے.خدا تعالیٰ سے علم حاصل کرنے کے لئے قرآن پر کامل ایمان ضروری ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کامل نہیں وہ شخص اللہ تعالیٰ سے تفسیر سیکھ ہی نہیں سکتا.امنا پہ ہم اس کلام پر ایمان لائے.ہم ایمان لائے کہ یہ کامل کتاب ہے اور اس بات پر بھی ایمان لائے کہ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا یعنی جو ایت محكمت ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جو ایت مُتَشبهت ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور وہ ذات وہ ہستی جس کی ذات اور صفات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا اس کے کلام میں بھی کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.اس بات پر وہ ایمان لاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کو ایسے معانی سکھاتا ہے جو قرآن کریم کے دوسرے حصوں سے متضاد نہیں.وہ تفسیر نہ ایت محکمت سے متضاد ہے اور نہ ایت متشبهت کے ان دیگر معانی سے متضاد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو یا کسی اور کو اس زمانہ میں یا کسی اور زمانہ میں سکھائے کیونکہ اس کی ذات میں اور اس کے علم میں تضاد نہیں ہے اور اس کی سکھائی ہوئی تعلیم میں بھی تقضاد پیدا نہیں ہو سکتا.جس کو یہ چیز مل گئی، خدا تعالیٰ کی رحمت جس کی معلم بن گئی اس کو کامیابی کی ہر کلید مل گئی.آج صبح میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا.میں نے دیکھا کہ ایک چھپی ہوئی کتاب میرے سامنے پڑی ہے اس کا جو سر ورق ہے یعنی پہلا صفحہ جس پر نام لکھا ہوتا ہے اس کا اوپر کا حصہ تو میری نظر نے نہیں پکڑا لیکن اس کے نیچے فارسی کا ایک بڑا عجیب شعر ہے وہ شعر مجھے بھول گیا لیکن اس کے بعض الفاظ مجھے یاد ہیں اور مفہوم پوری طرح یاد ہے.وہ شعر نوریست سے شروع ہوتا ہے اور پہلا مصرع ختم بھی نوریست پر ہوتا ہے.پہلے مصرع کے معنی یہ ہیں کہ نور تو وہ نور ہے جو ایسے شخص کو ملے جو اپنے نفس پر، اپنی ذات پر ایک موت وارد کرتا ہے اور فنافی اللہ ہو جاتا ہے وہ نور، نہ کہ سعی بسیار، کلید کامرانی ہے یہ دوسرے مصرعے میں ہے.دوسرے مصرعے کے شروع میں سعی بسیار اور آخر میں کلید کامرانی ہے.انسانی تدا بیر اور انتہائی کوشش کامیابی کی چابی نہیں، کامیابی کی چابی یہ ہے کہ اپنے اوپر ایک موت وارد کر لینے کے بعد ، فنا فی اللہ ہو جانے کے بعد انسان کو ایک نور عطا ہو جائے.پھر وہ جس میدان میں بھی قدم اٹھاتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے.

Page 385

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۷۹ سورة ال عمران اس آیت کے معا بعد جو دوسری آیت ہے یعنی رَبَّنَا لا تزغ قلوبنا اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دیکھو اتنی عظیم کتاب اتنی شاندار کتاب اتنی وسعتوں والی کتاب کہ جس کی حکومت بعثت نبوی سے اور نزول قرآن سے لے کر قیامت تک پھیلی ہوئی ہے بج دل لوگ اس کو بھی اپنی اور دوسروں کی (جس پر ان کا اثر ہوتا ہے ) ہلاکت کا باعث بنا دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو علم حاصل کیا جائے اس کے سوا باقی ہر چیز متشابہ نہیں بلکہ مشتبہ ہے اور بلندیوں کی طرف لے جانے والی نہیں بلکہ گہرائیوں میں گرانے والی ہے.اور یہاں جو ذکر ہے کہ جن کے دلوں میں کچھی ہے، وہ وہ لوگ نہیں ہیں جو اسلام پر ایمان ہی نہیں لائے بلکہ ایمان لانے کے بعد کچی پیدا ہوئی اور یا پھر ان کی سابق کبھی دور نہیں ہوئی، دونوں شکلیں ہوتی ہیں.اتنی عظیم کتاب ہے اور وہ ان کے دلوں کی کبھی دور نہیں کر سکی ان کی شامتِ اعمال کی وجہ سے، ان کی بدقسمتی کی وجہ سے، ان کی ذہنی بیماری کی وجہ سے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے زور سے صراط مستقیم پر بھی نہیں چل سکتے اور کبھی سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے بلکہ اس کے لئے بھی دعا کی ضرورت ہے.اس واسطے نفاق سے اور دل کی بجی سے محفوظ رہنے کے لئے یہ دعا کیا کرو کہ : رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ تَدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - (خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۱۱۱ تا ۱۱۸) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کتاب هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا کہ تقویٰ کے بلند مقام پر پہنچنے کے باوجود انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت رہتی ہے اور اس ضرورت کو یہ قرآن پورا کر رہا ہے.متقیوں کے لئے ہدایت کا سامان اس کے اندر پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو دعائیہ الفاظ میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ربّنا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا لَه ہدایت تیرے فضل سے ہمیں حاصل ہو جائے پھر بھی یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ ہمارے دلوں میں کسی قسم کی کبھی نہ پیدا ہو جائے.پس ہم تیرے حضور عاجزانہ دعا کے ذریعہ جھکتے ہیں اور یہ التجا کرتے ہیں کہ جب ہمیں ہدایت حاصل ہو جائے ، صراط مستقیم ہمیں مل جائے ، ہمارے دل سیدھے ہو جائیں، تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کوئی کجی نہ پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی خطرہ کی طرف بار ہا متوجہ کیا ہے میں ایک مختصر سا اقتباس اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں آپ فرماتے ہیں:.

Page 386

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۳۸۰ سورة ال عمران بعض ایسے بھی ہیں کہ اول ان میں دل سوزی اور اخلاص بھی تھا مگر اب ان پر سخت قبض وارد ہے اور اخلاص کی سرگرمی اور مریدانہ محبت کی نورانیت باقی نہیں رہی بلکہ صرف بَلْعَمُ کی طرح مکاریاں باقی رہ گئی ہیں اور بوسیدہ دانت کی طرح اب بجز اس کے کسی کام کے نہیں کہ منہ سے اکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دیئے جائیں.وہ تھک گئے اور درماندہ ہو گئے اور نابکار دنیا نے اپنے دام تزویر کے نیچے انہیں دبا لیا.سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عنقریب مجھ سے کاٹ دیئے جائیں گے.بجز اس شخص کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل نئے سرے اس کا ہاتھ پکڑ لیوے.ایسے بھی بہت ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے مجھے دیا ہے اور وہ میرے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں“.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ہدایت پا لینے کے بعد اس وہم میں مبتلا ہو جانا کہ اب ہمارے لئے ابتلاء آ ہی نہیں سکتا اور شیطان کا ہم پر کامیاب وار ممکن ہی نہیں یہ غلط ہے.متقی بن جانے کے بعد بھی انسان کو ہدایت کی ضرورت رہتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ ربنا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا کہ کبھی سے بچنے اور ہدایت پر قائم رہنے کیلئے جن ہدایتوں کی ، جن تعلیمات کی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.پس ایسے مواقع کے لئے جو دعائیں قرآن کریم نے سکھائی ہیں جوطریق اس نے بتائے ہیں جو تعلیمیں اس نے دی ہیں ان سے فائدہ اُٹھاؤ اور دعاؤں کے ذریعہ اور تدبیر کے ذریعہ یہ کوشش کرو کہ ہدایت پانے کے بعد پھر پاؤں نہ پچھلے اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہونے کے بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ رضا کی ان جنتوں سے نکال دئے جاؤ.تعد (خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۱،۳۰) آیت ۱۵ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَابِ.خواہشات نفسانی کا ذکر بہت سی جگہ قرآن کریم میں آیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو شیطانی اثر ہیں

Page 387

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۳۸۱ سورة ال عمران زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ اہوائے نفس خوبصورت کر کے دکھائے جاتے اور ان کا پیار شیطان انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے.هوى کا لفظ اس سے ملتے جلتے معنی کا ہے.اہوائے نفس بھی ہم کہتے ہیں.خواہشات نفس بھی ہم کہتے ہیں.ھوی کے معنی ہیں مَيْلُ النَّفْسِ إِلَى الشَّهْوَة شہوت کی طرف، خواہشات کی طرف انسان کا میلان جو ہے عربی میں اسے القوی کہتے ہیں.مفردات راغب میں آیا ہے وَقَدْ عَظم اللهُ دَمَّ اِتَّبَاعِ الْهَوَی کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی بڑی اہمیت بیان کی اور اس پر بڑا زور دیا کہ اتباع الهوى - خواہشات نفسانی کی اتباع بڑی مذموم چیز ہے، بہت بری چیز ہے، بہت گندی چیز ہے.بڑا زور دیا گیا ہے اس پر اور قرآن کریم کا دعویٰ تھا کہ میں ہر چیز کھول کھول کے بیان کرنے والا ہوں ، قرآن کریم نے بہت جگہ شہوات نفسانی جن کو ترک کرنے کا حکم ہے ہجرت میں.اور یہ اہواء جو ہیں ان کے جو مضرات ہیں جس وجہ سے اس کی برائی کی گئی ہے اللہ تعالیٰ کے کلام میں، ان کے اوپر روشنی ڈالی گئی ہے.میں نے اس خطبہ میں چند باتیں ان آیات قرآنی میں سے لی ہیں کہ شہوات نفسانی کی اتباع کرنے والے کس قسم کی محرومیوں میں خود کو ڈالنے والے اور اللہ تعالیٰ کے کن انعاموں سے وہ محروم ہو جاتے ہیں.اس مضمون کے تعلق میں ( ہوائے نفس یا خواہشات نفس یا شہوات نفس ایک ہی چیز ہے) پہلی چیز یہ بتائی گئی ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول سے شہوت نفس یا اہوائے نفس محرومی کا باعث بن جاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۷ میں بیان کیا ہے.و کوشتنا اگر ہم چاہتے تو اسے رفعتیں اور بلندیاں عطا کرتے.اس کے یہ معنی بھی ہیں ( تلاوت کرتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ بالکل یہ معنی ہیں ) و کوشتنا اگر ہماری مرضی پر وہ چلتا ( ہم چاہتے تبھی ہوتا نا جب ہماری مرضی پر چلتا ) لرفعتهُ اُسے روحانی رفعتیں حاصل ہو جاتیں لیکن وہ ہماری مرضی پر نہیں چلا بلکہ ہوائے نفس کی اس نے اتباع کی وَلكِنَّةُ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وہ زمین پر گر پڑا رفعتیں حاصل کرنے کی بجائے.وَاتَّبَعَ حومه یہ قرآن کریم کا ہے اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوايه رفعتوں سے محرومی اسے ملی اور زمین یہ اسی طرح، زمین کا کیڑا جس طرح زمین پہ چل رہا ہوتا ہے وہ اس کی حالت بن گئی.انسان زمینی گراوٹ کے لیے نہیں پیدا کیا گیا.انسان کو مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا

Page 388

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۲ سورة ال عمران لِيَعْبُدُونِ (الذاریت: ۵۷ ) ( کی آیت جس کی طرف اشارہ کرتی ہے ) آسمانوں کی بلندیوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی امت مسلمہ کو کہ جب تم میں سے کوئی عاجزی، انکساری اور تواضع کی راہوں کو اختیار کرے گا رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (كنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۵) ساتویں آسمان کی بلندیاں اسے حاصل ہو جائیں گی.یہاں یہ فرمایا اگر وہ ہماری مرضی کی راہوں کو اختیار کرتا ترفعنه ہم نے اس کے لیے بلندیاں مقدر کیں ہوئی تھیں لیکن آخلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وہ تو زمین پر گر پڑا، زمین کا کیڑا بن گیا وَاتَّبَعَ هَواهُ اور اپنے اہوائے نفس کی اتباع اس نے کرنی شروع کر دی.دوسری چیز جس سے کہ حصول میں روک بنتی ہے اتباع اہوائے نفس وہ یہ ہے.شہوات نفسانی کی پیروی کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب ہوتی ہے.سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اہوائے نفس کی اتباع کا ، پیروی کا مرتکب ہوگا اتناظلم کر رہا ہوگا اپنے نفس پر کہ اللہ تعالیٰ نے جو آیات اس کی بہتری کے لیے نازل کی ہیں ان کی وہ تکذیب کر رہا ہے.اہوائے نفس کی پیروی تکذیب آیات باری ہے.یہ اعلان کیا گیا ہے.” آیات جو ہیں قرآن کریم میں دو معنی میں استعمال ہوئی ہیں.دنیوی انعامات مثلاً ایٹم کے ذرے میں وہ طاقت جو آج انسان نے معلوم کی اور روحانی انعامات جو اللہ تعالی نازل کرتا ہے اور فرمایا ہے کہ موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح میری آیات، انعامات جو ہیں ، نعماء جو ہیں وہ تم پر نازل ہورہی ہیں.ہر آیت کا انکار ہو رہا ہے.ایٹم کے ذرے ہی کو لو جو انسان کی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی اسے انسان کی تباہی کے لیے استعمال کرنے کے ہتھیار بنالئے.تو اہوائے نفس کا نتیجہ تکذیب آیات اور ناشکری آیات باری کی ہے.تیسرے یہ کہ خواہشات نفس کی جو پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی دوستی اور اس کی مدد اور پناہ سے محروم کر دیا جاتا ہے.سورۃ الرعد کی آیت ۳۸ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.بڑا سخت نقصان ہے یہ.اس دنیا کی دوستیاں تو تم دیکھتے ہو روز آج دوستی ہے کل دشمنی میں بدل جاتی ہے.جس کو آج سر پہ اٹھا یا کل اسے زمین پر گرا دیا.جس کے لیے آج اپنی جانیں لاکھوں کی تعداد میں قربان کرنے لیے تیار ہو گئے ، اس کی جان لے لی اگلے روز تو خواہشات نفس کی پیروی اللہ کی

Page 389

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۳ سورة ال عمران دوستی اور اس کی پناہ سے محروم کر دیتی ہے.اور چوتھی بات یہ بتائی گئی کہ گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیار کرنا ، ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنا دل کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے پھر تو میں ہی میں ہو جاتا ہے نا.انانیت جوش مارتی ہے.66 یہ خواہش ہے، پوری ہونی چاہیے.وہ خواہش ہے، پوری ہونی چاہیے.ایک اور خواہش ہے وہ پوری ہونی چاہیے.جب خواہشات کی اتباع شروع ہوگئی تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ پھر خواہشات کی کوئی انتہا نہیں رہتی.جو سب سے زیادہ امیر اس وقت ہماری دنیا میں پایا جاتا ہے اس کے دل میں پھر بھی یہ خواہش ہے کہ کچھ اور مال مجھے مل جائے لیکن جو خدا کے بندے ہیں وہ مال لٹایا کرتے ہیں، فقیر بن کے ہاتھ پھیلا یا نہیں کرتے.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے ہیں ، غیر اللہ کے سامنے جھکنے والے نہیں ہوا کرتے اور قرآن کریم سورۃ الکہف کی آیت ۲۹ میں یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیار کرنے والا انسان ایسا دل رکھتا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے اور جو دل ایک لحظہ کے لیے اپنے رب کی یاد سے غافل ہوا اس نے ہلاکت مول لی.پانچویں بات خدا تعالیٰ نے ، پانچواں پہلو اس کا یہ بتایا ہے کہ ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنے سے ایمان بالآخرت جاتا رہتا ہے یعنی قیامت پر ایمان کہ ایک اور زندگی ہوگی جہاں جواب طلبی ہوگی ، جہاں انعامات ملیں گے، جہاں ایک ابدی زندگی عطا کی جائے گی، جہاں ایسی جنتیں ہونگی جن کی نعماء کا حسن اور نور اور لذت ہمارے جسمانی اعضا اور حواس جو ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے ، ہماری عقل میں نہیں آ سکتے.تو ہوائے نفس کی پیروی اختیار کرنا آخرت اور قیامت پر ایمان لانے میں روک بن جاتا ہے.پھر ایسا شخص جو اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے، وہ کہتا ہے یہی زندگی سب کچھ ہے ، جو کچھ جس طریق سے مل سکے حاصل کرو اور وہ اپنی روح کو، اپنے وجود کو ان جنتوں سے محروم کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے پیدا کیں جو قرآن کریم کی اتباع اس رنگ میں کرتے ہیں جس رنگ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھائی.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۹۹ تا۳۰۲)

Page 390

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۴ سورة ال عمران قف آیت ۲۰ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا b الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمُ ، وَمَنْ يَكْفُرُ بِأَيْتِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ آج کل قرآن کریم پڑھنے اور سکھانے کے لئے (اس سے متعلق دوسرے مضامین بھی اس میں پڑھائے جاتے ہیں ) جو کل اس یہاں جاری ہے اس کے سامنے میں نے یہ بات رکھی تھی کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی اور ان بشارتوں کے طفیل جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے متعلق اللہ تعالی نے دیں اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئیاں ( جو آپ کے ایک روحانی فرزند کے ذریعہ پوری ہوئی تھیں ) آپ کو عطا کیں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کریم کے ایسے علوم سکھائے کہ عقل دنگ اور حیران رہ جاتی ہے.اس اصولی بات کو سمجھانے کیلئے میں نے کلاس کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت کا ٹکڑا رکھا تھا اور وہ یہ تھا.اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ میں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے ٹکڑے کے بڑے ہی لطیف حسین اور عجیب مختلف اور متعدد معانی کئے ہیں جو تفسیری معانی ہیں.اس سلسلہ میں میں نے کلاس کے سامنے جو باتیں اس وقت تک بیان کر دی ہیں وہ یہ ہیں :.ا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:." إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ یعنی سب دین جھوٹے ہیں مگر اسلام ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۳۱۴) -۲ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ کے یہ معنی ہیں.دین سچا اور کامل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اور جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہو گا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۵)

Page 391

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۵ سورة ال عمران ہیں کہ ۳.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ کے یہ معنی اسلام کے سوا اور کوئی دین قبول نہیں ہو سکتا اور یہ نرا دعوی نہیں تا خیرات ظاہر کر رہی ہیں کہ اگر کوئی اہل مذہب اسلام کے سوا اپنے مذہب کے اندر انوار و برکات اور تاثیرات رکھتا ہے تو پھر وہ آئے ہمارے ساتھ مقابلہ کرئے".( الحکم ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) میں نے انہیں یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم کی یہ روحانی تاثیرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ختم نہیں ہو گئیں بلکہ آپ کے بعد آپ کی جماعت میں جو سلسلہ خلافت قائم کیا گیا ہے اس سے بھی یہ وابستہ ہیں اور آج بھی یہ دعوت مقابلہ قائم ہے.۴.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے چوتھے تفسیری معنی یہ کئے ہیں کہ ” وہ دین جس میں خدا کی معرفت صحیح اور اس کی پرستش احسن طور پر ہے وہ اسلام ہے“.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۵) ۵.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک معنی یہ کئے ہیں کہ " سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.(الحکم ۱۶ اگست ۱۹۰۰ صفحه ۳).چھٹے معنی اس آیت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالی ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں“.( حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط) ے.ساتویں معنی اس آیت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ:.اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے.وو 66 (احکم ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰).آٹھویں معنی اس آیت کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز

Page 392

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۸۶ سورة ال عمران البدر ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۳) شخص ہوتا ہے“.ان معانی پر میں نے نسبتاً تفصیلی ( بہت تفصیل سے بھی نہیں اور بہت اختصار سے بھی نہیں ) روشنی ڈال کر اپنے بچوں اور بھائیوں کو بتایا تھا کہ کس طرح علم کا ایک دریا ہے جو بہتا چلا جاتا ہے چونکہ اور بھی بہت سے معافی ہیں جو رہ گئے ہیں اس لئے ان میں سے بعض کے متعلق میں اس خطبہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.۹.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَام کے یہ معنی ہیں اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے خدا کو راضی کیا جاوے.“ البدر ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ء صفحه ۳) جو دین مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے اور جو شریعت کامل ہے وہ قرآن کریم میں ہے پس ان الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ میں یہ فرمایا کہ اگر تم اپنے رب کو راضی کرنا چاہتے ہو اگر تم اس کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو اگر تم اس سے تعلق محبت قائم کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف یہی راہ ہے کہ قرآن کریم کی پوری اتباع کرو اور اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ ہماری تمام روحانی، اخلاقی، دینی اور دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے سب سامان قرآن کریم میں موجود ہیں اور اگر ہم ان روحانی اسباب سے فائدہ اٹھا ئیں اور ان پر عمل کریں تو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں.اس کی تفصیل میں جانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ پہلوں نے اپنے رنگ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مقام کے مطابق اس کی بڑی وضاحت سے اپنی کتب اور تقاریر میں تشریح کی ہے قرآن کریم ایک کامل اور مکمل شریعت ہونے کی وجہ سے ہماری تمام روحانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے تمام ان راستوں کی نشان دہی کرتا ہے جن پر چلنا ضروری ہے ہر وہ بات ہمیں سکھاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے اور ہر وہ بات ہمارے سامنے وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ جس کو اگر ہم اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والے ہو جا ئیں یعنی قرآن کریم نے کامل اور مکمل طور پر احکام کو بیان کیا ہے اوامر کو بھی کھول کر ہمارے سامنے رکھا ہے اور نواہی پر بھی روشنی ڈالی ہے یعنی اس نے بتایا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا غرض قرآن شریف کی اتباع اور صرف قرآن شریف کی اتباع ہی ہے جس سے ہم اپنے رب کو راضی

Page 393

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کر سکتے ہیں.۳۸۷ سورة ال عمران ۱۰.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دسویں تفسیری معنی إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ کے یہ کئے ہیں کہ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر اُدھر بالکل نہ جاوے.- البدر ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۵۹) پہلے معنی یہ تھے کہ جو راستہ دکھایا گیا ہے اس پر چلو اب دوسرے معنوں میں بتایا گیا ہے( گو یہ معنی اپنی ترتیب کے لحاظ سے دسویں ہیں لیکن نویں معنی اور یہ معنی دونوں پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں ) کہ قرآن کریم کے علاوہ کسی اور راہ کو اختیار نہ کریں، نہ عقیدہ میں بدعت، نہ عبادت میں بدعت نہ عمل میں بدعت.قرآن کریم سے باہر نہ جائیں جو صراط مستقیم قرآن کریم نے بتایا ہے اس کے علاوہ کسی راہ کو اختیار نہ کریں اپنی طرف سے اپنے پر مشقتیں نہ ڈالیں ہر قسم کی روحانی، ایمانی عملی بدعتوں سے پر ہیز کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے بھی بعض بزرگ ایسے ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علاقہ میں بدعات کے خلاف جہاد کرنے کا حکم فرمایا اور توفیق عطا کی کہ وہ کامیابی کے ساتھ بدعات کے خلاف جہاد کریں بدعت کا تعلق سارے احکام قرآن کے ساتھ ہو جاتا ہے بعض بدعات ایسی ہیں جو ہوائے نفس یا شیطانی اثر کے نیچے نماز کے ساتھ لگ گئی ہیں اسی طرح روزے کی بدعتیں بھی ہیں اسی طرح حج کی بدعتیں بھی ہیں اسی طرح زکوۃ کی بدعتیں بھی ہیں ہر حکم جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا شیطان نے پوری کوشش کی کہ اس کے ساتھ کچھ ایسی چیزیں بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دے کہ جو حقیقت سے دور اور خالص بدعت ہیں.پس اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَام کے یہ معنی ہیں کہ جو قانون اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس سے زائد ، اس سے باہر، اس کے مخالف کوئی قانون نہیں بنانا کیونکہ نہ عقلاً (اگر اپنے عقائد پر صحیح طور پر قائم ہوں تو ہماری عقل بھی یہی کہے گی ) نہ شرعاً کوئی ایسی چیز عمل یا عقیدہ قرب الہی تک پہنچا سکتی ہے جس کا حکم قرآن حکیم نے نہ دیا ہو کیونکہ قرآن کریم ایک مکمل شریعت کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے لیکن بہت سی بدعتیں عبادات ہیں، بہت سی بدعتیں ایمانیات کے متعلق آہستہ آہستہ ہم میں آگئیں اور خدا تعالیٰ کے بندے چودہ سوسال میں کھڑے

Page 394

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۸ سورة ال عمران ہوتے رہے ان کے ذمہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ کام لگایا گیا کہ ان بدعتوں کو پکڑو اور حقیقت و صداقت سے جھٹکا دے کر علیحدہ کرو اور پرے پھینک دو ان کی مخالفتیں بھی ہوئیں، ان کو ایذائیں بھی پہنچیں ، ان کو دکھ بھی دیئے گئے ، ان پر افتراء بھی باندھے گئے ، ان پر اتہام بھی لگائے گئے لیکن خدا کے وہ پیارے بندے خدا کے حکم کے ماتحت اس فرض کو ادا کرتے رہے جو ان کے کندھوں پر ڈالا گیا تھا.غرض اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْاِسلام کے ایک معنی یہ ہیں کہ کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بدعت ہے اور اس سے پر ہیز کرنا چاہیے.۱۱.گیارھویں معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس سے انکار نہ کرئے“.وو البدر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۳) یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک فقرہ میں اس ٹکڑہ کے تفسیری معنی کئے ہیں لیکن جہاں آپ نے یہ تفسیری ترجمہ کیا ہے وہاں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مختلف قسم کی تکلیفیں اور مشقتیں اور دکھ سہنے پڑتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے متعدد جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے ایک مشقت شریعت کی ہے مثلاً یہ مستحب بلکہ بڑا اچھا ہے کہ جس نے مقام محمود ظلی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کرنا ہوا اسے تہجد کی نماز ادا کرنی چاہیے لیکن اگر سردی ہو تو لحاف سے نکلنا بڑی مشقت طلب بات ہے لیکن وہ اپنے رب کی رضا کے حصول کے لئے کوئی پرواہ نہیں کرتا اور اس کی عبادت تنہائی کی گھڑیوں میں دنیا سے پوشیدہ رہتے ہوئے بجا لاتا ہے اور صرف اس لئے بجالاتا ہے کہ اس کا رب اس سے خوش ہو جائے یا مثلاً گرمی کا موسم ہو گرمی میں نیند کا بہت کم وقت ملتا ہے اور انسان کو ضروری کاموں کے بعد سونے کے لئے بمشکل دو اڑھائی گھنٹے ملتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ میں صبح کی نماز سے قبل بمشکل ڈیڑھ سے اڑھائی گھنٹے تک سوسکتا ہوں دوست کہتے ہیں کہ آپ صبح کی نماز کے بعد سویا نہ کریں صحت اچھی رہے گی لیکن وہ میرے حالات کو جانتے نہیں میں اگر صبح کی نماز کے بعد نہ سوؤں تو میں بیمار ہو جاؤں کیوں جنتنی نیند قانون قدرت کے مطابق مجھے لینی چاہیے وہ پوری نہ ہو اس لئے مجبوراً مجھے سونا پڑتا ہے.اسی طرح نماز کی پابندی ہے نماز با جماعت کے لئے پانچ وقت مسجد میں جانا بہر حال مشقت طلب

Page 395

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۸۹ سورة ال عمران ہے اس سے انکار نہیں پھر روزہ ہے اس میں بھی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے زکوۃ ہے اس میں بھی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے.انسان (اگر وہ مثلاً زمیندار ہے) سوچتا ہے کہ راتوں کو میں جاگا ہل چلائے کھیتوں میں پانی دیا جب ساری دنیا سائے کی تلاش میں تھی میں دھوپ میں خدا تعالیٰ کے رزق کی تلاش میں گہائی کر رہا تھا دانے نکال رہا تھا میں سارا دن دھوپ میں بیٹھارہتا تھا اب یہ پیسہ جو مجھے ملا ہے یہ میں کسی اور کو دے دوں؟ شیطان آ کر کہتا ہے کہ قربانیاں ساری تم نے دیں پھر تم اس پیسہ کو کسی دوسری جگہ خرچ کیوں کر ولیکن وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے رب نے مجھے توفیق دی کہ میں رزق حلال کے حصول کے لئے یہ مشقت برداشت کروں اور میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ اس مشقت سے حاصل شدہ جو مال ہے اس سے میں صرف اس دنیا کا فائدہ حاصل نہ کروں بلکہ اُخروی زندگی کا بھی فائدہ حاصل کروں وبالله التوفيق.پس ایک یہ مشقت ہے جو انسان کو دوسری دنیا کے فوائد کے حصول کے لئے برداشت کرنی پڑتی ہے اگر اس کی نیت نیک ہو جس وقت وہ گرمی میں جا کر اپنی کھیتی باڑی کا کام کر رہا ہوتا ہے اس کے دماغ میں یہ آیت آ رہی ہوتی ہے قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَدًّا (التوبه : ۸۱) یعنی اس گرمی سے زیادہ وہ گرمی ہے اس سے بچاؤ کی کوئی صورت کرنی چاہیے اگر وہ نیت کرے تو باقی سب چیزیں تو جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ”جھو نگے وچ مل جان گیاں اصل چیز یہی ہے کہ خدا کی رضا کو حاصل کیا جائے اور گرمی میں اس لئے برداشت نہیں کرتا کہ میرے بچے یا میں پیٹ بھر کر کھاؤں بلکہ یہ میں اس لئے برداشت کرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں جو مال حلال مجھے ملے اس کا ایک بڑا حصہ خدا کی راہ میں خرچ کروں اور دوسری زندگی میں اپنے لئے آرام کی جنتوں اور رضا کی جنتوں اور رحمتوں کی جنتوں کے سامان کرلوں ایک مشقت تو یہ ہے اور ایک مشقت ہے حوادث زمانہ کی اللہ تعالی قانون قدرت کے مطابق انسان کو ابتلاء میں ڈالتا ہے بعض کو اس کی مصلحت سمجھ آتی ہے اور بعض کو سمجھ بھی نہیں آتی مثلاً جوان بچہ فوت ہو گیا اب یہ ایک حادثہ ہے یا مثلاً ایک زمیندار نے روئی اکٹھی کی تھی کسی حادثہ کی وجہ سے اس کو آگ لگ گئی اور مالی نقصان ہو گیا اس طرح کے ہزاروں حوادث ہیں جو کبھی آندھی کی شکل میں آتے ہیں کبھی مینہ کی شکل میں آتے ہیں کبھی وباؤں کی شکل میں آتے ہیں کبھی اس قسم کے حادثات پیش آتے ہیں کہ مثلاً شادی کرنے جا رہے تھے کہ رستہ میں موٹر کا ایکسیڈنٹ (Accident) ہو جاتا ہے اور

Page 396

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۹۰ سورة ال عمران دولہا مرجاتا ہے یا دلہن مرجاتی ہے یہ ساری حوادث زمانہ کی تکلیفیں ہیں ایک مومن بندہ اپنے رب پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ جس وقت اس قسم کا حادثہ اسے پیش آئے وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ پڑھ رہا ہوتا ہے وہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھ رہا ہوتا ہے.اپنے خالق کے لحاظ سے وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ حادثہ خواہ میرے لئے کتنا تکلیف دہ ہو مگر اس کے نتیجہ میں میرے رب کے اوپر کوئی حرف نہیں آتا اس کی حمد اور اس کی تعریف اسی طرح قائم ہے اس لئے وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے جسم کو، میرے دل کو، میرے دماغ کو، میری آنکھوں کو ایسا بنایا ہے کہ جوان بیٹا اگر مر جاتا ہے تو دل میں درد بھی اٹھتا ہے، آنکھوں میں آنسو بھی آتے ہیں دماغ میں پریشانی بھی پیدا ہوتی ہے مگر انا للہ ہم سب اللہ کے ہیں یہ بھی اللہ کا تھا اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا میں بھی اللہ کا ہوں اور ایک دن میں بھی اس کے پاس چلا جاؤں گا خدا اگر اپنی رحمت کے سامان پیدا کرے تو میں اور میرا بیٹا اس کی جنتوں میں پھر ا کٹھے ہو جائیں گے چند دن چند سال یا کچھ عرصہ اس ملاپ کے لئے انتظار کرنا اور خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اور کرنا کوئی بڑی قربانی نہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ غرض ایک مشقت تکلیف اور دکھ انسان کو حوادث زمانہ کے نتیجہ میں برداشت کرنا پڑتا ہے اور ایک وہ دکھ ہے جو الہی سلسلوں کے مخالفین پہنچاتے ہیں ایک مسلمان کو اس ابتلا میں سے بھی گزرنا پڑتا ہے.دیکھو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھوڑی تعداد میں تھے غریب تھے جنگ کی کوئی تربیت انہیں نہیں تھی ان کے پاس جنگ کا کوئی سامان نہ تھا اچھی تلواریں نہیں تھیں گھوڑے نہیں تھے کچھ بھی نہ تھا اور دشمن نے یہ سمجھا کہ ان نہتوں اور بے بسوں کو ہم اچھی تلواروں کے استعمال سے کاٹ کے رکھ دیں گے اور فنا اور نابود کر دیں گے تب اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کو کہا کہ میری خاطر ان تکالیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور میرا سے یہ وعدہ ہے کہ تم کمزور سہی تم غریب سہی تم نہتے سہی تم بے سر و سامان سہی لیکن میں تمہاری پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوں گا اس لئے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں آخر غلبہ تمہیں حاصل ہوگا.غرض کئی قسم کے دکھ ابتلا اور مشقت انسان کو خدا کی راہ میں پیش آتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آئے اس سے انکار نہ کرے اور آپ نے یہ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر آپ کے سوانح پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ

Page 397

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۹۱ سورة ال عمران نظر آتا ہے کہ آپ نے خدا کی راہ میں اپنی جان کی کبھی پرواہ نہیں کی جنگ بدر میں جب کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے تو آپ مدینہ میں نہیں بیٹھے رہے بلکہ جس طرح دوسرے مسلمان میدان میں گئے آپ بھی میدان میں گئے اور آپ ہی سب سے زیادہ دشمن کے حملہ کا نشانہ ہوتے تھے کیونکہ دشمن یہ جانتا تھا کہ اگر اس ایک شخص ( علیہ السلام ) کو (نعوذ باللہ) ہم نے قتل کر دیا تو پھر کسی اور کوشش کی ضرورت نہیں رہے گی اسلام ختم ہو جائے گا صحابہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ شدید تر حملہ دشمن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہوتا تھا اور بہادر ترین صحابہ وہ سمجھے جاتے تھے جو آپ کے قرب میں رہتے تھے مثلاً حضرت ابوبکر" کے متعلق تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب سے زیادہ بہادر شخص ہے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں رہنا چاہیے لیکن آپ کوئی تدبیر اپنی حفاظت کی نہیں کرتے تھے آپ کے پاس دنیوی سامان ہی کیا تھا؟ تدبیر کیا کرنی تھی بہر حال آپ نے اپنی عصمت اور حفاظت کا کوئی سامان نہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چونکہ آپ اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی زندگی اور اپنی موت اور اپنا ہر سانس اور عبادتیں وغیرہ سب کچھ خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے سمجھا اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ کا حق ہے جو اسے دیتا ہوں میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں جانتے ہو خدا تعالیٰ نے اس کے جواب میں کیا کیا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خدا نے کہا واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( المائدة : ۶۸) چونکہ آپ ہر وقت اپنی جان اپنے رب کے حضور پیش کر رہے تھے اس لئے خدا نے کہا میں تمہاری حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت کے ساتھ اور نہایت ارفع شان کے ساتھ اس بات کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا کہ خدا تعالیٰ ہی آپ کا محافظ اور معین اور آپ کو بچانے والا تھاد ثمن کا کوئی حربہ آپ کے خلاف کارگر نہیں ہوا اور آپ کے نفس کو، آپ کی ذات کو، آپ کے جسم کو خدا تعالیٰ نے بچایا اور محفوظ رکھا نیز آپ کی اُمت کو بھی اپنی حفاظت میں رکھا.دنیا میں بڑے بڑے انقلاب بپا ہوئے بعض ملکوں سے اسلام مٹایا گیا یہ تو درست ہے لیکن یہ کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اس میں کبھی بھی شیطان کا میاب نہیں ہوا نہ ظاہری طور پر نہ روحانی طور پر کیونکہ اُمت مسلمہ میں ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قرب کو

Page 398

تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۳۹۲ سورة ال عمران حاصل کرنے کے بعد اس کی سکھائی ہوئی ہدایت اور اس کے بتائے ہوئے علوم قرآنیہ کے نتیجہ میں اسلام کی شمع کو روشن رکھتے رہے ہیں کبھی تعداد کم تھی اور کبھی زیادہ لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں کہ جس کے متعلق تاریخ نے یہ شہادت نہ دی ہو کہ اس زمانہ میں خدا کے نیک بندے اسلام کے جھنڈے کو بلند کر رہے تھے کتنی عظیم عصمت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی کہ آپ نے کہا خدا کی راہ میں قربانی دینے سے میں ہچکچاتا نہیں اور اپنی حفاظت کرنے کی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ آپ نے اپنے نفس پر شفقت نہیں کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ پر انتہائی شفقت کی اسی طرح جو لوگ احکام قرآنی کے بجالانے میں اپنے نفسوں پر شفقت نہیں کرتے مثلاً یہ نہیں کہتے کہ باہر ٹھنڈ ہے ہم گرم کمرہ میں بڑے آرام سے لیٹے ہوئے ہیں ہم لحاف سے باہر کیوں نکلیں وہ یہ نہیں کہتے کہ کمرہ میں ٹھنڈ ہے اور با ہر اتنی شدید گرمی ہے باہر نکلا تو بیمار ہو جاؤں گا اس لئے میں ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں کیوں جاؤں وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا نے رزق دیا ہے اس کو استعمال کرنا چاہیے ہم رمضان کے مہینہ میں بھی دوسرے مہینوں کی طرح خوب کھائیں گے اور شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے تمہیں اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہیے لیکن جو شخص اللہ تعالی کی عطا سے ایک خاص وقت کے اندر اپنے آپ کو محروم کرتا ہے وہ خدا کے حکم سے کرتا ہے کیونکہ اصل عطا جو خدا سے کسی کو حاصل ہوتی ہے وہ کامل اطاعت اور فرماں برداری کی عطا ہے وہ اس ذہنیت کی عطا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی عطا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو نہیں ملتی کہ وہ خوشی اور بشاشت کے ساتھ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتا چلا جائے.غرض احکام کی بجا آوری، نواہی سے پر ہیز حوادث زمانہ کی تکلیفوں اور مخالف طاقتوں سے جو دکھ پہنچتے ہیں ان کو خندہ پیشانی اور بشاشت سے قبول کرنا چاہیے خدا کی راہ میں جو پیش آئے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے نہیں منظور اور موسیٰ علیہ السلام کی امت کی طرح مثلاً یہ نہ کہے کہ ایک کھانے سے تو تسلی نہیں ہوتی بہت سے کھانوں کا انتظام کیا جائے ہمیں بھی تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک کھانے کی تلقین کی ہوئی ہے یہ صحیح ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے بعض گھروں میں ایک سے زائد کھانے پک جاتے ہیں طبائع میں اتنا اختلاف ہے کہ ہمارے بعض بچے گوشت کھاتے نہیں اور ہمیں اس سے بعض دفعہ تکلیف بھی ہوتی ہے اور ان کے لئے دال بہر حال پکانا پڑتی ہے میں بھی گھر میں دو تین کھانے پکے ہوں تو ایک کھانا جو مجھے پسند آ

Page 399

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۹۳ سورة ال عمران جائے اور میری طبیعت کے موافق ہو لے لیتا ہوں اور کھا لیتا ہوں ہمارا ایک بچہ ہے وہ گوشت بالکل نہیں کھاتا وہ دال لے لے گا یا دال کی بجائے آلو کا بھرتہ لے لے گا اور اسے کھائے گا بہر حال یہ بھی ایک مشقت ہے بظاہر یہ ایک معمولی چیز ہے لیکن انسان کا نفس اسے دھوکہ دیتا ہے اور اسے کہتا ہے تو یہ نہ کر تو تکلیف میں کیوں پڑتا ہے؟ بہر حال خدا کی راہ میں جو بھی مشقت تکلیف اور دکھ برداشت کرنا 99 پڑے خوشی اور بشاشت سے اسے برداشت کرے اور نہ نہ کرے بعض لوگ ” نہ کر کے ایک اور قسم کی مشقت اپنے اوپر ڈال لیتے ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جو احکام الہی کی بجا آوری اور نواہی سے بچنے کے لئے مشقت برداشت نہیں کرتے اور اپنے جذبات کو قربان نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے اور قسم کی قربانی لے لیتا ہے ایک شخص اپنے بچہ کی صحیح تربیت نہیں کرتا وہ غافل ہوتا ہے.کہتا ہے ”وڈے ہو کے آپے عادت ہو جاوے گی ہن اس نوں صبح نماز دے واسطے کیوں جگاواں‘ یا دو پہر کی گرمی میں نماز دے واسطے مسجد وچ کیوں بھیجاں آپے جدوں سیانا ہو جاوے گا نماز پڑھ لیا کرے گا حالانکہ ماں کے لئے تو چالیس سال کا آدمی بھی بچہ ہوتا ہے بعض دفعہ اللہ تعالی کہتا ہے اچھا تم میرے لئے اس بچہ کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے اور یہ جذبات کی قربانی ہے ( ماں بھی جذبات کی ایک قربانی دے رہی ہوتی ہے ) جو تم میری خاطر نہیں کرنا چاہتے.تمہارے لئے یہ بچہ ابتلا بن گیا ہے میں اس ابتلا کو تمہارے ساتھ کیوں رکھوں میں اسے اٹھا لیتا ہوں چنانچہ وہ اسے موت دے دیتا ہے پھر دھوپ کی گرمی اور صبح کی نیند کہاں جاتی ہے.غرض جو لوگ خود کو خدا کے دین کی راہ میں آنے والی مشقتوں کے سامنے خوشی سے پیش کر دیتے ہیں اور دکھ اٹھا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان دکھوں سے کہیں بڑے دکھوں سے انہیں محفوظ کر لیتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتے ان کی اصلاح کے لئے دوسرے سامان پیدا کرتا ہے کیونکہ بغیر امتحان کے، بغیر ابتلاؤں کی برداشت، بغیر دکھوں کے اٹھانے کے کوئی شخص خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا.اس کے ایمان کا امتحان لینا ضروری ہے.١٢ اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَام کے بارھویں معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کئے ہیں کہ اسلام ایک موت ہے جب تک کوئی شخص نفسانی جذبات پر موت وارد کر کے نی زندگی نہیں پاتا اورخدا ہی کے ساتھ بولتا، چلتا، پھرتا ہسنتا، دیکھتا نہیں وہ مسلمان نہیں ہوتا“.(الحکم ۷ ار جنوری ۱۹۰۷ صفحہ ۸)

Page 400

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۹۴ سورة ال عمران یہاں آپ نے یہ فرمایا کہ دین حقیقی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل فرماں برداری کی جائے اور اس کی کامل فرماں برداری کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے نفسانی جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں اور اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنی پڑتی ہے اور خدا تعالیٰ نے چونکہ کہا ہے عِندَ اللہ یعنی جب وہ جذبات پر موت وارد کرتے ہیں تو اللہ تعالی اس قربانی کو قبول کرتا ہے اور جب وہ قربانی قبول کرتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ پھر اس کے ہاتھ باقی نہیں رہیں گے نہ اس کی آنکھیں باقی رہیں گی نہ اس کے جوارح اپنے رہیں گے اس کے جذبات پر موت وارد ہو جائے گی اور جذبات ہی ہیں جو جوارح کو حرکت میں لاتے ہیں لکھی میرے منہ پر آ کر بیٹھتی ہے اس کے چھوٹے چھوٹے پاؤں سے جو گد گدی ہوتی ہے وہ مجھے برداشت نہیں اس لئے جب میں تنگ آ جاتا ہوں تو میرا ہاتھ فوراً اٹھتا ہے اور اس لکھی کو اڑا دیتا ہوں یہ میں ایک جذبہ کے ماتحت ہی کرتا ہوں اور جس وقت اللہ تعالیٰ کے لئے ایک انسان اپنے نفس پر موت وارد کر لیتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا کہتا ہے اے میرے بندے ! تو نے اپنے جذبات پر میرے لئے، میری رضا کے حصول کے لئے ایک موت وارد کر لی ہے.میں تجھے ایک نئی زندگی دیتا ہوں اب تو مجھ میں ہو کے بولے گا مجھ میں ہو کے سنے گا مجھے میں ہو کے تو اپنے ہاتھوں کو حرکت دے گا اور مجھ میں ہو کے تیرے پاؤں آگے قدم بڑھائیں گے وہ جس طرف بھی اُٹھیں گے وہ میری ہی طرف ہو گی کیونکہ نفس پر تو موت وارد ہو گئی ہے غرض اِنَّ الدِّيْنَ عند الله الإِسْلَام کے ایک معنی یہ ہیں کہ نفس کو پوری طرح کچل دیا جائے کوئی جذ بہ اپنا نہ رہے تمام جذبات نفسانی خدا تعالیٰ کے ماتحت ہو جائیں اس کے لئے قربان ہو جا ئیں اس کے قدموں میں گر جائیں ایک موت وارد ہو جائے اور بندہ اپنے رب سے یہ امید رکھے کہ وہ ایک نئی زندگی اس کے بدلہ میں عطا کرے گا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو اس طرح تفسیریں کی ہیں ان پر جب ہم غور کرتے ہیں اور ان کی وسعت اور گہرائی ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ تَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَم خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۱۸ تا ۲۲۸) ہمارا مذہب اسلام ہے اسی نام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے متعلق پہلوں کو

Page 401

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۳۹۵ سورة ال عمران اطلاع دی گئی تھی.اسلام کے ایک لغوی معنی ہیں اور ایک اصطلاحی معنی ہیں.ہر لفظ تو ہم نہیں کہہ سکتے لیکن ایک زبان کے بہت سے الفاظ لغوی معنے بھی رکھتے ہیں اور اصطلاحی معنے بھی رکھتے ہیں.اصطلاحی معنی لغوی معنی کو محدود کرتا ہے.اسلام کے لغوی معنے ہیں کسی چیز کا پہلے مول دے دینا، سودا کر لینا، قیمت دینا، وصول کرنا، دراصل تجارت دونوں طرف سے ہی ہے یا کسی کو اپنا آپ سونپ دینا یا صلح کرنا اور لڑائی جھگڑا دور کرنا ان معنوں میں عربی زبان اسلام کے لفظ کو استعمال کرتی ہے.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۴۵) إنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ۲۰) بعثت نبوی کے بعد (صلی اللہ علیہ وسلم ) دین تو اب ایک ہی رہ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کہہ کر اس آیت میں پکارا ہے اور کوئی اس کے علاوہ دین نہیں، کوئی ایسی ہدایت جو قرآن کریم سے متضاد ہو یا اس سے مخالف ہو یا اس سے مختلف ہوا ایسی نہیں جو انسان کو ان راہوں کی طرف ہدایت دے سکے جو راہیں اللہ تعالی کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں.اس اعتقاد پر ہم احمدی کھڑے کئے گئے ہیں اور اس اعتقاد پر ہم احمدی قائم ہیں کہ اِنَّ الذِينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ......اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلام خدا تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے.اسلام کے علاوہ اور کوئی دین نہیں اور ہم احمدی اپنے دین پر قائم ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس راستہ سے ہٹا نہیں سکتی.زبر دستی کر کے نمازیں نہیں چھڑوا سکتی.ہم سے روزے نہیں چھڑوا سکتی نیز دیگر جو سات سو احکام ہیں انہیں نہیں چھڑوا سکتی اور وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا (ال عمران :۸۶) جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین پسند کرے گا وہ اپنے لئے یا کسی اور کے لئے فَلَن تُقْبَلَ مِنْهُ (ال عمران : ۸۲) دینِ اسلام کے سوا کوئی اور دین خدا تعالیٰ کو مقبول نہیں ہے، پسندیدہ نہیں ہے.وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الخسِرِينَ (آل عمران : ۸۶) اور وہ قیامت کے دن گھاٹے میں پڑے گا.(خطبات ناصر جلد نم صفحہ ۷۳ تا ۷۸ ) آیت ۲۱ فَإِنْ حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ ۖ وَقُلْ لِلَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ وَالْأَمِينَ عَاَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا

Page 402

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۹۶ سورة ال عمران وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَاللهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِه سورۃ آل عمران کی اس آیت سے قبل جو آیت ہے اس کو اس طرح شروع کیا گیا ہے کہ ان الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ۲۰) کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اصل دین اس کی کامل فرمانبرداری ہے اور آیت کا جو حصہ میں نے پڑھا ہے اس کے شروع میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ دین کے معاملہ میں جھگڑا کریں تو انہیں اپنے عملی نمونہ سے بتاؤ کہ تمہارا دین کیا ہے أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ تم اپنا سارا وجود خدا کے لئے سونپ دو اور اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو اور جس طرح ہمارا اللہ ربّ العالمین ہے اسے اس کے ماننے والو! تم خادم العالمین بن جاؤ.یہاں ایک بڑا لطیف نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک تو علمی بخشیں ہوتی ہیں لیکن دین کے معاملہ میں علمی بحثوں کے علاوہ اور ان سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے عملی نمونہ سے اپنے مقام پر قائم ہو.اللہ تعالیٰ نے دین کی روح اور اس کی اصل اور اس کی بنیاد یہ بتائی ہے کہ انسان اللہ کے لئے اور اللہ میں فنا ہو کر اپنی زندگی کو گزارے.کامل فرمانبرداری، ایک ایسی اطاعت جو اس کے معمولی سے معمولی حکم سے بھی باہر لے جانے والی نہ ہو، وہ اطاعت جو کامل ہو ، وہ اطاعت جو انسان کے وجود کا اس کے اعمال کا اس کے خیالات کا اس کی سوچ کا اور اس کی عادات کا احاطہ کئے ہوئے ہو، اللہ کی ایسی اطاعت کرنا یہ اصل چیز ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنی چاہیے.پہلے آنے والے مذاہب کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ جو خدا کہتا ہے وہ مانو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو کامل اور مکمل شریعت انسان کو دی گئی اس کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ جو خدا کہتا ہے اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو.فرق یہ ہے کہ پہلوں کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی استعدادوں اور طاقتوں کو دیکھتے ہوئے پورا بو جھ ان کے کندھوں بر نہیں ڈالا تھا کیونکہ وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے.اُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ (ال عمران : ۲۴) یعنی شریعت کا ملہ محمدیہ کا صرف ایک حصہ انہیں دیا گیا تھا لیکن جو بھی دیا گیا تھا اس کے متعلق ان سے مطالبہ یہ تھا کہ جو تم سے کہا جاتا ہے وہ تم کرو اور جو ان سے کہا جاتا تھا وہ ایسے احکام تھے جو کامل نہیں تھے کیونکہ اس وقت وہ کامل احکام کے بوجھ کو اُٹھانے کے قابل نہیں تھے ان میں اتنی استعداد نہیں تھی.پھر جب انسان کامل شریعت کو اُٹھانے کے قابل ہو گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک

Page 403

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۳۹۷ سورة ال عمران کامل شریعت اس کے سامنے رکھی اور جو کہا جاتا ہے وہ کرو کی شکل بدل گئی لیکن مذہب کی جو روح تھی وہ وہی رہی کہ جو خدا کہتا ہے وہ کرو.ایک لحاظ سے یہ چیز آسان بھی ہے اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے فارسی کلام میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ خدا کو پالینا تو ایسا مشکل نہیں ہے وہ جان مانگتا ہے جان دے دو ( کامل اطاعت ) کامل اطاعت سے انسان اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا وارث بن جاتا ہے جن کے متعلق خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اس اطاعت کے نتیجہ میں وہ اس پر نازل ہوں گے.پہلوں پر وہ فضل نازل نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ جو ان سے کہا گیا تھا جو ان سے مانگا گیا تھا.جس کا ان سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ اس سے بہت کم تھا جس کا مطالبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت یعنی نوع انسانی سے کیا ہے لیکن پہلوں سے جو کہا گیا تھا، جو ان سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ لوگ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے پیروکار یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ماننے والے اگر اُن مطالبات کو پورا کرتے جو اُن سے کئے گئے تھے تو وہ اُن فضلوں کے وارث بن جاتے جوان مطالبات کے پورا کرنے اور کامل فرمانبرداری کے نتیجہ میں ان کو ملنے تھے اور جن کی بشارت ان کو دی گئی تھی.پھر ایک ایسی شریعت جس نے انسانی فطرت کا احاطہ کیا ہوا ہے اور فطرت کے عین مطابق ہے اور ایک کامل شکل میں انسان کے تمام قومی کو طاقت دینے کی اہلیت رکھنے والی ہے.پوری کی پوری شریعت جو انسان کے لئے مقدر تھی وہ ایک کامل اور عظیم ہستی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے انسان کو ملی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسلام لا ؤ یعنی خدا میں فنا ہو کر اپنے سارے وجود کو اُس کے سپر د کر دو پھر تمہیں اتنے فضل ملیں گے کہ پہلوں کا تصور بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا.قرآن کریم کی اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اللہ تعالی نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کو کہہ دے کہ میں تو اپنے تمام وجود کو خدا کے حضور پیش کرنے والا ہوں اور جو میرے حقیقی متبع ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنے والے ہیں لیکن چونکہ انسان اپنے اندر بشری کمزوریاں بھی رکھتا ہے اس واسطے ذکر کا حکم ہے کہ قرآن کریم نے جو مطالبے کئے ہیں، چھوٹے چھوٹے بھی اور بڑے بڑے بھی ان کی یاد دہانی ہوتی رہے ورنہ انسان بھول جاتا ہے، اس کے ذہن سے محو ہو جاتا ہے.شیطان وساوس پیدا کر دیتا ہے اور عملی کمزوریاں پیدا ہو جاتی

Page 404

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۳۹۸ سورة ال عمران ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ اعتقاد ا بڑے ہی مخلص احمدی ایسے بھی ہیں جو اعمال کی طرف توجہ نہیں کر رہے لیکن اعتقادی لحاظ سے وہ اتنے مخلص ہیں کہ اگر اعتقاد پر جان دینے کا موقع ہو تو وہ اپنی جان بھی دے دیں گے اور سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن عملا خود ان کی زندگیوں میں ستی پائی جاتی ہے.یہ اندرونی تضاد اور کنٹراڈکشن (Contradiction) ہے اور اندرونی تضاد کامیابی تک نہیں پہنچاتا.(خطبات ناصر جلد ششم صفحہ ۳۷۷ تا ۳۷۹) آیت ۳۳،۳۲ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ b لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ، وَاللهُ غَفُورٌ نَ رَّحِيمُ قُلْ أَطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ (۳۳ محبت اور دشمنی کے بنیادی اصول ان دو آیات میں بیان کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ یہ اعلان کر دو ان کنتم تُحِبُّونَ اللہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تمہارا یہ دعویٰ اسی صورت میں سچا ثابت ہوگا کہ میری پیروی کرو.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.قُلْ أَطِیعُوا اللہ تو کہہ کہ اتباع نبوی میں یہ صداقت مضمر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہو اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بھی اطاعت کرتے ہو لیکن اگر وہ یہ بات نہ مانیں اور اپنی محبت یا دشمنی کی بنیاد اس بنیاد پر نہ رکھیں کہ کفر کے نتیجہ میں محبت باری سے محرومی اور اتباع کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول ہے تو انہیں جاننا چاہیے کہ کافروں سے تو اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ میں ایک دعوی کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ وہی کرے گا جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا.حقیقی معنی میں وہی کرے گا.ویسے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں دعویٰ ظاہری طور پر وہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے خواہاں ہیں.یہاں اس دعوی کے ساتھ اس آیت کا جو مضمون ہے وہ یہ بات بھی بتا رہا ہے کہ ہر مقصود کے حصول کے لئے ایک ہرمہ

Page 405

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۳۹۹ سورة ال عمران سیدھا راستہ ہے صراط مستقیم ہے.صرف روحانی مقاصد کے حصول کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی زندگی میں مقصد دنیوی ہو یا دینی اس زندگی سے تعلق رکھنے والا ہو یا اخروی زندگی سے تعلق رکھنے والا ایک راہ سیدھی ہے جو اس مقصد کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے معین کی ہے اور اس راہ پر چلے بغیر انسان وہاں پہنچ نہیں سکتا، اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا.جو شخص مثلاً ربوہ سے سرگودھا جانا چاہے اگر وہ لائل پور کی ، فیصل آباد کی سڑک پر ادھر منہ کر کے فیصل آباد کی طرف، چلنا شروع کر دے تو وہ سرگودھا نہیں پہنچے گا.خدا تعالیٰ نے ہر مقصد کے حصول کے لئے ایک معین راستہ مقرر کیا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی اصطلاح میں صراط مستقیم ہے تو اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ تم خدا سے پیار کرتے ہواور خدا کا پیار لینا چاہتے ہو.تمہیں سوچنا چاہیے کہ خدا کا پیار کن راہوں پر چل کر یا کس صراط مستقیم پر گامزن ہو کر تمہیں مل سکتا ہے.یہ کامل اور مکمل کتاب انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے آتی اور اسے کہتی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو فَاتَّبِعُونِی..فَاتَّبِعُونى میں دراصل تین باتیں بیان ہوئیں ہیں.ایک تو اس میں یہ اعلان ہے کہ تمہارا بھی یہ دعوی ہے کہ تم خدا کا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دعوئی کہ مجھے خدا کا پیار چاہیے.دوسری بات یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے خود اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سیدھی راہ بتائی جو اس کی رضا اور اس کے پیار تک پہنچاتی ہے اور تیسرے یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس راہ پر گامزن ہو کر اپنے مقصد کو حاصل کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار کو وصول کرنے والے ہیں یہ تین باتیں فَاتَّبِعُونی کے اندر بیان کی گئی ہیں.تو بتا یا یہ گیا کہ دیکھو تمہارے دل میں بھی تڑپ ہے کہ خدا کا پیار حاصل کرو تمہاری اپنی استعداد کے مطابق وہ تڑپ اور وہ جذبہ تھا.میرے دل میں بھی تڑپ تھی کہ میں خدا کے پیار کو اور اس کی محبت کو حاصل کروں.میرا یہ جذبہ اور میری یہ خواہش میری اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق تھی.نزول قرآن سے پہلے ہی آپ خدا کے حضور جھکتے اور دعائیں کرنے والے تھے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر خدا نے میری اس تڑپ کو دیکھ کے مجھے ایک راستہ بتایا اور کہا کہ اس راستے

Page 406

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۰ سورة ال عمران پر چل.تو میرے پیار کو حاصل کرے گا.خدا کے حکم سے میں نے وہ راہ اختیار کی اور خدا کے فضل سے میں نے خدا کی رحمتوں کو اور اس کی رضا کو اور اس کے پیار کی جنتوں کو حاصل کیا.اس قدر وسعت کے ساتھ اور قوت کے ساتھ گہرائیوں والی محبت انتہائی طور پر جو محبت انسان کرتا ہے وہ میں نے کی خدا سے اور خدائے عظیم خدا تعالیٰ جو جلال والا اور قدرتوں والا ہے اس نے اس قدر نعمتیں مجھے دے دیں کہ انسان کے تصور میں بھی وہ نہیں آسکتیں.تو فَاتَّبِعُونی میرے دل میں تڑپ تھی.مجھے ایک راہ دکھائی گئی.مجھے کہا گیا اس پر چلو خدا کو پالو گے اس کے پیار کو پالو گے.میں اس راہ پر چلا.آپ کی طرف سے یہ اعلان قرآن کریم نے کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ ہے.اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى الى (الانعام : ۵۱) یہاں تو یہ تھا میری اتباع کرو.وہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ، خدا تعالیٰ کی شہادت کے طور پر ہے یہ، اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلی میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے اس کے علاوہ اور کسی چیز کے پیچھے نہیں لگتا.تو کامل اتباع کا اعلان خدا تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم میں کروایا کہ یہ اعلان کر دو تو خدا جب کہتا ہے اعلان کرو تو خدا تعالیٰ شہادت دے رہا، گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ یہ سچی بات ہے، یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کی شہادت اس پر گواہی دے رہی ہے کہ جو وحی نازل ہوئی اس سے ایک ذرہ بھر نہ دائیں ہٹے نہ بائیں ہٹے.وہ ایک سیدھا راستہ تھا اس پر آپ گامزن ہوئے.اس کو چھوڑ نہیں.اس کو ایک لحظہ کے لئے بھی فراموش نہیں کیا اور اس پر چلنے میں کوئی سستی اور غفلت نہیں برتی اور آخر خدا تعالیٰ کی محبت کو پالیا اور پایا بھی اس شان کے ساتھ اس عظمت کے ساتھ ، اس رفعت کے ساتھ، اس وسعت کے ساتھ کہ آپ سے پہلے کسی نبی نے خدا تعالی کی اس قسم کی محبت کو حاصل نہیں کیا تھا.تو یہاں یہ تین باتیں میں کہہ رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں اور یہ دلیل دی ہے کہ تمہارے دل میں اگر واقعہ میں خدا تعالیٰ کے لئے پیار ہے تو اس پیار کا جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کا نمونہ یہ ہے کہ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۲) ایک کامل نمونہ تمہارے سامنے ہے جس نے ہر حکم کی پورے طور پر سچے طور پر اپنے سارے دل کے ساتھ اطاعت

Page 407

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۱ سورة ال عمران ود کی اور وہ حکم بجالائے ان کی اتباع کرو یحببکم اللہ جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى - خدا تعالیٰ کی وحی کی اتباع کر کے خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت کو حاصل کیا تھا.تم بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کی نازل ہونے والی قرآن کریم کی شکل میں وحی کے مطابق زندگی گزار کے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے.وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور ہے.آپ کے علاوہ ہر امتی جو ہے آپ کی اتباع کرنے والا اس میں کمزوریاں بھی ہوں گی ، تڑپ بھی ہوگی ، خدا سے ملنے کی لیکن بشری کمزوریاں بھی سرزد ہوں گی گھبرائے گا وہ.اسے ایک بشارت کی ضرورت ہے آگے سے آگے بڑھنے کے لئے اور وہ بشارت یہاں دے دی گئی.وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اگر اصرار نہ کرو گے تو بہ کرو گے.اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے.فرمایا اعلان کر دو اطیعوا اللهَ وَالرَّسُول کہ اتَّبِعُونِی جب کہا گیا تو اس کے معنی ہی یہ ہیں یعنی کہا یہ گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو جائے گا.آگے قرآن کریم نے ہی اس کی تفسیر کی کہ اِتَّبِعُوئی میں جس اتباع کا ذکر ہے اس کے معنی یہ ہیں اطِیعُوا اللہ خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرو اور اس رنگ میں اطاعت کرو و الرسول رسول کی اطاعت کرو اس رنگ میں اطاعت کرو جس رنگ میں رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی وحی کی اطاعت کی.یہ ہے محبت جو انسان خدا تعالیٰ سے کرتا ہے اور یہ ہے جزا محبت کے رنگ میں جسے انسان خدا تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے.قرآن کریم نے بتایا ہے ہمیں.لیکن جو اس راستے پر چلنے سے انکار کرے لا يُحِبُّ الكفرين تو اسے یا درکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی دشمنی وہ مول لے گا اور خدا تعالیٰ اسے اپنا دشمن سمجھے گا.تو دوستی محبت یا دشمنی اور عداوت اس رنگ میں ہے قرآن کریم کے نزدیک، میں نے بتایا یہ اصولی اور بنیادی چیز ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے کہ محبت کرنا خدا سے اس معنی میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ بنا کر آپ کے نقش قدم پر چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کی جائے.اسی رنگ میں جس رنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی کامل اطاعت کی.اس فرق کے ساتھ کہ انہوں نے اپنی استعداد اور قوت کے مطابق اپنے رب کی اطاعت کی اور آپ کے متبعین نے اپنی اپنی قوت اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے لیکن کرنی ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 408

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۲ سورة ال عمران کے نقش قدم پر چل کے.یہ تو وہ محبت ہے جسے اسلام بتا تا ہے.محبت خدا سے، محبت خدا کے رسول سے کامل اتباع کامل محبت کے نتیجے میں ہی پیدا ہوگی نا.فاتبعونی میں ایک اور اعلان کیا گیا تھا یعنی کامل اطاعت کرو خدا کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور کامل اتباع تم کر نہیں سکتے جب تک مجھ سے بھی کامل محبت نہ کرو تو یہاں دو محبتیں ہیں.ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا اس لئے کہ خدا کی نگاہ میں آپ کی عظمت بہت شان رکھتی ہے اور آپ کے نقش قدم پر چلنا اس کے لئے کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کیا جا سکے.اگر کوئی یہ کہے کہ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق زندگی نہیں گزارنا چاہتا لیکن خدا سے پیار کرنا چاہتا ہوں خدا کا پیار حاصل کرنا چاہتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ اعلان کیا " تم خدا کا پیار حاصل نہیں کرو گے." إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ جو اس بتائے ہوئے طریق کا انکار کرتا ہے وہ خدا کی دشمنی مول لیتا ہے.اس کی محبت حاصل نہیں کرتا.قرآن کریم نے متعدد جگہ اس کی تفسیر میں یہ بتایا کہ یہ یہ یہ یہ چیزیں ہیں ، اعمال ہیں جن کے نتیجے میں خدا تعالی کا غضب بھڑکتا ہے.وہ میں بتاؤں گا ان آیات کو جب لوں گا کہ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ وہ باتیں ہیں جن سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری عمر پر ہیز کرتے رہے.آپ کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو اس قسم کا ہو کہ جو خدا کو پسند نہیں خدا تعالیٰ نے بہت سی باتیں بتائیں اور کہا کہ جو اس قسم کے ہیں اعمال ان سے خدا محبت کرتا ہے.مثلاً فرمایا.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة : ۱۹۶) اعمال صالحہ کو احسن رنگ میں جو بجالاتے ہیں خدا تعالیٰ ان سے پیار کرتا ہے.یہ بھی ایک عام اصولی بات ہے لیکن اس کی نسبت تفصیلی بات ہے اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھی لیکن وہ تو تفصیل ہے اس وقت میں بتایہ رہا ہوں کہ یہ فیصلہ کر نا کہ کوئی شخص خدا یا رسول سے محبت کرتا ہے یا دشمن ہے یہ انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کا نہایت حسین طور پر اعلان کیا گیا ہے ان آیات میں جن کی تفسیر اس وقت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۵۹۲ تا ۵۹۷) ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی کا پیار حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 409

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۳ سورة ال عمران کی اتباع کرنے والا نہ ہو.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ کوئی شخص چھوٹی سے چھوٹی روحانی رفعت حاصل نہیں کر سکتا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر کھڑا ہو کر اور ہر شخص اپنی استعداد، صلاحیت کے مطابق انتہائی دائرہ استعداد میں انتہائی رفعت حاصل کر سکتا ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور اس کا گر یہ بتایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو اللہ تعالیٰ کا پیار تمہیں حاصل ہو جائے گا.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۴۷) قرآن کریم نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے اور ہم سے اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ کی رُو سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو اسوہ حسنہ رکھا ہے اپنے دائرہ استعداد میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اندر صفات باری کے مظہر بنیں گے اور دُنیا کو حسن واحسان کے جلوے دکھا ئیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر لیں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ( انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتا ہے ).” جب ایک انسان سچے دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کر پورے صدق و صفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپ کے ساتھ ہو جاتا ہے.وہ الہی نور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر تا ہے.اس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے...اور اس کے ہر ایک عضو میں سے محبت الہی کا نور چمک اُٹھتا ہے تب اندرونی ظلمت بکلی دور ہو جاتی ہے.علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہو جاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہو جاتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۸۱،۶۸۰) خطابات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۵) آیت ۶۵ قُلْ يَاهُلَ الْكِتب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اَلا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ

Page 410

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۴ سورة ال عمران دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَا مُسْلِمُونَ ) اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ۶۵ قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تفہیم ہے یعنی اُس نے اُن تمام راہوں کو سمجھانے کے لئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں.اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلایا ہے اور آیت تعالوا إلى كَلِمَةِ میں اہل کتاب پر یہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دُنیا کے ہاتھ میں ہیں، ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۹) اس آیت کریمہ میں بہت سی باتوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی ہے ایک یہ کہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہدایت نامہ ہے اور ہم لوگ جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی یا کوئی ایک لفظ بھی یا کوئی ایک حرف بھی یا کوئی ایک زیر اور زبر بھی منسوخ نہیں ہو سکتی.جماعت احمدیہ کا یہ مذہب اور عقیدہ ہے کہ جس رنگ میں قرآن کریم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اُسی شکل میں بغیر کسی رد و بدل کے یہ ہم تک پہنچا ہے اور اپنی اسی اصلی اور حقیقی شکل میں قیامت تک قائم رہے گا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ قل کا مخاطب کون ہے؟ سو یا د رکھنا چاہیے کہ اس کے پہلے مخاطب تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں لیکن چونکہ یہ قیامت تک کے لئے ایک ہدایت ہے اس واسطے یہ حکم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کے وصال کے بعد اس آیت کو یا اس حکم کو جو قل میں آیا ہے لوگ اسے منسوخ سمجھتے.دراصل اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر متبع کو کہا گیا ہے کہ وہ بیان شدہ مضمون کے مطابق اہل کتاب کو دعوت دے.پس جیسا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ فرض تھا کہ آپ اس آیت کی روشنی میں اہلِ کتاب کو دعوت دیتے اور جیسے آپ اپنی زندگی میں احسن طور پر بجالائے اسی طرح ہر بچے مسلمان کا

Page 411

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۵ سورة ال عمران جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا اور قرآن کریم کو ہمیشہ کے لئے ہدایت اور شریعت سمجھتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حکم کے ماتحت اہلِ کتاب کو اسلام کی طرف اس رنگ میں دعوت دے جس رنگ میں کہ یہاں مضمون بیان ہوا ہے.دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چھوٹے سے اقتباس میں جو اشارے ہیں میں انہی کی وضاحت کروں گا ) قرآن کریم نے توحید باری تعالیٰ کے بارہ میں زبردست دلائل بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ تمام مذاہب تو حید کے قیام کے لئے آئے تھے اور تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ - يحض ایک دعوت نہیں کیونکہ عیسائیت میں مثلاً بعض ایسے لوگ ہیں کہ جو تثلیث کے قائل ہیں اور ان پر تو بظاہر تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بینکم کا اطلاق نہیں ہوتا اور اہلِ کتاب میں سے مثلاً یہودیوں میں سے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے ارباباً مِنْ دُونِ اللهِ بنائے ہوئے تھے.انہوں نے اپنے بزرگوں کو قریباً خدا کا درجہ دے دیا تھا.ایسے لوگوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ کا یہ نعوذ بالله مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ مسلمان بھی آربابا مِنْ دُونِ اللہ کے قائل ہیں.مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس بات کے ثبوت میں اس قدر ز بر دست عقلی اور نقلی ثبوت دیئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اہل کتاب میں سے کوئی فرقہ اگر کسی کو مقام خدائی دے یا خدا بنادے یا خدا کا بیٹا بنا دے تو قرآن کریم اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے اور قرآن کریم کی شریعت نے اس ذمہ داری کو احسن طور پر نباہا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اربابا من دُونِ اللہ کہنے والے لوگ غلطی پر ہیں اسی طرح ایک ایسے عیسائی مخاطب کو جو تثلیث کا قائل ہے اُس پر یہ ثابت کیا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ غلط ہے خدا واحد و یگانہ ہے اور یہ عقائد اختلافی جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں ذکر کیا ہے یہ وہ زوائد یا غلط باتیں ہیں جو لوگوں نے اپنے مذہب میں شامل کر لیں لیکن اسلام نے کہا کہ میں دُنیا پر یہ بات ثابت کروں گا کہ یہود و نصاری اور ایسے ہی دوسرے مذاہب جن پر کتابیں اتری تھیں لیکن انہوں نے ان میں ملاوٹ کر دی اُن میں تحریف کردی یا اُن میں تبدیلی کر کے ان کی شکل کو بگاڑ دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ توحید کی راہ سے بھٹک گئے.کوئی زیادہ بھٹکا اور کوئی کم بھٹکا لیکن جو بھٹک گیا وہ تو بھٹک گیا قران کریم نے اس آیت میں یہ ذمہ داری لی ہے کہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ توحید سوآء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ہے ہر نبی توحید کے

Page 412

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۴۰۶ سورة ال عمران قیام ہی کے لئے آیا تھا اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں باوجود ظاہری اختلاف کے ہمارا اور تمہارا کوئی اختلاف نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ دلائل ساطعہ اور بنج قاطعہ کے ساتھ یہ ثابت کرے گا کہ اے اہل کتاب ! تم غلط راہ پر ہو.اس جگہ اور چیزیں تو بعد کی باتیں ہیں لیکن تبلیغ یہاں سے شروع کی کہ اس بات پر ہمیں اور تمہیں اکٹھا ہونا پڑے گا اور ہم تمہیں ثبوت دیں گے.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم دُنیا کے ہاتھ میں پکڑا کر اور زبردست دلائل دے کر یہ ثابت کر دیا کہ نہ اربابا مِّنْ دُونِ اللہ کا عقیدہ صحیح ہے اور نہ تثلیث یعنی ایک اور دو اور تین خدا (ایک تین اور تین ایک ) ہیں.یہ سب نامعقول باتیں ہیں اور انسانی فطرت اور اس کی ضمیر کے خلاف عقیدے ہیں.لفظی طور پر ساری کتب سماویہ کے کچھ حصے محفوظ ہوتے ہیں ہر چیز تو نہیں بدل جاتی اُن مذاہب کی جن کو ہم اہل کتاب کہتے ہیں (ویسے بعض ایسے مذاہب بھی ہیں جن کو بد مذہب کہا جاتا ہے اُن کو ان کی فطرت کی طرف ہم توجہ دلائیں گے ).اور ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب ہمارے ہاتھ میں دے کر اور اس کی بہترین تفسیر کر کے دُنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ واقع میں یہ کلمہ ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ الا تعبد إِلَّا اللہ ہم سوائے خدائے واحد کے کسی کی عبادت نہ کریں.ہم صرف خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والے ہوں.یہ ہے بنیادی طور پر مشترک عقیدہ جس کے بغیر مذہب لاشی محض ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں اگر خدا ہی نہیں تو پھر مذہب کوئی چیز نہیں انسان کی اپنی عقل کے ڈھکوسلے ہیں اور بس.اور اگر خدا ہے اور یقیناً ہے تو وہ ایک ہی ہے باقی سارے عقائد وساوس اور توہمات ہیں اور سب غلط اور بے ہودہ ہیں اور قرآن کریم نے ان کی غلطی کو ثابت کیا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے قُل کو ہم منسوخ نہیں سمجھ سکتے ہم احمدی یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ منسوخ نہیں.چودہ سو سال گزر گئے اور آج بھی قرآن کریم ہر ایک کے کان میں کہتا ہے قُلْ يَاهُل الكتب تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ - پس جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے امت محمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پہلے دن ہی سے مقربین الہی کا ایک گروہ ہمیں نظر آتا ہے جن کو قرآن کریم کا علم اور اس کے اسرار روحانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے اور اُنہوں نے کسی مذہب کے مقابلے میں کبھی یہ وہم پیدا نہیں ہونے دیا کہ قرآن کریم خود بنیادی طور پر اور دوسرے مذہب کے مقابلہ میں بھی تو حید خالص کو ثابت نہیں کرتا لیکن اس آیت میں

Page 413

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۴۰۷ سورة ال عمران اہلِ کتاب کے مقابلہ میں قرآن کریم کی یہ قوت اور یہ طاقت اور اس کے یہ دلائل اشارۃ بیان ہوئے که قرآن کریم توحید خالص کو قائم کرنے والا ہے.پس مخلصین اور مقربین کا جو گروہ اُمت محمدیہ میں پہلے دن سے آج تک پیدا ہوتا رہا ہے اُنہوں نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ واقع میں منسوخ نہیں محض یہی نہیں کہ اس نے مخاطب کر دیا اور مخاطب تھا کوئی نہیں، پھر تو فضا اور ہوا کو مخاطب کیا نا! دراصل ہر سچا مسلمان اس کا مخاطب ہے اور ذمہ دار ہے اس بات کا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کو اس بات کا قائل کرے کہ خدائے واحد و یگانہ کا تصور ہم میں قدر مشترک ہے اور یہ کہ اَلا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ اس میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ قرآن کریم نے قل کہہ کر کس کو مخاطب کیا ہے؟ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے محبوب مطہرین کو حکم دیا ہے کہ وہ یہ پکاریں یاھل الكتب تَعَالَوْا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ لیکن اگر کوئی ولی اللہ ہی نہیں اور اس فن کا مخاطب ہی نہیں تو مخاطب پھر کس کو کیا گیا ہے در آنحالیکہ قرآن کریم کا تو کوئی لفظ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا اس واسطے قرآن کریم کے مخاطب چاہے جو جی ہوں قرآن کریم کہتا ہے کہ اہل کتاب سے کہو اور اُن کو اس بات کی دعوت دو کہ تعالوا الى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ - تَعالوا میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ تو حید خالص کے خلاف لوگوں کے جو عقیدے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہیں.بالکل نا معقول اور غیر فطری ہیں بلکہ اُن کی اپنی مذہبی کتب کے خلاف ہیں کیونکہ اُن کے مذہبی عقائد بدل گئے.اس کی نشاندہی اسلام نے کی اور پھر امت محمدیہ بھری ہوئی ہے ان مطہرین کے گروہ سے کہ جو ہر زمانہ اور ہر قوم میں اور ملک ملک میں اور شہر شہر میں پیدا ہوتے رہے اور وہ اس بات کے اہل تھے کہ قرآن کریم اُن کو مخاطب کر کے کہتا کہ تمہیں ہم کہتے ہیں کہ جاؤ اور عیسائیوں، یہودیوں اور دوسرے اہل کتاب کو پکارو اور انہیں ایک کلمہ پر اکٹھے کرو جو ہمارے اور ان کے درمیان قدر مشترک کے طور پر ہے.ایسی صورت میں وہ آدمی جو تثلیث کا قائل ہے وہ کہے گا کہ کہاں ہے قدر مشترک؟ میں اس نکتے کو دہرا دیتا ہوں تا کہ ہمارے بچے بھی سمجھ جائیں.عیسائیوں کا وہ فرقہ جو کہتا ہے تین خدا ہیں جب وہ اس آیت پر پہنچے گا تو وہ کہے گا کہ تین خداؤں کو ماننے والے تو اس کو مشترک نہیں سمجھتے کہ اَلا نَعْبُدَ إِلَّا الله پس اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ امت محمدیہ کے مظہرین کا

Page 414

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۰۸ سورة ال عمران کام ہے اور اہلیت اُن کو خدا تعالیٰ نے عطا کی ہے اس بات کی کہ وہ یہ ثابت کریں کہ واقعہ میں یہ مشترک ہے اور ثابت کریں عقلی دلائل کے ساتھ اور ثابت کریں خود اُن کی کتب کے حوالوں کے ساتھ.چودہ سو سال سے امت محمدیہ اپنی شاہراہ تاریخ پر چلتی رہی ہے اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے نظر آتے ہیں جو اس بات کے اہل تھے اور انہوں نے یہ ثابت کیا کہ قل کا لفظ یوں ہی استعمال نہیں ہوا بلکہ اس کے مخاطب ہمیشہ خدا تعالیٰ نے موجو د ر کھے ہیں اور اگر اس کے باوجود لوگ ان دلائل کو نہ مانیں اور اپنی فطری فراست کے خلاف بات کرنے کے لئے تیار ہو جا ئیں اور جو دوسرے نشان خدائے واحد و یگانہ کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہیں وہ دیکھیں پر نہ دیکھیں محض عقلی دلائل کافی نہیں بلکہ ہمارا زندہ خدا اپنے وجود پر آسمانی نشانوں کے ذریعہ مہر ثبت کرتا ہے.اپنی زندہ طاقتیں انسانوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے اور انسان مجبور ہو جاتا ہے یہ ماننے پر کہ واقعی خدا تعالیٰ ہے کیونکہ وہ اپنی ہستی کے نشان دکھاتا ہے اور شمار نہیں ہو سکتا اُن آسمانی نشانوں کا جو امت محمدیہ کو مد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملے.اُن کا بالکل شمار نہیں ہو سکتا اور یہ میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا واقعہ میں شمار نہیں ہوسکتا......پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اہل کتاب ان عقلی اور نقلی دلائل کے باوجود اور ان زبر دست آسمانی نشانوں کے باوجود اس کلمہ کی طرف سے اُس صداقت کی طرف نہ آئیں جو ایک مسلمان اور غیر مسلم اہلِ کتاب میں مشترک ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنا ئیں.فان تولوا.پھر اگر وہ پھر جائیں اور خدا کے علاوہ اور معبود بنا لیں اور شرک کرنے لگیں تو فَقُولُوا اشْهَدُوا.ایسی صورت میں مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اُن اہل کتاب) کو کہہ دیں کہ تم گواہ رہو پاتا مُسْلِمُونَ ہم مسلمان ہیں خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار ہیں اور خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں.اس لئے جب جماعت احمدیہ کے افراد خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کو سمجھنے کے بعد عقلی اور نقلی دلائل سے اپنی جھولیاں بھر لینے کے بعد اور آسمانی نور کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹ لینے کے بعد اور آسمانی نشانات دنیا کے سامنے پیش کر کے خدا تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقانیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے اہل ہو جانے کے بعد پھر بھی دنیا اگر ان کو مسلمان نہ سمجھے تو یہ ان کی مرضی ہے.جماعت احمدیہ کو یہ حکم ہے کہ فَقُولُوا اشْهَدُوا ایسے لوگوں سے کہہ دیں تم گواہ رہو کہ ہم

Page 415

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۰۹ سورة ال عمران اعلان کر رہے ہیں پانا مُسْلِمُونَ.ہم مسلمان ہیں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت اور ان تمام باتوں کے باوجود آج یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہم قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق مسلمان ہیں.ہم دُنیا میں یہ اعلان کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں ہم خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنے والے ہیں.اگر ہم کامل اطاعت کرنے والے نہ ہوتے تو خدا تعالیٰ کے پیار اور اُس کی رضا کو کیسے پالیتے ، خدا کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے اہل کیسے ہو جاتے.اس واسطے دُنیا بے شک کہے کہ احمدی مسلمان نہیں یہ اُن کی مرضی ہے زبر دستی تو کسی پر نہیں کی جاسکتی لیکن قرآن کریم کی یہ آیت ایک احمدی کو یہ کہتی ہے کہ تم دنیا میں یہ اعلان کر دو اور ان کو مخاطب کر کے کہو کہ تم گواہ رہو کہ جو علامتیں مسلمانوں میں پائی جانی چاہئیں وہ ہم میں پائی جاتی ہیں اس لئے ہم مسلمان ہیں.( خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۳۹۱ تا۳۹۹) پچھلے دنوں میں نے بتایا تھا کہ زمانہ آ گیا ہے کہ نوع انسانی کے سب افراد ایک قوم کی طرح ہو جائیں اور سارے کے سارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں " سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اور تفرقہ دور ہو جائے گا اور مختلف قومیں دنیا کی ایک ہی قوم بن جائیں گی.(چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه ۸۴) مختلف قوموں کے ایک قوم بن جانے کی تعلیم قرآن کریم نے دی ہے یعنی ایسی تعلیم دی ہے کہ انسانی فطرت اسے قبول کرتی ہے اور سب انسان اگر وہ سمجھیں یا انہیں ہم سمجھا ئیں تو ہو نہیں سکتا کہ اس تعلیم کے نور اور اس کے حسن کے ماننے سے انکار کریں.قرآن کریم کی ساری ہی تعلیم ایسی ہے لیکن دو ایک موٹی موٹی باتیں اس وقت میں آپ کے سامنے رکھوں گا.بنیادی بات یہ رکھی گئی انسان کے سامنے تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الَّا نَعْبُدَ إِلا اللہ جو ہے وہ نوع انسانی کو ایک کرنے کا حکم ہے کہ سارے کے سارے انسان ایک خدا کی پرستش کرنے لگیں.سارے کے سارے انسان ایک خدا کی اس وقت پرستش کرنے لگیں گے جب ایک خدا کی معرفت انہیں حاصل ہو جائے گی.سارے کے سارے انسان خدائے واحد و یگانہ کی اس وقت پرستش کریں گے جس وقت خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی شناخت انہیں مل جائے گی اور یہ شناخت انسان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طفیل ملی....میرے نزدیک (جو میں

Page 416

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۰ سورة ال عمران 66 دیکھ رہا ہوں ) پندرہویں صدی تمام اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے اور تمام اقوام کے ایک ہو جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام اقوام جو اسلام سے باہر ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی جو مہدی کے ہاتھ میں ہے اور تمام وہ قومیں جو اسلام کے اندر ہیں تمام تفرقے مٹا کر اور عداوتوں کو چھوڑ کر پیار اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اس جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.نوع انسان ایک قوم بن جائے گی.یہ ہوگا یہ ہو کر رہے گا.بہت سے لوگ اسے آج ناممکن سمجھیں گے مگر دیکھنے والے دیکھیں گے اور مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ کریں گے کہ خدا نے جو بشارتیں دی ہیں وہ اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.اقوام عالم کو جو ایک قوم بننا ہے اس کے لیے پہلا اصول یہ قائم کیا گیا کہ ”خدا ایک ہے.اس نے تمہیں پیدا کیا تمہاری جو بھی قابلیتیں ، استعدادیں ہیں اسی کی عطا ہیں کس مقصد کے لیے پیدا کیا اور مقصد یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (اللہ یت : ۵۷) اس کے بندے بن جاؤ اور خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں انسان اپنے مقصد حیات کو سمجھنے لگے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی زندگی کے دن گزارے گا.دوسرا اصول جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ، وہ یہ تھا کہ کامل مساوات انسانوں کے درمیان قائم کی جائے کوئی قوم سپر (Super) اعلیٰ نہیں ہے.ساری قو میں ایک جیسی حیثیت رکھتی ہیں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک عزت اور دین اسلام کی رو سے ایک ایسا احترام پانے والی ہیں.قوم قوم میں کوئی فرق نہیں سارے بشر برابر ہیں ( بشر کے معنی عربی میں مرد اور عورت کے ہیں ) عظیم اعلان یہ کہ بشر بشر میں فرق لیکن ارشاد باری ہوا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم (الكهف : 11) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عظمت خدا تعالیٰ نے یہ قائم کی کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأفلاك ( موضوعات کبیر حرف اللام صفحہ ۵۹) یہ کائنات تیری خاطر پیدا کی گئی ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جس کو اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں سے بڑھ کر استعدادیں دیں کامل استعدادیں جو کسی اور کو نہیں دی گئیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لیے خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ساری کی ساری استعدادیں آپ کی کامل نشو و نما پا گئیں.آپ کامل انسان بھی بنے ، آپ کامل بادشاہ بھی بنے ، آپ کامل آقا بھی بنے ، آپ کامل بادی بھی بنے ، آپ کامل شریعت لانے والے بھی بنے ، آپ کامل طور پر عَلی خُلُقٍ عَظِيمٍ بھی دورود

Page 417

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۱۱ سورة ال عمران ٹھہرے.سب اپنی جگہ درست لیکن آپ کے منہ سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھے میں اور تم میں اے مردو! اور اے عورتو! کوئی فرق نہیں.عظیم مساوات ہے اور اس کا ایک پہلو یہ ہے جو دوسری جگہ زیادہ واضح کیا گیا ہے وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہ یہ جو عدم مساوات انسانوں کے درمیان ہے اس کی سب سے زیادہ بھیانک شکل انسانی تاریخ میں یہ ہے کہ مذہبی لحاظ سے بعض کو آربابا مِّن دُونِ اللہ کا درجہ دے دیا گیا اور بعض کو انسان نے اپنے فیصلے کے مطابق کم درجہ دے دیا یعنی خدا تعالی کا فیصلہ نہیں انسان کا اپنا ہی فیصلہ ہے.اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنا خون خرابہ ہوا مذہب کے نام پر کہ الامان حالانکہ اسلام نے کہا یہ تھا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ - کوئی انسان کسی دوسرے کو ( خدا کے علاوہ ) رب نہیں بنائے گا.ربّ ایک ہی ہے.جس کے معنے یہ تھے کہ کسی چیز کے حصول کے لیے اپنی کسی ربوبیت کے حصول کے لیے کسی انسان کے پاس نہیں جائے گا نہ اس کے سامنے جھکے گا نہ اپنی تکالیف دور کرنے کے لیے اس کے اوپر بھروسہ کرے گا وغیرہ وغیرہ لیکن بنا لیے انسانوں نے ارباب.لیکن اب زمانہ آگیا کہ تمام وہ ارباب جو اللہ کے علاوہ مذہبی دنیا میں بنائے جاتے تھے ان کا خاتمہ کر دیا جائے اور اسی کو ہمارے دلوں میں گاڑنے کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیا.فلا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (النجم : ۳۳) خود اپنے کو اور اپنوں میں سے کسی کو پاکباز نہ قراردیا کرو تا کہ وہ ارباب نہ بن جائیں.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کون متقی ہے اور کون نہیں خدا کا کام ہے بندے کا کام ہی نہیں ہے.جب بندے کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ کون پر ہیز گار ہے، کون خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے اور کون نہیں ، بندے کا کام نہیں کہ کہے فلاں متقی اور فلاں پر ہیز گار.بڑی خرابیاں پیدا ہو ئیں اور ہورہی ہیں اس وجہ سے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ یہ ایک ہی مضمون ہے جسے مختلف طرفوں سے خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے پیش کر کے ہماری عقلوں میں جلا اور روشنی اور نور پیدا کیا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقی قوموں کے باہمی تعلقات تھے قرآن کریم کہتا ہے، کوئی قوم کسی قوم کو حقیر نہ سمجھے.یو.این.او کا ویٹو تو ختم کر دیا گیا.سپر پاورز (Super Powers) نہیں رہیں اس آیت کے بعد.جب نہیں خرابی پیدا ہوئی.جو خرابیاں دور کرنا چاہتے تھے ، جن خرابیوں سے بچانا چاہتے تھے اس سے زیادہ خطر ناک خرابیاں اس ویٹو پاور نے پیدا کر دیں اور اس تصور نے کہ بعض 9191 19 b

Page 418

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث قو میں بعض دوسروں پر فوقیت رکھتی ہیں.۴۱۲ سورة ال عمران خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۶۹۱ تا ۶۹۵) آیت بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ۷۷ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے.قرآن کریم کی اصطلاحی لغت میں بتایا گیا ہے کہ جب لفظ محبت کا فاعل انسان ہو اور یہ مفہوم ہو کہ انسان نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اُس نے کوشش کی اور جب قرآن کریم میں اس لفظ کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندے سے محبت کی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو پسند کیا اور اُس کو اپنے انعامات اور رحمتوں سے نوازا.یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہیں وہ متقی ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے متقیوں سے یقیناً محبت رکھتا ہے اور اپنے انعامات اور رحمتوں سے انہیں نوازتا ہے.اپنے عہد کو پورا کرنے کے کیا معنی ہیں؟ عہد کے معنی ہیں حفاظت اور نگہداشت اور بار بار اور ہر حالت میں کسی چیز کی حفاظت کرنا اور مفردات راغب نے آؤ فُوا بِالْعَهْدِ کے معنی یہ کئے ہیں اوفُوا بحفظ الایمان اپنے عہد کی حفاظت کرو، اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور ایمان کے معنی مفردات راغب نے یہ کئے ہیں کہ بھی یہ اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسْمًا لِلشَّرِيعَةِ الَّتِي جَاءَ بِهَا مُحَمَّدُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام.یعنی ایمان اُس شریعت کا نام ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے.جو شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس شریعت کا نام اور اسم " ایمان" ہے.لفظ ایمان بطور اسم اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے.پس اوفُوا بِالْعَهْدِ کے یہ معنی ہوں گے کہ شریعت محمدیہ نے جو احکام اوامر و نواہی کی شکل میں دیئے ہیں اُن کی نگہداشت کرو.ایسا نہ ہو کہ کسی کام کے نہ کرنے کا حکم ہو اور غلطی سے تم وہ عمل بجالا ؤ جس سے روکا گیا ہے اور کسی کام کے کرنے کا حکم ہو اور غفلت سے تم اُسے چھوڑ دو اور عمل نہ کرو.پس فرمایا کہ جو شریعت محمدیہ کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس عہد کی حفاظت کرتے ہیں یعنی ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی حکم بجا آوری سے رہ نہ جائے اور کسی نہی کا انسان غفلت کے نتیجہ میں مرتکب نہ ہو جائے.وَاتَّقُوا اور جو تقویٰ کو اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے

Page 419

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۳ سورة ال عمران تقیوں پر اپنے انعامات اور رحمتیں نازل کرتا ہے ایمان کی حفاظت کے تین رُخ ہیں ایک مومن مذہبی رنگ میں اُس وقت مومن کہلاتا ہے جب اُس میں تین باتیں پائی جائیں.ایک تو یہ کہ وہ دل سے حق کو حق سمجھے.دوسرے زبان سے حق کا اقرار کرے اور تیسرے اسی کے مطابق یعنی حق اور ہدایت کے مطابق اُس کے جوارح یعنی اُس کی عملی قوتیں عمل میں مصروف ہوں.یہ لغوی باتیں میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ چیزیں بہت سے دوستوں کے ذہن میں نہیں ہیں.ایک تو میں یہ بتا رہا ہوں کہ ایمان نام ہے شریعت محمدیہ کا.جس طرح میرے سامنے دوست بیٹھے ہیں.ان کے اپنے اپنے نام ہیں.میرا نام ناصر ہے.اسی طرح ایمان شریعت محمدیہ کا نام ہے.دوسرے میں نے بتایا کہ تین چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں یعنی زبان کا اقرار اور دل کی تصدیق یعنی حق کو حق سمجھنے کی کیفیت قلبی اور ذہنی اور جو قوائے علیہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں ان کے ذریعہ سے بھی عمل اس تصدیق ، اس حقیقت ، اس حقانیت ، اس ہدایت اس شریعت کے مطابق ہو اور مفردات راغب میں لکھا ہے ان تینوں میں سے ہر ایک کو ایمان کہا جاتا ہے.وَيُقَالُ لِكُلِ وَاحِدٍ مِنَ الْإِعْتِقَادِ وَالْقَوْلِ الصَّدِقِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ ایمانا اور تقویٰ کے معنی ہیں کہ اپنے نفس کو اُن باتوں سے محفوظ رکھنا جو گناہ ہیں اور جو اللہ تعالی کو پسند نہیں اور اتَّقَى فَلَانٌ بِكَذَا إِذَا جَعَلَهُ وقَايَةٌ لِنَفْسِهِ.اس واسطے ہم تقویٰ کے معنی یہ کیا کرتے ہیں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کا مطلب ہے کہ اللہ کو اپنے لئے ڈھال کے طور پر حفاظت کا ذریعہ بناؤ.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں پر فرمایا کہ جو شریعت محمدیہ یعنی ایمان کی نگہداشت اور حفاظت کرتا ہے یعنی شریعت محمدیہ پر ایمان رکھتے ہوئے یہ حفاظت کرتا ہے کہ اُس کا نفس کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی شریعت محمدیہ نے اجازت نہیں دی اور کوئی ایسا کام کرنے سے رہ نہ جائے جس کا حکم اُس شریعت کی طرف سے دیا گیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس کے ساتھ جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے لئے بطور ڈھال کے اور ذریعۂ حفاظت بنالیتا ہے یعنی دُعائیں کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تحرب حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں وہ آجائے تاکہ شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے وہ محفوظ رہ سکے تو ایسے متقیوں سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے یعنی اپنے انعاموں اور اپنی رحمتوں اور اپنی رضا سے انہیں نوازتا ہے..........

Page 420

۴۱۴ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہنے کے لئے اور غفلت کے نتیجہ خدا تعالیٰ کے قہر کے وارث.ہونے سے بچنے کے لئے تقومی تعویذ کا کام دیتا ہے اور حفاظت کرتا ہے اور ہر قسم کے فن اور فسادات سے اور ہر قسم کی بداعمالیوں سے محفوظ رہنے کے لئے تقویٰ ایک مضبوط قلعہ کا کام دیتا ہے.جو تقویٰ کی چاردیواری کے اندر داخل ہو گیا وہ اس قسم کے فتنوں اور فسادوں اور بدعملیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں سے محفوظ ہو گیا اور تقویٰ کی بار یک در باریک راہیں ہیں.انسان انسان کے لحاظ سے تقویٰ میں فرق ہے.بعض انسانوں کی استعدادیں موٹی موٹی ہیں بعض کی استعدادیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ باریکیوں میں جاتے ہیں اور زیادہ روحانی ترقیات کر سکتے ہیں.جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کی قوت بھی دی اور تقویٰ کی باریک راہوں کی شناخت بھی عطا کی.تقویٰ کی یہ باریک را ہیں ان کی روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خد و خال ظاہر کرنے والی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا تقویٰ کی اصل یہ ہے کہ وہ فتنہ وفساد اور ظلم اور نواہی میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے حفاظت کا کام دیتا ہے اور جب انسان ہر پہلو سے متقی بن جائے یعنی کسی پہلو سے بھی کوئی گناہ اور گندگی اُس کے قریب نہ آئے تو چونکہ گندگی اور بد صورتی سے اُس نے خود کو محفوظ کر لیا اس لئے روحانی طور پر اُس کے جو نقوش اور خد و خال تھے وہ نمایاں ہو کر سامنے آگئے اور اُبھر آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے متقیوں سے میں پیار کرتا ہوں اور قرآن کریم پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کے پیار کرنے کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنے انعامات اور اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتا ہے.قرآن کریم نے ہمیں خود بتا یا کہ متقی پر اللہ تعالیٰ کے کس قسم کے فضل نازل ہوتے ہیں کون سے انعام ہیں جو اسے دیئے جاتے ہیں کن رحمتوں سے انہیں نوازا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ (الانفال :۳۰) فرمایا کہ جو شیطانی حملوں سے بیچنے کے لئے مجھے پناہ بنا لیتے ہیں اور ڈھال بنا لیتے ہیں میں اُن لوگوں سے اس رنگ میں محبت کرتا ہوں یعنی اس طور پر میرے انعام اور رحمتیں اُن پر نازل ہوتی ہیں کہ اُن میں اور اُن کے غیر میں ایک امتیاز پیدا کیا جاتا ہے.مومن اور غیر مومن میں روحانی حسن کے لحاظ سے تو بہر حال فرق ہے لیکن ظاہر میں بھی وہ پہچانے جاتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے صاحب فراست انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ شخص کس قسم کا ہے.اُن کے اخلاق میں ، اُن کے بات کرنے کے طریق میں ، اُن

Page 421

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۱۵ سورة ال عمران کے تخاطب میں، اُن کے سلوک میں اُن کے دِل میں خالقِ خُدا کے لئے جو پیار اور ہمدردی ہے وہ ظاہر ہو رہی ہوتی ہے اور ایک نمایاں فرق ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جو ابھی زیر تربیت احمدی ہیں بوجہ اس کے کہ نئے نئے جوان ہوئے یا بوجہ اس کے کہ وہ احمدیت میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں اُن میں بھی تھوڑی سی تربیت کے بعد اس رنگ کی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے کہ فوراً پتہ لگ جاتا ہے بعض دفعہ دوست اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو لے آتے ہیں اور ایک دو فقروں میں ہی میں سمجھ جاتا ہوں کہ ان کو بہت سی تربیت کی ضرورت ہے یعنی ابھی احمدیت کی تربیت، اسلام کی تربیت ، ایمان کی تربیت کے حصول کی ابتدا انہوں نے نہیں کی.گفتگو ہے، چلنے کا طریق ہے.چلنے کے طریق سے مجھے یاد آیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں شامل ہونے کے لئے دوڑتے ہوئے آتے دیکھ کر فرما یا الوَقَارَ الوَقَارَر کہ تمہاری چال میں ایک مومن کا وقار نہیں نظر آتا تو معلوم ہوا کہ مومن کی چال ایک غیر مومن کی چال سے امتیاز رکھتی ہے ان کے درمیان ایک فرقان پایا جاتا ہے.پھر مثال کے طور پر کپڑوں کی نگہداشت ہے.ٹھیک ہے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بہت سی کمزوریاں ہیں بہت سے مومنوں سے بھی کمزوریاں سرزد ہو جاتی ہیں لیکن ایک امتیاز ہے.اکثریت کو جب ہم دیکھتے ہیں تو جو مومن ہے وہ کپڑے کو اُس سے بہتر جو عمل صالح ہے اُس پر ترجیح نہیں دے گا اور مَا أَنَا مِنَ المتخلفين نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ آپ کا اُسوہ ہے کہ میری زندگی اور میرے رہن سہن میں تمہیں کوئی تکلف نظر نہیں آئے گا اور آپ نے دیکھا ہوگا اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جو احمدی ایسے ہوں جن میں یہ چھوٹی سی کمزوری ہو اس کو بھی دُور ہونا چاہیے کیونکہ اُس سے فرقان میں اور امتیاز میں فرق آتا ہے بعض لوگ ہوتے ہیں کہ کپڑا پہنا ہوگا اور مٹی پر بیٹھنے سے پر ہیز کریں گے.حالانکہ کئی دفعہ زمین پر بغیر کپڑا بچھائے بیٹھنا ثواب کا موجب بن جاتا ہے، یا اگر اُن کے کپڑوں پر کہیں مٹی لگ جائے تو فوراً جھاڑ پھونک شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کپڑوں سے مٹی اڑانے لگ جاتے ہیں.جس چیز سے بنے ہیں اُسی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں.بہر حال بعض دفعہ مٹی پر بیٹھنا بھی ثواب کا کام بن جاتا ہے ایک دفعہ مجھے یاد ہے سٹھیالی میں ہمارے احمدیوں کے دو گروہوں میں آپس کا اختلاف پیدا ہوا اور وہ نا معقول حد تک پہنچ رہا تھا.ہم وہاں گئے لمبا قصہ ہے مختصر کروں گا تو میں نے دونوں گروہوں کے لیڈروں کو کہا آؤ چلو میرے ساتھ اُن کے ساتھی ایک دوسرے کو غصہ

Page 422

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۶ سورة ال عمران دلانے کی باتیں کر کے بھڑکا رہے تھے اور وہ صلح کی طرف مائل نہیں ہورہے تھے ، میں اُن کو باہر لے گیا.ایک کھیت میں ہم آرام سے بیٹھ گئے اور میرے دماغ کے کسی کو نہ میں بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کپڑوں کو مٹی لگ جائے گی.زمین پر بیٹھ گئے اُن سے باتیں شروع کیں آدھ پون گھنٹہ میں آرام کے ساتھ اُن کی صلح ہوگئی ، کیونکہ اکیلے تھے اور اُن کو جوش دلانے والا کوئی نہیں تھا کپڑے کی صفائی ضروری ہے لیکن یہ سمجھنا کہ کپڑے کو صاف ستھرا رکھنا کہ مٹی بھی نہ لگے یہ اتنا بڑا ثواب ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی ثواب ہی نہیں، یہ غلط ہے.جب تکلف بیچ میں آجائے گا تو کپڑے کی صفائی بھی گناہ بن جائے گی، یعنی اس حد تک صفائی کہ مٹی لگی ہی نہ ہو کوئی داغ نہ لگا ہوا ہو یہ صحابہ کرام کی زندگیوں میں نظر آتا ہے کہ ایسا زمانہ بھی تھا کہ وہ کوئی کپڑا بھی نہیں بچھا سکتے تھے نماز کا وقت ایسی جگہ آگیا ہے کہ مسجد نہیں جا سکتے وہیں زمین پر ہی نماز پڑھ لیتے تھے کیونکہ جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدا(مسلم کتاب المساجد).نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.بڑی بے تکلف زندگی ہے جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کی ہے جو قر آنی ہدایت نے ہمیں بتائی ہے.پس جو شخص تقوئی سے کام لیتا ہے یعنی جن برائیوں سے جن کمزوریوں سے اسلام نے روکا ہے اُن سے بچتا ہے اور ان راہوں کو اختیار کرتا ہے.۹۳ (خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ ۷۳۵ تا ۷۴۱ ) آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحِبُّونَ، وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بار بار اور مختلف پیرایہ میں انفاق پر ابھارا ہے ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أنْفِقُوا مِنَا رَزَقْنَكُمْ.یہاں انسان کو اس طرف متوجہ کیا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ - اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی عطا میں سے ایک حصہ واپس مانگتا ہے اس وعدہ پر کہ وہ اس انفاق پر اور اس خرچ پر اپنی طرف سے ثواب دے گا چیز اسی کی ہے لیکن جہاں بے شمار فضل اور نعمتیں اس نے اپنے بندے پر کی ہیں وہاں اس نے یہ بھی فضل کیا کہ جود یا اس میں سے کچھ واپس مانگا اور جن لوگوں نے اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے حضور اس کے دیئے ہوئے میں سے کچھ پیش کر دیا تو اس کے بدلہ میں اس نے ثواب بھی دیا.

Page 423

۴۱۷ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُون کہ اس حقیقت کے باوجود وہ لوگ جو ہماری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور ناشکرے بن جاتے ہیں اور ہماری آواز پر لبیک نہیں کہتے اور ہمارے کہنے کے مطابق خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.حقیقتا وہ اپنے نفسوں پر ہی ظلم کرنے والے ہیں.پس اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ جو کچھ تم سے مانگا جارہا ہے وہ بھی تمہارا نہیں گھر سے تو کچھ نہ لائے.اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی عطا میں سے کچھ مانگ کے تمہارے لئے مزید نعمتوں کے دروازے کھولنا چاہتا ہے اگر پھر بھی تم ناشکر گزار بندے بنے رہو تو بڑے ہی ظالم ہو.اپنے نفسوں پر بڑا ہی ظلم کرنے والے ہو.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انْفِقُوا فِي سَبِیلِ اللهِ کہ جس خرچ کا ہم مطالبہ کرتے ہیں جان مال دوسری سب وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ اس میں سے کچھ مجھے واپس لوٹاؤ تا کہ میرے ثواب کو حاصل کرو اور یہ خرچ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے یعنی ان راہوں پر ہونا چاہیے جو را ہیں اللہ تعالیٰ نے خود بتائی ہیں بعض دفعہ خرچ کی بعض راہیں انسان کی اپنے نفس سے محبت بتاتی ہے محبت نفس اسے کہتی ہے کہ یہاں خرچ کرو وہاں خرچ کرو اور آرام حاصل کرو د نیوی لذتوں میں سے کچھ حصہ پاؤ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خرچ کرو تو یہ مراد نہیں ہوتی کہ نفس کو بتائی ہوئی راہ پر خرچ کرو اور اس طرح بعض دفعہ خاندان خرچ کرواتا ہے بعض جاہل اور نا سمجھ لوگ خاندان کی جھوٹی عزت کی خاطر نا قابل برداشت قرض اٹھا لیتے ہیں اور برادری کو خوش کرنے کیلئے افراط کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خرچ کرو مِمَّا رَزَقْنَكُم اس چیز سے جو ہم نے تمہیں دی ہے تو ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اس راہ میں خرچ کرو جو تمہاری برادری تمہیں بتائے.اسی طرح خودی، تکبر، نمائش کا احساس خرچ کی بعض راہیں بتاتا ہے تو ان کے اوپر خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کا مطالبہ نہیں اس آیت میں یہ فرمایا کہ جب ہم کہتے ہیں خرچ کرو تو اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کروان راہوں پر خرچ کرو جو ہم نے متعین کی ہیں اور جن کی نشان دہی ہم نے کی ہے.جو آیت شروع میں میں نے پڑھی تھی کہ کن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحِبُّونَ اس میں ایک تیسرا مضمون بیان ہوا ہے اور اس میں ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جب قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعوی کیا کہ یہ تعلیم ایسی ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ مِمَّا تُحِبُّونَ

Page 424

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۸ سورة ال عمران میں تدریجی ترقیات کی طرف اشارہ ہے اور اس کی وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ اگر تم اپنی قربانیوں میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی کامل نیکی کو حاصل کر سکو گے اگر ایسا نہیں کرو گے تو نیکی کو تو حاصل کرلو گے.اللہ تعالیٰ ثواب تو تمہیں دے گا مگر یہ ثواب نچلے درجہ کا ہوگا کامل نیکی نہیں کہلائے گا.پس یہاں یہ فرمایا ہے کہ جس چیز سے تم محبت کرتے ہو اور جس کے چھوڑنے اور قربانی کرنے پر تم تکلیف محسوس کرتے ہو اس کو خرچ کرنے کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں.ایک شخص جو سالہا سال سے اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ جماعت کے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا چلا آ رہا ہے یہ خرچ اس کے بجٹ کا ایک حصہ بن گیا ہے اور یہ ایسی رقم نہیں رہی کہ جس کے خرچ پر اس کو یہ احساس ہوا کہ اگر میں یہ رقم خرچ نہ کرتا تو فلاں فلاں چیز خرید سکتا د نیوی فائدہ حاصل کرتا.تو منا تُحبون میں یہ اشارہ کیا کہ اس انفاق میں ترقی کرتے چلے جاؤ جب سولہویں حصہ کی عادت پڑ جائے تو پھر اللہ تعالیٰ خود امام وقت کو سکھاتا ہے ) تحریک جدید کا مطالبہ ہو جائے گا تاکہ تمہیں وہ مال جو تم خرچ کرو محبوب مال معلوم ہو اس کی عادت نہ پڑ چکی ہو بلکہ خرچ کرتے ہوئے تمہیں دکھ کا احساس ہو تم کہو کہ یہ مال میں خرچ کر رہا ہوں لیکن اس کے نتیجہ میں میری فلاں ضرورت پوری نہیں ہو گی اور یہ سوچو کہ فلاں ضرورت کیا اگر کوئی بھی ضرورت پوری نہ ہو اور میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے تو میں خرچ کرتا چلا جاؤں گا اس وقت تمہارا خرچ مِنَا تُحِبُّونَ میں سے ہوگا.پھر جب اس کی بھی عادت پڑ جائے گی وقف جدید کی تحریک شروع کر دی جائے گی جب اس کی عادت پڑ جائے گی فضل عمر فاؤنڈیشن سامنے آجائے گی اور اگر یہ بھی نہ ہو تو وصیت کی طرف انسان کی توجہ جائے گی کہ سولہواں حصہ تو میں دیتا چلا آیا ہوں اور سولہواں حصہ دینے سے مجھے یہ احساس نہیں باقی رہا کہ میں نے اپنے محبوب مال میں سے کچھ دیا ہے.کیونکہ اس انفاق کی تو مجھے عادت پڑ گئی ہے اس واسطے آؤاب وصیت کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس کی خوشنودی کو اس کے فضل کی جنتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کریں.پھر وصیت میں تو سات درجے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھے ہیں.جب دسویں حصے کی عادت پڑ جائے تو نواں حصہ دینا شروع کر دو جب نواں حصہ دینے کی عادت پڑ جائے تو آٹھواں حصہ دینا شروع کر دو جب آٹھواں حصہ دینے کی عادت پڑ جائے تو ساتواں حصہ دینا شروع کر دو تیسرے حصہ تک اسی طرح کرتے جاؤ.(اگر کسی وقت تمہیں یہ احساس ہو کہ جو تمہاری پہلی

Page 425

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۱۹ سورة ال عمران قربانیاں ہیں وہ طبیعت اور عادت کا ایک جزو بن گئی ہیں اور مِمَّا تُحِبُّونَ والی بات نہیں رہی ) تو ہدایت کی راہوں پر آگے سے آگے لے جانے کا راستہ اس آیت میں دکھایا گیا ہے.لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَاتُحِبُّونَ اور اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ جب قرآن کریم کے شروع میں ہمیں بتایا گیا تھا هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ ہے یہ کتاب اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ تو ایک مثال ہے بیسیوں مثالیں ایسی ہیں کہ تقویٰ کے کسی ایک مقام پر اللہ تعالی حقیقی مومن اور متقی کو کھڑا نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کے دل میں ایک جوش اور ایک جذبہ پیدا کرتا ہے کہ جب اس سے مزید ترقی کی راہیں کھلی ہیں.جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے مزید جلوے میں دیکھ سکتا ہوں تو کیوں میں یہاں کھڑار ہوں مجھے آگے بڑھنا چاہیے.مِمَّا تُحِبُّونَ میں ہر دو قسم کے مومن شامل ہیں ایک وہ جو اپنی فطرتی استعداد کے مطابق ایک جگہ ٹھہر نا پسند نہیں کرتے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرتا ہے اور نئی سے نئی راہیں ان پر کھولتا چلا جاتا ہے اور ایک وہ لوگ ہیں جن کی اقتصادی حالت یا جن کی ایمانی حالت اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ فرائض کو ادا کرتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتے ہیں.فرائض کی ادائیگی بھی ان کی عادت کا ان کی فطرت کا ان کی طبیعت کا ایک جزو نہیں بنتی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں بھی ہم مِناً تُحبون سے خرچ کرنے والوں میں شمار کر لیں گے یعنی ان لوگوں میں جو قربانی اور ایثار کے جذبے کو رکھتے ہوئے ، اپنے مال کو یا دوسری اللہ تعالیٰ کی عطایا کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ تم اقتصادی حالات کی وجہ سے یا اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے ابھی تک سولہواں حصہ دینے میں بھی تکلیف محسوس کرتے ہو اور جو مال دیتے ہو اس کو چھوڑنے کے لئے تمہارا نفس بشاشت سے تیار نہیں ہوتا.اس حصہ مال کے ساتھ بھی تمہاری محبت بڑی شدید ہوتی ہے اس طرح تم سچی قربانی دے رہے ہو میری راہ میں اس لئے میں تمہیں تو اب دوں گا.ج خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۴۸ تا ۵۱) آیت ۹۸،۹۷ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ ، فِيهِ أَيتَ بَيْنَتُ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَه كَانَ أَمِنَّا وَ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيلًا وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ

Page 426

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (۹۸) ۴۲۰ سورة ال عمران اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بیت اللہکی از سرنو تعمیر کی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ عہد لیا کہ وہ اور ان کی نسل ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگیوں کو وقف کر کے ان ذمہ داریوں کو نباہیں گے جو بیت اللہ کی تعمیر سے تعلق رکھتی ہیں اور تدبیر اور دعا سے یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو تو فیق عطا کرے کہ جب خدا تعالیٰ کا آخری شارع نبی دنیا کی طرف مبعوث ہو تو وہ اسے قبول کریں اور اسلام کے قبول کرنے کے بعد جو انتہائی قربانی اس قوم کو خدا تعالیٰ کے نام کے بلند کرنے کیلئے دینی پڑے وہ قربانی خدا تعالیٰ کی راہ میں دیں.میں نے بتایا تھا کہ بیت اللہ کے ساتھ بہت سی اغراض اور بہت سے مقاصد وابستہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہمیں نظر آتا ہے.اور جن کا تعلق حقیقتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہے.یہ آیات جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں جب ان کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مندرجہ ذیل مقاصد نظر آتے ہیں جن مقاصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی از سرنو تعمیر کروائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل سے قریباً اڑھائی ہزار سال تک وہ قربانیاں لیتا چلا گیا.پہلی غرض وضع للناس بیان ہوئی ہے.دوسری مبرا تیرے هُدى للعلمین میں ایک مقصد بیان ہوا ہے.چوتھے ایت بینت پانچویں مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ چھٹے وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنَّا ساتویں وَ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ.آٹھویں جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاس نویس و آمنا دسویں وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِم مُصلَّی گیارہواں مقصد طرا بَيْتِى میں بیان کیا گیا ہے.بارہواں مقصد للطابفین تیرہواں عکفین کے لفظ میں بیان ہوا ہے.چودہواں مقصد والركع السجود کے اندر بیان کیا گیا ہے.پندرہواں مقصد رَبِّ اجْعَل هذا بلدًا مِنا میں بیان کیا گیا ہے.سولہواں مقصد وَارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمرات میں بیان کیا گیا ہے.سترھواں مقصد رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا میں بیان کیا گیا ہے.اٹھارواں مقصد الشیخ کے اندر بیان ہوا ہے.انیسواں مقصد العلیم کے اندر بیان ہوا ہے.بیسواں مقصد و من ذُريَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ لَكَ میں بیان ہوا ہے.اکیسواں مقصد وَ ارِنَا مَنَاسِكَنَا میں بیان ہوا ہے بائیسواں مقصد وتب علينا میں بیان ہوا ہے اور تئیسواں مقصد رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُم عَلَيْنَا

Page 427

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث میں بیان کیا گیا ہے.۴۲۱ سورة ال عمران اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر جو للناس وضع کیا گیا ہے بنایا گیا ہے مکہ میں ہے.مختلف روایات اور قرآن کریم کی آیات میں جو مفہوم مختلف جگہوں میں بیان ہوا ہے.اس سے میرے ذہن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب ہمارے آدم کی پیدائش اور بعثت ہوئی (میں نے ہمارے آدم کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لاکھ کے قریب آدم اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں جو آدم پہلے گذرے تھے.ان کی اولاد میں سے بعض کو اولیائے اُمت نے اپنے کشف میں دیکھا بھی ہے.جس کا انہوں نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے ) اس وقت دنیا ایک مختصر سے خطہ میں آباد تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے سب انسانوں کے لئے اپنی حکمت کا ملہ سے آدم پر یہ وحی فرما کر بیت اللہ کی تعمیر کروائی ایک گھر بنوایا اور اس گھر کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ متعلق کر دیا جو اس آدم کی اولاد میں سے تھے لیکن بعد میں جب یہ نسل بڑھی اور پھیلی اور دنیا کے مختلف مخطوں کو انہوں نے آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحانی اور ذہنی نشوو نما کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قوم اور ہر خطہ میں علیحدہ علیحدہ نبی بھیجنے شروع کئے تا ان کو ان راہوں پر چلانے کی کوشش کریں جن راہوں پر چل کر خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اپنی استعداد کے مطابق عبودیت کی ذمہ داریوں کو نباہ سکتا ہے اور احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ سے اوپر انبیاء گذرے ہیں تو جس آدم کی اولا داس طرح منتشر اور متفرق ہو گئی تھی علیحدہ علیحدہ قوم بن گئی تھی جن کے اپنے اپنے نبی تھے انہوں نے اس گھر کی طرف توجہ دینی چھوڑ دی جو خدا کا گھر اور تمام بنی نوع انسان کے لئے کھڑا کیا گیا تھا اور اس سے اس قدر بے توجہی برتی کہ حوادث زمانہ کے نتیجہ میں اور مرمت اور آبادی نہ ہونے کی وجہ سے اس گھر ( بیت اللہ ) کے نشان تک مٹ گئے لیکن جب اللہ تعالی کا یہ منشاء پورا ہونے کا وقت آیا کہ پھر تمام دنیا عَلى دِينِ واحِد جمع کر دی جائے.تو اللہ تعالی نے اس گھر کو از سر نو تعمیر کرنے اور اس گھر کی حفاظت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کو وقف کر دینے کا فیصلہ کیا تا ایک قوم اس بیت اللہ سے تعلق رکھنے والی ایسی پیدا ہو جائے جن کے اندروہ تمام استعداد یں پائی جاتی ہوں جو اس قوم میں پائی جانی چاہئیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی پہلی مخاطب ہو.چنانچہ اڑھائی ہزار سال تک دعاؤں

Page 428

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۲۲ سورة ال عمران کے ذریعہ سے اور وقف کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم تیار ہوئی جو اگر خدا تعالیٰ کی بن جائے تو اس کے اندر تمام وہ استعداد میں پائی جانی تھیں جو روحانی میدانوں میں بنی نوع انسان کی راہ نمائی اور قیادت کر سکے اور چونکہ یہ استعداد میں اور قو تیں اپنے کمال کو پہنچ چکی تھیں ان کے غلط استعمال سے فتنہ عظیمہ بھی پیدا ہو سکتا تھا.اس لئے جب تک وہ گمراہ رہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت سے مخالفت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی ایذا پہنچائی کہ پہلی کسی امت نے اپنے نبی کو اس قسم کی ایز انہیں پہنچائی غرض ان کے اندر استعداد میں بڑی تھیں ایک وقت تک وہ چھپی رہیں.ایک وقت تک شیطان کا ان پر قبضہ رہا لیکن جب وہ سوئی ہوئی استعدادیں بیدار ہوئیں اور انہوں نے اپنے ربّ کو پہچانا تو دنیا نے وہ نظارہ دیکھا کہ اس سے قبل کبھی بھی انسان نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اس قسم کی قربانیوں کا نظارہ نہیں دیکھا تھا.غرض یہ وہ قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں اور ان کی دعاؤں اور ان کی نسل کی قربانیوں اور ان کی دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.غرض وُضِعَ لِلنَّاسِ کا مفہوم حقیقی معنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جیسا کہ تمام اغراض و مقاصد جو بیت اللہ سے متعلق ہیں وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ میں اس گھر کی جو میرا گھر ہے از سر نو تعمیر ان اغراض کے پیش نظر کروا رہا ہوں اور اس کے لئے تمہیں قربانیاں دینی پڑیں گی.غرض پہلا مقصد جس کا تعلق بیت اللہ سے ہے یہ ہے کہ یہ بیت اللہ وہ سب سے پہلا خدا کا گھر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے دینی اور دنیوی فوائد رکھے ہوئے ہیں.وضع للناس یعنی تمام لوگوں کی بھلائی کیلئے اس کی تعمیر کی گئی ہے.یہاں سے دنیا کی اقوام بلا امتیاز رنگ، بلا امتیاز نسل اور قطع نظر ان امتیازات کے جو ایک کو دوسرے سے علیحدہ کر دیتے ہیں تمام اقوام عالم اس گھر سے دنیوی فوائد بھی حاصل کریں گی اور دینی فوائد بھی حاصل کریں گی.یہ پہلی غرض ہے اس گھر کی از سر نو تعمیر ہے.دوسری غرض بیت اللہ کی تعمیر سے یہ ہے کہ ہم ایک اپنے گھر کو ( بیت اللہ کو ) مبر کا بنانا چاہتے ہیں اور مبر گا اس مقام کو کہتے ہیں جو نشیب میں ہو اور اگر بارش ہو تو چاروں طرف کا پانی وہاں آ کر

Page 429

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۲۳ سورة ال عمران جمع ہو جائے.چونکہ یہاں بارش کے موضوع پر اللہ تعالیٰ بات نہیں کر رہا.بلکہ انسان کی دینی اور دنیوی ترقیات اور بہبود کے متعلق بات ہو رہی ہے اس لئے یہاں مُبرما کے معنی دو ہیں.ایک یہ کہ تمام اقوام عالم کے نمائندے اس گھر میں جمع ہوتے رہیں گے اور دوسرے یہ کہ ہم نے بیت اللہ کو اس لئے تعمیر کروایا اور اسے معمور رکھنے (آباد ر کھنے) کا فیصلہ کیا ہے کہ یہاں ایک ایسی شریعت قائم کی جائے گی یہاں ایک ایسا آخری شریعت والا نبی مبعوث کیا جائے گا کہ جس کی شریعت میں تمام ہدایتیں اور صداقتیں (روحانی) جو مختلف اقوام کی شریعتوں میں متفرق طور پر پائی جاتی تھیں پھر اکٹھی کر دی جائیں گی اور کوئی ایسی صداقت نہ ہو گی جو اس شریعت سے باہر رہ گئی ہو.پس فرمایا کہ روحانی لحاظ سے ہم اس بیت اللہ کو م برگا بنانا چاہتے ہیں اور ہماری یہ غرض ہے کہ یہ مولد ہوگا ایک ایسی شریعت کا کہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں جو ہدایتیں متفرق طور پر پائی جاتی ہوں گی وہ اس میں اکٹھی کر دی جائیں گی اور اس کے ساتھ برکت بھی ہوگی یعنی وہ تمام چیزیں جو پہلوں کے لئے ضروری نہیں تھیں اور وہ انہیں برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ صداقتیں بھی اس میں بیان ہوں گی اور ایک کامل اور مکمل شریعت ہوگی جو تمام قوم کے فائدہ کے لئے قائم کی جائے گی اور یہ جو گھر ہے اور یہ جو بیت اللہ ہے یہ اس کامل اور مکمل اور ابدی شریعت کے لئے اُم القری ٹھہرے گا.تیسری غرض بیت اللہ کے قیام کی ھدی للعلمین میں بیان کی گئی ہے.آپ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ان آیات کے شروع میں بیان کیا گیا تھا.وُضِعَ لِلنّاس کہ تمام دنیا، تمام اقوام اور تمام زبانوں کے لئے ہم اس گھر کو بنا رہے ہیں تمام اقوام کے ساتھ اس کا جو تعلق ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بار بار دہرایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیسری غرض اس گھر کی تعمیر سے یہ ہے کہ هُدى العلمين تمام جہانوں کے لئے ہدایت کا موجب یہ بنے.لفظ ھڈی کے معنوں میں بھی عالمین کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کیونکہ عقل اور فراست اور علم اور معارف جو مشترک طور پر سارے انسانوں کا حصہ ہیں ان کو ہدایت کہتے ہیں.اس کے بغیر آگے روحانی علوم چل ہی نہیں سکتے کیونکہ جس میں مثلاً عقل نہ ہو وہ پاگل ہو جائے اس کو مرفوع القلم کہتے ہیں یعنی اب اس کے اوپر شریعت کا حکم نہیں رہا غرض عقل بنیاد ہے شریعت کی اور ان معانی کی جو اس لفظ ہدایت کے اندر پائے جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہم اس گھر کے ذریعہ سے ثابت کریں گے کہ تمام اقوام

Page 430

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۴۲۴ سورة ال عمران عالم عقل کے لحاظ سے اور فراست کے لحاظ سے اور معارف کے لحاظ سے اور علوم کے لحاظ سے ایک جیسی قابلیت رکھتے ہیں.کسی قوم کو اس لحاظ سے کسی دوسری قوم پر برتری نہیں ہے.اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ جس زمانہ میں حقیقتا ھدی للعلمین کا جلوہ دنیا پر ظاہر ہوگا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس وقت بعض قو میں دنیا میں ایسی بھی پیدا ہو جائیں گی جو یہ کہنے لگیں گی کہ ہم زیادہ عقل مند ہیں.ہمارے اندر زیادہ فراست اور علوم حاصل کرنے کی زیادہ قابلیت ہے اور بعض قو میں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ وہ ہماری محکوم رہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس گھر کے ذریعہ سے ہم ثابت کریں گے کہ اپنی عقل اور فراست اور بنیادی علوم کے لحاظ سے قوم ، قوم میں تمیز نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے جس عقل کی ، جس فراست کی ، جن معارف کی اور جن علوم کی ضرورت تھی وہ سب اقوام کو برابر دئے ہیں یعنی ان کے اندر برابر کی استعدادیں ہیں.فرد فرد کی استعداد میں تو فرق ہو سکتا ہے لیکن کسی ایک قوم کو دوسری قوم پر برتری حاصل نہیں.دوسرے معنی هدى للعلمین کے یہ ہیں کہ اللہ تعالی اس بیت اللہ کے مقام سے قرآن کریم کا نزول شروع کرے گا کیونکہ مفردات راغب میں ہے کہ هَدَايَة کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ آسمانی ہدایت کہ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ اور پھر قرآن کریم کے نزول کے ساتھ بنی نوع انسان کو بلایا ہو کہ ادھر آؤ یہ ہدایت کے راستے ہیں ان پر چلو تب مجھ تک پہنچ سکتے ہو.تو ہدایت کے معنی میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے تمام انبیاء ایک سے شریک ہیں لیکن هُدًى لِلْعَلَمِينَ کے معنی حقیقی طور پر سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی نبی پر چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ باقی تمام انبیاء اپنے زمانوں اور اپنی اقوام کی طرف مبعوث کئے گئے تھے.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بیت اللہ قرآن کریم کے نزول کی جگہ ہے یہاں سے قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوگا.اس غرض سے ہم اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس کی تطہیر وغیرہ کا سامان پیدا کر رہے ہیں.هدى للعلمین کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بیت اللہ ایک ایسا مقام ہے کہ یہاں اس شریعت کی ابتدا ہو گی جو انسان پر غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھولے گی کیونکہ

Page 431

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۲۵ سورة ال عمران ہدایت کے تیسرے معنی امام راغب کے نزدیک یہ ہیں کہ ایک شخص جب ہدایت کی راہوں پر چل کر بعض اعمال صالحہ بجالاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو مزید ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے تو ہر عمل صالحہ کے نتیجہ میں بہتر اور جو اللہ تعالیٰ کو نسبتا زیادہ محبوب عمل صالحہ ہے اس کی توفیق اس کو مل جاتی ہے یعنی تدریجی طور پر انسان کو روحانی ترقیات کے مدارج پر چڑھاتی چلی جائے گی اور اس اُمت پر اس کے ذریعہ سے غیر متناہی ترقیات کے دروازے کھولے جائیں گے اور پھر یہ فرمایا کہ بیت اللہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ ھدی للعلمین ( اپنے چوتھے معنی کے لحاظ سے ) ایک ایسی امت مسلمہ پیدا کی جائے گی جس کو اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات ملیں گے جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں ملے اور قیامت تک بنی نوع انسان کو اس قسم کے کامل اور اکمل اور مکمل ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں ملتی چلی جائیں گی کیونکہ ہدایت کے چوتھے معنی امام راغب نے یہ لکھے ہیں.الْهَدَايَةُ فِي الْآخِرَةِ إِلَى الْجَنَّةِ چونکہ ان کے نزدیک صرف آخرت میں ہی جنت ملتی ہے اس لئے انہوں نے فِی الْآخِرَةِ“ کے الفاظ ( میرے نزدیک ) اپنے اس عقیدے کی وجہ سے زائد کر دئے.ورنہ لغوی لحاظ سے اس کے یہی معنی ہیں الْهَدَايَةُ إِلَى الْجَنَّةِ یعنی جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ غرض اسے حاصل ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ یہ جنت صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیوی زندگی میں بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا تھا کہ بیت اللہ کو ہم اس لئے کھڑا کر رہے ہیں اور اس کی حفاظت کے ہم اس لئے سامان پیدا کر رہے ہیں کہ یہاں ایک ایسی امت جنم لے گی جو ثواب اور جزا ان کو ملے گی اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جو جنت ان کے نصیب میں ہوگی وہ پہلی قوموں کے نصیب میں نہیں ہوئی ہوگی یعنی بہترین نتیجہ جو انسانی روحانی عمل کا نکل سکتا ہے وہ اس اُمت کے اعمال کا نکلے گا کیونکہ جو شریعت ان کو دی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے.پہلوں کی شریعتیں چونکہ نسبتی طور پر ناقص تھیں.اگر ان پر پورے طور پر عمل بھی کیا جاتا تو ان کا نتیجہ عقلاً بھی وہ نہیں نکل سکتا تھا جو نتیجہ اس عمل کا نکل سکتا ہے جو ایسی شریعت کے مطابق ہو جو پورے طور پر کامل ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ھدی للعلمین اس گھر سے جس عالمگیر شریعت کا چشمہ پھوٹے گا اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں الجنّة ایک کامل جنت انسان کو ملے گی اس دنیا میں بھی اور اُخروی دنیا

Page 432

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۴۲۶ سورة ال عمران میں بھی.پس تیسری غرض ( جو آگے بعض ذیلی اغراض میں تقسیم ہو جاتی ہے ) بیت اللہ کے قیام کی هُدًى لِلْعَلَمِينَ ہے.چوتھا مقصد اس گھر کی تعمیر کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایت بینت ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم خاص قسم کی آیات بینات کا وعدہ انسان کو دیتا ہے یا ان کے متعلق پیشگوئیاں بیان کرتا ہے تو یہاں میرے نزدیک آیات بینات کے عام معنی نہیں ہیں بلکہ یہاں وہ آیات بینات مراد ہیں جو اس پہلے گھر سے تعلق رکھتی ہیں جو وُضِعَ لِلنَّاسِ ہے، جو مُبر گا ہے اور 66-9 جو هُدًى لِلْعَلَمِينَ “ ہے.اس مفہوم کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرما یا فِیهِ أَيْتُ بَيِّنت اور اس کے معنی یہاں یہ ہیں کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والی ایسی آیات اور بینات ہوں گی اور یہ گھر ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گی.جو آیات اور بینات پہلے انبیاء یا ان کی قوموں کو دیئے گئے وہ اپنے اپنے وقت پر ختم ہو گئیں اور پہلی امتوں میں سے ہر ایک نے کوئی نہ کوئی منطقی اور غیر تسلی بخش دلیل ڈھونڈ کر یہ دعوی کر دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم نہیں ہوسکتا کہ انسان اس کے قرب کو، اس کی وحی کو، بچے رویا اور کشوف کو اور آئندہ کے متعلق پیشگوئیوں کو حاصل کر سکے تو فرمایا کہ ان دروازوں کو پہلی ہر امت نے اپنے پر بند کر لیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک ایسی اُمت مسلمہ کا قیام بیت اللہ کی تعمیر سے مدنظر ہے کہ قیامت تک ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے رہیں گے اور اپنے نشانات اور استجابت دعا اور قربانیوں کا دنیا میں پھل پانے کے نتیجہ میں وہ اُمت دنیا پر یہ ثابت کرتی رہے گی کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے.ایک طاقت ور خدا ہے.وہ بڑا رحم کرنے والا اور پیار کرنے والا خدا ہے وہ ایسے بندوں کو جو اس کے سامنے جھکتے ہیں ضائع نہیں کرتا بلکہ اُن سے تعلق کو وہ قائم کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اُن کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اور دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ یہ میرے محبوب بندے ہیں وہ اس پر وحی کرتا ہے کشوف ورڈ یا انہیں دکھاتا ہے وہ اس کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ایسے بندے اس اُمت میں پیدا ہوتے رہیں گے جو قیامت تک یہ ثابت کرتے رہیں گے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے آیات بینات کو حاصل کرتے ہیں.پانچویں غرض اس کا تعلق بیت اللہ سے ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی ہے کہ یہ مقام ابراھیم

Page 433

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۲۷ سورة ال عمران ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دیکھو ہمارے بندے ابراہیم (علیہ السلام) نے اور بہتوں نے اس کی نسل میں سے انقطاع نفس کر کے اور تعشق باللہ اور محبت الہی میں غرق ہو کر سچے عاشق اور محب کی طرح أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمينَ کا نعرہ لگایا اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بنایا.ہم نے اس بیت اللہ کی آبادی کا اس لئے انتظام کیا ہے کہ اس کے ذریعہ عشاق الہی کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جاتی رہے جو تمام حجابوں کو دور کر کے اور دنیا کے تمام علائق سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے لئے اپنی مرضات سے ننگے ہو کر اور تمام خواہشات کو قربان کر کے فنافی اللہ کے مقام کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس عبادت کو احسن طریق پر اور کامل طور پر ادا کرنے والے ہوں جس کا تعلق محبت اور ایثار سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ عبادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ عبادت ہے جو تذلل اور انکسار کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور ایک وہ عبادت ہے جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر قائم ہے.ہماری نماز جو ہے یہ اس قسم کی عبادت ہے جو تذلل اور انکسار کے مقام پر کھڑی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ نماز دعا ہے اور دعا کے لئے انتہائی تذلل اور انکسار کو اختیار کرنا ضروری ہے.جس شخص کے دماغ میں اپنے رب کے مقابلہ میں ایک ذرہ بھی تکبر ہو اس کی دعا کبھی قبول نہیں ہوسکتی.پس ہماری نمازیں صرف اس صورت میں عبادت بنتی ہیں کہ جب وہ حقیقتا تذلل اور انکسار کے مقام پر کھڑی ہوں.اس کے مقابلہ میں دوسری عبادت وہ ہے جو محبت اور ایثار کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عبادت جس کا تعلق تعمیر کعبہ سے ہے.جس کا تعلق حفاظت کعبہ سے ہے اور جس کا تعلق بیت اللہ کے لئے خود کو اور اپنی اولا د کو وقف کر دینے کے ساتھ ہے اور اس کے لئے دعائیں کرنے کا تعلق ہے یہ محبت والی عبادت ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت اور خدا تعالیٰ کے عشق کا جو مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا وہ عدیم المثال تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مقام ابراہیم ہے اس مقام سے ہم ایک ایسی اُمت پیدا کریں گے جو لاکھوں کی تعداد میں ہوگی اور ہر زمانہ میں پائی جاتی ہوگی اور اس اُمت کے کسی فرد کا اگر تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے ساتھ مقابلہ کرو گے تو اس کو ان سے کم نہیں پاؤ گے.نبی کریم صلی اللہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اس قوم نے پیدا ہونا تھا لیکن اس قوت قدسیہ کے جو اثرات ہیں ان کو دنیا میں مؤثر طریق پر پھیلانے کے لئے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے خانہ کعبہ کی

Page 434

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۲۸ سورة ال عمران بنیاد از سرنو رکھی گئی تھی تو یہاں یہ فرمایا کہ ظاہری شکل حج کے ارکان کی ، اس عبادت کی خود ہی ایسی ہے جس کا تعلق محبت سے ہے.مثلاً طواف کرنا ہے.اب یہ تخیل قریباً ساری اقوام میں پایا جاتا ہے کہ جب کسی کے لئے جان کی قربانی دینا ہوتی ہے تو اس کے گرد گھومتے ہیں.ہمارے بعض بادشاہوں کے متعلق بھی آتا ہے کہ ان میں سے کسی کا بچہ بیمار تھا.اس نے اس کا طواف کیا اور دعا کی میری زندگی اس کو مل جائے.پس جان قربان کرنے کا جو تخیل ہے وہ طواف کے ساتھ گہراتعلق رکھتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ یہاں سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے گی جو ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی رہے گی اور اس کے آستانہ کا بوسہ لیتی رہے گی.ایک طرف وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ رکھنے والی ہو گی اور دوسری طرف وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کو نہایت شان کے ساتھ ظاہر کرنے والی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی ایک قوم پیدا کر دی.صرف پہلے زمانہ میں ہی نہیں صرف عرب میں بسنے والوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں اور قیامت تک ہر زمانہ میں جو ابراہیمی عشق اور جو ابراہیمی محبت اپنے رب کے لئے رکھیں گے وہ اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دینے والے ہوں گے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۶۲۶ تا ۶۳۴) چٹھی غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا بیت اللہ کی تعمیر کی چھٹی غرض یہ ہے کہ جو بھی اس کے اندر داخل ہو گا یعنی ہر وہ شخص جو ان عبادات کو بجالائے گا جن کا تعلق بیت اللہ سے ہے دنیا اور آخرت کے جہنم سے وہ خدا کی پناہ میں آ جائے گا اور اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.پس چھٹی غرض بیت اللہ کی تعمیر کی یہ ہے کہ اللہ کا ایک ایسا گھر بنایا جائے کہ جس کے ساتھ بعض عبادات تعلق رکھتی ہوں اور جو شخص بھی خلوص نیت کے ساتھ اور کامل اور مکمل طور پر ان عبادات کو بجالائے گا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے.کہ اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اور نار جہنم سے وہ محفوظ ہو جائے گا.ساتویں غرض بیت اللہ کی اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتائی ہے کہ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد یا اہل عرب پر ہی یہ فرض نہیں کہ وہ بیت اللہ کا حج کریں بلکہ بیت اللہ کی تعمیر کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اقوام عالم بیت اللہ کے حج کے لئے اس مقام پر جمع ہوں (میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام اغراض مقاصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت ہی بتا دیئے گئے

Page 435

۴۲۹ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث تھے جیسا کہ بہت سے قوی قرائن اس کے متعلق قرآن کریم سے ملتے ہیں ) غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک ایسا گھر ہے کہ تمام اقوام عالم پر جو مجھ پر ایمان لائیں گی اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائیں گی اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر میری اطاعت کا جو اپنی گردنوں پر رکھیں گی ان کے لئے حج بیت اللہ فرض قرار دیا جائے گا اور اس طرح اس جگہ کو مرجع خلائق اور مرجع عالم بنا دیا جائے گا.آٹھویں غرض یا آٹھواں مقصد بیت اللہ کی تعمیر کا یہ بتایا کہ یہ مثابةً ہے.اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا کی اقوام فرقہ فرقہ بن گئی ہیں اور جس وقت یہ فرقہ بندی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی اس وقت ایک ایسا رسول مبعوث کیا جائے گا جو بیت اللہ کی اس غرض کو پورا کرنے والا ہو گا اور ان متفرق اقوام کو ایک مرکز پر لا جمع کرے گا.وہ سب کو علی دِینٍ وَاحِدٍ لے آئے گا.پس یہاں بتایا کہ باوجود اس کے کہ تفرقہ ایک وقت پر اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس وقت ایک ایسے رسول کو مبعوث فرمائے جو تمام اقوام کو اُمَّةً وَاحِدَةً بنادے.نواں مقصد یہاں یہ بیان کیا کہ آمنا یعنی یہ گھر جو ہے یہ آمنا لِلنَّاسِ ہے.یہاں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے اپنے اس گھر کو ایسا بنانا چاہا ہے کہ اس کے ذریعہ اور صرف اس کے ذریعہ دنیا کو امن نصیب ہوگا کیونکہ صرف یہ ایک گھر ہو گا جسے بیت اللہ کہا جاسکتا ہے اس کو چھوڑ کر اور ان تعلیموں کو نظر انداز کر کے جن کا تعلق اس گھر سے ہے دنیا کی کوئی تنظیم امن عالم کے لئے کوشش کر کے دیکھ لے وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہو گی.حقیقی امن دنیا کو صرف اس وقت اور صرف اسی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مل سکتا ہے جو تعلیم وہ نبی دنیا کے سامنے پیش کرے گا جو خانہ کعبہ سے کھڑا کیا جائے گا.امن کے ایک دوسرے معنی کے لحاظ سے آمنا لِلنَّاس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا روحانی طور پر اطمینان قلب صرف مکہ معظمہ اور صرف اس آخری شریعت کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں حاصل کر سکے گی جو آخری شریعت مکہ میں ظاہر ہوگی اور تمام اقوام عالم کو پکار رہی ہوگی اپنے رب کی طرف اور چونکہ اطمینان قلب ہر انسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے فطری تقاضوں کو وہ تعلیم پورا کرنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جتنی قوتیں اور استعدادیں پیدا کی ہیں ان سب کی راہ نمائی اور نشو نما کرنے کے قابل ہو پس یہاں یہ فرمایا کہ مکہ گھر ہو گا ایک ایسی تعلیم کا جو حقیقی و

Page 436

۴۳۰ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث طور پر دنیا کو اطمینانِ قلب پہنچانے والی ہوگی یعنی ہر دو معنی یہاں چسپاں ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ دنیا کو اگر امن نصیب ہو سکتا ہے تو وہ مکہ کی وساطت سے دوسرے یہ کہ دنیا کی ارواح اگر اطمینان قلب حاصل کر سکتی ہیں.دنیا کی عقلیں اگر تسلی پاسکتی ہیں تو صرف اس تعلیم کے نتیجہ میں جو مکہ میں نازل ہوگی.دسویں غرض اور دسواں مقصد ان آیات میں خانہ کعبہ کا اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے.کہ اتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّی اس سے پہلی ایک آیت میں مَقَامُ الرجم کا ذکر تھا.اس سے مراد یہ تھی کہ یہ مقام ایسا گھر ہے جہاں بنیاد ڈالی گئی ہے اس حقیقی عبادت کی جو محبت اور ایثار اور عشق الہی کے چشمہ سے بہہ نکلتی ہے اور اِتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّی میں اس عبادت کا ذکر ہے جو تذلل اور انکسار کے منبع سے پھوٹتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے کہ ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو تذلل اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے والی ہو اور جو تذلل اور انکسار کی عبادت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام کے کل ساری دنیا میں قائم کرے اور اشاعت اسلام کے مرا کز کو قائم کرنے والی ہو.گیارھویں غرض تعمیر بیت اللہ کی یہ بیان کی گئی ہے کہ طهرا بَيْتِی اور اس میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو ظاہری صفائی اور باطنی طہارت کا سبق سیکھنے کے لئے ساری دنیا کے لئے بطور ایک جامعہ اور یو نیورسٹی اور ایک مرکز کے بنایا جائے.بارھویں غرض تعمیر کعبہ کی یہ بتائی گئی ہے کہ لِلطَّابِفین یعنی اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں جمع ہوا کریں گے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے یہ بتایا تھا کہ تمام اقوام عالم کے نمائندے بار بار یہاں آئیں گے طواف کرنے کے لئے بھی اور دوسری ان اغراض کے پورا کرنے کے لئے بھی جن کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے.تیرھواں مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ والمکفین خانہ کعبہ اس غرض سے از سر نو تعمیر کروایا جارہا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ایک ایسی قوم پیدا کی جائے جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے والے ہوں اور اس طرح بیت اللہ کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں.چودھواں مقصد یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ والزرع السُّجُودِ ایک ایسی قوم

Page 437

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۳۱ سورة ال عمران پیدا کی جائے جو تو حید باری پر قائم ہو اور جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے اپنی زندگیوں کو گزارنے والی ہو.پندرھواں مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ بلدا امنا.امن کا لفظ ان آیات میں تین مختلف مقاصد کے بیان کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے.یہاں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم اس گھر کو دنیا کے ظالمانہ حملوں سے اپنی پناہ میں رکھیں گے اور کوئی ایسا حملہ جو خانہ کعبہ کو مٹانے کے لئے کیا جائے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا بلکہ حملہ آور تباہ و برباد کر کے رکھ دیئے جائیں گے تا دنیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ وہ نبی جسے ہم یہاں سے مبعوث کرنا چاہتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہوگا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی ذات کو ہلاک یا اس کے مشن کو نا کام نہیں کر سکے گی اور تا دنیا یہ بھی نتیجہ نکالے کہ جو شریعت نبی معصوم کو دی جائے گی وہ ہمیشہ کے لئے ہوگی اور خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوگا.سولہویں غرض جو خانہ کعبہ سے وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ وارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ میں بیت اللہ کو از سر نو تعمیر کروا رہا ہوں اس غرض سے بھی کہ تا بیت اللہ اور اس کی برکات کو دیکھ کر دنیا اس نتیجہ پر پہنچے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے پرموت وارد کرتے ہیں اور اس کے ہو کر اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں اور دنیا سے کٹ کر صرف اسی کے ہی ہو رہتے ہیں ان کے اعمال ضائع نہیں ہوتے بلکہ شیریں پھل انہیں ملتا ہے اور عاجزانہ اور عاشقانہ اعمال کے بہترین نتائج ان کے لئے مقدر کئے جاتے ہیں.سترھویں غرض بیت اللہ کے قیام کی یہ بتائی کہ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا بیت اللہ کی تعمیر کی ایک غرض یہ ہے کہ تا دنیا یہ جانے اور پہچانے کہ روحانی رفعتوں کا حصول دعا کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے.جب دعا میں انسان کا تضرع اور ابتہال انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور موت کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تب فضل الہی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور معرفت کی راہیں بندہ پر کھولی جاتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے یہاں بیت اللہ کے قیام کی غرض بتائی کہ یہاں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا اپنی تمام شرائط کے ساتھ کرے گی اور دعا میں ان پر ایک موت کی سی کیفیت وارد ہو گی اور ان کا وجود کلیۂ فنا ہو جائے گا اور پانی بن کر آستانہ رب پر بہہ نکلے گا اور وہ جانتے ہوں گے کہ ہم اپنے اعمال کے نتیجہ میں محض اعمال کے نتیجہ میں) کچھ حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے

Page 438

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۳۲ سورة ال عمران فضل کو جذب نہ کریں اس لئے انتہائی قربانیاں دینے کے بعد بھی وہ اپنی قربانیوں کو کچھ چیز نہ سمجھیں گے اور ہر وقت اپنے رب سے ترساں اور لرزاں رہیں گے اور انتہائی قربانیوں کے باوجود ان کی دعا یہ ہوگی کہ جو کچھ ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں وہ ایک حقیر سا تحفہ ہے.تیری شان تو بہت بلند ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ تیرے حضور ہمارا یہ تحفہ قبول ہونے کے لائق نہیں لیکن تو بڑا رحم کرنے والا رب ہے ہمارے اس حقیر تحفہ کو قبول فرما اور ہماری غفلتوں اور ہماری حقیر مساعی کو چشم مغفرت سے دیکھ اور رحمت کے سامان پیدا کرتا کہ ہماری مساعی اور کوششیں تیرے حضور قبول ہو جائیں.غرض اس قسم کی قوم پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی.اٹھارہواں مقصد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر سے اٹھارہواں مقصد یہ ہے کہ دنیا یہ جانے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے حضور اس رنگ میں دعائیں کرتے ہیں وہی ہیں جو اپنے رب کی صفت سمیع کا نظارہ دیکھتے ہیں اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ ہمارا رب جو ہے وہ سننے والا ہے.وہ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری دعاؤں کو سنا.پس خانہ کعبہ کے قیام کے نتیجہ میں خدائے سمیع کی معرفت دنیا حاصل کرے گی.انیسواں مقصد یہ ہے کہ دنیا اس کے ذریعہ سے خدائے علیم کی معرفت حاصل کرے گی یہ نہیں ہو گا کہ بندہ نے اپنے علم ناقص کے نتیجہ میں جو دعا کی اسے اللہ تعالیٰ نے اسی رنگ میں قبول کر لیا بلکہ بندہ دعا کرے گا اور دعا کو انتہا تک پہنچائے گا تو اس کا رب اس کی دعا کو سنے گا اور قبول کرے گا مگر قبول کرے گا اپنے علم غیب کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے یعنی جس رنگ میں وہ دعائیں قبول ہونی چاہئیں اس رنگ میں.بعض دعاؤں کا رد ہو جانا یا بعض دعاؤں کا اس شکل میں پورا نہ ہونا جس رنگ میں کہ وہ کی گئی ہیں یہ ثابت نہیں کرے گا کہ خدا سمیع نہیں ہے یا قادر نہیں ہے بلکہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات علام الغیوب ہے.تو خانہ کعبہ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی کہ خدا تعالیٰ کے بندے خدائے علیم سے متعارف ہو جائیں اور اس کو جانے لگیں اور پہچانے لگیں.بیسویں غرض یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ یعنی اُمت مسلمہ ہماری ذریت میں سے بنائیو.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا ہے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث ہوں تو آپ کی قوم اُمَّةٌ مُسْلِمَةٌ بننے کی اہلیت رکھتی ہو اور ابراہیمی دعاؤں

Page 439

۴۳۳ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث کے نتیجہ میں وہ اُمَّةً مسلمة بن بھی جائے گی اور اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ نبی جس کا وعدہ دیا گیا ہے کہ وہ مکہ میں پیدا ہو گا مگر تم دعا کرتے رہو کہ اے خدا! ہماری اور ہماری نسلوں کی کسی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے نزدیک ہم اس قابل نہ رہیں کہ وہ وعدہ ہمارے ساتھ پورا ہو بلکہ کسی اور قوم میں وہ نبی مبعوث ہو جائے تو فرمایا میری اولاد کو ہی اُمت مسلمہ بنانا.پہلے مخاطب وہی ہوں اور سب کے سب قبول کرنے والے بھی وہی ہوں.پس یہاں یہ بتایا ہے کہ وہ اُمت جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی ذریت سے پیدا ہونے والی ہے وہ اُمت مسلمہ بنے.اس نبی کا انکار نہ کرے.اس نبی پر ایمان لا کر جو ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر پڑیں وہ ان کو نباہنے کی قوت اور استعداد ر کھنے والی ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کو ایسی ہی قوم بنانا چاہتے ہیں اور اسی غرض سے ہم نے خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر کروائی ہے.اکیسواں مقصد یہاں یہ بیان فرمایا کہ آرنا مناسكنا اس میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ مکہ معظمہ سے ایک ایسا رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہو گا جو دنیا کی طرف اس وقت آئے گا جب وہ اپنی روحانی اور ذہنی نشوونما کے بعد ایسے مقام پر پہنچ چکی ہوگی کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کی حامل بن سکے.ایسی شریعت جس میں پہلی شریعتوں کے مقابلہ میں لچک ہے.ایسی شریعت جس میں مناسب حال عمل کرنے کی تعلیم دی گئی ہو اور ایسی شریعت جو ہر قوم اور ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو.آرنا منا سكنا ہمارے مناسب حال جو کام اور جو عبادتیں ہیں جو ذمہ داریاں ہیں وہ ہمیں دکھا اور سکھا.یعنی قرآنی شریعت کو ہم پر نازل فرما.پس آرنا مناسگنا میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ رسول آئے گا اس کا تعلق دنیا کی ساری اقوام سے ہوگا اور ہر زمانہ سے ہوگا.پس دعا کرتے رہو کہ اے ہمارے رب قوم قوم کی ضرورتوں اور طبیعتوں میں فرق اور زمانہ زمانہ کے مسائل میں فرق کے پیش نظر شریعت ایسی کامل اور مکمل بھیجنا کہ جو ہر قوم کے فطرتی تقاضوں کو پورا کرنے والی ہو اور ہر زمانہ کے مسائل کو وہ سلجھانے والی ہو.قیامت تک زندہ رہنے والی ہوتا جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی ہے وہ پوری ہو.بائیسویں غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تب عَلَيْنَا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو آخری شریعت یہاں نازل کی جائے گی اس کا بڑا گہرا تعلق رَبّ تواب سے ہوگا اور اس شریعت کے

Page 440

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۴۳۴ سورة ال عمران پیرو اس حقیقت کو پہچاننے والے ہوں گے کہ تو بہ اور مغفرت کے بغیر معرفت کا حصول ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بار بار اس کی راہ میں قربانیاں بھی دینے والے ہوں گے اور بار بار اس کی طرف رجوع بھی کرنے والے ہوں گے اور کہیں گے کہ اے خدا! ہماری خطاؤں کو معاف کر دے.وہ ایسی قوم ہوگی کہ جو نیکی کرنے کے بعد بھی اس بات سے ڈر رہی ہو گی کہ کہیں ہماری نیکی میں کوئی ایسا رخنہ نہ رہ گیا ہو جس سے ہمارا رب ناراض ہو جائے وہ ہر وقت استغفار اور تو بہ میں مشغول رہنے والی قوم ہوگی.تیسواں مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ کہ ہم محمد ( رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مولد اسے بنانا چاہتے ہیں ہم اسے ایسا مقام بنانا چاہتے ہیں کہ جس کے ماحول میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ ، عاجزی اور انکسار کے ساتھ ، عشق اور محبت کے ساتھ کی گئیں دعاؤں کے نتیجہ میں ہم اپنے ایک عبد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو محمدیت کے مقام پر کھڑا کریں گے اور اس کے ذریعہ سے ایک ایسی شریعت کا قیام ہوگا اور ایک ایسی اُمت کو جنم دیا جائے گا کہ جو زندہ نشان اپنے ساتھ رکھتی ہوگی يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِك اور زندہ خدا کے ساتھ اور زندہ نبی کے ساتھ اور زندہ شریعت کے ساتھ ان کا تعلق ہوگا اور ان کو کامل شریعت کا سبق دیا جائے گا لیکن نا سمجھ بچوں کو جس طرح کہا جاتا ہے ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہم کہتے ہیں اور تم مانو.اللہ تعالیٰ ان کی عقل اور فراست کو تیز کرنے کے لئے اپنے احکام کی حکمت بھی ان کو بتائے گا اس نبی کے ذریعہ اور اس طرح وہ کچھ ایسے پاک کر دئے جائیں گے کہ اس قسم کی پاکیزگی کسی پہلی قوم کو حاصل نہ ہوئی ہوگی اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہماری عقل بھی تسلیم کرتی ہے کیونکہ اگر پہلی امتوں پر نسبتا ناقص شریعتوں کا نزول ہوا اور اس ناقص راہ نمائی کے نتیجہ میں ان کا تزکیہ ہو تو وہ تزکیہ کامل نہیں وہ ان کی فطرت کے مطابق ان کی استعداد کے مطابق ، ان کی قوت کے مطابق تو ہے لیکن وہ کامل تزکیہ نہیں ہے کیونکہ جو تعلیم انہیں دی گئی ہے وہ کامل نہیں کیونکہ ان کی استعدادا بھی کامل نہیں.پھر جب وہ قوم پیدا ہو گئی جو کامل شریعت کی حامل ہونے کی استعدا در کھتی تھی تو ان میں سے جن لوگوں نے انتہائی قربانیاں دے کر اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے تمام احکام پر عمل کر کے اور تمام نواہی سے بچتے ہوئے اس کے حضور گریہ وزاری میں اپنی زندگی گزاری ان کو جو تزکیہ نفس حاصل ہو گا ( محض خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ کہ ان کے اعمال کے نتیجہ میں ) وہ ایک ایسا کامل تزکیہ ہو گا.وہ ایک ایسی مکمل طہارت اور پاکیزگی ہو گی.اللہ تعالیٰ کی ایسی

Page 441

تفسیر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۴۳۵ سورة ال عمران خوشنودی اور رضا ہوگی کہ اس قسم کی رضا پہلی قوموں نے حاصل نہیں کی ہوگی.پس اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ تیسویں غرض بیت اللہ کے قیام کی یہ ہے کہ ایک خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث کیا جائے اور پھر انسان کو اس ارفع مقام پر لاکھڑا کیا جائے جس ارفع مقام پر کھڑا کرنے کے لئے ہم نے اسے پیدا کیا تھا.(خطبات ناصر جلد اول صفحه ۷ ۶۳ تا ۴ ۶۴ ) بیت اللہ کے قیام کی پہلی غرض اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جیسا کہ میں نے اپنے پہلے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا یہ بتائی ہے کہ وضع للناس یہ اللہ کا گھر اس لئے از سر نو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے تعمیر کروایا جارہا ہے کہ تمام اقوام عالم کے دینی اور دنیوی فوائد اس بیت اللہ سے وابستہ کر دیئے جائیں اور ظاہر ہے کہ یہ اڑھائی ہزار سالہ زمانہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے درمیان گزرا اس زمانہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ بیت اللہ سے تمام اقوام عالم دینی اور دنیوی فوائد حاصل کر رہی ہیں.بہت سی قومیں اس وقت ایسی بھی تھیں جو بیت اللہ یا مکہ کے جغرافیہ سے بھی واقف نہیں تھیں.اکثر اقوام عالم وہ تھیں کہ جن کے دلوں میں بیت اللہ کی کوئی محبت نہیں تھی.وہ اس کی طرف کھنچے ہوئے نہیں آتے تھے.ان کی نگاہ میں اس کی کوئی عزت اور احترام نہیں تھا اور انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ بیت اللہ سے بعض ایسی برکات اور فیوض بھی وابستہ ہیں کہ اگر ہم ان کو جانیں اور پہچانیں تو ہم ان برکات اور فیوض سے حصہ لے سکتے ہیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو یہی گھر جسے دنیا بھول چکی تھی دنیا نے اس کو پہچان لیا اور اس کی برکات کو جان لیا اور دنیا کے دل میں اکناف عالم میں بسنے والی اقوام کے سینہ میں اس کی محبت پیدا ہو گئی اور وہ تمام وعدے پورے ہونے لگے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربّ نے اور ہمارے رب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کئے تھے.اب میں یہ بتاؤں گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ وعدہ ( وضع للناس کا ) کس طرح اور کس شکل میں پورا ہوا ظاہر ہے کہ چونکہ وعدہ تمام اقوام کے لئے تھا اور وعدہ یہ تھا کہ تمام بنی نوع انسان مکہ سے برکت حاصل کریں گے اور عقلاً یہ ممکن نہیں کہ شریعت کاملہ کے نزول کے بغیر ایسا ہو اس لئے قرآن کریم کی کامل شریعت کا نزول اس وعدہ کے پورا ہونے سے قبل ضروری تھا.قرآن کریم نے دعویٰ کیا ہے کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ ( البقرة : ۳) یہ قرآن ایک کامل اور مکمل شریعت ہے....

Page 442

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۳۶ سورة ال عمران یہی کتاب الکتب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا کہ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَأُمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ - (النساء : ۱۷۱) اے تمام بنی نوع انسان سنو کہ ایک کامل رسول کامل صداقت لے کر تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس پہنچ چکا ہے.تمہارا رب جس نے تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا تھا نشو ونما اور ارتقا کے مختلف مدارج میں سے تمہیں گزارتا ہوا وہ اس مقام پر تمہیں لے آیا ہے کہ اپنی کامل جنتوں میں تمہیں داخل کرے.سن لو کہ یہ رسول آگیا فا مِنوا جو وہ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ زبان سے بھی، دل سے بھی اور اپنے جوارح سے بھی تم اسے مانو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو.اگر تم اس کامل رسول پر ایمان لاؤ گے اور جو اکمل شریعت ہے اس کے مطابق تم اپنی زندگیاں گزارو گے تو تم خیر امت بن جاؤ گے اور جب تم خیر امت بنو گے اور صرف اس وقت جب تم خیر امت بنو گے تو تم اس قابل ہو گے کہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکو تمہارے ذریعہ سے تمام اقوام اور ہر زمانہ کے لوگ دینی اور دنیوی فوائد حاصل کریں گے جب تک تم اس مقام کو نہیں پاتے ساری دنیا اور دنیا کے ہر حصہ میں بسنے والی اقوام تم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں اور جب تک تم سے ساری اقوام عالم فائدہ نہ اٹھا سکیں اس وقت تک نہیں کہا جا سکے گا کہ تم کو (اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) تمام دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور جب تک تمہارے متعلق یہ نہیں کہا جاسکے گا کہ تمہیں تمام دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس وقت تک وہ وعدہ نہیں پورا ہوگا کہ اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ.اس واسطے امنوا تم اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے قرآنی شریعت پر ایمان لاؤ.اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو تم خیر امت بن جاؤ گے.پس نزول قرآن کے ذریعہ وضع لِلنّاس کا مقصد حاصل ہوا اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْ أَمَنَ اَهْلُ الكتب لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ - (ال عمران : ۱۱۱) اس آیت میں دراصل یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ابراہیمی پیشگوئی اور وعدہ کے مطابق امت محمدیہ بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کر دی گئی ہے اور ایک اُمت ایسی تیار ہو چکی ہے جو اُخْرِجَتْ للناس ہے.وہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے.اور اس کی دلیل یہاں یہ دی ہے کہ یہ خیر امت ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے تمام دنیا کی بھلائی کے لئے

Page 443

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۳۷ سورة ال عمران اسے پیدا کیا گیا ہے اور یہ دلیل یوں ہے کہ اگر آپ تمام دنیا کی شریعتوں پر غور کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تمام شریعتیں اس قوم کی استعداد کے مطابق نازل ہوتی رہی ہیں جس قوم کی طرف ان کو نازل کیا جاتا رہا ہے.حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی طرف جو شریعت بھیجی گئی اس شریعت سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی روحانی استعداد میں اور صلاحیتیں کیا تھیں جو شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف نازل ہوئی اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کی روحانی صلاحیتیں اور استعدادیں کیا تھیں.باقی سارے انبیاء کی قوموں کا بھی یہی حال تھا بہر حال اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو شریعت بھی جس قوم کی طرف نازل کی جاتی ہے وہ اس قوم کی روحانی صلاحیتوں اور استعدادوں کو مد نظر رکھ کر نازل کی جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا کسی قوم پر وہ بوجھ نہیں ڈالتا جس کو وہ برداشت نہ کر سکے.دوسری حقیقت جو بڑی واضح ہے وہ یہ ہے کہ قرآنی شریعت پہلی تمام شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل اور اتم اور کامل اور مکمل ہے.اگر آپ پہلی شرائع کے احکام ( اوامر و نواہی ) کو قرآن کریم کے احکام کے مقابلہ پر رکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں چھ سات صد سے زائد احکام ( اوامر و نواہی) اس اُمت کے لئے نازل کئے گئے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر معدودے چند احکام کا نزول ہوا.پھر سینکڑوں ایسے احکام قرآنیہ ہیں جو پہلی کسی شریعت میں بھی ہمیں نظر نہیں آتے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلی شرائع کے احکام ( اوامر و نواہی ) محدود تھے بوجہ اس کے کہ اس قوم کی استعدادیں محدود تھیں جس کی طرف انہیں نازل کیا گیا تھا اور قرآن کریم کا ایک کامل اور مکمل شریعت ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ بنی نوع انسان اس زمانہ میں جب قرآن کریم نازل ہوا کامل روحانی استعدادوں کے حامل تھے ورنہ قرآن کریم ان کی طرف نازل نہ ہوتا.......غرض وُضِعَ لِلنَّاسِ ایک مقصد بیت اللہ کی تعمیر کا تھا اور چونکہ یہ اس لحاظ سے بڑا ہی اہم ہے کہ باقی سارے مقاصد کا اس پہلے مقصد کے ساتھ یا پھر جو آخری مقصد رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِک میں بیان ہوا میرا اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور میں چاہتا تھا کہ اس مقصد کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں تا کہ آپ اچھی طرح سمجھ جائیں کہ وضع لِلنَّاسِ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوسکتی تھی جب تک ایک ایسی اُمت دنیا میں پیدا نہ ہو جائے جو خیر الام ہو اور وہ اُمت پیدا نہیں ہوسکتی

Page 444

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۴۳۸ سورة ال عمران تھی جب تک کہ قرآن کریم کی شریعت جو کامل اور اکمل ہے اس کا نزول نہ ہو جائے اور ہر شریعت کا نزول قوم کی استعداد کے مطابق ہوتا ہے قرآن کریم کی شریعت چونکہ ہر پہلو اور ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے اس لئے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں (اور اس کے علاوہ کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے ) کہ وہ اقوام جو اس زمانہ میں اور پھر قیامت تک اس کی مخاطب تھیں اور مخاطب رہیں گی وہ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے لحاظ سے قرآن کریم کی حامل ہو سکتی تھیں اور قرآن کریم کی تربیت کو قبول کرنے کے بعد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات سے حصہ لینے کے بعد ان کی شکلیں ان کے حلیے کچھ اس طرح بدلے کہ ایک حقیقت بین نگاہ میں وہ نئے انسان بن گئے یعنی ان کی جو پہلی شکل تھی یا جو پہلے نقوش تھے ان کا کوئی حصہ باقی نہ رہا بلکہ نئے نقوش ابھر آئے جس طرح ریشم کا کیڑا جب ریشم بنا چکتا ہے تو اگر انسان اس کو موقع دے اور ریشم کا وہ جال جو اس نے اپنے اردگرد بنایا ہوا ہوتا ہے اس میں سے باہر نکل آئے تو وہ پہلا کیڑا نہیں رہتا بلکہ اس کا پہلا سر.پہلی آنکھیں اور پہلا حلیہ بالکل بدل جاتا ہے پہلے اس کے پر نہیں ہوتے لیکن ۲۴ یا ۴۸ گھنٹوں کے اندر اندر اس کے پر نکل آتے ہیں.نیا سر پیدا ہو جاتا ہے، نئی آنکھیں پیدا ہو جاتی ہیں بالکل یہی مثال ان لوگوں کی ہے کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے پہلے وہ زمین کے کیڑے تھے اور بعد میں ان کو اللہ تعالیٰ نے نئی بصارت دی، نئی آنکھیں دیں، نئے دماغ دیئے.پرواز کی نئی قوت عطا کی پھر وہ آسمان کی وسعتوں میں اڑنے لگے اور جب یہ قوم پیدا ہو گئی تو وضع للناس کا وعدہ بھی پورا ہو گیا.ا خطبات ناصر جلد اوّل صفحه ۶۴۹ تا ۶۶۰) میں بتارہا ہوں کہ ان آیات کریمہ میں تئیں مقاصد تعمیر بیت اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.وہ بعثت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کس طرح پورے ہوئے پچھلے ایک خطبہ میں وضع لِلنَّاسِ کی تفسیر اس پس منظر میں میں نے پیش کی تھی.دوسرا مقصد جوان آیات میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ مُبارک ہے میں نے بتایا تھا مُبَارَك کا لفظ یہاں دو معنوں میں لیا جا سکتا ہے.اول یہ کہ خانہ کعبہ اقوام عالم کے نمائندوں کی قیام گاہ بنے گا اور تمام اقوام سے ایسے لوگ یہاں جمع ہوتے رہیں گے جو روحانی میدانوں کے شیر ہوں گے.بہادری کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے ابطال کی یہ قیام گاہ ہوگی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اس

Page 445

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۳۹ سورة ال عمران معنی میں بیت اللہ ساری دنیا کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مُبارك کبھی نہیں ہوا یعنی اقوام عالم کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل خانہ کعبہ کی ، اس بیت اللہ کی محبت اس رنگ میں کبھی پیدا نہیں ہوئی کہ یہ اس کی طرف کھچے چلے آتے اور خانہ کعبہ میں کوئی ایسا سامان بھی نہ تھا کہ اگر اقوام عالم کے نمائندے وہاں پہنچتے تو ان کے دلوں کی تسکین کا وہ باعث بنتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس لحاظ سے دنیا کا نقشہ بدل گیا اقوام عالم کے دلوں میں ایک طرف بیت اللہ کی محبت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ایسے سامان بھی پیدا ہو گئے کہ لوگ وہاں جائیں اور روحانی یا منقولی یا عقلی یا دینی علوم سیکھیں اور وہ ایسے علوم ہوں جو تمام قوموں کو ہر زمانہ کے رہنے والوں کو دینی اور دنیوی فوائد پہنچاسکیں اس معنی کے لحاظ سے تاریخی ثبوت اتنا واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اس غرض کو پورا کیا گیا ہے کہ اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.دوسرے معنی مُبَارَكًا کے جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں یہ ہیں کہ مکہ کو مولد بنایا جائے گا ایک ایسی شریعت کا جس میں وہ تمام بنیادی صداقتیں اور ہدایتیں جمع کر دی جائیں گی جو انبیاء سابقین کی شریعتوں میں متفرق طور پر پائی جاتی تھیں.صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی شریعت ہے جس نے یہ دعوی کیا ہے کہ میں نے تمام پرانی صداقتوں کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے.قرآن کریم سے قبل کسی شریعت نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا اور نہ وہ ایسا دعویٰ کر سکتی تھی.کیونکہ ان کو نازل کرنے والا خدا جانتا تھا کہ ان شرائع کا نزول خاص قوموں اور ایک خاص زمانہ تک کے لئے ہے.قرآن کریم نے یہ دعوی مختلف آیات میں کیا ہے.جن میں سے بعض میں اس وقت اپنے دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے: وَهَذَا كِتَبُ أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام : ۱۵۶) یعنی یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے اور ایک ایسی شریعت ہے جو مُبارک ہے تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں اور ان کی بنیادی صداقتیں گویا بہہ کر اس کے اندر آگئی ہیں.اب تم اس کتاب مبارک کی کامل پیروی کرو (اتَّبِعُوهُ ) اس سے تمہیں دو فائدے پہنچیں گے.ایک تو یہ کہ تم خدا کی پناہ میں آ جاؤ گے خدا تمہاری ڈھال بن جائے گا اور وہ تمام شیطانی وساوس سے تمہیں بچائے گا کیونکہ اس کتاب مبارک کی اتباع کے بغیر تقویٰ کی صحیح راہوں کا عرفان بھی حاصل نہیں ہوتا اور ان پر چل کر اللہ تعالیٰ کی کامل حفاظت کے اندر بھی انسان نہیں

Page 446

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۴۴۰ سورة ال عمران وو آسکتا اور دوسرا نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ تُرحمون اللہ تعالیٰ کے رحم کے تم مستحق ٹھہرو گے اور اس کے انعامات بے پایاں کے نتیجہ میں جسمانی اور روحانی آسودگی حاصل ہو گی.اسی طرح دوسری جگہ (سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وهذا كتب انزلنهُ مُبْرَكَ مُّصَدِقَ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أَم القرى وَمَنْ حَوْلَهَا - (الانعام : (۹۳) یعنی یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے پہلی تمام امتوں کی ہر قسم کی برکات کی جامع ہے.(مبروك ) اور ان بشارتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق نازل ہوئی ہے، جو اس کتاب کے متعلق پہلی کتاب میں پائی جاتی ہیں.نیز ان تمام شرائع سابقہ کی بنیادی صداقتوں اور ہدایتوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے والی ہے ( اس کے اندر ان کو جمع کر دیا گیا ہے ) اسی طرح ابراہیمی قربانیوں اور دعاؤں کا یہ ثمرہ ہے اس لئے تم اہل مکہ اور اہل عرب کو خبر دار کرو کہ جس اکمل شریعت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوا اور موجودہ شریعت تم پر نازل ہوگئی.اگر تم اس سے منہ پھیرو گے تو جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ تمہیں پہلے سے خبردار کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے غضب کے تم مورد بنو گے اور عَذَابُ النّارِ کی طرف گھسیٹ کر تمہیں لے جایا جائے گا.اس آیت میں بڑی وضاحت سے یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ منوں کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور ابراہیم کی پیشگوئیوں کے ساتھ ہے لِتُنذِرَ اُمَّ القُرى وَمَنْ حَوْلَهَا میں یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے.تو ہر دو معنی کے لحاظ سے یہ خانہ خدا مبرك اس وقت بنا جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے دنیا کے دل میں مکہ کی محبت پیدا کی گئی اور دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مکہ میں شریعت اسلامی کا نزول ہوا.تیسری غرض تعمیر کعبہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ هُدى العلمين تمام جہانوں کے لئے اسے ہدایت کا مرکز بنایا جائے گا.یعنی یہاں ایک ایسی شریعت نازل ہوگی جس کا تعلق کسی ایک قوم یا کسی ایک زمانہ کے ساتھ نہ ہوگا بلکہ عالمین کے ساتھ ہوگا.تمام اقوام کے ساتھ ہوگا.تمام اکناف عالم کے ساتھ ہو گا تمام جہانوں کے ساتھ ہوگا اور تمام زمانوں کے ساتھ ہوگا.اس سلسلہ میں پہلی بات یا درکھنے کے قابل یہ ہے کہ پہلی کتب سماوی کے نزول کے وقت انسان کی کمزور استعداد میں اس لائق نہ تھیں کہ وہ کامل اور مکمل شریعت کی متحمل ہوسکتیں.اس لئے ان میں سے

Page 447

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۴۴۱ سورة ال عمران کسی کا بھی یہ دعوی نہ تھا کہ وہ تمام اقوام عالم اور ہر زمانہ کے لئے ہیں لِلعالمین ہونے کا دعویٰ قرآن سے پہلے کسی شریعت نے نہیں کیا.صرف قرآن کریم نے ہی یہ دعوی کیا ہے اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا کو پکار کر کہا کہ میں تم سب کی طرف خدا کا رسول ہوں.قرآن کریم میں بہت سی آیات اس مضمون کی پائی جاتی ہیں.میں نمونہ کے طور پر چند ایک یہاں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ نَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ - (النحل : ۹۰) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز اور ہر ایک تعلیم کو بیان کر دیا گیا ہے، جو ہم بنی نوع انسان کی روحانی ترقیات کے لئے بیان کرنا چاہتے تھے یعنی ہمارے علم کامل میں جو علیمیں بنی نوع انسان کی اعلیٰ روحانی ترقیات کے لئے ضروری تھیں وہ ہم نے اس کتاب میں بیان کر دی ہیں اور دوسری جگہ فرما يا مَا فَرَّطْنَا فِي الكِتب مِنْ شَيْءٍ (الانعام : ۳۹) بنی نوع انسان کی کامل استعدادوں کی صحیح نشو نما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی وہ اس میں بیان ہو گئی ہے اور کوئی تعلیم اس کے باہر نہیں رہی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعوی کیا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینا.(المائدہ: ۴) یعنی قرآن کریم کے ذریعہ دین اپنے کمال اور روحانی نعمتیں اپنے انتہا کو پہنچ گئی ہیں.اب صرف اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی.پس یہ دعوی کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا.یہ اُسی کا حق تھا.اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا.جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ تو رات اور انجیل دونوں اس دعویٰ سے دستبردار دیباچه بر این احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴)....میں نے بتایا تھا کہ ہدایت کے چار معنی لغت میں بیان ہوئے ہیں.پہلے معنی کے متعلق جو خطبہ چھپا ہے اس میں کچھ تھوڑا سا ابہام ہے.اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں.ہدایت کے پہلے معنی یہ ہیں کہ عقل اور فراست کو جس راہنمائی کی ضرورت ہے اسے بھی ہدایت کہتے ہیں.یعنی عقل اور فراست میں اور علوم کے حصول میں اور اس کی تحقیق میں بھی انسان میں جو طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں ہیں.

Page 448

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۴۲ سورة ال عمران محض وہ کافی نہیں بلکہ ان کے لئے بھی آسمان سے کسی ہدایت کی ضرورت ہے.تو یہ ہدایت قدر مشترک ہے تمام انسانوں میں، اس کا کسی مذہب کے ساتھ تعلق نہیں ہے.اس قدر مشترک کی راہنمائی بھی قرآن کہتا ہے کہ میں کرتا ہوں اور عقل تو خود اندھی ہے اگر نیر الہام اس کے ساتھ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بتانے کے لئے کہ جسمانی قابلیتیں اور روحانی استعدادیں کافی نہیں ہوتیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو کر آسمان سے اس کی ہدایت کا سامان پیدا نہ کیا جائے.......قرآن یہ کہتا ہے کہ علاوہ بعض دوسری ہدایتوں کے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں ہم عقل کی بھی راہنمائی کرتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بڑے لطیف پیرا یہ میں بیان کیا ہے کہ وحی والہام کے ذریعہ انسانی عقلوں کو اللہ تعالی تیز کرتا ہے اور پھر ذہن رسا سے جو علوم پرورش پاتے ہیں قرآن کریم ان سے خادموں کی طرح خدمت لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو خدا تعالی کی ہستی اور خالقیت اور اس کی توحید اور قدرت اور رحم اور قیومی اور مجازات وغیرہ صفات کی شناخت کے لئے جہاں تک علوم عقلیہ کا تعلق ہے استدلالی طریق کو کامل طور پر استعمال کیا ہے اور اس استدلال کے ضمن میں...تمام علوم کو نہایت لطیف و موزوں طور پر بیان کیا ہے...اور...علوم مذکورہ سے ایک ایسی شائستہ خدمت لی ہے جو کبھی کسی انسان نے سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۲، ۷۳ حاشیہ) اور یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ باقی ادیان تو رائج الوقت علوم کے سامنے دب سکتے ہیں لیکن اسلام ہی ایک ایسا دین ہے اور قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو کسی عقلی علم کے سامنے دیتی نہیں بلکہ اس کو خادم سمجھتی اور اس سے خدمت لیتی ہے.نہیں لی.ہدایت کے دوسرے معنی شریعت کے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہو.تو هُدًى لِلعلمین کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ شریعت جو عالمین کے لئے، تمام جہانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے اور صرف قرآن کریم ہی ھدی للعلمین ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مخاطب کر کے فرما یا اِنّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا - (الاعراف: ۱۵۹ قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس مضمون سے کہ وہ تمام جہانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے.یہ صرف ایک دعویٰ نہیں بلکہ

Page 449

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۴۴۳ سورة ال عمران ایک ناقابل تردید صداقت ہے جس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سنیئے.حضور فر ماتے ہیں جس قدر معارف عالیہ دین اور اس کی پاک صداقتیں ہیں اور جس قدر نکات و لطائف علم الہی ہیں جن کی اس دنیا میں تحمیل نفس کے لئے ضرورت ہے.ایسا ہی جس قدر نفس اتارہ کی بیماریاں اور اس کے جذبات اور اس کی دوری یا دائمی آفات ہیں یا جو کچھ ان کا علاج اور اصلاح کی تدبیریں ہیں اور جس قدر تزکیہ اور تصفیہ نفس کے طریق ہیں اور جس قدر اخلاق فاضلہ کے انتہائی ظہور کی علامات و خواص ولوازم ہیں یہ سب کچھ باستیفا ئے تام قرآن مجید میں بھرا ہوا ہے اور کوئی شخص ایسی صداقت یا ایسا نکتہ الہیہ یا ایسا طریق وصول الی اللہ یا کوئی ایسا نا در یا پاک طور مجاہدہ و پرستش الہی کا نکال نہیں سکتا جو اس پاک کلام میں درج نہ ہو“.سرمه چشم آرید روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۴ حاشیہ ).اس کی تفصیل آگے حضور نے بیان فرمائی ہے.پس قرآن کریم کا ہی یہ دعوی ہے کہ انسانی نفس کو روحانی کمالات تک پہنچانے کے لئے جس جس ہدایت اور صداقت کی ضرورت تھی وہ سب میرے اندر پائی جاتی ہے، اگر تم میری اتباع کرو گے تو روحانی بیماریوں سے محفوظ ہو جاؤ گے اور روحانی ترقیات کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے اور تم اپنے نفس کا کمال حاصل کر لو گے....اور دوسرے قرآن کریم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کا بھی یہ دعوی ہے کہ میں غیر محدود انوار کے، میں غیر محدود برکات کے، میں غیر محدود مقامات قرب کے دروازے اپنے ماننے والوں اور قرآن کریم کی اتباع کرنے والوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والوں پر کھولتا ہوں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا آتِهِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التحريم : ٩) اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی اتباع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کے نتیجہ میں اس دنیا میں نور عطا ہوتا ہے، وہ نور جس طرح اس دنیا میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روحانی راہوں کو ان پر روشن کرتا رہتا

Page 450

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۴۴ سورة ال عمران ہے اسی طرح دوسری دنیا میں بھی یہ نور مومن سے جدا نہیں ہوگا اور یہ نہ سمجھ لینا کہ قرآن کریم کی کامل اتباع کے نتیجہ میں صرف اس دنیا میں غیر محدود رحمتوں کے دروازے کھلتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان رحمتوں پر کوئی حد بندی نہیں لگائی جاسکتی.اس وقت بھی رحمتوں کے یہ دروازے کھلے رہیں گے کیونکہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اس دنیا میں بھی بینائی کے بغیر ہو گا.یہاں اس کے مقابل یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو اس دنیا میں روشنی اور نور رکھتا ہوگا وہ نور اس دنیا میں بھی اس کے ساتھ جائے گا اور یہ نہیں کہ اس دنیا میں روحانی ترقی کے دروازے تو ایسے شخص پر کھلے رہیں گے اور وہاں جا کے صرف فصل کٹنے کے بعد جو اس کے پھلوں کے کھانے کا وقت ہوتا ہے.صرف ویسا ہی وقت ہوگا پھر اور مزید ترقی اسے نہیں ملے گی.جو پہلے اس نے حاصل کر لی ان نعمتوں سے صرف وہی حظ اور سرور حاصل کرتا رہے گا.یہ بات نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے انسانی روح کے لئے ایسے سامان پیدا کر دئے ہیں کہ جو نور وہ قرآن کریم کی متابعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس دنیا میں حاصل کرتا ہے.وہ اس کے ساتھ جائے گا.اور اللہ تعالیٰ وہاں بھی اس کی ترقیات کے دروازے کھولتا رہے گا اور اس کی راہوں کو روشن کرتا چلا جائے گا اور کہیں بھی اس راہ نے ختم نہیں ہونا.کیونکہ بندے اور خدا کے درمیان جو فاصلے ہیں ان کی انتہا نہیں.پس بندے اور خدا کے درمیان جو مقامات قرب ہیں ان کی حد بندی اور تعین کیسے کی جاسکتی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہو گا ، پھر دوسرا کمال نظر آئے گا اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے پس کمال ثانی کے حصول کے لئے التجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہوگا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہو گا پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو بیچ سمجھیں گے اور اس کی خواہش کریں گے.یہی ترقیات کی خواہش ہے جو آنیم کے لفظ سے سمجھی جاتی ہے.غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا.تنزل بھی نہیں ہوگا“.(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۲، ۴۱۳) تو قرآن کریم نے ایسا دعویٰ بھی کیا ، قرآن کریم نے ایسا کر کے بھی دکھایا یعنی ہزاروں لاکھوں

Page 451

۴۴۵ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث مقدس بندے خدا تعالیٰ کے اسلام میں ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام سے نور حاصل کر کے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے روشنی حاصل کر کے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عشق سے ایک چنگاری لے کر ایسا نور حاصل کیا کہ وہ اس دنیا میں غیر متناہی ترقیات کے حامل ہوئے اور جو انہیں اُخروی زندگی میں ملے گا جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ وہ ایسی عجیب نعمتیں ہیں کہ ان کا تصور بھی انسان یہاں نہیں کر سکتا.ہدایت کے چوتھے معنی جیسا کہ میں نے بتایا تھا.انجام بخیر ہونے کے ہیں یعنی جنت کے مل جانے کے اور مقصد حیات کے حصول کے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولیكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقره:۶) کہ وہ لوگ جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اس پر وہ مضبوطی سے قائم ہیں اور ان کے رب کی ربوبیت کاملہ نے جس کامل ہدایت کو نازل کیا وہ اس ہدایت کے اوپر قائم ہیں - و أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.فلاح کا لفظ عربی زبان میں کامل کامیابی کو کہتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں کوئی کامیابی کا میابی نہیں رہتی جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ ہو جس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہ ہو جو بھر پور کامیابی ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے رب کی (جو انسان کی ربوبیت کرتا ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایک خاص بلند مقام پر ان کو لے آیا اور کامل استعدادیں اور کامل صلاحیتیں ان کو عطا کیں ) ہدایت پر قائم ہیں.وہ ایک حقیقی اور کامل فلاح اور کامیابی کو پاتے ہیں اور پہلی تمام امتوں سے آگے نکل جاتے ہیں.تو اس وقت اس خطبہ میں میں نے تعمیر کعبہ سے تعلق رکھنے والے دو مقاصد کے متعلق کچھ بیان کیا ہے.ایک یہ کہ (مُبَارَكًا) اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ کعبہ کو مبارک بنائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہر دو معنی میں بیت اللہ مبارک بن گیا اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہاں ایک ایسی ہدایت بھیجے جو هُدى للعلمین ہو.شریعت کے کمال کی وجہ سے بھی اور اپنے افاضہ کے لحاظ سے بھی اور یہ وعدہ بھی قرآن کریم کے ذریعہ پورا ہوا ہے.ورنہ مکہ میں تو کوئی اور شریعت تھی ہی نہیں لیکن جو دوسری شریعتیں ہیں انہوں نے بھی نہ یہ دعوی کیا.اور نہ وہ یہ دعوی کر سکتی تھیں قرآن کریم نے ہی یہ دعویٰ کیا ہے اور قرآن کریم نے اس دعوی کو عملی میدان میں ثابت بھی کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام میں ہزاروں لاکھوں ایسے مقدس وجود پیدا ہوئے جن کی زندگیاں دلیل ہیں اس بات پر کہ

Page 452

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۴۴۶ سورة ال عمران جو بھی قرآن کریم کی اتباع کرتا اور اس ہدایت کے پیچھے چلتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے هُدًى لِلْعَلَمِينَ قرار دیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی انتہائی برکتوں سے حصہ لیتا اور اس کا انجام بخیر ہوتا ہے اور انسانی نفس کو کمال تک پہنچانے کے لئے اور اس کے تزکیہ کو پورا کرنے کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے قرآن کریم پر عمل کیا اور خدا تعالی کی نگاہ میں ان کا وجود مبارک اور کامل وجود بنا اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات پر گواہ ہے کہ فی الواقع یہ لوگ خدا تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں اور روحانی میدانوں میں ہر لحظہ اور ہر آن ان کا قدم آگے ہی آگے کی طرف چلا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس گروہ میں شامل کرے.(خطبات ناصر جلد اوّل صفحه ۶۶۴ تا ۶۷۵) چوتھی غرض تعمیر کعبہ سے یہ تھی یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا چوتھا وعدہ یہ تھا کہ فِیهِ ایت بَيِّنت میں نے بتایا تھا کہ اس فقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ خدا کا یہ گھر ایسی آیات و بینات اور ایسے نشانات اور تائیدات سماوی کا منبع بنے گا جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گی یعنی اس تعمیر سے ایسی امت مسلمہ کا قیام مدنظر تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نشان قیامت تک دنیا پر ظاہر ہوتے رہیں.قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ صرف اسی کی اتباع کے نتیجہ میں قیامت تک کے لئے یہ دروازہ کھولا گیا ہے اور یہ کہ ہر قوم اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس کی برکتوں سے حصہ لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے نشانوں کو ظاہر کرتا رہے گا.آیات بینات پہلے انبیاء کو بھی دیئے گئے تھے لیکن وہ ایسی آیات بینات تھیں جن کا تعلق صرف ان کی قوم اور ان کے زمانہ سے تھا.تمام بنی نوع انسان سے ان کا تعلق نہ تھا اور ہر زمانہ سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا لیکن ان آیات میں تو مضمون ہی یہ بیان ہوا ہے کہ یہ وہ مقاصد ہیں جن کا تعلق تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ہے ہر قوم اور ہر زمانہ کے ساتھ ہے اسی لئے اس مضمون کی ابتدا ہی اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وضِعَ لِلنَّاسِ (ال عمران: ۹۷) میں للناس کے ساتھ کی گئی ہے تو اگر چہ آیات بینات پہلی امتوں کو بھی دیئے گئے لیکن ایسی آیات بینات جن کا تعلق ہر قوم اور ہر زمانہ سے تھاوہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے بَلْ هُوَ ايتٌ بَيِّنت في

Page 453

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۴۷ سورة ال عمران b صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا الظَّلِمُونَ (العنکبوت :۵۰) اس آیت کریمہ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جنہیں کامل علم اور کامل معرفت عطا ہوتی رہے گی اور اس کامل معرفت کے نتیجہ میں ان کے ولوں میں اپنے رب کے لئے کامل خوف بھی پایا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اپنے رب کے لئے کامل محبت بھی پیدا کی جائے گی اور وہ اپنے رب کی قدر کرنے والے ہوں گے تو ایسے ا لوگ چونکہ پیدا ہوتے رہیں گے اس لئے وہ آیات بینات جن کا قرآن کریم کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم مجسم ہے آیات بینات سے.وہ ان کے سینوں سے نکلتے رہیں گے.اور اس روشنی سے دنیا ہمیشہ منور ہوتی رہے گی لیکن کچھ لوگ امت مسلمہ میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو ظالم ہوں گے اور قرآن کریم کے فیوض کے ان دروازوں کو اپنے پر بند کرنے والے ہوں گے ایسے لوگوں کے ذریعہ سے بے شک اللہ تعالیٰ کی آیات بینات ظاہر نہیں ہوں گی لیکن اُوتُوا الْعِلم یعنی وہ لوگ جنہیں کامل علم عطا کیا جائے گا وہ ہمیشہ اُمت مسلمہ میں پیدا ہوتے رہیں گے اور آیات بینات کا دروازہ قیامت تک امت مسلمہ پر کھلا رہے گا.یہ صرف ایک دعوی نہیں ہے بلکہ تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچائی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے زمین اور آسمان اور ہر زمانہ کو نشانوں سے بھر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” دوسری علامت سچے مذہب کی یہ ہے کہ مردہ مذہب نہ ہو بلکہ جن برکتوں اور عظمتوں کی ابتدا میں اس میں تخم ریزی کی گئی تھی وہ تمام برکتیں اور عظمتیں نوع انسان کی بھلائی کے لئے اس میں اخیر دنیا تک موجود رہیں تا موجودہ نشان گزشتہ نشانوں کے لئے مصدق ہو کر اس سچائی کے نور کو قصہ کے رنگ میں نہ ہونے دیں.سو میں ایک مدت دراز سے لکھ رہا ہوں کہ جس نبوت کا ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تھا اور جو دلائل آسمانی نشانوں کے آنجناب نے پیش کئے تھے وہ اب تک موجود ہیں اور پیروی کرنے والوں کو ملتے ہیں تا وہ معرفت کے مقام تک پہنچ جائیں اور زندہ خدا کو براہ راست دیکھ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۱۱) لیں.

Page 454

۴۴۸ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث.....میں بتا یہ رہا ہوں کہ فِیهِ این بینت کا جو وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وعدے کو پورا کرنے والے ہیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دنیا نے اللہ تعالیٰ کے لاکھوں نشانات کا مشاہدہ کیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے بھی اور دوسرے جو بزرگ جماعت احمدیہ میں پائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نشان ظاہر کرتا رہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کے طفیل آپ کے ماننے والوں پر یہ حقیقت بھی وضاحت کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ اس قسم کی باتیں عام طور پر ظاہر نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ ان کے نتیجہ میں انانیت پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو انسان مول لینے والا نہ ہو جائے.تو قرآن کریم سے نیز جو نمونہ اولیاء امت کا تاریخ میں محفوظ ہے اور جو سلوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور اپنی رضا کی راہوں میں فدا ہونے والوں سے اللہ تعالیٰ کرتا رہا ہے.اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام اقوام میں اور ہر زمانہ میں آیات بینات موجود ہیں اور ان کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے.دوسرے مذاہب نہ ایسا دعویٰ کر سکتے ہیں اور نہ اسے ثابت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.پانچویں غرض تعمیر کعبہ سے یہ بتائی گئی تھی.مَقَامُ ابرھیم اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس ابراہیمی مقام کے ذریعہ سے عشاق الہی کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جاتی رہے گی جو تمام دنیوی علائق سے منہ موڑ کر خدا کی رضا پر اپنی تمام خواہشات کو قربان کر کے مقام فنا کو حاصل کرنے والی ہوگی.سوچا جائے تو ایت بینت کے نتیجہ میں ہی مقام ابراہیم کا حصول ممکن ہوتا ہے ورنہ نہیں.یہ آیت بَيِّنت اور مقام ابراہیم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.تو چونکہ اُمت محمدیہ میں ایت بینت کا ایک سمندر ہمیشہ موجزن رہتا ہے اس لئے اُمت محمدیہ میں ممکن ہو گیا ہزاروں لاکھوں ایسے بزرگوں کا پایا جانا کہ جو مقام ابراہیم کو حاصل کرنے والے ہوں دراصل مقام ابراہیم مقام محمدیت کا ظل ہے.عین اس مقام تک پہنچ جانا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے یہ تو ممکن نہیں لیکن اس کے بعد جو دوسرا مقام ہے وہ مقام ابراہیم ہے.ایک ظل کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان ایت بيّنت سے حصہ لیا ہے.قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرے ماننے والوں میں ایسے لوگ کثرت سے وو

Page 455

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۴۴۹ سورة ال عمران پیدا ہوں گے جو فنا کے اس مقام کو حاصل کرنے والے ہوں گے.........یہ وہ مقامِ ابراہیم ہے جس کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا.اس کی بشارت اپنے رب کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائی اور خدا تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اس نے اپنے اس وعدے کو سچا ثابت کر دکھایا اور امت مسلمہ میں لاکھوں وجود ایسے پیدا کئے جو مقام ابراہیم تک پہنچنے والے تھے.چھٹا وعدہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا وہ ان آیات کے اس ٹکڑے میں بیان ہوا ه وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا، میں نے بتایا تھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو بیت اللہ میں داخل ہوگا یعنی ان عبادات کو بجالائے گا جن کا تعلق خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہے.دنیا اور آخرت کے جہنم سے خدا کی پناہ میں آ جائے گا اور اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے اور نار جہنم سے وہ محفوظ ہو جائے گا وَمَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا.جو اس گھر میں داخل ہو گا اس آگ سے محفوظ ہو جائے گا ( جو خدا تعالیٰ نے منکروں کے لئے بھڑکائی ہے ) چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ نمل میں فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ فَزَعَ يَوْمَيذٍ أمِنُونَ (النحل : ٩٠) یعنی اسلامی ہدایت کے مطابق اعمال صالحہ بجالانے والوں کو اللہ تعالیٰ بہتر اور احسن بدلہ دے گا اور نفخ صور کی گھڑی میں ایسے لوگ خوف جہنم سے محفوظ رہیں گے.اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو یہ بشارت دے گا کہ تمہیں نار جہنم کی طرف نہیں لے جایا جائے گا بلکہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا اس واسطے کسی قسم کا خوف نہ کرو.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا.اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتِ وَعُيُونِ ادْخُلُوهَا بِسَلِمٍ أمنين ( الحجر :۴۷۰۴۶) متقی لوگ یقیناً باغوں اور چشموں والے مقام میں داخل ہوں گے انہیں کہا جائے گا کہ تم سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطران میں داخل ہو جاؤ تو یہ امن ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ سے اس کے کامل متبعین کو ملتا ہے.فرمایا تھا " مَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنَّا ، عین یہی الفاظ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمائے اور فرمایا کہ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا.لَتَدْخُلُنَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللهُ امِنينَ (الفتح : ۲۸ ) کہ تم مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہو گئے اور وہ وعدہ : پورا ہوا.66 ایک تو اس کی ظاہری تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے سامان پیدا کئے اور بغیر جنگ کے کفار مکہ

Page 456

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۵۰ سورة ال عمران : نے (جنہوں نے اپنی ساری عمریں اسلام کو مٹانے کے لئے صرف کر دی تھیں ) ہتھیار ڈال دیئے اور فرشتوں نے جن کا آسمان سے نزول ہوا ان کے دلوں میں اس قدر خوف پیدا کر دیا کہ لڑائی کی ان کو ہمت ہی نہ پڑی.لیکن اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ تم ہی وہ امت ہو جو اس وعدہ کو پورا کر نیوالی ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان الفاظ میں کیا گیا تھا کہ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِناً جو اس میں داخل ہو گا وہ امن میں آجائے گا تمہارے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا ہوا میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ تمام وعدے وہ ہیں جن کا تعلق تمام بنی نوع انسان سے ہے.ہر قوم اور ہر زمانہ کے ساتھ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمانہ کے ساتھ یہ مخصوص نہیں ہیں تو مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا کے معنی یہ ہوئے کہ خواہ دنیا کی کسی قوم سے ہی تعلق نہ رکھتا ہو یا کسی زمانہ میں ہی رہنے والا کیوں نہ ہو جو شخص بھی مناسک حج خلوص نیت سے ادا کرے گا وہ نار جہنم سے محفوظ ہو جائے گا.چنانچہ حدیث میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفَتْ وَلَمْ يَفْسُقُ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذنبه ( ترمذی کتاب الحج باب ماجاء فى ثواب الحج والعمرة ) ( یا درکھیں کہ توفیق اور تزفیت اور پر فٹ يَفْسُقُ اور يُفسیقی دونوں طرح عربی زبان میں یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ) کہ جو شخص گندی اور مخش باتوں سے پر ہیز کرے یعنی جو شخص حج کرے اور مناسک حج ادا کرتے ہوئے فحش کلامی سے بچتا رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اندرونہ اس قدر پاکیزہ ہو کہ مخش بات اس کی زبان پر آہی نہ سکتی ہو.یہ مطلب نہیں کہ وہ باقی گیارہ ماہ کچھ دن تو ہر قسم کی فحش کلامی کرتار ہے صرف ان دنوں رفت سے بچے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس کا اندرونہ اتنا پاک ہو چکا ہو اور گندگی اس کے سینہ سے اتنی دور ہو چکی ہو کہ مخش بات گندی بات اس کے منہ پر آہی نہ سکے اور جو حق اور صلاح کے طریق سے خروج نہ کرے یعنی شرعی حدود سے باہر نہ ہو ان کی پابندی کرنے والا ہو اور اطاعت کا حق ادا کرنے والا ہو.تو جو شخص اس خالص نیت کے ساتھ اور ان خالص اعمال کے ساتھ اور ان پاکیزہ آداب کے ساتھ حج بیت اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہو گئے وہ یقینا نار جہنم سے بچا لیا گیا.ایک اور طرح بھی انسان اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی نار جہنم سے بچ جاتا ہے اور وہ

Page 457

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۵۱ وو سورة ال عمران اس طرح کہ مَنْ دَخَلَه جو مقامِ ابراہیم میں داخل ہو " كَانَ آمِنًا “ اللہ تعالیٰ کی امان میں اور امن.میں آجاتا ہے........ساتواں وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا گیا تھا کہ صرف تیری نسل پر ہی یہ حج فرض نہ رہے گا بلکہ ایک ایسا نبی یہاں مبعوث کیا جائے گا جس کی شریعت عالمگیر ہوگی اور اس شریعت کے نزول کے بعد اقوام عالم پر حج کو فرض کر دیا جائے گا اور اس طرح اس خانہ خدا کو مرجع خلائق اور مرجع عالم بنا دیا جائے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یہ وعدہ پورا نہیں ہوا.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآنی شریعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تب اس شریعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان پر حج کو فرض کر دیا.چنانچہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الْحَجُ اَشْهُرٌ مَعْلُومَتُ ، فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَتَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَج وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ (البقرة : ۱۹۸) کہ اے بنی نوع انسان ! تم یا درکھو کہ حج کے مہینے سب کے جانے پہچانے ہیں پس جو شخص حج کو اپنے پر فرض سمجھتے ہوئے حج کرنے کا پختہ ارادہ کرے وہ حج کے ایام میں (جیسا کہ دوسرے دنوں میں ) کوئی شہوت کی بات یا کوئی نافرمانی کی بات یا کسی قسم کے جھگڑے کی بات نہ کرے یہ اس کے لئے جائز نہ ہوگا اور پھر فرمایا کہ جو کام بھی تم کرو گے اللہ ضرور اس کی قدر کو پہچان لے گا.وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ تمہارا تعلق سفید نسل سے ہے یا تمہارا تعلق سیاہ نسل سے ہے.بلکہ خواہ تم کسی بھی قوم کے فرد کیوں نہ ہو، کسی بھی خطہ زمین کے رہنے والے کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حج کو خدا کے کہنے کے مطابق اپنے لئے ضروری عبادت سمجھو گے اور جب وہ شرائط تمہارے حق میں پوری ہو جائیں گی جن کا تعلق حج کرنے کے ساتھ ہے اور اس فریضہ کو فریضہ جانتے ہوئے تم حج کرو گے اور حج کے دوران بھی ان تمام ہدایتوں کا پاس کرو گے جو ہدایتیں اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں تمہیں دی ہیں تو پھر اسے تمام بنی نوع انسان ! یہ سن لو کہ نیکی کا جو کام بھی تم کرو گے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری قدر قائم ہو جائے گی.وہ تمہاری نیکی کو پہچانے گا.کوئی چیز اس کی نظر سے غائب نہیں ہے اور اس قدر کے نتیجہ میں اس کی بے شمار نعمتوں کے تم وارث ہو گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حج بیت اللہ صرف ظاہری مناسک حج کا ہی نام نہیں بلکہ ہر عبادت اسلامی کے پیچھے اس کی ایک روح ہے ظاہری عبادت جسم کا

Page 458

۴۵۲ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث رنگ رکھتی ہے.اس کے پیچھے ایک روح ہے جو شخص روح کا خیال نہ رکھے اور صرف جسم پر فریفتہ ہووہ ایک مردہ کی پرستش کر نیوالا ہے.اس کو ان عبادات کا جن کی روح کا خیال نہیں رکھا گیا.کوئی ثواب نہیں ملے گا.بلکہ اس کے ساتھ اس کے رب کا وہی سلوک ہوگا جو ایک مردہ پرست کے ساتھ ہونا چاہیے.خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ ۶۷۸ تا ۶۸۸) قرآن عظیم نے بتایا ہے کہ اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِس کی رو سے وہ گھر جو شریعت کے قیام کے لئے پہلے پہل انسان کو ملا تھا، وہ مکہ میں ہے اور اس وجہ سے مکہ کو قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق اُم القریٰ کہتے ہیں.جس طرح ماں سے اس کے بچے وابستہ ہوتے ہیں اسی طرح وہ شہر جس سے بہت سے دوسرے شہر وابستہ ہوتے ہیں اُقد القرنی (یعنی بستیوں کی ماں ) کہلاتا ہے اور یہ حیثیت مکہ مکرمہ کو حاصل ہے.قرآن کریم کی دو بنیادی صفات ہیں.ایک یہ کہ قرآن عظیم پہلی صداقتوں کا جامع ہے اور دوسرے یہ کہ ان صداقتوں کو بھی اپنے اندر لئے ہوئے ہے جن تک پہلوں کی پہنچ نہیں تھی.چونکہ مکہ مکرمہ کا تعلق إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِّلْعَلَمِينَ (ال عمران : ۹۷) کی رو سے تمام پہلی شریعتوں سے ہے اور قرآن کریم کے متعلق آیا ہے کہ پہلے انبیاء پہلی کتب اور پہلی قوموں کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ ان کو پورا کرنے والا ہے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہر نبی کو بتایا گیا تھا اور آپ کی بشارت دی گئی تھی ) اس لئے گویا قرآن عظیم ان بشارتوں کا مصدق ہو کر بھیجا گیا ہے.جہاں تک پہلی بشارتوں کی تصدیق کا تعلق ہے قرآن کریم جس امت پر نازل ہوا اور جس کی بدولت عظیم ذمہ داریاں ان پر ڈالی گئیں مکہ مکرمہ اس لحاظ سے ان کے لئے اُم القریٰ بنا اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ نوع انسانی کی عام اور وسیع اور کامل ہدایت کے لئے مدینہ کو اپنا مرکز بنایا تھا.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مدینہ نوع انسان کے لئے اُم القریٰ بن گیا.چنانچہ موطا امام مالک کی ایک حدیث بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ پہلے مکہ کو حرم بنایا گیا تھا اور اب میرے ذریعہ مدینہ کو حرم بنایا گیا ہے.پس مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہم مسلمانوں کے لئے ام القریٰ کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی یہ وہ مراکز ہیں جن سے دنیا کے سارے شہروں کا تعلق ہے اور جہاں سے دنیا کی رہنمائی کی مہم شروع ہوئی.

Page 459

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۵۳ سورة ال عمران اُم القریٰ کی یہ اصطلاح ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت اور شریعت کو مستحکم کرنے اور اسلام کو پھیلانے کی غرض سے مکہ اور مدینہ کے ماتحت بہت سے اور مراکز بھی بنیں گے.چنانچہ جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر کئی ایسے مراکز نظر آتے ہیں جن کا تعلق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے ہے مثلاً سین ہے.سپین میں اسلامی حکومت کا جو دارالخلافہ تھا ایک دو جگہ بدلا بھی ہے تاہم ایک وقت میں جو بھی دارالخلافہ تھا) وہ یورپ میں اسلام کے نور کو پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کیلئے مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا.اسی طرح تاشقند وغیرہ علاقوں میں جو مجدد پیدا ہوئے یا افریقہ کے صحراؤں سے تعلق رکھنے والے جو مجد دین اور اولیاء اللہ آئے ان کے مرکز خانہ کعبہ ہی کے طفیل اور اس کے ظل کے طور پر اس غرض کیلئے بنے تھے کہ اسلام کی اشاعت ہو.گویا ایسی جگہیں اپنے اپنے دائرہ اور اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے اشاعت اسلام کا مرکز بن گئیں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ام القری ٹھہرے.خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۳۴۱ تا ۳۴۲) تعمیر نو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے کروائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ا بعثت سے قریباً دو ہزار سال قبل اس میں تمیس مقاصد ملحوظ تھے.اور میں نے بتایا کہ سارے کے سارے مقاصد ایسے تھے جن کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے نہیں تھا نہ اس زمانہ سے تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبل کا زمانہ تھا.نہ اس زمانہ سے تھا جو حضرت ابراہیم کے زمانہ سے بعد کا زمانہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت تک کا زمانہ تھا بلکہ یہ سارے ہی مقاصد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتے تھے اور جو چار بنیادی فرائض آپ کے تھے اور جو مقاصد تھے آپ کی بعثت کے، ان چاروں سے تعلق تھا ان مقاصد کا.مثلاً قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ ان اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى ببكة که نوع انسان جو ہے ساری کی ساری، سب انسانوں کیلئے پہلا گھر ، افادیت کے لحاظ سے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کے لحاظ سے، دنیوی ترقیات کے لحاظ سے، روحانی رفعتوں کے لحاظ سے، جو تعمیر کیا گیا جس کی بنیاد رکھی گئی ، وہ بیت اللہ ہے.حضرت ابراہیم اللہ علیہ السلام نے یہ اعلان بعثت نبوی سے قریباً دو ہزار سال پہلے کیا اس وقت جبکہ دنیا کی آبادی کی اکثریت شاید خانہ کعبہ کا نام بھی نہیں جانتی تھی جس وقت یہ اعلان ہوا یہ دعا خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس وقت سکھائی تو اس وقت یا جو باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے

Page 460

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۴۵۴ سورة ال عمران بتا ئیں اس وقت تو نوع انسانی میں سے ایک چھوٹے سے حصہ کا تعلق تھا خانہ کعبہ سے.اکثریت تو ایسی تھی یا انکو علم ہی نہیں تھا، علم تھا تو ان کو کوئی تعلق ہی نہیں تھا، کوئی پیار ہی نہیں تھا، خانہ کعبہ کے ساتھ تو ان کا کوئی مقصد ہی وابستہ نہیں تھا نہ دنیوی اور نہ دینی.پھر وہ عظیم رسول دنیا کی طرف آیا جس نے یہ اعلان کیا قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِلى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُم جمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹) دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مردو! اور عورتو! اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف مجھے رسول بنا کر بھیج دیا.اور آج کے بعد تمہاری ہر قسم کی فلاح اور بہبود مجھ سے وابستہ ہو گئی اور اس تعلیم کے ساتھ جو میں لے کے تمہاری طرف آیا ہوں یہ پہلا ہے جو اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ.الناس کے لئے......عربی زبان میں النّاس یارانس یا انسان یہ سارے لفظ مردوزن ہر دو کے لئے بولے جاتے ہیں یعنی عورت کے لئے بھی اور مرد کے لئے بھی اور اگر سیاق و سباق مضمون کا محض مرد کو منتخب نہ کرتا ہو یا محض عورت کے لئے اس مضمون کو بیان کرنا ظاہر نہ کرتا ہو تو ہر دو مراد ہوں گے.تو یہاں یہ اعلان کیا گیا کہ دنیا کی ہر عورت اور ہر مردسن لے کہ میں ساری دنیا کی طرف رسول بن کے آ گیا.پھر آپ نے کہا کہ رسول کے معنے پیغام لایا ہوں ایک، اس کی بنیاد کیا ہے، کیا وہ پیغام ہے، اس کی حقیقت کیا ہے تمہیں جو میں کہتا ہوں کہ لوگوسنو کہ میں تمہاری طرف آیا ہوں، تمہارا فائدہ کیا ہے؟ آپ نے کہا رحمت اللعالمین بن کے آیا ہوں.تم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کے لئے میں رحمت بن کر آیا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقاصد کا آخری مقصد جو میں نے منتخب کیا تھا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ابھی آؤں گا اس طرف لیکن بتا میں یہ رہا ہوں کہ پہلا مقصد بتاتا ہے کہ ان لوگوں نے جن کو کہا گیا تھا کہ یہ سارے انسانوں کے لئے ان کی فلاح و بہبود کے لئے ان کی بھلائی کے لئے ان کی خیر کے لئے پہلا گھر جو بنایا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں از سرنو اس کی تعمیر ہورہی ہے وہ خانہ کعبہ ہے........وُضِعَ لِلنَّاس سے جو استدلال کئے جاسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمام اقوام عالم بلا امتیاز رنگ ونسل، بلا دیگر امتیازات کے جو انسان انسان کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور ممتاز کر دیتے ہیں اور ان میں تفرقہ

Page 461

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۵۵ سورة ال عمران اور انتشار پیدا کر دیتے ہیں دینی اور دنیوی فوائد حاصل کریں گے.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۲۷ تا ۴۳۰) آیت ۱۰۲ تا ۱۰۵ ۱۰۹، ۱۱۱ وَ كَيْفَ تَكْفُرُونَ وَ اَنْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُم أَيتُ اللهِ وَ b فِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَنْ يَعْتَصِمُ بِاللهِ فَقَد هُدِى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ١٠٢ ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِة اِخْوَانًا وَكُنْتُمُ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ التِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ ۱۰۵ ވ إلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ تِلْكَ أَيْتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ، وَ مَا اللهُ يُرِيدُ ظُلمًا لِلْعَلَمِينَ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ لَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمُ - مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاكْثَرُهُمُ الفَسِقُونَ ) اسی سفر میں غرناطہ ایک جگہ ہے.وہاں ایک بہت پرانا حل ہے.بڑا خوبصورت وہ آخری شہر جس نے جب شکست کھائی تو سارے سپین سے مسلمانوں کو مٹا دیا گیا.وہاں ایک کھڑکی میں ہم کھڑے دیکھ رہے تھے تو ہمارا جو گائیڈ تھا وہ کہنے لگا وہ سامنے پہاڑ میں آپ کو غار میں نظر آتی ہیں.ان کے اندر چیز (Gepsies) رہتے ہیں اور وہ کہنے لگا (وہ کہتا تھا کہ میں عرب خاندان کا عیسائی ہوں.زبردستی ہمیں عیسائی بنا لیا گیا تھا اس وقت ) کہ ان جیسیز کو اس وقت شرف انسانی، عزت اور احترام ملا جب مسلمان یہاں کے حاکم بن گئے اور مسلمان حکومت میں ان پر زبردستی نہیں کی نہ مذہب میں نہ ان

Page 462

۴۵۶ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی عادات میں، نہ رہن سہن کے طریقے میں.انہوں نے کہا ہم ان غاروں میں رہیں گے مسلم حکومت نے کہا ٹھیک ہے وہیں رہو، تم انسان ہو تمہاری بہر حال عزت کی جائے گی تمہارا احترام کیا جائے گا اور پہلے بھی عیسائی حکومت کے ماتحت اور بعد میں بھی عیسائی حکومت کے ماتحت ان لوگوں کو وہ عزت نہیں ملی جو خدا چاہتا ہے کہ انسان، انسان سے سلوک کرے اور جو قرآن کریم میں بیان ہوا کہ آپس میں باہمی پیار اور محبت کے ساتھ اس طرح رہنا چاہیے اس کے مطابق مسلمانوں نے زندگی گزاری اور اس کے مطابق انہوں نے وہاں حکومت بھی کی اور تھوڑے ہوتے ہوئے کثرت پر بھاری ہوئے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں سے کیونکہ ان کے دل خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے پر تھے، اور فدائی تھے خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے.ان کی ذہنیت یہ تھی کہ اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصفت: ۱۰۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے صاحبزادے سے یہ پوچھا کہ یہ میں نے خواب دیکھی ہے تو بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ بڑا عجیب جواب ہے جو انہوں نے دیا یہ نہیں کہا کہ اگر آپ نے خدا تعالیٰ کا منشا یہ معلوم کیا اپنی رویا میں کہ مجھے ذبح کر دیں تو ذبح کر دیں.حضرت اسماعیل نے یہ جواب دیا کہ افعَلُ مَا تُؤْمَرُ جو بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے وہ کرو.افعَل مَا تُؤْمَرُ انسان کی نیت بتاتا ہے، انسان کا تقویٰ بتاتا ہے، خدا تعالی کے لئے انسان کی محبت بتاتا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ حسن اور نور بتاتا ہے.افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ وہ ہے جو اسلام ایک مسلمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے.پھر کچھ عرصے کے بعد بگاڑ پیدا ہوا اور وہ لوگ ہدایت پر اس طرح قائم نہ رہے جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ ہدایت پر قائم رہیں.جب تھوڑے تھے اکثریت پر غالب آئے.جب بہت ہو گئے تو مقابلہ نہ کر سکے اور ایک شہر کے بعد دوسرا شہر عیسائیوں نے فتح کرنا شروع کیا اور اتنا دکھ ہوتا ہے پڑھ کے ان کی تاریخ کو کہ جب عیسائی حملہ کرتے تھے کسی مسلمان شہر پر تو کسی علاقے کے مسلمان نواب صاحب عیسائیوں کے ساتھ مل کے اس شہر کو فتح کرنے میں ان کے مد ہوتے تھے اور وہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا.قرطبہ بھی جو آج سے سات سو چوالیس سال پہلے فتح کیا گیا اور عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا گیا.اس وقت بھی ایک بہت بڑے علاقے کے مسلم حاکم عیسائیوں سے ملے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے خلاف انہوں نے قرطبہ کے اوپر چڑھائی کی اس لئے تا کہ قرطبہ جو مسلمانوں کا علاقہ

Page 463

تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث ۴۵۷ سورة ال عمران سو ہے وہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا جائے.قرآن کریم کے سارے احکام ایسے ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے.ان میں سے ایک یہ بھی ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ التِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اس حکم کو توڑ دیا.خدا نے بھائی بھائی بنایا تھا.خدا نے اس اخوت کو، اس اتحاد روحانی اور جسمانی کو اپنی نعمت قرار دیا تھا اور حکم یہ تھا کہ یہ خدا کی رسی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو، گرفت جو ہے وہ ڈھیلی نہ ہو جائے اس پر.اس حکم کو نہیں مانا اور بھی کئی حکم نہیں مانے ہوں گے لیکن یہ تو نمایاں طور پر تاریخ ہمارے سامنے رکھتی ہے کہ اس حکم کو نہیں مانا اور ایک ایک کر کے علاقے اور صوبے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتے رہے اور عیسائیوں کے قبضے میں جاتے رہے حالانکہ خود قرآن کریم میں یہ دعا پڑھتے تھے.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا ( ال عمران : ٩) اے خدا ہدایت دینا بھی تیرا کام ہے وہ مل گئی ہمیں.اے خدا! ہدایت پر قائم رکھنا بھی تیرا کام ہے.ہم عاجزانہ تیرے حضور جھکتے اور دعا کرتے ہیں کہ ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کوئی بھی نہ پیدا ہو جائے.ہمارے دلوں کی حفاظت کر شیطان کے حملوں سے شیطان کا وار ہم پر کامیاب نہ ہو.اس دعا کو جماعت احمد یہ بڑی کثرت سے پڑھے.ہمارا یہ فرض ہے کیونکہ جو کام اس وقت ہونے والا ہے اس دنیا میں اور جو جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے وہ ایک نسل کا کام نہیں.ایک صدی تو قریباً گزرگئی چند سال باقی رہ گئے ، کئی نسلیں آئیں اور گئیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، انہیں ثبات قدم عطا کیا ، ہدایت پر قائم رہے، قربانیاں دیتے رہے، قربانیوں میں آگے بڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرتے رہے.اب ہم ہیں، ہمیں ہر وقت فکر رہنی چاہیے، ایک تو اپنے متعلق کہ خدا تعالیٰ ہمیں ٹھوکر سے بچائے.ہمیں دوسروں کے لئے فتنہ بھی نہ بنائے.اس سے بھی ہمیں بچائے.ہماری نسلوں کو بھی اس ارفع اور اعلیٰ مقام قرب پر قائم رکھے کہ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی دینی اور دنیوی نعماء انسان کو ملتی ہیں.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ( ال عمران : ۹) کثرت سے پڑھیں اور چوکس اور بیدار ہو کر اپنی زندگیاں گزاریں اور کم عمر نسل کی تربیت چھوٹی عمر سے ہی شروع کر دیں.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ ۷۳۹ تا ۷۴۱) 9:

Page 464

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۴۵۸ سورة ال عمران اور جو شخص اللہ کی پناہ لے لے تو سمجھو کہ ) اسے سیدھی راہ پر چلا دیا گیا.اس لئے اے ایماندارو! اللہ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو اور زندگی کے آخری سانس، موت کی گھڑی تک اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبردار بنے رہو.اور تم سب کے سب بغیر کسی استثناء کے) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور پراگندہ اور متفرق مت ہو اور اللہ کا احسان (جو اس نے ) تم پر (کیا) ہے یا درکھو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے.اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارہ پر تھے مگر اس نے تمہیں اس سے بچا لیا.اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات (وہدایات) کو بیان کرتا ہے تا کہ تم ( راہ ) ہدایت (اور صراط مستقیم پر چل کر کامیابیوں) کو پالو...آگ خواہ کسی قسم کی ہو وہ نیک بندوں کو بظاہر جلانے کے لئے ناسمجھ ، جاہل اور خدا سے دور لوگوں کی طرف سے جلائی گئی ہو لیکن جو محبت کا نور بن گئی یا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کی آگ ہو.ہر دو صورتوں میں اس سے بچنے کا طریق اللہ تعالی نے اس آیت میں (۱) اعتصام باللہ اور (۲) تقوی اللہ بتایا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اللہ کی حفاظت کو حاصل کرو تو اس آگ سے بچ جاؤ گے خواہ وہ خدا کے غضب کی آگ ہو یا مومنوں کا امتحان لینے کے لئے آگ جلائی گئی ہو.ہر دو صورتوں میں یہ خدا تعالی کی پناہ ہی ہے جو اس آگ کی تپش اور اس سے مجلس جانے سے محفوظ رکھ سکتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زور بازو سے اس آگ سے محفوظ نہیں رہے تھے جو ان کو جلانے کے لئے بھڑکائی گئی تھی اور نہ ہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اپنی ذاتی قوت اور طاقت یا اپنی دولت اور اقتدار کے نتیجہ میں کفار کی بھڑکائی ہوئی آگ سے محفوظ رہے تھے.یہ تو خدائے ذو العرش کا فضل تھا جس نے یہ اعلان فرمایا تھا تبَّتْ يَدَآ أَبِي لَهَبٍ و تب (اللهب : ٢) اللہ تعالیٰ نے ہر دو موقعوں پر فرشتوں کو بھیجا چنانچہ حضرت ابراہیم کے لئے وہ آگ ٹھنڈک اور سلامتی کا باعث اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کامیابی اور ترقی کا ذریعہ بن گئی.پھر اس نبی کی قوم نے (یونس کی قوم ) جو ساری کی ساری خدا کے غضب سے محفوظ ہوگئی تھی اس نے تمثیلی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ) اپنے آنسوؤں سے خدا کے پاؤں کو پکڑ لیا تھا.تب اللہ تعالیٰ نے ان کو قہری عذاب سے بچایا تھا.

Page 465

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۵۹ سورة ال عمران پس ان آیات میں ایک چیز جو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے آپ کو یا کسی اور کو آگ کے کنارہ پر کھڑا دیکھو گے تو اس آگ سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے جو تمہیں اپنی تاریخ میں بھی اور انسانی زندگی میں بھی نظر آئے گا اور وہ ہے اعتصام باللہ اور تقوی اللہ.اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان چمٹ جائے اور اس کی پناہ میں آجائے اور وہ ان کا ذمہ لے لے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کسی کو کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے؟ اگر انسان خدا کو اپنی ڈھال بنالے تو دشمن کے تیر اس تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ کیا خدا تعالیٰ کی ڈھال کو چھیدنے والا کوئی تیر اس دنیا میں پایا جاتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں.........ان آیات میں جو دوسری بات نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے پیدا کردہ بندوں سے ایسے اختلاف نہیں رکھتا جو ان کے لئے مضرت کا باعث اور قوم و ملک کے اتحاد یک جہتی کے لئے نقصان دہ اور انتشار کا موجب ہوں.وہ ایسے اختلافات کو مٹا دیتا ہے کیونکہ اعتصام باللہ کے نتیجہ میں تفرقہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ اعتصام کا لازمی نتیجہ ہے.اب جو شخص اللہ تعالی کی پناہ میں آگیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کی صفات حسنہ کی معرفت حاصل کر لی وہ اس کی مخلوق سے نفرت کے ساتھ کیسے پیش آسکتا ہے یا لوگوں کے لئے شفقت اور ایثار کے جذبات کیسے نہیں رکھ سکتا ؟ غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا مومنو! تمہارے اندر تفرقہ نہیں ہونا چاہیے تا ہم ایک تفرقہ تو وہ ہے جو فطرتی ہے وہ تو ہونا چاہیے.اس قسم کے تفرقہ سے میری مراد فطرتی اختلاف کا پایا جانا ہے یہ اختلاف تو انفرادیت کو اجاگر کرنے والا ہے.مثلاً ایک باپ کے بچے ایک قسم کی فطرت، ایک قسم کے اخلاق، ایک قسم کی ذہنیت اور ایک جیسا حافظہ لے کر پیدا نہیں ہوتے.حتی کہ ان کی شکلوں میں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن یہاں وہ اختلاف مراد ہے جو بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا موجب تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کا اختلاف ان کے لئے رحمت کا موجب ہوگا.مگر شیطان آتا ہے اور اس اختلاف کو اس کے لئے رحمت کی بجائے زحمت اور ہلاکت کا موجب بنانے کی کوشش کرتا ہے اس اختلاف سے جو انسان کے لئے رحمت کی بجائے ہلاکت اور تباہی کا باعث ہو، اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے کیونکہ اعتصام کے بعد یعنی جب کہ خدا کو پہچان لیا، اس کے

Page 466

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۴۶۰ سورة ال عمران جلووں میں تنوع کی جھلک کا مشاہدہ کر لیا جب اس کی عظمت اور جلال کے نتیجہ میں اس کا خوف دل میں پیدا ہو گیا اور جب اس کی صفات حسنہ نے دل میں اس کے لئے انتہائی محبت کا سمندر موجزن کر دیا تو اس کی مخلوق کے ساتھ انسان کی شفقت اور پیار خود بخود قائم ہو جانا چاہیے اور قائم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اعتصام باللہ کا طبعی فطرتی نتیجہ ہے.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ اختلاف جو تفرقے اور انتشار کا باعث ہے وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے.زبان سے دعوی کرنا آسان ہے مگر عمل سے ثابت کر دکھانا مشکل ہے.(خطبات ناصر جلد چهارم ۴۱۵ تا ۴۲۱) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا کے ارشاد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین حکم دیئے ہیں.ا.حبل اللہ کے ایک معنی عہد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ اے مومنو! جنہوں نے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے رسول کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے رب سے ایک عہد بیعت باندھا ہے تم اس عہد پر مضبوطی سے قائم رہنا کیونکہ جولوگ خدا سے عہد باندھ کر بعد میں اسے بھول جاتے ہیں یا اسے توڑ دیتے ہیں اور اس عہد کی ذمہ واریوں کو نبھاتے نہیں.اللہ تعالیٰ ایک دن ان سے اس عہد کے توڑنے یا اس کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے متعلق ضرور سوال کرے گا.۲.دوسرا حکم اس میں یہ ہے کہ حبل اللہ کے دوسرے معنی ہیں وہ تمام وسیلے اور ذرائع اور تدابیر جن کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے چنانچہ مفردات راغب (کتاب الحاء صفحہ ۱۰۷) میں اس کے یہ معنی دیتے ہیں.الَّذِي مَعَهُ التَّوَضُلُ بِهِ إِلَيْهِ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْعَقْلِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا إِذَا اعْتَصَبْتَ بِهِ أَذَاكَ إِلى جَوَارِہ کہ وہ تمام وسیلے اور تدبیریں جن کو جب مضبوطی سے پکڑا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے قرب تک پہنچا دیتے ہیں.جس میں سے انہوں نے بطور مثال کے قرآن کریم اور عقل انسانی کا ذکر کیا ہے اور یہ بتانے کے لئے کہ بہت سی باتیں ہیں جو اس میں شامل ہیں وغیر ذلک کے الفاظ رکھ دیئے ہیں.تین بڑی چیزیں ہیں جو قرب الہی کی راہوں کو ہم پر منکشف کرتی ہیں.سب سے پہلے سب سے اہم تو قرآن کریم ہے جس نے شریعت کی تمام باتوں کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے.اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں قرآن کریم کی تصویر کامل اور مکمل طور پر ہمارے سامنے پیش کی اور

Page 467

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۶۱ سورة ال عمران تیسری جگہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور احادیث ہیں.جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے اس میں ایک تو وہ ابدی صداقتیں اور بنیادی ہدایتیں ہیں جو اس دن سے کہ قرآن کریم دنیا میں نازل ہوا قابل عمل ہیں اور اس وقت تک قابل عمل رہیں گی کہ دنیا پر قیامت آ جائے.پھر وقتی اُلجھنوں کو سلجھانے کے لئے قرآن کریم بعض ہدایتیں دیتا ہے جو جزئیات سے تعلق رکھتی ہیں اور جو وقت کا مطالبہ ہوا سے پورا کرتا ہے.پہلے زمانوں میں بھی پورا کرتا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی پورا کر رہا ہے اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں بھی پورا کرتا چلا جائے گا اور جیسا کہ پہلے ہوا اگر خدانخواستہ کبھی خلافت کا سلسلہ منقطع ہوا تو اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق قرآن کریم سے نور لے کر دنیا کے اندھیروں کو دور کرتے رہیں گے.تو پہلی چیز تو قرآن کریم ہے جس کے ذریعہ سے جسے پڑھ کے، جسے سمجھ کے، جس کی تفاصیل کا علم حاصل کر کے اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.پس پہلے تو یہ بتایا کہ تم نے ایک عہد باندھا ہے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھنا اور ساتھ ہی اسی لفظ میں ایک دوسرے معنی کے لحاظ سے ہمیں یہ بتایا کہ اس عہد کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جا سکتا ہے ( یعنی قرآنی ہدایت و شریعت پر عمل کر کے اور اسے حرز جان بنا کر ).اور حبل اللہ کے تیسرے معنی ہیں وصل اور وصال کے، مقام قرب کے حصول کے.تو فرمایا کہ جب تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ اور تمہیں اس کا قرب حاصل ہو جائے تو اس مقام قرب کی حفاظت کرتے رہنا اور صدق و وفا کے ذریعہ شیطانی حملوں سے اسے بچانا.تو پہلے یہ کہا کہ اپنے عہدوں پر مضبوطی سے قائم رہو.پھر یہ فرمایا کہ ان عہدوں پر مضبوطی سے قائم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ راستے وہ طریق جو قرآن کریم نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ نے اور آپ کے ارشادات نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے تمہیں بتائے ہیں ان کو لازم پکڑو.اس.طرح تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لو گے.تیسرے یہ حکم دیا کہ جب تم مقام قرب کو پا لو تو پھر بھی تم شیطان سے محفوظ نہیں جب تک کہ اسی حالت میں وفات نہ ہو جائے اور انسان کا انجام بخیر نہ ہو جائے.اس سے پہلے شیطان ساری زندگی میں انسان پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے.اپنی پوری کوشش کرتا

Page 468

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۶۲ سورة ال عمران ہے کہ خدا کا وہ بندہ ہے جس نے اعمال صالحہ اور مجاہدات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے اس کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل کیا تھا وہ شیطان اس بندہ خدا کو اس مقام سے پرے ہٹا دے.جیسا کہ مذہب کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خدا کے بعض بندوں نے اس کا قرب حاصل کیا.بعد میں شیطان نے ان پر کامیاب حملہ کیا اور مقام رفعت سے گرا کے انہیں نار جہنم میں دھکیل دیا.جیسا کہ خود حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کے متعلق کہیں گے کہ یہ میرے صحابہ تھے ، جہاں تک میر اعلم ہے انہوں نے میری باتوں کو سنا اور مانا اور ان پر عمل بھی کیا، ان کو جہنم کی طرف کیوں لے جایا جا رہا ہے.تو آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کی وفات کے بعد جو بداعمالیاں ان سے سرزد ہوئیں ، آپ ان سے واقف نہیں اور یہ لوگ اس مقام رفعت کو قائم نہیں رکھ سکے، اس مقام سے گر گئے اور آج اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی لعنت کا مورد بن گئے ہیں.تو تیسرا حکم ہمیں وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا میں اللہ تعالی نے یہ دیا ہے کہ جب تم میری رضا کو اس دنیا میں حاصل کرلو، میرے قرب کو پا لو تب بھی مطمئن نہ ہو جانا کہ تمہاری قربانیاں اور مجاہدات جو تم کر چکے ہو وہی کافی ہیں اور میری رضا کے مقام پر قائم رہنے اور اس میں مزید ترقی کرنے کے لئے تمہیں کچھ اور نہیں کرنا.اس وقت بھی آگے سے آگے تمہارا قدم جانا چاہیے.تمہاری پہلی قربانیاں بعد میں آنے والی قربانیوں کے مقابلہ میں بیچ نظر آنے لگیں.پوری کوشش تمہیں کرنی پڑے گی کہ شیطان تم پر کامیاب حملہ نہ کر سکے حملہ تو وہ ضرور کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان شیطان کے حملوں سے اپنے آپ کو بچائے اور اس کے دام فریب میں اپنے آپ کو نہ آنے دے.تو یہ تین معنی وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ کے ہیں اور معانی کی اس ترتیب سے جو میں نے بیان کی ہے اللہ تعالیٰ نے درجہ بدرجہ ہمیں تین سبق دیئے ہیں اور ہوشیار کیا ہے اور متنبہ کیا ہے اور ہمیں ڈرایا ہے اس بات سے کہ اگر تم عہد توڑو گے تب بھی تباہی.عہد کے نباہتے وقت قرآن کریم سے منہ موڑو گے تب بھی ہلاکت.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے ارشادات کی عظمت قائم نہیں کرو گے تب بھی شیطان کا کامیاب وار تم پر ہو جائے گا اور پھر جب تم یہ سب کچھ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرلو گے تو اس وقت بھی مقام خوف رہے گا.جب تک تم اس دنیا میں زندہ ہو، جب تک تم اپنے انجام کو نہ پہنچ جاؤ اس وقت تک چوکس اور بیدار رہ کر اپنے مقام رفعت اور مقام روحانیت کی

Page 469

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۶۳ سورة ال عمران حفاظت کرنا تمہارے لئے ضروری ہے.پس وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا میں اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بتایا کہ اگر تم اس مفہوم کے مطابق جو عربی کے لحاظ سے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا کا ہے.ہمارے حکم بجا لاؤ گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے اندر کوئی ایسا تفرقہ پیدا نہیں ہوگا جو ملت کے شیرازہ کو بکھیر دے اور ترقی کی جو منازل اُمت مسلمہ طے کر رہی ہے اس میں تنزل کا کوئی رخنہ واقع ہو جائے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةِ اِخْوَانًا.یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام لانے سے قبل یا اسلام سے باہر رہتے ہوئے جو لوگ زندگی کے دن گزار رہے ہیں وہ تفرقہ کا شکار ہیں مذہبی اور روحانی لحاظ سے.اور ان میں سے کوئی جماعت یا فرقہ ایسا نہیں ہے کہ جو نیکی کے مقام پر کھڑا ہو یا نیکی کے مقام پر کھڑا رہ سکے.کیونکہ یہاں نفی کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے عربی کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں الفت کا لفظ استعمال کیا ہے اور الفت کے معنی اکٹھے ہو جانے اور محض باہمی موڈت اور پیار کے نہیں بلکہ ایسے اجتماع اور ایسی محبت و پیار کے ہیں جو نیکیوں پر قائم ہو، جو بدیوں پر قائم ہو کر ایک جتھہ بنتا ہے.اسے عربی زبان الفت کے لفظ سے یاد نہیں کرتی یہاں الفت کے مقابلہ میں نَفَرقُوا کا لفظ استعمال ہوا ہے.جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے اندر اس طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ تمام فرقے جو اسلام سے باہر ہیں یا وہ جو حقیقی اسلام سے باہر ہو جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جو نیکی اور تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو.بلکہ سارے کے سارے بلا استثنا ضلالت پر قائم ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا پر عمل کرو گے تو فرقہ فرقہ نہ بنو گے.اور جب بھی تمہارے اندر فرقے نظر آنے لگیں تو سمجھ لینا کہ قوم نے اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا پر عمل نہیں کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کے نتیجہ میں ایک بڑا انعام جو تمہیں عطا کیا گیا ہے.وہ باہمی مودت اور اخوت ہے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ساری دنیا کی دولت بھی اگر خرچ کی جاتی تو اس قسم کی الفت جو نیکی پر قائم ہوتی ہے اور نیکی پر قائم رکھتی ہے اس جماعت میں پیدا نہ ہو سکتی.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے امت مسلمہ میں اس قسم کی محبت اور اخوت اور الفت کو پیدا کیا ہے اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کے نتیجہ میں.

Page 470

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۶۴ سورة ال عمران پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ كُنْتُهُ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا.چونکہ کوئی فرقہ بھی ہدایت پر اور صراط مستقیم پر قائم نہیں تھا اس لئے ان کی مثال ایسی تھی جیسے کہ ایک گڑھا ہو، اس میں بڑی تیز آگ جل رہی ہو اور اس کے کنارہ پر کوئی کھڑا ہو اور یہ خطرہ ہو کہ کہیں وہ اس کے اندر گر نہ جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اس ہدایت عظمیٰ قرآن کو نازل کیا اور اس کے نتیجہ میں انسانوں میں سے ایک گروہ اس جماعت میں داخل ہو کر ایسا بن گیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس جلتی ہوئی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا اور اپنی محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں اسے لا بٹھایا اور رضا کی جنتوں میں اسے داخل کیا.یہ واقعہ صرف اس شخص سے پیش نہیں آتا جو کفر سے اسلام لاتا ہے بلکہ امت مسلمہ میں شامل ہونے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اُمت کو ایسے امتحانوں میں ڈالتا رہتا ہے.جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جب ابھی کسی امام کا انتخاب نہیں ہوا تھا اس وقت ساری اُمت مسلمہ اسی قسم کے ایک گڑھے کے کنارے پر کھڑی ہو چکی تھی جو خدا تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ سے پر تھا.پھر اللہ تعالی نے فضل کیا اور پھر دنیا کو آنقَذَكُمْ مِنْهَا کا نظارہ دکھایا اور ان کے لئے اس آگ کے کنارے کی بجائے اپنے قرب کی راہوں کو کھول دیا.تو جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی رسول یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ وفات پاتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کی حالت وہ ہوتی ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے کہ ایک گڑھا ہے جس میں آگ بھڑک رہی ہے اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں اور نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آگ کے گڑھے میں گر جائیں گے یا اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے نازل ہوگا اور ان کو اس آگ سے بچالے گا.ایسے موقع پر ( چند گھڑیاں ہوں یا چند گھنٹے ہوں یا چند دن ہوں ) شیطان کی ساری طاقت اس کام میں صرف ہو رہی ہوتی ہے کہ خدا کی مقرب جماعت میں فتنہ پیدا کرے اور ان کو آگ میں دھکیل دے اور خدا کی لعنت کا انہیں مورد بنائے اور خدا کے پیار سے انہیں دور لے جائے.پس اس وقت شیطانی طاقتیں پورا زور لگا رہی ہوتی ہیں اور ہر قسم کے فتنے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں بدظنی کو ہوا دے کر اور کمزور دل خوف سے بھر جاتے ہیں اور ہر تد بیر جس سے الہی سلسلہ میں کمزوری پیدا کی جاسکتی ہے وہ تدبیر شیطان اور اس کے ساتھی کر رہے ہوتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ

Page 471

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث سورة ال عمران اپنے ایک نہایت کمزور بندے پر نگاہ ڈالتا اور اپنے لئے اسے چنتا ہے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنا لیتے لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چتا ہے جس کے متعلق دنیا بجھتی ہے کہ اسے کوئی علم حاصل نہیں، کوئی روحانیت اور بزرگی اور طہارت اور تقویٰ حاصل نہیں.اسے وہ بہت کمزور جانتے ہیں اور بہت حقیر سمجھتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے.اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور نیستی کا لبادہ وہ پہن لیتا ہے اور اس کا وجود دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرتوں میں وہ چھپ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے.اور جو اس کے مخالف ہوتے ہیں انہیں کہتا ہے کہ مجھ سے لڑ واگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے.یہ بندہ بے شک نحیف ، کم علم، کمزور، کم طاقت اور تمہاری نگاہ میں طہارت اور تقویٰ سے عاری ہے لیکن اب یہ میری پناہ میں آگیا ہے اب تمہیں بہر حال اس کے سامنے جھکنا پڑے گا.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انتخاب خلافت کے وقت اسی کی منشا پوری ہوتی ہے اور بندوں کی عقلیں کوئی کام نہیں دیتیں.اس آیت کا آیت استخلاف کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق ہے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں اسی قسم کا مضمون بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ النور آیت ۵۶ میں فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (النور :۵۶) اس وقت یہاں میں ساری آیت کی تفسیر میں نہیں جاؤں گا.البتہ یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ولیكنن لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ میں اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ خلافت کے قائم ہونے پر اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللہ کیا تھا پھر اس کی آواز پراکٹھے ہو جاتے ہیں اور اپنے عہد کو سمجھنے لگتے ہیں اور یا د رکھتے ہیں اور اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے بن

Page 472

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۶۶ سورة ال عمران جاتے ہیں.اور جب ان کو خدا کا پیارل جاتا ہے تو اگر دنیا کی ساری دولتیں اس کے عوض میں قربان ہو جائیں تب بھی وہ نہیں چاہتے کہ وہ پیار ان سے کھو جائے اور خدا ان سے ایک سیکنڈ یا لمحہ کے لئے بھی ناراض ہو.پھر وَ لَيُبَرِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنا میں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے جو وَ كُنْتُمُ عَلى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا میں بیان ہوا ہے تو جس خوف کا آیت استخلاف میں ذکر ہے وہ وہی خوف ہے جس کو یہاں یوں بیان کیا کہ ایک گڑھا ہے، آگ اس میں بھڑک رہی ہے اور اس کے کنارے پر وہ کھڑے ہیں.اس سے زیادہ اور خوف کیا ہوسکتا ہے جبکہ وہ آگ خدا تعالیٰ کی لعنت کی آگ ہے، اس کے قہر کی آگ ، اس کی ناراضگی کی آگ ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت قوم پر ایک نہایت ہی خوف کا وقت ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس کے گڑھے میں نہ گر جائیں.تب خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک نظارہ دنیا کو دکھاتا ہے.خدا تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں، وہ غنی ہے، دنیا میں سب سے بڑا متقی، دنیا میں سب سے بڑا مطہر، دنیا میں سب سے بڑا عالم، دنیا میں سب سے بڑا عاشق قرآن اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلانے والے کا بھی خدا محتاج نہیں ہے بلکہ یہی شخص خدا کا محتاج ہے.پس اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نظارہ اس طرح دکھا تا ہے کہ کبھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اس شخص کو چن لیتا ہے جو قوم کی نگاہ میں بوڑھا ہوتا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو بہت دفعہ طعنہ دیا گیا کہ بوڑھا آدمی ہے، سمجھ کوئی نہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ بوڑھا ہے یا نہیں ہے لیکن ہے میری پناہ میں، میری گود میں، اس واسطے تم اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتے.کبھی خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا اس طرح مظاہرہ کرتا ہے کہ ایک بچے کو چن لیتا ہے.دنیا کہتی ہے کہ بچہ ہے، قوم تباہ ہو جائے گی ، نا سمجھ ہے، کم علم ہے، کم تجربہ ہے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ بے شک بچہ ہے مگر میں تو بچہ نہیں ہوں.میں اپنی قدرت اس کے ذریعہ سے ظاہر کروں گا.تب وہ قدرت ثانیہ کا مظہر ہو جاتا ہے اور پھر وہی بچہ ان لوگوں کا منہ بند کر دیتا ہے جو اسے بچہ سمجھنے والے اور بچہ کہنے والے ہوتے ہیں........اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کام خلیفہ وقت کے سپرد کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ قوم اِعْتِصامُ بِحَبْلِ اللهِ “ کے مطابق اپنی زندگی کے دن

Page 473

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۶۷ سورة ال عمران گزار رہی ہے کہ نہیں.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی محض اپنی نعمت کے طور پر اور اپنے فضل اور برکت کے نتیجہ میں ان کے درمیان مودت اور اُلفت پیدا کرتا اور انہیں بنیان مرصوص بنا دیتا ہے.خطبات ناصر جلد اوّل صفحه ۴۹۸ تا ۵۰۵) اُمت محمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ تاکیدی حکم فرمایا کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور پراگندہ مت ہو.حبل اللہ کے ایک معنے تو ان چیزوں کے یا ہدایت کے ان اصول کے ہیں جن پر کار بند ہو کر انسان کو وصالِ الہی اور قرب الہی حاصل ہوتا ہے اس لئے حبل اللہ سے مراد مفسرین کے نزدیک قرآنِ عظیم بھی ہے اور اس سے عقل سلیم کے اصول جو دراصل فطرت صحیحہ انسانیہ کے اصول ہیں وہ بھی مراد لئے گئے ہیں.اس معنے کے لحاظ سے یہ ارشاد ہے کہ قرآن کریم میں جو اصول ہدایت اور اصول شریعت بیان ہوئے ہیں.( یعنی جو اصول راہ راست پر چلنے اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ودیعت کئے ہیں ) وہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کے مطابق بھی ہیں.اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہونا چاہتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے تو وہ شریعت اسلامیہ جو فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ( الروم : ۳۱) کے مطابق ہے.ان اصول شریعت یا اصول ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزارے.حبل اللہ کے دوسرے معنے اللہ کے عہد کے لئے، کئے گئے ہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ جو عہد اللہ تعالی سے باندھا ہے یا جو عبد اللہ تعالیٰ نے باندھا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑو.اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کون سے عہد باندھے ہیں یا اس کے لئے کون سے میثاق قرار دیئے ہیں؟ قرآن کریم میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے.اس وقت میں صرف ایک بات لے کر اس پر کچھ روشنی ڈالوں گا.وو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے." مَنْ صَلَّى صَلَو تَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِ مَّةٌ رَسُوْلِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذمته‘ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب فَضْلِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ ( میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو شخص ہماری نماز جیسی نماز پڑھے یعنی جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں ویسے ہی وہ نماز پڑھ رہا ہو اور قبلہ رُخ ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہو اور ہمارے ذبیحہ کو کھا رہا

Page 474

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۶۸ سورة ال عمران ہو اور جو چیزیں کھانے کے لحاظ سے حرام ہیں ان سے بچنے والا ہو تو ذلِكَ الْمُسْلِمُ.یہ وہ مسلمان ہے ( آگے یہ نہیں فرمایا کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے کیونکہ اور بہت ساری شرائط ہیں مثلاً نیت کا تعلق.احسان فی العمل کا تعلق ہے انسان پوری شرائط اور انتہائی جدو جہد کے ساتھ اعمالِ صالحہ کو خوش اسلوبی سے انجام دینے والا ہو ، وہ اور چیزیں ہیں یہاں یہ فرمایا یہ وہ مسلمان ہے ) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی امان اور حفاظت میں ہے پس اے مسلمانو ! جو عہد اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان باندھا ہے کہ تم ہر ایسے شخص کو ( محولہ بالا حدیث کی رو سے ) مسلمان سمجھتے ہوئے اس کے سیاسی اور معاشرتی حقوق کو ادا کرو گے، اس عہد کو نہیں توڑنا.غرض وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا میں ایک اصولی بات بتائی تھی اس کی بہت سی تفسیریں کی گئی ہیں ایک تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے اور قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرتا ہے.ویسے ہم ہر دعا کے وقت قبلہ رخ نہیں ہوتے مثلاً عید کی نماز ہے یا خطبہ جمعہ میں بھی امام دعا ئیں کر رہا ہوتا ہے حالانکہ اس وقت قبلہ کی طرف اس کی پشت ہوتی ہے.اس کی روح تو قبلہ حاجات کی طرف ہی متوجہ ہوتی ہے لیکن اس کا چہرہ دوسری طرف ہوتا ہے اور پشت قبلہ کی طرف ہوتی ہے لیکن نماز ادا کرتے وقت ہم قبلہ رخ ہوتے ہیں.اس میں میرے نزدیک ایک بڑا ہی لطیف اشارہ بھی ہے مسلمانوں میں کئی فرقے پیدا ہو گئے ہم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں لیکن بعض لوگ مثلاً مالکی اور غالباً شافعی بھی نماز کے وقت ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں البتہ ایک مسلمان ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہا ہے یا ہاتھ چھوڑ کر پڑھ رہا ہے اس کا رُخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے.پس اسْتَقْبَلَ قِبلَتنا میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ادائیگی نماز میں بھی اُمت میں اختلاف ہو سکتا ہے اور بعض دیگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ادا ئیگی نماز میں بنیادی چیز یہ ہے کہ قبلہ کی طرف رُخ ہو جس کا قبلہ کی طرف رُخ ہے اسے تم یہ کہہ کر مسلمان کے حقوق سے محروم نہیں کر سکتے کہ تم نے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی یا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی.جہاں جس کا زور ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ تم ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہو یا چونکہ ( دوسری جگہ کوئی کہے ) تم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہو اس لئے تمہیں مسلمانوں کے حقوق سے محروم کیا جائے گا.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ

Page 475

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۶۹ سورة ال عمران نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ جس نے قبلہ رُخ ہو کر نماز ادا کی ، ہاتھ باندھا یا چھوڑا، اس کے حقوق ایک مسلمان کے حقوق ہیں، یہ ادا ہونے چاہئیں.یہ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد باندھا ہے اور اسی کی طرف حدیث کے شارحین کی توجہ گئی ہے کہ یہ ایک عہد ہے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے امت م ڈالی ہے شارحین نے یہ لکھا ہے کہ (جو شخص محولہ بالا حدیث کی رو سے مسلمان کہلاتا ہے ) وہ خدائی حفاظت اور امان میں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم نے اس کی جان کی بھی حفاظت کرنی ہے تم نے اس کے مال کی بھی حفاظت کرنی ہے.تم نے اس کی عزت کی بھی حفاظت کرنی ہے.یہ نہیں کہ ایک شخص نماز مسلمانوں والی ادا کرتا ہے اور قبلہ رُخ ہو کر نماز ادا کرتا ہے اور ذبیحہ کھاتا ہے اور غیر ذبیحہ سے پر ہیز کرتا ہے، تم اپنی طرف سے کچھ اصول بنا کر اسے گالیاں دینے لگ جاتے ہو.خدا معلوم گندہ دہانی مسلمانوں کے ایک گروہ میں کہاں سے آگھسی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ گندی زبان اور فحش کلامی سے ثواب حاصل ہوتا ہے حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ہے جس کی شارحین نے بڑی وضاحت سے یہ تشریح کی ہے کہ ہر وہ شخص جو نماز مسلمانوں کی قبلہ رُخ ہو کر پڑھنے والا اور ہماری طرح ذبیحہ کھانے والا ہے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے یہ عہد لیا ہے کہ اس کی جان اور مال اور عزت کی حفاظت کی جائیگی اور جو شخص اس کی جان اور مال اور عزت کی حفاظت نہیں کرتا.وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور آپ کے اسوہ اور قرآن کریم کی ہدایت کے خلاف کرتا ہے آپ نے بڑی تاکید سے فرمایا ہے کہ یہ اللہ کا عہد ہے اس کو نہ توڑنا ورنہ کیا ہوگا ؟ آگے کچھ نہیں فرمایا کیونکہ ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس سے جو معاملہ کرتا ہے وہ مالک ہے.انسان کو تو لرزاں اور ترساں اپنی زندگی کے دن گزار نے چاہئیں.شارحین نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِہ میں خِمَّةُ الله اور ذِمَّةُ رَسُولِہ کے معنی یہ ہیں کہ آمَا نُهُمَا وَعَهْدُهُمَا ، یعنی ایسا انسان الله تعالیٰ اور رسول کی حفاظت اور امان میں اور اللہ تعالیٰ اور رسول نے جو عہد کیا ہے اس عہد کے اندر آجاتا ہے.پھر فَلَا تُخْفِرُوا الله في ذِمَّتِہ کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ لَا تَخُونُوا اللهَ فِي عَهْدِهِ.اللہ تعالٰی نے ایک عہد باندھ دیا ہے اس میں خیانت نہیں کرنی اور فَلَا تَتَعَرَّضُوا فِي حَقِّهِ ( مرقاۃ شرح مشکوۃ صفحہ ۷۴

Page 476

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۷۰ سورة ال عمران جلد 1) جو حق اس کا قائم کیا گیا ہے.اس میں تعرض نہیں کرنا اور اس کو ضائع کر کے فساد کے حالات نہیں پیدا کرنے.علاوہ ازیں اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ مِن مَالِهِ وَدَمِهِ وَعِرْضِهِ" (مرقاۃ شرح مشكوة صفحہ ۷۴ جلد (1) یعنی اس کے مال کی حفاظت بھی اور اس کی جان کی حفاظت بھی اور اس کی عزت کی حفاظت بھی تمہارے ذمہ ہے.پس وَاعْتَصِبُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی ہی حسین اور وسیع تعلیم دی ہے اور اگر اُمت مسلمہ اس پر عمل کرے اور یہی خدا اور اس کا رسول چاہتے ہیں تو پھر ایک ایسی حسین فضا اور معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اخْتِلَافُ أُمتى رحمة “بھائی بھائی میں اختلاف ہوتا ہے میاں بیوی میں اختلاف ہوتا ہے ماں بیٹی میں اختلاف ہوتا ہے باپ بیٹے میں اختلاف ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اپنی ہر خلق میں اپنی ایک شان ظاہر کی ہے کثرت مزاج انسانی وحدت خالقِ انسانی ثابت کرتی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمہاری طبیعیتوں ، مزاج اور عادات کے اندر اختلاف تو ہوتا ہے مثلاً کھانے میں ہزار اختلاف ہوتا ہے جس خاندان میں کھانے والے افراد زیادہ ہوں وہاں بڑی مشکل پڑ جاتی ہے اور کئی دفعہ بعض نا سمجھوں کو اعتراض کا موقعہ بھی مل جاتا ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۴۳۱ تا ۴۳۵) پس انسان کو ہر دم اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت ہے اس لئے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جبيعا میں حبل اللہ کے معنے ہمارے بزرگ صلحاء (لغت کے ماہرین نے بھی اور مفسرین نے بھی ) یہ کئے ہیں کہ وہ ذرائع جو وصلِ الہی تک پہنچانے والے ہوں حبل اللہ کہلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت امام راغب کو بڑی فراست عطا کی تھی اُنہوں نے قرب الہی کے ذرائع میں سے نمبر 1 قرآن کریم کو ٹھہرایا ہے یعنی شریعت قرآنیہ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی.گو اصل روحانی ذریعہ تو یہی ہے مگر اُنہوں نے ساتھ ہی عقل کو دوسرا ذریعہ قرار دیا ہے.عقل خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اس کا بھی ایک مصرف ہے انسان اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے بشرطیکہ یہ اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے بشرطیکہ اسے الہی رہنمائی حاصل رہے ورنہ جس طرح قانون اندھا ہے اسی طرح عقل بھی اندھی ہے.انسان کی عقل نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ آج کا قانون جسے انسانی عقل نے بنایا ہے، وہ اندھا ہے لیکن یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ جس عقل نے اندھا قانون بنایا ہے وہ خود

Page 477

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۴۷۱ سورة ال عمران اندھی کیوں نہیں؟ ظاہر ہے کہ جس عقل نے ایک اندھا قانون بنا دیا ہو وہ خود بھی اندھی ہے کیونکہ نور سے اندھیرے پیدا نہیں ہوتے جہاں بھی اندھیرا نظر آئے گا اُس کے منبع میں بھی اندھیرے ہی کی تلاش کرنی پڑے گی.ہماری عقل نور کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ ظلمات کا سرچشمہ نور نہیں پیدا کرتا ، ظلمت کا سرچشمہ ظلمت ہے.پس جو قانون عقل سے نکلاوہ اندھا ہے وہ عقل خود بھی اندھی ہے البتہ اس کے وہ پہلو جو خدا تعالیٰ کے نور سے منور ہو چکے ہوں اور اُن میں بیداری پیدا ہو چکی ہو وہ اندھے نہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا میں یہ بنیادی اور تاکیدی حکم دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کی جو راہیں ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے جو ذرائع ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے جو د سیلے ہیں اُن کو مضبوطی سے پکڑے رکھو.اگر مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو پراگندہ نہیں ہوگے اور اگر مضبوطی سے نہیں پکڑو گے تو پراگندہ ہو جاؤ گے تمہارے اندر تفرقہ پیدا ہو جائے گا.گویا اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر دو باتیں بتائی ہیں ان میں سے ایک کا تعلق قرآن کریم کی ہدایت سے ہے اور دوسری کا عقل سے.پھر فرمایا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ - خدا تعالیٰ کا تم پر یہ احسان ہے کہ اُس نے تمہیں قرآن کریم کی شکل میں ایک ایسی ہدایت دی جس کے نتیجہ میں تمہارے دلوں میں باہمی محبت اور اخوت پیدا ہوئی اور اس کا تعلق شریعت حقہ کے ساتھ ہے لیکن چونکہ عقل انسانی سے بھی کام لینا ضروری ہے اس لئے فرمایا :- وَلَتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ محض شریعت جو ہے یا قرآن کریم کتابی شکل میں جزدانوں میں بند کر کے رکھ دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.عقل کے ساتھ قرآن کریم کا سمجھنا اور سیکھنا ضروری ہے.عقل جب اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہدایت دیتا ہے اس پر عمل کرنا اور اس کے مطابق اعمالِ صالحہ بجالانا ضروری ہے.خدا تعالیٰ نے شریعت دے دی لیکن شریعت پر عمل کرنا انسان کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت دعاؤں کے ذریعہ جذب کی جاتی ہے.امت محمدیہ کے لئے سب سے زیادہ دعا ئیں تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی ہیں آپ نے کسی قوم کو کسی ملک کو اور کسی زمانہ کو نہیں چھوڑا جس کے لئے دعائیں نہ کی ہوں ہمارے اس زمانہ کو بھی نہیں چھوڑا ہمارا یہ ایمان ہے.دوسرے لوگ ہمارے ساتھ اتفاق رکھیں یا نہ رکھیں لیکن ہمارا

Page 478

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۷۲ سورة ال عمران یہ ایمان ہے اور ہم اسے ظاہر کریں گے کہ مہدی آگئے اور ہم اُن پر ایمان لائے ہیں.خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۱۲۰ تا ۱۲۲) وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ کہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ مختلف قو میں جو آپس میں برسر پیکار تھیں ان میں سے ایک ایک کو لیا اور ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا.اسلام لانے سے پہلے ان کا آپس کا با ہمی تعلق دشمنی اور عداوت کا تعلق تھا اور پھر اسلام لانے کے بعد کا انہی کا آپس کا باہمی تعلق الفت اور اخوت کا تعلق بن گیا.الف کے معنے بڑے حسین ہیں اور وہ ہمارے سامنے رہنے چاہئیں.مفردات میں آیا ہے الْمُؤلّف مَا جُمِعَ مِنْ أَجْزَاءِ مُخْتَلِفَةٍ وَرُتِّبَ تَرْتِيبًا قُتِمَ فِيهِ مَاحَقُهُ أَنْ يُقَدِّمَ وَأُخِرَفِيْهِ مَاحَقُهُ أن يُؤْخَر - مؤلّف کے معنی انہوں نے بیان کئے ہیں (یعنی جن کی تالیف کی گئی ) یعنی جو امت محمدیہ ہے ہمارے اس مضمون کے لحاظ سے.کیونکہ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءَ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا ہے.یہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہی نہیں بلکہ اپنے اجزا کی ایک حسین نسبتیں رکھنے والی دیوار ہے.یہ نہیں کہ پٹھان جس طرح دیوار بناتے ہیں.مٹی کا لوتھڑا ڈالا ( جسے پنجابی میں تھوپا کہتے ہیں ) اور دیوار کھڑی کر دی.بلکہ جس چیز کی جہاں ضرورت ہے وہاں لگائی گئی ہو.کیونکہ مؤلّف (مؤلف) یہاں آجائے گا مسلمان کے معنوں میں یا مؤلفہ امت محمدیہ ) جوا جزا مختلفہ کو جمع کر کے اور ان کو ایسی ترتیب دے کر جسے مقدم رکھنا چاہیے اسے موقر رکھا گیا ہو اور جسےمؤتمر ہونا چاہیے اسے مؤتمر رکھا گیا ہو.ان کو جمع کر کے یکجان کر دیا گیا ہے اس معنی میں ایک واضح اصول کی طرف اشارہ ملتا ہے یعنی مسابقت کی جو ہدایت ہمیں دی گئی ہے فرمایا جذ بہ مسابقت میں قُدِّمَ فِيهِ مَا حَقُهُ أَنْ يُقَدِّمَ وَأُخِرَفِيْهِ مَاحَقُهُ أَنْ يُؤَخِّرَ کا خیال ہمیں رکھنا پڑے گا.ورنہ اسلام کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق مسابقت نہیں ہوگی.پس اسلام نے الفت و اخوت اسلامی کو ایک بنیادی چیز قرار دیا ہے.کوئی ایسا کام ایک احمدی مسلمان کو نہیں کرنا چاہیے جو اللہ کی محبوب اجتماعی ہیئت کذائی پر برے رنگ میں اثر انداز ہو.ہر کام

Page 479

تغییر حضرت خلیفہ امسح الثالث ۴۷۳ سورة ال عمران ایسا ہونا چاہیے.جو خدا تعالیٰ کی محبت کو زیادہ جذب کرنے والا اور اس اتحاد اور الفت اور اخوت کو زیادہ مضبوط بنانے والا ہو اور اس حقیقت کے باوجود کہ سب ایک جان ہو گئے یہ بھی ضروری ہے کہ جذبہ مسابقت پایا جائے.خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۵۶۰،۵۵۹) دو بنیادی صفات جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ امت مسلمہ اس معنی میں خیر ہے کہ تمام پہلی امتوں کے مقابلے میں اپنی استعداد کے لحاظ سے بھی اور اپنی صلاحیت کی نشوونما کے لحاظ سے بھی اقومی ہے.زیادہ طاقتور ہے اور القومی “ کا مفہوم دراصل یہ بھی ہے کہ جس اُمت نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت اور تعلیم کی روشنی میں اس طرح کامل نشو نما دیا ہو اور اپنی قوتوں کا کامل نشو ونما کیا ہو کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی معنی میں یہ کہا کہ الیدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلَى (ترمذى كتاب صفة القيامة ) کہ دینے والا ہاتھ خیر کا ہاتھ ہے اور لینے والا ہاتھ ایسا نہیں اور اس کی تفصیل میں نے جتنا ممکن تھا بتائی تھی.دوسری صفت جو خَيْر أُمَّةٍ کی بنیادی صفت ہے اور جس کا ذکر قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہے وہ یہ ہے کہ وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ کہ ایک جماعت ) ایک گروہ اس امت مسلمہ یعنی خَيْرَ أُمَّةٍ کا ایسا ہونا چاہیے کہ جن کا کام ہی صرف یہ ہو کہ وہ گروہ خیر کی طرف بلانے والا ہو.خیر کے ایک معنی یہاں ”قرآن“ کے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک حدیث کی روشنی میں جس کا میں ذکر کروں گا ایک الہام اس معنی میں ہوا اور حدیث یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (بخارى كتاب فصائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن وعلمه ( پس اُمت مسلمہ کا وہ گروہ جس کے متعلق کہا کہ وہ گروہ ایسا ہونا چاہیے وَلَتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ تو يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ کی بنیادی صفت یہ ہے کہ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّبَهُ - قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا اور قرآن کریم کی ساری دنیا میں اشاعت کرنا یہ خَيْرَ أُمَّةٍ ست مسلمہ کی ایک دوسری بنیادی صفت بیان کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کو اسی حدیث اور قرآن کی بعض اور آیات کی تفسیر کے طور پر یہ امت

Page 480

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث الہام ہوا الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ 66 ۴۷۴ سورة ال عمران ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۷۸) پس آیت وَ لَتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ مِينَ إِلَى الْخَيْرِ سے مراد قرآن عظیم ہے یعنی ایسی امت اور جماعت تم میں ہر وقت رہنی چاہیے جو قرآن عظیم پر کامل عمل کرنے والی ہو جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آیا ہے کہ جب پوچھا گیا کہ آپ کے اخلاق کیسے تھے تو حضرت عائشہ نے فرمایا ” قرآن یعنی قرآن کریم نے جو تعلیم دی جن اصول اور حدود کو قائم کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی وہی نظر آتا ہے اور ہمیں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگیوں کے لئے اُسوہ بناؤ.پس اُمت مسلمہ میں ایک ایسی اُمت اور گروہ بزرگوں کا ہونا چاہیے ( بزرگ عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی عاجزی کے لحاظ سے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کے لحاظ سے نیز بزرگ ہستی کے اعلان کے بعد اپنے رب سے بے لوث محبت کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لحاظ سے ) جو نمایاں طور پر دوسروں کیلئے قابل تقلید مثال اور اپنی استعداد کے معراج پر پہنچنے کے بعد جتنا کسی انسان کیلئے اسوہ کا بنا ممکن ہے مثیل بن جانے والے ہوں.اصل میں تو "الأسوة “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ ہی ہمارے لئے ایک مثال ہیں ان معنوں میں کہ ہم وہی رنگ اپنے اوپر چڑھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جائیں اور اس طرح پر اس نیک مثال کے قائم کرنے کے ساتھ دنیا کو قرآن عظیم کی طرف بلائیں........"خیر" کے متعلق اصل میں میں بتا رہا ہوں کہ خیر امت جو ہمیں کہا گیا تو اس خیر امت کی بہت کی صفات بیان کی گئی ہیں.بعض جگہ لفظ خیر کو استعمال کر کے، بعض جگہ خیر “ کے معانی کو استعمال کر کے.دو بنیادی چیزیں ان دو خطبوں میں میں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں.ایک میں نے بیان کی تھی کہ قوی ہونا.یعنی امت مسلمہ کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا چاہیے کیونکہ ا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ بتاتا ہے.قرآن کریم کی تعلیم یہ کہتی ہے کہ غیر اللہ کے سامنے ہم نے ہاتھ نہیں پھیلانا اور جب تک امت مسلمہ میں اس کی شان کے مطابق یہ صفت پیدا نہیں ہو جاتی اس وقت تک اسلام کی طرف انسان منسوب تو ہو سکتا ہے لیکن اسلام کی عظمت میں انسان حصہ دار نہیں بن سکتا.اور دوسرے خیر کا بنیادی اصل جو ہمیں بتایا گیا ہے وہ ہے قرآن کریم کو سیکھنا.یہ صفت ایسی ہے جو امت مسلمہ کو كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ بناتی ہے.یعنی خیر امت ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ایک

Page 481

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۷۵ سورة ال عمران ایسی امت ہے جو قرآن کریم میں سے کتاب مبین کو بھی اور کتاب مکنون کو بھی سیکھتی ہے اور محفوظ رکھتی ہے اور اپنے نمونہ اور خدا داد فراست کے ذریعہ یا اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو اس سے سیکھی ہوئی تعلیم کے ذریعہ دنیا تک قرآن کریم کے نئے سے نئے علوم پہنچاتی رہتی ہے.پس یہ خَيْرَ أُمَّةٍ اُمت مسلمہ کی ایک بنیادی صفت ہے.اس سے انکار نہیں کیا جاتا اگر خدا کی نگاہ میں خیر امت بننا ہے تو ایسا بننا پڑے گا.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۳۰۶۳۲۹۵) میں نے اس وقت قرآن کریم کی آیت کے جس ٹکڑے کی تلاوت کی ہے اس کے ایک حصے کی طرف ہی توجہ دلاؤں گا اور وہ ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارے لئے ایسے سامان پیدا کئے گئے ہیں کہ تم تمام امتوں اور جماعتوں سے زیادہ برکت والی اُمت اور خیر والی جماعت بن سکتے ہو اور یہ اس لئے کہ قرآن عظیم ایک کامل شریعت کی شکل میں نوع انسانی کے ہاتھ میں دیا گیا ہے.اس میں اُمت مؤمنہ اور امت مسلمہ کے لئے روحانی اور دوسری رفعتوں کے سامان بھی بہت زیادہ مہیا کئے گئے ہیں.پس خَيْرَ أُمَّةٍ میں جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ایک بنیادی چیز ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ تم سے بڑھ کر تم سے بہتر اور تم سے افضل کوئی اور گروہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جس قدر رفعتوں تک پہنچنے کے سامان امت مسلمہ کو دئے گئے ہیں اس قدر رفعتوں تک پہنچنے کے سامان پہلی امتوں کو نہیں دئے گئے تھے.چنانچہ خَيْرَ أُمَّةٍ میں ایک بڑا وسیع مضمون بیان ہوا ہے اور دراصل ساری قرآنی تعلیم ہمیں اسی طرف لا رہی ہے.تاہم جہاں تک لفظ خیر کا تعلق ہے قرآن کریم میں بعض جگہ اس کے استعمال سے لفظا اور بعض جگہ معناً یہ بتایا گیا ہے کہ خیر امت کی کیا کیا صفات ہونی چاہئیں.اسی طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی لفظاً اور معنا ہر دو لحاظ سے خیر امت کی صفات کے متعلق ہمیں بہت کچھ بتایا گیا ہے.اس وقت میں ”خیر “ کی دو ایسی صفات کی طرف احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جن میں خیر کا الفظ معنا بھی استعمال ہوا ہے اور لفظاً بھی.چنانچہ خیر امت بننے کے لئے ہمیں ایک یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے والے بنیں.نہ صرف ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے

Page 482

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة ال عمران والے ہوں بلکہ ہم دنیا جہاں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے بھی ہوں نہ صرف یہ کہ ہم خود دوسروں کے سامنے مدد کے لئے ہاتھ نہ پھیلائیں بلکہ جب ہمارے سامنے دنیا جہاں کے ہاتھ لمبے ہوں اور ہمارے سامنے امداد کے لئے ہاتھ پھیلائے جائیں تو ہم اُن کے ہاتھوں کو ان کی وسعت سے زیادہ بھر دینے والے ہوں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس کے دو حصے ہیں.ایک حصے کا تعلق اُمت کے اندر باہمی معاونت کرنے سے ہے اور دوسرے کا تعلق مسلم و غیر مسلم سب کے ساتھ بھلائی کرنے سے ہے.آپ نے فرمایا: الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلى (مسلم کتاب الصلوۃ) گویا اس میں لفظاً بھی اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو خیر امت میں پنہاں ہے یعنی امت مسلمہ کا ہاتھ ، مومنوں کے گروہ کا ہاتھ ہمیشہ علیا یعنی بالا رہنا چاہیے.اُن کا ہاتھ دینے والا ہونا چاہیے سفلی یعنی لینے والا نہیں ہونا چاہیے.خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۲۸۲، ۲۸۳) ہم جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں مخاطب کر کے یہ فرمایا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی نوع انسان کے سب افراد کی بھلائی کے لئے ، ان کی خیر خواہی کے لئے اور ان کی خدمت کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو.یہ بات کہ خیر “ کے لفظ کو قرآن کریم کن معنوں میں استعمال کرتا ہے.خود قرآن کریم ہی میں ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے لیکن اس تفصیل کی طرف تو میں اس وقت توجہ نہیں دلا سکتا کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں.میں مثال کے طور پر ایک دو باتیں بتا دیتا ہوں.ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کو بھی غیر کہا گیا ہے اور اپنے اعمال کو تقویٰ کی بنیادوں پر کھڑا کرنے کو بھی قرآن کریم نے خیر کہا ہے.گویا ہر مسلمان کا جو رشتہ دوسرے مسلمان کے ساتھ ہو وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے اور اس کے احکام کی بجا آوری میں ہونا چاہیے.اس ضمن میں اور بہت سی باتیں ہیں تفصیل کی بھی اور اصول کی بھی جنہیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے.بہر حال اُمت مسلمہ کو بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے لئے ، ان کی بھلائی کے لئے اور ان کی خدمت کے لئے قائم کیا گیا ہے.یہ جو بھلائی کرنے کا عمل ہے یہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے.اصولی طور پر خیر پہنچانے کے

Page 483

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۴۷۷ سورة ال عمران متعلق احکام پر اس حد تک عمل کیا جاسکتا ہے جتنے کی توفیق ملے اور اس خیر اور اس بھلائی کی توفیق کے نتیجہ میں کسی ایک آدمی کو یا چند آدمیوں کو یا ایک محدود گروہ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی.مثلاً کسی کا اپنے مال میں اپنے بھائی کو حصہ دار بنانا.اب جتنا کسی کے پاس مال ہوگا اسی میں وہ دوسرے کو حصہ دار بنا سکتا ہے.جب ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بنائے گئے تو انصار میں سے جس کے پاس جتنا مال تھا اس میں اپنے مہاجر بھائی کو برابر کا شریک کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.یہ ٹھیک ہے کسی کے پاس مال تھوڑا تھا اور کسی کے پاس زیادہ تھا لیکن جتنا جتنا تھا وہ کہتے تھے آؤ ہم نصف نصف کر لیتے ہیں لیکن لینے والوں نے کہا کہ ہمیں تمہارا مال لینے کی ضرورت نہیں.بعض نے بڑی معمولی معمولی رقمیں قرض کے طور پر لے لیں انہوں نے کہا خدا تعالیٰ نے ہمیں صحت دی ہے، طاقت دی ہے، ہمت دی ہے اور پھر یہ بھی کہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے.الید الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ اليَدِ السُّفلی (بخاری کتاب الزكاة ) دینے والا ہا تھ لینے والے ہاتھ سے بہر حال اچھا ہے تو ہم کیوں نچلے درجے کو قبول کریں ہم محنت کر کے کھائیں گے بھی اور کوشش کریں گے کہ اپنے بھائیوں کی مالی لحاظ سے مدد بھی کریں.غرض یہ مضمون بہت وسیع ہے اور یہ واقعات بڑے ایمان افروز ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں رونما ہوئے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ مال میں شریک اپنے ضرورت مند بھائی کے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرنا.یہ بھی غیر کا حصہ ہے لیکن محدود ہے.دنیا کے جو اموال ہیں اور دنیا کی جو طاقت ہے اور دنیا کے جو اوقات ہیں.یہ سارے محدود ہیں کیونکہ انسان کی زندگی محدود ہے لیکن خدا تعالیٰ کی طاقت غیر محدود ہے.وہ غیر محدود طاقتوں کا مالک ہے.اس لئے اس کی خیر کا عمل اپنی وسعت اور افادیت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے اور غیر محدود ہے گویا ہر ایک بھلائی خدا سے مانگنے سے تعلق رکھتی ہے.انسان دعا کے ذریعہ بھلائی کے سامان پیدا کرتا ہے اپنے معاشرہ میں اور اس زندگی میں جسے وہ اس جہان میں گزار رہا ہے.خدا چاہے تو دعا کا اثر ساری دنیا کے انسانوں پر پڑسکتا ہے.اللہ کے لئے تو یہ چیز آسان ہے اس کے سامنے تو کوئی چیز انہونی نہیں.پس اگر دعا قبول ہو جائے تو ساری دنیا کی بھلائی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۵۱ ۵۳) تنْزِيلُ الكتب مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ کہ یہ کتاب اس اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو الْعَزِیزِ

Page 484

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۷۸ سورة ال عمران صفت سے متصف ہے.جو غالب ہے اور کوئی اور ہستی اس پر غالب نہیں آ سکتی.کیونکہ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں.عزیز کے ایک معنی اس قسم کی عزت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی ہستی کے ہوتے ہیں کہ جس کے مقابلہ میں اس جیسی قوت اور طاقت اور غلبہ رکھنے والی کوئی اور ہستی نہ ہو.اس لحاظ سے وہ بے مثل ہو.تو اس ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ اس عزیز خدا کی طرف سے جو کتاب نازل کی گئی اس کتاب میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ بے مثل ہے.ایسی خوبیوں کی حامل ، رضا ء الہی کی اس قدر فراخ راہیں دکھانے والی ہے کہ دنیا میں جس قدر کتب سماوی گزری ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور نہ کسی انسان کی طاقت میں یہ ہے کہ اس کا مثل معرض وجود میں لا سکے.اس کتاب میں کامل حسن اور کامل تعلیم اور کامل ہدایت پائی جاتی ہے.اس بے مثل اور یگانہ ذات کے پر تو نے اس کتاب کو بھی بے مثل کر دیا ہے.اگر تم اس کتاب کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم بھی ایک واحد و یگانہ بے مثل قوم بن جاؤ گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم وہ اُمت ہو جس سے بہتر امت اس دنیا میں پیدا نہیں کی گئی تم وہ اُمت ہو جس سے زیادہ احسان، انسان پر کسی اُمت نے نہیں کیا.پس پہلی خوبی اس کتاب کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتائی کہ اپنے کمال کے باعث یہ کتاب بے مثل ہے.اور اپنی تعلیم کی وجہ سے یہ کتاب اُمت مسلمہ کو ایک بے مثل و بے مثال اُمت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۳۳) اے اُمت مسلمہ ! اے وہ لوگوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہو.چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے جنہوں نے اپنی زندگی خدا اور اس کے دین کے لئے وقف کی ہو اور وہ خیر کی طرف بلانے والے ہوں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والے ہوں اور اس گروہ سے ہمارا یہ وعدہ ہے کہ اگر وہ وقف کی روح کو سمجھیں گے اور اس روح کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں گے.تو بہت بڑی کامیابی ان کے نصیب میں ہوگی.أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ان کو فلاح ملے گی کہ اس سے بڑی کامیابی اور کوئی متصور نہیں ہو سکتی.یہاں جس گروہ کا ذکر ہے.اس کے نتیجہ میں انفرادی طور پر واقف کے لئے جو اپنے وقف میں اخلاص رکھنے والا اور خدا اور رسول کے لئے صدق وصفا ر کھنے والا ہو ثبات قدم رکھنے والا ہو.ایثار اور

Page 485

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۴۷۹ سورة ال عمران قربانی کے جذبات رکھنے والا ہو.یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ تمہیں حسب استطاعت اجر ملے گا.لیکن واقفین کے اس گروہ کے نتیجہ میں اُمت محمدیہ کا کوئی مقام متعین نہیں کیا گیا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں ایک دوسری جگہ یوں فرماتا ہے.کنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کہ تمہاری اُمت جو اُمت مسلمہ کہلاتی ہے.تمام امتوں سے بہتر ہے.اس لئے کہ تمہیں یہ سبق دیا گیا ہے اور تم اس سبق کو سمجھتے ہو اور جانتے ہو اور اس سبق کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہو تو تمہاری اُمت کو تمہارے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تو خَيْرَ أُمَّةٍ تم اس وجہ سے ہو کہ تم اپنے نفسوں کو بھلا دیتے ہو اور دنیا کی بھلائی کا خیال رکھتے ہو.ان دو آیتوں پر جب ہم مجموعی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اُمت محمدیہ میں واضح طور پر دو جماعتیں نظر آتی ہیں.ایک وہ جماعت جنہوں نے اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کی اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس عہد کو نباہا یہ وہ گروہ ہے جو امت محمدیہ کو خیر کی طرف بلانے والا ہے.يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ جو اُمت محمدیہ کی تربیت اس رنگ میں کرنے والا ہے کہ یہ اُمت بحیثیت اُمت دنیا کی بہترین امت بن جائے اور اس کے بدلے میں ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرے گا.دوسری آیت میں یہ بتایا کہ خیر امت بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُمت کی اکثریت ہر نکتہ کو سمجھنے والی ہو کہ انہوں نے اپنے نفس کو قربان کرنا اور غیر کے نفس کو فائدہ پہنچانا ہے.اپنے نفس کو تکلیف میں ڈالنا اور غیر کے نفس کو نار جہنم سے بچانے کی کوشش کرنا ہے.اپنے نفس پر مجاہدات طاری کرنے ہیں، قربانی اور ایثار کی راہوں کو اختیار کرنا ہے اس لئے کہ قرب کی راہیں پالیں.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۳۰۰،۲۹۹) آیت ۳۲ تا ۱۴۰ وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِى أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ وَ أَطِيعُوا اللَّهَ ج وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ (۱۳۳) لا عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالصَّرَاءِ وَالْعَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ

Page 486

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴۸۰ سورة ال عمران (۱۳۵) الْمُحْسِنِينَ ، وَ الَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ.أُولَبِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَجَنَّتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ ، قَدْ خَلَتُ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ المُكَةِ بينَ هذَا بَيَانَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَونَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.اور اس آگ سے ڈرو ( نار جہنم سے ) جو منکروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کی طرف سے نازل ہونے والی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی قیمت آسمان اور زمین ہیں اور جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے بڑھو.وہ متقی جو خوشحالی میں بھی اور تنگ دستی میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے.ہاں ان لوگوں کے لئے جو کسی بُرا کام کرنے کی صورت میں یا اپنی جانوں پر ظلم کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا کون قصور معاف کر سکتا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوتا ہے اس پر دیدہ و دانستہ ضد نہیں کرتے.یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی جزا ان کے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت اور ایسے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں بستے چلے جائیں گے اور کام کرنے والوں کا یہ بدلہ کیا ہی اچھا بدلہ ہے.تم سے پہلے کئی دستور العمل گزر چکے ہیں جن کے نتائج دیکھنے ہوں تو زمین میں پھرو اور دیکھو کہ ان قوانین کو جھٹلانے والوں کا کیسا بُرا انجام ہوا.هذا بیان یہ قرآن کریم جو ہے یہ ذکر لوگوں کے لئے بہت وضاحت کرنے والا ہے اور متقیوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے اور تم کمزوری نہ دکھاؤ اور نہ غم کرو اور اگر تم مومن ہو تو تم ہی بالا.........._EN رہو

Page 487

۴۸۱ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفتہ امسح الثالث قرآن کریم نے متعدد جگہ مختلف طریق پر ہمیں خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچنے کی تعلیم دی اور اس کی راہیں جو بیان کی ہیں ان آیات میں سے میں نے بعض کا انتخاب کیا ہے.جو میں نے ابھی پڑھی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِى أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِین اس آیت میں اول ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ کافروں کے لئے خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ بھڑ کائی گئی ہے، وہ کافر اور منکر جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتے ، وہ مخالف ہیں خدا کے دین کے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی اتباع نہیں کرتے.آپ سے پیار کا تعلق نہیں رکھتے ، ان کافروں کے لئے ایک آگ تیار کی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس آگ سے اپنا بچاؤ کرو وَاتَّقُوا یہ بچاؤ تقویٰ کے ذریعہ سے کرو اور دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے قہر کی آگ سے بچنے کے سامان خدا کی پناہ میں آکر پیدا کرو.تیسرے یہ کہ اس کی راہ کیا ہے؟ وَ اطِیعُوا اللہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس کے سب احکام کو ہمہ وقت بجالانے کے لئے ہر دم تیار رہو یعنی یہ نہیں کہ جس طرح جاہلیت کے زمانہ میں نسی“ کے طریق پر حرمت والے مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے تو ہماری زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کے لئے وقف ہونا چاہیے.اس معنی میں کہ اس کی جو بے شمار دنیوی نعمتیں ہمارے اوپر نازل ہوئی ہیں ہم ان کو جائز طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جائز طریقے پر ان کو خرچ کرنے والے ہوں تو اس آگ سے بچنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس کے احکام ہر دم بجالانے کے لئے تیار رہو اور مجاہدہ اپنے نفس کے ساتھ کرو.یو چوتھے یہ کہ اطیعوا اللهَ وَالرَّسُول کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِن اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس : ١٢) میں اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو میرے پر خدا تعالیٰ نے نازل کی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اس معنی میں کہ تم بھی اس وحی کی اتباع کرو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی.دوسرے قرآن کریم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے انسانوں کے لئے، رہتی دنیا تک کے لئے ، اُسوہ بنا کر ہمارے سامنے رکھا یعنی ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنا اور آپ کے اسوہ کے مطابق زندگی گزارنا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کو حاصل کرنا ہے.پانچویں بات یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رنگ بنے کی کوشش کرو اور فرمایا کہ اس کا

Page 488

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۴۸۲ سورة ال عمران نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحم کا سلوک کرے گا اور اس کی محبت اور اس کے پیار کے تم وارث ہو گے.چھٹے یہ کہ اللہ تعالیٰ جو رحم اور پیار کا سلوک کرے گا اس کی دو صورتیں یا دو شکلیں ان آیات میں بتائی گئی ہیں.آگے یہ ذکر ہے وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُم اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رحم کی دو شکلیں بیان ہوئی ہیں.ایک اس کی مغفرت، جب وہ اپنی مغفرت سے ڈھانپ لے تو انسان اس آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے.جس سے یہاں ڈرایا گیا، جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ مغفرت رب کی طرف سے نازل ہونے والی بخشش ہے جس کے بغیر انسانی اعمال بے ثمر ہیں اور نار جہنم سے بچنا ناممکن ہے.ساتویں یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ایسی جنت کی شکل میں انسان کے سامنے رکھی گئی ہے جس کی قیمت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ اس کی وضاحت کی ضرورت ہے.ہر آدمی یہ بات آسانی سے سمجھ نہیں سکتا.چنانچہ سورۃ لقمان میں فرمایا کہ أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان : ۲۱) اور سورة جاشیہ میں فرمایا وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) اس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس شکل میں بھی آتی ہے ( میں یہ ترتیب ذرا بدل دوں گا آپ کو سمجھانے کے لئے ) کہ ایسی جنت ملتی ہے جس کی قیمت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے یعنی آسمانوں اور زمین میں ہر شے جو ہے تم اس کی جو بھی قیمت لگاؤ وہ خدا تعالیٰ کی موعودہ جنت کی قیمت ہے اور وہ اس طرح پر کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں انسان اسلام کی ہدایت کی روشنی میں اپنی سب طاقتوں اور استعدادوں کو بروئے کارلاتا ہے.حکم یہ ہے انسان کو کہ جو تمہیں میں نے طاقتیں قو تیں ،صلاحیتیں اور استعداد میں دی ہیں وہ ساری میرے حضور پیش کر دو.میرے حکم کے مطابق، میری بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ، میری رضا کے حصول کے لئے ، میرے پیار کو پانے کے لئے تم ان کو خرچ کرو تو آسمانوں اور زمین کی ہر شے کے فقرہ میں نوع انسان کی وہ طاقتیں بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیں اور یہ استعدادیں، یہ طاقتیں اتنی عظیم ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، کہ جن سے انسان خدمت نہ لے رہا ہو یا خدمت نہ لے سکتا ہو اور بعض جگہ بعض چیزیں پوشیدہ

Page 489

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۸۳ سورة ال عمران ہیں.ابھی تک ہمارے علم میں نہیں انسان کو یہ طاقت دی کہ دنیا کی ہر شے سے خدمت لے سکتا ہے، اپنی بھلائی اور خوشحالی کے سامان پیدا کر سکتا ہے اس دنیا کی خوشحالی کے بھی اور مرنے کے بعد کی زندگی اُخروی زندگی کی خوشحالی کے بھی.کیونکہ فرمایا کہ جو اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ اُخروی زندگی میں بھی اندھا ہوگا تو وہاں دیکھنے کی آنکھ یہاں حاصل کرنی پڑتی ہے.ان سامانوں کو استعمال کر کے قوتوں اور استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو و نما کر کے وہاں کے سامانوں سے استفادہ کرنے اور لذت حاصل کرنے کی طاقتیں اور احساسات حاصل کرنے پڑتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں انسان اپنی سب طاقتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لاتا اور آسمانوں اور زمین کی ہر شئے سے خدمت لیتا اور اسے خرچ کرتا ہے.انسان جب اپنی ساری کی ساری طاقتوں اور آسمانوں اور زمین کی ہر شے خرچ کر کے جنت کا سودا کرتا ہے تو جنت کی یہی قیمت ہوئی.یہ مراد ہے عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ سے.آٹھویں یہ کہ اس جنت کی اتنی بڑی قیمت ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے بہت طاقتیں دیں اور زمین و آسمان کو تمہاری خدمت پر بھی لگا دیا تمہیں یہ طاقت دی کہ تم ان سے خدمت لے سکو اور یہ جنت جس کی اتنی بڑی قیمت ہے تقویٰ کی راہوں پر عمل کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے.نویں خلاصہ یہ کہ جس جنت کے حصول پر تمہاری ساری ہی قو تیں، تمہاری ساری ہی استعدادیں، تمہاری صلاحیتیں ایک طرف اور آسمانوں اور زمین سے تعلق رکھنے والی ہر شئے اور ظاہری اور باطنی اور آسمانی اور زمینی ہر نعمت باری دوسری طرف خرچ ہوئی ہے اس عظیم جنت کے پانے کے لئے آگے بڑھو ( سَارِعُوا ) اور یہ ہے وہ عظیم جنت جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور جسے متقی مغفرت باری وہ کے حصول کے بعد حاصل کریں گے اور پھر متقیوں کی کچھ بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں.دسویں ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ فراخی اور خوشحالی کی حالت میں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.جب اللہ تعالی مال دیتا ہے تو یہ منعم علیہ جنات کا علیحدہ رہنے والوں کا عوام سے بے تعلقی اختیار کرنے والوں کا، ان کے مسائل سے بے توجہی برتنے والوں کا گروہ نہیں بن جاتے بلکہ جس وقت فراخی ہوتی ہے اور خوشحالی ان کے نصیب میں ہوتی ہے تو تکبر کی راہوں کو وہ اختیار نہیں کرتے بلکہ تکبر سے بچتے اور مستحقین سے غفلت نہیں برتتے بلکہ جو حق دار ہیں جو مستحق ہیں، جن کے حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں، جن سے اخوت کا رشتہ باندھا گیا ہے ان کے تمام حقوق خدا تعالیٰ کی منشا اور رضا کے

Page 490

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث مطابق وہ ادا کرنے والے ہیں.۴۸۴ سورة ال عمران گیارھویں فرمایا کہ ہمیشہ فراخی اور خوشحالی کی حالت ہر انسان کے لئے تو نہیں رہتی تنگی بھی ہے تکلیفوں کا زمانہ بھی ہے ، قحط کے آثار بھی ظاہر ہو جاتے ہیں اور قحط کے آثار میں بھی ، طبقات طبقات میں فرق پڑ جاتا ہے، غریب کے لئے زیادہ مشکلیں پیدا ہو جاتی ہیں.امیر کے لئے نسبتا کم مشکلیں ، تو فرمایا کہ وہ تکلیفوں اور تنگی کی حالت میں اور قحط کے دنوں میں سخاوت سے تنگ دل نہیں ہو جاتے وہ اپنے مقدور کے مطابق سخاوت کرتے چلے جاتے ہیں اور مخلوق خدا کی خدمت کے ذریعہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس موعودہ جنت کا یہاں ذکر ہے اس کے حق دار بننے کے لئے وہ ایک جہاد کر رہے ہوتے ہیں.بارھویں یہاں یہ بات بتائی کہ یہ متقی وہ ہیں جو غصہ پی جاتے ہیں.غصہ ایک جذباتی کیفیت ہے، غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے.غصہ اور عقل سلیم ایک جا اکٹھے نہیں ہو سکتے ، غصہ کرنے والے ہمیشہ بے وقوفی کی باتیں کرتے اور احمقانہ اعمال بجالاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا مومن غصہ نہیں کرتا.متقی غصہ پی جاتا ہے اس کے سب کام خدا کی رضا اور اس کی مخلوق کی بہبود کے لئے ہوتے ہیں.وہ غصے میں آکر لوگوں کے اوپر ظلم کے لئے تیار نہیں ہو جاتا.پھر تیرھویں یہ بتایا کہ متقی وہ ہیں جو یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملہ کو معاف کر دیتے ہیں.بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے.بڑا وقار ہے متقی میں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ بات یا درکھو کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے.بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا.پس مجرم کے حق اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقع بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ صفحه ۳۵۱) چودھویں بات ان آیات میں ( اگلی آیت شروع ہوگئی ہے ) یہ بتائی کہ ان متقیوں کے لئے یہ جنتیں بنائی گئی ہیں کہ جب وہ کسی بشری کمزوری کے نتیجہ میں بے حیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کو یاد کریں یعنی غلطی بشری کمزوری سے ہو ہی جاتی ہے لیکن اس کمزوری 66

Page 491

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۴۸۵ سورة ال عمران پر اصرار نہ کریں بلکہ جب گناہ سرزد ہو تو وہ فوراً تو بہ کریں.اگر بے حیائی کا، فحشاء کا کوئی فعل ان سے سرزد ہو جائے ، ماہ رمضان میں کوچہ بازار میں لڑ پڑیں کسی سے یا اپنے نفسوں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت برتیں یا دوسروں کے حقوق تلف کر کے اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اسی وقت تو بہ کریں اور خدا سے کہیں کہ اے خدا ! میں نے غلطی کی.میں کمزور انسان ہوں تو مالک ہے مجھے سزا بھی دے سکتا ہے لیکن تو بڑا پیار کرنے والا ہے اور معاف کرنے والا بھی ہے میری استدعا ہے کہ تو میرے گناہوں کو معاف کر دے جو میری غلطی اور گناہ ہے اس کے بداثرات سے، اپنے قہر کے جہنم سے، عذاب سے مجھے بچالے ، مغفرت کی چادر کے اندر مجھے ڈھانپ لے.اور پھر پندرھویں بتایا کہ بے حیائی کا کام کرنے اور جانوں پر ظلم کرنے کے بعد اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے.جو حالت اصرار کی ہے وہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.ایک گناہ کرنا پھر اسی کو دوبارہ کرنا پھر اسی کو دوبارہ کرنا پھر اور دلیر ہو جانا، اگر کوئی توجہ بھی دلائے تو اس کے سامنے اکٹر جانا کہ تو بڑا متقی بنا ہوا ہے مجھے سمجھاتا ہے.سمجھانے والوں کو بھی چاہیے کہ علیحدگی میں سمجھا ئیں جہاں شیطان کے وار کی کوئی گنجائش نہ رہے.پس اس میں یہ بتایا کہ متقی وہ ہیں جو اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے.بے حیائی ہو جاتی ہے، بشری کمزوری ہے.اپنی جانوں پر ظلم ہو جاتا ہے کمزور ہے انسان لیکن فوراً سنبھلتا ہے، اپنی طاقت کی طرف رجوع نہیں کرتا، اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور خدا کو کہتا ہے کہ اے خدا تو بخش سکتا ہے، تو مجھے بخش دے، تو مغفرت کی چادر کے نیچے مجھے ڈھانپ سکتا ہے تو مجھے ڈھانپ لے تجھی میں یہ طاقت ہے مجھ میں نہیں کہ میرے گناہ کے بداثرات جو ہیں ان سے میں محفوظ رہوں.اے خدا! تو مجھے میری بداعمالیوں، میرے گناہوں کے بداثرات سے محفوظ رکھ.تو ان کا خدا انہیں بخش دے گا.لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا چونکہ بخش دے گا اس واسطے جو مرضی کرتے جاؤ.خدا مالک ہے، وہ بخشتا بھی ہے مالک کی حیثیت سے اور مالک کی حیثیت سے وہ سزا بھی دیتا ہے.خدا مالک ہے چاہے سزا دے چاہے گناہ بخش دے.اس واسطے انسان کو گناہ پر دلیر نہیں ہونا چاہیے لیکن انسان سے انسانی کمزوری، بشری کمزوری کے نتیجہ میں چھوٹی بڑی غفلتیں، گناہ، کوتاہیاں اور قصور ہو جاتے ہیں.انسان انسان میں فرق ہے.اس وقت انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی

Page 492

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۸۶ سورة ال عمران طرف رجوع کرے اور اسی سے معافی مانگے اور بخشش طلب کرے اور اس کے پیار کو حاصل کرے.اس کے دامن کو پکڑے اور کہے کہ ہاتھ تو گندے ہیں اے میرے خدا! پر تیرے دامن کی پاکیزگی کو میرے گندے ہاتھ نا پاک نہیں کر سکتے.تیری پاکیزگی میرے ہاتھوں کو پاکیزہ بناسکتی ہے.مجھے پاک بنادے.سولہویں یہ بتایا کہ یہ متقی وہ لوگ ہیں جو اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کرنے والے، اپنی تمام طاقتوں کو خدا کے لئے پرورش کرنے والے اور خرچ کرنے والے اور زمین و آسمان کی نعمتوں کو پھر اس کے حضور پیش کر دینے والے اور اس کی تعلیم کے مطابق اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے ہیں.ان متقیوں کی جزا ان کے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت ہے اور چار باتیں یہاں بیان ہوئی ہیں.(۱) ان کے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت ایسے متقیوں کی جزا ہے.مغفرت کے معنی ہیں گناہ کو ڈھانپ لینا، گناہ کو معاف کر دینا، گناہ کی اصلاح کر دینا، آئندہ کے لئے گناہ کے دروازے کو بند کر دینا اور عذاب سے محفوظ کر لینا ، حفاظت کرنا........تو یہاں اس آیت میں بتایا کہ متقیوں کے لئے یہ مغفرت ہے کہ عذاب سے حفاظت خدا تعالیٰ کہتا ہے نہ تمہیں جنت میں جانے سے پہلے میرا عذاب پہنچے گا نہ جنت میں جانے کے بعد میرا عذاب پہنچے گا.اس واسطے بہت سارے مذاہب کا بطلان یہاں ہو گیا کیونکہ مغفرت ان کا جواب ہے یعنی خدا تعالیٰ کی قوت مغفرت ، اس کی صفتِ غفور جو ہے وہ ضامن ہے کہ انسان جنت میں جائے تو پھر باہر نہ نکلے.(ب) اور یہاں یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے باغات ہیں جو ہمیشہ سرسبز رہنے والے اور ہمیشہ ہر آن ثمر آور رہنے والے ہیں.تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ اس کی تھوڑی سی تفسیر ایک وقت میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور باغات بھی ہمیشہ سرسبز اور ثمر آور یعنی اس کی افادیت پوری کی پوری ہمیشہ رہنے والی ہے خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے فضل کے ساتھ.(ج) اور انسان کی جتنی زندگی بھی ابدی ہے وہ اس میں بستے چلے جائیں گے.( د ) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو متقی میرے احکام پر عمل کر کے میرے بتائے ہوئے طریقے پر اعمال صالحہ بجالائیں گے ان کے میں ( دوسری جگہ آتا ہے کہ میں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ

Page 493

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۸۷ سورة ال عمران بھی دوں گا اور پھر اور بھی دوں گا ، فضل دوں گا ، مغفرت خدا کے فضل کو کھینچنے والی ہے، جذب کرنے والی ہے.سترھویں اس سے ہمیں پتا لگا کہ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِى أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ میں وَاتَّقُوا کے کیا معنی ہیں.یہ ساری تفصیل جو آئی ہے یہ واتَّقُوا کی وضاحت کر رہی ہے اور اس کو بیان کر رہی ہے.ان ساری تفاصیل کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ تم اپنے رب کریم کا دامن پکڑو تو کبھی چھوڑو نہ، وفا کا تعلق پیدا کرو تو بے وفائی کبھی نہ کرو، ثبات قدم رکھو، اور کامل تو کل اس پر رکھو، کامل بھروسہ اس پر رکھو اس کو سب طاقتوں کا مالک بھی سمجھو اور انتہائی طور پر پیار کرنے والا ، پوری جزا دینے والا بھی سمجھو.مغفرت میں ڈھانپ لینے والا اپنے فضل سے، تھوڑے کئے پر ابدی جنت کا مستحق بنا دینے والا یقین کرو.بڑا ہی فضل کرتا ہے.وہ مالک ہے، قادر ہے جو چاہے کرے.فرمایا اور ست مت ہو.اس دنیا میں جو خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں ان کے اوپر تو اس دنیا کے حالات پیدا ہوئے ہیں نا.جب خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہو گیا ایک دفعہ ست مت ہو.جس کا مطلب ہے کہ اگر مخالف مقابلے پر اتر آئے تو مقابلہ سے ہمت مت ہارو.سست مت ہو مقابلہ سے ، ہمت مت ہارو اور غم مت کرو اور کچھا ندیشہ مت کرو.کچھ اندیشہ دل میں نہ لاؤ.انجام کا رغلبہ اس دنیا میں بھی تم ہی کو ہو گا مگر شرط یہی ہے کہ جو تمہیں کہا گیا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنی حفاظت کرو، خدا تعالیٰ کے تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرو اور اگر تم ایمان پر قائم رہو گے اور حقیقی اور واقعی مومن رہو گے تو تمہیں کوئی اندیشہ نہیں.آخر اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہر شعبۂ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل رہے گی.اگر خدا تعالیٰ سے تمہارا تعلق پختہ اور حقیقی اور وفا اور ثبات قدم کا ہے اور اگر تم نے اس دامن کو پیار اور محبت اور ایثار سے پکڑا اور ایک لحظہ کے لئے بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تو ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل رہے گی.خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۳۲۰ تا ۳۳۲) مال یا اولاد کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا آنا اس بات کی علامت نہیں ہے تسارع لَهُم فِي الْخَيْراتِ کہ ہم ان کو نیکیوں میں جلد جلد بڑھا رہے ہیں اور ان کے اوپر یہ حض انعام کے طور پر فضل ہورہا ہے کہ ان کے مالوں میں بھی برکت ڈالی جارہی ہے اور ان کی اولاد میں بھی برکت ڈالی جا رہی ہے وہ سمجھے نہیں اور اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ جو يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرُتِ وَهُمْ لَهَا سِبِقُونَ

Page 494

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۸۸ سورة ال عمران نیکیوں کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق جو سورۃ آل عمران میں ہ وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ (ال عمران : ۱۳۴) اور وہ جن میں مسابقت کی روح پائی جاتی ہے.ان میں چار علامتیں پائی جاتی ہیں.اوّل یہ کہ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ وخشية الله سے لرزاں رہتے ہیں اور دوسری جگہ فرما يا وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا إِلَّا الله (الاحزاب :۴۰) کہ وہ اپنے دل کی اس کیفیت میں کسی اور کو اللہ کے سواشریک نہیں بناتے.یعنی خشیۃ اللہ ہے اور صرف اللہ کی خشیت ہے کسی اور کی خشیت کو اس میں ملونی نہیں ہے یہاں اللہ نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنیادی اور اصولی صفات میں سے صفت رب کو منتخب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کی خشیت سے لرزاں رہتے ہیں.خشیة کے معنی ایسے خوف کے ہیں کہ جس سے خوف پیدا ہو اس کی ذات اور صفات کا علم بھی ہو اور وہ ذات ایسی ہو کہ جب اس کا علم انسان کو حاصل ہو جائے تو اس کی عظمت بھی دل میں پیدا ہو تو خشیة کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا انسان اپنے رب سے یہ جانتے ہوئے کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور ربوبیت کی انتہائی اور آخری ذمہ داری اسی پر ہے.مشابه بربّ شاید اس دنیا میں بھی ملیں لیکن اللہ کے علاوہ جو بھی درجہ بدرجہ جسمانی یا روحانی ارتقا کا باعث بنتے ہیں وہ اس کے اذن اور اسی کی توفیق سے ایسا بنتے ہیں.حقیقی طور پر اب وہی واحد یگانہ ہے پس جن لوگوں میں اس معنی میں رب کی خشیت پائی جاتی ہو اور هُمْ بِأَيْتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ وہ سمجھتے ہوں کہ قرآن عظیم کا نزول انسان کی جسمانی اور روحانی ترقیوں کے لئے ہے.آیات سے یہاں مراد ایک تو قرآن کریم ہے اور دوسرے وہ تمام آسمانی تائیدات ہیں جو قرآن کریم کی آیات کے ظلّ کے طور پر اس دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتی ہیں اور نازل ہوتی رہیں گی.تو جو لوگ اپنے رب کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور اس سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں اور وہ جو قرآن کریم پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم کے فیوض کو جاری یقین کرتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی فیوض پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس طرح پر شرک کے ہر پہلو سے محفوظ ہو گئے ہیں پربھم لا يُشْرِكُون خفیہ یا ظاہری شرک بڑا یا چھوٹا شرک کوئی بھی ان کے قریب پھٹکنے نہیں پاتا اور وہ لوگ جن کے دل اس بات سے وَجِلَةٌ خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہم اپنی سمجھ کے مطابق اعمال صالحہ بجا تو لائے ہم نے صدقہ و خیرات بھی دیا دوسری نیکیاں کرنے کی بھی کوشش کی مگر

Page 495

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۸۹ سورة ال عمران ہم نہیں جانتے کہ یہ ہمارے رب کو مقبول بھی ہوں گی یا نہیں ہم نے سوائے اس کے کسی اور کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا اور جس کے سامنے ہم جواب دہ ہیں اس کے متعلق ہم کہہ نہیں سکتے کہ قبولیت کو ہماری نیکیاں پہنچی ہیں یا نہیں پس وہ لوگ نیکیاں تو قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہر آن اور ہر وقت بجالاتے رہتے ہیں لیکن تمام نیکیاں بجالانے کے بعد بھی ان کے دلوں میں یہ خوف رہتا ہے کہ جس کے سامنے جواب دہ ہیں ہم نا معلوم اس نے ہماری نیکیوں کو قبول بھی کیا ہے یا نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن میں چار باتیں پائی جاتی ہیں وہ ہیں أُولَبِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے اس حکم کی تعمیل کی کہ وَسَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ ربَّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ - اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اندر مسابقت کی روح پیدا ہو سکتی ہے وہ جو اپنے رب کی خشیت کا احساس نہیں رکھتے وہ جو اپنے رب کی آیات عظیمہ ( قرآن کریم ) پر ایمان نہیں لاتے وہ جن کے دلوں میں شرک کی باریک معصیت پائی جاتی ہے اور وہ جو جب نیکی کرتے ہیں تکبر سے کام لیتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایسے کام کئے ہیں کہ اب ہمارا رب مجبور ہے کہ ہماری ان باتوں کو قبول کرے اور ہمیں بہتر جزا دے وہ لوگ مُسَابَقَتْ فِي الْخَيْرَات اور يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْراتِ کے مصداق نہیں ہوا کرتے نہ ان میں مُسَابَقَتْ فِي الْخَيْرَات پائی جاتی ہے نہ وہ جلدی جلدی نیکیوں کی طرف متوجہ ہونے والے اور حرکت کرنے والے ہوتے ہیں.اس واسطے وہ لوگ جو صرف ہمارے دنیوی احسانوں کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انہوں نے سَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ پر عمل کیا اور يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سِبِقُونَ کے گروہ میں شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو انہوں نے حاصل کیا حالانکہ ان کے اندر یہ چار خوبیاں پائی نہیں جاتیں.وہ غلطی پر ہیں لا يَشْعُرُونَ مومنوں میں روح مسابقت کا پایا جانا ضروری ہے.یا فراد میں بھی ہوتی ہے اور جماعتوں میں بھی اور سب سے زیادہ اس کی طرف مرکز کو متوجہ ہونا چاہیے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۸۳ تا ۸۵) ایمان کا لفظ جو عام طور پر اور بڑی کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ آئے تفصیل نہیں ہوتی یہ فرمایا ہے کہ ایمان لاؤ ایمان کا یہ فائدہ ہے ایمان کا یہ ثواب ہے ایمان سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا

Page 496

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۴۹۰ سورة ال عمران ہے مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے یا غیب پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے یا رُسل پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بات ہورہی ہے یا قرآن کریم پر ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے وغیرہ.غرض ایسی صورت میں تفصیل نہیں دی ہوتی اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے کہ ایمان لاؤ.دراصل جہاں کہیں بھی ایمان کے لفظ کو اس طریق پر استعمال کیا گیا ہے وہاں ایمان کے تمام تقاضے مراد ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان کے جو بھی تقاضے مقرر فرمائے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح کی ہے ان تقاضوں کو پورا کرنا مراد ہے مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ایمان لانے والے ہو گے تو کوئی غیر تم پر غالب نہیں آئے گا.آندھ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ اب یہاں مومن کے لفظ کے ساتھ مُؤْمِن بِاللهِ یا مُؤْمِنُ بِالْغَيْبِ يَا مُؤْمِنْ بِالْآخِرَةِ وغيره نہیں ہے بلکہ محض مومن کا لفظ ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی نصرت تمہارے شامل حال ہوگی اور تم ہی غالب آؤ گے غیر تم پر غالب نہیں آئے گا.پس جب اللہ تعالی کی ساری محبت اور ساری نصرت اور ساری رحمت اور ساری برکت کو جذب کرنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ٹھہرا تو پھر ہمیں ایمان کے سب تقاضوں کا علم بھی ہونا چاہیے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان کے جو مختلف تقاضے بیان فرمائے ہیں ان کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلسلہ وار کچھ بیان کروں گا.ایمان کا پہلا تقاضا اور وہی دراصل ایمان کی روح اور اسلام کی جان ہے وہ ایمان باللہ ہے پس جب میں نے کہا تھا کہ ایمان میں پختگی پیدا کرو تو میرا یہی مطلب تھا کہ ایمان کے جتنے پہلو اور جتنی شاخیں ہیں ہر پہلو اور شاخ کے متعلق اپنے ایمانوں میں پختگی پیدا کرو ایمان کے مضمون کے اندر جو بنیادی چیز ہے وہ ایمان باللہ ہے یعنی اللہ پر ایمان لانا.اللہ پر ایمان لانا اور لانے میں بڑا فرق ہے ایک شخص اللہ تعالیٰ کو جانتا ہی نہیں لیکن زبان سے کہتا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں اللہ پر حقیقی

Page 497

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۴۹۱ سورة ال عمران ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کی معرفت حاصل ہو اور جب پوری معرفت حاصل ہو جائے تو پھر سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے.معرفت کے بغیر وہ چیز ہمیں مل نہیں سکتی جو اسلام ہمیں دینا چاہتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا........پس صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے خدا اور رسول کے نزدیک یہ کافی نہیں ہے اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان لانا چاہیے جس طرح قرآن کریم کہتا ہے کہ ایمان لاؤ مثلاً اللہ تعالیٰ کو ہر حالت اور زندگی کے ہر موڑ پر قادر مطلق سمجھنا دنیا میں کسی قوم یا کسی انسان کی زندگی میں کوئی ایسا موقعہ نہیں آیا کہ جس وقت یہ کہا جائے کہ اب خدا بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا.پس اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا یہ بھی ایک پہلو ہے..اللہ تعالیٰ اس قسم کی قدرت رکھنے والا ہے.اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا تَقْنَطُوا (الزمر : ۵۴) کیونکہ مایوسی شرک ہے.اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک ضعف کا احتمال ہوتا ہے یہ ایمان باللہ نہیں ہے ہم اس قادر مطلق پر ایمان لاتے ہیں جو ایک ذرہ حقیر کے ذریعہ دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیتا ہے.....اللہ تعالیٰ پر رب ہونے کے لحاظ سے ایمان لاؤ کیونکہ ساری ربوبیت عالمین کا منبع اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.آپ دنیا کے ماحول پر نگاہ ڈالیں تو پتہ لگتا ہے کہ سارا کارخانہ عالم اس کی اس صفت پر چل رہا ہے یعنی ایک تدریجی ارتقا ہے جور بوبیت کا تقاضا کرتا ہے......دوسرے لوگ تو دعا پر کامل ایمان ہی نہیں رکھتے قرآن کریم ایک ایسے خدا کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جس نے اپنی ایک صفت یہ بتائی ہے کہ وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور وہ تقدیر معلق کو بدل بھی دیتا ہے اور ایسی تقدیر جو مبرم سے ملتی جلتی ہو اور یہ ساری نسبتیں دراصل انسان کے فیصلہ پر منحصر ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے تو ہر چیز واضح ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ - ( العمل : ٦٣) یعنی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ جب انسان تضرع اور ابتہال کے ساتھ اس کے حضور جھکتا اور اپنے یا اپنوں کی تکلیفیں دور ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے.....پس ایمان باللہ محض یہ نہیں ہے جسے عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اللہ پر وہ ایمان لانا چاہیے جس کا اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے مثلاً وہ رب العالمین ہے اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے وہ رحمان

Page 498

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۴۹۲ سورة ال عمران ہے اس کے علاوہ کوئی بغیر استحقاق کے دینے والا نہیں اور وہ رحیم ہے وہ رحیمیت کی صفت کے نتیجہ میں بدلے کا حق پیدا کر دیتا ہے دراصل رحیمیت حق دلواتی نہیں بلکہ حق پیدا کرتی ہے......پس ایمان باللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہہ دیا کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں ایمان باللہ کے بعد تو دوسری کوئی چیز ہی نہیں رہتی.ایمان باللہ کے بعد رشوت پر انحصار، ایمان باللہ کے بعد یہ نہین اور دوسری بدعنوانیوں کا سہارا لینا یہ باتیں ایمان کے ساتھ کیسے اکٹھی ہو سکتی ہیں.ایمان باللہ کے ساتھ کوئی چیز نہیں رہتی صرف اللہ ہی اللہ رہتا ہے یا وہ شخص ہوتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کرنا ہوتا ہے اور کچھ نہیں رہتا پس اس اللہ پر ایمان لانا ہے اور یہ بنیادی چیز ہے اس کی تفصیل بہت لمبی ہے.دراصل اگر اس سارے کارخانہ پر تقریر کی جائے تو سارا اللہ ہی اللہ آجاتا ہے.چند باتیں میں نے بیان کر دی ہیں اور اللہ پر اس رنگ میں ایمان لانے کے نتیجہ ہی میں پھر ایمان بالآخرة ، ایمان بالغیب اور ایمان بالرسل اور ایمان بالکتب وغیرہ جس کی قرآن کریم نے تفصیل بیان کی ہے جو دراصل ایمان کے مختلف شعبے اور شکلیں ہیں ان پر ایمان پختہ ہوتا ہے اس لئے اگر ایمان باللہ صحیح نہیں تو آگے کچھ نہیں.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۲۶۲ تا ۲۷۷) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح نذیر ہیں کافر کے لئے اس طرح بشیر بھی ہیں کافر کے لئے اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے لئے محض بشیر ہیں جو اعلان کرتا ہے کہ میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کے رب پر ایمان لایا.آپ بشیر بھی ہیں اس کے لئے اور نذیر بھی ہیں اس کے لئے یعنی جس طرح کافر کے لئے نذیر اور بشیر ہیں اسی طرح مومن کے لئے بھی نذیر اور بشیر ہیں.قرآن کریم بھرا پڑا ہے اس مضمون کے ساتھ اور ایک آیت میں نے اٹھائی ہے جس میں صاف ، بالکل وضاحت کے ساتھ یہ ہے کہ مومنوں کے لئے آپ نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی ہیں.قرآن کریم میں ہے.إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: ۱۸۹) کہ میں صرف نذیر اور بشیر ہوں مومن قوم کے لئے.تو یہ خیال کہ مومنوں کے لئے محض بشیر اور نذیر نہیں اور کافروں کے لئے محض نذیر اور بشیر نہیں یہ غلط ہے.اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک دفعہ ایمان کا دعویٰ کر دیا پھر بشارتیں ہی بشارتیں ہیں، پھر خیر ہی خیر ہے، پھر خوشحالی ہی خوشحالی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی رضا ہی رضا ہے اور ہماری کوئی ذمہ داری

Page 499

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۹۳ سورة ال عمران نہیں، ہمارے اوپر کوئی پابندیاں نہیں، گناہوں سے بچنے کے لئے ہم نے کوئی کوشش نہیں کرنی.نیکیاں کرنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی جدو جہد اور سعی نہیں کرنی.یہ خیال غلط ہے.اصولی طور پر خدا تعالیٰ نے جو لِقَومٍ يُؤْمِنُون مؤمن قوم کو جو بشارت دی وہ بڑی زبردست ہے وَانْتُمُ الأعلون ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی.اعلیٰ کا لفظ بولا ہے نا.ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں حاصل ہوگی یہ بشارت ہے مگر اس کے ساتھ میں نے قرآن کریم پر بڑا غور کیا ہر بشارت کے ساتھ انذاری پہلو ساتھ لگا ہوا ہے.اس کے ساتھ ایک اندار ہے.إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ اگر تم ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہیں کرو گے تو یہ بشارت تمہارے حق میں پوری نہیں ہو گی.الا غلون والی اور تیرہ چودہ سو سالہ اسلامی زندگی میں جو مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی آپ تاریخ دیکھیں اس کے دونوں پہلوانذار کے بھی اور تبشیر کے بھی بڑے زبردست طریقے پر پورے ہوئے.ایمان کے تقاضے جہاں بھی پورے کئے گئے، فوقیت بشارت کے مطابق لِقَومٍ يُؤْمِنُونَ انہی کو حاصل ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی وہ تو اس زمانے کا تو ہر لمحہ اس کی تائید کر رہا ہے کیونکہ آپ کی تربیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم تھے وہ تقاضوں کو پورا کر رہے تھے ایمان کے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قیادت کر رہے تھے.ہر وقت ان کی رہنمائی تھی.جس وقت انتہائی دکھوں کی زندگی تھی ان دکھوں میں سے کامیاب نکلے.تیرہ سالہ زندگی کے دکھ اٹھا کے پھر چند سال میں سارے عرب پر غالب آ جانا یہ کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے.ایسا معجزہ ہے جس کی مثال دنیا آجانا میں نہیں ملتی کہ کسی قوم کو تیرہ سال تک اس طرح پیسا گیا ہو کی زندگی میں اور آٹھ سال تک حملہ آور ہو کر اس طرح کوشش کی گئی ہو ان کو نیست و نابود کرنے کی اور پھر میں سالہ اس ظالمانہ کوشش کا نتیجہ اسلام کی موت نہیں بلکہ مسلمان کی زندگی کی شکل میں ظاہر ہوا.پھر ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ لیتے ہیں.چھوٹی سی قوم ہے.غیر مہذب ہے.طاقت ان کے پاس کوئی نہیں.ہتھیار ان کے پاس اچھا نہیں.تجربہ کار یہ نہیں ہیں جنگ کے میدان میں اور مال و دولت ان کے پاس نہیں ہے پھر ہم کسریٰ کا یہ غرور دیکھتے ہیں.ساری دنیا کے خزانے لوٹے ہوئے تھے.اتنے ہیرے جواہرات تھے کہ ہمارے جرنیلوں کو تو شاید بیس روپے کی ٹوپی ملتی ہوگی پہنے کو اور ان کے کور کمانڈر ایک لاکھ کے ہیرے جڑے ہوتے تھے اس کی ٹوپی میں.یہ اس کا حکم تھا کہ ایک

Page 500

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة ۴۹۴ سورة ال عمران لاکھ ہیرے اور اس زمانہ میں ایک لاکھ میں جو ہیرا ملتا تھا اب شاید دوکروڑ میں بھی نہ ملے.ان کو خیال پیدا ہوا کہ ہم مٹادیں گے اور ہوا یہ کہ پہلے اس نے یہ ترکیب کی.یہ اس کا بڑا زبردست منصوبہ ہے.عام طور پر ہمارے جو مبلغ ہیں وہ اپنی تقریروں میں اس حصہ کو نہیں لیتے.یہ جوار تداد کا فتنہ پیدا ہوا ہے عرب میں، یہ سارا منصوبہ ایران کے کورٹ میں یعنی بادشاہ نے خود چھ سو عرب سرداروں کو بلا کے یہ منصوبہ بنایا تھا اسلام کو مٹانے کے لئے.تو حملہ تو کر دیا اس نے جس وقت یہ نا کام ہوا منصو بہ اس کا تو چھیڑ چھاڑ اس نے اور دوسرے طریقے پر کی ہوگی.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد بن ولید ابھی مدینہ نہیں پہنچے تھے ان کو پیغام بھیجا کہ یہ سرحدیں جو ہیں وہ محفوظ نہیں ہیں.فتنہ تو شروع ہو گیا تو چلے جاؤ.جو تمہارے پاس فوج ہے وہ بھی لے کے چلے جاؤ.اٹھارہ ہزار فوج ان کے پاس.چار ہزار گھوڑ سوار اور چودہ ہزار پیادہ اور کسری کے مقابلے میں.انہوں نے پھر بعد میں ان کو حکم مل گیا تھا قیصر کے مقابلے میں جانے کا چار پانچ لڑائیاں لڑکی ہیں.ہر لڑائی میں کسری کی تازہ دم فوج ایک نئے کور کمانڈر کے ماتحت ساٹھ ستر ہزار سے لے کے ایک لاکھ کی تعداد میں آتی تھی اور یہ بیچارے وہی اٹھارہ ہزار کچھ شہید ہو گئے کچھ زخمی ہو گئے.تھکے ہوئے اور ان کا مقابلہ اس زمانے میں اس قسم کا تو نہیں تھا امریکہ سے بٹن دبایا اور گولہ برساد یا کسی چھ ہزار سات ہزار میل پر.آمنے سامنے ہو کر لڑنا پڑتا تھا.فرق تعداد کا اتنا تھا کہ ہر آدھے گھنٹے ، گھنٹے کے بعد اگلی صف لڑنے والی کسری کی پیچھے چلی جاتی تھی اور تازہ دم آگے آجاتی تھی اور مسلمانوں کی ایک ہی صف اور وہ صبح سے لے کے شام تک لڑنے والے اور جیتتے چلے جاتے تھے.کیا چیز جتارہی تھی ان کو؟ دنیا کا کوئی اصول تو نہیں ان کو جتا سکتا.یہ وعدہ تھا ان سے انتم الاعلون فوقیت تمہیں حاصل ہوگی.اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ ایمان کے تقاضے پورے کرتے چلے جاؤ اللہ تعالیٰ کی نعماء سے اپنی جھولیوں کو بھرتے چلے جاؤ.پھر جس وقت یہ جنگ جو تھی ایران کے خلاف یہ اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی اس وقت قیصر نے سوچا پھنسا ہوا ہے عرب کا مسلمان.یہ موقع ہے ان کو پیچھے سے حملہ کر کے مٹادو.دو محاذ کھل گئے.دونوں کی زبر دست طاقتیں سامنے آ گئیں.اس وقت ان کو حکم ملا تھا کہ آدھی فوج لے کے تم اس محاذ پر چلے جاؤ یعنی وہاں چھوڑ دیئے تھے پیچھے صرف نو ہزار ہی کسری کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لیکن اس وقت سر نہیں گنے جاتے تھے.اُس وقت تو اِن کُنتُم مُّؤْمِنِينَ سامنے رکھ کے دلوں کی

Page 501

۴۹۵ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث حالت دیکھی جاتی تھی.اسی زمانے میں مختصراً میں بیان کر دوں.حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جنگ سے بھی پہلے خط لکھا پوری رپورٹ تفصیلی لکھ کر یہ ہوگا یہ نقشہ بنے گا.اس طرح میرے مقابلہ میں تازہ دم فوجیں آئیں گی مجھے کمک بھیجیں.ہر نیا معر کہ کوئی دو دن بعد کوئی تین دن کے بعد ہوا ہے.مہینوں کے وقفہ کے بعد نہیں، دنوں کے وقفہ کے بعد ہوئے ہیں.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کی کمک بھیج دی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آیا ہے وہ کھڑے ہو گئے انہوں نے کہا یہ کیا کر رہے ہیں آپ.اتنی تفصیل سے ہمیں رپورٹ دی ہے یہ حالات ہیں اور آپ ایک آدمی کی کمک بھیج رہے ہیں.اس خدا کے بندہ نے آرام سے یہ جواب دیا کہ جس فوج میں اس جیسا آدمی ہو وہ شکست نہیں کھایا کرتی.اور پھر خیر وہ لمبا ایک واقعہ ہے اس نے بھی جا کے کارنامے جو دکھائے.پھر یہاں جو ایک ہی جنگ کا میں ذکر کر دیتا ہوں.یرموک کی جنگ میں تین لاکھ فوج قیصر کی عیسائیوں کی اور اس کے مقابلے میں یہ کئی فوجوں کے مختلف جگہوں کے یونٹ اکٹھے کر دیئے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آ گیا ہے خلافت کا.تو چالیس ہزار اندازہ ہے یعنی ہر ۷۵ ہزار کے مقابلے میں دس ہزار یہ وہی قریباً نسبت رہ گئی اور پانچ دن عملاً جنگ ہوئی.ایک دن ان کے کہنے پر وقفہ ہو گیا تھا اور اس طرح بری طرح شکست کھائی انہوں نے کہ کوئی حد نہیں.اس میں ایک واقعہ اور ہوا جو میں ذکر کر دیتا ہوں کیونکہ وہ اصل مضمون میرا جو ہے اس کے متعلق میں بیان کر رہا ہوں.یہ اس کی مثالیں دے رہا ہوں.پانچویں دن جس دن آخری معرکہ ہوا اور انہوں نے شکست کھائی اور کہتے ہیں کہنے والے واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے کہ ستر ہزار لاشیں میدان میں چھوڑ کے وہ تین لاکھ کی فوج بھاگی تھی چالیس ہزار کے مقابلے میں اور پہلے جو چار دن تھے ان میں پتا نہیں کتنے زخمی ہوئے.کیا ہوا اس کا پتا نہیں.پانچویں دن خالد بن ولید نے اپنے دوستوں کو جو سرداران مکہ کے بیٹے تھے جن میں عکرمہ بھی تھا ابوجہل کا بیٹا، ان کو بلایا اور کہا کہ دیکھو تم نے بڑا لمبا عرصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دشمنی کے مظاہرے کئے اور جنگوں میں شامل ہوئے، اسلام کو مٹانے کی کوشش کی.تمہارے چہروں پر ایسے داغ ہیں کہ تمہارے خون کے علاوہ کوئی چیز ان کو نہیں مٹا سکتی اور آج موقع ہے اپنے چہروں کے دھبے دھو ڈالو.ایک سو چالیس دوست اکٹھے کئے

Page 502

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۹۶ سورة ال عمران انہوں نے.ایک سو چالیس سے حملہ کروا دیا تین لاکھ کی فوج پر.کوئی کہے گا پاگل پن تھا.کوئی کہے گا خدا تعالیٰ کے پیار کا سمندر موجزن تھا.انہوں نے بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں کی.انہوں نے کہا ٹھیک ہے ایسے دھبے ہیں جو صرف ہمارا خون دھو سکتا ہے اور آج ہم دھوڈالیں گے.ایک آدمی نہیں بچا ان میں سے.بیچ ہی نہیں سکتا تھا.۱۴۰ آدمی تین لاکھ پر حملہ آور ہو جائے.بچنے کا سامان ہی نہیں.کہتے ہیں ایک زخمی زندہ بعد میں ملا ان کو جو چند گھنٹے کے بعد وہ بھی فوت ہو گیا لیکن باقیوں کی تو لاشیں ہی وہاں سے اٹھائی انہوں نے.ان میں عکرمہ بھی تھے.یہ کس برتے پر لڑ رہے تھے؟ آنْتُمُ الْأَعْلَونَ کے.حضرت خالد بن ولید نے ایک جگہ فوج کو جوش دلانے کے لئے انہوں نے کہا کہ فوجوں کی ہار اور جیت ان کی تعداد پر نہیں ہوا کرتی بلکہ خدا تعالیٰ کے اس فضل پہ ہوتی ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے.اس واسطے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.بتا میں یہ رہا ہوں کہ اِن كُنْتُم مُّؤْمِنِین کے جب تقاضے پورے ہوں تو اس طرح بھی ہو جاتا ہے جیسا تاریخ نے ریکارڈ کیا اگر اِن کُنتُم مُؤْمِنین کے تقاضے پورے نہ ہوں تو پھر ایسا بھی ہمیں نظر آتا ہے مختلف ملکوں میں کہ اس ملک میں جو جوتی بھی سر پر مارنے کے لئے اٹھائی جاتی ہے وہ مسلمان کے سر پہ پڑتی ہے.ایسے نظارے بھی تاریخ میں دیکھے.ایک دفعہ ایک صحافی نے مجھ سے پوچھ لیا تھا کہ ہم سے کوئی وعدے بھی ہیں؟ ہمیں کوئی بشارتیں بھی دی گئی ہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں بشارت بڑی زبردست ہے.میں بتارہا ہوں یہ اصولی بشارت ہے.ہر شعبہ زندگی میں فوقیت تمہیں رہے گی حاصل اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ.میں نے کہا اَنْتُم الأعلون کی بشارت ہے اور تمہیں کون سی بشارت چاہیے.ہر شعبہ زندگی میں تمہاری فوقیت لیکن چھوٹی سی ایک شرط لگائی تھی ساتھ اِن كُنْتُم مُّؤْمِنِینَ.یہ جو شرط لگانا ہے یہ انذار ہے.اس سے اندار پتا لگتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو بشارت میں تمہیں بہت زبر دست دے رہا ہوں انتم الاعلون مگر ڈراتا بھی ہوں تمہیں.اگر تم نے ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہ کیا تو تمہارے حق میں یہ بشارت پوری نہیں ہوگی.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۲۰۲ تا ۲۰۷) آیت ۱۴۸،۱۴۷ وَ كَأَيِّنْ مِنْ نَبِي قُتَلَ مَعَهُ رِبّيُّونَ كَثِيرٌ ۚ فَمَا

Page 503

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۴۹۷ سورة ال عمران وَهَنُوا لِمَا اَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَ مَا اسْتَكَانُوا وَاللهُ يُحِبُّ الصُّبِرِينَ وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ) ١٤٨ ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ جو لوگ انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں.منکرین اور مخالفین انہیں دُکھ دینے اور ایذا پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں.قرآن کریم میں اس ایذا رسانی اور دُکھ دہی کے متعلق بڑی تفصیل اور وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ جماعت مومنین کو زبان سے بھی دُکھ پہنچایا جائے گا اور ہاتھ سے بھی تکلیف دینے کی کوشش کی جائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.اِنْ تَثْقَفُوكُم يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءَ وَ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَالْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَ وَدُّوا لَو تَكْفُرُونَ ( الممتحنة : ۳) یعنی اگر وہ تم پر کبھی قابو پالیں اور اُن کو موقع ملے تو وہ تمہاری تباہی کے لئے اپنے ہاتھ بھی استعمال کریں گے اور زبانیں بھی استعمال کریں گے.پھر ایک دوسری جگہ فرما يا وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا (ال عمران : ۱۸۷) فرمایا تم اہل کتاب سے بھی اور مشرکوں سے بھی کثرت سے ایذا پہنچانے والی اور دُکھ دینے والی باتیں سنو گے.جہاں تک زبان سے دُکھ پہنچانے کا تعلق ہے، یہ بنیادی طور پر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک یہ کہ گندہ دہنی سے کام لینا یعنی گالیاں دینا اور دوسرے یہ کہ افتراء کرتے ہوئے جھوٹے اتہام لگانا......میں نے شروع میں جو دو آیات تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں تین قسم کے خوف اور دوسری آیت میں ان کے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں تمہیں دُکھ اور تکلیف پہنچے گی مگر تمہارا یہ کام ہے کہ تم اپنے اندر دھن، ضعف اور استکانت پیدا نہ ہونے دو.میں سمجھتا ہوں یہ آیت ایک لحاظ سے ہمارے لئے خوشخبری کا باعث بھی ہے کہ ہمیں مالی نقصان بھی پہنچایا جائے گا، جذباتی اور روحانی نقصان بھی پہنچانے کی بھی کوشش کی جائے گی.لیکن یہ نقصان ہمیں اس لئے نہیں پہنچایا جائے گا کہ ہم تباہ و برباد ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ہمیں مارنے کے لئے پیدا نہیں کیا

Page 504

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۹۸ سورة ال عمران بلکہ ہمیں زندہ رکھنے اور ہمارے ذریعہ دوسروں کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے تاہم بشری کمزوریوں کی وجہ سے ایسے موقع پر تین قسم کے رد عمل ممکن ہیں جن سے بچنے کی ضرورت ہے.پہلا وطن ہے یعنی مفوضہ فرائض میں ستی کا پیدا ہو جانا اللہ تعالیٰ انبیاء اور ان کی جماعتوں کے متعلق فرماتا ہے.فَمَا وَهَنُوا لِمَا اَصَابَهُمْ فِي سَبِیلِ اللهِ یعنی وہ اس تکلیف کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے.سست نہیں ہوتے.وھن کے معنے ضُعْفُ فِي الْأَمْرِ وَالْعَمْلِ (المنجد زير لفظ وَهَنَ ) کے بھی ہوتے ہیں.ایک اجتماعی کوشش کے سلسلہ میں جو کام سپر د ہوا ہے اس میں کمزوری پیدا نہ ہو.ضُعْفٌ فِي الْأَمر در اصل ضُعْفٌ فِي الْعَمل کی بنیاد ہے.عمل میں جب قوت اور شدت پیدا ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امر میں قوت اور شدت موجود ہے یعنی اس میں ایک قسم کا جھکاؤ ، دلچپسی، بشاشت اور ایثار کا جذبہ پایا جاتا ہے جماعت احمد یہ اسی روحانی بشاشت، شوق عمل اور جذبہ ایثار کا ایک حقیقی نمونہ ہے.خدا تعالیٰ نے اسے اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کو ساری دُنیا میں غالب کرے.پس یہ وہ عظیم مقصد ہے جس کے مطابق ہم عمل کریں گے اور انشاء اللہ اسلام کو ساری دُنیا پر غالب کر کے دم لیں گے.غرض یہ جذبہ برقرار رہنا چاہیے یعنی دنیا خواہ ادھر سے ادھر ہو جائے یا ساری دنیا مل کر ہماری تباہی کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرے مگر ہم اس کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے کیونکہ اس جذبہ میں جب کمزوری واقع ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں انسان اپنے عمل میں ست پڑ جائے تو اس کو وھن کہتے ہیں یعنی مایوسی اور شبہ کے آثار پیدا ہو جائیں کہ پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے بھی ہوں گے یا نہیں پتہ کیسے نہیں ! اگر وہ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں تو ضرور پورے ہوں گے.پس یہ ایک خطرہ ہے جو لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ کی رو سے پیدا ہو سکتا ہے تاہم یہ خطرہ پیدا نہیں ہوتا کہ خدا کی جماعت ہلاک ہو جائے گی.ہلاکت تو در کنار اگر دھن ، ضعف اور استکانت کی وجہ سے جماعت کا ایک حصہ چھوڑ بھی دے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا.الہی مقصد و منشا بہر حال پورا ہو گا.خدا تعالیٰ ایک نئی قوم لے آئے گا جو صحیح طور پر قربانیاں دینے والی ہوگی.جسے اپنے مقصد سے پیار اور اس کی عظمت کا احساس ہوگا.جو خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس

Page 505

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۴۹۹ سورة ال عمران کے جلال سے لرزاں و ترساں رہے گی.وہ دُنیا کی ایذارسانی اور دُکھ دہی کی کوئی پرواہ نہیں کرے گی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت الہیہ کو اس خطرہ سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کے اندر وھن نہیں پیدا ہونا چاہیے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ وھن در اصل مومن کے جوش عمل اور جذبہ جہاد میں کمزوری کی علامت ہے الہی جماعتوں کے اندر تو یہ جوش پایا جاتا ہے کہ ان کے ذمہ دین کا جو.اہم کام ہے اسے انہوں نے بہر حال پورا کرنا اور خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے اس میں کامیاب ہونا ہے.اسی لئے مومنین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس جوش اور جذبہ میں کسی وقت کمی نہ آئے اور اس میں ضعف پیدا نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ وھن کے معنے بڑے حسین پیرایہ میں بیان فرمائے ہیں.الله تعالی فرماتا ہے وَلَا تَهنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ (النساء : ١٠٥) فرمایا تم دشمن قوم کی تلاش میں سستی نہ کرو.اب دشمن کی تلاش میں سستی کرنا.یہ ضعف فی العمل کی ایک شکل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے کام میں ضعف نہیں پیدا ہونا چاہیے ورنہ رابطہ قائم نہیں رہے گا.فوج والوں نے ایک بڑا اچھا محاورہ ایجاد کیا ہے جب دشمن دو بدو لڑائی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں دشمن سے CONTACT ( کانٹیکٹ ) یعنی تعلق نہ رہا یعنی جب لڑائی ہو رہی ہوتی ہے تو گویا لڑتے وقت دونوں فوجوں کا آپس میں ایک تعلق قائم ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص عین میدانِ جنگ سے کھسک جاتا ہے تو ایسی صورت میں کہتے ہیں اس کا دشمن سے تعلق ( کانٹیکٹ ) نہیں رہا چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دشمن اگر تمہیں نقصان پہنچا کر اتنا دور ہو جائے کہ تمہاری گرفت سے نکل جاۓ تو پھر ابتغاء القوم کے اس الہی ارشاد کی رُو سے اس کا پیچھا کرنا چاہیے ورنہ تمہاری یہ حالت دھن یعنی سستی کہلائے گی.اس لئے تمہیں اپنے دشمن سے کانٹیکٹ قائم رکھنا چاہیے.اس کی تلاش کرنی چاہیے.جہاں بھی ہو اور جس محاذ پر وہ جائے وہاں تک اس کا پیچھا کرنا چاہیے.....پس لِمَا أَصَابَهُمُ في سَبِیلِ اللہ کی رو سے مسلمانوں کی فوج کو خدا کی راہ میں شہادت اور تھوڑے بہت زخموں کے نتیجہ میں جودُ کھ اور تکلیف پہنچی اور دنیا والوں کی نگاہ میں کمزوری پیدا ہوئی وہ خدا کے ان پاک اور محبوب بندوں کی نگاہ میں کمزوری نہیں ثابت ہوئی ان میں نہ وَهُنَّ فِي الْأَمْرِ کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے اور نہ وَهُنَّ فِي الْعَمل کی کوئی مثال ملتی ہے.وہ اسی جرات کے ساتھ اسی

Page 506

سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث بہادری کے ساتھ خدا تعالیٰ پر اسی توکل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے ہوئے اگلے میدان میں چلے گئے.پھر اگلے میدان میں چلے گئے اور پھر اس سے اگلے میدان میں چلے گئے.پھر لِما أَصَابَهُمْ کی رُو سے دوسری کمزوری جس کا خطرہ پیدا ہوتا ہے وہ ضعف کا پیدا ہوتا ہے.غصے کی زیادتی کے نتیجے میں بھی ضعف پیدا ہو جاتا ہے ضعف کا لفظ یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے.اس کا میں نے اگلی آیت سے استدلال کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خدا کی راہ میں جو دکھ اور تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تمہارے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تمہارے اندر ایک قسم کا ضعف پیدا ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود تم نے کسی پر زیادتی نہیں کرنی اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے گالیاں سُن کر دعا دو (در ثمین صفحه ۱۴۴) جو شخص گالیاں سن کر دعا دینے کی بجائے گالیاں دیتا ہے وہ اپنے مجاہدانہ عمل میں ضعف پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کی توجہ دوسری طرف پھر جاتی ہے پھر آپ نے فرمایا :.پا کے دکھ آرام دو (در ثمین صفحه ۱۴۴) جو شخص دُکھ پاتا لیکن دُکھ سہتا نہیں بلکہ جوابی کارروائی کرتا ہے اور کہتا ہے میں تیری خبر لیتا ہوں ، تم نے ایک چپیڑ لگائی ہے میں تجھے دو لگاؤں گا ، اس سے ضعف پیدا ہو گیا کیونکہ اس نے زیادتی کی ہے حالانکہ اس کا اصل مقصد صراط مستقیم کو اختیار کرنا ہے.مگر ایک نے دائیں طرف توجہ پھیر لی اور دوسرے نے بائیں طرف پھیر لی اس لحاظ سے ضعف کا بڑا خطرہ ہے یعنی زیادتی ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پاک اور محبوب بندے اس قسم کے ضعف میں مبتلا نہیں ہوتے وہ اپنا کام جاری رکھتے ہیں.تیسرا خطرہ استکانت کا ہے کچھ کمزور لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں تذلل نہ اختیار کر لیں اور دشمن کا اثر قبول کر کے اس کے پیچھے نہ لگ جائیں مگر وہ جماعت جسے خدا تعالیٰ نے دُنیا کا قائد بنایا ہوا سے نہ تو دشمن سے ڈرنا اور نہ اس کے پیچھے لگنا چاہیے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ خطرے بتا کر ان کے علاج کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.چنانچہ قرآن کریم کی اس دوسری آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے ان خطروں سے بچنے کی

Page 507

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۵۰۱ سورة ال عمران دُعا سکھائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا منکرین اور مخالفین کے منہ سے تمہارے خلاف جو بات نکلتی ہے اس کے مقابلہ میں تمہارے منہ سے یہ دُعا نکلنی چاہیے.رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا.یعنی انسان کمزور ہے دنیوی معیار کے لحاظ سے اور فاتح بھی ہے اللہ کے فضلوں کے نتیجہ میں وہ گھر بھی جاتا ہے.ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں، دشمن اُسے ذہنی، جسمانی اور مالی لحاظ سے نقصان پہنچاتا ہے لیکن وہ اس نقصان کو برداشت کر لیتا ہے اُس سہارے کی وجہ سے جو اسے حاصل ہے یہ سہارا کیا ہے ایک رسی ہے جو آسمان سے لٹکی ہوتی ہے.یہ حبل اللہ ہے.جسے وہ پکڑتا ہے اور دُعا کرتا ہے اس کے خلاف ہر قسم کے گندا چھالے جاتے ہیں مگر اس کے دل میں نہ کوئی شکوہ اور نہ کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے نہ گھبراہٹ میں باتیں ہوتی ہیں اور نہ مشورے ہوتے ہیں کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا.کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ کیا ہونا ہے.وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ چاہے گا.اس کے منہ سے ان سارے دُکھ دہ حالات میں کچھ فرق نہیں نکلتا سوائے اس دُعا کے ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے ہمارے رب! ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما.ہمارے اندروھن پیدا نہ ہو کیونکہ وھن پیدا ہو جانے کا جو خطرہ ہے اس کا تعلق کوتاہیوں کے ساتھ ہے.بشر کمزور ہے جو کچھ اسے کرنا چاہیے وہ نہیں کر سکتا کیونکہ بعض دفعہ شیطان اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس پردہ کو سوائے خدا تعالیٰ کی رحمت کے اور کوئی اُٹھا نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مغفرت کے حقیقی معنوں پر بڑے حسین پیرایہ میں روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ وہ خطرات جو بشری کمزوریوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق یہ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! میں انسان ہوں، بہر حال کمزور ہوں، ایسا نہ ہو کہ میری بشری کمزوریاں میری روحانی رفعتوں کے حصول میں روک بن جائیں.پس اے خدا! ایسا کر کہ مجھ سے کوتاہیاں سرزد نہ ہوں.پس وھن کا تعلق چونکہ کوتاہیوں سے تھا.اس لئے یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اگر تم وہن سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی کوشش اور سعی کے نتیجہ میں تکبر نہیں کرنا چاہیے.اپنے ایثار اور اخلاص کی وجہ سے غرور نہیں کرنا چاہیے.دھن سے بچنے کے لئے تمہیں اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنی پڑے گی اور اس مدد کے حصول کے لئے ہم تمہیں یہ دعا سکھا دیتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے زور سے وھن سے نہیں بچ سکتے.میری مدد سے بچ سکتے ہو اور میری مدد کے حصول کے لئے تمہیں یہ دعا کرتے رہنا چاہیے ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا کہ اے خدا! ہم

Page 508

۵۰۲ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث سے جو کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں اُن کے بداثرات سے بھی ہمیں بچا اور ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر کہ ہمارے اندر بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو کوتاہیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ بھی پیدا نہ ہوں.اگر تم یہ دعا کرو گے اور اللہ تعالیٰ جب اس دُعا کو قبول فرمائے گا تو تمہارے اندر دھن یعنی کمزوری پیدا نہیں ہوگی.دوسرا خطرہ ضعف کے پیدا ہو جانے کا ہے یعنی ضعف کے نتیجہ میں زیادتیاں نہ ہونے لگ جائیں.اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا کہ اے ہمارے خدا! ہماری زیادتیاں معاف فرما میں نے بتایا کہ ضعف کی حالت میں مومن انسان بعض دفعہ زیادتی کا مرتکب ہو جاتا ہے مثلاً دیکھو ایزا کے مقابلے میں دُعا نہیں دیتا یا دُکھ پا کر سکھ پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ دُکھ کے مقابلے میں دُکھ پہنچاتا اور گالی کے مقابلے میں گالی دیتا ہے.پس خدا کا بندہ جب اس قسم کے کام کرتا ہے تو یہ اس کی زیادتی متصور ہوتی ہے.چنانچہ اس زیادتی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دُعا سکھائی اور فرمایا کہ تم ہمیشہ یہ دُعا کرتے رہو.وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا ہمیں اس جدو جہد میں ، اس مجاہدہ میں اور اس عظیم کوشش میں جو تیرے دین کے غلبہ کے لئے شروع کی گئی ہے.اس میں ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم اسراف کے گناہ میں ملوث ہو جائیں.تیسر ا خطره استکانت یعنی دشمن کے سامنے تذلل اختیار کرنا اور اس کا اثر قبول کر کے اس کے پیچھے لگنے کا خطرہ ہے.یہ کمزوری ایمان کی علامت ہے.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جی ہم نے انتظام کر لیا ہے ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی ہیں اور منافقوں کے ساتھ بھی ہیں.ہم نے کفار، منکرین اور دشمنان اسلام سے بھی ساز باز کی ہوئی ہے اور ہر ایک سے کہتے ہیں کہ اگر تم کامیاب ہو گئے تو ہم تمہارے پیچھے چل پڑیں گے.میں اس کی تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاسکتا.اصولاً بتا رہا ہوں کہ اس گناہ اور کمزوری سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہ دعا کرتے رہا کرو و ثبت اقدامنا کہ اے خدا ہمارے قدموں کو مضبوطی عطا فرما.فرمایا تمہیں اپنی کوششوں سے ثبات قدم حاصل نہیں ہو سکتا.اللہ کے فضل سے حاصل ہو سکتا ہے اس لئے تم یہ دعا کرتے رہا کرو کہ ہمارے قدموں میں مضبوطی عطا ہو.پس جب ان کمزوریوں کا خدشہ باقی نہ رہے اور ابتغاء القوم کی قوت ہو اُن سے، کانٹیکٹ کرنے اور جنگ کرنے کے لحاظ سے اور پھر زیادتی بھی نہ ہو بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے انسان گالی

Page 509

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۰۳ سورة ال عمران کے مقابلے میں دعائیں کرنے والا اور دُکھ سہنے کے مقابلے میں سکھ پہنچانے کی تدبیر کرنے والا بن جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کے نتیجہ میں خود کو دشمن کے سامنے ذلیل کر کے اس کی اطاعت قبول کرنے کی بجائے اس کے قول اور عمل میں ثبات قدم ہو.اللہ کے فضل اور رحمت کے نتیجہ میں وہ جس جگہ کھڑا ہو وہاں اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہ آئے تو وہ دشمنوں کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے اور ان کی کوئی پرواہ نہ کرے اور کہے تم تعداد میں زیادہ ہو تو ہوا کرو.تمہارے پاس اموال زیادہ ہیں تو ہوا کریں.اس سے میرے جذبہ ایمان اور شوق عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا.میں تو خدا کا سپاہی ہوں جہاں کھڑا ہوں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا بلکہ آگے بڑھوں گا کیونکہ میں اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جسے آگے بڑھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس مومن کے عمل میں ثبات قدم ہوتا ہے.اس کے پاؤں میں کوئی لغزش نہیں آتی.پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جاتے ہیں لیکن مومن کے قدم اپنی جگہ سے ٹلا نہیں کرتے.مومن پیچھے نہیں ہٹا کرتا وہ اپنے مقصد کے حصول میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جب یہ سب کچھ ہو جائے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو تم ان خطرات سے بچنے کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہا کرو وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِین کہ اے خدا! کا فرلوگوں کے خلاف ہماری مددفرما.میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ ان تینوں خطرات کے بعد ایک چوتھا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے تکبر پیدا ہونے کا خطرہ یعنی انسان نے سب کچھ حاصل کیا اللہ کے فضل اور اس کے حضور عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں مگر کامیابی کے وقت شیطان آ گیا اور اس نے کہہ دیا تم نے یہ کامیابی اپنی کوشش اپنی ہمت اور اپنی طاقت سے حاصل کی ہے.چنانچہ ایسی صورت میں باوجود پہلی دعاؤں کی قبولیت کے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں پھر نا کامی اور ہلاکت کے سامان پیدا نہ ہو جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان دعاؤں کے بعد اور میرے فضلوں کو حاصل کرنے کے بعد یہ دعا بھی کیا كرو وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَفِرِینَ کہ اے خدا! کافروں کے مقابلہ میں، دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں ہمیں فتح، تیری نصرت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.ہمیں یہ فتح ہماری کسی قوت، کسی طاقت اور ہمارے ثبات قدم یا کسی اخلاص یا ایثار کے نتیجہ میں نہیں مل سکتی.اس لئے اے خدا! تو خود ہماری مدد کو آ اور ہمارے اور اپنے دشمنوں کو ان کے منصوبوں میں نا کام کر.(خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۴۷۹ تا ۴۹۳)

Page 510

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۰۴ سورة ال عمران لا آیت ۱۶۰،۱۵۸،۱۵۵ تا ۱۶۲ ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُم مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ آمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَى طَابِفَةً مِنْكُمْ وَ طَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَ الْجَاهِلِيَّةِ ، يَقُولُونَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ b لَو كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٍ مَا قُتِلْنَاهُهُنَا قُل لَّوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُم لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلى مَضَاجِعِهِمْ وَ لِيَبْتَلِيَ اللهُ مَا فِي b ج (100) صُدورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ وَ ما لَبِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَوْ مُثْمُ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّ يَجْمَعُونَ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظٌ (۱۵۸) ج الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُم وَشَاوِرُهُم فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ اِنْ ج ط يَنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۚ وَ إِنْ يَخْذُ لَكُم فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُم ط مِن بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ • وَمَا كَانَ لِنَبِي اَنْ يَغُل.وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَ يَوْمَ الْقِيمَةِ ثُمَّ تُوقُ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُونَ ) (۱۲۲ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو یا تو منافق ہیں یا ایمان کے کمزور ہیں.(ایمان کی ہر کمزوری نفاق پر دلالت نہیں کرتی تو وہ لوگ یا جو پورے منافق ہوں یا جن کے ایمان پر پختگی نہ ہو بلکہ ایمان کی کمزوری ان میں پائی جاتی ہو.ان کے متعلق آل عمران کی ۱۵۵ آیت میں یہ فرمایا ہے.ان کا قول نقل کرتے ہوئے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو اہم امور فیصلہ ہوتے ہیں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عزم کرتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے اس سلسلہ میں

Page 511

ود سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ہمارا بھی کوئی دخل ہے.؟؟ اور وہ یہ اعتراض کے طور پر اور طعنہ کرتے ہوئے ایسا منہ سے نکالتے ہیں کہ ہم سے مشورہ کے وقت مشورہ نہیں لیا جاتا اور جو مشورہ ہم دیں چاہے ہم نہایت ہی اقلیت میں ہوں وہ سنا نہیں جاتا تو اس صورت میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں آنی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان الأمر كُتُه لِلهِ کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے الآخر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کے اختیار میں اور اس کے تصرف میں ہے.اس واسطے تمہارا جواب تو یہ ہے.هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ کہ کیا ہمارا بھی ان معاملات میں کوئی دخل ہے؟ فرمایا نہیں !!! تمہارا کوئی دخل نہیں ! ! سب کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں اور اس نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کو اس کے دو دوروں میں دنیا پر غالب کرے گا.اس کا فیصلہ بہر حال پورا ہو گا وہ جو چاہے گا جس رنگ میں چاہے گا کرے گا کسی کا کوئی حق اس سلسلہ میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا نہ کسی کا کوئی حق ہے کیونکہ اللہ کے خلاف کوئی شخص اپنا حق پیش نہیں کر سکتا جس نے پیدا کیا جس کے احسانوں کے نیچے انسان اس قدر دیا ہوا ہے کہ اس کے ایک ایک دن کے احسانوں کا ساری عمر میں شکر ادا نہیں کر سکتا اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو کے یہ حق جتائے اِنَّ الاَمرَ كُلُّه لِلهِ لیکن الْأَمْرُ كُلُّهُ لِلهِ ہے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے تجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مومنوں کا بڑا خیال رکھنے والا ان کے احساسات کا بھی اور ان کی تربیت کا بھی.اس لئے اے نبی ! ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ فَاعْفُ عَنْهُمْ تربیتی کمزوری کے نتیجہ میں ان سے جو غلطیاں سرزد ہو جا ئیں ان سے درگزر کرو اور وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بشری کمزوریوں کو دور کرے اور روحانی طاقت انہیں عطا کرے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بہترین انعاموں کے وارث ہوں.وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ اور ان کے دلوں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے اور دنیا میں ان کی عزت کو قائم کرنے کیلئے الآمر میں ان سے مشورہ کیا کرو کام سب خدا نے کرنے تھے.فیصلے سب اللہ تعالیٰ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے.لیکن چونکہ مخلصین ان مشوروں میں شامل ہوتے تھے.آج بھی ہم بڑی عزت سے ان کا نام لیتے اور بڑی عزت سے ان کی یاد اپنے دلوں میں رکھتے ہیں.تو فرما يا شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ اسلام کے اہم امور کے متعلق ان میں سے جن سے چاہو جن امور کے متعلق چاہو مشورہ کر لیا کرو.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ سب مشورے سننے کے بعد جب کسی نتیجہ

Page 512

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالثة سورة ال عمران پر پہنچو اور پختہ ارادہ کرو کہ یوں ہونا چاہیے اور یوں نہیں ہونا چاہیے تو اس وقت کثرت کی طرف نظر نہ کرو.فَتَوَكَّلْ عَلَی اللہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور یقین رکھو کہ حقیقتا وہی کارساز ہے کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر ہی تو کل رکھنے والے ہو گے تو تمہیں بشارت دی جاتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے اور مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غالِبَ لَكُمْ.اگر اللہ تعالیٰ کسی کی مدد اور نصرت کرتا ہے اور اسے کامیاب کرنا چاہے تو کوئی طاقت دنیا کی ایسے گروہ اور جماعت کو اور اُمت کو مغلوب نہیں کر سکتی نہ قانون کر سکتا ہے لیکن اگر اللہ مدد چھوڑ دے فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ - تو کسی کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے تم کوئی کام کرو گے اور کامیابی کی امید رکھو گے.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ یعنی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محض اللہ پر توکل رکھنے والے ہیں اسی طرح آپ کی سنت کی اور آپ کے اسوہ کی اتباع کرتے ہوئے مومنوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی صرف اللہ ، صرف اللہ پر توکل کرنے والے ہوں......اللہ تعالیٰ نے یہاں شاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے ارشاد فرمایا ہے کہ ان سے مشورہ لیا کرو.مشورہ لینے کا حق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے یا آپ کی نیابت میں آپ کے خلفاء کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۰ ء کی شوریٰ میں یہ فرما یا تھا.مشورہ لینے کا حق اسلام نے نبی کو اور اس کی نیابت میں خلیفہ کو دیا ہے مگر کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ نبی یا خلیفہ کے سامنے تجاویز پیش کرنے کا حق دوسروں کے لئے رکھا گیا ہے“.اسی طرح آپ نے فرمایا " مجلس شوری اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی.وہ میرے بلانے پر آتی اور آکر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی، اسے مشورہ دے گی وہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی کہ مشورہ دئے.تو شاور کے اول مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کی نیابت میں آپ کے خلفاء اس کے مخاطب ہیں تو مشورہ لینے کا حق نبی کو اور نیابت کے طور پر خلیفہ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے پچھلے سال غالباً مجلس شوریٰ میں میں نے ایک اور زاویہ نگاہ سے بھی اس پر روشنی ڈالی تھی اور وہ یہ کہ اگر یہ سمجھا جائے کہ جماعت کا حق ہے خلیفہ وقت کا حق نہیں تو جس کا حق ہے اس کا یہ بھی حق ہوتا ہے کہ وہ اپنا حق چھوڑ دے اگر کسی سے زید نے ایک سور و پیہ لینا ہو تو اسے یہ حق خدا نے بھی اور رسول نے بھی ، اخلاق

Page 513

۵۰۷ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفہ المسح الثالث نے بھی ،شریعت نے بھی اور ملک کے قانون نے بھی دیا ہے کہ وہ کہے کہ میں اپنا یہ سوروپیہ وصول نہیں کرتا اگر جماعت کو یا اس کے بعض گروہوں کو یا افراد جماعت کو بحیثیت افراد کے یہ حق دیا جاتا اور یہ ان کا حق تسلیم کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں وہ ہمارا حق ہے ہم اسے استعمال نہیں کرتے ہم خلیفہ وقت کو کوئی مشورہ نہیں دیں گے لیکن اس کے برعکس اگر مشورہ لینے کا حق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی نیابت میں آپ کے خلفاء کا ہے تو پھر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب مجھ سے مشورہ مانگا جائے مشورہ کیلئے مجھے بلایا جائے میری مرضی ہے جاؤں مشورہ دوں یا نہ دوں اس لئے کہ یہ حق خلیفہ وقت کا ہے اور جماعت پر یہ حق ہے خلیفہ وقت کا کہ جب جن لوگوں کو جن امور کے متعلق وہ مشورہ کیلئے بلائے وہ اس کے کہنے اور ہدایت کے مطابق اس کے سامنے اپنے مشورہ کو رکھیں.شَاوِرُهُمْ ان سے سوال پیدا ہوتا ہے کن سے؟؟؟ تو اس میں بھی ٹھنڈ کے فیصلہ کرنے کا حق خلیفہ وقت کو نبی اکرم کی نیابت میں ہے.اور کن سے مشورہ کرنا ہے اور جن سے مشورہ کرنا ہے اگر ان کا انتخاب ہونا ہو تو کس طریق سے ان کا انتخاب ہوگا یہ فیصلہ بھی خلیفہ وقت نے ہی کرنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے اُسوہ میں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے بعض مواقع پر جب مسلمان تھوڑے تھے اور قریباً بہت بھاری اکثریت مدینہ میں بھی رہتی تھی تو اس وقت مسلمانوں کا سواد اعظم مدینہ میں رہائش پذیر تھا اس وقت چند سو جو تھے وہی سواد اعظم بن جاتا تھا تو آپ سب کو اکٹھا کر لیتے تھے اور ایک چھوٹی بے تکلف برادری تھی اس میں وہ اکٹھے ہوتے اور آپ کو مشورہ دیتے تھے جو آپ فیصلہ کرتے خدا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر کے آپ کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے اور بعض دفعہ آپ نے صرف چند آدمیوں کو بلا کے بھی مشورہ لیا ہے اور بعض دفعہ دوسروں کو صرف یہ پتہ لگا بعض قرائن سے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں مشورہ کے لئے روک لئے گئے.نہ خود آپ نے اعلان کیا کہ میں نے مشورہ کرنا ہے ایک موقع پر صرف دو آدمیوں کو کہا عشاء کے بعد کہ تم ٹھہرے رہو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں کیا بات تھی؟ اس کا ہمیں آج تک نہیں پتہ تو مشورہ کا یہ طریق بھی ہوتا ہے.تو ھم کا یہ فیصلہ کرنا ہاں جب مسلمان سارے عرب میں پھیل گئے تو اس کے بعد سواد اعظم سے مشورہ کرنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.ساری دنیا میں پھیل گئے.آج بھی خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ دنیا کے کونے کونے میں پائی جاتی ہے اور مشورہ کے لئے جماعت احمدیہ کی

Page 514

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۵۰۸ سورة ال عمران تمام جماعتوں کو مرکز میں جمع کرنا قریباً ناممکن ہے اس لئے سب کو اکٹھا کر کے تو مشورہ نہیں لیا جا سکتا پھر کن سے مشورہ لیا جائے اور ان کا انتخاب کس رنگ میں ہو؟ یہ کام بھی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ظاہر ہوتا ہے خلیفہ وقت کا ہے چنانچہ یہ جو آل عمران ہی کی آیت کا ایک حصہ جو پہلے میں نے پڑھا تھا يَقُولُونَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو خاص طور پر مشورہ سے باہر رکھا جاتا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ کہتے يَقُولُونَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ تو بعض ایسے لوگ جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ ان میں نفاق پایا جاتا ہے یا یہ دل کے مریض ہیں روحانی طور پر اور معاملہ ایسا ہے کہ ان لوگوں کے سامنے رکھا نہیں جانا ہیے تو ان لوگوں کے سامنے وہ معاملہ نہیں رکھتے اور ان کا مشورہ بھی نہیں لیتے تھے گواگر اس قسم کے امور نہ ہوں تو پھر کھلم کھلا جو منافق ہو بعض دفعہ ان سے بھی مشورہ لے لیا جا تا.اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ فیصلہ تو بہر حال نبی نے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں خلیفہ نے ہی کرنا ہے تو ھم جو کہا گیا ہے اس کا فیصلہ خلیفہ وقت نے کرنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی یہی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد بھی یہی ہے بعض لوگوں کو روکا جاسکتا ہے اور ان کی نمائندگی کو ر ڈ کر دیا جا سکتا ہے آپ شوری کی ایک تقریر میں فرماتے ہیں.جو لوگ لڑا کے اور فسادی ہوں، نمازوں کی پابندی کرنے والے نہ ہوں ، جھوٹ بولنے والے ہوں ، معاملات میں اچھے نہ ہوں ، بلا وجہ ناجائز افتراء اور اعتراض کرنے والے ہوں یا منافق یا کمزور ایمان والے ہوں ان کو بطور نمائندہ انتخاب کرنا جماعت کی جڑ پر تبر رکھنا ہے.ہمارے لئے وہی لوگ مبارک ہیں جن کے اندر دین اور تقویٰ ہے خواہ وہ اچھی طرح بول بھی نہ سکتے ہوں......في الأمر مشورہ جن سے کرنا ہے وہ بھی خلیفہ وقت کو اختیار دیا گیا ہے اور جن معاملات میں کرنا ہے وہ بھی خلیفہ وقت نے کرنا ہے کہ الآمر سے کیا مراد ہے اور وہ جو پہلے میں نے آیت پڑھی تھی اس کے اس ٹکڑہ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے وہاں دراصل دو استدلال ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہم سے مشورہ نہیں لیا جاتا هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ کہ جن امور کے متعلق مشورہ لیتا ہے.نبی یا خلیفہ وقت اس کی نیابت میں اس کا فیصلہ ہم سے پوچھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ خود کر دیا جاتا ہے کہ الامر کیا ہے؟ اس کے

Page 515

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة ال عمران متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں.میں نے تجاویز پیش کرنے کا جو طریق رکھا تھا وہ اس خیال سے رکھا تھا کہ تجاویز میرے پاس آئیں گی اور میں ان میں سے جو مفید سمجھوں گا وہ لے لوں گا مگر اب یہ صورت ہوگئی ہے کہ جس کی تجویز نہ لی جائے وہ سمجھتا ہے کہ اس کا حق مارا گیا.(رپورٹ مجلس شوری ۱۹۳۰ء) تو جن اہم امور کے متعلق مشورہ دینا ہے یہ امور ایسے ہونے چاہئیں جن کا تعلق نصوص قرآنیہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح جوار شاد ہیں ان کا ان سے تعلق نہ ہو وہ تو ایک قانون ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی اس میں انسان کی بہتری ہے اس رنگ کی جمہوریت جو آج کل مقبول ہو رہی ہے وہ نہ یہ کہ اسلام میں نہیں بلکہ اسلام اسے ناپسند کرتا ہے اور اسلام نے مسلمان کی آزادی قرآن کریم کی شریعت کے احاطہ کے اندر رکھی ہے اس سے باہر نہیں آج کی جمہوریت کا تو یہ حال ہے کہ انگلستان کی جمہوریت نے عوام کے نمائندوں نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ بداخلاقی جائز ہے اس قسم کی جمہوریت اسلام کیسے پسند کر سکتا ہے؟ اور اگر آج کی جمہوریت کے مطابق اسلام مسلمانوں کو آزادی دیتا تو کسی وقت میں اپنے تنزل کے زمانہ میں مسلمان بھی اس قسم کی باتیں کر لیتے.اگر اس قسم کی جمہوریت مسلمانوں میں ہوتی تو اکثریت نے تو کہہ دیا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہ زکوۃ لینے میں کچھ ڈھیل کر دی جائے مگر خدا کے اس پیارے بندے نے یہ کہا تھا کہ میں تمہارا نائب نہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور خلیفہ ہوں اور آپ کی نیابت میں جو میرے حقوق ہیں وہ حقوق تم سے منواؤں گا اور دین کے معاملہ میں تمہارے کسی مشورہ کو سننے کے لئے تیار نہیں ہوں کل ( تو نہیں مجھے کہنا چاہیے لیکن گزشتہ کل جو گزر چکی تھی ) جب اسلام ۱۸ ویں صدی میں اپنے تنزل کی انتہائی گہرائیوں میں پڑا ہوا تھا اس وقت جب شاید ننانوے فی صدی یا اس سے بھی زائد مسلمان تارک الصلوۃ تھے اگر رائے عامہ کی جاتی تو بھاری اکثریت یہ کہتی کہ زمانہ بدل گیا اب اس قسم کی نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں چلو نمازیں معاف ، تو اس قسم کی جمہوریت جو ہے اسلام اس کا قائل نہیں اور جب تک خلفاء، نبی کے بعد اس کی نیابت میں اسلام کے کاموں کے ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں وہ ان باتوں کے متعلق کسی سے بھی مشورہ نہیں کرتے ہاں جب کوئی الجھن پیدا ہو جائے تو وہ اپنے رب کے حضور جھکتے اور اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور وہ ہمارا پیارا رب ایسے اوقات میں

Page 516

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۱۰ سورة ال عمران راہنمائی کرتا ہے اور ہدایت کے رستوں کی نشان دہی کرتا ہے تو فی الامر کا فیصلہ کرنا کہ وہ کون سے اہم امور ہیں کہ جن کے متعلق مشورہ لینا ہے یہ بھی خلیفہ وقت کا کام ہے اس واسطے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم جو کہتے ہیں ان امور پر مشاورت میں بات ہونی چاہیے مشاورت کے سامنے وہی امر جائے گا جس کی اجازت خلیفہ وقت دے گا اور جس کے متعلق وہ سمجھے گا کہ مجھے جماعت کے اہل الرائے احباب سے مشورہ لینا چاہیے.پھر فرمایا فَإِذَا عَزَمْتَ عزم کرنا اور فیصلے پر پہنچنا یہ بھی خلیفہ وقت کا کام ہے جماعت کا کام نہیں، مجلس شوری کا کام نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تو عزم کر لے فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ پھر مسلمانوں کا خیال بھی تو رکھنا ہے ان سے نرمی اور پیار کا سلوک بھی کرنا ہے اور ان کی تربیت بھی کرنی ہے لیکن یہ نہیں دیکھنا کہ نانوے فی صدی مشورہ دینے والوں کی اکثریت اس میرے فیصلے کے خلاف ہے کبھی کہیں کوئی خرابی پیدا نہ ہو جائے جب دیانتداری سے تم کسی فیصلہ پر پہنچو تو خدا کے سوا کسی اور پرنگاہ نہیں رکھنی فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ کیونکہ اسی میں کامیابی کا راز ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:.مجلس شوری کوئی فیصلہ نہیں کرتی مجلس شوری خلیفہ وقت کے مطالبہ پر اپنا مشورہ پیش کرتی ہے پس مجلس مشاورت شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ کہ تو لوگوں سے مشورہ لے خلیفہ وقت لوگوں سے مشورہ مانگتا ہے اس پر لوگ مشورہ دیتے ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خلیفہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی بات ہونی چاہیے اور کونسی نہیں“.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم کسی نتیجہ پر پہنچ جاؤ تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور پختہ یقین پر قائم ہوتے اور رہتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے وہی ہماری مدد کرے تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے تو ہم ناکامی کا منہ دیکھیں گے خدا پر توکل رکھتے ہوئے اپنے فیصلہ کو جاری کر دو اور فَإِذَا عَزَمت کے اوقات میں جب خلیفہ وقت اپنے فیصلے کا اعلان کرے مسلمانوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا.فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ (محمد: ۲۲) کہ جب کسی کام کے کرنے کے متعلق خلیفہ (یہاں عزم جو کہا گیا ہے وہ دوسری جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوائے خلیفہ کے کسی نے عزم نہیں کرنا نبی کے بعد جب خلیفہ) کسی فیصلہ کو پہنچ جائے اور اپنے دل میں پختہ ارادہ کر لے کہ اگر یوں کیا جائے تو جماعت کو روحانی اور جسمانی فائدہ ہے اس لئے یوں کیا قف

Page 517

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۱۱ سورة ال عمران جائے گا تو مسلمانوں کا کیا فرض ہے؟ مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ جو انہوں نے اپنے خدا کے ہاتھ پر ہاتھ دے کر خدا اور خلیفہ وقت کے لئے عہد اطاعت باندھا تھا اس کو وہ پورا کریں اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل میں لگ جائیں.لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ دنیا کی بہتر سے بہتر جزا اور اُخروی زندگی میں اعلیٰ سے اعلیٰ ثواب انہیں ملے گا.لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ - ود ( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۱۰۰ تا ۱۰۸) ایک آیت کا کچھ حصہ اور ایک پوری آیت میں نے اس وقت تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاعْفُ عَنْهُمْ تو ان سے در گزر کر.عضو کے معنی یہ ہیں کہ ایسا برتاؤ کرنا ایسا سامان پیدا کرنا کہ جو کمزوریوں اور غفلتوں کے بدنتائج ہوں ان سے وہ شخص جس سے در گذر کیا جائے محفوظ رہے محض یہ معنے نہیں ہیں کہ معاف کر دیا بلکہ اس کے اندر یہ معنی بھی آجاتے ہیں کہ اس رنگ میں معاف کیا کہ اگلے کی اصلاح ہو گئی.محض معافی جو ہماری زبان میں معافی کہلاتی ہے عربی زبان میں عفو کے محض یہ معنے نہیں ہیں بلکہ عفو کے معنوں کے اندر یہ بات بھی آتی ہے کہ ایسے رنگ میں درگز رکیا جائے کہ اس شخص کی اصلاح ہو جائے اور توبہ کی اسے توفیق ملے کیونکہ تو بہ ہی ایک ایسا دروازہ ہے جس سے انسان پچھلے گناہوں کے عذاب اور مضرتوں سے بچتا ہے.پس عفو کے یہ معنی ہوئے کہ ایسے رنگ میں معاف کیا جائے کہ اصلاح ہو اور توبہ کی توفیق ملے اور جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کے بدنتائج سے وہ شخص محفوظ ہو جائے.اسی مصدر سے عافاہ بھی نکلا ہے جسکے معنے ہیں رَفَعَ عَنْهُ كُلّ سُوءٍ “ یعنی ہر قسم کی تکلیف اور دکھ کو اس سے دور کر دیا.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام نائبین کو یہ حکم دیا ہے کہ مومنوں کی جماعت سے اس طرح کا سلوک کیا جائے کہ در گذر بھی ہو اور اصلاح بھی ہو اور بدنتائج سے ان کی حفاظت بھی ہو.دوسرے فرمایا وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اس کے معنی لغت کے لحاظ سے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور غفلتوں اور گناہوں کے بد نتائج اور عذاب سے ان کی حفاظت کرے یعنی خود بھی یہ کوشش کرو کہ جو غفلتیں ہو گئی ہیں ان کے بدنتائج سے وہ محفوظ ہو جا ئیں اور اپنی کوشش پر ہی بھروسہ نہیں کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے یہ بھی استدعا کرنی ہے کہ مومنوں

Page 518

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۱۲ سورة ال عمران کی جماعت اگر بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں باوجود مخلص اور فدائی ہونے کے غفلتیں کر جائیں تو اے خدا! تو ان کی مدد کو آ اور ان کی کمزوریوں ، گناہوں اور غفلتوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور ایسے سامان پیدا کر دے کہ ان کی اصلاح احوال ہو جائے.پس صرف یہ معنے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زبان سے توبہ کی توفیق دے کیونکہ مغفرت کے معنی میں قول اور فعل سے مغفرت طلب کرنا ہے غرض یہاں یہ دعا ہے کہ اے خدا! تو ان لوگوں کو یہ توفیق دے کہ اپنی زبان سے بھی تیرے حضور تو بہ کرتے ہوئے عاجزانہ طور پر گر جائیں اور اپنے افعال کی بھی اس طرح اصلاح کریں کہ دنیا بھی یہ مشاہدہ کرے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں ایک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے.اقرب میں ہے اَصْلَحَهُ بِمَا يَنْبَغِي أَنْ يُصْلِحَ بِهِ “.یہ بھی استغفار کے معنوں کے اندر ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے یا انسان کو ایسے ذرائع میسر آجائیں کہ جو اصلاح احوال کا سامان پیدا کر دیں پھر چونکہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ابدی زندگی عطا کی گئی ہے اور یہ ابدی زندگی دورنگوں میں ہمارے سامنے آتی ہے ایک تو آپ کا افاضہ روحانی قیامت تک جاری ہے اور دوسرے آپ سے انا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ( الكوثر : ٢) میں اور بعض دوسری جگہ بھی یہ وعدہ ہے کہ قیامت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور بندے پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ کے دین کی مدد کرنے والے ہونگے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہونگے اور قرآن کریم کے ظاہر و باطن کی حفاظت کی فرشتوں کی طرح وہ بھی توفیق پائیں گے.پس فرمایا کہ ایک تو کوشش کرو کہ جماعت مومنین کی اصلاح ہو جائے دوسرے ان کے لئے بڑی دعائیں کرو کہ وہ اپنی غلطیوں کے بدنتائج اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں اور اپنی زبان سے بھی تو بہ کرنے والے ہوں اور ان کے اعمال بھی دُھلے ہوئے صاف شفاف کپڑے کی طرح ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کرنیں ان کے وجود میں سے باہر آرہی ہوں یہ کرنے کے بعد شَاوِرُهُم في الأمر پھر یہ جماعت اس بات کی مستحق ہو گی کہ ان سے مشورہ کیا جائے.آج جب میرے ذہن کو اس طرف متوجہ کیا گیا کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں تو میں نے پھر ا قرب اور لغت کی بعض دوسری کتابیں دیکھیں چنانچہ ایک بڑی اور حسین چیز میرے سامنے آئی اور وہ

Page 519

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۱۳ سورة ال عمران یہ کہ مشاورت جو ہے اس کا روٹ یعنی اس کا مخرج شَارَ الْعَسُل ہے یعنی شہد نکالنا.اور اس شار العسل کے معنے ہوتے ہیں اسْتَخْرَجَهُ وَاجْتَنَاهُ جس طرح مکھی کا جو کام ہے نا پھول سے اپنی مرضی کے مطابق وہ چیز حاصل کرنا جس سے کبھی نے شہد بنانا ہے یعنی Nectar (نیکٹر ) جو پھول سے لیتی ہے.شہد کی مکھی کے بارے میں اب جونئی تحقیق ہوئی ہے اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک پھول کا انتخاب کرتی ہے اور پھر اس پھول سے وہ شہد بناتی رہتی ہے یعنی پھول کا ایک حصہ لیتی ہے اور اپنے جسم کا ایک حصہ اس میں داخل کرتی ہے اس طرح پر شہد بنتا ہے.بہت سے دوستوں کو اس کا علم نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شہد صرف پھولوں کے رس سے بنتا ہے.یہ درست نہیں ہے شہد میں قریباً پچاس فیصد پھول کے رس کا حصہ ہے اور قریباً پچاس فیصد مکھی کے اپنے غدود میں سے ایک چیز نکلتی ہے مختلف قسم کے Enzymes (انزائمز) اور مختلف قسم کی دوسری چیزیں وہ شہد میں ملاتی ہے یعنی وہ جو پھول کا حصہ ہے اس کے اندر ملاتی ہے تب جا کر شہد بنتا ہے.پس دونوں برابر کے حصے جارہے ہیں جہاں تک اسکے معنے کا سوال ہے لیکن جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے حقیقت یہی ہے کہ پھول نے شہد بنانے کے لئے کوشش نہیں کی کبھی پھول نے بھی جا کر اپنے شہد کو کھیوں کے چھتے تک پہنچایاہے شہد کی مکھی جو ہے اس کی ساری کوشش شہد بنانے کی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق وہ اپنے اس کام میں لگی ہوتی ہے.جن لوگوں نے شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں پر تحقیق کی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی کے چھتے کے نیچے کبھی کوئی مردہ کبھی نہیں ملے گی اور وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کام کرتے ہوئے کبھی پھول کے قریب ،کبھی پھول اور اپنے چھتے کے درمیان مرکز گر جاتی ہے یعنی وہ اپنے کام کے لحاظ سے ایک قسم کی شہید ہی ہے کام کے اندر اسکی جان نکلتی ہے وہ آخری سانس تک کام کرتی رہتی ہے.یکھی پھول کے اندر سے اپنی مرضی سے انتخاب کر کے وہ حصہ جسے انگریزی میں Nectar (ٹیکٹر ) کہتے ہیں تھوڑا سا پتلا مایہ ہوتا ہے جو شہد کی طرح کا قوام نہیں رکھتا بلکہ شہد کی نسبت پھول میں اس چیز کی حالت پانی کے زیادہ قریب ہے لیکن مکھی پھر اسے وہاں سے لے کر آتی ہے پھر اسکو اپنی زبان پر رکھ کر خشک کرتی ہے اور ہزاروں لاکھوں دفعہ زبان باہر نکال کر اندر منہ میں لے جاتی ہے اور اس حرکت سے وہ اسے قوام کی شکل دیتی ہے پھر اپنے Enzymes (انزائمز ) بیچ میں ملاتی ہے

Page 520

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۵۱۴ سورة ال عمران تب جا کر وہ شہد بنتا ہے تب ہمیں وہ شہر ملتا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر کر کے شہد کے چھوٹے سے حصہ کو چاہتے ہیں پورے احساس کے ساتھ کہ اگر یہ کام شہد کی مکھی کی بجائے انسان کے سپر د ہوتا تو شاید لا کھ دولاکھ روپے کا ایک سیر شہد ملا کرتا اور یہ بات ایک عام انسان کی طاقت سے باہر ہوتی ہاں شیطان انسان جو ہے اس کی طاقت کے اندر ہوتی.پس اصل مشاورت کا مخرج شار العسل کا جو عربی میں محاورہ ہے اس میں شوری کا جو لفظ ہے وہ ہے اور اس سے پھر آگے مشاورت نکالی اور مشورہ اور شوریٰ کا مضمون اس مثال سے بہت واضح ہو جاتا ہے یعنی جو مضمون یہاں بیان ہوا اگر یہ مضمون سامنے نہ ہو تو بہت سے پہلو مخفی رہ جائیں.اس میں ایک تو یہ آ گیا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کن پھولوں کا شہد یا کن انسانوں کی آراء طلب کرنی ہیں یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے نائین کا کام ہے پھول کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ مکھی کو یہ کہے کہ تم گلاب کے پھول پر کیوں جارہی ہو جب کہ تم سے زیادہ قریب شیشم کا پھول موجود ہے یہ پھول کا کام ہی نہیں اور نہ اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے یہ مشاورت کرنے والے مشورہ لینے والے کا کام ہے کہ وہ کن لوگوں سے مشورہ لے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مختلف شکلیں ہمیں حضرت میں اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہیں.آپ کے بعض ایسے مشیر بھی تھے کہ مجھے یہ شبہ ہے میری بعد طبیعت پر یہ اثر ہے کہ شاید تاریخ نے بھی ان سب کے نام محفوظ نہیں رکھے کیونکہ آپ ان کو خفیہ طور پر بلا لیتے تھے اور جس معاملے کے متعلق مشورہ لینا ہوتا آپ ان سے مشورہ لے لیا کرتے تھے بعض کے نام آئے ہیں اس سے ہمیں پتہ لگ گیا کہ اس طرح بھی آپ مشورہ لیتے تھے اور بعض دفعہ آپ سب کو جمع کر لیتے تھے بعض دفعہ نمائندے آجاتے تھے اور آپ کی یہ سنت تھی اور خلفائے راشدین کی بھی یہ سنت تھی اس وقت بھی یہ سنت تھی جس زمانے میں بھی یہ رہی ہے کہ نمائندگی کے طور پر ساری جماعت تو یہاں اکٹھی نہیں ہو سکتی.زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ مشورہ کے لئے ربوہ کے مکینوں کو اکٹھا کر لیا جائے چونکہ جماعت پھیل گئی اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ایک آواز جو ایک منہ سے نکلا کرتی تھی اب وہی آواز لاکھوں کروڑوں کے منہ سے نکل رہی ہے سارے اکٹھے ہو کر کس طرح رائے دے سکتے ہیں یا ان سے رائے لی جاسکتی ہے نمائندگی کا اصول ہمیں چلانا پڑے گا مگر جب ضرورت ہو تو دوسری طرح بھی مشورہ ہو جائے گا.

Page 521

تفسیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۵۱۵ سورة ال عمران پس شَاوِرُهُمْ میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح شہد کی مکھی پھول سے شہد کا استخراج اور اجتنا کرتی ہے اسی طرح تم مومنین کی جماعت کی آراء کا استخراج کرو کیونکہ شاور کے معنے استخراج الرائے اور شار العسل کے معنے استخراج العسل یعنی شہد کا نکالنا مثال بالکل واضح ہو گئی ہے ایک فرمایا کہ جس طرح اور جن سے چاہو آرا ء لو.وہ جو دوسرا حصہ تھا کہ اپنی بیچ میں ملا کر اپنے جسم کی اپنی روح کی اور اپنے ذہن کی جب تک (اگر انسانی مثال ہو ) ساتھ نہ ملائی جائے شہر نہیں بنتاوہ مشورہ درست نہیں رہتا اس واسطے فَإِذَا عَزَمت.وہ عزم جو ہے وہ کبھی والے Enzymes ( انزائمز) کی آمیزش ہے کہ جب آراء لے لیں وہ سامنے آگئیں پھر اپنے عزم اسکے اندر ملاؤ اور پھر وہ فیصلہ بنے گا ورنہ جب تک رسول یا نائب رسول کی اپنی رائے اپنا عزم اپنا فیصلہ اپنے Enzymes ( انزائمز ) (اس مثال کے لحاظ سے جو پھول سے حاصل کیا گیا اور مومنین کی جماعت سے یا ان کے نمائندوں سے آراء کی شکل میں حاصل کیا گیا ) اسکے اندر شامل نہ ہوں.اس وقت تک نہ شہد بنے گا اور نہ وہ جو آراء دیں وہ پختہ بنیں گے اور مفید ہونگی اور نہ ایسی بنیں گی کہ جن کے اندر شفا ہو اور شفا میں بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر کر دیا.شہد کے اندر بھی کہہ دیا کہ اسکے اندر شفا ہے اور جس رنگ میں احکام الہی کا اجراء کرنا ہے اسکے متعلق یہ کہا کہ اس کے اندر شفا ہے.پس تیسری چیز یہ بتائی کہ شاوِرُهُم خالی آراء کافی نہیں بلکہ خوددعا کر کے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کر کے اور اپنی خدا داد فراست کو استعمال کر کے (یہ کتنی قسم کی Enzymes ( انزائمز ) ہیں اگر ان کو بطور مثال Enzymes ہی کہا جائے ) وہ ان آراء میں شامل کرو تب جا کر وہ چیز ایسا قوام اختیار کرے گی کہ بنی نوع انسان کے لئے وہ شفا بن جائے گی تدبیر اپنی انتہا کو پہنچ گئی.یہاں تو فرمایا کہ تدبیر کرو جو اہم امور ہیں اُمت مسلمہ کے استحکام کے لئے اور تمکین دین کے لئے اور اصلاح انسانیت کے لئے اور تبلیغ واشاعت کے لئے بڑے امور ہیں تم پہلے تو ایک ایسی قوم تیار کرو کہ جو Nectar ( نیکٹر ) پیدا کر سکے یعنی بعض دفعہ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے ہر پھول میں Nectar (نیکٹر ) یعنی وہ چیز پیدا کی ہے جو شہد کا ایک حصہ بن جاتی ہے لیکن بعض دفعہ ایسا حادثہ ہوتا ہے کہ پھول نظر آتا ہے لیکن وہ حصہ غائب ہوتا ہے کوئی بیماری ایسی بھی آجاتی ہے پس اگر چہ وہ پھول ہے اور عام

Page 522

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۱۶ سورة ال عمران پھول میں Nectar (نیکٹر ) بھی ہے جو شہد کا جزو بھی ہے لیکن اس حادثہ کی وجہ سے شہد نہیں بن سکتا اسلئے فرمایا کہ امت مسلمہ کو یا جماعت مومنین کو ایسا بناؤ کہ وہ صاحب الرائے ہوں اور ایسے ہوں کہ جن سے شہد کا ایک جزو Nectar (نیکٹر ) جو ہے یا رائے کی اصابت جو ہے وہ ان سے حاصل کی جاسکے اور ان کا نفس بیچ میں نہ آئے.اب جو پھول ہے اس کا نفس بیچ میں نہیں آتا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ بیچارے پھول نے اپنا نچوڑ شہد کی مکھی کے حضور پیش کر دیا اور آپ وہاں کھڑا ہے تو اس کا نفس تو بیچ میں نہیں آیا اس نے تو اپنے نفس کی بہترین چیز تھی اس کو اس کے حضور پیش کر دیا جس کی طرف اللہ تعالیٰ کی وحی تھی یعنی شہد کی مکھی کہ تم نے شفا کے سامان پیدا کرنے ہیں ایک ایسی جماعت بنے جو تقویٰ اور طہارت کی بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو گزارنے والی ہو اللہ تعالیٰ سے جن کا تعلق پیدا ہو جن کا دعاؤں پر زور ہو جو واقعہ میں اُمت مسلمہ ہو یعنی ان کا اپنا کچھ بھی باقی نہ رہے اپنا سب کچھ اپنا وجود بھی اپنا ذہن بھی اپنی فکر کبھی اپنی ساری قوتیں اور طاقتیں اور زندگی اور موت سب خدا کے حضور پیش کردیں.یہی اسلام ہے اسکے بغیر تو کوئی اسلام نہیں ہے.غرض فرمایا عفو اور استغفار کے ذریعہ ایک ایسی جماعت بناؤ جو صاحب الرائے ہو مغلوب الغضب نہ ہو دھیمی ہو فدائی ہو مشورہ دیتے وقت یہ نہ سوچے کہ پھر اسکے بعد ہم پر کتنی ذمہ داریاں عائد ہو جائیں گی مشورہ دیتے وقت صرف یہ سوچے کہ آج اسلام کی زندگی کی بقا اور احیا اور اشاعت اور اس کے استحکام کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہمیں پیش کر دینی چاہئیں خواہ ہم بھوکے رہیں یا ہمارے بچے بھوکے رہیں یا ان کو کھانے کے لئے کچھ ملے.خواہ ہم زندہ رہیں یا ہمیں اپنی جانوں کی قربانی دینی پڑے ہمیں اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دینا ہے.یہ جماعت جب پیدا ہو جائے پھر ان کا یہ حق بن جاتا ہے کہ وہ صاحب الرائے ہیں کیونکہ ان سے مشورہ لیا جاتا ہے شہر کا ایک جزو تیار ہو گیا.دوسرا جز وعزم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عزم انہوں نے نہیں کرنا.انہوں نے تو جو کچھ تھا پیش کر دیا تھا جس طرح چاہیں آپ اسکو استعمال کر سکتے ہیں.پھول زبان حال سے مکھی کو یہی کہتا ہے کہ میرا نچوڑ تیرے حضور پیش، تو اب جس طرح چاہے اسکو استعمال کر لے اور جس طرح چاہے وہ استعمال بھی کرتی ہے کیونکہ اس میں اپنے Enzymes(انزائمز ) ملاتی ہے اس کو خشک کرتی ہے قوام بناتی ہے اپنے Enzymes (انزائمز ) ملاتی ہے اور پھر وہ فیصلہ کرتی ہے (اس میں انسان کا بھی تھوڑا سا

Page 523

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۵۱۷ سورة ال عمران دخل ہے ) لیکن اصل اسی کا فیصلہ ہے کہ میں نے کچھ انسان کو دینا ہے اور بیچ میں سے بہت کچھ خود کھا لینا ہے اور اس طرح انسان کے ہاتھ میں شفا کی ایک چیز آجاتی ہے چنانچہ پھر یہ کہنا کہ صرف آراء کے او پر نہیں چھوڑنی بات.اگر صرف رائے پر چھوڑنی ہو بات، تو کثرت رائے کی پابندی ضروری ہو جائے مگر ابھی تو شہر ہی نہیں بنا ابھی تو اس میں شفا ہی نہیں پیدا ہوئی کثرت رائے پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ پھر کہا کہ عزم اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ ہر قسم کی Enzymes (انزائمز ) مثال کے طور پراس Nectar (نیکٹر ) میں، اُس پھول کے جزو میں تم شامل کرو اور پھر عزم جو ہے اسکے اندر دعا کا حصہ بھی آجاتا ہے کیونکہ عزم کے دو معنے ہیں ایک تو یہ عزم کرنا کہ یہ کام ہم نے ضرور کرتا ہے یہ بھی لغوی طور پر عزم کے معنے میں ہے کہ پھر اس کام کی سرانجام دہی کے لئے انتہائی کوشش کرنا.اور جد في الأمر “جو عربی میں اس کو کہا گیا ہے اسکے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ تد بیر دعا ہے اور دعا تدبیر ہے تو دعا کا پہلو بھی اسکے اندر آجاتا ہے.پس کہا کہ تم اپنا عزم اس رائے کے بیچ میں شامل کرو اور انتہائی دعاؤں کے ساتھ ایک ایسی چیز ایک ایسا شہر بناؤ ایک ایسا فیصلہ کرو جو اسلام کے استحکام کے لئے ضروری ہے اور جو کمزور ایمان والوں کے لئے شفا ہے اور جو Prophylactic ( پرافیلیکٹک ) کے طور پر بیماریوں سے محفوظ رکھنے والا ہے تربیت ،علاج اور اصلاح دونوں چیزیں اس کے اندر آجاتی ہیں.پس تربیت تو Prophylactic ( پر افیلیکلک ) یعنی بیماریوں سے بچانے کا کام ہے اور یہ ساری چیزیں اسکے اندر آ جاتی ہیں.غرض فرمایا کہ جماعت تیار کرو اور پھر ان سے مشورہ لو اور یہ آگے جو مشورہ کا ہے اس کی مثال دے دی کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شہد کی مکھی شہد بنا رہی ہو.آراء لو پھر اپنے عزم کو اپنی ہمت کو اپنی کوشش کو اپنی دعاؤں کو اس کے اندر شامل کرو اس مقام پر انسانی تدبیرا اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی لوگ اکٹھے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا رسول یا نائب رسول نے اپنے عزم کی Enzymes ( انزائمز ) اس میں شامل کیں دعائیں بیچ میں شامل کیں اور تدبیر کو انتہا تک پہنچادیا اور جس وقت تد بیر انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فتوكل على الله تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا.یہ صحیح ہے کہ ہماری ہدایت کے مطابق تم نے اپنی تدبیر کو اس کی انتہا تک پہنچادیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ محض تدبیر پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جتنی بے وفائیاں دنیا کی تدابیر نے انسان سے کی ہیں ان کا کوئی شمار نہیں تدبیر پر کیسے بھروسہ کیا

Page 524

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۵۱۸ سورة ال عمران جاسکتا ہے؟ ہم نے حکم دیا تھا تد بیر کو انتہا تک پہنچاؤ تم نے تدبیر کو انتہا تک پہنچادیا اب ہم تمہیں کہتے ہیں کہ اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچانے کے بعد بھی تم نے تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ الله تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے.پھر ایک اور دعا بھروسہ کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ پر توکل جو ہے اس کے ساتھ دوسری دعا جو ہے وہ شروع ہو جاتی ہے اور جو آراء لی تھیں اور کثرت رائے کے حق میں یا خلاف جو بھی شکل شہد کی بنی وہ بن گئی.پس یہاں محض یہ نہیں کہا کہ اے رسول ! تمہارا عزم شامل ہو گیا.تم نے اللہ تعالیٰ کی تدبیر کو انتہا تک پہنچادینے کے بعد تدبیر پر بھروسہ نہیں کرنا اللہ پر توکل کرنا ہے.مومنوں کو یہ کہا کہ تم یہ نہ سمجھنا تمہاری آراء کے ساتھ نا ئب نبوت کا عزم اور ہمت اور کوشش اور دعامل جانے سے تم کامیاب ہو جاؤ گے.تم بھی یہ یاد رکھو اسکے باوجود تم بھی کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ تم کو اللہ پر بھروسہ رکھنا پڑے گا اور دوسری آیت میں فرمایا وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ایک حکم دیا تھا نہی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی وساطت سے آپ کے نائبین کو اور دوسرا حکم دیا جماعت مسلمین کو وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ میں اس طرف اشارہ ہے اور اس میں جماعت مؤمنین کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ یہ بات نہ بھولنا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو آ جائے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں نا کام نہیں کر سکتی اور اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں سہارا نہ دے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں کامیاب نہیں کر سکتی.خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۷۸ تا ۸۶) کہ جو مومن ہیں وہ جب بھی خود کو عاجز پائیں اور اور پر توکل کا موقعہ سمجھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر توکل نہیں کیا کرتے.وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ کے دو حصے ہیں.ایک یہ کہ غیر اللہ پر توکل نہیں کرنا یعنی اپنے علم پر بھروسہ نہیں رکھنا.اپنے اموال پر بھروسہ نہیں کرنا.اپنے جتھے اور برادری پر بھروسہ نہیں کرنا.اپنی قوت بازو پر بھروسہ نہیں کرنا.رشوت پر بھروسہ نہیں کرنا.جھوٹ پر بھروسہ نہیں کرنا.دھوکہ دہی پر بھروسہ نہیں کرنا کہ اس سے ہمارے کام بن جائیں گے.تو انہیں کرنے والا ایک حصہ ہے اور دوسرا یہ کہ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا کارساز ہے اور اتنی قوت اور طاقت رکھتا ہے کہ ہمارے سارے کام کر سکتا ہے.ہم عاجز ہیں لیکن خدا عاجز نہیں ہے.دنیا میں دنیا دار جب دنیا والوں پر بھروسہ کرتے

Page 525

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۵۱۹ سورة ال عمران ہیں وہ ایک عاجز پر بھروسہ کر رہا ہوتا ہے.جتنا عاجز ایک انسان ہے اتنا ہی عاجز دوسرا انسان ہے لیکن جب خدا کا بندہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر یا اپنی سمجھ اور عقل اور ایمان کے تقاضا سے ہر چیز میں خود کو عاجز سمجھتا اور پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو وہ ایک ایسی ذات پر توکل کرتا ہے جس میں کام کرنے کی ساری طاقتیں ہیں.تو توکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ غیر اللہ کو اس قابل نہیں سمجھنا کہ وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بھی اس قابل نہیں سمجھنا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو واقعی قادر سمجھنا اور واقعی اس بات کا اہل سمجھنا اسے صفات کا مالک سمجھنا کہ وہ ہماری ہر ضرورت کو پورا کر دے گا.اگر ہمیں مال کی ضرورت ہے تو یہ نہیں سمجھنا کہ دنیا والے ہمیں رزق دے دیں گے لیکن یہ ضرور سمجھنا ہے کہ ہمارا خدا رازق ہے اور ایسے رستوں سے بھی رزق دے دیتا ہے کہ انسان کی عقل میں بھی وہ نہیں ہوتا.یرزق مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ( البقرة : ٣٦) خطابات ناصر جلد اوّل صفحه ۲۵۴) مجاہدہ کی ایک شکل ہمیں قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے.وَلَبِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ متُم لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللهِ وَرَحْمَةٌ یہاں صرف قتل کئے جانے کا ذکر ہے.ضروری نہیں کہ جنگ میں قتل ہو.اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا.کہ مسلمان صرف میدان جنگ میں ہی شہید نہیں کئے گئے.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہزاروں لاکھوں مسلمان ایسا ہے جسے میدان جنگ میں نہیں بلکہ امن کی حالت میں کافروں نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا.جیسا کہ ہماری تاریخ میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو کابل میں پکڑا گیا.وہ بے گناہ، بے بس اور کمزور تھے.حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.حکومت نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے خلاف، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے ان کو پکڑا اور قتل کر دیا.اور بڑی بے دردی سے قتل کیا.تو ایک شکل مجاہدہ یا جہاد فی سبیل اللہ کی یہ ہے کہ انسان ایسے وقت میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور کمزوری نہیں دکھاتا.صداقت سے منہ نہیں موڑتا.دشمن کہتے ہیں کہ تم تو بہ کر لو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے وہ کہتا ہے کہ کس چیز سے تو بہ ؟؟ تو بہ کر کے حق کو چھوڑ دوں !! صداقت سے منہ پھیروں !!! اور باطل کی طرف آجاؤں !!!! ایسا مجھ سے نہیں ہو سکتا! مرنا آج بھی ہے اور کل بھی.تمہارا جی چاہتا ہے تو ماردو لیکن میں صداقت کو نہیں چھوڑ سکتا.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۴۴۶ ، ۴۴۷)

Page 526

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۲۰ سورة ال عمران ایک اور خرابی جو د نیوی سہاروں میں پائی جاتی ہے اور کہیں نہیں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب دوسرے لوگ ان کو اپنا سہارا بنا لیں ان کے ساتھ لگ جائیں ان کی خدمات کریں ان کی خوشامد کریں وغیرہ وغیرہ تو ان کو کچھ دنیوی فیض تو ان سے حاصل ہو جاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان کے دل میں ان کی محبت پیدا ہو اور جب تک محبت پیدا نہ ہو وہ ان کی پوری شفقت اور ان کے انعاموں میں سے پورا حصہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن یہاں یہ بات نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَلِینَ یعنی جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جائے اس کا کوئی دکھ باقی نہیں رہتا اس لئے فرمایا إن يَنْصُرْكُمُ اللهُ فَلا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُ لَكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ اگر اللہ تعالى تمہاری مدد اور نصرت کرنا چاہے تو کوئی اور طاقت یا ہستی تم پر غالب نہیں آسکتی لیکن اگر وہ تمہاری مدد اور نصرت چھوڑ دے تو خدا کو چھوڑ کر اور کون تمہاری مدد کرے گا اس لئے تمہیں چاہیے کہ اس پر کامل توکل کر کے اس کے محبوب بن جاؤ وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ جب تم اس کے محبوب بن جاؤ گے تو اس کی نصرت کو تم حاصل کر لو گے اور تم ایسا نہیں کرو گے تو اس کی نصرت سے تم محروم ہو جاؤ گے اگر تم اس کے محبوب بن جاؤ گے تو تمہیں اس کی نصرت ملے گی اور تمہاری زندگی کا مقصد تمہیں حاصل ہو جائے گا.اس وقت سب سے بڑی تڑپ ایک احمدی کے دل میں یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آئے اس کی یہ تڑپ اور خواہش پوری ہو جائے گی.(خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۹۲) b آیت ۱۶۳ تا ۱۶۵ اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللهِ وَ ماونهُ جَهَنَّمُ ، وَبِئْسَ الْمَصِيرُ هُمْ دَرَجتْ عِندَ اللهِ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا * يَعْمَلُونَ لَقَدْ مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ انْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ إن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مُّبِينٍ (۱۲۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَ مَأْونَهُ جَهَنَّمُ وَ

Page 527

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث دو ۵۲۱ سورة ال عمران بِئْسَ الْمَصِيرُ کہ وہ شخص جو اللہ کی رضا کے پیچھے چلتا ہے یعنی جو خدا چاہتا ہے وہ کرتا ہے کوئی ایسا کام نہیں کرتا کہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا، ہر وہ کام سمجھتا ہے کہ اللہ خوش ہوگا اللہ کو خوش کرنے کے لئے وہ کام کرتا ہے.پھر میں سارے حصے نہیں لے رہا اس کے بعض چیزیں لے رہا ہوں آپ کو بات سمجھانے کے لئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُم دَرَجتْ عِندَ اللہ وہ جماعت وہ اُمت مسلمہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدا کی خواہش کے مطابق اس کی ہدایت کی اتباع میں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں، اعمال صالحہ بجالانے والے ہیں.هُمْ دَرَجتُ عِندَ اللهِ وہ ایک جیسے درجات رکھنے والے نہیں وہ مختلف درجات رکھنے والے لوگ نہیں اور وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ اور یہ جو چھوٹا درجے کا مومن خدا کا پیارا لیکن درجے میں بڑا کم اس سے ذرا اوپر، اس سے ذرا اوپر سب سے اوپر یہ جو ہے یہ اس لئے نہیں ہے کہ ویسے ہی فیصلہ کر لیا بغیر کسی حکمت اور دلیل کے بلکہ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ہر شخص نے اپنے اعمال کے مطابق ثواب حاصل کرنا اور ایک مقام کو، ایک رفعت کو حاصل کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ہے اور وہ عالم الغیب ہے وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق، اس کے خلوص کے مطابق، اس کی نیت کے مطابق ، ثواب دے گا اور اسی کے مطابق اس کا ایک درجہ ہوگا.سارے ایک درجہ کے نہیں ہیں بلکہ ترجیحات ہیں کچھ لوگ خدا کو بہت پیارے، کچھ لوگ اس سے کم پیارے، کچھ لوگ اس سے کم پیارے لیکن سارے کے سارے ہی خدا کے پیار کی جنتوں میں جانے والے ہیں پھر فرمایا کہ اے وہ لوگوں جو ہمارے اس رسول پر ایمان لائے اور جس کے نتیجہ میں تم نے اپنے عقائد کو درست کیا اور اعمال صالحہ بجالائے اور وہ درجے درجے میں تقسیم ہوئے لیکن میری رضا کی جنتوں میں تم داخل ہوئے.لَقَدْ مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنین ایسے مومنوں جنہوں نے اس طرح میرے پیار کو حاصل کیا ہے تم پر خدا کا احسان ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ہدایت پانے کی خدا کا پیار حاصل کرنے کی خدا کی رضا کی جنتوں میں جانے کی توفیق عطا کی.تمہارا احسان نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور نہ خدا تعالیٰ پر ہے.ایک جگہ فرمایا خدا نے لا تمنوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ (الحجرات : ۱۸ - احسان نہ جتاؤ مجھ پر کہ ہم مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہونے کے بعد جن قربانیوں کا اور جس شر کا اور جس تکلیف کو برداشت کرنے کا اور جس قسم کا جگراتا کرنے کا اور دن کے اوقات میں روزے رکھنے کا اور بھوکے رہنے کے متعلق کئے گئے تھے یہ

Page 528

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۲۲ سورة ال عمران ج ہم نے کسی پر احسان کیا لَقَدْ مَنَّ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اور وہاں کہا لَا تَمُثُوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللهُ يمن عَلَيْكُمْ (الحجرات : ١٨) - خدا کا احسان ہے تم پر اگر تم اس دعوی میں بچے ہو کہ تم واقعہ میں مومن اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہو تو خدا کا احسان ہے اپنے زور سے تم ایسا نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر یہ ہدایت نہ نازل ہوتی اور اگر اتنی عظیم تعلیم نہ آتی اگر اتنی بشارتیں ساتھ نہ لاتی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وعدے نہ دیئے جاتے کہ تیری اُمت کے وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ میری محبت کو میرے پیار کو، حاصل کر لیں گے.تو پھر کہاں سے تم پاتے یہ سب چیزیں فرما یا لَقَدْ مَنَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ خدا تعالیٰ نے ان مومنوں پر احسان کیا اِذْ بَعَثَ فِيهِمْ کہ جب ان میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہی میں سے ہے یتلوا عَلَيْهِمْ الته وہی چار مقاصد آ گئے جو خدا تعالیٰ کی آیات ان کے اوپر پڑھتا ہے وہ کھول کے ان کے سامنے بیان کرتا ہے اور سمجھا تا ان لوگوں کی طبیعتوں پر اثر پیدا کرتا ہے خیر کل جو ہے اس کو وہ قبول کرو اور اس سے استفادہ کرے اور خالی یہ نہیں کہتا، کرو، بلکہ بتاتا ہے اگر ایسا کرو گے تمہیں فائدہ ہے وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَللٍ مُّبِينٍ اس میں ایک اور چیز بڑی زائد آگئی کہ وہ باتیں بتاتا ہے جو تمہیں پہلے پتا نہیں تھیں.اگر چہ تم یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے پہلے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ پر شریعت قرآنیہ نازل ہوئی ایک عظیم کتاب اور بحر بے کنار جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اتنے علوم اس میں بھرے ہوئے ہیں آگے ہی، کہ ہر ایک نے اپنی ہمت کے مطابق غوطے لگائے ہر ایک نے اپنی صلاحیت کے مطابق، اس سمندر کی تہہ سے بڑے قیمتی موتی اور جواہرات نکالے خدا کا احسان ہے اگر یہ نہ ہوتا تو تم خدا کے پیار کو حاصل نہ کر سکتے ، اس کی ترتیب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں ترتیب یہ رکھی تھی تو ایسا رسول آئے جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے پہلے آیات و يُعَلِّمُهُمُ الْكِتب پھر کتاب کا ذکر وَالْحِكْمَةَ پھر حکمت کا ذکر اور اس کے بعد چوتھی بات حضرت ابراہیم کی دعا میں تزکیہ نفس کا ذکر لیکن جو قبولیت دعائے ابراہیمی ہے اس میں اس ترتیب کو بدل دیا گیا اور اس میں یہ کیا گیا کہ آیات پڑھ کے سنائے اور ان کا تزکیہ کرے.پھر کتاب سکھائے اور حکمت سکھائے اور اس میں علاوہ اور بہت سارے مضمون کے جن سے قرآن بھرا پڑا ہے ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو ترتیب اختیار کی اس وقت کی ہدایت،

Page 529

۵۲۳ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث آسمانی ہدایت اسی ترتیب کو چاہتی تھی اس وقت کی آسمانی ہدایت کیونکہ تزکیہ نفس پر ساری کوشش ختم ہو گئی ابدی ترقیات کا وعدہ نہیں تھا ان کو الکتاب کامل کتاب اُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتب ایک حصہ دیا گیا تھا.اس واسطے ان کی روحانی ترقیات اور دوسری خیر جوان ہدائتوں کے ذریعے سے ان کو ملتی تھی وہ ایک جگہ پر ختم ہو جاتی تھی ابدی طور پر نہ ختم ہونے والی ترقیات ہمیشہ بڑھتے رہنے والا ہر آن بڑھتے رہنے والا اللہ تعالیٰ کا پیار یہ وعدہ ان ہدایتوں ان شریعتوں میں نہیں دیا گیا تھا.(خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۳۴ تا ۴۳۷) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں سے ایک ایسا رسول بھیج کر جو انہیں اس کے نشان پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً ان پر احسان کیا ہے، اور وہ اس سے پہلے یقینا کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں اس گمراہی میں سے نکالا اور اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ان پر کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ بڑی ہی آسمانی نعمتیں لے کر آئے اور ایک گروہ انسانوں میں سے ایسا پیدا ہوا جنہوں نے قبول کیا اور فائدہ اٹھایا برکات سماوی سے حصہ لیا اور خدا کی نگاہ میں وہ پاک ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے نشان ان کی زندگیوں میں اور ان سے ظاہر ہوئے تو ( لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ) میں نے بتایا کہ ہر انسان پر آپ کا احسان ہے لیکن اس آیت میں ذکر ہے صرف مومنوں کا اور دو احسان (بڑے ہی پیارے ہیں وہ ) جو اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار کرتے ہیں مومنوں پر ہوئے ، ان کا اس میں ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا جماعت مومنین پر کہ ان میں ایک اتنا عظیم رسول مبعوث ہوا جس کے طفیل ساری کی ساری اور پوری کی پوری آسمانی نعمتیں حاصل کی جاسکتی ہیں اور دوسرا یہ فضل ہوا مومنوں پر کہ جو ادھوری نعمتیں پہلوں پر نازل ہوئی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے نسبتاً کم فضل کے وہ وارث ہوئے تھے اس کے مقابلہ میں اب ایک ایسا گروہ پیدا ہوا جنہیں کامل نعمتیں حاصل ہوئیں اور خدا تعالیٰ کے وہ اس قدر پیارے ہوئے کہ اس سے پہلے بنی آدم میں کوئی قوم اتنی پیاری اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہوئی.تو ایک تو احسان ہے بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا یہ احسان ہے کہ آپ عظیم تعلیم لے کر آئے.اس کو یہاں اللہ تعالیٰ نے چار شعبوں میں تقسیم کر کے بیان

Page 530

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۲۴ سورة ال عمران 66 کیا.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِہ وہ آیات پڑھ کر سناتا ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آیات کا لفظ یا آيَةٌ “ کا لفظ جو اس کا مفرد ہے، مختلف معانی میں استعمال کیا ہے.آیۃ کے ایک معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ جلوہ صفت باری کا ، وہ جس کے نتیجہ میں مادی کائنات میں کوئی چیز پیدا ہوئی یا کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی یعنی صفاتِ باری کے وہ جلوے جن جلوؤں نے کائنات کو پیدا کیا.بے شمار مخلوق ہے اس قدر کہ انسانی عقل میں وہ آنہیں سکتی.انسان اس کا تصور نہیں کر سکتا.اس کے متعلق انسان کو مخاطب کر کے فرمایا قرآن کریم میں کہ اے انسان! ہر چیز تیرے لئے پیدا کی گئی ، اس قسم کا اعلان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کی زبان سے نہیں کروایا گیا.اس لئے کہ ایک تو ان کے مخاطب صرف ایک جماعت تھی یا ایک قوم تھی ، ایک چھوٹا سا زمانہ تھا لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب نوع انسانی تھی اور ہر نسل تھی جو آپ کی بعثت کے بعد قیامت تک اس دنیا میں پیدا ہونے والی تھی ابنائے آدم کی.تو فضل ہے نا اللہ تعالی کا.جو اس کی معرفت رکھے گا وہ حمد باری تعالیٰ کرے گا، جو اس کی معرفت رکھے گا وہ علوم کے میدان میں ترقی کرے گا..........تو ایک تو ایسا عظیم رسول ( يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايته ( جو نعماء لے کے آیا ان میں سے پہلی نعمت آیات ہیں اور آیات میں سے صفات باری کے وہ جلوے ہیں جو اس کا ئنات پر ظاہر ہوئے جس نے کائنات پیدا کی ، جس نے کائنات میں وسعت پیدا کی یہ بھی قرآن کریم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وسعت پیدا کر رہا ہے اس کا ئنات میں ) جس نے کائنات کی ہر مخلوق کی صفات میں وسعت پیدا کی.جو علم قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں حاصل ہوتا ہے یہ ہے کہ گندم کا دانہ جو دوسو سال پہلے پیدا ہوا تھا اس کی وہ صفات نہیں تھیں جو صفات اس دانے کی ہیں جو آج پیدا ہورہا ہے.ہر وقت ہر آن خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنی مخلوق کے ہر حصے پر ظاہر ہورہے ہیں.تو ایک تو آیات کے یہ معنی ہیں اور دوسرے آیات کے معنی ہیں دعاؤں کا سننا اور قبول کرنا.عظیم انسان ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جنہوں نے بار بار ہمارے ذہن میں اور ہمارے دل میں یہ ڈالا کہ مایوس نہیں ہونا.دعا کرو خدا قبول کرے گا.یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ خالق اور مالک ہے قبول اس وقت کرے گا جب وہ چاہے گا لیکن یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے.کسی کی دعا ایک سیکنڈ میں قبول

Page 531

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۲۵ سورة ال عمران ہو جاتی ہے.میرا اپنا تجربہ ہے.ابھی منہ سے الفاظ نہیں نکلتے کہ دعا قبول ہو جاتی ہے اور کوئی دعا قبول ہوتی ہے سال بعد دو سال بعد، تین سال بعد، چار سال بعد، جو دعا میں نے سپین کے ملک کے لئے کی کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام کی روشنی سے منور کرے، وہ قریباً نو ساڑھے نو سال بعد قبول ہوئی.مجھے بتادیا گیا تھا کہ جلدی قبول نہیں ہوگی ، اپنے وقت پر پوری ہوگی.کتنا بڑا احسان ہے.جو شخص یہ یقین رکھتا ہو اور خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے بعد اس مقام پر کھڑا ہو کہ وہ قادر مطلق جس کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں وہ میری دعا قبول کرے گا اگر چاہے گا.مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنی ہے دعا میں.دعا کو شرائط کے ساتھ کرنا ہے خدا تعالیٰ سے کبھی نا امید نہیں ہونا.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دعا کی قبولیت کا نشان امت محمدیہ کے ہاتھ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑا دیا.تیسرے معنی آیت کے ہیں، نشانات کا ظاہر ہونا.مثلاً خدا تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بے شمار نشانات ظاہر کئے.نشانات یعنی اپنی قدرت کا نشان ( بغیر دعا کے نشان ہے یہ ) خدا تعالیٰ خود اپنے بندوں کی مدد کے لئے آتا ہے جب مدد کی ضرورت ہو.فراخی رزق کے لئے سامان پیدا کرتا ہے جب انہیں دشواری ہو، کھانے پینے کی چیزیں نہ مل رہی ہوں.اس وقت آسمان میں بادلوں کو حکم دیتا ہے موقع کے اوپر صحیح مقدار میں جاکے بارش برساؤ تا کہ میرے جو بندے ہیں، بھو کے نہ رہیں.اسے ہم نشان کہتے ہیں.معجزات یعنی انہونی باتیں بظاہر وحی کے ذریعے ان کی بشارت دی جاتی ہے اور وہ کام ہو جاتا ہے بالکل ناممکن کام لیکن بشارت دی جاتی ہے، کام ہو جاتے ہیں.تیسرے معنی آیات کے یہ ہیں یعنی معجزات اور معجزات کے ساتھ ہی میں چوتھے معنی کو بریکٹ کر دیتا ہوں اور وہ مبشرات ہیں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی بشارتیں دیں ہیں مومنوں کو، جو ایک علیحدہ شعبہ ہے، روحانی زندگی کا.یہ دونوں میں نے معجزات اور مبشرات اس لئے اکٹھے کئے کہ مثلاً وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ اَذِلَّةُ (ال عمران : ۱۲۴) ایک تو یہ معجزہ تھا کہ تین سو تیرہ غریب بھوکے، کمزور ہوئے ، ہوئے بھوک سے مانگی ہوئی تلواریں پھر زنگ آلود نیزے کند تلوار میں لے کر ایک عظیم لشکر ( جس کی تعداد تین گنے سے بھی زیادہ تھی) کے مقابلہ میں آئے.سواریاں دشمن کے پاس تھیں، زر ہیں ان کے پاس تھیں، اچھی تلواریں ان کے پاس تھیں.ہر طرح اچھے ہتھیاروں سے وہ لیس تھے اور اللہ تعالیٰ نے عظیم معجزہ دکھا دیا اس معجزے میں دعا بھی شامل تھی لیکن اگر کوئی دعا نہ ہوتی

Page 532

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۵۲۶ سورة ال عمران تو بھی خدا تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھانا تھا کیونکہ یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب آئیں گے اپنے مخالفوں پر.بشارت پہلے سے موجود تھی.اور پانچویں آیات کے معنی ہیں وہ آیات قرآنی جن آیات میں شریعت اور ہدایت کا ذکر ہے مثلاً یہ کہ نماز پڑھو، ذکر الہی میں مشغول رہو تو یہ جو آیات ہیں کئی سوجن میں احکام باری تعالی ہیں، اوامر و نواہی، ان کو بھی قرآن کریم نے آیت کہا ہے.........دوسری چیز آپ یہ لے کے آئے ویزکیھم میں بہت سارا ابہام لوگوں نے پیدا کر لیا.ابہام کوئی نہیں.آپ ایسی تعلیم لے کے آئے جو طہارت اور پاکیزگی پیدا کرنے والی ہے.طہارت اور پاکیزگی کا معیار تسلیم کرنا یا مقرر کرنا یہ انسان کا کام نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اس واسطے صحیح معنی ہیں اور سچے طور پر مز کی پاک کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے.آپ ایسی تعلیم لے کے آئے.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ يه چار چیزیں ہیں.اس کے نتیجہ میں اور شریعت کے اوپر جو عمل کرنا ہے اس کے نتیجے میں امت محمدیہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کے اور اُمت مسلمہ کے مومنین کی جو جماعت صدیوں میں پیدا ہوئی اور گزری ان کے لئے یہ ممکن کر دیا کہ خدا کی نگاہ میں وہ پاک اور مطہر ہو جائیں اور سارے وعدے ان کے حق میں پورے ہوں جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک مظہر اور مزکی کے لئے دیئے ہیں.مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا ہمکلام ہوگا.لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :) قرآن کریم میں ایک وعدہ یہ دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے مخفی معانی جن کا ضرورت زمانہ یا خطہ ارض کی ضرورت مطالبہ کر رہی ہے.وہ نئے نئے علوم پاک لوگوں کو سکھائے جائیں گے.قرآن کریم نے یہ وعدے کئے ہیں.بہت سارے وعدے ہیں.تفصیل میں جانا مشکل ہے.اس حقیقت کو قرآن کریم نے ایک جگہ اس طرح بیان کیا کہ وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُه اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی مَازَ کی مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ ابدا ا تم میں سے کوئی بھی بھی پاک اور مظہر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہ ٹھہر سکتا.وَلَكِنَّ اللهَ يُزَكّي مَنْ يَشَاءُ ( النور : ۲۲) لیکن خدا تعالیٰ جسے پسند کر لیتا ہے، اس کے اعمال کے نتیجہ میں، اس کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نتیجہ میں ، اس عرفان کے نتیجہ میں جو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا حاصل کر سکا، خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے نتیجہ میں،

Page 533

تفسیر حضرت خلیفة مسح الثالث ۵۲۷ سورة ال عمران اسے وہ مزکی قرار دیتا ہے.واللہ سمیع دعاؤں کو سنے والا ہے اس واسطے جو مظہر بننا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو مز کی بنانے والا ہے اس سے یہ دعا کرے کہ اے خدا! ایسے اعمال صالحہ بجالانے کی ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تیری نگاہ میں پاک اور مطہر بن جائیں اور علیم ( النور : ۲۲) کہہ کر یہ بتایا کہ انسانوں نے جو جائزے لئے اور ار بعد لگا یا اور فیصلے کئے وہ تمہیں نہیں بنائیں گے مزکی، خدائے علیم جس کی نگاہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں جب اس کی نگاہ میں تم مز کی قرار دیئے جاؤ گے تو حقیقتاً تمہارے حق میں وہ بشارتیں پوری ہوں گی جو خدا تعالیٰ نے پاک اور مطہر لوگوں کو دی ہیں.تزکیہ کے لفظ کے متعلق بڑا اچھا نوٹ مفردات راغب ( جو قرآن کریم کی لغت ہے ) میں امام راغب نے دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ تزکیہ یہ ہے کہ آنْ يَتَحَرَّى الْإِنْسَانُ مَا فِيْهِ تُظهِيرُہ کہ انسان اپنی طرف سے ایسے اعمال بجالانے کی کوشش کرے جن میں اس کے لئے پاکیزگی ہو جنہیں وہ اپنے لئے پاکیزہ سمجھے.اور وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں فاعل اللہ ہوتا ہے.اس لئے جو آیت میں نے پڑھی ولکن اللهَ يُزَكّي مَنْ يَشَاءُ اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کبھی فاعل تزکیہ عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے لگون؟ فَاعِلٌ لِذلِك في الحقيقة کیونکہ حقیقی معنی میں خدا تعالی ہی کسی کو پاک اور مطہر بنا سکتا ہے اسی واسطے کہتے ہیں وَلكِنَّ اللهَ يُربِّي مَنْ يَشَاءُ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ صرف اللہ تعالی پاکیزگی عطا کر سکتا ہے.وہ کہتے ہیں کبھی فاعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں جو پہلی آیت میں نے پڑھی ہے اس میں بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ امام راغب کہتے ہیں کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک اور مطہر بناتے ہیں اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو حقیقی پاکیزگی خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عطا کرتے ہیں.معنی اس کے یہ ہیں کہ آپ پاکیزگی ان تک پہنچانے کا واسطہ بنتے ہیں کیونکہ آپ ایسی تعلیم لائے ، ایسا نمونہ پیش کیا اور ایسی آیات لوگوں کے سامنے رکھیں.اس لئے بطور فاعل آپ ان آیتوں میں آجاتے ہیں واسطہ ہونے کی وجہ سے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے پاک بنایا یہاں یہ مطلب ہے کہ آپ کے واسطہ سے اور آپ کے طفیل لوگ پاکیزگی اور طہارت حاصل کرتے ہیں اور کبھی احکام اوامر و نواہی کے متعلق آتا ہے قرآن کریم میں کہ یہ کام جو ہیں، عبادات جو ہیں، احکام بجالانا جو ہے، یہ پاکیزگی پیدا کرتے ہیں.امام راغب کہتے ہیں یہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب وہ اعمال مقبول

Page 534

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۵۲۸ سورة ال عمران ہو جائیں تو ان کے ذریعہ سے انسان طہارت اور پاکیزگی خدا تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے.حقیقی ، مز کی جو ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لیکن مختلف معانی میں بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا گیا ہے کہ آپ پاک کرتے ہیں، کبھی احکام کے متعلق یعنی قرآن کریم کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ تعلیم پاک کرتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا ہے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (النجم : ٣٣) اپنے آپ کو پاک مت ٹھہرایا کرو.خوف اور خطرے کا مقام ہے کہ انسان اپنے آپ کو پاک قرار دے.اسی لئے خود کو پاکباز ٹھہرانے کی مذمت کی گئی ہے.مفردات راغب میں بھی یہ لکھا ہے.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ اس کے انہوں نے دو پہلو لئے ہیں کہ ایسا کرنا مذموم ہے اور یہ کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے.دونوں چیزیں اس کے اندر آجاتی ہیں.تو دو عظیم رحمتیں ، رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ ، اُمتِ مسلمہ کے لئے نوع انسانی کے لئے عموماً اور جماعت مومنین کے لئے خصوصاً لے کر آئے جنہوں نے ان سے فائدہ اٹھایا.تیسری عظیم چیز آپ لے کے آئے الکتاب.قرآن کریم کو قرآن کریم میں الکتاب کہا گیا ہے اور الکتاب کے شروع میں ہی ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة :٣) کی آیت الکتاب کے صحیح اور پورے معنی بتا رہی ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ میں جو خدائے عالم الغیب ہوں ، اس کتاب کو اتارنے والا ہوں تو اس کا سورس Source ) اور منبع جو ہے وہ عالم الغیب خدا کی ذات ہے یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا تعالیٰ کے علم سے خلعت وجود پہنا.اس لئے یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک وشبہ سے پاک ہے اور اس لئے یہ کتاب کامل متقیوں کے لئے بھی ہدایت ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی فطرت تدریجی ترقی کرتی ہے، جسمانی نشوونما میں بھی ، اخلاقی نشوونما میں بھی اور روحانی نشونما میں بھی.تو ایک متقی جو ہدایت کی راہوں پر چل کے خواہ کتنا ہی بلند ہو جائے ، مزید بلندیوں کے دروازے اس پر اس عظیم کتاب کے ذریعہ سے کھولے جاتے ہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک فقرے میں اس سارے مفہوم کو بڑی خوبصورتی سے ادا کیا ہے.آپ فرماتے ہیں.یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک وشبہ سے خالی ہے اور چونکہ "

Page 535

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۲۹ سورة ال عمران خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے اور ان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے (جہاں تک پہلے کوئی نہیں پہنچا ) (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۶) تو یہ تیسری عظیم چیز جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے وہ الکتاب ہے جیسا کہ فرمایا وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة - اور چوتھی چیز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ ہے حکمت.اور حکمت کے معنی ہیں حقیقت کتاب اور حقیقت رسالت یعنی قرآن کریم کی اصطلاح کی رو سے جو اس کتاب کی حقیقت ہے اور جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عظمت ہے اس کے دلائل پیش کرنا حکمت کے معنی میں شامل ہے.خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۲۱۸ تا ۲۲۶) ص آیت ١۷۶ اِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاءَةَ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَ خَافُونِ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ ® شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے.جو لوگ شیطان کے دوست بن جاتے ہیں اور خدا کے دوست نہیں رہتے ان کے دل میں شیطان خوف پیدا کرتا ہے کہتا ہے دیکھو! دولت چلی گئی تو پھر پتہ نہیں تمہیں ملے یا نہ ملے اور وہ بیوقوف یہ نہیں سمجھتا کہ پہلے جو دولت آئی تھی وہ شیطان نے تو نہیں دی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دولت کو پیدا کیا.اور ان طاقتوں کو بھی پیدا کیا جن کی بدولت اسے وہ دولت ملی.اس کا اپنا تو کچھ نہیں.اسی طرح جو شخص صاحب اقتدار بن جاتا ہے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ کہتا ہے اگر میں انصاف کروں تو شاید میرا اقتدار جاتا رہے کیونکہ صاحب اقتدارلوگوں سے بے انصافی کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں.ان سے ظلم کے تقاضے بھی کئے جاتے ہیں.آخر شیطان کو قیامت تک جو مہلت دی گئی ہے تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شیطان کو قیامت تک دوست ملتے رہیں گے جن کو وہ ڈراتا اور خوف دلاتا رہے گا.چنانچہ مطالبہ ہوتا ہے کہ فلاں حصہ ملک پر یا فلاں جماعت پر یا فلاں گروہ

Page 536

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۰ پر ظلم کر دور نہ ایجی ٹیشن ہوگی ، ورنہ اقتدار تمہارے ہاتھ سے جاتارہے گا.سورة ال عمران خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۳۹۶، ۳۹۷) آیت ۱۸۱ ۱۸۲ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا اللَّهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ b b هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيْطَوَقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَ لِلهِ مِيرَاتُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ لَقَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَ نَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَ قَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقِّ وَ نَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ.(DAY) اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں سب کچھ دیتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس دین میں سے مالی قربانیاں پیش نہیں کرتے بلکہ بخل سے کام لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اپنے اموال کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا دنیوی فوائد پر منتج ہو گا اور اسی میں ان کی بھلائی ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کریں گے تو انہیں نقصان ہو گا ان کا خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا ان کے لئے خیر کا موجب نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ (شَرٌّ لَّهُم ( ایسا کرنا ان کے لئے بہتر نہیں بلکہ ان کے لئے ہلاکت اور برائی کا باعث بنے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو وہ مول لینے والے ہوں گے اس بخل کے دو قسم کے نتائج نکلیں گے ایک اس دنیا میں اور ایک اس دنیا میں جو شخص بخل سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں جہنم میں پھینکا جائے گا اور وہاں اسے ایک نشان دیا جائے گا جس سے سارے جہنمی سمجھ لیں گے کہ وہ اس لئے اس جہنم میں آیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ نہیں کیا کرتا تھا سیطو قُون ان کے گلے میں ایک طوق ڈالا جائے گا اور وہ طوق تمثیلی زبان میں ان اموال کا ہوگا جو اس دنیا میں خدا کی راہ میں خرچ نہ کر کے وہ بچایا کرتے تھے اور اس طوق کی وجہ سے ہر وہ شخص جو جہنم میں پھینکا جائے گا جان لے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے اور خدا کو راضی کرنے کے

Page 537

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۱ سورة ال عمران لئے اپنے اموال اس کے سامنے پیش کرو مگر انہوں نے اس کی آواز نہ سنی اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک نہ کہا اور دنیا کے اموال کو اُخروی بھلائی پر ترجیح دی اور نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آج یہ جہنم میں ہیں اور ذلت کا عذاب انہیں دیا جا رہا ہے جہنم کے عذاب میں تو سارے شریک ہیں لیکن یہ طوق بتا رہا ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی تو حفاظت کیا کرتے تھے لیکن اپنی جانوں کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے اپنی ارواح کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے.ایک نتیجہ اس بخل کا اس دنیا میں نکلے گا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ آسمانوں اور زمین کی ہر شے اللہ کی میراث ہے اور میراث کے ایک معنی لغت نے یہ بھی کئے ہیں کہ ایسی چیز جو بغیر کسی تکلیف کے حاصل ہو جائے پس اللہ تعالیٰ جو خالق ہے ربّ ہے اور جس کی قدرت میں اور طاقت میں ہر چیز ہے جس کے کن کہنے سے ساری خلق معرض وجود میں آئی ہے کسی چیز کے پیدا کرنے یا اس کے حاصل کرنے میں اسے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی اور جب ہر چیز اللہ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جو شخص بھی اللہ کو ناراض کرے گا وہ اس دنیا میں اموال کی برکت سے محروم ہو جائے گا یا کوئی اور دکھ اس کو پہنچایا جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دی اور وہ یہود کی مثال ہے کہ جب مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرو تو یہود میں سے بعض کہتے ہیں کہ اچھا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ ہوا فقیر اور ہم ہوئے بڑے امیر ہمارے اموال کی خدا کو ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے وہ ہم سے مانگ رہا ہے اسی پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا چونکہ بخل کے ساتھ ذات باری کا استہزا بھی شامل ہو گیا ہے اس لئے انہیں عذاب حریق یعنی ایک جلن والا عذاب دیا جائے گا اور ان لوگوں کو جنہوں نے اس قسم کے فقرے مسلمانوں کو ورغلانے اور بہکانے کے لئے کہے تھے اسی دنیا سے جلن کا عذاب شروع ہو گیا تھا.اسلام ترقی کرتا چلا گیا اور وہ لوگ جو غریب تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ساری دنیا کے اموال ان کے قدموں پر لا رکھے اور جو مخالف بھی خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور انعاموں کو دیکھتا تھا وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا تھا کہ سچا ہے وہ جس نے کہا تھا کہ لِلَّهِ مِیرَاثُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ اور جو شخص مخالفت کو چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا اس کے دل میں ایک جلن پیدا ہوتی تھی یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ غریب تھے ہمارے محتاج تھے ہم ہی ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور ہمارے

Page 538

۵۳۲ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث بغیر ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں (ان دنوں جو یہود عرب میں آباد تھے وہ عربوں کو قرض دیا کرتے تھے ) غرض انکے دلوں میں یہ دیکھ کر جلن پیدا ہوتی تھی کہ یہ بہت تھوڑے عرصہ میں یعنی چند سال کے اندر اندر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کر کے اس قسم کے نتائج نکالے ہیں کہ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں پر لا ڈالی ہے.دو خطبات ناصر جلد ۲ صفحه ۳۳۸ تا ۳۴۰) آیت ۱۹۰،۱۸۹ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوُا وَ يُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيم وَلِلّهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقین رکھو کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ نہیں ہیں جو اپنے کئے پر اتراتے ہیں.یہ کئے پر اترانے والے دنیا دار بھی ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر اترانے والے بھی ہوتے ہیں.مذہبی گروہ اپنے جتھے پر اترانے لگ جاتے ہیں اپنے مال و دولت پر اترانے لگ جاتے ہیں، اپنی طاقت پر اترانے لگ جاتے ہیں، اپنی تنظیم پر اترانے لگ جاتے ہیں، اپنی فوجوں پر اترانے لگ جاتے ہیں.ہزاروں وجوہ ہیں اترانے کی.کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی فوج کو اتنا مضبوط کر لیا، ہم نے اپنے نظام اقتصادیات کو ایسا بنالیا، ہماری زراعت ایسی ہوگئی ، ہم نے پانی کا یہ انتظام کر لیا، ہم نے ایٹم بم بنا لیا.(پہلے تو یہ مذہبی گروہ نے ہی بنایا تھا یعنی عیسائی دنیا نے جو کہ کیپٹلسٹ کہ (Capitalist) کہلاتے ہیں ) جو لوگ اپنے کئے پر اتراتے ہیں اور صرف اپنی ذات یا اپنے جتھے یا اپنی قوم یا اپنے ملک پر بھروسہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا زندہ تعلق نہیں ہوتا کہ جس کی طاقت پر وہ بھروسہ کرنے والے ہوں اور پھر انہوں نے جو کام نہیں کیا ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر بھی ان کی تعریف کی جائے حالانکہ انہوں نے کام نہیں کیا ہوتا لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوا وَ يُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ یہ نہ سمجھو کہ وہ خدا کے عذاب سے محفوظ ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے لیکن وہ گروہ اور وہ جماعت جو اللہ کا نام لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے اور اسلامی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے

Page 539

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۵۳۳ سورة ال عمران کے لئے اپنی کمزوریوں کے باوجود کھڑی ہو جاتی ہے.وہ جو کچھ خدا کے حضور پیش کرتے ہیں ان کے او پر بھی وہ اتراتے نہیں اور فخر نہیں کرتے اور جو کام انہوں نے نہیں کیا ہوتا اس کے متعلق تو شیخی مارنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ لوگ خدا تعالیٰ کے قہر کے عذاب سے محفوظ ہیں لیکن ان کا مد مقابل اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے اور قرآن کریم کی بشارتوں کے مطابق جو مسلمانوں کے حق میں دی گئی ہیں اور قرآن کریم کے اندار کے مطابق جو معاندین اسلام کے متعلق دیا گیا ہے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنے پر بھروسہ کرنے والے اور جو طاقت نہیں ہے اس کا بھی اعلان کرنے والے کامیاب نہیں ہوا کرتے.اخبار میں پڑھنے والے اور دنیا کے حالات کا علم رکھنے والے دوست جانتے ہیں کہ آجکل سیاسی لیڈر وہ تعلیاں مارتے رہتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے مثلاً ہٹلر نے اپنے وقت وہ شور مچایا تھا کہ بس اس کے پاس ایسی طاقت ہے اور ایسے مخفی ہتھیار ہیں کہ وہ ساری دنیا کو کھا جائے گا حالانکہ وہ ہتھیار نکلے نہیں.وہ يُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا کے آیت کے ٹکڑے کے نیچے آ گیا نا کہ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ وہ ایسے ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو دنیا کو زیر کرنے کے لئے کافی ہیں اور ان کا مد مقابل کامیاب ہو ہی نہیں سکتا.دنیا جو کرتی ہے اور دنیا جو نہیں کرتی اس کا یہاں ذکر ہے جو وہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جو ان کی طاقت ہے اس پر وہ فخر کرنے لگتے ہیں اور تکبر سے کام لیتے ہیں اور اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کے حقوق کو پامال کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا اور دوسروں کو ڈرانے کے لئے وہ بڑے مبالغہ آمیز بیانات دیتے ہیں یا بعض دفعہ اپنے ملک کو خوش کرنے کے لئے بھی سیاسی لیڈر ایسا کرتے ہیں.فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ یہ لوگ ناکامی کے عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور جولوگ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کی جماعت ہیں وہی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کامیاب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے وہ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر ہے جس چیز کو چاہے اسے کر دیا کرتا ہے اور کوئی اسے نا کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے اور اس کے منشا کے مطابق ہر کام ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اسلام کے غلبہ کے لئے اس زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا محبوب ترین روحانی فرزند مهدی پیدا ہو تو مہدی پیدا ہو گیا.اس نے چاہا کہ اس مہدی کی اس ظاہری اور ماڈی دنیا میں اس قدر مخالفت ہو کہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان

Page 540

۵۳۴ سورة ال عمران تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ظاہری آنکھ کو نظر نہ آئے تو وہ مخالفت پیدا ہو گئی اور پھر اس نے یہ چاہا کہ اس کے باوجود جو کچھ ظاہری آنکھ نے دیکھا تھا وہ نہیں ہوگا اور مہدی نا کام نہیں ہوگا.مہدی کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے جیسا کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں مختلف میدانوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی جھنڈے تھے.کسری کے مقابلہ میں مسلمان فوجوں کے جو سپہ سالار تھے ان کے ہاتھوں میں جو جھنڈے تھے یا قیصر کے مقابلہ میں شام کے میدانوں میں مسلمانوں کے سپہ سالاروں کے ہاتھوں میں جو جھنڈے تھے وہ ان کے اپنے تو نہیں تھے اور نہ خلفائے وقت کے تھے بلکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تھے.اسی طرح آج اسی معنی میں محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا جھنڈا مہدی کے ہاتھ میں ہے.خدا نے یہ چاہا کہ دنیا کی طاقتوں کو اس کے خلاف کھڑا کرے اور دنیا کو یہ بتائے کہ اگر تم سارے اکٹھے ہو کر بھی میری اس سکیم اور میرے اس منصو بہ کو نا کام کرنے کی کوشش کرو گے تو تم ناکام ہی ہو گے.خطبات ناصر جلد ششم صفحه ۴۱۱۳۴۰۹) آیت ۱۹۱ تا ۱۹۶ اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَ اتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا (۱۹۴ 191 (190) تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اني لَا أَضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّنْ ج بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ أَوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَتَلُوا وَ قتِلُوا لَا كَفَرَنَ عَنْهُمْ سَيَأْتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا

Page 541

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۵ سورة ال عمران الاَنْهرُ : ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ وَاللهُ عِنْدَهُ حُسنُ الثَّوَابِ.(194) آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے یقیناً کئی نشانات ہیں.وہ عظمند جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارہ میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے اس عالم کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا.تو ایسے بے مقصد کام کرنے سے پاک ہے.پس تو ہمیں ا ، آگ کے عذاب سے بچا اور ہماری زندگی کو بے مقصد بننے سے بچالے.اے ہمارے رب جسے تو آگ میں داخل کرے گا اسے تو تو نے یقیناً ذلیل کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا.اے ہمارے رب ہم نے یقیناً ایک ایسے پکارنے والے کی آواز جو ایمان دینے کے لئے بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، سنی ہے پس ہم ایمان لے آئے اس لئے اے ہمارے ربّ! تو ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بدیاں ہم سے مٹادے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ملا کر وفات دے.اور اے ہمارے رب! ہمیں وہ کچھ دے جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر ہم سے وعدہ کیا ہے اور قیامت کے دن ہمیں ذلیل نہ کرنا تو اپنے وعدہ کے خلاف ہر گز نہیں کرتا.( ہم سے گناہ ہو جاتے ہیں ہمیں گناہوں سے بچا ) چنانچہ ان کے رب نے یہ کہتے ہوئے ان کی دعا سن لی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کروں گا.تم ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے ہو.پس جنہوں نے ہجرت کی اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میری راہ میں تکالیف دی گئیں اور انہوں نے جب دفاعی جنگیں کیں اور اپنی جانیں خدا کی راہ میں قربان کیں اور مارے گئے.میں ان کی بدیوں کے اثر کو ان کے جسم سے یقیناً مٹا دوں گا اور میں انہیں یقیناً ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.یہ انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدلہ کے طور پر ملے گا اور اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جس کے پاس بہترین جزا ہے.ان آیات میں ایک لمبا مضمون بیان ہوا ہے لیکن میں نے اس مضمون کا ایک حصہ آج کے خطبہ کے لئے منتخب کیا ہے.ویسے اس کی بھی شاید تفصیل میں میں نہ جا سکوں کیونکہ صبح سے پیٹ میں تکلیف کی وجہ سے مجھے ضعف کی شکایت ہے.

Page 542

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۳۶ سورة ال عمران پہلی بات ان آیات سے ہمیں یہ پتالگتی ہے کہ آسمان اور زمین کی پیدائش یعنی کائنات کی ہر شے ایک آیت ایک نشان ہے.ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں پتا بتاتی ہے حقائق کا.جو ہمیں پتا دیتی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات اور اس کی عظمت اور اس کے جلال اور اس کی قدرت کا.ہر چیز ہماری راہنمائی کر رہی ہے ہمارے پیدا کرنے والے رب کی طرف اور صرف مادی اشیاء ہی نہیں بلکہ اس کائنات کو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دو حصوں میں تقسیم کیا.ایک تو مادی اشیاء ہیں جن کو آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسرے زمانہ ہے اور اس کو وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ سے تعبیر کیا گیا ہے.زمانہ اپنے اثرات دکھاتا ہے ان جہانوں میں اور زمانہ سے پیدا ہونے والا ہر اثر ہمیں کوئی سبق دے رہا ہے.ہمیں کچھ سکھاتا ہے ہماری رہنمائی اور رہبری کرنے والا ہے تو یہاں یہ فرمایا کہ یہ کائنات جو ہے اس کے ہر دو حصے مادی حصہ بھی اور زمانہ بھی جو اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے.زمانے کے اثرات مادی دنیا پر ہوتے ہیں مثلاً ان کا بڑا اور چھوٹا ہونا ہماری فصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے دنوں کا چھوٹا رہنا ضروری ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے چھوٹے دنوں کا اور لمبی راتوں کا ہونا ضروری ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کے لئے لمبے دنوں کا اور چھوٹی راتوں کا ہونا ضروری ہے.بعض ایسے پودے ہیں جن کیلئے سورج کی روشنی اور اندھیرے کی ایک جیسی لمبائی کا ہونا ضروری ہے.تو یہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.زمانہ ہر آن حرکت میں ہے اور فاصلے کی نسبتوں کو قائم کرنے والا ہے.کس قدر تیزی سے کوئی چیز چل رہی ہے یا کتنی دور ہے کوئی چیز.اس وقت اختصار کے ساتھ زمانہ کے متعلق اس حقیقت کو بیان کر دینا کافی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کو ہم نے دو طاقتیں دی ہیں ایک ذکر کی اور ایک تفکر کی اور جو عقل مند ہیں خالص اور صحیح عقل رکھنے والے عقل اور کب میں یہ فرق ہے.عقل میں جب ہوائے نفس شامل ہو جائے اور وہ خالص نہ رہے تب بھی عربی زبان اسے عقل ہی کہتی ہے مثلاً آج کی مہذب دنیا جو دنیا میں ڈوب گئی اور خدا کو بھول گئی وہ بھی عربی زبان کے لحاظ سے عقلمند کہلائیں گے اگر چہ ان کی عقل میں ان کی ادنی خواہشات اور میلان نفس کی بھی بڑی ملاوٹ آگئی اور انہوں نے اپنی تسلی کے لئے گراوٹوں میں لذتیں محسوس کرنی شروع کر دیں اور اس کا جواز پیدا کرلیا اور اس حد تک چلے گئے یہ عقلمند کہ

Page 543

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۷ سورة ال عمران انگلستان کی ملکہ کو سڈومی (Sodomy) بل پر دستخط کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا.اس حد تک گراوٹ اور عقلمند بھی ہیں عربی زبان ان کے لئے عقل کا لفظ استعمال کرے گی لیکن عربی زبان ان کے لئے اُولُوا الالباب کا لفظ نہیں استعمال کرے گی.اس واسطے کہ لب کے معنے ہیں خالص عقل جو اپنی صفائی میں اور پیورٹی (Purity) میں انتہا کو پہنچ چکی ہو اس کو عربی زبان میں کب کہتے ہیں تو یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو خالص عقل دی تھی.اس نے اس کو اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اور گری ہوئی خواہشات کے نتیجہ میں ناخالص بنا دیا اور گدلا کر دیا لیکن وہ لوگ جنہوں نے خالص عقل کو قائم رکھا وہ اپنی ان دو طاقتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.ایک ذکر سے ایک تفکر سے.ذکر وہ کرتے ہیں ہر حالت میں يَذْكُرُونَ الله قيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمُ اور وہ تفکر بھی کرتے ہیں تفکر بھی وہ ہر حالت اوروة میں کرتے ہیں.اس آیت سے یہی واضح ہوتا ہے عربی میں (جیسا کہ مفسرین نے اس کی وضاحت کی ہے ) ذکر اور تفکر میں فرق ہے وہ کہتے ہیں کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے.بدن اور روح سے.بدن سے تعلق رکھنے والی عبودیت کو ذکر کہتے ہیں اور قلب اور روح سے تعلق رکھنے والی عبودیت کو تفکر کہتے ہیں اور کامل ذکر وہ ہے جو انسان کے تمام جوارح اور اعضا سے تعلق رکھتا ہے یعنی اللہ تعالی نے جو ہمیں حکم دیا نماز پڑھنے کا اور نماز کے اندر قیام بھی ہے اور رکوع بھی ہے اور سجدہ بھی ہے اور قعدہ بھی ہے اور زبان کا ذکر بھی.یہ جسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.روزہ ہے اس کا ہمارے بدن کے ساتھ تعلق ہے.ہم اپنے جسم کو بھوکا رکھتے ہیں اور حج جو ہے اس کے جو ظاہری ارکان حج ہیں وہ ہمارے جسم سے تعلق رکھنے والے ہیں.جس عبودیت کا تعلق بدن سے ہے اس کا نام ذکر ہے يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا و قُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ اور جس عبودیت کا تعلق قلب اور روح کے ساتھ ہے اس کے متعلق کہا يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اور عبودیت کے ہر دو حصے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی جو ظاہری طور پر مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر نماز میں دعا کرتے ہوئے رقت نہ پیدا ہو تو وہ مصنوعی طور پر رقت کی حالت پیدا کرے.آہستہ آہستہ اس کا دل بھی اس طرف حقیقی رقت کی طرف مائل ہو جائے گا اور جو قلب کی اور روح کی عبودیت ہے اس کے نتیجہ میں جسم جو ہے وہ بھی دل اور روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے اور اخلاص کے نتیجہ میں انسان کا جسم بھی اعمالِ صالحہ بجالاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے.

Page 544

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۸ سورة ال عمران حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ روایت منسوب ہوتی ہے تَفَكُرُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِّنْ عِبَادَةِ سِنینَ سَنَةٌ کہ ایک گھڑی کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت ظاہری سے زیادہ بہتر ہے.ظاہر ہے کہ عِبَادَةِ سِتِّينَ سَنَةً یہاں اس عبادت کا ذکر ہے جس میں تفکر نہیں.قلب اور روح کا حصہ نہیں.یعنی جس عبادت میں ہمارا دل شامل نہیں ہوا صرف ظاہر ہے، جس عبادت میں ہماری روح چھل کے آستانہ الہی یہ نہیں یہ بھی محض نمائش ہے اور ریا ہے آپ کو سمجھانے کے لئے ستین سَنَةٌ کہہ دیا.یعنی بلوغت کی ساری عمر کی کھو کھلی عبادت سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ چھلکا ہے وہ تو کھوکھلی چیز ہے اس کے اندر تو کوئی حقیقت نہیں ، کوئی اخلاص نہیں.خدا تعالیٰ کے لئے کوئی پیار اور محبت نہیں، اس محبت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ پر قربان ہونے کی کوئی خواہش نہیں.خدا تعالیٰ کے لئے ہر چیز کو چھوڑ دینے کا کوئی عزم نہیں.وہ عبادت تو خدا تعالیٰ قبول نہیں کرے گا.ان آیات کے بعد دعا کی تعلیم دی اور اس میں یہ ہمیں بتایا گیا کہ دعا کی قبولیت کے لئے کوئی وسیلہ ہونا چاہیے.یعنی کوئی ایسی شکل ہونی چاہیے کہ دعا قبول ہو جائے.ایسی دعا جو استحقاق پیدا کر رہی ہو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قبولیت کا اور یہاں جو پہلے بیان ہوا ہے وہ یہی ہے کہ ذکر اور فکر ہر دو سے تعلق رکھنے والی عبودیت کے جو تقاضے ہیں جب وہ پورے کئے جائیں تب دعا قبول ہوتی ہے.اگر ایک شخص ساری رات جاگ کے دعا کرے اور ہر رات جاگ رہا ہوا اپنی زندگی میں لیکن عمل نہ کرے خدا تعالیٰ کے احکام پر اس کی دعا قبول نہیں ہوگی.دعا کی قبولیت کے لئے شرائط بیان کی گئی ہیں ان آیات میں اور یہی چیز میں اس وقت آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.بیان کی گئی ہیں یہ شرائط شروع میں بھی اور پھر آخر میں بھی.پہلے تو یہ کہا کہ ذکر کرنے والے اور تفکر کرنے والے جو ہیں وہ جسم کے لحاظ سے، بدن کے لحاظ سے بھی عبودیت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور قلب و روح کے لحاظ سے بھی عبودیت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہیں اور یہاں جو ذکر اور فکر تھا اس کی روح یہ ہے کہ ہر وقت خدا کے ذکر میں مشغول رہنا اور خدا تعالیٰ کی جو مصنوعات ہیں جو خلق ہے اس سے دل کا ، ذہن کا ، روح کا صحیح استدلال قائم کرنا کیونکہ ہر چیز خدا تعالیٰ کی طرف پوائنٹ (Point) کر رہی ہے.ایک نشان ہے جس طرح سڑکوں پرنشان ہوتا ہے.یہ راستہ جاتا ہے لاہور کی طرف.خدا تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہر شے جو ہے وہ نشان دو

Page 545

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۳۹ سورة ال عمران ہے کہ یہ راستہ جاتا ہے خدا کو پہچاننے عرفان اور معرفتِ الہی کی طرف اور ذکر کرنا تفکر فی مصنوعات کرنا ربوبیت خداوندی کا اعتراف کرنا یہ شرائط قبولیت دعا ہیں.ذکر اللہ میں ہمیشہ مشغول رہنا.دل اور دماغ اور روح کے ساتھ تفکر کرنا یعنی معرفت حاصل کر کے اور معرفت اور اس عرفان کا احساس دل اور روح میں بیدار رہنا.معرفت یہ نہیں ہے کہ کوئی چیز ملی اور جیب میں رکھ لی معرفت تو ایک احساس ہے جو روح میں پیدا ہوتا ہے جو احساس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالی بڑی عظمتوں والا خدا تعالیٰ بڑے جلال والا ، خدا تعالیٰ بڑے حسن والا نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ہے.ہر چیز پر وہ قادر ہے.کوئی چیز اس کے سامنے ان ہونی نہیں.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی دنیا کی طاقت اس کے منصوبوں کو نا کام نہیں کر سکتی.وہ تمام صفات باری جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی بیان کی ہیں ان سب کو اپنے ذہن میں، اپنے دل میں، اپنے مائنڈ (Mind) میں، قلب میں حاضر رکھنا اور روح کا اس احساس سے لذت حاصل کرنا یہ ہیں شرائط قبولیت دعا.تو ربوبیت خداوندی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی حمدوثنا میں مشغول رہنا اور اس یقین پر قائم ہونا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل عبث اور باطل نہیں ہے.بے حکمت نہیں ہے.مصلحتوں سے خالی نہیں ہے.ہر چیز جو اس نے پیدا کی وہ کسی مصلحت کے نتیجہ میں پیدا کی اور انسان کو بھی اس نے کسی مصلحت کے لئے پیدا کیا جس کا ذکر قرآن کریم نے یہ کہہ کے کیا ہے کہ میں نے اس لئے پیدا کیا ہے اے انسان تجھے کہ تو خدا تعالیٰ کا عبد بننے کی کوشش کرے اور اپنی تمام طاقتوں پر اس کا رنگ چڑہا کے اس کے حسن میں سے حصہ لے جو تیرے دل نے اور تیری روح نے خدا کے وجود میں دیکھا اور مشاہدہ کیا اور پھر شرط لگائی ہجرت کی اور مجبور کر کے وطن سے بے وطن کئے جانے کی.اس کے ایک ظاہری معنی ہیں ایک صوفیا نے معنی کئے ہیں اور انہوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ اپنے نفس سے دوری یعنی اپنے نفس کی خواہشات کو پورا نہ کرنا اپنے نفس کا ایک وطن ہے اس کی عادتیں ہیں جہاں وہ خوشی محسوس کرتا ہے.ان کو چھوڑ نا خدا کے لئے بے نفس ہو جانا جن چیزوں سے محبت اور پیار ہے ان کو ترک کر دینا.خدا تعالیٰ کے لئے ایڈا کو برداشت کرنا اور ایذا کو ایذا نہ سمجھنا اور جو شیطانی وساوس کی یلغار ہو انسان پر اس کے خلاف جنگ لڑنا ، دفاعی جنگیں کرنا.پس صوفیا اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ شیطانی وسوسوں کے خلاف جنگ کرنا کامیابی کے ساتھ اور

Page 546

تفسیر حضرت خلیفة لمسیح الثالثة ۵۴۰ سورة ال عمران شیطان کو کسی صورت میں یہ اجازت نہ دینا کہ وہ جسے خدا نے اپنا بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.اسے شیطان اپنا بندہ بنادے اور خدا کی راہ میں قربان ہو جانا شہادت پانا اور ہر چیز قربان کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول نہ لینے کے سامان پیدا کرنا.یعنی یہ نہ برداشت کرنا کہ خدا ناراض ہو جائے.دنیا جائے ، رشتہ دار جائیں، تعلقات ٹوٹیں اپنے بیگانے ہوجائیں، جو ہو سو ہولیکن انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کرے.صوفیا اس کو شہادت کہتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی پھر بسا اوقات بعض لوگوں کو خدا کے حضور جان پیش کرنی پڑ جاتی ہے.تو یہ دس شرائط یہاں قبولیت دعا کی بیان ہوئی ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دعا کی قبولیت کا حق (اسی کے کہنے پر) پیدا کر لیتی ہے ورنہ انسان کا کوئی حق نہیں خدا پر.لیکن خدا کہتا ہے ا اگر یہ دس باتیں تم اپنے اندر پیدا کرو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ.اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا دن خدا کو بھولے رہو.ساری راتیں اپنی غفلت میں بسر کرو اور پانچ منٹ خدا کے حضور دعا کرو اور سمجھو کہ خدا پر قرض ہو گیا کہ خدا تمہاری دعاؤں کو قبول کرے.اسے تمہاری حاجت نہیں تمہیں خدا کی حاجت ہے.سارے کا سارا خدا کا ہو جانا جسمانی لحاظ سے بھی قلبی اور روحانی لحاظ سے بھی اور جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ذکر اللہ میں مشغول رہنا قلب و روح کا مصنوعات باری میں تفکر کرنے کے بعد صحیح نتائج نکالنا، ربوبیت خداوندی کا اعتراف کرتے ہوئے حمد وثنا میں مشغول رہنا، اللہ تعالیٰ کو ہر ایسی چیز سے پاک سمجھنا جو اس کی طرف عبث اور باطل چیز کو منسوب کرنے والی ہو ، تا اس کی راہ میں ہجرت کرنا، بے وطنی کو قبول کرنا ، ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی ایذا کو برداشت کرنا، شیطانی حملوں کا کامیاب مقابلہ کرنا اور فنا کی حالت اپنے پر طاری کر لینا.خدا کہتا ہے میں ایسے بندوں کی دعا ئیں اپنے فضل سے سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں.کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا کے فضل سے ہی انسان جنت میں جاتا ہے اپنے کسی عمل سے نہیں.یہاں بھی خدا تعالیٰ نے جب دعا قبول کر کے ثواب دینے کا ذکر ہوا ہے تو وَ لَادْخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهُرُ فرمایا کہ میرے فضل سے جنتیں مل گئیں خدا کی رضا کی.یہ نہیں کہا تم نے دس شرائط پوری کیں اس لئے اس نے جنت میں بھیج دیا.یہ کہا ہے ثوابًا مِّنْ عِنْدِ اللہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے.تمہارے اپنے عمل کا نتیجہ

Page 547

تفسیر حضرت خلیفة امسح الثالث ۵۴۱ سورة ال عمران پھر بھی وہ نہیں ہوگا.لیکن تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ خدا تعالیٰ اگر چاہے تو تم سے پیار کرے.باقی جو خود نا پاک بنتا ہے خدا تعالیٰ جو پاکوں کا پاک ہے.اس ناپاک سے کیسے پیار کرنے لگ جائے گا.اس کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن ثواباً مِنْ عِنْدِ اللهِ ہے یعنی دس شرائط پوری کرنے کے بعد دعا کا قبول ہونا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہونا وہ بھی انسان کے کسی اپنے فعل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے جو اسے مل رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت زندگی کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور ہم جیسے بھی ہیں کمزور و نا تواں اور غافل ہمیں توفیق دے کہ وہ ہم سے پیار کرنے لگ جائے اور جب ہم پر اس کا فضل ہو تو شیطان ہمارے دل میں اس وقت بھی یہ وسوسہ نہ پیدا کرے کہ گویا ہم یہ سمجھیں کہ خدا تعالیٰ کا پیار ہمیں اس لئے ملا کہ خدا تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ہم پر فضل کرے اور ہم سے پیار کرے ورنہ نالائق مزدوروں سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے خدا کے حضور.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ ۱۰۷ تا ۱۱۴) جو چیز بھی اس کائنات میں، اس مادی دنیا میں اور جو غیر مادی ہے اس میں بھی ظہور پذیر ہوتی ہے جو عدم سے وجود میں ظاہر ہوتی ہے یعنی پہلے نہیں تھی ہوگئی ، وہ آیت ہے اس کی ایک موٹی مثال ہے تو وہ چھپی ہوئی لیکن موٹی بھی ہے وہ دے دیتا ہوں جو فلکیات کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو پہلا آسمان ہے سات آسمانوں میں سے جس میں ستارے اور سورج وغیرہ ہیں یہ قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں ستارے، یعنی ان کے اندر اپنا ایک اجتماعی زندگی ہے ان کی ، وہ ہر، ان کو انگریزی میں گلیکسی کہتے ہیں اور بے شمار سورج ایک ایک گلیکسی میں ہیں.بے شمار سورج ایک گلیکسی میں اور ہر گلیکسی اپنے راستے پر حرکت میں ہے کسی نامعلوم طرز کی طرف اس کی حرکت ہے جہت کی طرف اس کی حرکت ہے لیکن لیکسی اور تکلیکسیز بے شمار ہیں ان کی بھی گنتی نہیں کر سکا انسان لیکن یہ حرکت پیرالل (Parallel) نہیں بلکہ اس طرح ہے یعنی ہر آن دو گلیکسیز کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جب اتنا فاصلہ ہو جائے دو گلیکسی کے درمیان کہ غیر محدود بے حد و حساب سورج اس کے ایک جس کے اندر ہوتے ہیں ناں ایک نئی گلیکسی وہاں سما سکے اتنا فاصلہ ہو جائے وہ تو کہتے ہیں وہاں وہ گلیکسی پیدا ہو جاتی ہے اب یہ جو پیدائش ہے یہ ہے خَلْقِ السّمواتِ وَالْأَرْضِ یہ آیت نہیں عظیم نہیں نشان خدا تعالیٰ کی عظمتوں اور اس

Page 548

۵۴۲ سورة ال عمران تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث کے جلال کی طرف راہنمائی نہیں کرتی یہ چیز.تو اس چیز کو بھی آیت قرآن کریم نے کہا اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأولي الألباب ہاں یہ ضرور کہا ہے صاحب فراست ہونا چاہیے آدمی کو پتا لگ جائے گا کہ معمولی واقعات نہیں رونما ہونے والے بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے نشان ظاہر کرنے والے عظیم نشان ہیں اللہ تعالی کے.اس کو بھی اللہ تعالی نے آیات قرآن کریم میں میں نے نوٹ تو کئے تھے بہت ساری آیات جو قرآن کریم نے سینکڑوں یہ ظاہری چیزیں ہیں پانی کا سمندروں سے بخارات کے ذریعے اٹھایا جانا قرآن کہتا ہے یہ آیات ہے پھر اس کو اس بخار کا سمٹ کے اور گاڑھا ہو جانا تھیک (Thick) ہو جانا پانی کا اکٹھا ہو جانا.جس میں سے قطرے بہہ سکیں اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے یہ آیت ہے.پھر اس بادل کا کسی خاص جہت کی طرف چل پڑتا ہوا کا آنا اور اس کو اڑا کر لے جانا خدا کہتا ہے یہ آیت ہے ، پھر کسی ایک جگہ جا کے ہوا کا رک جانا اور بادل کا ٹھہر جانا اور نہ برسنا.خدا کہتا ہے یہ آیت ہے یا برس جانا خدا کہتا ہے یہ آیت ہے.سینکڑوں ہزاروں تو شاید نہیں سینکڑوں تو یقیناً قرآن کریم میں اس کا ئنات سے مادی کائنات سے تعلق رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے جو عظیم جلوے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ہر جلو ہ ہی عظیم ہے ان کو آیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.تو ایک تو خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ آیت ہوئی دوسرے زمانے کو وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ یہ زمانہ ہی ہے ناں.آپ کہہ دیتے ہیں کل جو گزر گیا دن کل کا دن اور پرسوں جو آنے والا دن ہے وہ پرسوں کا دن وہ زمانہ جو ہے وہ اپنی مستقل ایک حیثیت میں آپ کے ذہن میں آتا آپ کی زندگیوں میں آتا اور ایک ایک دن جس کو آپ ایک معمولی سی چیز سمجھ کے اس پر توجہ نہ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور ایک دن آپ کو پتا لگتا ہے کہ ایک ایک دن کر کے ۸۰ سال ہماری عمر گزرگئی اور بوڑھے ہو گئے کمریں جھک گئیں چلا نہیں جانتا کان جو ہیں ٹھیک طرح سن نہیں رہے آنکھیں ٹھیک طرح دیکھ نہیں رہیں وہ جو رعب اور دبدبہ خاندان کے اوپر تھا وہ بابے بڑھنے کا رہا نہیں.اور بولا ایک ایک دن تھا.تو ایک دن بھی بڑا زبردست تھا اور واقعہ میں آیت تھا خدا کی.یہ بھی آیت ہے اور شق قمر جو ہے وہ بھی آیت ہے قرآن کریم کی اصطلاح میں یعنی جو انبیاء علیہم السلام یا دوسرے برگزیدہ اولیاء کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ معجزات اور نشانات آسمانی دکھاتا ہے ان کو بھی

Page 549

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالثة ۵۴۳ سورة ال عمران قرآنی اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے تو اس لحاظ سے دو بنیادی طور پر قسمیں ہیں آیات کی.ایک وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو اس کائنات میں ظاہر ہوتے اور عدم سے وجود میں اور وجود سے عدم میں تبدیلی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں وہ جلوے اسی کائنات میں، مادی کائنات میں پیدا ہوتے ہیں اور حرکت پیدا کر دیتے ہیں عمر کو ایک دن بڑھادیا ہر صبح سورج اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ہر صبح جو سورج چڑھا اس نے ایک دن آپ کی عمر کا بڑھا دیا اور یہ ہمارا محاورہ ہے لیکن موت کہتی ہے کہ تمہارا ایک دن زندگی کا کم کر دیا.موت نے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھنا ہے، ہم نے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھنا.ہم کہتے ہیں ہمارا ایک دن بڑھا دیا، موت مسکرا کے کہتی ہے ایک دن تمہارا، عمر کا کم کر دیا اور اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ دو وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمر ( القمر : ۲، ۳) اسی طرح کے الفاظ ہیں ذہن سے نکل گئے بہر حال ہر دو کو اللہ تعالی نے آیات کہا ہے تو يَتْلُوا عَلَيْهِمُ الله کا مطلب یہ ہے کہ وہ نبی دنیا کو انسان کو ہر مرد کو ہر عورت کو امریکہ میں رہنے والے کو اور افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والوں کو اور عربی بولنے والے علاقوں میں رہنے والوں کو اور رشیا میں رہنے والوں کو آیات بتائے گا پہلے کب یہ آیات بتائی گئی ہیں ہمیں، ہمیں کب کہا گیا کہ بے توجہی سے گزر نہ جایا کرو آیات اللہ کے پاس سے بلکہ ہر اللہ ظہور ہر ایک چمکار خدا تعالیٰ کی صفت کی خدا تعالیٰ کی طرف نشاندھی کرنے والی ہے.وہ تمہیں بلاتی ہے تمہارے پیدا کرنے والے رب کریم کی طرف اس کی طرف توجہ کرو اور اسی سے خیر مانگو خیر پاؤ.دوری کی راہوں کو اختیار نہ کرو اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ہی نبی ہیں جنہوں نے حیات جاودانی پائی ہے اپنے رب کریم سے ان کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں جس طرح ہزاروں زبر دست معجزات اور آیات اس زندگی نے جو ظاہری جسمانی زندگی تھی ظاہر ہوئے اسی طرح آخری زندگی میں ظاہر ہورہے ہیں ہماری تاریخ بھری پڑی ہے بہت ساری کتا میں بدقسمتی سے ضائع ہو گئیں ہیں لیکن جن کو خدا تعالیٰ کی نگاہ نے ایک پاک اور مطہر اور تزکیہ یافتہ پایا ان کو بغیر نشانوں کے نہیں چھوڑ ا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايته پھر دوسروں کے لئے محرم بنے انہوں نے کہا دیکھو تم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ایسا رسول ہے جو آیات تمہیں بتائے گا.ہمارے پاس آؤ، ہماری زندگی کو دیکھو، ہمارے ارد گرد دیکھو، آیات ہر قسم کی ظاہر ہورہی ہیں.خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۴۴۴ تا ۷ ۴۴)

Page 550

تغییر حضرت خلیفة امسح الثالث ۵۴۴ سورة ال عمران خدا تعالیٰ نے جو اس جہان کو پیدا کیا اس عالمین کو پیدا کیا اس کے مختلف پہلوؤں پر جب انسان نظر رکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے اور کہتا ہے علی وجہ البصیرت کہتا ہے کہ میرے رب نے کسی چیز کو بے مقصد نہیں پیدا کیا - يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النّارِ - کہ تو پاک ذات ہے تو نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی.مومنوں پر الہی سلسلوں پر جو ابتلا آتے ہیں وہ بھی بے مقصد نہیں وہ ان کو مارنے کیلئے اور ہلاک کرنے کے لئے تو نہیں آیا کرتے ، وہ ان کی شان ظاہر کرنے کے لئے وہ ان کی روحانی ترقیات کے لئے ، وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے زیادہ حصول کے سامان پیدا کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں.وہ بے مقصد نہیں ہیں ان کا مقصد ہے اور بڑا عظیم مقصد ہے.بڑا حسین مقصد ہے.بڑا پیارا مقصد ہے.مومن یہ سوچے گا کہ ایٹم کی طاقت بے مقصد نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے مقصد اصولی طور پر قرآن کریم میں یہ بتایا ہے کہ وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاليه (۱۴) که بلا استثنا ہر چیز کو انسان کی خدمت کے لئے : پیدا کیا گیا ہے.ایٹم کی طاقت کا بھی یہی مقصد ہے لیکن جنہوں نے ایٹم کی طاقت کو نکالا وہ اس کا استعمال کچھ حد تک صحیح بھی کر رہے ہیں اور بہت حد تک غلط بھی کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں.ایسے مہلک ہتھیار بنا لئے ہیں.ایک مومن کا دماغ کہے گا کہ ایٹم کا یہ مقصد تو نہیں کہ جو چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے وہ اس کی گردن اڑا دے وہ تو انسان کے فائدے کے لئے ہی استعمال ہونی چاہیے.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۶۰)

Page 551

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ۵۴۵ سورة النساء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النِّسَاء آیت ۱ تا ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ياَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِى تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًان b قرآن کریم کی تین آیات عام طور پر خطبہ نکاح کے وقت پڑھی جاتی ہیں.پہلی آیت جو پڑھی جاتی ہے وہ یہ ہے.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبِّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ - اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہمارا اللہ ہمارا رب ہے.ربوبیت کی صحیح اور حقیقی ذمہ داری اس نے اپنے پر لی ہے.رب کے معنی ہیں پیدا کرنے والا.پیدائش کے بعد جو قو تیں اور استعداد یں اس نے مخلوق میں رکھی ہوں ان کے مطابق نشو و نما کے سامان پیدا کرنے والا نشو نما کی توفیق دینے والا تا کہ اس کی مخلوق وہ حاصل کر لے جو اس نے اپنی مخلوق کے لئے مقرر کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ہی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے.جسمانی بھی اور روحانی بھی اور اللہ تعالی یہاں یہ فرماتا ہے کہ میں نے اس ربوبیت کے نظام میں ازدواجی تعلقات بھی رکھتے ہیں.ان ازدواجی تعلقات کے نتیجہ میں اگر تم خدا کی باتیں مانو د نیا کے رسم و رواج نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں درجہ بدرجہ ترقی دے کر ان مقامات تک تمہیں لے جائے گا.جن مقامات تک وہ تمہیں لے جانا چاہتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے

Page 552

سورة النساء تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث فرمایا کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ (ترمذی ابواب المناقب).اگر تمہارے اپنے اہل کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے اچھا برتاؤ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی تم اچھے بنو گے اور جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم انسان کو ملتا ہے شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان اس حکم پر عمل نہ کرے.اس مقصد کو حاصل نہ کرے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسے حاصل ہو.ان ترقیات تک نہ پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہتا ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ ازدواجی تعلقات میں شیطانی رخنوں کا واقع ہو جانا بھی ممکن ہے.اس لئے جب تمہیں اس قسم کی الجھنیں پیدا ہوں تو تم اِتَّقُوا رَبَّكُمُ اسی کو اپنی ڈھال بناؤ جس نے خود کو تمہارا رب بنایا ہے.رب ہونے کی ذمہ داری اس پر ہے.اگر تم اپنے خدا کو ، اپنے اللہ کو، اپنے رب کو ، اپنے خالق کو اپنی ڈھال بناؤ گے اور اس کے احکام کو توڑو گے نہیں اور گناہ سے اور معصیت سے اس لئے بچو گے کہ وہ تم سے راضی ہو جائے تو پھر تم شیطانی وسوسوں اور شیطانی رخنوں اور شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ گے کیونکہ وہ تمہارا خالق ہے وہ تمہارا رب ہے اور وہی جانتا ہے کہ تم کس قسم کی استعداد میں اور قوتیں رکھتے ہو اور تم کس حد تک بلندیوں کو حاصل کر سکتے ہو.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک موقع پر کہا اور اس کو قرآن کریم نے نقل کیا تا کہ ہمارے لئے وہ ہدایت کا موجب بنے اور وہ یہ کہ الَّذِی خَلَقَنى فَهُوَ يَهْدِينِ (الشعراء: ۷۹) اور اس میں یہ مضمون بیان کیا کہ خالق ہی بتا سکتا ہے کہ کتنی طاقت اور قوت کسی چیز میں ہے.موٹی مثال اس کی ہے.لاریاں چلتی ہیں ہر روز اس پر چڑھتے ہیں موٹریں ہیں موٹر بنانے والے نے اس پر لکھا ہوا ہے کہ اس سے زیادہ تیز رفتار سے یہ موٹر نہیں چلے گی اگر لکھا نہ ہوتو پھر نا واقف انسان یہ نہیں کہ سکتا کہ کتنی تیز رفتار سے یہ موٹر چل سکتی ہے.انسان کو جس نے پیدا کیا وہی بتا سکتا ہے کہ اس میں کیا کچھ وو - خطبات ناصر، جلد دهم صفحه ۳۴۵،۳۴۴) رکھا گیا ہے.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ.یہاں آیت میں اِتَّقُوا اللهَ رَبِّكُم بھی ہے اور بہت سے کشیکسٹ (Context) میں تقویٰ کا ذکر ہے لیکن اس آیت میں جونکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے رب کا تقوی.اور یہ رب کا تقویٰ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.تم دونوں کی ربوبیت کرنے والا ہے.اسی طرح تم پر بھی ربوبیت کی ذمہ داریاں کچھ نئی پڑنے والی ہیں اور اسی صورت میں تم ادا کر سکو گے جب تم حقیقی رب ، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے.(خطبات ناصر، جلد دہم صفحہ ۷۱)

Page 553

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۴۷ سورة النساء جہاں تک آپ کی بعثت اور اس کی غرض وغایت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اس اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں کوئی تفریق نہیں کی اس لئے قرآن مجید میں جتنے بھی احکام آئے ہیں.(ماسوا چندا حکام کے جن میں جسمانی تفاوت کی وجہ سے عورتوں کے بعض جدا گانہ نوعیت کے حقوق و فرائض کا ذکر ہے) ان میں یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور وہ یکساں طور پر دونوں پر عائد ہوتے ہیں.مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: - يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ - اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے یہاں بھی الناس کا لفظ استعمال کر کے مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں حکم دیا گیا ہے اور انہیں اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اس حکم کے ذریعہ انہیں در اصل کہا یہ گیا ہے کہ وہ یکساں طور پر خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کر کے اس کی نگاہ میں عزت کا مقام حاصل کریں.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام مردوں اور عورتوں دونوں کو عزت اور احترام کا مقام دلانا چاہتا ہے اور اس لحاظ سے ان میں کسی تفریق کا روادار نہیں ہے.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۶۳۳، ۶۳۴) آیت ۱۸ إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَبِكَ يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حكيمان ط فرمایا کہ قرآن کریم قابل الثوب خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے وہ تمہیں ان دروازوں تک لے جائے گی جو تو بہ کے دروازے ہیں.وہ تمہیں بتائے گی کہ ان دروازوں کو تم نے کس طرح کھٹکھٹانا ہے تا کہ وہ تم پر کھولے جائیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ بتایا کہ جب تمہارا دل اپنے پیدا کرنے والے کی طرف مائل ہو اور اس کی طرف جھکے لیکن تم سرگردان ہو ، نہ جانتے ہو کہ کن راہوں سے تم اس کی جناب میں پہنچ سکتے ہو تو اس کتاب کی طرف رجوع کرو اور اس سے روشنی اور ہدایت حاصل کرو تا تمہاری مراد بر آئے

Page 554

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۸ سورة النساء اور تمہارا رب تم سے راضی ہو جائے اور اس کی نظر میں تم ایسے بن جاؤ کہ کبھی تم سے گناہ سرزد ہی نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولبِكَ يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تو بہ کس طرح اور کن لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہے اور وہ کون لوگ ہیں کہ جن کی تو بہ ان کے منہ پر ماری جاتی ہے.یہ تو ایک مثال ہے جو اشارہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں.ورنہ قرآن کریم بھرا پڑا ہے ایسی آیات سے جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ توبہ کا طریق کیا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفت قابلِ الثّوبِ کو اپنے حسن عمل سے خدا تعالیٰ اور قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جوش میں لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جو توبہ قبول کرنے والا ہے ان لوگوں کیلئے تو بہ کے دروازے کھول دیتا ہے.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۳۳۶،۳۳۵) آیت ۲۴ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ وَبَنْتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمْتُكُمْ وَ خلتكم وَبَنْتُ الْآخِ وَ بَنْتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهُتُكُمُ الَّتى اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَواتُكم مِنَ الرَّضَاعَةِ وَ أمَّهُتُ نِسَا بِكُمْ وَ رَبَّابُكُمُ التِي فِي حُجُورِكُم مِّنْ نِّسَا بِكُمُ الَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَابِلُ ابْنَا بِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَ أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَد سَلَفَ إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ز لا (۲۴) جنسی تعلقات کے اوپر آداب کے لحاظ سے جو پابندی لگائی گئی ہے.عرب میں لوگ ماں سے شادی کرنے کو جائز سمجھتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کی وحی کے نتیجہ میں حُزمَتُ عليكم أمهتكم آپ میں سے کئی یہ آیت پڑھتے ہوں گے تو کہتے ہوں گے کیا انسان اپنی ماں سے بھی شادی کر سکتا ہے؟ لیکن عرب شادی کر رہا تھا اس لئے یہ کہنے کی ضرورت پڑی حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أمهتكم وحشی عرب ماں سے نکاح کو جائز قرار دیتا ہے اس لئے ایک ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے

Page 555

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۴۹ سورة النساء انسان بننا ہے تو ماں سے شادی نہیں کرو گے.نکاح کے سلسلہ میں اور بہت سارے قرآن کریم کے آداب سکھائے.یہ تو پرانے زمانے کی باتیں تھیں.چنانچہ اس زمانہ میں ایک کتاب میں لکھا ہوا جب میں نے پڑھا تو میں حیران ہو گیا کہ عقلاً اس بات پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی ماں سے تعلقات رکھے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ یہ تو انسانیت کے خلاف ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کریم کے صریح حکم کے خلاف ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حُرِّمَتْ عَلَيْكُم امهتكم اس صریح حکم کے بعد اس قسم کے حوالے نظر آ جاتے ہیں اس دنیا میں جس میں میں اور آپ ( خطابات ناصر جلد دوم صفحه ۱۳۹،۱۳۸) رہ رہے ہیں.ج آیت ۲۹ يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفان اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے.ضعیف اس معنے میں کہ خدا تعالیٰ نے جہاں اس کو نیکی کی بہت سی قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں وہاں اس کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ ان راہوں کو چھوڑ کر جو اس کے رب کی طرف لے جانے والی ہیں، ان راہوں کو اختیار کرے جن پر چل کر شیطان لعین سے وہ اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے اور ضعیف اس معنی میں بھی کہ غیر محدود انعامات اس کے سامنے رکھے اور محدود عمل سے زیادہ کی اسے طاقت نہیں دی.کمزور ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کرے.تمہارے لئے آسانی پیدا کرے.اسلامی شریعت کا گہرا مطالعہ ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جاتا ہے اور اس صداقت پر قائم کرتا ہے کہ ہر حکم شریعت اسلامیہ کا ایسا حکم ہے جس میں آسانی کے پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے.اس وقت میں نے تین چار باتیں اصولی جو ہیں ان کو منتخب کیا ہے اس وقت کے خطبہ کے لئے.ایک یہ کہ انسان میں جو قوت اور طاقت ہے وہ اپنے نفس میں ایسی نہیں جو اسے خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتی.انسان کی ساری نیکی کی طاقتیں بھی اس کے لئے بدی بن سکتی ہیں.اس میں کبر پیدا کر کے، اُس میں نخوت پیدا کر کے، اس میں ریا پیدا کر کے، اس میں جذ بہ نمائش پیدا کر کے، اس میں اپنے نفس کی پوجا کر کے اور پرستش کے جذبات پیدا کر کے، اس کی نیکیاں جو ہیں ان کے اندر وہ خود شرک

Page 556

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة النساء کی ملاوٹ پیدا کر سکتا ہے.اس لئے چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نیکی کی طاقتیں بھی دیں ان کا بھی وہ غلط استعمال کر سکتا تھا.وہ انتہائی عاجزانہ نمازیں پڑھنے کے بعد بظاہر جو ہمیں نظر آتی تھیں خشوع اور تضرع کے ساتھ دعائیں کرنے والا لیکن اس کی روح اس میں غائب بھی ہوسکتی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس ضعف سے بچانے کے لئے اور آسانی کو پیدا کرنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ اس کے لئے قبولیت دعا کے دروازے کھولے گئے اور اسے یہ حقیقت سمجھائی گئی کہ جو اعمال صالحہ بجالانے کی تمہیں طاقتیں عطا کی گئی ہیں ان کے ذریعہ سے محض تم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ساری نیکیاں کرنے کے بعد بھی تم خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار دیئے جاؤ سوائے اس کے کہ تم اپنی عاجزانہ دعاؤں سے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے ہو.اگر تم اپنی نیکیوں کی قبولیت کے لئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے اور یہ دروازہ تمہارے لئے کھلا ہے تو پھر تمہاری نیکیاں اس کے حضور قبول ہوں گی اور تم اس کے پیار کے مستحق ہو گے اور تمہیں اس کا ثواب ملے گا.تو قبولیت دعا کے نتیجہ میں ہماری راہ کو اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا.ہمارے بوجھ کو ہلکا کر دیا ورنہ یہ بوجھ ضعیف انسان کیسے اٹھا سکتا تھا کہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کو ثواب دینے اور پیار کرنے پر مجبور کر سکتا.تو پہلا اصول اس نے اس آسانی کے پیدا کرنے کا یہ بنایا کہ دعائیں کرو اور میرے فضل کو جذب کرو تا کہ میں تمہاری نیکیوں اور تمہارے اعمال صالحہ میں جو کمزوریاں اور خامیاں رہ گئی ہیں، انہیں مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دوں اور تمہارے اعمال کو قبول کروں اور تم سے میں پیار کرنے لگوں.دوسری تخفیف جو ہے جو آسانی پیدا کی گئی ہے، وہ اسلام نے بڑے حسین پیرا یہ میں اور بڑے عظیم طریق پر فرائض اور نوافل، عبادات کو اور حقوق کی ادائیگی کو ان دوحصوں میں منقسم کر کے پیدا کی ہے.فرائض انسان پر نیکیوں کا کم سے کم بوجھ ڈالتے ہیں اتنی آسانی سے اس کے نتیجہ میں کہ انسان جب خدا تعالیٰ کے فضلوں پر غور کرتا اور اس کے پیار کو دیکھتا ہے تو دنگ رہ جاتا ہے.نماز، دن میں پانچ دفعہ دو، چار، چار، تین، چار رکعتیں پڑھنی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک باہر سے، دیہاتی علاقے سے مسلمان آئے اور انہوں نے کہا کہ کیا ہیں اسلام کے ارکان، نماز کے متعلق یہ فرائض آپ نے سارے فرائض بتائے.اس نے کہا میں فرائض پورے کروں گا اس

Page 557

۵۵۱ سورة النساء تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث سے زائد کچھ نہیں کروں گا.تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ اپنی بات پر قائم رہا اور خدا تعالیٰ نے اس کی اسے توفیق بھی دی تو دَخَلَ الْجَنَّةَ خدا اسے جنت میں بھیج دے گا.تو جنت میں داخل ہونے کے لئے فرائض ہمارے لئے رکھے.جنت میں داخل ہو کر جنت میں جو ارفع مقامات ہیں، مقامات محمودہ ان کے حصول کے لئے نوافل رکھ دیئے اور اس طرح اُمت مسلمہ کے لئے آسانی پیدا کر دی کیونکہ ہر شخص جو ہے نہ اس میں اتنی طاقت ہے نہ اس میں اتنا جذبہ ہے.ہر ایک کو کہا کہ کم از کم لے لو، کر لو تو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے.روزے ہیں.بارہ مہینے میں سے ایک مہینے کے روزے رکھے.چوبیس گھنٹے میں سے کبھی بڑا ہوتا ہے کبھی چھوٹا میں اوسط لے لیتا ہوں.بارہ گھنٹے کا روزہ رکھ دیا یعنی بارہواں حصہ دنوں کے لحاظ سے اور پھر وہ جو صیام کے ، رمضان کے ایام ہیں ان کا آدھا وقت کھانے کے لئے دے دیا اور آدھا خدا کی خاطر اور حقوق کی یاد دہانی کے لئے اور روح کی پاکیزگی کے لئے اور معاشرہ میں محبت و اخوت پیدا کرنے کا سبق دینے کے لئے بہت ساری حکمتیں ہیں.آدھا وقت روزہ کے لئے اور آدھا وقت جو ہے وہ کھانے کے لئے دے دیا.اس سے مختلف ممالک میں مختلف رنگ میں مسلمان نے فائدہ اٹھایا.میں مصر میں بھی کچھ عرصہ رہا ہوں وہاں کا طریق میں نے یہ دیکھا کہ افطاری سے لے کر سحری کھانے تک ساری رات بیٹھ کے باتیں بھی کرتے تھے اور ساری رات کھاتے رہتے تھے اور سحری کا جب وقت ہوتا تھا سحری کھاتے تھے اور ان کا روزہ شروع ہو جاتا تھا پھر افطاری تک سورج غروب ہونے تک وہ روزہ دار تھے.تو کتنی آسانی پیدا کی.حج ہے.ساری عمر میں ایک حج فرض اور اس کی بھی بہت سی شرائط اور بنیادی ارکانِ اسلام میں سے ہے.تو بڑی سہولت اور آسانی پیدا کی لیکن جن کو خدا تعالیٰ توفیق عطا کرے اگر وہ ہر سال حج کر سکتے ہوں دوسروں کا حق مارے بغیر کیونکہ اب کوٹا سسٹم بن گیا ہے اس لئے یہ فقرہ بولا ہے تو ہر سال حج کریں لیکن فرض حج جو ہے وہ ایک ہے باقی نفلی حج ہوں گے اور سارا سال عمرہ کرتے رہیں.میں نے ایک جگہ کتاب میں پڑھا کہ جدہ میں رہنے والے بہت سے لوگ روزانہ ہی شام کو مثلاً دکاندار ہے تو دکان بند کر کے مکہ مکرمہ چلے جاتے ہیں اور عمرہ کر کے آ جاتے ہیں تو وہ نوافل ہیں.زکوۃ ہے.نصاب کے ماتحت دینی ہے جو صاحب نصاب ہے وہی دے گالیکن جو مال کے خرچ کرنے

Page 558

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۲ سورة النساء کے نوافل ہیں وہ یہ ہیں کہ دنیا میں اگر ایک شخص مالی تنگی میں ہے تو اُمت مسلمہ اس کی ذمہ دار ہے.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الداريت: ۲۰) جب تک ایک سائل اور ایک محروم بھی ہے، ساری اُمت مسلمہ کا فرض ہے کہ اس کی ضرورت کو اس کی حاجت کو پورا کرے اور اس کی تکلیف کو رفع کرے.وہ نوافل میں آتا ہے لیکن صاحب نصاب، نصاب دیتا ہے اور مالی قربانی کا جو فرض ہے وہ پورا کرتا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتا ہے.جنت کا دروازہ جو ز کوۃ نے کھولنا تھا وہ اس کے لئے کھول دیا گیا.جنت میں جو رفعتوں کے مقامات وہ حاصل کر سکتا ہے مالی قربانیوں کے نتیجہ میں وہ جتنا کرسکتا ہے، کرے.اس میں ہمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نظر آتے ہیں کہ ایک وقت میں اسلام کو مال کی ضرورت پڑی تو گھر سے ہر چیز اُٹھا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دی.آپ نے پوچھا گھر میں کچھ چھوڑ کے آئے ہو تو انہوں نے کہا خدا اور اس کے رسول کا نام چھوڑ کے آیا ہوں.اس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں اور ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے آدمی بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے سوچا کہ آدھا گھر میں چھوڑ جاؤ آدھا لے جاؤ.کسی نے بہت کسی نے کم لیکن وہ نوافل کی دوڑ تھی.وہ فرائض کے بعد شروع ہوتی ہے تو یہ ایک ہمیں نظر آتی ہے.میں نے غور کیا کہ ایک بڑی عظیم سہولت مسلمان کو دی گئی ہے کہ اس کی عبادات کو اور اس کے ادا ئیگی حقوق انسانی کو یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں فرض اور نفل دو علیحدہ علیحدہ بنیادی قسم کی ہر میدان میں، ہر میدان قربانی میں علیحدہ علیحدہ حقوق کی ادائیگی کی شکلیں بنا دیں.ایک پاس ہونے کے لئے ، ایک اگر مقبول ہو جائیں ویسے نہیں، اگر مقبول ہو جائیں فرائض تو جنت کے دروازے کھل گئے لیکن جنت میں بھی رفعتیں ہیں.جنت میں بھی بلند مقام ہیں.جنت میں بھی خدا کے پیار پیار میں فرق ہے.جنت میں بھی یہ سمجھنا کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیار ملے گا ہر ایک کو ویسا ملے گا یہ تو ہماری عقل نہیں مان سکتی لیکن جنت میں ہر وقت دروازہ کھلا ہے ان رفعتوں کے حصول کا.جنت میں رفعتوں کے حصول کا دروازہ کھلا ہے اس دنیا ئے ابتلا اور امتحان میں نوافل کی ادائیگی کے ساتھ اور وہاں خدا تعالیٰ نے احادیث میں آتا ہے کچھ اور اصول بنائے ہیں وہ اس وقت میرے زیر بحث نہیں.تیسری سہولت ہمیں بنیادی سہولت جو ہر ہمارے عمل سے تعلق رکھتی ہے، وہ توازن کے اصول سے ہمیں سہولت عطا کی ہے یعنی ایک طرف پورا جھک جانا اور اس طاقت کو قریباً توڑ دینا اور دوسروں کو

Page 559

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۵۳ سورة النساء نظر انداز کر دینا اس کی اجازت نہیں.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ حقوق العباد کو بھول کر چومیں گھنٹے حقوق اللہ کو ادا کرتے رہو یا حقوق اللہ کے ان حصوں کو جن میں ذکر الہی ہے مثلاً گناہگار بن جاتا ہے آدمی ، تو توازن کے اصول کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں قائم کر کے ایک نہایت حسین سہولت اور آسانی انسان کے لئے پیدا کی.اسلامی تعلیم میں ایک توازن کا اصول ہے جس نے يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ کے ماتحت ہمارے لئے سہولت پیدا کی.یہی حالت عبادات کی ہے پہلے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں روحانی ترقیات کو تقسیم کر دیا.حقوق العباد میں سینکڑوں باتیں آتی ہیں.جذبات کا خیال رکھنا ہے، ان کی صحتوں کا خیال رکھنا ہے، ان کی بھوک کا خیال رکھنا ہے، ان کے کپڑوں کی ضرورت پوری کرنی ہے کہ جو عناصر ہیں وہ ان کو دکھ نہ پہنچائیں ان کی تعلیم کا خیال رکھنا ہے، ان کی کفو میں شادیاں ہونے کا خیال رکھنا ہے.گنتے چلے جائیں سینکڑوں حکم ہیں اور سب میں ہر جگہ جب آپ دیکھیں گے وہ تو ازن آجاتا ہے.ایک تو پہلے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن کر دیا.یہ کہا کہ تم حقوق اللہ کی ادائیگی میں اتنے محونہ ہو کہ حقوق العباد کو بھول جاؤ.یہی تو ازن ہے نا توازن اسی کا نام ہے اور یہ کہا کہ تم حقوق العباد کی ادائیگی میں اتنے محو نہ ہو کہ حقوق اللہ کو بھول جاؤ.دونوں کے درمیان ایک توازن پیدا کر دیا.یہ مضمون خود جو ایک اصول ہے بڑی تفصیل چاہتا ہے.میں نے آپ کے سامنے کھانے کی ایک مثال پیش کی اور ساتھ آپ کو بعض روحانی باتوں کی طرف بھی توجہ دلا دی.اچھا اسی میں یہ جو اصول توازن ہے اس میں مثلاً صدقہ خیرات ہے، اس میں جب ہم نوافل میں آگئے تو نوافل میں توازن رکھو قائم.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے اموال کو نیکیوں میں اس طرح خرچ نہ کرو کہ تمہاری اولاد کو بھیک مانگ کر روٹی کھانی پڑے.توازن قائم کر دیا نا.اور چوتھا اصول سہولت جو ہمیں اسلام میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ امتداد زمانہ کے لحاظ سے دار الامتحان اور دار الابتلا کی زندگی انعام پانے والی اور اس کا نتیجہ حاصل کر کے زندگی جو انسان گزارے گا ان کے امتداد زمانہ کے لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں.اس دنیا کی زندگی میں سال کی، تیس سال کی، پچاس سال کی ، ساٹھ سال کی ، اسی سال کی سوسال کی یا کچھ اور سال بیچ میں شامل ہو جا ئیں لیکن جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے جنت کی زندگی ، خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو اپنی

Page 560

۵۵۴ سورة النساء تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث رضا کی جنتوں میں لے کے جائے ، وہ زمانہ اتنا لمبا اور وہ جزا اتنی ہے کہ اس کو غیر محدود کہنا غلط نہیں ہوگا.تو محدود اعمال ہیں ایک طرف پڑے ہوئے دارالا بتلا میں اور ایک طرف ایسی زندگی ہے جس کی نعمتیں غیر محدود ہیں اس کا انتظام کر دینا محدود اعمال کی غیر محدود جزا کا اعلان کر دینا کتنی بڑی سہولت پیدا کر دی.اگر انسان کو یہ کہا جاتا کہ جتنے عمل کرو گے اتنے ہم سے انعام لے لینا تو وہ تو پھر بعض روحانی طور پر بعض بہکے ہوئے دماغوں کی طرح ان کو پھر دار الابتلا میں آنا پڑتا.پھر یہ مصیبتیں جھیلنی پڑتیں.پھر کچھ عرصہ جنتوں میں گزارنا پڑتا.پھر واپس آنا پڑتا اور اس دنیا کی جو نیکیاں ہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ ساری عمر کی نیکیاں جو ہیں وہ خدا تعالیٰ کے پیار کے ایک جلوہ جو ہے اس کی قیمت بھی ادا نہیں کرسکتیں تو ستر سال کی زندگی دار الا بتلا اس دنیا میں اور اس کے مقابلے میں ایک سیکنڈ کی زندگی جنت میں اور پھر وہ واپس آ جائے یہاں ستر سال گزارنے کے لئے پھر تو ایسا انتظام کرنا چاہیے تھا نا ليكن يُرِيدُ اللهُ اَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا انسان کو خدا تعالیٰ نے ضعیف اس جہت سے بھی بنایا کہ وہ اپنی محدود زندگی میں غیر محدود اعمال صالحہ بجا نہیں لا سکتا.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ا ہو گیا نا.انسان کو اتنی زندگی دی کہ اس کے اعمال جتنا مرضی زور لگا لیں اس کے اعمال صالحہ غیر محدود نہیں ہو سکتے لیکن جو انعامات دیئے گئے جن کا وعدہ دیا گیا وہ غیر محدود ہیں تو یہ سہولت پیدا کر دی گئی انسان کے لئے.جو تم محدود عمل کرو گے اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اپنے پیار کا یہ جلوہ ظاہر کرے گا کہ غیر محدود انعامات کا تمہیں وارث بنادے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ یہ میں نے موٹے موٹے اصول چار جو مجھے نظر آئے وہ میں نے لئے ہیں ورنہ اسلام کا ہر حکم ہمیں یہ بتاتا ہے اور یہ حقیقت ہمارے اوپر کھولتا ہے کہ يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُم الله تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ ہمارے لئے سہولت کا سامان اور آسانی کا سامان پیدا کرے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ انسان ضعیف ہے اور وہ اس معیار کو نہیں پہنچ سکتا کہ جس کے اوپر یہ ہم کہہ سکیں کہ جو جنتیں ہیں وہ اس کے اعمال کے نتیجہ میں اس کو ملیں گی.(خطبات ناصر جلد هشتم صفحه ۱۲۹ تا ۱۳۶ ) آیت ۳۵ اَلرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى b بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ، فَالصَّلِحْتُ قَنِتَتَ حَفِظْتُ لِلْغَيْبِ

Page 561

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة النساء ج بِمَا حَفِظَ اللهُ ۖ وَ الَّتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ویسے تو قرآن کریم کی آیات کے بے شمار معانی ہوتے ہیں لیکن اس آیہ کریمہ میں لفظ قوام کے یہ معنے نہیں ہیں جیسا کہ بعض بیوقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں اختیار دے دیا گیا ہے کہ جس طرح مرضی بیویوں سے سلوک کریں.یہ غلط ہے دراصل اس رشتہ کو قائم رکھنے کی ذمہ واری خاوند پر ڈالی ہے یعنی بیوی کا قیام جسمانی لحاظ سے اس کا قیام ذہنی لحاظ سے اس کا قیام اخلاقی لحاظ سے اس کا قیام روحانی لحاظ سے خاوند کے ذمہ ہے بالفاظ دیگر ایک کنوارہ آدمی غلطی کرتا ہے تو اس اکیلے پر ذمہ واری ہے.ایک کنواری بچی سے غلطی ہو جائے تو اس لڑکی پر ذمہ واری ہے کسی مرد پر ذمہ واری نہیں ہے.لیکن اگر ایک بیاہی ہوئی بچی سے کوئی غلطی ہو جائے تو دو پر اس کی ذمہ واری عائد ہوتی ہے.ایک لڑکی پر اور دوسرے اس کے خاوند پر اس کا کام تھا کہ دونوں اس طرح یک جان ہو جائیں کہ وہ اس قسم کی غلطی نہ کر سکے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ بعض لوگ اس آیت کے یہ معنے کرنے لگ جاتے ہیں کہ انہیں عورتوں پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے.اسلام نے کوئی سختی کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ (ابن ماجه ابواب النکاح) خدا کی نگاہ میں تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا ہے اور حسن سلوک کرتا ہے اور اہل کے تعلق میں جو ذمہ واریاں ہیں انہیں ادا کرتا ہے دوسرے بیوی سے کہا کہ تم مرد کا لباس ہو.خاوند سے کہا بیوی تمہاری زینت کا باعث ہے.اسلامی معاشرہ میں بہت ساری چیزیں ہیں جو عورت اگر کرے تو خاوند کی زینت کا بھی باعث ہیں مثلاً پردہ بھی کرے اور اپنی ذمہ واریاں بھی نبا ہے.ایک مسلمان عورت بز دل اور کم ہمت نہیں ہوا کرتی.(خطبات ناصر جلد و هم صفحه ۴۶۰،۴۵۹) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے مرد کو عورت کا نگران

Page 562

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة النساء اور محافظ مقرر کیا ہے.کس چیز کی نگرانی کرنی ہے؟ اور کس چیز کی حفاظت کرنی ہے اس کے متعلق اسی آیت میں آگے چل کر ہمیں یہ بتایا کہ عورت کی جسمانی نشوونما اور تربیت اور صحت وغیرہ کی نگرانی کا کام مرد پر ڈالا گیا ہے.اس لئے ڈالا گیا ہے کہ عام طور پر معاشرہ انسانی میں مرد کمانے والا اور خرچ کرنے والا ہے.ہمیں بطور خاوند یا بطور باپ یا بعض اوقات بطور بڑے بھائی یا کسی بڑے رشتہ دار کی حیثیت سے یہ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں کہ ان مستورات کو جو بیوی کی حیثیت میں یا جو بیٹی کی حیثیت میں یا جو چھوٹی بہن کی حیثیت میں ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ہماری زیر نگرانی ہیں.ہماری حفاظت میں ہیں ان کی صحت کا ہم خیال رکھیں ان کی جسمانی نشوونما کا ہم خیال رکھیں کیونکہ ہم خرچ کرنے والے ہیں اور خرچ کی راہ بھی اس میں بتا دی کہ خرچ کرتے وقت فضولیات کی بجائے ضروری چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے.اس طرح اسلام ایک صحت مند معاشرہ کی بنیادرکھتا ہے.خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۲۸۹،۲۸۸) پس اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا کہ ہم نے تمہیں ( مردوں کو) معاشرہ میں کمانے والا حصہ بنایا ہے اور اس وجہ سے کہ تم خرچ کرتے ہو، ناجائز فائدہ نہ اٹھانا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوام بنایا ہے اور قوام کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں تم پر عائد ہوتی ہیں وہ تمہیں نبھانی چاہئیں.قوام کی دوسری شکل (روحانی) یہ بنتی ہے.بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے رشتہ میں میاں بیوی، باپ اور ماں ہوں، یا بھائی اور بہن ہوں ان سب میں مرد کو مؤثر بنایا ہے.یعنی یہ اثر ڈالنے والا ہے اور عورت اثر قبول کرنے والی ہے.یہ ایک جزوی فضیلت اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر دی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں یہ فضیلت دی ہے کہ تم اثر انداز ہو اور عورت چاہے بیوی ہو.چاہے بیٹی ہو.چاہے ماں ہو تمہارے اثر کو قبول کرتی ہے اور اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے اعمال بجا لاتی ہے کہ اگر تمہارا اثر غلط ہو گا تو اس کے وہ اعمال بھی درست نہ ہوں گے.فرمایا چونکہ قوام اور مؤثر ہونے کا مقام تمہیں عطا کیا گیا ہے.اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں کہ تم اپنی

Page 563

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۵۷ سورة النساء ذمہ داری کو اس وقت نبھانے والے ہو گے جب وہ عورتیں جو تمہارے اثر کے نیچے ہیں الصلحت ہوں ، قنتت ہوں، حفظت لِلْغَيْبِ ہوں.اگر تمہارے اثر کے نیچے آنے والی عورت صالحہ نہیں.اگر وہ قامتہ نہیں.اگر وہ غیب کی حفاظت کرنے والی نہیں تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ تم پر جو قوام کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی ، تم نے اسے نبھایا نہیں اور اس کے لئے تم ہمارے سامنے جواب دہ ہو گے.اس لئے ڈرتے ڈرتے اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی زندگی کو گزارو تا اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہو اور اس کی نعمتوں اور اس کے فضلوں اور اس کی برکات کو حاصل کرنے والے ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے ان تمام برکات اور نعمتوں کا وارث بنائے جن کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ اور اس کی تعلیم کے ساتھ ہے.خطبات ناصر جلد دهم صفحه ۲۸۹ تا ۲۹۱) b آیت ۵۱،۵۰ اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ أَنْفُسَهُمْ ، بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا أَنْظُرُ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ كَفَى بِهِ اثْمًا مُبِينًا کیا تجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جو اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں.ان کا یہ حق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتا ہے اسے پاک قرار دیتا ہے.وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُنظُرُ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ کہ دیکھ وہ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں.جب وہ کسی کو پاک اور مطہر قرار دیتے ہیں تو اس کا تو مطلب یہ ہے نا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر ہے وہ.خدا تعالیٰ کہتا ہے دیکھو.وہ کس طرح خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور یہ و کفی پہ إثْمًا مبيناً کھلا کھلا گناہ ہے.ایک دوسرے کو یا اپنے آپ کو متقی اور پر ہیز گار قرار دینا ، خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا اللہ مبین ہے، ایک ایسا گناہ کرنا ہے جو چھپی ہوئی بات نہیں، کھلی بات ہے.اس و دو واسطے کہ پاک اور متقی کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو خدا کی نگاہ میں پاک اور متقی ہو.پاک اور متقی کے معنی اسلامی تعلیم کی رو سے یہ نہیں کہ کوئی جماعت کسی دوسری جماعت کو پاک اور متقی قرار دے دے.

Page 564

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۵۸ سورة النساء پاک اور متقی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی شخص پاک اور متقی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کو پاک اور متقی قرار نہیں دیتا اور ایک شخص یا ایک گروہ یا ایک علاقہ یا ساری دنیامل کے کسی کو پاک اور متقی قرار دے تو وہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے اور کھلم کھلا گناہ ہے.بہت سی اور آیات ہیں جن میں اس مضمون کے بعض دوسرے پہلو بیان کئے گئے ہیں.ان میں سے میں نے تین کو اٹھایا ہے.اس واسطے انسان کا جو کام ہے وہ انسان کو کرنا چاہیے اور انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے کبھی تکبر نہ کرے کبھی کسی سے خود کو بڑا نہ سمجھے کبھی گھمنڈ اور فخر اس کے دل میں پیدا نہ ہو.نہ دنیوی برتریاں، جو دنیا کی نگاہوں میں ہیں ان کے نتیجہ میں، نہ دین میں جب دین خدا اسے عطا کرے، نا سمجھی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی تلاش کرنے کی بجائے جو دعا کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہوتے ہیں خود ہی فیصلہ کرنا شروع کر دے کہ میں یا فلاں لوگ جو ہیں وہ پر ہیز گار اور متقی ہیں.( خطبات ناصر جلد نهم صفحه ۹۸،۹۷) قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا مثلاً فرمایا کہ لا يُظْلَمُونَ فَتِیلا کہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو ایک لکیرسی ہوتی ہے بالکل معمولی سی وہ اتناظلم بھی نہیں کرتا.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ ظلام نہیں ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور منفی اور مثبت ہر دو معنی میں مبالغہ کا مفہوم پیدا کرتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ ذرہ بھر بھی ظلم کرنے والا نہیں اس تعلیم کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی فرد یا کسی گروہ کے متعلق رحمت سے محرومی کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ بھی رحمت کا ہی ایک جلوہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے بھی اس کا مقصود ان لوگوں کی یا اس فرد کی اصلاح ہوتی ہے اس وجہ سے اسلام نے ہمیں یہ بتایا کہ جہنم دائگی نہیں کیونکہ اصلی جہنم تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہے اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دائمی نہیں جب کسی کی اصلاح ہو جائے اس دنیا میں تو بہ اور استغفار کے ذریعہ یا اس دنیا میں ایک وقت معینہ تک سزا بھگتنے کے نتیجہ میں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اس کے لئے کھولتا ہے اور جہنم کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نکل جاؤ سارے یہاں سے اب جہنم میں کسی کو رکھنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے.خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۴۴، ۲۴۵)

Page 565

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۵۹ سورة النساء آیت ۵۸ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا لَهُمْ فِيهَا اَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَنْدُ خِلهُم ظِلَّا ظَلِيلا اس آیہ کریمہ میں ایک مضمون یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان پر پختگی سے قائم رہتے ہیں اور ایسے اعمال صالحہ بجالاتے ہیں جن میں فساد کی کوئی ملونی نہیں ہوتی اور وہ لوگ جن کے سارے کام اور سارے اعمال اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں ، جن کا نفس مرجاتا ہے اور اس فانی انسان میں خدائے ذوالجلال کی ایک تجلی کے نتیجہ میں ایک نئی روح پھونکی جاتی ہے اور اس نئی روح کے آرام اور آسائش کے لئے اس دنیا میں ایک جنت کو قائم کیا جاتا اور پیدا کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جنت اس قوم کے لئے اور اس اُمت کے لئے ابدی ہے اس وجہ سے لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاج مُطَهَّرَةٌ کہ ان کی بیویاں جو مطفرة ہیں.مُطَهَّرَةٌ کے ایک معنی ہیں گناہ سے بچنے والیاں.مُطَهَّرَةٌ کے ایک دوسرے معنی ہیں اعمال صالحہ کو بجالانے والیاں یعنی ایسے اعمال جن میں کوئی فساد نہ ہو اور مُطَهَّرَةٌ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ عورتوں کا وہ گروہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے بد رسوم اور مشرکانہ بدعتوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور ان کا وجود دنیا کے وجود سے بالکل علیحدہ کر دیا گیا ہے بلکہ اس دنیا میں رہتی ہوئی بھی وہ جنت کی حوروں کی مانند بن گئی ہیں یعنی وہ ہر اس گند سے اور شنیع اور قبیح فعل سے پاک ہیں کہ جن میں کا فرات ملوث ہوتی ہیں.یہ وہ عورتیں ہیں کہ جن کے گھروں میں کسی قسم کی بد رسم نظر نہیں آتی یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے گھر اور اپنے ماحول سے مشرکانہ بدعتوں کو دور کرنے والی ہیں چونکہ یہ ازواج مطہرات ان لوگوں کو ملی ہیں اور چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ تو فیق عطا کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو توحید خالص کے ماحول میں تربیت کر سکیں اور ایک سچا اور پکا اور موحد مسلمان بنا سکیں اور اس لئے اگلی نسل شیطان سے محفوظ رکھنے میں یہ عورتیں کامیاب ہو جاتی ہیں اس لئے اس جنت کو دوام مل جاتا ہے اس لئے یہ جنت ایک نسل کے لئے نہیں ہوتی بلکہ اگلی نسل کے لئے اور پھر اس سے اگلی نسل کے لئے بھی یہ دنیا کی جنت قائم رہتی ہے اور جو بشارتیں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 566

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث سورة النساء ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ان بشارتوں کی روشنی میں یہ جنت ہمارے لئے صدیوں تک قائم رہنی چاہیے.اگر ہم اپنی ذمہ داری کو نباہنے والے ہوں ہم مرد بھی اور ہماری مائیں اور ہماری بیویاں اور ہماری بہنیں اور ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں بھی تو اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ وعدہ ہے کہ وہ اس جنت کو اس دنیوی جنت کو بھی ہمارے لئے ایک قسم کی ابدی جنت بنا دے گا لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ عورت اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف پوری طرح متوجہ رہے.اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس معنی میں مطہرہ ہوں کہ کوئی بد رسم ان کے گھروں میں نہ ہو اور کسی مشرکانہ بدعت کے ساتھ ان کو کوئی تعلق باقی نہ رہے خالص توحید کا ماحول پیدا کرنے والی ہوں اور اس خالص تو حید کے ماحول میں اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنے والی ہوں.خطبات ناصر جلد اول صفحه ۵۹۵،۵۹۴) آیت ۵۹ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي ج الاَمرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُم تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَ اَحْسَنُ تَأْوِيلًا (۵۹) دوسری ذمہ داری جو ایک احمدی کی ہے اور جس کے متعلق شروع سے ہی جماعت کی تربیت کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ قانون ملکی کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا.ہمارے متعلق لاء ابائیڈ نگ پیپل ( Law Abiding People) کہا جا سکتا ہے کہ ہم قانون کی پابندی کرنے والے اور قانون کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہیں.آیت کا جو چھوٹا سا ٹکڑا میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد پڑھا تھا اس میں اولی الامر کے لفظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ( تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی میں اس کے ساتھ ہی شامل کر لیتا ہوں) ایک تو ہم لاء ابائیڈنگ پیپل ( Law Abiding People) یعنی قانون کے پابند اور قانون کی اطاعت کرنے والے لوگ ہیں اور دوسرے جن کو قانون صاحب اختیار بناتا ہے ہم اُن کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں.یہ بھی اسی کے اندر آ جاتا ہے یعنی قانون کی اطاعت کرنا اور قانون شکنی سے بچنا ہی یہ تقاضا کرتا ہے کہ جن لوگوں کو قانون نے حکومت کا اختیار دیا ہے قانون کے اندر رہتے ہوئے اُن کی بھی اطاعت کی جائے.اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ قانون کے خلاف کوئی کام نہ کریں اور قانون کے خلاف کوئی حکم نہ دیں اور ہر شہری کا یہ فرض

Page 567

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۶۱ سورة النساء ہے اور ہر احمدی کا خصوصاً، جن کو میں اس وقت مخاطب کر رہا ہوں کہ وہ قانون شکنی نہ کریں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں.(خطبات ناصر جلد ششم صفحه (۴۶۵) آیت ۹۵ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذلِكَ كُنْتُم مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ الله عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا اِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ۹۵ قرآن کریم نے اسلام اور مسلم کو دو مختلف معانی میں استعمال کیا ہے.اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو تمہیں سلام کہتا ہے اُسے تم یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو.وہ بالکل زبان کا ایک عام اقرار ہے.حقیقی اسلام یعنی نفس کو خدا کے حضور سونپ دینے کا مطلب نہیں ہے وہاں یہ مطلب ہے کہ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ اَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء : ۹۵) کہ جو تمہیں السلام علیکم کہے تمہارا حق یہ نہیں کہ تم کہو کہ تم مومن نہیں ہو.وہ ظاہری حکم ہے جو ظاہری فساد کو روکنے کے لئے دیا گیا ہے اور اس کے اندر بڑی حکمت ہے لیکن اسلام کا وہ مقام جس کے بعد خوف اور حزن باقی نہیں رہتا وہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے وجود کو اعتقادا اور عملاً اپنے رب کے حضور پیش کر دیتا ہے اور اسے سونپ دیتا ہے.( خطبات ناصر جلد پنجم صفحه ۵۴) دوسروں میں عیب تلاش کرنا، اپنا وقت ضائع کرنا اور خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.اس حد تک اس پر زور دیا کہ فرمایا جب ہم کہتے ہیں لا تَجَسَّسُوا تو ہماری مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایمان کے دعوی کے ساتھ ( زبانِ قال سے یا زبان حال سے ) تمہیں سلام کہے ( کوئی شخص سفر کر رہا ہے، پیدل چل رہا ہے، رستے میں ایک شخص ملا اس نے سلام کیا ) لا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء: ۹۵) تمہیں تجسس کرنے کی ضرورت نہیں.اس نے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے سلام کیا ہے.تم اسے مومن سمجھو تجسس کا نتیجہ تب نکلتا، اگر انسان عیوب کی سزا دینے کا اختیار رکھتا اور اس کی طاقت بھی ہوتی.تو جب نہ طاقت ہے نہ اختیار، تو بے نتیجہ بے تجسس.جسے طاقت حاصل ہے اور جس کے اختیار میں ہے سزاد ینا یا معاف کر دینا، وہ تو اللہ تعالی علام الغیوب ہے، اس سے کوئی چیز چھپی

Page 568

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۶۲ سورة النساء ہوئی نہیں.جب تمہاری طاقت میں نہیں ، جب تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا اختیار نہیں دیا گیا تو تمہارا تجسس کرنا بے مقصد، بے نتیجہ، اپنے وقت کا ضیاع اور دنیا میں فساد اور بدامنی اور معاشرے میں الجھن پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.اگر غور کیا جائے تو نہ کرنے والی باتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ لغو سے ہی تعلق رکھتی ہیں.(خطبات ناصر جلد تم صفحہ ۴۵۷) چھٹی شکل اللہ تعالیٰ نے جو مجاہدہ فی سبیل کی بتائی ہے وہ ہے خدا کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرے.سفر میں بہر حال ویسا آرام نہیں مل سکتا جیسا کہ اپنے گھر میں ملتا ہے.بعض لوگ سفر سے گھبراتے ہیں.بعض لوگ بار بار سفر کرنے سے گھبراتے ہیں.تو ہمارے مربی، معلم اور انسپکٹر صاحبان کو جو سال کے چھ سات ماہ سفر میں رہتے ہیں خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اپنی راہ میں مجاہدہ قرار دیا ہے.اور اس کی جو برکات ایک مجاہد پر نازل ہوتی ہیں یہ لوگ بھی اس کے وارث ہیں.جیسا کہ فرمایا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِیلِ اللهِ اگر چہ اس آیت میں اپنی کانٹیکسٹ (Context) کے لحاظ سے یعنی اس مضمون کے لحاظ سے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.یہ سفر جنگ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.لیکن جنگ کرنے کا ثواب علیحدہ ہے.اور اِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللہ کا ثواب علیحدہ یہاں بتایا گیا ہے.اسی طرح اِنْفِرُوا في سَبِيلِ الله (التوبة : ۳۸) ہے.تو بہت دفعہ خدا کی راہ میں سفر کرنا پڑتا ہے.مثلاً وقف عارضی میں وقف کرنے والوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ تم بتاؤ کہ تم کتنا سفر کر سکتے ہو؟ اس کے جواب میں بعض دوستوں نے لکھا کہ ہم اپنے خرچ پر پندرہ ہمیں میل سفر کر سکتے ہیں بعض نے لکھا کہ ہم پچاس ساٹھ میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ ہم سو ڈیڑھ سو میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ سارے پاکستان میں جہاں آپ کی مرضی ہو بھجوا دیں.ہم سفر کرنے کے لئے تیار ہیں تو ایسے مومن بھی مجاہدین میں شامل ہیں.پس خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کی ایک قسم قرار دیا ہے.خطبات ناصر جلد اوّل صفحه ۴۴۸،۴۴۷) آیت ۱۱۱ تا ۱۱۴ وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا اَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ

Page 569

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۶۳ سورة النساء يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَّحِيمًا وَمَنْ يَكْسِبُ اِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُه عَلَى نَفْسِهِ وَ كَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ (۱۱۲ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا وَلَوْ لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ وَ رَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلا اَنْفُسَهُم و اِلَّا مَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلبَكَ مَا b لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا , سورۃ نساء کی ان آیات میں گناہ کی حقیقت اور فلاسفی اور خدا تعالیٰ کی بعض صفات کی طرف توجہ ولائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص بھی کوئی بدی کرے گا یا اپنے نفس پر ظلم کرے گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پائے گا.پھر فرماتا ہے کہ جو شخص کوئی بدی کرے اس کا فعل اسی پر الٹ کر پڑے گا اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی غلطی کرے اور گناہ کا مرتکب ہو اور خود گناہ کا مرتکب ہے لیکن الزام لگاتا ہے کہ یہ گناہ میں نے نہیں کیا بلکہ فلاں نے کیا تو وہ بہتان بھی باندھتا ہے اور بہت بڑے گناہ ،سب سے بڑے گناہ کا وہ مرتکب ہوتا ہے.پہلی آیت میں دو قسم کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کا ذکر ہے.ایک حقوق العباد ایک حقوق نفس یعنی جو اللہ تعالیٰ نے حقوق انسانوں کے انسان پر قائم کئے ہیں ایک انسان ان حقوق کو توڑنے والا ہے.مَنْ يَعْمَلْ سُوء اوه بدی کرتا ہے اور یہ نتیجہ ہم اس لئے نکالتے ہیں، یہ معنی ہم اس لئے کرتے ہیں کہ اس کا دوسرا حصہ اَوْ يَظْلِمُ نَفْسَۂ کہا گیا ہے کہ خود اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اور نفس کے حقوق کو بچا نہیں لاتا ، تو اس سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے ، ویسے تو قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں ایک معنی ہم یہ کرتے ہیں کہ جو شخص غیروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے وہ اپنے نفس کے حقوق کا بھی خیال نہیں کرتا اور اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے.یہ گناہ کا ارتکاب جو ہے خواہ وہ حقوق العباد کو تلف کرنے کے نتیجہ میں ہو یا حقوق نفس کے تلف

Page 570

۵۶۴ سورة النساء تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث کرنے کے نتیجہ میں ہو یہ ایک تو بشری کمزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی ہر انسان میں بعض کمزوریاں ہیں اور بڑی کمزوری جس کی وجہ سے وہ گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے یہ ہے جو بڑی طاقت بھی ہے اس کی ایک نقطہ نگاہ سے اور دوسرے نقطہ نگاہ سے بہت کمزوری بھی ہے وہ ہے اس کا صاحب اختیار ہونا کہ خدا تعالیٰ نے اسے یہ اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر ایمان لائے اور ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے اور اگر چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے احکام ماننے سے انکار کرے اور ظلم اور گناہ اور اتم کا مرتکب ہو.ایک پہلو سے بے انتہا فضلوں کا وہ وارث بنتا ہے بوجہ صاحب اختیار ہونے کے اور دوسری طرف اس کو یہ خدشہ بھی لگارہتا ہے کہ وہ خدا کو ناراض کرنے والا اور اس کے غضب کے نیچے آنے والا نہ ہو جائے.انسان کو چونکہ ایک متمدن نوع بنایا گیا ہے مختلف الانواع ذمہ داریاں انسانی معاشرہ میں مجموعی طور پر انسان کو ادا کرنی پڑتی ہیں بعض ذمہ داریاں ہیں اس کے لئے بڑی کثیف اور کرخت قسم کی طبیعتوں کی ضرورت ہے.بعض ذمہ داریاں ہیں جن کی ادائیگی کے لئے بہت لطیف طبائع کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کے پیش نظر انسان انسان کی قوتوں اور استعدادوں میں فرق پیدا کیا اور مختلف الاقسام طبائع اس نے پیدا کر دیں کیونکہ ذمہ داریاں مختلف تھیں.بعض ذمہ داریاں ایسی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں انسان جو ہے وہ زیادہ گناہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے.اگر اس کے لئے پناہ کا کوئی راستہ بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا ، اللہ تعالیٰ اس کی رحمت کے سامان نہ کرتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ اے میرے خدا! تو نے مجھے اپنی مصلحتوں کے نتیجے میں اس قسم کے کثیف قومی دے دیئے اگر میں ان کے نتیجہ میں کوتاہی کروں کہاں جاؤں تیرے در پر نہ آؤں تو.تو اس وجہ سے بھی کمزوری پیدا ہوتی ہے، گناہ پیدا ہوتا ہے لغزش ہوتی ہے ارتکاب تلف حقوق ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ دروازہ کھلا رکھا خدا تعالیٰ نے - ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللہ پھر وہ تو بہ کرتا ہے اور ندامت کے جذبات اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں.تو باوجود اس کے کہ اس قسم کی طبعی کمزوری کے نتیجہ میں بار بار وہ کمزوری کی طرف جھکے گا جب بھی جھکے گا اور اس کے بعد اس کے دل میں ندامت پیدا ہوگی.وہ ہمیشہ ہی بار بار خدا تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا.تو کمزوریوں کے دروازے بھی اس کے اوپر کھلے ہیں بڑے لیکن خدا تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے دروازے بھی بڑے کھلے ہیں.

Page 571

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة النساء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی تفسیر میں جو باتیں فرماتے ہیں ان میں سے دو ایک یہ ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس ناقصہ کا خاصہ ہے....خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صد در لغزش و گناه به ندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا تعالیٰ اس کی طرف رجوع کرے....یہ خدائے تعالیٰ کی ذات 66 میں خاصہ دائمی ہے (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۱۸۷ حاشیه ) یعنی ایک ہزار بار بھی وہ غلطی اور گناہ کرتا ہے اور ایک ہزار بار اگر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے اور خدا کی طرف وہ رجوع کرتا ہے تو ایک ہزار بار وہ بخشا جاتا اور خدا کی مغفرت کے نیچے ڈھانپ دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلے میں جو مختلف قومی کے ساتھ مختلف انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے مثال آپ نے یہ دی ہے کہ طبائع انسانی جواہر کانی کی طرح مختلف الاقسام ہیں.کان معدنیات سے جو چیزیں نکلتی ہیں نا ، وہ مختلف ہیں، ان کی طرح انسانی طبیعتیں بھی مختلف ہیں.یہ میں نے اب میرے الفاظ ہیں خلاصہ کیا ہے میں نے ، بعض چاندی کی طرح روشن بعض گندھک کی طرح بد بودار اور جلد بھڑ کنے والی اور جوش میں آنے والی بعض پارے کی طرح بے ثبات اور بے قرار، بعض لوہے کی طرح سخت اور کثیف اور میں ساتھ یہ مثال بھی دیتا ہوں کہ بعض ہیرے کی طرح روحانی شعاعوں سے جگمگانے والی مختلف قسمیں ہیں اور اس کے بغیر انسانی تمدن اپنے عروج کو ارتقائی ادوار میں سے گذرتا ہوا پہنچ نہیں سکتا تھا.کثیف کاموں کے لئے کثیف طبیعتوں کی ضرورت ہے لطیف کاموں کے لئے لطیف طبیعتوں کی ضرورت ہے.بعض ایسے کام ہیں مثلاً اب تو کچھ انسان نے سہولتیں اور قسم کی پیدا کر لیں لیکن ایک خاص وقت میں غسل خانوں وغیرہ کی گلیوں کی نالیوں کی صفائی بعض خاص قسم کی طبیعتیں ہی کر سکتی تھیں ہر آدمی کر ہی نہیں سکتا تھا.ایک لطیف طبیعت کا آدمی گزرتے ہوئے ناک پر رومال ڈال کے گذرتا تھا ایک دوسرا آدمی اپنا ہاتھ بیچ میں ڈال کے نالی کو

Page 572

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۶۶ سورة النساء صاف کر رہا ہے.طبیعتوں طبیعتوں میں بڑا فرق ہے.بے شمار قسمیں بن جاتی ہیں ان کو ہم گن نہیں سکتے لیکن ایک حقیقت اپنی جگہ محکم اور ثابت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی کمزوری انسان کی ایسی نہیں کہ اگر اس کے نتیجہ میں وہ خدا کو ناراض کرنے والا ہو جائے تو اس پر توبہ کا دروازہ بند ہو اور خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحم سے ہمیشہ کے لئے اسے محروم کر دیا جائے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ میں جو مغفرت اور رحم کی صفت ہے غفور اور رحیم ہونا اس کا ، یہ ازلی ابدی صفت ہے اور ایک فرد واحد ، میں نے تو ہزار دفعہ کہا تھا اگر لاکھ دفعہ کروڑ دفعہ بھی غلطی کرتا اور کروڑ دفعہ اپنے رب کریم کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو بہ اور ندامت کے جذبات کے ساتھ تو ایک کروڑ دفعہ اس پر خدائے رب کریم کا دروازہ کھولا جائے گا.اس آیت میں ایک لوگوں کے حقوق کی ادئیگی کا اشارہ ہے یا عدم ادائیگی کی طرف یعنی ادا ئیگی ہوگی تو وہ ثواب ہے اور اگر نہیں ادا ئیگی کرے گا تو وہ سوءا ہے، بدی ہے.ایک اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی ہے.اپنے نفس کے حقوق کو ادا کرنا، اس آیت سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے، اتنا ہی ضروری ہے جتنا غیروں کے حقوق کی ادائیگی اپنے نفس کے ساتھ.پھر ایک دائرہ آ جاتا ہے خاندان کا.جو حقوق خدا تعالیٰ نے کسی کے رشتہ داروں کے قائم کئے ہیں اگر ذمہ وار آدمی وہ حقوق ادا نہ کرے صرف اس لئے کہ اس کے اوپر کوئی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کر دے گا کہ چونکہ تمہارے ساتھ عزیز داری ہے اس لئے تم اس کی رعایت کر دو گے تو اسلام اس کو گناہ سمجھتا ہے اور اس شخص کے حق کو قائم کرنا اور اس کو ادا کرنا جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس کو ثواب اور جنت کا دروازہ کھولنے والا ایک عمل صالح سمجھتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے.آپ کے ایک عزیز کا ایک دوسرے مسلمان کے ساتھ چشمے کا پانی تھا بہر حال ایک کنارہ تھا قدرتی، اس پانی کے اوپر ہوا جھگڑا.آپ کے عزیز کی زمین او پر تھی پانی کی طرف.دوسرے مسلمان کی نیچے تھی.وہ آیا آپ کے پاس.آپ نے کہا اپنے عزیز کو کہ کھیتوں کو اپنے پانی دو بے شک لیکن اس کے لئے بھی چھوڑ دیا کرو پانی.وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اس کی رشتے داری ہے آپ کے ساتھ.آپ تو احسان کر رہے تھے یعنی جو حق تھا اس سے زائد اس کو دے رہے تھے جب اس نے یہ کہا تو پھر آپ نے کہا الفاظ میں یا عمل سے کہ اچھا تم اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہو تو وہ یہ ہے کہ اپنے عزیز کو کہا تمہاری زمین اوپر ہے تم اپنے کھیت کو پانی پلاؤ.پھر پانی پلا ؤ، پھر پانی پلا ؤ اور

Page 573

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث سورة النساء پوری طرح جب سیراب ہو جائے پھر پانی جو بچ جائے وہ اس کو چھوڑ دو، آپ ہی اس کے پاس پہنچ جائے گا.تو نفس کے حقوق ہوں یا غیر کے حقوق ہوں، عزیز رشتے دار کے حقوق ہوں یا غیر مسلم کے حقوق ہوں حقوق کی ادائیگی تو اس لئے کرنی ہے کہ خدا کہتا ہے کہ میں نے یہ حق قائم کیا اس حق کو قائم کرو.اس لئے ہم نے ادا نہیں کرنا کہ ہم چاہتے ہیں ہم کسی پر احسان کریں یا ہم چاہتے ہیں کہ کسی پہ احسان نہ کریں.جو حق خدا نے قائم کر دیا مثلاً جو حق خدا نے رب العالمین کی حیثیت سے قائم کر دیا کوئی دنیا میں انسان نہیں پیدا ہوا کہ جسے خدا نے یہ حق دیا ہو کہ وہ ان حقوق کو پامال کرے خواہ وہ حقدار جو ہیں وہ بت پرست اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں خواہ وہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے دہر یہ کیوں نہ ہوں خواہ وہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کی اندھی مخالفت کرنے والے کیوں نہ ہوں خواہ وہ ساری عمر آپ کو ایذا پہنچانے والے کیوں نہ ہوں.کسی کو کوئی حق نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اسوہ جو ہمیں نظر آتا ہے یعنی نمونہ ہمارے لئے وہ یہ ہے کہ جس حق کو خدا نے قائم کیا بندے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اس حق کو توڑے.خدا تعالیٰ نے جو حق قائم کئے ہیں وہ بنیادی طور پر صفت ربوبیت کے نتیجہ میں ہیں صفت رحمانیت کے نتیجہ میں ہیں صفت رحیمیت کے نتیجہ میں ہیں، صفت مالکیت یوم الدین کے نتیجہ میں ہیں، جس کا ایک دھندلا سا عکس اس ہماری زندگی میں آتا ہے وہ اپنا مضمون مستقل حیثیت کا ہے اس وقت نہیں ہمارے سامنے.تو حقوق العباد کو قائم کرنا ضروری ہے حقوق نفس کو ادا کرنا ضروری ہے جو نہیں کرتا، پھر تو بہ کرتا اور استغفار کرتا، خدا کی طرف رجوع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے اسے میں معاف کر دوں گا.اور دوسری آیت میں ہر قسم کے گناہ کا اشیا میں ذکر ہے یعنی خواہ حقوق نفس ہوں یا حقوق العباد ہوں یا حقوق اللہ ہوں جو شخص بھی گناہ کرتا ہے وَمَنْ يُكْسِبُ اِثْمًا جو شخص بھی بدی کرتا ہے تو بدی کا پہلا اور جو پہلا اور آخری اثر میں کہوں گا ، پہلا اور آخری اثر اس کا اس کے اپنے نفس پر ہے.فائما يَكْسِبُهُ عَلی نفیسہ اس کا فعل اس پر الٹ کے پڑتا ہے مثلاً اگر وہ چوری کرتا ہے دوسرے کا مال لوقتاً ہے اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے اس گناہ نے اس کے دوسرے انسانی بھائی کو دکھ پہنچایا، اس کا گناہ کیا اس نے لیکن اس کا حقیقی اثر یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے پر خدا کی رضا کی جنت کے دروازے بند کئے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر حکم جو ہے خواہ وہ اوامر میں سے ہو یا نوا ہی میں سے ہو یعنی یہ

Page 574

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۶۸ سورة النساء حکم ہو کہ ایسا کر دیا یہ حکم ہو کہ ایسا نہ کرو وہ ہماری قوتوں اور استعدادوں کی صحیح تربیت اور صحیح نشو نما کے لئے ہے اور جب ہم کسی حکم کو توڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کہنا نہیں مانتے تو اس کا نقصان ہمیں ہے کیونکہ پھر ہماری صحیح اور پوری اور پیاری نشو ونما نہیں ہوسکتی ، پھر ہمارے وجود کی وہ نشوونما نہیں ہوسکتی جس نشو ونما کے بعد ہمارا نفس خدا کے پیار کو حاصل کر سکے.تو گناہ کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے لیکن اصل وہ الٹ کے اسی شخص پر گناہ کرنے والے پر آ کے پڑتا ہے اور یہ اس لئے کہا کہ خدا تعالیٰ عَلِیماً خدا تعالیٰ کے علم سے کوئی باہر نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو پیدا کیا اور اس کی ساری قوتوں اور استعدادوں کا صحیح اور کامل علم رکھنے والا ہے.انسانی استعدادوں اور قوتوں اور صلاحیتوں کی کامل نشوونما کے لئے اور جس کے نتیجہ میں روحانی نشو و نما اپنے کمال کو پہنچتی اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر اور خدا تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ پیار کو حاصل کرنے والی بن جاتی ہے.اس علیم نے ، اس عظیم خدا نے سارا اس علم کے ماتحت ایک طرف اس عالمین کو پیدا کیا اور دوسری طرف انسان کو اور اس کی فطرتوں کو اور اس کی صلاحیتوں کو اور اس کے قومی کو پیدا کیا اور ہر چیز میں اس نے ایک حکمت رکھی اور ہر چیز کی حکمت اس نے قرآن میں بیان کی اور ہمیں سمجھایا کہ تمہارے اوپر کوئی بوجھ نہیں ڈال رہے تمہارے فائدے کے لئے ہر حکم ہے، تمہیں بلند کرنے کے لئے ہر حکم ہے.ایک جگہ کہا کہ ہم نے تو اس کو آسمانوں کی بلندیوں کی طرف لے جانا چاہا تھا لیکن وہ زمین کی طرف مائل ہو گیا اور خدا سے دور ہو گیا.ہر فعل خدا کا حکیمانہ ہے حکمت رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کا ہر حکم جو ہے وہ ایک دلیل ہمارے سامنے رکھتا ہے ہمیں حکمت بتاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے اور کوچ مالج کے،حسین بنا کر ، پاک اور مطہر وجود بنا کر اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ جو سر چشمہ ہے پاکیزگی اور طہارت کا ہمارا رب، اس کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہو سکے.وہ جو پاکیزگی اور طہارت کا سرچشمہ ہے وہ نا پاک سے تو تعلق نہیں قائم کر سکتا ، عقلا نہیں کر سکتا.میں اور آپ بد بودار جگہ سے گزرتے ہیں اور اس سے گھن آتی ہے اور اس تعفن کو ہم پسند نہیں کرتے ، ہماری طبیعت متلا جاتی ہے بعض دفعہ.ہم عاجز بندوں کا یہ حال ہے تو وہ خدا جو محض پاکیزگی اور طہارت ہے اور ہر قسم کی پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ جو ہے وہ اسی سے نکلتا اور ہم تک پہنچتا ہے وہ ناپاک کو کیسے پیار کرے گا.تو ہر حکم جو ہے وہ ہمیں پاک بنانے والا مظہر بنانے والا ہمارے گند کو اور غلاظتوں کو دھونے والا ، ہم پر نور چڑھانے والا اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ٣٦) اس نور کو،

Page 575

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۶۹ سورة النساء ہمارا وہ نور جو خدا تعالیٰ سے ہمیں حاصل ہوتا ہے اس نور کو خدا پسند کرتا ہے.خدا اندھیروں کو پسند نہیں کرتا اندھیروں سے وہ نفرت کرے گا کیونکہ اندھیرا ہے خدا سے دوری کا نام جس طرح مادی ظلمت ہے نور سے دوری کا نام.دن کے وقت آپ کھڑکیاں اگر آپ کی لائٹ پروف ہوں یعنی کوئی سورج کی کرن اندر نہ جا سکے بند کر دیں گے تو دن کے باوجود سورج نصف النہار پر ہو گا آپ کے کمرے کے اندراندھیرا ہو جائے گا.تو جو شخص اپنے گناہوں کے نتیجہ میں اپنے وجود کی ان کھڑکیوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف کھلنے والی ہیں بند کر دیتا ہے اور اپنے نفس میں اندھیرا پیدا کر دیتا ہے خدا کا نور وہاں کیسے داخل ہو سکتا ہے.تو یہاں دوسری آیت میں یہ بتایا کہ تم جو گناہ کرتے ہو دوسروں کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ حقیقی نقصان اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ ان کو دیتا ہے.تمہیں حقیقی نقصان ہے کیونکہ تم خدا سے دوری کی راہوں کو اختیار کر کے، اس نور سے دور ہٹ کے ظلمات کو اختیار کر کے، اس پاک سے جدائی اختیار کر کے گندگی کو اختیار کرتے ، اس کی ناراضگی کی جہنم کو اپنے لئے پیدا کرتے ہو.خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے وارث بننے کے لئے سامان پیدا نہیں کرتے.اور تیسرے قسم کا جو گناہ مرکب ہے کہ گناہ کیا اور تہمت دوسرے پہ لگا دی، یہ اس کا بھی آج کل فیشن ہوا ہوا ہے کہ نا کردہ گناہ پر گناہ کی تہمتیں لگائی جاتی ہیں اور پھر فخر بھی کیا جاتا ہے بعض حلقوں میں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور سمجھ دے ان لوگوں کو.تو یہاں تین باتیں بیان ہوئی ہیں.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ، حقوق نفس کی ادائیگی کی طرف توجہ، حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف توجہ اور انسان بشری کمزوری یا ضعف استعداد کے نتیجہ میں اگر گناہ کرے تو استغفار کا دروازہ اس کے لئے کھلا ہے اور غفور رحیم خدا ہر وقت اسے جب وہ اس کی طرف رجوع کرے رجوع بر رحمت اس کی طرف ہونے کے لئے تیار ہے اور پھر ہمیں یہ سمجھایا کہ تمہارے اوپر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جارہا بلکہ ہر گناہ تمہارے لئے ابدی دکھ کا باعث بننے والا ہے اس سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے تمہیں.تمہارے اپنے فائدے کے لئے ہے.چوری کے مال کا نقصان جتنا اس مال کے مالک کو ہے اس سے زیادہ تمہیں ہے.اس کو تو ہزار روپے کا نقصان یا ایک بھینس چرا لیتے ہیں لوگ ، جا کے رستہ کھول لیتے ہیں رستہ گیر.اس کو دو ہزار تین ہزار بہت اچھی بھینس

Page 576

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷۰ سورة النساء ہے تو پانچ دس ہزار کی اس کا اتنا نقصان ہے لیکن تم نے جنت کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اس کا نقصان تو تمہارے نقصان کے مقابلے میں کوئی چیز ہی نہیں ہے.تو إِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ ہر گناہ جو ہے اس کا اصل وار جو ہے انسان کے، گناہگار کے اپنے نفس کے اوپر ہے اور ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہر حکم جو دیا گیا وہ علیم و حکیم کی طرف سے دیا گیا ہے جو جانتا تھا کہ تمہارے فائدے کے لئے تم پہ حسن چڑھانے کے لئے تمہیں منور کرنے کے لئے تمہیں پاکیزہ اور مطہر بنانے کے لئے کن چیزوں کی ضرورت تھی اس کے مطابق تمہیں ہدایت اور شریعت دی گئی ، اس کے مطابق تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایک اسوہ دیا گیا اور تیسرے یہ کہ سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ انسان گناہ کرے اور تہمت دوسرے پہ لگادے اس کو اپنی زیادہ فکر کرنی چاہیے.ہر ایک کو ہی تو بہ اور استغفار کا جو دروازہ کھلا چھوڑا ہے خدا تعالیٰ خدائے غفور رحیم نے ، گناہ ہوتے ہی خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور ہمیں اس طرح صاف اور ستھرا اور سفید کر دے اس سے بھی زیادہ جتنا ایک دھوبی کپڑے کو پتھروں پہ مار مار کے شفاف پانی میں کرتا ہے.آجکل کے بعض گندے پانیوں میں بھی دھوبی دھو دیتے ہیں، شفاف پانی میں جو پہاڑی نالوں کا میٹھا شفاف پانی ہے اس کے اندر ایسے اجزا ہیں جو گند کو نکالنے والے ہیں کوئی گند باقی نہ رہے تا کہ وہ جو نور ہے ہماری ہلکی سی روشنی کو وہ پسند کرے اس کے نور کے مقابلے میں تو کچھ نہیں لیکن بہر حال اس سے مشابہت حاصل کرنے کی اس کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کی گئی اور ہمیں وہ پاک بنے کی اور مطہر بننے کی توفیق عطا کرے تا کہ ہمارا اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا ہو جائے کہ ہم اسی زندگی میں اس کے پیار کی آواز سننے والے ہوں تاکہ ہماری ساری خوشیاں اس آواز پر بنیا درکھنے والی ہوں کہ وہ ہمیں کہتا ہے کہ تم فکر نہ کرو تم گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں.پھر اس کے بعد کسی اور چیز کی انسان کو ضرورت نہیں رہتی.(خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه ۱۳۹ تا۷ ۱۴) پھر ہم لوگ جو حقیقت محمدیہ کو پہچانتے ہیں جانتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام اخلاق فاضلہ کو اپنے وجود اور اسوہ میں جمع کرنے والے تھے جس کی جھلک ہمیں گزشتہ تمام انبیاء میں مختلف طور پر نظر آتی ہے.پس انبیائے ماسبق اور خدا تعالیٰ کے وہ پیارے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے ان سب کے اندر ہمیں اخلاق فاضلہ کی جو جھلک نظر آتی ہے جو متفرق طور پر آدم علیہ السلام سے

Page 577

تفسیر حضرت خلیفہ المسح الثالث ۵۷۱ سورة النساء لے کر قیامت تک بنی نوع انسان میں پھیلی ہوئی ہے وہ تمام اخلاق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع نظر آتے ہیں.اسی لئے قرآنِ کریم نے یہ فرمایا : اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:۵) پھر ہم جو اس علم پر علی وجہ البصیرت قائم کئے گئے ہیں کہ حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور ختم المرسلین ہیں.ہم یہ جانتے ہیں اور دنیا میں اس کی منادی کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی مسجد داعظم ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ اظہار صداقت کے لئے آپ جیسا کوئی اور مجدد پیدا نہیں ہوا.سچائی کے اظہار کے لئے گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لانے کے لئے آپ ہی سب سے بڑے مجدد ہیں.روحانیت کے قیام کے لئے حقیقتا آپ ہی آدم ہیں کیونکہ آدم اول نے آپ ہی سے سچائی کو حاصل کیا اور آپ ہی کے طفیل اس سچائی اور صداقت کو وقت کے تقاضے اور پہلی نسل کی صلاحیت کے مطابق دنیا پر ظاہر کیا لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو مجد داعظم ہیں آپ کے طفیل تمام انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچے.پہلے کسی وجود میں یہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی.اس میں شک نہیں کہ انسان نے بعض پہلوؤں سے ترقی کی اور ایک حد تک کمال کو حاصل کیا لیکن یہ کہ ہر انسان اپنے تمام فضائل کو اپنے دائرہ استعداد کے اندر کمال تک پہنچانے کے قابل ہو سکے یہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہوا.آپ دنیا میں آئے اور اپنا کامل نمونہ دنیا میں پیش کیا اور ایک کامل تعلیم انسان کے ہاتھ میں دی جس کے نتیجہ میں انسانی فضائل اپنے کمال کو پہنچ سکنے کے قابل ہوئے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر بھی تقاضے رکھے ہیں یا انسانی وجود کی جس قدر بھی شاخیں ہیں ان تمام کے لئے یہ سامان پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ معلم اعظم بھی حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے " وَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيماً “ وہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا ہوا ہے جو تم بحیثیت ایک بشر کے اپنے زور سے خود بخود حاصل نہیں کر سکتے تھے اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ آپ پر ہوا جس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت جس کو ہم معارف الہیہ بھی کہتے ہیں اور اسرار اور علوم ربانی جو ہیں ان کے جاننے میں آپ اعلم تھے یعنی آپ سے زیادہ ان کا عرفان رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہوا اور جو زیادہ جانتا ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے وہی سب سے زیادہ سکھا بھی سکتا ہے اگر آپ علم کی سوا کائیاں فرض کریں تو جس شخص کو پچاس اکائی کا علم ہے وہ ساٹھ اکائی نہیں سکھا سکتا.66

Page 578

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۲ سورة النساء سو کی سوا کائی وہی سکھا سکتا ہے جو خودسوا کائی کا علم رکھتا ہو.پس عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظيماً میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر علم کے میدان میں ( علم روحانی لیکن علم جسمانی کے اصول بھی اسی علم روحانی کے نیچے آتے ہیں ) جتنا فضل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا اتنا کسی اور پر نہیں ہوا.جس قدر انسان کو علم روحانی کی ضرورت تھی وہ سب آپ کو سکھایا گیا اور آپ کے طفیل نوع انسانی اس قابل ہوئی کہ اگر وہ کوشش اور ہمت سے کام لے تو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنی علمی استعدادوں کو کمال تک پہنچا سکتی ہے.خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۶۴ تا ۶۶ ) اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرُكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ نَصِيرًات لَهُمْ تیسرا ایک اور محاذ ہے جس کا ذکر شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور پھر مختلف صورتوں میں کافی لمبی بحث بھی اس مسئلہ پر قرآن کریم نے کی ہے اور وہ ہے نفاق کا محاذ ، سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی نفاق کے متعلق جب بحث ہوئی ہے تو بہت سی آیتوں میں زیادہ تفصیل سے بات کی گئی ہے کیونکہ نفاق ایک ایسی بیماری ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سز املتی ہے اتنی بڑی سزا کسی اور گناہ کے نتیجہ میں نہیں ملتی.قرآن کریم نے کہا ہے.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ یعنی جو سزا خدا کے حضور منافق کے لئے مقدر ہے وہ مشرک کے لئے بھی مقدر نہیں ، کافر کے لئے بھی مقدر نہیں.( خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۳۵) ياَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَأمِنُوا خَيْرًا تَكُم - b ط وَ اِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ وَ كَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (141) قرآن کریم نے یہ اعلان کیا.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِن اور یہ بھی اعلان کیا فَا مِنُوا خَيْرًا نَّكُمْ یعنی تمہیں اختیار تو ہے کہ تمہاری مرضی ہو تو ایمان لاؤ اور مرضی ہو تو نہ لاؤ لیکن یہ بھی تمہیں بتادیا جاتا ہے کہ تمہاری

Page 579

تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث ۵۷۳ سورة النساء بھلائی اسی میں ہے کہ تم ایمان لے آؤ.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بالحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا لَكُمْ - خدا تعالی کی طرف سے رسول حق لے کر تو آ گیا ہے تمہیں اجازت بھی دے دی گئی.تمہاری مرضی ہے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ لیکن تمہیں یہ بتا دینا ضروری ہے فَامِنُوا خَيْرًا لَكُمْ تم ایمان لاؤ گے تو اس میں تمہاری اپنی بھلائی ہے.غرض خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو بڑے پیار سے سمجھاتا ہے کہ بنیادی طور پر مذہبی آزادی تو ہے لیکن حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ انسان خدا اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجالائے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۲۲، ۲۲۳) ياَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُم وَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكُم نُورًا مُّبِينًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيْدُ خِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! قرآن ایک برہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلانور ہے جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.پس جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اس کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کیا ہے انہیں وہ ضرور اپنی ایک بڑی رحمت اور بڑے فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف لے جانے والی ایک سیدھی راہ دکھلائے گا.قرآنِ عظیم جو اسلامی شریعت کی حامل کتاب ہے وہ ایک برہان ہے اور ایک نور ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے دل سے تصدیق بھی کر رہا ہو، جرات سے اظہار بھی کر رہا ہو اور اپنے ان عقائد پر اپنے اعمالِ صالحہ سے مہر بھی لگا رہا ہو اور پھر وہ یہ سمجھتا ہو کہ اتنا کافی نہیں ہے بلکہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی مدد اور اس کی رحمت اور اس کے فضل کی ضرورت ہے.وَاعْتَصَمُوا بِہ اور وہ اللہ تعالی کے ذریعہ سے، دعاؤں کے ساتھ اپنے بچاؤ کا اپنی حفاظت کا سامان کرے تا کہ اس کے عقائد کے اندر شیطانی وسوسے داخل نہ ہو سکیں اس کے

Page 580

۵۷۴ سورة النساء تغییر حضرت خلیفة لمسیح الثالث اعمال کے اندر کوئی شیطانی کیڑاگھن کی طرح نہ لگا ہوا ہو اور دلیری اور جرأت کے ساتھ اظہار کی اسے اللہ تعالیٰ سے توفیق ملتی رہے.وَاعْتَصَمُوا بِہ میں جو حفاظت کا ذکر ہے عربی کے لحاظ سے اس کے یہ معنی کئے گئے ہیں کہ وہ یہ دعا کرے کہ اللہ تعالٰی ہماری استعدادوں میں نور پیدا کر کے ، ہمارے جسم اور نفس کو فضائل سے مزین کر کے، اپنی نصرت ہمارے شامل حال کر کے ہمیں ثبات قدم عطا فرما کر ہم پر آسمانی سکینت نازل فرما کر، ہمارے قلب و ذہن کو شیطانی وساوس سے بچا کر ہمیں اپنی اطاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نیکیوں اور اعمال صالحہ بجالانے کی توفیق عطا کر کے ہماری حفاظت کرے.یہ عصمت کے معنی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صحیح عقائد رکھتے ہو گے اور اعمالِ صالحہ بجالاتے ہوگے اور دلیری سے اپنے ایمان پر قائم ہو گے اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کو اور اس کی عصمت کو حاصل کرنے والے ہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور اس کے فضل تم پر نازل ہوں گے اور تمہیں ایک ایسی راہ دکھائے گا جو سیدھی اس کی طرف لے جانے والی ہے ، صراط مستقیم ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.یہ صراط مستقیم جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہے یہ دین اسلام ہے.اسی لئے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو بھیج کر، اسلامی تعلیم اور ہدایت کو بھیج کر میں خوش ہوں اور تمہارے لئے دین کے طور پر میں نے اسلام کو پسند کیا ہے.جب ہم اسلام پر یعنی قرآن کریم کی جو تعلیم ہے قرآن کریم کی جو ہدایت ہے قرآن کریم کا جو تفصیلی بیان ہے اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اسلام میں مندرجہ ذیل خصوصیات نظر آتی ہیں ان خصوصیات کو ہم تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.پہلے نمبر پر اسلامی تعلیم ، ہدایت اور شریعت کی وہ خصوصیات ہیں جن کا تعلق عرفان باری تعالیٰ کے ساتھ ہے.اسلام ایک ایسا مذہب اور ایک ایسی کامل تعلیم ہے جس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت عطا کی ہے اور کھول کر بتایا ہے کہ اسلام کو بھیجنے والا اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے اور اپنی صفات کے لحاظ سے کس قسم کا وجود ہے، بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے.توحید باری تعالیٰ کے متعلق، اس کے قادر ہونے کے متعلق، اس کے عزیز اور حکیم ہونے کے متعلق، اس کی سزا اور اس کی

Page 581

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۵ سورة النساء رحمت وغیرہ کے متعلق ایک جامع بیان ہمیں قرآن کریم نے دیا ہے اور جب ہم قرآن کریم کے اس بیان پر غور کرتے ہیں اور اس تعلیم کو مد نظر رکھتے ہیں کہ اس عظیم ہستی ، اس صاحب عظمت و جلال ہستی کے ساتھ ہم عاجز بندے ہوتے ہوئے کیسے اپنا تعلق قائم کر سکتے ہیں تو ہمارے لئے وہ صراط مستقیم کھلتا ہے جو خدا تعالی کی طرف لے جانے والا ہے.اسلامی تعلیم ہدایت و شریعت کی خصوصیات کا دوسرا حصہ انسانوں کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے.اس میں سب سے پہلے تو انسان کا اپنا نفس ہے اور سب سے مقدم اس کا اپنا نفس ہے.جہاں تک ہدایت پانے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے محفوظ ہونے کا تعلق ہے ہر ایک کو اپنی فکر کرنی چاہیے.اس فکر کے بعد پھر اپنے ساتھیوں کی اپنے ہمسایوں کی اپنے خاندان کی اور دوسروں کی فکر کرنی چاہیے.جو شخص خود دوزخ میں جارہا ہو وہ دوسروں کو جنت کی طرف تو نہیں لے جاسکتا.بڑی مفصل تعلیم اور بڑی حسین تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے اور ہمارے حقوق کو قائم کیا ہے.مثلاً قرآن کریم نے ایک جگہ فرما یالا يَضُرُكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة : ١٠٢) کہ ہدایت پانے کے لحاظ سے تمہارا نفس تمہیں ہر دوسرے پر مقدم ہونا چاہیے.پہلے اپنے نفس کی فکر کرو اس کے بعد پھر دوسروں کی فکر کرنا.یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ قرآن کریم نے ہر شخص کے حقوق قائم کرنے کے بعد ان کی حفاظت کا سامان کیا ہے تو خصوصیات کے اس دوسرے گروہ میں نمبر ایک انسان کا اپنا نفس ہے.دوسرے نمبر پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اسلام نے عام طور پر انسانی چال چلن کے بارہ میں جو تعلیم دی ہے وہ نہایت حسین تعلیم ہے، ایسی کہ اسلام سے پہلے نہ کسی مذہب نے ایسی تعلیم دی اور نہ کسی فلاسفر اور حکیم نے ایک حد تک حکمت کی گہرائیوں میں جانے کے باوجود اس قسم کی تعلیم دنیا کے سامنے رکھی.عجیب تعلیم ہے، بڑی عظیم تعلیم ہے عام انسانی چال چلن کے متعلق کہ ایک انسان کا چال چلن کس قسم کا ہونا چاہیے.- تیسری خصوصیت اسلام میں یہ ہے کہ کوئی ایسی تعلیم اس میں نظر نہیں آتی جو انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو توڑتی ہو بلکہ انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو جوڑنے والی تعلیم ہے، ان کو پختہ کرنے والی تعلیم ہے، ان میں پیار پیدا کرنے والی تعلیم ہے، ان میں حسن پیدا کرنے والی تعلیم ہے.خصوصیات کے اس گروپ میں سے چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو

Page 582

تغییر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۶ سورة النساء انسان کو دیوٹی کی طرح کھینچتی ہو یا دیوٹی اس کو مستلزم ہو بلکہ رذائل سے بچانے والی، گندگی سے نجات دلانے والی اور عزت کے مقام پر کھڑا کرنے والی تعلیم ہے جو برائیوں سے روکتی ہے.ایک کامل تعلیم منہیات کے متعلق نہ کر کے متعلق ہمیں اسلام میں نظر آتی ہے.پانچویں خصوصیت اسلامی تعلیم میں ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اس میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو فطرتی حیا اور شرم کے مخالف ہو.انسان کی فطرت میں شرم اور حیا ہے لیکن دنیا اپنی عادتوں کی وجہ سے یا دنیا اپنے ماحول کی وجہ سے بدقسمتی سے اس فطرتی حیا اور شرم کے مخالف عادات اپنے اندر پیدا کر لیتی اور ذلت کا چولہ پہن لیتی ہے اور فطرتی حیا اور شرم کو ماردیتی اور کچل دیتی ہے اور اس کا کوئی ذرہ بھی باقی نہیں رہنے دیتی لیکن اسلام میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو فطرتی حیا اور شرم کے مخالف ہو بلکہ اسلام کی ساری تعلیم فطرتی حیا اور شرم کے عین مطابق اور فطرتی حیا اور شرم کی تکمیل کے لئے صراط مستقیم دکھانے والی ہے.چھٹی خصوصیت اسلام میں یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو خدا تعالیٰ کے عام قانون قدرت کے مخالف پڑی ہو.قوانین قدرت اور انسانی فطرت میں، انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں اور استعداد میں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کوئی مخالفت نہیں ہے.قانونِ قدرت اور انسانی فطرت میں اسلام نے کامل مطابقت پیدا کی ہے اور اس کی بنیاد یہ رکھی کہ خدا تعالیٰ نے اسلام میں ہمیں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو وہ تمام طاقتیں دے دی ہیں جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری تھیں.تکمیل اسلام میں دو معنی میں استعمال ہوئی ہے ایک نوع انسانی کی تکمیل، اس کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے اور خدا تعالیٰ کے پیار کی جنتوں میں داخل ہو اور دوسرے ہر فرد واحد کی تکمیل، ہر فرد کا دائرہ استعداد دوسرے سے مختلف ہے.غرض ہر فرد کی تکمیل بھی کی اور نوع انسانی کی تکمیل بھی کی یعنی اسلام نے فطرت انسانی کی تکمیل کی اور فطرت انسانی کی تعمیل کرنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود بطور اسوہ کے ہمارے سامنے پیش کر دیا.ساتویں خصوصیت اسلام کی تعلیم میں یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جس کی پابندی کرنا ممکن ہی نہ ہو یا جس کے نتیجہ میں خطرات کا امکان ہو مثلاً ہمیں پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن انسانی زندگی میں بیماری کی بعض ایسی حالتیں ہوتی ہیں کہ مسجد میں جا کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو

Page 583

تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثالث ۵۷۷ سورة النساء اسلام نے یہ نہیں کہا کہ بیمار ہو یا تندرست ہر حال میں مسجد میں جا کر نماز ادا کرو بلکہ فرمایا کہ اگر بیمار ہو گھر سے تو اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کرو.پھر ہمیں حکم دیا کہ نماز اس طریق سے پڑھا کرو.اس میں قیام ہے، اس میں رکوع ہے، اس میں سجدہ ہے، اس میں قعدہ ہے، نماز میں اٹھنے بیٹھنے کی ایک ظاہری شکل ہے لیکن اسلام نے یہ نہیں کہا کہ ہر صورت میں تم ایسا کرو ورنہ گناہگار ہو جاؤ گے بلکہ اگر کوئی ایسی بیماری ہے کہ انسان گھر میں بھی کھڑا نہیں ہو سکتا اور اس طرح رکوع نہیں کر سکتا جیسے ہم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کرتے ہیں تو اس کو اجازت دی کہ تو بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کر جس میں قیام کی شکل بھی بدل گئی اور رکوع کی شکل بھی بدل گئی.دین اللہ یسر خدا تعالیٰ نے دینِ اسلام میں کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی اور کوئی ایسی جبری تعلیم نہیں دی جو انسان کے لئے بحیثیت انسان ممکن نہیں ہے یا کسی فرد کے لئے بعض حالات میں ممکن نہ رہے اور اس کے لئے کوئی دوسرا جواز نہ پیدا کیا گیا ہو.پھر ایک تو یہ ہے کہ ممکن ہی نہیں اور ایک یہ ہے کہ اس میں خطرات کا امکان ہے.مثلاً ایک بیمار ہے ڈاکٹر ا سے کہتا ہے کہ تیرے لئے ان دواؤں کا استعمال ضروری ہے یہ اس کا طبی مشورہ ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر تو یہ دوائیں استعمال کرے گا تو لمبا عرصہ بھوکا رہنا تیرے لئے جسمانی طور پر خطرات کا باعث ہے، بعض دفعہ ایسے حالات میں موت بھی واقع ہو جاتی ہے تو اسلام نے یہ نہیں کہا کہ رمضان آجائے تو ایسی حالت میں بھی روزہ رکھ بلکہ اس کو اجازت دی کہ اگر خطرات ہوں تو پھر تیرے لئے سہولت ہے.اس وقت میں مختصر طور پر مثال دے کر بتا رہا ہوں کہ میرا آج کا خطبہ ایک لمبے مضمون کی تمہید ہے اس کے بعد پھر میں ایک دو تین کر کے خصوصیات لوں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے، اس نے زندگی دی تو پھر ان کی تفصیل میں جاؤں گا.غرض اسلام کے اندر کوئی ایسی تعلیم نہیں جس کی پابندی غیر ممکن ہو یا جس کے نتیجہ میں خطرات کا امکان ہو.یہ اسلام کی خصوصیت ہے.اور آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم اور ہدایت سے کوئی ایسی تعلیم باہر نہیں رہی اور ترک نہیں کی گئی جو ہر قسم کے مفاسد کو روکنے کے لئے ضروری تھی یعنی کوئی ایسی بات کہ اگر اس کا حکم نہ دیا جائے تو انسانی معاشرہ کے اندر یا انسان کی ذاتی زندگی کے اندر یا اس کی گھریلو زندگی کے اندر یا اس کی خاندانی زندگی کے اندر مفاسد پیدا ہو سکتے تھے یا اس کے ماحول کے اندر پیدا ہو سکتے تھے یا اس ا

Page 584

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷۸ سورة النساء کے ملک کے اندر پیدا ہو سکتے تھے یا بین الاقوامی رشتوں کے اندر پیدا ہو سکتے تھے اس سے باہر نہیں ا رہی.اسلامی ہدایت سے کوئی ایسی تعلیم باہر نہیں رہی جو ہر قسم کے مفاسد کو روکنے کے لئے ضروری تھی اور کوئی ایسی تعلیم اسلام سے باہر نہیں رہی جس کے باہر رہنے سے کوئی چھوٹا یا بڑا فساد پیدا ہوسکتا تھا بلکہ ہر قسم کے شر اور فساد کو روکنے کی تعلیم اسلام کے اندر پائی جاتی ہے.یہ اسلامی تعلیم کی آٹھویں خصوصیت ہے.اور نویں خصوصیت یہ ہے کہ اسلام ایسے احکام سکھلاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو عظیم الشان محسن قرار دے کر اس کے ساتھ رشتۂ محبت کو محکم کرتے ہیں اور اس طرح پر اسلام انسان کو تاریکی سے نور کی طرف لے کر جاتا ہے اور اس طرح پر اسلام انسان کو غفلت سے حضور کی طرف کھینچتا ہے.تمام ایسے احکام اور ایسی تعلیمات جو خدا تعالیٰ کا پیار انسان کے دل میں پیدا کرنے والی ہوسکتی تھیں وہ قرآن کریم میں بیان کر دیں اور اس طرح پر اسلامی تعلیم نے ایک انسان کے لئے یہ ممکن بنادیا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کے ساتھ ذاتی محبت کا رشتہ قائم کرے.محبت دو طرح سے ہی پیدا ہوتی ہے حسن سے یا احسان سے.سوائے خدا کے اور کوئی حسنِ کامل نہیں یا اس کے بعد انسانوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین نمونہ ہمارے لئے کامل ہے تا ہم حسن جس شکل میں بھی انسان کے سامنے آئے مثلاً گلاب کا پھول سامنے آتا ہے تو انسان کے دل میں اس کے لئے ایک کشش پیدا ہوتی ہے پسندیدگی اور محبت پیدا ہوتی ہے یا احسان انسان کے دل میں پیار پیدا کرتا ہے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے قرآن کریم نے اس تفصیل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حسن کو اور اس کے احسان کو بیان کیا ہے اور اس وسعت کے ساتھ اور اس محسن کے ساتھ اس حسن اور احسان کو بیان کیا ہے کہ اس تعلیم کو جاننے کے بعد ایک خوش قسمت انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کریم کے ساتھ ذاتی محبت کا رشتہ قائم کرنے میں غفلت برتے.اسلام کی خصوصیات کا تیسرا حصہ، پہلا حصہ تعلیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات سے تعلق رکھتا تھا، اور یہ تیسرا حصہ خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے اور اس کے قادرا نہ تصرف ہماری زندگیوں میں نظر آنے کے متعلق قرآن کریم کی اسلامی تعلیم کے بارہ میں ہے اور یہ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ اسلام کا خدا فرضی خدا نہیں کہ بعض منطقی دلائل سن کر کوئی شخص ایمان لایا کہ کوئی خدا ہے.ایسا خدا

Page 585

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۷۹ سورة النساء اسلام کا خدا نہیں ہے.اسلام کا خدا فرضی خدا نہیں ہے جو محض قصوں اور کہانیوں کے سہارے سے مانا جاتا ہو.یہ نہیں ہے کہ محض عقلی دلائل یا محض پرانے قصے ہوں کہ فلاں وقت میں یوں ہوا اور فلاں وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنی عظمت کا یا اپنی زندگی کا یہ جلوہ ظاہر کیا اور آج میری زندگی میں خاموشی.پس اسلام کا خدا فرضی خدا نہیں ہے اور اسے کسی قصے یا کہانی کے سہارے کی ضرورت نہیں.پہلی بات یہ تھی کہ ہمارا خدا فرضی خدا نہیں ہے.دوسری چیز یہ ہے کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے.ہم اسے محض اپنی خوش عقیدگی کی وجہ سے قبول نہیں کرتے بلکہ اس لئے قبول کرتے ہیں کہ اس زندہ خدا کی زندہ قدرتیں ہماری زندگی کے اندر جلوہ دکھاتی ہیں اور اس کی زندہ طاقتوں کو ہم اپنے حواس سے محسوس کرتے ہیں.ہم اپنے جسمانی حواس سے بھی محسوس کرتے ہیں اور ہم اپنے روحانی حواس سے بھی محسوس کرتے ہیں.مختلف قسم کے حواس جو خدا تعالیٰ نے انسان کو دیئے ہیں ان کے ذریعے وہ ہمیں اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے.یہ ہے اسلام کا خدا! ایک زندہ خدا، زندہ طاقتوں والا خدا! جس کی زندگی کی علامات ہماری اپنی زندگیوں میں ظاہر ہوتی ہیں.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا بعض دفعہ انسان نا سمجھی کی باتیں کہہ دیتا ہے.خدا سے پیارے رنگ میں ایک چیز مانگتا ہے اور پھر خدا دے بھی دیتا ہے.ایک دن میں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے خدا! تو نے جسم کی جسمانی لذت کے لئے بہت سی چیزیں پیدا کی ہیں آدمی اچھا کھانا کھا رہا ہو تو وہ ایک لذت محسوس کرتا ہے.اچھے نظارے دیکھ کر ایک لذت محسوس کر رہا ہوتا ہے.بے شمار چیزیں ہیں.میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تیرے عام قانونِ قدرت کے مطابق جو انسان کو اچھی لگنے والی چیزیں ہیں جو اس کی طبیعت میں اور اس کی روح میں سرور پیدا کرتی ہیں کے بغیر مجھے تو سرور اور لذت دے اور چند منٹ نہیں گزرے تھے کہ میرا سارا جسم سر سے لے کر پاؤں تک ایک خاص قسم کی لذت اور سرور محسوس کرنے لگ گیا اور قریباً چوبیس گھنٹے تک یہی حالت رہی.یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن بڑی عظیم بات بھی ہے.پس ہمارے خدا کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں ہے.وہ زندہ خدا، زندہ قدرتوں والا خدا ہے.اس کی زندگی کی علامات ہمیں اپنے وجود کے اندر نظر آتی ہیں.زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کے نظارے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہم اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں.خدا تو غنی ہے، صمد ہے، اس کو کسی کی احتیاج نہیں نہ کسی انسان کی نہ سارے انسانوں کی اور نہ

Page 586

تفسیر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۸۰ سورة النساء بحیثیت مجموعی ساری کائنات کی.اس کو تو کوئی احتیاج نہیں لیکن ہمیں اس کی احتیاج ہے.ہمیں ہر آن اس کی وقیوم خدا کی زندہ اور پیاری تجلیات کی ضرورت ہے اور احتیاج ہے.اسی واسطے میں نے اپنے خطبے کے شروع میں جو آیات پڑھی تھیں ان میں بتایا تھا کہ وَاعْتَصَمُوا بِه پس دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر کے اس کی زندہ قدرتوں کی تجلیات اپنی زندگیوں میں دیکھنے کے لئے جدو جہد کریں.اس کے لئے مجاہدہ کریں.اس کے لئے قربانیاں دیں.اس کی ناراضگی سے بچنے والے ہوں.اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والے ہوں.خدا کرے کہ ہم سارے کے سارے اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق رکھنے والے بن جائیں.( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحه ۲۰۲،۱۹۵) اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر میرے عذاب سے بچنا چاہتے ہو اگر میری ذلت سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں میرے پاس آنا پڑے گا کوئی اور تمہیں بچ نہیں سکتا اور اگر میری رحمت کے تم وارث ہو جاؤ تو دنیا کی طرف تمہیں نگاہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا تو ایک مرے ہوئے مچھر کے کیڑے سے بھی کم حقیقت رکھتی ہے پھر تمہیں ان کی کیا پرواہ ہے؟ یہ مضمون مختلف آیات میں اپنے Context (کٹیکسٹ ) میں بھی ہے اور جو میں نے ان آیات کی ترتیب دی ہے اس سے ایک اور مضمون ابھرتا ہے پہلی آیت میں یہ بتایا تھا کہ عذاب یا رحمت کا پہنچا نا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس واسطے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اگر تم اس کے عذاب سے بچنا اور اس کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو.سورۃ النساء کی اس دوسری آیات میں (جس کی میں نے تلاوت کی ہے ) یہ کھول کر بتایا گیا ہے کہ اِعْتَصَمُوا بِہ اللہ تعالی کے ذریعہ سے شیطانی یلغار، نفس کی یلغار، دل کے بد خیالات ہیں ان کی یلغار، نفاق کی یلغار، مخالفت کی یلغار، انکار کی یلغار اور مخالفانہ منصوبوں کی یلغار اور سب لوگوں کے اکٹھے ہو کر مغلوب کر دینے کی یلغار سے اپنے بچاؤ کا انتظام کرو.جتنی بھی کوئی تصور میں لاسکتا ہے یا حقیقت میں پیدا ہوسکتی ہیں ان سے ا بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کو اپنا ذریعہ بناؤ اس کی طرف آؤ اور اس کا ذریعہ یہ ہے فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو تب تم اللہ تعالی کی پناہ میں آ جاؤ گے اور جب تم اللہ کی پناہ میں آ جاؤ گے تو پھر دنیا تمہیں ذلت کے گڑھے میں پھینک نہیں سکے گی پھر دنیا تمہیں عذاب کے تندور کے اندر دھکیل نہیں سکے گی پھر دنیا تمہارے ناک

Page 587

تغییر حضرت خلیفة المسح الثالث ۵۸۱ سورة النساء میں نکیل ڈال کر ذلیل کرنے کے لئے گلیوں میں پھر انہیں سکے گی بلکہ پھر یہ ہوگا.فَسَيْدُ خِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلِ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں تمہیں داخل کر دے گا اپنے فضل کے محلوں کے اندر تمہیں لے جائے گا اپنے سلامتی کے حصار میں تمہیں رکھے گا وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا اور جو اس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایک سیدھا راستہ اپنی طرف پہنچانے کے لئے مہیا کیا ہے اس پر تمہاری انگلی پکڑے گا اور اس راستے پر تمہیں لے جائے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے کیونکہ جو شخص صراط مستقیم پر اللہ تعالیٰ کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہوا اسکے نا کام ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.(خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۲۸۵ تا ۲۸۶)

Page 587

Next Book →