Language: UR
قرآن مجید کی ۲۶ آیات پر اعتراضات کے جوابات
قرآن مجید کا محافظ الله تعالی ھے قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) مرتبہ مولانا محمد حمید کوثر صاحب
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالی ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) مصنف: محمدحمید کوثر ( قادیان) ناظر دعوت الی اللہ مرکز یہ شمالی ہند
نام کتب مرتبہ سن اشاعت بار اول تعداد کتب مطبع ناشر : قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) : مولانا محمد حمید کوثر صاحب 2021: 500: فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان : نظارت نشر و اشاعت قادیان 143516، گورداسپور، پنجاب،انڈیا Name of Book Quran Majeed ka Muhafiz Allah Taala Hai(Quran Majeed ki 26 Aayat Par Etrazat ke Jawabat) Author :Mohammad Hameed Kausar Edition :First Edition 2021 Copies Printed at :Fazl-E-Umar Printing Press Qadian Publisher :Nazarat Nashr-O-Ishat Qadian-143516,Gurdaspur, Punjab TollFree:1800-103-2131
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ اس روئے زمین پر بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا یہ ایمان ویقین قیامت تک رہے گا کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور نزول کے دن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسکو اپنی حفظ وامان میں رکھا ہوا ہے اور قیامت تک رکھے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلی چودہ صدیوں میں شیطانی اور طاغوتی طاقتوں نے اس کلام الہی میں سینکڑوں مرتبہ شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے.حال میں ہی لکھنؤ کے وسیم رضوی نامی ایک شخص نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک عرضی داخل کی اور 26 آیات قرآنیہ کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا.بقول عرضی دہندہ ان آیات میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعلیم دی گئی ہے.جس سے موجودہ دور میں بعض گروہ نو جوانوں کو دہشت گردی کے لئے ورغلاتے ہیں اور بقول اس کے یہ آیات حضرت محمد صلی السلام کی حیات مبارکہ میں قرآن مجید کا حصہ نہ تھیں بلکہ خلفائے راشدین میں ، پہلے تین خلفاء نے ان کو قرآن مجید میں شامل کیا.الحمد للہ مؤرخہ 12 اپریل 2021 ء کو سپریم کورٹ نے مذکورہ عرضی خارج کر دی اور اُس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پچاس ہزار روپئے (50,000) جرمانہ عائد کر دیا.چنانچہ اس ضمن میں روز نامہ ہند سماچار میں مؤرخہ 13 اپریل 2021 کو درج ذیل خبر شائع ہوئی:
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) نئی دہلی ، 12 اپریل (یو این آئی) سپریم کورٹ نے سوموار کو قرآن مجید کی 26 آیات کو ہٹانے کی درخواست خارج کر دی.جسٹس روہنگٹن فالی نریمن کی سر براہی والی بینچ نے اُتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئر مین وسیم رضوی کی درخواست خارج کر دی اور ان پر 50,000 روپے کا جرمانہ عائد کیا.جسٹس نریمن نے کہا ”یہ مکمل طور پر غیرسنجیدہ رٹ پٹیشن ہے“.کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نریمن نے پوچھا کہ کیا درخواست گزار اس درخواست کے بارے میں سنجیدہ ہے؟ انہوں نے کہا ” کیا آپ درخواست کی سماعت پر اصرار کر رہے ہیں ؟ کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں ؟ قرآن مجید کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے وسیم رضوی کی طرف سے پیش سینئر ایڈووکیٹ آرکے رائے زادہ نے جواب دیا کہ وہ مدرسہ تعلیم کے ضوابط کے لئے اپنی درخواست محدود کر رہے ہیں.اس کے بعد اس نے اپنے مؤکل کا موقف پیش کیا، جس سے بینچ مطمئن نظر نہیں آیا اور اس نے 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے درخواست خارج کر دی.خیال رہے رضوی کی عرضی میں کہا گیا تھا کہ ان آیات میں انسانیت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ مذہب کے نام پر نفرت قبل ، خون خرابہ پھیلانے والا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ آیات دہشت گردی کو فروغ دینے والا ہے.رضوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قرآنی آیات مدارس میں بچوں کو پڑھائی جارہی ہیں
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ، جو ان کی بنیاد پرستی کا باعث ہیں ، درخواست میں کہا گیا ہے کہ قرآن کی ان 26 آیات میں تشدد کی تعلیم دی گئی ہے، ایسی تربیت جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے اسے روکا جانا چاہئے.(ہند سماچار، جالندھر، پنجاب مؤرخہ 13 اپریل 2021 صفحہ 1،2) الحمد للہ 26 آیات حذف کروانے کے سلسلہ میں عرضی تو خارج ہو گئی مگر عرضی دہندہ اور اسکے ہمنواؤں نے مذکورہ آیات اور بخاری کی بعض احادیث کے حوالہ سے قرآن مجید کے بارے میں شکوک وشبہات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے بعض غیر مسلموں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ : 1.جب ایک مسلمان نے قرآن مجید کے بارے میں تحریف اور تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے تو اس میں سچائی کیا ہے؟ 2.دوسری طرف مسلمانوں کی نئی نسل مسلمان ہونے کے باوجود عرضی دہندہ کے تحریر کردہ اعتراضات کا جواب چاہتی ہے تا کہ وہ اس جواب کی روشنی میں خود کو اور غیر مسلم دوستوں کو قرآن مجید کی صداقت کا قائل کر سکے.مذکورہ وجوہات کی بناء پر وسیم رضوی کے تحریر کردہ اعتراضات کے جوابات تحریر کر دئے گئے ہیں.اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان جوابات کو مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے سنجیدہ طبع دوستوں کے دلوں میں پیدا شدہ اوہام کے ازالے کا باعث بنا دے.آمین.
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) نیز خدائے کریم قرآن مجید کے بارے میں انکے ایمان وایقان کو مزید تقویت و مضبوطی بخشے.آمین.خاکسار کے تحریر کردہ جوابات کی نظر ثانی اور کمپوزنگ مکرم محمد نور الدین صاحب نائب ناظر دعوت الی اللہ اور مکرم طاہر احمد منیر صاحب مربی دعوت الی اللہ نے کی ہے.جزاهما الله تعالى احسن الجزاء والسلام خاکسار محمد حمید کوثر قادیان دارالامان
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) فہرست مضامین مضامین نمبر شمار صفحہ نمبر پیش لفظ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 تمہید اعترض نمبر 1 1 3 قرآن مجید کے جمع کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے 4 قبول کی ہوئی ہے قرآن مجید کے نزول اور جمع کرنے کی تاریخ 5 قرآن مجید کی حفاظت کا دوسرا طریقہ حفاظت قرآن مجید بذریعہ جبریل علیہ السلام 7 11 حفاظت قرآن مجید کے متعلق مستشرقین کا اعتراف 12 اعتراض نمبر 2 اعتراض نمبر 3 اعتراض نمبر 4 الہی حفاظت کا ناقابل تردید ثبوت اعتراض نمبر 5 اعتراض نمبر 6 15 19 21 23 27 28
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) 15 16 17 18 19 20 21 اعتراض نمبر 7 تو رات اور انجیل میں جنگ کی تعلیم گیتا میں جنگ کے بارے میں تعلیم جماعت احمدیہ مسلمہ اور خدمت قرآن حفاظت قرآن مجید اور جماعت احمدیہ 30 34 36 45 49 52 جماعت احمدیہ اور عقیدہ جہاد درخواست دہندہ کی طرف سے پیش کردہ آیات کا 60 عربی متن ، اس کا ترجمہ اور پھر وضاحت 22 23 24 25 26 27 28 29 30 اعتراض آیت نمبر (a)2 اعتراض آیت نمبر (a)2 اعتراض آیت نمبر (b)2 اعتراض آیت نمبر (d)2 اعتراض آیت نمبر (f)2 اعتراض آیت نمبر (i)2 اعتراض آیت نمبر (k)2 اعتراض آیت نمبر (0)2 اعتراض آیت نمبر (p)2 60 66 67 68 69 70 71 72 72
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 اعتراض آیت نمبر (5)2 اعتراض آیت نمبر (n)2 اعتراض آیت نمبر (W)2 اعتراض آیت نمبر (x)2 اعتراض آیت نمبر (2)2 اعتراض آیت نمبر (c)2 اعتراض آیت نمبر (e)2 اعتراض آیت نمبر (g)2 اعتراض آیت نمبر (n)2 اعتراض آیت نمبر (20 وید اور گیتا میں خدا کا تصوّر توحید کا ذکر بھگوت گیتا سے تو رات اور انجیل میں خدا کا تصور گور وگرنتھ صاحب میں خدا کا تصور اعتراض آیت نمبر (1)2 اعتراض آیت نمبر (m)2 اعتراض آیت نمبر (q)2 73 74 75 76 76 81 84 89 92 94 97 98 99 100 103 104 108
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) 111 113 115 117 121 125 130 اعتراض آیت نمبر (۲)2 اعتراض آیت نمبر (t)2 اعتراض آیت نمبر (4)2 جزیہ کا مفہوم اعتراض آیت نمبر (۷)2 اعتراض آیت نمبر (y)2 حرف آخر 48 49 50 51 52 53 54
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) م الله الرحمن الرحيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بن مانگے دینے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لي تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ جزا سزا کے دن کا مالک ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں.1
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہمیں سیدھے راستہ پر چلا.डै صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تو نے انعام کیا.جن پر غضب نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہوئے.سید وسیم رضوی ولد سید محمد زکی مرحوم سابق چیئر مین شیعہ وقف بورڈ یوپی تحریر کرتے ہیں کہ میں آپکے سامنے قرآن مجید کے بارے میں چند امور رکھتا ہوں.ان پر سنجیدگی سے غور کیجئے.(ختم شد) موصوف کے امور قرآن شریف پر اعتراضات کا ایک سلسلہ ہے جو انہوں نے اپنی درخواست میں کیا ہے، اُنکے اعتراضات کے جوابات درج ذیل ہیں : 2
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض نمبر 1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ 632ء میں فوت ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانیت کے لئے ایک پیغام دیا تھا اور یہ قرآن ان کی زندگی میں نہیں بنا تھا بلکہ آپکے بعد بنایا گیا.جواب: ہر سچا اور حقیقی مسلمان بلکہ ہر انسان یہ یقین و ایمان رکھتا ہے کہ اس کا ئنات کا خالق و مالک اللہ ہے.اسکے علم اور اذن کے بغیر اس روئے زمین پر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا اور اُسی مالک کائنات رب العالمین نے سید نا محمد لی لی تم پر تقریباً 23 سال کے عرصہ میں قرآن مجید نازل فرمایا اور اُسی نازل کرنے والے الہ العلمین نے اُسی قرآن میں یہ اعلان اور وعدہ ابد تک کے لئے فرما دیا کہ 1 - إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ : (سورة الحجر ، سورۃ نمبر 15 آیت نمبر 11) ترجمہ: یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اُتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا کہ میں نے ہی قرآن مجید کو اتارا ہے 3
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اور میں ہی اس کا محافظ اور نگہبان رہونگا.اور زمین پر رہنے والے کسی انسان کی مجال نہیں کہ وہ اس میں کمی بیشی کر دے.اس وعدے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے یہ جرات اور جسارت کی کہ قرآن مجید میں کوئی رد و بدل کمی یا اضافہ کرے اُسے قادر مطلق خدا قطعاً ایسا نہیں کرنے دیگا اور گزشتہ 14 صدیاں اس پر گواہ اور شاہد ہیں.قرآن مجید کے جمع کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے قبول کی ہوئی ہے: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ ۱۸ (سورة القيمة سورۃ نمبر 18 آیت نمبر 75) ترجمہ: یقینا اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے.کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اسکو نازل کیا ہے وہی حفاظت کرے گا اور اسکو جمع کرنے اور اسکی قرآت و تلاوت کروانے کا سارا انتظام خدائے ذوالجلال خود کرے گا اس وعدہ الہی کی موجودگی میں کسی دست انسانی میں وہ طاقت نہیں کہ قرآن مجید کو از خود اپنی مرضی سے اپنی خواہش سے جمع کرنے کی کاروائی کرے اور پچھلی چودہ صدیاں اس حقیقت پر گواہ ہیں.4
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) قرآن مجید کے نزول اور جمع کرنے کی تاریخ ایک اندازے کے مطابق قرآن مجید کا نزول 24 ناتق ( رمضان ) بمطابق 20 اگست 610ء کو ہونا شروع ہوا اور حضرت محمد صلی لی لی ایم کی وفات مؤرخہ یکم ربیع الاول 11 ہجری بمطابق 26 مئی 632 ء تک مختلف اوقات میں نازل ہوتا رہا.اس حساب سے آپکی نبوت کے ایام کی تعداد تقریباً سات ہزار نو صدستر (7970) بنتی ہے اور قرآن کریم کے الفاظ کی مجموعی تعداد ستر ہزار نو صد چوبیس (77924) بنتی ہیں.اس حساب سے روزانہ نزول کی اوسط کم و بیش نو (9) الفاظ بنتے ہیں.تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ بعض اوقات قرآن مجید کی آیات زیادہ نازل ہوتی تھیں اور بعض اوقات کم.اور آنحضرت مسلہ یہ تم کا طریق مبارک تھا کہ جتنی آیات نازل ہوتیں صحابہ کرام کو ساتھ ساتھ زبانی یاد کر وا دیتے.نزول قرآن کی ابتداء سے ہی حضرت جبریل سید نا حضرت محمد صل للہ یہ نیم کے پاس سے اُس وقت تک نہ جاتے جب تک آپکے حافظے میں نازل شدہ آیات محفوظ اور یاد نہ ہو جاتیں اور جبریل کے جانے کے بعد جب آپ ایا کہ ہم اپنے صحابہ کے پاس آتے تو انکو نازل شدہ آیات ساتھ ساتھ یاد کرواتے جاتے اور اس طرح قرآن مجید صحابہ کے حافظہ میں روز اوّل سے ہی محفوظ ہوتا چلا جا LO 5
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) رہا تھا.صحابہ کے سینے اور حافظہ میں جو قرآن مجید جمع اور محفوظ ہوتا رہا وہ تابعین اور تبع تابعین نے اپنے حافظہ اور سینے میں محفوظ کیا اور وہی قرآن مجید نسل در نسل سینه به سینه آج تک مسلمانوں کے حافظہ میں محفوظ ہے اور ایک کے بعد دوسری نسل میں منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے.تاریخ اسلام میں ذکر ہے سیدنا محمدصلی ہی ہم نے اپنی حیات مبارکہ میں جو آخری حج فرمایا اس میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000) صحابہ تھے اور یہ ایک طبعی اور قدرتی بات ہے کہ اُن میں سے ایک بڑی تعداد ایسے حفاظ کی تھی جسکے حافظه و سینے میں قرآن مجید محفوظ تھا.پھر رمضان المبارک میں تراویح کا سلسلہ شروع ہوا اور رمضان میں ساری دنیا کی بڑی بڑی مساجد میں مکمل قرآن مجید کے حافظ (امام) نمازیوں کو بلند آواز سے قرآن مجید سناتے ہیں اور ایک حافظ امام کے پیچھے کھڑا رہتا ہے تا کہ اگر امام کسی جگہ بھول جائے تو وہ اسکو یاد کرائے.تراویح کا یہ تسلسل انڈونیشیا سے لیکر چین اور افریقہ، یورپ اور امریکہ برصغیر، ہند و پاک اور عرب میں جاری اور ساری ہے اور سینہ بسینہ محفوظ قرآن مجید کے پڑھنے میں کہیں بھی کوئی فرق نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی سب سے بڑی تصدیق اور سچائی ہے کہ پچھلی چودہ صدیوں میں قرآن مجید سینہ بسینہ نسل بنسل بڑے محفوظ طریق سے 6
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) منتقل ہوتا چلا آرہا ہے اور اسکی کوئی مثال دنیا کی کسی کتاب میں نہیں ملے گی اور حفاظت کے اس نظام کو نظر انداز کر کے کوئی اعتراض کرنا پرلے درجے کی جہالت کا ثبوت ہوگا.قرآن مجید کی حفاظت کا دوسرا طریقہ: آنحضرت ملا سلام کا یہ طریق تھا کہ جو آیات قرآن شریف کی نازل ہوتی جاتی تھیں انہیں ساتھ ساتھ لکھواتے جاتے اور خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی خود مقرر فرماتے جاتے تھے.اس بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوتی ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل حدیث بطور مثال کے پیش کی جاسکتی ہے: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُثْمَانُ بن عَفَّان رضي الله عنهما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا نَزَلَ عليه شيئى دَعَا بَعْضَ مَن كَانَ يَكْتُبُ فيقول ضَعوا هؤلاء الأيات في سورة الّتي يَذْكُرُ فيها كَذَا وَكَذَا فَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الآيةُ فَيَقُولُ ضَعُوا هذه الآية في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا ( ترمذی وابوداؤ د مسند احمد بحوالہ مشکواۃ ابواب فضائل قرآن) 7
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) یعنی حضرت ابن عباس جو آنحضرت ملا تھا کہ یتیم کے چچازاد بھائی تھے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان خلیفہ ثالث ( جو آنحضرت کے زمانہ میں کاتب وحی رہ چکے تھے ) فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت سال پیام پر جب کچھ آیات اکٹھی نازل ہوتی تھیں تو آپ مسئلہ یہ تم اپنے کا تبان وحی میں سے کسی کو بلا کر ارشاد فرماتے تھے کہ ان آیات کو فلاں سورۃ میں فلاں جگہ لکھو اور اگر ایک ہی آیت اترتی تھی تو پھر اسی طرح کسی کا تب وحی کو بلا کر اور جگہ بتا کر اسے تحریر کروا دیتے تھے.جن صحابہ سے کتابت وحی کا کام لیا جاتا تھا اُن کے نام اور حالات تفصیل و تعین کے ساتھ تاریخ میں محفوظ ہیں.اُن میں سے زیادہ معروف صحابہ یہ تھے.حضرت ابوبکر حضرت عمررؓ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت زبیر بن العوام ،حضرت شرجیل رض بن حسنہ ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ ، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت.(فتح الباری جلد 9 صفحہ 19 و، زرقانی جلد 4 صفحہ 311 تا326) اس فہرست سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی ا یہ تم کو ابتدائے اسلام سے ہی ایک معتبر جماعت قرآنی وحی کے قلمبند کرنے کے لئے میسر تھی اور اس طرح قرآن شریف نہ صرف ساتھ ساتھ تحریر میں آتا گیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کی موجودہ ترتیب بھی جو 8
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) بعض مصالح کے تحت نزول کی ترتیب سے جدا رکھی گئی ہے قائم ہوتی گئی تھی.آنحضرت سال سی ایم کی وفات کے بعد جبکہ نزول قرآن مکمل ہو چکا تھا حضرت ابوبکر خلیفہ اول نے حضرت عمر کے مشورہ سے حضرت زید بن ثابت انصاری کو جو آنحضرت ملا یہ ایک یتیم کے کاتب وحی رہ چکے تھے حکم فرمایا کہ وہ قرآن شریف کو ایک با قاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا کروا کر محفوظ کر دیں.چنانچہ زید بن ثابت نے بڑی محنت کے ساتھ ہر آیت کے متعلق زبانی اور تحریری ہر دو قسم کی پختہ شہادت مہیا کر کے اسے ایک باقاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا کر دیا.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب کتاب النبی اللہ سلیم ).اس کے بعد جب اسلام مختلف ممالک میں پھیل گیا تو پھر حضرت عثمان خلیفہ ثالث کے حکم سے زید بن ثابت کے یکجا کردہ نسخہ کے مطابق قرآن شریف کی متعدد مستند کا پیاں لکھوا کر تمام اسلامی ممالک میں بھجوادی گئیں.( بحوالہ بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن، فتح الباری جلد 9 صفحہ "(17-18 حفاظت کے اس دوسرے طریق کے بعد معترض کے اعتراض کا کھوکھلا پن ور بے بنیاد ہونا واضح اور ثابت ہے اور یہ کہنا کہ قرآن مجید کی کتاب بعد میں بنائی گئی 9
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) انتہائی حیرت انگیز ہے اور کم علمی کا ثبوت ہے.معترض کو علم ہونا چاہئے کہ لفظ کتاب ( كتب يَكْتُبُ كِتاباً ) سے ماخوذ ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی ابتداء میں ہی ہر قرآن پڑھنے والے کو یہ نوید سنادی ذالك الكتاب“ کہ یہ وہ کتاب ہے معترض کو چاہئے لفظ کتاب پر غور کرے اگر یہ کتاب تحریر شدہ سید نا محمد صلی یتیم کے عہد مبارک میں موجود نہ تھی تو اُس وقت منافقین اور مخالفین اسلام جو مدینہ میں ہی موجود تھے یہ سوال اُٹھاتے کہ جس کلام الہی کو کتاب کہا جا رہا ہے وہ ہے کہاں؟.وہ کتابی شکل میں ہمیں نظر نہیں آتی.اُن کے سکوت سے واضح ہے کہ اس وقت کے مروجہ طریق کے مطابق قرآن مجید تحریری شکل میں موجود تھا.اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ نے اعلان فرمایا لَارَ يُبَ فِيه یہ جو کتاب ہے اس میں شک کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کوئی خدشہ اور نہ کوئی امکان.اے قرآن پڑھنے والے پورے یقین اور اطمینان سے اسکو پڑھ اور اس کا مطالعہ کر.ان سارے امکانی اعتراضات کا اللہ تعالیٰ نے ابتدائی دو الفاظ میں ازالہ فرما دیا ہے.10
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) حفاظت قرآن بذریعہ جبریل علیہ السلام : پھر اللہ تعالیٰ نے حفاظت اور حد درجہ احتیاط کے مدنظریہ طریق بھی اختیار فرمایا کہ ہر رمضان میں جتنا قرآن مجید نازل ہوا کرتا تھا حضرت جبریل اور سید نا محمد ال سیستم اسکی دہرائی فرمایا کرتے تھے اور پھر جب حضور صلیم کی زندگی کا آخری سال تھا تو دونوں نے یہ دہرائی دوبار کی.چنانچہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی یہ تم نے میرے کان میں فرمایا کہ ہر سال جبریل میرے ساتھ قرآن کا ایک دفعہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال دو دفعہ دور کیا میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرے وصال کا وقت قریب آ گیا ہے.إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ وَإِنَّهُ عَارَضَنِي الْعَامَ مَرَّتَيْنِ (صحيح بخاري كتاب التفسير باب كان جبريل يَعْرِضُ القرآن) ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اسلام نے اپنی اُس بیماری میں جس میں آپکی وفات ہوئی اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا جبریل ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کریم کا دور کرتے تھے لیکن اس سال 11
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) انہوں نے دو دفعہ دور کیا ہے.اب اس الہی انتظام کے بعد کوئی امکان موجودہ قرآن مجید میں کمی بیشی کا نہیں رہتا.حفاظت قرآن مجید کے متعلق مستشرقین کا اعتراف: یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مستشرقین نے اس بات کا برملا اقرار کیا ہے کہ آج جو قرآن مجید مسلمانوں کے ہاتھوں اور ان کے سینوں میں محفوظ ہے وہ وہی قرآن ہے جو حضرت محمد مالی دیپلم پر نازل ہوا تھا.بعض کی آراء درج ذیل ہیں.سرولیم میور کی رائے : سرولیم میور لکھتے ہیں کہ دنیا کے پردے پر غالباً قرآن کے سوا اور کوئی کتاب ایسی نہیں جو بارہ سو سال کے طویل عرصہ تک بغیر کسی تحریف اور تبدیلی کے اپنی اصلی صورت میں محفوظ رہی ہو.“ پھر لکھتے ہیں : ”ہماری اناجیل کا مسلمانوں کے قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنا جو بالکل غیر محرف ومبدل چلا آرہا ہے.دوایسی چیزوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہیں آپس میں کوئی بھی نسبت نہیں“ پھر لکھتے ہیں: اس بات کی پوری پوری اندرونی اور بیرونی ضمانت موجود ہے کہ قرآن اب بھی اُسی 12
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) شکل وصورت میں ہے جس میں کہ محمد نے اُسے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا“ پھر لکھتے ہیں: ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت محمد سے لے کر آج تک اپنی اصلی اور غیر مبدل صورت میں چلی آئی ہے.“ ( بحوالہ لائف آف محمد دیباچہ صفحہ 21، 22، 26،25) نولڈ کی کی رائے : نولڈ کی جو جرمنی کا ایک نہایت مشہور عیسائی مستشرق گذرا ہے اور جو اس فن میں گویا اُستاد مانا گیا ہے.قرآن شریف کے متعلق لکھتا ہے کہ : آج کا قرآن بعینہ وہی ہے جو صحابہ کے وقت میں تھا.“ پھر لکھتا ہے: یورپین علماء کی یہ کوشش کہ قرآن میں کوئی تحریف ثابت کریں قطعا نا کا م رہی ہے.“ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانکاز یر لفظ قرآن) پروفیسر نکلسن کی رائے پھر انگلستان کا مشہور مسیحی مستشرق پروفیسر نکلسن اپنی انگریزی تصنیف ” عرب کی ادبی تاریخ میں لکھتا ہے : 'اسلام کی ابتدائی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لئے قرآن ایک بے نظیر اور ہر شک وشبہ سے بالا کتاب ہے اور یقیناً 13
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) بُدھ مذہب یا مسیحیت یا کسی قدیم مذہب کو اس قسم کا مستند عصری ریکارڈ حاصل نہیں 66 ہے، جیسا کہ قرآن میں اسلام کو حاصل ہے.“ (عرب کی ادبی تاریخ) مخالفین کی آراء کے بعد برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ: الفَضلُ مَا شَهِدَت بِهِ الْأَعْدَاءُ فضیلت وہی ہوتی ہے جس کی دشمن گواہی دے.جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.14
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض نمبر 2: معترض نے صحیح بخاری کی بعض احادیث کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ آنحضرت صال السلام کے بعد چار صحابہ جو حضور صلی یا ایلم کے پیغام سے واقف تھے یہی چار انصار تھے جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور پھر حضرت ابو درداء کا ذکر کیا ہے.(ختم شد) جواب : معترض کے اعتراض کے جواب میں تحریر ہے کہ حضرت محمد صالی پی ایم کی زندگی کے آخری ایام میں ایک شخص مسیلمہ کذاب) نامی نے نبوت کا اعلان کر دیا اور حضور صلی پانی کی وفات کے بعد مملکت اسلامیہ سے بغاوت کر دی.یہ شخص یمامہ کا رہنے والا تھا جب اسکی بغاوت کا اثر وسیع ہونے لگا اور یہ فتنے کا موجب بنے لگا تو حضرت ابو بکر نے اسکی سرکوبی کے لئے حضرت خالد بن ولید کو تیرہ ہزار (13000) مسلمانوں کا لشکر دیگر روانہ فرمایا.مسیلمہ کذاب نے اپنے چالیس ہزار (40000)عسکریوں کے ساتھ خالد بن ولید کے لشکر کا مقابلہ کیا اور فریقین میں گھما سان کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں بہت سارے صحابہ شہید ہو گئے.ان میں سے بہت سے قرآن مجید کے حافظ اور قاری تھے.بخاری میں روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ اس حادثہ کے بعد حضرت ابوبکر نے مجھے اپنے پاس 15
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) بلا یا.اُس وقت حضرت عمر بن الخطاب بھی آپکے پاس تھے.حضرت ابوبکر نے مجھے یعنی زید بن ثابت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن مجید کے بہت سے حفاظ شہید ہو گئے ہیں اور اسی طرح اور کئی مقامات پر قدیمی حفاظ وقراء شہید ہو گئے ہیں اور فوت ہوتے چلے جارہے ہیں.لہذا میری درخواست ہے کہ آپ قرآن مجید کو یکجا کرنے کا حکم دیں.میں نے حضرت عمر سے کہا میں وہ کام کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول کریم صلی لہ یہی تم نے نہیں کیا ؟ حضرت عمر نے کہا خدا کی قسم پھر بھی یہ اچھا ہے.پس حضرت عمر بار بار مجھے کہتے رہے.بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا.حضرت ابوبکر کے مندرجہ ذیل الفاظ غور طلب ہیں.حَتَّى شَرَحَ اللهُ صَدْرِى لِذلِكَ ( بخاری کتاب التفسیر باب جمع القرآن ) یعنی اللہ نے قرآن کریم کو یکجا کرنے کے لئے حضرت ابوبکر کا سینہ کھول دیا.سیدنا محم لا یہ ان کا خلیفہ اول جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ (سورة التوبه ،سورۃ نمبر 9 آيت نمبر 40) دو میں سے ایک.اس کا سینہ اس اللہ تعالیٰ نے کھولا جس نے قرآن مجید نازل 16
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) فرمایا تھا اور اسکے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا فرمایا وو 66 وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ (سورۃ الحجر، سورۃ نمبر 15 آیت نمبر 11) اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَ قُرْآنَهُ ( سورة القيمة ،سورۃ نمبر 75 آیت نمبر 18) قرآن مجید کو یکجا کروانا ، رکھوانا اور قیامت تک اسکی حفاظت کرتے چلے جانا یہ اللہ کی ذمہ داری ہے.چنانچہ بخاری کی روایت میں مذکور ہے کہ قرآن مجید جو مختلف مقامات پر تحریر شدہ تھا اسکو یکجا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ثابت کو شرح صدر عطا فرمایا انہوں نے قرآن مجید کو کھجور ( لکڑی ) کی تختیوں اور پتھر کی سلیٹوں اور وو صدور الرجال لوگوں کے سینوں میں سے محفوظ اور یکجا کیا.یا در ہے کہ حضرت زید بن ثابت قرآن مجید کو یکجا کرنے کی یہ کاروائی کہیں چھپ کر یا خفیہ طور پر نہیں کر رہے تھے بلکہ مدینہ منورہ میں یہ فریضہ ادا کر رہے تھے اور اُس وقت اُسی مدینہ منورہ میں حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی اور قدیمی کبار صحابہ بھی موجود تھے ان کی موجودگی میں کسی قسم کے حذف واضافہ کا کوئی امکان ہرگز نہ تھا اور نہ ہی کسی نے ایسے شبہ کا اظہار کیا.یہ مستند مصحف قرآن مجید حضرت ام المومنین حفصہ 17
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جو حضرت عمر کی صاحبزادی اور سیدنا محمد علیہ اسلام کی زوجہ تھیں کے پاس امانت رکھوا دیا گیا اور جب حضرت عثمان کے عہد خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود نجمی اور غیر عربی علاقوں تک وسیع ہوگئی اور غیر عربی لوگ اور دور دراز کے عرب قبائل کے لوگ اسلام میں شامل ہو گئے.آرمینیہ اور آذربائیجان بھی اسلام میں داخل ہو گیا تو یہ مناسب اور ضروری سمجھا گیا کہ دور دراز کے علاقوں میں قرآن مجید کو صحیح تلفظ اور ترتیب سے پڑھنے کے لیے اصل مستند قرآن مجید کی نقلیں کروا کر مختلف ممالک میں بھجوا دی جائیں چنانچہ حضرت عثمان نے اصل نسخہ قرآن مجید حضرت حفصہ سے منگوایا اور حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن عاص ،حضرت عبد الرحمن بن الحارث کو حکم دیا کہ اس کی نقلیں کریں، چنانچہ انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں اور یہ سب کچھ مدینہ منورہ میں کبار صحابہ کی موجودگی میں ہوا.اصل نسخہ حضرت عثمان نے حضرت حفصہ کو واپس بھجوا دیا.رَدَّ عُثْمَانُ الصُّعُفَ إِلى حَفصة (بخارى كتاب التفسیر ).معترض کی ساری توجہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے عہد میں قرآن مجید کو یکجا کرنے اور اس کی نقلیں کروانے کی طرف رہی اور خود کو بھی اور دوسروں کو بھی اس مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کی کہ خدا نخواستہ ان دونوں خلفاء نے اسے تحریر 18
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کروایا.معترض کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید ہزاروں صحابہ اور تابعین کے حافظہ اور سینوں میں بہت پہلے سے محفوظ تھا یہ تو ایک احتیاطی طریق تھا جو اختیار کیا گیا.اعتراض نمبر 3: معترض نے تحریر کیا ہے کہ کئی کتا بیں قرآن کی صورت میں لکھی گئی تھیں حضرت عثمان نے ان تمام مصحفوں کو جلانے کا حکم دیا اور اپنا قرآن جاری کیا جو آج تک پڑھا جاتا ہے.(ختم شد) جواب : یہ اعتراض غلط اور بے بنیاد ہے کہ حضرت عثمان نے اپنا قرآن جاری کیا.اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ : 1.حضرت ابوبکر کا زمانہ خلافت سن 11 ھجری تا 13 هجری (بمطابق 632ء تا 634ء) تک تقریباً دو سال رہا.2.حضرت عمرؓ کا زمانہ خلافت سن 13 ھجری تا 24 ھجری بمطابق 634ء تا 645ء) تک تقریباً گیارہ بارہ سال رہا.3.حضرت عثمان کا زمانہ خلافت سن 24 ھجری تا 35 هجری) بمطابق 645ء تا 19
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) 656ء) تقریباً گیارہ سال رہا.4.حضرت علی کا زمانہ خلافت 35 هجری تا 40 هجری (بمطابق 656ء تا 660ء) چار یا پانچ سال رہا.حضرت ابوبکر اور حضرت عمررؓ کا زمانہ خلافت تقریباً 13 سال رہا.ان تیرہ سالوں میں ہزاروں حفاظ اور لاکھوں مسلمانوں کے حافظہ اور سینوں میں قرآن مجید محفوظ ہو چکا تھا اور یہ وہی قرآن مجید تھا جو محمد صلی یہ تم پر نازل ہوا تھا اور ان میں سے اکثر نے حضور پاک مسالہ یہی تم سے حفظ کیا تھا.اور یہ حفاظ تمام مملکت اسلامیہ اور غیر اسلامیہ میں پھیل چکے تھے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا حضرت عثمان کے لیے یہ ممکن تھا کہ ان حفاظ کے حافظہ اور سینوں سے اصل قرآن محو کروا کر اپنا جاری کردہ قرآن ڈلوادیں؟؟ چودہ صدیاں گذرنے کے بعد بھی وہی قرآن سینہ بہ سینہ مسلمانوں میں رائج ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے حضرت محمد ملا یہ تم پر نازل ہوا اس کو مشکوک بنانے کی سینکڑوں کوششیں ہوئیں سب کی سب اللہ تعالیٰ نے نا کام و نامراد فرما دیں.لہذ امعترض کو چودہ صدیوں کی تاریخ کو پیش نظر رکھنا چاہیے.20 20
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) چنانچہ جس بخاری کی حدیث کا معترض نے حوالہ دیا ہے اس میں مذکور ہے کہ اصل قرآن حضرت حفصہ کو واپس کر دیا اور اصل الفاظ یہ ہیں کہ : ردَّ عُثْمَانُ الضُّعُفَ إِلى حَفْصَةً وَ اَرُ سَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ يَمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَ أَمَرَ بِهَا سِوَاهُ مِن الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةِ أَوْ مُصْحَفِ إِنْ تُحَرِّ صحیح البخاری.کتاب التفسیر.باب جمع القرآن ) ق.ترجمہ اصل نسخہ حضرت حفصہ کو واپس کر دیا.پھر نقل شدہ نسخوں سے ایک ایک نسخہ ہر علاقے میں بھیج دیا گیا.حکم دیا کہ اصل نسخہ قرآن کے علاوہ جو کسی کے پاس ہے قرآن کے نام سے لکھا ہوا ہے اُسے جلا دیا جائے.اعتراض نمبر 4 حضرت عثمان نے اس قرآن کے نام پر بنائے جانے والے نسخوں کو جلانے کا حکم دیا ؟؟ جواب : تاریخ اسلام سے علم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نزول قرآن کی ابتداء سے ہی ذاتی طور پر قرآن مجید کو لکھتے جاتے تھے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ 21
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعلان نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال اسلام میں شامل ہوئے تھے آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل 40 مرد اور 11 عورتیں اسلام میں شامل ہو گئے تھے.یعنی کل مسلمانوں کی تعداد 51 افراد پر مشتمل تھی.( بحوالہ مشکوة اسماءالرجال ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے حضور سیل این پیام کوقتل کرنے کے لئے نکلے تھے.راستے میں کسی نے انکو کہا آپ کی بہن فاطمہ اور بہنوئی مسلمان ہو گئے ہیں چنانچہ حضرت عمرا اپنی بہن کے گھر پہنچے تو بہن نے صحیفہ قرآن چھپادیا.اس پر حضرت عمر نے اپنی بہن کو کہا.وَقَالَ لِأُخْتِه أَعْطِينِي هَذِهِ الصَّحِيفَةَ.(سیرۃ ابن ھشام، باب اسلام عمر بن خطاب الجز اصفحہ 41) قارئین کرام غور کیجئے نزول قرآن کے آغاز پر ابھی پانچواں یا چھٹا سال تھا اسوقت تک نازل شدہ قرآن صحیفہ کی شکل میں حضرت عمر کی بہن فاطمہ کے پاس تھا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کے نام سے بہت سے نسخے صحابہ کرام نے اپنے پاس لکھے ہوئے تھے.حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں یہ محسوس کیا کہ اصل قرآن وہی ہوگا جو اصل 22
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) سند کے مطابق ہوگا باقی سب تلف کیے جائیں.الہی حفاظت کا ناقابل تردید ثبوت: 1 - قرآن مجید کے محافظ حقیقی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے ذریعہ اصل مستند مصدقہ نسخہ قرآن یکجاو تیار کروایا.2.اگر اللہ تعالیٰ ایسانہ کرواتا تو قرآن مجید دیگر احادیث کی طرح ہو جاتا اور جیسے بعض احادیث میں اختلاف ہے ویسے ہی قرآن مجید کے بارے میں صحابہ کی آراء مختلف ہو سکتی تھیں اور ہر صحابی کہتا جونسخہ قرآن ، میں نے لکھا ہے اس میں یہ ہے.اور دوسرا کہتا میرے نسخہ قرآن میں کچھ اور ہے کیونکہ ہر صحابی غلطی کر سکتا ہے.عبارت کو سمجھ کر لکھنا ہر انسان کا کام نہیں ہوتا اس لیے ایسی تحریر کردہ آیات قرآن میں غلطی کا امکان ہوسکتا تھا.حضرت عثمان نے ان تمام امکانات کو نیست و نابود کرنے کا، اور جلانے کا حکم دیا اور یہ سب تصرف الہی کے تحت ہی ہورہا تھا.3.اگر غیر مصدقہ بنام قرآن کے نسخوں کو جلایا نہ جا تاتو یہ خدشہ تھا کہ منافقین یا مخالفین اسلام یہود ونصاری خود ساختہ عبارتیں بنا کر کسی نسخہ قرآن میں شامل کروا سکتے تھے اور کہہ دیتے یہ بھی قرآن ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہود کے بارے میں فرماتا ہے 23
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) كه يَسْمَعُونَ كَلمَ اللهِ ثُمَّ يُحَزِفُوْنَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (سورۃ البقرۃ،سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 76) ترجمہ : جب کہ ان میں سے ایک گروہ کلام الہی کو سنتا ہے اور اسے اچھی طرح سمجھنے کے باوجود اس میں تحریف کرتا ہے اور وہ خوب جانتے ہیں.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتب بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ الله ( سورة البقرة سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 80) ترجمہ: پس ہلاکت ہے ان کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے.یہود کے ایک گروہ کی عادت تھی کہ قرآن مجید کے الفاظ کو بدل کر پڑھتے تھے تا کہ اُس کا مفہوم بدل جائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا 24 24
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ( سورة البقرة،سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 105) ترجمہ: ” راعنا “ نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہم پر نظر فرما.تفاسیر میں آتا ہے کہ یہود رَاعِنَا كورًا عِيْنَا ( ہمارے چرواہے) پڑھا کرتے تھے.حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صالی یتیم کے پاس چند یہود آئے اور انہوں نے (السلام علیکم ) کہنے کی بجائے ، حضور صلی ہے یہ تم کو مخاطب کرتے ہوئے اور لفظ ”سلام کو بدلتے ہوئے کہا السام عليك (یعنی نعوذ باللہ بد دعادی) (بحوالہ صحیح مسلم ، کتاب السلام ، باب النھی عن ابتداء، اخل الكتاب بالسلام ) ان الفاظ کی تحریف مخالفین اسلام آنحضرت ساله ای یتیم کی حیات میں کر رہے تھے.اگر خدائی وعدہ، اور حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کی طرف سے بر وقت حفاظت قرآن کی کاروائی نہ کی جاتی تو نہ معلوم قرآن مجید کے خلاف کیا کیا سازشیں کرتے.تو رایت میں تحریف کی مثال یهود و نصاری نے تو رایت ( کتاب مقدس پرانا اور نیا عہد نامہ ) میں کس طرح تحریف کی اُس کی صرف ایک مثال درج ذیل ہے.25 25
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) 1.تورایت کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ“ پر نازل ہوئی.اب جو کتاب موسی“ پر نازل ہوئی.اُس میں درج ذیل عبارت کا اضافہ کس نے کر دیا کہ ؟؟ پس خداوند کے بندہ نے خدا وند کے کہے کے موافق وہیں موآب کے ملک میں وفات پائی...اور موسیٰ اپنی وفات کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا.“ (استثناء، باب 34 ، آیت 7) مذکورہ بالا عبارت بتا رہی ہے کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد اضافہ کی گئی عبارت ہے.ورنہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد خود یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ اُن کی عمر 120 سال تھی.مخالفین اسلام کی کوششیں ہوتی کہ قرآن مجید کو بھی محرف بنادیا جائے.مگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے جرات مندانہ اور بروقت اقدام نے قرآن مجید کو ہر تحریف سے محفوظ رکھا.الحمد للہ علی ذالک.پس اللہ تعالیٰ نے اتنا عظیم الشان حفاظتی انتظام کروا کر یہ ثبوت دیا کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں قرآن مجید کی لفظی معنوی، دینی اور روحانی حفاظت کے لیے اپنا وعدہ انا نحن نزلنا الذکر پورا کرتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ 26
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض نمبر 5: معترض نے ایک اعتراض بغرض تشکیک یہ کیا کہ : حضرت علی نے قرآن مجید کو درست کر لیا.؟ جواب : یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ إِنَّالَهُ لحفظون کے منافی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا کبھی نہیں ہونے دیا یہ حضرت سیدنا علی کی طرف غلط بات منسوب کی جارہی ہے.اگر یہ درست کرنے والی بات صحیح ہوتی تو معترض درج ذیل سوالات کے جوابات 1.بقول معترض اگر حضرت علی نے قرآن کو درست کر لیا تھا تو وہ ممالک جہاں پر اہل تشیع برسر اقتدار تھے یا ہیں.وہ حضرت علی کا تصحیح شدہ نسخہ قرآن کیوں شائع نہیں کرتے.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اور دوسرے شیعہ ادارے وہی قرآن شائع کرتے ، پڑھتے اور پڑھاتے ہیں جو اہلِ سنت والوں کے پاس ہے.2.سیدنا حضرت علی شیر خدا اور چوتھے خلیفہ انہوں نے اپنے عہد خلافت میں تصحیح شده قرآن کو رائج کیوں نہیں کیا اور مسلمانوں کو یہ کیوں نہ کہا کہ تمہارے حافظے میں جو قرآن ہے وہ محو کر کے یہ صحیح شدہ قرآن حفظ کرو ایسی کوئی روایت ہمیں تاریخ اسلام 27
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) میں نہیں ملتی.لہذا یہ اعتراض انتہائی غلط اور باطل ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود قبول کی ہے اس نے اسے ہر تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے اور قیامت تک اسے محفوظ رکھے گا.انشاء اللہ تعالیٰ اعتراض نمبر 6 قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر میں مسلمانوں کا اختلاف ہے اور ان غلط تشریحات کا فائدہ بنیاد پرست اور دہشت گرداٹھارہے ہیں.جو انسانیت کے لیے خطرناک ہے.جواب : اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے اِنَّا اَنْزَلْنَهُ قُرْءنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورة يوسف سورۃ نمبر 12 آیت نمبر 3) کہ ہم نے قرآن مجید کو فصیح اور واضح عربی زبان میں نازل کیا ہے اور یہی اللہ کا کلام ہے.اب رہا سوال یہ کہ اس کی غلط تشریحات سے بنیاد پرست اور دہشت گرد فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو یہ غلطی غلط تشریح کرنے والوں اور فائدہ اُٹھانے والوں کو نہ روکنے والوں کی ہے نہ کہ قرآن مجید کی.!! 28
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اگر کوئی ملکی قانون اور دستور کی کسی شق کی غلط تشریح کر کے عوام کو مغالطہ میں ڈالے تو قصور مغالطہ میں ڈالنے والوں کا ہے نہ کہ قانون کا.! معترض کی طرح اگر کوئی یہ مطالبہ کرے کہ دستور اور آئین سے اس شق کو ختم کر دیا جائے کیونکہ اس شق سے بعض لوگ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا اس کا مطالبہ قابل قبول ہوگا.؟؟ ہر گز نہیں.اس کو ایک دوسری مثال کے ذریعہ اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مثال کے طور پر کوئی احمق اور جاہل مسلمانوں کو یہ کہے کہ قرآن مجید میں صاف طور پر لکھا ہے لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ ( سورۃ النساء سورۃ نمبر 4 آیت نمبر 44) اور دوسری جگہ لکھا ہے فَوَيْلُ لِلْمُصَلِّينَ (سورۃ الماعون سورۃ نمبر 105 آیت نمبر 5) یعنی نماز کے قریب نہ جاؤ اور جو جائے گا اس کے لیے ہلاکت ہے.لہذا مسلمانوں کو نماز ادا نہیں کرنی چاہئے.اب اگر کوئی دوسرا جاہل اُٹھ کر یہ مطالبہ کرے کہ قرآن مجید کی ان دو آیات کو خدانخواستہ حذف کیا جائے کیونکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے تو کیا یہ مطالبہ درست ہو گا.29 29
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) پس ان دو مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ معترض کے اعتراض غلط اور بے بنیاد اور حقیقت پر مبنی نہیں ہیں.اعتراض نمبر 7 معترض نے قرآن مجید کی پانچ آیات لکھ کر یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ان میں قرآن مجید نے اچھی باتیں بیان کی ہیں.اور معترض کے نزدیک یہ تو اللہ کا کلام ہے لیکن جن 26 آیات کا انتخاب معترض نے پیش کیا ہے اس کے خیال میں یہ اللہ کا کلام نہیں ہے ان کا بعد میں اضافہ کیا گیا ہے.جواب: پچھلے صفحات میں انتہائی مضبوط دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں بسم اللہ کی ”ب“ سے لیکر والناس کی ”س“ تک سب کا سب اللہ کا کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کے ذریعہ سیدنا محمد ملا لیا کہ ہم پر نازل کیا.اور حضور صلیے یہ نام کے ذریعہ یہ کلام ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے حافظہ میں بحفاظت منتقل ہوا اور آج تک ہوتا چلا آرہا ہے لہذا ان آیات کی تشریح کی نہ کوئی وجہ ہے نہ کوئی دلیل ! قرآن مجید میں ہر اس موضوع کا ذکر کیا گیا ہے جس کی انسانی زندگی کو قیامت تک 30 30
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ضرورت ہو سکتی تھی اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مضبوط دلائل کے ذریعہ سے واضح کیا گیا ہے کائنات کی تخلیق اور اس کے اسرار کوروشن دلائل کے ذریعہ سے واضح کیا گیا ہے.اسی طرح انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لیے جو ضروریات تھیں اس کے بارے میں ہدایات دی گئیں ہیں.مثلاً معاشرت،ازدواجی زندگی اور اس کے معاملات کے بارے میں ، تربیت اولاد، غرض یہ کہ وہ تمام موضوعات جس کی احتیاج انسان کو تھی، ہے، یا قیامت تک ہو گی.یہ بھی یادر ہے کہ قرآن مجید میں انسان کے ان حالات اور نقاضوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور ہر حالت کے تعلق سے راہنمائی فرمائی ہے مثال کے طور پر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ نماز ادا کرنے سے پہلے پانی سے وضو کر لیا کریں.پھر یہ بھی فرما دیا کہ اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے جیم کر لیا کرو فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا (سورۃ المائدہ ، سورۃ نمبر 5، آیت نمبر 7) تو خشک پا کیز مٹی سے تیم کر لیا کرو.اب اس وضو کے مسئلے میں ہی دو حالتیں بیان کی گئی ہیں عمومی حالت میں ہر صحت مند مسلمان کو نماز ادا کرنے سے پہلے پانی سے وضو 31
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کرنا ہے.دوسری حالت یہ بیان ہوئی کہ اگر پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز ادا کرنی ہے اب اگر کوئی دریا، نہر یا چشمہ کے کنارے پر بسنے والا انسان یہ کہے کہ مجھے تو ہر وقت پانی میسر ہے اور میں پانی سے وضو کر سکتا ہوں لہذا تیم والا حکم میں اپنے قرآن سے حذف کر دیتا ہوں کیونکہ اس کی مجھے ضرورت نہیں ہے تو ہر عاقل انسان ایسے خیال رکھنے والے کو سمجھائے گا کہ قرآن مجید کا یہ حکم صرف تمہارے سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اسی وقت افریقہ کے جنگلات اور صحراؤں میں بھی ایسے مسلمان ہیں جن کے پاس پانی کی ایک بوند نہیں اور وہ وہاں اللہ تعالیٰ کے دوسرے حکم کے مطابق تیم کر کے نماز ادا کریں گے.پس واضح ہوا کہ ہر حالت زمان و مکان کے بدلنے کے ساتھ قرآن مجید کے احکامات اور تعلیمات علیحدہ علیحدہ ہیں.سیدنا محمد ابراہیم اور مسلمانوں کا عہد مبارک دو حصوں میں منقسم ہے.1 مگی زمانہ اس تیرہ سالہ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے سید نا محد سلیم کوظلم سہنے اور برداشت کرنے اور صبر کی تعلیم دی.2 - مدنی دور جب کفار مکہ مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کے لیے مدینہ تک پہنچ 32
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں مسلمانوں کو اپنے بچاؤ ، حفاظت اور دفاع کے بارے میں تعلیمات اور ہدایات دیں.ہر دو زمانوں کے حالات اور تقاضے الگ الگ تھے.معترض نے جو 26 آیات پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان میں دہشت گردی کی تعلیم دی گئی ہے یہ انتہائی غلط ہے.قرآن مجید کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ یہ وہ حالات تھے جب مسلمان اپنا بچاؤ کر رہے تھے.حالانکہ مسلمان مدنی دور میں بھی کسی قسم کا قتال یا جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا کہ کتب عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهُ لَكُمْ ۚ وَ عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ وَ عَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَ اللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا ( سورة البقرة ،سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 217) تَعْلَمُونَ الله ۲۱۷ ترجمہ: تم پر قال فرض کر دیا گیا ہے جبکہ وہ تمہیں ناپسند تھا.اور بعید نہیں کہ تم ایک چیز نا پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو.اور ممکن ہے کہ ایک چیز تم پسند کر ولیکن وہ تمہارے لئے شر انگیز ہو.اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے.33 33
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) نیز وہ آیات نازل ہوئیں جن کے بارے میں مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ ان میں دہشت گردی اور جارحیت کی تعلیم دی گئی ہے اگر ان آیات کی قرآن مجید میں موجودگی دہشت گردی کا سبب سمجھا جا سکتا ہے تو پھر یہ اصول تو تمام مذاہب کی دینی کتب پر اطلاق پانا چاہیے مذہبی کتب سے چند مثالیں درج ذیل ہیں.یہود اور عیسائیوں کی کتاب تو رات اور انجیل میں یہ حکم ہے کہ: تو رات اور انجیل میں جنگ کی تعلیم : جب خداوند تیرا خدا اسے یعنی کسی شہر کو تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکیوں اور مواشی کو جو کچھ اس شہر میں ہے اس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے.(استثناباب 20 آیت 13-14) وہ ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جیتا نہ چھوڑ (استثنا باب 20 آیت 61) حضرت عیسی علیہ السلام کا انجیل میں فرمان ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر مسلح کروانے آیا ہوں صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں.(انجیل متی باب 10 آیت 34) 34
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اسی طرح ہمارے دیش بھارت میں شری کرشن جی مہاراج کے حکم پر کروکشیتر کے میدان میں 18 دن مہا بھارت کی جنگ لڑی گئی اور جب ارجن اپنی کمان پھینک کر بے دل ہو کر بیٹھ گیا اور جنگ سے انکار کر دیا تو شری کرشن جی مہاراج نے اسے جنگ کی تعلیم دی باوجود اس کے کہ اس کے مخالفین میں اس کے سامنے قریبی رشتہ دار اور استاد درونا چار یہ بھی شامل تھے.شری کرشن جی مہاراج نے ارجن کو کہا: 35
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے گیتا میں جنگ کے بارے میں تعلیم : जंग की तालीम गीता में अध्याय २ आश्चर्यवत्पश्यति कश्चिदेन- मार्यवद्वदति तथैव चान्यः । आश्चर्यवच्चैनमन्यः शृणोति ४९ श्रुत्वाप्येनं वेद न चैव कश्चित् ||२९|| और हे अर्जुन ! यह आत्मतत्त्व बड़ा गहन है, इसलिये कोई महापुरुष ही इस आत्माको आश्चर्यकी ज्यों देखता है और वैसे ही दूसरा कोई महापुरुष ही आश्चर्यकी ज्यों इसके तत्त्वको कहता है और दूसरा कोई ही इस आत्माको आश्चर्यकी ज्यों सुनता है और कोई-कोई सुनकर भी इस आत्माको नहीं जानता । देही नित्यमवध्योऽयं देहे सर्वस्य भारत । तस्मात्सर्वाणि भूतानि न त्वं शोचितुमर्हसि ३० हे अर्जुन ! यह आत्मा सबके शरीर में सदा ही अंत्रव्य है, इसलिये सम्पूर्ण भूतप्राणियोंके लिये तूं शोक करनेको योग्य नहीं है ॥ ३० ॥ स्वधर्ममपि चावेक्ष्य न विकम्पितुमर्हसि । * जिसका वध नहीं किया जा सके। 36
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ५० श्रीमद्भगवद्गीता धर्म्याद्धि युद्धाच्छ्रेयोऽन्यत्क्षत्रियस्य न विद्यते ॥ और अपने धर्मको देखकर भी तूं भय करनेकी योग्य नहीं है; क्योंकि धर्मयुक्त युद्धसे बढ़कर दूसरा कोई कल्याणकारक कर्तव्य क्षत्रियके लिये नहीं है । यदृच्छया चोपपन्नं स्वर्गद्वारमपावृतम् । सुखिनः क्षत्रियाः पार्थ लभन्ते युद्धमीदृशम् ३२ और हे पार्थ! अपने आप प्राप्त हुए और खुले हुए स्वर्गके द्वाररूप इस प्रकारके युद्धको भाग्यवान् क्षत्रियलोग ही पाते हैं ॥ ३२ ॥ अथ चेत्वमिमं धयं संग्रामं न करिष्यसि । ततः स्वधर्म कीर्ति च हित्वा पापमवाप्स्यसि || और यदि तूं इस धर्मयुक्त संग्रामको नहीं करेगा तो स्वधर्मको और कीर्तिको खोकर पापको प्राप्त होगा। अकीर्ति चापि भूतानि कथयिष्यन्ति तेऽव्ययां संभावितस्य चाकीर्तिर्मरणादतिरिच्यते ||३४|| और सब लोग तेरी बहुत कालतक रहनेवाली अपकीर्तिको भी कथन करेंगे और वह अपकीर्ति 37 2
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے अध्याय २ माननीय पुरुष के लिये मरणसे भी अधिक बुरी होती है। भयाद्रणादुपरतं मंस्यन्ते त्वां महारथाः । येषां च त्वं बहुमतो भूत्वा यास्यसि लाघवन् ॥ और जिनके तूं बहुत माननीय होकर भी अब तुच्छताको प्राप्त होगा, वे महारथीलोग तुझे भयके कारण युद्धसे उपराम हुआ मानेंगे || ३५ ॥ अवाच्यवादांच बहून्वदिष्यन्ति तवाहिताः । निन्दन्तस्तव सामर्थ्यं ततो दुःखतरं नु किम् || और तेरे बैरीलोग तेरे सामर्थ्य की निन्दा करते हुए बहुत-से न कहने योग्य वचनोंको कहेंगे, फिर उससे अधिक दुःख क्या होगा १ ।। ३६ ।। हतो वा प्राप्स्यसि स्वर्ण जित्वा वा भोक्ष्यसे महीम् तस्मादुत्तिष्ठ कौन्तेय युद्धाय कृतनिश्चयः ॥३७॥ इससे युद्ध करना तेरे लिये सब प्रकारसे अच्छा है; क्योंकि या तो मरकर स्वर्गको प्राप्त होगा अथवा जीतकर पृथ्वीको भोगेगा, इससे हे अर्जुन ! युद्धके लिये निश्चयवाला होकर खड़ा हो || ३७ ॥ 38 88
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ५२ श्रीमद्भगवद्गीता सुखदुःखे समे कृत्वा लाभालाभौ जयाजयौ । ततो युद्धाय युज्यस्व नैवं पापमवाप्स्यसि ||३८|| यदि तुझे स्वर्ग तथा राज्यकी इच्छा न हो तो भी सुख-दुःख, लाभ-हानि और जय-पराजयको समान समझकर उसके उपरान्त युद्धके लिये तैयार हो, इस प्रकार युद्ध करनेसे तूं पापको नहीं प्राप्त होगा ||३८|| एषा तेऽभिहिता सांख्ये बुद्धिर्योगे त्विमां शृणु । बुद्धया युक्तो यया पार्थ कर्मबन्धं प्रहास्यसि ।। हे पार्थ! यह बुद्धि तेरे लिये ज्ञानयोगके* विषय- में कही गई और इसीको अब निष्काम कर्मयोगके। विषय में सुन कि जिस बुद्धिसे युक्त हुआ तूं कर्मो के बन्धनको अच्छी तरहसे नाश करेगा ।। ३९ ॥ नेहाभिक्रमनाशोऽस्ति प्रत्यवायो न विद्यते । स्वल्पमप्यस्य धर्मस्य त्रायते महतो भयात् ।। और इस निष्काम कर्मयोग में आरम्भका अर्थात् *+ अध्याय ३ श्लोक ३ की टिप्पणी में इसका विस्तार देखना चाहिये । (श्रीमद्भगवतगीता प्र.न.49, 50, 51, 52 प्रकाशक मोतीलाल जालान, गीताप्रेस गोरखपुर, 2027 बिक्रमी, 1970 ई.) ' 39
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) گیتا دوسرا باب: ترجمہ 31: اور اپنے دھرم کو دیکھ کر بھی تجھے خائف نہ ہونا چاہئے ، کیونکہ مشتری کے لئے دھرم یدھ ( دھرم کی لڑائی ) سے بڑھ کر اور کوئی بہتری دینے والا کرتب نہیں.ترجمہ 32 : اور اسے پارتھ ! مبارک اور خوش نصیب ہیں وہ کشتری جن کے لئے سورگ کا دروازہ کھولنے والی ایسی دھرم یدھ خود بخود ( بغیر بلائے ہوئے ) آئی ہے.ترجمہ : 33 اور اگر تو اس دھرم یدھ سنگرام کو نہیں کرتا تو اپنے سو دھرم ( نیک فرض ) اور کیرتی ( نیک نامی ) سے محروم ہو کر پاپ میں گرتا ہے.ترجمہ 34 : اور سب لوگ بہت دنوں تک تیری بدنامی کا تذکرہ کرتے رہیں گے.باعزت آدمی کے لئے بدنامی موت سے بھی بڑی ہے.ترجمہ 35: بڑے رتھوں والے جنگجو کہیں گے کہ تو ڈر کر لڑائی سے بھاگا ہے اور جولوگ تیری اعلیٰ تعریفیں کرتے تھے وہ حقارت کرینگے.ترجمہ 36: تیرے دشمن تیری شان میں نا مناسب الفاظ استعمال کریں گے.تیری طاقت کا مضحکہ اڑائیں گے، اس سے زیادہ دُکھدائی اور کیا ہوسکتا ہے؟ ترجمہ 37 :اگر مرا تو بہشت ( سورگ) میں جائے گا.اگر فتح یاب ہوگا تو زمین کی 40
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) سلطنت اور خوشیوں میں جائے گا.اس لئے اے گنتی پتر ! تو لڑنے کے لئے مستعد ہوکر کھڑا ہو جا.ترجمہ 38: سکھ دُکھ نفع نقصان اور فتح شکست کو یکسان سمجھ کر جنگ کے لئے ہمت کی کمر باندھ.تب مجھے باپ نہ لگے گا.شری مد بھگوت گیتا مؤلفہ پرم سنت پرن دھنی مہاریشی شیو برت لال جی مہاراج اشاعت 1977 ء ) ہمارے دیش بھارت میں ہندو احباب دسہرے کا تہوار بڑے جوش اور عقیدت سے مناتے ہیں اور اس سے پہلے رام لیلا اور سیریل میں وہ مناظر پیش کیے جاتے ہیں جو رام چندر جی مہاراج کا لنکا پر چڑھائی کر کے راون اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک و برباد کرنے والے ہیں.درخواست دہندہ جیسی سوچ رکھنے والا اگر کوئی انسان یہ اعتراض کرے کہ ان مناظر کو دیکھ کر تو بہت سے نو جوان رامچندر جی کی طرح اپنے دشمن کو راون سمجھتے ہوئے تباہ و برباد کر دیں گے اور ان کے دلوں میں جذ بہ انتقام پیدا ہو گا کیا اس وجہ سے درخواست دہندہ اس تہوار کے روکنے کی بھی درخواست دیں گے.؟؟ ہرگز نہیں.41
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) معترض نے ایک یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات میں مثبت اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تعلیمات دی گئیں ہیں اور دوسری جگہ قتال کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور معترض کے نزدیک العیاذ باللہ ان کو حذف کرنا چاہئے.معترض کو چاہئے کہ وہ یہود و نصاری کی مقدس کتاب عہد نامہ قدیم اور جدید New testament and old testament کا بغور مطالعہ کریں اس میں بھی مثبت تعلیمات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنگ کے بارے میں بھی ہدایات دی گئی ہیں.نیز معترض کو گیتا کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے ایک طرف اس میں بہت قیمتی نصائح کرشن جی مہاراج نے کی ہیں اور دوسری طرف جنگ کے لیے بھی اُکسایا ہے.اور اس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے.پس ان مثالوں سے معترض کو سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن مجید نے حالت امن کے بارے میں بھی تعلیمات دی ہیں اور اسی طرح اگر ان پر جنگ کے حالات مسلط کر دیئے جائیں تو ان حالات کے بارے میں بھی راہنمائی کی ہے.اگر جنگ کے بارے میں ہدایات نہ دی جاتیں تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ یہ کتا 42
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کامل نہیں ہے.کیونکہ اس میں دشمن سے مقابلے کے لیے تعلیمات نہیں ہیں.حتی کہ اس میں تعلیم بھی دی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں متصادم ہو جائیں تو کیا کرنا ہے.اس سلسلے میں قرآنی فرمان ہے: وَ إِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ ج الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ اِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ ج إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ : ( سورۃ الحجرات ، صورۃ نمبر 49 آیت نمبر 10) ترجمہ: اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ.پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیا دتی کر رہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے.پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو.یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.مذکورہ بالا آیت میں حسب ذیل امور بیان کیے گئے ہیں.43
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) 1.اگر مومنوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن دونوں میں صلح کرا دو.2- اگر صلح ہو جانے کے بعد اُن میں سے کوئی ایک دوسرے پر چڑھائی کرے تو سب مل کر اسی پر چڑھائی کرنے والے کے خلاف جنگ کرو.3.پھر اگر وہ دوبارہ صلح پر رضا مند ہو جائے تو انصاف کو مدنظر رکھو.پس خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید کی تمام تعلیمات کامل اور مکمل ہیں اس پر کسی قسم کا اعتراض اور سوال نہیں ہوسکتا.44
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جماعت احمدیہ مسلمہ اور خدمت قرآن جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعارف: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ظاہری اور معنوی حفاظت اور نگہبانی کے لئے سید نا محمد ال السلام کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کا مبارک نظام جاری فرمایا اور جب یہ نظام باقی نہ رہا تو آنحضرت صالی ایم کی ایک پیشگوئی کے مطابق مجددین کی بعثت کا سلسلہ شروع ہوا.حدیث شریف میں آیا ہے: عن أبي هريرة رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَ أَسِ كُلِّ مَا ئَةِ سَنَةٍ مَنْ تُجَدِّدُلَهَا دِينَهَا..(ابو داود جلد 2 صفه 212 كتاب الملاحم باب ما يذ كرنى قرن المائة.ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت سلیم نے فرمایا کہ اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث فرمایا کریگا جو آکر دین کی تجدید کریگا.45
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) قرآن مجید کی ظاہری اور معنوی حفاظت کے لئے ہر ہجری صدی کی ابتداء میں اللہ تعالی کسی مجد دکو بھیجتارہا جو کہ قرآن مجید کی صحیح تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کرتا رہا.حضور علیہ السلام نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی تھی کہ چودھویں صدی ہجری کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے مجددکو بھیجے گا جو اس امت کا مسیح موعود ہوگا اور وہ سورۃ الجمعہ کی پیشگوئی کے مطابق سید نا محمد مصطفی صالی اسلام کی بعثت ثانیہ کا مظہر ہوگا.جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقیدے کے مطابق وہ موعود شخص حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہیں آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چودھویں صدی ہجری کے چھٹے سال مورخہ 20 رجب 1306ھ بمطابق 23 مارچ 1889 کو جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام فرمایا اور پہلے روز 40 افراد بیعت کر کے اس مبارک جماعت میں شامل ہوئے تھے بعد ازاں روز بروز اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا.الحمد للہ اس وقت 212 ملکوں میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام ہو چکا ہے اور روز بروز یہ ہر جہت سے ترقی کر رہی ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے الہی تفہیم کے مطابق یہ اعلان بھی فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا 46
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ( سورة الحجر ،سورۃ نمبر 15 آیت نمبر 10) لَهُ لَحْفِظُونَ قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 433) " قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی روسے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (سورة الحجر سورة نمير 15 آیت نمبر 10) اس زمانے میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (سورۃ الجمعۃ سورۃ نمبر 62 آیت نمبر 4) کا مصداق اور موعود ہے.وہ ہی جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 60) جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی پیدائش مورخہ 14 شوال 1250 ہجری بمطابق 13 فروری 1835 کو ہوئی.آپ کی وفات 24 ربیع الاول 1326ھ بمطابق 26 مئی 1908 کو ہوئی بوقت وفات قمری لحاظ سے آپ 47
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کی عمر قریبا 76 سال تھی جس طرح سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا نظام شروع ہوا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین تھے اسی طرح حضرت محمد مصطفی صلی اینم کی بعثت ثانیہ کے مظہر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی وفات کے بعد چودھویں صدی ہجری کے 26 ویں سال مورخہ 25 ربیع الاول 1326 بمطابق 27 مئی 1908 کو ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے خلافت راشدہ کا قیام فرمایا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ نور آیت نمبر 56 میں فرمایا ہے کہ تم میں سے جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کے انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا اسی طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ حضرت امام مہدی جو کہ امتی نبی ہوں گے ان کے بعد ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاج النبوة - منہاج نبوت کے طریق پر خلافت کا نظام جاری ہوگا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق جن خلفاء کرام کو مسند خلافت پر متمکن 48
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) فرمایا ان کے اسمائے گرامی و زمانہ خلافت کی تاریخ درج ذیل ہے: (1) حضرت حاجی الحرمین مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ از مورخہ 27 مئی 1908 تا 13 مارچ 1914 (وفات) (2) حضرت حاجی الحرمین مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ از مورخہ 14 مارچ 1914 تا 8 نومبر 1965 (وفات) (3) حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی از مورخه 8 نومبر 1965 تا 8 جون 1982 ( وفات) (4) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی 10 جون 1982 تا 19 اپریل2003( وفات) (5) حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نصرہ اللہ نصر اعزیزہ از 22 اپریل 2003.دعا ہے اللہ تعالی تادیر آپ کو صحت و سلامتی والی طویل عمر عطا فرمائے.آمین حفاظت قرآن مجید اور جماعت احمدیہ: جماعت احمدیہ مسلمہ نے ہر دور میں حضرت بانی اسلام محمد مصطفی سالی یم اور قرآن مجید کی طرف منسوب ہونے والے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں اور ہمیشہ قرآن 49
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) مجید کی سربلندی کے لئے خدمات انجام دی ہیں اسکی وضاحت انتہائی اختصار سے درج ذیل ہے.انیسوی صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان پر برطانوی سامراج کی حکومت تھی اس دور میں مخالفین اسلام کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن مجید کو شدید اعتراضات کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور ان اعتراضات کی وجہ سے بہت سے مسلمان اسلام سے بددل ہوکر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے اور اس زمانہ کے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ شاید اسلام اب زیادہ دیر اس ملک میں قائم نہیں رہ سکے گا اس زمانہ کے شعراء کی شاعری سے بھی اندازہ ہوتا ہے مشہور شاعر الطاف حسین حالی (1914-1837) نے 1879 میں اپنی مسدس میں لکھا کہ: ربادین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی پھر ملت اسلامیہ کی ایک باغ سے تمثیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ اسراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہرسو برابر یہ آواز پیہم وہاں آ رہی ہے کہ اسلام کا باغ ویران یہی ہے 50 60
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اسلام پر معاندین کی طرف سے اعتراضات کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے ان اعتراضات کے رڈ و تردید کے لئے ( 1884ء تا 1880 ء میں اپنی معروف کتاب براھین احمدیہ تصنیف فرمائی.البراهين الاحمديه على حقيت كتاب الله القرآن والنبوة المحمدية - اس کتاب میں آپ نے مخالفین اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ میں نے جس قدر قرآن مجید کی حقیت (اسکے حق ہونے ) پر دلائل تحریر کئے ہیں اگر کوئی اپنی الہامی کتاب میں سے آدھے یا تہائی یا چوتھائی یا پانچواں حصہ نکال کر تحریر کر دے یا اگر میری کتاب میں تحریر شدہ دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو بلا تامل اپنی جائیداد جو دس ہزار روپے کی ہے اسکے حوالہ کر دوں گا.اور اس کا جائزہ تین ججز لیں گے.اور انہی کا فیصلہ آخری ہو گا.یہ وہ پہلا دفاع تھا جو آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کا فرمایا بعد ازاں قرآن مجید پر ہونے والے اعتراضات کے دندان شکن اور تسلی بخش جوابات دینے اور اس کی ظاہری و معنوی محافظت کا سلسلہ آپکی وفات تک جاری رہا.بعد ازاں ہر دور میں آپکے خلیفہ (جانشین ) نے دفاع قرآن مجید اور اسکی تبلیغ واشاعت 51
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) پر اسکی ظاہری و معنوی حفاظت کا فریضہ ادا کیا اور عصر حاضر میں حضرت مرزا مسرور احمد نصرہ اللہ نصراً عزيزاً یہ فرض انتہائی خوش اسلوبی سے ادا فرمارہے ہیں.اب تک جماعت احمدیہ مسلمہ 100 سے زائد زبانوں میں مکمل قرآن مجید کا یا اسکی منتخب آیات کا ترجمہ شائع کر چکی ہے.بھارت کی مندرجہ ذیل زبانوں میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ مع عربی متن قادیان ( پنجاب ) سے شائع ہو چکا ہے اور وہ زبانیں یہ ہیں.1.اردو، 2.ہندی، 3.انگریزی ،4.پنجابی ، 5.ڈوگری ، 6.بنگلہ ، 7 - اُڑیہ، 8 آسامی ، ، 10.ملیالم ،11.تامل ، 12 - کنر ، 13.مراٹھی، 14.گجراتی ،15.تیلگو،16.کشمیری ان تراجم کی اشاعت کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان ترجمہ کی مدد سے کسی حد تک مفاہیم قرآن اور اس کے معارف کو سمجھ لے کہ اس کے لئے اس میں کیا روحانی ، دینی پیغام دیا گیا ہے اور ہزاروں لوگ اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں.الحمد للہ علی ذالک.جماعت احمد یہ اور عقیدہ جہاد: حضرت محمدسال یا پی ایم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میں امت محمدیہ میں جس مسیح کی آمد (بعثت) کی بشارت دے رہا ہوں وہ منکم “مسلمانوں میں سے ہی ایک فرد ہو گا اور وہی امام مہدی ہو گا.آپ نے فرمایا وَلَا المَهدِى الأعيسى ابنُ 52 62
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) مريم ( سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدۃ الزمان ) یعنی مہدی کے علاوہ اور کوئی عیسی ابن مریم نہیں اور آپ سالی یا یہ تم نے آنے والے مسیح و مہدی کے بارے میں یہ بھی خبر دی تھی کہ وہ جزیہ کو موقوف کر دیگا.اور بعض روایات میں جزیہ کی جگہ الحرب بھی آیا ہے یعنی جہاد با السیف معرض التواء میں ڈال دے گا.واضح ہو کہ ”جہاد عربی زبان کا لفظ ہے جو جھل سے بنا ہے جس کے معنی مشقت برداشت کرنا ہے اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ چھوڑ نا ہم اردو میں بھی کہتے ہیں جدو جہد کرنا.قرآن مجید اور احادیث میں جہاد کی بہت سی قسمیں بیان ہوئی ہیں.حدیث میں آتا ہے: عن جابر قال، قدم النبي صلى الله عليه وسلم من غزاة له فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم قد متم خير مقدم وقد متم من الجهاد الاصغر إلى الجهاد الاكبر قالو وما الجهاد الاكبر يا رسول الله قال مجاهدة العبد هواه.تاریخ بغداد ذکر من اسمه هارون، الجزء 6 صفحه 171) حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک 53
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے آپ نے وہ لوگ جو غزوہ سے واپس آئے تھے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تمہاری آمد بہت اچھی آمد ہے اور تم جہاد اصغر( یعنی چھوٹے جہاد ) سے جہادا کبر کی طرف آئے ہو صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول جہادا کبر کیا ہے آپ نے جواب میں فرمایا بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد.پہلے درجے کا جہاد وہ ہے جو انسان اپنے نفس کے خلاف کرتا ہے.اسلام میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے ، نیک اور اچھے کام کرے اور جب ایک مسلمان اپنے آپ کو پاک کر لیتا اور باعمل بن جاتا ہے تو اسے دوسرے درجے کا جہاد جہادکبیر ) کرنے کا حکم ہے.جیسا کہ فرمایا.جَاهِدُهُمْ بِه جِهَادًا كَبِيرًا ( سورة الفرقان ،سورۃ نمبر 25 آیت نمبر 53) تو قرآن مجید کی تعلیمات کو دوسروں تک پیار ومحبت ، دلائل و برھان سے پہنچا.جماعت احمدیہ کے اکثر افراد بفضلہ تعالی دن رات جہاد کبیر میں مصروف ہیں، تیسرے درجے کا جہاد سب سے چھوٹا جہاد ( جہاد اصغر ) کہلاتا ہے.یہ صرف اس وقت کرنے کی اجازت ہے جبکہ مسلمان ربنا اللہ کہنے کی وجہ سے ظلم کئے جائیں.اور ایسی حالت میں اگر 54
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) مسلمان چھوٹا جہاد کریں گے تو اللہ تعالی کا وعدہ ہے وَ اِنَّ اللهَ عَلَى لا نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ (سورۃ المج، سورۃ نمبر 22 آیت نمبر (40) یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے، آج کے جو مسلمان اور ان کے مولوی جہاد ، جہاد کا نعرہ لگا کر معصوم انسانوں کو قتل کرتے اور کرواتے ہیں.اس کا اس جہاد سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے جسے قرآنی جہاد کہا جاتا ہے.اگر یہ قرآنی جہاد ہوتا تو ضرور اللہ تعالی انہیں اپنے وعدہ کے مطابق غلبہ عطا کرتا.پچھلے ایک سو سال میں ان کی ہر میدان میں شکست و ہزیمت اس بات کا واضح اشارہ ربانی ہے کہ یہ قرآن کا جہاد نہیں.اگر یہ وہ ہوتا تو انہیں ضرور فتح نصیب ہوتی.پھر سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے مسلم و مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگوں کے جان و مال محفوظ رہیں.اگر آج اپنے آپ کو مسلمان مومن کہلانے والوں کے ہاتھوں سے کہیں معصوم انسانوں کا قتل ہوتا ہے تو وہی بتا ئیں کہ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مطلب ہے؟ پس ثابت ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان اور مومن تو ایسا کرے گا نہیں.اگر کوئی کرتا ہے تو پھر وہ اسلام دشمن طاقتوں کے اشارے پر اسلام اور حقیقی مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کر رہا ہوگا.یہ بات بھی درست 55
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ہے کہ پچھلی صدی میں دنیا کے بعض ملکوں اور علاقوں میں یا جوج و ماجوج اور دجال کی سیاست اور خود مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں مسلمان دوسری قوموں سے برسر پر کا ر رہے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے.واضح ہو کہ یہ سب کی سب سیاسی لڑائیاں جھگڑے قتل و غارت ہے.ان کا اسلام اور قرآن سے کوئی بھی تعلق نہیں.اور اگر انہیں کوئی اسلام کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا تو ہے کہ اسلام کی پرامن تعلیمات کے ہوتے ہوئے ، جہاد کا غلط مفہوم مسلمانوں میں کہاں سے سرایت کر گیا.اگر تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس سوال کا جواب آسانی سے مل جائے گا.اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اسلام کی غیر معمولی ترقیات کو دیکھ کر دشمنان اسلام سمجھ گئے کہ اب اسلام کا مقابلہ ہمارے بس کی بات نہیں رہی.دوسری طرف وہ اسلام کو تباہ و برباد اور نا کام و بدنام کرنا چاہتے تھے.چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں شامل ہو کر کچھ غلط عقائد مسلمانوں میں پھیلانے شروع کئے.جب یہود اور عیسائیوں نے دیکھا کہ تورات وانجیل میں تو انتہائی جارہانہ اور ظالمانہ تعلیمات بھی دی گئیں ہیں اور اس کے مقابل قرآن کریم میں انتہائی متوازن اور پر 56
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) امن تعلیمات دی گئیں ہیں.تو انہوں نے ”جہاد“ کے لفظ کی غلط تفسیر مسلمانوں میں پھیلانا شروع کی ، اور دوسری طرف مطلب پرست مسلمان کہلانے والے بادشاہوں کو اپنی سلطنتوں کی وسعت کے لئے جہاد کی غلط تفسیر کی ضرورت تھی ، چنانچہ انہوں نے اپنے زمانے کے علماء کے ذریعہ غلط تفسیر کو خوب رواج دیا.اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج جہاد کی غلط تفسیر کو ہی اصل تفسیر سمجھ کر اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں.اس غلط انہی اور اس طرح کی اور بہت سی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے اللہ تعالی نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور امام مہدی بنا کر بھیجا.اور انہوں نے اعلان فرمایا: " آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا.خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا.اب اس کے بعد جو شخص کا فر پر تلوار اٹھاتا ہے.اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے.جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہوجائیں گے.سواب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں.ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈ ابلند کیا گیا ہے.خدا تعالی کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں.پس جس راہ پر نادان 57
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) لوگ اعتراض کر چکے ہیں.خدا تعالی کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اس راہ کو پھر اختیار کیا جائے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی وہ ہمارے سید رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیئے گئے.“ (روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 28) واعلمو ان وقت الجهاد السيفى قد مضى ولم يبق الاجهاد القلم و الدعا و آیات عظمی - ( حقيقة المهدی روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 458) یعنی جان لو کہ اب جہاد بالسیف کا وقت نہیں ہے بلکہ قلم اور دعا اور بڑے بڑے نشانات کے ذریعہ جہاد کرنے کا زمانہ ہے.(حقیقۃ الہدی روحانی خزائن 14 صفحہ 454) یہاں اختصار سے ایک اور بات کا ذکر بھی بہت ضروری ہے.آج کل دنیا میں گویا ایک فیشن بن گیا ہے کہ اگر دنیا کے کسی کونے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو اسے ہمارے ملک اور دنیا کے بعض اخبارات اور نشریاتی ادارے فوراً اسلامک دہشت گردی کا نام دے دیتے ہیں.ایسے اخبارات پر حیرت ہوتی ہے ، اگر کسی 58
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) دوسرے مذہب کے لوگ اسی قسم کی کاروائیاں کریں تو ان کی کاروائیاں ان کے مذہب کی طرف منسوب نہیں کرتے.مثال کے طور پر اگر امریکہ ہیروشیما و ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے یا امریکہ اور برطانیہ افغانستان اور عراق پر بم باری کریں تو اس کاروائی کو مسیحی دہشت گردی نہیں کہا جاتا.اگر جنرل ڈائر جلیانوالا باغ میں سینکڑوں بھارتیوں کو گولیوں سے قتل کر دے تو اسے بھی عیسائی دہشت گردی کا نام نہیں دیا جاتا.پس اس وضاحت کے بعد بعض نابلد مسلمانوں کی طرف سے اپنی نادانی یا کسی کی انگیخت پر قتل و غارت کرنا کسی بھی صورت میں اسلام کی طرف منسوب کرنا مناسب نہیں ہے.جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے جہاد کے متعلق اس وضاحت کے ساتھ اُن آیات کی وضاحت پیش کی جارہی ہے جو کہ درخواست دہندہ نے اپنی درخواست میں پیش کی ہیں.59
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ذیل میں درخواست دہندہ کی طرف سے پیش کردہ آیات کا عربی متن، اس کا ترجمہ اور پھر وضاحت پیش ہے: اعتراض آیت نمبر : (a)2 ج ط فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَ اقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ إِنَّ الله غَفُورٌ رَّحِيمُ ) ( سورۃ التوبہ،سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 5) ترجمہ: پس جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو جہاں بھی تم (عہد شکن ) مشرکوں کو پاؤ تو اُن سے لڑو اور انہیں پکڑو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر کمین گاہ پر اُن کی گھات میں بیٹھو.پس اگر وہ تو بہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.60 60
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) درخواست دہندہ کی طرف سے پیش کردہ آیات نمبر : 2a, 2b,2d,2f,2i, 2k, 2n, 20, 2p, 2s,2w,2x,2z میں مذکورہ نمبروں کے تحت جن آیات کو درج کر کے قرآن مجید اور اسلام کی طرف جو بدترین الزمات منسوب کئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص نے عمداً اُن وجوہات کو نظر انداز کر دیا ہے جو ان آیات کے قرآن مجید میں ذکر کا باعث بنیں.مذ کورہ آیات کا تعلق سیدنا حضرت محمد مصطفی سالی یتیم اور مسلمانوں کے اُس زمانے سے ہے جبکہ وہ کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر مسلط کی جانے والی جنگوں سے اپنا بچاؤ اپنی حفاظت اور اپنے دفاع کے لئے جنگ لڑنے پر مجبور کئے گئے تھے.درخواست دہندہ اور اُسکے ہمنوا ذرا غور کریں کہ ایک مکہ مکرمہ کا آدمی اپنا گھر بار در و دیوار زمین جائیداد کا روبار تجارت مجبوراً چھوڑ کر اڑھائی سو میل دور یثرب (مدینہ منورہ) میں اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لئے ہجرت کر جاتا ہے اور یہ دشمن اپنی تلوار کے ساتھ مدینہ پہنچ کر اسے نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں.کوئی عقل سلیم رکھنے والا انسان یہ بتائے کیا ایسی حالت میں اُس مظلوم کو اپنی بقاء اور اپنے دین کی سالمیت کے لئے دفاع کا حق نہیں ؟؟؟ دنیا کے ہر متمدن اور انصاف پسند انسان کا اس سوال کے 61
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جواب میں یہی مؤقف ہوگا کہ یہاں ان مظلوموں کو اپنے دفاع کا پوراحق تھا.یہی وہ حق ہے جس پر دشمنان اسلام گزشتہ چودہ صدیوں سے اعتراض کرتے چلے آرہے ہیں.اب ان آیات کی مزید وضاحت تحریر ہے.وضاحت درخواست دہندہ نے اپنی درخواست میں جو آیات درج کی ہیں اسکی تشریح سے پہلے اس آیت اور اسی کے تسلسل میں مذکورہ بعض دوسری آیات کا تاریخی پس منظر تحریر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے.ان آیات کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت صلی یہ تم پر ایک اندازے کے مطابق 20 اگست 610ء کو قرآن مجید کے نزول کی ابتداء ہوئی اور اسکے ساتھ آپ صلی یا یہ تم نے اہل مکہ کو قبولیت اسلام کی دعوت دینے کا آغاز کیا.شرک و ظلم نیز گناہوں کی آلودہ زندگی سے نجات پانے کی طرف بلا یا اور انہیں پاک صاف زندگی گزارنے کی تحریک کی اس میں حضور سالم کا اپنا ذاتی کوئی فائدہ نہیں تھا بلکہ اہل مکہ کی ہی فلاح و بہبود گی مقصود تھی.اہل مکہ میں سے جو جو اسکی افادیت کو محسوس کرتا جا تا و ہ اسلام قبول کرتا چلا جاتا تھا اور دوسری طرف قریش مکہ کی اکثریت نے حضور صلی اسلم اور آپ پر ایمان 62
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) لانے والوں پر ظلم کا سلسلہ شروع کر دیا ، اُنکو دکھ اور اذیتیں پہنچانے میں لذت محسوس کرنے لگے.اسلام قبول کرنے والوں میں سے ایک بلال بن رباح تھے.دو پہر کے وقت جبکہ اوپر سے آگ برستی اور مکہ کا پتھریلہ میدان بھٹی کی طرح تپ رہا ہوتا تھا.اُنکو باہر لے جا کر لیٹا دیتے اور بڑے بڑے گرم پتھر انکے سینے پر رکھ کر انکو مجبور 9966 کیا جاتا کہ وہ اسلام سے تائب ہو جائیں مگر وہ ہمیشہ احد احد ( یعنی اللہ ایک ہی ہے) کہتے رہے اور ان مظالم کو بڑے صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کرتے رہے انہی کی طرح چند دوسرے افراد جنہوں نے اسلام کو قبول کیا اُن میں ابو فقہیہ ، عامر بن فہیرہ وغیرہ شامل تھے.انکو بھی انتہائی دکھ اور اذیتیں دی جاتی رہیں مگر یہ سب ان مصائب کو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہے.اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر مکہ کی خواتین نے بھی اسلام قبول کرنا شروع کر دیا.اُن میں سے لبینہ، زنیرہ ،سمید پر کفار مکہ نے اتنے مظالم ڈھائے کہ مکہ کے گردونواح کے پہاڑوں کو بھی اُن کی چیچنوں پر ترس آجا تا ہوگا.اگر انکو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ بھی کہتے اے ظالموں ! اب بس کرو ظلم وستم اپنے انتہاء کو پہنچ گیا ہے.جب مظالم برداشت کرتے کرتے تیرہ (13) سال گزر گئے اور حضور سالی اینم کو قتل کرنے کے لئے انتہائی خطر ناک 63
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) به بنایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آپکومکہ سے دو اڑھائی سو میل دور یثرب (مدینہ منورہ) کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا.اگر آپ چاہتے تو مکہ والوں کے مظالم کو بزور طاقت روک سکتے تھے اور اس کا ثبوت آپ کے صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف کی وہ روایت ہے جو گزر چکی ہے.جب حضور ملی پیام اور آپکے مظلوم صحابہ مدینہ پہنچ گئے تو کفار مکہ کو چاہئے تھا کہ وہ امن اور سکون سے خود بھی جیتے اور مسلمانوں کو بھی جینے دیتے مگر افسوس ایسا نہ ہو وہ اعلی قسم کی تلوار میں لیکر مسلمانوں کی گردنیں اتارنے کے لئے میثرب کی طرف چل پڑے اور ایک ہزار (1000) لشکر کا مقابلہ تین سو تیرہ (313) ایسے نہتے مسلمانوں سے ہوا جو بے چارے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ایک ڈیڑھ سال پہلے مدینہ آئے تھے اور یہ مظلوم ابھی تو اپنے پاؤں پر کھڑے بھی نہ ہوئے تھے اور اُنکے سروں پر چھت بھی نہیں تھی کہ انکی گردنیں کاٹنے کے لئے مکہ کے ظالم بدر کے میدان میں پہنچ گئے.مسلمانوں نے چند تلواروں ، ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے اُن کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اُنکی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی اور آنحضرت مصلای یتیم اور آپکے صحابہ کو جنگ میں نمایاں فتح نصیب ہوئی.اس جنگ سے بھی کفار مکہ نے سبق نہ سیکھا اور انتقام لینے کے لئے مسلمانوں پر پہر در پہ حملہ آور ہوتے رہے.آنحضرت 64
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) صلی یا پی ایم نے اپنے نمائندے بھیج کر کفار کو امن امان سے رہنے کی نصیحت کی.آپ ہی کی کوششوں کے نتیجہ میں مارچ 628ء میں صلح کا معاہدہ طے پایا.یہ معاہدہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور کفار مکہ نے معاہدے کی تمام شرائط کی پابندی نہیں کی آخر جب یہ معاہدہ عملی طور پر ٹوٹ گیا تو آنحضرت ملیشیا کی تمام اپنے لشکر کے ساتھ پورے امن امان سے مکہ میں داخل ہوئے اور اُسے فتح مکہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.مکہ میں آپ الی تم نے ان ظالموں سے جو کہ تیرہ سال مسلمانوں کو مسلسل اذیتیں دیتے چلے آئے تھے یہ سوال کیا "اے قریش کے گروہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ آج کیا سلوک ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا ہم آپ سے بھلائی کے سوا اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں.رحمت مجسم حضرت محمد مانا کہ تم نے فرمایا آج میں تمہیں وہی کہوں گا جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ آج تم آزاد ہو اور تم پر کوئی سرزنش نہیں.“ ( بحوالہ سیرۃ ابن ہشام) آنحضرت مسلہ پانی کی طرف سے مذکورہ عدیم المثال عفو اور معافی کے بعد بھی بعض کفار اور دشمنان اسلام مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہے اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا اور جب صورت حال اس حد تک سنگین ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ : 65
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (a)2 فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَ اقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكوةَ فَخَلُوا سَبِيلَهُمْ * إِنَّ الله غَفُورٌ رَّحِيمُ ج ط ( سورة التوبه سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 5) ترجمہ: پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو جہاں بھی تم ( عہد شکن ) مشرکوں کو پاؤ تو اُن سے لڑو اور انہیں پکڑو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر کمین گاہ پر اُن کی گھات میں بیٹھو.پس اگر وہ تو بہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.66 99
* قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (b)2 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا ج يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَ إِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةٌ فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِةٍ اِنْ شَآءَ ط إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمُ (3) (سورة التوبه ، سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 28) ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مشرکین تو ناپاک ہیں.پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکیں.اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہو تو اللہ تمہیں اپنے فضل کے ساتھ مالدار کردے گا اگر وہ چاہے.یقینا اللہ دائی علم رکھنے والا (اور ) بہت حکمت والا ہے.اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع " تحریر فرماتے ہیں کہ: مشرکین کے نجس ہونے سے مراد ان کے عقیدہ کی نجاست ہے.جسمانی نجاست مراد نہیں.پس مشرکوں کو حج سے روکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اپنی مشرکانہ رسومات ادا کرتے ہوئے حج نہ کرنے دیا جائے کیونکہ زمانہ جاہلیت میں 20 67
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) وہ بعض دفعہ ننگے ہو کر اور اپنے بتوں وغیرہ کو ساتھ لے کر حج کیا کرتے تھے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ اور دوسرے حنفی فقہا کے نزدیک بھی مشرکین مسلمانوں کی ہر مسجد میں حتیٰ کہ مسجد حرام میں بھی داخل ہو سکتے ہیں.البتہ انہیں وہاں اپنی مشرکانہ رسومات کے ساتھ حج یا عمرہ کرنے کی اجازت نہیں.چنانچہ لکھا ہے: لِأَنَّهُ لَيْسَ الْمُرَادُ مِنْ آيَةِ (إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ) النَّهَى عَنْ دُخُوْلِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَإِنَّمَا الْمُرَادُ النَّهَى أَنْ يَحْجَّ الْمُشْرِكُونَ أَوْ يَعْتَمِرُوا كَمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ فِي الْجَاهِلِيَةِ “ " الفقه الاسلامي وأدلته تاليف الدكتور وهبة الزحيلي جلد نمبر ۶ صفحات ۴۳۴ و ۴۳۵ دار الفکر.(مشق) * اعتراض آیت نمبر : (d)2 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِنَ الكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيْكُمْ غِلْظَةٌ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ط (سورۃ التوبہ ،سورۃ نمبر 19 آیت نمبر 123 ) 68
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اُن قریبیوں سے بھی لڑو جو کفار میں سے ہیں اور چاہئے کہ وہ تمہارے اندر سختی محسوس کریں اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے.اعتراض آیت نمبر : (f)2 ياَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوْالَا تَتَّخِذُوا بَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَاِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيْمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (سورة التوبه ،سورۃ نمبر 9 آیت نمبر (23) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم اپنے آباء کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ پکڑو اگر انہوں نے ایمان کی بجائے کفر پسند کر لیا ہو.اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائیں گے تو یہی ہیں جو ظالم لوگ ہیں.اس سلسلہ میں ایک مثال مہا بھارت کی جنگ کی دی جاچکی ہے جس میں کو رو اور پانڈو قریبی رشتہ دار تھے مگر کرشن جی مہاراج نے اس جنگ میں پانڈوں کا ساتھ دیا اور کوروں کا مقابلہ کیا.کیونکہ حالات کا تقاضا اُس وقت اسی اقدام کو اٹھانے کا تھا.69 69
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) یسوع مسیح (علیہ السلام) کے قریبیوں نے جب اُس کا انکار کر دیا اور اُن کی تکذیب کی تو مسیح نے انہیں کہا: 1.اے سانپوں کے بچو! تم بڑے ہو کر کیونکر اچھی باتیں کہہ سکتے ہو.(انجیل متی، باب 12-34) 2.اےسانپو! اے افعی کے بچو تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے.(انجیل متی باب 33/23) یادر ہے اللہ تعالیٰ جس کسی نبی و رسول کو اپنے زمانے کے لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجتا تھا تو وہ نبی اصلاح کے بہت سے مناسب طریق اختیار کرتا تھا.یہ طریق اُن میں سے ایک ہے.اعتراض آیت نمبر : (i)2 مَّلْعُونِينَ ، اَيْنَمَا تُقِفُوا أخِذُوا وَقُتِلُوا تَقْتِيلات (سورة الاحزاب ،سورۃ نمبر 33 آیت نمبر 62) ترجمہ : ( یہ ) دھتکارے ہوئے ، جہاں کہیں بھی پائے جائیں پکڑ لئے جائیں اور اچھی طرح قتل کئے جائیں.70
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الرابع فرماتے ہیں: ان آیات میں منافقین اور یہود میں سے اُن فتنہ پردازوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں مسلمانوں کے خلاف جھوٹی من گھڑت باتیں پھیلاتے رہتے تھے.رسول اللہ الا ایام سے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ تو اُن پر غالب آجائے گا اور یہ تیرے شہر کو چھوڑ کر چلے جائیں گے.اس وقت یہ اللہ کی لعنت کے نیچے ہوں گے اور ایسے حالات ہوں گے کہ جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں اُن کا مواخذہ کرنا اور قتل کرنا جائز ہوگا.اعتراض آیت نمبر: (k)2 وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِرَ بِايَتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ ( سورة السجدة،سورۃ نمبر 32 آیت 23) ترجمہ: اور کون اس سے زیادہ ظالم ہوسکتا ہے جو اپنے رب کی آیات کے ذریعہ اچھی طرح نصیحت کیا جائے پھر بھی اُن سے منہ موڑ لے؟ یقیناً ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں.71
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (0)2 فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيدًا لا وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَا الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُوْنَ * ( سورة حم السجدة سورۃ نمبر 41 آیت نمبر 28) پس ہم یقیناً اُن لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے اور انہیں اُن کے بدترین اعمال کی لاز ما جزا دیں گے.اعتراض آیت نمبر : (p)2 ذلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ لَهُمْ فِيْهَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَاءُ بِمَا كَانُوا بِايْتِنَا يَجْحَدُونَ = ( سورة حم السجدة سورۃ نمبر 41 آیت نمبر 29) ط ترجمہ: یہ ہو کر رہنے والی بات ہے کہ اللہ کے دشمنوں کی جزا آگ ہے.اُن کے لئے اس میں دیر تک رہنے کا گھر ہے.یہ جزا ہے اس کی جو ہماری آیات کا وہ دانستہ انکار کیا کرتے تھے.72
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (s)2 ياَيُّهَا النَّبِيُّ حَرْضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ، وَ ج اِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةُ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لا يَفْقَهُونَ ) ۶۶ ( سورۃ التوبه ، سورۃ نمبر 9، آیت نمبر (14) ترجمہ : اے نبی ! مومنوں کو قتال کی ترغیب دے.اگر تم میں سے ہیں صبر کرنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے.اور اگر تم میں سے ایک سو ( صبر کرنے والے ) ہوں تو وہ کفر کرنے والوں کے ایک ہزار پر غالب آجائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ سمجھتے نہیں.اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع فرماتے ہیں کہ : حضرت محمد رسول اللہ صلی ایام کوحکم فرمایا گیا ہے کہ مومنوں کو قتال کی تحریض کریں.اگر چہ وہ تھوڑے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اپنے سے دس گنازیادہ تعداد پر غالب آ سکتے ہیں.لیکن یہ مراد نہیں کہ ہرا کیلا شخص اپنے سے دس گنا زیادہ لوگوں پر 73
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) غلبہ پالے گا.ایک معین تعداد بیان فرمائی گئی ہے کہ اگر سو ہوں تو ہزار پر غلبہ پالیس گے جو عین ممکن ہے.اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ سر دست تمہاری کمزوری کی حالت ہے.نہ پوری خوراک میسر ہے نہ ہتھیار میسر ہیں.اس لئے تم اگر سو ہو تو دوسو پر غلبہ پاؤ گے.لیکن جب تمہارا رعب قائم ہو جائے گا تو آنے والی نسلوں میں ہزار، دس ہزار پر بھی غالب آسکے گا.آنے والی نسلوں کے لئے جو بڑی فتح کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے اس کی بنیاد ابتدائی مومنین نے ہی ڈالی تھی.اعتراض آیت نمبر : (n)2 يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنْفِقِينَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (3) ( سورة التحريم ،سورۃ نمبر 66، آیت نمبر 10) ۱۰ ترجمہ : اے نبی ! کفار سے اور منافقین سے جہاد کر اور ان کے مقابلہ پر سختی کر.اور اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے.اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الرابع فرماتے ہیں کہ: 74
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جو جہاد نفس کی خاطر نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جا رہا ہو اس میں دشمنوں سے قتال کے مقابلہ پر سختی کرنے کا حکم ہے خواہ دل کتنا ہی نرم ہو.ایک دوسری آیت سے اس سختی کا فائدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں، جو قتال میں شامل ہونے والے لوگ نہیں ہیں، وہ بھی ڈر جائیں گے اور ناحق مسلمانوں سے قتال نہیں کریں گے جیسا کہ فرمایا : فَشَرِدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ (الانفال: ۵۸) اعتراض آیت نمبر: (W)2 وَذُوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاءٌ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ اَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُوْا فِي سَبِيْلِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَ اقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ط ص وَجَدْتُمُوهُمْ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ( سورة النساء،سورۃ نمبر 4، آیت نمبر 90) ۹۰ ترجمہ : وہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی اُسی طرح کفر کرو جس طرح انہوں نے کفر کیا.نتیجہ تم ایک ہی جیسے ہو جاؤ.پس ان میں سے کوئی دوست نہ بنایا کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں.پس اگر وہ پیٹھ دکھا جائیں تو اُن کو پکڑو اور ان کو قتل کرو 75
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اوران میں سے کسی کو دوست یا مددگار نہ بناؤ.اعتراض آیت نمبر : (x)2 قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَ يُخْرِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ * ( سورة التوبه ، سورۃ نمبر 9، آیت نمبر (14) ترجمہ: ان سے لڑائی کرو.اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کر دے گا اور تمہیں ان کے خلاف نصرت عطا کرے گا اور مومن قوم کے سینوں کو شفا بخشے گا.اعتراض آیت نمبر : (2)2 و اقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَ أَخْرِجُوهُمْ ج مِنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا تُقْتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقْتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ ج ط 76 ۱۹۲ الْكَفِرِيْنَ
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) (سورۃ البقرۃ،سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 192) اور (دوران ممال) انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا.اور فتنتقل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے.اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں.پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم ان کو قتل کرو.کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے.مذکورہ بالا تمام آیات جن سے کفار پر سختی کرنے کا نتیجہ اخذ کیا گیا ہے.اس کے جواب میں حضرت بانی جماعت احمدیہ مسلمہ کی ایک تحریر درج کی جا رہی ہے.اُس میں مذکورہ آیات اور ان سے مماثل آیات جو قرآن مجید میں ہیں.اُن سے منفی نتیجہ اخذ کرنے والوں کے لیے کافی وشافی جواب ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:.اس کے بعد آنحضرت میایی پیام پوشیدہ طور پر مدینہ میں پہنچے.اور مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ کو قبول کر لیا.اس پر مکہ والوں کا غضب بھڑ کا اور افسوس کیا کہ ہمارا شکار ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.اور پھر کیا تھا.دن رات انہیں منصوبوں میں لگے کہ کس طرح آنحضرت صلی ایتم کو قتل کر دیں.اور کچھ تھوڑا گروہ مکہ والوں کا کہ جو 77
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) آنحضرت مال تم پر ایمان لایا تھاوہ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مختلف ممالک کی طرف چلے گئے.بعض نے حبشہ کے بادشاہ کی پناہ لے لی تھی.اور بعض مکہ میں ہی رہے.کیوں کہ وہ سفر کرنے کے لئے زاد راہ نہیں رکھتے تھے.اور وہ بہت دکھ دئے گئے.قرآن شریف میں اُن کا ذکر ہے.کہ کیوں کر وہ دن رات فریاد کرتے تھے.اور جب کفار قریش کا حد سے زیادہ ظلم بڑھ گیا ، اور انہوں نے غریب عورتوں اور یتیم بچوں کو قتل کرنا شروع کیا اور بعض عورتوں کو ایسی بے دردی سے مارا کہ اُن کی دونوں ٹانگیں دورسوں سے باندھ کر دو انٹوں کے ساتھ وہ رستے خوب جکڑ دئے.اور اُن اونٹوں کو دو مختلف جہات میں دوڑایا اور اس طرح پر وہ عورتیں دوٹکڑے ہو کر مر گئیں.جب بے رحم کافروں کا ظلم اس حد تک پہنچ گیا.خدا نے جو آخر اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے اپنے رسول پر اپنی وحی نازل کی کہ مظلوموں کی فریاد میرے تک پہنچ گئی.آج میں اجازت دیتا ہوں کہ تم بھی ان کا مقابلہ کرو.اور یاد رکھو کہ جولوگ بے گناہ لوگوں پر تلوار اُٹھاتے ہیں.وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے جائیں گے.مگر تم کوئی زیادتی مت کرو کہ خداز یادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.یہ ہے حقیقت اسلام کے جہاد کی.جس کو نہایت ظلم سے بڑے پیرا یہ میں بیان کیا گیا 78
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ہے.بیشک خدا حلیم ہے.مگر جب کسی قوم کی شرارت حد سے گزرجاتی ہے.تو وہ ظالم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.اور آپ اُن کے لئے تباہی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدين (سورۃ البقرہ، سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 257) یعنی دین اسلام میں جبر نہیں تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا.اور جبر کے کونسے سامان تھے.اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں اُن کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں.اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں.اور دین کو دشمن کے حملوں سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں.اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کر دیں.اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اُٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اُس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں.اور پھر ہر یک قسم کی صعوبت اُٹھا کر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر.اور اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں.جس کا نتیجہ یہ ہوا 79
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہوجائیں.اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لا إلهَ إِلَّا اللہ کی آواز پہنچادیں تم ایمانا کہو کہ کیا یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو جبر امسلمان کئے جاتے ہیں.جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں.اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے.“ پیغام صلح.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 467) 60 80
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (c)2 وَ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَا أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلوة إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يُفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَفِرِيْنَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوا مُّبِينًا ۱۰۲ ط ( سورة النساء، سورۃ نمبر 4 آیت نمبر 102) ترجمہ: اور جب تم زمین میں (جہاد کرتے ہوئے) سفر پر نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز قصر کر لیا کرو، اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے تمہیں آزمائش میں ڈالیں گے.یقیناً کافر تمہارے کھلے کھلے دشمن ہیں.وضاحت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ جب وہ حالت جنگ اور میدان جنگ میں ہوں اور اس کے لئے وہ زمین میں مسافر کی حالت میں ہوں تو انکو اجازت دی گئی ہے کہ اپنی نماز قصر کر لیا کریں.یعنی ظہر کی دو رکعت عصر کی دو رکعت اور عشاء کی دو رکعت پڑھ لیا کریں اور ایک اور موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں صلوٰۃ الخوف ایک خاص کیفیت میں ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور اسکا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم نماز کی ادائیگی میں مستغرق ہو اور دشمن 81
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کی طرف تمہاری توجہ نہ ہو اور وہ تمہیں کوئی ضرب اور نقصان پہنچا جا ئیں.بایں وجہ اللہ تعالیٰ نے حالت جنگ میں سفر کرنے کی صورت میں نمازیں قصر کرنے اور بوقت ضرورت صلوٰۃ الخوف ادا کر نیکی اجازت دی ہے.سلیم العقل رکھنے والے انسان کی فہم وادراک سے بالا ہے کہ درخواست دہندہ کو اس صاف اور صریح آیت پر کیا اعتراض ہے؟ بہر حال یہ ایک اصولی تعلیم ہے اور قیامت تک رہنے والی تعلیم ہے جب کسی زماں و مکاں میں اسکی ضرورت پیش آئے تو اسپر عمل کیا جائے گا عمومی حالات میں اسپر عمل نہیں کیا جاتا.مذکورہ بالا آیت کے آخر میں ذکر ہے کہ إِنَّ الْكَفِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مبيناً.يقيناً کا فرتمہارے کھلے کھلے دشمن ہیں.شاید معترض ان الفاظ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ” کا فرتمہارے کھلے کھلے دشمن ہیں.“ سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ انسان جو مسلمان نہیں وہ کافر ہے اور وہ مسلمانوں کا دشمن ہے.اگر اس مغالطہ میں مبتلاء کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ کوششیں نہ صرف قابل تر دید بلکہ قابل مذمت ہیں.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کا انکار کر 82
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کے اُس کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور تمہیں صحیح طور پر نماز بھی ادا نہیں کرنے دیتے وہ تمہارے کھلے کھلے دشمن ہیں.اس ضمن میں ایک مثال تحریر ہے کہ سن 5 ھجری بمطابق فروری مارچ 627ء کفار کا لشکر جس میں دس ہزار سے لے کر پندرہ ہزار تک عسکری تھے مدینہ کے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے مدینہ کے باہر پہنچ گیا.مسلمانوں نے اپنے دفاع کے لیے ایک خندق کھودی تا کہ کفار اُسے عبور نہ کر سکیں.اور مدینہ اُن کے اچانک حملہ سے محفوظ رہے.مسلمانوں نے بھی اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لیے حسب الاستطاعت تیاری کی.اس دوران ایک موقعہ ایسا آیا کہ مسلمان عصر کی نماز وقت پر ادا نہ کر سکے.یہاں تک کہ آنحضرت صلی یہ تم نے نماز عصر سورج غروب ہونے کے بعد ادا کی اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی.حضرت علی کا بیان ہے کہ غزوہ خندق کے روز نبی کریم صلی ای ایم نے فرما یا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دیا جنہوں نے سورج غروب ہو جانے تک ہمیں نماز عصر نہ ادا کرنے دی.( بحوالہ صحیح بخاری.ابواب المغازی.باب غزوۃ الخندق) 83
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) حاصل کلام یہ کہ آیت مذکورہ میں خاص طور پر ان کافروں کی عداوت کا ذکر ہے جو مسلمانوں کو بروقت نماز ادا کرنے میں روک بنتے تھے.اعتراض آیت نمبر : (e)2 ط اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِايْتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (سورة النساء،سورۃ نمبر 4 آیت نمبر 57) ط ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہے ہم انہیں آگ میں داخل کریں گے.جب کبھی ان کے چمڑے گل جائیں گے ہم انہیں بدل کر دوسرے چمڑے دے دیں گے تاکہ وہ عذاب کو چکھیں.یقینا اللہ کامل غلبہ والا (اور ) صاحب حکمت ہے.وضاحت: قرآن مجید میں انسان کی پیدائش کا یہ مقصد بتایا گیا ہے کہ و خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (3) ۵۷ (سورۃ الذاریات،سورۃ نمبر 51 آیت نمبر 57) 84
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں.پھر فرمایا الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيُوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (سورۃ الملک، سورۃ نمبر 67 آیت نمبر 3) ترجمہ: وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے.اور وہ کامل غلبہ والا (اور ) بہت بخشنے والا ہے.پھر فرمایا وَ هَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ (سورة البلد، سورۃ نمبر 30 آیت نمبر (10) ترجمہ: اور ہم نے اُسے دو مرتفع راستوں کی طرف ہدایت دی.نیز فرمایا فَالْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقُوهَا (سورۃ الشمس، سورۃ نمبر 91 آیت نمر 9) ترجمہ: پس اُس کی بے اعتدالیوں اور اس کی پر ہیز گاریوں ( کی تمیز کرنے کی صلاحیت ) کو اس کی فطرت میں ودیعت کیا.85
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اسکی مزید وضاحت یہ ہے کہ ہر انسان کا اپنی ماں کی کوکھ میں جسم تیار ہوتا ہے پھر وہ جنم لیکر اس دنیا میں آتا ہے اس دنیا میں کوئی انسان یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ اپنی ماں کی کوکھ میں آنے سے پہلے کہاں تھا اور کیسا تھا.اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی دو چیزوں سے مرکب ہے ایک اس کا جسم دوسری اسکی روح ( آتما) اور جب اسکی روح جسم سے نکل جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اسکی موت ہوگئی اور موت کے بعد بہت سے اہل مذاہب اسکے مردہ جسم کو جلتے ہوئے انگاروں میں جلا کر راکھ کر دیتے ہیں ایک منظر نضجت جلودھم کا یہاں نظر آ جاتا ہے اور کچھ اہل مذاہب اس جسم کو قبر کے حوالے کر کے خاک بنا دیتے ہیں جہاں اسکے جسم کو زمینی کیڑے مکوڑے کھا کر معدوم کر دیتے ہیں اور نضجت جلود ھم اس طرح بھی پورا ہورہا ہوتا ہے اس کے بعد اسکی روح اس جگہ واپس چلی جاتی ہے جہاں سے وہ آئی تھی اور اگر اس دنیا میں اس نے اپنی زندگی خود اپنے مالک و خالق کی تعلیمات کے مطابق گزاری ہوگی تو اس کا اگلا سفر جنت میں روحانی مدارج کے حصول کے لئے شروع ہو جاتا ہے.جس نے اس دنیا میں گناہ ، پاپ ، بدیاں ظلم کا ارتکاب کیا ہو گا اس کو اسکے گناہوں کی سزا دینے کے لئے جہنم کی طرف بھجوادیا جاتا ہے جہاں اسکے گناہوں کی سزا کے بعد اسکو جہنم سے نکال کر 86
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جنت کے ابتدائی مدارج کی طرف سفر کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے چنانچہ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ (1889-1965) فرماتے ہیں’انسان ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا.بلکہ جس طرح ماں کے پیٹ میں کچھ عرصہ کے لئے رہتا ہے.اس طرح کچھ عرصہ کے لئے وہ دوزخ میں رہے گا.پھر باہر کی کھلی ہوا یعنی جنت میں آجائے گا.اسی طرح حدیث میں رسول کریم صلی لی اسلیم فرماتے ہیں ياتي على جهنم زمان ليس فيها احد و نسيم الصبا تحرك ابوابها (تفسير معالم التنزيل زير آيت فَا مَّا الَّذِينَ شَقُوا : هود 107/11) یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئیگا کہ اس میں کوئی شخص نہیں ہوگا اور ہوا اسکے دروازوں کو کھٹکھٹا ئیگی اس حدیث سے بھی اس قرآنی آیت کی تصدیق ہوتی ہے.“ ( تفسیر صغیر حاشیہ صفحہ 844) اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قاتل ، چور، ڈاکو، زنا کارکو جیل کی سزائیں دی جاتی ہیں اور ان میں سے بعض کو پھانسی کی سزا گلے میں رسا اور پھندا ڈال کر تختے پر لٹکا کر دی 87
88 88 قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) جاتی ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اسکے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ اس کو اُسکے جرم کی سزا کا مزا چکھانے کے لئے.اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اس آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ جب کبھی اُنکے چھڑے گل جائیں گے ہم انہیں بدل کر دوسرے چمڑے دے دینگے تا کہ وہ عذاب چکھیں.گناہوں کا عذاب چکھانے کے لئے قرآن مجید میں یہ الفاظ آئے ہیں مگر قرآن مجید اور احادیث سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ جہنم سے ایک دن سب رہائی پا جائیں گے.اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اس آیت پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا بلکہ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو مذکورہ آیت سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اپنے مقصد حیات کو سمجھ کر ایسی زندگی گزارنے کی توفیق دے جو رضائے الہی کے حصول کے لیے ہو.آمین
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (g)2 إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةُ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا يُحِلُّوْنَهُ عَامًا وَ يُحَرِّمُوْنَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ الله زُيَنَ لَهُمْ سُوهُ أَعْمَالِهِمْ وَ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِيْنَ (سورۃ التوبہ ،سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 37) ط ترجمہ: یقینائی کفر میں ایک اضافہ ہے.اس سے اُن لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا گمراہ کر دیا جاتا ہے.کسی سال تو وہ اُسے جائز قرار دیتے ہیں اور کسی سال اُسے حرام قرار دیتے ہیں تا کہ اس کی گنتی پوری رکھیں جسے اللہ نے حرمت والا قراردیا ہے، تا کہ وہ اُسے جائز بنا دیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے.ان کے لئے ان کے اعمال کی برائی خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے اور اللہ کا فرقوم کو ہدایت نہیں دیتا.وضاحت اسلام سے قبل عربوں میں قمری سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہوتا تھا.جن میں سے 4 مہینے حرمت والے مہینے کہلاتے تھے لیکن عرب لوگ ان حرمت والے مہینوں کو اپنے دنیاوی مفادات کے لئے اپنی مرضی سے آگے پیچھے کر دیتے تھے اور 89
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اسے عربی میں ”النسی“ کہا جاتا تھا.تا کہ حرمت والے مہینوں میں جو چیزیں حرام ہیں جیسے لڑائی وغیرہ وہ کرسکیں اور بعد میں بعض دوسرے مہینوں کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے تھے.قرآن مجید کی جس آیت پر معترض نے اعتراض کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.النسی کفر میں ایک اضافہ ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کیا جاتا تھا.اسلام نے بھی ان مہینوں کو برقرار رکھا.اور ان کے نام یہ ہیں.1 - محرم، 2 صفر ، 3 ربیع الاول، 4 ربیع الثانی، 5.جمادی الاول، 6.جمادی الثانی 7.رجب، 8.شعبان، 9.رمضان، 10.شوال.11.ذی القعدہ، 12.ذی ان میں سے رسول پاک صلیہ سلیم نے عربوں کے سابقہ طریق کے مطابق چار مہینوں کو حرمت والے مہینے قرار دیا اور انکے نام یہ ہیں: 1.ذی القعدہ 2.ذی الحجہ 3.محرم 4.رجب (بحوالہ صحیح البخاری، کتاب التفسیر التو به ) ان چار مہینوں کی حرمت قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حجاج کرام امن وامان سے خانہ 90 90
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کعبہ تک سفر کر سکیں اور انکو کوئی خوف و خطر لاحق نہ ہو.ان چارمہینوں میں سے ایک مہینہ ذوالقعدہ ذوالحجہ سے قبل آتا ہے.اور پھر ذوالحجہ کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے.اس میں حجاج کرام مناسک حج ادا کرنے کے بعد بے خوف وخطر پرامن ماحول میں اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں.قرآن کریم کی اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نسی کو کلیۂ ممنوع قرار دیا ہے اور اسے کفر اور گمراہی کے زمرے میں شامل کیا ہے.کیونکہ النسی کے ذریعہ حجاج کرام کو نقصان پہنچانے کا اندیشہ تھا.اسلام نے حجاج کرام کی سلامتی کے لئے اور ان چار مہینوں میں جزیرہ عرب اور دنیا میں امن وسکون کا ماحول برقرار رکھنے کے لئے انکی حرمت کو برقرار رکھنے اور رکھوانے کی تاکید کی ہے.ایسا انسان جو اس معاملے میں اپنی ضد اور اناء برقرار رکھتے ہوئے ان حرمت والے مہینوں کا منکر و انکاری ہے اور اس وطیرے کو چھوڑ نا نہیں چاہتا ہے اُن کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ جو خود ہدایت نہیں چاہتا اللہ بھی اسے ہدایت نہیں دیتا.مذکورہ آیت کے آخر پر ارشا در بانی ہے کہ اللہ کا فرقوم کو ہدایت نہیں دیتا.“ یعنی جو انسان خود ہدایت کا متمنی نہیں اللہ تعالیٰ اسے زبر دستی ہدایت نہیں دیتا کیونکہ دین کے 91
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) سلسلہ میں کوئی جبر و اکراہ نہیں.اعتراض آیت نمبر : (h)2 ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِيْنَكُمْ هُرُوا وَ لَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ أَوْلِيَاء وَاتَّقُوا الله إن كُنتُم ج مُّؤْمِنِينَ ) ۵۸ (سورۃ المائدہ،سورۃ نمبر 5 آیت نمبر 58) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اُن کو جنہوں نے تمہارے دین کو تمسخر اور کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈروا اگر تم مومن ہو.وضاحت: ایک انسان جب سچے دل سے اسلام کو بطور دین اپنے لئے قبول کر لیتا ہے تو لازمی طور پر اسکے دل میں اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور روز بروز وہ مضبوط اور گہری ہوتی جاتی ہے.اور دنیا کا یہ طریق ہے کہ کوئی بھی غیرت مند انسان یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی دوسرا شخص اسکے محبوب کی تو ہین اور تذلیل 92 92
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کرے مثلاً ایک ایسا انسان جو اپنے والدین سے محبت کرتا اور انکا احترام کرتا ہے.اسکی غیرت برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی دوسرا اسکے والدین کی توہین کرے اور انہیں بُرا بھلا کہے.اگر تو ہین کرنے والا اپنی اس حرکت سے باز نہیں آئیگا تو ایک غیرت مند انسان نہ تو اس سے دوستی رکھے گا اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی قربت رکھے گا.دین اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اسے جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے اسکا انکار کر دے اس پر کوئی جبر و اکراہ نہیں اگر کسی کی سمجھ میں دین اسلام کی تعلیمات نہیں آتیں تو اس کا حق ہے کہ وہ انکار کر دے اور ایک شریف الطبع انسان انکار کے بعد خاموشی اختیار کرے گا مگر کوئی دوسرا شخص تکذیب و تکفیر کے ساتھ ساتھ استہزا اور مذاق بھی کرے اور حضرت بانی اسلام صلی یہ تم اور قرآن مجید کے ساتھ گستاخانہ سلوک کرے تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ نصیحت کی کہ تمہاری ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ.اور ایک سادہ سی مثال سے اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ شرارتی اور بری عادات رکھنے والے بچوں سے والدین اپنے بچوں کو دوستی نہ رکھنے اور اس سے دور رکھنے کی نصیحت کرتے ہیں تا کہ وہ اس کی صحبت سے بداثر قبول نہ کر لیں.اس آیت میں تمام 93 93
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اہل کتاب یا دوسرے مذاہب کے لوگوں سے دوستی بنانے سے ہر گز منع نہیں کیا گیا.البتہ اُن لوگوں سے روکا گیا ہے جو کہ دین اسلام کے عقائد و نظریات اور مقدسات کی تو ہین اور اہانت کرتے ہیں.لیکن یہاں دوستی نہ کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ استہزاء کرنے والوں کے خلاف اس طرح کے مظاہرے کئے جائیں جن کے ذریعہ ملک وقوم کا جانی و مالی نقصان ہو.اسکی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا.پرامن طریق سے اپنی بات رکھنے اور معترضین کا جواب دینے کی اجازت ہے.اس وضاحت کے بعد نہ تو اس پر کوئی اعتراض رہتا ہے اور نہ ہی نا معقول سوال کی گنجائش باقی رہتی ہے.اعتراض آیت نمبر : (0)2 إنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ * أَنْتُمْ لَهَا ورِدُونَ * (سورۃ الانبیاء،سورۃ نمبر 21 آیت نمبر 99) ترجمہ: یقینا تم اور وہ جس کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہو.تم 94 94
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اس میں اُترنے والے ہو.وضاحت: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض دوسرے مقامات پر فرمایا.وَ اِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرُ (سورة الفاطر سورة نمبر ۲۵ 35 آیت نمبر 25) اور کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نذیر اور ہادی بھیجا ہے ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادِل ( سورة الرعد سورۃ نمبر 13 آیت نمبر 8) ترجمہ: اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوتا ہے.حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول الله كم الانبياء؟ قال ما ئة الف وأربعه و عشرون ألفاً ( تفسیر القرآن العظیم للامام الجلیل اسماعیل بن کثیر 774هجری تفسیر سورۃ النساء) کہ دنیا میں کتنے نبی آئے ہیں آپ صلی لا یہ تم نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اللہ نے اس دنیا میں بھجوائے.95
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اور ان کی آمد کا مقصد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ فرمایا: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَلَةُ ، فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ( سورة النحل سورۃ نمبر 16 آیت نمبر 37) ترجمہ: اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور بتوں سے اجتناب کرو.پس ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور انہی میں ایسے بھی ہیں جن پر گمراہی واجب ہو گئی.پس زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا تھا.ہر نبی اور رسول جو آیا اس نے لوگوں کو اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اسکی عبادت میں ہے حکمت بتائی کہ وہ مالک کائنات ہے اور اسی کے حکم سے اس کائنات میں ہر چیز اپنا فریضہ ادا کر رہی ہے.تقریباً ہر مذہب کے عقیدے کے مطابق اس کا ئنات کو پیدا کرنے والا ایک خالق و 96 96
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) مالک ہے.اسکے نام تو الگ ہو سکتے ہیں مگر مراد خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہوتی ہے مختلف مذاہب کی مقدس کتب سے چند عبارتیں درج ذیل ہیں.وید اور گیتا میں خدا کا تصور : وہ ایک ہی کسی دوسرے کی شرکت کے بغیر ہے.(چھند و گیا اُپنشد -1-2-6) ترجمہ: اس کائنات کی چیزوں میں کچھ بھی حرکت ہے وہ سب اس حاکم ، قدرت رکھنے والے کی مرضی سے ہے.یجروید، ادھیائے 40 - منتر 1) ترجمہ: (ائے مالک) تیرے جیسا نہ کوئی دونوں عالم میں ہے اور نہ زمین کے ذرات میں اور نہ تیرے جیسا کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا.یجروید، ادھیائے 27 - منتر 36) ترجمہ یہ پوری کائنات اس اللہ کے حجم سے چل رہی ہے.یجروید، ادھیائے 40 - منتر 1 ) 97 46
* قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) توحید کا ذکر بھگوت گیتا سے: یو مام احم آنادم چه ویتی لو کہ بیشورم - 0 اسموڈ صح سہ مریشوسر وہ پاپینج پدم چیتے.ترجمہ: اے انسانوں اپنے ایشور کو پہچانوں کیونکہ وہ ایک ایشور تمہارا پیدا کرنے والا ہے اس ایشور نے تمہیں ہوا ( وایو ) دیا.اگنی دیا، دھرتی دیا، آسمان دیا، جل دیا تم اپنے ایشور کو پہچا نو جس نے تمہیں اتنے انعامات دئے.اے انسانوں اگر تم مجھے نہیں پہچانو گے تو بہت بڑی گمراہی میں ہونگے.بھگوت گیتا ادھیائے 3 شلوک 10) ترجمہ : میرے صفات کو نہ جاننے والے بے وقوف لوگ مجھے جسم والا سمجھ کر میری بے عزتی کرتے ہیں.( گیتا، ادھیائے 9 شلوک 11) ترجمہ: اپنی غیر ظہور پذیر شکل میں تمام کائنات میں سرائیت کئے ہوئے سبھی جاندار مجھ میں سے ہیں لیکن میں ان میں رہتا نہیں.( گیتا، ادھیائے 9 شلوک 11) 98 88
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) تو رات اور انجیل میں خدا کا تصور : یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب کی ابتداء میں ہی یہ تحریر ہے: (الف) خدا نے ابتداء میں زمین و آسمان کو پیدا کیا.خدا نے کہا روشنی ہو جا اور روشنی ہوگئی.خدا نے روشنی کو دن کیا اور تاریکی کو رات.(کتاب المقدس پرانا اور نیا عہد نامہ، پیدائش باب 1 ، آیت 1 تا 3) (ب) سُن اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا ایک ہے تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری کتاب سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر.(استثناء ، باب 6 آیت 4) (ج) خدا کی مانند کوئی نہیں جو تیری مدد کے لئے آسمان پر اور اپنے جاہ وجلال میں افلاک پر سوار ہے.استثناء ، باب 33 آیت 26) انجیل میں ذکر ہے کہ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے خدائے واحد اور برحق اور بیسو ع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانے.(انجیل، یوحنا باب 17 آیت 4) 99 99
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) گرو گرنتھ صاحب میں خدا کا تصور : گروگرنتھ صاحب میں گورو جی نے فرمایا: ਆਦੇਸੁ ਤਿਸੈ ਆਦੇਸੁ ॥ ਆਦਿ ਅਨੀਲੁ ਅਨਾਦਿ ਅਨਾਹਤਿ ਜੁਗੁ ਜੁਗੁ ਏਕੋ ਵੇਸੁ ॥ (Purf - alg aja fus : mal 7 f.1 ترجمہ : اس خدا تعالیٰ کے حضور ہی جھکو.جو الا ول ہے، پاک ہے، اور غیر فانی ہے اور تمام زمانوں میں ایک ہی حالت کا حامل ہے یعنی جس کی کسی بھی صفت میں دائمی تعطل پیدا نہیں ہوسکتا.گورو نانک جی کے نز دیک خدا تعالیٰ کا مقرب بننے کے لئے کسی خاص ملک ،علاقے ، مذہب، قوم، قبیلہ یا نسل سے پیدا ہونا ہی ضروری نہیں.ہر ایک نیک اور ایمان دار شخص جو خلوص دل سے اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالح بجالاتا ہے اس کا تقرب حاصل کر سکتا ہے.گورونانک جی فرماتے ہیں : ਵਦੀ ਸ ਵਜਗਿ ਨਾਨਕਾ ਸਚਾ ਵੇਖੈ ਸੋਇ ॥ ਸਭਨੀ ਛਾਲਾ ਮਾਰੀਆ ਕਰਤਾ ਕਰੇ ਸੁ ਹੋਇ ॥ 100
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) ਅਗੈ ਜਾਤਿ ਨ ਜੋਰੁ ਹੈ ਅਗੈ ਜੀਉ ਨਵੇ ॥ ਜਿਨ ਕੀ ਲੇਖੈ ਪਤਿ ਪਵੈ ਚੰਗੇ ਸੇਈ ਕੇਇ ॥ ਵਦੀ ਸੁ ਵਜਗਿ ਨਾਨਕਾ ਸਚਾ ਰੱਖੇ ਸੋਈ (mir Eid- did aja Hifaa : wial 469.5-6 ترجمہ: برائی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے پچھپی نہیں رہتی.وہ الحق سب کچھ دیکھتا ہے.کوئی بھی بات اُس سے پوشیدہ نہیں ہے.ہر شخص نے چھلانگ لگائی ہے.لیکن جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے.اس کے دربار میں ذات اور طاقت کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے.اور وہاں انسان کا نئے جیووں سے واسطہ پڑتا ہے.وہ لوگ بہت ہی قلیل ہیں جو عزت اور آبرو حاصل کرتے ہیں وہی بھلے لوگ ہیں.بایں وجہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری عبادت میں ہی تمہارا فائدہ ہے.میرے علاوہ جس کسی کی تم عبادت کرو گے وہ تمہیں فائدہ نہیں دے گی.یہاں اسی قسم کے معبودوں کو جلانے کا ذکر ہے جو جھوٹے طور پر خدا بن جاتے ہیں اور اپنی عبادت کرواتے ہیں اور انہی میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں 101
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) فرعون بھی تھا.ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی رسول ، اوتار جو اس دنیا میں آئے انہوں نے ایک ہی اللہ، ایک ہی خدا ، ایک ہی ایشور ، کی عبادت کا حکم دیا اور اسکے علاوہ اللہ کی ہی مخلوق میں سے کسی اور کی عبادت فائدہ مند نہیں ہوسکتی.اس لئے وہ عبادت بھی ضائع ہوگی اور جسکی بھی عبادت کی جائے گی وہ بھی ان سے برأت کریگا اور اسکو بھی اللہ تعالیٰ جہنم کا ایندھن عبرت اور نصیحت کے لئے بنائے گا.اس تشریح کے بعد اس آیت پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا.جیسا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہوعلیہ السلام فرماتے ہیں: مسیح ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خرید نے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ 102
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) 66 سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.“ اعتراض آیت نمبر : (1)2 کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22-21) ج وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةٌ تَأْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ وَ كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَ لِتَكُونَ آيَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَات (سورة الفتح سورۃ نمبر 48 آیت نمبر 21) ترجمہ: اللہ نے تم سے کثیر اموال غنیمت کا وعدہ کیا ہے جو تم حاصل کرو گے.پس یہ تمہیں اس نے فوری عطا کر دیں اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے تا کہ یہ مومنوں کے لئے ایک بڑا نشان ہو جائے اور وہ تمہیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دے.103
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر: (m)2 فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَلًا طَيِّبًا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيمُ (سورۃ الانفال ،سورۃ نمبر 8 آیت نمبر 70) ترجمہ: پس جو مال غنیمت تم حاصل کرو اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.وضاحت: درخواست دہندہ نے جن 26 آیات کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے(خاک بہ دہن ) ان میں آیت نمبر (1) 2) اور (m) 2 میں اموال غنیمت کا ذکر ہے.اسکی وضاحت میں تحریر ہے کہ ان آیات کا سابقہ آیات اور تاریخی حالات کے پس منظر میں مطالعہ کرنا ہوگا.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ مسلمان مہاجر کفار مکہ کے ہاتھوں ستائے جانے کے بعد مجبوراً تمام مال واسباب ، درودیوار، مکہ میں چھوڑ کر مدینہ میں آگئے اس ہجرت کی وجہ سے بظاہر انکی تجارتیں اور کاروبار جو مکہ میں تھے تباہ و برباد ہو گئے تھے مدینہ آکر انصار بھائیوں کی مدد سے انہوں نے از سرنوا اپنی تجارتیں شروع کیں تا کہ جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں مگر کفار مکہ انکا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے.تھوڑی تھوڑی 104
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) مدت کے بعد ان پر حملہ کرتے اور مجبوراً مسلمانوں کو اپنے بچاؤ اور دفاع کے لئے ان سے جنگ کرنی پڑتی ان جنگوں میں جب فریق مخالف کو شکست ہو جاتی تو وہ اپنا مال واسباب چھوڑ کر بھاگ جاتے تو ان کا چھوڑا ہوا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور اسے مال غنیمت کہا جاتا تھا.اس تقسیم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ بلاوجہ کی جنگ جوان پر تھوپی گئی اور اس کے لئے انہیں تیاری کرنی پڑی اپنے مال اور اپنی جان ان میں جھونکنی پڑی اس کے لیے اپنی تجارت و کارو بار کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا.اس خسارے کی کسی حد تک تلافی ہو سکے.حضرت رسول کریم مایا یتیم کے عہد مبارک میں اسکی تقسیم کا یہ اصول تھا کہ سارے اموال میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کر دیا جا تا تھا.اس کے بعد بقیہ مال جنگ میں شریک ہونے والوں میں برابر تقسیم کر دیا جاتا یہ بھی مقررتھا کہ سوار کو پیدل کی نسبت دو حصے دئے جاتے اور پانچواں حصہ آنحضرت سلیہ ایام کے لئے مخصوص کر دیا جاتا اس میں سے کچھ تو حضور ساینا یہ ہم اپنے اہل وعیال میں تقسیم کر دیتے اور اکثر حصہ مسلمانوں کی اجتماعی دینی ، قومی اغراض میں صرف ہوتا تھا.آیت میں جو یہ فرمایا گیا فَعَجَلَ لَكُمْ هذه ( پس یہ تمہیں اس نے فوری عطا کر 105
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) دیں) ان الفاظ میں ان اموال غنیمت کے ملنے کا ذکر ہے جو خیبر میں لڑنے والی جنگ (7 مئی 628) میں مسلمانوں کو ملے تھے.اورلوگوں کے ہاتھ ان سے روک لے(كَفَّ ايدي النَّاسِ...) سے مراد حدیبیہ کے موقع پر کفار مکہ کو تم پر حملہ کرنے سے باز رکھا.مال غنیمت پر قبضہ کرنے اور اسے استعمال کرنے کے بارے میں یہود ونصاری کی دینی کتاب تو رات میں بھی مذکور ہے کہ: اور جب تو کسی شہر کے پاس اُس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر.تب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہوگی اور تیری خدمت کرے گی اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دیوے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہواس کا سارالوٹ اپنے لئے.(استثناء باب 20 آیت 10 تا 15) یہودی شریعت کا یہ حکم محض ایک کاغذی حکم نہیں تھا جس پر کبھی عمل نہ کیا گیا ہو بلکہ 106
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) بنواسرائیل کا ہمیشہ اسی پر عمل رہا ہے اور یہودی قضیئے ہمیشہ اسی اصل کے ماتحت تصفیہ پاتے رہے ہیں.چنانچہ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو : اور انہوں نے (یعنی بنو اسرائیل نے ) مدیا نیوں سے لڑائی کی جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا اور سارے مردوں کو قتل کیا.اور انہوں نے ان مقتولوں کے سوا آدمی اور رقم اورصور اور حور اور ربع کو جو مدیان کے پانچ بادشاہ تھے جان سے مارا اور باعور کے بیٹے بلعام کو بھی تلوار سے قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور انکے مواشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب لوٹ لیا.(گنتی باب 31 آیت 12-7) حضرت مسیح ناصری کو ( جو وہ بھی بنواسرائیل میں سے ہی تھے ) گوا اپنی زندگی میں حکومت نصیب نہیں ہوئی اور نہ جنگ و جدال کے موقعے پیش آئے جن میں اُنکا طریق عمل ظاہر ہوسکتا.مگر ان کے بعض فقروں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شریر اور بد باطن دشمنوں کے متعلق ان کے کیا خیالات تھے.چنانچہ اپنے دشمنوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ : اے سانپوں ! سانپوں کے بچوں ! تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے؟ 107
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) (متی باب 23 آیت 33) تورات کی مذکورہ تعلیم کے بعد قرآن مجید میں مال غنیمت کو اپنی تحویل میں لیکر اسے استعمال کرنے میں کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا.اعتراض آیت نمبر : (4)2 إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيْلِ قف وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِه وَ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.(سورۃ التوبہ،سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 111) ترجمہ: یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں تا کہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت ملے.وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں پس وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں.اُس کے ذمہ یہ پختہ وعدہ ہے جو تورات اور انجیل 108
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اور قرآن میں (بیان) ہے.اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہے.پس تم اپنے اس سودے پر خوش ہو جاؤ جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے.وضاحت: اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کو یہ زندگی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا کی ہے.اور مال بھی اسکے فضل سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے بنی نوع انسان کے لئے دین اسلام پسند کیا ہے پس جسکی سمجھ میں آئے وہ اسے قبول کر لے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے اور سخت آزمائشوں میں بھی اسکے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنی چاہئے.اور ہر حال میں اپنے دین پر قائم و دائم رہے اور اسی اصول کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب جنگ کی حالت تم پر مسلط کر دی جائے تو تم پوری طاقت کے ساتھ اپنا دفاع کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو اور اسکے لئے اگر آپ کو اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے تو وہ بھی دو اور مال بھی قربان کرنا پڑے تو وہ بھی دو اور سمجھ لو کہ یہ سب عارضی چیزیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ یہ سمجھایا کہ جیسے تم کسی تاجر سے اشیاء خریدتے ہو اور اُن اشیاء کے بدلے میں تم اسے اپنے مال میں سے قیمت ادا کرتے ہو پس جب تم 109
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اپنے دین کے دفاع اور اس کی حفاظت اور اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے اپنی جانیں اور مال قربان کرو گے تو یقین کر لو کہ تم اپنی جان اور مال اللہ کو فر وخت کر رہے ہو گے اور اللہ تمہیں اس کی قیمت اگلے جہان میں ادا کرے گا.اس مثال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ جان و مال عطاء کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور قربانی دینے والا اسکی جزاء اللہ تعالیٰ سے ہی پائے گا اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ وعدہ تو رات اور انجیل میں بھی موجود ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت بھی دی اور یقین بھی دلایا کہ اے مومنو اپنے اس سودے پر کسی قسم کا افسوس نہ کرو بلکہ خوش ہو جاؤ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے.یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں ان جنگوں کا ذکر ہے جو ابتدائے اسلام میں لڑی جاتی تھیں اور صحابہ کرام اس میں بے دریغ اپنی جانیں اور مال قربان کرتے تھے اور تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں جو انکو دینے کا وعدہ کیا ہے وہ تو دے گا ہی مگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انکی اولادوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا.اس وضاحت سے اس آیت پر کسی قسم کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا.110
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (۲)2 ج وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَلْمِرُكَ فِي الصَّدَقَتِ ، فَإِنْ أَعْطُوْا مِنْهَا رَضُوا وَ إِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ( سورة التوبه ، سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 58) ترجمہ: اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو تجھ پر صدقات کے بارہ میں الزام لگاتے ہیں.اگر ان ( صدقات) میں سے کچھ انہیں دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان میں سے نہ دیا جائے تو وہ فور ناراض ہو جاتے ہیں.وضاحت: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات میں تین گروہوں کا ذکر کیا ہے.پہلا گر و وہ ہے جو حضرت محمد سالن پہ تم پر ایمان لے آیا اور خلوص نیت کے ساتھ آپکی اطاعت کی.دوسرا گر و وہ ہے جنہوں نے آپ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا.تیسرا وہ گروہ تھا جو بظاہر تو مسلمان ہو گیا لیکن باطنی طور پر وہ انکاری ہی رہا.نہ صرف انکاری بلکہ آنحضرت صال تھا یہ ستم اور مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ سازشیں کرتارہا اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا.آنحضرت مصلانا یہ تم پر اور ازواج مطہرات پر طرح طرح کے الزام اور اعتراض 111
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کرتا تھا اور سادہ لوح مسلمانوں کو دین اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش کرتا تھا.انہیں اعتراضات میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت محمدمالی ایم کے پاس جو صدقات جمع ہوتے ہیں وہ آپ سال پیام مستحقین کو نہیں دیتے بلکہ اس کی تقسیم میں اپنے اقرباء اور احباء کو زیادہ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس الزام کی تردید کی اور حضور ایل ایام کو ان الزمات کی طرف التفات نہ کرنے کی تاکید فرمائی.نیز منافقین کی یہ کیفیت بھی بتائی کہ اگر انکوان صدقات میں سے کچھ دیا جاتا ہے تو وہ راضی اور خوش ہو جاتے ہیں اور جب اُنکی مرضی اور اُمید کے مطابق انکی امداد نہیں ہوتی تو وہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سید نا حضرت محمد ال ایام کے خلفاء کو یہ تاکید کی کہ اس قسم کے الزامات منافقین کی طرف سے اُن پر اور مومنوں کی جماعت پر آئندہ بھی ہوتے چلے جائیں گے.لیکن تم نے عدل وانصاف کے ساتھ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق صدقات کو مستحقین میں تقسیم کرنا ہے اور الزام لگانے والوں کے الزامات کی قطعاً پرواہ نہیں کرنی یہ ایک اصولی تعلیم تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی ا یہ تم اور مسلمانوں کو دی تھی.112
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اعتراض آیت نمبر : (t)2 ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصْرَى اَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (سورۃ المائدہ، سورۃ نمبر 5 آیت نمبر 52) ۵۲ ط ترجمہ: اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہود اور نصاری کو دوست نہ پکڑو.وہ ( آپس ہی میں ) ایک دوسرے کے دوست ہیں.اور تم میں سے جو اُن سے دوستی کرے گا وہ انہی کا ہور ہے گا.یقینا اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا.وضاحت ہر مذہب میں تمام افراد ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ باوجود اختلاف مذہب کے اعلیٰ اخلاق سے متصف ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مخالفانہ روش کی وجہ سے مسلمانوں کے تئیں بغض و عداوت رکھتے ہیں وہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے در پے رہتے ہیں بایں وجہ قرآن مجید نے ایسے نقصاں پہنچانے والے یہود و نصاریٰ سے دوری بنائے رکھنے اور دوستی نہ کرنے کی تعلیم دی ہے البتہ یہود و نصاریٰ میں سے جو شریف الطبع ہیں اور اُن سے کسی قسم کی سازش 113
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اور نقصان کا خطرہ نہیں اُنکو دوست بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے.بلکہ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ مصائب اور مخالفت کے دنوں میں حضور سیلا ہی ہم نے اپنے صحابہ کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ اصمحہ نجاشی کے پاس چلے جانے کا حکم دیا حالانکہ وہ عیسائی تھا لیکن اپنے حسن سلوک کی وجہ سے وہ معروف و مشہور تھا اور بالفعل اختلاف عقیدہ کے باوجود اُس نے مسلمانوں کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دی بلکہ انکو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں بھی مدددی.اسی طرح کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد مورخہ 24 ذی الحجہ بمطابق 21 رمضان 632 کو مدینہ آیا حضور صلی یا پی ایم نے ان کا اکرام و احترام فرمایا اور انکو مسجد نبوی ملالہ ہی تم میں بٹھا کر تبلیغی بات چیت کی اور جب اُنکی عبادت کا وقت آیا تو آپ مسل لی پی ایم نے صحابہ سے فرمایا انہیں اسی مسجد میں عبادت کرنے دو چنانچہ انہوں نے مشرق کی طرف رُخ کر کے اپنی عبادت کی.( بحوالہ ابن سعد.ذکر و فادات العرب وفد نجران ) پس ان دو واقعات سے معلوم ہوا کہ جن یہود اور نصاری سے دوستی نہ رکھنے کی تعلیم دی جارہی ہے وہ وہی ہیں جو اسلام اور بانی اسلام کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے.اسکے علاوہ باقی یہود ، نصاری سے تعلقات 114
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) رکھنے میں کوئی امر مانع نہیں.اعتراض آیت نمبر : (4)2 قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ الله وَرَسُولُهُ وَ لَا يَدِينُونَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتب حتى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَ هُمْ صَغِرُونَ ط ( سورة التوبہ سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 29) ترجمہ: اہل کتاب میں سے اُن سے قتال کرو جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ہی اسے حرام ٹھہراتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دین حق کو بطور دین اپناتے ہیں یہاں تک کہ وہ (اپنے) ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور وہ بے بس ہو چکے ہوں.وضاحت اس آیت میں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں.قاتلوا باب مفاعلہ کا صیغہ ہے اس باب سے عربی میں اگر کوئی کلمہ (لفظ ) آئے تو اس میں دو اشخاص کی مشارکت ( یعنی شریک ہونے) کے معنی پائے جاتے ہیں مثلا! قا تل 115
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) زيد و عمر وا زید اور عمر نے باہم ایک دوسرے سے لڑائی کی.مذکورہ آیت کے الفاظ سے ثابت ہے کہ اُن اہل کتاب سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور وہ جو دین حق حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کو دیا گیا تھا اُس پر پوری طرح عمل نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے مسلمانو اگر ایسے اہل کتاب تم سے جنگ کریں تو تم پر بھی سابقہ شرائط جنگ کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنے دفاع کا حق حاصل ہوگا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (1965-1889ء) خليفة 184 ء ) خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ زیر آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس کے یہ معنے نہیں کہ یہود سے بغیر دلیل کے جنگ جائز ہے کیونکہ جنگ کی شرائط دوسری جگہ موجود ہیں ان کو اس موقعہ پر ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا.ایک بڑی شرط جنگ کی یہ ہے کہ دشمن ظالمانہ حملہ کرے مسلمان صرف دفاع کر سکتا ہے.پس اگر یہودی حملہ کریں تو بتایا ہے کہ ان سے جنگ جائز ہے مگر وہ مغلوب ہو جائیں.اور شکست کھا کر جزیہ دینے کو تیار ہو جائیں تو پھر لڑائی کو لمبا نہ کیا جائے.بلکہ ان کی پہلی غلطی کو معاف کر دیا جائے.وَ هُم صَاغِرُونَ کا مطلب ہے کہ وہ عن يد جزیہ دیں یعنی اپنی مرضی سے شکست کھا کر اس کا اقرار کریں تو ان سے جزیہ کی شرط قبول کر 116
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) لورڈ نہ کرو اور لڑائی کو لمبا نہ کرو.پس یہ احسان ہے ظلم نہیں.صاغرون سے صرف اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اس کے متعلق معاہدہ کریں.جزیہ کا مفہوم: جزیہ عربی زبان کا لفظ ہے.عربی کی مشہور لغت (ڈکشنری ) المنجد میں تحریر ہے کہ زمین کا محصول اور ٹیکس جو زنی سے لیا جاتا ہے.زمین کا خراج ( بحوالہ المنجد زیر لفظ جزی ).ڈقی لفظ ذمہ سے مأخوذ ہے جس کے معنی وہ شخص جو اپنی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کے سپردکرتا ہے.جزیہ کی حکمت یہ ہے کہ یہود ونصاری جنہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا یا حملہ کرنے کی سازش اور تیاری کر رہے تھے اور مسلمانوں کو اُنکی طرف سے حملے کی اطلاع مل گئی تھی اور مسلمانوں نے اُنکے حملے سے بچنے اور دفاع کرنے کے لئے اُن سے جنگ کی اور اللہ تعالیٰ حملہ کرنے والوں کو شکست دے دے اور وہ شکست خوردہ مسلمانوں سے اس بات پر معاہدہ کر لیں کہ ہم آپکی مملکت میں ایک اچھے شہری بن کر رہنا چاہتے ہیں اور اپنی جان ومال کی حفاظت وامان چاہتے ہیں اور اسکے لئے ہم مذکورہ معاہدہ کے تحت اتنی رقم بطور ٹیکس ( جزیہ ) ادا کیا کر بیجھے.117
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات ) یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہر حکومت اپنے ملکی انتظامات چلانے کے لئے اپنے شہریوں سے مختلف قسم کے ٹیکس وصول کرتی ہے.اسلامی حکومت معاشرے کے حاجت مند طبقے کی حاجت روائی اور دوسرے انتظامات کے لئے مسلمانوں سے زکوۃ اور صدقات و دیگر چند جات وصول کرتی تھی.قرآن مجید میں ذکر ہے کہ مسلمان و يُؤْتُوا الزَّكوة ( سورة البينة ، سورة نمبر 98 آیت نمبر 6) کہ وہ زکوۃ دیں پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی نام کو اور آپ کی وساطت سے ہر خلیفہ کو یہ حکم دیا خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَ صَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنُ لَهُمْ وَ اللهُ سَمِيْعُ عَلِيمٌ ۱۰۳ (سورۃ التوبہ،سورۃ نمبر 9 آیت نمبر 103) ترجمہ: تو ان کے مالوں میں سے صدقہ قبول کر لیا کر، اس ذریعہ سے تو انہیں پاک کرے گا نیز اُن کا تزکیہ کرے گا.اور اُن کے لئے دعا کیا کر یقیناً تیری دعا اُن کے لئے سکینت کا موجب ہوگی اور اللہ بہت سنے والا ( اور ) دائی علم رکھنے والا ہے.یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہود و نصاری سے تو زکوۃ اور صدقات نہیں لئے جا سکتے وہ 118
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) تو مسلمانوں پر ہی فرض ہیں.لہذا مسلمانوں کے علاوہ دوسرے شہریوں سے جو ٹیکس لیا جاتا تھا اُس کا نام جزیہ رکھا جاتا تھا.اس سلسلہ میں تاریخ اسلام سے ایک واقعہ تحریر کرنا مناسب ہوگا.حضرت عمر بن الخطاب کے زمانے میں اسلامی فوجیں حمص “ (شام) سے پیچھے ہٹ آئیں تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں کو بلا کر کئی لاکھ کی رقم جزیہ جو اُن سے وصول کیا گیا تھا اُنہیں واپس کر دیا.اور یہ کہا اب چونکہ ہم تمھاری حفاظت نہیں کر سکتے اسلئے یہ جزیہ کی رقم بھی نہیں رکھ سکتے اور تمھیں واپس کر رہے ہیں فَكَتَبَ أَبُو عُبَيْدَةَ إِلَى كُلِّ وَالٍ مَنْ خَلَّفَهُ فِي الْمُدُنِ الَّتِي صَاحَ أَهْلَهَا يَأْمُرُهُمْ أَنْ يردوا عَلَيْهِم مَا جبى مِنْهُمْ مِنَ الْجِزْيَةِ وَالْخَرَاجِ، وَكَتَبَ إِلَيْهِم أَنْ يَقُولُوا لَهُمْ: إِنَّمَا رَدَدْنَا عَلَيْكُمْ أَمْوَالَكُمْ، لأَنَّهُ قَد بَلَغَنَا مَا جُمِعَ لَنَا مِنَ الجموع، وَأَنَّكُمُ اشْتَرَطْتُمْ عَلَيْنَا أَنْ تَمَنَعَكُمْ، وَإِنَّا لَا نَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ، وَقَد رَدَدْنَا عَلَيْكُمْ مَا أَخَذْنَا مِنْكُمْ وَنَحْنُ لَكُمْ عَلَى 119
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) الشَّرْطِ وَمَا كَتَبْنَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ نَصَرَنَا اللَّهُ عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا قَالُوا ذلِكَ لَهُمْ، وَرَدُّوا عَلَيْهِمُ الأَمْوَالَ الَّتِي جَبَوْهَا مِنْهُمْ، قَالُوا: رَدَّكُمُ اللهُ عَلَيْنَا وَنَصَرَكُمْ عَلَيْهِمْ.(صفحة : 153 - كتاب الخراج لأبي يوسف - فصل في الكنائس والبيع والصلبان - المكتبة الشاملة الحديثة) مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ابو عبیدہ نے ہر اُس والی (حاکم) کو جس نے اپنے زیر انتظام علاقے خالی کر دئے تھے یہ حکم بھیجا کہ جن باشندوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہو گیا ہے وہ انکو وصول کردہ خراج اور جزیہ کی رقم واپس کر دیں.ابوعبیدہ نے انکو لکھا: ہم نے تم سے خراج اور جزیہ اس شرط پر وصول کیا تھا کہ ہم (مسلمان ) تمہاری جان ومال کی حفاظت کریں گے لیکن فی الحال تم اسکی استطاعت نہیں رکھتے بایں وجہ تمہاری رقم تمہیں واپس لوٹا رہے ہیں.جب مسلمانوں نے یہود اور نصاریٰ کو انکے وصول کردہ اموال واپس کر دئے تو انہوں نے مسلمانوں کو کہا : اللہ تمہیں ہماری طرف واپس لائے اور تمہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کرے.اس وضاحت کے بعد مذکورہ آیت پر کسی قسم کا کوئی اعتراض درست نہیں ہوسکتا.لہذا 120
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اس آیت کے بارے میں کسی معترض کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ قابل قبول نہیں ہو گا.اعتراض آیت نمبر : (۷)2 ۱۵ ص وَ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصْرَى أَخَذْنَا مِيْنَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَاءَ إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللهُ بِمَا (سورۃ المائدہ، سورۃ نمبر 5 آیت نمبر 15 كَانُوا يَصْنَعُونَ * ترجمہ: اور اُن لوگوں سے ( بھی ) جنہوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں ہم نے ان کا میثاق لیا پھر وہ بھی اس میں سے ایک حصہ بھلا بیٹھے جس کی انہیں تاکیدی نصیحت کی گئی تھی.پس ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک باہمی دشمنی اور بغض مقدر کر دیئے ہیں اور اللہ ضرور اُن کو اس (کے بد انجام) سے آگاہ کرے گا جو (صنعتیں ) وہ بنایا کرتے تھے.وضاحت: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس (میثاق) عہد کا ذکر فرمایا ہے جو بنی اسرائیل کی طرح اُن سے بھی لیا گیا تھا.اس میثاق کا ذکر سورۃ البقرہ آیت (84) 121
قف ط قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) وَ إِذْ أَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِيْلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَ ذِي الْقُرْبِي وَ الْيَتَمَى وَ الْمَسْكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَ اَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة " ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (سورۃ نمبر 2 آیت نمبر 84) ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل کا میثاق (اُن سے ) لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کرو گے اور قریبی رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے بھی.اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو.اس کے باوجود تم میں سے چند کے سوا تم سب ( اس عہد سے ) پھر گئے.اور تم اعراض کرنے والے تھے.بنی اسرائیل سے جو عہد لئے گئے تھے تو رایت میں اس کا ذکر آیا ہے.خدا تعالیٰ نے موسیٰ کو کہا کہ : وو 1 - ” میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ مانا تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا.نہ کسی چیز کی صورت بنانا.جو اُو پر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے 122
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) پانی میں ہے.تو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا نہ ان کی عبادت کرنا.کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں.“ (تورات - خروج.باب 20 آیت 3) 2 یسوع مسیح (عیسی ابن مریم) نے کہا کہ : ”اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں“ (انجیل.یوحنا باب 17 آیت3) 3 - ” یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.(انجیل متی باب آیت (17) -4- پولس نے کہا: وہ شریعت (تورات) جس کے بارے میں مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میں اُسے منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں پورا کرنے آیا.پو کس نے اُسے لعنت کہا: وو مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا.کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکا یا گیاوہ لعنتی ہے“ انجیل مقدس یعنی ہمارے خداوند اور مٹی یسوع مسیح کا نیا عہد نامہ گل ہوں باب 3) 123
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) خدا نے نصاریٰ سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ یہ عہد (میثاق) لیا تھا کہ خدائے واحد پر ایمان لاؤ اور اُس کی ہی عبادت کرو مگر انہوں نے اس عہد کو توڑ دیا.جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (سورة المائدہ سورۃ نمبر 5 آیت نمبر 73) ترجمہ: یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے.م (سورة لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَثَةٍ المائدہ سورۃ نمبر 5 آیت نمبر 74) ترجمہ: یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے (بھی) جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے ایک ہے.اس عہد کو توڑنے سے دو نتیجے برآمد ہوئے : ( 1 ) بنی اسرائیل ( یہود ) جو موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق خدائے واحد پر ایمان رکھتے تھے اور اُسی کی عبادت کرتے ہیں اس مذہبی عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے نصاریٰ کے مخالف ہو گئے.اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ نصاری کے فرقوں کے درمیان بھی باہم شدید اختلافات پیدا ہو گئے.قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ 124
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اس پر انہیں جلد آگاہ کرے گا.مذکورہ آیت کا مضمون صاف اور واضح ہے اور اس پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں اعتراض آیت نمبر : (y)2 سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا ج أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِلْ بِهِ سُلْطَنَا وَ مَأْوَهُمُ ط ۱۵۲ النَّارُ وَ بِئْسَ مَثْوَى الظَّلِمِينَ * ( سورة ال عمران، سورۃ نمبر 3 آیت نمبر 152) ترجمہ : ہم ضرور ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے جنہوں نے کفر کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اس کو جس کے بارے میں اس نے کوئی بھی دلیل نازل نہیں کی.اور ان کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے.وضاحت: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ منکر ہیں انہوں نے اُس چیز کو اللہ کا شریک بنالیا ہے.جس کے شریک بنانے کے بارے میں انکے پاس کوئی دلیل ہی نہیں اور ان جھوٹے شریک بنانے والوں کے دلوں میں ہم رُعب ڈال 125
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) دینگے اور اسوجہ سے ان کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کا ٹھکانہ کیا ہی بُرا ہوتا ہے.حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی تھی ٣٦ وَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَ اجْنُبْنِي وَ بَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ل (سورۃ ابراهيم ، سورۃ نمبر 14 آیت نمبر 34) ترجمہ: اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب ! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں.خانہ کعبہ خدائے واحد و یگانہ کی توحید کے اعلان کا گھر تھا اسے حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا مگر کسی شیطانی وسوسے سے اہل مکہ نے خانہ کعبہ میں بت رکھنے کا آغاز کیا بالآخر یہ تعداد 360 تک پہنچ گئی ان بتوں کی عبادت کی جاتی اور ان سے مدد و استعانت مانگی جاتی حضرت محمدسال پیہم کو جب اللہ تعالیٰ نے مقام نبوت پر فائز کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کو مکہ والوں کے سامنے پیش کیا.قل ھو الله احد تو کہہ دے کہ اللہ ایک ہے لا اله الا الله سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں یہ بت نہ تو تمھاری دعا ئیں سنتے ہیں اور نہ ہی تمھیں نفع 126
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) پہنچانے یا نقصان پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں اس بارے میں اللہ نے فرمایا.اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَ لَوِ ط اجْتَمَعُوْا لَهُ وَ إِنْ يَسْلُبْهُمُ الدُّبَابُ شَيْئًا لَّا ط يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ : مَا ط قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُ (سورۃ الحج ،سورۃ نمبر 22 ایت نمبر 74 و75) ترجمہ: یقیناوہ لوگ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ہرگز ایک مکھی بھی نہ بناسکیں گے خواہ وہ اس کے لئے اکٹھے ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اُس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے.کیا ہی بے بس ہے ( فیض کا ) طالب اور وہ جس سے (فیض) طلب کیا جاتا ہے.انہوں نے اللہ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق تھا.یقیناً اللہ بہت طاقتور ( اور ) کامل غلبہ والا ہے.تیرہ سال تک آپ سالی پیام مکہ میں اور اسکے بعد مدینہ میں جا کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلاتے رہے اور اسکے جواب میں کفار مکہ وعرب رسول کریم صلی ای ام 127
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) کی شدید مخالفت کرتے رہے.اور متعد دجنگوں کے ذریعہ آپکو اور آپکے عقیدے کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہے.فتح مکہ کے بعد جب سید نا محد سلایا تم نے کفار مکہ کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا تو اُن میں سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایک رُعب ڈال دیا.جس محمد سالا ای ایم اور اسکے صحابہ کو یہ لوگ کمزور سمجھتے تھے اور جس اللہ کی طرف وہ بلاتے تھے اُسے استہزاء اور استخفاف کی نظر سے دیکھتے تھے فتح مکہ کے موقعہ پر وہی لوگ آنحضرت صلی یہ تم سے مرعوب اور خوفزدہ نظر آ رہے تھے اور حضور صلی یا پی ایم نے اُنکے سامنے ایک عظیم الشان اعلان فرمایا لا تثريب عليكم اليوم وانتم الطلقاء تم پر کوئی سرزنش نہیں کی جائے گی اور تم سب آزاد ہو اس عدیم المثال واقعہ نے کفار مکہ کے دلوں میں ایک رعب ڈالا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ ہم تو 360 بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اُن سے مدد چاہتے تھے اور حضرت محمد صلی یا پریتم کہتے تھے کہ انکی عبادت فضول اور بے فائدہ ہے خدائے واحد لاشریک کی عبادت کر ولیکن ہم نے اسکی نصیحت کو نہ مانا اور بدستور اپنے بتوں کی عبادت کرتے رہے اور محمد سلامی پیام خدائے واحد کی عبادت کرتے رہے ہم اپنے معبودوں سے فتح کی دعائیں مانگتے رہے وہ 128
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) اپنے اللہ سے دعائیں مانگتا رہا آخر نتیجہ یہ نکلا کہ محمد لانی ایم کے اللہ نے اسکی دعا کو عنا اور اسکو فتح اور ہم پر غلبہ سے ہم کنار کیا اور ہمارے بتوں نے ہماری کوئی مدد نہ کی نہ ہماری کوئی دعائنی ہم پسپا اور ذلیل ہوئے اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ واحد لاشریک ہی عبادت کے لائق ہے.بتوں کی عبادت سے ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا.یہ رعب تھا جو اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں میں ڈالا اور اس آیت کا ذکر مختلف مواقع پر ہوا اور یہاں بھی اس کا ذکر کیا گیا.آیت کا مضمون واضح اور صریح ہے کسی بھی سلیم الطبع انسان کے نزدیک اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا.129
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) حرف آخر سید وسیم رضوی صاحب کے تمام اعتراضات کے جوابات تحریر کر دیے گئے.اس اُمید کے ساتھ کہ وہ ان کا بغور مطالعہ کریں گے.اگر کوئی بات قابل وضاحت ہو تو تحریر فرمائیں.اس کا جواب بھی تحریر کر دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.آخر میں مکرر تحریر ہے کہ سید وسیم رضوی صاحب نے انڈین سپریم کورٹ میں قرآن مجید کی آیات حذف کرنے کے بارے میں عرضی دی ہے وہ ذرا یہ بتائیں کہ کیا وہ روئے زمین پر بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے حفاظ اور قاری صاحبان کے سینوں سے بھی مذکورہ آیات کے حزف کا مطالبہ کریں گے.اگر وہ یہ مطالبہ کریں تو یہ پرلے درجے کی جہالت ہو گی.پس اگر یہ ناممکن ہے تو پھر اس مطالبے کا مقصد اسکے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کر کے انکو مشتعل کرنے کی مذموم جسارت کی گئی ہے.یا درکھیں قرآن مجید کی کوئی آیت دہشت گردی اور فتنہ پردازی کی ہرگز ترغیب نہیں دیتی البتہ آپ کا حذف آیات کا مطالبہ بعض طبائع میں دہشت گردی کے جراثیم پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے.130
قرآن مجید کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے ( قرآن مجید کی 26 آیات پر اعتراضات کے جوابات) لہذا درخواست دہندہ کو اس سے گریز کرنا چاہئے کہ ملک اور قوم کی سلامتی اور خیر اسی میں ہے کہ باہمی اتحاد کو فروغ دیا جائے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ملک کو ہر لحاظ سے سلامت رکھے اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے.ترجمہ: وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلغُ الْمُبِينُ (سورۃ یسع ،سورۃ نمبر 36 آیت نمبر 18 ) اور ہم پر کھول کھول کر بات پہنچانے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں.131