Language: UR
قریباً دو صد صفحات پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس اصحاب کی جماعتی تاریخ سے چھوٹے چھوٹے، سبق آموز، انوکھے، دل پر اثر کرنے والے، اللہ پر توکل اور اس سے پیار بڑھانے والے واقعات جمع کئے گئے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح ومہدی علیہ السلام کی پیدا کردہ پیاری جماعت میں ایسے پر اثر واقعات کی کثرت ہے جو آپؑ کی قوت قدسی اور پیداکردہ اعجازی تبدیلیوں کا پتہ دیتے ہیں۔ یقیناً اس کتاب کے مواد کا مطالعہ افراد جماعت کے روحانی و اخلاقی حسن و اعلیٰ معیار کو مزید نکھارنے اور رفعتیں عطا کرنے کا باعث ہوگا۔
قندیلیں
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں چاہیئے کہ ہر صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی.اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا“ (کشتی نوح صفحه ۱۸) (صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے )
قندیلیں انتخاب یکی از مطبوعات
قندیلیں نام کتاب
انتساب میں اس کتاب کو اپنی عظیم ماں حیات بی بی اہلیہ چو ہدری رحمت خاں صاحب مرحوم سابق امام و دعوت الی اللہ انچارج بہت الفضل لندن) کے نام منسوب کرتی ہوں جس کی بعض خواہشیں با وجود ایک متمول خاندان کی فرد ہونے کے اپنی دوسری تیمی کی وجسے " حسرتیں ہی رہیں.لیکن مضبوط ارادہ کی مالک ماں نے اپنی اس تشنگی کو بتائی کی پرورش اور اپنی اولاد کی تربیت سے دور کیا.یہ ادائیں آپ نے اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی تھیں.وہ اُمت کے لئے سر خوبی و خیر اپنانے کے لئے تولیں اور میری ماں اولاد کے لئے مر دنیوی اور دنیادی کاموں میں اُن کے آگے رھنے کے لئے دی.قارئین سے ان کی مغفرت و بلندی درجات کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہوں.
4 4.-
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بیحد فضل واحسان ہے کہ لجنہ اماءاللہ کو صد سالہ بیش تشکر کے موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اس کتاب میں چھوٹے چھوٹے بسبق آموز، انوکھے، دل پر اثر کرنے والے اللہ تعالٰی پر توکل اور اس سے پیار کو بڑھانے والے واقعات درج ہیں جن کو ایک بار پڑھ کر بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی (آپ پر سلامتی ہو) نے جو نورانی شمعیں روشن کیں اُن کی جگمگاتی روشنی سے تاریخ احمدیت درخشاں ہے.ان گنت واقعات میں جن میں سے کچھ جمع کئے گئے ہیں.لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی سیکرٹری تعلیم محترمہ صوفیہ کام چھ صاحبہ بنت چوہدری رحمت خان صاحب (سابق امام بیت الفضل لندن) نے واقعات اکٹھیے گئے.رنگ برنگے پھولوں سے یہ شہر تیار کرنے میں بڑی محنت کی ہے.ان واقعات کو کتابی صورت میں پیش کرنے میں سیکرٹری اشاعت امتہ الباری ناصر اور محترم مولانا عبد الباسط صاحب شاہد (مربی سلسلہ) کی کاوشیں شامل ہیں.کتاب کو نام قند ہیں عزیزہ نغمہ نے دیا ہے جو احمدیت کا تازہ پھل ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے (آمین) اس کتاب میں درج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بشارت کی طرف خصوصی توجہ دلانا چاہتی ہوں.دو رو مجھے ہوئے بھائیوں میں سے جو پہل کرے گا اور صلح کا قدم پہلے اٹھائے گا وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گا : رالفضل ۲۵.اپریل ) اسی طرح حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی طرف سے ایک نصیحت آموز واقعہ تحریر ہے جو بیٹی اور داماد دونوں کے لئے یکساں مفید ہے.
ایک دفعہ نانی اماں جو حضرت اماں جان حرم حضرت بانی سلام احمدیہ) کی والدہ تھیں.حضرت صاحب کے گھر تشریف لائیں تو گھر کی ملازمیہ نے ان سے گستاخی کی.آپ ناراض ہو کر نچلے دالان میں چلی گئیں اور اوپر گھر میں جانے سے انکار کر دیا.حضرت بانی سلسلہ عالیہ کو حب اس کا علم ہوا تو آپ اپنی بیگم صاحبہ (حضرت اماں جان) کا ہاتھ پکڑ کر ان کو نیچے لے گئے.نانی اماں بستر پر لیٹی ہوئی تھیں.حضرت صاحب نے چار پائی کی پائنتی کی طرف ان کو کھڑا کر کے اپنے ہاتھ سے ان کا نسر پہنچا کیا اور والدہ کے پاؤں میں ان کا سر رکھ کر بوسہ دینے کا اشارہ کیا.اس کے بعد آپ اوپر تشریف لے گئے.ماں نے بیٹی سے بارانگی دور کی اور خوشی خوشی اوپر تشریف لے گئیں.ر روزنامه الفضل ۲۸ فروری ۱۹۹۵ء) آخر میں حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی ایک نصیحت جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے درج کرتی ہوں.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب فرماتے ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے یہ حضور کی آخری نصیحت تھی جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا.جماعت احمدیہ کے لئے بہت فکر کا مقام ہے.کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی انہیں کافر کافر کہتے ہیں.دوسری طرف اگر یہ بھی خدا تعالی کی نظر میں مومن نہ بنے تو ان کے لئے دوسرا گھاتا ہے." اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جماعت احمد یہ ان قندیلوں کو اپنے سینوں میں روشن دعا احمدیہ ان کو اپنے سینوں میں کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی وارث بنے (آمین)
عرض حال صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر نے عہد باندھا کہ ہم توفیق الہی کم از کم ایک سو کتابیں شائع کر کے حقیقی جشن منائیں گے.خاکسار کو ایسی کار خیر میں حصہ لینے کی تحریک کرتے ہوئے محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ سیکرٹری اشاعت نے خواہش کی کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اور اُن کی اپنی جماعت کے روشن پوشین قابل تقلید واقعات جمع کروں.بہت دُعاؤں کے بعد بوستان احمد کی سیر شروع کی.تقویٰ کی باریک راہوں کے ایسے دل لبھانے والے نمونے نظروں کے سامنے رہے کہ سحر زدہ ہو کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتی اور انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا.جہالت اور ظلمتوں کو دور کر کے علم وآگہی کی روشنی پھیلاتی ہوئی نگاہوں کو خیرہ کر دیتیں اور خاکسار اس چکا چوند میں یہ سوچتی رہ جاتی کہ اس مجموعہ میں کون کون سے روشن چراغ جمع کروں.میں اعتراف کرتی ہوں کہ اس طرح کے ہزاروں مجموعے بھی پورا حق ادا نہیں کر سکتے.اس کتاب کی حیثیت تو بس ایسی ہے کہ سیر گلشن کرتے ہوئے چند حسین پھول دامن میں بھر لائی اور اس غرض سے پیش کر دیئے کہ ہم ان کی رنگ و بو کو اپنائیں اور اپنی نہ ندگیاں سنوار لیں اس مطالعے میں دو چیزیں مشترک پائیں.اول استبقو الخيرات پر پھول دوسرے سے بڑھ کر خوشبو پھیلانے کے لئے جان کی قربانی کے لئے تیار نظر آتا تھا.
دوسرے الدنيا سبحن للمومن وجنة للكافر، حضرت محمد صلى اله علیه وسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق اس گلدستہ کا ہر پھول دنیا سے بے پرواہ نظر آتا ہے اس کی ساری محبتیں خدا تعالیٰ کے لئے نظر آتی ہیں.یہ سب پھول اپنی مقدس ہستیوں میں خدا تعالٰی کے نور کے چراغ اور قند پلیس لے کر اپنے ہم عصروں کے لئے خدا تعالیٰ کا نورانی جلوہ دکھانے کے لئے مصروف رہے.میں آخر میں بڑے ادب کے ساتھ صرف اس خواہش کا اظہار کروں گی کہ پڑھنے والے اپنے لئے اور خاک ان کے لئے دعا کریں کہ مولا کریم نے جو روحانی جسمانی طبیعی طاقیتں اور استعدادیں عطا فرمائی ہیں ہم سب ان کو نقطہ کمال تک پہنچانے کے لئے کوشش کرسکیں.محترمہ امتہ الباری ناسر صاحبہ سیکرٹری اشاعت نے خاکسار کی پوری پوری نہوں نے حوالہ جات کی ترتیب و تدوین میں راہنمائی فرمائی اور پوری معاونت فرمائی.خدا تعالیٰ خود ان کی بہترین جزا بن جائے.آمین
۹ تقوی اللہ اور اطاعت سول گورداسپور میں جبکہ مولوی کرم دین جہلمی کی طرف سے آپ کے خلاف ایک نو مہداری مقدمہ دائر تھا ایک گرمیوں کی رات میں جبکہ سخت گرمی تھی اور آپ اسی روز قادیان سے گورداسپور کے تھے.آپ کے لئے کھلی چھت پر پلنگ بچھایا گیا.اتفاق سے اس مکان کی چھت پر معمولی منڈیر تھی اور کوئی پردہ کی دیوار نہ تھی حضرت مسیح موعود بستر پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے ناراضی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا.در میرا بستر اس جگہ کیوں سمجھایا ہے.کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے." اور چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے باوجود شدت میں کے کمرہ کے اندر سونا پسند کیا مگر اس کی کھلی چھت پر نہیں.(تاریخ احمدیت جلد سوم ، صفحه ۵۹۵) موت ایک مرکب ہے جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے حضرت منشی تلفر احمد صاحب کپور فلوی فرماتے ہیں کہ حضور ایک وقعد بہت تیار ہو گئے بھنور کے ہاتھ پاؤں سرد پڑ گئے اور بظا ہر حال آخری وقت معلوم ہوتا تھا.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم موجود تھے اور زار زار رو رہے تھے.اتنے میں حضور
نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا "موت کیا ہے ؟ یہ ایک مرکب ہے خود دست کو دوست کے پاس پہنچا دیتا ہے.اگر دت نہ ہوتی تو سالکوں کے تمام سلوک نا تمام رہ جانتے " اصحاب احمد جند چهارم ، روایت ظفر صفحه ۱۶۳) نذر قبول ہو گئی حضرت منشی نطفه را حمد صاحب کپور تفضلوی فرماتے ہیں کہ میاں جی نظام الدین احمدی ساکن کپور تھا.نہایت ہی غریب آدمی تھے پیدل چل کروہ قادیان گئے اور دو آنے حضور کو نذر کے طور پر پیش کئے.حضور نے جزاکم اللہ کہ کر دو آنے لے لئے.چند دن بعد نظام الدین صاحب رحمت ہونے لگے حضور نے فرمایا ٹھہرو! اندر سے جا کر سات یا آٹھ روپے حضور لائے اور میاں جی نظام الدین کو عنایت فرمائے.روایات ظفر اصحاب احمد جلد چه مارم صفحه ۱۵۹) مہمان نوازی منشی فلفر احمد صاحب کی ہی روایت ہے کہ موزت صاحب اپنے پینے کی جمہ کبھی کیلئے کواڑ نہ بیٹھتے تھے حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب تھوڑی تھوڑی دیر اجر آکر کہتے " ابا کنڈا کھول" اور حضور اٹھ کر کھول دیتے.میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا.حضور پوریے پر بیٹھے ہوئے تھے.مجھ کو دیکھ کر آپ نے پلنگ اٹھایا.اندر اٹھا کر لے گئے.میں نے کہا حضور یں اٹھا لیتا ہوں.آپ نے فرمایا.بھاری زیادہ ہے.آپ سے
نہیں اٹھے گا اور فرمایا.آپ پلنگ پر بیٹھے جائیں.مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے.پہلے میں نے انکار کیا لیکن آپ نے فرمایا.آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں پھر میں بیٹھ گیا.مجھے پیاس لگی ہوئی تھی.میں نے گھڑوں کی طرف نظر اٹھائی.وہاں کوئی برتن نہ تھا.آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کیا آپ کو پیاس لگی ہے میں پانی لاتا ہوں.نیچے نہنانے سے جا کر گلاس لے آئے.پھر فرمایا.ذرا بھر لیے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں.بہت لذیذ شربت تھا.فرمایا.ان بوتلوں کو رکھے ہوئے بہت دن ہو گئے.کیونکہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر خود پیئیں گے.آج مجھے یاد آ گیا.چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا.میں نے کہا حضور اس میں سے تھوڑا سا آپ پی لیں تو پھر میں پیوں گا.آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا اور میں نے پی لیا.میں نے شربت کی تعریف کی.آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلا دیں.آپ نے ان دو بوتلوں میں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا.میں آپ کے حکم کے مطابق توتلیس لے کر چلا گیا.ر اصحاب احمد جلد چهارم دروایات ظفر صفحه ۱۲۵-۱۲۶) نصیب اللہ اکبر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر تحریر فرماتے ہیں کہ گورداسپور کا مقام ہے.ضروری کاموں کی انجام دہی کے بعد بہت رات گئے والد صاحب
۱۲ (حضرت منشی ظفر احمد صاحب کیپور مظلومی ) آتے ہیں حضور ایک کمرہ میں معہ خدام فروکش ہیں سب سو رہے ہیں کوئی خالی چار پائی نہیں حضور والد صا کو دیکھ کر اپنی چارپائی کو ٹھیک کر ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں آجاؤ اور اپنا لحاف والد صاحب پر ڈال دیتے ہیں.راصحاب احمد جلد چهارم روایات ظفر صفحه (۲۷) ہم تو حیوان کو انسان بنانے آئے ہیں با بو غلام محمد صاحب فورمین لاہور کی اور میاں عبد العزیز مغل کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں اور ہمیں جو لیڈر الله تعالیٰ نے دیا ہے.یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہیے چنانچہ ہم نے گاڑی والے سے کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کر لو ، آج گاڑی ہم کھینچیں گے.کوچوان نے ایسا ہی کیا.جب حضور باہر تشریف لائے تو فرمایا.گھوڑے کہاں ہیں ؟ ہم نے کہا.دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان قوموں کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے.فرمایا.فوراً گھوڑے جو تو !! ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں ہیم آئے ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۴۶)
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار قادیان میں ایک صاحب محمد عبد اللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہ کر پکارتے تھے.وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے مگر جوش اور غصہ میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی کی ہے اور حضور کو گالیاں دی ہیں ، پر وفیسر صاحب طیش میں بولے اگر میں ہوتا تو سر پھوڑ دیتا.حضرت مسیح موعود نے بیساختہ فرمایا نہیں نہیں ایسا نہیں چاہیے.ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے.پروفیسر صاحب اس وقت غصہ سے آپے سے باہر ہو رہے تھے.بولے واہ صاحب! واہ ! یہ کیا بات ہے.آپ کے پیر یعنی درسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بڑا بھلا کہے تو آپ مباہلہ کے ذریعہ اس کو جہنم تک پہنچانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالیاں دے تو ہم صبر کریں.پروفیسر جناب کی یہ غلطی تھی.حضرت مسیح موعود سے بڑھ کر کس نے صبر کرتا ہے مگر اس چھوٹے سے واقعہ سے عشق رسول اور غیرت و ناموس رسول کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی.(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۹۰ ) عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہدِ دوستی باند سے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہوا اور کچھ ہی
۱۴ کیوں نہ جو بجائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا.ہاں اگر وہ قطع تعلق کر دے تو تم لاچار ہیں ورنہ تمہارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر تمہارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے ارد گرد ہو تو بلا خوف لومة لائم کے اسے اٹھا کر لے آئیں گے.عہد دوستی یرا قیمتی جو ہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کر دینا چائیے اور دوستوں سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہیئے.ملفوظات جلد دوم صفحه ۸ ) مہمانوں کے کھانے کا خیال حضرت مسیح موعود کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ شکر یہ بتا تھا اور آپ دریافت فرمالیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے.اور کسی چیز کی اس کو عادت ہے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا تھا تب تک آپ کو ان کی دلداری کا اس قدر خیال تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دو وجہ.چائے.بسکٹ مٹھائی.انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے.اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی فرما لیا کرتے تھے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں وہ گیا.یا کسی کی طرف سے ملازمان لنگر خانہ نے تفاضل تو نہیں کیا.بعض مواقع پر ایسا وا کہ کسی مہمان کے لئے سائن نہیں بچا.یا وقت پر ان کے لئے کھانا رکھنا بھول گئے تو اپنا سالن یا سب کھانا ، ٹھوا کر اس کے لئے بھیجوا دیا.(حیات طیبہ صفحہ ۳۷۷)
۱۵ حضرت مسیح موعود کی آخری نصیحت مستقل لمحمد فكرية حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں : ایک روز غالباً وفات سے دو دن پہلے حضور خواجہ کمال الدین شاب مرحوم کے ہال کمرہ میں نماز ظہر و عصر ادا فرما کر تشریف فرما ہوتے اس وقت حضور کے سامنے پندرہ میں احباب تھے اور میں بھی حاضر تھا...اس وقت حضور نے کچھ باتیں اور قصبہ میں فرمائیں.ان میں سے حضور کے یہ الفاظ مجھے آج تک خوب یاد ہیں کہ " جماعت احمدیہ کے لئے بہت فکر کا مقام ہے کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی انہیں کافر کافر کہتے ہیں.دوسری طرف اگر یہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مومن نہ بنے تو ان کے لئے دوسرا گھاتا ہے ؟ حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :- دو جہاں تک مجھے یاد ہے یہ حضور کی آخری نصیحت تھی جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا " الفصل ۱۲ نومبر 101 ) مہمان کا اکرام کرنا چاہیئے ایک موقع پر جبکہ سرت مسیح، وعود اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے
14 اور اس وقت دو تین باہر سے آئے ہوئے احمد کی بھی آپ کی خدمت میں سائنر تھے.کسی شخص نے دروازہ پر دستک دی.اس پر ماعز الوقت احباب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا.حضرت مسیح موعود نے یہ دیکھا تو گھبرا کر اُٹھے اور فرمایا محضریں شہریں میں خود کھولوں گا.آپ دونوں مہمان ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیئے ؟" ر تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۵۹۵) مستعمل لباس پہنے ہیں عار نہیں ایک دفعہ حضرت میر نا مہ نواب صاحب نے اپنے ایک عزیز کو جو غریب تھا جسے کوٹ کی ضرورت تھی اپنا ایک استعمال شدہ کوٹ بھجوایا میر صاحب کے اس عزیز نے برا منایا کہ مستعمل کوٹ بھیجا گیا ہے اور نا راضگی میں کوٹ واپس کر دیا.جب خادم اس کوٹ کو واپس لا رہا تھا تو اتفاق سے اس پر حضرت مسیح موعود کی نظر پڑ گئی.آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا.اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ کوٹ میر صاحب کو واپس جا رہا ہے تو حضرت مسیح موعود نے خادم سے کوٹ لے لیا اور فرمایا.واپس کرنے سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی تم مجھے دے جاؤ میں خود یہ کوٹ پہن لوں گا.اور میر صاحب کو کہہ دیتا کہ کوٹ ہم نے اپنے لئے رکھ لیا ہے.(تاریخ احمدیت.جلد سوم صفحه ۵۹۷)
16 جو خاک میں ملے سے ملتا ہے آشنا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے.اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام الدین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے.اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑا حتی کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام الدین سے مخاطب ہو کر فرمایا : آدمیاں نظام الدین ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھائیں " یہ فرماکر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا.اس وقت میاں نظام الدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے.اور جو لوگ میاں نظام الدین کو عملاً پر سے دھکیل کر خود حضرت مسیح موعود کے قریب بیٹھ گئے کئے تھے وہ شرم سے کئے جاتے تھے.ز تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۶۰۴
IA سبحان اللہ کیا اخلاق ہے ایک بہت ہی شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیمٹی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر را ولپنڈی دکان کیا کرتے تھے انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آیا سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش ہو رہی تھی.ہمیں شام کے وقت قادیان پہنچا رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزر گئی اور تقریباً بارہ بجے کا وقت ہوگیا.تو کسی نے میرے کمرے کے دروازہ پر دستک دی.میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود کھڑے تھے.ایک ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لائین تھی میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا.کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی.سیٹی صاحب کیا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہے ! یہ خدا کا برگزیده مسیح اپنے ادنی خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے.د تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۶۰۳-۶۰۴) میں پہرہ دے رہا تھا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بہت ممتاز رفقاء میں سے تھے انہیں حضرت مسیح موعود کی قربت و محبت کا بہت لمبا زمانہ یا موقعہ میسر آیا.وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود کے اہل خانہ لدھیانہ
۱۹ گئے ہوئے تھے میں حضور کو ملنے اندرون خانہ گیا.کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا.میں ایک چارپائی پر لیٹ گیا اور مجھے نیند آگئی حضور اس وقت تصنیف فرماتے ہوئے مل رہے تھے نہیں چونک کر جا گا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا حضرت میسج موعود نے بڑی محبت سے پوچھا.مولوی صاحب.آپ کیوں اٹھ بیٹھے ہیں نے عرض کیا.حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں.میں کیسے اوپر سو سکتا ہوں.مسکرا کر فرمایا.آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں.میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.دسیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صفحه ۳۶) دید کی تڑپ محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی عبد الکریم فرماتی ہیں:.حضرت مولوی عبد الکریم...صاحب بیمار ہوئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدت تکلیف سے نیم بے ہوشی کی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو.ہمیں حضرت اقدس...سے ملنے کے لئے جاؤں گا.گویا وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں باہر ہوں اور حضرت اقدس...قادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زار و قطار رو پڑتے تھے کہ دیکھو ئیں نے اتنے عرصے سے حضرت اقدس...کا چہرہ نہیں دیکھا.تم مجھے حضرت اقدس...کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے.ابھی سواری منگواؤ اور لے کر چلو.ایک دن جب ہوش تھی تو کہنے لگے جاؤ حضرت اقدس...سے جا کر کہو میں مرچلا ہوں.مجھے بس دور سے کھڑے
ہو کر زیارت کرا دیں اور بڑے رونے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جاؤ" الفضل ۱۷ اگست ۱۱۹۹۴) کون پیا ہے کون پریمی حضرت مولوی عبدالکریم...صاحب کی وفات پر جو ا ا ر اکتوبر ۱۹۰۵ء کو واقع ہوئی حضرت بانی سلسلہ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ چند دن گزرنے کے بعد حضرت اندس...نے شام کے بعد دوستوں میں بیٹھنا چھوڑ دیا اور خدام کے عرض کرنے پر فرمایا کہ جب میں باہر دوستوں میں بیٹھا کرتا تھا تو مولوی عبد الکریم...صاحب میرے دائیں طرف بیٹھے ہوتے تھے.اب میں بیٹھنا ہوں تو مولوی صاحب نظر نہیں آتے تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے.اس لئے مجبوراً میں نے یہ طریق چھوڑ دیا ہے., الفضل ۱۶ اگست ۱۹۹۴) اطاعت - احترام حضرت خلیفة المسیح اول مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے چو ہدری خفر اللہ خاں صاحب کو بھی ، اپنے والد محترم کے ہمراہ آپ کی صحبت کا موقعہ ملتا رہا.آپ فرماتے ہیں یہ مجھے خوب یاد ہے کہ بعض دفعہ اس درس کے دوران میں کوئی آدمی کہہ دیتا کہ حضرت مسیح موعود باہر تشریف لائے ہیں تو یہ سنتے ہی حضرت خلیفہ اول درس بند کر دیتے اور اٹھ کھڑے ہوتے اور چلتے چلتے پگڑی باندھتے جاتے اور جوتا پہننے کی کوشش کرتے اور اس کوشش کے نتیجے میں اکثر آپ کے جوتے کی انٹریاں دب جایا کرتی تھیں.جب آپ حضرت مسیح موعود کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو جب
۲۱ تک حضور آپ کو مخاطب نہ کرتے تھے آپ کبھی نظر اٹھا کر حضور کے چہرے کی طرف (اصحاب احمد جلد یازدهم ص ۵۲) نہ دیکھتے.انداز بیاں بات بدل دیتا ہے ایک شخص یہودی تھا.وہ حضرت مسیح موعود سے ملاقات کرنے کے لئے آیا.کسی دوست نے حضور سے اس کے متعلق پوچھا.آپ کی تعریف ؟ تو حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہے بلکہ یہ فرمایا کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں.کیونکہ اس لفظ یہودی میں حقارت کا مفہوم شامل ہو گیا ہے.(مضامین مظہر صفحه ۱۲ ) والدین سے پیار جنت ماں کچھ موں کے نیچے مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اتان جان د حرم حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ) کی والدہ حضرت صاحب کے گھر ریف لائیں تو گھر کی ملازمہ نے ان سے گستاخی کی.آپ ناراض ہو کر نچلے دالان میں چلی گئیں اور اوپر گھر میں جانے سے انکار کر دیا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو حبیب اس کا علم ہوا تو آپ اپنی بیگم صاحبہ (حضرت اماں جان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو نیچے لے گئے.نانی جان بستر پر لیٹی ہوئی تھیں حضرت صاحب نے چارپائی کی پائنتی ان کو کھڑا کر کے اپنے ہاتھ سے ان کا سر نیچا گیا.اور والدہ کے پاؤں میں ان کا سر رکھ کر بوسہ دینے کا اشارہ کیا.اس کے بعد آپ اوپر تشریف لے گئے.ماں نے بیٹی.
۲۲ ناراضگی دور کی اور خوشی خوشی اوپر تشریف لے گئیں.د روزنامه الفضل ۲۸ فروری (۱۹۹۵) خدام کی دلداری حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور مقلوی فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو اپنے خدام کی دلداری کا بہت خیال رہتا تھا اور حضور ان کے لئے خود اپنی ذات سے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کا عملاً اظہار فرماتے تھے.ایک مرتبہ عید کا دن اور میرا صافہ سرصاف نہ تھا.اس لئے جب کبھی ہم آتے تھے تو ایک آدھ دن کی فرصت نکال کر آتے.لیکن جب یہاں آتے اور حضور قیام کا حکم دے دیتے تو پھر ہمیں ملازمت کے چلے جانے کا بھی خیال نہ ہوتا تھا.اسی طرح عید کا دن آگیا اور میں ایک ہی صافہ لے کر آیا تھا اور وہ میلا ہو گیا.میں نے چاہا کہ بازار سے جا کر خرید لاؤں.چنانچہ میں بازار کی طرف جارہا تھا.آپ نے مجھے دیکھ لیا اور آپ کی فراست خدا داد تھی.پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ عید کا دن ہے میرا صافہ میلا ہے.میں بازار سے خرید نے جا رہا ہوں.اسی وقت وہاں ہی کھڑے اپنا عمامہ شریف اتار کر مجھے دے دیا.اور فرمایا.یہ آپ کو پسند ہے ؟ آپ لے لیں ہیں دوسرا باندھ لیتا ہوں.مجھ پر اس محبت اور شفقت کا جو اثر ہوا الفاظ اسے ادا نہیں کر سکتے ہیں نے نہایت احترام کے ساتھ اس عمامہ کو لے لیا.اور آپ بے تکلف گھر تشریف لے گئے اور دوسرا عمامہ باندھ کر آگئے..(اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۱۶۶ -۱۶۷) (146-144)
۲۳ امانت حضرت منشی ظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے.میں نے ہاتھ ڈال کو نکال دی تو حضور کی آنکھ کھل گئی آدھی ٹوٹے ہوئے گھڑے کی ایک چینی اور دو ایک ٹھیکرے میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا.یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دیئے.آپ پھینکیں نہیں میری جیب میں ہی ڈال دیں.کیونکہ انہوں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے.وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے پھر وہ جیب میں ہی ڈال لئے.در دایات نلفر - اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۹۹) دعا سے صحت حضرت مسیح موعود تذكرة اشتہاد میں “ میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ گورداسپور ایک مقدمہ میں جانے سے پہلے اس کتاب کو مکمل کرلوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا.اس وقت میں نے اپنے گھر والوں (یعنی حضرت نصرت جہاں سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں.چنانچہ میں نے شہزادہ عبداللطیف شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الہی ! اس شخص نے تیرے لئے قربانی کی ہے اور اس کی عربیت کے لئے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما چنانچہ آپ
فرماتے ہیں.یہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھے نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا." (تذکرة الشہادتین صفحه ۷۲ ۷۲۰) میں لگا تار روتا رہا حضرت مولانا ظفر احمد صاحب کپور تھلوی سے روایت ہے کہ آخری دن جب آتھم کو پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دے کر گردن بلاکر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دقیال نہیں کہا.حالانکہ اس نے اپنی کتاب اندر دنہ بائبل میں یہ لفظ لکھا تھا.پھر آنتظم گر پڑا.حالانکہ وہ بہت توی آدمی تھا.پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا.ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا.نہیں نے اس سے کہا کہ یہ کیا ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے پھر جب ہم واپس آئے تو کرنل الطاف علی خاں صاحب ہمارے ساتھ ہو گئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں.کرنل صاحب کوٹ پتلون پہنے داڑھی مونچھ منڈوائے ہوئے تھے.میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ.باہر سے ہم کسی کو نہ آنے دیں گے.پوچھنے کی کچھ ضرورت نہیں.چنانچہ کرنل صاحب اندر چلے گئے اور آدھا گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے.کرنل صاحب جب یا ہر آئے تو چشم پر آب تھے.میں نے کہا آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے.وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بورئیے پر
۲۵ بیٹھے تھے.میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں.حضور نے سمجھا کہ غالباً میں کرنل صابا بورئیے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا.اس لئے حضور نے اپنا صافہ بورئیے پر سمجھا دیا اور فرمایا آپ یہاں بیٹھیں.میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگر چہ میں ولایت میں بپتسمہ (Baptize) لے چکا ہوں مگر اتنا ہے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جاؤں حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں.میں صافحے کو ہٹا کر بورئیے پر بیٹھ گیا اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا.میں شراب بہت پیتا ہوں اور دیگر گناہ بھی کرتا ہوں.خدا اور رسول کا نام نہیں جانتا لیکن میں آپ کے سامنے تو بہ کر کے عیسائیت سے مسلمان ہوتا ہوں مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ان کو چھوڑنا مشکل ہے.حضور نے فرمایا.استغفار پڑھا کرو اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو.جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا.ر اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۱۰ - ۱۱۱) علم کو قید نہ کریں حضرت مسیح موعود سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے زخموں کو اچھا کرنے کا ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کا نسخہ معلوم تھا.دُور دُور سے لوگ اس کے پاس علاج کے لئے آتے اور فائدہ اٹھاتے مگر وہ اتنا نخیل تھا کہ اپنے بیٹے کو بھی مریم کا نسخہ نہیں بتاتا تھا اور کہنا کہ یہ اتنا بڑا ہنر ہے کہ اس کے جاننے والے دو آدمی ایک وقت میں نہیں ہو سکتے.بیٹے نے بہتری منتیں کیں اور کہا
مجھے یہ نسخہ آپ بتا دیں مگر وہ یہی جواب دیا کہ مرتے وقت تمہیں بتاؤں گا ہیں سے پہلے نہیں بتا سکتا.بیٹا کہتا کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت آجائے آپ مجھے یہ نسخہ بتا دیں مگر باپ آمادہ نہ ہوتا.آخر ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور سخت حالت نازک ہوگئی.بیٹا کہنے لگا.باپ اب تو مجھے نسخہ بتادیں مگر وہ جواب دیا کہ میں مروں گا نہیں اچھا ہو جاؤں گا.پھر حالت اور خراب ہو گئی تو بیٹے نے پھر منتیں کیں گر پھر بھی وہی جواب تھا کہ کیا تو سمجھتا ہے میں مرنے لگا ہوں نہیں تو ابھی نہیں مرتا.غرض اسی طرح وہ جواب دیتا رہا اور یہاں تک کہ وہ مرگیا اور اس کا بیٹا جاہل کا جاہل ہی رہا.یہ چیز ایسی ہے کہ جیسے اسلام جائز قرار نہیں دیتا.( تفسير كبير.سورة النور صفحه ۲۸۲ ہر بات میں اچھا پہلو میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بہت مبارک کی چھت پر تشریف فرما تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے.حضرت صاحب نے مہمانوں کے لئے پرچ پیالیاں منگوائی ہوئی تھیں.میر مہدی حسین صاحب سے پر میں گرگئیں اور چکنا چور ہو گئیں.مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضرت صاحب آواز آئی ہے معلوم ہوتا ہے میر مہدی حسین صاحب سے پر میں ٹوٹ گئیں.فرمایا میر صاحب کو بلاؤ.میر مهدی حسین صاحب ڈر گئے اور ڈرتے ڈرتے سامنے آئے.حضرت صاحب نے فرمایا.میر صاحب کیا ہوا ہے.انہوں نے عرض کیا حضور ٹھوکر لگنے سے پر میں ٹوٹ گئیں.اس پر فرمایا کہ دیکھو جب یہ گری تھیں تو ان کی آواز کیسی اچھی تھی.
۲۷ حسین طرزه عمل حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :- ایک مرتبہ میں سیر کو جارہا تھا.ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا.وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے.راستے میں ایک بڑھیا کوئی ہے یا ہے بوس کی ضعیفہ ملی.اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا.مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کو مٹا دیا.میرے دل پر چوٹ سی لگی.اس نے وہ خط مجھے دیا.یہیں اس کو لیکر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا.اس پر پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا.کیونکہ پھر نا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.لملفوظات جلد اوّل صفحه ۳۰۵) صرف ایک گھنٹہ کا کرایہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ حضور عصر کی نمازہ سے فارغ ہو کر حسب طریق میر کے خیال سے باہر تشریف لائے.(آخری سیسر ، ایک کرایہ کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو فی گھنٹہ مقررہ شرح پر منگوائی گئی تھی.آپ نے اپنے نہایت مخلص رفیق شیخ عبد الرحمن قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی لے سے کہہ دیں کہ وہ ہمیں صرف اتنی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں.چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس آگئے.اس وقت آپ کو خاص کوئی بیماری نہ تھی.صرف مضمون لکھنے
کی وجہ سے کس قدر صنف تھا.اور ثانیاً آنے والے حادثے کے مخفی اثر کے تحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی.و سلسلہ احمدیہ صفحه ۱۸۲) مخالفین کی اولاد حضور کے قدموں میں شیخ نیاز محمد صاحب حضرت مسیح موعود کے سخت مخالف محمد بخش صاحب تھانیدار بٹالہ کے بیٹے تھے.شیخ صاحب کی اہلیہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے ان سے فرمایا کہ ایک دن حضرت مسیح موعود ہنتے ہوئے اندر تشریف لائے.اور ایک کپڑا مجھے دے کر فرمایا کہ معلوم ہے کہ یہ کپڑا تمہیں کس نے دیا ہے ؟ پھر فرمایا.یہ اسی کے بیٹے نے دیا ہے جس نے تمہارے ٹرنک لیکھرام کی تلاشی کے وقت توڑے تھے حضور انور کو اس خیال سے کس قدر رومانی سرور حاصل ہو ہوگا کہ اللہ ای کی طرح مخالفین کی اولاد کو پکڑ پکڑ کر حضور کے قدموں میں گرا دیا ہے.سيرة المهدی حصہ سوم صفحه ۱۰۰ اطبع اوّل) دوستو اگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے و محرم سالہ میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے ہیڈ کلرک ایک ہندو دوست پنڈت مولی رام ہوتے تھے.ان کی حضرت مسیح موعود سے خداد کتابت تھی ۳۰ اپریل ۱۹۰۵ء کو یعنی زلزلہ آنے سے صرف ایک دن قبل ان کو حضور کا ایک خط پہنچا جس میں حضور نے لکھا تھا کہ خدا کا عذاب آسمان پر بھڑک رہا ہے.اس کا عذاب سالوں میں نہیں
۲۹ مہینوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں زمین پر نازل ہونے والا ہے.پنڈت صاحب نے یہ خط پڑھے بغیر سرہانے تلے رکھ دیا شام کو صحیح کو انہوں نے اسے پڑھنا شروع کیا.پنڈت صاحب ابھی یہ خط پڑھ ہی رہے تھے کہ زلزلہ آ گیا اور وہ خط پڑھتے پورے اپنے مکان سے باہر آگئے.اور حضور کے خطا کی بدولت ان کی جان بچ گئی.اس سے عجیب تر واقعہ خود حضرت مسیح موعود کے ساتھ پیش آیا حضور ہم اپریل ۱۹۰۳ ء کی صبح کو نصرة الحق" یعنی برا بین احمدیہ حصہ پنجم کا مسودہ لکھ رہے تھے.اس دوران جب " حضور اس الہام تک پہنچے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دیگا." حضور یہ الفاظ لکھ کر اس کے پورا ہونے کا ثبوت درج کرنے کو تھے کہ زلزلہ آ گیا.(البدر 4 اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳ ) آپ کے منہ کی بات پوری ہو جا جب حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر اپنے لئے ایک نکاح ثانی کی پیشگوئی فرمائی تو گویہ پیشگوئی بعض شرائط کے ساتھ مشروط تھی مگر پھر بھی چونکہ اس وقت اس کا ظاہری پہلو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ایک نکاح کی پیشگوئی ہے اور لڑکی کے والدین اور عزیز و اقارب حضرت مسیح موعود کے سخت خلاف تھے تو ایسے حالات میں حضرت اماں جان نے کئی دفعہ خدا کے حضور رو رو کر دعائیں کیں رو خدایا تو اپنے مسیحا کی سچائی ثابت کر اور اس رشتہ کے لئے خود اپنی طرف سے سامان مہیا کر دے.“ اور جب حضرت مسیح موعود نے ان سے دریافت کیا کہ اس رشتہ کے ہو جانے
سے تم پر سو کن آتی ہے.تم ایسی دعا کیوں کرتی ہو تو حضرت اماں جان نے اس کے جواب میں فرمایا یہ کچھ بھی ہو.میری خوشی اس میں ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو جائے " اس چھوٹے سے گھر یلو واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت سیح موعود کے بے نظیر حسن سلوک اور عدیم المثال شفقت نے آپ کے اہل خانہ پر کس قدر غیر معمولی اثر پیدا کیا ؟ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۶۰۰) خُدا قادر ہے ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امرد ہی اپنے ایک رشتہ دار کو امرد ہے سے قادیان ہمراہ لائے.وہ شخص فربہ اندام ۵۰ ۶۰ سال کی عمر کا ہوگا اور کانوں سے اس قدر بہرہ تھا کہ ایک ربڑ کی نلکی کانوں میں لگایا کرتا اور زور سے بولتے تو قدرے سنتا حضرت صاحب ایک دن تقریر فرمارہے تھے اور وہ بھی بیٹھا تھا.اس نے عرض کی حضور مجھے بالکل سنائی نہیں دیتا میرے لئے دعا فرمائیں کہ مجھے آپ کی تقریر سنائی دینے لگے.آپ نے دوران تقریر اس کی طرف روئے مبارک کرکے فرمایا کہ خدا قادر ہے.اسی وقت اس کی سماعت کھل گئی اور وہ کہنے لگا حضور مجھے ساری تقریر آپ کی سنائی دیتی ہے.اور وہ شخص نہایت خوش ہوا اور تلکی بہنا دی اور پھر وہ سننے لگ گیا.واصحاب احمد - جلد چهارم صفحه ۱۳۴)
۳۱ آپ تو ہمارے ساتھ ہیں منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہو کو تھمی تھی حضور باہر سیر کو جارہے تھے.میاں چراغ دین جو اس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا.چلتے چلتے گر پڑا.میں نے کہا اچھا ہوا یہ بڑا شریر ہے.حضرت صاحب نے چپکے سے فرمایا کہ بڑے بھی گھر جاتے ہیں.یہ سُن کر میرے تو ہوش گم ہو گئے اور بمشکل وہ سیر طے کر کے واپسی پر اسی وقت اندر گیا جبکہ حضور واپس آکر بیٹھے ہی تھے.حضور میرا قصور معاف فرمائیں میرے آنسو جاری تھے بحضور فرمانے لگے آپ کو ہم نے نہیں کہا.آپ تو ہمارے ساتھ ہیں.اصحاب احمد - جلد چهارم صفحه ۱۵۶) پس خورده تبرک حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور نفلوی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رمضان شریف میں قادیان سے گھر آنے کا ارادہ کیا حضور نے فرمایا نہیں.سارا رمضات نہیں رہیں.میں نے عرض کیا.حضور ایک شرط ہے حضور کے سامنے کا جو کھانا ہو وہ میرے لئے آجایا کرے.آپ نے فرمایا.بہت اچھا.چنانچہ دونوں وقت حضور برابر اپنے سامنے کا کھانا مجھے بھجواتے رہے.لوگوں کو بھی خبر ہو گئی.وہ مجھ سے چھین لیتے.وہ کھانا بہت سا ہوتا تھا.کیونکہ حضور بہت کم کھاتے تھے.د اصحاب احمد جلد چهارم صفحه (۱۵۵)
۳۲ نمازیں جمع کرنے کا جواز حضرت منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں :- حضور کے عہد مبارک میں ایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک عبادتیں جمع ہوتی رہیں.مولوی محمد احسن صاحب نے دعوی نور الدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن عبادتیں جمع کرتے ہو گئے ہیں لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب ہمیں گے حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ انہیں سے پوچھو یعنی (حضرت صاحب سے) مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے.ان سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا تو میں نے حضرت صاحب سے جا کر عرض کر دی.ا سوقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضور معمولاً بیت الذکر میں چھت پر تشریف فرما تھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اٹھتے ہیں.کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ مسیح موعود) نمازہ جمع کرے گا ویسے تو جمع نماز کا حکم عام ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی.اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو ر ہے تھے اور توبہ کر رہے تھے.ر اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۵۲) ہمارا کیا ہے.رات گزر جائیگی ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت دوست آئے تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا.ایک شخص نبی بخش نمبر دار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے
منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا.میں عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت امام جماعت الثانی تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شمستری چوغہ انہیں اوڑھ رکھا تھا.معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس (حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے.فرمانے لگے مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے.اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی.نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف اور بچھونا بھی لے آئے.وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں اور پھر میں مفتی فضل الرحمان سے یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا.لحاف بچھونا مانگ کو اوپر لے گیا.آپ نے فرمایا.کسی اور کو دے دو.مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی.اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو.پھر میں لے آیا.د اصحاب احمد جلد چهارم صفحه (۱۳۵) خلال اور جمال حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس کو خارش ہو گئی اور انگلیوں کی کھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں.دس گیارہ بجے دن کے " میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی.میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا.عصر کے بعد جب میں پھر گیا.تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.میں نے عرض کی کہ خلات معمول آج حضور کیوں چشم پرنم ہیں.آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال
۳۴ آیا کہ اے اللہ ! ایک عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور میری صحت کا یہ حال ہے.اس پر مجھے پر بیت الہام ہوا کہ دو تیری صحت کا ہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے.فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلا دیا اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا.خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا.جب میں نے سر اٹھایا تو خارش بالکل نہ رہی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہ ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہا تھ بالکل صاف تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی نکلی ہی نہیں.د روایات ظفر، اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۱۳۴ - ۱۳۵) - خدائی کے دعوی دار سے علاج کا انکار حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی سے روایت ہے کہ حضرت صاحب کو دوران سر کا عارضہ تھا.ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس پر خاص ملکہ رکھتا ہے.اسے بلوایا گیا.کرایہ بھیج کر کہیں دور ہے.اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دو دن میں آرام کر دوں گا.یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں ہرگز علاج نہیں کردانا چاہتا.یہ کیا خدائی کا دعوی کرتا ہے.اس کو واپس کرایہ کے روپے اور مزید پچیس روپے پیچ ے کہ یہ دیکھا اسے رخصت کر دو.گردد ته أنه لا الحجاب احمد جلد چهارم صفحه ۱۰۷)
۳۵ اس کو کہتے ہیں دلداری حضرت منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اتارے جائیں.چارپائی بچھائی جائے خادموں نے کہا آپ خود...اپنا اسباب اتروائیں.چار پائیاں بھی مل جائیں گی.دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فوراً یکتہ میں سوار ہو کر واپس روانہ ہو گئے.میں نے مولوی عبد الکریم صمتنا سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے جانے بھی دو ایسے جلد بانہوں کو حضور کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہو گیا حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم سے چل پڑے.چند خدام بھی ہمراہ تھے.میں بھی ساتھ تھا.بہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضور کو آنا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پر ہے.حضور نے ان کو واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے درد پہنچا چنانچہ وہ واپس ہوئے حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے فرمایا اور کہا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے.اس کے بعد مہمان خانے میں پہنچے.حضور نے خود ان کے بینتر اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اتار لیا حضور نے اسی وقت دو نواری پلنگ منگوائے اور ان کے بہتران پر کروائے اور ان سے پوچھا.آپ کیا کھائیں گے.اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں اور رات کو جہ کے لئے پوچھا.غرض یہ کہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے مہیا فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دُور سے آتا ہے.راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے.یہاں پہنچ کر سمجھتا ودھ
ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا.اگر یہاں آکر بھی اس کو دوہتی تکلیف ہو تو یقیناً اس کی د شکنی ہوگی.ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے.اس کے بعد جب تک وہ مہمان شہرے رہے حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب ان کے پاس آ کر بیٹھنے اور تقریب وغیرہ فرماتے.جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا.حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا.یہ پی لیجئے اور نہر تک انہیں چھوڑ نے کیلئے ساتھ گئے.راستہ میں گھڑی گھڑی ان سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر میں آپ یکتہ میں سوار ہوئیں مگر وہ سوار نہ ہوئے.بہر پر پہنچ کر انہیں سوار کو اگر حضور واپس تشریف لائے.اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۹۳-۹۴) اد پر بھی پانی اور نیچے بھی پانی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ منشی روڑا صاحب محمد خان صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی.اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی روڑا صاحب نے کیا حضور گرمی بہت ہے.ہمارے لئے دعا کریں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو.حضور نے فرمایا خدا قادر ہے.میں نے عرض کیا حضور یہ دعا ان کے لئے فرمانا میرے لئے نہیں کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہوہ.قادیان میں کیمیہ میں سوار ہو کر ہم تینوں چلے تو خاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہو گئی.اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں.تھوڑی دور جا کر یکہ الٹ گیا منشی روڑا صاحب بدن کے بھاری تھے.وہ نالی میں گر گئے اور محمد خان صاحب اور میں کود پڑے.منشی روڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی اور وہ سنتے جاتے تھے.(اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۲۹۴
۳۷ رانی کے دانے کے برابر ایمان حضرت منشی ظفر احمد کپور معلوم کی ہی روایت ہے کہ ایک دن آنتقم مقابلہ پر نہ آیا.اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹا.یہ بہت ہے ادب اور گستاخ آدمی تھا.اس نے ایک چند اور دن چند لنگڑے بولے اور باند ھے اکٹھے کر لئے اور لا کر بٹھا دیئے اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کر دیں.اگر ایسا ہوگیا تو ہم اپنی اصلاح کرلیں گے.اس وقت جماعت میں ایک سناٹا سا پیدا ہو گیا.حضرت مسیح موعود نے جواباً ارشد فرمایا کہ ہمارے ایمان کی علامت جو کلام اللہ نے بیان فرمائی ہے یعنی استجابت دعا اور تین اور علامتیں حضور نے بیان فرمائیں.یعینی فصاحت و بلاغت اور فہم کلام اللہ اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں.اس میں تم ہماری آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو.الیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی یہ علامت قرار دی ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو لنگڑوں لوگوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہل سکو گے لیکن میں تم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا.میں ایک جوتی الٹا دیتا ہوں.اگر وہ تمہار اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے.اس وقت جس قدر مسلمان تھے خوش ہو گئے اور فریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے.( اصحاب احمد - جلد چهارم صفحه ۸۶) اللہ تعالیٰ اس سمبر مضمون سمجھا دیگا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنی تصنیف سیر مسیح موعود میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
٣٨ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود اپنی کتاب آئینہ کمالی نیا.....کا عربی حصہ لکھ رہے تھے حضور نے مولوی نورالدین صاحب (امام اول) کی ایک بڑا دو ورنہ اس زیر تصنیف کتاب مستورہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے وہ الیسا مضمون تھا کہ اس کی خدا داد نصاحت و بلاغت پر حضرت کو نا نہ تھا مگر مولوی صاحب سے یہ دو درقہ کہیں گر گیا.چونکہ حضرت مسیح موجود مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے.اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعاً فکر پیدا ہوا اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیں آیا.اور کا تب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہو رہی ہے.معلوم نہیں کیا بات ہے.یہ الفاظ میرے منہ سے نکلنے تھے کہ مولوی صاحب کا رنگ فق ہو گیا.کیونکہ یه دو درقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا.بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا.اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے.حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول مسکراتے ہوئے.باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبرا سٹ کا اظہار کرنا تو درکنار اللا اپنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی.مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے.میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گمشدہ کا غذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرما دے گا.تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۰۱-۶۰۲)
۳۹ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب کو اپنے اندر ایسا عشق تھا کہ ایک دفعہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود سے ملے حضرت صاحب ان سے کوئی کام لے رہے تھے.اس لئے جب میاں عبد اللہ سنوری کی چھٹی ختم ہو گئی تو انہوں نے جانے کے لئے اجازت طلب کی.حضور نے فرمایا.ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھیجوا دی مگر محکمہ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا کہ چھٹی نہیں مل سکتی.انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ابھی ٹھہرو.چنانچہ انہوں نے لکھ بھیجا کہ میں ابھی نہیں آسکتا.اس پر محک والوں نے انہیں ڈسمس کر دیا.چارہ یا چھ ماہ جتنا عرصہ حضرت مسیح ، وعود نے انہیں رہنے کے لئے کیا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے.پھر جب واپس آگئے تو محکمہ نے سوال اٹھایا کہ جس افسر نے انہیں ڈسمس کیا ہے اس افسر کا حق نہیں تھا کہ انہیں ڈسمس کرتا.چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ بحال ہو گئے اور پچھلے مہینوں کی جو وہ تا دریان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی.(اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۸۶-۸۷)
اقتداء کا اعلیٰ نمونہ حضرت مولانا محمد ابراہیم بقا پوری فرماتے ہیں کہ " ایک دفعہ نماز عصر میں حضرت خلیفہ اول ایام تھے.حضرت بانی سلسلہ نے امام کی اقتداء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا جو قریباً ہم سب مقتدی ادا نہ کر سکے.یعنی حضرت خلیفہ اول نے دوسری رکعت کے لئے اٹھنے میں ذرا دیر لگائی.ہم سب مقتدی کھڑے ہو گئے لیکن مسیح موعود اسی طرح بیٹھے رہے جس طرح مولوی صاحب کھڑے ہوئے اسی طرح بعد میں حضرت بانی سلسلہ کھڑے ہوئے " بادشاہ تیرے کپڑوں برکت ڈھونڈ ینگے حضرت مولانا بقا پوری فرماتے ہیں کہ حافظ نبی بخش صاحب فیض اللہ چک کی آنکھیں اُٹھ آئی تھیں.ڈاکٹروں اور حکیموں کا علاج کرتے رہے.کچھ فائدہ نہ ہوا کافی عرصہ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ر ہے.فرماتے تھے کہ ایک دن مجھے خیال آیا کہ حضور کا الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے میں کیوں نہ برکت حاصل کروں چنانچہ مسجد مبارک میں بعد نماز حضور تشریف فرما تھے.حافظ صاحب کہا کرتے تھے کہ حضور کے پیچھے بیٹھ جایا کرتے اور شملہ اپنی آنکھوں پر لگا یا کرتے.دو دن برابر لگاتے رہے.تیسرے دن بغیر دوا کے آنکھیں کشور اسی ہو گئیں.نہ لالی رہی نہ سُرخی وغیرہ حضور کی دستار
مبارک کا شملہ جو پیچھے لٹکتا رہتا تھا وہ ذرا لمبا ہوتا تھا.ر اصحاب احمد جیلہ دہم ص ۲۵۶) الہی غیرت حضرت خلیفہ المسح الاول فرماتے ہیں کہ میری ایک بہن تھیں.ان کا ایک لڑکا تھا.وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مر گیا.اس کے چند روز بعد میں گیا.میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے دیکھا مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی اگر تم آجاتے تو میرا لڑکا بچے ہی جاتا.میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہوگا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مر یگا.چنانچہ وہ حاملہ ہوئیں اور ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا.پھر وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا.ان کو میری بات یاد تھی.مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھادُعا ہی کرد.میں نے کہا.خدا تعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لیہ کا دیگا لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو.چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیا.اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا.جو زندہ رہا.اب تک زندہ برسر روزگار ہے.یہ الہی غیرت تھی.مرقاة الیقین صفحه ۱۷۷-۱۷۸) سادگی کی حد سید نا حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے عہد سعادت میں حضور اقدس کے ہاں گوجرہ کا ایک پہاڑی شخص ملازم تھا جو بہت ہی سادہ
۴۲ طیع تھا.اس کا نام پیرا تھا.ایک دن وہ حضرت خلیفہ المسیح اول....کے مطلب میں آگیا.آپ نے اس سے دریافت فرمایا.تمہارا مذہب کیا ہے ؟ وہ اس وقت وہاں سے چلا گیا.اور کچھ دیر کے بعد ایک پوسٹ کارڈ لے آیا اور حضور کو عرض کرنے لگا کہ میرے گاؤں کے نمبردار کو یہ خط لکھ دیں.آپ نے فرمایا کہ یہ خط کس غرض کے لئے لکھاتا ہے.کہنے لگا آپ نے خود دریافت کیا تھا کہ میرا مذہب کیا ہے.آپ ہمارے گاؤں کے نمبر دار کو لکھ کر دریافت کر لیں.اس کو معلوم ہے.حضرت نے یہ سن کر تعجب فرمایا کہ اس کی سادگی کس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو اپنے مذہب کا علم نہیں (حیات قدسی خصہ پنجم صفحه ۱۱۲ ) خدا تعالیٰ کے باجے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل جلال پوری فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنے اپنے رنگ میں اخلاص کے پہلے تھے لیکن ان دونوں کی طبائع میں نمایاں فرق تھا حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جب بیت الحمد میں تشریف لایا کرتے تھے تو حضرت اقدس کی مجلس میں سب سے آخر میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے اور جو کچھ حضرت اقدس ارشاد فرماتے اُسے بغور سنا کرتے تھے.آپ نے کبھی کوئی سوال نہیں کیا.بلکہ فرماتے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے لوگ جو کچھ فرمائیں تو جہ سے سنا چاہیے.لیکن حضرت مولانا عبد الکریم صاحب ہمیشہ حضرت اقدس کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ لوگ دنیا میں روز روز نہیں آتے.صدیوں بعد خوش قسمت لوگوں کو ان کی زیارت نصیب ہوتی ہے اس
۴۳ لئے جو سوالات ذہن میں آئیں وہ پیش کر کے دنیا کی روحانی تشنگی کو بجھانے کا سامان پیدا کر لینا چاہیے.بلکہ اپنے مخصوص انداز میں یوں فرمایا کرتے تھے کہ " یہ لوگ خدا تعالیٰ کے باجے ہوتے ہیں.جتنا ان کو بجا لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے (حیات النور ص ۲۶۲) دھیلہ بخوشی قبول کر لیا حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول نے بیان فرمایا ہے کہ ایک بوڑھی غریب عورت جس کا ایک ہی لڑکا تھا.بیمار پڑ گیا.میں نے اس کا علاج کیا.خدا کے فضل سے اس کو صحت ہو گئی اور وہ بالکل تندرست ہو گیا.دہ بڑھیا میرے پاس آئی اور میرے سامنے ایک دھیلہ (نصف پیہ) رکھ کر کہنے لگی کہ جناب میں بہت غریب ہوں اور بیوہ ہوں.محنت مزدوری کر کے گزارہ کرتی ہوں میرے پاس تو اور کچھ نہیں ہے صرف ایک ہی دھیلہ ہے جو کہ میں بطور نذرانہ شکریہ کے پیش کرنا چاہتی ہوں.اگرچہ آپ کے مقام اور شان کے اعتبار سے باعث شرم و ندامت تھا لیکن میں یہی پیش کر سکتی ہوں.آپ اس کو ضرور قبول فرمائیں اور رو نہ کریں.حضور نے فرمایا میں نے بخوشی اس دھیلہ کو قبول کر لیا اور حضرت اقدس مسیح موعود کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھا کہ طبیب کو بلا مانگے اگر کوئی شخص کچھ بھی دے تو وہ رو نہ کرے ہیں دھیلہ کو ہاتھ میں لے کر دل میں سوچنے لگا کہ اگر یہ دھیلہ اللہ کی راہ میں دے دوں تو حسب آیت مثلِ حَبَّكَ اثْنَتَتْ سَبعَ سَنَابِلَ فِي كُل سنبلة مائة حبة مجھے سال میں سات سونک دھیلے مل سکتے ہیں.اور اگر اِن سات سود میلوں کو بھی اللہ کی راہ میں دے دوں تو ہر ایک دھیلے کے عوض سات
ام بم سات سو دھیلے اور مل سکتے ہیں.اسی طرح و میلے کو پھیلاتے ہوئے ہزاروں روپیہ کی تعداد تک حساب کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ ایک دھیلہ کو بھی بہت بڑی برکت دے سکتا ہے.(حیات قدسی جلد سوئم ص ۴۷) بدگمانی میں جلدی کا احساس حضرت خلیفہ اسیج اول فرماتے ہیں کہ دور میں نے ایک کتاب منگوائی.وہ بہت بے نظیر تھی.میں نے مجلس میں اس کی بہت تعریف کی کچھ دنوں کے بعد وہ کتاب گم ہو گئی.مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر خیال آیا کہ کسی نے چھڑا لی.ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچے کتاب پڑی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھتی ہے اور وہ پیچھے جاپڑی ہے.اس وقت مجھے پر معرفت کے دو نقطے کھلے.ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ دوسرے پر میں نے بدگمانی کیوں کی.دوئم میں نے صدمہ کیوں اٹھایا خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عمدہ اور عزیز موجود تھی.اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ دس نہیں ہوں گی.ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا.ایک اجنبی عورت ہمارے گھر میں آئی.اسے کام کا بہت شوق تھا.اس نے اس کے دیکھتے ہیں بہت دلچسپی لی.تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی.مجھے اس کے گم ہونے کا صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی.نہ ہی میرے بچوں کے سر پر مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آئی ہوگی.مدت ہوگئی ہاں
۴۵ عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کے لئے کھولا تو اس کی تہہ میں سے ٹوپی نکل آئی.(خطبات نورص ۸۷) ایک دن تو لطیفہ ہوا توسط حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت امام جماعت اول کے پاس اکثر لوگ اپنی امانتیں رکھواتے تھے اور آپ اس میں سے ضرورت پر خرچ کرتے رہتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نہیں اپنے فضل سے اس طرح رزق دیتا رہتا ہے.بعض دفعہ ہم نے دیکھا کہ امانت رکھوانے والا آپ کے پاس آتا اور کہتا کہ مجھے روپے کی ضرورت ہے میری امانت مجھے واپس کر دی جائے.آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی اور معمولی سے معمولی کاغذ کو بھی آپ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے تھے جب کبھی کسی نے مطالبہ کرنا تو آپ نے ردی کا غذا ٹھانا اور اس پر اپنے گھر والوں کو لکھ دیا کہ انات میں سے دو سو روپیہ بھیجوا دیا جائے.اندر سے بعض دفعہ جواب آتا کہ روپیہ تو خرچ ہو چکا.یا اتنے روپے ہیں اور اتنے روپوؤں کی کمی ہے.آپ نے اسے فرمانا.ذرا ٹھہر جاؤ.ابھی روپیہ آجاتا ہے.اتنے میں ہم نے دیکھا کہ کوئی شخص دھوتی باندھے ہوئے جونا گڑھ سے یا بمینی کا رہنے والا چلا آرہا ہے اور اس نے اتنا ہی روپیہ پیش کر دیا.ایک دن تو لطیفہ ہوا.کسی نے اپنا روپیہ مانگا.اس دن آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.مگر اس وقت ایک شخص علاج کے لئے آگیا.اور اس نے پڑیا میں کچھ رقم لپیٹ کر آپ کے سامنے رکھ دی حافظ روشن علی صاحب کو علم تھا کہ نہ یہ مانگنے والا کتنا رو پید مانگتا ہے.آپ نے حضرت حافظ صاحب سے فرمایا، دیکھو اس میں کتنی رقم ہے.انہوں
۴۶ نے گنا تو کہنے لگے جتنی رقم کی آپ کو ضرورت تھی بس اس میں اتنی رقم ہی ہے.در وزن نامه الفشل صفحه ۳ - فروری ۰۱۹۹۵) مبادا تکثیر پیدا ہو جائے حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح اول سے میں روزانہ پڑھنے جاتا.ایک روز ایک کتاب کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ کتاب آپ مجھ سے پڑھ لیں تو ہندوستان بھر میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم نہ ہوگا.لیکن میں نے یہ خیال کر کے نہ پڑھی کہ مبادا تکبر ہو جائے (اصحاب احمد جلد دوازدهم صفحه ۱۷۴) حِسَاباً يسيراً حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت خلیفة المسیح اوّل سے حکیم غلام محمد صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ قرآن شریف میں جوجتا با تینرا آتا ہے اس کی تفسیر کیا ہے سمجھائیں وہ کس طرح ہوگا.فرمایا.اچھا.کچھ دن گزر گئے اور اس اثنا میں جو رقم حضور کے پاس ندمانہ وغیرہ کی آئی آپ حکیم صاحب موصوف کو اپنے پاس رکھنے کی ہدایت کرتے اور جو خر چ آپ کی طرف سے ہوتا انہی کے ہاتھ سے کرواتے.ایکدن حضور نے ان سے کہا نذرانے وغیرہ کی ہو رقم آپ کے پاس ہے اس کا حساب لکھ کر لائیں کہ کیا کچھ آیا.کیا خرچ ہوا اور باقی کیا ہے چونکہ موصوف کو یہ خیال دو ہم بھی نہ تھا کہ آپ حساب طلب فرمائیں گے.
اس لئے نذرانہ وغیرہ کی رقم لے لیتے اور مطابق حکم خرچ کرتے رہے تھے اب حساب مانگنے پر بہت گھبرائے اور لگے لکھنے مگر حساب لکھا ہوا نہیں تھا.کچھ یاد نہ آیا.دیر ہو گئی.آپ بار بار حساب طلب فرماتے.ایک روز جب فرما یا حساب لاؤ تو وہی جو تھوڑا بہت لکھا تھا.ڈرتے ڈرتے لے گئے تو حضور نے دیکھ کر فرمایا حساب میں فلاں فلاں آمد اور خرچ درج نہیں تو حکیم صاحب کی گھیرا ہٹ کی کوئی حد نہ رہی.یہ حال دیکھ کر فرمایا.مولوی صاحب ہم جانتے ہیں آپ دیانت دار ہیں.آپ نے خیانت نہیں کی جاؤ حساب ٹھیک ہے.فرمایا.آپ حسابا کیسیرا کی تفسیر پوچھتے تھے اسی طرح قیامت میں بھی ہوگا.تب مولوی صاحب کی جان میں جان آئی.یہ مفہوم تھا.(اصحاب احمد جلد سوم صفحه ۴) دوسرے کے اعمال اور نظر سے حضرت المسیح الاول فرماتے ہیں کہ میں نے ایک چور سے پوچھا تمہیں چوری کرنا برانہیں معلوم ہوتا.وہ کہنے لگا بر کیونکر معلوم ہو.ہم محنت و مشقت کرتے ہیں.اور کماتے ہیں اور بڑی بڑی تکلیفیں اٹھاتے ہیں.یونہی تھوڑا کہیں سے اٹھا لاتے ہیں.فرماتے تھے.یہ سن کر میں نے اس سے کچھ اور پائیں شروع کر دیں اور تھوڑی دیر کے بعد پوچھا تم مال آپس میں کس طرح تقسیم کرتے ہو.اس نے کہا.ایک سنار ساتھ شامل ہوتا ہے اسے سب زیورات دے دیتے ہیں.وہ گلا کر سونا بنا دیتا ہے یا چاندی یا جیسا زیور ہو.پھر مقرر شدہ حصوں کے مطابق ہم تقسیم کر لیتے ہیں.میں نے کہا.اگر اس میں سے کچھ رکھ لے تو پھر وہ کہنے لگا.اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس بدمعاش پور کا سر نہ اڑا دیں.وہ اس کے باپ کا مال ہے کہ اس میں سے رکھ نے اس مثال سے
۴۸ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انسان اپنے اعمال کو اور نظر سے دیکھتا ہے اور دوسرے کے اعمال اور نظر سے.( عرفان الہی صفحہ ۵۸) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن حضرت خلیفہ المسیح اول فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک لڑکا جو میری پہلی بیوی سے تھا.اور اس وقت تک میرا اکلوتا بیٹا تھا فوت ہو گیا.اور فوت ایسے ہوا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ہی اسے قتل کیا.یہ اس طرح ہوا کہ وہ بیمار تھا اور آپ اس کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے لئے دوائی کی ایک پڑ یا تجویز کی شاید اس کے گلے میں کوئی نقص تھا.آپ نے دوا تجویز کر کے لڑکے کی والدہ سے کہا کہ یہ پڑیا اسے ابھی کھلا دی جائے.آپ فرماتے تھے کہ اس بچے نے مجھے کہا.آیا مجھے گھوڑا لے دو.آپ باہر نکلے اور ایک ریمیں جو گھوڑوں کا اچھا واقف نقابات کرنے لگے کہ ہمیں ایسا گھوڑا چاہیئے.اتنا فر یہ ہو اور اتنی قیمت ہو.فرماتے تھے ابھی میں اس سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ تو کر دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا.لڑکا فوت ہو گیا ہے میں جو گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ پڑیا جب اس کے منہ میں ڈالی گئی تو اسے انھو آ گیا.اور ساتھ ہی اس کا دم نکل گیا.آپ فرماتے ہیں مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا.اتنا صدمہ ہوا کہ جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا تو میرے منہ سے الحمد للہ نہ نکلے اور بار بار میر دل میں یہی خیال آئے کہ کس طرح اچانک میرا لڑکا فوت ہو گیا ہے.اس پر یکدم میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نورالدین تجھے یہی خیال ہے کہ تیرا یہ لڑکا تیری یاد ہوتا اور تیرا نام دنیا میں باقی رہتا.لیکن اگر بڑے ہو کر یہ لڑکا چور بن جاتا تو پھر تیری کیا عزت
۴۹ ہوتی.یا بڑا ہو کر اگر یہ ظالم ہوتا.بنی نوع کو دکھ پہنچاتا تو لوگ اسے صرف گالیاں دیتے.ایسی حالت میں اٹھا لینا محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور تیرا فرض ہے کہ تو اس احسان کا شکر ادا کرے.آپ فرماتے تھے کہ جب میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تو اس وقت بے اختیار میری زبان سے بڑے زور سے نکلا الحمد لله رب العالمین اور چونکہ میں نے بڑی بلند آواز اور چیخ کر کہا تھا الْحَمْدُ للهِ رب العالمین اس لئے مقتدی بھی حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہوا چنانچہ بعد میں انہوں نے محمد سے پوچھا اور میں نے بتایا کہ آج خدا نے اس طرح میری راہنمائی فرمائی ہے ور نہ میرے دل کو سخت صدمہ پہنچا تھا.ر خطبه جمعه - الفضل ۴۲-۴-۱۸ اطاعت امام اور خدا کی دستگیری حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے حضرت امام قول کو تارہ دلوائی کہ فوراً وتی پہنچ جائیں.تار لکھنے والے نے تار میں (Immediate) یعنی بلا توقف کے الفاظ لکھ دئے حضرت امام اول کو جب یہ تار پیچی تو اس وقت آپ اپنے مطب میں تشریف فرما تھے.تار ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحب نے بلا توقف بلایا ہے.میں جاتا ہوں اور گھر میں قدم تک رکھنے کے بغیر سید ھے اڈہ خانے کی طرف روانہ ہو گئے.کیفیت یہ تھی کہ اس وقت نہ جیب میں خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی کبستر وغیرہ.گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے سے ایک کمبل تو کسی کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہ آیا.اور شاید اس وقت گھرمیں کوئی رقم ہوگی بھی کہ نہیں.اڈہ خانہ پر پہنچ کر حضرت امام اول
۵۰ نے یہ کیا اور بٹالہ پہنچ گئے مگر ٹکٹ خرید نے کا کوئی سامان نہیں تھا چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا.آپ خدا پر توکل کر کے ٹہلنے لگے.اتنے میں ایک ہندو رئیس آیا اور حضرت امام اقول کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے اور آپ تکلیف فرما کر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور میرے گھر پر دیکھ آئیں.حضرت امام اول نے فرمایا کہ میں توامام کے حکم پر دتی جارہا ہوں اور گاڑی وقت ہونے والا ہے کہیں اس وقت نہیں جا سکتا.اس نے بمبنت عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیں اسٹیشن پر سہی لے آتا ہوں آپ اسے دیکھے لیں.آپ نے فرمایا.اگر یہاں لے آؤ اور گاڑی میں کچھ وقت ہوا تو میں دیکھ لوں گا چنانچہ وہ اپنی بیوی کو اسٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا.یہ ہندو رئیں چیکے سے گیا اور دلی کا ٹکٹ لاکر حضرت امام اقل کے حوالہ کیا اور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی.۱۹۵۰ الفضل 14 دسمبر شاہ) ید نظر عورتوں کو گھروں میں نہ آنے دیا جائے حضرت امام اول فرماتے ہیں کہ میری نئی نئی شادی ہوئی تھی میری بیوی کی عمر چھوٹی تھی میرے ایک دوست تھے ، انہوں نے کہا کہ ہماری بیوی تمہاری ہوں سے ملاقات کرنا چاہتی ہے.ہمیں نے کہا شوق سے وہ آئیں.چنانچہ وہ آئی میری بیوی کو دیکھتے ہی ایک بڑا ٹھنڈا سانس پھیرا اور کہا کہ ہائے تیری تو قسمت پھوٹ گئی.تو تو ابھی بچی ہے.اور تیر ہے ماں باپ اور بھائیوں نے تیری مولوی کے ساتھ شادی کر دی جو تیرے باپ کے ہم عمر ہیں.میں نے اپنی بیٹی کی شادی نہایت خوبصورت اور جوان شخص سے کی ہے میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہ کون عورت
اد ہے.میں نے کہا کہ ہمارے ایک دوست کی بیوی ہے میری بیوی نے کہا کہ یہ مجھ سے ایسا کہتی ہے.اور اس کی باتیں اس کے سامنے نہیں نقل کر دیں.وہ سنتے ہیں فوراً وہاں سے چل دی.مجھ کو کچھ کہنے کی نوبت نہ پہنچی.اس کی لڑکی کی جس شخص کے ساتھ شادی ہوئی.یعنی اس کا داماد تپ دق سے جلد مر گیا.پھر دوسرے کے ساتھ شادی کی چند روز بعد تقریباً ایک ہزار روپیہ دیگر اس سے طلاق حاصل کی.اب بھی وہ لڑکی موجود ہے.قرآن مجید میں اسی واسطے علی العموم عورتوں کو گھروں میں آنے سے روکا گیا ہے." (مرقاة الیقین صفحه ۱۸۲-۱۸۳) جو شخص کسی کی تنقید کرتاہے خود بھی اسکی ذلت اٹھاتا ہے حضرت امام اول فرماتے ہیں.پنڈ دادنخان اور میانی کے درمیان ایک ندی ہے.بیانی میں ہمارا گھر تھا پنڈ دادنخان میں ہمارا مدرسہ تھا.میانی سے پنڈ دا تھا آتے ہوئے دریا پر میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے دریا میں داخل ہوتے وقت اپنا تہہ بند سر پر کھول کر رکھ دیا اور ننگا ہو کر چلنے لگا.ایک دوسرے شخص نے اس کو بڑی لعنت ملامت کی اور نہایت سخت سست کہا کہ اس طرح ننگا ہوکر کیوں دریا میں جاتا ہے.پہلے شخص کے پیچھے دوسرا شخص بھی دریا میں داخل ہوا جوں جوں آگے بڑھتا گیا.پانی گرا آتا گیا.اور وہ تہ بند او پر اٹھاتا گیا.جب اس نے دیکھا کہ پانی تو شاید ناف تک آجائے گا تو اس نے بھی تہہ بند کھول کر سر پر رکھ لیا اور پہلے شخص کی طرح بالکل ننگا ہوگیا.اس وقت میری سمجھ میں یہ نکتہ آیا کہ جو شخص کسی دوسرے کی تحقیر کرتا ہے وہ خود بھی اسی قسم کی ذلت اٹھاتا ہے.اگر وہ دوسرا شخص
۵۲ کپڑے بھیگنے کی پرواہ نہ کرتا اور زنگانہ ہوتا تو کوئی بڑے نقصان کی بات نہ ہوتی.لیکن جس بات کے لئے اس نے دوسرے کی تحقیر کی تھی اسی کا مرتکب اس کو بھی یکن میں بات کے لئے اس نے دوسر ے ہوتا.پڑا.۱۴۱ مئی ۱۹۰۹ ء درس قبل از نماز عشاء بیت مبارک) مسئلہ میں سمجید گیا حضرت امام اقل فرماتے ہیں." ایک بڑا آدمی تھا.وہ لاہور کا رہنے والا نہیں تھا.لاہور میں وہ اور ہمیں دونوں باتیں کرتے ہوئے بازار میں ہو کر گزرے.اس نے کہا دوزخ کے عذاب کو آپ غیر مقطوع مانتے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں.پھر کہنے لگا کہ پھر تو کوئی خوف کا مقام نہیں کیونکہ ایک نہ ایک دن اس سے نجات مل تو جائے گی.یہ گفتگو جس وقت ہوئی تو ہم بازار چوک میں تھے ہیں نے فور آ جاتے جاتے کھڑے ہو کر جیب میں سے دو روپے نکالے اور کہا کہ یہاں تمہارا کوئی واقف نہیں.تم یہ دو روپے لے لو اور میں تمہارے سر پر ایک جوتا لگالوں گھبرا کر کیا کہیں مار نہ بیٹھنا مسئلہ میں سمجھ گیا ہوں.مدعا یہ کہ قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے.ایک شریف انسان کیسے اپنی ذلّت گوارا کر سکتا ہے.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۶۶) ہمیشہ خوش رکھنے والی بات حضرت امام اول فرماتے ہیں کہ جب میں بھوپال سے رخصت ہونے لگا.تو اپنے استاد مولوی عبد الکریم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کے لئے حاضر ہوا میں نے
۵۳ مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتائیں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں فرمایا کہ " خدا نہ بننا.اور رسول نہ بنا.میں نے عرض کیا کہ حضرت میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی.اور یہ بڑے بڑے عالم موجود میں غالباً یہ بھی نہ سمجھتے ہوں.سب نے کہا.ہاں ہم بھی نہیں مجھے مولوی صاحب نے فرمایا.تم خدا کس کو کہتے ہو.میری زبان سے نکلا کہ خدائے تعالیٰ کی ایک صفت فعال ہے.وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے.فرمایا کہ ہمارا بس مطلب اسی سے ہے.یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور پوری نہ ہو.تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں تم خدا ہو.رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے.وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نا فرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے.اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے تمہارا فتومی اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقیناً جہنمی تھوڑا ہی ہوگا.لہذا تم کو اس کا رنج نہیں ہونا چاہیے.حضرت مولوی صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھے بہت راحت پہنچائی ہے.(مرقاة الیقین صفحه ۸۸) میں اپنا معاملہ خدا کے سپر د کرتا ہوں حضرت امام اول فرماتے ہیں.” میرے ایک بنارس کے رہنے والے محسن مولوی عبد الرشید تھے.وہ مُراد آباد میں رہتے تھے.ایک مرتبہ ایک مہمان عشاء کے بعد آگیا.ان بنارسی دوست کے بیوی بچے نہیں تھے.بيت الذکر کے حجرے میں رہتے تھے.حیران ہوئے کہ اس دوست کا اب کیا بند دوست کیوں اور کس سے کہوں.انہوں نے مہمان سے کہا کہ آپ کھانا پکنے تک آرام فرمائیں.وہ مہمان لیٹ گیا.اور سو گیا.انہوں نے وضو کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر یہ دعا پڑھنی شروع
۵۴ کردی." أقوضُ أَمْرِى إِلى اللهِ اِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَاد 66 جب اتنی دیر گزری کہ جتنی دیر میں کھانا پک سکتا تھا.اور یہ برابر دعا میں مصروف رہے کہ ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت میرا ہاتھ جلتا ہے.جلدی آڈیہ اٹھے.ایک شخص تانبے کی رکابی میں گرم گرم پلاؤ لئے ہوئے تھا.انہوں نے لیا اور مہمان کو اٹھا کر کھلایا.وہ تجرہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.اس رکابی کا کوئی مالک نہ نکلا ( مرقاۃ الیقین صفحه ۲۱۷ ) ہمارے خدا کو ہمارا کتنا خیال ہے حضرت امام اول فرماتے ہیں کہ یہ میں کشمیر میں تھا.ایک روز دربار کو جا رہا تھا.یار محمد خان میری اردل میں تھا.اس نے راستہ میں مسجد سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ میں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردل میں بھی نہیں چل سکتا.میں نے اس کو کہا کہ اگر یہ تجھ کو بری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے زیادہ میرا خیال ہے.ہمیں جب دربار میں گیا تو وہاں مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے مبینہ کی دیا میں بڑی کوشش کی ہے.آپ کو تو خلعت ملنا چاہئیے.چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا گیا.اس میں جو چادر نفی نہایت ہی قیمتی تھی.میں نے یار محمد خان سے کہا کہ دیکھو کہ تہمارے خدا کو ہمارا کیسا خیال ہے " ( مرقاۃ الیقین ۲۱۸ - ۲۱۹)
۵۵ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا خواب پورا ہو گیا 191 ۱ نومبر شاہ وہ تاریخی دن ہے جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ اول حضرت بانی سلسلہ کو بتائی گئی ایک خبر کے مطابق حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کو ٹٹی سے واپس تشریف لاتے ہوئے گھوڑے سے گر گئے اور آپ کی پیشانی پر شدید چوٹیں آئیں.ملک مولا بخش صاحب رئیس گورائی بیان کرتے ہیں کہ گھوڑی ایسی تیز اور بیخود اور حضرت ایسی قوت اور اطمینان کے ساتھ اس پر بیٹھے کہ میرے وہم گمان میں بھی نہیں آسکتا میں نے بڑے بڑے سوار دیکھے ہیں مگر حضرت کی شان اس وقت نرالی تھی آخر گھوڑی ایک تنگ کو چہ میں ہو کر گزری.حضرت زمین پر آگرے حضرت نے گھوڑی سے گر گر کسی قسم کی گھبراہٹ و اضطراب کا اظہار نہیں کیا.آپ کو اٹھایا گیا.اور زخم پر پانی بہایا گیا.آپ پورے استقلال کے ساتھ اُٹھے اور پیدل آئے.بالآخر ڈاکٹر بشارت احمد ، ڈاکٹر الہی سنجش اور ڈاکٹر شیخ عبد اللہ نے بغیر کلور و فارم کے عمل سے خموں کو سی دیا.آپ کی عمر اس وقت ۸۰ سال تھی لیکن دیکھنے والے دیکھتے تھے کہ زخم کے بیٹے جانے کے وقت آپ کے چہرے پر یا بدن کے کسی حصہ پر کوئی شکن تک نہ تھا محترم شیخ رحمت اللہ صاحب کے گھر کے سامنے یہ حادثہ پیش آیا تھا.وہ لکھتے ہیں کہ حضور کا پاؤں رکاب میں اٹک گیا اور آپ ایک طرف کو لٹک گئے.میں نے فوراد وڈ کو لگام پکڑ لی.میں جوان تھا.گھوڑی مجھے دھکیل کر آٹھ دس قدم تک لے گئی.اتنے میں آپ کا پاؤں رکاب سے نکل گیا مگر آپ ایک کھنگر پر گرے.جس کی وجہ سے آپ کی کنپٹی پر چوٹ آئی جو بعد میں ناسور بن گئی.میں نے اپنی اہلیہ
۵۶ سے کمہ کو چار پائی منگوائی.آپ چار پائی پر لیٹ گئے.آپ کے سر میں پانی ڈالا.مگر خون بند نہ ہوا.میں نے اپنی پگڑی سے خون صاف کیا جو نصف کے قریب جان آلود مفی تھوڑی دیر کے بعد آپ کو ہوش آیا تو فرمایا یہ حضرت بانی سلسلہ کی بات پوری ہو گئی میرے دریافت کرنے پر کہ کونسی بات ؟ فرمایا.کیا آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا کہ حضرت بانی سلسلہ نے میرے گھوڑے سے گرنے کی خواب دیکھی تھی.تیسرے روز آپ نے خون آلودہ پگڑی منگوا بھیجی.میں اس کے ساتھ حاضر ہوا تو فرمایا کہ وہ پکڑی مجھے دے دو.میرے توقف پر آپ میرا مطلب سمجھ گئے فرمایا.اچھا.اسے دھلوا دو اور استعمال کرو لیکن ٹکڑے ٹکڑے کر کے لوگوں میں تقسیم نہ کرنا اور مجھے ایک نئی پگڑی بھی عنایت فرمائی.الفضل ۲۸ اگست ه ص ۴) حضرت امام جماعت اول کی شفقت محترم بابو فقیر علی صاحب تحریر فرماتے ہیں یہ میری ہمشیرگان کی منگنیاں اس زمانے کے رواج کے مطابق اس وقت کی گئی تھیں جبکہ وہ ابھی گود میں تھیں.لیکن میں نے احمدیت کی وجہ سے اپنے غیر احمدی اقارب سے قطع تعلق کر لی تھی اور انکے رشتوں کے لئے حضرت امام اول کی خدمت میں عرض کیا تھا.آپ نے پہلے یہ مشورہ دیا کہ اقارب کو احمدی بنانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی.اور حضرت امام اول کی خدمت میں عرض کیا گیا.اور اخبارات الحکم یا بدر میں بھی اعلان کرایا تھا.حضرت صاحب کے مشورہ سے بھیرہ کے ایک احمدی سے جو پولیس میں محرکہ تھا ہمشیرہ فاطمہ صاحبہ کا رشتہ طے ہوا.جب رخصتا نہ دینے
۵۷ کے لئے مور کتبہ سکھر سے قادیان آیا تو اس شخص کی ہمشیرہ نے دوسری بہن کا رشتہ اس کا رنگ قدرے خوبصورت ہونے کی وجہ سے طلب کیا.یہ مطالبہ بخت تکلیف دہ تھا.فیصلہ اور تیاری ایک شادی رچانے کی تھی اور عین وقت پر مطالبہ دوسری کے متعلق کر دیا گیا.ان دنوں حضرت امام اول حضرت مسیح موعود کے مکان کے پچھواڑے قیام رکھتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ عبادت عشاء کے بعد کسی سے گفتگو نہ کرتے تھے.خاموش جلدی گھر چلے جاتے.بابو صاحب دروازے کے پاس جا کھڑے ہوئے اور دریافت کرنے پر قصہ عرض کیا.فوراً فرمایا.آپ میرے مرید ہیں.ابھی جا کر اسے کہہ دیں کہ ہم تمہیں کوئی بھی رشتہ نہیں دیتے.آپ نے اپنی اہلیہ صاحبہ کو بھی اطلاع کر دی.جو حضرت اماں جان کے پاس قیام رکھتی تھیں.چنانچہ دونوں میاں بیوی کی ڈھارس بندھ گئی.حضرت امام اول کی ناراضگی کا علم پا کر اس شخص کی ہمشیرہ محترمہ، الیت حضرت امام اول کے پاس پہنچیں کہ ہم پہلا رشتہ ہی قبول کرتے ہیں.ہم بھول گئے حضرت مولوی صاحب ہمیں معاف کر دیں.ان کی طرف سے اہلِ بیت حضرت مولوی صاحب نے بہت منت سماجت کی حتی کہ رات بارہ ایک بجے آپ نے معافی دی.اور بعد عبادت فجر آپ نے دار المسیح میں اپنی اہلیہ صاحبہ کو بھی اطلاع کر دی جو حضرت اماں جان کے پاس قیام فرما تھیں.حضرت امام اول نے خفیہ نکاح میں دردناک زبان میں فرمایا کہ اس رشتہ کے بارہ میں نہیں بہت تکلیف ہوئی ہے.ہمارا دوست فقیر علی سندھ سے آیا ہے بہت نیک اور سادہ ہے.انہیں اور ان کے گھر والوں کو بہت تکلیف ہوئی ہے.میں نے بہت دعا کی ہے یا تو اچھی اصلاح ہو جائے گی.یا طرفین میں سے کسی کو خدا خود سنبھال لے گا.
۵۸ چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ اقبل کے گھر سے رخصنا نہ ہوا.چند دن پیشره مع خاوند حضرت امام اول کے ہاں مقیم رہیں.اہلیہ بابو صاحب کا قیام دار المسیح میں اور بابو صاحب کا مہمان خانہ میں تھا.دوبارہ رخصتی ( مکلاوہ) لینے کے لئے یہ صاب سکھر آئے.اور بابو صاحب نے میاں بیوی کے لئے پار چات بنوائے لیکن ان صاحب نے بد دماغی دکھائی حتی کہ ایک روز بابو صاحب سے سخت کلامی کی.اور آپ کی ہمشیرہ اس رویہ سے سخت مغموم ہوئیں.بابو صاحب رات بھر ڈیوٹی دے کر صبح گھر آئے تو دیکھا ہمشیرہ کو رات کو ہیضہ ہو چکا ہے.ڈاکٹر نے کہا حالت خطرناک ہے اور شراب کی ایک خوراک پلانی چاہی لیکن ہمشیرہ نے جو آپ کی اہلیہ صاحبہ اور دوسری بہن کی طرح بہت دعا گو اور نوافل پڑھنے والی تھیں شراب پینے سے از کار کر دیا اور جاں بحق ہو گئیں.چونکہ سکھر میں اور کوئی احمدی نہ تھا.اس لئے بابو صاحب اور مرحومہ کے خاوند دونوں نے ہی ان کا جنازہ پڑھا.اور دفن کیا.یا یو صاحب نے امام جماعت اول کی خدمت میں بذریعہ تار اطلاع دیکر دعا کی درخواست کی ماشکن نے بتایا گزشتہ رات مرحومہ کو سجدہ میں رو رو کر یہ دعا کرتے سنا کہ اسے خدا تعالیٰ تو اب بھی قادر ہے.میرے خاوند کا رویہ میرے بھائی کے ساتھ اچھا نہیں ہے.اگر میرا بھیرہ جانا اچھا نہیں تو بہتری کردے.ایک دن مرحومہ کو یہ خواب آیا تھا کہ فرشتہ اس کی ڈولی لئے جا رہا ہے.اس طرح حضرت امام اول کی نکاح میں کر دہ بات پوری ہوئی.اصحاب احمد جلد سوم صفحه ۱۷۳۰ ۳۲۷۳)
و ڈیلو مر پر نہیں خدا پر بھروسہ ہے حضرت خلیفہ ایسی حلال فرماتے ہیں یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے کہ آدمی ڈپلومے یا سند پر بھروسہ کرے.ایک مرتبہ ایک شخص نے جو افسر مدرس تھا.اور میں بھی پنڈ داد تھا میں افسر مدرس تھا.مجھ سے کسی بات پر کہا کہ آپ کو ڈپلومے کا گھمنڈ ہے.میں نے اپنے آدمی سے کہا کہ " ڈپلوما لاؤ جس کو یہ خدا سمجھتے ہیں.وہ ہمارے پاس بھی ایک ہے.منگوا کر اسی وقت ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے.وہ آدمی بڑا حیران ہوا.مجھ سے کہا کہ آپ کو کوئی جوش سے ؟ میں نے کہا نہیں.کیا کوئی رنج ہے ؟ میں نے کہا نہیں.آپ نے اسے باعث غرور تکبیر موجب روزی سمجھا ہے.میں نے اس کو پارہ پارہ کر کے دکھایا ہے کہ میرا ان چیزوں پر بحمد اللہ بھروسہ نہیں.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۸۶ - ۲۷ مٹی ۶۱۹۰۹ ) مہر بان هنا منده آن تیم اسکوترک کر دیا چاہئے محترم عبدالرحمن صاحب اور تحریہ فرماتے ہیں." ایک دفعہ جبکہ میرے کسی ایک رشتہ دار کی شادی تھی اور بارات لاہورہ سے آئی تھی.میں ان کو الوداع کہنے کے لئے ریلوے اسٹیشن قادیان آیا ہوا تھا.اتفاقاً اس گاڑی میں محترمہ حضرت اُم طاہر صاحبہ بھی کہیں باہر تشریف لے جا رہی تھیں.انہوں نے جو دولھا کو پھولوں کے سہروں کے ساتھ دیکھا توئیں چونکہ گاڑی کے باہر قریب ہی کھڑا تھا.مجھے کسی کے ذریعہ بلا بھیجا.اور دریافت فرمایا کہ یہ کن کی بارات ہے.کیا کسی احمدی گھرانے کی ہے.ہمیں
نے بتلایا کہ احمدی گھرانے کی ہے.تو مجھے فرمایا کہ حضرت خلیفہ ایج الثانی سہرا باندھنے کو سخت ناپسند کرتے ہیں.ایک مرتبہ خاندان کی ایک شادی میں شامل ہوئے جس میں دلہن کو زری والا سہرا پہنایا ہوا تھا حضرت صاحب سخت ناراض ہوئے.بلکہ فرمایا کہ جب تک اس سہرے کو جلایا نہ جائے میں شادی میں شامل نہیں ہوتا.چنانچہ فوراً گہرا اتارا گیا.جلایا گیا.تب حضور اس میں شامل ہوئے.اور حضور نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ آئندہ کے لئے سہرے کی رسم کو دور کرنے کے لئے کوشش کرتی رہوں گی.چنانچہ میں نے عہد کیا ہے کہ میں اس شہر سے کی رسم کو جو ہندوانہ رسم ہے دور کرنے کی کوشش کرتی رہوں گی.چنانچہ میں نے فوراً دولہا کی پگڑی پر سے سہرے کو اتر وایا.د تابعین اصحاب احمد جلد سوم - سيرة حضرت ام طاہر صفحہ ۱۸۱۷۱۸۰) نعمت چھین لی جاتی ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ انسان کو جو اجر ملتا ہے وہ سب خدا کی طرف سے انعام و احسان ہوتا ہے.اگر کوئی اس احسان پر ہے جانخر کی ہے.اور دوسروں پر جن کو وہ چیز نہیں ملی ہوتی ہنسی اور ٹھٹھا کرے تو اس سے بھی یہ چھین لی جاتی ہے.دیکھو ایک بچہ کو کوئی مٹھائی یا کوئی ایسی اور چیز دی جائے جو کہ دوسر بیمار بچے کو دینا مناسب نہ ہو اور وہ بچہ اس بیمار کے پاس جائے اور اس کو وہ چیز دکھا دکھا کر چڑائے اور رلائے تو ماں باپ ہر گز یہ پسند نہیں کریں گے کہ اس کے پاس وہ چیز رہنے دیں بلکہ اس سے فوراً وہ چھین لیں گے تاکہ دوسرے بچے
کو تنگ نہ کرے.اس طرح اگر کسی شخص کو خدا تعالیٰ نے کوئی درجہ یا مرتبہ دیا ہویا کوئی اور انعام اس پر کیا ہو اور وہ اس پر فخر کر کے اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق کو چڑانے اور ان کی تذلیل و تحقیر کرے تو خدا وند کریم اپنی مخلوق کے ساتھ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ پیار و محبت کرتا ہے اس سے اپنا انعام واپس لے لیا ہے تاکہ وہ اس کی مخلوق کی تحقیر نہ کر سکے.1914 د از خطبه جمعه ۱۶ تاریخ ۱۹۱۷) سورج کا سسٹم بدل گیا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جی کی فرماتے ہیں کہ " ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں لاہور میں احمدیہ مسجد کی چھت پر سویا ہوا تھا اور میاں محمد حیات صاحب جو نقیب مسجد تھے بھی میرے ساتھ تھے اور قریب کی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے.رات کو میری زبان پر بار بار یہ الہامی الفاظ جاری رہے " سورج کا سسٹم بدل گیا.میں چونکہ انگریزی زبان سے ناواقف ہوں اس لئے سسٹم کا انگریزی لفظ نہ سمجھ سکا ایک عرصے تک مجھے اس الہام کے مفہوم کے متعلق خلش رہی کہ اس کا کیا مطلب ہے.بعد میں جب سیدنا حضرت خلیفة المسیح المصلح الموعود نے ہجری قمری کے سن کے ساتھ ہجری شمسی کا اجرا فرمایا تو مجھے اس الہام کا ایک یہ مفہوم بھی ذہن میں آیا کہ پہلے شمسی، عیسوی، بکرمی یا بعض اور طریق رائج تھے.حضرت مصلح موعود کے اصلاحی کارناموں میں اس کارنامے کا بھی اضافہ ہوا کہ آپ نے ہجری شمسی سن کا اجراء فرمایا اور اس طرح پہلے سے رائی شدہ شمسی سسٹم بدل دیا.رحیات قدسی حصہ پنجم سراه)
۶۳ زنده خدا زندہ نشاں حضرت مصلح موعود ایک بزرگ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.کہ ایک دفعہ ایک قرض خواہ ان کے پاس آگیا.اور اس نے کہا کہ آپ نے میری اتنی رقم دینی ہے اس پر اتنا عرصہ گزر چکا ہے.اب آپ میرا روپیہ ادا کر دیں.انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ہے نہیں ، جب آئے گا دے دوں گا.وہ کہنے لگا تم بڑے بزرگ بنے پھرتے ہو اور قرض لے کر ادا نہیں کرتے.یہ کہاں کی شرافت ہے.اتنے میں وہاں ایک حلوہ بیچنے والا لڑ کا آ گیا.انہوں نے اس سے کیا آٹھ آنے کا حلوہ دے دو لڑکے نے حلوہ دے دیا اور انہوں نے وہ حلوہ قارض کو کھیلا دیا.لڑکا کہنے لگا.میرے پیسے میرے حوالے کیجئے.وہ کہنے لگے تم آٹھ آنے مانگتے ہو میرے پاس تو دو آنہ بھی نہیں.وہ لڑ کا شور مچانے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ قرض خواہ کہنے لگا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میری رقم تو ماری ہی تھی اس غریب کی اٹھتی بھی ہضم کر لی.غرض وہ دونوں شور مچاتے رہے اور وہ بزرگ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھے رہے.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے اپنی جیب میں سے ایک پڑیا نکال کر انہیں پیش کی اور کہا فلاں امیر نے آپ کو نذرانہ بھیجا ہے انہوں سے اسے کھولا تو اس میں رو پے تو اتنے ہی تھے جتنے قرض خواہ مانگتا تھا.مگر اس میں اٹھتی نہیں تھی.کہنے لگے یہ میری پڑیا نہیں اسے واپس لے جاؤ.یہ سنتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا.اس نے جھٹ اپنی جیب سے ایک دوسری پریانکالی اور کہنے لگا مجھ سے غلطی ہو گئی.آپ کی یہ پڑیا ہے.انہوں نے اسے کھولا تو اس میں اتنے ہی روپے تھے جو قارض مانگ رہا تھا اور ایک اٹھنی بھی تھی.انہوں نے دونوں کو بلایا 51940 اور وہ روپے انہیں دے دیئے.(روز نامه الفضل صفحه ۳ - ۲ فروری شاه )
۶۳ جب پونڈ جمع ہو گئے تو....حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہ بھول سکتا ہے.جب حضرت مسیح موعود کی وفات کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن با ہر سے مجھے کسی نے آواز دی اور بلایا اور خادمہ یا کسی بچہ نے بنایا کہ دروازہ پر کوئی آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے.میں باہر نکلا تو منشی اروڑ سے خاں صات کھڑے تھے.وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے مجھ سے مصافحہ کیا.اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا.جہاں تک مجھے یاد ہے.انہوں نے اپنی جیب سے دویا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا.یہ اماں جان کو دے دیں.اور یہ کہتے ہوئے ان پر رقت طاری ہوگئی اور وہ چیخیں مار مار کر رونے لگے اور ان کے رونے کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے کو ذبح کیا جارہا ہو.اس آن طرح وہ کئی منٹ تک روتے رہے.جب ان کو ذرا میر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روٹے کیوں ہیں.وہ کہنے لگے ہیں غریب آدمی تھا.جب بھی چھٹی ملتی پھرتا دیاں کے لئے چل نکلتا.سفر کا بہت حصہ پیدل ہی طے کرتا.تاکہ سلسلہ کی خدمت کیلئے کچھ پیسے ہی بچ جائیں.مگر پھر روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا.یہاں آکر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش میرے پاس بھی ہوتا اور حضرت مسیح میشود کی خدمت میں بجائے چاندی کے تحفے کے سونے کے تحائف پیش کروں.آخر میری تنخواہ کچھ بڑھ گئی اور میں نے ہر ماہ کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی.اور جب کچھ عرصہ بعد اس کے لئے رقم جمع ہوگئی تو دوسرا پونڈ لے لیا.اس طرح آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے انہیں لونڈوں کی شکل میں
۶۴ تبدیل کرتا رہا.اور میرا منشا یہ تھا کہ میں پونڈ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش کروں گا.مگر جب دل کی آرزو پوری ہو گئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو.یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگے.آخر روتے روتے انہوں نے اس فقرے کو اس طرح ختم کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود کی وفات ہوگئی.ر اصحاب احمد جلد چہارم.سیرت ظفر صفحه (۶۵) اللہ اپنے بندوں کیلئے کافی ہے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب تحریر فرماتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا.اتفاق سے گھرمیں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی.اور میری بیوی کہہ رہی تھیں کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں.بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہو سکی سکول والے تقاضا کر رہے ہیں.بہت پریشانی ہے.ابھی وہ بات کہہ ہی رہی تھیں کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم آگیا کہ دہلی اور کو نال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے.آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو کر ا بھی دفتر آئیں.جب میں دفتر جانے لگا تو میری اہلیہ نے پھر کہا کہ آپ لمبے سفر پر جارہے ہیں اور گھر میں بچوں کے گزارا اور اخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں ہیں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں ؟ میں نے کہا میں سلسلہ کا حکم ٹال نہیں سکتا اور جانے سے ترک نہیں سکتا.کیونکہ میں تھے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے.صحابہ کرام جب اپنے اہل و عیال کو گھروں میں بے سرو سامانی کی حالت
اسے میں چھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کو یہ بھی خطرہ ہوتا تھا نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یا شہادت کا مرتبہ پا کو ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو جاتے ہیں.بچے یتیم اور بیوی بیوہ ہوتی ہے لیکن آنحضرت کی بعثت ثانیہ میں ہم سے اور ہمارے اہل وعیال سے نرم سلوک کیا گیا ہے اور ہمیں قتال اور حرب در پیش نہیں بلکہ زندہ سلامت آنے کے زیادہ امکانات ہیں.پس آپ کو اس نرم سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہیے.اس پر میری بیوی خاموش ہو گئی اور میں گھر سے نکلنے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا.اس حالت میں میں نے اللہ کے حضور عرض کیا کہ اے میرے محسن خدا تیرا یہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہو رہا ہے اور گھر کی بات تجھ پر مخفی نہیں.تو خود ہی ان کا کفیل ہو اور ان کی حاجت روائی فرما.تیرا یہ عبد حقیر ان افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لئے راحت و مسرت کا کوئی سامان مہیا نہیں کر سکتا.میں دعا کرتا ہوا ابھی بیرونی دروازے تک پہنچا کہ باہر سے کسی نے بتک دی جب میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے.انہوں نے کہا کہ فلاں شخص نے مجھے بلا کر یکصد روپیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیا جائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں.میں نے وہ روپیہ لے کر اپنی صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ ہمیں تو اب تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑا ہوں.بازار سے گھر جانا مناسب نہیں.اب میں نے جو کچھ بازار سے ضروری سامان خور و نوش لینا ہے وہ میرے گھر پہنچا دیں.وہ صاحب بخوشی میرے ساتھ بازار گئے.میں نے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کیلئے دے دیا.اور بقیہ رقم متفرق اخراجات اور ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھب بھجوادی - فالحمد لله على ذلك رحیات قدمی حصہ چہارم صفحه ۴-۵)
۶۶ اہی فرستادوں سے گستاخی پر پکڑ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود پر جب کرم دین والا مقدمہ چلا تو مجسٹریٹ ہندو تھا.آریوں نے دورغلایا اور کہا کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ سزا د سے اور اس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ بات سنی تو ڈر گئے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں گورداسپور حاضر ہوئے جہاں مقدمہ کے دوران آپ ٹھہرے ہوئے تھے.اور کہنے لگے کہ حضور با بڑے فکر کی بات ہے.آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے.اس وقت حضرت مسیح موعود لیٹے ہوئے تھے.آپ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب! خدا کے شیروں پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے.میں خدا کا شیر ہوں وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ پیش ہوا اور دونوں کو سخت سزا ملی.ان میں سے ایک تو معطل ہوا اور ایک کا بیٹا دریا میں ڈوب کر مر گیا اور وہ اس غم میں نیم پاگل ہو گیا.اس پر اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ میں دہلی جارہا تھا کہ وہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے میلا اور بڑے الحاج سے کہنے لگا کہ دعا کریں اللہ مجھے صبر کی توفیق دے.مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں پاگل نہ ہو جاؤں ( تفسير كبير سورة النور صفحه ۳۴۳)
تقوی کی باریک راہیں حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی ایک مرتبہ کشمیر تشریف لے گئے.ریچھ مارنے کا لائسنس لیا ہوا تھا.دوران سفر ایک جگہ فروکش ہوئے جہاں احمدیوں کی آبادی تھی.وہاں آپ شکار کے لئے ایک پہاڑی جنگل میں داخل ہوئے لوگوں نے ہانکنا شروع کیا.ایک مشک والا ہرن ہانکنے سے نکلا اور بالکل سامنے آکر کھڑا ہو گیا.رائفل آپ کے کندھے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور نالی شکار کی طرف ہمرا ہی تیراہ تھے کہ ایسا عجیب نایاب شکار سامنے کھڑا ہے کیوں فائر نہیں کیا جاتا.آپ نے راکفل ایک دم نیچے کر لی.وہ ہرن بھاگ گیا.فرمایا.اس کا خاص لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے فائر کرنا جائز نہ تھا.گھر واپس آنے پر بعض لوگ جو ساتھ گئے تھے کہنے لگے کیسا عمدہ شکار سامنے آیا تھا ہم تو کبھی ایسے شکار کو نہیں چھوڑا کرتے.اگر ایسی احتیاطیں کرنے لگیں تو بس شکار ہو چکا مگر ان بے چاروں کو معلوم نہ تھا کہ ایسی احتیاطیں نے کی جائیں تو بس تقویٰ ہو چکا.الفضل ۱۷ مئی ۹۹) تیموں سے حسن سلوک محترم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب اپنی تربیت کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دن میرے ساتھ دو تین لڑکیاں صحن میں گھر لو کھیل (آنکھ مچولی) کھیل رہی تھیں.مجھے کسی بات پر غصہ آیا اور میں نے ان میں سے ایک کے منہ پر طمانچہ مارا عین اسی وقت اباجان خلیفہ المسیح الثانی مغرب کی نماز پڑھا کر سمن میں داخل ہو.
۶۸ رہے تھے.آپ نے مجھے طمانچہ مارتے ہوئے دیکھ لیا سید ھے میرے پاس آئے.مجھے پاس کھڑا کر کے اس لڑکی کو اپنے پاس بلایا اور کہا.مبارک نے تمہارے منہ پر طمانچہ مارا ہے.تم اس کے منہ پر اسی طرح طمانچہ مارو.وہ لڑکی اس کی جرات نہ کر سکی.بار بار کہنے کے باوجود اس نے میرے منہ پر طمانچہ نہیں مارا.اس کے بعد مجھے مخاطب کر کے فرمایا.تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کا باپ نہیں اس لئے تم جو چا ہو کر سکتے ہو.یاد رکھو کہ میں اس کا باپ ہوں.اگر تم نے آئندہ ایسی حرکت کی تو میں سزا دوں گا یہ ایک یتیم لڑکی تھی جس کو ابا جان نے اپنی کفالت میں لیا ہوا تھا.نے ا الفضل صفحه ۴۰۴ ۵ جنوری (۱۹۹۵) تسابق کی روح حضرت امام الثانی فرماتے ہیں کہ جب تک تسابق کی روح کسی قوم میں قائیم رہے گی.اس وقت تک خواہ وہ کتنی بھی ذلت میں پہنچی ہوئی ہو اور کتنی بھی گرمی ہوئی ہو پھر بھی اپنی چمک دکھلاتی چلی جاتی ہے.ہمارے قریب کے بزرگوں میں ایسے زمانہ میں جب مسلمانوں پر ایک تنزل کی حالت آگئی تھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ تسابق کی وجہ سے ان لوگوں کے واقعات سن کر انسان کے دل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے.حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے حضرت سید اسمعیل صاحب شہید جو تیرھویں صدی میں گزرے ہیں مرید تھے.اور سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے.سید اسمعیل صاحب کسی کام کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے.جب دہلی سے واپس جاتے ہوئے کیمبل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ان سے ذکر کیا کہ اس دریا کو تیر کو یہاں سے کوئی نہیں گزر
49 سکتا.اس زمانہ میں فلاں سکھ ہے جو گزر سکتا ہے.مسلمانوں میں کوئی ان کا مقابلہ کرنے والا نہیں.وہ وہیں ٹھہر گئے اور کہنے لگے کہ اچھا.ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ کوئی مسلمان نہیں کر سکتا.اب جب تک میں اس دریا کو پار نہ کرلوں گا میں میاں سے نہیں ملوں گا چنانچہ انہوں نے وہیں تیرنے کی مشق شروع کر دی.اور چار پانچ مہینہ میں اتنے مشاق ہو گئے کہ تیر کو پار گزرے اور پار گزر کر بتادیا کہ سکھ ہی اچھے کام والے نہیں بلکہ مسلمان بھی تعیب چاہیں ان سے بہتر کام کر سکتے ہیں.( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ۲۵۶) رنگ اخلاص فدائیت حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی فرماتے ہیں کہ " ایک بوڑھا انگریز تو مسلم تھا.اسے علم تھا.پھر بھی وہ نہایت محبت و اخلاص سے کہنے لگا کہ میں ایک بات پوچھتا ہوں.آپ ٹھیک جواب دیں گے.میں نے کہا ہاں.تو اس نے کہا.اچھا مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگا.آپ قسم کھا کو بتائیں کہ آپ نے انہیں دیکھا.میں نے کہا ہاں.میں ان کا بیٹا ہوں.اس نے کہا نہیں.آپ میرے سوال کا جواب دیں کہ ان کو دیکھا میں نے کہا ہاں دیکھا.تو وہ کہنے لگا.اچھا میرے ساتھ مصافحہ کریں.اور مصافحہ کرنے کے بعد کہا مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی کہ میں نے اس ہاتھ کو چھوا.جس نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھوں کو چھوا تھا.اب تک وہ نظارہ میرے دل پر نقش ہے.....اسے رویا و کشوف بھی ہوتے تھے.مجھے اس خیال سے بھی گھیرا ہٹ ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسان جو کہ چین
،جاپان ، روس ، امریکہ، افریقیه......وغیرہ میں آباد ہیں...ہم ان تک ، حضرت مسیح موعود کا پیغام پہنچائیں اور خوشی سے اچھلیں اور کہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود دکھاؤ اور جب ہم کہیں کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں تو وہ پوچھیں.اچھا ان کے شاگرد کہاں ہیں تو ہم انہیں کہیں گے کہ وہ بھی فوت ہو گئے.احمدیوں کا یہ جواب سن کر وہ لوگ کیا کہیں گے.اگر ایسا ہو تو ہمارے داعیان الی اللہ کو کیسی حضارت سے دیکھیں گے کہ ان نالائقوں نے ہم تک پیغام پہنچانے میں کس قدر دیر کی ہے تو ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیئے تا ہر ایک کہہ سکے کہ میں نے حضرت مسیح موعود کے رفقاء سے مصافحہ کیا ہے.یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اس سے ہمیں دنیا کو محروم نہیں رکھنا چاہیے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " یہ تو حالت تنزل ہے جب لوگ آپ سے ملنے والوں کو ڈھونڈیں گے اور کوئی نہ ملے گا تو کہیں گے اچھا کپڑے ہی سہی.۱۹۳۵ الفضل ۱۷ر اپریل ۳۵ ص ۷۶ کافر تہجد پڑھ رہا تھا مکرم جناب بشارت احمد صاحب جوئیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل بیان کرتے ہیں کہ ایک بریگیڈیئر جن کا نام مصلحتاً نہیں بتایا جارہا نے نکوبتایا کہ سواء میں ان کو رات کے وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو جو اس وقت لاہور میں پرنسپل تعلیم الاسلام کالج تھے رتن باغ کی عمارت سے گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ دیئے
<1 گئے.یہ افسر وقت مقررہ پر رتن باغ گئے تو انہوں نے مکان کی دوسری منزل کے ایک کمرہ سے پردوں سے نکلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر کچھ تعجب کا اظہار کیا گھنٹی بجائی.ایک خادم پانچ منٹ کے اندر اندر نیچے اترا جب حضرت صاحب کے متعلق معلوم کیا کہ کیا کر رہے ہیں تو جواب ملا کہ نماز پڑھ رہے ہیں.یہ صاحب بہت حیران ہوئے.پھر سنبھلے بہت جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب حضور کو وارنٹ گرفتاری دکھائے تو حضور نے فرمایا اگر اجازت ہوتیں اٹیچی کی لے لوں پھر گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور ساتھ چل پڑے.اسی افسر کو دو ایک روز بعد ایک بڑے عالم دین کی گرفتاری کے وارنٹ ملے.وقت گوفتاری تقریباً پہلے والا.ان کے گھر پہنچے.گھنٹی اور دروازہ کھٹکھٹاتے رہے مگر کافی دیر تک کوئی جواب نہ ملا.کافی وقت کے بعد ایک نوکر آنکھیں ملتا ہوا آیا.جب مولانا کے متعلق معلوم کیا تو جواب ملا سو رہے ہیں کافی تگ و دو کے بعد مولانا سے ملاقات ہوئی.جب وارنٹ گرفتاری دکھائے تو اسلامی اور غربی اصطلاحات میں کو سنے لگے.بڑی بحث مباحثہ کے بعد ان مولانا کو گاڑی میں لے چلے تو یہ بریگیڈیر دل ہی دل میں سوچتے کہ ایک کافر تو تہجد پڑھ رہا تھا.اور تو کل کا اعلیٰ نمونہ خاموشی سے پیش کرتا گیا.دوسری طرف بزعم خود یہ عالم دین محمل ، توکل اور بردباری سے قطعاً عاری.تاریخ احمدیت جلد شانزدهم صفحه ۲۵۴ ۲۵۰ مؤلفه دوست محمد شاید ) -
موزا اور مَوْعِظَ مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ملک سیف الرد صاحب ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ حضرت مصلح موعود ایک دفعہ دادی سون جا یہ گاؤں کے قریب نخلہ میں قیام فرماتھے حضور سے ملاقات کی غرض سے مکرم ملک صاحب مرحوم ریوہ سے نخلہ کے لئے روانہ ہوئے.راستہ میں نماز کا وقت ہو گیا.آپ خوشاب کی ایک بیت میں داخل ہوئے.وضو کرتے ہوئے جرابوں پر مسح کیا.ایک مولانا محراب میں بیٹھے دیکھ رہے تھے.وہاں سے دوڑے آئے اور آتے ہی ملک صاحب مرحوم کے پاؤں پر چھڑیاں مارنے لگے.یہ اتار و جرابوں کو ۱۰ تا رو جوابوں کو ملک صاحب نے کہا.مولوی صاحب ! اللہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.ادم إلى سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ اس پر مولوی صاحب کہنے لگے کہ وہاں موزا آیا ہے نہ کہ جواب.ملک صاحب یہ واقعہ شناکر فرمایا کرتے تھے کہ ایک عالم با عمل بنو اور جاہل مولویوں کا طریق اختیار نہ کرو جن کو موڑا اور موعظہ کے فرق کا ہی علم نہ ہو.(ماہنامہ خالد ستمبر اکتوبر ۲۱۶ ۱۹۹۵) وسعت حوصلہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد فرماتے ہیں :- میرے بچپن کا واقعہ ہے.بعض واقعات ایسے گزر جاتے ہیں کہ انسان اپنی
۷۳ زندگی میں جنہیں عمر بھر نہیں بھلا سکتا.ابھی تک وہ واقعہ مجھے بہت پیارا لگتا ہے.میں بہت چھوٹا تھا اور مدرسہ احمدیہ نیا نیا داخل ہوا تھا.حسرت اماں جان نے مجھے حکم دے رکھا تھا کہ میں باقی نمازیں تو بیت مبارک میں پڑھوں لیکن چونکہ پڑھنا اور سونا ہوتا تھا اور بہت مبارک میں عبادت دیر سے ہوتی تھی.اس لئے عشاء کی عبادت کے لئے بیت اتمی جایا کروں.وہ بھی پاس ہی تھی.حضرت امام جاست احمدیہ الثانی چونکہ ہر وقت کام میں مشغول رہتے تھے.بعض دفعہ دیر سے عبادت کے لئے تشریف لاتے تھے.بہر حال میں عشاء کی عبادت بہت اقصی جایا کرتا تھا.والی سیڑھیاں یعنی بہت مبارک کی وہ سیڑھیاں جو اس دروازہ کے پاس میں جو کہ دار المسیح کے اندر جانے والا دروازہ ہے.دار کے نیچے ایک گلی تھی.وہ گلی چھٹی ہوئی تھی اور وہاں اندھیرا ہوا کرتا تھا.اب تو شاید وہاں پر بجلی لگ گئی ہو گی.اس زمانہ میں بجلی نہیں تھی اور دار کے اندر جانے والے دروازے میں سے جہاں سے میں اترتا تھا وہ گلی بڑی اندھیری تھی.ایک روزہ میں جب نیچے اترا تو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں کی ایک قطار نفی اور وہ قطاروں میں عبادت کرنے جایا کرتے تھے اس گھلی میں سے گزر رہی تھی میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا.لیکن چونکہ اندھیرا تھا.اس لئے اتفاقا میرا پاؤں آگے چلنے والے لڑکے کے پاؤں پر پڑا.اس نے سلیپر پہنے ہوئے تھے جب اس نے ایڈی اٹھائی تو اس کے سلیپر پر میرا پنجہ پڑ گیا تو اسے جنت کا لگا.مگر اس نے در گزر سے کام لیا.لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چار پانچ قدم کے بعد دوبارہ میرا پاؤں اس پر جا پڑا تو اسے یہ خیال گزرا کہ شاید کوئی شرارت کر رہا ہے.چنانچہ اس نے پیچھے مڑکر تاڑ سے میرے منہ پر چیڑ لگا دی.مجھے خیال آیا کہ اگر میں اس کے سامنے ہو گیا تو اس کو ہر حال شرمندگی اٹھانی پڑے گی.ہمیں کیوں اسے شرمندگی کا دکھ دوں.یہ سوچ کر میں ایک طرف
۷۴ پیچھے ہٹ گیا.جب پندرہ بیس طالب علم کرنے گئے تو پھر میں ان کے ساتھ ہو لیا تاکہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے.نہ مجھے پتہ ہے کہ وہ کون سا شخص ہے اور نہ ہی اُسے پتہ ہے کہ اس نے کس کو چیٹر لگائی تھی.پتہ ہے مجھے یہ واقعہ بڑا پیارا لگتا ہے کیونکہ بچپن میں آدمی ایسے بھی بعض دفعہ تیزیاں دکھا جاتا ہے.الفضل جون ۱۹۶۶ اور ۱۲ مٹی ) سمیع، مجیب اور معطی کا جلوہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب فرماتے ہیں کہ چند سال کا ذکر ہے کہ ایک دن رات کو بعد مغرب کھانا کھا کر ہم سب حضرت اماں جان کے دستر خوان پر ہی بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا اس وقت گئے کھانے کو جی چاہ رہا ہے خدا کھلا دے (یعنی وہ گنا جیسے پونڈا کہتے ہیں اور پنجابی میں پونا ، حضرت اماں جان نے ایک آدمی بازار دوڑا دیا وہ جواب لایا.بازار میں کوئی پونڈا نہیں ملا.فارم کی طرف کوئی آدمی بھیجا گیا.ادھر سے بھی جو اب صاف آیا کہ گتے ہیں.پونڈے نہیں ہیں.خیر اب دو توں تیر خالی گئے تو میر سے بیٹھ گئے.ابھی باتیں کر ہی رہے تھے اور پانچ منٹ فارم والے پیغام کوائے ہوئے نہیں گزرے تھے کہ بہت مبارک کے دروازے سے سکو می مفتی فضل الرحمن سے حضرت اماں جان کو یکدم آواز دی کہ اتاں جان یہ گنتے گورداسپور سے میں لایا ہوں.آج وہاں کسی مقدمے پر گیا تھا اور ابھی تانگے پر سیدھا آ رہا ہوں.یہ کہہ کر ایک پھاندی پونڈوں کی پردہ میں سے دھڑام کر کے اندر پھینک دی.یہ کہ کر وہ تو چلے گئے مگر ان پونڈوں کا عند الطلب غیب سے آجانے کا لطف ہماری ساری
پارٹی کو خوب آیا.خدا نے ہمیں گئے نہیں کھلائے تھے بلکہ اپنے اسماد سمیع، مجیب ، کلیم اور معطی کا جلوہ دکھایا تھا.گویا گنوں کے پردہ میں خود کو ظاہر کیا تھا.روزنامه الفضل صفحرم ١٧٠ اکتوبر 1990ء ) ۱۹۹۵ء ( محب اور منوب کی مجبت کار کیف منظر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوئی جن کا پہلا نام کریم بخش تھا اور بعد میں حضرت مسیح موعود نے بدل کر عبد الکریم رکھا) کے سچے عشق کا ایک واقعہ جو ان کی اہلیہ نے بیان کیا ہے.وہ بیان کرتی ہیں.جب حضرت مولوی صاحب بیمار ہو گئے اور ان کی تکلیف بہت بڑھ گئی.تو بعض اوقات نیم بے ہوشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحب سے ملنے کیلئے جاؤنگا گویا وہ یہ مجھے تھے کہ دہ یا ہر ہیں اور حضرت صاحب قادیان میں ہیں.اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زار و نظار رو پڑتے تھے کہ دیکھو اتنے عرصے سے میں نے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا.تم مجھے ان کے پاس کیوں نہیں لے جاتے.ابھی سواری منگاؤ اور لے کر چلو.ایک دن ہوش میں تھے کہنے لگے حضرت صاحب سے کہو کہ مرچلا ہوں.مجھے دُور سے کھڑے صرف زیارت کہ وا جائیں.اور بڑے رونے اور اصرار کے ساتھ کہا ابھی جاؤ.میں نیچے حضرت صاحب کے پاس آئی کہ مولوی صاحب اس طرح کہتے ہیں.حضرت صاحب فرمانے لگے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا میرا دل مولوی صفات کو ملنے کو نہیں چاہتا.مگر بات یہ ہے کہ میں ان کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا حضرت
<4 اماں جان نے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں حضرت صاحب نے فرمایا.اچھا ئیں جاتا ہوں.مگر تم دیکھ لینا کہ ان کی تکلیف کو دیکھ کر مجھے دورہ ہو جائے گا.ہاں آخر حضرت صاحب نے پگڑی منگوا کر سر پر رکھی.وہ ادھر جانے لگے ہیں سیڑھیاں چڑھ کر آگے چلی گئی.جاکر مولوی صاحب کو اطلاع دی.تو انہوں نے الٹا مجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب کو کیوں تکلیف دی.کیا ئیں نہیں جانا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے ہیں نے کہا آپ نے خود تو کہا تھا انہوں نے کہا کہ وہ تو میں نے اپنا دکھڑا ر دیا تھا.تم فوراً جاؤ.حضرت صاحب سے عرض کرد که تکلیف نہ فرمائیں نہیں بھائی گئی تو حضرت صاحب سیڑھیوں کے نیچے کھڑے اوپر آنے کی تیاری کر رہے تھے.میں نے عرض کیا حضور آپ تکلیف نہ فرمائیں.یہ تو مولوی عبد الکریم صاحب کے عشق دندائیت کا عالم تھا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود نے ان کی بیماری کے دوران میں علاج اور توجہ میں جو نمونہ قائم کیا.وہ انبیاء علیہم السلام کی ذات میں تو نظر آتا ہے لیکن کسی اد انسان میں دکھائی نہیں دیتا.صبح و شام حضرت مسیح موعود مولوی صاحب کے لئے دعاؤں میں گویا وقف تھے.مولوی صاحب جس چیز کے کھانے کی خواہش کرتے یا جس دوائی کی ضرورت ہوتی فورا آدمی بھیج کر لاہور یا امرتسر سے منگوا دیتے حضورنے علاج معالجے کے لئے بے دریغ روپیہ خرچ کیا.اور کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ گئی جس کی نسبت خیال ہوا ہو کہ مولوی صاحب کے لئے مفید ہوگی ان کے لئے ہم نہ پہنچائی گئی ہو.حضرت اقدس مولوی صاحب کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے.اکثر مسجد میں فرماتے کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر ان کی تکلیف میں دیکھ نہیں سکتا.چنانچہ آخر مولوی صاحب اس مرض میں فوت ہو گئے
፡፡ مگر حضور ان کے پاس تشریف نہ لے جاسکے د تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۴۲۲ - ۴۲۳) منہ کے بھو کے پھوٹ پھوٹ کر ویر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے.میں اس واقعہ کو کبھی بھول نہیں سکتا کہ جب 1914ء میں مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی ایم سی ہے کے سیکوٹری تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیق کرنے کے لئے قادیان آئے تھے.انہوں نے قادیان میں یہ خواہش کی کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحابی سے ملایا جائے.اس وقت منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم قادیان آئے ہوئے تھے مسٹر والٹر کو منشی صاحب مرحوم کے ساتھ مسجد مبارک میں ملایا گیا.مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا.منشی صاحب نے جواب دیا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھ پر جس بات نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا، زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا.انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص جھوٹا ہے.باقی ہیں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں.مجھے تو زیادہ دلیلوں کا علم نہیں.یہ کہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے.اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.ان کے چہرے کا رنگ ایک دھلی ہوئی چادر کی طرح سفید پڑ گیا تھا.اور بعد میں انہوں نے اپنی کتاب احمد یہ موومنٹ میں اس واقعہ کا
خاص طور پر ذکر کیا کہ میں شخص نے اپنی صحبت میں ایسے لوگ پیدا کئے اسے ہم دھوکہ باز نہیں کہہ سکتے.(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۷ ) خادمین کی ضرورت کا احساس حضرت ام ظاہر کی سیرت بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا ا مرا حم خلیے ایسے لکھتے ہیں کہ آپ خادموں کو پیٹ بھر کر کھلائیں.فکر رہتا تھا کہ باورچی یا باور چن کسی کو بھوک سے کم نہ دے رہے ہوں.ہمارا ایک بھینسوں کا نوکر ہوا کرتا ہے جو روٹی بہت کھایا کرتا تھا.باورچن سے ایک دفعہ پو چھا کہ تم اسے پوری روٹی بھی دیتی ہو یا نہیں تو اس نے جواب دیا کہ ہاں میں اس کو سات یا آٹھ بھاری روٹیاں دیتی ہوں لیکن اس پر سستی نہ ہوئی اور خود باورچی خانے کے چک سے باہر بیٹھا کر اس کو روٹی کھلائی اور کہا کہ جب پیٹ بھر جائے تو بنا دیا.اور اندر بیٹھ کر اس کی روٹیاں گنہیں کہ کتنا کھاتا ہے.اس دن اس نے گیارہ روٹیاں کھائیں چنانچہ اس دن سے باور چن کو یہی حکم ہو گیا کہ آج سے اسے گیارہ روٹیاں دیا کرو.سوائے اس کے کہ یہ خود واپس کردے.د تابعین اصحاب احمد.سیرت امم طاہر صفحہ ۲۲۷ - ۲۲۸) علالت کے باوجود روزہ داروں کی خدمت حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ مسیح کا حضرت امم طاہر صاحبہ کے متعلق بیان ہے کہ مجھے یاد ہے.وفات سے ایک سال پہلے ڈلہوزی میں رمضان کے مہینہ میں باوجود بیماری کے حضور کے تمام عملہ کے لئے سحری کے وقت خود ہاتھ سے پراٹھے پکایا کرتی تھیں
29 بات دراصل یہ تھی کہ حضور کی طرف سے ان دنوں کے مالی حالات کے پیش نظر جو خرچ ملتا تھا اس سے اتنی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی کہ کھلا گھی خرچ کیا جاسکے اور جتنا بھی اس غرض کے لئے خرچ کیا جا سکتا تھا اس میں باورچی نے مطلوبہ پراٹھے پکانے سے انکار کر دیا تحقہ باورچی مصر تھا کہ یا مجھے زیادہ دو یا مجھ سے کام نہیں ہو سکتا.ادھر خرچ کی تنگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی.چنانچہ دو ایک روزے اسی کشمکش میں گزر گئے.اور گلہ کے اراکین سالن کے ساتھ عام روٹی کھا کر ہی گزارا کرتے رہے اور ماشکی نے امی جان سے شکایت کی کہ خشک روٹی سے روزے رکھ کر مجھ سے اتنی محنت کا کام نہیں ہوتا.حالانکہ محنت کرنے والوں کو روزے کے دنوں میں اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اس رات سے آپ نے پراٹھے پکانے شروع کئے.اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت فرمائی کہ اس گھی میں جس نے باورچی کے نزدیک اتنے افراد کے پراٹھے پکنے ناممکن تھے سارے عملے کی ضرورت پوری ہوتی رہی.بیماری کی وجہ سے آپ کو خاصی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی مگر آپ کہتی تھیں.ہمیں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ محنت کرنے والے لوگ سحری کے وقت خشک روٹی کھائیں.ان دنوں بھی آپ دبی زبان سے اس بیماری کی شکایت کیا کرتی تھیں.اس ڈر سے کھل کر بات نہیں کر سکتی تھیں کہ کہیں ڈاکٹر بستر پر نہ لٹا دیں اور میں اس نواب سے محروم رہ جاؤں.ر تابعین اصحاب احمد جلد سوم بسيرة ابتم طاہر صفحه ۲۸۸) تحریک جدید کا بہانہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع فرماتے ہیں جن دنوں مہمان نہ ہوں گھر کو کھانا اتنا سادہ اور بے قیمت ہو جاتا تھا کہ بعض دفعہ کھانا کھاتے ہوئے کوئی ملنے والا اچانک
آجائے تو بچپن کی نادانی کی وجہ سخت شرم محسوس ہوا کرتی.بعض دفعہ تو پلیٹ چھپا کر بھاگ جایا کرتا تھا.میری بہنیں بسا اوقات روٹھ کر کھانا چھوڑ دیتی تھیں کہ ہم نے یہ نہیں کھانا.اور وہ نہیں کھانا تو سخت خفا اور رنجیدہ خاطر ہوتی تھیں.میں تو خیر اپنی بھوک کے ہاتھوں مجبور تھا.اس لئے میرے لئے کھانا کبھی بھی چھوڑنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا تھا.خواہ وہ کرو کا شوربہ ہو یا ٹینڈوں کا مگر لڑکیاں چونکہ نازک طبع ہوتی ہیں اس لئے بعض اوقات ناپسندیدہ کھانے کی نسبت بھوکا رہنے کو ترجیح دے لیتی ہیں.امتی کے لئے یہ مواقع خاصی پریشانی کا موجب ہوتے تھے اور بڑے ہی دکھ اور فکر سے کہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر شکر کر کے جو کچھ ہے کھا یا کرد.دنیا میں اسے غریب بھی بہت ہیں جنہیں ایک وقت کی سوکھی روٹی بھی میستر نہیں آتی.بس کچھ تو روز مرہ کے کھانے کا معیار گراکر چندوں، خدمت خلق اور مہمان نواری کے لئے بچت کر لیتیں اور کچھ ہمارے کپڑوں کے خرچ میں سے اس غرض کے لئے پے بچالیتیں تحریک جدید کا بہانہ ہاتھ آیا ہوا تھا چنانچہ کپڑے سادہ ہی نہیں بلکہ تعداد کے لحاظ سے واجبی ہی بناتی تھیں.جو ان بچوں کے لئے تو کافی ہو سکتے تھے.جو لگائے ہوئے اربع کے مطابق فی جوڑا متوقع دن گزار سکیں مگر میرے جیسے خاک آلود لڑکے کے لئے جس نے دو دن کے کپڑے نصف دن میں گندے کر دینے ہوں.یہ حساب کبھی درست نہیں بیٹھا.ر تابعین اصحاب احمد جلد سوم بسيرة أقيم طاہر صفحه ۲۲۹) پیار کی خاطر نہیں سختی ہی کی خاطر آجائیں حضرت خلیفہ المسیح الرابع تحریر فرماتے ہیں کہ اپنی مرحومہ ماں کے وہ الفاظ
Ai مجھے بار بار آ آکر دکھ دیتے تھے جو ایک دفعہ تکلیف کی شدت میں موت کو سرہانے کھڑے دیکھ کر مجھ سے کہے تھے.وہ طاری ! مجھے یہ بہت احساس ہے کہ میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکی اور جیسا کہ حق تقاتم سے پیار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سختی کی.یہ صرف تمہاری تربیت کی خاطر تھا لیکن اس کی بھی مجھے تکلیف ہے.تم دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس بیماری سے شفا دیدے میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب تمہارا بہت خیال رکھوں گی اور گذشتہ ہر کسی کو پورا کروں گی“.اور جب یہ الفاظ مجھے یاد آتے تھے تو دل بے قابو ہو جاتا تھا کہ پیار کی ،، خاطر نہیں سختی ہی کی خاطر آئیں لیکن ایک بار واپس آجائیں.ر تابعین اصحاب احمد جلد سوم - سيرة امتم طاہر صفحه ۲۴۵) نئے نو دن پرانے سودن حضرت منشی ظفر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جالندھر میں زیادہ عرصہ قیام کیا.جب رکھا اور دوست احباب تو مل کر چلے جاتے تھے لیکن مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور خاکسار برابر ٹھہرے رہے.ایک دن میں نے اور مولوی صاحب مرحوم نے ارادہ کیا کہ وہ میرے لئے اور میں ان کے لئے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کریں.صبح کو حضور سیر کے لئے تشریف لائے.اور آتے ہی فرمایا کہ لوجی میاں عبد اللہ صاحب اور منشی صاحب اب تو ہم آپ ہی رہیں گے اور دوست تو چلے گئے.نئے تو دن ، پرانے سو دن.بس ہم خاموش ہو گئے اور ٹھہرے سے ہے.(روایت از الحکم ۱۴ جولائی ۱۹۳۷)
۸۲ چشم دید انکسار سر فیروز خان نون جو ہماری ملکی سیاست میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام یہ کھتے ہیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم بھی رہے ہیں نے اپنی سرگذشت میں ایک نہایت دلچسپ اور عجیب واقعہ لکھا ہے جس میں انکساری اور فروتنی کے علاوہ بھی بہت سے قابل توجہ اور قابل غور امور پائے جاتے ہیں وہ اپنی خود نوشت سوانح چشم دید" میں لکھتے ہیں:.یہ واقعہ مجھے اپنی زندگی کے ایک اور چھوٹے سے واقعہ کی یاد دلاتا ہے.جس کا تعلق سر محمد ظفر اللہ سے ہے جو میرے عمر بھر کے ساتھی ہیں.انہوں نے بلا کی قوت حافظہ پائی ہے.ایک دفعہ میں سر ظفر اللہ خاں کی دعوت پر مرزا صاحب سے ملاقات کے لئے ربوہ جو احمدیہ فرقہ کا مرکزی صدر مقام ہے ا گیا.کمرے میں داخل ہوتے ہی نہیں نے جوتے اتار دئیے.ملاقات کے بعد جب میں جانے کے لئے کھڑا ہوا تو مرزا صاحب سے باتیں کرتے کرتے پاؤں سے جوتے ٹوٹنے لگا.یہ دیکھ کر سر ظفر اللہ خاں نیچے جھکے.میرے جوتے اٹھائے اور قرینے سے جوڑ کر میرے سامنے رکھ دیئے.بیشتر پاکستانیوں نے اس طرف تپاک کا خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا.وہ تو ایسی حرکت کو شان و وقار کے منافی اور کسر شان سمجھتے ہونگے لیکن ظفر اللہ خاں کے وقار کو اس سے کوئی صدمہ نہیں پہنچا.ان کی منکسر المزاجی نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا.روزنامه الفضل ۱۳ فروری )
۸۳ نکاح کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے حضرت اُتم طاہر کے نکاح کے خطبہ کے موقعہ پر فرمایا کہ اولیاء اللہ نے لکھا ہے کہ جو خدا کے پیارے ہوتے ہیں وہ اطفال اللہ یعنی خدا کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں.خدا تعالے تو بچوں سے پاک ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محبت کسی کو اپنے بچوں سے ہوتی ہے.خدا کو ان سے ہوتی ہے.میں نے یہ حدیث پڑھی نہیں مگر سنتا آیا ہوں کہ نکاح کے وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے.اس کا راز یہی ہے کہ جس کا نکاح ہوا وہ اگر خدا کے اطفال میں سے ہے تو ضرور جیس طرح باپ کو بیٹے کی شادی پر بخشش دینے کا خیال ہوتا ہے اور جس طرح خدا نے یہ فطرت رکھی ہے کہ باپ یا خاندان کا بڑا آدمی ہوتا ہے، ایسے موقع پر خاص بخشش کے لئے ہاتھ کھولتا ہے وگوں کو دیتا ہے.اسی طرح اہل اللہ کے نکاح کے وقت خدا تعالیٰ بھی خاص بخشش کرتا ہے اور دعائیں سنتا ہے.ر تابعین اصحاب احمد سيرة اقسم طاہر صفحه ۸۵) سب سے پسندیدہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ صاحبزادہ میاں طاہر احمد صاحب کا ایک عجیب واقعہ میں تازیست نہ بھولوں گا.۱۹۳۷ء کی بات ہے.جبکہ حضرت مصلح موعود د محرم سالہ میں قیام پذیر تھے اور جناب عبد الرحیم نیر بطور پرائیویٹ سیکرٹری حضور کے ہمراہ تھے.ایک دن نیر صاحب نے اپنے خاص لب ولہجہ کے ساتھ کہا کہ میاں
۸۴ طاہر احمد - آپ نے یہ بات بہت اچھی لکھی ہے.بتائیے.میں آپ کو کیا انعام دوں.میرا دل بہت خوش ہوا ہے.بتائیں آپ کو کیا چیز پسند ہے.تو اس بچہ نے جس کی عمر اس وقت ہے - اسال کی تھی.برجستہ کہا.اللہ.نیر صاحب حیران ہو کر خاموش ہو گئے.میں نے کہا.نیر صاحب اگر طاقت ہے تو اب میاں صاحب کی پسندیدہ چیز دیجیئے مگر آپ کیا دیں گے.اس چیز کے لینے کے لئے تو آپ خود ان کے والد کے قدموں میں بیٹے ہیں.دتا بعین اصحاب احمد جلد سوم ، سيرة أنتم طاہر صفحه ۱۲۳) اصلاح کے لئے بدنی سزا حضرت خلیفہ المسیح الرابع تحریر فرماتے ہیں کہ امتی بچوں کی لڑائی کبھی اپنے بچوں کا ناجائز ساتھ نہیں دیتی تھیں.ایک دفعہ میری اور صفی اللہ کی لڑائی ہوگئی.ہم دونوں کا جتنا بیس چلا ایک دوسرے کو مارا گھر آکر جب میں نے لڑائی کا ذکر کیا تو امی نے بھی میری خوب پٹائی کی اور مرمت کی کہ کیوں لڑتے پھرتے ہوا بھی مجھے مار کوٹ کو فارغ ہوئی ہی تھیں کہ ممانی جان صفی اللہ کی والدہ کی غصہ بھری شکایت پہنچی کہ آپ کے بیٹے نے میرے بیٹے کو مارا ہے.امی نے نوکر سے کہا کہ جا کر کہہ دو کہ آپ کا پیغام آنے سے پہلے ہی میں نے طاہر کو مار کر ادھ موا کر دیا ہے بے شک آکر دیکھ لیں.ویسے قصور دونوں کا ہے اور دونوں نے ایک دوسرے کو مارا ہے.د تا بعین اصحاب احمد جلد سوم بسيرة أم طا ہر صفحه ۲۳۸) میت پر پھول ڈالنا پسندیدہ نہیں حضرت ام طاہر کا کفن با کل سفید کپڑے کا تھا.میت پر نہ تو کس قسم کار نگدار
۸۵ کپڑا تھا اور نہ پھول وغیرہ بلکہ لاہور کی بعض خواتین اپنے ساتھ کچھ پھول لائی تھیں.جس سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے منع فرما دیا اور حقیقت خدا کے حضور حاضر ہونے کے وقت سادگی اور صفائی ہی سجتی ہے.و تابعین اصحاب احمد جلد سوم - سيرة ام طاہر صفحه (۱۱) جنت سے انگور کا خوشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا میں دکھایا گیا کہ ایک فرشتہ انگوروں کا ایک خوشہ آپ کے پاس لایا ہے.آپ نے خواب میں ہی دریافت فرمایا کہ یہ خوشہ کس کے لئے لائے ہو ؟ فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ خوشہ ابو جہل کے لئے لایا ہوں.آپ گھبرا گئے اور اسی گھبرا بہٹ میں آپ کی آنکھ کھل گئی.کیا خدا کا رسول اور اس کا دشمن ایک ہی صف میں کھڑتے ہیں کہ اس کے لئے بھی جنت سے خوشہ آرہا ہے.حضرت عکرمہ کے مسلمان ہونے پر حضور نے فرمایا کہ اب میری خواب کی تعبیر مجھ پر نکل گئی ہے.پھر کر نہ اسلام میں اتنی ترقی کر گئے کہ جب بعد میں عیسائیوں کے ساتھ جنگیں ہوئیں تو ایک موقعہ پر صحابہ نے فیصلہ کیا کہ یکدم دشمن کے قلب پر حملہ کیا جائے تاکہ وہ آئندہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکیں.جو لوگ اس غرض کے لئے چنے گئے تھے ان میں حضرت عکرمہ بھی تھے.تاریخ میں آتا ہے کہ جس طرح عقاب چڑیا پر جھپٹا مارتا ہے اسی طرح یہ لوگ دشمن پر حملہ کر کے قلب نشکر یک تشکریک پہنچ گئے.یہ لوگ ساٹھ تھے اور دشمن کا لشکر ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا اور کمانڈر انچیف سے روم کے بادشاہ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم نے مسلمانوں پر فتح پالی تو میں آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا اور اپنی بیٹی کی شادی تم سے کر دوں گا.مگر یہ ساتھ
14 آدمی صفوں کو چیرتے ہوئے قلب لشکر میں پہنچے گئے اور جرنیل کو قتل کر دیا اور عیسائی فوج مرعوب ہو کر بھاگ گئی مگر یہ مجاہد ساٹھ ہزار دشمنوں کی ہزاروں تلواروں میں سے گزرے تھے اس لئے زخمی ہو گئے تھے.جب جنگ کے بعد مسلمانوں نے ان لوگوں کی خبر لی تو انہوں نے ان میں سے چند زخمیوں کو میدان میں پڑے پایا.وہ گرم ملک تھا.وقت بھی گرمی کا.ہزاروں آدمیوں میں سے راستہ بنانے اور تلواریں مارتے چلے جانے کی وجہ سے پسینہ کثرت سے نکلا جس کی وجہ سے ان کو بڑی شدت سے پیاس لگی ہوئی تھی.زبانیں ان کی باہر نکلی ہوئی تھیں اور وہ پانی کے لئے تڑپ رہے تھے.ایک مسلمان صحابی نے عکرمہ کو پہچان لیا اور پانی کی چھا گل لے کر ان کے پاس گیا اور کہا آپ کو پیاس لگی ہوتی ہے پانی پی لیں.عکرمہ نے دوسری طرف نگاہ ڈالی تو ایک اور مسلمان بھی پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا.انہوں نے پانی کا کوئی قطرہ پئے بغیر اس سپاہی سے کہا وہ دیکھو ایک پرانا مسلمان پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا ہے وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے.تم اس کے پاس جاؤ.اور اسے پانی پلاؤ.چنانچہ وہ اگلے مسلمان کے پاس گیا لیکن اس نے بھی انکار کر دیا بغرض وہ سلمان ان میں سے ہر ایک کے پاس گیا.جب وہ آخری زخمی مسلمان کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا.پھر وہ عکر ینہ کی طرف لوٹا تو ان کی بھی جان نکل چکی تھی.جو ر و یا خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا کہ فرشتہ انگور کا خوشہ لایا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر کہ کس کے لئے ہے اور فرشتے نے جواب دیا کہ ابو جیل کے لئے.وہ کمال درجہ پر اس رنگ میں پورا ہوا کہ حضرت عکرمہ مسلمان ہو گئے اور اعلی درجہ کا اختیار کر کے شہادت کا رتبہ پایا.اس ردیا کے یہی معنی تھے کہ انگور کے اندر چونکہ پانی ہوتا ہے اس لئے وہ پانی کی پیاس میں
مریں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہیں جنت کے انگور کے خوشے جو سائیں گے ( تفسیر کبیر هلید ششم ص ۳۵۹ ) تقوی شعاری حضرت ڈاکٹر میہ محمد اسمعیل صاحب فرماتے ہیں کہ ایک احمدی دوست تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے.راستے میں ان کے ایک ملنے والے ہیں میں مل گئے جو سیکنڈ کلاس میں تھے.انہوں نے انہیں بلایا اور ایک دو اسٹیشن تک وہ ان کے ساتھ ہی سیکنڈ کلاس میں سوار چلے گئے.پھر اپنے ڈبے میں آگئے.سفر ختم ہوا تو وہ صاحب ٹکٹ دیکر باہر چلے گئے.گھر آکر حساب کر کے انہوں نے وہ رقم جو ان سٹیشنوں کے درمیان تھی.سیکنڈ اور تھرڈ کے کرایہ کا فرق تھلہ ایجنٹ این.ڈبلیو.آہ کے نام بھیج دی اور لکھ دیا کہ ایک ضرورت کی وجہ سے اپنے سفر میں دو سٹیشن تک سیکنڈ کلاس میں سفر کر لیا تھا.یہ اس کا کرایہ ارسال ہے.الفضل ۱۷ مئی ۱۹۹) باحية يا عزيز يارفين حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے زمانے کی بات ہے کہ ایک روز میں حافظ روشن علی صاحب، مولوی غوت محمد صابت ار حکیم علی اور اب ضلع گجرات کا تبلیغی دورہ کرتے ہوئے حافظ صاحب کے گاؤں موضع رمل تحصیل پھالیہ گئے.برسات کا موسم تھا اور آپ کا گاؤں بالکل دریاے
چناب کے پاس میل ڈیڑھ میل پر واقع تھا.رات جب ہم بیٹھک میں سوئے تو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ آسمان پر سورج کے ارد گرد ہالہ پڑ گیا ہے اور سورج بالکل گرنے کے قریب ہے.جب میں خواب کی دہشت سے بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موسلا دھار بارش ہو رہی ہے اور میٹھک کو چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے.اس وقت میں نے سب دوستوں کو جگایا اور باہر نکالئے.خدا کی حکمت ہے کہ جب ہم سب دوست باہر آگئے اور کچھ سامان بھی نکال لیا تو وہ بیٹھک دھڑام سے گر گئی.اس کے بعد ہم کو چہ سے ہو کر ایک ماچھی دوستی کے مکان میں آگئے.اتفاق کی بات ہے کہ وہاں پہنچتے ہی مجھے پھر غنودگی ہوئی.اور غیبی آواز آئی کہ یہاں سے بھی جلدی نکلور چنا پرجب ہم اس گھر سے نکلے تو وہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا.اسکے بعد ہ نے ایک مسجد میں پناہ لی تو وہاں جاتے ہی مجھے پھر نیند آگئی تو خدا تعالی کی طرف سے پھر حکم ملا کہ یہاں سے بھی جلدی نکلو.چنانچہ وہاں سے اپنی ہم نکلے تو اس مسجد کی ایک دیوار گر گئی اور سیلاب کا پانی اس کے اندر اندر آیا.اس موقع پر حضرت مسیح موعود کی المانی برکات اور معجزانہ حفاظت اور بار بار کی الہامی تحریک اور ملائکہ کی تائید کے ذریعے نہیں خدا تعالیٰ نے محفوظ رکھنے کا عجیب نشان دکھایا.(حیات قدسی حصہ اول ص ۴۷) اپنی اپنی سوچ حضرت مولوی محمد حسین صاحب رفیق حضرت اقدس بانی سلسلہ بیان ماتے ہیں کہ تقریبا ۱۹۰۵ء کی بات ہے کہ میں نماز ظہر ادا کرنے کے لئے بہت مبارک قادیان کی اندرونی سیڑھیاں پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص یہ کہتا ہوا اوپر سے نیچے آرہا تھا کہ دعوی اتنا بڑا اور گھڑی بھی باند معنی نہیں آتی کیونکہ حضور نے سادہ انداز میں ڈھیلی ڈھالی
پگڑی باندھی ہوئی متقی اور سر کے چند بال پگڑی سے باہر نظر آرہے تھے.اسی طرح ایک اور موقعہ پر ۱۹۰۷ عید کے دن حضور نے بڑی اچھی طرح سنوار کر گڑی باندھی ہوئی تھی.ایک شخص دیکھ کر کہنے لگا.دعویٰ تو اتنا بڑا ہے اور پگڑی اتنی سنوار.کو باندھی ہوئی ہے.بزرگ تو سنوار کر پگڑیاں نہیں باندھا کرتے بلکہ بہت سادہ ہوتے ہیں.اس طرح پہلے آدمی کے لئے پگڑی سنوار کر نہ باندھنا اور دوسرے کے لئے سنوار کر باندھنا ٹھوکر کا باعث ہوا.) الفضل وار دسمبر وان ) شہزادی کی رخصتی حضرت نواب محمد علی خان رئیس مالیر کوٹلہ فرماتے ہیں.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کی تقریب حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ہم ۱ مارچ ۱۹۰۹ء کو بروز اتوار منعقد ہوئی حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا بیان ہے کہ رخصتانہ نہایت سیدھی سادی طرز سے ہوا مبارکہ بیگم کے آنے سے پہلے مجھے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے فہرست جہیز بھجوا دی تھی.اور دو بجے سیدہ اماں جان مبارکہ بیگم صاحبہ کو اپنے ساتھ لے کر میرے مکان پر ان سیڑھیوں کے راستے سے جو میرے مکان اور حضرت اقدس کے مکان کو ملحق کرتی تھیں ، تشریف لائیں ہمیں چونکہ بیت الذکر میں تھا اس لئے ان کو انتظار کرنا پڑا.اور جب بعد عبادت میں آیا تو مجھ کو بلاکر مبارکہ بیگم صاحبہ بایں الفاظ نہایت بھرائی ہوئی آواز سے کہا میں تیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں " اس کے بعد ان کا
9.دل معتبر آیا اور فوراً سلام علیک کر کے واپس تشریف لے گئیں.ا اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۵۳ ) مُعَلِّ مُعَدِّ سید عبداللطیف صاحب شہید کے مقتل پر تین روز تک سخت پہرہ رہا بعد اس کے سرکاری انتظام کیا گیا کہ حضرت شہید کی نعش کو کوئی نکال کر نہ لے جائے.اور بظاہر کوئی صورت نعش کو نکالنے کی نہ تھی کہ حضرت شہید کے شاگرد احمد نور کابلی جو حضرت شہید مردم کے سفر قادیان میں ان کے ساتھ تھے.اور سویت سے مشرف ہوئے اور جن کو حضرت شہید نے وصیت فرمائی تھی کہ جب میں مارا جاؤں تو میرے مرنے کی اطلاع حضرت میسج موعود کی خدمت میں عرض کر دینا.یہ عزم کر کے کابل پہنچے کہ خواہ مجھے بھی بالآخر سنگسار ہونا پڑے میں حضرت شہید کی نعش مبارک نکال کر دفن کرنے کی کوشش کروں گا.و کابل میں ایک مزدور سے تابوت اور کفن دفن کا سامان وغیرہ اٹھوا کر آدھی رات کے وقت شہادت گاہ پر پہنچے نعش کو پتھروں کے نیچے دبے ہوئے چالیس دن ہو گئے تھے تھوڑی دیر بعد پٹن کے ایک حوالدار بھی جو حضرت شہید کے دوست تھے امداد کے لئے چند اور ساتھیوں کے ساتھ پہنچ گئے.ایک آدمی کو پرو پر بٹھا دیا گیا اور باقیوں نے پتھر ہٹا کر میدان صاف کر دیا جب نعش مبارک نظر آنے لگی تو ایک اعلی درجہ کی خوشبو نے آپ کے جسد اطہر سے نکل کر فضاء کو معطر کر دیا.جب نعش مبارک اُٹھا کر کفن میں رکھی گئی نوسید نوراحمد صاحب کو بذریعہ کشف دکھایا گیا کہ پہاڑی کے پیچھے پچاس آدمی اور ایک سوار گشت پر آرہے ہیں.اس زمانہ میں رات کو پہرہ ہوا کرتا تھا.اور اگر کوئی رات کو پکڑا جائے تو اسے بار قاتل مار دیا جاتا.چنانچہ اس کشف پر انہوں نے اپنے ساتھیوں
۹۱ کو لاش سے میٹ کر اوٹ میں آنے کے لئے کہا.تھوڑی دیر بعد واقعی بہت سے آمی اور سوار آگئے.جو کچھ دیر بعد پلٹ گئے.تب یہ سب دوبارہ حضرت شہید کی لاش پر آگئے اور اسے تابوت میں رکھ دیا.اس وقت لاش اس قدر بھاری تھی کہ اٹھائی نہیں جا سکتی تھی سید احمد نور صاحب کا بلی کا بیان ہے کہ میں نے اس وقت لاش کو مخاطب کر کے کہا کہ جناب یہ بھاری ہونے کا وقت نہیں ہم تو ابھی مصیبت میں گرفتار ہیں کوئی اور اٹھانے والا نہیں.آپ بلکے ہو جائیں.اس پر جب ہم نے ہاتھ لگایا تو لاش اتنی ہلکی ہوگئی تھی کہ میں نے کہا میں اکیلا ہی اٹھالیتا ہوں لیکن حوالدار نے کہا کہ نہیں میں اٹھاؤں گا.آخر وہ میری پگڑی لے کر اور تابوت کو اس کے ذریعہ سے اٹھا کر نزدیک کے ایک مقبرہ میں پہنچا کر رخصت ہوئے ر شہید مرحوم کے چشم دید واقعات صفحہ ۱۶) در بارانی میں حاضری زیادہ ضروری ہے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بیان فرمایا کہ ایک دقعہ مجھے ملکہ میری نے ونڈسر کے محل میں ذاتی جہان کی حیثیت سے مدعو کیا.ہمیں ان کی خدمت میں حاضر ہوا.مجھے بتایا گیا کہ ملکہ جب ملاقات کے لئے بلائیں تو جب تک ملکہ خود ملاقات کو ختم نہ کریں آپ ان کی موجودگی میں اشارہ بھی ملاقات کے اختتام کی کوشش نہیں کر سکتے وغیرہ.میں جب ملاقات کے لئے ملکہ کے پاس حاضر ہوا تو ملاقات آتنی لمبی ہوگئی کہ مجھے ڈر ہوا کہ نماز عصر ضائع نہ ہو جائے.چنانچہ میرے چہرے پر فکر کے آثار نے ودار ہو گئے میںکہ جو بے حد زیرک تھیں فوراً سمجھ گئیں کہ میری طبیعت پر بوجھ ہے.انہوں نے دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ میری نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے.ملکہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں اور
۹۲ حکم فرمایا کہ ظفر اللہ خاں کی نمازوں کے وقت نوٹ کر لو.اور اگر دوران ملاقات ان کی کی نماز کا وقت ہو جائے تو مجھے بتا دیا کرو.اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرما دیا کہ پھر نماز کے بروقت ادا کرنے میں کوئی وقت نہ ہوئی.خالد چوہدری صاحب نمبر صفحه (۸۹) سورج سے کئی درجہ بڑھکر روشن شعائیں احمد نور صاحب کا بلی کا بیان ہے کہ " حضرت مسیح موعود کے ساتھ جب تم میر کو جایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود سیر سے واپس آکر گھر میں داخل ہوتے تو شہید مرحوم اپنے کپڑے گرد و غبار سے صاف نہیں کرتے تھے جب تک ذرا ٹھہر نہ جائیں اور اندازہ نہ لگا لیں کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے کپڑے جھاڑ لئے ہیں.شید مرحوم پر عجیب و غریب احوال ظاہر ہوتے تھے.ایک روز بہشتی مقبرے کی طرف جاتے ہوئے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم مجھے رہ گئے ہو میرے ساتھ ملنے کی کوشش کرد.رسول اللہ کے انوار و برکات مجھے عطا کئے گئے ہیں.پھر مولوی عبدالستار صاحب سے فرمایا میری پیشانی کی طرف ذرا دیکھو.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سورج جو کہ کافی اونچا ننا.میں اس کی طرف دیکھ سکتا تھا.شہید مرحوم کی چیشیانی کی طرف دیکھنا مشکل تھا.آپ کے چہرے سے ایسی شعاعیں نکلتی تھیں کہ جو سورج سے کئی درجہ بڑھ کر تمھیں.(الحکم ۱۴ دسمبر ۱۹۳۵) کشفی نظاره حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید سے حضرت مسیح موعود از حد محبت رکھتے
۹۳ تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود سیر کو تشریف لے جارہے تھے اور شہید مرحوم اور چند ایک آدمی اور بھی ساتھ تھے جب حضور سیر سے واپس گھر چلے آئے تو شہید مرحوم نے ہمیں مہمان خانہ میں اگر مخاطب ہو کر یہ کشفی نظارہ بیان فرمایا کہ آج ایک عجیب واقعہ ہوا ہے کہ جنت سے ایک خوراچھے خوبصورت لباس میں میرے سامنے آئی ہے اور کہا کہ آپ میری طرف دیکھیں ہمیں نے کہا کہ جب تک حضرت مسیح موعود میرے ساتھ ہیں ان کو چھوڑ کر میں تیری طرف نہیں دیکھوں گا.تب وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی.(الحکیم ۱۴۳ دسمبر ۱۹۳۵) بجلی کے ستون کا نظارہ تمام ساتھیوں نے دیکھا عبد الاحمد خان صاحب کابلی مرحوم در ویش قادیان اکثر سنایا کرتے تھے کہ جب حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف کو سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا تو اس دن میرے بڑے بھائی کی ڈیوٹی دوسرے کئی سپاہیوں کے ساتھ حضرت شہید مرحوم کی نعش کی حفاظت پر لگی ہوئی تھی.ایک وسیع میدان میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو شہید کیا گیا.اسی دن شام کے بعد سخت بارش ہونے لگی اور شدید آندھی آنے لگی.تمام سپاہی میدان چھوڑ کے قریبی برآمدے میں چلے گئے.برآمدے میں اس وقت دوسرے سپاہیوں کے ہمراہ میرے بڑے بھائی نے بھی یہ نظارہ دیکھا کہ بجلی کا ستون حضرت شہید مرحوم کے سر کے اوپر کے پتھر کے ڈھیر سے نکلا ہے.اور آسمان کی طرف اونچا ہونا شروع ہوا.اور اس طرح کا ایک بجلی کا ستون آسمان کی طرف سے حضرت شہید مرحوم کے سر پر اترنا شروع ہوا.آخر زمین و آسمان کے درمیان یہ دونوں بجلی کے متون مل گئے
۹۴ گویا زمین سے آسمان تک بجلی کا ایک بہت بڑا ستون تیار ہوا اور اس وقت بہت زیادہ پھیلی و روشنی پھیل گئی.یہ نظارہ تھوڑی دیر رہا.مگر وہاں موجود تمام سپاہیوں کے دل گئے.بہت ڈر گئے اور کہنے لگے کہ سنگسار کیا جانے والا توکوئی ولی اللہ اور ہم بزرگ معلوم ہوتا ہے.( الفضل ۱۹ تبوک (۱۱۹۶۸) تعمیل حکم ادب سے برتر ہے جب حضرت صاحبزادہ سید عبد الطیف صاحب قادیان سے روانہ ہوتے تو حضور اور حضور کے خدام احمد نور واحب کابلی کے بیان کے مطابق ڈیڑھ میل تک اور بعض کے بیان کے مطابق زالہ کی نہر تک چھوڑنے کے لئے تشریف لے گئے.یہ غالباً آخر جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے.صاحبزادہ صاحب رخصت ہونے لگے تو آپ جوش عقیدت سے حضرت اقدس کے قدموں میں گر پڑے اور دونوں ہاتھوں سے حضور کے قدم مبارک پکڑ ئے.اور عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرمائیں تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ اچھائیں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ میرے پاؤں چھوڑیں.انہوں نے پاؤں نہ چھوٹے نے پر اصرار کیا.حضرت اقدس نے فرمایا الامرفوق الادب تب صاحبزادہ صاحب نے یہ لفظ سنتے ہی پاؤں چھوڑ دیئے.حضور سے رخصت ہو کر آپ سید ھے بٹالہ آئے.وہاں سے لاہور پہنچے.تمام راستہ صاجزادہ صا قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے....آخر کار جب آپ علاقہ خوست کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں آپ کو الہام
۹۵ ہوا.اذْهَبْ إِلى فِرْ عَوْنَ 66 ر صاجزادہ صاحب کے چشم دید حالات ، صفحہ ۱۳) آپ نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے بیعت کرنے کے بعد حضرت مولوی برہان الدین صاحب ہر سال قادیان تشریف لے جاتے.حضور فرمایا کرتے تھے یہ مولوی صاحب آپ کے آنے سے مجھے آرام ملتا ہے." حضرت اقدس جب سیر کر کے واپس گھر کی طرف آتے تو آپ آگے بڑھ کر آپ کی تعلین مبارک اپنی کندھے والی چادر سے صاف کر دیتے.مستری نظام الدین سیالکوئی سنایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب کا اخلاص جنون کی مدتک پہنچا ہوا تحفظ چنانچہ ۱۹۰۴ میں جب حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولوی صاحب بھی وہاں پہنچے گئے.وہاں حضرت اقدس خدام کے ہمراہ کہیں جارہے تھے کہ کسی عورت نے کھڑکی سے حضور پر راکھ ڈال دی.حضور گزر گئے مگر راکھ مولوی صاحب کے سر پر پڑی.آپ پر محویت طاری ہوگئی اور نہایت خوشی سے فرمانے لگے یا اسے مائے پا : " یعنی بڑھیا اور راکھ ڈالو حضرت اقدس جب سیا لکوٹ سے واپس آئے.اور آپ حضور کو الوداع کہنے کے بعد پیچھے رہ گئے تو بعض شریروں نے آپ کی بے عزتی کی بلکہ پکڑ کر منہ میں گویر تک ٹھونس دیا.لیکن آپ نے نہایت بشاشت کے ساتھ فرمایا " اوبر با نیا یہ نعمتاں کتھوں یعنی اسے برہان الدین یہ نعمتیں روزہ روز کہاں میستر آتی ہیں.ایک مرتبہ قادیان دار الامان میں حضرت اقدس شہ نشین پر جلوہ افروز تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دوسرے بزرگ بھی مجلس میں بیٹھے تھے کہ مولوی صاحب نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور بے اختیاری کی وجہ سے ہچکی بندھ گئی
۹۶ حضرت اقدس نے پوچھا کیا بات ہے.آپ کیوں روتے ہیں لیکن حضور جتنا پوچھتے آپ اتنا ہی زور سے رونے لگ جاتے.آخر بار بار پوچھنے اور تسلی دلانے پر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور سب سے پہلے میں باؤلی شریف والوں کی خدمت کرتا رہا.پھر مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی خدمت میں رہا.اس کے بعد پیر صاحب کو ٹھہ شریف کے پاس گیا.اور اب حضور کا خادم اور مرید بنا ہوں.خدا تعالیٰ کا مسیح آگیا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی.لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اسلام کے لئے قربان کر سکوں (حالانکہ وہ غریب ہی اسی لئے ہوئے تھے کہ وہ احمدی ہو گئے تھے ، ہم سنا کرتے تھے کہ مسیح آئے گا اور خزانے لٹائے گا.اور حضور نے جب خزانے لٹائے اور پھر کہنے لگے میں جھڈو کا جھڈو ہی رہا بیعنی اب تک ناکارہ کا اکارہ ہوں.یہ کہہ کر پھر چیخ مار کر رونے لگے.اس پر حضور نے نہایت شفقت و محبت سے فرمایا یہ آپ گھبرائیں نہیں اور کوئی فکر نہ کریں.آپ نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے " الفضل ۱۴ مئی ۲۵ ) دو میں سے ایک شہتیر حضرت مولوی برہان الدین صاحب جن کے متعلق حضرت مسیح موعود کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ میری جماعت کے دو شہتیر ٹوٹ گئے ، اس پر آپ نے فرمایا ایک شہتیر مولوی برہان الدین صاحب تھے جن کی زندگی نہایت عسرت میں گزری تھی کئی مہینوں تک دیکھنے کو نہیں ملتا تھا.کبھی کبھار کچھ نقدی آجاتی تو تلوں کا تیل استعمال کرتے کیونکہ وہ سنتا ہوتا تھا.گوشت کہیں سے ہدیہ آجائے ورنہ وال پر ہی گزارہ
9< اور وہ بھی کچھ اس قسم کی پکی ہوئی کہ نہ پکنے کے برا بر ہوتی تھی.وجہ یہ تھی کہ مخالفت زوروں پر تھی اور کوئی شخص ان کے نزدیک نہیں پھینکتا تھا.بیت الذکر کی رکھوالی آپ کی اہلیہ محترمہ کیا کرتی تھیں.جھاڑو لگا ئیں.اپنے ہاتھ سے غسل خانے صاف کرتیں.خوش قسمتی سے اس کے صحن میں شہتوت کا ایک درخت تھا.اس کے پتے جمع کر لیتیں اور ان کا بچہ شیشم کے سوکھے پتے باہر سے لے آتا.یہ گھر میں استعمال ہونے سوال ایندین تھا کیو نکہ تنگدستی کے باعث لکڑی خرید ہی نہیں سکتے تھے.ان پتوں پر پکی ہوئی وال یا روٹی کیسے پک سکتی تھی.حضرت مولوی صاحب کے ہاں دستور تھا کہ پہلے دال کو بھون لیا جاتا پھر اس کو چکی میں پیس لیتے اور پھر ہانڈی میں ڈال کر پانی ڈال کو بہت سے پتے جلا کر جوش دیتے.اور نمک مرچ ڈال کر اس میں پسی ہوئی دال کا سفوف ڈال کر بلا دیتے.پس یہ اس گھر میں پکنے والی دال تھی.اور باہر سے میری آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.شہتوت کی نازک کو نپلیں اور بیری کے تازہ نازک بیر پکا کر کھاتے تھے.یہ اس جلیل القدر بزرگ ہستی کے گھر میں پکنے والی سبزی تھی.اس حال میں بھی شاہنشاہ ہے.بعض دفعہ با ہر دعوت الی اللہ کے لئے جاتے اور فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھد کو یہ فریضہ ادا کرتے.آپ نے اپنی تمام عمر میں اپنی جائداد کتب خانہ تیار کیا اور سب سے بڑی دولت جو آپ کے ذریعہ جماعت کے حصہ آئی وہ جہلم شہر کی بیت الذکر ہے الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۸) نورانی جهو : ایک دفعہ مردان کا ایک شخص قادیان آیا.یہ شخص حضرت مسیح موعود کا سخت ترین دشمن تھا.اس نے قادیان اگر رہائش کے لئے مکان بھی احمدیہ محلہ سے
۹۰ با ہر لیا.ایک احمدی دوست نے اس سے کہا.تم نے حضرت مسیح موعود کو دیکھنا پسند نہیں کیا ہماری بیت الذکر تو دیکھتے جاؤ.وہ اس بات کے لئے رضا مند ہو گیا مگر یہ شرط کی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں چنانچہ یہ صاحب اس کو ایسے وقت میں قادیان کی بیت مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور بیت الذکر خالی تھی.مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ی شخص بیت الذکر میں داخل ہوا اور ادھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھر کی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک بیت الذکر میں تشریف لے آئے.جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی تیاب ہو کر حضور کے قدموں میں آگرا اور اسی وقت بیعت کر لی.ادھر یہ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۵۸۵) اطاعت امام کا ایک نہایت ہی ایمان افروز واقعہ حضرت فضیل عمر رتن باغ میں قیام فرما تھے کہ ملک صاحب خاں نون اور چھوٹے بھائی میجر ملک سر فیروز خان صاحب کے ساتھ ملک صاحب خاں صاحب کا کوئی خاندانی تنازعہ پیدا ہو گیا.ایسی شکر رنجھا تک نوبت پہنچی کہ خاندان میں کوئی شادی کی تقریب جو ہوئی تو ملک صاحب ناراضگی کی وجہ سے شامل نہ ہوئے تھے.چونکہ ملک صاحب نون قبیلہ کے سردار مانے جاتے تھے تقریب میں ان کی عدم موجودگی کو سب نے محسوس کیا.اور نون صاحبان کی کوئی پیش نہ گئی.دونوں صاحبان یعنی سابقہ وزیر اعظم ملک سر فیروز خان نون صاحب اور ملک میجر سردار خان صاحب نون حضرت فضیل عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور پریشانی سے ذکر کیا کہ بڑے ملک صاحب ناراض ہیں اور نہیں تو ان
٩٩ سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی.ایک آپ کی ذات ہے جو خاندان کی پراگندگی اور انتشار کو دور کر سکتی ہے حضور نے فرمایا کہ میں کوشش کروں گا.ملک صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت فضل عمر نے مجھے رتن باغ میں طلب فرمایا.اور حکم دیا کہ و دونوں ملک صاحبان سے جاکر معافی مانگیں.اور پھر مجھے آکر رپورٹ کریں.اس سے ملک صاحب کو وقتی طور پر صدمہ پہنچا کہ حضور نے ان سے کوئی وضاحت طلب نہیں کی اور نہ کوئی بات سنی اور نون صاحبان سے معافی مانگنے کا حکم صادر فرمایا.لیکن فرماتے تھے کہ میں بلا چون و چرا اول ملک سر فیروز خان کی کو سٹی پہنچا.انہوں نے جب مجھے اپنی کو مٹی میں داخل ہوتے دیکھا تو بھاگ کر آئے اور میری موٹر کا دروازہ کھول کر میرے ساتھ زارو قطار رونے لگے اور کہتے جاتے کہ میں قربان ہو جاؤں اس مرزا صاحب پر کہ جس نے مجھ پر احسان کیا.ملک سر فیروز خان نون روتے جاتے.اور ملک صاحب سے معافی مانگتے جاتے ، ادھر ملک صاحب نے کہا مرزا صاحب نے مجھے معافی قبول کرنے کے لئے نہیں بلکہ معافی مانگنے کیلئے بھیجا ہے.خدا کے لئے مجھے معاف کر دو.پھر آپ میجر سردار خاں صاحب کی کو علی تشریف لائے.وہاں بھی یہی ہوا.دونوں بھائی لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے میجر صاحب حضور کے احسانِ عظیم کا ذکر کرتے تھکتے نہیں تھے.دل صاف ہو گئے اور کدورت دور ہوگئی ملک صاحب خاں صاحب اسی روز حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.رپورٹ دی.اس پر حضور نے فرمایا کہ ملک صاحب آپ کو میرا حکم عجیب تو لگا ہو گا مگر اس کی دو وجوہات تھیں.ایک تو میں اپنا حکم اپنے ارادتمندوں کو ہی دے سکتا تھا جس کے لئے میرے حکم کی پابندی واجب تھی.
100 دوسرے یہ کہ آنحضرت علی الامی ہیم کی بشارت کے مطابق دو روٹھے ہوئے بھائیوں میں سے جو پہل کرے گا اور صلح کا قدم پہلے اٹھائے گا وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیگا اس لئے ملک صاحب آپ ہر لحاظ سے فائدہ میں رہے والفضل ۲۵ اپریل ۱۹۸۹ء) خُدا کی لاٹھی - حضرت مسیح موعود ہم نومبر مراجعت فرمائے قادیان ہوئے.واپسی کے نظارہ کا نقشہ حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیائ ٹوٹی ذیل کے الفاظ میں بیات کرتے ہیں کہ :.ایک حافظ سلطان بامی نے بدمعاشوں کے مشورہ سے اپنے شاگردوں کو جنہیں وہ قرآن شریف پڑھاتا تھا.راکھ اور اینٹیں جھولیوں میں بھرنے کو کہا.اور دوکانوں کی چھتوں پر کھڑا کر دیا.اس نے سمجھا کہ میں گاڑی کو ہم نے پکڑا ہوا ہے اور آگے جو ہے وہ مستورات کی ہے اور ہمیں دھوکہ دینے کے لئے ایسا کیا ہوا ہے چنانچہ جب حضور کی گاڑی گزری اور اس کے بعد خادمات والی بند گاڑی گزر رہی تھی تو اس پران شریروں نے راکھ اور اینٹی وغیرہ پھینکیں.حضور ریل گاڑی میں سوار ہوئے تو اس پر بھی خشت باری کی.چنانچہ گاڑی کا ایک شیشہ بھی ٹوٹ گیا.گاڑی روانہ ہونے کے بعد ہم واپس جا رہے تھے کہ دیکھا دو بازار سی عورتیں پلیٹ فارم پر بیٹی ہوئی ہیں اور ایک کہہ رہی ہے کہ ہائے مرزا مجھے بھی ساتھ لے چلو پھر کہنے لگی کہ اگر ساتھ لے جاتے تو جاتے ہی زہر دے دوں.واپسی پر خشت باری ہوئی حتی کہ مولوی برہان الدین صاحب جہلمی جو کہ بوڑھے آدمی تھے ان پر بھی ہوئی...چند ایک
14 دن کے بعد....- حافظ سلطان نمونیہ والی طاعون سے...مرگیا.اس کے بعد اس کو نہلانے والا بھی مر گیا.اور دونوں کے علاوہ طاعون ہی سے چند دن کے اندر سلطان کے کہنے کے اٹھائیں یا تمہیں آدمی ہلاک ہو گئے.(اصحاب احمد جلد یاز دہم ص ۴۱-۴۲) صاحب علم کی تکریم ذکر اقبال میں مرقوم ہے کہ " مرزا غلام احمد قادیانی اور مولوی حکیم نورالدین بھی شاہ صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور مرزا صاحب تو ایک مدت تک سیالکوٹ رہ بھی چکے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شاہ صاحب (مولانا میر حسن) کے داماد خورشید انور بعارضہ وق بیمار ہو گئے.شاہ صاحب انہیں قادیان لے گئے تاکہ حکیم نورالدین سے علاج کروائیں.قادیان پہنچ کر بیت الذکر میں گئے اور اس دریچہ میں جابیٹھے جہاں مرزا صاحب بیٹتے تھے.لوگ ان کو جانتے نہ تھے.انہوں نے انہیں وہاں سے اٹھا دیا.لیکن پھر دریچے کے پاس ہی آبیٹھے.مرزا صاحب آئے تو سلام کا معمولی جو اب دے کر بیٹھ گئے اور متوجہ نہ ہوئے.شاہ صاحب نے کہا کہ غالباً آپ نے مجھے پہچانا نہیں.مرزا صاحب نے غور سے دیکھا تو بڑی محبت اور تپاک سے ملے اور مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کو بلا کر کہا کہ شاہ صاحب کو اچھی جگہ ٹھہراؤ.دو باتوں کی خاص طور پر تاکید کی ایک یہ کہ شاہ صاحب کو صبح ہی صبح بھوک لگ جاتی ہے اس لئے حسب خواہش ان کو صبح ہی صبح کھانا دے دیا جائے.دوسرے کہ انہیں اچھی کتابیں پڑھنے کے لئے دی جائیں.ساتھ ہی کہا کہ صبح چائے میرے ساتھ ہی پیئیں.بہت خاطر تواضع کی اور جب شاہ صاحب واپس جانے لگے تو مرزا صاحب دو میل تک سکتے
١٠٢ کے ساتھ ساتھ آئے اور کچی سڑک پر پہنچ کر کہ کہ میں کچھ باتیں علیحدگی میں کرنا چاہتا ہوں.شاہ صاحب نے ایک طرف جا کر ان کی باتیں سنیں.بعد میں مفصل علوم نہ ہو سکا کہ کیا باتیں ہوئیں.نہ شاہ صاحب نے بیان کیا.اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا میر حسن نماز کے ارادہ سے مسجد میں پہنچے ہوں گے.یہ نیت نہ ہوتی تو مسجد میں انتظار نہ کرتے بلکہ اطلاع بھیجوا کر ملاقات کر لیتے.گویا دوسرے علماء مفکرین کی طرح نہ تھے بلکہ ساتھ نماز پڑھنے میں بھی حرج محسوس نہیں کرتے تھے.الفضل 14 ص ) واقعہ بیعت والدلہ چوہدری ظفر اللہ خانصاحب چوہدری صاحب کچھری سے واپس آئے تو حسب دستور السلام علیکم کہا اور حال دریافت کیا.تو میں نے کہا کہ میں بفضل تعالیٰ بہیت کر آئی ہوں.انہوں نے کہا کیا بیچے نیچے نہیں نے کہا ہاں پہنچے نیچے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور رسول کی برکت سے.تب چوہدری صاحب نے کہا کہ پھر آپ کا اور ہمارا خانہ خدا میں نے کہا کہ ہر ایک نے جدا جدا خانے میں جانا ہے.انہوں نے کہا کہ اب ہم الگ الگ رہیں گے.میں نے کہا کہ مرنے کے بعد سب نے الگ الگ جگہ ہی رہنا ہو گا حال دیکھ کر میری والدہ ڈر گئیں.میں نے کہا کہ آپ اس بات سے گھبرائیں نہ کہ اگر مجھے گھر سے نکال دیں گے تو میں آپ پر بوجھ بن جاؤں گی.میں کسی پر بوجھ نہیں بنوں گی.اللہ تعالیٰ جنگل اجاڑ میں بھی میرے مقدر کی خوراک و پوشاک مہیا کریگا.چوہدری صاحب مرحوم پاس کھڑے ہوئے تھے.انہوں نے بھی یہ بات سن لی اور
١٠٣ حیران تھے کہ میں ان سے ڈرتی کیوں نہیں.مغرب کے وقت وہ وضو کر رہے تھے.خادم بستر بچھانے آیا تو انہوں نے اسے کہا کہ میرا البستر ساتھ کے کمرے میں کرنا خادم نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ بالا خانے کے کسی کمرہ میں اپنا بہتر رہتے نہیں ونگی.کمرہ کی تبدیلی پر ہی کیا اکتفا کرنا ہے.منزل ہی تبدیل کر لیں.چوہدری صاحب نے اس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ میں احمد ہی ہوں اور آپ غیر احمدی.اس لئے ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے.یہ سن کر چو ہدری صاحب نے اپنی رائے تبدیل کرلی.گود کے بچے اسد اللہ خان کو میں لے کر لیٹ گئی.تو چوہدری صاحب نے کہا کہ مجھے بھی بیت والا واقعہ سناؤ کہ کس طرح گئیں اور کس طرح بیعت کی تب میں نے ساری تفصیل بیان کی اور سوتے وقت اپنا چہرہ ڈھانپ لیا.چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ نے تو کبھی اپنا چہرہ ڈھا نیا نہ تھا آج کیا ہوا میں نے کہا کہ میں احمدی ہوں اور آپ غیر احمدی میں میرا دل نہیں چاہتا کہ میں اپنا چہرہ کھلا رکھوں.میں چار دن حسب طریق چوہدری صاحب کی خدمت کرتی رہی لیکن میں خوش ہو کر ان سے گفتگو نہ کرتی تھی.آپ چار راتیں قرآن شریف اور بخاری شریف کے مطالعے میں مصروف رہے اور چوتھے روز نماز فجر کے بعد جب آپ گھر لوٹے تو بیعت کر کے کوٹے.اس دن حضور نے واپس قادیان تشریف لے جانا تھا.عبادت سے واپس آکر چوہدری صاحب نے کہا.السلام علیکم.مبارک ہو.مبارک ہو! میں بیعت کر آیا ہوں نہیں نے خدا کا شکر ادا کیا.اور اسی وقت بطور شکرانہ نفل ادا کئے.(الحکم ۲۱ جنوری ۱۲۵)
۱۰۴ رب العالمین سے دُعا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں کہ دو چار دن سمندری سفر میں گزارنے کے بعد جب ساحل مالا بار ایک دو میل رہ گیا تو جہاز کے کپتان کی طرف سے حکم ملا کہ سب مسافر جہاز سے اتر کر کشتیوں میں سوار ہوں اور ساحل پر پہنچیں.چنانچہ ایک کشتی پر ہم سوار ہوئے.جب ہم ساحل سے نصف میل کے قریب پہنچے تو اچانک سمندر میں طوفان آگیا اور ہماری کشتی ڈگمگانے لگی.اس ہولناک منظر سے ملاح بھی خوفزدہ ہو گئے اور چلانے لگے اور زور زور سے " یا پیر بخاری" یا پیر عبد القادر جیلانی یا پیر حضور کی صدائیں بلند ہونے لگیں.دیکھتے ہی دیکھتے کشتی میں پانی بھرنے لگا.اور سب سواریوں کی موت سر پر منڈلاتی ہوئی نظر آنے لگی.میری طبیعت کمیٹی سے ہی اعصابی دردوں کی وجہ سے خراب تھی.اور اس وقت بھی دورہ تھا.لیکن جب میں نے ملاحوں کی مشترکہ صدائیں سنیں.اور ادھر کشتی کی حالت کو دیکھا تو میرا قلب غیرت سے بھر گیا اور میں اسی ہوش میں کھڑا ہو گیا اور ملاحوں سے کہا کہ تم لوگ شرک کے کلمات کہہ کر اپنی تباہی اور بھی زیادہ قریب کر رہے ہو.تم ان نازک حالات میں ایسے مشرکانہ کلمات سے تو یہ کرو اور صرف اللہ تعالیٰ کی جناب سے استمداد کرو.پیر بخاری کون ہے اور پیر خضر اور پیر عبد القادر جیلانی کیا ہیں ؟ہ یہ سب اس لاشریک اور قدوس خُدا کے عاجز بندے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا بندوں سے منت مانگنے کی بجائے رب العالمین خدا سے مدد طلب کرو جس نے ان پیروں اور بزرگوں کو پیدا کیا اور ان کو بزرگی کی اور یہ سمندر کیا ہے میرے قادر
د.ا خدا کا ایک ادنیٰ خادم ہے جو اس کے دست تصرف کے ماتحت مدو جزر دکھاتا ہے.پس اگر وہ چاہے تو یہ جوش تموج اسی وقت ختم ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے عجیب تصرفات ہیں کہ میں نے منہ سے یہ کلمات نکالے ہی تھے کہ سمندر کی موج ہٹ گئی.اس کا جوش تھم گیا.اور کشتی آرام سے چلنے لگی.تب وہ ملاح ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے کہ ہماری تو بہ !ہماری توبہ! واقعی اللہ تعالیٰ ہی طوفان سے بچا سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی عجائبات میں سے ہے کہ طوفانی لہروں کی شدت کے وقت مجھے اس قدر روحانی طاقت محسوس ہوئی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ اگر ملاح اپنے مشرکانہ کلمات سے باز نہ آئے اور اس وجہ سے کشتی ڈوب گئی تو یکیں اور عزیز عرفانی صاحب سطح آب پر چل کر بفضل تعالے سلامتی سے کنارے پہنچ جائیں گے کیونکہ ہم مرکز کی ہدایت کے ماتحت دعوت إلی اللہ کے لئے جارہے تھے.(حیات قدسی حصہ چہارم ص ۸۳) میری والدہ سب کی والدہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کے ایک ساہوکار نے ایک غریب کسان کے مویشی ایک ڈگری کے سلسلہ میں فرق کر لئے.یہ کسان بھی احراریوں میں شامل تھا.فرق شدہ مویشیوں میں ایک بچھڑی بھی تھی.تشرق کے وقت کسان کے کم سن بچے نے بچھڑی کی رسی پکڑ لی کہ یہ پچھڑی میرے باپ نے مجھے دی ہے.میں یہ نہیں لے جانے دوں گا.ڈگری دار نے یہ بچھڑی بھی فرق کروالی.اس سے چند روز قبل اس کسان کی ایک بھینس کنویں
1.4 میں گر کر مر گئی تھی.یہ بھی مفلس آدمی تھا اور یہ مویشی ہی اس کی پونجی تھی.والدہ مایہ ان دنوں ڈسکہ ہی میں مقیم نہیں جب انہیں اس واقعہ کی خبر پنچی تو قیاب ہوگئیں.بار بار کہیں کہ آج اس بے چارے کے گھر ماتم کی صورت ہوگی.اس کا ذریعہ معاش جاتا رہا.اس کے بیوی بچے کیس آس پر جئیں گے.جب اس کے لڑکے کے ہاتھ سے قارق نے بچھڑی کی رستی لے لی ہوگی تو اس کے دل پر کیا گزری ہوگی.پھر دُعا میں لگ گئیں کہ یا اللہ تو مجھے توفیق عطا کر کہ میں اس مسکین کی اور اس کے بیوی بچوں کی اس مصیبت میں مدد کر سکوں.میاں جہاں کو بلوایا اور کہا کہ آج یہ واقعہ ہو گیا ہے.تم ابھی ساہوکار کو بلا کر لاؤ.میں اس کے ساتھ اس شخص کے قرضہ کا تصفیہ کروں گی اور اس کی ادائیگی کا انتظام کروں گی تا شام سے پہلے پہلے اس کے مویشی اسے واپس مل جائیں.اور اس کے بیوی بچوں کو ڈھاری بندھے میاں جہاں نے کہا کہ میں تو ایسا نہیں کروں گا.یہ شخص ہمارا مخالف ہمارے دشمنوں کے ساتھ شامل ہے.والدہ صاحبہ نے خفگی سے کہا کہ تم مثل جولا ہے کے بیٹے ہو اور میں چوہدری سکندر خاں کی ہو اور چوہدری نصر اللہ خاں کی بیوی اور ظفر اللہ خاں کی ماں ہوں اور میں تمہیں خدا کے نام پر ایک بات کہتی ہوں اور تم کہتے ہو کہ میں نہیں کروں گا.تمہاری کیا حیثیت ہے کہ تم انکار کرد.جاؤ میں یہ حکم دیتی ہوں.تو را گرد اور یاد رکھو.ساہوکار کو کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ تصفیہ میں دقت ہو " اس وقت ظہر کا وقت ہو چکا تھا والدہ صاحبہ نے عبادت میں بہت دعا کی کہ یا اللہ ! میں ایک عاجز عورت ہوں.تو ہی اس موقعہ پر میری مدد فرما.اور یہ دعا بھی کی کہ میرے بیٹے عبداللہ خان اور اسد اللہ خان جلد پہنچ جائیں.
میرا بھی فارغ ہی ہوئی تھیں کہ عبد اللہ خان اور اسد اللہ خان لاہور تر میں پہنچ گئے.انہوں نے دریافت کیا کہ اس قدر افسردہ کیوں تمام ماجرا ان سے کہہ دیا اور کہا کہ تم دونوں اس معاملہ میں میری مدد کرو.انہوں نے کہا جیسے آپ کا ارشاد ہو.چنانچہ سا ہو کار آیا.ساہوکار نے بہت حیل و محبت کی لیکن والدہ صاحبہ نے اصل رقم پر ہی فیصلہ کیا اور پھر سا ہوا.سے کہا کہ میں رقم خود ادا کروں گی.تم فوراً اس کے مویشی لا کر اس کے حوالے کرد.جتنا روپیہ اپنے پاس موجود تھا وہ دیا اور باقی اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ پیش کریں جب مولیشی کسان کو مل گئے تو اس کے بیٹے سے کہا کہ جاؤ.اب جا کر اپنی بچھڑی پکڑ لو.اب تم سے کوئی نہیں لے سکتا.زمیری والده از چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مشت (۸۱) عزیز و اقارب پہلے پیرو مرشد ہند و روز نامہ" ملاپ " لاہور نے لکھا کہ چو ہدری صاحب کا استقبال کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر صدر پنجاب کو نسل چوہدری سر شہاب الدین ملاوه سر عبد القادر جج ہائی کورٹ اور سردار سکندر حیات خان ریونیو منسٹر ریو شر حکومت پنجاب جیسے معززین آئے.یہ سب صاحبان چو ہدری محمد ظفراللہ خانصاب کے استقبال کے لئے جمع ہوئے تھے.چوہدری صاحب لنڈن سے آرہے تھے مگر گاڑی گورداسپور سے آرہی تھی.حیرت ہوئی کہ آخر گورداسپور کی گاڑی میں آنے کا کیا مطلب؟ معلوم ہوا کہ آپ پنجاب میں قدم رکھنے کے بعد اپنے خویش و اقارب کو ملنے سے پہلے اپنے پیرو مرشد امام جماعت قادیان کی خدمت میں حاضر ہوتے
1.A کے لئے تشریف لے گئے تھے مسلمان اپنے مذہب میں کتنا پابند ہوتا ہے ۱۹۳۱ الفضل ۳۱ جنوری ) اسی اخبار نے مزید لکھا کہ ہندو لیڈی جتنا بڑا ہوتا جائے گا اتنا زیادہ آزاد خیال سمتی کہ وہر یہ ہو جائے گا.گول میز کا نفرنس کے موقعہ پر کوئی ہندو لیڈر وید اپنے ساتھ نہیں لے گیا لیکن ہر مسلم لیڈر قرآن مجید لے کر گیا.اور ہر روزہ اس کا مطالعہ کرتا رہا.اس سے بھی بڑھ کر ہندو لیڈر واپس آئے اور اپنی اپنی کو ٹیوں میں چلے گئے لیکن ان ہندو لیڈروں کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ایک شمع ہدایت دکھائی...کہ قوت ایمان اور اپنے مذہب کی محبت ہی اونچا اور بلند کرنے کی طاقت رکھتی ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب....جہاز سے اترے اور ایک دن دہلی رہ کر وہاں سے سید ھے....قادیان جاپہنچے.چوہدری صاحب نے لنڈن سے واپسی پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے " دار الامان بجا پہنچے اور وہاں بیت الذکر میں جاکر اپنا فرض ادا کیا.اسے کہتے ہیں قوت ایمان......مسلم لیڈروں میں سے کسی نے نہیں تو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جو مثال پیدا کی ہے اسے دیکھ کر ہر ہندو لیڈر شرمندہ ہو رہا ہوگا.) مورخہ ۲۶ بحوالہ الفضل ۳۱ ) ۳۳ تم نے بہت ظلم کیا ہے مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں زمانے میں والد صاحب سلسلہ میں داخل ہوئے انہیں مثنوی مولانا روم سے بہت دلچسپی تھی.اور فرصت کے وقت ایک صاحب کے ساتھ مثنوی پڑھا کرتے
1.9 تھے.ایک دفعہ یہ صاحب تعطیل کے دن ہمارے مکان پر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ والد صاحب کہاں ہیں.دفتر میں اس وقت شاید کوئی محتر یا ملازم موجود نہیں تھا.ان صاحب نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب پہلی منزل پر ہوں.انہوں نے بلند آواز سے والد صاحب کو بلایا.والدہ صاحبہ نے مجھ سے فرمایا کہ کہ دو چوہدری صاحب گھر پہ نہیں ہیں.میں نے یوں ہی کہہ دیا.ان صاحب نے دریافت کیا کہ کہاں گئے ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ کہہ دو قادیان گئے ہوئے ہیں.یہ سن کر ان صاحب نے حضرت مسیح موعود کی شان میں کوئی خلافِ ادب کلمہ کہا.اب تک والدہ صاحبہ میری معرفت جواب دے رہی تھیں.یہ کلمہ سنتے ہی منصے سے بے تاب ہو گئیں اور کھر کی کے پاس جاکہ جوش سے کہا کہ تم نے بہت ظلم کیا ہے.اگر خیریت چاہتے ہو تو اسی وقت میرے مکان سے چلے جاؤ کوئی ہے ملازم یہاں نکال دو اس گرہ تاج بوڑھے کو.اور یاد رکھو پھر کبھی اس مکان میں نہ داخل ہونے پائے.اب آئے اس کا دوست جس کے ساتھ مثنوی پڑھنے یہ یہاں آتا ہے تو تو نگی اس کی خبر کہ ایسے گستاخ بڑھے کے ساتھ کیوں نشست و برخاست جاری رکھی ہوئی ہے.وہ صاحب تو اسی وقت چلے گئے.والد صاحب کی واپسی پر والدہ صاحبہ نے بہت رنج کا اظہارہ کیا اور اصرار کیا کہ اب وہ صاحب کبھی گھر کے اندر داخل نہ ہونے پائے چنانچہ وہ اس دن کے بعد پھر ہمارے مکان پر نہیں آئے ر اصحاب احمد جلد یاز دہم ص ۱۷۸ - ۱۷۹) عبدالرحمن آجا حضرت منشی عبدالرحمن صاحب حضرت مسیح موعود کے ابتدائی ساتھیوں
11.میں سے تھے.ان کا شمار ۲۱۳ میں ہے.نہایت عبادت گزارہ ولی اللہ تھے جب لدھیانہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے منشی عبد الرحمن سے لدھیا نہ چلنے کو کہا.منشی صاحب نے فرمایا کہ میں استخارہ کر لوں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے فرمایا تم استخارہ کرو.ہم جاتے ہیں منشی روڑا صاحب محمد خان صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب یکے بعد دیگرے لدھیانہ روانہ ہو گئے.پہلے منشی روڑا صاحب نے بیعت کی.بعد میں منشی ظفر احمد صاحب کے بیعت کرتے وقت حضرت صاحب نے دریافت فرمایا.آپ کے رفیق کہاں ہیں.رفیق کا لفظ بقول منشی ظفر احمد صاحب حضرت مسیح موعود اکٹر استعمال فرمایا کرتے تھے منشی ظفر احمد صاحب نے عرض کی کہ منشی روڑا صاحب نے تو بیعت کرلی ہے اور محمد خان صاحب نسل کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں میں نہا کر بیعت کروں گا.چنانچہ بعد میں محمد خان صاحب نے بیعت کی اور منشی عبید الرحمن صاب کو استخارہ کرنے پر آوانہ آئی " عبید الرحمن آجا " چنانچہ دوسرے دن منشی عبد الرحمن صاحب نے آکر بیعت کر لی.اپنا اپنا رنگ اخلاص کا ایک وہ تھے جو فوراً چل پڑے.ایک نے نہایت ادب کے پیش نظر غسل کر کے بیت کرنا چاہیں.ایک نے استخارہ کو مقدم سمجھا.میر ایک کا اخلاص اپنے ذوق کے مطابق ظاہر ہے اور کسی کو کسی پر ترجیح دینا مشکل.د روایات ظفر - اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۰)
ایک لطیفہ ایک مسئلہ کامل حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک رفیق حضرت حافظ معین الدین صاحب تھے.انہیں لنگر سے کھانا میلا کرتا تھا.حضرت میر محمد اسحق صاحب ناظر ضیافت تھے.لنگر خانہ کی مالی حالت کمزور تھی.جس کی وجہ سے کھانا بہت سادہ ہوتا تھا.ایک مرتبہ بہت ہی پتلی دال حضرت حافظ صاحب کو ملی.آپ میر صاحب کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ ایک مسئلہ کا حل بتائیں کہ ایسی پیلی دال جس کا رنگ اور مزہ پانی کی طرح ہو اس سے وضو جائز ہے یا نہیں.حضرت میر صاحب نے فرمایا جب تک دال نہ دیکھ لوں فتویٰ انہیں دے سکتا.حضرت حافظ صاحب نے دال کا پیالہ میر صاحب کی طرف بڑھا یا حضرت میر صاحب نے دال کا پیالہ دال کی دیگ میں الٹ دیا اور اس کی بجائے گوشت کا پیالہ بھر کر حضرت حافظ صاحب کو دیا اور فرمایا کہ یہ آپ کے مسئلے کا حل ہے.د روزنامه الفضل صفحه ۴ - ۲۳ نومبر ۴۱۹۹۶ ہم اور آپ کوئی دو ہیں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مسیح موعود سے اپنے تعلق کا ایک واقعہ مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کو سنایا.فرماتے ہیں.ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود کے خطوط کے جواب دینے پر مامور تھا.حضور ہر روز کی ڈاک مجھے دے دیتے ہیں خود ہی ان خطوط کو پڑھتا اور خلاصہ حضور کو سنا دیتا.حضور جو جواب لکھواتے ہیں وہ لکھ کر بھیج دیا.ایک دن.ڈاک میں ایک خط آیا.اس پر لکھا ہوا تھا کہ اس خط کو حضرت مسیح موعود کے سواری ئے
١١٢ کوئی نہ کھولے.میں نے وہ خط حضور کے سامنے رکھ دیا.حضور نے فرمایا منشی نتا کیا ہے.میں نے عرض کیا حضرت اس خط پر لکھا ہوا ہے کہ سوائے حضور کے اس خط کو کوئی نہ کھونے اس لئے حضور ہی اس کو کھول کر پڑھیں.حضرت مسیح موعود نے خط مجھے واپس دیتے ہوئے فرمایا.منشی صاحب آپ ہی اس کو پڑھیں ہم اور آپ کوئی دو ہیں.اس (الفضل ۲۴ اگست ۱۹۴۷) کلام الہی شفاء للناس حضرت مولوی فضل دین صاحب کو عشق کلام الہی کی غیر معمولی نمایاں صفت کی وجہ سے اللہ تعالی نے بہت زیادہ کامیابیوں اور ترقیات سے نوازا.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے ساتھ کلام الہی پڑھنے کے لئے رہے.شاگرد کو دلچسپی اور شوق ہو اور پڑھانے والا مولانا راجیکی صاحب جیسا متجر عالم ہو تو علمی اور عملی ترقیات کا خود ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیگی انہیں بہت توجہ اور شوق سے پڑھاتے تھے اور مولانا نے ان سے کہا ہوا تھا کہ آپ بے دھڑک جس وقت چاہیں مجھ سے پڑھیں حتی کہ نزع کے وقت بھی اگر کچھ دریافت کریں کلام الہی کے بارہ میں تو امید ہے اس وقت بھی بشر طیکہ میری زبان چل سکی ہیں یقیناً آپ کو اس آیت کا مطلب سمجھا دیگا.چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب لاہور میں درس دیا کرتے تھے تو وہ چند دن کے لئے شکر گڑھ بھیجے گئے.مولوی صاحب بھی ساتھ تھے.اسی اثناء میں حضرت مولانا صاحب کو بخار آگیا ، اور ان کی اس بخار کی حالت میں کوئی بات اسے
١١٣ چیت کرنے والا نہ تھا.تو مولوی فضل دین صاحب نے اس وقت کو غنیمت سمجھا کہ آج استاد کی نصیحت پر عمل کریں.چنانچہ وہ کلام الہی لے کر پڑھنے بیٹھ گئے.ان کے استاد صاحب نے منہ سے کپڑا اٹھالیا اور پڑھاتے پڑھاتے جوش میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے.خوب پڑھو پڑھاتے پڑھاتے جب اور جوش میں آگئے تو فرمانے ١٩٩٤ء لگے.فی الواقع کلام الہی شفاء للناس ہے.(روز نامہ الفضل صفحه ۵ - ۲۱ دسمبر ) انکسار کا عالم حضرت مہر آیا صاحبہ حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ذکر میں فرماتی ہیں." حضرت فضل عمر کے سفر یورپ میں آپ تمام وقت حضور کے ساتھ ساتھ رہے.حضور کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتے کیونکہ وہاں ہمارے ہاں کی طرح قلی وغیرہ نہیں.روانگی سے پہلے چودھری صاحب بہت اصرار کے ساتھ پیغام بھجواتے رہے کہ سامان تھوڑا لے جائیں.وہاں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی.دورانِ سفر جیب و نیں (اٹلی) پہنچے تو وہاں نہ کوئی تلی تھا نہ کوئی مزدور - حضرت چودھری صاحب نے تمام سامان اپنے کندھوں پر اٹھا اُٹھا کر کار سے گنڈوئے تک پہنچایا اور فرمایا.دیکھا ئیں نہ کتنا تھا کہ اس قدر سامان نہ لے جائیں.خیر بیبیوں کو پتہ تھا.ظفر اللہ ساتھ ہے.خود اٹھاتا پھر لیگا.آپ کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اتنی بڑی شخصیت اور انکسار کا یہ عالم کا ر خالد.حضرت چوہدری صاحب نمبر ص۳۲ ) درود شریف کی برکت محترم ظہور احمد صاحب باجوہ لکھتے ہیں کہ میں دسمبر ۱۹۴۵ء میں انگلستان
اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے گیا جبکہ مولانا جلال الدین شمس وہاں تھے.چوہدری ظفر الله خان صاحب اپنے چھوٹے بھائی محترم عبد اللہ خان صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ کراچی کو ٹانگ کے اپریشن کے لئے وہاں لائے.جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا ہپستال بھرے پڑے تھے چوہدری صاحب نے دوستوں سے رابطہ پیدا کر کے کسی ہسپتال میں داخلہ کی کوشش کی مگر منزل قریب نہ آئی.چوہدری عبداللہ خاں صاحب کو تکلیف زیادہ تھی.ایک روز چوہدری صاحب غیر متوقع طور پر تشریف لائے.انتہائی خوش تھے.اور بار بار اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہے تھے.اور محترم شمس صاحب نے پوچھا اس خوشی کی کیا وجہ ہے.فرمایا.رات مایوسی کی حالت میں بڑی دنیا کا موقع ملا.میں نے سُن رکھا تھا روچمنٹن میں ایک ہسپتال ہے جہاں ٹوٹے ہوئے اعضاء کا علاج ہوتا ہے.اور مصنوعی اعضاء بھی لگائے جاتے ہیں.میں بغیر واقفیت کے وہاں چلا گیا.سارا راستنه درود شریف پڑھتا رہا.ڈاکٹر کو اب تک علاج کی رپورٹ دکھائی.ڈاکٹر رپورٹ دیکھ رہا تھا اور میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا رہا ڈاکٹر نے سر اٹھایا اور کہا.Sir Zafarullah although hard pressed I will admit your brother میں نے شکر ادا کیا اور کمرہ سے باہر نکل کر لان میں سجدہ شکر بجالا یا حضرت چوہدری صاحب دوستوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے طور پر اپنے بھائی کے ہسپتال میں داخلہ کا واقعہ سنایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے.دوستوں کا سہارا کام نہ آیا مگر آنحضور پر درود بھیجنے کی برکت سے مشکل مرحلہ آسان ہو گیا.کئی دفعہ خطبات جمعہ میں بھی احباب کو تلقین کیا کرتے تھے کہ انسان کام میں مصروف ہوتے
۱۱۵ ہوئے بھی زبان سے درود بھیج سکتا ہے.لیکن اگر زبان کام میں مصروف ہو تو فارغ اوقات میں آنحضور پر درود سلام سے بڑھ کر کوئی عبادت اللہ کے ہاں مقبول د خالد - چوہدری صاحب نمبر ص ۷۲) نہیں.مہنگا کوٹ پہننے سے انکار کی وجہ محترمہ صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ لکھتی ہیں کہ ایک دن لنڈن میں حضرت امام جماعت الثانی کے ارشاد کے مطابق حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ حضور کے لئے کوٹ خریدنے گئی.بہت تلاش کے بعد ایک جگہ حضور کے حسب خواہش ادور کوٹ (over coat) مل گیا.لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ تھی.اور حضرت چوہدری صاحب اس کو لینے پر تیار نہ تھے.انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ اس قیمت: حضرت صاحب یہ کوٹ کبھی استعمال نہیں کریں گے مگر میرے اصرار پر حضرت بابا جی چوہدری صاحب نے یہ کوٹ خرید لیا.اور مجھے فرمانے لگے کہ قیمت کے بارے آپ خود جواب وہ ہوں گی جب اوور کوٹ حضور کی خدمت میں پیش کیا تو حضور نے اس کی عمدگی اور ہلکے پن پر خوش نودی کا اظہار کیا.اور پھر بابا جی سے اس کی قیمت کے بارے میں پوچھا تو حضرت بابا جی نے مجھے مخاطب ہو کو فرمایا کہ آپ جواب دیں.جب میں نے کوٹ کی قیمت بتائی تو حضور بہت ناراض ہوئے اور حضرت بابا جی سے فرمایا " چوہدری صاحب آپ یہ کوٹ اتار لیں نہیں اسے استعمال نہیں کروں گا.اس رقم میں ایک یتیم بچے کی تعلیم یا ایک بیوہ کے گھر کا خرچ چل سکتا ہے." آپ کی صحت کی وجہ سے مجھے خیال تھا کہ آپ بو جھل چیزیں استعمال نہیں کر سکتے ہیں نے حضرت ابا جان سے کہا کہ یہ کوٹ واپس نہ
۱۱۷ کریں.آپ نے بڑے غصے سے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا کہ میں نے اتنا قیمتی کوٹ استعمال کیا.د خالد.حضرت چوہدری صاحب نمبر ص ۳) اپنے گھر کا دروازہ کسی کیلئے بند نہ کرنا حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری اور برادرم مرزا انور احمد کی لڑائی ہوگئی اس کے بعد میں ایک دن ان کے گھر گیا تو انہوں نے مجھے دیکھ کر دروازہ بند کر لیا ہم اپنی لڑائیوں کی شکائیتیں کبھی اپنی امیوں یا ماؤں سے نہیں کیا کرتے تھے.اور خود ہی قرض چکا دیا کرتے تھے چنانچہ بعد میں ایک دن میں نے مرزا، انور احمد کو اپنے گھر آتے دیکھ کر بھاگ کو صحن کا دروازہ بند کر لیا.امی دیکھ رہی تھیں.انہوں نے نہایت سختی سے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت کی ہے.میں نے کہا کہ پہلے اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کیا تھا تو غصتہ فرد ہونے کی بجائے اور بھڑک اٹھا.کہنے لگیں پہلے اس نے کیا ہو یا تم نے مگر اگر تم نے پھر ایسی کمپنی حرکت کی کہ کسی پر اپنے گھر کا دروازہ بند کیا تو میں اتنا ماروں گی کہ ہمیشہ یاد رکھو گے.(سیرۃ حضرت امیر طاہر - صفحہ ۲۱۳) بعض دعاؤں کا ر ڈ ہونا بھی فضل باری تعالی ہے حضرت مولانا غلام رسول را جیکی تحریر فرماتے ہیں : ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مناظرہ میں شرکت کے لئے لاہور سے بوم حافظ آبا رات کے وقت روانہ ہوا.حافظ آباد کے لئے گاڑی سانگلہ ہل جنکشن سے تبدیل ہوتی تھی.
میرے پاس کافی سامان تھا.جب لاہور والی گاڑی سانگلہ پل پہنچی تو تین چار بجے کا وقت تھا.اتفاق سے کوئی قلی نہ مل سکا.میں نے پلیٹ فارم پر اتر کر دریافت کیا کہ حافظ آباد جانے والی گاڑی کب روانہ ہوگی.ایک شخص نے بتایا کہ وہ گاڑی سامنے پلیٹ فارم پر تیار کھڑی ہے اور روانہ ہونے والی ہے.میں اتنا سامان خود ہی اٹھا کر پلیٹ فارم کی شیر میں پر چڑھا.ابھی دوسرے پلیٹ فارم پر اترا ہی تھا کہ گاڑی چل دی.میں اس کام کی اہمیت کے پیش نظر دوڑتا ہوا اور دعا کرتا ہوا گا ر ڈ کے ڈبے تک جا پہنچا اور بڑے الحاج سے اسے کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہے.گاڑی ڈرا روکیں یا آہستہ کریں تاکہ میں سوار ہو جاؤں.میں اس طرح گاڑی کے ساتھ دوڑتا جاتا تھا اور اللہ تعالی سے بڑے تضرع سے دعا کر رہا تھا کہ پلیٹ فارم ختم ہوگیا اور گاڑی بھی زیادہ تیز ہوگئی میں سخت مایوس افسردہ اور رنجیدہ ہوا.یہ کام سلسلہ کا تھا.مجھ سے جہاں تک ہو سکا کوشش کی اور نهایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی عرض کرتا رہا.لیکن اس نے میری التجا کو نہ سُنا اور میری دعا کو جو نہایت اہم مقصد کے لئے تھی منظور نہ فرمایا.اب میں کیا کرتا.مجھے سخت رکھے اور درد محسوس ہو رہا تھا.اسی حالت میں میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا.ایک شخص نے اس طرح دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو کہاں جاتا ہے.افسوس ہے کہ آپ گاڑی سے رہ گئے ہیں نے کہا کہ مجھے ایک نہایت ضروری کام کے لئے حافظ آباد پہنچنا تھا.اس نے کہا کہ حافظ آباد کی گاڑی تو وہ سامنے کھڑی ہے اور چند منٹ میں روانہ ہوگی.یہ گاڑی لاہور جا رہی ہے جوں ہی میں نے یہ بات سنی میرے شکوہ و شکایت کے خیالات جذبات تشکر سے بدل گئے ہیں نے حافظ آباد جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا کہ کس طرح اس نے میری دعا کو جو میرے لئے بہت ہی نقصان دہ تھی اور جس
١١٨ کے قبول ہونے کے لئے میں تفریح سے درخواست کر رہا تھا رو کر کے مجھے تکلیف اور نقصان سے بچالیا.اگر میری دعا قبول ہو جاتی اور میں اس گاڑی میں سوار ہو جاتا ہو کہ میں غلطی سے حافظ آباد جانے والی سمجھ رہا تھا اور جو دراصل لاہور جانے والی تھی تو میں بر وقت حافظ آباد نہ پہنچ سکتا اور نقصان اٹھاتا.اس واقعہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ دعاؤں کے رو ہونے میں بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں جو کہ سراسر انسان کے فائدے کے لئے ہوتی ہیں جن کو انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے نہیں سمجھتا.ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر وقت دنیا پر اپنا سایہ کئے ہوئے ہے.رحیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۱۸) دل کا سکون حاصل کرنے کا طریق مکرم میاں میر احمد بانی صاحب اپنے والد محترم مکرم میاں محمد صدیق صاحب بانی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ایک سال ۲۶ جنوری کے دن جمعہ تھا.اس دن دوکان بند رہتی تھی اپنی کار خراب ہونے کے باعث آپ ٹیکسی پر اپنے تینوں فرزندوں سمیت جمعہ کی نماز کے لئے مسجد احمدیہ گئے.واپسی پر آپ کے لڑکے نے ٹیکسی لینا چاہی لیکن آپ نے منع کیا.آپ کی نصیحت آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے.آپ نے فرمایا آج دکان بند ہے اس لئے واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں.عام تعطیل ہونے کے سبب بسوں اور ٹراموں میں بھی کچھ رش نہیں ہم بآسانی ٹرام کے ذریعہ ۴۰ پیسے میں گھر پہنچ سکتے ہیں اس لئے ٹیکسی پر ۴ روپے کیوں خرچ کریں.اور فرمایا کہ کلکتہ کی
۱۱۹ نیو مارکیٹ کے متعلق عام کہاوت ہے کہ یہاں دنیا کی ہر شے دستیاب ہے موٹر پاریس سے لے کر نافہ تک لیکن اطمینان قلب یہاں پر بھی نہیں ملتا.کسی قیمت پر فی زمانہ دل کا سکون حاصل کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ ٹیکسی کے ہم روپے بچا کر ان لوگوں پر خرچ کئے جائیں جو ٹرام کے دس پیسوں کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تمام دنیوی معاملات میں آپ کا یہی دستور رہا.لیکن دین کے لئے آپ بیدریغ خرچ کرتے رہے تابعین اصحاب احمد جلد دہم ص ۱۴۱ - ۱۴۲) زر مبادلہ فی سبیل الله خرچ کر دیا گیا مکرم میاں منیر احمد صاحب بانی اپنے والد ماجد مکرم میاں محمد صدیق صاحب بانی کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۹۶۴ء میں کلکتہ کے 14 احمدی احباب حج بیت اللہ شریف کی نیت سے بھٹی گئے.اپنے پاسپورٹ اور دیگر کا غذات مکمل کروائے اور زرمبادلہ بھی داخل کروایا لیکن روانگی سے ایک دن قبل معلوم ہوا کہ بعض علماء کی انگیخت سے متاثر ہو کر سعودی حکومت نے ان سولہ احمدیوں کو ویزا دینے سے انکار کر دیا.اس اطلاع سے عازمین حج کو بہت دکھ پہنچا مگر خوشی ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی جس میں حضور نے فرمایا تھا که آخری زمانہ میں بعض عازمین حج کو حج کرنے سے روکا جائے گا.ان ۱۶ عازمین میں محترم میاں محمد صدیق صاحب بانی بھی تھے.ویزے کے انکار کے بعد میاں محمدصدیق صاحب بانی نے فرمایا کہ جب قریش مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کرنے سے روکا تھا تو آپ اور صحابہ کرام نے اسی جگہ اپنی قربانیاں کر دی تھیں چنانچہ
۱۲۰ حکومت کی طرف سے جو زر مبادلہ دیا گیا وہ ساری رقم فی سبیل اللہ خرچ کردی گئی.تابعین اصحاب احمد جلد دہم ص 134) دعوت الی اللہ مکرم بشیر احمد خاں رفیق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مکرم عزیز دین (وفات یافتہ) کو دعوت الی اللہ کا شوق ہی نہیں جنون تھا.دعوت الی اللہ ان کا اوڑھنا بچھونا اور ان کی زندگی کا مقصود تھا.1947ء میں میں نے حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی کی ہدایت پر برائٹن میں ہفتہ وار تقاریر کا اہتمام کیا اور ایک ہال کرایہ پر لے لیا.پروگرام میں مستقلاً عزیز صاحب کی صدارت اور میری تقریر شامل ہوتی تھی.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ باوجود ہماری پلیسٹی کے مقررہ وقت پر ہال میں کوئی بھی نہ آیا.جب وقت زیادہ گزر گیا تو عزیز صاحب فرمانے لگے کہ ہال کے باہر جو بنچ ہے اس پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں.آپ اخبار پڑھیں کہیں راہ چلتے ریگزاروں کو گھیر گھار کے ہال میں لے جانے کی کوشش کرتا ہوں اور جب معقول حاضری ہو جائے گی تو میٹنگ کر لیں گے.چنانچہ میں تو بنچ پر بیٹھ گیا اور ایک اخبار پڑھنے لگا.عزیز صاحب ہر گزرنے والے کو دعوت دیتے اور کچھ دور اس کے ساتھ چل کر اسے میٹنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے.دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن عزیز صاحب کو کوئی کامیابی نہ ہوئی.بالاآخر ایک گونگا بہرا شخص ملا.عزیز صاحب اسے لے کر پنج پر بیٹھ گئے اور مجھے کہنے لگے.چلو اور کچھ نہیں تو اسے ہی دعوت الی اللہ کرتے ہیں.مجھ سے اخبار لے کر خالی جگہوں پر عزیز صاحب چند کلمات لکھتے تھے.گونگا ہرہ ان کا جواب
۱۲۱ لکھ دیتا.یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا کہ اچانک عزیز صاحب نے ایک عورت کو اپنی طرف آتے دیکھا.مجھے فرمانے لگے آپ اسے مصروف رکھیں ہیں اس خاتون کو لاتا ہوں.گونگا بہرہ شخص یہ منظر دیکھ رہا تھا.عزیز صاحب نے اس عورت سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ بات سننے پر آمادہ نہ ہوئی اور عزیز صاحب تھک ہار کر واپس پہنچ پر تشریف فرما ہوئے.گونگا ہو شیار اور سمجھ دار تھا.اس نے اخبار کے ایک حصہ پر عزیز صاحب کو لکھ دیا کہ : (you could not catch her) کچھ مزید خط و کتابت والی گفتگو کے بعد یہ شخص اٹھا اور اخبار پر لکھا :- I would like to donate 5 pounds to the beautiful work you are doing عزیز صاحب نے کہا چلو ہمارا خرچے تو نکل آیا.ہال کا کرایہ ۵ پونڈ ہی تھا.والفضل ۱۷ جنوری ۹۹اد صفحه ۳ ) ایک عجیب واقعہ ایک بار ایک رومن کیتھولک پادری سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے مکان پر آیا اور آپ کو بڑے جوش کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ کی.آپ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے اور دوران گفتگو کبھی کبھار کوئی نقطہ نگاہ بھی بیان فرما جاتے.آپ جب اس سے مخاطب ہو کر کچھ فرماتے تو بجائے خاموشی سے سننے کے وہ بار بار بول پڑتا.اس پر آپ نے اس سے کہا کہ جب آپ بات کرتے ہیں تو میں نہایت خاموشی سے سنتا ہوں لیکن آپ ایسا نہیں کرتے میری بات
۱۲۴ بھی تو آپ کو سُن لینی چاہیئے.اس پر وہ مزید بحث میں الجھنے کی کوشش کرنے لگا.آپ نے اسے فرمایا کہ آپ مجھے اس لئے تبلیغ کر رہے ہیں کہ آپ کا عقیدہ ہے کہ میں اسے قبول کر کے جنت میں چلا جاؤں گا.کیا آپ پوپ صاحب سے اس امر کی گارنٹی دلوا سکتے ہیں کہ میں عیسائی عقیدہ کو قبول کر کے ضرور جنت میں داخل ہو جاؤں گا.میں نے جس عقیدہ کو قبول کیا ہے اور جس وجود پر ایمان لایا ہوں اس کے ذریعہ مجھے بشارت ملی ہے کہ جو شخص رسالہ تو میت کی شرائط کو پورا کرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان شرائط کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.مجھے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس بشارت کی روشنی میں اپنے جنتی ہونے ہیں کوئی شک و شبہ نہیں.آپ نے یہ بات اس وثوق اور اس یقین سے کہی کہ اس پر وہ ایک لفظ بھی مزید نہ کہہ سکا.الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۵ء صفحه ۳ ) صرف دس پیسے چوہدری عبدالحق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب چھوٹی چھوٹی بات کو بھی بہت ہی اہمیت دیتے تھے.ایک دفعہ ایک ملازم نے جو پشاور کے پٹھان تھے کہا کہ ایک دفعہ چوہدری صاحب کے کچھ پیسے جیب سے گر پڑے.کہتے ہیں چوہدری صاحب نے فرمایا یہاں کچھ پیسے گرتے ہیں بہین نے ڈھونڈنا شروع کیا.صرف دس پیسے ملے تو آپ نے فرمایا.دس پیسوں کو آپ کیا سمجھتے ہیں.آپ پشاور کے رہنے والے ہیں.دس پیسے کا کارڈلو.اس پر اپنے حالات لکھ کر ارسال کر دو.کراچی سے پشاور تک آپ کے حالات بتائے گا.وہ ملازم کہتا تھا کہ
میں بہت شرمندہ ہوا.١٢٣ ١٩٩٥ والفضل ۲۶ اکتوبر انه صفحه ۴) باز پرس بھی رحمدلی کبھی مکرم شاہد احمد خان صاحب ابن حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ لاہور گئے.کار کا ڈرائیور چند دن پہلے ہی ہماری ملازمت میں آیا تھا آپ نے اسے بہت سا روپیہ اخراجات کے لئے دیا اور آپ کی اجازت سے وہ ہمار کی ضروریات پر روپیہ خرچ کرتا تھا لاہور سے مراجعت پر اس نے جو حساب دیا تو تقریباً اس میں سو روپے کا عین تھا چنانچہ آپ کے سختی سے پوچھنے پر اس نے تسلیم بھی کر لیا.اس پر آپ نے اسے سخت سست کہا کہ اگر شام تک تم حساب پورا نہ کرو گے تو میں تمہارا معاملہ پولیس کے سپرد کروں گا.چنانچہ وہ چلا گیا اور شام کو وہ روپے لے کر کہیں سے آگیا.آپ اس وقت باغ میں ٹہل رہے تھے اور پاس ہی میں کھیل رہا تھا جب اس نے روپیہ آپ کو دیا تو میں نے دیکھا کہ روپیہ چھوٹے چھوٹے نوٹوں کی شکل میں تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ روپیہ جگہ جگہ سے مانگ کر لایا تھا.آپ نے روپیہ لے لیا اور اسے کہا کہ تم نے نہایت ہی گندی حرکت کی ہے اگر ضرورت تھی تو مجھ سے مانگ لیا ہوتا.ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کی سزا یہ ہے کہ تم نوکری سے تاریخ ہو اور ابھی نکل جاؤ.ابھی والد صاحب نے بات پوری نہیں کی تھی کہ وہ روپڑا اور کہنے لگا نواب صاحب میں بیوی بچوں والا ہوں.ضرورت انسان کو بہت گرے ہوئے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے.آپ
۱۲۴ مجھے معاف کر دیں میں نے یہ روپے گھر گھر مانگ کر اکٹھے کئے ہیں.اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ کا غصہ فرد ہو گیا اور آپ نے ساتھ ساتھ پہلنا شروع کر دیا.ٹہلتے ٹہلتے اس کے قریب جاتے تو پانچ یا دس کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیتے.اور پھر میں نے دیکھا کہ نوٹوں کی وہ دیتی آہستہ آہستہ تمام کی تمام دوبارہ ڈرائیور کے ہاتھوں میں منتقل ہو گئی اور والد صاحب خالی ہا تحفہ نہیں بلکہ رحمدلی کے بدلہ رحمت الہلی کے ڈھیروں ڈھیر لے کر گھر واپس آگئے اصحاب احمد جلد دوازدهم صفحه ۱۷۵-۱۷۶) درویشانہ زندگی محترمه طیبه آمنه صاحبه بیگم مکرم مرزا مبارک احمد صاحب اپنے والد محترم حضرت نواب محمد عبد اللہ صاحب کے متعلق تحریر فرماتی ہیں کہ جب آخری بیماری میں چیک اپ کے لئے جانے لگے تو امی نے بلا کر کہا کہ ہسپتال جانا ہے تم اپنے ابا جان کے کپڑے الگ چھوٹے سوٹ کیس میں رکھ دو میں کپڑے کیا رکھتی.وہاں تین بازی والی بنیان تین چار لکیر دار نائٹ سوٹ پاجامے پانچ چھ قمیص جن میں سے اکثر کے کالر خراب.اسی طرح چند ایک ومال محل کپڑے تھے جو بکس میں پڑے تھے نہیں روتی جاتی تھی اور دل میں کہتی جاتی تھی.ابا جان ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا ہے اور آپ نے نفس کو اس قدر مارا ہوا ہے.اکثر یہ ہوتا تھا.وفات سے چند مہینے پہلے تک دیکھا کرتی تھی کہ گرمیوں میں غسل کر کے نکلے اور اپنا ایک بنیان اور رو مال خود دھویا ہوا ہاتھ میں پکڑا ہوتا تھا.نوکر کو آواز دیکر کہتے اس کو باہر دھوپ میں ڈال آؤ.اصحاب احمد جلد دوازدهم صفحه (۱۹۲)
۱۲۵ ماں کی دعا حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ حضرت امیم طاہر صاحبہ کی سیرت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتی ہیں کہ پھوپھی جان کی نرینہ اولاد صرف عزیز ظاہر تمہ ہی ہیں.آپ دعا کرتیں اور پھر دوسروں سے یہ دعا کروائیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے.خدا کرے کہ خادم دین ہو.میں نے اسے خدا کے راستہ میں وقف کیا ہے.اللہ تعالیٰ اسے حقیقی معنوں میں واقف بہائے.اور پھر آنسوؤں کے ساتھ یہ جملے بار بار دہرائیں.ر تابعین اصحاب احمد جلد سوم - سيرة ام طاہر صفحه (۲۲۳) خدا تعالیٰ کی طرف سے ماتم کیسی سید نا حضرت مسیح موعود کے وصال کے ایام میں صاحبزادہ مرزا سلطان محمد صاحب جالندھر میں افسر مال تھے.حضور کی وفات سے پیشتر آپ باہر اپنے حلقہ میں دورہ پر تھے.دورہ ختم کر کے آپ واپس گھوڑے پر سوار ہو کر جالندھر کی طرف تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں آپ کو یکا یک الہام ہوا.ما تم پر سی" راستہ میں دوبارہ الہام ہوا.آپ نے قیاس کیا کہ شاید تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہے مگر ا بھی گھوڑے پر ہی سوار چلتے گئے کہ تیسری مرتبہ پھر الہام ہوا " ماتم پرسی جس پر آپ بہت خوفزدہ ہو گئے اور فوراً گھوڑے سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے اور سخت پریشانی میں سوچنے لگے کہ اس الہام کا مطلب کیا ہے.آخر گہرے سوچ بچار کے بعد دل میں یہ سوال اٹھا کہ خدا تعالیٰ کی
طرف سے ماتم پر سی ہو تو لازمی ہے کہ یہ کسی اعلیٰ اور ارفع مستی کی موت اور وصال سے وابستہ ہو.اس خیال کا آنا تھا کہ آپ کو قطعی یقین ہوگیا کہ یہ حضرت والد صاحب کا ہی وصال ہے.یہ خیال آتے ہی اسی غم و حزن کی حالت میں آپ سید سے انگریز ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھر کے بنگلہ کو تشریف لے گئے اور ان کو اطلاع دی کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے.مجھے فوراً رخصت دی جائے میں جا رہا ہوں.صاحب موصوف نے پوچھا کہ کیا والد صاحب کی وفات کی اطلاع آپ کو راستہ میں ملی ہے یا کوئی آدمی آیا ہے.مگر آپ نے جواب دیا کہ نہ کوئی تار آیا ہے نہ کوئی آدمی صرف خدائی تار آیا ہے اور صاحب موصوف کے پوچھنے پر تمام ماجرا سنایا تو صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اس پر اتنا یقین کو لیا اور کہا.ایسی کوئی بات نہیں.آپ کو وہم ہو گیا ہے.آپ رخصت کے لئے جلدی نہ کریں.لیکن آپ کامل یقین کے ساتھ رخصت پر مصر رہے مگر صاحب بہادر کے اصرار پر واپس بنگلہ تشریف لے گئے تھوڑی دیر بعد ہی آپ کو حضرت اقدس کی وفات کا تار موصول ہو گیا.چنانچہ وہ تار لے کر واپس صاحب کے بنگلہ پر گئے.اور بتلایا کہ اس وقت میں دورہ سے سیدھا آپ کے پاس آگیا.وہ خدائی اطلاع کی بنا پر تھا.اب یہ تار آ گیا ہے.صاحب بہادر یہ کیفیت دیکھ کر بہت ہی حیران اور ششدر رہ گئے کہ آپ لوگوں کو خدا پر کیسا یقین.وثوق اور ایمان ہے اور صاحبزادہ صاحب کو رخصت دے دی.( اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۷۴-۱۷۵) برکت کا نشان حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی....فرماتے ہیں عرصہ کی بات
۱۲۷ ہے.میں کسی کام کے لئے گھر سے نکلا.بازار میں مجھے دفتر کا آدمی ملا اور اس نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قصر خلافت میں یاد فرمایا ہے میں سید معا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچا اور اپنے حاضر ہونے کی اطلاع حضور انور کی خدمت میں بھیجوائی.اتفاق سے اس وقت میرے پاس کوئی رقم نہیں نفی میرے دل میں حضور...کی خدمت میں خالی ہاتھ جانے سے انقباض محسوس ہوا.چنانچہ میں نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک کارکن سے مبلغ دس روپے بطور قرض لئے ہو حضور نے از راہ کریمانہ قبول فرمائے جب میں ملاقات سے فارغ ہو کر نیچے دفتر میں آیا تو اتفاق سے ایک معزز احمدی وہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا.اور کہا کہ میں نے آپ کے گھر طلاقات کے لئے جانا تھا.یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ نہیں ملاقات ہو گئی اور ایک بند لفافہ میرے ہا تحفہ میں دیا جس میں یک صد روپیہ کے نوٹ تھے.یہ رقم سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے بابرکت وجود کا نشان رحیات قدسی حصہ چهارم من تھا.نفس کی سرکشی نے ڈس لیا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی مرکزہ کی طرف سے اطلاع ملنے پر کہ بعض غیر احمدی علماء کی وجہ سے چند کمزور احمد می ارتداد اختیار کر گئے ہیں کہ تشریف لے گئے.جب وہ بچی مرگ چوہدری راج محمد صاحب کے ساتھ پہنچے تو مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ چوہدری راج محمد صاحب کے گھر والے شدت گریا کے احساس سے اوپر کے سرد پہاڑوں پر جاچکے تھے صرف ان کی ایک بہو گھر میں
۱۲۸ رہ گئی تھیں.کھانا پکانا اور گھر کا دوسرا کام انہیں کے سپرد تھا.گو ہمارے لئے وہاں کا موسم اتنا سرد تھا کہ ہم رات کو لحاف اوڑھے بغیر سو نہیں سکتے تھے لیکن چوہدری صاحب کی بہو متواتر اصرار کر رہی معنی کہ شدت گرمی کی وجہ سے وہ وہاں رہ نہیں سکتی اور سرد پہاڑ پر جانا چاہتی ہے چو ہدری راج محمد صاحب نے اس کو سمجھایا کہ مرکز سے مہمان آئے ہوئے ہیں.ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی اس کے سپرد ہے اس لئے وہ نہ جائے.لیکن وہ اپنے اصرار پر قائم رہی اور مزید اظہر نے کے لئے تیار نہ ہوئی.آخر چوہدری صاحب نے مجھے کہا کہ آپ بھی اس لڑکی کو سمجھائیں.شاید آپ کے احترام کی وجہ سے بات مان جائے.میں نے اس کو سمجھایا مگر وہ اپنی صند کی وجہ سے باز نہ آئی.اس پر میں نے کیا تو جا کر دیکھ لے اللہ تعالیٰ تجھے کیسے واپس لاتا ہے" خیر وہ پندرہ بیس کوس کے قریب اوپر سرد پہاڑ پر چلی گئی.وہاں پہنچنے کے درسہ سے دن اس کو سانپ نے ڈس لیا.وہ درد سے چیختی اور بار بار کہتی.مجھے واپس پہنچادو.موادی جی کی بد دعا کی وجہ سے سانپ نے مجھے کاٹا ہے.بچنانچہ ایک رشتہ دار کی معیت میں گھوڑی پر تیسرے دن واپس آگئی اور عاجزی کے ساتھ تو یہ کرنے لگی میں نے کہا کہ ہم مرکز کی ہدایت کے تحت یہاں آئے ہیں اور حضرت خلیفتہ ایج ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل کرنی ہے.سانپ کی شکل میں تیرے نفس کی سرکشی نے تجھے ڈسا ہے." دحیات قدسی ، حصہ چہارم ص )
۱۲۹ قرآن کریم محلاج حضرت مولوی محمد حسین...صاحب حضرت بانی سلسلہ....کی دعا کی برکت سے بعض اوقات دُعا کے ذریعہ پانی پر دم کر کے مریضوں کا شانی علاج بھی کرتے تھے.یہ طریق آپ کی دعوۃ الی اللہ کی مساعی میں بہت محمد ثابت ہوا.ایک دفعہ ملکانہ میں ایک ہندو نوجوان لڑکا پیٹ میں شدید درد کی وجہ سے تڑپ رہا تھا.لڑکے کے عزیز رشتہ دار تمام جگہوں سے بایوس ہو کر بعض مقامی لوگوں کے کہنے پر لڑکے کو مولوی صاحب کے پاس لائے.یہ موقع آپ نے دعوۃ الی اللہ کے لئے مناسب خیال کرتے ہوئے ان لوگوں سے کہا کہ اب پنڈتوں کو بلاؤ.وہ دیدی کرامت دکھائیں اور اپنی روحانیت کے اثر سے اس بچے سکا علاج کریں.اگر اب آریہ پنڈت بھاگ گئے تو جھوٹے ہوں گے میں خدا کے فضل سے قرآن کریم سے علاج کروں گا.مگر آر یہ مقابلہ پر نہ آئے بھاگ گئے.تب آپ نے مولا کریم سے دعا کی کہ اسے اللہ میں جو کچھ کرتا ہوں تیرے لئے کرتا ہوں تاکہ تیرا دین غالب ہو.اسے اللہ تو اس بچے کو شفا دے کہ قرآن کریم کی برتری ثابت ہو.پھر میں نے پانی منگوا کر دم کر کے بچہ کو پلایا اور منہ پر چھینٹے مارے اور بچہ خدا کے فضل سے بالکل ٹھیک ہو گیا مسلمان آریوں سے بیزار ہو گئے.اور اور ہندو اور مسلمانوں نے مل کر پنڈتوں کو گاؤں سے یہ کہ کر نکال دیا کہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ آریوں کا مذہب کیا ہے.(الفضل ۲۰ اگست ۱۹۹۴ء)
١٣٠ دلوں میں گھر کرنے والا عمل شیخ نعمت اللہ صاحب مرحوم برج انسپکٹر بڑے مخلص احمدی تھے دریائے چناب کا پُل جو ربوہ کے قریب ہے ان کا بنوایا ہوا ہے.انہوں نے اور کئی پل بنوائے.وہ اس کام میں ماہر تھے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے مقبول اور ہر دلعزیز تھے.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں جب شدھی کی تحریک چلی.تو وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے دفتر کے آدمیوں میں تحریک کی کہ وہ بھی شدھی کے خلاف کوئی حصہ لیں.غرضیکہ ۷۰۰ روپیہ جمع کیا اور ایک مولوی ١١٩٢٣ صاحب کو اس کام کے لئے ملکانہ کے علاقہ میں بھیجا گیا مگر مولوی صاحب تکلیف کا مقابلہ نہ کر سکے اور چند دنوں کے بعد ہی جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس آگئے اور نعمت اللہ صاحب مرحوم کو بڑی مایوسی ہوئی.وہ کہتے تھے کہ انہیں دنوں میں ایک احمدی ٹھیکیدار ان کے ماتحت کام کرتا تھا.بڑا مالدار تھا لیکن خواندہ نہ تھا.وہ حسرت سے یہ کہتا کہ کاش مجھے بھی علاقہ شدھی میں حضرت صاحب کوئی ڈیوٹی سپرد کر دیں.یہ بات اس احمدی ٹھیکیدا کو غمگین رکھتی.آخر ایک دن نعمت اللہ صاحب مرحوم نے دیکھا کہ وہ ٹھیکیدار بڑا خوش ہے بستر اور بائیسکل لئے سیٹیشن پر موجود ہے اور شدھی کے علاقہ میں جارہا ہے اور کہ رہا ہے کہ خدا کا شکر ہے حضرت صاحب نے مجھے یہ ڈیوٹی دے دی ہے کہ میں علاقہ ملکانہ میں دیہ یہ ویہہ مرتیوں کی ڈاک تقسیم کیا کروں.اس لئے میں نے بائیسکل ساتھ لیا ہے.میرے نصیب جاگ اٹھے ہیں.غرضیکہ وہ ٹھیکیدار روانہ ہو گیا.نعمت اللہ صاحب مرحوم کہتے تھے کہ ایک طرف میں نے دیکھا کہ ایک مولوی صاحب کافی روزینہ لیکر بھی تبلیغ نہ کر سکے اور دوسری طرف یہ احمدی با وجود مالدار ہونے
۱۳۱ کے ذوق و شوق سے اس خدمت کے لئے روانہ ہو رہا ہے.پس میں انے بیعت کر لی.غرضیکہ عمل سے بھی تبلیغ ہوتی ہے اور دلوں میں گھر کر لیتی ہے.تشحید الاذہان مئی ۱۹۶۲ء ) اب بھی اگر نہ سمجھے تو سمجھائی کا خدا ملکانہ میں شدھی کی تحریک کے دوران ایک گاؤں کے نمبردار نے ہندووں سے اڑھائی ہزار روپیہ کے عوض تمام گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ہندو ہونے کا وعدہ کر لیا اور شروع ہونے کی تاریخ بھی مقرر کر لی.جب حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو آپ فوراً وہاں پہنچے اور نمبردار کو ہر طریقہ سے سمجھایا مگر چونکہ اس نے ہندوؤں سے روپیہ لیا ہوا تھا اور دین سے بے بہرہ تھا.وہ نہ مانا پھر علی ہے کے بڑے بڑے بارسون، لوگوں کو ساتھ لے جا کر بھی سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا.وہ لوگ بھی کہنے لگے کہ یہ جہنم میں جاتا ہے تو جائے.چیلا آیا مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ کسی طرح نہ مانا تو یہ شعر پڑھ کر میں وہاں سے بہ ہم تو اپنا حق دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھے تو سمجھائے گا خُدا مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میری طبیعت میں بڑا اضطراب تھا.راستہ میں گئے کے کھیت میں دعا کی.رات کو گھر پہنچا.اس تکلیف سے کھانا بھی نہ کھایا اور سو گیا.آدھی رات ہوئی تو مجھے روتے ہوئے اور کانپتے ہوئے کسی نے جگایا اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب مجھے معاف کر دیں.چونکہ اندھیرا تھا اس لئے میں نے پوچھا.آپ کون
۱۳۲ ہیں؟ کہنے لگے ہیں لعل خان نمبر دار ہوں نہیں بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ اس وقت کیوں آئے ہیں.کہنے لگا جب آپ شعر پڑھ کر مڑے تو میرے دل میں سخت گھبراہٹ ہوئی.اس گھبراہٹ میں ہیں باہر نکل گیا.واپس آکر میں بغیر کھانا کھائے سوگیا.کچھ دیر بعد میں نے دیکھا ایک بڑا قد آور نوجوان جس کی آنکھیں موٹی اور سرخ تھیں میرے سرہانے اگر کھڑا ہو گیا.اور اپنے پیر سے جوتا جو ڈیڑھ فٹ لمیا تھا ، آن را اور کہا.اورجہنم کی تیاری کرنے والے تیرے پاس خدا کا ایک بندہ آیا تجھے جہنم سے بچانے کے لئے مگر تو نے رد کرتے ہوئے لوٹا دیا.اب میں تیری خبر لینے آیا ہوں اور یہ کہ کہ تین چار جوتے میرے سر پر رسید کر دیئے جن کو ئیں برداشت نہ کر سکا میں نے کہا مجھے معاف کر دو میں مولوی صاحب کا کہنا مانوں گا.اس پر اس نے کہا.اسی وقت جا کر معافی مانگ ورنہ اس جوتے سے تیری جان نکال دوں گا.الفضل ۲۰ اگست ۱۱۹۹۴) بس زیارت کے لئے حضرت منشی اروڑا خاں کو جب بھی ذرا فراغت ملتی تو گھر سے کمبل منگواتے اور چھری کے ختم ہوتے ہی قادیان کو دوڑ پڑتے اور کوئی نہ کوئی نیا تحفہ لے کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے.آپ خود فرماتے ہیں کہ جب میں قادیان آتا تو کسی سے نہیں ملا کرتا تھا.بیکہ سے اتر کر سیدھا حضرت کی دیوڑھی پر پہنچ جاتا تھا.بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ آتا در حضرت صاحب سے ملتا اور واپس لوٹ جاتا.حضرت صاحب زمانے منشی جی اتنی جلدی نہیں عرض کرتا.حضرت.بس زیارت کے لئے آیا تھا.حضرت منشی صاحب بیت کہ اس جگہ بیٹھتے کہ حضرت صاحب کا قرب حاصل ہو.
۱۳۳ نماز ختم ہونے کے بعد حضرت صاحب کے پیروں سے لپٹ جاتے اور بعض دفعہ نہایت محبت.ادب اور پیار سے کھینچ لیتے.بعض دفعہ جو نہی آپ ہاتھ بڑھاتے حضرت صاحب خود ہی آپ کی طرف اپنا پیر بڑھا دیتے.(الفضل ۱۳ اگست ۱۹۹۴ء) ماں سے محبت کا عہد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ " انگلستان جانے کے وقت خاکسار کی عمر اٹھارہ سال تھی.وہاں پہنچ کر جب طبیعت میں جدائی کا احساس پیدا ہوا اور والدین کی شفقت کا حقیقی اندازہ ہونے لگا تو خاکسار کے دل میں بھی اپنے والدین کے لئے ایک نئی محبت بیدار ہوگئی اور متواتر ترقی کرتی چلی گئی.چنانچہ ایک موقعہ پر خاکسار نے خصوصیت سے والدہ صاحبہ سے ایک عہد کے طور پر لکھا کہ میں آپ کے لئے محبت کا ایک بحر بے پایاں اپنے ساتھ لاؤں گا اور یہ جذبہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس میں انشاء اللہ کبھی کمی نہیں آئے گی.اس عہد کے اظہار کے بعد اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو ۲۵ برس اور زندگی عطا فرمائی اور خاکسار کو اپنے فضل اور رحم سے اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی." ( اصحاب احمد جلد یاز دہم مثه ) میں لنگر خانے کی خشک ٹوٹیوں کو بند کرتا ہوں محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اپنے والد محترم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ بوڑھے میں لنگر خانہ میں کھانا ٹھنڈا ہو جاتا ہے.اور روٹی بھی خشک ہو جاتی ہے سبادا آپ بیمار ہو جائیں.بہتر ہے کہ آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب
۱۳۴ کے ہاں کھانا کھایا کریں.فرمایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ عمدہ کھانے کے عادی ایسے کھانے کھا کر سلسلہ سے دور ہو گئے ہیں.میں لنگر خانہ کی خشک روٹیوں کو پسند کرتا ہوں جو الہاماً ور تیرے لئے اور تیرے درویشوں کے لئے ، مقرر ہوچکی ہیں.( اصحاب احمد جلد یاز دہم ص ۱۳) تمام دنیا روشن ہوگئی حضرت والدہ صاحبہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب فرماتی ہیں کہ جب تمہارے والد صاحب کی طرف سے خلیفہ ثانی کی بیعت کرنے میں توقف ہوا تو مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی.میں بہت دعائیں کرتی رہتی تھی کہ اللہ تعالے ان کو جلد صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے." ہمارے مکان پر ان دنوں بہت جگھٹا لگتا تھا.اور اختلاف کے متعلق بحث جاری رہا کرتی تھی.یہاں تک کہ بعض لوگوں کی آوازیں دوسری منزل پر بھی پہنچ جاتی تھیں میری طبیعت میں بہت قلق پیدا ہوا کہ تمہارے والد جلد فیصلہ نہیں کرتے اور کیوں لمبی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں اور جوش میں میں نے سیڑھیوں کے دروازے کو زور سے کھٹکھٹایا.میں نے جواب دیا کہ میں آپ کے قاتل سے بہت گھبرا گئی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ آپ جلد بیعت کرنے کا فیصلہ کریں اور ان بحثوں کو بند کریں اور منکرین خلافت کو کہہ دیں کہ وہ بحث و مباحثہ کے لئے یہاں نہ آیا کریں مختصراً آخر ایک روز عشاء کی نماز کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مجھے بیعت کر لینی چاہیے.مجھے ایسے معلوم ہوا کہ میرے لئے تمام دنیا روشن ہو گئی.انہوں نے جب صبح خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے منت کی کہ ابھی لکھ دیں.چنانچہ انہوں نے
۱۳۵ خط لکھ کر مجھے دے دیا اور میں نے اسے سینہ پر رکھ لیا اور سو گئی اور صبح ہوتے ہی ڈاک میں بھیجوا دیا." ( اصحاب احمد جلد یاز دہم ص 4 ) پیارے ہاتھوں سے لذیذ کھان حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے اور کھانا وہاں کھا رہے تھے کہ کسی نے اس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کہ کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی ہیں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود خود تشریف لائے ہیں.آپ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے.وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور فوراً اندر تشریف لے آئے اور ہم سب نے بہت خوشی سے اسے کھایا.اس شفقت اور محبت کا اثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ( اصحاب احمد جلد یاز دہم ص ۵۲) رفقائے میسج کا احترام لازمی ہے 19ء میں جب انفلوئنزا کی زبا شدت اختیار کر گئی اور سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی سخت بیمار ہو گئے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں کہ ان ایام میں خاکساری ہور سے مرکز مقدس آیا اور حضور کی شدید علالت کے پیش نظر حضور کی عیادت کے لئے حاضر ہوا حضور اس وقت چار پائی پر
لیٹے ہوئے تھے اور مکرم و محترم عبد الرحیم در و صاحب اور جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب چارپائی کے پاس فرش پر بیٹھے ہوئے تھے.جب خاکسار حقیر غلام کمرہ کے اندر آ کر نیچے فرش پر بیٹھنے لگا تو حضور فوراً اٹھ کر فرماتے ہیں کہ آپ سریا نہ کی طرف تشریف رکھیں.میں نے عرض کیا کہ خاکسار نیچے فرش پر بیٹھنے میں ہی سعادت سمجھتا ہے حضور نے اصرار کے ساتھ سرہانہ کی طرف بیٹھنے کا ارشاد کیا اور فرمایا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے رفتار میں سے ہیں.رفقاء کا احترام ضروری ہے.چنانچہ حضور نے ایک طرف ہو کر خاکسار کو چار پائی پر بٹھا لیا.-۱۰۴ (حیات قدسی جلد چهارم من هنا عمر میں انفاق فی سبیل اللہ دورہ اول میں نادار صحابہ کرام انفاق فی سبیل اللہ کی تحریک ہونے پر محنت مزدوری کر کے جو مٹھی بھر جو یا کھجوریں ملتیں.انشراح صدر اور بے پایاں مسرت کے ساتھ پیش کر دیتے تھے.حضرت بابو فقیر علی صاحب کی زندگی میں اس اسوۂ حسنہ کی جھلک نظر آتی ہے.چنانچہ آپ کے فرزند ایم - بشیر احمد صاحب آپ کی سیر چشمی.قناعت اور تنگی میں انفاق فی سبیل اللہ کے تعلق میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب دورے کر کے ضروریات سلسلہ کے لئے احباب سے روپیہ جمع کرتے تھے چنانچہ حضرت میر صاحب نے ایک ایسے موقعہ پر آپ سے امرتسر میں چندہ مانگا مگر آپ نیدست تھے.آپ نے بتایا کہ میرے پاس کچھ نہیں تھا لیکن حضرت محمدرح تحریک کرتے ہوئے بار بار فرماتے کہ کچھ دو سوال وجواب ہوتا رہا.ڈیوٹی کا
۱۳۷ وقت ختم ہونے پر آپ کو ساتھ لے کر بابو صاحب گھر پہنچے اور آٹے والا ٹمین لا کر دکھایا.جس میں صرف آدھ سیر کے قریب آٹا تھا اور حلقاً عرض کیا کہ ہمارے پاس یہی کچھ ہے.حضرت ممدوح نے اپنے کپڑے میں انڈیل کر قبول کر لیا.اس گھرانے کے لئے یہ بھی بڑی قربانی تھی.انہیں رات بغیر کھانے کے گزارنا پڑی.ر اصحاب احمد جلد سوم صفحه ۵۳ - ۵۴) استقامت مبارک احمد کی بیماری میں کسی نے خواب دیکھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے.یہ خواب سن کر حضور نے فرمایا کہ معبرین نے لکھا ہے کہ ایسی خواب کی تعبیر موت ہوتی ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے سے بعض دفعہ تعبیر مل جاتی ہے.اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کر دیں.گویا وہ بچہ جسے شادی بیاہ کا کچھ علم بھی نہ تھا حضرت مسیح موعود کو اس کی شادی کا ذکر ہوا.جس وقت حضور یہ باتیں کر رہے تھے تو اتفاقاً ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی اہلیہ صاحبہ صحن میں نظر آئیں.حضرت مسیح موعود نے انہیں بلا کر فرمایا کہ ہمارا یہ منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کر دیں.آپ کی لڑکی مریم ہے.اگر آپ پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.انہوں نے کہا.مجھے تو عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لوں.یہ خاندان نیچے گول کمرہ میں ٹھہرا ہوا تھا.باہر سے ڈاکٹر صاحب آئے تو انہوں نے اس رنگ میں بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکتے رہیں گے؟ والدہ صاحبہ کو دو خیال تھے کہ شاید ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ کرنے میں
١٣٨ تامل ہو.یہ کہ اس سے پہلے ان کے خاندان کی کوئی لڑکی کسی غیر سید سے نہیں بیاہی گئی.اور دوسرے مبارک احمد ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہے اور ڈاکٹر صاحب خود اس کا علاج کرتے ہیں اور گھر میں ذکر کرتے ہیں اس کی حالت نازک ہے اور اس وجہ سے وہ خیال کریں گے کہ یہ شادی نانوے فی صد خطرہ سے پر ہے اور جلدی ہی لڑکی کے ماتھے پر ہوگی کا ٹیکہ لگنے کا خوف ہے.ان باتوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب کمزوری دکھائیں اور ان کا ایمان ضائع ہو جائے.سو آپ کے سوال پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا.اس پر انہوں نے ساری بات سنائی تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اچھی بات ہے اگر حضرت مسیح موعود کو یہ پسند ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.یہ جواب سن کر والدہ مریم بگیم کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.جب ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کیا آپ کو یہ تعلق پسند نہیں؟ انہوں نے کہا مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضور نے ارشاد فرمایا تھا.میرا دل دھڑک رہا تھا اور مجھے ڈبہ تھا کہ کہیں آپ کا ایمان نہ ضائع ہو جائے اور اب آپ کا جواب سن کر خوشی سے میں اپنے آنسو نہیں روک سکی.د تابعین اصحاب احمد جلد سوم صفحه ۷۹-۸۰) اطاعت والدین ایک واقعہ محترمه طیبه آمنه صاحبه بگی مکرم مرزا مبارک احمد صاحبہ اپنے والد محترم حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کے متعلق تحریر کرتی ہیں کہ ہمارے دادا حضرت نواب محمد علی خاں صاحب جن کو ہم دادا حضور کہتے ہیں کا اپنی اولاد پر باوجود انتہائی
١٣٩ محبت کے رعب تھا.اور آپ کے بعض خاص اصول تھے جن پر آپ اولاد کو سنتی سے کاربند ر کھتے تھے نہیں نے ہمیشہ ابا جان کو ابا حضور کی خدمت اور اطاعت میں پیش پیش پایا.میری شادی کے موقعہ پر ابا جان نے بہت سے احباب کو مدعو کیا ہوا تھا سینکرونی کا سامان پھیل اور مٹھائیاں اور فالتو برتن لاہور سے منگوائے ہوئے تھے.آیا حضور مالکہ کولہ میں تھے اور کسی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہو سکتے تھے.شادی سے ایک دن قبل ابا جان کے نام آپ کا ایک خط آگیا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ شادی کے روز نہ بارات اور نہ لوگوں کی دعوت کا انتظام کیا جائے کیونکہ میں اصولی طور پر اس کے خلاف ہوں مجھے یاد ہے ابا جان نے دعوت روک دی اور وہ ڈھیروں ڈھیر مٹھائی اور پھل ادھر اُدھر لوگوں کے گھروں میں بانٹ کرختم کیا.( اصحاب احمد جلد و و از دهم صفحه ۱۸۴) ایثار کا حسین نمونه محترم جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اسے فرماتے ہیں کہ ہجرت کے ۱۹۴ موقع پر جب میں قادیان سے وسط نومبر 1 میں لاہور پہنچا تو اس وقت میرے پاس اپنے سارے خاندان کے افراد کے لئے جو اس وقت لاہور میں موجود تھے.اور تعداد میں آٹھ تھے صرف ایک لحاف تھا.میں نے دوسرے دن حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سے اپنی حالت کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انتظام کرتا ہوں اور یہ کہ کر اندر تشریف لے گئے اور نہایت خوبصورت اور قیمتی اور اچھا خاصا بڑا لحاف لا کر مجھے دے دیا اور خود حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ اماں جان میرے پاس رات سونے کے لئے کوئی لحاف نہیں.اماں جان نے فرمایا.میاں
۱۴۰ تمہارا اپنا لحاف کیا ہوا.ان کے اس جواب پر کہ میں نے وہ ملک کو دے دیا ہے حضرت انہاں جان نے اسی وقت اپنا لحاف حضرت میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب کو دے دیا اور حضرت اماں جان کو حضور نے مہیا کر دیا.(اصحاب احمد جلد دوازدهم ۱۶۲ - ۱۶۳) غیر مفتوح ناقابل تسخیر حب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب امام الرابع حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی استقامت کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں.پھر اس زمین پر حضرت صاحبزادہ نعمت اللہ صاحب آپ کی پیروی میں آئے.وہ جانتے تھے کہ دھوئی ایمان کے نتیجہ میں انسان کو کیا کیا مصیبتیں سہنی پڑتی ہیں اور مصائب کے کن کن راستوں سے گزرنا پڑتا ہے.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی یاد ان کے ذہن اور دل میں تازہ تھی.اس کے باوجود انہوں نے وہی نمونہ دکھایا جو اس سے پہلے ایک مرد مجاہد نے دکھایا اور کوئی پرواہ نہیں کی.قید کی حالت میں انہوں نے ایک خط لکھا جو کسی ذریعہ سے ایک احمدی دوست تک پہنچ گیا.وہ لکھتے ہیں.رو مسجد سے خدا کا عجیب سلوک ہے کہ روزن بند ہے اور دن کے وقت بھی رات کی تاریکی ہے مگر جوں جوں اندھیرا بڑھتا ہے میرے دل کو روشن کرتا چلا جاتا ہے اور ایک عجیب نور کی حالت میں میرا وقت بہر ہو رہا ہے." ان کو اس قید خانے سے نکال کر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی طرح گلیوں میں
پھر ایا گیا.اور طعن و تشنیع کی گئی اور مذاق اڑایا گیا.تو اس وقت " ڈیلی میل" کے نمائندہ نے اس ذکر کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ایسا بیان دیا جو تاریخی حیثیت رکھتا ہے.وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ با وجود اس کے کہ اس شخص پر انتہائی ذلت پھینکی جا رہی تھی وہ کابل کی گلیوں میں پابجولاں پھرتا ہوا ایک آہنی عزم کے ساتھ مسکرا رہا تھا.اس کی روح غیر مفتوح اور ناقابل تسخیر تھی کہ اس کا نظارہ کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا.ہمارے سامنے اس پر پتھر برسے لیکن اس نے اُف تک نہ کی.ہاں پنفراڈ سے پہلے صرف یہ خواہش تھی کہ مجھے دو نفل پڑھنے کی اجازت دی جائے " تشحید الاذہان ستمبر ۶۱۹۸۵ ) • جان ظفر ظفر کے خدا کے سپرد محترمہ امتہ الحی صاحبہ بنت حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب لکھتی ہیں کہ میں ۱۹۶۳ ء میں لنڈن تھی.ایک دن ابا مجھ سے ملنے تشریف لائے تو ان کے چہرے پر عجیب اثر تھا.میں سمجھ نہیں پا رہی تھی عرض کیا کیا بات ہے؟ فرمایا تخلیہ میں تم سے بات کرنی ہے.چنانچہ ہم دونوں کمرے میں آگئے.فرمایا.وہ جو ہوتے ہیں ناں جن کے کپڑوں میں پیوند لگے ہوتے ہیں اور بالوں میں دھول ہوتی ہے.وہ اللہ کے بڑے لاڈلے ہوتے ہیں.مجھے اللہ نے بہت مال و دولت عطا فرمائی مگر میں نے اپنے لئے یا تمہارے لئے کچھ نہیں رکھا.میں آج تم سے یہ اجازت لینے آیا ہوں کہ آئندہ بھی اپنے اللہ سے ایسا ہی کرنے کی توفیق مانگتار ہوں گا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تجھے اسے جان ظفر کچھ نہیں ملے گا.میں نے تمہیں اور بچوں کو اللہ کے سپرد کیا اور وہ کانی ہے کیا تمہیں منظور ہے.
۱۴۲ میں ان سے لپٹ گئی اور بہت پیار کیا.پھر ضبط ٹوٹ گیا....نہیں نے عرض کیا.میری جان ! مجھے ہر رنگ میں منظور ہے.بس اپنے رحم سے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور آپ کو آخری سانس تک یہ توفیق ملتی چلی جائے.میرا رازق میرا رب ہے اور وہ میرے لئے کافی ہے.) - ۰ ۰ د خالد - حضرت چوہدری صاحب نمبر ۱۳۹۰ علالت اور صحت حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں کہ جب عزیزم اقبال حمد کی عمر سات آٹھ سال کی تھی.وہ پرائمری میں پڑھتا تھا.اس کی والدہ اپنے میکے گئی ہوئی تھی.وہ میرے پاس لاہور میں اکیلا تھا کہ ان دنوں ایک غیر احمدی مولوی اللہ وہ جو مشہور واعظ تھے وہ ایک دن ہمارے گھر پہ آئے اور عزیزم اقبال سے باتیں کرتے رہے.ان کے سوالات کے جوابات اس نے باوجود صفر سنی کے بہت معقول اور عمدہ دیئے.تو وہ بہت متاثر ہوئے اور بار بار کہتے کہ یہ لڑکا آفت ہے.اس نے مجھ جیسے جہاندیدہ کو ساکت کر دیا اور جو بات بھی میں نے اس سے دریافت کی ہے اس کا حیرت انگیز جواب دیا ہے جو بنی دو مولوی صاحب عزیز اقبال احمد کے متعلق حیرت کا اظہار کرتے ہوئے گھر سے باہر نکلے.اقبال احمد کو شدید بخار اور سارے جسم میں درد شروع ہوگئی.اور اسکی آنکھیں استقدر متورم ہوگئیں کہ نظر یار کل بند ہوگئی ہیں نے محسوس کیا کہ شاید اس حاسد ملاں کی نظر بد کا اثر ہوا ہے اور اس کی زہریلی توجہ سے بچہ بیمار ہو گیا ہے.کیونکہ نظر بد کا لگنا بھی نظام قانون طبعی کے سلسلہ تاثرات سے تعلق رکھتا ہے
۱۴۳ اور العین حق " کا فرمان نبوی اس کا مصدق ہے.اس لئے بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھوٹے بچوں کی ٹھوڑی پر یا چہرہ پر سیاہ داغ لگا دیتے تھے تاکہ نظر بد کے اثرات سے بیچے جائیں.بہر حال اقبال احمد کے متعلق مجھے نظر یکہ کے لگنے کا ہی خیال ہوا.یں عبادت مغرب کے لئے بیت الذکر میں گیا.اور وہاں پر بعض ضروری امور کی سرانجام دہی کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی.جب میں مکان پر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا بچہ شدت تکلیف اور درد سے کراہتے ہوئے اللہ کے حضور دعا کر رہا ہے کہ "اے میرے مہربان خدا مجھ پر مہربانی فرما میری تکلیف دور کر دے اور میری ننھی سی جان پر رحم فرما.اب تو میری آنکھوں سے کچھ نظر بھی نہیں آتا.ان کو صحت دے تاکہ میں دوبارہ دیکھنے لگ جاؤں ، جب میں نے بچہ کو اس طرح دعا کرتے ہوئے سنا تو میرا قلب جوش، شفقت اور جذبہ ترحیم سے بیتاب ہو گیا......میں نے اس کو گود میں بٹھا لیا اور اشکبار آنکھوں سے تضرع اور اضطراب سے دُعا میں مشغول ہو گیا.میں دعا کر ہی رہا تھا کہ محمد پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے اپنے خیر الراحمین اور خیر المحسنین خدا کو سامنے دیکھا.اس روف ریہ اور بے مثل خدا نے مجھے فرمایا کہ " اس بچے کی سب تکلیف تپ اور دور دا بھی ڈور کردی جائیگی.اور ورم بھی صبح تک دور کر دی جائیگی " میں نے اس بشارت سے عزیزہ اقبال احمد کو اسی وقت اطلاع دے دی.تب اللہ تعالیٰ کی نظر کرم سے تپ اور درد چند منٹوں میں جاتے رہے اور صبح کے وقت جب عزیز اٹھا تو اس کی متورم آنکھیں بھی بالکل ٹھیک اور صحتیاب ہوگئی تھیں چنانچہ بچے نے اُٹھتے ہی خوشی سے اس بات کا اظہار کیا کہ کہیں اب بالکل اچھا ہوں اور مجھ پر اللہ کا فضل
ہو گیا ہے.۱۴۴ (حیات قدسی حصہ پنجم صفحه ۵۶ - ۵۷) ذوق عبادت حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کے ایک پرانے دوست احمد یہ ہوسٹل کے روحانی ماحول اور حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کے ذوق عبادت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک روزہ مولوی صاحب میرے پاس آکر زار و قطار رونے لگے.میں سمجھا کہ گھر سے کوئی اندو مبناک خبر آئی ہوگی.اور انہیں تسلی دینے لگا.جب آپ ذرا ضبط کر سکے تو کہنے لگے کہ بھائی جی ! کل سے مجھے نماز میں لذت نہیں آرہی.یہی وہ مستی میں جہنوں نے اپنی کمزوری اور بیماری کے باوجود بعد میں آنے والے مرتبان کیلئے ایک شاندار مثال قائم کی.انہوں نے مولوی محمد صدیق صاحب کو جو بوجہ بیماری کمزور تھے.ایک سفر میں جہاں درمیانی پہاڑی بہت بلند تھی.راستے میں نالے اور ندیان بہت تھیں اپنی پیڈ پر اٹھا کر گزارا.١٩٩٤ ء.د روزنامه الفضل ۲۶ دسمبر سته ) " دوہری ریکٹ" صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں جس کا نام نواں پنڈ " تھا.ہماری جدی جائداد میں سے تھا.ابا جان وہاں ٹینس کھیلنے جاتے اور مجھے ساتھ لے کر جاتے کبھی بھی ناغہ نہیں ہوا.۱۵ ۲۰ منٹ کے لئے ریکٹ دے دیتے کہ لو اب تم کھیلو.جس ریکٹ سے آپ کھیلتے
۱۴۵ تھے وہ انگلستان کا بنا ہوا ڈوھرٹی " تھا.جو اس زمانہ میں اچھا سمجھا جاتا تھا.اپنی دنوں اباجان نے ایک ڈوھرٹی ریکٹ میرے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحب کو دیا.مجھے جب اس کا علم ہوا تو میں نے ایک ملازمہ کے ہا تھ ابا جان کو خط لکھ کر بھیجوایا کہ آپ نے بھائی کو ریکٹ منگوا کر دیا ہے.مجھے نہیں دیا.مجھے حدیث یاد ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کو گھوڑا لے کر دیا ہے.اس پر رسول کریم نے استفسار فرمایا کہ دوسرے بیٹے کو بھی دیا ہے ؟ صحابی کے جواب دینے پر کہ صرف بڑے کو دیا ہے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو فرمایا کہ یا تو دوسرے بیٹے کو بھی خرید کر دو یا جس کو دیا ہے اس سے بھی گھوڑا واپس لے لو.یہ نا انصافی ہے.ملازمہ واپس آئی تو میں نے پوچھا کہ آتا جات نے کیا جواب دیا ہے.وہ کہنے لگی کہ آپ نے خط پڑھد کر ر کھ لیا ہے کیا کچھ نہیں.اگلے ہی روز آپ دفتر سے گھر واپس آرہے تھے اور ہاتھ میں ایک ڈو حصر ٹی ریکٹ" پکڑا ہوا تھا.میرے پاس آکر مجھے ریکٹ دیکر کہا.کو یہ ہے تمہارا ریکٹ نہیں نے لاہور آدمی بھیجوا کر تمہارے لئے منگوایا ہے.7990 د روزنامه الفضل صفحه ۵ - ۵ جنوری ۰ ) وعدہ پورا کرو مکریم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ہر سال جلسہ سالانہ کے بعد آپ (حضرت مصلح موعود ) دو اڑھائی سفینہ کے لئے بیاس دریا پو شکار کے لئے تشریف لے جاتے تھے.جلسہ سالانہ کی مصروفیت جو روزانہ 19 گھنٹے سے کم ہوتی تھی کا تقاضا تھا کہ جلسہ کے بعد کچھ آرام اور صحت مند تفریح بھی ہو جائے.
104 کو ایک دن آپ کی طبیعت کچھ خراب تھی.آپ نے ڈاکٹر حشون انتھا میں کہا کہ میں آج دریا پر نہ جا سکوں گا.آپ مبارک کو شکار کے لئے لے جائیں ہم دریا پر پہنچے.کشتی پر سوار تھے کہ ہمارے اوپر سے دو منگ“ (بڑی مرغابی اتنے ہوئے جا رہے تھے.میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ کہ اگر آپ ان دونوں کو گرائیں تو میں آپ کو ایک روپیہ انعام دوں گا ڈاکٹر صاحب نے فائر کیا اور وہ دونوں نیچے آگر ہے.شام کو واپس گھر آئے تو ایک روپیہ کا وعدہ بھول گیا تھا.مگر ڈاکٹر صاحب بھولنے والے نہ تھے.دو تین دن کے بعد ابا جان کو کہا کہ میاں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں قاز گوالوں تو مجھے ایک روپیہ انعام دیں گے انہوں نے ابھی تک مجھے روپیہ نہیں دیا.جب آپ گھر کے اندر تشریف لائے تو مجھے بلا کر فرمایا کہ تم نے جو ڈاکٹر صاحب سے وعدہ کیا تھا.پورا نہیں کیا.یہ جائز نہیں یا وعدہ نہ کرو.یا پھر اس کو پورا کرو.اسی وقت اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر مجھے دیا کہ ابھی جاکر ڈاکٹر صاحب کو دو.روزنامه العقل صفحه ۴ ۵ جنوری ۱۹۹۵ء) خدمت خلق میں طمانیت حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ طبیب کا کام صرف دوا دنیا ہی نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ دعا بھی کرے.کیونکہ دوا تو انسانی اسکل ہے.ٹھیک بیٹے یا نہ بیٹھے کچھ نہیں کہا جا سکتا.لیکن اگر اس کے ساتھ دکھا بھی ہو تو تدبیر کو تقدیر کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا فضل کر دیتا ہے.چنانچہ حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب
۱۴۷ کا یہی طریق تھا.کہ وہ اس طرح دوا دیا کرتے تھے.دوا دیکر خوش ہوتے حالانکہ بعض حالات میں ان کے اپنے گھر میں کوئی شخص مر یقین ہے بلکہ ایک دفعہ ایک وفات بھی ہوئی تو جو لوگ دوائی لینے آئے تھے انہیں خوشی سے دوا دی گئی امکان تو یہ تھا کہ اس دن دوا نہ بھی دی جاتی اگر گھر میں جنازہ پڑا ہو.الفضل ۱۷ نومبر ) 51990 متوکل اور پر اعتماد خاتون کی دعا مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء میں فصل آباد البیت الاحمدیہ کی افتتاحی تقریب تھی حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی اس با برکت تقریب کے موقع پر تشریف لا رہے تھے.چونکہ حضرت امام جماعت کی تشریف آوری کا پروگرام تھا.اس لئے احباب جماعت میں بڑا جوش و خروش تھا.اور تمام احباب انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے.تاریخ مقررہ پر حضرت امام جماعت الثانی نے قادیان سے تشریف لا کر بڑی رقت آمیز اور پرسوز دعاؤں کے ساتھ افتتاح فرمایا.جس دن امام جماعت احمدیہ کا علی الصبح واپسی کا پروگرام تھا.رات عشاء کے وقت محترم ڈاکٹر محمد شفیع صاحب میرے پاس تشریف لائے.وہ ان دنوں جڑانوالہ میں شفا خانہ حیوانات کے انچارج ڈاکٹر تھے اور بعد ازاں حضور کی خدمت میں جڑانوالہ تشریف لے جانے کے لئے درخواست کی اور ساتھ ہی چائے کی دعوت قبول کرنے کے لئے عرض کیا.حضرت صاحب نے فرمایا.دیر ہو جائے گی.اور میرا تجربہ ہے کہ یہ پندرہ منٹ کئی گنا زیادہ ہو جاتے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ وقت کی پابندی کریں گے.بہر حال حضرت صاحب نے منظوری عطا
۱۴۸ فرمائی جس پر ڈاکٹر صاحب کی خوشی کی انتہا نہ رہی.شفاخانہ کے وسیع صحن میں شامیانے اور خوبصورت قناتیں لگ گئیں اور دو تین گھنٹوں میں قریباً یکصد آدمیوں کو چائے پلانے کا انتظام مکمل ہو گیا.فجر کی نماز کے تھوڑی دیر بعد حضرت صاحب اپنے مصاحبین کے ہمراہ تشریف لے آئے اور اتنا بڑا انتظام دیکھ کر تعجب اور خوشی کا اظہار فرمایا.دعوت میں موجود غیر از جماعت معززین کے شوق کو دیکھ کر حضرت صاحب نے ملاقات در گفتگو نصف گھنٹہ تک جاری رکھی.اس واقعہ کے ساتھ ایک قبولیت دعا کی ایمان افروز مثال وابستہ ہے جس کو بیان کرتے ہوئے عبدالباسط صاحب شاہد کہتے ہیں.جڑانوالہ کے احباب کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضور فیصل آباد تشریف لا رہے ہیں تو ہر احمدی اس سفر کی تیاری کرنے لگا.جڑانوالہ کی ایک ضعیف و بیمار معمر خاتون نے اپنے بیٹے کو بالحات و اصرار کہا کہ مجھے بھی اس مبارک سفر پر ساتھ لے جاؤ.میں بھی حضرت صاحب کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو روشن کرنا چاہتی ہوں مگر کسی مجبوری اور مشکل کی وجہ سے اس بزرگ خاتون کا بیٹا اپنی مادر محترم کی اس خواہش کو پورا نہ کر سکا اور باوجود والدہ کے اصرار اور منت سماجت وہ انکار پر ہی قائم رہا.جب وہ اپنی والدہ کو چھوڑ کر سفر پر جانے لگا تو اس خاتون نے بڑے مان اور اعتماد سے کہا کہ بیٹا تم تو مجھے پیچھے چھوڑے جارہے ہو مگر میں نے سجدہ میں سر رکھ دینا ہے اور اس وقت تک سجدہ سے سر نہیں اٹھانا جب تک میرا خدا میرے آقا کو یہاں جڑانوالہ لانے اور مجھے زیارت کرانے کا وعدہ نہیں کو لیتا.اس متوکل اور پراعتماد خاتون کی دعا اور خواہش اس رنگ میں پوری ہوئی کہ حضور غیر معمولی حالات میں جڑانوالہ آنے پر آمادہ ہوئے اور اس خاتون کے جید یہ اور خواہش کا علم ہونے پر اس کے گھر جا کر اس کی خواہش
۱۴۹ کو پورا کرنے کا انعام فرمایا.۱۹۹۵ د روزنامه الفضل ص ۲۰۴ اپریل ) بضع سنين مکرمہ مبارکہ قمر اہلیہ کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب تحریر کرتی ہیں کہ حضرت امام جماعت الثانی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے انتقال پر ملال کے بعد میرا معمول تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے ہاں ملاقات کے لئے جاتی اور دعا کی درخواست کرتی.اللہ تعالیٰ نے سات بیٹیاں عطا کی ہوئی تھیں.ڈاکٹر صاحب کو دل کا حملہ ہو چکا تھا.اس لئے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا وہم دل پر پڑا رہتا تھا.ایک روز میں بہت گھبرا گئی.حضرت مولوی صاحب کے پاس گئی اور انکو بہت اصرار سے کہا کہ آپ کا خدا سے ایک خاص تعلق ہے.اللہ میاں سے پوچھ کر بتائیں کہ میرے شوہر کی عمر کتنی ہوگی فرمانے لگے فکر نہ کرو میں خدا سے دعا کروں گا.دو روز بعد پھر گئی تو فرمانے لگے کہ خدا نے مجھے بتا دیا ہے.پوچھنے پر فرمانے لگے کہ یہی دعا کرتے کرتے نظارہ نظر آیا کہ چھان پھٹکنے کی آواز آرہی ہے اور دانوں کی آواز کے ساتھ یہ آواز ملی ہوئی ہے :- ۷۲ =4×۱۲ اس کا مطلب ہے.تمہارے میاں کی عمر ۷۲ سال ہوگی.خاکسارہ نے عرض کیا.مولوی صاحب یہ تو تھوڑی ہے اس وقت تو میری ساری بیٹیوں کی شادی بھی نہیں ہوئی ہوگی.فرمانے لگے اتنی تو لو پھر اور مانگ لیں گے.
۱۵۰ حضرت مولوی صاحب کے انتقال کے بعد میرا دل بہت بے چین رہتا کہ مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کی عمر ۷۲ سال بتائی تھی جس کا وقت قریب چلا آ رہا ہے.ہر وقت بزرگوں سے ملاقات کی تڑپ رہتی.اسی جستجو میں ایک دن حضرت مولوی عبد اللطیف بہاولپوری کے ہاں دعا کا کہنے چلی گئی.ان کی خدمت میں عرض کیا کہ خدا نے مولوی غلام رسول صاحب کو ۷۲ سال عمر بتائی تھی.ابھی تو میرے بچے چھوٹے ہیں.آپ خدا سے دعا کریں.انہوں نے میرے لئے دعا مانگنے کا وعدہ کیا.چند دنوں کے بعد میرے شو مر کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد حضرت مولوی عبداللطیف صاحب کا ایک رقعہ ہاتھ میں پکڑے گھر آئے اور کہنے لگے رقعہ پڑھو.پڑھا تو لکھا تھا.دعا کے بعد آواز آئی " بضع سنين" ساتھ ہی تفہیم لکھی ہوئی تھی کہ اس کا مطلب ۳ سے ۹ تک ہند سے بنتا ہے.یہ لفظ سورہ یوسف علیہ السلام کے قید خانے میں رہنے کی مدت کے بارے میں آیا ہے جس کا مطلب ہے تقریباً؟ سال حضرت یوسف علیہ السلام قید میں رہے.اللہ نے اپنے پیارے بندے کی ویسے ہی بات پور ہی کر دی.ڈاکٹر تاب کو 2 سال کے بعد پورے 9 سال مزید عمر عطا ہوئی اور ڈاکٹر صاحب نے ۸۱ سال کی عمر میں وفات پائی.(الفضل ۲۹ جنوری ۹۵ صفحه (۵) خدا تعالیٰ یہ سائیکل مجھے دلائے رانا فیض بخش نون تحریر فرماتے ہیں کہ محترم سروال جمعدار خدا بخش خان بزدار مخلص اور احمدیت کے شیدائی تھے میرے پیارے اور گہرے دوست تھے.
۱۵۱ انہوں نے سنایا کہ ایک ہندو ساکن کوٹ قیصرانی ہماری بستی میں آیا اور مجھے کہا کہ میرے پاس دو سائیکلیں ہیں.ایک سائیکل جو آپ کو پسند ہو گا آپ کے ہاں فروخت کر دوں گا.سائیکل سواری کا شوق تھا.میں نے کہا.اچھا کل صبح ہمیں آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا.حسب وعدہ کوٹ قیصرانی چلا گیا.راستہ میں جہاں صاف ستھرا ہموار میدان دیکھتا تو دل میں کہتا کہ یہاں سائیکل کو دوڑا ؤں گا ساتھ ہی دعا کرتا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ یہ سائیکل مجھے دلا دے.جب میں ہندو کے پاس پہنچا تو اس نے کہا میرا بھائی سائیکل فروخت کرنے پر راضی نہیں ہے.بڑے بھائی کی رائے کے خلاف میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا.اس جواب سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی.دلی تمناؤں اور خیالات پر پانی پھر گیا.دو میل کا واپسی سفر میرے لئے بو جھل بن گیا.گھر اگر مایوسی اور اداسی کی حالت میں چار پائی پر لیٹ گیا.ظہر کے بعد سردار چیند خان کے ڈیرہ پر چلا گیا.وہاں جا کر دیکھا کہ وہ ہندو جو سائیکل فروخت کرنا چاہتا تھا.پولیس نے اسے مہتھکڑی لگا رکھی ہے.پتہ چلا کہ سائیکل جو وہ مجھے فروخت کر رہا تھا چوری کا تھا.اگر وہ سائیکل خرید لاتا تو وہ ہتھکڑی مجھے لگی ہوئی ہوتی.والفضل ۱۲۳ ستمبر ۱۹۹۵ء صفحه (۵) بات ہے شفقت کی مکرم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب تحریر فرماتے ہیں :.۱۹۴۶ء نہ میں موسم گرما میں خاکسار نے ڈلہوزی اپر بکر و نہ یہ شانتی کئی مکان کرایہ پر لیا تا کہ حضرت صاحب کے قریب گرمی کی تعطیلات گزارنے کی کاکی
۱۵۲ سعادت حاصل ہو.ایک دن صاحبزادہ انور احمد صاحب نے خاکسار کو بیس کے اڈہ پر قریباً ۱۲ بجے دن فرمایا کہ حضرت صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فرمارہے تھے کہ اسد اللہ خان کو اطلاع کر دیں کہ وہ ایک بجے دوپہر بیت الفضل آئے.نہیں نے یہ خیال کر کے کہ اگر کسی کام سے لاہور وغیرہ بھی بھیجوانا ہوا تو لیس کا وقت نہ نکل جائے.اڈہ سے بیت الفضل نیک کا فاصلہ دوڑ کر طے کیا.جب میں بیت الفضل پہنچا تو میرا سانس بہت چڑھا ہوا تھا اور حضرت صاحب پرائیویسی سیکرٹری صاحب کے خیمہ کے دروازہ پر کھڑے کچھ ہدایات فرمالے ہے تھے.خاکسار نے سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا.آپ تو معلوم ہوتا ہے دوڑتے ہوئے آئے ہیں.خاکسار نے اطلاع ملنے کا سارا واقعہ عرض کیا تو فرمایا ہمارے چند عزیز دوپہر کے کھانے پر آرہے ہیں.آپ کو بھی کھانے پر بلایا ہے.خاکسار کے کپڑے خوب صاف نہ تھے.خاکسار نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا حضرت صعاب نے فور انتبسم ہو کر فرمایا یہ ہم نے آپ کو کھانے پر بلایا ہے آپ کے کپڑوں کیلئے نہیں کیا بتاؤں کہ اس وقت کس قدر خوشی اس عاجز کو ہوئی.یوں معلوم ہوتا تھا جیسے فرط انبساط سے میرا دل فیل ہو جائے گا.جب کھانے پر بیٹھے تو قادیان سے اُسی دن حضرت صاحب کے باغ سے آم ڈلہوزی پہنچے تھے.ایک نہایت ہی اعلیٰ اور کافی بڑا اہم حضرت صاحب نے برف لگے پانی سے نکال کر اس میں سے ایک چوسی لے کر خاکسار کو یہ کہہ کر مرحمت فرمایا یہ آپ یہ کھائیں ، خاکسار نے وہ آم لے لیا اور رومال میں لپیٹ کر اچکن کی جیب میں اس خیال سے ڈال لیا کہ شانتی کٹی میں جاکر یہ تبرک اپنی بیوی بچوں سمیت کھاؤں گا.تھوڑی دیر بعد فرمایا آپ نے آم کھا بھی لیا " میں نے عرض کیا رکھ لیا ہے تاکہ عزیزی اعجاز وغیرہ کو
۱۵۳ بھی اس میں سے حصہ تبرک مل جائے.فرمایا." یہ آپ کھا لیں.ان کے لئے اور بھی ہیں ؟ میں نے وہ آم وہاں ہی کھا لیا اور اس کی گٹھلی جیب میں ڈال لی تاکہ اسے زمین میں لگا دیا جائے.کھانے کے بعد جب میں گھر پہنچا تو والدہ اعجاز نے مجھے بتایا کہ کوئی آدمی آموں کی ایک اچھی خاصی بڑی نوکری دے گیا ہے.لیکن نہ یہ بتا کر گیا ہے کہ کہاں سے آئی ہے اور نہ ہی کسی کے لئے ہے.مجھے حضرت صاحب کا ارشاد یاد آگیا اور ہم نے وہ آم اپنی خوش قسمتی پر شاداں ہو کر کھائے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا.الفضل - ۲۱ اگست ۱۹۹۵ء صفحه ۶) آپ انشاء اللہ جلسہ پر ضرور آئیں گے چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور تحریر فرماتے ہیں کہ در تقسی یم ہند سے چند سال قبل ایک مقدمہ قتل برادرم محترم شكر الله فقال صاحب پر بنا دیا گیا جس کی وجہ سے مجھے لاہور.سیالکوٹ اور ڈسکہ کے درمیان بہت ہی زیادہ سفر کرنا پڑا.مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ملک سے باہر تھے اس لئے مجھے بہت فکر تھی اور ذہنی بوجھ بھی بہت تھا میری طبیعت میں جو رد عمل ہوا یہ تھا کہ مجھے پیشاب کی جگہ خون ہی آتا تھا اور کافی مقدار میں آتا تھا.دسمبر کے نصف تک میں اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ پہلو بد لنا بھی میرے لئے ممکن نہ رہا.ایک دن اسی طرح لیٹا ہوا تھا کہ نیچے موٹروں کے کھڑا ہونے کی آواز آئی.والدہ اعجاز نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں.مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے سوچا کہ آپ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کر دوں گا.چنانچہ آپ تشریف لائے اور حال دریافت فرمایا.اور پھر باتوں کے درمیان فرمایا یہ آپ کا جلسہ پر
۱۵۴ تو جانے کو جی چاہتا ہو گا.میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے رندھی ہوئی آواز میں عرض کیا.وہ کون احمدی ہے جو جلسہ پر جانا نہ چاہے.اس پر آپ نے اپنی مبارک آنکھیں اٹھا کر خاکسارہ کی طرف دیکھا.اور خاکسار نے دیکھا کہ آپ کی گردن مبارک سے نہایت خوبصورت سرخی آپ کے چہرہ مبارک کی طرف بڑھنی شروع ہوئی اور آپ کا چہرہ اور گردن پیشانی اور کان مبارک سیب کی طرح بلکہ سیب سے کہیں مریخ خوبصورت اور چمکدار ہو گئے.آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی مبارک اٹھا کر اور میری طرف اشارہ کر کے فرما یا یہ آپ انشاء الله ضرور جلسہ پر آئیں گے " مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت عطا فرما دی ہے.آپ تھوڑی دیر تشریف فرما کر تشریف لے گئے تو مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی.نہیں نے پیشاب کے لئے بوتل لے کر پیشاب کیا تو اس میں ذرہ بھر بھی خون کی آلائش نہیں تھی.اور اس کے بعد دن بدن میری صحت ترقی کرتی چلی گئی یہاں تک کہ میں جلسہ سے تین یا چار دن پہلے قادیان پہنچ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا " اچھا آپ آگئے ؟ میں نے عرض کیا کہ جی یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ نے فرمایا ہو کہ میں ضرور جلسہ پر آؤں گا اور میں نہ آتا.د الفضل ۲۱ اگست ۱۹۹۵ صفحه ۶ ) ملا چلے جاؤ حضرت غلام مرتضیٰ صاحب (والد ماجد حضرت مسیح موعود) کے حسن اعتقاد کی بدولت ان سے بعض اوقات اللہ تعالیٰ غیر معمولی سلوک فرماتا تھا.
دد ان کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سخت بیمار ہوئے یہ بیماری بہت طوالت پکڑ گئی.اس اثناء میں ان کے پاس ایک ملا، آیا اور اس نے سمجھا کہ مرض کا بہت زور ہے تو وہ باہر نکل کر کواڑ کے پیچھے اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کب دم نکلتا ہے اور عورتیں رونا شروع کرتی ہیں.وہ اس حالت میں کھڑا تھا کہ آپ کی نظر اس پر پڑ گئی.فرمانے لگے.ملا چلے جاؤا بھی تو میرے ہیں سال باقی ہیں.تو کب تک انتظار کرے گا.چنانچہ آپ اس کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے.والفضل ۲۴ اکتوبر 1 ۱۹۹۵ء لو وہ فرشتہ آیا مکرم میرمهدی حسین صاحب دارالامان نقل مکانی کرنے کے بعد کا واقعہ بیان فرماتے ہیں.ایام قیام دار الضعفاء قادیان میں ایک دن میرا ہاتھ خالی تھا کہ ایک ارائیں موضع ننگل متصل قادیان سے گاجر بیچنے آیا.اور آواز دی میرے بچے لیکے اور کہا گاجریں لے دور میں نے کہا جب اچھی گاجریں آدیں گی تو لے لیں گے.گاجر فروش کہنے لگا میری گاجریں میسٹی میں کھا کر دیکھ لو.اور وہ گاجریں بچوں کے ہاتھ میں دے دیں.انہوں نے کہا ابا جی ، گاجریں میٹھی ہیں.لے لو میں نے تو کل صلی اللہ دو پیسے کی گاجریں لے دیں.بچے لے کر گھر پہنچے تو ان کی والدہ نے کہاں بھیجا کہ گاجریں شیریں میں اور بھیج دو اور یہ اشد ضرورت سمجھ کر لی گئیں مگر پیسہ میرے پاس نہ تھا.اس اثناء میں ایک غریب تو احمدی نے کہا کہ مجھے بھی در پیسے کی گاجریں لے دیں
104 اور پیسے میرے پاس نہیں ہیں.اس کو بھی دو پیسے کی گاجریں لے دیں اور پیسے اپنے ذمہ ڈال لئے جب بائع نے قیمت طلب کی تو میں نے اس سے کہا کہ تم قادریان میں گاجریں فروخت کر لو واپسی پر ہم پیسے دے دیں گے.اس نے نہایت اضطرا سے کہا ئیں نے قادیان سے اشیاء خریدنی ہیں مجھے دو آنے دے دو.اس پر مجھے بہت فکر ہوئی اور اپنا ایک بچہ ایک معمار کے پاس بھیجا جو کہ دار الضعفاء کی بیت پر کام کرتا تھا کہ دو آنہ نقد دے دو ہم تم کو کل دے دیں گے.میاں نبی بخش معمار سیالکوٹی نے بلا تامل دو آنہ حوالے کئے اور گاجر فروش لیکر چلا گیا بچوں نے سارا دن انہی گاجروں پر سر گیا.جب وہ روٹی مانگتے تو میں اُنکے پیٹ کا حال پوچھتا.وہ کہتے کسی قدر درد ہے میں اس پر کہ دیتا کہ جب تک پیٹ صاف نہ ہو جائے کھانا مناسب نہیں یہاں تک کہ شام کو بھی ان کو یہی جواب دے کر سلا دیا گیا.اور خود بھی چار پائی پر لیٹ گیا.بیوی بھی خاموش ہو کو پڑی رہی اتنے میں دروازہ کھٹکنے کی آوانہ آئی نہیں نے بیوی سے کہا تو وہ فرشتہ آیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب خدا نے تمہارے لئے کچھ کھانے کا سامان بھیجا ہے.دروازہ کھولنے پر معلوم ہوا حافظ معین الدین صاحب تشریف لائے ہیں.نہیں نے پوچھا اس وقت کیوں تکلیف فرمائی.فرمایا میں عشاء پڑھ کر سونے لگا تھا کہ یکا یک میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ فلاں کا حال پوچھنا چاہیے.اس لئے آیا.میں نے ان کو باعزت احترام گھر میں لاکر بیٹھایا.آپ نے فرمایا میرے پاس کچھ روٹیاں آئی تھیں.میں نے کہا.میرے پاس رکھی ہوئی صبح تک خراب ہو جائیں گی اس لئے تمہارے پاس لایا ہوں تمہارے بچے کھا لیں گے نہیں نے کہا کہ بچے تو آرام سے پڑ کر سو رہے ہیں آپ نے اس وقت بڑی تکلیف اٹھائی.آپ نے فرمایا.اچھا آپ کے مرغ کھا نہیں
۱۵۷ گے.میں نے بیوی سے کہا یہ خدا کا بھیجا ہوا رزق ہے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیئے حافظ صاحب نے آٹھ روٹیاں عنایت کیں اس کے بعد ایک روپیہ نکال کر آپ نے میری طرف کیا.اور کہا یہ پیسے بھی لے لو.میں نے بہت زور سے منع کیا آپ نا بانتا ہیں ہم کو آپ کی خدمت کرنی چاہیئے.اس سے معاف فرمایا جائے تو آپ نے اس قدر اصرار سے کہا کہ منظور کر لو.اب رو کرنا اچھا نہیں.میں نے اس کو بھی خدائی امداد سمجھ کر رکھ لیا اور آئندہ کے لئے حافظ صاحب کو روکا کہ ایسا نہ کیا کریں.آپ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ جو مجھ سے کرواتا ہے کرتا ہوں.آپ کیوں منع کرتے ہیں.میں نے صبح اٹھ کر روپیہ تڑوا کر میاں نبی بخش معمار کو دو آنے بھجوادیے مگر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا.دوبارہ بھیجے پھر بھی انکار کیا.سہ بارہ خود لے کر گیا.انہوں نے ہاتھ میں لے کو پھر واپس کر دیئے کہ اس نیت سے نہیں دیتے تھے.اصحاب احمد جلد ۱۳ - الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۵ء صفحه ۳) چو ہے ہی چوہے حضرت سعد بن عبادہ کے پاس ایک مرتبہ ایک ضعیفہ آئی اور کہا کہ میرے گھر میں چو ہے نہیں ہیں جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اناج وغیرہ کچھ نہیں ہے.کیونکہ چو ہے وہیں ہوتے ہیں جہاں اناج وغیرہ ہو.آپ نے اس کی یہ بات سن کر کہا.اچھا جاؤ.اب تمہارے گھر میں چو ہے ہی چو ہے نظر آئیں گے.چنانچہ آپ نے اس کا گھر غلہ ، روغن اور دوسری خوردنی چیزوں سے بھر دیا.والفضل ۱۷ اگست ۱۹۹۴ء)
106 اظہار تشکر حضرت امام حسن علیہ السلام ایک دفعہ کھجوروں کے باغ میں گزرے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام روٹی کھا رہا ہے لیکن اس طرح کہ ایک خود کھاتا ہے اور دوسرا کتے کے آگے ڈال دیتا ہے حتی کہ آدھی روٹی کتے کو کھلا دی.آپ نے اس سے پوچھا کہ کتے کو دھتکار کیوں نہیں دیتے.اس نے کہا.مجھے شرم آتی ہے.آپ نے اس کے آقا کا نام دریافت کیا اور اس سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آؤں نہیں رہنا.وہ تو وہیں کام کرتا رہا اور آپ اس کے آقا کے پاس پہنچے.اور باغ اور غلام دونوں چیزیں اس سے خرید کر واپس آئے.اگر غلام سے فرمایا کہ میں نے تمہیں مع اس باغ کے تمہار ہے آقا سے خرید لیا ہے اور تمہیں آزاد کر کے یہ باغ تمہارے نام کرتا ہوں.غلام نے یہ بات سنی تو کہا کہ آپ نے جس خدا کے لئے مجھے آزاد کیا ہے اسکی راہ میں یہ باغ صدقہ کرتا ہوں.ر الفضل ۲۷ اگست ۶۱۹۹۴ ) لا أَدْرِى حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے جب بعض امور کے متعلق دریافت کیا جاتا کہ ان کی حقیقت کیا ہے تو آپ لا آذری “ یعنی میں نہیں جانتا فرماتے کسی نے آپ سے کہا کہ آپ امام کس چیز کے ہیں اور کیسے ہیں کہ ولا آذری کا آذری کہے جاتے ہیں تو آپ...نے فرمایا کہ میں امام اس بات کا ہوں کہ جس بات کا مجھے علم ہوتا ہے اسکو میں بیان کرتا ہوں اور جس کا مجھے علم نہیں
۱۵۹ ہوتا اسکے متعلق میں لا ادری کہتے ہوئے اپنی تنگ محسوس نہیں کرتا.دیات قدرتی حصه چهارم شنا سخاوت کا انداز حضرت اسما بیت ابو بکر ان کے متعلق تاریخ اسلام میں آتا ہے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر حضرت زبیر بالکل غریب تھے اس لئے انہیں نهایت تنگی سے گزر اوقات کرنی پڑتی.مگر اس نگی نے کوئی تنگدلی نہیں پیدا کی تھی.ان کی بہن کے ترکہ میں سے ایک جائیداد آئی.جسے فروخت کرنے سے ایک لاکھ درہم وصول ہوئے جس شخص نے مالی مشکلات کا مقابلہ کیا ہو اور تنگدستی میں مبتلا رہ چکا ہو.ہاتھ میں کوئی رقم آنے پر طبعاً ا سے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے لیکن انسانی فطرت کے برعکس حضرت اسماء نے یہ ساری رقم اپنے غریب اور محتاج عزیزوں پر خرچ کر دی.(الفضل ۲۷ اگست ۱۱۹۹۴) عظمت کا مینار مکرم احمد سعید کرمانی سابق وزیر خزانہ سابق صدر ہائیکورٹ فرماتے ہیں کہ میں چھٹی ساتویں کلاس کا طالب علم تھا.چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۳۷-۱۹۳۶ میں ہندوستان کی مرکزی حکومت میں وزیر ریلوے تھے.ان دنوں مرکزی وزراء کا عہدہ نمبر وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کہلاتا تھا.چوہدری صاحب کی بھر پور صحت کے ایام تھے نہیں بذریعہ ٹرین امرتسر سے لاہور جارہا تھا جبکہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے لاہور آ کہ ہے
14.تھے.ان کی تمرین امرتسر میں رہ کی.اور بہت سے ضلعی افسران، مقامی معززین خان بہادر رائے بہادر خاں صاحبان چوہدری صاحب کے استقبال کے لئے موجود تھے.پولیس کے گھیرا ڈال رکھا تھا کسی عام آدمی کو ادھر نہ جانے دیتی تھی.چوہدری صاحب کا نام سن کر عام آدمی بھی بڑی تعداد میں اکٹھے ہو گئے تھے میں بھی اشتیاق کے مارے اس مجمع میں کھڑا تو بدری صاحب کو دیکھ رہا تھا.بیکا ایک میں نے دیکھا کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے پولیس کے اس حلقے کو توڑا اور ریلوے کے ایک معمولی ملازم کی طرف بڑھے جو ذرا دور کھڑا تھا.وہ ٹکٹ کلر قسم کا کوئی ملازم تھا اور سیالکوٹ میں چو ہدری صاحب کا کلاس فیلو رہاتھا.آپ اس کی طرف گئے.اسے ملے اور کہا کہ تم میرے دوست ہو.مجھے دیکھ کر ملنے کیوں نہیں آئے.وہ شخص بولا کہ آپ کے ارد گر د اتنے بڑے بڑے افسران تھے کہ میں حاضر ہونے کی جرات نہ کر سکا.وہ چوہدری صاحب کی اس قدر عزت افزائی پر حیران بھی تھا اور خوش بھی.را لمصلح' چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۲۷) لا تحزن ان الله معنا صوفیہ اکرم چھٹہ اپنے والد محترم چوہدری رحمت خاں صاحب سابق امام لندن کے متعلق تحریر کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ اس نیک بندے کی دعائیں بھی بہت سننا تھا.ابا جان کو خدا تعالٰی پر پورا پورا تو کل تھا.میری آنکھوں کے سامنے کئی واقعات پیش آئے جن میں خدا تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں مدد فرمائی.دو تین سال پہلے کا واقعہ ہے.ابا جان اور میں نے لاہور سے دمیر کے آنا تھا.ہم دونوں کے درمیان فیصلہ یہ ہوا کہ ابا جان اپنے ہوسٹل سے یونیورسٹی آجائیں گے (ابا جان احمد یہ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ
141 تھے اور میں ان دنوں یونیورسٹی میں ایم.اے میں پڑھتی تھی اور وہاں سے مجھے لیکر اڈہ پر پہنچ جائیں گے اور ابا جان کا نوکر سامان لے کر سیدھا اڈہ پر پہنچ جائیگا.دوسر دن عید تھی.ریش اتنا تھا کہ ہم دونوں باپ بیٹی ضلع کھری کے پاس بہت دیر تک کسی رکشہ ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے رہے.شام ہونے کا بھی ڈر اور دھیر کے پہنچنے کا بھی فکر نہیں نے گھبرا کر کہا.ابا جان آج تو کچھ نہیں ملے گا کیسے گھر پہنچیں گے.اس پر بڑی ہی پیاری مسکرا ہٹ کے ساتھ فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا ابھی پوری طرح ابا جان نے کلمہ ادا بھی نہیں کیا تھا کہ ایک بالکل نئی کا ر ہمارے پاس آکر نہ کی ہم نے سمجھا کہ سگنل روکنے کے لئے ہو گیا ہے.اس لئے یہ کار ٹھہر گئی ہے.مگر کار میں سے ایک شخص نکلا.بادب طریقہ سے سلام کیا اور کہا.آپ نے کہاں جانا ہے گاڑی میں بیٹھیں.ابا جان نے جواب دیا.جانا تو اڈہ تک ہے.رش کی وجہ سے کوئی رکشہ وغیرہ نہیں مل رہا.وہ شخص مسکرا کر کہنے لگا.اڈہ سے پھر گجرات ہی جانا ہے نا.چودھری صاحب آپ نے اپنے شاگرد کو نہیں پہنچانا.میں ہوں آپ کا شاگرد امریکہ گیا ہوا تھا.حال ہی میں واپس آیا ہوں اور اب اس اعلیٰ عہدہ پر آپ کی دعاؤں اور نصیحتوں کے نتیجہ میں ہوں.جب اس نے اپنا نام بتایا تو ابا جان کو سب یاد آ گیا.کار چلاتے چلاتے اس نے کندھا آیا جان کے آگے کر دیا، اور کیا چودھری صاحب ایک دفعہ تھی کی تو دے دیں.اس نے گجرات عید کے لئے جانا تھا ہم نے اڈہ سے نوکر کو بھی ساتھ لیا اور ہر وقت دھیر کے پہنچ گئے.( ,1949, ر(مصباح - صفحه ۲۲ ۲۳ جون ۱۹۹۹ ) را
میں ناراض نہیں ہوں مکرم خلیفه صباح الدین احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.ایک روز حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہمارے ہاں تشریف لائے.خلاف عادت بہت مضمحل اور اداس تھے.ابا نے نا سازی طبع کو محسوس کرتے ہوئے طبیعت کے متعلق پوچھا حضرت میاں صاحب خاموش رہے.معمول کی باتوں کے دوران حضرت میاں صاحب کی حالت غیر ہو گئی.زار و قطار رو رہے تھے.تڑپتے تھے.استغفار کرتے تھے.راے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، باربار پڑھتے تھے.کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کیا ہوا ہے کچھ دیر بعد قدرے حالت بہتر ہوئی حضرت میاں صاحب واپس تشریف لے گئے.اگلے روز حضرت میاں صاحب تشریف لائے.ہاتھ میں ٹھائی کا ڈبہ تھا.سب کو بلایا میٹھائی کھلائی.آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا.بہت بڑا خزانہ مل گیا ہے.چہرہ کی خوشی پھوٹ پھوٹ کر انتہائی خوشی کی منادی کر رہی تھی.حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ کل کوئی غلطی ہو گئی تھی.آج اس کا ازالہ ہو گیا ہے.حضرت امام جماعت الثانی نے قدرے خفگی کا اظہار فرمایا تھا.حضرت امام جماعت الثانی کا یہ انداز میرے لئے انتہائی دکھ اور خلق کا موجب تھا.میں خدا سے معافی مانگتا رہا اور نادم تھا کہ میری وجہ سے حضرت امام جماعت کو تکلیف ہوئی.لیکن آج صبح حضرت صاحب نے مجھے طلب فرمایا اور مجھے پار کیا اور فرمایا کہ میرا مقصد توجہ دلانا تھا.میں ناراض نہیں ہوں." ( الفضل (1) فروری 10 تسلی دینے کا انداز ۱۹۹۵ محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتا اسی نے بیان کیا کہ
یرا چو تھالڑ کا کوئی چار پانچ سال کا تھا کہ اس کو سانپ نے کاسٹ کیا مگر اس نے سانپ کو نہ دیکھا تھا.اور یہ سمجھتا تھا کہ اس کو کانٹا لگا ہے.میں نے بھی سوئی سے جگہ پھول کر دیکھی کچھ معلوم نہ ہوا.لیکن جب بچہ کو چھالا ہو گیا اور سورج پڑگئی تو معلوم ہوا کہ وہ کا شانہ تھا جس کا زہر چڑھ گیا اور بچہ چھٹے دن فوت ہو گیا جیب حضرت صاحب کو علم ہوا تو آپ نے افسوس کیا اور فرمایا مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا.میرے پاس سانپ کے زہر کی دوا تھی.مجھے بچے کے فوت ہونے کا بہت غم ہوا اور میں نے رو رو کر برا حال کر لیا.جب حضرت صاحب کو حضرت اماں جان نے بات بتائی تو حضرت صاحب نے مجھے طلب فرما کر نصیحت کی اور بڑی شفقت سے فرمایا.دیکھو بی بی یہ تو خدا کی امانت تھی اس نے لے لی تم کیوں پریشان ہوتی ہو اور فرمایا کہ ایک بہت نیک عورت تھی.اس کا خاوند یا ہر گیا ہوا تھا جس دن اس نے واپس آنا تھا.اس دن ان کا ایک ہی جوان بیٹا فوت ہو گیا تھا.اس عورت نے اپنے بچے کو غسل اور کفن دے کر ایک کمرے میں رکھ دیا اور خود خاوند کی آمد کی تیاری کرنے لگی.کھانا پکایا.کپڑے بدلے زیور پہنا اور جب خاوند آگیا تو اسکی خاطر داری تو میں مشغول ہوگئی جب وہ کھانا کھا چکا اور آرام کر چکا تو اس نے کہا میں آپ سے ایک بات پوچھتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی امانت کسی کے پاس ہو اور وہ اس کو واپس مانگے تو کیا کرنا چاہیئے.اس نے کہا کہ فوراً امانت شکریے کے ساتھ واپس کر دینی چاہیے.تو اس نیک بی بی نے کہا کہ.ایک امانت آپ کے پاس بھی تھی.پھر وہ اپنے خاوند کو اس کمرے میں لے گئی جہاں بچے کی نعش پڑی ہوئی تھی اور کہا کہ اب آپ اسے خدا کے سپرد کر دیں.یہ سن کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا اور میں نے جوع فزع چھوڑ دی اور یوں مجھے اطمینان حاصل ہو گیا.1990 ا را الفضل ۲۵ مئی ۱۹۹)
140 جنتیوں کے رجسٹر میں نام حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی فرماتے ہیں کہ " سیدنا حضرت اقدس کے عہد ہمایوں میں ایک مرتبہ میں قادیان مقدس میں حاضر ہوا تو منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی سے ملاقات ہوئی.حضرت منشی صاحب ان دونوں مہمان خانہ کی بجائے سیدنا حضرت مسیح موعود کے بیت الفکر میں سویا کرتے تھے.ایک رات عشاء کی نماز کے بعد مختلف مسائل کے متعلق گفتگو کرتے کرتے آپ نے مجھے کہا کہ میں آج کل بیت الفکر میں سویا کرتا ہوں.آئیے ! وہاں ہی چل کر بیٹھیں اور گفتگو کریں.چنانچہ میں آپ کے ساتھ ہو لیا اور ہم دونوں دیر تک بیت الفکر میں باتیں کرتے رہے.یہاں تک کہ جب ۱۰ ۱۱ بجے کا وقت ہو گیا تو آپ نے مجھے کہا کہ آپ یہاں میرے پاس سو رہیں.میں نے بھی مناسب مگر آپ تو سو گئے اور میرے دل پر قیامت کا ہولناک تصور کچھ ایسے رنگ میں مستولی ہوا کہ میں رات کے تقریباً دو بجے جبکہ میری حالت قوت ضبط سے باہر سونے لگی آہستہ سے بیت الفکر سے باہر نکلا.اور قادیان سے مشرق کی طرف ایک بیری کے درخت کے پاس صبح کی اذان تک روتا رہا.نمازہ کے وقت مسجد مبارک میں آیا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے پیچھے نماز ادا کی نماز کے بعد منشی صاحب فرمانے لگے آپ مجھے سویا ہوا چھوڑ کر خود بیت ، میں تشریف لے گئے.مجھے بھی جگا لیتے تو میں بھی آپ کے ساتھ (بیت ، میں آجاتا.میں نے کہا کہ آپ آرام سے سوئے تھے.میں نے آپ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا.اس کے بعد قیامت کے ہولناک تصویر سے کچھ روز تک خوفزدہ رہا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود مسجد
140 مبارک کی دوسری چھت پر بہشتی مقبرہ کی طرف منہ کئے ہوئے تشریف فرما ہیں اور حضور کے پاس ایک رجسٹر ہے جس میں جنتی لوگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں.میں حضور اقدس کے پیچھے کھڑا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ نہ معلوم اس رسبر میں میرا نام بھی ہے یا نہیں.میرا یہ خیال کرنا ہی تھا کہ حضور اقدس نے اس رجسٹر کے اوراق الٹنے شروع کر دئیے.یہاں تک کہ ایک صفحہ پر لکھا ہوا میں نے پڑھا ر مولوی غلام رسول را جیکی اور اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.الحمدللہ علی ذلک رحیات قدسی حصہ دوم ص ۹) خواب نے صراط مستقیم دکھا دیا ڈاکٹر محمد رمضان صاحب مرحوم اپنے احمدیت کی قبولیت کی سعادت ملنے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں یہ مجھے علم تو اتنا تھا نہیں اور نہ ہی حمد یہ لٹریچر کا کوئی مطالعہ تھا کہ دلائل و براہین سے فیصلہ کر سکتا.ادھر گو ہر قصور سے ہمکنار ہونے کی کشش کسی وسیع مطالعہ سے مانع تھی.آخر میں سوجھی کہ ایک ہی در ہے جو کہ بارگاہ الہی کا ہے.جو تمام منزلوں کو کاٹ دیتا ہے اس پر گرنا چاہیئے چنانچہ میں نے چند دن رو رو کر دعائیں کیں اور وہ رحیم و کریم خدا جو ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے میری فریاد کو پہنچا اور اس نے مجھے اپنی نوازشات سے مالا مال کر دیا.ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں وضو کر رہا ہوں بارا عالم ایک روشنی سے جو کہ آسمان سے نازل ہو رہی ہے بقعہ نور بن رہا ہے.جب میں وضو سے فارغ ہو کر کھڑا ہوا تو ہا تھوں سے فالتو پانی چھڑکنا چاہتا ہوں ایسا کرتے وقت جب انگلیاں خمیدہ ہو کہ ہتھیلی کے قریب آگئیں تو ان کے
درمیان سے فوارہ کی طرح دھاریں پھوٹ پڑیں.معا میرے دل میں ان میں سے ایک دھار کو پینے کی خواہش پیدا ہو گئی چنانچہ میں اسے غٹاغٹ پینے لگا.جو شہد سے زیادہ شیریں اور دودھ سے زیادہ لذیذ تھی.پیتے پیتے ہیں اس سے سیر ہوا جاتا تھا.یہاں تک کہ جسم کا ذرہ ذرہ سیراب ہو گیا اور مجھ میں ایک حالت سرور اور طمانیت کی پیدا ہو گئی.سامنے رحضرت بانی سلسلہ جماعت احمدیہ ) کی شبیہ مبارک نظر آتی تھی.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.صبیح اٹھتے ہی میں نے حضرت امام جماعت الثانی کی خدمت میں لکھ کر بیعت کی در خواب روزنامه الفضل بهار جون شاه ) کی.1990 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کیلئے کیا کیا انتظام فرماتا ہے حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر بچپن میں ایک دفعہ بیمار ہو گئے اور اس قسم کی وبائی بیماری شہر کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے کو بھی ہو گئی جس کے لئے انہوں نے دہلی سے ایک بہت بڑے حکیم صاحب کو ۵۰۰ روپے روزانہ پر بلوایا.آپ کے والد صاحب (حضرت منشی ظفر احمد صاحب) نے ان حکیم صاحب کو ایک تحریری رقعہ بھجوایا جس میں لکھا کہ " میں آپ کا تہم وطن ہوں اور میرے بیٹے کو یہ مرض ہے.آپ آکر دیکھ جائیں " حضرت منشی صاحب نے رقعہ پر صرف اپنا نام لکھا اور پتہ لکھنا بھول گئے.وہ حکیم صاحب ان رئیس صاحب کی گھوڑی والی بگھی کیر شہر کے مختلف محلوں سے پوچھتے پوچھتے آپ تک پہنچے اور دوا تجویز کی جس کے استعمال سے آپ شفا پاگئے.لیکن ان رئیس کے بیٹے کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی.حضرت فرمایا کرتے تھے کہ دہلی کے ان حکیم صاحب کی کپور تھلہ آمد کا انتظام اللہ تعالیٰ
146 نے محض اس عاجز بندے کے لئے کیا تھا اور نہ آپ کے والد صاحب سے کہاں یہ ممکن تھا کہ ۵۰۰ روپے روزانہ پر دہلی سے حکیم بلواتے.سجدہ کی حالت میں پرچہ دکھایا گیا مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق سردار مهر سنگھ ، ایک ممتاز شخصیت تھے جہنوں نے احمدیت قبول کی تو امتحان سے ایک روز پیشتر مغرب کی عبادت کے وقت معین طور پر ان کو خیال آیا کہ میری کلاس کو تو نصاب سے کوئی شدھ بدھ ہی نہیں کل تاریخ کا پرچہ ہے اس امتحان سے کیسے نبٹیں گے.اسی کشمکش میں عبادت شروع ہوئی اور اس نیک صالح اور عابد بندے نے خدا سے گڑ گڑا کر دعا کی.بچے بھی مایوسی کے عالم میں سجدہ ریز ہو گئے.آخری سجدہ میں سب کی چیخین نکل گئیں.کہ الٹی پڑھا پڑھایا تو کچھ نہیں اور صبح امتحان ہے.ہمارا کیا بنے گا.اسی دوران حضرت ماسٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے سجدہ کی حالت میں وہ پرچہ سوالات دکھایا جو صبح امتحان میں آنا تھا.آپ نے وہ سب سوالات توجہ سے پڑھ لئے جو ان کے دل و دماغ اور نظر میں آرہا تھا اور سلام پھیرتے ہی طلباء سے کہا کہ فورا کا غذ پنسل لے آؤ اور جو سوال میں لکھواتا ہوں لکھ لو طلباء نے استاد کی تعمیل کی.سات آٹھ سوال جو انہوں نے لکھوائے لکھے اور رات بھر طلباء نے ان کو یاد کیا.دعا کا زور دیکھیں.وہی سوال اسی ترتیب سے دوسرے دن پرچہ میں آئے جو حضرت ماسٹر صاحب کو اس سے ایک روز قبل دکھایا گیا تھا د روزنامه الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۹۳ )
بے باکی پر ابتلاء کڑیانوالہ ضلع گجرات کے میران بخش صاحب جو حضرت اقدس کے رفقاء میں سے تھے.۱۹۰۴ء میں انہوں نے اپنے لڑکے کی شادی کے موقع پر سید نا حضرت مسیح موعود کو مشمولیت کی دعوت دی حضور ان دنوں سیالکوٹ تشریف لائے ہوئے تھے.اس بات کی قومی امید تھی کہ حضور اپنے خدام کی دعوت قبول کر کے کڑیانوالہ تشریف لائیں گے.لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے حضور اس تقریب میں شامل نہ ہو سکے.چونکہ ارد گرد کے علاقہ میں حضرت اقدس سیچ موعود کی کڑیا نوالہ میں آمد کے متعلق مشہور ہو چکا تھا اس لئے بہت سے علماء گھر ھوں پر کتابیں لاد کر مباحثہ کے لئے آگے آگئے.میاں میراں بخش صاحب نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو گجرات سے بلایا.شادی کے موقع پر حضرت مولوی صاحب کو معلوم ہوا کہ اس شادی شدہ لڑکے کے سوا میاں میران بخش کے سب بیٹے گونگے اور بہرے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے اس ابتلاء کی وجہ میاں میران بخش مناب سے پوچھی.تو انہوں نے بتایا کہ میری سالی کا ایک بچہ گونگا تھا اور بہرا تھا میں نے بطور استہزار اس کو کہنا شروع کر دیا کہ اگر بچہ جننا تھا تو کوئی بولنے سننے والا جنتی یہ کیا نا کارہ گونگا اور پہرا بچہ جنا ہے.جب میں تمسخر میں حد سے بڑھ گیا تو میری سالی کہنے لگی.خدا سے ڈرو.ایسا نہ ہو کہ تمہیں ابتلا آجائے.اللہ تعالیٰ کی ذات تمسخر کو پسند نہیں کرتی.اس پر بھی میں اس استہزاء سے باز نہ آیا بلکہ ان سے سے کہتا کہ دیکھ لینا میرے ہاں تندرست اولاد ہوگی میری یہ بیباکی اللہ تعالیٰ کی نا را نگی کا باعث بنی اور میرے ہاں گونگے اور بہرے بچے پیدا ہونے لگے ہیں نے اس ابتلاء
144 پر بہت استغفار کیا.اور سید نا حضرت مسیح موعود کے حضور بار بار دعا کیلئے عرض کیا.اللہ تعالیٰ نے میری اس عاجزی کو قبول فرمایا اور آخری بچہ تندرست پیدا ہوا جس کی شادی اب ہو رہی ہے.رحیات قدسی - حصہ چہارم ص ۳۷ - ۳۸ ) جس کو اللہ رکھے مکرم میاں سلطان احمد صاحب آن گھر گھیات رفیق بانی سلسلہ احمدیہ اندازاً شاہ میں پیدا ہوئے.اس زمانے میں چھ جماعت پاس کرنے والے میاں سلطان محمد صاحب کا شمار تعلیم یافتہ لوگوں میں تھا.اس لئے ان کو میونسپل بورڈ کی طرف سے محکم محصول چونگی میں محرہ مقرر کر دیا گیا.شہرمیان جہاں اکثریت ہندوؤں کی تھی عورتیں مرد سب میاں صاحب کا بہت احترام کرتے تھے.ہندو عورتیں اور مرد اپنے بچوں کے لئے دعا کے لئے ہاتھ جوڑ کر عرض کرتے تھے.اور آپ کو رشی تصور کرتے تھے میاں صاحب کی بے نفسی، درویشی اور بزرگی کا چرچا خاص و عام کی زبان پر تھا محکمہ محصول کے افسران اور دیگر ملازمین سب لوگ میاں صاحب کی درویشی ، ان کے تو کل اور تقوی کے قائل تھے.آپ کی بڑھتی ہوئی ہر دلعزیزی کو دیکھ کر آپ کے ہمعصر اور ہم پیشہ چونگی محرز کے دل میں بغض اور کینہ کے خیالات ابھرے اور وہ سوچنے لگا کہ کوئی صورت ایسی نکلے جس سے میاں صاحب کی شبکی ہو.وہ ایسے کام میں لگ گیا کہ کوئی محکمانہ غلطی نکالے اور میاں صاحب کو مقدمہ میں پھنسائے.کچھ اور لوگ بھی تعاون کے لئے تیار ہو گئے اور ایک جھوٹا من گھڑت محکمانہ مقدمہ میاں صاحب کے خلاف دائر کر دیا اور چونگی کے محکمہ کا
14.بالا افسر جو کہ بھلوال میں رہتا تھا اس تک رپورٹ کر دی.یہ افسر سہندو تھا.اس کو خوب بھڑکایا گیا.اور یہ بھی بتایا گیاکہ یہ محکمہ کا کام کرتا ہے بلکہ یہ پیری مریدی زیادہ کرتا ہے.یہ افسر کچھ دنوں کے لئے محکمانہ تحقیق کے لئے میانی آیا اور سرکاری سرائے میں ٹہرا شہر کے معزز ہندوؤں کو بھی اس نالش کا علم ہو گیا.وہ وفد کی صورت میں اس ہندو افسر کے سامنے پیش ہوئے اور سب نے یک زبان ہو کر عرضداشت پیش کی کہ میاں صاحب تو بہت ہی نیک اور بزرگ آدمی ہیں آپ ان کو سزا د غیرہ نہ دیں.ہندو افسر بڑے غصے کے عالم میں تھا.وہ اس قدر بھڑکایا گیا تھا کہ اس نے عززین کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ کہنے لگا کہ میں ضرور سزا دونگا میاں صاحب حسب عادت خاموش سب منظر دیکھ رہے تھے.ہندو افسر غصہ میں کاغذ قلم دوات جو کہ سامنے رکھی تھی کی طرف لپکا.اور میاں سلطان احمد کے لئے سزا لکھنے لگا کہ ایکا ایک ناک سے نکسیر پھوٹ پڑی اور سفید کاغذ سرخ لال لال لہو سے لہو لہان ہو گیا.اس وقت معززین نے کہا کہ مہاراج آپ نے پرماتما کا فیصلہ دیکھ لیا ہے.اب میاں سلطان احمد صاحب کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں.یہ رشی ہیں.ان سے آپ شماں مانگیں.ہندو افسر پر حقیقت کھل گئی اور اس نے میاں صاحب کو بری قرار دے دیا اور معافی بھی مانگی..الفضل ۲۸ مئی ١٩٩٤ء ) دنیا پرست حضرت رابعہ بصری سے ایک دن کسی شخص نے دنیا کی بہت ہی مذمت کی.آپ نے توجہ نہ فرمائی.لیکن جب دوسرے دن اور پھر تمیرے دن بھی یونہی
161 کہا تو آپ نے فرمایا کہ اس کو ہماری مجلس سے نکال دو کیونکہ یہ کوئی بڑا وہ پرست معلوم ہوتا ہے جب ہی تو بار بار ذکر کرتا ہے.الفضل ۲۸ را پریل ۱۹۹۲ ) امانت و دیانت کی عمدہ مثال مکرم عبد الرحمن شاکر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء میں میرے والد چودھری نعمت اللہ گو ہر سمرالہ ڈی پی اسکول میں سیکنڈ ماسٹر تھے.ایک دن حکیم محمدعبد اللہ صاحب تشریف لائے.فرمانے لگے کہ قادیان جا رہا ہوں.کوئی کام ہو تو بتائیں.والد صاحب نے میرے نام ایک خط لکھ کر اور دو روپے بھی دیئے کہ میرے بیٹے کو دے دیں.حکیم صاحب مجھے تلاش کرتے ہوئے آئے.تھوڑی دیر بیٹھ کر فرمایا کہ تمہارے ابا نے یہ رقعہ دیا ہے.میں نے کھول کر وہ پڑھا.حکیم صاحب نے جیب سے نکال کر مجھے چار روپے اور چند آنے دیئے.یہ تمہارے لئے ہیں.میں نے حیران ہو کر کہا کہ خط میں تو دو روپے لکھے ہوئے ہیں.یہ آپ زاید کیوں دے رہے ہیں.انہوں نے فرمایا کہ جب میں سمرالہ سے چلا تو بس کے چلنے میں کچھ وقت تھا نہیں نے سوچا کہ کیوں نہ ان روپوں سے کچھ تجارت کرلوں.چنانچہ میں نے سخت گرمی کے پیش نظر چند پنکھے خرید لئے کچھ تو میں نے بس کی سواریوں میں فروخت کر دئیے.اور باقی ماندہ لدھیانہ سے امرتسر پہنچنے تک فروخت کر دئیے جو حاصل ہوا وہ تم کو دیتا ہوں میں نے بہت کہا کہ یہ آپ لے لیں.مگر وہ سلام کر کے رخصت ہو گئے.الفضل ۱۲ر اپریل ۱۹۸۹ ، صفحہ ۶) 7
۱۷۲ دوست کے معیار پر اترنا محترم چوہدری رحیم بخش شیخو پورہ کے متعلق مکرم نسیم سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ تھانے دار کے بیٹے اور خود بھی تھانے دارا نہ مزاج رکھتے تھے.احمدی ہونے سے پہلے ٹھاٹھ باٹھ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.کہ چوہدری صاحب جہاں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کیا کرتے تھے ایک دن اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ایک بال ٹوٹ گیا اور گھر گیا.آپ کو اس بات کا احساس ہوا کہ میری مونچھ کا بال اس طرح سے زمین پر گر جائے چنانچہ تمام دوستوں سے کہا کہ اس بال کو تلاش کریں.جب بال تلاش کر لیا گیا.تو کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے جنازے کی کیفیت میں اسے دفن کیا گیا.یہ اس زمانے کی ٹھاٹھ باٹھ کا منظر تھا.احمدیت کے بعد ایک احمدی نوجوان کہیں سے شیخو پورہ آیا.وہ بیکار تھا.آپ نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہم آپ کو کام دیں گئے.چنانچہ آپ نے اس کے لے ایک ریڑھی کا انتظام کیا اور گنے خرید دیئے اور کہا کہ اس کی گنڈیریاں بنا کر بیچا کرو محترم چوہدری صاحب سارے ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کے لئے اس نوجوان سے پیار سے باتیں بھی کرتے اور کہتے کہ گنڈیریوں کو اپنی ریڑھی میں رکھو.اور جو ان کی گانٹھیں ہیں وہ مجھے دیتے جاؤ.میں ان کی یہ گانٹھیں چوستا رہوں گا.اس میں دوستوں کے ساتھ دوستی نبھانے اور انہی کے معیار پر آ جانے کا ایک خاص رنگ نظر آتا ہے.الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ ص ۳)
آپ نظریں نیچی رکھا کریں حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب مرحوم کی گردن ہمیشہ اس طرح جھکی رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے پاؤں سے آگے ایک ڈیڑھ فٹ تک دکھائی دیتا ہوگا.آپ نے کبھی نظریں اٹھا کر آگے کی طرف نہیں دیکھا تھا.ہم سوچتے تھے کہ آپ چلتے کس طرح سے ہوں گے.کہیں آپ کو ٹھو کر ہی نہ لگ جائے.لیکن نہ صرف یہ کہ آپ کو ٹھوکر نہیں لگتی تھی.آپ خدا کے فضل سے بہت تیز تیز چلنے کے عادی تھے.پورا لباس شلوار قمیض کے اوپر کوٹ کے بغیر ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا.جب یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ آخر آپ کی گردن جھکی جھکی کیوں رہتی ہے.کیونکہ یہ خیال بھی آسکتا تھا اور آیا بھی کہ شاید آپ کی گردن میں کوئی نقص ہوگا کہ آپ اسے سیدھی نہیں کر سکتے.اور آگے گی طرف کھینچنے سے معذور ہوں.لیکن بات یہ نہیں تھی.کہتے ہیں کہ جوانی میں آپ بہت خوبصورت تھے اور جب باہر سے غالباً بالہ سے تشریف لائے تو حضرت امام جماعت اول سے آپ نے عرض کیا کہ میں جدھر سے بھی جاتا ہوں خواتین میری طرف دیکھتی ہیں مجھے اس سے بہت الجھن پیدا ہوتی ہے تو حضرت امام جماعت نے فرمایا.آپ نظریں نیچی رکھا کریں.ویسے تو سب کو ہی نظریں نیچی رکھنے کا ارشاد ہے لیکن عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ جب ضرورت پڑی نظریں نیچی کرلیں ورنہ بالکل سیدھے دیکھ کر چلا جائے.لیکن جب آپ نے حضرت امام جماعت کی یہ بات سنی کہ آپ نظریں نیچی رکھا کریں تا کہ آپ کسی خاتون کو دیکھ نہ سکیں.آپ انہیں دیکھنے سے روک نہیں سکتے تو آپ نے گردن
۱۷۴ ایسے جو کالی کہ اس وقت سے لے کر آخری دم تک آپ نے گردن اٹھائی ہی نہیں آپ کی ہر وقت اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے گردن جھکی ہی رہتی تھی.الفضل ) نومبر 219 ) ۱۹۹۴ مہمان نوازی اور غریب پروری چوہدری نصر سکندر خان مہمان نوازی غریب پروری ان کا خاص شعار تھے.گو جن حالات میں سے انہیں بچپن میں گزرنا پڑا تھا.ان کے نتیجے میں خود انہیں تنگی سے گزرتا پڑتا تھا.لیکن اس کا اثر وہ مہمانوں کی تواضع پر پڑنے نہیں دیتے تھے.ن کا معمول تھا کہ عشاء کی عبادت کے بعد رات کے کپڑے پہن کر وہ مہمان خانے میں پہلے جاتے اور ایک خادم کے طور پر مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور تہجد کے بعد بھی مہمانوں کی خبر گیری کے لئے مہمان خانے میں جو بیت الذکر کے ساتھ ملحق تھا چلے جاتے تھے.ایک دن فجر کے وقت مہمان خانہ کے خادم نے اطلاع دی کہ ایک مسافر جس نے مہمان خانہ میں رات بسر کی تھی، غائب ہے اور اس کا بستر کا لحاف بھی غائب ہے تھوڑی دیر کے بعد یہ لوگ اس مسافر کو لحاف سمیت پکڑے ہوئے آپ کے سامنے لے آئے.آپ نے دریافت کیا.میاں تم نے ایسا کیوں کیا ؟ مسافر نے جواب دیا کہ حضور ! ہم گھر میں بچوں سمیت کم نفوس ہیں.سردی کا موسم ہے اور ہمارے گھر میں صرف ایک لحاف ہے.آپ نے کہا اسے چھوڑ دو.اور وہ لحاف بھی اسے دے دیا اور تین روپے نقد دیگر اسے رخصت کر دیا.میری والده " از چوہدری ظفر اللہ خان صاحب)
دا حصول تعلیم میں مشقت چوہدری نصر اللہ خان صاحب فرماتے تھے کہ اب تو تعلیم کے لئے اتنی سہولتیں ہوگئی ہیں اور پھر بھی تم لوگ کئی قسم کے بہانے کرتے ہو.ہمارے وقت میں تو سخت مشکلات تھیں.اول تو اخراجات کی سخت تنگی تھی.میں نے پر سات سال کا عرصہ لاہور میں بطور طالب علم کے گزارا اور اور نبیل کالج سے بی.اور ایل کا امتحان پاس کیا.اور پھر مختاری اور وکالت کے امتحان پاس کئے.اس تمام عرصہ میں گھر سے ایک پیسہ نہیں منگوایا.جو وظائف ملتے رہے.انہیں پر گزارا کیا.گھر سے صرف آٹا لے جایا کرتے تھے.اور وہ صرف اس مقصد کے لئے کہ اس تمام عرصہ میں لاہور میں کبھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا.وظیفہ بھی چار روپے ماہوار اور پھر چھ روپے اور آٹھ روپے ماہوار تھا.پھر قانون کے امتحانوں کے لئے یہ وقت تھی کہ اکثر کتابیں انگریزی میں تھیں اور انگریزی نہ جاننے والے طلباء کو بڑی رقت کا سامنا ہوتا تھا کیونکہ کئی کتب کے تراجم میسر نہ تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ لالہ لاجپت رائے صاحب کے ساتھ حصار اس غرض کے لئے گئے تھے کہ وہاں کے وکیل صاحب کی زیر نگرانی ایسے مضمون کی تیاری کریں جس کے نصاب کی کتب کا اردو میں ترجمہ میتر نہیں تھا.ان دنوں ابھی حصار تک ریل نہیں بنی تھی.اور بہت سا حصہ سفر کا بهلی یا یکہ کے ذریعے کرنا پڑتا تھا.باوجود ایسی مشکلات کے آپ مختاری اور وکالت دونوں امتحانوں میں اول رہے اور اس میلہ میں چاندی اور سونے کے تمغے انعام میں پائے.(میری والده از چودھری ظفر اللہ خان صاحب ص ۸)
144 ذمہ داری کا احساس چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب فرماتے ہیں کہ " ہمارے ایک بھائی جن کا نام حمید اللہ تھا.وہ آٹھ نو سال کی عمر میں چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گئے.ان کی دفات فجر کے وقت ہوئی.والد صاحب تمام رات ان کی تیمار داری میں مصروف رہے تھے.ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیز و تکفین جنازہ اور دفن سے فارغ ہو کر عدالت کھلنے پر حسب دستور عدالت میں اپنے کام پر حاضر ہو گئے.نہ موکلوں میں سے کسی کو احساس ہوا اور نہ ہی افسران عدالت یا آپ کے ہم پیشہ اصحاب میں سے کسی کو اطلاع ہوئی کہ آپ اپنے لخت جگر کو سپرد خاک کر کے اپنے مولا کی رضا پر راضی اور شاکر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حسب معمول کمر بستہ حاضر ہو گئے ہیں.دن کے دوران میں آپ کے ایک ہم پیشہ دوست نے جو آپ کے دفتر کے کمرہ کے شریک بھی تھے.سرسری طور پر دریافت کیا کہ حمید اللہ خان کا کیا حال ہے.اب تو کوئی تکلیف نہیں.اس پر انہوں نے بہت حیرت کا اظہار کیا اور شکایت کی کہ آپ نے اطلاع کیوں نہیں دی.تا ہم لوگ تجہیز و تکفین میں ہاتھ بٹا سکیں اور جنازے میں شریک ہو سکتے.اور پھر آج کچہری آنے کی کیا پابندی تھی.آپ مجھے کہلا بھیجتے.میں آپ کی جگہ تمام کام نپٹا دیتا.آپ نے جواب میں ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اطلاع تو اس لئے نہیں دی کہ کام کا دن تھا.آپ کو بے وقت پریشانی ہوتی.کچھ دوست آگئے اور تمام کام سرانجام پا گیا اور کچہری اس لئے آگیا ہوں کہ اپنے کام کی فکر ہوگئی اور میری ذمہ داری میں میرے ذاتی صدمہ کی وجہ سے کوئی تخفیف نہیں ( اصحاب احمد جلد یا زه دیم ص۱۶۶) ہوئی.144
166 رسول صلی اللہ علیہ سلم کی اطاعت کا دلفریب رنگ مکرم میجر ریٹائر ڈ منیر صاحب اپنے والد صاحب مولانا غلام احمد صاحب فرج کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ والد صاحب ہمیشہ سندھ میں رہے اور خدمت دین میں مصروف رہے اور اولاد کی درخواست پر کہ آپ نے طویل عرصہ سلسلہ کی خدمت کی ہے.اب ہمارا جی چاہتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ میں محض اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کے لئے خدا سے باندھا ہوا عہد توڑ دوں میں اپنے آخری سانس تک اپنا عہد نبھا پہنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں.ایک دفعہ نجی سے واپسی پر ان کی صحت اچھی نہیں منفی.مزید فرماتے ہیں.جس جہاز پران کے آنے کا ہمیں علم ہوا.ہم اس جہاز سے ان کو لینے گئے تو پتہ چلا کہ وہ تو فلائٹ پر نہیں آئے.امیر دیز نے ہانگ کانگ فیکس دی اور کہا کہ اس کا جواب گل آئے گا.ہم بڑے پریشان تھے کہ ابا جان کی صحت اچھی نہیں تھی.خدا خیر کرے.وہ کہاں رہ گئے اور کیوں رہ گئے.اگلے روز فیکس کا جو جواب آنا تھا وہ تو آیا ہی ہوگا لیکن علی اصح ابا جان گھر میں داخل ہوئے اور ہمیں حیران کر دیا.اس وقت کونسی فلائٹ آتی ہے.آپ کس طرح آئے ہیں ؟.ابا جان کہنے لگے میں تو رات ہی آگیا تھا لیکن چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے شہر میں سفر کے بعد رات کو داخل ہوں تو مناسب یہ ہے کہ گھر نہ جائیں.خدا جانے گھر والے کس حالت میں ہوں.اگرچہ میں کل رات ہی یہاں پہنچ گیا تھا.لیکن چونکہ رات کا وقت تھا اس لئے رات میں نے بیت مباریک میں گزاری اور صبح ہوتے ہی گھر پہنچ گیا ہوں.۱۹۹۴ روزنامه الفضل صفحه ۵ - ۲۸ دسمبر )
KLA ڈیڑھ سال کی بچی اور وفات مسیح کی دلیل.حضرت مولانا عبد المالک خاں صاحب کے صاحبزاہ سے مکرم عبد الرب انور صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کی بہن فرحت اختر الہ دین ابھی ڈیڑھ سال کی تھیں کہ آپ نے یعنی مولانا عبد المالک خاں صاحب نے انہیں کئی سوالات اور جوابات یاد کرائے.ایک دلچسپ واقعہ ان کی تربیت پر روشنی ڈالتا ہے.فرحت یا جی کو یہ یاد کرایا کہ اللہ کہاں ہے کے جواب میں انگلی آسمان کی طرف اشارہ کرتی.دوسرے سوال کے جواب میں کہ حضرت مسیح کہاں ہیں ؟ ؟ ؟ - انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کر ہیں.اور یہ جواب سکھایا کہ فوت ہو گئے اور زمین میں مدفون ہیں.ایک موقعہ پر ایک ہندو جو عیسائی ہو گیا تھا نے ابا جان سے سوال کیا کہ دین حق کا عقیدہ حضرت عیسی کی بابت کیا ہے تو اس پر ابا جان نے برجستہ فرمایا یہ تومیری بچی بھی بتا سکتی ہے.چنانچہ باجی سے پوچھا.اللہ کہاں ہے ؟ تو باجی نے انگلی کے اشارے سے جواب دیا.اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہاں ہیں کے جواب میں زمین کی طرف اشارہ کیا کہ فوت ہو گئے ہیں اور زمین میں مدفون ہیں.اس پر عیسائی نے کہا کہ احمدی تو اپنے بچے کو پیدا ہوتے ہی وفات مسیح کا عقیدہ سکھا دیتے ہیں.الفضل ۲ مئی ۱۹۸۹ء.تدبیر اور دعا مکرم سردار بشیر احمد انجینئر لکھتے ہیں کہ واپڈا کالونی حافظ آباد میں افواہ پھیلی کہ سردار بشیر نومبر میں ریٹائر ہو رہا ہے.میں نے گاڑی پکڑی اور بیوی کے ساتھ
149 لائل پور کی طرف چل پڑا دعائیں کرتا ہوا پنڈی بھٹیاں پہنچ کر ڈاکٹر محمد شفیع صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ پنڈی بھٹیاں جو کہ نہایت درجه نیک دعا گو استجاب الدعوات منکسر المزاج بزرگ تھے.ان سے مل کر عرض کیا کہ ملازمت میں نیچین سال عمر کے بعد توسیع کے لئے جو کمیشن لاہور ڈویژن اور سرگودھا ڈویژن کے لئے مقرر ہوا تھا.اس میں درخواست نہ دے سکا تو مجھے ملازمت میں توسیع نہیں ملی غلطی تو میری تھی.اب میں چیف انجینئر محکمہ انہار کے دفتر لائل پور جا کر کوشش کرتا ہوں.آپ سے دعا کی درخواست ہے.انہوں نے بہت دعائیں دیں اور میر جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا.آپ فکر ہی نہ کریں.آپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں بار بار بڑی آہستگی سے یہ فقرہ دہراتے رہے.آنکھیں بند تھیں میری کمر پر ہا تھ پھیرتے رہے.ان سے رخصت ہو کر لائل پور دفتر میں پہنچا.انتخار علی صاحب ایس.ای.ہیڈ کوارٹر سے ملا.انہوں نے فائل منگوائی اور تبا اگہ کمیشن میں آپ کا نام ہی نہیں تو توسیع کیسے ہو سکے گی نہیں سید معالاہور پہنچے کو کرنل عبد الحي انڈر سیکرٹری سے ملا.انہوں نے کیس منگوا کر میرا سارا معاملہ سن کر کیس پر کچھ نوٹ دیا اور کہا کہ میں نے آپ کو پوری مدت کے لئے توسیع ملازمت دے دی ہے.پندرہ دن میں نوٹیفیکیشن ہو جائے گا.میں نے شکریہ ادا کیا.جب نوٹیفیکیشن آیا تو اس میں کوئی ذکر نہیں تھا.میں دوبارہ ان سے ملا.انہوں نے ایک ایس.او کو جو سند بھی تقابل کر ڈانٹا.پھر مجھے بھیج دیا جو نوشفیکیشن آیا اس میں تمام تاریخیں غلط درج تھیں نہیں پھر ان کے پاس لاہور آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص تصرف دکھا کر کرنل صاحب کو بیمار کر دیا.ہمیں ان کو ملنے ان کی کو بھی ایمیر لیس روڈ پر چلا گیا.بیوی کو اندر بھیجا کہ صرف خیریت دریافت کرنے آیا ہوں.آخر ایک بچی کے اصرار پر تئیں اندر
١٨٠ گیا تو ایک شخص نے جو چار پائی پر لیا تھا اپنے منہ پر سے چادر ہٹائی اور سلام کیا.آپ کہاں سردار صاحب.آپ تو میرے استاد کے بیٹے ہیں.کہیں کیسے آنا ہوا.یہ صاحب میاں عبدالحق ایڈووکیٹ ایبٹ آباد حضرت بانی سلسلہ کے رفیق تھے.میرا مقصد سن کر اٹھے اور یہ کہہ کر اندر گئے کہ عبد الحی آپ کا کام ضرور کرے گا.اب عبدالمی ٹھیک ہے.کل آپ دفتر میں ان سے مل لیں.یہاں مجھے علم ہوا کہ میرے کام کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو انڈر سیکرٹری لگایا ہوا تھا اور جونہی میرا نوٹیفیکیشن ہوا اس سیٹ سے کہیں اور چلے گئے.کرنل صاحب نے فائل منگوا کر اپنے سامنے درستگی کر کے مجھے دکھائی اور پرنٹنگ پریس کو بھیج کر مجھے رخصت کیا.ایک صبح اس کے بعد میرے محکمہ کا سب سے بڑا افسر خود چل کر حافظ آباد مبارکباد دینے آیا.د روزنامه الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۹۵ء صفحه ۴) برف کی خواہش پر اولے ایک دفعہ حج کے موقعہ پر گرمی کی شدت کی وجہ سے ایک بزرگ نے خواہش کی کہ اگر برف ہوتی توئیں ستو پتا.چنانچہ انہوں نے دعا کی کہ الہی یہ تیرا گھر ہے اور تیرا وعدہ ہے کہ میں یہاں کے رہنے والوں کو ہر قسم کا رزق عطا کرونگا.سو تو اپنے فضل سے میرے لئے برف مہیا کر.خدا تعالیٰ نے اولے برسا دئیے جو لوگوں نے جمع کرلئے اور انہوں نے برف ڈال کر ستو پیے ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ۱۷۵)
خدا کو آزماتے نہیں نصرت ظفر صاحبہ اپنے شوہر مکرم چودھری ظفراحمد روفات یافتہ ) کے متعلق لکھتی ہیں کہ انہوں نے قبولیت دعا کا مشاہدہ کیا.ان کو خدا پر تو کل تھا.جب وہ اپنی قبولیت دعا کے واقعات سناتے تو ان کا ایک غیر احمدی دوست مذاق اڑاتا کہ یہ سب اتفاقات ہیں.ایک روز چھٹی کے دن اس دوست کے ساتھ پارک میں سیر کرنے کا پروگرام بنایا.اس کی بیوی اور بچہ بھی ساتھ تھے.اتفاق سے دودھ ختم ہو گیا اور بچے نے رونا شروع کر دیا.وہ اپنے میاں سے کہنے لگی کہ کہیں جاکر دو دمد کا انتظام کرو.اس نے کہا.اس وقت تو نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم شہر سے بہت دور ہیں.ویسے بھی دوکانیں بند ہو چکی ہیں.پھر نہس کر کہنے لگا.اپنے دیور (ظفر) سے کہو کہ یہ خدا سے مانگ دے کیونکہ یہ کہتا ہے کہ میری دعائیں خدا سُنتا ہے.ظفر کہنے لگے کہ وہ دے سکتا ہے لیکن اپنے آزماتے نہیں.اور کہتے ہیں کہ میں نے دل میں دُعا کی کہ اسے خدا اس شخص نے میرے توکل اور تیری قدرتوں کامذاق اڑایا ہے تو کرشمہ دکھا.چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ سامنے سے دو بوڑھی عورتیں گزریں.بچے کو دیکھ کر وہ مڑیں اور دودھ کا ڈیہ دیتے ہوئے کہنے لگیں کہ ہم پکنک کے لئے آئی تھیں.اب واپس جارہی ہیں.کھانے کی چیزوں میں سے یہ ڈبہ بچ گیا ہے.اب کہاں اٹھا کر واپس ساتھ لے جائیں.آپ کے ساتھ چھوٹا بچہ ہے.اس لئے رکھ لیں شاید آپ کو ضرورت پڑ ہے.وہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے.$1990 الفضل صفحه 2 - ۱۷ دوسری اسلام
JAY دوست کو آواز دو ! کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس ان کا شاگرد کافی عرصہ رہا.اور تعلیم حاصل کرتا رہا.جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر گھر جانے لگا تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیا کہ میاں تم اپنے گھر جا رہے ہو.کیا تمہارے ملک میں شیطان بھی ہوتا ہے.وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا.اس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا.آپ نے فرمایا.اچھا اگر وہاں شیطان ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے.جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے راستے میں روک بن کے حائل ہوگا.ایسی حالت میں تم کیا کرو گے.وہ کہنے لگا.میں شیطان کا مقابلہ کروں گا.وہ بزرگ کہنے لگے.بہت اچھا تم نے شیطان کا مقابلہ کیا.اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا لیکن پھر جب تم عمل کی طرف متوجہ ہونے لگے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے راستوں پر تم نے چلنا شروع کیا اور پھر شیطان مجھے آگیا.اور اس نے تمہیں پکڑ لیا.پھر تم کیا کرو گے.وہ کہنے لگا میں پھیر • شیطان کا مقابلہ کروں گا.اور اللہ کے قرب کے حصول کیلئے جدو جہد میں مشغول ہو جاؤں گا.انہوں نے کہا بہت اچھا.میں نے مان لیا کہ تمہارے مقابلہ کے نتیجے میں شیطان اس دفعہ بھی بھاگ گیا اور تم جیت گئے لیکن جب پھر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کی اور اللہ کی طرف رُخ کیا تو پھر شیطان آگیا اور اس نے پکڑ لیا تو پھر کیا کرو گے شاگرد حیران رہ گیا اور کہنے لگا.آپ ہی فرمائیں ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیئے وہ فرمانے لگے.اچھا یہ بتاؤ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ جس نے اپنے مکان کی حفاظت کے لئے ایک بڑا کتا رکھا ہوا ہو اور جب
تم اپنے دوست کے مکان میں داخل ہونے لگو تو وہ کتا آئے اور تمہاری ایٹری کپڑ ہے.تو اس وقت کیا کرو گے ؟ شاگرد کہنے لگا یکیں کتے کا مقابلہ کروں گا.اسے ماروں گا.اگر سوئی ہوگی تو اُسے میں سوئی سے ماروں گا.اگر پتھر قریب ہو گا تو پھر سے ماروں گا.انہوں نے کہا مان لیا کہ تم نے کتے کو سوئی ماری یا پتھر مارا اور وہ بھاگ گیا.لیکن جب پھر تم نے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کتے کی طرف پیٹھ پھیری تو وہ پھر آ گیا تو اس نے تمہاری ایڑی پکڑ لی تو اس وقت کیا کرو گے.وہ کہنے لگا ئیں اسے پھر ماروں گا اور بہاکر مکان میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا.وہ بزرگ فرمانے لگے.اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہی کہ جب تم مکان کے اندر داخل ہونا چا ہو تو کتا تمہاری ایری پکڑنے لگے اور جب تم اُسے مارو تو بھاگ جائے لیکن جب پھر مکان کے اندر داخل ہونے لگو تو پھر آکو پکڑے تو تم اپنے دوست کو بل کب سکو گے.اس ملاقات کرنے کا مقصد جو تم لئے ہوئے ہو گے وہ کس طرح پورا ہوگا.شاگرد کہنے لگا جب میں دیکھوں گا کہ یہ جنگ ختم ہونے میں نہیں آئی اور کتا بار بار مجھے پکڑتا ہے تو میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ میاں تمہارا کتا مجھے نہیں چھوڑتا ہے آکر بہاؤ.وہ بزرگ فرمانے لگے ہیں یہی نسخہ شیطان کے مقابلہ میں بھی استعمال کرنا.شیطان اللہ کا کتا ہے.جب یہ بار بار انسان پر حملہ آور ہو اور اللہ کے قریب ہونے نہ دے تو اس کا ایک ہی علاج ہے.وہ یہ ہے اللہ کو پکارو اور اسے آواز دو کہ اللہ ! میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ کتا مجھے آنے نہیں دیتا.اس کو رد کئے تاکہ میں آپ کے پاس پہنچ جاؤں.چنانچہ اللہ اس کو بہو کے گا.اور تم شیطانی حملہ سے محفوظ رہو گے.
۱۸۴ تم رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا موضع خون ضلع گجرات میں ایک مستجاب الدعوات بزرگ حضرت جمعے شاہ صاحب تھے گردو پیش کے علاقے میں ان کی بہت سی کرامات مشہور تھیں جب ان سے لوگ دریافت کرتے کہ آپ کو یہ برکت اور فیض کس طرح حاصل ہوا.تو وہ بیان فرماتے کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ موسم سرما میں شدید بارش ہوئی.میں مغرب کی نمازہ کیلئے مسجد میں گیا.وہاں پر ایک کتیا جس کے سات بیچتے تھے.سردی اور بارش سے بچنے کے لئے ان بیجوں کو اٹھا کر مسجد کے حجرہ میں لے آئی اور ان کو ایک کونے میں ڈال دیا.جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو مسجد کے ملاں صاحب نے دیکھا کہ مجرے کے ایک کونے میں کتیا کے پلتے سردی سے چیخ رہے ہیں.کتیا، اس وقت خوراک کی تلاش میں کہیں باہر گئی ہوئی تھی.ملاں صاحب نے ان بچوں کو پکڑ کر باہر پھینک دیا اور وہ بارش میں بلکنے لگے.اس کے بعد مسلماں صاحب اپنے گھر میں چلے گئے تھوڑی دیر میں گیا بھی باہر گھوم گھام کر مجرہ مں آئی اور اپنے بچوں کو وہاں نہ پاکر بہت بے چین ہوئی اور بے تابانہ ادھر ادھر پھرنے لگی.آخر تلاش کر کے ان کو دوبارہ حجرہ میں لے آئی.تھوڑی دیر کے بعد میرا کھانا گھر سے آیا جو اتفاق سے دودھ کی کھیر تھی.میرے دل میں کتیا اور اس کے بچوں کے متعلق بے حد شفقت پیدا ہوئی اور میں نے محض خدا کی رضا کی خاطر کھیر کا برتن ، اس کتیا کے آگے رکھ دیا.اس نے کھیر کھا کر اور بچوں کو کھل کر خوشی کے اظہار کے لئے اونچی آواز سے تین ہونگیں ماریں.اس وقت سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان اور انشراح صدر کی حالت مجھے نصیب ہوگئی اور مجھے یہ سب کچھ رسول کریم کے
۱۸۵ ارشاد از حم ترحم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوا.دحیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۳۸ - ۳۹) انکساری اور عظمت چوہدری عبد الحمید صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آج سے تقریباً ۳۰ - ۳۵ سال قبل ڈاکٹر عبدالسلام فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدر پاکستان کے بطور سائنسی مشیر اعلیٰ کام کر رہے تھے.وہ سال میں چار پانچ مرتبہ پاکستان تشریف لاتے تھے.ایک مرتبہ وہ پاکستان تشریف لائے.کراچی میں چند یوم قیام کرنے کے بعد ملتان وہ اپنی بڑی ہمشیرہ مسعود بیگم (وفات یافتہ سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے ملتان کے ہوائی اڈہ پر کمشنر ڈپٹی کمشنر ڈی آئی جی پولیس اور دیگر اعلیٰ افسران انہیں خوش آمدید کہنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے.ڈاکٹر عبد السلام جب ہوائی جہاز سے اترے تو ان افسران کے ہمراہ ہوائی اڈہ کے.وی.آئی پی روم کی طرف چل پڑے.اتنے میں ان کی نظر ایک نہایت ہی چاق و چوبند پولیس کے حوالدار پر پڑی.آپ اس کی طرف چل دیئے.اس پولیس جو اندار سے بڑے ہی تپاک اور پیار سے گلے ملے اور اسے اپنے ہمراہ.وی آئی پی روم لے گئے.اور ان افسران سے جو خوش آمدید کہنے آئے ہوئے تھے اسے اس پولیس حوالدار کا تعارف کروایا.ان اور انہیں بتایا کہ وہ پولیس حوالدار جن کا نام حسین تھا ان کے بچپن کا دوست اور کلاس فیلو تھا.الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۹۵ء) 1990
1A4 نیک بیچے نے ایک نیا عہد باندھا صوفیہ اکرم چٹھہ اپنے والد محترم چوہدری رحمت خاں صاحب سابق امام مسجد لنڈن کے متعلق لکھتی ہیں کہ ابا جان اپنے بچپن کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.جو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے خاص تعلق اور لگاؤ کا ذریعہ بنا.ابا جان ساتویں یا آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے.اتوار کا دن تھا.سارا دن مختلف کاموں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے رہے.ظہر کی نمازہ کے بعد کتا بیں اٹھائیں اور با ہر والد صاب کے پاس چلے گئے تاکہ کام جو سکول سے ملا ہوا ہے وہ بھی کر لیں اور اگر کوئی مزید کام والد صاحب کے ساتھ کرنا پڑے تو وہ بھی کرلیں.جب ابا جان اپنی پڑھائی میں مصروف تھے کہ ایک آدمی ہمارے دادا جان کو کہنے لگا.چودھری صاحب خوش نصیب ہیں آپ جن کو یہ رحمت خاں بلا خدا اس کو نظر بد سے بچائے.ابا جان فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر آئے تو ان کی ٹانگ سوچنا شروع ہو گئی اور تکلیف بڑھتی گئی.کچھ عرصہ کے بعد ٹانگ میں سے مادہ رہنا شروع ہو گیا.آخر کا ر جب کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی تو ڈاکٹروں نے ابا جان کی ٹانگ کاٹ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ ٹانگ کی ہڈی گلنا شروع ہو گئی تھی.وہ زمانہ ابا جان کے لئے سخت آزمائش اور ذہنی بے چینی کا تھا.ادھر اپنی تعلیم کا خرچ اور اپنے قیمتی سال ضائع ہونے کا غم اور ساتھ ہی اپنی ٹانگ ضائع ہونے کا فکر جراحوں حکیموں اور ڈاکٹروں کا فیصلہ سننے کے بعد ابا جان نے اپنے مولا کے حضور تڑپ تڑپ کر دعائیں کرنی شروع کر دیں بعمر صرف چودہ سال - خدا تعالیٰ سے اس نیک بچے یا بندے نے ایک نیا عہد باندھا.کہ اسے میرے مولی اگر میری ٹانگ ٹھیک ہو گئی کو بظاہر یہ نامکن معلوم ہوتا ہے مگر تیرے لئے کچھ نا ممکن نہیں تو میں آخری سانس تک کوئی نماز قضاء نہیں کروں گا اور تو ہی مجھے اس
عہد نبھانے کی توفیق عطا فرمانا.ابا جان دعا کے بعد معلوم نہیں کن سوچوں میں تھے کہ اپنے ہا تھ سے اپنی ٹانگ کے گہرے زخم میں اپنی زخمی ہڈی کو ٹولا تو خدا کی قدرت.ہڈی کا کچھ ٹکڑا جو گلا ہوا تھاٹوٹ کر آپ کے ہاتھ میں آگیا اور ٹانگ کا زخم کچھ عرصہ کے بعد دوائیوں کے استعمال کرنے سے بھر گیا اور آپ نے چلنا پھرنا شروع کر دیا.ابا جان نے اپنے رحیم و کریم رب سے باندھا ہوا عہد اس کی دی ہوئی توفیق سے اپنے آخری سانس تک نبھایا.تہجد کی نمازوں میں گڑ گڑا کر دعا کرنے کی آواز میرے کانوں میں اس وقت بھی محسوس ہو رہی ہے جس دن ہمیں داغ مفارقت دیا اس رات بھی عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر سوئے مگر تہجد پڑھنے کا وقت خدا تعالیٰ نے نہ دیا اور سوئے ہونے کی حالت میں ہی آپ کو اپنے پاس بلا لیا.(مصباح چون باد صفحه ۱۸) وسعت حوصلہ محترم چودھری اسد اللہ خاں صاحب پر ۱۹۳۴ ء میں معاندین کی طرف سے قاتلانہ حملہ ہوا.اس کی تفصیل مکرم مدیر صاحب مصباح تحریر فرماتے ہیں کہ آپ بذریعہ ترین دلی جا رہے تھے.رات کا وقت تھا.آپ رضائی اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے لیٹے لیٹے آپ کو خیال آیا کہ آپ کے سر کی سمت گرد زیادہ محسوس ہوتی ہے.چنانچہ آپ نے سر ٹانگوں کی طرف کر لیا اور ٹانگیں سر کی جگہ پر لے آئے.آپ کے سوتے ہوئے کسی معاند نے چھرے کا دار کیا.جو آپ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان لگا.اور رضائی اور بستر کو چیز کر کری میں گھس گیا.حملہ آور آپ کو اپنی دانست میں قتل کر کے بھاگ گیا.رات کسی وقت آپ نے رضائی کھینچی تو کھینچی نہ گئی.آپ نے اٹھ کر دیکھا تو چھرا گڑا ہوا تھا.آپ نے چھرا اسکالا.اور اسے سرہانے رکھ کر دوبارہ سو گئے.(ضمیمہ ماہنامہ مصباح ستمبر )
١٨٨ تواضع کا پُر لطف انداز حضرت حافظ نبی بخش صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہر قسم کا پھل موسم کے لحاظ سے منگوایا کرتے تھے مثلاً آسم دریا کے پار سے اور خربوزہ بیٹ سے منگواتے اور مہمانوں کو کھلاتے.بعض اوقات جب میں بھی خدمت میں حاضر ہوتا تو خربوزہ اپنے دست مبارک سے کاٹ کر دیتے اور مجھے نہایت شفقت اور محبت سے بار بار فرماتے کہ دیکھو نبی بخش یہ خربوزہ میٹھا ہو گا اس کو کھاؤ.جب میری موجودگی میں آم باہر سے آتے تو اپنے دست مبارک سے ٹوکرے میں سے چن چن کر نہایت محبت و شفقت سے مجھے دیتے اور بار بار فرماتے کہ میاں نبی بخش یہ آم تو ضرور میٹھا ہوگا اور مزیدار ہوگا اس کو کھائیں خود کم کھاتے میں اپنے نفس میں شرمندہ ہوتا کہ حضور اس قدر تکلیف مجھ ناچیز کی خاطر اٹھاتے ہیں مگر ساتھ ہی شرم کے مارے زبان سے کچھ نہ بولتا.1990 ) روزنامه الفضل ۸ اپریل شاه) مجھے زندہ کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفع حضرت بانی سلسلہ سیر سے واپس آرہے تھے.ہم حضور کے ہمراہ تھے.ایک شخص
۱۸۹ حضور کا منتظر پایا.وہ بے تحاشا حضور کی طرف دوڑا اور حضور کے قدم پکڑنا چاہیے.حضور نے اسے پکڑا اور سیدھا کھڑا کر کے پوچھا کہ کیا بات ہے.اس نے کہا میری زندگی موت سے بدتر ہے.آپ دعا کریں کہ مجھے اس زندگی سے نجات مل جائے حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ خدا نے مجھے زندہ کرنے کے لئے بھیجا ہے مارنے کے لئے نہیں ہیں آپ کی صحت کے لئے دعا کروں گا.وہ شخص مرگی کے مرض میں مبتلا تھا.اس کے بعد بیس دن قادیان میں ٹھہرا رہا لیکن اس پر مرض کا حملہ نہیں ہوا.و اصحاب احمد جلد دہم ص ۲۳۹) قدام سے عفو و درگذر محمد اکبر خاں صاحب سنوری بیان کرتے ہیں کہ جب وطن چھوڑ کر ہم قادیان آگئے تو حضر مسیح موعود کا یہ قاعدہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلایا کرتے تھے اور بہت سی موم بتیاں اٹھی روشن کر دیا کرتے تھے.جن دنوں میں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی.ایک دفعہ حضرت اقدس کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی.اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بنتی گر پڑی اور تمام مسودات جل گئے.علاوہ ازیں اور بھی چند چیزوں کا نقصان ہوا.بتھوڑی دیر کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کے کئی مستورات ضائع ہو گئے ہیں تو تمام گھر میںگھبراہٹ میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی ہوئی کیونکہ حضرت اقدس کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے لیکن جب حضور کو معلوم ہوا تو حضور نے اس واقعہ کو یہ کہ کر رفت گذشت کر دیا کہ خدا کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیئے کہ کہ ٹی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہو گیا اسيرة مسیح موعود مرتبه یعقوب علی عرفانی صفحه ۱۰۳-۱۰۴)
19.ٹکڑے ہی کافی ہیں مکرم شیخ نور احمد صاحب فرماتے ہیں کہ جنگ مقدس کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہو گئے تھے.ایک روز حضرت مسیح موعود کے لئے کھانا رکھنا یا پیش کرنا گھر میں بھول گیا.میں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی منفی مگر وہ کثرت کارد با را دو مشغولیت کی وجہ سے بھول گئی یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا اور حضرت نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا تو سب کو فکر ہوئی.بازار بھی بند ہو چکا تھا اور کھانا نہ مل سکا.حضرت کے حضور صورت حال کا اظہار کیا گیا.آپ نے فرمایا.اس قدر گھبراہٹ اور تکلف کی کیا ضرورت ہے.دستر خوان کو دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہوگا وہی کافی ہے دستر خوان کو دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے.آپ نے فرمایا.یہی کافی ہیں اور ان میں سے ایک دو ٹکڑے لے کر کھالئے اور ہیں.(سیرة مسیح موعود مصنفہ یعقوب علی عرفانی جلد سوم صفحه ۳۳۳) ایک معجزہ جن ایام میں حضور گورداسپور میں مقدمات کی پیروی کے لئے قیام پذیر تھے ایک روز مولوی یار محمد صاحب قادیان سے گورداسپور پہنچے اور انہوں نے حضرت ابان جان کی علالت کی خبر دی مفتی فضل الرحمن صاحب کے پاس ایک گھوڑا تھا اور وہ اپنا گھوڑا لے کر گورداسپور رہا کرتے تھے تاکہ اگر ضروری کام پیش
۱۹۱ آجائے تو فوراً سوار ہو کر روانہ ہوں میفتی فضل الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود میرے پاؤں دبا رہے ہیں اور میں جلدی میں مٹھا ہوں اور پگڑی تلاش کرتا ہوں ادھر یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ یکایک انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص پاؤں دبا رہا ہے.انہوں نے زور سے آواز دی حضرت مسیح موعود نے فرمایا." میاں فضل الرحمان، مٹھو جلدی کام ہے " یہ گھبرا کر اٹھے اور انگیٹھی پر اپنی پگڑی تلاش کرنے لگے.اندھیرا تھا.حضرت نے پوچھا کیا کر رہے ہو.انہوں نے عرض کیا کہ پگڑی تلاش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ یہ میری پگڑی باندھ لو.مولوی یار محمد صاحب آئے ہیں.والدہ محمود بیمار ہیں.تم فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ میں خط لکھتا ہوں اور ان کے قلم سے جواب لکھوا کر کر مفتی فضل الرحمان صاحب کہتے ہیں کہ میں نے گھوڑے کے آگے دانہ رکھ دیا اور تیار ہو گیا.حضرت نے خط ختم کیا تو مولوی عبد الکریم صاحب نے فجر کی آذان دی میں سوار ہو کر چلا آیا.اور یہ حیرت انگیز امر ہے میں نہیں جانتا میرے لئے زمین کس طرح سمٹ گئی ہیں قادیان پہنچا تو نمازہ ہو رہی تھی نہیں نے گھوڑے کو دروازے کے ساتھ کھڑا کیا اور اوپر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا.حضرت اماں جان خود تشریف لائیں اور میں نے واقعہ عرض کیا اور خط دے کر کہا کہ اس کے لفافہ پر ہی جلد حضور اپنی خیریت کی خبر لکھ دیں چنانچہ اماں جان نے ایسا ہی کیا اور میں فوراً روانہ ہو گیا اور میں نہیں جانتا.کیا ہوا کہ میرا گھوڑا گویا پرواز کرتا ہوا جا رہا تھا.جب گورداسپور پہنچا ہوں تو نماز ختم ہوئی تھی حضرت مسیح موعود نے دریافت فرمایا کہ تم ابھی گئے نہیں نہیں نے عرض کیا کہ جواب سے آیا ہوں.أسيرة مهدی از یعقوب علی عرفانی جلد سوم صفحه ۳۳۷)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نشار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟ اُسے دے چکے مال و جاں باربار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے (درثمین )