Language: UR
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش ۔۔’’دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں۔۔۔‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے فاضل مصنف نے حضرت حکیم الامت حافظ مولوی نورا لدین صاحب بھیروی ثم قادیانی رضی اللہ عنہ کے حالات و واقعات پر یہ قیمتی مسودہ کتاب تیار کیا گواس کی طباعت کا مرحلہ کافی دہائیوں کے بعد آیا۔ اس کتاب کے اندر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے مختصر سوانح بیان کرکے آپ کے بلند اور قابل رشک مقام پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز آپ کے دور خلافت کا جستہ جستہ تاریخی طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ الغرض تاریخ اسلام کے غیر معمولی مرحلہ، جب صدیوں کے انقطاع کے بعد امت میں پھر سے خلافت و جانشینی کا سلسلہ شروع ہوا، کے غیر معمولی اور عظیم الشان واقعات کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اور آپ ؓ کی زندگی کے محور ، خدمت قرآن کریم ، اطاعت امام، تربیت جماعت، استحکام خلافت جیسے امور کو نہایت اختصار کے ساتھ سمویاگیاہے۔
چه خوش بو دے اگر ہر یک زامت نور دیں بو دے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بو دے قدرت ثانیہ کا دور اول مقام ظہور قدرت ثانیه عبد الباسط شاہد یکے از مطبوعات
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:....وَهُوَ خَيْرُ الْوَاهبين.لا ريب فى أنَّه نُخبة المتكلمين.وَ زُبدة المؤلفين يشرب الناس من عباب زلاله و یشتری گشرابِ طهورٍ قوارير مقاله هو فخر البررة و الخيرة وفخر المؤمنين فى قلبه انوار ساطعة من اللطائف والدقائق والمعارف والحقائق.والاسرار و اسرار الاسرار ولمعات الروحانيين...آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 585)
حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام
حضرت الحاج حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ
قدرت ثانیہ کا دور اول (احمدی احبار چه خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے مدرت مثانه کا دور اوّل (1)
قدرت ثانیہ کا دور اول نام کتاب قدرت ثانیہ کا دور اول (2)
قدرت ثانیہ کا دور اول ہم محترم اظہار تشکر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو ایصالِ ثواب کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کی اس کتاب کے لئے مالی تعاون کیا ہے.دعا ہے کہ مولا کریم ان کے والدین محترم عبدالرحیم صاحب دیانت در ویش قادیان اور محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کو اعلی علیین میں مقام قرب عطا فرمائے اور محترم جزا بن جائے.آمین اللهم آمین.کی خود (3)
5 6 7 11 30 40 65 85 96 108 122 131 138 143 قتدرت ثانیہ کا دور اول بسم اللہ الرحمن الرحیم مضامین اظہار تشکر پیش لفظ عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رویا کشوف ، الہامات اور تحریرات میں حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین خلیفہ اول کا ذکر خیر حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب کی مختصر سوانح قدرت ثانیہ کا ظہور اور بیعت خلافت اولی حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی تصنیفات کا تعارف خلافت اولی اور احمدیہ پریس خلافت اولی اور دعوت الی اللہ متفرق اہم واقعات حضرت ابوبکر صدیق سے مشابہت (4) عمارات سلسلہ میں ترقی خلافت کا صحیح مقام موت العالم.موت العالم حرف آخر 1 2 3 + 6 7 10 11 12 13 14 15
مقتدرت ثانیہ کا دور اول پیش لفظ (5)
ت ثانیہ کا دور اوّل عرض حال مضمون زیر نظر خاکسار کی ایک ایسی کوشش ہے جس پر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.میرے بزرگ حضرت مولانا شیخ عبد القادر صاحب مرحوم نے اس عنوان پر جو حق تحریر ادا کیا (حیات نور ) اور میرے محترم دوست مولانا دوست محمد صاحب نے جو حق تاریخ ادا کیا ( تاریخ احمدیت) یہ اس سے بہت پہلے کی تحریر ہے.ایک عرصہ تک اس کتاب کے متعلق یہی خیال رہا کہ ضائع ہو چکی ہے اور مجھے اس کا زیادہ افسوس بھی نہیں تھا کیونکہ اس موضوع پر اس سے بہتر کتب اور مضامین سلسلہ کے لٹریچر میں قیمتی اضافہ کر چکے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مضمون کی دستیابی ، نظارت اشاعت سے شائع کرنے کی اجازت لجنہ کراچی کی اشاعت کے لئے آمادگی بتاتی ہے کہ محل آمد مرھون بِأوقاتہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے.اور صد سالہ خلافت جو بلی سے بہتر اس مضمون کی اشاعت کے لئے اور کون سا موقع ہو سکتا ہے.جماعت کے سامنے یہ مضمون اس کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں.(ازالہ اوہام ) کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیش کیا جارہا ہے اگر ان سطور کے لکھنے والے یا کسی قاری کو حضرت مولانا کی طرح دین حق اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل اور توکل علی اللہ نصیب ہو جائے.اگر کسی کو ویسا عشق قرآن حاصل ہو جائے.اگر کسی کو خدمت دین کے لئے جانی و مالی قربانی کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے.اگر عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ ویسی ہی اطاعت خاکساری و انکساری حاصل ہو جائے.اور دل پر از نور یقین ہو جائے تو زہے قسمت وسعادت.(6)
قدرت ثانیہ کا دور اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رویا کشوف الہامات اور تحریرات میں حضرت حکیم الامت حضرت مولانا نورالدین خلیفہ اسی اوّل کا ذکر خیر (اللہ تعالیٰ آپ پر راضی ہو ) 1 - 13 فروری 1887 کو حضرت اقدس کو الہام ہوا عبدالباسط جس سے آپ نے اسے حضرت مولانا نورالدین کی طرف اشارہ خیال فرمایا اور حضرت مولانا نے متعدد بار فرمایا کہ میرا الہامی نام عبد الباسط ہے.2.خواب میں دیکھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا.اتنے میں ایک بندہ خدا آیا اُس نے اُوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کے چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے.آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تر ڈو ہوا آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے ہاتھ کے لئے دعا کی ایسا ہی برقت قلب خط پڑھنے سے آپ کے لئے منہ سے دلی دعا نکل گئی.مستجاب انشاء اللہ تعالی.( تذکرہ صفحہ 117 ایڈیشن دوم ) 3 مارچ 1893 نور الدین کو دو گلاس دودھ کے پلائے.ایک ہم نے خود دیا اور دوسرا اُس نے مانگ کر لیا اور کہا سرد ہے.پھر دودھ کی ندی بن گئی اور ہم اُس میں نبات کی ڈلی ہلاتے جاتے ہیں.( تذکره صفحه 652) 13-2-4 اپریل 1893ء کو الہام ہوا لا تَصْبُونَ إِلَى الْوَطَنِ فِيهِ تُهانُ وَ تُمْتَحَنُ بِهِ الہام نورالدین کے متعلق معلوم ہوتا ہے.( تذکره صفحه 652) (7)
تدرت ثانیہ کا دور اول ترجمہ:.تو وطن کی طرف ہرگز توجہ نہ کر اس میں تیری اہانت ہوگی اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی.5.حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کی طبیعت بہت علیل رہی چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو درس قرآن ملتوی رکھنا پڑا.آپ کی طبیعت کی ناسازی دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی صحت کے لئے کثرت سے دُعا شروع کی تو 6 جنوری ( 1905.ناقل ) کو آپ نے تشریف لاکر فرمایا میں دُعا کر رہا تھا کہ یہ الہام ہوا: إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا انَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِّنْ مِثْلِهِ ( تذکره صفحه 440) ترجمہ: جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں کچھ شک ہو تو اس کی شفا کی مثل کوئی شفا پیش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مرید با صفا ، عالم باعمل حاجی الحرمین حافظ علامه نور الدین کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (عربی سے ترجمہ) ”میرے سب دوست منتقی ہیں ان میں سب سے زیادہ صاحب بصیرت، صاحب علم، اکمل الایمان والاسلام، محبت، معرفت، خشیت اور یقین اثبات والا بزرگ فرد متقی عالم، صالح ، فقیہ عظیم الشان محدث و ماہر طبیب ، حکیم حاجی الحرمین ، حافظ قرآن، قریشی فاروقی جس کا اسم گرامی حکیم نور الدین بھیروی ہے.اللہ تعالیٰ اسے دین دنیا میں اجر عظیم سے نوازے.صدق وصفا، اخلاص و محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اول نمبر پر ہے اور ایثار وانقطاع اور خدمت دین میں عجیب حال میں ہیں.اس نے خدمت دین میں بہت خرچ کیا ہے اور میں نے انہیں ایسا مخلص پایا ہے جو اولا دوازواج پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسی کی رضا کے خواہاں رہتے ہیں اور ہر حال میں شکر گزار رہتے ہیں.وہ شخص رقیق القلب ،صاف طبع، حلیم ، کریم اور (8)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل جامع الخیرات دنیوی لذات سے بہت دور، بھلائی اور نیکی کے کسی موقع کو ضائع نہ کرنے والا.وہ پسند کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خاطر اپنا خون پانی کی طرح بہادیں اور اپنی جان اس راہ میں قربان کر دیں اور دین میں فتنوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنا آپ قربان کر دیں.“ ( حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 180 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا: مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور اللہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اُٹھا دیا اور اپنے لئے دنیا میں کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی.یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے.اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں...خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے.آمین ثم آمین.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے ایک اور مقام پر حضور فرماتے ہیں: نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4 ص407) ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں اس کی کوئی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں.میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جاں نثار پایا.اگر چہ ان کی روزمرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر (9)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل یک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے میں یقینا دیکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو.جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے.تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہوسکتا.ان کو خدا تعالیٰ نے قوی ہاتھوں سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے.اور طاقت بالا نے خارق عادت اثر ان پر کیا ہے.انہوں نے ایسے وقت میں بلاتر ڈر مجھے قبول کیا جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا.اور بہتیرے ست اور متذبذب ہو گئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں.قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے.آمَنَّا وَصَدَّقنا فاكتبنا مَعَ الشَّاهِدِین...مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 ص 520) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور متعدد مقامات پر حضرت مولانا کے متعلق ایسے ہی تعریف و توصیف کے الفاظ استعمال فرمائے.حضرت مولوی صاحب بھی اپنی فدائیت اور خدمت دین میں ترقی کرتے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود کی خلافت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے.اس تمہید کے بعد حضرت مولانا کی خوبیوں اور صفات کی مثالیں اور وضاحتیں تو پیش کی جاسکتی ہیں.مگر اس میں کسی اضافہ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی.(10)
قدرت ثانیہ کا دور اول حضرت خلیفہ اول کی مختصر سوانح حاجی الحرمین الشریفین حضرت مولانا خلیفہ مسیح الاول 1841ء بمطابق 1258 ضلع شاہ پور ( حال ضلع سرگودھا) کے ایک مشہور قصبہ بھیرہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا اسم گرامی حضرت حافظ غلام رسول صاحب تھا.آپ کے جد امجد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ علیہ کے بھائی تھے.آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت نور بخت صاحبہ تھا.حضرت خلیفہ اول (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) اپنے والدین کے نویں اور آخری بچے تھے.خوش قسمتی سے آپ کی والدہ قرآن مجید اور حدیث وفقہ کے ابتدائی امور سے بخوبی واقف تھیں قرآن مجید کی معلمہ تھیں اس لئے بچپن میں ہی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ والدہ صاحبہ کی گود سے ہی آپ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آپ نے اپنی والدہ مکرمہ سے قرآن مجید اور حدیث وفقہ کی ابتدائی کتا ہیں پنجابی زبان میں پڑھیں کچھ حصہ قرآن مجید کا اپنے کثیر المشاغل اور عدیم الفرصت والد محترم سے بھی پڑھا.1853ء میں آپ حصول تعلیم کی غرض سے اپنے بھائی مکرم مولوی سلطان احمد صاحب کے پاس لا ہور تشریف لے گئے.جہاں آپ کو خناق کا مرض لاحق ہو گیا جس کا علاج پنجاب کے مشہور حکیم غلام دستگیر صاحب نے کیا.بعد ازاں وہاں آپ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور فارسی اور خوش خطی کی تعلیم کے لئے منشی محمد قاسم صاحب کشمیری اور مرزا امام دیروی صاحب کے تلامذہ میں شامل ہو گئے لیکن ذاتی رجحان نہ ہونے کی وجہ سے آپ ان ہر دو بزرگوں سے کوئی خاص استفادہ نہ کر سکے.1855 میں آپ واپس اپنے وطن تشریف لے آئے.فارسی تعلیم کا سلسلہ وہاں بھی جاری رہا لیکن جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.فارسی سے طبعی لگاؤ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جلد ختم ہو گیا.اسی زمانہ میں آپ کے بھائی مکرم مولوی سلطان احمد صاحب لاہور سے بھیرہ تشریف لے آئے اور خود عربی کی تعلیم دینی شروع کر دی.اس کے ساتھ ہی آپ نے ترجمہ قرآن مجید تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار بھی پڑھنی شروع (11)
تدرت ثانیہ کا دور اول کر دیں.کچھ عرصہ کے بعد آپ کو پھر لاہور آنا پڑا.یہاں آپ نے مشہور عربی دان حکیم الہ دین صاحب سے ادب عربی پڑھی.حضرت مولانا کو حکیم صاحب موصوف کا یہ سبق بہت مفید اور دلچسپ معلوم ہوتا تھا.لیکن بعض ناگزیر وجوہ سے آپ کو جلد واپس بھیرہ آنا پڑا.سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں آپ راولپنڈی تشریف لے گئے اور وہاں نارمل سکول کی تعلیم آپ کے ذمہ لگائی گئی.اس تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے ریاضی اور اقلیدس کی تعلیم علی الترتیب شیخ غلام نبی صاحب ہیڈ ماسٹرلون میانی اور منشی نہال چند صاحب سے شروع کی اور اس کے متعلق آپ کا بیان ہے کہ ایک ایک قاعدہ ( ہر دو مضمونوں کا) سیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا فہم عطا کیا کہ ان علوم پر پوری طرح حاوی ہو گئے.اور مقابلہ کے ایک امتحان میں ایسی نمایاں کامیابی حاصل کی کہ پنڈ دادن خان سکول کے صدر مدرس مقرر ہو گئے.چار سالہ ملازمت کے دوران آپ نے عربی کی تعلیم برابر جاری رکھی اور اس کے بعد ” بگے والے قاضی مکرم مولوی احمد دین صاحب سے عربی سیکھنی شروع کی لیکن قاضی صاحب موصوف جامع مسجد بھیرہ بنانے کی دھن میں اکثر سفر پر رہتے تھے.اس لئے حضرت مولانا نے بمشکل ایک سال ان کی معیت میں گزارا اور پھر لاہور تشریف لے گئے.اس وقت تک حضرت مولانا صاحب نے حصول تعلیم کے لئے متعد د سفر کئے جس سے تحصیل علم کی خواہش اور شوق کا پتہ چلتا ہے یہ تمام سفر سر زمین پنجاب تک ہی محدود تھے.اور یہاں کے علماء سے ہی آپ نے استفادہ کیا تھا.لیکن یہاں سے آپ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی آپ حدود پنجاب کو اپنی علمی خواہش کے مقابلہ میں تنگ اور محدود پا کر ہندوستان کے مایہ ناز چوٹی کے علماء سے استفادہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے.چنانچہ قریباً چوبیس سال کی عمر میں لاہور سے رام پور کا رُخ کیا.کاندھلہ سے ہوتے ہوئے آپ رامپور پہنچے اور وہاں کے مشہور علماء (جو اس وقت ہندوستان بھر میں اپنی علمیت کی وجہ سے ممتاز تھے ) مثلاً مولانا حسن شاہ صاحب.مشہور نحوی مولوی عزیز اللہ صاحب.مولوی ارشاد حسین صاحب.ماہر ادب مفتی سعد اللہ صاحب.مولوی عبدالغنی صاحب اور حافظ سعد اللہ صاحب پنجابی سے مختلف علوم کی کتب مثلاً مشکوۃ ،شرح وقایہ (12)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اصول شاشی متنبی ، صدری اور ملاحسن وغیرہ پڑھیں.کثرت مطالعہ و محنت سے آپ کو سہر کا مرض ہو گیا جس کے علاج کے لئے آپ نے وہاں کے مشہور اور ماہر طبیبوں کا پتا کیا تو آپ کو سر فہرست حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کا نام معلوم ہوا.یہی آپ کی زندگی کا مفید اور عظیم الشان انقلاب تھا.کیونکہ اس سے آپ کو علم طب سے رغبت پیدا ہوئی جس سے بعد میں ہزار ہا بندگانِ خدا مستفید ہوئے.چنانچہ آپ رامپور سے با ارادہ لکھنو مراد آباد پہنچے جہاں آپ کا مرض بحمد للہ مہینہ، ڈیڑھ مہینہ میں دور ہو گیا.مراد آباد میں تقریباً دو ہفتے قیام کے بعد آپ کا نپور تشریف لے گئے اور وہاں سے ہندوستان کے مشہور حاذق طبیب حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کے پاس پہنچ گئے اس واقعہ کو اختصار کی نذر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ واقعہ اپنے اندر کئی سبق آموز مفید و دلچسپ امور رکھتا ہے.آپ فرماتے ہیں: میں لکھنو پہنچا.جہاں وہ گاڑی ٹھہری وہاں اترتے ہی میں نے حکیم صاحب کا پتہ پوچھا.خدائی عجائبات ہیں کہ جہاں گاڑی ٹھہری تھی اس کے سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا یہاں ایک پنجابی مثل یاد کرنے کے قابل ہے.دلل کرے اولیاں رب کرے سولیاں.میں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جا گھسا.ایک بڑا ہال نظر آیا.ایک فرشتہ خصلت دلار با حسین ، سفید ریش نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چار زانو بیٹھا ہوا، اس کے پیچھے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیے سامنے پاندان اگالدان، خاصدان، قلم ، دوات ، کاغذ دھرے ہوئے.ہال کے کنارے کنارے جیسے کوئی التحیات بیٹھتا ہے.بڑے خوشنما چہرے قرینے سے بیٹھے ہوئے نظر آئے.نہایت بزاق چاندنی کا فرش اس ہال میں تھا.وہ قہقہہ دیوار دیکھ کر میں حیران سا رہ گیا.کیونکہ پنجاب میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا.بہر حال اس کے مشرقی دروازے سے ( اپنا بستہ اسی دروازے میں ہی رکھ کر ) حکیم صاحب کی طرف جانے کا قصد کیا اور گرد آلود پاؤں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس نقش و نگار سے (13)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل میں خود ہی مجوب ہو گیا.حکیم صاحب تک بے تکلف جا پہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے ”السلام علیکم کہا جو لکھنو میں ایک نرالی آواز تھی یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ حکیم صاحب نے وعلیکم السلام زور سے یا دبی آواز سے کہا ہو.مگر میرے ہاتھ بڑھانے سے انہوں نے ضرور ہی ہاتھ بڑھایا اور خاکسار کے خاک آلود ہاتھوں سے اپنے ہاتھ آلودہ کئے اور میں دوزانو بیٹھ گیا.یہ میرا دوزانو بیٹھنا بھی اس چاندنی کے لئے جس عجیب نظارہ کا موجب ہوا.وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے جو اراکین لکھنو سے تھا.اس وقت مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ کس مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں.میں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہو چکا تھا مگر خدا شر برانگیز دکہ خیر مادراں باشد‘ میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں یہ جواب دیا کہ.یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم کی بے تکلف آواز وادی ، غیر ذی زرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے.صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی.اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہوا.اور وجد کی حالت میں اس امیر سے کہا کہ "آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک آپ نے اُٹھائی ہے؟ اور تھوڑے وقفہ کے بعد مجھ سے کہا کہ ” آپ کا کیا کام ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ ” میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور پڑھانے سے مجھے انقباض ہے.میں خود تو نہیں پڑھا سکتا میں نے قسم کھالی ہے کہ اب نہیں پڑھاؤں گا میری طبیعت ان دنوں بہت جوشیلی تھی اور شائد سہر کا بقیہ بھی ہو اور حق تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کے کام ہوتے ہیں.منشی محمد قاسم صاحب کی فارسی تعلیم نے یہ تحریک کی میں نے جوش بھری اور دردمندانہ آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا ”رنجانیدن دل جهل و کفارہ یمین سهل است.اس پر ان کو دوبارہ وجد ہوا اور چشم پُر آب ہو گئے.تھوڑے وقفہ کے بعد فرمایا ”مولوی نور کریم حکیم ہیں.اور بہت لائق (14)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ہیں آپ کو ان کے سپرد کر دوں گا اور وہ آپ کو اچھی طرح پڑھائیں گے.جس پر میں نے کی و عرض کی کہ ملک خدا تنگ نیست و پائے مرالنگ نیست - تب آبه رالنگ نیست.تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت ہوئی اور فرمایا ”ہم نے قسم توڑ دی.“ (مرقاة اليقين ص 67-66 ) علم طب کی تحصیل کے ساتھ ساتھ آپ نے مولوی فضل اللہ صاحب فرنگی محلی سے ملاحسن پڑھنی شروع کر دی.لیکن یہ دو سبق آپ کے جذبہ و شوق تحصیل علم کے مقابلہ میں بہت کم تھے.اس لئے آپ جلد اُکتا گئے اور فیصلہ کر لیا کہ رامپور واپس چلے جائیں گے.تاکہ حسب سابق متعد دعلوم بیک وقت سیکھے جاسکیں.اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ خواہش بہت پسند آئی اور اس نے آپ کے رام پور جانے کا فوری سامان کر دیا.اور حکیم صاحب بھی نواب رامپور کے بلانے کی وجہ سے رامپور آ گئے اور اس طرح طب کی تعلیم بدستور جاری رہی بلکہ آپ نے پختگی اور وسعت علم کی خاطر ”شرح اسباب حضرت حکیم صاحب کی نگرانی میں مولوی محمد اسحاق کو پڑھائی.حکیم علی حسین صاحب سے آپ نے دو سال میں قانون کا عملی حصہ ختم کیا اور بعد حصول سند و اجازت عربی علوم کی تکمیل کے لئے میرٹھ پہنچے اور وہاں سے بھو پال تشریف لے گئے.اتفاق سے وہاں آپ کی تمام پونچی کہیں کھوگئی اور آپ کو سخت تکلیف پہنچی.یہاں تک کہ آپ فاقوں سے جان بلب ہو گئے اور ایک وقت تو آپ کو یقین ہو گیا کہ آپ شام تک زندہ نہیں رہ سکیں گے.لیکن خدا نے منشی جمال الدین صاحب مدار المهام ریاست بہاول پور کے دل میں آپ کی سر پرستی کی تحریک کی اور آپ نے مستقل طور پر حضرت مولانا صاحب کو اپنے ہاں رہنے اور اپنے کتب خانہ سے استفادہ کرنے کی اجازت دے دی.بھوپال میں آپ نے حضرت مولوی عبدالقیوم صاحب سے بخاری شریف اور ہدایہ پڑھیں اور حدیث وہاں کے مفتی صاحب سے سنی جو انہوں نے محمد بن ناصر حضرمی سے سنی تھی.بھوپال میں حصول علم طب کے دوران وہاں کا ایک امیر زادہ سوزاک میں مبتلا ہو گیا اور اس (15)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل نے آپ سے رجوع کیا اور آپ کے کامیاب اور زوداثر علاج نے آپ کو یہ عظیم الشان فائدہ پہنچایا کہ امیر زادہ نے خوش ہو کر اتنا انعام دیا کہ آپ پر حج فرض ہو گیا.حج کا قصد کرنا تھا کہ انہی دنوں آپ کو شدید بخار اور سیلان اللعاب کا خطرناک عارضہ ہو گیا اس مرض کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اطباء نے مشورہ دیا کہ آپ فوراً اپنے وطن چلے جائیں لیکن معمولی علاج سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا دے دی اور بجائے وطن جانے کے آپ نے حرمین شریف جانے کا ارادہ کر لیا.آپ نے اپنے زمانہ طالب علمی کے تجارب کا نچوڑ اس طرح بیان فرمایا کہ: اگر ہندوستان کے مسلمان تعلیمی درسی کتابیں سوچ سمجھ کر مقر رکیا کریں اور پھر ان کے امتحان بھی ہوا کریں اور اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ طالبعلم دین و دنیا دونوں میں ترقی کر سکیں تو قوم پر کتنا بڑا احسان ہو.الگ الگ درسگا ہیں بڑی دقت میں ڈالتی ہیں سب سے بڑی دقت جو مجھ کو محسوس ہوئی یہ ہے کہ نہ تو استاد صلاح دیتے ہیں کہ کیا پڑھنا چاہیے اور نہ طالب علم اپنے حسب منشاء آزادی کے ساتھ اپنے ان قومی کے متعلق جو خدا تعالیٰ نے عطا کئے ہیں کسی کتاب کے انتخاب کرنے کی جرات کر سکتا ہے.نیز اخلاق فاضلہ کی تعلیم و تاکید نہیں ہوتی.میں اپنی تحقیق سے کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں کسی استاد میں یہ بات نہ دیکھی.ان باتوں کا رنج مجھے اب تک ہے.کس قدر رنج ہوتا ہے جبکہ میں غور کرتا ہوں کہ اس وقت ہمارے افعال ، اقوال ، عادات، اخلاق پر بھی ہمارے معلموں میں سے کسی نے نوٹس نہ لیا.بلکہ عقائد کے متعلق بھی کچھ نہ کہا.مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ مشکوۃ میں ہی ہمارے اخلاق پر توجہ دلائی گئی ہو.(مرقاۃ الیقین صفحہ 61) ہندوستان کے مایہ ناز اور چوٹی کے علماء سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ اپنے دل میں فریضہ حج کی ادائیگی ، زیارت مقامات مقدسہ اور تحصیل علم کے ولولوں سے سرشار 1866-1865 میں حرمین شریف کا سفر کیا.مکہ معظمہ میں آپ نے چیدہ چیدہ علماء سے کما حقہ استفادہ کیا.چنانچہ شیخ محمد خزرجی (16)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل صاحب.مولانا سید حسین صاحب اور مولوی رحمت اللہ صاحب سے علی الترتیب ابوداؤد صحیح مسلم اور مسلم پڑھیں.مکہ میں ہی مدینہ کے شیخ المشائخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے آپ کا تعارف ہوا اور آپ نے ان کی خدمت میں درخواست کی کہ ”مجھے اپنے حلقہ درس میں شامل کر لیں.“ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہیے.چنانچہ آپ مذکورہ بالا علماء سے فارغ التحصیل ہو کر حضرت شاہ صاحب کے پاس پہنچ گئے.مد بینہ بہ معظمہ میں آپ عبادات اور زیارت مقامات مقدسہ سے منازل سلوک طے کرنے لگے.اب آپ کا زمانہ طالب علمی ختم ہو چکا تھا اور آپ عارفانہ بصیرت حاصل کرنے کے دور میں داخل ہو گئے تھے.انہی دنوں آپ نے کافی غور و فکر کے بعد حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کی بیعت کر لی جنہوں نے آپ کو اپنے باقی مریدوں کے برعکس کوئی لمب وظیفہ اور وردنہ بتایا بلکہ صرف آیت شریفہ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيد اور وَالله مَعَكُمْ آيْنَما كُنْتُمْ پر غور وخوض کرنے کو کہا.اس کے متعلق حضرت مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ : اس توجہ میں میں نے بار ہا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اپنی بعض غفلتوں اور سستیوں کے نتائج کا مشاہدہ کیا.“ (مرقاة الیقین ) مدینہ منورہ کی برکات سے استفادہ کر کے آپ دوبارہ ام القریٰ مکہ معظمہ تشریف لے آئے اور ایک بزرگ شیخ مخدوم صاحب کے پاس اقامت گزیں ہوئے.1869ء میں دوبارہ حج کا شرف حاصل کیا اور چند ماہ کے قیام کے بعد پختہ علم.وسیع تجربہ اور عارفانہ شان لئے 1871,1870ء میں مراجعت فرمائے وطن ہوئے.دہلی پہنچنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے استاد حضرت حکیم علی حسین صاحب یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ نے ان سے ملاقات کی اور ان کے ہمراہ لاہور تشریف لائے.اور لاہور سے اپنے آبائی وطن بھیرہ پہنچ گئے.(اس وقت آپ کی عمر قریب تھیں 30 سال تھی.) اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر آپ کے ساتھ عجیب رحیمانہ سلوک کیا.جس کا اندازہ آپ (17)
مقتدرت ثانیہ کا دور اول کی سوانح ” مرقاۃ الیقین سے ہوسکتا ہے.بھیرہ میں آپ کی زندگی علمی اشغال اور طب کے ذریعہ خدمت خلق میں بسر ہونے لگی.آپ کے اس زمانے کے بعض مباحثے اور آپ کے طبی احسانات بھی نا قابل فراموش ہیں چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ : بھیرہ اس وقت پنجاب بھر کے بیماروں کے واسطے رجوع کا مرکز بن گیا.دور ونزدیک سے لوگ آنے شروع ہو گئے.صدہا بیماروں کا روزانہ علاج کیا جاتا تھا.اور دوائی حسب معمول مفت (حیات نورالدین صفحہ 153) دی جاتی.“ بھیرہ میں آپ کی شادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی جو مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی کی صاحبزادی تھیں.یہاں آپ نے اپنے مطب اور رہائش کے لئے بغیر کسی منظوری و نقشہ بنوانے کے مکان بنوانا شروع کر دیا.جب اس کی تعمیر شروع ہوگئی تو ڈپٹی کمشنر نے غیر معمولی تعاون کرتے ہوئے وہ زمین آپ کو دے دی بلکہ مکان کا پشتہ بھی سرکاری خرچ پر بنوا دیا کیونکہ ادھر بدر و تھی.جس طرح یہ مکان بغیر منظوری و نقشہ کے شروع کر دیا گیا تھا اسی طرح اس وقت آپ کے پاس مکان بنوانے کے لئے سرمایہ بھی نہ تھا اور آپ نے اپنے ایک ہندو دوست سے قرض حاصل کیا تھا.جب 1200 روپے خرچ ہو چکا تو آپ لارڈلٹن کے دربار کے سلسلہ میں دہلی تشریف لے گئے.یہ سفر آپ کی زندگی کے سفروں میں سے خاص طور پر عجیب ہے کیونکہ اس سفر میں قدم قدم پر خدا کی غیر معمولی نصرت و تائید کا اظہار ہوا.دہلی میں آپ کی ملاقات ایک دیرینہ ہمد روشی جمال الدین صاحب سے ہوئی جن کا نواسہ محمد عمران دنوں بیمار تھا.اس کے علاج کے سلسلہ میں آپ دوبارہ بھوپال تشریف لے گئے.منشی صاحب موصوف نے آپ کو دو قسطوں میں 1200 روپے دئے اور اس طرح آپ کا قرض اُتر گیا چونکہ یہ سفر صرف منشی صاحب کے عزیز کے علاج کی غرض سے تھا اس لئے آپ تھوڑا عرصہ قیام فرمانے کے بعد واپس بھیرہ تشریف لے آئے.(18)
قدرت ثانیہ کا دور اول اس کے بعد 1879ء میں سفر کشمیر اختیار کیا جس کی تحریک آپ کو مندرجہ ذیل رویاء سے ہوئی فرماتے ہیں...دالان میں آتے ہی مجھ پر نوم طبعی طاری ہو گئی.میں لیٹ گیا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اس وقت آپ کی عمر پچیس (25) برس کے قریب معلوم ہوتی تھی گویا وہ عمر تھی جب آپ کی شادی ہوئی ہوگی میں نے دیکھا کہ بائیں جانب سے آپ کی داڑھی خش خشی ہے اور دہنی طرف بال بہت بڑے ہیں اور میں حضور کے پاس بیٹھا ہوں.میں نے سوچا کہ دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے.پھر معا میرے دل میں آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق مجھ کو تامل ہے اس لئے یہ فرق ہے.تب میں نے اس وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہاں بھی اس کو ضعیف کہے گا تو بھی میں اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا.یہ خیال کرتے ہی میں نے دیکھا کہ دونوں طرف داڑھی برابر ہو گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور مجھ سے کہا کہ کیا کشمیر دیکھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا ”ہاں یا رسول اللہ.آپ چل پڑے اور میں پیچھے پیچھے تھا.بانہال کے رستہ سے ہم کشمیر گئے.جموں کشمیر میں ہزار ہا بندگان خدا کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ ولی عہد پونچھ مہاراجہ پونچھ، مہاراجہ کشمیر، ولی عہد کشمیر جیسی بڑی ہستیوں کے باقاعدہ معالج رہے.نومبر 1879ء میں آپ کی کتاب فصل الخطاب فی مسئلہ فاتحہ الکتاب شائع ہوئی 1880ء میں انجمن اشاعتِ اسلام کے ممبر بنے.کشمیر میں اقامت کے دنوں میں ہی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے جس کی ایمان افروز تفصیل مندرجہ ذیل ہے: مقبول احمدیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا صاحب کی طبع صافی میں جستجو اور معاملہ فہمی کا قیمتی مادہ کثرت سے ود یعت فرمایا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ نے سچے علم اور گیان کی تلاش میں ہزاروں کوس کا سفر کیا اور (19)
قدرت ثانیہ کا دور اول متعدد بزرگوں کی صحبت میں رہے.کشمیر کی اقامت کے دوران 1882 ء میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار نشان نمائی کی عالمگیر دعوت ملا جو ریاست کے پرائم منسٹر نے آپ کو بھجوایا تھا...اس اشتہار کو دیکھتے ہی آپ کے قلب منور نے سکینت وطمانیت محسوس کی اور یہ جاننے کی وجہ سے کہ زمانہ کسی ایسے مصلح کا تقاضا کر رہا ہے.اسی وقت حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.1884ء میں پہلی بار قادیان تشریف لائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی ملاقات کا واقعہ نہایت ایمان افروز ہے جسے حضرت مولانا صاحب کے الفاظ میں ذکر کر نا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں: فوراً اس اشتہار کے مطابق تحقیق کے واسطے قادیان چل پڑا اور روانگی سے پہلے وو اور دورانِ سفر سے اور پھر قادیان کے قریب پہنچ کر قادیان کو دیکھتے ہی نہایت اضطراب اور کپکپا دینے والے دل سے دعائیں کیں.جب میں قادیان میں پہنچا تو جہاں میرا یکہ ٹھہرا تھا.وہاں ایک بڑا محراب دار دروازہ نظر آیا جس کے اندر چار پائی پر ایک بڑا ذی وجاہت آدمی بیٹھا نظر آیا.میں نے یکہ بان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا مکان کون سا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے اسی ریشائل مشتبہ داڑھی والے کی طرف جو اس چار پائی پر بیٹھا تھا اشارہ کیا کہ یہی مرزا صاحب ہیں.مگر خدا کی شان اس شکل کو دیکھتے ہی میرے دل میں ایسا انقباض پیدا ہوا کہ میں نے یکہ والے سے کہا کہ.ذرا ٹھہرو.میں بھی تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اور وہاں میں نے تھوڑی دیر کے واسطے بھی ٹھہر نا گوارا نہ کیا.اس شخص کی شکل ہی میرے واسطے ایسی صدمہ دہ تھی جس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.آخر طوعاً اور کرہا میں اس (مرزا امام الدین) کے پاس پہنچا میرا دل ایسا منقبض اور اس کی شکل سے متنفر تھا کہ میں نے السلام علیکم تک بھی نہ کہا.کیونکہ میرا دل برداشت ہی نہ کرتا تھا الگ ایک خالی چار پائی پڑی تھی اسی پر بیٹھ گیا.اور دل میں ایسا اضطراب اور تکلیف تھی کہ جسے بیان کرنے میں وہم ہوتا ہے کہ لوگ مبالغہ نہ سمجھیں.بہر حال میں وہاں بیٹھ گیا دل میں سخت متحیر تھا کہ (20)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل میں یہاں کیوں آیا.ایسے اضطراب اور تشویش کی حالت میں اس مرزا نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے نہایت روکھے الفاظ اور کبیدہ کبیدہ دل سے کہا کہ پہاڑ کی طرف سے آیا ہوں تب اس نے جواب میں کہا کہ ”آپ کا نام نورالدین ہے.اور آپ جموں سے آئے ہیں اور غالباً آپ مرزا صاحب کو ملنے آئے ہوں گے.بس یہ لفظ تھا جس نے میرے دل کو کسی قدر ٹھنڈا کیا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص جو مجھے بتایا گیا ہے مرزا صاحب نہیں ہیں.میرے دل نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ میں اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں؟ میں نے کہا ”ہاں اگر آپ مجھے مرزا صاحب کے مکانات کا پتہ دیں تو بہت ہی اچھا ہو گا.اس پر اس نے ایک آدمی مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجا اور مجھے بتایا کہ ان کا مکان اس مکان سے باہر ہے.اتنے میں حضرت اقدس نے اس آدمی کے ہاتھ لکھ بھیجا کہ نماز عصر کے وقت آپ ملاقات کریں.یہ بات معلوم کر کے میں اُٹھ کھڑا ہوا...عصر کے بعد حضرت اقدس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں ہوا خوری کے واسطے جاتا ہوں کیا آپ بھی میرے ساتھ چلیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں.“ روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حضرت مولانا صاحب کی پہلی نظر پڑی تو آپ نے دیکھتے ہی بے ساختہ کہا.”بس یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہو جاؤں.“ اور حضرت مسیح موعود کو یہ گوہر آبدار ملا تو آپ کے جذبات حمد وشکر میں ڈھل گئے.فرماتے ہیں: مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ عضول گیا ہو اور ایسا سرور ہوا جس طرح کہ حضرت نبی کریم صلال و سیستم حضرت فاروق کے ملنے سے خوش ہوئے تھے...اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیت ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ میرے اُسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالی کے منتخب بندوں میں سے ہے.(ترجمہ از آئینہ کمالات اسلام جلد 5 ص 583,582) (21)
قدرت ثانیہ کا دور اول بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو عیسائیوں کے رد میں ایک کتاب لکھنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ آپ نے کشمیر واپس جا کر ایک معرکة الآراء کتاب بنام فصل الخطاب في ردابل الكتاب تصنیف فرمائی.حضرت اقدس سے عاشقانہ تعلق کی وجہ سے آپ کی تحریر وتقریر سب احمدیت کے لئے وقف ہوگئی 1888ء میں آپ جموں میں بیمار ہو گئے حضرت اقدس بنفس نفیس آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائے 1889ء میں آپ کا عقدِ ثانی لدھیانہ میں حضرت منشی احمد جان صاحب کی صاحبزادی صغریٰ بیگم صاحبہ سے ہوئی اس میں حضرت اقدس نے بھی شمولیت فرمائی.23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں بیعت اولی میں آپ کی اہلیہ محترمہ کو اول المبائعین میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.ریاست جموں و کشمیر کے خوشامدی اور موقع پرست لوگوں میں آپ جیسے مرد مومن کی رہائش زیادہ عرصہ نہ رہ سکی کیونکہ آپ احقاق حق اور ابطال باطل کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.چنانچہ آپ اپنی ان صفات اور خصوصیات کی وجہ سے 1892ء میں سرکار جموں وکشمیر کی ملازمت سے فارغ ہو گئے.اس موقع پر بھی آپ نے نہایت عمدہ اور قابل تقلید نمونہ دکھایا.یعنی اتنی عمدہ ملا زمت سے فارغ ہونے کا آپ کو مطلق صدمہ نہ ہوا.اور آپ اسی طرح روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہے.جیسے ملازمت کے زمانہ میں تھے.گویا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں اور صبر جمیل اور رضا بالقضاء کا بہترین مظاہرہ کیا.فتادیان میں آمد جموں اور کشمیر سے تعلق ختم ہونے پر آپ بھیرہ تشریف لے آئے.اور ارادہ کیا کہ خدمت خلق کے لئے ایک عظیم الشان ہسپتال جاری کریں لیکن تدبیر کند بنده تقدیر کند خنده آپ کے اس ارادہ کے وقت ملائکہ ہنس رہے ہوں گے کہ دنیا کا یہ عظیم الشان انسان جو بنی نوع (22)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل کی بھلائی اور احسان اپنا مشن سمجھتا ہے اور اس کا ذریعہ ایک ہسپتال سمجھتا ہے ایک ایسی بستی میں جا دھونی رمائے گا جہاں ایمان اور علم وعمل کا امتزاج ایک نئی دنیا کی بنیادیں استوار کر رہا ہے.جہاں اس شخص کو جو اپنے طبی اور دیگر علمی کمالات کی وجہ سے مرجع عوام وخواص بنا ہوا ہے.نئی زمین اور نئے آسمان کے معمار کے ساتھ شامل ہو کر ان کی تعمیر میں اہم اور نمایاں کردارادا کرنا ہوگا.چنانچہ ابھی یہ عمارتیں زیر تکمیل ہی تھیں کہ آپ کسی ذاتی کام کے سلسلہ میں لا ہور تشریف لے گئے.لیکن اپنے محبوب اور پیارے امام سے اتنا قریب ہونے پر ملے بغیر جانا گوارا نہ کیا اور آپ شوق زیارت کی تکمیل کے لئے 1893ء میں قادیان پہنچ گئے.آپ چند گھڑیوں کے لئے زیارت امام سے خود کو تازگی بخشنے گئے تھے لیکن اب آپ کی منزل آچکی تھی یہ عظیم الشان انسان اپنی عمر کا ایک کثیر حصہ علم و تجربہ حاصل کرنے میں گزار کر میدان عمل میں پہنچ گیا.اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ والوں کی یہی بستی آپ کی جولانگاہ بننے کے قابل تھی.حضرت مسیح پاک نے فرمایا ”مولوی صاحب اب تو آپ فارغ ہوں گے.‘ دستِ قدرت نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو ہمیشہ کے لئے دنیا کے دھندوں سے فارغ کر دیا اور کبھی خواب میں بھی وطن کا خیال نہ آیا.قادیان میں آپ کی زندگی کا ہر لحہ بنی نوع انسان کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کی اصلاح میں صرف ہونے لگا.اور آپ نے وہاں مردوں اور عورتوں میں با قاعدہ درس قرآن مجید جاری کر دیا.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ : میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ہاں پڑھنے جایا کرتی تھی آپ نے میرے لئے اور میری ساتھیوں کے لئے درس جاری فرمایا تھا اور فرماتے تھے کہ اب تم آؤیا نہ آؤ اس کا ثوب تمہیں ملتا رہے گا کیونکہ تمہارے لئے ہی جاری کیا گیا تھا.“ اصحاب احمد جلد دوم ص 485) اور یہاں اپنا مطب بھی کھول لیا.جس سے صدہا مریض مفت دوا حاصل کرتے تھے.متعدد (23)
قدرت ثانیہ کا دور اول بچے آپ کی نگرانی میں بلکہ آپ کے خرچ پر تعلیم حاصل کرتے تھے.غرباء کی کثیر تعداد آپ سے فیض یاب ہوتی تھی.آپ کی یہ ہجرت ہر احمدی کے لئے بہترین نمونہ ہے.ان دنوں آپ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں قادیان سے بھیرہ تشریف لے گئے.وہاں آپ نے ایک مضمون بعنوان وطن میں بے وطن، تحریر فرمایا جس میں قادیان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ محبت وعقیدت کا بدرجہ غایت اظہار کیا.آپ فرماتے ہیں: ایک دنیا دار نے جو میرے قدیمی وطن بھیرہ ضلع شاہ پور کا رہنے والا ہے.جہاں بیٹھ کر میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا ہے مجھ پر بہ سبب ایک بدظنی کے جو دنیا داروں کا خاصہ ہے ایک دعوئی دیوانی دائر کیا جس کا سمن مجھے اپنے عزیز وطن قادیان دار الامان سے نکال کر کھینچے کھینچے یہاں لایا جہاں میرا مولد ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ تیرا وطن ہے تیرے باپ دادے کی جگہ ہے.یہاں رہنا چاہیئے.وہ تو یہ کہتے ہیں اور محبت بھرے دل سے کہتے ہیں پر میں حیران و سرگرداں ہوں کہ یا الہی میں کہاں آگیا یہ کس گناہ کی شامت ہے.جو میں چند روز کے واسطے مسیح کے قدموں سے دور پھینکا گیا ہوں.میرے خدا میرے گناہ بخش اور مجھ پر رحم فرما کہ تو غفور الرحیم ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخشے.مقدمہ میں کچھ میرا بہت حصہ نہ تھا مگر میرے ساتھ اصل مدعی علیہ ایک اور صاحب ہیں اور فریقین میں مصالحت کی خاطر مجھے تاریخ مقدمہ سے کچھ پہلے آنا پڑا اور کچھ پیچھے ٹھہر نا پڑا اور اس طرح چند روز کے واسطے میں بالکل مسافر بن گیا.( بدر 26 مارچ 1908ء) ایک اور مضمون میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربے کی بناء پر کہتا ہوں کہ بے شمار کتابوں کے پڑھنے نے مجھے اتنا فائدہ نہیں دیا جس قدر خدا کے صادق بندوں کی صحبت نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے.اور اب میں سالہا سال سے تجربہ کر رہا ہوں کہ قادیان میں بیٹھ کر جس قدر فائدہ میں نے اُٹھایا ہے.اپنی ساری عمر میں نہیں اُٹھایا جو قادیان سے باہر بسر کی.(24)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل میں قادیان سے باہر ایک دم گزارنا بھی موت کے برابر سمجھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میں قادیان سے باہر ہزاروں روپیہ پیش کرنے کی صورت میں بھی جانا نہیں چاہتا.ہاں اگر کبھی نکلتا ہوں تو محض اس لئے کہ اس پاک وجود کا حکم ہوتا ہے.جس کے حضور حاضر رہ کر یہ عظیم الشان فائدہ اُٹھا رہا ہوں جس نے ہزاروں نہیں بلکہ دنیا کے سارے مال و متاع سے مجھے مستغنی کر دیا ہے.میں نے یہ باتیں اس لئے نہیں کہی ہیں کہ میں تمہیں بتاؤں کہ امام کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے.انمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات میری غرض فقط یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو خصوصاً ان دوستوں کو جو مجھ پر حسن ظن رکھتے ہیں.ان فوائد سے اطلاع دوں جو مجھے یہاں رہ کر حاصل ہوئے ہیں اور جنہوں نے دنیا کی ساری دولت کو میرے سامنے بیچ کر دیا ہے.تا کہ وہ بھی یہاں رہ کر وہ بات حاصل کریں جو امام کے (الحکم 10 جنوری 1904) آنے کی اصل غرض ہے.“ اسی طرح ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں: اپنی نسبت کہتا ہوں اور اپنی کمزوریوں پر نظر کر کے خیال کرتا ہوں کہ میں اس گاؤں سے ایک گھنٹہ بھی باہر جانا موت سمجھتا ہوں بغیر اس حالت اور صورت کے کہ مجھے امام نے حکم دیا ہو.“ (الحكم 31 مئی 1904) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.آپ نے قادیان میں اپنا ایک مطب کھول لیا تھا.اس کے متعلق حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں: حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب سلمہ نے جو شفاخانہ اپنے صرف خاص سے کھول رکھا ہے جس میں مفت دو املتی ہے.اس میں دور دور سے مریض آکر شفایاب ہوتے ہیں.اور روزانہ اوسط مریضوں کی تعداد میں سے پچاس تک رہی چنانچہ سال تمام میں جن لوگوں نے فیض حاصل کیا ان کی تعداد قریباً 20000 ( بیس ہزار ) ہے.“ (الحام 10 جنوری 1899) (25)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب اپنی ان بیش بہا دینی خدمات پر کبھی مطمئن نہیں ہوتے تھے بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے ہر قسم کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے اور اس کے لئے مختلف تجویزیں سوچتے رہتے تھے.مثلاً ایک دفعہ آپ نے ایسی ہی ایک تجویز کا اعلان فرمایا کہ: میں عرصہ دراز سے بحضور حضرت امام حجۃ الاسلام سلمہ اللہ تعالیٰ سعادت اندوز رہا اور اب بھی ہوں.ہمیشہ حضرت ممدوح کی محبتوں اور شفقتوں کو دیکھتا تو مجھ کو جوش اُٹھتے تھے.کہ الہی کوئی دینی خدمت مجھ سے بھی ہوتی اور خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تو فیق عطا ہو.بحمد اللہ یہ مراد اس طرح پوری ہوئی کہ عیدالاضحی کے بعد چند احباب کے حضور فقیر نے یہ امر پیش کیا کہ یہاں مقام قادیان حضور امام حجۃ الاسلام کے آستانہ مبارک میں رفاہ عام اور تعلیم کے متعلق دس ضرورتوں کا ذکر فرمایا ہے ) ان ضرورتوں کے متعلق میں نے اپنے احباب کو کچھ سنا یا تو حکیم فضل دین.نور الدین خلیفہ، میر ناصر نواب منشی رستم علی ، راجہ عبد اللہ خاں، برادر عبدالرحیم ، حافظ احمد اللہ خان، وزیر خاں نے پسند فرمایا.اس لئے گزارش ہے کہ جو احباب اس خیال کو پسند فرما ئیں وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار فرما ئیں اور بحکم تعاونوا علی البر والتقویٰ ہمارا ساتھ دیں.حضرت امام حجة الاسلام نے بھی اجازت دیدی ہے.اور آمد وخرچ کے رجسٹر مجلس شوریٰ ہائے میں دکھائے جائیں گے.اور قرآن شریف، کتاب، نقد ، کرن ، پائجامہ ٹو پی وغیرہ جو کچھ کسی کو میسر ہوفر یسندہ کو بھیجنے کا اختیار ہے.“ ( الحکم 24 مارچ 1900 ) اس تجویز سے آپ کی غریب پروری اور خدمت خلق کے جذبہ پر روشنی پڑتی ہے.کہ باوجود زندگی کے ہر ہرلمحہ کو خدمت خلق کے لئے وقف کر دینے کے بھی آپ مزید خدمت کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے.1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم پر آپ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو قرآن مجید پڑھانے کے لئے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.تکمیل ارشاد اور دوسری طرف قادیان کی محبت.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : (26)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل میں تو چاہتا ہوں کہ میں مالیر کوٹلہ پہنچوں مگر اس عشق و محبت کو کیا کہوں جو مجھے قادیان سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا.بہر حال کوشش کروں گا.اگر اللہ تعالیٰ نے مدد کی قادیان جانکلوں.(مکتوب 30 جنوری 1896ء ، اصحاب احمد جلد نمبر 2 صفحہ 98) مکرم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف اصحاب احمد کی تحقیق کے مطابق حضرت مولوی صاحب اپریل 1896ء سے اکتوبر 1896 ء تک وہاں رہے اور حضرت نواب صاحب کے علاوہ بیسیوں دوسرے خوش قسمت حضرات کو قرآن مجید و طب کے درس سے فائدہ پہنچایا اس کے بعد آپ 1902ء میں بھی مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے.ان متفرق کاموں کے علاوہ حضرت مسیح موعود نے بعض اہم جماعتی کاموں کی نگرانی بھی آپ کے سپر دفرمائی تھی مثلاً یکم فروری 1900 ء سے قادیان کا مڈل سکول ہائی سکول بنایا گیا.تو اس کے انتظام کے لئے ٹرسٹیوں کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ممبر وہ حضرات تھے جو سکول کے لئے 60 روپے سالانہ اپنی آمدنی سے دیں.یا سکول کے لئے چندہ کریں یا مدرسہ کی کسی رنگ میں علمی مدد کریں.اس کمیٹی کے نائب صدر حضرت مولانا صاحب تھے اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب صدر تھے.مگر چونکہ نواب صاحب محترم اپنی مصروفیات کے سلسلہ میں اکثر قادیان سے باہر رہتے تھے.اس لئے عملاً حضرت مولانا صاحب ہی تمام امور کی نگرانی فرماتے تھے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتظام مدرسہ نواب صاحب کی ہجرت کے بعد اُن کے سپر دفرمایا تھا.لیکن جب بعض مصروفیات کی وجہ سے آپ کو قادیان سے باہر جانا پڑا تو مدرسہ کا انتظام ایک کمیٹی کے سپر د کیا گیا.جس کے صدر حضرت خلیفہ اول تھے.اور مولوی محمد علی صاحب.مکرم شیخ یعقوب علی عرفانی، مکرم مفتی محمد صادق ممبر تھے.حضرت مولانا صاحب کو اس سکول کی خدمات کے سلسلہ میں یہ اولیت بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طرف سے چندہ کی تحریک ہونے پر حسب معمول سب سے پہلے آپ نے لبیک کہا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : واضح رہے کہ اوّل بنیاد چندہ کی اخویم مخدومی مولوی نور الدین نے ڈالی ہے کیونکہ (27)
قدرت ثانیہ کا دور اول انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں دس روپیہ ماہواری دوں گا.“ (الحکم 19 اکتوبر 1897ء) جب قادیان میں ڈگری کالج کا اجراء ہوا تو آپ اس میں عربی کے لیکچرار مقرر ہوئے.صدر انجمن کے اجراء پر آپ صدر انجمن کے پریزیڈنٹ مقرر کئے گئے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی رائے چالیس افراد کے برابر سمجھی جائے.گویا انجمن صرف سلسلہ کے کاموں کو عمدگی سے چلانے کا ایک ذریعہ ہے.کیونکہ انجمن کے باقی دس ووٹوں کے مقابلہ میں حضرت مولوی صاحب کی پوزیشن چالیس ووٹوں کی تھی اس لئے کبھی بھی کوئی فیصلہ آپ کی مرضی کے خلاف نہ ہوسکتا تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد پانچوں نمازوں کی امامت اور جمعہ کا خطبہ بھی آپ ہی دیا کرتے تھے.افتاء کا کام بھی آپ کے سپر د تھا.یعنی مسائل کے متعلق خطوط کے اکثر جواب آپ لکھتے تھے گویا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قرآن مجید کے معلم ، شفاخانہ کے انچارج ، عربی کے لیکچرار، امین، مفتی ، صدر انجمن کے پریذیڈنٹ ،سکول کی انتظامیہ کے صدر، بیسیوں ناداروں کے مربی اور سر پرست تھے.الغرض حضرت مسیح موعود کے تمام کاموں میں مددگار و معاون اور پوری طرح ہاتھ بٹانے والے تھے.حضرت مسیح موعود چونکہ کتابوں کی تصنیف میں ہمہ وقت مشغول و مصروف رہتے تھے.حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگرانی میں جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے پوری ٹریننگ حاصل کر لی.آپ کی یہی دینی اور قومی خدمات اور علم وتجربہ حضرت مسیح موعود کی جانشینی میں جماعت کی تربیت میں کام آیا.آپ کے بعض سفر آپ حضرت مسیح موعود کے اکثر سفروں میں حضور کے ارشاد کے مطابق ساتھ تشریف لے جایا کرتے تھے لیکن آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں صرف مندرجہ ذیل دوسفر کئے.اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر نہایت مجبوری کی حالت میں کئے :.(28)
قدرت ثانیہ کا دور اول 1 - سفر ملتان.24 جولائی 1910ء کو آپ ایک شہادت کے سلسلہ میں ملتان تشریف لے گئے.اس سفر میں آپ قادیان سے سات دن باہر رہے.اور 31 جولائی 1910ء کو بغیر کسی اطلاع کے قادیان تشریف لے آئے.کیونکہ آپ کو نمود و نمائش سے سخت نفرت تھی.2- سفر لاہور.حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لا ہور سے وعدہ فرمایا تھا کہ ان کی کوٹھی کا سنگ بنیاد آپ اپنے دست مبارک سے رکھیں گے.لیکن اس تقریب سے قبل آپ فوت ہو گئے.لہذا حضرت خلیفہ اول اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے 15 جون 1912 ء کو لاہور تشریف لے گئے.اس سفر میں آپ کی اہلیہ محترمہ ، صاحبزادہ میاں عبدالحی صاحب ، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے علاوہ چند اور بزرگ بھی شامل تھے.16 جون کو بعد نماز فجر حضرت خلیفہ اول نے حضرت مرزا محمود احمد کو ایک جلسہ میں تقریر کرنے کا ارشاد فرمایا اور خود اس تقریر کے دوران عورتوں کو دعوت الی اللہ کرتے رہے.لاہور میں آپ نے خود بھی 16 اور 17 جون کو دو پبلک لیکچر دئے.اس سفر میں آپ نے احمد یہ بلڈنگس میں وہ عظیم الشان تقریر کی جو مسئلہ خلافت کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے آپ نے فرمایا: ”جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو یہ خدا سے شکوہ کرنا چاہیے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے کتابوں کا عشق ہے اس میں مبتلا رہتا ہے ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا یہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے رافضی ہیں.( بدر جولائی 1912ء) 17 جون کو تین بجے آپ امرتسر کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں ایک تقریر کی جس میں والعصر کی پر مغز تفسیر بیان فرمائی 18 جون کو آپ بٹالہ میں رہے اور 19 جون 1912ء کو واپس دارالامان قادیان پہنچ گئے.(29)
قدرت ثانیہ کا دور اول قدرت ثانیہ کا ظہور اور بیعت خلافت اولی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب ہونے کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بار باراشارات ملے تو آپ نے رسالہ ”الوصیت تحریر فرمایا اور جماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: سواے عزیز و! قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے.تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جا ئیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا.جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے...میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے...66 الوصیت روحانی خزائن جلد 20 ص 305,306) مندرجہ بالا ارشاد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد دائمی سلسلہ خلافت کی بشارت ملتی ہے.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم الشان انعام حضرت مسیح موعود کی وفات کے معا بعد خدا تعالیٰ کے پاک بندوں کو حاصل ہو گا جیسا کہ آپ کے الفاظ وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ (30)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل جاؤں اور میں جب جاؤں گا ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے حادثہ جانکاہ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلافت کا انعام نازل ہوگا نیز غمگین مت ہو“ کے الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی وفات ایک اندوہناک واقعہ ضرور ہوگا.اور اس کا رنج طبعی اور لازمی امر ہے.اگر اس حادثہ کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام نازل نہیں ہوگا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے جانثار خدام آپ کی وفات جیسے صدمہ پر غمگین نہ ہوں پس ” سوغمگین مت ہو کے الفاظ اس بات کا واضح اور غیر مہم ثبوت ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ہی قدیم سنت اور طریق کے مطابق سلسلہ خلافت کی برکات نازل ہوں اور وہ دل جو اپنے محبوب اور پیارے امام کی جدائی کے صدمہ سے دو چار ہوئے ہیں ” قدرت ثانی کو پالینے سے تسکین پائیں اور دائی وعدہ سے متمتع ہوں.دشمن جو جماعت کے درہم برہم ہونے کے منتظر تھے اُن کی حسرت بھری نظروں نے دیکھا کہ خدا کی تائید و نصرت کے جلوے برابر جاری ہیں اور جماعت ترقی کی کہکشاں پر رواں دواں ہے.قدیم سنت کے مطابق جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع علیہ السلام.اور سردار دو جہاں فخر موجودات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت صدیق اعظم خلیفہ ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد مثیل ابوبکر حضرت حاجی الحرمین الشریفین حافظ حکیم مولانا نور الدین ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) مسند خلافت پر متمکن ہوئے جس کی مختصر روئداد درج ذیل ہے: حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور کے مقام پر مورخہ 26 مئی 1908ء کو قریباً ساڑھے دس بجے صبح اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.آپ کی وفات کے موقع پر اپنوں اور بیگانوں کی متضاد حالت کا بیان ایک لمبا مضمون ہے.جس سے اپنوں کا حضرت مسیح موعود سے محبت و عشق اور غیروں کا کینہ اور بغض ظاہر ہوتا ہے.تین بجے بعد دو پہر خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر حضرت مولانا نورالدین صاحب نے لاہور اور مضافات کی جماعتوں کے ساتھ نماز جنازہ ادا (31)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل فرمائی.اسی دن شام کی گاڑی سے مسیح زمان کا جسدِ اطہر قادیان کے لئے بٹالہ لا یا گیا.جو قادیان سے قریباً گیارہ میل کے فاصلے پر ہے اور وہاں سے شمع مہدویت و مسیحیت کے پروانوں نے اس مقدس وجود کو اپنے کندھوں پر قادیان پہنچایا.جس وقت حضرت مسیح موعود کا جنازہ قادیان پہنچا صبح کی نماز کا وقت تھا.حضور کے جنازہ کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ میں رکھا گیا.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنازہ باغ والے مکان میں رکھا گیا تھا لیکن از روئے تحقیق حضرت مسیح موعود کا جنازہ سب سے پہلے مذکورہ بالا باغ میں رکھا گیا وہیں نماز جنازہ ادا ہوئی جس کے بعد جنازہ کو باغ والے مکان میں منتقل کیا گیا.) جن جماعتوں کو لاہور سے بذریعہ تا روفات کی خبر دی گئی تھی ان میں سے اکثر لوگ دیوانہ وار قادیان پہنچ گئے.مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ کے اکثر بیرونی ممبر بھی جنازہ کے ساتھ ہی قادیان پہنچ چکے تھے.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے (جواس زمانہ میں مجلس معتمدین کے صدر تھے ) حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب ( مرحوم و مغفور ) کو مجلس کے ممبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رات سے ان لوگوں نے کچھ نہیں کھایا پیا آپ جائیں اور ان کے مناسب حال کچھ کھلا ئیں پلائیں، اس موقعہ پر حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی کو بھی مولانا سرور شاہ صاحب کے ہمراہ روانہ کیا چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب فرماتے ہیں.”جب حضرت مولانا مہمانوں کو لے کر چلے تو حضرت نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم بھی مولوی صاحب کی مدد کرو.“ (الفضل 23 فروری 1955) مجلس معتمدین کے اس وفد کو حضرت مولانا مولوی محمد سرور شاہ صاحب نے مکرم نواب محمد علی خان کے دالان کے جنوب مغربی حصہ میں (مسجد مبارک کے بالمقابل ) کھانا کھلایا.اور مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک تقریر کی جو موقع کی نزاکت واہمیت سے بہت مؤثر ہوئی.اس تقریر میں خواجہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر خیر کرتے ہوئے آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا تھا.جس پر شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا میں نے قادیان آتے ہوئے رستہ میں بار بار یہی کہا ہے کہ اس بڑھے کو آگے کرو اس کے بغیر یہ جماعت قائم نہ رہ سکے گی.شیخ صاحب کے اس قول (32)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل کے بعد بالکل خاموشی چھا گئی اور کسی نے بھی اس کے خلاف نہ بول کر اس بات کی تائید کر دی اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اور انسان محض ایک ظاہری آلہ ہے ورنہ کوئی طاقت نہ تھی جو ایک ایسے شخص کو خلیفہ بنا سکتی جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود کا بیٹا تو کیا قریبی رشتہ دار بھی نہ تھا.ہاں اسے وسیع علم وتجربہ کے ساتھ ساتھ عشق قرآن ورسول میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا.مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کے مشورے کے بعد ممبران معتمدین مولانا حکیم نورالدین (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قوم کی اس عظیم خدمت کو قبول کرنے کی پیش کش کی.اس موقع کا آنکھوں دیکھا حال ایک پرانے اور مخلص رفیق حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی کی زبانی جو اس سارے عرصہ میں مجلس معتمدین کے وفد کے ساتھ ساتھ رہے.درج ذیل ہے: چنانچہ یہ جملہ احباب مع دیگر اکابر رفقاء اور بزرگان جماعت سیدنا حضرت نور الدین صاحب کے مکان پر حاضر ہوئے اور مناسب طریق پر اس درخواست کو پیش کیا مگر حضرت ممدوح نے کچھ سوچ اور تردد کے بعد فرمایا ”میں دعا کے بعد جواب دوں گا.چنانچہ وہیں پانی منگوایا گیا حضرت نے وضو کیا اور غربی کوچہ کے متصل دالان میں نماز نفل ادا کی.اس عرصہ میں یہ وفد باہر صحن میں انتظار کرتا رہا نماز نفل اور دعاؤں سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے فرمایا: چلو ہم سب وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر اور ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ حضرت مولانا کی معیت میں تمام حاضرین باغ کی طرف روانہ ہوئے اور سڑک پر سے مغرب کی طرف سیدھے شمالی حصہ باغ میں جہاں جنازہ رکھا تھا پہنچے اور اس جگہ حضرت نے ایک مختصر تقریر فرمائی اور اس کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی اور بعدہ نماز جنازہ ادا ہوئی.“ الفضل 23 فروری 1955) (33)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی کی روایت میں معتمدین صدرانجمن کے ایک وفد کی طرف سے امر خلافت کی پیشکش کا ذکر ہے.اس کے علاوہ باغ میں پہنچ کر دوبارہ تمام جماعت کی طرف سے اسی قسم کی ایک درخواست حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے تمام احباب کی طرف سے پیش کی جس کا مضمون یہ تھا: بسم الله الرحمان الرحیم نحمده و نصلی علی رسولہ الکریم الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على خاتم النبيين محمد المصطفى و على مسيح الموعود خاتم الاولياء اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود....مندرجه رسالہ ” الوصیت“ ہم احمدیاں جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتفھی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام اسوه حسنه قرار دے چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس کا تھا.اس جگہ ساٹھ کے قریب معززین جماعت کے دستخط ثبت ہیں.مثلاً حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب لاہور، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، مولانا مولوی محمد احسن صاحب امروہی، سید محمد حسین شاہ صاحب لاہور ، مولوی محمد علی صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب ، مرزا خدا بخش صاحب، مکرم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب (34)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل عرفانی ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت نواب محمد علی خان صاحب، حضرت میاں بشیر احمد صاحب، حضرت میر ناصر نواب صاحب، مولوی غلام حسن صاحب رجسٹرار پشاور ، حکیم محمد حسین صاحب قریشی ، قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب غرضیکہ تمام اکابرین امت نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح موعود کے جانشین مولانا نورالدین صاحب ہوں.حضرت مولوی صاحب نے اس پیشکش کے بعد مندرجہ ذیل رقت انگیز تقریر فرمائی.جس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے: میری پچھلی زندگی پر غور کرو میں کبھی امام بننے کا خواہش مند نہیں ہوا.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم امام الصلوۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہش مند نہیں اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.....اگر تم میری بیعت کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشار تا فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عزت اور میرا سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا.میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر کے زمانے میں صحابہ کو بہت سی مساعی جمیلہ کرنا پڑیں سب سے اہم کام جو کیا وہ جمع قرآن ہے اب موجودہ صورت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو.....اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہا اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں....اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اُٹھاتا ہوں جس نے فرما یا ولتكن مِنْكُم أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الخير یا درکھو ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی.“ ( بدر 2 جون 1908ء) (35)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل آپ کی اس تقریر کے بعد جملہ حاضرین نے متفقہ طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ ہم آپ کی دل و جان سے اطاعت کریں گے اور آپ کی ہر نیک خواہش کا احترام کریں گے.اس پر خلیفہ اسیح الاول حضرت مولوی نور الدین نے بیعت لی اور اس طرح جماعت احمد یہ میں اس مبارک دور کا آغاز ہوا جسے خلافت کہتے ہیں اور جسے حضرت مسیح موعود نے اپنی وصیت میں قدرت ثانیہ کے نام سے موسوم فرماتے ہوئے جماعت کو اس کے ظہور کی خوشخبری سنائی تھی اور بتایا تھا کہ میرے جانے یعنی فوت ہونے کے بعد خدا تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا زمانہ شروع ہوگا اور جس کے متعلق خبر دیتے ہوئے حضور نے فرمایا تھا: و غمگین مت ہو اور دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 ) اس بیعت میں قادیان اور مضافات کے بارہ سو احمدی جن کے دل فراق محبوب کی وجہ سے رنجیدہ لیکن خدائی وعدوں کی وجہ سے پریقین تھے.شریک ہوئے جس میں مجلس معتمدین کے اکثر ممبر بھی شامل تھے.اس بیعت نے آئندہ کے لئے ہر قسم کی بحثوں اور اعتراضوں کا اصولی طور پر خاتمہ کر دیا جو سلسلہ خلافت پر بعد میں کئے گئے.اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے سب سے پہلا اجماع وفات مسیح پر کیا تھا اور ہمیشہ کے لئے حیات مسیح کے عقیدہ کی تردید کر دی تھی جماعت احمدیہ اور مجلس معتمدین نے پہلا اجماع خلافت پر کر کے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ جماعت میں ہمیشہ کے لئے خلافت کا بابرکت نظام جاری ہو گیا اور مجلس معتمدین کا وہ بیان اس پر مستزاد ہے.جو اس موقع پر شائع کیا گیا کہ حضور...کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے اپنے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمدیه موجوده قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود" باجازت.(36)
قدرت ثانیہ کا دور اول حضرت اماں جان.ناقل ) کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی بالاتفاق خلیفہ امسیح قبول کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کا جانشین وہ شخص ہے جس کے جھنڈے کے نیچے اللہ تعالیٰ نے تمام جماعت کو فوراً جمع کر دیا اور پیشتر اس کے کہ حضرت اقدس کو دفن کیا جاتا تمام جماعت نے بالاتفاق حضرت مولوی نور الدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ مان لیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی.“ ( بدر 2 جون 1908ء) مندرجہ بالا اقتباس میں جہاں بیعت خلات اولیٰ کو بجا طور پر وصایا مندرجہ الوصیت کے مطابق قرار دیا گیا ہے.اور یہ فیصلہ بھی کر دیا گیا ہے کہ الوصیت کا منشاء خلافت مسنونہ ہے.نہ کہ کسی انجمن یا سوسائٹی کا حضرت اقدس کا جانشین ہونا وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بیعت نئے اور پرانے سب احمدیوں کے لئے ضروری اور لا بدی امر ہے.مقام بیعت خلافت اولیٰ کا تعین کئی وجوہ سے مشکل ہے مثلاً یہ بیعت بہشتی مقبرہ سے متصل باغ میں ہوئی جو ایک پرانی طرز کا باغ ہے.اس میں کثیر التعداد درخت بغیر کسی ترتیب اور تناسب کے اُگے ہوئے ہیں.اور ایسے غیر مترتب درختوں میں سے کسی ایک کو مقام بیعت کے طور پر معین کرنا یقینا مشکل امر ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس امر کی تحقیق کے لئے اخبار الفضل میں اعلان کروایا کہ جن رفقاء کو بیعت خلافت اولیٰ کا صحیح مقام معلوم ہے وہ تحریر کریں.ان روایات میں بھی مندرجہ بالا دونوں خیالات کا اظہار کیا گیا ہے.تیرہ بزرگ اسی خیال کے حامی ہیں کہ بیعت شہ نشین کے پاس حضرت مسیح موعود کے باغ میں ہوئی.1 - مکرم محترم مفتی محمد صادق صاحب (37)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل مکرم محترم مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم و تربیت 3- مکرم محترم محمد اسمعیل صاحب معتبر 4- مکرم محترم ماسٹر فقیر اللہ صاحب 5- مکرم محترم مولوی رحمت علی صاحب مکرم محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب 7 مکرم محترم ملک عزیز احمد صاحب کراچی مکرم محترم میاں جان محمد صاحب پنشنر 9 - مکرم محترم شیخ محمد صاحب پنشنر ر بوه 10 - مکرم محترم شیخ محمد صاحب 11 - مکرم محترم منشی تنظیم الرحمن صاحب 12 - مکرم محترم شیخ محمد حسین صاحب 13 مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور تیرہ بزرگ اس خیال کے مؤید ہیں کہ بیعت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں ہوئی.1 - مکرم محترم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی 2 مکرم محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مکرم محترم قاضی محمد عبد اللہ صاحب مکرم محترم قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل -5 مکرم محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مکرم محترم چودھری برکت علی صاحب وکیل المال مکرم محترم سید محبوب عالم صاحب ربوہ (38)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل مکرم محترم نصیر الحق صاحب المعروف به حاجی را ولپنڈی و مکرم محترم حکیم دین محمد صاحب پنشنز ر بوه 10 - مکرم محترم مرزا مہتاب بیگ صاحب ربوه 11 - مکرم محترم منشی محمد ابراہیم صاحب بٹالوی 12 - مکرم محترم میاں صدر الدین صاحب درویش 13 - مکرم محترم ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش غالب امکان یہی ہے کہ مؤخر الذکر بیان ہی از روئے واقعات و روایات زیادہ درست ہے کیونکہ اس خیال کو ظاہر کرنے والے بزرگوں میں سے دو بزرگ خاص طور پر ایسے ہیں جنہیں سلسلہ کی تاریخ سے خاص شغف ہے.اور ابتدا ہی سے ان کا رجحان تاریخی واقعات کو محفوظ کرنے کی طرف ہے.یعنی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی مؤخر الذکر کوتقسیم ہند کے بعد سے قادیان میں رہنے کا شرف حاصل رہا.انہوں نے اپنی یادداشت سے کام لے کر باغ میں قیام بیعت خلافت اولی اور جنازہ گاہ کی نشان دہی کی اور ایک دوسرے موقع پر جب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی قادیان تشریف لے گئے.تو انہوں نے بھی اس جگہ کی تصدیق کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت خلافت اولیٰ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں ہوئی.کیونکہ قرائن روایات ، واقعات اور سب سے بڑھ کر دونوں بزرگوں کی حتمی اور یقینی رائے اس جگہ کی تصدیق کرتی ہے.نیز بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی نہایت وثوق سے فرماتے ہیں: بھلا وہ خادم جس نے حضرت خلیفہ اول کے ارشاد کے ماتحت ممبران مجلس معتمدین کی مہمان نوازی پر انہی کے وفد کے ساتھ حضرت کے مکان پر جانے اور ان سے امر خلافت کے بارہ میں درخواست سننے اور حضرت مولانا نورالدین صاحب کے جواب دینے نفل ادا کرنے اور پھر آپ ہی کی معیت میں باغ تک آنے کا موقع ملا ہو ایسے واقعہ کو کیسے بھول سکتا ہے یا کوئی اور امر اشتباہ کا باعث بن سکتا ہے.“ (الفضل 23 فروری 1955ء) (39)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: یہ بات بھی قابل غور ہے کہ محترم بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی اور محترم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی رائے بڑی قطعیت اور پختگی کے ساتھ ظاہر فرمائی ہے اور یہ دونوں بزرگ بڑے بزرگوں میں سے ہیں جنہیں خاص مقام حاصل (الفضل 23 فروری 1955ء) ہے..حضرت خلیفہ اول کی تصنیفات کا تعارف دین حق عالمگیر ازلی ابدی صداقت ہے.اسی وجہ سے ازل سے اس کے لئے ترقی کے دو مختلف دور مقدر تھے.ایک اس وقت جب یہ قلوب کی زمین میں راسخ ہو جائے اور اس طرح جڑ پکڑ لے کہ ابتلاؤں اور مصائب کی آندھیاں زرومال کی حرص اور جاہ پسندی کوئی چیز بھی مسلمانوں کو اسلام سے منحرف نہ کر سکے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سرزمین عرب میں توحید کی صدا بلند کی اور دنیا کو اس خالق حقیقی کی طرف متوجہ کیا جو بے مثل و بے ہمتا ہے.تو اسلام نے آہستہ آہستہ ٹھیک اس طرح جس طرح بیج زمین سے نمی اور دوسری خوراک حاصل کر کے کونپل نکالتا ہے.بتدریج پھیلنا شروع کیا اس دور کی تاریخ یقیناً باعث حیرت ہے کہ اسلام جیسی لازوال اور مؤثر صداقت کی قبولیت کی رفتار اتنی ست کیوں رہی.لیکن یہ امر الہی منشاء کے مطابق تھا کہ اس صداقت کو دلوں میں پوری طرح جاگزیں کر دیا جائے.چنانچہ اسی طرح اسلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی دن گزارے اور جب اس پودے نے کچھ شاخیں پیدا کر لیں اور قدرے بڑا ہو گیا تو پھر شاخوں پر پتے نکلنا شروع ہوئے.اور ترقی کی رفتار قدرے تیز ہو گئی لیکن عین اس وقت جبکہ اسلام سرزمین عرب سے نکل کر سرزمین ہند اور یورپ میں داخل ہو رہا تھا اور اس کی شوکت کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی کسی قوم کو اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات نہ تھی اور اسے دنیا کی عظیم ترین سیاسی اور مذہبی طاقت سمجھا جاتا تھا.(40)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اس کا دور زوال شروع ہو گیا.اسلام کا درخت اپنی جڑوں پر تو قائم تھا مگر اس کی سرسبزی اور شادابی ماند پڑ رہی تھی سرسبز خوشگوار پتے جھڑنے لگے اور وہ عظیم الشان لہر جو سرزمین عرب سے اٹھ کر آنا فاناً نصف دنیا پر چھا گئی تھی جزر کی صورت میں پیچھے ہٹی اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق یہ حالت اس وقت تک قائم رہی جب تک حسب منطوق قرآن وَإِذَ الصُّحُفُ نشرت (التکویر :11 ) اشاعت کے ذریعے اتنے وسیع ہو گئے کہ اس سے قبل کوئی اس کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا عین ضلالت و گمراہی کے غلبہ کے وقت جب کہ ایک طرف عیسائیت اپنے جلو میں ہر طرح کی ظاہری و مادی دلفریبیاں اور رعنائیاں لئے بڑھتی چلی آرہی تھی تو دوسری طرف ہندومت خصوصاً آریہ سماج سوچی سمجھی ہوئی سکیموں کے مطابق اسلام کے قلعہ پر گولہ باری کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے دین حق کو دوبارہ پوری آن بان اور شان و شوکت عطا کرنے کے لئے اپنی تقدیر اور منشاء کے مطابق مسجد دصدی چہار دہم حضرت مرزا غلام احمد مسیح و مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے دنیا کے سامنے قلمی جہاد کا ایک نیاریکارڈ قائم کیا.اور دین حق کی مدافعت میں چومکھی لڑائی لڑی چنانچہ آپ کے آغاز جہاد کے وقت آپ کی قلمی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک مسلمہ اہل حدیث لیڈر محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا: کہ اس کا ( براہین احمدیہ ) مؤلف بھی اسلام کی مالی جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.ہمارے الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو.“ اشاعۃ السنہ جلد 7 صفحہ 6 ص 169 ) جب آپ زندگی بھر دین حق کی نشاۃ ثانیہ کے مقدس فریضہ اور قلمی جہاد سرانجام دیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو ملک بھر کے چیدہ چیدہ اصحاب الرائے اور اہل قلم حضرات نے آپ کی تحریری خدمات کو سراہا اور نہایت پُرزور الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.چنانچہ مشہور اہل قلم مرزا (41)
حیرت دہلوی صاحب لکھتے ہیں : قدرت ثانیہ کا دور اول ” مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرے کا بالکل ہی رنگ بدل دیا.اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کی نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں.کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.جو بے نظیر کتاب میں آریوں اور عیسائیوں کے مذاہب کے رڈ میں لکھی ہیں اور جیسے دندان شکن جواب مخالفین اسلام کو دیے ہیں آج تک معقولیت سے اس کا جواب الجواب ہم نے تو نہیں دیکھا.اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.ایک پر جذبہ اور قومی الفاظ کا انبار اس کے دماغ میں بھرارہتا تھا اور جب وہ لکھنے بیٹھتا تو جچے تلے الفاظ کی ایسی آمد ہوتی کہ بیان سے باہر ہے.“ اسی طرح مشہور اخبار وکیل امرتسر نے لکھا: وو ( کرزن گزٹ یکم جون 1908ء) مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا، قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے.اور اس خصوصیت سے وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا.اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا، جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا (42)
قدرت ثانیہ کا دور اول عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا.“ وکیل امرتسر بحوالہ البدر 18 جون 1908 ) محولہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکمیل اشاعت کے اس دور میں حضرت مسیح موعود نے ہر طرح سے اشاعت دین حق کا فرض ادا کیا.اور ہر ممکن ذریعہ اشاعت کو بھر پور طور پر استعمال میں لائے.اور خصوصاً تصنیف کے ذریعہ آپ نے نہایت عمدگی سے اشاعت اسلام کی تصنیف و تالیف اور اشاعت ( دین حق ) کی طرف آپ کی توجہ اور اہمیت کا اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے بیعت کے بعد استفسار کیا کہ پیر ومرشد اپنے مریدوں کو مختلف مجاہدات بتایا کرتے ہیں اس لئے آپ بھی مجھے کوئی مجاہدہ بتا ئیں تو آپ نے تصنیف و اشاعت کا مجاہدہ ہی بتایا.چنانچہ خلیفہ اول فرماتے ہیں: "حضرت سے میں نے مجاہدہ کے لئے پوچھا تو حضرت نے کہا کہ فصل الخطاب“ لکھو پھر پوچھا تو فرمایا' تصدیق براہین احمدیہ لکھو پھر پوچھا تو فرمایا کہ ایک کوڑھی کو اپنے مکان پر رکھ کر اس کا علاج کرو.“ (الحکم 17 اکتوبر 1911 ) اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت خلیفہ اول نے نہایت عمدہ کتا میں لکھیں.جن کے متعلق کچھ لکھنے سے قبل حضرت مسیح موعود کا اُس تعریفی بیان کا مفہوم درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.جو آپ نے اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام میں عربی زبان میں تحریر فرمایا.اور جو ان کتب کے عظیم الشان مصنف کیلئے سرمایہ افتخار ہے.(عربی عبارت کا مفہوم اختصاراً) آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں جو ایسے نکات علمی و معارف سے پر ہیں جو پہلی کتابوں میں کم ہی پائے جاتے ہیں.اختصار و ایجاز کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کی فصاحت و بلاغت کا اہتمام ہے.عبارات شراب طہور کی طرح بہت ہی عمدہ ہیں یوں لگتا ہے کہ یہ کتا بیں ایسے خوبصورت ریشمی کپڑے ہیں جن پر نہایت نفاست سے نقش و نگار اور قیمتی ہیرے جواہر جڑے ہیں جو عنبر کی خوشکن خوشبو میں گندھے ہیں.(43)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ان کتب کے دلائل و براہین کی طرف دل مائل ہوتے ہیں.مبارک وہ جس نے یہ کتب حاصل کر کے انہیں بغور پڑھا.ان کتب کا مطالعہ ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے جو قرآن مجید کے مشکل مقامات کو حل کرنے اور انہیں سمجھنے کا مشاق ہے.کیونکہ ان میں ہر ایسی چیز کی خوشبو پائی جاتی ہے جو کسی طالب و سالک کی خواہش ہو سکتی ہے.یہ کتا بیں ان باغات کی طرح ہیں جن میں مرغوب وشیر میں پھل بکثرت پائے جاتے ہیں ان کتب میں فخر المسلمین بلند ہمت مفکر نے نہایت عمدہ تفسیری نکات اور اعلیٰ پایہ کی تحقیق کے نتائج درج ہیں...آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 ص (583'584) -1 فصل الخطاب المقد م اہل الکتاب حضرت خلیفہ اول کی یہ معرکۃ الارا کتاب جو عیسائیت کے رڈ میں لکھی گئی.آپ کی جملہ تصانیف میں امتیازی شان رکھتی ہے.اس کتاب کی وجہ تالیف خود حضرت خلیفہ اول کی زبانی درج ذیل ہے: میں جب حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی مریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہیے.کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو.آپ نے فرمایا کہ میں یہ مجاہدہ بتاتا ہوں کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں.مجھ کو عیسائی مذہب سے واقفیت نہ تھی.کہ کیا کیا اعتراض ہوتے ہیں.اور پھر یہ میں اپنے آپ کو کبھی فرصت میں نہیں رکھتا اور اس کلام کے لئے فراغت اور فرصت کی بھی ضرورت تھی.“ (مرقاة اليقين) لیکن فصل الخطاب کے لکھنے کا سامان خدا نے غیب سے فرمایا حضرت خلیفہ اول اس ایمان افروز نصرت الہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (44)
ندرت ثانیہ کا دور اوّل ” جب میں قادیان سے یہ حکم (عیسائیوں کے رد میں کتاب لکھنے کا ) لے کر اپنے وطن میں پہنچا تو وہاں میرا ایک ہم مکتب حافظ قر آن مسجد کا پیش امام تھا وہ میرے سامنے تقدیر کا مسئلہ لے بیٹھا اور اس نے اس مسئلہ کے پیش کرنے میں بڑی شوخی سے گفتگو کی.میں حیران اس کے منہ کو دیکھتا رہا تھا کہ فرفر بولتا تھا حالانکہ مسجد کے ملاں میں اس قدر شوخی نہیں ہوتی.جب لوگ چلے گئے تو میں نے اسے بلا کر کہا' حافظ صاحب مجھ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ عیسائی ہو گئے ہیں.تو اس نے کہا کہ اگر عیسائی ہو گئے ہیں تو حرج ہی کیا ہے.میں نے کہا اپنے گرو سے ذرا مجھے بھی ملا دو چنانچہ وہ مجھے پنڈ دادنخاں لے گیا.دریا سے اُترے تو ایک گاؤں کے نمبر دار نے کہا کہ تمہاری دعوت ہے میں نے کہا شہر سے واپس آکر دعوت کھائیں گے.چنانچہ میں اور حافظ صاحب دونوں ایک انگریز کی کوٹھی میں جا دھمکے.حافظ صاحب کے تو پہلے ہی واقف تھے.پادری صاحب ملاقات کے کمرہ میں تشریف لائے.میں نے کہا پادری صاحب میرے آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے ہم مکتب ہیں اور آپ کے مرید ہو گئے ہیں.آپ ہم کو بھی کچھ سنا ئیں.مطلب میرا یہ تھا کہ ان کے مذہب کا پتہ چلے.اگر وہ اس وقت اعتراض پیش کرتا تو کوئی ایک دو ہی کرتا.کیونکہ میں نے پادری صاحب سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ لمبی بحث نہ کریں.اپنے مذہب کا خلاصہ ہمارے مذہب کا خلاصہ اور صرف ایک اعتراض بطور خلاصہ پیش کریں.مگر پادری صاحب کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ میری بات کو ٹال کر چائے بسکٹ کا انتظام کرنے لگے میں نے کہا کہ میں شہر میں چار برس ہیڈ ماسٹر رہ چکا ہوں اور یہاں میری کافی واقفیت ہے.ہم کو چائے وغیرہ کی ضرورت نہیں آپ ہم سے گفتگو کریں میں نے حافظ صاحب کو بھی کہا کہ تم اس کو اکسا ؤ.چنانچہ حافظ صاحب اسے علیحدہ لے گئے اور بہت دیر تک باتیں کر کے واپس آئے.اور کہا کہ ”میں نے بہت زور لگا یا مگر یہ تو آگے چلتا ہی نہیں اور یہ کہتا ہے کہ میں ان سے زبانی گفتگو نہ کروں گا.ہاں بعد (45)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل میں اعتراضات لکھ کر بھجوا دوں گا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ جب تک ان کے اعتراضات ہمارے پاس پہنچیں اور ہماری طرف سے جواب نہ ہو لے اس وقت تک بپتسمہ نہ لیں حافظ نے کہا.ہاں یہ تو ضرور ہوگا.میں نے پادری صاحب سے بھی کہہ دیا کہ یہ ایسا کہتے ہیں.انہوں نے کہا.”یہ مناسب ہے.پھر میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتا ؤ اور کون ہے جو شل تمہارے ہو انہوں نے کہا کہ ایک اسٹیشن ماسٹر ہے چنانچہ ہم اسٹیشن پر آئے اسٹیشن ماسٹر نے تو بڑی دلیری سے کہا مذہب عیسائی کا مقابلہ توکسی مذہب سے ہو ہی نہیں سکتا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ یہ تو پھنس گئے جب اسٹیشن ماسٹر نے حافظ صاحب سے سنا کہ پادری صاحب خاموش ہو گئے تو وہ حیران ہو گیا آخر اس پادری نے ایک بڑا طومار اعتراضوں کا لکھ بھیجا میں نے حافظ سے کہا کہ بتاؤ یہ کوئی ایک دن کا کام ہے؟ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا تم ہی مدت مقرر کر و حافظ صاحب نے کہا ایک برس تک کتاب چھپ کر ہمارے پاس پہنچ جائے.میں جموں آیا.اس زمانہ میں زلزلے بہت آئے تھے.راجہ پونچھ کا بیٹا زلزلوں کے سبب پاگل ہو گیا تھا.اس نے جموں کے راجہ کو لکھا کہ ہمیں ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب کی ضرورت ہے.چنانچہ میں وہاں گیا مجھ کو شہر سے باہر ایک تنہا مکان دیا گیا.ایک مریض کا دیکھنا اور تمام دن وہاں تنہائی میں بائیبل اور قرآن شریف پڑھنے لگا.ان تمام اعتراضوں کو مد نظر رکھ کر بائیبل پر نشان کرتا رہا.پھر اس کے بعد قرآن شریف پڑھا اور نشان کرتا رہا اس کے بعد کتاب لکھنی شروع کی اور چار جلد کی ایک کتاب (فصل الخطاب لکھی ادھر کتاب تیار ہوئی ادھر راجہ کا لڑکا اچھا ہوا اب روپیہ کی فکر تھی کہ کتاب چھپے راجہ پونچھ نے کئی ہزار روپیہ دیا جب جموں آیا تو راجہ جموں نے پوچھا کیا دیا میں وہ تمام روپیہ آگے رکھ دیا.وہ بہت ناراض ہوئے کہ بہت تھوڑا روپیہ دیا.چنانچہ اسی وقت حکم دیا کہ ان کو سال بھر کی تنخواہ اور انعام ہماری سرکار سے ملے.میں نے وہ روپیہ اور دو (46)
قدرت ثانیہ کا دور اول جلدیں دلی بھیج دیں وہاں سے چھپ کر آئیں.تو حافظ صاحب اور مثل ان کے دوسرے لوگوں کو بھیج دیں انہوں نے جواب لکھا کہ ہم سچے مسلمان ہو گئے.باقی کی ضرورت نہیں.“ (مرقاة اليقين) قریباً چار صد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں عیسائی مذہب کی طرف سے ہونے والے اعتراضو ں کا شافی و کافی جواب ہے.اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات کی عام فہم تفسیر بیان کی گئی ہے.مندرجہ ذیل مباحث پر بھی یہ کتاب روشنی ڈالتی ہے: 1.جہاد 2- تقدير -3- تردید تثلیث و کفارہ اور الوہیت مسیح 4 - معجزہ کی حقیقت 5.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل کی بشارت 6- ضرورت قرآن کریم 7- شفاعت 8 نسخ في القر آن کریم 9 - ارکان اسلام کا فلسفہ 10- علامی 2 - تصدیق براہین احمدیہ 2- حضرت خلیفہ المسیح اول کی یہ معرکۃ الآرا تصنیف حضرت مسیح موعود کے ارشاد کے ماتحت لکھی گئی.چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے ہیں: (47)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل حضرت سے میں نے مجاہدہ کے لئے پوچھا تو کہا کہ فصل الخطاب لکھو پھر پوچھا تو فرمایا کہ تصدیق براہین احمدیہ لکھو.پھر پوچھا تو فرمایا کہ ایک کوڑھی کو اپنے مکان پر رکھ کر علاج کرو.وہ مریض بھی بڑا ہی نیک انسان تھا اس نے کہا کہ میرا علاج نہ کرو کیونکہ جب تک مجھے مرض ہے اس وقت تک تنہائی میسر ہے اور خدا سے دعا کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے.مگر میں نے کہا کہ میں بھی مجبور ہوں کیونکہ میرے امام کا حکم ہے؟ (التحام 7 نومبر 1911 ) 66 دوسو بارہ صفحات کی یہ تالیف جدید علم کلام اور حضرت مولانا کےمخصوص مناظرانہ انداز میں مختصر اور مسکت جوابوں مشتمل ہے.ہندوؤں خصوصاً آریوں کی طرف سے مذہب اسلام پر ہونے والے جملہ اعتراضات کے نہایت عمدگی سے جوابات دئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود نے براہین احمدیہ، چشمہ معرفت، آریہ دھرم ، اور شحنه حق و غیرہ کتب تحریر فرما کر اسلام کے دفاع کا حق ادا کر دیا.حضرت مولوی صاحب موصوف نے اسی بحر علم و عرفان کو لمبے مطالعہ سے گھبراہٹ محسوس کرنے والے لوگوں کے لئے نہایت اختصار سے پیش فرمایا ہے.تالیف وو حضرت خلیفہ اول کتاب مذکور کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: در اصل مشرکوں سے نکلتے توحید کی طرف آتے ہوئے گروہ بلکہ یوں کہیے اسلام کے قریب آتے ہوئے دیانندی کو جب مختلف اسباب سے رکاوٹ ہوئی اور دھوکے میں مبتلا ہوئے.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں کے سعیدوں کو غلطی سے بچنے کے لئے حضرت مرزا غلام احمد صاحب مجدد کو پیدا کیا.اور انہیں تو فیق دی کہ آریہ اور ان کے سوا جس قدر اسلام کے مخالف ہیں سب کو مواجہ اقوال سے سمجھا دیں اور مغالطات کے مواقع سے انہیں آگاہ کریں.حضرت مرزا صاحب نے اس مقصد اعلیٰ کی ابتدائی تحریک کے واسطے ایک کتاب لکھی اور اس کا نام براہین احمد یہ رکھا.اللہ تعالیٰ کے سامان قدرت کو دیکھو (48)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل غافل قوم کو جگانے کی کیا تدبیر نکالی اس کتاب کی تکذیب پر ایک مسلمان کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے اس مکذب نے تمام مباحث ضروریہ کو یک جا جمع کرنا شروع کر دیا.آریہ کے عام مذہب میں گو کاسہ لیسی اور جوٹھا کھانا نا پسند ہے مگر اس شخص نے تمام عیسائیوں اور پادریوں کے اعتراض بھی لئے میں نے چاہا ( اور خدا کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ میری نیت کا ثمرہ ضرور ملے گا.) کہ راستبازوں کا ساتھ دوں اور ان کے انصار سے اس لئے براہین کی تصدیق پر کمر ہمت کو باندھ کر اس ( تصدیق براہین احمدیہ ) کولکھا.“ مندرجہ ذیل عنوانات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب بھی ایک یادگار اسلامی خدمت ہے جسے اسلام اور قرآن کا طالب علم کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا.1.مناظرہ کے قرآنی آداب.-2- جہاد.( اس ضمن میں آپ نے آیت قرآنی وَقَاتِلُواهُمْ حَتَّى لَا تَكُون فتنة کی تفسیر فرماتے ہوئے شاہنشاہ عالمگیر اور محمود غزنوی کی جنگوں کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اس کے بالمقابل وید کے ظالمانہ احکام بھی درج فرمائے ہیں جن کو اسلام کے پر حکمت اور مبنی بر عدل و معقل احکام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ) فرمائی.3.یا جوج ماجوج وذوالقرنین کی اصل حقیقت 4- حدوث روح و مادہ کے دلائل اور اس ضمن میں يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح کی لطیف تشریح 5- جبر و قدر کے متعلق ایک نوٹ 6- اثبات صانع عام کے ٹھوس دلائل اور اس سلسلہ میں هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى اذْرَايَ نارا کی پرمغز تفسیر.7 - اسلامی قربانی کا فلسفہ 8- یوم الدین کی تفسیر (49)
قدرت ثانیہ کا دور اول 9.قرآنی قسموں کی حقیقت 10 - خدا تعالیٰ کی بعض صفات کی تشریح.11 - قاب قوسین اور سدرۃ المنتہی کی تفسیر.12 - کتب خانہ اسکندریہ کے متعلق سیر حاصل بحث.13 - باری تعالیٰ کے وجود پر دلائل اور تر دید و تغلیط شرک.14 - تمدن اسلام پر ایک بسیط نوٹ 15- ضرورت قرآن کے متعلق آٹھ نکات.حضور کی نیت کا خلوص اور تالیف کی اہمیت و عظمت بہت سی سعید روحوں کے لئے باعث نجات ثابت ہوئی اور متعدد نیک فطرت لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھا یا مثلاً حضرت مسیح موعود حضرت خلیفہ اول کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: نواب محمد علی خان صاحب اب تک قادیان میں ہیں بہت ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مولوی صاحب کی کتاب تصدیق دیکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور بعض ایسے عقدے حل ہو گئے جن کی نسبت مجھے دغدغہ رہتا تھا وہ از بس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں میں نے انہیں کہا کہ اب تو وقت بہت تنگ ہے امید ہے کہ لدھیانہ میں یہ صورت نکل آئے گی یہ شخص جو ان صالح ہے حالات بہت عمدہ معلوم ہوتے ہیں.پابند نماز اور نیک چلن ہے.“ مکتوب حضرت مسیح موعود محرر 140 فروری 91ء رفقائے احمد جلد دہم) 3- تردید تناسخ تصدیق براہین احمدیہ کا حصہ دوم تردید تناسخ کے متعلق ایک مختصر رسالہ ہے جس کی ضخامت 22 صفحات ہے.اس میں اختصار کے ساتھ تناسخ کے جملہ دلائل کا رڈ نہایت عمدگی سے کیا (50)
کیا ہے.قدرت ثانیہ کا دور اول کتاب کے شروع میں آریوں کی طرف سے اثبات تناسخ میں پیش ہونے والی مندرجہ ذیل دلیل پیش کی گئی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ کئی آدمی جنم کے اندھے ہنگڑے لولے، کانے بہرے ہوتے ہیں اور کئی راجہ ،ٹھا کر ، دولتمند امیر جو یہ کہو کہ پر میشر کی مرضی ہے تو کیا پر میشر منصف عادل نہیں جو بلا قصور ایک دوسرے میں فرق کرتا ہے.پس بجز نتیجہ سابقہ جنم کے اور کیا کہہ سکتے ہیں.کیونکہ خدا ایسی طرفداری اور نامنصفی نہیں کر سکتا.“ اس دلیل کو درج کرنے کے بعد آپ نے اللھم احدنی بروح القدس کی دعا سے شروع کرتے ہوئے اس کے پینتیس (35) مدلل مسکت جواب دیے ہیں.جس میں مندرجہ بالا دلیل کا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ دلیل نہیں بلکہ محض مفروضہ ہے کیونکہ صانع عالم اپنی صنعت سے حکیم علیم معلوم ہوتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہمیں ایک صفت اور امر کی حکمت سرسری نظر سے سمجھ میں نہ آئے تو ہم اس کے لئے خود بخود وجوہات تر اشنا شروع کر دیں.ایک معتبر روایت کے مطابق حضور نے اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب تیار کی تھی.ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب نے بڑی عقیدت سے اس کا مسودہ حاصل کر کے اس کے بیشتر مضامین اپنی کتاب میں بغیر کسی حوالے یا ذ کر کے درج کر دئے ) -4- ابطال الوہیت مسیح حضرت خلیفہ اول کی یہ مختصر تالیف حضرت مسیح موعود کے صحیح مقام کو متعین کرنے میں مدد دیتی ہے اور افراط و تفریط کے درمیان قرآن ، بائییل عقل اور نقل کی رو سے مسیح کو خدا کا سچا نبی قرار دیتی ہے نہ عیسائی عقیدہ کے مطابق ابن اللہ بقول یہود جھوٹا انسان ( نعوذ باللہ من ذالک).خدا تعالیٰ کی صفات کا ملہ مثلاً علم کامل ، معبود ہونا ، خالق ہونا اور غیر مرئی ہونا پیش کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام اللہ یا ابن اللہ نہیں تھے (51)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اس کے بعد اسی مقصد کے لئے مزید دلائل قاطع بیان فرمائے ہیں.آخر کتاب میں توحید فی التثلیث فی التوحید کے متعلق ایک صوفیانہ نکتہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ جب اپنے پاک اشخاص انبیاء علیہم السلام کو دنیا کی ہدایت کے واسطے معبوث فرماتا ہے تو جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہوتا ہے.ان کا اور ان کے کلام کا اتباع عین اللہ تعالیٰ کی اتباع ہوا کرتا ہے.ان کا اور ان کے کلام کا ماننا عین اللہ تعالیٰ کا مانا ہو جاتا ہے.گویا وہ اور اللہ تعالیٰ اور کلام الہی تین ہیں مگر ایک ہیں.اور جب کبھی ان کے اتباع سے کوئی سعادت مند بقدر طاقت اللہ تعالیٰ کی جناب میں پوری عبودیت کے ساتھ استقامت اور اخلاص سے نزول روح القدس کی لیاقت پیدا کرتا ہے.تو الوہیت کاملہ اس بندہ کی عبودیت پر روح القدس کا فیضان فرماتی ہے اللهُم اجْعَلْنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ الصَّادِقِينَ (ابطال الوہیت مسیح صفحہ 42) 5- دینیات کا پہلا رسالہ حضرت خلیفہ اول نے بچوں اور عورتوں کے لئے دینیات کا پہلا رسالہ کے نام سے ایک مختصر تالیف کی.جس میں دین حق کی ابتدائی باتیں سادہ طریق سے درج ہیں مثلاً نماز طریق وضو، اذان، نماز کے اوقات نماز پڑھنے کا طریق ، وضو کے فرائض ، وضو کے سنن، نواقض وضو، فرائض نماز ، ارکان نماز ، واجبات نماز ہسن نماز مکروہات نماز ، ایمان داری اور دینداری کی باتیں کے عنوان سے اسلام کے سادہ اور ابتدائی احکام درج ہیں اور آخر میں قرآن مجید کی نو (۹) سورتیں ہیں جن کو بچے بآسانی حفظ کر کے نمازوں اور دوسرے اوقات میں تلاوت کر سکتے ہیں.ان کے بعد سورۃ بقرہ کی چند ابتدائی آیات ہیں.جن سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کو بھی ختم نہیں کرنا چاہیے.بلکہ یہ ختم نہ ہونے والے دور کی طرح ہمیشہ با قاعدگی اور تسلسل سے جاری رہنا چاہیئے.(52)
ندرت ثانیہ کا دور اول 6.جواب شیعہ اور رد نسخ حضرت خلیفہ اول کے یہ دو خط مطبع انوار احمدیہ سے 1901ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئے پہلا خط آپ نے اپنے کسی عزیز نجم الدین صاحب کو مسئلہ نسخ و منسوخ کے متعلق لکھا.جس میں اختصار سے اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی.یہ مضمون دس فقروں پر مشتمل ہے.فقرہ اول میں حضرت خلیفہ اول نے نسخ کی لغوی تحقیق بیان فرمائی ہے.اور بتایا ہے کہ قرآن مجید میں نسخ کن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے فقرہ پنجم میں آپ نے امام سیوطی کی بیان کردہ اکیس منسوخ آیات کاحل بیان فرمایا ہے.اور ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے.فقرہ ہم میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ نسخ کا شبہ کس طرح پیدا ہوا چنا نچہ آپ فرماتے ہیں: میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جن کا یہ ڈھنگ ہے کہ جب دو بظاہر متعارض حکموں کو دیکھا اور تطبیق نہ آئی.لا اعلم کہنے میں شرم کھا کر نسخ کا دعویٰ کر دیا.یا جب کوئی نص اپنے فتویٰ کے خلاف سنی اول تو لگے اس میں تو جیہات جمانے جب یہ کوشش کارگر نہ ہوئی تو جھٹ دعوی کر دیا کہ ان میں سے فلاں حکم اجماع کے خلاف ہے.جب اجماع کی غلطی معلوم ہوئی تو اجماع کو مقید کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ اجماع اکثر کے اعتبار سے ہے.جب اس کو بھی کسی نے خلاف ثابت کیا تو نسخ کا دعویٰ کر دیا.حالانکہ بظاہر متعارض حکموں میں ایک کو عزیمت پر محمول کر لینے اور ایک کو رخصت پر یا ان کے اختلاف کو اختلاف انواع سمجھنے پر محمول کرنے اور اباحت اصلیہ کو عارض حرمت پر ترجیح کا موجب جان لینے اور شریعت کو اسباب اور موانع کا ماننے سے قریباً کل تعارض دفع ہو سکتے ہیں “ (صفحہ 13) دوسرا خط (راجہ کشمیر کے ایک درباری ( شیعہ دوست کے نام ہے جس کو آپ نے (ع.وح) سے ظاہر کیا ہے.اس مختصر خط میں آپ نے معصومیت آئمہ لفظ اہل بیت کی تحقیق (از روئے قرآن مجید ) بیان فرمائی ہے.اور آیت شریفہ (53)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل إنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تطهيرًا (الاحزاب : 34 ) کی تشریح بیان فرمائی ہے.اس خط میں شیعوں کی طرف سے پیش ہونے والے اکثر سوالات اور اعتراضات کا جواب مل جاتا ہے.یہ صرف انیس صفحات کا ایک مختصر مضمون ہے.لیکن ناسخ ومنسوخ جیسے اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ضخیم کتب سے مستغنی کر دیتا ہے.اور اس مسئلہ کے قریباً ہر پہلو کی وضاحت ہو جاتی ہے.مضمون کے خاتمہ پر آپ قرآن مجید وحدیث کا مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث یا قرآن کریم کے موافق ہے یا قرآن کی تفسیر ہے یا ایسے حکم کی مثبت ہے جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں معلوم نہیں ہوا پس جو صحیح حدیث ہمیں زائد علی الکتاب اللہ نظر آئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استنباط ہے قرآن کریم ہمارے فہم سے بالا تر ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَمَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ الله (النساء:81).وَمَا أَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ.(الحشر: 8) 7- مبادی الصرف والنحو یہ کتا بچہ 20 جون 1906 ء کو مطبع انوار احمدیہ میں شائع ہوا.چونتیس (34) صفحے کے اس رسالہ میں حضرت علامہ (جو زبان عربی کی گریمر کے ماہر اور درس و تدریس کا وسیع تجربہ رکھتے تھے ) نے صرف نحو کے ابتدائی قاعدے چودہ اسباق میں عام فہم اور مختصر انداز میں لکھے ہیں جن کی مدد سے مبتدی آسانی سے عربی گریمر سے واقف ہو کر عربی و فارسی کی بڑی بڑی تنظیم اور مشکل کتابوں کو بخوبی سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں.8-نورالدین آریوں کے رڈ میں یہ عظیم الشان کتاب نور الدین ایک مرتد آریہ دھرم پال کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں 1904ء میں لکھی گئی.جس میں اسلام پر وارد ہونے والے ہر قسم (54)
قدرت ثانیہ کا دور اول کے اعتراضوں کا عقلی نقلی، الزامی و تحقیقی جواب دیا گیا ہے اس کتاب کا ٹائیٹل پیج دیکھنے سے ہی فاضل مصنف کی بالغ نظری اور اسلام کی صداقت پر آپ کا یقین وایمان معلوم ہوتا ہے.نیز سرورق پر استغفر الله استغفر الله استغفر الله، ولاحول ولا قوة الا با اللہ حضرت خلیفہ اول کے مندرجہ ذیل مکاشفہ کی بناء پرلکھا گیا ہے.”کتاب نورالدین جو بجواب ” ترک اسلام مؤلفہ دھرم پال 1904ء میں لکھی گئی تھی.اس کے ٹائیٹل پر استغفر الله استغفر الله ، استغفر الله ، ، ولاحول ولا قوۃ الا با اللہ کئی صاحبوں نے لکھا دیکھا ہو گا.یہ دراصل روحانی نظارہ کی طرف اشارہ ہے جو آپ کو ان دنوں میں دکھایا گیا.آپ کیا دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں کے گھر میں شادی کے بعد مندر کی طرف لے جائے گئے ہیں.جس میں دو بڑے بڑے بت ہیں.آپ کی موحدانہ طبیعت میں جوش آیا تو آپ نے استغفار پڑھنا شروع کر دیا.یہاں تک کہ ایک بت گر گیا.پھر آپ دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور بہت استغفار پڑھا مگر بت جوں کا توں موجود تھا.تب آپ کو تحریک ہوئی کہ یہاں لاحول کے تبر سے کام لینا چاہیے.چنانچہ جب آپ نے لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھا تو وہ بت پاش پاش ہو گیا.اس کی تفہیم یہ ہوئی کہ نورالدین کی اشاعت کے بعد دھرم پال کا فتنہ آپ کی زندگی میں مٹایا جائے گا.“ (الحکم 14 اپریل 1912ء) دیباچہ کے بعد قریباً ۲۰۰ صفحات میں آپ نے تارک اسلام دھرم پال کے 116 اعتراضات کے جواب دیئے ہیں جن میں آپ کی مخصوص مناظرانہ شان پائی جاتی ہے.اس ضمن میں مندرجہ ذیل مضامین زیر بحث آئے ہیں: 1 اصول تفسیر 2- جہاد 3.یہ جہاں کس نے بنایا؟ کب بنایا 4.تعدد ازدواج کے متعلق اسلامی تعلیم کی برتری 5- توبہ کی حقیقت -6 شفاعت -7 حضرت آدم کا واقعہ 8- گوشت خوری کے فوائد 9.نعماء جنت کی حقیقت 10 - قربانی کے فلسفہ پر ایک بسیط نوٹ 11.حضرت صالح کی اونٹنی کا (55)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل واقعہ 12 - جہاد اور مال غنیمت 13 - شرک کے نقصانات وغیرہ وغیرہ نیز متعدد آیات قرآنی کی تفسیر مثلاً: كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ (البقرة 2: 260) (البقرہ 224:2) ان تحمل كُمْ رَبُّكُمْ بِخَلَقَةِ الفٍ مِنَ الْمَلَئِكَةِ (ال عمران 3 : 125) قُلْنَا يَنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمًا (الانبياء 70:21) يمسكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا (فاطر 42:35) الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء (المائده 5: 65) اور مقطعات قرآنی کی بحث تو الہامی ہے.کیونکہ حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ ان کی (مولوی عبد القدوس صاحب) گود میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں نے جھپٹا مارا اور سب بچے اپنی گود میں لے کر وہاں سے چل دیا رستہ میں میں نے ان بچوں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تھیعص ہیں میں اپنے اس رؤیا کو نہایت تعجب سے دیکھتا تھا جب میں حضرت مرزا صاحب کا مرید ہوا تو میں نے ان سے اس خواب کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا.” آپ کو اس کا علم دیا جائے گا اور وہ لڑکے فرشتے تھے.دھرم پال نے جب ترک اسلام کتاب لکھی تو اس سے بہت پہلے مجھے ایک خواب نظر آیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے فرماتا ہے کہ اگر کو ئی شخص قرآن کریم کی کوئی آیت تجھ سے پوچھے اور وہ تجھ کو نہ آتی ہو اور پوچھنے والا منکر ہو تو ہم خود تم کو اس کا علم دیں گے.جب دھرم پال کی کتاب آئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے کو اس کتاب کے جواب کی توفیق دی.حروف مقطعات کے متعلق اعتراض تک پہنچ کر ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان میں نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن تو ہے مگر میرے سامنے نہیں.یہ مقطعات پر سوال کرتا ہے اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھے مقطعات کا علم دیا گیا.جس کا ایک حصہ میں نے (56)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل نورالدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا.“ ( مرقاۃ الیقین صفحہ 154-155) اس کتاب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اس کا مسودہ سنا اور بعض جگہ مفید مشورے بھی دئے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں: " حضرت مسیح موعود کے حکم سے جب حضرت مولوی نور الدین صاحب نے دھرم پال کی کتاب ”ترک اسلام کا جواب بنام ” نور الدین“ لکھا تو اس کا مسودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عاجز راقم تھوڑا تھوڑا کر کے ہر روز بعد نماز مغرب سنایا کرتا تھا.“ ( ذكر حبيب ص 167 ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فصل الخطاب اور تصدیق براہین احمدیہ کی طرح یہ کتاب بھی حضرت مسیح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں لکھی گئی اس کتاب کی افادیت کا اندازہ اسی ایک امر سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ دھرم پال جس نے ترک اسلام میں مذہب اسلام کو دنیا کے جملہ مذاہب سے ناقص اور نا قابل عمل قرار دیا تھا اس کتاب کی اشاعت کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوا.اور اسلام کے خلاف اپنی جملہ تالیفات کو خود اپنے ہاتھوں سے تلف کیا.حضرت خلیفہ اسیح اول نے اپنی مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے ” نور الدین“ میں لکھا تھا.’اب تمہارے تبدیلی مذہب کا باعث معلوم ہوا جب تم ایک حالت پر نہیں رہ سکتے تو تمہارے آریہ سماج دھرم پر بھی استقلال معلوم ہو گیا.“ (نورالدین صفحه 126 بار دوم ) اس کی افادیت اور قوت مؤثرہ کو دیکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کا جذبہ رکھنے والوں نے اسے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا.ایک غیر احمدی رئیس ڈاکٹر غلام نبی صاحب زبدۃ الحکماء لا ہور نے تو اس کی ایک ہزار جلد عمدہ کاغذ پر طبع کرا کر مفت تقسیم کیں.حضرت مولانا مولوی عبید اللہ صاحب بسمل اس کتاب کی اشاعت پر فاضل مصنف کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں.(57)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل و یعنی امت مسلمہ کے ایک مایہ ناز خطیب، عالم با عمل فصیح وبلیغ بے مثل ادیب و مفسر نورالدین خدا تعالیٰ کے فضل سے زمین پر روشن چراغ اور اللہ تعالیٰ کی حجت ہے.“ 9- وفات مسیح موعود وفات مسیح موعود کے نام سے ایک چوبیس صفحے کا رسالہ حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت مخالفوں کی طرف سے ہونے والے اعتراضوں کے جواب میں تحریر کیا جس میں آیات قرآنی سے ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود قتل خنزیر اور کسر صلیب کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا کر اس جہاں سے رخصت ہوئے.اس رسالہ میں خاص طور پر ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اعتراضوں کا جواب دیا ہے.اور ڈاکٹر مذکور کی پیش گوئی بابت وفات حضرت مسیح موعود کا تجزیہ فرمایا ہے کہ خود حضرت اقدس کو ہی قرب وفات کے الہام ہو رہے تھے جن سے استراق سمع کرتے ہوئے مرتد پٹیالوی نے الہام تراشنے شروع کر دئے.لیکن خدا نے پھر بھی اس کی تغلیط و تکذیب کر دی.حضرت مسیح موعود کی وفات کے اندوہناک حادثہ پر اہالیان لاہور کے افسوسناک سلوک کا ذکر فرماتے ہوئے آپ نے مقامی پولیس کا شکریہ ادا کیا ہے اور حضرت مسیح موعود کے الہام تیری عمرانی برس کی ہوگی یا پانچ کم یا پانچ زیادہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے: "مرزا صاحب مغفور کی کیا عمر تھی جب آپ کا انتقال ہوا اس کے لئے میں کوشش میں ہوں کہ پتہ لگے.مرزا سلطان احمد نے تولد کا سن 36,37 بتایا ہے.پس اس شمسی حساب سے آپ کی عمر چوہتر پچھتر ہوتی ہے اور کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا.“ اس کے علاوہ مندرجہ بالا الہام کو حل کرنے کے لئے آپ نے قرآن مجید، حدیث شریف اور حضرت سید عبدالقادر الجیلی کے اقوال پیش فرمائے ہیں.آخر میں محمدی بیگم کی پیش گوئی پر اعتراضوں کا جواب دیتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ: (58)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اب میں جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحمل و برد باری و عاقبت اندیشی اور تقویٰ و طہارت سے کام لیں اور دعاؤں میں لگے رہیں.ابتدا دشمن سے مقابلہ نہ کریں کیونکہ اسلام دفاعی مقابلہ کی اجازت دیتا ہے.پس جب دشمن مخالفانہ بات کرے تو اس وقت جناب الہی میں تضرع سے دعا کر کے جواب دیں اور یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد تمہارے لئے تائیدی راہیں کھولنے والا ہے.“ ( وفات مسیح موعود صفحہ 24) 10 - درس قرآن مجید - حقائق الفرقان قرآن مجید کی تلاوت، اس کی اشاعت تبلیغ آپ کی روح کی غذا تھی.اس غرض کے لئے آپ نے دن کے مختلف حصوں میں قرآن مجید کے کئی درس جاری کئے ہوئے تھے.بچوں میں،طالب علموں میں ، جوانوں میں ، بوڑھوں میں ، عورتوں میں غرضیکہ ہرین اور ہر صنف کے لوگ اس سے فیض یاب ہوتے تھے.چنانچہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کا خا کہ بیان کرتے ہوئے مؤقر اخبار الحکم رقم طراز ہے: صبح ہی آپ چھوٹی لڑکیوں کو قرآن کریم کا درس دیتے تھے یہ درس ان کی استعداد اور سمجھ کو مد نظر رکھ کر دیا جاتا ہے.اور آپ روزانہ سبق سن کر پھر پڑھاتے ہیں.پھر مستورات کو سبق دیتے ہیں قرآن مجید کے درس کے بعد پھر عورتوں میں اچھی استعداد کی بیبیاں بخاری پڑھتی ہیں.اس سے فارغ ہو کر مستورات اور بچوں کے علاج کی طرف توجہ ہوتی ہے.اور گھر ہی میں ان کو طبی مشورے دیتے ہیں.وہاں سے فارغ ہو کر باہر تشریف لاتے ہیں.اور مریضوں کو دیکھتے ہیں.یہ سلسلہ بارہ بجے تک جاری رہتا ہے.پھر طب پڑھنے والوں کو طبی درس دیتے ہیں طب کے درس میں ہی ڈاک کے خطوط پیش ہو جاتے ہیں.اور ان کے جوابات بھی دیے جاتے ہیں.اس درس سے فارغ ہو کر آپ کھانا کھانے بیٹھتے ہیں.کھانا کھانے کے وقت پھر درس قرآن کریم کا ہوتا ہے.چند نو جوان قرآن مجید کا ترجمہ آپ سے پڑھتے ہیں.(59)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل قرآن مجید کے اس درس سے فارغ ہوتے ہی اذانِ ظہر ہوتی ہے.نماز سے فارغ ہو کر ایک وسیع حلقہ درس بخاری کا ہوتا ہے.اور یہ سلسلہ عصر تک جاری رہتا ہے.عصر سے فارغ ہوتے ہی کوئی اخبار عربی یا کوئی اور ہاتھ میں آگیا تو پڑھا.بڑی مسجد میں ایک عام درس قرآن مجید کے ایک رکوع کا ہوتا ہے...قرآن مجید کا یہ درس مغرب تک ہی رہتا ہے اور نماز مغرب کے بعد قرآن مجید کا ایک درس لڑکوں کو دیتے ہیں.کیونکہ عبدالمی اپنے بچے کو قرآن مجید پڑھاتے ہیں.یہ درس بھی بہت وسعت سے ہوتا ہے.پھر ایک اور درس قرآن مجید کا ہی ہوتا ہے.یہ درس فارغ التحصیل لوگوں کے لئے ہوتا ہے.“ (الحام 14 فروری 1912 ء ) قرآنی معارف کے اس قلزم بیکراں کو حیطہ تحریر میں لا نا قریباً ناممکن تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے درسوں کے مختلف مختصر نوٹ تو تالیف کئے گئے ہیں.لیکن آپ کی مفصل و مرتب تفسیر قرآن شائع نہیں ہو سکی.البتہ بعض سورتوں کی یا بعض رکوعوں کی تفسیر اس زمانہ کے اخباروں میں شائع ہوتی رہی جس کے پڑھنے سے تبحر علمی عظیم الشان قرآن فہمی اور عشق قرآن کا اندازہ ہوتا ہے.مثلاً سورۃ جمعہ کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس التزام اور اہتمام ( سورۃ جمعہ کی اشاعت) پر نظر کر کے اس سورۃ پر خاص غور کیا ہے.یوں تو قرآن میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے.اور میں جب تک ہر روز اس کو مختلف رنگوں میں پڑھ نہیں لیتا.مجھے آرام اور چین نہیں آتا.بچپن ہی سے میری طبیعت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف پر تزیر کرنے والی رکھی ہے اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس قدر اہتمام اس کی تبلیغ کا کیا ہے اُس نے مجھے اس سورہ شریف پر بہت ہی زیادہ غور وفکر کرنے کی طرف (60)
قدرت ثانیہ کا دور اول متوجہ کیا اور میں نے دیکھا ہے کہ اس سورۃ شریف میں قیامت تک کے عجائبات سے آگاہ کیا گیا ہے.( حقائق الفرقان جلد چہارم ص 82) مختلف مشکل الفاظ کی تشریح کے بعد ضرورت امام ثابت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” جب یہ حالت ہے تو پھر مسلمانوں سے میں خطاب کرتے ہوئے پوچھتا ہوں کہ ليظهره علی الدین کلہ کا وقت کب آئے گا اور اگر علامات و واقعات سے تم استدلال نہیں کرتے تو مجھے اس کا جواب دو کہ مذاہب مختلفہ کا ظہور تو اب ہو چکا.وہ رسول اس وقت کہاں ہے جس نے اسلام جمیع ملک پر غالب کرنا ہے.( حقائق الفرقان جلد چہارم ص 111) اس کے بعد حضرت مسیح موعود کو اظہار علی الادیان کرنے والا رسول قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: غرض انسان اسفار سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.جب تک معلم ومز کی موجود نہ ہو.اگر ساری دانش اور قابلیت کتابوں پر منحصر ہوتی تو میں سچ کہتا ہوں کہ میں سب سے بڑھ کر تجربہ کار ہوتا کیونکہ جس قدر کتابیں میں نے پڑھی ہیں بہت تھوڑے ہوں گے جنہوں نے اس قدر مطالعہ کیا ہو اور بہت تھوڑے ہوں گے جن کے پاس اس قدر ذخیرہ کتب کا ہو گا مگر میں یہ بھی سچ کہتا ہوں کہ وہ ساری کتابیں اور سارا مطالعہ بالکل رائیگاں اور بے فائدہ ہوتا اگر میں امام کے پاس اور اس کی خدمت میں نہ ہوتا.مجرد کتابوں سے آدمی کیا سیکھ سکتا ہے جب تک مز کی نہ ہو؟ اب میری حالت یہ ہے کہ جب کہ میں نے محض خدا کے فضل سے راستباز کو پایا ہے تو ایک منٹ بھی اس سے دور رہنا نہیں چاہتا.“ ( حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 114) حضرت خلیفہ اول ( اللہ تعالیٰ آپ پر راضی ہو ) کا درس قریباً اڑھائی سال کی مدت میں مکمل ہو جاتا تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے درس شروع ہونے کی تاریخ 19 اپریل 1906 لکھی ہے اور دور مکمل ہونے کی تاریخ 20 جنوری 1909 لکھی ہے.یہی تاریخیں مکرم اللہ داد صاحب کے نوٹوں پر موجود ہیں اس کے بعد ایک اور دور 22 جنوری 1909 ء سے شروع ہو کر 11 مئی 1912ء (61)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل کو مکمل ہو گیا اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے آپ روزانہ کم از کم چھ درس دیا کرتے تھے گویا کہ اڑھائی سال کے عرصہ میں چھ مرتبہ دنیا کو اس عظیم الشان کتاب کے معانی و مطالب سے آگاہ فرمایا کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ آپ نے نہ صرف جماعت احمدیہ میں بلکہ دنیائے اسلام میں تفسیر قرآن کا خاص شوق پیدا کر دیا.بعض روایات کے مطابق مشہور مفکر اسلام مولانا عبید اللہ صاحب سندھی اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”موجودہ اسلامی دنیا میں تفسیر قرآن کی جونئی رو پیدا ہوئی ہے.وہ مولانا نورالدین کی پیدا کردہ ہے.“ آپ کے یہ بیش قیمت درس محفوظ کرنے کے لئے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی نے ان نوٹوں کی روشنی میں سورہ بقرہ کی تفسیر شائع کی.اور سارے قرآن مجید کے نوٹ بھی شائع کئے.مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے اخبار ” بدر میں پورے قرآن کے نوٹ شائع کئے ان نوٹوں میں آپ کی غیر مطبوعہ عربی تفسیر کا کچھ حصہ بھی ترجمہ و تشریح کے ساتھ شائع ہوا ہے.فخر الدین ملتانی صاحب نے بھی نوٹوں کا ایک مجموعہ شائع کیا اور حیدر آباد کے احمدی بزرگ میر محمد سعید صاحب نے آیتوں کے نمبر دے کر ساتھ نوٹ شائع کئے.11 - فصل الخطاب "مرقاۃ الیقین“ پڑھتے وقت یہ جملہ پڑھ کر کہ میں نے اپنی کئی کتابوں کا نام فصل الخطار رکھا.ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ مشہور و متداول فصل الخطاب کے علاوہ حضرت خلیفہ اول کی تصنیفات میں کوئی اور کتاب بھی اس نام کی ضرور ہوگی.چنانچہ میں نے اس امر کی تحقیق کے لئے حضرت خلیفہ اول کی لائبریری (نور لائبریری) سے رجوع کیا تو وہاں میرا مقصد حاصل نہ ہوا.البتہ اس کوشش کے دوران میرے مندرجہ بالا خیال کو تقویت دینے کی ایک اور وجہ پیدا ہوگئی اور وہ یہ کہ 24 مئی 1910ء کے الحکم میں فصل الخطاب نامی دو کتابوں کا ذکر تھا.جو بیندہ یا بندہ.میاں عبدالمنان صاحب عمر کے پاس گوہر مرادل گیا اور آئمکرم کا خیال تھا کہ جماعت بھر میں یہی ایک (62)
قدرت ثانیہ کا دور اول نسخہ ہے جو ان کے پاس محفوظ ہے.اس کتاب کا پورا نام فصل الخطاب فی مسئلہ فاتحہ الکتاب“ ہے اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا نام نامی یوں لکھا ہے: عمدة المفسرين وزبدۃ المحدثین مولوی حکیم نورالدین صاحب.“ 128 صفحات کی یہ کتاب مولوی فضل الدین صاحب گجراتی (حنفی عالم ) کے عدم فرضیت قرآت فاتحہ کے دلائل وسوالات کے جواب میں لکھی گئی ہے اور قدیم علم کلام کی طرز پر ہے.مولوی صاحب موصوف کے سوال فارسی زبان میں ہیں اور حضرت خلیفہ اول کے جوابات اردو زبان میں ہیں.جن میں قرآت فاتحہ کے متعلق جملہ مسائل زیر بحث آئے ہیں مثلاً بدوں فاتحہ نماز جائز نہیں.لا صلوۃ الا بفاتحہ الکتاب کی تشریح اور لا‘ کے متعلق تحقیق.سورہ فاتحہ پڑھنے کے دلائل.عدم فرضیت قرات فاتحہ پر صحابہ کے اجماع کا جواب وغیرہ وغیرہ.12- عربی تفسیر القرآن ( غیر مطبوعہ ) حضرت خلیفہ اول ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے علم تفسیر کے تبحر و وسعت کا اندازہ گزشتہ اوراق میں ہو چکا ہے.اسی لئے آپ کے درس قرآن کو عجائب زمانہ میں سے سمجھتے ہوئے لوگ دور دور سے سننے کے لئے جمع ہوتے تھے.ان درسوں کے مختلف مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نوٹ موجود ہیں.ان کے علاوہ آپ نے ایک تفسیر عربی زبان میں بھی تحریر فرمائی جس کا مسودہ میاں عبدالمنان صاحب عمر کے پاس موجود تھا.اس تفسیر کے متعلق تعریفی نوٹ لکھنا تحصیل حاصل ہے کیونکہ آپ کی تفسیر اپنوں اور بیگانوں سے اپنی عظمت کا سکہ منوا چکی ہے.اس کا اسلوب بیان ”بدر‘ کے ضمیمہ سے معلوم ہوسکتا ہے.جہاں اس کا کچھ حصہ شائع ہوا ہے.سورہ یوسف کی تفسیر میں عنوان کے ساتھ آپ نے (محرم 31ھ ) تاریخ لکھی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تفسیر آپ کی زندگی کے آخری ایام کا کارنامہ ہے.اس تفسیر کی دو نمایاں خوبیاں (63)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل جدت خیال اور اختصار ہے یعنی موجودہ زمانے میں قرآن مجید پر ہونے والے اعتراضوں کے نہایت معقول جواب اور اس کے ساتھ بلیغانہ ایجاز واختصار.13 - مرقاة اليقين مندرجہ عنوان نام کتاب اکبر شاه خان صاحب نجیب آبادی نے حضرت خلیفہ اول کے اپنے بیان کردہ حالات زندگی کو مرتب کر کے شائع کروائی.گویا یہ کتاب حضرت خلیفہ اول کی قادیان سے پہلی زندگی کی خودنوشت سوانح ہے.یہ کتاب تاریخی طور پر مرتب نہیں کی گئی تاہم اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ یہ کتاب حضرت خلیفہ اول کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے اور سالکان راہ طریقت کے لئے مجرب و موثر نسخوں کا حکم رکھتی ہے.14 - بیاض نورالدین حضرت خلیفہ اول اور طب ایک مستقل اور مکمل عنوان ہے کیونکہ تبحر علمی ، حذاقت اور خدائی تائید کے امتزاج سے آپ کو حیرت انگیز دست شفا حاصل تھا.یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے امراء بلکہ رؤسا اور راجے مہاراجے آپ کے علاج پر اعتماد کرتے اور ہمیشہ بڑی بڑی مراعات دے کر آپ کی خدمات حاصل کرتے تھے.بیاض نور الدین آپ کی ساری زندگی کے طبی تجربات کا مجموعہ ہے اور جس طرح آپ کے تربیت یافتہ افراد تفسیری و علمی نکات سے آج تک فائدہ اُٹھا رہے ہیں.آپ کے طبی تجربات بھی اسی طرح صدقہ جاریہ کا حکم رکھتے ہیں اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچارہے ہیں.یہ کتاب ابتدا مجربات نور الدین کے نام سے تین حصوں میں شائع ہوئی تھی.اس کے بعد بیاض نورالدین کے نام سے زیادہ مرتب اور بہتر صورت میں شائع ہوئی.اس کتاب کے کئی ایڈیشن مختلف ناشروں کی طرف سے شائع ہوتے رہے ہیں.(64)
قدرت ثانیہ کا دور اول خلافت اولی.اور.احمد یہ پریس گزشتہ باب میں حضرت خلیفہ اول کی کتب پر اجمالی اور سرسری نظر ڈالی گئی ہے.اس زمانہ میں اشاعت دین حق کے لئے پریس ایک بہترین اور مؤثر ذریعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اس طرف خاص توجہ دی اور سلسلہ کی ترقی کے پانچ ذرائع میں سے ایک مستقل ذریعہ قرار دیا.اس کے نتیجے میں آپ کی جماعت میں باوجود غربت اور بڑی مقدار میں مالی قربانی کے اخبارات کے مطالعہ کا شوق پایا جاتا ہے.اور آپ کے زمانہ میں ہی جبکہ جماعت میں با قاعدہ تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد بہت ہی کم تھی دو ہفت روزہ اخبار ( جن کی اہمیت اور ضرورت بیان کرنے کے لئے آپ نے ان کو دوباز و قرار دیا ) اور ایک ماہوار رسالہ جاری ہو چکا تھا.خلافت اولیٰ میں احمد یہ پریس نے نمایاں ترقی کی اور جماعت میں متعدد نئے اخبار اور رسائل شائع ہونے شروع ہو گئے.اور حضرت خلیفہ اسی اول ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) اس کے لئے متعدد مواقع پر نصائح بھی فرماتے تھے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی اپنے مطاع و امام حضرت مسیح موعود کی طرح ” اشاعت تکمیل دین حق کے اس زمانہ میں مختلف ذرائع میں سے ذریعہ تحریر کی طرف بہت متوجہ تھے.چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے ایڈیٹر صاحب الحکم“ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اخبار میں شائع کرو کہ ہمارے سید و مولی امام علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ پسند فرماتے تھے کہ عمدہ خوش خط کا تب یہاں رہیں تا کہ وقت پر جلد کام ہو جائے اس لئے اس وقت جبکہ ہمارے مقابلہ کا میدان وسیع ہو گیا ہے.ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو احمدی ہیں اور پہلے سے قادیان سے باہر رہ کر اس کام کو کرتے ہیں.وہ قادیان میں رہ کر ، خدا کے لئے رہ کر یہ خدمت اپنے ذمہ لیں اس طرح پر وہ خدا کو راضی کرنے والے ٹھہریں گے اور خدا کے مرسل امام کی روح خوش ہوگی اور میرے اس کام میں جو خدا نے (65)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل میری خواہش کے بغیر میرے سپر دکیا ہے معاون بنیں گے.اور کچھ لوگ ایسے بھی چاہئیں جواس کام کتابت کو اس مقصد اور نیت سے لکھیں تا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کر سکیں گے.“ (الحكم 14 جون 1908 ) اس ارشاد گرامی میں حضرت خلیفہ امسیح الاول نے کاتبوں کومرکز سلسلہ قادیان میں اقامت گزیں ہونے کی تحریک فرمائی تھی.تا کہ اشاعت دین حق کا مہتم بالشان کام باحسن وجوہ پورا ہو سکے.اس کے علاوہ آپ اشاعت اخبارات کو مفید کام تصور کرتے تھے.اور ان کی اشاعت میں ہر روک کو رنج وہ قرار دیتے تھے.چنانچہ اخبار بدر بعض وجوہ کی بناء پر چند دن کے لئے بند ہوا تو آپ نے فرمایا: ” میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جاری ہو اور وہ رک جائے البدر کا چند روزہ وقفہ رنج تھا.“ (الحكم 21 مئی 1912 ) حضرت خلیفہ امسیح الاول پریس کو جو اہمیت دیتے تھے وہ محترم ایڈیٹر صاحب الحکم کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے : میں نے بعض اوقات چاہا کہ اسے (احکام ) بند کر دوں مگر مسیح موعود کے جانشین اور خلیفہ نے مجھ سے تین مرتبہ عہد لیا کہ میں اسے بند نہیں کروں گا.یہ عہد بتاتا ہے کہ منشاء الہی ہے کہ خادم سلسلہ احکم زندہ رہے.“ (الحکم 7 نومبر 1911 ) حضرت خلیفتہ امسیح اول نے اخبارات کی ضرورت اور اہمیت کو جس حد تک سمجھا تھا اس کا کسی قدر اندازہ آپ کے مندرجہ بالا ارشادات گرامی سے ہوتا ہے.لیکن حضرت خلیفتہ امسیح اول جماعت میں پریس اور اس کی اہمیت کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اخبارات کی پالیسی کا بھی خیال رکھتے تھے چنانچہ آپ اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں کہ : وو ایک اور امر بھی اس جگہ ذکر کرنے کے قابل ہے.آج کل بہت سے اخبارات نے یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ باغیانہ یا مفسدانہ خیالات کو پھیلانے اور (66)
ہیں: قدرت ثانیہ کا دور اوّل پبلک کو گورنمنٹ یا اس کے مقررہ یورپین افسروں کے خلاف اکساتے رہے ہیں.میں اپنی جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسے اخباروں کو ہر گز نہ خریدیں نہ پڑھیں.“ (الحکم 18 ستمبر 1908) اسی طرح ایک اور موقعہ پر آپ اخباروں کے مضامین کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرماتے پس برادران و عزیزان و بزرگان اخبار میں وہ مضمون دو جس میں نفسانیہ خواہشات، سوء ظن، تفرقہ اور امراء پر اعتراض اور اس میں ناعاقبت اندیشی و خود غرضی طمع ، دین الہی سے بے خبری، نفاق جو بد عہدیوں سے پیدا ہوتا ہے اور حکام کی نا عہدی ، ترک افشاء سلام خصوصاً ہندوستان میں یہ دعا معیوب یقین کی گئی ترک جمعہ واجماعات امرا میں ( تکبر ) تعلیٰ کا علاج ہو اللہ تعالیٰ توفیق دے.“ (الفضل 16 جولائی 1913ء) آپ کے ان ارشادات گرامی کے بعد جن سے معلوم ہوتا کہ آپ اشاعت اسلام کے لئے اخبارات کو نہایت ضروری مفید اور اہم چیز سمجھتے تھے اور ان کی پالیسی کی نگرانی بھی فرماتے تھے.آپ کے زمانہ میں شائع ہونے والے اخبارات کا مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے.1 - الحكم سلسلہ احمدیہ کا یہ سب سے پہلا اخبار ہے جو 1897 میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں شائع ہونا شروع ہوا اور اس کی قیمتی خدمات کی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے جسے اپنا ایک باز و قرار دیا.اور خلافت اولی کے زمانے میں معمولی وقفہ کے علاوہ باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا حضرت خلیفہ اول کی تقاریر اور پر سوز نصائح کے شائع کرنے میں اسے اولیت کا درجہ حاصل ہے.اس اخبار کے ایڈیٹر سلسلہ کے بہت پرانے پر جوش اور مخلص کارکن حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی تھے جنہوں نے باوجود مالی مشکلات اور دیگر مصروفیتوں کے اس اخبار کو جاری رکھا.آپ کی مساعی جمیلہ کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پر خلوص کام کو دیکھ کر سلطنت حیدرآباد کی ایک شہزادی لیڈی (67)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل وقار الامراء بہادر نے ایک موقعہ پر 2250 روپے ماہوار پر آپ کی خدمات کو حاصل کیا.اس اخبار کے پہلے شمارے میں اغراض و مقاصد کے تحت مندرجہ ذیل مقاصد مذکور ہیں.1- الحکم ہر انگریزی مہینے کی 8-15-24-29 تاریخوں کو امرتسر سے علی العموم 16 صفحوں پر عند الضرورت زیادہ پر شائع ہوگا.2 الحکم“ کا مقدم اور اوّل فرض ہوگا کہ وہ گورنمنٹ اور رعایا کے روابط کو مضبوط اورمستحکم کرے.23 حکم کے مضامیں میں پارٹی سپرٹ کام نہ کرے گی.اور اس لئے ایسے مضامین پر جو دل آزار یا مزیل حیثیت عرفی ہوں شائع نہ ہوں گے.ہوگا.4- مجد والوقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مشن کا سچا خادم ہونے کا’الحکم کو فخر 5 الحکم کے جملہ مضامین از سرتا پا وہی ہوں گے جو ہر پہلو سے اسلام اور اہل اسلام کے لئے مفید ہوں.66 جیسا کہ او پر ذکر ہو چکا ہے حضرت خلیفتہ امسیح اول اخبارات کی اشاعت میں ہر قسم کی روک دور کرنے کی ہرممکن کوشش فرماتے تھے اور ایڈیٹر کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے چنانچہ بعض مجبور یوں اور مالی مشکلات کی وجہ سے ”الحکم کچھ عرصہ کے لئے بند ہو گیا.تو حضرت خلیفتہ مسیح اول نے اس کی اپنی گرہ سے مدد بھی فرمائی اور اس کے انتظام میں عمدگی اور با قاعدگی پیدا کرنے کے لئے حضرت مرز امحمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) کو اس کے مالی معاملات کا نگران مقرر فرمایا.چنانچہ اخبار الفضل 25 فروری 1914 میں حضرت عرفانی صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل اعلان شائع ہوا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے 'الفضل' کی اگلی اشاعت تک الحکم جاری ہو کر اپنے ناظرین کی خدمت میں پہنچ جائے گا.احکم کی ضرورت کے متعلق اس سے زیادہ کیا لکھا جاسکتا ہے کہ حضرت...خلیفہ مسیح نے سالانہ جلسہ کے موقع پر اس کی پرانی خدمات کی قدر کرتے ہوئے اس (68)
قدرت ثانیہ کا دور اول کے لئے اپیل فرمائی اور اس وقت بھی جبکہ آپ نصیب اعداء ناساز ہیں آپ کو اس کا خیال ہے چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح نے الحکم کے دوبارہ اجراء و احیاء کے لئے بتا کید مجھے بھی ملزم کیا اور اس کے مالی نظام کو حضرت صاحبزادہ محمود احمد ایڈیٹر الفضل کے سپر د فرمایا اور خود بھی 1000 روپیہ ( الفضل 25 فروری 1914) اس مقصد کے لئے دینے کا وعدہ کیا.“ 2- بدر الحکم کے بعد 1900ء میں مکرم محمد افضل صاحب نے ایک اخبار البدر“ کے نام سے جاری کیا.21 مارچ 1905 کو آپ کی وفات کے بعد مکرم میاں معراج دین صاحب اس کے مالک ہوئے.اور سلسلہ کے دیرینہ مخلص اور بے لوث خادم حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا.جو اس وقت تعلیم الاسلام سکول کے ہیڈ ماسٹر اور کالج کے سپرنٹنڈنٹ ہونے کے علاوہ سلسلہ کے کئی اہم کام سرانجام دے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود نے آپ کے ایڈیٹر 'بدر مقرر ہونے پر فرمایا: میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے.یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جوان، صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی محمد صادق صاحب قائم مقام منشی محمد افضل صاحب مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے.کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آ گیا ہے خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لئے بابرکت کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین.دستخط حضرت مسیح موعود ( بدر 16 اپریل 1905ء) (69)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اسی طرح حضرت خلیفہ اول نے بھی مکرم مفتی صاحب کے میدان صحافت میں داخل ہونے کو محمد افضل صاحب کا نعم البدل قرار دیتے ہوئے فرمایا: ” میرا دل گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جاری ہو اور وہ رک جائے البدر کے چند روزہ وقفہ کا رنج تھا سر دست اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک تدبیر نکالی ہے کہ میاں معراج دین عمر جن کو دینی امور میں اللہ تعالیٰ نے خاص جوش بخشا ہے.اس طرف متوجہ ہوئے اور نصرت اللہ یوں جلوہ گر ہوئی کہ اس کی ایڈیٹری کے لئے میرے نہایت عزیز مفتی محمد صادق صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان کو منتخب کیا گیا اور اس تجویز کو حضرت امام صاحب نے بھی پسند فرمایا ہے میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے احباب اس نعم البدل پر بہت خوش ہوں گے.(بدر 16 اپریل 1905ء) اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مفتی صاحب کی زیر ادارت آنے پر اس اخبار کا نام البدر کی بجائے تفاولاً بدر کر دیا گیا کیونکہ البدر چودھویں کے چاند کو کہتے ہیں جو یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ کل سے زوال شروع ہورہا ہے مگر بدر اس مقام کا نام ہے جہاں حق و باطل کے درمیان پہلی جنگ ہوئی.اور رحمان نے شیطان پر غلبہ پایا حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں 1912 ء تک یہ اخبار حضرت خلیفہ اول کے فتاوی، ڈائری اور درس القرآن اپنے مخصوص انداز میں شائع کرتے ہوئے نہایت مفید خدمات سرانجام دیتا رہا.3- ریویو آف ریلیجنز حضرت مسیح موعود کی خواہش کے مطابق 1902ء میں یہ رسالہ غیر ممالک میں تبلیغ دین حق کے لئے جاری ہوا.ابتدا میں حضرت مسیح موعود خود اس میں مضامین لکھتے رہے.جس کی وجہ سے یہ رسالہ بہت مقبول ہو گیا.اور بعض غیر از جماعت لوگوں نے یہ خواہش کی کہ اس میں احمدیت کا ذکر نہ کیا جائے.اور بعض احمد یوں نے جو سستی شہرت کے خواہاں تھے.اس تجویز کا خیر مقدم کیا تو حضرت مسیح موعود نے نہایت سختی اور حقارت سے اس تجویز کورڈ کر دیا.یہ رسالہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں (70)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل بھی بدستور جماعت کی خدمت کرتا رہا اور غیر ممالک میں اس کے مضامین کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا.کیونکہ اس میں پیش کردہ تعلیم اسلام کی صحیح تعلیم نظر آتی تھی.اس رسالہ کی ادارت مولوی محمد علی صاحب ایم اے مرحوم کے ذمہ تھی جو اس زمانہ میں انجمن احمد یہ کے سیکریٹری بھی تھے.کیم جون 1909ء میں آپ کے ذمہ ترجمہ قرآن کا کام ہوا اور رسالہ کے ایڈیٹر حضرت مولوی شیر علی صاحب ایم اے مقرر ہوئے.4- تشخيذ الا ذہان 1905 کے جلسہ سالانہ میں حضرت مسیح موعود نے نوجوانوں کو خدمت ( دین حق ) کرنے کی تحریک فرمائی تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( حضرت مصلح موعود ) کے قلب صافی میں جوش پیدا ہوا اور آپ نے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی جس کا نام حضرت مسیح موعود نے انجمن تشحیذ الاذہان رکھا اور اس انجمن کی طرف سے جاری ہونے والے رسالہ کا نام تخمیذ الاذہان تجویز فرمایا.اس رسالہ کی اہمیت اور عظمت اس امر سے ظاہر ہے.کہ اس کے مدیر حضرت محمود تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علوم ظاہری و باطنی سے پر فرمایا تھا.اس وقت آپ کی عمر 17 سال تھی اور یہ رسالہ انجمن تشخیذ الاذہان کے ممبروں نے بلا مد دے غیرے اپنے جیب خرچ سے رقم جمع کر کے جاری کیا تھا.اور اُس کی افادیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ امیر غیر مبا تعین مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے اس میں شائع ہونے والے حضرت محمود کے مضامین کو دیکھ کر لکھا: جس نور کی شعاعیں محمود کے قلب سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہیں وہ کچھ ایسا پاک اور نورانی ہے کہ جس کی نظیر ہی نہیں مل سکتی.“ (ریویو آف ریلیجز جلد 5 صفحہ 30) حضرت مصلح موعود کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مکرم قاضی ظہور الدین صاحب اکمل 1921 ء تک اس کی ادارت فرماتے رہے.مندرجہ بالا اخبارات ورسائل حضرت مسیح موعود کے بابرکت عہد میں جاری ہوئے اور حضرت (71)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل خلیفہ اول کے عہد میں بھی تکمیل اشاعت دین حق کا مقدس فریضہ نہایت عمدگی سے ادا کرتے رہے اس کے بعد جن اخباروں اور رسائل کا ذکر ہو گا وہ حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے دور سعادت میں جاری ہوئے اور جماعت میں صحیح دینی روح اور غیروں میں احمدیت کی صداقت کی اشاعت کرتے رہے اور اس طرح سطان القلم کے جانشین کا زمانہ بھی قلمی جہاد کے لحاظ سے نہایت اہم مفید اور دور رس نتائج کا حامل ہوا.-5- نور خلافت اولیٰ میں شائع ہونے والے اخباروں میں سے ”نور“ کو اولیت کا درجہ حاصل ہے.کیونکہ یہ اخبار اکتوبر 1909ء میں زیر ادارت مکرم شیخ محمد یوسف صاحب (سابق سورن سنگھ ) جاری ہوا اور نہایت اہم دینی خدمات سرانجام دیتا رہا.اس اخبار کا مشن زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کے مصفی اور شیریں چشمہ کی طرف رہنمائی کرنا تھا اس اخبار کے مقاصد مندرجہ ذیل تھے: اول = اسلام کی خوبیوں اور برکات کا ذکر کرنا اور دیگر مذاہب پر اس کی فضیلت بیان کرنا.دوم = آریوں اور عیسائیوں کے حملوں سے اسلام کو بچانا.سوم = الزامات کے گرد وغبار کو اسلام کے چہرہ سے بدلائل عقلی و نقلی دور کرنا.چہارم = حکومت وقت کی خیر خواہی.پنجم.سکھ قوم میں باوا نانک جی کی اصل تعلیم کا پر چار کرنا.اس اخبار کی بروقت اشاعت کے متعلق حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے مندرجہ ذیل بیان الحکم میں شائع فرمایا.”میرے عزیز بھائی شیخ یوسف صاحب سابق سورن سنگھ نے ”نور“ نامی ایک پندرہ روزہ پر چہ قادیان سے شائع کرنا شروع کیا.بلکہ اس وقت تک دونمبر نکل چکے ہیں.عزیز محمد یوسف سکھ ازم سے بخوبی واقف اور سکھوں میں تبلیغ کا کام پہلے سے کر (72)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل رہے ہیں.اس اخبار کے ذریعہ انہوں نے اس دائرہ کو زیادہ وسیع کرنے کا تہیہ کیا ہے.اور اس کے ساتھ ہی دیا نندی فتنہ کے انسداد اور ذب کی طرف توجہ کی ہے اور فی الواقع اس کی ضرورت ہے.کہ آریوں کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے دندان شکن جواب دیے جائیں.ماسٹر محمد یوسف صاحب کے قلم میں اور ان کے دل و دماغ میں جوش ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر قوم نے ان کی حوصلہ افزائی کی تو خدا کے فضل سے اس سلسلہ میں وہ قابل قدر کام کر سکیں گے.میں یہ چاہتا ہوں کہ ” نور“ کامیاب ہو نہ اس لئے کہ عزیز محمد یوسف میرے قابل قدر دوستوں میں سے ہیں یا بھائیوں میں سے ہیں بلکہ اس لئے کہ نور کے ذریعہ ایک ایسی ضرورت پورا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف ابھی تک بہت کم توجہ کی گئی ہے بلکہ نہیں کی گئی.آریہ مشن کی تردید میں میرے نہایت مکرم اور قابل قدر بھائی میر قاسم علی صاحب پہلے سے فاروق نامی ایک ہفتہ وار اخبار کا اعلان کر چکے ہیں.فاروق خود ایک قابل قدر چیز ہو گا.بہر حال میں ایسے تمام جرائد کی کامیابی کا اللہ تعالیٰ سے متمنی ہوں جو خدمت اسلام کے کئے جاری ہوں.بلکہ سچ تو یہ ہے : خدا خود میشود ناصر اگر ہمت شود پیدا“ (الحکم 8 اکتوبر 1909ء) اس رسالہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی تحقیق کو سکھوں تک پہنچایا گیا اور سکھوں کے لئے یہ رسالہ بہت مفید ثابت ہوا.مکرم شیخ محمد یوسف صاحب کو کئی گرانقدر گورمکھی کتابوں کی تصنیف اور قرآن مجید کا گورمکھی ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.(73)
الحق قدرت ثانیہ کا دور اول علم مناظرہ وعلم کلام کے مشہور ماہر حضرت میر قاسم علی صاحب ( جو اسلام کے مخالفوں کے لئے نگی تلوار کی طرح تھے ) نے ہندوستان کے پایہ تخت دہلی سے ایک سہ ماہی رسالہ بنام ”الحق“ جاری کیا اس کا پہلا پرچہ 7 جنوری 1910ء کو شائع ہوا یہ پرچہ مندرجہ ذیل مقاصد کے لئے حضرت میر قاسم علی صاحب نے جاری کیا.اول - مخالفین اسلام کے عموماً دیا نندیوں کے خصوصاً اعتراضات کا جواب دینا اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا ، دیانندی طلسم کو توڑنا.دوم.مسلمانوں میں باہمی اتفاق و اتحاد بڑھانا اور اختلافات باہمی سے اجتناب کرنا.سوم = گورنمنٹ برطانیہ کے احسانات کے اظہار اور اس کے برخلاف ہر طرح کی غلط فہمیوں کو رڈ کر کے رعایا میں فرمانبرداری اور جماعت کے لئے مخلصانہ جوش پیدا کرنا.فرمایا: حضرت میر قاسم علی صاحب نے اس رسالہ کا اجراء مندرجہ ذیل رقت انگیز درد بھری دعا سے ”اے رحمان و رحیم خدا اے میری روح اور ذات جسم کے مالک و خالق رب الوری میں تیرے حضور میں کھڑے ہونے کے ہول و ہر اس کو نصیب العین رکھ کر دعا کرتا ہوں کہ تو اس راہ میں جس میں عموماً مجھ جیسے ضعیف البنیان انسان کو صد با مصائب اور ابتلاؤں کا سامنا ہوتا ہے.میری مدد اور نصرت فرما.نہ اس لئے کہ میرا کوئی حق ہے بلکہ میں 'الحق' کی خدمت پر کمر باندھتا ہوں اے میری توانائی ! تو مجھے بلند ہمت اور عالی حوصلگی عطا فرما.اے قادر و برتر ہستی ! مجھے ناجائز جذبات.بے جا طرفداری کے مغلوب ہونے سے محفوظ رکھ.اور مجھے شتاب کاری اور کورانہ تعصب کی کاروائی سے قطعأ روک دے اور میں ”الحق کا خادم ہو کر راستی کی حمایت میں پورے سکون (74)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل د وثوق اور طمانیت سے کھڑا ہو کر احقاق حق کرتا رہوں.“ ( الحق 7 جنوری 1910ء) ریویو آف ریلیجنز اردو میں اس رسالہ کی اشاعت کا مندرجہ ذیل الفاظ میں خیر مقدم کیا گیا.میر صاحب کو مذہبی مناظرات سے بڑی دلچسپی ہے.اور ان کو خدمت ,, اسلام اور اعلاء کلمہ حق اور ابطال باطل کا بڑا شوق ہے اور یہی امران کے اخبار نکالنے کا بڑا محرک ہوا ہے.خدا تعالیٰ ان کا ناصر و مددگار ہو اگر چہ اخبار میں زیادہ تر مذہبی مضامین ہیں جو بہت ہی قابلیت سے لکھے گئے ہیں.مگر میر صاحب نے اخبار کا ایک حصہ عام خبروں کے لئے علیحدہ کر دیا ہے.اور اس طرح اپنے خریداروں کو عام اخبارات کے خریدنے سے مستغنی کر دیا ہے.طرز تحریر بہت پاکیزہ ہے.“ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری 1910ء) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی اس اخبار کو نئے سال کی برکات میں سے قرار دیا.چنانچہ آپ لکھتے ہیں : حق پرستوں اور حق کے دلدادوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ الحق کا خیر مقدم کریں.اس لئے میں الحق کا ایک ادنیٰ خادم ہونے کی حیثیت سے اس کا خیر مقدم نہ کروں تو یہ سخت فروگزاشت ہے.نئے سال کی برکات میں سے الحق کا دہلی سے اجراء ہے.یہ وہی احق ہے جس کا فاروق کے نام سے اعلان ہوا تھا اور بعد میں حضرت خلیفہ امسیح اول کے ارشادات و ہدایات سے اس کا نام الحق رکھا گیا.الحق' کے اجراء کا میں ہی محرک و مؤید تھا.اس لئے سب سے زیادہ خوشی مجھے اس کے اجراء کی ہے.جس کو میرے محترم بھائی میر قاسم علی مشہور احمدی مناظر نے شائع کیا ہے.یہ پرچہ نہایت قابل ہاتھوں میں ہے.“ (احکام 21 جنوری 1910ء) اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اخبار مذکور کا نام حضرت خلیفہ اسیح الاول نے تجویز فرمایا تھا.(75)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل چنانچہ میر قاسم علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں : اخبار کا نام قبل ازیں فاروق تجویز کیا تھا.اس کے بعد بذریعہ ایک علیحدہ اشتہار شحنہ حق“ نام بعض احباب کی رائے سے تجویز کر کے مشتہر کیا.میں نے بحضور خلیفتہ امسیح ابی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دعا اور اجازت اجراء اخبار کے واسطے عریضہ ارسال کیا تو میرے مخدوم خلیفہ اسیح نے خاص شفقت نامہ تحریر فرما کر بجائے فاروق اور مشحنہ حق کے الحق نام اخبار ہذا کا رکھ کر مجھے اطلاع بخشی اور زبانی بھی ارشاد فر ما یا کہ یہ مبارک نام ہے.قرآن مجید میں یہ نام آتا ہے پس شرح صدر سے میں نے اب یہی نام اخبار کا رکھا ہے.خدا اس کو اسم بامسمی کرے ( الحق 7 جنوری 1910 ء ) اس رسالہ کو حضرت مسیح موعود کے اس مشن کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو آپ نے آریہ دھرم شحنہ حق اور چشمہ معرفت جیسی عظیم الشان کتابیں تصنیف فرما کر شروع کیا تھا.حضرت میر صاحب کو سلسلہ کی بیش بہا قلمی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی.آپ کا اکثرلٹریچر غیر مسلموں اور غیر مبائعین کے خلاف ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود کے اشتہارات کو تبلیغ رسالت“ کے نام سے دس جلدوں میں شائع کر کے جماعت احمدیہ پر ایک عظیم الشان احسان کیا.اور اس قیمتی ذخیرہ کو آمین.محفوظ کر دیا.7- احمدی حضرت میر قاسم علی صاحب نے ہی احمدی نام ایک ماہوار رسالہ جنوری 1911 سے شروع کیا اس کا تعارف کراتے ہوئے آپ لکھتے ہیں.احمدی شروع جنوری 1911 ء سے انشاء اللہ ایک ماہوار رسالہ مندرجہ عنوان نام کا22×18 کی تقطیع پر 32 صفحوں کے علاوہ ٹائیٹل کے زیر ایڈیٹری عاجز قاسم علی (76)
قدرت ثانیہ کا دور اول احمدی دفتر الحق دہلی سے شائع ہو گا.اس رسالہ کی غرض صرف احمد یہ مشن کا ڈیفنس اور مخالفین حضرت مسیح موعود مرحوم و مغفور کے اعتراضات سابق وجدید کامکمل ومفصل جواب دینا ہے اور سب سے اول مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے اخبار اہلحدیث و مرقع قادیانی و الہامات مرزا وغیرہ پر بغور نظر کی جائے گی.حسب موقع دیگر مخالفین سلسلہ سیالکوٹی، لاہوری بٹالوی ،شیعہ ، گولڑوی ،شاہ جہاں پوری ، بھوپالی، میرٹھی وغیرہ کے بے بنیا د اعتراضوں کی بھی وقتاً فوقتاً خبر لی جائے گی.66 المشتهر :- عاجز قاسم علی احمدی (ریویو آف ریلیجز نومبر 1910ء) اس رسالہ کے اغراض و مقاصد اس تعارف سے ہی ظاہر ہیں.حضرت میر قاسم علی صاحب کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ احمد یہ جماعت میں سے سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے بیک وقت دو اخباروں کی ادارت کی.اور اس طرح سلسلہ کی خدمت کا حق ادا کیا.8- احمدی حاتون اس وقت تک سلسلہ کے جن اخباروں اور رسالوں کا ذکر ہو چکا اور ان کا مقصد عام تربیتی اور تبلیغی امور سرانجام دینا تھا تشخیذ الاذہان کو نو جوانوں کا آرگن کہا جا سکتا تھا اگر چہ اس کے مقاصد بھی دوسرے رسائل کی طرح زیادہ تر عام تربیتی اور تبلیغی ہی تھے جو اس وقت کی حالت کو دیکھتے ہوئے بہت کافی معلوم ہوتے ہیں.لیکن اس وقت تک کوئی ایسا پر چہ شائع نہ ہوتا تھا جس کا مقصد جماعت کی مستورات کی تربیت اور انہیں تبلیغی میدان کے لئے تیار کرنا ہو.ایسے وقت میں جبکہ احمدی مستورات کے لئے رسالہ نکالنے کا تصور بھی نہ کیا جاسکتا تھا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے احمدی خاتون کے نام سے ایک رسالہ نکال کر اپنی اولوالعزمی اور انتہائی خلوص کا ثبوت بہم پہنچایا اور جس طرح آپ سلسلہ احمدیہ کے سب سے پہلے صحافی ہیں اسی طرح آپ نے یہ شرف بھی حاصل کیا کہ جماعت میں عورتوں کے لئے سب سے پہلے ایک رسالہ شائع کیا گو کبھی کبھی اخبار بدر میں (77)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل خواتین کے لئے ایک صفحہ شائع ہوتا تھا لیکن با قاعدہ رسالہ آپ نے ہی جاری کیا.اس رسالہ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”بہت سی فضول رسمیں اور بدعتیں جو کہ ہمارے گھروں میں رائج ہیں.ان کے دور کرنے میں ہماری عورتیں جس قدر مدد دے سکتی ہیں.وہ ایک بین امر ہے.بچوں کی تربیت اور اصلاح میں عورتیں جس قدر مد ہو سکتی ہیں وہ ایک کھلی بات ہے پس اگر دنیا میں انسان کی پہلی رفیق اور مونس (عورت) اصلاح کے کاموں میں مرد کی ہم خیال ہو جائے تو بہت جلد اصلاحی نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں.ان امور کو مدنظر رکھ کر میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسالہ محض عورتوں کے لئے جاری کر دوں جو ایک احمدی خاتون کے نقطہ خیال 66 سے مرتب کیا جائے وباللہ التوفیق.“ اس رسالے نے احمدی خواتین میں علمی مذاق پیدا کرنے کی نہایت اہم خدمت سرانجام دی اور ان میں اخباروں کے مطالعہ کا شوق پیدا کیا.و الفضل طوفان حوادث اور غیر معمولی حالات میں جنم لینے والے اخبار الفضل نے احمدیت کی مختلف ابتلاؤں اور شدید مصائب کی آندھیوں میں استقلال سے قائم رہتے ہوئے نہایت عظیم الشان اور قیمتی خدمات سرانجام دیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ المسیح الثانی) نے مقدس فریضہ حج کی ادائیگی اور بلا د عربیہ کی سیاحت کے بعد ایک اخبار کی ضرورت کو نہایت شدت سے محسوس کیا جس کی فوری وجہ بعض کم علم اور نئے احمدیوں کا ایسے خیالات وعقائد کا مانا اور پھیلا نا تھا جواحمدیت کی روح کے سر اسر خلاف تھے مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود “ محض مجدد وقت تھے اور اس سے زیادہ آپ کی کوئی حقیقت نہ تھی نیز یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہے اور خلیفتہ امسیح کی کوئی (78)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ضرورت نہیں اور یہ خلاف وصیت حضرت مسیح موعود ہے ان اختلافات کی حقیقت تو اپنے موقع پر بیان ہوگی لیکن یہ بدیہی امر ہے کہ ان باطل عقائد کے خلاف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثانی) نے اپنی روح میں ایک جوش پایا اور آپ اخبار نکالنے پر مستعد ہو گئے.آپ تحریر فرماتے ہیں: بدرا اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا.الحکم اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں بہت گراں گزرتا تھا.ریو یو ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.میں بے مال وزر تھا جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے ان کی سستی کو جھاڑے ان کی محبت کو اُبھارے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا.اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی رہتی تھی جیسے ثریا کی خواہش نہ وہ ممکن تھی نہ یہ ، آخر دل کی بات رنگ لائی.امید بر آنے کی صورت نظر آئی.اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی.“ (الفضل 4 جولائی 1924ء) الفضل کا پہلا عظیم الشان معاون الفضل کے لئے سرمایہ کی فراہمی بھی نہایت ہی غیر معمولی طریق سے ہوئی.اور اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی تین بزرگ ہستیوں کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ اس قدر مخالف حالات میں 'الفضل کی مدد کر کے ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہو جائیں.اس لئے مناسب ہوگا کہ اس کا ذکر بھی حضور کے الفاظ میں ہی کیا جائے ، فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ نے میری بیوی (حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت خلیفہ ثانی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ کے دل میں رسول کریم (79)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل صلی اللہ علیہ وسلم کی مد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنوئیں میں پھینک دینا.اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانے میں شائد سب سے بڑا مذموم تھا اپنے دوز یور مجھے دے دئے.کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے میری اور اپنی لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے.میں زیورات کو لے کر اسی وقت لا ہور گیا اور پونے پانسو کو وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا.اور میرے لئے تو اس کا ہر پر چہ گونا گوں کیفیات کا پیدا کرنے والا ہے.بار ہاوہ مجھے جماعت کی وہ حالت یاد دلواتا ہے جس کے لئے اخبار کی ضرورت تھی.بار ہا مجھے وہ اپنی بیوی کی وہ قربانی یاد کرواتا ہے جس کا مستحق نہ میں اپنے پہلے سلوک کے سبب تھا اور نہ بعد کے سلوک نے مجھے اس کا مستحق ثابت کیا ہے...دوسرا اعظیم الشان معاون 66 (الفضل 4 جولائی 1924ء) دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی.مائیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان ( کرنا ) صرف ان کے حصہ میں آیا ہے.اور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے.(80)
مقتدرت ثانیہ کا دور اول تیر ا عظیم الشان معاون تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ مکرم خان محمد علی خان صاحب ہیں.آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دے دی پس وہ بھی اس رو کے پیدا کرنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے الفضل کے ذریعہ چلائی.اور السابقون الاولون میں سے ہونے کے سبب سے اس امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کے کام لے.“ (الفضل 4 جولائی 1924ء) ان حالات میں سے گزرتے ہوئے اور قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہوتے ہوئے آپ نے الفضل اخبار کے لئے میدان ہموار کیا اور حضرت خلیفہ مسیح اول ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) سے اخبار کے اجراء کی اجازت اور نام رکھنے کی درخواست کی حضرت خلیفہ اول نے باوجود اس علم کے کہ پیغام بھی لاہور سے شائع ہو رہا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اخبار جاری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور الفضل نام تجویز فرمایا: چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام الفضل فضل ہی ثابت ہوا.“ ( الفضل 4 جولائی 1924ء) 8 جون 1913ء کو الفضل کا پہلا پرچہ شائع ہوا جس کے افتتاحیہ مقالہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے تحریر فرمایا کہ:.”خدا کے نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اس سے نصرت و توفیق پاتے ہوئے میں الفضل، جاری کرتا ہوں...اپنے ایک مقتدا اور رہنما اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس بحر نا پیدا کنار میں 'الفضل' کی کشتی کو چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجز و انکسار یہ عہد کرتا ہوں کہ بسم الله مجرها و مُرسَهَا إِنَّ رَبِّي لغفور رحيم ہاں اے میرے محبوب خدا تو دلوں کا واقف ہے اور میری نیتوں اور ارادوں کو خوب جانتا ہے.میرے پوشیدہ رازوں سے (81)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل واقف ہے.میرے حقیقی مالک میرے مولا! تجھے علم ہے کہ تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے.تیرے پاک رسول کے نام کو بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے تو میرے ارادوں کا واقف ہے میری پوشیدہ باتوں کا راز دار ہے.میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرے کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا اُمیدوار ہوں.“ الفضل کو نہ صرف لمبے عرصہ سے جماعت کی بیش قیمت خدمت کرنے کا فخر حاصل ہے.بلکہ اس کو یہ فخر بھی حاصل ہے.کہ یہ پرچہ یکے بعد دیگرے حضرت مسیح موعود کے دو موعود فرزندوں کی زیر نگرانی پروان چڑھا.یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد کے خدائی تقدیر اور منشاء کے مطابق خلیفہ مقرر ہونے پر اس اخبار کی ادارت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد کے سپرد ہوئی اور آپ 25 مارچ 1914 ء سے 27 اگست 1914 ء تک اس اخبار کے نگران وایڈیٹر رہے.اس اخبار کی اشاعت پر جملہ احمدی احباب بہت خوش ہوئے.حتی کہ پیغام صلح نے بھی اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھا: الفضل من ترا حاجی بگویم کے اصول پر نہیں بلکہ اس لحاظ سے مندرجہ عنوان نام جدید اخبار فی الواقعہ ایک ہونہار ہمعصر اور نیز اس لئے کہ ہمارے امام حضرت مسیح موعود کے فرزند رشید میاں محمود احمد صاحب سلمہ اللہ کی ایڈیٹری میں جاری ہوا ہے پھر اس وجہ سے کہ ایک دوسرے پر معاصرانہ ہمدردی و بہی خواہی کا حق ہے.ہم الفضل قادیان کا بڑی خوشی سے خیر مقدم کرتے ہیں.خدا اسے بارآور کرے.مختصر لفظوں میں اس کا مقصد دین و ملت اسلام کی خدمت ہے.چار نمبر بڑی محنت و قابلیت سے مرتب ہو کر نکل (پیغام صلح 12 جولائی 1913 ء ) چکے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ پیغام کا مندرجہ بالا نوٹ کسی مقبولیت کے وقت لکھا گیا تھا کیونکہ اخبار (82)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل الفضل اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب بار آور ہوا اور آج تمام دنیا میں پڑھا جانے کے لحاظ سے دنیا بھر کے اخباروں میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے.10 - اخبار پیغام ملح 1913ء میں لاہور سے پیغام صلح، سوسائٹی احمد یہ بلڈنگس نولکھا لا ہور کی طرف سے ایک اخبار پیغام صلح کے نام سے جاری ہوا.مشہور اہل قلم اور تجربہ کار اخبارنویس ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے.اشاعت کے وقت اس خبار کے اغراض و مقاصد امن کا قیام اور اعلائے کلمہ حق ہی تھا.مگر افسوس ہے کہ اس اخبار نے ایسا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے یہ جماعت میں اختلاف کا موجب ہوا.اور خود حضرت خلیفہ اسیح اول نے اس کی اس پالیسی پر اظہار افسوس فرماتے ہوئے اسے بجاطور پر پیغام جنگ کا نام دیا اور اسے پڑھنا ترک کردیا اور حضرت خلیفتہ امسیح اول کی وفات کے بعد تو اسے صدر انجمن سے کسی قسم کا تعلق نہ رہا اور یہ مخصوص خیالات کے ایک طبقہ یعنی غیر مبائعین کا مرکزی آرگن ہو گیا.Muslim India And Islamic Review.11 خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی نے 1913ء میں لندن سے ایک انگریزی رسالہ جاری کیا جس میں احمدیت کے ذکر سے اجتناب کیا جا تا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ عام اسلامی عقائد کے متعلق لکھ کر مسلمانوں سے مالی امداد حاصل کی جائے.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اخبار بدر خلافت اولیٰ کے آخری ایام میں بند ہو چکا تھا اس لئے آخر خلافت اولیٰ میں اخبارات و رسائل کی تعداد دس تھی ہندوستان کی اس وقت کی تعلیمی حالت اور خاص طور پر جماعت احمدیہ کی تعلیمی و اقتصادی حالت کے پیش نظر یہ تعداد بہت زیادہ ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح اول کی خلافت کے آخری سال مجلس معتمدین صدر انجمن (83)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل احمدیہ کے سامنے یہ تجویز پیش ہوئی کہ اخبارات کی کثرت سے جماعت کے چندوں پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے اس لئے اخباروں کی تعداد کم کر دینی چاہیے.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجلس معتمدین نے اس تجویز کو بایں وجہ مستر د کر دیا کہ اخبارات خریدنا احباب کی مرضی پر منحصر ہے.اگر کسی کے اخبار خریدنے سے چندہ پر اثر پڑتا ہو تو وہ اخبار نہ خریدے اور اس طرح سلسلہ کے یہ خادم بدستور اشاعت دین کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے رہے.بعض لوگوں نے اخبار پیغام صلح کو الفضل سے پہلے شائع ہونے والا اخبار قرار دیا ہے.حالانکہ الفضل پہلے شائع ہونا شروع ہوا.اور اس کا پہلا پرچہ 18 جون 1913 ء کو شائع ہوا اور پیغام صلح کا پہلا پرچہ 10 جولائی 1913ء کو شائع ہوا.جون 1913 ء کے ریویو آف ریلیجنز میں ہر دو اخبارات کے متعلق جو اعلان شائع ہوا تھا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ الفضل کی اشاعت کے وقت پیغام صلح کا صرف اعلان ہی ہوا تھا.پر چہ نکلنا شروع نہیں ہوا تھا.(84)
قدرت ثانیہ کا دور اول خلافت اُولیٰ اور دعوت الی اللہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت ورہنمائی کے کے لئے ارسال رسل کا طریق جاری فرمایا تا کہ ہر زمانہ میں خدا کا کوئی مقرب بندہ لوگوں کے سامنے نمونہ کی زندگی بسر کرے اور خدا تعالیٰ کے کلام سے رہنمائی حاصل کر کے لوگوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرے یعنی خدا شناسی کے وسائل سے آگاہ کرے جس کے مطابق لوگ اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.ابتدا میں انبیاء ایک ایک قوم یا علاقہ کی طرف بھیجے جاتے تھے کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر بیک وقت پیغام حق پہنچانا ممکن نہ تھا تا آنکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ کو یہ امتیاز بخشا گیا کہ آپ تمام دنیا کو ہدایت کی طرف بلائیں اور بلا استثناء ہر قوم اور ملک کے لوگوں کو خدائے قدوس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف بلائیں.چنانچہ آپ نے سرزمین عرب میں تبلیغ اسلام کر کے ہر طرح حجت تمام کر دی اور ساتھ ہی ساتھ ممالک عجم کو بھی خطوط اور قاصدوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے متبعین نے نہ صرف اس کام کو برابر جاری رکھا بلکہ اس حیرت انگیز طور پر ترقی کی کہ ایک نہایت قلیل مدت میں دنیا کی ہر قابل ذکر قوم تک پیغام پہنچا دیا.تجدید دین کے اس دور میں حضرت مسیح موعود کو بھی خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ساری دنیا کی ہدایت ورہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا تو آپ نے بھی اپنی قوم و ملک پر ہر طرح حجت قائم کر دی اور ساتھ ہی ساتھ اشتہاروں اور خطوط کے ذریعہ ممالک غیر میں بھی اشاعت دین حق کے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں زندگی بھر برابر کوشاں ہے.لندن مشن ہاؤس کا باقاعدہ افتتاح تو مکرم فتح محمد صاحب سیال نے کیا لیکن ابتد أخواجہ کمال الدین صاحب بمبئی کے کسی احمدی رئیس کے مقدمہ کے سلسلہ میں 7 ستمبر 1912ء کولندن تشریف لے گئے ( آئینہ صداقت ص 152 ).ہاں جیسے ہر احمدی ہمیشہ تبلیغ کرنا ضروری سمجھتا ہے خواجہ (85)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل صاحب نے بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ دین حق کی تبلیغ کو مدنظر رکھا.اگر موصوف مومنانہ جرأت و ہمت سے کام لیتے تو آپ کو پہلا بیرونی مبلغ احمدیت ہونے کا قابل رشک مقام حاصل ہوتا لیکن آپ نے حاکم قوم یعنی انگریزوں اور ان کی ظاہری شان و شوکت سے مرعوب ہوکر اسلام کے اصلی خوبصورت اور دیدہ زیب چہرہ کو چھپانے کی اور اسلام کو عیسائیت کے زیادہ سے زیادہ قریب ظاہر کرنے کی کوشش کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کو تو بالکل ہی فراموش کر دیا.گویا کہ اصل اور حقیقی اسلام کو چھوڑ کر اسلام کی مسخ شدہ صورت پیش کرنی شروع کی.لندن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب آپ کا کام بڑھ گیا تو آپ نے اپنے ایجنٹ شیخ نور احمد صاحب کولندن بلا لیا اور چونکہ آپ تبلیغ کے کام میں خاطر خواہ وقت نہ دے سکتے تھے اس لئے مرکز کو مبلغ بھجوانے کے لئے بھی لکھا ( حقیقت امر جاننے والوں کا خیال ہے کہ خواجہ صاحب مولوی محمد علی صاحب یا مولوی صدر الدین صاحب کو لندن بلانا چاہتے تھے ) چنانچہ شیخ نور احمد صاحب کے ساتھ 28 جون 1913ء کو مکرم الحاج چوہدری فتح محمد صاحب پہلے با قاعدہ مبلغ کی حیثیت سے لندن تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر تبلیغ احمدیت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.چونکہ خواجہ صاحب کی شہرت و مقبولیت کو ( بزعم خویش ) اس طرح نقصان پہنچے کا اندیشہ تھا اس لئے انہوں نے چوہدری صاحب کو تبلیغ کرنے سے روکا اور کہا کہ میں نے مرکز کو ایک خط لکھا ہے اس کا جواب آنے پر آپ اپنا کام شروع کریں.اسی دوران میں وہ عظیم الشان صاحب تدبر و حکمت انسان فوت ہو گیا جس کی وفات کا خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو انتظار تھا.کیونکہ اس کی زندگی میں ان کو کھل کھیلنے اور من مانی کرنے کا موقع نہ ملتا.حضرت لیفہ اول کی وفات پر خواجہ صاحب نے مرکز سے قطع تعلق کر لیا اور مکرم چوہدری صاحب نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق اپنا الگ مشن کھول کر خالص اور زندہ دین حق کی تبلیغ شروع کر دی اور خدا کے فضل سے اس وقت لندن میں صرف یہی ایک مشن ہے جو صحیح نظریات پیش کرتا ہے اور برابر ترقی بھی کر رہا ہے.( خلافت رابعہ سے تو خلیفہ وقت کے یہاں رونق افروز ہونے سے اس مشن کی اہمیت و مرکزیت میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا (86)
درت ثانیہ کا دور اول ہے.اللھم زدو بارک) خواجہ صاحب نے مذہبی کا نفرنس میں شرکت کی اور اسلام کے فضائل پر لیکچر دئے ان کوششوں کو ہندوستان کے غیر از جماعت حلقوں میں بہت سراہا گیا کیونکہ آپ کی تمام کوششیں عیسائیت اور اسلام کو ایک ہی رنگ میں پیش کرنے میں صرف ہوتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کا ذکر نہ ہوتا تھا.اسی وجہ سے مسلم لیگ کے جلسہ آگرہ 1913 میں ایڈیٹر صاحب الہلال نے تجویز پیش کی خواجہ صاحب کی مدد کے لئے ہم کو چندہ کرنا چاہیے.مذکورہ جلسے میں شرکت کے لئے مرکز کی طرف سے مولوی صدر الدین صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب آگرہ گئے تھے.(الحكم 31دسمبر 1913) مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے ہائیڈ پارک لندن میں ہر اتوار کو احمدیت کے متعلق لیکچروں کا ایک مفید سلسلہ جاری کیا جس سے بہت سی روحوں کو ہدایت نصیب ہوئی.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل مکاشفہ بھی ذہن میں آتا ہے جس کے ظہور کا آغاز تو اس زمانہ میں ہوا تا ہم تکمیل کے مراحل بعد میں طے ہوئے اور ابھی یہ سلسلہ روز افزوں ہے.میں نے دیکھا کہ شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شائد تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا.اور میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریر میں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.“ ( تذکرہ ص 186) خلافت اولی میں بلاد عربیہ میں دعوت الی اللہ شروع ہوئی جبکہ 26 جولائی 1913ء کو حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب حصول تعلیم کی غرض سے مصر تشریف لے گئے.شیخ صاحب تو جلد واپس آگئے لیکن مکرم شاہ صاحب مصر سے بیروت تشریف لے گئے اور حصول تعلیم کے بعد بیت المقدس میں سلطان صلاح الدین ایوبی کالج میں تاریخ ادیان کے لیکچرر (87)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل مقرر ہوئے.آپ نے سارا عرصہ دعوت الی اللہ جاری رکھی اور آپ کی کوششوں سے کئی افراد چشمہ ہدایت سے سیراب ہوئے چنانچہ الحاکم 11 مارچ 1914ء میں آپ کی تبلیغی مساعی کی ایک خبر شائع ہوئی کہ : آج شام سید ولی اللہ شاہ صاحب کا خط آیا ہے کہ ایک عرب کنبہ ان کی تبلیغ سے احمدی ہو گیا ہے فالحمد لل ثم الحمدللہ ثم الحمد للہ.سید عبدالغنی صاحب عرب جو اپنے دو بچوں اور بیوی سمیت احمدی ہوئے ہیں ان کا بیعت کا خط بھی موصول ہو گیا ہے.“ (الحکم 11 مارچ1914 ء ) خلافت اُولیٰ میں بلاد اسلامیہ میں دعوت الی اللہ کا ایک اور موقع پیدا ہوا یعنی مکرم فرزند علی خان صاحب ( اپنے والد صاحب کی معیت میں ) فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے 30 اگست 1913 ء کو قادیان سے تشریف لے گئے اور سارے سفر میں احمدیت کا پیغام دیتے رہے اور فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اشاعت دین کرتے ہوئے دسمبر 1913ء میں واپس قادیان پہنچ گئے.اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا چاروں اصحاب یعنی (1) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال (2) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (3) شیخ عبدالرحمن صاحب (4) حضرت خان فرزند علی خان صاحب انجمن انصار اللہ ( جس کا مفصل ذکر آئندہ آئے گا) کے ممبر تھے اور یہ انجمن کی تنظیم کا ہی اثر تھا کہ یہ اصحاب دعوت الی اللہ کہ یہ اصحاب دعوت الی اللہ کے شرف سے مشرف ہوئے صدر مجلس انصار اللہ صاحبزادہ محمود احمد ( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ) ان مجاہدوں کو قادیان سے روانگی کے وقت ہدایات و نصائح کے علاوہ اپنی دعاؤں سے روانہ فرماتے اور دور تک بطور مشایعت تشریف لے جاتے.بیرونی ممالک میں ان تبلیغی کوششوں کے علاوہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز اس تمام عرصہ میں نہایت عمدہ خدمات سرانجام دیتارہا اور اسلامی اصول کی فلاسفی کے انگریزی ترجمہ نے بہت مفید اثر کیا اور دنیا بھر کے اہل الرائے اصحاب نے اس کتاب کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور قریباً ہر (88)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل متمدن ملک کے قابل ذکر اخبار نے اس کتاب پر عمدہ نوٹ لکھے ان اخباروں میں سے چند ایک کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں : اخبار تاریخ 1.تھیوسافیکل بک نوٹس مارچ 1912 2.انڈین سپیکٹیٹر 28 اکتوبر 1911ء 3 انگلش میل 27 اکتوبر 1911ء 4.انڈین ریویوز نومبر 1911ء 5- دی سپر چوٹل جرنل اپریل 1912ء 6- ملواڈ کی جرنل (امریکہ) 18 مارچ 1912ء 7.دی ڈیلی نیوز (شکا گو) مارچ 1912ء 8 برسٹل ٹائمز اینڈ مرر جنوری 1912 ء و مسلم ریویو ( الہ آباد) دسمبر 1911ء (ماخوذ از رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ 1912 ء) اسی طرح سعید روحیں کشاں کشاں اس چشمہ عرفان سے فیضیاب ہونے لگیں چنانچہ راس اتین سے خلیفہ اسیح اول کے نام ڈیڑھ صد آدمیوں کی بیعت کا خط آیا (احکام 17 اکتوبر 1908 ء ) اور اخوۃ الاسلام سوسائٹی ماریشس کے ایک اخبار نے ایک عظیم الشان کامیابی“ کے عنوان سے احمدیت کا تذکرہ بہت موزوں اور مناسب الفاظ میں کرتے ہوئے جماعت کی تبلیغی خدمات کو بہت سراہا.اسی طرح ہندوستان کے ایک اخبار شمشیر قلم نے لکھا کہ: احمدی جماعت نے یورپ میں کارنمایاں شروع کر دئے ہیں فی الواقعہ جماعت مذکور قابل تحسین ہے جس نے اس ضروری کام کو شروع کر دیا ہے جو ایک صدی سے کھٹائی میں پڑا ہوا تھا.“ ( بحوالہ الفضل 24 اگست 1913ء) (89)
تدرت ثانیہ کا دور اول ہندوستان میں بھی دعوت الی اللہ کا کام پورے انہماک اور جوش سے ہورہا تھا احمدی اخبارات و رسائل جن کی تفصیل دوسری جگہ درج ہے نہایت عمدگی اور خوش اسلوبی سے یہ فرض ادا کر رہے تھے مکرم میر قاسم علی صاحب احمدی اور الحق کی ادارت کے ساتھ ساتھ آریہ سماج کے خیالات فاسدہ کے بطلان کے لئے ایک انجمن بنام دیا ندمت کھنڈن سجھا پایہ تخت ہندوستان میں قائم کئے ہوئے تھے.اور تمام بڑے بڑے شہروں میں بحث مباحثہ کا بازار گرم تھا حضرت خلیفتہ المسیح اول اس امر کی نگرانی فرماتے تھے اور جہاں ضرورت ہوتی مرکز سے علماء بھجوائے جاتے مثلاً دسمبر 1909ء کولاہور میں آریہ سماج نے اپنا سالانہ جلسہ کیا اس جلسہ کے بعد عیسائیوں نے بھی لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور ان میں اسلام پر بھی اعتراضات کئے حضرت خلیفہ اول نے یہ اطلاع ملتے ہی ایک اعلان شائع کروایا کہ ان لیکچروں کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے 29 دسمبر سے یکم جنوری تک لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے گا.چنانچہ پروگرام کے مطابق احمد یہ بلڈنگس لاہور میں مذکورہ بالا لیکچر کامیابی کے ساتھ ہوئے.اشاعت دین کو وسیع تر کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے پمفلٹ بھی مفت تقسیم کئے جاتے یہ شاندار کام لدھیانہ کے ایک مخلص احمدی کی تحریک پر جاری ہوا جنہوں نے خود اس مد میں 1000 رو پید یا اور صدر انجمن کی نگرانی میں یہ مفید سلسلہ چلتا رہا.خلافت اولیٰ میں مشرقی بنگال کے ایک مشہور عالم سید عبدالواحد صاحب ( برہمن بڑیہ ) قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اسیح اول کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے.بنگال سے قادیان آتے ہوئے آپ نے رستہ میں ہندوستان بھر کے ممتاز علماء سے احمدیت کے متعلق تبادلہ خیال کیا لیکن آپ کے سوالوں کا کوئی عالم بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا.خصوصاً وفات مسیح کے مسئلہ پر آپ نے تمام مشاہیر علماء کو بالکل ساکت وصامت کر دیا ( آپ کے یہ دلچسپ حالات ایک الگ رسالے میں شائع شدہ موجود ہیں ) آپ کی وجاہت علمیت اور اثر کی وجہ سے بنگال کے سینکڑوں افراد احمدیت میں داخل ہوئے.(90)
قدرت ثانیہ کا دور اول ( مولوی عبد الواحد صاحب حضرت مسیح موعود کے زمانے سے احمدیت سے متاثر تھے.آپ کے بعض سوالات کے جواب حضرت مسیح موعود نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں دیئے ہیں اور آپ کی علمیت کی تعریف فرمائی ہے) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ امسیح الثانی ) نے 1909ء کے آخر میں ایک مجلس انجمن ارشاد قرآن مجید کی حقانیت و صداقت کے اظہار کے لئے قائم فرمائی اور 1911ء میں انجمن انصار اللہ دعوت الی اللہ کی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لئے قائم فرمائی.اس کے علاوہ خود حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے ممالک عربیہ، دہلی، فیروز پور ،لکھنو، بمبئی، کراچی ، کانپور، دیو بند، شاہجہانپور، رامپور سہارنپور، شملہ لاہور چکوال، کشمیر کا ٹھ گڑھ ، قصور اور بٹالہ کے سفر اختیار کئے اور خوب دعوت دین کی قریباً ہر جگہ آپ نے کامیاب جلسے بھی کئے اس کے علاوہ جماعت کے دوسرے سر کردہ اور ممتاز علماء مثلاً شیخ غلام احمد صاحب واعظ، حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری.حضرت میر محمد اسحاق صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت سردار محمد یوسف صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی صدر الدین صاحب وغیرہ نے ہندوستان بھر کے بڑے بڑے شہروں میں دورے کئے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کیا.انجمن انصار الله انجمن انصار اللہ کی تبلیغی اہمیت اور اس پوزیشن کی وجہ سے جو اسے جماعت میں حاصل تھی.نیز خلافت اولیٰ کے آخری ایام میں اس انجمن نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی قیادت میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں تو آپ سے عناد رکھنے والوں نے اس مجلس کی کارگزاریوں پر سخت نکتہ چینی کی اور اس کے مخلصانہ اور بے غرضانہ کارناموں کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھا.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس انجمن کے جملہ کوائف تفصیل سے تحریر کئے جائیں.(91)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل انجمن کا قیام :- حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفہ ثانی) نے فروری 1911ء میں مندرجہ ذیل رویاء دیکھا: چند دنوں کا ذکر ہے کہ صبح کے قریب میں نے دیکھا کہ ایک بڑاصل ہے اور اس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں.اور اس محل کے پاس ایک میدان ہے اور اس میں ہزاروں آدمی پتھیر وں کا کام کر رہے ہیں اور بڑی سرعت سے اینٹیں پاتھتے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیسا مکان ہے؟ اور یہ کون لوگ ہیں؟ اور اس مکان کو کیوں گرا رہے ہیں تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمد یہ ہے اس کا ایک حصہ اس لئے گرا رہے ہیں تا پرانی اینٹیں خارج کی جائیں (اللہ رحم کرے) اور کچی اینٹیں پکی کی جائیں.اور یہ لوگ اینٹیں اس لئے پاتھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایا جائے اور وسیع کیا جائے ( یہ ایک عجیب بات تھی کہ سب ہتھیروں کا منہ مشرق کی طرف تھا) (الحکم 28/21 فروری 1911ء ) صاحبزادہ صاحب نے یہ دیکھتے ہوئے کہ احمدیت کی ترقی کا کام فرشتے کر رہے ہیں یہ چاہا کہ احمدی بھی قدسی صفات بن کر اس کام میں شریک ہوں اور دعوت الی اللہ کی طرف خاص توجہ دیں تا کہ یہ کام جو ہمارا ہی ہے جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے اور اسی غرض کے لئے آپ نے انجمن انصار اللہ " قائم کی چنانچہ آپ فرماتے ہیں: وو دوسری تحریک اللہ نے میرے دل میں ڈالی ہے کہ ایک انجمن قائم کی جائے جس کے ممبران خصوصیت سے قرآن وحدیث اور سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کی طرف توجہ رکھیں اور افراد جماعت میں صلح اور آشتی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ممبران دنیاوی کام کرتے ہوئے بھی اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دیں.“ ( الحکم 21 / 28 فروری 1911 ء ) یہ انجمن ہمبروں کی شمولیت کی بعض شرائط کی وجہ سے دنیا بھر کی انجمنوں سے ممتاز اور نمایاں ہے مثلاً حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس انجمن میں شمولیت کی ایک یہ شرط رکھی تھی کہ (92)
وو مدرت ثانیہ کا دور اول لیکن چونکہ یہ بڑا عظیم الشان کام ہے اس لئے (میں) یہ شرط لگانی پسند کرتا ہوں کہ جس نے اس کام میں حصہ لینا ہو وہ پہلے سات دفعہ استخارہ کرے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کے کام کا ذمہ دار ہو جائے...میں نے بھی اس اعلان سے پہلے کئی دفعہ استخارہ کیا ہے اور نہ صرف خود ہی کیا بلکہ کئی ایک نیک اور صالح دوستوں سے بھی استخارہ کروایا اور کئی دوستوں و اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لئے بشارات بھی ہو ئیں تب جا کر یہ کام میں نے شروع کیا ہے اور استخارہ وغیرہ کرنے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح سے اجازت بھی لی ہے.“ (الحکم 21/28 فروری 1911 ء) دعا، استخارہ اور حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے تبلیغ دین حقہ میں وسعت اور باقاعدگی کے لئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک عظیم الشان قدم اُٹھایا یعنی انجمن انصار اللہ کی بنیا د رکھی جس کا نام اپنے کار ہائے نمایاں اور دینی خدمات کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا.اس مجلس کے قواعد وضوابط پر نظر ڈالنے سے بھی اس تنظیم کی غرض و غایت معلوم ہو جاتی ہے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قواعد بھی اس جگہ تحریر کر دیئے جائیں تا کہ تاریخی طور پر محفوظ ہو جائیں اور سلسلہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس تنظیم کی غرض وغایت سے مطلع ہو سکے.قواعد و ضوابط انحمن انصار الله :- (1) ہر ممبر کا فرض ہو گا کہ حتی الوسع ( دعوت الی اللہ ) کے کام میں لگار ہے اور جب موقع ملے اس کام میں اپنا وقت صرف کریں (2) ہر ممبر قرآن شریف اور احادیث پڑھنے پڑھانے میں کوشاں رہے.(3) ہر مبر جماعت کے افراد میں صلح و اتحاد کی کوشش میں مصروف رہے اور جھگڑے کی صورت میں خود فیصلہ کریں ورنہ حضرت خلیفہ اسیح سے رہنمائی حاصل کریں.(4) ہر قسم کی بدظنیوں سے بچے جو اتحاد و اتفاق کو کاٹتی ہیں.(93)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل (5) ہر ماہ کے آخر میں اپنے کام کی رپورٹ دے.(6) اس انجمن کے ممبر رشتہ اتحاد و اخوت کو پختہ کرنے میں ہر ممکن ذرائع بروئے کارلائیں.(7) تسبیح تجمید اور درود شریف بکثرت پڑھیں.(8) حضرت خلیفہ امسیح کی فرمانبرداری کا خیال رکھیں.(9) پنجوقتہ نمازوں میں پابندی کے علاوہ نوافل ،صدقہ اور روزہ کی طرف بھی توجہ رکھیں.جو صاحب استخارہ مقررہ کے بعد ممبر ہونا چاہیں مجھے اطلاع دیں تا کہ ان کا نام درج کیا جائے و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.اعلان از حضرت مرزا محمود احمد صاحب متعنا الله بطول حياته) (الحکم 21/28 فروری 1911ء وبدر 23 فروری 1911 ص 2 کالم 3) انجمن کے ابتدائی ممبروں میں سے بعض بزرگوں کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں : 1.حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب 2.حضرت حافظ روشن علی صاحب 3- حضرت منشی الہ دین صاحب گوجرانوالہ 4.حضرت فرزند علی خان صاحب 5- حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.6.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال حضرت خلیفہ اول نے اس انجمن کے متعلق محولہ بالا اشتہار کو پڑھ کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوں.“ ( بدر 9 مارچ 1911 ) حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں قریباً تمام تبلیغی سرگرمیاں اسی انجمن کی رہین منت ہیں.خلافت اولیٰ کے آخری ایام میں کسی منافق نے اظہار حق‘ نام سے دوٹریکٹ شائع کئے تو ان کا جواب (94)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل دینے کے لئے حضرت خلیفہ اول نے اسی انجمن کو مقررفرمایا چنانچہ اظہار حقیقت اور خلافت احمد یہ دو ٹریکٹ اس مجلس کے زیر اہتمام شائع ہوئے جن میں اول الذکر ہر دوسریکٹوں کی حقیقت بے نقاب کی گئی تھی.بیرون ہند جانے والے تمام داعیان الی اللہ بھی اسی مجلس سے تعلق رکھتے تھے اور مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے یورپ کے سفر کے اخراجات کا اکثر حصہ اس مجلس نے برداشت کیا تھا.مجلس کے اغراض و مقاصد.دعا ، استخارہ ، بشارات، دینی خدمات اور حضرت خلیفہ اول کا ارشاد کہ ” میں بھی تمہارے انصار میں شامل ہوں.“ پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ اس مجلس نے خلاف خلافت و احمدیت کسی سرگرمی میں حصہ لیا ہوگا خود اس مجلس کے بعض ایسے ممبروں نے جو دوسرے فریق سے تھے اعلان کیا کہ اس مجلس نے کبھی کسی رنگ میں مرزا محمود صاحب کی خلافت کے لئے پروپیگنڈہ نہیں کیا.(95)
قدرت ثانیہ کا دور اول متفرق اہم واقعات 1 - مدرسہ احمدیہ جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض و غایت اس تعلیم کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس کی تکمیل اشاعت، حضرت مسیح موعود کا فرض منصبی قرار دیا گیا.آپ نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے تن تنہا اس کام کا افتتاح فرما یا بعد میں آپ کو چند معاون بھی مل گئے جن میں حضرت مولوی نور الدین، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں.1905ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت مولا نا برہان الدین جہلمی کی وفات پر حضرت مسیح موعود کو خیال پیدا ہوا کہ ایسے علماء کے جانشین پیدا کرنے کے لئے جماعت میں ایک مدرسہ ہونا چاہیے جو خالص دینی تعلیم دے تاکہ دعوت الی اللہ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے چنانچہ 1905 ء کے جلسہ سالانہ میں آپ نے اس ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نہایت پر اثر تقریر فرمائی اور تمام جماعت کے اتفاق و تائید سے ابتدأ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ دینیات کلاس کا اضافہ کر دیا گیا.حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں دینی تعلیم کی ضرورت کو باحسن طریق پورا کرنے کے لئے ایک الگ اور باقاعدہ مدرسہ جاری کر دیا گیا.اس جگہ یہ امر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ اس مدرسہ کی ابتدا سخت مخالف حالات میں ہوئی یعنی 1908ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر زعماء احمدیت میں سے بعض نے دینی تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اس مدرسہ کو بند کرنے کی کوشش کی.ہمارے اولوالعزم قائد حضرت محمود نے غیر معمولی تدبر و دور اندیشی سے اس فیصلہ کے مضرات کو بھانپ لیا اور اس وقت جبکہ قریب تھا کہ جماعت کی روحانی وعلمی ترقی کے ذریعہ کو بند کرنے کا فیصلہ کر (96)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل دیا جائے آپ نے ایک موثر اور دل ہلا دینے والا لیکچر دیا اور تمام حاضرین مجلس کو مدرسہ احمدیہ کی افادیت کا قائل کر دیا حتی کہ خود اس مخالف تحریک کے محرک بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ”ہمارا بھی یہی منشاء تھا.چنانچہ مجلس معتمدین نے حسب ریزولیشن ( 31/705اکتوبر ) یکم مارچ 1909ء سے مدرسہ احمدیہ کے باقاعدہ اجرا کی منظوری دے دی اور اس کے ابتدائی انتظامات طے کرنے کے لئے ماہرین تعلیم کی ایک کمیٹی مقرر کی جس کے ممبر مندرجہ ذیل تھے : 1 - حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب 2 حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب -3 حضرت قاضی امیر حسین صاحب -4- حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اس کمیٹی نے 80 شقوں پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ پیش کی جس میں مدرسہ کے سٹاف اور نصاب کے متعلق تجاویز تھیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب کی تحریک پر اس سکول کا نام ”مدرسہ احمدیہ تجویز ہوا.حضرت خلیفہ اول نے اس مدرسہ کی لائبریری کے لئے اپنے ذاتی کتب خانہ سے بہت سی کتب مرحمت فرما ئیں.نیز انجمن تفخیذ الاذہان نے بھی اپنی لائبریری مدرسہ احمدیہ کے لئے وقف کر دی.مدرسہ احمدیہ کے انتظام کو بہتر کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اول نے ہندوستان کی تمام مشہور دینی درسگاہوں کے معائنہ کی تجویز فرمائی اور اس مقصد کے لئے 3 اپریل 1912ء کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی، حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت قاضی سیدامیرحسین صاحب اور مکرم عبدالحی صاحب فاضل عرب کو قادیان سے روانہ کیا.اس وفد کی روانگی کے وقت آپ نے مندرجہ ذیل اہم اور قیمتی نصائح فرمائیں: میں میاں صاحب کو تم پر امیر مقرر کرتا ہوں کوئی سفر بدوں امیر جائز نہیں اس لئے میاں صاحب کو تمہارا امیر مقرر کیا ہے.میاں صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ تقویٰ اللہ (97)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اور چشم پوشی سے عموماً کام لیں.بہت دعائیں کریں جناب الہی میں گر جانے سے بڑے بڑے برکات اترتے ہیں.اور آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی کام ان کی اجازت کے بدوں نہ کریں.علم کا گھمنڈ کوئی نہ کرے میں نے بھی علوم پڑھے ہیں میں بعض وقت کوئی لفظ بھول بھی جاتا ہوں مگر خدا کے فضل سے خوب سمجھتا ہوں.بہت پڑھایا بھی ہے اور پڑھاتا بھی ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ محض علوم کچھ چیز نہیں علم آن بود که نور فراست رفیق اوست...دعاؤں سے کام لو اب تم سب میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دو میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.پھر بھی دعا کروں گا اللہ تعالیٰ نے موقعہ دیا ( تو ).( الحكم 14 مارچ 1912 ء ) اس وفد نے دار العلوم ندوہ، علماء فرنگی محلی کے مدارس، مدرسہ جامع العلوم، مدرسہ الہیات کا نپور، رام پور کے مدرسہ حسن بخش ، مدرسه عبد الرب، مدرسه امینیه، مدرسه فتح پوری، مدرسہ عالیہ دیوبند اور گر و کل کانگڑی کے مدرسہ اور کالج کا معائنہ کیا اور 29 اپریل 1912ء کوکلمہ الحکمۃ ضالتۃ المومن کے مطابق متعدد مفید تجربات حاصل کر کے قادیان پہنچا.اس مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مقرر ہوئے جنہوں نے نہایت محنت اور جانفشانی سے اس مدرسہ کا باحسن انتظام فرمایا.آپ مدرسہ کے انتظام میں گہری دلچسپی لیتے اور طلبہ کی تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ پیدا کرنے میں بھی ہر دم ساعی رہتے تھے.نیز اس مدرسہ نے جماعت کی تعلیمی ، تربیتی اور تبلیغی خدمات میں گراں قدر تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں اور ترقی کی شاندار منازل طے کی ہیں.(98)
مقدرت ثانیہ کا دو راؤل 2- حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثانی ) کا سفر حج حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں دعوت الی اللہ کے مواقع کے حصول میں سے ایک اہم واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب کا سفر حج ہے کیونکہ اس سفر سے احمدیت کا تعارف قریب تمام بلا داسلامیہ میں ہو گیا.آپ 1912ء کے آخر میں حضرت اماں جان اور حضرت خلیفہ اول کی اجازت و منشاء سے مصر کے سفر کے لئے روانہ ہوئے.مجوزہ پروگرام کے مطابق یکم اکتوبر کو آپ نے بمبئی سے سوار ہونا تھا لیکن مسافروں کی کثرت کی وجہ سے آپ کیکم اکتوبر کو جہاز پر سوار نہ ہو سکے بلکہ 16اکتوبرکو بمشکل جہاز پر جگہ مل سکی.دیار حبیب کے قرب اور موسم حج کی آمد نے آپ کو سفر مصر کے خیال سے ہٹا کر حج کے لئے آمادہ کر دیا.چنانچہ 7 نومبر 1912ء کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے اس مبارک سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت میر ناصر نواب صاحب اور مکرم عبدالحی صاحب عرب تھے.زیارت مقامات مقدسہ اور فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد آپ 25 دسمبر 12ء کو "منصورہ “ نامی جہاز پر سوار ہو کر 6 جنوری 1913ء کو شام کے وقت بمبئی تشریف لائے جہاں آپ کے استقبال کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی پہلے سے بصد اشتیاق موجود تھے.10 جنوری کو آپ بمبئی سے سوار ہو کر 12 جنوری کو لاہور پہنچے اس جگہ بھی آپ کے استقبال کے لئے حضرت محمود احمد عرفانی، حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ عبد الرحمان صاحب قادیان سے آئے ہوئے تھے.حضرت اماں جان آپ کے استقبال کے لئے بٹالہ تک تشریف لے گئیں.13 تاریخ کی صبح اپنے اندرشان اور عظمت لئے ہوئے طلوع ہوئی.حضرت خلیفہ اول کی خوشی و مسرت آپ کے چہرہ اور بات چیت بلکہ ہر حرکت سے نمایاں ہوتی تھی.اُسی خوشی میں آپ نے قادیان کے تمام سکولوں میں تعطیل کر دی اور باوجود ضعف اور کمزوری اور زیادہ چلنے پھرنے کی عادت نہ ہونے کے آپ اس عظیم الشان حاجی کے استقبال کے لئے قریباً نہر تک تشریف لے (99)
قدرت ثانیہ کا دور اول گئے ( قادیان سے قریباً 3 میل ) آپ کے ہمراہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور قادیان کی اکثر آبادی بھی استقبال کے لئے قادیان سے باہر گئی.آپ کا یہ سفر دعوت الی اللہ کا ایک عمدہ موقع ثابت ہوا کیونکہ قریباً ہر جگہ آپ نے دعوت الی اللہ کا حق ادا کیا.14 جنوری کو گیارہ بجے کے قریب "مدرسہ احمدیہ کی طرف سے آپ کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ دعوت ترتیب دی گئی.-3- ترجمه قرآن مجید حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں خدمت قرآن نمایاں نظر آتی ہے.چنانچہ آپ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید میری روح کی غذا اور اطمینان و تسلی کا موجب ہے.اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا.(میری) سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ قرآن مجید عملی طور پر کل دنیا کا دستور العمل ہو اور اپنی اولاد کے لئے جو خواہش ہے وہ اس سے باہر نہیں جاتی کہ قرآن شریف کا فہم، اس پر عمل، اس کی خدمت ہو.“ (الحکم 7-14 جولائی 1911ء) اور آپ نے اپنی ساری زندگی اس خواہش کی تکمیل میں صرف کر دی اور جماعت میں قرآن مجید کی تلاوت و ترجمہ کا شوق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ علمی طبقہ میں روح پر ور تفسیر قرآن بیان فرمائی اور انگریزی دان اصحاب کے لئے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کروادیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ نے حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب کو قرآن مجید کا اردو تر جمہ وتفسیر لکھنے پر مامور فرمایا.مولوی صاحب موصوف نے پانچ پاروں کی تفسیر کر کے اس عظیم کام کی بنیاد رکھ دی.اس کے علاوہ آپ نے انگریزی ترجمہ قرآن کا حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان یعنی انگریزی میں ترجمہ کا مطلب تمام دنیا کو قرآن کریم کی حقانیت وصداقت سے آگاہ کرنا تھا.(100)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل آپ نے اس کام کے لیے مولوی محمد علی صاحب کو ( جوصدرانجمن کے سیکریٹری اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر تھے ) مقررفرمایا اور ان کو اس کام کے لئے پوری سہولتیں مہیا کیں اور خودشب و روز ترجمہ اور نوٹ لکھواتے رہے اور اس کام میں اپنی صحت اور کمزوری کا بھی مطلق خیال نہ کیا.بالآخر یہ کام حضرت خلیفہ اول کی وفات حسرت آیات سے صرف تین دن قبل مکمل ہوا اور اس موقع پر آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مبارک باد دی گئی کہ خلیفہ مسیح کوقرآن کریم ختم کرنا مبارک ہوئے ( عسل مصفی جلد نمبر (2) 4.بعض نشانات کا پورا ہونا پیشگوئیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے سنت چلی آرہی ہے کہ اکثر پیشگوئیاں اور الہام خود مامور کے زمانہ میں پورے ہو جاتے ہیں لیکن بعض پیشگوئیاں اس کی وفات کے بعد اس کے کسی جانشین یا اولا د سے پوری ہوتی ہیں تاکہ بعد میں آنے والوں کے ایمان کی تازگی کا سامان مہیا ہوتار ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کی اکثر پیشگوئیاں شان و شوکت سے آپ کے زمانہ میں پوری ہوئیں اور بعض پیشگوئیاں اور الہامات مذکورہ بالا قدیمی سنت اور حضرت مسیح موعود کے ارشاد ثم يسافر المسيح الموعوداو خليفة من خلفائه الى ارض دمشق ( یعنی پھر مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ملک شام کی طرف جائے گا) (حمامۃ البشری روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 225) کے مطابق حضرت خلیفہ اول کے عہد مبارک میں پوری ہوئیں مثلاً ۱ تزلزل در ایوان کسرای فتاد: - ( تذکره ص 503) فروری 1909ء میں تمام جنوبی ایران نے بغاوت کر دی اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا.شاہ ایران کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور حکومت کے حامی تبریز سے جان بچا کر بھاگنے لگے اور اس طرح مندرجہ عنوان پیشگوئی ایک بار پھر پوری ہوئی.۱۱ زلزله در گور نظامی فگند ( تذکره ص(632) (101)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل حضرت اقدس کا الہام تھا زلزلہ در گور نظامی فگند ، نیز ہندوستان اور پنجاب میں وبائے تپ پھیلے گی.چنانچہ اس وبا سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل ہوئے اور اس نے خصوصاً امرتسر میں بہت تباہی مچائی.ستمبر 1909 میں مملکت نظام (حیدرآباد ) ایک ہولناک سیلاب کی لپیٹ میں آ گئی جس سے ہزاروں جانیں تلف ہوئیں.111 ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت ( تذکرہ ص (429) ستمبر 1910ء میں جاپان نے کوریا کی آزادی و خود مختاری کو غصب کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح حضرت مسیح موعود کی مذکورہ پیشگوئی آب و تاب سے پوری ہوئی کیونکہ جاپان ایک نا قابل ذکر اور معمولی سی حکومت طاقت اختیار کر کے مشرقی طاقت“ کا مصداق بنی اور پھر اس کی وجہ سے کوریا کی حالت نازک ہوگئی یعنی اس کی آزادی و خود مختاری چھن گئی.۱۷- حضرت نعمت اللہ ولی اللہ کی مشہور پیشگوئی درباره حضرت مسیح موعود اور مصلح موعود کا ایک حصہ یعنی ترک عیا رست می نگرم نشانی آسمانی روحانی خزائن جلد 4 ص 360) جس کی تشریح حضرت مسیح موعود نے یوں فرمائی ہے کہ: اس شعر کے صحیح معنی یہ ہیں کہ اس مسیح کے ظہور کے بعد ترکی سلطنت کچھ ست ہو جائے گی...حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں پوری ہوئی کیونکہ یمن کے لوگوں نے ترکی حکومت کا جوا اُتار پھینکا اور اپنی خود مختار حکومت قائم کرنے کے درپئے ہو گئے.نجد کے امیر نے بھی ترکوں سے بغاوت کر دی اور کویت کا امیر بھی خود مختار ہو گیا اور اس طرح ترک عیار یورپ کا مرد بیمار بن گیا..حضرت اقدس کا الہام ” پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ کم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی.(تذکرہ : 508) (102)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل لارڈ کرزن نے اکتوبر 1905ء میں بعض سیاسی مصالح کی خاطر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جس پر ہندو بنگالیوں نے خصوصاً اور تمام باشندگان صوبہ نے عموماً بہت بُرا منایا لیکن باوجود ہر قسم کے احتجاج کے اس کو قائم رکھا گیا.12 دسمبر 1911 کو جارج پنجم نے لندن سے آکر تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان کیا اور برٹش حکومت کا پایہ تخت دہلی منتقل کر دیا.١ ٧ - غلبت الروم فى ادنى الا رْضِ وَ هُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمُ سَيَغْلِبُون في بضع سنين ترجمہ:.رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہو گئے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد ہی غالب ہوجائیں گے.ترک اس زمین میں جو ان سے ملحق ہے مغلوب ہوں گے اور پھر چند سالوں میں اپنے دشمن پر غالب آویں گے.اس پیشگوئی کے دونوں حصے پورے ہوئے.جنگ بلقان میں ترکی کو شکست ہوئی پھر مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں ترک شاہراہ ترقی پر گامزن ہوئے.22 جولائی 1913 کو ترکوں کی فوج فاتحانہ شان سے اڈریا نوپل میں داخل ہوئی.حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں ( تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 114) چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ترکی میں ایک خونی انقلاب آیا جس کے نتیجہ میں سلطان عبد الحمید خان معزول کر دئے گئے.(تشخیز الاذہان مئی 1909 ) ||V - حضرت مسیح موعود کا کشف کہ ”مولوی نور الدین صاحب گھوڑے پر سوار ہوئے ہیں اور گر گئے ہیں.(تذکرہ صفحہ 671) 18 نومبر 1910ء کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی سے شہر کو آتے ہوئے حضرت قاضی امیر حسین اور حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکانات کے سامنے گر کر پورا ہوا جس میں (103)
آپ کو پیشانی پر گہرا زخم آیا.قدرت ثانیہ کا دور اول 5- مردم شماری :- 18 جولائی 1908ء کو حضرت خلیفہ اول نے جماعت کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لئے مردم شماری کی تجویز فرمائی چنانچہ مذکورہ تاریخ کو احکام میں اعلان ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ارادہ کیا ہے کہ تمام جماعت کے نام اور پورے پتے معلوم ہونے کی وجہ سے وہ ضروری امور جو وقتاً فوقتاً قادیان سے قومی معاملات کی نسبت شائع ہوتے ہیں ان سے حتی الوسع تمام قوم کو اطلاع پہنچانے کا انتظام ہو سکے.لہذا تمام احباب کی خدمت میں گذارش ہے کہ جنہوں نے حضرت خلیفۃ اسی کے ہاتھ پر بیعت کی خوا تحر یر یا خود قادیان میں حاضر ہوکر وہ تمام احباب اپنے نام مع پورے پتہ کے حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں ارسال کر دیں..6- اعتکاف و درس قرآن :- (احکم 18 جولائی 1908ء) رمضان شریف میں تمام قرآن مجید کے درس کی نیک اور مبارک سنت حضرت خلیفہ المسیح اول کی قائم کردہ ہے بلکہ آپ نے 1908ء کے رمضان شریف کے آخری عشرہ میں روزانہ تین پارے درس قرآن دیا اور ایک غیر معمولی ہمت و طاقت کا ثبوت دیا.اس سال آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ محمود بھی معتکف تھے.7- امتحان کتب مسیح موعود علیه السلام حضرت خلیفہ اول نے 1908ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر سلسلہ کی واقفیت پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل کتب کے امتحان کا اعلان کیا: 1 - آئینہ کمالات اسلام 2 سرمه چشم آریہ (104)
3- چشمه معرفت 4- جنگ مقدس درت ثانیہ کا دور اول ابتدائیہ تجویز حضرت مسیح موعود نے پیش فرمائی تھی پھر جماعت میں یہ طریق ہمیشہ جاری رہا.8- نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی جولائی 1908ء میں قادیان کو رقبہ مشتہر یعنی نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی قرار دے دیا گیا اور اس کے ممبروں کا پہلا اجلاس 21 جولائی 1908 ء کو ملک قادر بخش صاحب تحصیلدار بٹالہ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں (1) مولوی محمد علی صاحب ایم اے (2) لالہ شرمپت رائے صاحب (3) مرزا نظام الدین صاحب ممبر مقرر ہوئے.-9 لعط تطیل جمعه جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جمعہ جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی میں سہولت و با قاعدگی کی خاطر گورنمنٹ سے جمعہ کے سارے دن یا نصف دن کی چھٹی منظور کرنے کی درخواست کی تھی اور پھر علماء کے یہ کہنے پر یہ کام ہم سرانجام دیں گے آپ نے اس کام سے دست کشی کر لی تھی.لیکن ان علماء نے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی.حضرت خلیفہ اول نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس تحریک کا احیاء کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اعلان فرمایا: وو جمعہ کے دن نماز جمعہ کے وقت یا تو سب دفاتر ، عدالتیں ، سکول ، کالج وغیرہ دو گھنٹے کے لئے بند ہو جائیں یا کم از کم اتنی دیر مسلمان ملازمین اور مسلمان طلباء کو اجازت ہو کہ وہ نماز جمعہ ادا کر لیں.اس کے متعلق جملہ دفاتر اور جملہ محکموں میں گورنمنٹ کی طرف سے سرکلر ہو جائے.“ مندرجہ بالا میمورنڈم گورنمنٹ کو بھجوانے سے قبل مشتہر کیا گیا تا کہ مسلمانوں کی تمام انجمنیں اور (105)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل اخبار اس کی تائید میں ریزولیشن پاس کریں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ اگر کوئی فرقہ یا انجمن اس تحریک کو چلانے سے اس لئے پس و پیش کرے کہ اس کے محرک احمدی ہیں تو ہم اس تجویز سے دستبردار ہو جائیں گے بشرطیکہ اس فریق کی طرف سے کسی معقول انتظام کرنے کی ضمانت دی جائے.گورنمنٹ نے بھی اس مبارک تجویز کو معقول سمجھتے ہوئے منظور کر لیا اور سلسلہ کے مخالفوں نے بھی حضور کی اس قومی خدمت کو سراہا چنانچہ اخبار الہلال نے لکھا کہ: اس اشتد ترین شکایت اسلامی پر سب سے پہلے کس طرف سے توجہ دلائی گئی.یاد ہو گا کہ سب سے پہلے اس کی نسبت جناب مولانا نورالدین صاحب رئیس جماعت احمدیہ نے دربار دہلی کے موقعہ پر آواز بلند کی تھی ہم جناب حکیم صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں کہ اُن کی آواز کارگر ہوئی اور اگر مسلمان نماز نہ پڑھیں تو ان کے لئے ( الہلال بحوالہ الحکم 24 دسمبر 12ء ) اب کوئی عذر باقی نہیں رہا.“ 10 - مسجد کانپور اگست 1913ء میں حکومت ہند نے ایک سرکاری ضرورت کے پیش نظر مسجد کانپور کا ایک غسل خانہ گراد یا اور اس کا متبادل انتظام بھی کر دیا گیا لیکن اس معمولی سے واقعہ کو موقع پرست ہندوؤں نے ہوا دی اور مسلمانوں نے ان کے ورغلانے سے ایک شورش اور بغاوت کی صورت پیدا کر دی جس کو دبانے کے لئے گورنمنٹ نے سختی سے کام لیا اور گولی تک چلا دی جس میں بعض مسلمان مارے گئے.مسلم پریس نے ان مارے جانے والوں کو شہید کا خطاب دے کر بغاوت کو زیادہ بھڑ کا نا شروع کر دیا.اس موقعہ پر حضرت خلیفہ اول نے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے فرمایا کہ فسل خانہ مسجد کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے اس کے گرائے جانے پر اتنا شور و غوغا بپا نہیں کیا جانا چاہیے.اور فرمایا کہ یہ اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک سچے محب وطن ہونے کی حیثیت سے گورنمنٹ کی سختی کو بھی ناروا قرار دیا اور حاکموں کو مشورہ دیا کہ وہ بے جاسختی سے کام نہ لیں.(106)
تدرت ثانیہ کا دور اول مندرجہ بالا واقعہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت خلیفہ اول کو بیت کی حرمت کا خیال نہیں تھا کیونکہ آپ بیوت کی حرمت و عزت کے بجان و دل خواہاں تھے اس کی مثال مندرجہ ذیل واقعہ سے ملتی ہے.قادیان میں ایک مسجد ارائیاں کے محلہ میں ہے اس کا ایک حجرہ فروخت ہو گیا اور کمیٹی قادیان نے اس پر عمارت بنانے کی اجازت دے دی اور باقی مسجد کی فروخت کیلئے بھی غیر از جماعت ارائیں تیار تھے مجھے مخاطب کر کے (حضرت خلیفہ اول نے ) فرمایا: وو یہ کیسے اندھیر کی بات ہے کہ مسجد فروخت ہو جائے اور اس کا کوئی انتظام نہ کیا جائے.مجھے اس بات سے بہت تکلیف ہوئی ہے.جس طرح ہو اس مسجد کو مسجد کی صورت میں قائم رکھا جائے اور اس حجرہ کو بھی واپس لیا جائے میں اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا ان لوگوں کو سمجھاؤ اور اگر مقدمہ کرنے کی ضرورت ہو تو مقدمہ کر مسجد کی بے حرمتی میرے لئے بہت تکلیف دہ امر ہے.“ ( الحکم 14 فروری 1912 ء ) اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ مسجد کا نپور کے متعلق حضرت خلیفہ اول کی پالیسی دینی اصولوں اور تعلیم کے مطابق تھی.(107)
مقدرت ثانیہ کا دور اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشابہت سید ولد آدم آنحضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو جو سراسر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں پڑی ہوئی دن بدن گہری تاریکی کی طرف جارہی تھی اسلامی نور اور توحید کی روشنی سے منور کیا اور انہیں روحانی تجلیوں اور ضیا پاشیوں میں اپنی عمر طبعی گزار کر رفیق اعلی سے جاملے.اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے صفت رحمانیت سے کام لیتے ہوئے عرب کے صحرانشینوں اور بدوؤں کو بے آسرا نہ چھوڑا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو قائم رکھنے کے لئے ایک عظیم الشان نظام جاری فرمایا جسے ” خلافت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے تا کہ وہ لوگ جو مسلمان ہو چکے ہیں اور ایک ہاتھ کے نیچے آچکے ہیں پھر سے منتشر ہو کر اتحاد و اتفاق کی برکت سے محروم نہ ہو جائیں.نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی فتوحات کی رو میں آکر یدخلون فی دین اللہ افوا جا کے مطابق گروہ در گروہ اسلام قبول کرنے والوں کی تربیت ہو سکے اور آئندہ کے لئے اصلاح و ارشاد کا سلسلہ برابر جاری رہے.ہمارے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ثریا سے اتارنے اور قتل خنزیروکسر صلیب کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور گزشتہ پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود کے ارشادات کے مطابق آپ کے بعد بھی بعینہ اسی طرح خلافت کا نظام جاری فرمایا تا کہ آپ کے ذریعہ سے جو تخم ریزی ہوئی ہے وہ بار آور ہو.خدا کی قدرت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اول یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت مسیح موعود کے خلیفہ اول حضرت مولانا نور الدین اعظم کی زندگیوں میں متعدد مشترک پہلو ہیں ایک ظاہر بین اس اشتراک و مشابہت کو اتفاق کہہ سکتا ہے لیکن حقیقت امر کے جاننے والوں اور غور و تدبر سے کام لینے والوں کے لئے یہ مشابہتیں ایمان افروز ہیں اور اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ قسام ازل نے ان دو عظیم الشان انسانوں کو ایک رفیع المنزلت کام کے لئے پیدا کیا تھا مثال کے طور پر چند مشابہتیں مندرجہ ذیل ہیں: (108)
قدرت ثانیہ کا دور اول 1.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اول المصدقین ہونے کا قابل صدر شک مقام حاصل فرمایا یعنی آپ نے بغیر کسی توقف کے انشراح صدر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا.چنانچہ بخاری شریف میں حضرت ابوالدرداء کی روایت ہے کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم هل انتم تارکون لی صاحبى انى قلت ايها الناس انى رسول الله عليكم جميعا فقلتم كذبت و قال ابوبکر صدقت.اسی طرح ابن عساکر، طبرانی ، ترمذی، ابن حسان اور امام شعبی نے بھی حضرت ابو بکر کو اول من اسلم سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا قرار دیا ہے.حضرت مولانا نور الدین صاحب کو بھی خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود پر سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف بخشا اور آپ نے حضرت مسیح موعود کے دعوی پر ایک لمحہ کے لئے بھی تردد نہ کیا اور براہین احمدیہ کے ابتدائی حصہ کو پڑھتے ہی صدق دل سے آپ کے جملہ دعاوی کو تسلیم کیا چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : وو انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے:امنا و صدقنا فاكتبنامع " الشاهدين.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 ص521) پھر لدھیانہ کے مقام پر مارچ 1889ء میں پہلے دن کی بیعت میں پہلے نمبر پر بیعت کر کے حضرت صدیق اکبر ابوبکر کی طرح منفرد اور نمایاں امتیازی شان حاصل کر لی.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشنده (109)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل 2:.اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور پیارے بندوں کو اپنے رستہ میں جان و مال کی قربانیوں کا موقع دے کر منازل سلوک میں سے گزارتا ہے چنانچہ حضرت ابوبکر کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی خاطر جملہ صحابہ کرام سے بڑھ کر مالی قربانیوں کا موقع ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ترجمہ :.ہم پر کسی نے کوئی احسان نہیں کیا جس کا ہم نے برابر بدلہ نہ دے دیا ہو سوائے ابوبکر کے اس کا ایسا احسان ہے کہ خدا تعالیٰ ہی بروز قیامت بدلہ عطا فرمائے گا.مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابو بکر کے مال نے...66 ( ترمذی مناقب ابوبکر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے علاوہ حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی ہوسکتا ہے: ترجمہ:.حضرت عمر بن الخطاب فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی قربانی کی تحریک فرمائی.میں اس وقت مالی لحاظ سے بہتر تھا.اس لئے میں نے سوچا کہ آج تو میں ابوبکر سے آگے بڑھ جاؤں گا.چنانچہ میں نے اپنے مال کا آدھا حصہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا اور حضور کے دریافت کرنے پر بتایا کہ میں اپنا اتنا ہی مال پیچھے چھوڑ آیا ہوں مگر حضرت ابوبکر اپنا سارا مال خدا کے رستہ میں پیش کرنے کے لئے لے آئے اور حضور کے دریافت کرنے پر کہا کہ میں اللہ اور رسول کا نام پیچھے چھوڑ آیا ہوں.اس پر مجھے یہ کہنا پڑا کہ بخدا میں اس شخص سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا.( ترمذی مناقب ابوبکر) آپ کی تمام زندگی اسی قسم کی عظیم الشان مالی قربانیوں میں گزری.حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے انفاق مال کا خاص موقع عطا فرما یا کشمیر میں آپ کی ہزار، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمد تھی جو سب فی سبیل اللہ خرچ ہوتی تھی اس (110)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل کے بعد آپ قادیان تشریف لے آئے تو بھی آپ نے ایک حبہ جمع نہ کیا بلکہ ساری آمد حضرت مسیح موعود کے مشن کی تکمیل اور خدمت خلق میں صرف کر دی جیسا کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ”مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولا میں اُٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جنکے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب للہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھے مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 407) پاس نہیں ہے.“ اسی طرح آپ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں : ترجمہ :.ان سے زیادہ کسی کے مال نے مجھے فائدہ نہیں پہنچایا اور ایسی قربانی آپ مسلسل کئی سالوں سے کر رہے ہیں.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 582) حضرت ابوبکر کے جذبہ انفاق مال کو دیکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مال میں اپنے مال کی طرح تصرف کرتے تھے ( تاریخ الخلفا) اور ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ حضرت ابوبکر اپنے مال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مباح قرار دیتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں.ترجمہ:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری سب سے زیادہ مالی مدد ابوبکر نے کی ہے اس پر حضرت ابوبکر رونے لگے اور فرمایا میں اور میر امال سب حضور ہی کا ( احمد بن حنبل جزا بوہریرہ ) ہے.اسی طرح حضرت مولانا نورالدین صاحب نے بھی اپنا مال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے (111)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل لئے مباح قرار دے دیا تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے حضرت پیرو مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا...مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے دعا فرمائیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو “ (مکتوب بنام حضرت مسیح موعود از ازالہ اوہام ) 3: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کو آپ کا جانشین منتخب کیا گیا باوجود اس کے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار یا عزیز نہیں تھے.بلکہ آپ اپنے علم تقوی ، زہد بے غرضی ، بے لوٹی ،حلم ، معاملہ نہی ، عاقبت اندیشی اور دیگر صفات حسنہ کی وجہ سے آپ کے خلیفہ منتخب ہوئے.حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعودؓ کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ و قرابت نہ رکھتے تھے بلکہ آپ بھی مذکورہ بالا صفات حسنہ سے متصف ہونے کی وجہ سے خلافتِ اولی کے مستحق قرار پائے.:- حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات پر صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر کو آپ کی فضیلتوں اور خوبیوں کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین منتخب کیا اس موقع پر حضرت ابوبکر نے ایک نہایت فصیح و بلیغ اور حسب حال تقریر فرمائی جس میں منجملہ اور باتوں کے فرمایا: ترجمہ:.میں تو کبھی بھی امارت کا خواہش مند نہ تھا نہ کبھی میں نے اس کی دعا کی تھی میں تو اس ذمہ داری سے ڈرتا ہی تھا.میرے لئے اس سرداری میں کوئی آرام و راحت نہیں ہے.مجھ پر بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے بغیر اُٹھایا نہیں جاسکتا.حضرت خلیفہ اول نے بھی جماعت احمدیہ کے متفقہ خلیفہ منتخب ہونے پر بالکل اسی قسم کے (تاریخ الخلفاء صفحہ 52,51) (112)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل جذبات و خیالات کا اظہار کیا چنانچہ آپ نے نہایت رفت بھرے لہجہ میں فرمایا: ” میرے دل کے کسی گوشہ میں کبھی اس امر کا خیال خواہش یا واہمہ نہیں تھا کہ یہ کام میرے سپرد کیا جائے میں چاہتا تھا کہ حضرت کا صاحبزادہ مرزا محمود جانشین بنتا.میں ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر ڈالا جاتا کیونکہ میں اپنے میں اس کے اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن جبکہ بلا میری خواہش کے یہ بار میرے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور دوست مجھے مجبور کرتے ہیں تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر میں قبول کرتا ہوں.( تقریر حضرت خلیفہ اول بدر 2 جون 1908 ء ) 5:.حضرت ابوبکر نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بھی اپنے رفاہی اشغال حسب معمول جاری رکھے اور ان میں وقفہ نہ پڑنے دیا نیز آپ کسب معاش کے لئے ایک عرصہ تک حسب معمول تجارت کرتے رہے.عطابن السائب فرماتے ہیں.ترجمہ:- جب حضرت ابوبکر کی بیعت ہوئی تو اگلے روز آپ کپڑا اُٹھائے ہوئے مارکیٹ کی طرف جارہے تھے.(حسب معمول کاروبار کی خاطر ) (ابن سعد بحوالہ تاریخ الخلفا ) اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الاول نے بھی اپنے خدمت خلق کے اشغال بدستور جاری رکھے چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں : اس وقت آپ کی دن کی نشست مسجد مبارک میں ہوتی تھی مگر چونکہ بیمار بھی آپ کی توجہ کے محتاج ہوتے تھے اور بیماروں کا مسجد میں جمع ہونا مناسب نہ تھا اس واسطے آپ نے کچھ عرصہ کے بعد پھر اپنے مطب میں بدستور بیٹھنا شروع کر دیا.“ (حياة نورالدین صفحہ 158 ) 6- حضرت ابوبکر کی زندگی کا سب سے عظیم الشان کارنامہ ” جمع قرآن“ ہے یعنی قرآن مجید جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جا بجا لکھا ہوا تھا آپ نے اسے اپنی نگرانی میں ایک صحیفہ میں جمع کروایا.عالم اسلام پر آپ کا یہ عظیم الشان احسان ہے.کیونکہ آپ نے وقت پر ایک اہم (113)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ضرورت کا احساس کر کے ہمیشہ کے لئے قرآن مجید کی حفاظت وصحت کا انتظام کردیا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے بھی اپنے زمانہ میں قرآن کریم کی ایسی ہی عظیم الشان خدمت سر انجام دی یعنی قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا خوب اہتمام فرمایا.جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود نے رکھ دی تھی حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں اسے منظم طریق پر جاری کیا گیا اور بیعت لیتے وقت ہی فرمایا: ابوبکر" کے زمانہ میں صحابہؓ کو بہت سی مساعی جمیلہ کرنی پڑیں سب سے پہلا اہم ( بدر 2 جون 1908ء) کام جو کیا وہ جمع قرآن ہے اب موجودہ صورت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو.“ آپ نے زندگی بھر اس کام کی طرف غیر معمولی توجہ دی چنانچہ ایک مشہور غیر احمدی جرنلسٹ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان تشریف لائے اور انہوں نے اپنے دو دن کے قیام کے جو تأثرات بیان کئے ہیں ان سے حضرت خلیفہ اول کی خدمت قرآن کا اندازہ ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں : مولوی نور الدین صاحب جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلمہ پیشوا ہیں جہاں تک میں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے متعلق غور کیا ہے مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالصت اللہ کے اصول پر نظر آیا کیونکہ مولوی صاحب کا طرز عمل قطعار یا اور منافقت سے پاک ہے اور ان کے آئینہ دل میں صداقت اسلام کا ایک ایسا زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہر وقت ان کے بے ریا سینے سے اہل اہل کر تشنگان معرفت توحید کو فیضیاب کر رہا ہے اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانه محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں میں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی.یہ نہیں کہ وہ تقلیداً ایسا کرنے پر مجبور ہیں بلکہ وہ ایک زبر دست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعے قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے کیونکہ جس قسم کی زبردست فلسفیانہ تفسیر قرآن مجید کی میں (114)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل نے ان سے درس قرآن مجید کے موقعہ پر سنی ہے غالباً دنیا میں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے.مجھے زیادہ تر حیرت اس بات کی ہوئی کہ ایک اتنی سالہ بوڑھا آدمی صبح سویرے سے لے کر شام تک جس طرح لگا تار سارا دن کام کرتا رہتا ہے وہ متحدہ طور پر آج کل کے تندرست قوی ہیکل دو تین نوجوانوں سے بھی ہونا مشکل ہے.66 ( بدر 13 مارچ 1913 ء ) 7.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بادیہ میشنان عرب نے یہ خیال کیا کہ وہ ہستی جس کی وجہ سے ہم چندہ وزکوۃ ادا کرتے تھے وہ تو اب دنیا میں نہیں رہی اس لئے اب زکوۃ وغیرہ کی ادائیگی کی ضرورت نہیں.اس طرح آپ کی وفات کے بعد ہی اسلام کے ایک عظیم الشان رکن کے استخفاف کا خطرہ پیدا ہو گیا.صورت حال اور بھی تشویشناک ہوگئی جبکہ حضرت اسامہ کالشکر ملک شام کی سرحدوں کی حفاظت اور نصاریٰ کی غارت گری کی روک تھام کے لئے مرکز سے چلا گیا اور مرتدین نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.مذکورہ بالا گر وہ یعنی مانعین زکوۃ نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے اس فاسد خیال کو کھلے بندوں شائع کرنا شروع کر دیا.اسلامی غیرت وحمیت کے پہلے حضرت ابوبکر صدیق اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک رکن کا استخفاف کسی قیمت پر برداشت کرنے کو تیار نہ تھے حالانکہ اس وقت بعض جلیل القدرصحا بہ بھی فتنہ ارتداد کو دیکھ کر ان لوگوں سے نرمی کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتے تھے حتی کہ حضرت عمر فاروق جیسے غیورو بہادر نے بھی ان لوگوں سے نرمی اور ملاطفت کرنے کا مشورہ دیا.لیکن حضرت ابوبکر عزم واستقلال کے پیکر ان مخالف حالات سے نہ گبھرائے اور بانگ دہل اعلان فرمایا: ترجمہ :.میں ضرور ان سے جہاد کروں گا خواہ وہ ایک رسی کے برابر بھی خدا تعالیٰ کے حق کی ادائیگی میں کو تا ہی کریں.ایک اور دوسری روایت ہے: ترجمہ: - بخدا اگر یہ لوگ ایک رسی یا ایک اونٹ بھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا (115)
درت ثانیہ کا دور اول کرتے تھے دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا.حضرت عمر نے عرض کیا کہ آپ ان سے جنگ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ہے کہ مجھے ان سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ توحید اور میری رسالت کے قائل ہو جائیں اور جو ایسا کرے اس کا مال و خون محفوظ ہے.حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ جس نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیا میں اس سے ضرور جنگ کروں گا.( تاریخ الخلفا ) حضرت خلیفہ اول نے بھی اپنے زمانہ خلافت میں زکوۃ کی تحصیل کی طرف اپنی توجہ مبذول فرمائی یہاں تک کہ بیعت لیتے وقت بھی زکوۃ کی ادائیگی کے اہتمام کرنے کا عہد لیا، اور یہ الفاظ عہد بیعت میں شامل کئے اور انتظام زکوۃ بہت احتیاط سے کروں گا“ نیز جب بعض نام نہا د احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دعاوی کا انکار اور بعض کا اقرار کرنا شروع کیا تو آپ نے نہایت سختی سے ان بحثوں کو روکا اور اعلیٰ وارفع مقام کی تعیین کی یعنی آپ کو ظلی نبی قرار دیتے ہوئے آپ کے بعد اپنی خلافت پر آیت استخلاف چسپاں کی اور نظام خلافت سے برگشتگی کرنے والوں کو فاسق کا خطاب دیا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حقدار کو نہیں پہنچی یہ رافضیوں کا عقیدہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت فرمان برداری کرو ابلیس نہ بنو.“ ( بدر 4 جولائی 1912) گویا که با وجود ذی اثر اور صاحب وجاہت لوگوں کی انتہائی کوشش کے کہ کسی طرح حضرت مسیح موعود کے مقام کو کم کیا جائے تاکہ آپ کے بعد خلافت جاری ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو اور مانعین زکوۃ کی طرح بعض دعاوی کو تو تسلیم کر لیا جائے اور بعض کا انکار کر دیا جائے.حضرت خلیفہ اول نے حضرت ابو بکر جیسے عزم و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی ہر کوشش و تد بیر کوسختی سے کچل کر رکھ دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح مقام کو متعین اور ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کر دیا کہ آپ کے بعد آپ کی جانشین انجمن یا سوسائٹی نہیں بلکہ خلیفہ ہے.(116)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل 8- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں شاہان عجم کو تبلیغ اسلام کے لئے خطوط لکھ کر تم ریزی تو کر دی تھی لیکن اسلام کی باقاعدہ تبلیغ حضرت ابوبکر" کے عہد میں سرزمین عرب سے باہر ممالک روم و فارس میں شروع ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی خطوط واشتہارات کے ذریعہ ممالک غیر میں پیغام احمدیت تو پہنچا لیکن با قاعدہ مشن حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں شروع ہوا اور عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکر کے زمانہ میں عیسائی ملک کی طرف دعوت اسلام پہنچی حضرت خلیفہ اول نے بھی سب سے پہلے ایک عیسائی ملک یعنی برطانیہ کی طرف توجہ کی اور ابتد 71 ستمبر 1912 کو خواجہ کمال الدین صاحب لندن گئے اور 28 جون 1913ء کو مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال با قاعدہ مبلغ کے طور پر لندن تشریف لے گئے اور اس طرح اشاعت قرآن و احمدیت کا عظیم کام بیرون ہند حضرت خلیفہ اول کے عہد سعادت مہد میں شروع ہوا.9.حضرت ابوبکر خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب بندوں کی طرح عبادات نہایت خشوع و خضوع سے ادا فرماتے تھے خصوصاً آپ کی مؤثر و کیف آور تلاوت قرآن مجید تو بہت مشہور ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت عائشہ سے فرمایا کہ "مروا ابابکر فليصل بالناس“ (ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ) تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا حضور وہ کثرت گریہ ورقت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھا سکیں گے.رئیس مکہ ابن الدغنہ نے جب آپ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے سے روکا اور گھر میں ہی عبادت وغیرہ کرنے کو کہا تو آپ نے گھر ہی میں ایک جگہ کو عبادت کے لئے مخصوص کر لیا چنانچہ روایت ہے کہ ترجمہ:.حضرت ابو بکر اپنے صحن میں ہی نماز ادا کرنے اور تلاوت کرنے لگے.آپ بہت رقیق القلب اور خشیت اللہ سے رونے والے تھے.مشرکین کی عورتیں اور بچے اس سے متاثر ہوتے تھے اس پر قریش نے ابن الدغنہ سے شکایت کی.حضرت ابوبکر نے خدا کی تائید پر توکل کرتے ہوئے ابن الدغنہ کی حفاظت واپس کر دی.( تاریخ الاسلام صفحہ 35) (117)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل حضرت خلیفہ اول بھی جن کے رگ رگ میں قرآن مجید کی محبت سمائی ہوئی تھی جب تلاوت کرتے تو عجب سماں بندھ جاتا اور سننے والے ایک خاص کیفیت محسوس کرتے چنانچہ آپ کی تلاوت کے موٹر ووجد آفریں ہونے کا مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ قابل ذکر ہے.وو...ایک دفعہ میں نے ان سے کہا آؤ ہم تمہیں قرآن سنائیں وہ سب ہندو تھے ایک شخص جس کا نام رتی رام تھا اور وہ خزانہ کا افسر تھا اور افسر خزانہ کا بیٹا بھی تھا اس نے عام مجلس میں کہا ” دیکھو ان کو قرآن شریف سنانے سے روکو ورنہ میں مسلمان ہو جاؤں گا قرآن شریف بڑی دل ربا کتاب ہے اور اس کا مقابلہ ہرگز نہیں ہوسکتا اور نورالدین کے سنانے کا انداز بھی بہت ہی دلفریب اور دلر با ہے.“ ( حیات نورالدین صفحہ 135) مندرجہ بالا واقعات سے حضرت خلیفہ اول ابوبکر اور مولانا نورالدین کی تلاوت عبادات میں خشوع و خضوع اور انقطاع الی اللہ میں کمال یکسانیت اور مطابقت نظر آتی ہے.10 - حضرت ابوبکر اپنی دینی خدمات.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال عقیدت و محبت انفاق جان و مال اور دیگر قربانیوں کی وجہ سے قوم میں نمایاں اور امتیازی شان رکھتے تھے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر الصدیق خیر الناس الا ان يكون نبی“ یعنی ابوبکر بہترین انسان ہیں سوائے اس کے کوئی نبی آجائے.(طبرانی بحوالہ تاریخ الخلفاء) نیز فرمایا: ان روح القدس جبرئیل اخبرنی ان خیر امتك بعدك ابو بكر الله منه یعنی روح القدس جبریل نے مجھ بتایا کہ تمہارے بعد امت کا بہترین فرد ابو بکر ہے.( الا وسط بحوالہ تاریخ الخلفاء) یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر مسند خلافت کے لئے آپ کو موزوں ترین سمجھا.علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں.(118)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ترجمہ:.مسلمانوں نے اس امر پر اجماع کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ( تاریخ الخلفاء صفحہ 34) ابوبکر بہترین وافضل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء میں سے سب سے افضل و بہتر حضرت خلیفہ اول کو سمجھا جاتا تھا.یہی وجہ ہے کہ قوم نے بالا تفاق آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشینی جیسے منصب جلیلہ کے لئے منتخب کر کے اس بات پر اجماع کیا کہ اس وقت جماعت بھر میں سب سے افضل و بہترین شخص اپنی دینی خدمات ، انفاق جان و مال فی سبیل اللہ کی وجہ سے حضرت مولانا نور الدین اعظم ہیں.نیز بیعت کے لئے جو درخواست خلیفہ اول کے سامنے پیش کی گئی اس میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے مطابق فرمان حضرت مسیح موعود مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المھاجرین حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتھی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام اسوہ حسنہ قرار دے چکے ہیں......( بدر 2 جون 1908ء) 11 - حضرت ابو بکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے تمام جاری کردہ کاموں کو بدستور جاری رکھا چنانچہ جیش اسامہ کو مخالف حالات کے باوجود سرحدات شام کی طرف بھجوادیا اور فرمایا کہ وہ کام جس کا آغاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے.میں اسے کسی صورت میں بھی بند نہیں کر سکتا اس کے علاوہ آپ نے عام اعلان کروا دیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو اور اس کو کسی وجہ سے ایفاء نہ کر سکے ہوں تو میں وہ وعدہ ایفاء کروں گا چنانچہ روایت ہے کہ : ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر سے فرمایا کہ اگر بحرین سے مال آیا تو میں تمہیں اتنا مال دوں گا.یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہ پہنچا.حضور (119)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر نے اعلان فرمایا کہ اگر حضور نے کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا تو وہ بتا دے جس پر میں نے حضرت ابوبکر کو بتایا اور انہوں نے مجھے تین دفعہ مٹھی بھر کر مال دیا......( بخاری کتاب الحصبه ) حضرت خلیفتہ المسیح اول نے بھی حضرت مسیح موعود کے جاری کردہ تمام کاموں کو بدستور جاری رکھا چنانچہ پیغام صلح (جس کی اشاعت سے قبل حضرت مسیح موعود وفات پاگئے تھے ) کا اعلان آپ کی وفات کے بعد لاہور میں ایک کثیر مجمع کے سامنے کیا اور اس کی بکثرت اشاعت کی.نیز شیخ رحمت اللہ تاجر لاہور سے حضرت مسیح موعود نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ان کی کوٹھی کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھیں گے لیکن کوٹھی کی بنیادرکھنے سے قبل آپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے تو حضرت خلیفہ اول نے باوجود اس پالیسی پر کار بند ہونے کے کہ ہمیشہ مرکز میں ہی قیام رکھیں گے محض اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور شیخ صاحب مذکور کی کوٹھی کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے بعد یہ اظہار بھی فرمایا کہ یہ کام آپ نے محض حضرت مسیح موعود کا وعدہ پورا کرنے کے لئے اختیار کیا تھا چنانچہ آپ نے اس تقریب کے خاتمہ پر حضرت عرفانی صاحب ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا: دو شیخ صاحب کو کہہ دو کہ ہم آپ کے کام سے فارغ ہو چکے اور حضرت صاحب کے وعدہ کو خدا کے فضل سے پورا کر چکے اب ہم آزاد ہیں خواہ صبح کو چلے جائیں یا شام کو “ (احکام 14 جولائی 1912 ء ) 12 - حضرت ابوبکر اپنی گونا گوں خوبیوں اور صفات حسنہ نیز اسلام کی بیش بہا خدمات کی وجہ سے جن کا معمولی ساذ کر ضمنا مندرجہ بالا واقعات میں آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے تمام متبعین (جن میں ایک سے بڑھ کر جان شار تھا) میں سے سب سے زیادہ پیارے اور محبوب تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : ترجمہ : یعنی ابوبکر کی رفاقت اور مال سے مجھے سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے اور اگر میں کسی کو (120)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل خلیل بناتا تو وہ ابوبکر ہی ہے.(ترمذی ابواب المناقب) اب دیکھتے ہیں کہ حضرت صاحب کو کون سا مرید سب سے پیارا ہے.ایک دفعہ حضرت اماں جان اور بعض دوسری خواتین میں یہ بات ہوئی کہ بھلا حضرت اقدس کو سب متبعین میں سے زیادہ کون محبوب ہے اس پر حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میں حضور سے کچھ بات کروں گی جس سے اس بات کا پتہ چل جائے گا.حضرت اماں جان حضرت اقدس کے پاس کمرہ میں تشریف لے گئیں اور حضور کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ ” آپ کے جو سب سے زیادہ پیارے مرید ہیں وہ......اتنا فقرہ کہہ کر حضرت اماں جان چپ ہو گئیں اس پر حضرت اقدس نے نہایت گھبرا کر پوچھا ”مولوی نورالدین صاحب کو کیا ہوا جلدی بتاؤ.اس پر حضرت اماں جان ہنسنے لگیں اور فرمایا ”آپ گھبرائیں نہیں مولوی نور الدین صاحب اچھی طرح ہیں میں تو آپ کے منہ سے یہ بات کہلوانا چاہتی تھی کہ آپ کے سب سے پیارے مرید کون سے ہیں چنانچہ آپ نے وہ بات کہہ دی اب میں جاتی ہوں آپ اپنا کام کریں.(لطائف صادق صفحہ 12-13) یہ بارہ مشابہتیں محض سرسری اور موٹی موٹی مثالیں ہیں ورنہ بنظر غور مطالعہ کرنے سے ان دو عظیم الشان ہستیوں کی زندگیوں میں ایک گہرا اور مسلسل اشتراک ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بزرگوں کو ایک ہی عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا تھا یعنی حضرت ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر قوم کو سہارا دے کر مسلسل ترقی و رفعت کی طرف گامزن کرنا تھا اور حضرت حکیم الامت نورالدین نے بھی وفات مسیح کے بعد یعنی مظہر قدرت اول کے بعد دائمی وعدہ کی پہلی کڑی اور ” قدرت ثانی کا مظہر اول بن کر احمدیت میں نظام خلافت کو مستحکم کرنا تھا.(121)
قدرت ثانیہ کا دور اول عمارات سلسلہ میں ترقی مذہبی جماعتوں کے ابتدائی ایام سراسر دعوت و اصلاح میں صرف ہوتے ہیں تا کہ وہ بیچ جو دلوں کی سرزمین میں بویا جا رہا ہے جڑ پکڑ لے.اس لئے عمارتوں کی تعمیر اور دیگر اس قسم کے ثانوی حیثیت کے کام دعوت الی اللہ کی کوششوں کے بار آور ہونے کے بعد کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسجد نبوی کی توسیع و مرمت خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوئی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے ابتدائی دور یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے عہد میں تمام کوششیں اشاعت اسلام کے لئے وقف رہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابتدائی دور میں تعمیر کے کام کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے بلکہ کسی حد تک مکانات کی تعمیر ( قومی اغراض کے لئے ) ضروری اور لابدی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانے میں ”الدار کے مختلف حصوں کو مہمان خانہ ہنگر خانہ اور کتب خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور جب کوئی مزید ضرورت پیش آتی تو ” الدار میں ہی گنجائش پیدا کی جاتی.چنانچہ طاعون کی وبا پھوٹنے پر حضرت مسیح موعود نے الدار‘ کو وسیع کرنے کے لئے کشتی نوح کے ساتھ ایک اعلان شائع فرمایا تھا.پھر جوں جوں ضروریات بڑھنے لگیں مکانات کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول کے عہد سعادت میں بعض عظیم الشان قومی عمارات تیار ہوئیں جو روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ مرکز سلسلہ کی ظاہری شان و شوکت کا باعث بنیں.مثلاً : توسیع مسجد اقصی.مسجد اقصیٰ قادیان کی قدیم ترین چار مساجد (مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ ، مسجد آرائیاں مسجد شیخاں ) میں سے ایک مسجد ہے جس کو حضرت اقدس مسیح موعود کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی رئیس قادیان نے اپنی عمر کے آخری ایام میں بنوایا تھا.حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں نمازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس مسجد میں سانہ سکتی تھی لہذا اس بات کی شدت سے ضرورت (122)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل محسوس ہوئی کہ اس کی توسیع کی جائے چنانچہ 1910ء کے ابتدائی ایام میں پرانی عمارت کے جنوب میں پہلے کمرے کے برابر چوڑا 64 فٹ لمبا اور اس کے سامنے قریباً 80 فٹ لمبا برآمدہ تیار کیا گیا جس سے مسجد پہلے سے قریبا دگنی ہوگئی.اللہ کی شان ہے اس مسجد کی تعمیر کے وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ مسجد نمازیوں سے بھری رہے گی بلکہ بظاہر حالات معلوم ہوتا تھا کہ باقی مساجد کی طرح یہ بھی ویران ہی رہے گی.لیکن بانی مسجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی خلوص نیت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد اس کی توسیع کی ضرورت پیدا ہو گئی.اس توسیع کے متعلق اخبار الحکم“ نے لکھا کہ: (مسجد) جامع کی توسیع نے (مسجد) کی شان کو دوبالا کر دیا ہے نہایت شاندار کمرہ جنوبی پہلو میں تیار ہو گیا ہے.جلسہ پر آنے والے احباب (مسجد) کی اس شان کو دیکھ کر انشاء اللہ ضرور محفوظ ہوں گے.(مسجد ) کی ترقی سلسلہ کی ترقی کی ایک خوشگوار نسیم ہے اور میں تو دیکھتا ہوں کہ جمعہ میں مسجد جامع میں اور دوسری نمازوں میں مسجد مبارک میں جگہ نہیں ملتی مسجد مبارک اپنی توسیع کی ضروریات زبان حال سے بیان کر رہی ہے.اللهم زدفرد.(الحکم 7 فروری 910ء) ||- مسې دنور قادیان کے بیرونی محلوں میں دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے محلہ دار العلوم میں ایک مسجد کی ضرورت پیدا ہوئی.جس کو پورا کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اول نے اس مسجد کی بنیادی اینٹ 5 مارچ 1910 کو ایک لمبی دُعا کے بعد رکھی اور بظاہر مخالف حالات میں جبکہ سرمایہ کی فراہمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی بتوکل علی اللہ اس کام کو شروع کر دیا گیا.خدا تعالیٰ نے بھی اپنے متوکل بندہ کی حوصلہ افزائی کے لئے غیر معمولی طور پر سرمایہ کا انتظام کر دیا چنانچہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے دل میں خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے خاص جوش بھر دیا اور آپ نے باوجود بڑھاپے کے وہ بدہ اور قریہ بقریہ پھر کر اس بابرکت کام کے لئے چندہ اکٹھا کیا (123)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اور تھوڑے ہی عرصہ میں 2500 روپے کی رقم جمع کر لی اور قریباً اتنی ہی رقم ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی ہمشیرہ کی وصیت کے مطابق مسجد کی تعمیر کے لئے مل گئی اور اس طرح غیر معمولی طور پر اس عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا سامان ہو گیا جسے (مسجد نور ) کہا جاتا ہے.23 اپریل 1910 ء تک اس مسجد کا اکثر حصہ مکمل ہو گیا اور اس دن حضرت خلیفہ اول نے عصر کی نماز پڑھائی اور بعد نماز قرآن مجید کا درس روائتی شان کے ساتھ دیا اور اس طرح اس مسجد کا افتتاح (جو بعد میں ظہور قدرت ثانیہ کا مقام بنی ) نماز اور خدا کے کلام کے مطالب و معانی بیان کرتے ہوئے کیا.حضرت خلیفہ اول کے بعد خلافت ثانیہ کا انتخاب اسی مسجد میں عمل میں آیا.محلہ دار العلوم.بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول تعلیم الاسلام ہائی سکول میں طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے پرانی عمارت ( جو شہر میں تھی ) کفایت نہ کر سکتی تھی نیز شہر کے اندر ہونے کی وجہ سے پڑھائی کے لئے ماحول بھی مناسب نہ تھا.اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ قصبہ کے باہر کھلی فضا میں ایک وسیع عمارت بورڈنگ ہاؤس کی تیار کی جائے.اس غرض کے لئے قادیان کی شمالی جانب ایک نیا محلہ دار العلوم آباد کیا چالیس بیگھے زمین حاصل کی گئی اور اس میں 5 مارچ 1910ء کو حضرت خلیفہ اول نے ایک لمبی رقت انگیز دُعا کے بعد بورڈنگ ہاؤس کا سنگ بنیا د رکھا اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کے ہونہار طالب علموں کے لئے مناسب فضا میں یکسوئی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرنے اور سلسلہ کے لئے مفید وجود بننے کی داغ بیل ڈال دی.یہ وسیع اور شاندار عمارت جو 200 طالب علموں کی رہائش کے لئے کافی تھی.اس میں پانی مہیا کرنے کے لئے واٹر پمپ لگایا گیا اور بڑے بڑے ٹینک بنائے گئے جن میں ہر وقت پانی موجود رہے.سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ کے لئے اسی عمارت کے اوپر ایک بالا خانہ بنایا گیا جس سے عمارت کی شان اور عظمت دو چند ہو گئی.نیز کھلی جگہ میں ہونے کی وجہ سے رہائش کے لئے بہترین جگہ تیار ہوگئی ۱۷- تعلیم الاسلام ہائی سکول :- مسجد نور اور بورڈنگ ہاؤس کے ساتھ ہی تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ایک شاندار عمارت حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں تیار ہوئی کیونکہ شہر کے اندر ایسی کوئی (124)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل عمارت نہ تھی جس میں سکول با قاعدگی سے جاری رہ سکتا.نیز اندرون شہر میں جو عمارت سکول کے پاس تھی اس میں مدرسہ احمدیہ کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا تھا.چنانچہ سیکر یٹری صاحب صدر انجمن احمدیہ کے ایک اعلان سے اس وقت کے حالات اور اسکول کی عمارت کی ضرورت پر روشنی پڑتی ہے وہ لکھتے ہیں: ”حضرت خلیفہ اسیح کے ارشاد سے ایک نقشہ عمارت مدرسہ کا جو سکولوں کی عمارتوں میں انشاء اللہ اسی طرح ممتاز ہو گا جس طرح بورڈنگ ہاؤس کی عمارت اس قسم کی عمارتوں میں ممتاز ہے.تیار کر دیا گیا ہے.اور اب عنقریب اس کام کو شروع کرنے کی ضرورت در پیش ہے بلکہ اینٹ تیار کرنے کا کام تو کلاً علی اللہ شروع ہو گیا.ضروریات کا تو یہ حال ہے کہ نہ ہائی سکول کی جماعتیں موجودہ تنگ کمروں میں سما سکتی ہیں نہ مدرسہ احمدیہ کے نئے بورڈروں کے لئے کوئی جگہ رہی ہے اور اس پر دقت یہ ہے کہ کوئی عمارت کرایہ پر اس قسم کی نہیں مل سکتی اس لئے منتظمین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے.اور مدرسہ میں جماعت بندی کے بعد جب نئے لڑکے داخل ہوں گے یعنی شروع اپریل میں تو مکان کی دقت کو رفع کرنے کی کوئی صورت سر دست نظر نہیں آتی کیا منتظمین اب ان کا موں کو ادھورے چھوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں.یا آنے والے طلباء کو کہہ دیں کہ ہمارے پاس " جگہ نہیں اس لئے ہم داخل نہیں کرتے...ان حالات میں سکول کی عمارت کا ایک نقشہ تیار کرایا گیا لیکن پھر یہ دیکھتے ہوئے کہ اس نقشہ کی عمارت پر ایک لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہو جائے گا.مجلس معتمدین صدر انجمن احمد یہ نے اس نقشہ کو مستر د کرتے ہوئے کوئی معمولی نقشہ بنوانا چاہا لیکن حضرت خلیفہ اول نے اس عمارت کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر مجلس معتمدین کے اس فیصلہ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے وہی نقشہ منظور فرمالیا جس کی عمارت کا تخمینہ ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ تھا.25 جولائی 1912 کو بروز جمعرات حضرت خلیفہ اول نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد رکھی اور حضرت مسیح موعود کے ہر سہ صاحبزادگان سے بھی ایک ایک اینٹ رکھوائی اور اس موقع پر ایک لمبی (125)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل اور رقت انگیز دعا فرمائی.بنیا درکھنے سے قبل آپ نے مندرجہ ذیل مختصر مگر مؤثر تقریر فرمائی: اگر اکیلا آدمی چالیس دن تک یا چالیس آدمی ایک وقت میں مل کر کسی امر کے لئے دعا کریں تو بارگاہ الہی میں قبول ہو جاتی ہے اس وقت ہم چالیس سے بہت زیادہ ہیں خدا کی جناب میں سب مل کر دعا کرو کہ اس مدرسہ میں جس کی بنیادی اینٹ رکھنے کے لئے ہم آئے ہیں بڑے بڑے نیک اور خادم دین لڑکے تعلیم حاصل کر کے باہر نکلیں اور گندے اور شریر اور بدکارلڑ کے یہاں نہ آئیں اور اگر آئیں تو خدا انہیں ہدایت دے ( ریویو آف ریلیجنز اردو اگست 1912) ہائی اسکول کی یہ 400 فٹ لمبی 104 فٹ چوڑی 36 فٹ اونچی ( دومنزلہ) اور 64 فٹ اونچے آمین.برجوں والی عمارت پنجاب بھر کے سکولوں میں نمایاں اور ممتاز بلڈنگ ہے چنانچہ 11,12 دسمبر کو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ضلع گورداسپور نے بورڈنگ اور سکول کی عمارتیں دیکھ کر کہا کہ :.مجھے ان تمام چیزوں نے نہایت مسرور کیا ہے اور جماعت احمدیہ نے جس جوش اور کمال کے ساتھ یہ کام شروع کیا ہے میں اس کا مداح ہوں اور عمارت کے متعلق لکھا کہ دد مکمل ہونے پر پنجاب میں ایک ہی عمارت ہوگی.“ (الفضل 17 دسمبر 1913ء) اگر ہم موجودہ حالت سے قطع نظر کرتے ہوئے اس زمانہ کا تصور کریں تو یقینا احمد یوں کی بظاہر چھوٹی سی اور غریب جماعت کا ایسا عظیم الشان سکول تیار کرنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے جس کی عام حالات میں عام لوگوں سے توقع نہیں کی جاسکتی لیکن حضرت مسیح موعود کی تیار کردہ جماعت کے افراد جن کی باگ ڈور ان دنوں ایک ایسے عظیم الشان متوکل شخص کے سپر دتھی جس کا نام آسمان پر عبدالباسط رکھا گیا تھا.وسعت حوصلہ کا بے نظیر نمونہ دکھاتے ہوئے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ اس کام میں دے کر روایتی جنوں کا سا کام کر دکھایا.اس عمارت پر جیسا کہ اندازہ تھا ایک لاکھ رپید کے قریب خرچ ہوا.خلافت اولیٰ ہی میں ایک جائداد گرلز ہائی سکول کے لئے خریدی گئی.اور اس طرح طبقہ اناث و ذکور دونوں کی تعلیم کا بنیادی کام با قاعدہ شروع ہو گیا.(126)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل دار القران: حضرت خلیفہ اول جن کی زندگی قرآن کی خدمت و اشاعت کے لئے وقف تھی.اس بات کے شدید طور پر خواہش مند تھے کہ قرآن مجید کی قرآت و تلاوت علم تجوید کے مطابق نہایت عمدگی اور صحت کے ساتھ ہو اور اس غرض کے لئے آپ کی خواہش تھی کہ حجاز یا موصل سے کسی خوش الحان کی خدمات حاصل کی جائیں آپ نے اس کے لئے ایک مرتبہ کوشش بھی کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہو سکی اسی طرح آپ کی یہ خواہش تھی کہ درس القرآن کے لئے ایک خاص کمرہ ہونا چاہیے.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا: اس وقت میری تین بڑی خواہشیں ہیں ایک یہ کہ قرآن مجید کے درس کے لئے وسیع کمرہ ہو اس پر گیارہ ہزار (11000 ) کے قریب خرچ ہوتا ہے.66 ریویو آف ریلیجنزار دو فروری 1913ء) اس پاک خواہش کی تکمیل کے لئے آپ نے آخری ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کو دار القرآن کی تعمیر کے لئے مقررفرمایا جس کے متعلق ”الحکم“ نے تحریک کرتے ہوئے لکھا: حضرت خلیفہ اسیح نے حضرت میر ناصر نوب صاحب قبلہ کو یہ خدمت سپرد کی ہے کہ اس دارالقرآن کی تعمیر کا کام شروع کر دیں اس کے لئے دس ہزار روپیہ بکار ہو گا مگر اس قوم کے لئے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد دو مرتبہ کر چکی ہے.اس رقم کو پورا کر دینا کوئی مشکل کام نہیں.اس مقصد کے لئے کل روپیہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے نام آنا چاہیے اور کو پن پر تعمیر دارالقرآن لکھ دینا ضروری ہوگا.“ (الحلم 28/21فروری 1913ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت کی یہ خواہش اس طرح پوری ہوئی کہ آپ کے مشورہ سے الگ ہال کی بجائے بیت اقصیٰ میں ایک بڑا ہال کمرہ بنایا گیا جس میں درس کے کام کے علاوہ نمازیوں کے آرام سے نماز پڑھنے کا انتظام بھی ہو گیا.۷۱ - نور ہسپتال : مندرجہ عنوان نام ہسپتال حضرت میر ناصر نواب صاحب کے اخلاص (127)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل کی زندہ جاوید یادگار ہے.جو حضرت خلیفہ اول کے منشاء مبارک کے ماتحت حضرت میر صاحب موصوف کی شبانہ روز کوششوں اور جدو جہد سے تعمیر ہوا.یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ایام میں اسے ”نور ہسپتال کی بجائے ناصر وارڈ کے نام سے پکارا جاتا تھا.ہسپتال کی تعمیر کے لئے حضرت میر ناصر نواب صاحب نے قادیان اور مضافات کی آبادی سے بلا لحاظ مذہب وملت یہاں تک کہ قادیان کے خاکروبوں سے بھی بلا تکلف چندہ لیا.آپ کے اس اخلاص اور جدو جہد کو سراہتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا: مکرم معظم میر صاحب! آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش اور دل میں تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفاخانہ زنانہ ،مردانہ مسجد اور دور الضعفاء کے لئے چندہ ہو اور آپ ان میں سچے دل سے کوشش اور سعی فرمارہے ہیں اور بحمد للہ آپ کے اخلاص، صدق و سچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہورہا ہے ان کاموں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پُر جوش ہیں ہمارے اور تمام کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں و ما ذالک علی اللہ عزیز.( دستخط ) (حیات ناصر ) اگر چہ نور ہسپتال سے قبل حضرت خلیفہ مسیح اول کی ذات بابرکات کی وجہ سے قادیان میں ایک خیراتی ہسپتال جاری تھا جس سے تمام مذاہب و ملل کے مریض استفادہ کرتے تھے لیکن مریضوں کو ہر وقت طبی امداد مہیا نہ ہو سکتی تھی اس لئے نور ہسپتال نے قادیان اور مضافات کے مریضوں کی نہایت قیمتی خدمات سرانجام دیں.اس ہسپتال کے بانیوں کے خلوص کا اس امر سے پتہ چلتا ہے کہ نور ہسپتال تقسیم ملک کے عظیم دھکا سے متاثر ہوئے بغیر مسلسل و متواتر قوم کی خدمات سرانجام دے رہا ہے.ہاں تقسیم سے قبل اس ہسپتال کی سرپرست و نتظم صدر انجمن احمد یہ تھی اور تقسیم کے بعد گورنمنٹ کی نگرانی میں کام ہورہا (128)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ہے.اب اس نام کا ایک اور بہت بڑا ہسپتال قادیان میں خدمت خلق کا کام بہت وسیع پیمانہ پر کر رہا ہے) ۷۱۱- دور الضعفاء:- حضرت میر ناصر نواب صاحب ( جن کا ذکر نور ہسپتال اور بیت نور کے سلسلہ میں پہلے ہو چکا ہے ) کے کار ہائے نمایاں میں سے ایک کارنامہ دورالضعفاء کی تعمیر ہے حضرت میر صاحب حساس اور ذکی دل کے مالک تھے غرباء کی حالت دیکھ کر آپ کا دل گداز ہو جاتا اور آپ کسی غریب کو مصیبت میں دیکھنا برداشت نہ کر سکتے تھے.اسی وجہ سے آپ نے حضرت خلیفہ اول کے عہد سعادت مہد میں انجمن ضعفاء کی بنیاد رکھی جس میں قادیان کے غریب و محتاج لوگ شامل تھے حضرت میر صاحب مرحوم ان لوگوں کی حالت کو سدھارنے اور ان میں احساس برتری پیدا کرنے کے مختلف طریقے سوچتے رہتے تھے کبھی ان کو ایک جگہ جمع کر کے مجلس مذاکرہ قائم کر لیتے اور کبھی ان کے ساتھ مل کر ایک جگہ کھانا کھاتے.ان تجویزوں میں سے ایک عظیم الشان اور دیر پا تجویز دور الضعفاء‘ کی تعمیر تھی.یعنی قادیان کے ایسے باشندے جو نہ اپنا ذاتی مکان بنا سکتے تھے اور نہ ہی کرایہ دینے کی سکت رکھتے تھے ان کے لئے آپ نے ایک جگہ اور ایک ہی طرز کے مکان بنانے کی تجویز قوم کے سامنے پیش کی تا کہ یہ خدام جماعت گرمی و سردی سے بچتے ہوئے اپنے دن گزار سکیں.آپ نے ابتد 221 مکانات بنانے کی تجویز کی اور قوم سے اس امر کے لئے تعاون کرنے کی اپیل کی جس کا نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا گیا.چنانچہ خود حضرت خلیفہ اول نے ایک مکان اپنی جیب خاص سے بنوانے کا وعدہ کیا اور اس کے علاوہ 10 روپے اسی وقت چندہ دیا.- مذکورہ بالا با ئیس مکانات میں سے آٹھ مکان 1913ء کے آخر میں تعمیر ہوئے اور باقی مکانات 1914ء کے شروع میں بنائے گئے.اس کام کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس ایک امر سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ کے بنوائے ہوئے مکانوں سے تقسیم ملک کے بعد بھی آج تک متعدد غرباء استفادہ کر رہے ہیں اور یہ محلہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی باقیات صالحات میں سے نمایاں اور (129)
امتیازی شان رکھتا ہے.-۷۱۱۱ درت ثانیہ کا دور اول ا ۱۷ چاہ بہشتی مقبرہ : بہشتی مقبرہ کی خوبصورتی اور زیبائش کے لئے ایک باغیچہ لگایا گیا اس کی آب رسانی کی کوئی معقول صورت نہ ہونے کی وجہ سے باغ میں ایک کنواں تعمیر کیا گیا تا کہ آب رسانی کا کام آسانی اور سہولت سے ہو سکے اس کنوئیں کی وجہ سے نہ صرف بہشتی مقبرہ کا باغیچہ سیراب ہوتا تھا بلکہ آس پاس کی بہت سی افتادہ زمین بھی کاشت ہونے لگی.- پل بہشتی مقبرہ: - قادیان کے قصبہ سے بہشتی مقبرہ کو جاتے ہوئے رستہ میں ایک گہرا اور چوڑا جو ہر آتا ہے جو برسات کے دنوں میں بڑی نہر کا نظارہ پیش کرتا ہے اور دو تین ماہ کے لئے ناقابل عبور ہو جاتا ہے.اس طرح بہشتی مقبرہ اور قصبہ تک پہنچنے کے لئے ایک طویل مسافت طے کرنا پڑتی تھی.اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اول کے بابرکت زمانہ میں اس جو ہر پر ایک پل تعمیر کیا گیا تا کہ بہشتی مقبرہ اور ملحقہ دیہات سے سال بھر ربط قائم رہے اور آمد ورفت منقطع نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بہشتی مقبرہ کو جانے والا رستہ صرف چھ فٹ چوڑا تھا جو اس سڑک کی آمد ورفت کے مقابلہ میں بہت تنگ تھا خاص طور پر جب شہر سے کوئی جنازہ بہشتی مقبرہ لے جایا جاتا تو بہت تکلیف ہوتی.حضرت خلیفہ اول کے عہد میں اس رستہ کو بارہ فٹ کی ایک چوڑی سڑک میں تبدیل کر دیا گیا تا کہ آمد ورفت میں آسانی ہو.حضرت خلیفہ اول کے عہد میں جماعت کی تربیت ، دعوت الی اللہ اور اشاعت قرآن کے ساتھ ساتھ قادیان مرکز احمدیت نے بھی خوب ترقی کی آپ کے چھ سالہ عرصہ خلافت میں تیار ہونے والی عمارتوں کا مختصراً اور سرسری جائزہ اوپر دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جماعت کی جملہ ضروریات پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان کو باحسن پورا فرماتے تھے.(130)
قدرت ثانیہ کا دور اول خلافت کا صحیح مقام خلافت اور انجمن کی کشمکش خلافت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے جو خلیفہ اللہ اور خلیفہ النبی کی صورت میں دنیا پر نازل ہوتا ہے.خلیفہ کے معنی ہیں (1) قائم مقام (2) جانشین (3) حاکم اعلیٰ یا شہنشاہ (4) نائب ( اقرب) اور خلیفہ کے شرعی معنی ہیں الامام الذی لیس فوقہ امام (اقرب) اس لئے حضرت عمر نے خلیفہ مقرر ہونے پر فرمایا: الحمد الله الذي صیّر نی لیس فوقى احد“ الطبقات الكبرى للشعرانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر (18) خلافت کے انعام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان پیش خبری ہے فرماتے ہیں.تكون النبوة فيكم ماشاء الله...ثم تكون الخلافه على منهاج النبوة ماشاء الله......ثم تكون ملكا عاضاً فتكون ماشاء الله......ثم تكون الخلافة على منهاج النبوة (مشكوة ابواب الفتن) اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس فرمان نبوی سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی خلافت علی منہاج النبوت ختم ہو جانے کے بعد ایک دفعہ پھر امتی نبوت قائم ہوگی اور اس کے بعد منہاج النبوت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا.یہ خلافت مسیح موعود کی ہے.آپ فرماتے ہیں: خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں میں وہی ہوسکتا ہے جوظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو......کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اعلیٰ اور اشرف و اولی ہیں ظلی طور پر ہمیشہ (131)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.“ شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 353) اس کے علاوہ آپ نے نظام خلافت کے ضروری ہونے کے متعلق فرمایا: ”جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے.مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے.پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے.“ (احکم 28 جولائی 1914 ) ” خلافت کے متعلق حضرت مسیح موعود کے یہ ارشادات واضح ہیں اس کے بالمقابل انجمن کے قیام کا پس منظر اور اس کی پوزیشن جس کی جانشینی کا بعض افراد نے حضرت خلیفہ اول کی وفات پر مطالبہ کیا ، در اصل کیا ہے حضرت صاحبزادہ محمود احمد ( جو اس انجمن کے ابتدائی ممبروں میں تھے نیز حضرت مسیح موعود کے صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے اکثر امور آپ کی وساطت سے طے پاتے تھے.اس انجمن کے قیام کا پس منظر بیان فرماتے ہیں: حضرت صاحب کی طرف سے یہ انجمن مقبرہ کے متعلق تھی انجمن کار پرداز مصالح مقبرہ بہشتی اس کا نام رکھا گیا کہ ایسی مدخاص میں جو روپیہ آئے گا.اس کی نگرانی کرنی پڑے گی اس کے لئے آپ نے یہ تجویز فرمائی کہ مولوی نور الدین صاحب کو اس کام پر مقرر کیا.پھر کہا گیا کہ یہ فوت ہو گئے تو پھر کیا ہو گا.اس لئے ایسا قانون بنایا جائے کہ بعد میں کوئی فساد نہ ہو.بعض دوستوں نے کہا کہ انجمن بنادی جائے.پہلے ایک مدرسہ کی انجمن تھی وہی مقبرہ کے لئے مقررتھی وہی ریویو کے لئے انہوں نے حضرت صاحب سے کہا کہ مختلف کام ہیں ان کو اکٹھا کرنے کی اجازت دیں.آپ نے کہا اچھا اکٹھا کرلو ، یتھی تجویز نہ یہ کہ اس انجمن بنانے کی تجویز حضرت صاحب کے ذہن میں آئی اور آپ نے پیش کی اور یہاں انجمن بنائی گئی بلکہ جن لوگوں کے سپرد یہ کام تھے انہوں نے کہا کہ وقت کا (132)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل خرچ ہوتا ہے.اس طرح انتظام ہو اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک انجمن تھی جس کو حضرت صاحب نے توڑ دیا اور حضرت صاحب نے نواب صاحب کو امیر مقرر کیا تھا.مولوی محمد علی صاحب ، حضرت مولوی نورالدین صاحب، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو اس کا مبر مقرر کیا تھا کہ آپ نواب صاحب کو مشورہ دیں اور جو حکم (نواب صاحب) دیں ماننا ہو گا.چنانچہ کئی سال تک اس طریق پر کام ہوتا رہا....آپ نے فرمایا...ایک اور تجویز کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مولوی صاحب کی رائے چالیس آدمیوں کی رائے کے برابر ہو.....اس وقت میرے سامنے حضرت صاحب کو ان لوگوں نے دھوکا دیا کہ حضرت ہم نے مولوی صاحب کو پریذیڈنٹ بنایا ہے اور پریذیڈنٹ کی رائیں پہلے ہی زیادہ ہوتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا ہاں یہی میرا منشاء ہے کہ ان کی رائیں زیادہ ہوں...پھر تفصیلی قواعد مجھے ہی دیئے گئے تھے اور میں ہی حضرت صاحب کے پاس لے کر گیا تھا.اس وقت آپ کوئی ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ نے پوچھا کیا ہے.میں نے کہا.انجمن کے قواعد ہیں.فرمایا ” لے جاؤ ابھی فرصت نہیں.گویا آپ نے ان کو کوئی وقعت نہ دی.(رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ص 38) مندرجہ بالا بیان سے یہ امر بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی جانشینی اور قائم مقامی کی غرض سے کوئی انجمن قائم نہیں کی تھی بلکہ خود سلسلہ کا کام کرنے والوں نے کام میں سہولت و آسانی کی خاطر ایک انجمن بنانے کی خواہش کی اور خود ہی اس کے قواعد وضوابط مرتب کر کے حضرت مسیح موعود سے ان کی منظوری حاصل کی.اگر آپ کی وفات کے بعد انجمن کی جانشینی مدنظر ہوتی تو یہ حضور کا اپنا فرض منصبی تھا کہ الوصیۃ، تحریر کرنے کی طرح صدر انجمن قائم فرماتے.نیز اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود انجمن کو کوئی با اختیار اور مؤثر ادارہ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے تھے.کیونکہ انجمن کے دس ممبروں کے مقابلہ میں حضرت مولانا نورالدین کی رائے کو چالیس آدمیوں کے برابر قرار دیا.ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انجمن کوئی مؤثر اور با اختیار حیثیت حاصل (133)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل نہیں کرسکتی چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ مجد داعظم حضرت مسیح موعود کی اصل جانشین انجمن مذکور ہے.یہی وجہ ہے کہ خلافت کے بارے میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے اپنی انتہائی کوشش اس بات کے لئے صرف کی کہ جماعت میں یہ بات واضح کر دی جائے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت کا نظام ضروری و لابدی ہے اس لئے آپ نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا ہوا تھا.کہ خلافت کی اہمیت و عظمت کما حقہ ثابت ہو جائے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: اب میں تمہارا خلیفہ ہوں اگر کوئی کہے کہ الوصیت میں حضرت صاحب نے نورالدین کا ذکر نہیں کیا تو ہم کہتے ہیں ایسا بنی آدم اور ابو بکر کا ذکر پہلی پیشگوئیوں میں نہیں.....تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا.اب جو اجماع کے خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے...پس تم کان کھول کر سنو.اب اگر اس معاہدہ کے خلاف کرو گے تو اعقبهم نفاق فی قلوبہم “ کے مصداق بنو گے.میں نے تمہیں یہ کیوں سنایا اس لئے کہ تم میں سے بعض نافہم ہیں جو بار بار کمزوریاں دکھاتے ہیں.اگر میں گندہ ہوں تو یوں دعا مانگو کہ خدا مجھے دنیا سے اُٹھالے پھر دیکھو کہ دعا کس پر الٹ کر پڑتی ہے.تو بہ کرو اور دعا کرو.“ ( بدر 121اکتوبر 1909ء) اسی طرح آپ انجمن اور خلیفہ کی باہمی پوزیشن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت صاحب کی تصنیف میں معرفت کا ایک نکتہ ہے وہ تمہیں کھول کر سناتا ہوں کہ جس کو خلیفہ بنانا تھا اس کا معاملہ تو خدا کے سپرد کر دیا اور ادھر چودہ اشخاص کوفر ما یا کہ تم بحیثیت مجموعی خلیفہ مسیح ہو تمہارا فیصلہ قطعی فیصلہ ہے اور گورنمنٹ کے نزدیک بھی قطعی ہے.پھر ان چودہ کو باندھ کر ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرا دی کہ اسے خلیفہ مانو اور اس طرح تمہیں اکٹھا کر دیا پھر نہ صرف چودہ کا بلکہ تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا.“ ( بدر 21 اکتوبر 1909ء) اسی طرح احمد یہ بلڈنگس لاہور میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: (134)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل ”جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ رفض کا مشبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہیے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.....ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو.مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی.جس نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.یہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے ( بدر 11 جولائی 1912) رافضی ہیں.“ نیز آپ نے اپنی خلافت کو آیت استخلاف کے مطابق قرار دیتے ہوئے فرمایا: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے ایسا ہی خلیفہ بنایا ہے جس طرح پر آدم، داؤد اور ابوبکر و عمر کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے.“ (بدر 4 جولائی 1913) وو نیز خلیفہ کو جماعت میں آخری اتھارٹی قرار دیتے ہوئے فرمایا: سنو تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں.اوّل ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.پس جب خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا.ان پر رائے زنی نہ کرو.(احکم 21 / 28 جون 1912ء) اور اس کے مقابل انجمن کی حقیقت آپ کے نزدیک یہ تھی کہ فرمایا : ( آئینہ صداقت صفحہ 134) جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی.“ اور ان مسلسل کوششوں کے بعد آپ کی آخری اور زبردست کوشش وہ وصیت ہے جو آپ نے مرض الموت میں کی اور جس میں فرمایا : ”میرا جانشین متقی ہو ہر دلعزیز عالم باعمل.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگز رکو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھاوہ بھی سب کا خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.“ اور اس وصیت کو اپنی دور اندیشی اور فراست سے ایک ایسے آدمی سے پڑھوایا جو خلاف خلافت (135)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل محاذ کا قائد بنے والا تھا.یعنی مولوی محمد علی صاحب ان سے یہ وصیت حاضرین مجلس کے سامنے تین بار پڑھوانے کے بعد نظام خلافت کے حامی و موید حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے پاس محفوظ کرادی اور اس طرح اپنی زندگی بھر کی کوششوں میں ایک اہم اور مؤثر کوشش کا اضافہ کر دیا.قارئین کرام اوپر کے بیان سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی اصل جانشین انجمن تھی یا خلیفہ کیونکہ دونوں کے متعلق نہایت واضح اور غیر مبہم حوالہ جات او پر درج کر دئے گئے ہیں.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ن واضح ارشادات و پیشگوئیوں کی موجودگی میں ایسا سوال پیدا ہی کیوں ہوا کہ انجمن خلیفہ المسیح ہے.اس کا جواب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی زبانی یہ ہے کہ : ہر ایک روحانی سلسلہ میں کچھ لوگ ایسے بھی داخل ہو جاتے ہیں جو لوگ اس کو سچا سمجھ کر داخل ہوتے ہیں.لیکن ان کا فیصلہ سطحی ہوتا ہے.اور حق ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہوتا.ان کا ابتدائی جوش بعض دفعہ اصل مخلصوں سے بھی ان کو بڑھ کر دکھاتا ہے.مگر ایمان کی جڑیں مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت خطرہ ہوتا ہے کہ وہ مرکز سے ہٹ جائیں اور حق کو پھینک دیں.ایسے ہی چند لوگ حضرت مسیح موعود کے سلسلہ میں داخل ہوئے اور ان کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کو بھی ابتلا آیا.‘ ( آئینہ صداقت ص 121 ) ان لوگوں میں سر فہرست خواجہ کمال الدین صاحب کا نام آتا ہے جو بااثر اور وجیہہ آدمی تھے.اور انہوں نے عیسائیت اور اسلام کے درمیان احمدیت کو ایک پختہ اور نسبتاً قابل اعتماد تحریک سمجھتے ہوئے قبول کیا.کہ خواجہ صاحب کے خیالات کو اپنانے کی وجہ سے ابتد اڈاکٹر عبد الحکیم کو جماعت سے خارج کیا گیا.اور آپ ہی کی تجویز تھی کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تذکرہ نہ ہو.اسی طرح آپ اپنے لیکچروں میں حضور کا ذکر مضر خیال کرتے تھے.خواجہ صاحب نے اپنے دوسرے نشانہ کے طور پر مولوی محمد علی صاحب کو منتخب کیا اور ان کو جماعت میں اہمیت دینے کی کوشش کرنے لگے.ان اختلافات اور فساد کو دیکھتے ہوئے حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے (خدا ان کو جنت (136)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل الفردوس عطا فرمائے) حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں چند سوالات لکھ کر دیئے.جن میں خلیفہ اور انجمن کے اختیارات کی وضاحت طلب کی گئی تھی.حضرت خلیفہ اول نے علمی تحقیق کے طور پر سوال جماعت کے بعض علماء کو دیئے کہ وہ اس کا جواب دیں.لیکن خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کے جوابات نے آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ انہوں نے خلیفہ کی حیثیت ایک مسجد کے ملا کے طور پر ظاہر کی تھی.اس موقعہ پر آپ نے ہمیشہ کے لئے اختلافات کو روکنے کے لئے 31 جنوری 1909 ء کی تاریخ مقرر کی اور اس دن تقریر کرتے فرمایا: خلافت شرعی مسئلہ ہے اور خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی....مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جنازہ یا نکاح پڑھانا ہے یا بیعت لے لینا ہے.یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اس کو تو بہ کرنی چاہیے." ( آئینہ صداقت ص 136) اور اس کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے بیعت لی.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب نے اس وقت بیعت تو کر لی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے ان کے دل پورے طور پر صاف نہیں ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے اس کے بعد خلافت کے خلاف محاذ برابر جاری رکھا بلکہ ایک سکیم بنائی.اور صدر انجمن کے کاغذات میں حضرت خلیفہ اول کی بجائے پریذیڈنٹ صاحب کے لفظ استعمال کرنے لگے تا کہ یہ سمجھا جائے کہ انجمن حضور کی باتوں کا احترام ان کے پریذیڈنٹ ہونے کی وجہ سے کرتی رہی نہ کہ با اختیار خلیفہ مسیح ہونے کی وجہ سے لیکن ایک موقعہ پر جب انجمن کے ان ممبروں نے حضرت خلیفہ اسیح کے ایک ارشاد کی خلاف ورزی کی تو حضور نے ان کو جماعت سے نکالنے کا ارادہ کر لیا.اور عید کا دن اس کے لئے مقرر فرمایا.لیکن ان لوگوں نے موقع شناسی سے کام لے کر دوبارہ معافی مانگ لی.مگر اپنی خفیہ ریشہ دوانیوں کو برابر جاری رکھا بلکہ جماعت کے بعض مسلمہ عقائد کے خلاف مداہنت والے عقائد کا اظہار کرنے لگے.جس پر جماعت ان لوگوں سے عموماً اور خواجہ صاحب سے خصوصاً بہت بدظن ہوگئی.(137)
مقدرت ثانیہ کا دور اول موت العالم موت العالم ہنوز سیر ندیدم جمال نورالدین که شد ز گردش کیتی وصال نورالدین تاریخ احمدیت میں 1914ء ایک یادگار تاریخی سال ہے کیونکہ اس میں قدرت ثانیہ کے مظہر اول اپنی اٹھہتر (78) سالہ کامیاب و با مراد زندگی گزار کر اپنے مالک حقیقی و خالق ہر دو جہاں سے جاملے.اور جماعت خلافت ثانیہ کے دور میں داخل ہوئی.حضرت صاحب 18 نومبر 1910ء کو قریباً ساڑھے چار بجے حضرت قاضی امیرحسین صاحب کے مکانات کے سامنے گھوڑی سے گر پڑے اور آپ کی پیشانی پر گہرا زخم آیا.اس طرح حضرت اقدس مسیح موعود کا کشف پورا ہوا کہ مولوی نور الدین صاحب گھوڑے پر سوار ہوئے ہیں اور گر گئے ہیں.( تذکرہ ص 671 ) اخبار الحکم نے اس حادثہ کی تفصیل اس طرح لکھی ہے : 18 نومبر 1910ء کو بعد نماز جمعہ حضرت خلیفتہ اسیح گھوڑے پر سوار ہو کر نواب صاحب (حضرت محمد علی خان صاحب ( کی کوٹھی پر تشریف لے گئے نواب صاحب 17 نومبر کو قادیان آئے تھے....واپسی پر گھوڑی نہایت تیزی اور بے خودی سے آرہی تھی ملک مولا بخش صاحب رئیس گورالی بیان کرتے ہیں کہ گھوڑی ایسی تیز اور بے خود تھی اور حضرت خلیفہ مسیح ایسی قوت اور اطمینان کے ساتھ اس پر بیٹھے تھے کہ میرے وہم گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا.میں نے بڑے سے بڑے سوار دیکھے ہیں مگر حضرت کی شان اس وقت نرالی تھی آخر گھوڑی ایک تنگ کوچہ سے ہوکر گزری اور حضرت زمین پر آ رہے اور پیشانی پر سخت چوٹ آئی...بالآخر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اور ڈاکٹر الہی بخش صاحب اور ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب نے زخموں کو درست کیا اور بدوں کلوروفارم کے عمل کے زخم کوسی دیا گیا حضرت کی عمر باوجودیکہ 80 سال کے قریب ہے (138)
قدرت ثانیہ کا دور اول لیکن دیکھنے والے دیکھتے تھے کہ زخم کے سئے جانے کے وقت آپ کے چہرہ یا بدن کے کسی حصہ میں کوئی شکن تک نہیں پڑا.استقلال اور ضبط نفس کا ایسا نمونہ تھا کہ وہ کامل (الحکم 28 نومبر 1910 ) ایمان کے بدوں ناممکن ہے.“ باوجود اس قدر تکلیف کے تحمل و بردباری حسب معمول تھی چنانچہ اس حادثہ کی خبر ملتے ہی قادیان کے مردوزن اکھٹے ہو گئے تو آپ نے عورتوں کو پیغام بھجوایا کہ.میں اچھا ہوں.میں گھبراتا نہیں.اور نہ میرا دل ڈرتا ہے وہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اپنا نام لکھوادیں میں ان کے لئے دعا کروں گا.“ ( الحکم 28 نومبر 1910ء) اپنی تکلیف دہ بیماری کے ابتدائی دنوں میں آپ نے احتیاط اور دُور اندیشی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”میرے حواس اس وقت درست ہیں اور موت کا کوئی وقت معلوم نہیں میں چاہتا ہوں تمہارے لئے ایک وصیت لکھ دوں تم آپس میں مشورہ کرلو...(الحکم 28 نومبر 1910ء) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اختلافات اور فتنہ کی دبی ہوئی چنگاریاں نظر آ رہی تھیں اور آپ اس کوشش میں تھے کہ ان کو ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کر دیا جائے اور اس کے لئے آپ نے اپنی زندگی بھر کی کوششوں کے علاوہ اس شدید بیماری میں بھی مسلسل جدو جہد جاری رکھی چنانچہ 27 دسمبر 1910ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر تمام انجمن ہائے احمدیہ کے عہد یداروں سے خطاب فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل اہم نصیحتیں کیں : 1 جھگڑے نہ کرو.2 صبر سے کام لو 3 اپنی ذاتی کمائی سے صدقہ خیرات دو 4.یہاں کے لوگ جن کے قبضہ میں روپیہ آتا ہے ان پر بدگمانی نہ کرو اور فرمایا کہ یہ باتیں (139)
تدرت ثانیہ کا دور اوّل میں نے سوچ سمجھ کر کہی ہیں میرے دماغ میں خشکی ہو تو ہومگر ان باتوں میں خشکی نہیں.آپس میں محبت رکھو.تنازعہ نہ کرو.بدگمانی نہ کرو کوئی اگر ناراض ہو تو صبر سے کام لو اور دعائیں کرو....(الحکم 7 جنوری 1911 ء ) 4مارچ 1914ء کو آپ نے سلسلہ کے آئندہ نظام اور اپنی اولاد کے لئے وصیت فرمائی اپنے بعد خلافت کا صراحتاً ذکر فرمایا تاکہ قدرت ثانیہ کا دائی وعدہ برقرار رہے.آپ کی وصیت کے الفاظ یہ تھے: بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم واله مع التسليم خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے.لا اله الا الله محمد رسول اللہ میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر مال نہیں ان کا اللہ حافظ ہے ان کی پرورش یتامی و مساکین سے نہ ہو کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جاوے لائق لڑکے ادا کریں یا کتب.جائداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے اصحاب سے سلوک چشم پوشی.درگزر کو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام ( دستخط ) 7 مارچ 1914 وصیت تحریر کرنے کے بعد آپ نے مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے مولانامحمد علی صاحب کو ارشاد فرما یا کہ وہ وصیت پڑھ کر سنائیں.حضور کے ارشاد پر مولوی صاحب نے یہ وصیت تین دفعہ پڑھ کر سنائی.یادر ہے کہ اس سے پہلے بھی حضرت خلیفہ اسی الاول نے ایک وصیت تحریر فرما کر ایک شاگرد شیخ تیمور صاحب کو دی تھی.متعدد مصدقہ روایات کے مطابق اس میں آپ نے اپنے جانشین کے طور پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدکا نام لکھا تھا.ہدایت دی تھی کہ علی اسوۃ ابی بکر جس کا نام (140)
لفافہ میں ہے اس کی بیعت کرو.قدرت ثانیہ کا دور اول 1913ء کے جلسہ سالانہ کے بعد حضور علی العموم اسہال، کمر درد اور بخار وغیرہ سے بیمار رہے اور جنوری 1914 میں تو آپ کمزوری اور بخار کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئے.اس حالت میں بھی آپ نے اپنی روح کی غذا یعنی قرآن مجید کی خدمت کا کام نہ چھوڑا اور علی العموم ظہر کے بعد مولوی محمد علی صاحب سے قرآن مجید کا ترجمہ اور نوٹ سنتے اور اس کی اصلاح فرماتے رہے.اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ فروری کے دوسرے ہفتے میں جبکہ کمزوری کی وجہ سے آپ سہارے کے ساتھ بھی نہ بیٹھ سکتے تھے فرمایا.میں بول تو سکتا ہوں.خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا.درس کا انتظام کرو میں قرآن مجید سنادوں.یہ فقرہ آپ کی قوت ارادی اور ایمان کی پختگی پر دال ہے ورنہ آپ اس وقت درس دینے کے قابل نہ تھے.13 مارچ 1914ء کو بروز جمعہ دو پہر سوا دو بجے کے قریب عین حالت نماز میں اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے.اور بہشتی مقبرہ میں اپنے آقا اور محبوب کے پہلو میں ابدی آرام گاہ میں دعاؤں، اشکوں اور آہوں کے ساتھ سلادئے گئے.آپ کی وفات ایک فرد کی وفات نہ تھی بلکہ ایک بلند مرتبہ مفسر عظیم الشان محدث ، حاذق طبیب سینکڑوں بیواؤں اور یتیموں کے سر پرست تمام جماعت کے مربی اور محسن بلکہ تمام دنیا کو اپنے گونا گوں کمالات سے متمتع کرنے والے شخص کی وفات تھی.یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات پر نہ صرف تمام جماعت نے بلکہ غیروں نے بھی آنسو بہائے اور گہرے رنج کا اظہار کیا چنانچہ چند اخبارات کے اقتباسات بطور مثال مندرجہ ذیل ہیں: اخبار ”زمیندار“ رقم طراز ہے: ”مولوی حکیم نورالدین صاحب کی شخصیت اور قابلیت ضرور اس قابل تھی جس کے فقدان پر تمام مسلمانوں کو رنج اور افسوس کرنا چاہیے.کہا جاتا ہے کہ زمانہ سو برس تک گردش کرنے کے بعد ایک باکمال پیدا کرتا ہے.الحق اپنے تجر علم وفضل کے لحاظ سے (141)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل مولانا حکیم نور الدین بھی ایسے ہی با کمال تھے افسوس ہے کہ آج ایک زبر دست عالم ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا.“ اخبار وطن:- زمیندار 19 مارچ 1914) مولوی صاحب مرحوم کیا بلحاظ طبابت و حذاقت اور کیا بلحاظ سیاحتِ علم و فضیلت و علمیت ایک برگزیدہ (بزرگوار) تھے.علم سے ان کو عشق تھا اور فراہمی کتب کا خاص شوق.( وطن 20 مارچ 1914 ) میونسپل گزٹ نے آپ کی خدمت قرآن کو سراہتے ہوئے لکھا:.مرحوم جیسا کہ زمانہ واقف ہے ایک بے بدل عالم اور زہد واتقا کے لحاظ سے مرزائی جماعت کے لئے تو واقعی ایک پاکباز اور ستودہ صفات خلیفہ تھے.لیکن اگر ان کے مرزائیانہ مذہبی عقائد نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو بھی وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں بے شک ایک عالم تبحر اور جید فاضل تھے.کلام اللہ سے آپ کو جو عشق تھا وہ غالباً بہت کم عالموں کو ہوگا.اور جس طرح آپ نے عمر کا آخری حصہ احمدی جماعت پر صرف قرآن مجید کے حقائق و معارف آشکارا فرمانے میں گزارا.بہت کم عالم اپنے حلقہ میں ایسا عمل کرتے ہوئے پائے جائیں گے.حکمت میں آپ کو خاص دستگاہ تھی.اسلام کے متعلق آپ نے نہایت تحقیق و تدقیق سے کئی کتابیں لکھیں اور معترضین کو دندان شکن جواب دئے.بہر حال آپ کی وفات مرزائی جماعت کے لئے صدمہ عظیم اور عام طور پر اہل اسلام کے لئے بھی کچھ کم افسوسناک نہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.“ میونسپل گزٹ 19 مارچ 1914ء) 000 (142)
درت ثانیہ کا دو راول حرف آخر تاریخی اعتبار سے خلافت اُولیٰ کا جستہ جستہ جائزہ لیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء اور خلفاء کے زمانوں کی جامع و مانع تاریخ مرتب کرنا کسی مورخ کے بس کی بات نہیں ہے.خدا کے ان مقربین کے عہد میں ملائکہ کی تائید سے واقعات کا پے در پے ایسا ہجوم ہوتا ہے.اور بیک وقت اتنے مفید، دور رس اور نتیجہ خیز واقعات ہورہے ہوتے ہیں کہ ایک ظاہر بین مورخ ان کی اہمیت کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتا حقیقت میں وہ واقعات ان انقلابات عظیمہ کا پیش خیمہ ہوتے ہیں جو روحانی تحریکوں کے عروج کے وقت رونما ہونے والے ہوتے ہیں.خلافت اولی کو ہی لیجئے یہ چھ سالہ مبارک اور شاندار دور ایسے متعد عظیم الشان واقعات کا حامل ہے.جن کی چند مثالیں آپ گزشتہ اوراق میں دیکھ چکے ہیں.لیکن بحیثیت مجموعی اس زمانہ پر نظر ڈالئے تو آپ کو تین نمایاں اور ممتاز محور نظر آئیں گے جن کے ارد گر د باقی تمام واقعات گھومتے ہیں.یعنی 1 - خدمت قرآن مجید 2 تربیت جماعت _3 استحکام خلافت خلافت کے ابتدائی دور میں جماعت میں بہترین منتظم وہی بزرگ ثابت ہوئے جنہوں نے آپ کے دامن تربیت سے فیض حاصل کیا.آپ نے ایک ایسی ٹیم تیار کی جو برابر اخلاص محبت ، جوش جذ بہ عزم اور استقلال سے اپنے فرائض منصبی کما حقہ ادا کرتے رہے.یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جو ازل سے مقربین خدا کے ساتھ ہی مخصوص ہے چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی، حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ، حضرت قاضی امیر حسین صاحب، حضرت مولوی محمد دین صاحب ، حضرت مولوی محمد سرور صاحب ، حضرت ملک غلام فرید صاحب ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ ان سب سے راضی ہو ) جیسے بزرگوں کو سلسلہ کا جو کام بھی تفویض ہوا انہوں نے اس میں اپنی خداداد قابلیتوں سے نمایاں کامیابی حاصل کی.(143)
قدرت ثانیہ کا دور اوّل آپ کی زندگی کا آخری اور عظیم الشان کارنامہ استحکام خلافت ہے.آپ نے ایام خلافت میں سب سے زیادہ توجہ اسی امر کی طرف مبذول فرمائی.چنانچہ آپ نے خلافت کو بار بار آیت استخلاف کے مطابق قرار دیا.خلافت کے منکروں اور فتنہ پردازوں کو فاسق کہا.اور اپنی خلافت کو الوصیت کے عین مطابق قرار دیا اور خلافت راشدہ کے مشابہ قرار دیا نیز اپنی آخری وصیت میں ” خلیفہ“ کے متعلق واضح ارشادات فرمائے.غرضیکہ زندگی بھر خلافت کے ثبات و استحکام میں کوشاں رہے اور جماعت کو اس مقام پر لے گئے کہ اس میں نظام خلافت اتنا مضبوط ومستحکم ہو گیا کہ اسے شک وشبہ کی آندھیوں سے کوئی خطرہ نہیں اور خلافت و جماعت احمد یہ لازم و ملزوم ہو چکے ہیں.( آپ کی وفات پر جو چند لوگ نظام خلافت سے ذاتی عناد و بغض کی وجہ سے الگ ہوئے وہ خودبھی خلافت کو لومیت کے مطابق قرار دے کر تسلیم کر چکے تھے) حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی وصیت آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دستور العمل ہو.باہم کوئی تنازع نہ ہو....چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو وحدت کو ہاتھ سے نہ دو دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کو تا ہی نہ کرو تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر از دیار نعمت ہوتا ہے.“ (خطبات نور 131 ) اے خدا! جماعت احمد یہ ہمیشہ خلافت کے انعام سے متمتع رہے کیونکہ امام کی برکت سے ہی جماعت بنتی ہے اتحاد قائم ہوتا ہے اور خدائی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے.آمین الھم آمین.(144)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نشار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب اُسے دے چکے مال و جہاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے و ہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے نشان آسمانی صفحہ 46 ( حاشیہ ) مطبوعہ 1892 ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 407) مسجد اور