Qismat Ke Samar

Qismat Ke Samar

قسمت کے ثمار

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

ے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار قسمت کے ثمار عبدالباسط شاہد - لندن

Page 2

قسمت کے ثمار گلدستہ مضامین عبد الباسط شاہد

Page 3

نام کتاب مصنف سال اشاعت : قسمت کے ثمار عبدالباسط شاہد-لندن $2016 محی الدین عباسی.(سینئر صحافی تجزیہ کار ) اہتمام اشاعت : QISMAT KE SEMAAR A Collection of Articles by Abdul Basit Shahid - London Abbasi Academy 24 Gresham Way SW19 8ED London - U.K Ph.: +44-794-007-7825 m.abbasi.uk@gmail.com رابطہ

Page 4

انتسا خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا عظیم انعام جماعتی اتفاق و اتحاد کی ضامن مومنوں کے ایمان اور یقین کی شاہد خلافت کے نام

Page 5

صفحہ نمبر 3 9 10 12 15 21 21 23 29 20 37 بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین نمبر شمار مضامین انتساب عرض حال پیش لفظ از مکرم ومحترم مولانا منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنيف اللہ کرے زور قلم اور زیادہ از مکرم و محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب سابق امام مسجد فضل لندن جهاد بالقلم از مکرم و محترم امام کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ سکینڈے نیویا ایک درویش کی کہانی خادم دین.ایک نظر میں میری والدہ مرحومہ مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ 41 45 48 ایک بے قرار تمنا ہمارا جلسہ سالانہ احمدیت کا نور بے پناہ کام کا جذبہ 2 3 4 5 6

Page 6

52 54 57 59 60 60 64 67 70 70 73 23 76 16 80 60 83 86 90 93 97 100 102 104 106 109 112 وقف جدید عافیت کا حصار مسجد - امن وسکون کا مرکز اہل جنت کی زبان برکات قرآن مجید وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا خلافت ایک بابرکت نظام ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں وقف زندگی تمدن اسلام ایک بری عادت.بخل زمین کے کناروں تک طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ ہمارا قیمتی وقت 7 سادہ زندگی 8 9 10 11 تعلیم وتربیت کا بہترین ذریعہ نوافل قرب الہی دو طرفہ محبت اور دعاؤں کے نظارے 12 13 جامعہ احمدیہ خوشی و خوشحالی 14 15 16 17 18 19 20 1 21 22 23 24 4 25 26 27

Page 7

115 118 121 124 127 131 134 137 141 144 148 152 156 160 164 167 170 174 177 180 184 بہشتی مقبرہ شادی اور غیر معمولی اخراجات جہادا کبر قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے درس حدیث ایک عظیم انقلاب انگیز تحریک حقیقی خوشی عظمت توحید صراط مستقیم متکبر کون ہے؟ سال نو - تجدید عہد حج ایک رسم نہیں بلکہ ایک عاشقانہ عبادت ہے آفتاب صبح نکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر اور عظمت محبوب خدا اصلا ایلم کی محبت قوم کے لوگوا دھر آؤ کہ نکلا آفتاب كِفَالَتِ یتامی - ایک اہم جماعتی ذمہ داری مشرقی افریقہ عزت وذلت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں انسانیت کے ناسور اخلاق سینه اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی 28 29 30 31 32 33 34 == 35 36 37 38 39 ☐ 40 41 42 43 44 45 46 47 48

Page 8

188 193 196 201 202 205 209 212 216 221 224 227 230 233 236 239 243 247 250 253 257 ربوہ اور قادیان کا سفر آسمانی تائید و نصرت خلافت پاکستان کے سفیر اطاعت احترام نظام خانه ات و یران تو در فکر دگر وقف عارضی.ایک بابرکت تحریک امن صلح - رواداری شرائط بیعت اور نظام وصیت غلبہ اسلام کی انسانی کوششوں کا نتیجہ اور قرآنی طریق اصلاح سید نا آنحضرت صالی ال سلیم کا فیصلہ برتر گمان دو ہم سے احمد کی شان ہے غیر محدود ترقی غیر معمولی با برکت جلسه سالانه ہمارا رمضان احمدی ماں کو سلام اسلامی کردار.جوش پر ہوش کو مقدم رکھیں خدمت دین کو اک فضل الہی جانو پانی کر دے علوم قرآں کو کیوں چھوڑتے ہولو گو نبی صلی لا الہ سلم کی حدیث کو ارتداد کی سزا مولانا صالح محمد احمدی صاحب 49 50 51 52 53 54 55 56 56 57 58 59 60 60 61 62 63 64 65 66 99 ☐ 67 68 69

Page 9

260 265 269 273 277 281 289 292 296 307 310 315 318 323 329 333 337 341 344 348 داستان حیات عرصہ سعی محبان تا ابد محدود ہے جلسہ سالانہ.احمد یہ چوک کی چند پرانی یادیں مهمان نوازی کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی دہشت گردی یا صلح و محبت ایک مثالی بہن حضرت مصلح موعود بنی ہے.ایک اولوالعزم را ہنما حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی الشمند مکرم سردار مقبول احمد صاحب ذبیح ایک مثالی رہنما قدرت کی نعمتوں کا ضیاع اخلاص و محبت کی پرانی یادیں تحریک جدید کے زندگی بخش مطالبات تحریک جدید - پس منظر کلام محمود حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری حضرت صاحبزادہ مرز ا وسیم احمد صاحب 00 اللهم لالى ولا على نهج البلاغه 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89

Page 10

عرض حال حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خادم نوازی سے اس خاکسار کو الفضل انٹرنیشنل میں خدمت کی سعادت حاصل ہوئی اور اس عظیم تاریخی اخبار میں ادار یے لکھنے کی توفیق ملی.خاکسار کی یہ کوشش و خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجددانہ علم کلام اور آپ کے خلفاء کرام کی تعلیمی تبلیغی رہنمائی سے استفادہ کرتے ہوئے مختصر اور سادہ طریق پر ضروری مسائل پر اپنی گزارشات پیش کرتا رہوں.بعض کرم فرماؤں کی ان گزارشات کے متعلق حوصلہ افزائی سے خاکسار یہ ادارئے اور چند دیگر مضامین کتابی شکل میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے.اس کام کی تکمیل میری بہن امتہ الباری ناصر صاحبہ اور عزیزم محی الدین عباسی صاحب کی محنت و کوشش کی رہین منت ہے.خدا کرے کہ میری یہ حقیر کوشش مفید و مقبول ہو.آمین.والسلام عبدالباسط شاہد 00

Page 11

پیش لفظ از مکرم محترم مولانا منیر الدین نشس صاحب.ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن) مکرم و محترم مولانا عبد الباسط شاہد صاحب کا مجموعہ مضامین بعنوان ” " آپ کے ہاتھوں میں ہے.عربی میں ایک مقولہ ہے کہ: أَحْسَنُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ یعنی بہترین کلام وہ ہوتا ہے جو مختصر ہو اور با دلائل ہو.سکولوں اور کالجوں میں بھی یہی سکھایا جاتا ہے کہ مضامین اور نقار پر وغیرہ کا خلاصہ نکال کر پیش کیا جائے تاکہ ایک نظر دیکھنے سے اصل پیغام کا پتہ چل جائے.میں آپ کو یہ امر نمایاں طور پر نظر آئے گا کہ مختلف عناوین کے تحت مختصر طور پر لیکن دلائل کے ساتھ بظاہر مشکل مضمون کو بھی بیان کر دیا گیا ہے اور بلا وجہ مضمون کو طول دینے کی خاطر اِدھر اُدھر کی باتوں کو درمیان میں نہیں لایا گیا ہے.قاری آسانی سے سارا مضمون جلد پڑھ لیتا ہے اور پیغام کو فوراً اخذ کرنے میں اُسے کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی.میں بہت سے عناوین کے تحت مختلف مضامین دئے گئے ہیں جو بہت سی معلومات پر مشتمل ہیں.یہ وہ مضامین ہیں جو مختلف اوقات میں الفضل ربوہ اور ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل میں طبع ہوتے رہے ہیں اور اب مکرم محی الدین عباسی صاحب نے قارئین کے فائدہ کیلئے انہیں یکجا طور پر جمع کر کے چھپوانے کا انتظام کیا ہے جو ایک احسن اقدام ہے.

Page 12

ان مضامین میں میرے لئے بھی بعض امور ایسے تھے جن کا مجھے پہلے علم نہ تھا.اُمید ہے کہ انشاء اللہ قارئین کیلئے بھی کئی امور نئے اور دلچپسی کا موجب ہوں گے.جہاں آپ ان مضامین سے فائدہ اُٹھا ئیں ، وہاں محترم مولانا عبد الباسط شاہد صاحب کیلئے دعا بھی کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں صحت و کام کرنے والی با برکت لمبی عمر سے نوازے.آمین.والسلام خاکسار منیرالدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف-لندن

Page 13

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ از مکرم و محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب سابق امام مسجد فضل لندن) برادرم محترم جناب عبد الباسط صاحب نے اپنی زیر طبع کتاب ” کا مسودہ خاکسار کو اس غرض سے بھجوایا ہے کہ خاکسار اس پر تبصرہ کرے.جناب عبد الباسط صاحب جامعتہ المبشرین میں میرے ہم مکتب تھے.ہم دونوں نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جید علماء اور محققین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے.جناب عبدالباسط صاحب کا تعلق سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک مخلص اور فدائی خاندان سے ہے، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ”سلطان القلم ہونے کے طفیل قلم کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت پر پر مغز اور ایمان افروز مضامین لکھنے کا شرف اور اعزاز پایا ہے.یہ سارا خاندان علم و عمل اور تقویٰ اور پرہیز گاری میں اپنی مثال آپ ہے.جناب عبد الباسط صاحب کے خاندان میں سلسلہ کے عظیم داعی الی اللہ، کہنہ مشق شاعر اور روح پرور مضامین لکھنے والے ادیب جناب نیم سیفی صاحب ہیں، جنہوں نے اپنی شاعری اور ادبی کاوشوں سے سلسلہ کی عظیم خدمت کی ہے.جناب عبد الباسط صاحب کے ایک صاحبزادے عزیزم رشید احمد اپنے حلقہ کے صدر ہیں.دوسرے صاحبزادے عزیزم آصف محمود نہ صرف ایم ٹی اے کے معروف اینکر اور تجزیہ نگار ہیں، بلکہ آپ نے اپنے والد صاحب محترم کے تتبع میں قلمی جہاد میں بھی خوب حصہ لیا ہے.

Page 14

جناب عبد الباسط صاحب کے داماد محی الدین عباسی صاحب ایک سینئر صحافی ہیں.ان دنوں آپ لندن میں مقیم ہیں اور پاکستان ، انگلستان اور یورپ کے اردو اخبارات ورسائل میں باقاعدگی سے کالم اور مضامین لکھتے ہیں.جناب عبد الباسط صاحب کی بڑی بہن امتہ اللطیف خورشید صاحبہ کو تاریخ لجنہ لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی.اسی طرح انہیں لمبا عرصہ مدیرہ مصباح کی خدمت بھی سرانجام دینے کی توفیق ملی.جناب عبد الباسط صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ ایک کہنہ مشق شاعرہ ہونے کے علاوہ ایک محقق اور ادیبہ بھی ہیں.لجنہ اماء اللہ کراچی نے آپ کی متعدد تصانیف شائع کی ہیں اور جماعت کے علمی ، ادبی اور تحقیقی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کیا ہے.حضرت خلیفہ ایسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو آپ کا پاکیزہ کلام بہت پسند ہے.مختصر یہ کہ یہ سارا خاندان آسمانِ احمدیت کے روشن ستاروں کی ایک کہکشاں ہے.اور بقول شاعر ایس خانه همه آفتاب است قسمت کے شمار علمی، ادبی، معاشرتی اور دینی مضامین کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے.یہ کتاب انشاء اللہ ہماری نئی نسل کیلئے بھی ایک مشعل راہ کا کام دے گی.آپ نے ان مضامین میں بعض مشکل مسائل کو نہایت سادہ انداز میں حل کیا ہے.ہر مضمون پڑھنے اور غور کرنے کے قابل ہے.جناب عبد الباسط صاحب نے میدانِ تبلیغ میں بھی سالہا سال بطور داعی الی اللہ کام کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی محنت اور تبلیغی جدو جہد میں تندہی کا آپ کو یہ صلہ عطا فرمایا کہ آپ کو سینکڑوں سعید روحوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنے کی توفیق ملی.خدا کرے کہ

Page 15

مضامین کا یہ خوبصورت گلدستہ اپنی خوشبو سے قارئین کے دل ودماغ کو معطر کرے.آمین.جناب عبدالباسط صاحب کو اللہ تعالی نے محض اپنے فضل سے ”سوانح فضل عمر کی تین جلدیں تالیف کرنے کا شرف بخشا ہے.یہ کام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع نے شروع کیا تھا اور اس کتاب کے پہلے دو حصے آپ نے رقم فرمائے تھے.بعد میں خلافت کی عظیم ذمہ داریوں نے آپ کو مزید لکھنے کا موقع نہ دیا اور آپ کی ہدایت پر یہ کام جناب عبدالباسط صاحب کے سپرد کر دیا گیا.اس کتاب نے جماعت کے علمی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کیا ہے.فالحمد للہ.آخر میں یہ کہہ کر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ ے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ خاکسار بشیر احمد رفیق سابق امام مسجد لندن

Page 16

جهاد بالقلم (از مکرم و محترم کمال یوسف صاحب - امام ومبلغ سلسلہ سکینڈے نیو یا) نزولِ قرآن مجید کی ترتیب کے لحاظ سے سب سے پہلی سورۃ العلق میں اللہ سبحانہ وتعالی نے الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (وہی ہے جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا) کے فرمان کے ساتھ مستقبل میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے عہد سعید میں قلمی جہاد کی پیشگوئی فرما کر قلم کی افادیت ، اہمیت اور ضرورت کی طرف امت محمدیہ کو توجہ دلائی ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے تمام ترقی کا راز قلم میں رکھ دیا.اگر قلم اور تحریر کا ملکہ انسان کو عطا نہ کیا جاتا تو کوئی ترقی ممکن نہیں تھی.“ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ سید نا حضرت محمد مصطفی احمدمجتبی کے خدام ختم المرسلین اور عاشق صادق کو 1901ء میں 'سلطان القلم ( تذکرہ صفحہ 333) کے لقب گرامی سے یاد فرما کر آپ ہی کے قلم کو ذوالفقار علی ( علم کی دودھاری تلوار ) کے نام نامی سے مخاطب فرمایا.سلطان القلم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشحات قلم سے جہاں خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام و قرآن حکیم کی برکات اور رسالت مآب حضرت رسول اقدس سیلیا کی تم کی صداقت کے حق میں قطعی اور یقینی دلائل اور علم و معرفت کی بے بہا دولت کے مخفی خزائن مال مفت کی طرح تقسیم ہونے لگی ، وہاں آپ علیہ السلام کا قلم ذوالفقار علی بن کر اسلام دشمنی کا قلع قمع کر کے ہر میدان میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑتا رہا.

Page 17

صف دشمن کو کیا ہم نے بہ حجت پامال سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے آپ علیہ السلام کے قلمی جہاد کے فتحیاب لوگوں کے پاک نمونہ کی پیروی میں اور آپ کی قوت قدسیہ کے فیضان سے قلمی جہاد کے میدانِ کارزار میں آپ کے مخلصین اور باصفا متبعین کی صف میں اوّل اوّل خلفاء احمدیت نے بیڑا اٹھایا اور قلمی جہاد کے زریں باب لکھے.پھر ان کے تتبع میں صحابہ کرام نے قلم کا حق ادا کیا.پھر تابعین نے قلم کے جو ہر دکھائے اور اب عصر حاضر کے تبع تابعین نے حسب توفیق ایزدی قلمی جہاد کے فریضہ کی ادائیگی میں اپنی اپنی خدمات پیش کیں جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے رشحات قلم سے علم ومعرفت کے فیض کا چشمہ ملک ملک اور قوم قوم کی علمی تشنگی کو سیراب اور شاداب کرتا چلا آ رہا ہے.صریر خامہ کے ہی دور حاضر کے دو نئے فعال اور متحرک معاون و مددگار MTA اور Islam.org نے جماعت کی قلمی کاوشوں کے آسمانی مائدہ کے شیر میں شمر کو دو چند کر کے ساری دنیا کی علمی پہنچ میں لا کھڑا کیا ہے اور اس علمی فیض کو فیض عام کر دیا.قسمت کے شمار ایک ایسے ہی قلم کار کی تصنیفی کاوش ہے جو جماعت احمدیہ کے قابل قدر قلمی مجاہدین کے ایک فعال اور متحرک ثمر آور رکن ہیں.مولا نا عبد الباسط صاحب شاہد سابق مبلغ ممالک مشرقی افریقہ، حلقہ مسجد مبارک اور قادیان دارالامان کی مصروف شخصیت میاں عبد الرحیم صاحب دیانت درویش کے صاحبزادے اور خاندان ہرسیاں کے جد امجد حضرت میاں فضل محمد ہر سیاں رضی اللہ عنہ کے پوتے اور حضرت حکیم اللہ بخش مدرس (ببے هالی) در بان حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے نواسے اور چشم و چراغ ہیں.شجرہ نسب کے اعتبار سے ددھیال اور نتھال دونوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہونے کی وجہ سے نجیب الطرفین ہیں.قادیان دارالامان میں حضرت الامان میں حضرت خلیفہ امسح الاول رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ اور جہاں آپ

Page 18

مطب فرماتے تھے اور مسجد مبارک اور دارا مسیح کے مقامات مقدسہ کے عین وسط میں ایک دو قدم کے فاصلہ پر واقع آپ موصوف کے والد بزرگوار میاں عبد الرحیم درویش کی جانی پہچانی معروف دیانت سوڈا واٹر فیکٹری تھی.آپ نے دکان کے سامنے ایک بلیک بورڈ آویزاں کر رکھا تھا.اس بورڈ پر روزانہ تازہ بتازہ دلچسپ اچھوتے جملے ، جو خدا تعالیٰ آپ کو سمجھاتا تھا، بڑے خوش خط چاک سے لکھتے تھے.خاکسار کو یاد نہیں کہ کبھی مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ یا دار مسیح کے مقامات مقدسہ کو جاتے ہوئے آپ کی عبارت آرائی بڑی دلچسی سے پڑھی نہ ہو بلکہ پہلے سے ہی منتظر رہتا تھا کہ دیکھیں آج آپ نے کیا لکھا ہوگا.آج محسوس ہوتا ہے کہ میاں عبد الرحیم درویش مرحوم کی اس وقت کی عبارت آرائی نے ہرسیاں کے اس وقت میں ساری دنیا میں پھیلے ہوئے وسیع ٹبر میں تحریر کے ملکہ کی جاگ لگادی ہو.خدا کے فضل سے آج اس خاندان میں ایک سے ایک بڑھ کر مشاق اور منجھے ہوئے مصنفین کی ایک کہکشاں ہے اور یہ سب کچھ حضرت سلطان القلم کے اعجاز کا کرشمہ ہے.برادرم مکرم عبد الباسط صاحب شاہد ان خوش قسمت واقف زندگی علماء میں ہے ہیں جنہیں بالکل عنفوان شباب میں بلکہ ابھی شاید ان کی میں نہیں پھوٹی ہوں گی ، حضرت المصلح الموعود کے ارشاد پر حدیث کے انتخاب کی سب سے بڑی کتاب مسند احمد بن حنبل کی تبویب کیلئے مامور کیا گیا.آپ کو سب سے کم عمری میں یہ اعزاز عطا کیا گیا.یہ عظیم علمی کام ہنوز نامکمل تھا کہ آپ کی تبد یلی بطور مبلغ کراچی ی فعال ترین جماعت میں کر دی گئی.آپ کی غیر حاضری میں تبویب کے کام کی رفتار میں کچھ ستی سی آئی تو آپ کو حضرت امصلح الموعود نے کراچی سے ربوہ بلا کر تبویب کے اہم کام کو پھر سے آپ کے سپر د کرتے ہوئے یہ تاریخ ساز جملہ فرمایا: آدمی محنتی اور سمجھدار ہو تو کم تعلیم کے باوجود بڑے بڑے کام کر سکتا ہے.“ اس فقرہ میں جہاں حضرت امصلح الموعود نے آپ کی محنت اور سمجھ بوجھ کی تعریف فرمائی وہاں اپنے حسن ظن اور نور فراست سے بڑے بڑے کام کرنے کی پیشگوئی بھی فرما دی.خدا

Page 19

کے فضل سے مسند احمد بن حنبل کی تبویب کا عظیم کام آپکو کرناہی تھا اور آپ نے کر کے ہی چھوڑا.یہ ایسا کام تھا کہ حضرت خلیفہ اسی الاول کی دیرینہ خواہش تھی بلکہ وصیت تھی کہ جماعت احمدیہ کا کوئی خادم اس کام کو کرے اور یہ کام حضرت اصلح الموعود کی توجہ اور دعا سے آپ کو کرنے کی توفیق ملی.ذالك الفضل يؤتيه من يشاءا کیا یہ عجیب اتفاق نہیں کہ آپ موصوف کو ہی حضرت اصلح الموعود کے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ میں پھیلے ہوئے کار ہائے نمایاں پر مبنی سوانح کی جلد سوم، جلد چہارم اور جلد پنجم کی تالیف کی سعادت سے نوازا گیا.وباللہ التوفیق.صرف یہی نہیں بلکہ خدا کے فضل سے کئی اور علمی اور تاریخی کتب کی تصنیف کی بھی آپ کو سعادت نصیب ہوئی.اس وقت زیر نظر آپ کی تحریری کاوش " ہمارے سامنے ہے.یہ ان منتخب مضامین کا مجموعہ ہے جو الفضل ربوہ اور الفضل انٹر نیشنل لندن کی زینت بنتے رہے.یہ دونوں معتبر اور مؤقر اخبار جماعت احمد یہ عالمگیر کی حقیقی روح کے ترجمان ہیں.آپ موصوف الفضل انٹرنیشنل لندن کے 2004 سے نائب مدیر رہے ہیں اور مدیر اعلیٰ کی غیر موجودگی میں اس کے قائم مقام مدیر بھی رہے ہیں.جس طرح الفضل انٹرنیشنل کی ادارت ایک غیر معمولی ذمہ داری کا کام ہے، ایسے ہی اس مؤقر اخبار میں ایڈیٹوریل کا کالم لکھنا بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے.خاکسار کو قسمت کے شمار کے مجموعہ کو بالاستیعاب ملاحظہ کرنے کا شرف تو حاصل نہیں ہو سکا، مگر یہ مضامین جب جب الفضل کی زینت بنتے رہے ، خاکسار بڑے شوق اور انہماک سے پڑھا کرتا تھا اور برادرم موصوف کی تحریری کاوشوں کو رشک کی نظر سے دیکھا کرتا تھا.آپ کے مضامین قیل و قال پر مبنی نہیں، بلکہ آپ کے مضامین قرآن وسنت اور حكم و عدل امام الزماں کی تعلیم کی روشنی اور مؤید من اللہ واجب الاطاعت خلفاء احمدیت کی تربیت اور نگرانی میں ایک فعال جماعت کی روز مرہ زندگی کے عملی مشاہدات اور

Page 20

واردات کا آئینہ ہیں.ان مضامین کا الفضل جیسے معتبر اخبار میں شائع ہونا ہی مقبول عام ہونے کی سند ہے.خاکسار نے سرسری طور پر کہیں یہ لکھ دیا ہے کہ اس خاندان میں ایک سے ایک بڑھ کر مشاق اور منجھے ہوئے مصنفین کی ایک کہکشاں ہے اور یہ سب کچھ حضرت سلطان القلم کے اعجاز کا کرشمہ ہے.یہ بات ایک مختصر سے نوٹ کا تقاضا کرتی ہے.برادرم و مکرم عبد الباسط صاحب شاہد کی ہمشیرہ مکرمہ محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ، جن کی جماعت کے علمی طبقہ میں بڑی شہرت ہے، کے متعلق سیدنا حضرت اقدس خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: للہ تعالی آپ کو خدمات دینیہ کے مقام محمود عطا فرمائے.“ اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اللہ ساتھ ہو اور سلطان القلم کے فیضان سے آپ کا قلم برکت پذیر رہے.آمین.“ انشاء اللہ العزیز خلفاء کرام کی ان دعاؤں کے فیض سے خاندان ہرسیاں کی روز قیامت تک کی نسلیں مستفیض ہوتی رہیں گی.محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کو صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں کم از کم سو کتب کی اشاعت کے منصوبہ پر کام کرنے کی توفیق ملی جو کہ ایک غیر معمولی کارنامہ ہے.آپ جماعت کی پائے کی نثر نگار اور میدان شعر وسخن کی شاہسوار ہیں.خاکسار کے ناقص علم میں لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میں آپ سب سے پہلی شعر و سخن اور نثر کی کہنہ مشق نقاد خاتون ہیں.آپ خود متعدد کتب کی مصنفہ ہیں اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے رسائل میں آپ کے مضامین اور منظوم کلام پڑھ کر ہم سب لطف اندوز ہوتے ہیں.آپ موصوف کی دوسری ہمشیرہ جو نائب مدیر روز نامه الفضل مکرمی شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم کی زوجہ محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ ہیں.آپ مسلسل آٹھ سال تک لجنہ اماء اللہ

Page 21

مرکز یہ ربوہ کے واحد ماہنامہ مصباح کی ادارت کرتی رہی ہیں.اسی طرح لجنہ اماءاللہ ربوہ مرکزیہ کے شعبہ تصنیف و اشاعت کو سالہا سال ہیڈ کرتی رہی ہیں اور آپ ہی کی نگرانی میں لجنہ نے متعدد کتب شائع کیں.ان کی چھوٹی بہن امتہ الشکور بھی پہلے ربوہ اور اب کینیڈا میں تحریر و اشاعت کی اہم خدمات بجالا رہی ہیں.مکرمی برادرم عبد الباسط صاحب شاہد کے داماد مکرمی محی الدین صاحب عباسی ایک فری لانس صحافی ہیں جن کے کالم انگلستان کے اور دیگر ممالک کے اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اور صحافی حلقوں میں ان کو بڑی پذیرائی ملتی رہتی ہے.آپ موصوف کے بہنوئی مکرمی عبد السلام ظافر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمد یہ یو کے شاعری میں ایک مقام رکھتے ہیں اور خدمت اسلام میں بھی ایک رتبہ رکھتے ہیں.آپ موصوف کے صاحبزادے عزیزم مکرم آصف باسط صاحب MTA کے معروف پروگرام راه بندگی کے پہلے اینکر پرسن تھے اور اب ایم ٹی اے کے ایک شعبے کے ڈائریکٹر ہیں اور جماعت احمدیہ کے تاریخی مسودات کی حفاظت کے ناظم مقرر کئے گئے ہیں.ان کے تحقیقی مضامین الفضل انٹرنیشنل اور ریویو آف ریلیجنز میں پڑھنے کو ملتے ہیں.ان کی شعر گوئی کا خاکسار بھی ایک فین ہے.احمدیت کے افق پر نئے ابھرنے والے شعراء میں قدم رکھ چکے ہیں.قسمت کے شمار کے مجموعہ کے ذکر کے علاوہ خود مجموعہ کے مصنف مکرمی عبد الباسط صاحب شاہد کا مختصر تعارف اور ان کے خاندان کا مختصر تذکرہ عوام الناس میں کسی کتاب کے روایتی رونمائی کے خلاف اس لئے ناگزیر ہوا تا کہ ” سلطان القلم کے فیضان سے آپ کا قلم برکت پذیر ہونے کی دعا کی قبولیت کو ملاحظہ کر کے قاری کا دل خدا تبارک تعالیٰ کی حمد وثنا کی طرف متوجہ ہو سکے.والسلام امام کمال یوسف مبلغ سکنڈے نیویا

Page 22

پیدائش وقف زندگی حادم دین.ایک نظر میں جامعتہ المبشرین سے فارغ التحصیل نائب معتمد خدام الاحمدیہ ربوہ الله معتمد خدام الاحمدیہ ربوہ 16 اگست 1933 ( قادیان) $1944 : $1956 : $1955 $1956 : 1956 : $ 1956-1957 جنوری 1973 تا اکتوبر 1973ء 1958 * 1962** 1958 نائب قائد خدام الاحمدیہ ربوہ مہتم اصلاح وارشاد مرکزیہ مدیر رساله خالد : درس ملفوظات درس قرآن مسجد مبارک ربوه : $ 1965** 1962 : $ 1968** 1967 * 1972*** 1969 * 1974** 1973 مر بی کراچی مربی ملتان مربی جہلم مربی تنزانیہ مربی کینیا

Page 23

مربی حیدر آباد مربی زیمبیا ، زمبابوے، ملاوی ممبر قضا بور ڈر بوہ وقف عارضی لیسٹر یو کے ناظم قضا بورڈیو کے نائب مدير الفضل انٹرنیشنل درس حدیث مسجد فضل لندن * 1975 ** 1974 : * 1987-1979 : * 1999** 1995 $2001 ** 1999 : 2001 تا حال 2004ء سے تا حال $2004 سب سے قبل زمبابوے میں دسمبر 1981ء میں تشریف لے گئے اور وہاں مشن ہاؤس کی عمارت خریدی.یکم جنوری 1982ء کو یہ عمارت احمد یہ مسلم ایسوسی ایشن کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی اور باقاعدہ مشن کا آغاز ہوا.تصنیفات: (بحوالہ افضل انٹرنیشنل 30 جون 1993 ء ) (1).سوانح فضل عمر - جلد سوم (2).سوانح فضل عمر - جلد چہارم (3) سوانح فضل عمر جلد پنجم (4).دعائے مستجاب (5).نہج الطالبین نصاب حدیث (6).دلچسپ سبق آموز واقعات (7)- قدرت ثانیہ کا دور اوّل (8) - 00

Page 24

ایک درویش کی کہانی درویش کی کہانی شروع کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ یہ کہانی کہاں سے شروع کروں کیونکہ درویشی تو ایک جذب وسرور کا نام ہے.کسی اعلیٰ مقصد کی خاطر سب کچھ چھوڑ دینے کا نام ہے جس طرح ہر زمانے میں سچائی کی خاطر جان قربان کر دینے والے گم نام سپاہی اور قوم کے خادم ہوتے ہیں کہ وہ کسی غرض ، نام و نمود، اجر و ثواب کے لئے نہیں بلکہ محض رضاء الہی کے لئے اپنے حال میں مست مخلوق خداوند کے عیال کی خدمت میں مصروف و مستغرق رہتے ہیں.میں جس درویش کی کہانی لکھ رہا ہوں یہ ایک طرح سے ایک دور یا ایک ادارہ کی کہانی ہے.جب نہایت مخدوش اور خطرناک حالات میں تقسیم ملک کے خون آشام فسادات میں ایک جماعت نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے یا یوں کہہ لیں کہ موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہوئے بہت نزدیک سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوب سوچ سمجھ کر اور شرح صدر سے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے بلند مقصد کی خاطر موت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.درویش کی زندگی کی ابتداء بظاہر درویشانہ تو ن تھی لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو درویشی کی جھلک وہاں بھی ضرور نظر آئے گی.ابتدائی تعلیم میں بہت اچھے شاگرد سمجھے گئے.جماعت چہارم میں وظیفہ کے امتحان کے لئے منتخب ہوئے.امتحان کی خوب تیاری تھی.ایک بزرگ استاد نے جائزہ 23

Page 25

لیا تو اس بات پر حیران ہو گیا کہ بچہ بڑے بڑے سوال آسانی سے زبانی ہی حل کرتا جارہا ہے.استاد صاحب نے شاگرد کو اپنی خوشنودی سے نوازتے ہوئے بازار سے تمباکو خرید کر لانے کی خدمت تفویض کر دی.اس خدمت کے دوران امتحان کا وقت نکل گیا یا یوں کہہ لیں کہ قدرت نے لائن تبدیل کر دی.مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا.حضرت مولانا ابوالعطاء کے ساتھ جگہ ملی.ایک بزرگ استاد کلاس میں داخل ہوتے ہی پیار و محبت کے اظہار کے طور پر پچھلے بینچ پر بیٹھے طالبعلموں کو ایک ایک ہاتھ رسید کرتے ہوئے آگے نکل جاتے.یہ حسنِ سلوک عجیب لگا.والد صاحب سے ذکر کیا.انہیں اپنے کاروبار میں ایک مددگار کی ضرورت تھی.بڑے بھائی بھی تو مدرسہ احمدیہ میں ہی پڑھ رہے تھے.فرمایا : ” بیٹا تم کا روبار میں میری مدد کیا کرو.“ چھوٹی عمر میں ہی ذمہ داریاں سنبھال لیں.ابھی کاروباری زندگی کا آغاز تھا.کچھ کر گزرنے کا عزم تھا کہ جماعت کے عظیم رہنما نے تحریک فرمائی کہ چھوت چھات کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہماری اقتصادی حالت کو خراب و ابتر کرتے چلے جارہے ہیں.اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی وہ چیزیں جو وہ ہمارے ہاں سے نہیں لیتے ان کے ہاں سے لینا بند کر دیں.اس قوم کی تجارتی اجارہ داری اور اقتصادی برتری کو دیکھتے ہوئے یہ اعلان ایسا انقلابی اور جراتمندانہ تھا کہ ایک دنیا حیران رہ گئی.اس نوجوان نے یہ چیلنج اس طرح قبول کیا کہ اپنے پیارے رہنما کی تجویز کو قابل عمل بنانے اور زیادہ مفید و مؤثر کرنے کے لئے ملائی برف ،سوڈ اواٹر اور مٹھائی بنانے کا کام نہ صرف شروع کر دیا بلکہ کئی نو جوانوں کو یہ کام سکھا کر انہیں بھی اس انتہائی مفید سکیم میں شامل کر دیا اور غیروں کی اقتصادی بالا دستی کے مقابل پر ایک نہایت مفید اور دور رس نتائج کی حامل تجویز کا ڈول ڈال دیا گیا.اپنی محنت ذہانت اور استقلال سے کام لیتے ہوئے کاروبار کو اس انداز سے وسعت دی کہ یہ لوگ دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگے کہ چھوٹے اور معمولی کاموں میں بھی اتنا منافع ہوسکتا ہے.ایک مصدقہ دستاویز کے مطابق تقسیم ہند کے وقت درویش کی قادیان میں جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے سے 24

Page 26

زیادہ تھی.( یہ اسوقت کی بات ہے جب گندم 5 روپے من اور دیسی گھی ایک روپے سیر ملتا تھا ) درویشی کی جھلک یہاں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے.جب حضور نے وقف جائیداد کا مطالبہ فرمایا تو وہ جائیداد جو موروثی یا پشتنی نہیں تھی بلکہ واقعی طور پر گاڑھے پسینے کی کمائی تھی پوری بشاشت کے ساتھ وقف کے لئے پیش کر دی.اس وقت تو یہ جائیداد عملاً اپنے مالکوں کے پاس ہی رہی تاہم اس درویش کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ قادیان میں مستقل رہائش رکھنے کے باوجود جائیداد پر غیروں کا قبضہ ہو گیا اور آپ نے اس جائیداد سے غیروں کو استفادہ کرتے ہوئے دیکھا مگر درویشی کی دولت کو اس جائیداد سے بڑھ کر ہی دیکھا اور سمجھا.یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہو گا کہ کاروبار کے عروج کے زمانہ میں بھی کبھی کوئی سال ایسا نہ گزرا جب سال میں ایک ماہ وقف عارضی کی سعادت حاصل نہ کی ہو.(اس قربانی کا اندازہ دکاندار اور کاروباری لوگ ہی پوری طرح کر سکتے ہیں ) شاید اسی وقف عارضی کی برکت تھی کہ تقسیم ملک کے وقت جب قادیان میں دھونی رمانے والے خوش قسمت افراد، درویش کے قابل فخر لقب سے پکارے گئے تو شرح صدر سے اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا.بیوی بچے پاکستان اس حال میں آئے کہ نہ تو ان کے پاس کوئی سامان تھا اور نہ کوئی قریبی رشتہ دار تاہم بڑے پر وقار طریق پر نا مساعد و ناموافق حالات میں ساری ذمہ داریاں ادا کیں.ہمارا درویش جو ایک وفاشعار خاوند اور جان نثار باپ تھا اگر اس مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کی جاوے تو یہ ایک مضمون نہیں کتاب بن جائے گی.لہذا صرف ایک ایک بات اختصار سے بیان کرتا ہوں.درویش کی شادی کے چند دنوں بعد ہی اس کی دلہن شدید بیمار ہوگئی.علاج معالجہ سے بہتری کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی.خاوند نے دوا دار و اور تیمارداری کا حق اس طرح ادا کیا کہ بعض قریبیوں کو خود اس کی اپنی صحت اور جان کے متعلق فکر ہونے لگا.اخلاص اور نیکی کی گود میں پرورش پانے والی خاتون نے شدید بیماری اور مایوسی کے عالم میں جب بھی آنکھ کھولی اپنے خاوند کو خدمت کے لئے 25

Page 27

مستعد اور ہشیار پایا.ایسے ہی ایک موقع پر مریضہ نے فرمائش کی کہ اسے بیت اقصیٰ کے اس کنوئیں کا پانی پلایا جائے جو حضرت مسیح موعود ع الاسلام استعمال کیا کرتے تھے.عقیدت ومحبت کے عالم میں یہ پانی آب شفا بن گیا اور اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی عطا فرمائی اور پھر ۵۰ سال سے زیادہ قابل رشک رفاقت رہی جس میں آدھے سے زیادہ وقت درویشی کی وجہ سے بظاہر الگ الگ گزرا مگر باہم افہام تفہیم اور عقیدت و احترام کا یہ عالم تھا کہ جدائی جدائی نہیں بلکہ قرب و وصال کے لئے باعث رشک بن گئی.بچوں سے محبت کی بے شمار مثالوں میں سے صرف یہی مثال کافی ہوگی کہ جب ایک بچہ ٹائیفائڈ بخار سے بیمار ہو گیا اور بیماری کی شدت کی وجہ سے بچے کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا تو اس کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں انہماک کی وجہ سے سارا کاروبار بند ہو گیا.ہر دوسرے دن ایک بکرا صدقہ دیا جاتا رہا.دعائیں ہوتی رہیں اور شافی مطلق نے بچے کو شفا عطا فرمائی اور درویش کی زندگی معمول پر آئی.اتنے پیار کرنے والے خاوند و باپ کو درویشی کی سعادت نظر آئی تو ایسی کوئی محبت اس کا راستہ نہ روک سکی.زمانہ درویشی میں ایک عرصہ تک جماعت کی طرف سے کوئی مدد حاصل نہ کی.کاروبار کے معاملہ میں ذہن بہت رسا تھا.جو کام کیا اس میں انہماک اور محنت کی وجہ سے کمال حاصل کیا اور یہ بھی کہ جس کام کی طرف توجہ کی اسے بغیر کسی باقاعدہ استاد کے خود ہی سیکھا اور پھر اس میں نئی نئی راہیں نکالیں.یہ ذکر ہو چکا ہے کہ آپ کو باقاعدہ تحصیل علم کا موقع تو نہ مل سکا تھا مگر طبیعت میں علمی رجحان و ذوق بدرجہ اتم تھا.جلسوں، مباحثوں میں بڑی رغبت سے شامل ہوتے.کچھ نہ کچھ پڑھتے بھی رہتے اور اس طرح معلومات کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر لیا تھا اور قدرت نے اسے استعمال کرنے کا خوب ملکہ عطا فرمایا تھا.گفتگو مؤثر دلچسپ ، برجستہ ہوتی جو برحل مثالی واقعات اور حوالوں سے مزین ہوتی.قادیان کی پرانی باتیں، احمدی بزرگوں کے حالات و واقعات بیان کرتے اور سماں باندھ دیتے.علمی ذوق و شوق کی وجہ سے دور دور جا کر قیمتی نایاب کتابیں خرید کر جمع کرتے گئے.اس شوق 26

Page 28

میں جلد بندی بھی خود ہی کرنے لگے.ایک دفعہ ان کا بڑا بیٹا جو مولوی فاضل ہونے کی وجہ سے پڑھا لکھا سمجھا جاسکتا تھا ان سے ملنے قادیان گیا ہوا تھا کہ رہائش گاہ میں شیلف بنا کر ہزاروں کتابیں چن رکھی ہیں.ہر کتاب کی حسب ضرورت سلائی ، جز بندی یا جلد وغیرہ بھی اپنے ہاتھ سے کی ہوئی ہے.اس نے کہا کہ ابا جان، آپ نے یہ بہت بڑی ذمہ داری از خود اپنے اوپر ڈال رکھی ہے.اس کا آپ کی صحت پر برا اثر پڑتا ہوگا اور پھر یہ کوئی منتخب کتابیں بھی نہیں ہیں آخری بات کا پہلے جواب دیتے ہوئے بڑے اعتماد اور وثوق سے کہنے لگے کہ بیٹا ایک ہزار سے زیادہ کتابیں یہاں رکھی ہیں.آپ ان میں کسی ایک کتاب کی نشان دہی کریں جو ہمارے علم کلام میں مفید نہ ہو یا جس میں کوئی غیر معمولی علمی اور دلچسپی کی بات نہ ہو اور حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ نے قریباً ہر کتاب پر نشان لگائے ہوئے تھے یا شروع میں نوٹ دئے ہوئے تھے جن سے ان سب کی افادیت ، خصوصیت پہلی نظر میں سامنے آجاتی تھی.علم کے شوق کی بات چل رہی ہے تو یہاں یہ بات بھی بے محل نہ ہو گی کہ آپ ہمیشہ ہی کسی بزرگ کی یہ بات کیا کرتے تھے کہ وہ کسی لمبے سفر پر جاتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس اشرفیوں کی ایک تھیلی چھوڑ گئے.برس ہا برس کے بعد واپسی ہوئی.اپنی بیوی سے اور باتوں کے علاوہ اپنی اس رقم کے متعلق بھی پوچھا.اس نے کہا کہ جلدی کیا ہے.میں سب کچھ آپ کو بتا دوں گی.وہ بزرگ نماز پڑھنے گئے تو دیکھا کہ نماز کے بعد ایک نوجوان نے درس دینا شروع کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ بڑی توجہ اور عقیدت سے اس سے استفادہ کر رہے ہیں.گھر واپس آکر اپنی بیوی سے ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ درس دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا بیٹا ہے جسے میں نے دینی علوم سے آراستہ کرنے کی ہر کوشش کی ہے اور خدا کا فضل ہے کہ وہ نو عمری میں پختہ کار عالم بن چکا ہے.اب آپ یہ بتائیں کہ آپ اپنے لئے یہ بات زیادہ پسند کرتے ہیں یا وہ رقم زیادہ پسند کرتے ہیں جو میرے پاس چھوڑ گئے تھے.یہ بات سنا کر بڑے کیف کے عالم میں کہا کرتے تھے کہ اس شخص 27

Page 29

نے تو اپنی بیوی کو سرمایہ دیا ہوا تھا مگر میں نے اپنی بیوی کو خالی ہاتھ بچوں کے ہمراہ پاکستان بھجوادیا تھا اور اس نے میرے سب بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا.ایک اور بات یاد آ رہی ہے جو ربوہ کے ایک بزرگ نے کئی دفعہ سنائی کہ ایک دفعہ بھائی جی اپنے ایک بچے کو ہمراہ لے کر میری دکان پر رکے اور اسے ایک جو تا خرید کر دیا.میں نے ان سے کہا کہ بھائی جی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے یہ ستا جوتا خرید کیا ہے.....کہنے لگے کہ یہ ٹھیک ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مگر میں نے اس بچے کی زندگی وقف کی ہے اسے سادگی کی عادت ہونی چاہیے ان کی نیک نیت کی برکت سے اس خاکسار کو کئی ممالک میں خدمت دین کی توفیق ملی جو پیارے ابا جان کی طمانیت کا باعث تھی اور اب صدقہ جاریہ ہے.میرے ابا جان ۶ فروری ۱۹۸۰ کو ربوہ میں وفات پاگئے جسد خا کی قادیان پہنچایا گیا خاکسار نے یہ خبر افریقہ میں سنی.درجات کی بلندی کے لئے دعا گور ہتا ہوں.مولی کریم اعلی علیین سے نوازے.آمین اللھم آمین.28

Page 30

میری والدہ مرحومه مکرمه آمن بیگم صاحبه ہماری والدہ کی ابتدائی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی.اُن کی والدہ بہت کم سنی کے عالم میں وفات پا گئی تھیں.اس لئے باوجود علم دوست باپ کی بیٹی ہونے کے ظاہری تعلیم سے محروم ہی رہ گئیں.شادی کے جلد بعد ہی اماں جی کی صحت خراب ہو گئی.علاج معالجہ کے باوجود حالت بگڑتی چلی گئی.علاج و تیماداری کا ہر ممکن طریق اختیار کیا گیا.ایک رات جبکہ بہت فکر اور تشویش والی حالت تھی.مریضہ کو ہوش آئی تو اس نے اپنے خاوند کو سرہانے بیٹھا دیکھا.مریضہ نے فرمائش کی کہ مجھے مسجد اقصیٰ کے کنوئیں کا پانی پلائیں جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام استعمال فرمایا کرتے تھے، خدا تعالی کی قدرت سے یہ پانی آب شفا بلکہ آب حیات ثابت ہوا اور خدا تعالی نے نئی زندگی عطا فرمائی.قادیان کے مقدس ماحول اور علمی ذوق کی برکت سے اماں جی نے کلام اللہ پڑھنا سیکھ لیا.خطبات ، درس، لجنہ کے اجلاسوں میں کمال اہتمام و با قاعدگی سے شمولیت کی وجہ سے علم وسیع ہوتا چلا گیا.حرف شناسی اور لگن کی وجہ سے درثمین اور الفضل ہمیشہ ہی زیر مطالعہ رہتا.درثمین اور کلام محمود کے اشعار کثرت سے زبانی یاد تھے.ہم بہن بھائیوں نے ہی نہیں محلہ کے متعدد بچوں نے اس، ان پڑھ، خاتون سے علم کا ذوق حاصل کیا.اللہ تعالی کے فضل سے خاکسار کو کچھ عرصہ تنزانیہ (مشرقی افریقہ ) میں خدمت دین کی 29

Page 31

سعادت حاصل ہوئی.وہاں ایک پرانی طرز کے معمر ہندو دوست تھے، علمی طبیعت رکھنے اور غیر متعصب ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم تھے ایک دفعہ وہ خاکسار سے پوچھنے لگے کہ آپ کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے دادا جان ایک دکاندار تھے.آپ کے والد صاحب نے اس کا روبار کو مزید وسعت دی اس صورت میں جبکہ آپ کا خاندان دنیا کمانا جانتا اور دنیاوی کشش سے بخوبی واقف تھا آپ اس طریق کو چھوڑ کر خدمت دین کی طرف کس طرح آگئے؟ خاکسار نے انہیں اس سعادت کے حصول کو فضل الہی کا نتیجہ بتایا اور بھی بتا یا کی ظاہری طور پر تو اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ میرے بچپن کی سب سے پرانی یا بلکہ پہلی یاد یہ ہے کہ اماں جی مجھے بہلاتے ، کھلاتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ میرا بچہ دین کی خدمت کرے گا.لوگوں کو راہ حق کی طرف بلائیگا.اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے خدمت دین کا جذ بہ مجھے میری ماں نے اپنے دودھ کے ساتھ پلایا تھا جو میرے رگ وپے میں جاری ہے.اماں جی کی زندگی کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.قادیان کی رہائش کے زمانہ میں خدا تعالی کے فضل سے ہر طرح فراخی تھی.ہر ضرورت اور جذبے کا پوری طرح خیال رکھنے والا شوہر موجود تھا.ایسی فراخی کے زمانہ میں دینی احکام کی کماحقہ تعمیل کرتیں.پردہ اور حیا اگر ایک احمدی عورت کا زیور اور خوبصورتی ہے.تو آپ میں یہ بدرجہ کمال موجود تھا.حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال احتیاط و التزام ہوتا.قادیان سلسلہ احمدیہ کا مرکز تو تھا ہی اماں جی کے حسن سلوک کی وجہ سے ہمارے سب رشتہ داروں کا مرکز ہمارا گھر بنارہتا تھا غریب رشتہ داروں کی مدد کر کے خوش ہوتیں.ابا جان کی طبیعت کو اس طرح سمجھتی تھیں کہ بسا اوقات بات کے لئے بات کہنے یا اشارہ کرنے کی بھی نوبت نہ آتی اور ایک دوسرے کے منشاء کے مطابق عمل ہو جاتا.خدا تعالی کے فضل سے ہم نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں میاں بیوی کی باہم ناراضگی، ناخوشی اور جھوٹ وغیرہ کا 30

Page 32

بالکل کوئی دخل نہیں تھا.قادیان کے زمانہ کی صرف ایک بات اور تحریر کرتا ہوں.ابا جان کو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں اکثر بٹالہ، امرتسر جانا پڑتا تھا تحر یک جدید کے اجراء سے پہلے کا زمانہ تھا جب کبھی موقع ملتا سینما بھی چلے جاتے اور اس طرح واپسی میں دیر ہوتی مگر کوئی حل نظر نہیں آتا تھا.ایک جمعہ کے دن یہ پروگرام بنا کہ جمعہ سے واپسی کے بعد امرتسر جانا ہے اور وہاں سے شوق سینما بینی پورا کر کے واپسی ہو گی.اماں جی نے کہا کہ خدا کرے حضور آج کے خطبہ میں سینما جانے پر پابندی لگا دیں.خدا کی قدرت حضور کے خطبہ کا موضوع سادہ زندگی تھا اور سینما بینی کی ناپسندیدگی کا اظہار تھا.اماں جی تو خوش خوش واپس آئیں اور ابا جان کی نظر میں اماں جی کا مقام اور زیادہ بڑھ گیا اور اس کے بعد اس لغویت سے مکمل اجتناب اختیار کیا.اماں جی کی زندگی کا دوسرا دور پاکستان کے قیام کے بعد شروع ہوا.تقسیم ملک کے وقت تو غالب خیال اُمید اور خواہش یہی تھی کہ جماعتی مسلک و کوشش کے مطابق قادیان پاکستان میں شامل ہو.ابتدائی اعلان تو یہی ہوا مگر بعد میں سازش کے گھناؤنے کاروبار کے نتیجے میں قادیان ہندوستان میں شامل ہو گیا اور ہمیں بادل نخواستہ قادیان چھوڑنا پڑا.ابا جان کو اللہ تعالیٰ نے درویشی کی سعادت سے نوازا.ہم سات بہن بھائی اماں جی کے ساتھ اس حال میں پاکستان آئے کہ نہ تو ہمارا نھیال ادھر تھا اور نہ ہی ددھیال.ظاہری طور پر کوئی ذریعہ اور سہارا نہیں تھا.یہ ایک لمبی اور پُر درد داستان ہے جسے ایک طرف چھوڑتے ہوئے صرف یہی کہنے پر اکتفا کروں گا کہ امی جان کی عمر اس وقت صرف 35 سال تھی.سات بچے ہمراہ تھے ، آٹھواں بچہ ہمارا چھوٹا بھائی عبدالسلام طاہر پاکستان آنے کے بعد پیدا ہوا.یہ صورتحال اماں جی کے لئے اتنا بڑا چیلنج تھا کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ، کوئی صاحب دل ہی اس کا احساس کر سکتا ہے.ان حالات میں جب بڑے بھائی جان عبدالمجید نیاز نے پڑھائی چھوڑ کر کوئی کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اماں جی نے بلا تامل اس تجویز کو سختی سے 31

Page 33

رڈ کر دیا.توکل اور عزم کی یہ عجیب مثال ہے، بغیر کسی معین و معقول آمدنی کے آپ نے ہر حال میں پڑھائی جاری رکھنے کوضروری سمجھا ، جماعت کی طرف سے کچھ عرصہ پندرہ روپے ماہوار کی مددضرور ملی مگر وہ بھی جاری نہ رہ سکی تاہم پ نیتینوں لڑکوں کو ہی نہیں پانچوں لڑکیوں کو بھی پڑھائی کی طرف راغب رکھا.اس جذبہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت ملی.ہم سب بھائی بہنوں کو تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ اپنے اپنے رنگ میں سلسلہ کی خدمت کی توفیق بھی ملی.-1 اماں جی کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات ہیں، بطور مثال عرض ہے کہ ایک دفعہ ہماری ایک بہن نے امتحان کے بعد بتایا کہ میرا ایک پرچہ توقع کے مطابق نہیں ہوا اور اس کے متعلق فکر ہو رہا ہے اماں جی جو معمولاً ہر بچے کے لئے دعا کرتی تھیں زیادہ توجہ سے دعا کرنے لگیں خواب میں انہیں نمبر بتائے گئے مگر انگریزی ہندسوں میں لکھے ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ نہ سکیں اور اپنی سجدہ گاہ کے قریب زمین پر انگلی سے ایک ہندسہ کا نشان بنالیا صبح اٹھ کر بتایا کہ شروع کا ہندسہ 3 اس طرح کا تھا، میری بہن کے لئے تو یہ بڑی خوشخبری تھی کہ تین سو سے زائد نمبر حاصل ہوں گے اور خدا تعالی کے فضل سے نتیجہ نکلنے پر پتہ چلا کہ ان کہ نمبر تین سو سے زائد ہی ہیں.جماعت کی طرف سے ملنے والی مدد 15 روپے ایک چھوٹی بہن دفتر سے لے کر آرہی تھیں، پیسے دوپٹے کے کونے میں باندھے ہوئے تھے، گھر پہنچ کر رقم اماں جی کو دینے لگیں تو چاروں کو نے خالی تھے معلوم ہوا کہ بے احتیاطی سے دی گئی گرہ رستہ میں کھل گئی اور رقم ضائع ہو گئی.ظاہر ہے کہ ان حالات میں پندرہ روپے کی قیمت پندرہ سو یا پندرہ ہزار کے برابر تھی.اماں جی کو اس کی ضرور تکلیف ہوئی ہوگی.دعا بھی ضرور کی ہوگی.خدا کی قدرت گھر میں رکھے ہوئے چوزوں میں سے ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر مر گیا.وہی بہن اسے دبانے کے لئے باہر لے کر گئیں.ایک جگہ ریت کا -2 32

Page 34

ڈھیر دیکھ کر چوزہ دبانے کے لئے اسے کھودا تو وہاں پندرہ روپے کی وہی رقم پڑی ہوئی تھی.کسی بچے نے وہاں محفوظ کی تھی یا کیا صورت ہوئی مگر خدا نے اپنی ایک عاجز بندی کی دعا اس طرح منظور فرمائی اور اس کی تکلیف دور کرنے کا غیب سے سامان فرمایا.مذکورہ حالات میں پانچ بیٹیوں کی شادی ایک بہت ہی کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا.خدا تعالی کے فضل سے دعاؤں کی برکت سے بڑے وقار اور عمدگی سے اپنے _3 اپنے وقت میں سب کی شادیاں ہوئیں اور خدا تعالی کے فضل سے اپنے اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں.سب سے چھوٹی بہن کی شادی کے سلسلہ میں ایک بات یاد آرہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سب شادیاں کس طرح خدا تعالی کے فضل سے کامیاب ہوئیں.چھوٹے بھائی میٹرک پاس کرنے کے بعد کام کی تلاش میں حیدرآباد چلے گئے.اب گھر میں اماں جی اور سب سے چھوٹی بہن ہی تھیں، اس حالت میں انہیں اس کے جلد رشتہ کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی بتا یا کرتی تھیں کہ ایک دن عصر کی نماز میں دعا کر رہی تھیں کہ اے خدا تو نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے.میری اس بیٹی کا جوڑا بھی تو نے ضرور بنایا ہوگا مگر مجھے تو اس کا کوئی علم نہیں ہے.اے خدا تو اپنے فضل سے اسے میرے گھر بھجواد...ابھی عبادت ختم نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا چھوٹی بہن نے دروازہ کھول کر مہمانوں کو بٹھایا.امی جان عبادت سے فارغ ہو کر مہمانوں کے پاس گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ رشتہ کی تلاش میں آئی ہیں اور یہ کہ انہیں کسی مرکزی عہدیدار نے غالباً استانی میمونہ صوفیہ محترمہ نے مشورہ پوچھنے پر بتایا کہ فلاں گھر میں چلی جاؤ.درویش کی بیوی نے بچیوں کو گلے سے لگا کر ان کی کمائی کا لالچ نہیں کیا اور صحیح عمر میں بچیوں کے رشتے کر دیئے ہیں.امی جان نے سمجھا کہ یہ خدا تعالی کا فضل اور 33

Page 35

میری دعا کا جواب ہے تاہم آنے والی خاتون کے اصرار پر اگلے روز ان کے ہاں گئیں.واپس آئیں تو دروازہ میں نے کھولا.میری طرف دیکھ کر خوش تو وہ طبعی طور پر ہوئیں.مگر ان کا رد عمل عام خوشی سے کچھ زیادہ تھا میں نے کہا کہ آپ کو میری ربوہ آمد کی خوشی نہیں ہوئی (ان دنوں خاکسار ملتان میں بطور مربی خدمت بجالا رہا تھا) کہنے لگیں کہ خوشی جیسی خوشی میں ان کے ہاں سے ہو کر آرہی ہوں.واپسی پر میں سوچ رہی تھی کہ بچی کے ابا جان قادیان ہیں میں گھر میں اکیلی ہوں اس سلسلہ میں کس سے مشورہ کروں گی اور پھر میں نے آتے آتے دعا کی کہ خدا کرے میرے گھر پہنچنے پر دروازہ میرا بیٹا کھولے اور خدا کی شان ہے کہ دروازہ کسی اور نے نہیں بلکہ تم نے ہی کھولا.-4 ایک دفعہ ایک چھوٹی بہن امتہ الباری ناصر نے جو لاہور میں زیر تعلیم تھیں لکھا کہ ہوٹل میں کھانا تو برابر ملتا ہے مگر کبھی کبھی پڑھتے ہوئے کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے اگر کوئی پنجیری بنا کر بھجوا دیں تو مجھے بڑی سہولت ہوسکتی ہے.یہاں پنجیری کی عیاشی کا بھی سامان نہیں تھا.درویش کی بیوی خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوگئی ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوئی تھیں کہ آواز آئی کہ یہ گھی چھوڑے جارہی ہوں نماز کے بعد اسے سنبھال لیں سلام پھیر کر دیکھا تو گھی کا بھرا ہوا ایک کٹورا تھا اس سے پنجیری تیار کر کے لاہور بھجوا دی.بعد میں پتہ چلا کہ ایک پڑوسن کو دیسی گھی کا تحفہ ملا تھا، خدا نے اس کے دل میں ڈالا کہ اس میں سے آدھا اپنی در ولیش بہن کو دے آؤں._5 خدائی تائید کے ایسے متعدد واقعات ہمیں بتا یا کرتی تھیں مثلاً یہ کہ ایک دفعہ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس حیدر آباد گئی.شام کو یہ خیال آیا کہ ان کے پاس کوئی زائد چار پائی تو نہیں ہے اور سوتے وقت مشکل پیش آئے گی اور بچے میرے 34

Page 36

آرام کی خاطر خود تکلیف اٹھائیں گے کیا ہی اچھا ہو کہ اللہ تعالی غیب سے چار پائی مہیا فرما دے.میں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی نے باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپکے ہاں مہمان آئے ہیں آپ کو چار پائی کی ضرورت ہوگی یہ چار پائی لے لیں.اس غیبی تائید کا ذریعہ بننے والے فرشتہ سیرت بزرگ مکرم مرزا محمد اور میں صاحب سابق مربی انڈونیشیا اور مرزا محمد اکرم صاحب کے والد محترم مرزا محمد اسماعیل صاحب تھے ) جیسا کہ ذکر آچکا ہے 35 سال کی عمر میں اماں جی پاکستان آگئیں میرے والدین جو ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے مسابقت فی الخیرات کے جذبہ سے زندگی حاصل کرنے لگے اگر اماں جی میں ایمان و توکل اور سادگی و صبر کی عادت نہ ہوتی تو ابا جی درویشی کی سعادت ہرگز نباہ نہ پاتے اماں جی نے نہ صرف اکیلے رہنے اور بچوں کی ساری ذمہ داریوں کی بااحسن ادائیگی کا چیلنج قبول کیا بلکہ ابا جان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں اور کبھی پریشانی طعن و تشنیع اور کم حوصلگی کا مظاہرہ نہ کیا.قادیان میں قیام کے ایام میں ابا جان ہر سال ایک مہینہ وقف عارضی پر جماعتی انتظام کے تحت جاتے تھے ابا جان کے لئے یہ نیکی بھی اماں جان کے تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوتی اور اسی جذبہ نے درویشی کی زیادہ بڑی نیکی کی توفیق عطا فرمائی.اماں جی نے بڑے سخت وقت دیکھے مگر بڑے وقار کے ساتھ ان سے عہدہ برآ ہوئیں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری ایک بہن کی بیماری شدت اختیار کر گئی جب ان سے پوچھا گیا کہ اسے دوائی کیوں نہیں دی ، ہسپتال سے دوائی دلانے میں صرف دو پیسے کی پرچی بنوانی پڑتی ہے تو پتہ چلا کہ بچی کے علاج کے لئے مامتادو پیسے بھی مہیا نہیں کر پائی.ایسے اور اس جیسے اور واقعات میں ہم نے ہی نہیں ہمارے سب جاننے والوں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے یہ وقت گزارا.وقار اور سفید پوشی پر کبھی کوئی داغ نہ لگنے دیا مگر ایک 35

Page 37

وقت ایسا آیا کہ ہم سب نے انہیں سخت متفکر و پریشان دیکھا اور ایسا اس وقت ہوا جب انہیں ابا جان کی شدید بیماری کی اطلاع ملی.سب بچوں کو تاکید کی کہ ابا جان کو زیادہ با قاعدگی سے خط لکھیں بزرگوں کے پاس جا کر دعا کی درخواست کرتیں قادیان سے مسلسل رابطہ رکھا خود وہاں جا کر تیمارداری کا فرض ادا کرنے کی کوشش کی غرضیکہ ہر انسانی کوشش کی میرا یقین ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے ہی اتنی پریشان و بے قرار نہ تھیں کیونکہ اسے وہ عملاً جوانی کی عمر میں ہی خدا تعالی کی خاطر چھوڑ آئی تھیں یہ پریشانی و فکر ایک درویش خاوند کو ایک درویش بیوی کا نذرانہ محبت و عقیدت تھا.1976ء میں اپنی شادی شدہ زندگی کا نصف سے زیادہ عرصہ اپنے خاوند سے الگ بہت بڑی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بڑے ہی سیلقہ ، وقار، متانت وعزت سے گزار کر بڑی مختصر بیماری کے بعد با مراد و کامیاب، خوش خوش خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئیں.اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہابیار خاکسار اس وقت کینیا میں تھا.اپنی پیاری ماں کے آخری دیدار سے محروم رہا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور بزرگانِ جماعت نے تعزیت فرمائی.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی تو فیق مرحمت فرمادے اور ان سے بخشش فضل کا سلوک فرمادے.آمین اللهم آمین.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں میاں عبدالرحیم صاحب درویش کا نمبر 787.(ص 61) اور آمنہ بیگم صاحبہ کا نمبر 722 ہے.(ص37) ہے 00 36

Page 38

ایک بے قرار تمنا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مولانا مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ا یک دفعہ جب آپ پاٹھ قادیان میں دار مسیح کے حجرہ میں مقیم تھے کہ باہر دروازے پر کسی نے آواز دی.حضور علیہ السلام نے آپ مبنی تھنہ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ان سے دریافت کرو اور یہ کیا کہتے ہیں.حضرت مفتی صاحب بنی یہ ارشاد حضور کی تعمیل میں باہر تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ حضرت محمد احسن صاحب کے ایک رشتہ دار قاضی آل محمد صاحب بنی ہی ہیں.حضرت مفتی صاحب بھی انھوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ میں تو حضرت صاحب سے خود بات کروں گا.آپ کو نہیں بتانا چاہتا.حضرت مفتی صاحب بنالی ہو نے واپس جا کر حضور علیہ السلام کو ان کا جواب سنایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت کسی اہم کام میں مصروف تھے.آپ نے دوبارہ سہ بارہ حضرت مفتی صاحب ہی کو ان کی طرف بھیجا کہ ان سے جا کر کہو کہ جو بات بتانی ہے آپ کو بتادیں.میں باہر نہیں آسکتا.میرا حرج ہوتا ہے.آخر انہوں نے بتایا کہ حضرت محمد احسن صاحب نے انہیں حضور علیہ السلام کے پاس فلاں مناظرہ میں کامیابی کی خوشخبری سنانے کیلئے بھیجا ہے.حضرت مفتی صاحب بولی الھند نے یہ بات جب حضور علیہ السلام کو بتائی تو آپ مالیت نے فرمایا کہ میں نے سمجھا کہ شاید یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے.ذکر حبیب صفحہ 52-53 سے استفادہ) 37

Page 39

روز مرہ کے معمولات میں ہونے والا یہ بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس پر معمولی غور سے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے قلب صافی میں کس طرح یہ خواہش ہر وقت ایک بے قرار تمنا کی صورت میں موجزن رہتی تھی کہ لوگ مسلمان ہو جائیں اور یورپ بھی مسلمان ہو جائے.اس ارشاد مبارک سے آپ کے اس یقین کا بھی پتہ چلتا ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل تھا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب یورپ بھی مسلمان ہوگا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو ناممکنات میں سے ہو.آپ یہ پختہ اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول اللہ مایا یہ ہم کی پیشگوئی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب اسلام کا سورج مغرب سے طلوع کرے گا چنانچہ آپ نے فرمایا: اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 304-305- تذکرہ 244) 38

Page 40

حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان کے بیان فرمودہ مذکورہ واقعہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام کی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد کیا تھا.عام مناظروں میں کامیابی یا علمی برتری کا حصول آپ کا مقصد نہیں تھا بلکہ آپ کی بعثت کا اصل اور اعلیٰ اور برتر مقصد یہ تھا کہ لوگ سچے خدا کو پہچان کر حقیقی موحد بن جائیں اور کامل طور پر مسلمان ہو جائیں.اس سے ان داعیان الی اللہ کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو تبلیغ کے دوران محض اپنے مخالف کو دلائل میں نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتے ہیں یا اسے خاموش کرنے یا اپنی برتری کی فکر رکھتے ہیں.ہمارا مقصد اسلام کے لئے اور خدائے واحد کیلئے لوگوں کے دل جیتنا ہے.محض بحث و مباحثہ یا مناظرہ میں کامیابی کی خبر کوئی خاص وقعت نہیں رکھتی.ہاں اگر آپ لوگوں کے دل اسلام کے لئے جیتے ہیں تو یہ وہ بات ہے جو خدا کے برگزیدہ مسیح کے نزدیک اصل خوشخبری ہے.اسی مضمون کی طرف سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات میں توجہ دلاتے ہیں کہ ایسی دعوت الی اللہ کریں جو باثمر ہو اور اگر اس کے نتیجہ میں آپ کو پھل عطا نہیں ہوتے تو فکر کریں کہ آپ کی دعوت الی اللہ میں کہیں کوئی نقص پایا جاتا ہے.آج سے کم و بیش سو سال پہلے کے اس واقعہ پر ایک اور پہلو سے غور کریں.قادیان کی گمنام بستی میں خدا کا برگزیدہ مسیح یورپ کے مسلمان ہونے کی خوشخبری سنے کا منتظر ہے.اس وقت کے حالات میں کون کہ سکتا تھا کہ کبھی یہ آواز قادیان سے باہر بھی پہنچ جائے گی ، مگر خدا سے تائید یافتہ یہ پیغام مسیح موعود علیہ السلام زمین کے کناروں تک پھیلتا چلا گیا اور تثلیث زدہ یورپ میں بھی توحید کی ہوائیں چلنے لگیں.آج سے چند سال قبل تک بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یورپ میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوں گے لیکن دنیا بھر کے احمدی جو عالمی بیعت کے روح پرور نظاروں سے آشنا ہیں وہ اس بات پر گواہ ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے ہر سال صرف یورپ میں ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں.سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.بہت ہی مبارک اور خوش نصیب ہیں وہ داعیان الی اللہ جو یورپ کو مسلمان کرنے 39

Page 41

کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر رہے ہیں اور اپنی جان مال وقت اور عزت کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے مسیح پاک علیہ السلام کے دل کی اس بے قرار تمنا اور شدید خواہش کو پورا کرنے اور اس گھڑی کو قریب تر لانے میں پورے دل و جان سے مصروف ہیں کہ تمام یورپ مسلمان ہو جائے.یہ جہاد یقیناً بہت ہی عظیم اور بہت ہی بابرکت ہے.یہ کام سخت محنت، جانفشانی اور متضر عانہ دعاؤں کا متقاضی تو ہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں.خدا کی نصرت کی ہواؤں کے رُخ پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے.اللہ کے فرشتے خود آسمان سے اتر کر مستعد دلوں کو قبول اسلام کیلئے تیار کر رہے ہیں.آسماں پر دعوت حق کیلئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں نثار پس اسے مسیح محمدی کے وفادار خدام! آؤ ہم اپنے محبوب آقا وامام حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیر قیادت اس وقت موعود کو قریب تر لانے کیلئے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیں تاہم اپنی زندگیوں میں حضور علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں اور خدا کے فرشتے ہم ادنی غلامان مسیح محمدی کی طرف سے حضرت مسیح علیہ السلام کی روح تک یہ خوشخبری پہنچا ئیں کہ آپ کے دل کی تمنا پوری ہوئی اور یورپ مسلمان ہو گیا.خدا کرے کہ وہ وقت جلد آئے اور غلبہ اسلام کی اس آسمانی مہم میں ہمارا بھی مقبول حصہ ہو.آمین.(الفضل انٹرنیشنل5اپریل1996) 40

Page 42

ہمارا جلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ قادیان اپنی روایتی برکتوں اور کامیابیوں سے منعقد ہوا.اس 12 میں جلسہ سالانہ کی اختامی تقریب 28 دسمبر 2003 کومحمود بال لندن میں منعقد ہوئی جس میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلامی رواداری اور جماعت کی ذمہ داریوں کے متعلق ایک مؤثر خطاب فرمایا اور دعا کے ساتھ جلسہ قادیان مکمل ہوا.ایک محتاط انداز کے مطابق اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ تھی جو موجودہ حالات کے لحاظ سے ایک بہت بڑی تعداد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کی ابتداء کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ عام جلسوں کی طرح نہیں ہے اور یہ بھی کہ خدا تعالیٰ نے اس کیلئے قو میں تیار کی ہیں جو اس میں شامل ہوں گی.اور فرمایا کہ یہ قادر خدا کا کام ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.ہمارے یہ جلسے قادیان میں شروع ہوئے.ابتدائی جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریباً ستر (70) تھی جسے اس وقت جماعت کی تعداد اور حالات کے پیش نظر ایک بڑی تعداد سمجھا گیا.آہستہ آہستہ یہ جلسے تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں اپنی برکتوں اور غیر معمولی نتائج کے لحاظ سے بھی برابر ترقی کرتے چلے گئے اور احمدیت کی ترقی کا نشان سمجھے جانے لگے.تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں قادیان کے نواح سے اکثر احمدی ہجرت کر کے 41

Page 43

پاکستان آگئے اور بظاہر یوں لگتا تھا کہ اب قادیان کے جلسے بند ہو گئے ہیں.اس وقت جماعت کی جو حالت تھی اس کا اظہار ایک احمدی شاعر نے عید کے چاند سے مخاطب ہو کر اس طرح کیا: شاعر مغموم کہتا ہے ہلال عید سے ڈوب بھی جادل میرا جلتا ہے تیری دید سے آسماں سے کیا ہمارے واسطے لایا ہے تو عید تو آئی نہیں ہے کس لئے آیا ہے تو تاہم ہمارے اولو العزم امام حضرت مصلح موعود بنایا لندن نے خدائی تائید و نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی مایوسی و بد دلی کو اپنے قریب نہ آنے دیا اور جماعت کا شیرازہ پھر سے منظم کر کے تبلیغ و اشاعت اسلام کی مہم کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیز کر دیا.آپ نے ہجرت کے مسئلہ کو اسلامی تعلیمات کے روشنی میں دیکھتے ہوئے فرمایا: مقدس مقامات کو چھوڑ نا قدر تا طبع پر گراں گزرتا ہے بلکہ اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں بعض دفعہ اس کام کو جو عام حالات میں گناہ سمجھتا جاتا ہے ثواب بنادیتی ہیں مثلاً خانہ کعبہ کتنی مقدس اور بابرکت جگہ ہے لیکن رسول اللہ مال من المسلم اور آپ مالی ایلام کے صحابہ نے وہاں سے ہجرت کی.اگر مقدس مقامات کو چھوڑ نا ہر حالت میں گناہ ہوتا تو آپ کبھی بھی مکہ کے مقام کو نہ چھوڑتے.درحقیقت آپ سلایا کہ یلم صہ کی ہجرت بھی آپ کی صداقت کا ایک نشان تھا کیونکہ سینکڑوں برس قبل اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کے ذریعہ رسول کریم صلی یا اسلم کی ہجرت کی خبر دے رکھی تھی.“ (روز نامہ الفضل 21 اپریل 1949 ء ) قادیان کے جلسوں کے ساتھ ساتھ ربوہ میں یہ جلسے پہلے سے کہیں زیادہ شان سے شروع ہو گئے.شمع احمدیت کے پروانوں نے حالات کی مخالفت اور زمانے کے ظلم وستم سے ڈرنا اور ڈرکر 42

Page 44

رک جانا تو سیکھا ہی نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو پورا ہوتا دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ جوش اور جذبے سے ہر قربانی پیش کرتے چلے گئے.ربوہ کے جلسے ایک بین الاقوامی تقریب کی شکل میں ڈھلنے لگے اور وہ قومیں جو اس کیلئے خدا تعالیٰ نے تیار کر رکھی تھیں وہ ان جلسوں کی زینت و رونق بننے لگیں.ہمارے حاسدوں کو یہ ترقی کس طرح راس آسکتی تھی.ربوہ کے جلسوں کو حسد کی آگ میں جلانے کی کوشش کی گئی مگر اس سے جو گلزار پیدا ہوا اس کی خوبصورتی اس کی رونق اور اس کی بہار کا کوئی بھی اندازہ نہ کر سکتا تھا.اب یہ سالانہ جلسے دنیا بھر کے احمدی مراکز میں منعقد ہونے لگے اور قادیان کا جلسہ اپنے فیوض و برکات دنیا بھر میں برابر پھیلا رہا ہے.ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بنا العون نے بڑے ولولہ انگیز انداز میں فرمایا: ”دیکھو جو کچھ خدا نے فرمایا تھا وہ پورا کر دیا.یہ خدا کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے وعدہ کے مطابق اس عظیم الشان ابتلاء میں مجھے جماعت کی حفاظت کرنے اور اسے پھر اکٹھا کرنے کی توفیق دی.تمہیں چاہئے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرو اور سچے مسلمان بنو.یا درکھوتم وہ قوم ہو جو آج اسلام کی ترقی کیلئے بمنزلہ بیچ کے ہو تم وہ درخت ہو جس کے نیچے دنیا نے پناہ لینی ہے.تم وہ آواز ہو جس پر محمد رسول اللہ ان ایلام فخر کریں گے اور اپنے خدا کے حضور کہیں گے کہ اے میرے رب ! جب میری قوم نے قرآن کو پھینک دیا تھا اور تیرے نشانات کی قدر کرنے سے منہ موڑ لیا تھا تو یہی وہ چھوٹی سے جماعت تھی جس نے اسلام کے جھنڈے کو تھامے رکھا.اسے مارا گیا، اسے بدنام کیا گیا، اسے گھروں سے بے گھر کیا گیا اور اسے مصیبت کی چکیوں میں پیسا گیا مگر اس نے تیرے نام کو اُونچا کرنے میں کو تا ہی نہیں کی.میں آسمان کو اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوا.وہ سچے وعدوں والا خدا ہے جو 43

Page 45

آج بھی اپنی ہستی کے زندہ نشان ظاہر کر رہا ہے.دنیا کی اندھی آنکھیں دیکھیں یا نہ دیکھیں اور بہرے کان سنیں یا نہ سنیں لیکن یہ امرائل ہے کہ خدا کا دین پھیل کر رہے گا.خدا نے جو وعدے کئے وہ کچھ تو پورے ہو چکے ہیں اور باقی آئندہ پورے ہوں گے اور آئندہ جو کچھ ظاہر ہوگا ہمیں اس کیلئے تیار رہنا چاہئے.جن کندھوں پر سلسلہ کا بوجھ پڑنے والا ہے چاہئے کہ وہ ہمت کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھا ئیں یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی ا یلم کی بادشاہت پھر دنیا میں قائم ہو جائے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ زندگی کی آخری گھڑی تک مجھے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور آپ لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق دے اور آپ اس وقت تک صبر نہ کریں جب تک اسلام دوبارہ ساری دنیا پر غالب نہ آجائے.(سوانح فضل عمر جلد چہارم صفحه 127 ) خدا کرے کہ ہم جماعت کی روایات کے امین بن کر شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے بڑھتے چلے جائیں.وباللہ التوفیق.44 الفضل انٹرنیشنل 9 جنوری 2004

Page 46

احمدیت کانور قرآنی ہدایات اور آنحضرت سلاا اینم کی پیش خبریوں کے مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا سلسلہ شروع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر سعید روحوں نے لبیک کہتے ہوئے ایک ہاتھ پر جمع ہونا شروع کیا.احیاء دین اور قیام شریعت کی بابرکت داغ بیل ڈالی گئی تو قدیم طریق کے مطابق مخالفانہ قوتیں بھی جوش اور غیظ و غضب میں بھر گئیں اور سچائی کی مخالفت کا ہر طریق اختیار کیا گیا.یہ ایک لمبی داستان ہے تاہم ہمارے خوش قسمت بزرگوں نے امام مہدی علیہ السلام کو آنحضرت صلی یہی ان کا سلام پہنچایا مگر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا انہیں سردمہری کے یخ بستہ پہاڑوں پر گھٹنوں کے بل چلنا پڑا کیونکہ ان کے ہر قدم پر روک کھڑی کر دی گئی تھی.انہیں احمدیت کی خاطر اپنے ملکوں سے نکلنا پڑا، برادری سے خارج ہوئے ، بیویوں کو خاوندوں سے اور خاوندوں کو بیویوں سے الگ ہونا پڑا.اولاد کی جدائی اور والدین سے علیحدگی کے صدمے برداشت کرنے پڑے، ملازمتوں سے الگ کیا گیا.مقابلہ کے امتحانوں اور ترقی کے مواقع سے محروم ہونا پڑا.سکولوں میں بچوں کو تضحیک و مذاق اور گالی گلوچ ہی نہیں مار پیٹ وذلت کا سلوک برداشت کرنا پڑا.وراثت اور جائیدادوں سے محرومی کا دکھ برداشت کرنا پڑا.قربانیوں کی یہ ایک لمبی فہرست ہے.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید بی ایشن نے فدائیت کا جو نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں 45

Page 47

دکھایا تھا وہ ایک بار آور پیج ثابت ہوا اور خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے والوں نے احمدیت کے چراغ کی کو کو کم نہیں ہونے دیا اور اس میں برابر اپنے خون کا تیل ڈالتے چلے گئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے.یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے.دوسرا رخ یہ ہے کہ احمدیت کے نور سے جس کی خاطر ہم ایک سو سال سے زیادہ عرصہ سے مسلسل قربانی دے رہے ہیں ، ہم نے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ احمدیت ایک نیک اور پاک تبدیلی و انقلاب کا نام ہے.اس کی برکت سے ہماری زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا ہونی ضروری ہے کہ جسے ہم خود بھی محسوس کریں اور ہمارے مخالف بھی محسوس کریں.اس سلسلہ میں بھی ہماری روایات بہت شاندار ہیں.ایسے متعدد واقعات اور مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں کہ مخالفوں نے اس بات کی گواہی دی کہ احمدی ہم سے بہتر مسلمان ہیں.احمدی قرآن فہمی میں ہم سے اچھے ہیں.احمدی بچے ہوتے ہیں اور ان کی گواہی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے.احمدی دیانتدار اور محنتی ہوتے ہیں اور کسی کام کو ان کے سپرد کر دیا جائے تو اس میں برکت اور کامیابی یقینی ہوتی ہے.غرضیکہ ہمارے بزرگوں نے اپنے کردار اور نمونے سے ہمارے لئے قابل فخر روایات چھوڑی ہیں.ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو احمدیت کے نور سے منور ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچائی کے مقابلہ میں کسی وقتی نقصان اور ملامت وغیرہ کی پرواہ نہ کریں.دنیا غفلت میں پڑی ہو تو ہم بیداری و بیدار مغزی سے اپنے وقت سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہے ہوں.ہمارے کسی کام میں سستی اور کاہلی رکاوٹ نہ بن سکے.ہماری خوش خلقی مثالی ہو اور ہمارے ساتھ ملنے والوں ، تعلق رکھنے والوں ، کاروبار کرنے والوں کو ہماری دیانت ، امانت اور محنت کا پورا یقین ہو.ہماری کسی بات یا کام میں لالچ ، خود غرضی ، حرص اور طمع کی بدبو نہ آتی ہو.ہمارے ہر معاملہ میں خدمت، ایثار اور وسعت حوصلہ کی کرنیں پھوٹ رہی 46

Page 48

ہوں.اور سو باتوں کی ایک بات یہ کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں.اس نیک و پاک تبدیلی سے ہم ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہوں گے، ہم خوشی و خوشحالی سے بہرہ مند ہوں گے.ہم تبلیغ کا ایسا مؤثر ذریعہ بن جائیں گے جس کے آگے کوئی پابندی، کوئی روک اور کوئی کالا قانون نہیں ٹھہر سکے گا.جس کا اثر و نفوذ سورج و چاند کے اثر و روشنی کی طرح مفید عام بھی ہوگا اور یقینی بھی.حضرت مصلح موعود بنای شیون کی مقبول دعا سے ہم بہرہ مند ہوں ؎ میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو سمر یہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو ظلمت رنج و غم و الم ނ محفوظ رہو مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو الفضل انٹرنیشنل 16 جنوری 2004 47

Page 49

بے پناہ کام کا جذبہ قومی ترقی و خوشحالی کیلئے وقت کی قدر و قیمت کو سمجھنا اور اپنے وقت کو بہترین طریق پر مفید اور نتیجہ خیز کاموں میں صرف کرنا انتہائی ضروری اور لازمی ہے.سوانح فضل عمر بنایا ھن میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ) حضرت مصلح موعود بیانیہ کی خلافت کے ابتدائی ایام کی مصروفیات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ ایام حضرت خلیفہ مسیح الثانی بنی ان کیلئے انتہائی مصروفیت کے ایام تھے.دشمن کے بیرونی حملے ایک طرف اور کئی اپنے کہلانے والوں کی طرف سے طرح طرح کی اذیتیں دوسری طرف.غیر مبائعین نے تو احمدیت کا مشن ہی یہ سمجھ رکھا تھا کہ کسی طرح مبائعین کی شاخ کو یکسر کاٹ ڈالا جائے اور حضرت مرزا محمود احمد بنی ان کو ناکام و نامراد کر کے دکھایا جائے.گویا نعوذ باللہ یہی احمدیت کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی غرض و غایت تھی.ان کے اعتراضات کے جواب دینا.جماعت کو ان کے زہریلے پروپیگنڈے سے مامون و محفوظ رکھنا.نئی جماعتوں کے ایمان کی تقویت کے سامان پیدا کرنا.جماعت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو از سر نو مجتمع کرنا.خلافت کی اہمیت اور اصل منصب کو جماعت پر واضح کرنا.کثرت سے آنے والے 48

Page 50

زائرین سے ملاقاتیں کرنا اور خطوط کا جواب دینا.درس قرآن کریم اور پانچ وقت نماز کی امامت کے علاوہ رات کو تہجد میں گریہ وزاری کے ذریعہ اپنے رب سے مدد مانگنا ، جماعت کے پریشان حال افراد کی ڈھارس کے سامان پیدا کرنا اور ان کیلئے دعائیں کرنا.انجمن کے ایسے ممبران کی پیدا کردہ مشکلات کا ازالہ کرنا جو بیعت خلافت میں داخل نہ تھے.اس کے علاوہ جماعت کی ترقی کیلئے کئی عارضی اور مستقل اقدامات کرنا.غیر از جماعت اور غیر مسلم زائرین کے سوالات اور اعتراضات کے جواب زبانی اور تحریری طور پر دینا.غرضیکہ آپ کی زندگی ایک مصروف ترین انسان کی زندگی تھی.اللہ اللہ ! پچیس برس کی عمر میں کتنے بوجھ تھے اور جو اسلام کے غم میں آپ نے اپنے نوجوان کندھوں پر اٹھا لئے تھے.اس ایک دکھ کے لئے کتنے دکھ تھے جو آپ کے جواں سال دل میں سما گئے.کتنے فکر تھے جو ہجوم کر کے آئے اور آپ کے ذہن کی فضا پر چھا گئے.لیکن اس میں آپ کا اختیار بھی کیا تھا.یہ علیم وخبیر خدا کا انتخاب تھا.جس نے گراں قدر امانت آپ کے سپرد کی.اس عظیم ذمہ داری کا لباس خدا نے ہی آپ کو پہنایا تھا.پس ممکن نہ تھا کہ کوئی انسان آپ سے یہ لباس چھین سکے اور حق یہ ہے کہ آپ کا ہر سانس آخر دم تک اس عہد کے نبھانے میں گزرا.اور زندگی کی آخری رمق تک آپ اس پر قائم رہے.یہ تو زندگی بھر نفس نفس کا ساتھ تھا جسے ہر طور نبھا نا تھا.دکھ میں بھی اور آرام میں بھی.صبح اور شام.دن اور رات خلافت کی عظیم ذمہ داریوں کو سینے سے لگائے دل و جان سے عزیز کئے ہوئے زندگی کی آخری سانس تک آگے ہی آگے بڑھنا تھا.آپ نے ایسے ہی کیا اور زندگی کی آخری رمق تک ایسا ہی کئے چلے گئے اور ہر صبح اور ہر شام نے گواہی دی کہ خدا کا انتخاب غلط نہ تھا.آپ لا يُكلف اللهُ نَفْسًا 49

Page 51

إِلَّا وُسْعَهَا کے الہی فرمان کی ایک زندہ اور مجسم تفسیر بن گئے.(سوانح فضل عمر “ جلد دوم صفحہ 27-26 ) حضرت مصلح موعود باشیم کی مصروفیات کے متعلق حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان بنی احمد مرحوم نے ایک بڑا دلچسپ اور پیارا واقعہ بیان فرمایا ہے جس سے حضور بنی الیون کی سیرت کے اور بھی کئی دلکش پہلو نمایاں ہوتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ڈیوک آف ونڈسر جو اس وقت پرنس آف ویلز اور تخت برطانیہ کے وارث تھے جس پر وہ کبھی براجمان نہ ہو سکے کیونکہ ایڈورڈ ہشتم کی حیثیت میں وہ رسم تخت نشینی سے قبل ہی دستبردار ہو گئے.وہ 1922ء میں ہندوستان تشریف لائے.لاہور میں ان کے قیام کے دوران حضرت خلیفہ المسی الثانی العین اور جماعت کی طرف سے ان کی خدمت میں ایک کتاب تحفہ کے طور پر پیش کی گئی.جس کا نام ”تحفہ شہزادہ ویلیز تھا.اس کتاب میں آپ نے تعلیمات اسلامی کی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی حیثیت میں نہایت واضح اور مدلل تشریح فرمائی تھی نیز اس کے آخر میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی تھی.اصل کتاب حضرت صاحب نے اردو میں رقم فرمائی اور مسودہ کی ایک نقل مجھے لاہور ان ہدایات کے ساتھ ارسال فرمائی کہ میں اس کا جس قدر بھی جلد ممکن ہو سکے انگریزی میں ترجمہ کروں اور پھر ترجمہ کو نظر ثانی کیلئے قادیان لے جاؤں.میں نے پانچ دنوں میں اس ترجمہ کو مکمل کر لیا اور اسے لے کر قادیان چلا گیا.وہاں دو دن اس کی نظر ثانی پر صرف کئے گئے.نظر ثانی کرنے والے احباب کا بورڈ خود حضرت صاحب بینی الشحن ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد بنلی شد مرحوم مولوی شیر علی بنی امت مرحوم اور ہمارے معزز بھائی مولوی محمد دین بنایا وہ صاحب پر مشتمل تھا.ہم روزانہ نماز فجر کے بعد جب کہ ابھی سورج نمودار ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہوتا ہے کام شروع کر دیتے تھے.اور نماز 50

Page 52

عشاء تک ماسوائے کھانوں اور نمازوں کے وقفہ کے لگاتار جاری رکھتے.ہم اس کمرہ میں کام کیا کرتے تھے جو مسجد مبارک کی چھت پر شمالی جانب کھلتا ہے.کھانا حضور بنیشن کے گھر سے آتا اور اسی کمرہ میں کھایا جاتا تھا جہاں ہم کام میں مصروف ہوتے.ہم صرف نمازوں کے اوقات میں کمرے سے باہر نکلتے اور ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے.ی مجلس چند ضروری وقفوں کے علاوہ تقریباً سترہ گھنٹے روزانہ رہتی تھی.میں محنت وسرگرمی اور انہماک کے وہ دودن جو بیک وقت پر مسرت و پرسکون تھے کبھی فراموش نہیں کر سکتا...حضرت صاحب بذات خود گوہر تیزی سے گزرنے والے لمحے سے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر فائدہ حاصل کرنے کیلئے مضطرب تھے اور اس امر کا حصول آپ کیلئے آسان تھا لیکن اس کے باوجود آپ ہر ایک کے آرام کے لئے بہت متفکر رہتے تھے.آپ نہ صرف اپنے عالی ظرف اور لطیف مزاح کے ذریعہ ہمیں مسرور رکھتے بلکہ خود بھی کام کی تکمیل میں ہماری مدد فرماتے.میں اپنے بارے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اور ایسا ہی مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا خیال ہوگا کہ ہر طویل دن کے اختتام پر ہم اسی طرح خوش و خرم باہر آتے جس طرح کام شروع کرنے کے وقت ہوتے تھے.جب بھی مجھے حضرت صاحب بنی الشحن کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا میں نے ہر دفعہ لطف و سرور کا ایک عجیب تجربہ مشاہدہ کیا.آپ بیٹھ کی پر نور شخصیت میں اخلاقی و روحانی تقویت دینے کی بے پناہ طاقت موجود ہے اور آپ مینی ون کا بے پناہ کام کرنے کا جذبہ جو ہم نے آپ کے ساتھ کام کرنے کے دوران مشاہدہ کیا بہت زیادہ اثر انگیز ہے." تحدیث نعمت - ص 210 211 ) الفضل انٹرنیشنل 23 جنوری 2004ء) 00 51

Page 53

وقف حضرت مصلح موعود بنای الیون نے جماعتی ترقی کیلئے جو مختلف پروگرام پیش فرمائے ان میں وقف جدید کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ اس پروگرام کے پیچھے حضور بنی ہونے کے نصف صدی کے تجربات تھے اور حضور بنی یہ تحر یک جدید جیسی عظیم الشان سکیم کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ وغیرہ کے انتہائی دور رس اور مفید پروگرام جاری فرما چکے تھے.وقف جدید کی اہمیت کا اس امر سے بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مصلح موعود با ایتھنہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اس تحریک کی کامیابی کی خاطر اگر مجھے اپنی ذاتی املاک و جائیداد بلکہ کپڑے تک بیچنے پڑیں تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا.اس تحریک میں مالی قربانی کا مطالبہ تو ضرور کیا گیا تھا مگر اس پر اس لحاظ سے زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا کہ جو رقم مانگی گئی تھی وہ بہت معمولی تھی.اصل مطالبہ ایسے واقفین زندگی کا تھا جو دین کی خدمت کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہو کہ وہ اپنے اخلاص، تقویٰ بے نفسی سے پرانے زمانے کے اولیاء بزرگوں کی طرح کسی جگہ دھونی رما کر بیٹھ جائیں اور افراد جماعت خصوصاً بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام کریں.اس تحریک میں ایسے موزوں قطعات زمین وقف کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا جو ایسے واقفین کی رہائش وغیرہ ضروریات کے لئے کام آئیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے ہر پہلو سے اپنے 52

Page 54

قربانی کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے موزوں قطعات زمین وقف کئے.واقفین زندگی نے بھی آگے بڑھ کر بے غرض قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور مالی قربانی بھی مطالبہ سے زیادہ پیش کر دی.اس تحریک کی افادیت کے پیش نظر اس کا دائرہ کار پوری دنیا کیلئے عام کر دیا گیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث و ایملی نے اس مفید و با برکت تحریک کی افادیت کو زیادہ مؤثر بنانے کیلئے مالی قربانی میں بطور خاص بچوں کو بھی شامل کرنے کی تحریک فرمائی تا انہیں بچپن سے ہی مالی قربانی کی عادت و رغبت پیدا ہو جائے اور اس طرح اسلام کی ترقی و غلبہ کا مقصد ہمیشہ کیلئے ان کے ذہن نشین ہو جائے.اس تحریک کے نتیجہ میں بچوں میں مالی قربانی کا جو جذبہ پیدا ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے.جماعت کی عام مالی قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی حیران کن ہے کہ عام آدمی جس نے خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کا مزہ نہ چکھا ہو وہ اسے سمجھ ہی نہیں سکتا کہ کس طرح ایک شخص اپنی محنت و پسینہ کی کمائی اپنے اور اپنے بچوں پر خرچ کرنے کی بجائے کسی اور مقصد کیلئے خرچ کرے اور یہ کام ایک دن یا دودن یا ایک مہینہ یا دو مہینہ نہیں بلکہ زندگی بھر جاری رہے.وقف جدید میں بچوں کی شمولیت سے جماعت کی مالی قربانی کا ایک نیا رخ شروع ہوگا اور بچے اپنی عیدی اور جیب خرچ وغیرہ کی رقم دوسرے بچوں کی طرح ٹافیوں، مٹھائیوں اور کھلونوں کی بجائے خدا تعالیٰ کی راہ اور دوسرے اعلیٰ مقاصد کی خاطر خرچ کرنے لگ گئے.اس طرح جو رقوم پیش کی گئیں وہ بظاہر تو بہت معمولی تھیں مگر اس عمل سے بچے کے اندر اپنے مذہب سے لگاؤ اور قربانی کا جوان مٹ جذبہ پیدا ہوا وہ یقیناً انمول و بے مثال ہے.الفضل انٹرنیشنل 30 جنوری2004) 53

Page 55

عافیت کا حصار انسان ہمیشہ امن کا متلاشی رہا ہے.تیر کمان کے زمانے بلکہ اس سے بھی پہلے پتھر کے زمانہ سے لیکر آج کے ایٹمی دور میں بھی امن وسکون کی ضرورت ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بے چینی و بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ دنیا ہر لحاظ سے بہت ترقی کر چکی ہے.وہ کام جو پہلے سینکڑوں ہزاروں آدمی ہفتوں بلکہ مہینوں میں کرتے تھے اب پلک جھپکتے میں ہو جاتے ہیں.وہ سفر جو راستہ کی مشکلات اور صعوبتوں سے بچنے کیلئے قافلوں کی صورت میں کئے جاتے تھے اور جس سفر کو شروع کرتے ہوئے مسافر اور الوداع کہنے والے آپس میں اس طرح ملا کرتے تھے جیسے وہ آخری سفر پر جارہے ہوں اور دوبارہ ملاقات شاید میسر ہی نہ آئے ، اب تیز رفتار سواریوں اور سفر کی سہولتوں کی وجہ سے عام طور پر سفر ہی نہیں سمجھے جاتے.ذرائع ابلاغ کی ترقی بھی اپنی مثال آپ ہے.وہ خبر جو پہلے ڈاک کے گھوڑوں ، کبوتروں اور قاصدوں وغیرہ کے ذریعہ دنوں اور ہفتوں میں ملا کرتی تھی اب پلک جھپکتے ہی دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے.پچھلے زمانہ میں بھی لوگ باہم اختلاف کرتے تھے اور اس اختلاف کے نتیجہ میں لڑائیوں تک نوبت پہنچ جایا کرتی تھی مگر اس زمانہ کی لڑائی میں ہاتھا پائی کے بعد کہیں ڈانگ سوٹے اور چاقو یا تلوار کا ذکر آتا تھا.ظاہر ہے اس صورت میں نقصان بھی بہت محدود ہوتا تھا.موجودہ زمانے میں جنگی 54

Page 56

سامانوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس کا تصور بھی لرزہ بر اندام کر دینے کیلئے کافی ہے.موجودہ زمانے کے ہتھیاروں کی تباہی تو اتنی خوفناک ہے کہ اس کا پوری طرح اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا.جنگ عظیم دوم کا خاتمہ امریکہ کے جاپان پر ایٹمی بم گرانے سے ہوا تھا.اس تباہی پر اب نصف صدی سے زیادہ گزرچکی ہے مگر جو خوفناک بر بادی اس وقت ہوئی تھی ، آج تک اس کے نقصانات اور بداثرات برابر چل رہے ہیں.اور جدید تحقیقات کے نتیجہ میں اس مہلک بم کے تباہ کن اثرات میں مزید اضافے بھی ہورہے ہیں.ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ، مہذب اور ماڈرن وہی ملک یا طاقت سمجھی جاتی ہے جس کے پاس ایسے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تعداد زیادہ ہو.بظاہر امن وسکون قائم کرنے والی طاقتیں اور حکومتیں اس کوشش میں تو ضرور لگی ہوئی ہیں کہ ایسے ہتھیار زیادہ عام نہ ہوں اور ان کو کم کر دیا جائے مگر اس کوشش میں بھی یہ بات نمایاں ہے کہ چھوٹی اور کم ترقی یافتہ اقوام کے پاس اگر ایسا کوئی ہتھیار ہو تو اسے زیادہ تباہ کن سمجھا جاتا ہے.مگر ویسے ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار اگر بڑی اقوام کے پاس ہو تو اسے ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے دنیا میں ہلاکت و تبا ہی کی بجائے علمی ترقی رواداری اور معاملہ نہی پھیلے گی.بر این عقل و دانش باید گریست امن وسکون کے حصول میں بڑی طاقتوں کی ناکامی یہی بتاتی ہے کہ اس سلسلہ میں ہونے والی کوششیں اخلاص و نیک نیتی سے نہیں کی گئیں اور ان میں بے دلی کے علاوہ بے انصافی سے بھی کام لیا گیا ہے اور جب تک یہ صورت حال تبدیل نہ ہو اس وقت تک امن و سکون کا حصول کسی طرح بھی ممکن نہیں ہو سکتا.حقیقت یہ ہے کہ حصول امن کی کوشش کرنے والے یا اس بات کا دعویٰ کرنے والے کہ وہ دنیا میں امن وسکون کے قیام کی غرض سے کوشش کر رہے ہیں وہ خود بھی ابھی تک اس دولت سے محروم 55

Page 57

ہیں کیونکہ ظاہری مال و دولت اور جاہ و چشم انسان کو قناعت اور خوشی کی دولت نہیں دے سکتے.حضرت خلیفہ استع الاول مولانا نورالدین پایان نے اپنے درس قرآن میں قناعت اور سیر چشمی کا ایک ایسا ہی واقعہ بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ایک ضعیفہ جو اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی ہی رہتی تھی اس کی نیکی اور تقویٰ کا مجھ پر خاص اثر تھا اور میں اس کی خدمت کرنا چاہتا تھا.مگر اس نے کبھی بھی کسی احتیاج کا اظہار نہ کیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ محترمہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟.اس خاتون نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے، کھانے کومل جاتا ہے، ایک لحاف ہے جو ہم دونوں ماں بیٹا استعمال کرتے ہیں.اگر رات کو مجھے یہ محسوس ہو کہ میرا بیٹا باہر کی طرف ہے تو اسے اندر کی طرف اپنے ساتھ لگا لیتی ہوں اور اس طرح بخوبی گزارہ ہو رہا ہے.حضور بین اللہ فرماتے ہیں کہ : ” میرے اصرار پر اس خدا رسیدہ خاتون نے کہا کہ اگر آپ ضرور ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو مجھے بڑے الفاظ والا قرآن مجید دلوادیں.نظر کی کمزوری کی وجہ سے تلاوت کرتے ہوئے وقت ہوتی ہے.“ امن وسکون کی یہ کیفیت قناعت و خدا رسیدگی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار 56 الفضل انٹرنیشنل 6 فروری2004

Page 58

مسجد - امن وسکون کا مرکز قرآن مجید میں مساجد کی اہمیت اور مساجد کے آداب کا اصولی اور معین رنگ میں ذکر کیا گیا ہے.یہاں تک کہ انبیاء سے مساجد کی حرمت اور آداب کی پابندی کا عہد لینے کا بھی ذکر آیا ہے.اسی طرح فرمایا کہ مساجد کی آبادی یعنی ان کی عزت و حرمت اور آداب کا خیال تو حقیقی مومن ہی رکھتے ہیں.آنحضرت سی ایم نے بھی مسجد کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں مرکزی مقام عطا فرمایا اور مساجد میں عبادت، ذکر الہی کے علاوہ قومی اہمیت کے تمام کام بھی وہاں پر ہی سرانجام دئے اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص با قاعدہ مسجد میں آتا ہوتو یہ امر اس کے ایمان کا ثبوت ہے.مسجد کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر اس مرکی اہمیت کا ہمارے گھروں میں ذکر اور چرچا رہنا چاہئے.مسجد جاتے وقت وضو کرنا، صاف ستھرے کپڑے پہننا، اگر ممکن ہو تو خوشبو کا استعمال کرنا عبادت و مسجد کے احترام کیلئے تو ضروری ہے مگر اس کا ایک اور بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہمارے اس اہتمام و تیاری کو ہمارے بچے دیکھیں گے تو ان کے دلوں میں بھی مسجد کا احترام غیر محسوس طور پر داخل ہو جائے گا اور اس طرح داخل ہونے والا احساس ہمیشہ بچے کے ساتھ رہے گا.یہ تو مسجد اور عبادت کے لئے گھر سے نکلتے وقت کی تیاری ہے.اور جب بچہ مسجد میں جانے کی 57

Page 59

عمر کو پہنچ جائے تو پھر اسے باقاعدہ ان آداب کے متعلق سمجھایا اور بتایا جائے تو بچپن کی عادت اور احساس کی وجہ سے وہ اس بات کو جلدی اور آسانی سے سمجھ جائے گا مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم خود بھی بعد میں جا کر اطمینان وسکون سے صفوں کا خیال رکھتے ہوئے قبلہ رخ بیٹھ کر خاموشی سے ذکر الہی میں مصروف ہو جائیں.اس طرح کرنے سے پھر مسجد میں فضول اور دنیوی باتیں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وہ شخص جو آپ سے بعد میں مسجد میں آئے گا وہ آپ کی خاموشی اور یکسوئی کو دیکھتے ہوئے ادھر اُدھر کی باتیں شروع ہی نہیں کر سکے گا اور اسے بھی یہی مناسب نظر آئے گا کہ وہ آرام سے مسجد میں بیٹھ کر مسجد کی برکات سے استفادہ کرے.جماعت احمدیہ کا قیام خالصۂ روحانی مقاصد کیلئے تھا.ہر وہ شخص جسے قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی تھی وہ ابتلا اور آزمائش کی کٹھالی میں ڈالا جاتا اور اس طرح اپنے ایمان کو مضبوط وخالص کرنے کے مواقع حاصل کرتے ہوئے اپنے روحانی اعلیٰ مقاصد کیلئے کوشاں رہتا.صحابہ کرام کا ساده طریق عمل اور طرز زندگی بعض اس وقت کی مشہور ہستیوں کو اچھا نہ لگا اور انہوں نے جماعت کی مخالفت میں اعلیٰ اسلامی اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مساجد کے باہر نہایت دل آزار قسم کی ایسی عبادتیں آویزاں کر دیں جن کا مطلب یہ تھا کہ ان مسجد میں احمدیوں کو داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے.اپنے اس اقدام سے انہوں نے جہاں ایک طرف اپنے آپ کو اسلامی اقدار و روایات سے الگ کر لیا وہاں احمدیوں کو یہ سکون و اطمینان بھی ملا کہ وہ سنت نبوی پر عمل پیرا ہیں اور اعلیٰ اسلامی اقدار کے قیام کیلئے قربانیاں پیش کر رہے ہیں.مخالفوں کی مخالفت اور حسد کی آگ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ احمدی ان کی مساجد میں (حالانکہ مسجد تو اللہ تعالی کی ہوتی ہے ) داخل نہ ہوں بلکہ یہ دیکھتے ہوئے کہ احمدیوں نے مساجد کی آبادی میں کوئی کمی نہیں آنے دی بلکہ عبادت و ذکر الہی میں انہماک سے انہیں اور زیادہ آباد کر لیا ہے تو یہ کوشش شروع کر دی گئی کہ احمدیوں کی مساجد کو مساجد کا نام نہ دیا جائے یا یہ کہ احمدی مساجد نہ بنا سکیں 58

Page 60

حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ برصغیر ہندو پاک کے دیہاتوں میں قریباً ہر جگہ ہی مساجد احمدیوں اور دوسرے شرفاء کی مشترکہ عبادت گاہیں تھیں.جہاں یکے بعد دیگرے خدا تعالیٰ کی عبادت کی جاتی تھی اور اس وجہ سے کبھی کوئی دنگا فسادنہ ہوا تھا مگر امن وسکون کی اس فضا کو برباد کر کے غالباً یہ سمجھا گیا کہ اس طرح احمدی مساجد اور عبادت سے محروم ہو جائیں گے.مگر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ہمارے سامنے ہے.احمدیوں نے پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں مساجد تعمیر و آباد کرنا شروع کر دیں.اگر لندن میں سب سے پہلی مسجد احمدیوں کی چھوٹی سی غریب جماعت نے بنائی تھی تو اب یورپ کی سب سے وسیع اور کشادہ مسجد بنانے کی بھی انہیں ہی توفیق ملی.اور یہ عمل دنیا کے تمام براعظموں میں بڑی عمدگی سے جاری ہے.اگر پاکستان میں کسی نے اپنی سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کو گرانے اور اسے بے آباد کرنے کی جسارت کی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں نے اس کے بدلے میں درجنوں مساجد تعمیر و آبادکر کے اپنے ایمان کا ثبوت دے دیا.وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا اجارہ دار سمجھتے ہوئے محض تحکم و زیادتی سے احمدیوں کو مسجدوں سے الگ اور محروم کرنے کی کوشش کی تھی آج ان کی مساجد میں نمازی عبادت کیلئے جاتے ہوئے خوف کھاتے ہیں کیونکہ امن وسکون کو برباد کرنے والی ان کی حرکات سے جن کا نشانہ احمدی بنتے تھے اب یہ صورت پیدا ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کے خوفناک اقدامات سے مسجدیں نمازیوں کے خون سے سرخ ہورہی ہیں.سب سے زیادہ حفاظت کی ضرورت عبادت گاہوں میں محسوس ہورہی ہے مگر ان احتیاطی کوششوں کے باوجود امن وسکون کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بلکہ یوں لگتا ہے کہ ہر کوشش کے بعد قتل وغارت اور خونریزی پہلے سے بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے.خدا تعالیٰ امن اور اسلامی روایات کو تباہ کرنے والے لوگوں کو سمجھ عطا فرما دے.مساجد میں امن وسکون کی حالت واپس آوے.اسلامی اخوت و بھائی چارہ کی فضا پیدا ہو.دہشت گردی کا بھیانک دیو، احمدی مسلمانوں کی بہیمانہ مخالفت کے سوراخ سے نکلا تھا.ضرورت اس امر کی ہے کہ 59

Page 61

خدا تعالیٰ کا خوف اور مخلوق خدا کی ہمدردی رکھنے والے لوگ اس سوراخ کو بند کرنے کی کوشش کریں.ہم تو اپنے حال میں مگن مساجد کی تعمیر و آبادی کے اپنے مقصد کے حصول کے لئے قربانیوں کا سفر جاری رکھیں گے اور اپنی مساجد یعنی اسلامی ثقافت و روایات کے مراکز کو امن وسکون کا نشان بنائے رکھیں گے.اور آنحضرت صلالانا اسلم کے ارشاد کے مطابق ہمارے دل ہمیشہ مسجدوں سے جڑے رہیں گے اور ہم مسجد سے باہر نکلتے وقت دنیوی مجبوریوں کے تحت باہر تو جائیں گے مگر اس تمنا ،خواہش اور نیت کے ساتھ کہ نماز کے وقت پھر امن ، سکون بخش جگہ واپس آجائیں.وباللہ التوفیق.الفضل انٹرنیشنل 13 فروری2004) اہل جنت کی زبان آنحضرت صالی اسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ: لا يَزَالُ لِسَانَكَ رَطْباً بِذِكْرِ الله تمہاری زبان ذکر الہی سے تر رہنی چاہئے.( صحیح ترمذی) حضور سلیم کا اسوہ حسنہ بھی یہی ہے کہ آپ ہر موقع پر خدا تعالیٰ کو یاد کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے مخالف اور نہ ماننے والے بھی یہ کہنے پر مجبور تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّه حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی بکثرت ذکر الہی کرتے تھے اور آپ کی یہ خواہش تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بھی عربی سیکھیں اور ایسے الفاظ اور فقرے اپنی روز مرہ کی گفتگو میں استعمال کریں جو ایک طرف عربی زبان سے مانوس کرنے والے ہوں اور دوسری طرف ذکر الہی کے فوائد بھی حاصل ہوں.مثلاً مسلمان باہم ملاقات کے 60

Page 62

وقت السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتے ہیں.خدا تعالیٰ کی تم پر سلامتی ہو.یہ ایک بڑی جامع دعا ہے جو ہم ہر وقت ایک دوسرے کو ملتے ہوئے کر سکتے ہیں.اگر یہ الفاظ سوچ سمجھ کر اور اخلاص سے کہے جائیں تو ان کی ادائیگی کے ساتھ ہی یہ سمجھا جائے گا کہ ہم اپنے بھائی اپنے عزیز، اپنے رشتہ دار، اپنے ساتھی اور اپنے دوست بلکہ ہر ایک ملنے والے کے لئے بھلائی اور بہتری کے خواہش مند ہیں اور اس کیلئے سلامتی ، امن سکون اور اطمینان کے خواہاں ہیں.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کا یہ کتنا عظیم الشان فائدہ اور برکت ہے کہ اس کے ساتھ ہم اپنے دلوں کو بغض، کینه، فساد، نفرت، عیب جوئی، چغلی، بدخواہی وغیرہ جیسی عادات رذیلہ اور روحانی لحاظ سے مہلک بیماریوں سے نجات حاصل کر کے اپنے ملنے والے کو ہی فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ اس کیلئے دعا کرنے اور اس کی بھلائی و خیر خواہی چاہنے کے نتیجہ میں خود بھی خوشی ، سکون ، اطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں گویا ہمیں اسی دنیا میں جنتی زندگی حاصل ہوگئی کیونکہ قرآن مجید جنتیوں کی یہ علامت بتاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سلامتی کا تحفہ دیں گے اور ان کے دل حسد و کینہ سے پاک ہوں گے.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنے سے ہم آنحضرت صلی لا السلام کے ارشاد أَفْشُوا السَّلَامَ ( صحیح ترمذی ) کی تعمیل کی سعادت بھی حاصل کریں گے.جزاكم الله بھی ایک ایسا ہی فقرہ ہے جو ہماری گفتگو میں بکثرت استعمال ہوتا ہے.جب ہمیں کسی سے اچھی بات کا پتہ چلے، اچھا مشورہ ملے، کوئی فائدہ حاصل ہو تو شکر یہ ادا کرنے کے لئے جَزَاكُم الله (اللہ تعالیٰ آپ کو بدلہ عطا فرمائے ) کے الفاظ بولے جاتے ہیں.یہ بھی ایک دعائیہ فقرہ ہے اور شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریق ہے.انگریزی زبان میں Thank You اور دوسری زبانوں میں بھی اس سے ملتے جلتے الفاظ مستعمل ہیں.ان کا بروقت استعمال بھی منع نہیں ہے بلکہ خوش اخلاقی اور اچھے آداب کا مظاہرہ کرنے کیلئے برمحل استعمال ضروری ہے مگر باہم گفتگو میں جَزَاكُم اللہ سے بہتر اور کوئی طریق نہیں 61

Page 63

ہے اور ہمیں اپنے گھروں میں اسے رواج دینا چاہئے.ایسے ہی بعض اور فقرے بھی ہیں مثلاً ہر خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اس کی حمد وثنا کرنے کیلئے الْحَمْدُ لِلہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں.چونکہ یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعا سورۃ الفاتحہ میں سے ہیں اس لئے ان کا بکثرت استعمال دوسری دعاؤں کی قبولیت کا باعث بھی ہوسکتا ہے.آنحضرت سلیمن کا طریق مبارک تھا کہ آپ بلندی کی طرف جاتے ہوئے اللہ اکبر اور بلندی سے نیچے اترتے ہوئے سُبْحَانَ اللہ کہا کرتے تھے.یہی بابرکت فقرات خدا تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت بیان کرنے کیلئے اور اپنی دانستہ یا نادانستہ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے بھی کہے جاتے ہیں.اَسْتَغْفِرُ الله رَبِّی بھی ہماری گفتگو کی زینت اور ہماری روحانی حالت کی بہتری کا موجب ہوسکتا ہے.حضور صالی اسلام اپنی امت کی تعلیم و تربیت کیلئے روزانہ ستر مرتبہ سے بھی زیادہ یہ الفاظ استعمال فرماتے تھے.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ کو حضور ایلیا ای ایم نے جنت کا خزانہ قرار دیا ہے.کسی کامیابی اور اچھی بات پر شاباش دیتے ہوئے مَا شَاءَ اللَّهُ اور حَبَّذَا کے الفاظ بولے جاتے ہیں.اگر کسی کو چھینک آئے تو وہ الْحَمْدُ لِلہ کے الفاظ کہتا ہے جبکہ اس کو سننے والا یر حَمُک اللہ (اللہ آپ پر رحم کرے) کے الفاظ سے دعا دیتا ہے اور اس کے جواب میں الْحَمْدُ لِلہ کہہ کر ذکر الہی اور شکریہ کا یہ موقع پیدا کرنے والا جواب میں يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَ يُصْلِحُ بَالَكُمْ (اللہ تعالیٰ آپ کو سیدھے رستہ پر رکھے اور آپ کی حالت بہتر ہوتی چلی جائے ) کہتا ہے.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ عام استعمال ہوتا ہے تاہم السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ بھی کہا جاسکتا ہے.اسی طرح الْحَمْدُ لِلَّهِ - الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ بھی کہا جاسکتا ہے.جَزَاكُمُ اللَّهُ بھی جَزَاكُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہنا زیادہ بہتر ہے.بطور مثال کچھ الفاظ یہاں بیان کئے گئے ہیں اس فہرست میں آہستہ آہستہ اضافہ کیا جاسکتا 62

Page 64

ہے.مقصد یہ ہے کہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں اگر ایسے الفاظ برمحل اور با موقعہ استعمال ہوں تو ان سے ہماری بات زیادہ عمدہ اور موثر ہو جائے گی.خدا تعالیٰ پر ایمان و تعلق میں زیادتی و بہتری ہوگی.عربی زبان جو قرآن مجید کی زبان ہے.جو خاتم النبین سالانا ایلم کی زبان ہے.جو جنتیوں کی زبان ہے اس سے انس اور واقفیت میں اضافہ ہوگا.یہ اور ایسے ہی اور فوائد کے ساتھ ساتھ یہ ایک بہت مکمل اور معنی خیز جواب ہوگا ان کو تاہ اندیش لوگوں کا جو اسلامی اصطلاحات پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلامی اصطلاحات اور شعائر سے فائدہ اٹھانے سے وہ جسے اور جب چاہیں روک سکتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا.کیا ہی خوبصورت شعر ہے.عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم لب پہ مگر نام نہ ہو الفضل انٹرنیشنل 20 فروری 2004) 63

Page 65

برکات قرآن مجید تقسیم برصغیر سے بہت پہلے کی بات ہے.ایک مشہور صحافی جو جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے قادیان دیکھنے کے لئے گئے اور ہر چیز کو بنظر تجسس وتحقیق دیکھنے اور اچھی طرح جانچنے کے بعد قادیان سے واپسی پر انہوں نے اپنے جو تاثرات شائع کئے ان میں یہ امر نمایاں طور پر مذکور تھا کہ انہیں قادیان کی اس صبح نے بہت متاثر کیا جس میں چاروں طرف قرآن مجید کی تلاوت کی آواز بلند ہورہی تھی.دکاندار اپنی دکانوں پر ، طالب علم اپنے ہوٹل کی چارپائیوں پر اور گھروں والے اپنے گھروں میں نماز فجر سے فارغ ہو کر بآواز بلند تلاوت کر رہے تھے اور فضا میں ایک روح پر ور دلکش گونج تھی جو ہر کسی کو متاثر کرنے کے لئے کافی تھی.برصغیر کے ایک اور مشہور صحافی نے جو اپنی صحافت اور شاعری کی وجہ سے تو شہرت رکھتے ہی تھے مگر اس سے زیادہ ان کی شہرت جماعت کی ناکام مخالفت کی وجہ سے تھی.ان کو بھی اس امر کا اعتراف تھا کہ : ”اے احرار یو! کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے...66 حدیث میں آتا ہے قیامت کے روز قرآن بعض لوگوں کے حق میں گواہی دے گا اور بعض 64

Page 66

لوگوں کے خلاف گواہی دے گا.اوپر کی دو مثالوں سے یہ اطمینان بخش اور مسرت انگیز امید بندھتی ہے کہ ہماری جماعت کو قیامت کے روز قرآن مجید کی تائیدی شہادت حاصل ہوگی.قرآن مجید میں صبح کی تلاوت کا خاص طور پر ذکر ہے.صبح کے پرسکون لمحات میں تلاوت کا ثواب زیادہ ہے اور قرآن مجید پر غور و فکر کے مواقع بھی بہتر حاصل ہوتے ہیں.تاہم دن رات کے کسی حصہ میں بھی اپنے حالات اور سہولت کے مطابق پورے اہتمام سے قرآن مجید کو کلام الہی سمجھتے ہوئے پورے ادب و احترام کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو تلفظ کی درستی اور صحت کے ساتھ تلاوت ایک بہت ہی قابل رشک نیکی ہے.آنحضرت سالیا پی ایم کے ارشاد کے مطابق قرآن مجید کا ہر حرف پڑھنے کا ثواب ملتا ہے.حضور سال یا اپی تم بعض دفعہ فرمائش کر کے کسی خوش الحان صحابی سے قرآن مجید سنتے اور اس توجہ اور انہماک سے سنتے کہ آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آپ چشم پر آب ہو جاتے.اسی توجہ اور انہماک کی برکت تھی کہ صحابہ کرام ہی یہ بھی بڑے شوق سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور زبانی حفظ بھی کرتے.حدیث میں آتا ہے ایک دفعہ آنحضرت سائیں یہ ہم نے ایک لشکر تیار کیا.جب اس لشکر کے امیر کے تقرر کا موقع آیا تو آنحضرت سل یا ایلیم نے ان سے قرآن مجید سننا شروع کیا.ایک نوجوان صحابی نے جو اس لشکر میں سب سے کم عمر تھے ، آنحضرت سالا ایلیم کے سوال کے جواب میں بتایا کہ حضور مجھے فلاں فلاں سورۃ یاد ہے اور ان سورتوں میں سورۃ البقرہ کا نام بھی لیا.آنحضرت سال اینم نے خوشگوار حیرت سے دوبارہ ان سے پوچھا کیا تمہیں سورۃ بقرہ یاد ہے؟ ان کی طرف سے اثبات میں جواب ملنے پر آنحضرت صلی ہی ہم نے معمر اور تجربہ کار صحابہ کی بجائے اس نوجوان کو شکر کا امیر مقرر کر کے قرآن مجید کی عظمت و اہمیت کا اعلان فرمایا.اس حدیث میں یہ ذکر بھی ہے کہ اس نوجوان کے قبیلہ کے ایک سردار نے کہا کہ میں بھی سورۃ بقرہ یاد کرنا چاہتا تھا مگر میں صرف اس وجہ سے رکا رہا کہ کہیں بعد میں بھول جانے کی وجہ سے گناہ گار نہ ہو جاؤں.اس پر حضور مالی انم نے فرمایا کہ قرآن مجید سیکھو اور پھر اسے بار بار پڑھو.قرآن مجید یا درکھنے اور بار بار 65

Page 67

66 99 پڑھنے والے کی مثال اس مشک کی تھیلی کی ہے جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کا ماحول بھی معطر ہوتا ہے.مگر وہ جو بار بار نہیں پڑھتا اسکی مثال اس تھیلی کی ہے جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکتا ہو.قرآن مجید کی ایک قیمتی خوشبو سے تشبیہ نہایت بلیغ اور پر معرفت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت سے علم و معرفت میں ترقی کے ساتھ ساتھ طبیعت میں انشراح وسکون کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے اور صرف پڑھنے والے کو ہی اس کا فائدہ نہیں ہوتا بلکہ سارا ماحول اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اس طرح قرآن مجید کی برکت بڑھتی اور پھیلتی چلی جاتی ہے.خدا کرے کہ ہم اس بابرکت کلام سے ہمیشہ استفادہ کرنے والے ہوں اور ہمارے گھروں اور ہماری مجالس میں قرآنی برکات ہمیشہ جاری رہیں.آمین دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے الفضل انٹر نیشنل 5 مارچ 2004

Page 68

وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ خدائی نوشتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اس کثرت سے نئی نئی چیزیں اور ایجادات سامنے آئی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه (الصف : 10) دين اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا جلوہ ظہور پذیر ہونے والا تھا اس لئے اس زمانے کی ایجادات میں غیر معمولی ترقی ہوتی چلی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تصنیف و تالیف کی طرف خوب توجہ فرمائی.اس زمانہ میں جبکہ موجودہ زمانے کی سہولتوں کا کوئی تصور تک بھی نہ تھا.آپ نے تن تنہا دلائل و براہین کی چو کبھی لڑائی لڑی اور عظیم فتح حاصل کی.آپ کی بے سروسامانی تو اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ کے پاس کوئی باقاعدہ لائبریری نہیں تھی.کوئی معاون و مددگار نہیں تھا جو آپ کو مطلوبہ حوالے تلاش کر کے دیتا.کوئی ایسا ساتھی بھی نہیں تھا جو مسودہ کو بہتر اور صاف لکھ کر دیتا.یہاں تک کہ قادیان میں کا تب اور پریس کی سہولت بھی موجود نہ تھی.ابتدائی زمانے میں مضمون خود لکھ کر سفر کی صعوبتوں اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے امرتسر یابٹالہ جا کر مضمون کا تب تک پہنچانا.کاتب کی لکھی ہوئی کا پیوں کی تصیح یا پروف ریڈنگ کرنا.67

Page 69

ان کی درستی کے لئے کا تب تک دوبارہ پہنچانا.اس سلسلہ میں تجربہ کار لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ بعض اوقات تصحیح کی بجائے لفظ کچھ کے کچھ بن جایا کرتے ہیں اور اس طرح تصحیح ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی کئی دفعہ کروانے کی ضرورت پیش آجایا کرتی ہے پریس میں اگر صحیح طباعت نہ ہو رہی ہو تو اس کی نگرانی اور درستی بھی اپنی جگہ ایک بہت بڑا کام ہے.( جبکہ پریس قادیان سے باہر ہو اور اس کی انتظامیہ کا تعاون بھی محل نظر ہو ) مضمون یا کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی فرم شکنی اور سلائی یا جلد بندی بھی ایک مستقل درد سر ہوتی ہے کیونکہ یہاں پھر سے فرمہ شکنوں کے وعدے اور نخرے کام کی طوالت اور کوفت کو بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں.فرمہ شکنی اور جلد بندی کے بعد ان کتب کی ترسیل واشاعت بھی تو ایک ادارہ کا کام ہے کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں.حضور علیہم نے اپنی پر معرفت تصانیف میں عیسائیت اور دوسرے مذاہب کی اس پر زور طریق پر تردید فرمائی کہ حضور علیشا کے ایک نقاد کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ گزشتہ تیرہ سوسال میں تائید اسلام میں براہین احمدیہ جیسی بے مثال کتاب کوئی نہیں لکھی گئی.حضور عالی) کی صحت جو اکثر خراب رہتی تھی.ایک عام آدمی کے لئے تو ان میں سے ہر روک اس کام کو نا ممکن بنانے کیلئے کافی ہوتی مگر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آپ نے ان سب مشکلات اور روکوں کے باوجود نوے (90) کے قریب تصنیفات شائع فرما ئیں.ان تصنیفات میں سے بعض کے متعلق آپ نے انعامی پہلج فرمائے مگر بڑی بڑی رقموں کے انعام مقرر کرنے اور اسے اپنی صداقت کا معیار قرار دینے کے باوجود کسی مخالف کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات و توفیق نہ ملی.قرآنی پیشگوئیوں اور مخبر صادق آنحضرت سال اسلام کی بیان فرمودہ علامات کی صداقت ثابت کرنے والے امام موعود کی آمد پر تمام غیر مذاہب والوں بلکہ روایتی مسلمانوں نے بھی آپ کی مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا.اس وجہ سے آپ کو ان کے پھیلائے ہوئے غلط اعتراضات کے جواب دینے پڑے اور آپ کی بعض تصانیف میں مناظرہ کا ایک مؤثر ومنفر درنگ آ گیا.تاہم آپ 68

Page 70

کا اصل میدان تو روحانی انقلاب برپا کرنا تھا اور اس مقصد کیلئے آپ کی تصانیف میں تفسیر قرآن اور عشق رسول صلی یا ایم کا بے مثال رنگ پایا جاتا ہے.آپ کے علم کلام نے علمی میدان میں جماعت کو ایسا مقام دلا دیا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دلیل و برہان میں جماعت ایک بلند مقام پر فائز ہوگئی.اسلام کے غلبہ و حقانیت اور قرآن مجید کی عظمت و شان اور منفرد مقام محمد بیت صلی یہ تم پر آپ کی کتب روشنی کا مینار ہیں جن سے ہر طالب حق ہمیشہ کسب فیض کرتا رہے گا.اشاعت و تبلیغ کے اس فریضہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے جو تائید و نصرت کے سامان پیدا فرمائے ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اخبار ”الحکم اور اخبار ” بدر“ کی شکل میں دومعاون عطا فرمائے جنہیں آپ نے اپنے دو باز و قرار دیا.اس کے بعد یہ سلسلہ برابر ترقی پذیر رہا اور آج تو یہ عالم ہے کہ ایک طرف MTA حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے میں دن رات مصروف ہے تو دوسری طرف دنیا کے ہر کونے سے جماعتی اخبارات کی اشاعت ہو رہی ہے.الفضل کے لئے ربوہ میں روکیں پیدا کرنے کی کوششوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے الفضل انٹر نیشنل کی صورت میں جواب دیا گیا.اس طرح نہ صرف یہ کہ الفضل ربوہ خدائی فضلوں کا منادی بنا ہوا ہے بلکہ افضل انٹر نیشنل بھی اشاعت تبلیغ کے اس جہاد میں شامل ہے.حضرت سلطان القلم کے انصار ساری دنیا میں قلمی جہاد اور تبلیغی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں.اللهم زد و بارک دوستو اس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن اک بڑی مدت سے دین کو کفر تھا کھاتا رہا یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن الفضل انٹرنیشنل 12 مارچ 2004ء) 69

Page 71

دو میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا آنحضرت سلام اینم کی قیادت ونگرانی میں اسلام کے قافلہ نے سفر شروع کیا.ابتدائی مشکلات نے قدم قدم پر روک پیدا کی مگر آنحضرت صلی ایتم نے خدائی وعدوں اور تائید و نصرت کی طاقت پر رستہ میں آنے والی کسی روک اور مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا مقدس سفر جاری رکھا.ابتداء میں نماز کی ادائیگی اور تبلیغ بھی علی الاعلان نہ ہو سکتی تھی تاہم آہستہ آہستہ سعید روحیں شرک و ظلم کے اندھیروں سے نکل کر تو حید ورسالت کی روشنی سے منور ہونے لگیں اور حضور سالا اینم کی زندگی میں یہ عظیم الشان انقلاب برپا ہو چکا تھا کہ چھپ کر عبادات بجالانے کی بجائے حضور اکرم سلام ایم ایک فاتح کی حیثیت سے حرم شریف میں داخل ہوئے اور مسلمانوں پر بہیمانہ مظالم کرنے والے مجرموں کی طرح لرزاں و ترساں آپ کے سامنے پیش ہوئے اور آپ نے تاریخ عالم میں عفو و رحم کی ایک عظیم مثال پیش فرماتے ہوئے ان سب کو معاف کر دیا.حضور صلی یا تم نے جو پیشگوئیاں اور وعدے فرمائے تھے وہ حضور صلی اینم کی زندگی اور ذات مبارک سے ہی تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ سے علم غیب پا کر آپ نے آخری زمانے کی علامات بھی تفصیل سے بیان فرمائی تھیں اور آخری زمانے کے متعلق بیان کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ آخری زمانے میں اشاعت اور رسل و رسائل کے ذرائع بہت پھیل جائیں گے ، زمین اپنے خزانے باہر نکال دے گی، جنگوں اور خونریزی کی کثرت ہوگی ، لوگ بلند و بالا عمارتیں بنانے لگیں گے، عورتیں مردوں اور مرد عورتوں کی طرح نظر آنے لگیں گے ، دولت زیادہ ہو جائے گی مگر کھانا سب 70

Page 72

کو نہیں ملے گا، نئی نئی تیز رفتار سواریاں جاری ہوں گی ، آسمان سے آگ نازل ہوگی ، صلیب کے ماننے والوں کا غلبہ ہوگا، مسلمان یہودیوں کی طرح ہو جائیں گے، دجل و فریب کا دور دورہ ہوگا.وغیرہ وغیرہ.مذکورہ بالا سب علامتیں پوری ہوچکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے سو ڈیڑھ سو سال سے مسیح و مہدی کا انتظار کرتے کرتے اب بعض لوگ مایوسی کے عالم میں یہ بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ آخری زمانہ کی علامتیں اور آنے والے کا تصور ایک عجمی سازش تھی اور حضور اکرم لایا ہی ہم نے ایسی کوئی خبر نہیں دی تھی مگر یہ بات بعید از قیاس و عقل ہے کہ تیرہ سوسال کا لمبا عرصہ تو یہ علامات صحیح اور درست سمجھی گئیں مگر جب ان علامات کے پورا ہونے کا وقت آگیا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ سرے سے یہ باتیں ہی غلط ہیں اور اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہ کی گئی کہ ان باتوں کے پورا ہونے سے تو آنحضرت سی ای ایم اور قرآن مجید کی عظمت و صداقت ثابت ہوتی ہے.سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ مشکل اور الجھن کیوں پیش آئی.آنحضرت صلیا ایلیم نے آخری زمانہ کی خرابیوں اور علامات کو بیان کرتے ہوئے جس امام کی آمد کی خوشخبری عطا فرمائی تھی اسے حکم و عدل قرار دیا تھا.حکم وعدل کے الفاظ سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں غلط باتیں اور عقائد عام ہو چکے ہوں گے اور آنے والا مصلح ان غلطیوں کی اصلاح کر کے صحیح امور کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا.آنحضرت ملا لیا ایم کے ارشادات کے مطابق جب آنے والے امام نے یہ اعلان کیا: میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار تو یہ مسلمانوں کیلئے ایک خوشخبری تھی کہ حضور صلین سال پیام کی سچائی کا ایک روشن نشان پورا ہورہا ہے مگر مسلمانوں نے خوش ہونے کی بجائے اور یہ سمجھنے کی بجائے کہ اب ہمارا مسیحا ہمیں نئی زندگی اور 71

Page 73

شوکت عطا کرے گا اس کی تکفیر و تکذیب اور مخالفت شروع کر دی اور سورج کی طرح چمکتے ہوئے روشن دلائل سے آنکھیں بند کر کے مخالفت برائے مخالفت کی مہم شروع کر دی.بظاہر تو یہ مخالفت آنے والے مہدی کی تھی مگر در حقیقت یہ مخالفت آنحضرت مالی ایلام کی تھی جنہوں نے اس کی آمد کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی.یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام مجسم سوال بنا ہوا یہ پوچھ رہا ہے کہ آخری زمانے کی سب علامات تو پوری ہو چکی ہیں مگر امام مہدی کہاں ہے؟ اور یہ بھی کہ افضل النبیین حضرت محمد سلا می ایستم کی امت کے حصہ میں اب ذلت نا کامی اور نامرادی ہی رہ گئی ہے؟ اس سوال کا جواب اس زمانے کے مامور کے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا.آپ فرماتے ہیں:....یہ عاجز بھی اس صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجدد کا خطاب وو پاکر مبعوث ہوا اور جس نوع اور قسم کے فتنے دنیا میں پھیل رہے تھے ان کے رفع اور دفع اور قلع قمع کے لئے وہ علوم اور وسائل اس عاجز کو عطا کئے گئے کہ جب تک خاص عنایت الہی ان کو عطا نہ کرے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتے.“ آپ عالی سلام فرماتے ہیں : روحانی خزائن جلد 5 - کرامات الصادقین ص 45) ”اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجالاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بے شمار روحیں اس شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پالیا.اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے.“ (روحانی خزائن جلد 3 فتح اسلام ص 7) الفضل انٹرنیشنل 19 مارچ 2004 00 72

Page 74

خلافت ایک بابرکت نظام انسانی تاریخ میں مختلف طرز حکومت کا ذکر ملتا ہے.ابتدائی زمانہ میں بادشاہت کا دور نظر آتا ہے جس میں بالعموم کوئی انسان اپنی ذہنی یا جسمانی صلاحیتوں کی بنا پر اپنے ساتھیوں پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے اور پھر ان کو اپنا تابع اور مطیع بنا کر ان پر حکومت کرتا ہے.یہ سلسلہ بالعموم وراثت میں چلتا ہے اور آہستہ آہستہ ایک خاندان کی حکومت ختم ہو کر دوسرا کوئی اور خاندان سامنے آجاتا ہے.بادشاہت کی متعدد اور مختلف شکلیں سامنے آتی رہیں تا آنکہ جمہوریت کا زمانہ آ گیا اور یہ بات عام انسانوں کو بہت بھلی اور پیاری لگی کہ عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت.تاہم ہر ملک اور علاقہ میں وہاں کے حالات کے مطابق جمہوریت کی تعریف اور شکل بدلتی رہی اور موجودہ دور میں جمہوریت کا جو عام تصور ہے وہ یقیناً اس تصور سے بہت مختلف ہے جو ابتداء میں پیش کیا گیا تھا.جمہوریت کی کوکھ سے کئی اور نظام جنم لیتے رہے.کچھ عرصہ پہلے تک کمیونزم اور سوشلزم کا بہت چر چاتھا مگر یہ عجیب بات ہے کہ کمیونزم اپنے عروج کی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد زوال کی بدترین شکل کو پہنچ چکا تھا مگر کبھی بھی اپنی کتابی تعریف کے مطابق کہیں بھی روبہ عمل نہیں آسکا.یہی حال سوشلزم کا ہے.اس کا حلیہ بھی ہر جگہ تبدیل ہوتار ہا کبھی اسے کمیونزم کی ابتداء کے طور پر پیش کیا گیا، کبھی اس کے ساتھ افریقی سوشلزم کا لاحقہ لگا کر اس کی شکل تبدیل کی گئی اور کبھی اسلامی سوشلزم کے نام سے اسلام سے بھونڈ امذاق کیا جاتا رہا.73

Page 75

اسلامی نظام جسے خلافت کا نام دیا جاتا ہے ایک ایسا نظام ہے جسے انسانی نظاموں کے مقابل پر خدائی تائید و نصرت کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہے اور اس میں ہر زمانہ کی ضرورت اور حالات کے تقاضوں سے کلی طور پر عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت موجود ہے.یہ نظام جس کی بنیاد قرآن مجید میں پیش کی گئی اور جس کا عملی نفاذ اور طریق کار خیر القرون میں متعین ہو گیا انسانوں کے بنائے ہوئے طریقوں اور ازموں کے مقابل پر ہمیشہ ہی ایک کامیاب چیلنج کے طور پر موجودرہا.آنحضرت سلام اینم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس بابرکت نظام کا پھر سے ڈول ڈالا گیا.حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ امسیح الاول خان نے اپنی قرآنی بصیرت وروشنی سے اس نظام کی برکات کو واضح کیا.حضرت مصلح موعود بنی ان کو بھی اس مقدس کام کو آگے بڑھانے میں نمایاں خدمات بجالانے کی توفیق حاصل ہوئی.آپ کے کار ہائے نمایاں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جن پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی.ایک بہت بڑا کارنامہ استحکام خلافت کا آپ کے ہاتھوں سر انجام پایا.آپ نے ایسے واضح رہنما اصول مقرر فرمائے جن کی برکت سے جماعت میں اختلافات کا سد باب ہو گیا اور خلافت ثالثہ ، خلافت رابعہ اور خلافت خامسہ کے انتخاب میں ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اتحاد و اتفاق اور خدائی تائید کے ایسے ایمان افروز نظارے نظر آئے جن سے اسلام واحمدیت کی سچائی اور آنحضرت سلاما لی ہیم کی عظمت و شان نمایاں ہوئی اور یقین ہے کہ خلافت کی برکات کا یہ سلسلہ جماعت میں ہمیشہ جاری رہے گا.حضرت مصلح موعودؓ نے سالانہ اجتماع خدام پر ایک تاریخی عہد لیا جس کے الفاظ یہ ہیں : أَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ هم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی ایم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کیلئے ہمیشہ " 74

Page 76

اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کیلئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اُونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کیلئے آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے.اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے.اور محمد رسول اللہ علیہ السلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.“ اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما اللهم آمين اللهم آمين اللهم آمين 75 الفضل انٹرنیشنل 21 مئی 2004

Page 77

ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں“ انسانی پیدائش کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کا حصول ہے.سلسلہ احمدیہ کے قیام کی بھی یہی غرض ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کیلئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کو پھیلا دے.“ (روحانی خزائن جلد 3 - ازالہ اوہام صفحہ 562) سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہونے کے شرائط میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ: ہر حال رنج و راحت اور عسر اور میسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کیلئے اس کی راہ میں تیار رہے گا.“ (اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد بنلی نے ایک دوست کو جو اپنی فطری سعادت کی وجہ سے جماعت میں شمولیت کی سعادت حاصل کر رہے تھے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تقوی اللہ کو اپنا شعار بنا ئیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کی 76

Page 78

محبت سب دکھوں اور تکلیفوں اور جسمانی وروحانی بیماریوں کا علاج ہے.“ اس بنیادی مقصد کے حصول کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کے مطابق حضرت مسیح موعود علی شام نے ایک جماعت قائم کی.خدا کے بندوں کو اس کی طرف بلایا اور جمع کیا تا وہ اللہ تعالیٰ کے خدمت گزار بندے بن جائیں.ہم لوگ بھی اس کی جماعت میں اسی لئے داخل ہوئے ہیں کہ ہم خدا کے خدمت گزار بندوں میں شامل ہوں.لیکن اس خدمت گزاری کیلئے کچھ شرائط ہیں.اگر وہ شرائط پوری نہ کی جائیں اور ان پر نہ چلا جائے تو پھر صرف خدمت گزار کہلانے سے تو کچھ فائدہ نہیں حاصل ہوگا.جب تک ان شرائط کو پورا نہ کیا جائے تب تک ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.دیکھو سکول میں داخل ہونے سے ایک شخص طالب علم تو کہلا سکے گا لیکن اگر وہ داخل ہونے کی غرض کو مد نظر نہ رکھے گا اور علم کے حصول کی کوشش نہ کرے گا تو اسے صرف طالب علم کہلانے سے اور سکول میں داخل ہو جانے سے علم نہیں حاصل ہو جائے گا اور نہ وہ عالم کہلائے گا.بہت سے لڑکے ہوتے ہیں جو کہلاتے تو طالب علم ہیں لیکن سارا وقت بجائے علم کے حصول کے جہالت کے حصول میں خرچ کر دیتے ہیں.کیا وہ صرف طالب علم کہلانے یا سکول میں داخل ہونے سے عالم کہلانے کے امیدوار ہو سکتے ہیں.اسی طرح ہم بھی ایک مدرسہ میں داخل ہوئے ہیں جس میں داخل ہونے کی غرض محض یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خدمت گزار غلام بن جائیں اور اس کا قرب حاصل ہو.مگر صرف اس مدرسہ میں ہمارا داخل ہونا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.جب تک ہماری کوششیں اس غرض کے حصول کیلئے انتہائی نقطہ پر نہ پہنچ جائیں اور جب تک ہم پورے طور پر جد و جہد نہ کریں تب تک ہم سچے طور پر خدا کے غلام کہلانے کے مستحق نہیں ہو سکتے.“ (الفضل 22 فروری 1927 ء ) 77

Page 79

خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے فوائد و ثمرات بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے اندر روحانی دروازے اور کھڑکیاں کھولنی چاہئیں تا ان کے ظاہر کے ساتھ باطن مل جائے اور جب یہ حالت پیدا ہو جائے تو ایسا انسان ہر چیز پر غالب آجاتا ہے اور کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا کفیل ہو جاتا ہے اور یہی وہ اصل روحانی مقام ہے جس کیلئے ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور جب تک یہ حالت پیدا نہ ہو ایمان کامل نہیں ہوتا.ہمیں اپنے آپ کو احمدیت کا عمدہ پھل بنانا چاہئے.“ (الفضل 17 جون 1946ء) جماعت کی روحانی ترقی کیلئے محبت الہی کے حصول کی طرف نہایت دردمندی سے توجہ دلاتے ہوئے آپ بینی نہ فرماتے ہیں: " مجھے تمہاری حالتوں کو دیکھ کر جنون کی سی حالت ہو جاتی ہے.ایک چھوٹا بچہ جنگل میں اپنی ماں سے جدا نہیں ہوتا.میں بھی تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس خدا سے جو ماں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے تم جدا نہ ہو.میں نے آدھی دنیا کا سفر کیا ہے اور پھر دیکھا ہے کہ ہر جگہ تمہاری مخالفت ہو رہی ہے.نہ کسی ملک میں تمہاری جانیں محفوظ ہیں نہ تمہارے مال محفوظ ہیں.کوئی چیز تمہاری حفاظت اور پناہ کا موجب نہیں ہوسکتی.صرف ایک ہی دروازہ ہے جہاں تم کو پناہ مل سکتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی گود ہے جو ماں باپ سے بھی زیادہ حفاظت کی جگہ ہے.میں اپنے جسم کو طاقتوں سے خالی پاتا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر تم میری اس نصیحت کو مانو گے تو ہر ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا.لڑائیوں، جھگڑوں کو چھوڑ دو.اپنے معاملات کو درست کرو.دنیا کی کسی چیز کو اپنا خدا نہ بناؤ.آج دنیا میں کسی جگہ بھی حقیقی پرستش خدا تعالیٰ کی 78

Page 80

نہیں ہو رہی.پس تم بھی اپنی سستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے عذابوں کا مستحق نہ بناؤ.جس خدمت کو تم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے اس کو پوری توجہ سے سر انجام دو.“ (الفضل 20 دسمبر 1922ء) راضی رہو خدا کی قضا پر ہمیش تم لب پہ نہ آئے حرف شکایت خدا کرے تم ہو خدا کے ساتھ، خدا ہو تمہارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے الفضل انٹرنیشنل 28مئی 2004ء) 79

Page 81

وقف زندگی بے نفس ایثار پیشہ لوگ دنیا کی بہتری اور بھلائی کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کر کے اور مشکلات اور تکالیف برداشت کر کے اطمینان اور سکون حاصل کرتے ہیں.انبیاء اس لحاظ سے مثالی وجود ہوتے ہیں جو بغیر کسی لالچ، خود غرضی یا نام ونمود کے سب کچھ خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان کر دیتے ہیں.آنحضرت سالی ایم کے بے مثال اسوۂ حسنہ کی پیروی میں حضرت مسیح موعود علینا نے بھی اس مبارک طریق پر چلتے ہوئے، ہر وہ چیز جو آپ کے قبضہ اختیار میں تھی ، خدا تعالیٰ کے راستہ میں جھونک دی.براہین احمدیہ کی تیاری و اشاعت کے سب اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ دشمنان اسلام کو لاجواب کرنے اور ان پر حجت تمام کرنے کیلئے دس ہزار روپے کا انعام رکھا جو اس زمانہ کے لحاظ سے آپ کی کل جائیداد کے برابر ایک بہت بڑی رقم تھی.احیائے دین اور اقامتہ شریعت کی مہم میں شامل ہونے والے خوش قسمت افراد کی مہمان نوازی کیلئے حضرت اماں جان بینی پیشن کے زیور فروخت کر کے لگا دئے اور کئی دفعہ یہ صورت بھی پیش آئی کہ اپنا کھانا اور اپنا بستر بھی مہمانوں کو دے دیا اور خودسر دیوں کی لمبی راتیں بستر کے بغیر بسر کر دیں.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی یہ کی روایت کے مطابق حضرت مسیح موعود علی شام نے اپنی دنیاوی زندگی کے آخری دن فٹن پر سوار ہوتے ہوئے یہ تاکید فرمائی کہ گاڑی بان کو یہ اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے اور اتنی دور ہی جایا جائے کہ واپسی بھی 80

Page 82

اسی میں ہو جائے.آپ کی بےنفسی اور ایثار وقربانی کی یہ روح آپ کے ساتھیوں اور متبعین میں بھی سرایت کر گئی.حضرت مولانا نور الدین بنایا جو علم الادیان اور علم الابدان کے مسلمہ ماہر اور ہندوستان بھر میں بلکہ بیرون ملک بھی بہت اچھی شہرت کے مالک تھے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان میں خدمت دین کیلئے دھونی رما کر بیٹھ گئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نئی پختہ سیالکوٹی جو کئی زبانوں کے ماہر تھے اعلیٰ مشاہرے اور ملازمت کے یقینی مواقع کو نظر انداز کرتے ہوئے دیار مسیح کیلئے وقف ہو کر رہ گئے.حضرت مولوی برہان الدین صاحب معنی شیمی ، حضرت مولوی محمد احسن صاحب رضی اللہ ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب بینی ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب بنی ہو ، اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نانی مند وغیرہ کے نام اس سلسلہ میں بہت نمایاں ہیں.مگر ایسے گمنام مخلصین کی تعداد اور قربانی بھی کسی طرح کم نہیں ہے جو اصحاب الصفہ کی طرح اپنے گھر بار چھوڑ کر قادیان کے ہی ہو گئے.واقفین زندگی کا یہ گروہ جماعت کی تاریخ کا قابل رشک حصہ ہے.اسی سے واقفین زندگی کی با برکت تحریک شروع ہوئی اور حضرت مصلح موعود نیا خون کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جماعت کے لوگوں نے یہ جاننے یا پوچھنے کے بغیر کہ انکا کام کتنا مشکل ہوگا اور اس کا کوئی معاوضہ بھی ملے گا یا نہیں اپنے آپ کو وقف کر دیا اور تبلیغی میدانوں میں کار ہائے نمایاں سرانجام دئے.ان میں بعض خوش نصیب ممالک غیر میں دینی خدمات بجالاتے ہوئے شہادت کے مقام پر فائز ہوئے.نیروبی کینیا میں ایک احراری مولوی صاحب نے سچائی کی مخالفت میں ایک طوفان برپا کر دیا.نیروبی جماعت کی طرف سے قادیان اطلاع پہنچی تو واقفین زندگی میں سے ایک نو جوان حضرت شیخ مبارک احمد صاحب کو وہاں بھجوا دیا گیا.وہ مولوی صاحب تو اس خیال سے وہاں گئے تھے کہ جماعت کی مخالفت کی وجہ سے نیروبی کے خوشحال مسلمانوں میں ایک پیر کی طرح زندگی بسر کریں گے.مگر جب ایک واقف زندگی کی قربانی، بے نفسی ، اخلاص ، تو کل اور جد وجہد سے واسطہ پڑا تو وہ جلد ہی یہ سمجھ 81

Page 83

گئے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے اور چپکے سے ہندوستان واپس چلے گئے.جبکہ اس کے مقابل پر حضرت شیخ صاحب نے احمدی واقفین کی روایتی قربانی پیش کرتے ہوئے وہاں جماعتیں قائم کیں، مساجد تعمیر کیں، قرآن کریم کا سواحیلی میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی.وہاں آپ پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے.جھوٹی مخبریاں بھی کی گئیں اور قدم قدم پر مشکلات پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر ایک واقف زندگی کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.حضرت شیخ صاحب مشرقی افریقہ میں کم و بیش ربع صدی نہایت مفید و مؤثر خدمات بجالانے کے بعد واپس مرکز گئے اور وہاں اہم جماعتی خدمات سرانجام دیں.آپ کو یورپ اور امریکہ میں بھی خدمات بجالانے کی توفیق ملی.یورپ اور امریکہ کی کئی مساجد اور مشن ہاؤس آپ کی یادگار ہیں.قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ کی قابل رشک خدمت بجا لانے کے علاوہ آپ کو زندگی کے آخری ایام میں حدیث کے ایک نہایت عمدہ مجموعہ "ریاض الصالحین کے سواحیلی ترجمہ کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی جسے آپ نے اپنے خرچ پر طبع کروا کر مشرقی افریقہ کی جماعت کو بطور عطیہ دے کر ایک بیش بہا صدقہ جاریہ کا ثواب حاصل کیا.یہ ایک مثال ہے.ایسے واقفین زندگی دنیا بھر میں خدمات بجالا رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب اس فتح نصیب قافلہ میں واقفین وقف نو اور واقفین وقف جدید کی کمک نئے جذبوں اور ولولوں کے ساتھ شامل ہو رہی ہے.خدا جو سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار کچھ ہی کرتے ہیں اس پر ثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب 82 الفضل انٹرنیشنل 11 جون (2004)

Page 84

تمدن اسلام حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے اپنے مولد ومسکن فلسطین میں لوگوں کو اپنے خدا داد منصب مشن کی طرف دعوت دی تو آپ کو سنت انبیاء کے مطابق سخت مشکلات و مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تا ہم آپ پورے زور و ہمت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کیلئے کوشاں رہے.عیسائیت کی تاریخ بتلاتی ہے کہ آپ پر ابتدائی ایمان لانے والے غریب ماہی گیر تھے.حضرت مسیح ما السلام نے ایک اچھے معلم کی طرح ان کی تربیت فرمائی اور قرآنی محاورہ کے مطابق ان غریب اور سیدھے سادے لوگوں کو آسانی روحانیت کے بلند پرواز پرندے بنا دیا.مخالفت کا سلسلہ اس حد تک بڑھ گیا کہ آپ کے دشمنوں نے آپ کو مختلف تکلیفیں دیتے ہوئے بالآخر صلیب پر چڑھا دیا.خدائے قدیر کی تائید و نصرت سے حضرت مسیح عالین صلیبی موت سے تو بچ گئے تاہم مشکلات کے ہجوم اور مصالح کو مدنظر السلام رکھتے ہوئے آپ کو وہاں سے ایک لمبا سفر اختیار کر کے ایک پر فضا مقام کشمیر کی طرف جانا پڑا اور آپ نے وہاں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنے کا فریضہ ادا فرماتے ہوئے توحید کی تبلیغ کا کام جاری رکھا.فلسطین میں حواریوں نے اپنا کام جاری رکھا مگر وہ سرزمین ان کیلئے زیادہ زرخیز ثابت نہ ہوئی اور وہ اپنے استاد و مربی کے پیغام کو عام نہ کر سکے.ان میں سے بعض کو حضرت مسیح کی طرح ہی مشکلات پیش آئیں اور انہیں اپنی جان تک کا نذرانہ تک پیش کرنا پڑا.کم و بیش تین سو سال اسی 83

Page 85

طرح گزر گئے.کبھی حالات ان کی موافق ہو جاتے مگر اکثر و بیشتر انہیں زیرزمین جا کر ہی اپنی تنگ ودوکو جاری رکھنا پڑا.تین سوسالوں کے طویل، پر مشقت سفر کے بعد جب روم کے بادشاہ نے عیسائیت قبول کی تو ابتدائی مسیحیوں کی مشکلات کا دور ختم ہوا اور عیسائیت پھیلنے لگی.مگر یہاں ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ جس مقصد کیلئے تین سو سال تک قربانیوں اور تکالیف برداشت کرنے کی شاندار تاریخ مرتب کی گئی تھی وہ مقصد دھندلانے لگا اور تو اور حضرت مسیح ملالی) کی مظلومی اور جگہ جگہ پوشیدہ طور پر جانے اور رہنے کے ردعمل کے طور پر حضرت مسیح معلم کو خدا اور خدا کے بیٹے کے طور پر پیش کیا جانے لگا.اس طرح اہل روم کے مذہبی عقائد اور تمدن نے عیسائی عقائد و تمدن کی جگہ لے لی اور اب جو مذہب پھیلنے لگا اس کا اصل عیسائیت سے صرف نام کا تعلق باقی رہ گیا.یہی وجہ ہے کہ پرانے مسیحیوں کو نئے مسیحیوں سے مقابلہ کرنا پڑا مگر نئے مسیحیوں کی کثرت اور ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے صحیح عقائد اور تمدن اوجھل ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ رومن عقائد و تمدن کو جگہ مل گئی اور یہی عقائد و تمدن مسیحی عقائد و تمدن سمجھے جانے لگے.اس تبدیلی کی وجہ سے حضرت مسیح علی کا مشن جو رسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ کا مشن تھا، اسے عالمگیر مشن کے طور پر پیش کیا جانے لگا، توحید کی بجائے تثلیث کا چرچا ہونے لگا.حضرت مسیح حالی کے آسمان پر جانے کا ذکر بھی درمیان میں آ گیا.ختنہ، جسے بنی اسرائیل میں خدائی عہد کا نشان سمجھا جاتا تھا غیر ضروری قرار دے دیا گیا.حلال وحرام کی تعلیم کو مسخ کر دیا گیا اور بہت حد تک مشرکانہ خیالات اور رسم ورواج عیسائیت اور حضرت مسیح عالی شام کی تعلیم سمجھے جانے لگے.تمدن کی تبدیلی سے خیالات بلکہ عقائد کی تبدیلی کی یہ بہت ہی واضح اور افسوسناک مثال ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں رسل رسائل یا ابلاغ عامہ کے وسائل بہت محدود تھے.مگر ہمارے زمانہ میں کمپیوٹر کی ایجاد نے مختلف قوموں اور ممالک کے رابطوں میں ایک انقلاب پیدا 84

Page 86

کر دیا ہے.پروپیگینڈا ایک فن بن چکا ہے اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آج کل جنگیں میدان جنگ میں اسلحہ کے زور پر نہیں بلکہ میدان جنگ سے دور دراز بظاہر غیر متعلق جگہوں پر پراپیگنڈا کے زور سے جیتی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ آج کل جنگوں کو جو یقیناً اپنی بالا دستی منوانے کیلئے ہی ہوتی ہیں مختلف تہذیبوں کی جنگ قرار دے کر مخالفوں کو اعصاب شکن حالات میں دھکیل کر جیتی جاتی ہیں یا جیتنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے.مسلمان اپنے اسلامی تمدن پر بجا طور پر نازاں ہیں مگر اس تمدن کو مختلف ناموں سے تبدیل کرنے بلکہ مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور زیادہ قابل فکر صورت یہ بن جاتی ہے کہ احساس کمتری کی وجہ سے خود مسلمان بھی بعض دفعہ اپنے اسلامی تشخص اور تمدن کو پچھلے زمانوں کی چیز سمجھ کر قابل ترک اور قابل نفرت سمجھنے لگتے ہیں مگر یہ وہی صورت ہے جس کی وجہ سے عیسائیت کی شکل تبدیل ہو کر اس کی جگہ مشرکانہ رسم ورواج نے لے لی.ہمارا تمدن ، ہماری عائلی زندگی ، ہماری معیشت بہت ہی بابرکت اور سکون بخش ہے.اس کی موجودگی میں ہم خدا اور رسول کے احکامات کے مطابق بہتر زندگی بسر کر کے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں.اس لئے بہت ہی ضروری ہے مغربی تمدن یا کسی اور طریق کی نقالی سے پوری طرح بیچنے کی کوشش کی جائے.حضرت مصلح موعود بنایا نہ اسلامی تمدن پر کار بند رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:...اے قوم! میں ایک نذیر عریاں کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا.اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا.جس خدا نے مسیح موعود مالی شام کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا.پس کوشش نہ چھوڑنا ، نہ چھوڑنا ، نہ چھوڑنا، آہ نہ چھوڑنا.میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں اسلام کا ہر حکم ناقابل تبدیل ہے.خواہ چھوٹا ہو، خواہ بڑا ہو.جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے.وہ اسلام کی تبدیلی کی 85

Page 87

بنیا درکھتا ہے.کاش وہ پیدا نہ ہوتا...یورپ کے لئے تو اسلام قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے.ہمارا فرض یہ ہے ہم دیکھیں وہ ایسی صورت سے اسلام قبول کرے اسلام ہی کو نہ (روز نامہ الفضل 20 رمئی 1924ء) بدل دے.“ الفضل انٹرنیشنل 18 جون 2004 00 ایک بری عادت.بخل بخل ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو نیکی اور ترقی کے مواقع سے استفادہ کرنے سے محروم کر کے برائیوں اور بدیوں کے ایسے پھسلنے والے راستہ کی طرف دھکیل دیتی ہے جو قعر مذلت کی طرف لے جاتا ہے.بخیل عام طور پر اسے کہا جاتا ہے جو اپنا مال صبح موقع اور صحیح مصرف پر خرچ کرتے ہوئے بھی خوشی محسوس نہ کرے اور اسے اپنے مال کے خرچ ہونے سے تکلیف ہو.اسی طرح وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی خدادادصلاحیتوں اور قابلیتوں کو دوسرے بھائیوں اور عزیزوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے استعمال نہیں کرتا یا ان کو اس فائدہ سے جو وہ حاصل کر سکتے ہوں محروم رکھتا ہے.اگر بخیل اپنے بخل کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال کو اسی کے رستہ میں خرچ کرنے سے رکا رہتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک ایسی نیکی سے محروم کر لیا جو اور نیکیوں کی طرف لے جانے والی تھی اور قرآنی محاورہ کے مطابق جس سے کئی سو گنا فوائد حاصل ہونے تھے.بخل کا یہ پہلو بھی قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ بخیل اگر وقتی طور پر چند پیسے بچا بھی لے گا تو بعد میں 86

Page 88

اسے وہ پیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑیں گے کیونکہ ضرورت تو پوری کرنی ہی پڑتی ہے.اسی لئے کہا جاتا ہے.ہر کہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار اور غالباً ایسے ہی مواقع پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: مہنگا روئے ایک بار، سستا روئے بار بار بخل کا یہی نقصان نہیں ہوتا کہ اسکی وجہ سے دوسرے لوگ جائز فائدہ حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے بلکہ سب سے زیادہ نقصان تو خود بخیل کو پہنچ رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے بخل کی وجہ سے نیکی کے مواقع سے ترقی کے مواقع سے تعلقات میں وسعت کے مواقع سے اپنے آپ کو محروم کرنے کے علاوہ اپنی اس حالت پر ہر وقت کڑھتے رہنے کی وجہ سے مستقل تکلیف میں مبتلا رہتا ہے.اور اس طرح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے اور صحیح اقدام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر ایک نشان عبرت بن جاتا ہے.یادر ہے کفایت شعاری اور بخل میں بہت فرق ہے.کفایت شعاری تو یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر کم خرچ پر اپنی ضروریات کو پورا کیا جائے اور ضروریات کو بھی محدود رکھنے کی کوشش کی جائے اور اسراف و فضول خرچی سے بچا جائے.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے آپ بیتی میں بخل کی ایک عجیب مثال بیان کی ہے آپ لکھتے ہیں کہ : " طالب علمی کے زمانہ میں میڈیکل ہوٹل میں ایک طالب علم اپنی بخیلی کی وجہ سے مشہور بلکہ بدنام تھے.ایک دن دوستوں نے دیکھا کہ وہ صاحب دودھ اور جلیبی کا ناشتہ کر رہے ہیں.سب دیکھنے والوں کو بہت تعجب ہوا اور کسی نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھ ہی لیا کیوں صاحب یہ کیا عیاشی ہو رہی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ 87

Page 89

کوئی عیاشی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کل رات میں پڑھائی کے وقت سو گیا اس پر مجھے خیال آیا مجھے اپنی غلطی اور ستی کی سزاملنی چاہئے تو میں نے سوچ سوچ کر یہی سمجھا کہ مجھے اس سے زیادہ کسی بات سے تکلیف نہیں پہنچے گی میں اپنے اوپر کچھ خرچ کروں چنانچہ میں نے سزا کے طور پر دودھ جلیبی خریدنے پر زائد خرچ کر کے اپنے آپ کو سزا دی ہے.“ بخل کی ایک یہ عجیب صورت بھی بعض دفعہ دیکھنے کوملتی ہے مثلاً الف کوب سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو ج اس پر کڑھتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے.حالانکہ ج کا نہ تو کچھ خرچ ہوتا ہے نہ ہی الف کے فائدے سے اسے کوئی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے.تاہم صرف یہ سوچ کر کہ الف کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو کیوں پہنچ رہا ہے، ج کو تکلیف ہوتی ہے.بخل کی یہ صورت حسد سے پھوٹتی ہے اور اس طرح یہ معمولی بدی یا گناہ کی بات نہیں رہتی بلکہ آنحضرت سالانا اسلم کے ارشاد کے مطابق ایسی بدی بن جاتی ہے جو نیکیوں کو اس طرح جلا کر بھسم کر دیتی ہے جس طرح آگ ایندھن کو.قرآن مجید مومن کی یہ شان بتاتا ہے کہ وہ بخل اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے درمیانی راستہ یعنی اعتدال و توازن پر قائم ہوتا ہے.قرآن مجید بخل سے اپنا دامن بچالینے والوں کو فلاح و کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے اور یہ بھی فرماتا ہے کہ مومن تو وہ ہے جواپنی تنگ دستی کے باوجود دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے.حد سے بڑھی ہوئی محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی قومی خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بنی اللہ فرماتے ہیں: مال کی محبت حلال و حرام کا امتیاز اڑا کر انسان کو ظلم کی طرف مائل کر دیتی ہے.جس شخص کے دل میں انتہائی طور پر مال کی محبت ہوگی وہ حلال اور حرام میں کوئی امتیاز نہیں کرے گا.حلال ذریعہ سے مال آئے گا تو اسے بھی لے لے گا.حرام ذریعہ 88

Page 90

سے مال آئے گا تو اسے بھی لے لے گا اور جس شخص میں حلال وحرام کا امتیاز نہ رہے وہ ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے اور جس قوم میں ظالم پیدا ہو جا ئیں اس کا شیرازہ کبھی متحد نہیں رہ سکتا.یہ ایک لازمی اور طبعی بات ہے کہ جب انتہائی طور پر مال کی محبت پیدا ہوگی اور حلال وحرام کی تمیز جاتی رہے گی تو انسان ظلم سے بھی دریغ نہیں کرے گا اور جب قوم میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جن کو دوسروں کولوٹنے میں مزا آتا ہو تو وہ قوم کبھی پنپ نہیں سکتی.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا تعالیٰ سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے جو خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 497) اللہ تعالیٰ ہمیں بخل و اسراف سے بچتے ہوئے جادہ اعتدال پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین 89 الفضل انٹرنیشنل 2 جولائی 2004ء)

Page 91

زمین کے کناروں تک قادیان کی سرزمین سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا آغاز ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے خدا نے یہ خبر دی ہے کہ : میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یہ اعلان اور دعویٰ سن کر کم ہی کسی نے یقین کیا ہوگا کہ یہ بات پوری ہوگی کیونکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کسی لحاظ سے بھی اس مقام وشہرت کے مالک نہ تھے کہ دنیا یہ مجھ سکتی کہ ان کو عالمی شہرت حاصل ہوگی.اس کے برعکس صورت حال یہ تھی کہ آپ کے والد صاحب کے پرانے ملنے والے بھی ان سے یہ پوچھتے تھے کہ سنا ہے آپ کے دو بیٹے ہیں.ایک کو تو ہم بخوبی جانتے ہیں مگر دوسرے کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تو حضور کے والد صاحب ان کو یہ جواب ا کرتے تھے کہ میرا وہ لڑکا تو مسیر ہے، اسے دیکھنا ہو تو مسجد میں جاکر دیکھ لو اسے عبادت اور مطالعہ کتب کے سوا اور کسی کام کا شوق نہیں ہے.دیا قادیان کے قصبہ کی بھی کوئی شہرت نہ تھی بلکہ اس وقت تو یہ حالت تھی کہ نہ ہی وہاں کوئی ضلعی یا تحصیل ہیڈ کوارٹر تھا، نہ ہی کوئی تجارتی منڈی تھی ، نہ ہی کسی اہم شاہراہ پر واقع تھا کہ وہاں سے گزرتے ہوئے لوگوں کو اس قصبہ کا علم ہوتا.یہی وجہ ہے کہ جب ابتدائی صحابی حضرت مسیح موعود 90

Page 92

سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی زیارت کے شوق میں قادیان کا پتہ دریافت کرتے تو انہیں اس سلسلہ میں کافی مشکل پیش آتی.یہاں تک کہ قادیان سے گیارہ میل کے فاصلہ پر بٹالہ نامی ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر بھی قادیان کا رستہ معلوم کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا.قادیان پہنچنے کے لئے کوئی پختہ سڑک یا معقول سواری بھی نہ تھی.ان مشکلات پر اس مخالفت نے اور اضافہ کر دیا جو ہمیشہ ہی سچے مامور کی ہوتی آئی ہے.چنانچہ یہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے بٹالہ کے ایک مولوی صاحب جنہیں یہ خیال تھا کہ اس علاقہ میں ان کی مدد کے بغیر کوئی اہم مذہبی کام سرانجام نہیں پاسکتا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کی مخالفت کی وجہ سے احمدیت قادیان سے باہر نہیں نکل سکے گی ، ایک عرصہ تک اس مہم میں لگے رہے کہ قادیان جانے والوں کو بٹالہ سٹیشن پر ہی بد دل کر کے واپس جانے پر مجبور کر دیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ دعویٰ کہ وہ ہندوؤں کے اوتار ہیں، سرمایہ دار ہندو قوم کی مخالفت کے لئے کافی تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحقیق که حضرت بابا نانک دایملی ایک صوفی منش خدارسیدہ مسلمان تھے، اس علاقہ میں سکھوں کو غضبناک کرنے کے لئے کافی تھی.مسلمان تو پہلے ہی حضرت عیسی مالی نام کی وفات کے اعلان سے آتش زیر پا ہو چکے تھے.ان مخالف حالات میں زمین کے کناروں تک شہرت کی بات اور بھی عجیب اور نا قابل یقین ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے کام عجیب ہوتے ہیں.دنیا دار آدمی کے لئے ان کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا مگر حقیقت یہی ہے.جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے سچائی کی کونپل آہستہ آہستہ بڑھنے لگی.مخالفت کی آندھیوں کی شدت کے باوجود یہ زندگی کی توانائیاں اور رونقیں حاصل کرتی چلی گئی.قادیان میں مشکلات پیدا ہوئیں تو آسمان روحانیت کے بلند پرواز پرندے ربوہ میں جمع ہو گئے اور تبلیغ واشاعت اسلام کا کام پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانہ پر شروع ہو گیا اور مخالفت کی اس کھاد سے سچائی کی نوخیز نازک کو نیل ایک ایسے خوش نما درخت 91

Page 93

ی شکل اختیار کرگئی جس کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل گئیں.MTA کے کیمرہ کی آنکھ نے ہمیں حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے مغربی افریقہ کے دورہ کی جھلکیاں دکھائیں.شمع احمدیت کے پروانوں کے جلسے،جلوس، استقبال، نعرے بتا رہے تھے کہ دنیا کے اس حصہ میں ، قادیان سے دور دراز علاقہ میں تبلیغ اور اثر ونفوذ کتنا مسرت انگیز اور روح پرور ہے.حضور ایدہ اللہ کے دورہ کینیڈا میں نئی دنیا میں سچائی کے درخت کی سرسبز شاخیں بھی روح پرور اور وجد آفریں ہیں.ایشیا، یورپ، افریقہ، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا میں احمدی مبلغین کی کامیابیاں ، اسلام کی پر امن تعلیم کا اثر ونفوذ ، خدائی وعدوں کی سچائی ، احمدیت کی صداقت ، قرآن مجید کی عظمت اور بانی اسلام ساسی یتیم کی شان و شوکت کا منہ بولتا نا قابل تردید ثبوت ہے.اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا الفضل انٹرنیشنل 9 جولائی 2004ء) 92

Page 94

طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ رحمۃ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفی سلام اینم نے امت محمدیہ کو عظیم الشان بشارات عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک کا ذکر حضرت ابو ہریرہ رضی عنہ سے مروی روایت میں یوں ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی یا اسلام نے فرمایا کہ: "جو شخص محض اللہ کی محبت میں، اس کی رضا کی خاطر کسی مریض کی عیادت کے لئے یا اپنے کسی بھائی کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے جاتا ہے تو ایک فرشتہ اسے بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے : طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنْ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا (ترمذی) کہ تو بھی مبارک ہو جائے اور تیرا چلنا بھی مبارک ہو اور جنت تیرا ٹھکانہ ہو.“ یقیناً ہر مسلمان اس حدیث نبوی میں مذکور شرائط کے ساتھ اختیار کئے گئے سفر کے نتیجہ میں اس سے وابستہ بشارتوں سے حصہ پاسکتا ہے.لیکن وہ سفر جو مومنوں کی جماعت کے امام محض للہ اپنے دینی بھائیوں کی زیارت اور ملاقات کے لئے اور دین اسلام کی سربلندی اور بنی نوع انسان کی فلاح بہبود کی غرض سے اختیار فرما ئیں ان پر تو آنحضرت مسلم کی یہ بشارت بدرجہ اولی صادق آتی ہے.اسی طرح وہ مومنین مخلصیں جو کسی اپنے عام دینی بھائی سے نہیں بلکہ اپنے روحانی امام کی 93

Page 95

زیارت و ملاقات کے لئے اور اس کی مقدس صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے محض للہ سفر اختیار کر کے اس کے پاس پہنچتے ہیں ، وہ بھی یقیناً ان بشارات نبوی سے عام معمول سے بڑھ کر حصہ پاتے ہیں.سال گذشتہ میں سیدنا اما من حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ نصرہ العزیز نے یورپ کے مختلف ممالک کے علاوہ خصوصیت سے مغربی افریقہ کے چار ممالک غانا، برکینا فاسو، بینن اور نائیجیریا اور اسی طرح نارتھ امریکہ میں کینیڈا کا دورہ فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ جب لندن سے روانہ ہوکر غانا میں ورود فرما ہوئے تو آپ نے ائر پورٹ پر اخباری نمائندگان کے سوال کے جواب میں فرمایا: "I have come to see my loved ones" میں یہاں اپنے پیاروں سے ملنے آیا ہوں ,, مومنوں کے امام ، حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے مقدس خلیفہ خامس ایدہ اللہ کے اپنی پیاری جماعت سے ملاقات اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے ہزار ہا میل کے یہ لمبے سفر محض اللہ کی رضا کی خاطر تھے اور آنحضرت صال السلام کی بشارت کے مطابق بلاشبہ نہایت درجہ مبارک اور خیر و برکت کا باعث تھے.جس طرح یہ سفر الہی تائید و نصرت سے معمور غیر معمولی طور پر کامیاب وکامران رہے، ہم اللہ کے فضل واحسان پر نظر کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں بلکہ ہمیں یقین کامل ہے کہ آپ کے ہر قدم پر فرشتے یہ دعا دیتے ہوں گے ” طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنْ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا ان سفروں میں جس طرح ہزار ہا عشاقانِ خلافت حقہ اسلامیہ احمد یہ اپنے پیارے امام کی زیارت و ملاقات کا شرف پانے کے لئے ، والہانہ ذوق وشوق کے ساتھ ، دور دراز علاقوں سے نہایت مشقت اور تکلیف اٹھا کر اور اپنے کاموں کا حرج کر کے ان مراکز میں پہنچے جہاں حضور انور نے ور ودفرمانا ہوتا تھا وہ داستانِ صدق وصفا اور اخلاص و وفا بہت طویل اور بہت ہی روح پرور اور ایمان افروز ہے.94

Page 96

ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افریقہ کے مخلص اور فدائی احمد یوں نے اپنے جذبہ ایمانی لہلہی خلوص ومحبت کے بے ساختہ اظہار حسن انتظام اور مثالی نظم وضبط کے دلر بانظاروں سے اپنے پیارے امام ایدہ اللہ کو کس قدر روحانی مسرت پہنچائی اور آپ ایدہ اللہ کی بے پناہ محبت اور آپ کے دل سے اٹھنے والی مستجاب دعاؤں سے حصہ پایا.اور کس طرح انہوں نے آپ کے خطبات و خطابات، زندگی بخش کلمات ،شرف مصافحہ وزیارت اور پیار ہی پیار اور دعا ہی دعا بن کر پڑنے والی اپنے مسیحا صفت امام کی نظروں سے اپنے قلب وروح کو معطر اور شادمان کیا.للہی محبت کے ایسے دلکش نظارے صرف زندہ الہی جماعتوں میں ہی مل سکتے ہیں.ایسی خالص محبت جس میں دنیا کی کوئی ملونی نہیں ہوتی ، ہر قسم کی دنیوی حرص اور طمع سے منزہ ، بے ریا ، سچی ،صاف اور پاکیزہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا سب سے عظیم نمونہ آنحضرت سالیا ایلیم کو عطا فرمایا اور اس بے نظیر للہی محبت کو آپ اسی ایلام کی صداقت کے ایک زندہ اور کھلے کھلے نشان کے طور پر پیش فرمایا.چنا نچہ فرمایا اگر تو زمین کے تمام خزانے بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ایسی محبت ان کے دلوں میں پیدا نہ کر سکتا.حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں یہ محبت پیدا کی ہے.چنانچہ آج آنحضرت سالی ایم کے موعود امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں اپنے مقدس روحانی امام حضرت خلیفہ اسیح سے غیر معمولی محبت کے جو نظارے دیکھنے میں آتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی خاص عطا ہے اور آنحضرت سلایا کہ تم ہی کا فیض ہے جو اس زمانے میں مسیح محمدی کے ذریعہ پھر سے دنیا میں جاری ہوا ہے.اور جیسا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے فرمایا یہ باتیں احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں.بلاشبہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.جماعت کی حیثیت اگر بدن کی ہے تو خلیفہ وقت اس میں دل کی حیثیت رکھتا ہے.اے اللہ تو ہمیشہ اپنی اس جماعت کو اپنی محبتوں سے نو از تارہ اور خلیفہ وقت اور جماعت کی محبت کا یہ دوطرفہ تعلق تیری محبت اور رضا کے تابع اور تیرے فضلوں اور احسانات سے معمور ہمیشہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتار ہے اور کسی شیطان کو اس 95

Page 97

میں کسی قسم کا رخنہ ڈالنے کی کبھی توفیق نصیب نہ ہو.اور جیسا کہ تیرے برگزیدہ رسول سانی پیہم نے تیری طرف سے خوشخبری دی تھی کہ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ میری خاطر آپس میں محبت رکھتے ہیں اور میری رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں اور زیارت و ملاقات کرتے ہیں اور میری خاطر اپنے نفوس کی قربانی کرتے ہیں ان کے لئے میں نے اپنی محبت کو واجب کر دیا ہے.پس تو ہمارے لئے انفرادی طور پر بھی اور بحیثیت جماعت بھی اپنی محبت کو واجب کر دے اور ہم سے ایسا راضی ہو کہ پھر اسی رضا کی حالت میں ہم تیرے پاس لوٹیں اور تیری رضا کی ابدی جنتوں میں بسیرا کریں.آمین ثم آمین.96 96 الفضل انٹرنیشنل 30 جولائی 2004ء)

Page 98

ہمارا قیمتی وقت حضرت مصلح موعود عالی عنہ نے وقف زندگی کی نہایت مفید و با برکت تحریک شروع فرمائی تو جماعت نے عجب والہانہ انداز میں قربانی کی شاندار مثالیں قائم کرتے ہوئے اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ہر قسم کے دنیوی فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے خدمت دین کے لئے پیش کر دیا.ابتدائی واقفین زندگی کی خوش قسمتی وسعادت میں کیا شک ہو سکتا ہے.انہوں نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے عمدہ روایات قائم کرتے ہوئے اپنی زبان سے ہی نہیں اپنے عمل سے یہ دکھا دیا کہ مشکلات و تکالیف خدمت دین کے رستہ میں روک نہیں بن سکتیں.سچا جذ بہ اور محنت ولگن کامیابی کی ضمانت اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر نے کا ذریعہ بن جاتا ہے.ابتدائی واقفین کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ حضرت مصلح موعود بنی ہونے کی ہدایت کے مطابق وہ بڑی با قاعدگی اور پابندی سے اپنے روزانہ معمولات کی رپورٹ یا ڈائری حضور کی خدمت میں پیش کرتے تھے.ان کی ڈائری میں یہ امر بھی شامل ہوتا تھا کہ صبح کس وقت جاگے اور اس کے بعد حوائج ضروریہ سے فراغت میں کتنا وقت لگا اور اس کے بعد معمول کے کام کتنے بجے شروع کئے.اس ابتدائی تربیت کا مقصد یہ تھا کہ واقف زندگی کو یہ احساس ہو جائے کہ اس نے دن رات میں کوئی وقت بھی ضائع نہیں کرنا.بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان بغیر 97

Page 99

سوچے سمجھے عادتاً اپنا وقت صحیح مفید اور Productive کاموں میں لگانے کی بجائے اس قیمتی متاع کو جو ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کبھی کسی قیمت پر واپس نہیں مل سکتی بلاوجہ ستی میں ہی ضائع کر دیتا ہے.اس کی بجائے اگر ہم اپنا وقت سوچ سمجھ کر مفید اور ضروری کاموں میں خرچ کریں تو اس میں حیرت انگیز طور پر برکت پڑ جائے گی اور یہ کہنے کی نوبت بہت کم آئے گی کہ : کیا کیا جائے.کام بہت ہے.وقت ہی نہیں ملتا.“ عام طور پر یہ مشکل ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو اپنے وقت کے استعمال میں پوری طرح محتاط نہیں ہیں.مثال کے طور پر ایک شخص صبح سویرے اٹھ کراپنے معمولات شروع کرتا ہے.بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے وقت ضائع نہیں کرتا.غسلخانہ میں بھی ضرورت سے زیادہ وقت نہیں لگاتا.اسے اپنی اس اچھی عادت کی وجہ سے صرف یہی نہیں کہ نوافل، نماز ، تلاوت وغیرہ کے لئے بہت کافی وقت مل جائے گا بلکہ یہ امر اسے اچھی صحت کی نعمت سے بھی مالا مال کر دے گا.اس کا ایک اور بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اسے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارنے کے لئے بہت اچھا وقت مل جائے گا جس میں بہت سے خاندانی اور تربیتی مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے.میاں بیوی کے تعلقات کی بہتری اور بچوں کی شخصیت میں نکھار اور عمدگی بھی آجائے گی.اس کے برعکس اگر کوئی شخص صبح اٹھنے میں دیر کرتا ہے اور ستی کی وجہ سے بستر میں کروٹیں لیتا رہتا ہے وہ یہ احساس ہی نہیں کرتا کہ اس طرح وہ اپنی زندگی کے کتنے قیمتی لمحات ضائع کر رہا ہے.وہ دیر سے اٹھنے کی وجہ سے نوافل نماز ، تلاوت بلکہ غسل اور وضو وغیرہ ضروری امور کو پورا وقت نہیں دے سکے گا بہت ممکن ہے کہ جلدی جلدی یہ سب کام کرنے کی وجہ سے وہ اپنے بیوی بچوں کو وہ توجہ اور پیار دینے کی بجائے گھبراہٹ اور جھنجلا ہٹ میں ان پر اپنا غصہ اتارنے کی کوشش کرے.اس طرح پیارو محبت اور افہام وتفہیم کی بجائے باہم تعلقات میں سردمہری بلکہ ناراضگی وغیرہ راہ پالیس اور یہ ساری نحوست صرف اس وجہ سے ہوگی کہ وقت کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا.اگر خاتون خانہ بھی 98

Page 100

ملازمت یا اپنے کام پر جاتی ہو تو جلد اٹھنا اور وقت کا خیال رکھنا اور زیادہ ضروری ہو جائے گا.ان مصروفیات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان قیلولہ یا تفریح میں وقت نہ لگائے بلکہ ضروری ہوگا کہ ان کو بھی باقاعدگی اور نظم وضبط سے کیا جائے.نیند اور تفریح اپنی جگہ ضروری ہے مگر ہمیں یہ ضرور علم ہونا چاہئے کہ ہم نیند یا تفریح کے نام پر اپنا وقت فضول ضائع نہ کریں.دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے والے وہی لوگ ہوئے ہیں جو اپنے وقت کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے اسے عمدگی سے استعمال کرتے ہیں.(الفضل انٹرنیشنل 26 مارچ 2004 ) ساده زندگی حضرت مصلح موعود بنی لیون نے جماعت احمدیہ کی پہلی منظم مخالفت کے طوفان میں احمدیت کی کشتی کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ بڑی کامیابی اور حفاظت سے ساحل مراد تک پہنچانے کے لئے رواں دواں رکھا.پہلی منتظم مخالفت ایسی خوفناک تھی کہ اس میں سے جماعت کا بچ نکلنا بظا ہر ناممکن تھا.آل انڈیا کانگریس نے مسلمانوں کی وحدت و تنظیم کو ختم کرنے اور قائد اعظم و مسلم لیگ کو ناکام کرنے کے لئے جو مختلف حربے استعمال کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بعض مولویوں کو قائد اعظم اور پاکستان کی مخالفت کے لئے خرید لیا گیا.ہند وسرمایہ اور سیاست اس مقصد کے لئے بے دریغ استعمال ہوا اور اسی سے حوصلہ پاتے ہوئے کہنے والوں نے کہا ”ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ 99

Page 101

بجادیں گے اور مینارہ مسیح کی اینٹیں دریائے بیاس میں بہادی جائیں گی.‘ (نعوذ باللہ ) ایسے بلند بانگ دعووں کے ساتھ جو مخالفت شروع ہوئی اس میں اس وقت کی انگریز حکومت کے بعض افسران بھی یہ سمجھ کر شامل ہو گئے کہ اس طرح ہم ہندوستان میں قائم ہونے والی آئندہ کانگریسی حکومت میں اپنے مفادات حاصل کر سکیں گے.اس طوفان کا رُخ موڑنے کے لئے حضرت مصلح موعود بنیان نے جماعت کے سامنے تحریک جدید کے نام کے سے ایک انقلابی پروگرام پیش فرمایا جس میں کہیں بھی یہ بات نظر نہیں آتی کہ اگر تم ہماری مخالفت میں حد سے بڑھ رہے ہو تو ہم تمہارے مقابلے میں اس سے بڑھ کر یہ کریں گے یاوہ کریں گے بلکہ اس کے بالکل برعکس آپ نے ؎ عدد جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں کا مبارک طریق اختیار کرتے ہوئے جماعت کو ایک روحانی دائی پروگرام کی طرف بلایا جس میں آپ نے جماعت سے متعدد مطالبات کئے.جن میں سے ایک مطالبہ سادہ زندگی “ اختیار کرنے کا تھا.حضور نے اس امر پر متعد د خطبات ارشاد فرمائے اور روزمرہ کی زندگی میں تبدیلی کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم سادہ لباس استعمال کریں.گوٹے کناری وغیرہ کا استعمال محدود کریں.سونے کے زیورات کا استعمال محدود کریں.کھانے میں سادگی اختیار کریں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ کھانے استعمال نہ کریں.وغیرہ یہ مطالبہ اتنا پر حکمت جامع اور مفید ہے کہ اس پر غور کر کے انسان حیران رہ جاتا ہے اگر مثال کے طور پر صرف کھانے کی سادگی کو ہی مد نظر رکھا جاوے تو آجکل کی ایک بہت خوفناک بیماری موٹاپے یا ضرورت سے زیادہ چربی پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ پر تکلف مرغن غذائیں اور ضرورت سے زیادہ کھانا ہی اس بیماری کا اصل اور بڑا سبب ہے اور اس بیماری کی وجہ سے اور کئی 100

Page 102

مہلک بیماریاں مثلاً ذیا بیطس، دل کی تکلیف وغیرہ پیدا ہو جاتی ہیں.سادہ کھانے میں چربی اور تیل کا استعمال کم ہوگا اور اس کے نتیجہ میں کھانے کی مقدار میں بھی کمی ہو جائے گی.اور یہ امر باعث اجر و ثواب بھی ہوگا کہ اس طرح آنحضرت سالی ایم کے اس ارشاد اور سنت کی تعمیل و پیروی بھی ہو سکے گی کہ بھوک چھوڑ کر کھانا کھایا جاوے.غور کیجئے صرف اس ایک امر کو سامنے رکھنے اس پر سوچنے اور اس پر عمل کرنے سے ہمیں کتنے فوائد حاصل ہو سکتے.غیر ضروری اور بے تحاشا کھانے سے بچتے ہوئے غیر ضروری کھانوں اور غیر ضروری اشیاء خوردنی مثلاً کیک ، چاکلیٹ ، بسکٹ وغیرہ اور غیر مفید مشروبات کوکا کولا وغیرہ کو کم استعمال کرنے سے کھانے پر خرچ کم ہوگا.کئی مہلک بیماریوں سے بچاؤ ہوگا، بیماری پر ہونے والے اخراجات اور پریشانیوں سے نجات ملے گی.اور ان پریشانیوں کو دور کرنے کیلئے جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ بھی بچ جائے گا اور اس طرح سادہ زندگی کی برکت سے نہ صرف ہم ایک نئی ، خوش و خوشحال زندگی سے فیض یاب ہوسکیں گے بلکہ بیچنے والے وقت اور اخراجات کو کسی بہتر مصرف میں خرچ کر کے بے شمار د نیوی وروحانی فوائد حاصل کر سکتے ہیں.الفضل انٹرنیشنل 2 اپریل 2004ء 00 101

Page 103

تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفہ السیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے روح پرور خطبات میں تسلسل کے ساتھ مختلف تربیتی مضامین پر بہت سادہ اور مؤثر انداز میں جماعت کو اس کی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کی تلقین فرما رہے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان خطبات میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جماعت میں درسوں کا سلسلہ با قاعدگی سے جاری رکھا جائے.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ ہماری جماعت میں یہ ایک نہایت مبارک مفید اور نتیجہ خیز پروگرام جاری ہے کہ ہماری مساجد اور مراکز میں قرآن مجید، حدیث اور ملفوظات وغیرہ کا درس با قاعدگی سے ہوتا ہے.فجر کی نماز کے بعد بالعموم قرآن مجید کا درس ہوتا ہے.یہ درس دینے والے عام طور پر تفسیر کبیر یا تفسیر صغیر سے استفادہ کرتے ہیں.تاہم اس کے علاوہ اور تراجم وتفاسیر سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے.احادیث ہمارے پیارے نبی سالی سیستم کی پیاری پیاری باتیں جن سے ہمیں آپ سالی اسلیم کی سیرت و سوانح کا پتہ چلتا ہے.قرآن مجید اور اسلام کی عملی شکل نظر آتی ہے.علوم ومعارف کا ایک لامتناہی سلسلہ مل جاتا ہے.ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں زمانہ کے مامور کے وہ ارشادات ملتے ہیں جن کی مدد سے ہم قرآن مجید کی صحیح تفسیر اور اس زمانہ کے مسائل کے متعلق 102

Page 104

رہنمائی حاصل کر سکتے.بعض جگہ جہاں ہماری مساجد و مراکز نہیں ہیں وہاں پر احباب جماعت اپنے گھروں میں یہ مبارک سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور اس طرح علم و معرفت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں.مقامی حالات اور باہم مشورہ سے درس کے اوقات اور درس کے لئے مختلف کتب کا انتخاب کیا جاسکتا ہے.تاہم یہ امر ضرور مد نظر رہنا چاہئے کہ ایسے درسوں میں جماعت کے مستند لٹریچر سے ہی استفادہ کیا جاوے تا جماعت میں علمی لحاظ سے اور غور وفکر کے لحاظ سے وحدت قائم رہے.ایک اور بات جو اس سلسلہ میں ضروری معلوم ہوتی ہے اور ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اس طرف توجہ دلا چکے ہیں، وہ یہ ہے کہ درس کا دورانیہ مختصر ہونا چاہئے.زیادہ مفصل اور لمبے درس سے سننے والے کی طبیعت میں انقباض پیدا ہوتا ہے اور بعض لوگ صرف اس وجہ سے درس سننے سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ اس کام کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکتے.مختصر درس کا یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ سننے والا توجہ اور بشاشت سے سنتے ہوئے روزانہ کوئی مفید بات سیکھتا ہے اور اسے آسانی سے یادرکھ سکتا ہے.اور ظاہر ہے انسان اسی بات پر عمل بھی کر سکتا ہے جو اسے یاد ہو.وہ خوش قسمت جو روزانہ درس کی مجالس میں جو درحقیقت ذکر الہی اور علم و معرفت کی مجالس ہوتی ہیں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ ایک ایک بات سے تھوڑے ہی عرصہ میں تعلیم وتربیت کے اس بہترین ذریعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علم ومعرفت کا ایک خزانہ اپنے لئے جمع کر سکتا ہے.جس کا نیک اور اچھا اثر اس کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد بلکہ ماحول میں بھی پھیل جائے گا.103 الفضل انٹرنیشنل 9اپریل 2004ء)

Page 105

نوافل قرب الہی آنحضرت سانیا اسلام نے ایک دفعہ حضرت بلال بنی عنہ سے استفسار فرمایا کہ تم وہ کون سا اچھا عمل کرتے ہو جس کی وجہ سے مجھے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سننے میں آئی.حضرت بلال بنی ہونے نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی ای تیم میں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دورکعت نفل ضرور ادا کرتا ہوں.اسی طرح میں ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کرتا ہوں.اور جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے میں فوراً وضو کر لیتا ہوں اور اس وقت بھی دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں.حضور سلائی ایم نے اس عابدزاہد کی یہ عاشقانہ بات سن کر فرمایا: یہی وجہ ہوگی آنحضرت سالی سیستم نوافل کی ادائیگی کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: راتوں کو نوافل کی ادائیگی کا اہتمام کیا کرو کیونکہ نوافل کی ادائیگی پہلے بزرگوں کا طریق اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ذریعہ، گناہوں سے دور رہنے اور بدیوں سے بچنے کا ذریعہ ہیں.“ آنحضرت ملا لیا ایم کی سنت مقدسہ بھی یہی تھی کہ آپ مائیں ہی تم کثرت سے نفل ادا کرتے اور نفلی نمازوں میں قرآت و سجدے بہت لمبے لمبے کیا کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ نوافل قرب الہی 104

Page 106

کے حصول اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں اور خدا کے راستباز بندے ہمیشہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں.نفل نماز کے متعلق یہ بھی یادرکھنے کی بات ہے کہ فجر یعنی پو پھٹنے سے طلوع سورج تک اسی طرح نصف النہار کے وقت یعنی جب سورج عین درمیان میں ہو اور نماز عصر کے بعد سے سورج غروب ہونے تک نوافل کی ادائیگی منع ہے.بعض اوقات یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جب کسی خوش قسمت کو کسی مرکزی مسجد جیسے خانہ کعبه، مسجد نبوی ، مسجد بیت المقدس، مسجد اقصیٰ مسجد مبارک قادیان، ربوہ اور پھر ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملے جہاں خلیفہ وقت نماز پڑھاتے ہوں تو وہاں بڑی رغبت، بڑے خشوع و خضوع سے زیادہ سے زیادہ نفل پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے.جہاں تک نفلوں اور دعاؤں کی رغبت کا تعلق ہے وہ تو بہت ہی اچھی بات ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نعمت عطا فرمادے لیکن اس سلسلہ میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایسے مواقع پر بعض اوقات یہ امر مد نظر نہیں رہتا کہ ہم ممنوعہ اوقات میں تو نوافل ادا نہیں کر رہے.کیونکہ اصل نیکی تو اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے.یہ امرا کثر صبح کی نماز کے وقت دیکھنے میں آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان اور ربوہ میں اکثر صبح کی نماز کے وقت اور بعض دوسرے اوقات میں بھی یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ ممنوعہ اوقات میں نفل ادا نہ کئے جائیں.بعض دفعہ یہ غلط فہمی بھی ہو جاتی ہے غالباً صبح کی اذان کے بعد ممنوعہ وقت شروع ہوتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پو پھٹنے یا صبح صادق سے یہ وقت شروع ہو جاتا ہے.اذان تو بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے اور اکثر تاخیر سے ہوتی ہے مگر طلوع فجر سے سورج کے اچھی طرح طلوع ہونے تک صرف صبح کی نماز کی چار رکعت یعنی دوسنت اور دو فرض ہی ادا کئے جاتے ہیں.اور اس وقت نوافل کی ادائیگی منع ہے.جو خوش قسمت اس وقت مسجد میں موجود ہوں وہ خاموشی سے تلاوت قرآن مجید، ذکر الہی 105

Page 107

اور دعا میں مصروف رہ کر اس وقت کو بہترین رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص و محبت اور خشوع و خضوع سے مقبول عبادات بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین الفضل انٹرنیشنل 16 اپریل 2004ء) دو طرفه محبت اور دعاؤں کے نظارے حضرت مصلح موعود بنای عنہ نے نہایت ابتدائی حالات میں جبکہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکن بمشکل قوت لایموت یعنی زندگی کے سلسلہ کو قائم رکھنے کے لئے کم از کم خوراک پر گزارہ کرنے پر مجبور تھے اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ صورت بھی پیش آجاتی تھی کہ صدرانجمن کے کارکنوں کو ہر ماہ باقاعدگی سے ان کا معمولی الاؤنس بھی نہیں مل سکتا تھا.ایسے مشکل حالات میں جب کسی نئے کام کو شروع کرنے کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا ہمارے پیارے اولوالعزم امام نے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا ایک ایسا پروگرام شروع کر دیا جس میں بہترین افرادی قوت اور بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت تھی.حضرت مصلح موعود علی العین اس امر کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حدیث میں پڑھا کہ آخری زمانہ میں خانہ کعبہ کوگرانے کی کوشش کرنے والا کوئی سیاہ فام شخص ہوگا.تو میں نے سوچا کہ اس بات کا انتظار کرنے کی بجائے کہ کوئی بد بخت اس ذلیل ترین حرکت کا ارتکاب کرے، سیاہ فام افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی کوشش شروع کی جائے.مغربی افریقہ کے مشنوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہاں کام کا آغاز کرنے والے حضرت مسیح 106

Page 108

موعود مالی شام کے مخلص اور پر جوش صحابی بطور مبلغ گئے.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیز ابتدائی مبلغ تھے جنہوں نے اس علاقہ کو جسے اس زمانہ میں تاریک براعظم کہا جاتا تھا، روشن براعظم میں تبدیل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا.یہ ابتدائی کوشش بہت ہی چھوٹے پیمانے پر شروع ہوئی تھی.اندازہ کیجئے کہ ایک آدمی جو اس علاقہ کی زبان سے ناواقف اس علاقہ کی آب و ہوا اس کی صحت کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں ہے، اس کے پاس مالی وسائل بہت ہی محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ، اجنبی ہونے کی وجہ سے اس کی وہاں کسی سے واقفیت بھی نہیں ہے، وہ تبلیغ کے کام میں کہاں تک کامیابی حاصل کر سکتا ہے.البتہ ایک سہولت ضرور اسے حاصل تھی اور وہ ایمان باللہ اور توکل علی اللہ کی نعمت تھی جس کے سہارے اس نے اپنے مقدس کام کو شروع کیا اور پھر بغیر مایوس ہوئے، بغیر تھکنے کے مسلسل پوری محنت سے جاری رکھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نیک نیتی اور اخلاص سے شروع کئے ہوئے اس کام میں برکت ڈالی.سعید روحیں آہستہ آہستہ کلمہ گوؤں اور درود شریف پڑھنے والوں میں شامل ہونے لگیں.مساجد کی تعمیر شروع ہوئی ، مدارس کی بنیاد پڑی ، ہسپتالوں کا آغاز ہوا اور آج سارے مغربی افریقہ میں خدمت کے میدان میں جماعت ایک ممتاز اور منفرد مقام پر کھڑی ہے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ یورپ سے باہر اپنے پانچ ہفتہ کے مغربی افریقہ کے پہلے دورے پر تشریف لے گئے تو MTA پر نظر آنے والے نظارے اتنے ایمان افروز اور روح پرور تھے کہ رپورٹوں میں دوروں کی کامیابی کی خبریں پڑھ کر بھی یہ نظارہ پوری طرح ذہن میں نہیں آسکتا.اس دورہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے مختلف ممالک کے صدور اور حکام سے ملاقاتیں کیں.مختلف ممالک کے معززین حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے تشریف لاتے حضور نے مختلف پراجیکٹس کی بنیاد رکھی ،متعد دعمارتوں کا افتتاح فرمایا، پریس کانفرنسوں رہے.حضور 107

Page 109

اور پبلک جلسوں میں خطاب فرمایا.غرضیکہ یہ ایک نہایت مصروف اور نتیجہ خیز کامیاب تاریخی دورہ ثابت ہوا.تا ہم ان تمام نظاروں کے علاوہ سب سے زیادہ مؤثر ، نا قابل فراموش بلکه نا قابل بیان وہ نظارے تھے جہاں جماعت کے عام افراد، بچے، بوڑھے، خواتین ہزاروں ہزار کی تعداد میں اپنے پیارے امام کو اپنے درمیان موجود پاکر شدت جذبات سے مغلوب اس طرح والہانہ استقبال کر رہے تھے کہ آج ہمارے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے.آنحضرت مصلی سلیم کا ارشاد ہے کہ تمہارے بہترین امام وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں...الحمد للہ.امامت و خلافت کی یہ نعمت و برکت ہماری جماعت کو حاصل ہے.اللہ تعالیٰ اس کی برکات میں ہمیشہ اضافہ فرماتا چلا جائے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 23 اپریل 2004ء) 108

Page 110

حضرت مسیح موعود نے 1905ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.جیسے جید عالم کی وفات پر مدرسہ احمدیہ کی بنیا د رکھی تا کہ جماعت کا علمی معیار بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاوے اور دینی خدمات سر انجام دینے والے خوش قسمت لوگ ہمیشہ جماعت کو میسر آتے چلے جاویں.مدرسہ احمدیہ کے ابتدائی اسا تذہ اور جماعت کی علمی ترقی میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں میں حضرت مولانا نورالدین بیایہ (خلیفہ مسیح الاول)، حضرت مولوی محمد احسن صاحب رضی اللہ عنہ، حضرت مولانا برہان الدین جہلمی صاحب نبی ﷺ اور حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے اسماء گرامی بہت نمایاں ہیں.اس طرح مدرسہ احمدیہ کے ابتدائی نگرانوں اورمنتظمین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرامی قدر فرزندوں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود ہی ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نبی الیہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب نضمنی انھن کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے مختلف حیثیتوں میں جماعت کی علمی ترقی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں.خلافت ثانیہ میں مدرسہ احمدیہ اپنی ترقی یافتہ حالت میں جامعہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہوا، جامعہ احمدیہ کے ابتدائی پرنسپل حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب بنی یہ مقرر ہوئے.حضرت مولوی صاحب جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حق وصداقت کی حمایت کرنے والا شیر ببر 109

Page 111

قرار دیا تھا مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم دیو بند کے فارغ التحصیل تھے.آپ کا علمی مقام اتنا بلند تھا کہ دارالعلوم دیو بند اور کسی بھی دوسرے مدرسہ میں آپ بڑے سے بڑے منصب پر فائز ہوکر دنیوی لحاظ سے بہت خوشحال زندگی گزار سکتے تھے مگر آپ نے ایسی پیشکشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قادیان میں رہائش کو ترجیح دی جہاں کسی دنیوی وجاحت ولالچ کا کوئی سامان میسر نہ تھا البتہ مسیح دوراں کی فیض مصاحبت کا قابل رشک موقع ضرور میسر تھا.حضرت مولوی صاحب کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفة المسیح الثالث) اس ادارہ کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ان کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اس منصب جلیلہ پر فائز ہوئے.جامعہ احمدیہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا.علمی میدان کے علاوہ خدمت کے اور کئی میدانوں میں جامعہ کے طالب علم اور اساتذہ پیش پیش تھے برصغیر کی تقسیم کی وجہ سے حالات تبدیل ہو گئے.پاکستان میں آکر کسمپرسی کی ایسی حالت تھی جو آج پوری طرح تصور میں بھی نہیں آسکتی.اساتذہ ادھر ادھر چلے گئے.طالب علموں کا شیرازہ بکھر گیا.اس پر مستزاد یہ کہ جامعہ احمدیہ کے لئے نہ کوئی عمارت نہ کوئی فرنیچر اور نہ ہی کوئی اور سامان تھا.ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود بنا ان کی اولوالعزمی میں برکت عطا فرمائی.ایک متروکہ عمارت میں ایک خستہ حال چٹائی پر پھر سے جامعہ احمد یہ شروع ہو گیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اس وقت قادیان میں تھے حضرت حافظ مبارک احمد صاحب واحد استاد تھے جو اکلوتی چٹائی پر مختلف درجوں کے چند شاگردوں کو درس دیا کرتے تھے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی آمد پر انہوں نے اس بے سامان جامعہ کا چارج لے لیا.جامعہ احمد یہ لاہور سے چنیوٹ اور چنیوٹ سے احمد نگر منتقل ہوا.جانور باندھنے کی جگہ جو اصطبل کے نام سے مشہور تھی جامعہ احمدیہ کا مستقر بنی اور آہستہ آہستہ یہ قافلہ آگے بڑھنے لگا.احمد نگر سے جامعہ احمدیہ کی ربوہ منتقلی بھی عجیب حالت میں ہوئی.لنگر خانہ کے لئے ایک عارضی عمارت 110

Page 112

جس میں جگہ جگہ روٹی پکانے والے تنور لگے ہوئے تھے جامعہ احمدیہ کوٹل گئی اور جامعہ احمدیہ کے اسا تذہ اور طالب علم اس اعزاز وسہولت پر خوش ہو گئے بالآخر ہم مرکز میں پہنچ گئے یہاں تک پہنچتے پہنچتے کچھ کتب کچھ چار پائیاں اور بستر بھی میسر آچکے تھے مگر ان کو رکھنے کے لئے جگہ بنانے میں ہر طالب علم نے اینٹوں ، روڑوں اور پتھروں کی مدد سے میز اور کرسیاں ایجاد کیں مگر بارش ہو جانے کی صورت میں عارضی کمرے اس کثرت سے ٹپکتے تھے کہ چھت کی مٹی سے بچنے کے لئے باہر بارش میں بھیگنا بہت لگتا تھا اور کتابوں وغیرہ کو چھپانے یا محفوظ کرنے کے لئے پانی رکھنے کی لوہے کی ٹینکیوں سے مدد لینی پڑتی تھی.تحریک جدید کے پختہ دفاتر بن گئے تو جامعہ احمدیہ کو کچے دفاتر کی جگہ میسر آ گئی اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی کوشش ونگرانی سے ایک پختہ عمارت کرائے پر حاصل کی گئی اور جامعہ کی اپنی عمارت بھی تعمیر ہوگئی.جامعہ احمدیہ کی یہ مختصر روئیداد اس لئے یاد آ گئی ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں جامعہ احمد یہ خوشمنا پھل اور پھول پیدا کر رہا ہے.ربوہ میں قدیم جامعہ کے ساتھ وسیع پیمانہ پر جدید جامعہ بھی زیر تعمیر ہے.غانا میں بھی جامعہ احمدیہ کی ایک شاخ بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہو چکی ہے.انڈونیشیا اور تنزانیہ کے بعد اب کینیڈا بھی اس نہایت بابرکت کام میں شامل ہو چکے ہیں اور حضور ایدہ اللہ نے مغربی افریقہ کے دورہ میں غانا کے علاوہ نائیجیریا میں بھی جامعہ احمدیہ کا معائنہ فرما یا اور واقفین زندگی کو نہایت قیمتی اور ضروری نصائح فرمائیں.قادیان میں ایک سو سال پہلے بویا جانے والا یہ پیج ایک تناور درخت بن چکا ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوط اور شاخیں اکناف عالم میں پھیل چکی ہیں.الفضل انٹرنیشنل 7 مئی 2004ء) 111

Page 113

خوشی و خوشحالی آنحضرت سالی ایلام کے جگر کا ٹکڑا، حضرت خدیجۃ الکبری بیہ کی نشانی ، جنتی عورتوں کی سردار حضرت علی ریت کی زوجہ محترمہ اور حضرت امام حسن بنی نہ اور امام حسین بنی ہونے کی والدہ حضرت فاطمہ الزہراء شوند اپنے گھر کے سارے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں.احادیث سے ثابت ہے کہ مشقت کے کام کرتے کرتے ہاتھوں میں گئے پڑ گئے تھے اور پانی کی مشکیں ڈھوتے دھوتے کندھوں پر نشان پڑ چکے تھے.ان حالات میں جب کچھ سہولت کا زمانہ آیا تو حضرت علی کرم الله وجھہ کے توجہ دلانے پر حضور سالہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں.اتفاق سے حضور سالی ایلام سے ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ حضرت عائشہ صدیقہ بنی ان کو یہ پیغام دے آئیں کہ اب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تنگی کو آسانی میں تبدیل کر دیا ہے.اگر میری محنت و مشقت میں کسی قدر کمی کے لئے مجھے کوئی مددگار مل جائے تو باعث سہولت ہو سکتا ہے.اپنی پیاری بیٹی کا یہ پیغام ملنے پر حضور صلی ما تم ان کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی پیاری بیٹی کی محنت و مشقت اور سختیوں میں کمی کرنے کے لئے ایک انوکھا طریق بیان فرمایا.آپ نے انہیں کوئی غلام نہیں دیا کسی نوکر کا انتظام نہیں کیا.کسی کو ان کی مدد کرنے کی تحریک نہیں فرمائی.ان کے لئے مالی منفعت کا کوئی ذریعہ مقرر نہیں فرمایا.یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اس جگہ سوال کرنے والا کوئی 112

Page 114

اجنبی یا عام سائل نہیں بلکہ حضور کی اپنی پیاری بیٹی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہ حضور سال لا پیام کبھی بھی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا کرتے تھے بلکہ آپ سے سوال کرنے والوں نے تو اپنے تجربہ کی بناء پر یہ بھی شہادت دی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی سخی یہ کبھی ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا.حضور صل للہ السلام نے حضرت فاطمہ رضی اللہ کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمہاری مشکل کا بہترین حل یا تمہارے سوال کا بہترین جواب یہ ہے ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَانَ الله اور 33 دفعہ الْحَمْدُ لِله اور 34 دفعہ اللهُ أَكْبَرُ کا ورد کیا کرو.اس طرح حضور صلیہ السلام نے ان کو ذہن نشین کر وایا کہ ذکر الہی کے نتیجہ میں انسان کو سکون اطمینان اور قناعت کی دولت ملتی ہے وہی انسان کی ہر مشکل کا حل اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ذریعہ ہے.حدیث سے ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب مسابقت الی الخیر کے جذبہ سے سرشار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حضوسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم میں سے جو اہل ثروت ہیں وہ نیکیوں میں ہم سے سبقت لے جاتے ہیں کیونکہ ایسے امور جو مالی سہولت کی وجہ سے انجام دیئے جاسکتے ہیں اسمیں وہ ہم سے بازی لے جاتے ہیں اور ہم باوجود خواہش اور کوشش کے ایسی باتوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں.حضورصلی میں پی ایم نے اہل ثروت کی زائد نیکیوں کے برابر ہونے کے لئے غریب صحابہ کے لئے وہی طریق تجویز فرمایا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.غریب صحابہ بہت خوش ہوئے اور ذکر الہی سے سکون و اطمینان اور قرب الہی کے حصول کے لئے کوشاں ہو گئے اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہو گئے.البتہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب اہل ثروت صحابہ کرام بنی ان کو اس امر کا پتہ چلا تو وہ بھی اس نسخہ کیمیا کو پورے ذوق وشوق سے استعمال کرنے لگے.دنیوی اموال کی اہمیت وضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.آنحضرت سالیا پیہم بھی مختلف قومی اہمیت کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے چندوں کی تحریک فرمایا کرتے تھے.مگر وہ قومیں یا افراد جو 113

Page 115

سب کچھ بھول کر دنیوی اموال اور ان سے حاصل ہونے والی آرام واسائش کو ہی اپنا مقصد وطح نظر سمجھنے لگے وہ مال و دولت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی آسائشوں اور تن آسانیوں کی وجہ سے کاہلی ہستی کا شکار ہو گئے ، باہم پیار ومحبت اور اتحاد سے محروم ہو کر نفرت وتشتت کا شکار ہو گئے.علو ہمتی و بلند نظری سے محروم ہو کر یا تو صفحہ ہستی سے نابود ہو گئے یا نشان عبرت بنا دیئے گئے.چھوڑ دو حرص کرو زهد و قناعت پیدا زر نہ محبوب بنے سیم دل آرام نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ فکر مسکیں رہے تم کو غم ایام نہ ہو الفضل انٹرنیشنل 10 ستمبر 2004ء) 00 114

Page 116

بہشتی مقبره اللہ تعالیٰ کی مشیت اور منشاء کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا نظام جاری فرما یا اور بہشتی مقبرہ کا آغاز فرمایا.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے وہ ساتھی جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد باندھا تھا اور جنہوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں اور طرح طرح کے شدائد و مشکلات میں سے گزرے تھے ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی قبر ہے اس طرح حضرت خلیفتہ امسیح الاول مولانا نورالدین صاحب بنا وہ بھی اسی خاک میں آسودہ ہیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نی یہ اور بہت سے اکابر صحابہ اس خطہ پاک میں مدفون ہیں.دنیا بھر سے احمدی وہاں جاتے اور ان بزرگ ہستیوں کے لئے دعا کرتے اور اسلام احمدیت سے اپنی وفا کے عہد کو تازہ کرتے ہیں.الوصیت کے منشاء و مفہوم کے مطابق حسب ضرورت دوسرے ممالک میں بھی ایسے مقابر شروع ہو چکے ہیں.ربوہ میں بھی ایسے ہی مقبرہ میں حضرت اماں جان بنایا اور حضرت مصلح موعود نیا اشتہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد اور آپ کے خاندان کے افراد، حضرت مولانا شیر علی صاحب اور متعدد صحابہ کرام اور خوش قسمت موصی صاحبان دفن ہیں اور وہاں دنیا کے ہر 115

Page 117

کونے سے احمدی حضرات جا کر دعا کرتے اور ان کی خوش قسمتی پر رشک کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے اور وصیت کے کڑے معیار پر پورا اترنے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ: بلا شبہ اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس انتظام سے منافق اور مومن میں تمیز کرے اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الہی انتظام پر اطلاع پا کر بلا توقف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ کل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں.“ اسی طرح آپ فرماتے ہیں: (روحانی خزائن جلد 20 الوصیت 328 ) ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے اور ثابت ہو جائے گا کہ بیعت کا اقرار انہوں نے پورا کر کے دکھلا دیا اور اپنا صدق ظاہر کر دیا.بے شک یہ انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اس سے ان کی پردہ دری ہوگی اور بعد موت وہ مرد ہوں یا عورت اس قبرستان میں ہرگز دفن نہیں ہو سکیں گے.“ (روحانی خزائن جلد 20 الوصیت 328 ) حضور علیہ السلام کے ان ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت حاصل کرنے والے، اپنی ایمانداری پر مہر لگاتے ہیں اور در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے اور اپنی بیعت کا اقرار انہوں نے پورا کر دیا ان عظیم نتائج کو دیکھتے ہوئے یقیناً ہر احمدی اس بات کی خواہش کرے گا کہ وہ بھی ان انعامات کو حاصل کرنے میں کوتا ہی نہ کرے اور اس خوش قسمت گروہ میں ہر قیمت پر شامل ہو جائے.116

Page 118

اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 1914ء میں بعض لوگوں نے جماعت اور قادیان سے الگ ہو کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الوصیت پر عمل کرتے ہوئے جماعت سے الگ ہورہے ہیں یا اپنی الگ جماعت بنارہے ہیں.یہ ایک لمبی اور افسوسناک داستان ہے تاہم ہم اپنے ان بھائیوں سے جو الوصیت کے نام پر الگ ہوئے تھے بڑے دردمند دل اور خلوص کے ساتھ یہ گزارش کرتے ہیں کہ بہشتی مقبرہ اور جماعت الوصیت کے لازمی مظاہر سے محروم ہو جانا تو الوصیت کے منشاء کے مطابق نہیں ہوسکتا.خدا را مسیح پاک علیہ السلام کی دعاؤں سے استفادہ کرنے ، جماعتی اتحاد و اتفاق کی برکات سے متمتع ہونے اور اپنی عاقبت کو سنوار نے کے لئے کسی بھی اور بات کو نظر انداز کرتے اور پس پشت ڈالتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور اپنے اقرار بیعت کو پورا کرنے والوں اور اپنی ایمانداری پر مہر لگانے والوں میں شامل ہوکر دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اطاعت وفرمانبرداری کرنے والوں میں شامل ہونے کی سعادت عطا فرمائے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 17 ستمبر 2004ء) 00 117

Page 119

شادی اور غیر معمولی اخراجات پچھلے دنوں برطانوی پریس میں اس رپورٹ کا چر چارہا کہ ایک جائزہ کے مطابق برطانیہ میں ایک شادی پر 15764 پاؤنڈز کے اخراجات ہوتے ہیں.یہ جائزہ جو ایک ہزار جوڑوں سے معلومات حاصل کر کے مرتب کیا گیا تھا.اس کے مطابق دلہن کا شادی کا لباس 921 پاؤنڈ ز میں تیار ہوتا ہے.دلہن کی تیاری پر 133 پاؤنڈ خرچ ہوں گے.ایک اور بڑا خرچ شادی کی دعوت پر ہوگا جس کا اندازہ 2447 پاؤنڈز ہے.شادی شدہ جوڑا ہنی مون پر اوسطاً 2828 پاؤنڈز خرچ کرے گا.فوٹوگرافی پر 766 پاؤنڈز اور ویڈیو کی تیاری پر 493 پاؤنڈ ز خرچ ہوں گے.مہمانوں کے استقبال اور پینے پلانے پر 45 پاؤنڈز فی کس کا اندازہ مذکورہ اخراجات کے علاوہ ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مغربی معاشرہ میں شادی کے مقدس معاہدہ کی اہمیت کم ہو جانے کی ایک وجہ یہ کثیر اخراجات بھی ہیں.ایک نوجوان جو اپنی پڑھائی یا ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز کر رہا ہے وہ اتنی بڑی رقم مہیا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور اس امر کونا ممکن سمجھتے ہوئے جو متبا دل رستے سوچے گئے ہیں وہ ایسی بے حیائی اور بے راہ روی کے ہیں جن کو سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.بغیر شادی کے اکٹھا ر ہنے اور اعلیٰ مذہبی واخلاقی اقدار کو نظر انداز کرتے چلے جانے سے تمام اعلیٰ قدروں کی نفی ہو جاتی ہے اور انسان نے تہذیب و ترقی کا جو ہزاروں سال 118

Page 120

کالمبا سفر اور مذہبی و اخلاقی رہنمائی اور تجربات سے جو کچھ حاصل کیا تھا اسے ضائع کر کے پھر سے جانوروں والی زندگی شروع کرنے والی بات لگتی ہے.مذکورہ بالا اخراجات پر دوبارہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شادی جیسا ضروری اور مقدس معاہدہ رسم ورواج کی آکاس بیل کے کابوس میں پھنس کر اپنی اصلی شکل اور مقصد کو ہی کھو بیٹھا ہے.بظاہر یہ دلچسپ رپورٹ اپنے اندر بہت اہم اور قابل غور امور لئے ہوئے ہے.اخراجات کی کثرت اور ایسے ہی بعض امور کو بنیاد بنا کر مغربی معاشرہ آہستہ آہستہ شادی کے خلاف ہوتا جارہا ہے اور اس سے بچنے کا جو طریق رائج ہو رہا ہے وہ مذاہب عالم کی رہنمائی اور انسانی تجارب و تاریخ کی نفی کرتا ہے کیونکہ با ہم ایک عہد وفا باندھ کر اس پر زندگی بھر عمل پیرا رہنا ہی دنیا بھر کے تمام مذاہب کی رہنمائی کا نتیجہ ہے.بعض فرضی اور موہوم نقصانات سے بچنے اور وقتی منافع اور لذتوں کو تلاش کرنے کے لئے شادی سے فرار کی راہ اختیار کی جاتی ہے.اخراجات کی زیادتی کا جہاں تک تعلق ہے یہ ایک نوجوان جوڑے کے لئے اپنی شادی شدہ زندگی گزارنے میں ضرور مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اخراجات کی زیادتی کسی مذہبی تعلیم کے نتیجہ میں ہے یا خود ساختہ ہے.اور پھر یہ بھی کہ اخراجات کی زیادتی سے بچنے کے لئے اخراجات میں کمی کا سوچنے کی ضرورت ہے یا سرے سے شادی کے مقدس عہد کو ہی ختم کر دیا جاوے.اسلامی تعلیم کے مطابق تو شادی پر زیادہ اخراجات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میاں بیوی کی رضامندی حاصل کرنے اور نکاح کا اعلان کرنے میں تو شاید ہی کچھ خرچ اٹھتا ہو.مہر اور دعوت ولیمہ پر ضرور خرچ ہوتا ہے مگر وہ بھی فضول خرچی، اسراف نمائش وغیرہ سے ہٹ کر کیا جائے تو کوئی زیادہ خرچ نہیں ہوتا.اور یہ اصول بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ شخص جو نمود و نمائش کی خاطر اپنی وسعت 119

Page 121

وطاقت سے بڑھ کر خرچ کرتا ہے وہ یقیناً اسلامی تعلیم کی روح کے خلاف عمل کرتا ہے.اس لئے زیادہ اخراجات کی ذمہ داری مذہب پر نہیں بلکہ صحیح مذہبی طریق کو چھوڑنے والوں پر عائد ہوتی ہے.اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم ہمیشہ مستعد اور چوکس رہیں کہ ہمارے معاشرہ میں غلط رسوم و رواج راہ پا کر ہمیں جادہ استقامت اور صراط مستقیم سے دور نہ کر دیں.ہمارے ہاں بھی رسم ورواج کی چکا چوند سے متاثر و مرعوب ہو کر بعض لوگ اس طرف جھک جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے اسلامی روایات کو ترک کرنے کی غلطی کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ غلط نمونہ قائم کرنے اور بے جا اسراف وفضول خرچی سے احمدی مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں ہر قسم کی غلط رسوم اور رواج کے خلاف جہاد کیا جائے کیونکہ یہ رسوم مذہبی روح کے خلاف ہونے کی وجہ سے انسان کو مذہب سے دور کر کے طرح طرح کی اور بھیانک خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ اسلامی شریعت و احکام پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نکاح کے معاملہ میں کئی لوگ کئی وجوہات سے احکام شریعت کو توڑتے ہیں...کہیں تنگ و ناموس کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں قومیت اور ذات کا خیال ہوتا ہے.کہیں دولت مندی اور خوش حالی کو دیکھا جاتا ہے...بغرض بہت سی اس قسم کی باتیں ہیں کہ شادی کے معاملہ میں شریعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے حالانکہ یہ ایسا معاملہ ہے کہ اس کے متعلق بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ شریعت کی پابندی کرنی چاہئے.“ الفضل 8 نومبر 1920 ء ) الفضل انٹرنیشنل 1 اکتوبر 2004ء) 120

Page 122

جہاد اکبر جہاد کا لفظ قرآن مجید اور احادیث میں بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے.اس کے لفظی معنی تو کوشش کے ہیں مگر اصطلاحی طور پر یہ لفظ اسلامی دفاعی جنگوں تبلیغ واشاعت اسلام اور اصلاح و تزکیۂ نفس کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.آخر الذکر جہاد کو حضور صلی اینم نے جہادا کبر قرار دیا ہے کیونکہ اس جہاد کے لئے کوئی شرط اور قید نہیں ہے بلکہ یہ ہر مسلمان پر ہر وقت فرض ہے اور نتائج کے لحاظ سے زیادہ مفید بھی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس جہاد کے بغیر دوسری قسموں کے جہاد ہو ہی نہیں سکتے.جب تک انسان خود اپنی اصلاح کر کے اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کر سکے اس وقت تک نہ تو وہ تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکتا ہے اور نہ ہی صحیح معنوں میں دفاع اسلام کی کوششوں میں کما حقہ شامل ہو سکتا ہے.قرآن مجید اس بنیادی ذمہ داری کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة : 106) اے مومنو! اپنے نفوس کی اصلاح و بہتری کا خیال رکھو.اگر تم صحیح طریق پر گامزن ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.ایک مومن کی یہ سب سے پہلی بنیادی ذمہ داری اس قسم کی ہے کہ وہ مدت العمر اسی کی ادائیگی میں لگا رہے تو اسے اس بات کی فرصت کم ہی ہو سکے گی کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں، برائیوں، 121

Page 123

غفلتوں اور گناہوں کی طرف توجہ دے سکے.اور اگر وہ تجسس اور نکتہ چینی سے لوگوں کے عیوب دریافت کرنے ، بیان کرنے یا بزعم خویش ان کی اصلاح کرنے میں لگا ہوا ہے تو وہ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی اپنی اصلاح کی کوشش سے غفلت کی غلطی کا ہی ارتکاب نہیں کر رہا بلکہ یہ اندیشہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس طرح وہ چغل خوری ، عیب جوئی اور ایسے ہی دوسرے گناہوں کا ارتکاب بھی کر رہا ہو.اس نکتہ نظر سے دیکھا جاوے تو جہاد کی وسعت کا کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے.اسی لئے بزرگوں کا یہ قول ہے کہ: جودم غافل سو دم کافر اس جہاد کی ذمہ داری سے دم بھر کے لئے غافل ہونا ممکن نہیں ہے.اسی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے کہا جاتا ہے.دست با کار دل بایار.دل ہر وقت خشیت و خوف خداوندی سے لبریز ہو تو باقی کام بھی بہتر ہوتے چلے جائیں گے.غفلت اور سستی کی نحوست دور ہوگی اور نیکیوں کے لئے مستعدی و بشاشت پیدا ہوگی.ہر صاحب اولاد، صاحب دل انسان اپنی اولاد کی بہتر تربیت کی خواہش رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بچے ہر لحاظ سے اس سے روپئے بھی بہتر زندگی بسر کریں مگر یہ جذبہ اور خواہش بھی مجاہدہ کا تقاضا کرتی ہے.کیونکہ اگر اپنی اصلاح سے غافل ہو کر کوئی شخص اپنے بچوں کے سامنے کوئی سنتی اور غفلت کرتا ہے، کوئی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنے اس غلط عمل سے اپنے بچوں کے ذہن پر ایک غلط نقش چھوڑتا ہے جو صحیح تربیت کے رستہ میں ایک روک بن جائے گا.بعض دفعہ انسان اپنی کوتاہ فہمی سے یہ خیال کرتا ہے کہ میری غلطیوں اور چالا کیوں کا میرے بچوں کو تو علم نہیں ہے اور یہ بھی کہ بچے تو چھوٹے اور نادان ہیں.مگر یہ بہت بڑی نادانی ہے.بچے بات کو خوب سمجھتے ہیں.بات کو خوب یا درکھتے اور اس سے اثر قبول کرتے ہیں.لہذا اپنی بہتری اور اصلاح کے لئے ہی نہیں اپنے بچوں اور اولاد یا اپنی قوم کے مستقبل کی بہتری کے لئے بھی ضروری ہے کہ 122

Page 124

انسان ہمیشہ اس جہاد پر کمر بستہ رہے.بظاہر یہ کام بہت مشکل لگتا ہے مگر خدائے رحیم وکریم کی مدد سے یہ مشکل بھی آسان ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ اس اہم کام میں بدل وجان مصروف ہونے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) یعنی وہ لوگ جو میری رضا و خوشنودی کی خاطر جہاد کرتے ہیں ہم ان کی کامیابی اور حصول مقصد کے لئے کئی رستے کھول دیتے ہیں اور آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں.اور جب حصول مقصد میں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو انسان کی جرات اور حوصلہ میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اور قدم بہ قدم منزل کا حصول اللہ تعالیٰ کی مدد اور وعدہ کے مطابق ممکن وآسان ہوجاتا ہے.جہاد اکبر کرتے ہوئے مومن کا شیطان سے مقابلہ ہوتا ہے.شیطانی وساوس اتنے متنوع اور اتنے زیادہ اور اتنے مخفی اور پوشیدہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ان سے بچنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے.اس غرض سے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے لئے دعاؤں میں لگا ر ہے اور اس طرح وہ اس خوش نصیب گروہ میں شامل ہو جاوے جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ عِبَادِي ليْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ (الحجر :43) میرے بندے بن جانے والوں پر شیطان غالب نہیں آسکتا.زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں مقبول بن کے اس کے عزیز و حبیب ہیں وہ دور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں الفضل انٹرنیشنل8 اکتوبر 2004ء) 123

Page 125

قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے رمضان قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے.حضور سالینی ای ام اس مقدس مہینہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں قرآن مجید کا دور مکمل فرمایا کرتے تھے اور اسی بابرکت مہینہ میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا.ہماری جماعت کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے کہ قرآن مجید سے دوری اور بعد پیدا ہو چکا تھا اور قرآن مجید مہجور ومتروک ہو کر اور اس پر ایمان حضور سالی یلم کی پیش خبریوں کے مطابق اٹھ چکا اور گویا ثریا ستارے پر جاچکا تھا اسے پھر سے زندگی بخش حقیقت اور روشنی عطا کرنے والی معرفت کے طور پر دنیا میں عام کیا جائے.حضرت مسیح موعود مالی) کی کتب آپ کے ملفوظات و نقار بیرقرآنی فہم وعلوم کو عام کرنے کا بنیادی ذریعہ تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی عنہ کا قرآن مجید سے پیار ومحبت اپنی مثال آپ تھا.آپ دن رات قرآن مجید پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتے یہی آپ کی غذا اور یہی آپ کا شوق تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول یہ کوتفسیر قرآن کا خاص علم عطا ہوا تھا جسے آپ نے جماعت میں منتقل فرمایا اور یہ آپ کا ایک عظیم کارنامہ تھا آپ نے اپنے شاگردوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جو قرآن مجید پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہی.حضرت مصلح موعوری اور بھی آپ کے شاگردوں میں سے ہی تھے.اسی طرح حضرت حافظ روشن علی صاحب نئی شہید اور حضرت میر محمد اسحق صاحب بنا وہ بھی آپ کے نمایاں شاگردوں میں سے تھے.حضرت حافظ روشن علی صاحب بینی یمن کو اللہ تعالیٰ نے یہ 124

Page 126

کمال عطا فر ما یا تھا کہ آپ رمضان میں نماز ظہر وعصر کے درمیان روزانہ ایک پارہ کی تلاوت فرماتے اور پھر اس کا ترجمہ اور مختصر تفسیر بھی بیان فرماتے.آپ کے درس سے استفادہ کرنے والے اس درس کی علمی وادبی شان کو بڑی محبت و عقیدت سے یاد کرتے تھے.حضرت میر محمد الحق صاحب کا درس حدیث خاص طور پر مقبول تھا تا ہم آپ بھی ابتداء میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.ان دونوں بزرگوں کے تراجم قرآن جماعت میں بہت مقبول ہیں.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی اپنے نہایت عالمانہ انداز میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.آپ کے درس کے نوٹ اخبار الحکم میں شائع ہوتے تھے اور ان سے بھی جماعت ایک علمی ورثہ کی طرح محبت وعقیدت سے استفادہ کرتی تھی.ایک عرصہ تک جماعت میں یہی تراجم تھے.تاہم حضرت مصلح موعود بنا تھنہ کے درس قرآن اپنی ایک خاص شان رکھتے تھے.حضرت خلیفہ اُسی الاول ریشم کی وصیت کے مطابق آپ نے بھی باوجود اپنی غیر معمولی مصروفیات کے درس قرآن کا اہتمام کسی نہ کسی رنگ میں ضرور جاری رکھا.جس دن آپ پر بیماری کا شدید حملہ ہوا اس دن بھی آپ نے مستورات میں قرآن مجید کا درس دیا تھا.گویا آپ عمر بھر اس بنیادی کام کے لئے ضرور وقت نکالتے رہے.بلکہ بیماری کے ایام میں بھی جب آپ بحالی صحت اور علاج کے لئے یورپ تشریف لائے تو آپ نے کسی قدر صحت بحال ہونے کے بعد قرآن مجید کی تفسیر کے بعض نادر نکات پر مشتمل خطبات ارشاد فرمائے.تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر آپ کا ایک علمی زندہ جاوید کارنامہ ہے.قرآن مجید کی یہ ایک ایسی خدمت ہے کہ آپ کو امت مسلمہ کے بلند پایہ مفسرین میں ایک خاص مقام پر فائز کر دیتی ہے.تفسیر صغیر نے ایک لمبے عرصہ تک جماعت میں ترجمہ قرآن کی تعلیم و ترویج کی ضرورت کو با حسن رنگ سر انجام دیا کیونکہ یہ با محاورہ ترجمہ سلیس اور عام فہم زبان میں کیا گیا تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع را یعالیہ نے اردو لفظی اور با محاورہ ترجمہ کو ایک اور جہت سے بیان فرما یا جو آجکل بکثرت طبع ہو کرضرورت مندوں کے ہاتھ میں پہنچ رہا ہے.125

Page 127

قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم کی خدمت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے میچ پاک ماند؟ کی جماعت کو مل رہی ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول یا ہعنہ کے زمانہ میں انگریزی زبان میں ترجمہ پر کام شروع ہو گیا تھا تا ہم جماعتی طور پر خلافت ثانیہ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب رزینی لن کو ایک بلند پایہ معیاری ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.انگریزی میں مختصر تفسیر کی تیاری کی سعادت مکرم ملک غلام فرید صاحب کے حصہ میں آئی.جماعت کے بعض اور بزرگوں نے بھی اس کار خیر میں حصہ لیا جن میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بنی اللہ بھی شامل تھے.دنیا کی مختلف بڑی بڑی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم تیار ہوکر شائع ہو چکے ہیں.حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی عام اشاعت کا اہتمام فرما یا.آپ فرما یا کرتے تھے کہ جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہر شخص کے پاس اس کی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پہنچ جائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ جہاد کبیر آج بھی جاری ہے اور قرآن مجید اور مختلف زبانوں میں تراجم کی اشاعت کا دائرہ مسلسل بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے.خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ اس مینارہ نور سے دنیا بھر میں روشنی ہو جائے اور ہم میں سے ہر شخص کا سینہ و دل اس نور سے منور رہے.آمین.روشنی جو پاتے ہم اس کتاب میں ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں وہ رو گیا اس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہو وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہو گیا اس نے درخت دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا الفضل انٹرنیشنل 22 اکتوبر 2004ء) 126

Page 128

درس حدیث پیارے رسول صلی ایتم کی پیاری باتیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی احمدیہ مساجد و مراکز میں خدا تعالیٰ کے فضل سے رقت وخشیت اور خشوع و خضوع سے عبادات اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ قرآن مجید، حدیث اور ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درس اور ذکر الہی کا بابرکت سلسلہ برابر جاری رہتا ہے.رمضان المبارک کے مبارک ایام میں ان امور کا اہتمام والتزام معمول سے زیادہ ہو جاتا ہے.حدیث آنحضرت صلیہما السلام کے ارشادات واقوال یعنی قرآن مجید کی بہترین دمستند تفسیر ، اخلاق فاضلہ واسوہ حسنہ کا بے مثال ذخیرہ اور علوم ومعارف کا نہ ختم ہونے والاخزانہ ہے.حدیث ، آنحضرت سلی لا الہ ہم سے صحابہ کرام نیتھنہ کی محبت و عقیدت کا ایک دلکش مرقع ہے.صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین نے جس توجہ اور باریک بینی سے حضور صلی یتیم کی باتوں کوسنا، آپ کے روز مرہ کا مشاہدہ کیا، آپ کے رجحانات و ترجیحات کو مد نظر رکھا اور ان باتوں کو پوری احتیاط سے آگے بیان کیا وہ تاریخ مذاہب کا ایک نادر واقعہ ہے.یہی وجہ ہے کہ حضور سالا ایم کی زندگی کے حالات یعنی اسوہ حسنہ مکمل طور پر محفوظ ہو گیا.دنیا میں کسی بھی اور رہنما یا مصلح اور لیڈر کی زندگی کے حالات اس طرح محفوظ نہیں ہوئے.حضور کے امتیوں کو یہ سعادت حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ 127

Page 129

حضور علیہ السلام کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت سے سرفراز ہوں.آنحضرت سلال السالم کا ارشاد ہے : نَضَرَ اللَّهُ امْرَأَ سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَغَهُ كَمَا سَمِعَ یعنی اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو خوش رکھے جو ہماری باتوں کوسنے اور انہیں اسی طرح آگے پہنچا دے.اس ارشاد کی تعمیل میں صحابہ بنی عنہ نے ہزاروں احادیث اس احتیاط سے یادرکھیں اور بیان کیں کہ اس کی اور کوئی مثال نہیں مل سکتی.صحابہ کرام پن کی بیان کی ہوئی زبانی روایات میں آنحضور مالی ایم کے ان خطوط کا ذکر آتا ہے جو آنحضور صلی ہم نے مختلف بادشاہوں کے نام لکھے تھے.کئی صدیوں کے بعد جب مذکورہ خطوط دستیاب ہوئے تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ زبانی روایات اور دریافت شدہ دستاویزات پوری طرح ایک دوسرے کے مطابق ہیں.بعض راویوں کے متعلق تاریخی طور پر ثابت ہے کہ وہ اس زمانہ میں جب سفر جان جوکھوں کا کام تھا دور دراز کے سفر محض اس لئے کرتے کہ کسی ایک حدیث کی تصحیح، توثیق کروائی جا سکے.حضرت امام بخاریؒ کی ثلاثیات مشہور ہیں یعنی امام بخاری کی ایسی روایات جو حضور سایلم تک تین واسطوں سے پہنچیں.اس مشکل تحقیقی کام کے لئے حضرت امام دایملی نے زندگی بھر محنت کی اور کوشش کی کہ حدیث کے درمیانی واسطے اور راوی کم ہوں.حضور سیل لی ایم کی سرسبزی و شادابی کی دعا سے صحابہ کرام عالی عنہ نے کمال احتیاط سے روایت کرتے ہوئے ایسی برکتیں حاصل کیں کہ وہ انتہائی پستی ونکہت سے آسمان کی رفعتوں میں پرواز کرنے والے روحانی پرندے ہی نہیں، دنیا کے امام ورہنما بن گئے.اس دعا اور خوش خبری سے آج بھی علم حدیث کی خدمت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے.جس طرح پہلے لوگوں نے کیا حضور ایلیا ایم کے ارشادات کو سن کر دوسروں تک پہنچانے کا سلسلہ درس حدیث اور تعلیم حدیث کی صورت میں برابر جاری ہے.درس حدیث کے سلسلہ میں جماعت میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب بنالی العنہ کا نام ایک بلند مقام رکھتا ہے.حضرت میر صاحب جیسے ہی درس 128

Page 130

شروع کرتے اور درود شریف پڑھتے ان پر ایک خاص کیفیت اور رقت طاری ہو جاتی.یوں لگتا تھا کہ حضرت میر صاحب بینی شتہ زمانوں اور فاصلوں کو طے کر کے حضور اکرم سانیا اسلام کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں یا وہ زمانہ اور مجالس حضرت میر صاحب بیان کے سامنے آگئی ہیں اور اب جو کچھ بیان ہوگا وہ زبان آوری اور لسانی نہیں بلکہ حضور میلیا ایلم کی مجالس اور حضور کے اسوہ حسنہ کا آنکھوں دیکھا حال ہوگا.حضرت میر صاحب بینی کی یہ کیفیت درس کے دوران برابر جاری رہتی اور آپ کے سامعین بھی کسی اور ہی عالم میں پہنچے ہوئے ہوتے تھے.درس حدیث کا ایک مستقل اور اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ حضور صلی ایام کے ذکر مبارک پر کثرت سے درود پڑھنے کا موقع ملتا ہے.درود پڑھنے سے خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور یہ ایسی نیکی اور عبادت ہے جو قرب الہی کے حصول کے لئے نہایت مفید و مؤثر ذریعہ ہے.بزرگوں نے لکھا ہے کہ حدیث سننے سنانے کی برکت سے انسان کو صحابیت معنوی حاصل ہوتی ہے.اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ حضور سی اینم کا زمانہ تو گزر گیا اب کوئی کتنی بھی کوشش کرے وہ اس زمانے کو تو حاصل نہیں کر سکتا البتہ علمی و ذہنی طور پر محبت وعقیدت سے اس زمانے میں پہنچنے کی کوشش سے معنا یہ سعادت حاصل ہو سکتی ہے.حدیث کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: و متقی کے واسطے مناسب ہے کہ اس قسم کا خیال دل میں نہ لاوے کہ حدیث کوئی چیز نہیں اور آنحضرت صل السلام کا جوعمل تھا وہ گویا قرآن کے مطابق نہ تھا.آجکل کے زمانہ میں مرتد ہونے کے قریب جو خیالات پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خیال حدیث شریف کی تحقیر کا ہے.آنحضرت سلائی سی ایم کے تمام کاروبار قرآن شریف کے ماتحت تھے.اگر قرآن شریف کے واسطے معلم کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن رسول پر کیوں اترتا.یہ لوگ بہت بے ادب ہیں کہ ہر ایک اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہے کہ قرآن شریف اسی پر نازل ہوا 129

Page 131

ہے.یہ بڑی گستاخی ہے ایک چکڑالوی مولوی جو معنے قرآن کے کرے اس کو مانا جاتا ہے اور قبول کیا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے رسول پر جو معنے نازل ہوئے ان کو نہیں دیکھا جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے تو انسانوں کو اس امر کا محتاج پیدا کیا ہے کہ ان کے درمیان کوئی رسول مامور مجد دہو.مگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ہر ایک رسول ہے اور اپنے آپ کوغنی اور غیر محتاج قرار دیتے ہیں.یہ سخت گناہ ہے.ایک بچہ محتاج ہے کہ وہ اپنے والدین وغیرہ سے تکلم سیکھے اور بولنے لگے.پھر استاد کے پاس بیٹھ کر سبق پڑھے.” جائے استاد خالی است قرآن تمہارا محتاج نہیں پر تم محتاج ہو کہ قرآن کو پڑھو سمجھو اور سیکھو.جبکہ دنیا کے معمولی کاموں کے واسطے تم استاد پکڑتے ہو تو قرآن شریف کے واسطے استاد کی ضرورت کیوں نہیں؟ کیا بچہ ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی قرآن پڑھنے لگے گا؟ بہر حال معلم کی ضرورت ہے.جب مسجد کا ملاں ہمارا معلم ہو سکتا ہے تو کیا وہ نہیں ہو سکتا جس پر خود قرآن شریف نازل ہوا ہے.دیکھو قانون سرکاری ہے اس کے سمجھنے اور سمجھانے کے واسطے بھی آدمی مقرر ہیں حالانکہ اس میں کوئی ایسے معارف اور حقائق نہیں جیسے خدا تعالیٰ کی پاک کتاب میں ہیں.یا درکھو کہ سارے انوار نبی کریم صلی ایم کی اتباع میں ہیں.جولوگ آنحضرت سالی ایم کی اتباع نہیں کرتے انکو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.بجز نو را تباع خدا تعالیٰ کو بھی پہچانا مشکل ہے.شیطان، شیطان اسی واسطے ہے کہ اس کونور اتباع حاصل نہیں.آنحضرت سیلی ملایم تریسٹھ سال دنیا میں رہے.متقی کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس بات کو محبت کی نگاہ سے دیکھے کہ آنحضرت سائلہ اسلام کا کیا طریق عمل تھا.“ ( ملفوظات.جلد پنجم صفحہ 245،244.ایڈیشن 2003 مطبوعہ ربوہ ) الفضل انٹرنیشنل 29 اکتوبر 2004ء) 00 130

Page 132

ایک عظیم انقلاب انگیز تحریک ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے 9 نومبر 2004 ء کے پر معارف خطبہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا اور ایک نئے دور دفتر پنجم کا آغاز فرمایا.حضور ایدہ اللہ نے اپنے اس تاریخی خطبہ کے آغاز میں تحریک جدید کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مخالفین جماعت احمدیہ نے وسیع پیمانہ پر مخالفت کا آغاز کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے بعض افسران کی شہ پر یہاں تک بڑھ ہانکنی شروع کر دی کہ جماعت کا نام ونشان مٹادیا جائے گا اور قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی.حضرت مصلح موعود بنی تھنہ نے اس شدید مخالفت کا نہایت حکیمانہ تو ڑ کرتے ہوئے جماعت سے بعض مطالبات کئے جن میں سے ایک نمایاں مطالبہ یہ تھا جماعت تین سال کے عرصہ میں 27 ہزار روپے کی رقم جمع کرے جو اشاعت تبلیغ اسلام پر خرچ ہوگی.اسی طرح آپ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ جماعت ساده زندگی بسر کرے.یہ بظاہر سادہ سا مطالبہ تھا مگر حضور نے اس پر زور دیتے ہوئے اپنے متعد دخطبات میں اس مطالبہ کی اہمیت بیان فرمائی اور بتایا کہ سادہ زندگی کی عادت اپنانے سے ہم اپنے اخراجات پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی بچت کو خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر سکتے ہیں.سادہ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم متعدد فضول خرچیوں اور وقت کے ضیاع سے محفوظ رہتے ہوئے 131

Page 133

اپنے اوقات کو زیادہ مفید اور بہتر کاموں میں خرچ کر سکتے ہیں.سادہ زندگی کی عادت سے قربانی کے مواقع پر بہتر نمونہ پیش کرنا ممکن ہوگا جبکہ پر تکلف اور پر تعیش زندگی بسر کرنے والا شخص کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے سے قاصر رہے گا.حضور کا جماعت سے ایک مطالبہ وقف زندگی کا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ سنجیدہ مخلص اور پڑھے لکھے نوجوان اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں.اس مطالبہ پر بھی جماعت نے قربانی کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ راہ آسان نہیں بلکہ دشوار گزار ہوگی.اس راہ میں ایک دفعہ یا دو دفعہ قربانی پیش کرنے کی بجائے مسلسل زندگی بھر کئی قسم کی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی یا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک دشوار گزار پل صراط پر زندگی بسر کرنا ہوگی.دوسرے لوگ اپنی ملازمت کی ترقی ، اپنی تجارت کی بہتری، اپنی زمینداری و خوشحالی کی باتیں کریں گے تو ان کے پاس ایسی کوئی بات نہیں ہوگی مگر وہ نیکی و تقویٰ اور محنت ودیانت سے مفوضہ فرائض بجالائیں گے تو خدا تعالیٰ سے اجر پائیں گے اور سکون واطمینان اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہوں گے.حضرت مصلح موعود ہی لمحہ اس قربانی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ابھی تو آغاز ہے اور ہم اس معیار پر نہیں پہنچے جہاں ظلمت و تاریکی اور جہالت و تعصب سے بھر پور مقابلہ ہوگا.اور جس طرح ایک بھٹیارن دانے بھونتے ہوئے اپنی بھٹی میں مسلسل ایندھن ڈالتی چلی جاتی ہے اسی طرح ہمیں جانی ومالی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی.حضور بنی نہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جماعت کے مخلص نوجوانوں نے ہر چہ باداباد کہتے ہوئے یا محاورہ کے مطابق اپنی کشتیاں جلاتے ہوئے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.ان لوگوں نے بہت معمولی گزارے پر، بہت محدود ذرائع اور وسائل کے باوجود خدا تعالیٰ کے بھروسے اور امداد ونصرت کے بل پر ملکوں ملکوں اشاعت وتبلیغ اسلام کی مہم کو جاری کیا اور اپنے جذبات ہی نہیں، اگر ضرورت پڑی تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھی اس مہم کو آگے بڑھاتے چلے گئے.132

Page 134

مثلاً مکرم مرزا منور صاحب اور مکرم قریشی محمد اسلم صاحب نے امریکہ میں، مکرم مولوی محمد دین صاحب نے جہاد کے میدان میں جاتے ہوئے دوران سفر میں ،شہزادہ عبدالمجید صاحب نے ایران میں ،حضرت مولوی نذیر احمد صاحب علی نے افریقہ میں جام شہادت نوش کیا اور ہمارے لئے ایک نمونہ چھوڑ گئے بلکہ چیلنج چھوڑ گئے کہ اپنے مفوضہ فرائض کی ادا ئیگی اس طرح کیا کرتے ہیں.مالی قربانی کے متعلق بھی جماعت کا نمونہ مثالی تھا.ہمارے اولوالعزم امام نے تو تین سال کے عرصہ میں 27 ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا مگر جماعت نے نہایت غربت و مشکلات کے باوجود ایک لاکھ روپے پیش کر دئے.ایک لاکھ روپے کی رقم آج کل تو زیادہ نہیں لگتی مگر اس زمانے میں جب سات ساڑھے سات روپے ماہوار آمدنی معقول آمدنی سمجھی جاتی تھی اور گندم دواڑھائی روپے من مل جایا کرتی تھی یہ بہت بڑی رقم تھی.انہی قربانیوں کا صدقہ ہے کہ آج ملکوں ملکوں احمدیت لہلہا رہی ہے.اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نئے سال میں داخل ہورہے ہیں.خدا کرے کہ یہ سال اور آئندہ آنے والا ہر سال جماعتی روایات میں ہر لحاظ سے غیر معمولی اضافہ کا باعث ہو.آمین الفضل انٹرنیشنل 19 نومبر 2004ء ) 00 133

Page 135

حقیقی خوشی ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسی انجام ایدہ اللہ بصرہ العزیز نےاپنے اثر انگیز خطبہ عید الفطر فرموده 14 نومبر 2004 ء میں رمضان کے گنتی کے دنوں میں معمولی سی قربانی پیش کرنے یا خدا تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کے نتیجہ میں عید کی خوشی ملنے کا ذکر کرتے ہوئے تلقین فرمائی کہ نماز باجماعت کا اہتمام، تلاوت قرآن مجید کی کثرت اور دوسری عبادات اور دعاؤں کا جوطریق رمضان میں شروع ہوا تھا اسے آئندہ بھی جاری رکھنے کی کوشش کی جائے.خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے والوں کی قربانی کی قبولیت ایسا امر ہے جو اپنے پیچھے ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے اور جب سے مذہب کی تاریخ محفوظ ہے یہ مثالیں بھی موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے غرض قربانی کبھی ضائع نہیں جانے دیتا بلکہ اسے شرف قبولیت بخشتے ہوئے بعد میں آنے والوں کے لئے اچھی مثال کے طور پر محفوظ کر دیتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال ہوا اور نسلاً بعد نسل خدائی انعامات واحسانات کا سلسلہ ان کی اولاد میں جاری ہو گیا یہاں تک کہ خاتم النبیین ، رحمۃ للعالمین سالی تم جیسا عظیم الشان وجود ان کی اولاد میں ظاہر ہوا اور آپ صلی یا ایہ امام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی عظمت کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا 134

Page 136

آنا دعوة أبى ابراهیم کہ میں اپنے بزرگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا اظہار ونشان ہوں.ابراهیمی برکات کے تسلسل اور آنحضرت سلانا ہی ایم کی پیش خبریوں کے مطابق حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوا تو جماعت احمدیہ کو یہ انعام ملا کہ باقی لوگ ابھی تک انتظار اور شک کی کیفیت میں وقت ضائع کر رہے ہیں مگر احمدی اس انعام الہی پر شکر ادا کرتے ہوئے اس کی برکات سے متمتع ہورہے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے احسانات میں سے ایک بہت بڑا احسان ایک امام کا وجود اور ایک جماعت کا قیام ہے اور یہ ایسا بے مثال مقام شکر و خوشی ہے جس پر ہم جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے.ہمارا نہایت محکم و مضبوط نظام جماعت ایک واجب الاطاعت امام کا مرہون منت ہے.خلافت کی برکت سے جماعت میں اتحاد و یک جہتی کی ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جو اس کے بغیر کسی بھی اور ذریعہ سے ممکن نہیں ہے.قرآن مجید نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم روئے زمین کے سب خزانوں کو خرچ کر دو تب بھی باہم محبت و ہمدردی حاصل نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے امام کو ہماری بہتری اور بھلائی کی ہر وقت فکر رہتی ہے.دنیا کے کسی کونے میں بسنے والا بظاہر بے یارومددگار غریب احمدی بھی اپنے امام کی دعائیں اور نیک خواہشات اور حسب ضرورت ہمدردی ورہنمائی حاصل کرتا ہے.اسی طرح پیارے امام کو دنیا بھر سے دعا ئیں اور نیک خواہشات ملتی رہتی ہیں.دوطرفہ محبت کے یہ نظارے تو خلافت کی برکت سے ہمیشہ ہی دیکھنے میں آتے تھے مگر اب تو MTA کے ذریعہ ایسے بے مثال دلکش نظارے زیادہ واضح اور زیادہ نمایاں اور زیادہ وسیع ہو کر دکھائی دینے لگے ہیں.دنیا میں کوئی عید کا اجتماع ایسا نہیں ہوتا جسے دنیا بھر میں دیکھ کر اس سے خوشی حاصل کی جاسکتی ہو.عید کے بابرکت موقع پر مسجد بیت الفتوح لندن اپنی ساری وسعتوں اور سہولتوں کے باوجود چھوٹی اور تنگ نظر آ رہی تھی اور ہمارے پیارے 135

Page 137

امام نے کمال محبت و شفقت سے خوش نصیب حاضرین کے پاس خود چل کر جا کر مصافحہ کیا.اس نظارے سے یہاں موجود سب لوگ ہی حفظ نہیں اٹھا رہے تھے بلکہ مسجد بیت الفتوح میں دنیا بھر کی مختلف قوموں کے افراد کی موجودگی کی وجہ سے اور اپنے پیارے امام سے محبت کی وجہ سے MTA کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ناظرین بھی اس پروگرام کو بڑی ہی توجہ اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور اپنے امام کو عام لوگوں سے بڑے پیار سے ملتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتے رہے.ایک امام اور ایک جماعت کے اس انعام اور احسان کی قدر دانی اور شکریہ کے طور پر اور اس انعام کو مزید وسیع اور موثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اطاعت امام کی شاندار روایات کو ہمیشہ قائم رکھیں اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہر تحریک پر بدل و جان اور نظام جماعت سے دلی وابستگی کے ساتھ ان برکتوں اور فتوحات کو اور بڑھاتے اور عمل کرتے ہوئے پھیلاتے چلے جائیں جو ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں مل رہی ہیں.136 الفضل انٹرنیشنل 26 نومبر 2004ء )

Page 138

الفضل کے سنجیدہ علمی ذوق رکھنے والے قارئین کرام سے معذرت کے ساتھ لندن سے شائع ہونے والے ایک مشہور روز نامہ میں روزانہ باقاعدگی سے چھپنے والے اشتہارات میں سے بعض بطور نمونہ درج ذیل ہیں: کالے اور سفلی اثرات و جادوٹو نہ ہمیشہ کے لئے ختم “ دل کی ہر تمنا پوری ہوگی.“ "روحانی سکالر پروفیسر...کا اعلان مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے وہ کام جو بڑے بڑے عامل و جادوگر نہ کر سکیں میرے آستانے پر ہر کام مثلاً شوہر کے دل میں شک ونفرت کی آگ ہو، سنگدل محبوب نے نیند حرام کر دی.پھر تجارت میں دن بدن نقصان ہوتا ہو،رشتوں میں بندش ، عزیزوں سے لڑائی جھگڑے ، عزت و وقار میں کمی یادشمن حاوی ہو.غرضیکہ مشکلات کیسی ہی کیوں نہ ہوں یوں ایک مرتبہ رابطہ کریں.“ مشورہ مفت اور راز رکھنے کی گارنٹی.“ 66 ہر کام سو فیصد گارنٹی سے کیا جاتا ہے.“ ایک اور خاندانی عامل، ماہر عملیات و تعویذات پیر صاحب کا فرمانا ہے کہ: 137

Page 139

دو نقش محبت سات سمندر پار پچھڑے محبوب کو کھینچ لائے.محبوب محبت میں تڑپ تڑپ کر پوجا کرے.عملیات کی پر اسرار طاقت سے سنگدل محبوب آپ کے قدموں میں ہوگا.انشاء اللہ آپ کی اندھیری زندگی میں اجالا ہو جائے گا.“ نوری علم کا کرشمہ.ان بہن بھائیوں کے لئے خوشخبری جو بڑے بڑے عاملوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا عملیات اور تعویذات پر یقین نہیں ہے...آج ہی...ملئے.مایوسی راحت سے بدل جائے گی.“ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.“ آنحضرت مالی ایمن کی سب سے اول مخاطب ایک ایسی قوم تھی جو بتوں کی عبادت وتعظیم کے عقیدہ و خیال کی حامل تھی اور اسی وجہ سے اس میں فال ہشگون اور تعویذوں وغیرہ کا چرچا بہت عام تھا.اسلام قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی روک یہی تھی کہ ہم تو بہت سارے خداؤں کے قائل ہیں اور ان سے مدد حاصل کرتے ہیں.اب ان سارے خداؤں کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں.تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے سب سے زیادہ جو چیز قابل اعتراض اور قابل تشویش تھی وہ یہی تھی کہ ان کے قابل تعظیم بتوں کی عظمت خطرے میں پڑ گئی ہے.حضور الا السلام ہمیشہ لا إِلهَ إِلَّا الله کی تبلیغ کرتے رہے.توحید کو قائم کرنا، عام کرنا اور لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا آپ مالی ایم کی کوششوں کا محور ومرکز تھا.اس سلسلہ میں آپ صلی یا الی یوم اور آپ سی ایم کے جانثار صحابہ ہی نے مسلسل لمبا عرصہ جو کئی سالوں پر محیط تھا، ہر طرح کی تکالیف اور صعوبتیں برادشت کیں ،قربانیاں پیش کیں اور بالآخر خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ دن بھی دکھایا کہ آپ صلی ایتم فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے اور سینکڑوں بتوں کو خدا ماننے والے شکست خوردہ قوم کی شکل میں حضور صلی الا السلام کے سامنے پیش ہوئے.یہ عظمت توحید اور خدا تعالیٰ کی کبریائی کے اظہار کا دن تھا.دنیا نے ایسا نظارہ کم ہی دیکھا ہوگا کہ خانہ کعبہ اور مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر انتہائی بے بسی 138

Page 140

اور بے کسی کے عالم رات کے وقت چھپتے چھپاتے ہجرت کر کے جانے والا اپنے ہاتھوں سے خانہ.کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو توڑ رہا تھا اور یہ اعلان کر رہا تھا کہ : جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل: 82) ایسی عظیم الشان غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے باور حضور سلایا کہ تم نے کبھی بھی ایسا کوئی اعلان نہ فرمایا جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.آپ صلی سی ایم کا اقرار و اعلان تو یہ تھا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : 111) میں تو تمہاری طرح ایک انسان ہوں اور یا یہ کہ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (هود: 32) مجھے غیب کا کوئی علم نہیں ہے.عالم الغیوب اور ہر قسم کی قدرتوں کا مالک میرا خدا ہے.حضور صلی ہی ہم اگر چاہتے تو بتوں کی عبادت کرنے والی وہمی قوم سے اپنی عظمت وشان منوا لیتے مگر یہاں تو کمال انکساری اور عاجزی کے ساتھ یہ بتایا جا رہا ہے کہ میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں ، میری ماں روٹی کے خشک ٹکڑوں کو کھا کر گزارہ کرتی تھی.آپ نے ہمیشہ دعا کا طریق اختیار کیا بلکہ خدائی تائید و نصرت اور کامیابی کے وعدوں کے باوجود آپ سیلی ایمن ہمیشہ کمال تذلل و انکساری اور رقت وخشیت سے دعا کرتے اور قبولیت دعا کے نشانات اور معجزات کو کبھی بھی اپنی طرف منسوب نہ فرمایا.حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کی حقیقت کے متعلق اپنے حالیہ ایمان افروز خطبہ جمعہ میں اس مسئلہ کی مکمل وضاحت فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ غنی ، بے نیاز ہے.اس پر کسی کی حکومت نہیں ہے.ایک شخص اگر عاجزی اور فروتنی سے اس کے حضور نہیں آتا ، وہ اس کی کیا پرواہ کر سکتا ہے.دیکھو اگر ایک سائل کسی کے پاس آجاوے اور اپنا عجز اور غربت ظاہر کرے تو ضرور ہے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ سلوک ہو.لیکن ایک شخص گھوڑی پر سوار ہو کر آوے اور سوال 139

Page 141

کرے اور یہ بھی کہے کہ اگر نہ دو گے تو ڈنڈے ماروں گا تو بجز اس کے کہ خوداس کو ڈنڈے پڑیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا.خدا تعالیٰ سے اڑ کر مانگنا اور اپنے ایمان کو مشروط کرنا بڑی بھاری غلطی اور ٹھوکر کا موجب ہے.دعاؤں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اڑ کر مانگنا اور بات ہے.یہ کہنا کہ میر افلاں کام اگر نہ ہوا تو میں انکار کر دوں گا یا یہ کہہ دوں گا.یہ بڑی نادانی اور شرک ہے.اور آداب الدعا سے ناواقفیت ہے.ایسے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں.قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دعا تمہاری مرضی کے موافق میں قبول کروں گا.بیشک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن (61) لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرة 156) آيت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن (61) میں اگر تمہاری مانتا ہے تو وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ میں اپنی منوانی چاہتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے.ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 296-297 جدید ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) الفضل انٹرنیشنل 10 دسمبر 2004ء) 00 140

Page 142

صراط مستقیم سورہ فاتحہ جسے اُم القرآن بھی کہا جاتا ہے ایک ایسی جامع مکمل دعا ہے جسے ہر ضرورت ہر مشکل ہر کیفیت میں پوری دلجمعی سے مانگ کر سکون واطمینان اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھے جاسکتے ہیں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة (6) میں توازن و اعتدال اور منزل مقصود تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ یا راستہ مانگا گیا ہے.کامیابی کے حصول کے لئے اس سے بہتر کوئی اور چیز ذہن میں نہیں آسکتی.فلاح و نجاح کے حصول کی یہ کلید حاصل کرنے کے لئے اسی دعا میں یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و استقامت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے.عبادت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے اور فضل الہی کو جذب کرنے کے لئے خدا کی تائید ونصرت کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اسی حقیقت کو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة (5) میں بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے اور اس کی تائید سے فیض یاب ہونے کے مضمون کو قرآن مجید مزید واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة (46) کہ خدا تعالیٰ سے مدد چاہتے ہو تو صبر ،نیکیوں پر مداومت اور بدیوں سے مکمل اجتناب اور دعاؤں سے کام لو اور یہ بھی کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے مگر ان خوش قسمت لوگوں 141

Page 143

کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے جن کے دل خشیت الہی ، عاجزی و مسکینی سے بھرے ہوتے ہیں.اس قرآنی نسخہ کیمیا کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بنی و تفسیر کبیر میں وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلُوةِ ، وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ) (البقرة 46) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ایک اور نفسیاتی نکتہ بھی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی کام کی درستی کے لئے دو امور کی 66 ضرورت ہوتی ہے.اوّل: بیرونی بداثرات سے حفاظت ہو.دوسرے اندرونی طاقت کو بڑھایا جائے.اس آیت میں صبر کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بیرونی بداثرات کا مقابلہ کرو اور صلوٰۃ کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس کے فضلوں کو جذب کرو.اس طرح کمزوری کے راستے بند ہوں گے اور طاقت کے حصول کے دروازے کھل جائیں گے اور تم کامیاب ہو جاؤ گے..صبر کے معنے صرف جزع فزع سے بچنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ برے خیالات کا اثر قبول کرنے سے رکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اوپر کی تفسیر میں یہی معنے مراد ہیں.جب کوئی بداثرات کو ر ڈ کرے اور نیک اثرات کو قبول کرنے کی عادت ڈالے جو دعاؤں سے حاصل ہو سکتی ہے تو اس کے دل میں روحانیت پیدا ہو کر جو کام پہلے مشکل نظر آتا تھا آسان ہو جاتا ہے اور روحانی ترقی کی جنگ میں اسے فتح حاصل ہوتی ہے.اگلے جملہ میں جو کبیرۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنے بڑی' کے ہیں اور اس آیت میں موقع کے لحاظ سے مشکل امر کے معنے ہوتے ہیں.اور خَاشِعِ کے معنے ڈرنے والے کے ہوتے ہیں.لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ جس جگہ بھی استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس سے ڈرنا مناسب ہو.چنانچہ خَاشِعِ کا لفظ سارے قرآن کریم میں 142

Page 144

یا تو خدا تعالیٰ سے ڈرنے یا اس کے عذاب سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.بندوں یا دوسری چیزوں سے ڈرنے کے معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا.اس جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اس قسم کا علاج بتانا آسان ہے اس پر عمل کرنا مشکل ہے.پس اس کا جواب وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرۃ 46) میں دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس علاج پر عمل مشکل کام ہے لیکن جو خاشع ہو جائے اس کے لئے مشکل نہیں رہتا.گویا گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا حقیقی علاج خدا تعالیٰ پر ایمان ہے.بغیر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے انسان دوسری تدبیروں سے گناہ سے نہیں بچ سکتا.دنیا نے بار ہا اس کا تجربہ کیا ہے لیکن افسوس وہ بار بار اس نکتہ کو بھول جاتی ہے.حقیقی نیکی اور کامل نیکی کبھی بھی خدا تعالیٰ پر کامل یقین کے بغیر پیدا نہیں ہوتی.فلسفیانہ دلائل انسان کے اندر سچا تقویٰ نہیں پیدا کر سکتے.خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد خوف بدیوں سے پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور طرح پیدا نہیں ہوتا.اسی وجہ سے انبیاء کی جماعتوں نے جو نیکی اور قربانی کا نمونہ دکھا یا وہ اور کوئی جماعت دنیا کی نہیں دکھا سکتی.“ ( تفسیر کبیر جلد اول ص 298،296) خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہوئے صبر وصلوۃ کو اپنا طریق عمل بنا ئیں اور ہمارا ہر قول و عمل خشیت الہی سے مزین ہو.آمین.الفضل انٹرنیشنل 17 دسمبر 2004ء) 143

Page 145

متکبر کون ہے؟ سے دور انسان کو نیکیوں سے محروم کرنے ، بدیوں پر دلیر کرنے اور خیر و برکت کے مواقع کرنے میں تکبر کا سب سے زیادہ دخل ہوتا ہے.یہ تکبر زیادہ مالدار ہونے کا ہوسکتا ہے، یہ تکبر زیادہ طاقتور ہونے کا ہوسکتا ہے، یہ تکبر زیادہ خوبصورت ہونے کا ہوسکتا ہے، یہ تکبر زیادہ عالم ہونے کا ہوسکتا ہے، یہ تکبر عالی نسب اور کسی مشہور خاندان سے ہونے کا ہوسکتا ہے.غرضیکہ تکبر کا شیطانی وسوسہ بے شمار ظاہر اور مخفی طریقوں سے انسان پر حملہ کر کے اسے اشرف المخلوقات اور احسن تقویم سے گرا کر اسفل السافلین میں شامل کر دیتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ ہی بڑے غور سے، بڑی توجہ سے، بڑے فکر سے، بڑی رقت وخشیت سے یہ محاسبہ جاری رہے کہ کسی قسم کا تکبر کا کوئی پہلو دیمک کی طرح ہماری نیکیوں کو بر باد تو نہیں کر رہا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تکبر سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اُس نے توہین کی 144

Page 146

نظر سے دیکھا اور اُس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا“.(روحانی خزائن جلد 5 - آئینہ کمالات اسلام صفحہ 598) میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی رُوح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یاز یادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے.کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دیدے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ وحشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ وہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی.اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایک ایسی گردش نازل کرے وہ ایک دم میں أَسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے.اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم 145

Page 147

نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یا درکھو.ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کوخبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سنا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہوتا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ.اور تا تم اپنے اہل وعیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈرسکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر، تا تم پر رحم ہو“.وو (روحانی خزائن جلد 18 نزول مسیح ص 403) ” میرا مسلک نہیں کہ میں ایسا تند خو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں.اور میں بت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں.میں تو بت پرستی کے رڈ کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بُت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا ترجیح نہیں دیتا.میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بت پرست اور خبیث 146

Page 148

نہیں.متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے“.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 6-7 ) یادر ہے تکبر کو جھوٹ لازم پڑا ہوا ہے بلکہ نہایت پلید جھوٹ وہ ہے جو تکبر کے ساتھ مل کر ظاہر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ جلشانہ متکبر کا سب سے پہلے سر توڑتا ہے.(روحانی خزائن جلد 5 آئینہ کمالات اسلام صفحہ 599 ) اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے تکبر سے محفوظ رکھے.147 الفضل انٹرنیشنل 31 دسمبر 2004ء )

Page 149

سال نو - تجدید عہد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نئے سال میں داخل ہوئے ہیں.نئے سال میں بالعموم ہر عقل مند شخص یہ سوچتا ہے کہ گزشتہ سال کس طرح گزارا.اس میں کیا کیا فوائد اور بہتری حاصل ہوئی اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے کوئی نقصان یا کمی رہ گئی تو وہ کیوں رہ گئی اور آئندہ ہم اس کی کس طرح تلافی کر سکتے ہیں.عام لوگوں کو تو اپنا لائحہ عمل معین کرنے اور اپنے لئے مثالی نمونہ یا اسوہ حسنہ تلاش کرنے میں کوئی دقت اور مشکل ہو سکتی ہے اور یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ ہمارا لائحہ عمل درست اور نتیجہ خیز بھی ہوگا یا نہیں.مگر ایک احمدی مسلمان کے لئے یہ کام بہت ہی آسان اور یقینی ہے کیونکہ ہمارا لائحہ عمل قرآن مجید اور ہمارا اسوہ حسنہ رحمتہ للعالمین خاتم النبیین سالا ایلیم ہیں.اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام نے ہر سچے اور مخلص انسان کو قرآن مجید اور آنحضرت صلی اسلام کی پیروی کی طرف باحسن طریق توجہ دلاتے ہوئے جن امور کی طرف دعوت دی وہ ہماری جماعت میں شرائط بیعت کے نام سے مشہور ہیں.نئے دور کے آغاز پر اس بابرکت لائحہ عمل کو ہم اپنے نئے سال کا ایجنڈا قرار دیتے ہوئے ان شرائط کو جو ذیل میں پیش کی جارہی ہیں اپنے سامنے رکھیں اور بدل وجان ان پر عمل کرنے کی کوشش 148

Page 150

کرتے رہیں تو یقیناً بہت سی دینی و دنیوی ترقیات کے علاوہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کر سکیں گے.وباللہ التوفیق.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا: اوّل: بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم : یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم : یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ملا لیا کہ تم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.چہارم :.یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم : یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور نسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم : یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قالَ الرَّسُول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل 149

Page 151

قرار دے گا.ہفتم : یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.هشتم : یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا د اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نم : یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم : یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر د نیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.اس سلسلہ میں مزید فرمایا: (اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889 ) ” میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں.اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی نا پا کی اور ٹھٹھے اور جنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہوکر زمین پر چلو.اور یا درکھو ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفوا اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو.اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کردیا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ.اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دیئے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہے جائیں تو 150

Page 152

ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کانمونہ ٹھہرو.سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جوشخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پر ہیز گاری اور علم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناًوہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا“ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه 143) اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پاک نصائح پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور یہ نیا سال ہم سب کے لئے ، تمام بنی نوع انسان کے لئے خیر و برکت کا سال ہو.الفضل انٹرنیشنل7 جنوری 2005ء ) 151

Page 153

حج ایک رسم نہیں بلکہ ایک عاشقانہ عبادت ہے ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی شہادت کے ساتھ طہارت نفس اور تقرب الی اللہ کے جس سفر کا آغاز کرتا ہے اس کی مختلف منزلوں میں قیام الصلوة ، ايتاء الزكوة اور صوم رمضان کے علاوہ ایک نہایت اہم منزل اور کمال سلوک کا آخری مرحلہ حج بیت اللہ الحرام بھی ہے.ان میں سے ہر ایک منزل انسان کو پاک کرنے اور اسے خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کا ایک نہایت ہی اہم ذریعہ ہے.اور ہر مسلمان جو خلوص نیت اور تقویٰ کے ساتھ ان تمام منازل سے گزرتا ہے اس کی زندگی میں اسی نسبت سے خدا تعالیٰ کی توحید کا نور جلوہ فگن ہوتا ہے.نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج محض چند حرکات وسکنات یا رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ سب اعلیٰ درجہ کی عبادتیں ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ان سے وابستہ فیوض و برکات سے کما حقہ حصہ پانے کے لئے انہیں ان کی تمام شرائط اور آداب کے ساتھ بجالایا جائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” حج سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلے اور سمندر چیر کر چلا جاوے اور رسمی طور پر کچھ لفظ منہ سے بول کر ایک رسم ادا کر کے چلا آوے.اصل بات یہ ہے کہ حج ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جو کمال سلوک کا آخری مرحلہ ہے.سمجھنا 152

Page 154

چاہئے کہ انسان کا اپنے نفس سے انقطاع کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں کھو یا جاوے اور تعشق باللہ اور محبت الہی ایسی پیدا ہو جاوے کہ اس کے مقابلہ میں نہ اُسے کسی سفر کی تکلیف ہو اور نہ جان و مال کی پرواہ ہو، نہ عزیز واقارب سے جدائی کافکر ہو.جیسے عاشق اور محب اپنے محبوب پر جان قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی کرنے سے دریغ نہ کرے.اس کا نمونہ حج میں رکھا ہے.جیسے عاشق اپنے محبوب کے گرد طواف کرتا ہے اسی طرح حج میں بھی طواف رکھا ہے یہ ایک بار یک نکتہ ہے..طواف عشق الہی کی نشانی ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ گو یا مرضات اللہ ہی کے گرد طواف کرنا چاہئے اور کوئی غرض باقی نہیں“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102-103 جدید ایڈیشن) حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت میں ایک خاص وارفتگی کا اظہار ہوتا ہے اور حاجی کی لَبَّيْكَ اللهُمَّ لَبَّيْكَ صداؤں سے اس کے حضور عجز وانکسار کے ساتھ بچھتا چلا جاتا ہے.یہ وہ عبادت ہے جس کے متعلق آنحضرت سلیم کی بشارت ہے کہ جس کا حج مبر ور ہو جائے ، خدا تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا شرف پالے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے ایک نومولود بچہ.گویا اسے ایک نئی روحانی پیدائش یا نئی زندگی حاصل ہوتی ہے.مگر ہم یہ عجیب بات دیکھتے ہیں کہ کروڑ ہا مسلمانوں کی نمازوں اور لکھوکھہا مسلمانوں کے حج کرنے کے باوجود مسلم معاشرہ میں مجموعی طور پر وہ تقویٰ ، وہ راستی اور پاکیزگی نظر نہیں آتی جو ایسی عظیم الشان عبادات بجا لانے والے معاشرہ میں ہونی چاہئے.اس کا سبب یہی ہے کہ اکثر و بیشتر ان عبادات کو محض ایک رسم کے طور پر ادا کیا جاتا ہے اور ان کی حقیقت کو دلوں میں قائم نہیں کیا جاتا.حضرت ابوالحسن خرقانی رحمہ اللہ علیہ کے بارہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا کہ اپنا خرقہ مجھے پہنا دیجئے تا میں بھی آپ جیسا ہی بن جاؤں.آپ نے پوچھا کیا 153

Page 155

کوئی عورت مردانہ لباس پہن کر مرد بن سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہرگز نہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ جب یہ ممکن نہیں ہے تو پھر تم میرا خرقہ پہن کر مجھ جیسے کس طرح بن سکتے ہو.اسی طرح حج کے موقع پر محض ظاہری طور پر دو ان سلی چادر میں پہن لینے اور بیت اللہ کے گرد طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اور عرفات، مزدلفہ اور منیٰ وغیرہ مقامات مقدسہ میں قیام سے ہی انسان حاجی نہیں بن جاتا.اگر زبان تو لَبَّيْكَ اللهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ كبد رہی ہو اور دل صنم آشنا ہو اور خودی و خود پسندی، کبر، ریاء ، جھوٹ ، منافقت وغیرہ سینکڑوں قسم کے بت سینے میں موجود ہوں تو ایسے شخص کو نہ نماز میں کچھیل سکتا ہے اور نہ ہی حجاز میں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: خوب یادرکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا.اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے.بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں.ہاں دل کی دعائیں اصل دعائیں ہوتی ہیں.“ قرآن مجید میں جہاں حج سے متعلق احکامات کا بیان ہے وہاں بار بار خصوصیت سے تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے.اور سفر کے لئے زادراہ کے طور پر بھی سب سے بہتر زاد راہ یعنی تقویٰ کو لازم پکڑنے کا ارشاد ہے اور بار بار دعا و استغفار اور فطری محبت کے جوش سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم ہے.چنانچہ فرمایا: فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة 201) یعنی جب تم اپنے مناسک کو ادا کر لو ڈ اپنے اللہ جل شانہ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو کیا جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ذکر اللہ کوذکر آباء سے مشابہت دی ہے اس میں یہ سر ہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطرتی محبت ہوتی ہے..گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ خدا 154

Page 156

تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے.اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے.یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہئے.یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے.“ اسی طرح فرمایا: (روحانی خزائن جلد 20 لیکچر لدھیانہ ص 282) ”خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے“.الحکم جلد 6 نمبر 19 مؤرخہ 24 رمئی 1902 ء ) پس حج بیت اللہ جو ایک اعلیٰ درجہ کی عاشقانہ عبادت ہے اور جس میں ایک حاجی گویا خدا تعالیٰ کے آستانہ پر پہنچ کر براہ راست اس سے مخاطب ہوکر لَبَّيْكَ الْهُمَّ لَبَّيْكَ کی صدائیں بلند کرتا ہے اس کا حج تبھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہوسکتا ہے اگر اس کی عملی زندگی اس کے اس زبانی اظہار پر گواہ ہو اور وہ کامل تقویٰ اور استی اور انصاف کے ساتھ ہمیشہ خدا کی رضا کو اپنے تمام تعلقات عزیز داریوں ، کاروبار، ملازمت، اموال و جائیداد غرضیکہ ہر دوسری چیز پر ترجیح دے.اگر ایسا ہو تو یقیناً خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کی مدد کو آتا ہے اور انہیں کبھی ذلیل ورسوا نہیں کرتا.پس حج کے ان مبارک ایام میں ہمیں خصوصیت سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سب حج کرنے والوں کو بھی اس کی توفیق بخشے اور وہ جو حج پر خانہ کعبہ نہیں جاسکے وہ اپنی زندگیوں میں حج کے اغراض و مقاصد کو قائم کر کے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی سعی کریں.ہم واقعۂ عید منانے کے حقدار تبھی ہوں گے جب ہمارا خالق و مالک ہم سے راضی ہو گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی حقیقی عید میں نصیب فرمائے.آمین الفضل انٹرنیشنل 21 جنوری 2005ء ) 00 155

Page 157

آفتاب صبح نکالا، اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ 2005ء کے آخری ہفتہ میں دنیا نے ایک ایسا نظارہ دیکھا جس کی مثال کم ہی کہیں ملتی ہے.حضرت مسیح موعود الاسلام کی مقدس بستی جو ہندوستان کے ایک غیر ترقی یافتہ علاقہ میں دور ایک کونے میں ہے.جہاں دنیوی کشش اور ظاہری دلچسپی کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی.وہاں پہنچنے کے لئے صرف ایک راستہ ہے اور وہ بھی طرح طرح کی مشکلات سے پر.سوسال پہلے بھی یہ رستہ غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی سواریاں ادھر سے گزرتے ہوئے گھبراتی ہیں.اس دُور دراز علاقہ میں ستر ہزار سے زائد عشاق احمدیت کا اجتماع موجودہ حالات کے لحاظ سے ایک نا قابل یقین مظاہرہ ہے احمدیت کی سچائی کا ، احمدیوں کے جوش و جذبہ دینی کا، قربانی، ایثار اور خدا کے رستہ میں پیش آنے والی مشکلات و تکالیف کو آگے بڑھ کر بصد شوق گلے لگانے کا.قادیان جیسا کہ دنیا کو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علی السلام کے زمانہ میں ؎ قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار اس کے بعد يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کی خدائی بشارت کے مطابق لوگ کشاں کشاں خدائی فضلوں کو حاصل کرنے اور اپنی علمی و روحانی تربیت کے لئے وہاں جمع ہونے شروع ہوئے.قادیان نے ہر لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی.قادیان میں پریس لگ گئے ، وہاں سے متعد داخبار اور 156

Page 158

رسالے جاری ہو گئے، بجلی اور تار برقی کی سہولت حاصل ہوگئی ، ریل کا سٹیشن بن گیا ، سکول اور کالج شروع ہو گئے، کئی کارخانے لگ گئے اور اس طرح خدائی بشارتوں کے پورا ہونے سے دنیا بھر کے احمدیوں کے حوصلے بلند ہوئے اور تبلیغ واشاعت کے کام میں ترقی ہونے لگی.مگر اس کے بعد ودائع ہجرت کی الہامی پیشگوئی پوری ہونے کا وقت آیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی الیہ اور جماعت کا اکثر حصہ اس محبوب جگہ سے ہجرت کر کے پاکستان آ گیا.مگر ہمارے اولوالعزم رہنما نے جہاں ایک طرف پاکستان میں آنے والے بے سروسامان احمدیوں کی آبادکاری اور ایک وادی تغیر ذی زرع میں ربوہ شہر بسانے کا ڈول ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک شہر آباد ہو گیا حالانکہ اس کے مقابل پر حکومتی منصوبے ڈانواڈول ہوتے رہے اور احمدیت کے مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پوری کوشش کی کہ احمدیوں کے کہیں پاؤں نہ لگیں مگر انسانی کوششوں پر خدائی ارادے غالب آئے اور ”ربوہ“ ایک زندہ اور دائی معجزہ کے طور پر قائم ہو گیا.اس نہایت مشکل وقت میں بھی حضور قادیان کی آبادی اور حفاظت کے فرض سے کسی لمحہ بھی غافل نہ ہوئے اور آپ کی تفصیلی ہدایات اور رہنمائی کی روشنی میں 313 درویشوں نے ساری جماعت کی نمائندگی میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو پیش کر دیا کہ ان کے زندہ رہنے سے ان کے مرجانے کے امکانات کہیں زیادہ اور کہیں یقینی تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ان درویشوں کے ذریعہ دنیا کے اس کو نہ میں اذان کی آواز میں برابر آتی رہیں.مرکزی مساجد برابر آباد در ہیں.خدمت دین کا کام بھی جاری رہا.اس کام کی عظمت و شان اس سے ظاہر ہے کہ تقسیم برصغیر سے قبل بٹالہ ، امرتسر اور لدھیانہ وغیرہ مشرقی پنجاب کے مشہور شہروں میں بہت سے اسلامی مدر سے اور مشہور علماء موجود تھے.ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو احمدیت کی مخالفت کو ہی اپنے لئے وجہ شہرت سمجھتے تھے.مگر ملک کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں وہ ادھر ادھر بکھر کر رہ گئے.انہوں نے پیش آمدہ مشکل حالات میں خدا اور اس کے رسول صلیہما السلام کی خاطر قربانی پیش کرنے کی نسبت 157

Page 159

اپنی جانوں اور اموال کی حفاظت کو متقدم سمجھا اور پاکستان آکر بڑی بڑی جائیداد میں حاصل کرنے اور مساجد و مدرسوں کے نام پر اپنے کاروبار چمکانے شروع کر دئے.قادیان کے ماحول میں بڑی بڑی گڑیاں اور خانقاہیں بھی پائی جاتی تھیں جہاں بہت بڑی تعداد میں نذرانے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور سالانہ عرس بڑی شان و شوکت سے منائے جاتے تھے.اب بٹالہ شریف، مسانیاں شریف اور رتڑ چھتڑ کی گدیاں خالی اور ویران ہوگئیں اور ان مقامات کی بزرگی اور تقدس کے قصیدے پڑھنے والے اپنے بزرگوں کے مزاروں کو ہندوؤں اور سکھوں کی تحویل میں دے کر اپنی جان بچا کر بھاگ گئے.مگر وہ خدائی کو نیل جو قادیان سے پھوٹی تھی ، جس پر مخالفت کی آندھیاں روز اول سے ہی چلنا شروع ہوگئی تھیں وہ ان مخالف حالات میں بھی مارنے والے سے بچانے والا زیادہ قابل اعتماد ہے پر ایمان ویقین کی وجہ سے وہاں سے بھاگ کر آنے کو اپنی موت اور ہلاکت سے بدتر سمجھتے ہوئے مخالفانہ نعروں اور تلواروں کے سائے میں اپنی گردن خدا کے آگے جھکائے ہوئے هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ (الأحزاب: 23) یہ تو وہی حالت ہے جس کا خدا اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے.کا ورد کرتے ہوئے اپنے ایمانوں اور قربانیوں میں پہلے سے بھی آگے قدم بڑھاتے چلے گئے.خدا تعالیٰ نے ان کی قربانی کو قبول فرما یا اور اس مقدس مقام کو ویران وبے آباد ہونے سے بچا لیا.درمیانی حالات وواقعات بھی بہت ایمان افروز ہیں تاہم ان پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ لکھا جائے گا.مگر اس جلسہ سالانہ پر ہم نے جو ایمان افروز نظارے دیکھے وہ خدائی فضلوں اور احسانوں کا ایک بے مثال جلوہ تھا.حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قادیان کے گلی کوچوں میں بڑی محبت اور عقیدت سے جلوہ افروز تھے.دنیا بھر سے پروانے شمع احمدیت کے طواف کے لئے موسم کی سختیوں اور سفر کی صعوبتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑی تعداد میں پہنچ کر زبان حال سے آنحضرت سال اینم کی پیش خبریوں اور اسلام واحمدیت کی سچائی کا اعلان کر رہے تھے.158

Page 160

جماعت کے مخالف ہمیشہ یہ تعلی کیا کرتے ہیں کہ ہم ہر جگہ مرزائیوں کا تعاقب کریں گے.جہاں تک انسانی کوشش کا تعلق ہے انہوں نے اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر پیچھے مڑکر دیکھنے سے یہی نظر آتا ہے کہ وہ مخالفت میں جائز و نا جائز کی حدود کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی نا کامی کے سوا کچھ حاصل نہ کر سکے اور جماعت کی ترقی میں کسی طرح کی روک نہ ڈال سکے.کیونکہ جماعت تو آسمانی مدد سے آگے بڑھ رہی ہے اور یہ لوگ ہمارے تعاقب میں وہاں تک رسائی نہیں پاسکتے.آسمانی میں، عدو میرا زمینی، اس لئے میں فلک پر ہوں، اُس کو ہے بل کی تلاش الفضل انٹرنیشنل 3 فروری 2006ء) 159

Page 161

پیش گوئی مصلح موعود کا پس منظر اور عظمت پیشگوئی مصلح موعود اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے عظیم پروگرام کا ایک حصہ ہے.تاہم فوری طور پر اس کا ایک ذریعہ یا سبب قادیان کے معز ز غیر مسلموں کی مندرجہ ذیل درخواست تھی : وو...جس حالت میں آپ نے لندن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شده خط بھیجے ہیں طالب صادق ہو اور ایک سال تک ہمارے پاس آکر قادیان میں ٹھہرے تو خدا تعالیٰ اس کو ایسے نشان درباره اثبات حقیقت اسلام ضرور دکھائے گا کہ جو طاقت انسانی سے بالا تر ہو.سو ہم لوگ آپ کے ہمسایہ اور ہم شہری ہیں لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم طالب صادق ہیں...ہم لوگ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیں جن میں زمین و آسمان کو زیروزبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت ہے.ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں.جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راستبازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی رو سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے یا ایسے عجیب 160

Page 162

طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے برگزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 92 تا94) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہمیشہ اشاعت تبلیغ اسلام کے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے اس پیشکش کو قبول فرماتے ہوئے لکھا: وو...آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے درخواست کی ہے مجھ کو ملا...بہ تمام تر شکر گزاری اس کے مضمون کو قبول و منظور کرتا ہوں اور آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ صاحبان ان عہود کے پابندرہیں گے جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جلشانہ کی تائید و نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان اسکو دکھلا دیا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو...اے قادر مطلق وکریم ورحیم ہم میں اور ان میں سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کر سکے.آمین ثم آمین.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه 95-96 ) حضور عالم خصوصی دعاؤں کے لئے ہوشیار پور تشریف لے گئے اور وہاں چالیس روز تک دوسرے کاموں سے الگ ہو کر اثبات حقیقت اسلام کے لئے کسی غیر معمولی نشان کے ظاہر ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہے.ان دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کو بہت برکتیں اور افضال حاصل ہوئے جن میں سے ایک وہ پیشگوئی بھی تھی جو عام طور پر پیشگوئی مصلح موعود کے نام.مشہور ہے اور آپ نے 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار میں شائع فرمائی اور ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے: ” خدائے رحیم وکریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے(جل شانہ وعزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا 161

Page 163

ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو بپا یہ قبولیت جگہ دی..سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عنایت ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.“ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل ص 100 ) اس پیشگوئی میں ایک ایسے بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری دی گئی تھی جو غیر معمولی صفات کا حامل ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.اس عظیم پیشگوئی میں غیر معمولی تائید و نصرت کے وعدے تھے ان کا ذکر کرتے ہوئے حضور عال السلام فرماتے ہیں:...میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے میرے اور تیرے ناکام رہنے کے درپے ہیں اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی و نامرادی میں مریں گے اور خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے...اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے...( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 100-103) اس پیشگوئی کو مردوں کے زندہ کرنے سے صد با درجہ بہتر قرار دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اسلام خداوند 162

Page 164

کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سواگر چہ بظاہر یہ نشان احیاء موتی کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مردوں کے زندہ کرنے سے صد بہادرجے بہتر ہے.مردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلای ایلام کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.اے لوگو میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت.جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ درحقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم صلی الا یہ کام ہے حملہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا بلکہ اپنی خاک اس کے سر پر اس کی آنکھوں پر اس کے منہ پر گر کر اس کو ذلیل ورسوا کرے گی اور ہمارے نبی کر یم سالا ایلم کی شان شوکت اس کی عداوت اور اس کے بخل سے کم نہ ہوگی بلکہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ ظاہر کرے گا.کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو.ایسے ہی تم آنحضرت سیلانی ایم کے آفتاب صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل ص 115 ، 116 ) الفضل انٹرنیشنل 18 فروری 2005ء ) 163

Page 165

محبوب خدا اصل سی ایم کی محبت آنحضرت سالا السلام کی ذات اقدس و بابرکات پر مخالفین اسلام کے بے جاحملوں پر طبعی طور پر مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں مسلمانوں نے ایسی مخالفانہ کتابوں کو ضبط کروانے کے لئے حکومت کو احتجاجی مراسلے اور میمورنڈم بھجوائے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طریق کو پسند نہ فرمایا کیونکہ مخالفانہ دلآزار باتوں پر حکومت سے یہ مطالبہ کرنا کہ ایسی کتاب کو ضبط کر لیا جاوے تو اس کا چنداں فائدہ نہیں ہوتا.وہ کتاب تو چھپ کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہوتی ہے اور جوز ہر اس نے پھیلانا تھا وہ پھیلا چکی ہوتی ہے اب اگر وہ کتاب ضبط بھی کر لی جاوے تو اس کا کیا فائدہ!! دوسرے آپ نے فرمایا کہ حکومت سے کتاب کی ضبطی کی درخواست کا یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ ہم لوگ حضور ملی یہ تم پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کا جواب دینے کی صلاحیت و اہلیت نہیں رکھتے اور اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے چاہتے ہیں کہ حکومت اس کتاب کو ضبط کر لے.حالانکہ حضور علیہ السلام کی ذات اقدس تو اخلاق فاضلہ کا بے مثال بہترین نمونہ تھی.آپ کی ذات پر نا پاک الزام لگانے والا تو چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتا ہے.اس کی کوشش کی ناکامی یقینی ہے.اور اس کا تھوکا ہوا اس کے اپنے ہی منہ پر پڑے گا.حضور علیہ السلام نے جو طریق پسند فرما یا وہ یہ تھا کہ بے جا الزامات کا مدلل و موثر جواب دے کر ہم سیرت نبوی سلیم کی عظمت کا سکہ دنیا سے منوائیں.164

Page 166

اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد بربان محمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریوں اور عیسائیوں کی دلآزاریوں اور ہرزہ سرائیوں کے جواب میں جو کتب تحریر فرمائی ہیں وہ اسلام اور آنحضرت صلای اینم کی شان کو ظاہر و ثابت کرنے کے لئے ایسالا جواب کارنامہ ہے جسکی عظمت کا اعتراف حضور کے مخالفوں نے بھی کیا اور آج بھی احمد یہ علم کلام کا قابل فخر نمونہ ہے.حضرت مصلح موعود بنی ان کے زمانہ میں بعض ایسی دل آزار کتابیں شائع ہوئیں تو مسلمانوں میں شدید رد عمل ہوا لیکن اس رد عمل اور غم وغصہ نے ایسی صورت اختیار کر لی جس میں لاقانونیت اور خون خرابہ شامل ہو گیا.حضور نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ ہمیں کسی حالت میں بھی اسلامی اخلاق کو نظر انداز کر کے غلط راستہ پر نہیں جانا چاہئے بلکہ اپنے غم وغصہ کو اس طرح ظاہر کرنا چاہئے کہ اس میں بھی صاحب خلق عظیم کے اسوہ حسنہ کی جھلک نظر آئے.حضرت مصلح موعود بنا لون نے یہ بھی فرما یا کہ آنحضرت صلی یا یہ تم پر ایسے غلط اور بے سروپا الزامات لگائے جانے میں مسلمانوں کا بھی کسی قدر دخل ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ ومطہرہ کولوگوں تک پہنچایا ہی نہیں ہے.اگر ہم سیرت کو بیان کریں اور لوگوں کو پتہ چلے کہ حضور صلی یتیم اخلاق فاضلہ کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں تو ایسے دریدہ دہن معترضوں کی بات سننے کے لئے کوئی تیار نہ ہوگا اور ان کی باتوں کاسی پرکوئی اثر نہ ہوگا.حضور پائینہ کی استحریک پر ہندوستان میں سیرت کے جلسوں کا آغاز ہوا.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ خطبات میں عشق رسول ملالہ اسلام کے تقاضوں کو نہایت موثر رنگ میں بیان کرتے ہوئے سیرت مقدسہ بیان کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی تاکید فرمائی ہے.کیونکہ سیرت کوصرف پڑھنے یا بیان کرنے سے تو اصل فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا.ہم اپنے عظیم الشان پیغمبر کے پیغام 165

Page 167

اور سیرت سے اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ یہ سیرت ہماری زندگیوں میں داخل ہو جائے، ہمارے افعال و اعمال، ہمارے باہم معاملات ، ہماری باتوں میں سیرت مقدسہ کی پاکیزگی ود کشی نظر آئے.اور ہم سے ملنے والے کو یہ کہنا پڑے کہ حضور صلی اینم کی محبت اور پیروی کی برکت سے احمدی دوسروں سے مختلف اور بہتر ہیں.ہمار اطمح نظر صحابہ کرام کا طرز زندگی ہے جو حضور مالی ایلام کی قوت قدسیہ کی برکت سے آسمان کے ستاروں کی طرح روشن اور دنیا کی رہنمائی کا ذریعہ بن گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دو سلوک وہ ہے جو لوگ آپ عظمندی سے سوچ سمجھ کر اللہ اور رسول کی راہ اختیار کرتے ہیں جیسے فرما یا قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله آل عمران (32) یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننا چاہتے ہو تو رسول کریم صا الم کی پیروی کرو.وہ ہادی کامل وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اٹھائیں کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی.ایک دن بھی آرام نہ پایا.اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور پر وہی ہوں گے جو اپنے متبوع کے ہر قول وفعل کی پیروی پوری جد و جہد سے کریں.متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا.سہل انگار اور سخت گزار کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا..سالک کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ رسول کریم صل السلام کی مکمل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے.‘“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 17 ) اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو بیان کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق بخشے.166 الفضل انٹرنیشنل (11 مارچ 2005ء)

Page 168

قوم کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب گزشتہ صدی میں برصغیر ہندوستان کو سیاسی و مذہبی دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل تھی.یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود تھے.مسلمان اس ملک پر لمبا عرصہ حاکم کی حیثیت میں رہے تھے مگر مغلوں کی اس حکومت نے اکبر اور اورنگ زیب کے زمانہ میں جوشان وشوکت حاصل کی تھی وہ حکمران خاندان کی باہم آویزش اور عیش وعشرت کی نذر ہوگئی اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دہلی کی مرکزی حکومت برائے نام رہ گئی اور طوائف الملوکی کے باعث پنجاب میں جو حکومت قائم ہوئی وہ بھی جلد ہی باہمی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گئی اور ظلم و بربریت کے مترادف سمجھی جانے لگی.پڑھا لکھا ہونا یا مسلمان ہونا ایک ناقابل معافی جرم ہو گیا.اذان دینا، نماز پڑھنا یا دیگر اسلامی شعائر پر عمل پیرا ہونا قریباً ناممکن ہو گیا.کئی مساجد غیر مسلم عبادت گاہوں میں تبدیل ہو گئیں.ایسی حالت میں انگریز جنہیں یورپ میں جرمنی اور فرانس سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا، تجارت کی غرض سے ہندوستان پہنچ گئے ، مگر مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے ان کو ہندوستان ایک ترنوالہ یا سونے کی چڑیا نظر آئی اور ان کو بغیر کسی غیر معمولی مقابلہ یا مشکل کے ہندوستان کی حکومت پر قبضہ حاصل ہو گیا.انگریزوں کو اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لئے ہندومسلم اختلاف سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا اور اس طرح چونکہ انہوں نے مسلمانوں کی برائے نام حکومت کو ختم کیا تھا اس لئے مسلمانوں کو دبانے اور محکوم رکھنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس سے مسلمانوں کی بددلی اور کم ہمتی میں اور اضافہ ہو.غیر مسلم مسلمان حکومت کے خاتمہ کی وجہ سے خوش تھے اور اس وجہ سے وہ انگریز کے قریب ہو گئے اور انہیں علم ، تجارت و سیاست میں برتری حاصل ہوتی چلی گئی.167

Page 169

مسلمانوں کی بہتری کے لئے کوئی اجتماعی کوشش تاریخ میں نہیں ملتی.بعض مخلص اور دردمند دل رکھنے والوں نے انفرادی کوشش کی یا 1875ء میں نہایت بے تدبیری اور افراتفری میں بغیر کسی سکیم یا قابل اعتماد قیادت کے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی جو کوشش کی گئی وہ مسلمانوں کے لئے اور زیادہ مشکلات کا باعث بن گئی.مسلمان جو علم اور عمل میں پہلے ہی بہت پیچھے تھے وہ نا قابل اعتبار اور نا قابل اعتماد سمجھے جانے لگے.اس انتہائی تکلیف دہ اور مایوس کن صورت حال نے عیسائی مبلغین کی توجہ ہندوستان کی طرف مبذول کرائی اور مختلف عیسائی فرقوں اور حکومتوں نے ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ایک وسیع جال پھیلا دیا.ان عیسائی مبلغوں کو بے پناہ وسائل حاصل تھے.عیسائی حکومتیں ان کی پشت پر تھیں.اس ظاہری شان وشوکت اور احساس برتری سے مالامال عیسائی مبلغین کا رستہ روکنے والا کوئی بھی نہ تھا.ان مبلغین کو مسلمانوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دوبارہ اصلاح خلق کے لئے بھیجے جائیں گے، بہت تقویت حاصل ہوتی رہی اور ان کو یہ یقین ہو گیا کہ یہاں پر زمین تو پہلے ہی تیار ہے ہم بہت جلد ہندوستان کو فتح کر کے صلیب کا جھنڈا اسلامی ملکوں میں بھی گاڑ دیں گے.ہندوستان کے ہندو جو پیدائشی اور رسمی طور پر ہندو تھے وہ بھی آریہ سماج کے نام سے اپنے مذہب کی تبلیغ آمادہ پرکار ہو گئے.ہندو تجارت صنعت ،سیاست ہرمیدان میں مسلمانوں سے آگے تھے.ان کی تعداد بھی زیادہ تھی.یہی وجہ ہے کہ ان کے مقابل پر مسلمان ہزیمت خوردہ نظر آرہے تھے.مسلمان بالعموم ہندوؤں کے مقروض تھے اور ان کی تھوڑی بہت جائیداد اور زمینیں بھی آہستہ آہستہ ہندوؤں کے قبضہ میں جارہی تھیں اور ان کے خوفناک سودی کاروبار کی وجہ سے ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی جارہی تھی اور مسلمان ہر لحاظ سے رو بہ زوال تھے.اس انتہائی مہیب اور خوفناک سنائے اور تاریکی کی وجہ سے کہنے والوں نے اسلام کا مرثیہ تک کہہ ڈالا اور اس طرح اپنے عجز و درماندگی کے اعتراف کے علاوہ عملاً یہ تسلیم کر لیا کہ ان کے خیال میں مسلمانوں کی حالت نا قابل اصلاح ہو چکی تھی.168

Page 170

مگر قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ کرنے والے خدا نے اپنے وعدہ کو یادرکھا اور اس انتہائی مایوسی اور کسمپرسی کے عالم میں قادیان سے یہ آواز بلند ہوئی.قوم کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب وادئ ظلمت میں کیوں بیٹھے ہو تم لیل و نہار تشنہ بیٹھے ہو کنار جوئے شیریں حیف ہے سر زمین ہند میں چلتی ہے نہر خوشگوار یہ کوئی معمولی آواز نہ تھی.اس آواز میں خدائی طاقت ونصرت جلوہ گر تھی.وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار دنیا نے اسلام کی تعلیم کے حسن و خوبصورتی کا پھر سے نظارہ کیا.سیرت مقدسہ کی عظمت ظاہر ہونے لگی.قرآن مجید کی اعجازی شان نمایاں ہونے لگی.عیسائیوں کے بڑھتے ہوئے پاؤں رک ہی نہیں گئے بلکہ صحیح اسلامی عقائد اور قرآنی علم کلام کے سامنے ان کے پاؤں اکھڑ گئے.آریوں کو ان کے بگڑے ہوئے عقائد جیسے روحوں کا ازلی ابدی ہونا اور نیوگ وغیرہ کی حقیقت بتائی گئی تو مسلمانوں کو ہندو بنانے کی بجائے انہیں اپنی پڑ گئی.دوستو اس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کے کھانے کے دن الفضل انٹرنیشنل 25 مارچ 2005ء 169

Page 171

كِفَالَتِ یتامی- ایک اہم جماعتی ذمہ داری قرآن مجید میں محروم طبقات کے حقوق کی حفاظت کے لئے نہایت پر حکمت اور واضح ہدایات پائی جاتی ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ محروم لوگوں کی محرومی وکمی دور ہو سکے بلکہ یہ بھی کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح معاشرہ کے مفید اور ذمہ دار وجود بن سکیں.قرآن مجید نے اصولی طور پر انفاق یا خدمت خلق کے لئے یہ ہدایت دی کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريت: 20) معاشرہ کے معزز ومتمول افراد کے اموال میں سائلوں اور محروم لوگوں کا حق ہے.گویا مستحق افراد کی جب مدد کی جاتی ہے تو یہ ان کا حق ہوتا ہے جو انہیں واپس مل رہا ہوتا ہے.یہ کوئی ایسا احسان نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں نیچی رہیں اور وہ زیر بار احسان ہونے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہو جائیں اور اس طرح معاشرہ کا مفید حصہ بننے کی بجائے غلط راستوں پر نکل کر معاشرہ کے لئے ایک نا قابل علاج ناسور بن جائیں.محروم لوگوں میں یتامی بھی شامل ہیں یعنی ایسے افراد جو باپ کی شفقت ،نگرانی اور کفالت سے محروم ہو جا ئیں.ایسے بچوں میں وہ بچے بھی ہوتے ہیں جن کے والد فی سبیل اللہ جہاد میں مصروف ہونے کے دوران جام شہادت نوش کر لیں اور اپنے پیچھے اپنی سوگوار بیوہ اور یتیم بچے چھوڑ جائیں.اگر یہ بچے زمانے کی ٹھوکریں کھانے ، در بدر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دئے جائیں تو یہ ایک ایسی معاشرتی غلطی یا گناہ ہوگا جس کا خمیازہ پورے معاشرہ کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ بالعموم ایسے یتیم اپنے 170

Page 172

منفی رجحانات کی وجہ سے اپنی محرومیوں کی تلافی یا ان کا بدلہ لینے کے لئے مجرمانہ ذہنیت کے حامل بن جائیں گے.یہی وجہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے بچوں کے پس منظر کی تحقیق و تجزیہ کے نتیجہ میں ہمیشہ یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ماں باپ کی علیحدگی یاماں باپ سے محرومی کے رد عمل کی وجہ سے بچوں میں مجرمانہ رجحان پیدا ہو گیا.شہداء کے بچوں کا تو معاشرہ پر دو ہر احق ہوتا ہے مگر دوسرے یتیم بھی مذکورہ بالا قرآنی حکم کے مطابق معاشرہ یا جماعت پر اپنا حق رکھتے ہیں.تاریخی حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ جو اپنے یتامی کی عزت نفس اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور اس قومی فرض کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتا ان میں قربانی کی روح برقرار رہتی ہے کیونکہ افراد جماعت کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں ان کی اولاد کو ضائع ہونے سے بچا لیا جائے گا.گویا بیتامی کی خبر گیری قوم میں قربانی کی روح کو نہ صرف زندہ رکھتی بلکہ اس میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے.اس عظیم قومی فائدے کے ساتھ ساتھ اس اخلاقی و معاشرتی ذمہ داری کو با حسن ادا کرنے سے یتامی معاشرہ کا مفید وجود بن جاتے ہیں.وہ مجرمانہ ذہنیت اور بداخلاقی و جرائم میں ملوث ہونے کی بجائے مفید اور کارآمد وجود بن کر نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے اور خود کفیل بن جاتے ہیں بلکہ اپنی عمدہ تربیت اور اچھی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے قابل فخر سر مایہ بن سکتے ہیں.قرآن مجید یتامی سے حسن سلوک کی ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے: فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ (الضحى (10) یتیموں سے سختی ، درشتی نہیں بلکہ پیار ومحبت کا سلوک کیا جاوے.آنحضرت صا السلام نے بھی یتیموں سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ: آنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک ہاتھ کی دو باہم ملی ہوئی انگلیوں کی طرح 171

Page 173

ہوں گے.فخر موجودات ، سرور کائنات، حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم تھے جو اپنی فطری سعادت و جبلی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ کے لئے دنیا بھر کے رہنما قرار پائے.قرون اولیٰ میں متعدد ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ یتامی اور آزاد کردہ غلام نہایت بلند علمی وروحانی مقام پر فائز ہوئے.قادیان میں یتامی کی کفالت کی انفرادی مثالوں کے علاوہ جماعتی طور پر ”دار الشیوخ “ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا جس میں معاشرہ کے محروم طبقہ کی کفالت کا انتظام تھا.اس زمانہ میں جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی.اس کام کے لئے جوفنڈ مختص تھے وہ کافی نہ ہوتے تھے اور بعض دفعہ یہ صورت بھی پیش آجاتی تھی کہ دوسرے وقت کے کھانے کے انتظام کے لئے راشن وغیرہ موجود نہ ہوتا تھا.حضرت میر محمد اسحق صاحب بنی ہو.اس ادارہ کے منتظم ونگران تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بلند مقام پر فائز فرمایا تھا.وہ اپنی غیر معمولی خاندانی وجاہت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی علمی قابلیت اور انتظامی قابلیت سے مالا مال تھے.آپ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر ہونے کے علاوہ قضاء کے اہم منصب پر فائز تھے.اپنی ان مصروفیات کے علاوہ بیتامی کی کفالت کی ذمہ داری بھی آپ کے سپر تھی.آپ کے ساتھ کام کرنے والے بتایا کرتے تھے کہ جب کبھی آپ کو مالی کمی کی اطلاع ملتی تو آپ خود قادیان کے بعض محلوں میں جا کر احباب جماعت کو مالی قربانی کی تحریک فرماتے اور اس طرح کفالت یتامی کا یہ نہایت بنیادی اور اہم کام جاری رہتا.حضرت میر صاحب بنی وہ نہایت محبت، پیار، شفقت اور توجہ سے اس کام کو اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیتے رہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس ادارہ میں تربیت پانے والے متعدد یتامی معاشرہ کے مفید وجود بن کر اپنے خاندان اور جماعت کی اہم خدمات سرانجام دینے کی توفیق پاتے رہے.ربوہ میں ” کفالت یکصد یتامی کی سکیم بڑی کامیابی سے جاری ہے.اس بابرکت پروگرام 172

Page 174

کے تحت سینکڑوں مستحق بیتامی کی کفالت ہورہی ہے.ایسے مستحق بچوں کی نگرانی وتربیت کے لئے مقامی مربی اور عہدیداران جماعت کے علاوہ مرکزی مربی صاحبان بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں.بچوں کی والدہ بھی تربیت کی بنیادی خدمت کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں اور اس طرح مل جل کر بچوں کی کفالت و تربیت کے نہایت ضروری اور مشکل کام کو بہتر رنگ میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے جماعتی کاموں کی طرح یہ کام بھی خوشکن نتائج پیدا کر رہا ہے اور ایسے کئی بچے جنہوں نے اس سکیم سے استفادہ کیا اب معاشرہ پر بوجھ بنے رہنے کی بجائے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معز ز عہدوں پر فائز ہو کر اپنے خاندان، جماعت اور ملک وقوم کی مفید خدمات سرانجام دے رہے ہیں.173 الفضل انٹرنیشنل 15 اپریل 2005ء)

Page 175

مشرقی افریقہ جماعت احمدیہ کے تعلق میں سرزمین افریقہ کو یہ اولیت حاصل ہے کہ وہاں حضرت اقدس مسیح موعود کی زندگی میں ہی پیغام احمدیت پہنچ گیا تھا اور حضرت مسیح موعود علی نام کے بعض صحابی وہاں پہنچے.مشرقی افریقہ میں احمدیہ مشن کا قیام بھی غیر معمولی حالات میں ہوا.برطانوی نو آبادی ہونے اور قریب ہونے کی وجہ سے ہندوستان سے تاجر اور ملازمت پیشہ لوگ وہاں قسمت آزمائی کے لئے بآسانی جاسکتے تھے.وہاں جب ریل گاڑی کا اجراء ہوا تو ہندوستانی مزدور اور کاریگروں کو تجربہ کار اور محنتی سمجھے جانے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں وہاں پہنچے اور آباد ہونے کے مواقع حاصل ہوئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی اپنی دینداری اور بہتر اخلاق کی وجہ سے ترقی کے بہتر مواقع حاصل کرنے لگے تو دوسرے لوگوں کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور نیک فطرت لوگ احمدیت میں شامل ہونے لگے جس پر وہاں بھی مخالفت شروع ہو گئی.مخالفت کی اس رو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور احمدیت کو نا کام بلکہ ختم کر دینے کے خیال سے مخالفوں نے پنجاب سے ایک مولوی کو وہاں بلانے کا انتظام کیا.ان مولوی صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا.مختلف شہروں میں جلسوں کا انعقاد مخالفت میں اور اضافہ کا باعث بنا.احمدیت کی مخالفت تو کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے.قادیان میں جب ان حالات کا علم ہوا تو وہاں سے حضرت مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، ایک نوعمر مگر پر جوش مبلغ کو وہاں بھجوایا گیا.مشرقی افریقہ کی مختصر سی جماعت جو مخالفت کی شدت کی وجہ سے پہلے ہی تبلیغ و قربانی کے 174

Page 176

فرائض کو عمدگی سے ادا کر رہی تھی.مکرم شیخ صاحب کی آمد سے ان میں ایک نئی روح اور ولولہ پیدا ہو گیا.مخالف مولوی صاحب کو ان حالات کا پوری طرح اندازہ نہیں تھا.ان کا خیال تھا کہ وہ بھولے بھالے جاہل لوگوں میں اپنی علمیت اور زبان کی تیزی وطراری کی وجہ سے قبولیت حاصل کر کے ہیرو بن جائیں گے.مگر جب ان کو جماعت کے ایک ایسے عالم باعمل سے مقابلہ کرنا پڑا جو جذ بہ وقف سے سرشار تھا تو انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ چپکے سے واپس گھر چلے جائیں.تاہم محترم شیخ صاحب کو وہاں لمبا عرصہ قیام کی توفیق حاصل ہوئی اور میدان جہاد میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں.مختلف اہم شہروں میں مساجد اور مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا.مشہور عیسائی مناذ بلی گراہم کو قبولیت دعا اور شفا بخشی کے سلسلہ میں چیلنج دیا گیا اور اس چیلنج کو قبول کرنے میں ناکامی سے مشرقی افریقہ بلکہ ساری دنیا کو پتہ چلا کہ مسیح موعود عملیات علمی اور روحانی طور پر ”کسر صلیب“ کا کام سرانجام دے چکے ہیں.اور اسلام کے مقابلہ میں صلیبی مذہب کھڑا نہیں ہوسکتا.مشرقی افریقہ کے مشن کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی خدمت کی توفیق ملی کہ پہلی دفعہ سواحیلی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کر کے اسے وسیع پیمانہ پر شائع کیا گیا.یہ سعادت مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اور ان کے ساتھی مبلغین مکرم شیخ امری عبیدی صاحب مرحوم، مکرم مولا نا محمد منور صاحب، مکرم مولانا جلال الدین قمر صاحب کے حصہ میں آئی.اس طرح اس تاریک براعظم کو قرآنی روشنی سے منور کر دیا گیا.مکرم شیخ امری صاحب بھی مشرقی افریقہ مشن کو ملنے والا ایک خوبصورت پھل تھا.طالب علمی کے زمانہ میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.زندگی وقف کر دی.بہت جوش وجذ بہ کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہے.اس سلسلہ میں ماریں بھی کھائیں مگر ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ خدمت کے میدان میں آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے گئے.جامعہ احمد یہ ربوہ میں مزید تعلیم کے لئے گئے.ان کے ساتھی طالبعلم بتاتے ہیں کہ آپ بہت محنتی اور مخلص نوجوان تھے.رات دیر تک مطالعہ 175

Page 177

کرتے اور صبح بہت جلد اٹھ کر عبادت میں مصروف ہو جاتے.تعلیم مکمل کر کے واپس آئے تو آپ کی ملکی خدمات کے پیش نظر آپ کو وزارت کی پیشکش کی گئی جو آپ نے حضرت مصلح موعود یا بہن کی اجازت سے قبول کر لی اور اس طرح جماعتی خدمات کے علاوہ شاندار ملکی خدمات کی توفیق پائی.آپ سواحیلی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے.مشرقی افریقہ مشن کو یہ خصوصیت بھی حاصل رہی ہے کہ یہاں خدمت بجالانے والے مبلغین سواحیلی زبان سیکھ کر مقامی زبان میں تبلیغ واشاعت اور رفاہی خدمات بجالاتے رہے.مکرم مولانامحمد منور صاحب اور مکرم مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق سواحیلی زبان کی مہارت کے لحاظ سے بھی بہت اچھی شہرت کے مالک تھے.قرآن مجید کے علاوہ سواحیلی زبان میں اہم اسلامی مضامین پر مشتمل نہایت عمدہ لٹریچر تیار کیا جو اپنی افادیت کی وجہ سے احمدی احباب کے علاوہ دوسرے لوگوں میں بھی بہت مقبول ہے.مشرقی افریقہ مشن کی طرف سے East African Times اور Mapenzi ya Mungu دو اخبار بھی نکلتے رہے ہیں.ثانی الذکر اخبار اب تک باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے.برطانوی اقتدار سے آزادی کے بعد انتظامی لحاظ سے مشرقی افریقہ تین مختلف ملکوں یعنی تنزانیہ، یوگنڈا اور کینیا میںتقسیم ہوگیا.تینوں ملکوں میں ہمارے مشن بڑی کامیابی سے جاری ہیں.یہ ممالک حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی قدم بوسی سے مشرف ہو چکے ہیں.اور امید ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حالیہ دورہ سے مزید کامیابیوں اور خدمات کے دروازے کھلیں گے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سفر و حضر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا حافظ و ناصر ہو اور یہ دورہ غیر معمولی تائیدات اور برکات کا مظہر ہو.آمین.الفضل انٹرنیشنل 29 اپریل 2005ء) 00 176

Page 178

عزت وذلت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں م خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے انبیاء دنیا پر یہ ظاہر و ثابت کرنے کے لئے آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ موجود ہے.ان کے استقلال ، توکل اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے دنیا کو خدا تعالیٰ کی صفات اور طاقتوں کا ثبوت ملتا ہے.سچ اور جھوٹ یا حق و باطل کا مقابلہ ہمیشہ سے چلا آتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے بالعموم بظاہر کمزور اور دنیوی شان و شوکت سے محروم ہوتے ہیں مگر ان کی مخالفت کرنے والے اپنی طاقت ، مال و دولت ،ساتھیوں اور مددگاروں کی کثرت کی وجہ سے اپنی کامیابی یقینی سمجھتے ہیں.حق وصداقت کی نتیجہ کامیابی کی عظمت اسی وجہ سے زیادہ اور نمایاں ہو جاتی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ وقت کے ایک ایسے جابر حکمران سے ہوا جو اپنے آپ کو آنا رَبَّكُمُ الأعلى سمجھتا تھا جبکہ حضرت موسیٰ علم تو پلے بڑھے ہی اس کے گھر میں تھے.فرعون نے یقینا یہی سوچا ہوگا کہ ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا یہ کمزور و بے یار و مددگار انسان کس طرح اپنے بلند مقصد میں کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ کی مشکلات میں یہ امر بھی ضرور اضافہ کا باعث ہوتا ہوگا کہ ان کی قوم کے افراد بھی ہر مشکل وقت میں حضرت موسیٰ علیسلام کا ساتھ دینے کی بجائے انہیں مورد الزام ٹھہرانے لگ جاتے تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے والے اپنے وقت کے سب سے زیادہ بااثر اور بارسوخ لوگ تھے.وہ صرف مذہبی لحاظ سے ہی نہیں ، 177

Page 179

سیاسی،اقتصادی ، معاشرتی ہر لحاظ سے ایسے مقام پر فائز تھے کہ بظاہر کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا.یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لاتے ہوئے حاکم وقت کی تائید حاصل کر لی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی حالت کا تو اس بات سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بڑی بے بسی سے کہتے ہیں کہ جنگل کی لومڑیوں کے لئے تو ان کی پناہ گاہیں موجود ہیں مگر ابن آدم ( حضرت عیسی علیہ السلام ) کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے.اسی طرح بائبل کے مطابق آپ کو یہ بھی کہنا پڑا کہ اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اتنے شدید مخالف حالات کے باوجود وہ حضرت عیسی علی نام کو پھانسی دے کر مارنے میں ناکام ہو گئے اور حضرت عیسیٰ علیہ نے ہجرت اختیار کی اور اپنا مقصد حاصل کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو یہ مقابلہ اور بھی شدت اختیار کر گیا.آپ نے مسلسل تیرہ سال شدید مخالفت کا سامنا کیا.آپ کے مصائب و مشکلات اس قدر بڑھ گئے کہ آپ کو ایسی حالت میں ہجرت کے امتحان سے گزرنا پڑا کہ آ سالی یا یہ نیم کے مخالف آپ صلی اے ای ایم کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے بھیڑیوں کی طرح آپ سائینی ایلام کے خون کے پیاسے ہورہے تھے.حق و باطل کی اس آویزش میں یہ حیرت انگیز امر بھی نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں نے کبھی بھی اپنے موقف میں کسی لچک کا مظاہر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے مخالفوں کو یہی جتلاتے رہے کہ حق ہمارے ساتھ ہے اور كَتَبَ اللهُ لا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ( المجادلہ: 22) کے غیر متبدل اصول کے مطابق کامیابی اور فتح ہمارا مقدر بنے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ عجیب قادر ہے اور اس کی قدرتیں عجیب ہیں.ایک طرف نادان مخالفوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے اور ایک طرف فرشتوں کو حکم کرتا ہے کہ ان کی خدمت کریں.“ (روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص 3) 178

Page 180

انبیاء کی مخالفت کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ فرماتے ہیں: ”ہاں یہ ضرور ہے کہ مخالف بھی ہوں کیونکہ سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر شخص جو خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے اس کے لئے امتحان ضرور رکھا ہوا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت: 3-2) امتحان خدا کی عادت ہے.یہ خیال نہ کرو کہ عالم الغیب خدا کو امتحان کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اپنی سمجھ کی غلطی ہے.اللہ تعالیٰ امتحان کا محتاج نہیں ہے، انسان خود محتاج ہے تا کہ اس کو اپنے حالات کی اطلاع ہو اور اپنے ایمان کی حقیقت کھلے.مخالفانہ رائے سن کر اگر مغلوب ہو جاوے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قوت نہیں ہے....خدا کا امتحان یہی ہے کہ انسان سمجھ جاوے کہ میری حالت کیسی ہے.یہی وجہ ہے کہ مامور من اللہ کے دشمن ضرور ہوتے ہیں جو ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دیتے ہیں ،تو ہین کرتے ہیں.ایسے وقت میں سعید الفطرت اپنی روشن ضمیری سے ان کی صداقت کو پالیتے ہیں.پس مخالفوں کا وجود بھی اس لئے ضروری ہے جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹے کا وجود ہے..جس کو خدا نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے وہ کسی کی کوشش سے نابود نہیں ہوسکتا.رسول اللہ لا یا ایہام کا کس قدر عظیم الشان معجزہ ہے کہ ہر طرف سے مخالفت ہوتی تھی مگر آپ سائی یتیم ہر میدان میں کامیاب ہی ہوتے تھے.صحابہ نبی الھند کے لئے یہ کیسی دل خوش کرنے والی دلیل تھی جب وہ اس نظارے کو دیکھتے تھے.اسلام کیا ہے؟ بہت سی جانوں کا چندہ ہے.ہمارے آباء واجداد چندہ ہی میں آئے.اب اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اسلام کوگل ملتوں پر غالب کرے.اس نے مجھے اسی مطلب کے لئے بھیجا ہے اور اسی طرح بھیجا ہے جس طرح پہلے مامور آتے رہے.پس آپ میری مخالفت میں بھی بہت سی باتیں سنیں گے 179

Page 181

اور بہت قسم کے منصوبے پائیں گے لیکن میں آپ کو نصیحۃ للہ کہتا ہوں کہ آپ سوچیں اور غور کریں کہ یہ مخالفتیں مجھے تھکا سکتی ہیں یا ان کا کچھ بھی اثر مجھ پر ہوا ہے؟ ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ ہے جو میرے ساتھ کام کرتا ہے.ورنہ میں کیا اور میری ہستی کیا ؟ مجھے شہرت طلب کہا جاتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس فرض کے ادا کرنے میں مجھے کس قدر گالیاں سننی پڑی ہیں مگر ان گالیوں کو جو دیتے ہیں اور ان تکلیفوں کو جو پہنچاتے ہیں ایک لحظہ کے لئے بھی پرواہ یا خیال نہیں کرتا....میرا خدا میرے ساتھ ہے اور اگر میں خدا کی طرف سے نہ آیا ہوتا تو میری یہ مخالفت بھی ہرگز نہ ہوتی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 413-412) الفضل انٹرنیشنل1 اپریل 2005ء) انسانیت کے ناسور اخلاق سيئه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ چھ امور ایسے ہیں جو انسان کے اعمال کو ضائع کر دیتے ہیں.دوسروں کے عیوب کے پیچھے پڑے رہنا، دل کی سختی ، دنیا کی محبت ، حیا کی کمی ، بے جا بُری خواہشات اور ظلم سے باز نہ آنا.دوسروں کے عیوب کے پیچھے پڑے رہنا.اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں.اس تجسس اور تلاش میں رہنا کہ کسی کی برائی کا پتہ چلے.ایسے لوگ اپنی عام معلومات پر خوش بلکہ نازاں ہوتے ہیں اور جہاں کہیں موقع ملے وہ اپنی اس خوبی کے مظاہرہ کے لئے تیار رہتے ہیں.بلکہ ان کو یہ بات بھی بہت بھلی اور دل خوش کن لگتی ہے کہ لوگ ان کے متعلق یہ سمجھتے ہوں کہ انہیں تو ایسی باتوں کا 180

Page 182

خوب علم ہوتا ہے.ایسے تبصرے ان کی مجلس کو اور گرما دیتے ہیں اور وہ چغل خوری، غیبت استہزاء بلکہ افتراء میں اور تیز ہوتے چلے جاتے ہیں.بعض لوگ تو اپنے آپ کو خدائی فوجدار سمجھنے لگ جاتے ہیں.پہلے کسی کی برائی کو معلوم کرنا اور پھر اس کو ہر وقت اس رنگ میں نصیحت کرنا کہ جو نصیحت سے زیادہ فضیحت اور طعن و تشنیع کا رنگ لئے ہوئے ہو.ان نصائح میں ہمدردی و غم خواری کا دور دور تک کوئی دخل نہیں ہوتا.اس کے برعکس ہم چو ما دیگرے نیست‘ کا رنگ ضرور ابھرتا ہے.یہاں یہ بات کہنے کی تو چنداں ضرورت نہیں کہ ایسی نصیحت کبھی بھی مفید اور کارآمد ثابت نہیں ہوتی.تمام نیکیاں، ہر قسم کی خوبیاں، پیاری باتیں اور اچھی حرکتیں دل کی نرمی سے نکلتی ہیں.دل کی سختی کے نتیجہ میں ہمدردی، پیار، محبت ، افہام و تفہیم ، خوش خلقی ، نرم روی ، کشادہ پیشانی ایسی تمام خوبیاں عنقا ہو جائیں گی.ایسی کھیتی سے کسی اچھی فصل کی تو سرے سے امید ہی نہیں کی جاسکتی.البتہ تیز نوکیلے لمبے زہریلے کانٹے ضرور پیدا ہوں گے.دل کی سختی کی نحوست سے عبادات کی رغبت اور عبادات میں بشاشت بھی کم ہوتی چلی جائے گی.حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی کمی واقع ہوتی چلی جائے گی اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسا شخص خائب و خاسر، نا کام و نامراد ہوکر بدبختی و بدنصیبی کی تصویر بن جائے گا.نرم خوئی کو رحمت الہی قرار دیتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (سورۃ آل عمران آیت ۱۶) یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آپ سال یا پی ایم ان کے لئے نرم خو ہیں.اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ادھر اُدھر منتشر ہو جاتے.دنیا کی محبت ، خدا تعالیٰ سے دوری اور نیکیوں سے محرومی کا باعث بن جاتی ہے.حضور سالی ایلام نے دنیاوی زندگی سے استفادہ کی نہایت پر حکمت مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ دنیا میں انسان ایک مسافر کی طرح ہے.مسافر اپنی سواری یا رستہ کی بجائے اپنی منزل کو اہمیت دیتا ہے اور سواری یا 181

Page 183

راستہ کا اسی قدر خیال رکھتا ہے کہ یہ میری منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے.وہ لوگ جو دنیاوی زندگی اور دنیوی عیش و عشرت کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ دنیاوی اموال اور آسائش کے اسباب تو جمع کر لیں مگر سکون قلب و اطمینان اور ایمان کی دولت سے محروم ہو جائیں.دنیا طلبی کی کوئی حد باقی نہیں رہتی اور عدم اطمینان و پریشانی کی وجہ سے قرآنی محاورہ کے مطابق انسان مخبوط الحواس و مجنون ہو جاتا ہے.ایسے لوگوں کے اموال سے بالعموم یہ لوگ خود بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتے بلکہ دوسرے لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.وہ خود تو آلهُكُمُ التَّكَاثُرُ (التکاثر: 2) کی تفسیر و تصویر بن کر محرومی و نا کامی کی عبرتناک مثال بن جاتے ہیں.اس کے مقابل وہ لوگ جو دنیا سے بے رغبتی اور زہد کا طریق اختیار کرتے ہیں وہ سکون واطمینان اور قناعت و فراغت سے مالا مال ہو کر قرآنی اصطلاح کے مطابق فلاح ونجاح سے فیضیاب ہوتے ہیں اور دنیا ان کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے " الْحَيَانُ خَيْرٌ كُلُّه حیا اور شرم کا طریق تو سراسر " خیر و برکت کا طریق ہے.بے حیائی اور بے شرمی مادر پدر آزاد کر دیتی ہے جس کے نتیجہ میں حرام و حلال کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے.بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شرف انسانیت تو حیا سے ہی قائم و باقی رہتا ہے اور حیا کے زیور سے عاری ہو جانے والا شرف انسانیت سے ہی دستکش ہو جاتا ہے.اس لئے کہا گیا ہے کہ بے حیا باش و ہر چہ خواہی کن بے جا خواہشات اور بڑی بڑی امیدیں اور ارادے بھی دنیا کی محبت میں حد سے بڑھے ہوئے انہماک کی طرح انسان کو حد اعتدال اور صراط مستقیم سے دور لے جانے کا باعث بن جاتے ہیں.ایسا شخص عملی زندگی سے کٹ کر فرضی اور وہمی کیفیت میں ذمہ داریوں کی ادائیگی کی بجائے شیخ چلی کے افسانوی کردار کو ا پنا لیتا ہے.بلند مقصد اور عالی ہمتی اور بے جا بڑی بڑی خواہشات میں بہت بڑا فرق ہے.عالی ہمت 182

Page 184

انسان جو اپنے سامنے بڑے بڑے مقاصد رکھتا ہے وہ تو ایک عملی انسان ہے جو اپنی ترقی و بہتری کے لئے مسلسل کوشاں رہتا ہے.منعم علیہ لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صراط مستقیم اور جادہ اعتدال سے کبھی الگ نہیں ہوتا.کامیابی اس کے قدم چومتی اور خدا تعالیٰ کی رضا اس کو نصیب ہوتی ہے.ظلم کے طریق کو اختیار کرنے والا اور اس غلط طریق سے باز نہ آنے والا شخص عاقبت نا اندیش ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو قادر مطلق سمجھنے لگتا ہے.فرعون نے اپنی طاقت اور ظالمانہ رویہ کی وجہ سے ہی اپنے کو آنار بكُمُ الاغلی سمجھنے کی غلطی کا ارتکاب کیا.ہر بادشاہ اور صاحب اقتدار جو یہ سمجھنے لگ جائے کہ آنا أخي وَآمِنتُ میں زندگی اور موت پر اختیار رکھتا ہوں یا وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جائے کہ میرے اقتدار کی کرسی بہت مضبوط ہے یا اسے یہ زعم ہو جائے کہ میں اس بات کی قدرت رکھتا ہوں کہ جسے چاہوں اسے سرطان اور بیماری قرار دے کر ختم کر دوں وہ ظالم اپنے عمل سے انار بكُمُ الأغلى کا دعویٰ کرتا ہے.ایسے لوگ بھیا نک انجام سے دو چار ہوتے ہیں اور ان کے اس عبرتناک انجام سے اللہ اکبر کی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا اور قابل حمد وستائش ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بداخلاقی سے بکلی اجتناب کرنے اور اچھے اخلاق پر کار بندر رہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 22 اپریل 2005ء 00 183

Page 185

”اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان مختلف قسم کے تعلقات اور رشتہ داریوں کا تجربہ کرتا ہے.بعض تعلقات اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا جیسے والدین اور اولاد کا رشتہ ہے کہ اس میں کوئی انتخاب اور مرضی نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کی مشیت و منشاء سے ہی یہ اور اس سے پیدا ہونے والے دوسرے سارے تعلقات قائم ہوتے ہیں.اس کے برعکس بعض تعلقات میں انسان کو کسی قدر اختیار ہوتا ہے مثلاً ازدواجی رشتوں میں انتخاب اور پسند کا بھی دخل ہوتا ہے.ان میں مشورے اور دعا سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.ان کے علاوہ باہم دوستی اور میل ملاقات کے انفرادی، قومی اور بین الاقوامی تعلقات ہوتے ہیں.قرآن مجید نے ان سب تعلقات کے متعلق نہایت حکیمانہ رہنمائی فرمائی ہے.دوستی عام طور پر ایک بہت ہی سادہ اور بے ضر رقسم کا تعلق سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسے تعلقات بھی انسان کی زندگی میں بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ دنیا کی غالباً ہر زبان میں اس کے متعلق محاورے پائے جاتے ہیں.جیسے کہا جاتا ہے: کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز 184

Page 186

صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع تر اطالع کند اسی طرح کہتے ہیں: حدیث میں آتا ہے کہ : الْمَرْئُ عَلَى دِيْنِ خَلِيْلِهِ فَلْيَنْظُرْ مَنْ يُخَالِلْ انسان اپنے دوست سے اثر لیتا ہے اور اس کے مذہب و طریقے پر چلنا شروع کر دیتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ دوستی کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ ہم کس قسم کے انسان سے دوستی کر رہے ہیں.برے دوستوں سے تعلق کے نتیجہ میں برائیوں اور خرابیوں کی مثالیں تو قدم قدم پر ملتی ہیں.اچھا تعلق اور اچھی دوستی خوش قسمتی کی علامت اور خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہوتی ہے.ایسی ایک دوستی آنحضرت مسی ای ایام اور ان کے قابل رشک دوست حضرت ابوبکر بنی الہیہ کی دوستی ہے.حضرت ابو بکر بنی تھے.اس دوستی کی برکت سے یہ یقین رکھتے تھے کہ میرا دوست کبھی کوئی غلط بات نہیں کرتا اور پھر جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے دوست نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے تو حضور صلی ایم کی خدمت میں حاضر ہوئے.دعوئی کے متعلق سوال کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ حق و صداقت کی مخالفت کے عام رجحان کی وجہ سے میں اس مخلص یکرنگ دوست کی دوستی سے محروم نہ ہو جاؤں اور میرا دوست ہدایت سے بے نصیب نہ رہ جائے ، بدلائل اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی.مگر دوسری طرف حضرت ابوبکر بیان بھی اپنی دوستی اور عقیدت کو بحث ، دلیل طلبی اور حجت بازی کا داغ نہیں لگنے دینا چاہتے تھے اس لئے باصرار یہی پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے.مثبت جواب ملنے پر بکمال شرح صدر اوّل المومنین ہونے کے منفرد اعزاز پرفائز ہو گئے.اور پھر حق رفاقت و دوستی کو اسی طرح نبھایا جس طرح نبھانے کا حق تھا.ہجرت جیسے مشکل اور جان جوکھوں کے موقع پر آپ بکمال اخلاص ہمراہ تھے.غارثور میں خطرناک دشمن سر پر پہنچ گئے 185

Page 187

اور غار میں حشرات الارض کی وجہ سے خطرہ نظر آیا تو اپنے عظیم الشان دوست کی خاطر جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے حضرت ابو بکر بنی ھن کی آنکھوں میں پانی آگیا مگر جذ بہ جانثاری و فدائیت برابر موجود بلکہ پہلے سے زیادہ ہورہا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاں صدیق اکبر کی خدمات وجذبات کی قبولیت کی الہی تصدیق و خوشنودی حاصل ہوئی جسے حضور ما ایلم کی زبان مبارک اور وحی الہی کی عظمت حاصل تھی لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا - غم کی کیا بات ہوسکتی ہے میرے اور تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ ہے.اس غار میں ہم دو ہی نہیں ہیں بلکہ تیسرا خدا تعالیٰ ہے.دوستی اور ایسے تعلقات کے سلسلہ میں قرآن مجید کی نہایت حکیمانہ اصولی ہدایت تو یہی ہے کہ : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَايَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ (النساء: 145) اے ایمان والو اپنے مومن بھائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور پس پشت ڈالتے ہوئے کافروں سے دوستی نہ کرو.اسی طرح فرمایا: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا ( المائدة: 56) تمہاری دوستی کے مستحق تو اللہ تعالیٰ اور مومن ہی ہیں.ایک اور جگہ اس پر حکمت اصول کی وضاحت میں فرمایا:...لا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دیار کا ركُمْ آنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ (الممتحنة: 9) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے حسن سلوک اور انصاف کے برتاؤ سے منع نہیں فرماتا جنہوں نے تمہارے ساتھ خود تعلقات منقطع کر کے جنگ و جدال کا طریق اپنا یا اور اس میں ہر قسم کی زیادتی اور ظلم کے مرتکب ہوئے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے شہروں سے نکال دیا.قرآن مجید کی ان اصولی ہدایات سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں کافروں سے تعلقات رکھنے سے منع فرمایا ہے وہاں ایسے کفار کا ذکر ہے جو دین کے راستہ میں روک بنتے ہوئے ظلم وزیادتی 186

Page 188

سے کام لے کر مسلمانوں کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کے درپے ہوں.ورنہ عام حالات میں عام تعلقات سے تومسلمانوں کو منع نہیں کیا گیا کیونکہ ہر مسلمان پر اسلام کی تبلیغ کرنالازم ہے مگر دوسروں سے بکلی قطع تعلق رکھتے ہوئے تو تبلیغ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اسی طرح ہمارے آقا حضور صلی یا یہ تم کی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ میں بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپ سانیا ایام کے غیر مسلموں سے بھی اچھے تعلقات تھے.دعوی نبوت سے قبل حضور سالی کی اہم تجارتی سفر پر تشریف لے گئے اور باوجود اس کے کہ آپ مالی اسلام کو تجارت کا پہلے سے کوئی ذاتی تجربہ نہیں تھا آپ ایک کامیاب تاجر ثابت ہوئے.آج کل کی اصطلاح یا محاورہ کے مطابق کہا جائے گا کہ Public Relations میں آپ بہت کامیاب تھے.زمانہ نبوت میں بھی آپ کے عیسائیوں ، مشرکوں اور یہودیوں سے تعلقات تھے.ایک مشرک رئیس مکہ سے آپ سال یا راہی ایم نے طائف کے سفر سے واپسی پر استمداد کی.بائبل کے واقف ایک عیسائی سے آپ کی ملاقاتوں کا ذکر احادیث میں موجود ہے.یہودیوں سے تو آپ سان اسلام نے قرض بھی لیا اور پھر احسن رنگ میں اس کی ادائیگی بھی فرمائی.ذاتی دوستی سے متعلق ملنے والی رہنمائی تو بین الاقوامی تعلقات میں بھی مفید اور ضروری ہے.حضور صلی لا الہ تم نے مصر کے قبطیوں سے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت فرمائی.حبشہ کے بادشاہ اور اس کی قوم کا بہت اچھے رنگ میں ذکر فرمایا اور ان کے احسان کو ہمیشہ یادرکھا.حاتم طائی کے قبیلے سے اچھا سلوک فرمایا.مدینہ کے یہودیوں سے تو با قاعدہ معاہدہ کر کے ایک متمدن حکومت کے مثالی رویہ کی نشاندہی فرمائی.اور تاریخ عالم میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام پر فائز ہوکر بے انصافی ، زیادتی ظلم و جبر کے خلاف عدل وانصاف کا ایک شاندار نمونہ چھوڑ گئے.خدا کرے کہ ہم سب ان پر حکمت احکامات پر عمل کر کے دین و دنیا کی سرخروئی وکامیابی حاصل کریں.الفضل انٹرنیشنل-06مئی 2005ء) 187

Page 189

ربوہ اور قادیان کا سفہ دس گیارہ سال کے لمبے وقفہ کے بعد گزشتہ سال کے آخر میں قادیان کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی.قادیان کے ساتھ ہر احمدی کا روحانی اور جذباتی گہرا تعلق ہے خواہ اس نے کبھی قادیان دیکھا بھی نہ ہو.مگر خاکسار کا خاندان تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے ہی قادیان سے وابستہ ہو گیا تھا.پھر میرے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب اور اسی طرح میرے نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کو یہ توفیق حاصل ہوئی کہ وہ ہجرت کر کے قادیان کے ہی ہوکر رہ گئے.خاکسار نے اپنا بچپن اس مقدس بستی میں گزارا.بچپن کے کھیل کو داور دوسرے مشاغل سے زیادہ قادیان کی مساجد، ان مسجدوں میں نماز پڑھانے والے بزرگ اور درس دینے والے علماء کی نہایت پاکیزہ یادیں نمایاں ہیں.ابا جان عبد الرحیم صاحب کو درویشی کی سعادت حاصل ہوئی اور زمانہ درویشی میں بھائی جی یا دیانت صاحب کے پیارے ناموں سے یاد کئے جاتے رہے اور خاکسار کے قادیان سے تعلق میں اس امر سے بھی اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے متعدد مرتبہ قادیان جانے اور وہاں کی برکات سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی.بچپن کی یادوں میں حضرت مصلح موعود نہیں کی یاد سرفہرست ہے.مسجد اقصیٰ میں آپ کے پر ولولہ خطبات ، مسجد مبارک میں مجالس علم و عرفان.خدام الاحمدیہ کے اجتماعات میں تفسیری نکات 188

Page 190

اور معارف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں اور جسمانی صحت کے متعلق آپ کے ارشادات مسجد مبارک کی عقبی سیڑھیوں سے جو چھتی ہوئی گلی میں اترتی تھیں آپ کا مہمات دینیہ کی سرانجام دہی کے لئے آنا جانا.پٹک کے لئے نہر پر یا در یائے بیاس پر جانا،گرمیوں میں ڈلہوزی یا کشمیر جانا، وقار عمل کے لئے اور مختلف خوشی وفی کے مواقع پر اپنے خدام کے ساتھ برابر کی شرکت...یہ کیسی پیاری یادیں یا قیمتی سرمایہ ہے اور قادیان جا کر یہ فلم ذہن میں برابر گھومتی رہتی اور کسی اور ہی عالم میں پہنچا دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا: کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار مگر اس گمنامی اور وہاں پہنچنے کی دشواریوں کے باوجود یہ بھی فرمایا تھا کہ میرے خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ لوگ دور دراز سے ہمشکل رستوں پر سے گزرتے ہوئے بھی یہاں ہجوم در ہجوم آیا کریں گے.یہ وعدہ جو یقینا اس ابتدائی زمانے میں بہت ہی عجیب بلکہ ناممکن سا لگتا ہوگا آج ہم اپنی آنکھوں سے بڑی شان سے پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں.پاکستان اور انڈیا کے مخصوص حالات کی وجہ سے انڈیا کا ویزا حاصل کرنا ہمیشہ ہی جوئے شیر لانے کے مترادف رہا ہے.یہاں لندن سے ویزا حاصل کرتے ہوئے بھی اسلام آباد پاکستان کی یاد تازہ ہوتی رہی اور اگر میرا بیٹا تین دن صبح سے رات تک انڈیا کے ویزا آفس میں دھرنانہ دیتا اور قادیان سے جلسہ میں شمولیت کے لئے دعوت نامہ نہ آتا تو ویزا کا حصول قریباً ناممکن تھا.ویزا ملنے کے بعد ہم خوشی خوشی ربوہ چلے گئے اب تو خدا نے چاہا تو بآسانی قادیان پہنچ جائیں گے.مگر ربوہ جا کر پتہ چلا کہ ابھی ایک اور مشکل مرحلہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اگر ویزا میں اٹاری کا لفظ لکھا ہوا 189

Page 191

ہے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ کو اس ٹرین پر جانا ہوگا جو سمجھوتا ایکسپریس کے نام سے مشہور ہے اور آجکل ہفتہ میں دو دن چلتی ہے.یہ تجربہ بھی نا قابل فراموش تھا.گاڑی کب آئے گی ، کب چلے گی ، کتنا عرصہ سٹیشن پر کھڑی رہے گی، کسی کو بھی معلوم نہ تھا.مسافر، گاڑی کی وسعت و گنجائش سے زیادہ ہیں یا کم، یہ سی کا درد سر نہ تھا.البتہ یہ ضرور تھا کہ جب تک آخری مسافر اپنے بے حساب سامان کے ساتھ امیگریشن اور کسٹم کے مراحل سے گزر نہ جائے گا اس وقت تک گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسافروں کو انتظار میں اس طرح وقت گزارنا ہوگا کہ نہ بیٹھنے کی جگہ ملے گی اور نہ ہی کھانے پینے کا کوئی معقول انتظام ہوگا.ان مراحل کی مشکلات اور صبر آزمائی کا اندازہ اسی شخص کو ہوسکتا ہے جو یہ سب کچھ خود بھگت چکا ہو.مختصر یہ کہ لاہور سے قادیان بلکہ زیادہ معین طور پر اٹاری اور لاہور کا رستہ جو عام حالات میں چند منٹ کا رستہ ہوتا ہے ہم نے پندرہ گھنٹے میں طے کیا.ہمارے پاس سامان کم تھا اس لئے امیگریشن اور کسٹم کے نہایت بے نظم وضبط مراحل نسبتاً جلدی ہو جاتے رہے اور گاڑی میں بیٹھ کر یہ خیال بھی ضرور آتارہا کہ مسیح پاک کو جو بتایا گیا تھا کہ لوگ دشوار گزار رستوں سے قادیان میں آیا کریں گے ان میں یہ دشواریاں بھی تو شامل ہوں گی.خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی زیارت کی سعادت سے جو خوشی اور سکون حاصل ہوتا ہے وہ مذکورہ بالا تکلیف دہ مشکل امور کو بھلانے یا نظر انداز کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے.ان تکالیف اور نا خوشگوار یادوں کو شکر گزاری میں تبدیل کرنے کا ایک اور سامان بھی قادیان میں با افراط نظر آیا.جب یہ دیکھنے میں آیا کہ بعض عشاق نہایت غربت کی حالت میں ، قادیان کی سردی اور موسم کے لحاظ سے بہت ہی ناکافی کپڑوں میں ملبوس تین تین چار چاردن کا سفر کر کے ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے جلسہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں تو اپنی مشکلات اور کوفت بھول کر ان خوش قسمت مومنوں پر رشک آنے لگا جو محض اللہ اس ربانی تقریب میں شمولیت کے لئے اتنی قربانی کر کے وہاں پہنچے تھے.خاکسار کوحرمین شریفین مکہ اور مدینہ کی زیارت کی سعادت بھی حاصل ہو چکی ہے.تمام فیوض 190

Page 192

و برکات کا سرچشمہ تو یہی سرزمین ہے جسے خاتم النبیین مانی ایام کے مولد ومسکن اور مدفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.تاہم آپ کے ایک غلام و خادم کی شبانہ روز دعاؤں سے زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے اس مقام پر بھی دعاؤں اور انابت وخشیت کی اپنی ہی مخصوص کیفیت ہوتی ہے.الدار اور دوسرے مقدس مقامات کی تفصیل تو اب ہمارے لٹریچر میں بیان و محفوظ ہو چکی ہے اس لئے اس کی تفصیل کو چھوڑا جا سکتا ہے مگر یہ بات ضرور قابل ذکر ہے کہ مرورزمانہ سے طبعی طور پر پرانی عمارتوں اور گلیوں وغیرہ کی مرمت کی ضرورت پیش آنے پر نہایت کاریگری اور عمدگی سے 1 اس ضرورت کو پورا کیا گیا ہے.تاہم وہ اونچی نیچی غیر ہموار تنگ گلیاں، وہ کچھی پرانی طرز کی عمارتیں وہ سادگی اور بے ساختگی جو بچپن سے وہاں نظر آیا کرتی تھی نگاہیں اس کی متلاشی ضرور رہتی ہیں اور جہاں کہیں پرانی طرز کی اصلی حالت میں کوئی جگہ یا چیز نظر آتی تھی وہ عجب سکون و آسودگی بخش تھی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں بھی بہت سی خوشکن تبدیلیاں آچکی ہیں.صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر میں توسیع ہوچکی ہے اور ابھی یہ کام جاری ہے.ربوہ میں درخت ، پھل، پھول دیکھ کر تو وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ربوہ کا وہ نظارہ آنکھوں کے آگے گھوم جاتا ہے کہ ایک چٹیل میدان جس میں کم از کم چھ انچ موٹی کل کی سفید تہہ جمی ہوئی تھی اور اس سارے میدان میں کیکر کے 2 درخت دور سے نظر آیا کرتے تھے اور یا پھر پہاڑیوں کے پاس خودرو کانٹے دار چند جھاڑیاں ہوتی تھیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک سرسبز و شاداب قصبہ ہے جس میں درختوں کی قطار میں اور طرح طرح کے خوشمنا پھول اور پھل حضرت مصلح موعود بنی ہونے کی اولوالعزمی اور صبر و استقلال کی داد دے رہے ہیں.خاکساراس مجلس میں موجود تھا جس میں حضرت مصلح موعود بنی امیہ نے لاہور سے آنے والے 191

Page 193

صحافیوں اور معززین سے باتیں کرتے ہوئے اس عزم وارادہ کا اظہار فرما یا تھا کہ ہم اس قصبہ کو ایک خوبصورت سرسبز قصبہ بنا دیں گے اور پہاڑیوں پر بھی سبزہ اگانے کی کوشش کریں گے (اگر تعصب کی آندھی سے ربوہ اور اس کا ماحول متاثر نہ ہوا ہوتا تو اب تک یہ کام پورا ہو چکا ہوتا.بہر حال دیوانے اس ویرانے کو آباد کرنے کی کوشش میں برابر لگے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی محنت کے اچھے نتائج پیدا فرمارہا ہے.) جامعہ احمدیہ قدیم اور جامعہ احمدیہ جدید کی شاندار عمارات جن کی توسیع کا کام بھی بڑے پیمانہ پر جاری ہے بہت ہی خوشکن ہے.اس مادر علمی سے تعلق کی وجہ سے پرانی یادیں تازہ ہوکر شکر کے جذبات میں اضافہ کا باعث بنتی رہیں.ہر دو جامعہ میں وہاں کے پرنسپل صاحبان کی مہربانی اور عزت افزائی سے طلبہ سے ملنے اور باتیں کرنے کی خوشی بھی حاصل ہوئی.اسی طرح مکرم برادرم جمیل الرحمان صاحب رفیق اور مکرم برادرم بشیر اختر صاحب کی سواحیلی کلاسوں کے طالب علموں سے مل کر بھی خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے یہ زیر تربیت نوجوان مبلغین بہت اچھے علمی ماحول میں اپنے علم میں اضافہ اور غیر ملکی زبانوں کو سیکھ کر دنیا میں دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے لئے تیاری کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی محنت و کوشش میں برکت عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل 13 مئی 2005ءصفحه (13) 192

Page 194

آسمانی تائید و نصرت خلافت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ جہت بہترین و مکمل شخصیت کے مالک تھے.آپ مالی می ایستم کی خدا داد صلاحیتیں اتنی نمایاں اور مؤثر ہیں کہ آپ کا ہر ملنے والا ضرور آپ صلی الہیم سے متاثر ہوتا.سعید روحیں اس کی بدولت حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے لئے آپ کے حلقہ عقیدت و محبت میں شامل ہو کر دین ودنیا کی سعادتوں و برکتوں سے بہرہ یاب ہوتیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صحابہ بیان سے محبت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی اپنے آقا پر فدائیت تاریخ مذاہب کا ایک ایسا باب ہے جس کی مثال کسی اور جگہ تلاش کرنا عبث و بیکار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات آپ صلی یا پی ایم کے عشاق کے لئے ایک نا قابل یقین سانحہ تھا جس کے مختلف رد عمل تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں.ایک نہایت دلخراش رد عمل یہ بھی ہوا کہ بہت سے قبائل نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم زکوۃ ادا نہیں کریں گے.اسی طرح تاریخ بتاتی ہے کہ نماز باجماعت سارے عرب میں صرف تین جگہ باقی رہ گئی.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدیم المثال کامیابی کے بعد اور اسلام کی جلد جلد اشاعت و مقبولیت کے بعد یہ صورت حال کیوں پیش آئی.اس کے مختلف جواب ہو سکتے ہیں مگر ایک امر جو بہت ہی واضح ہو کر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس انتہائی خوفناک صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق مسلمانوں کو خلافت کی نعمت عطا فرمائی اور حضرت ابوبکر بنی ہشمند خلیفہ اول مقرر ہوئے.دنیا نے دیکھا 193

Page 195

کہ اس ایک انسان کی قیادت ورہنمائی میں نہ صرف ارتداد کے فتنہ کا خاتمہ ہوا بلکہ مسلمانوں کی عظیم الشان فتوحات اور ترقیوں کا آغاز بھی ہوا.اور اسلام کی ڈولتی ہوئی کشتی منجدھار سے نکل کر اپنے سفر پر تیزی سے چلنے لگی.حضرت مسیح موعود علیہا نے حضرت ابوبکر بن الھن کے اس کارنامے کی وجہ سے ہی ان کو اسلام کا آدم ثانی قرار دیا ہے.حضرت عثمان ذوالنورین بنای ختنہ کے عہد خلافت میں یہودی ریشہ دوانیوں اور قبائلی عصبیت کی وجہ سے بعض فتنے اور اختلافات شروع ہوئے.حضرت عثمان بنی عنہ نے حضرت علی بنی شیشہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مشورہ کے باوجود ان فتنوں کو دور کر نے کے لئے تلوار نہ اٹھائی اور مسلمانوں کے باہم اتفاق و اتحاد کو بچانے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دی.اس کے بعد اختلافات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت علی بنی شیشتن ، چوتھے خلیفہ بھی اس بدامنی کی بھینٹ چڑھ گئے اور اس کے بعد مسلمان خلافت کی نعمت سے محروم ہو گئے اور باوجود اس کے کہ ابھی بعض اکابر صحابہ مسلمانوں میں موجود تھے ، قرآن مجید موجود تھا ، علمائے کرام موجو تھے مگر برکات خلافت کم ہوتی چلی گئیں جس کی وجہ سے عالم اسلام نے ایک ہزار سال کا عرصہ ایک تاریکی کی حالت میں گزارا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں اس ایک ہزار سالہ دور کو فیج اعوج“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے.جہاں اس دور کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی موجود تھی وہاں یہ بھی ذکر تھا کہ اس دور کا خاتمہ مہدی با کی آمد سے ہوگا.امت کی شدید ترین گراوٹ اور زبوں حالی کے بعد اس کی بہتری کے لئے کام کرنے والے کے کام کی عظمت اور اہمیت اور اس کی مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص آپ کو سلام پہنچانے کی تاکید فرمائی.جو مہدی ان کے سکون واطمینان کا باعث وسبب ہی نہیں بلکہ آپ کی کامیابی کی بھی نوید تھی.حضرت اقدس مسیح موعود مالیات نے نشاة ثانیہ کی مہم جاری فرمائی تو سب سے زیادہ مخالفت بھی 194

Page 196

مسلمان کہلانے والوں نے ہی کی مگر اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتر از گمان و دو ہم شان اور قرآن مجید کی دائمی، مسلسل و اعجازی شان کو دلائل و براہین اور روشن نشانوں کی مدد سے ثابت کرتے ہوئے اپنے خدا داد منصب و مقام کا حق ادا کر دیا.1908ء میں آپ کی وفات افراد جماعت اور اسلام کے تمام بہی خواہوں کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ تھا تا ہم آپ اپنی وفات سے پہلے رسالہ ” الوصیت میں اپنے قرب وفات کے الہامات کے علاوہ جماعت کو آئندہ لائحہ عمل کے متعلق جو رہنمائی دے چکے تھے اس کے مطابق آپ کی وفات سے اگلے ہی روز متفقہ طور پر حضرت مولانا نورالدین بنی یہ خلافت کے مقام پر فائز ہوئے.اس نظام کے قیام سے خدائی تائید و نصرت کا سلسلہ بھی قائم ہوگیا اور جماعت احیاء دین وقیام شریعت کے بابرکت سفر پر گامزن ہو گئی.حضرت مولانا نورالدین ہی نہ اپنی کمال انکساری کے ساتھ ساتھ حد درجہ متوکل انسان ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے بہت ہی مقرب انسان تھے.آپ قرآن مجید سے والہانہ محبت وعقیدت رکھتے تھے اور یہی جذ بہ جماعت میں پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے.آپ بیلی عنہ نے اپنے تبحر علمی اور وسعت تجربہ کے پیش نظر خلافت کے نظام کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا.جماعت اس وقت خلافت خامسہ کے مبارک دور میں داخل ہو چکی ہے.خلافت کی برکات اتنی زیادہ ، اتنی نمایاں اور مسلسل ہیں کہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ خلافت کی اہمیت کیا ہے.دنیا والوں نے کئی دفعہ کوشش کی ہے کہ وہ اس عظیم نعمت کو پھر سے حاصل کریں.اس غرض کے لئے دنیاداروں کے طریق پر بڑی زور دار تحریکیں بھی چلائی گئیں مگر تحریک خلافت خواہ سلطنت عثمانیہ کی دوام کی شکل میں ہو، خواہ ابوالکلام آزاد کی طلاقت لسانی اور فصاحت و بلاغت ہو اور خواہ مولا نا محمد علی جو ہر کی ولولہ انگیز قیادت میں ، وہ سب اپنی موت آپ مرگئیں.اور وہ خلافت جو خدا تعالیٰ کے 195

Page 197

ارادہ و منشاء سے قائم ہوئی تھی وہ اپنی بے سروسامانی ، تعداد کی قلت اور مخالفت کی مشکلات کے باوجود ہر سمت میں کامیابی وکامرانی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے.اللّهُمَّ زِدْ وَبَارك الفضل انٹرنیشنل 20مئی 2005ء) پاکستان کے سفیر سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ السیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ.U.K کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ، اسلام اور پاکستان کے سفیر کی خدمت بجالا رہی ہے.جب پاکستان قائم ہوا تو بہت ہی بے سروسامانی اور پریشانی کی صورت تھی.مشرقی پنجاب اور دوسرے صوبوں سے مسلمان نہایت پریشانی کی حالت میں لئے لیٹے پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے.لاکھوں کی تعداد میں ان خانماں بر بادلوگوں کی آبادی و بحالی کے نہ تو انتظامات تھے اور نہ ہی اتنے وسائل تھے.کراچی میں پاکستان حکومت کے اکثر و بیشتر دفا تر عارضی بیرکوں میں بنائے گئے تھے جہاں نہ تو ضروری فرنیچر موجود تھا اور نہ ہی سٹاف اور سٹیشنری.آہستہ آہستہ یہ سامان مہیا ہونا شروع ہوا.تاہم ابتدائی کام کرنے والوں کو بہت مشکلات کا سامنا تھا.اور انہوں نے صحیح معنوں میں مجاہدانہ روح کے ساتھ ابتدائی مشکلات پر قابو پایا اور مطالبات اور شکووں اور شکایات کی بجائے ایک فرض سمجھتے ہوئے پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو گئے.ان مشکل حالات میں قائد اعظم نے اپنی فراست ، معاملہ نہمی سے کام لیتے ہوئے حضرت 196

Page 198

چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بینی شمن کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا.یہ قائد اعظم جیسے عظیم لیڈر کی طرف سے ایک طرف تو حضرت چوہدری صاحب بیان کی قیام پاکستان کے سلسلہ میں مفید و مؤثر خدمات کا اعتراف تھا اور دوسری طرف حضرت چوہدری صاحب نبی اللہ کی غیر معمولی قابلیتوں اور صلاحیتوں پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی.اس وقت گنتی کے چند بڑے بڑے ممالک میں پاکستان کے سفارتخانے قائم کرنے کی کوشش کی گئی.دنیا کے بیشتر ممالک میں نہ تو پاکستان کے سفارتخانے موجود تھے اور نہ ہی کوئی سفیر.تا ہم جماعت احمدیہ نے پاکستان کے غیر سرکاری سفیروں کا کام اپنے ذمہ لے لیا اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد بنا شو کی مصلحانہ رہنمائی میں اپنے وطن کو باعزت طریق سے دنیا میں متعارف کروایا.ایک لمبے عرصہ تک بیرونی دنیا میں پاکستان، اسلام اور احمدیت کو باہم ایک اکائی کے طور پر جانا جاتا رہا.اور یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے.کہ بشمول برطانیہ، یورپ بھر میں لندن ماسک، مسجد فضل لندن ہی تمام مسلمانوں کا مرکز سمجھی جاتی تھی.مسجد فضل کی اس حیثیت اور شہرت کی وجہ سے قائد اعظم کی سیاسی زندگی کے دوسرے دور کا آغاز مسجد فضل لندن سے ہوا.جہاں آپ نے اپنا پہلا خطاب کیا اور جو اس وقت کے پریس میں مسجد فضل کے حوالہ سے ہی شائع کیا گیا.علامہ اقبال کو اس مسجد میں نومسلم بچوں کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے ان بچوں کو اپنی جیب سے انعام دے کر اپنی خوشی و پسندیدگی کا اظہار کرناضروری سمجھا.ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے ابتدائی زمانے میں مسلم لیگ اور اسی طرح کشمیری مسلمانوں کی آزادی اور ڈوگرہ مظالم سے انہیں بچانے کے لئے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی ہر طرح کی مدد ہماری جماعت نے حضرت مصلح موعود بنی ان کی غیر معمولی مدبرانہ رہنمائی میں کی اور اس زمانے میں مسلم لیگ کے پاس بعض اوقات اپنے جلسے کرنے کے لئے ضروری اخراجات بھی نہ ہوتے تھے تو انہیں قادیان سے اخراجات بھجوائے جاتے تھے.اور مسلم لیگ کے ہر جلسے میں قادیان سے 197

Page 199

حضرت مرزا بشیر الدین محمود حدیبیہ کی نمائندگی میں بالعموم حضرت مفتی محمد صادق صاحب بینی لن یا کوئی اور بزرگ ضرور شامل ہوتے تھے.یہ امر بھی ریکارڈ میں موجود ہے کہ آزادی کشمیر کی تحریک کے ابتدائی زمانہ میں اور پھر تحریک پاکستان کے سلسلہ میں جب یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات و مطالبات انگلستان کے ارباب حکومت اور معززین تک پہنچائے جائیں تو اس وقت اس کا واحد ذریعہ احمدی مبلغ ہی تھے جو اپنے تعلقات ، اپنے اثر ورسوخ اور اپنے بلند کردار کی وجہ سے اپنی آواز مؤثر رنگ میں ہر سطح پر باقاعدہ اور منظم طریق پر پہنچا سکتے تھے.پاکستان کی تاریخ کا یہ باب حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد، حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے کار ہائے نمایاں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا.بانی پاکستان ، قائد اعظم کا یہ بہت مشہور قول ہے کہ پاکستان کی بنیاد تو اس دن پڑ گئی تھی جب ہندوستان میں اسلام داخل ہوا اور یہاں کوئی پہلا شخص مسلمان ہو گیا تھا.اگر یہ بات درست ہے اور یقینا درست ہے تو اس بنیادی محاذ پر کام کرنے والا اور کوئی نہیں صرف اور صرف جماعت احمد یہ ہی تھی جسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان اور بیرون ہندوستان اسلام کی تبلیغ کی سعادت حاصل ہوئی.بلکہ اسلام مخالف تحریکوں کے جواب میں اگر کوئی سینہ ٹھونک کر سامنے آیا اور مخالفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی مخالفانہ سازشوں کا توڑ کیا تو یہ سعادت صرف جماعت احمدیہ کو ہی حاصل ہوئی.آریہ سماج نے ہندوستان میں جب شدھی کی تحریک شروع کی اور مسلمانوں کو طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور لالچ وغیرہ دلا کر ہندو بنانا شروع کیا تو ان کی ابتدائی کامیابیوں سے یوں نظر آتا تھا کہ کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ایسے میں ہندوستان کے دور دراز گوشے قادیان سے ہی تائید اسلام کی آواز اٹھی اور احمدی مجاہدین اسلام اس کربلا میں کفن بر دوش کود گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں نہ صرف یہ کہ شدھی کا زور توڑ کر رکھ دیا بلکہ آریوں کو لینے کے دینے پڑ گئے.198

Page 200

جماعت کی تاریخ تو ایسی ہی مثالوں سے بھری پڑی ہے.ہندوستان میں عیسائی انگریز“ حکومت ہونے کی وجہ سے عیسائی پادریوں کے حوصلے بہت بلند ہو رہے تھے اور وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ اس کے بعد مرکز اسلام پر بھی صلیب کا جھنڈا لہرانے کے خواب دیکھ رہے تھے.اس کے مقابلے کے لئے کسی دار العلوم اور کسی خانقاہ سے کوئی آواز نہ اٹھی اور اس سناٹے میں اگر کوئی آواز اٹھی تو وہ پر شوکت آواز مسیح وقت نے قادیان سے بلند کی تھی.امرتسر کی جنگ مقدس، بشپ لاہور کو مقابلے کا چیلنج اور کسر صلیب کے دلائل کی کاٹ اتنی تیز اور مؤثر تھی کہ ہندوستان ہی نہیں خود مرکز عیسائیت میں کھلبلی مچ گئی اور اس کے بعد عیسائیت کی تبلیغ کا وہ رنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا.اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب تک پاکستان کی سفارت پر اعزازی رنگ میں جماعت احمدیہ کا اثر رہا اس وقت تک پاکستان ایک ابھرتی ہوئی اسلامی طاقت کے طور پر پہچانا جاتا تھا.مگر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان دشمن طاقتوں نے پاکستان پر قبضہ جمالیا اور منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، کے مطابق پاکستان اور قائد اعظم کی مخالفت کے داغ دھونے کے لئے ختم نبوت یعنی ایک خالص اسلامی مذہبی مسئلہ کوسیاسی رنگ دے کر جھوٹے پراپیگینڈہ کے طور پر اس پر قبضہ جمالیا اور پاکستان کے ہمدرد ، یہی خواہوں کو ایک طرف دھکیل دیا تو دنیا بھر میں پاکستان کی شہرت ان کی اپنی حالت وحقیقت کے مطابق نا قابل رشک ہو گئی اور یہ موازنہ بہت ایمان افروز اور حقیقت کشا ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور شہرت پہلے بہتر تھی یا آج بہتر ہے.فَاعْتَبِرُوا يَأُولِي الْأَبْصَارِ.الفضل انٹرنیشنل 16 ستمبر 2005ء) 199

Page 201

اطاعد احترام نظام خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو قائم ہوئے ایک سوسال سے زیادہ ہو چکے ہیں.اس سارے عرصہ میں جماعت باوجود شدید مخالفت کے برابر ترقی کے رستہ پر گامزن رہی.ہمارے مخالفوں نے اپنی مخالفت کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے ہمارے خلاف بہت سے جھوٹے الزامات اور بے بنیا داعتراضات کئے اور ہر وہ طریق اختیار کیا جو سچائی کے مخالف سچائی کا رستہ روکنے کے لئے اختیار کرتے ہیں حد تو یہ ہے کہ مخالفت کی آگ کو بھڑ کانے کے لئے یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ ہمارا كلمه لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله نہیں بلکہ کچھ اور ہے.حالانکہ ہماری جماعت کا بچہ بچہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ ہم اس کلمہ پر ایمان رکھتے اور دل و جان سے اپنے آقا محم لا یا یہ تم پردن رات درود پڑھتے اور سلام بھیجتے ہیں.اس شدید تعصب اور دشمنی کے باوجود ہمارے مخالف بھی اس بات کا ضرور اعتراف کرتے ہیں کہ اس جماعت کا نظام اور باہم اتحاد بہت اچھا اور مثالی ہے.آنحضرت صلی سیستم کی بتائی ہوئی خبروں اور پیش گوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اس سلسلہ کی بنیاد رکھی.جماعت نے اس بنیاد پر کام کرنا شروع کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ہمارا نظام، خلافت کی برکت سے بڑی عمدگی سے جاری ہے.ہمارا پیارا امام دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کام کی ذاتی طور پر نگرانی کرتا اور جماعت کی کسی بھی قسم کی 200

Page 202

کمزوری اور کمی کو ساتھ ساتھ دور کرتے ہوئے جماعت کو ترقی کے رستہ پر چلاتا چلا جاتا ہے.خلیفہ وقت کی مدد کے لئے ایک طرف ہر جماعت میں امراء اور صدر صاحبان اور دوسری طرف ہماری ذیلی تنظیموں مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس اطفال الاحمدیہ اسی طرح لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی نہایت مفید اور کامیاب تنظیمیں سرگرم عمل ہیں.ان تنظیموں کے دائرہ کار سے کوئی فرد جماعت بھی باہر نہیں رہتا.اس طرح جماعت کے افراد روحانی اور مذہبی بہتری اور ترقی کے علاوہ جسمانی اور دنیوی ترقی کے مواقع بھی حاصل کرتے ہیں.اس بے مثال نظام سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد اس نظام کی خوبیوں سے واقف ہونے کے علاوہ اس نظام کو چلانے والوں کی مکمل اطاعت کر نے والا ہو.ہمارے عہدیدار جو بالعموم جماعت کے انتخاب سے ہی اپنے عہدے حاصل کرتے اور خلیفہ وقت کی منظوری سے اس خدمت پر مقررہوتے ہیں وہ جماعت کے کاموں یا اپنے فرائض کو ادا کرنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو کام میں لاتے اور اپنے ذاتی کاموں کا حرج کر کے اپنے قیمتی اوقات کی قربانی دیتے ہیں.ان کی اس قربانی اور محنت کا پوری طرح فائدہ اسی صورت میں حا صل ہو سکتا ہے کہ ہم ان کی اس قربانی کی قدر کرتے ہوئے ان کی اطاعت کریں.اگر کوئی شخص اپنی کم علمی یا جہالت کی وجہ سے ان کی پوری طرح اطاعت نہیں کرتا تو وہ صرف اپنا نقصان ہی نہیں کرتا بلکہ جماعتی ترقی میں روک بنتے ہوئے جماعتی اور قومی نقصان کا باعث بن سکتا ہے.اس جگہ یہ کہنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نظام جماعت کی بہتری اور عمدگی کیلئے جماعت کے عہد یداروں کیلئے لازمی ہے کہ وہ نہایت حکمت و دانائی اور نرمی ومحبت سے افراد جماعت کیلئے ایسا نمونہ قائم کریں کہ وہ انکی اطاعت رضاء ورغبت اور خوشی سے کریں.ہمارے عہد یدار ہم میں سے ہی ہیں.ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور اس غلطی کی تلافی اور اصلاح کیلئے بھی ہمارے نظام میں مؤثر طریق کار موجود ہے.اگر کسی عہد یدار کا کوئی فیصلہ یا ہدایت 201

Page 203

کسی کو اچھی نہ لگے تو بھی یہی ضروری ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے.اسی صورت میں نظامِ جماعت پوری طرح مؤثر اور مفید ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں کمال اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ اس با برکت نظام کی قدر کرنے اور اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرمادے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 3 جون 2005ء) خانه است ویران تو در منکر دگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کا پہلا شاہکار براہین احمدیہ آپ کی معرکۃ الآراء کتاب تھی.مسلمانوں میں ایک لمبے وقفہ کے بعد اسلامی حق وصداقت کی یہ للکار ایک مسلسل اور خوفناک خشک سالی کے بعد بارش کا پہلا قطرہ تھی یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے اور ظلمت میں ایک روشنی کی کرن تھی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات کی عظمت اور قرآن مجید کی معجز نمائی ثابت ہوتی تھی.اس کتاب پر مسلمانوں میں ایک خوشگوار حیرت کا رد عمل ہوا کیونکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کی مشترکہ کوششوں کے مقابلہ میں اسلامی دفاع قریباً مفقود اور نہ ہونے کے برابر تھا.مسلمانوں میں سے ایک اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غیر معمولی تجر علمی اور کمالات روحانی سے واقف تھے اس کتاب پر بڑا زور دار تبصرہ کیا اور اپنے تبصرہ میں انہوں نے اس کتاب کو بجاطور پر اسلام کی ایسی تائید و نصرت قرار دیا جس کی ساری اسلامی تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی اور اپنی بات کو زیادہ واضح کرنے کے لئے یہ بھی کہا کہ اس تبصرہ میں کسی قسم کا کوئی مبالغہ نہیں ہے اور ہر لحاظ سے یہ خدمت بے مثال ہے.202

Page 204

اس زمانہ میں عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے مخالفت میں اور زیادہ تیزی آگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مخالفت کو اشاعت و تبلیغ کے لئے مفید اور کار آمد سمجھتے ہوئے خدمت اسلام کے میدان کو اور وسیع کر دیا.آریوں اور عیسائیوں سے حضور علیہ السلام کے مناظرات و مقابلے اسی زمانہ میں ہوئے.اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے مدلل و مسکت جواب دے کر اور مخالفین پر اسلامی علم کلام اور آسمانی نشان نمائی سے حجت تمام کر دی.مولوی صاحب مذکور نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر معمولی خدائی تائید و نصرت اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی برکات اور کامیابیوں کا مشاہدہ کیا تو ان کا حوصلہ اور ظرف جواب دے گیا اور بجائے اس کے کہ وہ پہلے کی طرح تعریف و تائید کر کے خود بھی صالحین و مقربین میں شامل ہو جاتے حضور کی مخالفت پر اتر آئے اور خدا تعالیٰ کے ماموروں اور پیاروں کی کامیابی کے راز کو نہ سمجھتے ہوئے یہ سمجھنے لگے کہ اس ترقی میں ان کے تبصرہ اور تائید کا دخل ہے اور پھر یہ بھی تعلی کی کہ جس طرح میں نے مرزا صاحب کو اوپر چڑھایا ہے اسی طرح ان کو نیچے بھی گرا دوں گا.اپنے اس مذموم مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کیا اور اس کو زیادہ موثر بنانے کے لئے پورے ہندوستان کے علماء سے اس کی تصدیق کروا کے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت کی.دنیا جانتی ہے کہ حق وصداقت کی آسمانی چمک ایسی انسانی کوششوں سے کم نہیں ہوا کرتی.یہ فتویٰ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ترقی و کامیابی میں کوئی رکاوٹ بننے کی بجائے کھاد کے طور پر مفید ثابت ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کی ضد و تعصب بڑھتی چلی گئی.حضور نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے پئے تکفیر ما بستہ کمر خانه ات ویران تو در فکر دگر 203

Page 205

کہ میری تکفیر پر کمر بستہ ہونے والے (اپنے گھر کی خبر لے ) تیرا گھر برباد ہورہا ہے اور تو دوسروں کی فکر میں پڑا ہوا ہے.یہ ہماری تاریخ کا ایک کھلا باب ہے کہ وہ مولوی صاحب باوجود اپنی ابتدائی مقبولیت اور علمی کمال کے بڑی حسرت و ناکامی سے دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے اور آج کوئی ان کی آخری آرامگاہ تک کو نہیں جانتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد خانه ات ویران تو در فکر دگر مذکورہ بالا عظیم الشان نشان کے علاوہ اس قرآنی رہنمائی و ہدایت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ تمہارے لئے ضروری اور لازم ہے کہ اپنی اصلاح و بہتری کے لئے کوشاں رہو کیونکہ اس صورت میں کسی کی گمراہی اور بے راہ روی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.اس ارشاد میں یہ رہنما اصول ملتا ہے کہ سب سے زیادہ اور مقدم امر اصلاح و تزکیہ نفس ہے.وہ لوگ جو اس جہادا کبر سے غافل ہو کر بزعم خویش دوسروں کی اصلاح و بہتری کے لئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں ان کا اپنا خانہ خراب ہو جاتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم پوری توجہ سے اس اہم فرض کی ادائیگی کے لئے کوشش کرتے رہیں کہ اپنی غلطیوں کو اپنے سامنے رکھ کر ان کی ایک ایک کر کے اصلاح کرتے چلے جائیں.یہ مقصد اتنا اہم ، اتنا وسیع اور اتنا متنوع ہے کہ اس کی بجا آوری میں ہی ساری عمر لگ جائے تو بھی غنیمت ہے.اس جہاد میں دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کی جستجو کے لئے نگاہ اٹھا کر دیکھنے کا کم ہی موقع ملے گا.عجب مغرور و گمراہ ہے وہ ناداں کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے الفضل انٹرنیشنل 24 جون 2005ء) 204

Page 206

وقف عارضی ایک بابرکت تحریک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی نے حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور میں سیرو سیاحت کی غرض سے جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں مجھے اجازت مرحمت فرمائیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سياحة امتی فی الجہاد.میری امت کی سیر و سیاحت تو جہاد ہے.عام طور پر مذکورہ بالا سوال کے یہ دو جواب ذہن میں آتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی وجہ سے ان کے سیاحت کے لئے سفر پر جانے کو پسند نہ فرماتے تو وہ وجہ بیان کر کے ان کو روک دیتے اور اجازت نہ دیتے اور دوسری صورت میں اگر حضور صلی اینم کو ان کے سفر پر جانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو ان کو بخوشی اجازت دیتے اور اپنے عام طریق مبارک کے مطابق سفر کے بابرکت ہونے کی کوئی دعا بھی سکھا دیتے.مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کا نہایت پر حکمت جواب مرحمت فرما یا اور نہایت مختصر تین چار لفظوں میں ایسا جواب دے دیا جس میں عقل و دانش کا ایک جہان پوشیدہ تھا.آپ نے جس پر حکمت انداز سے مذکورہ سوال کا جواب دیا اس میں یہ تعلیم اور رہنمائی پائی جاتی ہے کہ جو کام بھی کیا جائے اس میں اعلیٰ مقصد اور اجتماعی مفاد کو ضرور مد نظر رکھا جائے.وہ شخص جسے جہاد میں شمولیت کی سعادت حاصل ہو وہ مختلف مقامات کی طرف جانے کی وجہ سے سیر و سیاحت 205

Page 207

کے فوائد تو حاصل کر ہی لے گا مگر اس سے کہیں بڑا اور زیادہ فائدہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر جہاد میں شمولیت کا حاصل ہو گیا.سیر و سیاحت بھی اپنی جگہ مفید ہے اور قرآن مجید نے مومنوں کو اس کی رغبت دلائی ہے مگر اس میں بھی یہی چیز مذنظر ہے کہ انسان کھلی آنکھوں سے سفر کرے اور گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے نصیحت و عبرت حاصل کرے.گویا قرآنی حکم اور مذکورہ ارشاد نبوی میں بنیادی ہدایت یہی ہے کہ انسان ذاتی اغراض سے بلند ہو کر اجتماعی اور قومی مفاد کو ذہن میں رکھے اور اپنے ہر کام کو خواہ بظاہر وہ کام ذاتی اور دنیوی ہو روحانی چاشنی سے مزین کرے.جہاد کے صحیح معنوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں رہنمائی فرمائی ہے ورنہ یہ لفظ اور اس کا مفہوم تو اسلام کی خوبصورت تعلیم پر ایک بہت ہی بدنما دھبہ کی صورت اختیار کر گیا تھا.نہج اعوج کے زمانہ میں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ہزار سالہ گمراہی و تاریکی کے زمانہ میں جہاد کی بابرکت اصطلاح لوٹ مار اور دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے لگی.حالانکہ جہاد تو اسلامی تعلیمات و عقائد میں ایک ایسا خوبصورت نگینہ ہے کہ جو اپنی چکا چوند سے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسی خوبصورت تعلیم ہے جسے فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے.جہاد تو ایک ایسے فرض کا نام ہے جس کی ضرورت و اثرات سے انسان کسی وقت بھی غافل نہیں ہوسکتا.کیونکہ تزکیہ نفس کا کام تو ہمیشہ جاری رہنے والا اور کبھی ختم نہ ہونے والا کام ہے اور حضور صلی یا ایم کے ارشاد کے مطابق یہی جہادا کبر ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسی متعدد با برکت تحریکیں جاری ہیں جن میں شامل ہو کر ہم تبلیغ واشاعت اسلام کے جہاد.جہاد کبیر.میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر کے دونوں جہان کی برکات سے مالا مال ہو سکتے ہیں.مثلاً وقف عارضی کی تحریک ہے.اس تحریک میں شامل ہونے والے دو سے چھ ہفتے تک وقف کر کے منتظمین کی ہدایت کے مطابق کسی جماعت میں یہ وقت گزارتے اور وہاں بچوں اور بڑوں کو قرآن مجید پڑھانے ، درس دینے اور ذکر الہی وعبادات 206

Page 208

کی طرف خاص توجہ دینے سے بہت سی برکات حاصل کرتے ہیں.اس بابرکت تحریک میں شامل ہونے والا ہر خوش قسمت ایسے فوائد حاصل کرتا اور ایسے تجربات میں سے گزرتا ہے کہ وہ بار بار وقف عارضی کی برکات سے متمتع ہونے کی کوشش میں لگارہتا ہے.حضور رسل السلام کی سنت طیبہ اور آپ کے منشاء مبارک کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ ہماری جماعت کی سیر و سیاحت تو وقف عارضی میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام وقف زندگی کو حیاتِ طیبہ اور ابدی زندگی کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے نا آشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے نا واقف محض ہیں.ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے اُن کو مل جاوے تو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں.میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے.پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دُکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا.اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں.آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اُسے سُنے یا نہ سُنے ! اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اُس درجہ اور مرتبہ کو 207

Page 209

حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی ، میری موت ، میری قربانیاں، میری نماز میں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اُس کی روح بول اٹھے.أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (البقرة: (132) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا ،خدا میں ہو کر نہیں کرتا وہ نئی زندگی پانہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں.پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 378 جدید ایڈیشن) الفضل انٹرنیشنل 08 جولائی 2005ء) 208

Page 210

امن صلح - رواداری پچھلے دنوں برطانیہ کے مرکزی شہر لندن میں صبح کے وقت جبکہ لاکھوں لوگ اپنے کام پر جانے کے لئے بسوں اور زیر زمین گاڑیوں پر سفر کر رہے ہوتے ہیں، یکے بعد دیگرے بم دھماکے ہوئے جس سے لندن کے ذرائع آمد ورفت یکدم بند ہو گئے.خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہوگئی.پچاس سے زائد لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور ابھی اندیشہ ہے کہ اس تعداد میں اور اضافہ ہوگا.اس سے پہلے افغانستان ، عراق ، چیچنیا، انڈونیشیا ، پین اور پاکستان میں بھی اسی قسم کے واقعات رونما ہو چکے ہیں.معصوم انسانی جانوں کو تلف کرنا اور ایسے لوگوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانا جن کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہ ہو، ایسا گھناؤنا فتیح اور شرمناک فعل ہے جو انسانیت کے لئے بدنما سیاہ داغ ہے.جو تہذیب و تمدن کی نفی ہے، جو عقل و دانش کا ماتم ہے، جو سنجیدگی اور معاملہ نہمی کا کینسر ہے اور جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے.دنیا کا کوئی مذہب با ہم دشمنی اور اس طرح چھپ کر نہتے اور غیر متعلق لوگوں پر جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا.خاص طور پر اسلام کا تو نام ہی امن و سلامتی کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے.اسلام کا نشان السلام علیکم سلامتی کا پیغام اور دعا ہے.اس وجہ سے یہ امرتو ذہن میں آہی نہیں سکتا کہ ایک مسلمان جو رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِین کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ ایسی کسی گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کر سکتا ہے.209

Page 211

ہماری آج کی دنیا میں جس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ علم و فہم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے ، دہشتگردی بھی اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ہے.دنیا کا کوئی کو نہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہو کہ وہاں امن و امان ہے اور لاقانونیت و دہشتگردی نہیں ہے.مشرق و مغرب میں ، ترقی پذیر ممالک واقوام میں اگر اس قابل نفرت عمل کا دور دورہ ہے تو ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے پاک نہیں ہیں.سائنس اور ٹیکنالوجی جو انسانی خدمت کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتی تھی تباہی و بربادی کی طرف دھکیلتے ہوئے بدامنی، بے چینی اور بے اطمینانی کی فضا پیدا کر رہی ہے.مزدوری کے لئے گھر سے نکلنے والا ایک غریب آدمی یا کسی سپر پاور کا سر براہ گھر سے باہر جاتے ہوئے برابر خوف کا شکار ہوتا ہے کہ واپس خیریت سے گھر آ سکے گا کہ نہیں.مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو سکول بھجواتے ہوئے ڈر رہی ہوتی ہیں کہ ان کا بچہ کسی اغوا برائے تاوان کرنے والے ظالم درندے یا کسی دہشت گرد جنونی کے خود کش حملے کی زد میں تو نہیں آ جائے گا.اور تو اور ایک نمازی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جاتے ہوئے مطمئن نہیں ہوتا کہ وہ دلجمعی وسکون سے خدا کی عبادت کر کے واپس اپنے بچوں میں زندہ بھی آسکے گا یا مسجد کو اپنے خون سے رنگین کر کے کسی خون کے پیاسے انسان نما وحشی کی پیاس کی بھینٹ چڑھ جائے گا.اسلامی شریعت میں انسان کو شرف و عزت کا مستحق قرار دیتے ہوئے کسی ایک انسان کے قتل کو قطع نظر اس کے کہ اس کا عقیدہ و مذہب اور طریق کارکیا ہے،ساری انسانیت کے قتل سے تعبیر فرمایا ہے.اسلامی شریعت میں کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی صوابدید اور مرضی سے جس طرح چاہے لوگوں کو سزا دیتا پھرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کسی جاہل متعصب مسلمان نے دو انگریز عیسائیوں کو قتل کر دیا.حضور علیہ السلام نے اس حرکت کو خلاف اسلام بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کا باعث قرار دیتے ہوئے فرمایا:...ایسے نابکار لوگوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ ان لوگوں 210

Page 212

کی ایسی خدمت کرتا اور ایسے عمدہ طور پر ان سے برتاؤ کرتا کہ وہ اس کے اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے.مومن کا کام تو یہ ہے کہ اپنی نفسانیت کو کچل ڈالے.لکھا ہے کہ حضرت علی بنی نہ ایک کافر سے لڑے.حضرت علی بنی عنہ نے اس کو نیچے گرا لیا اور اس کا پیٹ چاک کرنے کو تھے کہ اُس نے حضرت علی بنی ان پر تھوکا.حضرت علی بنی نہ یہ دیکھ کر اس کے سینے پر سے اتر آئے.وہ کا فرحیران ہوا اور پوچھا کہ اے علی بنی ہو ! یہ کیا بات ہے؟ آپ منہی عنہ نے فرمایا کہ میرا جنگ تیرے ساتھ خدا کے واسطے تھا.لیکن جب تو نے میرے منہ پر تھوکا تو میرے نفس کا بھی کچھ حصہ مل گیا.اس پر میں نے تجھے چھوڑ دیا.حضرت علی بیان کے اس فعل کا اس پر بڑا اثر ہوا.میں جب کبھی ان لوگوں کی بابت ایسی خبریں سنتا ہوں تو مجھے سخت رنج ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سے بہت دور جا پڑے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل ثواب کا موجب سمجھتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 337 جدید ایڈ یشن 2003 مطبوعہ ربوہ ) حضرت اقدس مسیح موعود علی شاہ نے مذہبی منافرت کو دور کرنے کے لئے اپنی کتب میں اسلام کی صلح پسند تعلیم بیان فرمائی.جبر وا کراہ اور مذہبی تشدد کے غلط عقائد و خیالات کی بدلائل تردید فرمائی.آپ کی آخری کتاب ”پیغام صلح مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے ایسے اصولوں پر مشتمل ہے کہ ان پر عمل پیرا ہوکر ہم موجودہ منافرت و تشدد کی خوفناک فضا سے باہر نکل کر امن وسکون کی دنیا میں اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں.الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2005ء) 211

Page 213

شرائط بیعت اور نظام وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۸ء میں بار بار یہ خدائی خبر ملنے پر کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آ گیا ہے جماعت کو تاکیدی نصائح کرتے ہوئے الوصیت کے نام سے ایک رسالہ شائع فرما یا اور اس میں خلافت احمدیہ اور ایک ایسے نظام کا خاکہ بیان فرمایا جو آئندہ دنیا کے مالی و اقتصادی نظام کی بنیاد بننے والا ہے اس نظام میں شامل ہونے والے جنہیں عام طور پر موصی کہا جاتا ہے، ان کے لئے حضور نے مندرجہ ذیل تین شرائط مقرر فرمائیں: پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کیلئے چندہ داخل کرے.دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی دفن ہوگا جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہو گا.تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا ہو اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو (روحانی خزائن جلد 20 رسالہ الوصیت ص 319) خدا تعالیٰ کے فضل سے نیکی اور تقویٰ کی خاطر قائم ہونے والی الہی جماعت میں شروع سے ہی نیکیوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کا جذبہ پایا جاتا ہے.نظام وصیت کو بھی جماعت نے بصدق 212

Page 214

قسمت کے شمار دل اور بشاشت سے قبول کیا تاہم بعض اوقات بعض لوگوں کی طرف سے یہ بات بھی سننے میں آجاتی رہی کہ ہم ابھی وصیت کے تقاضوں کو پوری طرح پورا نہیں کر سکتے اس لئے ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے ، بظاہر یہ بات بہت معقول لگتی ہے اور اس سے فوری تاثر یہی قائم ہوتا ہے کہ ایسا کہنے والا نظام وصیت کی اہمیت اس کے تقدس اور اعلیٰ معیار کو خوب سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہو سکا اور یہ بھی کہ اس کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ وہ خوش قسمت موصیوں کی جماعت میں شامل ہو جائے.مگر اس بات کو بنظر غور دیکھا جاوے تو حقیقت کچھ اور ہی ملے گی.ہر وہ شخص جسے احمدیت میں شامل ہونے اور حضرت مسیح موعود علی کے دعاوی پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے اس نے ایک بہت بڑے چیلنج کو قبول کر لیا ہے.دنیا میں پیدا ہو جانے والی بے شمار خرابیوں اور بدعتوں اور فیج اعوج، یعنی ہزار سالہ دور گمراہی کی سستیوں اور غفلتوں کو ترک کر کے اسلام کی حسین و دلکش تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے کا نام ہی تو احمدیت ہے.یہی وجہ ہے کہ سستی اور کم ہمتی کی یہاں کسی طرح بھی کوئی گنجائش نہیں ہے.بعض دفعہ وعظ ونصیحت کی مجلس میں یہ بات بھی سننے میں آجاتی ہے کہ باتیں تو یہ بہت اچھی ہیں مگر ہم نے کوئی ولی اللہ تو بنا نہیں ہے.یہ بھی اس فقرے سے ملتا جلتا فقرہ ہے جس کا پہلے ذکر ہوا ہے اور اس میں سستی بلکہ بے عملی اور بے راہ روی کا رجحان واضح نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود کی کتب اور ملفوظات میں یہ تاکیدی ارشاد ملتا ہے کہ ”ولی بنو.ولی پرست نہ بنو گویا ایک سچا مسلمان یعنی احمدی کبھی بھی دون ہمتی اور کسل کو اپنے پاس نہیں آنے دیتا.اس کے پاس بہترین لائحہ عمل یعنی شریعت موجود ہے.اس کے پاس بہترین استاد یعنی آنحضرت کی سنت اور احادیث موجود ہیں جن پر اخلاص سے عمل پیرا ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی محبت کی برکت سے صالحیت وصلاحیت میں ترقی کرتے کرتے قرب کے اعلیٰ مقامات اور منازل پر فائز ہو جائے گا.جماعت احمدیہ میں شمولیت کے لئے جو دس شرائط بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر 213

Page 215

فرمائی ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ نیکی تقوی اور عملی اصلاح و بہتری کا ہر ہر پہلو ان میں موجود ہے اور شرائط بیعت خلاصہ اور نچوڑ ہے قرآن وحدیث کی رہنمائی اور تعلیمات کا.ذیل میں شرائط بیعت پیش کی جارہی ہیں : اول :- بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم :.یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم : یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خُدا اور رسول ملانی ایم کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صل الا یہ تم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خُدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اُس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روز ہ ورد بنائے گا.چہارم :.یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دیگا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم :.یہ کہ ہر حال رنج و راحت اور نسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا.اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کیلئے اُس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اُس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائیگا.ششم :.یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بنگلی اپنے سر پر قبول کریگا اور قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُول کو اپنے ہر 214

Page 216

یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم :.یہ کہ تکبر اور نخوت کو بگلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم :.یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم : یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خُدا دا د طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم :.یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام ص 564) ان شرائط پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک مسلمان کا مکمل لائحہ عمل ہے.جس پر عمل کر کے وہ دونوں جہان میں سرخروئی اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور یہ بھی کہ وصیت کے نظام میں کامیابی کی ان راہوں اور سعادت کے ان رستوں کی یاد دہانی ہی کروائی گئی ہے.اور اس میں کوئی نئی اور زائد بات نہیں ہے.البتہ نظام وصیت میں بیعت کے عمومی مطالبات کو زیادہ معین رنگ میں پیش کر کے ایک مؤثر یاد دہانی کروائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بیعت اور وصیت کے تقاضوں اور مطالبات کو پوری طرح سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا اور قرب سے نوازے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 29 جولائی 2005ءصفحه (8) 215

Page 217

غلبہ اسلام کی انسانی کوششوں کا نتیجہ اور قرآنی طریق اصلاح روز نامہ جنگ لندن کی 4 اگست 2005ء کی اشاعت میں مشہور کالم نگار اور دانشور جناب ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالم 'حرف تمنا میں کسی مسلمان پروفیسر کے قلم سے عالم اسلام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ درج کیا ہے.وہ لکھتے ہیں: اگر بیرون ملک بسنے والی مسلمان اقلیتوں کی بحالی تہذیب کی سرگرمیوں اور ان میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا جائے تو حوصلہ ضرور پیدا ہوتا ہے.اپنے اور بیگانے ان کوششوں کے اثرات کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں لیکن یہ خوشی اس وقت تک ہے جب تک ان کوششوں کو صرف انہی کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے.مسلمان نفری کا زیادہ ہوجانا اور تہذیبی تشخص کی بحالی پر ڈٹ جانے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن جب انہی کوششوں کو فریق ثانی کی کوششوں کے برابر رکھ کر دیکھا جاتا ہے تو خوشی مایوسی اور پریشانی میں بدل جاتی ہے.اس لئے کہ ایک تو ممالک غیر میں خود ان کے معاشرے جو اپنی فکری بالا دستی کے لئے کوشش کرتے ہیں وہ بھی کسی طرح کم نہیں ہیں.پھر ان کو وہاں سیاسی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ مسلمان اقلیتیں اس سے محروم 216

Page 218

ہیں.اور دوسرے یہ کہ مغرب جس عالمی پیمانے کے اقدام کر رہا ہے اس کا توڑ کر لینا مسلمان اقلیتیں تو در کنار مسلمان ممالک کے بس کی بات بھی نہیں ہے.ان کے سیاسی ، اقتصادی تعلیمی ، فوجی اور ثقافتی حملوں کی یلغار میڈیا ، اقوام متحدہ اور ان کے علاقائی اتحادوں کی صورت میں وہ غارت گر اثرات ڈال رہے ہیں کہ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی اس سیلاب میں اس طرح بہتی جارہی ہے جس طرح کوئی تنکا پانی کے ریلے میں بہتا جا رہا ہو.اس مایوسی اور پریشانی پیدا کرنے والی صورت حال کے مقابل پر غلبہ اسلام کے سلسلہ میں کی جانے والی مختلف تحریکات اور کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : غلبہ اسلام کی کوششوں میں ہمارے ہاں کبھی خلا واقع نہیں ہوا.ان میں ائمہ اربع کا کردار، حضرت امام ابن تیمیہ، امام غزالی ، ابن رشد ، کندی ، فارابی ، ابن سینا کے علاوہ سمرقند و بخارا میں حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم وغیرہ اور ان کے دیگر ہم عصر رفقاء ، برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ ، حضرت اسماعیل شہید ایملی اورسید احمد شہید داریم یہ ایسے نام ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن اور تحریک تھے.حضرت مجدد الف ثانی دایملی، سرسید احمد خان ، علامہ اقبال اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ،سید سلیمان ندوی اور اہل دیوبند اور بریلوی نے کون سی کسر اٹھا رکھی کہ کوتا ہی جدوجہد کا افسوس کیا جائے ؟ حضرت جمال الدین افغانی، عمر بھر اتحاد امت کے لئے کوشاں رہے لیکن ناکام رہے.مفتی محمد عبدہ اور ان کے شاگرد علامہ رشید رضا اپنے نقطہ نظر کے مطابق کہ غلبہ امت کا راز علمی ترقی میں ہے جمال الدین افغانی سے اختلاف کرتے رہے.یہ علمی اختلاف تھا جو ایک معمول کی بات ہے لیکن کہنے کی بات یہ ہے کہ نہ جمال الدین افغانی اتحاد امت کو قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور نہ دوسرا مکتبہ فکر 217

Page 219

عالم اسلام میں کوئی علمی انقلاب بر پا کر سکا.امت مسلمہ آج بھی منتشر و پراگندہ حال ہے اور ان کا علمی مرتبہ آج بھی دنیا میں سب سے کمتر ہے.“ اپنے اس جائزہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اور خاص طور پر برصغیر میں ہونے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں: غلبہ اسلام اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے کوششیں کتنی ہوئیں ان کا اندازہ برصغیر پاک و ہند کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے.جماعت اسلامی کا قیام اسی غرض کے لئے تھا کہ اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جائے.یہ ایک زبردست تحریک تھی جس نے نہ صرف عامتہ المسلمین میں امید کی شمع روشن کر دی بلکہ اغیار کے کا شانوں پر بھی برق بن کر گری.جب مولانا مودودی...نے یہ نعرہ دیا تھا کہ قرآن وسنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ.اور یہ کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اشتراکیت کو ماسکو میں سامراجیت کو واشنگٹن میں اور الحاد کو پیرس میں پناہ نہیں ملے گی تو دشمنوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی تھی.معاشرے کو ایک جذبہ عطا ہوا تھا اور پھر یہ کہ یہ ایک انتہائی منظم کوشش تھی جس کی مثال عام نہیں ملتی.لیکن کیا ہوا؟ نہ صرف یہ کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام عمل میں نہ آسکا بلکہ خود جماعت اسلامی پر بڑھاپا طاری ہو گیا.جماعت اسلامی تنہا ہی نہیں جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علماء پاکستان بھی پہلو بہ پہلو کوشاں تھیں.سب کی کوششوں کا انجام ایک جیسا ہوا.اسلامی نظام کا منہ دیکھنا آج بھی قوم کو نصیب نہیں.یہ وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے اصلاح نظام کے ذریعہ غلبہ اسلام کا راستہ اختیار کیا لیکن دیگر مکاتب فکر نے اس طریق کار کو صحیح نہ سمجھتے ہوئے دوسرے طریقے اختیار کئے جن میں تبلیغ دین اور جہاد کا سلسلہ ترجیح اول تھی.ان دونوں مکاتب فکر نے اپنی انتہائی کوشش کی اور کر بھی رہے ہیں لیکن غلبہ اسلام اور اقامت دین کی 218

Page 220

منزل کتنی قریب ہے ، سب پر واضح ہے! مختصر یہ کہ ہر تدبیر آزما کر دیکھ لی.اصلاح بذریعہ نظام اور اصلاح بذریعہ تربیت افراد اور اصلاح بذریعہ جہاد.اوپر سے نیچے کی طرف اور نیچے سے اوپر کی طرف.پھر بتائیے اور کون سی کوشش رہ گئی ہے جو بروئے کار لانا ابھی باقی ہے؟ اور اس کا نیا طریقہ کون سا ہے جس کو اختیار کرنا باقی ہے.لیکن زوال ہے کہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا...وسعت نظر و مطالعہ سے کئے گئے اس جائزہ میں انہوں نے یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ اس وقت دنیا میں قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم حکومتیں موجود ہیں جو غلبہ اشاعت اسلام کے لئے مفید کام کر سکتی ہیں مگر ان کے الفاظ میں : مسلمان ممالک کی تمام ہی قیادتیں اسلامی سوچ سے محروم ہیں.اس کی واضح مثال مسلمان ممالک میں بادشاہتوں کا قیام اور سیکولر طرز زندگی ہے.عرب ممالک کو کون سمجھائے اور کس طرح سمجھائے کہ ان کی بادشاہتوں کا اسلام سے اور عصری تقاضوں سے کوئی جوڑ نہیں ہے.اس کے باوجود ہم ہیں کہ غلبے کی بشارتیں سنائے جا رہے ہیں.اگر عرب خود اس چیز کو نہیں سمجھتے تو وقت سمجھا دے گا.وہ بہترین استاد ہے.کچھ تو سمجھا رہا ہے اور کچھ مزید سمجھا دے گا.کوششوں کے ضمن میں مصر کے اخوان المسلمون اور شمالی افریقہ کی تحریک سنوسی دونوں نہایت اہمیت کی حامل ہیں.یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ان تحریکوں کے اثرات نہیں ہوئے لیکن ان ممالک کی غلبہ اسلام کے حصول میں ناکامی اور سابقہ حالت کا حسب معمول برقرار رہنا بھی واضح ہے.“ مذکورہ بالا فاضلانہ بیان سے تو وہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے جو فاضل سکالر نے نکالا ہے.مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس سارے تفصیلی تجزیہ میں یہ ذکر کہیں بھی نہیں آیا کہ زوال امت اور گمراہی و کم 219

Page 221

ہمتی کی اس قابل فکر حالت میں قرآنی طریق اصلاح کیا ہے.اور کیا اس سے بھی استفادہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے.قرآن مجید فرماتا ہے: وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِينَ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيْهِمْ مُنْذِرِينَ (الصفت: 73-72) یعنی ایسے موقع پر جب اکثریت گمراہ ہو چکی ہوتو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مندر آ کر اصلاح کا کام کیا کرتے ہیں.ایسے وقت میں انسانی کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو ئیں جس کا واضح ثبوت مذکورہ بالا تفصیلی جائزہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود حمایت اسلام کی بعض انسانی کوششوں پر نظر ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: " کیا ان کو یاد ہے کہ اسلام کن مصیبتوں کے نیچے کچلا گیا اور دوبارہ تازہ کرنے کے لئے خدا کی عادت کیا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان کے اسلامی حمایت کے دعوے کسی قدر قابل قبول ہو سکتے.لیکن اب یہ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں....اب وہ اس خدا کو کیا جواب دیں گے جس نے عین وقت پر مجھے بھیجا (روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح ص8) ہے.66 الفضل انٹرنیشنل9ستمبر 2005ءصفحہ نمبر 2 اور9 220

Page 222

سید نا آنحضرت صلی شما دیپلم کا فیصلہ ستمبر کا مہینہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے.ستمبر 1974ء میں پاکستان میں جماعت کے خلاف ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا کہ شر پسندوں نے غریب احمدیوں کی عمر بھر کی کمائی کو لوٹ کر ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا اور بعض جگہ تو تباہی و بربادی کے اس طرح کے روح فرسا واقعات کو کافی نہ سمجھتے ہوئے قتل و خونریزی بھی کی گئی اور اس میں بہیمیت کا یہ حال تھا کہ جب کسی قریب المرگ مقتول کے منہ میں پانی ٹپکانے کی ضرورت تھی تو اس میں پانی کی بجائے ریت ٹھونسی گئی اور اس طرح کوشش کی گئی کہ ذکر الہی اور کلمہ طیبہ سے تر زبان کو جلد خاموش اور خشک کر دیا جائے.جہاں تک جماعت پر مظالم کا تعلق ہے تو یہ جماعت کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ ان مظالم سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی کبھی پاکستان میں کبھی بنگلہ دیش میں کبھی انڈونیشیا میں اور کبھی دنیا کے کسی اور حصہ میں یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے.اور احمدیوں کو مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِی کے مطابق خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیاں پیش کرنے کی سعادت ملتی رہتی ہے.جیسا کہ احباب جماعت اور تاریخ مذاہب سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ 1934ء میں قادیان میں ایک بہت بڑے پیمانے پر مخالفین نے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا اور اس جگہ پر تعلی بھی کی گئی کہ ہم نے احمدیت کو ختم کر دیا ہے اور احمدیت کا نام ونشان بھی نہیں ملے گا.بعض 221

Page 223

ائمہ کفر کو فاتح قادیان کے لقب سے یاد کر کے مخالف لوگ خوش بھی ہوتے ہیں.مگر اُن کا حق وصداقت سے حسد کی آگ میں جلنا اور مخالفت کا ختم نہ ہونا بتا تا ہے کہ وہ اپنے دعاوی میں جھوٹے تھے اور انہیں خوب پستہ تھا کہ وہ غلط بات کر رہے ہیں.یہی وجہ ہے کہ 1953ء میں بھی مخالفت کی آگ پھر سے بھڑ کائی گئی اور یہ تکفیر بازی اور مخالفت اتنی گہری سازش کا نتیجہ تھی کہ خود ائمہ تکفیر کے خیال میں اس کے بعد احمدیت صفحہ ہستی سے ختم ہو جاتی.مگر دنیا جانتی ہے اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ نے بھی یہی بتایا ہے کہ سیاسی میدان میں مات کھا جانے والے اور پاکستان کی مخالفت کرنے والوں نے آنحضرت صلی ای ام اور اسلام کے نام پر ایک چور دروازے سے سیاست میں داخل ہونے اور اپنی دکان چمکانے کے لئے یہ دھندا شروع کیا تھا.جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف قائم رہی بلکہ پاکستان اور بیرون پاکستان میں جماعت کی ترقی میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہو گیا.1974ء میں بھی جماعت کے خلاف بہت منظم طریق پر پاکستان میں مذہبی اداروں نے سیاسی لیڈروں کو ساتھ ملاتے ہوئے پاکستان کی پارلیمنٹ سے ایسا قانون منظور کروایا جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر یہ سمجھا گیا کہ اب ان کی ترقی کے تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں اور مخالف جو مذہبی میدان میں پوری طرح شکست سے دو چار ہو چکے تھے اس غیر مذہبی طریق پر چلتے ہوئے اپنی خفت و شرمندگی کو چھپا سکیں گے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ ان کی اس حرکت سے جماعت کو اپنی صداقت کی ایک نہایت واضح دلیل مل گئی.آنحضرت سلائی سی ایم نے آخری زمانے میں اختلاف امت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا: حضرت عبد اللہ بن عمر بنی یہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اسلام نے فرمایا کہ میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے.جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے.یہاں تک کہ اگر ان میں کوئی اپنے 222

Page 224

ماں سے بدکاری کا مرتکب ہوا تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقے کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ بنی ھم نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے ؟ تو حضور صلی ہم نے فرمایا دہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ بنی ہندہ کی سنت پر عمل پیرا ہو گا.جماعت کے خلاف اسمبلی میں جو قرارداد پیش کی گئی اور جسے غلط اور ناجائز طریق اختیار کرتے ہوئے سراسر تحکم سے منظور کروایا گیا.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہتر فرقوں نے یکجا ہوکر جس ایک فرقہ کو الگ کر کے اسے تہتر واں فرقہ قرارد یاوہ جماعت احمدیہ تھی اور حضور علیہ السلام کے فیصلہ کے مطابق یہی جماعت ناجی ہے اور باقی بہتر فرقوں نے خود اپنے ہاتھ سے ایک ایسے فیصلہ کی تصدیق کی جس کے مطابق وہ دوزخی قرار پاتے ہیں.کیونکہ حضور ای سی ایلم کے ارشاد اور فیصلہ کے خلاف کسی بھی فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں.چنانچہ ان بہتر کی حالت موجودہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کیسی کیسی آگوں میں جل رہے ہیں اور امن اور سلامتی ان کے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں.نہ صرف ان کے گھر بلکہ ان کی عبادتگاہیں بھی ان آگوں کا نشانہ بن چکی ہیں.دیکھو انہیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو.الفضل انٹرنیشنل 23 ستمبر 2005ء) 223

Page 225

برتر گمان دو ہم سے احمد کی شان ہے حضرت اقدس مسیح موعود عالیشا کے کار ہائے نمایاں میں سے ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت سالم اسلام کے حقیقی ، ارفع و اعلیٰ مقام کو دنیا پر واضح کیا اور نشانات و دلائل سے یہ ثابت کیا کہ سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے حضور ملی پیہم کی سیرت قدسیہ جو قصوں کہانیوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی آپ مالینا نے اسے ہر قسم کی رحمت و برکت کا منبع و سر چشمہ ثابت فرمایا اور آپ صلی ان کی غیر محدود فیض رسانی اور ختم نبوت کی حقیقت کو کما حقہ اجاگر کیا.آنحضرت سلائی یتیم کی شان بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علی سلام فرماتے ہیں: ”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلۂ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار ، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی احمد مجتبی سال یا ایلی نام ہے.جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی...سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی 224

Page 226

اُمّی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا.اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی.زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اُس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے.وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الہی قو تیں اس کے ساتھ ہوں گی.والسلام على من اتبع الهدى اسی طرح آپ علیاسلام نے فرمایا: " (روحانی خزائن جلد 12 سراج منیر ص 82) اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی سانیا بیان جو اعلیٰ وافضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.“ (روحانی خزائی جلد 1 براہین احمدیہ حصہ چہارم ص 557) دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے.لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.انّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب: 57).ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں 225

Page 227

کیا گیا.صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.جیسے حضرت موسیٰ ، حضرت داؤ د حضرت عیسی علیہم السلام اور دوسرے انبیاء.سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت سیلا پیلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا.کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں کیونکہ اب ان کا نام ونشان نہیں.بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقینا نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے.لیکن آنحضرت سالیا ایلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے.اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے.اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول کی جاتی ہیں.اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی ا یہ ہم کی پیروی سے پایا.اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قو میں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا.پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے....ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج.وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا.وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو.کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا.اور کس نے صحت نیت سے اس 226

Page 228

دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا.لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نوران کے اندر داخل ہو.“ (روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت ص 303) اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ الفضل انٹرنیشنل 30 ستمبر 2005ء) غیر محدود ترقی قرآن مجید انسانی پیدائش کی غرض وغایت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ یعنی انسانی پیدائش کی اصل غرض اسی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے جب وہ عبادت یعنی قرب الہی کے حصول کی کوشش میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور اس کی تمام خداداد طاقتیں اس نقطہ مرکزی پر مرکوز رہیں کہ وہ خداشناسی و خدا دانی کے لئے کوشاں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علی) جو اس زمانہ میں معرفت الہی کی گمشدہ کیفیت کو زندہ کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے عبادت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت ، اور بھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُعَبَّد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر پتھر ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گو یا روح ہی 227

Page 229

روح ہو، اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع واقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری کنکر ، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 347) مذکورہ بالا تعریف ایک ایسے عارف باللہ کی بیان فرمودہ ہے جس نے اسلام اور بانی اسلام ال السلام کے منشاء مبارک کو سمجھتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کے تجربات پوری محبت وعقیدت اور پوری توجہ سے سر انجام دئے.اس لئے آپ کے فرمودات محض لفظی بیان نہیں بلکہ راہ سلوک کی وہ زندہ برکات ہیں جو آپ نے حاصل کیں اور جن کی طرف دنیا کو اپنے عمل اور نمونہ سے دعوت دی.اس تعریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ وسوسہ اور خیال خود بخود دُور ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی کیا ضرورت ہے.کیونکہ عبادت تو سراسر خود عابد کی بہتری ، ترقی اور اس کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار اور ظاہر کرنے کا نام ہے.جیسے جیسے ایک عابد عبادت میں ترقی کرتا جائے گا ، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہوتے ہوئے یا راہ سلوک میں پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ ہوتے ہوئے ان مشکلات پر قابو پانے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے سے قدم بہ قدم بہتری کی طرف بڑھتا چلا جائے گا.ایسا خوش قسمت انسان جب کسی شیطانی وسوسہ کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس سے بچنے میں کامیاب ہو جاتا اور شیطانی وسو سے اور بدی کی بجائے اس کے مقابل پر کسی نیکی کو حاصل کرتا ہے تو اس نے صرف خدا کے قرب میں ایک قدم ترقی ہی نہیں کی بلکہ اس نے اپنی بہتری کے لئے ایک اور قدم اُٹھا لیا ہے جو اسے حوصلہ بخشتا ہے کہ وہ اسی طریق پر آگے بڑھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اور کامیابی سے حصہ لے.شیطان کو اس کی تمام کوششوں اور وسوسہ اندازیوں میں نا کام کرے.اور یہ سلسلہ ایسا ہے جس میں مختلف مقامات تو 228

Page 230

ضرور آئیں گے مگر آخری منزل کبھی نہیں آئے گی اور جس طرح ایک پہاڑ پر چڑھنے والا ہر چڑھائی کے بعد آگے ایک اور چڑھائی اور چوٹی کو دیکھتا ہے اسی طرح منازل سلوک پر گامزن مسافر بھی آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.اس فرق کے ساتھ کہ چڑھائی کا چڑھنے والا تو اپنی جسمانی طاقت خرچ کرنے کی وجہ سے اپنی تکان اور کوفت میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے جبکہ راہ خدا کا مسافر ہر قدم پر شیطان کی ناکامی اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے جلووں کو دیکھ کر اور زیادہ انشراح اور خوشی سے آگے بڑھتا اور ہر قدم پر اپنے حوصلوں اور صلاحیتوں میں اضافہ پاتا ہے.اسی طرح پہاڑی پر چڑھنے والا تو بالآخر ایک آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے مگر راہِ سلوک کا خوش قسمت مسافر جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اس کی منزل زیادہ وسیع ، زیادہ بلند وارفع ہوتی چلی جاتی ہے.هُدًى لِلْمُتَّقین میں بھی یہی پیغام ملتا ہے کہ عاشق صادق تقوی کے ابتدائی مقام سے قرآنی رہنمائی میں ترقی کرتے ہوئے جب تقویٰ کے بلند مقام پر فائز ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بھی اسے قرآنی رہنمائی میں اپنی مزید کامیابیوں اور رفعتوں کے نئے نئے افق نظر آتے ہیں اور اس کا یہ با برکت سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے.عبادات کے مواقع ، عبادات میں شغف، عبادات کا ذوق وشوق اس غیر محدود ترقی کے سفر پر چلتے رہنا ممکن بناتا ہے.اسی لئے حضور سالی ہم نے یہ دعا سکھائی ہے: اللهمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِک.اے خدا میری مددفرما کہ میں تیرا ذکر وشکر کرسکوں اور عمدگی سے عبادت بجالانے کی توفیق پاؤں.آمین.حضرت مسیح موعود علی ام فرماتے ہیں : اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ تو عبادت کرتا رہ جب تک کہ تجھے یقین کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہو اور تمام حجاب اور ظلماتی پر دے دور ہو کر یہ سمجھ میں نہ آ جاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا.بلکہ اب تو نیا ملک نئی زمین ، نیا آسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں.یہ حیات ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقاء 229

Page 231

کے نام سے موسوم کرتے ہیں.جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی روح کا اس میں نفخ ہوتا ہے.ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے...66 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 369-368) الفضل انٹرنیشنل 7 اکتوبر 2005ء) غیر معمولی با برکت جلد انه ہمارے سالانہ جلسے خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں بڑی کامیابی اور شان وشوکت سے منعقد ہورہے ہیں.انگلستان کا جلسہ خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے مرکزی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا ہے اور دنیا بھر سے احمدی بڑی محبت، عقیدت اور پیار سے یہاں آتے ہیں اور جلسہ کی برکات حاصل کرتے ہیں.جرمنی ، کینیڈا اور امریکہ کے جلسے بھی اپنے حسن انتظام اور حاضری کے لحاظ سے بہت عمدہ شہرت رکھتے ہیں.ربوہ میں ہمارے جلسے اپنی تعداد و برکات کے لحاظ سے بہت اونچا مقام رکھتے تھے.لاکھوں افراد کا انتہائی سرد موسم میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر وہاں جمع ہونا فدائیت اور نیک مقاصد کی خاطر قربانی کی ایک انمول مثال تھی.مذکورہ بالا جلسے بلکہ دنیا بھر میں منعقد ہونے والے سالانہ جلسوں کی افادیت اور روحانی اثرات و برکات اپنی مثال آپ ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود نے سالانہ جلسہ کی بنیاد اپنی مستجاب دعاؤں سے رکھی اور فرمایا کہ 230

Page 232

خدا تعالیٰ نے ایسی قو میں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں شامل ہوں گی.مامورزمانہ کی دعاؤں سے جلسہ سالانہ کا بظاہر معمولی آغاز ایک ایسے روحانی ادارہ کا رنگ اختیار کر گیا ہے کہ دنیا بھر سے عشق وسلوک کے مسافر اس دور دراز گمنام قصبہ کی طرف کھنچے آنے لگے اور ایک نرم و نازک کو نپل کی طرح شروع ہونے والا جلسہ جلد ہی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک ایسے تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا جس کے ٹھنڈے سایہ تلے لاکھوں لوگوں کو سکون و اطمینان اور راحت و خوشی کا مائدہ روحانی ملنے لگا.قادیان کی چھوٹی سی بستی اور مرکزی مقدس مقامات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علی نام کے مقدس وجود سے تعلق کی وجہ سے ایسی پر اثر جذب انگیز کیفیت سے مالا مال ہو گئے کہ موجودہ زمانہ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی.الدار جس کے متعلق إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ “ کے الفاظ میں حفاظت کا خدائی وعدہ موجود ہے.بہشتی مقبرہ جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ملی کہ اس میں وہ لوگ آسودہ خواب ہوں گے جو بہشتی ہوں گے.مسجد مبارک جس کے متعلق یہ خوشخبری موجود ہے کہ اس میں انجام پانے والا ہر کام خدا تعالیٰ کی طرف سے برکتوں سے بھر دیا جاتا ہے.احمد یہ چوک کی وہ گلیاں جو بظاہر تنگ اور غیر ہموارسی ہیں ، میچ پاک عالیشا کے قدموں کو چھو کر شرح صدر اور بشاشت اور امن پھیلانے کا ذریعہ بن چکی ہیں.اس ماحول میں ہونے والا جلسہ یقینا دنیا کے کسی بھی جلسہ سے ممتاز اور نمایاں ہے.احمد یہ چوک کے وہ نظارے کہ جب وہ سارا علاقہ عشاق احمدیت کی سجدہ گاہ بن جاتا تھا.مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کی طرح گلی کوچوں اور قریبی مکانوں کی چھتوں اور صحنوں میں ہر طرف خشوع و خضوع سے دعا کرنے والے سجدہ ریز ہوکر اسلام کی سربلندی 231

Page 233

کے لئے گریہ وزاری کرتے ہوئے اور کہاں مل سکتے تھے!! احمد یہ چوک میں صرف ہندوستان کے دور ونزدیک سے ہی نہیں غیر ممالک کے باہم مخالف بلکہ متضاد حالات و عادات والے لوگ احمدیت کی برکت سے جب وہاں جمع ہوتے تو ایمانی قوت و بھائی چارے کا بے مثال مظاہرہ دیکھنے میں آتا.دسمبر کے آخری ہفتہ میں یہ روح پرور ، ایمان افروز نظارہ اپنی غیر معمولی شان سے ایک دفعہ پھر روحانی خزائن و برکات کے جلوے دکھانے والا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال جلسہ سالانہ قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شمولیت اس کی برکات میں اور زیادہ اضافہ کی باعث ہوگی.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جب قادیان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے تھے تو جماعت کے افراد نے تو آپ کی بابرکت موجودگی سے خوب خوب استفادہ کیا ہی تھا ، قادیان کے غیر مسلموں نے بھی اپنی آنکھوں سے جو نظارے دیکھے وہ آج تک ان کو بھلا نہیں سکے اور بڑی حسرت سے ہر سال احمدیوں سے پوچھتے رہے کہ آپ کے امام دوبارہ کب آ رہے ہیں؟ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے احمدیوں اور قادیان کے درویشوں کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے جلسہ کی برکتوں اور شان کو چار چاند لگ رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ جلسہ اپنی شان، اپنی کامیابی ، اپنی برکات ،اپنے نیک اثرات اور غیر معمولی فوائد کی وجہ سے جماعت کی تاریخ میں ایک تاریخی اور یادگار جلسہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.232 الفضل انٹرنیشنل 16 دسمبر 2005ء)

Page 234

ہمارا رمضان اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا بابرکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگی میں جلوہ افروز ہو رہا ہے.یہ مہینہ جو اپنے جلو میں ہر قسم کی عبادتوں میں ذوق وشوق میں اضافہ لے کر آتا ہے اور ہر مخلص مسلمان کو یہ موقع بہم پہنچاتا ہے کہ وہ زندگی بھر کی سستیوں ،غفلتوں اور گناہوں سے تو بہ کر کے خدا تعالیٰ کی رضا کے مواقع سے فائدہ اٹھا کر ایک معصوم و بے گناہ بچے کی طرح ہو جائے.اور تھوڑی سی مزید توجہ، کوشش اور خلوص سے کام لیتے ہوئے آئندہ زندگی کو پاک وصاف یعنی متقیوں کی سی بنالے.قادیان میں بچے اور نوجوان ہی نہیں بزرگوں کو بھی بڑے شوق سے کسی مسجد کی چھت پر یا کسی کھلے میدان میں چاند کی تلاش میں کوشاں دیکھا جا سکتا تھا.رمضان کے شروع ہوتے ہی بلکہ اس سے بھی کچھ پہلے بچے یہ اصرار شروع کر دیتے تھے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے لئے جگایا جائے.اگر والدین بچے کی کم عمری کی وجہ سے اسے سمجھاتے کہ بچے تو روزہ نہیں رکھ سکتے تو پھر بھی ان کا یہ اصرار ضرور جاری رہتا تھا کہ ہمیں سحری کے لئے ضرور جگائیں اور بالعموم وہ اپنے شوق اور اصرار کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ ان کے بزرگ بھی تو یہی چاہتے تھے کہ بچوں کو صبح اٹھنے، تہجد اور نماز میں شامل ہونے کی لت لگ جائے.سحری و افطاری کے حسب توفیق اہتمام کا ذکر کرنے کی تو چنداں 233

Page 235

ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس طرح بات زیادہ لمبی ہو جائے گی البتہ یہ ذکر غیر مناسب نہیں ہوگا کہ سحری کے لئے جگانے کا بھی خوب انتظام ہوتا تھا.بعض لوگ تو خوشی کے مارے بڑے بڑے ڈھول پیٹتے ہوئے گلیوں میں گھوم رہے ہوتے تھے تو بعض اطفال بھی اس سعادت کو پانے کی خوشی میں کنستروں وغیرہ کو زور زور سے بجاتے ہوئے گزرتے مگر اس کے ساتھ صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا ، صَلِ عَلى مُحَمَّدٍ “ کی مترنم اور روح پرور آواز بھی آتی تھی.سحری کھا کر مسجدوں کی طرف جانے کا نظارہ بہت ہی پیارا ہوتا تھا.قادیان کے رہنے والوں کے لئے تو رمضان کی برکتوں میں ایک نمایاں برکت حضرت میر محمد الحق صاحب بیلی عنہ کا درس حدیث تھا.اس عاشق رسول سال اسلام پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں وہ ایک خاص جذبے اور کیفیت سے حدیث پڑھتے ،اس کا مطلب بیان کرتے.خود بھی روتے اور حاضرین کو بھی رلاتے.ان کا درس ختم ہونے پر لگتا تھا کہ ہم کسی اور ہی دنیا کی سیر کر کے واپس آئے ہیں.ربوہ کی مساجد میں بھی اسی طرح درس حدیث کا بابرکت سلسلہ جاری رہا.مسجد مبارک ربوہ میں کبھی کبھی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ہی اللہ بھی درس دینے والوں میں شامل ہوتے تھے.آپ کا دھیمے مگر مؤثر و پر وقار انداز میں درس بھی ایک منفر درنگ رکھتا تھا.دو پہر کو سردیوں میں نماز ظہر و عصر کے درمیانی وقفہ میں اور گرمیوں میں نماز عصر کے بعد درس قرآن کریم کا روح پرور سلسلہ ہوتا تھا.حضرت خلیفہ اول ربی شہ ، حضرت میر محمد اسحق بنی الہ ، حضرت سید سرور شاہ صاحب بینی پختہ اور حضرت حافظ روشن علی صاحب بینی کشتہ کے درس قرآن کریم تو سننے کا اتفاق نہیں ہوا البتہ ان کی ندرت بیان اور نکتہ آفرینیوں کی شہرت ضرور سننے میں آئی ہے.بہت سے ناموں میں سے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب، حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب، حضرت قاضی محمد نذیر صاحب، حضرت قریشی محمد نذیر صاحب، حضرت مولانا ظہور حسین صاحب ، حضرت مولوی عبدالغفور صاحب کے نام ذہن میں آرہے ہیں.پہلے ایک پارہ کی تلاوت کی جاتی پھر اس کا 234

Page 236

ترجمہ اور وقت کی رعایت سے کسی قدر تفسیر بھی بیان ہوتی.تھوڑے وقت میں قرآنی مطالب جاننے کی یہ بہترین صورت ہوتی تھی.پہلے بزرگ تو پورے قرآن کریم کا اکیلے ہی درس دیتے تھے تاہم بعد میں دس دس پارے اور پھر اس کے بعد تو اس سے بھی کم حصے کا درس ایک عالم کے حصہ میں آتا تھا.بیرونی جماعتوں میں جہاں علماء کرام موجود ہوتے تھے وہاں بالعموم پورے قرآن مجید کا درس ایک عالم ہی دیا کرتا تھا.نماز تراویح کا بھی خاص اہتمام ہوتا تھا.اکثر مساجد میں حفاظ کرام بڑی عقیدت و پیار سے قرآن مجید سناتے تھے.حفاظ کرام میں سے سب سے زیادہ شہرت تو حافظ روشن علی صاحب نیا نہ کو ملی.اسی طرح حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی بنی نہ کی تلاوت کی بھی بہت شہرت سنی ہے.کہا جاتا ہے کہ ان کی تلاوت کی آواز سن کر تو کئی دفعہ راہ چلتے غیر مسلم بھی رُک جاتے اور کھڑے ہو کر ان کی مسحورگن آواز سے لطف اندوز ہوتے.حضرت حافظ محمد رمضان صاحب کی نماز تراویح میں بھی بہت کشش ہوتی.لوگ بڑے اہتمام سے دور کے محلوں سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے آتے.ان کی آواز بہت بلند تھی.پڑھنے کے انداز سے ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ مفہوم کو سمجھ کر پڑھ رہے ہیں اور خاصے کی چیز یہ تھی کہ نماز کے بعد خلاصہ مضمون بھی بہت عمدگی سے بیان فرما یا کرتے تھے جن میں مضمون کے مطابق حضرت مسیح موعود علیشام کے عارفانہ اشعار بہت خوبصورتی سے استعمال کئے جاتے تھے.قادیان اور ربوہ میں یہ مبارک سلسلے کسی نہ کسی شکل میں برابر جاری ہیں.ایک غلام احمد کے ذریعہ قادیان سے نکلنے والے چشمہ صافی سے قرآن وحدیث کی برکات دنیا بھر میں وسیع ہوگئی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ان برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق دیتار ہے.آمین.(الفضل انٹرنیشنل14اکتوبر2005ء) 235

Page 237

احمدی ماں کو سلام جلسہ سالانہ قادیان کا آخری دن جذبات کے ہیجان کا دن تھا.جلسہ میں شمولیت کی خوشی ، جلسہ کی کامیابی کی خوشی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات سنے اور حضور کی زیارت کی خوشی مگر اس کے ساتھ ساتھ خیالات کی ایک دوسری رہ بھی چل رہی تھی.قادیان سے واپسی کی اداسی.کیا پھر قادیان کی زیارت نصیب ہوگی یا ؟ احمدی احباب سے جدائی اور علیحدگی بہشتی مقبرہ مسجد اقصیٰ مسجد مبارک ، الدار سے جدائی، ایسے ہی خیالات کے ہجوم میں کسی قدر تھکان اور کمزوری محسوس کرتے ہوئے قادیان کے P.C.O میں اپنے بیٹے کے ہمراہ گیا تو وہاں لائن لگی ہوئی تھی.میری طرح اور کئی لوگ بھی قادیان کی زیارت سے محروم رہ جانے والے عزیزوں کو تسلی دلانے کی کوشش میں ٹیلی فون کی سہولت سے استفادہ کرنے گئے تھے.ایک نوجوان اپنی والدہ کو حیدر آباد دکن فون کر رہے تھے.کسی کی بات کو سننا اخلاقی لحاظ سے تو کوئی اچھی بات نہیں ہے.مگر وہاں اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی.وہ اپنی والدہ کو بتا رہے تھے کہ امی ابھی ابھی کوئی دس منٹ پہلے حضور سے ملاقات کر کے آرہا ہوں.یہ بات کرتے ہوئے وہ کچھ اس طرح سے جھوم رہے تھے جیسے وہ ابھی تک حضور کی زیارت سے لذت دسرور حاصل کر رہے ہیں.236

Page 238

آواز کے دوسرے سرے پر اس نوجوان کی والدہ اس بات کو کس طرح سن رہی ہوگی اس کا کسی قدر اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے.اس خاتون کو جب حضور ایدہ اللہ کے قادیان تشریف لانے کا پتہ چلا ہوگا تو سب سے پہلے تو خود قادیان جانے کی خواہش مچلی ہوگی مگر کسی غیر معمولی مجبوری کی وجہ سے،حالات یا صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر تو جلسہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل نہ کر پائی ہوگی مگر ذہنی طور پر تو شاید وہ اس نوجوان سے بھی زیادہ قادیان کے گلی کوچوں میں محبت وعقیدت سے گھومتی رہی ہوگی.حضور کے چہرے کو دیکھ کر کس طرح صدقے داری جارہی ہوگی.اس نوجوان نے اپنی تین چارمنٹ کی گفتگو میں یہ فقرہ ایک سے زیادہ دفعہ کہا ”امی حضور کا چہرہ...وہ اس فقرہ کو مکمل نہیں کر سکتا تھا.اس کو یہ یقین ہوگا کہ میرا یہ نامکمل فقرہ میری ماں کے لئے مکمل ہے اور وہ اس کو بخوبی سمجھ لے گی.اس کی والدہ نے غالباً کسی بات کی طرف اشارہ کر کے اس سے پوچھا ہوگا کہ تم نے یہ بات حضور سے کہی تھی ؟ امی مجھے کچھ یاد نہیں رہا.امی حضور کا چہرہ.وہ نوجوان اپنی بات پوری کر کے باہر نکل گیا.مجھے چاہئے تھا کہ اس کے پیچھے ہی باہر نکل جاتا اور اس کو گلے لگاتا.حضور سے ملاقات کی مبارکباد دیتا اور اس کی ماں کو عقیدت بھر اسلام بھجواتا جس کے حسن تربیت نے بچے کے دل میں اسلام و احمدیت کی محبت، خلافت اور خلیفہ وقت کی عقیدت راسخ کر رکھی تھی.لیکن میں ایسا کرنے سے محروم رہا جس کا وہاں پر بھی افسوس رہا اور آج بھی افسوس ہو رہا ہے.اس نا قابل فراموش واقعہ کو میں اس کے بعد بہت دفعہ یاد کر چکا ہوں ، بہت دفعہ بیان کر چکا ہوں اور یہ بھی سوچتارہا ہوں کہ ماں کی مامتا تو ایسی بے کراں ہے کہ آج تک کوئی بھی اسے پوری طرح بیان نہیں کر سکا.ماں کی مامتا دین العجائز کے خمیر میں گندھ جائے تو پھر اس کی مقصدیت اور جذ بہ قربانی کو بھی ناپانہیں جاسکتا.وہ ایک ایسی طاقت بن جاتی ہے جو دنیوی خس وخاشاک 237

Page 239

اور شیطانی وساوس کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے.حیدر آباد میں بیٹھی ہوئی مجبور ماں یا حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بیان کی بے بئے یا میری اور آپ کی ماں ، ہر احمدی کی ماں یہی کام کرتی ہے.وہ اپنے خون اور دودھ کے ساتھ دین کی محبت ، قربانی کی عظمت ، خلافت و مرکزیت کی اہمیت اپنے بچے کے دل میں قائم کر رہی ہوتی ہے.وہ مفتی محمد صادق اور شیر علی پیدا کر رہی ہوتی ہے.وہ احمدیت کا مستقبل تعمیر کر رہی ہوتی ہے.وہ احمدیت کے مخالفوں کو یہ بتارہی ہوتی ہے کہ میں نے اپنے بچے کو دودھ نہیں کلمہ کی محبت پلائی ہے.میں نے اپنے بچے کو قرآن کی عظمت سکھائی ہے.میں نے اپنے بچے کو جماعت اور خلافت کی اہمیت پلائی ہے.اعلیٰ اخلاق و مذہبی اقدار اس کی گھٹی میں شامل کر دی گئی ہیں.حیدرآباد کی مجبور ماں کو سلام ہر احمدی ماں کو سلام الفضل انٹرنیشنل 17 فروری 2006ء) 238

Page 240

اسلامی کردار.جوش پر ہوش کو مقدم رکھیں حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ خطبہ جمعہ فرمودہ 10ر فروری میں آنحضرت صلی الہام کے متعلق شائع ہونے والے بیہودہ، ظالمانہ اور دل آزار خاکوں کی ایک یورپین ملک میں اشاعت اور اس پر رد عمل کے متعلق ایک بصیرت افروز تبصرہ فرمایا اور جماعت کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.واقعہ یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علی نام کے اصلاحی اور تجدیدی کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے غم وغصہ کے وقت صبر و قتل سے کام لینے اور جوش پر ہوش کو مقدم رکھنے کی تلقین فرمائی اور اپنی جماعت کی اس رنگ میں تربیت فرمائی کہ کبھی بھی مغلوب الغضب ہو کر صراط مستقیم یعنی توازن و اعتدال کے رستہ سے دور نہ ہوں.آپ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتی.اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الہی سے دیکھتا ہے.صحیح فراست اور حقیقی دانش..کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو.اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو، فکر کرو، سوچو، تدبر 239

Page 241

اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں.کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پارسا طبع ہو جاؤ.جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ آل عمران (192) تمہارے دل سے نکلے گا.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 41) یورپ کے کسی اخبار نے آنحضرت سلیا ایلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے نہایت دل آزار قسم کے کارٹون شائع کئے ہیں.اس پر مسلمانوں میں غم وغصہ کے جذبات پیدا ہونا بالکل فطری اور طبعی امر ہے.کیونکہ ایک سچے مسلمان کے لئے اس سے زیادہ تکلیف کی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اس کے آقا و مطاع محبوب خدا مقصود کائنات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی رنگ میں بھی تو ہین کی جائے.وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس رنج و غم پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے :...میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی گواہ ہے مجھے اپنی دشمنی اور اپنی تو ہین یا عزت اور تعظیم کا تو کچھ بھی خیال نہیں ہے.میرے لئے جوا مر سخت ناگوار ہے اور ملال خاطر کا موجب ہمیشہ رہا ہے وہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی ایم جیسے کامل اور پاک انسان کی تو ہین کی جاتی ہے.اس صادقوں کے سردار سراسر صدق کو کاذب کہا جاتا ہے...( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 482) حضرت مسیح موعود عالیشام کے زمانہ میں جب ایسی دل آزار کتب شائع ہوئیں تو مسلمانوں کی طرف سے یہ کوشش کی گئی کہ گورنمنٹ ایسی کتابوں کو ضبط کر لے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ ام اس تجویز میں مضمر نقصانات کے پیش نظر اس کو پسند نہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 240

Page 242

پس میرا یہ اصول رہا ہے کہ ایسی کتاب کا جواب دیا جاوے...اور ایسا شافی جواب دیا جاوے کہ خود ان کو اس کی اشاعت کرتے ہوئے ندامت محسوس ہو...پس میری رائے یہی ہے اور میرے دل کا فتویٰ یہی ہے کہ اس کا دندان شکن جواب نہایت نرمی اور ملاطفت سے دیا جائے.پھر خدا چاہے گا تو ان کو خود ہی جرات نہ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 159 ) ہو سکے گی.“ کتاب کو سرکاری طور پر ضبط کروانے میں حضرت مسیح موعود علی شام کے نزدیک یہ نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ غیر مذاہب والے ہی نہیں خود مسلمانوں میں سے بھی بعض یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں واقعی کوئی ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جس کا ہم پورے طور پر دفاع نہیں کر سکتے اور مجبور ہو کر گورنمنٹ سے استمداد کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب کو ضبط کر لے.اور پھر یہ بھی کہ ایسی ضبط ہونے والی کتاب کی تو پہلے ہی اشاعت ہو چکی ہوتی ہے اور جوز ہر مخالف پھیلانا چاہتے ہیں وہ پھیلا چکے ہوتے ہیں.اگر اس کا شافی و مسکت جواب نہ دیا جاوے تو اس زہر کا تریاق نہیں ہوسکتا.دل آزار کارٹون کی اشاعت پر جماعت احمدیہ کی طرف سے اخبار اور حکومت سے معقول طریق پر احتجاج کیا گیا اور وہ لوگ جو اس دل آزاری کا باعث ہوئے تھے انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر معذرت بھی کر لی.اس موقع پر ایک اور رد عمل بھی دیکھنے میں آرہا ہے اور وہ احتجاجی جلوس ، ہڑتال ،لوٹ مار، آتش زنی ، پہلے جلانے قتل و غارت، جائیداد و املاک کا نقصان کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے.اس رد عمل کے متعلق نرم سے نرم لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ ہوش پر جوش کو مقدم کرتے ہوئے ، سچائی پر ہونے کے باوجود اسلام کی بدنامی کا باعث بنے قتل وغارت اور فساد وغیرہ سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کارٹون بنانے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور مسلمانوں نے خود اپنے ہو.ہاتھوں سے اپنا نقصان کرتے ہوئے رحمتہ للعالمین مال لا السلام کی تعلیم اور اسوہ حسنہ سے انحراف کا 241

Page 243

طریق اختیار کر لیا کیونکہ لوٹ ما را در قتل و آتشزنی کی تو کسی کو اجازت نہیں ہے.آنحضرت صلی یا اسلام کی حیات طیبہ میں رئیس المنافقین عبدالله بن ابی نے نہایت توہین آمیز کلمات سے حضور صلی ایلامی کی توہین کی.معاملہ حضور صلی یمن کی خدمت میں پیش ہوا.کیا حضور صل السلام نے اس شخص کو قتل کروادیا تھا؟ کیا حضور صلی ہم نے اس کا مکان جلا دیا تھا؟ مسلمانوں نے کونسی ہڑتال کی تھی اور کب جلوس نکالا تھا؟ ان امور کو سامنے رکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ حضور سی ان ایام کا اسوہ حسنہ اور آپ سی اینم کی مبارک تعلیم کیا تھی.کاش ہم اس مبارک طریق پر چلنے کی توفیق پائیں تاہم اسلام کے نادان دوست بن کر اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی اور نقصان کا موجب نہ بنیں.الحمد للہ حضرت مسیح موعود الاسلام کی مقدس خلافت سے وابستہ جماعت احمدیہ کے افراد اپنے امام کے تابع ہمیشہ سے اس وصیت پر کار بند ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نیک اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں.اے کاش امت مسلمہ کے دیگر افراد بھی آسمانی امام کی اس آواز کو قبول کریں اور خلافت حقہ سے وابستہ ہوکر ، ایک امام کے پیچھے چل کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کریں اسی میں کامرانی مقدر ہے.242 الفضل انٹرنیشنل 24 فروری 2006ء)

Page 244

خدمت دین کو اک فضل الہی جانو حضرت اقدس مسیح موعود علیہا نے اپنی دینی خدمات کا سلسلہ تن تنہا شروع فرمایا.آپ کی ابتدائی زندگی عبادت، مطالعہ کتب اور خدمت خلق کے لئے وقف تھی.آپ اس زمانے کے حالات سے بہت زیادہ متفکر تھے.ایک طرف مسلمانوں کی کمزوری، بے بسی ، بے عملی اور مایوسی کی کیفیت تھی.دوسری طرف عیسائی پادریوں اور ہندو مناروں کی طرف سے اسلام پر بے جا حملوں کا ایک طوفان بر پا تھا.مسلمانوں کی طرف سے یہی نہیں کہ کوئی باقاعدہ یا بے قاعدہ دفاع نہیں تھا بلکہ ستم ظریفی کی انتہاء یہ تھی کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت عیسی مالی نام آسمان پر زندہ اٹھالئے گئے.اور وہ ہزاروں سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور آخری زمانہ میں مسلمانوں کی گمراہی کی اصلاح کے لئے وہ آسمان سے دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے.دنیا آپ کو اترتے ہوئے دیکھے گی.وہ امام مہدی کے ساتھ مل کر کافروں کو نیست و نابود کر دیں گے اور اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا.اس غلط اعتقاد کی موجودگی میں کسی اصلاحی تحریک یا جذبہ پیدا ہونے کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی تھی.آنے والے نے آکر خود ہی سب کچھ کر کے مسلمانوں کی حکومت قائم کردینی تھی اور مسلمانوں نے ان فتوحات سے اپنے خالی خزانوں کو بھر لینا تھا.اور دونوں جہان کی سرخروئی حاصل کر لینی تھی.اس عقیدہ سے عیسائی پادریوں کا کام بہت آسان ہو جا تا تھا اور وہ مسلمانوں کو بہکانے 243

Page 245

میں بڑی آسانی سے کامیاب ہو جاتے تھے کہ (معاذ اللہ ) آپ کا رسول تو فوت ہو گیا اور زمین میں دفن ہو گیا مگر ہمارا رہنما فوت نہیں ہوا بلکہ اس نے موت پر فتح پائی اور آسمانوں پر چلا گیا اور اب وہی مسلمانوں کی اصلاح و بہتری کے لئے جلد واپس آنے والا ہے.ہمہ عیسائیاں را از مقال خود مدد دادند دلیری با پدید آمد پرستاران میت را اس پس منظر میں حضرت مسیح موعود علینا) کو جو مشکلات اور تکالیف پیش آئی ہوں گی ان کا پوری طرح اندازہ کرنا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.وہ مسلمان جو حضرت عیسی علیہ کی آمد پر بغیر کسی کوشش ، اصلاح و تبدیلی کے غلبہ وحکومت کے خواب دیکھ رہے تھے ان کو جگانا، صحیح راستہ پر لانا ، ان سے قربانیوں کا مطالبہ کرنا اور ان میں نیک و پاک تبدیلی پیدا کرنا جو ایک طرح سے مردوں کو زندہ کرنے کا کام تھا یقینا بہت ہی مشکل اور بہت ہی بڑا کام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ تن تنہا یہ چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے.دعوی ماموریت کے بعد آپ کو نہایت جاں شار عقیدتمند عشاق بطور معاون و مددگار میسر آنے لگے.حضرت مولانا نور الدین بنی یہ اپنی خاندانی وعلمی وجاہت کے باوصف ایک ادنیٰ خادم کی طرح حضور کے قدموں میں دھونی رما کر بیٹھ گئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بنی ہی اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گئے.واقفین کے اس گروہ میں آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بندی نہ لاہور میں ملازمت کرتے تھے مگر جب بھی کوئی چھٹی ہوتی حضور علیہ السلام کی خدمت میں دیوانہ وار حاضر ہو جاتے.اپنے اس مجاہدہ میں آپ کو کئی دفعہ رات کی تاریکی میں بٹالہ سے قادیان تک پا پیادہ جانے کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی.جبکہ وہ علاقہ اور راستہ اس زمانہ میں ہی نہیں بہت عرصہ بعد تک بھی سفر کرنے کے لحاظ سے بہت خطرناک 244

Page 246

سمجھا جاتا تھا.سفر کی غیر معمولی مشقت اور اخراجات برداشت کرنے کے بعد آپ حضور علیہ السلام کے ہر ارشاد کی تعمیل کے لئے بر وقت مستعد و چوکس رہتے کبھی حضور کے خطوں کا جواب دیتے کبھی حضور کو کوئی کتاب پڑھ کر سناتے کبھی غیر ممالک سے آمدہ لٹریچر و اخبارات کا خلاصہ حضور علی نام کی خدمت میں پیش کرتے.آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ نے حضور کے ارشاد پر عبرانی زبان سیکھ کر اس زبان کی بعض پرانی دستاویزات کے تراجم وخلاصے حضور السلام کی خدمت میں پیش کئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو خلافت ثانیہ میں بھی بعض تاریخی خدمات کی سعادت حاصل ہوئی.آپ امریکہ میں تبلیغ اسلام کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے.عشاق کے اس قافلے میں حضرت مولوی شیر علی صاحب بنایا، بہت بلند مقام رکھتے ہیں.انگریزی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کے لئے اعلیٰ سرکاری ملازمت کے دروازے کھلے تھے مگر آپ نے کمال استغناء سے کام لیتے ہوئے دینی خدمت کو ترجیح دی اور دونوں جہان حاصل کرلئے.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے دار العلوم دیو بند سے تکمیل تعلیم فرمائی.دینی علوم میں آپ کے کمال کا اس امر سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات حضرت مولانا نورالدین بنا وہ بھی بعض مشکل عبارتوں کے حل کے لئے اپنے شاگردوں کو حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں بھجوایا کرتے تھے.ان کو بھی دارالعلوم دیو بند میں بھاری رقم اور اعلیٰ خدمات کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے بھی حضرت مسیح موعود عالیشاء کی خدمت میں ایک خادم کی طرح زندگی گزارنے کو ہر سعادت وعزت پر ترجیح دی.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی بنی نہ بالکل نوعمری میں ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوئے مگر اپنی خدمت و عقیدت کو اس کمال تک پہنچایا کہ آپ کو قابل رشک خدمات کی توفیق ملی.جماعت کی ضرورت کے لئے اگر کبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بلایا گیا تو وہ بھی بلا پس و پیش حاضر ہو گئے.وقف زندگی کی تحریک ہوئی تو بیوہ ماؤں نے اپنے اکلوتے بچے تک دین کی خدمت 245

Page 247

کے لئے پیش کر دئے.وقف اور خدمت کے یہ ایمان افروز نظارے پہلے تو قادیان میں ہی نظر آتے تھے مگر پھر آہستہ آہستہ دوسرے شہروں میں بھی یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا اور اب تو ملکوں ملکوں احمدیت کے جاں نثار فدائی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اس مہم کی کامیابی کے لئے سرگرم عمل ہو گئے.خدا کرے کہ بانی اسلام ساسی یتیم اور خادم اسلام ایلام کی دعاؤں کی برکت سے دینی خدمت سرفروشی ، اخلاص و ایثار کی اس دولت سے ہماری جماعت ہمیشہ مالا مال رہے اور خدا تعالیٰ دین کے خدام کی خدمتوں کو شرف قبولیت عطا فرما تا رہے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 03 مارچ 2006ء) 246

Page 248

پانی کر دے علوم قرآں کو گاؤں گاؤں میں ایک رازی بخش سید نا حضرت امیر المونین خلیفہ امسح الناس اید اللہ تعالی نصرہ العزیز نے والدین نو کی ایک کلاس میں روزانہ قرآن کریم پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے کی تلقین فرماتے ہوئے ” دیباچہ تفسیر القرآن“ کا ذکر فرمایا.حضرت مصلح موعود بنی الیون کی تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن کا انگریزی اور بعض دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے.فہم قرآن کو عام کرنے کے لئے یہ کتاب بڑی مفید ہے.اس میں آسان اور عام فہم طریق پر ایسے امور بیان کئے گئے ہیں جن سے قرآن مجید پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے.اور قرآن مجید کی ضرورت ، افادیت اور اہمیت کا پتہ چلتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود مالینا نے فیج اعوج کی تاریکی کے بعد کے زمانہ میں انوار قرآنیہ سے زمانے کو روشنی بہم پہنچائی.زندگی بھر اسلام اور بانی اسلام لا یتیم کی عظمت و شان کو بیان اور ثابت کرنا آپ کی زندگی کا مقصد رہا.آپ کی تصنیفات و تقاریر قرآنی عظمت اور اسلام کے نقدس وشان کے اظہار کے لئے وقف تھیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول مولانا نورالدین پناہ بھی قرآن مجید کے عاشق تھے.آپ پڑاہٹھن.ساری عمر قر آنی علوم و معارف کے عام کرنے کے لئے مصروف رہے.حضرت مصلح موعود بنی امینہ نے 247

Page 249

بھی قرآن مجید کے شرف و مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی نوعمری سے ہی قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا اور زندگی بھر اس مبارک طریق کو جاری رکھا.آپ کی مشہور زمانہ معرکتہ الآراء تفسیر کبیر کیا بتداء بھی درس قرآن کی شکل میں ہوئی تھی.خدا بھلا کرے آپ کے ساتھ کام کرنے والے ان مخلص ساتھیوں کا جنہوں نے بڑی توجہ اور اخلاص سے ان درسوں کو ایسے وقت میں محفوظ کیا جبکہ درس ریکارڈ کرنے کے لئے کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی.اور اس طرح ان قرآنی معارف کو عام کرنے اور ہم تک پہنچانے کے لئے مجاہدانہ ہمت و محنت سے کام لیا.حضرت مصلح موعود بنا نشوہ کی تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر سے تو جماعت واقف ہے مگر حضور بانیوں کی جلسہ سالانہ کی فضائل القرآن کے نام سے سلسلئہ تقاریر بھی قرآنی علوم کا بہترین مخزن ہیں.جماعت میں خدمت قرآن کے جذبہ سے سر شار خدام کی کثرت حضرت مسیح موعود علیہ) کے تجدیدی کارنامہ کی مظہر ہے.حضرت حافظ روشن علی صاحب بنی یہ ، حضرت میر محمد احق صاحب بولی الہ ، حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب بیل کے تراجم قرآن مجید جماعت میں بہت مقبول رہے اور ترجمہ قرآن سیکھنے کے لئے بہت مفید تراجم تھے.انگریزی زبان میں حضرت مولوی شیر علی صاحب بینی ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بینی اور حضرت مکرم ملک غلام فرید صاحب بیٹی ایمن کو بہت نمایاں خدمات بجا لانے کی توفیق حاصل ہوئی.دوسری متعدد بین الاقوامی زبانوں میں بھی جماعت کے زیر انتظام تراجم بھی علم قرآن کو عام کرنے کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کے مذکورہ عنوان شعر میں آپ کی یہ خواہش اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علوم قرآن کو پانی کی طرح عام کر دے اور گاؤں گاؤں میں امام رازی وایتیم یہ جیسے علماء پیدا ہوں.حضرت امام فخر الدین رازی دای لینا یہ 1149 ء میں رے (ایران) میں پیدا ہوئے.آپ نے اسلامی علوم پر تحقیق و تصنیف میں زندگی بسر کی.آپ کی تفسیر قرآن کو اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ 248

Page 250

قبولیت حاصل ہوئی.آپ نے اس زمانہ میں جبکہ سارا کام انسان کو اپنے ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا اور لائبریریوں کی سہولت بھی آج کل کی طرح حاصل نہیں تھی.کمپیوٹر اور ٹائپ رائیٹر تو دور کی بات ہے انہیں تو فونٹین پین کی سہولت بھی حاصل نہ تھی.مختلف اور متنوع مضامین پر اتنا لکھا ہے کہ آپ طایفیملیہ کی سوانح لکھنے والوں نے یہ حیرت انگیز بات لکھی ہے کہ آپ کی تحریر اوسطاً60 صفحے روزانہ بنتی ہے.حضرت مصلح موعود بنایا تو یہ خواہش اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری جماعت میں امام رازی جیسے عالم ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں.قرآن مجید کی عظمت بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ فرماتے ہیں: " قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے قوت قدسیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ( الواقعه: -80) ایسا ہی فصاحت و بلاغت میں ( اس کا مقابلہ ناممکن ہے ).مثلاً سورۃ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی اور ترتیب استعمال کرو تو وہ مطالب عالیہ اور مقاصد عظمیٰ جو اس ترتیب میں موجود ہیں ممکن نہیں کہ کسی دوسری ترتیب میں بیان ہو سکیں.خواہ قُلْ هُوَ اللهُ احد ہی کیوں نہ ہو.جس قدر نرمی اور ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اس میں معارف و حقائق ہیں وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا.یہ بھی فقط اعجاز قرآن ہی ہے.“ وو ( ملفوظات جلد اول صفحه 53-52)...یا درکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے اور آنحضرت مالی ایتم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تمام دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے.جیسے فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ (الانبياء: 108).اور ایسا ہی قرآن کریم کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ هُدًى لِّلْمُتَّقِين (البقرة :3) - 249

Page 251

- یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ ان کی نظیر نہیں پائی جاسکتی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ جیسے تمام کمالات متفرقہ جو انبیاء میں سے تھے محمد رسول اللہ صلی لی ایم کے وجود میں جمع کر دیئے.اسی طرح تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے وہ قرآن شریف میں جمع کر دیئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 226) اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے ، پڑھانے سمجھنے اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(الفضل انٹرنیشنل 10 مارچ 2006ء) 00 کیوں چھوڑتے ہولو گو نبی سال تا پریتم کی حدیث کو روز نامہ جنگ لندن 2 فروری 2006 ء کے آن لائن (On-Line) ایڈیشن میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں نوابشاہ میں محرم میں 18 علماء کرام کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں شیعہ علماء بھی ہیں اور سنی بھی.مذکورہ بالا خبر ایسی بہت سی خبروں میں سے ایک ہے جو محرم الحرام کی آمد آمد پر پاکستانی اخبارات میں عام طور پر نظر آتی ہیں.محرم کے مہینہ میں نواسہ رسول (سالم) حضرت امام حسین ینیشن کی قربانی و شہادت کی یاد منائی جاتی ہے.اور بالعموم انہیں دنوں میں شیعہ سنی فسادات بھی ہوتے ہیں اور کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کے علاوہ جگ ہنسائی اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں.اس خبر میں حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام افراد جن پر پابندی لگائی گئی ہے اپنے اپنے علاقہ میں عالم دین کی حیثیت سے مشہور ہیں.مگر مسلمان کوفساد اور خونریزی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے.اسلام کا لفظ تو صلح، امن، فرمانبرداری کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے.ایک عام مسلمان سے بھی یہ توقع نہیں کی 250

Page 252

جاسکتی کہ وہ کسی طرح بھی کسی خرابی اور فساد کا باعث بن سکتا ہے.چہ جائیکہ علماء کرام کے متعلق یہ سمجھا اور کہا جائے کہ ان پر پابندی لگادی گئی ہے کیونکہ ان کی آمد ورفت سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے.قرآنی محاورہ کے مطابق تو عالم وہ ہوتا ہے جو خشیتہ اللہ رکھتا ہو.جیسا کہ فرمایا.إِنَّمَا يَخْشَى الله مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: 29) اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں.اسی طرح قرآن مجید فرماتا ہے وا تقو اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة:283) الله تعالیٰ سے ڈرو اور وہی تمہیں علم عطا فرماتا ہے.معلوم ہوا کہ فساد پھیلانے والے اور تقویٰ سے عاری لوگ علماء کے زمرہ میں شامل نہیں ہو سکتے.احادیث نبویہ میں آخری زمانہ کی جو علامات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں نام کے سوا اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.قرآن مجید کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے.(اس کا علم و عرفان اور انقلاب انگیز اثرات باقی نہیں رہیں گے )، اس زمانہ کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایت نام کی کوئی چیز ان میں باقی نہ رہے ہوگی.عُلَمَا هُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْت اَدِيْمِ السَّمَآئِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِيْهِمْ تَعُوْد ( مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث ) ان کے علماء آسمان کے نیچے پائی جانے والی مخلوق میں سے بدترین ہوں گے.ان سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے.حضور سالا السلام نے آخری زمانہ کے علماء کی جو تعریف بیان فرمائی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ایسے علماء بھی ہو سکتے ہیں جو بظاہر عالم ہوں.لوگ ان کو عالم سمجھتے ہوں، وہ مسجدوں اور مدرسوں پر قابض ہوں مگر ان کا علم سے کوئی واسطہ نہ ہو بلکہ فتنہ انگیزی ہی ان کا شغل ہے ہی ان کا سعل ہو اور وہ جہاں جائیں وہاں فساد و افتراق کا باعث بنتے ہوں.مذکورہ بالا خبر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں جو آئے دن ہنگامے ہوتے رہتے ہیں ، جلوس، ہڑتال، مار پیٹ، لوٹ مار قبل و آتش زنی کے جو 251

Page 253

واقعات سننے میں آتے ہیں اور جن سے حکومت کو لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہو جاتا ہے کئی بیوائیں اپنی زندگی کے سہاروں سے محروم ہو جاتی ہیں، کئی یتیم شفقت پدری کے سایہ سے محروم ہو جاتے ہیں، کئی مائیں اپنے جوان بیٹوں پر ماتم کرتی رہ جاتی ہیں اور دنیا بھر میں مسلمان نشانہ تضحیک بن کر رہ جاتے ہیں وہ ایسے ہی علماء کا کام ہوتا ہے.اور مزید حیرانی بلکہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کو بخوبی معلوم ہے اور ان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ اس خرابی ، انار کی اور افراتفری جس سے ملک ترقی کی بجائے تنزل میں چلا جاتا ہے کا باعث اور سبب کون ہے مگر اس کے باوجود کسی سیاسی مصلحت، کسی وقتی اور ذاتی فائدے کی خاطر وہ فساد اور شرانگیزی کے اس ذریعہ کو قابو میں لانے کی بجائے اسے مزید فساد پھیلانے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں مذہب اور خدا تعالیٰ کے نام پر جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلتے رہیں.کبھی شیعہ سنی کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر ملک میں بدامنی پیدا کر کے اپنی مفسدانہ کارروائیوں اور ان کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے سیاسی اور زمینی فوائد سے بہرہ ور ہوتے رہیں.بعض لوگ جو لا علمی یا کسی اور وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی آخری زمانے کی علامات پوری طرح ظاہر نہیں ہوئیں ، ان کے لئے مندرجہ بالا حدیث میں یہ واضح رہنمائی پائی جاتی ہے کہ جب وہ ذریعہ جس سے اصلاح و بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے باقی نہ رہے بلکہ الٹا وہی فساد اور خرابی کا باعث بن جائے اور باڑ ہی کھیت کو خراب کرنے لگ جائے تو اس کے بعد اس سے بڑھ کر اور کس خرابی کا انتظار باقی رہ جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی سب علامات اپنے اصلی اور حقیقی معنوں میں پوری ہو چکی ہیں.مسلمانوں کی مایوسی اور تنزل کو دور کرنے والا سیح و مہدی اپنے وقت پر ظاہر ہو چکا.مبارک وہ جو آنحضرت سائی یا اسلام کی بیان فرمودہ صداقتوں کو سمجھیں ، مانیں اور ان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں یار وجومرد آنے کو تھا، وہ تو آچکا.الفضل انٹرنیشنل 07 اپریل 2006ء) 252

Page 254

ارتداد کی سزا آج کل عالمی پریس میں افغانستان کی ایک خبر نمایاں جگہ پارہی ہے.اس خبر سے اسلام کی حسین تعلیم بڑی بھیانک اور خوفناک نظر آنے لگتی ہے.آئیے پہلے اس خبر پر نظر ڈالیں.اخبار ٹائمز لندن کے نامہ نگار مقیم کا بل Tim Albone لکھتے ہیں: ’41 سالہ افغانی عبدالرحمن 25 سال پہلے ایک مسلمان تھا.پھر اس نے ایک بین الاقوامی عیسائی تنظیم کے ساتھ پشاور میں اپنے ہم قوم لوگوں کی مدد کا کام شروع کیا اور جلد ہی عیسائیت اختیار کر لی.چودہ سال پہلے کا یہ فیصلہ اسے بہت مہنگا پڑ سکتا ہے کیونکہ عیسائی ہونے کے بعد اس نے چار سال پاکستان میں گزارے اور نو سال جرمنی میں رہا.2002 ء میں وہ واپس افغانستان گیا تا کہ اپنی دو بیٹیوں بعمر تیرہ اور چودہ سال کو اپنے ہمراہ لے جا سکے.اس کی بیٹیاں اس کی غیر حاضری میں اپنے دادا کے پاس رہتی تھیں جس نے نوجوان لڑکیوں کو باپ کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا....معاملہ پولیس تک پہنچا اور لڑکیوں کے باپ کو ارتداد کے جرم میں قید کر لیا گیا.اب وہ کابل کے مرکزی قید خانہ میں مقید اپنے مقدمہ کے فیصلہ کا انتظار کر رہا ہے جس کو نئے آئین کے تحت موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے.253

Page 255

عبدالرحمن کا مقدمہ قدامت پرستوں اور جدید خیالات کے لوگوں کے درمیان طاقت آزمائی کی صورت اختیار کر گیا ہے.ایک ماہر قانون کے مطابق افغانستان کے نئے آئین میں یہ بھی مندرج ہے کہ افغانستان کا مذہب اسلام ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ آئین بین الاقوامی انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے.سرکاری وکیل کو اصرار ہے کہ عبدالرحمن کو سزائے موت دی جاوے.البتہ اگر وہ پھر سے مسلمان ہو جائے تو اسے معاف کر دیا جائے گا.ابتدائی عدالت میں سماعت کرنے والے جج نے اخباری نمائندہ کو بتایا کہ مسلمان کو عیسائی بنانا جرم ہے.اس طرح ملزم اپنے خاندان اور مذہب کو ذلیل کرتا ہے.آپ کے ملک (برطانیہ) میں دو عورتیں باہم شادی کر لیتی ہیں جو نہایت غیر معقول ہے.ہمارے ملک میں بہترین قانون ہے جو کسی کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا.ابتدائی عدالت میں سزائے موت کے فیصلہ کی صورت میں مجرم صو بائی عدالت اور سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے.سزائے موت پر عمل صدر افغانستان کی تصدیق و توثیق کے بعد ہوتا ہے.“ ٹائمز لندن ، 21 مارچ 2006ء ، صفحہ 33) اسی اخبار میں مذہبی امور کی نامہ نگار Ruth Gledhill لکھتی ہیں: ”اسلام کی سچائی کا انکار کرنے والوں کے متعلق قرآن متضاد رہنمائی کرتا ہے.چودہ مقامات میں ارتداد کی سزا کا ذکر ہے جن میں سے سات مقامات پر اس دنیا میں کسی سزا کا ذکر موجود نہیں ہے بلکہ اگلے جہان میں سزا ملنے کا ذکر ہے.چالیسویں سورۃ میں ہے کہ جو صحائف کا انکار کرتا ہے اسے لوہے کی زنجیریں اور کالر پہنائے جائیں گے.اسے ابلتے ہوئے پانی اور جلتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا.دوسرے مقام پر قرآن برداشت کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں.“ 254

Page 256

دسویں اور اٹھارہویں سورۃ میں بھی ہے کہ جو ایمان نہیں لانا چاہتا اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے.“ یہ نامہ نگار حدیث کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ جو بھی اسلام ترک کرتا ہے اسے قتل کر دو.نامہ نگار نے مقدمہ کی سماعت کرنے والے حج کی طرف جو بات منسوب کی ہے اگر وہ درست ہے تو انتہائی تعجب کا مقام ہے.ہم جنسوں کی باہم شادی یقینا خلاف عقل ،خلاف اخلاق ،خلاف تہذیب ، خلاف شریعت ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ایک غلطی دوسری غلطی کے جواز کا سبب بن سکتی ہے.ہم جنسیت کو قانونی شکل دے دینا ہرگز اس بات کو جائز قرار نہیں دیتا کہ مسلمان غیر اسلامی، غیر انسانی، ظالمانہ حرکات کا ارتکاب کریں.قرآن مجید نے ارتداد کی کسی دنیوی سزا کا ذکر نہیں کیا.اس معاملہ میں باقی تمام معاملات کی طرح قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں ہے.قرآن مجید کا تو یہ ایک مستقل چیلنج ہے کہ لوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء: 83) یعنی اگر قرآن مجید خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے.اگر کسی کو قرآن مجید میں باہم اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے تو یہ یقینا اس کے اپنے فہم اور علم کا قصور ہے.قرآن مجید کی مسلمہ اعجازی شان کے خلاف ہے کہ اس میں معین اور واضح احکامات نہ دئے گئے ہوں.حقیقت یہی ہے کہ محض ارتداد کی سزا یقینا اس دنیا میں نہیں دی جاتی البتہ ارتداد کے علاوہ اگر کوئی دوسرے معاشرتی جرائم یا مفسدانہ حرکتیں کی گئی ہوں تو ان کی سزادی جاسکتی ہے.بعض مثالیں جو اس سلسلہ میں اشتباہ پیدا کرتی ہیں وہ اسی قسم کی ہیں کہ جنگ کے دوران کسی نے مرتد ہو کر دوسری طرف شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی یا دوسرے جرائم کا ارتکاب کر کے سزا سے بچنے کے لئے ارتداد اختیار کر لیا.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو اس کے دوسرے جرائم کی سزادی 255

Page 257

گئی نہ کہ ارتداد کی.قرآن مجید کے غیر مبدل ، منصفانہ اصولوں کے مطابق ہر شخص اپنے عقیدہ کے معاملہ میں پوری طرح آزاد ہے.یادر ہے کہ سرزمین کا بل میں مذہبی تنگ نظری اور ایسے ظالمانہ اقدامات کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود عالی سلام کے زمانہ میں دو احمد یوں حضرت مولوی عبد الرحمن خان صاحب اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو محض اس جرم میں کہ انہوں نے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت کے ارشادات کی روشنی میں مسیح وقت کو مان لیا تھا شہید کر دیا گیا.اس ظالمانہ کارروائی کی رض تفصیل حضرت مسیح پاک نے اپنی تصنیف ” تذکرۃ الشہادتین میں درج فرمائی ہے.1924ء میں حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب بن یلدہ کو بھی محض احمدی ہونے کے جرم میں نہایت بہیمانہ طریق پر شہید کر دیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی پایا.اس وقت لندن میں تشریف فرما تھے.حضور نے نہایت دردمند دل کے ساتھ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے حکومت افغانستان کے ظلم کی طرف متوجہ فرمایا اور دنیا کو بتایا کہ اسلام میں محض ارتداد کی کوئی سزا نہیں ہے اور ایسی خلاف شرع اور خلاف انصاف حرکات اسلام کو بدنام کرنے والی ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ افغان ایک غیور اور دینی قدروں کی حفاظت کرنے والی قوم ہے.اگر ان کے رہنما اور نام نہاد علماء ان کی غلط رہنمائی نہ کرتے تو وہ دنیا میں ایک معزز اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر تسلیم کی جاتی.مگر تنگ نظر ملاؤں نے اس قوم کی غلط رہنمائی کر کے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ آج وہ دنیا بھر میں نشانہ تضحیک بنی ہوئی ہے.اسلامی قوانین تو ایسے واضح ، منصفانہ اور سادہ ہیں کہ ان پر عمل کرنا تو دینی و دنیوی ترقیات کی ضمانت ہے.مغرب میں مذکورہ بالا خبر کا شدید رد عمل ہوا ہے.صدر بش اور ان کی انتظامیہ کابل حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے.بعض دوسری مغربی حکومتیں بھی افغانستان کی مدد بند کرنے کی جھمکی دے چکی ہیں.دوسری طرف افغان حکومت کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہی 256

Page 258

- ہے کیونکہ علماء کی کھلم کھلا مخالفت کی تو موجودہ امریکہ نواز حکومت بھی جرات نہیں کر سکتی.( تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان حکومت نے اس شخص کو جیل سے رہا کر دیا ہے اور اسے کسی مغربی ملک میں پناہ دی جارہی ہے ).کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک اپنے خلاف اسلام اقدامات کی وجہ سے اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بنیں.الفضل انٹرنیشنل 14 اپریل 2006ء) محترم مولانا صالح محمد احمدی صاحب عید قربان سے اگلے روز مورخہ 11 مئی 1995 ء بروز ہفتہ چچا جان مکرم مولانا صالح محمد احمدی ایک لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئے.آپ 1906 میں پیدا ہوئے آپ کا نام آپ کے والد حضرت فضل محمد صاحب نایلون کی درخواست پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا تھا.حضرت میاں فضل محمد بی ین: ہرسیاں والے کو ابتدائی زمانہ میں بیعت کی توفیق حاصل ہوئی اور اس کے جلد بعد ہی آپ اپنے گاؤں ہرسیاں سے ترک سکونت کر کے دیار حبیب میں ہی آباد ہو گئے.اس طرح چچا جان کا بچپن، جوانی اور حصول تعلیم کا سارا زمانہ قادیان کے علمی اور روحانی ماحول میں گزرا جس کا آپ کی طبیعت پر بہت گہرا نقش تھا.آپ حضرت مولانا نذیر احمد مبشر اور حضرت مولانا احمد خاں نسیم کے ہم جماعت تھے.اس وقت کے حالات اور طریق کے مطابق مولوی فاضل کر لینے یا جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سب طلباء کو صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے کسی خدمت پر مقرر کیا جانا ضروری نہیں تھا.محترم چا جان اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کاروبار 257

Page 259

میں مصروف ہو گئے.کچھ عرصہ آپ نے امراؤتی (ہندوستان ) میں بھی بسر کیا جہاں ہماری چچی جان ایک سکول میں معلمہ کے فرائض انجام دیتی تھیں.امراؤتی سے واپسی پر قادیان میں کاروبار شروع کیا جہاں ترقی کے اچھے مواقع تھے، مگر امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان کی تحریک پر دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے زندگی وقف کر دی.آپ کا وقف منظور ہوا اور حضرت صاحب بنا لشحن نے آپ کو بطور تا جر مربی مقررفرمایا.آپ کچھ عرصہ انگلستان اور لمبا عرصہ غانا میں اس حیثیت سے خدمات بجالاتے رہے.امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی بلی عنہ نے متعدد مرتبہ آپ کی خدمات کی تعریف فرمائی اور آپ کے کام کو بطور مثال پیش فرمایا.احمدیت سے لگاؤ اور قلبی تعلق مثالی تھا.امام جماعت سے محبت وعقیدت آپ کے ہر کام اور بات سے ظاہر ہوتی تھی.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ماٹو آپ کا لائحہ عمل تھا.ایک دفعہ قربانی کیلئے آپ ایک بکرا خرید کر لائے.آپ کے ایک عزیز نے آپ کو بتایا کہ اس نے بھی ایک بکرا خریدا ہے جو آپ کے جانور سے بہتر اور سستا ہے.محترم چچا جان نے متبسم چہرے کے ساتھ جواب دیا کہ ٹھیک ہے.آپ اچھا بکر استے داموں خرید کر لائے ہیں، مگر میں تو ایک احمدی بھائی سے خرید کر لایا ہوں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اور آپ کی زندگی میں وضعداری اور با اصول ہونے کی ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں.اپنے محلہ میں ایک لمبے عرصہ تک تدریس و امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے.وقت کی پابندی اور وفاداری یہاں بھی نمایاں تھی.اہل محلہ بہت عزت کرتے اور چھوٹے بڑے آپ کی بات کو توجہ سے سنتے یہی وجہ ہے کہ بہت سے جھگڑے اور غلط فہمیاں آپ کے دخل اور توجہ سے دور ہوئیں کیونکہ محلے والے خوب جانتے تھے کہ آپ کی باتوں میں خلوص محبت اور ہمدردی ہے.محترم چچا جان کی شادی محترم جناب ٹھیکیدار غلام رسول صاحب کی صاحبزادی سے زمانہ طالب علمی میں ہوئی تھی.غانا میں جماعتی خدمات بجالانے کی زمانہ میں ہی چچا جان گھر سے باہر 258

Page 260

اکیلے رہے.60 سال سے زیادہ شادی شدہ زمانہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی رہے.میاں بیوی کی باہمی محبت اور ہم آہنگی مثالی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا جو آپ کے جنازہ میں شامل تھے.برادرم مبارک احمد صاحب وفات کی اطلاع ملنے پرلندن سے آکر جنازہ میں شامل ہوئے.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایک کثیر العیال واقف زندگی کی مالی حالت کا اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمر بھر سفید پوشی بلکہ خوش پوشا کی کے ساتھ ساتھ عزت نفس کا بھی خوب خیال رکھا اور بڑے وقار اور احترام کے ساتھ زندگی بسر کی.چچا جان کی آخری بیماری بہت لمبی ہوگئی ایک سال سے زیادہ عرصہ بے ہوشی کے عالم میں بستر پر گزارا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری چچی جان اور ان کی اولاد نے خوب خدمت کی.فجزاهم الله احسن الجزاء.259 (روزنامه الفضل 9 جون 1995ء)

Page 261

داستان حیات مکرم سردار بشیر احمد صاحب مورخہ 2 مارچ 1995 ء بعمر 85 سال وفات پاگئے.آپ سلسلہ کے ایک مخلص و فدائی بزرگ حضرت سردار ماسٹر عبد الرحمن صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلامکے فرزند تھے.محترم ماسٹر صاحب سکھ مذہب کو چھوڑ کر احمدیت میں داخل ہوئے اور نیکی تقویٰ میں بہت بلند مقام پر فائز تھے.مکرم سردار بشیر احمد صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح میں حضرت ماسٹر صاحب کے ایمان وایقان اور قبولیت دعا و توکل کے متعدد واقعات درج کئے ہیں.ذیل میں صرف ایک واقعہ تحریر ہے.آپ لکھتے ہیں: ایک مجلس میں خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفت کلام کے متعلق بحث ہو رہی تھی.بحث کے دوران ہی آپ نے فرمایا.ابھی مجھے اس مجلس میں ( بتایا گیا) ہے کہ ریاضی کے پرچہ کا پہلا سوال بتا دیا جائے گا.مجلس میں موجود طلبہ نے کہا کہ ہم نے کوئی آواز نہیں سنی.حضرت ماسٹر صاحب نے فرمایا تمہارا فون خراب ہے تم اسے قادیان جا کر درست کراؤ.تم کو بھی ایسی آواز سنائی دینے لگے گی.دوسرے تیسرے روز سونے کیلئے سرہانے پر سر رکھنے ہی لگا تھا کہ مجھے ریاضی کا پرچہ دکھایا گیا جسے میں نے پڑھ لیا مگر مجھے پہلا سوال ہی یا د رہا جسے میں نے نوٹ کر لیا...ایک شخص ممتاز 260

Page 262

علی نے کہا کہ یہ اتفاق ہو گیا ہے کہ آپ کو پہلے سوال کا پتہ لگ گیا ہے.میں نے کہا آپ چالیس گریجویٹ ہیں اور مجھ سے لائق تر ہیں.تین ماہ بعد پھر امتحان ہوگا تم سارے مل کر میری طرح پہلا سوال بتا دو.وہ کہنے لگے کہ ہم چیلنج نہیں کر سکتے میں نے کہا یہی تو ہے جسے تم چالیس افراد نوے (90) دن میں نہیں کر سکتے جو میں نے دوتین دن میں کر دکھایا اس پر سب طلباء نے کہا کہ اگر کوئی اور امرغیب ظاہر ہو جائے تو اتفاق والا عذر لنگ بھی جاتا رہے گا.میں نے کہا اچھا دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ کوئی اور امرغیب قبل از وقت بتا دے انہی ایام میں مجھے ( بتایا گیا) ” بچہ ہے بچہ ہے بچی نہیں ہے یعنی امسال ہمارے گھر اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمائے گا.وہاں مکرم صوفی محمود محمد صاحب ( ماریشس ) ابھی ٹریننگ لے رہے تھے.یوسف وغیرہ نے بالائی طور پر ان کے ذریعہ قادیان سے پتہ منگوایا تو ان کی اہلیہ کا خط آیا کہ ماسٹر صاحب کے ہاں ابھی دو تین ماہ کی امیدواری ہے.جب لڑکا پیدا ہوگا تو اطلاع دوں گی چنانچہ سالانہ امتحان 1909ء کے قریب اطلاع بھیجی اور یوسف بورڈ پر سے کارڈ لایا اور کہا کہ صوفی صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے آپ کو دوہری مبارک باد لکھی ہے کہ لڑکا بھی پیدا ہو گیا ہے اور ( پہلے سے بتائی ہوئی بات ) بھی پوری ہوگئی.اس پر میں نے جلیبیوں کی دعوت دیگر طلبہ کو بلایا اور بتایا کہ اگرتم زندہ خدا کی عبادت کرو تو وہ ارحم الراحمین ضرور جواب دے گا.“ اس خوشخبری کے مطابق پیدا ہونےوالا بچہ سردار بشیراحمد اجنبی ہی تھے.محترم سردار بشیر احم صاحب کو حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے ارشاد اور نگرانی کے مطابق بعض عمارتی منصوبوں پر کام کرنے کی توفیق ملی.اس سلسلہ میں آپ کے پیار ومحبت کے بہت پیارے واقعات کتاب میں درج ہیں.جو آپ کی سیرت کے کئی دلکش پہلو نمایاں کرتے 261

Page 263

ہیں.یہاں صرف ایک ایسا واقعہ پیش کیا جاتا ہے:...اختتام تعمیرات کے قریب (حضرت صاحب) نے آٹھ دس انجینئر ز کو کھانے پر مدعوفر ما یا بعد ادا ئیگی نماز ہم سب ( آپ ) کے ہمراہ ( آپ) کے ڈائننگ روم میں جارہے تھے.میں (حضرت صاحب) کے بالکل ساتھ ساتھ پیچھے پیچھے چل رہا تھا.ٹیبل کے سرے پر ( آپ) تشریف فرما ہو گئے...کھانا کھاتے ہوئے میں نے اپنی بائیں جانب ایک شخص سے ٹشو پیپر طلب کیا.جب واپس اپنی پلیٹ کو دیکھا تو اس میں ایک مرغی کی ٹانگ جو نصف کھائی ہوئی تھی، پڑی ہوئی دیکھی.آپ میری طرف دیکھ رہے تھے.جب آنکھیں چار ہوئیں تو میں نے وہ مرغی کی ٹانگ ٹشو پیپر میں لپیٹ کر جیب میں رکھ لی.آپ سمجھ گئے کہ یہ اس تبرک کو اپنے گھر لے جا کر اہل خانہ میں تقسیم کر کے کھائے گا اور ( آپ ) کا یہ خیال ٹھیک تھا....کھانے کے بعد فوٹو لئے گئے.حضرت صاحب تخت پوش پر بیٹھ گئے اور ہم لوگوں نے بڑی اودھم مچائی.بچوں کی طرح کبھی ایک کبھی دوسرا حضرت صاحب کے بائیں یا دائیں بیٹھتا اور کافی دیر تک (حضرت صاحب) نے اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر رکھا..جماعت اور خدام سے حسن سلوک و شفقت کا ایک بہت ہی پیارا واقعہ بیان کرتے ہوئے محترم سردار صاحب لکھتے ہیں : ایک کمرہ کی دیوار میں سوراخ کرنے کو محمد عنایت ٹھیکیدار مصروف کار تھا اور ٹھکا ٹھیک ہتھوڑا مار رہا تھا.دوسری طرف اندرون خانہ میں اس کے دھماکوں سے انگیٹھی پر پڑا ہوا ایک نادر اور قیمتی جرمنی سے لایا ہوا پھولدان گر کر ٹوٹ گیا.نواب منصورہ بیگم صاحبہ نے (حضرت صاحب) سے شکایت کی.عنایت کو بلا یا گیا اورٹوٹا ہوا پھولدان دکھا کر اس کے مزدوروں کی بے احتیاطی پر توجہ دلائی جس پر وہ گردن جھکائے چند 262

Page 264

منٹ کھڑا رہا.جس سے نواب منصورہ بیگم صاحبہ کی دلجوئی ہوگئی کہ سزا مل گئی ہے.اب دیکھئے کس طرح عنایت کی دلجوئی کی جاتی ہے.(حضرت صاحب) کا ایک فرج مرمت ہوکر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں دو روز سے ٹیسٹ ہو رہا تھا.(آپ) نے دیکھا کہ برف جمی ہوئی ہے.فرج ٹھیک طرح سے کام کر رہا ہے.پاس ہی عنایت کھڑا تھا.اس کو کہا: ” عنایتی یہ فرج تم اپنے گھر لے جاؤ اور بچوں کو ٹھنڈا پانی پلایا کرو وہ ہکا بکا رہ گیا اور سرتا پا ممنون ہو کر فرج اپنے گھر لے گیا.اس جگہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک شخص کو ذراسی سزا دی اور پھر اس کی کیسے احسن رنگ میں دلجوئی بھی کردی.“ سردار بشیر احمد صاحب نے قبولیت دعا و تائید الہی کے متعدد واقعات اس کتاب میں لکھے ہیں مثلاً ایک دفعہ انہوں نے یہ افواہ سنی کہ انہیں ریٹا ئر کر دیا گیا ہے.یہ سن کر وہ جماعت کے ایک بزرگ کے پاس دعا کی درخواست کرنے گئے.اس بزرگ نے دعا کے بعد انہیں تسلی دلائی.مگر بظاہر یوں لگا کہ ان کا کام نہیں ہو سکے گا مگر سردار صاحب نے دعا اور کوشش جاری رکھی.وہ لکھتے ہیں: ”آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ میں نے افواہ سنی.ڈاکٹر محمد شفیع صاحب نے دعا دی.لاہور تین بار جانا پڑا ، دو ملاقاتوں کے بعد تیسری پر پتہ لگا کہ انڈر سیکرٹری میرے بزرگ احمدی دوست کا بیٹا ہے.اس نے میرا کام کیا اور اس کے بعد ان کا تبادلہ ہو گیا اور مبارک باد دینے کو ہمارے محکمہ کا سب سے بڑا افسر خود حافظ آباد چل کر آیا.یہ سب کچھ تصرف الہی کے ذریعہ ہوا اور یہ ساری عزت اللہ نے مجھے بخشی.میں تو شکر ادا نہیں کر سکتا.مکرم سردار صاحب کو متعدد جماعتی خدمات کا موقع بھی ملا.جن کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے : 1 - محکمہ دار الانوار کا لے آؤٹ 263

Page 265

2- احمد یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان 3- صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ایک دفتر میں ایک فنی خرابی کی اصلاح 4.حضرت صاحب کی کوٹھی ( ڈلہوزی ) میں تعمیر کی ایک فنی خرابی کی اصلاح 5- اراضی ربوہ کی پیمائش و نقشہ کی تیاری 6- صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے دفاتر کی تعمیر کے سلسلہ میں مشورہ ورہنمائی 7- مسجد اقصیٰ ربوہ کی تعمیر میں مشورہ 8-دار الحمد احمد یہ ہوٹل لاہور کی تعمیر 9- جدید پریس ربوہ کی تعمیر 10 - دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی دومنزلہ عمارت کی تعمیر 11.کوٹھی دار السلام النصرت کی تعمیر 12 - صدر انجمن احمد یہ ربوہ کی بعض عمارات کی مرمت اور دوبارہ تعمیر 13 - سرائے فضل عمر کی تعمیر 14.بورڈنگ ہاؤس تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی مرمت 15 - حضرت ام متین اور حضرت مہر آپا کی رہائش گاہ کی مرمت و ایزادی وغیرہ 300 سے زائد صفحات کی داستان حیات ایمان و توکل اور محنت ولگن کی داستان ہے.مجھے تو یہ کتاب پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ اس کتاب کی ہر سطر میں یہ دردمندانہ اپیل پائی جاتی ہے کہ: ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو (روزنامه الفضل ربوہ 28مارچ 1995ء) 264

Page 266

عرصہ سعی محبان تا ابد محمد ود ہے" اردو زبان کے تمام مشہور شعراء کے دیوانوں میں عشق و محبت کے موضوع پر بے شمار اشعار ملتے ہیں.اسی طرح نثر نگار ادیبوں نے بھی ضرور ہی اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے.ان تمام " شہ پاروں میں عشق و محبت کو بے کاری ہستی کاہلی، بے عملی پیدا کرنے کا ایک سبب اور ذریعہ قرار دیا گیا ہے: کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا جب عشق خلل دماغ ٹھہرا تو عاشق سے کسی اچھے تعمیری اور مثبت کام کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی اور اس کے مطابق کام کرنے کی توقع اور امید ہی عبث ہو جاتی ہے.ایک کامیاب عاشق کا تو طریق عمل یہی ہوگا کہ ؎ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن بیٹھے رہیں تصویر جاناں کئے ہوئے اس طرح، ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھے رہنے اور بے عملی کے لئے اس کے پاس یہ وجہ جواز بھی موجود ہے کہ ؎ بجا کہ ترک محبت میں ہے سکوں لیکن یہ دل کی بات ہے دل کس کے اختیار میں ہے 265

Page 267

عشق ومحبت کے باب میں سب سے زیادہ شہرت پانے والا قیس عامری اپنے اصل نام سے زیادہ مجنوں کے نام سے مشہور ہوا تو اس کی وجہ بھی وہی ہوسکتی ہے، جو غالب کے الفاظ میں اوپر بیان ہو چکی ہے.تصور جاناں کئے ہوئے بیٹھے رہنے، کے مضمون کو ایک اور مشہور شاعر نے اس طرح بھی باندھا ہے.میں چلا شراب خانے جہاں کوئی غم نہیں ہے جسے دیکھنی ہو جنت مرے ساتھ ساتھ آئے غرضیکہ عشق یا خلل دماغ اور عشق یا بے کاری و بے عملی مترادف ہی قرار دیئے جاتے ہیں اور یہ بات اردو شاعری یا اردو ادب تک ہی محدود نہیں.فارسی عربی بلکہ تمام مشرقی زبانوں کی شاعری میں جذبات کی تیزی و تندی کی وجہ سے یہی صورت حال نظر آتی ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسی الثانی علی یعنی اردو کے ایک قادر الکلام شاعر تھے.کلام محمود کے نام سے آپ کے کلام کا مجموعہ اپنی افادیت و تاثیر کی وجہ سے بڑی کثرت سے برابر اشاعت پذیر ہورہا ہے.آپ کی شاعری کا موضوع دین ہے.اس وجہ سے معروف شاعرانہ مبالغہ یا لفاظی اور فرسودہ مضامین کا اس میں کوئی شائبہ تک نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ کا کلام اپنے اندر تاثر و تغیر کی ایسی طاقت رکھتا ہے جس سے عام شاعری بالکل تہی دامن ہوتی ہے.عشق کو بے کاری کی وجہ قرار دینے کی بجائے آپ نے کلام الہی کی روشنی میں حقیقی عشق و محبت کو بے کاری اور ستی کو دور کرنے اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے ہمیشہ کوشاں رہنے کا جذ بہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: عشق و بیکاری اکٹھے ہو نہیں سکتے کبھی عرصه سعی محبان تا ابد محدود اسی مضمون کو آپ نے ایک اور طرح باندھتے ہوئے فرمایا: ہے 266

Page 268

عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو اس شعر میں عقل و دیوانگی کو ایک دوسرے کے مقابل باندھتے ہوئے دیوانگی کو ہمہ تن وقف اور لگن و دھن کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے.Commitmentاور Devotion کا بھی وہی مفہوم ہے جو اس جگہ حضرت صاحب نے دیوانگی کو عقل کے مقابل پر رکھ کر پیش فرمایا ہے.عقل کا لفظ یہاں عام معنوں یا عوام کے استعمال کے مطابق باندھا گیا ہے کیونکہ لغوی یا حقیقی طور پر تو عقل سلیم بھی انسان کو منزل مقصود کے حصول کیلئے پوری توجہ اور کوشش صرف کرنے پر آمادہ کرتی ہے عرصہ سعی محباں محدود ہے وقف کی حقیقی روح ان چند الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ ایک بلند مقصد کے حصول کی خاطر انسان اس بات کا خیال نہیں کر سکتا کہ میری ڈیوٹی یا فرض کی ادائیگی کے اوقات مقرر ہیں اور ان مقررہ اوقات سے پہلے یا بعد کام کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے.حضرت صاحب نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں فرمایا ہے کہ گھر والے یعنی گھر کا مالک اور اس کے عزیز اپنے گھر کا ہر ضروری کام ہر وقت از خود کرتے چلے جائیں گے اور انہیں اس مقصد کیلئے کبھی کسی تلقین اور یاددہانی وغیرہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی البتہ ملازم یہ سوال کر سکتا ہے یا یہ بات سوچ سکتا ہے کہ یہ کام میرے فرائض میں شامل نہیں ہے.یا میرے کام کے اوقات ختم ہو چکے ہیں.اس چھوٹے سے مصرع میں زندگی بھر بغیر کسی تکان یا اکتاہٹ کے مسلسل جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی کی نہایت موثر تلقین پائی جاتی ہے.جس میں یہ قید بھی نہیں ہے کہ میں زندگی بھر کام کروں گا بلکہ یہی عزم وجذ بہ نظر آتا ہے کہ محب صادق بغیر کسی رکاوٹ کے برابر تند ہی سے مقصد کے حصول کے لئے جد و جہد کرتا چلا جاتا ہے.آپ کے ایک اور شعر فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے آباد کریں گے اب دیوانے یہ ویرانے 267

Page 269

میں بھی فرزانگی اور دیوانگی کا ایسا ہی تقابل موجود ہے.فرزانہ یا عاقل تو کسی دلیل وجہ یا فائدہ کی غرض سے کام کرے گا اور اس وجہ سے اس کے کام یا جد وجہد میں وہ والہانہ جذ بہ نہیں ہوسکتا جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو دیوانہ وار اپنے نیک مقصد کے حصول کیلئے کوشاں ہوتا ہے.حضرت صاحب بیان کا مندرجہ ذیل شعر بھی اس مضمون کو بڑی عمدگی سے ادا کرتا ہے ؎ عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی روئے فلاح جو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل و ہشیار بھی ہو ہماری تاریخ ایسے خوش قسمت دیوانوں کے ذکر سے معمور ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کیلئے نہایت مشکل حالات میں کمال بہادری اور حوصلہ سے شاندار قربانیاں کیں اور اپنے انمٹ نشانات پیچھے چھوڑ گئے.ثبت است بر جریده عالم دوام ما (روزنامه الفضل ربوہ جولائی 1997ء) 268

Page 270

جلسہ سالان - احمد یہ چوک کی چند پرانی یادیں احمد یہ چوک مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر وہ راستہ جو ایک طرف لنگر خانہ کی طرف اور دوسری طرف بازار کو نکل جاتا تھا احمد یہ چوک کہلاتا تھا.مسجد مبارک کے نیچے سے ایک تنگ گلی مسجد اقصیٰ اور آگے بڑے بازار کی طرف چلی جاتی تھی اور ایک گلی احمد یہ درزی خانہ کے پہلو سے نکل کر اس راستہ تک پہنچ جاتی تھی جو بہشتی مقبرہ اور آگے ننگل وغیرہ دیہات کی طرف جاتا تھا.اس احمد یہ چوک کو احمد یہ تاریخ اور قادیان کی رونقوں اور جلسہ سالانہ کی گہما گہمی کا مرکز اور HUB کہا جاسکتا ہے.اس چوک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب بینی لی اور صاحبزادہ سراج الحق سرساوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے قدیم صحابہ کرام ین یہاں برائے نام دکانداری مگر در حقیقت خدمت دین اور مقصد سے لگن وعقیدت کی مستی میں مدہوش دست با کار و دل بایار کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے.پھر اس چوک نے یہ بھی دیکھا کہ ” وار دین و صادرین یعنی آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے جان محفل و روح قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنفس نفیس بصد مسرت خوشی مصروف ہیں اور جانے والے کو اس محبت و خلوص سے الوداع کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے اس 269

Page 271

مہمانی کو اپنے لئے وجہ مسرت بلکہ وجہ افتخار سمجھتا رہا.اسی چوک نے یہ نظارے بھی چشم حیراں سے دیکھے کہ مجھے غریب دلہن کی طرح کیوں سجایا جا رہا ہے؟ کہیں کسی دیوار پر تھوڑی سی چونے کی سفیدی ہوگئی.ڈٹمپر اور پینٹ وغیرہ کا زمانہ تو اب بہت بعد میں آیا ہے.اس سفیدی کی نوبت بھی نہ آسکی اور ویسے ہی صفائی اور جھاڑ پونچھ ہوگئی اور سمجھا گیا کہ جلسہ سالانہ کی تیاری ہوگئی ہے.احمد یہ چوک کے دوکاندار اور باسی یقیناً سارا سال بڑے اشتیاق سے جلسہ سالانہ کی آمد کا انتظار تو ضرور کرتے تھے.مگر اس انتظار میں وہ خوش نصیب دیہاتی بھی شامل ہوتے تھے جن کو جلسہ سالانہ میں شدید سردی کے موسم میں ایسے مہمانوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا تھا ، جو محض خدا کی خاطر انتہائی مشکل و پر مشقت سفر گھوڑوں، گڑوں وغیرہ پر اپنے اہل وعیال کے ساتھ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے مئے عرفان کی تلاش میں گھروں سے نکلے ہوئے ہوتے تھے.گھوڑوں اور گڑوں پر سفر کرنے والے تو پھر بھی کسی قدر سہولت سے منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہوں گے ان عشاق کی بھی کمی نہیں تھی جو اس قدر سہولت کے بھی متحمل نہ ہو سکتے اور وہ پا پیادہ ہی گھروں سے چل پڑتے اورے سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے رستہ میں ہر احمدی گاؤں یا ہر احمدی شخص ان کی پذیرائی گھلے بازوؤں اور کشادہ دلی سے کرتا اور باہم دینی باتیں کر کے روحانی و جسمانی غذا اور تقویت حاصل کر کے ایک رات آرام کر کے پھر اپنے مشن پر چل پڑتے.اے خوشا مہمانی اور اے خوشا میز بانی.پیدل چلنے والے.گڈوں، گھوڑوں ، تانگوں پر آنے والے ، گاڑی پر آنے والے اپنی منزل پر پہنچ کر سفر کی مشقتوں اور آسانیوں کو بھول کر جلسہ سالانہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کیلئے نیکیوں میں مسابقت کی مہم میں ہمہ تن شب و روز مصروف ہو جاتے.احمد یہ چوک کے سارے مکان اور دکانیں الدار کا حصہ بلکہ زیادہ صحیح تو یہ ہو گا کہ مسجد مبارک کا حصہ بن جاتے.عبادت گزار اپنی کثرت کی وجہ سے عبادت کے وقت دور دور تک کوچہ و بازار اور دکانوں مکانوں میں صف بستہ ہو جاتے...اس نظارہ کو 270

Page 272

محسوس ہی کیا جاسکتا ہے بیان نہیں کیا جاسکتا.ہر نماز سے پہلے اور بعد جلسہ کی تقاریر کے پروگرام سے پہلے بعد اور درمیان میں احمد یہ چوک عجیب نظارہ کی جلوہ گاہ بن جاتی.دیرینہ شناسا، پرانے واقف نئے شامل ہونے والے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور بآواز بلند ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دے رہے ہوتے.اس حال میں کہ ان کے چہرے غیر معمولی سکون واطمینان اور ایمان وایقان کے نور سے منور ہوتے.آپس میں گلے ملنے والوں میں مختلف زبانوں، لباسوں اور شکلوں والے لوگ شامل تھے.مگر ان کے باہم پیار و خلوص کو دیکھ کر کبھی یہ وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ زبان اور رنگ کا اختلاف با ہمی نفرت و بغض کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے.احمد یہ چوک بظاہر تو تنگ تنگ سڑکوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا چوک تھا لیکن وسعت و فراخی حوصلہ کے جو نظارے وہاں نظر آتے تھے ان کی وسعت و فراخی اور گہرائی کو ناپنے کے لئے ابھی انسانی ذہن نے کوئی کمپیوٹر ایجاد نہیں کیا.احمد یہ چوک میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے.برسوں بعد ملنے والے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر رہے ہیں.ادھر ادھر آنے جانے والوں کو مشکل سے راستہ مل رہا ہے کہ اچانک سب لوگوں کی توجہ اپنی باتوں اور کاموں سے ہٹ کر کسی اور طرف ہو جاتی ہے.وہاں موجود سب خوش قسمت بڑے ادب و احترام کے ساتھ ایک طرف ہو کر رستہ بنا رہے ہیں اور ” حضرت صاحب آگئے ، حضرت صاحب آگئے“ کی آواز آتی ہے.ایک بہت پاکیزہ صورت بزرگ’الدار سے باہر آتے ہیں.کبھی مسجد مبارک سے باہر آتے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی جلسہ گاہ جاتے ہوئے یا آتے ہوئے نظر آتے ہیں.کسی جلسہ کے انتظامات کا معائنہ کرنے کیلئے جارہے ہوتے ہیں.بغیر کسی افراتفری اور شور وشغب یا منتظمین کی بھاگ دوڑ کے ہر شخص ہر وقت ان کو ایک نظر دیکھنے کے شوق میں بڑا مودب و پر شد ہو کر اپنی جگہ کھڑا ہوجاتا اور ہمارے آقا حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی سالانہ ایک عجب شان دلربائی سے بڑی پیاری مسکراہٹ سجائے ہوئے خوشی ومسرت بخشتے ہوئے نکل جاتے اور جلسہ کا وقت ہوتا تو یوں 271

Page 273

لگتا کہ احمدیہ چوک بھی ان کے پیچھے پیچھے لپک لپک کر جلسہ گاہ میں پہنچ گیا ہے.یہ لکھنے کی توضرورت نہیں ہے کہ حضرت صاحب بینی کے خطاب کے وقت جلسہ گاہ اپنی تمام وسعت و فراخی کے باوجود تنگ پڑ جایا کرتا اور ہر سال ہی یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا بلکہ ایک دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ حضرت صاحب بیایند تقریر کرنے کیلئے تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ مشتاقان دید کو جلسہ گاہ کے باہر کھڑے ہو کر تقریر سننا ہوگی.آپ نے فرمایا کہ اگر جلسہ گاہ کو وسیع نہ کیا گیا تو آپ اگلے روز اپنے دوسرے خطاب کیلئے تشریف نہ لائیں گے.قادیان کے دن بھر کے تھکے ہوئے رضا کاروں نے.(جن میں اکثریت طالب علموں کی تھی اور دکاندار وغیرہ بھی شامل تھے ) شدید سردی اور تکان کے باوجود رات رات میں ہی پہلے جلسہ گاہ کی گیلریوں کو گرا کر صبح ہونے تک ایک وسیع تر جلسہ گاہ تیار کر کے اپنے امام سے خوشنودی کے سرٹیفکیٹ اور تمغے حاصل کئے.احمد یہ چوک کا ایک اور جان فزا اور روح پرور نظارہ یہ بھی تھا کہ جلسہ کے اوقات سے پہلے اور بعد میں وہاں احمدی شعرا کا کلام خوش الحانی سے اپنے شوق سے پڑھنے والے پڑھتے اور سننے والے بڑے شوق سے سنتے اور استفادہ کرتے.بعض عشاق قیام گاہوں میں جا کر اپنے وعظوں اور دلچسپ علمی چٹکلوں سے احباب کی ضیافت طبع کا سامان مہیا کرتے.اس کے لئے کوئی باقاعدہ پروگرام نہیں ہوتا تھا بلکہ شوق وطلب کی وجہ سے از خود ہی یہ سارا کام خلوص و محبت سے انجام پار ہا ہوتا تھا اور کسی کی طبیعت پر کسی طرح بھی گراں نہ گزرتا.جلسہ سالانہ کی پرانی یادوں کا مرکزی نقطہ تو حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ ضرت خلیفۃ المسیح الثانی بینہ کے وہ خطاب تھے جو گھنٹوں جاری رہتے اور سننے والے اس طرح محو ہو کر سنتے کہ وقت کا احساس تو دور کی بات ہے انہیں حوائج ضرور یہ بھی بھول رہے ہوتے.شدید سردی اور بعض اوقات تیز بارش میں اندھیرا چھا جانے کے باوجود عشاق احمدیت کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ ہمارا محبوب امام پھول بکھیر تا چلا جائے اور اپنا وجد آفرین بیان جاری رکھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ دنیا بھر کے مختلف مراکز میں اپنی روایتی شان سے جاری 272

Page 274

ہے بلکہ موجودہ زمانے کی سہولتوں اور ایجادات سے اس کی افادیت کے نئے نئے پہلو نمایاں ہوتے جار ہے ہیں اور شمع احمدیت کے پروانے جو پیدل دشوار گزار سفر کی وجہ سے پاؤں کے چھالوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے اب بھی پاسپورٹ ، ویزا اور دوسری بے شمار مشکلات اخراجات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جلسہ کی رونق میں اضافہ کرتے اور اپنی محبت و عقیدت کے نذرانے پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ شرف قبول عطا فرما دے.(روزنامه الفضل ربوه جلسه سالانه نمبر 1994ء) مهمان نوازی صحرائی عرب معاشرہ میں مہمان نوازی کو بہت بڑی خوبی اور شرافت و نجابت کی علامت سمجھا جا تا تھا عرب اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کے قبیلہ کی آگ ہمیشہ جلتی رہتی ہے اور کوئی مہمان کہیں سے بھی آجائے اس کی حفاظت اور ہر طرح کی خبر گیری اس آئین فطرت میں شامل تھی جو کاغذ قلم سے تو محروم تھا لیکن عمل سے کبھی محروم نہ رہا.عربوں کی مہمان نوازی کا تو یہ حال تھا کہ اگر کسی عرب سردار کے بیٹے کا قاتل سردار کی لاعلمی میں اس کا مہمان بن جاتا تو قصاص و بدلہ کی روایت کو انتہا تک پہنچانے والے بھی قاتل مہمان کو اکرام سے ہی رخصت کرتے.ایک ایسی ہی روایت کے مطابق عرب کے ایک مشہور سردار ( جو اپنی سخاوت و مہمان نوازی کی وجہ سے افسانوی شہرت کے حامل تھے ) کے پاس ایک دوسرے سردار نے یہ جان کر کہ انہیں اپنا گھوڑا بہت ہی عزیز ہے بعض لوگوں کو ان کے ہاں بھجوایا کہ وہ ان سے یہ گھوڑا مانگ کر اس کی سخاوت کا امتحان کریں.کہتے ہیں کہ جب یہ مہمان اس عظیم سنی سردار کے ہاں پہنچے تو اس وقت اتفاق سے مہمان نوازی کا معمول کے 273

Page 275

مطابق کوئی انتظام نہ ہو سکتا تھا.عرب سردار نے کوئی اور انتظام نہ ہوتے دیکھ کر اپنے عزیز از جان گھوڑے کو ذبح کروا کے اپنی مہمان نوازی کی روایت کو قائم رکھا.صبح جب مہمانوں سے ان کی آمد کا مقصد معلوم کیا گیا تو سردار کو بہت افسوس ہوا اور اس نے کہا کہ کاش آپ لوگ آتے ہی اپنے مقصد سے مطلع کر دیتے کیونکہ میں نے تو وہی گھوڑا جو یقیناً مجھے بہت ہی عزیز تھا آپ کی خاطر مدارات کیلئے پہلے ہی استعمال کر لیا ہے.قرآن مجید نے عربوں کی اس روایتی خوبی اور حسن کو چار چاند لگا دیئے.حضور صلی ہنم کا اپنا اسوہ حسنہ مہمان نوازی کی روایات کو آگے بڑھانے کا سبب بنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خلق عظیم کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے ایک پرانی کہانی کا سہارالیا اور حضرت اماں جان رضی اللہ تعالی عنھا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کہتے ہیں کہ کسی جنگل میں ایک مسافر کو رات آگئی وہ بھوکا تو تھا ہی مگر کھانے کو کچھ نہ پا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آگ جلا کر سینکنے لگا.اس درخت پر پرندوں کا گھونسلہ تھا.ان پرندوں نے ایک بھوکے مسافر کو درخت کے نیچے تھکا ہارا بیٹھا دیکھا تو آپس میں مشورہ کر کے اس مہمان کی مہمان نوازی کیلئے خود کو آگ میں گرا دیا اور مہمان نے اسے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے اپنی بھوک دور کر لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جو خوش نصیب آپ کی زیارت و ملاقات سے شرفیاب ہوتے تھے وہ اپنی اپنی طبیعت کے مطابق آپ کی کسی خوبی یا خصوصیت سے متاثر ہوتے مگر ایک بات جو سب زائرین یقینی اور واضح طور پر محسوس کرتے وہ آپ کی کمال مہمان نوازی تھی.مہمان کی آمد پر حسب موقع وضرورت اپنی چار پائی ، اپنا بستر ، اپنا کھانا مہمان کو کھلا دینا آپ کا پسندیدہ طریق تھا.بعض اوقات تو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مہمان چار پائی اور بستر پر آرام کر رہے ہیں اور آپ نیچے چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں.یہی نہیں بعض ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مہمان آرام کر رہے ہیں اور آپ پاس بیٹھے پنکھا کر رہے ہیں مبادا کہ مہمان کے آرام میں گرمی یا مچھر دیکھی کی 274

Page 276

وجہ سے خلل پیدا ہو.ہماری تاریخ کا یہ نمایاں امر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندگی بھر مہمان نوازی کا شعبہ اپنے پاس ہی رکھا.جماعت کا ہر فرد اور انصاف پسند غیر از جماعت بھی اس امر کے گواہ ہیں کہ دار الضیافت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہی ترقی پر رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک عربی شعر میں جو ارشاد فرمایا تھا کہ کبھی دستر خوان کے ٹکڑے میرے حصہ میں آتے تھے اور اب کئی خاندانوں کو میری وجہ سے کھا نامل رہا ہے تو یہ ایک ایسی صداقت ہے جس پر تمام وہ خاندان جو دنیا بھر میں احمد یہ مہمان نوازی سے مستفید ہور ہے ہیں، گواہ ہیں.حضرت خلیفہ المسیح اول بنی ہوہ کی سیر چشمی اور توکل کا مقام بہت ہی بلند اور ارفع تھا آپ نے ہمیشہ ہی اپنی آمدنی پر مستحقین کا حق سمجھا اور اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی اور جو ملا خدا کی راہ میں دے کرسکون و دلجمعی کی لازوال دولت سے مالا مال رہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسح لثانی بی خون کو مہمان نوازی کا خلق عظیم ورثہ میں ملا تھا.قادیان اور گرد و نواح کے لوگ اپنی طبی ضروریات ہمیشہ اس خاندان کے ذریعہ پوری کرتے رہے اور جب تک حضرت مولانا نور الدین کا مطب اور الگ ہسپتال قائم نہیں ہوا.مریضوں کی آماجگاہ یہی خاندان تھا.دار الضیافت کا انتظام تو باقی شعبوں کی طرح پہلے سے زیادہ بہتر ہوا مگر آپ ہمیشہ جماعت کو انفرادی طور پر بھی مہمان نوازی کی طرف توجہ دلاتے رہے اور آپ کا اپنا نمونہ بھی قابل رشک تھا.سرحد اور حیدر آباد کے بعض خاندانوں سے آپ کے خاندانی مراسم تھے.ان خاندانوں کے افراد قادیان آتے تو حضرت صاحب کے ذاتی مہمان سمجھے جاتے.جلسہ سالانہ پر جماعتی انتظام کے تحت ہزاروں مہمان عزت و احترام کے ساتھ ٹھہرائے جاتے اور ان کے قیام و طعام کا انتظام ہوتا مگر ان دنوں میں حضرت صاحب کے گھروں میں بھی مہمان خانہ کا ہی نظارہ ہوتا.حضرت اُم طاہر کی بیماری اور وفات کے حالات میں اس امر کا ذکر پایا جاتا ہے کہ آپ کی بیماری میں 275

Page 277

اضافہ کا ایک ظاہری اور نمایاں سبب یہ بھی تھا کہ وہ مہمان نوازی اور گھر کے خدام کو اپنے ہاتھوں سے سحری تیار کر کے روزے رکھواتی تھیں اور اس وجہ سے طبیعت زیادہ خراب ہو گئی.اس ایک مثال سے ہی پتہ چل سکتا ہے کہ آپ کے گھروں میں اس نیکی کے کام کی طرف کتنی توجہ تھی.جیسا کہ ذکر آچکا ہے.دارالضیافت اور انتظام جلسہ سالانہ تو ہمیشہ ہی اس کی سرانجام دہی میں مصروف رہتا تھا مگر خود حضرت صاحب بھی ذاتی طور پر پیش پیش ہوتے تھے.صدرانجمن احمدیہ نے ایک سال مد مہمان نوازی میں کچھ رقم پیش کی تو اگلے سال آپ نے فرمایا: ایک مدایسی ہے جس کے متعلق میں چاہتا ہوں کہ اسے اُڑا دوں...وہ مہمان نوازی کی مد ہے.ہے تو ضروری لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کسی شخص کو توفیق حاصل ہو تو...کسی قسم کا روپیہ وصول کرنا طبیعت پر گراں گزرتا ہے...اس مد کو نکال دیا جائے.“ دنیا کے مختلف ممالک میں جلسہ سالانہ کا انعقاد اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے ربوہ سے باہر رہنے کی وجہ سے اس عظیم الشان کام میں جو وسعت پیدا ہوئی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے الگ مضمون بلکہ کتاب کی ضرورت ہے.اللہ اس نیکی کو ہم میں ہمیشہ قائم رکھے.(روزنامه الفضل ربوہ 22 مئی 1996ء) 276

Page 278

کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی خوش قسمت انسان کو نصف صدی سے زیادہ اسلام اور قرآن مجید کی خدمت کی قابل رشک توفیق عنایت فرما دے تو یقیناً یہ اس انسان کی عظمت کی ایک دلیل ہے.میرے بزرگ استاد حضرت مولانا ابوالمنیر نورالحق نے یہ سعادت حاصل کی اور 1940 ء سے کلام الہی کی خدمت کی توفیق پائی اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ہی ہو، جسے اولو العزم اور مسلسل ان تھک جد و جہد کرنے والے رہنما کے ساتھ اس طرح کام کی سعادت حاصل کی کہ حضور بنی ہون نے متعدد مرتبہ آپ کے کام کی تعریف فرمائی.تفسیر کبیر کے سلسلہ میں حضرت صاحب نے جس توجہ اور محنت سے دن رات کام کیا اس کا ایک عام آدمی اندازہ بھی نہیں کر سکتا.مسودہ کی نقل و ترتیب اور پروف ریڈ نگ وغیرہ کے مراحل میں بڑی دلجمعی و محنت سے کام کیا.حضرت صاحب نے ایک موقع پر فرمایا کہ خدمت کلام الہی میں میرے ساتھ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلال پوری (حضرت مولا نا محمد جلیل صاحب کے والد گرامی ) جو بہت بڑے عالم تھے کام کیا کرتے تھے ان کی وفات کے بعد مولوی نور الحق صاحب کو یہ کام دیا گیا با وجود اس کے کہ وہ نوجوان ہیں.ان کو یہ توفیق ملی وہ میرے منشاء کو سمجھ کر اس کے مطابق کام کرتے رہے.اسی کام کی تکمیل پر حضرت صاحب نے اظہار خوشنودی اور حوصلہ افزائی کے طور پر استاد محترم کو ایک قیمتی خوبصورت چوغہ بطور انعام مرحمت فرمایا.277

Page 279

حضرت مولوی صاحب کبھی کبھی اس خلعت فاخرہ کو بڑی خوشی سے پہن کر دکھایا کرتے تھے.اسی طرح کسی علمی خدمت پر خوش ہو کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ علمی کام کرتے ہیں اس لئے آپ کو خاص خوراک کی ضرورت ہوگی.آپ میری طرف سے روزانہ دودھ جلیبی کھایا کریں.آپ اس لطف خاص سے سالہا سال تقسیم ملک تک متمتع ہوتے رہے.حضرت مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم اپنے آقا کے ہمراہ پہاڑ پر گئے وہاں پر بھی مسلسل کام ہوتا رہا.قادیان واپس آئے تو آپ نے فرمایا کہ آپ میرے ساتھ جاتے ہیں تو دن رات کام میں مصروف رہتے ہیں.آپ کو تو سیر و تفریح کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا.اب آپ اپنے کوئی سے چار دوستوں کو ساتھ لے کر پہاڑ پر جائیں اور رخصت گزار کر آئیں.اس عرصہ کے لئے حضرت صاحب نے ان کے ساتھ ایک باورچی کو جانے کا حکم دیا اور تمام اخراجات بھی خود ادا فرمائے.اسی رخصت سے واپسی پر جب استاد محترم قادیان پہنچے تو اتفاق سے اس دن حضرت صاحب اور اہل قادیان پکنک کی غرض سے نہر پر جارہے تھے.سب انتظام ہو چکا تھا اور حضرت صاحب جانے ہی والے تھے.حضرت مولوی صاحب نے کسی خادم کے ذریعہ اپنی آمد کی اطلاع دیتے ہوئے کہلوایا کہ آپ تو باہر تشریف لے جارہے ہیں اور ہم ؟ حضرت مولوی صاحب بڑی مسرت سے بتایا کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے از راہ زرہ نوازی جواباً فرمایا کہ ” آپ سر آنکھوں پر 66 حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ام طاہر بنی ہی نے مجھے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا.اس لئے میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا تھا جو اپنے بچوں سے کیا جاتا ہے.یہاں تک کہ میری کی شادی کی تمام ضروریات و اخراجات بھی حضرت صاحب نے اپنی جیب سے اپنی نگرانی و انتظام میں کروائے.اس مقصد کیلئے اس زمانے میں ایک موقع پر حضرت صاحب نے آپ کو سات سو روپے کی خطیر رقم عنایت فرمائی.اس زمانے میں جب گندم تین روپے من اور سونا 30 روپے تولہ تھا ، سات 278

Page 280

سوروپے بہت بڑی رقم تھی اور جس عظیم ہستی کی طرف سے یہ گرانقدر مدل رہی تھی اس کی نسبت سے اس رقم کی اہمیت بے حد وحساب ہو جاتی ہے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ مسیح ثالث ریالیہ کے زمانہ میں بھی آپ کی خدمات کا سلسلہ برابر جاری رہا.حضرت صاحب نے آپ کو اپنی امامت کے ابتدائی زمانہ میں یاد فرمایا اور بڑی محبت و پیار کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ روزانہ رات کو میرے پاس آیا کریں اور اپنے دن بھر کے کاموں کی رپورٹ دیا کریں.فرماتے تھے کہ یہ مجالس بہت ہی پر لطف ہوتی تھیں.دن بھر کے کاموں کے تذکرہ کے علاوہ آئندہ کرنے والے کاموں کے متعلق ہدایات ملتی تھیں.اس دوران حضرت بیگم صاحبہ موسم کے مطابق مشروبات کا اہتمام فرما تھیں اور اس خادم کی حوصلہ افزائی و دلجوئی کی جاتی.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ امسیح ثالث رویشعلیہ نے قرآن کی غیر معمولی اشاعت کا بیڑا اٹھایا تو اس کام کیلئے آپ کی نظر انتخاب حضرت مولانا صاحب پر ہی پڑی تو دیکھتے ہی دیکھتے قرآن مجید کی لاکھوں جلدیں حق وصداقت کی اشاعت کے لئے دنیا بھر میں پہنچ گئیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو محنت اور توجہ سے کام کرنے کا حوصلہ اور سلیقہ عطا فرمایا تھا.جو کام بھی آپ کے سپر د کیا جاتا آپ اسے ہر قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچاتے.آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے منتخب قائد کے طور پر بعض ایسی خدمات کی توفیق ملی جو آج بھی یاد کی جاتی ہیں.حضرت مولانا صاحب کے متعلق اگر یہ لکھا جائے تو ہر گز اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ آپ نے کبھی ہر دلعزیزی حاصل کرنے کی کوشش نہ کی.بات صاف واضح اور کھری کرتے اور اس امر کی مطلق پرواہ نہ کرتے کہ اس سچی بات کے نتیجہ میں کوئی کیا سمجھے گا اور کیا کہے گا.یہ الگ بات ہے کہ پر خلوص محنت کی وجہ سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہوتا اور دوستوں اور مداحوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جاتا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بنی شیعہ آپ کے قدر دانوں میں سے تھے اور جب بھی ربوہ تشریف لاتے حضرت مولانا صاحب سے ان کے ہاں جا کر ملاقات کرتے.279

Page 281

- موجودہ دور میں جبکہ چند در چند مصالح اور خدا کی حکمتوں کے مطابق ہمارے پیارے امام ربوہ سے جسمانی طور پر بہت دور رہتے مگر دلی طور پر ربوہ میں ہی رہتے ہیں.حضرت مولوی صاحب امام کے احکام کی تعمیل میں دن رات کوشاں رہتے.قرآن مجید کے ترجمہ و تشریح کا کام زندگی کے آخری لمحات تک جاری رکھا.بخاری شریف کے ترجمہ و تشریح کے کام کی سعادت بھی مل رہی تھی جب کبھی آپ کی رہائش گاہ مہبط الانوار جانے کا موقع ملتا آپ کے بیٹھنے والے کمرے میں چاروں طرف کتابیں اور مسودات پڑے ہوتے تھے.جتنی دیر میں کتابوں کو ادھر ادھر کر کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جاتی.آپ چائے یا شربت مع لوازمات لئے ہوئے بڑی پیاری مسکراہٹ چہرے پر سجائے سامنے ہوتے اور بہت پیار اور اصرار سے کچھ نہ کچھ ضرور کھلاتے اہلیہ ام عارضہ قلب سے بیمار ہوگئیں.حضرت مولوی صاحب ہمیشہ ان کے متعلق دریافت فرماتے.ہومیو پیتھک ادویات تجویز فرماتے بلکہ اپنے پاس سے ادویہ دیتے اور دعا کرتے تھے.جتنا عرصہ آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملتا آپ آپ خلفائے کرام نبیلہ کے پیار و شفقت اور خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کا ذکر ایک عجیب توکل واستغنا کے رنگ میں کرتے.ہومیو پیتھی کا ذکر آیا ہے تو یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آپ نے اس طریق علاج میں دلچسپی اور بنی نوع انسان سے ہمدردی کی وجہ سے مفت علاج کیا اور اس خدمت سے کبھی کوئی مالی فائدہ حاصل نہ کیا.اے خدا بر تربت اوا بر رحمت ہا بار.(روزنامه الفضل ربوہ 20 جنوری 1996ء) 280

Page 282

دہشت گردی یا صلح و محبت وطن عزیز میں لاقانونیت اور دہشت گردی اور ہیں درندے ہر طرف“ کا جو شیطانی رقص جاری ہے اس سے ہر پڑھے لکھے باشعور شخص کا ذہنی سکون غارت ہوکر رہ گیا ہے.خوف اور سہم کی یہ کیفیت ہر شخص کے لئے ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے کہ عافیت کا حصار کدھر ہے اور بدامنی، قانون شکنی اور بے چینی کب اور کیسے ختم ہوگی.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی یا انہوں نے ایک عرصہ قبل اس خطرہ کو بھانپ کر بڑی وضاحت سے اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائی تھی.یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے ملک پر غیر ملکی حکمران تھے اور بعض عاقبت نا اندیش رہنما لا قانونیت کے سہارے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے.اس کے برعکس حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی بیانہ کی تمام زندگی قانون کا احترام کرنے کرانے میں گزری اور حصول آزادی میں بھی آپ نے قابل صدر شک کردار ادا فرمایا.اطاعت وفرماں برداری کے فوائد اور سرکشی اور نافرمانی کے نقصانات بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ملک میں قیام امن خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پس اگر انگریز خود امن نہ بھی قائم کریں جب بھی ہمیں چاہئے کہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر بھی اسے قائم کریں اور یہ انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کیلئے اور اپنی اولادوں کو بداخلاقی سے بچانے کیلئے ہے.اگر کسی وجہ سے ہم اس فرض سے دستکش ہو جا ئیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ 281

Page 283

نادانی کی وجہ سے ہم اپنی اولادوں کو بگاڑتے ہیں اور اس میں انگریز کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا نقصان ہے...ہمارا یہ فعل خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے اس کے دین کے قیام کے لئے اسی طرح اپنے ملک اور اپنی اولاد کے اصلاح کیلئے ہونا چاہئے.ایسی شرارتیں بعض اوقات خود حکومتیں بھی کروادیا کرتی ہیں، تارعایا پر زیادہ تشدد اور ظلم کا موقع مل سکے اور میں کہوں گا اگر خود حکومت کی طرف سے بھی ایسی حرکات ہو رہی ہوں تب بھی ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ ہم انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا، اسلام، ملک اور اپنی اولادوں کی بہتری کیلئے ایسی تحریکات کے مخالف ہیں.اسی طرح ملک کے اندر قانونی شکنی کی جو روح پیدا ہو رہی ہے اسے بھی روکنے کی کوشش کرنی چاہئے.آج جن بچوں کو کہا جاتا ہے کہ جاؤ انگریزی قوانین تو ڑ دو.وہ کل ضرور باپ سے کہیں گے کہ جاؤ میں تمہاری بات نہیں مانتا اور اسی طرح شاگرد استادوں کی نافرمانی کریں گے.گویا یہ تحریک ہماری اہلی زندگی کو تباہ اور اولاد کی تربیت کا ستیا ناس کرنے والی ہے.اگر ان بچوں کو انگریزی قانون توڑنے کا عادی بنایا جائے گا تو یقیناً کل شاگر داستاد کو، بیٹی ماں کو اور لڑ کا باپ کو جواب دے گا.دراصل حقوق حاصل کرنے کیلئے صبر، تقویٰ، نیکی ، ہمت اور صداقت سے کام لینا چاہئے جو قوم سچائی کے ساتھ اپنا حق لینا چاہے، اسے کوئی محروم نہیں رکھ سکتا.صداقت خواہ ایک آدمی لے کر کھڑا ہو جھوٹ کو اس کے سامنے ضرور ذلت اٹھانی پڑتی ہے.بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کے سامنے دب جاتی ہے.جائز حقوق حاصل کرنے کیلئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا کسی صورت بھی مناسب نہیں.جو قوم جائز ذرائع سے جدوجہد کرتی ہے اور صداقت کے ساتھ اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے.ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اسے محروم نہیں رکھ سکتیں.جو حکومت رعایا کے بیدار جذبات کا لحاظ نہیں کرتی وہ خود بخود تباہ ہو جائے گی.(الفضل 14 فروری 1932 ء) 282

Page 284

ایک اور موقع پر اس بات کی مزید وضاحت کرنے کیلئے آپ نے فرمایا: د میں نے نان کو آپریشن کے متعلق نان کو آپریشن کے پر جوش ممبروں سے دریافت کیا ہے کہ تمہاری حکومت میں ایسا ہو تو تم اسے جائز قرار دو گے یا نہیں بعض نے تو صاف کہ دیا کہ نہیں بعض نے کہا جب ایسا ہوگا تو دیکھا جائے گا.“ ( الفضل 12 فروری 1923ء) قانون کے احترام کے نتیجہ میں جو قومی مفاد حاصل ہو سکتا ہے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ کا ارشاد ہے: ٹھنڈے دل سے غور کرو اگر قانون شکنی کی روح کو اس طرح پیدا کیا گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا.گورنمنٹ برطانیہ کا خیال دل سے نکال کر یہ تو سوچو کہ اگر ہندوستانیوں کی اپنی حکومت ہو تو کیا تم اس کو جائز سمجھو گے کہ حکومت کے جس حکم کو کوئی درست نہ سمجھے اس کو رد کر دے اور اس کا مقابلہ کرے...یاد رکھیں کہ وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس میں قانون کے احترام کا مادہ ہو.“ ترک موالات - صفحه 5 بعض اوقات قانون شکنی اس وجہ سے ضروری سمجھی جاتی ہے کہ ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل رہے.اس امر کے متعلق روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: بہت لوگ ہیں جو کہتے ہیں گورنمنٹ ہمیں حقوق نہیں دیتی اگر چہ میرا اس بات سے اختلاف ہے کہ کوئی ایسے حقوق ہیں جو گورنمنٹ نہیں دیتی لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ بات درست ہے تو میں کہتا ہوں کہ کسی چیز کے حصول کے طریق کئی ایک ہوتے ہیں جن میں سے بعض سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور بعض امن و امان کے ساتھ جاری رکھنے والے ہوتے ہیں اور کسی عقل مند یا دانا انسان کا یہ کام نہیں کہ ان طریقوں سے کام لے جو فتنہ و فساد پیدا کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے 283

Page 285

خود رعایا کے لئے تباہی و بربادی کے سامان پیدا ہوتے ہیں.دیکھو بنگال میں جو شورش کی گئی اس سے گورنمنٹ کو کوئی ایسا نقصان نہیں پہنچا مگر رعایا لٹ رہی ہے.ڈاکے پڑ رہے ہیں قبل ہو رہے ہیں، فساد وفتنہ پھیل رہا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ حکومت کا رعب ہی ہوتا ہے اور اسی سے ملک میں امن قائم رہتا ہے..." الفضل 14اگست 1917 ء ) ملکی آزادی کی کوششوں کو توازن و اعتدال میں رکھنے اور دہشت گردی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: " کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ملک کی آزادی کا جوش ہے.میں ان لوگوں کی کوششوں کو پسند کرتا ہوں مگر بعض دفعہ وہ ایسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں کہ انگریزوں کو نقصان پہنچانے کے خیال میں وہ اپنی قوم کے اخلاق اور اس روح کو جو حکومت کیلئے ضروری ہوتی ہے تباہ کر دیتی ہیں.ایسے لوگ بہت خطر ناک ہوتے ہیں...جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ دین حق کو گالی دینے سے دین کی ہتک ہوگی.وہ اگر عیسائی ہے تو عیسائی مذہب کا دشمن ، اگر سکھ ہے تو سکھ مذہب کا دشمن اور اگر ہندو ہے تو هند و دھرم کا دشمن، ہتک تو دراصل گالی دینے والی کی ہوتی ہے...اگر کوئی شخص مجھے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنی بد اخلاقی کا اظہار کرتا ہے...میں گالیاں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں تو اپنے بلند اخلاق کا اظہار کرتا ہوں...وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جوان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن.“ (12 اپریل 1929ء) بدامنی اور فساد کے مقابلہ میں ہمارا طریق کار کیا ہونا چاہئے اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: 284

Page 286

” ہمارے ملک کا امن ایک عرصہ سے اس طرح برباد ہو رہا ہے کہ میں جب بھی اس پر غور کرتا ہوں مجھے اپنے ملک کا نہایت ہی تاریک مستقبل نظر آتا ہے.ایک طرف میں کانگریس کو دیکھتا ہوں کہ اس کے اصول اتنے خطرناک اور فساد پیدا کرنے والے ہیں کہ اگر ہم انہیں مان لیں تو بجائے دنیا میں امن قائم ہونے کے فتنہ وفساد پھیل جائے.دوسری طرف میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلاتے ہیں کہ وہ حد درجہ کے لالچی ، دنیا دار، خود غرض اور قوم فروش ہیں....ہمارا مقصد بلند ہونا چاہئے اور ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ امن شکن اصولوں کا مقابلہ کریں اور دوسری طرف گورنمنٹ کے خوشامدیوں سے شدید نفرت رکھیں.“ (الفضل 7 جولائی 1932 ء) اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اطاعت اور فرماں برداری کا ہمارا طریق کسی لالچ اور دنیوی مفاد کے لئے نہیں ہے.آپ فرماتے ہیں: جن لوگوں نے ذاتی اغراض کے لئے ان سے تعاون کیا (انگریزوں سے ) ان سے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ تمہیں ہم نے اس کا معاوضہ ادا کر دیا.کسی کو خاں صاحب بناد یا کسی کو خان بہادر بنادیا، کسی کو مربعے دے دیئے.مگر دنیا کا کوئی انگریز ایسا ہے جس کے اندر شرافت ہو اور وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکے کہ تمہیں یا تمہاری جماعت کو ہم نے فلاں فائدہ پہنچایا ہے.اور کوئی دنیا میں ایسا انگریز ہے جس کے اندر شرافت ہو اور وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکے کہ تمہاری جماعت سے ہمیں فائدہ نہیں پہنچا....میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ اس عرصہ میں ہم نے حکومت سے کبھی ایک پیسہ کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا.نہ اٹھانے کیلئے تیار تھے.اور نہ اٹھانے کیلئے تیار ہوں گے.(الفضل 11 اگست 1942 ء ) اس اہم امر کے متعلق مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: 285

Page 287

” یہ مت خیال کرو کہ گورنمنٹ تمہاری قدر نہیں کرتی.ہم جو کچھ کرتے ہیں گورنمنٹ سے قدر کرانے کیلئے نہیں کرتے بلکہ خدا کیلئے کرتے ہیں اور خدا کے حکم سے کرتے ہیں کہ زمین میں فساد نہ کرو اور امن کو قائم رکھو...ہمارا یہ فعل اس غرض سے نہیں ہے کہ کوئی ہماری قدر کرے.ہمیں گورنمنٹ کیا دے سکتی ہے.ہمیں دینے والا ہمارا خدا ہے اس لئے ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی لالچ سے نہیں کرتے ہمیں تو خدا نے وہاں کھڑا کیا ہے جہاں کسی مدح اور ذم کا اثر پہنچ ہی نہیں سکتا...ہمارا کام خدا کی رضا حاصل کرنا ہے.ہمارے نزدیک لالچ گناہ ہے...ہم وفادار ہیں.ہم امن قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے.خدا ہمیں فساد سے روکتا ہے.پس تم دین کے لئے ، خدا کیلئے ،...امن کو قائم رکھو کسی کے قدر کرنے کے خیال کو دل میں بھی نہ لاؤ کیونکہ ہمارے دین کی ترقی اس سے ہوگی.اگر دنیا کی نظر میں تم اس وجہ سے ذلیل ٹھہر و تو مت پر واہ کرو کیونکہ خدا تمہاری عزت کرے گا.“ ( الفضل 10 مئی 1919ء) قانون کے اندر رہتے ہوئے جائز طریق سے جائز حقوق کے حصول کی تلقین کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ( ہمارے لئے ضروری ہے کہ.ناقل ) قانون شکنی کا مقابلہ کریں اور ادھر گورنمنٹ سے اپنے مطالبات پورے کرنے پر قانون کے اندر رہ کر زور دیں اور ثابت کر دیں کہ ہم ایسے ہی ملک کی آزادی کے خواہاں ہیں جیسے ہندو اور اس بات کو جاری رکھیں جب تک اپنے حقوق حاصل نہ کر لیں.ہر جگہ اور ہر علاقہ کی جماعتیں قانون شکنی کا مقابلہ کریں اور اس طرح گورنمنٹ کو امن قائم کرنے میں مدد دیں مگر اس کے ساتھ ہی صاف طور پر کھول کر کہہ دیں کہ ہم یہ 286

Page 288

نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک غلام رہے ہم اپنے..حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے اور انہیں حاصل کریں گے.“ (الفضل 9 مئی 1930 ء ) صحیح طریق پر کام کرنے اور اپنے اخلاق کو درست رکھنے سے کامیابی کے حصول کی بشارت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: وو باوجود یکہ ہم نہ تشددکریں گے اور نہ سول نافرمانی.باوجود یکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے.باوجود اس کے کہ ہم وہ تمام ذمہ داریاں ادا کریں گے جو احمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو...ہمارے لئے مقرر ہیں.پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہوکر رہے گی.کشتی احمدیت کا کپتان اس کشتی کو پر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ ساحل پر پہنچا دے گا.یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں.“ (الفضل 11 نومبر 1934ء ) ترک موالات ،سول نافرمانی ، عدم تعاون ، قانون شکنی کے متعلق حضرت صاحب نے بڑے زور بڑے اصرار اور بڑے تکرار سے دنیا کو یہ بتایا کہ اس کے نتیجہ میں قومی اخلاق تباہ ہو جائیں گے اور نوجوانوں کا کیریکٹر خراب ہو جائے گا.مگر پاکستان بننے کے بعد ایک ایسے طبقہ نے جو پاکستان کے قیام کے ہی خلاف تھا، یہاں قانون شکنی کی تلقین شروع کر دی اور اسکا یہ طریق اختیار کیا که بر سر عام اپنی تقریروں اور تحریروں میں احمدیوں کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لینے اور انہیں قتل کر دینے کی تلقین کرنے لگے.اس عام قانون شکنی کی تلقین کے نتیجہ میں امن وامان کی حالت بگڑنے لگی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو ایک جلسہ عام میں قتل کر دیا گیا.حضرت صاحب نے اس افسوسناک سانحہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:...بے شک قومی لحاظ سے خاں لیاقت علی خاں کا قتل نہایت افسوسناک بات 287

Page 289

ہے اور سیاسی لحاظ سے یہ امر ملک کے لئے نہایت نقصان دہ ہے لیکن اس کا مذہبی پہلو اور بھی خطر ناک ہے اور وہ یہ کہ ہماری سیاست تو گئی تھی اب مذہب پر بھی حملہ کیا گیا ہے اور دنیا بجھتی ہے کہ ہم وحشی ہیں اور جسے چاہتے ہیں قتل کر دیتے ہیں.کسی نے کہا ہے : زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا دنیا اس بات سے غافل ہے کہ مخالف کیا کہتے ہیں وہ احمدیوں کے قتل کا علی الاعلان ایک جگہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں حالانکہ حکومت اور اس کے کرتے دھرتے بھی موجود ہیں...پس میرے نزدیک ان خطرات کو دور کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ...ذہنیتوں کو خراب کرنے سے روکا جائے.“ (الفضل 6 نومبر 1951ء) اس سلسلہ میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر قانون کو ہاتھ میں لینے کی یہ تلقین اس طرح جاری رہی تو یہ تلقین کرنے والے بھی دور بیٹھ کر آگ نہیں سینکیں گے بلکہ لاقانونیت کی آگ سے یہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے.آج جو حالات پیدا ہو چکے ہیں ان میں حضرت صاحب کی دور اندیشی اور پیش بینی کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ ہورہا ہے.حضرت صاحب بطور نصیحت فرماتے ہیں: اے عزیز و اصلح اور محبت ایک پاک چیز ہے اور فساد وفتنہ نا پاک چیز ہے.خدا کا پیارا بننے کے لئے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کیلئے محبت اور عفو کا پیدا ہونا ضروری اسی طرح آئندہ نسلوں کو نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: مجھے ڈر ہے تو اس بات کا کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں ان مظالم کو پڑھیں گی اس وقت ان کا جوش...غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے...اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری 288

Page 290

ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں.“ (الفضل 19 فروری 1925ء) (روزنامه الفضل ربوہ 6اکتوبر 1996ء) ایک مثالی بہن پیکر ایثار و انکسار، عجز و خدمت کا حسین امتزاج پیاری بہن مکرمہ سکینہ سیفی 24 ستمبر 1997ء کو کراچی میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے سب اعزہ واقارب اور بے شمار ملنے اور جاننے والوں کو سوگوار چھوڑ گئیں.برادرم مکرم سیفی صاحب کی نصف صدی سے زائد کی شاندار جماعتی خدمات کے پیچھے یقیناً اس باہمت خاتون کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس نے ہر قسم کے حالات میں کسی قسم کی شکایت اور شکوہ کے بغیر گھر کے ہی نہیں باہر کے کام بھی اپنے ذمہ لیتے ہوئے انہیں وقف کے انتہائی اہم اور مشکل تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے آزاد کر دیا ہوا تھا.گھر کا کام کاج تو قریباً ہر خاتون خانہ کرتی ہی ہے مگر اپنے خاوند کی خدمت اس نقطہ نظر سے کرنے کی توفیق پانا کہ اس طرح میرے خاوند کو جماعتی کاموں کی سرانجام دہی کیلئے زیادہ وقت مل سکے گا اور وہ زیادہ سکون سے یہ کام سرانجام دے سکیں گے.ہماری اس بہن کا ہی کام تھا.بہت دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ خود بخار میں مبتلا ہیں یا کسی اور تکلیف میں 289

Page 291

ہیں مگر گھر کے کاموں کو اس طرح سرانجام دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے شوہر کو بھی اس کا علم نہ ہو مبادا وہ پریشان و فکر مند ہو کر اپنا کام وقت پر پورا نہ کر سکیں یا اس میں کوئی کمی رہ جائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے میاں بیوی میں مکمل ہم آہنگی اور باہم محبت تھی ہمارے گھروں میں ان کے پیارو محبت سے رہنے کو بطور مثال اور نمونہ پیش کیا جاتا تھا.اکثر دونوں ہی اکٹھے دیکھنے میں آتے تھے.برادرم سیفی صاحب کی زندگی میں تو کام ہی کام ہے انہیں اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ وہ گھر میں کام کر رہے ہیں یا دفتر میں کیونکہ ان کا گھر بھی ان کے دفتر کی طرح ہی ہوتا ہے چاروں طرف کتب و کاغذات بکھرے ہوئے اور وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف ایسے میں تھوڑا وقفہ کر کے کسی کے ہاں جانے پر آمادہ کرنا اور دونوں کا اکٹھے جانا بھی اسی مقصد سے ہوتا تھا کہ مسلسل بیٹھے رہنے سے طبیعت خراب ہو کر سلسلہ کے کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لمبے عرصہ تک اپنے حلقہ کی صدر لجنہ کے طور پر خدمت بجالانے کی توفیق عطا فرمائی اسی طرح بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کا بھی لمبا عرصہ اہتمام کیا اور اس وجہ سے آپ سے ملنے والوں اور استفادہ کرنے والوں کا دائرہ بہت وسیع تھا.یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے کبھی کسی کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے محلہ کے لوگ اور عزیز واقارب آپ کی خوش خلقی کی وجہ سے آپ سے عزت واحترام کا سلوک ہی کرتے تھے.برادرم سیفی صاحب ایک لمبا عرصہ خدمات دینیہ کے سلسلہ میں بیرون ممالک اکیلے ہی رہے اس سارے عرصہ میں بڑے صبر وقتل اور بردباری کے ساتھ آپ اپنے بچوں کی پرورش و تربیت میں مصروف رہیں.آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی پانچوں ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے اعلیٰ تعلیم اور حسن اخلاق سے مزین ہونے کی وجہ سے عملاً اس امر کے گواہ اور ثبوت ہیں کہ ان کی عظیم والدہ نے ان کی تربیت کا حق ادا کر دیا.چند سال آپ کو بھی خدمت کے میدان میں بیرون ملک نائیجیر یا میں رہنے کا موقع ملا.اس زمانہ میں وہاں ہمارے جتنے بھی مربی تھے وہ سب اس ہمدرد 290

Page 292

خاتون کی بزرگانہ شفقت و محبت سے حصہ پاتے رہے.آپ افریقن خواتین سے پیار و محبت سے پیش آتیں اور ان کی تعلیم و تربیت میں عملاً اس توجہ اور انہماک سے حصہ لیتیں کہ وہ آج تک اس سلوک کو بھلا نہیں سکیں اور انہیں ایک مہربان ماں کی طرح یاد کرتی ہیں.حسن اتفاق سے ہمارا گھر ان کی رہائش گاہ سے قریب ہے اس وجہ سے ہمیں ان کی شفقت و پیار سے استفادہ کا زیادہ موقع ملتا رہا.عام پڑوسیوں میں جولین دین اور سلوک ہوتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر ہر ایسے موقع پر جب یہ خاکسار گھر پر نہیں ہوتا تھا میری اہلیہ اور بچوں کو ان کی پیار بھری توجہ اور نگرانی حاصل ہوتی تھی.ہمارے بچے بہت زیادہ مانوس اور باہم اکٹھے ہی اٹھتے بیٹھتے اور کھیلتے بڑھتے رہے.جتنا عرصہ خاکسار پاکستان سے باہر رہا بچوں کی خیریت کی خبر ان کے ذریعہ ملتی رہی اور اس زمانہ کی میرے بچوں کی اکثر تصاویر ان کے ہاں کی ہیں.خاکسار کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتی تھیں.بعض واقعات کو بیان کر کے کہا کرتی تھیں کہ میرے اس بھائی نے میرا بہت ساتھ دیا ہے.اسی طرح میری اہلیہ صاحبہ سے بھی بہت پیار کرتی تھیں بسا اوقات تو یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر دن میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھی ان سے ملتیں تو مصافحہ کے علاوہ معانقہ بھی ضرور کرتیں اور پھر ان کی حوصلہ افزائی کیلئے کسی کپڑے کسی کھانے کی خوب تعریف کر کے ان کو خوش کر دیتیں اور ان کا یہ سلوک غالباً سب ملنے والوں سے ہی تھا کیونکہ ان کی زندگی اور حالات پر نظر ڈالنے سے یوں لگتا ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے اور دوسروں کی خدمت کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے تھیں.اللہ تعالیٰ مغفرت و قرب سے نوازے.(روزنامه الفضل ربوه 16 اکتوبر (1997) 291

Page 293

حضرت مصلح موعود بنی ہیں.ایک اولو العزم را ہنما حضرت مرزا بشیر الدین محمود احد صاحب خلیفہ مسیح الثانی بیان کوئی ایسی لیڈر تو نہ تھے نہ ہی اکثر و بیشتر سیاسی رہنماؤں اور طالع آزماؤں کی طرح آپ کی نظر کسی وقتی دنیوی مفاد و اقتدار پر تھی.یہی وجہ ہے کہ آپ نے ملی اور قومی مفاد کے منصوبوں اور جدوجہد میں جو ر ہنمائی فرمائی اور اپنی بلند دینی اقدار و تعلیمات کی محبت وعقیدت میں جو خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی ان میں یہ بات بہت ہی نمایاں اور واضح ہے کہ آپ نے کبھی کوئی دنیوی مفاد ومعاوضہ حاصل کرنا تو دور کی بات ہے ایسے فوائد حاصل کرنے کی خواہش بھی نہ کی بلکہ اگر کسی حلقہ سے کبھی کوئی ایسی پیشکش ہوئی تو اسے کمال شان استغناء سے ٹھکرادیا.اس بے غرضی اور بے نفسی کی وجہ سے آپ کی خدمات کی شان اور نتائج واثرات میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے.آپ کی خدمات وجد وجہد میں ایک اور نمایاں خوبی اور خصوصیت یہ بھی نظر آتی ہے کہ آپ نے اصلاح و بہتری کے ہر کام میں کلام الہی کو اپنا رہنما قرار دیتے ہوئے ہمیشہ صحیح سمت میں ہی قدم اٹھایا اور اسی وجہ سے آپ کی خدمات کو ناکام تجربوں کے صدموں اور ناکامیوں سے دوچار نہ ہونا پڑا.گویا ایمان و توکل آپ کا زاد راہ.عزم ویقین آپ کا طریق عمل اور بے غرضی و بے نفسی آپ کا اسلحہ تھا.ظاہر ہے کہ یہ امور جہاں بھی اور جب بھی جمع ہوجائیں یقینی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوتے 292

Page 294

ہیں.یہی وجہ ہے کہ مخالفت کی زور دار آندھیوں اندرونی و بیرونی فتنوں کے ہجوم کے باوجود آپ کی زندگی غیر معمولی تائید و نصرت، کامیابیوں اور فتوحات کے ایمان پرورجلووں سے معمور ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کو علمی میدان میں نہایت مفید اور دور رس خدمات سرانجام دینے کی سعادت عطا فرمائی.اس امر کی عظمت میں اس وجہ سے بھی بہت اضافہ ہو جاتا ہے کہ آپ کی ظاہری تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی.آپ کی تعلیم کے سلسلہ میں حضرت مولانا نورالدین کا اسم گرامی بھی آتا ہے مگر یہاں بھی ایک عجیب امر سامنے آتا ہے.طالب علم کی صحت کی خرابی و کمزوری کی وجہ سے حضرت مولا نا نور الدین خلیفتہ اسی اول دینی تھن، کتاب پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ طالب علم سننے پر ہی اکتفا کرتا ہے.اور یہ کام بھی مہینوں اور سالوں پر ممتد نہیں ہوتا بلکہ دنوں میں ہی مکمل سمجھ لیا جاتا ہے.اس تعلیم کے دوران اگر کبھی طالب علم نے کسی مشکل مقام کو سمجھنے کیلئے سوال کر کے اپنے علمی تشنگی کو دور کرنا چاہا تو اس معلم دانش و حکمت نے کبھی سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہ فرمائی بلکہ یہی جتلا دیا کہ خود ہی غور کر کے بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس طرح اپنے طالب علم کو ایک ایسی کان معرفت میں داخل کر دیا جہاں حق و حکمت کے کبھی نہ ختم ہونے والے بیکراں خزائن موجود تھے.اس طالب علم نے بھی غور و فکر کا حق ادا کر دیا اور یہی نہیں کہ خود حق و حکمت سے مالا مال ہوا بلکہ ہستی باری تعالیٰ.ملائکتہ اللہ ، تقدیر الہی ، حقیقة الرویاء، احمدیت مجمع البحرین جیسے بنیادی امور پر عالمانہ خطاب فرمائے سیر روحانی کلام الہی کی تشریح و تبیین پر عارفانہ روشنی ڈالی.دعوت وارشاد کے موضوع پر ضخیم کتب و مفصل خطابات سے نہ صرف لوگوں کی بصیرت میں اضافہ فرمایا بلکہ عملی حالت میں ایک نیک و پاک انقلاب بھی پیدا فرمایا.آپ کی قائدانہ صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالنے سے یہ عجیب بات سامنے آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو 25 سال کی عمر میں، جبکہ آپ کو قیادت کا کوئی تجربہ نہیں تھا، جماعت کی قیادت سنبھالنے کا موقع ملا.1965 ء تک کم بیش 52 سال آپ نے جماعت کی قیادت فرمائی گو یا اللہ تعالیٰ 293

Page 295

کی دی ہوئی توفیق سے آپ نے نو جوانی کے زمانہ میں تجربہ کار داناؤں اور بزرگوں کی طرح قیادت فرمائی اور بڑھاپے میں بھی آپ کا خداداد جوش و ولولہ جوانوں کیلئے باعث رشک تھا.اس سارے لمبے عرصہ میں آپ نے جماعت کی ایک چوکس و بیدار رہنما کی طرح ہر پہلو سے تربیت فرمائی.جماعت کی روحانی و اخلاقی بہتری، جماعت کی علمی و عملی ترقی ، جماعت کی عددی ترقی ، جماعت کے مخالفوں کی مخالفت کا مقابلہ ، جماعت کی اقتصادی، معاشی اور معاشرتی ترقی و بہتری اور جماعت کے موجود افراد اور آنے والی نسلوں کی روحانی و اخلاقی بہتری غرضیکہ ہر پہلو سے نگرانی وراہنمائی کا حق ادافرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی قوت حافظہ اور فہم و فراست سے نوازا تھا.افراد جماعت کی اکثریت اس خوشگوار حقیقت سے لطف اندوز ہوتی تھی کہ پیارے آقا اس ادنی خادم سلسلہ کو بھی بخوبی جانتے اور پہچانتے ہیں.ایسے بے شمار واقعات اور مثالیں ملتی ہیں کہ جب کسی ملاقاتی نے یہ سمجھ کر اپنا تعارف کروانا شروع کیا کہ آپ مجھے نہیں جانتے ہوں گے تو حضرت صاحب نے ان کے تعارف کروانے سے قبل ہی نہ صرف ان کی بلکہ ان کے اعزہ واقارب کی خیریت دریافت کرنے کے علاوہ کسی گزشتہ ملاقات یا خط و کتابت کے حوالہ سے بات شروع فرما دی.اس قسم کی مثالیں بھی کثرت سے ملتی ہیں کہ جلسہ سالانہ یا ایسی ہی کسی اور جماعتی تقریب پر امیر جماعت یا پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کسی کا جلدی میں یا کسی غلط نہی سے غلط تعارف کروا دیا تو حضرت صاحب نے خود اس کی تصحیح فرما کر سب کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا.ایک مشہور حکیم صاحب جن کا ہماری جماعت سے تعلق نہ تھا حضرت صاحب کی بیماری اور کمزوری کے دنوں میں یہاں ربوہ ملاقات کیلئے تشریف لائے.حضرت صاحب نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ حکیم صاحب ہم نے آپ کو اپنی ایک عزیزہ کے علاج کیلئے قادیان بلایا تھا.اور اللہ کے فضل سے آپ کے علاج سے فائدہ بھی ہوا تھا.حکیم صاحب کا بیان تھا کہ میں اپنی زندگی کا یہ اہم واقعہ بالکل بھول چکا تھا اور آپ کے یاد دلانے پر 294

Page 296

بھی بمشکل ہی یاد کر پایا.اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت صاحب کا دائرہ واقفیت صرف احباب جماعت تک ہی محدود نہ تھا بلکہ آپ کے حلقہ احباب میں ہندوستان بھر کے معززین، رؤسا مذہبی لیڈر سیاسی رہنما اور ادبی ہستیاں بھی شامل تھیں.حضرت صاحب سے ذاتی تعلق پر فخر محسوس کرنے والوں میں جہاں ایک طرف خواجہ حسن نظامی جیسے صوفی اور مذہبی لیڈر شامل تھے وہاں طنز وظرافت کے منفرد و مشہور ادیب جناب عبدالمجید سالک بھی آپ سے عقیدت رکھتے تھے.سر فیروز خاں نون سرشہاب الدین غلام محی الدین قصوری بلکہ علامہ سرمحمد اقبال بھی اپنی سیاسی مجبوریوں سے قبل ) آپ سے عقیدت کا دم بھرتے تھے یادر ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے حضرت صاحب کا نام ڈاکٹر سر علامہ اقبال نے ہی تجویز کیا تھا اور بڑے اصرار سے یہ ذمہ داری قبول کرنے کی درخواست کی تھی.قیام پاکستان کے سلسلہ میں آپ کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں سرمحمد شفیع مولانا محمد علی اور سر آغا خاں ہی نہیں خود قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل تھے.جنہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کے سلسلہ میں حضرت صاحب کا ایک ارشاد اس کی اہمیت ، افادیت کے پیش نظر پریس میں بھجوایا اور ایک گفتگو میں احمدیوں کی حسن کارکردگی اور سرگرمی پر خوشگوار حیرت کا اظہار فرمایا.ہمارے پیارے امام کی ذات اپنی گونا گوں خوبیوں اور صفات کی وجہ سے ایک انجمن تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ آپ کی ذات انجمن ہی نہیں انجمن ساز تھی.آپ نے جماعت کی تعلیمی و تربیتی اغراض سے صدر انجمن احمدیہ (اپنی موجودہ شکل میں ) تحریک جدید انجمن احمد یہ، وقف جدید انجمن احمد یہ اور اسی طرح انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ جیسی انجمنوں کی بنیا درکھی جو آپ کا زندہ جاوید کار نامہ اور بہت قابل قدر یادگار ہیں.(روزنامه الفضل ربوہ 17 دسمبر 1996ء) 295

Page 297

حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی اللعنه ایک مثالی داعی الی اللہ 1981-1983) دبلا پتلا جسم قدسر پر بھورے رنگ کی ڈھیلی ڈھالی کھال کی ٹوپی.آنکھوں پر پرانی طرز کا گول شیشوں کا چشمہ.سفید لمبی ہلکی ہلکی داڑھی ،سفید رنگ کا بہت سادہ کرتہ پاجامہ اور ایک کوٹ جو کبھی ہلکے رنگ کا ہوگا مگر کثرت استعمال سے سفید ہو چکا تھا.پاؤں میں سادہ فلیٹ بوٹ بلکہ کبھی کبھی اس تکلف سے بھی آزاد سادہ سی ربڑ کی چپل پہنے دفتر کے برآمدے میں کوئی انگریزی اخبار پڑھتے ہوئے.ہر گزرنے والے کو سلام اور اگر کوئی اس بزرگ کی توجہ میں مخل ہونے سے بچنے کیلئے چپکے سے گزر جانا چاہے تو اسے روک کر سلام دعا کے علاوہ کوئی پر لطف پر مزاح فقرہ چست کر دینا.ان کی ہیئت کذائی کو دیکھتے ہوئے ان کے ہاتھ میں انگریزی اخبار اجنبی سا لگتا تھا اور دیکھنے والا یہی خیال کرتا تھا کہ اس شخص کو تو ڈھنگ سے اردو پڑھنا بھی شاید ہی آتا ہو.انگریزی اخبار کا اس سے کیا تعلق؟ ہمارے یہ انتہائی سادہ بزرگ عالم باعمل داعی الی اللہ نئی دنیا میں دعوت الی اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے، انگریزی زبان کے ماہر، امریکہ سے شائع ہونے والے سن رائز کے ایڈیٹر، قادیان سے شائع ہونے والے بلند پای علمی رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر، ہائی سکولوں کے ہیڈ 296

Page 298

ماسٹر، قریباً اسی سال سے زیادہ جماعت کی شاندار خدمات سرانجام دینے والے صحابی ہی حضرت مسیح موعود علیشا کے اولین واقفین زندگی میں شامل حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم اور صد رصدر انجمن احمد یہ ربوہ تھے.آپ کو دیکھنے والا آپ کی غیر معمولی سادگی اور نیکی سے بہت متاثر ہوتا.آپ سے باتیں کر کے آپ کے تجر علمی سے مبہوت ہو جاتا اور آپ کی باغ و بہار شخصیت کی وجہ سے ایک دفعہ منے کے بعد بار بار لنے کے مواقع کی تلاش میں رہتا.حضرت خلیفہ اتبع الثانی بلی تھے نے آپ کی خدمات کو جماعت پر احسان قرارد یا رپورٹ مجلس 1952ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان جو تعلیم کے میدان سے خصوصی دلچسپی کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کے غیر معمولی قدر دان تھے ، انہوں نے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعدصدرصد رانجمن احمدیہ کے بلند منصب پر (جس پر آپ منصب خلافت پر متمکن ہونے سے قبل فائز تھے ) حضرت مولوی صاحب بھی شہ کو نا مزدفرمایا.حضرت مولوی صاحب یہی کی وفات پر اخبار الفضل نے لکھا: احباب جماعت کو نہایت دکھ اور افسوس سے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی بن الہند کے صحبت یافتہ واقفین زندگی کے ابتدائی گروپ کے رکن نہایت مخلص اور قدیمی خادم سلسلہ اور صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے صدر حضرت مولوی محمد دین صاحب بی اے تاریخ 7 مارچ 1983ء بروز پیر وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ 66 راجعون.آپ کی عمر ایک سو دو سال کے قریب تھی.“ حضرت مولوی محمد دین صاحب بنی ان خوش قسمت اور پاکیزہ افراد میں شامل تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت صحبت نصیب ہوئی اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ نہایت اعلیٰ مناصب پر خدمت دین بجالاتے رہے.وفات کے وقت آپ جماعت میں انتظامی ذمہ داری کے اعلیٰ ترین عہدے صدر صدرانجمن احمدیہ پر متمکن تھے.اس دور میں جبکہ حضرت مسیح 297

Page 299

موعود علیہ السلام کے صحبت یافتہ بزرگ خال خال ہی رہ گئے ہیں ان کا وجود جماعت میں برکت کا موجب تھا.حضرت مولوی صاحب کو 1907 ء سے لے کر 1983ء تا دم آخر یعنی 76 سال تک دین کی بھر پور خدمت کی توفیق ملی.یہ عرصہ اپنی طوالت کے لحاظ سے خدمت دین کا ایک ریکارڈ ہے.حضرت مولوی محمد دین صاحب بنی 4 دسمبر 1881ء کو پیدا ہوئے ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 206) آپ کا وطن مالوف لاہور تھا.آپ کو 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ شروع 1903ء میں نقل مکانی کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے.ستمبر 1907ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت کو خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کی تو جن تیرہ صحابہ کرام بینی لھن نے اس تحریک پر لبیک کہا ان میں ایک آپ بھی تھے.تاریخ احمدیت میں آپ کا نام اولین واقفین کی فہرست میں قیامت تک کیلئے محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی محمد دین صاحب ان کی درخواست پر اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا: نتیجہ کے بعد اس خدمت پر لگ جائیں“ اس وقت مولوی صاحب علی گڑھ کالج میں بی اے کے طالب علم تھے.واقفین کی فہرست میں حضرت مولوی صاحب کا نام ساتویں نمبر پر ہے.تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 504) حضرت مولوی صاحب 1914ء سے 1921ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ہیڈ ماسٹر رہے.جنوری 1923ء سے دسمبر 1925 ء تک امریکہ میں خدمت دین کے فرائض سرانجام دیئے.آپ نے امریکہ جا کر حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے چارج لیا.ان کے عہد میں امریکہ کے مشن کو اللہ تعالیٰ نے بہت وسعت دی اور آپ کے ذریعہ سے کئی امریکن احمدی ہوئے.298

Page 300

اس کے بعد آپ طویل عرصہ دوبارہ ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں خدمات بجالاتے رہے.1942ء سے 1947 ء تک آپ گرلز ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر رہے.قیام پاکستان کے بعد حضرت مولوی صاحب کو ایک لمبے عرصہ تک ناظر تعلیم کے طور پر خدمات بجالانے کی توفیق ملی.انگریزی اور اُردو زبانوں میں شائع ہونے والے بلند پایہ رسالے ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر کے فرائض سرانجام دینا بھی آپ کی خدمات جلیلہ کی لمبی فہرست میں شامل ہے.1965ء میں جب صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (حضرت خلیفہ المسیح الثالث را فیملی ) امامت کے منصب پر فائز ہوئے تو حضرت مولوی صاحب کی انتہائی اعلیٰ خدمات بجالانے کی توفیق ملی.یہ عہدہ جماعت احمدیہ میں ذمہ داری اور مرتبہ کے لحاظ سے انتہائی وقیع اور بلند سمجھا جاتا ہے.آپ اپنی وفات تک اسی عہدہ پر فائز تھے.( الفضل 9 مارچ 1983 ء ) حضرت مولوی صاحب کے متعلق ان کے ایک ہم عصر استاد مکرم میاں محمد ابراھیم صاحب جمونی نے جو انہیں اپنے باپ کی طرح سمجھتے تھے اور جو بعد میں خود بھی تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے ایک مضمون میں لکھا: انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے: Simple Living And High Thinking حضرت مولوی صاحب تمام عمر اس پر عامل رہے.لباس نہایت سادہ رہا.اپنی ذات پر بے ضرورت خرچ کرنے سے گریز کرتے اور انتہائی کفایت شعاری کو اپنا معمول بنائے رکھا.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابتدا میں بے بضاعتی اور تنگی دیکھ چکے تھے.دس روپے پر ملازم ہوئے اور سلسلہ سے وابستہ رہنے کے اس وسیلہ کو فضل الہی گردانا.پیسے کی قدر تھی اور اس کا صحیح اور جائز مصرف کرتے تھے.باوجود بعد میں فراخی آجانے کے ان کی عادات سادہ اور بے تکلف ہی رہیں اور نسبتاً خوشحال ہو جانے پر بھی اس درویش صفت انسان نے تکلف اور تصنع کو پاس نہ پھٹکنے دیا.زندگی برائے 299

Page 301

زیستن کے اصول پر قائم رہے.محض زندہ رہنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی انہی کو استعمال کیا.لیکن باوجود اس کے کہ اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتے تھے اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے غریبوں کا حصہ برابر نکالتے رہے.نادار اور بے کس وجودوں کا سہارا بنے رہے.عزت و وقار اور دوسروں کی نگاہ میں عزت کا مقام، ذاتی خواہش اور تگ و دو اور تصنع اور تکلف سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اعلیٰ کردار اور دوسروں سے ہمدردی اور خیر خواہی کرنے سے ملتا ہے.حضرت مولوی صاحب بینی اشتہ کے اخلاق وکردار کی مضبوطی کی ایک دنیا گواہ ہے.جماعت کے ایک بہت بڑے طبقہ کے ممدوح تھے.جس کسی کو وہ جانتے تھے (اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا ) اور اس میں کوئی ایسا نقص پایا جو تو جہ دلانے سے دور ہوسکتا.بالخصوص تعلیم و تعلم کے ضمن میں حضرت مولوی صاحب اس کی نشاندہی فرما دیتے اور یہ تنقیدی اقدام تعلیم و تربیت کے اعتبار سے نہایت مفید ہوتا.جماعت کے سینکڑوں نوجوان ادھیڑ عمر بلکہ اب بوڑھے بھی حضرت مولوی صاحب کے فیض رسانی کے اس جذبہ کی قدر کرتے ہیں.ہم میں سے بہتوں کی غلطیاں الفاظ کی ، حضرت مولوی صاحب کے توجہ دلانے سے ہی دور ہوئیں.حضرت مولوی صاحب میں یہ صفت نمایاں تھی کہ جو نبی لفظ کا غلط استعمال یا علمی غلطی ان کے نوٹس میں آتی علم کا یہ بلند مینار اپنے علم سے متعلقہ شخص کو بہرہ ور کرنے میں کوتا ہی نہ کرتا.مربیان اور نوجوان کارکنوں کو صحیح معنوں میں عالم بنانے میں اس عالم بے بدل کا خاص حصہ ہے ان کی ہر وقت یہ خواہش ہوتی کہ جماعت کے نمائندے علم میں بے مثل اور مکمل ہوں.اخلاقی جرات کے مالک تھے.نڈر اور صاف گو، حق کو حق کہنے والے اور باطل کو باطل کہنے والے تھے.سکول کو مستقل بنیادوں پر کھڑا کرنے والے حضرت مولوی محمد دین صاحب بینی نہ ہی تھے.ان کے تمام کارناموں میں سے ان کا یہ ایک کارنامہ بھی سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ انہوں نے جماعت کے نونہالوں کو صیح لائنوں پر ڈال کر انہیں جماعت احمدیہ کا مفید اور کارآمد وجود بنالیا.ان کی یہ 300

Page 302

خدمت رہتی دنیا تک جماعت احمدیہ میں یاد رہے گی.اس زمانہ کے طلباء ہی تھے جو حضرت مولوی صاحب کی تربیت اور اثر سے بعد میں جماعت احمدیہ کے علمی ستون بنے...ان کی یادداشت بلا کی تھی اور حافظہ غضب کا تھا.حضرت مولوی صاحب رہی ان کے علم و وقار، سادگی اور صاف گوئی نے ان کے طلباء کو ان کیلئے انتہائی ادب و احترام کا مورد بنائے رکھا اور ان کے دل میں حقیقی محبت وعزت پیدا کی.طالب علم مہد سے لحد تک.باوجود علمی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے حضرت مولوی صاحب نایلون میں ایک خاص قابل تقلید بلکہ منفر د صفت یہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی یہ نہ سمجھا کہ اب علم مکمل ہو چکا ہے اور انہیں مزید مطالعہ کی ضرورت نہیں رہی.انگریزی زبان کے بہت بڑے عالم تھے.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ریلی لین کو جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی عالی ہم نے تفسیر صغیر کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا تو آپ بینی شوند نے حضرت صاحب بینی شتن سے اپنے ساتھ دو اور انگریزی دانوں کو لگائے جانے کی درخواست کی.یہ دو بزرگ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بنی الہی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی الھند تھے.حضرت مولوی صاحب نہایت عمدہ با محاورہ اور ٹھوس انگریزی لکھتے تھے.عرصہ تک ریویو آف ریلیجنز اور سن رائز کے ایڈیٹر بھی رہے.حضرت صاحب کی جو کتب یا مضامین اس زمانہ میں انگریزی میں شائع ہوئیں ان کے ترجمہ کے بورڈ میں شامل ہوئے.انگریزی میں ایک اتھارٹی سمجھے جاتے تھے لیکن حضرت مولوی صاحب نے ڈکشنری کا استعمال کبھی بھی ترک نہ کیا.جب کبھی کسی لفظ کے معانی یا تلفظ کے بارے میں شک پیدا ہوتا فوراً ڈکشنری دیکھتے اور دوسروں کو بھی ڈکشنری کے استعمال کرنے کی تاکید کرتے صحیح تلفظ اور صحیح استعمال پر ہمیشہ زور دیتے.انگریزی کے علاوہ اردو کے الفاظ کے معاملہ میں بھی یہی طریق تھا.ان کا در بار علمی تھا اور ان کا فیض عام.انہوں نے جماعت کو جیسا پایا.علمی وتعلیمی لحاظ سے اپنی کاوش اور خدمت کے جذبہ سے اسے آگے بڑھا دیا...حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے صحبت یافتہ سلسلہ کی اقدار کے محافظ اور پاسبان، ان کی 301

Page 303

عزت و توقیر ان کی خدمت اور انکساری کا ثمرہ تھی.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور ان کے درجات بلند کرے.آمین.(الفضل 17 مارچ 1983ء) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کی مندرجہ ذیل یادگار تحریر بھی اس جگہ درج کی جائے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے بعض حسین پہلو اور حضرت مولوی صاحب بینی کی فدائیت و انکسار کی بہت پیاری جھلک پائی جاتی ہے.آپ مبنی یہ نہ لکھتے ہیں: 1901ء میں سخت بیمار ہو گیا.قریباً ایک سال سے زائد عرصہ تک مجھے ڈاکٹروں اور حکیموں کا علاج کرانا پڑا لیکن مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا.ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کر رہا تھا.مجھے میرے مکرم و معظم و محسن بزرگ منشی تاج الدین صاحب پنشنرا کا ؤنٹنٹ نے قادیان آنے کا مشورہ دیا.مجھے سٹیشن پر آکر گاڑی میں خود سوار کر کے گئے.میں قادیان پہنچا اور پہلے پہل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا.میری طبیعت نے یہ فیصلہ کرلیا کہ یہ منہ تو جھوٹے کا نہیں ہوسکتا.بعد میں حضرت مولوی نور الدین صاحب بینی الھن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی بیماری کا حال سنایا.آپ نے میرا ناسور دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کا رُخ دل کی طرف ہو گیا ہے.مجھے فرمایا کہ اس کیلئے دوا کی نسبت دعا کی ضرورت زیادہ ہے.مجھے بتلایا کہ مسجد مبارک میں ایک خاص جگہ بیٹھنا ، میں خود تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاؤں گا اور تمہارے متعلق دعا کیلئے عرض کروں گا.میں اس دریچہ کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے حضور مسجد کیلئے تشریف لایا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب بڑھے اور مجھے پکڑ کر حضور کے سامنے کر دیا.میرے مرض کے متعلق صرف اتنا کہا کہ خطرناک ہے.میں نے دیکھا 302

Page 304

کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ ہمدردی سے بھرا ہوا تھا.مجھ سے آپ نے دریافت کیا کہ یہ تکلیف آپ کو کب سے ہے میں تیرہ ماہ سے اس دکھ میں مبتلا تھا.لوگ آرام کی نیند سویا کرتے تھے لیکن مجھے درد چین نہیں لینے دیتی تھی.اس لئے میں مکان کے بالا خانہ پر ٹہلا کرتا تھا اور میرے اردگردسونے والے خواب راحت میں پڑے ہوتے تھے.میں نے مہینوں راتیں روکر اور ٹہل کر کاٹی ہوئی تھیں.حضرت صاحب کے ان ہمدردانہ و محبت آمیز کلمات نے چشم پر آب کر دیا.شکل تو دیکھ چکا تھا اتنے بڑے انسان کا مجھ ناچیز کو آپ کے لفظ محبت آمیز و کمال ہمدردانہ لہجہ میں مخاطب کرنا ایک بجلی کا اثر رکھتا تھا.میں اپنی بساط کو جانتا تھا.میری حالت یہ تھی کہ محض ایک لڑکا میلے اور پرانے وضع کے کپڑے چھوٹے درجہ چھوٹی قوم کا آدمی میرے منہ سے لفظ نہ نکلا.سوائے اس کے کہ آنسو جاری ہو گئے.حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر سوال نہ دھرایا.مجھے کہا کہ: میں تمہارے لئے دعا کروں گا.فکرمت کرو، انشاء اللہ اچھے ہو جاؤ گے“ مجھے اس وقت اطمینان ہو گیا کہ اب اچھا ہو جاؤں گا.پھر میں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں آیا تو صرف آپ نے ذرہ بھر خوراک جدوار کی میری لئے تجویز فرمائی اور اتنی مقدار مجھے کہا کہ پتھر پر گھس کر اس ناسور پر لگا دیا کروں.تھوڑے ہی عرصہ میں مجھے افاقہ ہو گیا اور ایک مہینہ میں میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اچھا ہو گیا.یہ پہلا واقعہ ہے کہ مجھے حضرت سے ملنے کا اتفاق ہوا.اور میری خوش قسمتی مجھے بیمار کر کے قادیان لے آئی چنانچہ میں نے وطن کو خیر باد کہہ کر قادیان کی رہائش اختیار کر لی.اس کے بعد میری شامت اعمال مجھ پر سوار ہوئی.حضرت صاحب نے لکھا کہ جوشخص سچے دل اور پورے اخلاص کے ساتھ تقویٰ کی راہ پر قدم 303

Page 305

مارتا ہے اور آپ کا سچا مرید ہے.اس کو طاعون نہ چھوئے گی لیکن میں ہی نابکار نکلا جو احمدیوں میں سے طاعون میں مبتلا ہوا.حالانکہ ہندوؤں اور غیر احمدیوں میں سے پچھپیں پچیس آدمی بھی روز مرتے لیکن باوجود اس امر کے کہ میرا وجود بد نام کنندہ نکونامے چند تھا، تاہم حضرت صاحب کی خدمت میں مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ اس.کا باپ بھی اس کو لینے آیا تھا.لیکن اس نے قادیان چھوڑ نا پسند نہیں کیا.حضرت صاحب نے باوجود اس سے سخت کمزوری کے میرے لئے دعا کی اور دوا بھی خود ہی تجویز فرمائی چنانچہ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب خود کمال مہربانی سے اپنے ہاتھوں روزانہ دوائی تیار کر کے بھتیجے اور دو تین وقت روزانہ میری خبر منگواتے.یہ کمال شفقت ایک گمنام شخص کے لئے جو نہ دنیوی اور نہ دینی لیاقت رکھتا ، نہ کوئی دینی یا دنیوی وجاہت.ایک ادنی اور ذلیل خادموں میں سے تھا.میرا ایمان ہے کہ میں آپ کی دعاؤں سے ہی بچ گیا ورنہ جن دنوں میں بیمار ہوا اس وقت طاعونی مادہ ایسا زہریلا تھا کہ شاذ ہی لوگ بچتے تھے.(الحکم 28 دسمبر 1919 ء ) یقیناً خوش قسمت اور قابل رشک ہے وہ انسان جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دین کی خدمت کیلئے وقف کا عہد کیا اور خدمات کی توفیق پائی.خلافت اولی اور خلافت ثانیہ اور خلافت ثالثہ میں شاندار خدمات کی سعادت حاصل کی.خلافت رابعہ کا زمانہ اس حال میں پایا کہ خدمات کا سلسلہ برابر جاری تھا.حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع ایشیعلیہ نے حضرت مولوی صاحب بیٹھی کی وفات پر ان کی شاندار خدمات کا بہت اچھے رنگ میں ذکر کرتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: اب آخر پر میں ایک ایسے داعی الی اللہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو تین روز قبل ہم سے 304

Page 306

جدا ہو گیا یعنی حضرت مولوی محمد دین صاحب بنایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1907ء میں پہلی مرتبہ وقف زندگی کی تحریک فرمائی یعنی لوگوں کو اس طرف بلایا کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیں اور دین کی نصرت کیلئے حاضر ہو جائیں.چنانچہ وہ تیرہ خوش نصیب جنہوں نے اس پہلی آواز پر لبیک کہا تھا ان میں ایک حضرت مولوی محمد دین صاحب بنی وہ بھی تھے.انہوں نے بڑی وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا.1923ء میں آپ کو تبلیغ کے لئے امریکہ بھجوایا گیا جہاں آپ 1925ء تک بڑی کامیابی کے ساتھ تبلیغی فرائض سرانجام دیتے اور دعوت الی اللہ کا حق ادا کرتے رہے.لیکن ان دو تین سالوں کا کیا ذکر ، آپ تمام عمر ایک نہایت ہی پاک نفس درویش صفت انسان کے طور پر زندہ رہے.کوئی انانیت نہیں تھی.کوئی تکبر نہیں تھا.ایسا بچھا ہوا وجود تھا جو خدا کی راہوں میں کچھ کر چلتا ہے.ذکر الہی سے ہمیشہ آپ کی زبان تر رہتی تھی.آخری سانس تک آپ داعی الی اللہ بنے رہے.بظاہر بستر پر پڑا ہوا ایک ایسا وجود تھا جو دنیا کی نگاہوں میں ناکارہ ہو چکا تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا جب میں سپین سے واپس آیا اور حضرت مولوی صاحب یکیشن کی خدمت میں ملاقات کیلئے حاضر ہوا.تو پہلی بات انہوں نے مجھے یہی کہی کہ میں سپین کے مشن کی کامیابی کے لئے اور آپ کے دورہ کی کامیابی کیلئے مسلسل دعائیں کرتا رہا ہوں.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ کی دعائیں مجھے پہنچتی رہی ہیں اور میں ان کو خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضلوں کی صورت میں آسمان سے برستا ہوا دیکھا کرتا تھا اور کون جانتا ہے کہ کتنا بڑا حصہ حضرت مولوی صاحب بنی عنہ کا تھا اس کامیابی میں جو اس سفر کو نصیب ہوئی.پس داعی الی اللہ تو وہ ہوتا ہے کہ جب ایک دفعہ عہد کرتا ہے تو پھر عمر بھر اس عہد کو کامل وفا کے ساتھ نبھاتا بھی ہے اور آخری سانس تک داعی الی اللہ بنا رہتا ہے.پس 305

Page 307

ہمیں اس قسم کے داعی الی اللہ کی ضرورت ہے.ایک محمد دین اگر آج ہم سے جدا ہوتا ہے تو خدا کرے کہ لاکھوں کروڑوں محمد دین پیدا ہوں کیونکہ آج دنیا کو ایک یا دو یا سویا ہزار محمد دین سے کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی.دنیا کے تقاضے بہت وسیع ہیں اور دنیا کی بیماریاں بہت گہری ہو چکی ہیں اس لئے خدا کی طرف بلانے والے اور خدا کے نام پر شفا بخشنے والے لاکھوں اور کروڑوں کی ضرورت ہے.خدا کرے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت ، ہر احمدی بچہ اور ہر احمدی بوڑھا اس قسم کا ایک پاکباز اور پاک نفس داعی الی اللہ بن جائے جس کی باتوں میں قوت قدسیہ ہو.جس کی آواز میں خدا تعالیٰ کی طرف سے صداقت اور حق کی شوکت عطا کی جائے.جس کی بات کا انکار کرنا دنیا کے بس میں نہ رہے.اس کے دم میں خدا شفا رکھے اور وہ روحانی بیماریوں کی شفاء کا موجب بنے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.“ (خطبہ 11.3.83 مطبوعہ الفضل-1983-6-5) الفضل ربوہ 7 جون 1997ء) 306

Page 308

مکرم سردار مقبول احمد صاحب ذبیح معمول کے مطابق سحری کے لئے اٹھے.نماز تہجد کی ادائیگی کے بعد کھانا کھایا اور عام طریق کے مطابق سائیکل پر اپنے روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی کیلئے دفتر چلے گئے.دفتر میں ساتھیوں سے روز مرہ کی گفتگو ہوئی کسی سے بات کرتے ہوئے اسے جزاکم اللہ کہا.کرسی کی ٹیک سے الگ کر آرام سے بیٹھ گئے اور اسی طرح آرام وسکون سے اللہ کو پیارے ہو گئے.کوئی دوائی نہیں کوئی ڈاکٹر نہیں کوئی ہائے اوئی نہیں.مجھے یقین ہے کہ انہیں صبح دعا کے وقت قبولیت کا خاص موقع میسر آیا ہوگا اور انہوں نے اپنے خاتمہ بالخیر کی بھی دعا ضرور کی ہوگی جو ایسا قابل رشک انجام میسر آیا.جنازہ اور تدفین کے وقت بزرگان سلسلہ اور احباب کی کثرت بھی میرے اس یقین کو اور تقویت پہنچاتی ہے کہ انہوں نے انجام بخیر کی ضرور دعا کی ہوگی جو قبول بھی ہو گئی.یہ ذکر برادرم سردار مقبول احمد ذبیح کا ہے.ہم مدرسہ احمدیہ اور پھر جامعہ احمدیہ میں ہم جماعت تھے.آپ بہت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے سیدھی اور سچی بات کہنے میں کبھی تامل نہ کرتے.اسی وجہ سے بعض دفعہ یہ بھی شبہ گزرتا تھا کہ آپ جلدی سے ناراض ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ میہ ان کا بات کرنے کا مخصوص انداز تھا ورنہ میں تو ان کی پرانی اور قریبی واقفیت کی بنا پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی کے خلاف بغض و کینہ یا حسد پالنے کی استعداد عطا نہیں کی تھی.307

Page 309

برادرم ذبیح صاحب کے ذکر سے ان کے والد بزرگوار سردار عبد الحق شاکر واقف زندگی بھی یاد آرہے ہیں.اگر کسی کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ وقف کی روح کے مطابق واقف زندگی تھے تو شاکر صاحب کے متعلق یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے.سادہ دل، سادہ طبیعت ،سادہ صاف لباس اور سفید پگڑی آپ کی پہچان تھی.انہیں جب بھی دیکھا کسی نیکی کے کام میں مصروف دیکھا.دفتر میں مفوضہ کام کو بہترین طریق سے پورا کرنا دفتر کے بعد جماعتی اور رفاہی کاموں میں مصروف رہنا.ایک لمبے عرصہ تک گول بازار اور تحریک جدید کے کوارٹرز میں محصل کے فرائض سرانجام دیئے.جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ کام بہت ہی مشکل اور محنت طلب ہوتا ہے.مگر شاکر صاحب نے سالہا سال یہ کام بڑی خندہ پیشانی، مثالی استقلال اور اخلاص سے سرانجام دیا.انہیں اس دنیا سے سدھارے لمبا عرصہ ہو چکا ہے، تاہم ان کی کمی ابھی بھی محسوس ہوتی ہے.بزرگوارم شاکر صاحب طبعی طور پر نفاست پسند تھے اور اسی وجہ سے ان کا خط بھی بہت خوبصورت تھا اور آپ اپنی اس خوبی کو بھی خدمت دین کیلئے خوب استعمال کرتے.کسی نمایاں جگہ تختہ سیاہ پر یا اپنے گھر کی دیوار پر کوئی پر حکمت بات یا کسی بزرگ کا قول لکھ دیا کرتے تھے.مسجد مبارک ربوہ میں عبادات کے اوقات کا چارٹ بہت خوبصورت انداز میں ڈیزائن کر کے لگا یا اور غالباً قادیان کی دونوں مرکزی مساجد میں بھی ان کی یہ یادگار ان کے لئے صدقہ جاریہ اور دعا کی محرک ہے.اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ دن بھر میں عبادت اور ذکر الہی کے وقت ہی مسلسل کام اور خدمت سے الگ ہوتے تھے.برادرم ذبیح صاحب اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے.ایک واقف زندگی باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کو بشاشت اور شرح صدر سے وقف کر دینا قربانی کی ایک بہت اچھی مثال ہے.ذبیح صاحب کے وقف کے متعلق ان کے والد صاحب کو بذریعہ خواب تحریک ہوئی تھی اور اپنے تخلص ذبیح کی یہ وجہ ایک گونہ مسرت و خوشی سے بتایا کرتے تھے.برادرم ذبیح صاحب کو اپنے محلہ میں صدارت کی خدمات بجالانے کی توفیق ملی مجلس خدام 308

Page 310

الاحمد یہ ربوہ کے قائد (جسے اب مہتم مقامی کہا جاتا ہے) کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے.مختلف بیرونی ممالک میں دینی خدمات سرانجام دیں اس سلسلہ میں قید و بند کی صعوبت بھی خندہ پیشانی سے برداشت کی.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے برادرم ذبیح صاحب خاکسار کے ہم جماعت تھے.مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں ہم اکٹھے رہے.اس کے بعد خدمت کے میدان میں ایک لمبا عرصہ باہم ملنے کا موقع نہ ملا.کم و بیش تیس سال کے بعد خاکسار نے زیمبیا سے واپسی پر انہیں چارج دیا اور اس وقت کوئی ایک ماہ کے قریب ہم ایک ہی جگہ اکٹھے رہے.اب وہ خوب تجربہ کار اور جہاندیدہ ہو چکے تھے.تاہم خاکسار اس بات سے بہت لطف اندوز ہوتا رہا کہ ماہ وسال کی گردش ان کی سادگی اور بچوں کی سی معصومیت کو ختم نہ کر سکی تھی.وہ اب بھی اسی طرح بھولے بھالے مگر خدمت دین کیلئے پر جوش تھے جس طرح مدرسہ احمدیہ کے زمانہ میں ہوتے تھے.زیمبیا سے کامیاب واپسی پر انہیں نائب ناظر مال کی خدمات تفویض ہو ئیں.اس بات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ مقبول بھائی کی خدمات مقبول تھیں.ہمارے پیارے امام ان کے اخلاص و جذبہ خدمت کے بہت مداح تھے.خدا رحمت کنند این عاشقان پاک طینت را 309 (روزنامه الفضل ربوہ 16 فروری 1997ء)

Page 311

ایک مثالی رہنما دنیا میں جتنے بھی نامورلیڈر گزرے ہیں ان کی نمایاں مشترکہ خوبی یا خصوصیت ان کی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زیر قیادت فوج یا جماعت میں قربانی کی روح اور جوش عمل پیدا کر دیتے ہیں.ایک اچھا سپاہی یا ایک اچھا شہری بھی قابل قدر ہوتا ہے مگر اچھے لیڈر تو اچھے سپاہی اور اچھے شہری بناتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ عزت وشہرت کے آسمان پر دائی عزت کے حقدار قرار پاتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بیلی عنہ نے اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ اپنی نوجوانی قابل رشک خوبیوں کے ساتھ بسر کی اور جب عالم جوانی میں آپ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ساتھ اپنے بہت ہی محدود ذرائع اور بہت ہی چھوٹی سی غریب جماعت کو اس طرح منظم کر دیا کہ وہ جوش و جذ بہ سے پر ہو کر شاندار قربانیاں پیش کرنے کی یادگار مثالیں قائم کرنے لگے.آپ نے بڑے ہی سوچے سمجھے طریق پر جماعت کے سامنے اپنا لائحہ عمل رکھا جو یقیناً قرآن مجید کی روشنی میں مرتب کیا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ لائحہ عمل اس عمر میں مرتب و پیش کیا گیا تھا جو آپ کی عمر کا ابتدائی دور تھا اور جسے جماعت کے بعض ”سر بر آوردہ کارکن اور عہد یدار اپنے خیال خام میں بچپن سے یاد کرتے تھے اور اپنی گفتگو میں آپ کو بچے کے لفظ سے یاد کیا جا تا تھا.آپ کی ابتدائی دور کی وہ تقاریر جن میں آپ نے اپنی ترجیحات بیان فرمائی تھیں آج 310

Page 312

بھی ہمارے سامنے موجود ہیں اور یہ ثابت کرنے کیلئے بہت کافی ہیں کہ آپ نے ان میں وہ رہنما اصول بیان فرمائے تھے جو ہمیشہ ہی کارآمد مفید ثابت ہوئے اور جن سے کوئی بھی رہنما ، خواہ وہ کتنا ہی تجربہ کار اور سمجھدار ہو اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتا.آپ نے اپنی زندگی ایک مستعد پر جوش کارکن کے طور پر شروع کی اور جب آپ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو آپ کے نمونے اور جذبے کے پیش نظر آپ کے قریبی ساتھیوں کو یقین تھا کہ آپ جو کہتے ہیں اس پر خود بھی پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں اس لئے آپ کے ساتھیوں میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو گیا کہ آپ کی بتائی ہوئی ہر بات کی پوری طرح اطاعت کی جائے.حضرت مصلح موعود ہی کھنہ نے اپنے بیان کردہ لائحہ عمل کو جب عملی صورت دی تو ہماری صدر انجمن احمد یہ اور نظارتوں کی موجودہ شکل پیدا ہوئی.اس انجمن کے کام کو چلانے کیلئے آپ کو جو ساتھی ملے وہ یقیناً اس جذبہ قربانی سے سرشار تھے جو خود آپ کی سیرت میں موجود تھا.اس طرح کامیابی کا پہلا ظاہری سامان آپ کو میسر آ گیا.حضرت مصلح موعود بنی عنہ نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر وقف رکھی اور کبھی بھی اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کچھ حصہ خدا کے لئے اور کچھ اپنے لئے الگ نہ کیا.تن من دھن تو.قربان کیا ہی تھا آپ نے اپنی اولا د ( تیرہ بیٹوں ) کو وقف کیا.آپ کی سیرت اور عملی نمونہ سے جماعت بھی قربانی کے اس جذبہ سے سرشار ہوگئی اور پڑھے لکھے معزز عہدوں پر فائز نوجوان اپنے امام کی آواز پر اپنی زندگیاں وقف کر کے خدمت کے ایسے میدان میں مصروف عمل ہو گئے جہاں قدم قدم پر دوسری قربانیوں کے علاوہ جذبات کی قربانی بھی پیش کرنی پڑتی تھی.قادیان میں ایک خطرہ کے وقت لاہور میں احمد یہ ہوٹل کے احمدی نوجوان اپنے امیر حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بنی اللہ کی قیادت میں قادیان پہنچ گئے اور اس جذ بہ قربانی کے ساتھ کہ جب بٹالہ سٹیشن سے آگے کسی سواری کا بندوبست کرنے میں وقت کے ضیاع کا خطرہ تھا تو نو جوانوں 311

Page 313

کو یہ دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی کہ ان کا امیر تو امام کی اطاعت اور قربانی کے جذبہ و جوش سے قادیان کی طرف پیدل ہی روانہ ہو چکا ہے.اس نمونہ کو دیکھتے ہوئے نوجوان بھی بخوشی قادیان کا پرخطر پیدل سفر کر کے طلوع فجر کے وقت قادیان پہنچ گئے اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر انہیں فوری طور پر مختلف مقامات پر متعین کر دیا گیا.ان نوجوانوں نے (جن میں سے اکثر خوش نصیب شاندار خدمات انجام دینے کے بعد خدا کے حضور حاضر ہوچکے ہیں ) اپنے تاثرات میں یہ بات ضرور بیان کی ہے کہ خطرہ کے ان ایام میں یوں لگتا تھا کہ ہمارے امام دن رات کسی وقت بھی آرام نہیں کرتے اور کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ انتہائی حساس مقام پر رات کے وقت ڈیوٹی پر کھڑے خدام کو اچانک چیک کرنے والے کوئی اور نہیں خود امام جماعت ہوتے تھے.ظاہر ہے کہ اس مثالی نمونہ کو دیکھتے ہوئے خدام کے دلوں میں قربانی کے جذبہ اور جوش عمل میں کس طرح اور کس قدر اضافہ ہو جاتا ہوگا.جماعت کی مالی قربانی آج اپنی مثال آپ ہے.قربانی کے اس جذبہ کے اور محرکات بھی ضرور ہوں گے لیکن اس میں بھی یقیناً حضرت خلیفہ اسی الثانی بھی ان کی سیرت اور جذ بہ جھلک رہا ہے.حضرت صاحب نے کئی مواقع پر اپنی جائیداد بیچ کر جماعت کی خدمت میں لگانے کا ارادہ فرمایا.کئی قیمتی جائیدادیں عملاً جماعت کی مالی حالت کو مستحکم کرنے کیلئے ہبہ کر دیں.پچیس سالہ جو بلی کے موقع پر کم و بیش تین لاکھ روپے کی خطیر رقم جو آج کل کے افراط زر میں تین کروڑ سے زائد ہوگی جماعت کی بہبودی کے لئے وقف کر دی اور اپنی ذات یا اولاد پر خرچ نہ کی.ہر تحریک پر سب پہلے بڑھ چڑھ کر اپنا چندہ پیش فرمایا.اشاعت قرآن کے صدقہ جاریہ میں ایک خطیر رقم پیش فرمائی اور غرباء ومساکین کی مدد کے لئے بے شمار وظائف جاری فرمائے.اگر آج ہماری مالی قربانی اپنی مثال آپ ہے تو اس میں اس مرد خدا کی قربانی اور جذبہ کا بہت بڑا دخل ہے.تقسیم برصغیر کے وقت مشرقی پنجاب میں ایسے خطرناک حالات پیدا ہو گئے کہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کے لئے زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہو گئے.لاکھوں مجبور اور مظلوم اپنے باپ 312

Page 314

دادا کی جگہ کو چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے.عجب نفسانفسی کا عالم تھا.ہر شخص اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا.اس کڑی آزمائش اور امتحان کے وقت تین سو سے زائد احمدیوں کے قادیان میں رہنے اور اپنی تاریخی یادگاروں کی حفاظت و مقامات کی آبادی اور عبادات کے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر رضا کارانہ طور پر قادیان میں رہنے کا مطالبہ ہوا تو دیوانوں نے عشق و محبت کا ایک نیا باب رقم کرتے ہوئے وہاں سے آنے کی بجائے وہاں رہنے پر اصرار کرنا شروع کر دیا اور اس خوش بختی و سعادت کو حاصل کرنے کیلئے قرعہ اندازی کرنی پڑی.قربانی و ایثار کی یہ روح یقیناً ہمارے امام کے جذبہ قربانی کی ہی جھلک تھی.انہی ابتدائی دنوں میں ایک جگہ احمدی مستورات کی حفاظت کیلئے ایک گلی کے اوپر ایک تختہ رکھ کر دو گھروں کو ملانے کیلئے ایک عارضی کمزور پل تیار کیا گیا.اس عارضی پل پر چلنا اور گلی کو عبور کرنا ہی کارے دار تھا.مگر دشمنوں کو اس انتظام کی خبر ہوگئی اور انہوں نے بطور خاص اس جگہ کو اپنی گولیوں کے نشانہ پر رکھ لیا.گلی میں گر کر مر جانے کا خوف، دشمن کے مسلسل فائر کا خطرہ احمدی نوجوانوں کو ان کے فرض سے غافل نہ کر سکا اور عورتوں کی حفاظت کی مہم کو کامیابی سے سرانجام دینے والا ایک احمدی نوجوان ایک اندھے فائر کے نتیجہ میں اپنی جان کی بازی ہار گیا.اس بار میں بھی یقینا اس کی دائمی جیت اور نجات مضمر تھی.احمدی نوجوانوں کو قربانی کے لئے بلایا گیا تو وہ نوجوان جو پوری طرح فوجی تربیت سے آراستہ نہیں تھے، جن کا اسلحہ اور سامان حرب بھی ناقص و غیر تسلی بخش تھا، سب سے مشکل پہاڑی مقامات پر دن رات دشمن کے بموں اور فائرنگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جان قربان کرنے کیلئے سر ہتھیلی پر رکھ کر اس قومی جدوجہد میں شامل ہو گئے.اس جذ بہ قربانی کی مثال کم ہی کہیں ملے گی کہ ایسے جان جو کھوں کے موقع پر جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی بنی عنہ نے نو جوانوں کو اس قربانی میں شامل ہونے کیلئے بلایا اور وہ ابھی لبیک کہنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک احمدی بیوہ خاتون نے کھڑے ہوکر بآواز بلند احمد یوں کو غیرت دلائی کہ تمہارا امام تمہیں بلا رہا ہے اور تم سوچ میں پڑے ہو.سب سے 313

Page 315

پہلے میرا بیٹا اس قربانی پر لبیک کہے گا.قربانی کا یہ جذبہ اسی جذبہ سے پھوٹ رہا تھا جو امام جماعت کے عمل اور نمونے میں پایا جاتا تھا.حضرت مصلح موعود ی ان کی تحریک پر قربانی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں جن پر عقل حیران رہ جاتی ہے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے ارشادے عاقل کا یہاں پر کام نہیں گو لاکھوں ہوں بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو پر پوری طرح عمل پیرا تھے.قربانی کی بے شمار مثالیں ہمارے لٹریچر میں محفوظ ہو چکی ہیں اور قربانی کے بے شمار ایسے کار ہائے نمایاں ہیں جو نہ تو ہمارے لٹریچر میں محفوظ ہیں اور نہ ہی تاریخ میں ان گمنام قربانی کرنے والوں کا کبھی نام آسکے گا.جنہوں نے بڑی خاموشی لیکن پوری بشاشت سے اپنے اموال اپنی جانیں اور عزتیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان کیں.حضرت مصلح موعود نیا نے بڑی مسرت اور خوشی سے جماعت کی ان قربانیوں کا بار ہا تذکرہ فرمایا.ایک موقع پر تو آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر خود کشی ہمارے مذہب میں حرام نہ ہوتی تو میں اس وقت ایک سونو جوانوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے پیٹ میں چھرا گھونپ کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیں تو یہ نو جوان ابھی سب کے سامنے اپنی جانیں قربان کر دیں گے اور کسی قسم کی کمزوری یا بزدلی کا اظہار نہ کریں گے.قربانی کا یہ سلسل اور شاندار مظاہرہ جو کئی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے حضرت صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کا ایک ایسا ثبوت ہے کہ ہر شخص جو تعصب اور ضد سے کام نہ لے، اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا.(روزنامه الفضل ربوہ 27 جون 1997ء) 314

Page 316

قدرت کی نعمتوں کا ضیاع برطانوی پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک میں بہت سی غذائی اشیاء ضائع کر دی جاتی ہیں.ایک جائزہ کے مطابق قریباً 700 پونڈ کی خوراک ایک خاندان ایک سال میں ضائع کرتا ہے.اس رپورٹ میں ہمیں بڑے شہروں میں جائزہ لینے کے بعد پتہ چلا ہے 884 پونڈ سے 514 پونڈ کی اشیائے خوردونوش کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دی جاتی ہیں.اس جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ دو درجن سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کھانے پینے کی چیزوں میں سے قریباً 40 فیصد انسانی استعمال میں نہیں آتیں.سلاد کا اکثر حصہ ضائع ہو جاتا ہے اسی وجہ سے کئی سٹور سوچ رہے ہیں کہ بڑی مقدار کے پیک جو عام طور پر چھوٹے پیک سے بہت سستے ہوتے ہیں یا تو مہنگے کر دیے جائیں یا تیار ہی نہ کئے جائیں.سیب جو سب سے زیادہ خریدے جاتے ہیں اور انگور جو بہت پسند کئے جاتے ہیں، کیلے اور اور نج جو زیادہ کھائے جاتے ہیں گھروں میں بڑی مقدار میں ضائع ہو جاتے ہیں.اس رپورٹ میں یہ حیران کن انکشاف کیا گیا ہے کہ متعد دکھانے کی اشیاء جو پیکٹوں اور ڈبوں میں بند ہوتی ہیں بغیر کھولے ہی ضائع کر دی جاتی ہیں.سب سے زیادہ ضائع ہونے والی خوراک بازار سے تیار حاصل کی جانے والی کھانے کی اشیاء ہیں.اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہماری کھانے کی صلاحیت اور استعداد ہماری خریداری اور 315

Page 317

پرسه کھانے کی تیاری سے بہت کم ہے.دس میں سے ایک آدمی کھانا تیار کرتا ہے ورنہ ضرورت سے زیادہ پکایا جاتا اور پھینکا جاتا ہے.کھانے کی چیزوں کو اندازہ کے مطابق پکانا اور پھر مناسب طریق پر سٹور کرنا بہت سے نقصان سے بچا سکتا ہے.اس نقصان کی ذمہ داری قریباً ہر شخص پر آتی ہے اس لئے اس کی تلافی کیلئے بھی ہر شخص کو کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے.Wrap یعنی West and Resource پروگرام کی تحقیق بھی کم و بیش مندرجہ بالار پورٹ کی تصدیق کرتی ہے.اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خریدار کم و بیش ہر سال 86 ملین مرغ کوڑا کرکٹ میں پھینک دیتے ہیں.24 ملین ڈبل روٹی کے ٹکڑے بھی کوڑا دان کی نذر ہو جاتے ہیں.قریباً چھ ملین دودھ کے گلاس، آلو کی بنی ہوئی چیزیں چھ ملین اور 80 ہزار میٹھی چیزیں بھی اس طرح ضائع ہو جاتی ہیں.ان کی تحقیق کے مطابق اوسطاً ہر خاندان ایک ہفتہ میں چھ افراد کا کھانا ضائع کرتا ہے.جس کی قیمت کم و بیش ساڑھے بارہ بلین سالانہ بنتی ہے.یہ وہ رقم ہے جس سے ایک غریب چھوٹا ملک اپنی تمام ضروریات پوری کر سکتا ہے.اس تحقیق کے مطابق فریزر میں کھانے کی اشیاء بغیر لیبل لگائے رکھ دی جاتی ہیں جو کچھ عرصہ گزرنے پر کوڑا دان کی خوراک بن جاتی ہیں.اس پروگرام کے ماہروں کے اندازے کے مطابق خریدار، صنعت کار اور سرکار کی مشترکہ کوشش سے اس ضیاع میں کافی کمی ہو سکتی ہے.اس رپورٹ کو پڑھتے وقت فوری طور پر ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ یہاں بالعموم اشیائے صرف کی قیمتیں مستحکم اور کرنسی مضبوط ہوتی ہے تاہم کچھ عرصے سے یہ امر بھی سامنے آرہا ہے کہ پونڈ کی قدر میں کمی آرہی ہے اور اسی طرح قیمتوں میں بھی اضافہ کا رجحان ہے.اس کے باوجود اسقدر ضیاع حیران کن بلکہ پریشان کن ہے.علاوہ ازیں امیر ترین لوگوں کی کرہ ارض پر ساڑھے چھ ٹریلین ڈالر کی ملکیت رکھنے والے ارب پتیوں کی تعداد دو ہزار ایک سوستر تک پہنچ چکی ہے.یہ غریبوں کو زیادہ غریب کرنے اور امیروں کو زیادہ امیر بنانے والے سرمایہ داری نظام کا معجزہ ہے کہ 2009 ء اور 2013 ء چار سالوں میں دنیا کے ارب پتیوں کی تعداد اور مجموعی دولت میں دو گنا اضافہ 316

Page 318

ہو گیا ہے.دنیا کے ڈالروں میں ارب پتی لوگوں کی مجموعی دولت انسانی زندگی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ساڑھے چھ ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور جو دنیا کی امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی معیشت چین کی GDP کے برابر ہے.کسی ملک کی سالانہ پیداوار کو GDP کہتے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیٹیوں نے اپنی الہامی انقلابی سکیم ” تحریک جدید جاری فرمائی جس میں آپ نے روز مرہ کی زندگی کے متعلق بہت ضروری اور مفید مشوروں اور رہنمائی سے نوازا ان میں سے بعض باتیں اختصار کے ساتھ درج ذیل کی جاتی ہیں.آپ بیلی عنہ نے فرمایا کہ غیر ضروری اشیاء خریدنے سے مکمل پر ہیز کیا جائے اور اس سلسلہ میں یہ طریق اپنا نا چاہئے کہ جب بھی خریداری کیلئے جائیں تو آپ کے پاس ایک فہرست ہونی چاہئے جس میں وہ اشیاء جن کی آپ کو ضرورت ہے وہ درج ہوں اور خریداری کے وقت اس کی پابندی کی جاوے.اس طرح غیر ضروری اشیاء کی خرید اور اسراف سے بچا جاسکتا ہے.ایک اور ” چھوٹی سی بات کی طرف آپ نے توجہ دلائی جو بظاہر بہت معمولی ہے مگر نتائج کے لحاظ سے بہت بڑی ہے.آپ نے فرمایا کہ بعض عورتیں روٹی پکاتے وقت خشکہ ( خشک آنا جو روٹی پکاتے وقت استعمال ہوتا ہے ) کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتیں اور خشکے کے برتن سے باہر بہت سا آٹا گر کر ضائع ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ اگر اس امر کی احتیاط برتی جاوے تو بظاہر صرف ایک مٹھی آنا بچتا ہے مگر یہی آٹا اکھٹا کرنے سے کافی مقدار میں ہو جائے گا.آپ نے بعض دفعہ یہ تحریک بھی جاری فرمائی کہ جب آپ آٹا گوندھے لگیں تو ایک مٹھی آٹا الگ ڈال لیا کریں اور ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے بعد اسے کسی مد میں فی سبیل اللہ دیا کریں.قادیان میں دار الشیوخ ( غرباء اور معذور بچوں کا ادارہ) کیلئے اس طرح بھی آٹا اکٹھا کیا جاتا تھا.صدقہ اور نیکی کے بعض اور کام بھی بغیر کسی زائد خرچ کے ہو جاتے تھے.سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ غیر ضروری کپڑوں اور غیر ضروری زیور بنوانے کو بھی نا پسند فرماتے تھے.حضور نے اس موضوع پر کئی خطبات میں روشنی ڈالی اور حقیقت بھی 317

Page 319

یہی ہے کہ غیر ضروری زیورات کئی طرح کے نقصان کا باعث ہوتے ہیں اور مال کا اصل فائدہ تو یہی ہے کہ وہ گردش میں رہے.زیور کی صورت میں بالعموم مال بند ہو جاتا ہے اور جو فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے یا حاصل ہونا چاہئے وہ حاصل نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اخلاص و محبت کی پرانی یادیں مرکز کی طرف سے تاریخ احمدیت جلد 17 موصول ہوئی.اس گراں قدر اور قیمتی کتاب کو پا کر بہت خوشی ہوئی.یہ کہنا کسی طرح بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ پوری کتاب مسلسل پڑھ ڈالی اور جب کتاب ختم کی تو صبح قریباً پانچ بجے کا وقت تھا.اکثر واقعات چشم دید ہونے کی وجہ سے حضرت مصلح موعود بنا الشحنا کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آگیا.آپ کے پر شوکت خطاب ، روح آفریں تقاریر، آپ کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتیں تبلیغ اسلام کی دھن اور لگن وغیرہ.ان سطور کے لکھنے کا محرک حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گو ہر مرحوم مغفور کا ایک فقرہ ہوا.آپ اپنی خود نوشت سوانح یا بیعت کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک پرانے احمدی دوست سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اکتوبر 1900ء میں تار پر حکم پہنچنے پر بھون گاؤں تحصیل میں نائب تحصیلدار ہو کر تین ماہ کیلئے گیا.تحصیلدار مولوی تفضل حسین صاحب تھے (پرانے احمدی دوست ) ہم دونوں کو جو خوشی حاصل ہوئی وہ ہر احمدی اندازہ کر سکتا ہے.“ تاریخ احمدیت جلد ستره صفحه 375) 318

Page 320

یہ سادہ فقرہ پڑھ کر میں ان کی خوشی کا اندازہ کرنے لگا اور عالم تصور میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی اس چھوٹی سی معمولی سی کچے پکے مکانوں اور ٹیڑھی میڑھی گلیوں والی بستی میں پہنچ گیا جسے دنیا قادیان کے نام سے جانتی ہے.یہ بستی جس سے انتہائی اخلاص اور پیار کی یادیں وابستہ ہیں.اس بستی کے گلی کوچوں کی مرمت کے رضا کارانہ کام میں حضرت مصلح موعود یایشہ کو اپنے کندھوں پر مٹی ڈھونے کا نظارہ ابھی تک ذہن میں اس طرح تازہ ہے جیسے اس وقت بھی آنکھوں کے سامنے ہو.یہ بستی جس میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب بھی اٹھ جیسا صوفی منش درویش رہتا تھا.جہاں حضرت مولانا شیر علی علیہ جیسا فرشتہ صفت انسان دست با کار اور دل بایار کی مکمل تصویر بستا تھا.جہاں حضرت میر محمد اسحاق ہی جیسا عاشق رسول، محدث و مفسر رہتا تھا، وہ بستی جس میں علم معقول و منقول کا پہاڑ حضرت مولوی سرور شاہ رہتا تھا.وہ بستی جس میں دعا اور ذکر حبیب کا متوالا حضرت مفتی محمد صادق دھونی رمائے ہوئے تھا.ہاں وہی بستی جس میں کتنے ہی غریب طبع درویش ابو ہریره بینی شوند صفت رہتے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا عبادت ، دعا اور تبلیغ تھی.یہ فہرست تو بہت لمبی ہو جائے گی.مختصر طور پر اس بستی کا تعارف اس طرح بھی کرایا جاسکتا ہے کہ جہاں مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے منتخب روزگار افراد ہندوستان کے ہر کونے بلکہ بیرون ہندوستان سے بھی آکر جمع ہو گئے تھے.مگر وہ سب ایک دوسرے کئے ”بھائی جی“ تھے.وہاں کوئی غیر نہیں تھا.ہر بزرگ بابا جی یا میاں جی تھا.جہاں ہر خاتون مجسم شرم و حیا اور زہد و انتقا ماسی جی یا خالہ جی تھی.وہاں کوئی اور نچ نچ نہیں تھی وہاں عزت کا معیار علم اور تقویٰ تھا.جہاں السلام علیکم کی گونج ہوتی تھی.جہاں تلاوت قرآن کی آواز ہر گھر سے آتی تھی.یہ مختصر تعارف بھی مفصل ہوتا جارہا ہے.ایسے حالات میں ایک اجنبی اور نئی جگہ دو احمدی بھائیوں کی باہم اچانک ملاقات کس قدر خوشی کا باعث ہوتی ہوگی.اس کے لئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے.ضلع جہلم میں ایک مشہور قصبہ دوالمیال کے نام سے مشہور ہے.اس کی شہرت کی وجہ وطن عزیز کی فوج کے جیالے ہیں.ہر گھر سے نوجوان 319

Page 321

بھرتی ہوکر بہادری اور جانبازی کی اعلی مثالیں قائم کرنے والے اور بلند ترین فوجی اعزازات حاصل کرنے والے.اس دور دراز علاقہ میں احمدیت حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی اور کسی صاحب دل احمدی نے پہاڑ کی بلندی پر بہت ہی موزوں جگہ پر اچھی فراخ اور وسیع مسجد تعمیر کروائی ہوئی تھی.اس مسجد میں مینارہ مسیح قادیان سے ملتا جلتا کسی قدر چھوٹا ایک مینار بھی ہے اور غالباً اسی وجہ سے علاقہ میں یہ قصبہ قادیان ثانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.اس مسجد میں بیٹھ کر ہمارے بزرگ حضرت قاضی عبد الرحمن صاحب دراز قد، صحت مند، فر به جسم مسکرا تا ہوا چہرہ، نورانی داڑھی مخلص اور فدائی نے خاکسار کو اپنا ایک پرانا واقعہ سنایا.انہیں کی زبانی سنئے : ” جنگ عظیم میں جب ہمیں برما بھجوانے کیلئے ایک خستہ حال مال بردار قسم کے جہاز میں سوار کیا گیا.میں نے جہاز میں جا کر دیکھا کہ مسافر تو بہت زیادہ ہیں مگر نہ تو کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ضروری سہولتیں میسر ہیں اور اس سے بڑھ کر مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ میں غیر ملک میں جارہا ہوں.میرے ساتھ کوئی بھی احمدی نہ ہوگا گویا با جماعت نماز بھی میسر نہ ہوگی.درس قرآن و حدیث سننے کو نہ ملے گا.ذکر حبیب اور ملفوظات سے بھی محروم رہوں گا.ان خیالات نے اتنا غلبہ کیا کہ میں نے جہاز کے ایک کونے میں جا کر نماز شروع کر دی.نماز میں خوب رقت طاری ہوئی اور میں نے روروکر دعا کی کہ اے خدا مجھے اکیلا نہ رہنے دینا.دعا کر کے دل میں سکون سا پیدا ہوا.کمرے سے باہر نکلا.ہجوم کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ ان میں جو معقول صورت شریف آدمی نظر آئے اس سے دوستی کی جائے اسے تبلیغ کی جائے اور اس طرح جماعت سے محرومی کا ازالہ کیا جائے.کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد میری نظر نے ایک صاحب کو منتخب کر لیا.میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں نے گفتگوکو مذہبی اور تبلیغی رنگ دے دیا.مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ وہ صاحب میری باتیں پوری توجہ اور دلچسپی سے سن رہے ہیں.کوئی گھنٹہ بھر 320

Page 322

باتیں ہوئی ہوں گی کہ وہ صاحب بڑے والہانہ انداز میں مجھ سے چمٹ گئے اور کہنے لگے کہ میں تو اللہ کے فضل سے احمدی ہوں اور آپ کی باتوں سے مزہ لے رہا تھا.اس لئے فوراً ہی آپ کو نہیں بتایا تھا.حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ پھر ہماری نمازیں باجماعت شروع ہوگئیں.سلسلہ کی کچھ کتب ان کے پاس تھیں کچھ میں بھی ساتھ لایا تھا.درس وغیرہ کا روح پرور اور ایمان افروز سلسلہ شروع ہو گیا.(خاکسار کو یاد نہیں آرہا کہ مکرم قاضی صاحب نے اپنے اس نو دریافت احمدی کا نام بتایا تھا یا نہیں، بہر حال ان کا نام خاکسار کو معلوم نہیں ہے ) اپنے اسی سفر کے سلسلے میں قاضی صاحب نے فرمایا کہ ہم اپنی روز مرہ کی خدمات اور ذمہ داریاں بجالا رہے تھے زندگی کافی حد تک ایک معمول پر آ گئی تھی.کچھ عرصہ کے بعد ہم نے سنا کہ ہمارے یونٹ میں ایک مسلمان ڈاکٹر آرہے ہیں.طبعاً سب مسلمانوں کو خوشی ہوئی کیونکہ اس زمانہ میں ڈاکٹر عام طور پر انگریز ہی ہوتے تھے یا پھر چند ہندو ڈاکٹر تھے.لہذا مسلمان ڈاکٹر کا بہت بے چینی سے انتظار ہونے لگا.خدا خدا کر کے ڈاکٹر صاحب آئے.ان کی شکل بالکل انگریزوں کی طرح تھی اور رعب ودبد بہ بھی بہت تھا.ایک روز ڈاکٹر صاحب کے اردلی نے مجھے بتایا کہ قاضی صاحب یہ ڈاکٹر تو کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ کوئی ولی اللہ لگتا ہے.میں نے اسے رات تہجد میں اور دن کو تلاوت میں روتے ہوئے دیکھا ہے.یہ سن کر مجھے فوراً ہی یہ خیال آیا کہ ایسا نیک شخص تو احمدی ہونا چاہئے اور اگر یہ احمدی نہیں ہے تو اسے احمدی کرنا چاہئے.مگر فوجی ضوابط اور ڈاکٹر صاحب کے رعب کی وجہ سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کس اعتقاد کے حامل ہیں.تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک صورت پیدا فرمائی.فوجیوں کی عام حاضری اور ڈیوٹی کی تقسیم کے وقت ایک فوجی نے بیماری کا عذر پیش کیا.ضابطہ کے مطابق ضروری تھا کہ اسے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کیا جائے اگر وہ اس کی بیماری کی تصدیق کریں تو 321

Page 323

اسے ڈیوٹی سے مستنی سمجھا جائے ورنہ بہانہ بنانے کی سزا دی جائے.اس غرض کیلئے میں نے مطبوعہ فارم پُر کر کے اپنے دستخطوں کے بعد نمایاں طور پر AHMADI لکھ دیا اور اس سپاہی کو ایک دوسرے سپاہی کے ہمراہ ڈاکٹری معائنہ کیلئے بھجوا دیا.ان کو بھیج کر میں پوری وردی پہن کر ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کیلئے تیار ہوکر بیٹھ گیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر ڈاکٹر صاحب احمدی ہیں تو باہم محبت کی وجہ سے اور اگر احمدی نہیں ہیں تو مخالفت کی وجہ سے بہر حال مجھے ضرور طلب کریں گے.حضرت قاضی صاحب فرماتے تھے کہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہی سپاہی بھاگتا ہوا بہت گھبراہٹ کے عالم میں آیا اور کہنے لگا کہ قاضی صاحب نہ معلوم آپ نے اس فارم میں کیا لکھ دیا تھا صاحب کو دیکھتے ہی غصہ آ گیا اور اس نے آپ کو فوری طلب کیا ہے.میں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا کہ کوئی بات نہیں میں تو پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کیلئے تیار بیٹھا ہوں.جب میں ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا تو وہ اپنے بنگلے میں آرام کر رہے تھے.چار پائی پر مچھر دانی لگی ہوئی تھی وہاں لیٹے لیٹے بظاہر بڑے غصہ سے پوچھنے لگے کہ یہ فارم کس نے پر کیا تھا؟ اس فارم میں کس کے دستخط ہیں؟ وغیرہ میرے یہ بتانے پر کہ یہ اس خاکسار کا ہی کام ہے.ڈاکٹر صاحب مچھر دانی کو ایک طرف کرتے ہوئے اٹھے اور مجھ سے معانقہ کر لیا.یہ قابل فخر ڈاکٹر حضرت میجر حبیب اللہ شاہ (بقول حضرت مسیح پاک علیہ السلام جنتی خاندان کے ایک فرد ) تھے.روزوں کے دن تھے.ہماری نماز تراویح بھی ہونے لگی اور درس بھی باقاعدگی سے ہونے لگا.خاکسار حضرت ذوالفقار علی خان گوہر مرحوم کے فقرہ پر ہی ان متفرق یادوں کو ختم کرتا ہے کہ اس غیر متوقع اچانک ملاقات پر حضرت قاضی صاحب اور حضرت شاہ صاحب کو جو خوشی حاصل ہوئی اس کا اندازہ ہر احمدی کر سکتا ہے.“ 322

Page 324

تحریک جدید کے زندگی بخش مطالبات حضرت مصلح موعود بنیات نے جماعت ہی نہیں ساری دنیا کی بہتری و بھلائی کیلئے تحریک جدید کے نام سے ایک نہایت مفید مؤثر اور جامع پروگرام پیش فرمایا.اس تحریک کے بنیادی مطالبات میں سے ہر ایک مطالبہ ایسا ہے کہ اگر اسے پوری طرح سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے اور اسے اپنا مطمح نظر بنالیا جائے تو ایک عظیم روحانی انقلاب بر پا ہو سکتا ہے.حضرت صاحب نے ان مطالبات کو نہایت مؤثر رنگ میں مختلف پیرایوں میں جماعت کے سامنے پیش فرمایا.تا ہم سادہ زندگی کے مطالبہ کی طرف بطور خاص متوجہ کیا اور اس کے متعلق بار ہا تا کیدی ارشادات فرمائے اور امر واقع بھی یہی ہے کہ اگر اس ایک مطالبہ پر ہی کما حقہ عمل درآمد شروع کر دیا جائے تو انسان بخوبی حقوق العباد کی ادائیگی میں سرخرو اور حقوق اللہ کی ادائیگی میں رضاء الہی کے حصول کا انعام حاصل کر سکتا ہے.تحریک جدید کے مطالبات میں مالی قربانی کا ایک مطالبہ بھی شامل ہے مگر تحریک جدید کی روح کے مطابق اس کے لئے ضروری تھا اور ہے کہ انسان اپنی زندگی کو سادہ بنا کر ، غیر ضروری اخراجات سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے بے جا نمود و نمائش اور سامان تعیش کو تیاگ کر جور تم پس انداز کرے وہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرے.گویا سادہ زندگی مالی قربانی اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے تزکیہ نفس کی بنیاد ہے.اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ ایک سادہ زندگی گزار نے والا 323

Page 325

سعادت مند ہی قربانی کا موقع پیش آنے پر بہتر نمونہ پیش کر سکتا ہے ہمارے وہ قابل رشک مربی جنہوں نے ابتدائی زمانے میں ہندوستان اور بیرون ہندوستان انتہائی نامساعد و مشکل حالات میں غیر معمولی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی وہ یقیناً سادہ زندگی گزارتے تھے کیونکہ میدان عمل میں پیش آنے والی مشکلات سے ایک سہل انگار با کا، کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا.سادہ زندگی کے متعلق حضرت صاحب کے خطبات و تقاریر اور مضامین پڑھ کر اور آپ کی اپنی سادہ زندگی کی تلقین و تحریک کے ذریعہ نسل انسانی کی مساوات کے قیام کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں کیونکہ تکلف اور تعیش کی زندگی میں تو باہم طبقاتی فرق و امتیاز بڑھتا چلا جاتا ہے جبکہ سادگی میں ایسے تمام غیر طبعی اور غیر پسند دیدہ فرق مٹ جاتے ہیں.یہ معاشرتی اصلاح بے شمار فوائد کی حامل ہے کیونکہ دنیا کی موجودہ کش مکش مادی اقدار اور فوائد کے پیچھے نہ ختم ہونے والی دوڑ اور اس کی وجہ سے جائز و نا جائز کے فرق کو نظر انداز کرنے سے موجودہ دہشت اور خوف کی فضا اور بے یقینی کا ماحول و کیفیت جنم لے رہی ہے.گویا سادہ زندگی بھائی چارے، اخوت، مساوات کی ایسی بنیاد ہے جس پر مثالی معاشرہ کی تعمیر ممکن ہے اور جس کے بغیر فارغ البالی، خوشحالی اطمینان وسکون کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میسر نہیں آسکتے.سادہ زندگی گزارنے کے نتیجہ میں باہم پیار و محبت کی جو خوشگوار فضا پیدا ہوتی ہے وہ پر تکلف زندگی میں کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ پر تکلف اور پرتعیش زندگی نفسانیت و خود غرضی کے ایسے تنور میں دھکیل دے گی جہاں باہمی تعاون ہمدردی ، خیر خواہی اور خندہ پیشانی کے نرم و نازک غنچے کھلنے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا.سادہ زندگی بسر کرنے میں کفایت و بچت اور مالی فراخی کے فوائد کے ساتھ ساتھ وقت کی دولت کی بچت کا بہت بڑا فائدہ بھی حاصل ہو سکے گا کیونکہ سادہ انسان بے جا بناؤ سنگھار اور سج دھج میں اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا اور اس طرح اپنا قیمتی وقت بچا کر اسے بہتر مصرف میں لاتے ہوئے اس شخص سے کہیں آگے نکل جائے گا جسے سادہ زندگی کی برکات وفوائد کا ابھی شعور حاصل نہیں ہوا.324

Page 326

ہمارے ہاں یورپ کی نقالی اور مغرب سے مرعوبیت کا افسوسناک رجحان بھی عام ہے.اس سلسلہ میں یہ بات بہت عجیب ہے کہ مغرب اپنی عیاشی، تکلف ، روایت پرستی کی مشکلات اور نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس سے تائب ہو رہا ہے.ڈھیلا ڈھیلا لباس ، بغیر کریز کے پینٹ کاسمیٹکس کے استعمال میں کمی وغیرہ ان کے ہاں عام ہو رہی ہے.حضرت مصلح موعود بنی اور ہم کو جس قربانی کیلئے آمادہ وتیار دیکھنا چاہتے تھے اس کے متعلق آپ صلی اللہ فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ پہلے اس چیز کو سمجھے کہ وہ ہے کیا.جب تک اس مقام کو وہ نہیں سمجھتی اس وقت تک اسے اپنے کاموں میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے.وہ شخص جو قطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کب کو دے گا.“ ہمیشہ کی زندگی کی طرف بلاتے ہوئے آپ بڑی نہ فرماتے ہیں: وو ( الفضل 2 جولا ئی 1936ء)...میں سمجھتا ہوں اگر ایک مرے ہوئے باایمان انسان کے کانوں میں یہ تحریک پہنچ جاتی تو اس کی رگوں میں خون دوڑ نے لگتا اور وہ سمجھتا کہ میرے خدا نے میرے مرنے سے پہلے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرا کے اور مجھے اس میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرما کر میرے لئے اپنی جنت کو واجب کردیا..میں جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کی ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لیں اور جو وعدے انہوں نے کئے ہوئے ہیں انہیں پورا کریں اور سمجھ لیں کہ یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے.تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے سینیما نہیں دیکھا، ہم مر گئے.تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ایک کھانا 325

Page 327

کھاتے ہیں ہم تو مر گئے.تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں تو ہمیشہ سادہ رہنا پڑتا ہے ہم تو مر گئے.تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں رات دن چندے دینے پڑتے ہیں ہم تو مر گئے.میں کہتا ہوں ابھی تم زندہ ہو.میں تو تم سے حقیقی موت کا مطالبہ کر رہا ہوں کیونکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے تو پھر میں تمہیں زندہ کروں گا.پس یہ موت ہی ہے جس کا میں تم سے مطالبہ کر رہا ہوں.اور یہ موت ہی ہے جس کی طرف خدا اور اس کا (رسول) تمہیں بلاتا ہے اور یاد رکھو کہ جب تم مرجاؤ گے تو اس کے بعد خدا تمہیں زندہ کرے گا.پس تم مجھے یہ کہہ کر مت ڈراؤ کہ ان مطالبات پر عمل کرنا موت ہے.میں کہتا ہوں یہ موت کیا اس سے بڑھ کر تم پر موت آنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل احیاء تمہیں حاصل ہو.پس اگر یہ موت ہے تو خوشی کی موت ہے.اگر یہ موت ہے تو موت ہے تو اور بہت ہی مبارک ہے وہ شخص جو موت کے اس دروازے کے ہاتھوں ہمیشہ کیلئے زندہ کیا جائے گا.“ ( الفضل 22 اگست 1939 ء ) تحریک جدید مخالفت کی خوفناک آندھیوں میں شروع ہوئی تھی جب مخالفوں نے اس جماعت کو ختم کرنے کے منصوبوں کا برملا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا اور مخالفت کے ظاہری اسباب وجتھہ کے لحاظ سے وہ جماعت کے مقابلہ میں بہت زیادہ طاقتور اور صاحب اثر ورسوخ تھے.حضرت خلیفۃ لمسیح الثانی بیان طوفانوں کی زد میں آئی ہوئی اور بغض وعداوت کے منجدھار میں پھنسی ہوئی اس چھوٹی سی کشتی کو خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے سہارے کس طرف اور کس طرح لے جارہے تھے.انسانی عقل یقیناً اپنے عجز و اعتراف کرنے پر مجبور ہوگی جب وہ یہ دیکھے گی کہ بالمقابل کوئی نعرہ نہیں ہے کوئی تعلیٰ نہیں ہے کوئی دھمکی نہیں..بلکہ چشم حیران اس نفس مطمئنہ کو اور زیادہ عاجزانہ راہیں اختیار کرتے ہوئے دیکھتی ہے.326

Page 328

حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان کے اس زمانہ کے ارشادات و تقاریر کا خلاصہ خود آپ کے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے: یا درکھنا چاہئے کہ ہمارا مقصد فتح نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی فتح حاصل کرنا ہے اور یہ چیزیں حاصل نہیں ہوتیں جب تک انسان خدا کیلئے موت قبول کرنے کو تیار نہ ہو.موت اور صرف موت کے ذریعہ یہ فتح حاصل ہوسکتی...پھر موت بھی ایک وقت کی نہیں بلکہ وہ جو ہر منٹ اور ہر گھڑی آتی ہے.پس اپنے نفوس میں تبدیلی پیدا کر و.قلوب کو پاک کرو.زبان کو شائستہ اور اپنے آپ کو اس امر کا عادی بناؤ کہ خدا کیلئے دکھ اور تکلیفوں کو برداشت کر سکو تب تم خدا کا ہتھیار بن جاؤ گے اور پھر خدا ساری دنیا کو کھینچ کر تمہاری طرف لے آئے گا...(روز نامه الفضل ربوہ 17 نومبر 1997ء) تحریک جدید کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے آپ نبی نہ فرماتے ہیں: تحریک جدید کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جو اس....میں حصہ لیں خدا ان کے ہاتھ بن جائے ، خدا ان کے پاؤں بن جائے ، خدا ان کی آنکھیں بن جائے اور خدا ان کی زبان بن جائے اور وہ ان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ایسا اتصال پیدا کر لیں کہ ان کی مرضی خدا کی مرضی اور ان کی خواہشات خدا کی خواہشات ہو جائیں.“ الفضل 27 جون 1941 ء ) تحریک جدید کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحب رضی اللہ فرماتے ہیں: " تحریک جدید....سے میری غرض یہی ہے کہ ہم دنیا میں اسلام کی تعلیم قائم کریں.یہ تعلیم اس وقت کئی ہوئی ہے اور ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو خوش کر لیتے ہیں کہ اس کا 327

Page 329

قیام حکومت سے تعلق رکھتا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھنے والی باتیں بہت تھوڑی ہیں اور ان کا دائرہ بہت ہی محدود ہے.باقی زیادہ تر ایسی ہیں کہ ہم حکومت کے بغیر بھی ان کو رائج کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت ، اس کی توحید اور عرفان کی خواہش دل میں رکھنا اور اس کیلئے جدو جہد کرنا، صفات الہی کو اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر اس کو دنیا میں رائج کرنا، قرب الہی کے حصول کی کوشش کرنا، امانت، دیانت، راست بازی وغیرہ سینکڑوں باتیں ہیں جن کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں.قرآنی تعلیم کو اپنے اندر اسی طرح جاری کر لینا چاہئے کہ اگر دنیاوی سکول تو ڑ بھی دئے جائیں تو ہر احمدی اپنی جگہ پر پروفیسر اور فلاسفر ہو جو اپنے بچوں کو گھروں میں وہی تعلیم دے جو ہم نے سکولوں میں دینی ہے...(الفضل 24 اگست 1951ء) خدا کا احسان ہے کہ ہمارے سامنے ایسی تحریکیں پیش ہوئیں ، ہم ان میں حصہ لے کر ان عظیم مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین.00 328

Page 330

تحریک جدید - پس منظر ہمارے پیارے امام نے مسجد فضل لندن میں اپنے 31 اکتوبر 1997ء کے روح پرور خطبہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا.تحریک جدید جماعت احمدیہ کے اخلاص و پیار، عقیدت و محبت ، دعوت و اشاعت اور مالی قربانیوں کا ایک نہایت خوشکن درخشندہ باب ہے.اس غیر معمولی تحریک کی اہمیت اور قدر و قیمت کو ذہن نشین رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا تاریخی پس منظر بھی ہمارے سامنے رہے.اس تحریک کے بانی حضرت مصلح موعود ہی ان کی تحریک کی ابتدا اور آغاز کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت میں شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کیلئے جمع ہوگئی ہیں.ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک مٹانہ لیں.دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے اپنے پوشیدہ بغض نکالنے کیلئے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے ان کی امداد کرنی شروع کر دی اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی.329

Page 331

یہاں تک کہ ہمارا ایک وفد گورنر پنجاب سے ملنے کیلئے گیا تو اسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا.ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے.پندرہ سوروپے روزانہ ان کی آمدنی ہے ( اس زمانہ میں پندرہ سورو پے یقیناً ایک خطیر رقم تھی.ناقل ) تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہوکر ہمارے خلاف ہتھیار اٹھالئے اور یہاں کئی بڑے افسر بھیج کر...احرار کا جلسہ کروایا گیا.“ ( تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1943 ء ) " تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کامیابیاں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں ان میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کوئین وقت پر پیش کر کے مجھے حاصل ہوئی اور یقیناً میں سمجھتا ہوں.جس وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیا درکھنے کی توفیق ملی.اس وقت جماعت کے دل ایسے تھے جیسے چلتے گھوڑے کو جب روکا جائے تو اس کی کیفیت ہوتی ہے.“ الفضل 8 فروری 1936 ء ) پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کیلئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے...یہ تحریک بھی...پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانے کیلئے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی 330

Page 332

کیلئے ضروری ہیں.“ ( الفضل 26 فروری 1961 ء ) اس تحریک کی افادیت اور مخفی حکمتوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طو پر میرے ذہن میں آئی تھی اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ حکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی ان دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا.پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرہ سے بچاؤں مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی ہے اور روح القدس اس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں یہ ایسا ہی واقعہ تھا....اور ایک نئی سکیم.ایک دنیا میں تغیر پیدا کرنے والی سکیم میرے دل پر نازل کر دی اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے...پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہہ سکوں کہ اس اس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر اب میری حالت ایسی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا ہے اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہوگی اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے، کتنی کھڑکیاں ہوں گی، کتنے دروازے ہوں گے، کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی اسی طرح دنیا کی (روحانی) فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں.دشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں.اس کی 331

Page 333

کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اس عظیم الشان مقصود کی طرف پھرا دے جس کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا...میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے.“ ( الفضل 7 اپریل 1939 ء ) 19 اکتوبر 1934 ء کے خطبہ میں اس عظیم الشان تحریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیٹھے فرماتے ہیں: سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کیلئے کرنا چاہتا ہوں...اس اعلان کی ضرورت اور وجود بھی میں اس وقت بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں.آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں اور آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا ہے.یہ دعویٰ آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر دوہرا یا...یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلان جنگ ہوگا ہر اس انسان کیلئے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے.یہ اعلان جنگ ہوگا ہر اُس شخص کیلئے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد...سوائے چندلوگوں کے 332

Page 334

، سچے مومن ہیں اور اس دعوی پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس دعویٰ کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا اسے پورا کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہیں گے.“ ( الفضل 23اکتوبر 1934ء) 00 الفضل ربوہ 12 نومبر 1997ء) کلام محمود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعوت و اشاعت کا جو غیر معمولی جوش و ولولہ عطا کیا گیا تھا اس کے اظہار کیلئے آپ نے اپنی طبع موزوں سے خوب کام لیا.اس زمانے میں برصغیر کی علمی زبانوں اردو اور فارسی کے علاوہ عربی زبان میں بھی تالیف تصنیف کے محیر العقول کارنامے سرانجام دیئے.آپ نے اسی مقصد کیلئے ان تینوں زبانوں میں نہایت موثر و دلنشین نثر کے ساتھ ساتھ منظوم کلام بھی ارشاد فرمایا مگر آپ کی شاعری میں رہنما اصول یا مقصد وموٹو خود آپ کے اپنے الفاظ میں یہی رہا کہ کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے آپ کی شاعری کا موضوع محبت الہی اور اسلام کی خوبیاں اور اشاعت و دعوت ہی رہا اسی وجہ سے جماعت کے کم و بیش تمام شعراء بھی ان مقاصد کو سامنے رکھ کر اپنی شعر گوئی کے میدان میں اپنے جو ہر دکھاتے رہے.حضرت مصلح موعود بنا اور بھی کسی تصنع اور بناوٹ کے بغیر بے تکلف اشعار موزوں فرماتے تھے 333

Page 335

اردو ادب کے لحاظ سے بھی آپ کا مقام بہت اونچا تھا.آپ کی والدہ محترمہ خاص دہلی کی رہنے والی اور حضرت میر درد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں.اس لئے آپ کو اپنے والد محترم سے اسلام سے محبت والہانہ عشق اور لگاؤ اور جماعت کی تعلیم و تربیت کا جذبہ اور جوش بدرجہ اتم ملا ہی تھا اور زبان کے لحاظ سے اردو واقع میں (نہ کہ محاورہ کے مطابق ) آپ کی مادری زبان تھی.کلام محمود کے نام سے آپ کا شعری مجموعہ بے شمار مرتبہ طبع ہوکر دنیا بھر میں شائع ہو چکا ہے.عشق الہی سے بھر پور آپ کے اشعار آج بھی دلوں کو گرماتے اور روح کو بالیدگی بخشتے ہیں.عربی اور فارسی میں بھی آپ نے اشعار کہے ہیں مگر زیادہ کلام اردوزبان میں ہی ہے.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کا اکثر کلام اردو شاعری کی معروف ومشہور صنف غزل میں ہے مگر غزل کا روایتی مضمون کہیں بھی نہیں ملے گا.اصطلاحا تو آپ کی نظموں کو غزل کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہو گا مگر عملاً آپ کے کلام میں غزل والا انداز کہیں بھی نہیں ہے.اور اس بات کا التزام نہیں کیا گیا کہ روایتی طور پر پانچ یا سات اشعار پر بات کو ختم کر دیا گیا ہو.غزل کا ہر شعر اپنے مضمون میں مستقل اور الگ ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ شعرا کے ہاں کسی عنوان پر غزل کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہ اس امر کو غزل کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جتنی اردو شاعری کی عمر ہے اتنی ہی لمبی غزل گو اور نظم گو شاعروں کی چپقلش اور نونک جھونک کی تاریخ ہے.حضرت صاحب کی ساری شاعری مربوط با مقصد ہمت و ولولہ پیدا کرنے والی ہونے کی وجہ سے ایک مسلسل غزل تو کہلا سکتی ہے مگر معروف غزل بہر حال نہیں ہے.اسی وجہ سے آپ کے کلام کا انتخاب پیش کرنا بہت مشکل امر ہے یہاں پر حاصل مشاعرہ “ اور ” حاصل غزل، قسم کی کوئی چیز نہیں ہے.سادہ زبان میں نہایت عارفانہ کلام ہے.حضرت صاحب نے اپنے کلام کے متعلق خود یہ وضاحت فرمائی ہے کہ :...یوں میرے دل میں اکثر خیال آیا کرتا تھا کہ میرے اکثر شعر در حقیقت کسی 334

Page 336

آیت کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی حدیث کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی فلسفیانہ اعتراض کا جواب ہوتے ہیں لیکن لوگ عام طور پر اگر صرف وزن میں ترنم پایا جاتا ہے اور موسیقی پائی جاتی ہے تو سن کر ہاہا کر لیتے ہیں.مجھے کئی دفعہ خیال آتا تھا کہ لوگ سمجھنے کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.اگر کوئی شخص اس طرف توجہ کرے تو شاید یہ زیادہ مفید ہو سکے....در حقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گا جو در حقیقت کلام الہبی کی تفسیر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں.ورنہ شعر نہیں بنتا.شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا یا اس طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن 66 کو ایک چھوٹے سے نکتے میں حل کیا گیا ہے..(الفضل 25 اکتوبر 1955ء) اس وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے غزل کے عام اور سادہ مفہوم ” عورتوں سے باتیں کرنا.عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنا.نظم کی ایک صنف جس میں عشق و محبت کا ذکر ہوتا ہے.“ (فیروز اللغات ) کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کلا محمود' ک اس چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے." ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ” سوانح فضل عمر میں آپ کے منظوم کلام کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: - ”حضرت صاحبزادہ صاحب کا عارفانہ منظوم کلام پہلی مرتبہ مئی 1913ء میں شائع ہوا.پہلی نظم 1903 ء کی ہے جبکہ آپ شاد تخلص کرتے تھے.شعر وسخن کے باب میں آپ کا مسلک کیا رہا ہے اس پر آپ خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.” میں کسی نظم کو شاعری کے شوق میں نہیں کہتا بلکہ جب تک ایک خاص جوش پیدا نہ ہو نظم کہنا مکروہ سمجھتا ہوں.اس لئے درد دل سے نکلا ہوا کلام سمجھنا چاہئے.بعض نظم نامکمل صورت میں پیش کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ تا کہ لوگ دیکھیں کہ شاعری کو بطور 335

Page 337

پیشہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ جب کبھی قلب پر کیفیت ظاہر ہوتی تو اس کا اظہار کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ خیال نہیں ہوتا کہ اس کو مکمل کیا جاوے.چونکہ میں تکلف سے شعر نہیں کہتا.ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے.پڑھو اور غور کرو.خدا کرے یہ درد بھرے کلمات کسی سعید روح کیلئے مفید و با برکت ثابت ہوں.“ حضرت صاحب نے عام شعراء کی کبھی پیروی و اقتد انہیں کی آپ کے خیالات اور (ص245) مضامین عارفانہ و عالمانہ ہیں.آپ نے اردو ادب میں نئے محاوروں کا اضافہ فرما یا مثلاً کلام محمود میں آپ کا کلام ” ہے اک تری تصویر جو مٹتے نہیں ملتی کے عنوان سے شائع ہوا ہے.اس میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل نوٹ بھی درج ہے جس میں اردو ادب میں ایک نئے محاورہ کے اضافہ کے متعلق آپ فرماتے ہیں : ” اُردو میں عام طور پر مٹائے نہیں ملتی بولا جاتا ہے اور وہاں یہ مراد ہوتا ہے کہ انسان مٹانا چاہتا ہے مگر نشان نہیں منتا اس کے برخلاف ایک نقش ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خود تو اسے مٹانا نہیں چاہتا لیکن مرور زمانہ سے وہ کمزور پڑ جاتا ہے چونکہ میں نے اسی مضمون کو لیا ہے اس لئے بجائے مٹائے نہیں ملتی کے ملتے نہیں ملتی استعمال کیا ہے.جاہل ادیبوں کے نزدیک یہ بات ناجائز تصرف معلوم ہوتی ہے مگر واقفوں کے نزدیک مفید ا ضافہ“ ( الفضل 31 جولائی 1951 ) اس جگہ اردو شاعری پر حضرت صاحب کے ایک تبصرہ کا ذکر بھی باعث دلچسپی ہوگا آپ فرماتے ہیں: ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کی طرف توجہ کرنی چاہئے.بے شک ایک پہلو یہ بھی 336

Page 338

ہے کہ ہماری شاعری یہ سکھاتی ہے کہ اگر کوئی بد تحریک کرے تو اسے ضرور قبول کرو کیونکہ یہ وفا ہے اور اگر بد تحریک کو قبول نہیں کرو گے تو بے وفا بن جاؤ گے یہ حصہ بھی قابل اصلاح ہے..لیکن ایک بہت بڑا نقص ہماری شاعری میں یہ ہے کہ وہ مایوسی پیدا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ جس سے تم محبت کرتے ہو وہ ظالم ہے اور تم مظلوم اور اب تمہارا یہی کام ہے کہ اس کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے جاؤ اور کبھی کامیابی کی امید نہ رکھو.“ روزنامه الفضل ربوہ 15 ستمبر 1996ء) حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری حضرت استاد مولانا ابوالعطاء جالندھری میدان خطابت وصحافت کے شاہسوار، دینی علوم اور زبان عربی کے بے بدل ماہر، مشہور مناظر اور عالم باعمل تھے، آپ کی سیرت سوانح پر یہ کتاب بہت مفید اور دلچسپ امور پر مشتمل ہونے کے علاوہ ایک عہد کی تاریخ کو بیان کرتی اور بہت سی خوشگوار یادوں کو تازہ کرتی اور بتاتی ہے کہ مسلسل محنت کوشش اطاعت اور دعاؤں کی برکت سے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والا بچہ خالد احمدیت کے قابل رشک مقام پر پہنچ جاتا ہے.اپنے زمانہ طالب علمی کی ابتدائی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں: حضرت والد صاحب مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرنے کے چند روز بعد گاؤں واپس تشریف لے گئے.میں کچھ عرصہ مہمان خانہ میں رہا پھر بورڈنگ میں داخل ہو گیا.میں چونکہ مدرسہ احمدیہ میں ایک ماہ بعد آیا تھا اس لئے طبعی طور پر ساتھیوں سے پیچھے تھا.نیز گھر سے دوری کی باعث اداس بھی تھا.اس لئے ابتدا میں مجھے دقت پیش 337

Page 339

پر آرہی تھی.جماعت کے آخری بینچ پر مجھے اخویم عبدالرحیم صاحب دیانت (حال درویش قادیان) کے ساتھ جگہ ملی تھی.جماعت اول کے اساتذہ میں محترم قاری غلام یاسین صاحب قرآن پڑھاتے تھے.محترم مرزا برکت علی صاحب حساب پڑھاتے تھے.محترم ماسٹرمحمد طفیل صاحب انگریزی پڑھاتے تھے اور محترم مولوی محمد جی صاحب صرف نحو پڑھاتے تھے.محترم مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ ( حال امیر جماعت احمدیہ قادیان) عربی ادب پڑھاتے تھے.مجھے یاد آیا کہ موخر الذکر استاد مولوی عبد الرحمان صاحب نئے نئے فارغ ہو کر مدرسہ میں مقرر ہوئے تھے.ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ہوتی تھی.دروازہ سے داخل ہوتے ہی از راہ شفقت طالب علم سے چھڑی لگا کر حال پوچھتے تھے.حسن اتفاق کی بات کہ میرا اور مکرم عبدالرحیم صاحب کا بنچ دروازے کے ساتھ پہلا بنچ تھا اس لئے شفقت کا آغاز وہیں سے ہوتا.تمام اساتذہ محبت اور محنت سے پڑھاتے تھے.آج بھی ان محبتوں کو یاد کر کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں...اس زمانے کے اساتذرہ طلباء کو مدرسہ کے وقت کے علاوہ بھی پڑھانا اپنا فرض سمجھتے تھے.چنانچہ مولوی عبد الرحمن صاحب یہ دیکھ کر کہ میں ذرا تاخیر سے آیا ہوں بورڈنگ ہاؤس میں..بھی مجھے قرآن پڑھایا کرتے تھے.میں یہ باتیں اپنے مدرسہ کے ابتدائی ایام کی لکھ رہا ہوں.“ (الفرقان نومبر 1967 ء ) حضرت مولانا صاحب اپنے والدین کے قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ” میرے والدین میری ولادت سے دو تین سال پیشتر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے.دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.میرے خاندان میں 338

Page 340

احمدیت نھال سے آئی...ہمارے دادا نے اپنے بیٹے کے احمدی ہو جانے کا بہت برا منایا.سخت ناراض ہوئے.غصہ میں آکر والدین کو سخت زدوکوب کیا.والدہ کے تمام زیورات اتر والئے اور دونوں کو اپنے مکان سے نکال دیا.میرے والد صاحب نے گاؤں کے دوسرے حصہ میں ایک مکان لے کر رہائش اختیار کر لی اور پرچون کی دکان شروع کر دی اور بھی کاروبار تھا.گاؤں بھر میں یہی اکیلا گھرانہ احمدی تھا اور ہر قسم کے طعن و تشنیع اور تشدد کا نشانہ تھالیکن ایمان کی لذت کے نتیجہ میں وہ یہ سب باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے.“ 66 اپنے بزرگ والدین کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں: سخت مصیبت کے سالوں کے دوران میری ولادت ہوئی اور میرے والد صاحب نے نہایت خلوص سے مجھے وقف کر دیا.میں جب بھی اپنے والدین کے حالات پر غور کرتا ہوں اور ان کی انتہائی غربت اور تکلیف کے باوجود ان کے اس جذ بہ پر نظر کرتا ہوں کہ وہ ان حالات میں بصد شوق اپنے پہلے بچے کو خدمت دین کیلئے وقف کر دیتے ہیں تو مجھے کچھ کچھ اس یقین اور ایمان کا اندازہ ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غریب سے غریب ایمانداروں میں پیدا کر دی تھی.“ اس طرح کی پیاری پیاری باتوں سے شروع ہو کر اس کتاب میں حضرت مولانا صاحب کی زندگی بھر کی شاندار خدمات دینیہ اور کامیاب زندگی کے احوال جن میں حضرت مولانا صاحب کے خطاب.مناظرے تعلیمی و تدریسی خدمات برصغیر ہند و پاک کے علاقہ کے دینی ضروریات کیلئے کئے گئے سفر.بنگلہ دیش میں تربیتی وعلمی خدمات.یورپ اور ایران کے سفروں کی دلچسپ روئیداد بیان ہے.اکثر واقعات حضرت مولانا صاحب کی زبانی بیان ہوئے ہیں بعض باتیں ان کے شاگردوں اور مداحوں کی زبانی بھی ہیں جن میں حضرت مولانا صاحب کے دینی شغف اور ذوق 339

Page 341

شوق.سیر چشمی.بلند حوصلگی اطاعت امام اور دوسری متعدد نمایاں خوبیوں اور صفات کا ذکر ہے اس سلسلہ میں مکرم مولوی محمد یا ر عارف صاحب کا ایک فقرہ بہت پیارا لگ رہا ہے وہ لکھتے ہیں: مکرم جناب ایڈیٹر صاحب ہفت روزہ لاہور نے لکھا ہے کہ ان کی تقریر شروع سے آخر تک یوں ہوتی تھی جیسے ریکارڈ پر سوئی لگادی گئی ہو اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد سوئی ہٹائی گئی ہو.مجھے تو ان کی ساری زندگی ہی اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی ان کی زندگی کی سوئی خدمت احمدیت کے ریکارڈ پر لگا دی گئی اور جب ان کی موت آئی تو گویا وہ سوئی ہٹائی گئی.“ مربی سلسلہ برادرم محمد افضل ظفر صاحب کی یہ قابل قدر پونے تین صد صفحات کی دلچسپ کتاب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو بہت سی باتیں باقی ہیں.اور یہ بھی کہ جیسے ظفر صاحب نے حضرت مولانا صاحب کے ہزاروں شاگردوں اور ان کی محبت و عقیدت کا دم بھرنے والوں کو چینج کیا ہو.روزنامه الفضل ربوہ 22 ستمبر 1996ء) 340

Page 342

حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ہندوستان کی تقسیم کے وقت قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب بلا خون، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث) اور کئی دوسرے افراد حضرت مسیح موعود علی نام کے خاندان کے موجود تھے.ابتداء میں جب قادیان آنے جانے کی کسی قدر سہولت ممکن تھی تو حضرت مصلح موعود بنی لیون نے یہ فیصلہ فرمایا کہ خاندان کا کوئی ایک فردضرور قادیان میں رہے گا.جب تک وہاں آنے جانے کی سہولت ممکن تھی یہ طریق جاری رہا.حضرت صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب جب اپنی باری پر قادیان تشریف لے گئے تو اس کے بعد وہاں کسی کے آنے جانے کے تمام قانونی رستے بند کر دیئے گئے اور اس طرح پہلا طریق جاری نہ رہ سکا تو حضرت میاں صاحب وہاں مستقل رہنے لگے.حضرت مصلح موعود رہا ہو نے آپ کو ضروری نصائح فرما ئیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ علم طب ہمارے خاندان کی ایک نمایاں خصوصیت رہی ہے.حضرت حکیم خلیل احمد مونگھیری صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں موجود ہیں.آپ ان سے با قاعدہ طب کی تعلیم حاصل کریں.خاکسار کو یاد ہے کہ ابتداء میں جب قادیان جانے کا موقع ہوتا تو یہ نظارہ ضرور دیکھنے میں آتا کہ حضرت میاں صاحب حضور کے ارشاد کی تعمیل میں کتاب پکڑے ہوئے مقررہ وقت پر حضرت حکیم صاحب کے پاس پڑھنے کیلئے جاتے.اس طرح کئی دفعہ حضرت میاں صاحب کو حضرت حکیم صاحب کے سامنے بیٹھے پڑھتے ہوئے بھی دیکھا.341

Page 343

حضرت میاں صاحب بہت کم گو تھے.تقریر اور خطاب تو دور کی بات ہے وہ اجنبیوں سے بات بھی کم ہی کرتے تھے مگر جب ان پر یہ ذمہ داری آپڑی کہ وہ خاندان بلکہ دنیا بھر کے احمدیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے قادیان میں رہیں تو آپ نے بہت مطالعہ کیا اور آہستہ آہستہ تقریروں میں روانی آتی گئی.بعد میں وہ ہر جلسہ کی زینت ہوتے تھے.جلسہ سالانہ پر آپ کی تقاریر اور دوسرے خطاب و خطبات بہت مؤثر ہوتے تھے.خاکسارا اپنے ابا جان مرحوم میاں عبد الرحیم صاحب درویش کی وجہ سے اکثر قادیان جاتارہتا تھا اور اس طرح زیارت قادیان کے مواقع میسر ہوتے تھے.ایک دفعہ خاکسار اور برادرم مکرم نذیراحمد ریحان صاحب ،حضرت مولانا ابوالعطا ءصاحب کے ہمراہ قادیان گئے تو ہمیں بھی دارا مسیح میں قیام کا شرف حاصل ہوا جو ہمارے لئے باعث سعادت و خوشی تھا.اسی طرح ایک دفعہ خاکسار کو قادیان جانے کی سعادت حاصل ہوئی تو ان دنوں میں مدرسہ احمدیہ کے کوئی استاد غالبا رخصت پر کہیں گئے ہوئے تھے تو خاکسار کو مدرسہ احمدیہ میں پڑھانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.خاکسار کو تاریخ تو اچھی طرح یاد نہیں مگر یہ 65 - 1964 کی بات ہوگی.ہاں ذکر تو یہ کرنا چاہتا تھا کہ حضرت میاں وسیم احمد صاحب نے ابا جان اور خاکسار کو دار مسیح میں دعوت پر بلایا اور اس طرح خاکسار کو یہ نا قابل بیان خوشی اور مسرت حاصل ہوئی.اس موقع پر اور باتوں کے علاوہ ابا جان نے حضرت میاں صاحب کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس دفعہ ربوہ جا کر اس کا مکان بنانے کا ارادہ ہے.حضرت میاں صاحب چونکہ اکٹھے ساتھ رہنے کی وجہ سے ابا جان کی انتھک محنت کی عادت کو خوب جانتے تھے.اس لئے بڑے اصرار سے ایک سے زیادہ دفعہ فرمایا کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں.اپنی صحت کے مطابق پروگرام بنانا.حضرت میاں صاحب کے ذکر میں ایک اور بات بھی بیان کرناضروری معلوم ہوتا ہے.خاکسار کینیا ( مشرقی افریقہ) سے واپسی پر ابا جان کو ملنے اور قادیان کی زیارت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے وہاں گیا تو درویشوں کی ایک بزم نے مسجد اقصیٰ قادیان میں خاکسار کی 342

Page 344

تقریر کا انتظام کیا.خاکسار نے اور باتوں کے ساتھ یہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک عیسائی پادری کو کتاب Where Did Jesus Die پڑھنے کو دی.وہ پادری میرا اچھی طرح جانے والا تھا.مگر اس کتاب کو پڑھ کر وہ بہت ناراض ہوا اور کتاب کا جواب دینے کا ارادہ کیا.میں نے دیکھا کہ اس نے کتاب پر جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے اور اس طرح وہ اپنا جواب تیار کر رہا تھا.ایک دفعہ وہ اپنے ہمراہ ایک یوروپین ڈاکٹر کو لے کر آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی کتاب میں تو پرانی باتیں لکھی ہیں.یہ ڈاکٹر صاحب آپ کو جدید تحقیق بتائیں گے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت ہو گئے تھے.خاکسار نے بعد میں ان سے کہا کہ آپ کی جدید طبی معلومات اور اصلاحات میں سے تو بہت سی باتیں میرے لئے ناقابل فہم ہیں.البتہ آپ یہ ضرور بتائیں کہ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا کیس آجائے جس میں وہ گواہیاں ہوں جس طرح کی گواہیاں انجیل میں موجود ہیں تو کیا آپ موت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیں گے.ڈاکٹر صاحب نے اپنے ساتھی کی خفت وشرمندگی کی پرواہ نہ کی اور کہا کہ میں ایسی گواہیوں پر سرٹیفکیٹ جاری نہیں کروں گا.حضرت میاں صاحب اس مجلس کی صدارت کر رہے تھے.آپ صدارتی تقریر کے لئے اٹھے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو جو ساتھی اور مددگار عطا فرمائے تھے ان کی اب تیسری نسل خدمت کر رہی ہے.اس کے بعد حضرت میاں صاحب کچھ فرمانا چاہتے تھے مگر آپ اس قدر جذباتی ہو گئے کہ اس کے بعد کوئی ایک فقرہ بھی نہ کہا اور دعا کے بعد مجلس برخاست ہوئی.حضرت میاں صاحب نے اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کیں.حضرت مصلح موعود کی نصائح پر خوب خوب عمل کیا اور تادم آخر درویشی کو بڑے خلوص اور نیک نیتی سے نبھایا.خدا تعالیٰ جنت الفردوس میں اپنے پیاروں کے ساتھ جگہ دے.آمین.(روزنامه الفضل ربوہ 19 اگست 2006ء) 343

Page 345

اللهم لالى ولا على ہمارے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب نے قادیان ہجرت کے بعد دارالفضل میں اپنا مکان بنایا.ہم اسی گھر میں رہتے تھے پھر ہمارے ابا جان نے ذاتی مکان محلہ دار الفتوح میں بنوایا تھا.اس محلے کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ نسبتا نیا محلہ تھا جسے غالباً قریبی محلوں کے پھیل جانے کی وجہ سے انتظامی لحاظ سے الگ محلہ کا نام دیا گیا.یہ دار الرحمت اور دار الفضل سے متصل ہونے کی وجہ سے محلوں میں شامل تھا مگر مسجد اقصی اور مسجد مبارک کے حلقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے شہر، بھی کہلاتا تھا.یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ قادیان کو بالعموم دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا: محلے اور شہر.اس زمانے میں علمی اور ورزشی مقابلوں میں ٹیموں کی شناخت کے لئے تھے جیسے یہ شہر کی ٹیم ہے، یہ محلے کی ٹیم ہے.بات لمبی ہورہی ہے لیکن اس کی تاریخی اہمیت اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگ جن کو قادیان جانے یا وہاں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا، ان کے لئے یہ تفصیل لچسپی کا باعث ہوگی.ہمارے محلے کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ اور محلوں کے برعکس سو فیصد احمدی آبادی پر مشتمل نہیں تھا ہمارے محلے میں بعض غیر مسلم ہندو سکھ بھی رہتے تھے اور بعض غیر احمدی مسلم بھی.اس خصوصیت کی وجہ سے غیر احمدیوں کی چھوٹی سی جلسہ گاہ بھی اسی محلے میں تھی اور اس طرح 344

Page 346

بہت بچپن سے مختلف مذاہب کی معلومات حاصل ہونے لگیں.اس وقت کے ماحول کی وجہ سے ہمارے ہاں تبلیغ کا بہت شوق وجذ بہ اور مواقع تھے.مجھے یاد ہے ہم اس زمانے میں اپنے ہم عمر احراری بچوں سے مناظرے کیا کرتے تھے جن میں ہماری نمائندگی مجھ سے تین سال بڑے میرے بڑے بھائی جان عبدالمجید کرتے تھے.ہماری اس پارٹی میں بہت سے بچے تھے تا ہم شیخ عبدالمجید صاحب ( جو بعد میں فیصل آباد میں کاروبار کرتے رہے اور آجکل غالباً جرمنی میں ہیں ) نمایاں ہوتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ہم ان مباحثات میں احمدیہ پاکٹ بک سے مدد لیا کرتے تھے.مجلس احرار کا مرکزی دفتر بھی ہمارے محلے میں تھا جو ایک یا دومرلے پر مشتمل ایک چھوٹی سی مسجد میں تھا.اس مسجد کو با قاعدہ کوئی رستہ نہیں جاتا تھا.ایک جوہڑ کے ساتھ پگڈنڈی سی بنی ہوئی تھی جس کے ذریعے وہاں تک بمشکل پہنچا جاسکتا تھا.ہم نے وہاں کبھی نماز ہوتے یا کوئی اور جلسہ ہوتے نہیں دیکھا.باہر پیشانی پر ایک بورڈ ضرور لٹکتا رہتا تھا.ان کی یہ کسمپرسی کی کیفیت اور اخباروں میں بڑے بڑے دعوے اور فتوحات کی روداد میں دیکھ کر ہمیں خوشگوار حیرت ہوتی تھی اور یہ بھی کہ ان لوگوں کے یہ دعوے اور تعلیاں احمدیت کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں.ایک چھوٹے سے میدان میں جو غیر مسلموں کی آبادی میں تھا کبھی کبھی جلسہ بھی ہوتا تھا.یہاں پر ہی ہمیں مجلس احرار کے بعض بڑے بڑے ناموں سے تعارف حاصل ہوا.مولوی عبداللہ معمار صاحب جلسے پر آیا کرتے تھے اور کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ ان کی واپسی پر ان کے تانگے میں ہم بچے بھی سوار ہو جایا کرتے تھے اور بھائیجان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بعض دفعہ وہ بہت زچ ہو جایا کرتے تھے.قادیان میں کچھ عرصہ ان کے ایک بہت مشہور مولوی صاحب کا رہنا بھی یاد ہے.ان کا نام محمد حیات تھا.بے ریش و بروت ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کھودا کے نام سے یاد کئے جاتے تھے.ان کو اپنے نام کے ساتھ فاتح قادیان، لکھنے کا بہت شوق تھا.خدا تعالی 345

Page 347

کے فضل سے قادیان اور احمدیت کا نام تو چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے مگر فاتح صاحب دیر سے کتم عدم اور گمنامی کی چادر اوڑھ چکے ہیں.ان مولوی صاحب کے ساتھ خاکسار کی ایک ملاقات لاہور میں ہوئی تھی.یہ ہمارے ایک مخلص احمدی دوست کے گھر میں کسی مشتر کہ دوست کی وجہ سے کھانے پر مدعو تھے.کھانے کی میز پر پر تکلف کھانوں کے علاوہ خشک میوہ جات بھی پڑے ہوئے تھے جو ان کے ساتھی مزے مزے سے کھا رہے تھے مگر مولوی صاحب اپنے دانتوں کی خرابی کی وجہ سے کھا نہیں پارہے تھے.اپنے ساتھی سے کہنے لگے تم جو بادام وغیرہ کھارہے ہو ، میری جیب میں بھی ڈالتے جاؤ.یہ وہ احراری علماء تھے جو احمدیوں کے ساتھ کھانا پینا حرام قرار دیتے نہ تھکتے تھے.ان سے ایک بہت دلچسپ ملاقات ملتان میں ہوئی.خاکسار ان دنوں احمدیہ مسجد حسین آگاہی ملتان میں متعین تھا.ملتان کے ایک پر جوش شیعہ صاحب کبھی کبھی ملنے آیا کرتے تھے.گفتگو میں لاجواب ہو کر ناراض ہو کر چلے جایا کرتے تھے.مگر پھر ملاقاتیں شروع ہو جاتیں تھیں.ایک دفعہ ان کا پیغام ملا کہ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ آنا چاہتا ہوں.ان کو کہا گیا چشم ما روشن و دل ما شاد.جب چاہیں تشریف لے آئیں.خیر جب وہ آئے تو ان کے ہمراہ کھدر کی دھوتی اور کھدر کی چادر میں ایک دیہاتی صاحب تھے.انہوں نے بہت ہلکی بلکہ قدرے زنانہ آواز میں اپنا تعارف کروایا: میرا نا محمد حیات ہے میں شکر گڑھ تحصیل کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں.خاکساران کو پہچان چکا تھا.ان سے کہا کہ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صاحب جن کے ساتھ آپ آئے ہیں شیعہ خیالات کے ہیں.کیا آپ بھی شیعہ ہیں؟ اس پر انہوں نے باصرار اپنے سنی ہونے کا ذکر کیا.مولوی صاحب نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی اس کے ایک کنارے سے کوئی چیز بندھی ہوئی لٹک رہی تھی.یوں لگ رہا تھا کوئی گڑ شکر قسم کی چیز ہے مگر بات شروع ہوئی تو گرہ کھول کر تشخیذ الاذہان کا ایک پرچہ نکالا اور اپنی گفتگو آگے بڑھانے کے لئے اس کی عبارت پڑھ کر سنائی.ان کے غلط استدلال اور مسئلے کا مکمل جواب ایک غلطی کا ازالہ میں موجود تھا جو ان کو پڑھ کر 346

Page 348

سنایا گیا.اب پھر بچپن کی طرف دیکھتے ہیں.بچپن کے کھیلوں میں کبڈی ، ہاکی ،فٹ بال اور میروڈ بہ عام تھے.بھائیجان بہت پر جوش کھلاڑی تھے.ٹیمیں بناتے ، بیچ ڈالتے دوسرے محلوں کی ٹیموں سے ٹورنامنٹ ہوتے.علمی پروگراموں میں بھی پیش پیش رہتے.طبیعت میں جوش کی وجہ سے آگے آگے رہنے کا شوق تھا.آواز بلند اور لحن اچھا تھا.۱۹۳۹ ء میں صرف نو سال کی عمر میں تحریکِ جدید کے جلسے میں تقریر کر کے انعام حاصل کیا.ہم دار الفتوح کی مسجد میں اطفال کے پروگراموں میں اذان ، نظم اور تقریر کے مقابلوں میں شریک ہوتے.ایک دفعہ محلے کے جلسے میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل معنی اللہ کی مشہورِ زمانہ نعت: بدرگاه ذی شان خیر الانام بہت خوش الحانی سے پڑھی جس پر محلے کے صدر صاحب نے ہم دونوں بھائیوں کو انعام دیا.اجتماعات میں علمی مقابلوں میں انعامات حاصل کرتے مطالعہ کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام علیہ السلام کا خاص اہتمام کرتے اور ان کے امتحانات میں شرکت کرتے.مجھے یاد ہے جب ابا جان کو احباب مبارکباد دیتے تھے تو وہ بہت خوش ہوتے تھے.دراصل جلسوں میں با قاعدگی سے حصہ لینے میں ابا جان کے ذوق و شوق کا بہت عمل دخل تھا.ان کی غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے ہمیں بعض تاریخی جلسوں میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی جس پر آج ہم بجاطور پر شکر اور فخر کرتے ہیں.۱۹۴۴ء میں لاہو، ہوشیار پور، لدھیانہ اور دہلی میں جلسہ ہائے مصلح موعود ہوئے.لدھیانہ میں بچوں کو لانے کی اجازت نہ تھی.باقی سب جلسوں میں ابا جان ہم دونوں بھائیوں کو ساتھ لے کر گئے اس کے علاوہ قادیان کے پاس ایک گاؤں بھانبڑی میں بھی ہم ایک تاریخی جلسے میں گئے تھے.اباجان قادیان کے متمول تاجر تھے متعدد بارا پنا یہ ارادہ ظاہر فرماتے کہ اپنے خرچ پر بچوں کو اعلی تعلیم دلوا کر سلسلہ کے لئے وقف کر دینگے.آپ نے دونوں بھائیوں کو جامعہ احمدیہ میں داخل 347

Page 349

کرایا.خاکسار کو 1944ء میں زندگی وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.اس میں حضرت مصلح موعود بنی ان کے مؤثر خطبات اور دل نشین تحریکات کا اثر تو لازماً رہا ہوگا تھا.اس کے ساتھ بزرگ والدین کی یہ خواہش کہ ان کے بچے دین کے خادم بنیں، کا بھی دخل رہا.سب سے بڑھ کر میری والدہ مرحومہ کی لوری ” میرا بچہ اذا نہیں دے گا لوگوں کو کلمہ پڑھائے گا، ماں کے دودھ سے دین سے وابستگی رگ رگ میں سرایت کر گئی تھی.تھے.قادیان میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ ہوا.میری پہلی کلاس میں ساٹھ سے زیادہ طالب علم تقسیم برصغیر کے وقت انتہائی پر آشوب اور غیر یقینی حالات در پیش تھے.جماعتی ہدایت کے مطابق پہلے مستورات اور بچوں کو پاکستان بھیجوانے کا فیصلہ ہوا.ابا جان نے محلہ کے ایک سابق فوجی سے ان کے ٹرک میں امی جان اور بچوں کو بھجوانے کی بمشکل اجازت لی جب قادیان سے لڑکوں کا قافلہ چلنے لگا تو ڈرائیور کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ پر مجھے بھی ٹکا دیا.اپنے خاندان کو بے سروسامانی میں رخصت کر دیا اور خود قادیان کے درویش ہو گئے.تقسیم وطن اور مہاجرت سے پیدا ہونے والے اثرات و مشکلات سے قادیان کے منتشر پرندے جمع ہونے لگے تو جامعہ میں کلاس میں صرف پندرہ سولہ طالب علم تھے (اگر ان طالب علموں اور وقف زندگی کرنے کے بعد حالات کی مجبوری سے دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع نہ کر سکنے والوں کے حالات جمع ہوسکیں تو یقینا اس میں بھی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات ملیں گے ).لاہور میں رتن باغ اور جودھامل بلڈنگ ( میوہسپتال کے نزدیک ) حضور کی رہائش اور صدر انجمن کے دفاتر کے قیام سے ایک مرکز کی صورت بن گئی مگر بہت ہی کسمپرسی کی صورت تھی.دفاتر کی عمارات ، دفاتر کا فرنیچر دفاتر کے کارکن کوئی چیز بھی تو عام حالات کے مطابق معیاری اور مکمل نہ 348

Page 350

تھی.حضرت مصلح موعود بٹالہ کا عزم اور کارکنوں کا اخلاص کام کو چلانے اور آگے بڑھانے کا باعث بنا.حضور بنی کے ارشاد کے مطابق ایک متروکہ عمارت میں جامعہ احمدیہ شروع کیا گیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ابھی قادیان میں تھے.مکرم حافظ مبارک احمد صاحب مرحوم نے کام شروع کیا.مختلف کلاسوں کے طالب علم ایک ہی دستیاب چٹائی پر بیٹھے ہوئے.محترم حافظ صاحب کے تجربات اور علمی نکات سے استفادہ کر رہے ہوتے.یادر ہے کہ ایک چٹائی کے علاوہ جامعہ احمدیہ کے فرنیچر میں ایک شکستہ کرسی بھی شامل تھی.تھوڑے عرصے کے بعد ہی جامعہ احمد یہ چنیوٹ اور پھر احمد نگر منتقل ہو گیا.احمد نگر میں جامعہ احمدیہ کا ہوٹل جس نیم پختہ عمارت میں شروع ہوا وہ اصطبل کے نام سے جانی جاتی تھی.اس کے نیم تاریک کمروں کی صفائی میں وقار عمل ہی کام آتارہا.جامعہ کے اکثر بزرگ اساتذہ جذبہ خدمت سے سرشار تعلیم دینے میں منہمک ہو گئے.طالب علم اپنی اپنی استعداد اور شوق کے مطابق استفادہ کرنے لگے.اس جگہ بھی اکثر کلاسیں چٹائیوں پر ہی ہوتی تھیں.اساتذہ کرام کی رہائش کی سہولت نا گفتہ بہ تھی.ہماری خوراک بھی ابتدائی زمانے اور تنگی کی وجہ سے بہت عجیب تھی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گندم کے بعد موٹے چاول کی سپلائی بھی ممکن نہ رہی تو گاجروں میں گڑ ڈال کر گجریلا پکایا جاتا تھا جو عام طور پر انسانوں کی خوراک نہیں لگتی تھی نوجوانی کے زمانے میں ان عیاشیوں سے کئی لطائف جنم لیتے تھے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی قائم رہتی تھی.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جس زمانہ کا ذکر ہو رہا ہے وہ بہت ہی سستا زمانہ تھا.بعض طالب علم جو جیب خرچ کے معاملہ میں قدرے بہتر حالت میں تھے وہ ایک روپے کا آٹھ چھٹانک (قریباً 500 گرام) تازہ مکھن حاصل کر سکتے تھے.ایک سال تو گندم اتنی سستی ہو گئی کہ سات روپے میں ایک من ( قریباً35 کلو ) مل جاتی تھی.کئی سال کے بعد جامعہ احمد نگر سے ربوہ منتقل ہوا.مگر ربوہ سے جو تصور اب ذہن میں اُبھرتا 349

Page 351

ہے.اُس وقت کا ربوہ اس سے بہت مختلف تھا.گرمیوں میں شدید گرمی اور ٹو کے ساتھ ساتھ قریباً ہر روز ہی شدید آندھی آجاتی تھی اس آندھی سے گردو غبار کمروں میں ہی نہیں صندوقوں اور الماریوں میں بھی چلا جاتا اور صفائی کا مسئلہ مستقل تو جہ طلب رہتا.پینے کا پانی بھی بہت کم ملتا تھا اور وہ بھی ڈور سے لانا پڑتا تھا.یہ تو عام مسائل تھے جن کا ذکر ہمارے لٹریچر میں آچکا ہے.جامعہ احمدیہ کا اپنا ماحول اور مخصوص مسائل تھے مثلاً جامعہ کی عمارت ایک لنگر خانہ کی عمارت تھی جو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے کھانا پکانے اور تقسیم کرنے کی جگہ تھی ظاہر ہے کہ یہ عارضی اور کچی عمارت تھی صحن میں ہر طرف روٹی پکانے کے تنور تھے بارش میں قریباً ہر چھت ٹپکتی اور ہر تنور پانی سے بھر جا تا تھا.ایسے میں کیچڑا اور پانی سے کپڑوں اور کتابوں کو محفوظ کرنے کے لئے بعض اوقات اُن ٹینکیوں سے مدد لی جاتی تھی.جو جلسہ کے دنوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے کام آتی تھیں اور باقی دنوں میں بیکار پڑی رہتی تھیں.ان حالات اور مشکلات کے بیان کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے.کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود بنا یہ تعلیم کی ترقی اور واقفین کی بہتری کے لئے ہدایات جاری فرماتے رہتے تھے.ہمیں بہترین اساتذہ سے صرف علم ہی نہیں تقویٰ، خدا ترسی اور لگن سے کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہوتی تھی.خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے اس سے بہتر ماحول کم ہی کسی کو میسر ہو گا.حضرت مصلح موعود بنا شدہ کا کامیاب سنہری دور اس طرح دیکھنے کا موقع ملا کہ ہر روز ہی نئی کامیابیوں اور فتوحات کے نظارے ہوتے تھے.تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ کے آغاز کا بھر پور زمانہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی.اساتذہ کرام کا تفصیلی ذکر تو ممکن نہیں تاہم یہ امر کتنا خوشکن اور قابل تشکر ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام بنا لی تھے.اس طرح جماعت کے بہترین مبلغ ، مصنف مقر ر جیسے حضرت ابوالعطاء صاحب، حضرت قاضی محمد نذیر صاحب سے استفادہ کا موقع ملا.ربوہ میں جن بزرگوں سے کسب فیض کے مواقع ملے.ان میں حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رہی.اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب 350

Page 352

را جی کی بنیا جیسے آسمان احمدیت کے روشن ستارے بھی تھے.یہاں اس امر کا بیان بھی موجب دلچسپی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں جامعہ احمدیہ کے طلباء دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے تھے.یعنی کچھ طالب علم خدمت کے میدان میں صدر انجمن احمد یہ یا اصلاح وارشاد کے میدان میں بطور مربی کام کرنے کے لئے مختص ہو جاتے تھے اور کچھ انجمن احمد یہ تحریک جدید میں بیرونی ممالک میں تبلیغ و تربیت کی خدمات بجالانے کے لئے مختص ہوتے تھے.ہماری کلاس جامعہ احمدیہ احمد نگر میں جاری تھی.ایک دن ہم نے دیکھا کہ ربوہ سے بعض بزرگ ہماری کلاس میں آئے اور انہوں نے ایک ایک طالب علم کی طرف اشارہ کر کے جس طرح کھلاڑیوں کی ٹیمیں چینی جاتی ہیں.اس طرح ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا بعد میں یہ پتہ چلا کہ یہ تحریک جدید انجمن کے نمائندگان تھے اور اپنے اپنے حصے کے طلباء کا انتخاب کر رہے تھے.ہم طالب علموں کو یہ بات عجیب سی لگی مگر وقف زندگی کی روح کے پیش نظر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا.کئی سالوں تک جماعت میں یہ تقسیم چلتی رہی مگر بعض مشکلات اور قباحتوں کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثالث دایمیہ نے اس طریق کو ختم کر کے حدیقہ المبلغین یا Pool کا طرز رائج فرمایا جس کے مطابق تمام مربی حسب ضرورت تحریک یا انجمن میں کام کرتے تھے.اور پہلے سے کوئی تقسیم یا تفریق نہیں کی جاتی تھی.خاکسار اس تقسیم کے تحت صدر انجمن کا مربی تھا جسے پاکستان میں ہی خدمت کا موقع مل سکتا تھا.جامعتہ المبشرین کے آخری سال 1956 کی بات ہے ہماری کلاس ہو رہی تھی ہمارے پرنسپل حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اُستاد حدیث کلاس میں تشریف لائے.حضرت مولوی صاحب نے حضرت امام احمد بن حنبل کے متعلق ایک نوٹ ہمیں املا کر وایا یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ اس طرح لکھوانے کا کیا مقصد تھا بعد میں پتہ چلا کہ اس طرح ہماری ہینڈ رائٹنگ دیکھنا مد نظر تھا.ہمارے لکھے ہوئے کاغذوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد حضرت مولوی 351

Page 353

صاحب نے پانچ طالب علموں کو جن میں سے ایک یہ خاکسار بھی تھا.مولانا خورشید احمد صاحب کے ساتھ جانے کا ارشاد فرمایا.جامعہ سے تحریک جدید کے کوارٹرز کی طرف آتے ہوئے پتہ چلا کہ ہم مسند احمد بن حنبل کی تبویب کا کام شروع کرنے کے لئے جارہے ہیں.گول بازار سے کچھ سٹیشنری خریدی گئی.لائبریری سے کتب حاصل کیں.اساتذہ میں سے مولا نا غلام باری سیف صاحب اور مکرم مولانا محمد احمد ثاقب صاحب کی خدمات بھی اس کام کے لئے حاصل کر لی گئیں.بعض اور طالب علم اور اساتذہ بھی وقتا فوقتا شامل ہوتے رہے.ہر بزرگ استاد کے ساتھ تین طالب علم ان کی رہنمائی میں تجویز کئے ہوئے عنوان یا باب کے تحت حدیث نقل کرنے کا کام کرتے.خاکسار شیخ خورشید احمد شاد صاحب کے ساتھ تھا وہ اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے بسا اوقات خاکسار کو ابواب تجویز کرنے کا کام بھی دے دیا کرتے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں اس کام کی خوب مشق ہوگئی اور خاکسار نقل احادیث کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم کے لئے ابواب کی تعیین کی خدمت بھی سرانجام دیتا رہا یہ کام ہنگامی بنیادوں پر شروع ہوا تھا مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے آگے چلتا رہا تجربہ کے ساتھ ساتھ کام کا طریق بھی بدلتا رہا.کام کرنے والے بھی بدلتے رہے اسی دوران خاکسار کا تقرر بطور مربی کراچی میں ہو گیا.کراچی گئے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے کہ مرکز سے بذریعہ تار ( اس زمانہ میں تار ہی جلدی رابطے کا بہترین ذریعہ تھا اب ای میل اور فیکس کے سامنے یہ زمانہ قدیم کی بات لگتی ہے ) ربوہ واپس آنے کی ہدایت ملی واپسی پر پتہ چلا کہ حضرت مصلح موعود بنیشن نے تبویب کے کام کی رپورٹ پیش ہونے پر اس کی پیش رفت کے متعلق عدم اطمینان کا اظہار فرمایا توکسی بزرگ نے کام کی سستی یا تاخیر کی وجہ یہ بھی بیان کی کہ عبدالباسط جو ہمارے ساتھ کام کرتے تھے، انہیں کراچی بھجوادیا گیا ہے.حضور نیلم کے ارشاد پر خاکسار واپس آکر پھر اسی خدمت کی انجام دہی میں مصروف ہو گیا.اسی دوران ایک اور عجیب واقعہ ہوا.خاکساراپنے ساتھیوں کے ساتھ احادیث کی نقل وغیرہ کا کام کر 352

Page 354

رہا تھا کہ اچانک ہمارے اُستاد مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تشریف لائے.باہر کھڑے کھڑے انہوں نے خاکسار کا نام لے کر پوچھا کہ وہ موجود ہے.خاکسار لبیک کہتے ہوئے ان کے پاس گیا تو وہ فرمانے لگے کہ آپ کو حضرت صاحب نے یاد فرمایا ہے.یہ الفاظ سنتے ہی خاکسار کانپ اُٹھا اور پسینہ آ گیا.اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرے جیسا نالائق سا گمنام سا ایک طالب علم اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے عظیم وجود کا بلاوا آیا ہو.مولوی صاحب سے عرض کیا.کیا اس خاکسار کو ہی بلایا ہے؟ کس لئے بلایا ہے؟ وغیرہ مگر مولوی صاحب کا ایک ہی جواب تھا کہ حضور خود بتائیں گے.میں اپنی اس وقت کی حالت پوری طرح بیان نہیں کر سکتا انتہائی گھبراہٹ کی حالت میں دفتر پرائیویٹ سیکریٹری پہنچے.محترم مولوی صاحب نے کاغذ پر عبدالباسط حاضر ہے، لکھ کر دفتر کے کارکن کو دیا جیسے ہی وہ کارکن او پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.خاکسار کو حضور کی خد مت میں حاضر ہونے کا اشارہ ہوا.مولوی صاحب میرے ساتھ تھے اگر میں غلطی نہیں کرتا تو حضور اُسی وقت اندر سے تشریف لائے تھے اور اپنی کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھے کھڑے تھے.حضور نے لمبا فرغل پہنا ہوا تھا.خاکسار نے دست بوسی کا شرف حاصل کیا تھا.حضور نے خاکسار کی تعلیم کی متعلق بعض باتیں دریافت فرما ئیں اور بہت ہی حوصلہ افزائی فرمائی.فرمایا کہ آدمی محنتی اور سمجھدار ہو تو کم تعلیم کے باوجود بڑے بڑے کام کر سکتا ہے.اس حوصلہ افزائی کے بعد حضور نے بڑے اعتماد اور بڑے پیار سے تبویب اور اس سے متعلقہ سارے کاموں اور نصرت آرٹ پریس وغیرہ کے متعلق سارے کام کی نگرانی کا ارشاد فرمایا.حضرت مولانا ابوالمنیر صاحب نے حضور کی ہدایات متعلقہ دفاتر کو بھجوائیں.تبویب کی جو ایک جلد شائع ہوئی وہ خاکسار کی نگرانی میں نصرت آٹ پریس میں ہی شائع ہوئی.خاکسار کا پہلا میدان عمل جماعت کراچی تھی اور یہ جماعت کئی لحاظ سے دنیا بھر کی جماعتوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے.اس جماعت کو حضرت چوہدری عبداللہ خان جیسے امیر اور حضرت 353

Page 355

مولا نا عبدالمالک خان جیسے مربی کی خدمات حاصل تھیں اور حضرت مصلح موعود بنا ان کی خوشنودی اور بار با علم انعامی کا حصول بھی اس جماعت کا ایک امتیاز تھا.خاکسار کو آٹھ سال تک کراچی کی خدمت کا موقع ملا.اس کے بعد ملتان اور جہلم میں بھی خدمات کا موقع ملا.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ذمہ دار افسران نے تجربہ کے طور پر بعض مربیوں کو بیرون ملک بھجوانے کے لئے منتخب کیا جن تین مربیان کو اس مقصد کے لئے چنا گیا اُن میں اس خاکسار کے علاوہ مکرم قریشی محمد اسلم صاحب کا تقررگی آنا میں ہوا اور وہ وہاں مقام شہادت پر فائز ہوئے.ہمارے تیسرے ساتھی مکرم عبد الحکیم جوزا صاحب تھے جو غانا مغربی افریقہ میں جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.خاکسار تنزانیہ، کینیا، زیمبیا، زمبابوے اور ملاوی میں کم و بیش پندرہ سال خدمت کے بعد ر بوہ میں تصنیف کے کام پر مقرر ہوا.فضل عمر فاؤنڈیشن میں کام کرتے ہوئے خاکسار کو سوانح فضل عمر“ کی تالیف کی سعادت حاصل ہوئی.سوانح کی پہلی دو جلد میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمۃ اللہ نے مرتب فرمائیں.آپ کے منصب خلافت پر فائز ہو جانے کے بعد آپ کی غیر معمولی مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ اس کام کو تکمیل تک پہنچاتے.آپ نے مولانا محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم کو اس کام کے لئے مقرر فرمایا.اشرف صاحب اس زمانہ میں ناظر امور عامہ کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے.اس اہم ذمہ داری اور کثرت کار کی وجہ سے وہ اس کام کے لئے زیادہ وقت نہ نکال سکے.اس طرح یہ بہت بڑی ذمہ داری خاکسار جیسے کم علم او نا تجربہ کار شخص کوملی سوانح فضل عمر پانچ جلدوں میں مکمل ہوئی.جن میں سے تین کی تالیف کی سعادت بفضل الہی نصیب ہوئی.میدانِ عمل میں خدمت کے دوران کراچی، ملتان، جہلم، حیدرآباد (پاکستان) تنزانیہ، کینیا، زیمبیا ، زمبابوے، ملاوی (افریقہ ) میں خدمات کا موقع ملا.اللہ تبارک تعالی کے فضل و احسان سے کامیابیاں ملتی رہیں.جن کی تفصیل کسی اور وقت کے اٹھا رکھتا ہوں.354

Page 356

پاکستان سے مستقل رہائش ترک کر کے لندن میں آبسنے میں اولاً تو حضرت خلیفہ وقت کی کشش کا دخل تھا، دوسرے خاکسار کی اہلیہ کی بیماری تھی وہ عارضہ قلب اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے علیل رہنے لگی تھی.تکلیف بڑھ جاتی تو کافی مشکل ہوتی.بچے یہ حالات دیکھ کر اصرار کر رہے تھے کہ لندن آجائیں ایک تو بچے امی کے پاس ہوں گے دوسرے علاج کی سہولتیں بھی ہیں.خدمت دین کے مواقع اللہ تعالی اپنی جناب سے پیدا فرما دیتا ہے.چنانچہ بادل نخواستہ دارالرحمت وسطی ربوہ کے مکان کو چھوڑ کر عازم لندن ہونا پڑا.جماعتی خدمات ہمارا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہیں.لندن آکر خود بھی بعارضہ قلب بیمار ہوا ہسپتال میں رہنا پڑا لیکن اصل درد یہ تھا کی رمضان کی آمد آمد تھی اور مجھے اس میں خدمات کے مواقع نظر نہیں آرہے تھے.قریباً نصف صدی سے قرآن وحدیث کے درس کی عادت تھی.میں نے امیر صاحب کی خدمت میں وقف عارضی کی درخواست دے دی.اللہ تعالی کا فضل ہوا اور آپ نے رمضان المبارک لیسٹر جماعت میں گزارنے کا ارشاد فرمایا.لیسٹر کی جماعت بہت محبت کرنے والی جماعت ہے.وہ بھی جیسے درسِ قرآن وحدیث کی بھو کی بیٹھی تھی ، خاکسار کو وہاں پڑھانے کا اور ان کو پڑھنے کا ایسا لطف آیا کی یہ ایک مہینہ تین سال پر ممتد ہو گیا.وہاں گزارے ہوئے دن یا درہتے ہیں اور میں اس جماعت کے لئے دعا کرتا ہوں.لیسٹر میں قیام کے دوران ہی حضور انور ایدہ الودود نے مجھے از راه شفقت و ذرہ نوازی ناظم دارالقضاء بورڈ مقررفرما دیا.بفضلہ تعالی اس خدمت کا سلسلہ تاحال جاری ہے.اس دوران کچھ عرصے کے لئے الفضل انٹرنیشنل میں خدمت کی سعادت ملی.مسجد فضل لندن میں درس حدیث کا موقع مل رہا ہے.خدا یا تیرے فضلوں کو کروں یاد پچھلے پچاس سال پر نظر دوڑاتا ہوں تو کسی قدر خوشی مگر زیادہ ندامت کا احساس ہوتا ہے.خدمت کے جو مواقع حاصل ہوئے ، خدا تعالیٰ کی ستاری کے جو جلوے دیکھے اس میں بہت زیادہ 355

Page 357

خدمت کرنا چاہیے تھی.حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ نے خاکسار کے ایک عریضہ کے جواب میں بطور حوصلہ افزائی از راه شفقت تحریر فرمایا: آپ کا ارسال کردہ خط موصول ہوا.بفضل خدا تعالیٰ آپ کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ کام کر رہے ہیں ، کئے جائیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.دین دنیا کی بہترین حسنات سے نوازے آپ کی نیک خواہشات پوری فرمائے.آپ کا حامی و ناصر ہو.“ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر فرمائے.دنیا میں ستاری سے ڈھانپنے والا عقبی میں غفاری سے ڈھانپ 66 لے.آمین.تحدیث نعمت کے طور پر یہاں اپنی اہلیہ محترمہ محموده بنت چراغ دین صاحب آف سانگلہ ہل کا ذکر خیر ضروری سمجھتا ہوں.ایک زندگی وقف کی روح کے ساتھ کمال وفاداری،صبر اور قناعت سے ساتھ دیا.گھر کی ذمہ داریاں اُٹھا کر مجھے سبکدوش رکھا.میرے والدین اور بہن بھائیوں سے حسنِ سلوک کر کے دعائیں لیں.اولاد کی تربیت ایسے رنگ میں کی کہ بفضل خدا سب خدمت دین میں حتی المقدور مصروف ہیں.فجز اھا اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اولاد بچے: مبشرہ اہلیہ محترم عبدالشکور صاحب (یوکے) کاشف صبیحہ، آصف ، قدسیہ.مدثر عباسی اہلیہ محترم محی الدین عباسی صاحب (ایم بی اے ) 356

Page 358

بچے :2 بچے عطاء الاول، عطیہ، منزہ ، آمنہ.رشید احمد بیگم ناصرہ رشید صاحبہ (یوکے) نبیل احمد (مربی سلسلہ احمدیہ ) ماریہ ، حانیہ.نیز اہلیہ محترم اعجاز کریم الدین صاحب (یوکے) صدف، رخشندہ غزالہ.وسیمہ اہلیہ محترم محمد ادریس صاحب (ریجنل امیر فرنیکفرٹ جرمنی) مانده، عامر احمد، ارسلان احمد.آصف محمود باسط (ایم ٹی اے ) بیگم نصرت جہاں صاحبہ (یوکے) رومان، بارعہ، ریحانہ.خاکسار کی اگلی نسل میں وقف زندگی کا سلسلہ بہ تائید الہی جاری ہے.پوتا عزیز نبیل احمد ابن رشید احمد مربی سلسلہ بن کر سوئٹزرلینڈ میں تعینات ہے.دوسرا پوتا عزیز رومان احمد ابن آصف محمود باسط جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہے.باپ بیٹا ودنوں وقف زندگی ہیں.مجھے افق پہ اجالا دکھائی دیتا ہے.00 357

Page 359

نہج البلاغه نہج البلاغہ حضرت علی بنی نہ کرم اللہ وجہ کے خطبات ، مکتوبات اور ملفوظات کا مجموعہ ہے اس کتاب کی تالیف و ترتیب جناب سید رضی کی محنت شاقہ اور سلسل تو جہ اور دیسی کی مرہون منت ہے.حضرت علی ان کے بیان کردہ فقہی مسائل علم نحو کے متعلق آپ کی رہنمائی ، شجاعت و بہادری کے ساتھ ساتھ نفیس علمی مذاق اور رکھ رکھاؤ آپ کے نمایاں اوصاف ہیں.آنحضرت سلایا کہ تم پر نو جوانوں میں سے سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حضور صلی ما ای ایم کے زیر کفالت اور زیر تربیت رہنے کی سعادت.ہجرت کے وقت مکہ والوں کی ان امانتوں کی واپسی کیلئے جو حضور صلی سیستم کے پاس تھیں.آپ کا آنحضرت سال یا یہ ہم کے بستر پر سونا اور اس مقصد کیلئے پیچھے رہ جانا.آپ کی اولیات میں سے ہے.حضور صلی ال ایتم کی قیادت میں غزوات میں شرکت اور داد شجاعت دینا تاریخ کا ایک سنہری باب ہے.حضرت ابوبکر ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں آپ ایک بیدار مغز مشیر و ساتھی کے طور پر نہایت عمدہ خدمات بجالاتے رہے.نہج البلاغہ میں قریباً سواد وسو چھوٹے بڑے خطبات و تقاریر ہیں.اسی کے قریب مکتوبات ہیں.مختلف مواقع کی نصائح وغیرہ کی تعداد اڑھائی سو ہے اور متفرق اقوال کم و بیش ساڑھے چار سو ہیں.آپ کے ایک خطبہ کا ابتدائی حصہ جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان بیان فرمائی ہے درج ذیل ہے: تمام تعریف وحمد اللہ کیلئے ہے جو اپنی طاقت کے لحاظ سے سب سے بلند و بالا ہے.اپنی عطاء وسخا کی وجہ سے قریب ہے ہر قسم کا فائدہ ومنافع اس کی طرف سے ملتا ہے.ہر مصیبت و ابتلا کو وہی دور کرتا ہے.میں اس کے احسانات انعامات پر اس کا 358

Page 360

شکر ادا کرتا ہوں.میں اس پر ایمان لاتا ہوں وہ اول اور ظاہر وباہر ہے.میں اس سے ہدایت کا طلب گار ہوں جو ہادی و رہنما ہے.میں اسی سے مدد مانگتا ہوں کہ وہ مدد کرنے پر قادر ہے.میں اسی پر بھروسہ و توکل کرتا ہوں کہ وہی کافی و معین ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صال سلیم اللہ کے رسول اور بندے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے احکام کو جاری کرنے اور اتمام حجت وانزار کیلئے مبعوث فرمایا ہے.اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقوی شعاری کی تاکید کرتا ہوں.وہی ہے جس نے تمہیں مثالیں دے دے کر ( حق و حکمت ) کی سمجھ عطا فرمائی اور تمہارے لئے اندازے مقرر فرمائے ہیں.تمہارے عیوب کو ڈھانکنے کیلئے کئی قسم کے لباس عطا فرمائے ہیں اور تمہیں رزق فراواں عطا فرمایا ہے.اس نے تمہارا پوری طرح احاطہ کر رکھا ہے اور تمہارے لئے انعام و بدلہ بھی مقرر فرمایا ہے...اس مقام عبرت و نصیحت میں اس نے تمہیں مقررہ وقت کے لئے بھجوایا ہے اور اس کے متعلق تمہارا محاسبہ بھی کیا جائے گا.یہ دنیا گدلی اور کیچڑ سے لت پت ہے جو ظاہر تو بہت خوشنما مگر در حقیقت تباہ کن ہے.جو محو ہو جانے والا دھوکہ اور ختم ہونے والی روشنی اور نا قابل اعتمادسایہ اور ایک طرف کو جھکا ہوا ستون ہے.جب کوئی اس سے بچنے کی بجائے اس سے دل لگا لیتا اور اس پر مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ اسے زمین پر الٹے منہ پھینک دیتی اور اپنے جال میں پھنسا لیتی ہے اسے اپنے تیروں کا نشانہ بنا کر اس کی گردن میں موت کا پھندا ڈال کر تنگ و تاریک قبر اور خوفناک منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنے اصل ٹھکانے کو پالیتا ہے.“ آپ کے اقوال دانش بہت مشہور ہیں.ان میں سے بعض اقوال درج ذیل ہیں: بخل باعث ننگ و عار ہو جاتا ہے.بزدلی سے نقائص و عیوب پیدا ہوتے ہیں.غربت ذہین و 359

Page 361

عظمند کو بھی بے زبان بنا دیتی ہے.مفلس و نادار اپنے ملک میں بھی غریب الوطن ہو جاتا ہے.عاجزی مصیبت ہے جبکہ صبر شجاعت و بہادری ہے.دنیا سے بے رغبتی بھی ایک دولت ہے اور تقویٰ و پر ہیزگاری ایک ڈھال ہے.خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا سب سے اچھا طریق ہے.علم بہترین میراث ہے اور خوش اطواری بہترین خوبصورت لباس کی طرح باعث زینت ہے اور صحیح انداز فکر بہترین آئینہ ہے.عقل مند کا سینہ اس کے رازوں کا محافظ ہوتا ہے.بشاشت محبت پیدا کرنے اور قائم رکھنے کا ذریعہ ہے.تحمل و برداشت قبر کی طرح کمزوریوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور صلح وصفائی بھی کمزور یوں کو ڈھانپنے ایک ذریعہ ہے.خود پسند اور متکبر دوسروں کی نظر سے گر جاتا ہے اور صدقہ کئی بیماریوں کا کامیاب علاج ہے.دنیا میں کئے جانے والے اعمال عقبی میں سامنے آجائیں گے.جزاء سيئة سيئة مثلها (اچھے اعمال کا بدلہ اچھا اور برے اعمال کا بدلہ برا ہوگا.) انسان کی حالت عجیب ہے وہ چربی سے دیکھتا ہے.( آنکھ ) گوشت کے لوتھڑے سے بات کرتا ہے.(زبان) اور ہڈی سے سنتا ہے (کان) اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے (ناک) جب کسی کے پاس دنیا کے اموال کثرت ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اس کی طرف منسوب کر دی جاتی ہیں اور جب اموال کی کمی ہو جاتی ہے تو اس کی اپنی خوبیاں بھی اس سے چھن جاتی ہیں.لوگوں سے اس طرح معاملہ کرو کہ وہ تمہاری زندگی کے مشتاق رہیں اور تمہارے مرنے پر تمہاری کمی محسوس کر کے رنجیدہ ہوں.جب تم اپنے دشمن پر قابو پا لو تو اس قدرت و طاقت کے شکرانہ میں اس سے عفو کا معاملہ کرو.360 (روزنامه الفضل ربوہ 18 پریل 1996

Page 362

عبدالباسط شاہد (مربی سلسلہ )

Page 363

22H27AK حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ جلسہ سالانہ 1974 کے موقع پر گروپ فوٹو میں حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعلی کے ساتھ منظم سنی کے فرائض ادا کرتے ہوئے

Page 364

حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحم اللہ تعالی کا پر شفقت ساتھ حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت سائے میں

Page 365

عبد الباسط شاہد اپنے بیٹے رشید احمد اور پوتے نبیل احمد (مربی سلسلہ ) کے ساتھ 1969ء میں تنزانیہ روانگی کے وقت ربوہ ریلوے سٹیشن پر عبد الباسط شاہد کے بیٹے آصف محمود باسط (واقف زندگی) اور پوتے رومان احمد باسط متعلم جامعہ احمد یہ یو کے

Page 365