Language: UR
اس کتاب میں مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض کی وضاحت از روئے قرآن مجید و احادیث مبارکہ ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کے ارشادات کی گئی ہے تاکہ محض حقوق و فرائض کی لاعلمی کی وجہ سے کسی فریق پر ظلم و زیادتی نہ ہوسکے۔
اصلاح معاشرہ قسط دوم قَوَارِيرِ قَوَّامُونَ
اصلاح معاشرہ قسط دوم قَوَارِير - قوامون
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جن صدسالہ کی تیاری میں اصلاح معاشرہ کمیٹی لجنہ اماءاللہ کے تحت لکھی جانے والی کتاب قَوَارِيد قَوَّامُونَ کے نام سے تیار ہوگئی ہے.اس میں مردوں اور عورتوں کے حقوق وفرائن کی وضاحت ازروئے قرآن مجید و احادیث مبارکہ کی گئی ہے تاکہ محض حقوق و فرائض سے لاعلمی کی وجہ سے کسی فریق پر ظلم یا زیادتی نہ ہو سکے.اس مفید سے بھی منظور شدہ ہے.کتاب کو میں نے پڑھا ہے اور اللہ تعالیٰ صدر اصلاح معاشرہ کمیٹی اور سکر بیٹری اشاعت امنہ الباری ناصر صاحبہ کو جزا ہائے خیر عطار کرے جن کی کوشش اور محنت سے یہ کتاب تیار ہو کر سامنے آئی ہے.اور سب کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.تا ہر گھر جنت نظیر بن جائے.
بسم الله الرحمن الرحيم عرض حال میاں بیوی کے حقوق وفرائض کوئی نیا موضوع نہیں.یہ موضوع اس وقت تک زیر بحث رہے گا، جب تک کرۂ ارض پر مرد عورت موجود ہیں موضوع پرانا ہے مگر انداز بیاں نے بات بدل دی ہے موجودہ دور کے مسائل کی سنگینی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اس مسئلے پر بحث کی جاتی ہے.خاکسار نے اس کتاب میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور آپ کے خلفائے کرام کے ارشادات کو دیکھا کیا ہے.احادیث کے انتخاب کا کام سیکریٹری اصلاح معاشرہ کمیٹی محترمہ معاشرہ صاحبہ نے کیا ہے.ان کے علاوہ امتہ الباری ناصر اور محترمہ رہنمائی کی نے کی امانت بھی شامل رہی.ان سب کے تعاون سے یہ کام سے خاطر خواہ طریق پر پایہ تکمیل تک پہنچا خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اس کوشش خداتعالی معاشرتی اصلاح اور عائلی مسائل کے سلجھاؤ کی صورت پیدا ہو کر حسین معالہ پنجم ے.آمین.
وَمَنْ يَعْصِ الله وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حدود لا يُدْخِلُهُ نَارًا خَالِدًا فيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينَ (سورة النساء آیت نمبر ۱۵ ع ترجمہ: اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کردہ مدد سے آگے نکل جائے.اسے وہ آگ میں داخل کرے گا.جے میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہتا چلا جائے گا.اور اس کے لئے رسوا کرنے والا عذاب (مقدم) ہے.حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) اس آیت کے تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مروت سے باہر ہو جائے.خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا.اور وہ جہنم سے ہمیشہ رہے گا.اور اس پر ذلیل کرنے والا عذاب نازل ہوگا.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۲۶)
نتشار فهرست مضامین سفر نمبر عورت کی حیثیت کے متعلق اسلام کی انقلابی تعلیم.مرد کی عورت پر فضیلت اور اس کی وجوہات.- خاوند کی فرمانبرداری عورت کا فرض ہے.خاوندوں کی فرمانبردار عورتوں سے اللہ تعالے کا دعدہ.خاوند کی صلاحیت اور تقویٰ کا اثر ہیوی پر.ག ۱۹ ۲۰ عورت مرد کی تقسیم کار ان کے مخصوص اعضاء اور طبائع کے ۲۱ میلان کے مطابق منشاء فطرت ہے.خواتین کی فرائض کی ادائیگی میں کمزوری کی ذمہ داری مردوں پر بھی ۲۳ عائد ہوتی ہے.مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.۲۷ قوام اصلاح معاشرہ کے نئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا.بیا ہے ہوئے مردوں کی پسندیدہ آیت اسلام کے اقتصادی نظام میں مرد کا فرض ہے کہ وہ گھر کی ضروریات کا متکفل ہو.۲۹ ۲۹ خاوند بیوری کے کمائے ہوئے مال کو لالچ کی نظر سے نہ دیکھے.نشورہ کا مفہوم اور مرد کو حوصلہ دکھاتے ہوئے نصیحت کرنے کی تلقین ۳۴ راسلامی تعلیمات میں عدم مسادات کے اعتراض کا جواب ۱۴.علیحدگی کی صورت میں اولاد کی تقسیم کے اصول میں طبی مساوات ہے.۱۵ عیسائی اسلام پر حملہ آور ہوں تو بائبل سے جواب دیں.-17 -16 ہندو ازم میں عورت کی حیثیت.تمدنی اور تہذیبی لحاظ سے عورت کے مقام کے متعلق اسلامی اور مغربی طراف کے ہاں موانہ نہ ۱۸ عورتیں آبگینے ہیں احتیاط رکھیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا عورتوں ۴۷ سے
h ا.نمبر شمار فهرست مضامین و مظلوم کی دُعا کے بغیر مغفرت نہیں ہوسکتی.جبراً وارث بننے کا مفہوم اور اس کی ممانعت.۲۱ عورتوں کے ساتھ روکھا بتاؤ نہیں کرنا چاہئیے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اسے گندے برتن کی طرح مست تو شد.۲۳.بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آنا چاہیئے.ہوں مرد کا عورت سے جنگ کرنا کمال بے شرمی ہے.۰۲۵ صفحہ نمبر ۵۲ ۵۴ ۵۶ ۵۸ شوہر اتنا جابہ اور ستم شعارہ نہ ہو کہ وہ کسی غلطی پر چشم پوشی نہ کر سکے.۵۸ ۲۶ وہ شخص ببز دل ہے جو عورت کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے.عورتوں سے قصاب کی طرح بہ تا ڈر نہیں کرنا چاہئیے.۵۹ • ۲۸ عورتوں سے نیک سلوک ذاتی اغراض کیلئے نہیں محکم انہی کے 40 اطاعت ہیں کریں.4- ۲۹.انسان کے اخلاق کا پہلا امتحان اس کا بیوی سے سلوک ہے.41 ہ اپنی بیویوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو نظر اندا نہ کریں.۶۲ ۳۱.غلطیوں سے محفوظ رہنے کے لئے خدا تعالے سے صراط مستقیم کی دُعا ۶۳ کرتے رہنا چاہیے.ارشادات نبوی عورتوں کے متعلق وصیت.نیکی کرنے کی وصیت.باپ کا خاوند کے بارے میں بیٹی کو نصیحت کرنا.لہ خاوند کی ناشکری کرنا.جنت میں مفلس آدمی اور جہنم میں عورتیں زیادہ ہوں گی.عورتوں کو مارنے کا بیان.44 46 64
نمبر شمار فهرست مضامین 1 و.11 عورتوں کو کہاں تک بدنی سزا دی جاسکتی ہے.صفر نمبر <4 میاں بیوی دونوں اپنے اپنے دائرے میں جا کم ہیں.اور پوچھے جائیں گے ۷۸ بیوی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے.خاوند اپنے گھر کا نگران ہے.بیوی کا خاوند پر حق.۱۳ بیوی کا ناراض ہو کر رات بھر خاوند کے بستر سے الگ سونا ۱۳.بیوی کا فرض.۱۴ حصول علم ایک فریضہ ہے.اله 14 IA بیوی کا خاوند کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلنا.اپنی ضروریات کے لئے عورت گھر سے نکل سکتی ہے..اہل وعیال پر خرچ کرنے کی فضیلت.-19 -۲۰ اجازت کے بغیر عورت خاوند کے مال سے صدقہ نہ کرے.بہنوں اور بیٹیوں کی نیک تربیت.اطاعت شوہر.^- = Al Al ۸۲ At ۸۳ ۴ بیوی خاوند کی اجازت سے نفلی روزہ رکھے اور اس کی اجازت ۸۴ کے بغیر کسی کو گھر میں نہ آنے دے.۲۲ خانگی فرائض کی ادائیگی جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے.۲۳ بہترین عورت - -۲۴ نیک عورت بہترین نعمت ہے.۲۵ میاں بیوی میں تفرقہ ڈالنے والا.-۲۶ عورتوں کے جذبات کا احساس.۸۵ ۸۵ 14 AY
ن اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم بحمدة وتصلى على رسوله الكريم قَوَارِير- قَوَّامُون عورت کی حیثیت کے تعلق اسلام کی اخلاقی تعلیم سورۃ بقره آیت ۲۲۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ولَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ ۲۲۹ دَرَجَة وَاللهُ عَزِيزِ حَكِية ترجمہ: اور جس طرح ان پر یعنی عورتوں پر کچھ ذمہ داریاں ہیں.ویسے ہی مطابق دستور انہیں بھی کچھ حقوق حاصل ہیں.ہاں مگر مردوں کو ان پر ایک طرح کی فوقیت حاصل ہے اور اللہ غالب را در حکمت والا ہے.راس کی تفسیر کہتے ہوئے حضرت خلیفہ ایسے انسانی اللہ تعالی آپسے راضی ہوا فرماتے ہیں.پھر وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُون.میں عام قانون بتایا کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہیں.جس طرح عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مردوں کے حقوق کا خیال رکھیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق
ادا کریں.اور اس بارہ میں کسی قسم کا نا واجب پہلو اختیار نہ کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کئے جاتے تھے.بلکہ انہیں مالوں اور جائیدادوں کی طرح ایک منتقل ہونے والا در شر خیال کیا جاتا تھا.اور ان کی پیدائش کو صرف مرد کی خوشی کا موجب قرار دیا جاتا تھا.حتی سر مسیحی جو اپنے آپ کو حقوق نسواں کے بڑے حامل کہتے ہیں.ان کے نوشتوں میں بھی عورت کی نسبت کیا ہے.” اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے“ ر تمناؤس باب ۲ - آیت ۱۲ ) صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کی انسانیت کو نمایاں کرکے دکھایا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ واکر د سلم ہی وہ پہلے انسان ہیں.جنہوں نے عورتوں کے برابر کے حقوق قائم کئے.اور ولهن مثل الذى عليهن با المحرُوف کی تغییر لوگوں کے اچھی طرح ذہن نشین کی.آپ کے کلام میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق اوران کی قابلیتوں کے متعلق جس طرح ارشادات پائے جاتے ہیں.ان کا دسواں حصہ بھی کسی اور مذہبی پیشوا کی تعلیم میں نہیں ملتا.آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے.کہ عورہ توں کو ان کے حقوق دینے چاہیں اور بعض مغرب نہ وہ نوجوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں.کہ عورتوں کو حقوق عیسائیت نے ہی دیتے ہیں.حالانکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے.عیسائیت کی تعلیم اس کے پاسٹنگ بھی نہیں.عربوں میں رواج تھا کہ دری میں اپنی سوتیلی ماؤں کو سمی تقسیم کر لیتے تھے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا.بیوی کو خاوند کا.بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہین کو بھائی کا بھی.عرض فرمایا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَليمن اپنی انسانی متوق ما یہاں تک سوال
11 ہے.عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے.جیسے مردوں کو.ان دونوں میں کوئی فرق نہیں.اللہ تعالے نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیے ہیں.اسی طرح انعامات ہیں بھی انہیں یکساں شریک قرار دیا ہے.اور جین نعماد کے مرد ستحق ہونگے.اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعامات عورتوں کو بھی ملیں گے.غرض اللہ تعالے نے نہ اس دنیا میں ان کی کوئی حق تمنی کی ہے.اور نہ انگلے جہاں میں انہیں کسی انعام سے محروم رکھا.بات آپ نے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ وللرجال خلد من درجه یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرداور عورت میں کوئی فرق نہیں.لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حق فوقیت حاصل ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے.جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں جیسے حقوق رکھتا ہے.اور جس طرح ایک ادنی انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں.مگر پھر بھی بحثیت مجروٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتا ہے اور اسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں.اسی طرح تمدنی اور مذہبی معاملات میں مرد و عورت دونوں کے حقوق برا یہ ہیں.لیکن مردوں کو اللہ تعالے نے قوام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی ہے.لیکن دوسری طرف صنف نازک کے نامے عورتوں کو ایسی طاقت دے دی ہے جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات مردوں پر غالب آجاتی ہیں.بنگال کی جادوگر عورتیں جب کہ عام طور پر مشہور ہے.مردوں پر جادو سا کر دیتی ہیں ہیں جہاں مرد کو عورت پر ایک کہ نگ میں فوقیت دی گئی ہے.وہاں عورت کو استعمالت قلب کی طاقت عطا فرما کہ مرد یہ غلبہ دے دیا گیا ہے.جس کی وجہ سے بسا اوقات عورتیں مردوں پر اس طرح حکومت کرتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کاروبارہ انہی کے ہاتھ میں ہے.دراصل س شخص کی الگ الگ رنگ کی حکومت ہوتی ہے.جہاں تک احکام شریعی اور نظام کے قیام کا سوال ہے.اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی ہے.مثلاً شریعت کا یہ محکم ہے.ہر کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتی.یہ حکم ایسا ہے جو اپنے اندر بہت فوائد رکھتا ہے.یورپ میں ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ بعض لوگ دھو کے بانز اور فریبی تھے مگر اس وجہ سے کہ وہ خوش وضع نوجوان تھے.انہوں نے بڑے
۱۲ بڑے گھرانوں کی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں اور بعد میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہونہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا کیوں کا رشتہ کی تجویز کے وقت باپ غور کرتا ہے.والدہ غور کرتی ہے بھائی سوچتے ہیں.رشتہ دار تحقیق کرتے ہیں اور اس طرح جو بات طے ہوتی ہے.وہ بالعموم ان نقائص سے پاک ہوتی ہے.جو یورپ میں نظر آتے ہیں.یورپ میں تو نقص اس قدر زیادہ ہے کہ جرمنی کے سابق شہنشاہ کی بہین نے اسی نا واقعی کی وجہ سے ایک باورچی سے شادی کر لی.اس کی وضع قطع اچھی تھی.اور اس نے مشہور یہ کر دیا تھا کہ وہ روس کا شہزادہ ہے.جب شادی ہوگئی تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کہیں باورچی کا کام کیا کرتا تھا.یہ واقعات ہیں جو یورپ میں کثرت سے ہوتے رہتے ہیں.ان واقعات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے.شریعت کا یہ منشا نہیں کہ عورتوں پر ظلم ہو.یا ان کی کوئی حق تلفی ہو.بلکہ شریعت کا اس امتیاز سے یہ نشا ہے کہ جن باتوں میں عورتوں کو نقصان نہیں پہنچ سکتا.ان میں ان کا حق خدا تعالے نے خود انہیں دے دیا ہے.پس قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں اور مصالح رکھتا ہے نے کچھ اگر دنیا ان کے خلاف عمل کر رہی ہے.تو وہ کئی قسم کے نقصانات بھی برداشت کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کے خلاف عمل پیرا ہونا کبھی نیک نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا.آخرین واللهُ عَين حکم فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ یاد رکھو عور توں پر جو فوقیت ہم نے تمہیں دی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ اور ان کے حقوق کو پامال کرنا شروع کردو.دیکھو تم پر بھی ایک حاکم ہے جو عزیز ہے یعنی اصل حکومت خدا تعالے کی ہے اسلیئے چاہیے کہ مرد اس حکومت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور حس کنیم کہ کر اس طرف توجہ دلائی کو نظم وضبط کے معاملات میں جو اختیار ہم نے مردوں کو دیا ہے.یہ سراسر حکمت پر مبنی ہئے ورنہ گھروں کا اسن یہ یاد ہو جاتا.چونکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا.جب تک کہ ایک کو فوقیت نہ دی جائے.اس لئے فوقیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی
ایک اور وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ مرد اپنا روپیہ عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لئے انتظامی امور میں انہیں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے.(النساء آیت (۳۵) از تفسیر کبر سورة البقره از حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود آیت نمبر ۲۲۹ صفح نمبرات مرد کی عورت پر فضیلت اور اس کی مہبوبات الريال تومونَ عَلَى اليسار بِمَا فَقَلَ اللهُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا انْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّلِحُتُ قُنِتُتْ حَفِظَتْ لِلغَيبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ وَالّتي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِطُوهُنَّ دا هجُرُ وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاصْرِ لُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُهُ فَلَا.تبغوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا اِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (سورۃ النساء آیت نمبر ۳۵) ترجمه: مرد عورتوں پر اس فضیلت کے سبب سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو دوسروں پر دی ہے.اور اس سبب سے کہ وہ اپنے مالوں میں سے (عورتوں پر ) خرچ کر چکے ہیں.نگران (قرار دیئے گئے ہیں.پس نیک عورتیں فرمانبردار اور اللہ کی مدد سے پوشیدہ امور کی محافظ ہوتی ہیں.اور جن کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو تم انہیں نصیحت کرد.اور انہیں اپنی خواب گاہوں میں اکیلا چھوڑ دو.اور انہیں مار و پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو اُن کے خلاف کوئی بہانہ نہ تلاش کرو.اللہ یقینا بہت بلند اور بہت بڑا ہے.ر ترجمه از تفسیر صغیر)
۱۴ ضروری الفاظ قُومُونَ.(نگران) ماخذ ہے.قام فعل ہے یعنی وہ کھڑا ہوا “ کہا جاتا ہے.قام علیہ یعنی اس نے خبر گیری کی.یا نگرانی کی.قام بالیتیم کا مطلب ہے کہ اس نے تقیم کی پرویش کی.قام علی المرة یعنی اس نے عورت کے نان نفقہ.روٹی کپڑے کا ذمہ لیا.اس نے عورت کے امور یا معاملات کا انتظام سنبھالا.اس نے اس کی حفاظت کی یا وہ عورت کا نگران سرپرست یا محافظ بنا قوم الشيئ " کا مطلب ہے کہ اس نے اس پیز کو صحیح کیا یا اس کو سیدھا اور ہموارہ کیا چنانچہ قوام کا مطلب ہوا.جو کوئی معاملات کو سنبھاتا ہے حکمران.فرمانروا.ناظم کوئی ایسے منصب پر ہو جو انتظام یا اہتمام کرنے کے لئے حکم دے.را قرب الموارد اور LANE) قومون قوام کی جمع ہے جو قیام سے مبالغہ کا صیغہ ہے.عربی زبان میں قام الرجل علی المراۃ کے معنے ہوتے ہیں.ماتھا.اس کی موونت یا روزی بہتا کی.قوام علیہا کے معنی ہیں مائیں تھا.یعنی عورت کی روزی مینیا کرنے والا.اور الرجال قومون عَلَى النِّساء کے معنے ہیں مُتَكَقِلُونَ بِأَمُورِ النِّسَاء لَيَعْنِيُّونَ بُرُ نِهِنَّ یعنی عورت کے متکفل ان کے حالات کے متعلق توجہ کرنے والے (لسان العرب) اور تاج العروس میں ہے.قامَ الرجل المرأة اور قام علیہا کے معنے ہیں.مانها وَقَامَ إِشَانِهَا مُتَكَقِلَا بِأَمْرِهَا.یعنی اس کی مومنت یا روزی جہتیا کی اور اس کے امر کی کفالت کرتے ہوئے اس کی حالت کو قائم کیا.اور قوائم علیھا کے معنے مائِن نَّهَا دیئے ہیں.اس کے لئے روزہی مہیا کرنے والا.اور اس امر کا متکفل.ذمہ دار.پس قوام کے معنے متکفل نہیں محض محافظ یا حاکم درست نہیں.فننت - (فرمانبردار - اطاعت شعار) یہ قانتة کی جمع ہے اور فعل معروف حنت سے کہا جاتا ہے.قنت الله یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار تھا.امراة قنوت یعنی ایک عورت منکسر مزاج - عاجہ - اطاعت گزار.فرمانبردار اپنے شوہر کی LANE - اور دیکھیں سورۃ البقرہ آیت ۱۱۷).
لشور (سرکش نا فرمانبردار) یه اسم مصدر نشر سے ہے.یعنی اس نے اپنے آپ کو اٹھایا.ابھارا.بلند کیا.نَشَرَتِ المرأَةُ عَالَى زَوْجِهَا کا مطلب ہے کہ عورت اپنے خاوند کے خلاف اعتی یا اس نے اپنے خاوند کی نافرمانی کی.اور اپنے آپ کو میاں کے خلاف اونچا گیا.بلند کیا.مانہ کیا.اور میاں سے مقابلہ کیا.مزاحمت کی) اور اس کی بری ساتھی تھی.نشر المرعلی زوجات کا مطلب ہے کہ خاوند نے اپنی بیوی کے ساتھ نا انصافی کی اور ظالمانہ سلوک کیا.اور اس کو فراموش کر دیا.یا اس سے بے تعلق ہو گیا.یا وہ اس سے نفرت کرتا تھا اور اس کے لئے بڑا ساکتی تھا.LANE AND AQRAB اهجو دھن.(ان کو اکیلا چھوڑ دو) هجس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کاٹ لیا.یا علیحدہ کر لیا.دوستی کا برتاؤ کرنے سے مشفقانہ مہربانی اور محبت کا تعلق.یا رفاقت سے میل جول یا مبا شرت سے اس نے اس کو چھوڑ دیا.یا دست بردار ہو گیا.اس نے اس کو کاٹ دیا.یعینی با نکات کر دیا.تقاطعہ کردیا.اور اس سے بات کرتی بند کر دی.یا ملنا بند کر دیا.ج الشئ.اس نے اس چیز کو چھوڑ دیا.یا اس سے دست بہ دانہ ہو گیا.اس نے راس سے کنارہ کر لیا.جر زوجته - اس نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی.یا اس سے دور رہا.انگ رہا.اخر بودن سرزنش کرنا.سزا دنیا یا ماخوذ ہے ضَرَبَ سے.خوب ہے یعنی پیٹنا.مارنا.زد و کوب کرنا.ضرب لگانا.ہاتھ سے مارنا یا سکروی وغیرہ سے چنا نچہ اس نے اس کو مارا.عليا - بلند اونچا.عالی.ماخوذ ہے علا سے یعنی وہ بلند ہو گیا.مرتفع ممتاز اعلیٰ.بلند مرتبہ.بلند پایہ.سرفرانہ ہو گیا.تعالی کا مطلب ہے کہ وہ بلند یا اونچا تھا.یا اونچا ہو گیا.بلند مرتبہ ہو گیا.بلند وبرتر.تعریف کیا گیا.
14 علی کا مطلب ہے.اونچا.بلند پایہ.یا اعلیٰ مرتبہ کے لحاظ سے مقام یا منحہ عظمت در فوت یا شان و شرکت کے لحاظ سے.العالی.یہ اللہ تعالے کا صفاتی نام ہے.مثال کے طور پر (سورۃ البقرہ آیت ۲۵۶) کا مطلب ہے.بلند.سب سے بڑھ کر بلند سب سے ادبی.وہ ہستی جس سے زیادہ بلند اور اعلی کوئی چیز نہیں.المتَعَانِی.یہ بھی اللہ تعالے کا ایک صفاتی نام ہے.شلاً ( ۱۰ : ۱۳) اس کا مطلب ہے وہ جو اعلیٰ ہے.یا جو نہایت بلند و برتر ہے.بہت دینا یا سب سے بڑھ کر بلند.غایت درجه عالی ہر ایک بلند اور، علیت بیده که نهایت علی درجہ کا.تفسير.یہ آیت دو وجوہات بیان کرتی ہے کہ مرد کہ خاندان کا سر کر دی کیوں بنایا کیا ہے (1) مرد کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت کی بالادت کی وجہ سے.(۲) چونکہ مرد کمانے والا ہے اور نان نفقہ مہیا کرنے والا ہے گنیہ پر وری کا وہ ذمہ دار ہے پھر انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو کماتا ہے.اور جو روپیہ دنیا کرتا ہے گھر کے امور کو بجالاتے ہیں.آخری فیصلہ کا اختیار اسی کو دیا گیا ہے.قننٹ جو بیویوں کے متعلق تعمال ہوا ہے.اس کا مطلب خدا تعالے کی فرمانبرداری بھی ہو سکتا ہے اور خاوند کی فرمانبرداری کبھی.وہ پوشیدہ امور کی محافظ ہوتی ہیں “ کا مطلب یہ ہے کہ جب ان کے خاوند گھر پر موجود ہوتے ہیں.تو وہ ان کی فرمانبردار ہوتی ہیں.اور ان کے پوشیدہ امور کی حفاظت کرتی ہیں.اور ان کی غیر حاضری میں وہ نہ صرف ان کے پوشیدہ امور کی حفاظت کرتی ہیں.بلکہ ان کی املاک اور جائیداد اور اپنی پاکدامنی اور عزت کی بھی حفاظت کرتی ہیں.اور انہیں خواب گاہوں میں اکیلا چھوڑ دو کا مطلب ہو سکتا ہے کہ ا بیویوں کے ساتھ مباشرت سے اجتناب کریں علحدہ بستروں پر سوئیں.و یا پھر ان سے بات کرنا بند کر دیا.
یہاں پر بستر کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف توحید دبائی گئی ہے کہ نافرمان بیویوں کو گھروں میں ہی رہنا چاہیے اور ان کو گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی ان کو گھروں سے نکالا جائے.اس آیت میں جو پابندیاں لگائی گئی ہیں.وہ غیر محدود مدت کے لئے ہر گز نہیں ہیں کیونکہ سورة النساء آیت ہوا میں بیویوں کو گالمُعَلَّقَتِ چھوڑنے سے منع فرمایا ہے قرآن کریم کے مطابق ازدواجی تعلقات سے اجتناب کی حد زیادہ سے زیادہ چار ماہ ہے.یعنی عملی زندگی کے نئے ردیکھیں سورۃ البقرہ آیت ۲۲۷) اگر خاوند یہ سمجھتا ہے کہ معاملہ کافی سنگین ہے تو ان شرائط پر عمل کرنا ہوگا.جو سورۃ النساء آیت 14 میں بیان کی گئی ہیں.راس آیت میں جہاں تک مارنے کا ذکر ہے.ایک حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیک و شرماتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کو اپنی بیوی کو مارنا پڑے تو مار ایسی نہیں ہونی چاہیے جس کے ساتھ جسم پر کوئی نشان پڑے.(ترمذی باب مردا) ابو داؤد اور نسائی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیکہ تم نے عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے لیکن جب حضرت مریعنی اللہ تعالے عنہ نے یہ شکایت کی کہ وہ سرکش ہوگئی ہیں.تو آپ نے مارنے کی اجازت دی لیکن اوپر کی بتائی ہوئی شرط کے ساتھ لیکن پھر جب عور توں نے اپنی بدسلوکی کی شکایت کی تو آپ نے ناپسندیدگی کا انتباہ کیا اور کہا کہ جو مرد اپنی بیویوں کو مارتے ہیں وہ یقینا اچھے لوگوں میں سے نہیں Ki ) ایک ؛ در موقع پر رسول مقبول صلی اللہ علی کلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے اور میں تم سب میں سے اس معاملہ میں بہتر ہوں (ترمذی) عَلِيًّا كيرا.یعنی بہت بلند اور بہت بڑا ہے کا اِس آیت کے آخر میں ذکر کرنے کا مقصد خاوندوں کو خبر دار اور ہوشیار کرنا ہے کہ اگر بیولوں کو خدا نخواستہ مارنے کی نوبت آئے تو اس میں بے انصافی.انتظام اور ظلم کا عنصر نہیں ہونا چاہیے.اگر چہ وہ اپنی بیویوں پر بلند اور بڑے ہیں.
١٨ تو یاد رکھیں کہ ان کے اوپر بھی ایک ایسا خدا ہے جو ہر ایک سے بلند اور بڑا ہے جو اختیار خا دندوں کو بیولوں پہ دیا گیا ہے اس کے ہر ایک غلط یہ ناؤ کا اللہ تعالے ان سے پورا پورا حساب لے گا.د ترجمه از انگریزی تفسیر کبیر سورة النساء آیت نمبر ۳۵) حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جن عورتوں کی طرف سے ناموافقت کے آثار ظاہر ہو جائیں میں کتھر ان کو نصیحت کرو اور خواب گاہوں میں ان سے جدا ہو.اور مارو.ریعنی جیسی جیسی صورت اور مصلحت پیش آدے پس اگر وہ تمہاری تابعدار ہو جاویں تو تم بھی طلاق وغیرہ کا نام نہ لور اور نکیر نہ کرو کہ کبریائی خدا کے لئے مسلم ہے.یعنی دل ہیں نہ کہو کہ اس کی مجھے کیا حاجت ہے کہیں دوسری بیوی کر سکتا ہوں بلکہ تواضع سے پیش آؤ کہ تواضع خدا کو پیاری ہے.(آریہ دھرم مش۳)
۱۹ خاوند کی فرمانبزاری عورت کا فرض ہے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا سورۃ النساء آیت ۳۵ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ ملوک کے خیالات کا مذہب طرز لباس وغیرہ ہرقسم کے امور کا اخلاقی ہوں یا مذہبی بہت بڑا اثر عایا پر پڑتا ہے.جیسے ذکور کا اثر اناث پر پڑتا ہے اس لئے فرمایا گیا ہے.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلى النِّساءِ " دالحکم جلد نمبر ۱۵ مورخه ۲۴۷ اپریل ۱۱۹ ص۲) ( وو بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں.اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں.اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نز دیک لعنتی ہیں.ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالے صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی.جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے راس کی تعظیم بجا نہ لائے اور پس پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہوا ور پیغمبر گرا صلی اللہ علیہ سلیم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں.ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عور میں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم کے بانی سُن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چڑا دیں.اور نامحرم سے اپنے تئیں بیچا دیں اور یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں.ان سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورت ہیں نامحرم مردوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ لازم ہے کہ
بار وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں.اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں.کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے.کہ بد کار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو تبلیغ رسالت (مجموعہ اشتہارات) جلد اول صده) خاوندوں کی فرمانبزار عورتوں سے اللہ تعالے کا وعدہ و عورتوں کے سے خدا تعالے کا وخدا ہے.کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی.تو خدا ان کو ہر بلا سے بچا دے گا.اور ان کی اولاد کمر والی ہوگی.نیک بات ہو گی نہ تو کو.(مکتوب بارد متر مکتوب په بنام ابله نت میال عید اللہ صاحب منوری) خاوند کی صلاحیہ وی تقوی کا اثر اس کی بیوی پر ہو گا مرد چونکہ الرجال قوامون علی النساکر کا مصداق ہے.اس لئے اگر وہ لعنت لیتا ہے.تو وہ لعنت بیوی بچوں کو بھی دیتا ہے.اور اگر برکت پاتا ہے.تو ہمسایوں اور شہر والوں تک کو بھی دیا ہے دالحکم جلد ۱ مورخه ۲۳ مئی نہ صت الرجال قوامون على النار.راسی لئے کہا گیا.کہ عورتیں خاوندوں قَوَّامُونَ سے متاثر ہوتی ہیں.جیں مدتک خاوند صدا بیست اور تقوی بڑھا دے گا کچھ حصہ رگ سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہو گا.تو بدمعاشی سے وہ حصہ نہیں گیا: البدر جلد ۲ خط مورخہ ۲۷ مارچ ۱۹۰۳، ۱۵۵ عن عمود نہیں اصل میں مردوں ہی کی تحویل میں ہوا کر تی نہیں ہے الحکم جلد ۱۲ مورخه ۱۷ار اپریل ۱۹۰۳ در صدا ) مرد گھر کا کشتی بان ہوتا ہے.اگر وہ ڈرو بے گا.توکشی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی اسکا الٹے کہا الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساء.اسی کی رستگاری کے ساتھ اس کے اہل وعیال کی رستگاری ہے " ر البدر جلد ۳ ۲۵ مورخه ۱۶ جولائی سخنشانه های
۲۱ عورت مرد کی تقسیم کار ان کے مخصوص اعضاء اور طالع کے میلان کے مطابق منشاء فطرت ہے " عورتوں میں ثبت پرستی کی جڑ ہے.کیونکہ ان کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے.اور یہی وجہ کے ثبت پرستی کی ابتداء انہی سے ہوئی ہے.بزدلی کا مادہ بھی ان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذراسی سختی پر اپنی جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑ نے لگ جاتی ہیں.اس لئے جو لوگ زدن پست ہوتے ہیں.رفتہ رفتہ ان میں بھی یہ غار میں سرایت کر جاتی ہیں.پس بہت ضروری ہے کہ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ یہ ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.الرجال قومون على النساء اور اسی لئے مرد کو عورتوں کی نسبت قومی نہ یادہ دیے گئے ہیں.اس وقت جوتی کہ دوستی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں.اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں.ان کی محفلوں پر تعجب آتا ہے.وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگلوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکاتا ہے یا مختلف.ایک طرف تو اسے حمل ہے.اور ایک طرف جنگ ہے.وہ کیا کر سکے گی عرضیکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قومی کمزور کیں.اور کم بھی ہیں.اس لئے مرد کو چاہئیے.کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے.یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی یہ لوگ زور دے ر ہے ہیں.لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذیرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اس آندادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاک اپنی بڑھ گئی ہے.تو ہم مان لیں گے.کہ ہم غلطی پر نہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں.اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو.تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے.بد نظری ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ کہ وہ ہیں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں.اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں.تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.مردوں کی حالت کا اندانہ کر دے.کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے
۲۲ کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے.نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود نباہ کھا ہے.میں سب سے اول ضروری ہے.کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرد.اگر یہ درست ہو جائے اور مردوں میں کم از کم اس قدیم قوت ہو.کہ وہ اپنے نفسانی جذبات سے مغلوب نہ ہو سکیں.تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا کہ دو ضروری ہے یانہیں.ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دیا کہ آزاد کی اور بے پیڑ گی ہو.گویا سکولوں کو شیروں کے آگے رکھ دیا ہے.ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے.کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے.کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شد ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جائے یہ البدر جلد ۳ ۳۴ موخه تمبر تشنه حت)
۲۳ فرائض کی اداری می خواتین کی کرسی کی مداری مر پر عائد ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے مرد کو عورت کا نگران اور محافظ منفر کیا ہے.کس چیز کی نگرانی کرتی ہے؟ اور کس چیز کی حفاظت کرنی ہے ؟ اس کے متعلق آگے چل کر ہمیں یہ بتایا کہ عورت کی جسمانی نشو ونما اور تربیت اور صحت وغیرہ کی نگرانی کا کام مرد پر طوال گیا ہے کہ عام طور پر معاشرہ انسانی میں مرد کھانے والا اور خرچ کرنے والا ہے.ہمیں بطور خاوند یا بطور باپ یا بعض اوقات بطور بڑے بھائی یا کسی بڑے رشتہ دار کی حیثیت سے یہ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں کہ ان مستورات کو جو بیوی کی حیثیت میں یا جو بیٹی کی حیثیت میں یا جو چھوٹی بہن کی حیثیت میں ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ہماری زیر نگرانی ہیں ہماری حفاظت میں ہیں ان کی صحت کا ہم خیال کیں.ان کی جسمانی نشو و نما کا ہم خیال رکھیں کیونکہ ہم خرچ کرنے والے ہیں اور خرچ کی راہ بھی اس میں تبادی کہ شریح کرتے وقت فضولیات کی بجائے ضروری چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے......راس کے خلاف اس وقت براہ جان ہے.بڑی رد پائی جاتی ہے.مغربی تہذیب التراجات کو ان راستوں سے ہٹا کہ زدین حق نافل ) نے بتائے ہیں.دوسری طرف لے جانا چاہتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صرف تخریج کی ان راہوں کو اختیار کرو جو ہم نے تمہیں بتائے ہیں.اور وہ ضروریات نہ زندگی ہیں اور وہ خرچ ہیں جن کے نتیجہ میں تمہاری اپنی صنعتیں قائم رہیں اور ان عورتوں کی صنعتیں قائم رہیں جن کا تمہارے ساتھ کوئی رشتہ اور تعلق ایسا ہے جس کی وجہ سے وہ تمہاری زیر نگرانی ہو جاتی ہیں اور ان کی تربیت جسمانی اس کہ نگ میں ہو کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں.مثلاً قرآن کریم نے اپنا ایک فیملی پلاننگ بھی دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم اس فیملی پلاننگ کی اسکیم پر عمل کرتے جو قرآن کریم نے دنیا کے سامنے رکھی ہے.ہم اس سلسلہ میں بھی غیر قوموں سے بھیک مانگتے ہیں اور ان کے خیالات کو جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
قرآن کریم کی فیملی پلانگ ہیں صحت کے لحاظ سے ربیعنی بچہ کی صحت اور مال کی صحت ہر دو کے لحاظ سے) یہ حکم دیا ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ دو بچوں کا فاصلہ کم سے کم تین مہینوں کا ہونا چاہئیے اور اگر زیادہ خیال رکھنا ہو یا نہ یادہ کی ضرورت ہوشگا ماں کی صحت اچھی نہ ہو تو قریبا تین سال یا سوا تین سال کا عرصہ بنتا ہے.یہ امر قرآن کریم نے باقاعدہ ایک واضح اسکیم کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا ہے اگر اس بات کا خیال رکھا جائے تو جائر فیملی پلاننگ بن جاتا ہے.قرآن کریم اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان خدا کی بجائے دنیا کا رازق بنے کی کوشش کرے اور کہیے کہ چونکہ کھانے کو نہیں اس لئے نسل کم ہونی چاہیے.لیکن قرآن کریم یہ ضرور کہتا ہے کہ ہم نے معاشرہ کی صحت ، تمہاری صحت اور بچے کی نشو ونما کے لئے کچھ قواعد مقرب فرمائے ہیں.ان کو مد نظر ر کھیں.اس کے نتیجہ میں بھائی بھائی اور بھائی بہن کے درمیان جب تین چار سال کا فاصلہ ہوگا.تو بیچوں کی تعداد خود بخود کہا ہو جائے گی جب کہ اس تعلیم یہ عمل نہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کے ہاں ہر سال ایک بچہ ہو جاتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم ہر سال بیچنے کی اجازت نہیں دیتے کم از کم تین مہینے کا فاصلہ ہونا چاہیے.اور ضرورت پر تین سال یا سوا تین سال کا ہونا چاہیئے اور اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے.اگر شالاً ماں بیاہ ہو.اگر بیشتر کی صحت ایسی ہے کہ مال کو اس بچہ کی نگہداشت پر نہ یادہ توجیہ اور وقت دینا چاہئیے.وہ دو، اگر دو پہلے ہوں تو نین، اگر تین پہلے ہوں تو چار بچوں کی نگہداشت نہیں کرسکتی.تو زائد بوجھ اس پر نہ ڈالو.پس اللہ تعالے نے یہاں یہ فرمایا کہ ہم نے تمہیں (مردوں کو) معاشرہ میں کمانے والا حصہ بنایا ہے.اور اس وجہ سے کہ تم خرچ کرتے ہو نا جائز فائدہ نہ اٹھانا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ الہ تعالے نے تمہیں قوام بنایا ہے.اور قوام کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں تم پر عائد ہوتی ہیں وہ تمہیں نبھانی چاہئیں.قوام کی دوسری شکل (روحانی) یہ بنتی ہے.....کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے رشتہ ہیں میاں بیوی ہوں.باپ اور ماں ہوں بھائی اور بہن ہوں.ان سب میں مرد
۲۵ کو موثر بنایا ہے.یعنی یہ اثر ڈالنے والا ہے اور عورت اثر کو قبول کرنے والی ہے.یہ ایک مجنہ دی فضیلت اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر دی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں یہ فضیلت دی ہے کہ تم اثر اندازہ ہو.اور عورت چاہے بیوی ہو.چاہے بیٹی ہو.چاہے ماں ہو تمہارے اثر کو قبول کرتی ہے.اور اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے اعمال بجا لاتی ہے کہ اگر تمہارا اللہ غلط ہو گا تو اس کے وہ اعمال بھی درست نہ ہوں گے.فرمایا جو کر قوام اور موثر ہونے کا نظام نہیں عطا کیا گیا ہے.اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں کہ تم اپنی ذمہ داری کو اسی وقت نبھانے والے ہو گے جب وہ عورت ہیں جو تمہارے اثر کے نیچے ہیں.الصلاعات ہوں.قائنات ہوں.حافظات للغیب ہوں.اگر تمہارے اثر کے نیچے آنے والی عورت صالحہ نہیں.اگر وہ قانتہ نہیں.اگر وہ غیب کی حفاظت کرنے والی نہیں تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ تم یہ جو قوام کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی.تم نے اسے نبھایا نہیں اور اس کے لئے تم ہمارے سامنے جواب دہ ہو گے.اس لئے ڈرتے ڈر نے اور بڑی اختیاط کے ساتھہ اپنی زندگی کو گزاره و تا اللہ تعلی کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہو اور اس کی نعمتوں اور اس کے فضلوں اور اس کی برکات کو حاصل کرنے والے ہو (الفضل ۲۷ اگست ۱۹۸۶ء ص۳) ر خطبہ نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث) حضرت مصلح موعود نے فرمایا ہے.و جس طرح مردوں کے حقوق ہیں.اس طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں خدا کے نزدیک دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں.جس طرح مرد خدا کا بندہ ہے اس طرح عورت خدا کی بندی ہے.جیسے مرد خدا کا غلام ہے ویسے ہی عورت خدا کی لوناری ہے.پیسے مردم آزاد اور تر ہے ویسے ہی عورت آزاد ہے.دونوں کو حقوق حاصل ہیں.عورت گائے یا بھینس کی طرح نہیں کر لیا اور باندھ لیا.انسانیت کے لحاظ سے عورت ویسی ہی ہے جیسے کوئی مرد.آزادی ایک قیمتی چیز ہے جس سے
۲۶ اللہ تعالے نے عورت کو ایسا ہی حصہ دیا ہے جیسا کہ مرد کو اور دونوں پر بعض فرائض اور ذمہ داریاں عاملہ ہوتی ہیں.بعض مرد اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے وہ سمجھتے ہیں کہ الرجال قوامون على النار کے ماتحت عورتوں پر حاکم ہیں حالانکہ ان کو در خبر نگرانی کا بلا ہے مگر نگرانی سے حریت میں فرق نہیں پڑتا.بادشاہ نگران ہوتا ہے.خلیفہ نگران ہوتا ہے اسی طرح حاکم وقت نگران ہوتا ہے مگر کیا کوئی حکم یا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جو پا میں معاملہ نہیں بنجران تو اس بات کا ہوتاہے کہ دیتا دن جو حق اس کو ملا ہے، اسے وہ شریعت کے احکام کے مطابق استعمال کی ہے.نہ یہ کہ جو چاہے کرے.نگران کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو شریعت کے ماتحت چلائے مگر ہمارے ہاں اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جو چاہا کہ لیا.اس وجہ سے بعض لوگ عور توں کو حقوق دینے کو تیار نہیں.وہ ان کو گائے بکرمی سمجھتے ہیں اور عورتوں پر جبر یہ حکومت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسی حکومت تو خدا بھی نہیں کرنا.وہ تو کہتا ہے تم وہی کہو جو تمہاری غیر کہتی ہے.پھر خدا بھی بغیر اتمام حجت کے سزا نہیں دیتا.با وجود اس بات کے کہ وہ مالک ہے تو پھر مرد کے مقابلہ میں عورتوں کو آزادی ضمیر کیوں حاصل نہیں.راس کے بر خلاف دوسری حدیبی خطر ناک ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے قوامون کا لفظ بھی آخر کسی حکمت کے ماتحت ہے.یہ قانون خدا کا بنایا ہوا ہے جو خود نہ مرد ہے نہ عورت اس پہ حرف داری کا الزام نہیں آسکتا.پس ایسی ہستی کے قوانین نشانی ہو سکتے ہیں.عورت عموما عورت کی طرف دارہ ہوتی ہے اور مرد کے طرف دارہ مرد.مگر خدا کو دونوں کا پاس نہیں.وہ خالق ہے جو طاقتیں اس نے مرد کو دی ہیں ان کا اس کو علم ہے اور انہی کے ماتحت اس نے اختیارات دیئے ہیں.قوموں کے بہر حال کوئی معنے ہیں جو عورت کی آزادی اور حریت تغیر کو باطل نہیں کرتے اس کے لئے عورت کے افعال، اس کے امداد ہے.اس کا دین و مذہب قربان نہیں ہو سکتے مگر تو امون بھی قربان نہیں ہوسکتا.نہ اس کا وجود وہی ہو.قوام نظر آنا چاہیئے
۲۷ مر عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا شریعت کا حکم ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے مگر اس کے باوجود مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.اگر کوئی مرد ایسا کرے تو بی کافی وجہ خلع کی ہوسکتی ہے.والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر دقت کی تعیین اور اجازت مرد کا حق ہے.شنگا خاوند یہ کہہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کو مل لینا یا اس کے والدین کو اپنے گھر بلا سے یا اس کو والدین کے گھر بھیج دے مگر جس طرح مرد اپنے والدین کو ملتا ہے.اس طرح عورت کا بھی حق ہے سوائے ان صورتوں کے کہ دونوں کا سمجھوتہ ہو جائے مثلاً جب فساد کا اندیشہ ہو یا فتنے کا ڈر ہو.مرد تو پہلے ہی الگ رہتا ہے.مگر عورت خاوند کی مرضی کے خلاف باہر نہیں جا سکتی ہاں ناوند اگر ظلم کرے تو قاضی کے پاس وہ شکایت پیش کر سکتی ہے لیکن اگر خاوند اس ہیں روک ڈالے اور گھر سے باہر نہ نکلنے دے تو پھر وہ گھر سے بلا اجازت با ہر نکل سکتی ہے مگر راس کا فرض ہے کہ جلد ہی مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کر دے تا قاضی دیکھ لے کہ آیا اس کے باہر نکلنے کے کافی وجوہ ہیں یا نہیں.پھر وہ اس کو خواہ با ہر رہنے کی اجازت دے دے یا گھر میں واپس لوٹنے کا حکم دے.پس اگر خاو ظلم کرتا ہو اور حقوق میں روک ڈالتا ہوا در قضاء میں جانے نہ دے تو اگر ظلم پھر عورت بلا اجازت شوہر باہر نکل سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قلیل ترین عرصہ میں وہ اس کے خلاف آواز اُٹھائے اسلام یہ گھنٹے کے اندر یا اگر مقدمہ عدالت میں ہو تو جنت عرصہ درخواست کے دینے میں عمر کا لگتا ہے.ہمارے ملک میں یہ بالکل غلط طریق رہا ہے کہ عورت خاوند سے لڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے اور وہاں بیٹھی رہتی ہے.والدین اس کی ناحق طرف داری کرتے ہیں اور فساد بڑھتا ہے دونوں کا معاملہ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے.عورت بحیثیت انسان الیسی ہی انسان ہے جیسے مرد.وہ اپنے دین ایمان اور حریت میں ایسی ہی قائم ہے جیسے تم.مثال کے طور پر میں بعض عقائد کا ذکر کرتا ہوں جن میں عورت کے مذہب کا احترام لازمی ہے.
۲۸ بعض فتنہاد کا خیال ہے کہ وضو کی حالت میں اگر مرد کسی محرم کو چھوٹے تو وضو نہیں ٹوٹتا.مگر بعض کا عقیدہ ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے.اب اگر عورت کا یہ مذہب ہو کر وضو ٹوٹ جاتا ہے تو خاوند کا فرض ہے کہ اس کو دینو کی حالت میں چھوٹے اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کے عقیدہ یا مذہب میں وضل دے ہیں عورت کو اپنے عقائد میں کامل تربیت دینی ہوگی.ہاں عقل یا دل کے معاملات کی ہم کے واہ نہیں کریں گے.مثلاً اگر کوئی عورت یہ کسے کہ میری عقل کہتی ہے یا میرا دل چاہتا ہے کہ فلاں بات یوں نہ ہو تو اس کا احترام لازمی نہیں.جب نگداتے ان باتوں کی پروا نہیں کی توسیم کیوں کریں.یہیں یہ اصول صرف شریعت کے عقائد کے تعلق ہے.اس طرح حیض کے متعلق بھی مسلمانوں کا اختلاف ہے کیونکہ بعض کا خیال ہے کہ عورت کے ساتھ حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کرنے سے قبل نحجت جاتا ہے بشر ہوش کے نزدیک غسل کے بعد جائز ہے اگر عورت کا یہ عقیدہ ہو کر غسل سے قبل صحبت نا جائز ہے تو مرد کا فرض ہے کہ اس کے پاس نہ جائے جس طرح عورت کا فرض ہے مرد کے مذہب کا پاس کرے.اس طرح مرد کا بھی فرض ہے کہ عورت کے عقائد کا لحاظ کرے.میں عورت کو تربیت حاصل ہے اگر اس کو مٹاؤ گے تو وہ تم سے ایسی حریت کا مطالبہ کریں گی جو شریعت نے ان کو نہیں دی.تم اگر خدا کے انعام حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے معاملات کو درست کرد اور عورتوں کو کامل تربیت دو.اور ان کے حقوق ادا کرو.والفضل ۲۲ اپریل ۱۹۲۷ ص ۵) دفرموده ۱۵ اپریل ۱۶۱۹۲۷
۲۹ خطاب لجنه إماء الله جل سالانه وام یو کے لنڈن قوام، اصلاح معاشرہ کیلئے ذندار شخص کو کہا جائے گا حضرت خلیفہ المسیح الرابع فرماتے ہیں.مرد عورتوں پر قوائم ہیں.کیونکہ خدا تعالے نے لمبیض کو بعض پر بعض پہلوؤں میں فضیلت بنتی ہے.اس وجہ سے بھی وہ قوام ہیں.کہ وہ گھر کو لانے میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں.الرِّجَالُ قَومُونَ عَلَى الستان کا ایک معنی یہ کیا جاتا ہے کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم بنائے گئے ہیں.اور ما فضل اللہ کا ایک معنی یہ لیا جاتا ہے کہ اللہ تعالے نے ان کو ہر پہلو سے عورت پر ایک فضیلت بخشی ہے.چنانچہ اہل مغرب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے یہ پنہ چلتا ہے.کہ خدا تعان نے مرد کو بنایا ہی ہر پہلو سے بہتر ہے اور اس وجہ سے وہ عورت پر حکم چلانے کا حق رکھتا ہے حالانکہ دونوں جگہ معنے غلط کئے گئے ہیں.سب سے پہلے تو لفظ قوام کو دیکھتے ہیں.قوام کہتے ہیں.ایسی چیز کو.جو اصلاح احوال کرنے والی ہو.جو درست کرنے والی ہو.جو ٹیڑھے پن اور کچی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو.چنانچہ قدام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا.پس وعُونَ کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح معاشرہ کی اقول ذمہ داری مرد وں پر ڈالی گئی ہے.اگر وہ تو کامعاشرہ بگڑ جائے.ان میں کجر دی پیدا ہو جائے.ان میں آزادیوں کی ایسی رو چل پڑے.جو اسلام کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہوں.تو عورت پر روش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منڈال کر دیکھیں.کیو کے خدا نے ان کو نگران مقرر کیا تھا.معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلے میں ادا نہیں کیں.بمَا فَضَّلَ الله بَعْضَهُم على بعض میں خو انسان نے جو بیان فرمایا ہے.وہ یہ ہے کہ خدا تعالے نے ہر تخلیق میں کچھ فی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں.اور
بعض کو بعض پر فضیلت ہے.قوام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے ہرگز یہ مراد نہیں کہ ہر پہلو سے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے.بلکہ فرمایا بِمَا فَضَّلَ الله بعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ.ایک عمومی اصول جاریہ کی طرف توجہ مبذول فرمائی.اور اس مضمون کی آیات قرآن کریم میں بار بار دوسری جگہ پر بھی ملتی ہیں.چنانچہ فرمایا کہ ہم نے بعض کو بعض پہلوؤں سے دوسروں پر فضیلت بخشی ہے.اس پہلو سے جب ہم لفظ قوام کو دیکھتے ہیں.تو قوام کے ایک معنی طاقتور کے بھی ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جسے صنف لطیف کہا جاتا ہے.اور اہل یورپ بھی اسے اسی طرح یاد کرتے ہیں.) قومی کی مضبوطی کے لحاظ سے عورت کی نزاکت کے مقابلے میں مرد قوام کہلاتے ہیں.راس میں ایک نزاکت پائی جاتی ہے اور مرد کو ایک قومی کی فضیلت مضبوطی کے لحاظ سے عورت پر عطا کی گئی ہے.اگر یہ نہ ہو تو آج اہل مغرب سالانہ جبری بڑی عالمی کھیلیں منعقہ کرتے ہیں.ان میں عورتوں کی کھیلوں کا الگ انتظام کیوں کرتے ہیں.مردوں کے ساتھ کیوں نہیں دوڑا دیتے بین الاقوامی کھیلیں ہوتی ہیں اس میں SHORT PUT جو ہے.وہ بھی عورتوں کا مردوں کے ساتھ ہوتا چاہیے.ان کی دوڑیں بھی ان کے ساتھ ہونی چاہئیں ، ان کی کشتیاں تھی.ان کی باکسنگ بھی.اگر وہ قرآن کو تبھلارہے ہیں.تو زبان سے نہ جھٹلائیں.عمل سے جھٹلا کر کھائیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر WOMEN LIB کی ساری دنیا کی اجتماعی طاقتیں بھی اکٹھی ہو جائیں تو اس کو تبدیل نہیں کر سکتیں.اس لئے جو واقعاتی بیان ہے.اس پر چیں بجبیں ہونے کی ضرورت کی کوئی نہیں.کسی کو حق ہی نہیں پہنچتا.بیا ہے ہوئے مردوں کی پسندیدہ آیت الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ یہ آیت رہا ہے ہوئے مردوں کو بہت اچھی لگتی ہے.اس کا معنی یہ ہے کہ مردوں کو چاہیئے اپنی بیویوں کے محافظ اور اُن کی درستی اور ٹھیک رکھنے کا موجب بنیں.بما فضل اللہ کیونکہ مردوں کو خدا نے اس قسم کی لیاقتیں اور موقعے بجتے ہیں."
۳۱ عورتیں بھی مردوں کے ناموس کی محافظ ہیں.نشور حق ان کی بدخوئی کا ڈر ہے، تو ان کو نصیحت کرو پھر بستر سے الگ کرد فى المضاجع میں جو اشارہ ہے اور آج کل کے سبھی مسلمانوں میں جو بو د رہائش کا طرز ہے قابل غور ہے) اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے تعلقات کو واضح کیا مردوں کو فرض ہے کہ ان کی اصلاح کریں سمجھائیں تاکہ وہ نیک اور فرمانبردار نہیں.صوفیوں نے کہا کہ انسان تو رجل ہے اور نفس مونث ہے مومن انسان دہونا ہے جو اُس عورت کو دغظ کرے یعنی اپنے نفس کی اصلاح کرے.ایک مرتبہ میسر دل میں ایک گناہ کی خواہش پیدا ہوئی ہیں نے بہت سی حمائیں خرید لیں.ایک جیب میں، ایک صدری میں ایک ہاتھ میں، ایک سنترے ہیں، ایک الماری میں نعرض کوئی خالی جگہ نہ رہی جب خیال آنا فورا قرآن نظر پڑتا.یہاں تک کہ نفس کی دو خواہش جاتی رہی.درس القرآن فرمودہ حضرت مولانا مولوی حکیم نورالدین خلیفہ اسح الاول صفحه ۱۷۵ اسلام کے اقتصادی نظام میں مڑ کا فرض ہے کہ وہ گھر کی ضروریات کا متسفاح ہو درود اور تیسری بات یہ بیان فرمائی ديما العقوا من أموالهم.فضيلت جو دَبِمَا بعض کو بعض پر دی گئی ہے.ایک تو قوام کے لحاظ سے جو واضح ہوگئی.دوسری اس لئے کہ اسلام کے
اقتصادی نظام میں مرد کا فرض ہے کہ وہ گھر کی ضرور توں کا خیال رکھے.اور یہ ظاہر بات ہے کہ جس کے ہاتھ میں روپیہ پیسہ ہو.اسے گونہ اس پر فضیلت حاصل ہو جاتی ہے جس کے ہاتھ ہیں.ہو یا جس کی کمائی کی ذمہ داری نہ ہو.چنانچہ مرد اور عورت کی بحث تو در کنامہ وہ قومیں بھی جو معمولی اپنی اجتماعی قومی دولت کا ایک معمولی حصہ نبی غیر قوموں سے بطور امداد کے لیتی ہیں.ان کے سران کے سامنے جھک جاتے ہیں.اور امداد دینے والی قوموں کو ایک فضیلت نصیب ہو جاتی ہے اگر واقعہ یہ ہے کہ یورپ اس پہلو کو اس لئے نہیں سمجھ سے نگہ یا مغرب اس پہلو کو کہنا چاہیے کیونکہ یورپ میں تو امریکہ نہیں آتا.مغرب میں امریکہ نبی اور دیگر ایسے ممالک سبھی شامل ہیں.جو ترقی یافتہ مغربی ممالک ہیں.وہ اس حقیقت کو اس لئے نہیں سمجھ سکتے کہ انہوں نے گھر دن کے یہ بوجھ اٹھانے سے عملکاری طرح انکار کر دیا ہے.یعنی تنہا اٹھانے سے.کہ ان کے اقتصادی نظام میں ان کے معاشی نظام میں عورت پر تقریب برابر کی زمہ داریاں آچکی ہیں.اور حد یہ ہے اس کے باوجود عورت تو نے کی حیثیت سے اس پر جو گھر بلو ذمہ داریاں ہیں.دی بھی اِس پر اسی طرح رہتی ہیں.اقتصادی لحاظ سے کہتے ہیں کہیں بھی کھاتا ہوں.اور اپنی بیوی کو کہتے ہیں تم بھی کماؤ.اور ہم دونوں مل کر گھر چلاتے ہیں.کیونکہ اکیلے کی محنت سے کام نہیں چلتا.اور دونوں مل کر محنتیں کرتے ہیں.جب کھانا پکانے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں.تم پکاؤ.جب بچے پیدا کرنے کا وقت آتا ہے.تو کہتے ہیں.کہ میں مجبور ہوں.تم بچے پیدا کرو.تو جینے میرے بچے کو اٹھائے پھرو.اپنی زندگی کا ہر جنز و اس کو دو.اپنا خون دو.اپنی ہڈیاں دو، اپنا دماغ دو.رگیں دو.جو کو بھی خدا نے تم کو دیا ہے.اس کے ساتھ SHARE کرو.اور پھر اس دور میں بھی تم کماؤ.یکس بھی کماتا ہوں.ہم دونوں برابر ہیں.یعنی برابری کا عجیب تصور ہے.اور پھر اس کے بعد جب علیحدگی ہوتی ہے تو اگر مرد کے پاس کچھ بھی نہ ہو تب بھی وہ بیوی کے مال میں آدھے کا شریک ہو جاتا ہے چنانچہ کچھ عرصہ پہلے سویڈن سے ایک شکایت ملی.ایک احمدی عورت کی ایک شکایت تھی.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.مگر اس دوران جب میں نے تحقیق کروائی کہ اس ملک کے قوانین کیا ہیں.بیسن کر میں حیران رہ گیا کہ اگر ایک عورت ایک غریب مرد سے شادی کرنے اور ان کی علیحدگی ہو جائے.تو قطع نظر اس کے کہ اس غریب مرد نے کتنا حصہ ڈالا تھا.علیحدگی کے وقت
ساری جائیداد برابر کی تقسیم ہو جائے گی.اس سے ملتا جلتا کوئی جھگڑا تھا.بہر حال اللہ تعالے نے فضل فرمایا اور وہ معاملہ حکومت میں یا عدالتوں میں جانے کے بجائے.آپس میں بڑے عمدہ رنگ میں سمجھوتے سے طے ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کے جہاں اقتصادی قوانین پائے جاتے ہوں.کہ عورت پر دوہرے بوجھ ڈال دیئے ہوں.گھر کی کمائی کا بھی اور بیرونی کمائی کا بھی.اور تمام اقتصادی زیر لوں میں اس کو شریک کیا جارہا ہو.تو اُن کو یہ آیت نہیں سمجھ آئے گی کیونکہ اس میں تو ایک ایسے قصادی نظام کا ذکر ہے جس میں عورت کلینہ بری الذمہ ہے.خاوند وہ کیسے کمائے ہوئے مال کو لالچ کی نظر سے نہ دیکھے اُمر واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں دست اگر کھانا چاہے تو ان کو بنانات سے لیکن خاوند کا یہ حق نہیں کہ ان کے ملا نے ہونے مال کو لانچ کی نظر سے دیکھے یا اس سے کوئی مطالیہ کے.اگروہ بنانے کا سادہ اپنا کھایا ہوا مہ د پیر اپنی مرضی سے الگ رکھتی ہے اپنے ماں باپ کو دیتی ہے.اپنے بھائیوں پر خرچ کرتی سے جماعت کورے دیتی ہے.بہرگز قرآن کریم کی تعلیم کی.ویسے مرد کو یہ ہی نہیں کہ وہ اعتراض کرے کہ تمہاری وہ کہ نئی کہاں گئی.اس کے باد تود مرد کا یہ فرض کر تا ہے کہ وہ عورت کی زمہ داریاں بھی اٹھائے.اور بچوں کی ذمہ داریاں بھی اٹھائے.اس پہلو سے تو فضیلت دی گئی ہے.اس فضیلت کے ساتھ تو ذمہ داریاں بہت ہی زیادہ ہیں.اگر یہ فضیلت عورتوں کو چاہیے تو بے شک سے ہیں.اور کوئی دنیا میں مرد اعتراض نہیں کرے گا.کہ تم گھر کے چلانے کی ذمہ داریاں ساری اقتصادی ذمہ داریاں اٹھاؤ.ہمیں آزاد کر دو.اور ہم کہیں گئے تم افضل ہو گئیں.افضل تو ہو جائیں گی پھر وہ.واقعتا ہو جاتی ہیں.ایک پہلو سے.اور عملاً ہم نے روزمرہ کی نہ ندگی میں دیکھا ہے.ایک گزشتہ سال جو قافلے آئے تھے پاکستان سے.ان میں ایک ایسی خاتون بھی تھیں.جن کے خاوندان سے پیسے مانگ کر خرچ کرتے تھے اور ان کی حالت قابل رحم تھتی ہے چاروں کی.پیچھے پیچھے پھرتے تھے اور جب تک وہ بیوی کو راضی نہ کر لیں.وہ ان کو خوشی سے کچھ رقم دے نہ دے.ان کے پاس ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے کا کہا یہ تک نہیں ہوتا تھا.
۳۴ تو قرآن کریم سیچ فرماتا ہے.کہ جس کے اوپر رزق کمانے کی ذمہ داری ہے.اسے طبیعی اور طبیعی طور پر ایک فضیلت ہو جائے گی.ایک واقعاتی اظہار ہے.اس پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہی کوئی موجود نہیں.اس کے بعد اگلے مضمون سے قبل ایک تھوڑا سا ٹکڑا آیت کا ایسا ہے جو بظاہر بات شروع کر کے نامکمل چھوٹہ دیا گیا ہے فرمایا فَالصَّامِت حَفِظَتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ الله پس وہ نیک اعمال، والی بیبیاں جو فرمانبردار بھی ہیں.اور نیک اعمال نبی نہیں اور غیب میں حفاظت کرنے والی حقوق کی.ان حقوق کی جو اللہ نے ان کے اوپر فرض کئے اور اس کے بعد کچھ نہیں.کوئی بیان نہیں فرمایا کہ ان کے متعلق کہ ان سے کیا سلوک کرد - قرآن کریم کا میں خاص اسلوب ہے اور بڑا دلکش اسلوب ہے.جس مضمون کو بڑی شان کے ساتھ اٹھانا چاہتا ہے اور توجہ دلانا چاہتا ہے بعض دفعہ اسے شروع کر کے بغیر اسے ختم کئے بات چھوڑ دیتا ہے.مراد یہ ہے کہ دیکھو اپنی بیبیوں کو دیکھو.اور ان کے حقوق کی طرف توجہ کرو.ان کی عزت اور احترام کا خیال رکھو.کیونکہ یہ تو سب کچھ کر رہی ہیں.جو تم ان سے توقع رکھ سکتے تھے.یہ نہ ہو کہ یہ جو تم سے توقعات رکھتی ہیں.وہ پوری نہ کر سکو.اس لئے اس آیت کے اس پیڑے کو بغیر نتیجے کے خالی چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس کے بہت سے نتائج نکل سکتے ہیں.اور یہی قرآن کریم کا اصول ہے جہاں ایک سے زائد نتائج کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو وہاں بغیر نتیجہ نکالے مخداتعالے اس ٹکڑے کو چھوڑ دینا ہے اور ذہن کو آزادی دیتا ہے کہ جو اچھے نتائج مرتب کر سکتے ہو مرتب کرتے چلے جاؤ.نشور کا مفہوم اور مڑ کو حوصلہ کھاتے ہوئے نصیحت کرنے کی تلقین اگلا ح وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ اگر تمہیں خطرہ ہو یا محسوس ہو * کہ تمہارے حقوق ادا کرنے کے باوجود بعض عورتیں فساد اور دینگے پر تلی بیٹھی ہیں اور نشوز میں ہر قسم کا فساد اور دانشگا شامل ہے.یہاں تک کہ ہاتھ اٹھا میٹھنا بھی شامل ہے.ایسی صورت نہیں
۳۵ کیا کہ وہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ دنگا کرتی ہیں.تو تم بھی دنگا شروع کر دو.تمہارا حق قائم ہو گیا.آگے دیکھیں کہ تین شرطیں اسی آیت کی ہیں.جس کی طرف یورپ کی نظر ہی نہیں جاتی.یا مغرب کی نظر ہی نہیں جاتی طبعی عقلی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا.اور آج کی دنیا کے قانون میں بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ اگر عورت میں پہل کریں فساد میں.اگر وہ باغیانہ رویہ پہلے اختیار کریں اور مرد پر ہاتھ اٹھانے سے بھی باز نہ آئیں تو پھر مرد کو بھی چھٹی ہوئی جائے.وہ جو چاہے کرے لیکن قرآن کریم جیسی نہیں دیتا بلکہ عورت کی نزاکت کے خیال سے اس کی بعض کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایا فَعِظُوهُن.تم طاقتور ہو.تم قوام ہو.اگر قوام کا یہ مطلب ہوتا جو اہل مغرب نے لیبا ہے کہ وہ حاکم ہے ڈنڈا چلائے گا.تو فعظوھن.کا کونسا موقعہ تھا.یہاں پر.پھر تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ تمہارے قوام ہوتے ہوئے کسی عورت کی جرات کیا تھی کہ وہ تمہارے متعلق باخیان طرز اختیار کرے.اتحادہ ڈنڈا اور مارنا شروع کرد.فرمایا کہ نہیں فعظوهن حوصلہ دکھاؤ.تم طاقتور ہو تمہیں خدا تعالے نے کئی پہلوؤں سے فضیلت بخشتی ہے.اس نئے حوصلے سے کام لیتے ہوئے پہلے نصوت کرد.اگر نصیحت کارگر نہ ہو تو دوسرا قدم اٹھاؤ.وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَصَاجِح - ان کو اپنے بستروں میں کچھ عرصہ کے لئے الگ چھوڑ دو.اب بستروں کو جو الگ چھوڑا جائے.عورتوں کو تو اِس کے متعلق یہ دہم کرلینا که یک طرفہ سزا ہے.بڑی بیوقوفی ہے.بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ بستر میں الگ چھوڑنے کے وا نتیجے میں عورت امن میں آجائے.کہ شکر ہے خدا کا یہ ہو گیا میں تو پہلے ہی تنگ آئی بیٹھی تھی اور مرد کو سزا ملنی شروع ہو جائے اور واقعتنا یہی ہوتا ہے تو قرآنی تعلیم کا عجیب کمال ہے کہ بغیر مرد کو بتائے کہ ہم کیا کر رہے ہیں.تمہارے ساتھ.اس کو ایک ایسے عمل پر مجموعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا ہر امکان پیدا ہو جاتا ہے.نصیحت کے باوجود عورت نہیں سن رہی اور ہاتھ کو کھولنے کی پھر بھی اجازت نہیں دی فرمایا.کچھ دیہ علیحدگی اختیار کرو.جب علیحدگی اختیار کرو گے تو انسانی جذبات ہیں وہ اعتدال پر آجاتے ہیں کئی قسم کی دل میں تحریکات پیدا ہوتی ہیں.محبت عود کر آتی ہے.اور نفسیاتی پہلو اس بات کا پیدا ہو جاتا ہے کہ شرمندہ ہو اپنے پہلے رویہ سے.یا عورت کو خیال
آئے یہ مجھ سے روٹھ گیا ہے.چلولبس کریں.اب لڑائی جھگڑا ختم کر دیں.فرمایا اس کے باوجود اگر پھر بھی عورت اپنے سابقہ بد خلقی کے رویہ پر قائم رہے.اور ہاتھ اٹھائے یاتمہارے خلاف بغاوت کرنے میں پہل کرتی ہے.واضر کوھن.پھر ان کو مارو.اس کے سوا اور کیا تعلیم ہو سکتی تھی.اس کو کوئی بدل کے دکھائے یا خدا کہتا کہ پھر پولیس کے حوالہ کر دو.حوالات میں پہنچا دو.یعنی جہاں عائلی زندگی کی حفاظت کی جاتی ہے.وہاں مرد کو تو دوسروں کے سپرد کیا جا سکتا ہے لیکن عورت کو سپرد کرنا اس کی سب سے بڑی تذلیل ہے.اور اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ ہی نہیں.بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ محلے کے مردوں کو بلاؤ، اور وہ تمہاری بیوی کو ماریں.یا پولیس کے سپرد کر دو.وہ ڈنڈے چلا میں فرمایا ہے.ان سب باتوں کے با وجود پھر تم خدا تعالی کی طرف سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہو گے کہ اس حد تک اس سے محنتی کرد کہ اس کی اصلاح ہو لیکن ان شرطوں کے ساتھ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ کم نے بیان فرمائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ کم کی جو تعلیم ہے.وہ ہیں نے اکٹھی کر دی ہے.اسلامی تعلیم کا جو خلاصہ اس آیت کی رو سے ہے وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے.اسلامی تعیتی میں ی عدم مساوا کے اعتراض کا جواب اور جو یہ کہا جاتا ہے.کہ اس میں عدم مساوات کی تعلیم ہے.یہ بالکل غلط ہے.اور بے بنیاد ہے.اور قرآن کریم کی دوسری آیات کے مضمون کے بالکل منافی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَة یعنی جو فرمایا تھا ان کو فضیلت دی گئی ہے.اس مضمون کو دوسری طرح بیان فرمایا کہ والرِّجَالِ عَلَي من درجة.ان کو ایک قسم کی فوقیت حاصل ہے.لیکن اس فوقیت کے باوجود ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں.اور بعینہ مردوں کے حقوق عورتوں کے حقوق کے برابر ہیں.چنانچہ فرمایا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ عورتوں کے حقوق کے لئے
☑ بینہ دہی حقوق ہیں جو مردوں کے لئے ان پر ہیں.بِالمَعُودُنِ.عام دنیا وی عقل اور مناسبت کے اعتبار سے جو بھی برابر حقوق ہونے چاہئیں.میاں بیوی کے وہ دونوں کو اسی طرح میں گے حالانکہ والرجال میں "و" حالیہ معلوم ہوتی ہے.یعنی یہ بیان کرنے کے لئے باوجود اس کے، حالانکہ وللرجالِ عَلَیهِ دَرَجَة " ہم پہلے بھی کہ بہتے ہیں کہ مردوں کو ایک پہلو سے عورتوں پر ایک فضیلت بھی حاصل ہے.لیکن فضیلت کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے.کہ ان کے حقوق میں فرق پڑ گیا ہے.وہ پھر فرمایا هن لباس لكم وَ انْتُمْ لِبَاس لَهُنَّ تم ایک دوسرے سے حقوق میں اور ذمہ داریوں میں اس طرح بالکل برا بر ہو گویا تم ان کا لباس ہو.اور وہ تمہارا لباس ہیں.اس کی تشریح کا اس وقت وقت نہیں.ورنہ یہ آمیت بہت ہی لطیف مضامین پرمشتمل ہے.جہاں تک آج کے مضمون کا تعلق ہے.اتنا ہی کہنا کافی ہے.کہ لباس کی جتنی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں.مرد کو عورت کے لئے ادا کرنا ہوں گی.اور عورت کو خاوند کے لئے ادا کرنا ہوں گی.علیحدگی کی مد میں اولاد کی تقسیم کے حصول میں بھی مساوات ہے پھر فرمایا لَا تُضَارَ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَولو له پولدہ.اگر آپس میں اختلاف پیدا ہو جائے.علیحد گیوں کے مواقع پیش آئیں.تو فرمایا.ہرگز کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیا جائے گا جس کے نتیجے میں والدہ کو اپنے بیٹے کے ذریعے سے دُکھ پہنچایا جائے درکا مولود له بولدہ نہ ہی والد کو اس کے بیٹے کے ذریعے سے کوئی دکھ پہنچایا جائے گا اور اس تعلیم میں بھی دونوں کو بالکل برابر کر دیا.اس کے مقابل پر اب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر قوموں میں یا دیگر مذاہب میں عورت کے متعلق کیا ذکر ملتا ہے.پہلی بات اس ضمن میں پیش نظر یہ رہنی چاہیے.کہ جب بھی مغربی دنیا میں اس مضمون پر بحث اٹھتی ہے تو عموما ایک مغالطہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے اور وہ مغالطہ آمیزی یہ ہے کہ مغربی تہذیب کو اسلام کے مقابل پر پیش کیا جاتا ہے.حالانکہ مغربی تہذیب کوئی مذہب نہیں ہے.اسلام ایک مذہب ہے اگر فوقیت
۳۸ پیش کرنا مقصود ہے.تو بائیبل کی تعلیم کی اسلام کی تعلیم پر فوقیت دکھانی چاہیے اور یہ جائز موازنہ ہے.یہودیت کی تعلیم کی فوقیت.عیسائیت کی تعلیم کی فوقیت دکھائی جائے.لیکن مذہب کے مقابل پر تہذیب کی بخشیں شروع کر دی جائیں تو یہ بالکل لاتعلق باست ہے.لیکن یکیں ہیں پہلو کو بھی بعد میں لوں گا.عیسائی اسلام پرحملہ آور ہوں تو بائیبل سے جواب دیں سردست آپ کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں.کہ جب بھی کوئی عیسائی آپ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام کی کسی تعلیم پر حملہ آور ہو ، تو آپ ہمیشہ پہلے بائبل سے اس کا موازنہ کیا کریں.اور تہذیب کو نظر انداز کیا کریں.کیونکہ کسی انسان کا یہ حق نہیں کہ ایک کلاس کی چیز کا کسی دوسری کلاس کی چیز سے موازہ نہ کریں.بائیل کے نمونے اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بائبل کہتی ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے ڈرتی رہے (امثال ۳۳ ) پید کشمیر میں لکھا ہے کہ شوہر تم یہ حکومت کرے گا : اب جو الزام اسلام پر لگا رہے تھے.وہ الزام تو خود بائبل سے ثابت ہو گیا.اگر کورت کرنا بری بات ہے تو پھر عیسائیت نے خود حکومت کی بنیاد ڈالی ہے جو یہودیت نے تورات میں دی ہے.جہاں تک انجیل کا تعلق ہے کہتی ہے کہ دیکی اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یامرد پر حکم چلائے بلکہ مچپ چاپ رہے؟ جہاں تک سکھانے کا تعلق ہے.اس نے بات کو عام کر دیا ہے.صرف مذہب کا تعلق نہیں رہا مرنیا میں عورت کوئی بھی تعلیم نہیں دے سکتی.اور مرد پر حکم چلانا ہی بند نہیں کیا.بلکہ بے چاری کی زبان بھی بند کردی.چپ چاپ رہے.محکم نہ دینے پر بات رہتی تو ٹھیک تھا لیکن عورت نہ ایک بات رہتی تھا بے چاری جو ویسے ہی بولنے کا شوق رکھتی ہے.اسکی زبان گر کر دینا یہ کہاں کا انصاف ہے.پھر لکھا ہے.وہ مرد کی محکوم بین کر رہے (کرنتھیوں )
۳۹ وہ مرد کی محکوم بن کر رہے.اور اس کی علامت کے طور پر اپنا سرڈھاپنے.خیر یہ کہنا پڑھتا ہے کہ یورپ نے علامت اڑا دی ہے.اور شاید اسی وجہ سے اس کی حکومت سے باہر نکل گئی ہے.اب میں اس حدیث کو جواب مجھ کو مل گئی ہے.آپ کے سامنے رکھنے کے بعد پھر میں اس مضمون کو دوبارہ شروع کروں گا.مارنے کے متعلق جو حدیث لکھتی اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے ایک تاکید فرمائی ہے.اور وہ ہے.پہلے تو حقوق بیان فرمائے.آپ نے فرمایا " ہو تو کھاتا ہے.اس کو بھی کھلا.جو تو پہنتا ہے.اس کو بھی پہنا.اور اس کے چہرے پہ نہ ماہ.اور اس کو بدصورت نہ بنا.اور پھر فرمایا.اگر سبق سکھانے کے لئے مجھے اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کہ یعنی اسے گھر سے نہ نکال خود بھی گھر سے نکل پس یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسی قرآن کریم کی آیت کی تفسیر فرمائی جا رہی ہے.فرمایا ان کو اپنے بستروں میں اکیلا چھوڑنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم انہیں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل کر اسے تلملتے اڑاتے پھرو.اور ان کی اس علیحدگی کے دُکھ میں شریک نہ ہو.فرمایا.تم کو اس وقت تک ان کی علیحدگی کا دُکھ دینے کے لئے اجازت ہے.جب تم خود اس دُکھ میں شریک رہو.نہ عورت کو گھر سے نکالو.اور نہ خود نکلو.اور اگر مرد یہ طریق اختیار کریں.تو انتہائی بھید کی بات ہے.کہ شاید یہ کسی زمانہ میں کسی شخص کو کوئی ایسی عورت مل جائے.کر اس کے باوجود اس پر ہاتھ اٹھانا پڑے.ہندو ازم میں عورت کی حیثیت جہاں تک ہندو مذہب کا تعلق ہے چونکہ دنیا کے دیگر مذاہب سے تفصیلی مواز نے میں وقت یہ پیش آئی کہ جب میں نے تلاش کیا تو پتہ چلا کہ اکثر مذاہب میں وہ تعلیمات ہی موجود نہیں جو اسلام میں ہیں.ذکر ھی نہیں بعض مذاہب ہیں.اس لئے خلاف ملتے ہیں جو بڑے بڑے مذاہب میں ملا یہودیت ، عیسائیت اور ہندو ازم ان میں چونکہ ذکر ملتا ہے.اس لئے میں نے ہندو ازم کو بھی آج کے موازہ نہ کے لئے چن لیا.ہندومت میں بیٹی کی پیدائش کو محوس قرار دیا گیا ہے.اور جس طرح عربوں میں بیٹی کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے.اسی طرح ہندو
مذہبی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ نہ مانوں میں ہندوؤں میں بھی یہ رواج تھا کہ اچھے خاندان کے لوگ اپنی بیٹی کی پیدائش پر اسے مار دیا کرتے تھے.عورت کی شادی کے لئے اس کی اجازت کا حصول ضروری نہیں.بیوہ عورت کے ساتھ یہ سلوک ہوگا.کہ وہ شادی نہیں کرے گی.اس کو سر کے بال منڈوانے ہوں گے اور ہمیشہ سفید کپڑے پہنے ہوں گے.آئندہ کبھی وہ زنگدار کپڑے استعمال نہیں کرسکتی.کسی شادی میں شریک نہیں ہوسکتی.اگر ہو بھی تو سہاگن کے قریب بھی نہ جائے.اپنا کھانا خود پکانا ہوگا.کوئی اس کو کھانا پکا کر نہیں دے سکتا.اس کے علاوہ بھی بہت سے بھیانک مظالم ہیں جو عورت پہ لہ والہ کھے جاتے ہیں.اور نتیجتاً ایک ایسے ظلم کا آغا نہ ہوا.جو ان مظالم کے نتیجے میں ہو جانا چاہیے تھا.ہندومت نے عورت کو یہ تعلیم دی کہ خاوند مر جائے تو قریبی جل مرو.اتنا درد ناک نقشہ ہوتا ہے.ساری عمر دُ کھ اٹھانے کا ایک ہندو بیوہ کا کہ اس کے بعد یہ تعلیم رحمت نظر آتی ہے کہ ساری عمر جو دکھ اٹھاتے ہیں.تو بہتر یہ ہے کہ ایک دفعہ ہی جل کر مر جاؤ.ورنہ ساری زندگی ملتی نہ ہو گی.منو سمرتی جو عورت کے متعلق تعلیم دیتی ہے.وہ جانوروں سے بدتر ہے.وارث کبھی قرار نہیں پاتی.اور اس کے علاوہ بعض ایسی رسمیں ہیں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں.چنا نچہ تعلیم سے تماشہ ہو کر ہندو شاعر تلسی داس نے کہا.و مشورہ ڈھول ، موسیقی پیٹتے ہی رہیں تو ٹھیک رہتے ہیں.تمدنی اور تہذیب لیا انگور کے مقام کے متعلق اسلامی در مغربی طرز کا میں انت بہر حال مذاہب کے مختصر موازنے کے بعد اب میں تمدنی اور تہذیبی مواز نے کی طرفف آتا ہوں.مغرب کو اپنی تہذیب پر ناز ہے.اور یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ مغرب کی تہذیب راسلامی تہذیب کے مقابل پر عورت کے لئے بہت ہی بہتر ہے اور چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے قلب مطہر پر نازل ہونے والی تعلیم پر جو اعتراض کرتے ہیں.اس کے مقابل پر آج کل کی مغربی تہذیب کو رکھتے ہیں.اور اس موازہ نے میں ان کو لذت محسوس ہوتی
ہے کہ دیکھو آج جو ہم نے عورت کے متعلق کہا ہے.چودہ سو سال پہلے تم لوگ اس سے واقف نہیں تھے.گویا اس رنگ میں موازنہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.ایک کتاب ہے.SCREAM QUIETLY OR THE NEIGHBOUR WILL HEAR ERIN FIZZY نے یہ کتاب لکھی.PENGUIN ۱۹۷۴ء نے شائع کی.اس کتاب میں عورتوں پر ظلم کی بہت ہی درد ناک داستا نہیں ہیں.ایک روایت کے مطابق عورتوں کی مار کھا کھا کر زخمی اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں سگرٹوں سے جلائی ہوئی جلد اور بے شمار خطرناک زخموں کی ایک کہانی ہے.اس کہانی کی تفصیلات کو تو چھوڑتا ہوں جس نے یه کتاب دیکھنی ہے.وہ دیکھ سکتا ہے.بہت دردناک واقعات ہیں اس میں.جس میں یه ساری چیزیں درج ہیں.کیس طرح وہ بوتلیں شراب کی مارمارہ کے توڑتے.ان کے ٹوٹے پھوٹے شیشوں سے کیسے گہرے زخم عورتوں کے چہروں پر آتے.اور باندھ کر سگریٹوں سے ان کو جلایا جاتا، اور یہ پچھلی صدی کی بات نہیں.اس صدی کے شروع کی بھی بات نہیں.۱۹۷۳ کی بات کر رہا ہوں.بہر حال جو اس کتاب کو جو دلچسپی چاہیے رکھے جس کا حوصلہ ہو.وہ اس کتاب کو پڑھ سکتا ہے.1961ء 194ء میں پہلی بار انگلستان میں VIOLENCE کے خلاف قانون ایکٹ بنا ہے.اور قانون کے مطابق ۱۹۱۵ر کا قانون اس وقت تک منسوخ نہیں ہو سکتا جب تک کوئی نیا قانون اس کو منسوخ نہ کرے 19 میں یہ کل کی بات سمجھیں اب پہلی بار یہ قانون بنایا جا رہا ہے اور اعتراض کر کر کے برا حال کیا ہوا ہے.انہوں نے اسلام کے اوپر 194 ء میں اس قانون کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے (WAF) ویف کی ریسرچ کی رپورٹ تھی کہ اس ایکٹ کا کوئی اللہ ظاہر نہیں ہوا.کیونکہ جب تک بج کہ اس بات کی تسلی نہ ہو جائے.کہ تشدد واقعی حد سے گزر گیا تھا.وہ مرد کو گھر سے باہر نہیں نکال سکتے.اگر انہیں گھر سے نکال دیں تو حکومت کو مسئلہ یہ پیش آجاتا ہے کہ وہ مرد موم میں HOMELESS بن جاتا ہے.اور لوکل کونسل کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی پڑتی ہے.اس ریسرچ ٹیم نے
جو فائنڈنگن FINDINGS دی ہیں.ان کی رو سے وہ کہتے ہیں.ہم نے چھ سو چھپن مظلوم عورتوں کا انٹر ویو لیا.ان میں چونسٹھ فیصد نے کہا کہ ان کے خاوندوں نے انہیں مارا مگر با وجود رپورٹ کے پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی.انہوں نے کہا کہ وہ گھر ملو جھگڑوں میں دخل اندازی نہیں کرسکتے.باقی چھتیس فیصد نے کہا کہ پولیس کو بلایا گیا.انہوں نے یقین ہی نہیں کیا کہ مارا بھی گیا تھا اور عورتوں کا اس رپورٹ کے مطابق تاثر یہ تھا.کہ چونکہ پولیس والے اکثر مرد ہیں.اس لئے اس معاملے ہیں وہ مردوں کا ساتھ دیتے ہیں.اور عورت کی آوانہ نہیں سنتے.ساؤتھ لندن پولیس کی جمعہ ۱۲ جون ۱۹۸۶ دومیں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک باپ نے اپنی ایک سال کی معصوم بچی کو سر یہ اس قدر مارا کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں.ڈاکٹروں کا کہنا ہے کرہ بچی ساری زندگی کے لئے اندھی ہوچکی ہے.اور اس کے علاوہ مرگی کی بیماری لگ گئی ہے.اس کے علاوہ اور بھی بیماریاں جو عمر بھر اس کے ساتھ لگی کہ ہیں گی.ٹائمز ۲۰ جون 19 : صفحه 4 TIMES 20TH JUNE 1987 PAGE میں لکھا ہے کہ پورش در تھ PORTSWORTH میں ایک پانچ سالہ بچی کو اس کے باپ نے ریپ RAPE کیا.اور N.SP.C.C کے اندازے کے مطابق ۱۹۸۶ م میں رجسٹرڈ مظلوم بچوں کی تعداد دس ہزار تھی.یہ بیچتے پندرہ سال سے کم عمر کے ہیں.اور ان میں بھاری اکثریت دہ تھی.جن کے ساتھ اسی قسم کے جنسی مظالم ہوئے.جن کا میں نے ذکر کیا ہے.انگلینڈ اور ویلز ( WALES) میں اسی تعداد میں اضافہ ہے.۱۹۸۵ء میں بیالیس فیصد اضافہ ہوا.یہ قانون بننے کے بعد کے اور تحریکات جاری ہونے کے بعد کے قصے ہیں.سمجھ نہیں آتی کہ کس منہ سے یہ اسلام کی اس تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں.جس کی تفسیر کہیں نے آپ کے سامنے ابھی سنائی ہے اور جو حال ہے اپنا.وہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں کر رہے ہیں.یہ ظلم ہاتھ سے نکلتا چلا جا ہلا ہے.اور حد سے بڑھتا جا رہا ہے.۱۹۸۵ء میں انگلینڈ اور ویلز WALES میں بیالیس فیصد اضافہ ہوا.اور جہاں تک معصوم بچیوں کے ساتھ سیکسوئل ابیوض SEXUAL ABUSE کا تعلق ہے.ایک سو چھبیس فیصد اضافہ ہوا ہے.یعنی دوگنے سے بھی بڑھ گیا ہے معاملہ ساری اسلامی کرنیا میں آپ تلاش
۴۳ کر کے دیکھ لیں آج کے بگڑے ہوئے حال میں بھی بد سے بد تر حال میں بھی.آپ کو غالبا ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آئے گا.اور ان مظلوم بچوں میں سے لکھا ہے.کا بچے وہ ہیں جو پانچ سال سے چھوٹی عمر کے ہیں.اور اپنے ہی گھروں میں اپنے ہی باپوں کے ہاتھوں وہ مظالم کے شکار.' ہوئے N.S.P-C.C کے STATISTICS کے مطابق یہ اضافہ ہر سال دو گنا ہو رہا ہے.معینی آنے والے چند سالوں میں شاید آپ کو ڈھونڈ کر وہ گھر نکالنا پڑے گا جہاں عورتوں پر مظالم نہیں ہور ہے.اور معصوم بچیوں پر مظالم نہیں ہورہے.اختیار THE NDEPENDENT اپنی ۳۰ سجون 9 ٹر کی آجکل کی بات ہے.اشاعت میں رکھتا ہے N.S.P-C-C کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال بچوں کی تعداد میں ایک سو سینتیس فیصد اضافہ ہو گیا ہے.ہیں یہ جو اندازہ پیش کیا گیا تھا.کہ ہر سال دو گنے کا اضافہ متوقع ہے.اس سے بھی زیادہ ہے.ایک سو سینتیس فیصد کا مطلب ہے کہ دو گنے سے بھی زیادہ ہے.اس میں اسی فیصد تعداد معصوم بچیوں کی ہے.روزنامہ گارڈین GUARDIAN 6 جولائی ششش نے صفحہ ایک پر ہے کہ ایک نیشنل سروے کی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ مظلوم بچیوں کی تعداد جو کہ لوکل اتھارٹیز میں رجسٹرڈ ہوئی ہے.اس میں بائیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے.اس اضافہ میں زیادہ تر وہی بچتے ہیں.یعنی مظلوم جو اپنے والدین کے ستائے ہوئے ہیں.جہاں تک طلاقوں کا تعلق ہے.اس ملک میں مڈل کلاس جو تعلیم یافتہ اور اچھی کبھی جاتی ہے.اور آپ یاد رکھیں کہ یہاں کیونکہ اقتصادی معیار چونکہ اونچا ہے.اس لئے مڈل کلاس اپنی خاصی کھاتی پیتی کلاس ہے.اس میں ۳۲ فیصد عورتوں نے یہ نا بہت کر کے عدالتوں میں طلاق لی کہ ان کے خاوند ان پر شدید مظالم کرتے ہیں.اور مارکٹائی کرتے ہیں.اور در کنگ کلاس WORKING CLASS میں چالیس فیصد لیکن یہ وہ معاملات جو عدالتوں میں جاکرہ ثابت ہوئے.اور جن کے نتیجے میں طلاقیں دے دی گئیں.ایسی مظلوم عورتیں بے شمار ان ساٹھ فیصد میں بھی ہوں گی.جو کسی وجہ سے عدالتوں تک پہنچ ہی نہیں سکیں.چنانچہ رپورٹ میں بھی ذکر ملتا ہے کہ کئی اور وجہ سے عورت میں عدالتوں میں نہیں جاتیں بلکہ ہم جب ان کے
۴۴ گھروں میں گئے.ان سے انٹرویو کیا.تو انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو چھوڑ دو.ہماری مظلومیت کی زندگی اب بدل نہیں سکتی.ہمارے حالات ایسے ہیں.ہمارے بچوں کے حالات ایسے ہیں اب جس طرح بھی ہے.اسی طرح چلتا رہے گا.چنانچہ ایسے ہی ایک سوشل ورکر نے گھروں میں جا کر سوالات کئے.اور ان کے واقعات لکھتے ہیں.ایک عورت کے متعلق بیان ہے.جو میں نے آپ کے منانے کے لئے چنا ہے.کہتی ہے.میرے خاوند نے ساری زندگی مجھے مارا.جب میں پہلے بچے سے حاملہ ہوئی تو میرا خاوند باہر جانے لگ گیا.دوسروں کے ساتھ.پھر جب وہ شراب خانے سے واپس آنا تو مجھے مارنا شروع کر دیا.کہتی ہے.کہ روزمرہ کا یہ دستور تھا.لیکن ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر میرا سر دیوانہ پر مارنا شروع کیا.یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گئی.پھر مجھے گھسیٹ کے پانی کی ٹوٹی کے نیچے لے گیا.اور ٹھنڈا پانی میرے سر پر ڈالا.اور جب مجھے ہوش آئی.تو پھر اسی طرح مجھے کندھوں سے پکڑا اور دیوار کے ساتھ مارنا شروع کیا.یہاں تک کہ میں پھر بے ہوش ہوگئی.جب اس سے پوچھا گیا کہ ان حالات میں اپنے خاوند کو چھوڑتی کیوں نہیں.تو کہنے لگی کہ آخر وہ اپنے بچوں کو لے کر کہاں جائے.اس سے کہا گیا کہ وہ حکومت کی سوشل سروسز کی طرف رجوع کرے.کہنے لگی کہ اس نے کوشش کی ہے مگر ہر دفعہ اس کو ثال دیتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ واپس گھر چلی جاؤ.چنانچہ اس سوشل ورکرز نے جب لندن کی تمام د سوشل سروسز سے اس عورت کی داستان بیان کر کے ان سے مدد چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر وہ گھر سے نکلی تو وہ ؟ VOLUNTARY HOMELF والتٹری ہوم میں قراند دی جائے گی اور تجر والنفری سوم میں ہو اسے C_JNTARY HOMELESS: جھٹلادیتی ہے چودہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کے متعلق جو تعلیم دی تھی.آج کے یورپ کو بھی اس تعلیم کے پاؤں چھونے تک کی توفیق نہیں ملی.اور میں جب یہ دعوی کرتا ہوں تو اہل یورپ کی زبان میں ان حقائق کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن کو بھلا نے کا آج کسی کو حق نہیں.سب سے پہلے تو میں NORTHUMBERLAND AND TIME SIDE COUNCIL OF SOCIAL SERVICES نارتھ امیر لینڈ انیڈ ٹائم سائیڈ کونسل
آف سوشل سروسز کی ایک رپورٹ کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں ، جو لکھتے ہیں کہ انگلستان میں ۱۹۱۵ ء میں ایک قانون نیا اور وہ قانون ایک مجسٹریٹ کے فیصلے کی شکل میں ظاہر ہوا.جس نے یہ فیصلہ دیا.کہ خاوند اپنی لڑنے والی بیوی کو مار سکتا ہے.جہاں تک اس بات ** کا تعلق ہے.یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم نے پیش کی تھی.اور جس پر یورپ نے اتنا دا دیلا مچایا.لیکن قرآن کریم نے بعض شرطیں ساتھ رکھ کر اس تعلیم کی تلخی کو غائب کر دیا تھا.مگر انہوں نے جو شرہ کہ کسی انگلستان میں شاہ میں کہ مار تو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جس چھڑی سے مارے وہ مرد کے انگوٹھے کی موٹائی سے زیادہ نہ ہو.کتنی دفعہ مارے کہاں کہاں مارے کہاں نہ مارے کیا گیا احتیاطیں کریں.کوئی اور ذکر نہیں.اور آپ جانتے ہیں کہ یہاں کے جو زمیندار ہیں.ان کے انگوٹھے ہماری دو دو تین تین انگلیوں کے برابر ہوتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ بعض رفع دیکھیں تو ہماری انگوٹھیاں جو الیس اللہ کی ہمیں آرام سے آجاتی ہیں.درمیانی بڑی انگلی ہیں.وہ جب تحفہ ان کو بعض دفعہ دینا پڑتا ہے.تو ان کی چھن گلی میں بھی پوری نہیں آتی.تو اتنی موٹی سوئی آرام سے بن جائے گی.اس سے جتنا چاہو مارو.یہ اس صدی کا سف191 کا قانون ہے.جو یہاں رائج ہوا تھا.اور یہ قانون پھر اسی طرح جاری رہا.یہ تبدیل نہیں ہوا.اہ میں ابھی کل کی بات ہے.پہلی دفعہ عورتوں نے DOMESTIC V OLENCE ڈومیٹک وائیلنس کے خلاف جدوجہد کا آغانہ کیا اور ایک ایسوی ایشن بنائی.اور انگلستان کو تہذیب سکھانے کی کوشش کی شہ میں پہلی دفعہ ان کوششوں کا آغانہ ہوتا ہے.اور ہ تک ان کوششوں کے کیا نتائج ظاہر ہوئے تھے ان کے متعلق میں آپ کو MARITAL VIOLENCE THE COMMUNITY RESPONSE ورد کی تھی ہوئی اس کتاب سے ایک حوالہ پڑھ کر سناتا ہوں.وہ لکھتے ہیں.، 19 کے ایک سروے SURVEY میں بنایا کہ برطانیہ میں ہر سال سنائیں ہزار سیس SERIOUS کیسر ہوتے ہیں جن میں مرد اپنی بیویوں کو مار کر زخمی کر دیتے ہیں سیاہ کی عورتوں کی اصلاح معاشرہ کی کوششوں کے نتیجے میں سروے SURVEY سے معلوم ہوا کہ یہ
تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے.بلکہ دو لاکھ کے لگ بھگ ہے.علاوہ ازیں کہتے ہیں کہ اس تعداد کو بھی آخری شمار نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ کہتے ہیں.ہما را تا ثر یہ ہے کہ اکثر عور ہیں مارکھاتی ہیں.اور خاموش رہتی ہیں.کیونکہ وہ شرم محسوس کرتی ہیں کہ تحقیق کرنے والوں کو تبائیں کہ ہمارا خاوند ہمارے اوپر ہاتھ اٹھاتا رہا ہے.PARLIAMENTARY SELECT COMMITTEE ON VIOLENCE IN MARRIAGE ریار سیمنٹری سیلیکٹ کمیٹی اون وانیلنس ان میرج ) نے کہا ہے کہ اس وجہ سے اس قسم کی صحیح تعداد کا اندازہ کرتا ہے مد شکل ہے.چنانچہ ایک اور رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عمر میں صرف برسٹل BRISTOL کے علاقہ میں پانچ چھ ہزار کے قریب کمیسز پولیس کی رپورٹ کے مطابق درج ہوئے جن میں عورتوں نے شکایت کی تھی کہ مردوں نے ہمیں ظالمانہ طور پر بیٹا ہے.اس کے لئے کوئی امداد نہیں کی گئی اس بیچاری کو کیا کرنا چاہیئے.اگر وہ عدالت میں جائے اسی گھر میں رہتے ہوئے اپنے خاوند کے خلاف آواز اٹھائے یا سوشل سروس میں جائے.تو جو اتنا ظالم ہے وہ اور کتنا بد اس سے سلوک ا کرے گا.اور کیا کیا برا سلوک نہ کرے گا.کہنا چاہیے.اور اگر وہ خود نکل جائے.تو وہ امداد کی مستحق نہیں رہتی کیو نکہ قانون یہ کہتا ہے کہ تم خود بخود نکل آئی ہو.امریکہ میں جو سروے شائع ہوئے ہیں.وہ بھی اس حال سے کوئی بہتر نہیں نہیں اہم فیصد عورتوں کو شادی کے پہلے چھ مہینوں میں مارا گیا ہے.سارے امریکہ کی ساری شادیوں کی بات ہو رہی ہے.اہم فیصد عورتوں کو شادی کے پہلے چھے مہینوں میں مارا گیا.۱۸ فیصد عورتوں کو ایک سال کے بعد ماہ پر ٹی شروع ہوئی.۲۵ فیصد عورتوں کو دو سال کے بعد مار پڑنی شروع ہوتی.اور یہ جو امریکہ اٹھ اٹھ کے اسلام پر اعتراض کرتا ہے.اور فلمیں دکھاتا ہے.النعوذ باللہ ) اسلام کے مظالم کی.اپنا اب یہ حال ہے کہتے ہیں.چنا کچھ پہلے تین سال کے STATISTICS بتاتے ہیں.کہ ام ۸ فیصد عورت میں ایک سال سے دو تین سال کے اندر اندر مارکھانی شروع کردیتی ہیں.د بحوالہ : DOBASH + DOBASH 94-1979 اب جس کے مذہب کے اوپر زبان طعن دراز کی جار ہی ہے.یعنی حضرت اقدس
۴۷ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ سلم ان کا اپنا نمونہ دیکھئے جن پر یہ تعلیم نازل ہوئی تھی.اس تعلیم کو انہوں نے کس طرح سمجھا.اور کس طرح اس پر عمل کیا.اور کس طرح اپنے غلاموں میں اس تعلیم کو رائج فرمایا.وہ اسلام ہے.اس اسلام میر انگلی اٹھا کر دیکھیں.عورتیں آبگینے ہیں.احتیاط رکھیئے آن صلى الله علی سام کا عورتوں سے حسن سلوک خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جور توں کی تکلیف اس ملکہ نہیں ٹباشت کرسکتے تھے کہ ایک دفعہ ایک اونٹ کو تیز دوڑتے ہوئے دیکھا.تو آپ نے فرمایا.آئینے میں آنگینے ہیں.اس تیزی سے تم اونٹ کو دوزا ر ہے ہو.اس میں عورتیں سوار نہیں چوٹ لگ جائے گی.جس طرح آپ نے گال اس کے پیکیٹ پر لکھا دیکھا ہوگا GLASS WITH CARE GLASS WITH CARE یہ محاورہ چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کے لئے یہ ایجاد کیا.فرمایا تھا.کہ GLASS WITH CARE - توجیں کا اپنا جان یہ ہو.عورت کی طرف.اس کی طرف ظلم کی تعلیم منسوب کرنا سب سے بڑا ظلم ہے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت صفیہ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے.اونٹ نے ٹھو کر کھائی.اور وہ گر گیا.سارے عشاق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی طرف دوڑے.تو آپؐ نے فرمایا المراة المرأة.میرا خیال چھوڑد و عورت کی خبر لو عورت کی خبر لو ' LADIES FIRST کا یہ محاورہ آج کل بنا کر پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو کیسی معزز کسی اچھی تعلیم ہے.جو چودہ سو سال قبل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واله وسلم محمدمصطفی نے باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ محبوب تھے.بے اختیارہ وہ عشق میں آپ کی طرف دوڑے تھے کوئی مرد عورت کا فرق نہیں کیا جار ہا تھا.اس کے باوجود اپنے مذہبی.بلند مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے.آپ نے یہی فرمایا.المراة المراة - عورت کا خیال کرد.عورت کا خیال کرو.کدھر کو دوڑے چلے آرہے ہو؟ امر واقعہ یہ ہے کہ بعض اوقات
خود امہات المومنین سے ایسی باتیں سرزد ہوتیں.جس کے متعلق قرآن کریم نے اس آیت میں ذکر فرمایا.يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلُ لا زَوَاجِكَ إِن كُنتُنَ تُرِرْنَ الْحَيدَةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا W قنعا لين امتحكُنَ وَأُسَحْكُنَّ سَرَاحَا جَمِيلًا.(سورۃ احزاب آیت (۲۹) طلاق تک نوبت آگئی.ایسے مطابے تھے.کہ جو نا جائز تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدا تعا نے نے یہ تعلیم ہی کہ ساری بیویوں کو بلاؤ.اور ان سے کہ دو کہ اگر تم نے مطابے کرتے چلے جانا ہے.تو پھر خشک ہے.گھر کا ماحول خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.آؤ میں تم کو اموال سے لاد کر رخصت کرتا ہوں لیکن پھر میرے ساتھ نہیں رہنا تم نے کیونکہ میری ایسی ذمہ داریاں ہیں.بین کو ادا کرنے کے لئے میں ایک خاص قسم کی زندگی اختیا.کرنے پر مجبور ہوں.لیکن عورت کو اس حق سے محروم نہیں کیا.کہ وہ اچھے ماں میں رہے.فرمایا ٹھیک ہے تمہیں اختیار ہے.اگر اچھا حال اختیار کرنا ہے.تو میں تمہیں دولت دیتا ہوں.نا راضگی کی کوئی بات نہیں.مجھ سے رخصت ہو جاؤ پھیر قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسی باتیں عنبی ہوئیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے اک راز کی بات اپنی کسی نہ وجہ محترمہ کو تیائی.اور انہوں نے اس رانہ کو دوسروں پر ظاہر کر دیا.بما حفل اللہ کے خلاف بات ہے بظاہر اور پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امانت اس سے زیادہ مقدس امانت اور کیا ہوسکتی ہے.اس کے نتیجے میں بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی سخت کلامی نہیں کی.مار نا تو درکنار.چنانچہ آپ نے انہیں صرف اتنا بتایا کہ تم نے یہ دانہ ظاہر کر دیا ہے.و حلما ناهَا بِهِ قَالَتْ مَن أنهَاكَ هذَا قَالَ بباقى العليم الخبير (سورة تحرير آیت ۴) جب آپ نے اپنی زوجہ محترمہ کو بتایا کہ جو میں نے راز بتایا تھا.تم نے ظاہر کر دیا.اس - کے سوا کچھ نہیں کہا.انہوں نے جو ایا یہ کہا.آپ کو کس نے بنا دیا ہے.ان کو یہ خیال آیا شاید کر عورتوں کو اگر کہا جائے کہ یہ بات نہیں بتائی تو وہ ضرور بتاتی ہیں.یا شاید اسی خیال کی وجہ سے انہوں نے پوچھا ہوگا کہ ضرور اس نے بتادی ہے.لیکن کسی نے نہیں بینائی متحد اللہ تعالے
۴۹ ے بانی متحد فمایا مجھےتو العليم الخيب بر خدا نے بتا دیا ہے.اس سے کوئی راز پوشید نہیں اور اس کا حق ہے جس کو جس کے چاہے راز بتا تا ر ہے پھر فرمایا.ان تُتَوَبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظْهَوا عَلَيْهِ فَإِنَّ الله هو موله وجبريلُ وَصَالِحُ المُؤْمِنِينَ رسوره تحریم آیت نمبر ۵) کہ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تمر دونوں عورتیں ایک نے دوسری کو بتایا تھا.تم دونوں تو بہ کرو.تو حق ہے.کیونکہ تمہارے دل غلطی کی طرف مائل ہو چکے ہیں.تم سے ایک جرم سرزہ ر ہو چکا ہے.اس لئے تو بہ کرو.تو اس کی حقدار ہو.اول تمہیں تو یہ کرنی چاہیئے لیکن اگر نہیں کرتیں.وَإِن تَظهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللهَ هُوَ مَولا له وجيويلُ وَصَالح TAKEN_TNWTOULANGUAGE والمليكة بعد ذلك ظهير رسوره تحریم آیت نمبر ۵) اگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ سلام کے خلاف تم نے بغاوت ہی کا فیصلہ کر لیا ہے.تو یاد رکھو کہ اللہ ا ور جبریل اور صالح مومنین سب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں اور خدا کے فرشتے بھی اس کے پس پشت کھڑے ہیں.على رتبة إِن طَلقَنَ أَنْ يُبْدِلَهُ اذْوَا جَاخَيرًا مِّنكُن رسوره تحریم آیت نمبر 4) اگر تمہیں طلاق بھی دینی پڑے تو خدا تم سے بہتر ہیولوں کا اس کے لئے انتظام کر سکتا ہے وہ تمہارا محتاج نہیں ہے.اسی محتاجی کے نہ ہونے کے با وجود یہ نصیحت کا طریق ہے.اور اس آیت کی تفصیل پیش کی جارہی ہے کہ اگر تمہارے خلاف عورت میں نشوز کریں.تو تم انہیں نصیحت کرو.اور اس نصیحت کے بعد اگلے کسی اقدام کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو جس ذلت کے مقام سے اٹھا کر ایک نہایت ہی عالیشان اور ارفع مقام تک پہنچا دیا تھا.اس کے نتیجے میں عرب معاشرہ میں بنیادی
تبدیلیاں پیدا ہوگئیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو خدا تعالے نے پاکر تعلیم دی.اور آپ نے اس کے مطابق نمونہ دکھایا.اس کے نتیجے میں جو نئی سوسائٹی وجود میں آئی ہے.اور عورتوں نے مردوں کے برابر اپنے آپ کو سمجھا.اور اپنے حق کو برابری کے ساتھ وصول کیا ہے.اس سے پہلے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی.یہ بات کہ کوئی عورت اپنے باپ کے مقابل پر کھڑی ہو کہ اپنا حق مانگ رہی ہو.یا کسی غیر سے اپنا حق مانگ رہی ہو.وہ بے چاری مظلوم چیز تھی.ورثر میں بانٹی جایا کرتی تھی.چنانچہ اسی واقعہ کے متعلق قرآن کریم کی پہلی آیت جو میں نے پڑھ کر سنائی تھی جس میں ذکر تھا کہ اگر تم مطالبے کہ تیرہوگی.توپھر میں تمہیں بہت مال دولت دے کر پوری طرح راضی کر کے رخصت کر دیتا ہوں.جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ عرصے کے لئے ان کو سمجھانے کی خاطر علیحدگی بھی اختیار کر لی اس وقت ان ازواج مطہرات کے والدین حین کو یہ معلوم ہوا.ان کو سمجھانے کے لئے اپنی اپنی بیٹیوں کے پاس پہنچے.حضرت ایوبکر اور حضرت عمرہ کا ذکر ملتا ہے کہ خاص طور پر انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت حفظہ کو سمجھانے کی کوشش کی اپنی طرف سے پھر وہ حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے.تو انہوں نے جواب دیا.کہ آپ حضرات کا یہاں کام کیا ہے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہیں.اگر آپ سمیں منع کرنا چاہیں.تو جس چیز سے چاہیں آپ منع کر سکتے ہیں.اگر ہم رسول اللہ سے مطالبہ مذ کریں تو کس سے کریں، ابھی تک یہ حال تھا.کیا آپ حضرات اپنی بیویوں کے معاملات میں کسی دوسرے کا دخل پسند کرتے ہیں.اگر نہیں تو یہاں سے تشریف لے جائیں.آپ کا کوئی کام نہیں.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی بیویوں کے در میان دخل اندازی ہے.یہ بات کسی عرب کے تصور میں بھی نہیں آسکتی تھی.اسلام سے پہلے کہ اس خرج عورت کھڑی ہو کر مرد کو مخاطب ہوسکتی ہے.ایک دفعہ حضرت عمرہ کی اپنی بیوی سے ایک معاملہ میں اختلاف رائے ہو گیا.ان کی بیگم حضرت عاتکہ نماز کی بہت شائق تھیں.اور نمانہ با جماعت کی تو ان کو عادت پڑ چکی تھی.وہ رہ ہی نہیں سکتی تھیں نماز با جماعت کے بغیر.اور پانچ وقت عورت ایک گھر سے نکلے جب اس پر یہ فرض بھی نہ ہو.اور پانچ وقت مسجد میں پہنچے.تو پیچھے گھر کی ضروریات کا کیاحال ہوتا ہوگا.
اس کا آپ تصور کر سکتے ہیں.اه چنا پنچہ حضرت عمریضہ نے کچھ عرصہ کے بعد ان کو کہا.کہ بی بی بس کرد.کافی ہو گئیں نمازہ ہیں.گھر میں اجازت ہے.تو کیوں مسجد جاتی ہو.اور کہا ندا کی قسم تم جانتی ہو کہ تمہارا یہ فعل مجھے پسند نہیں.انہوں نے کہا واللہ جب تک آپ مجھے مسجد جانے سے کیا نہیں روکیں گے.یہیں نہیں رکوں گی.اور حضرت عمریض کو جہات نہیں ہوئی کہ بیوی کو محکما مسجد جانے سے روک دیں.چنانکہ آخر وقت تک انہوں نے یک سلا نہیں چھوٹا.اور باقاعدہ مسجد جا کر نماز پڑھتی رہیں.صحابہ یہ بیان کرتے ہیں کہ بخاری شریف میں یہ ہدایت ہے.کتاب النکاح باب الوصاة بالنساء کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حال یہ ہو گیا تھا ہمارا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرنے سے ڈرنے گئے تھے.کو کہیں یہ شکایت کر دیں.اور ہمارے خلاف آیت نازل نہ ہو جائے.یہ عام نہ اس عورت کا جسے خانمانہ طور پر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا یہیں سے غلاموں اور لونڈیوں سے بدتر سلوک کیا جاتا مقاسب سے زیادہ مظلوم حالت عرب کی عورت کی تھی اور اس دور میں کہاں سے اٹھایا ہے اور کس شان تک پہنچا دیا ہے.تمام زندگی میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت کے اور یہ ہاتھ نہیں اٹھایا.اس لئے اس بات سے ایک اور بھی نکتہ نکلتا ہے.کہ وہ تعلیم جو آپ پر نازل ہوئی واخر بوھن.وہ آپ کے دل کی تعلیم نہیں تھی.وہ خدائے واحد و یگانہ کا پیغام تھا کہ میں کے قلب کی یہ حالت ہو.کہ ساری عمر اپنے غلاموں سے اپنے ماتحتوں سے اپنے دشمنوں سے یہ سلوک رہا ہو.کہ جو زیادتیاں بھی کر رہے ہوں.نافرمانیاں کھبی کر رہے ہوں.مشر سے سخت کلام بھی ان کے متعلق نہ نکلا ہو.وہ یہ تعلیم سوچ ہی نہیں سکتا کہ واضْرِبُوهُن کہ ان کو مارو.اس نئے جو خدا انسانی فطرت سے واقف ہے.جو جاتا ہے کہ بعض دفعہ گھروں میں عور میں ایسے طریق اختیار کر لیتی ہیں کہ اگر ان کو یہ خوف نہ رہے کہ ایک مقام پر جا کہ ان کو سزا ملے گی.تو وہ حد سے زیادہ بڑھنا شروع ہو جائیں.اس خدا کے سوا یہ تعلیم نازل نہیں کر سکتاتھا کوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزاج کے خلاف بات تھی.
۵۲ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے ملفوظات جلد چہارم صفحہ کہ ہم پہ یہ عبارت درج ہے.جو میں آپ کے سامنے پڑھ کر سنانے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود( آپ پر سلامتی ہو ) فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیک سلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھیو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے.جو عورت کے مقابلہ مں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی پاک زندگی کا مطالعہ کر دو تا تمہیں علوم ہو.کہ آپ ایسے خلیق تھے.باوجود کہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کر تی تھی تو آپ اُس وقت تک کھڑے رہتے تھے.جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.یہ ہے اسلامی تعلیم جو اس رسول نے کبھی جس پر وہ آیت اتر ہی ملتی جس کو اعتراض کا نشانہ بنایا گیا ہے.اور یہ ہے اُس کی زندگی بھر کا نمونہ.اور کسی مسلمان کو حق نہیں ہے اور تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا کوئی ایسا مطلب نکالیں جو آنحضر صلی اللہ علیہ سلم کے اسوہ حسنہ کی مخالفت کرنے والا مطلب ہو اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کامل نمونہ قرآن کریم کی کامل تفسیر ہے.اس کے متعلق فیصلہ ہوگا.کہ کوئی تعلیم کیا ہے اور اس کا مقصود کیا ہے.حضرت مسیح موعودا آپ پر سلامتی ہوا نے اس زمانہ میں اس تعلیم کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے آئینہ میں دیکھا اور اسی آئینے میں اس کو سمجھا.مظلوم کی دُعا کے بغیر مغفرت نہیں ہو سکتی فتادی احمدیہ جلد دوم صفحه ۳۸ پر حضرت اقدس مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہوا کی ایک تحریر درج ہے.آپ نے فرمایا.ئیں جب کبھی اتفاقا ایک ذرہ درشتی اپنی ہوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے ایک عورت ک صد ہا کوس سے لاکر میرے حوالے کیا.شاید معصیت ہو گی.کہ مجھ سے ایسا ہوا تب میں ان سے کہتا ہوں.کہ تم اپنی نمازہ میں میرے لئے دعا کرو.اگر یہ عمل مرضی حق تعالے ہے
۵۳ تو وہ مجھے معاف کرے.اور میں بہت ڈرتا ہوں.کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں ، حضرت اندش مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے نمونہ کی ساری زندگی کی باتیں ہمارے گھروں میں آج تک زندہ چلی آرہی ہیں.کوئی دیر کی بات نہیں.ایسا پاک نمونہ تھا.حضرت امان جان اللہ آپ سے راضی ہوا کے ساتھ.ایسا پاک سلوک تھا.ایسا محبت اور نرمی اور شفقت کا سلوک تھا کہ آج دُنیا میں سب سے بڑا دعویدار بھی جو یہ کہنا چاہتا ہو کہ ہمیں اپنی بیوی سے حسن سلوک کرتا ہوں.اس نمونے کا پاسنگ بھی نہیں دکھا سکتا.اس کے باوجود یہ حال ہے.اور اس بات میں بڑی حکمت ہے کہ یہ نہیں کہا کہ ہمیں ڈھا کرتا ہوں.فرمایا.کہیں اس بیوی سے درخواست کرتا ہوں.جس کو میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے کوئی رکھ پہنچ گیا ہے.کہ تم میرے لئے دعا کرو.ورنہ ہر خاوند اُٹھ کر یہ کہنا شروع کر دے گا.کہ ہم نے مار لیا پھر دعا کرلی.ہم نے مارا پھر دعا کرلی.یہ بہت ہی باریک اور لطیف نکتہ ہے.(مغفرت کے لئے اس کی بخشش مروری ہے بس یہ اتفاقی منہ سے نکلا ہوا کلام نہیں ہے.بلکہ عارف باللہ کا کلام ہے.اس میں لئے بہت ہی بڑے منوں کے مانہ ہیں.جب بھی آپ کسی کے خلاف زیادتی کرتے ہیں.گروہ انسان ہے.تو انسان سے معافی لینا ضروری ہو جاتا ہے.ورنہ تو یہ انظلم ہو جائے دنیا میں.کہ ظلم انسانوں پر کرتے ہیں اور معافی خدا سے مانگتے نہ ہیں.خدا سے بھی معافی مانگنی ہوگی.کیونکہ اس کی تعلیم کے خلاف ظلم کیا لیکن جس کے خلاف نر یا ہتی ہوئی ہے.جب تک اس سے معافی نہ مانگی جائے.اس وقت تک حقیقت میں معافی کا انسان حقدار نہیں ہو پاتا.
۵۴ جبرا وارث بننے کا مفہوم اور اس کی ممانعت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُوَانَ تَرِثُوا النِّسَاء كَرِهَا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ اِذْهَبُو بِبَعْضِ ما أتيتموهن إلا أن تأمين بِفَاحِشَةٍ بَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ فَإِن كَ هُتُمُوهُنَّ فَعَسى أن تكرهوا شيئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كثيرًا.رسورة اد آیت نمبر ۲ ترجمہ ہر اسے ایماندار و تمہارے نے یہ بائر نہیں کہ تم زیر دستی عورتوں کے دارت بن جاؤ.اور تم انہیں اس غرض سے تنگ نہ کہ دو کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا ہے.اس میں سے کچھ چھین کر لے جاؤ.ہاں اگر وہ کسی کھلی کھلی بدی کی مرتکب ہوں تو اس کا حکم اوپر گزر چکا ہے اور ان سے اچھا سلوک کرد.اگر تم انہیں ناپسند کرو.تو یاد رکھو کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرد.اور اللہ اس میں بہت سا بہتری کا سامان پیدا کر دے.لا يحل لله إن تولو النساء فى تفسیر حدیث بخاری شریف میں یوں بیان کی گئی ہے باب ۶٣٥ - قوله لا عمل لكم أن ترثوا النِّسَاء كَرها الاية و يَذكَرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ لا تَعْضُلُوهُ لا تَجَرُوهُنَّ حُوبًا اثما تَعُولُوا تَمِلُو نِحْلَةُ النَّحْلَةُ المَهم.تمہیں حلال نہیں کہ عورتوں کے زبر دستی وارث بن جاؤ (آیت (۲۰) ابنِ عباس سے منقول ہے کہ لا تعض دُودھن سے مراد ہے کہ ان کے ساتھ زبردستی نہ کر دمحوباً گناہ تخولو تم ایک جانب جھک جاد يخلة سے مراد ہے مہر النحلة ١٩٩٣ حد احمد بن مقاتلي حدثنا أسباط بن محمد حدثنا الستَيْبَا فِى عَنْ عِكْرَمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ الشَّيْبَانِي وَذَكَرَهُ أَبُو الْحَسنِ التَوالي ولا احلتُه وكَرَهُ الأَنِ ابنِ عبا من يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُو لَا عَمِيل تكوان
۵۵ قرير الي و كرها وَلا تَعْضُلُوهُنَّ تَذْهَبُوا بِبَعْضٍ مَا اتية مُرُهُ قَالَ كَانُوا إِذَا مَاعَ الرجُلُ كَان أولياره احق بالمراتِه إِن شَاء بَعْضُهُم احن بها من أهلِهَا فَتَزَلَتْ هَذِهِ الأَتِه فِي ذلِكَ.حکمہ اور ابوالحسن ہوائی دونوں حضرات نے الگ الگ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ہے کہ آیت در اے ایمان والو تمہیں حلال نہیں کہ عورتوں کے نہ یہ دستی وارث ! بن جاؤ اور عورتوں کو نہ رو کو اس مرض سے کہ جو مہران کو دیا تھا اس میں سے کچھ لے اور آیت 14) کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے ہیں جب آدمی مرجاتا تو اس کی بیوی کے زیادہ حقدار اس کے وارث بھی شمار کئے جاتے تھے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اسے اپنی زوجیت میں سے لیتا اور اگر وہ چاہتے تو اسے کسی دوسرے کے نکاح میں دیتے اور اگر وہ چاہتے تو کسی سے اس کا نکاح نہ ہونے دیتے ہیں اس کے والد نوں سے زیادہ اس کے حقدار شمار کئے جاتے تھے.پس مذکورہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے.رصحیح بخاری شریف - کتاب النکاح) حضرت مسیع مواد در آپ پر سلامتی ہوا فرماتے ہیں : یعنی تمہارے لئے جائز نہ ہوگا کہ خیبر عورتوں کے وارث بن جاؤ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۲۵) توجه و تغییر ان انگریزی تفسیر کبیر مختلف طریق سے مرد نہ بر درستی عورتوں کے وارث بن جاتے ہیں.ا ایک مرد اپنی بیوی کو پسند نہیں کرتا.اس سے اچھا سلوک نہیں کرتا.لیکن پھر بھی اس کو طلاق نہیں دیتا.اس امید پر کہ بیوی کی موت کے بعد اس کی جائیداد کا وارث ہو کر وہ اس پر قابض ہو جائے گا.وہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک نہیں کرتا.اور اپنی بے رحمی سے اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کو اپنی پوری جائیداد کا کچھ حصہ دے کہ.یا پھر اپنا مہر معاف کر کے اس سے خلع لے لے.ایک بیوہ کے متوفی خاوند کے رشتہ دار اس کو نکاح ثانی سے روکتے ہیں تاکہ اس
۵۶ کی موت کے بعد وہ اس بیوہ کی جائیداد پر قبضہ کر کے وارث بن جائیں.یا پھر بیوہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ متوفی خاوند کے رشتہ داروں میں سے ہی کسی کے ساتھ نکاح کرے.گویا در متوفی کی ہیں نہیں بلکہ اس کے ترکہ کا حصہ ہے.خاوند بیوی کی جائیداد پر توبہ دستی قابض ہو جاتا ہے.گویا وہ اس کا قانونی حق ہے.مستوفی خاوند کے رشتہ دار اس کی بیوہ کی جائیداد پر زبر دستی قبضہ کر لیتے ہیں اور اس طرح اس کو وراثت کے حق سے محروم کر دیتے ہیں.متوفی خاوند کے رشتہ داروں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی بہو کو نکاح ثانی سے.دیگر اس نیت سے کہ ان کی جائیداد پر ورقیقہ کر سکی لیکن وہ اس صورت میں اس کو روک سکے.ہیں.اگر وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نکات کرا یا ملتی ہو.ہر کھلی کھلی بڑائی کا مرتکب ہو.اگر اس آیت میں مخاطب مرد ہیں.تو پھر اس کا مصب یہ ہوگا کہ اگر زیر یاں اپنے خاوندوں ے ساتھ نہیں بنا چاہتیں.اور وہ میری چاہتی ہیں کہ ان کے ذریعے سے وہ حاصل رکتی ہے.تو خیر خاوندوں کو ان کے پیسے کی رائے کی وجہ سے انہیں خلع لینے سے روکا نہیں دیا سینے میں ان کو اس صورت میں روک سکتے ہیں اگر عورتیں کی کیسے کیسے نا وافعال کی تب ہوں.عورتوں کے ساتھ روکھا برتاؤ نہیں کرنا چاہیئے رو دَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ " اور ان سے اچھا سلوک کرو میں اسلامی تعلیم کا خاصہ عورتوں کے متعلق پیش کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے عورتوں کے ساتھ خشک اور روکھے پین کار دیر نہیں رکھنا چاہیئے.بلکہ محبت اور شفقت سے پیش آنا چاہئیے.رسول کریم , صلی اللہ علیہ سلم فرماتے ہیں.خَيرُكم خيرك و لا هله تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ بہتر ہے (ترندمی) لیکن چونکہ یک طرفہ معامل فی الحقیقت کا میاب نہیں ہوا کرتا اس لئے قرآن کریم میں آیا ہے.عاشر دُھن اُن کے ساتھ جو کہ رعایت باہمی کی طرف اشارہ کرتا ہے.بصورت اور مرد دونوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت تلطف اور خوش خلقی
۵۷ کے ساتھ پیش آئیں.اور ایک دوسرے کی محبت اور شفقت التزام اور رعایت باہمی سے د ترجمه انه انگریزی تفسیر سورة النساء آیت (۲۰) کام لیں.جس کو خدا نے جوڑا ہے.اسے گندے برتن کی رحمت توڑو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) وَشَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.یہیں کوشش کرد کہ اپنے معاہدہ میں دغابازہ نہ شہر.اللہ تعالے قرآن شریف میں فرماتا ہے.وال رُوهُ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور حدیث میں ہے.خیر کو خیرك ولا هل باهله اربعين) یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے.جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دُعا کرتے ہو.اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بکر تخدا کے نزدیک وہ شخص ہے.جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو گندے بزنین کی طرح جلد مست تو رو.ر ضمیمہ تحفہ گولڑویہ مت ۲ حاشیہ اور اربعین نمبر ۳ مرد حاشیه ص بیوی سے احسان اور مرد سے پیش آنا چاہیئے قرآن شریف میں پی سکہ ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی روح سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے.تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے.ایک طرف سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہر حال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ وَعَاشِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ.یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کر سکے کہ تم اپنی
۵۸ در بیوی سے مردت اور احسان سے پیش آتے ہو.(چشمہ معرفت صفحه صد ۲۷۵) مرد کا عور سے جنگ کرنا کمال بے شرمی ہے فتاء کے سوا باقی تمام کے خلقیاں عورتوں کی بر داشت کر نی چاہئیں.اور فرمایا، میں کمال بے شرمی معلوم ہی ہے کہ مرد اور نورت سے جنگ کریں.ہم کہ خدا نے مرد بنایا ہے اور یہ در حقیقت کر پر انعام نعمت ہے.اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور رزق کا بہر تا در گمرکی اور یہ تاکہ میرا یہ حال ہے کہ میں نے ایک دفعہ اپنی بیوی پر آوارہ کیا تھا.اور زین محسوس کر رہا تھا کہ و ر بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے.اور با ایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلم منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد کی بہت دیر تک استغفار کرتا رہا.اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیس پڑھیں.اور کچھ منعقد بھی دیا.کہ یہ درشتی نہ وجہ پر پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.ر الحکم جلد ام صد مورخه ۱۰ جنوری تا در صفحه ۱۲ (درام) شور انتاجابات شعارنہ ہوکر کی غلطی پشم پوشی نہ کر سکے ہمارے بادی کامل رسول صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ہے.خاد کو خیرم لاهای ترمیں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے.جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی سی بات پر زدو کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ ہاں بھرا ہوا انسان ہیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے.اور بیوی مرگئی ہے.اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالے نے یہ فرمایا ہے کہ
وه وَعَاشِرُدُ هُن بالمعروف ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو سنیہ سروری چیز ہے.انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کر وہ کوئی ایسا کام ہو دین کے خلاف اور بدعت ہو کبھی بھی پسند نہیں کرسکتا.اور ساتھ ہی وہ ایسا جابہ اور تم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر چشم پوشی نہیں کر سکتا.زالحکم جلد له صدرایام مورخ ۲۴ دسمبر تائه صد۲) شخص بزدل ہے.جوعور کے مقابل پرکھڑا ہوتا ہے عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غدھیاں کھاتی ہیں اور جاره مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں رکتا ہے وَعَاشِرُوهُن بس خروف مگر اب اس کے خلاف محل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں.ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل علی الرسن دبے تمہارا کر دیا ہے کہ ان کا کرنا اثر ہی ان پر نہیں ہوتا.ادرد، کھلے طور پر اسلام کے خلاف کہتی ہیں.اور ان سے کوئی نہیں پوچھتا.اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے علی الدین تو نہیں کیا مگراس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کیا ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکنہ اور کنیزوں اور بہائم سے بھی یہ تر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں خوا سے بے درد ہو کہ کہ کچھ پتہ نہیں کہ آگے کوئی جاندار مستی ہے کہ نہیں.معرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشیہ دیتے ہیں کہ ایک اُتاری اور دوسری پہن لی.یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائمہ کے خلاف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علی کم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرد تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے.باد جو کہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ
کو کھڑا کرتی.تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک وہ اجازت نہ دے...بعض وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑے بھی مانیں.ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے.اور دوسری مرتبہ خود نرم ہو گئے تاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آگے نکل جائیں.اور وہ آگے نکل گئیں.اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی انے کو تماشہ کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کو تماشہ دکھایا.اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ جیتی ان کو دیکھے کہ بھاگ گئے.الحكم جاء با نیر ۱۳ مورنه ۱۰ ابرین نه حت) جلد عورتوں سے قصاب کی طرح یہ ناؤ نہیں کرنا چاہیئے شریعت کے تم نے کہے تو وه اس اس وقت نازوں میں عورتوں کی اسلات اور القولی کے سے رہا کرون پاتے.قصاب کی اجرت به تاؤ کرے کیونکہ جب تک خدا نے چاہے کچھ بہ نہیں ہوسکتا.مجھے پر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں.کہ عورتوں کو پھراتے ہیں.اصل میں بات یہ ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کا علاج پھرتا ہے.جب ان کی صیحت زیادہ پریشان ہوئی ہے تو یہ خیال کہ گناہ نہ ہو.کہا کرتا ہوں پو پھرا لاؤں اور بھی عورت نہیں ہمزہ ہوتی ہیں.ر البدر جلد ٢ عش مورخه ۳ مارچ ۱۹۰۳ (۵۷) عت سے ہی سلوک ذاتی انا کے نے نہیں حکم ابی کی اطاعت ہیں کریں خدا تعالے اس سے منع تو نہیں کرتا کہ انسان درنیا میں کام نہ کرے.مگر یہ بات ہے کہ دنیا کے لئے ذکرے بلکہ دین کے لئے کرے.تو وہ موجب پیرکستہ ہو جاتا ہے.شاگا خدا تعالے خود فرماتا ہے کہ بیویوں سے نیک سلوک کرو.کے اشرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ.لیکن اگر انسان محض اپنی ذاتی اور نفسانی اغراض کی بنا پر وہ سلوک کرتا ہے تو فضول ہے.اور وہی
سلوک اگر اس حکم الہی کے واسطے ہے تو موجب برکات ہے....مومن کی عرض ہر آسائش ہر قول و فعل حرکت و سکون سے گو بظا ہر نکتہ چینی ہی کا موقعہ ہو مگر در اصل عبادت ہوتی ہے.بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے.مگر خدا کے نزدیک عبادت ہوتی ہے لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو.تو نماز بھی لعنت کا طوق ہو جاتی ہے....اس طرح عاشور بالمعروف کی بجا آوری سے تو اب ہوتا ہے.ثواب ۸ ۹ عث مورخ ۱۰ مارچ شدند ر حکم جلد ه عهد مو انسان کے اخلاق کا پہلا امتحان اس کا بیوی سے سلوک ہے بیوی اسیر کی طرح ہے.اگر یہ عاشر دهن المعروف به عمل : اے.لود.الیسی قیدی ہے جس کی کوئی جبر سننے والا نہیں.الحاکم جلد ۸ عش مورخه دار ماست هست نہ (حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعد علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ).باعث تکلیف دی ہے کہ میں نے آپ کے بچے دوستوں کی زبانی جو در حقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں، ثنا ہے کہ امو بہ معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہیئے.کس قدر آپ شدت رکھتے ہیں.یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا.میں نے شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا.کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں.اور دوسرے چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسّام ازل نے دے یکھی ہے.اور ذرہ ذرہ کی باتوں میں تادیب کی نیت سے با غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ خدا تعالے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت علم اور برداشت کی تاکید کی ہے.اس لئے
میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے ریشیدا در رسعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.عاشرِ وهُن بالمعروف یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو.جس میں کوئی امر خلاف معروفہ کے ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو.بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُكُ خَيْرُكُهُ لاَھلِ یعنی تم میں سے بہتر انسان وہ ہے.جو بیوی سے نیکی سے پیش آئے اور حسن معاشرت کے سنے اس قدر تاکید کی ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.عزیز من انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالہ کر دیا.اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر ایک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہیے اور سر تک وقت ردل میں یہ خیال کرنا چاہیے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے.جس کو فی التخانے نے میرے سپرد کیا ہے.اور وہ دیکھ رہا ہے.کہ میں کیونکہ شرائط مہمان داری بجا لاتا ہوں اور نہیں ایک خدا کا بندہ ہوں.اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے.مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے.خونخواہ انسان نہیں بننا چاہیے.بیویوں پر رحم کرنا چاہیے.اور ان کو دین سکھانا چاہیے.در حقیقت میرا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کا امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.ہمیں جب کبھی اتفاقا ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد با کوس سے میرے حوالہ کیا ہے.شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب کہیں ان کو کہتا ہوں کہ تم نماز میں میرے لئے دعا کرو.کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالے ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ٹورتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سو میں اُمید سر کھتا ہوں کہ آپ کبھی ایسا ہی کریں گے سید مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلام کس قدر اپنی بیویوں سے علم کہتے تھے.زیادہ د الحكم جلده ۱۶ مورخه ما در اپریل ۱۹۰۵ء ملام کیا لکھوں.اپنی بیویوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کونظرانداز کریں عورت اس چیز کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتی کہ قرآن کریم نے اس پر کتنا بڑا احسان کیا ہوا
ہے.اور وہ اس کی کتنی مرہون منت ہے.قرآن کریم سے پہلے جتنی بھی کتا بیں ناندل ہو میں کسی نے بھی اس کو یہ مقام نہیں دیا.جو قرآن کریم نے اس کو دیا ہے.قرآن کریم نے نہ صرف عورت کے غیر منفک حقوق قائم کئے ہیں جبکہ مردوں کو ترغیب دلائی کہ وہ اپنی بیویوں کی کمر دریوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کریں اور ان کے ساتھ شفقت اور خیر خواہی سے پیش آگریں.خواہ وہ زنا کرنا پسند ہیں ہوں.رسول کریم صلی اللہ عالی الہ کے انشالا کہ فقر میں سے بعد دو سے ترائیں ہوتی کے ساتھ بہتر مینی ہے.(تمندی) قرآن کریم کی عورت کے بارے میں قوالی میان او بتا یا کہ تعلیم ملی عکاسی کرتی ہے الرجم الت تنسیر کبیر گریری سوره استار آیت (۲۰) پھراس مضمون کو بیان کرتے نہرنے اللہ تعاے موم تا میفرہ آیت ۱۰ نا فرمانا ہے.دریا کا عسى ان تدره و اسيا وهو خير لكر وعَسَى أَن تَحِبُّو شَيْءٍ وَهُو شونه وَهُوَ خَيْرٌ تَكْرَ وہ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنتُهُ وَلَا تَعْلَمُونَ سر متوجہ نور اور بالکل ممکن ہے کہ تم کسی نے کو نا پسندکرتے ہو حالانکہ وہ تویہ درسے سے بہتر ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی شے کو پسند کرتے ہو.حالانکہ وہ تمہارے لئے دوسری چیز کی نسبت بری ہو.اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.غلطیوں منوانے کے نے العلالا مرا مستقیم کی دعاکرتے رہنا چاہیے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ( اشہ آپ سے راضی ہوا مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ در حقیقت انسانی علم اور سمجھ نہایت محدود ہے.اور ان دونوں کے محدود ہونے کی وجہ سے انسان بعض رفعہ ایک بات کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے.حالانکہ وہ اس کے لئے مضر ہوتی ہے.اور بعض دفعہ ایک بات کو اپنے لئے مضر خیال کرتا ہے.حالانکن دہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے.اور دونوں کے پیچھے یا توجد بر محدت کا نا جائزہ استعمال کام کر رہا ہوتا یا جذبہ نفرت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے.یعنی بعض دفعہ تو شدید محبت کی وجہ سے دہ کسی چیز کے مضرات کو نہیں دیکھ سکتا.اور بعض دفعہ شدید نفرت کی وجہ سے وہ دوسری چیز
کے مشن کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے.اور وہ یقینی طور پر کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ میرے لئے مفید ہے یا مضر.اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو.لیکن حقیقتاً وہ تمہارے لئے مفید ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم ایک چیز کو فی خیال کرتے ہو.حالانکہ وہ تمہارے لئے مضر ہوتی ہے.تم کبھی کسی چیز سے فوائد حاصل کرنے کے لئے سامان مہیا کرتے ہو لیکن پھر بھی نتیجہ خراب نکلتا ہے جس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ بعض ایسے سامان جن سے اچھا نتیجہ نکل سکتا تھا تمہاری نظر سے مخفی رہے ہیں جب کہ انسان کی ایسی حالت ہے کہ اس کی اُمید کے مطابق ہر وقت اچھے نتیجے نہیں نکلتے.بلکہ بعض اوقات برے نتائج نکل آتے ہیں.آخر وہ کیا کرے.سو اس کا علاج یہی ہے کہ وہ خدا تعالے کے حضور رگرے.اور عاجزی سے یہ دعا کرے کہ انھدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِي - اے خدارا مجھے کو ہر امرمیں خواہ وہ دینی ہو یا د نیادی صحیح اور سیدھا راستہ دیکھا.تائیں غلطیوں سے محفوظ رہوں اور اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نہ دیکھے.بلکہ محبت اور نفرت کے جذبات سے بالا ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے.اور اس سے دعائیں کرتا مہ ہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اپنی نیت اور ارادہ کو اللہ تعالے کے نشاء کے تابع کردے تب اس کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہو گی.اور چند در برکت کے دروازے اس کے لئے کھولے جائیں گے.آخر میں والله يعلم و انتم لا تعلمات کہہ کر بتایا کہ تم نہیں جانتے لیکن خدا تعالے تمام حالات کو جانتا ہے.تفسير كبيرسورة البقر بله دوم از حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح موجود آیت (۲۱۷)
۶۵ ارشادات نبوی عورت محبوب ہستی ہے.محبب إلى من دنياك مثلات البناءِ وَالطَّيبُ وَجُعِلَتْ قُرَةٌ عَيْنِي فِي الصَّلوةِ اے لوگو ! تمہاری دُنیا کی چیزوں میں سے تین چیزیں مجھے بہت زیادہ محبوب ہیں، ایک عورت اور دوسرے خوشبو، مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے.عورتوں سے تعلق وصیت بات الوَصَاة بالنا ۱ - حَدَّثَنَا إِسْحَنُ بن نَصْرِةِ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ الْجُعْمِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عن ميسرة عن الى حازم عن أبي هريرة عن النبي صلى الله علب لو سلم قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِى جَادَةَ وَاسْتَوصُوا بالنِّسَاءِ خَيْرًا فَاتَّهُنَّ خَلِقْنَ مِن ضِلع وَاِنَّ اَعْوَجَ شَى و فى الصلع اهْلَاهُ فَانِ ذَهَبْتَ تُقمَهُ كَسَوْنَهُ وَإِن تَزَلَتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوا بالنساء خيراً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ ہم نے فرمایا جوان تعالے اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو وہ پہلی سے پیدا ہوئی ہیں یعنی آکی طبیعت میں ٹیڑھا پن ہے اور س سے اوپر دال پسی سے زیادہ بڑھی ہوتی ہے اگر تم سے پیدا کرنے چلو کے توڑ ڈالو گے اور اسکے حال چھوٹے ہو گے تب بھی ہمیشہ میر ھی رہ گیا یں عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کرو.حَدَّثَنَا أَبُو نَعِيهِ حَدَ تَنَاسُعَن عَن عَبْدِ اللَّهِ بنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ
47 عمرة قال لن تثني الكلام والإنسَاءَ إِلَى نِسَاوَنَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ، وَسَلَّمَ هَيْسَةً أن يَنزَلَ فِينَا شَى ، فَلَمَّا لو فى اللي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم تَعَلَّمْنَا وانبسطنا - حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد میں ہم عورتوں کے ساتھ زیادہ گفتگو اور دل لگی کرنے سے پر ہیز کیا کرتے تھے.اس خوف سے کہ کہیں ہمارے سلوک کے بارے میں کوئی آیت نازل ہو جائے.جب نبی کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا تو ہم ان کے ساتھ گفتگو اور دل لگی کرنے لگ گئے.نیکی کرنے کی وصیت المرأة الصلع إن لقمتَهَا كَتَهَا وَ إِن استمتعت بها استمتعت بِهَا وَبِيْنهَا عِوَج.رتجارى باب المداراة مع النساء) عورتوں سے نیچی کرنے کی بیری وصیت قبول کرد عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور پانی میں کجی ہوتی ہے.اسے خادند! اگر تو اُ سے بالکل سیدھا کرنا چاہے گا تو تو اسے توڑ دے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو کچی کے با وجور تو اس سے بہت فائدہ اٹھا سکے گا پس عورتوں کے بارے میں میری و میرات مان خود کر ان سے نرمی کا برتاؤ رکھو.(بخاری ومسلم) کبھی کا مطلب پیدائش میں بھی ہوتی ہے یعنی اخلاق میں ناز کا پہلو ہوتا ہے ( مجمع البحار جلد اول زیر لفظ ضلع ) اتَّقُوا اللهَ فِي الضَّعِيفَيْنِ الْمَرَاةِ وَالْيَتِيم - (مسلم) دو کمزوروں یعنی عورت اور تمیم کے بار ے میں اللہ سے ڈرو.
باپ کا خاوند کے بارے میں بیٹی کو نصیحت کرنا باس مَوعِظَةِ الرّجُلِ ابْنَتَه لِحَالِ ذَوجِها - 4 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ أَخْبَرَنَا شَعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِي قَالَ أَخْبَرَ في عُبَيْدُ الله بن عَبدِ اللهِ بنِ الَی تَور عَنْ عَبْدِ اللهِ بن عَبَّاس قَالَ لَو أَن لُ حَريم عَلَى أَنَّ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ عَن الْمَرَاتَيْنِ مِنْ أَزْوَاحِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَينِ قَالَ اللهُ تَعَالَى إِن تَنوبا إلى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبَكُمَا حتى ح وَحَجَجْتُ مَعَهُ وَعَدَلَ وَعَدَ لتُ مَعَهُ بِادَا وَةٍ فَتَ وَنَتُه جَاءَ تسكبت على يديه منها فتوضا فقلت له يا امير الْمُؤْمِنِينَ مَنِ الْمَرْأَتَانِ منْ أَزْوَاجِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِن تَنوبا إلى الله فَقَدْ صَغَت قلوبكما قال واعجب الكَ يَا ابْنِ عَبَّاسِ هُمَا عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ تم استقبلَ عمرُ الْحَدِيثَ لَسَونَهُ قَالَ كُنتُ أَنَا وَ جَادَى مِن الأَنْصَارِ فِي بني امية ابن زيدو هُم مِّن عَوَالي المدينتو وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ اللرُولَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنزِلُ يَوْمًا وَ انْزِلُ يَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِمَا حدث من بوذالك اليوم من الوحي وغيره وإذا نزَلَ فَعَل مثل ذالك وكُنَّا مَعْشَرَ قَرَ لَتي تَخْبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا حَد مَنَا عَلَى الأَنْصَارِ افا قوة تَغْلُهُم نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَا خُذْنَ مِن أَدَبِ نِسَاءِ الأَنْصَارِ فَهَجْتُ عَلَى امَرَاتِي فَرَاجَعَتَنى فَانْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي قَالَتْ وَلِمَ تُنْكِرُ انْ الجِعَكَ فَوَاللَّهِ.إنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاجِعْنَهُ وَإِنَّ احْدَهُنَّ لَتَهُ جُرة روم اليَومَ حَتَّى اللَّيْلِ فَاقْرَعَنِى خَالِكَ وَقَلْتُ بِمَا حَدُ خَابَ مَن فَعَلَ ذَالِك من من تو جَمَعْتُ عَلَى ثِيَابِي فَنَزَلتُ فَدَخَلْتُ عَلى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَها اى حَفْصَةُ الْغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ النَّبِيِّ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ
قالَتْ نَعَمُ فَقُلْتُ قَدْ جِبْتِ وَخَسِرتِ أَفَتَأُ مِنِينَ أَنْ يَغْضِبَ اللَّهُ لِغَضَبٍ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِي لَا تَسْتَكْرِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَليهِدَ سَلَّمَ وَلَا تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْ ءٍ وَلَا تَهُجْرِيهِ وَسَلِينِي مَا بَدَ الكِ وَلَا يَعْتَكِ ان كَانَتْ جَادَ تُكِ أَو ضَأَ مِنْكَ وَاَحَبَّ إِلى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عائشة قَالَ عمرُ وَكُنَّا قد حد منا أن عشان تشعل الخيل يعدونا فول صاحبي الأنصار يومَ نَوبَتِهِ فَرَجَعَ اليَنَا عِشَاء وَضَرَبَ بَا فِي ضربًا شديدًا وَقَالَ أَشَمَّ هُوَ نَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ الَيْهِ فَقَالَ قَدْ حَدَثَ الْيَوْمَ أَمْ عَظِيم قلت ما هوا اجاء عشان قال لا بل أعظمُ مِن ذَالِكَ وَاحَولَ عَلَى النَّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَ وَ فَقُلْتُ خَابَتْ حَفْصَةً وَحَسَرَت قد كنتُ اظن هذا يوشك أن يكون فَجَمَعْتُ عَلَى الي فَصَلَّيْتُ صَلوةَ الْفَجْرِ مَعَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ اللَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسربة له فا عول فيها وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبكي فَقُلْتُ مَا يبكيك الو اكن حدرتك هذَا طَلَقَانَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم.ادری دو هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلُ فِي المَسُّوبَ فَخَرَجْتُ فَجَبتُ إلى الْمِنْبَرِ فَإِذَا حَولَة تعطيّبكى بَعْضُهُم فَخَلَسْتُ مَعَهُم قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِى مَا أَجِدُ يجبت الْمَشْرُبَةَ الَّتِي فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَغُلَام لَهُ اَسود اِسْتَأْذِنَ لِعَمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُو رَجَعَ فَقَالَ كَلَّمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْتُكَلَة فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حتى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِند المنبرية ملبي ما احد محنت تققُلْتُ لِلْغُلامِ اسْتَاذِنْ نِعْمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَه قصَمَتَ فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الوَهُو الذِينَ عِندَ الْمِنْبوتُةَ غَلَبَنِي ما أجِدُ فَجَتُ العَلَامَ فَقُلْتُ اسْتَاذِنَ لِعُمَر فَدَخَلَ ثُمَّدَ جَمَعَ إِلَى فقال قد ذكرتُكَ له فَصَمَتَ فَلَمَّا وَلَيْتُ مُنْصَرِ فَا قَالَ إِذَا الغُلَا مُيَدُ عوني ކމވ کرافت
49 فَقالَ قَدْ أَذِنَ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليهِ وَسَلَّمَ فَاذَا هُوَ مَع عَلى رِمَال حَصِيد ليس بينه و بين مر او مختو فراش قد انو الاِمَالُ بِجَنِيهِ مُتَكِنَا عَلَى وِسَادَةِ هَالِيتْ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَمَّ قَلْتُ وَاَنَا قَابُهُ يَا رَسُولَ اللهِ التَتَ لِسَاوك فرفع الى ما فقال لا فقلت الله الرنة قلت وأنا قاسم التالي یا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَنِي وَكُنَّا مَعْشَرَةُ رَشِ نَّغْلِبُ النِّسَاء فَلَمَّا قَد مَنَا المَدِينَة إذا قرم تَغْلِبُهُم نِسَاءهُم فتو اللبِيُّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَدَّ تُو قُلْتُ یا رَسُولَ اللهِ لَوَرايَنِي وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ مَا لَا يَقُدَ نَكِ أَن كانت حالتك أننَا مِنكَ وَاحَب إلى النبي صَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ يُونَ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ اللَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَسَّمَمَّا أُخْرَى فَجَلَسْتُ حِينَ رَايَتُهُ : تم دوخت بصرى فى بيته و الله ما رأيت في بَيْتِهِ شَيتُ يَرُدُّ الْبَصَرَ دَفَدُتُ بَيْتِهِ ثَوَ لاَ يَتْ غيراهبة ثَلَثَةِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أدْعُ اللَّهَ فَكُوسَ عَلَى أُمَّتِكَ فَان فارِسَا وَ الدُّومَ تَدُوسِعَ عَلَيْهُم وَأعطوا الدُّنْيَا وَهُوَ لا يَعْبُدُونَ اللهَ فَجَلَسَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم وَكَانَ مُتَلنَا فَقَالَ او في هذا انت يا ابن الوظات ان اوريكَ قَوْم عُلُوا طيباتهم في الحيرة الدنيا فقلت يا رسول الله اسْتَغْفِرَ فِي فَاعْتَزَلَ النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَارة من أجل ذالك الحدیث حين أفْشَتَهُ حَفْصَة إلى عائشه نِسْعَاةَ عِشْوانَ لَيْلَةً وَكَانَ قَالَ مَا أَنَا بِدَاخِلِ عَلَي من شهر امن شَدَّةٍ مَرْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَابَتَهُ الله فلما مَضَتْ تِسْع وَعِشْرُونَ لَيْلَةً دَخَلَ عَلَى عَائِشَة عبد أَبِهَا فَقَالَت که عائشة يَا رَسُولَ الله انك كُنتَ قدامت أن لا تدخل عينا شهرة إِنما أَصْبَحَت مِنْ تسْع وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعْدُ ما عَدَا فَقَالَ السَّهُ تسْع وَ عشرون فَكانَ ذالك الشهر شعاة عشوئي لَيْلَةً قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ أَنزَلَ الله تعالى اية التعبير فبدا في أول أسرار من نِسَائِهِ فَالحلاته تو خير
سارة كلهن فكأن مثل ما قالت عائشة (صحیح بخاری شریف) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ حضرت عمری سے نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں دریافت کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اِن تنوبا إلى الله فَقَد صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فرمایا ہے.ایک مرتبہ وہ حج کے لئے گئے اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا.راستے میں وہ قضائے حاجت کے لئے ایک طرف گئے تو میں پانی کا لوٹا لے کر ادھر چلا گیا.جب وہ فارغ ہو کر آئے تو میں نے ہاتھ ملائے پھر انہوں نے وضو کیا.میں عرض گزار ہوا اسے امیر المومنین ! نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ سلم کی وہ نے وضو دو بیویاں کون سی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان تنوبا إلى اللہ فرمایا ہے؟ فرمایا اسے کی ابن عباس ! تم پر تعجب ہے، وہ عائشہ اور حفصہ ہیں.پھر حضرت عمر نے مثل سابق حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اور میرا ایک انصار کی ہمسایا ہم دونوں مدینہ منورہ کے عوالی میں رہائش پذیر تھے.ہم دونوں بنی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی خبریں باری باری حاصل کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک روز وہ آتا اور ایک روز میں آیا کرتا اور واپسی پرانے ساتھی کر دی اور آپ کے ارشادات عالیہ کے متعلق بتا دیا جاتا.چنانچہ جب بھی آتے تو دونوں ایسا ہی کرتے ہمارے ہاں قریش کی جماعت عورتوں پر غالب رہتی تھی لیکن جب ہم یہاں آئے تو انصاری حضرات پر عورتوں کو غالب پایا.چنانچہ ہماری عورتیں بھی انصاری عورتوں کا اثر قبول کرنے لگیں میں نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے مجھے پلٹ کر جواب دیا مجھے اس کا جواب دینا ناگوار گزرا.اس نے کہا : آپ میرے جواب دینے کو نا پسند کیوں ٹھہراتے ہیں جب کہ خدا کی قسم، بنی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی ازواج مطہرات آپ کو پلٹ کر جواب دیتی ہیں اور ایک تو ان میں سے سارا دن شام یک آپ کو چھوڑے رکھتی ہے.کیلیں اس بات سے ڈور گیا اور میں نے کہا کہ ان میں سے ایسا کرنے والی تو خسارے ہیں ہے.پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور باشگاه عالی کی جانب روانہ ہو گیا چنانچہ حفصہ کے پاس پہنچا اور اس سے کہا نہ اے حفصہ ! کیا تم میں سے کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کو سارا دن شام تک ناراض رکھتی ہے ؟ اس نے جواب دیا ہر ہال میں میں نے کہا کہ تم نامراد ہوئیں اور خسارے میں ہو.کیا تمہیں اس بات کا خیال نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی ناراضگی میں
61 اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے ہیں تم بلاک ہو جاؤ گا بلبنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مانگا کرو.پلٹ کر جواب نہ دو اور آپ سے کنارہ کشی نہ کرنا.اپنی زائد ضرورت کے لئے مجھ سے مانگ لیا کرو اپنی پڑوسن کو دیکھ کر دھوکا نہ کھانا کیونکہ وہ تم سے خوبصورت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پیاری ہے.ان کی مراد حضرت عائشہ سے تھی.حضرت عمر نے فرمایا کہ ان دنوں ہم میں پھر چا تھا کہ خشان کا بادشاہ ہم سے لڑنے کے لئے گھوڑوں کے کھروں میں تعلیں لگوا رہا ہے.پس میرا انصاری کا سے ساتھی ایک روز اپنی باری پر عشاء کے وقت واپس لوٹا.اس نے بڑے زور سے میرا دروازہ پیٹیا اور کہا گیا وہ ہیں ؟ میں ڈر گیا اور باہر نکل کر اس کے پاس آیا.اس نے کہا کہ آج تو بہت بڑا حادثہ ہو گیا میں نے کیا ور کیا انسان کا بادشاہ آگیا ؟ اس نے کہا وہ بالکہ اس سے بھی بڑا ہو ناک واقعہ که نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دہی.پس میں نے کہا کہ خقصہ نامراد ہوئی اور خسارے میں رہی ، میرا خیال بھی یہی تھا کہ عنقریب ایسا ہو گا.میں نے اپنے کپڑے سنبھالے اور صبح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی.پس نبی کریم صلی اللہ علیک سلیم اپنے بالی منانے میں تشریف لے جا کر ایک گوشے میں جا کر جلوہ افروز ہو گئے اور میں حفصہ کے پاس پہنچا تروه رو رہی تھیں.میں نے کہا در روتی کیوں ہو ، کیا میں تمہیں ڈور انا نہ تھا، بتاؤ کیا تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیک سلیم نے طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن آپ کن مراکش ہو کہ بالا خانے میں جلوہ افروز ہیں.میں باہر نکلا اور منبر شریف کی جانب گیا جب کہ وہاں کتنے ہی افراد تھے اور بعض دو ر ہے تھے.میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھا لیکن ماہی ! بے آب کی طرح مضطرب ہوکر بنی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے بالا خانے کی طرف چل پڑا.میں نے آپ کے عیشی غلام سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت تو طلب کرد.غلام اندر داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم سے گفتگو کر کے واپس لوٹا اور کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم سے کہا اور آپ کا ذکر کیا لیکن حضور خاموش رہے پس میں واپس لوٹ آیا اور جو لوگ منبر کے پاس تھے ان کے پاس آبیٹھا.جب دل بے قرار ہو گیا تو پھر حاضر ہوا اور غلام سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت تو طلب کرو.وہ اندر گیا اور جب واپس لوٹا تو کہا کہ میں نے آپ کا ذکر کیا تھا لیکن حضور خاموش رہے.پس میں واپس لوٹ آیا اور جولوگ منبر کے پاس تھے ان میں آبیٹھا.جب دل بے قرار ہو گیا تو پھر حاضر ہوا
۷۲ اور غلام سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت تو طلب کرو.وہ اندر گیا اور جب واپس لوٹا تو کہا کہ میں نے آپ کا ذکر کیا تھا لیکن حضور خاموش رہے پس میں واپس لوٹ آیا اور جولوگ نمبر کے پاس تھے نہیں بٹھا بھی جب مجور پیشانی کا غلبہ ہوا تو میں نے غلام کے پاس جاکر کہا کہ عمر کے لئے اجازت تو طلب کر و.وہ اندر داخل ہوا اور جب لوٹ کو میرے پاس آیا تو کہا کہ میں نے آپ کا ذکر کیا تھا لیکن حضور خاموش رہے.جب میں واپس لوٹ رہا تھا تو غلام نے مجھے آواز دی اور کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیک ہم نے آپ کو اجازت مرحمت فرما دی ہے.پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کوئی کپڑا بچھائے بغیر گھر بری چٹائی پر محو استراحت ہیں اور چٹائی کے جسم اطہر پر نشانات بنے ہوئے تھے اور چمڑے کا تکیہ سرہانے تھا جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا میں سلام کر کے کھڑے ہی کھڑے عرض گزار ہوا در یا رسول اللہ ! کیا حضور نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے میری طرف نظر اٹھائی اور فرمایا نہیں.پس میں نے تکبیر کہی اور کھڑے ہی کھڑے عرض گزارہ ہو تا کہ حضور کار دل پہلے کہ یا رسول اللہ ! ہم قریش تو عورتوں پر غالب رہتے ہیں لیکن جب بہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کے حضرات پر عورتوں کو غالب دیکھا.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا : یا رسول اللہ ! کاش آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوتا کہ ہمیں حفصہ کے پاس گیا تو میں نے اس سے کہا کہ اپنی ہمسائی کو دیکھ کر دھوکا نہ کھا جانا، وہ تم سے خوبصورت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کو سب سے پیا یہی ہے.ان کی مراد حضرت عائشہ سے تھی.پس نبی کریم صلی اللہ علی سلیم نے دوسری مرتبہ تبسم فرمایا.ب میں آپ کی تبسم بریزی کو دیکھ کر بیٹھ گیا.جب میں نے آپ کے کا شائہ اقدس میں نظر دوڑائی تو خدا کی قسم مجھے آپ کے کاشانہ رسالت کے اندر تین کھالوں کے سوا اور کچھ بھی نظرنہ آیا.میں عرض گذارہ ہوا کہ یارسول اللہ ادا کیجیے کہ اللہ تعالے آپ کی امت کے لئے کشادگی فرمائے کیونکہ ایران اور روم کے لوگوں پر کتنی کشادگی فرمائی گئی اور انہیں کتنا دُنیا کا مال دیا گیا ہے حالانکہ وہ خدا کو نہیں پوجتے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم اُٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے آرام فرما تھے پھر فرمایا ہر اے ابن خطاب! کیا تم اسی خیال میں ہو ؟ اس قوم کو ان کی بھلائیوں کا بدلہ دنیا کی زندگی میں جلدی ہی مل جاتا ہے.ہمیں عرض گزار ہوا اور یا رسول اللہ ! میرے لئے مغفرت کی دعا کیجیئے.اس
حدیث کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیک سلم نے اپنی ازدواج مطہرات سے انہیں دن کنار کئے رکھا جب کہ حفصہ نے راز کی کوئی بات حضرت عائشہ کو تباری تھی.آپ نے غصے کی حالت میں ان سے فرما دیا تھا کہ میں ایک ماہ تک تمہارے پاس نہیں آؤں گا.جب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا اور انتیس دن گزر گئے تو آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گئے.آپ کو دیکھ کر حضرت عائشہ عرض گزار ہو نہیں.یا رسول اللہ ! آپ نے تو ایک مہینے تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی میں برابر شمار کرتی آرہی ہوں کہ ابھی انتین دن گزرے ہیں.مایا.جہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے اور وہ نہینہ انہیں ہی دنوں کا تھا.حضرت عالیہ کا بیان ہے کہ پھر اللہ تعالے نے اختیار دینے والی آیت نازل فرمانی تو اپنی ازواج مطہرات میں سے آپ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے.اور مجھ سے اختیار کرنے کے لئے فرمایا.پھر اسی طرح تمام ازواج مطہرات سے فرمایا.اور سب نے وہی جواب دیا.جو حضرت عائشہ صدیقہ نے دیا تھا.خاوند کی سکری کرنا بات كُفَوَانُ العَشِيرِ وَهُوَ الزَّوْتُ وَهُوَ الْخَليها مِنَ المُعاشرة فيه عَن أَبي سَعِيدِ عَن النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عَلَم وَسَلَّم عشیرہ خاوند کو کہتے ہیں جو ساتھی ہے اور عشیر مشتق ہے معاشرہ سے حضرت ابوسعید نے حضور سے اس کی روایت کی ہے.۱۸۲ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عطارين نِسَاءٍ عَن عَبْدِ اللهِ بن عَبَّاس أَنه قَالَ حَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَم يسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والنَّاسُ مَعَهُ فَقَامَ فَيَا مَا طَوِيلاً تَحُوا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رَكُوهَا طَوِيلًا تم رَكَعَ فَقَامَ فَيا مَا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القيامِ الأول تكع لا لا لا
وهو دون الركوعِ الأولِ وَ سَجَدَتَهُ قَامَ فَقَامَ يا ما طويلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأولِ ثُمَّ ذَكَعَ تَكُو عا طويلا وهو دون النوع الاول KALANGAN TALENT فَقَامَ قِيَا مَا طَوِيلًا وَ هُوَ دُونَ الْقِيَامِ الأَوَّلِ تُو رَكَعَ رَكُوعًا طويلًا وَهُودُونَ فقال إن الشمس والقمر ايشان من آيات الله لا يَنفَانِ نِعوت أحدو لا لحياتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُم ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللهَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَا وَلتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هُذَا ثُمَّ دَيْنَاكَ تَكَعَلَعْتَ فَقَالَ إِني رايت الجنة او اريت الحنة....فَتَنَادَلْتُ مِنْهَا عن اودا ولو اخذته لا كلتُم مِّنْهُ مَا بَقِيتِ الدُّنْيَا وَرَاتُ النار فلم انك اليوم منظر قارات الكواهلها الشتاء قالوية يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ يحذر من قبل مدفون باللَّهِ قَالَ يَكْفُونَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرُنَ الْإِحْسَانَ لَوَالحَسَنتَ إلى الحدُهُنَّ الدهرَ ثُمَّ رَت مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنكَ خَيرا قط صیح بخاری شریف) حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلیم نے نما نہ پڑھی اور لوگ آپ کے ساتھ تھے.نہیں آپؐ نے طویل قیام کیا ، جتنی دیر میں سورہ البنقره پریمی جاتی ہے، پھر طویل رکوع کیا، پھر اٹھے اور طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا.طویل.کوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم طویل تھا.پھر سجدہ کر کے کھڑے ہو گئے اور کافی دیر تک قیام کیا لیکن پہلے قیام سے محفر تھا.پھر طویل رکوع کیا اودہ پہلے رکوع تبتنا طویل نہ تھا.پھر کھڑے ہو کر طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا اور طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے مختصر تھا.پھر کر مبارک کو اٹھا کر سجدہ کیا اور فارغ ہو گئے اور سورج روشن ہو چکا تھا.آپ نے ارشاد فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالے کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں.انہیں کسی کی مورت یا نہ ندگی کی وجہ سے بہن نہیں لگتا.جب تم گہن دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو.لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ اپنی جگہ سے کسی چیز کو لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور پھر ہم نے دیکھا کہ آپ نے دست مبارک بلا لیا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میں نے جنت رکھی یا مجھے جنت دکھائی گئی تو مں نے انگوروں
کے ایک گھنے کو لینے کے لئے ہاتھ بڑھائے تھے.اگر میں اسے سے لیتا تو رہتی دنیا تک تم اس سے کھاتے رہتے.میں نے جہنم کو دیکھا اور آج جیسا دردناک منظر پہلے بالکل نہیں دیکھا تھا اور میں نے اس میں اکثر عورتوں کو دیکھا.لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ کس لئے ؟ فرمایا ان کے کفر کے باعث عرض کی گئی کہ کیا یہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟ فرمایا.وہ خاوند کی ناشکر می اور احسان فراموشی کرتی ہیں اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ عمر بھر بیٹی کرتے نہ ہو.پیپر تم سے کو ئی ذراسی تکلیف پہنچ جائے تو کہتی ہے کہ میں نے تمہاری طرف سے کوئی بھلائی قطعا ر کھی ہی نہیں.جنت میں فلس آدمی اور جہنم میں عورتیں زیادہ ہوں گی باك.ا حَدَّثَنَامُ تَدْحَدَّثَنَا المَاجِيلُ الحَونَا اللَّيْيُّ عَن أبي عثمان من أسَامَةَ عَنِ النّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُمْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَكَانَ عَامَّة مَن دَخَلَها المَسَالِينَ وَاَصْحَابُ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ يوان الشب الناري أمريهِمْ إِلَى النَّارِ وَقُمتُ عَلى بَابِ النارِ فَاذَا عَامَّةٌ مَن دَخَلَها النساء (صحیح بخاری شریف) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا ( معراج کی رات میں) تو اس میں داخل ہونے والے زیادہ تر غریب لوگ تھے اور مالداروں کو رداخل ہونے سے) روک دیا گیا تھا جب کہ نہ یوں کو ابھی جہنم میں جانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اور میں دوزخ کے دروازہ سے پر کھڑا ہوا تو اس میں اخل ہونے والوں میں اکثر عور نہیں تھیں.
عورتوں کو مارنے کا بیان بات ضُرب النساء ۲۰۵۳ حدثنا ابوب كون ابي شيد عبد الله ابن مسيرتنا حَدَّثَنَا كُرِ بن عَبْدُ هشام بن عروة عَنْ أَبِيهِ عَن عَبدِ اللهِ ابْنِ نَمعَه قَالَ كتاب النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُذكر النِّسَاء فَوَعَظهُمْ فِيهِنَّ تُوَقَالَ إِلَى مَا جلد اَحَدُكُ امرات، جلد الامة ولعله أن يضاجعها ) من أخرکیه ( صحیح بخاری شریف) أَخِرِ ابن ابی شیبه، این نمین شام، عروہ، عبد اللہ بن زمعہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیک سلیم نے خطبہ دیا پھر عورتوں کا ذکر کیا اور ان کے بارے میں نصیحت کی اور تم لوگ باہی کی طرح عورتوں کو مارتے ہو حالا کے ہوسکتا ہے کہ تم آخر دن میں اس کے ساتھ ہم بستر بھی ہو.۲۰۵۴ حدثنا ابو بكر بن ابي شَيْبَةٌ تَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرُوةً عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خاد مال و لا امرأَةٌ وَلاَ ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا.رسنن ابن ماحبه ابن ابی شیبہ، وکیع ، ہشام، عروہ ، عائشہ فرماتی ہیں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنے کسی خادم کی، نہ بیوی کو اور نہ کسی اور کو اپنے دست اقدس سے مارا عورتوں کو کہاں تک بدنی سزا دی جاسکتی ہے با ما يكره من ضَرْبِ النِّسَاء وَقَوْلِهِ وَاضْرِبُوهُنَّ ضر با غير مبرح
،، حضور نے فرمایا کہ انہیں صرف اتنامامه و که نشان است نہ کریں.١٨٩ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثنا سفيان عن هشام مان آيده عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ زَمْعَة عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لا يَجِلدُ اَحَدُ كُم إسراتَه جَلْدَ العَبْدِثه جامعها فى اخر اليوم.حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ تعالے عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ لم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو لونڈی غلاموں کی طرح نہ پینے کو پھر دن ختم ہو تو اس سے مجامعت کرنے بیٹھ جائے.(بخاری شریف کتاب النکاح) ۲۵۵ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّيَّاح انبا سفيا سفيان ابن محينة عن الزهري عُيَيْنَةَ عن عبد الله بن عبد الله ابن عمر عن اياس بن عبد الله بن ابي ذباب قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلوَ لَا تَضُرِبَ اِمَاءَ اللهِ فَحَاء عمر الى النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ ذَرَ النَّتَاهُ عالى أَزْوَاجِرِ من فَأَمَرَ بِضَرِ بِهِ حَتَ نَضْرِ بْنَ فَطَافَ بِالِ مُحَمَّدٍ صَلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَائِفُ نِسْتاوَكَثِيرِ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ لَقَد طَافَ اللَّيْلَة بِالِ مُحَمَّدِ سَبعُونَ أَمَرَأَةً كُلُّ امْرَاةٍ تَشْتَهِي زَوْجَهَا فَلَا خَدُونَ أو كيك خياركو رسنن ابن ماجه محمد بن الصباح ابن عیینہ تیسری عبداللہ بن عبد اللہ بن عمر یا ایاس بن عبد اللہ بن ابو ذیاب کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی بندیوں کو نہ مار در تمرین حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ عورتیں اپنے خاوندوں کے ساتھ گستاخیاں کرنے لگی ہیں تو آپ نے مارنے کی اجازت دے دی ان پر پھر ماہ پڑنے لگی جس کی وجہ سے بہت سی عورتیں حضور کے گھر جمع ہو گئیں جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا آج محمد کے پاس برات سر کے قریب اور میں اپنے خاو ندی کی شکایت لے کر آئی تھیں ایسے لوگ اچھے نہیں ہوتے.
مارنے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ضربا غير مبرح ایسی مار ہو جو کی ہو.ایسی نہ ہو کہ جسم پر نشان پڑ جائیں اور چہرہ پر مارنے سے سختی سے منع فرما دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ولا تضرب الوجکے.کہ اسے چہرے پر نہ مارنا.میاں بیوی تو اپنےاپنے اور میں اکر یں اور پوچھے جائیں گے وہیں ہیںاور باب خوا أَنفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُو نَاراً.اپنے بیوی بچوں کو جہنم سے بچاؤ.١٧٣- حدثنا أبو النحمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّاد بن زيد من الوبَ عَن نَافِ عَنْ عَبدِ اللهِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله NAKANGUAGE NAKANGANALEK : عدم مسول فَالاِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْكُولُ وَ الرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهلِهِ وَهُوَ مَسْكُول والمرأة داعية على بَيْتِ ذَهُ جِهَا وَهِي مسئولة والعبد دَاء عَلى مَالِ سَيْدِهِ وَهُوَ مَسئول الانكم رَاعٍ وَكُكُم مستوك.حضرت عبد الله عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ر تم میں سے ہر شخص حاکم سے اور ہر ایک سے پوچھا جائے گا یہیں امام (بادشاہ) حاکم ہے اور اس سے (یعیت کے متعلق) پوچھا جائے گا.ہر شخص اپنے اہل وعیال کا حاکم ہے اور ان کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا.عورت اپنے خاوند کے گھر میں حاکم ہے اس سے پوچھا جائنگے غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس بارے میں پوچھا جائے گا پس تم میں سے ہر ایک حاکم ونگران ہے اور ہر ایک سے پوچھا جائے گا.(بخاری شریف کتاب النکاح )
<9 بیوی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے بات المراةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوجِهَا ۱۸۵ - حَدَّثَنَا عَبْدَارُ أَخْبَرَنَا عَبُدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مُوسى بن عقبة عن نافع عن ابن کے سَر عَنِ النّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ كُلُّكُم امل به والمس ان راعية على بَيْتِ ذَوجِهَا وَ وَلَدِهِ فَكَلتُم دا وَكُلِّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم میں سے ہر ایک چہ وابا (نگران) ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق پوچھا جائے گا.بادشاہ نگران ہے اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا نشان ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے.نہیں ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں سوال کیا جائے گا.(بخاری شریف کتاب النکاح) خاوند اپنے گھر کا نگران ہے الرجل راع على اهله وهو مسئول بنارى قوانفسكم وأهليكم نارا (كتاب النكاح مرد اپنے بیوی بچوں پر نگران ہے.اور اپنی رعیت میں اپنے عمل پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے.
بیوی کا خاوند پر حق باب لزوجك عَلَيْكَ حَقٌّ قَالَ الوَحينَةَ عَنِ النَّبِي صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.بیوی کا خاوند پر چوت ہے.حضرت ابو جحیفہ نے رسول خدا سے روایت کی ہے.۱۸۴ - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلِ اخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قال حَدَثَنِي يَحْيَى بن ابى كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي ابو سلمة بن عبد الرحمن الرَّحْمَنِ قالَ حَذَى عَبْدُ اللَّهِ ابْن عَكْرِ وَبُنِ الْعَاصِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى.الله عليه وسلم يا عبد الله ان احترانَكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَلَهُم الليل قلت بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ فَلَا تَفْعَلُ هُم وأفطر وقم وقال المحرك عَلَيْكَ حَمَّا وَ إِنَّ لِعَنكَ عَلَيْكَ حَقًّادٌ إِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا - ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ر اسے عبداللہ ! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم ہمیشہ دن کو روزے رکھتے اور راتوں کو قیام کرتے ہو ؟ میں نے جواب دیا، یا رسول اللہ یہی بات ہے فرمایا اور ایسا نہ کرو بلکہ ایک روز روزہ رکھو اور دوسرے روز چھوڑ دو، قیام کروا در سوا بھی کرد کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے.(بخاری شریف کتاب النکاح) رض حضت معادی این بند فرماتے ہیں میں نے و ا ل لا اله علی کل سے والہ یارسول اله بیوی کا حق ہم پر کیا ہے.آپ نے فرمایا.جو خدا تمہیں کھانے کے لئے دے.وہ اسے کھلاڈ اور جو خدا تمہیں پہننے کے لئے دے.وہ اسے پہناؤں اور اس کو تھیٹر نہ مارو.اور گالیاں نہ دو.اور اسے گھر سے نہ نکالو.(ابو داؤد)
M حضرت ابو ہر یہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی مسلمان مرد کسی بھی مسلمان عورت کے لئے کینہ یا عداوت نہ رکھے.اگر اس کو اس کی کوئی بات نا پسند ہے.تو اس کو اسی میں ہی کوئی اچھی بات مل جائے گی ومسلم) بیوی کا ناراض ہو کرات بھر خاوند کے بستر سے الگ سونا باب إذا بَاعَتِ المَرَاةُ مُهَا جَرَةً فَراشَ نَدْحِهَا.۱۷۸ - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْن أَبِي عَدِي عَنْ شُعَبَةٌ عن سُلَيْمَانَ عَن أبي حازم عن ابي مقر مَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وسلم قَالَ إِذَا دَعَا الرجل امراة إلى فَرَاشِهِ فَابَتْ أن تحى ولعلها الملكة حتى تصبح ( صحیح بخاری شریف) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے لیکن وہ آنے سے انکار کر دے تو صبح یک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ٧٩ حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن عَن عُوا حَدَنَابَةٌ عَن فَتَاوَة عَنْ - وَةٌ ندارَ وَ عَن ابي هريرة قالَ قَالَ الليُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَاتِ المَرأَةٌ مُهَاجِرَةً فَراشَ زَوْجِهَا لَعَنَتُهَا الْمَلَئِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت اپنے خاوند کے بستر پر آنے سے انکار کر دے تو اس پر فرشتوں کی لعنت ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے.( صحیح بخاری شریف) بیوی کا فرض لا تؤدى المر أحَنَّ رَيْهَا حَتَّى تُوَى نَوحِيهَا (ابن ماجہ) کوئی موت خداتعالے کا حق در کروالی کبھی نہیں سکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی.
AY حصولِ علم ایک مریضہ.ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے.ناف بیوی کا نک اوند کی مرضی کی جب گھر سے نکلہ قَالَ البِي صَلعَ إذَا خَرَجَتِ الْمَى أَةٌ مِنْ بَيْتِهَا وَزَوجها اده لَعَنَها كُلُّ مَلَكِ فِي السَّمَاءِ وَكُلُّ شَى كثرت عليا والجن والا لن حَتَّى تَرجع.ركشف الغمة) بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے.تو آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن وانس کے سوا ہر وہ پھیر جین پر سے دو گزرتی ہے.بھٹکا ر بھیجتی رہتی ہے.تا وقتیکہ وہ واپس نہ ہو.اپنی ضروریات کے لئے عورت گھر سے نکل سکتی ہے تداذن الله لكن ان تخرجن الحوائجكن (بخاری، باب تخرج النفساء الجوالجمن وفي ب المعنى حديث في المسلم باب اباحته الخروج : النساء لقضاء حاجتہ النساء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ا جاندت دی ہے کہ تم اپنی ھر دریاست کے لئے گھر سے نکل سکتی ہو.
۸۳ اہل عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت حضرت ابو ہریر کا بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیک الم نے فرمایا.کہ جو دنیار تم اللہ تعالے کی راہ میں خرچ کرتے ہو.جو دنیا ہ تم غلام آزاد کرنے کے لئے دیتے ہو.اور جو دنیار تم غریب کو دیتے ہو.اور جود نیار تم بیوی بچوں پر خرچ کرتے ہو.ان میں سے زیادہ مقبول وہ دنیا نہ ہیں.جو تم اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتے ہو (مسلم) اجاز کیے بغیر عورت خاوند کے مال سے صدقہ نہ کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا.کہ عورت اپنے خاوند کے مال سے کوئی چیز اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ نہ کرے.اگر ایسا کرے گی.تو اس کا اجر اس کے خاوند کو ملے گا اور گناہ عورت پر ہو گا.اور یہ کہ خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے نہ نکلے.لا تصدق بشيء من بنيته الا باذنه فيان فَعَلَتْ كَانَ لَهُ الاجر و عليها وذُولا تخرج مَن بَيْتِ الا باذن - - سوائے اس کے کہ خاوند کے صدقہ وخیرات کرنے کے لئے یا کسی اور خرچ کی اپنے مال میں سے اجازت دے دیکھی ہو.یا گھر سے باہرکسی کام یا ضرورت یا کسی کو ملنے کے لئے اجازت دے رکھی ہو.ہاں اپنے مال اور جائیداد میں سے جس پر خاوند کا کوئی حق نہیں وہ جس قدر چاہے وہ چندہ دے جس قدر چاہے صدقہ وخیرات کرے.خدا تعالے کو یہ پہ نہیں.کہ عورت کس قدر چندہ وصدقہ دیتی ہے.خدا کہ یہ پسند ہے کہ وہ خاوند کی کس قدر فرمانبرداری کرتی ہے تو خاوند کی فرمانبرداری کے خلاف کام کرے گی.اس کے لئے کوئی ثواب نہیں ہوگا.بلکہ وہ کام اس کے لئے موجب گناہ ہو گا.
۸۴ بہنوں اور بیٹیوں کی نیک تربیت من كل ثلاث بِنَاتٍ وَهَبَرَ عَلَيْهِ مِن وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ تَكُن لَهُ جَابًا مِنَ النَّارِ - والادب المفرد) جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں یا بیٹیاں یا بہنیں اور وہ ان کے وجود پر گھیرا ہٹ ا اظہار نہ کرے ان کی اچھی تربیت کرے اور اپنی طاقت کے مطابق انہیں اچھا لباس پہنائے تو وہ اسے جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہوں گی.من عال جارتين حتى تبلغا جاء يوم القيمة انا وهو وضو اصَالِعُة (مسلم کتاب البر والصلة والادب) جس نے دولڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ تک پہنچ گئیں.تو قیامت کے بروز یکیں اور وہ اس طرح آئیں گے.جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں.اطاعت شوہر لو كنت مراحَدًا أَن يَسْجُدَ الأَحَدٍ لَا مَوتُ المَرأَة أَن تَسْجُدَ لزوجها - (ترمذی) گرمی کسی کو اللہکے سو سجدہ کرے کا حکم دیا نیکی ہی کو حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کو جدہ کرے.بیوی خاوند کی اجاز سے نفل روزہ رکھے اور اس کی بغیر اجازت کسی کو گھرمیں نہ آنے دے ۱۸۰- حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ أَخْبَرَنَا عَيْب حَدثنا ابو الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَج
۸۵ عَن ابي هريرة أَنَّ رَسُولُ اللهِ قَالَ لا لا أن تصوم وندها شاهد الأباران وَلَا تَأذَتُ في بَيْتِه الا باذنه وما الفقت من بنفقة عَنْ غَيْرِ امرِهِ فَانةَ يُؤَدُّى إِلَيْهِ شَطْمُ لا وَرَوَال ابو الزناد ايضا عن موسى عن ابي عن أبى هريرة في القَومِ.ر صحیح بخارى شريف كتاب النكاح) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا که کسی عورت کے لئے یہ حال نہیں ہے کہ اپنے خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھنے مگر اس کی اجازت سے اور کسی کو اس کے گھر میں اجازت نہ دے مگر اس کی اجازت سے اور اگروہ خاوند کی اجازت کے بغیر مال خرچ کرے گی تو اس کے ایک حصہ کی ذمہ دار ہوگی.ابو زناد، موسی، ان کے والد نے حضرت ابو ہریرہ سے روزے کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے.خانگی فرائض کی ادائیگی جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے من قدرت منن فى بيتها فانها در عمل المُجَاهِدِينَ في سَبِيلِ الله تَعَالَى را ابن کثیر زیر آیت وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُن) جو عورت گھر میں وقار سے رہتی ہو اور اپنے خانگی فرائض ادا کر رہی ہو اس کو اللہ تعالے کے راستے میں جہاد کرنے والوں کا استہ دیا جاتا ہے.بہترین عورت خير النساء المراة إذا نظرت الشيهَا مَرتكَ وَإِذَا أَمَرْتَهَا أَطَاعَتِكَ
44 وَإِذَا غِبتَ عَنْهَا حَفِكَ فِي مَالِكَ وَنَفْيها - بہترین عورت وہ ہے کہ جب تو اس کو دیکھے تو تیرا دل خوش ہو جائے اور جب تو اس کو حکم دے تو وہ بہترین اطاعت کرے اور جب تو اس کے پاس موجود نہ ہو تو وہ تیرے مال اور اپنے نفس میں تیرے حق کی حفاظت کرے.نیک عورت بہترین نعمت لَيْسَ مِنْ مَتَاعَ الدُّنْيَا شَى أَفضلُ مِنَ المَراءِ الصَّالِحَةِ.نیک عورت سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں.(ابن ماجہ) میاں بیوی میں تفرقہ ڈالنے والا.د قال النبي صلعم من افسد امراة على زوجها فليس منا رکشف الغمه) بی کریم صلی اللہ علیہ ہم نے فرمایا کہ جو کوئی کسی عورت کے تعلقات اس کے شوہر سے خراب کرنے کی کوشش کرے اس کا کچھ تعلق ہم سے نہیں.آپ کو عورتوں کے جذبات کا اس قدر احساس تھا.کہ آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے کہ جو لوگ باہر سفر کے لئے جاتے ہیں.انہیں جلدی گھر واپس آنا چاہیے.تاکہ ان کے بال بچو اسے کو تکلیف نہ ہو.چنانچہ ابو ہریرکا سے روایت ہے.کہ جب کوئی شخص اپنی ان ضرورتوں کو پورا کرے جس کے لئے انہیں سفر کرنا پڑا تھا.تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال کر کے جلدی واپس آئے.د بخاری شریف موسلم)
AC آپ کا اپنا طریق یہ تھا.کہ جب سفر سے واپس آتے تھے.تو دن کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے.اگر رات آجاتی تھی.تو باہر ہی ڈیرہ ڈال دیتے تھے.اور صبح کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے.اور ہمیشہ اپنے اصحاب کو منع فرماتے تھے.کہ اس طرح اچانک گھر میں آکر اپنے اہل و عیال کو تنگ نہیں کرنا چاہیئے.(بخاری موسلم) اس میں آپ کے مد نظر یہ حکمت تھی کہ عورت اور مرد کے تعلقات جذباتی ہوتے ہیں مرد کی غیر حاضری میں اگر عورت نے اپنے لباس اور جسم کی صفائی کا پورا خیال نہ رکھا ہو.اور خاوند اچانک گھر میں آداخل ہو.تو ڈر ہوتا ہے.کہ وہ محبت کے جذبات جو مردد عورت کے درمیان ہوتے ہیں.ان کو کوئی ٹھیس نہ لگ جائے.پس آپ نے ہدایت فرما دی.کہ انسان جب بھی سفر سے واپس آئے.دن کے وقت گھر میں داخل ہو.اور بیوی بچوں کو پہلے خبر دے کہ داخل ہو.تاکہ وہ اس کے استقبال کے لئے پوری تیاری کرلیں.ر ترجمه از دیباچه تغییر القرآن انگریزی) عورتوں کے جذبات کا اتنا خیال تھا.کہ ایک دفعہ نماز میں آپ کو ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو آپ نے نماز جلدی جلدی پڑھا کر ختم کر دی پھر فرمایا.ایک بیٹھ کے رونے کی آواز آئی تھی.لیکں نے کہا اس کی ماں کو کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی.چنانچہ میں نے نمازہ جلدی ختم کر دی.تاکہ ماں اپنے بچور کی برگیری کرسکے.(بخاری کتاب الصلاة) قوارير - قوامون (طبع دوم) شماره 2 تعداد ایک ہزار