Language: UR
اس کتاب میں مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض کی وضاحت از روئے قرآن مجید و احادیث مبارکہ ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کے ارشادات کی گئی ہے تاکہ محض حقوق و فرائض کی لاعلمی کی وجہ سے کسی فریق پر ظلم و زیادتی نہ ہوسکے۔
قواریر.قوامون اصلاح معاشرہ (حصہ اوّل)
قواریر.قوامون اصلاح معاشرہ (حصّہ اوّل)
پیش لفظ نے اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں مضامین وکتب شائع کرنے کے منصوبے کا آغاز حضر بمصلح الموعود کی با برکت تحریر کی اشاعت سے کیا.آپ کی ایک تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر در مقام قادیان سے ایک اقتباس پر عمل یہ چھوٹی سی کتاب اصلاح معاشر قسط اول کے نام سے ایک ہزار کی تعدادمیں اصلاح معاشرہ کمیٹی جماعت احدیہ کے زیر تام شائع کی گئی کتاب کی کمیابی اور مضمون کی افادیت کے پیش نظ نے اسے دوبارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا اور اب یہ کتاب قواریر قوامون حصہ اول) کے نام سے دوبارہ شائع کی جارہی ہے.سید نا حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گھروں کو پرسکون اور مثالی بنانے اور دنیا میں ہی ایک چھوٹی سی جنت کی تعمیر کے سلسلہ میں ملسل خطبات اور خطابات..ارشاد فرما رہے ہیں.توقع ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ اور اس میں درج ہدایات پر عمل نہ صرف ہمارے گھروں کے سکون میں اضافہ کا باعث ہوگا.بلکہ انشاء اللہ نسلا بعد نسل اس کے اثرات جاری وساری رہیں گے.ایک صحت مند اور مثالی معاشرہ کی تشکیل و ترویج کے لئے اپنے آقا کی رہنمائی میں مس قدم آگے بڑھانے والوں کے لئے دلی دعاؤں کے ساتھ اپنے آقا اس کتاب کی پیشکش مقبول به درگاہ الہی ہو.(آمین اللهم آمین)
عورت اور مرد کے تعلقات پر سجت (اقتباس از فضائل القرآن مصنفہ حضرت المصلح الموعود) اب میں مثال کے طور پر ایک اور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے.یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے.اور کسی گہرے تقدیر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا.لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا.گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے.غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن اِدھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے.پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہیئے.کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے.مگر ساری مذہبی کتا ہیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے.حالانکہ بظاہر اس تعلق کے متعلق کسی کتاب کانٹی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے.عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے.میں اس وقت کثرت ازدواج اور حقوق نسواں.ایک دوسرے کے معاملہ میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں.مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لیے اور باریک ہیں نہیں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مردو عورت
آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں.اور بتاؤں گا کہ اس تعلق کو بھی اسلام نے کسی قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے.اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنا دیا ہے.دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں.مثل انجیل کو لیں تو اُس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے.شاگردوں نے اس سے کہا.کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرتا ہی اچھا نہیں.اس نے ان سے کہا.کہ سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے.مگر وہی جنہیں یہ قدرت دی گئی ہے.کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا.اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو توجہ بنایا.جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کیے." دستی باب ۱۹ آیت ۱۰ تا ۱۲) گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنی درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہیے تو اسے چاہیے کہ خوجہ بن جائے.مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے.ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کرے.
اسی طرح 1 کرنتھیوں باب ، میں لکھا ہے در مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوٹے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہر فرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے." میں بے بیا ہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ اُن کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے.جیسا میں ہوں.لیکن اگر فیط نہ کر سکیں تو بیاہ کریں.16 گور یا عورت مرد اگر بن بیا ہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے.یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں.تورات میں صرف یہ لکھا ہے کہ خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا.اور اُس نے اُس کی پیلیوں میں سے ایک پہلی نکالی.اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا.اور خداوند خدا اس پہلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کہ آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا.کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے.اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی.کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی.اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملارہے گا.اور وہ ایک تن ہوں گے.“ (پیدائش باب ۲ آیت ۲۱ تا ۲۴) ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے
اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہو جائے گا.اور مرد کو طبعا عورت کی طرف رغبت رہے گی.یہ کہ ان کا مل کر رہنا اچھا ہو گا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے.ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا.صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی اُن کے دیوتا بھی کرتے تھے.پھر بندے کیوں نہ کریں گے.مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادست کمرے بنوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتا یا ہے کہ پچیس سال تک کنوارہ رہنا چاہیئے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے.لیکن ویداس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوؤں کی اصل مقدس کتاب ہے.شادی کی ضرورت.اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں.بدھ سب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے، کیونکہ پاکیزہ اور اعلی خادمان مذہب کے لئے شادی کو منع کیا ہے.خواہ عورت ہو خواہ مرد یہی چین مذہب کی تعلیم ہے.ب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اُس نے کس طرح نہایت اعلیٰ مسئلہ بنادیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے..اسلام شادی کو ضروری قرار دیا ہے اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مردا ور عورت کا تعلق ہونا چاہیئے.اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے ، قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے.نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں اُن کی بھی شادی کر دینی چاہیئے.اور شادی کرنے کی دلیل یہ دنیا
ہے کہ باتِهَا النَّاسُ القَوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (نساء) رکونم) یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقوی اختیار کرد جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی سے اُس کی قسم کا جوڑا بنایا.اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.انسانیت ایک جوہر ہے.یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے.انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے.وہ نفسِ واحدہ ہے.اس کے دو ٹکڑے کئے گئے ہیں.آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اُس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی.وہ بھی کامل ہوگی جب اُس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے.یہ اسلام نے عورت مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو.تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا پڑے گا.ورنہ انسانیت مکمل نہ ہوگی اور جب انسانیت مکمل نہ ہوگی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا.خوا کی پیدائش آدم کی پہلی سے نہیں ہوئی اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا خوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی جب کہ بائیل میں ہے.لیکن یہ درست نہیں.کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.کرمن كُلّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (ذاریات آیت ٥٠) ۵۰) یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے.تو کیا انسان کا جوڑا بنانا نعوذ باللہ اسے یاد نہ رہا
تھا کہ آدم کی پسلی سے توا کو نکالا گیا ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں عقلیات ہوں.احساسات ہوں، ارادے ہوں.اُن کے بھی جوڑے ہوتے ہیں.کوئی ارادہ کوئی احساس کوئی جذبہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو مقابل کے ارادے.اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں.اسی طرح کوئی حیم مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دو جسم نہ ملیں.کوئی حیوان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو میوان نہ ملیں.کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو انسان نہ ملیں.پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں.تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اور اس کو دیکھ کر اس کی پہلی سے خود کو بنایا.قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں.اس لئے جب خدا تے پہلا ذرہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا.پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے وَخَلَقَكُمْ أَزْوَاجًا (سورہ نباع ) ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.پھر آدم کسی طرح اکیلا پیدا ہوا.اس کا جوڑا کہاں تھا ؟ دوسرے ہی الفاظ که خَلَقَكُم مِّنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا اور اُس میں سے تمہارا جوڑا بنایا.سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنی نہیں کئے جاتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَاللهُ جَعَلَ لَكُمُ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا - (سورة محل : ۷۳) کہ اے بنی نوع انسان ! اللہ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں.اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پہلی سے پیدا ہوتی ہے ؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان کا جوڑا اُس میں سے پیدا کیا گیا.اسی طرح سورۃ شوری رکوع میں آتا ہے جَعَلَ لَكُم مِّنْ
انْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ اَزواجا (شوری آیت (۱۲) تمہارے نفسوں سے تمہار جوڑا اور چوپایوں میں سے اُن کا جوڑا بنایا گیا.اگر آدم کی پسلی سے خوا پیدا کی گئی تھی تو چاہیے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی.اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آنا اور اس کی پہلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنا دیا.مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے ؟ تیسرے خدا تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوجَهَا لِيَسْكُنَ إِليها (اعراف آیت ۱۹۰) وه خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا وَجَعَلَ مِنْهَا زَوجها اور اس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہے لیٹ کن الیھا تاکہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے.دہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پسلی سے بنایا گیا ہے.وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم کی پہلی سے توا کو بنا یا گیا.یہ کوئی نہیں کہنا کہ حوا کی پہلی سے آدم کو بنا یا گیا لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پہلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زوجھا کی ضمیر نفس واحدہ کی طرف جاتی ہے جو مونٹ ہے.اسی طرح منھا میں بھی ضمیر مونت استعمال کی گئی ہے.اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس نفس واحد سے اُس کا زوج بنایا اور زوج کے لئے لیکن میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا کہ ہے.جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زردرج کر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا اپس
ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مرد عورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں.الگ الگ رہیں تو مکمل نہیں ہو سکتے.مکمل ہے جو اسی وقت ہوتے ہیں جب دو توں مل جائیں.اب دیکھو یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم.اسلام نے دی.اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا.اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہوسکتی.پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اُسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کا ٹتا ہے.اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گزارا نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جز نامکمل رہ جاتا ہے.پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد و عورت ان کے مجموعے کا نام انسانیت ہے تو ما نا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مرد و عورت کا ملنا ضروری ہے.اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاٹتا ہے.اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقیناً مذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا.اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبیعی فعل کو برا قرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقینا انسانی تکمیل کے رستہ میں روک ڈال کر اپنی افضلیت کے حق کو باطل کرتی ہے.
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیا تا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی.اس کا جواب اسلام یہ دنیا ہے کہ وَمِن أَيته أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنَ الْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمة مردم آیت (۲۲) اُس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اُس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تاکہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو.گویا انسان میں ایک اضطراب تھا.اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اُس کے دو کڑے کر دیئے گئے.اور اُن کا آپس میں منا سکون کا موجب قرار دیا گیا.اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کونسا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورت ومرد کے تعلقات ہو سکتے ہیں.سو یا درکھنا چاہیے کہ یہ وہی الستُ بِرَتُكُمْ قَالُوا یکی (اعراف آیت ۱۷۳) والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے.اور میں کے لئے ایک تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اُسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے.جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اُس میں تجسس نہیں ہوتا لیکن جب تجسس کا مادہ ہو تو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا تخت کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجسس کی خواہش پیدا کر دی ہے.جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اُس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے اور وہ اُسے پالیتا ہے.جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اُس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے
۱۲ کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرد.تب اُس کی زبان سے میلی کی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں.اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے.اُسے خدا کہتا ہے کہ کیا نہیں تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں.تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بلی یقیناً آپ ہی اصل مقصود ہیں.اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تیس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیتے اور اُسے پالیتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا اب سوال ہو سکتا ہے کہ خدا تعالٰی نے ظاہر کیوں نہ مرد و عورت میں اپنی محبت پیدا کر دی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا.اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر محبت ہوتی تو حصول اتصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا.ثواب کے لئے اختفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کے لئے اور عورت کے پیچھے اپنی محبت کو چھپا دیا.تاکہ جو لوگ کوشش کر کے اُسے حاصل کر یں وہ ثواب کے مستحق ہوں مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا ہی کی ہے.اس لئے اُس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل ہوں.اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے.لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کر دیتا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو.
جیسے انجن سے زائد اسٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کے لئے مرد اور مرد کے لئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالٰی کے لئے پیدا کرنی تھی.اُس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقعہ دے دیا گیا.اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی.دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا.پھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے.پس اُس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اُسے دو شکلوں میں ظاہر کیا جین سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حفضہ دوسری طرف نکل جاتا ہے.اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے.اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ حُبَ إِلَى مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطَّيْبُ وَجُعِلَ قُرَّةَ عَيْنِي في الصلوة - ایک روایت میں مِنَ الدُّنیا کی بجائے مِن دُنیا کو کے الفاظ بھی آتے ہیں (نسائی جلد ۲ کتاب عشره النساء و جامع تفسیر سیوطی جلد اول یعنی دنیا میں سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں.البتا و عورت میں الطيب خوشبو - وَجُعِلَ قُرَّةَ عَيْنى فى الصلوۃ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے.یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں.اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری اور عاجہہ انہ دعائیں جو لذت پیدا کرتی ہیں.وہ بھی انسان کے لئے سکون کا موجب ہوتی ہیں.
۱۴ مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کے لئے عورت سکون کا باعث ہے.یہ ذکر نہیں کہ عورت کے لئے بھی مرد سکون کا باعث ہے.یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بنایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہوں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ دوسری جگہ خدا تعالی فرماتا ہے هُن لباس لكم وانتم لباس لهن البقره آیت ۱۸۰ یعنی عورتیں تمہارے لئے باس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو.میں موجب سکون اور آرام ہوتے ہیں دونوں برابر ہیں.عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کے لئے.مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہیے.اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن کیلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا.کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندہ ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے.بس هُنَّ لِبَاسٌ تَكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ تھ میں مردا ور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بنایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیئے.اس طرح بھی لِتَسْكُنُوا را کپیٹھا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام کرتے ہیں.روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے لونگی حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس دنیا میں وابستہ
ہیں، اور روح اسی جسم کے ذریعہ کام کرتی ہے.یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے.نادان سائنس والے حسیم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں اور روحانیت سے تعلق رکھنے کا دعوی کرنے والے علماء جو قرآن نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح حیم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے.حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں.جہاں اللہ تعالیٰ نے رُوح کو علوم اور عرفان کے خزانے دیئے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کہ دیا ہے جب جسم ان کی تلاش اور تجسس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدار سیدہ نہیں ہو سکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اُس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہونا.کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے.مگر ایسا نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ پاگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم قرار دیا ہے، اور فرمایا ہے کہ حمد العالی ان کو دوبارہ عمل کا موقعہ دے گا.اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ مسکی تو کہر ہی چکی تھی.مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے جسم میں خداتعالی نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو دو فایت کو بڑھانے والی ہیں.رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا رُوح سے تعلق انہی قوتوں میں سے ہو انسان کو ابدیت کے حصول کے لئے دی گئی ہیں ایک اُس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو جولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں.یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ رح
14 سے بھی ان کا تعلق ہے در زمرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا.پھر ہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں.کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں.بلکہ اُن سے روحانیت مکمل ہوتی ہے.رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض در حقیقت بقا کی حس پیدا کرنے کی خواہش ہے.اس خواہش کے ماتحبت رجولیت اور نسائیت کے دو دیقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں لینی نسل کشی ، گویا نسل انسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے.اور دہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے.اُس کو اللہ تعالٰے نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنا دیا.اور یہ بقا اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے.روح کی ترقی سے لبقاء ابدی حصل ہوتا ہے، اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقا ہوتا ہے.اس لئے بقاء پیدا کر نے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا.اگر کوئی کہے کہ پھر جو انات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی پیدائش مختلف دوروں کے بعد ہوتی ہے.پہلے چھوٹا جانور بنا.پھر بڑا ، پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَا تَكُمْ لا تُرجُونَ لِلَّهِ وَقَان تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کر دے وَقَدْ خَلَقَكُم اَطوار اگر نوح آیت ۱۴ - ۱۵) تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے.بغرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے.اور انہی دوروں b میں سے حیوانات بھی ہیں.میں تمام حیوانات در حقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں
1 ہیں.ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں.اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی.اسلئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کے لئے منبتی تھیں وہ جوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی میں قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں.عرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستگی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ لبقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد اسٹیم کے ہوتے ہیں.اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے.اللہ تعالی نے اس سے دوسرا کام بقالے نسل کا لیا ہے.اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا.یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں کبھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے.اور طبی دنیا مان رہی ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں.چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں.ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول ہے.کیونکہ آپ خدا تعالٰی کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوت رجولیت ساتھ ہی نشور کا '
پا جاتی ہے.گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا.لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں.اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ما تحت فعل ہے.پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کے لئے جو خدا تعالیٰ نے غدود شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا.ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا.اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد و عورت کے تعلقات کو رکھا گیا.اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کے لئے موجب سکون بنا دیا.حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے.آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا.تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا.بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا.مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا.آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہیے.چنانچہ کس نے کثرت سے مسیح وتحمید کی تو شفا ہو گئی پس یہ بہت بار یک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا.روحانیات میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفا پسند کہ ہر ایک چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تاکہ غفلت میں کمال غلط اطمینان کا باعث ہو کر باعث تباہی نہ ہو اور تاکہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیت میں بھی چلتا ہے.اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر یہ ابتداء رجولیت ایمان کی حالت
19 قالب ہوتی ہے.اور ہر مومن پر جولیت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے.ملا جب کوئی شخص جاہل ہو گا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا لیکن جب کوئی علیم حاصل کرے گا تو اسے اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ علم حاصل کر لیا.ہر جگہ یہی بات چلتی ہے.قرآن کریم میں مومن کی مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے.کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہو جاتا ہے.اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوئی ہیں.کفر کی طرف کفر والی طاقت کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت اور انسان ایک یا دوسری کی طرف مچھر جاتا ہے در حقیقت قرآنی اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور نسائیت فیضان کا لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے.البتہ بعض استثنائی صورت میں بھی ہوتی ہیں.اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے.اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں یعنی بعض لوگوں میں نظر تا ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی اُن کے اندر ہوتا ہے اور ناشر کا مادہ بھی.جب اُن کی رجولیت اور نسائیت کامل ہو جاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدرسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں.میں انسان کے اندر ہی یہ دونوں مارے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملنا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے حضرت مسیح موجود نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض مریمی صفت ہوتے ہیں تو اس پر نادانوں
۲۰ نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں.کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بحہ بنتے ہیں جنتے ہیں.حالانکہ تمام صوفیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں.چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہر وردی اپنی کتاب عوارف المعارف، میں حضرت مسیح سے یہ روایت کرتے ہیں کہ كن لم منكوتُ السَّمَاءِ مَن لم يولد مرتين (ماه) یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو.ایک.وہ پیدائش ہو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی.اور دوسری مریم والی پیدائش پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں.ر صرف اليقين على الكمال يحصل في هذه الولادة وبهذه الولادة المستحق ميراث الانبياء ومن لم يمله ميراث الانبياء ما ولد وان كان على كمال من الفطنة والذكاء لان الفطنة والذكاء نتيجة العقل والعقل اذا كان يابسا من نور الشرع لا يدخل الملكوت ولا يزال متردداتي الملك (ص) یعنی یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے.اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے.پھر کہتے ہیں.جیسے یہ میراث نہ ملے نہ انبیاء والے علوم میں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی.اگر چہ مغلی طور پر اُسے بڑے بڑے لطیفے سو جھیں.اور اگر چہ اس میں بڑی ذکا ر ہو.یہ عقل کا نت نتیجہ ہو گا.روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا.اور عقل جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روایات میں داخل نہیں ہوتی بلکہ چر میں ہی رہتی ہے.پس روحانیت میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں.اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ مَا مِنْ مَودُودٍ يُولَدُ وَالشَّيْطَنُ يَمَسُّهُ حِيْنَ يُولَدُ نَستَمِلُ صَارِحَا
۲۱ مِنْ مَس الشَّيْطَنِ إِيَّاهُ إِلا مَريم وابنها - (بخاری کتاب التفسير سوره آل عمران) یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اُسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے.اس سے مراد صرف مریم اور عیسی نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے مراد ہے.ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ بالہ شیطان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چھوا تھا.اس حدیث میں رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیا انہیں ہوتی ہیں.ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش.جو انسان مریمی صفات سے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو سیجیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنتا ہے مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلاتی نبی تھے اور مرہمیت کی صفت رکھنے والے جھاتی نہیں.ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی.ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی با تخت اور جمالی نبی.اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے.یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں.تعرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان پہل کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ربوبیت اور نسائیت کی صفات آپس میں میں نہیں.اور دونوں صفات مکمل نہ ہوں جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا ناشیری با تا ترکی پہلو کر سکتے ہیں.جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جا کر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تاثیر اور تاثر کے ملنے سے ہی روحانیت کو سکون
۲۲ حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اُسے ایک نئی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مغرب بن جاتا ہے.یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں اُن میں سے بعض رجولیت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے.مرد و عورت میں مودت کا مادہ دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بنائی که وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً ( سوره روم آیت (۲۲) اس ذریعہ سے تم میں مودت پیدا کی گئی ہے.مورت محبت کو کہتے ہیں.لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور موقت میں ایک فرق پایا جاتا ہے.اور وہ یہ کہ سورۃ اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مودت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جبیت لینا چاہتی ہے.ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت کیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا.کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے.چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے ودود ہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے آیا ہے کہ وہ ودود ہے دہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے.مگر مرد و عورت کے لئے مودۃ کا لفظ استعمال فرمایا ہے
۲۳ چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا.اس لئے بندوں کے لئے تَحِبَّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ يا اَشَدُّ حُيَّا لِلَّهِ آتا ہے يَوَدُّونَ اللہ نہیں آتا.مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کہ ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کر دی ہے.اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اس طرح طبعا متکمیل انسانیت کی صورت یدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اللہ تعالی یہ موقت پیدا نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اٹھائیں.اور ذمہ داریوں نگاه کے نیچے اپنے آپ کو لائیں.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مودة پیدا کر دی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں.مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسہ رحم کا اجماع | تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس زراجہ سے رحمت پیدا کی گئی ہے.کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اُس سے رحم کا سلوک کرتا ہے.مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے لیکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں نا جاتی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے.جہاں اصل کیسے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی میسر ہوتی ہے
۲۴ اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں نا چاتی رہتی ہے.اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑھی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے.پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے.اور اس طرح اُسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر بر جگہ اس علوت کو استعمال کرتا ہے.وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہو جاتے ہیں.لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے اُن میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے.اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اکس طرح سنگ دل ہو جاتے ہیں.گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت و مرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے.اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کر دیتا ہے.اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک.عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت اب پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ..مرد وعورت کسی اصل پر تعلق رکھیں، یورپ کے بعض فلا سفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کے لئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقات شہوانی مضر ہیں.یہ تعلقات نہیں رکھتے
۲۵ چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے.فرمایا ہے.نساؤكم حرث تَكُمْ فَأْتُوا حَرْنَكُمْ إِلَى شِتْتُهُ وَقَد مُو الأَنفُسِكُمُ القره آیت (۲۳۲) تمہاری ہویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں.تم جس طرح چاہو ان میں آؤ.اس پر کوئی کہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وقدموا لانفسكم اس طرح آؤ کہ آگے نسل پہلے اور یادگار قائم رہے ہیں تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا.اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں.ا نمد دمادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک نظیف اشارہ سے یعنی عورت کو کھیتی کہ کہ بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے.اسے غیر محدود بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئیے.یہی کہ نسل چلائی جائے.پس جس طرح زمین ہو تو اُسے کاشتہ کار نہیں چھوڑتا.تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو.اگر ایسا نہیں کروگے تو تمہارا بیج ضائع ہو گا.۲.دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ اُن کی طاقت ضائع ہوا اور نہ تمہاری.اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے یہ پلے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے پس اس میں بتایا کہ یہ کام مدیری کے اندر ہونا چاہئیے جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی ہے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کسی حد تک اس میں بیچ ڈانا چاہیئے.اور کس حد تک کھیت سے فصل لینی چاہئے.اسی طرح تمہیں کرنا چاہیئے.
۲۶ اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے.کسی صورت میں بھی یہ تھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معا دوسری بودی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی.اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی ، اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے متعلق خدا کے میں قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مد نظر رکھو جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے.اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا ہونے لگے.اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہیے.اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو.تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو.تو اولاد پر اچھا اثر ہو گا.اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولاد بھی تم سے بے وفائی کرے گی.پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولاد اچھی ہو ، اگر بد سلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا ، یعنی عورتوں سے پاک سلو کی اولاد کو بد اخلاق بنا دے گی.کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے.چوتھی بات یہ بتائی کہ عورت سے تمہارا صرف ایسا تعلق ہو جیں سے اولاد ہوتی ہو.بعض نادان اس سے خلاف وضع فطری فعل کی اجازت سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وہ عمل کرو میں سے کھیتی پیدا ہو، قرآن کریم تو با تعالی کا
۲۷ کلام ہے.اس میں خدا تعالیٰ ایک بات کو اُسی حد تک ننگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کے لئے اس کا عریاں کرنا ضروری ہوتا ہے.باقی حصہ کو اشارہ سے بنا جاتا ہے لیپس انی ستحم میں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمھاری کھیتی ہے اب میں طرح چاہو سلوک کرو لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے.یہ ایک طریقی کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے.مثلا ایک شخص کو ہم رہنے کے لئے مکان دیں.اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو رکھو.تو اس کا مطلب اُس شخص کو ہوشیار کرنا ہو گا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا.اور تمہیں نقصان پہنچے گا.اسی طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیا ہے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے.جیسا چاہو اس سے سلوک کرد.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے ہجوتیاں مارا کرو.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کر رکھو.پس آنی شستہ کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمھاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے میرا ہوگا.اور اگر اچھا سلوک کر دگے تو اچھا ہو گا.دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے آئی کو پنجابی کا انہ سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنے کرتے ہیں کہ انھے واہ کرو.(فضائل القرآن ۱ تا ۱۸۶ ) ہماری دردمندانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سید نا حضرت مصلح الموعود کی ہدایات پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق بخشتے آمین رَبَّنَا هَبْ لَنا من أزواجِنَا وَذُرِّيَّتِنا قرة أعينُ وَاجْعَلْنَا المتقين إماماه آمنين
ماں کی دُعا کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا اس جہاں میں ہے وہ جنت میں ہی بے ریب ے گماں و جو اک پختہ تو کل سے ہے جہاں تیرا میری اولاد کو تو ایسی ہی کر دے پیارے دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ تاباں تیرا عمر دے ، رزق دے اور عافیت و صحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا اس جہاں کے نہ نہیں کیڑے ، یہ کر فضل ان پر ہر کوئی ان میں سے کہلائے مسلماں تیرا میرے پیارے مجھے ہر درد و مصیبت سے بچا ہے غفار یہی کہتا ہے اُتر آں تیرا ہر مصیبت سے بچا اے مرے آقا ہر دم حکم تیرا ہے ، زمیں تیری ہے ، دوراں تیرا (دریمین )