Language: UR
جلسہ سالانہ وغیرہ کے مواقع پر قادیان دارالامان میں کثرت سے وارد ہونے والے مسیح پاک ؑکے مہمانوں ، نومبائعین اور پرانے احمدیوں کے استفادہ و رہنمائی کے لئے مرتب کئے گئے مختصر کتابچہ میں قادیان کے مقدس اور اہم تاریخی مقامات کے حوالہ سے ضروری تاریخی اور بنیادی معلومات جمع کی گئی ہیں۔ قادیان کا محل وقوع، اس بستی کی تاریخی اور مذہبی اہمیت، مقامات کے پرانے اور نئے نام ، مقامات کے بارہ میں روایات اور اقتباسات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کتابچہ میں رہنمائی اور آسانی کے لئے بعض نقشے اورمختلف نوع کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری وضاحتی نوٹ بھی شامل کئے گئے ہیں۔
قادیان اور اس کے مقدس و تاریخی مقامات مؤلف محمد حمید کوثر انچارج شعبہ تاریخ احمدیت قادیان شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب : قادیان اور اس کے مقدس و تاریخی مقامات ایڈیشن اول : دسمبر 2004ء دو ہزار ایڈیشن دوم : دسمبر 2005ء دو ہزار ایڈیشن سوم : دسمبر 2006ء دو ہزار ایڈیشن چہارم : دسمبر 2007ء دو ہزار ایڈیشن پنجم : دسمبر 2008ء دو ہزار ایڈیشن ششم مع اضافہ : دسمبر 2012ء دو ہزار ایڈیشن ہفتم : دسمبر 2014ء دو ہزار حالیہ ایڈیشن مع اضافه : دسمبر 2015ء دو ہزار مطبع فضل عمر پر نٹنگ پریس ہر چوال روڈ قا دیان شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان-143516 ضلع : گوداسپورصوبہ پنجاب (انڈیا) ISBN: 978-93-83882-68-7
پیش لفظ فہرس صفحہ عنوان قادیان کی تاریخ و محل وقوع قادیان کی اہمیت حدیث مصطفی صلی سیستم کی روشنی میں سابقہ مذہبی کتب میں قادیان کا ذکر قادیان کی اہمیت حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی روشنی میں مقدس مقامات مسجد مبارک مسجد مبارک کی تعمیر قدیم مسجد کا اندرونی منظر مسجد مبارک کی توسیع مسجد کی بالائی منزل سرخی کے نشان والا کمرہ بيت الفكر دالان حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا 1 3 4 8 10 11 13 13 14 17 17 27 31 32
32 35 36 38 38 40 42 45 47 48 49 50 52 54 55 55 56 55 57 57 بيت الدعا ضروری وضاحت بیت الریاضت کمرہ پیدائش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کمرہ پیدائش حضرت اصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد اقصی مسجد اقصیٰ کی خصوصیات صد سالہ خلافت جو بلی ۲۰۰۸ میں مسجد اقصیٰ کی توسیع مسجد اقصی کی موت پر جنوبی جانب گنبد اور چار چھوٹے مناروں کی تعمیر مسجد اقصی و مبارک کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی منارة ایح بہشتی مقبره احاطہ بہشتی مقبرہ میں موجود مقدس مقامات مکان حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا شه نشین جنازه گاه مقام ظہور قدرت ثانیہ بعض یادگاری اور تاریخی مقامات گول کمره
دیوار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا آبائی قبرستان مسجد نور بعض اور تاریخی و یادگاری مقامات کوٹھی دار السلام بيت الظفر خلافت خامسہ کے عہد مبارک میں تعمیر ہونے والی عمارتیں مسجد اقصیٰ سرائے وسیم نصرت جہاں ہال وگیسٹ ہاؤس (سرائے مبارکہ ) لجنہ اماءاللہ عمارت فضل عمر پرنٹنگ پریس یادگاری گیٹ خلافت جو بلی مرکزی لائبریری کی جدید عمارت عمارت ایم.ٹی.اے ماریشس گیسٹ ہاؤس ( سرائے عبید اللہ ) اور آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس بیوت الشكر عمارت روٹی پلانٹ گلشن احمد ہوشیار پور 69 26 S S% 2 2 2 222222 S 70 70 69 69 68 68 67 67 67 66 66 60 64 65 58 70 71 72
75 78 83 86 88 94 97 104 104 مقدس کمرہ میں اجتماعی دُعا دار البیعت لدھیانہ ووسع مکانک(الهام) نقشہ جات تفصیل بابت حصہ نقشہ نمبر ۲ ( حصہ الدار ) تفصیل بابت حصہ نقشہ نمبر ۳ تفصیل حصہ نمبر ۴ ( منزل دوم ) قادیان کے محلہ جات قادیان کے محلہ جات کے نام ooooo
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چند سالوں سے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے لئے نومبایعین اور پرانے احمدی اور ان کے بچے اور نوجوان بڑی تعداد میں تشریف لاتے ہیں.اس کے علاوہ غیر از جماعت اور زیر تبلیغ دوست بھی شریک جلسہ ہوتے ہیں.قادیان اور اس کے مقدس مقامات کی اہمیت کے بارہ میں سوالات کرتے رہتے ہیں.بعض اوقات ہمارے نا واقف بھائی ان کو ایسے جوابات دیتے ہیں جو درست نہیں ہوتے.اس صورت حال کے پیش نظر یہ مطالبہ ہوا کہ اس موضوع پر ایک مختصر اور جامع کتا بچہ تیار کروایا جائے جس میں بنیادی، تاریخی اور تبلیغی نوعیت کی معلومات ہوں.مکرم مولانا محمد حمید کوثر صاحب انچارج شعبہ تاریخ احمدیت قادیان نے ایک کتا بچہ دسمبر 2004ء میں قادیان اور اسکے مقدس مقامات کے زیر عنوان ترتیب دیا تھا جو دفتر افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے شائع کیا گیا تھا.بعدہ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے.اس کی افادیت اور مقبولیت کے پیش نظر نظارت نشر واشاعت 1
قادیان اسے شائع کر رہی ہے.امید ہے کہ احباب جماعت اس سے خود بھی استفادہ کریں گے اور اس کی روشنی میں نو مبایعین اور غیر از جماعت احباب کی صحیح راہنمائی کریں گے.خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان 2
قادیان کی تاریخ محل وقوع حضرت بانی جماعت احمد یہ سید نا مرزا غلام احمد علیہ السلام کے آباء واجداد میں سے ایک شخص حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب جو فارسی الاصل ( یعنی ایرانی خاندان ) میں سے تھے سمر قند کے علاقہ سے ہجرت کر کے مختلف مقامات کا سفر طے کرتے ہوئے اپنے 200 ساتھیوں کے ساتھ 1530ء میں اس جگہ قیام پذیر ہوئے جہاں اب قادیان آباد ہے.اس وقت یہ علاقہ جنگل بیابان تھا.دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی.اپنے اس آباد کردہ گاؤں کا نام انہوں نے اسلام پور رکھا.جو تغیر و تبدل کے مختلف مراحل طے کرتا ہوا اسلام پور قاضی اور پھر ”قادیان“ بن گیا.کیونکہ اس علاقہ کی بھینسیں بہت مشہور تھیں اس لئے اسے ماجھا کہا جاتا تھا.قادیان لاہور سے 70 میل اور امرتسر سے تقریبا 36 میل کی مسافت پر واقع ہے.اسی طرح بٹالہ سے اس کی دوری 11 میل اور گورداسپور 66 سے 18 میل ہے.اسی قادیان میں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام 13 فروری 1835ء کو پیدا ہوئے.اور 26 رمئی 1908 ء کو آپ کی وفات لا ہور میں ہوئی.وہاں سے آپ کا جسد مبارک قادیان لایا گیا.اور 27 رمئی 1908ء کو آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.سیدنا امام مہدی علیہ السلام کا مولد و مدفن ہونے کی وجہ سے قادیان ساری دنیا 3
میں شہرت پا گیا.اور جماعت احمدیہ کا ابتدائی اور دائمی مرکز بھی قرار پایا.1947ء میں تقسیم ملک سے قبل قادیان کے گردونواح بٹالہ، امرتسر ، گورداسپور، پٹھانکوٹ میں لینے والے مخالفین احمدیت قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دیتے تھے.منارة اسح کو گرانے اور بہشتی مقبرہ کی قبور کو اکھیڑنے کی بابت قسمیں کھاتے تھے.مگر تقدیر الہی نے ان کے بزرگوں کی قبور کا نام ونشان مٹا دیا.کہاں گئی محمد حسین بٹالوی کی قبر اور ثناء اللہ امرتسری کی منزل و مسکن ؟ ان شہروں میں ان کا نام بھی باقی نہیں رہا.لیکن اس کے بالمقابل جسے جھوٹا کہا گیا اس کی قبر پر ہر روز دعا کرنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے.منارۃ اُسیح سے پانچ وقت اذان بلند ہوتی ہے جو نہ کبھی بند ہوئی اور نہ ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ ! اگر یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بے شمار براہین صداقت میں سے ایک عظیم برہان نہیں تو اور کیا ہے؟ قادیان کی اہمیت حدیث مصطفی اللہ الی یتیم کی روشنی میں ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی لا یہ تم نے مسلمانوں کو فرمایا تھا: لَا تَشَدُ الرَحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِى هَذَا وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الأقصى - ( صحیح مسلم کتاب الحج باب لا تشد الرحال الا الى ثلاثة مساجد) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلیم نے فرمایا 4
کجاوے نہ باندھے جاویں مگر تین مسجدوں کی طرف.میری اس مسجد (مسجد نبوی مدینہ منورہ ) اور مسجد حرام (خانہ کعبہ ) اور مسجد اقصیٰ کی طرف.اسی مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن مجید میں ہے: سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِيْ برَكْنَا حَوْلَه.........(سورة بنی اسرائیل:2) پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : مسجد اقصیٰ سے مراد اس جگہ یروشلم کی مسجد نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کی مسجد ہے جو باعتبار بعد زمانہ کے خدا کے نزدیک مسجد اقصیٰ ہے“.(خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۹ ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ ۱۹) سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلالة السلام کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچادیا تھا.(خطبہ الہامیہ صفحہ 21) سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو سیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا.“ (خطبہ الہامیہ صفحہ (21) 5
مذکورہ بالا حدیث اور بعض دوسری احادیث پر اگر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی یا تم نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد روحانی اور دینی استفادہ کے لئے صرف اور صرف مدینہ کی مسجد نبوی اور خانہ کعبہ اور مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد اقصیٰ کی طرف ہی سفر اختیار کیا جائے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو متعدد مرتبہ الہاما فرمایا: يَأْتُونَ مِنْ كُل فج عميي " ( تذکرہ صفحہ 39 ، مطبوعه از قادیان دسمبر 2006ء) یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گی.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1891ء میں جلسہ سالانہ کا آغاز کرتے وقت تحریر فرمایا: اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی.“ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 341) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت میں قوموں کے آملنے کا ذکر ہے.آنحضرت سلام کی حدیث میں لَا تُشَدُّ الرحال‘ ملنے کے لئے سواریوں کو تیار کرنے کا ارشاد ہے.آقا اور غلام کے کلمات بڑی شان سے پورے ہور ہے ہیں اور قیامت تک پورے 6
ہوتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ وَرَاءِ النَّهْر......رَوَاهُ أَبُو دَاوُد (سنن ابی داؤ د کتاب المهدی) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص خروج کرے گا نہر کے پرے یا ورے سے.اس حدیث کے عین مطابق سید نا حضرت امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام قادیان میں پیدا ہوئے جو کہ دریائے بیاس سے چند میل کے فاصلہ پر جانب مغرب واقع ہے.اسی طرح جواہر الاسرار از حضرت علی بن حمزہ اشارات فریدی حصہ سوم صفحہ 70 میں تحریر ہے کہ یخرج المهدى من قرية يقال لها كدعم مہدی کا ظہور ایسی بستی سے ہوگا جسے کدعہ کہا جائے گا.( بحوالہ چودھویں صدی کی غیر معمولی اہمیت مولا نا دوست محمد شاہد صاحب صفحہ 89) جماعت احمدیہ کے عظیم مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی " ایڈیٹر اخبار الحکم تحریر فرماتے ہیں کہ :.دو...چونکہ مسیح موعود کی بعثت کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں کدعہ آچکا تھا...یہ قصبہ کدعہ ( قادیان ) 33 درجے طولانی استوا میں واقعہ 7
ہے اور یہ وہی طول بلد ہے جس میں دمشق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ دمشق سے اس کی سمت مشرقی ہے.اگر چہ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کے وہم و گمان میں بھی یہ امر نہ تھا کہ وہ اس قدر دور و در از سفر طے کر کے ایک جنگل میں کیوں قیام کرتے ہیں.لیکن جس مصلحت الہی نے انہیں خراساں اور کش سے پنجاب کی طرف نکالا.اسی نے انہیں اس قیام پر آباد ہونے کی تحریک کی تا کہ اس حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء پورا ہو جاوے.جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود کا نزول جانب مشرق دمشق سے ہوگا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے: از کلمه مناره شرقی عجب مدار چون خود ز مشرق است تجلی نیزم ( حياة النبي سيرة حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 22-21، مطبوعہ 1915ء) سابقہ مذہبی کتب میں قادیان کا ذکر انجیل مقدس میں ایک نئے یروشلم" کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں آیا ہے: اُس نئے یروشلم کا نام جو میرے خدا کے پاس سے آسمان سے اترنے والا ہے اور اپنا نیا نام اُس پر لکھوں گا.“ ( مکاشفه یوحنا 3-12) اور اسی یروشلم کے متعلق عہد نامہ قدیم میں لکھا ہے کہ ”اے یروشلم میں نے تیری دیواروں پر نگہبان مقرر کئے ہیں.“ ( يسعيا ه62-6) 8
اُس روز یروشلم سے آب حیات جاری ہو گا جس کا آدھا بحر مشرق کی طرف بہے گا اور آدھا بحر مغرب کی طرف.گرمی سردی میں جاری رہے گا اور خدا وند ساری دنیا کا بادشاہ ہوگا.اسی روز ایک ہی خداوند ہو گا اور اس کا نام واحد ہو گا.“ (زکریا140-8) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: یروشلم سے مراد در اصل دار الاماں ہے.یروشلم کے معنی ہیں وہ سلامتی کو دیکھتا ہے.یہ سنت اللہ ہے کہ وہ پیشگوئیوں میں اصل الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس سے مراد اس کا مفہوم اور مطلب ہوتا ہے.ای طرح پر بیت المقدس یعنی مسجد اقصی ہے اس مسجد کا نام بھی اللہ تعالی نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے.کیوں کہ اقصیٰ یا باعتبار بعد زمانہ کے ہوتا ہے اور یا بعد مکان کے لحاظ سے.اور اس الہام میں الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات زمانی کولیا ہے.“ ( ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام - جلد دوم صفحہ 451) ثابت ہوا کہ وہ نیا یروشلم قادیان ہے.دیواروں پر نگہبان مقرر کئے جانے کی پیشگوئی لفظ ” دار الامان اور الہام انّي أحافظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ “ (تذكره صفحه 379) کے ذریعہ پوری ہو گئی اور اسی نے یروشلم سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ روحانی آب حیات جاری ہوا.جو ساری دنیا کو سیراب کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتارہے گا.9
ہوسی وید میں قادیان کا نام قدون لکھا ہے.(بحوالہ اتھر وید کا نڈ 20 سوکت 97، ناشر چوکھمبا ود یا بھون بنارس صفحه 474) حضرت بابا نانک جی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اک جھیٹا ہوسی پر اساں توں پچھے سو برس توں بعد ہوسی...وٹالے دے پر گنے وِچ جنم ساکھی بھائی بالا والی وڈی ساکھی صفحہ 251 مطبوعہ مفید عام پریس لاہور ) یعنی ایک جٹ ( زمیندار ) ہوگا.لیکن ہم سے سو برس بعد ہوگا اور وٹالے(بٹالہ) کی تحصیل میں ہوگا.قادیان کی اہمیت حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی روشنی میں سید نا حضرت مسیح موعود قادیان کے متعلق فرماتے ہیں : (1) ” خدا نے اس ویرانے کو یعنی قادیان کو مجمع الد یار بنا دیا کہ ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آکر جمع ہوتے ہیں.“ ( براہینِ احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 95) (2) ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے."❝ 10 ( دافع البلاء، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 231)
(3) '' مجھے دکھایا گیا ہے (کہ) یہ علاقہ اس قدر آباد ہوگا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائینگی.( تذکرہ ایڈیشن ششم صفحہ 666) (4) ”ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پڑے تک بازار نکل گئے.اُونچی اونچی دو منزلی یا چومنر لی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں.اور موٹے موٹے سیٹھ ، بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور اُن کے آگے اور لعل اور موتیوں اور ہیروں، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسما قسم کی دُکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں.یکے بگھیاں ٹمٹم ، فٹن ، پالکیاں، گھوڑے، شکر میں، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے.( تذکرہ - ایڈیشن ششم صفحہ 343) جواہرات اور مقدس مقامات حضرت میاں محمد عبد اللہ صاحب سنوری صحابی نے قادیان آنے پر اپنی کیفیت کا اظہار کچھ اس طرح فرمایا: میں قادیان جب آتا ہوں.یہاں وقتاً فوقتاً یکلخت مجھ پر بعض آیات قرآنی کے معافی کھولے جاتے ہیں اور میں اس طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے دل پر معانی کی 11
ایک پوٹلی بندھی ہوئی گرا دی جاتی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں قرآن شریف کے معارف دے کر ہی مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی خدمت ہمارا فرض مقرر کی گئی ہے.پس ہماری صحبت کا بھی یہی فائدہ ہونا چاہئے.“ (سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 111 ، صفحہ 90 مطبوعہ نظارت نشر و اشاعت قادیان 2008ء) حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتا ہے جو درود شریف بہت پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود کے اہلِ بیت سے محبت رکھتا ہے.مسجد مبارک میں اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کی ہیں.“ الفضل انٹر نیشنل 11 جولائی تا 17 جولائی 2003ء) قارئین کرام نے پچھلے صفحات کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگا لیا ہوگا کہ قادیان کا ذرہ ذرہ مقدس و قابل احترام ہے.علاوہ ان پیشگوئیوں کے جو اس قادیان کے ذریعہ پوری ہوئیں اور ہورہی ہیں.اس کی خاک کو کم و بیش 73 سال مسیح پاک کی قدم بوسی کا شرف و فخر حاصل ہوتا رہا.اور آپ کی سانسیں اس کی فضاؤں اور ہواؤں کو معطر اور مطہر بناتی رہیں.بہر حال قادیان کے تمام مقدس و تاریخی و یادگاری مقامات کا ذکر تو ان مختصر سے صفحات میں ممکن نہیں.حسب گنجائش چند کا ذکر درج ذیل ہے.خاص طور پر وہ مقامات جو دعاؤں اور نوافل کی ادائیگی کے لحاظ سے اہم ہیں، ان کے ذکر کو اولیت دی گئی ہے.تا کہ قارئین ان سے استفادہ کر سکیں.ان میں سے سر فہرست مسجد مبارک ہے.12
مسجد مبارک قادیان میں مسجد اقصی کی موجودگی میں کسی اور مسجد کی بظاہر ضرورت نہیں تھی.کیوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور معدودے چند افراد کے سوا اس میں کوئی نمازی ہی نہیں تھا.اور چونکہ حضرت مسیح موعود معمور الاوقات انسان تھے اور مستقبل قریب میں آپ کے سپر تحریک احمدیت کی قیادت ہونے والی تھی اور آپ کے ہاتھوں اسلام کی تائید میں عالمگیر قلمی جنگ کے آغاز کا زمانہ قریب آچکا تھا.اس لئے حضور کو پیش آنے والی اور وسیع علمی و روحانی سرگرمیوں کے لئے ایک ایسے بیت الذکر کی ضرورت تھی جو آپ کے تاریخی چوبارے کے پہلو ہی میں ہو.حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھاری بشارتوں کے ساتھ ایک مسجد کے قیام کی تحریک ہوئی.یہ مسجد جو مسجد مبارک کہلاتی ہے آج بھی پوری شان و عظمت کے ساتھ قادیان میں موجود ہے.اور عالمگیر شہرت کی حامل ہے.مسجد مبارک کی تعمیر مسجد مبارک کی بنیاد ( حضرت پیر سراج الحق صاحب کی عینی شہادت کے مطابق) 1882ء میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی تحقیق کے مطابق 1883ء میں رکھی گئی تھی.حضرت اقدس کے چوبارہ کے ساتھ جہاں مسجد کی تأسیس ہوئی دراصل کوئی جگہ موزوں نہیں تھی کیونکہ بیت الفکر“ کے عقب میں گلی تھی.اور گلی کے ساتھ آپ کے چچا 13
مرزا غلام محی الدین کا رقبہ تھا.جس میں ان کے خراس کی قدیم عمارت کے کھنڈر پڑے ہوئے تھے اور اس کے بقیہ آثار میں سے شمالی جانب ایک بوسیدہ ہی دیوار کھڑی تھی.حضور نے اسی دیوار اور اپنے گھر کی جنوبی دیوار پر اپنے باغ کی دیسی لکڑی سے سقف تیار کرایا.اینوں کی فراہمی کے لئے بعض پرانی بنیادوں کی کھدائی کی گئی.مسجد کا اندرونی حصہ حتمی طور پر 9 اکتوبر 1883 تک پائے تکمیل کو پہنچ گیا لیکن اس کی سفیدی بعد کو ہوئی.قدیم مسجد کا اندرونی منظر مسجد مبارک کے اندرونی عمارت کے تین حصے تھے.پہلا غر بی حصہ امام کا محرابی گوشہ تھا.جس کے مغرب اور شمال میں دو کھڑکیاں اور شرقی دیوار میں ایک دروازہ تھا.جو لکڑی کے تخت سے بند ہو کر دو ایک فرد کی خلوت نشینی کے لئے ایک نہایت مختصر مگر مستقل حجرہ بن جا تا تھا.وسطی حصہ میں چھ چھ نمازیوں کی دو صفوں کی گنجائش تھی.اسی حصہ میں بیت الفکر و کھٹڑ کی کھلتی تھی.مقابل کی جنوبی دیوار میں ایک کھٹر کی روشنی کے لئے نصب تھی اور باہر کے مشرقی حصہ سے الحاق کے لئے ایک دروازہ لگادیا گیا تھا.مسجد کا شرقی حصہ وسطی حصہ سے نسبتاً بڑا تھا.یعنی اس میں بعض اوقات تین حصوں میں کم و بیش پندرہ آدمی نماز پڑھ سکتے تھے.اس حصہ سے باہر ایک طرف زینہ تھا اور دوسری طرف نمازیوں کے وضو عل جو شمالاً جنوباً چارفٹ چھ انچ اشاروں کے اندر اندر اور شرقا غربآچارفٹ سات انچ اثاروں کے اندراندر تھا.اس حصہ کا طول شرقا غربا نوفٹ گیارہ انچ اور عرض شمالاً جنو با سات فٹ گیارہ انچ تھا.14
وغیرہ کے لئے جگہ اور ایک غسل خانہ بھی بنایا گیا جس میں حضرت مسیح موعود گرمیوں میں استراحت بھی فرماتے تھے.اور اسی میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان بھی ظاہر ہوا.شرقی حصہ میں تین دروازے تھے.پہلا شمالی دیوار میں تھا جو حضرت اقدس کے مکان سے متصل تھا.دوسرا زینے سے مسجد تک داخلہ کے لئے اور تیسر اغسل خانے کی جانب.مسجد کے دونوں دروازوں پر آیت إن الدين عند الله الاسلام درود شریف اور مسجد کے متعلق الہامات درج تھے.مسجد مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعود مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد مبارک میں نماز ادا فرمانے لگے.ابتداء میں اکثر خود ہی اذان دیتے اور خود ہی امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے.مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق (قدیم) مسجد مبارک کے اندرونی حصہ کا خاکہ یہ تھا.اس حصے کا طول شرقاً غر با نوفٹ چار انچ اور عرض شمالاً جنو ب سات فٹ پانچ انچ تھا.15
مسجد مبارک کے اندرونی حصے کا خاکہ کھڑکی ن کھڑ کی مغرب غربی حصہ دروازه خر اس کا احاطہ بيت الفكر وسطی حصہ شمال کھڑکی م دروازه ☐ شرقی حصہ دروازه دروازه دروازه کھڑکی جنوب زینه غسل خانه مشرق 16
مسجد مبارک کی توسیع مسجد مبارک کی یہ ابتدائی عمارت چوبیس (24) سال تک اپنی پہلی حالت میں بدستور قائم رہی.اسی دوران میں صرف یہ خفیف سی تبدیلی کی گئی کہ سرخی کے نشان والا کمرہ جو دو ایک فٹ نشیب میں واقع تھا مسجد کی عام سطح کے برابر کر دیا گیا.اور پھر 1907ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کی نگرانی میں جنوبی طرف پہلی مرتبہ توسیع کی گئی.جس کے نتیجہ میں اس کے جنوب مغربی کو نہ کا مینار قائم نہ رہ سکا.مسجد مبارک کی دوسری مرتبہ توسیع خلافت ثانیہ کے عہد میں دسمبر 1944ء میں مکمل ہوئی.جس سے یہ مسجد 1907ء کی عمارت سے اپنی فراخی اور کشادگی میں دو چند ہو گئی.اس مرتبہ تعمیر کی نگرانی کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سرانجام دیا.( تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 220، ایڈیشن 2007 ء مطبوعہ از قادیان) مسجد کی بالائی منزل مسجد مبارک کے قدیمی حصہ کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تھے اور وہاں پہنچنے کے لئے سرخی کے نشان والے چھت پر دوسیڑھیوں کا ایک چوبی زینہ رکھا رہتا.قیامِ جماعت کے بعد جب حضرت مولانا نورالدین صاحب اور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب اور دوسرے بزرگان سلسلہ قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تو اس کے غربی حصہ 17
پر شہ نشین بنا دیا گیا.جہاں حضرت اقدس علیہ السلام نماز مغرب کے بعد اپنے خدام میں رونق افروز ہوتے.اور علم و عرفان کے موتی بکھیرتے تھے.یہ پاک اور روح پرور محفل در بار شام کے پیارے نام سے یاد کی جاتی ہے.تاریخ احمدیت جلد اول، صفحہ 220-219، مطبوعہ از قادیان سن 2007ء) اسی با برکت چھت سے متعلق بعض تاریخی ایمان افروز واقعات بھی تحریر ہیں: 1.پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے لئے رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگنے اور ان کے بطور نشان ظہور کی پیشگوئی فرمائی تھی.اس پیشگوئی کے عین مطابق مورخہ 13 /رمضان 1311 ہجری مطابق 21 / مارچ 1894ء کو چاند گرہن لگا.اور مؤرخہ 28 /رمضان 1311 ہجری مطابق 6 ا پریل 1894ء کو سورج گرہن لگا.مسجد مبارک کو یہ سعادت اور خوش نصیبی حاصل ہوئی کہ جس امام مہدی کے لئے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا انہوں نے اس مبارک چھت پر سے سورج گرہن کا مشاہدہ فرمایا.چنانچہ حضرت خلیفۃ ابیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اتنا کامل یقین تھا کہ ضرور بالضر ور سورج آج گہنایا جائے گا.یہ ناممکن ہے کہ یہ بات ٹل جائے.آپ نے مسجد مبارک کی چھت پر پورا اہتمام کیا ہوا تھا اور شوق سے آنے والے زائرین اور قریب رہنے والے خدام عشاق صحابہ 18
سارے مسجد کی چھت پر جمع تھے.آپ نے مسجد مبارک کی چھت پر اس دن کے لئے پورا اہتمام فرمایا کہ نماز کسوف خسوف بھی ادا کی جائے گی.اور سورج گرہن کا نظارہ بھی کیا جائے گا.ایک ذرہ بھی شک نہیں تھا.آپ اپنے صحابہ کے ساتھ محو انتظار تھے کہ اتنے میں ایک دوست نے دوڑتے ہوئے آکر سورج گرہن کی خوشخبری دیدی.اے مسیح وقت سورج کہنایا گیا ہے ! اے مہدی دوران تیرے لئے ایک کامل نشان پورا ہو گیا ہے" ( از خطاب حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مورخہ 31اگست 1994ء جلسہ سالانہ برطانیہ ) 2 ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا کہ کبھی حضور نے فرشتے بھی دیکھے ہیں؟ اُس وقت حضور بعد نماز مغرب مسجد مبارک کی چھت پرشہ نشین کی بائیں طرف کے مینار کے قریب بیٹھے تھے.فرمایا کہ اس مینار کے سامنے دو فرشتے میرے سامنے آئے جن کے پاس دو شیر میں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیاں انہوں نے مجھے دیں.اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کے لئے ہے.66 (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ 779-778، روایت نمبر 885، مطبوعہ قادیان سن 2008ء) ย ” حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کا می سفیر روم قادیان آیا اُس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے.کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا.اور آپ 19
شہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے.اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے تھوڑی دیر میں سب کو ہٹا دیا.جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہو گئے.تو آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنا ئیں.مولوی صاحب مرحوم دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے.یہاں تک کہ آپ کو افاقہ ہو گیا.“ (سیرت المہدی جلد اول، حصہ دوم ، صفحہ 439، روایت نمبر 462 ، مطبوعہ قادیان سن 2008ء) مسجد مبارک کے بارہ میں الہامات و واقعات : مسجد مبارک کا دوسرا نام ”بیت الذکر بھی ہے.اس مسجد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: 1 - أَلَمْ نَجْعَلْ لَكَ سَهُوَلَةً فِي كُلِّ أَمْرٍ - بَيْتُ الْفِكْرِ وَ بَيْتُ الذِّكْرِ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ امنا.( تذکره صفحه 82) ترجمہ: کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی ؟ کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا.( اور جو بھی اس میں داخل ہو گا وہ امن میں آجائے گا) 2 " جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبد و صحت نیت وحسن ایمان داخل ہوگا وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا.“ ( تذکرہ صفحہ 83 ، ایڈیشن ششم، مطبوعہ قادیان سن 2006ء) 20
-3 مُبَارِک وَ مُبَارَكَ وَ كُلُّ اَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ - ( تذکرہ صفحہ 83، ایڈیشن ششم، مطبوعہ قادیان سن 2006ء) ترجمہ : یہ مسجد برکت دہندہ (یعنی برکت دینے والی ہے ) اور برکت یافتہ (یعنی اسے برکت دی گئی ہے ) ہے اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جائے گا.4 - حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: اس مسجد کے بارہ میں پانچ مرتبہ الہام ہوا..فِيْهِ بَرَكَاتْ لِلنَّاسِ وَ مَنْ دَخَلَهُ تذکرہ صفحہ 83، ایڈیشن ششم مطبوعہ قادیان سن 2006ء) كَانَ آمِناً 66 ترجمہ : اس میں لوگوں کے لئے برکات ہیں.اور جو بھی اس میں داخل ہوگا وہ امن میں آجائے گا.5.آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازے کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں...تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا جس میں ایک آیت یا درہی اور وہ یہ ہے لار اذ لفضیلہ اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے." ( تذکرہ صفحہ 88، ایڈیشن ششم مطبوعہ قادیان سن 2006ء) 6.ایک دفعہ ام المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنھا) بیمار ہوئیں.اور قریبا چالیس روز تک بیمار رہیں.ایک دن حضرت صاحب نے فرمایا اس مسجد کے متعلق الہام ہے ”مبارک 21
و مبارک کل یجعل فیھا مبارک.اس میں چل کر دوا دیں.آپ نے یہاں آکر دوا پلائی.دو گھنٹے کے اندر اُم المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنھا ) اچھی ہو گئیں.“ الفضل 14 فروری 1921 ء صفحہ 6) 7 - حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ”ہماری مسجد ( مبارک ) کو اللہ تعالی نے نوح کی کشتی کا مثیل ٹھہرایا ہے.سو یہ شکل میں بھی کشتی کی طرح ہے.“ (سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 730 روایت 795 ، مطبوعہ قادیان 2008ء) 8- حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا : حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً سجدوں میں لوگوں کو آج کل کی نسبت بہت زیادہ روتے سنا ہے.رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشے سے سنائی دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے.“ سیرت المہدی جلد اول صفحه 620 روایت 666 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) 9.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : چوہدری حاکم علی صاحب نمبر دار سفید پوش چک نمبر 9 شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ 1900ء کے قریب یا اس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جولوگ یہاں تیرے پاس موجود ہیں اور 22
تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دیئے ہیں.) سيرة المہدی جلد دوم صفحہ 131 روایت 1168 ، مطبوعہ قادیان 2008ء) میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا کہ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز صبح کے وقت کچھ پہلے تشریف لے آئے.ابھی کوئی روشنی نہ ہوئی تھی.اس وقت آپ مسجد کے اندر اندھیرے میں ہی بیٹھے رہے.پھر جب ایک شخص نے آکر روشنی کی تو فرمانے لگے کہ دیکھو روشنی کے آسے ظلمت کس طرح بھاگتی ہے.(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 801 روایت 930، مطبوعہ قادیان 2008ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب تک مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے.اور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا.قنوت میں پہلے قرآنی دعائیں پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں.آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے.جو دعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں.ان کو بیان کر دیتا ہوں.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلگ...(آل عمران: 195) (البقره: 202) 23
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِين (الاعراف:24) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان:75) رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا...(البقرة:287) رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (الفرقان: 66) رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِيْنَ.(الاعراف:90) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (يونس: 86) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا...(ال عمران:9) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا...(ال عمران: 194) اَللّهُمَّ أَيَّدِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِينَ بِالْإِمَامِ الْحَكَمِ الْعَادِلِ اللَّهُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِيْنَ مُحَمَّدٍ وَ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِيْنَ مُحَمَّدٍ وَلَا تَجْعَلُنَا مِنْهُمْ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائینگے ، کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر.(سیرۃ المہدی جلد اول صفحه 805 روایت 939 ، مطبوعہ قادیان سن 2008ء) 24
سید نا حضرت الصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ” کہ ایک دفعہ ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا قادیان کسی بارات کے ساتھ آیا.یہ شخص علم توجہ کا بڑا ماہر تھا.چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے ملنے چلیں اور اس کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپ سے بھری مجلس میں کوئی بے ہودہ حرکات کرائے.جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تو اس نے اپنے علم سے آپ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا.مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ یک لخت کانپ اٹھا.مگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنا کام پھر شروع کر دیا.اور حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے.مگر پھر اس کے بدن پر ایک سخت لرزہ آیا اور اسکی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی مگر وہ پھر سنبھل گیا.مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشہ مسجد سے بھاگ نکلا اور بغیر جوتا پہنے نیچے بھاگتا ہوا اتر گیا.اس کے ساتھی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا.جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر اپنی توجہ ڈالوں اور مجلس میں ان سے کوئی لفو حرکات کرا دوں.لیکن جب میں نے توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے مگر ایک فاصلہ پر ایک شیر بیٹھا ہے.میں اسے دیکھ کر کانپ گیا.لیکن میں نے جی میں ہی اپنے آپ کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم 25
ہے.چنانچہ میں نے پھر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی تو میں نے دیکھا کہ پھر وہی شیر میرے سامنے ہے اور میرے قریب آ گیا.اس پر پھر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا.مگر میں پھر سنجل گیا اور میں نے جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میں و ہم سے خوف پیدا ہو گیا.چنانچہ میں نے اپنا دل مضبوط کر کے اور اپنی طاقت کو جمع کر کے پھر مرزا صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈالا اور پورا زور لگایا.اس پر ناگہاں میں نے دیکھا کہ وہی شیر میرے اوپر کو کر حملہ آور ہوا ہے.اس وقت میں نے بے خود ہو کر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اٹھا....بعد میں وہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت معتقد ہوگیا تھا.جب تک زندہ رہا آپ سے خط و کتابت رکھتا تھا.(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 55 روایت نمبر 75 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ نے مورخہ 19 مارچ 1944ء کو بعد نماز عصر مسجد مبارک میں اسی مسجد کے متعلق فرمایا تھا: ”جو لوگ قادیان آتے ہیں ان کو روزانہ کوئی نہ کوئی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنی چاہئے.یہ برکت دینے والی جگہ ہے.یہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور ہر کام جو یہاں کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا.اس بات کو کہنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ خدا کہ رہا ہے.اگر خدا ایک دفعہ بھی کسی چیز کو مبارک قرار دیدے تب بھی اس کی برکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.مگر یہ مسجد تو وہ ہے جسے خدا 26
نے بار بار مبارک کہا.اور نہ صرف یہ کہا کہ یہ مسجد برکت دہندہ اور نزولِ برکات کا مقام ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر کام جو اس مسجد میں کیا جائے گاوہ مبارک ہوگا.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نماز مبارک ہے جو اس مسجد میں ادا کی جائے.وہ سجدہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے.وہ قیام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے.وہ تشہد مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے.وہ سلام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے.وہ تکبیر مبارک ہے جو اس مسجد میں کی جائے.وہ دعائیں مبارک ہیں جو اس مسجد میں کی جاتی ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی برکتیں ، اتنی عظیم الشان برکتیں نازل ہوں، اور پھر انسان اُن برکات سے منہ پھیر کر چلا جائے...تو اس سے زیادہ محروم اور بدقسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے.“ الفضل 16اپریل 1944 جلد 32 صفحہ 1) مندرجہ بالا الہامات اور ارشادات سے مسجد مبارک کی اہمیت و مقام واضح ہے.احباب کرام کو اس میں بہت دعائیں کرنی چاہئیں.فرض نمازوں کے اوقات کے علاوہ باقی اوقات میں مسجد مبارک میں نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں.جلسہ سالانہ کے ایام کے علاوہ باقی ایام میں یہ مسجد با جماعت نماز کی ادائیگی کے لئے اور نوافل کے لئے ہمیشہ کھلی رہتی ہے.سرخی کے نشان والا کمرہ مسجد مبارک کے قدیمی حصہ کے مشرقی جانب سیڑھیوں کے ساتھ یہ کمرہ ہے.10 جولائی 1885ء بمطابق 27 /رمضان 1302 ہجری کا ذکر ہے کہ اسی کمرہ 27
میں جو اس وقت غسل خانہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام شرقاً غرباً بچھی ہوئی ایک چار پائی پر آرام فرما رہے تھے.تازہ پلستر کی وجہ سے حجرہ کی فضا میں خنکی سی تھی.چار پائی پر نہ کوئی بستر تھا نہ تکیہ اور حضرت اقدس علیہ السلام بائیں کروٹ لیٹے با ئیں کہنی سر کے نیچے رکھے اور چہرہ مبارک دائیں ہاتھ سے ڈھانپے ہوئے تھے.اور حضور کے مخلص خادم منشی عبداللہ صاحب ستوری نیچے بیٹھے حضور کے پاؤں داب رہے تھے کہ حضرت اقدس نے کشفی حالت میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء وقدر حضرت نے اپنے ہاتھ سے لکھے کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل میں متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو آپ کی طرف چھڑ کا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا.اور اس سے قضاء وقدر کی کتاب پر دستخط کر دئے.خدا کی معجز نمائی کا نشان دیکھو.اُدھر عالم کشف میں قلم کی سرخی چھڑ کی گئی اور ادھر یہ سرخی وجود خارجی میں منتقل ہوگئی.منشی صاحب نے سخت حیرت زدہ ہو کر بچشم خود دیکھا کہ حضور کے ٹخنے پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا ہوا ہے.انہوں نے اپنی داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اس قطرہ پر رکھی تو وہ قطرہ ٹخنے اور انگلی پر بھی پھیل گیا.تب ان کے دل میں یہ آیت گزری صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةَ (البقرة: 139) انہوں نے سوچا کہ جب یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں خوشبو بھی ہوگی.مگر اس میں 28
خوشبو نہیں تھی.ابھی وہ اسی حیرت و استعجاب میں تھے کہ انہیں حضور کے کرتے پر بھی سرخی کے چند تازے چھینٹے دکھائی دئے.وہ مبہوت ہو کر آہستہ سے چار پائی سے اٹھے اور انہوں نے ان قطرات کا سراغ لگانے کے لئے چھت کا گوشہ گوشہ پوری بار یک نظر سے دیکھ ڈالا.انہیں اس وقت یہ بھی خیال ہوا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی دُم کٹنے سے خون نہ گرا ہو.مگر وہ تو دست قدرت کا کشفی معجزہ تھا.خارج میں اس کا کھوج کیا مانا تھا.نا چار وہ چار پائی پر بیٹھ گئے اور دوبارہ پاؤں دابنے کی خدمت میں مصروف ہو گئے.تھوڑی دیر بعد حضور عالم کشف سے بیدار ہو گئے اور مسجد مبارک میں تشریف لے آئے.منشی صاحب پھر دابنے لگے اور اس دوران میں انہوں نے حضرت سے سوال بھی کر دیا کہ حضور آپ پر یہ سرخی کہاں سے گری ہے؟ حضور نے بے توجہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہوگا.دوبارہ عرض کیا گیا کہ حضور یہ آموں کا رس نہیں یہ تو سرخی ہے.اس پر حضور نے سرمبارک کو تھوڑی سی حرکت دیکر فرمایا ” کتھے ہے یعنی کہاں ہے.منشی صاحب نے کرتے پر وہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے.اس پر حضور نے کر یہ سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنا سر ادھر پھیر کر قطرہ کو دیکھا اور پھر (منشی صاحب کے بیان کے مطابق) پہلے بزرگوں کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کی ہستی وراء الوراء ہے.اس کو یہ آنکھیں دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں.البتہ اس کے بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہوکر بزرگوں کو دکھائی دئے جاتے ہیں.رویت باری تعالیٰ اور کشفی امور کے خارجی ظہور پر یوں واقعاتی روشنی ڈالنے کے بعد 29
حضرت اقدس نے انہیں کشف کی پوری تفصیل سنائی.بلکہ اپنے دست مبارک سے کشف میں قلم کے جھاڑنے اور دستخط کرنے کا نقشہ بھی کھینچا.اور اسی طرز پر جنبش دی اور اُن سے پوچھا کہ اپنا کرتا اور ٹوپی دیکھیں کہیں ان پر بھی سرخی کا قطرہ تو نہیں گرا؟ انہوں نے کرتہ دیکھا تو وہ بالکل صاف تھا.مگر ململ کی سفید ٹوپی پر ایک قطرہ موجود تھا.منشی صاحب نے عاجزانہ درخواست کی کہ حضور اپنا یہ اعجاز نما کرتہ انہیں تبرکاً عنایت فرمائیں.حضرت اقدس کا سلوک اپنے خدام ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی فیاضانہ تھا.لیکن آپ نے منشی صاحب کی یہ درخواست ماننے سے انکار کر دیا اور فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ ہمارے بعد اس سے شرک پھیلے گا.اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنا کر اس کی پوجا شروع کر دینگے.انہوں نے عرض کیا رسول اللہ ملا لیا ایم کے تبرکات بھی تو صحابہ رکھتے تھے.ان سے شرک نہ پھیلا.فرمایا ”میاں عبد اللہ در اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اسکیم کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.جو تبرک جس صحابی کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا.انہوں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جاؤں گا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا ’ہاں یہ عہد کرتے ہو تو لے لو.چنانچہ حضرت نے جمعہ کے لئے کپڑے بدلے اور یہ کر یہ نشی صاحب کے سپردکر دیا.اس اعجازی کرتہ کا کپڑا نیوکہلاتا ہے اور سرخی کا رنگ ہلکا اور گلابی مائل تھا.جس میں تینتالیس برس کی طویل مدت گزرنے کے باوجود خفیف سا تغیر بھی نہیں ہوا.30
...حضرت منشی صاحب نے عمر بھر اعجازی کرتہ کی حفاظت کی اور سفر وحضر میں ہمیشہ اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے بالآخر 7 اکتوبر 1927ء کو انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اور یہ قیمتی یادگار بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کر دی گئی.بيت الفكر ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر صفحہ 269) بيت المفکر وہ کمرہ ہے جو کہ مسجد مبارک سے ملحق شمالی جانب ہے.اور اس کمرہ کی کھڑ کی مسجد مبارک کے قدیمی حصہ میں کھلتی ہے.اس کمرہ کی چوڑائی تقریباً دس فٹ اور لمبائی تیرہ فٹ چھ انچ ہے.اس کمرہ میں داخل ہونے کے لئے مسجد مبارک کی کھڑکی کے علاوہ ایک دروازہ جانب مشرق اور دوسرا جانب شمال ہے.یہ وہ مبارک کمرہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود ابتدائی ایام میں تالیف و تصنیف کے کام میں مشغول رہا کرتے تھے.اسی کمرہ کی نسبت حضور کو 1882ء میں الہام ہوا الَمْ نَجْعَلْ لَكَ سُهُوَ لَةً فِي كُلِ أَمْرٍ - بَيْتُ الْفِكْرِ...(تذکرہ صفحہ 82) کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی ؟ کہ تجھ کو بیت الفکر عطا کیا.“ یہ کمرہ دُعاؤں اور نوافل کی ادائیگی کے لئے ہر وقت کھلا رہتا ہے.اگر نوافل کا وقت نہ ہو تو ہاتھ اٹھا کر مسنون طریق پر دُعا ئیں کر سکتے ہیں.31
دالان حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بيت الفکر کی شمالی جانب نسبتا ذرا بڑا کمرہ ہے.جس کی لمبائی تقریباً تیس (23) فٹ اور چوڑائی بارہ (12) فٹ ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کمرہ کے بارہ میں فرمایا کہ بیت الدعا کے ساتھ والا شرقی دالان بھی بہت تاریخی اور مقدس ہے.اس میں حضرت مسیح موعود نے اپنی عمر کا آخری زمانہ گزارا.اور حضرت اماں جان بعد میں یہیں رہیں.یہاں بہت سے الہامات ہوئے.بلکہ اماں جان اسے بیت الفکر میں شامل کہا کرتی ہیں.اور فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے بیت الفکر کا حصہ شمار فرماتے ضمیمہ اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 21) تھے.یہ کمرہ بھی دُعاؤں اور نوافل کے لئے کھلا رہتا ہے.بيت الدعا حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے سلسلہ میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں دعا کے لئے ایک مخصوص جگہ بنا لیا کرتے تھے.اور وہ بیت الدعا کہلاتا تھا.میں جہاں جہاں حضرت کے ساتھ گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے دعا 32
کے لئے ایک الگ جگہ ضرور مخصوص فرمائی اور اپنے روزانہ پروگرام میں یہ بات ہمیشہ داخل رکھی ہے کہ ایک وقت دعا کے لئے الگ کر لیا.قادیان میں ابتداء میں تو آپ اپنے اس چوبارہ میں ہی دعاؤں میں مصروف رہتے تھے جو آپ کے قیام کے لئے مخصوص تھا.پھر بيت الذكر ( مسجد مبارک) اس مقصد کے لئے مخصوص ہو گیا جب اللہ تعالیٰ کی مشیت از لی نے بیت الذکر بھی عام عبادت گاہ بنا دیا اور تخلیہ میسر نہ رہا تو آپ نے گھر میں ایک بیت الدعا بنا یا جواب تک موجود ہے.جب زلزلہ آیا اور حضور کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی ایک چبوترہ اس غرض کے لئے تعمیر کرالیا.گورداسپور مقدمات کے سلسلہ میں آپ کو کچھ عرصہ کے لئے رہنا پڑا تو وہاں بھی بیت الدعا کا اہتمام تھا.“ (سیرت حضرت مسیح موعود جلد پنجم صفحہ 505) مذکورہ بیوت الدعا میں سے بیت الدّعا وہ کمرہ بھی ہے جس کی بنیاد حضور نے اپنی وفات سے کم و بیش پانچ سال اور اڑھائی ماہ قبل رکھی تھی.دالان حضرت اماں جان کی مغربی جانب یہ چھوٹا سا کمرہ ہے.اس کی لمبائی 6فٹ 6 انچ اور چوڑائی 4 فٹ ہے مشرق اور مغرب کی جانب اس کے دو دروازے ہیں.دالان حضرت ا تاں جان سے اس میں داخل ہونے کے لئے لکڑی کی بنی سیڑھی کے چار قدم اوپر چڑھنا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بیت الدعا کی تعمیر کی غرض مندرجہ ذیل الفاظ میں 33
تحریر فرمائی: ”ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے.ستر سال کے قریب عمر سے گزر چکے ہیں.موت کا وقت مقر نہیں خدا جانے کس وقت آجاوے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے.ادھر فلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے.رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں ہے.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 110-109) بیت الدعا میں دعا کرتے وقت اس فرض کو مضر در محوظ رکھنا چاہئے جو حضرت مسیح موعود نے اس کی تعمیر کے وقت بیان فرمائی تھی.سب سے پہلے غلبہ اسلام اور احمدیت کے لئے درد دل اور الحاج سے دعائیں کرنی چاہئیں.اور خاص طور پر یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ جتنی دعا ئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کمرہ میں کی تھیں ان کو قبول کرتے ہوئے اس کے ثمرات سے جماعت اور تمام جہان کے لوگوں کو نوازتا چلا جا.حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحت و سلامتی والی درازی عمر اور جملہ مقاصد میں کامیابی عطا فرما.ان دعاؤں کے بعد اپنی ذاتی اغراض کے لئے بھی دُعائیں کی جائیں.34
ضروری وضاحت جلسہ سالانہ کے ایام میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض مہمانان کرام صرف اور صرف بیت الدعا میں دعا کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں بہت سا وقت انتظار میں گزار دیتے ہیں.اور یہ خیال کرتے ہیں کہ قادیان میں یہی ایک مقدس جگہ ہے جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں.حالانکہ یہ خیال درست نہیں ہے.ایسے خیال کرنے والے بھائیوں کے علم کے لئے تحریر ہے کہ بیت الدعا کی بنیاد حضرت مسیح موعود نے 13 / مارچ 1903ء کو رکھی تھی اور حضور کی وفات 26 رمئی 1908ء کو ہوئی تھی.اس لحاظ سے کم و بیش پانچ سال ہی آپ نے اس حجرہ میں دعائیں کیں.جبکہ مسجد اقصیٰ میں 1876ء سے لیکر وفات تک کم و بیش 32 سال دعائیں کرتے رہے اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں آپ کی بہت سی بشارتیں اور تحریرات ہیں جو اس مسجد کے ذکر میں تحریر کر دی گئی ہیں.مسجد مبارک میں 1883 ء سے وفات تک تقریباً 25 سال دعائیں کرتے رہے اور اس کے بارے میں بہت سے الہامات بھی ہیں.پس ان مساجد میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.35
بیت الریاضت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے 1875ء کے آخریا 1876ء کے شروع میں ایک معمر بزرگ پاک صورت کو خواب میں دیکھا.اس بزرگ نے حضور کو کہا کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ حضور بھی سنت اہل بیت رسالت کو بجالائیں.چنانچہ آپ نے آٹھ یا نو ماہ تک خفیہ طور پر روزے رکھنے کا مجاہدہ کیا.جس کا ذکر حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا ہے :- سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالا نا بہتر ہے پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گزارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں.بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں 36
کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دوتین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا.اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گزر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی.فرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے.اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سید ھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے.ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی 37
صورت پیدا ہوگئی یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیوں کہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 199-197 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) وہ کمرہ جس میں حضور نے آٹھ یا نو ماہ کے روزے رکھے بیت الریاضت کہلاتا ہے.یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہینِ احمدیہ تصنیف فرمائی تھی.(بحوالہ سیرۃ المہدی جلد دوم، صفحہ 151.روایت نمبر : 1206 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) نوافل اور دعاؤں کیلئے یہ کمرہ کھلا ہوا ہے.کمرہ پیدائش حضرت مسیح موعود علیہ السلام سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے آبائی مکان یعنی ”الدار کے ایک کمرہ میں حضور کی ولادت مورخہ 14 شوال 1250 ہجری بمطابق 13 فروری 1835 بروز جمعه المبارک ہوئی تھی.کمرہ پیدائش حضرت امصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ المصلح الدار “ کے اسی احاطہ کے ایک اور کمرہ میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت 12 جنوری 1889ء کو ہوئی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ : 38
حضرت اماں جان اُم المؤمنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی.بشیر اؤل قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا.تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے.شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی تم (یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد ) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے.شریف بھی اسی دالان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں.مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پیدا ہوا جو غربی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے.امتہ انصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امتہ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پیدا ہوئی.“ (سیرۃ المہدی جلد دوم صفحہ 182 روایت نمبر 1275 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) اس تاریخی اور بابرکت کمرے کی لمبائی مشرق سے مغرب کی طرف انیس فٹ دس انچ (1910) ہے اور چوڑائی شمال سے جنوب تک نو فٹ دس انچ (910) ہے.یہ کمرہ نوافل اور زیارت کیلئے کھلا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ مزید تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ام المؤمنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ : حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہوا 39
تھا.پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف رہتے رہے ہیں اور جس میں آجکل اتم طاہر احمد رہتی ہیں تو چونکہ اس کا ایک حصہ گلی کی طرف سے نمایاں طور پر نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اس کے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوا دیئے جس سے بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے حالانکہ حضرت صاحب نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہوا تھا.علاوہ ازیں حضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا بلکہ در اصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا.اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کا نام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے، بیت النور رکھا تھا اور تیسری منزل کے اس دالان کا نام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت اُتم وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام رکھا تھا...جس چوبارہ میں اس وقت مائی کا کو رہتی ہے جو مرزا سلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہینِ احمدیہ تصنیف کی تھی.“ (سیرۃ المہدی جلد دوم صفحه 150 روایت 1206 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) مسجد اقصیٰ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب مرحوم نے مسجد تعمیر کرنے کی غرض سے دو بازاروں کے درمیان ایک اونچی اور با موقع جگہ سات صد 40
روپے میں خریدی.( بحوالہ سیرت المہدی جلد اول صفحہ 215 ، روایت :232 مطبوعہ قادیان سن 2008ء) اور 1875ء میں ایک مسجد کی بنیا د رکھی جو مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے.جون 1876 میں یہ مسجد پائے تکمیل کو پہنچی.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب کہ حضرت مسیح موعود" کی عمر تقریبا چالیس سال تھی اور اس وقت آپ کا نہ کوئی دھوئی تھانہ جماعت.قادیان میں پہلے سے ہی بہت سی مساجد کی موجودگی میں اس مسجد کی تعمیر دیکھ کر کسی شخص نے کہا کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی.کس نے نماز پڑھنی ہے.اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے.(حیاۃ النبی جلد اول صفحہ 42) لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس وقت اس کی بات پر ہنس رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے بظاہر یہ بڑی نظر آنے والی مسجد کثرت از دحام کی وجہ سے ہمیشہ چھوٹی ہی ہوتی چلی جائیگی.اس مسجد کی ابتدائی پرانی عمارت اور اُس کا صحن اور کنویں کا نشان اپنی اپنی جگہ اسی طرح موجود ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تھے.2 رجون 1876ء کو حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کی وفات ہوگئی.ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی مسجد کے پہلو کے ایک گوشہ میں دفن کر دیا گیا.(اللهم ارحمه وادخله الجنة) بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ا صفحہ 128 - 127 مطبوعہ قادیان 2007ء) مسجد کی ابتدائی عمارت میں تقریباً دوصد افرادنماز ادا کر سکتے تھے.بعد میں جب جماعت احمدیہ کا قیام ہوا تو لوگ کثرت سے قادیان آنے لگے اور اس مسجد میں نمازیوں 41
کیلئے گنجائش نہیں ہوتی تھی.چنانچہ 1900ء میں مسجد کا صحن مشرق کی طرف اس قدر وسیع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ حضور کے والد کی قبر مسجد کے صحن میں آگئی.اصل قبر مسجد کے موجودہ صحن سے چھ سات فٹ نیچے ہے.اس لئے قبر کی جگہ پر اوپر چار دیواری بنا کر اسے اوپر سے بند کر دیا گیا.تا کہ لوگ قبر پر سے نہ گزریں اور اس کی بے حرمتی نہ ہو.1900ء میں مسجد اقصیٰ کے صحن کی جو توسیع ہوئی اس پر سفید ستارہ والی اینٹ استعمال کی گئی تھی اور یہ نشان اب تک موجود ہے.اس توسیع کے بعد مسجد میں دو ہزار نمازیوں کیلئے جگہ میسر آگئی.مسجد اقصیٰ کی عمارت میں دوسری مرتبہ توسیع 1910ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ہوئی.تیسری مرتبہ توسیع 1938ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے زمانہ میں ہوئی.7 جنوری1938ء کواس مسجد میں سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کیلئے پہلی بار لاؤڈ اسپیکر استعمال فرمایا تھا.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 539 مطبوعہ قادیان 2007 ء ) ( الفضل 13 جنوری 1938ء صفحہ 1 تا 4) مسجد اقصیٰ کی خصوصیات 1 - مسجد اقصیٰ کی بہت سی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس میں نمازیں ادا کرتے رہے.خاص طور پر مسجد مبارک تعمیر ہونے سے پہلے تو آپ اسی مسجد میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے اور ذکر الہی میں مشغول رہا کرتے تھے.اس مسجد کے قدیمی 42
حصہ کے درمیانی محراب میں حضور نے مورخہ 11 را پریل 1900 ء کو عید الاضحی کے موقعہ پر عربی زبان میں فی البدیہہ خطبہ عید ارشاد فرمایا جو خطبہ الہامیہ کے نام سے موسوم ہے.2 مسجد اقصیٰ میں ہی حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں پہلا جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1891ء کو منعقد ہوا.جس میں 75 احباب شریک ہوئے.حضور علیہ السلام کے زمانہ میں 1892ء کے جلسہ سالانہ کے سوا ( جوڈھاب کے کنارہ ہوا ) باقی جلسے مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوتے رہے.اور حضرت خلیفتہ اسح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں بھی ابتدائی پانچ جلسے مسجد اقصیٰ میں ہی منعقد ہوئے.3- حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مسجد کی توسیع کو شوکت اسلام سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قادیاں کی مسجد جو میرے والد صاحب مرحوم نے مختصر طور پر دو بازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی اب شوکت اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی.“ خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 15 مطبوعہ ربوہ سن 2008ء) سیرت المہدی حصہ پنجم میں تحریر ہے کہ ایک بار حضور علیہ السلام ہندو بازار سے ہوتے ہوئے رات کے وقت گزرے...پھر بڑی مسجد میں آکر اپنے والد صاحب کی قبر پر دُعا کی اور ہم سب نے بھی دعا کی.فرمایا پانی لاؤ اس کنوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا ہے".43
پانی منگوا کر پہلے حضور علیہ السلام نے پیا پھر ہم نے پیا.(سیرت المہدی جلد دوم صفحه 229 روایت نمبر 1386 مطبوعہر بوہ سن 2008ء) حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ 5 فروری 1932ء میں فرمایا: اس مسجد کا نام خدا تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے اور اس کے متعلق فرمایا ہے کہ مُبَارِگ وَمُبَارَكَ وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيهِ.یعنی جو کام یہاں کیا جائیگا وہ با برکت ہوگا.تو اس مسجد کی نماز اس کے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہوگی.“ اخبار الفضل قادیان دار الامان مورخه 14 فروری 1932ء صفحہ 7 نمبر 97 جلد 19.کالم نمبر 2) سید نا الصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد سے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ الہام مسجد اقصیٰ کے بارے میں بھی ہے.اسی طرح جلسہ سالانہ 2 193 ء پر حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے زائرین ارضِ حرم کو شعائر اللہ کی زیارت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ”شعائر اللہ میں مسجد مبارک.مسجد اقصی - منارة امسیح' شامل ہیں.ان مقامات میں سیر کے طور پر نہیں بلکہ ان کو شعائر اللہ سمجھ کر جانا چاہئے.تا کہ خدا تعالیٰ ان کے برکات سے مستفیض کرے.منارة امسیح کے پاس جب جاؤ تو یہ نہ سمجھو کہ یہ منارہ ہے.بلکہ یہ سمجھو کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں مسیح موعود اُترا.اسی طرح مسجد اقصیٰ میں جب جاؤ تو یہ نہ سمجھو کہ وہ اینٹوں اور چونے کی ایک عمارت 44
ہے.بلکہ یہ سمجھو کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے دنیا میں خدا کا نور پھیلا.پھر جب مسجد مبارک میں جاؤ تو یہ سمجھو کہ یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نمازیں پڑھا کرتے تھے.“ (روز نامه افضل قادیان دارالامان مورخہ یکم اکتوبر 1936ء جلد نمبر 24 شمارہ نمبر 79 صفحہ 6) صد سالہ خلافت جوبلی 2008ء میں مسجد اقصیٰ کی توسیع تقسیم ملک کے کچھ عرصہ بعد ہی مسجد اقصیٰ کی توسیع کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی.آخر یہی مقدر تھا کہ یہ عظیم الشان توسیع کسی تاریخی موقعہ پر ہو چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الخامس نَصَرَهُ الله تَعَالَى نَصْراً عَزِيزاً کے عہد مبارک میں خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے موقعہ پر مورخہ 7 / جون 2008ء کو اس جگہ تین منزلہ عمارت کی بنیاد محترم فاتح احمد صاحب ڈاہری انچارج انڈیا ڈیسک لندن (حال وکیل تعمیل و تنفیذ انڈیا.نیپال.بھوٹان) نے رکھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں یہاں ایک غیر مسلم نے بلند و بالا عمارت تعمیر کرنی شروع کی تو احباب جماعت نے مسجد اور دار اسیح کے قرب کی وجہ سے اپنی فکر و تشویش کا اظہار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالی سے علم پا کر فرمایا کہ: یہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے.شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا." ( بدر 21 /اگست 2008ء) ( بحوالہ الفضل 3 مئی 1932 ء صفحہ 5) 45
تعمیر کے بعد ہی مالک مکان پر پے در پے مصیبتیں آنے لگیں.اس نے عمارت کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے صدر انجمن احمد یہ کوفروخت کر دیا.1/5 پریل 1932ء کو اس میں صدر انجمن کے دفاتر منتقل ہو گئے.(الفضل 28 اپریل 1932ء صفحہ 2 )2008ء میں یہ عمارت انتہائی خستہ ہو چکی تھی.دوسری طرف مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی ضروری تھی.لہذا اسے منہدم کر کے مسجد کی توسیع ہوئی.اور ایک دفعہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی.کہ شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا.الحمد لله على ذالک! توسیع کے بعد اب اس مسجد میں ہزاروں آدمیوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے.سطح زمین پر جو ہال ہے اس کی لمبائی شمال سے جنوب تک ایک سواٹھارہ (118) فٹ ہے اور مشرق سے مغرب کی چوڑائی پچپن (55) فٹ ہے.اس کے علاوہ سطح زمین پر ہی مسجد کے پرانے حصے میں جنوب کی طرف جو ہال ہے اس کی لمبائی شمال جنوب کی طرف بہتر (72) فٹ ہے.اور چوڑائی چالیس (40) فٹ ہے.مسجد کے ہر فلور کا رقبہ 7200 مربعہ فٹ ہے.مسجد کے جدید تعمیر شدہ حصے میں جانے کے لئے جنوب کی طرف سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ قدیمی حصہ میں جانے کے لئے شمال مشرقی جانب سیڑھیاں بنائی گئی ہیں.46
مسجد اقصی کی چھت پر جنوبی جانب گنبد اور چار چھوٹے مناروں کی تعمیر.مسجد اقصیٰ کا وہ مستخف حصہ جسے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم و مغفور نے 1875 - 1876 ء میں تعمیر کروایا تھا، اُسے چھوڑ کر بقیہ مسقف حصے کی چھت مرور زمانہ کی وجہ سے تبدیلی کی متقاضی تھی.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری اور ہدایات کے مطابق 2015ء کے وسط میں پرانی چھت کو منہدم کر کے نئی چھت (لنٹر ) تعمیر کیا گیا.اور چھت کی جنوبی جانب اسی طرح کا گنبد اور چار کونوں پر چار چھوٹے منارے تعمیر کئے گئے جیسے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم و مغفور نے 1875ء میں تعمیر کئے جانے والے قدیمی حصے کی چھت پر تعمیر کروائے تھے.گنبد کی اونچائی تقریباً انہیں (19) فٹ چھائی ہے.اور ہر کونے کے منارے کی اونچائی کم و بیش تیرہ (13) فٹ ہے.مسجد کا اندرونی حصہ جس کی چھت تبدیل کی گئی ہے اس کی لمبائی تقریباً اکانوے (91) فٹ چھ انچ ہے اور چوڑائی تقریباً پندرہ (15) فٹ چھانی ہے.مسجد کے مشرقی برآمدہ کی تمام چھت اکھیڑ کر اس پرنٹر ڈالا گیا ہے.برآمدہ کے درمیان مشرقی جانب باہر کی طرف ایک محرابی شکل کا خوبصورت بلند درواز و تعمیر کیا گیا ہے جس سے اس تاریخی اور مقدس مسجد کی خوبصورتی دوبالا ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالی.گنبد اور چار 47
مذکورہ مناروں کی تعمیر مسجد اقصیٰ کے خوبصورت لکڑی کے دروازوں کی تنصیب و دیگر تمام تعمیری کام حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری اور ہدایات کے مطابق محترم فاتح احمد خان صاحب ڈاہری وکیل تعمیل و تحفیظ (برائے انڈیا.نیپال.بھوٹان ) ( مقیم لندن ) نے اپنی نگرانی میں انتہائی خوش اسلوبی سے مکمل کروایا ہے.جزاھم اللہ احسن الجزاء مسجد اقصیٰ و مبارک کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی فرماتے ہیں: خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایام قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے...حضور علیہ السلام نے کھڑے کھڑے فرمایا که شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد (مبارک) سے بڑی مسجد ( اقصیٰ ) تک مسجد ہی مسجد ہے...اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے.“ 48 اصحاب احمد جلد 7 صفحہ 207 تذکره 694)
منارة السيح مسجد اقصی کو یہ فخر اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اس مسجد کے صحن کو منارة امسیح کی تعمیر کے لئے منتخب فرمایا.مورخہ 13 / مارچ 1903ء بروز جمعہ اس مسجد کے صحن میں منارة لمسیح کا سنگ بنیاد رکھا گیا.بعض وجوہات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس کی تکمیل نہ ہوسکی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے عبد خلافت کے پہلے ہی سال مورخہ 27 نومبر 1914ء کو منارة اسبیح کی نامکمل عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھ کر اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کروادیا.16 فروری 1923ء کو یہ پائے تکمیل کو پہنچا.یہ خوشنما اور دلکش منارہ 105 فٹ اونچا ہے.اس کی تین منزلیں اور اوپر گنبد اور 92 سیڑھیاں ہیں.حضرت مسیح موعود کی دیرینہ خواہش کے مطابق منارہ پر اُن مخلص چندہ دہندگان کے نام درج ہیں جنہوں نے ایک ایک سو روپیہ چندہ دیا تھا.اس زمانہ میں صرف عمارت کی تعمیر پر 5963 روپئے خرچ ہوئے تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منارہ مسیح کی تعمیر کے وقت جو مقاصد بیان فرمائے تھے ان میں سے تین درج ذیل ہیں : 1 تا مؤذن اس پر چڑھ کر پانچ وقت اذان دے اور لا إله إلا اللہ کی آواز ہر ایک 49
کان تک پہنچے.2.اس منارہ پر ایک لائین نصب کیا جائے تا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا ہے.3.اس منارہ پر ایک بڑا گھنٹہ نصب کیا جائے تا انسان اپنے وقت کو پہچانے اور انسانوں کو وقت شناسی کی طرف توجہ ہو.تا لوگ یہ بھی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ منارہ اپنے روز تکمیل سے آج تک اپنے مقاصد تعمیر کو پورا کرتا چلا آرہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک کرتا چلا جائے گا.بہشتی مقبره قادیان کے مقدس مقامات میں سے اہم ترین مقام بہشتی مقبرہ ہے.جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسم مبارک مورخہ 27 مئی 1908 ، شام چھ بجے اشکبار آنکھوں کے ساتھ مقدس خاک کے سپرد کر دیا گیا تھا.اور یہی وہ قبر ہے جس کی مٹی حضور کو کشف میں چاندی کی دکھائی گئی تھی.اور جس کا ذکر حضور نے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے.یہی وہ بہشتی مقبرہ ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور کو یہ خوشخبری دی تھی کہ یہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.50
ہر احمدی کی آرزو اور دلی تڑپ ہوتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کرے.اور اکثر نو مبایعین یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کیا دعا کریں.اُن کی آگاہی کیلئے تحریر ہے کہ مسنون طریق کے مطابق دعا کیلئے ہاتھ اٹھا ئیں اور سب سے پہلے سورۃ الفاتحۃ اور درود شریف پڑھیں اور اسکے بعد اپنی زبان میں مندرجہ ذیل دعائیں مانگیں.سید نامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ کے افراد کو یہ حکم دیا تھا کہ: مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرِثُهُ مِنِّي السَّلَامَ (در منثور راوی انس جلد 6 صفحہ 743) یعنی جو بھی تم میں سے مسیح موعود کو پالے اسے میر اسلام پہنچائے.اے اللہ ! آج ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر کھڑے ہیں.ہماری طرف سے سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ان تک پہنچا دے.اے اللہ ! احیاء اسلام کیلئے انہوں نے جس جماعت ( احمدیت) کی بنیاد رکھی اور قرآن مجید واحادیث کی جو تعلیمات اُنہوں نے دُنیا کے سامنے پیش کیں اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قبول کرنے کی توفیق بخش.مجھے اور میری اولا د اور تمام افراد جماعت کو ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما.اے اللہ ! ہمیں خلیفہ وقت کی ویسی اطاعت کرنے کی توفیق دے جیسی حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیب 51
ہوئی.ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی روح القدس سے تائید و نصرت فرما تا چلا جا.یا رب ! اس قبرستان میں دفن ہونے والے اور ساری دُنیا کے موصیوں پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور ہمیں بھی اس بابرکت نظام ( وصیت ) میں شامل ہونے کی توفیق دے.اس کے بعد اپنی اور اپنے اقرباء کی مغفرت اور دیگر امور کیلئے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جاسکتی ہیں.اللہ تعالیٰ سب کی دُعائیں قبول فرمائے.آمین !! احاطہ بہشتی مقبرہ میں موجود مقدس مقامات احاطہ بہشتی مقبرہ کا حالیہ رقبہ تقریباً 17 ایکڑ ہے.یہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا آبائی باغ تھا.بعد میں کچھ اور زمین خرید کے اس احاطہ کو وسیع کیا گیا.بہشتی مقبرہ میں سب سے پہلے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالی عنہ دفن ہوئے.مولوی صاحب 11 /اکتوبر 1905ءکو بعد نماز ظہر قادیان میں وفات پاگئے تھے.اسی روز شام کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.اور آپ عام قبرستان میں جو آبادی کے جانب شرق ڈھاب کے قریب واقع ہے امانتا دفن کئے گئے تھے.26 دسمبر کو نماز ظہر وعصر کے بعد آپ کا تابوت قبر سے نکالا گیا اور پھر 27 دسمبر کو 10 بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مجمع کثیر کے ساتھ آپ کی نماز جنازہ ادا فرمائی.پھر بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا گیا.بہشتی مقبرہ میں آپ کی 52
قبرسب سے پہلی قبر ہے.(بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 297) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات 26 رمئی 1908ء کو لاہور میں ہوئی تھی.27 مئی کو آپ کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کیا گیا.آپ کے دائیں ( یعنی مغربی جانب ) حضرت مولانا نورالدین صاحب کی قبر ہے.اور بائیں (مشرقی جانب ) جگہ خالی ہے.جو حضرت ام المؤمنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی تدفین کے لئے خالی رکھی گئی ہے.حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات 21/20 اپریل 1952ء کی درمیانی شب کور بوہ میں ہو گئی تھی.آپ بہشتی مقبرہ میں امانتا دفن ہیں.آپ کی وصیت تھی کہ مجھے قادیان ضرور پہنچانا یہاں نہ رکھ لینا.( تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 115 مطبوعہ قادیان سن 2007ء) احباب جماعت کو ہمیشہ دعا کرنی چاہئے کہ وہ دن جلد آئے جب مرحومہ کی وصیت کے مطابق جماعت اس امانت کو ان کے وصیت کردہ مقام پر دفن کرنے کی توفیق پائے.جماعت احمدیہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت میں بھی اضافہ ہونا ایک لازمی امر تھا اور ہے.اس کے نتیجہ میں آئندہ کبھی بھی مخدوش حالات پیدا ہو سکتے ہیں.اور ہوسکتا ہے بعض نادان مخالفین قبور کی بے حرمتی کی کوشش کریں.چنانچہ نومبر 1925ء میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور بعض دوسرے اصحاب رضوان اللہ علیہم اور بعض دوسری قبور کے اردگرد چاردیواری بنادی گئی.دوسری طرف بعض کم تربیت یافتہ اور غیر از جماعت دوست حضرت 53
مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر پھول ڈالنے اور مشرکانہ طریق اختیار کرنے لگے.انہیں اس طریق سے باز رکھنے کیلئے بھی چار دیواری بنانا ضروری سمجھا گیا.1956/ 1957ء میں بہشتی مقبرہ کے وسیع رقبہ کے ارد گرد بھی پختہ چار دیواری بنادی گئی.جس کا اکثر حصہ درویشان کرام نے وقار عمل کے ذریعہ تعمیر کیا.فجزاهم الله احسن الجزاء مکان حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب ہم مغرب کی طرف جائیں تو سامنے ایک مکان نظر آئے گا.یہ مکان حضرت اماں جان کہلاتا ہے.اور اسے دار الواقفین بھی کہا جاتا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد اطہر لاہور سے قادیان لا کر 27 رمئی 1908 ء کو اسی مکان کے درمیانی کمرہ میں رکھا گیا تھا.اور اسی کمرہ میں احباب نے اپنے آقا کے آخری دیدار کا شرف حاصل کیا تھا.اس تاریخی کمرہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے.نوٹ:- خاکسار راقم الحروف محمد حمید کوثر تحریر کرتا ہے کہ اسی مکان کے مشرقی شمالی کونہ میں ایک غسل خانہ ہوا کرتا تھا اس کی ٹنکی میں پانی ڈالنے کا رستہ باہر کی طرف بنا ہوا تھا.1960ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار نے دیکھا کہ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی 54
بعض پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کو بتارہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ صبح صبح میں نے دیکھا کہ حضور کنویں سے ”بو گئے ( ربڑیا چمڑے کی بالٹی ) میں پانی لا کر اس ٹنکی میں ڈال رہے تھے.بھائی جی نے فرمایا میں نے جلدی سے وہ بوکا حضور علیہ السلام کے ہاتھ سے لے لیا اور پھر میں نے پانی لا کر ڈالا.صبح صبح حضور علیہ السلام نے اپنے کسی خادم کو پانی لانے کی زحمت دینا پسند نہ فرمایا.دونشین حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنے باغ میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لاتے تو اس چبوترہ پر تشریف فرما ہوتے.اور مجالس علم و عرفان کا انعقاد ہوتا اور اس کے ساتھ ساتھ موسم کے مطابق حاضرین کی تازہ پھلوں سے ضیافت بھی فرماتے.1972ء میں اس جگہ ایک پختہ کمرہ تعمیر کر دیا گیا تھا اور حضور کے بیٹھنے کی جگہ کو نمایاں کر دیا گیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق 2015 ء کے شروع میں سابقہ کمرہ کو منہدم کر کے خوبصورت بارہ دری تعمیر کی جاچکی ہے.جنازه گاه اسی باغ میں وہ یاد گاری اور مقدس جگہ بھی ہے جہاں احباب جماعت نے 27 مئی 1908ء کو حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں حضرت 55
مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ ادا کی.مقام ظہور قدرت ثانیہ جنازہ گاہ کے قریب ہی وہ مقام بھی ہے جہاں افراد جماعت نے 25 /ربیع الاول 1326 ہجری بمطابق 27 مئی 1908 ء کو حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو متفقہ طور پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا خلیفہ ( جانشین ) تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اسے مقام ظہور قدرت ثانیہ کہا جاتا ہے قدرت اولی کی اصطلاح موت کیلئے اور قدرت ثانیہ کی خلافت کیلئے استعمال کی جاتی ہے یعنی جماعت احمدیہ میں ” خلافت کی ابتداء اسی جگہ سے ہوئی تھی جو انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک جاری رہے گی.خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقعہ پر ظہور قدرت ثانیہ کے مقام پر یادگار تعمیر کرنے کے لئے مورخہ 2 جنوری 2008 ء صبح گیارہ بجے سنگ بنیاد رکھا گیا.مؤرخہ 27 مئی 2008ء کو احباب جماعت نے یہاں بیٹھ کر حضرت خلیفہ اسیح الخامس نصرہ اللہ تعالی کا لندن سے بذریعہ ایم.ٹی.اے نشر ہونے والا خطاب سنا اور اکناف عالم میں بسنے والے احباب جماعت نے اسے بذریعہ ایم.ٹی اے دیکھا.56
بعض یادگاری اور تاریخی مقامات گول کمرہ مسجد مبارک کی شرقی جانب کی بڑی سیڑھیوں سے اؤ پر چڑھا جائے تو دائیں طرف ایک گول کمرہ نظر آئے گا.اس تاریخی کمرہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: گول کمرہ میں نے بنایا ہے میرے بھائی نے نہیں بنایا.میں نے خود بحیات برادخورد بنایا ہے.جب کہ وہ سخت بیمار تھے اور اُسی مرض کہ اُس سے جاں بر نہ ہو سکے تھے.“ (الحکم 31 جولائی 1901 ء صفحہ 7) سیرت المہدی کی ایک روایت سے علم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات 1883ء میں ہوئی تھی.( بحوالہ سیرت المہدی جلد اول صفحه 51 روایت نمبر 69) پس ثابت ہوا کہ گول کمرہ 1883ء میں یا اس سے قبل تعمیر ہو چکا تھا.پہلے یہ کمرہ بطور مہمان خانہ کے استعمال ہوتا تھا اور اسی جگہ مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا.اور کا تب اسی جگہ مسودات کی کا پیاں لکھا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی جگہ احباب سے ملاقات فرمایا کرتے تھے.1893ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 57
کتاب آئینہ کمالات اسلام لکھے کا ارادہ فرمایا تو شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر سے ارشاد فرمایا کہ اپنا پریس قادیان لے آئیں.چنانچہ وہ امرتسر سے اپنا پریس قادیان لے آئے اور اسے گول کمرہ میں نصب کر دیا.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 472 بعد ازاں یہ پریس کسی اور جگہ منتقل ہو گیا اور سنہ 1895ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب پنشن لیکر آگئے تو اس وقت انہوں نے گول کمرہ کے آگے دیوار بنوا کر پردہ کر لیا اور اسی میں اپنی رہائش رکھ لی.(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 126 ) یہ تاریخی کمرہ بھی دیکھا جا سکتا؟.دیوار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ سلسلہ جب ترقی کرنے لگا تو ابلیسی طاقتیں اسے کب برداشت کر سکتی تھیں.انہوں نے مخالفت کی ہر وہ راہ اختیار کی جو ان کے بس میں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام دین نے محض آپ کو تنگ اور پریشان کرنے کی خاطر آپ کے گھر کے سامنے 5 جنوری 1900ء کو ایک دیوار بنوانا شروع کی جو کہ آٹھ فٹ اونچی، دس فٹ لمبی اور ڈیڑھ فٹ چوڑی تھی.یہ دیوار مسجد مبارک کے جنوب میں شرقا غربا تھی.7 جنوری کو یہ تکلیف دہ دیوار مکمل ہوگئی.ابتداء میں 58
حضرت مسیح موعود نے مرزا امام دین کی طرف معتبر شخصیات کو بھجوایا.مگر وہ کسی بھی طرح اس دیوار کو گرانے پر آمادہ نہ ہوئے.پھر ضلع کی انتظامیہ کی طرف رجوع کیا گیا.وہاں بھی ڈپٹی کمشنر کا رویہ معاندانہ تھا.آخر مجبوراً دیوانی عدالت میں دعویٰ کیا گیا.12 اگست 1901ء کو دیوار گرانے کا فیصلہ عدالت نے عنایا اور 20 راگست شام چار بجے اس بھنگی کو وہ دیوار گرانی پڑی جس کے ذریعہ امام دین نے تعمیر کروائی تھی.اس ضمن میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا: یہ پیشگوئی ہے جو اُس وقت کی گئی تھی جبکہ مخالف دھوئی سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا.اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم ان کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کر وہ دُکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امر ظاہر کروں گا جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے ، وہ مغلوب ہو جائے گا...“ پھر فیصلہ کا دن آیا.اُس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراج مقدمہ کا حکم سنایا جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذا کا موقعہ ہاتھ آ جائے گا وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنی کھلنے تھے کہ وہ ایک امر مخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اور آخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا.سوالیسا اتفاق ہوا کہ اُس دن 59
ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پرانی مسل کا انڈکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی.یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام دین ہے بلکہ میرزاغلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں.تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا اُس نے فی الفور وہ انڈکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اُس پر حقیقت کھل گئی اس لئے اُسنے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کر دی.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 283) جہاں دیوار بنائی گئی تھی وہ جگہ آج بھی دیکھی جاسکتی ہے اور اپنے ایمانوں کو جلاء بخشی جا سکتی ہے.کہاں گئے دیوار بنانے والے؟ اور جن کو روکنے کے لئے بنائی تھی وہ تو ساری دنیا میں پھیل گئے اور پھلتے پھولتے جارہے ہیں.الحمد للہ علی ذلک.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا آبائی قبرستان حضرت مسیح موعود علیہ اصلوۃ والسلام کا قدیم آبائی خاندانی قبرستان قادیان کے مغرب کی طرف واقع ہے.اسی قبرستان میں حضور علیہ السلام کی والدہ صاحبہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کی 60
قبر ہے.جن کی وفات 1868ء میں ہوئی تھی.جب کبھی حضور علیہ السلام ان کا ذکر فرماتے آنکھوں سے آنسوں رواں ہو جاتے تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا چشم دید بیان ہے کہ حضور علیہ السلام ایک مرتبہ سیر کی غرض سے اپنے پرانے خاندانی قبرستان کی طرف نکل گئے.راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت لیبی دعافرمائی اور چشم پر آب ہو گئے.( بحوالہ حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ 221 مطبوعہ ربوہ سن 2013ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد صاحب اور دادا صاحب کے نزدیک اس قبرستان کی اتنی اہمیت تھی کہ جب حضور علیہ السلام کے دادا مرزا عطا محمد صاحب بیگووال ریاست کپورتھلہ میں پناہ گزین تھے اور وہاں 1814ء میں ان کی وفات ہو گئی تو حضور علیہ السلام کے والد حضرت مرز الظلام مرتضیٰ صاحب آپ کا جناز و اپنے آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے لئے راتوں رات قادیان میں لے آئے اور سکھوں کی مزاحمت کے باوجود انہیں بڑی دلیری سے اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: (بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 7) ”قادیان کے جس قبرستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد دفن ہوتے رہے ہیں وہ مقامی عید گاہ کے پاس ہے.یہ ایک وسیع قبرستان ہے جو 61
قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جن افراد کی قبروں کا مجھے علم ہو سکا ہے اُن میں سے بعض کا خاکہ درج ذیل ہے.اس خا کہ میں شاہ عبداللہ صاحب غازی کی قبر بھی دکھائی گئی ہے جو ایک فقیر منش بزرگ ہیں.مجھے یہ اطلاع اس قبرستان کے فقیر جھنڈ وشاہ سے بواسطہ شیخ نور احمد صاحب مختار عام مرحوم ملی تھی اور شاہ عبداللہ غازی کے متعلق مجھے والدہ عزیزم مرزا رشید احمد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مرزا گل محمد صاحب ( پڑدادا حضرت صاحب ) کے زمانہ میں ایک فقیر مزاج بزرگ گزرے ہیں جن کے مرنے پر مرزا گل محمد صاحب نے ان کا مزار بنوادیا تھا.ہماری ہمشیرہ امتہ النصیر کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہے.(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 686-685 روایت نمبر 758) 62
شمال فرزند شاه صاحب موصوف احاطہ مزار شاہ عبد اللہ غازی مشرق مانی صاحب جان صاحبہ بیوہ مرزا غلام حیدر صاحب یعنی شاہ عبد اللہ غازی جنوب مغرب حضرت مرزاکل محمد صاحب پڑدادا حضرت مسیح موعود مرز اعطا محمد صاحب دادا حضرت صاحب مائی لاڈلی بیگم صاحبہ عرف مائی لاڈ و اہلیہ حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ مرت اعطا محمد صاحب یعنی دادی حضرت صاحب والدہ حضرت مسیح موعود اہلیہ مرزاگل محمد صاحب مرزا غلام قادر صاحب برادر کلاں پڑداد کی حضرت صاحب حضرت صاحب مرز اعلام حیدر صاحب چچا حضرت صاحب جنت بی بی ہمشیرہ حضرت صاحب مرزا غلام محی الدین صاحب چچا حضرت صاحب مراد في لي صاحبه ہمشیر حضرت صاحب 63
مسجد نور تقسیم ملک یعنی 1947 ء سے قبل قادیان میں تقریباً 12 مساجد تھیں.اس کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی نماز ادا ہوتی تھی.تقسیم کے بعد صرف تین مساجد، مسجد مبارک ،مسجد اقصیٰ اور مسجد ناصر آباد میں باقاعدہ باجماعت نمازوں کا سلسلہ جاری رہا.اب 14 مساجد میں با جماعت نمازوں کا سلسلہ جاری ہے.چنانچہ مذکورہ بالا تین مساجد کے علاوہ دار الانوار، دار البرکات ، دار الرحمت، مسجد نور، دار الفتوح، مسجد دار الفضل، مسجد محمود، مسجد بشارت ، مسجد طاہر منگل ،مسجد مہدی کا ہلواں اور مسجد کوٹھی دار السلام میں بھی باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں.مسجد نور بھی قادیان کی اہم مساجد میں سے ایک ہے.اس تاریخی مسجد کی بنیاد حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 5 مارچ 1910ء کو رکھی تھی.اس کی تعمیر پر تین ہزار روپئے صرف ہوئے تھے.جو حضرت میر ناصر نواب صاحب نے فراہم کئے تھے.یہ مسجد تعلیم الاسلام اسکول اور کالج کے احاطہ میں ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات حضرت نواب محمد علی صاحب کی کوشی دار السلام میں 13 مارچ 1914 ء کو ہوئی تھی جو کہ کالج اور مسجد نور کے شمالی جانب واقع ہے.14 / مارچ 1914ء کو اسی مسجد، مسجد نور میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ثانی منتخب ہوئے اور تقریباً دو ہزار لوگوں نے ان کے 64
ہاتھ پر اس وقت بیعت کی تھی.اس کے بعد حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ہائی اسکول کے شمالی میدان میں پڑھایا تھا.یہی وہ تاریخی مسجد ہے جس میں جماعت احمدیہ کی اکثریت نے قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی تعمیل میں خلافت سے وابستہ رہنے کا عہد کیا تھا اور معدودے رودے چند لوگ مولوی محمد علی صاحب کی سرکردگی میں خلافت سے روگردانی اختیار کرتے ہوئے قادیان کو چھوڑ کر لا ہور چلے گئے تھے.بعض اور تاریخی و یادگاری مقامات مذکورہ بالا تاریخی و مقدس مقامات کے علاوہ احباب جماعت مندرجہ ذیل تاریخی و یاد گاری مقامات کو بھی دیکھ سکتے ہیں.2015 ء میں ان عمارات میں جو ادارے ہیں انکے نام بھی درجہ ذیل ہیں :.مکان حضرت خلیفہ امسیح الاول لنگر خانہ کی عمارت.مہمان خانہ تعلیم الاسلام اسکول کی ابتدائی عمارت ( جس میں آجکل صدر انجمن احمدیہ، انجمن تحریک جدید اور انجمن وقف جدید کے دفاتر ہیں ).مدرسہ کی ابتدائی عمارت خستہ ہونے کی وجہ سے منہدم کر دی گئی ہے اور مدرسہ احمدیہ (جامعہ احمدیہ ) سرائے طاہر کی عظیم الشان عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے.( یہ جگہ تعلیم الاسلام اسکول کی ابتدائی عمارت کے صحن میں شامل کر دی گئی ہے ).قصر 65
خلافت.نور ہسپتال کی قدیمی اور جدید عمارت.گیسٹ ہاؤسز دار الانوار (ان میں آجکل تعلیم الاسلام سینئر سیکنڈری اسکول ہے).سرائے طاہر جس میں آجکل جامعہ احمدیہ ہے.مسجد انوار (یعنی مسجد دارالانوار کی جدید عمارت ) تعلیم الاسلام کالج ( صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملکیت ہے لیکن آجکل اس میں سکھ نیشنل کالج ہے ).بورڈ نگ تحریک جدید (صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملکیت سے لیکن آجکل اس میں خالصہ ہائی اسکول ہے ).کوٹھی دار السلام محلہ دار العلوم میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب (نواب مالیر کوٹلہ ) اور حضرت نواب مہار کہ بیگم صاحبہ کی کوٹھی "دار السلام کے نام سے موسوم ہے.اس کے ایک کمرہ میں حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور یہیں آپ کی وفات ہوئی تھی.اسی کوٹھی سے سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 31 اگست 1947 ء کو سوا ایک بجے قادیان سے لاہور کا سفر اختیار کیا تھا.اس کوٹھی کا تاریخی حصہ بھی زائرین دیکھ سکتے ہیں.اب وہاں نئے مکانات اور مسجد تعمیر ہو چکی ہے.بيت الظفر قادیان کے محلہ دارالانوار کے شروع میں ہی حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر ہے.آجکل اس میں پنجاب بجلی بورڈ کا دفتر ہے.اس تاریخی 66
عمارت کو بھی باہر سے دیکھا جاسکتا ہے.خلافت خامسہ کے عہد مبارک میں تعمیر ہونے والی عمارتیں 1 - مسجد اقصیٰ مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع اور تعمیری مرمت جس کا ذکر مسجد اقصیٰ کے ضمن میں تحریر کیا گیا ہے.الحمد للہ اب اسکا رقبہ 5800 فٹ ہو گیا اور پانچ ہزار سے زائد افراد با جماعت نماز ادا کر سکتے ہیں.2.سرائے وسیم بفضلہ تعالیٰ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق قادیان میں آنے والے مہمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے.ان میں بعض معتز زین کی بہتر مہمان نوازی کے پیش نظر جدید تقاضوں کے مطابق مؤرخہ 21 /نومبر 2007ءکوایک عمارت کی تعمیر شروع ہوئی جو اپریل 2009ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی.اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسکا نام ” سرائے وسیم “ رکھا.یہ عمارت 35 کمروں مع غسل خانوں و بیت الخلاء پر مشتمل ہے.پہلی منزل میں زائرین و مہمانان کرام کے استقبال کے لئے خوبصورت ہال ہے.67
3 نصرت جہاں ہال و گیسٹ ہاؤس (سرائے مبارکہ) لجنہ اماء الله قادیان سے بجانب جنوب ہر چوال روڈ پر ایک خوبصورت اور دیدہ زیب عمارت کی تعمیر کا آغاز جولائی 2008ء میں ہوا اور اختتام دسمبر 2009 ء میں ہوا.لجنہ اماءاللہ کے اجتماعات و جلسے اسی عمارت میں منعقد ہوتے ہیں.نیز مہمان اراکین لجنہ کی رہائش بھی اسی عمارت کے گیسٹ ہاؤس میں ہوتی ہے.ہال پلنتھ ایریا3680 فٹ.گیسٹ ہاؤس پلنتھ ایریا 2690 فٹ ہے.4.عمارت فضل عمر پرنٹنگ پریس ہر چوال روڈ پر ہی جانب شمال ایک وسیع اور خوبصورت عمارت 2008ء میں ہی تعمیر کی گئی.یہ فضل عمر پر منٹنگ پریس کی عمارت ہے فضل عمر پریس میں بھی طباعت کے لئے جدید ترین مشینیں نصب کی گئی ہیں جسکی وجہ سے فضل عمر پریس کا طباعت کا معیار انتہائی اعلیٰ وعمدہ ہے.68
5.یادگاری گیٹ خلافت جو بلی خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقعہ پر محلہ باب الابواب“ کے شروع میں ایک تاریخی گیٹ تعمیر کیا گیا.اس کی بنیاد 27 جنوری 2008ء کو رکھی گئی اور اسکی تحمیل اکتوبر 2010 ء میں ہوئی.گیٹ کی بلندی 46 فٹ اور چوڑ کی 28 فٹ ہے.-6.مرکزی لائبریری کی جدید عمارت تقسیم ملک کے بعد قصر خلافت میں مرکزی لائبریری قائم تھی.مؤرخہ 21 نومبر 2007ء کو محلہ دارالانوار میں لائبریری کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا.جو اکتوبر 2010ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی.نئی عمارت میں منتقل ہونے کے بعد لائبریری سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.اس عمارت میں ہی ”شعبہ تاریخ برائے تدوین تاریخ احمدیت بھارت کا دفتر بھی ہے.اس عمارت کا رقبہ سطح زمین پر 10660 مربعہ فٹ ہے اور اسی قدر رقبہ پہلی منزل پر بھی ہے.7 - عمارت ایم.ٹی.اے محلہ دارالانوار میں ہی خوبصورت اور جدید تقاضوں کے مطابق ایک دو منزلہ عمارت تعمیر کی گئی ہے.جس کا سنگ بنیاد 30 جون 2006ء کو رکھا گیا.اور اسکی تعمیر دسمبر 2008ء 69
میں مکمل ہوئی.اس عمارت میں سطح زمین پر دفتر نشر واشاعت وایم.ٹی.اے کا اسٹوڈیو قائم ہے.اسی اسٹوڈیو سے راہ ھدی پروگرام براہ راست قادیان سے نشر ہوتا ہے.اس عمارت کے شمالی حصہ میں القرآن نمائش اور مخزن التصاویر ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.زائرین کو اس سے بھی استفادہ کرنا چاہئے.8 ماریشس گیسٹ ہاؤس (سرائے عبید اللہ ) اور آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس اسی طرح محلہ دار الانوار قادیان میں ہی ماریشس گیسٹ ہاؤس (سرائے عبید اللہ ) اور آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس بھی تعمیر ہوئے.9.بیوت الشکر آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس کے مشرقی جنوبی جانب ”بیوت الشکر“ 24 فلیٹس پر مش عمارت سال 2012ء میں تعمیر ہوئی.10 - عمارت روٹی پلانٹ الحمد للہ جلسہ سالانہ قادیان کے لئے آنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے.ان کو عمدہ اور اعلیٰ قسم کی روٹی فراہم کرنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نصرہ 70
اللہ نصر أعزیز نے لبنان سے ایک جدید مشین منگوانے کی اجازت مرحمت فرمائی.چنانچہ اس جدید مشین کی تنصیب کے لئے محلہ دارالانوار قادیان میں ایک وسیع وعریض عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تیار ہوا جسکی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت منظوری مرحمت فرمائی.چنانچہ محترم فاتح احمد صاحب ڈاہری انچارج انڈیا ڈیسک ( حال وکیل تعمیل و تحفید ) نے مؤرخہ 10 اپریل 2010ء کو عمارت کا سنگ بنیاد رکھا.عمارت کی تکمیل کے بعد اور تمام مشینوں کی تنصیب کے بعد محترم وکیل صاحب تعمیل و تنفیذ نے مؤرخہ 11 نومبر 2012ء کو اس کا افتتاح فرمایا.اور افتتاحی تقریب میں شامل حاضرین کو جدید مشین میں پکی ہوئی تازہ وعدہ گرم گرم روٹیاں کھلائی گئیں.اس مشین کی تنصیب کو دیکھ کر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر یاد آتا ہے: لْفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِئ ترجمه: دستر خوانوں کا پس خوردہ میری خوراک تھا اور آج میں کئی گھرانوں کو کھلانے والا بن گیا ہوں.11 گلشن احمد دار السیح کے مغربی و جنوبی جانب ایک وسیع عمارت قدیم زمانہ کے حویلیوں کے مشابہ تھی.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام دین اور مرزا 71
نظام دین کی تھی.بدقسمتی سے ان دونوں بھائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شدید مخالفت کی حتی کہ آپ کے مکان اور مسجد مبارک کو جانے والے راستہ کو ایک دیوار بنا کر بند کر دیا.جو بعد میں عدالتی فیصلہ سے منہدم ہوئی.اپنے زمانہ کی عالی شان عمارت میں تقسیم ملک کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے نصرت گرلز اسکول' جاری کیا جو 7 / جنوری 2012 ء تک قائم رہا.مرور زمانہ کی وجہ سے مرزا نظام دین والی عمارت انتہائی خستہ و بوسیدہ ہو چکی تھی.چنانچہ اسکے انہدام کی کارروائی اس کے انخلاء کے فوراً بعد شروع ہوئی اور وہاں ایک خوبصورت کستان بنانے کا منصوبہ تیار ہوا.دفتر محاسب کے سامنے بجانب جنوب کا مکن پہلے ہی گلشن احمد کے نام سے موسوم تھا.چنانچہ اس توسیع شدہ حصے کو ہموار کرنے کے بعد بُستان بنانے کے لئے محترم فاتح احمد صاحب ڈاہری انچارج انڈیا ڈلیک ( حال وکیل صاحب تعمیل و محفید ) نے مورخہ 10 اپریل 2012 کو دعاؤں کے ساتھ بنیادی اینٹ رکھی.یہ انتہائی خوبصورت اور سرسبز گلستان ہے.ہوشیار پور ہوشیار پور پنجاب کا ایک مشہور شہر ہے.اس شہر کو یہ فخر واعزاز حاصل ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ایک مکان میں چالیس روز عبادت کی.اس کے 72
بعد آپ نے اسی شہر سے مشہور اشتہار 20 رفروری 1886 ءشائع فرمایا.قادیان سے ہوشیار پور کی دوری 70 کلومیٹر ہے.دریائے بیاس جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری 1886ء کو ہوشیار پور تشریف لے جاتے ہوئے بذریعہ کشتی عبور کیا تھا اب اس پر پختہ پل تعمیر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے قادیان سے ہوشیار پور بذریعہ ٹیکسی ڈیڑھ دو گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے.جب جنوری 1886ء کو حضور علیہ السلام چلہ کشی کیلئے تشریف لے گئے تھے تو آپ کے ساتھ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ، حضرت شیخ حامد علی صاحب اور میاں فتح خان صاحب بھی تھے.شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروا دیا.آپ نے اس مکان کے ایک کمرہ میں چالیس دن دُعائیں کیں.آپ نے ہدایت دے رکھی تھی کہ کوئی اوپر بالا خانہ میں میرے پاس نہ آوے.میرا کھانا او پر پہنچادیا جاوے.مگر اس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں.خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں.نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا.تم نیچے پڑھ لیا کرو.جمعہ کیلئے حضرت صاحب نے فرمایا کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں.چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اسمیں ایک مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور علیہ السلام تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے.چلہ کے بعد آپ میں دن اور ہوشیار پور میں رہے.انہی دنوں لالہ مرلی دھر سے آپ کا 73
مباحثہ ہوا جو سرمہ چشم آریہ میں درج ہے.جب دو ماہ کی مدت پوری ہوئی تو حضور اسی راستہ سے واپس قادیان تشریف لائے جس راستہ سے گئے تھے.17 / مارچ 1886ء کو قادیان پہنچ گئے.حضرت مولوی عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں: ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے.جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا تھا.وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کیلئے پہلی سے اُتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے.یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں.اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں پیچھے پیچھے ساتھ ہو گیا.اور شیخ حامد علی اور فتح خان پہلی کے پاس رہے.آپ معتبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے اور تھوڑی دیر دُعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ”جب میں نے دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دوزانو ہوکر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا.ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے." پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے حالات پوچھیں.چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا.اُس نے کہا کہ میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گزر گیا ہے.ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ سانولا رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں.اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا.(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اوّل روایت 88 صفحہ 65-64) 74
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اعلان کے عین مطابق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش مقررہ مدت میں ہی 12 جنوری 1889ء کو ہوئی.اور آپ نے 20 فروری 1944ء کو کنک منڈی ہوشیار پور کے وسیع احاطہ میں اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا اور چلہ کشی والے مقدس کمرہ میں اجتماعی دعا کیلئے تشریف لے گئے.اس کی روئیداد تاریخ احمدیت جلد نہم صفحہ 590 سے تحریر ہے.مقدس کمرہ میں اجتماعی دُعا حضرت سید نام مصلح الموعود اس پر اثر خطاب کے بعد چلہ کشی والے مقدس و مبارک کمرہ میں تشریف لے گئے جو ان دنوں ایک معزز ہندو سیٹھ ہرکشن داس کی ملکیت تھی.جنہوں نے اسے شیخ مہر علی صاحب سے خرید کر اس پر ایک مکان تعمیر کر کے اس کے بالائی حصہ پر سبز رنگ کر دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چلہ کشی والا بالا خانہ اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں تھا.لیکن اسی موقعہ اور انہی بنیادوں پر ایک کمرہ تعمیر شدہ تھا.جہاں سیٹھ صاحب نے بڑی خوشی سے دُعا کرنے کی اجازت دی.بلکہ حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ کے ذریعہ خواہش کی کہ اگر حضرت مرزا صاحب یہاں تشریف لائیں تو میری بڑی خوش قسمتی ہوگی.چنانچہ جب حضور مکان پر تشریف لے گئے تو جناب سیٹھ صاحب رض اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ استقبال کیا اور 75
بعد ย ایک بڑے آراستہ کمرہ میں جو مکان کے دوسرے کونے میں واقع تھا حضور کو بٹھایا اور حضور کی خدمت میں پھل پیش کیا اور اپنے خاندان کے افراد کا تعارف کرایا.اس کے حضور مقدس کمرہ میں تشریف لے گئے اور قبلہ رُخ دوزانو بیٹھ کر تسبیح و تحمید کرنے لگے.اس کمرہ میں اس وقت کیلئے فرش کا انتظام جماعت کی طرف سے کیا گیا تھا.جگہ کی تنگی کی وجہ سے حضرت امیر المؤمنین المصلح الموعود کے علاوہ حسب ذیل پینتیس احباب اس کمرہ میں تشریف لے گئے جنہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک ایک کر کے انتظام کے ساتھ اندر بھجوایا.لمصل (1) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب (2) حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (3) حضرت صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (4) حضرت صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب (5) صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب (6) صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب (7) صاحبزادہ مرز وسیم احمد صاحب (8) صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب (9) صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب (10) صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب (11) صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب (12) حضرت خان محمد عبد اللہ خان صاحب (13) صاحبزادہ مسعود احمد خان صاحب (14) صاحبزادہ عباس احمد خان صاحب (15) حضرت مولانا شیر علی صاحب ( 16 ) حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب (17) حضرت میر محمد الحق صاحب (18) حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب 76
قادیانی (19) حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری (20) حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی (21) حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد (22) جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور (23) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب (24) مولوی عبد المنان صاحب عمر ایم.اے(25) حضرت چودھری فتح محمد صاحب ایم.اے (26) حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب (27) حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب (28) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث شاہ صاحب قادیان (29) میاں فیروز دین صاحب سیالکوٹ (30) حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چیک (31) حضرت شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی ( 32 ) حضرت منشی محمد الدین صاحب کھاریاں (33) حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ (34) جناب صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے.ان احباب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی کمرہ میں تشریف فرما ر ہے.“ اللہ کے فضل واحسان سے دُعا والا یہ کمرہ اور عمارت کا نصف حصہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملکیت ہے.آج کل اس کمرہ کو بطور مسجد استعمال کیا جا رہا ہے.احباب کثرت سے دُعا کیلئے تشریف لاتے ہیں.77
دارالبیعت لدھیانہ سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کے بارہ میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی : فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُةٍ فَيَقْتَلَهُ - (مشكوة كتاب الفتن ) کہ وہ دجال کا پیچھا کرے گا اور اُسے ”باب لڈ“ پر پالے گا اور اسے ( بذریعہ دلائل و براہین ودعا) قتل کر دے گا.یہ پیشگوئی کئی لحاظ سے پوری ہوئی اور ہورہی ہے.تاریخی لحاظ سے بھی ایک جائزہ تحریر ہے.صوبہ پنجاب میں مسیحیت کا آغاز اس طرح ہوا کہ امریکہ سے دو عیسائی مشنری 15 اکتوبر 1833ء کو کلکتہ پہنچے اور وہاں گورنر جنرل لارڈ ولیم بیٹنگ کی پسندیدگی کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کہ انگریزی مملکت کی سرحد پر ایک مشن قائم کیا جائے.چنانچہ پادری جے سی.لوری 5 رنومبر 1834ء کو لدھیانہ پہنچ گیا اور وہاں برطانوی حکمران نے اسے مشن قائم کرنے میں ہر قسم کی مراعات دیں.زمین دلوائی اور اس طرح صوبہ پنجاب میں پہلا سیمی گرجا بمقام لدھیانہ 1837ء میں تعمیر ہوا.اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف ہے کہ اس نے اسی شہر لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ 20 /رجب 1309 ہجری بمطابق 23 / مارچ 1889ء کو جماعت احمدیہ کی بنیا درکھوا کر قتل دجال کی مہم کا آغاز فرما دیا اور اس شہر کا ابتدائی لفظ بھی ”لد“ ہے.جس جماعت کی بنیاد لدھیانہ میں رکھی گئی وہی 78
ساری دُنیا میں پھیل کر دجال کا قلع قمع کر رہی.وہ مکان جس کے کمرہ میں آپ نے سب سے پہلے مولانا نورالدین صاحب کی بیعت لی اور جماعت کی بنیاد رکھی ” دار البیعت“ کہلاتا ہے.یہ مکان حضرت صوفی احمد جان رض صاحب کا تھا.جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے گہری محبت رکھتے تھے.لیکن قیام جماعت سے قبل ہی فوت ہو گئے تھے.ان کی بیٹی سے حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شادی بھی ہوئی.یہ مکان صوفی صاحب کے صاحبزادوں نے صدر انجمن کے نام ہبہ کر دیا.صدر انجمن نے اس کا انتظام مقامی جماعت کے سپرد کر دیا.1916ء میں اس کی پہلی شکل میں کچھ تبدیلی کر کے جانب شمال ایک لمبا اور پختہ اور ہوادار کمرہ تیار کروا دیا گیا.جس کی شمالی دیوار کی بیرونی سطح پر دار البیعت کا نام اور تاریخ بیعت کا کتبہ ثبت کیا گیا اور صحن میں پختہ اینٹوں کا کوئی بالشت بھر اونچا چبوترا اور ایک محراب بنوا کر نماز کیلئے مخصوص کر دیا گیا.دسمبر 1939ء میں نماز گاہ پر ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد کی تعمیر ہوئی.بجلی کے قمقمے آویزاں کئے گئے صحن میں ملکہ نصب ہوا اور غسل خانہ جائے ضرورت تیار کی گئی.ایک لمبے کمرے کو دو میں تبدیل کر کے مشرقی کمرہ میں احمدیہ لائبریری قائم کی گئی.اسی کمرہ کی مشرقی دیوار کے جنوبی کونے کے پہلو میں وہ مقدس جگہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیٹھ کر پہلی بیعت لی تھی اور جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا.تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 380) 79
اگر چہ دار البیعت کی عمارت ہمیشہ ہی صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملکیت رہی لیکن 1947 تقسیم ملک کے بعد اس میں ایک غیر مسلم کرایہ دار رہتے تھے.انہوں نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی.آخر ان سے یہ تاریخی عمارت خالی کروائی گئی اور مؤرخہ 15 فروری 2006ء سے اسے افراد جماعت کیلئے کھول دیا گیا.80
( قدیمی خاکہ دار البیعت لدھیانہ) ڈاکٹر جان محمد سٹریٹ مشرق کمرہ بیعت کچا صحن شمال گی کمره حضرت صوفی احمد جان صاحب کا مکان جنوب 81
82 KITCHEN STORE.STORE ROOM 11 02 p2 TOLET/ TOILE KATH TOILE TOILET BATH MASJID NEIGHBOR'S WALL Co 17-5 ROOM MATAD ROOM جدید خا کہ دار البیعت لدھیانہ)
وَوَسَعْ مَكَانَكَ (الهام) اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود کو الہام فرمایا تھا وَ وَسِعَ مَكَانَگ“ (یعنی اپنے مکان کو وسیع کر ) حضرت عبد اللہ سنوری صاحب فرماتے ہیں کہ ” جب حضور کو وسع مَكَانَكَ ( یعنی اپنے مکان کو وسیع کر) کا الہام ہوا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مکانات بنوانے کے لئے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں اس حکم الہی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر بنوا لیتے ہیں.چنانچہ حضور نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر حکیم محمد شریف صاحب کے پاس بھیجا جو حضور کے پرانے دوست تھے اور جن کے پاس حضور اکثر امرتسر میں ٹھہرا کرتے تھے.تاکہ میں ان کی معرفت چھپر باندھنے والے اور چھپر کا سامان لے آؤں.چنانچہ میں جا کر حکیم صاحب کی معرفت امرتسر سے آدمی اور چھپر کا سامان لے آیا.حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کروائے.سیرت المہدی جلد اول صفحہ 131 روایت نمبر 141) اس حکم الہی کی تعمیل کا سلسلہ تین چھپروں کے بنوانے سے شروع ہوا.بعد ازاں حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کرام میں سے ہر ایک کے عہد مبارک میں حکم الہی کے مطابق دار اسیح اور قادیان کے مکانات میں توسیع کا سلسلہ جاری رہا.حتی کہ تقسیم ملک کے بعد وسائل کی کمی کے باوجود تھوڑی بہت توسیع ہوتی رہی.خلافت رابعہ میں توسیع کا ایک نیا دور شروع ہو گیا اور قادیان میں بہت سی جدید عمارتیں تعمیر ہوئیں.83
اس حکم الہی کا جدید دور خلافت خامسہ کے عہد مبارک میں از سر نو شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے.2013ء اور 2014ء میں جن مقدس و تاریخی مقامات کی renovation یعنی تعمیراتی لحاظ سے مرمت، درستی اور تزئین ہوئی.یا ہورہی ہے ان کی فہرست درج ذیل ہے:.مسجد مبارک ،سرخی کے نشان والا حجرہ ، بیت الفکر، دارا مسیح کے تمام حصص، مکانات حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب مرحوم و مغفور ، حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب، حضرت نواب محمد علی خان صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ، مکان حضرت ام طاہر صاحبہ مرحومہ، قصر خلافت قدیم و جدید، مسجد اقصی گلشن احمد، علاوه از میں مسجد اقصٰی کو جانے والے راستے اور دار اسیح کی گلیوں پر نئی ٹائیلیں لگوائی گئیں.مسجد مبارک کی مشرقی جانب قدیمی آہنی گیٹ کی جگہ جدید آہنی گیٹ لگایا گیا، گیٹ والی دیوار کی جنوبی جانب ایک اور گیٹ لگوایا گیا.تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی عمارت میں معمولی ترمیمات کر کے اسے خوبصورت بنایا گیا.مدرسہ احمدیہ کی قدیمی عمارت جو مرور زمانہ کی وجہ سے نا قابل استعمال ہوگئی تھی منہدم کر دی گئی.شعائر اللہ میں سے ایک اہم مقام بہشتی مقبرہ قادیان ہے.اس کے گرد چاردیواری کو مزید بلند کیا گیا.اور اس پر خاردار تار لگائی گئی.بہشتی مقبرہ کے پرانے آہنی گیٹ کو تبدیل کر کے ایک بڑا آہنی گیٹ لگایا گیا.حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ امسیح اول کی قبور اسلامی طریق 84
کے مطابق کچی مٹی کی بنائی گئی تھیں جو اب بھی اسی طرح ہی ہیں.اور اس کے اردگر داینٹ اور سیمینٹ سے منڈیر بنائی گئی تھی ان اینٹوں پر اب سنگ مرمر لگا دیا گیا ہے.احاطہ بہشتی مقبرہ میں بھی مکان حضرت مسیح موعود کی renovation کی گئی اور اسے مزین اور خوبصورت بنایا گیا.بہشتی مقبرہ کے شمالی جانب ڈھاب کے کنارے ایک خوبصورت بستان بنایا جارہا ہے.وسع منگانگ کے تحت یہ سارے تعمیراتی کام حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات اور ارشادات کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچے.اور کچھ ان میں سے ابھی زیر تعمیر ہیں.اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات و ہدایات کے مطابق صحیح طور پر تعمیراتی کام کی نگرانی کا فریضہ محترم جناب فاتح احمد صاحب ڈاہری وکیل تعمیل و تحفید (انڈیا، نیپال، بھوٹان ) ادا فرماتے رہے.جزاهم الله احسن الجزاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے.“ دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 231) قادیان کے مقدس اور تاریخی مقامات کی روحانی اور دینی لحاظ سے چمک کے علاوہ اس کی ظاہری چمک بھی حضرت مسیح موعود کے الفاظ کی صداقت کا بین ثبوت ہے.الحمد اللہ علی ذلک 85
نقشہ جات عصر حاضر میں نقشہ جات کے ذریعہ تاریخی مقامات سے متعارف ہونے کا رجحان روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے.بیرونی ممالک سے تشریف لانے والے مہمانان کرام تاریخی اور مقدس مقامات کے قدیمی نقشہ جات کا مطالبہ کرتے ہیں چنانچہ اگلے صفحات میں جماعت کی تاریخی کتب میں مطبوعہ نقشہ جات میں سے بعض پیش ہیں.86
حصہ نقشه نمبر ۲ و ۲ الف مقامات مقدسه قادیان پیمانه ۳۲ فٹ =۱ اینچ جنوب دانایا ولادت فطرت خلیفہ ثانی کتب خانہ کوٹھڑی مکان مضرورت تو ایسا نہ ہو کہ دیگر ماہر جس میں حضرت مولوی شیرینی ساحیت کی اقامت بھی ابتدا ہ میں رہی تھی مطلب حضرت خلیفہ اول تک جو وار تک تھا مطبع ضياء الاسلام گنا کوئی کمرہ دیوار تمام دیوار خام جای مسجد مبارک (③ 2 درخت جو ۱۹۰۰ ء تک تھا ا دیوان خانه مرتبة امام الدين و مرز انظام الدین صاحبان نزنان خانه مرزا امام الدین و کمال الدین صاحبان ضمیمہ اصحاب احمد جلد اوّل مقام جلسه بالاتر ۱۸۹۱ و ۱۸۹۲۹ء D تفص گول کمره دیوار معروفی یہ مقدمہ دیوار.اس کی وجہ سے مسجد کا راستہ رکنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام نے گول کمرہ کے مشرقی جانب کا دروازہ ( نشان / الف) کھول دیا تھا جس میں سے گول کمرہ میں داخل ہو کر احباب دروازه (نشان ارسی) کے ذریعہ مسجد مبارک میں آتے تھے.تمام القاده من که مربہ امام الدین و نظام الد ین صاحبان پہلے مہمانوں کے طعام کا انتظام فارا شیخ کے اندر ہوا تھا پھر انس جینگه انگار خانہ کا کم جواب آنجا جگہ موسم برسات میں کبھی کبھار ڈھانپ کے پانی سے حریف مولوی نورالدین صاحب ( خلیق اول ) وضو کیا کرتے تھے.یوتر فصل بها باشد جلسه ام و ۱۸) نے سور کی عمارت تعمیر ہوگئی.یہ 3571272/1951 87
تفصیل بابت حصہ نقشہ نمبر 2 ( حصہ الدار ) (1) کمرہ ولادت حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی بنامند ولادت 12 جنوری 1889ء (2) ایک کمرہ زیر سقف بیت الفکر نمبر ا.(3) گوچہ جس پر مسجد مبارک تعمیر شدہ ہے.(4) گول کمرہ.(5) دیوار جو مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین صاحبان نے بنائی اور اس سے مسجد مبارک میں آمد و رفت رُک گئی اور عدالت کے حکم سے گرائی گئی.(دیکھئے حقیقۃ الوحی صفحہ 266 وصفحہ 271) (6) یہاں مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین صاحبان کا افتادہ خراس ہوتا تھا.جو 1907 ء میں اُن سے خرید کر دفتر تعمیر ہوا اور اوپر مسجد مبارک کی توسیع اول کی گئی.88
5 19'10"x9'10" 13'4"x9'10" خراس کوچه بطرف مسجد اقصے حصہ نقشہ نمبر ۲ ( حصته محی الدار) مقامات مقید قادیان پیمانه ۸ فٹ ۱ اینچ مشرق.1/4/3/5 89
90 9' 11" حصہ نقشہ نمبر ۳ ( حصہ منزل اول الدار ) مقامات مقدر قادیان پیمانه ۸ فٹ = اینچ بیت الفکر نمبر ۲ 13'6" 27'6 3/4" 10.1" 4 مسجد 8 7" 6.7" 10'10" چھت گول کمره
نے کے لئے والان سیده حضرت ام المومنین بیت الفکر نمبر ۲ 23'-2 1" x 12'-5" 9'-11" x 13'-6" حصہ نقشه نمبر ۳ مقامات مقد قادیان پیمانه ۸ فٹ =۱ اینچ شمال جنو بيت الدعاء بيت الدعاء اور حجرہ کے 4'-10" x 6'-5" درمیان کاراسته حجرہ جس میں حقیقۃ الوحی اور چشمہ معرفت کی تصنیف ہوئی 11'-10" x 14'-4" بيت الفکر نمبرا کوچه بطرف مسجد اقصے 91
مشرق.حصہ نقشه نمبر ۳ مقامات مقدسه قادیان یانه افتتان مکانات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شمال اس تجبر دمیں بھی حضرت مسیح موجود علیہ السلام نے کچھ عرصہ قیام فرمایا سفید زمین مملوکہ حضرت خلیفہ الحی الثانی رحم الله تعالی 11'-2" x 10'-11* راسته 11-2" x 11'-95 کمزه 11-3" x 18"-2 9' x 8' 8-11" x 12'-2° جنوب صحن بر آمده W 23-7" x 9'-7” ل برکت علی 5/12/3/1951 92
کوچه بطرف مسجد اقصی مسقف کو چہ 11- جنوب صحن 60'-5" x 2'-6" کمره 15-10x12-11 15-10-21-10" کمره مردانه 14' x 12' 4-7 x7-10 6'x8' 9' x 6' 14' x 18' 9' x 7'-6" والات 39'-* x 33'-6".حصہ نقشہ نمبر ۳ ( سطح الدار ) مقامات مقدسہ قادیان ڈیری الأنبياء زنانه أحمد ضاحية 22" x 32" با در پی خانه -610-8 ڈیوڑھی بر آمده 39'-6"x9 16x-6 16' x 22' 1x1 93 شور 14'-6" 10'-3ª.
تفصیل بابت حصہ نقشہ نمبر 3 "بيت المكروبيت الذكر - وَمَن دَخَلَة تحان أميناً.جو شخص بيت الذکر میں با خلاص و قصد تعبّد و صحت نیت و حسنِ ایمان داخل ہوگا وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا.“ اسبارہ میں دیگر الہامات کیلئے احباب براہین احمد یہ حصہ چہارم صفحہ 559-557 و مکتوبات احمد یہ جلد اوّل صفحہ 55 کی طرف رجوع فرمائیں.(مؤلف) (1) بیت الفکر (2) چوبی زینہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دار ماسیح سے مسجد مبارک کی چھت پر آتے جاتے تھے.(3) بیت الذکر ( مسجد مبارک ) کا حجرہ.مغرب اور شمال کی طرف دو دریچے تھے جو آج تک اصلی حالت میں موجود ہیں.(4) بیت الذکر کا پہلا کمرہ جسے حجرہ کے ساتھ ایک کمرہ ملاتا تھا.پہلے اور دوسرے کمرہ کے درمیان درمیانہ سائز کا ایک دروازہ تھا بیت الفکر میں سے ایک دریچہ ( جو آج تک اصلی حالت میں ہے ) بیت الذکر کے پہلے کمرہ میں کھلتا تھا.اس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد مبارک میں آمد و رفت ہوتی تھی.جنوبی در بچہ خر اس افتاده مملو کہ مرزا امام الدین ومرز انظام الدین صاحبان کی طرف کھلتا تھا.(5) بیت الذکر کا دوسرا کمرہ.اس میں جنوبی جانب ایک دریچہ تھا جو خر اس مذکور کی طرف کھلتا تھا.(5)(الف).سیڑھیاں جو بیت الذکر کے 94
دوسرے کمرہ سے نیچے گوچہ تک جاتی تھیں.آج تک بعینہ اصلی حالت میں ہیں.(5) ( ب ).اس دروازہ سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیر وغیرہ کیلئے آمد و رفت ہوتی تھی.یہ دروازہ (5) (الف) میں مذکور سیڑھیوں سے دار اسیح " میں کھلتا تھا.حضور کے عہد مبارک کے بعد یہ دروازہ بند کر دیا گیا تھا.اور اس وقت تک اس کی چوکھٹ دیوار میں نظر آتی ہے.(6) کمرہ سرخی کی چھینٹوں کے نشان والا.یہ پہلے غسل خانہ تھا.اس کا دروازہ بیت الذکر کے دوسرے کمرہ میں کھلتا تھا.دروازہ آج تک موجود ہے.اس کا چوکھٹ پرانا ہی ہے لیکن کو از تبدیل ہو چکے ہیں.جنوبی جانب در بچہ ہوتا تھا جو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ آج تک اسی مقام پر موجود ہے.کمرہ کے شرقی جانب ایک درمیانہ سائز کا دروازہ گول کمرہ کی چھت پر کھلتا ہے.یہ دروازہ پہلے چھوٹا تھا لیکن حضور کے عہد مبارک میں ہی جب اس کمرہ کی چھت اونچی کی گئی تو یہ دروازہ بدل کر بڑا لگا دیا گیا.جواب تک موجود ہے.(7) یہاں پانچ سیڑھیوں والا چوبی زینہ تھا جو سرٹی کے چھینٹوں والے نشان کے کمرہ سے گول کمرہ کی چھت پر پہنچنے کیلئے استعمال ہوتا تھا.(8) بیت الذکر کے دوسرے کمرہ سے سرخی کے چھینٹوں والے نشان کے کمرہ سے گول کمرہ میں جو کہ قدرے نیچے تھا جانے کے لئے یہاں (2) سیڑھیوں والا چوبی زینہ ہوتا تھا.95
96 حصہ نقشه نمبر ) ( حصه منزل دوم النهار) مقامات مقدسه قادیان پیمانه هفت در اینچ (5) 13'-11" x 10'-6" b محت (7) 9'-7" x 19'-6" 9 سقف ترقی کے چھینٹوں کے نف گول کمر نشان والا کمره ن سقف مسجد مبارک اه نشيـ
تفصیل حصہ نمبر 4 ( منزل دوم ) ย 1 تا 3 - مغربی شاه نشین جہاں بالعموم سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بعد نماز مغرب مجلس میں ( نشان ا پر ) تشریف فرما ہوتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب عام طور پر نشان 2 پر اور حضرت مولوی نور الدین صاحب نشان 2 / 1 پر اور دوسرے خاص احباب نشان 3 پر یعنی حضور کے بائیں جانب اور باقی احباب جنوبی اور مشرقی شاہ نشین پر اور نیچے بیٹھتے تھے.4.یہ دو (2) مینار تھے جن کا نقشہ آگے ایک صفحہ پر درج کیا گیا ہے.شمال مغربی مینار اب تک بعینہ دیوار میں موجود ہے لیکن جنوب مغربی مینار توسیع مسجد مبارک کے وقت اُٹھا دیا گیا.-5- کمرہ رہائش حضرت مولوی عبد الکریم صاحب.اس کے شمالی جانب کا صحن حضرت مولوی صاحب کے استعمال میں آتا تھا.کمرہ اور محن اب تک بعینہ موجود ہیں.یہاں عارضی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رہائش بھی رہی ہے.-6- چوبی زینہ میں جس کی تفصیل حصہ نقشہ نمبر 3 زیر نمبر 2 درج ہے.7.کمرہ جس میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے.اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ (تذکرہ 348) کے الہام کے متعلق ایک نشان کا جوذ کر حقیقۃ الوحی نشان نمبر 103 میں 97
آتا ہے.وہ اسی کمرہ میں ظہور پذیر ہوا تھا.اس کمرہ کے غربی جانب پہلے کوئی دروازہ نہیں ہوا کرتا تھا.8.یہ دو مینار تھے جن کا نقشہ آگے ایک صفحہ پر درج کیا گیا ہے.دونوں آج تک بعینہ موجود ہیں.جنوب مشرقی الگ بعینہ قائم ہے اور شمال مشرقی دیوار کے اندر ہے.9.یہاں دو سیڑھیوں والا چوبی زینہ ہوتا تھا جو سرخی کے نشان والے کمرہ کی چھت سے مسجد مبارک کی چھت پر جانے کیلئے استعمال ہوتا تھا.10.یہاں پانچ سیڑھیوں والا چوبی زینہ ہوتا تھا جو گول کمرہ کی چھت سے سرخی کے چھینٹوں والے کمرہ کی چھت پر جانے کیلئے استعمال ہوتا تھا.نوٹ:.حصہ نقشہ نمبر 3 آئیٹم نمبر 8، 7 ونقشہ ھذا آئیٹم نمبر 9،10 میں مذکورہ زمینوں کے ذریعہ مسجد مبارک کے اندرونی حصہ سے مسجد کی چھت تک آمد ورفت ہوا کرتی تھی.98
مینار مسجد مبارک قادیان ات نفت ایرانیم و ۱۸) 4 روا برابر علم 05/11/3/51 99 00
مقامات مقدسہ (حصہ باغ شمالی) قادیان پیمانه ۳۲ فٹ = ۱ اینچ 3 3 3 مشرق.شمال (1) حصہ باغ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا جسد اطہر ( درختان آم ۱ تا ۲ کے درمیان ) مورخہ ۲۷ مرمئی ۱۹۰۸ء کو صبح سے عصر تک رکھا رہا.(۲) حصہ باغ جہاں حضور کا جنازہ پڑھا گیا.(۳) دائرہ یہ ظاہر کرنے کے لئے بنایا گیا ہے کہ اس کے ایک حصہ میں بیعت خلافت اولی ہوئی اور دوسرے حصے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کی نماز جنازہ ادا کی گئی.100 3 مغرب
نقش نمیرے مقامات مقدسه قادیان.سفید زمین مکان سفید زمین و مکان درمانی می ارزشی صاحب قادیانی یہاں آموں کے درخت تھے زنانه جلسه گاه مکانات بطرف دار انوار متفرق مکانات الطرق قصر خلافت رسفید زمین الرياحينا و.اس مقام پر یہ ہر مبارک ہیں تا حضرت کی ماضی و علیہ الصلاة والسلام میں ناساز ہے ناز و ادا ہوتی جائیں.۳.مہر مبارک ہو تا حضرت کیا موجود علیہ الصلاح والسلام اس مقام ہے حضرت شدید آن اول نے نماز استلام پڑھائی TST 101
نقشہ نمبر 1 مقامات مقد قادیان پیمانه ۹۶ نشان جدد بطرف تادیران ا مزار شاه عبد الله بازی ا مزار فرزند شاه صاحب موصوف - حوار حضرت مرزا گل محمد صاحب پڑدادا حضرت مسیح موجود عليه الصلوة والسلام مزار حضرت مرزا مطاعم صاحب دارا حضرت صاحب -۵- حوار مائی لاڈلی بیگم صاحبہ دادی حضرت صاحب دار پر وادی صاحب حضرت مادی نے مزار مرزا کلام حیدر صاحب چا حضرت صاحب زار جنت بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت صاحب ۹ هزار مراد ني ني صاحبہ ہمشیرہ حضرت صاحب ۱۰ مزار مرزا غلام فی الدین صاحب.چچا حضرت صاحب مزار مائی صاحب جان صاحبہ اہلیہ مرزا غلام حیدر صاحب یعنی ی حضرت صاحب ( قبرستان قدیم و عید گاہ) حدود عیدگاه قبرستان قدیم خاندان سید نا حضرت صحیح موعود علیہ الصلوة والسلام قبرستان قدیم حوال ڈسٹرکٹ پورڈ احاطہ مزار شاہ عبد الله غازی 15 عیدگاه مشرق جنوب حد و دیدگاه مزار مرز اعلام قادر صاحب پر اور کاریں حضرت صاحب اسمزار حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ والدہ حضرت صاحب ۱۴- محراب عید گاہ جہاں کی نماز پڑھی جاتی ہے.۱۵ نشیبی حصہ زمین جہاں حضور کے زمانہ سے برسات میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے.۱۲ درشت به جو عید گاہ کی شمال مغربی سرحد ظاہر کرتا ہے.مغرب 102
چنده و محله نا ان نسته آبادی جدید و قدیم قادریان دائر الامان مرک بین کو کاری در سامر به رشته احمد آباد احمدیہ فارم صيد والافضل دار الفضل دار البركات غربي دار البرکات شرقی یک ریکی کے سیران ایر کات شرقی باغ بادا نشانات مد بیند که احمد بن خلقه ریلی سے ائی سرکه مکان النصرته دار الحمد شرکیه با رخ با در پایی 103 دار الشكر علیہ اسلام کائی می یک آن سکول کو م نے لڑکی کیلان کو
قادیان کے محلہ جات قادیان میں سمال ٹاؤن کمیٹی کا قیام 1928ء میں ہوا.اس وقت از سرنو محلہ جات کی حد بندی ہوئی.محلہ جات کے جو نام تقسیم ملک سے قبل تھے بعینہ وہی 1966 ء تک قائم رہے.بعد ازاں میونسپل کمیٹی نے تبدیل کر کے نئے نام رکھے جو درجہ ذیل ہیں.قادیان کے محلہ جات کے نام نمبر شمار تقسیم ملک سے قبل کے نام تبدیل شده نام 1 محله دارالرحمت و دار الیسر محلہ دھرم پور 2 محله دارالعلوم غربی و محله دار شکر محله کرشن نگر 3 محله دارالعلوم شرقی 4 محله گورونانک پوره محلہ دار الفضل و دار لصنعت محله سنت نگر 5 محلہ دار البرکات 6 محلہ دارالانوار 7 شنگاری گلی محله پیر چراغ شاہ 104 محلہ پر تاپ نگر محله سول لائین شنگاری گلی پریم نگر
9 احمد یہ چوک 10 ریتی چھلہ محلہ احمدیہ ریتی چھلہ 11 محله باب الابواب محله ارجن پوره 12 ہند و بازار لیکھرام بازار 13 گلی خوجیاں والی محلہ اکال گڑھ 14 الحکم سٹریٹ ودار الفتوح گورونانک بازار 15 دار الصحة محلہ ہریجن 16 دار السعة محلہ بھگت پوره 105
The Sacred and Historical Places of Qadian Author Mohammad Hameed Kausar Incharge History Department of Ahmadiyya Muslim Community India Publisher Nazarat Nashro Ishat, Qadian 2015 106