Pyari Makhlooq

Pyari Makhlooq

پیاری مخلوق

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

اس کتاب میں مصنفہ نے ٹھوس حقائق اور دینی فکر کی بظاہر نظر مشکل باتوں کو آسان زبان میں بچوں کے لئے انکے فہم کے مطابق بنا کر پیش کیا ہے تا وہ سیرت النبی ﷺ پر مواد کو سمجھنے کی اہلیت آسانی سے حاصل کرسکیں۔ بچوں کو اس مختصر کتاب میں سمجھایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کے نور اللہ تعالیٰ نے اس وسیع کائنات کو تخلیق کیا تو اس کا مقصد نور محمدی ؐ کا ظہور بیان فرمایا۔ اس مقصد کے لئے اپنی تخلیقات میں سےانسانوں کو چنا اوران کے اندر روح پیدا کی ، انسان شعور اور روح کی تدریجی ترقی کے مراحل سے گزرتا رہا پھراس کا آئینہ دل اتنا مصفیٰ ، مطہر اور شفاف ہوگیا کہ اس میں نور ازل منعکس ہوسکے۔ اس طرح ہمارے پیارے آقا سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تخلیق عمل میں آئی۔


Book Content

Page 1

پیاری مخلوق یکی از مطبوعات

Page 2

پیاری مخلوق مصنفه

Page 3

بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم انتساب پیار سے آیا جی ر دادا جان محرم مرزا عبدالحکیم بیگ صاحب (مرحوم) جو اپنے علاقے کلیانہ دریاست جیند) کے دو میں سے ایک احمدی تھے انتہائی مشکل حالات میں نہ صرف تبلیغ میں مصروف رہے بلکہ اپنچھے اولا د کو بجھے اپنے خاندان کے بداثرات سے بچاتے ہوئے کہ اچھے ہیں دلیرانہ زندگی طلبہ کیے.دینے کے معامہ میں ایک ننگی تلوار تھے.ہماری انا ہے جیسے اداریے جانے) مکرمہ حفیظہ بیگم صاحبہ (مرحومہ) جنہوں نے ابا جی کی وفات کے بعد احمدیت قبول کی لیکن ساری زندگھے اپنے مقد مے شوہر کیلیئے علاقے اور خاندان میں ڈھال بنی ہیں چندہ کی کوئی تحریک کے ہو.بیت الذکر کے قیام کے لئے ہمیشہ بشاشت قلب سے آگے آئیے.خُدا تعالی کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ اپنے بزرگ ہستیوں پر اپنی رحمت نازك فرمائے جنکی قربانیوں کے طفیل آج ہم اس شجر طیبہ سے منسلک ہیں.آمین ۲۰ جنوری ۶۱۹۸۸

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ پیش لفظ سب تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے جو نور السموات والارض ہے.اس نے تخلیق کائنات کا مقصد نور محمدی کا ظہور بیان فرمایا.اس مقصد کے لئے اپنے تخلیقات میں سے انسانوں کو چنا اور ان کے اندر روح پیدا کی.انسان شعور اور روح کے تدریجھے ترقی کے مراحل سے گزرتا رہا پھر اس کا آئینہ دل اتنا مصفی مظہر اور شفاف ہو گیا کہ اس میں نور ازل منعکس ہو سکے.اس طرح ہمار سے پیارے آقا سید ولد آدم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق عمل میں آئی.محترمہ شہر سے دائر صاحبہ نے اپنے ٹھوس حقائقے کو آسان زبان میں بچون کی فہم کے مطابق بنا کہ پیش کیا ہے.یہ کتاب میر تھے پاکٹھے پر بچوں کے لئے کتابوں کے سلسلہ کی ایک سے کڑھی ہے.امید ہے قارئین کرام بشری سے دائر صاحبہ کو اپنے دعاؤں میں یاد رکھیں گے ہم دعا گو ہیں کہ ساری دنیا اس حسین پاک اور مقدس بجے کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اور نور محمد عھ سے فیضیاب ہو کر مولی کی خوشنودی حاصل کر سے آئی ہے.

Page 5

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم عرض حال " بہترین مخلوق" کے تو تھے جو حقائقے پیش کرنے کے اودھ کی کوشش کے ہے اس کی بنیادی وجہ صرف یہ تمنا ہے کہ حضرت محمد مصطفی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جو خدائے رب العزت کی صفات کے مظہر.آپؐ کے احسانات کو جو کائنا تے ، جمادات ، نباتا ھے اور دوسری مخلوقات پر تخلیق کے ناتے سے ہیں.لولاک لما خلقت الافلاک اس کی حقیقت دنیا کو ممکن حد تک دکھا سکوں.ساتھ ہی یہ بھجھے باور کروانا چاہتی ہوتے کہ خواہ ہم اپنے جسمانی ساخت کے مرض میں منفرد ہوں یا بشریت کے تقاضوسے کو پورا کرتے ہوئے انسانیت کے مدارج سے گزر رہے ہوتے یا عقل وخرد - فہم وفراست کے میدان سرکر رہے ہو رہے یا پھر روحانی در جاتے میں ترقی کرتے ہوئے اپنے رہتے کو پا لینے کے تڑپے رکھتے ہوں کسی مقام پر کسی بھی درجہ پر ہوں.ہمارا جسمانی ، روحانی وجود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر جھکا ہوا اس کا منور نے بھی ملے گا.کیونکہ ارض کے طفیل بھی ہمیں یہ سب کچھ عطا ہوا.وہ ذاتے باہر کارت صلی اللہ علیہ وسلم ابدی دانہ کے نور خداوندی سے وجود میں آئے.گویا ہر عظمت اور شان و شوکت کے در اسی کی ذات سے کھلتے ہیں.اور

Page 6

J انسانیت کو مقام بشریتے پر ہونے کے باوجود روحانیت کے مدارج طے کرواتے ہوئے اس کے وجود میں اس کی قوتے کے مطابق خدائی صفات کے ظہور کا ملکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوا ہم خدائے ذوالجلال والاکرام کیسے حمد کے ترانے گاتے ہوئے اسے در سے وابستہ ہو جائیں.جو نجات کا در ہے.جو سب کے لئے کھلا ہے.اس سے فیض پائیں دامنوں کو بھریوں اور خدائی تجلی کے نمونے دیکھیں.خدا کہ ہے کہ سارے انسانیت اس احسان کو جاننے کے بعد محرقے کائنا تے کو مارے جائے.آمین یارب العالمین.

Page 7

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم آپ کتاب پڑھ رہے ہیں.آپ جانتے ہیں کہ اس کا کوئی سیکھنے والا ہے مٹی گوندھ کر آپ اس سے کھلونا بناتے ہیں.معمار عمارتیں بناتے ہیں.بڑھٹی لکڑی کاٹ کر مختلف شکلوں کا فرنیچر اور دوسرا سامان بناتے ہیں.جو چیز بھی بنتی ہے یا وجود میں آتی ہے اس کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے.بنانے والے کو اپنی بنائی ہوئی چیز سے بہت پیار ہوتا ہے.اپنی محنت سے بنایا ہوا ٹیڑھا میڑھا کھلونا ساری دُنیا کے کھلونوں سے زیادہ اچھا لگتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کو جس نے یہ پوری کائنات پیدا کی ہے اپنی دنیا اور دنیا والوں سے بہت پیار ہے.وہ خالق ہے.بنا نے والا.پیدا کرنے والا اور کائنات اس کی مخلوق ہے.کائنات کی سب چیزیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم گن نہیں سکتے.دیکھ نہیں سکتے.علم نہیں رکھتے.مگر ایک بات بڑسے مزے کی ہے کہ ان ساری چیزوں.ساری مخلوقات سے خالق کو پیار ہے.اور سب سے زیادہ پیار اُسے اپنی سب سے حسین مخلوق سے ہے.یعنی آپ سے.ہم سے سب انسانوں سے.آپ کے ذہن میں ہر وقت کوئی نہ کوئی سوال آتا ہے.کہ

Page 8

اللہ پاک نے کیا کیا بنایا ہے ؟ کیوں بنایا ہے ؟ ہمیں سب سے افضل کیوں بنایا ہے ؟ ہم کس طرح سب سے بہتر مخلوق ہیں ؟.میں ان سب سوالوں کے جواب بھی دوں گی اور پھر آپ سے ایک سوال بھی پوچھوں گی.اس سوال کو ابھی بتا دیتی ہوں.تاکہ آپ کتاب پڑھتے ہوئے غور کرتے رہیں اور بہتر طریق پر جواب دے سکیں.سوال یہ ہے کہ " ہم اشرف المخلوقات ہونے کا حق کس طرح ادا کر سکتے ہیں ؟ ابھی یہ سوال مشکل لگے گا.مگر آپ جیسے ذہین بچوں کو یہ سب کچھ سمجھ کر دوسروں کو سمجھانا چاہیئے.جب یہ طے ہو گیا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے.تو پہلے ہم ان سب سے ملتے ہیں.تاکہ بعد میں سب سے افضل مخلوق کو جان سکیں.پہچان سکیں.تمام مخلوقات کو سائنس دانوں نے ۳ حصوں میں تقسیم کیا ہے.(۱) جمادات (۲) نباتات اور (۳) حیوانات سائنس کی کتابوں میں جاندار اور بے جان کا فرق کئی بار پڑھا ہو گا.ساری بے جان چیزوں کو جمادات کہتے ہیں.آئیے ہم زمین کی سیر کو نکلتے ہیں.یہ صحرا ہے.دُور دُور تک پھیلا ہوا.ریت کا میدان.اس میں کوئی چشمہ - تالاب اور دریا نظر نہیں آتا.بارش بھی کبھی کبھی ہوتی ہے.جو ریت کے ذروں میں فورا جذب ہو جاتی ہے اور پانی زمین کی سطح سے بہت نیچے چلا جاتا ہے.اسی وجہ سے اس میں کوئی درخت.پورا وغیرہ نہیں اگتا.ایسے

Page 9

علاقوں میں دن میں سورج کی وجہ سے سخت گرمی پڑتی ہے اور رات میں خنکی ہو جاتی ہے.ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں.صحرا میں اگر کہیں پانی مل جائے تو درخت اُگ جاتے ہیں.یہ عام طور پر کھجور ہوتی ہے.کیونکہ اس کی جڑیں نیچے دُور تک زمین میں چلی جاتی ہیں.ایسے علاقے کو نخلستان کہتے ہیں.اب ہم سر سبز و شاداب میدانوں سے گزر رہے ہیں.یہاں پر زمین کی مٹی ایسی ہے جس میں پانی کے ذرات جمع ہو جاتے.یوں اس کی وجہ سے سطح زمین پر پود سے لگ جاتے ہیں یہی میدان کاشت کاری کی وجہ سے کھیتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اگر اُن کے قریب سے دریا گزرتا ہے یا اس دریائی پانی کو نہروں کے ذریعے دُور دُور تک پہنچایا جاتا ہے.کئی کھیت ایسے بھی ہیں جہاں ٹیوب ویل کے ذریعہ زمین کا پانی فصلوں کو سیراب کرتا ہے.یہ باغات ہیں.کیونکہ یہاں پر پھل اگائے گئے ہیں.ایسی زمین جو ہموار ہو اور اس میں پہاڑ یا گھاٹیاں نہ ہوں میدان کہلاتی ہیں.یہاں موسم کے حساب سے بارش ہوتی ہے.بڑھتے بڑھتے ہم ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں زمین کی وہ شکل دکھائی دے رہی ہے جس پر گھنے اور بلند آسمان سے کی باتیں کرتی ہوئی شاخوں کے درخت ہیں.یہ جنگلات ہیں.ان میں سے بعض درخت اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی.ان علاقوں میں عموما دوپہر کو روزانہ موسلادھار بارش ہوتی ہے.

Page 10

یہ گھاٹیاں ہیں.پہاڑوں کے درمیان کے راستے.اور یہ وادیاں ہیں.بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان پائی جانے والی زمین.یہ اس کی ڈھلوان سے ہوتی ہوئی میدان کی شکل اختیار کر لیتی ہے.ان وادیوں کے کے حسن کا کوئی جواب نہیں.یہاں پر پھول اور پھل کثرت سے ملتے ہیں کیونکہ پہاڑوں پر پائی جانے والی برف پگھل پگھل کر اس کو سیراب کرتی ہے اس کے علاوہ یہاں پر وقتاً فوقتا بارش بھی ہوتی رہتی ہے.یہی زمین آہستہ آہستہ بلندی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے.یوں ہم پہاڑوں پر جا رہے ہیں.چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں - بڑے بڑے اُونچے اُونچے پہاڑ.ان پہاڑی علاقوں کی سطح سخت بھی ہے اور نرم بھی.سخت پہاڑ سخت چٹانوں سے بنتے ہیں.ان میں انسانوں کے لئے بڑے بڑے خزانے دفن ہیں.ان ہی کے میلنوں کو چاک کر کے ہیرے جواہرات - دھاتیں اور قیمتی پتھر نکلتے ہیں.اور بعض جگہ سطح زمین نرم ہونے کی وجہ سے جنگلات پیدا ہوتے ہیں.یہ خود ایک بڑی دولت ہے.پہاڑ ہمارے ملکوں کے لئے فصیل کا کام بھی دیتے ہیں.بادلوں کو روک کر بارش برساتے ہیں.تیز و تند ہواؤں کے طوفانوں کو اپنے سینہ پر رد کتے ہیں.گویا یہ زمین کسی بھی شکل میں ہو انسانوں کے کام آتی ہے.صحرائی علاقے عمو گا تیل کا خزانہ رکھتے ہیں.سرسبز میدان نہ صرف یہ کہ جڑی بوٹیاں بلکہ غذا کا ذریعہ بھی ہیں.جنگلات فضا کو صاف رکھتے ہیں اور موسم کو تبدیل کرنے نہیں

Page 11

11 بھی مددگار ہیں.اس زمین کی رونق پانی سے ہے.آپ نے دیکھا کہ جہاں پانی ہے.وہیں پر آبادیاں ہیں.اور دوسری مخلوقات کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے.گویا پانی ہماری زندگی کا لازمی جز د ہے.اور یہ بھی جمادات کے گروہ میں شامل ہے.پانی بنیادی طور پر دو گیسوں سے مل کر بنا ہے ایک آکسیجن ہے اور دوسری ہائیڈروجن.اس کی تین شکلیں ہیں :.، گیس یعنی بھاپ (۲) مائع یعنی پانی اور (۳) ٹھوس یعنی برف ہر شکل میں یہ خدا تعالیٰ کی نعمت ہے.بھاپ کی شکل میں یہ بادلوں کا روپ اختیار کر لیتا ہے.اور جہاں زمین پیاسی ہو وہاں برس پڑتا ہے.اس طرح فضا کی گیس خاص طور پر نائیٹروجن کو اپنے اندر حل کرتے ہوئے زمین کی زرخیزی کو بڑھاتا ہے.مائع شکل میں یہ بہتے آبشاروں.لہراتے دریاؤں.گہرے کنویں پھوٹتے ہوئے چشمے بھرے ہوئے تالاب ، پرسکون جھیلوں اور سمندروں میں موجود ہے.پانی کی اس شکل کے بھی اپنے اپنے ذائقے اور درجہ حرارت ہیں.جب یہ چشمے سے پھوٹتا ہے تو کہیں ٹھنڈا اور میٹھا ہوتا ہے.یہ جانداروں کی پیاس بجھانے.زمینوں کو سیراب کرنے کے کام آتا ہے.گرم پانی کے چشمے جس میں فاسفورس اور گندھک ہوتی ہے اس کا پانی جلدی بیماریوں کو دور کرتا ہے.جب یہ پانی دریا کی شکل اختیار کرتا ہے تو پہاڑوں کے دامنوں کو کاٹت ہوا

Page 12

۱۳ پتھروں کو بہا تا میدانوں میں داخل ہوتا ہے.ساتھ ہی لائی ہوئی زرخیز مٹی کو پھیلا دیتا ہے.اور کھیتوں.باغوں اور فصلوں کو سیراب کرتا آگے بڑھتا ہے یہ جنگل کے پاس سے گزرتا ہے.تو بڑے بڑے درختوں کے تنوں کو جو لکڑی ہے بغیر انسانی طاقت صرف کئے میلوں تک پہنچا دیتا ہے.آخر کئی شاخوں میں بٹ کر ڈیلٹا بناتا ہوا سمندر کی آغوش میں جا گرتا ہے.اس ڈیلٹا کی مٹی بہت زرخیز ہوتی ہے.ان دریاؤں ہی میں مچھلیاں اور آبی پرندے ہوتے ہیں جن کو انسان شوق سے کھاتے ہیں.پھر یہ آمد و رفت کا ذریعہ بھی ہیں.اس میں کشتیاں اور جہانہ چلتے ہیں.دریاؤں کے کنارے ہمیشہ سے انسانوں کے لئے کشش کا باعث رہے ہیں.آبادیاں اور بستیاں یہیں بسائی جاتی ہیں.پرانے زمانے کی بڑی بڑی تہذیبیں دریاؤں کے کناروں پر آباد تھیں.مثلاً بابلی تہذیب جو دریائے نیل کے کنارے.موہنجوڈرو اور ہڑپہ کی تہذیب دریائے سندھ کے کناس سے پر ملی ہیں.جھیلیں جو اپنے دامن میں پانی کو سمیٹ لیتی ہیں.برف بھی پگھل لگھل کر ان میں جمع ہوتی ہے.یہ دریاؤں کو بھی جنم دیتی ہیں.ان کا پانی پینے کے علاوہ غذا پیدا کر نے کا ذریعہ ہے.مچھلیاں - آبی جاندار - آبی پرندے ساتھ ہی کنا رے پر پھیلے ہوئے سر سبز میدان جن میں جانور پھل.سب ہی انسان کے کام آتے ہیں.اس پانی کی ایک بڑی دولت سمندر ہے اس سے انسان کو بیشمار فائدے

Page 13

ہیں.نہ صرف مچھلیاں.آبی جانور سمندری پرندے ملتے ہیں.بلکہ اس میں پائے جانے والے پودے قیمتی موتی - مرجان گھونگے.سیپلیاں سجاوٹ بلکہ ادویات میں بھی کام آتی ہیں.اس کے علاوہ ذرائع آمد و رفت و تجارت کا بڑا ذریعہ ہے.یہ موسم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں.ساحلی علاقوں میں گرمیوں میں نہ سخت گرمی ہوتی ہے اور نہ سردیوں میں سخت سردی.موسم سارا سال معتدل رہتا ہے.ایک بڑی عجیب چیز سمندر میں پائی جاتی ہے وہ گرم اور ٹھنڈ سے پانی کی رو ہے جسے آپ پانی میں پانی کا دریا جان لیں.اس پر اردگرد کے پانی کا اثر نہیں ہوتا.اگر یہ ساحل کے قریب سے گزریں اور گرم پانی کی رو ہو اور سردی کا موسم ہو.تو موسم گرم ہو جائے گا.موسم اگر سردی کا ہو.رو بھی مرد ہو تو سردی میں اضافہ ہو جائے گا.اب ہم پانی کی ٹھوس شکل برف کو لیتے ہیں.اس نے زمین کے ایک بڑے حصہ کو گھیرا ہوا ہے.پہاڑوں کی چوٹیوں اور قطب شمالی و جنوبی پر بارہ مہینے جمی رہتی ہے.پانی کا بہت بڑا محفوظ خزانہ جو سلسل جمع ہو رہا ہے اُسی سے گلیشیر یعنی برف کے پہاڑ ، اکثر پہاڑوں اور ڈھلوان زمین پر سے سرکنے لگتے ہیں.آبشار بھی اسی سے بنتے ہیں.اور تمام بڑے بڑے دریا بھی اسی کے پگھلنے سے وجود میں آتے ہیں.اگر یہ برف پگھلنے لگے تو سمندروں میں طغیانی آجائے.اور انسان ایک بڑے سیلاب میں بہہ جائے.جہاں یہ پانی کی محفوظ

Page 14

۱۴ شکل ہے وہاں یہ چیزوں کو اپنے اندر دبا کر سالوں محفوظ رکھتی ہے.ان کو گلنے سڑنے نہیں دیتی.جمادات میں تمام گھیر جو پائی جاتی ہیں.ساری دھاتیں قیمتی پتھر آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے ، ستیار ہے.پھر ہمارا چاند ، سورج بھی تو جمادات میں شامل ہیں.ان سب کا بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کس طرح انسان کی خدمت کر رہی ہیں.صرف اتنا ہی جان کر ہمارا سر اپنے رب کے آگے جھک جاتا ہے کہ خدایا تو نے کیا کیا پیدا کیا.اگر ہم ان سب کی تفصیل میں جائیں تو جہاں بار بار عقل یقین کی منزل سے بغاوت کر ے گی وہاں ہمارے ایمان کو مزید مضبوطی اور استقامت بھی عطا کر ے گی.مخلوق کی دوسری قسم نباتات ہیں.جمادات کی دنیا سے نکل کمرہ نباتات کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں.تو یہ بھی بڑی انوکھی اور پیاری دنیا ہے اس میں بہت سے قبیلے اور خاندان آباد ہیں.آپ کو حیرت ہو رہی ہے کہ پودوں کے قبیلے اور خاندان کیسے ؟ یہ تو انسانوں کے ہوتے ہیں.لیکن میں جب آپ کو باری باری ان کے قبیلوں اور پھر خاندانوں سے لاؤں گی تو یقین آجائے گا.کہ یہ سبنر رنگ والی جاندار مخلوق بھی کتنی پھیلی ہوئی ہے.یہ ایک خلیہ (CELL) والے پودے سے لیکر بڑے بڑے درخت جن کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں.اس میں پائی جاتی ہیں.

Page 15

10 نباتات کو ہم چھ بڑے قبیلوں میں بانٹ لیتے ہیں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے.- بیکٹیریا (BACTERIA) یہ ایک خلیہ والے جاندار ہیں جو آپ کو آنکھ سے نظر نہیں آتے.ان سے ملنے کے لئے آپ طاقتور خوردبین استعمال کریں.پھر دیکھیں کہ ان کی کتنی شکلیں ہیں.پھر م یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں ان کا کام یہ ہے کہ مردہ جانوروں اور پودوں کو گلا سڑا کر کھاد بنا دیں.یا یوں سمجھیں کہ سادہ شکل میں بدل دیں تا اسی میں سے دوبارہ زندگی شروع ہو سکے.م یہ تیزی سے بڑھتے ہیں.یعنی ایک سے دو.دو سے چارہ.اپنی غذا خود تیار کر لیتے ہیں.ہر قبیلہ دو مختلف خاندانوں میں بٹا ہوا ہے.فائدہ مند بیکٹیریا.ان کی ایک قسم مڑ کے پودے کی جڑوں میں پائی جاتی ہے.اس کی وجہ سے زمین تیزی سے زرخیز ہوتی ہے.مٹر کی کاشت کے بعد گیہوں بویا جائے تو وافر مقدار میں پیدا ہوگا..ان کی ایک قسم آٹے کو خمیر کرتی ہے تو دوسری دودھ کو دہی میں بدل دیتی ہے.-- دوسرا خاندان نقصان دہ بیکٹیریا ہیں جو بیماریاں پھیلاتے ہیں.گویا اگر انسان احتیاط نہ کر سے تو یہ اس پر قابو پالیتے ہیں.جس طرح اگر انسان اپنے خدا کی بات نہ مانے تو روح پر اخلاقی بیماریاں حملہ کر دیتی ہیں.۲ -.پھپھوندی (FUNGI) یہ نباتات کا دوسرا قبیلہ ہے کیونکہ ان میں غذا نتیار کرنے والا سبنر مادہ نہیں ہوتا اس لئے یہ دوسروں کے محتاج ہیں.

Page 16

14 اور اپنے میزبان یا ان کی تیار کی ہوئی غذا پر گزارہ کرتے ہیں.یہ کھانے پینے کی چیزوں.پودوں.بکڑی وغیرہ پر ملتے ہیں ان کا بھی کام یہ ہے کہ مُردہ جانوروں ، پوروں اور دوسری اشیاء کو سادہ اجزاء میں تبدیل کر دیں.پھر یہ کھاد زمین کے کام آتی ہے.یہ اندھیروں اور گرم مرطوب جگہ پر خوشی سے پھیلتے اور پھولتے ہیں اس کے بھی دو خاندان ہیں.ایک فائدہ مند اور دوسرا نقصان ده - فائدہ مند پیچوندی سے پنیر بنتا ہے.مشروم (MUSHROOM) غذا کے طور پر استعمال ہونا ہے.دواؤں میں پنسلین ہے.جو ایک خاص قسم کی پیچوندی سے حاصل ہوتی ہے.تیسرا قبیلہ کائی (ALGAE) ہے.ان سے مل کر آپ کو حیرت ہوگی.کہ یہ یا تو اتنے چھوٹے ہیں کہ آنکھ سے نظر نہیں آتے.یا پھر اتنے بڑے بڑے ہیں.کہ سمندر میں درختوں کی طرح پائے جاتے ہیں.ان کے رنگ بھی آپس میں نہیں ملتے.پھر یہ سب ایک قبیلہ کے کیسے ہو گئے ؟ آپ ان سب کو باری باری غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ پودوں کی انتہائی سادہ قسم ہے.ان میں طاقتور چیزیں اور مضبوط تنے نہیں ہوتے اس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کو چار خاندانوں میں بانٹ لیں.پہلا خاندان سبز کائی (BLUE GREEN ALGAE) کا ہے.یہ عام طور پر جو ہیر، تالابوں کے کناروں اور تم جگہ یا پھر ٹھہرے ہوئے پانی کی سطح پر موجود ہوتی ہے.ویسے گیلی لکڑی سیلی جگہ پر فوراً قبضہ جما لیتی ہے

Page 17

۱۷ بہت ہی باریک پود سے ہیں.ان میں زیادہ تر ایک خلیہ کے یا پھر کئی خلیے مل کر کالونی بنا کر رہتے ہیں.ان سب کو بھی آپ طاقتور خوردبین سے دیکھ سکتے ہیں.ان میں غذا بنا نے والا سبز مادہ پایا جاتا ہے.اس لئے اپنی غذا خود تیار کر لیتے ہیں.یہ میٹھے اور ٹھہر سے ہوئے پانی کو پسند کرتے ہیں.دوسرا خاندان سبز کائی (GREEN ALGAE) کا ہے.یہ خاندان سمندری دریاؤں.جو ہٹر اور تالابوں وغیرہ ہر جگہ پایا جاتا ہے.اس میں بھی ایک خلیہ سے لے کر چھوٹے چھوٹے سادہ پود سے بھی ہیں.ان میں بھی سبز مادہ پایا جاتا ہے.اس لئے یہ سورج کی روشنی میں اپنی غذا خود تیار کر لیتے ہیں.کسی پر بوجھ نہیں بنتے ان دونوں خاندانوں کو پانی کے چھوٹے چھوٹے جانور مثلاً مچھلیاں وغیرہ غذا کے طور پر استعمال کرتی ہیں.اب تو سائنسدانوں نے ان سے طاقتور غذائی گولیاں بنالی ہیں جو خلائی سفر وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں.پھر اس سے کھا د بھی بنائی جاتی ہے.دو خاندانوں سرخ اور بھوری کائی (PHODO PHYCEA-PHEOPHYCEA) ان میں سبز مادے کی جگہ آپ کو شرخ اور بھو را مادہ ملے گا.یہ دونوں سمندر میں ملتی ہیں.لیکن اتنی گہرائی پر جہاں سورج کی سفید شعاعیں نہیں پہنچے پاتیں.یہ عموماً چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے درختوں کی شکل میں ملتی ہیں.چٹانوں اور پتھروں سے چپک کر پڑھتی ہیں.خوبصورت ساخت ہوتی ہے.اپنی غذا کو تیار کرتے ہیں انفرا ریڈرینیز (INFRA RED RAYS) اور الٹرا

Page 18

JA ستعمال کرتی ہیں.ان میں وائیلٹ روشتی (ULTRA VIOLET RAYS) بڑی طاقت ہوتی ہے.آبی جانداروں کی پسندیدہ غذا ہے.اس قبیلہ سے مل کہ آپ کو اندازہ ہوا کہ انسان کی غذائی ضرورت جو آبی جانور بھی ہیں.ان کو زندہ اور تندرست رکھنے میں یہ سادہ سے پود سے کسی طرح کام آتے ہیں.اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوقات کی ایک نہ بنجیر بنائی ہوئی ہے.ہر کڑی ایک دوسرے کی محتاج ہے.اور پھر ایک کی ضرورت دوسرے سے پوری ہوتی ہے.آخر میں اس زنجیر کی کڑی انسان سے جاملتی ہے کہ یہ سارا نظام ساری مخلوقات انسان کی خاطر پیدا کی گئیں.اس کی ضروریات زندگی کو پورا کر تی ہے.اس کی خدمت پر مامور ہیں.چوتھا قبیلہ فرن (FERN) ہے.پودوں کی ی قسم آپ کو کائی اور پھپھوندی سے نمایاں طور پر الگ نظر آئے گی.یہ چھوٹی چھوٹی جڑوں.تنے اور پتوں کے مالک ہیں.اپنی غذا سورج کی روشنی کی مدد سے تیار کرتے ہیں.کیونکہ ان میں سبز مادہ کلوروفل پایا جاتا ہے.ٹھنڈی پر غم جگہ ان کو پسند ہے.ان میں پھل اور پھول نہیں ہوتے.یہ آپ کے گھروں کے اندر سجاوٹ کے لئے استعمال ہوتے ہیں.پانچواں قبیلہ بغیر پھول والے پودے (GYMNOSPERM) ہیں.اس قبیلہ میں آپ کو سب سے نمایاں خصوصیت بہ ملے گی.کہ اس کے بیج دوسر سے پودوں کی طرح نہیں بنتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں پھول نہیں ہوتے.آپ حیران کیوں ہیں.یہ بھی خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نمونہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو بغیر پھول اور پھل کے بیج تیار کر دے.اس میں ایک کون (CONE)

Page 19

۱۹ ہوتی ہے.جس کی سخت پر توں میں بیج بنتا ہے اور کون کے کھلنے کے ساتھ ایک چٹخ کے ساتھ بکھر جاتا ہے مضبوط سخت جان.سالوں زندہ رہنے والے درخت ہیں.ہمیشہ سرسبز نظر آتے ہیں.ان کی لکڑی بہت سخت اور مضبوط ہوتی ہے جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک پہنچ جاتی ہیں.عام طور پر یہ آپ کو پہاڑی علاقوں میں ملیں گے.سردیوں میں آپ جو خشک میوے کھاتے ہیں.اسی قبیلہ سے حاصل ہوتے ہیں.عالم نباتات کا چھٹا قبیلہ پھول دار پودے (ANGIOSPERM) ہیں ان سے ملاقات کر نا مشکل نہیں.یہ سب سے بڑا اور انسان کے بہت زیادہ قریب رہنے والا قبیلہ ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام رنگ اس کے پھولوں میں بسے ہوئے ہیں.آپ کے گھروں.باغوں کھیتوں وغیرہ سے سے کہ راستے میں چلتے پھرتے پیروں سے اُلجھ جانے والے پودے اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں.تمام ایسے پود سے اور درخت جن میں پھول لگتے ہوں.پھل کے اندر بیج تیار ہوتے ہوں ان سے مل کر آپ آسانی سے جان لیں گے کہ یہ (ANGIOSPERM) ہیں.اس کے بہت سارے خاندان ہیں.ہر خاندان کے بے شمار ممبر- گویا یہ زمین پر پایا جانے والا نباتات کا سب سے زیادہ فائدہ مند قبیلہ ہے جو براہ راست انسان کے کام آتا ہے.اس میں جڑی بوٹیاں.جھاڑیاں.بیلیں.بڑے بڑے درخت سب ہی شامل

Page 20

ہیں.جڑی بوٹیاں میدانوں ، صحراؤں اور پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں.ایک طرف بیماروں کے علاج تو دوسری طرف جسم میں طاقت پیدا کرنے کے کام آتی ہیں.ادویات ان سے ہی بنائی جاتی ہیں.سبزیاں جو نہ صرف آپ کی غذا ہیں بلکہ جسم کو بھی مضبوط بناتی ہیں.ان میں سے بعض کے تو ہم پھل.پھول - پوست.بیج.پتے.جڑیں.حتی کہ ڈنٹھل بھی استعمال کر لیتے ہیں.ان میں پالک.میتھی.ہرا دھنیا.پودینہ وغیرہ ہیں.پالک سے آئرن حاصل ہوتا ہے.بعض کی جڑیں اور پتے ہمارے کام آتے ہیں.ان میں مولی شلجم اور چقندر ہیں.کچھ کے پھل سبزی کے طور یہ کہتے ہیں.ان میں بھنڈی.بینگن.ٹنڈے.ہیں.کچھ سبزیاں آپ کچی کھا لیتے ہیں.ان میں ہری مرچ.ٹماٹر ہیں.وہ پور سے جن کی جڑیں ہماری غذا ہیں.ان میں لہسن ہے.یہ ہمارے خون کو بھی گاڑھا نہیں ہونے دیتا.ایسے تنے جو زمین کے اندر ہوتے ہیں.اور ہمارے لئے پروٹین اور نشاستہ مہیا کرتے ہیں.یہ آلو ، ار دی اور ادرک ہیں.اور وہ پتے جو زمین دونہ ہیں.مثلاً پیاز.اس کے بغیر نہ سالن بنتا ہے اور نہ سلاد.اسی قبیلہ کا ایک خاندان ہیں اناج بھی مہیا کرتا ہے.ہماری فصلیں جن میں گیہوں.چاول.مکئی.باجرہ - جوالہ اور دالیں ہیں.پھر نرم نرم تنوں والی نازک بیلیں یہ خوبصورت اور خوشبودار پھول پیدا کرتی ہیں جو انسانی ذہن کو معطر اور آنکھوں کو طراوت دیتے ہیں ان میں چنبیلی ہے.

Page 21

۲۱ بیلوں کی ایک قسیم ہم کو سبزی بھی مہیا کرتی ہے.مثلاً کرو - توری جو ہم کھاتے ہیں بکڑی.کھیرا کچا کھاتے ہیں.پھلوں میں تربوز - خربوزہ.پھوٹ.سردا.گھر یا.انگور یہ سب نازک اور نرم تنے ہمار سے لئے تیار کر تے ہیں.بعض یو دے جن کے پھول بے حد خوبصورت ہیں اور ان کی خوشبو سے انسان عطر بناتے ہیں.یہ گلاب ، موتیا اور رات کی رانی ہے.کچھ پھول آپ کے ذہن.دل اور جسم کو طاقت پہنچاتے ہیں.ان سے شربت بنتے ہیں.جیسے گل بنفشہ گل گاؤ زبان - ایسی جھاڑیاں جن کی پھلیاں اور پھل اچار میں ڈالتے ہیں.گوار پھلی لیسوڑا ہے.درخت جو نہ صرف سایہ دیتے ہیں بلکہ ان کے پتے اور پھل بھی دوائیوں میں استعمال ہوتے ہیں.نازک شاخوں سے مسواک منبتی ہے.ان میں سے نیم ہے.گھنے سایہ دار درخت بڑ اور پیل ان کا سایہ ٹھنڈا اور پرسکون ہوتا ہے.رس والے پھیل اس میں موسمی ، تاریخی.چکوترا اور لیموں ہیں.ایسے درخت جن سے ہمیں پھیل حاصل ہوتا ہے.ان میں جامن - آڑو بسیب.آم اور انارہ شامل ہیں وہ جڑ جو پھل کے طور پر کھائی جاتی ہے.انناس ہے.پودوں کی سلطنت میں یہ سب سے بڑا قبیلہ ہے.اس میں ایسے بھی پودے اور درخت ملتے ہیں جو انسان کو جڑ سے لے کہ بیج تک مہیا کر تے ہیں بعض درختوں کی چھال مثل دار چینی.ڈوڈے اس میں پوست خشخاش، زردا نے بطور زعفران کے استعمال ہوتی ہے.اس قبیلہ میں ایسے پود سے بھی ہیں جو مسالہ.خوشبو اور رنگ تیار کرنے کے

Page 22

۲۳ کام آتے ہیں.اگر آپ صرف اس قبیلہ کے پھولوں کو ہی لیں تو اس سے زیادہ حسین دُنیا کوئی اور نہیں ملے گی.گویا یہ قبیلہ براہ راست آپ کی خدمت کر رہا ہے.نہ صرف غذا.بلکہ گھروں کی سجاوٹ.آپ کے فرنیچر کی لکڑی اور کھانا پکانے کا ایندھن اور جو بچ گیا وہ آپ کے جانوروں کے کام آتا ہے.عالم نباتات کا سب سے اہم کام جو قدرت نے اس کے سپرد کیا ہے کہ یہ زہریلی گیس کاربن ڈائی اکسائیڈ (002) کو جذب کر کے آپ کے لئے آکسیجن (0) بناتے ہیں.ورنہ اگر یہ سبز ما د سے والے پود سے نہ ہوتے تو آپکی اوزون (0) کی چادر جو زمین کے چاروں طرف بنی ہوئی ہے.اور جو سورج کی خطرناک نقصان دہ شعاعوں کو روکتی ہے وہ کمزور ہو جائے گی.اس میں جگہ جگہ سوراخ ہو جائیں گے.اس طرح یہ مہلک شعاعیں زمین پر پہنچ کر نہ صرف فصلوں، پودوں بلکہ جانوروں اور انسانوں کو بھی ایسی بیماریوں کا شہ کا ر کر دیں جن کا علاج بھی بعض اوقات ممکن نہیں.آئیے اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ واقعی اس نے انسانوں سے بے پناہ پیار کا سلوک کیا.اور ہمارے آرام اور سکون کے لئے ایسے انتظام کئے.ہیں نے تو صرف ایک جھلک دکھائی ہے.جب آپ بھ سے ہوں گے اور ہر مضمون کو کچھ تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملے گا یا جو سائنس دان بنیں گے اور انہیں کسی ایک شعبہ کے ایک حصہ پر کام کا موقع ملے گا تو وہ جان سکیں گے.کہ خدا تعالیٰ نے کتنی باریکیوں اور حکمتوں سے ایک ایک چیز کو تخلیق کیا.اور پھر ان کے ذمہ جو کام

Page 23

۲۳ لگایا وہ کیسی مہارت کے ساتھ بغیر رکاوٹ کے ہو رہا ہے.واقعی پیار سے خدا تو رب العالمین ہے.سب کا پالنے والا - پرورش کرنے والا.انعام دینے.احسان کرنے اور ادبی حالت سے طاقتور حالت میں بدلنے والا.اسی لئے ہر قسم کی تعریف تیرے ہی لئے ہے.اب ہم عالم نباتات سے عالم حیوانات میں داخل ہو رہے ہیں.لیکن یہ کیا ؟ یہ کونسی مخلوق ہے ؟ ظہریں ذرا اس پر بھی غور کرلیں.یہ در اصل ان دنوں کے درمیان پائی جانے والی ایک جاندا ر قسم ہے جس کو وائرس (VIRUS) کہتے ہیں.یہ آپ کو نظر نہیں آئیں گے.صرف طاقتور خوردبین سے دکھائی دیتے ہیں.ان کو دیکھنے کے بعد آپ نے اندازہ لگایا کہ مختلف شکل اور ساخت کے یہ جاندار جو تیزی سے بڑھتے اور حملہ آور ہوتے ہیں.اگر انسان کی قوتِ مدافعت (بچاؤ کی طاقت کمزور ہو تو ان کا کام بن گیا اور آپ بیمار پڑ گئے لیکن اگر آپ نے اس خدائی نعمت کی قدر کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا تو خدا تعالٰی کا فضل ضرور آپ کو ان کے حملے سے محفوظ رکھے گا.جس طرح کہ وہ اپنے نیک بندوں کو فطرت کی پاکیزگی کی وجہ سے تمام اخلاق وکردار کی بیماریوں سے بچاتا ہے.شیطان ان پر حملہ کر سے بھی تو استفتار ، تو بہ سے بچت ہو جاتی ہے.مخلوقات کی تیسری قسم حیوانات ہے.اس میں ہر قسم کے ایسے جاندار شامل ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے ہیں.اپنی غذا کو تلاش کہ تھے اور خطرے کی بو سونگھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں.یہ بول سکتے اور سن سکتے اور دیکھ سکتے ہیں.

Page 24

۲۴ آپ باہر کیوں کھڑے ہیں.آئیے اس دنیا کو بھی دیکھیں.ورنہ صحیح طور پر اندازہ نہ ہو گا کہ اس کا کیا حسن ہے.کیا شان ہے.اس کے بھی کئی دلکش رہنگ ہیں.اس مخلوق کو بھی اچھی طرح سمجھنے کے لئے اس کو مختلف قوموں قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کرنا ہوگا.کیونکہ یہ مخلوق بھی ایک خلیہ سے لیکر کثیر خلوی جاندار پر مشتمل ہے.مثلاً امیبا (AMEABA).ایک خلوی ہے..اس مخلوق کی دو قومیں ہیں.ایک ، ہڈی والے جاندار اور دوسرے بغیر ہڑی والے.جو بغیر ہڈی والے ہیں ان کا خون سفید یعنی ٹھنڈا ہوتا ہے.اور ھڑی والے کا خون سُرخ یعنی گرم ہوتا ہے.جب ہم بغیر ھڈی یعنی سفید خون کے جانداروں کی قوم کو دیکھتے ہیں تو ایک وسیع دنیا ہمارے سامنے آجاتی ہے.جہاں ننھے منے حشرات الارض سے لیکر کیڑے مکوڑے مکھیاں مچھر موجود ہیں.ان کی بہت ساری قسمیں پانی میں بھی اپنی زندگی گزارتی ہیں یہ سب اپنی غذا خود حاصل کرتے ہیں.پودے، اُن کے پتے ان کی جڑیں یا پھر کائی اور مردہ جاندار ے علاوہ انسانکی بچی کچھی چیزوں پرگارہ کر لیتے ہیں تو اسنوں کے ارد گرد بڑی تعداد میں پائ جاتی ہے.یہ آپ کو کھیتوں میں مختلف قسم کی ٹڈیوں ، سنڈیوں ، گر اس ہو پر نہ وغیرہ کی شکل میں ملیں گے گھروں میں لال بیگ بچی کچھی چیزیں کھا کر گزارہ کر لیتے ہیں.کوڑے کے ڈھیروں پر مکھیاں بھنبھناتی ہوئی نظر آئیں گی.باغات میں رنگ برنگی تتلیاں.شہد کی مکھیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں.یہ حسین

Page 25

۲۵ تتلیاں پھولوں پر بیٹی بڑی بھلی معلوم ہوتی ہیں.اور شہد کی لکھی تو بڑی محنت اور لگن کے ساتھ مختلف پھولوں سے اس چوس کہ ہمارے لئے شہد اور موم تیارہ کرتی ہے.یہ شہر اسی (۸۰) سے زائد بیماریوں کا علاج ہے.رات کو باغات میں آپ کو چھوٹے چھوٹے ستارے چمکتے ہوئے ادہر ادبر دکھائی دیں گے.یہ جگنو ہیں.جن کا اپنا نرالا حسن اور انداز ہے.قدرت نے ان کو انوکھا کام دیا ہے.تمام حشرات الارض جو کھیتوں ، باغوں اور درختوں پر پائے جاتے ہیں.یہ پھولوں کے زردا نے دوسرے پھولوں پر منتقل کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے پھل اور بیج تیار ہوتے ہیں.یہ کام بڑی مہارت اور نفاست چاہتا ہے.اگر انسان صرف زر دانوں کو منتقل کرنے کے لئے مزد در مقرر کرے یا پھر خود کوشش کرے.تو ممکن ہی نہیں کہ وہ باری باری برش لے کر ایک زردانے کو اٹھائے پھر پھولوں تک جائے.پھر بھی اس تعداد میں پھل اور بیج تیار نہیں ہو سکتے.جو قدرت کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے نازک بے شمار مزدور کر دیتے ہیں.آئیے اب بڑی والے جانداروں کو دیکھتے ہیں.ان کا خون سرخ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گرم خون کے جانور کہلاتے ہیں.یہ زمین - سمندر - دریا.ہوا وغیرہ ہر جگہ موجود ہیں.اس قوم کے کئی قبیلے ہیں.ا.ان میں پانی میں رہنے والی مچھلیاں ، دریائی گھوڑے وغیرہ.۲ - پانی اور زمین دونوں جگہ رہنے والے (AMPHEBIONS) - زمین پر رینگنے والے - ۴ - پرندے اور.۵.دودھ پلانے والے شامل ہیں.

Page 26

سے پہلے ہم پانی میں پائی جانے والی مخلوق کے قبیلے سے ملتے ہیں.ان کے بھی بہت سے خاندان ہیں.ہم صرف ان کی بات کریں گے جن کا تعلق براہ راست ہم سے ہے.پہلے ہم ان خوبصورت رنگ برنگی لہراتی - تیرتی مچھلیوں کو لیں یہ چند سنٹی میٹر سے لے کر ٹنوں وہ فی بھی ہوتی ہیں.جیسے وہیل اور شارک.ان بڑی مچھلیوں کی غذا چھوٹی مچھلیاں یا سمندری جانور ہیں.اور ان چھوٹی مچھلیوں کی غذا آپ کو معلوم ہے کہ کائی ہے.انسان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں.ان سے ہی ہمیں وٹا من (A) اور (D) ملتا ہے جو ہماری آنکھوں.جلد اور ذہن کے لئے مفید ہے ان سے (COD LIVER OIL) بھی ملتا ہے.یہ رنگیں مجھیلیاں آپ کے گھروں کے ایکویریم (AQUARIUM) مچھلی گھروں کی زینت ہیں.ان مچھلیوں سے انسان نے تیرنے کے طریق سیکھے.اور پانی میں سیر کی تمنا نے کشتیاں اور جہاز بنوائے.سمندر میں پائی جانے والی مخلوق کے دیکھنے اور ان کے بارے میں جاننے کی جستجو نے آبدوز بنوا ڈالی.اس طرح ایک اور ترقی کا میدان ملا.II - اس قوم کا دوسرا قبیلہ ایسے جانداروں پر مشتمل ہے.جو پانی اور زمین دونوں جگہ اپنی زندگی گزارتے ہیں.ان میں مینڈک کیکڑے کچھو سے اور مگر مچھ ہیں.ان میں سانس لینے کا نظام تمام زمین پر رہنے والوں سے مختلف ہوتا ہے.بعض علاقوں کے لوگ ان کو کھاتے ہیں لیکن یہ کئی بیماریوں کا علاج بھی ہیں.اس کے علاوہ پچھوئے اور مگر مچھ کی کھال انسان کے کام آتی ہے.ان کی چربی سے مالش کرتے ہیں

Page 27

۲۷ جو دردوں کا علاج ہے.- تیسرا قبیلہ زمین پر رینگنے والوں کا ہے.یہ زمین کے متوازی حرکت کرتے ہیں ان میں سانپ.مچھلی.گرگٹ پیچھو وغیرہ ہیں.اگر آپ صرف سانپ کے خاندان میں ہی چلے جائیں تو اس کی بہت ساری قسمیں ہیں.یہ انتہائی چھوٹے دھا گے کی طرح باریک سے لے کر بڑے کو برا اور شیش ناگ تک ملیں گے.ان میں سے بعض بڑے خوبصورت اور چمکیلے ہوتے ہیں.سانپوں کی مرغوب غذا دودھ.مینڈک - چو ہے اور خرگوش ہے.ان کی ایک نسل کے بارہ سے میں بڑی حیرت کی بات بتاتی ہوں.یہ خاموشی سے چھپ کر شکار کے انتظار میں رہتے ہیں.جیسے ہی خرگوش نظر آئے تو اپنی دُم کو تھوڑا اونچا کر کے ہلاتے ہیں جس کی وجہ سے گھنٹیوں کی آوانہ آتی ہے.اس آوانہ پر خرگوش محو ہو جاتا ہے.یہ دم ہلاتے ہوئے آگے بڑھتا ہے.اور شکار کو پکڑ لیتا ہے.پھر شیش ناگ جو سانیوں کا بادشاہ کہلاتا ہے اس کے سر پر سانپ کا ہی تاج ہوتا ہے.ایک دھا گے کی طرح کا باریک اور چھوٹا سانپ کنڈلی مارکر اس کے سرپر بیٹھا رہتا ہے جس کی وجہ سے شیش ناگ گردن اُٹھا کر چلتا ہے پھر یہ بہت چمکیلہ اور سیاہ ہوتا ہے.بہت زہریلا اس کا بچا ہو اوو دوور زہر کی وجہ سے منیلا نظر آتا ہے.چونکہ یہ قبیلہ عمو گا زہر یلے جانداروں سے تعلق رکھتا ہے.لیکن یہ زہر بھی انسان کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہے.ان کی کھالیں بہت مہنگی ہوتی

Page 28

۲۸ ہیں.بعض لوگ ان کا گوشت بھی استعمال کرتے ہیں.I - پرندے :.جانوروں کی ایک قسم ہے جو پر رکھتے ہیں.اور دو ٹانگوں پر چلتے ہیں.ان میں سے بہت سے آپ کے دوست بھی ہیں.جن کو آپ خوشی سے پالتے ہیں.ان کا گوشت بھی مزے سے کھایا جاتا ہے.ان میں بطخیں.مرغیاں.یہ زیادہ اُڑ نہیں سکتے لیکن اڑنے والے پرند سے آپ کے پنجروں میں موجود ہیں.چڑیاں طوطے ، مینا ، لال وغیرہ.اور بعض کو آپ کھل بھی پالتے ہیں.کیوتر ، چکور ، باز وغیرہ.ان پرندوں کے خاندان کے بعض ممبر نہ کے یہ بہت خوبصورت ہوتے ہیں.جیسے مور کچھ پرندوں کے گھونسلے بڑے پیار سے ہوتے ہیں.ان میں کیا ہے.یہ اپنا گھر باریک تیلیوں سے بن کہ بناتا ہے اور اس کو دیکھ کہ انسان نے بننے کا فن سیکھا.پھر کھٹ بڑھئی ہے جو اپنی تیز اور لمبی چونچ سے درختوں کے مضبوط تنوں کو کھود کر اپنا گھر بنا لیتا ہے.آبی پرندوں میں سارس ، بنگلا ہیں.اپنی لمبی لمبی گردنیں اُٹھائے ایک ٹانگ پر کھڑے میں گئے.یہ عقاب ہے.اس کو شاہین بھی کہتے ہیں.ہمیشہ ہوا کے مخالف رخ اٹہ تا ہے.بڑی اُونچی پرواز ہے.اور اپنے شکار کو فضا میں ہی پکڑ لیتا ہے.ایک پرندہ چکور ہے جو چودھویں کے چاند کو دیکھ کہ اس کی طرف پروا نہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.اونٹ کی طرح کا پرندہ اس کو شتر مرغ کہتے ہیں.گردن اور ٹانگیں لمبی لمبی.اتنے بڑے وجود پر چھوٹے چھوٹے پر چلتا ہوا بڑا بھلا معلوم ہوتا ہے.

Page 29

۲۹ آپ کے اردگرد چیل کو سے بھی موجود ہیں.کو سے اتفاق سے رہنا سکھاتے ہیں.اگر آپ چڑیا گھر جائیں تو پرندوں کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ حیران ہو جائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے اتنے رنگ ان کے پروں میں کیسے بھر دئے.انسان نے اس پر کو قلم کے طور پر استعمال کیا.کتاب میں بک مارک رکھا.ان پروں کے لحاف اور کیسے.گرمی و نرمی کا سامان مہیا کرتے ہیں.پھر ان پیروں سے انسان اپنے آپ کو سجاتا رہا.سر پر.کوٹ کے کالہ پر یہیٹ پر.ان سے بنائی ہوئی خوبصورت لمبی کمر پر سے گزرتی ہوئی ٹوپی ریڈ انڈین اپنے سردار کو پہناتے ہیں.پروں سے لباس بھی بنے.آج بھی افریقیہ میں پیروں کے تاج استعمال ہوتے ہیں.ان کی آوازیں خصوصیت سے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں.خوب صورت سریلی آوازیں.یہ کوئل ، مینا اور تیتر کی ہیں.طوطے چیخ چیخ کر بلاتے ہیں.ان کو آپ انسانوں کی طرح بولنا سکھا سکتے ہیں.جن پرندوں کا گوشت آپ کو پسند ہے.ان میں مرغی.بطخ - کبوتہ - تیتر بٹیر اور مرغابی ہیں.ویسے تو ساری اور بگلا بھی کھایا جاتا ہے.مرغیوں اور بطخوں کے علاوہ آبی برند سے بھی کھائے جاتے ہیں.پرندوں کو اڑتا دیکھ کر انسان میں بھی انوکھی تمنا ابھری کہ وہ بھی ہوا میں اُڑے اور اس دنیا کو بلندی سے دیکھے اس طرح جہانہ بن گیا.لیکن ہوا میں پہنچے کہ زیادہ دور جانے کی کوشش نے راکٹ بنوائے.سیاروں ستاروں کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کی تڑپ نے انسان کو فضا میں پہنچا دیا.

Page 30

I - آخری قبیلہ دودھ پلانے والے جاندار ہیں.یہ عموٹا چار ٹانگوں پر چلتے ہیں.اس میں بڑے بڑے خونخوار جانور بھی ہیں.جیسے شیر، چیتا، ریچھ وغیرہ اور معصوم جانور خرگوش کنگرو - سرن، بارہ سنگا وغیرہ.یہ بہت جلد انسان کے دوست بن جاتے ہیں.گائے بھینس بکری وغیرہ کو دودھ اور گوشت کے لئے پالا جاتا ہے.جبکہ ہیں.گدھا.گھوڑا.اونٹ وغیرہ سواری کا کام دیتے ہیں.کھیتوں میں ہل چلاتے.وزن اُٹھا تے ہیں.ہم گھروں میں بلیاں.کتے پالتے ہیں جو نہ صرف چوہوں سے بچاتے بلکہ پہرہ بھی دیتے ، شکار میں مدد کرتے اور اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں.ہا بھی بڑا ہی کار آمد جانور ہے.درخت اٹھاتا ہے، تنے گراتا ہے پھر انسان نے اپنی عظمت و شان کے اظہار کے لئے ان کا استعمال کیا.اپنے مخالفین پر رعب ڈالنے کے لئے بھی ان کو مقابلہ میہ لایا گیا.ہاتھی والے ایہہ ہہ بھی تو تکبیر میں خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے نو (۹) ہاتھی رہا تھا.اتنے پیڑ سے طاقتور جانور کو انسان نے سکھا کر سیدھا کہ سرکس میں کہ تب کر وائے.پھر گھروں میں کام کرنے کے لئے بندروں کی ایک قسم چیمپینزی کو تیار کیا جو ایک اچھا معاون بنا.اس قبیلہ کے جانور جہاں بڑ سے طاقتور ہیں.وہاں یہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق انسان کے آگے جھکے رہتے ہیں.اس کی خدمت کرتے اور جب اس کو گوشت کی ضرورت ہوتی ہے.تو اونٹ ،گائے.ہیں.بکری وغیرہ اپنی گردن زمین پر رکھ دیتے ہیں اور یہ ذبح کمر کے ٹکڑے بنا لیتا ہے.اگر ان کی فطرت میں اطاعت نہ ہوتی.تو جس طاقت کے یہ مالک ہیں انسان کے بس میں نہیں

Page 31

۳۱ تھا کہ ان پر قابو پاسکتا.جب انسان کو خوبصورت لباس کے لئے کھال کی ضرورت پڑی تو یہ اپنی کھال پیش کر دیتے ہیں.ان میں شیر چیتے.لومڑی.خرگوش - ہرن - زیبرا ہیں.سردی سے بچاؤ کے لئے ریچھ اور سمور کی کھال کام آتی ہے.گائے اور بھینس کے چھڑے سے جو تے تیار ہوتے ہیں.ٹوپیاں اوڑھی جاتی ہیں.پرس نتے ہیں.گھروں میں زہنیت کو بڑھانے کے لئے کھا لیں بچھائی جاتی ہیں.آپ غور کریں کہ یہ جانور اپنی فطرت کی اطاعت کی وجہ سے یہ سب پیش کرتے ہیں.اور تو اور ان کے سر ہینگ سجاوٹ کیلئے استعمال ہوئے انکی ہڈیوں سے فاسفورس اور چربی سے گھی بنا.ان کے بال ادن بنانے کے کام آئے.گویا یہ جاندارہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور قانون فطرت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے چلے جارہے ہیں.اور انسان جس کو عقل سمجھ سے نوازہ گیا.اپنے خدا سے گلہ شکوہ ہی کرنے میں مصروف رہا.ہمیں چاہیے کہ اپنے چاروں طرف بکھری بے شمار نعمتوں کو دیکھ کہ ان سے فائدہ اُٹھائیں اور شکر ادا کریں.آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم انسانوں اور جانداروں میں کیا کیا فطری مماثلت ہے اور ہم نے ان سے کیا کیا سیکھا ہے اور سیکھ سکتے ہیں.اور کیا کیا فائد سے اٹھائے ہیں.انسان نے جانوروں سے بولنا سیکھا.اس کی آوازوں کو سُن کر آوازیں نکالیں تو بولیاں بن گئیں.ہاتھیوں سے سردار کی تعظیم سیکھی جاسکتی ہے.کہ وہ سردار کے بغیر حرکت نہیں کرتے.اور سردار کے مرنے کے بعد دوسرا سردار بنا لیتے ہیں.یہ جمہوریت کا درس ہے.پرندوں سے مُرسیکھا.بٹے سے بنتا.مکڑی سے جال تننا شہد کی مکھی سے

Page 32

۳۲ محنت اور رزق حلال کی تلاش.ارد گرد پائی جانے والی گندگی سے بچتے ہوئے پھلوں کے اس کی تلاش میں میلوں کا سفر جس نے انسان کی ہمت بندھائی کہ طیب رزق کیونکر حاصل کیا جاتا ہے.کھوٹ بڑھٹی سے لکڑی کاٹنا.شیر سے جرات.چیتے سے پھرتی.بچی سے درخت پر چڑھنا سیکھنا کستوں سے وفاداری.جاں نثاری اور مالک کی خیر خواہی کا سبق حاصل کیا.چیونٹیوں سے نامساعد حالات کے لئے منصوبہ بندی.ذخیرہ کرنا اور محنت و ہمت کا سبق لینا پروانوں سے نور پر فدا ہونا.چکور سے چاند کو پالینے کی تمنا باز اور عقاب سے بلند پروازی.مخالفت کے باوجود قوت بازو پر بھروسہ - مچھلیوں سے تیرنا - مرغیوں سے بچوں کی حفاظت.مور سے کمزوری (با صورتی) پر شرمندہ ہونا کچھو سے سے مستقل مزاجی گھوڑے سے وفاداری - یہ تمام مخلوقات جہاں آپ کی خدمت کرتی رہیں.وہاں یہ آپ کی کسی نہ کسی معاملہ میں استاد بھی ہیں.ان تمام امور پر غور کرنے کے بعد آپ نے محسوس کیا.یقینا آپ کا دل اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے حمد سے بھر گیا ہو گا.کہ اس نے کیونکر ساری مخلوقات کو خادم بنا دیا.ورنہ یہ انسان کیا کرتا.آئیے اب ہم دائرہ انسانیت میں داخل ہوں اور دیکھیں کہ ہم کیا ہیں.لیکن اٹھارویں اور انیسویں صدی کے سائنسدان اور محقق دوبارہ انسان کو حیوانات کی دنیا میں سے جانے پر مصر ہیں.جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ ابھی سب اسے ملاقات کر چکے

Page 33

۳۳ ہیں.صرف اپنے بارے میں جاننے کی کوشش ہے کہ ہم کیا ہیں.اور ہم کو کیوں پیدا کیا گیا.تب یہ مرا نہ کھلتا ہے کہ انسان دودھ پلانے والے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ یہ دو پیروں پر کھڑا ہونا سیکھ گیا ہے.اور چونکہ بولتا ہے تو حیوان ناطق ہوا.یعنی بولنے والا حیوان.ایک اور سمجھدار حق نے ایک اور حیران کن رانہ سے پردہ اٹھایا.فرماتے ہیں :- کہ سب جاندار ابتداء میں یک خلوی تھے.پھر ترقی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اس شکل اور حالت میں آئے ہیں.ہمارے آباء و اجداد بندر کی ایک نسل سے تھے.جب ان سے پوچھا گیا کہ انسان کو تو زمین یہ آباد ہوئے ہزاروں سال ہو گئے ہیں.اس عرصہ میں کوئی بندر کیوں انسان نہ بنا تو جواب ملا کہ اب یہ نسل معدوم ہو چکی ہے یعنی ختم ہو گئی.کیونکہ درمیانی واسطہ نہیں اس لئے سلسلہ ٹرک گیا.اس روح فرسا خبر ملکہ ظالمانہ تحقیق نے رونگٹے کھڑے کر دئے.اور جب ہم نے اپنے یقین کی خاطر ارتقاء کا چارٹ دیکھا تو سچ مچ بندر سے اور پر انسان کو مخلوقات کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں لٹکتے پایا.آخر ایک چیز نے ہمت بندھائی کہ جنسی تم کو بنا یا تخلیق کیا.اس کے دربار میں چلو.اس سے پوچھو کہ اسے مصوّر انسانیت ! تو بتا کہ ہمیں کیا بنایا ہے.اور ہمارا تعلق کس سے ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ جاؤ قرآن پاک کو کھولو.جو ہدایت

Page 34

۳۴ کا سر چشمہ علوم کا خزانہ اور تمام حقائق کا مجموعہ ہے.ہر سوال کا ہر مشکل کا حل اس میں موجود ہے.پھر کیا تھا.ہر سوال پر شبہ کے لئے حقیقت کو تلاش کیا جانے لگا.سب سے پہلا سوال تھا ؟ کہ ہمارا نام انسان کیوں اور کس نے رکھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہم کو اپنی پاک کتاب قرآن پاک میں انسان کہا.انسان کا لفظ اُنس سے نکلا ہے.انس محبت کرنے مل جل کر رہنے کو کہتے ہیں جب اُس کے ساتھ الف اور نون لگا دیں تو انسان بن جاتا ہے.جس سے معنی دو محبتوں والا.گویا خُدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں ایک محبت اپنے خالق یعنی خُدا کی دی.اور دوسری محبت اس کی مخلوق کی ڈال دی.اے ان دو محبتوں کی وجہ سے اُس نے تمام مخلوقات سے انسان کو افضل بنا دیا یے اسی لئے ہم اشرف المخلوقات کہلائے.یعنی تمام مخلوقات میں اعلیٰ درجہ کا عزت والا - احترام والا پھر سوال پیدا ہوتا ہے.کہ انسان میں کیا خاص بات تھی جو اس کو یوں عزت دی جا رہی ہے.اس کا جواب یہ ملا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنے لئے چن لیا.کہ آؤ تم صرف میری عبادت کرو کیونکہ میں نے تمہیں عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.سے له : سورۃ انفال آیت : ۲۵ سے ۱.سورۃ بنی اسرائیل آیت : ۵۳۱ سے:.سورة ذاریات آیت : ۵۷ :

Page 35

۳۵ اس انکشاف پر کہ ہماری پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کی عبادت ہے اور لبس باقی سب ہمار سے خادم ہیں.تو ہم سخت حیرت زدہ کھڑے تھے کہ یہ سب کیا ہے.آخر ہماری عقل نے کام شروع کیا.اور سمجھایا کہ جس طرح کوئی بادشاہ اپنے آدمیوں میں سے کسی کو چن کر اپنا خصوصی خادم بنا لے تو باقی سب خود بخود اس کی خدمت میں فخر محسوس کرتے ہیں.کیونکہ یہ ان کے بادشاہ کا آدمی ہے.بالکل اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے چنا تو ساری مخلوقات اس کی خادم ہو گئیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان میں کیا صلاحیتیں موجود تھیں جس کی وجہ سے اس کو یہ مقام ملا.اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں خالق کی تلاش کی لگن رکھی.اس لئے ہر انسان کبھی نہ کبھی اپنے آپ سے یہ ضرور پوچھتا ہے کہ میرا بنانے والا کون ہے.کیونکہ اس کو فطرت صحیحہ پر پیدا کیا گیا ہے اور اس فطرت کی وجہ سے جب وہ اپنے خالق کو تلاش کر لیتا ہے تو اس پر ایمان لے آتا ہے.لہ اس ایمان کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کے احکامات کو حاصل کرنے کے قابل ہوا.گویا الہام کے حصول کی طاقت دی گئی ہے انسان کو فیصلہ کرنے کی قوت دیا.اس لئے وہ نیک و بد میں فرق کر سکتا ہے لیکھے 1 - سورۃ شمس آیت : ۸ : ل :- سورۃ حدید آیت : 4 : تے :.سورۃ حجر آیت : ۲۹ : ے :.سورۃ شمس آیت: 4 : -

Page 36

۳۶ انسان کو قوت حافظہ عطا کیا.کیونکہ اس کی فطرت میں ترقی کرنے کا مادہ رکھا تھا لئے اس کی وجہ سے تجسس پیدا ہوا.اور اس کو عقل سے نوازا.فہم و فراست عطا کی.تدتبر - غور وفکر کی دولت عطا ہوئی.خدا تعالیٰ نے ہم انسانوں کو جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے دوسرے جانداروں سے متانہ کر دیا.جذبات اور احساسات عطا ہوئے.اب ہم اپنا جائزہ لیں کہ جانوروں سے کیسے الگ ہیں.سب سے پہلی وجہ یہ کہ انسان کا دائرہ - دائرہ انسانیت ہے.جو حیوانات سے بالکل الگ تھلک انسان کو دنیاوی لحاظ سے تین زندگیاں ملتی ہیں جسمانی - اخلاقی اور روحانی جبکہ دوسرے جانوروں کی صرف جسمانی زندگی ہے.ہے.انسان دنیاوی ترقیات کے علاوہ روحانی ترقیات بھی کر سکتا ہے.جبکہ جانور دنیاوی ترقی نہیں کر سکتے.روحانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.انسان کو مرنے کے بعد ایک اور زندگی ملتی ہے جو اُخروی زندگی کہلاتی ہے.جبکہ دوسر سے جانداروں کو مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ملتی.انسان سے اس کی دنیاوی زندگی کے بارے میں حساب کتاب ہوگا.جب کہ دوسرے جانداروں کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے.ان تمام وجوہات کی بناء پر خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی فرمانبرداری کریں.سے ے :.سورۃ اعلیٰ آیت: ۳ : ے : سورۃ بقرہ آیت : ۳۱ : سے : سورۃ اعراف آیت : ۱۲ :

Page 37

۲۷ یوں ہم انسان دوسری تمام مخلوقات سے الگ ہو گئے.انسانیت ہمارا شرف قرار پایا.اور اللہ تعالیٰ کی پیاری اور بہترین مخلوق قرار پائے.آئیے اب دیکھیں کہ انسان کیسے بنا.پہلے یہ قابل ذکر نہیں تھا ہے یعنی ایسی حالت میں تھا کہ اس کے وجود کی کوئی شکل یا پہچان نہ تھی کہ اس کو بیان کیا جا سکے.لیکن جب مٹی بنی تو اس کی ابتداء ہوئی.مٹی سے پانی ملا تو کچھ حالت اور نمایاں ہوئی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے بننے کے چھ درجہ بنائے ہیں ہیے ساتھ ہی اس کو بتایا کہ تم کچھ نہیں تھے.بعد میں میں نے تم کو ترقی دی جس طرح چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر اور چیزیں نہیں.بالکل اسی طرح انسان کی ابتدا کبھی ان..ذرات سے ہوئی.لیکن انسانی ذرات بالکل الگ تھے اور دوسری مخلوقات کے الگ.ان ذرات میں ترقی کرنے کا مادہ تھا.جی یہ کسی اور مخلوق میں یہ صفت موجود نہیں ہے.پھر ایک وقت ایسا بھی تھا.جب انسان کی حالت ٹھیکری کی طرح ہوئی.گویا ده سخت پتھروں سے چھٹا رہا.آخر بڑھتے بڑھتے خُدا نے اس کو نظر آنے والا.پہچانا جانے والا وجود عطا کیا.لیکن اس وجود میں کوئی عقل اور سمجھ نہیں تھی.یہ صرف آواز نکال لیتا اور دیکھا جا سکتا تھا.اس کے جسم میں دماغ تو تھا.لیکن ابتدائی حالت میں.وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا.گویا پہلے انسان نے جسمانی طور پر ترقی کی اور جب وہ جسمانی لحاظ سے مکمل انسان بن گیا.تب دماغی ترقی کا دور شروع ہوا.اس طرح اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی.وہ آوانہ کو سمجھنے لگا.پہچاننے لگا.اسی طرح وہ دیکھنے لگا ه : سورۃ دہر آیت : ۲ : : سوره مومنون آیت ۱۳ تا ۱۵ به

Page 38

۳۸ اور دیکھ کر جاننے لگا.پھر آہستہ آہستہ اس نے اپنے آرام کے لئے بہتر طریق سوچے : یہ تو آپ نے سستا ہوگا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے.جب اس کو بارش اور دھوپ سے بچنے کی ضرورت پڑی تو پہلے وہ غاروں میں رہا.پھر پتھر کے گھر بنائے.کھانے کے لئے جانوروں کا پتھر سے شکار کیا کرتا.اس دور کے انسانوں کو پتھر کے دور کا انسان کہتے ہیں.یوں تو وہ جانوروں کی طرح ہی رہتا تھا.اس کے جسم پر اسی طرح بال بھی تھے.وہ کچا گوشت کی چیزیں اور اپنے وغیرہ کھاتا تھا.کیونکہ ابھی وہ آگ سے واقف نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں جو ترقی کا مادہ رکھا ہے اس کی وجہ سے اس نے پھر سے ہتھیار بنائے.پھر آگ سے کام لینا سیکھا.اس کو کھانا پکانے.سردی سے بچنے.روشنی کر نے میں استعمال کیا.جب کانسی کا دور آیا تو اس دھات سے ہتھیار بننے لگے.اور پھر ترقی کر تے ہوئے تانبہ اور پھر لوہے کے دور میں انسان داخل ہو گیا.وہ اپنی حفاظت.غذا کی فکر کے ساتھ آرام و آسائیش پر بھی توجہ دیتا رہا.اس نے غاروں سے نکل کر زمین پر گھر بنائے.فصلیں اگائیں.پھل لگائے.پھولوں سے اپنے آپ کو اور گھروں کو سجایا.لباس نے ترقی کی.بتیوں سے چھال اور پھر کپڑا تیار ہونے لگا.مٹی کے برتنوں کے بعد دھات کے.پھر شیشے کے برتن بنے.کچھ چیزیں تو اس نے سوچ سمجھ کر بنائیں.مثلاً پہیہ جس سے ترقی کی رفتار بہت تیز

Page 39

۳۹ ہو گئی.مگر بعض چیزیں اتفاقی طور پر یا حادثاتی طور پر سامنے آئیں.یوں لگتا ہے که خداتعالی اس طرف اپنے فضل سے توجہ دلانا چاہتا تھا.مثلاً آگ جلانے والا پتھر چقماق وغیرہ.- یوں تہذیبوں نے جنم لیا.تمدن نے ترقی کی لیکن جب انسان کو بجلی میں دسترس حاصل ہوئی تو پھر ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ گئی.اور آج کے انسان کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اپنے آرام - سکون.چین کے لئے کیا کچھ بنالیا.اب وہ خلا میں اسٹیشن بنا رہا ہے اور نئی دنیائیں تلاش کر رہا ہے یہ سب اسی جذبہ ترقی کی وجہ سے ہوا.جو خُدا نے اس کی فطرت میں رکھا تھا.اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے جاندار جو انسان کے ساتھ ایک لمبے عرصے سے چلے آ رہے ہیں وہ آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے سینکڑوں سال پہلے تھے.شہر - چیتے اسی طرح جنگلوں میں رہتے ہیں.شکار کرتے ہیں.خون پیتے ہیں.اور کچا گوشت کھاتے ہیں.مگر انسانوں کی طرح کوئی بھی آگے نہیں بڑھا.کہ گوشت پکا کر کھائیں.اور اپنی ضرورت کے جانوروں کو پال لیں اور وقت پڑنے پر استعمال کریں.بندر شروع سے درختوں پر رہتے آرہے ہیں.ہزاروں سال سے بندر لنگور.گوریلے کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑا.ایسے ہی گائے، بھینس ، بکریاں بھی جیسے زندگی گزار رہی تھیں ویسے ہی اب بھی ہیں کبھی سردی سے بیچنے کا لباس نہیں بنایا.نہ سبزیوں کو پکایا.نہ سالن بنایا.

Page 40

۴۰ پرندوں کو دیکھیں.سب گھونسلے بناتے ہیں.سب کے گھونسلے ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہوتے ہیں.مگر ان میں ذرہ برابر ترقی نہیں ہوئی.بیٹے کا گھون.اسی طرح بنا ہوا ہوگا.اور چڑیوں کا تینگوں کا.کبھی اونٹ کو بستر پر لیٹے ہوئے.ہاتھی کو صوفے پر بیٹھے ہوئے.شتر مرغ کو ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے.نہیں دیکھا ہوگا.اس لئے آپ کو ماننا پڑے گا.کہ خدا تعالٰی نے ہر جاندار کے ذرات میں جو فطرت ڈالی وہ اُسی کے مطابق جی رہے ہیں.لیکن انسان کی فطرت میں جو ترقی کی صفت رکھدی.اس کے مطابق وہ مسلسل ترقی کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے.ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل کی ابتدا ہوئی.اس میں علم کی شمع نے راہ دکھائی تو فہم و فراست نے جنم لیا.یوں رفتہ رفتہ وہ اس منزل کی طرف جا رہا ہے جہاں اس کا خالق سے جانا چاہتا ہے.جب اس کا ذہن اس قابل ہوا کہ وہ اچھائی اور برائی کو سمجھنے لگے اور اس صلاحیت سے فائدہ اُٹھائے.تب اللہ تعالٰی نے اپنے پیار ہے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کو جاری کیا.ساتھ ہی اس کو حق دیا کہ وہ اپنے اس اختیار کو بھی استعمال کرے کہ چاہے تو مانے اور چاہے تو انکار کر دے.چونکہ انسان نیک فطرت لے کر پیدا ہوا ہے اس لئے اس کی فطرت میں اخلاق چھپے ہوئے ہیں.اچھی بات جو فطرت کے مطابق ہو.اخلاق کہلاتی ہے.اسی طرح جب وہ کسی کو دکھ میں دیکھتا ہے تو فطری طور پر اس کی مدد کو دوڑتا ہے.یہ جذبہ ارحم ہے

Page 41

۴۱ جو اخلاق کا حصّہ ہے.اپنے دین کی یا اپنے ملک کی یا ماں باپ رشتہ داروں کی برائی سُن کر جو غصہ اور جوش پیدا ہوتا ہے.یہ غیرت ہے.پھر کسی کام کو مسلسل کر تے رہنا مستقل مزاجی اور انبیاء علیہم السلام کو مان کر ان کے احکامات پر عمل کر کے زمانے کی مخالفت برداشت کرتا ہے.پھر انس راہ میں ہر دکھ تکلیف اٹھا کر بھی پیچھے نہیں ہٹتا.یہ قربانی اور حوصلہ مندی ہے.دین کو پھیلا نے کے لئے لوگوں کو ملتا جلتا ہے اور ہدایت پہنچاتا ہے.یہ جدید تبلیغ ہے کسی کو اچھا سمجھ کہ اس کو نمونہ بنا کر اپنے آپ کو اسی طرح بنانا.اس سے محبت کرنا.اس کی خاطر ہر دکھ اُٹھانا اور اس کے لئے غیرت دکھانا.یہ عشق ہے.ایسے ہی نہ جانے کتنے جذبات ہیں جو انسان کو دئے گئے.ان کا صحیح موقع پر استعمال اخلاق کہلایا.پھر اخلاق کے میدان میں مسلسل برائی کو چھوڑتے ہوئے نیکیوں کو اختیارہ کر تے چلے جانا.انسان کو با اخلاق بنا دیتا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ اس بہترین مخلوق کو بالکل چھوٹے بچے کی طرح انگلی پکڑ کمر چلا رہا تھا کبھی ایک میدان میں لے جاتا کبھی دوسرے میں.اور کسی بھی مشکل کے وقت اس کو نہیں چھوڑا.گرنے نہیں دیا.سنبھالے رکھا.پھر اس کا رب اس یعنی انسان کو ایک اور میدان میں سے جاتا ہے.جہاں اس کی جستجو بڑھتی ہے کہ اس کا بنا نے والا یعنی خالق کون ہے ؟ آکی عقل اتنی ترقی کر چکی ہے.اور یہی جستجو اس میدان کی سواری ہے.راہنما ہے جب یہ پیدا ہوتی ہے تو پھر وہ دیوانوں کی طرح صحراؤں میں دوڑتا ہے.پہاڑوں پر چڑھتا ہے.دریاؤں کے پانی کو دیکھتا ہے کبھی بادلوں کی گرج سے ڈرتا ہے اور کبھی بجلی

Page 42

۴۲ کی کڑک اس کو لرزا دیتی ہے.یہی خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان کو اپنا مالک جان لے اور ہر بڑی اور ناسمجھ میں آنے والی چیز کو خالق سمجھ لیتا ہے.پہاڑوں کی دریاؤں کی پرستش کرتا ہے.چاند ، سورج ، ستاروں کو خُدا جانتا ہے کبھی کسی کو سجدہ کرتا ہے تو کبھی کسی کے آگے گڑ گڑاتا ہے.اس کا خدا جو اس کی بے حد محبت کرتا ہے ساری مخلوقات سے زیادہ اس کو عزیز رکھتا ہے.اس لئے وہ اس بے قرار انسان کو سنبھالتا ہے.اور اپنے نبیوں کے ذریعہ اپنا پتہ دیتا ہے.اپنے تک پہنچنے کا راستہ بناتا ہے.پھر اس راہ کی بھی خود ہی راہنمائی کرتا ہے.اپنی محبت دلوں میں ڈالتا ہے.خود اس سے محبت کرتا ہے.یہ جو نبی ہوتے ہیں.ان کی فطرت عام انسانوں کی نسبت بہت نمایاں ترقی کرتی ہے.اور اس ترقی کی وجہ سے وہ اس وقت کے انسانوں میں اخلاقی لحاظ.بلند ہوتے ہیں.پھر وہ اس فطری پاکیزگی کی وجہ سے کبھی زندگی میں کسی مخلوق کے آگے نہیں جھکتے.بلکہ ہر چیز کو خادم جان کر اپنے رب کو جو ان سب کا خالق ہے پہنچانا چاہتے ہیں.ان کی تڑپ پڑھتی ہے.بے قراری ترقی کرتی ہے.وہ اپنے وجود سے بے نیازہ ہو کہ بیس خدا تعالیٰ کو پا لینا چاہتے ہیں.تب خدا تعالیٰ ان کو اپنا پتہ دیتا ہے.اپنے فرشتوں کے ذریعہ پیغام بھیجتا ہے کہ میں تمہارا خالق ہوں.کیونکہ وہ نبی اپنے دور کے انسانوں میں نمایاں طور پر انسانی صفات رکھتے ہوئے اخلاق اور کردار میں بلند ہوتا ہے.وہ ہر غلطی سے پاک ہوتا ہے

Page 43

۴۳ اور اسی پاکیزہ فطرت کی وجہ سے خدا کو پا لینے کے بعد اس کو کسی کا خوف نہیں ہوتا.اب وہ تڑپ اور بے قراری جو پہلے تھی دُور ہو جاتی ہے.اس کی جگہ اپنے محبوب (خدا) کی محبت میں کھو کہ اس راہ میں آنے والی ہر سختی کو خوشی سے سر جاتا ہے یوں وہ روحانی میدان میں ترقیات کی منازل طے کرتا ہوا اپنے رشتہ داروں ، عز نہیں دوستوں اور علاقے کے لوگوں کو بھی اپنے خدا کا پیغام پہنچاتا ہے.ان کو توجہ دلاتا ہے کہ انسانیت کیا ہے ؟ صرف خالق و مالک کل کائنات کو پہچان کر اس پر ایمان لاتا.اس سے محبت کرنا.اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا.انسانیت ہے.اس طرح اس دور کے نیک فطرت لوگ نبی کی بات مان کر آہستہ آہستہ اس کے گرد جمع ہوئے ہیں.یوں انسانوں کا ایک گروپ ، ایک جماعت عام انسانوں سے الگ ہو جاتی ہے.جو رہی جماعت کہلاتی ہے.ان انسانوں میں اور عام انسانوں میں ایک نمایاں فرق ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی کسی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے.کسی کے آگے نہیں جھکتے اور یہی درجہ انسانیت کا وہ مقام ہے جس کو خدا نے پسند کیا.اسی مقام پر پہنچ کر انسان تمام مخلوقات کا خادم ہو جاتا ہے.........- یوں ایک با اخلاق انسان با خدا انسان بنتا ہے اس طرح سے دنیا میں وہ انسان صحیح معنوں میں دوسری مخلوقات کے علاوہ انسانوں کا ہمدرد بن جاتا ہے.ان کا ہر طرح خیال رکھنا اپنا فرض جانتا ہے.ان کے دکھ درد میں شریک ہو کہ مشکل میں مدد کرتا ہے.ایسے ہی انسان کو خدا تعالیٰ نے اپنا خلیفہ یعنی نائب کہا ہے.کیونکہ ایک طرف وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور دوسری طرف وہ اس کی مخلوق سے ہمدردی اور پیار کرتا ہے.ایسا انسان حقیقی معنوں میں انسان

Page 44

۴۴ کہلانے کا مستحق ہے.یہی انسانیت کا حسن ہے.اب آپ نے دیکھا کہ صحیح انسان بننے کے لئے ہمیں کیسا ہونا چاہئیے ؟ کیونکہ ہمارے پیار سے خدا نے ہمیں جسمانی لحاظ سے بھی ساری مخلوقات میں سے بہتر اور موزوں حالت میں بنایا ہے آپ کے ذہن میں یقینا یہ سوال پیدا ہو رہا ہے.کہ موزوں حالت.احسن حالت.کیا ہے؟ آپ اپنے وجود پر اور جانوروں کے وجود پر غور کریں.ان کی حرکات کو دیکھیں کہ وہ کیسے زندگی گزارتے ہیں.یہاں انسان کے آرام و آسائش کا ذکر نہیں.صرف بات یہ ہو رہی ہے.کہ مثلاً ایک جنگل میں دوسر سے جانوروں کے ساتھ ایک انسان بھی ہے.اور وہ بھی ان کی طرح رہ رہا ہے.بغیر گھر کے.صرف آپ اس کی جسمانی ساخت کو مد نظر رکھیں.تو معلوم ہوگا.کہ مد وہی تمام اعضاء جو جانوروں میں ہیں انسان میں بھی ہیں.صرف نام کا فرق ہے مثلاً - حیوانات کی چار ٹانگیں ہیں.ہمارے دو ہاتھ دو ٹانگیں ہیں.کیونکہ ہم ہاتھوں سے کام لیتے اور ٹانگوں سے چلتے ہیں.اور جانور چاروں سے چلتے ہیں.اب آپ ایک انسان اور گائے یا بکری کو سامنے کھڑا کریں تو گائے اپنی جگہ پیاری ہے.بکری اپنی جگہ اچھی معصوم لگ رہی ہے.لیکن خوبصورتی اور اعضاء کا بهترین تناسب صرف انسان میں نظر آتا ہے.اور اسی تناسب کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے انسان کو حیوان سے ممتاز کر دیا.اس کی کمر کو عمودی حالت میں رکھ کر سیدھا کھڑا کیا جبکہ جانور کی کر زمین کے متوازی ہوتی ہے.اس کا کنٹرول ٹاور یعنی ذہن اوپر ہوتا ہے.اور ٹکرانے.چوٹ کھانے سے بہت لے : سورة التين :

Page 45

۴۵ حد تک محفوظ ہے.پھر اس کی ناک ، منہ اور آنکھیں بھی زمین سے دُور ہیں.یوں قدرتی طور پر صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا انتظام ہوا.اس طرح وہ بہت سے جراثیم سے محفوظ ہو گیا.انسان جانور کے مقابلے میں ایک حد تک وزن اُٹھانے میں کسی کی مدد کا محتاج نہیں جبکہ جانور پر لاد نا پڑتا ہے.وہ خود نہیں اُٹھا سکتا.پھر اللہ تعالے نے انسانوں کے ہاتھوں میں انگلیاں بنائیں.اور ہر ا نگلی کا اپنا الگ کام ہے.لیکن انگوٹھا بنا کر ہا تھ کو کئی گنا قوت عطا کر دی.اگر یہ نہ ہو تو گرفت نہ رہے.آپ کسی بھی چیز کو پکڑتے ہیں تو انگلیوں کے ساتھ انگوٹھا آپ کی مدد کرتا ہے.یہ تو چند مثالیں ہیں.اگر آپ تفصیل سے ایک ایک عضو پر غور کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.کہ خالق انسان نے کسی محبت سے اس بہترین مخلوق کو بنایا.کی تخلیق سے الگ.انوکھا حسن عطا کیا.نرالی خوبیاں دیں اور پسندیدہ ادائیں دے کر سب سے جدا اور ممتاز شان عطا کی.اب ہم فطرت پر غور کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے.اور مخلوقات میں کیسے کام کرتی ہے.اور کیا یہ بدلی جاسکتی ہے ؟ فطرت در اصل ایک پروگرام ہے جو اللہ تعالی مخلوقات کی تخلیق کے ساتھ اس کے ذرات میں ڈال دیتا ہے.جیسے کمپیوٹر میں ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام اس پروگرام کے مطابق کرتا ہے جو اس میں فیڈ (FEED) ہوتا ہے.انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات میں صرف زندگی کا پروگرام فیڈ ہوتا ہے.لیکن انسان میں جہاں پروگرام فیڈ ہوتا ہے وہاں اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی

Page 46

۴۶ طبیعت کے مطابق بھی پروگرام بنا ہے.اور اس کے مطابق زندگی گزارے.لیکن جانور اس اختیار سے محروم ہوتے ہیں.ان کی فطرت میں جو بات رکھی گئی ہے وہ ان کی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے.مثلاً شیر کی فطرت میں کچا گوشت کھانا رکھا اور جنگل کا بادشاہ بنا دیا.گویا - اس کو ایک رعب ، دبدبہ ملا.وہ آج بھی اُسی طریق پر زندگی گزارتا ہے جانوروں کا شکار کرتا ہے.پہلے ان کا خون پیتا ہے.اس کے دانت سید ھے ان کی شہ رگ میں جاتے ہیں.پھر گوشت کھاتا ہے.ہزاروں سال سے اس طریقہ میں کوئی فرق نہیں پڑا.پھر پرندوں میں بٹے کو دیکھیں وہ اپنا گھونسلہ بن کر تیار کرتا ہے.اس کو سجاتا ہے.روشنی کے لئے جگنو پکڑ کر لاتا ہے اور تنکوں میں پھنسا دیتا ہے.وہ اس کے لئے بلب کا کام دیتا ہے.یہ اس کی فطرت ہے اور ہر بئے کا گھونس.ایسا ہی ہوگا.چاہے وہ دنیا کے کسی ملک سے کسی زمانے سے تعلق رکھے.اس میں فرق نہیں ہوتا.چڑیوں کے رہنے کا طریق اور ہے.کوؤں کا کبوتروں کا اور سب کی الگ الگ فطرت ہے.اور جو ان کی فطرت ہے وہ اس کے خلاف نہیں کر سکتے.صرف فرق اتنا ہو جاتا ہے کہ ایک پالتو جانور جو انسان کے سکھانے پر کچھ بدل جائے.لیکن جب وہ آزاد ہو گا پھر وہی انداز اختیار کر لے گا.انسان ایسا جاندار ہے جو اپنے حالات کے مطابق بہتر طور پر زندگی گزارنا چاہتا ہے.پہلے سے بہتر اور بہتر کیونکہ اس کی فطرت میں ترقی کا مادہ ہے.

Page 47

۴۷ اسی وجہ سے وہ عام مخلوقات سے بہت آگے بڑھ گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں بنیادی طور پر نیکی رکھی لیکن اس کو اختیار بھی دیا کہ چاہے تو نیک راہ اختیار کرو اور اپنے خُدا کے محبوب بن جاؤ.اور چاہو تو بدی کے راستے پر چل پڑو.اور انسانیت کے مقام سے گر جاؤ.اب نیک فطرت لوگوں کو دیکھیں تو ان میں پاکیزہ جذبات پائے جاتے ہیں.ان کی وجہ سے اخلاق پیدا ہوئے.اخلاق کو عمل میں ڈھالا تو کر دار بنا.اس طرح ایک انسان نیکی پر چلنے کی وجہ سے با اخلاق با کردار بنا.اور خالق کی تلاش سے روحانی میدان میں داخل ہوگیا اور آہستہ آہستہ ترقی کر کے باخدا انسان بنا.خالق کی تلاش صرف انسان کی فطرت میں ہے کبھی کسی اور جاندار نے اپنے خالق کو اپنے رب کو تلاش نہیں کیا.جبکہ ایک انسان خدا تعالے کی رضا اور اس کے فضل کی وجہ سے ترقی کر کے باخدا ، صالح انسان بنا - ولی یعنی خدا کا دوست بنا اور کچھ شہید ہوئے.یعنی خدا کی راہ میں جان کی قربانی دی.پھر ان انسانوں میں سے ہی صدیق ہوئے.ان کا ہر جذبہ ، ہر عمل صرف اور صرف اپنے خُدا کے لئے تھا.یہ اپنے تمام جذبات میں سچے تھے.سچ بولتے تھے.سچ سننے تھے.سچائی کو دیکھتے تھے وہ سچ کے لئے جیتے اور سچ کے لئے مرتے تھے.اسلئے صادق یعنی سچا ہونے کی وجہ سے صدیق کہلائے.وہ انسان جو صدیق تھا.خدا تعالیٰ کی رحمت اس پر برسی اور اس کی نیک فطرت نے ترقی کی.خدا تعالیٰ کے پیار نے اس کو چن لیا.وہ روحانی میدان میں اور آگے بڑھا اور تڑپ کر چاہا کہ وہ صرف خدا کا ہو جائے.تو اللہ تعالٰی نے بھی اس کو اپنی محبت

Page 48

کے لئے اپنی حفاظت میں لے لیا.وہ بشری کمزوریوں اور تقاضوں سے پاک رہا.تب اس کا خدا اس سے ہم کلام ہوا.اس کو پکارا اور اس کو اپنے مخصوص بندوں میں شمار کر لیا.یہ نبوت کا مقام ہے.نبوت کا انعام روحانی انعامات میں سے سب سے بڑا انعام ہے جس کو یہ عطا ہوتا ہے وہ نبی کہلاتا ہے.ویسے تو انسان کسی لحاظ سے بھی بغیر خدا کی مدد کے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا.حتی کہ سانس بھی نہیں لے سکتا.اور نہ ہی کسی میدان میں ترقی کر سکتا ہے.لیکن جن روحانی انعامات کا ذکر آپ پڑھ چکے ہیں.یہ تو صرف اور صرف خدا کے فضل سے ہی ملتے ہیں.انسان خدا کی مدد سے صرف نیکی پر قائم رہنے کی کوشش کر سکتا ہے.پھر خُدا خود اس کی راہنمائی کرتے ہوئے اس کی مدد کرتا ہے اور وہ اس کے فضل اور پیار کی وجہ سے ترقی کرتے ہوئے ان درجات کو حاصل کرتا ہے.اس کو آپ یوں سمجھ لیں کہ بچے محنت کر کے سبق یاد کرتے ہیں.پھر امتحان ہوتا ہے.اور وہ پاس ہو جاتے ہیں.جو پاس ہو جاتے ہیں وہ بڑی کلاس میں چلے جاتے ہیں.اور فیل ہونے والے اسی کلاس میں پڑھتے ہیں.اور محنت کرتے ہیں.پھر امتحان پاس کرتے ہیں.اور بڑھتے بڑھتے بڑے بڑے امتحان پاس کر کے ڈگریاں لیتے ہیں.یہ علم کے میدان کی ڈگری ہے.لیکن روحانی میدان میں خداتعالی کی نگاہ جس پر پڑتی ہے وہی ترقی بھی کرتا ہے اور اس میدان کا سب سے بڑا مرتبہ نبوت کا انعام بھی پاتا ہے.اب آپ ایک بات پر غور کریں.سب سے زیادہ اور بے حساب پائی جانیوالی

Page 49

۴۹ مخنوق جمادات ہے.پھر اس سے کم نباتات ہیں.لیکن وہ بھی تعداد کے لحاظ سے جانوروں سے بہت زیادہ ہیں.اگر یہ نہ ہوں تو یہ جانور بھو کے مر جائیں.پھر تمام دنیا میں پائی جانے والی جاندار مخلوق کو دیکھیں تو ان کی تعداد انسانوں سے کہیں زیادہ ہے.صرف بیکٹیریا کو ہی دیکھیں تو وہ منٹوں میں بڑھ کر سینکڑوں تک پہنچ جاتے ہیں.لیکن انسان نہ تو اتنی جلدی اور نہ ہی اتنی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں.اس لئے ان کی تعداد جانوروں کے مقابلہ میں کم ہے.پھر انسانوں میں بھی فطرت کے مطابق زندگی گزارنے والے زیادہ نہیں لیکن با اخلاق انسان ان سے بھی کم ہیں.بااخلاق انسان آپ کو لاکھوں یا کروڑوں مل جائیں گے.مگر باخدا اتنے نہیں ہوتے.پھر باخدا افسانوں میں سے نبی کا درجہ حاصل کرنے والے ان سے بھی کم ہیں.اب آپ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے سرسری ملاقات کے بعد جان چکے ہیں کہ یہ کائنات رب العالمین کی خاص منشا اور مصلحت کے تحت وجود میں آئی ہے اور آپ کے اس سوال کا جواب کہ خدا تعالٰی نے کیا کیا پیدا کیا ؟ وہ بھی مل گیا.لیکن دوسرا سوال کہ ہمیں سب سے افضل کیوں بنایا ؟ اس کی وجہ تلاش کرتے ہوئے جب ہم احادیث کی طرف گئے تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ایک پیارا اور پوشیدہ خزانہ ہے.وہ ایک نور ہے.اور نظر نہیں آسکتا.لیکن اس نے چاہا کہ وہ ظاہر ہو اور جو صفات اس کے اندر پائی جاتی ہیں وہ بھی نظر آسکیں تاکہ اس کی عظمت اس کی قدرت.اس کی شان و شوکت.اس کے جاہ و جلال سے مخلوق واقف ہو.اور پھر وہ اس ایمان کے ساتھ اس کے ساتھ تعلق پیدا کریں کہ ہمارا رب ہمارا

Page 50

خالق ہی تمام خوبیوں اور قدرتوں کا جامع (مالک) ہے.چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے نور سے ایک نوکر پیدا کیا.اس کا نام نور محمدی رکھا.اس نور کے لئے اُس نے سارے نظام شمسی میں سے زمین کو چنا.اور پھر نہ صرف اس نظام کے باقی مبرز گروں کو بلکہ اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کہکشاؤں کو اس زمین کی خدمت پر مامور کر دیا.تاکہ یہ کرہ ارض صحیح معنوں میں جانداروں کی ضرورت کے مطابق تیار ہو جائے.اب اس نور کو وہ کیسا جسم دے کیونکہ نور کو نظر آنے کے لئے مادی وجود کی ضرورت تھی.چنانچہ تمام مخلوقات میں سے جو ساخت میرے خدا کو پسند آئی وہ ہم انسانوں کا جسم تھا.اسی لئے اس جسم کو اس ساخت کو اس نے موزوں ترین حالت میں بنایا.اور اس کو اپنی بہترین مخلوق کہا.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْدِيم - (سورة التين) اس بہترین مخلوق میں سے نیک پاک وجودوں کو نبوت کے انعام سے نواندا.جن کے ذریعہ انسان اس قابل ہوا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو جان سکے.اور اس کی قدرتوں کو مان کر - جان کر.پہچان کر اطاعت کر سکے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی ضرورت کے مطابق اپنی ایک یا ایک سے زیادہ صفات کا مشاہدہ کر وایا ہے اور وہی صفات ان کے وجود میں بھی ظاہر ہوئیں.اب ہم پہلی صفت کہ وہ رب العالمین ہے.اس لئے وہ قدرت رکھتا ہے.کہ جب چاہے جس کو چاہے انسانیت کی ہدایت کے لئے چن ہے.اور پھر اس انسان کو ایسی خوبیاں عطا کر دے جنہیں دیکھ کر عام

Page 51

۵۱ انسانوں میں نیکی کرنے کا جذبہ پیدا ہو.وہ اس پر ایمان لائیں.اور ہر نیک بات مانتے چلے جائیں.تاکہ اخلاق اور کردار میں ترقی کریں.چنانچہ نبی کے پاک نمونے سے اس کے گرد نیک انسان جمع ہونے لگتے ہیں.وہ ہر قسم کی مخالفت اور مشکلات کے باوجود اس سے چھٹے رہتے ہیں.کیونکہ ان کو عبادت کرنے ہیں.لوگوں کی بھلائی کرنے میں مزہ آتا ہے.ان لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے.نبی کی خوبی جس کی وجہ سے انسانوں میں پاک تبدیلی واقع ہوئی قوت قدسیہ کہلاتی ہے.ان پاک انسانوں میں بھی انبیا کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی محبت ، اس کے پیار.اس کی شفقت کے واقعات ان کی زندگیوں میں ظاہر ہوتے ہیں.پھر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا ہمارے دلوں میں چھپے ہوئے جذبات اور خواہشات سے واقف ہے.کیونکہ علیم ہے (جاننے والا ) وہ ہمار سے حالات کو دیکھ رہا ہے کیونکہ بغیر ہے.ر دیکھنے وال) وہ ہماری پکار سُنتا ہے.کیونکہ سمیع ہے (سُننے وال) اور کبھی کبھی وہ زیادہ قریب آجانے والوں کو جواب بھی دنیا ہے.کیونکہ کلیم ہے (کلام کرنے والا بولنے والا ) - ان تمام باتوں سے ان کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے.پھر وہ اسی ایمان کے سہار سے آگے بڑھتے ہیں.ان میں خُدا سے ملنے اس کو حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے.پھر پیارا خُدا بھی ان کی طرف توجہ کرتا ہے اور وہ لمحہ لمحہ اس کے قریب اور قریب ہوتے جاتے ہیں.جس کا ثبوت سچی خوا ہیں کشف اور الہامات ہیں.

Page 52

۵۲ اس طرح انسان پر واضح ہوتا ہے.کہ جس خُدا سے ان کا تعلق ہو گیا ہے.وہ زندہ خُدا ہے.کیونکہ اس کی حرکت کے ساتھ خدا بھی حرکت میں آتا ہے.اس کو دُکھ میں دیکھ کر اس کو دور کرنے کا سامان کرتا ہے.اس کے صبر کرنے پر انعام دیتا ہے.اس کے شکر کی ادائیگی پر اور بڑھا کر دیتا ہے ، اور دیتا چلا جاتا ہے.لیکن میرا خدا چند گنی چنی صفات کا مالک تو نہیں.اس کی صفات لاتعداد ہیں.بے شمار ہیں.اور ہر صفت کے کئی رنگ کبھی کسی رنگ کی جھلک دنیا دیکھتی ہے.تو کبھی کوئی چمک انسانوں کی آنکھوں کو خیرہ کر جاتی ہے.پھر اس کی صفات کی عظمت کا اندازہ لگانا بھی ہم کمزور انسانوں کے بس کی بات نہیں.ہم کیا جانیں کہ اس کی صفت کسی رنگ میں کتنی طاقت کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہے.ہاں اس وقت جب خود خدا تعالیٰ اس صفت کو اس کی قوت کے ساتھ اپنے مقدس بندوں پر ظاہر نہ کر دے.اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک آسان طریقہ ہے.کہ آپ بلب کے روشن ہو جانے سے یہ اندازہ تو لگا لیتے ہیں کہ بجلی آگئی ہے.لیکن یہ نہیں جانتے کہ کتنی قوت کی بجلی ہے.اس کو معلوم کرنے کے لئے خاص میٹر ہوتے ہیں.اور ان میٹرز کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے.اگر کم میٹر کی طاقت میں سے زیادہ قوت کی بجلی گزر جائے تو وہ جل جاتا ہے.لیکن میٹر خود نہیں بتا سکتا کہ آنے والی بجلی کی کیا قوت ہے.جب تک خود بجلی اس میٹر میں سے گزر کر اپنی پاور (قوت) کا پتہ نہ دے.

Page 53

۵۳ یہ جاننے کے بعد آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا خدا ہی بہتر طور پر جانتا ہے.کہ کسی دور اور کسی زمانے کے انسانوں کو کونسی صفات کی ضرورت ہے.اور ان کے ذہن ان صفات کے ظہور کو کس طرح قبول کرتے ہیں.پھر ان میں کتنی طاقت ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اعمال کو درست کریں اور ان کے اخلاق میں اس کی جھلک نظر آئے.لے اس لئے اللہ تعالیٰ اس دور کے نبی کو وہی طاقت عطا کرتا ہے اور زمانے کی ضرورت کی صفات اس میں ظاہر ہوتی ہیں.نبی کے ذریعے اس دور کی اہلی جماعت کو بھی حصہ دیتا ہے.اسی طرح ہر دور کے ہر خطے کے انسانوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کی کوئی نہ کوئی جھلک دیکھی.اور یہ کرۂ ارض کسی نہ کسی رنگ میں خُدا کے نور سے منور ہوتا رہا.ایک اور بات کی وضاحت کردوں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی بھی صفت ہے.اس کے کئی رنگ ہیں.اور ہر رنگ کی بھی بے شمار قو تیں ہیں.اس کو سمجھنے کے لئے وہی پہلے والا اصول لے لیں.: آپ سوچ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کی جھلک انسان کے اخلاق میں کیسے نظر آتی ہے ؟ جب آپ کسی انسان کو بھو کے کو کھانا کھلاتے دیکھتے ہیں تو اپنے خدا کی صفت رزاقیت سے حصہ لیتے ہیں.پھر کسی کو بغیر سوال کئے اس کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں.تو صفت ربوبیت سے اثر قبول کر تے ہیں.یوں انسان میں خدا کی صفات کی جھلک دکھائی دیتی ہے :

Page 54

۵۴ فرض کر لیں کہ بجلی ایک صفت ہے.اس کی ایک طاقت نور یعنی روشنی ہے جو اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے.اور اس روشنی کی بھی الگ الگ قوت ہے.آپ اسی ہولڈر میں مختلف پاور کے بلب لگاتے جائیں.روشنی بڑھتی جاتی ہے.بجلی کی طاقت دو سو بیس وولٹ پر چھوٹے بلب سے لے کر ایک ہزار واٹ کا بھی بلب جلتا ہے.یہ بلب کی طاقت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی بجلی لے کر کتنی روشنی مہیا کرتا ہے.لیکن ایک چیز اور کہ ایک سو بینی وولٹ طاقت والی چیزوں کو اگر دوسو بنیں دولٹ دے دیا جائے تو وہ جل کہ خاکستر ہو جاتی ہے.یعنی ہر چیز کی اپنی استعداد بھی ہے.زیادہ طاقت اس کو جلا دیتی ہے.پھر بجلی کی ایک طاقت گرمی (حرارت) دینا ہے.جتنی روشنی بڑھتی جاتی ہے.اُسی قدر گرمی بھی پیدا ہوتی ہے.اس کے علاوہ بجلی میں ایک اور طاقت ہے کہ جب وہ لوہے میں سے گزرتی ہے تو اس کے تمام منصفی بارہ کا رخ ایک طرف اور مثبت بار کا رُخ دوسری طرف کر دیتی ہے جس کی وجہ سے عام لوہے کا ٹکڑا مقناطیس بن جاتا ہے.اس کی قوتِ جاذبہ کی کشش کی وجہ سے دوسرے لو ہے کے ٹکڑے اس کی طرف کھینچے لگتے ہیں.لیکن بجلی کی کو کسے کٹ جانے کی وجہ سے لو ہے میں سے یہ طاقت ختم ہو جاتی ہے.پھر اس بجلی میں یہ طاقت بھی ہے کہ مسلسل اس کی کرو کسے گزرنے کی وجہ سے لوہا بھی مستقل طور پر مقناطیس بن جاتا ہے.پھر یہ دکٹ بھی جائے تو اس کی کشش بہ قرارہ رہتی ہے.

Page 55

۵۵ بات کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے یہ ایک ادنی سی مثال ہے.ورنہ اہلی صفات اور اس کی قوتیں کہاں.اور کہاں یہ کمزور انسان اور اس کی ناقص عقل.اب ہم آگے بڑھتے ہیں.کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کو اور پھر انسان کو اپنی چند صفات دکھانے کے لئے تو پیدا نہیں کیا تھا.بلکہ اس نے چاہا کہ اپنی تمام صفات کے ذریعے اس کی تمام تر طاقتوں کے ساتھ پہچانا جائے.اسی لئے تو رب العزت نے اپنے نور سے ایک نور کو پیدا کیا جو نور محمدی ہے.یہ نور خُدا تعالیٰ کے نور سے نکل ہے.اُسی نورالہی کا حصہ ہے.اس نور محمدی میں تمام انوارالہی کی صفات اس کی تمام قوتوں کے ساتھ موجود تھیں.جیسے ایک گلاس ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے ایک گھونٹ پلیٹیں.تو اسکی وہی لذت اور ٹھنڈک ہوگی جو پورے گلاس کی ہے.اور اس ایک گھونٹ پانی کی پیاس بجھانے والی وہی تاثیر ہوگی جو گلاس میں ہے.لیکن ایک گھونٹ پیاس کو بڑھا دیتا ہے جبکہ گلاس قشنگی کو مٹا دیا ہے.ان تمام باتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے پیار سے آقا سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وہ واحد نبی ہیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی صفات اپنے پورے کمال کے ساتھ ظاہر ہوئیں.کیونکہ آپ نورالہی کا حصہ تھے.آپؐ کو وہ استعدادیں عطا کی گئیں تھیں.جنہوں نے تمام صفات اپنی کو اس کی قوتوں کے ساتھ جذب کیا.اور پھر جب وہ بشری روپ میں ظاہر ہوئیں تو دنیا نے اخلاق و کردار کے ایسے ہی جواب ولانہ وال نمونے دیکھے جس کی نظیر نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ نے اس نور کو عشری پیکہ دیا.تا دنیا دیکھ سکے کہ ان کا خدا کین

Page 56

۵۶ صفات کا مالک ہے.جب ہم ان بیان کردہ حقائق کی روشنی میں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں.تو یہ جان کر ہماری روح وجد میں آجاتی ہے کہ تمام انبیاء میں سے صرف آپ ایک منفرد اور ارفع مقام پر فائز ہیں.ہر نبی کی زندگی خدا تعالیٰ کی ایک یا ایک سے زیادہ صفات کے ظہور کا ذریعہ بنی لیکن حضرت سید ولد آدم کی بابرکت زندگی تمام صفات خداوندی کی نہ تھی.کیونکہ گزشتہ انبیاء کی زندگیوں میں ظاہر ہونے والی صفات اپنے نقطہ کمال پر نہیں تھیں.جبکہ سرور کونین نے ہر صفت کے ہر پہلو کو اس کے انتہائی نقطۂ کمال تک ظاہر کیا.اللہ تعالیٰ کی منشا کے تحت ہر نبی نے ان صفات کے ظہور کے لئے جن کا ظاہر ہونا مقدر تھا.اتنی ہی قوت سے خدائی تجلی کو جذب کیا.جتنی ان کی اپنی استعداد یا باطنی قوت تھی.لیکن میرے آقا بادی دو جہاں نے الہی تجلی کو اس کے پورسے کمال اور طاقتوں کے ساتھ اپنے وجود میں جذب کیا.پھر اس کی روشنی اس پاک وجود کے ہر ذرہ سے سے پھوٹی.تو عالم کا عالم منور ہو گیا.ان تمام حقائق سے آپ اندازہ تو لگائیے.کہ میر سے آقا رحمت للعالمین کی روحانی طاقت.آپ کی استعداد اور قوت جذب کتنے بلند مقام پر تھی کہ آپک نے خدائی صفات کو ظاہر کیا کس قدر طاقتور تھی وہ ذات جو بشریت کے مقام پر ہوتے ہوئے روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو عبور کر گئی.اور انسانیت کی عظمت

Page 57

کی دلیل بنی.۵۷ آپ کی اس روحانی طاقت کا حضرت موسی نے بھی بڑے واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی تجلتی کو کوہ طور پر بھی نہ دیکھ سکے لیکن میرے آقا کا وجود ساری زندگی اس نور کے ظہور کا مظہر بنا رہا.اسی وجہ سے خدائے ذوالجلال نے نبوت کا سب سے بڑا انعام سب سے بڑا درجہ اور مقام آپ کو عطا کیا.آپ خاتم النبیین کہلائے.آپ فرماتے ہیں کہ میں تو اس وقت سے خاتم النبیین ہوں.جب آدم کا وجود مٹی میں کروٹیں لے رہا تھا.آپ نبیوں کی مہر بنے.اور ہر نبی اسی مہر کی صداقت کے ساتھ دنیا میں آیا.پھر حضرت محمد مصطفے کی صداقت کا اپنی امت سے عہد لیتا رہا کہ ایک ایسا وجود پیدا ہوگا جس پر خُدا ظاہر ہوگا.آپؐ کی ذات نبی تراش ہے.اور اب تو خدا کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ کی اطاعت کی جائے.اور جس طرح پہلے نبی آپ کی گواہی سے آئے اب بھی یہ انعام اُسی کو مل سکتا ہے جو آپ کا اُمتی اور عاشق ہو.مکمل طور پر اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہو.اس زمانے میں به انعام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو ملا.حضرت محمد سے مصطفے خدا تو نہیں تھے لیکن خدا نما وجود تھے.ایسے کامل انسان جس میں تمام انسانی کمالات - صفات اپنے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچی تھیں.اپنے خدا سے عشق کو دیکھیں تو کوئی حد دکھائی نہیں دیتی.مکہ کے افراد نے گواہی دی کہ محمد اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے.

Page 58

۵۸ آپ کے کسی خلق کو لے لیں وہ انتہا اور کمال کو پہنچا ہوا ہے.اخلاق کردار کے علاوہ جسمانی خوبصورتی میں ، چہرے کے حسن میں بھی کوئی اس پاک وجود جیسا نہیں.جس کے وجود کے ذرے ذرے سے نور الہی کا ظہور ہو رہا ہو.توحشن کیوں نہ بے مثال ہو.گویا آپ ہر لحاظ سے واحد - یکتا.یگانہ دکھائی دیتے ہیں.یہ حیثیت انسان ہم پر شکر ادا کر نالازم ہو جاتا ہے کہ کل کائنات کے رب نے ہم کو جمادات و نباتات نہیں بنایا.حیوانات میں بھی شامل نہیں کیا.بلکہ اشرف المخلوقات میں شامل کیا.اور سب سے بڑی خوش نصیبی یہ کہ ہم سچے دین پر ہیں.حضرت محمد مصطفی " کی اُمت ہیں.یہ سب کچھ جان کر آب تو آپ خوش ہیں کہ ہم ہی ہیں.پیارے آقا رحمت کامل کی وجہ سے انسان کا وجود بنا.اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کریں.لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں پھر ہم تو بہت کمزور اور گناہ گار بھی ہیں.لیکن آپ پریشان نہ ہوں.ایک طریقہ ہے کہ ہم اچھے اور پیار سے انسان بن جائیں.وہ یہ کہ ہم اپنے پیار سے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور زندگی کے حالات کو بار بار پڑھیں تاکہ آپ کے بالر سے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات ہمارے سامنے تصویر کی طرح ہو.اور تصویر اس کی بنتی ہے جس پیار ہو.پھر کام آسان ہو گیا.کہ آپ عبادت ایسے کرتے تھے.ہنستے مسکراتے ایسے تھے چلتے ایسے تھے.کھاتے پیتے.سوتے جاگتے.کسی سے سلوک کرتے.کسی کو معاف کر تے کیسی سے پیارہ کرتے.کسی کی اصلاح کرتے وقت ہماری نظر میں آپ

Page 59

کی سیرت ہو.۵۹ جب ہم ان باتوں کو جان لیں گے تب ہم اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی مخلوق سے پیار کر سکیں گے.تب ہی تو انسان کہلائیں گے اور اس طرح ہم اپنے انسان ہونے کے احسان کا شکر بھی ادا کرنے والے ہوں گے.ہمارے پیارے آقا کا صرف انسانوں پر ہی احسان نہیں بلکہ ساری کائنات پر ہے کیونکہ اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ کائنات ہی نہ بنائی ہوتی ہے نہ یہ گیلیکسی ہوتی.نہ نظام شمسی نہ کائنات نہ دنیا اور نہ ہی ساری مخلوقات گویا ایک پاک وجود کی خاطر سب کو تخلیق کیا.اور اس پیاری ذات کی خاطر کار خانہ قدرت کو چلایا.زندگی کی رنگینی.اس کا حسن اسی مبارک ذات سے وابستہ ہے.اس لئے یہ ساری کائنات ہی آپ کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے.ہم پر لازم ہے کہ تمام دنیا میں آپ کے پیغام کو پہنچائیں.آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور چلائیں تاکہ انسانی ذہن - قلب و نظر بھی منور ہو.اور ہر طرف خدائی کے جلو سے دکھائی دیں.اس کے نور سے یہ دنیا بھر جائے.محبت پیار خلوص دانیار سے سب کو حصہ ملے.اور اس دنیا میں حمد باری تعالیٰ اور محمد مہ کے ترانے گائے جائیں.اسے خُدا تو ایسا ہی کر.آمین یارب العالمین : له -: لولاك لما خلقت الافلاك - (حدیث قدسی)

Page 60

، شمارہ نمبر ۲۸، تعداد ایک ہزار کتابت محمد ارشد پرنٹر امیر منیر

Page 60