Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نے اپنی تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن میں آنحضور ﷺ کے بارہ میں عہد نامہ قدیم اور جدید میں درج پیش گوئیوں کا تذکرہ اور تفصیل درج فرمائی تھی۔ نظارت نشر و اشاعت قادیان کی طرف سے شائع شدہ اس ٹائپ شدہ کتابچہ میں بائبل کی پیش گوئیوں والے اس باب کو من و عن درج کیا گیا ہے۔
آنحضرت صالی لا الہ سلم کے بارہ میں بائیل کی پیشگوئیاں شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان
الَّذِينَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيِّ الْأُمِّنَ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبَا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ (الاعراف: ۱۵۸) آنحضور صلی اللہ کا کلیم کے بارہ میں بائبل کی پیشگوئیاں از افاضات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ
نام کتاب: مصنف: سابقہ اشاعت : محضرت سال خالی ہم کے بارہ میں بائبل کی پیشگوئیاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی اشاعت طذ ابار اول انڈیا : اپریل-2017 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب،انڈیا، 143516 Name of the Book: Author: تعداد مطبع: ناشر ANHAZRAT S.A.W KE BARAH MEN BIBLE KI PESHGOIYAN HADHRAT KHALIFATUL MASIH IInd Present edition 2017 Quantity: 1000 Printed at: Published by: Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha,at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516
پہلی پیشگوئی حضرت ابراہیم کی اولاد سے وعدہ بائبل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کے بہت سے وعدے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کسدیوں کے اور میں پیدا ہوئے اور وہاں سے اپنے باپ کے ساتھ ہجرت کر کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے لیکن ان کے والد حاران میں آکر ٹھہر گئے.ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حاران سے نکل کر کنعان کو روانہ ہوں.اور فرمایا.اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تو ایک برکت ہوگا اور ان کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور اس کو جو تجھ پر لعنت کرتا ہے لعنتی کروں گا اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پائیں گے.“ ( پیدائش باب ۱۲ آیت ۲، ۳) اسی طرح لکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا :- کہ یہ تمام ملک جو تو اب دیکھتا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دوں گا.“ پھر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں لکھا ہے :- ( پیدائش باب ۱۳ آیت (۱۵) پھر خداوند کے فرشتے نے اسے (یعنی ہاجرہ سے ) کہا کہ میں تیری اولاد 1
کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خدا وند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا بنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا.وہ گور خر سا ہوگا اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا.“ پھر اسی بائبل میں لکھا ہے :- پھر خدا نے ابراہام سے کہا تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھوسو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے.“ ( پیدائش باب ۱۷ آیت ۹ تا ۱۱) پھر لکھا ہے:.اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا.“ ( پیدائش باب ۱۷ آیت (۱۴) پھر لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو بھی ایک بیٹے کی بشارت دی اور فرمایا کہ: میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقیناً میں اسے برکت بخشوں گا.یقیناً میں اسے برکت دوں گا اور وہ قوموں کی ماں ہوگی اور ملکوں کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے.“ ( پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۶) پھر سارہ کی اولاد کے متعلق لکھا ہے کہ :- 2
میں اس سے اور بعد اس کے اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد 66 ہے قائم کروں گا.“ پھر اسمعیل کے متعلق لکھا ہے :- ( پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۹) ” اور اسمعیل کے حق میں میں نے تیری سنی (اسمعیل کے حق میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی کہ کاش کہ اسمعیل تیرے حضور جیتا رہے.“ ( پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۸) دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا، لیکن میں اضحاق کو جس کو سارہ دوسرے سال اسی وقت معین میں جنے گی اپنا پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰ تا ۲۲) عہد قائم کروں گا.“ پھر لکھا ہے:.وہ بھی تیری نسل ہے.“ اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا.اس لئے کہ ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳) پھر حضرت اسمعیل کے متعلق لکھا ہے.خدا نے حضرت ہاجرہ کو الہام کیا کہ :- ”اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی.اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا.“ پھر لکھا ہے:- ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۷ ، ۱۸) خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیرانداز 3
ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اس سے بیاہنے کو لی.“ ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱،۲۰) ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسمعیل اور اسحق تھے.اسماعیل بڑے بیٹے اور اسحاق دوسرے بیٹے تھے.خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عہد تھا کہ وہ ان کی نسل کو بڑھائے گا اور بابرکت کرے گا.یہ با برکت کرنے کے الفاظ حضرت اسحاق کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسمعیل کے متعلق بھی ہیں.اسی طرح نسل کے بڑھانے کے الفاظ بھی حضرت اسحاق کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسمعیل کے متعلق بھی ہیں.اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسمعیل فاران کے بیابان میں رہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنعان کی زمین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کو دے دی گئی اور پھر یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کے اس عہد کی علامت یہ ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نرینہ نسل کا ختنہ کیا جائے گا.ان پیشگوئیوں کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق کی نسل کو بڑی ترقی نصیب ہوئی اور خدا تعالیٰ نے جو عہد حضرت اسحاق سے باندھا تھا وہ بڑی شان سے پورا ہوا.حضرت موسیٰ اور حضرت داؤ ڈ اور حضرت حزقیل اور حضرت دانی ایل اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کی نسل سے ظاہر ہوئے اور دنیا کے لئے بڑی رحمت کا موجب ثابت ہوئے.کنعان کا ملک دو ہزار سال تک ان کے قبضہ میں رہا سوائے ایک خفیف وقفہ کے کہ اس وقفہ میں بھی وہ ملک کلی طور پر ان کے ہاتھ سے نہیں نکلا.صرف وہ اس میں کمزور ہو گئے تھے.لیکن ساتویں صدی بعد مسیح میں اسحاق کی اولا د اور موسیٰ کی تعلیم پر ظاہری طور پر چلنے والے لوگوں کو کلی طور پر کنعان کے ملک سے دست بردار ہونا پڑا اور اس ملک میں اسمعیل کی اولاد سیاسی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی غالب 4
آگئی.بنی اسرائیل کا اس زمانہ میں کنعان سے نکالا جانا صاف بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی معرفت جو وعدہ کیا گیا تھا اب اس کے مستحق بنی اسرائیل یا ان کے متعلق خاندان نہیں رہے تھے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں قیامت تک یہ ملک بنی اسرائیل کے قبضہ میں رکھوں گا اور خدا کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی.پس صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے معنے ظاہری قیامت کے نہیں بلکہ ایک نئی شریعت کے ظہور کے ہیں جو الہامی اصطلاح میں نیا آسمان اور نئی زمین بنانا کہلاتا ہے اور لازماً قیامت کے برپا ہوئے بغیر نیا آسمان اور نئی زمین نہیں بنائے جاسکتے.پس قیامت تک بنو اسحاق کے قبضہ کے یہی معنے تھے کہ جب ایک نیا شرعی نبی آئے گا تو اس وقت یہ ملک بنو اسحاق کے قبضہ میں نہ رہے گا.چنانچہ اس طرف حضرت داؤد کے ایک کلام سے اشارہ بھی نکلتا ہے جہاں تو رات میں لکھا ہے کہ قیامت تک بنو اسحاق اس ملک پر قابض رہیں گے وہاں حضرت داؤد نے اس پیشگوئی کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا ہے.وہ فرماتے ہیں :.” صادق زمین کے وارث ہوں گے اور ابد تک اس میں بسیں گے.“ (زبور باب ۳۷ آیت ۲۹) ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ بنو اسحاق کی تباہی کا وقت قریب آرہا تھا.اب نبیوں کا کلام دنیا کی توجہ اس طرف پھرا رہا تھا کہ اب وہ نسلی وعدہ بدل کر روحانی شکل اختیار کرنے والا ہے اور بنو اسمعیل راستباز بن کر ابراہیمی پیشگوئیوں کے وارث بننے والے ہیں اور ایک نیا عہد ان کے ذریعہ سے شروع ہونے والا ہے.اگر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ماننے والے بنو اسمعیل کو فلسطین کی زمین میں کیوں غالب کر دیا اس نے تو صاف طور پر عہد کیا تھا کہ فلسطین کی زمین بنو اسحاق کو دی جائے گی.اگر وہ عہد ایک اور قوم کے ذریعہ سے پورا نہیں ہونا تھا تو یہ تبدیلی خدا تعالیٰ 5
نے کس طرح گوارا کی.اگر یہ تبدیلی چند سال کے لئے عارضی طور پر ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کیونکہ قومی زندگیوں میں اتار چڑھاؤ ہوہی جایا کرتے ہیں لیکن یہ تبد یلی تو اتنی لمبی چلی کہ آج تیرہ سو سال کے بعد بھی فلسطین کے اکثر حصہ پر مسلمان اور اسمعیل کی اولاد قابض ہیں.یورپ اور امریکہ زور لگارہے ہیں کہ کسی طرح ان حالات کو بدل دیں لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اگر کوئی کامیابی ان کو حاصل بھی ہوئی تو وہ عارضی ہوگی.یا بنواسرائیل مسلمان ہو کر نئے عہد کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی فلسطین میں پائیں گے اور یا پھر وہ دوبارہ فلسطین میں سے نکال دیئے جائیں گے.کیونکہ فلسطین ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو ابراہیمی عہد کو پورا کرنے والے ہوں گے.مسیحی لوگ بھی اپنے آپکو ابراہیمی عہد کا پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں لیکن تعجب ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس عہد کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ قوم ختنہ کروائے گی لیکن عیسائی تو ختنہ سے آزاد ہوچکے ہیں.ہاں بنو اسمعیل جو تیرہ سو سال سے فلسطین پر قابض ہیں وہ قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی ختنہ کرواتے تھے اور اب بھی ختنہ کرواتے ہیں.غرض جیسا کہ ان پیشگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ اسمعیل اور اسحاق دونوں کو برکت دی جائے گی وہ پیشگوئیاں پوری ہونی ضروری تھیں.بنو اسحاق کو ان کے وعدہ کے مطابق کنعان کی حکومت دی گئی اور بنو اسمعیل کو ان کے وعدہ کے مطابق عرب کی حکومت دی گئی.آخر جب بنو اسحاق کی قیامت آگئی تو داؤد کی پیشگوئی کے مطابق نسلی لحاظ سے نہیں بلکہ راستباز ہونے کے لحاظ سے کنعان پر غلبہ بنو اسمعیل کو دے دیا گیا.گویانسلی وعدہ ابراہیم کے مطابق مسلمانوں کو مکہ اور اس کے اردگرد کا علاقہ ملا.جس کا دعویٰ قرآن کریم نے سورہ البقرہ رکوع ۱۵ / ۱۵ میں کیا ہے.اور راستباز ہونے کے لحاظ سے بنو اسحاق کی مذہبی تباہی کے بعد وہ کنعان کے بھی وارث قرار پائے.☆☆ 6
دوسری پیشگوئی حضرت موسیٰ کے بعد ایک شرعی نبی کا ظہور حضرت موسیٰ علیہ السلام جب خدا تعالیٰ کے حکم سے طور پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ :- ” خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵) پھر لکھا ہے:.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے.“ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰) ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نئے صاحب شریعت نبی کی پیشگوئی کی گئی تھی جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوگا.صاحب 7
شریعت ہونے کی پیشگوئی ان الفاظ سے نکلتی ہے کہ وہ موسیٰ کی مانند ہوگا اور موسیٰ صاحب شریعت نبی تھے.دوسری خبر اس پیشگوئی میں یہ دی گئی ہے کہ سب باتیں جو اسے کہی جائیں گی وہ لوگوں سے بیان کرے گا.یہ علامت بھی بتاتی ہے کہ وہ صاحب شریعت ہوگا کیونکہ صاحب شریعت نبی قوم کی بنیادر کھنے والا ہوتا ہے محض ایک مصلح نہیں ہوتا.اس لئے اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساری تعلیم لوگوں کے سامنے بیان کرے.کیونکہ شریعت کے بغیر قوم کی تکمیل نہیں ہو سکتی.مگر جو غیر تشریعی نبی ہوتا ہے وہ چونکہ صرف پہلی کتاب کا شارح ہوتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ساری وحی لوگوں کو سنائے.ہوسکتا ہے کہ بعض باتیں اس کے ذاتی علم کے طور پر اسے کہی گئی ہوں لیکن ضروری نہ ہو کہ وہ اپنی قوم سے ان کا ذکر کرے.یہ بھی ان آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اس پیشگوئی کا موعود نبی اپنی تعلیم کو خدا تعالیٰ کا نام لے کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور جو لوگ اس کی تعلیم کو نہ سنیں گے ان کو سزا دی جائے گی اور وہ خدا کے عذاب کے نیچے آئیں گے.یہ بھی اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس پیشگوئی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پیشگوئی کا مستحق ہونے کا جھوٹا دعوی کرے گا تو ایسا شخص قتل کر دیا جائے گا.اب پیشگوئی کے ان تمام اجزاء کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام تک اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا نبی دنیا میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا.درمیانی انبیاء کا تو ذکر جانے دو، ان کی تو نہ کوئی امت موجود ہے نہ کوئی قوم پائی جاتی ہے.ایک عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جن کے ماننے والے دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جو انہیں آخری مصلح قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.مگر اس پیشگوئی کو سامنے رکھ کر دیکھو یا اس پیشگوئی کی شرائط حضرت عیسی علیہ السلام پر پوری اترتی ہیں؟ اول.اس پیشگوئی سے پتہ لگتا ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی ہوگا.کیا عیسی علیہ السلام 8
کوئی شریعت لائے؟ عیسی علیہ السلام نے تو یہ کہا ہے کہ :.یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.“ ( متی باب ۵ آیت ۱۸-۱۷) پھر ان کے حواریوں نے یہاں تک کہہ دیا.کہ شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں.مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑا یا.“ ( گلتیوں باب ۱۳ آیت ۱۲ ، ۱۳) گو یا مسیح خود کسی شریعت کے لانے کے مدعی نہیں اور ان کے حواری شریعت کو ہی لعنت قرار دیتے ہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی قوم اس پیشگوئی کی مستحق ہو؟ (۲) اس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوگا، لیکن مسیح تو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود بنی اسرائیل میں سے تھا بعض عیسائی صاحبان ایسے موقعہ پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اس کا کوئی باپ نہیں تھا اس لئے وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے کہلا سکتا ہے.لیکن یہ دلیل ہرگز معقول نہیں.کیونکہ بائبل کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ بھائی بہت سے ہوں گے اور ان بہت سے بھائیوں کی نسل میں سے اس موعود نے ظاہر ہونا تھا.کیا عیسی علیہ السلام کی قسم کے لوگ بھی بہت سے ہیں اگر نہیں تو پھر عیسی علیہ السلام پر یہ پیشگوئی کیونکر چسپاں ہو سکتی ہے؟.علاوہ ازیں بائبل میں تو مسیح کی نسبت لکھا ہے کہ وہ داؤد کی نسل میں سے ہوگا (زبور باب ۱۳۲ آیت ۱اویر میاه باب ۲۳ آیت ۵-۸) اگر بن باپ ہونے کی وجہ سے حضرت 9
مسیح کو بنی اسرائیل میں سے خارج کر دیا جائے تو پھر وہ داؤد کی نسل میں بھی نہیں رہ سکتے اور اس پیشگوئی سے انہیں جواب مل جاتا ہے.(۳) اس پیشگوئی میں لکھا ہے کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.لیکن انجیل میں تو خدا کا کلام ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتا.یا تو اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے سوانح ہیں یا ان کے بعض لیکچر اور یا پھر حواریوں کی باتیں.یا (۴) اس پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ موعود ایک نبی ہوگا.مگر مسیح کے متعلق تو مسیحی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ خدا کا بیٹا تھا ہی نہیں تھا.پس جب مسیح علیہ السلام نبی ہی نہ تھے تو وہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے والے کس طرح ہو سکتے ہیں.(۵) اس پیشگوئی میں یہ کہا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر اپنا الہام لوگوں کو سنائے گا مگر انا جیل میں تو کوئی ایک فقرہ بھی ہمیں نہیں ملتا جس میں مسیح نے یہ کہا ہو کہ خدا نے مجھے یہ بات لوگوں کو پہنچانے کا حکم دیا ہے.(1) اس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے:.” جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ساری سچائی کی را ہیں اس کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوں گی.لیکن مسیح خود کہتا ہے کہ وہ سچائیاں دنیا کو نہیں بتاتے.وہ کہتے ہیں.”میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں.پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی.اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.“ 66 ( یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ، ۱۳) 10
ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام پر یہ پیشگوئی تو پوری نہیں ہوئی اور جب حضرت مسیح پر یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے ایک ایسے نبی کی پیشگوئی عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں موجود تھی جو ساری سچائیوں کو ظاہر کرے گا اور دنیا میں خدا تعالیٰ کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم کرے گا.ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے.چنانچہ (۱) محمد رسول اللہ صلی ایتم ہی وہ شخص تھے جو بنو اسمعیل میں پیدا ہوئے جو بنو اسحاق کے بھائی تھے.(۲) رسول کریم سال یا ستم ہی وہ شخص تھے جنہوں نے موسیٰ کے مانند ہونے کا دعویٰ کیا چنانچہ قرآن میں آتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً ( المزمل : ۱۶) ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ایک رسول بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول بھیجا تھا.یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موسیٰ کی طرح نبی ہیں.(۳) اس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا موعود نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا نہ کہ کوئی اور دعوئی اور رسول کریم صلی یا تم نے نبی ہونے کا دعوی کیا تھا مگر اس کے برخلاف کہا جاتا ہے کہ مسیح نے نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.چنانچہ انجیل مرقس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں.انہوں نے کہا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعضے الیاس اور بعضے نبیوں میں سے ایک.پھر اس نے انہیں کہا کہ تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں.پطرس نے جواب میں اس سے کہا تو تو مسیح ہے.تب اس نے انہیں تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ مت کہو.(مرقس باب ۸ آیت ۲۷ تا ۳۰) 66 11
اس آیت میں مسیح نے اپنے متعلق یوحنا یا الیاس یا نبیوں میں سے کوئی نبی ہونے سے انکار کیا ہے.لیکن موسیٰ کی پیشگوئی بتاتی ہے کہ وہ جو موسیٰ کے نقش قدم پر آنے والا ہے نبی ہوگا.پس یقینا یہ پیشگوئی رسول کریم صلی یا تم پر چسپاں ہوتی ہے نہ کہ مسیح پر؟ (۴) اس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.لیکن ساری انجیلوں میں ہمیں خدا کا کلام کہیں نظر نہیں آتا.اس کے برخلاف محمد رسول اللہ صلی تم نے قرآن کریم کو پیش کیا.جو شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا نام بھی قرآن کریم میں کلام اللہ رکھا گیا ہے.(البقرہ:۷۶) (۵) اس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور اوپر بتایا جاچکا ہے کہ مسیح نے خود اقرار کیا ہے کہ جو کچھ اسے کہا گیا تھا وہ سب کا سب لوگوں کو نہیں سناتا تھا لیکن اس نے یہ پیشگوئی ضرور کی تھی کہ میرے بعد ایک ایسا شخص آئے گا جو سب سچائی کی راہیں لوگوں کو بتائے گا.چنانچہ محمد رسول اللہ سال میں ہی ہم نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سارا کلام لوگوں کو پہنچاتے ہیں اور کوئی بات جس کی دین کے لئے ضرورت ہے انہوں نے چھوڑی نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی سلیم کی نسبت فرماتا ہے يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ المائده :۶۸) اے محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم تیرے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ جب تو دنیا میں آئے گا تو ساری سچائیاں دنیا کو سنائے گا.اس لئے دنیا خواہ بُرا منائے یا اچھا تو کسی کی پرواہ نہ کر اور جو وحی تجھے کی جاتی ہے وہ ساری کی ساری لوگوں کو سنا دے.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائده : ۴ ) میں نے آج اس کلام کے ذریعے سے 12
تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور ہدایت کی نعمت تمہارے لئے کمال تک پہنچا دی ہے اور امن اور سلامتی کو تمہارا مذہب قرار دے دیا ہے.پس محمد رسول اللہ صلی یہی تم ہی تھے جن کو ساری سچائیاں بتائی گئیں اور جنہوں نے دنیا کو ساری سچائیاں بتا دیں اور کوئی ایک سچائی بھی نہیں چھپائی.کیونکہ مسیح کے زمانہ میں لوگ ابھی تک ساری سچائیوں کو سننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے تھے.مگر محمد رسول اللہ صلی شما ایلم کے بعثت کے وقت انسان روحانی ارتقاء کی سب منزلوں کو طے کر چکا تھا اور وقت آ گیا تھا کہ ساری سچائیاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو جائیں اور خدا کا رسول وہ ساری سچائیاں لوگوں کو سنا دے.(1) اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام جو اس پر نازل ہوگا وہ خدا کا نام لے کر دنیا کو سنائے گا.یہ بات بھی محمد رسول اللہ لا یتیم کی ذات میں ہی پوری ہوئی.محمد رسول الله سلایا ہی تم ہی ایک ایسے نبی ہیں جن کی الہامی کتاب کا ہر باب اس آیت سے شروع ہوتا ہے.میں اللہ کا نام لے کر یہ باتیں تمہیں سناتا ہوں.پس یہ علامت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روحانی ارتقاء کی وہ آخری کڑی جس کی موسیٰ نے خبر دی تھی محمد رسول اللہ صلی اسلام ہی کی ذات تھی.(۷) کہا گیا تھا کہ وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا، یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے.اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا گیا تھا کہ جس نبی کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے چونکہ اسکے لئے انسان کی روحانی ترقی کی آخری کڑی ہونا مقدر ہے اور اگر کوئی جھوٹا شخص اس عہدے کو اپنی طرف فریب سے منسوب کرے تو اس سے بڑے خطرات پیدا 13
ہو سکتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ جوشخص بھی جھوٹے طور پر اس پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرے گا وہ قتل کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوگا.محمد رسول اللہ ایا کہ ہم نے صاف الفاظ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے.جب آپ نے دعوی کیا آپ اکیلے تھے.آپ نہایت ہی کمزور تھے.دشمن بڑے جتھے والا اور بڑا طاقتور تھا.مگر باوجود اس کے کہ دشمنوں نے اپنا سارا زور لگا یا وہ آپ کو قتل نہیں کر سکے.باوجود اس کے کہ اس وقت کی زبر دست حکومتیں آپ کے مقابلہ پر آئیں سب پاش پاش ہوگئیں اور رسول کریم صلی یا ہم ایک کامیاب اور بامراد انسان کی حیثیت میں فوت ہوئے.آپ کی ساری قوم آپ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی اور آپ کی وفات کے چند سال بعد ہی آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا.اگر موسیٰ خدا کا راستباز نبی تھا اور اگر استثناء کی یہ پیشگوئی واقعہ میں خدا کی طرف سے تھی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے مدعی تھے کیا اس طرح کامیاب و کامران ہو سکتے تھے جیسا کہ وہ ہوئے؟ اور کیا آپ کے دشمن آپ کو قتل کرنے میں اس طرح ناکام ہو سکتے تھے جیسا کہ ہوئے.یہی نہیں کہ اتفاقی طور پر آپ دشمن کے حملوں سے بچ گئے ہوں بلکہ موسیٰ کی اس پیشگوئی کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی ا یہ تم کی نسبت قرآن کریم نے بڑے زور شور سے عربوں کے سامنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائده : ۶۸) یعنی اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم کو انسانوں کے حملوں سے بچائے گا اور آپ کی جان کی حفاظت کرے گا.اسی طرح آپ کے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کریم نے یہ فرما دیا تھا کہ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُوْلٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (الجن : ۲۸،۲۷) خدا تعالیٰ عالم 14
الغیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے.پھر جب وہ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے تو وہ اس کے آگے اور پیچھے اس کی حفاظت کے سامان کرتا رہتا ہے.یعنی محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم کو جب اس نے ایک خاص کام کے لئے بھیجا ہے تو وہ انہیں بغیر حفاظت کے نہیں چھوڑے گا اور دشمن کو آپ کے مارنے پر قادر نہیں کرے گا.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اسلام کا انجام اتفاقی انجام نہیں تھا بلکہ آپ نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ دشمن کے حملوں سے بچائے گا اور دشمن آپ کے قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا.اس طرح آپ نے دنیا کو ہوشیار کر دیا تھا کہ میں استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰ کی پیشگوئی کے مطابق قتل نہیں کیا جاؤں گا کیونکہ میں جھوٹا نہیں بلکہ حقیقی طور پر موسیٰ کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.خلاصہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے بعثت محمدیہ سے قریباً ۱۹ سو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ موسوی شریعت الہی کلام کا آخری نقطہ نہیں ابھی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مزید ہدایتوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اور مامور بھیجے گا وہ مامور دنیا کے سامنے سب سچائیوں کو پیش کرے گا اور وہی انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ ہوگا پس اس پیشگوئی کے مطابق دنیا میں ابھی ایک اور کتاب اور ایک اور نبی کی ضرورت تھی.پس قرآن کریم نے اور محمد رسول اللہ صلی یا کہ تم نے بائبل اور موسیٰ و عیسی کی بعثت کے بعد اگر دنیا کی ہدایت کا دعویٰ کیا.تو وہ بالکل حق بجانب اور خدا تعالیٰ کے کلام کو پورا کرنے والے تھے.قرآن کریم غیر ضروری نہ تھا، بلکہ اگر قرآن کریم نہ آتا تو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں غلط ہو جاتیں اور دنیا بداعتقادی اور شک کے مرض میں مبتلا ہو جاتی.15
تیسری پیشگوئی جبل فاران سے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ ایک عظیم الشان نبی کا ظہور استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے.”اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار ۱ قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس کلام میں اپنے تین جلوے بتائے ہیں.ان میں سے پہلا جلوہ سینا سے ظاہر ہوا.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تورات خروج باب ۱۹ آیت ۲۰) میں لکھا ہے:.” اور خداوند کوہ سینا پہاڑ کی چوٹی پر نازل ہوا اور خداوند نے پہاڑ کی چوٹی پر موسیٰ کو بلایا اور موسیٰ چڑھ گیا.“ یہ خدائی جلوہ ظاہر ہوا اور جو جو برکتیں اس میں پوشیدہ تھیں وہ دنیا پر ظاہر کر کے چلا ا گیا.اس کے بعد دوسرے جلوے کا ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ شعیر سے طلوع ہو گا.شعیر وہ مقام ہے جس کے آس پاس حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات ظاہر ہوئے.پس شعیر سے طلوع ہونے کے معنی حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے ہیں.مسیحی علماء 1 ( کتاب المقدس برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انارکلی لا ہور ۱۹۲۲ء) 16
اناجیل نے نہ معلوم کیوں شعیر کوسینا کا مترادف قرار دیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شعیر فلسطین کا حصہ ہے یہ نام مختلف شکلوں میں بگڑ کر آیا ہے.اور یہ نام ایک قوم کا بھی ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھی اور بنو آشر کہلاتی تھی اور یہ شمال مغربی فلسطین کے علاقے کا بھی نام ہے.پس شعیر سے مراد وہی جلوہ ہے جو خصوصیت کے ساتھ فلسطین میں ظاہر ہونے والا تھا.موسیٰ علیہ السلام تو کنعان پہنچے ہی نہیں اسی جگہ پر فوت ہو گئے جہاں کنعان کی سرحدیں نظر آتی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی ایسا جلوہ ظاہر نہیں ہوا جو اس قسم کی عظمت والا ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلوہ تھا.پس شعیر سے طلوع ہونے سے مراد حضرت مسیح کا ظہور ہے جو عین کنعان میں ظاہر ہوئے اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پھر ایک دفعہ دنیا کو اپنی شکل دکھلائی.تیسرا جلوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا.فاران سے مراد وہ پہاڑ ہیں جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہیں.چنانچہ عربی جغرافیہ نویس ہمیشہ سے ہی مدینہ اور مکہ کے درمیانی علاقہ کا نام فاران رکھتے چلے آئے ہیں.مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک پڑاؤ ہے، جس کا نام وادی فاطمہ ہے جب قافلے وہاں سے گذرتے ہیں تو وہاں کے بچے قافلہ والوں کے پاس پھول بیچتے ہیں اور جب ان سے قافلہ والے پوچھیں کہ یہ پھول تم کہاں سے لائے ہو تو وہ کہتے ہیں مِنْ بَرِيَّةِ فَارَان - فاران کے جنگل سے لائے ہیں.پس فاران یقینی طور پر عرب اور حجاز کا ہی علاقہ ہے.تو رات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اسی فاران کے میدان میں رہے تھے.لکھا ہے:.اور خدا وند اس لڑکے ( یعنی اسمعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر انداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے 17
ملک مصر سے ایک عورت اس سے بیاہنے کو لی.“ ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱،۲۰) بائبل فاران کے مقام کو عربوں کے بیان کی نسبت کس قدر مختلف جگہ پر قرار دیتی ہے اور کنعان کے کناروں پر ہی بتاتی ہے.لیکن جنگل اور پہاڑ شہروں کی طرح کسی چھوٹے سے علاقہ میں محدود نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تک پھیلتے چلے جاتے ہیں.پس اگر بائبل کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کے یہی معنی ہوں گے کہ فاران کے پہاڑ اور اس کا بیابان کنعان کے پاس سے شروع ہوتا ہے.اس سے یہ تو ثابت نہ ہوگا کہ وہ ختم بھی وہیں ہو جاتا ہے.بائبل تسلیم کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بیٹا اسمعیل نامی تھا اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ فاران میں رہا.اب فاران کے جغرافیہ کے متعلق تو اسمعیل کی اولاد کی گواہی ہی تسلیم کی جائے گی کیونکہ وہی فاران کی رہنے والی ہے.بنواسرائیل تو تاریخ اور جغرافیہ میں اتنے کمزور تھے کہ وہ اس رستہ کو بھی صحیح طور پر بیان نہیں کر سکے جس رستہ پر چل کر وہ مصر سے کنعان آئے تھے.دوسرے ملکوں کے متعلق ان کی گواہی کی قیمت ہی کیا ہے.دنیا میں ایک ہی قوم ہے جو اپنے آپ کو اسمعیل کی اولا د کہتی ہے اور وہ قریش ہے اور وہ عرب میں بستے ہیں اور مکہ مکرمہ ان کا مرکز ہے.اگر عربوں کا یہ دعویٰ غلط ہے تو سوال یہ ہے کہ اس غلط دعوئی کے بنانے کی انہیں غرض کیا تھی.بنو اسحاق تو ان کو کوئی عزت دیتے ہی نہیں تھے.پھر ایک جنگل میں رہنے والی قوم کو اس بات کی کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو اسمعیل کی اولا د قرار دیتے اور اگر اس نے یہ جھوٹ بنایا ہی تھا تو اسمعیل کی اصل اولا د کہاں گئی؟ بائبل کہتی ہے کہ اسمعیل کے بارہ بیٹے تھے.بائبل کہتی ہے کہ ان بارہ بیٹوں کی نسل آگے بہت پھیلے گی.لکھا ہے:.18
اور لونڈی کے بیٹے (اسمعیل) سے بھی ایک قوم پیدا کروں گا اس لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے.“ پھر لکھا ہے :- ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳ ) اٹھا اور لڑکے ( اسمعیل ) کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا.“ ( پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۸) پھر لکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:.اور اسمعیل کے حق میں میں نے تیری سنی ، دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا.اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گا اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا.(پیدائش بات ۱۷ آیت (۲۰) ان پیشنگوئیوں میں بتایا گیا ہے کہ اسمعیل کی نسل بہت پھیلے گی اور بڑی بابرکت ہوگی اگر عرب کے لوگوں کا دعوی جھوٹا ہے تو پھر بائبل بھی جھوٹی ہے کیونکہ دنیا میں اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمعیل نہیں کہتی جس کو پیش کر کے بائبل کی ان پیشگوئیوں کو سچا ثابت کیا جاسکے اور اگر قریش بنو اسماعیل ہیں تو پھر ابراہیم بھی سچا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو برکت دی اور ابراہیم کی وہ پیشگوئیاں ان کے ذریعہ پوری ہو ئیں جو بنو اسمعیل کے متعلق تھیں.تاریخ کا سب سے بڑا ثبوت قومی روایات ہی ہوتی ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ ایک قوم سینکڑوں سال سے اپنے آپ کو بنو اسمعیل کہتی چلی آئی ہے.اور اس کے بیان کو مزید تقویت اس بات سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمعیل نہیں کہتی.پھر جہاں بائبل مانتی ہے کہ بنو اسمعیل فاران میں رہے وہاں عرب کے لوگ بھی مکہ سے لے کر شمالی عرب کی سرحد تک کے علاقہ کو فاران کہتے چلے آرہے ہیں.پس 19
یقیناً یہی علاقہ فاران تھا.جیسا کہ یقیناً قریش ہی بنو اسمعیل تھے اور فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ عربوں سے ہی ظاہر ہونے والا تھا.بنو اسمعیل کے عرب میں رہنے کا یہ بھی ثبوت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کے نام جو بائبل میں آتے ہیں یہ ہیں.بنیت ، قیدار ، اوسبیل ،مبسام مشماع، دومه، مسا، حدد، تنیا، بطور نیس ، قدمہ.( پیدائش باب ۲۵ آیت ۱۳ تا ۱۶) قدیم رواج کے مطابق ان کی اولادوں کے نام بھی اپنے باپوں پر ہوں گے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولا داپنے باپوں کے نام سے کہلاتی ہے اسی طرح ملکوں کے نام بھی پرانے دستور کے مطابق بالعموم قوموں کے نام پر رکھے جاتے ہیں.اس رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں، تو سارے عرب میں ان بیٹوں کی اولا د پھیلی ہوئی نظر آتی ہے.پہلا بیٹا بنیت تھا.جس کی اولاد جغرافیہ نویسوں کے بیان کے مطابق ۳۰، ۳۸ ڈگری عرض شمالی اور ۳۶، ۳۸ ڈگری طول مشرقی کے درمیان رہی تھی.چنانچہ ریورنڈ کا تری بی کاری ایم اے نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے نزدیک فلسطین سے لے کر بند ریلبوع تک جو مدینہ منورہ کا بندر ہے یہ قوم پھیلی ہوئی تھی.دوسرا بیٹا قیدار تھا.اس کی قوم بھی عربوں میں پائی جاتی ہے.قیدار کے معنی ہیں اونٹوں والا.یہ قبیلہ حجاز اور مدینہ کے درمیان آباد ہے.بطلیموس اور پلینی دونوں نے اپنے جغرافیوں میں حجاز کی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے کیڈری اور گڈ رونا ئینی قوموں کا ذکر کیا ہے جو صاف طور پر قیدار ہی کا بگڑا ہوا تلفظ ہے اور اب تک بعض عرب اپنے آپ کو قیدار کی نسل سے بتاتے ہیں.تیسرا بیٹا او بیل تھا جو زیفس کے بیان کے مطابق او بیل نامی قوم اسی عرب علاقہ 20
میں بستی تھی.چوتھا بیٹا بسام تھا اس کا ثبوت عام جغرافیوں میں کہیں نہیں ملتا لیکن بالکل ممکن ہے کہ یہ نام بگڑ گیا ہو اور کسی اور شکل میں پایا جاتا ہو.پانچواں بیٹا مشماع تھا.عرب میں اب تک بنو مسماع پائے جاتے ہیں.چھٹا بیٹا حضرت اسمعیل علیہ السلام کا دومہ تھا اور دومہ کا مقام اب تک عرب میں پایا جاتا ہے جس کا ذکر عرب جغرافیہ نویس ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ دومہ اسمعیل کا بیٹا تھا جس کے نام پر یہ نام پڑا.چنانچہ عرب میں ایک مشہور مقام ہے.ساتواں بیٹا مسا تھا.اس کے نام پر بھی ایک قوم یمن میں پائی جاتی ہے اور اس کی جائے رہائش کے کھنڈرات وہاں موجود ہیں.ریورنڈ کا تری بی کاری نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے.آٹھواں بیٹا حددتھا اس کے نام پر یمن کا مشہور شہر حدیدہ بنا ہوا ہے.نواں بیٹا نیا تھا.مسجد سے حجاز تک کا علاقہ تیا کہلاتا ہے اور یہاں یہ قوم بستی ہے بلکہ خلیج فارس تک پھیل گئی ہے.دسواں بیٹا حضرت اسمعیل علیہ السلام کا بطور تھا.انکا مقام بھی عرب میں معلوم ہوتا ہے اور جدور کے نام سے مشہور ہے.جو بطور کا بگڑا ہوا ہے یا، عام طور پرج سے بدل جاتی ہے اور ط اورت د سے بدل جاتی ہے پس جدور اصل میں یطو رہی ہے.گیارھواں بیٹا نیس تھا.اور مسٹر فاسٹر کا بیان ہے.جوزیفس اور تورات کی سند کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی بیابان عرب میں رہتی تھی.بارھواں بیٹا قدمہ تھا.ان کی جائے رہائش بھی یمن میں ثابت ہے.مشہور جغرافیہ نویس مسعودی لکھتا ہے کہ مشہور قبیلہ اصحاب الرس جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آتا ہے 21
حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اور وہ دو قبیلے تھے ایک کا نام قدمان تھا اور ایک کا نام یا مین تھا.بعض جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے کا نام یا مین نہیں بلکہ رعویل تھا.ان جغرافیائی اور تاریخی شواہد سے صاف ثابت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی تمام اولا د عرب میں بستی تھی.یہ تمام اولا د چونکہ خانہ کعبہ اور مکہ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتی چلی آئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام مکہ میں ہی آکر بسے تھے اور اس وجہ سے یہی علاقہ عربوں اور تورات کے بیان کے مطابق فاران کا علاقہ ہے.یسعیاہ نبی کی پیشگوئی عرب کے متعلق : یسعیاہ نبی کے الہامی کلام کی شہادت بھی اس بات کی تائید میں ہے کہ بنو اسمعیل عرب میں رہے.چنانچہ یسعیاہ باب ۲۱ میں لکھا ہے:.دو عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیا سے کا استقبال کرنے آؤ.اسے تیا کی سرزمین کے باشند و! روٹی لے کر بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا.ہنوز ایک برس مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا ( آیت ۱۳ تا ۱۷) اس پیشگوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد جو جنگ بدر ہوئی تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے.اس میں بنو قیدار یعنی مکہ اور مکہ کے اردگر درہنے والے لوگ 22
بہت بری طرح مسلمانوں سے ہارے اور ان کی تلواروں اور کمانوں کی تاب نہ لا کر نہایت ذلت سے پسپا ہوئے.اس پیشگوئی کے اوپر صاف لکھا ہے : ”عرب کی بابت الہامی کلام.اور اس میں تیما اور قیدار کو عرب کا علاقہ قرار دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق ۱۴ے برس قبل مسیح جو یسعیاہ کا زمانہ تھا اس وقت حجاز میں اسمعیل کی اولا دبس رہی تھی.غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں یہ ثابت ہے کہ قریش بنو اسمعیل تھے اور فاران بائبل کے مطابق وہی علاقہ ہے جس میں بنو اسمعیل رہے.حبقوق نبی کی پیشگوئی: پس فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ یقیناً جلوہ محمدی ہی تھا جس کی خبر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی اور اس کی خبر حبقوق نبی نے مسیح سے ۶۲۶ برس پہلے دی اور کہا : ” خدا تیا سے اور جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا سلاہ.اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی اور اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی.اس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پر وہاں بھی اس کی قدرت در پردہ تھی.مری اس کے آگے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزہ دیا.اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں.اس کی قدیم راہیں یہی ہیں.میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.“ حبقوق باب ۳ آیت ۳ تا ۷ ) 23
اس پیشگوئی میں بھی قیمہ اور کوہ فاران سے ایک قدوس کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے.پس موسیٰ کی پیشگوئی اور حبقوق کی پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح تک انسان اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ کو پہنچنے والا نہ تھا.بلکہ حضرت مسیح کے بعد ایک اور جلوہ الہی ظاہر ہونے والا تھا جس نے صرف جمالی جلوہ نہ ہونا تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک آتشی شریعت کا ہونا بھی لازمی تھا اور جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں تیمہ کی سرزمین اور کوہ فاران سے ظاہر ہونے والے نبی محمد رسول اللہ صلی سیستم تھے اور ان کی آتشی شریعت قرآن کریم تھی.جس نے گناہوں اور شیطانی کاروبار کو جلا کر رکھ دیا.موسیٰ نے کہا ہے جب وہ کوہ فاران سے ظاہر ہوگا تو اس کے ساتھ دس ہزار قدوسی آئیں گے.وہ کون تھا جو کوہ فاران سے ظاہر ہوا اور اس کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے ؟ وہ صرف محمد رسول اللہ صلی لا یہ تم ہی تھے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے ہوتے ہوئے جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھا جس پر ساری تاریخیں متفق ہیں.کیا مسیح پر یہ پیشگوئی چسپاں ہوسکتی ہے؟ کیا داؤد پر پیشگوئیاں چسپاں ہوسکتی ہیں؟ وہ کب فاران سے ظاہر ہوئے اور کب ان کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ مسیح کے ساتھ تو کل بارہ حواری تھے جن میں سے ایک نے مسیح کو چند روپے لے کر بیچ دیا اور دوسرے نے اس پر لعنت کی.باقی رہ گئے دس.سو بائبل کہتی ہے کہ وہ دس بھی بھاگ گئے.اگر وہ قائم بھی رہتے اور نہ بھاگتے تب بھی دس اور دس ہزار میں بڑا بھاری فرق ہے اور تو رات تو کہتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہوں گے اور مسیح کے دس آدمیوں کی نسبت انجیل کہتی ہے کہ وہ اس کا ساتھ چھوڑ گئے.اسی طرح حبقوق میں لکھا ہے.”زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی.وہ کون ہے جس کا نام محمد تھا اور جس کے دشمن اسے گالیاں دیتے تو اس کا نام لے کر انہیں گالیاں دینے کی جرات نہیں ہوتی تھی.کیونکہ محمد یعنی تعریف 24
والا کہہ کر وہ اسے کیا گالی دے سکتے تھے.اس لئے وہ اس کو مذمم کہہ کر گالی دیتے تھے اور جب کبھی آپ کے صحابہ کو گالیاں سن کر جوش آتا تو آپ فرماتے تمہارے لئے جوش کی کوئی وجہ نہیں.وہ مجھے تو گالیاں نہیں دیتے وہ تو کسی مذزم کو گالیاں دیتے ہیں.پس وہ جس کے نام میں ہی حمد آتی ہے اور جس کی امت کی شاعری کا ایک جزو وہی نعت محمدمر یعنی ساینی پی ایم کی تعریف ) ہو گیا ہے.کیا اس کے سوا کوئی اور شخص بھی اس پیشگوئی کا مستحق ہو سکتا ہے.پھر لکھا ہے.مری اس کے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی.یہ پیشگوئی بھی محمد رسول اللہ صلی نیلم پر ہی صادق آتی ہے.کیونکہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے آپ کے دشمن کو تباہ کیا.گو اس جگہ مری کے الفاظ ہیں جو بیماری پر دلالت کرتے ہیں مگر مراد تبا ہی اور ہلاکت ہی ہے.کیونکہ جس ذریعہ سے بھی موت عام ہو جائے وہ مری اور وبا کہلائے گا.پھر لکھا ہے:.وو وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزا دیا.اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا.“ یہ پیشگوئی بھی نہ تو موسیٰ علیہ السلام پر صادق آسکتی ہے نہ مسیح علیہ السلام پر.موسیٰ علیہ السلام تو اپنے دشمن سے لڑتے ہوئے فوت ہو گئے اور مسیح علیہ السلام کو تو بقول عیسائیوں کے ان کے دشمنوں نے پھانسی دے دیا.جس نے زمین کو لرزہ دیا اور جس کی نگاہ نے قوموں کو پراگندہ کر دیاوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے خود آپ نے دعوئی فرمایا ہے.نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ل خدا تعالیٰ نے مجھے رعب عطا فرما کر میری مدد کی ہے.میں جہاں جاؤں ایک مہینہ کے فاصلہ تک دشمن ( بخاری کتاب الصلوۃ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجد او طهورًا) 25
مجھ سے ڈر جاتا ہے.پھر لکھا ہے.” قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں.66 یہ پیشگوئی بھی رسول کریم سان الہیم کے ذریعہ ہی ثابت ہوئی، کیونکہ آپ کے دشمن آپ کے مقابلہ میں ہلاک و تباہ ہو گئے اور پہاڑ اور پہاڑیوں سے مرادطاقتور دشمن ہی ہوا کرتے ہیں.پھر لکھا ہے.”میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بیت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.“ اس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آنے والا موعود شام سے کسی باہر کے علاقے کا ہوگا.اور جب اس کی فوجیں کیش یا کوشان اور مدائن کے علاقوں کی طرف بڑھیں گی تو ان علاقوں کی فوجیں اس کی فوجوں کے آگے لرز جائیں گی.اس پیشگوئی کے موعود بھی موسیٰ علیہ السلام نہیں ہو سکتے نہ مسیح علیہ السلام ہو سکتے ہیں یہ پیشگوئی بھی محمد لا لا یہ تم پر ہی صادق آتی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کی مٹھی بھر فوج آپ کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر کے زمانہ میں فلسطین کی طرف بڑھی تو باوجود اس کے کہ کنعان اس وقت قیصر روما کے ماتحت تھا اور وہ آدھی دنیا کا بادشاہ تھا.مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے آگے قیصر کی فوجیں اس طرح بھا گئیں کہ کیش کے خیموں پر آفت آگئی اور زمین مدیان کے پردے کانپ گئے اور ان علاقوں نے اپنی نجات اس بات میں پائی کہ محمد رسول اللہ ایسی ای ایم کے خادموں کے قدموں میں اپنے ہتھیار ڈال دیں.26
چوتھی پیشگوئی ایک محبوب نبی کا دس ہزار آدمیوں کے ساتھ ظہور حضرت سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں :- (الف) ”میرا محبوب سرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اس کا سرایسا ہے جیسا چھوکا سونا.اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں.اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھتی ہیں.اس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی ابھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں.اس کے لب سوسن ہیں.جن سے بہتا ہوا مرٹیکتا ہے.اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے گئے.اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں.اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں.اس کی قامت لبنان کی سی.وہ خوبی میں رشک سرد ہے.اس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے.اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے یہ میرا جانی ہے.“ غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶) اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایسا نبی پیدا ہونے والا ہے جو دوسرے نبیوں سے افضل ہوگا.کیونکہ لکھا ہے:.27
تیرے محبوب کو دوسرے محبوب کی نسبت سے کیا فضیلت ہے.“ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۹) پھر اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ محبوب دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہوگا.چونکہ جھڑا فوج کی علامت ہے.اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک عظیم الشان موقعہ پر وہ دس ہزار سپاہیوں کی افسری کرے گا.پھر لکھا ہے.اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مر ٹپکتا ہے.“ مرا یک گوند ہے جس کا مزہ تلخ لیکن تاثیر نہایت اعلیٰ اور خوشبو نہایت عمدہ ہوتی ہے.کیڑوں کے مارنے کے لئے نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور زخموں کے اند مال میں نہایت ہی مفید ہے.کرم کش ادویہ میں پڑتی ہے اور زخموں کی مرہموں میں ڈالی جاتی ہے.اسی طرح خوشبوؤں کے مصالحوں میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے اور عطروں کے بنانے میں بھی کام میں لائی جاتی ہے.پھر لکھا ہے.وہ محمد یم ہے.“ اس کا ترجمہ انگریزی بائبل میں Altogether Lovely) کیا گیا ہے اور اردو بائبل میں سراپا عشق انگیز کیا گیا ہے.یعنی اسے دیکھ کر انسان اس سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.یہ پیشگوئی واضح طور پر رسول کریم صلی تم پر چسپاں ہوتی ہے.آپ ہی موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار قدوسیوں کے سردار ہونے کی حیثیت میں فاران کی چوٹیوں پر سے گذرتے ہوئے مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے.آپ ہی وہ شخص تھے جن کا کلام صحیح معنوں میں دنیا کے لئے مرثابت ہوا ہے اور اس میں انسانی اصلاح کے لئے تمام قواعد بیان کر دئے گئے ہیں.جو بعض قوموں کے منہ میں کڑوے معلوم ہوتے ہیں گو ہیں وہ کرم کش اور خوشبودار اور آپ ہی ہیں جن کا نام 28
محمد تھا.عیسائی مصنف اس پیشگوئی سے گھبرا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس موعود کا نام محمد نہیں بلکہ محمد یم لکھا ہے.لیکن یہ اعتراض ایک بے معنی اعتراض ہے.تورات نے تو خدا کو بھی الوہیم لکھا ہے.عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ وہ اعزاز اور اکرام کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کر دیتی ہے.اردو زبان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اعزاز کے موقعہ پر جمع کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.اگر ایک اردو لیکچرار رسول کریم صلی سیتم کی تعریف میں کوئی لیکچر دے گا تو آخر میں کہے گا یہ ہیں ہمارے محمد.حالانکہ اس کی مراد یہ ہوگی کہ گو ہمارا آقا محمد تو ایک ہی شخص ہے لیکن میں آپ کے اعزاز کے طور پر جمع کا لفظ بولتا ہوں.(ب) رسول کریم صلی یا ستم کے متعلق ایک اور پیشگوئی غزل الغزلات باب ۴ میں بیان ہوئی ہے.اس میں حضرت سلیمان اپنی محبوبہ کو بہن بھی کہتے ہیں اور ساتھ ہی زوجہ بھی کہتے ہیں.چنانچہ غزل الغزلات باب ۴ آیت ۹ میں اپنی محبوبہ کی نسبت کہتے ہیں.اے میری بوا میری زوجہ “ پھر آیت ۱۰ میں لکھا ہے ”اے میری بہن میری زوجہ “ پھر آیت ۱۲ میں لکھا ہے.” میری بو ا میری زوجہ “ ان دونوں الفاظ کا جوڑ بتاتا ہے کہ آنے والا محبوب بنو اسمعیل میں سے ہوگا.جیسے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہوگا.چونکہ حضرت سلیمان اس کو ایک معشوق کی صورت میں پیش کر رہے ہیں.اس لئے انہوں نے بجائے بھائی کے بہن کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس کی تعلیم بنو اسحاق کے نبیوں کی طرح صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوگی بلکہ دوسری اقوام کے لئے بھی اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوگا جس کی طرف زوجہ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے.اس پیشگوئی میں مونث کے 29
صیغوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیئے.کیونکہ ایک شاعرانہ رنگ کا کلام ہے چنانچہ اسی باب کے آخر میں جا کر کہا ہے.میر امحبوب اپنے باغیچے میں آوے اور اس کے لذیذ میوے کھاوے.“ یہاں بجائے مؤنث کے مذکر کا صیغہ استعمال کر دیا گیا ہے.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی ان ایام کے سوا کسی اور پر پوری نہیں ہوتی.حضرت مسیح بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھے.نہ ان کی تعلیم غیر قوموں کے لئے تھی.جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے.(ج) اسی طرح غزل الغزلات میں لکھا ہے.” میں سیاہ فام پر جمیلہ ہوں.اسے یروشلم کی بیٹیو! قیدار کے خیموں کی مانند سلیمان کے پردوں کی مانند، مجھے مت تا کو کہ میں سیاہ فام ہوں.“ (بابا آیت ۶،۵) اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک ایسے نبی کی خبر دی ہے جو جنوب کا رہنے والا ہوگا اور بنو الحق کی نسبت جو شمال کے رہنے والے تھے اس کا رنگ کم اجلا ہوگا.یا یوں کہو کہ اس کی قوم کا رنگ کم اجلا ہوگا.چنانچہ شامیوں اور فلسطینیوں کے رنگ بوجہ شمال میں رہنے کے عربوں کی نسبت زیادہ سفید ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی ہی ہم عرب میں پیدا ہوئے تھے.(و) اسی باب میں پھر آنے والے موعود کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ:.” میری ماں کے بیٹے ناخوش تھے.انہوں نے مجھ سے تاکستانیوں کی 66 نگہبانی کرائی.پر میں نے اپنے تاکستانوں کی جو خاص میرا ہے نگہبانی نہیں کی.“ (بابا آیت ۶) 30
یہ در حقیقت موعود کی قوم کی طرف اشارہ ہے عرب لوگ کہیں قیصر کی نوکری کرتے تھے اور کہیں ایرانیوں کی نوکریاں کرتے تھے مگر خود اپنے ملک کی ترقی کا ان کو کوئی خیال نہ تھا.یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی شما یہ تم آئے اور انہوں نے ان کے اندر بیداری پیدا کی اور ان کی روحانی اور علمی اور سیاسی اصلاح کی.جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ عرب اپنے تاکستانوں کے محافظ ہوگئے بلکہ وہ دنیا بھر کے تاکستانوں کے آزاد محافظ بن گئے.(2) اسی طرح غزل الغزلات میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اسرائیلی سلسلہ کے لوگوں کو چاہیے کہ آنے والے موعود کو خواہ مخواہ اپنی طرف متوجہ نہ کریں ورنہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.چنانچہ لکھا ہے.”اے یروشلم کی بیٹیو! میں غزالوں اور میدان کی ہرنیوں کی قسم تمہیں دیتا ہوں کہ تم میری پیاری کو نہ جگاؤ اور نہ اٹھاؤ جب تک کہ وہ اٹھنے نہ چاہے.“ ( باب ۲ آیت ۷) یہی مضمون پھر باب ۳ آیت ۵ میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضمون پھر سہ بارہ باب آیت ۴ میں بیان کیا گیا ہے ان عبارتوں کا مطلب یہی ہے کہ جب وہ نبی پیدا ہوگا تو یہود اور عیسائی بنی اسرائیل کی دو شاخیں اسے دق کریں گی اور وہ اس کو مجبور کریں گی کہ وہ ان پر حملہ کرے.لیکن چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا یہود اور عیسائی اس کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیں گے.بلکہ خطر ناک شکست کھا ئیں گے.حضرت سلیمان اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھ اس کو جگانا نہیں یعنی اس کو چھیڑ کر اپنی طرف متوجہ نہ کرنا.ہاں جب وہ آپ جاگے یعنی جب خدا تعالیٰ کی مشیت چاہے کہ وہ تمہارے ملکوں کی طرف توجہ کرے تو پھر بے شک کرے مگر خود اس کو نہ چھیٹر نا.اس لئے کہ جو قوم خود کسی نبی کو چھیڑتی 31
ہے وہ اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیتی ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے رسول کریم سلام اسلام کو چھیڑ کر اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیا، لیکن اگر کوئی قوم نہ چھیڑے تو نبی اس کی طرف جارحانہ طور پر توجہ نہیں کرتا.صرف وعظ ونصیحت سے اس کو مخاطب کرتا ہے.نبی تلوار اس کے خلاف اٹھاتے ہیں جو پہلے ان کے خلاف تلوار اٹھاتے ہیں اور انہی کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو خُدا کے سچے دین کو مٹانے کے لئے جبر اور تعدی سے کام لیتے ہیں.چنانچہ رسول کریم ملی ایم کی زندگی اس پر شاہد ہے اور حضرت سلیمان نے اپنی قوم کو اسی خطرہ سے آگاہ کیا ہے.یہ پیشگوئیاں کسی صورت میں بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتیں.نہ تو مسیح فلسطین کے جنوب میں پیدا ہوائے نہ ہی بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے تھا نہ اُنکو کوئی ایسی طاقت حاصل تھی کہ ان کو چھیڑنے کی وجہ سے بنو اسرائیل تباہ ہوتے.یہ ساری کی ساری پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوسکتی ہیں اور انہی کی خبر غزل الغزلات میں دی گئی ہے.غزل الغزلات در حقیقت رسولکریم صلینی ایام کے عشق کے اظہار میں لکھی گئی ہے.☆ 32
یا نچویں پیشگوئی یسعیاہ نبی نے بھی ایک عظیم الشان نبی کے ظہور کی خبر دی یسعیاہ کی کتاب بھی رسول کریم سایش ایتم کی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عظیم الشان نبی اور آنے والا ہے جو دنیا کے لئے سلامتی اور امن لائے گا.لیکن جیسا کہ سنت الہی ہے پیشگوئیوں میں ایک رنگ اخفاء کا بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ یسعیاہ کی پیشگوئیوں میں بھی یروشلم اور صیہون وغیرہ کے نام آئے ہیں جس کی وجہ سے مسیحی مصنفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ یہ پیشگوئیاں مسیح کے متعلق ہیں.حالانکہ یروشلم یا بنواسرائیل یا صیہون کے الفاظ اپنی ذات میں تو پیشگوئی کا کوئی حصہ نہیں.اگر یہ پیشگوئی کی تفصیلات مسیح پر چسپاں نہیں ہوتیں تو صرف یروشلم اور صیہون کے الفاظ سے کیا دھوکا لگ سکتا ہے.اس صورت میں ہمیں یہی ماننا پڑے گا کہ یروشلم اور صیہون اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے مقدس مقامات اور میری پیاری قوم نہ کہ حقیقی طور پر یروشلم اور صیہون اور بنی اسرائیل.(الف) اس سلسلہ میں سب سے پہلی پیشگوئی میں یسعیاہ باب ۴ سے نقل کرتا ہوں لکھا ہے:.اس دن سات عورتیں ایک مرد کو پکڑ کے کہیں گی کہ ہم اپنی روٹی کھائیں گی اور اپنے کپڑے پہنیں گی.تو ہم سب سے صرف اتنا کر کہ ہم تیرے نام کی کہلاویں تا کہ ہماری شرمندگی مئے.اس دن خداوند کی شان ، شوکت اور حشمت 33
ہوگی اور زمین کا پھل ان کے لئے جو بنی اسرائیل میں سے بچ نکلے لذیذ اور خوشنما ہوگا اور ایسا ہوگا کہ ہر ایک جو صیہون میں چھوٹا ہوا ہوگا اور یروشلم میں باقی رہے گا.بلکہ ہر ایک جس کا نام یروشلم کے زندوں میں لکھا ہوگا مقدس کہلائے گا.“ (آیت ۱ تا ۳) اس پیشگوئی میں اگر صیہون اور یروشلم کو استعارہ قرار دیا جائے تو جو مفہوم اس پیشگوئی کا نکلتا ہے وہ سوائے محمد رسول اللہ ایسی پی ایم کے اور کسی پر صادق نہیں آتا.ان آیتوں میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنے والے موعود کے ساتھ شوکت اور حشمت ہوگی اور اس کو دنیا کی غنیمتیں ملیں گی اور اس کی قوم کے لوگ مقدس کہلائیں گے اور اس کے زمانہ میں کثرت ازدواج کی ضرورت ہوگی.کیا یہ باتیں مسیح اور اس کے حواریوں پر چسپاں ہوتی ہیں؟ کیا مسیح کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا یا محمد رسول اللہ لا یتیم کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا؟ کیا دنیا کی غنیمتیں مسیح اور اس کے حواریوں کوملیں یا محمد رسول اللہ لا یا ایم اور انکےصحا بہ کو ملیں ؟ کیا مسیح کے زمانہ میں کثرت ازدواج کی ضرورت پیش آئی یا محمد رسول اللہ لا الہ سلم کے زمانہ میں اس کی ضرورت پیش آئی ؟ مسیح نے تو کثرت ازدواج کو نا پسند کیا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کثرت ازدواج کومناسب حالات میں جائز بلکہ پسندیدہ کہا ہے.آپ ہی کے زمانہ میں لڑائیاں ہوئیں اور لڑائیوں میں جوان آدمی مارے گئے اور عورتیں یا بیوہ ہوگئیں یا جوان عورتوں کے لئے رشتے میسر نہ آئے.پس آپ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ ایسی صورت میں مردوں کا فرض ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادیاں کریں تا کہ قوم میں بدکاری اور آوارہ گردی پیدا نہ ہو.(ب) یسعیاہ نبی اپنی کتاب کے باب ۵ میں پیشگوئی فرماتے ہیں:.34
وہ قوموں کے لئے دور سے ایک جھنڈا کھڑا کرتا ہے اور انہیں زمین کی اشیاء سے سیٹی بجا کے بلاتا ہے اور دیکھ وے دوڑ کے جلد آتے ہیں.کوئی ان میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے.وے نہیں اونگھتے اور نہیں سوتے.ان کا کمر بند کھلتا نہیں ہے اور نہ ان کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹتا ہے.ان کے تیر تیز ہیں اور ان کی ساری کمانیں کشیدہ ہیں.ان کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھہرتے اور ان کے پہیے گرد باد کی مانند.وے شیرنی کی مانند گر جتے ہیں.ہاں وے جو ان شیروں کی مانند گر جتے ہیں وے غراتے اور شکار پکڑتے اور اسے بے روک ٹوک لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں اور اس دن ان پر ایسا شور مچائیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے اور یہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کی بدیوں سے تاریک ہو جاتی ہے.“ ( آیت ۲۶ تا ۳۰) اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ میں تمام قوموں کے لئے فلسطین سے دور کسی جگہ پر ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اس جھنڈے والا دنیا کی مختلف قوموں کو بلائے گا اور وہ جلدی سے دوڑ کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گی.وہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے اور غفلت اور ستی سے محفوظ ہوں گے.انہیں لڑائیاں کرنی پڑیں گی.ان کے گھوڑوں کے سموں سے آگ نکلے گی اور جب وہ حملہ کرنے کے لئے چلیں گے تو ہوا میں گر داڑے گی.وہ اپنے شکار پر غالب آجائیں گے اور ان کے شکار کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا.وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اس لئے کہ وہ دیکھیں گے کہ زمین میں تاریکی اور 35
ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور لوگ ایک عظیم الشان انقلاب کے محتاج ہیں.یہ پیشگوئی کلی طور پر رسول کریم مالی یہ تم پر نہ صرف چسپاں ہوتی ہے بلکہ قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی موجود ہے.رسول کریم مایا یہ تم اس پیشگوئی کے مطابق فلسطین سے دور یعنی مکہ میں ظاہر ہوئے اور آپ کا جھنڈا مدینہ میں کھڑا کیا گیا.آپ ہی تھے جنہوں نے قرآنی الفاظ میں یہ اعلان کیا يَأْيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جميعًا (الاعراف : ۱۵۹) اے انسانو! میں تمام لوگوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.آپ ہی کی آواز پر چاروں طرف سے لوگ دوڑ نے لگ گئے اور جلد جلد آپ کے گرد جمع ہو گئے.مسیح کی زندگی میں تو ایک شخص بھی غیر قوموں میں سے اس پر ایمان نہیں لایا تھا.اس کے سارے کے سارے حواری چالیس پچاس میل کے حلقہ کے اندر رہنے والے تھے مگر رسول کریم صلی ایتم کی آواز پر یمن کے رہنے والے اور مجد کے رہنے والے یہودیوں میں سے بھی اور ایرانیوں میں سے بھی اور عیسائیوں میں سے بھی ایمان لائے اور آپ کے گرد جمع ہو گئے اور اس پیشگوئی کے مطابق انہوں نے ایسی قربانیاں اور ان تھک کوششیں کیں کہ دشمن سے دشمن بھی ان کی قربانیوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں ان کی نسبت فرمایا ہے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (التوبة: ۱۰۰) انہوں نے ایسی قربانیاں کیں کہ خدا ان سے راضی ہو گیا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے اور پھر قرآن کریم میں ان کا یوں ذکر بھی آتا ہے کہ مِنْهُم مَّنْ قَطَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : (۲۴) کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے عہد پورے کر دیئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو اپنے عہد کے پورا کرنے کے انتظار میں ہیں.پھر ان کو جنگیں بھی پیش آئیں اور تیروں اور کمانوں سے انہوں نے کام لیا.ان کے گھوڑے چقماق 36
کی طرح ہو گئے اور ان کے پیسے گرد باد کی مانند جس کی طرف خود قرآن کریم میں اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَدِیتِ ضَبْحًا فَالْمُوْرِيتِ قَدْحًا فَالْمُغِيرَتِ صُبْحًا فَأَثَرْنَ بِهِ نَفْعًا فَوَسَطنَ بِهِ جَمعا (العادیت : ۲-۶) یعنی ہم قسم کھاتے ہیں ان گھوڑ سواروں کی جو تیزی سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ایسی تیزی سے کہ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے آگ نکلنے لگتی ہے اور ان کے حملہ سے گردوغبار کا ایک طوفان اٹھ پڑتا ہے اور وہ ایسی شان اور طاقت کے ساتھ اپنے دشمن کی صفوں میں گھس کر اسے مغلوب کر لیتے ہیں.کس طرح لفظ بلفظ اس پیشگوئی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے.پھر یہ جو اس پیشگوئی میں کہا ہے کہ :- وہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کی بدلیوں سے تاریک ہو جاتی ہے.“ اسی کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ( روم : ۴۲) تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ کے ایک مامور کے ظاہر ہونے کی ضرورت ہے.اسی طرح فرماتا ہے.قد انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًارّ سُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللَّهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّوْرِ (الطلاق:۱۲،۱۱) یہ خدا کا رسول اس لئے آیا ہے کہ دنیا سب کی سب تاریکی میں پڑی ہے اور وہ اس کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے.(ج) یسعیاہ باب ۸ میں لکھا ہے:.37
وو رب الافواج جو کہے تم اس کی تقدیس کرو اور اس سے ڈرتے رہو اور اس کی ہی دہشت رکھو.وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہوگا.پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام ہووے گا.بہت لوگ ان سے ٹھو کر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے اور دام میں پھنسیں گے اور پکڑے جائیں گے شہادت نامہ بند کر لو اور میرے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کرو.میں بھی خداوند کی راہ دیکھوں گا جواب یعقوب کے گھرانے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اس کا انتظار کروں گا.“ (آیت ۱۳ تا ۱۷) اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک مقدس ظاہر ہوگا.لیکن وہ بنی اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام بنے گا.اگر وہ اس کا مقابلہ کریں گے تو وہ شکست کھا ئیں گے اور پکڑے جائیں گے.اس کے زمانے میں یہودی شریعت ختم کر دی جائے گی اور یعقوب کے گھرانے سے خدا تعالیٰ منہ پھیر لے گا.انجیل نویں اس پیشگوئی کے متعلق خاموش ہیں اور شاید وہ اسرائیل کے دونوں گھرانوں سے وہ دو گھرانے مراد لیتے ہیں جن میں سے ایک نے سلیمان کے بیٹے کا ساتھ دیا تھا اور دوسرے نے ان سے بغاوت کر کے الگ حکومت قائم کر لی تھی.لیکن یہ درست نہیں ہوسکتا.اس پیشگوئی میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا ایک مقدس کھڑا ہوگا اور اس کے زمانہ میں باتیں ہوں گی.یا تو اس مقدس سے مراد مسیح ہے اور یا پھر مسیح کے بعد کوئی اور آنے 38
والا شخص ہے.کیونکہ یسعیاہ اور مسیح کے درمیان کوئی ایسا با عظمت انسان نہیں گذرا جس کے ساتھ بنو اسرائیل نے ٹکر کھائی ہو.صرف حضرت مسیح ہی ایسے تھے جن سے بنو اسرائیل نے ٹکر کھائی.مگر کیا مسیح سے ٹکر کھا کر بنو اسرائیل پکڑے گئے تھے یا ان کے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کر دی گئی؟ مسیح تو صاف کہتا ہے کہ :- یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا 66 ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.(متی باب ۵ آیت ۱۸،۱۷) بلکہ مسیح اپنے بعد کے زمانے کے لئے بھی کہتا ہے کہ :.کیا براتی جب تک کہ دولہا ان کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں.وے جب تک کہ دولہا ان کے ساتھ ہے روزہ نہیں رکھ سکتے.لیکن وے دن آدیں گے جب دولہا ان سے جدا کیا جائے گا ، تب انہی دنوں میں وے روزہ رکھیں گے.“ (مرقس باب ۲ آیت ۲۰،۱۹) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد بھی آپ کے حواریوں پر موسوی تعلیم پر عمل کرنالازم ہوگا.اگر یہ نہ ہوتا تو مسیح یہ کہتا کہ میں نے تو ہمیشہ کے لئے روزے منسوخ کر دئے ہیں مگر وہ خود روزے رکھتا ہے اور اپنے حواریوں کے متعلق خبر دیتا ہے کہ گو آج کل ان میں کمزوری پائی جاتی ہے.لیکن آئندہ زمانہ میں وہ روزے رکھنے لگ جائیں گے.پس شریعت پر مہر کرنے کے یہ معنے نہیں کہ شریعت کو بالکل اڑادیا گیا.بلکہ اس 39
پیشگوئی کے یہی معنے ہیں کہ اس مقدس کے زمانہ میں موسوی شریعت منسوخ کر دی جائے گی اور ایک نئی شریعت قائم کر دی جائے گی اگر یہ نہ ہوتا تو یہ کیوں کہا جاتا کہ یعقوب کے گھرانے سے خدا اپنا منہ پھیر لے گا.کیا مسیح یعقوب کے گھرانے سے نہیں تھا؟ اگر مسیح یعقوب کے گھرانے میں سے نہیں تھا تو وہ داؤد کی نسل میں سے نہیں تھا اور اگر وہ داؤد کی نسل میں سے نہیں تھا تو پھر مسیح کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ان کا بھی وہ مستحق نہیں تھا.(د) یسعیاہ باب ۹ میں لکھا ہے :.”ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے.عجیب ہمشیر،خدائے قادر ، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ، اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی.وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا.اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.رب 66 (آیت ۷،۶) الافواج کی غیوری یہ کرے گی.“ اس پیشگوئی میں ایک موعود کی خبر دی گئی ہے جو بادشاہ ہوگا اور جس کے پانچ نام ہوں گے.(۱) عجیب (۲) مشیر (۳) خدائے قادر (۴) ابدیت کا باپ (۵) سلامتی کا شہزادہ.اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی.اور وہ داؤد کے تخت پر ہمیشہ کے لئے بیٹھے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.اناجیل کے حاشیہ نویسوں نے اس باب کے شروع میں لکھا ہے کہ اس میں مسیح کی پیدائش کی خبر ہے.لیکن ان علامتوں میں سے جو اس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں کوئی ایک بھی تو حضرت مسیح پر صادق نہیں آتی.وہ کب بادشاہ ہوئے.کب ان کو عجیب ،مشیر ، خدائے قادر ، ابدیت کا باپ اور 40
سلامتی کا شہزادہ کہا گیا؟ عجیب تو شاید ان کی پیدائش کے لحاظ سے ان کو کہا بھی جاسکے گو ایسا کہا نہیں گیا.کیونکہ جو انکو نہیں مانتے تھے وہ تو ان کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے.کیا وہ انہیں عجیب نہیں قرار دے سکتے تھے اور جو مانتے تھے وہ ان کی پیدائش کے متعلق مختلف شبہات میں تھے.کوئی انہیں داؤد کی اولا دقرار دیتا تھا اور کوئی روح القدس کی.دوسرا نام مشیر بتایا گیا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کو مشیر ہونے کا کبھی موقعہ نہیں ملا.ساری انجیل میں دیکھ لوکسی ایک جگہ بھی انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ نہیں لیا.اور نہ انہوں نے اپنی قوم کو کوئی مشورہ دیا.پھر وہ مشیر کس طرح کہلائے.تیسرا نام خدائے قادر بتلایا گیا ہے.مسیح تو ساری عمر ابن اللہ کہلاتے رہے.وہ خدائے قادر کس طرح کہلا سکتے تھے اور پھر مسیح تو انا جیل کے بیان کے مطابق پھانسی دے کر مار دیا گیا تھا ایسا انسان قادر کس طرح کہلا سکتا ہے.اناجیل میں صاف آتا ہے کہ جب حضرت مسیح صلیب پر لٹکائے گئے تو یہودیوں نے ان کو طعنہ دیا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اتر آ.چنانچہ لکھا ہے.یو نہیں سردار کاہنوں نے بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹھٹھا مار کے کہا.اس نے اوروں کو بچا یا مگر آپ کو نہیں بچا سکتا.اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پر سے اتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے.“ متی باب ۲۷ آیت ۴۲،۴۰) حتی کہ وہ چور بھی جو حضرت مسیح کے ساتھ صلیب دئے گئے تھے ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی اسے طعنے مارتے تھے.(متی باب ۲۷ آیت ۴۴) پس حضرت مسیح پر یہ حوالہ چسپاں نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کی قدرت نہ کبھی ظاہر ہوئی نہ لوگوں نے اس کی قدرت کا کبھی اقرار کیا.اس کے دشمن بھی اس کی قدرتوں کا انکار کیا کرتے تھے اور اس کے دوست بھی اس کی قدرتوں کے منکر تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو مسیح کے حواری اس کو 41
چھوڑ کر بھاگ کیوں جاتے.جیسا کہ لکھا ہے " تب سب شاگردا سے چھوڑ کر بھاگ گئے.“ (متی باب ۲۶ آیت ۵۶) کیا کبھی کوئی شخص قادر کو بھی چھوڑ اکرتا ہے؟ چوتھا نام ابدیت کا باپ ہے.یہ نام بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہوسکتا.کیونکہ جیسا کہ اوپر ثابت کیا جاچکا ہے وہ خود اپنے بعد ایک مامور کے آنے کی خبر دیتے ہیں.پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ ہے.یہ نام بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ انہیں کبھی بادشاہت نصیب ہی نہیں ہوئی کہ ان کے ذریعہ سے دنیا کو سلامتی ملی ہو وہ تو خود یہود سے دکھ پاتے رہے، آخر پکڑے گئے اور صلیب پر لٹکائے گئے.پس انہیں سلامتی کا شہزادہ کسی صورت میں بھی نہیں کہا جاسکتا.پھر لکھا ہے.اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی.“ یہ بات بھی حضرت مسیح میں نہیں پائی جاتی نہ ان کو سلطنت ملی نہ اس کا اقبال اور سلامتی انہوں نے دیکھی.اسی طرح لکھا ہے.وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت میں آج سے لے کر ابد تک ہندو بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.“ یہ بات بھی حضرت مسیح کو نصیب نہیں ہوئی.یہ سب کی سب علامتیں رسول کریم صلی ہی ہم میں ہی پائی جاتی ہیں.آپ کے کندھے پر سلطنت رکھی گئی اور گو آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ بادشاہ ہوں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئے کہ آپ بادشاہ بننے پر مجبور ہو گئے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیح تو باوجود اس کے کہ ان کے پاس نہ کوئی حکومت تھی نہ طاقت پھر بھی بادشاہ کہلانے کے شوقین تھے جیسا کہ متی باب ۲۱ میں لکھا ہے:.مسیح گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہوا تا کہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو کہ صیہون کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہ پرسوار ہو کر تجھ پاس آتا ہے.“ 42 (آیت ۵،۴)
اسی طرح متی باب ۲۷ آیت ۱۱ میں لکھا ہے :- یسوع حاکم کے رو برو کھڑا تھا اور حاکم نے اس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے اس سے کہا ہاں تو ٹھیک کہتا ہے.“ لوقا باب ۲۳ میں لکھا ہے.” اور ساری جماعت اٹھ کے اسے پیلاطوس کے پاس لے گئی اور اس پر نالش کرنی شروع کی کہ اسے ہم نے قوم کو بہکاتے اور قیصر کو محصول دینے سے منع کرتے اور اپنے تئیں مسیح بادشاہ کہتے پایا.تب پیلاطوس نے اس سے پوچھا، کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اس نے اس کے جواب میں کہا وہی ہے جو تو کہتا ( آیت اتا۶ ) یوحنا باب ۱۸ آیت ۷ ۳ میں لکھا ہے.تب پیلاطوس نے اسے کہا سو کیا تو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ جیسا آپ فرماتے ہیں میں بادشاہ ہوں.“ لیکن رسول کریم صلای بیستم با وجود حکومت اور طاقت حاصل ہونے کے بادشاہ کہلانے سے سخت نفرت رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیصر و کسری والا رنگ ہم میں نہیں ہونا چاہیئے.ان کو جب خدا تعالیٰ اقتدار بخشتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمت خلق کے لئے پیدا کیا ہے.پھر لکھا تھا کہ اس کا نام ”عجیب ہو گا.حضرت مسیح خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عجیب نام پانے والا وہ موعود ہے جو ان کے بعد آئے گا چنانچہ انگورستان کی مثال میں حضرت مسیح کہتے ہیں.ایک مالک نے انگورستان لگایا اور باغبانوں کے حوالے کر دیا.پھر مالک نے 43
نوکروں کو اس کا پھل لانے کے لئے باغبانوں کے پاس بھیجا.مگر باغبانوں نے باری باری تمام نوکروں کو مارا پیٹا یا پتھراؤ کیا.اس کے بعد اور بڑے بڑے نو کر بھیجے گئے مگر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا.پھر اس نے اپنے بیٹے کو بھیجا مگر بیٹے کو بھی انہوں نے مار ڈالا.“ اس کے بعد مسیح نے لوگوں سے سوال کیا کہ وہ باغبان جنہوں نے یہ معاملہ کیا بتاؤ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ؟ لوگوں نے کہا ” ان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم میں میوہ پہنچاویں.یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا یہ خدا کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کو میوہ لا وے دی جائے گی.جواس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا.“ متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۵) اس تمثیل کے بیان کرتے وقت حضرت مسیح نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیٹے کو صلیب دینے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور مامور ظاہر ہوگا جو کونے کا پتھر کہلائے گا اور وہ مسیح اور تمام باقی لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوگا.پس جب مسیح خود کہتا ہے کہ عجیب وہ شخص کہلائے گا جو بیٹے کو صلیب دیئے جانے کے بعد آئے گا.تو یقیناً محمد رسول اللہ صلی سیا سیتم ہی عجیب ہیں جو مسیح کے صلیب پانے کے بعد ظاہر ہوئے.دوسرا نام آنے والے کا مشیر رکھا گیا ہے.یہ نام بھی صرف رسول کریم صلی ا یہ تم پر ہی چسپاں ہوتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جن سے ساری قوم مشورہ لیا کرتی تھی اور جنہوں نے اپنی قوم میں مشورے کا رواج ڈالا اور حکومت کے لئے یہ لازمی قرار دیا کہ وہ 44
باشندگان ملک کے مشورہ سے ہر ایک کام کیا کرے.رسول کریم سالی یتیم کے مشوروں کا ذکر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میں آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَى نَجْوِيكُمْ صَدَقَةٌ ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (المجادلہ : ۱۳) اے مومنو! جب کبھی تم رسول سے مشورہ لیا کرو تو مشورہ لینے سے پہلے غربا اور مساکین میں تقسیم کرنے کے لئے کچھ صدقہ پیش کیا کرو.یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہوگا لیکن اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے.اس صورت میں تم بغیر صدقہ پیش کرنے کے بھی مشورہ لے سکتے ہو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی الہ تم سے لوگ کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے.یہاں تک کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم صلی یا یتیم کا اصل وقت تو تمام بنی نوع انسان کا ہے بعض لوگ اپنی خاص ضرورتوں کے لئے آپ کے وقت کو نسبتاً زیادہ استعمال نہ کرنے لگ جائیں یہ قانون مقرر کر دیا گیا کہ جو شخص آپ سے مشورہ لے وہ غریبوں اور مسکینوں کے لئے کچھ صدقہ کی رقم بھی بیت المال میں ادا کیا کرے.تا کہ آپ کا وقت جو افراد کے کاموں میں لگے اس کا کچھ نہ کچھ ازالہ اس صدقہ کے ذریعہ سے ہو جائے.جس شخص سے لوگ اس کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے کہ اس کے مشورہ کو ایک مستقل ادارہ قرار دے دیا گیا.وہی شخص مشیر کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے.پھر اس لئے بھی آپ مشیر کہلانے کے مستحق ہیں کہ آپ نے حکومت کی بنیاد قومی مشوروں پر رکھی.چنانچہ قرآن کریم میں جو آپ پر نازل ہونے والی وحی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ ( شوری : ۳۹) مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی حکومتی کام نہ کریں جب تک کہ وہ ملک کے 45
نمائندوں سے مشورہ نہ لے لیا کریں.اس کی تشریح میں رسول کریم صلی شی سیستم فرماتے ہیں لا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ لے اسلامی حکومت مشورہ کے بغیر نہیں ہوسکتی.جو حکومت بھی باشندگان ملک کے مشورہ کے بغیر چلائی جائے گی وہ اسلامی نہیں کہلائے گی.مگر اس کے مقابلہ میں نہ مسیح نے کوئی مشورہ دنیا کو دیا نہ مشورہ کی اہمیت پر زور دیا.پس یقینا محمد رسول الله ال ای ایم ہی وہ شخص تھے جو مشیر کہلاتے ہیں.تیسرا نام اس کا ” خدائے قادر “ رکھا ہے.تو رات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے مشابہت حاصل تھی چنانچہ خروج باب ۷ آیت ا میں لکھا ہے ” پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا.اسی طرح خروج باب ۴ آیت ۱۶ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرماتا ہے.تو اس ( یعنی ہارون ) کے لئے خدا کی جگہ ہو گا.جس طرح مسیح بائبل کے محاورہ کے مطابق ابن اللہ کہلانے کے مستحق ہیں اسی طرح بائبل کے لحاظ سے حضرت موسیٰ مظہر خدا تھے.پس جب کبھی خدا کے لفظ سے کسی انسان کی طرف اشارہ کیا جائے گا تو اس سے مراد یا موسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا کوئی مثیل موسیٰ ہوگا اور یہ میں اوپر بتا آیا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی تھی جو ان جیسا ہوگا (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ ) اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تمام علامتیں محمد رسول اللہ صلین اسلام پر صادق آتی ہیں.پس محمد رسول اللہ نہ ہی خدا یا صحیح لفظوں میں یوں کہو کہ خدا کے مظہر کہلانے کے مستحق تھے.چنانچہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ کنز العمال كتاب الخلافة مع الامارة جلد ۵ مسند عمر حدیث ۱۳۶ ۱۴ صفحه ۶۴۸ الطبعة الاولى ۱۹۷۱ ء منشورات مكتبة التراث الاسلامي حلب) 46
رلی (الانفال :۱۸) جب بدر کے موقعہ پر تو نے کنکر اٹھا کر دشمن کی طرف پھینکے تو ان کنکروں کو پھینکنے والا تیرا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خدا کا ہاتھ تھا.اسی طرح آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ (الفتح :(۱) جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں.یعنی تو اللہ تعالیٰ کا مظہر ہے.پس اس پیشگوئی کے مطابق اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو محمد رسول اللہ ا سی ایم ہی کی ذات ہو سکتی ہے.پھر لفظ قادر بھی آپ ہی کی ذات پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے سارے دشمنوں کو زیر کر لیا اور تمام مخالفتوں اور عداوتوں کا سر کچل دیا.چوتھا نام ابدیت کا باپ بتایا گیا ہے.یہ علامت بھی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جنہوں نے یہ دعوی کیا کہ آپ کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ کہ جس آنے والے مسیح کی خبر دی گئی ہے وہ بھی آپ کی امت کا ایک فرد ہوگا کوئی نیا شخص نہیں ہوگا جس کی آمد کی وجہ سے آپ کی بادشاہت میں کوئی فرق یا اختلال واقعہ ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ انْ كُنتُمْ صَدِقِيْنَ قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ (سبا: ۲۹-۳۱) یعنی ہم نے تجھے صرف اس لئے بھیجا ہے تا کہ تمام بنی نوع انسان کو تو اس طرح جمع کرے کہ ان میں سے کوئی طبقہ اور کوئی زمانہ تیری تبلیغ سے باہر نہ رہے اور تو تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر کے طور پر کام دے لیکن اکثر انسان تیری اس حیثیت سے واقف نہیں ہیں.پھر فرماتا ہے دشمن اعتراض کرتے ہیں کہ یہ وعدہ کہ تو سب دنیا کی طرف اور ہمیشہ کے لئے ہے.کس طرح پورا ہوگا.اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل 47
دو.اس کا جواب دیتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ تمہارے لئے ہم ایک مدت مقرر کر چکے ہیں تم نہ اس مدت سے ایک ساعت پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھو گے.یعنی وہ وعدہ عین وقت پر پورا ہو جائے گا.یہ مدت وہی ہے جس کا ذکر سورہ سجدہ میں کیا گیا ہے.سورہ سجدہ میں اللہ فرماتا ہے.يُدَيرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةَ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدہ : ۶) اللہ تعالی اسلام کو دُنیا میں قائم کرے گا.پھر اسلام کا زور رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہوگا اور ایک دن میں جس کی لمبائی ایک ہزار سال کے برابر ہوگی وہ خدا تعالیٰ کی طرف چڑھنا شروع ہوگا اور اس میں کمزوری اور اضمحلال کے آثار پیدا ہو جائیں گے.اسلام کی ترقی کا زمانہ قرآن کریم سے بھی اور احادیث سے بھی تین سو سال کا معلوم ہوتا ہے اس میں ہزار سال شامل کیا جائے تو یہ زمانہ تیرہ سوسال کا ہو جاتا ہے.پس سورہ سجدہ کی آیت کو ملا کر اس آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ رسول کریم صلی ا یتیم کا ہمیشہ کے لئے بشیر و نذیر ہونا اور تمام دنیا کی طرف ہونا تیرہ سوسال کے بعد کلی طور پر ثابت ہو گا.ان آیات میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ تیرہ سو سال پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہوگا اور مسیح موعود آپ کی امت میں سے ہوگا اور چونکہ تمام انبیاء کا وہی آخری موعود ہے.جب وہ آپ کی امت میں سے ہوگا تو اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ قیامت تک آپ کی شریعت قائم رہنے والی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی اور شخص نہیں آئے گا اور چونکہ اس کے زمانہ میں تبلیغ اسلام پر خاص طور پر زور دیا جائے گا اور اسلام دنیا میں پھیل جائے گا.اس لئے یہ امر اور بھی مستحکم ہو جائے گا کہ اسلام کو مٹانے والی کوئی طاقت دنیا میں نہیں.اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اس کے مخاطب ہیں جو آہستہ آہستہ اس میں شامل ہو جائیں گے.پس ابدیت کا باپ محمد رسول اللہ 48
صال الیہ یتیم کے سوا اور کوئی نہیں.پانچواں نام آپ کا سلامتی کا شہزادہ رکھا گیا ہے.چونکہ شہزادہ بمعنی بادشاہ بھی آتا ہے اس لئے ہم اس کے یہ معنی کر سکتے ہیں کہ وہ سلامتی کا بادشاہ ہوگا.یہ پیشنگوئی بھی رسول کریم صلی یا یہ ہم پر ہی چسپاں ہوتی ہے.آپ جس مذہب کے بانی تھے اس کا نام خدا تعالیٰ نے اسلام رکھا تھا یعنی سلامتی.پس سلامتی کے شہزادے کے معنے ہوں گے اسلام کا بادشاہ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اسلام کے بادشاہ محمد رسول اللہ صلی ہی تم ہی ہیں.اسلام آپ ہی کی لائی ہوئی تعلیم کا نام ہے.اسلام کے تمام مسائل آپ ہی کی طرف لوٹتے ہیں اور آپ ہی کے فیصلہ کے مطابق تمام اسلامی عالم میں عمل کیا جاتا ہے.پس آپ تو سلامتی کے شہزادے ہیں.لیکن مسیح سلامتی کا شہزادہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ پھر کسی شخص کو اگر کسی چیز کا شہزادہ کہا جائے تو اس کے ایک یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اس میں کثرت سے پائی جاتی ہے اس کو نہ حکومت ملی نہ اس نے عفو اور رافت سے کام لیا.محض منہ سے کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو.اس میں تو کوئی خاص فضیلت نہیں.عمل اصل چیز ہے اور یہ عمل صرف محمد رسول اللہ سیا ستم ہی کی ذات سے ظاہر ہوا.کیسے کیسے مظالم تھے جو مکہ والوں نے آپ پر اور آپ کی جماعت پر کئے.کتنے خون تھے جو آپ کے رشتے داروں اور آپ کے اتباع کے ان لوگوں نے بہائے.شاید رسول کریم صلی یا یہ ان کا جسم سر سے لے کر پیر تک گواہ تھا ان مظالم کا جو آپ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف روار کھے.کیونکہ کبھی آپ پر سنگ باری کی گئی.کبھی آپ پر تیراندازی کی گئی.کبھی آپ کے جسم کو اور ذرائع سے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی گئی.وطن سے آپ کو بے وطن ہونا پڑا اور آپ کے صحابہ کو بھی.پھر ماؤں نے بچوں کو چھوڑ دیا.49
خاوندوں نے بیویوں کو چھوڑ دیا.بھائیوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیا.اور مسلمان ایک مقہور اور متروک جماعت ہو کر رہ گئے.غریب اور کمزور مردوں کو دواونٹوں سے باندھ کر اور متضاد جہتوں کی طرف چلا کر چیر دیا گیا.عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر انہیں مارا گیا.غلاموں کو ننگا کر کے سخت پتھروں پر سے گھسیٹا گیا.جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر ظالم کو دے اور اصرار کیا کہ تم کہو خدا ایک نہیں بلکہ خدا کے شریک بت بھی ہیں.جنگ میں مسلمان شہداء کی لاشیں چیر کر ان کے جگر اور دل نکال کر باہر پھینک دئے گئے.ان کے ناک اور کان کاٹ دئے گئے.غرض زندوں اور مُردوں، مردوں اور عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں ہر ایک کو دکھ دیا گیا.ہر ایک کی تذلیل کی گئی.ہر ایک کے ساتھ خلاف انسانیت مظالم کا ارتکاب کیا گیا.یہ سب کچھ ہوا مگر جب خدا تعالیٰ کی نصرت نے آخر مسلمانوں کو فتح دی اور رسول کریم ملانیا پی ایم ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے دشمنوں کے سامنے صرف یہ اعلان کیا کہ لا تَثْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ آج جب ہمیں خدا نے قوت اور طاقت دی ہے ہم اعلان کرتے ہیں کہ مکہ کے تمام لوگوں کو معاف کیا جاتا ہے اور ان کے مظالم کی انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی.یہی نہیں کہ ان کو سزا نہیں دی گئی.بلکہ ان کے جذبات کا اتنا احترام کیا گیا کہ جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لئے بڑھ رہا تھا ایک اسلامی جرنیل نے یہ کہہ دیا آج ہم زور سے مکہ میں داخل ہوں گے اور ان مظالم کا بدلہ لیں گے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ سایہ تم اور ان کے صحابہ پر کئے تھے.اس پر آپ نے اس جرنیل کو معزول کر دیا اور فرمایا ان باتوں سے مکہ والوں کی دل شکنی ہوتی ہے.کیا مسیح کی زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ ہے.کیا مسیح کے حواریوں کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ کیا ساری مسیحی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ 50
ہے؟ عیسائی بھی شروع میں مظلوم تھے.عیسائی بھی شروع میں مغلوب تھے.مگر جب انہیں حکومت ملی کیا انہوں نے اپنے دشمنوں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کیا؟ روما کی تاریخ نکال کر دیکھو اس کے اوراق ان مظالم کی یاد سے سرخ ہورہے ہیں جو عیسائیوں نے فتح اور غلبہ کے وقت اپنے دشمنوں کے اوپر ڈھائے.پھر مسیح سلامتی کا شہزادہ کس طرح ہوا؟ اسے تو کسی کو سلامتی دینے کی توفیق ہی نہیں ملی.جب اس کے اتباع کو توفیق ملی تو انہوں نے سلامتی نہیں دی.انہوں نے ہلاکت دی.انہوں نے تباہی دی.انہوں نے بربادی دی.مگر محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم کو خود اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ نے فتح اور غلبہ بخشا اور آپ نے ان وسیع مظالم کے باوجود جن کے مقابلہ میں وہ مظالم جو یہود نے مسیح پر کئے تھے بالکل زرد اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں.رحم و عفو اور چشم پوشی سے کام لیا.پس آپ ہی سلامتی کے شہزادے تھے اور آپ ہی یسعیاہ کی پیشگوئی کے مصداق تھے.ساتویں علامت اس موعود کی دیکھی ہے کہ اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی.میں بتا چکا ہوں کہ مسیح کو تو حکومت ملی ہی نہیں.محمد رسول اللہ لا یہ ہی تھے جن کو حکومت ملی اور جن کے صحابہ کی زندگیوں میں ہی ساری دنیا پر اسلام قابض ہو گیا اور اس انصاف کے ساتھ انہوں نے حکومت کی کہ نہیں کہہ سکتے ان کا اقبال بڑا تھا یا ان کی سلامتی بڑی تھی.آٹھویں علامت دیکھی ہے کہ وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بند و بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.مسیح داؤد کے تخت پر کب بیٹھے تھے؟ شاید کہا جائے کہ ان کی بعثت کے تین سو سال کے بعد جب رومن حکومت عیسائیت میں داخل ہوگئی تو مسیح کو داؤد کے تخت پر حکومت مل گئی.لیکن یہ معنے درست نہیں 51
ہو سکتے کیونکہ وہاں تو لکھا ہے کہ اسے وہ حکومت ابد تک ملے گی.لیکن مسیح کی حکومت تو محمد رسل الله سایما ایلم کے زمانہ میں ختم ہوگئی اور مسلمانوں کا قبضہ اس ملک پر ہو گیا.چنانچہ تیرہ سو سال سے مسلمان اس ملک پر قابض ہیں.کیا تین سوسال کی حکومت ابد کہلائے گی یا تیرہ سو سال والی حکومت ابد کہلائے گی؟ یہ صاف بات ہے کہ تیرہ سوسال والی حکومت ہی ابد کہلائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت انگریزی حکومت جو عیسائی حکومت ہے اس ملک پر قابض ہے.لیکن خدا کی قدرت ہے کہ انگریزوں کو اس ملک پر بادشاہ ہونے کے لحاظ سے حکومت حاصل نہیں بلکہ منڈ یٹری پاور Mandatory Power) ہونے کے لحاظ سے تصرف حاصل ہے اور عارضی طور پر تھوڑی مدت کے لئے کسی کا درمیان میں آجانا یہ پیشگوئی کے خلاف ہوتا بھی نہیں.محمد رسول اللہ صلی سایتم کی بادشاہت کیسی عدالت اور انصاف والی تھی.اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عارضی طور پر اسلامی لشکر رومی لشکر کی کثرت اور اس کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹا اور مسلمانوں نے بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے علاقوں والوں کو بلا کر ان کے ٹیکس یہ کہتے ہوئے واپس کئے کہ ٹیکس امن اور حفاظت کی غرض سے ہوتے ہیں.چونکہ ہم لوگ اس ملک کو اب چھوڑ رہے ہیں اور ہم آپ کو نہ امن دے سکتے ہیں نہ آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں اس لئے آپ کا روپیہ آپ کو واپس کیا جاتا ہے ہمارا اس روپیہ پر کوئی حق نہیں.تو تاریخیں بتاتی ہیں کہ اس بات کو سن کر یروشلم کے باشندے ایسے متاثر ہوئے کہ باوجود اس کے کہ ان کے ہم مذہبوں کی فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں اور ان کے مذہب کے مخالف لوگ ان کے ملک کو خالی کر رہے تھے.یروشلم کے باشندے روتے ہوئے شہر سے باہر اسلامی لشکر کو چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ دعائیں کرتے جاتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو جلد واپس لائے کہ ہم نے آپ 52
جیسا انصاف اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا.اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا اس بات کا کہ وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک ہندو بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.“ (ہ) اسی طرح لکھا ہے اور خداوند اپنے تئیں مصریوں پر ظاہر کرے گا اور اس دن مصری خداوند کو پہچانیں گے اور ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے.ہاں وے خداوند کے لئے منتیں مانیں گے اور ادا کریں گے خداوند تو مصریوں کو بہت دن تک مارا کرے گا لیکن وہ انہیں چنگا بھی کرے گا اور دے خداوند کی طرف رجوع ہوں گے اور وہ ان کی دعا سنے گا اور ا نہیں صحت بخشے گا.اس روز سے مصر سے اسور تک ایک شاہ راہ ہوگی اور اسواری مصر میں آویں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسوریوں کے ساتھ مل کے عبادت کریں گے اور اس روز اسرائیل مصر اور اسور کا ثالث ہوگا اور زمین کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا کہ رب الافواج اسے برکت بخشے گا اور فرماوے گا.مبارک ہو مصر میری امت.اسور میرے ہاتھ کی صفت اور اسرائیل میری میراث.“ 66 (یسعیاہ باب ۱۹ آیت ۲۱-۲۵) اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو مصریوں پر ظاہر کرے گا اور مصری خدا تعالیٰ کو پہچانیں گے اور وہ ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے اور مصر اور شام کو آپس میں ملا دیا جائے گا.شامی مصر میں آئیں گے اور مصری شام میں جائیں گے اور مصری شامیوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے.یہ پیشگوئی بھی بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ لیم کے ذریعہ سے پوری ہوئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مصری عیسائی ہو گئے تھے.لیکن وہ نہایت ہی قلیل عرصہ تھا.اس کے بعد تیرہ سو سال سے مصر مسلمان چلا 53
آتا ہے.یسعیاہ کی زبان سے خدا کہتا ہے ”مبارک ہو مصر میری امت.“ مصریوں سے پوچھو کہ وہ کس کی امت ہیں.آیا محمد رسول اللہ لینی ایام کی یا مسیح کی.پھر لکھا ہے ”مبارک ہو اسور میرے ہاتھ کی صفت.“ اسوریوں سے بھی پوچھو کہ وہ کس کی امت ہیں.آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں یا مسیح کی امت.پھر لکھا ہے ”مبارک ہواسرائیل میری میراث “ ان علاقوں میں جا کر دیکھ لو اسرائیل کا علاقہ فلسطین کس کی میراث ہے.اس وقت زور دے کر وہاں یہود کو داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر یہودی توسیح کی امت نہیں.اس پیشگوئی کو تو مسیح پر چسپاں کیا جارہا ہے اور مسیحی اب بھی وہاں قلیل ہیں اور مسلمان اب بھی زیادہ ہیں.اگر یہودی اس ملک پر قابض بھی ہو گئے تو یہ کہا جائے گا کہ عارضی طور پر مسلمانوں کے غلبہ میں اختلال واقع ہو گیا، مسیح کو تو پھر بھی کچھ فائدہ نہیں ہونے کا.خواہ مسلمان فلسطین پر حاکم رہیں خواہ یہودی مسیح کا دامن تو خالی ہی رہتا ہے اور وہ اس پیشگوئی کا مستحق کسی صورت میں بھی نہیں ہوتا.پھر اس پیشگوئی میں لکھا تھا کہ اسور اور مصر تک ایک شاہراہ ہوگی.یعنی یہ ملک آپس میں مل جائیں گے.اسوری مصر میں آئیں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے.کیا یہ مسیح کے ذریعہ سے ہوا؟ عیسائی بے شک مصر پر قابض ہوئے اور اسور پر بھی قابض ہوئے اور ان ملکوں کی کثرت ایک وقت میں عیسائی بھی ہوگئی.لیکن کیا کبھی بھی وہ زمانہ آیا ہے جب مذکورہ بالا آیتوں کا مضمون مصر اور اسور کی حالت پر صادق آیا ہو؟ ان آیتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ملکوں کی قومیت ایک ہو جائے گی اور ان کی زبان ایک ہو جائے گی مل کر عبادت کرنے کے بھی یہی معنی ہیں اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کا بھی یہی مطلب ہے.ورنہ ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک میں آیا جایا ہی کرتے ہیں.پیشگوئی کا 54
مفہوم یہی ہے کہ وہ اتنے متحد ہو جائیں گے کہ ان کی ایک قوم ہو جائے گی.مگر دنیا جانتی ہے کہ عیسائی حکومت کے زمانہ میں کبھی بھی مصر اور اسور ایک نہیں ہوئے.روم کے ماتحت بے شک یہ دونوں ملک تھے لیکن ہمیشہ مصر کا انتظام اور رنگ کا رہا اور اسور کا انتظام اور رنگ کا رہا.مصر میں ایک نیم آزاد بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اسور میں ایک گورنر رہتا تھا.بلکہ مصر کا کلیسیا اسور کے کلیسیا سے بالکل مختلف تھا.مصر میں عیسائیت نے اسکندریہ کے گر جا کے ماتحت ایک نئی شکل اختیار کر لی تھی اور وہ فلسطین اور شامی گرجا کی شکل سے بالکل مختلف تھی.پھر مصریوں کی عبادت قبطی زبان میں ہوتی تھی اور شامیوں کی عبادت بگڑی ہوئی مخلوط عبرانی اور یونانی زبان میں.ہاں اسلامی زمانہ میں یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی.صدیوں تک شام اور مصر ایک حکومت رہے دونوں ملکوں کی زبان ایک ہوگئی اور اب تک ایک ہے.جس کی وجہ سے دونوں کی عبادت اکٹھی ہوتی تھی اور اکٹھی ہوتی ہے.دونوں ملکوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا ہو گیا.شامی علماء مصر میں جاتے تھے.اور مصری علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے اور مصری علماء شام میں آتے تھے اور وہ شامی علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے.اس زمانہ میں بھی کہ یورپین سیاست نے اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے عرب لیگ میں مصر، شام اور فلسطین دوش بدوش مل کر کام کر رہے ہیں.پس یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ ملا تھا یہی تم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلیش ایستم اور ان کی قوم کے متعلق ہی تھی مسیح اور کلیسیا کی طرف اس کو منسوب کر نا صریح ظلم ہے.(و) پھر یسعیاہ میں لکھا ہے.” تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا منہ تجھے رکھ دے گا.‘ ( باب ۶۲ آیت ۲) اسی طرح یسعیاہ باب ۶۵ میں لکھا ہے اور تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر لعنت کا باعث ہوگا کیونکہ خداوند یہوداہ تم کو قتل کرے 55
گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بلائے گا." ( آیت (۱۵) اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ ایک نیا سلسلہ ایک نئے نام سے جاری کیا جائے گا اور اس نئے نام کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ نیا نام اس سلسلہ کے لوگ خود نہیں رکھیں گے بلکہ خدا تعالیٰ اپنے منہ سے ان کا وہ نام تجویز کرے گا.اس پیشگوئی کو بھی بائبل نویسوں نے کلیسیا پر لگایا ہے حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا.ہاں اپنے طور پر مختلف مسیحی فرقوں نے اپنے اپنے نام رکھ لئے ہیں.ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نام ملا ہے اور وہ مسلمان ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ سَلَمكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا ( الج: ۷۹) خدا تعالیٰ نے ہی تم لوگوں کا نام مسلمان رکھا ہے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی اور اب اس قرآن کریم کے ذریعہ سے بھی.دیکھو کس طرح یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی طرف صاف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ہم تمہارا نام خود رکھیں گے.چنانچہ اب ہم نے خود سلامتی کے شہزادہ کی پیشگوئی کے مطابق تمہارا نام مسلم رکھا ہے.یہ پیشگوئی نہایت ہی عجیب اور لطیف ہے.تمام دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ اس کی جماعت کا نام الہامی طور پر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے لیکن یسعیاہ کہتا ہے کہ پہلے دستوروں کے خلاف ایک نبی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کا نام خاص الہام سے رکھے گا.چنانچہ محمد رسول اللہ صلیہ السلام اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میری امت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اسلام رکھا ہے.56
چھٹی پیشگوئی دانیال نبی کی کتاب کے دوسرے باب میں ایک خواب لکھی ہے جو بنو کد نضر بادشاہ نے دیکھی تھی.لیکن وہ اسے دیکھنے کے بعد بھول گیا.تب اس نے اپنے وقت کے حکیموں سے خواب اور اس کی تعبیر دریافت کی.باقی لوگ تو نہ بتا سکے.دانیال نے خدا تعالیٰ سے دعا کر کے وہ خواب معلوم کر لی اور بادشاہ کے سامنے بیان کی وہ خواب ی تھی :- تو نے اے بادشاہ نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی.وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی.اس مورت کا سر خالص سونے کا تھا.اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کے.اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں.اس کی ٹانگیں لوہے کی.اور اس کے پاؤں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا.یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شکل کے پاؤں پر جولو ہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا.تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑا لے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا.“ دانی ایل باب ۲ آیت ۳۱ تا ۳۵) 57
اس کی تعبیر دانیال نبی نے جو کی وہ یہ ہے:.تو اے بادشاہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے.اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دئے اور تجھے ان سبوں کا حاکم کیا.تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت بر پا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہوگی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہوگی اور جس طرح کہ لوہا تو ڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.اس ہی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تو نے دیکھا کہ اس کے پاؤں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی مائی کی اور کچھ لوہے کی تھیں تو اس سلطنت میں تفرقہ ہوگا.مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلاوے سے ملا ہوا تھا.سولو ہے کی توانائی اس میں ہوگی اور جیسا کہ پاؤں کی انگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ مائی کی تھیں.سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہوگی اور جیسا کہ تو نے دیکھا کہ لوہا گلا وے سے ملا ہوا ہے.وے اپنے کو انسان کی نسل سے ملاویں گے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھاویں گے.اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت بر پا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہووے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی وہ ان سب مملکتوں کو ٹکڑے 58
ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی.جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سے آپ نکلا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکرے کیا.خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی ہے.“ دانی ایل باب ۲ آیت ۳۷ تا ۴۵) اس تعبیر میں خود حضرت دانیال نے سونے کے سر سے بابل کا بادشاہ مراد لیا ہے چاندی کے سینہ اور چاندی کے بازو سے مراد فارس اور مادہ کی حکومت تھی جو بابل کی بادشاہت کے بعد آئی.تانبے کی رانوں سے مراد سکندر کی حکومت تھی جو اس کے بعد دنیا پر غالب ہوا اور لوہے کی ٹانگوں سے مراد روما کی حکومت تھی جو ایرانی حکومت کے تنزل کے وقت دنیا میں طاقتور ہوئی.اس آخری حکومت کے متعلق لکھا ہے اس کے پاؤں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے.جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ حکومت ایشیا سے یورپ میں پھیل جائے گی.لوہے کی ٹانگوں سے مراد یوروپین حکومت ہے کہ وہ بوجہ ایک قوم اور ایک مذہب ہونے کے زیادہ مضبوط تھی.لیکن پاؤں مٹی اور لوہے کے مشترک بنے ہوئے تھے لیکن وہ یوروپین قوم بعض مشرقی اقوام کو فتح کر کے ایک شہنشاہیت کی صورت اختیار کرلے گی اور جیسا کہ شہنشاہیتوں کا قاعدہ ہے وہ اپنی وسعت اور سامانوں کی فراہمی کے لحاظ سے قوی ہوتی ہیں لیکن غیر قوموں کے اشتراک کی وجہ سے ان میں ضعف بھی پیدا ہو جاتا ہے.وہ حکومت اپنے آخری زمانہ میں بوجہ غیر قوموں کی شمولیت کے کمزوری کی طرف مائل ہو جائے گی.اس کے بعد لکھا ہے ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے 59
کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شخص کے پاؤں پر جو لو ہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا تب لو ہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سوناٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑالے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا.اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا.ان الفاظ میں محمد رسول اللہ ایسا ہی ہم اور آپ کے اتباع کی خبر دی گئی ہے.آپ کی جماعت کا ٹکراؤ پہلے قیصر روما سے اور پھر ایران کی حکومت سے ہوا اور جب قیصر روما سے آپ کی جماعت کا ٹکراؤ ہوا اس وقت وہ سکندر کی وراثت پر بھی قابض تھا اور روما کی وراثت کا بھی وارث تھا اور جب آپ کا ٹکراؤ ایرانی حکومت سے ہوا تو وہ بابل اور فارس اور مید یا دونوں حکومتوں کی قائمقام تھی.جب آپ کے صحابہ سے ٹکرانے کی وجہ سے یہ دونوں حکومتیں تباہ ہوئیں تو دانیال کے قول کے مطابق لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہو گئے.خواب کی ترتیب اور دانیال کی کی ہوئی تعبیر دونوں ہی اس مضمون کی تائید کرتی ہیں.اس میں کیا شبہ ہے کہ بابل کی جگہ فارس اور میدیا نے لی اور فارس اور میدیا کا زور سکندر نے توڑا اور سکندر کی حکومت کو رومی حکومت کھا گئی.جس نے اپنے مشرقی مرکز میں بیٹھ کر ایک زبر دست یوروپین ایشیائی شہنشاہیت قائم کی.اس شہنشاہیت کو رسول کریم مالی ایام اور آپ کے صحابہ نے ہی تو ڑا.رسول کریم صلی یہ تم خود ایک لشکر لے کر قیصر کی سرحدوں کی طرف تشریف لے گئے تھے.لیکن یہ معلوم کر کے کہ قیصر کی فوجوں کی عرب پر حملہ آور ہونے کی خبر قبل از وقت تھی واپس تشریف لے آئے مگر اس کے بعد رومی حکومت کی سرحدوں سے برابر چھیڑ چھاڑ جاری رہی.جس کے نتیجہ میں خود رسول کریم سایا ہی تم نے 60
ایک لشکر تیار کر کے اس طرف بھجوایا اور آخر حضرت ابوبکر کے زمانے میں رومیوں اور مسلمانوں میں باقاعدہ لڑائی چھڑ گئی اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران اس لڑائی میں شامل ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی دونوں حکومتیں تباہ اور برباد ہوگئیں اور دور سر حدوں پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن کر رہ گئیں.اس پتھر کے متعلق یسعیاہ اور متی میں بھی خبریں دی گئی ہیں.چنانچہ یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۴ میں ایک آنے والے موعود کے متعلق لکھا ہے:.وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہوگا پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان پھر آیت ۱۵ میں لکھا ہے ”بہت لوگ ان سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے.اور متی باب ۲۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موعود جسے پتھر کہا گیا ہے.میسج نہیں.بلکہ مسیح کے بعد آنے والا دوسرا شخص ہے.اور آیت ۴۴ میں اس کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ ”جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا.“ اسی طرح زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں لکھا ہے.” وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا.متی باب ۲۱ میں بھی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا.اور لکھا ہے یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا.( آیت (۴۲) جیسا کہ بتایا جا چکا ہے.اس پیشگوئی کے متعلق خود حضرت مسیح کا فیصلہ ہے کہ یہ پیشگوئی ان پر صادق نہیں آتی بلکہ اس وجود پر صادق آتی ہے جو بیٹے کے صلیب پر لٹکا دینے کے بعد ظاہر ہوگا.عیسائی لوگ اپنی خوش فہمی سے اس سے مراد کلیسیا لیتے ہیں حالانکہ کلیسیا اس پیشگوئی سے مراد ہو ہی نہیں 61
سکتا.کیونکہ دانیال نبی کی خواب رومی حکومت کو جو کلیسیا کی نمائندہ تھی تانبے کی رانیں اور لوہے کے پاؤں قرار دیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پتھر بت کے پاؤں پر گرے گا یعنی مشرقی رومی حکومت کے آخری حصہ سے اس کا ٹکراؤ ہوگا اور وہ رومی حکومت یعنی کلیسیا کی نمائندہ حکومت کو توڑ دے گا.پس اس پیشگوئی سے مراد کلیسیا کسی صورت میں ہو ہی نہیں سکتا.مسیح تو مشرقی رومی حکومت سے پہلے آیا تھا اور کلیسیا نے رومی حکومت کو کیوں توڑنا تھا.رومی حکومت تو اس کی نمائندہ تھی.جس نے رومی حکومت کو تو ڑا وہی اس پتھر والی پیشگوئی کا موعود تھا.پس یہ پیشگوئی رسول کریم صلی یا یتیم اور آپ کے اتباع کے سوا اور کسی کے ذریعہ سے پوری نہیں ہوئی پھر جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ پتھر تمام دنیا پر پھیل جائے گا اور پہاڑ کی طرح بن جائے گا ویسا ہی ہوا.جب رسول کریم ا الیہ نام کے صحابہ نے قیصر و کسری کو شکست دی تو تمام دنیا پر اسلامی حکومت پھیل گئی اور وہ چھوٹا سا پتھر ایک پہاڑ بن کر دنیا پر چھا گیا اور ایک ہزار سال تک دنیا کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا.62
جھیل کی پیشگوئیاں انگورستان کی تمثیل کی پیشگوئی (الف) متی باب ۲۱ میں حضرت مسیح فرماتے ہیں:.یہ ایک اور تمثیل سنو.ایک گھر کا مالک تھا.جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف اوندھا اور اس کے بیچ میں کھود کے کولہو گا ڑا.اور برج بنایا اور باغبانوں کو سونپ کر آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا.اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس بھیجا کہ اس کا پھل لائیں.پر ان باغبانوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کو پیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھراؤ کیا.پھر اس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا.انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اس نے اپنے بیٹے کو یہ کہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دیں گے.لیکن باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا.آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آؤ اسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے.اور اسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا.جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.وے اسے بولے ان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم پر میوہ پہنچا دیں.یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں 63
میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لاوے دی جائیگی.جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا.جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا.جب سردار کا ہنوں اور فریسیوں نے اس کی یہ تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے ، کہ ہمارے ہی حق میں کہتا ہے اور انہوں نے چاہا کہ اسے پکڑ لیں پر عوام سے ڈرے کیونکہ وے اسے نبی جانتے تھے.(آیت ۳۳ تا ۴۶) اس پیشگوئی کا پہلے بھی اشارتاً ذکر آتا رہا ہے.یہ تمثیل جو حضرت مسیح نے بیان فرمائی ہے اس میں آپ نے انبیاء کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک تمثیلاً دہرادی ہے.جیسا کہ خود انجیل کی عبارت سے ظاہر ہے.تاکستان سے مراد دنیا ہے.باغبانوں سے مراد بنی نوع انسان ہیں اور مالک کے ٹیکس سے مراد نیکی اور تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے.ملازموں سے مراد اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں جو یکے بعد دیگرے دنیا میں آتے رہے.خدا کے بیٹے سے مراد خود مسیح ہیں جو انبیاء کے ایک لمبے سلسلے کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئے مگر باغبانوں نے ان کو صلیب پر لٹکا دیا اور ان کے پیغام کی طرف توجہ نہ کی.اس کے بعد لکھا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ظاہر ہو گا جسے راجگیروں نے ناپسند کیا.یعنی اسمعیل کی اولا د جن کو بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے ان میں ایک نبی ظاہر ہوگا اور اسی کو خاتم النبین ہونے کا فخر حاصل ہوگا.اس کے ذریعہ سے تمام شریعتوں کو ختم کر دیا جائے گا اور وہ آخری شریعت لانے والا ہوگا.بنواسرائیل کو یہ بات 64
ہر عجیب معلوم ہوگی.مگر جیسا کہ حضرت مسیح کہتے ہیں.باوجود بنو اسرائیل کے ناپسند کرنے کے خدا اس اسمعیلی نبی کو بادشاہت دے گا اور خدا کی بادشاہت بنواسرائیل سے لے لی جائے گی اور اس کی جگہ پر اس دوسری قوم کے سپرد یہ باغ کردیا جائے گا.یعنی امت محمدیہ کے جو اس کے میوے لاتی رہے گی.یعنی خدا کی عبادت کو دنیا میں قائم رکھے گی.ہر شخص جو انصاف کے ساتھ غور کرنے کا عادی ہو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح کے بعد ظاہر ہونے والے مدعیوں میں سے کوئی بھی سوائے رسول کریم صلی ا یتیم کے اس پیشگوئی کا مستحق نہیں ہو سکتا.آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکرائی اور پاش پاش ہوگئی.وہ کون تھا جو اس قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جسے بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے.وہ کون تھا کہ جس پر وہ گرا اسے اس نے چور چور کر دیا اور جو اس پر گرا وہ بھی چور چور ہو گیا.یقینا رسول کریم صلی یا یتیم کے سوا اس پیشگوئی کا مصداق اور کوئی نہیں.(ب) متی باب ۲۳ آیت ۳۸ ،۳۹ میں لکھا ہے.دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح اپنی قوم سے عنقریب جدا ہونے والے ہیں اور ان کی قوم پھر انہیں نہ دیکھ سکے گی.جب تک وہ یہ نہ کہے گی کہ مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر آتا ہے.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح کے چلے جانے کے بعد دو الہی مظہر ظاہر ہونے والے ہیں.ایک الہی ظہور مسیح کے غائب ہو جانے کے بعد ہوگا اور وہ خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا.اس ظہور کے بعد دوبارہ مسیح ظاہر ہوگا.لیکن جب تک خدا تعالیٰ کے نام پر ظاہر 65
ہونے والا مظہر پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک مسیح دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا.اور لوگ اسے نہیں دیکھ سکتے.میں پہلے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والے مظہر سے مراد مثیل موسیٰ ہے اور محمد رسول اللہ صلی ای میل موسیٰ تھے.واقعاتی شہادت کی رو سے بھی اور خود مسیح کی شہادت کی رو سے بھی.پس ” مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے" سے مراد رسول کریم صلی یا یہ تم کی بعثت ہے اور اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے کہ مسیح روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں بلکہ آخری نقطہ وہ ہے جو خداوند کے نام پر آئے گا.اگر یہ کہا جائے کہ خداوند کے نام پر آنے والے مظہر کے بعد پھر مسیح نے دوبارہ آنا ہے، اس لئے مسیح ہی روحانیت کا آخری نقطہ قرار پائے گا.تو اس کا جواب خود حضرت مسیح نے ہی دے دیا ہے.وہ فرماتے ہیں.اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.یعنی مسیح کو دوبارہ دیکھنا اسی کے لئے ممکن ہو گا جو مثیل موسیٰ پر ایمان لا چکا ہو گا.مثیل موسیٰ کا منکر مسیح کو نہیں دیکھ سکے گا یعنی اس کو پہچان نہیں سکے گا.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اپنی دوبارہ آمد کے وقت مثیل موسیٰ کے اتباع میں سے ہوگا.پس وہی شخص مسیح پر ایمان لائے گا جو پہلے اس کے متبوع پر ایمان لا چکا ہو گا.پس آنے والا مسیح کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ مثیل موسیٰ کا ہی ظل اور اس کا بروز ہے.اس لئے روحانی منازل کا آخری ارتقائی نقطہ مثیل موسیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں.( ج ) انجیل میں لکھا ہے کہ یوحنا کے پاس لوگ آئے اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ مسیح ہے؟ تو اس نے کہا میں مسیح نہیں ہوں.تب انہوں نے اس سے پوچھا تو اور کون.کیا تو الیاس ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں.پھر انہوں نے اس سے پوچھا.آیا تو وہ 66
نبی ہے اس نے جواب دیا نہیں.( یوحنا بابا آیت ۲۰-۲۱) پھر آگے چل کر لکھا ہے ”انہوں نے اس سے سوال کیا اور کہا کہ اگر تو نہ مسیح ہے اور نہ الیاس اور نہ وہ نبی.پس کیوں بپتسمہ دیتا ہے.( آیت (۲۵) ان آیات سے ظاہر ہے کہ مسیح کے وقت یہود میں تین بشارتیں مشہور تھیں.اول - الیاس دوبارہ دنیا میں آنے والا ہے.دوم مسیح پیدا ہونے والا ہے.سوم.وہ نبی یعنی موسیٰ کا موعود نبی آنے والا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین وجود الگ الگ سمجھے جاتے تھے.الیاس الگ وجود تھا.صحیح الگ وجود تھا اور وہ نبی الگ وجود تھا.حضرت مسیح فرما چکے ہیں کہ یوحنا الیاس ہے.چنانچہ فرماتے ہیں الیاس جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو.“ (متی باب ۱۱ آیت ۱۴) اور لوقا باب ۱ آیت ۱۷ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت یوحنا کی پیدائش سے پہلے ان کے والد حضرت ذکریا کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.وہ اس سے آگے الیاس کی طبیعت اور قوت کے ساتھ چلے گا.پھر مرقس باب ۹ آیت ۱۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا ” میں تم سے کہتا ہوں الیاس تو آچکا.پھر متی باب ۱۷ آیت ۱۲ میں لکھا ہے پر میں تم سے کہتا ہوں کہ الیاس تو آپکا لیکن انہوں نے اس کو نہیں پہچانا.بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا.“ ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس سے مراد ا نا جیل کی تعلیم کے مطابق یوحنا تھے.مسیح کے متعلق تو فیصلہ ہی ہے کہ عہد نامہ جدید والا نبی یسوع ابن مریم ہی مسیح کے نام سے خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہوا.اب رہ گیا.” وہ نبی“ نہ یوحنا وہ نبی ہوسکتا ہے نہ مسیح وہ نبی ہوسکتا ہے.کیونکہ وہ نبی ایک علیحدہ وجود ہے.پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ نبی مسیح کے زمانہ تک نہیں آیا تھا.پس معلوم ہوا کہ وہ موعود جسے بائبل ” وہ 67
نبی“ کے نام سے یاد کرتی تھی اناجیل کی گواہی کے مطابق مسیح ناصری کے بعد نازل ہونے والا تھا اور مسیح ناصری کے بعد سوائے محمد رسول اللہ ا سی ایم کے کوئی شخص نہیں جس نے وہ نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور جس پر وہ تمام علامتیں صادق آتی ہوں جو وہ نبی“ " میں پائی جانے والی تھیں جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے.(د) اسی طرح لوقا میں لکھا ہے.” اور دیکھو میں اپنے باپ کے اس موعود کو تم پر بھیجتا ہوں لیکن جب تک عالم بالا کی قوت سے ملبس نہ ہوں یروشلم میں ٹھہر و “ (باب ۲۴ آیت (۴۹) اس پیشگوئی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بعد ایک موعود ظاہر ہونے والا تھا مگر وہ کون موعود ہے سوائے رسول کریم مانا ہی نہم کے آج تک کوئی شخص بھی تو اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا مدعی نہیں ہوا.(ھ) یوحنا میں لکھا ہے لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح قدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا.وہی تمہیں سب چیزیں سکھلا دے گا اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے تمہیں کہی ہیں تمہیں یاد دلا دے گا.“ ( باب ۱۴ آیت ۲۶ ) یہ پیشگوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اسلام کے کسی پر صادق نہیں آتی.بیشک اس میں یہ لکھا ہے کہ باپ میرے نام سے اسے بھیجے گا.لیکن نام سے بھیجنے کے یہی معنی ہیں کہ وہ میری تصدیق کرے گا.چنانچہ رسول کریم صلی نا ہی ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تصدیق کی اور آپ کو راستباز قرار دیا اور اعلان فرمایا کہ جولوگ آپ کو لعنتی کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.مسیح خدا کا برگزیدہ اور اس کا رسول ہے.اس جگہ پر یہ صاف لکھا گیا ہے کہ وہی تمہیں سب چیزیں سکھلا دے گا.“ اور استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا ( آیت (۱۸) پس اس پیشگوئی میں استثناء باب 68
۱۸ والے نبی ہی کی خبر دی گئی ہے اور یہ پیشگوئی رسول کریم صلی ایتم پر ہی صادق آتی ہے جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے اور آپ ہی کا وجود دنیا کو تسلی دینے والا تھا.( و) یوحنا باب ۱۶ میں لکھا ہے.”میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو تسلی دینے والا تمہارے پاس نہ آئے گا پر اگر میں جاؤں تو میں اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے اس لئے کہ وے مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے.میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی.لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.وہ میری بزرگی کرے گی.اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی.“ ( آیت ۷ تا ۱۴) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح کے آٹھ جانے یعنی مسیح کی وفات کے بعد وہ تسلی دینے والا موعود ظاہر ہوگا.وہ دنیا کو گناہ سے راستی سے عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے اس طرح کہ وہ یہود کو ملامت کرے گا کہ وہ کیوں مسیح پر ایمان نہیں لائے.راستی سے اس طرح کہ وہ مسیح کی زندگی کا عقیدہ جو غلط طور پر عیسائیوں میں رائج ہو گیا تھا اس کو دور کرے گا اور دنیا پر ثابت کرے گا کہ دنیا پھر اس مسیح کو دوبارہ نہیں دیکھے گی جو بنی اسرائیل میں نازل ہوا تھا.عدالت سے اس طرح کہ اس کے ذریعہ شیطان کو کچل دیا جائے گا پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ روح حق جب آئے گی تو وہ ساری سچائی کی راہیں 69
بتائے گی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس کی الہامی کتاب میں کوئی انسانی کلام نہیں ہوگا.بلکہ شروع سے لے کر آخر تک خدائی کلام ہی اس میں ہوگا.پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ آئندہ کی خبریں دے گا اور یہ بھی کہ وہ مسیح کی بزرگی بیان کرے گا.اور جو اس پر عیب لگائے گئے ہیں ان کو دور کرے گا.یہ پیشگوئی واضح طور پر محمد رسول اللہ صلی شیا کی تم پر صادق آتی ہے.اس میں کہا گیا ہے کہ جب تک مسیح آسمان پر نہ جائے ، وہ تسلی دلانے والا نہیں آسکتا.اعمال باب ۳ آیت ۲۱-۲۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے آسمان پر جانے اور اس کے دوبارہ نازل ہونے کے درمیان استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کے موعود نے پیدا ہونا ہے پس تسلی دلانے والے سے مراد استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والا موعود ہی ہے.پھر لکھا ہے کہ وہ موعود مسیح کے منکروں کو ملامت کرے گا.اس سے مراد عیسائی تو ہو نہیں سکتے.کسی شخص کے متبع تو اس کے دشمنوں کو ملامت کیا ہی کرتے ہیں.یہ علامت بتا رہی ہے کہ وہ موعود کسی غیر قوم کا ہوگا اور بظاہر اس کو مسیح کے ساتھ کوئی نسلی یا ملی تعلق نہیں ہوگا مگر بوجہ اس کے کہ وہ راستباز ہو گا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا غیر قوم میں سے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو راستبازوں کی عزت کا نگران سمجھے گا اور ان کی عزت کی حفاظت کرے گا.محمد رسول اللہ صلی سیستم اسماعیلی نبی تھے.عیسائی یا یہودی نہیں تھے.مگر باوجود اس کے دیکھو کس طرح انہوں نے مسیح کی عزت کی حفاظت کی.اللہ تعالی قرآن کریم میں یہود کی نسبت فرماتا ہے.وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ج ط وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ 70
ج الظَّنِ، وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَتٍ أحِلَّتْ لَهُمْ.(النساء ۱۵۸ -۱۶۱) یعنی یہود کے کفر کی وجہ سے اور ان کے حضرت مریم پر نہایت گندہ الزام لگانے کی وجہ سے اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کر دیا ہے جو اللہ کا رسول تھا.حالانکہ انہوں نے نہ تو اس کو تلوار سے مارا اور نہ صلیب پر لٹکا کر مارا.صرف ان کو ایک شبہ پیدا ہو گیا کہ وہ صلیب پر مر گیا ہے مگر یہ صرف شبہ تھا انہیں ایسا یقین نہ تھا.چنانچہ خود ان کی قوم میں یہ اختلاف چلا آیا ہے اور وہ اس کے بارے میں کسی یقینی بات پر قائم نہیں.ان کو اس بات کا علم حاصل نہیں بلکہ صرف تخمینی طور پر یہ بات کہتے ہیں اور یہ قطعی بات ہے، کہ وہ اسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو صلیب کی لعنتی موت سے بچا کر اپنے مقربوں میں جگہ دی اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے.ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے پہلے اس کے متعلق ایمان ظاہر کرتا رہے گا کہ وہ صلیب پر مر گیا ہے.لیکن قیامت کے دن مسیح ان کے اوپر گواہی دے گا کہ انہوں نے اس پر یہ الزام لگا کر کہ وہ صلیب پر مر گیا ہے افتراء کیا ہے.پس یہودیوں کے ان ظلموں کی وجہ سے ہم نے ان آسمانی نعمتوں سے ان کو محروم کر دیا جو پہلے ان کا حق سمجھی جاتی تھیں.ان آیات میں کس طرح حضرت مسیح کے منکروں پر حجت تمام کی گئی ہے.دوسری بات یہ فرمائی گئی تھی کہ وہ مسیح کی وفات ثابت کرے گا اور دنیا کو بتادے گا کہ دنیا پھر اسرائیلی مسیح کو نہیں دیکھے گی.یہ کام بھی محمد رسول اللہ صلیہ السلام نے کیا اور اس 71
غلط عقیدہ کو باطل کر کے رکھ دیا جو عیسائیوں میں پھیلا ہوا تھا کہ مسیح آسمان پر بیٹھا ہوا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأَقِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ، تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسَكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِه مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ آنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْب عَلَيْهِمُ ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ هِ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ، وَإِنْ تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ط ج (المائدہ : ۱۱۷-۱۱۹) ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح سے سوال کرے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ حضرت مسیح فرمائیں گے اے رب تیری ذات پاک ہے بھلا میں ایسا کر سکتا تھا کہ وہ بات کہوں جس کا تو نے مجھے حق نہیں دیا.اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو تیرے علم سے یہ بات چھپ تو نہیں سکتی تھی.جو کچھ میرے جی میں ہے تو جانتا ہے.اور جس غرض سے تو نے یہ سوال کیا ہے میں اسے نہیں جانتا، تو سب غیبوں کو جاننے والا ہے.میں نے تو انہیں وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا.کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان کا نگران رہا.پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ان کا خود نگران تھا اور تو ہر چیز کو دیکھنے بھالنے والا ہے اگر تو ان کو 72
عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے.ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور مسیح کی قوم نے اس وقت ان کو خدائی کا درجہ دے دیا.جب وہ فوت ہوکر اس دنیا سے جاچکے تھے.اور جیسا کہ پہلی آیت میں بیان کیا جا چکا ہے دنیا کو یہ بتادیا کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہو کر اور باعزت ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ شیطان اس کے ذریعہ سے کچل دیا جائے گا.تمام نبیوں میں سے محمد رسول اللہ صلی یہ تم ہی ایک ایسے نبی ہیں جنہوں نے شیطان کے کچلنے کے ذرائع کو اختیار کیا اور بنی نوع انسان کی پاکیزگی کیلئے صحیح سامان بہم پہنچائے.مگر اس کی تفصیل کا ابھی وقت نہیں.اس کی تفصیل قرآن شریف کی تفسیر سے ملے گی یا کسی قدر میں آئندہ اسی دیباچے میں بیان کروں گا.مگر ایک موٹی بات تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کسی نبی نے بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی دعا اپنی امت کو نہیں سکھائی سوائے محمد رسول صلی یا یہ ستم کے.مسلمان اپنے کاموں میں اٹھتے بیٹھتے شیطان اور اس کے حملوں سے پناہ مانگتے ہیں.یہ تعلیم گذشتہ انبیاء میں سے کسی کے ہاں نہیں پائی جاتی.پس جس قوم کو شیطان کا سر کچلنے کی ہدایت دن اور رات ملتی رہی ہو اور جس کے دل میں شیطانی حکومت کو توڑنے کا احساس ہر وقت زندہ رکھا جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہی شیطان کو مارنے کی اہل سمجھی جائے گی اور اسی قوم کا نبی شیطان کو مارنے والا کہلائے گا.یہ تو نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا یہ نہ ا که شیطانی وسائل اس دنیا سے بالکل مٹ جائیں.کیونکہ اس کے بغیر تو ایمان کی قدر ہی کوئی باقی نہیں رہتی.شیطان کے مارنے کے معنی یہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکی کو دنیا 73
میں قائم کیا جائے.کلیسیا تو بہر حال اس کا مستحق نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس نے تو شریعت کو لعنت قرار دے کر نیکی کا وجود ہی مشتبہ کر دیا ہے.یہ جو کہا گیا تھا کہ وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی.اس کی تشریح میں استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی کے ماتحت کر آیا ہوں.آئندہ کی خبروں کے متعلق جو کہا گیا ہے.اس کے متعلق بھی صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جتنی آئندہ کی خبریں محمد رسول اللہ صلی شاہ سلیم نے دی ہیں اور کسی نبی نے نہیں دیں.اس کے متعلق کچھ روشنی دیباچہ میں آگے چل کر ڈالی جائے گی.یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ جو کہا گیا تھا کہ اس کا کلام سارے کا سارا کلام اللہ ہو گا.یہ بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کا اور کوئی مصداق نہیں ہوسکتا.عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی کوئی بھی تو کتاب نہیں جو انسانی کلام سے خالی ہو ،لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں شروع سے لے کر آخر تک وہی بیان کیا گیا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے.اوروں کا تو ذکر کیا خود محمد رسول اللہ این ایام کا اپنا بھی ایک لفظ اس کتاب میں نہیں.آخر میں یہ جو کہا گیا تھا کہ وہ میری بزرگی کرے گی سو یہ بزرگی کرنے والے نبی محمد رسول اللہ صلی ایتم ہی ہیں.آپ ہی ہیں جنہوں نے مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ مسیح صلیبی موت سے مرکز نعوذ باللہ عنتی ہوا.آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ نعوذ باللہ خدائی کا دعویٰ کر کے وہ خدا تعالیٰ سے بے وفائی اور غداری کرتے تھے.آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو یہودیوں کے اعتراضات سے نجات دلائی.پس اس پیشگوئی کا مصداق آپ کے سوا کوئی نہیں.( ز ) کتاب اعمال میں لکھا ہے ” ضرور ہے کہ آسمان اسے ( یعنی مسیح کو ) لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع 74
سے کیا اپنی حالت پر آویں.کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے لئے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اٹھائے گا.جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا.بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی.“ ( باب ۳ آیت ۲۱ تا ۲۴) ان آیات میں حضرت موسیٰ کی کتاب استثناء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ آنے والا موعود جب تک ظاہر نہ ہو جائے اس وقت تک مسیح کی دوبارہ آمد نہیں ہوگی.استثناء کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ موعود نئی شریعت لائے گا.پس اس پیشگوئی کو اعمال میں دوہرا کر اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے ذریعہ سے مسیح کی تعلیم منسوخ کر دی جائے گی.ورنہ نئی شریعت کے تو کوئی معنے ہی نہیں ہو سکتے.ایک ہی وقت میں ایک قوم میں دو شریعتیں تو چل نہیں سکتیں.پس یہ آنے والا موعود یقیناً ارتقاء کا آخری نقطہ ہے.جس نے موسیٰ اور مسیح کی تعلیموں کو منسوخ کرنا تھا اور ایک نئی شریعت دنیا کے سامنے ظاہر کرنی تھی.اعمال نے ایک اور روشنی بھی اس موعود کے متعلق ڈالی ہے اور وہ یہ کہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبی گزرے ہیں انہوں نے اس موعود کی خبر دی ہے.موسیٰ کی خبر کا تو پہلے ذکر آچکا ہے اور داؤد نبی سموئیل کے بعد ہوئے ہیں.پس اعمال کی آیت ۲۴ کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ سے لے کر مسیح تک تمام انبیاء نے اس آنے والے کی خبر دی ہے.پس جب تک یہ نبی دنیا میں ظاہر نہ ہو اس وقت تک دنیا کی روحانی تعمیر مکمل نہیں 75
ہوسکتی.اور میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ یہ نبی بائبل کی بتائی ہوئی علامتوں کے مطابق سوائے محمد رسول اللہ صل شی ای ایم کے اور کوئی شخص نہیں.پس رسول کریم ملا سلیم کا وجود تمام انبیاء کا موعود تھا اور آپ کی شریعت بھی تمام انبیاء کی موعود تھی.پس یہ اعتراض کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا کہ تورات اور انجیل کی موجودگی میں یا اور کتابوں کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے.جب سابق نبیوں نے قرآن کریم کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے اور اس کی پیشگوئی کی ہے تو ان کی امتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اس کی ضرورت سے انکار کریں.بلکہ انہیں یا درکھنا چاہئے کہ اگر وہ قرآن کریم کی ضرورت سے انکار کریں گی ، تو ان کے نبیوں کی صداقت بھی مشتبہ ہو جائے گی اور ان نبیوں کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہو کر وہ موسیٰ کے اس قول کی زد میں آجائیں گی ”جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقعہ نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی اور اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے تو اس سے مت ڈر (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲) (ماخوذ از دیباچه تفسیر القرآن ۶۵ تا ۱۰۳) 76