Language: UR
ادیان عالم کے میدان کارزار اور مذہبی مناظروں کے ماحول میں ایک موثر اور کارگر ہتھیار یہ مذہبی انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے والے اس قابل شخص نے نہایت مختصر عمر پائی، آپ 1910ء میں پیدا ہوئے اور 31 دسمبر 1957ء میں لاہور میں حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے۔ آپ نے محض 17-18 سال کی عمر میں اپنی یہ پاکٹ بک مرتب کرنا شروع کردی تھی جو وقفہ وقفہ سے مزید اضافوں کے ساتھ شائع ہوتی رہی۔گجرات پاکستان سے چھوٹی تقطیع پرشائع کیاجانے والاآخری ایڈیشن 1200 صفحات پر مشتمل تھا۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن اسی مسودہ کے مطابق ہے جس میں ہستی باری تعالیٰ سے شروع کرکے مختلف مذاہب جیسے ویدک دھرم، عیسائیت، سکھ مت، بابیت و بہائیت وغیرہ اور مختلف مسلمان فرقوں شیعہ، احرار وغیرہ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات، تحریرات، الہامات او رپیش گوئیوں پر ہونے والے اعتراضات کا کافی و شافی جواب صد ہا تائیدی اور الزامی حوالہ جات سے دیا گیا ہے۔نیز اہل پیغام کے مقابل پر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت کے حق میں دلائل کا باب بھی قائم کیا گیا ہے۔الغرض اس قیمتی خزانہ میں قریباً تمام اختلافی مسائل پر خاطر خواہ مواد جمع ہے۔
مذہبی انسائیکلو پیڈیا یعنی مکمل تبلیغی پاکٹ بک
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ جماعت احمدیہ کی ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ کے مطابق ہر قسم کے ادوار اور دنیا جہاں کے ہر حصہ میں جن خوش نصیب خادمانِ احمدیت کو دعوت الی اللہ کے میدان میں یاد گار خدمات کی سعادت ملی.ان میں مرحوم محترم جناب ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی.اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ شہر ضلع گجرات کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے.کالج کے زمانہ طالب علمی سے لے کر قانون کی پریکٹس کے دوران تا دم آخر پورے برصغیر کے میدانِ مناظرات میں آپ کا طوطی بولتا رہا.حضرت مصلح موعود نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَہ کی زبانِ مبارک سے آپ کو ”خالد احمدیت“ کا خطاب ملا.وفات پر روز نامه الفضل نے آپ کو احمدیت کے بہادر سپاہی اور سلسلہ کے دلیر اور نڈر مجاہد کے نام سے یاد کیا.ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن گجرات نے اپنی قراردار میں لکھا کہ :.ایک عالم ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے جو ہمہ گیر لیاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کا حامل تھا.“ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۶ء تک آپ کو ہر سال جلسہ سالانہ پر خطاب کرنے کا اعزاز ملا.۱۹۴۰ء میں امیر جماعت منتخب ہوئے.جماعتی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ کو ہمیشہ مثالی رنگ میں عملی وادبی، ملکی وملی اور سماجی و فلاحی خدمات کی توفیق ملتی رہی.آپ فی الواقع ایک مثالی داعی الی اللہ تھے.ایک کامیاب مناظر کی حیثیت سے آپ نے سرزمین پنجاب کے گوشے گوشے میں نہایت شاندار مناظرے کئے.۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں جماعت احمدیہ کے ایک وکیل کی حیثیت سے نہایت گرانقدر خدمات سرانجام دیں.آپ کی غیر معمولی قابلیت خصوصا کتب قدیمہ کی تلاش و تجسس کے حوالہ سے فاضل جج صاحبان نے بر ملا تعریف کرتے ہوئے آپ کا شکریہ ادا کیا.ہفتہ وار لا ہور نے ایک متعصب مخالف احمدیت کا بھری بزم میں یہ اعتراف درج کیا ہے کہ :.”اسلام پر اعتراض کا جواب دے کر خادم کا چہرہ یوں کھل اٹھتا ہے جیسے گلاب کا پھول.“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پر آپ کی مثال
دیتے ہوئے اپنے تحریری نوٹ میں فرمایا.و پس اے وکیلو اور اے ڈاکٹر و اور اے تاجر و اور صناعو اور اے زمیندار و اور اے دوسرے پیشہ ور وا تم پر خادم مرحوم کی زندگی یقینا ایک حجت ہے کہ تم دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے بھی دین کا علم حاصل کر سکتے اور دین کی خدمت میں زندگی گزار سکتے ہو.“ سینتالیس سال کی مختصر عمر ( ۱۹۱۰ ء تا ۱۹۵۷ء) میں آپ نے بلا شبہ حیرت انگیز اور معیاری خدمات جلیلہ کی توفیق پائی.مکمل تبلیغی پاکٹ بک آپ کا زندہ جاوید تاریخی کارنامہ ہے.صرف سترہ اٹھارہ برس کی عمر سے ہی آپ نے پاکٹ بک ترتیب دینا شروع کی جو وقفہ وقفہ سے مفید اضافوں کے ساتھ چھپتی رہی.آخری ایڈیشن چھوٹی تقطیع کے بارہ سو صفحات پر مصنف کی اجازت سے محترم منشی محمد رمضان صادق مرحوم پوٹل پنشنز گجرات نے شائع کیا.یہ مذہبی انسائیکلوپیڈیا ادیانِ عالم کے میدان کارزار میں یقینا ایک موثر و مجرب کارگر ہتھیار ہے.موجودہ ایڈیشن اسی کے مطابق ہے.محترم خادم صاحب نے ۳۱ دسمبر ۱۹۵۷ء کو حرکت قلب بند ہونے سے لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئے.اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہابیار خادم صاحب مرحوم کے جملہ لواحقین ولی شکریہ کے حقدار ہیں جنہوں نے صدقہ جاریہ کے طور پر اس کتاب کا حق اشاعت جماعت کو تفویض کیا ہے.فجزاهم الله.
بسم اللہ الرحمن الرحیم دیباچه (از مؤلف) میرے جسم کا ذرہ ذرہ جذبات تشکر سے معمور ہو کر اس مالک حقیقی کے حضور سجدہ کناں ہے کہ اس نے میری کمزوری اور بے بضاعتی کے باوجود محض اپنے فضل سے مجھے ”پاکٹ بک کے چھٹے ایڈیشن کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ اَوَّلًا وَّاخِرًا.هُوَ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - پچھلے سال ۲۰ دسمبر ۱۵۱ء کو میرے والد ذی مرتبت حضرت ملک برکت علی رضی اللہ عنہ کی اچانک وفات کے المناک صدمہ کے باعث میری ذاتی ذمہ داریوں اور مصروفیتوں میں بے حد اضافہ ہو گیا لیکن پاکٹ بک کے کلیہ نایاب ہونے کے باعث بزرگان واحباب کی طرف سے متواتر فرمائش تھی کہ نیا ایڈیشن جلد سے جلد شائع کیا جائے.ادھر سالِ رواں کے دوران احراری فتنہ میں بعض ایسے نئے اعتراضات اٹھائے گئے جن کا جواب پاکٹ بک میں درج ہونا ضروری تھا.اس وجہ سے نئے ایڈیشن میں مضامین کا معتد بہ اضافہ ناگزیز ہو گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی خوف تھا کہ مضامین کے بڑھ جانے سے حجم بہت بڑھ جائے گا.جو موجودہ سائز اور نام دونوں کی تبدیلی کا مقتضی ہو گا.اس مشکل کا حل اس طریق سے کیا گیا کہ سابق ایڈیشن کے مقابلہ میں اس ایڈیشن کے مسطر میں چار سطروں کا اضافہ کر دیا گیا.اس طریق سے موجودہ حجم میں ۲۴۰ صفحات کا نیا مضمون شامل کیا جا سکا.انگریز کی خوشامد تنسیخ جہاد، خود کاشتہ پودا کے الزامات اور بعض دوسرے اعتراضات کے جوابات میں نئے مضامین شامل کئے گئے ہیں.قلت وقت کے باعث پر وف خاکسار نہیں دیکھ سکا.سابق ایڈیشن کی طرح اس ایڈیشن کے بھی پروف اور اعراب کی درستی اور انڈیکس کی تیاری کا کام بتمام و کمال برادرم مکرم مولانامحمد اسمعیل صاحب فاضل دیا لگڑھی مبلغ سلسلہ نے بکمال مہربانی سرانجام دیا.جس کے لئے میں تہ دل سے ان کا
شکر گزار ہوں.اللہ تعالیٰ مولوی صاحب موصوف کو جزائے خیر دے اور صحت و عمر میں برکت عطا فرمائے.آمین.احباب سے بھی درخواست ہے کہ مولوی صاحب موصوف کی صحت وعافیت کے لئے دعا فرمائیں.اس ایڈیشن کی تیاری کے لئے بہت سے احباب و بزرگان نے نہایت مفید اور قیمتی مشورے دیئے ہیں میں ان سب کا شکر گزار ہوں.جَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء - پچھلا ایڈیشن زیر اہتمام صیغہ نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ دسمبر ۱۹۴۵ء میں قادیان سے شائع ہوا تھا اور دسمبر ۴۷ ء تک نایاب ہو چکا تھا لیکن ۱۹۴۷ء کے انقلاب عظیم سے پیدا شدہ حالات کے باعث نئے ایڈیشن کی اشاعت سال رواں سے پہلے نہ ہو سکی.بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ غیر مسلموں خصوصا سکھوں اور ہندوؤں سے متعلقہ حصہ کو موجودہ ایڈیشن سے حذف کر دیا جائے لیکن کافی غور و خوض اور مشورہ کے بعد یہی مناسب خیال کیا گیا کہ اس حصہ کو حذف نہ کرنا ہی زیادہ بہتر ہے.اس ایڈیشن میں قریبا آٹھ صد نے حوالجات کا اضافہ کیا گیا ہے.ہستی باری تعالیٰ کا مضمون سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک مختصر رسالہ سے لیا گیا ہے.خاکسار کی معلومات کے علاوہ ویدک دھرم کے متعلقہ حصہ میں جناب مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل اور جناب ملک فضل حسین صاحب مہاجر کی معلومات بھی شامل ہیں.اسی طرح شیعہ مذہب کے متعلق حضرت میر محمد اسحاق رضی اللہ عنہ کی قابل قدر معلومات بھی شامل ہیں.سکھ مذہب کے متعلق مضمون بتمام کمال جناب گیانی واحد حسین صاحب مبلغ سلسلہ کا لکھا ہوا ہے.بعض دوسرے دوستوں نے بھی قیمتی مشورے دیئے.میں ان سب بزرگوں اور دوستوں کا شکر گزار ہوں.فَجَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ -
ج ترتیب مضامین اس ایڈیشن میں سابقہ ایڈیشن کی ترتیب مضامین ہی بحال رکھی گئی ہے.قارئین کو چاہئے کہ کتاب کی ترتیب کو ایک دفعہ ذہن نشین کر لیں.پھر حوالہ یا مضمون نکالنا چنداں مشکل نہ رہے گا.صداقت مسیح موعود پر اعتراضات کا مضمون چار ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے.پہلا باب الہامات اور وحی پر اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ہے.اس میں حضور کے الہامات و کشوف و رؤیا پر جس قدر اعتراضات کئے گئے ہیں ان کا جواب دیا گیا ہے.مثلاً أَنْتَ مِنِّی وَ أَنَا مِنْکَ.ٹیچی ٹیچی.کشف سرخی کے چھینٹے وغیرہ.دوسرے باب میں پیشگوئیوں پر اعتراضات کا جواب ہے.مثلاً محمدی بیگم والی پیشگوئی ، ثناءاللہ، عبد الحکیم ، اپنی عمر، پانچواں بیٹا وغیرہ کے متعلق پیشگوئیوں پر بحث ہے.تیسرے باب میں ان اعتراضات کے جوابات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.مثلاً تناقضات، غلط حوالے، مبالغے یا تنسیخ جہاد، انگریز کی خوشامد، خود کاشتہ پودا وغیرہ سے متعلق جملہ اعتراضات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر یا تقریر پر کئے گئے ہیں ان سب کا جواب اس تیسرے باب میں ملے گا.چوتھے باب میں ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات یا حضوڑ کے کسی فعل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.مثلاً پیدائش، جائے نزول، خوراک ،لباس، وفات، ورثہ وغیرہ ان سب سے متعلقہ اعتراضات کا جواب اس چوتھے باب میں دیا گیا ہے.اس ترتیب کو مد نظر رکھا جائے تو مضمون نکالنے میں بے حد آسانی رہے گی.علاوہ ازیں ایک مکمل انڈیکس بھی شامل کر دیا گیا ہے.اس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے.موجودہ ایڈیشن میں ان چار ابواب اور صداقت کے مضمون کو الگ الگ پانچ حصوں میں کر دیا گیا ہے.( ناشر )
ضروری ہدایات (۱) بعض دلائل نیز بعض اعتراضات کے بعض جواب عمدا چھوڑ دیئے گئے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ بزرگان سلسلہ اور ان کے اس خادم کے تجربہ اور مشاہدہ کے رو سے دلائل مندرجہ پاکٹ بک ہذا ہی زیادہ مفید اور موثر ثابت ہوئے ہیں.اسی لئے حتی الامکان انہی دلائل اور جوابات کو پیش نظر رکھنا چاہئے.(۲) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے متعلق بعض اعتراضات چھوڑ دے گئے ہیں.ان کے لئے یہ گر یا درکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس کتاب کا معترض حوالہ دے اصل کتاب نکال کر اس کا سیاق و سباق دیکھ لینا چاہئے.انشاء اللہ تعالیٰ و ہیں اس کا جواب ہوگا.(۳) مخالفین احمدیت کے اکثر اعتراضات کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی بجائے سیرت المہدی اور دیگر ایسی کتب پر ہوتی ہے جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خود تحریر فرمودہ نہیں بلکہ دوسرے بزرگان و احباب کی بیان کردہ روایات ہیں.ان اعتراضات کو بھی پاکٹ بک طذا میں نہیں لیا گیا کیونکہ مستند صرف حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریرات ہیں.ان کے سوا جس قدر روایات ہیں ان میں غلطی کا امکان ہے.پس ہماری تمام بحث سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی تحریرات و کتب پر مبنی ہونی چاہئے.(۴) کوشش کی گئی ہے کہ اعتراضات کے جوابات تحقیقی بھی ہوں اور الزامی بھی.خاکسار کا تجربہ یہ ہے کہ الزامی جواب اگر پہلے دیا جائے تو وہ معترض کو تحقیقی جواب کی طرف متوجہ ضرور کر دیتا ہے.اس لئے معترض کی حالت اور رویہ کومد نظر رکھ کر عام طور پر پہلے الزامی جواب پیش کرنا چاہئے.(۵) یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ مبلغ کیلئے نہایت ضروری ہے کہ جو بات وہ دوسرے کو سمجھانا چاہتا ہے پہلے اسے خود سمجھ لے.پس جو دلیل یا جواب اپنی سمجھ میں نہ آئے اسے ہر گز دوسرے کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہئے.(1) اس ضمن میں نہایت ضروری بات یہ ہے کہ مخالف کے ساتھ گفتگو کرتے وقت گھبرانا قطعا نہیں چاہتے.نہ مخالف کے ظاہری علم سے دینا چاہئے بلکہ یا د رکھنا چاہئے کہ جو بات حق کے
خلاف ہے وہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے.پس گفتگو سے پہلے اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کرنی چاہئے اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت پر کامل یقین رکھنا چاہئے.اس کی تائید ونصرت کے نظارے تبلیغ و مباحثات و مناظرات میں ہم نے بے شمار دیکھے ہیں.پس یقین رکھنا چاہئے کہ حق وصداقت کے رعب کے مقابلہ میں مخالفین کا خشک اور زمینی علم کچھ کام نہیں دے سکتا.(۷) آپ کے علم اور تجربہ کے رو سے اگر کوئی مفید مشورہ یا مزید حوالجات یا معلومات ہوں تو براہ کرم ان سے خاکسار کو مطلع فرما ئیں تا کہ اگلے ایڈیشن کی تیاری کے وقت ان کو مدنظر رکھ لیا جائے.(۸) پاکٹ بک ھذا میں جملہ حوالجات تحقیق اور صحت کے بعد درج کئے گئے ہیں.سوائے اس کے کہ کسی جگہ سہو کتابت سے ہند سے میں کوئی فرق پڑ گیا ہو.حوالجات نہایت صحیح ہیں.یعنی جن کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں حتی الامکان مؤلف نے ان کو دیکھ کرکھا ہے.(۹) بالآخر ان تمام بزرگوں اور دوستوں سے جنہیں اس پاکٹ بک سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ خاکسار کی دینی و دنیوی، روحانی و جسمانی ترقی کے لئے خلوص دل سے دعا فرمائیں.خدا تعالیٰ ہم سب پر اپنا فضل نازل فرمائے.تا حق کا بول بالا ہو اور احمدیت جلد سے جلدا کناف عالم پر چھا جائے.آمین ثم آمین.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت ملک برکت علی رضی اللہ عنہ سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور آل واصحاب ، اہل بیت اور خلفاء نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اور خادمانِ سلسلہ پر لاکھوں لاکھ درود وسلام کے بعد میں اپنے والد مرحوم و مغفور حضرت ملک برکت علی رضی اللہ عنہ کا نام زیب عنوان کرتا ہوں جن کا عشق دین اور جوش تبلیغ مجھے ورثہ میں ملا اور جن کی تعلیم وتربیت سے میں خدام احمد بیت میں شمار ہونے کے قابل بنا.اور جن کی وفات پچھلے سال آج کے دن ۲۰ / دسمبر کو ہوئی.اللہ تعالیٰ ان پر اپنے بے شمار فضل نازل فرمائے اور جنت کے اعلیٰ مقامات میں اپنے خاص محبوبوں اور پیاروں میں جگہ دے.(آمین)
1 نمبر شمار 1 2 3 7 10 فہرست مضامین مضمون ہستی باری تعالیٰ کے دلائل پہلی دلیل : ساری اقوام اور کل ادیان کا اتفاق دوسری دلیل : ہزاروں راستبازوں کی شہادت تیسری دلیل : انسان کی فطرت چوتھی دلیل : ہر فعل کا فاعل لا زم ہے پانچویں دلیل : بے عیب نظام قدرت چھٹی دلیل : منکرین خدا کی نامرادی ساتویں دلیل : ماننے والے ہمیشہ کامیاب آٹھویں دلیل : قبولیت دعا نویں دلیل: سلسلہ وحی والہام دسویں دلیل : سچے طالبوں پر آشکار ہوتا ہے 11 گیارویں دلیل : تمام اشیاء کا مرکب ہونا 12 بارہویں دلیل : نظام عالم کی ترتیب 13 تیرہویں دلیل : فعل سے پہلے فاعل ہونا ضروری ہے 14 چودھویں دلیل : ہم خود بخود نہیں ہو سکتے 15 پندرہویں دلیل : حادث کا محدث ہوتا ہے سولہویں دلیل : ہر مصنوع کا صانع ضروری ہے 16 17 سترہویں دلیل : عالم الغیب ہونا صفحہ نمبر -256- 7 10 11 12 16 267 17 18
2 نمبر شمار 1 2 7 9 10 مضمون دہریوں کے اعتراضات مع جوابات پہلا اعتراض : نظر نہیں آتا اس لئے محض وہم ہے دوسرا اعتراض : خدا ہوتا تو مذہب میں اختلاف نہ ہوتا تیسرا اعتراض : خدا ہوتا تو امیر وغریب کا تفرقہ نہ ہوتا چوتھا اعتراض : خدا کے قائل کیوں گناہ کرتے ہیں پانچواں اعتراض : اگر خدا ہے تو کہاں ہے اور کب سے ہے اسلام اور ویدک دترم ویدک تعلیم عالمگیر اور قابل تنتبع نہیں ویدوں کی خدا کے متعلق تعلیم الہی کلام بے مثل ہوتا ہے کامل الہامی کتاب عین فطرت انسانی کے مطابق خدا کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں تردید قدامت وید کے منقولی دلائل وید کی حقیقت آریہ سماج کے معیار اور وید وید کے منتروں کی تعداد میں اختلاف عجیب و غریب پر لطف و یدک دعا ئیں 11 دید کی تعلیم اور پرمیشور کا حلیہ 12 وید کی تعلیم خلاف عقل و سائنس 13 آریوں کے نا قابل عمل اصول صفحہ نمبر 20 20 21 22 ا 23 22 24 25 26 27 29 30 32 34 35 38 39
صفحہ نمبر ه ه ه این میان می 43 48 49 51 55 57 59 67 69 71 74 83 85 87 88 89 91 92 3 نمبر شمار 14 15 16 17 18 19 مضمون آریہ عورتوں کو ویدک نصائح اور فرائض دیدک تہذیب کے نمونے قدامت روح و مادہ کے دلائل کی تردید عقلی دلائل حدوث روح و مادہ پر نقلی دلائل حدوث روح و مادہ پر قدامت روح و ماده پر نومنطقی وعلمی اعتراض 20 تناسخ پر چالیس سوالات صداقت حضرت مسیح موعود از روئے ویدک دھرم سناتن دھرم عیسائیت آنحضرت کی نسبت بائبل کی پیشگوئیاں تردید الوہیت مسیح ناصری مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے مسیج روح اللہ ہو کر خدا نہیں ہو سکتے مسیح کلمۃ اللہ ہوکر خدا نہیں ہو سکتے خدا کا مجسم محال ہے حواری خدا کی عبادت کرتے تھے مسیح نے خدائی کا دعوی نہیں کیا الها می منطق معقولی دلائل در تر دید الوہیت مسیح کفارہ کی تعریف و تردید 8 9 10 11 1 21 22
صفی نمبر 33 93 40 97 100 101 104 109 // 111 112 " 113 // 116 4 مضمون کفارہ کی تائید میں حوالجات کی تردید کفارہ پر ایمان لانے سے خرابیاں ابطال تثلیث تحریف بائبل اختلافات بائبل خلاف عقل و مشاہدات امور عیسائیت میں عورت کی حیثیت صداقت حضرت مسیح موعود از روئے بائبل جھوٹا نبی قتل کیا جاتا ہے زندگی بے عیب ہوتی ہے قبولیت دعا معجزات جو خدا کی طرف سے نہ ہونا بود کیا جاتا ہے ۱۲۹۰ دن تک انتظار مشرق کی طرف سے آنا چاند سورج گرہن اور ستارے گرنا صداقت مسیح موعود" پر عیسائیوں کے اعتراضات پہلا اعتراض : مسیح نے آسمان سے آنا تھا دوسرا اعتراض : سب ایمان لے آئیں گے نمبر شمار 12 13 14 15 16 17 18 1 4 6 7 8 2
117 "/ 118 119 "/ // 120 122 // 123 124 128 131 138 141 142 143 145 147 148 150 5 نمبر شمار 4 6 8 10 11 مضمون تیسرا اعتراض : بہت سے جھوٹے مسیح آئیں گے چوتھا اعتراض : مری پڑنا اور لڑائیاں ہونا پانچواں اعتراض : گھر میں قبولیت نہ ہوئی چھٹا اعتراض : پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں ساتواں اعتراض : جماعت میں اختلافات پیدا ہونا آٹھواں اعتراض : خود کو مریم کہا.عورت کیسے بن گئے نواں اعتراض : حمل، حیض، دردزہ کیسے ممکن ہے دسواں اعتراض : مرزا صاحب نے حوالے غلط دیئے گیارواں اعتراض : آختم والی پیشگوئی پوری نہ ہوئی 12 بارہواں اعتراض : سب مسلمان پاک نہیں ہوئے 13 تیرہواں اعتراض : " کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں“ 14 قرآن کا مسیح اور انجیل کا یسوع 15 حضرت مسیح اور یسوع کے دو حلیے دلائل فضیلت مسیح بمقابلہ آنحضرت کا جواب معجزانہ طور پر پیدا ہونا والدہ کا تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہونا وقت پیدائش خارق عادت واقعات تكلم في المهد اور بچپن میں نبوت ملنا بوقت مشکل آسمان پر اٹھائے گئے مُردوں کو زندہ کرنا پرندے پیدا کرنا اندھوں کو بینائی بخشنا وغیرہ 2 4 6 8
صفحہ نمبر 151 " 153 155 167 169 " 172 173 175 179 180 182 // 183 184 187 6 نمبر شمار 9 10 11 گھروں میں کھایا پیا بتا دیتے گنا ہوں سے پاک آسمان پر زندہ اور پھر آئیں گے مضمون سکھ مذہب حضرت بابا نا تک مسلمان ولی اللہ تھے صداقت حضرت مسیح موعود از روئے سکھ ازم آنے والا گر و مسلمان ہو گا نہہ کلنک اوتار مسلمان ہوگا مرزا مہدی ہوگا اور کرشن اوتار امام مهدی قوم مغل سے ہوگا.آنے والے گرو کا مقام بہاء اللہ کا دعوی خدائی بابی یا بہائی مذہب بہاء اللہ کے نزدیک آنحضرت کا درجہ شریعت ہابیہ نے شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دیا شریعت با بیہو بہائیہ کی اتباع کی تاکید شریعت با بیر و بہائیہ کے منکروں پر فتویٰ کفر چند احکام شریعت با بیه بہاء اللہ کی تعلیم اسلام کے خلاف شیعہ مذہب کتب شیعه واسماء آئمه شیعه خلفاء ثلاثہ کا ایمان از روئے قرآن 1 3 4 1 2 3 6 7 1 2
صفحہ نمبر 189 190 195 198 199 200 // 204 210 211 213 217 218 220 222 223 226 228 231 "/ 232 7 مضمون اصحاب ثلاثہ کا ایمان از کتب شیعه حضرت ابوبکر وعمر کی فضیلت دلائل و مطاعن شیعہ کا جواب حضرت عثمان کا جنازہ حضرت ابو بکر و عمر کا جنگ سے بھاگنا حضرت عمر کا مردہ بیٹے کو کوڑے لگوانا باغ فدک تردید دلائل تقیه مسئلہ وراثت حدیث القرطاس تردید متعه قاتلین حضرت امام حسین کون تھے اہل کوفہ کا خط امام حسین کے نام حضرت امام حسین کا خط اہل کوفہ کے نام کیا یزید حضرت امام حسین کو شہید کرنا چاہتا تھا پہلا ماتم کرنے اور کرانے والا یزید تھا خود شیعہ ہی قاتلین امام حسین نہیں حضرت زینب اور دیگر اہل بیت کی تقریریں ا.چارسوال چکڑالویوں سے إِذْ يَعِدُكُمُ الله کا وعدہ کہاں ہے؟ ۲.کھجور کے تنے کاٹنے کا حکم کہاں ہے؟ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ.یہ اظہار الہی کہاں ہے؟ إِلَى الرَّسُولِ سے کیا مراد ہے؟ نمبر شمار 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20
8 (الف) مضمون وفات مسیح ناصری دلائل از روئے قرآن کریم وَكُنتُ عَلَيْهِمْ.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي توفی کے معنے اور قرآن سے مثالیں کتب احادیث سے مثالیں تفسیر ابن عباس توفی کے معنے عرف عام اور لغت سے توفّی کے معنے احادیث سے صفحہ نمبر 233 234 235 237 238,237 239 240 241 242 244 245 246 " 247 248 249 توفی کے لئے انعامی اشتہار براہین احمدیہ کے حوالہ کا جواب توفی کے معنے تفاسیر سے مفسرین کو غلطی لگی ہے يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ غیر احمدی عذرات کا جواب خلا کے معنے از روئے قرآن کریم خلا کے معنے لغت عرب سے خلا کے معنے از تفاسیر نمبر شمار 1 2 3 4
فحہ نمبر 250 252 253 // 254 255 // 256 // 257 258 260 // 261 // 262 9 صحابہ کرام کا اجماع مضمون وَالَّذِينَ يَدْعُونَ....أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءِ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَأَوْصَانِي بالصَّلوة.....مَا دُمْتُ حَيًّا يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أُمُوتُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً نمبر شمار LO 5 6 7 8 10 11 12 13 دیگر پانچ آیات (ب) وفات مسیح از روئے حدیث لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى فِي حَيَاتِهِمَا لَوْ كَانَ عِيسَى حَيًّا ایک سو بیس سال عمر مسیح کی عمر ۱۲۰ سال اور میری ساٹھ سال سو سال تک ہر جاندار فوت ہو جائے گا ہر سو سال بعد ایک ہوا مومنوں کی روح قبض کرتی ہے.اختلاف ملین حضرت عیسی کو ہجرت کا حکم 1 2 3 4 5 7 8 9
10 نمبر شمار مضمون (ج) وفات مسیح پر اقوال ائمہ سلف ۲.امام مالک صفحہ نمبر 263 " " 264 // 265 // 266 " 267 268 270 271 272 ا.امام بخاری.امام ابو حنیفہ ۴.صاحبین ۵.جلالین ۶ - عبد الحق محدث دہلوی ۱۰.صوفیاء کا مسئلہ بروز ے.نواب صدیق حسن خاں صاحب.حافظ لکھو کے والے ۹.امام ابن عربی ا.حضرت عائشہ صدیقہ ۱۲.تفسیر محمدی ۱۳.ابن جریر ۱۵ تاریخ طبری ۱۴.امام جبائی ۱۶.امام حسن کا خطبہ ۱۷.حضرت داتا گنج بخش ۱۸ امام رازی ۱۹.حضرت خواجہ محمد پارسا حیات مسیح کا عقیدہ کہاں سے آیا ؟ تردید دلائل حیات مسیح ناصری بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ بل ابطالیہ کا ابطال قَتَلُوهُ کی ضمیر کا مرجع لفظ رفع کی بحث اور قرآن وحدیث لغات عرب اور لفظ رفع تفاسیر سے رفع کے معنے لفظ رفع کے متعلق چیلنج 1
صفر نمبر 274 275 " 277 278 279 280 // 281 " 284 286 // 287 // 288 "/ 290 291 11 قرآن کریم اور لفظ الی وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ انہ کی ضمیر کا مرجع مضمون حضرت ابن عباس کی روایت حضرت مسیح موعود اور انہ کا مرجع السَّاعَة سے مراد ہلاکت بنی اسرائیل وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ تمام اہل کتاب کا ایمان مراد ہے مخالفین کے معنی درست نہیں فَلَا يُؤْمِنُونَ “ کے خلاف إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ کے خلاف ہ کی بجائے ھم کی ضمیر حضرت ابوھریرہ کا اجتہاد إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدَ اللَّهِ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ لفظ نزول قرآن میں لفظ نزول احادیث میں نمبر شمار 2 3 4 5 6 7 8 9 10
صفحہ نمبر 292 293 294 296 "/ 300 301 // 302 304 306 307 308 310 " 311 314 317 321 " 12 بیہقی کا مِنَ السَّمَاءِ مضمون إِنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتُ نمبر شمار مراسیل حسن بصری إِنَّ عِيسَى يَأْتِي عَلَيْهِ الْفَنَاءُ يُدُ فَنُ مَعِي فِي قَبْرِى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ قتل دجال کے لئے نازل ہونے کا ذکر جبل افیق پر نازل ہونے کا ذکر معراج کی رات عیسی کو دیکھنا کیا حضرت موسیٰ زندہ ہیں إِنَّهُ رُفِعَ بِجَسَدِهِ وَ إِنَّهُ حَقٌّ الْآنَ مسیح ناصری اُمت محمدیہ کے موعود نہیں ہو سکتے مسیح اور مہدی ایک ہیں مسیح اور مہدی کا حلیہ اور حالت نزول مسیح اور مہدی کا کام عقیدہ حیات مسیح اور حضرت مسیح موعود عدم رجوع موتی از قرآن و حدیث مسئله امکان نبوت دلائل امکان نبوت از روئے قرآن مجید اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ..11 23 12 13 14 15 16 17 18 19 1 2 3
صفحہ نمبر 322 323 324 325 326 328 333 " 335 336 337 338 340 341 "/ 342 343 344 346 347 13 نبی.صدیق.شہید.صالح نبوت موجہت ہے عورتیں کیوں نبی نہیں بنتی مضمون ہر اطاعت کرنے والا نبی کیوں نہیں بنتا ہمارے ترجمہ کی تائید يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمُ رُسُلٌ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمُ اَنْ لَّنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الأَوَّلِينَ اِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ إِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ دلائل امکان نبوت از روئے حدیث وَ لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا حدیث کی صحت کا ثبوت اسناد بعض امثله تضعیف لَوْ بَقِيَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا نمبر شمار 4 5 7 8 9 10 11 12 13 1 2
صفحہ نمبر 348 349 350 351 352 " 353 // 354 355 357 // 14 مضمون نمبر شمار 3 4 5 6 7 8 وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا لَوْ عَاشَ لَكَانَ نَبِيًّا فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ أَبُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٌّ ابُو بَكْرِ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا يَكُونَ نَبِيٌّ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ دلائل امکان نبوت از اقوال بزرگان حضرت محی الدین ابن عربی حضرت امام شعرانی" سید عبدالکریم جیلانی حضرت ملا علی القاری حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی بانی دیوبند حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت امام جلال الدین سیوطی نواب نورالحسن خاں صاحب حضرت مولانا روم صاحب مثنوی ایک عذر اور اس کا جواب آنحضرت نے کیا ختم کیا 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11
صفحہ نمبر 357 371 372 376 379 382 383 // 385 // 386 // 387 388 15 نمبر شمار 1 مضمون تردید انقطاع نبوت از روئے قرآن مجید مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ لفظ ختم اور محاورہ عرب لفظ ختم اور قرآن مجید حضرت مسیح موعود اور لفظ خاتم حضرت مسیح موعود کی دیگر تحریرات الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ آنحضرت کے بعد وحی علامہ ابن حجر البیشی حدیث مسلم شریف نواب صدیق حسن خاں تفسیر روح المعانی علامہ ابن حجر نج الکرامہ کا حوالہ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ 2 3 4 5 6 1 2 3 4 5 6 7
16 نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 مضمون تردید انقطاع نبوت از روئے حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِي غَيْرَ أَنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ لَا هِجُرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ بعد بمعنی مغائرت يَخْرُجَانِ بَعْدِي لَا نَبِيَّ بَعْدِی اور علماء گزشتہ حضرت محی الدین ابن عربی امام شعرانی امام محمد طاہر صاحب تکملہ مجمع البحار نواب نورالحسن خاں صاحب لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرُ لَوْ لَمْ ابْعَثْ لَبُعِثْتَ عُمَرُ سَيَكُونُ خُلَفَاءُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ سَبْعُونَ دَجَّالُوْنَ مَثَلِيٍّ وَ مَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِى كَقَصْرٍ أَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمُ اخِرُ الْأُمَمِ لفظ آخر کی مثالیں أَنَا الْمُقَفَّى صفحه نمبر 388 " 389 391 392 393 " 394 " "/ 396 397 400 402 403 404 405
صفر نمبر 406 " 407 408 // 409 415 420 426 432 434 435 440 441 442 443 444 447 448 450 17 نمبر شمار مضمون 10 11 12 13 14 15 16 17 لَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ غَيْرُكَ إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي كُنتُ أَوَّلُ النَّبِيِّينَ فِي الْخَلْقِ وَاخِرَهُمُ فِي الْبَعْثِ لَا يَبْعَثُ بَعْدِي نَبِيًّا إِنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ شرک فی الرسالة کا الزام 1 2 3 4 5 6 7 مستلزم کفر یا مدار نجات کی آمد صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی دلیل : فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ دوسری دلیل : وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاقَاوِيْلَ مفتری کو دنیا میں فائدہ ملتا ہے مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۱ء میں کیا جھوٹے مدعیان نبوت کا انجام تیسری دلیل : يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَ هُمُ چوتھی دلیل : يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوا پانچویں دلیل : فَأْتُو بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرِيَاتٍ اعجاز مسیح کے متعلق پانچ سوروپیہ کا اشتہار اعجاز احمدی کی مزعومہ غلطیاں چھٹی دلیل : فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمُ صَدِقِينَ ساتویں دلیل : وَ جَعَلْنَهَا آيَةً لِلْعَلَمِينَ 8 آٹھویں دلیل: جھوٹا مدعی کامیاب نہیں ناکام و نا مرادر ہتا ہے
صفحہ نمبر 452 " 453 459 462 463 464 466 "/ 469 470 476 480 482 483 484 486 490 492 "/ 494 18 مضمون نویں دلیل : ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ دسویں دلیل : إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ گیارویں دلیل: لَا يُظْهَرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ بارہویں دلیل : وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ فارسی الاصل ہونے کا ناقابل تردید ثبوت تیرہویں دلیل : الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِأْتَيْنِ چودھویں دلیل : إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ کسوف و خسوف پندرہویں دلیل : حدیث مجد دین صحت حدیث فهرست مجددین نمبر شمار 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 1 2 سولہویں دلیل : يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اِسْمُهُ أَحْمَدُ سترہویں دلیل: لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَّهَّرُونَ اٹھارہویں دلیل : ”مباہلہ“ کا طریق فیصلہ انیسویں دلیل : اونٹنیاں بے کار ہو جانا بیسویں دلیل : مولوی ثناء اللہ امرتسری کا واقعہ دس ہزار روپیہ کا انعام آخری اتمام حجت الہامات پر اعتراضات کے جوابات أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ د اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِى ب أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ وَلَدِى 3 | أنتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيْدِي وَ تَفْرِيدِى
صفحہ نمبر 495 496 "/ 497 498 499 500 501 503 504 507 "/ 509 510 514 516 517 "/ 518 "/ 520 522 19 نمبر شمار مضمون 4 5 6 7 أَنْتَ مِنْ مَآءِ نَا وَ هُمُ مِنْ فَشَلُ رَبَّنَا عَاج اسْمَعُ وَلَدِى أَنْتَ اسْمِيَ الْأَعْلَى اعْمَلُ مَا شِئْتَ فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَكَ كُنْ فَيَكُونُ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلاكَ رَأَيْتُنِي فِي الْمَنَامِ عَيْنَ اللَّهِ زمین اور آسمان کو بنایا ابن مریم بننے کی حقیقت روحانی حمل حیض در دزه کشف سُرخی کے چھینٹے كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ يَتِمُّ اِسْمُكَ وَلَا يَتِمُّ اسْمِى الأَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِى تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا أَتَعْجَبِينَ لَا مُرِ اللَّهِ يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ حجر اسود منم و ٹیچی ٹیچی 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 222 22 21 19 20 23 24 25
صفحہ نمبر 525 "/ 526 "/ 527 528 "/ 529 530 531 " " 532 " 533 535 539 541 "/ "/ 543 20 20 نمبر شمار 26 26 کمترین کا بیڑا غرق ہو گیا 27 میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا 28 ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں مضمون خاکسار پیر منٹ أفْطِرُ وَ اصُومُ أخْطِئُ وَ أُصِيبُ کرم ہائے تو مارا کردم گستاخ خیراتی جے سنگھ بہادر گورنر جنرل آریوں کا بادشاہ إِنِّي بَايَعْتُكَ بَايَعَنِي رَبِّي أَسْهَرُ وَ أَنَامُ اصْبِرُ سَنَفْرُعُ يَا مِرْزَا قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں انگریزی الہامات کی زبان پر اعتراض قابل تشریح الہامات ا - غَثَم غَثَم غَثَم.ایک ہفتہ تک کوئی باقی نہ رہے گا ۳.پہلے بیہوشی پھر غشی پھرموت ۴.موت ۱۳ ماہ حال کو ایک دم میں رخصت ہوا 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42
صفحہ نمبر 543 " " 544 545 "/ 546 // 548 "/ " 549 // 552 556 559 561 562 564 21 مضمون پیٹ پھٹ گیا ۵.ایلی اوس ٢ - هُوَ شَعُنَا نَعسًا ے.آسمان مٹھی بھر رہ گیا.ایک دانہ کس کس نے کھانا ۹.پچھپیں دن یا چھپیس دن تک ۱۰.مضر صحت ا.زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے -١٢- شَرُّ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۱۳.لاہور میں ایک بے شرم ہے ۱۴.ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے ۱۵.جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے ۱۶.لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیر خُدا نے اُن کو پکڑا أعْطِيتُ صِفَةَ الْإِفْنَاءِ وَالْإِحْيَاءِ مرزا صاحب کو شیطانی الہام ہوتے تھے غیر زبانوں میں الہامات بعض الہامات کو مرزا صاحب سمجھ نہ سکے نبی کا الہام بھول جانا پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ وغیرہ مخالفین انبیاء کاشیوه تکذیب پیشگوئی کی غرض وغایت نمبر شمار 43 44 45 46 1
صفر نمبر 567 572 573 579 580 583 585 587 589 590 591 596 597 598 // 599 601 602 604 // 605 22 22 نمبر شمار پیشگوئی کی مزید تفصیل پیشگوئی پوری ہوگئی سلطان محمد کی تو بہ کا ثبوت بیعت کیوں نہ کی تقدیر مبرم زَوَّجْنَا كَهَا پیشگوئی کے نتائج بہو کو طلاق دلوانا کوشش کیوں کی گئی 9966 بستر عیش وبِكْرٌ وَثَيِّبٌ“ وعید کاٹلنا ایک قابلِ غور امر ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد والی پیشگوئی مضمون حضور کے اپنی وفات کے متعلق الہامات عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود کا جواب ۴ را گست والی پیشگوئی عبدالحکیم مرتد جھوٹا ہوگا مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ شنائی حیلہ جوئی ثناء اللہ کی دوبارہ آمادگی حضرت مسیح موعود کا جواب 2 3
مفحہ نمبر 605 607 611 612 " 616 617 618 622 623 625 628 630 632 633 635 636 637 638 640 641 643 644 23 شنائی فرار مضمون اشتہار آخری فیصلہ مسودہ مباہلہ “ تھا ثنائی عذرات ایڈیٹر صاحب بدر کی تحریر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی تحریر اپنی عمر کے متعلق پیشگوئی اندازہ عمر میں اختلاف تاریخ پیدائش کی تعیین دیگر اندازے مخالفین کی شہادت تاریخ پیدائش کا علم نہیں تو عمر کی پیشگوئی کس طرح کی جاسکتی ہے؟ عمر دنیا اور حضرت مسیح موعود کی بعثت ایک اعتراض : منظور محمد صاحب کے ہاں بیٹا بیٹے کا نام.بشیر الدولہ.عالم کباب منظور محمد کی تعیین حقیقۃ الوحی کا حوالہ انبیاء کی ذمہ داری ولادت معنوی قادیان میں طاعون محمد حسین بٹالوی کا ایمان عبد اللہ آتھم محمد حسین کی ذلت نَافِلَةً لَّكَ نمبر شمار LO 5 6 7 9 10
24 نمبر شمار | 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 شاعر ہونا مضمون تحریرات پر اعتراضات کے جوابات غلط حوالے اور جھوٹ کے الزامات قرآن و حدیث میں طاعون تورات وانجیل میں طاعون کی پیشگوئی غلام دستگیر قصوری کا مباہلہ مولوی محمد اسمعیل علیگڑھی کی بد دعا حدیث سو سال کے بعد قیامت دجال یا رجال قرآنی پیشگوئی درباره تکفیر مسیح موعود مفتری جلد پکڑا جاتا ہے انبیاء گزشتہ کے کشوف انبیاء گزشتہ کی پیشگوئی مکتوبات کا حوالہ تفسیر ثنائی اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوھریرہ کا اجتہاد مبارک احمد کی وفات کی پیشگوئی كَانَ فِي الْهِنْدِ نَبِيًّا 18 این مشت خاک را گر نه خشم چه کنم صفحہ نمبر 646 648 653 655 657 " 658 659 // 660 661 662 663 664 665 666 668 669 // " طاعون کے وقت شہر سے نکلنا چاند سورج کو دو دفعه گرہن 19 20
صفحہ نمبر 670 672 673 676 677 680 689 695 // 696 697 698 699 "/ 701 703 705 709 711 712 25 مضمون معیار طہارت تو رات کے چار سونبی وعدہ خلافی پانچ پچاس کے برابر مبالغہ کا الزام تناقضات نمبر شمار | 21 22 23 24 25 26 27 کسی سے قرآن پڑھنا حضرت مسیح کی چڑیوں کی پرواز مریدوں کی تعداد منکرین پر فتوی کفر تشریعی نبوت 28 29 30 31 32 دعوی نبوت اور اس کی نفی یسوع کی مذمت اور حضرت مسیح کی تعریف حیات مسیح میں اختلافات مسیح کی بادشاہت سخت کلامی کا جواب علماء کی حالت اور غیر احمدی گواہیاں گالی اور سخت کلامی میں فرق ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا جنگل کے سُور 33 34 35 36 37 38 39 مبارک احمد کا قبل از ولادت بولنا w 40 بکرے کا دودھ
صفحہ نمبر 713 714 715 716 718 719 721 722 723 724 725 726 11 727 732 733 734 736 738 739 741 745 // 26 نمبر شمار 41 عورت مرد ہوگئی 42 مرزا صاحب نے بد دعائیں دیں 43 انگریز کی خوشامد کا الزام 44 ۴۵ ☑ ۴۶ مضمون حضرت سید احمد بریلوی کے ارشادات آپ نے حکومت سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا زور دار الفاظ میں تعریف کی وجہ مہدی سوڈانی تعریفی عبارتیں بطور ”ذب تھیں احرار کی پیش کردہ عبارتیں پچاس الماریوں والی عبارت نور الحق حصہ اوّل کی عبارت کتاب البریہ کی عبارت خود کاشتہ پودا والی عبارت ہجرت حبشہ کی مثال انگریزوں کی تعریف سکھوں کے ظلم و ستم کے باعث تنور سے نکل کر دھوپ میں آپ نے انگریز کو دجال کہا انگریز کو ماجوج کہا انگریز کے خدا کو مردہ کہا ملکہ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام خود کاشتہ پودا کا الزام تنسیخ جہاد کا الزام بعض علماء کا نظریہ
27 مضمون جماعت احمد یہ جہاد بالسیف کی قائل ہے شرعی حکم کی تنسیخ اور فتوی میں فرق حضرت سید احمد بریلوی کا فتویٰ حضرت مرزا صاحب کا فتویٰ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کیا حضرت مرزا صاحب نے قیامت تک جہاد منسوخ کیا فیصلہ کا آسان طریق حضرت امام جماعت احمدیہ کا اعلان دربارہ جہاد محاذ کشمیر اور احمدی نوجوان احراریوں سے ایک سوال صفحہ نمبر 749 752 753 758 // 761 762 764 766 767 768 775 780 785 786 787 788 789 "/ "/ 790 791 نمبر شمار اسلامی جہاد کی اقسام 47 کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں عدالت میں معاہدہ 48 49 50 51 52 53 54 55 56 جغرافیہ دانی پر اعتراض معراج روحانی تھا حج بند تقدیر اور ملائکہ کا انکار قرآن میں گالیاں بھری ہیں خدا کی طاقتیں تیندوے کے جال کی طرح عقیده درباره ولادت مسیح نبی کی ہر دعا قبول نہیں ہوتی 57 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دعوئی فضیلت کا الزام
صفحہ نمبر 792 795 797 "/ 799 800 802 804 805 807 808 812 815 817 818 // 819 824 28 مضمون تین ہزار کے مقابل پر تین لاکھ معجزات میرے لئے دو گر ہن محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں صد حسین است در گریبانم ہر رسولے نہاں بہ پیراهنم منم محمد واحمد که مجتبی باشد حضرت فاطمہ کی ران پر سر رکھنا میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں غار ثور کی خستہ حالت حضرت مریم کی توہین کا الزام حضرت کی ذات پر اعتراضات کے جوابات ”ابن مریم کیسے ہوئے کسر صلیب کہاں ہوئی جماعت احمدیہ کے اخلاق پر الزام مسیح کا جائے نزول مہدی کا بنی فاطمہ میں ہونا مہدی کا مکہ میں پیدا ہونا مولد میں اختلاف مہدی کا نام محمد ہونا تھا صاحب شریعت ہونا تھا کفر کا فتویٰ نمبر شمار 58 59 60 61 62 63 64 65 1 2 3 5 6 7 8 9 10
صفحہ نمبر 826 828 830 831 832 836 837 // 839 843 845 847 850 852 858 862 865 869 870 871 873 // 29 29 مضمون نمبر شمار | کسی کا شاگر د ہونا کیا کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں ہوسکتا نبی کا نام مرکب نہیں ہوتا حج نہیں کیا فَجٍّ الروحاء مرزا صاحب سے وعدہ حفاظت مرزا صاحب نے ملازمت کی چندہ لیتے تھے مراق مبی دوائیاں ٹانک ریشمی کپڑے اور کستوری طبیعت کی سادگی اور محویت پردہ کے عدم احترام کا الزام عدم احترام رمضان کا الزام بہشتی مقبره دن میں سو سو دفعہ پیشاب تصویر کھنچوانا 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 23 شه له 22 24 25 26 27 28 آپ کی وفات پر اعتراض 29 نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے 30 يُدْفَنُ مَعِيَ فِي قَبْرِى وراثت 31
30 مضمون ایک بیٹے کے دوباپ یا ایک بیوی کے دو خاوند کیا نبی کے آنے سے قوم بدل جاتی ہے صفحہ نمبر 877 878 882 883 // 886 // 887 888 889 891 892 894 // 896 // 897 // حضرت مرزا صاحب کے ماننے والوں کا کیا نام رکھا گیا حمه تکفیر مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگے گا شیعہ کافر ہیں اہلسنت کے خلاف شیعہ فتویٰ اہلحدیث کا اہلسنت پر فتویٰ اہلحدیث کے خلاف اہلسنت کا فتویٰ دیوبندی کا فرمرند حنفی بریلویوں پر دیو بندیوں کا فتویٰ سرسید احمد خاں پر فتویٰ دیگر کلمات کفریہ احراریات احراری کیا ہیں احراری اور ان کا امیر شریعت مجلس احرار انگریز کا خود کاشتہ پودا احراری لیڈروں کے اپنے اقوال قائد اعظم کی نسبت قائد اعظم اور مسلم لیگ انگریز کے اشارے پر ناچتے ہیں پاکستان کو پلیدستان کہتے نمبر شمار 32 33 34 1 2 3 4 5 6 7 9 1 2 3 4 5 6 7
صفحہ نمبر 897 899 900 900 // 902 903 906 907 910 911 // 912 31 مضمون نمبر شمار قائد اعظم کو کافر اعظم کہا مسلم لیگ دام فرنگ ہے قائد اعظم کے جوتوں پر داڑھی رکھ دی پاکستان کی ”پ“ نہیں بن سکتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے چندا قتباسات آریہ سماج کی ہلاکت کی پیشگوئی زلازل کے متعلق عام پیشگوئی عالمگیر جنگ دوم وسوم کی پیشگوئی اہل بیت حضرت مسیح موعود کی پاکیزگی کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے مخالفین سے خطاب اور دعویٰ پر استقامت حضرات انبیاء علیہم السلام پر غیر احمدی علماء کے بہتانات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ حضرت آدم علیہ السلام نے شرک کیا حضرت یوسف علیہ السلام پر الزام حضرت داؤد علیہ السلام پر الزام حضرت سلیمان علیہ السلام پر الزام حضرت ادریس علیہ السلام پر الزام 8 9 10 11 1 2 3 4 5 6 1 2 3 4 6
912 914 915 917 918 919 920 922 923 925 925 934 935 // 936,935 936 "/ 937 // 32 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام صحابہ کی توہین دیو بندیوں کی توہین رسالت ( الف ) چار سوال اہل پیغام سے حضرت مسیح موعود کے مطابق بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے آپ پہلے مسیح سے تمام شان میں بڑھ کر ہیں " میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں“ حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح موعود ہیں مصلح موعود کی پیدائش ” کامل انکشاف کے بعد کی اطلاع“ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا دعویٰ ایک شبہ اور اس کا ازالہ (ب) نبوت حضرت مسیح موعود غیر مبایعین کی پیش کردہ عبارتوں کا مفہوم نبوت کی تعریف خدا کی اصطلاح نبیوں اور قرآن مجید کی اصطلاح اسلامی اصطلاح محدث نہیں مذاہب سابقہ کی اصطلاح دیگر اصطلاحات کا مفہوم 7 8 9 1 2 3 4 1 2
1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ ہستی باری تعالیٰ کے دلائل از افادات حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ قدَا فَلَحَ مَنْ تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَابْقَى إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ ابْراهِيمَ وَ موسى (الاعلى: ۴۱۵ ۲۰) یعنی منظفر منصور ہو گیا وہ شخص کہ جو پاک ہوا اور اس نے اپنے رب کا زبان سے اقرار کیا اور پھر زبان سے ہی نہیں بلکہ عملی طور سے عبادت کر کے اپنے اقرار کا ثبوت دیا لیکن تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو حالانکہ انجام کار کی بہتری ہی اصل بہتری اور دیر پا ہے.اور یہ بات صرف قرآن شریف ہی پیش نہیں کرتا بلکہ سب پہلی کتابوں میں یہ دعویٰ موجود ہے.چنانچہ ابراہیم و موسی نے جو تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی اس میں بھی یہ احکام موجود ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفین قرآن پر یہ حجت پیش کی ہے کہ اپنی نفسانی خواہشوں سے بچنے والے، خدا کی ذات کا اقرار کرنے والے اور پھر اس کا سچا فرمانبردار بننے والے ہمیشہ کامیاب ومظفر ہوتے ہیں اور اس تعلیم کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ بات پہلے تمام مذاہب میں مشترک ہے.چنانچہ اس وقت کے بڑے بڑے مذاہب مسیحی، یہودی اور کفار مکہ پر حجت کے لئے حضرت ابراہیم اور موسی کی مثال دیتا ہے کہ ان کو تو تم مانتے ہو.انہوں نے بھی یہ تعلیم دی ہے.پس قرآن شریف نے ہستی باری تعالیٰ کا ایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی پیش فرمایا ہے کہ کل مذاہب اس پر متفق ہیں اور سب اقوام کا مشترکہ مسئلہ ہے چنانچہ جس قدر اس دلیل پر غور کیا جائے نہایت صاف اور کچی معلوم ہوتی ہے.حقیقت میں کل دنیا کے مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی ہستی ہے جس نے کل جہان کو پیدا کیا.مختلف ممالک اور احوال کے تغیر کی وجہ سے خیالات و عقائد میں بھی فرق پڑتا ہے لیکن باوجوداس
2 کے جس قدر تاریخی مذہب ہیں سب اللہ تعالیٰ کے وجود پر متفق اللسان ہیں.گو اس کی صفات کے متعلق ان میں اختلاف ہو.موجودہ مذاہب یعنی اسلام، مسیحیت، یہودیت ، بدھ ازم، سکھ ازم ، ہندو ازم اور عقائد زرتشی تو سب کے سب ایک اللہ، خدا، الوہیم، پر میشور، پر ماتما، ست گر و یا یزدان کے قائل ہی ہیں مگر جو مذاہب کہ دنیا کے پردہ سے مٹ چکے ہیں ان کے متعلق بھی آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ سب کے سب ایک خدا کے قائل اور معتقد تھے خواہ وہ مذاہب امریکہ کے جُد اشدہ ملک میں پیدا ہوئے ہوں یا افریقہ کے جنگلوں میں، خواہ روما میں، خواہ انگلستان میں، خواہ جاوا اور سماٹرا میں ، خواہ جاپان و چین میں ، خواہ سائبیریا و منچوریا میں.یہ اتفاق مذاہب کیونکر ہوا اور کون تھا جس نے امریکہ کے رہنے والے باشندوں کو ہندوستان کے عقائد سے آگاہ کیا ؟ پہلے زمانہ میں ریل و تا رو ڈاک کا یہ انتظام تو تھا نہیں جواب ہے.نہ اس طرح جہازوں کی آمدورفت کی کثرت تھی.گھوڑوں اور خچروں وغیرہ کی سواری تھی اور بادبانی جہاز آجکل کے دنوں کا سفر مہینوں میں کرتے تھے اور بہت سے علاقے تو اس وقت دریافت بھی نہ ہوئے تھے پھر ان مختلف المذاق اور مختلف الرسوم اور ایک دوسرے سے نا آشنا ممالک میں ایک عقیدہ پر کیونکر اتفاق ہو گیا ؟ من گھڑت ڈھکونسلوں میں تو دو آدمیوں کا اتفاق ہونا مشکل ہوتا ہے.پھر کیا اس قدر قوموں اور ملکوں کا اتفاق جو آپس میں کوئی تبادلہ خیالات کے ذرائع نہ رکھتی تھیں اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ عقیدہ ایک امر واقعہ ہے اور کسی نامعلوم ذریعہ سے جسے اسلام نے کھول دیا ہے ہر قوم اور ہر ملک میں اس کا اظہار کیا گیا ہے.اہل تاریخ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جس مسئلہ پر مختلف اقوام کے مؤرخ متفق ہو جائیں اس کی راستی میں شک نہیں کرتے.پس جب اس مسئلہ پر ہزاروں لاکھوں قوموں نے اتفاق کیا ہے تو کیوں نہ یقین کیا جائے کہ کسی جلوہ گر کو دیکھ کر ہی سب دنیا اس خیال کی قائل ہوئی ہے.دوسری دلیل: دوسری دلیل جو قرآن شریف میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق دی ہے.ان آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا أَتَيْنهَا إبْرَاهِيمَ عَلى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ ۖ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمُ عَلِيْمٌ وَوَهَبْنَا لَةَ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلَّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ وَاتُوبَ وَيُوْسُفَ وَمُوسَى وَهَرُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِى
3 الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِنى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِنَ الصَّلِحِيْنَ وَاسْمُعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ (الانعام: ۸۴ تا ۸۷) پھر کچھ آیات کے بعد فرمایا کہ: اولیک الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُهُمُ اقْتَدِة (الانعام: 91 ) یعنی یہ ایک دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابل میں دی اور ہم جس کے درجات چاہتے ہیں بلند کرتے ہیں.تحقیق تیرا رب بڑا حکمت والا اور علم والا ہے اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب دیئے.ہر ایک کو ہم نے سچا راستہ دکھایا اور نوح کو بھی ہم نے سچا راستہ دکھایا ان سے پہلے اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان ، ایوب ، پوست ، موسی“ اور ہارون کو بھی اور ہم نیک اعمال میں کمال کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح سلوک کیا کرتے ہیں.اور زکریا ، یحی، عیسی" اور الیاس کو بھی راستہ دکھایا اور یہ سب لوگ نیک تھے.اور اسمعیل ، الیسع ، یونس اور لوط کو بھی راستہ دکھایا اور ان سب کو ہم نے اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی تھی اور پھر فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کو خدا نے ہدایت دی.پس تو ان کے طریق کی پیروی کر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس قدر نیک اور پاک لوگ جس بات کی گواہی دیتے ہیں وہ مانی جائے یا وہ بات جو دوسرے ناواقف لوگ کہتے ہیں اور اپنے چال چلن سے ان کے چال چلن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.سیدھی بات ہے کہ انہی لوگوں کی بات کو وقعت دی جائے گی جو اپنے چال چلن اور اپنے اعمال سے دنیا پر اپنی نیکی اور پاکیزگی اور گناہوں سے بچنا اور پر ہیز کرنا ثابت کر چکے ہیں.پس ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ وہ انہی کا نتبع کرے اور ان کے مقابل میں دوسرے لوگوں کی بات کا انکار کر دے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر نیکی اور اخلاق کے پھیلانے والے لوگ گزرے ہیں اور جنہوں نے اپنے اعمال سے دنیا پر اپنی راستی کا سکہ بٹھا دیا تھا وہ سب کے سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جسے مختلف زمانوں میں اللہ یا گارڈ یا پر میشور لکھا گیا ہے.ہندوستان کے راستباز رامچندر ، کرشن.ایران کا راستباز زرتشت.مصر کا راستباز موسی.ناصرہ کا راستباز مسیح.پنجاب کا ایک راستباز نانگ.پھر سب راستبازوں کا سرتاج عرب کا نور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کو اس کی قوم نے بچپن ہی سے صادق کا قول دیا اور جو کہتا ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا (یونس : ۱۷) میں نے تم میں اپنی عمر گزاری ہے کیا تم میرا کوئی جھوٹ ثابت کر سکتے ہو؟ اور اس کی قوم کوئی اعتراض نہیں کر سکتی اور ان کے علاوہ اور ہزاروں راستباز جو وقتا فوقتا دنیا میں ہوئے ہیں یک زبان ہو کر پکارتے ہیں کہ ایک خدا ہے اور یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے ملاقات کی اور اس سے ہم کلام ہوئے.بڑے سے بڑے فلاسفر جنہوں نے دنیا میں کوئی
4 کام کیا ہو وہ ان میں سے ایک کے کام کا ہزارواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتے بلکہ اگر ان لوگوں اور فلاسفروں کی زندگی کا مقابلہ کیا جائے تو فلاسفروں کی زندگی میں اقوال سے بڑھ کر افعال کے باب بہت ہی کم نظر آئیں گے.وہ صدق و راستی جو انہوں نے دکھلائی وہ فلاسفر کیوں نہ دکھلا سکے؟ وہ لوگوں کو راستی کی تعلیم دیتے ہیں مگر خود جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتے لیکن اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا میں نام اوپر لے چکا ہوں صرف راستبازی کی خاطر ہزاروں تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے ہیں لیکن کبھی ان کا قدم اپنی جگہ سے نہیں ہلا.ان کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے ، ان کو وطنوں سے خارج کیا گیا، ان کو گلیوں اور بازاروں میں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی، ان سے گل دنیا نے قطع تعلق کر لیا مگر انہوں نے اپنی بات نہ چھوڑی اور کبھی نہ کیا کہ لوگوں کی خاطر جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچا لیتے اور ان کے عمل نے ، ان کی دنیا سے نفرت نے نمائش سے علیحدگی نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ بے غرض تھے اور کسی نفسانی غرض سے کوئی کام نہ کرتے تھے.پھر ایسے صادق ایسے قابل اعتبار یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی.اس کی آواز سنی اور اس کے جلوے کا مشاہدہ کیا تو ان کے قول کا انکار کرنے کی کسی کے پاس کیا وجہ ہے.جن لوگوں کو ہم روز جھوٹ بولتے سنتے ہیں وہ بھی جب چند ملکر ایک بات کی گواہی دیتے ہیں تو مانا ہی پڑتا ہے.جن کے احوال سے ہم بالکل ناواقف ہوتے ہیں وہ اخباروں میں اپنی تحقیقا تیں شائع کرتے ہیں تو ہم تسلیم کر لیں گے مگر نہیں مانتے تو ان راستبازوں کا کلام نہیں مانتے.دنیا کہتی ہے کہ لنڈن ایک شہر ہے اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں.جغرافیوں والے لکھتے ہیں کہ امریکہ ایک براعظم ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں.سیاح کہتے ہیں کہ سائبیریا ایک وسیع اور غیر آباد علاقہ ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے.کیوں؟ اسی لئے کہ بہت سے لوگوں کی گواہی اس پر ہوگئی ہے حالانکہ ہم ان گواہوں کے حالات سے واقف نہیں کہ وہ جھوٹے ہیں یا بچے.مگر اللہ تعالیٰ کے وجود پر عینی گواہی دینے والے وہ لوگ ہیں کہ جن کی سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہے.انہوں نے اپنے مال و جان ، وطن عزت و آبر وکوتباہ کر کے راستی کو دنیا میں قائم کیا.پھر ان سیاحوں اور جغرافیہ والوں کی بات کو ماننا اور ان راستبازوں کی بات کا انکار کرنا کہاں کی راستبازی ہے.اگر لنڈن کا وجود چندلوگوں سے سن کر ثابت ہوسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وجود ہزاروں راستبازوں کی گواہی پر کیوں ثابت نہیں ہوسکتا؟ غرضیکہ ہزاروں راستبازوں کی شہادت جو اپنے عینی مشاہدہ پر خدا تعالیٰ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں کسی صورت میں بھی رد کے قابل نہیں ہوسکتی.تعجب ہے کہ جو اس کو چہ میں پڑے ہیں وہ تو سب
5 بالا تفاق کہ رہے ہیں کہ خدا ہے لیکن جو روحانیت کے کوچہ سے بالکل بے بہرہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات نہ مانو ہماری مانو کہ خدا نہیں ہے.حالانکہ اصول شہادت کے لحاظ سے اگر دو برابر کے راستباز آدمی بھی ایک معاملہ کے متعلق گواہی دیں تو جو کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کو دیکھا اس کی گواہی کو اس کی گواہی پر جو کہتا ہے میں نے اس چیز کو نہیں دیکھا ترجیح دی جائے گی.کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک کی نظر اس چیز پر نہ پڑی ہولیکن یہ ناممکن ہے کہ ایک نے نہ دیکھا ہو اور سمجھ لے کہ میں نے دیکھا ہے.پس خدا کے دیکھنے والوں کی گواہی اس کے منکروں پر بہر حال حجت ہوگی.تیسری دلیل تیسری دلیل جو قرآن شریف سے معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان کی فطرت خود خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک دلیل ہے کیونکہ بعض ایسے گناہ ہیں کہ جن کو فطرت انسانی قطعی طور پر نا پسند کرتی ہے، ماں، بہن اور لڑکی کے ساتھ زنا ، پاخانہ، پیشاب اور اس قسم کی نجاستوں سے تعلق ہے.جھوٹ ہے.یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے ایک دہریہ بھی پر ہیز کرتا ہے.مگر کیوں ؟ اگر کوئی خدا نہیں تو کیوں وہ اپنی ماں، بہن اور دوسری عورتوں میں فرق جانتا ہے.جھوٹ کو کیوں برا جانتا ہے؟ کیا دلائل ہیں کہ جنہوں نے مذکورہ بالا چیزوں کو اس کی نظر میں بدنما قرار دیا ہے اگر کسی بالائی طاقت کا رعب اس کے دل پر نہیں تو وہ کیوں ان سے احتراز کرتا ہے؟ اس کے لئے تو جھوٹ اور سچ ظلم اور انصاف سب ایک ہی ہونا چاہئے.جو دل کی خوشی ہوئی کر لیا.وہ کون سی شریعت ہے جو اس کے جذبات پر حکومت کرتی ہے.وہ خدا کی حکومت ہے جس نے دل پر اپنا تخت رکھا ہے اور گو ایک دہر یہ زبان سے اس کی حکومت سے نکل جائے لیکن وہ اس کی بنائی ہوئی فطرت سے باہر نہیں نکل سکتا.اور گناہوں سے اجتناب یا ان کے اظہار سے اجتناب اس کے لئے ایک دلیل ہے کہ کسی بادشاہ کی جواب دہی کا خوف ہے جو اس کے دل پر طاری ہے گو وہ اس کی بادشاہت کا انکار ہی کرتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لا اقسم بيَوْمِ الْقِيمَةِ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللُّوْامَةِ (القيامة : ۳۲) یعنی جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہ خدا ہے نہ کوئی جز اسزا ہے.ایسا نہیں بلکہ ہم ان امور کی شہادت کے لئے دو چیزیں پیش کرتے ہیں.ایک تو اس بات کو کہ ہر بات کے لئے ایک قیامت کا دن مقرر ہے جس میں اس کا فیصلہ ہوتا ہے اور نیکی کا بدلہ نیک اور بدی کا بدلہ بدل جاتا ہے.اگر خدا نہیں تو یہ
6 جزا سزا کیونکر مل رہی ہے اور جو لوگ قیامت گبری کے منکر ہیں وہ دیکھ لیں کہ قیامت تو اس دنیا سے شروع ہے.زانی کو آتشک و سوزاک ہوتا ہے.شادی شدہ کو نہیں ہوتا.حالانکہ دونوں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں.دوسری شہادت نفس لوامہ ہے.یعنی انسان کا نفس خود ایسے گناہ پر ملامت کرتا ہے کہ یہ بات بری ہے اور گندی ہے.دہریہ بھی زنا اور جھوٹ کو برا جانیں گے.تکبر اور حسد کو اچھانہ سمجھیں گے مگر کیوں؟ ان کے پاس تو کوئی شریعت نہیں.اسی لئے نا کہ ان کا دل برا مناتا ہے اور دل اسی لئے برا مناتا ہے کہ مجھے اس فعل کی ایک حاکم اعلیٰ کی طرف سے سزا ملے گی.گو وہ لفظوں میں اسے ادا نہیں کرسکتا.اسی کی تائید میں ایک اور جگہ قرآن شریف میں ہے کہ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوْنَهَا (الشمس: 9) اللہ تعالیٰ نے ہر نفس میں نیکی اور بدی کا الہام کر دیا ہے.پس نیکی بدی کا احساس خود خدا کی ایک زبر دست دلیل ہے اگر خدا نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک چیز کو نیک اور ایک کو بد کہا جائے.اور لوگ جو دل میں آئے وہ کر لیا کریں.چوتھی دلیل: چوتھی دلیل جو قرآن شریف سے ذاتِ باری کے متعلق ملتی ہے یہ ہے کہ وان إلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى وَانَّهُ هُوَ اضْحَكَ وَابْكُى وَ أَنَّهُ هُوَ آمَاتَ وَ اَحْيَا وَ أَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى مِنْ نُّطْفَةٍ إِذَا تُمنی (النجم : ۲۳ تا ۴۷) یعنی یہ بات ہر ایک نبی کی معرفت ہم نے پہنچادی ہے کہ ہر ایک چیز کا انتہا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی جا کر ہوتا ہے اور خواہ خوشی کے واقعات ہوں یا رنج کے وہ خدا ہی کی طرف سے آتے ہیں اور موت و حیات سب اسی کے ہی ہاتھ میں ہیں اور اس نے مرد اور عورت دونوں کو پیدا کیا ہے ایک چھوٹی سی چیز سے جس وقت وہ ڈالی گئی.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہر ایک فعل کا ایک فاعل ہوتا ہے اور ضرور ہے کہ ہر کام کا کوئی کرنے والا بھی ہو.پس اس تمام کائنات پر اگر غور کرو گے تو ضرور تمہاری رہنمائی اس طرف ہوگی کہ سب اشیاء آخر جا کر ذات باری پر ختم ہوتی ہیں.اور وہی انتہا ہے تمام اشیاء کی اور اسی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ابتدائی حالت کی طرف متوجہ کر کے فرمایا کہ تمہاری پیدائش تو ایک نطفہ سے ہے اور تم جوں جوں پیچھے جاتے ہو کمزور ہی ہوتے جاتے ہو تم کیونکر اپنے خالق ہو سکتے ہو؟ جب خالق کے بغیر کوئی مخلوق ہو نہیں سکتی اور انسان
7 اپنا آپ خالق نہیں ہے کیونکہ اس کی حالت پر جس قدر غور کریں وہ نہایت چھوٹی اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اس حالت کو پہنچتا ہے اور جب وہ موجودہ حالت میں خالق نہیں تو اس کمز ور حالت میں کیونکر خالق ہو سکتا تھا.تو ماننا پڑے گا کہ اس کا خالق کوئی اور ہے جس کی طاقتیں غیر محدود اور قدرتیں لا انتہا ہیں.غرضیکہ جس قدر انسان کی درجہ بدرجہ ترقی پر غور کرتے جائیں اس کے اسباب باریک سے باریک تر ہوتے جاتے ہیں اور آخر ایک جگہ جا کر تمام دنیاوی علوم کہہ دیتے ہیں کہ یہاں اب ہمارا دخل نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہو گیا اور وہی مقام ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کر رہا ہوتا ہے اور ہر ایک سائنس دان کو آخر ماننا پڑتا ہے کہ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى (النجم: ۴۳) یعنی ہر ایک چیز کی انتہا آخر ایک ایسی ہستی پر ہوتی ہے کہ جس کو وہ اپنی عقل کے دائرہ میں نہیں لا سکتے اور وہی خدا ہے.یہ ایک ایسی موٹی دلیل ہے کہ جسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے.کہتے ہیں کسی نے کسی بدوی سے پوچھا تھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیل ہے.اس نے جواب دیا کہ جنگل میں ایک اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہوتو میں دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے، پھر اتنی بڑی مخلوق کو دیکھ کر کیا میں معلوم نہیں کر سکتا کہ اس کا کوئی خالق ہے.واقعی یہ جواب ایک سچا اور فطرت کے مطابق جواب ہے.اور اس مخلوقات کی پیدائش کی طرف اگر انسان توجہ کرے تو آخر ایک ہستی کو ماننا پڑتا ہے کہ جس نے یہ سب پیدا کیا.پانچویں دلیل: پانچویں دلیل ہستی باری تعالیٰ کی جو قرآن شریف نے دی ہے گواسی رنگ کی ہے لیکن اس سے زیادہ زبردست ہے اور وہاں استدلال بالا ولی سے کام لیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تبرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَقُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِنَّا وَهُوَ حَسِيرُ ( الملک: ۲ تا ۵ ) یعنی بہت برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں ملک ہے.اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے.اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تا کہ دیکھے کہ تم میں سے کون زیادہ نیک عمل کرتا ہے اور وہ غالب ہے بخشندہ ہے.اس نے ساتوں آسمان بھی پیدا کئے ہیں اور ان میں آپس میں
8 موافقت اور مطابقت رکھی ہے.تو کبھی کوئی اختلاف اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا.پس اپنی آنکھ کو لوٹا.کیا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے.دوبارہ اپنی نظر کر کوٹا کر دیکھ تیری نظر تیری طرف تھک کر اور درماندہ ہو کر لوٹے گی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کا ئنات اتفاق پیدا ہوگئی اور اتفاقی طور سے مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ بن گیا.اور سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا خود بخود جوڑ کر آپ ہی چلتی جائے اور اس کی گل پھرانے والا کوئی نہ ہولیکن ان کا جواب اللہ تعالیٰ ان آیات میں دیتا ہے کہ اتفاقی طور پر جڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اور انتظام نہیں ہوتا بلکہ بے جوڑی ہوتی ہیں.مختلف رنگوں سے مل کر تصویر بنتی ہے لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کاغذ پر پھینک دیں تو اس سے تصویر بن جائے گی.اینٹوں سے مکان بنتا ہے.لیکن کیا اینٹیں ایک دوسرے پر پھینک دینے سے مکان بن جائے گا؟ بفرض محال اگر یہ مان لیا جائے کہ بعض واقعات اتفاقا بھی ہو جاتے ہیں لیکن نظام عالم کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی ہو گیا.مانا کہ خود بخود مادہ پیدا ہو گیا ، مانا کہ خود بخود ہی ماده سے زمین پیدا ہوگئی.اور یہ بھی مان لیا کہ اتفاقاً ہی انسان بھی پیدا ہو گیا لیکن تم انسان کی خلقت پر نظر تو کرو کہ کیا ایسی کامل پیدائش کبھی خود بخود ہو سکتی ہے؟ عام طور سے دنیا میں ایک صفت کی خوبی سے اس کے صناع کا پتہ لگتا ہے.ایک عمدہ تصویر کو دیکھ کر فورا خیال ہوتا ہے کہ کسی بڑے مصور نے بنائی ہے.ایک عمدہ تحریر کو دیکھ کر سمجھا جاتا ہے کہ کسی بڑے کاتب نے لکھی ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جائے اسی قدر اس کے بنانے یا لکھنے والے کی خوبی اور بڑائی ذہن نشین ہوتی جاتی ہے.پھر کیونکر تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسی منتظم دنیا خود بخود اور یونہی پیدا ہوگئی ! ذرا اس بات پر تو غور کرو کہ جہاں انسان میں ترقی کرنے کے قومی ہیں وہاں اسے اپنے خیالات کو عملی صورت میں لانے کے لئے عقل دی گئی ہے اور اس کا جسم بھی اس کے مطابق بنایا گیا ہے.چونکہ اس کو محنت سے روزی کمانا تھا اس لئے اسے مادہ دیا کہ چل پھر کر اپنا رزق پیدا کرے.درخت کا رزق اگر زمین میں رکھا ہے تو اسے جڑیں دیں کہ وہ اس کے اندر سے پیٹ بھرے.اگر شیر کی خوراک گوشت رکھی تو اسے شکار مارنے کے لئے ناخن دیئے.اور اگر گھوڑے اور بیل کے لئے گھاس کھانا مقرر کیا تو ان کو ایسی گردن دی جو جھک کر گھاس پکڑ سکے.اور اگر اونٹ کے لئے درختوں کے پتے اور کانٹے مقرر کئے تو اس کی گردن بھی لمبی بنائی.کیا یہ سب کا رخانہ اتفاق سے ہوا؟ اتفاق نے اس بات کو معلوم کر
9 لیا تھا کہ اونٹ کو گردن لمبی دوں اور شیر کو پنجے اور درخت کو جڑیں اور انسان کو ٹانگیں.ہاں کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو کام خود بخود ہو گیا اس میں اس قدرا نتظام رکھا گیا ہو.پھر اگر انسان کے لئے پھیپھڑا بنایا تو اس کے لئے ہوا بھی پیدا کی.اگر پانی پر اس کی زندگی رکھی تو سورج کے ذریعہ اور بادلوں کی معرفت اسے پانی پہنچایا.اور اگر آنکھیں دیں تو ان کے کارآمد بنانے کے لئے سورج کی روشنی بھی دی تا کہ وہ اس میں دیکھ بھی سکے.کان دیئے تو ساتھ اس کے خوبصورت آواز میں بھی پیدا کیں.زبان کے ساتھ ذائقہ دار چیزیں بھی عطا فرما ئیں.ناک پیدا کیا تو خوشبو بھی مہیا کردی.ممکن تھا کہ اتفاق انسان میں پھیپھڑا پیدا کر دیتا لیکن اس کے لئے یہ ہوا کا سامان کیونکر پیدا ہو گیا ؟ ممکن تھا کہ آنکھیں انسان کی پیدا ہو جاتیں لیکن و بعجیب اتفاق تھا کہ جس نے کروڑوں میلوں پر جا کر ایک سورج بھی پیدا کر دیا کہ تا وہ اپنا کام کر سکیں.اگر ایک طرف اتفاق نے کان پیدا کر دیئے تھے تو یہ کون سی طاقت تھی جس نے دوسری طرف آواز بھی پیدا کر دی.برفانی ممالک میں مان لیا کہ کتے اور ریچھ تو اتفاق نے پیدا کر دیئے لیکن کیا سبب کہ ان کتوں یا ریچھوں کے بال اتنے لمبے بن گئے کہ وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں.اتفاق ہی نے ہزاروں بیماریاں پیدا کیں اور اتفاق ہی نے ان کے علاج بنا دیئے.اتفاق ہی نے بچھو بوٹی جس کے چھونے سے خارش ہونے لگ جاتی ہے پیدا کی اور اس نے اس کے ساتھ پالک کا پودا اگا دیا کہ اس کا علاج ہو جائے.یہ دہریوں کا اتفاق بھی عجیب ہے کہ جن چیزوں کے لئے موت تجویز کی ان کے ساتھ طوالت کا سلسلہ بھی قائم کر دیا اور جن چیزوں کے ساتھ موت نہ تھی وہاں یہ سلسلہ ہی نہ رکھا.انسان اگر پیدا ہوتا مگر نہ مرتا تو کچھ سالوں میں ہی دنیا کا خاتمہ ہو جاتا.اس لئے اس کے لئے فنادی لیکن سورج اور چاند اور زمین نہ نئے پیدا ہوتے ہیں نہ اگلے فنا ہوتے ہیں.کیا یہ انتظام کچھ کم تعجب انگیز ہے کہ زمین اور سورج میں چونکہ کشش رکھی ہے اس لئے ان کو ایک دوسرے سے اتنی دور رکھا ہے کہ آپس میں ٹکرا نہ جائیں.کیا یہ سب باتیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ ان سب چیزوں کا خالق وہ ہے جو نہ صرف علیم ہے بلکہ غیر محدود علم والا بھی ہے.اس کے قواعدا ایسے منضبط ہیں کہ ان میں کچھ اختلاف نہیں اور نہ کچھ کمی ہے.مجھے تو اپنی انگلیاں بھی اس کی ہستی کا ثبوت معلوم ہوتی ہیں.مجھے جہاں علم دیا تھا اگر شیر کا پنجہل جائے تو کیا میں اس سے لکھ سکتا تھا.شیر کو علم نہیں دیا اسے پنجے دیئے.مجھے علم دیا.لکھنے کے لئے انگلیاں بھی دیں.سلطنتوں میں ہزاروں مدبر اُن کی درستی کے لئے دن رات لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی دیکھتے
10 ہیں کہ ان سے ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ جن سے سلطنتوں کو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات وہ بالکل تباہ ہو جاتی ہیں لیکن اگر اس دنیا کا کاروبار صرف اتفاق پر ہے تو تعجب ہے کہ ہزاروں دانا دماغ تو غلطی کرتے ہیں لیکن یہ اتفاق غلطی نہیں کرتا.سچی بات یہی ہے کہ اس کا ئنات کا ایک خالق ہے جو بڑے وسیع عالم کا مالک اور عزیز ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو یہ انتظام نظر نہ آتا.اب جس طرف نظر دوڑا کر دیکھو تمہاری نظر قرآن شریف کے ارشاد کے مطابق خائب و خاسر واپس آئے گی اور ہر ایک چیز میں ایک نظام معلوم ہوگا.نیک جزا اور بد کا رسزا پا رہے ہیں.ہر ایک چیز اپنا مفوضہ کام کر رہی ہے اور دم کے لئے سُست نہیں ہوئی.یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں.عاقل را اشارہ کافی است.چھٹی دلیل: قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک ثبوت ہے ان کے باطل پر ہونے کا.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ فتوحات دیتا ہے اور وہ اپنے مخالفوں پر غالب رہتے ہیں.اگر کوئی خدا نہیں تو یہ نصرت و تائید کہاں سے آتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرعون اور موسیٰ کی نسبت فرماتا ہے: قَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الأعلى فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى (النزعت: ۲۵ ۲۶) یعنی جب حضرت موسی نے فرعون کو اطاعت الہی کی نسبت کہا تو اس نے تکبر سے جواب دیا کہ خدا کیسا؟ خدا تو میں ہوں.پس اللہ تعالیٰ نے اسے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ذلیل کر دیا.چنانچہ فرعون کا واقعہ ایک تین دلیل ہے کہ کس طرح خدا کے منکر ذلیل وخوار ہوتے رہے ہیں.علاوہ ازیں دنیا میں کبھی کوئی سلطنت دہریوں نے قائم نہیں کی بلکہ دنیا کے فاتح اور ملکوں کے مصلح اور تاریخ کے بنانے والے وہی لوگ ہیں کہ جو خدا کے قائل ہیں.کیا جہان کی ذلت و نکبت اور ایک قوم کی صورت میں کبھی حکومت نصیب نہ ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا؟ ساتویں دلیل: ساتویں دلیل اللہ تعالیٰ کی ہستی کی یہ ہے کہ اس کی ذات کے مانے اور اس پر حقیقی ایمان رکھنے والے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور باوجود لوگوں کی مخالفت کے ان پر کوئی مصیبت نہیں آتی.
11 خدا تعالی کی ہستی کے منوانے والے ہر ایک ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور جس قدر ان کی مخالفت ہوئی ہے اتنی اور کسی کی نہیں ہوئی لیکن پھر دنیا ان کے خلاف کیا کرسکی؟ رامچند رکو بن باس دینے والوں نے کیا سکھ پایا اور انہوں نے کونسی عشرت حاصل کر لی.کیا رامچند رکا نام ہزاروں سال کے لئے زندہ نہیں ہو گیا اور ان کا نام ہمیشہ کے لئے بدنام نہیں ہوا ؟ اور پھر کرشن کی بات کو رد کر کے کیا فائدہ حاصل کیا؟ کیا وہ کرو چھتر کے میدان میں تباہ نہ ہوئے ؟ فرعون سا بادشاہ جو بنی اسرائیل سے اینٹیں پنتھوا تا تھا اس نے موسی سے بے کس انسان کی مخالفت کی مگر کیا موسی کا وہ کچھ بگاڑ سکا.وہ غرق ہو گیا اور موسی بادشاہ ہو گئے.حضرت مسیح کی دنیا نے جو کچھ مخالفت کی وہ بھی ظاہر ہے اور ان کی ترقی بھی جو کچھ پوشیدہ نہیں.ان کے دشمن تو تباہ ہوئے اور ان کے غلام دنیا کے بادشاہ ہو گئے.ہمارے آقا بھی دنیا میں سب سے زیادہ اس پاک نام کے پھیلانے والے تھے.یہاں تک کہ ایک یورپ کا مصنف کہتا ہے کہ ان کو خدا کا جنون تھا ( نعوذ باللہ ) ہر وقت خدا خدا ہی کہتے رہتے تھے.اُن کی سات قوموں نے مخالفت کی.اپنے پرائے سب دشمن ہو گئے مگر کیا پھر آپ کے ہاتھ پر دُنیا کے خزانے فتح نہیں ہوئے؟ اگر خدا نہیں تو یہ تائید کس نے کی؟ اگر یہ سب کچھ اتفاق تھا تو کوئی مبعوث تو ایسا ہوتا جو خدا کی خدائی ثابت کرنے آتا اور دنیا اسے ذلیل کر دیتی.مگر جو کوئی خدا کے نام کو بلند کرنے اٹھاوہ معزز و ممتاز ہی ہوا چنانچہ اللہ تعالے قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ: وَمَنْ يَتَوَنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الخلبونَ (المائدة : ۵۷) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی کرتا ہے.پس یا درکھنا چاہئے کہ یہی لوگ خدا کے ماننے والے ہی غالب رہتے ہیں.آٹھویں دلیل آٹھویں دلیل جو قرآن شریف سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور یہ بات کسی خاص زمانہ کے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر زمانہ میں اس کے نظارے موجود ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: ۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دو کہ میں ہوں اور پھر قریب ہوں اور پکارنے والے کی دعا کوسنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات مانیں
12 اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں.اب اگر کوئی شخص کہے کہ کیونکر معلوم ہو کہ وہ خدا سنتا ہے.کیوں نہ کہا جائے کہ اتفاقاً بعض دعا کرنے والے کے کام ہو جاتے ہیں.جیسے بعض کے نہیں بھی ہوتے اگر سب دعا ئیں قبول ہو جاتیں تب تو کچھ بات بھی تھی لیکن بعض کے قبول ہونے سے کیونکر معلوم ہو کہ اتفاق نہ تھا بلکہ کسی ہستی نے انہیں قبول کر لیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت اپنے ساتھ ایک نشان رکھتی ہے.چنانچہ ہمارے آقا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود مهدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثبوتِ باری کی دلیل میں یہ پیش کیا تھا کہ چند بیمار جو خطرناک طور سے بیمار ہوں چنے جائیں اور قرعہ سے بانٹ لئے جائیں اور ایک گروہ کا ڈاکٹر علاج کریں اور ایک طرف میں اپنے حصہ والوں کے لئے دعا کروں.پھر دیکھو کہ کس کے بیمار اچھے ہوتے ہیں.اب اس طریق امتحان میں کیا شک ہو سکتا ہے چنانچہ ایک سگ گزیدہ جسے دیوانگی ہو گئی تھی اور جس کے علاج سے کسولی کے ڈاکٹروں نے قطعاً انکار کر دیا تھا اور لکھ دیا تھا کہ اس کا کوئی علاج نہیں.اس کے لئے آپ نے دعا کی اور وہ اچھا ہو گیا حالانکہ دیوانہ کتنے کے کٹے ہوئے دیوانے ہو کر کبھی اچھے نہیں ہوتے.پس دعاؤں کی قبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو انہیں قبول کرتی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کسی خاص زمانہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر زمانہ میں اس کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں.جیسے پہلے زمانہ میں دعائیں قبول ہوتی تھیں ویسی ہی اب بھی ہوتی ہیں.نوس دلیل نویں دلیل قرآن شریف سے وجود باری کی الہام معلوم ہوتی ہے.یہ دلیل اگر چہ میں نے نویں نمبر پر رکھی ہے لیکن در حقیقت نہایت عظیم الشان دلیل ہے جو خدا تعالے کے وجود کو یقینی طور پر ثابت کر دیتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُنبتُ اللَّهُ الَّذِينَ مَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (ابراهیم: ۲۸) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس دنیا اور انگلی دنیا میں پکی باتیں سنا سنا کر مضبوط کرتا رہتا ہے.پس جبکہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہمکلام ہوتا رہتا ہے.تو پھر اس کا انکار کیونکر درست ہو سکتا ہے اور نہ صرف انبیاء اور رسولوں سے ہی ہمکلام ہوتا ہے بلکہ اولیاء سے بھی بات کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے کسی غریب بندہ پر بھی رحم کرکے اس کی تشفی کے لئے کلام کرتا ہے.چنانچہ اس عاجز ( حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ ) سے بھی اس نے کلام کیا
13 اور اپنے وجود کو دلائل سے ثابت کیا.پھر یہی نہیں بعض دفعہ نہایت گندہ اور بد باطن آدمیوں سے بھی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے بول لیتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ چوہڑوں ، چماروں ، نچینیوں تک کو خوا ہیں اور الہام ہو جاتے ہیں.اور اس بات کا ثبوت کہ وہ کسی زبر دست ہستی کی طرف سے ہیں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر بتا دیتی ہیں کہ یہ انسانی دماغ کا کام نہ تھا اور نہ کسی بد ہضمی کا نتیجہ تھا اور بعض دفعہ سینکڑوں سال آگے کی خبریں بتائی جاتی ہیں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ موجودہ واقعات خواب میں سامنے آگئے.اور وہ اتفاقاً پورے بھی ہو گئے.چنانچہ تو ربیت اور قرآن شریف میں مسیحیوں کی ان ترقیوں کا جن کو دیکھ کر اب دنیا حیران ہے پہلے سے ذکر موجود تھا اور پھر صریح لفظوں میں تفصیل کے ساتھ بلکہ ان واقعات کا بھی ذکر ہے جو آئندہ پیش آنے والے ہیں.مثلاً اول : إِذَا الْعِشَارُ مُعْتِلَتْ (التكوير : ۵) یعنی ایک وقت آتا ہے کہ اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی.اور حدیث مسلم میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ وَلَیتُرَكُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عيسى ابن مريم حاكمًا بشريعة نبينا محمد ،مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴ ۴۹ مطبوعہ بیروت) یعنی اونٹنیوں سے کام نہ لیا جائے گا.چنانچہ اس زمانے میں ریل کے اجراء سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.ریل کے متعلق نبی کریم ع کے کلام میں ایسے ایسے صاف اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ریل کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ کلام نبوت میں یہی سواری ہے جو بس ماء سے چلے گی اور اپنے آگے دھوئیں کا ایک پہاڑ رکھے گی اور سواری و بار برداری کے لحاظ سے حِمار کی جابجا ہوگی اور چلتے وقت ایک آواز کرے گی.و غیر ذالک.دوم : إِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ - (التكوير : 1) یعنی کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا.آجکل باعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرتِ اشاعت کتابوں کی ہوئی اس کے بیان کی ضرورت نہیں.لے دیکھو کنز العمال كتاب القيامة باب خروج النار حديث نمبر ۳۸۸۸۹_ تَخْرُجُ نَارٌ مِنْ حَبْسِ سَيْلٍ.نيز أَمَامَهُ جَبَلْ دُخَانِ نیز دیکھو ( بحار الانوار جلد نمبر ۵۲ صفحه ۱۹۲ ۱۹۳ الطبعہ الثالثه باب علامات ظهوره من السفياني والدجال، كنز العمال كتاب القيامة باب الدجال حدیث نمبر ۳۹۷۰۹ - ) رَكْبٌ ذَوَاتُ الْفُرُوجُ السُّرُوج کہ وہ ایسی سواریاں ہوں گی جن میں بہت سے چراغ روشن ہوں گے اور ان کے اندر بہت سے دروازے کھڑکیاں ہوں گی.خادم.
14 سوم: - إِذَا التَّقَوسُ زُوجَتْ - التكوير : (۸) نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہو جانا کہ موجودہ زمانے سے بڑھ کر متصور نہیں.چهارم : تَرْجُفُ الزَّاحِفَةُ تَتْبَعُهَا الرايقة ( النزعت: ۸،۷) متواتر اور غیر معمولی زلزلوں کا آنا یہانتک کہ زمین کا پنپنے والی بن جائے.سو یہ زمانہ اس کے لئے بھی خصوصیت سے مشہور ہے.پنجم:.وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيِّمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوْهَا (بنی اسرائیل: ۵۹) یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدت پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے.چنانچہ اسی زمانہ میں طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی.پھر اسلام تو ایسا مذہب ہے کہ ہر صدی میں اس کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو الہام الہی سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور خارق عادت نشانات سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک قادر وتوانامد بر بالا رادہ عالم الغیب ہستی ہے.چنانچہ اس زمانہ کے مامور پر نہایت بے بسی و گمنامی کی حالت میں خدا نے وحی نازل کی کہ اوّل: يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ....يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ....وَلَا تُصَعِّرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمْ مِنَ النَّاسِ.دیکھو براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۶۷-۲۶۸) کہ ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ایسی کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القا کریں گے مگر چاہیے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بدخلقی نہ کرے اور چاہیے کہ تو ان کی کثرت دیکھ کر ملاقاتوں سے تھک نہ جائے.ایک شخص ایک ایسے گاؤں میں رہنے والا جس کے نام سے بھی مہذب دنیا میں سے کوئی آگاہ نہیں یہ اعلان کرتا ہے.پھر با وجود سخت مخالفتوں اور روکوں کے ایک دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ وافریقہ سے لے کر تمام علاقوں کے لوگ یہاں حاضر رہتے ہیں اور آدمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب سے مصافحہ و ملاقات کرنا کسی آدمی کا کام نہیں ہوسکتا.پھر ایک مقتدر
15 جماعت اپنے پیارے وطن چھوڑ کر یہاں رہنا اختیار کرتی ہے اور قادیان کا نام تمام دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے.کیا یہ چھوٹی سی بات ہے؟ اور کیا یہ ایسا نشان ہے جسے معمولی نظر سے ٹال دیا جائے؟ دوم:.عیسائیوں میں سے ڈوئی نے امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے یہ نا پاک کلمات شائع کئے کہ ”میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جائے.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے خدا! اسلام کو ہلاک کرے تو صرف یہ حضور مسیح موعود ہمارے امام علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے اس کے مقابلہ میں اشتہار دیا کہ اے جو مدعی نبوت ہے اور میرے ساتھ مقابلہ کر.ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو.“ ( ٹیلیگراف امریکہ ۵ جولائی ۱۹۰۳ءThe Sunday Herald Boston June) لیکن اس نے رعونت سے کہا.” کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ان کو چل کر مار ڈالوں گا.(ڈوئی کا پرچہ نیوز آف ہیلنگ دسمبر ۱۹۰۳ء) مگر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اُسی اشتہار ۲۳ اگست ۱۹۰۱۳ء میں شائع کیا تھا.کہ اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر آفت آنے والی ہے.اے خدا اور کامل خدا ! یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.“ پھر اس کے بعد سنو کیا ہوا.وہ جو شہزادوں کی زندگی بسر کیا کرتا تھا.جس کے پاس سات کروڑ روپیہ تھا.اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد الزنا ہے.آخر اس پر فالج گرا.پھر غموں کے مارے پاگل ہو گیا.آخر مارچ ۱۹۰۷ء میں بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ جیسا کہ خدا نے اپنے مامور کو پہلے سے اطلاع دی اور جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۱۰ فروری ۱۹۰۷ء کے اشتہار میں شائع فرمایا تھا.”خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیمہ ہوگی.وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا.ہلاک ہو کر خدا کی ہستی پر گواہی دے گیا.یہ عیسائی دنیا، پرانی اور نئی دنیا دونوں پر حضور کی فتح تھی.سوم :.آریوں کا ایک نامی لیڈر لیکھرام تھا.رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر ۱۳۰۸ھ میں یہ پیشگوئی درج کی کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کر کے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہو گا.اور اس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبی ﷺ کو گالیاں دیتا تھا اور بُرے لفظوں کے ساتھ توہین کرتا تھا.پھر ۲ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں اُس کے مرنے کی صورت بھی بتادی عِجُلّ جَسَدٌ
16 لَه خَوَارٌ لَه نَصَبْ وَعَذَابٌ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء مشمولہ آئینہ کمالات اسلام) یعنی لیکھر ام گوسالہ سامری ہے جو بے جان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں روحانیت نہیں.اس لئے اس کو عذاب دیا جائے گا جو گوسالہ سامری کو دیا گیا تھا.ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گوسالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور دریا میں ڈالا گیا تھا.پھر ۲ / اپریل ۱۸۹۳ء کو آپ نے ایک کشف دیکھا ( برکات الدعا حاشیہ صفحہ یہ طبع اوّل ) کہ ایک قومی مہیب شکل جو گویا انسان نہیں ملائک شد ادوغلاظ سے ہے وہ پوچھتا ہے کہ لیکھرام کہاں ہے؟ پھر کرامات الصادقین (روحانی خزائن جلدے صفحہ ۹۶) کے ایک شعر سے دن بھی بتا دیا.وَبَشَّرَنِي رَبِّي وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعُرِفْ يَوْمَ الْعِيدِ وَالْعِيْدُ أَقْرَبُ یعنی عید سے دوسرے دن یعنی ہفتہ والے دن اور ے الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بُران محمد پانچ سال پہلے شائع کر کے قتل کی صورت بھی بتا دی.آخر لیکھر ام ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل کیا گیا اور سب نے متفق اللفظ ہو کر بیان کیا کہ یہ پیشگوئی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہو کر اللہ کی ہستی کے لئے حجت ناطقہ ٹھہری.پس الہام ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خدا کا انکار کرنا انتہائی ہٹ دھرمی ہے.دسویں دلیل: دسویں دلیل جو ہر ایک نزاع کے فیصلہ کے لئے قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے اس آیت سے نکلتی ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۷۰ ) یعنی جولوگ ہمارے متعلق کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیتے ہیں اور اس آیت پر جن لوگوں نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ نفع میں رہے ہیں.وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا منکر ہوا سے تو ضرور خیال کر لینا چاہیے کہ اگر خدا ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگی.پس اس خیال سے اگر سچائی دریافت کرنے کی اس کے دل میں تڑپ ہو تو اسے چاہیے کہ گڑ گڑا کر اور بہت زور لگا کر وہ اس رنگ میں دعا کرے کہ اے خدا! اگر تو ہے اور جس طرح تیرے ماننے والے کہتے ہیں تو غیر محدود طاقتوں والا ہے تو مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنی طرف ہدایت کر اور میرے دل میں بھی یقین اور ایمان ڈال دے تاکہ میں محروم نہ رہ جاؤں.اگر اس طرح
17 سچے دل سے کوئی شخص دعا کرے گا اور کم سے کم چالیس دن تک اس پر عمل کرے گا تو خواہ اس کی پیدائش کسی مذہب میں ہوئی ہو وہ کسی ملک کا باشندہ ہو رب العالمین ضرور اس کی ہدایت کرے گا اور وہ جلد دیکھ لے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے رنگ میں اس پر اپنا وجود ثابت کر دے گا کہ اس کے دل کی شک وشبہ کی نجاست بالکل دور ہو جائے گی اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس طریق فیصلہ میں کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہوسکتا.پس سچائی کے طالبوں کے لئے اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟ گیارہویں دلیل: دنیا میں تمام اشیاء جس قدر ہمیں دکھائی دیتی ہیں سب مرکب ہیں.ہوا کولو وہ بھی مرکب ہے.پانی بھی مرکب ہے.لہذا جب سب مرکب ہو ئیں تو ان کو ترکیب کرنے والا بھی ضروری ہے.اگر کہو کہ وہ خود بخود مرکب ہو سکتی ہیں تو یہ بات مشاہدہ غلط ہے مثلاً درخت سے پھل یا پتے تو ڑ کر پھینک دیئے جائیں تو وہی پھل اور پتے دوبارہ خود بخود اس درخت سے نہیں لگتے جس سے ثابت ہوا کہ مرکب ہونا اُن کا خاصہ نہیں ورنہ جب توڑے جاتے پھر لگ جاتے.بارہویں دلیل: نظام عالم میں ترتیب ہے.مثلاً سورج روشنی دیتا ہے.کھیتیاں پکاتا ہے.وغیرہ.چاند رات کی مشعل ہے.پانی پیاس بجھاتا ہے.غرض دنیا میں بہت سی چیزیں انسان کو فائدہ پہنچاتی ہیں.اب ان کے متعلق تین ہی صورتیں عقل میں آسکتی ہیں (۱) یا تو کہا جائے کہ یہ سب اتفاقی ہیں لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ اتفاقی وہ ہوتی ہے جو کبھی ہو کبھی نہ ہو.(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ سب اپنی مرضی سے ایسا کرتے ہیں تو اس صورت میں بجائے ایک خدا کے کئی خدا تسلیم کرنے پڑیں گے.(۳) تیسری صورت یہ ہے کہ ہم کہیں.نہ یہ سب اتفاقی ہیں نہ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں بلکہ سب کے سب ایک حکمران کے قبضہ قدرت کے ماتحت کام کرتے ہیں.غرض تینوں صورتوں سے دہریوں کا مذہب باطل ہے.تیرہویں دلیل: دنیا یا خود بخود ہے یا کسی نے بنائی ہے.اگر کہو کہ خود بخود ہے تو یہ بات درست نہیں کیونکہ عدم سے وجود میں آنا ایک فعل ہے اور کوئی فعل بغیر فاعل کے نہیں ہوتا اور فاعل کا وجود فعل سے پہلے موجود
18 ہونا ضروری ہوتا ہے.سو اگر عدم سے وجود میں آنے کا فاعل دنیا ہے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ دنیا اپنے خود بخود بننے سے پہلے موجود تھی جو بالبداہت باطل ہے.رہی دوسری بات کہ کسی نے بنائی ہے تو یہی درست ہے اور اس بنانے والے کو ہم خدا کہتے ہیں.چودھویں دلیل: دہر یوں کا یہ دعوئی کہ ہم خود بخود ہیں ترجیح بلا مرتج ہے.اگر وہ کہیں کہ ہم خود مریخ ہیں تو یہ بات غلط ہے کیونکہ مرج ترجیح سے پہلے ہوتا ہے.اگر یہی بات ہے تو عدم سے وجود میں آنا کیسا؟ اور جب ہم نہ ہوئے تو کوئی اور مرچ ہوگا.پس اسی کو ہم خدا کہتے ہیں.پندرھویں دلیل: دنیا قدیم ہے یا حادث.اگر کہو قدیم ہے تو یہ بات غلط ہے.کیونکہ قدیم وہ ہوسکتی ہے جو کسی کی محتاج نہ ہو اور دنیا کی ہر چیز دوسری کی محتاج ہے.مثلاً بارش نہ ہو تو زمین اکیلی کچھ نہیں اگا سکتی.پس ثابت ہوا کہ دنیا قدیم نہیں.جب قدیم نہ ہوئی تو حادث ٹھہری اور حادث کا کوئی محد ث چاہیے.سو وہی خدا ہے.سولہویں دلیل: دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مصنوع بغیر صانع کے نہیں.جو چیز بھی لو فطرت خود گواہی دے گی کہ ضرور بضر ور کوئی نہ کوئی اس کا پیدا کرنے والا ہے.سواتنے بڑے عالم کو کہہ دینا کہ یہ خود بخود ہے درست نہیں.سترھویں دلیل (از خادم): ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ انسان کسی چیز کے اجزاء اور مرکبات سے جتنا واقف ہو اس چیز کے مستقبل کے متعلق بھی اتنا ہی اس کو علم ہوتا ہے.مثلاً ایک گھڑی ساز ایک گھڑی بناتا ہے.وہ چونکہ اس کے اجزاء اور مرکبات سے واقف ہے اس لئے وہ بتا سکتا ہے کہ وہ گھڑی کتنا عرصہ کام دے گی مگر
19 چونکہ انسان اپنا خالق نہیں اس لئے اپنے وجود کے اجزاء اور دنیا کی اشیاء کی ماہیت کامل طور پر نہیں جانتا.اس لئے عالم الغیب بھی نہیں لیکن اگر کوئی ایسی ہستی ہو جو آئندہ کے تمام حالات جانتی ہو تو یقیناً وہ خالق دنیا ( خدا ) ہوگی.خدا تعالیٰ اپنے انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے ( جو بوجہ انسان ہونے کے بذات خود غیب نہیں جانتے مگر خدا تعالیٰ اُن پر آئندہ کی خبریں کھولتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الجن : ۲۸،۲۷) اور اس طریق سے اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے.دیکھو آنحضرت عمہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل بتایا تھا کہ فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً (يونس: ۹۳) کہ فرعون کے ساتھ جب وہ ڈوب رہا تھا خدا نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس کا جسم محفوظ رہے گا.تو رات نے صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ فرعون مع اپنے رتھ کے سمندر میں پتھر کی طرح غرق ہو گیا لیکن قرآن نے بتایا کہ اس کی لاش محفوظ ہے.چنانچہ ہمارے زمانہ میں اس کا محفوظ جسم برآمد ہونا قرآن کی صداقت اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر زبردست دلیل ہے.اسی طرح چاند ، سورج کو رمضان کے مہینہ میں ۱۳ را اور ۲۸ تاریخ کو گرہن لگنا اور اس کا امام مہدی کی صداقت پر گواہ ہونا اور پھر اس نشان کا حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے زمانہ ۱۸۹۴ء میں بعینہ پورا ہو جانا خدا کی ہستی اور آنحضرت کی صداقت پر بُرہان قاطع ہے.(سنن دار قطنی جلد دوم باب صفة صلواة الخسوف والكسوف وَهَيئتُهما صفحه ۱۸۸مطبع انصاری دهلی (۱۳۱۰ھ)
20 20 و ہم ہے؟ دہریوں کے اعتراضات مع جوابات (۱) اعتراض اوّل:.چونکہ خدا نظر نہیں آتا اس لئے معلوم ہوا کہ اس کا وجود وہم ہی جواب اوّل:.دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جو نظر نہیں آتیں.جیسے عقل ، ہوا، روح بجلی اور زمانہ وغیرہ مگر دہر یہ ان چیزوں کے وجود کے مقر ہیں.جواب دوم:.اگر خدا لوگوں کو نظر آیا بھی کرتا تب بھی اس کو ہر شخص تسلیم نہ کرتا.مثلاً اندھوں کو کس طرح نظر آتا ہے؟ دہر یہ اندھوں کو کیا جواب دیتے.اس لئے معلوم ہوا کہ آنکھوں سے نظر آنا ایک ایسا امر نہیں جس سے ساری دنیا کی تشفی ہو سکتی.جواب سوم :.اگر آنکھوں سے نظر آجائے اور سب لوگ اُس جلال والی ہستی کا مشاہدہ کر لیں تو پھر دین کا کارخانہ ہی باطل ہو جائے اور ایمان بالغیب پر جو ثواب مقرر ہیں وہ ضائع ہو جائیں.آنکھوں سے وہی چیز نظر آتی ہے جو کسی خاص سمت پر واقع ہو اور محدود ہو یا د یکھنے والے کی آنکھ سے دور ہو.خدا تعالیٰ کی ہستی تو سمتوں سے پاک ہے.ہمتیں مخلوق کی ہیں اور یہ نہیں ہوسکتا کہ مخلوق اپنے خالق کا احاطہ کرے علا وہ ازیں جب اس کو آنکھ نے دیکھا اور اس کا احاطہ کیا تو وہ محدود ثابت ہوا اور محدود ہونا نقص ہے اور خدا نقصوں سے پاک ہے نیز وہ ہر جگہ موجود ہے.آنکھ سے دور ہستی نہیں.سچ ہے : لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام: ۱۰۴) (۲) اعتراض دوم:.اگر خدا کا کوئی وجود ہوتا تو مذہب میں اختلاف نہ ہوتا بلکہ سب مذہب آپس میں متفق ہوتے کیونکہ ان کا اتار نے والا بھی ایک مانا جاتا لیکن چونکہ اختلاف ہے اس لئے معلوم ہوا کہ الہام وغیرہ وہم ہے اور خدا کا کوئی وجود نہیں.جواب اوّل:.مذہب کے اختلاف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا بھیجنے والا کوئی نہیں.کیونکہ مذاہب اور شریعت لوگوں کے لئے بطور نسخہ ہوتے ہیں.جس طرح ایک ہی طبیب مختلف بیماروں
21 میں مختلف بیماریوں کی حالت کے مطابق مختلف نسخے تجویز کرتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی لوگوں کے مختلف حالات کے مطابق شریعت تجویز کرتا ہے.مثلاً بنی اسرائیل عرصہ دراز تک محکوم رہنے کی وجہ سے بے غیرتی کے مرض میں مبتلا ہو چکے تھے.اس وقت خدا نے نسخہ بھیجا کہ کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک، آنکھ کے بدلے آنکھ.غرض اسی طرح پُر زور طریقوں سے ان میں جوشِ انتقام پیدا کیا پھر جب چودہ سو برس کا لمبا عرصہ گزر گیا اور حضرت عیسی کا وقت آیا.اس وقت یہودی نہایت انتقام گیر اور کینہ تو ز تھے.اس لئے ان کے لئے جو نسخہ آیا اس میں درج تھا کہ اگر کوئی شخص تیرے داہنے گال پر تھپٹر مارے تو بایاں گال بھی اس کے آگے کر دو.اس کے بعد جب ایسے وسائل پیدا ہونے لگے اور وہ زمانہ آگیا کہ دنیا کے لوگ دور دراز ملکوں کے آپس میں ملنے لگے.تب ایک مکمل نسخہ آیا جس کی موجودگی میں کسی اور نسخہ کی ضرورت نہ رہی.اس میں نسخہ لکھنے والے حکیم مطلق نے لکھا کہ موقع ومحل کے مطابق عمل کرو.انتقام کے موقع پر انتقام.عفو کے موقع پر عفو غرض اختلاف مذاہب سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ ایک سرچشمہ سے نہیں نکلے بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کی طبیعتوں اور حالتوں میں اختلاف ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں اصول میں وہ سب متفق ہیں اور سب ایک اصول پر مجتمع ہیں اور جو اختلاف ہم کو نظر آتا ہے وہ بعد میں آنے والوں کی ملاوٹ اور تحریف کا نتیجہ ہے.ہاں اگر فروع میں کہیں کہیں کوئی فرق نظر آئے تو وہ قوموں کی حالتوں کی تبدیلی کی وجہ سے ہے.(۳) اعتراض سوم:.اگر کوئی خدا ہوتا تو دنیا میں یہ تفرقہ نہ ہوتا.کوئی غریب ہے کوئی امیر کوئی مریض اور کوئی تندرست.کوئی کمزور اور کوئی طاقتور.جواب اوّل:.یہ اعتراض تو ایسا ہے جیسا کہیں کہ ہندوستان یا پاکستان کا کوئی حاکم نہیں کیونکہ یہاں تفرقہ ہے.کوئی ڈپٹی کمشنر ہے کوئی گورنر.جواب دوم : اللہ تعالیٰ نے چاند ، سورج، ہوا، پانی وغیرہ سب کو یکساں طور پر دیئے ہیں پھر ترقی کرنے کے اصول اور قوانین مقرر کر دیئے ہیں.ایک شخص ان قانونوں پر عمل کر کے ترقی کر جاتا ہے.دوسرا شخص غفلت سے کام لے کر ان قواعد پر عمل پیرا نہیں ہوتا اور اس طور پر ترقی کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.جیسا کہ گورنمنٹ نے سکول اور کالج کھولے ہیں بعض ان کے ذریعہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن بعض ان کے قواعد پر پوری طرح عمل نہ کر کے علم سے بے بہرہ رہ جاتے ہیں.جواب سوم :.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک افسر کے ماتحت کئی مختلف ملازم ہوتے ہیں.کوئی
22 اعلیٰ کوئی ادنی کوئی باورچی اور کوئی باغ کا مالی اسی طرح اس کے اصطبل میں مختلف قسم کے گھوڑے اور جانور ہوتے ہیں مگر اس اختلاف سے افسر کی ہستی کا انکار نہیں ہو سکتا.(۴) اعتراض چہارم :.جو لوگ خدا کے مقر ہیں وہ بھی گناہ کرتے ہیں.اگر خدا ہے تو اس کے قائل کیوں گناہ سے نہیں بچتے ؟ جواب اوّل:.نافرمانی سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے، ہمارے ملک میں کئی چور اور ڈاکو ہیں کیا اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ یہاں کوئی حاکم نہیں ؟ حالانکہ وہ اس بات کا اعتقادر کھتے ہیں کہ فلاں حاکم ہے.جواب دوم:.یہ کہنا کہ خدا پر ایمان لا کر لوگ گناہ کرتے ہیں یہ بالکل غلط ہے.صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں.اس سے دل میں ایمان ثابت نہیں ہوتا.جولوگ ایسا کرتے ہیں وہ صریحا نا فرمانی کرتے ہیں.ان کے دل میں حقیقی ایمان نہیں بلکہ ان کے ایمان میں ضعف ہے.(۵) اعتراض پنجم : اگر خدا ہے تو کہاں ہے؟ اور کب سے؟ جواب اوّل:.یہ سوال مہمل ہے.کب اور کہاں زمانہ اور مکان ہیں جو مخلوق ہیں.لہذا حادث میں قدیم کا محدود ہونا محال ہے.جواب دوم: اسی طرح دہریوں سے ہم پوچھتے ہیں کہ دنیا کب سے ہے؟ اگر کہیں قدیم سے تو ہم کہیں گے کہ خدا بھی قدیم ہے.اگر کہیں فلاں زمانہ سے تو ثابت ہوا کہ دنیا حادث ہے.بتاؤ اس حادث کا محدث کون ہے؟
23 اسلام اور ویدک دھرم خدا تعالیٰ جو علیم اور حکیم ہے اس نے دنیا کو ظلمت و گمراہی کی تاریک و تار گھٹاؤں میں گھرا دیکھ کر اپنی سنت قدیمہ کے مطابق دنیا ئے جہالت کو منور کرنے کرنے کے لئے نور اسلام ظاہر کیا.یہ مذہب فاران کی چوٹیوں پر (بائیل استثناء باب ۳۳ آیت ۲) سے تمام دنیا پر چمکا اور کروڑہا انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے منزل مقصود تک پہنچایا.تمام دنیا کی متحدہ طاقتوں نے اس نور خداوندی کو بجھانے کی کوشش کی لیکن یہ بچہ تلواروں کے سایہ میں پلا ، پھلا اور پھولا.حتی کہ ایک وقت آیا جب دنیا کا کونہ کونہ اس ” سراج منیر (الاحزاب : ۴۷) کی ظلمت سوز ضیاء سے منور ہو گیا.ہزار ہامذا ہب اس کے مقابل پر آئے مگر اسلام کے دلائل بینہ و براہین ساطعہ کے آگے سرنگوں ہوئے بغیر ان کے لئے اور کوئی چارہ نہ تھا.وید جو ممکن ہے ابتدائے دنیا میں جب انسانی دماغ نے ابھی منازل ارتقاء طے نہ کی تھیں (دیکھو ستیارتھ پرکاش باب سے دفعہ ہے ) ابتدائی تعلیم دینے کے لئے نازل ہوئے ہوں لیکن آج جبکہ ترقی علوم سے انسانی دماغ ارتقاء کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکا ہے.اس ویدک تعلیم کو عالمگیر اور قابل تبع قرار دینا دسمبر میں برف بیچنے کے مترادف ہے.(۱) عالمگیر کامل الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عالمگیر اور الہامی ہونے کا پہلے خود دعوی کرے اور پھر اس کے دلائل بھی خود ہی بیان کرے.قرآن کریم فرماتا ہے: إِنَّهُ لَتَنْزِيلٌ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الشعراء: ۱۹۳) کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے.پھر فرمایا : نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ (محمد: ۳) کہ یہ کتاب محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے.پھر فرماتا ہے: لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان : ۲) کہ قرآن مجید اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے موجب ہدایت ہو مگر اس کے مقابل دید نہ تو اپنے الہامی ہونے کے مدعی ہیں اور نہ وہ اپنے ملہمین کا کچھ اتا پتہ بتاتے ہیں کہ وہ تھے کون؟ انسان تھے یا آگ، پانی، ہوا ،سورج ؟ ان کی زندگی کیسی تھی؟ انہوں نے وید کی تعلیم پر کس طرح پر عمل کیا؟ کس طرح تبلیغ کی؟ تاکہ ہمارے لئے وید کی تحقیق کرنے کے لیے آسانی ہوتی مگر ویدوں نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے اپنے غیر مکمل ہونے کا کافی ثبوت بہم پہنچا دیا ہے اندریں صورت آریہ صاحبان کا وید کو کامل الہامی اور عالمگیر کتاب ثابت
24 24 کرنا مدعی سُست گواه چیست بلکه مدعی مفقود اور گواہ موجود“ کا مصداق ہے.(۲) وہی کتاب مکمل الہامی کہلا سکتی ہے جو اس منبع ہدایت (خدا) کے متعلق نہایت اعلیٰ اور اکمل تعلیم دے.جو کتاب خدا تعالیٰ کو نہایت بھیانک شکل میں پیش کرتی ہے وہ کبھی الہامی نہیں ہو سکتی.قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کی مختلف صفات بیان کر کے فرمایا فَلَهُ الْأَسْمَا الْحُسَىٰ (بنی اسرائیل : ) ہر قسم کی خوبیاں خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ ہر قسم کی برائی سے پاک ہے.کیسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم ہے.یوں کی خدا کے متعلق تعلیم ملاحظہ ہو: لاعلم خدا:.خدا کہتا ہے :.” اس دنیا میں پاپ اور پٹن بھو گنے کے دو راستے ہیں.ایک عارفوں یا عالموں کا.دوسرا علم و معرفت سے معرا انسانوں کا.میں نے یہ دور سنتے سنے ہیں.“ (بجر دید ادھیائے ۱۹ منتر ۴۷ اردو تر جمہ عبدالحق ودیارتھیجواله رگ وید آدی بھاش بھومکا مترجم نہال سنگھ صفحہ ۱۲۲) پھر خدا پوچھتا ہے:.”اے بیا ہے ہوئے مرد عور تو تم دونوں رات کو کہاں ٹھہرے تھے اور دن کہاں بسر کیا تھا اور کھانا وغیرہ کہاں کھایا تھا.تمہارا وطن کہاں ہے.جس طرح بیوہ (نیوگن ) اپنے دیور (نیوگی خاوند ) کے ساتھ شب باش ہوتی ہے اسی طرح تم کہاں شب باش ہوئے تھے.“ رگ وید اشنگ ۷را دھیائے ۸ ورگ نمبر ۱۸ منتر ۲ بھومکا صفحہ ۲۵ اوستیارتھ پر کاش باب ۴ دفعه ۱۳۰) چور خدا: ”اے اندر دولتوں سے مالا مال پر میشور ! ہم سے الگ مت ہو.ہماری مرغوب سامان خوراک مت چرا اور نہ کسی اور سے چروا (رگ وید اشنگ سوکت نمبر ۱۹ ترقی نمبر ۸ آریہ بھومی صفحه ۵۸ مصنفہ دیانند) تفصیل دوسری جگہ درج ہے.بع قیاس کن زگلستان من بهار مرا (۳) ہما را روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسانی ہاتھ کی ایجاد ہو دوسرا انسان اس کی تعمیر کی طاقت رکھتا ہے مگر صانع قدرت کی مصنوعات کو بنانے کی کوشش تضیع اوقات ہے پس الہی کلام میں یہی مابہ الامتیاز ہے کہ وہ بے مثل ہوتا ہے.قرآن شریف نے بانگ دہل تمام دنیا کو اپنے مقابل پہ بلا کر کہا: قُل نَّبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسَ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (بنی اسرائیل : ۸۹) کہ اگر تمام جن اور انسان جمع ہو کر بھی قرآن کریم کی نظیر لانے کی کوشش کریں تو بھی اس کی مثل نہیں لاسکیں گے.چنانچہ واقعات نے بتا دیا
25 25 کہ قرآن کا یہ دعوی کس قدر وزنی تھا اور ۱۳۰۰ سال تک کوئی اس مطالبہ کا جواب نہ دے سکا.پنڈت کالی چرن اور دھرم بھکشو نے چند غلط فقرات لکھ کر اندھوں میں کانا راجہ بنا چاہا مگر ایسی منہ کی کھائی کہ بولنے کا نام تک نہ لیا مگر اس کے بالمقابل برہمنوں نے اتھر وید کو اپنے پاس سے بنا کر رگ وید ،سام وید اور بیجر وید کے ساتھ ایسا ملا دیا کہ آریہ صاحبان اتھر وید کو بھی باقی تینوں ویدوں کی طرح الہامی ماننے لگ گئے.حالانکہ باقی ویدوں میں اتھر دید کا کہیں ذکر نہیں بلکہ وہاں صاف طور پر تین ہی ویدوں کا ہونا لکھا ہے.ملاحظہ ہو: ایک ایک وید کو باراد بارہ سال مل کر چھتیس سال میں ختم کریں.‘ ستیارتھ پرکاش ب۳ دفعہ ۲۶) فرمائیے جناب اوید تین ہیں یا چار بارہ سال میں ایک پڑھنے سے ۳۶ سال میں کتنے وید ختم ہوئے تین یا چار؟ اور سینے : جس سبھا میں رگ وید ، یجروید ، سام وید کے جاننے والے تین سبھا سدھ ہو کر آئین باندھیں.( منوسمرتی ادھیائے ۱۲ ۱۱۲ بحوالہ ستیارتھ پر کاش ب ۶ دفعہ ۲) پھر یجر ویدا دھیائے ۳۶ کے پہلے منتر میں رگ وید سام دید اور یجر وید کا نام ہے مگر اتھ وید کا کہیں ذکر نہیں.پس معلوم ہوا کہ اتھر وید بعد میں برہمنوں نے باقی تینوں ویدوں میں ملا دیا ہے.پس وید بے مثل نہ رہے.(۴) کامل الہامی کتاب وہی ہو سکتی ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم دے.قرآن کہتا ہے : فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم: ۳۱) کہ اسلام عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم دیتا ہے مگر اس کے بالمقابل ویدک دھرم کی تعلیم فطرت انسانی کے سخت خلاف ہے.چند مثالیں ملاحظہ ہوں : (الف) بچوں سے لاڈ نہیں کرنا چاہیے بلکہ تنبیہ ہی کرتے رہیں (ستیارتھ ب ۲ دفعہ ۲۰) (ب) پیدائش ہی سے گایتری منتر پڑھنا اچھا ہے.“ (ستیار تھوب ۳ دفعہ ۱۴) ( ج ) بالکل شادی نہ کرنا اچھا ہے.ورنہ ۴۰ سال کی عمر میں (ستیارتھ ب ۳ دفعہ ۳۴-۳۵) (1) وید میں ہے: 'بادل جو بمنزلہ باپ کے ہے.زمین میں جو بمنزلہ دختر کے ہے.باران کی صورت حمل قائم کرتا ہے.“ (رگ وید منڈل نمبر اسکونت ۱۶۴منتر ۳۳ بحواله رگ وید آدی بھاش بھوم کا صفحہ ۱۶۳)
26 26 علاوہ ازیں نیوگ کا حیا سوز مسئلہ ایسا ہے کہ فطرتِ انسانی اسے دھکے دے رہی ہے.صرف ایک حوالہ نقل کرتا ہوں : سوامی دیانند صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جب ایک شادی ہوگی اور ایک عورت کے لئے ایک خاوند ہوگا.اگر مرد و عورت دونوں جوان ہوں اور عورت حاملہ ہو یا مرد مریض ہو تو ان صورتوں میں اگر حاملہ عورت کے خاوند یا ایک مریض خاوند کی جوان عورت یا ایک مریض عورت کے جوان خاوند سے رہا نہ جائے تو کیا کرے.سوامی جی کا جواب ملاحظہ فرمائیے : اگر حاملہ عورت سے ایک سال صحبت نہ کرنے کے عرصہ میں مرد سے یا دائم المریض مرد کی عورت سے رہا نہ جائے تو کسی سے نیوگ کر کے اس کے لئے اولاد پیدا کرے لیکن رنڈی بازی یا زنا کاری کبھی نہ کریں.(ستیارتھ ب ۴ دفعہ ۱۴۶) حضرات ! انسانی کانشنس کیا ایک لمحہ کے لئے بھی یہ قبول کر سکتی ہے کہ ایسی حیا سوز تعلیم دینے والی کتاب کبھی خدا کا کلام ہو سکتا ہے.ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں اس کے لئے اولاد پیدا کرے“ محض ڈھکوسلہ ہے کیونکہ جس صورت میں عورت حاملہ ہوگی اولاد کے حصول کے لئے کہیں اور جا کر نیوگ کرنا تحصیل حاصل ہے.پس اصل علاج تو سوامی صاحب نے رہا نہ جائے“ کا بتایا ہے.ہمارے گجرات ( پنجاب ) میں سوامی جی تشریف لائے اور آکر لیکچر دیا.ایک شخص نے سوامی جی سے سوال کیا.جس عورت کا خاوند کنجری کے پاس جائے اُس کی عورت کیا کرے؟ انہوں نے فرمایا: اس کی عورت بھی ایک مضبوط آدمی رکھ لے.“ (جیون چرتر مصنفہ لیکھر ام و آتمارام صفحه ۳۵۵) حیرت ہے کہ اس تعلیم کو کامل مکمل بلکہ اکمل اور عالمگیر الہامی قرار دیا جاتا ہے.گر یہی دیں ہے جو ہے ان کے خصائل سے عیاں میں تو اک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار (۵) خدا اعلیم گل ہے.اس کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں.وہ آئندہ کے حالات جانتا ہے کیونکہ وہی قدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان: (۳) کا فاعل ہے مگر انسان ضعیف البنیان کمی علم کی وجہ سے آئندہ کے حالات نہیں جان سکتا.پس انسانی اور الہامی کلام میں ایک یہ ما بہ الامتیاز ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو اسے انسانی کلام سے ممتاز و بالا ثابت کرتی ہیں.ویدوں میں پیشگوئیوں کا نام تک نہیں مگر اس کے بالمقابل قرآن شریف نے آئندہ زمانہ کی اخبار بیان فرما کر آئندہ
27 زمانوں کے لئے قرآن کی صداقت کے نئے نئے ثبوت مہیا فرمائے.قرآن شریف نے فرمایا کہ جب فرعونِ مصر دریائے نیل میں غرق ہونے لگا تو اس وقت خدا نے اسے کہا : فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةٌ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ أَيْتِنَا لَغْفِلُونَ (یونس : ۹۳) کہ اے فرعون! میں آج سے تیرے جسم کو محفوظ رکھوں گا نہ اس کو دریائی مچھلیاں یا پانی تلف کر سکے گا نہ زمین کے کیڑے یا مٹی اس کی تباہی کا موجب ہوں گے.بلکہ یہ محفوظ رہے گا.تا کہ تیرے بعد کے آنے والوں کے لئے نشان بنے اور بہت سے لوگ ہمارے نشانوں سے غافل ہیں.قرآن شریف نے خدا تعالیٰ اور فرعون کی گفتگو کا ذکر فرمایا اور اس کے ثبوت میں اپنا وعدہ بیان کر کے اس کو بطور پیشگوئی کے دنیا کے سامنے پیش کیا.آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد فرعون کی لاش صحیح و سالم برآمد ہوئی اور مصر کے عجائب گھر کی زینت ہو کر لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً (يونس: ٩٣) کے مطابق ہمارے لئے بطور نشان بنی.کیا ایسی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد بھی قرآن کریم کے الہامی ہونے میں شک وشبہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ مبارک وہ جو حق کو قبول کرتے ہیں.تردید قدامت وید (منقولی دلائل) آریوں کا دعویٰ ہے کہ وید ابتدائے عالم میں اترے تھے.ویدوں کے نازل ہونے سے پہلے کوئی مخلوق نہ تھی.(۱) ''اے لوگو! جو عالم ہمارے بالتشریح کہتے تھے.مذکورہ بالاتعلیم کا اور ہی پھل وکام کئے تھے.( یجر ویدا دھیائے ۴۰ منتر ۱۳ صفحه ۲۰۴) (۲) زمانہ قدیم کے دیو یعنی صاحب علم و معرفت راستی شعار گزر چکے ہیں.“ ( بھوم کا صفحہ ۲۰ و صفحه ۴۶ ) (۳) '' پہلے زمانہ میں جو عالم و فاضل اور بے گناہ (پاک) تھے.وے بہت جلدی عاجزی سے تعلیمی فائدہ کے لئے اپنی اولاد کی حفاظت کے لئے طلوع آفتاب یا صبح صادق کو ( لکشیہ ) مد نظر رکھ کر
28 اپنے یکیہ آدی (مذہبی فرائض) شروع کرتے تھے.رگ وید منڈل نمبر ے سوکت نمبر ۶۱ منترا ) اس سے یہ معلوم ہوا کہ وید شروع دنیا میں نہیں اترے.(۴) اے دشمنوں کے مارنے والے، اصول جنگ میں ماہر ، بے خوف و ہراس، پُر جاہ و جلال عزیز جوانمرد و ! تم سب رعایا کے لوگوں کو خوش رکھو.پر میشور کے حکم پر چلو اور بدفرجام دشمن کو شکست دینے کے لئے لڑائی کا سرانجام کرو تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا ہے.تم نے 66 اپنے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے.“ رگ وید بھاشا بھوم کا صفحہ ۳۶ منقول از انتصرون وید کا نڈ نمبر ۶.انواک نمبر ۱۰ درک ۹۷ منتر نمبر۳) خط کشیدہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ وید کے نزول سے پہلے لوگ گزرے اور لوگوں نے مخالفوں پر فتح پائی.ورنہ یہ عبارت الحاقی ثابت ہوگی.(۵) اے سورج کی طرح ایشورج اور وڈیا اور سکھ کے داتا مہاتما عالم انسان جیسے سورج کے اکاش میں چلنے کے صاف راستے ہیں جو آپ کے پہلے مہاتماؤں کے عمل میں آئے.بلاگر دو غبار راستہ میں اُن پر آرام سے چلنے کے لائق راستوں سے آج ہم کو چلائیے اور ان طریقوں سے چلنے پر ہم لوگوں کی حفاظت بھی کیجئے اور ہم کو زیادہ تر ہدایت کیجئے اور اسی طرح سے سب کو خبر دار کیجئے.“ یجروید صفحه ۱۳۹۶ حصہ سوم ادھیات ۲۴ منتر ۲۷) (4) پارسی لوگ ژند اوستا کی ابتداء کروڑوں برس ویدوں سے پہلے بتاتے ہیں.
29 29 وید کی حقیقت وید اور قرآن کا مقابلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مقابلہ کے لئے میدان میں آنا ضروری ہے اور وید میدان میں نہیں آیا کیونکہ خود تمہارا عقیدہ ہے کہ وید کی زبان کسی قوم کی زبان نہیں کیونکہ اس طرح پکش پاتھ یعنی طرفداری ہوتی ہے اور اس وقت بھی سنسکرت کسی ملک کی زبان نہ تھی اور نہ اتر تے وقت کسی ملک اور قوم کی زبان تھی.سوال (۱) خاص ایشور کی زبان ہے تو سوال یہ ہے کہ جب کسی ملک اور قوم کی زبان نہیں تو اس کا انکشاف کیسے ہوا؟ اگر کہو کہ ترجمہ کیا ہے.تو پھر بھی طرفداری لازم آتی ہے کہ خدا نے کسی قوم کی زبان میں ترجمہ کیا تو حاصل کلام یہ کہ وید کا انکشاف حقیقتا نہیں تو مقابلہ کیسے ہو.سوال (۲) سنسکرت مردہ زبان ہے اور اب بھی اس کا فہم مشکل ہے.اگر اس کے معنی میں اختلاف ہو تو حل کس طرح کریں.سوال (۳) دید پستک ایسے پراچین (پرانے زمانہ کی بتائی جاتی ہے جس کی کوئی تاریخ محفوظ نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وید کی کیا ضرورت تھی ؟ کون سی گمراہی تھی جس کے دور کرنے کے لئے آئی تھی کیونکہ تمہارے خیالات کے مطابق ابتدائے آفرینش سے لوگ مکتی خانہ سے نکلے تھے تو پھر اس کا اثر قوم پر کیا ہوا ؟ پھر ہم کہتے ہیں کہ اس کے نہ اترنے سے کیا نقصان ہونا تھا؟ کیونکہ اگر اتر نے سے فائدہ ثابت نہ ہو تو ہم کہتے ہیں کہ اگر نہ ہوتا تو کوئی نقصان نہ ہوتا.سوال(۴) جن پر وید نازل ہوا تھا ان کا چال چلن کیسا تھا؟ کوئی تاریخ نہیں جس سے ان کے ماں باپ اور قومیت اور چال چلن معلوم ہو سکے.سوال (۵) خود ہندوؤں کے ہاں اختلاف ہے کہ کس پر اترے.سناتن دھرمی بر ہما پر نازل شدہ اور آریہ رشیوں پر نازل شدہ مانتے ہیں.پھر کہیں چار وید اور کہیں تین وید.پس جب اصل کتاب میں بھی اختلاف ہے تو وہ ہدایت کیا دے سکتا ہے؟ سوال (۶) وہ الفاظ جن سے وہ رشی کا ثبوت دیتے ہیں مثلاً اگنی.والیو.ادت انگرا چار رشیوں کے نام پر جو الفاظ دلالت کرتے ہیں وہ کئی معانی میں مشترک ہیں.اگنی آگ پر اور پر میشور کا نام اور تیسرے نیوگی کا نام بھی اگنی ہے.وایو ہوا پر.انگر پانی پر بھی اور ادت سورج پر بھی بولا جاتا ہے تو آیا یہ
30 عناصر اربعہ کے نام ہیں یا اجرام کے نام ہیں یا رشیوں کے نام ہیں؟ کوئی تاریخ ہوتی جو بتاتی کہ یہ رشیوں کے ہی نام ہیں.سوال (۷) دید کی تعداد میں اختلاف ہے کہ تین ہیں یا چار.سوال (۸) پھر ویدیا اس کے حامل ناکام ہیں کیونکہ اتنی میعاد اس کو ملی ہے کہ تمہارے قول کے مطابق ایک ارب یا ڈیڑھ ارب سال گزر چکے مگر اب تک نہ شائع ہوئی نہ ترقی ہوئی اور خود ماننے والوں کی تعداد بھی تھوڑی ہے یہ دھوکہ نہ کھائیے کہ ۳۰ کروڑ ہندو ہے کیونکہ جینی لوگ.پھر برہمن لوگ جن سے بنگال بھرا پڑا ہے پھر دام مارگی سانیگی یہ سب وید کے منکر ہیں تو ان سب کو نکال کر محض چند لوگ ہی رہ جاتے ہیں.سوال (۹) پھر ماننے والے دو قسم کے ہیں.ایک آر یہ دوسرے سناتن.ان کا باہم عقائد میں بہت اختلاف ہے.مسلمانوں میں خواہ کئی فرقے ہوں لیکن اصول میں کوئی اختلاف نہیں.کلمہ شہادت، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ قرآن وغیرہ سب ایک ہیں.الف.سناتن دھرم والے خدا کے حلول کے قائل مگر آریہ منکر.ب.سناتن دھرم روح و مادہ کو حادث اور آر یہ لوگ انادی اور غیر حادث مانتے ہیں ج.سناتن دھرمی مورتی پوجا کے قائل اور آریہ منکر.د سناتن دھرمی نیوگ کو زنا کاری اور خلاف دید اور آریہ عین جائز اور حلال اور ضروری اور وید کی مقدس تعلیم کے مطابق مانتے ہیں.آریہ سماج کے معیاروں کے مطابق و ید الہامی نہیں از جناب مہاشہ محمد عمر صاحب مولوی فاضل ) (۱) ایشور کا گیان ابتداء میں ہونا چاہیے کیونکہ جن چیزوں پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے پر ماتما نے ان کو انسان کی پیدائش سے پہلے پیدا کیا اور مکمل پیدا کیا جیسے سورج.تردید الف:.سورج کے ساتھ وید کی مثال نہیں دی جاسکتی کیونکہ سورج سے ہر ایک بشر بالغ و نا بالغ ، بوڑھا، جوان یکساں فائدہ حاصل کرتا ہے.بخلاف وید کے جس کے پڑھنے کے لئے بڑے بڑے دھر ما تھا اور وڈوان کوشش کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے.
31 ب:.ویدوں میں ایسے سینکڑوں منتر ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وید ابتدائے دنیا میں نہیں بنے بلکہ ویدوں کے نزول سے پہلے دنیا میں مخلوق موجود تھی.ج:.ابتداء میں کامل گیان کا نازل ہونا پر ماتما کے بتانے کے خلاف ہے کیونکہ ابتداء میں جب کہ پر ما تمانے دنیا کو پیدا کیا لوگوں کی حالت بچوں کی طرح تھی اور اس کو سوامی جی نے اپنی کتاب اپدیش منجری میں تسلیم کیا ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.ان سب کو صرف کھانا اور پینا اور بھوگ کرنا ( جماع کرنا) صرف اتنا ہی یاد تھا.آدی سرٹی میں سب انسانوں کی حالت بچوں کی تھی.ان کو پاؤں سے چلنا اور آنکھوں سے دیکھنا اس کے بغیر ان کو کچھ گیاں نہ تھا.اپدیش منجری ہندی صفحہ ۸۹) پس پر ما تمھا جو کہ علیم ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کو کامل گیان دے.ایسے بچوں کو جن کو سوائے کھانے اور بھوگ کے کچھ سمجھ ہی نہیں.اس لئے یہ ضروری ماننا پڑے گا کہ پر ماتما نے ان رشیوں کو گیان دیا لیکن کامل نہیں بلکہ ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق.و:.سوامی جی نے اس کے آگے لکھا ہے کہ یہ حالت ان رشیوں کی پانچ سال رہی.پھر 66 پر ماتمانے ان کو ویدوں کا گیان دیا.(اپدیش منجری ہندی صفحہ ۹) یعنی پیدائش کے ساتھ ہی ان کو ویدوں کا گیاں نہیں دیا گیا بلکہ پانچ سال دنیا بننے کے بعد اُن کو گیان ملا.اعتراض:.اس پر ہمارے آریہ بھائی کہا کرتے ہیں کہ واقعی انسانوں کو اس وقت اتنا گیان نہ تھا کہ وہ کامل گیان کو جانتے لیکن پر ماتما کا گیان تو کامل ہے.اُس نے اپنے علم کے مطابق کامل گیان دیا.جواب:.یہ ٹھیک ہے کہ پر ماتما کا گیان کامل ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ گیان دیتا تھا وہ کامل نہیں تھے کہ اس کو سمجھ سکتے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک کالج کا پروفیسر جو کہ ایم.اے ہے.ایک بچے کے آگے جبکہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس جائے تو وہ اس کے آگے ایم.اے کا کورس رکھ دے اور کہے کہ یہ لڑکا واقعی اتنی لیاقت نہیں رکھتا کہ یہ ایم.اے کا کورس سمجھ سکے لیکن میں تو ایم.اے ہوں اور علم کے لحاظ سے کامل ہوں.تو سب لوگ اس کو بیوقوف کہیں گے اور جواب دیں گے کہ تیرا علم واقعی کامل ہے لیکن جس بچے کو تو نے پڑھانا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ایم.اے کے کورس کو سمجھ سکے اس کے لئے تو وہی پہلا قاعدہ چاہیے جو یہ سمجھتا جائے.دوسرا معیار :.الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی نہ
ہو اور وہ محفوظ چلی آتی ہو.32 ویداس اصول کے مطابق بھی الہامی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جب ہم ویدوں کو غور سے دیکھتے ہیں تو ان میں اس قدر اختلاف ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.چنانچہ ہم پہلے اتھر وید کو لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس میں بھی لوگوں نے اپنے پاس سے منتر ملا دیئے ہیں.اتھر وید (۱) سوامی دیانند نے رگ وید آدی بھاشیہ بھومکا ہندی کے صفحہ ۸۶ پر لکھا ہے کہ اتھروید کا پہلا منتر اوم شنود یوی“ ہے.(۲) لیکھرام نے کلیات آریہ مسافر میں لکھا ہے کہ پہلا منتر اوم شنودیوی“ ہے.(۳) مہا بھاشیہ کے مصنف کا یہ مذہب ہے کہ پہلا منتر اوم شنودیوی“ ہے.لیکن موجودہ وید کو اٹھاؤ تو یہ منتر چھبیسواں ہے.تو کیا پہلے پچیش منتر کسی آریہ سماجی نے انھر وید میں ملا دیئے ہیں.۲۶ اتھروید کے منتروں کی تعداد میں اختلاف سائیں بھاشیہ ۵۹۷۷.سیوک لال ۵۹۴۷.ساتولیک ۷۰۰.ویدک سدھانت ۶۰۰ یجر وید میں ملاوٹ :.یجر دید بمبئی والے میں ۲۵ ادھیائے کے ۴۷ منتر ہیں لیکن دیانند نے جوا جمیر میں چھپوایا ہے اس میں ۴۸ ہیں.یجر وید کے ۴۰ ادھیائے میں ”اوم کھم برہم ، بمبئی والے میں منتر کا جز نہیں ہے لیکن دیانند تعداد منتروں میں اختلاف نے اس کو منتر میں شامل کر دیا ہے.یجر دید کلپتر سالولیک و مدرک مت ۱۹۷۵ ۱۴۰۰ دیانند جی شو شنکر کا د یہ تیرتھ ۱۹۷۵ ۹۸۷ ( منقول از دید سر وسو صفحه ۱۵۲) سام وید تحریف:.سام ویدا جمیر والے میں ۶۵ منتر زیادہ ہیں.دیکھونمبر۴۳ اور کاشی میں چھپے سام دید میں یہ منتر نہیں.صفحہ ۵۰
دیا نند کا دید شو شنکر 33 33 منتروں کی تعداد میں اختلاف ۱۸۲۴ ۱۵۴۹ جیوانند دیا شنکر ساتولیک رگ وید میں تحریف:.سائیں اچار یہ اسے کچھ زیادہ.پنڈت شو شنکر ۱۰۴۰۲ ۱۰۵۸۰ سوامی دیانند جی IA A ۲۱۹ ۱۰۵۸۹ انو واک انوکرمنی چھند سنگرہ شلوک کے مطابق ۱۰۴۰۲ گا تیری وغیرہ کے مطابق ۱۰۱۴۲ سینڈت جگن ناتھ ۱۰۴۵۲ چرن و یوہ کا ٹیکا کار ۱۰۴۷۲ مہتہ برت ۱۰۴۴۲ ورتمان سنگھتا کے مطابق ۱۰۴۴۰ (وید سر وسو مصنفہ پنڈت ویدک منی جی صفحه ۶۸ مطبوعہ اندر پریس دہلی ) تیسرا معیار :.اس میں عقل اور اخلاق کے خلاف تعلیم نہ ہو.اس اصول کے مطابق بھی وید الہامی نہیں ہیں کیونکہ کئی وید منتر ہیں جن کی تعلیم انسانی اخلاق کو گرانے والی ہے.مثلاً.رگ وید کے ایک منتر کا ترجمہ سوامی جی اس طرح کرتے ہیں: ’بادل بمنزلہ باپ قرار دیا ہے اور زمین کو بمنزلہ لڑکی.بادل زمین میں اس طرح پانی ڈالتا 66 ہے جیسے باپ لڑکی میں نطفہ.“ رگ وید آدی بھاشہ بھوم کا ہندی صفحه ۲۹۹) ب.لنگ کا صاف کرنا.اس لنگ کو صاف کرتا ہوں جس سے رکھشا کی جاتی ہے.اس گدا ( پاخانہ کی جگہ ) اندری کو کو تر کرتا ہوں.“ آگے لکھا ہے کہ گر و پینی (یعنی استاد کی عورت) کرتی ہے.“ اس پر یہ اعتراض ہے کہ گرو کی عورت کس طرح لڑکے کے لنگ اور گدا کو صاف کرے.ایک شبہ کا ازالہ :.یہاں پر آریہ مناظر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ چھوٹی عمر کے لئے ہے.حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ جتنی دیر بچہ گور وکل میں رہتا ہے اس وید منتر پر ان کو عمل کرنا ضروری ہے اور گور وکل میں ۲۵ سال کا جوان بچہ بھی ہوتا ہے.اس کے لنگ کو استاد کی عورت کس طرح صاف کرے گی.
34 ج:.ان دونوں منتروں کو پڑھ کر پرش اپنی گر بھی ( حمل والی) استری کے گر بھاشیہ پر ہاتھ رکھے.“ (سنسکار ودهی مع تفسیر و د یا کھیا باب پنسون سنسکار از دیانند جی سرسوتی متر جم مطبع شہید دھرم مہاشہ راجپال اینڈ سنز کریں.“ مالک آریہ پست کالیہ ہسپتال روڈ انار کلی لاہور صفحہ ۱۲۱) آریہ سماجی دوست بتا ئیں کہ وہاں پر ہاتھ رکھنے سے کیا فائدہ؟ و:.بیل سے بھوگ کرنا.”پانی کے لئے مینڈھا سے پرم ایشوریہ کے لئے بیل سے بھوگ ( یجروید ادھیائے ۴۱ منتر ۶۰) ر: ” ہے انسا نو ! تم مضبوط گدا اندری (پاخانہ کی جگہ ) کے ساتھ موجودہ اندھے سانپوں اور کٹل ( یعنی سخت موذی ) سانپوں کو کام میں لاؤ.س:.ٹانگوں کے اوپر چڑھ.ہاتھ کا سہارا دے.اتم من کے ساتھ عورت کو دیر یہ ڈالے.“ (اتفردیدا،۲، ۳۹) غرض آریہ سماج کے اپنے اصولوں کے مطابق بھی ویدا الہامی ثابت نہیں ہوتے.عجیب و غریب پر لطف و یدک دعائیں ا.اے پر میشور و راجن ! آپ بہت بولنے والے کو نزدیک و دریا والے کے لئے ( آور ) حد سے باہر والے کے لئے گونگے ظاہر کیجئے.“ یجر ویدا دھیائے ۳۰/۱۹ صفحه ۲۰) دعا ئیں ہمیشہ مفید اور نیک چیزوں کے حصول کے لئے کی جاتی ہیں مگر یہ ویدک فلسفہ ہی الٹ ہے بھلا اگر ویدک ایشور بغیر کرموں کے اور کچھ دے ہی نہیں سکتا تو پھر دعا ئیں سکھانا فضول اور لغو ٹھہرا.پھر دعا ئیں سکھا ئیں بھی تو وہ بھی ایسی کہ اگر قبول ہو جائیں تو ایک ہی سال میں آریہ سماجیوں کا خاتمہ اپنی ہی دعاؤں کے طفیل ہو جائے.(خادم) ۲.اے پر میشور و راجن ! آپ آگ کے لئے موٹی اشیاء کو زمین کے لئے بغیر پاؤں کے رینگنے والے سانپ وغیرہ کو پیدا کیجئے.“ ( پیجر ویدا دھیائے ۳۱ /۳۰) ہم اس دعا پر آمین کہتے ہیں بشرطیکہ وہ صرف آریوں کے ہی گھروں تک محدود رہیں.(مؤلف)." ہے پر میشور و راجن ! آپ زمین و آسمان کے درمیان کھیلنے کودنے اور بانس سے ناچنے والے نٹ وغیرہ پیدا کیجئے.“ ( یجروید ادھیائے ۳۰ منتر ۲۱)
35 ( تا کہ وید کی حقیقت دنیا پر ظاہر ہو.مؤلّف ) ۴.ہے پر میشور و راجن ! آپ بین بجانے والے اور ہاتھوں سے دادتر بجانے اور تو نو نامی باجے بجانے والے.ان سب کو ناچنے کے لئے اور خوشی کے لئے تالی وغیرہ بجانے والے کو پیدا وظاہر کیجئے.“ یجر وید ادھیائے ۳۰ منتر ۲۰ صفحہ ۱۲۰) وید کی تعلیم پر میشور کے متعلق اور پر میشور کا خلیہ پر میشور ناقص اور کمزور : "اے نہایت ہی قابل عبادت اور سب طرف سے روشن ایشور و عالم! یہ جو آپ کا محیط ہونا اور پرورش کرنا ہے.اس سے آپ ترقی کو حاصل کریں اور دوسروں کو بڑھا ئیں.آپ خود مضبوط ہو جیئے اور دوسروں کو مضبوط کیجئے“ (یجر دید ادھیائے ۳۸ منتر ۲صفه ۱۹۳) وہ سدا بڑھنے والا ، حیرت انگیز صفات، عادات سے متصف پر میشور ہمارا کس طرح دوست ہوئے الی آخرہ ( یجروید ادھیائے ۳۶/۴) پر میشور کی بیوی: ”اے انسانو! میں ایشور جیسے برہمن، کھتری، ولیش شودر اور اپنی استری سیوک وغیرہ کو چار وید روپی بانی کا اپدیش کرتا ہوں ویسے ہی آپ لوگ بھی اچھی طرح اپدیش ( منقول از دیانند یجروید بھاش ادھیائے ۲۶ منتر ۲ صفحہ ۶۶) سکھ کی خواہش : "پر میشور کہتا ہے کہ میری یہ خواہش عمدگی سے بڑھے اور مجھے وہ غیر میتر غائبانہ سکھ حاصل ہو.“ یجر ویدا دھیائے ۲۶ منتر ۲) پر میشور کے برابر طاقتور راجہ:."اے بیوقوف راجہ ! بغیر دودھ کی گائیوں کی طرح ہم لوگ اس متحرک و غیر متحرک کائنات کے منتظم سکھ پوروک کو دیکھنے لائق ایشور کے برابر طاقتور.یجر ویدا دھیائے ۲۷ منتر ۳۵ صفحه ۸۱) آپ کی عزت و احترام کریں.“ ناچنے والے پیدا کرنے کی دعا:.ہے پر میشور ورا جن ! آپ بین بجانے والے اور ہاتھوں سے دادتر بجانے اور تو نو نامی باجے کو بجانے والے.ان سب کو نا چنے کے لئے اور خوشی کے لئے تالی وغیرہ بجانے والے پیدا و ظاہر کیجئے.“ یجر ویدا دھیائے ۳۰ منتر ۲۰) پس لوگوں کو چاہیے کہ ہنسی اور زنا وغیرہ عیوب کو چھوڑ کر اور گانے بجانے ناچنے وغیرہ کی تعلیم کو حاصل کر کے خوش ہوں لیکن ستیارتھ ب ۳ نمبر ۴۸ و باب ۶ نمبر ۱۶ میں ان افعال کو شہوانی عیب لکھا ہے.
36 آریوں کا پر میشور فریبی :.”اے اندر تو نے سوشا کو فریب سے قتل کیا.“ رگ وید اشنک اول انو واک ۳ سکت ۴ شرقی نمبر۷ ) پر میشور کھاؤ پیو پیٹو : " اندر کا شکم سوم کا رس کثرت سے پینے کے باعث سمندر کی مانند پھولتا ہے اور تالو کی نمی کی مانند ہمیشہ تر رہتا ہے.انہیں کھانوں سے اندر کا پیٹ بھرتا ہے اور قوت حاصل ہوتی ہے.اے خوبصورت زنخدان والے اندر ! ان تعریفوں سے خوش ہو.“ رگ وید اشتک اول انو واک ۳ سکتا The Hymns of the Rigiveda translated eith a popular commentary by Ralph T H griffith MACIE Third Edition Vol:1 p:10, 1920) پر میشور کی لاعلمی :.”اے بیا ہے ہوئے مردعور تو تم دونوں رات کو کہاں ٹھہرے تھے اور دن کہاں بسر کیا تھا.تم نے کھانا وغیرہ کہاں کھایا تھا.تمہارا وطن کہاں ہے.جس طرح بیوہ عورت اپنے دیور ( دوسرے خاوند ) کے ساتھ شب باش ہوتی ہے یا جس طرح بیاہا ہوا مرد اپنی بیا ہتی عورت کے ساتھ اولاد کے لئے شب باش ہوتا ہے اس طرح تم کہاں شب باش ہوئے تھے؟.“ (ستیارتھ پرکاش باب ۴ دفعہ ۱۳۰ بھوم کا صفحہ ۱۲۵ متر جم نہال سنگھ ) اس دنیا میں پاپ اور اُن کا نتیجہ بھوگنے کے لئے دو راستے ہیں.ایک عارفوں یا عالموں کا.دوسرا علم ومعرفت سے مبرا انسانوں کا.اُن کو پتریاں اور دیویاں بھی کہتے ہیں.میں نے یہ دور استے سنے ہیں.یہ تمام دنیا انہی دور استوں پر چلی جارہی ہے.“ ( یجروید ۱۹/۴۷.ور گوید آدی بھوش بھوم کا مترجم نہال سنگھ صفحہ ۱۲۲.بیان تناسخ) ناک آنکھ کان والا پر میشور : - "برہمن اس (الیشور) کا منہ تھا.ایشور کے بازوؤں سے کھشتری.رانوں سے ویش.پاؤں سے زمین اور کان سے طرفین پیدا ہوئیں.چاندمن (دل) سے پیدا ہوا.آنکھ سے سورج پیدا ہوا.منہ سے اندر اور آگ اور سانس سے ہوا پیدا ہوئی.“ 6* رگوید منڈل نمبر، سوکت نمبر ۹۱ منتر ۱۲ ۱۳۰) زرہ بکتر پہنے والا پر میشور : "ورن (ایشور ) اپنی ساری رعایا میں سب پر حکومت کرنے کے لئے آکر بیٹھا ہے.سنہری کوچ کو پہنتا ہوا ورن (ایشور ) چمکتے ہوئے لباس کو پہنتا ہے.اس کے جاسوس چاروں طرف بیٹھے ہیں.“ ایشور چوری کرتا ہے: ”اے اندر دولتوں سے مالا مال پر میشور! ہم سے الگ کبھی رگوید منڈل نمبر ا سوکت نمبر ۲۵ منتر ۲۳)
37 مت ہو.ہمارے مرغوب سامان خوراک مت پُچر ا ؤ اور نہ کسی اور سے پُر واؤ.رگوید اشک نمبرا انو واک نمبرے سوکت نمبر ۱۹ شرقی ۸ آریہ بھونے مصنفہ دیونند ) سکھ دکھ برداشت کرنے والا پر میشور : "اے جگدیش د ر ا جس سبب آپ سب دُکھ سکھ کے برداشت کرنے والے ہیں.“ ( تفسیر یجروید سوامی دیانند ) خدا علم سیکھنے کا محتاج ہے:."اے جگت ایشور! میں اور آپ پڑھنے پڑھانے والے دونوں محبت کے ساتھ رہ کر عالم اور دیندار ہوں کہ جس سے دونوں کی ترقی علم ہمیشہ ہو دے.“ 66 ( یجروید بھاش جلد اوّل منتر ۲۱) ایشور مجسم اور اس کا حلیہ : ہزاروں سروں والا پرش (الیشور ) ہزاروں آنکھوں والا.ہزاروں پاؤں والا.وہ تر لو کی ( کائنات ) کو سب طرف سے گھیر کر ٹھہرا ہوا ہے.دس انگل پرے.ر گوید منڈل نمبر ۱۰ سوکت نمبر ۹۱ منتر نمبر ۱۱) پر میشور کے پاؤں:.وشنو (ایشور ) اس سارے جگت و کائنات پر پاؤں سے چلا.تین طرح پر اُس نے پاؤں رکھا.یہ جگت اس کے دھولی ( دھول ) والے پاؤں میں اکٹھا ہوا.رگوید منڈل نمبر ا سوکت نمبر ۲۲ منتر ۱۷) وشنو جو سب کا محافظ ہے اور کسی سے دھو کہ نہیں دیا جاتا.وہ سارے کاموں کو کرتا ہوا یہاں سے تین پاؤں چلا.خدا کا دایاں ہاتھ: ہے خزانوں کے مالک اندر! تجھ سے دولت چاہتے ہوئے ہم نے تیرے دائیں ہاتھ کو پکڑا ہے.“ (رگ وید منڈل نمبر ۰ ۱ سوکت نمبر ۴۷ منتر ۱۳) ایشور کی فرج:.پر جاپتی گر بھ (حمل) میں وچہ تا ہوا بہت طرح سے پیدا ہوتا ہے.اس کی یونی (فرج) کو عقلمند دیکھتے ہیں.“ یجر ویدا دھیائے نمبر اس منتر نمبر ۱۹ اردو تر جمه صفحه ۱۲۶) ایشور کی ترقی:.اے بہت اشیاء میں رہنے والے پر ماتمن (خدا) جو یہ میری زبان یجر ویدا دھیائے نمبر ۳۳ منتر نمبر ۸۱) ہے.آپ کو یقینا بڑھا دے.“ الیشور سوم رس پیتا ہے: ہے پر میشور وایو ( ایشور ) ! اپنی الپ شکتی ( محدود طاقت ) سے سوم اوشدھیوں کا اتم (عمدہ ) رس تیار کیا ہے اور بھی جو کچھ ہمارے عمدہ پدارتھ ہیں.وے آپ کے سرین ( نذر) کئے گئے ہیں.ان کو آپ قبول کریں اور سرو آتما ( فراخدلی سے پان کریں.“ رگوید اشٹک ادھیائے نمبرا ورگ نمبر ۲ منتر ۱)
38 ایشور کا ثانی :.”میں ایشور سب لوگوں کو حکم دیتا ہوں کہ میرے برابر دھر ما تماصفات و افعال و عادات والے آدمی ہی کی رعایا ہو.“ الیشور سوتا ہے: ”جو برہما ( ایشور ) تیز رفتار کو مضبوط کرتا ہوا جوکو کنپا تا اور گھروں یعنی جیوؤں ( ارواح) کے بیچ قائم ہوتا ہوا سوتا ہے.“ (رگوید منڈل نمبر ا سوکت نمبر ۱۶۴ منتر ۳۰.رگوید بھاش جلد ۳ صفحه ۶۳۳) وید کی تعلیم خلاف عقل و سائنس ا.” ہے دینے ہارے ( والے) جیسے لینے والے پڑھانے اور اپدیش کرنے والوں کا میل کرے.اور وہ آج بکرا وغیرہ جانوروں کے بیچ سے لینے لائق چیز کا چکنا حصہ یعنی گھی دودھ وغیرہ اڈلار ( نکالا ہوا) کیا ہوالیویں.( اس سے بکر اگھی دینے والا ثابت ہوتا ہے ) (تفسیر دیانندی بھاشا یجروید جلد۲ ادھیائے۲۱ منتر ۴۳) نوٹ :.اس حوالہ کے پیش کرنے سے یہ مقصود نہیں کہ گویا ہمارے خیال میں بکرے کے لئے دودھ دینا ممکن ہی نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے قانون شاذ کے ماتحت یہ ممکن ہے.چنانچہ اس کا ثبوت صداقت مسیح موعود پر اعتراضات کی ذیل میں ایک اعتراض کے جواب میں موجود ہے.ہمارا اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس وید منتر سے معلوم ہوتا ہے کہ بکرے کا دودھ دینا قانون عام کے ماتحت ہے اور بجائے بکری اور گائے بھینس کے دودھ اور گھی بکرے سے حاصل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ امر ہمارے روز مرہ کے مشاہدہ کے خلاف ہے.یہ تو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی کبھی شاذ کے طور پر جو کہ الشَّاذُ كَالْمَعْدُومِ کے مطابق معدوم کا حکم رکھتا ہے اپنی سنت شاذہ کا ثبوت دے مگر گھی دودھ وغیرہ کو عام طور پر گائے بھینس اور بکری کی بجائے ” بکرے کے ساتھ منسوب کرنا یقیناً خلاف عقل وسائنس اور معارض مشاہدہ و تجربہ ہے.خادم ۲ ” ہے رعایا کے مالک ایشور جو روح مادہ وغیرہ اشیاء ہیں یہ سب اچھا روپ وغیرہ (مراد خواہش ) صفات سے متصف ہوں.“ (تفسیر دیانند بھاشا یجروید جلدا ادھیائے امنتر ۲۰) اس سے مادہ میں خواہش کا ثبوت ملتا ہے.کیا سائنس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے؟
39 ۳- اگر ہست جنوں ( عیالداروں ) کو چاہیے کہ اس طرح کوشش کریں کہ جس سے مینوں یعنی بھوت ( ماضی) بہوشیت ( مستقبل) اور ورتمان ( حال ) زمانہ میں بہت ہی سکھی ہوں.“ ( تفسیر ایضاً جلد ا صفحه (۲۳۱) اس سے آج کا کام کئے ہوئے کا پھل گذشتہ دنوں میں مل جانا چاہیے.حال و مستقبل کے لئے تو انسان کر سکتا ہے مگر آج کا پھل پہلے مل چکا ہے یہ کیسے؟ بالکل خلاف عقل ہے.۴.میں جو سوم لتا وغیرہ بوٹیوں (کو) جو زمین وغیرہ سے تین برس پہلے مکمل سکھ دینے میں عمدہ ظاہر ہوئیں جو حاصل کرنے والے بیماروں کے سو اور سات جنم اور ناڑیوں کے زخموں کو مفید ہیں ان ( تفسیر ایضاً جلد اصفحہ ۴۱۶ ادھیائے نمبر ۱۲منتر ۱۵) کو جلدی جانوں.“ نوٹ :.کیا زمین سے قبل بھی بوٹیاں تھیں.اور ان سے لوگوں نے فائدہ حاصل کیا؟ آریوں کے ناقابل عمل اصول ضروری نوٹ:.ستیارتھ پرکاش مصنفہ پنڈت دیانند کے جو حوالے یہاں درج کئے گئے ہیں اُن میں نمبر صفحہ ستیارتھ پرکاش کے نویں ایڈیشن شائع کردہ راجپال مینجر آریہ پستکالیہ انارکلی لاہور کو مد نظر رکھ کر دیا گیا ہے یہ ستیارتھ پرکاش کا وہ اردو تر جمہ ہے جس کے مترجمین میں سوامی شردھانند پنڈت چھو پتی ایم.اے اور ماسٹر آتما رام جیسے آریہ پنڈتوں کے نام ہیں اور آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب سندھ (بلوچستان ) کی طرف سے یہ ترجمہ شائع کیا گیا ہے اور سرورق پر لکھا ہے.صرف یہی ترجمہ مستند ہے.“ (خادم) ا.بچے از خود اکھنڈ (انتھر ازل ) بر مچھر یہ رکھ کر اور تیسرا اعلیٰ درجہ کا ہر بچر یہ کر کے مکمل یعنی چارسوسال تک عمر کو بڑھائیں.(ستیارتھ پرکاش باب ۳ دفعہ نمبر۳۰) گویا نیک اور با ایمان آریہ کو چاہیے کہ برہم چاری رہ کر چار سو سال کی عمر حاصل کرے.دیانند سے بڑھ کر تو با ایمان اور کامل برہمچاری اور کوئی آریہ نہ ہو گا مگر اس کی عمر بھی ساٹھ سال سے متجاوز نہ ہوئی.پس ثابت ہوا کہ یہ تعلیم باطل اور نا قابل عمل ہے.۲.بقول دیا نند مردہ دفن کرنے میں بہت اقتصادی نقصان ہوتا ہے ( حالانکہ قبر کی کھودائی ۸/
40 ہوتی ہے.) ( خادم) لیکن جلانے میں صندل کی لکڑی، عود، کستوری بنے اور ڈیڑھ من روغن زرد وغیرہ وغیرہ اشیاء قیمتی سے تقریباً دو سو روپیہ کا زیر بار ہونا ضروری ہے.اگر میسر نہ آوے تو بھیک مانگے یا (ستیارتھ ب ۱۳ دفعه ۲۷) گورنمنٹ سے امداد طلب کرے.مگر جنگ میں جہاں ہزاروں مرتے ہیں یہ عالمگیر اصول دریائر دہو جاتا ہے جیسے مہا بھارت کی جنگ میں ہوا.کیونکہ وہاں یہ اشیائے قیمتی نہ مل سکیں اور نہ میسر آسکتی تھیں.۳.جس لڑکی کا خاوند مر جائے تو پھر اس کہنیا کو چاہیے کہ کسی شخص واحد سے بیاہ نہ کرے.وہ عمر بھر ایک کی نہ ہور ہے بلکہ دس بارہ مختلف نو جوانوں سے تادم آخر مضبوط اولاد حاصل کرتی رہے.(ستیارتھ ب ۴ دفعه ۱۱۸) آریہ عورت کے تیسرے نیوگی خصم کو اگنی کہتے ہیں کیونکہ اس میں حرارت زیادہ ہوتی ہے.(ستیار تهب ۴ دفعه ۱۳۶) پہلے اور دوسرے خصم میں حرارت کیوں کم ہوتی ہے اور پانچویں دسویں وغیرہ میں کیوں کم و بیش نہیں ؟ اس کی تشریح مطلوب ہے.۵.بموجب اعتقاد دیانندی روح و مادہ مع اپنی تمام قوتوں ،حسوں اور خاصیتوں کے ازلی ابدی خود بخود ہیں.یعنی اپنے وجود کے آپ خدا ہیں اور پر میشور کا کام صرف ارواح اور مادہ کو جوڑنے جاڑنے کا ہے لیکن اب معلوم ہوا کہ روحوں میں جوڑنے جاڑنے کی قوت انفصال واتصال کی خواہش بھی (ستیار تھب ۳ دفعه ۳۴) ازل سے ہے.(ستیارتھ ب ۷ دفعہ ۵۳) آریہ اور دہریہ میں کیا فرق ہوا.خاک.نجات کے طالب اور بچے آریہ کو چاہیے کہ قریباً پچاس سال کا ہو کر بیاہ کرے یا ۴۴ سال کے بعد.مگر پچاس سال تک تو انسان بوڑھا ہو جاتا ہے.پھر بیاہ کس لئے اور کس کے لئے.مضبوط اولاد کیونکر اور کون پیدا کرے گا.اس میں کوئی غلطی یا را ز ضرور ہے ( غالبا اس عرصہ میں بذریعہ نیوگ اولاد پیدا کرنے کی مہلت دی ہوگی ) ایسا بیاہ کرنے والا دو سو سال سے چار سو سال تک عمر حاصل کر سکتا ہے.(ستیار تھب ۶ دفعه ۳۰) مگر تجر بہ اس اصول کا دشمن ہے.سوائے دیا نند کے جو بجائے پچاس کے ساٹھ سال مجرد رہ کر سفید ریش ہو کر بڑھاپے کے نشان اور آثار دیکھ کر راہی عالم فنا ہوئے.چارسوسال کی عمر
41 والے کو تو ستر سال میں ابھی ڈاڑھی بھی نہیں آنی چاہیے.اسی لئے سوامی جی منہ سراسترے سے صاف رکھتے تھے.ملاحظہ ہو تصویر سوامی جی.ے.ممالک متوسط کی قسمت چھتیس گڑھ میں بعض قوموں کی عمر میں سال تک ختم ہوتی ہے.پھر وہاں چارسوسال کی عمر حاصل کرنے کے لئے شرط کیا ہوگی اور نیک آریہ پچاس سال کا ہو کر کیونکر بیاہ کرے.(خوب عالمگیر اصول ہیں ).۸ - ۴۸ سال کے بعد شادی کرے.بالکل شادی نہ کرنا اچھا ہے.(ستیار تهب ۳ دفعه (۳۴) ہندوستان کے آریہ اگر ۴۸ سال کے بعد بیاہ کرنا شروع کر دیں تو انشاء اللہ نصف صدی میں آریوں کا خاتمہ ہی ہو جائے اور ہندو مسلم سوال بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے.۹ ھون.(۱) ہون کرنا سب پر فرض ہے ورنہ پاپ ہوتا ہے.(۲) ہون دن میں دو دفعہ صبح و شام کرنا چاہیے.(ستیارتھ پرکاش ب۳ دفعہ ۲۰) (ستیار تھب ۳ دفعه ۱۵) (۳) ایک وقت کے ھون میں سولہ آہوتی فی کس گھی چاہیے.(ستیارتھ ب ۳ دفعه ۲۲) (۴) ہر آہوتی میں چھ ماشہ گھی کم از کم جلانا چاہیے.(ستیارتھ ب ۳ دفعه ۲۲) گویا ۱۶×۶ = ۹۶ ماشہ = ۸ تولے.قریباً 11 چھٹانک گھی ایک وقت آدمی کو جلانا چاہیے اور دو وقت کا کل گھی روزانه ۳۱/۵ چھٹا تک ہوا.ماہوار ۱۶/۵×۳۰=۹۶ چھٹانک.گویا اگر گھی کا نرخ ۴ چھٹانک فی روپیہ ہوتو ماہوار ۲۴ روپے کا صرف گھی ہی جلا نا پڑے گا.آجکل کے نرخ ۱۲۵ روپے فی سیر کے حساب سے یہ خرچ بڑھ کر ۶×۱۲۵=۷۵۰ روپے ماہوار آئے گا.(مرتب) (۵) گھی کے ساتھ کیسر - کستوری خوشبودار پھول عطر اور چندن.اگر تگر وغیرہ بھی جلانا چاہیے.(ستیارتھ پرکاش ب۳ دفعہ ۱۷، ۱۸) تو گویا اس حساب سے ہر آریہ کو ہون کرنے کے لئے کم از کم ۷۵۰ روپے تک ماہوار خرچ کرنا پڑتا ہے.غریب آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا.اور مشکل تو یہ ہے کہ اگر نہ کرے تو پاپ ہوتا ہے (جیسا کہ اوپر گزر چکا مگر اسلام نے اپنے احکام میں بھی حکمت رکھی ہے کہ وہ انہی پر فرض کئے ہیں جو
42 اُن کی استطاعت رکھتے ہوں.پس ویدک تعلیم عالمگیر الہامی نہ رہی.۱۰.نیک نیت اور مذہبی آریہ کوسندھیا او پاسنا کرنا اور پانچ مہا یکیوں کا ادا کرنا ایسا ضروری ہے.جیسا سانس پر سانس لینا ضروری ہے.(ستیارتھ باب ۳ دفعه ۴۴ ) پس جو آریہ سانس پر سانس لیتا مگر سندھیا وغیرہ بطریق مذکورہ بالا نہیں کرتا اور چار سو سال کا نہیں ہوتا کیا وہ نیک آریہ ہے؟ یا وہ شودر ہے.( بقول ستیارتھ ب ۴ دفعہ ۳۸) پانچ مہا ئیکیوں (فرائض ) میں سے دوسرا فرض ویدوں کو انگوں سمیت با قاعدہ پڑھنا اور سندھیا او پاسنا کرنا فرض ہے.چھ انگ یہ ہیں.ا.سنگشا (علم قراء ت ).۲- کلپ (سنسکاروں یعنی رسوم کے متعلق ہدایات اور ہر سنسکار کے متعلق ویدوں سے منتروں کا انتخاب ) ۳.چھند و علم عروض.۴.دیا کرن (علیم صرف ونحو ).۵.نرکت (علم لغت ).۶.جوتش (علم ہندسہ و ہیئت ) جس میں ریاضی کی تمام شاخیں یعنی حساب - مساحت وغیرہ علم طبقات الارض و جیالوجی اور جغرافیہ اور باقی تین فرائض اور ہیں جو ہم بخوف طوالت نہیں لکھ سکتے.جبکہ یہ لوگ عملاً آریہ ہی نہیں تو پھر نا حق تضیع اوقات ہے.۱.جو بطریق مذکورہ بالا سندھیا وغیرہ نہیں کرتا اور چھ سال کے اندر وید ختم نہیں کرتا.اُس کو (ستیارتھ ب ۳ دفعه ۴۷ ) گھر سے نکال کر شودروں کے گھروں میں بھیج دینا چاہیے.۱۲.بعد ازاں بوڑھے والدین اپنی خدمت کے لئے غیروں کے لڑکے رکھ لیں اور انہیں بیٹے تصور کر لیں.(ستیار تحب ۴ دفعه ۱۱۰) غیروں کے جوان لڑکے اس بوڑھے کے گھر میں رہ کر کیا کچھ نہ کریں گے.ناظرین خود سمجھ لیں.۱۳.ساز بجانا، ناچنا، گیت گانا ہر لگانا وغیرہ آریوں کو ضرور سیکھنا چاہیے (ستیارتھ ب ۳ دفعہ ۱۰۲) مگر اسی ستیارتھ ایڈیشن چہارم میں سوامی جی ب۳ دفعہ ۴۸ پر ساز بجانے ، ناچنے وغیرہ کو شہوانی عادات قرار دیتے ہیں.۱۴.برہمنوں کے گواہ برہمن اور شودروں کے گواہ شود را اور عورتوں کی گواہ عورتیں ہی ہوا کریں.(ستیار تھب ۶ دفعه ۶۳) اگر کوئی برہمن یا ولیش شودروں کے محلہ میں جا کر کسی کنیا کو نا پاک کر نکلے یا کوئی عورت شودر برہمنوں کے محلہ میں کسی کا گلا گھونٹ جائے تو کیا اس کو رہائی دے دیں.کیونکہ کوئی عورت یا اس کی ذات کا گواہ میسر نہیں آسکتا ؟ خدا اس قانون والوں کو طاقت نہ دے.
43 ۱۵.جو کوئی وید کو برا سمجھے اور اس کی مذمت کرے یا کم از کم دید کے موافق بنائی ہوئی عابد لوگوں کی تصانیف کی (یعنی ستیارتھ وغیرہ کی ) تحقیر کرے اس منکر کو جلا وطن کر کے ملک اور گھر بار سے خارج کر دینا چاہیے.یعنی قید وقتل وغیرہ.(ستیار تحب ۳ دفعه ۵۲ ) ۱۶.جو دھرم پر قائم نہیں رہتا.خواہ استاد ہو یا مائی باپ اس کو راجہ بغیر سزا ہرگز نہ چھوڑے.آریہ عورتوں کو ویدک نصائح اور فرائض (ستیار تخصب ۶ دفعه ۷۲ ) ا.اے دیور نیوگی ( دوسرے خاوند ) کی خدمت کرنے والی عورت اور اے بیا ہے ہوئے خاوند کی فرمانبردار بیوی ( یعنی دو خاوند والی عورت.مؤلّف ) تو نیک اوصاف والی ہو.تو گھر کے کاروبار میں عمدہ اصول پر عمل کر اور اپنے پالے ہوئے جانوروں کی حفاظت کر.اور عمدہ کمال و خوبی اور علم و تربیت حاصل کر.طاقتور اولاد پیدا کر اور ہمیشہ اولاد کی پرورش میں متحدرہ.اے نیوگ کے ذریعہ سے دوسرے خاوند کی خواہش کرنے والی تو ہمیشہ سکھ دینے والی ہو کر گھر میں ہون وغیرہ کی آگ کا استعمال اور تمام خانہ داری کے کاروبار کو دل لگا کر بڑی احتیاط سے کر “ (ستیار ته ب ۴ دفعه ۱۳۶ ) تعددازدواج پر اعتراض کرنے والے دو خاوندوں والی بیوی پر غور کریں حالانکہ مرد دس کو نطفہ دے سکتا ہے مگر عورت دو کا نطفہ نہیں لے سکتی.خلاف قدرت وفطرت تعلیم یہ نئی دلہن کو پہلی رات کو منانے کی ہدایت کی گئی ہے.کس قدر شرمناک تعلیم ہے.-۲ استقرار حمل کی کارروائی کا وقت ایک پہر رات گزرنے کے بعد ایک پہر رہنے تک ہے.جب منی کے رحم میں گرنے کا وقت آئے تب دونوں بے حرکت نہایت خوش دل.منہ کے ساتھ منہ.ناک کے سامنے ناک وغیرہ تمام جسم سیدھا رکھیں.مردمنی ڈالنے کا کام کرے.جب منی عورت کے جسم میں داخل ہو.اس وقت وہ اپنی مقعد اور جائے مخصوص کو اوپر کھینچے اورمنی کوکھینچ کر عورت رحم میں قائم کرے.(سنسکار ودهی مع تفسیر از پنڈت دیانند سرسوتی باب گر بھا دیانی سنسکار صفحه ۱۸۰ مطبع شهید دھرم مباشد را جپال اینڈ سنز مالک آریہ پستکالیہ ہسپتال روڈ انار کلی لاہور وستیارتھ پرکاش به دفعه ۴۳ ) کروڑوں مخلوقات اس آسن سے بے خبر ہے.مگر اولاد خدا کے فضل سے اس آسن پر عمل
44 کرنے والوں سے کہیں زیادہ مضبوط پیدا ہوتی رہتی ہے.۳.جیون چرتر مصنفہ لیکھرام و آتما رام صفحہ ۳۵۵ میں لکھا ہے کہ دوسرے دن سوامی دیانند جی نے مورتی پو جا کے کھنڈن ( تردید بت پرستی پر لیکچر دیا اور مندروں میں عورتوں کے جانے اور وہاں کی دُردشا ( بُری حالت) کا برن فرمایا اور فرمایا کہ سال میں ایک ہی بار اپنے پتی (خاوند) کے پاس جاوے یعنی و بچار ( زنا نہ کرے) کسی شخص نے مکان کی چھت سے دریافت کیا کہ جس عورت کا پتی طوائف ( کنجری ) کے پاس جاوے اس کی عورت کیا کرے؟ انہوں نے کہا.اس کی عورت بھی ایک مضبوط آدمی رکھ لے.تعلیم کس قدرنا قابل عمل، اخلاق سوز اور بے حیائی پیدا کرنے والی ہے.۴.”اے بیوہ عورت ! اپنے اس مرے ہوئے اصلی خاوند کو چھوڑ کر زندہ دیور یعنی دوسرے خاوند کو قبول کر.اس کے ساتھ رہ کر اولاد پیدا کر.وہ اولا د جو اس طرح پیدا ہوگی تیرے اصلی خاوند کی ہوگی.“ (ستیارتھ ب ۴ دفعه ۱۳۳) کیونکہ دوسرے خاوند سے نکاح تو نہ ہوگا.بغیر نکاح کے ہی اولاد پیدا شدہ مردہ خاوند کی ہوگی.جائز نا جائز کا سوال نہیں صرف اولاد کے حصول کی غرض مد نظر ہے.۵ - پرش کالنگ استری کی یونی میں گھنے پر خصوصیت سے نطفہ چھوڑتا ہے مگر پیشاب اس سے علیحدہ چھوڑتا ہے.وہ نطفہ جھلی سے ڈھکا عمل کی شکل ہو کر پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونے پر اس ڈھکن کو چھوڑ دیتا ہے اور بیرونی ہوا جو جھلی کو چھوڑتا ہے وہی قسم قسم کی زندگی کے اسباب کی موجودگی یعنی روح کے متعلق دہن اور اس رس کی برابر ناش رہت پر تیکش وغیرہ گیان کے اسباب آنکھ وغیرہ اعضاؤں سے ملتا ہے یعنی ان کو ترقی دیتا ہے.مطلب مرد کا آلہ تناسل عورت کی اندام نہانی سے ملنے پر نطفہ کو پیشاب سے علیحدہ چھوڑتا ہے.“ (یجر دید ادھیائے ۱۹ منتر ۷۶ صفحه ۱۳۸۸اردوترجمہ مطبع گم پر کاش مسجد سوٹھہ ضلع دیلی ) عورت مرد حمل رکھنے کے وقت بالمقابل اور پریم میں چور ہوں.منہ کے مقابل منہ.آنکھ کے سامنے آنکھ.دھیان کے سامنے دھیان.جسم کے سامنے جسم کا انتظار کر.حمل قائم کریں جس سے بدشکل یا ٹیڑھے عضوؤں والی اولاد پیدا نہ ہو.“ ( کوکا پنڈت کے بھی کان کتر رہے ہیں اور تناسخ کو باطل ٹھہرا رہے ہیں ).( یجروید ادھیائے ۱۹ منتر ۸۸ صفحه ۳۲۲ اردو تر جمہ مطبع نگم پر کاش مسجد سوٹھہ ضلع دہلی ) ے.اے نیشو! جیسے بیل گالیوں کو گیا بھن کر کے نسل بڑھاتا ہے ویسے ہی گرہستی لوگ استریوں کو حمل رکھا کر پر جا بڑھاویں.“ یجروید بھاش حصہ سوم ادھیائے ۲۸ منتر ۳۲ صفحه ۹۴ اردو ترجمہ مطبع نگم پر کاش مسجد سوٹھہ ضلع دہلی )
45 کیا لطیف مشابہت ہے اور طرز بیان کا کمال.بیل گائے ماں بہن کا امتیاز نہیں رکھتے.صرف نسل بڑھانا مقصود ہوتا ہے..نیوگ شہوت مٹانے کا آلہ ہے.ملاحظہ ہو حوالجات ذیل: مرد عورت کے رنڈوے یا بیوہ ہونے سے قطع نسل سے بچنے کا علاج پنڈت دیانند جی مہاراج یوں فرماتے ہیں کہ اگر خاندان کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے کسی اپنی ذات کا لڑکا گود لے لیں گے اس سے خاندان چلے گا اور زنا کاری بھی نہ ہوگی اور اگر بر بیچر یہ نہ رکھ سکیں تو نیوگ کر کے اولاد پیدا کر لیں.(ستیارتھ ب ۴ دفعه ۱۱۰) ۹.زنا اور نیوگ کا طریق اور قواعد یکساں ہیں.ملاحظہ ہوں ذیل کے حوالے.” بیاہ کرنے میں لڑکی اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر خاوند کے گھر جاتی ہے اور اس کا باپ سے زیادہ تعلق نہیں رہتا مگر نیوگ کی صورت میں عورت اسی بیا ہے خاوند کے گھر میں رہتی ہے.“ یہی زنا میں ہوتا ہے.اور سنو :.(ستیار تحب ۴ دفعه ) ۱۰.اس بیا ہی عورت کے لڑکے اسی بیا ہے خاوند کے وارث ہوتے ہیں مگر نیگتا عورت ( جس نے نیوگ کیا ہو ) کے لڑکے ویرج داتا کے نہ بیٹے کہلاتے ہیں ( درانحالیکہ عورت سے نیوگ اپنی اولاد کے لئے کیا ہو ) نہ اس کا گوتر ہوتا ہے اور نہ اس کا اختیار ان لڑکوں پر ہوتا ہے بلکہ وے متوفّی خاوند کے بیٹے کہلاتے ہیں.اس کا گوتر ذات ہوتا ہے اور اس کی جائیداد کے وارث ہو کر اسی گھر میں رہتے ہیں.“ (ستیارتھ ب ۴ دفعه ۱۱۹) زنا میں بھی یہی ہوتا ہے.اگر کسی کی بیوی سے کسی کا ناجائز تعلق ہو تو اس عورت کی اولا د اپنے خاوند کی اولاد سمجھی جاتی ہے اور اسی کی وارث ہوتی ہے.حالانکہ قانونا اور اخلاقاً جس کا نطفہ ہو.اسی کی گوتر اور وارث ہوتا ہے.مگر مخفی یا رانہ کی وجہ سے چونکہ ظاہر نہیں ہوتا اس لئے ایسا واقع ہوتا ہے.ورنہ دنیا کے کسی خطہ کا قانون ابھی تک اس قسم کے کرایہ کے نطفہ کو جائز قرار نہیں دیتا بلکہ اس کو نا جائز اور حرام کی ولادت قرار دیتا ہے.اس تعلیم کی رو سے تمام آریوں کی ولادت مشکوک ہو جاتی ہے.ابھی اور سنو.ا بیا ہی عورت مرد کو باہم خدمت اور پرورش کرنی لازم ہے مگر نیوگ شدہ عورت کا اس قسم کا
46 کوئی تعلق نہیں رہتا.“ (ستیار تحب ۴ دفعه ااا جواب ۳) ۱۲.بیا ہی عورت مرد کا تعلق دونوں کی موت تک رہتا ہے مگر نیوگ شدہ عورت مرد کا تعلق (ستیارتھ پرکاش ب۴ دفعه ااا جواب ۴) کاریہ کے بعد چھوٹ جاتا ہے.“ ان دونو حوالوں نے تو معاملہ بالکل صاف کر دیا.زنا میں بھی یہی ہوتا ہے.۱۳.بیاہی عورت مرد با ہم گھر کے کاموں کو سرانجام دیتے ہیں.کوشش کرتے اور نیوگ شدہ (ستیار تھب ۴ دفعه ااا جواب ۵) عورت مرد اپنے اپنے گھر کے کام کرتے ہیں.زنا کاری میں بھی یہی ہوتا ہے کہ کام کیا اور الگ ہوئے اور نیوگ میں بھی یہی صورت ہے جس طرح زانی زانیہ کے پاس حق محبت ادا کر کے اپنی حاجت روائی کرتے اور پھر ا لگ ہو جاتے ہیں اور پھر اس کو کوئی حق نہیں رہتا کہ اس کو چھو بھی جائے.اسی طرح نیوگ میں بھی ہدایت کی گئی ہے.ہاں اگر کسی کا دل پھنس جائے تو پھر کوئی ہدایت نامہ کارگر نہیں ہوتا.کیونکہ دل بے اختیار ہے.پس ایسی بے تعلقی میں مجامعت کا نام بیاہ ہے تو ایسے بیاہ تو روزانہ چار چار آنہ میں ہورہے ہیں.کوئی نئی اور اعلیٰ بات تو اس میں نہیں.بلکہ ان چار چار آنہ والیوں کی تو گورنمنٹ بھی بوقت ضرورت داد رسی کرتی ہے اور حق تلفی ہونے پر ان کی فریاد کونتی ہے مگر نیوگ کے متعلق تو گورنمنٹ نے بھی خلاف فیصلہ دے کر زنا کاری قرار دیا ہے.(ملاحظہ ہو فیصلہ اسٹنٹ کمشنر پشاور.سناتن دھرم گزٹ اپریل ۱۹۰۴ء) ۱۴.نیوگ بیوہ ہی کے لئے نہیں بلکہ خاوند یا عورت کی موجودگی میں بھی ہوسکتا ہے.سینے فرمایا ہے:.نیوگ جیتے جی بھی ہوتا ہے.جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے نا قابل ہو تب اپنی عورت کو اجازت دے کہ اے نیک بخت اولاد کی خواہش کرنے والی عورت تو مجھ سے علاوہ دوسرے خاوند کی خواہش کر کیونکہ اب مجھ سے تو اولاد نہ ہو سکے گی.تب عورت دوسرے کے ساتھ نیوگ کر کے اولاد پیدا کر لے.“ لیکن اب بیا ہے عالی حوصلہ خاوند کی خدمت میں کمر بستہ رہے.ویسے ہی عورت بھی جب بیماری وغیرہ میں پھنس کر اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو.تب اپنے خاوند کو اجازت دے کہ اے مالک! آپ اولاد کی امید مجھ سے چھوڑ کر کسی دوسری بیوہ عورت سے نیوگ کر کے اولاد پیدا کیجیے.“ (ستیار ته ب ۴ دفعه ۱۳۸)
47 اس حوالہ میں الفاظ نیک بخت اور عالی حوصلہ قابل غور ہیں.اس سے بڑھ کر اور نیک بختی کیا ہوگی کہ خود ہی اپنی بیوی کو زنا کی تحریک کر کے اپنے لئے راستہ کھول رہا ہے.پھر اس سے بڑھ کر عالی حوصلگی کیا ہوگی کہ اپنی غیرت و عزت کو خیر باد کہہ کر اپنے ننگ و ناموس اور اپنی محبوبہ کو دوسرے اگنی مشٹنڈے کے سپر د کر رہا ہے.یہ بے نظیر عالی حوصلگی قابل آفرین ہے.خاوند کی موجودگی میں دوسرے کی بغل میں جا کر سونا اور خالص کا ریہ کرانا مذکورہ بالا زنا کے قواعد کے ماتحت آنا نہیں تو اور کیا ہے؟ ادم شیم ؟ عورت کا نیوگی تلاش کرنا بھی نرالا قانون ہے.۱۵.بغیر اولاد کی ضرورت اور خواہش کے صرف شہوت رانی کے لئے نیوگ جب ثابت ہو.اور ہو بھی خاوند کی موجودگی اور اس کے نکاح میں ہونے کی حالت میں تو سوائے زنا کے اور کیا نام رکھا جاسکتا ہے.سنیے: اگر بیاہا خاوند دھرم کی غرض سے غیر ملک میں گیا ہو تو عورت آٹھ برس.اور اگر علم اور نیک نامی کے لیے تو چھ برس اور دولت وغیرہ کے لئے تو تین برس تک انتظار کر کے پھر نیوگ کر کے اولاد حاصل کرے.جب شادی شدہ خاوند آوے تب نیوگ شدہ خاوند سے قطع تعلق ہو جاوے.“ (ستیارتھ باب ۴ دفعه ۱۴۰) اس حوالہ نے تو پردہ ہی اٹھا دیا.مزید تشریح کا محتاج نہیں.صرف اس قدر جتا دینا ضروری ہے کہ حوالہ نمبر 1 میں سوامی جی نے فرمایا تھا کہ کار یہ یعنی مجامعت کرنے کے بعد تعلق نہیں رہتا مگر اس میں بتایا گیا ہے کہ جب تک خاوند باہر سے واپس نہ آوے تب تک نیوگی اور نیو گن تعلق قائم رکھیں.اس کے واپس آنے پر قطع تعلق کر لیں.عجیب فراخدلی اور عالی حوصلگی ہے.۱۶.سب سے زبر دست پرمان یعنی حکم سوامی جی کا جو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ نیوگ ناجائز طور پر شہوت رانی کا زبر دست آلہ ہے.لیجیے سینے اور سنائیے.فرماتے ہیں:.سوال: ”جب ایک بیاہ ہوگا.ایک مرد کے لئے ایک عورت اور ایک عورت کے لئے ایک مرد رہے گا اس عرصہ میں عورت حاملہ، دائم المریض یا مرد دائم المریض ہو جائے اور دونوں کا عالم شباب ہو اور رہا نہ جائے تو پھر کیا کریں؟ جواب:.اگر حاملہ عورت سے ایک سال صحبت نہ کرنے کے عرصہ میں مر دیا دائم المریض مرد کی عورت سے رہا نہ جائے تو کسی سے نیوگ کر کے اس کے لئے اولاد پیدا کرے لیکن رنڈی بازی یا
48 زنا کاری نہ کریں.“ (ستیارتھ پرکاش باب ۴ دفعه ۱۴۶) رہا نہ جائے“ کا جملہ قابلِ غور ہے.سوامی جی کا بطور ٹیپ کے مصرعہ کے ہر حکم نیوگ کے آخر میں یہ لکھ دینا کہ ”نیوگ کر کے اولاد پیدا کرے صرف نیوگ کی قباحت اور گندگی کا چھپانا ہے ور نہ اسی حوالہ میں ہی دیکھ لیں کہ جب اس کی عورت حاملہ ہے تو ضرور ہے کہ اس کے لئے کوئی نو نہال جنے گی.پھر اولاد پیدا کرنے کی کیا ضرورت لاحق ہوئی.وہی رہا نہ جائے والا مسئلہ ہی حل کرنا مقصود ہے اور یہی زنا اور شہوت رانی ہے جو ثابت ہے.اب کہاں ہیں وہ جو اسلام کے پاک مسئلہ تعدّ دازدواج پر اعتراض کرتے ہیں.تعدد ازدواج میں قدرتاً اور فطرتاً ایک آدمی کئی عورتوں سے کئی لڑکے پیدا کر سکتا ہے مگر ایک عورت کئی مردوں سے سوائے شہوت مٹانے کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکتی.اگر مختلف اوقات میں نیوگ کے بہانہ دس مردوں کے پاس گئی اور بدقسمتی سے کسی کا نطفہ ٹھہر گیا تو وہ مشترکہ اور معجون مرکب بچہ ہوگا جس کا والی وارث وہی ہوسکتا ہے جو اسی طرح پیدا ہوا ہو! ویدک تہذیب کے نمونے بعض دفعه بعض بد زبان آریہ سماجی مسلم مناظرین کے سامنے بے سروپا روایات اور تفاسیر کے حوالے پڑھ دیتے ہیں مگر جب ان کو کہا جائے کہ یہ تحریرات جماعت احمدیہ کے مسلمات میں سے نہیں ہیں.لہذا حجت نہیں تو آریہ سماجی جواب دیتے ہیں کہ یہ ترجمہ اور تفسیر ہماری طرف سے تو نہیں ہے خود تمہارے ہی مسلمان بھائیوں کی تحریر کردہ ہے.اس کے جواب میں وید کی مندرجہ ذیل تفسیر پڑھی جاسکتی ہے جو پنڈت مہید ھر فاضل وید نے آج سے سینکڑوں سال قبل کی ہے.جس طرح آریہ اس تفسیر کو تسلیم نہیں کرتے اسی طرح احمدیوں کے مقابلہ میں غلط اور بے بنیا د روایات اور تفاسیر بھی حجت نہیں ہوسکتیں.خادم ا.مہیشی (زن یجمان ) روبروئے جملہ مہتمان یگیہ نزد اسپ افتاد می گوید.اے اسب من در رحم خود نطفه تو کز حمل قرار می یابد میگیرم تو ہم آن نطفه را در رحم من بینداز یجر ویدا دھیائے۲۳ منتر ۱۹ بحوالہ رگ وید آدی بھاش بھومکا مصنفہ پنڈت دیانند سرسوتی مترجم اُردو نہال سنگھ کرنا لوی صفحہ ۱۸۷ و بھوم کا اصل ہندی صفحه ۳۴۵) ۲ کار پردازان یگیه زنان و دوشیزگان به انگشت ہائے خود شکل اندام نہانی ساختہ بطریق
49 تمسخر میگویند که بوقت زرد گامئے زنان آواز ہلہلا مے خیز د.وقتیکه عضو مردمثل گنجشک در اندام زن می رود - زن آنرا در جسم خود می خورد و انزال میکند و در آن وقت آواز گلگلامی خیزد و دوشیزگان به انگشت ھائے خود صورت عضو مرد نمایند و میگویند که روزن حشفہ با روئے تو مشابہت دارد یجر وید ادھیائ ۲۳ منتر ۳۲.رگ وید آدی بھاش بھوم کا مترجم اردو صفحه ۱۸۹ و بندی صفحه ۳۵۱) اندام زن را دست کشیده فراخ بکند تا که آن کشاده شود 66 یجر ویدا دھیائے ۲۳ منتر ۳۶ بجوم کا اُردو صفحہ ۱۹۰) قدامت روح و ماده آریوں کے دلائل کی تردید دلیل اوّل: خدا قدیم سے ہے اور اس کی صفات بھی قدیم سے ہیں اور منجملہ اس کی صفات کے مالک کی صفت بھی ہے اور مالک بغیر مملوک کے نہیں پایا جاتا.پس ساتھ اس کا کوئی مملوک قدیم سے ہونا ضروری ہے اور وہ روح و مادہ ہے.جواب: ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ قدیم سے مالک اور خالق ہے مگر مملوک کو روح و مادہ میں مقید کرنا کوئی عقلمندی ہے.ہم بھی قدامت نوعی کے قائل ہیں نہ قدامت شخصی کے یعنی مخلوق کی انواع میں سے کوئی نہ کوئی قدیم سے چلی آتی ہے اور خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا تعطل ایک وقت میں ہم نہیں مانتے.یہ دلیل آریوں کی بعینہ عیسائیوں کی اس دلیل جیسی ہے جو وہ تثلیث کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں کہ وجود معلولات متعدده علل متعددہ کو چاہتا ہے.پس علل کی کثرت ماننی پڑتی ہے پس تثلیث ثابت ( زیادہ عمل کیوں نہیں؟ صرف تین کیوں؟ اسی طرح آریہ لوگ بھی خدا کی صفت مالک“ ثابت کرنے کے لئے روح و مادہ کو پیش کرتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں روح و مادہ کے بغیر اور بھی اشیاء ہوسکتی ہیں.دلیل دوم:.ہمارا مشاہدہ بتا تا ہے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علت مادی ضرور ہوتی ہے پس روح و مادہ کی علت کیا ہے؟ جواب نمبر :.ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر چیز کی منع کے لئے آلات ضروری ہیں مگر تم خود پر میشور کو (دیکھورگ وید آدمی بھومکا صفحه ۹،۶) آلات کے بغیر کام کرنے والا مانتے ہو
50 جواب نمبر ۲:.علت مادی مرکبات کی ہوتی ہے کیونکہ مرکب وہ ہے جو دو سے بنے.پس وہ دونوں اس کی علت ہوں گے مگر مفرد تو کسی سے بنا نہیں اس لئے مرکبات کے قاعدہ کو اس پر چسپاں کرنا بالکل فضول ہے.دلیل سوم :.نیست سے ہست اس لئے نہیں ہو سکتا کہ نیستی کے معنی ہیں کچھ بھی نہیں اور جو نہ ہو اس سے ہو جائے یہ محض ہنسی ہے.جواب نمبر :.ہمارا یہ کہنا کہ صندوق لکڑی سے بنا ہے اور یہ کہنا کہ مادہ خدا کی قدرت سے بنا ہے.دونوں میں فرق یہی ہے کہ پہلے میں علت مادی مراد ہے اور دوسرے میں علت فاعلی.رگ وید آدی بھاش بھومکا صفحه ۸۰) خدا کے لئے سب ہست ہے.نیست اور ہست تو ہم انسان اپنی نسبت سے بولتے ہیں.اُس کی علت فاعلی سب کچھ کر دکھاتی ہے.محاورہ ہے.اس دلیل کے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب قرآن مجید کی آیت كُن فَيَكُونُ (البقرة: ۱۱۸) پر اعتراض کہ حسن کس کو کہا؟ جواب نمبر :.زید کا نقشہ پر میشور کو معلوم تھا یا نہ؟ اگر معلوم تھا تو کس کا نقشہ معلوم تھا؟ نیز یہ جواب نمبر ۲:.انسان جب اپنے ذہن میں کوئی نقشہ کھینچتا ہے.مثلا کسی مکان بنانے کا نقشہ.تو بنانے کے وقت اسباب و آلات کی تلاش و پڑتال میں لگ جاتا ہے اور اُ سے خارجی وجود میں لاتا ہے مگر خدا چونکہ خود آلہ ہے اس لئے وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ صرف امر محسن سے بنادیتا ہے.دلیل چہارم :.ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر خلق مادہ سے ہوتی ہے.جواب:.موجودہ قانون یا مشاہدہ دلیل نہیں کیونکہ الف.جس طرح اب ہر چیز مادہ سے بنتی ہے اور پہلے لازماً عدم سے وجود میں آئی تھی.اسی طرح اب انسان مرد اور عورت سے پیدا ہوتے ہیں مگر پہلے بلا باپ وہاں کیونکہ ابتداء ماننی لازمی ہے.(ستیارتھ باب ۸ دفعہ ۴۲) دیکھو خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان : ۳) یعنی ہر شے عدم سے وجود میں
51 آتی ہے مگر بعد میں ایک اندازہ سے آتی ہے.ب.الہام اب نہیں ہوتا.ہاں ابتدا میں ہوا بقول تمہارے.اسی طرح خلق کو قیاس کر لو.ج.ہمارے مشاہدہ میں پرے نہیں.و.ہمارے مشاہدہ میں مادہ اصل حالت میں نہیں.(صفحہ ، او د یا چہ ستیارتھ پرکاش ) آریہ لوگ ابتدا میں مخلوق کا پیدا ہونا اسی طرح مانتے ہیں کہ کھیتوں کی طرح آگ پڑے تھے.پس اگر یہ ایسا ہی ہوا تھا تو اس کی نظیر دو.ورنہ شرماؤ.منقلی دلائل حدوث روح و مادہ پر دلیل اول :.وہ قادر مطلق ہے.سرب شکتیمان ہے.پس چونکہ وہ قادر مطلق ہے اس لئے ہر کام وہ کر سکتا ہے.إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : ۱۴۹) اعتراض:.خدا اپنے جیسا خدا نہیں بنا سکتا.نہ وہ مرسکتا ہے؟ جواب نمبر :.تمام صفات مساوی ہیں.اپنی مثل بنانا قدرت نہیں بلکہ کمزوری ہے کیونکہ دوسری صفات کٹتی ہیں.چونکہ اس کی صفات میں سے حسی ہونا اور واحد ہونا ہے.اگر وہ مثل بنائے تو واحد نہیں رہتا.اپنے آپ کو مار دے تو حتی نہیں رہتا مگر مادہ اور روح میں کونسی صفت کٹتی ہے؟ جواب نمبر ۲: کوئی معیار پیش کرو ورنہ قادر مطلق نہ مانو.ہاں انسان سے زیادہ قادر مانو.اسی طرح انسان بمقابلہ حیوان کے اور ڈاکٹر بمقابلہ کمیونڈر کے قادر مطلق ہے.دلیل نمبر ۲:.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: الله خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد: ۱۷).یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے کیونکہ اگر وہ بعض چیزوں کا خالق نہ ہو تو واحد نہ ہوگا یعنی واحد فی الصفات ۲.اگر وہ ہر چیز کا خالق نہیں تو وہ ان اشیاء پر غلبہ جائز طور پر پانے کا مستحق نہیں.اسی کی تائید کرتی ہے یہ آیت وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً (الانعام: ۱۲) اعتراض: انسان بھی اکثر اشیاء کا مالک ہے اور اسے غلبہ حاصل ہے بدوں خلق کے.جواب نمبرا:.خدا کی اجازت سے.جواب نمبر ۲:.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: ۱۲) پس اُس کی ملک اور انسان کی ملک
52 میں فرق ہونا چاہیے.اعتراض:.ہم بھی موجود ہیں.خدا بھی موجود ہے.ہم بھی ابدی ہیں.خدا بھی ابدی ہے تو توحید فی الصفات کیسے ہوئی بلکہ اشتراک ثابت ہوا.جواب:.ہم اس کے قائم رکھنے سے موجود ہوئے وہ خود قدیم ہے مگر روح و مادہ کا وجود حادث ہے.دلیل یہ ہے کہ خدا چاہے تو قائم نہ رکھے یا ابدی نہ بنائے مگر روح کو نہیں مٹائے گا.( دیکھوسورة هود رکوع ۹ آیت ۱۰۳ تا ۱۰۹) لا إلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (البقرة: ۲۵۲) حتی پر اعتراض تھا مگر قیوم نے دور کر دیا.دلیل نمبر ۳: - خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدْرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان: ۳) یعنی ہر چیز سوائے باری تعالیٰ کے مخلوق ہے کیونکہ محدود ہے اور محدود کا محمد دچاہیے اور روح اور مادہ بھی محدود ہیں.(دیکھو ستیار تحب ۸ دفعها ) دلیل نمبر ۴:.اگر روح پیدا نہیں ہو سکتی تو لازماً خدا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجے گا اور یہ ظلم ہے.دیانند جی کو دقت پیش آئی تو وہ مکتی کو قید سے تعبیر کرنے لگے.دلیل نمبر ۵:.روح و مادہ کو اور ان کے خواص کو قدیم ماننے سے ذات باری پر دلیل قائم نہیں رہتی کیونکہ جب بڑا کام خود ہوا تو چھوٹا کام کیوں نہ خود ہوا؟ دلیل نمبر ۶:.صفات کی فناذات کی فنا ہے.اس لئے آریوں کے نزدیک جس طرح روح کی ذات مخلوق نہیں اسی طرح صفات بھی مخلوق نہیں.پس اگر ثابت ہو کہ صفات میں تغیر ہے تو ذات میں بھی تغیر ماننا پڑے گا اور ہر متغیر قائم بالذات ہے صفات کا تغیر.دیکھو نیک سے بد اور بد سے نیک.جاہل سے عالم اور عالم سے جاہل.دلیل نمبر ے :.خدا ظرف ہے.روح مظروف ہے ،ظرف پہلے ہونا چاہیے.دلیل نمبر ۸:.روح و مادہ محتاج الغیر ہیں یا نہیں؟ اگر محتاج ہیں تو قدیم نہ ہوئے.اگر محتاج نہیں تو پھر ماتحت نہیں ہو سکتے.دلیل نمبر ۹:.تین چیزیں ازلی ہیں.(ستیار تھب ۸ دفعه ۲ سوال۳) پھر پانچ از لی (ستیارتھ ب ۸ دفعه ۳۹) دلیل که اکاش از لی ہے (ستیار تجھ ب ۸ دفعہ ) اکاش مخلوق ہے (بھوم کا صفحہ ۷۶) پھر زمانہ فانی ہے (صفحہ ۲ استیارتھ ) اور اکاش فانی ہے (ستیارتھ ب 9 دفعہ 9) سب سے پہلے خدا کا ہونا ضروری
53 ہے.(ستیار تھب کے دفعہ ے ) زمانہ جس طرح دوبارہ پیدا ہوتا ہے بغیر علت مادی کے اسی طرح مادہ بھی بغیر علت مادی کے پیدا ہوسکتا ہے.(دیکھو حوالجات رگ وید بھوم کا صفه ۵۳ ،۷۸،۷۳۷۰ ) دلیل نمبر ۱:.اگر وہ خلق نہیں کر سکتا تو وہ عالم نہیں.اگر وہ عالم ہے تو خالق بھی ہے.وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (يس: ٨٠) دلیل ہے.پس جبکہ کامل علم خالق ہونے کا مقتضی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا خالق نہ ہونا اُس کے نقص علم پر دلیل نمبر ۱:.ستیارتھ ب ۸ دفعہ ۵۷ جی اور پر کرتی کے صفات اور فعل اور عادات از لی ہیں.۲.خدا تو مرکب کو بھی بدل نہیں سکتا.(ستیارتھ باب ۸ دفعہ ۱۴).جو قدرتی اصول ہیں.مثلاً آگ گرم ، پانی ٹھنڈا وغیرہ اس کی طبعی صفات کو پر میشور بھی نہیں بدل سکتا.(ستیارتھ صفحہ ۲۸ باب ۸ دفعہ ۱۴) جہاں جیو اور پر کرتی کے صفات دیئے گئے ہیں وہاں مادہ سے تعلق پیدا کرنے کا حق نہیں یا طریق تعلق پیدا کرنے کا بتاؤ.دلیل نمبر ۱۲:.ستیار تھے.جس مادہ سے روح بنائی جاوے وہ آخر ختم ہو جائے گا.دلیل نمبر ۱۳:.أَمْ خَلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْ أَمْ هُمُ الْخَلِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ (الطور : ۳۷،۳۲) یعنی منکرین حدوث روح و مادہ کہتے ہیں کہ روحیں پیدا نہیں ہوئیں.(۱) کیا وہ بغیر علل کے خود بخود ہیں؟ اور ظاہر ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آتی ہے جو محال ہے (۲) دوسری شق یہ ہو سکتی تھی کہ خود علت ہوں لیکن اگر ایسا ہو تو اس سے تقدم الشيء على نفسہ لازم آتا ہے جو محال ہے.(۳) جوعلت العلل ہوں اور آسمانوں اور زمینوں کے مالک ہوں تو اس سے تعدد لازم آتا ہے جو محال ہے.علاوہ ازیں خالق مخلوق کا محتاج نہیں.مگر ہم زمین و آسمان کے محتاج ہیں.اگر یہ ہماری مخلوق ہوتے تو ہم ان کے محتاج نہ ہوتے.دلیل نمبر ١٤ يَنتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل: ۸۲) آریہ لوگ جو حدوث روح و مادہ کے منکر ہیں کسی زمانہ میں سوال کریں گے کہ روح کیا چیز ہے.آیا حادث ہے یا قدیم ہے.جواب میں کہہ دے کہ یہ میرے رب ط
54 کی مخلوق میں سے ہے:.لَهُ الْخَلْقَ وَالْأَمْرُ (الاعراف: ۵۵) قُل لَّبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنس وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُوا بِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ طهِيرًا (بنی اسرائیل: ۸۹) دلیل اس کا ( روح کا ) علم ناقص ہے.اگر قدیم سے ہوتی تو علم کامل ہوتا جیسے خدا کا علم کامل ہے.پس ان دلائل سے حدوث ثابت ہوا.آریوں کے اعتراضات بالکل کچے ہوتے ہیں جیسے دہریوں کے ہوتے ہیں.دہر یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ خدا اگر ہے تو بتاؤ وہ کیا چیز ہے؟ یہی سوال ایک دفعہ ایک کمہار کے لڑکے نے کیا جس کے جواب میں کہا گیا کہ خدا چیز نہیں کیونکہ چیزوں کو تو وہ پیدا کرتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ تم سے پوچھا جاوے کہ تمہارا باپ کون سا برتن ہے.تو تم کہو گے کہ برتن تو میرا باپ بنایا کرتا ہے.وہ برتن نہیں.اسی طرح خدا بھی خالق الاشیاء ہے.دلیل نمبر ۱۵:.ارواح و مادہ صاحب علم و ارادہ نہیں.اگر صاحب علم وارادہ ہیں تو پھر کیوں وہ آپس میں نہیں مل جاتے اور صاحب علم وارادہ کے بغیر کوئی خلق نہیں ہوسکتی.پس روح و مادہ مخلوق ہیں نہ کہ خود بخود.دلیل نمبر ۱۶:.اگر روح و مادہ مخلوق نہیں تو پھر اللہ تعالی خالق نہیں بلکہ صرف ایک معمار کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ یہ بات مسلمات آریہ کے خلاف ہے.دلیل نمبر۱۷:.جب روح و مادہ اللہ تعالیٰ کے ماتحت ہیں تو پھر وہ خود بخود کیونکر ہو سکتے ہیں.اگر کہو کہ اللہ تعالیٰ کے ماتحت ہونا ان کی فطرتی اور ذاتی صفت ہے تو ہم کہیں گے کہ پھر وہ کیوں اطاعت الہی میں تکلیف محسوس کرتی ہیں.دلیل نمبر ۱۸:.روحوں کا اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت رکھنا جیسے ان کو ایک بچہ سے ذاتی محبت ہوتی ہے کیونکہ اس سے نکلا ہوا ہوتا ہے.یہی صاف دلیل ہے کہ یہ اس سے نکلا ہوا ہے اور وہ صرف مخلوق ہونے کی حالت ہے.دلیل نمبر ۱۹:.روحوں کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک عالم اور فیاض ہستی کا محتاج ہونا بھی ان کے مخلوق ہونے پر ایک زبر دست دلیل ہے.دلیل نمبر ۲۰:.آریہ سماج کا یہ ادعا کہ چونکہ مادہ اجزاۓ لا يتجـزای (ATOMS) کا نام ہے.جو نا قابل تقسیم و تفریق ہیں اس لئے مادہ ازلی ہے.موجودہ عالمگیر جنگ میں سائنس نے
55 59 " (ATOM BOMB) ایٹم بم کی ایجاد سے باطل ثابت کر دیا ہے کیونکہ وہ ATOM جسے لا یت جزای“ یعنی نا قابل تقسیم خیال کیا جاتا تھا اب تقسیم کے قابل ہی ثابت نہیں ہوا بلکہ اسے فی الواقع تقسیم کر کے فنا کر دیا گیا ہے.پس جب مادہ فانی ثابت ہو گیا تو وہ ابدی بھی نہ رہا اور معلوم ہو گیا کہ خدا تعالیٰ ہی مادہ کا پیدا کرنے والا ہے.فَتَبَرَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ.(خادم) حدوث روح اور مادہ کے اثبات پر ویدوں اور اپنشدوں سے نقلی دلائل ا.اے انسانو! میں ایشور سب سے پہلے موجود اور ساری دنیا کا مالک ہوں.میں جگت کی پیدائش کا قدیم باعث ہوں.تمام مال و دولت پر غالب اور اس کا بخشنے والا ہوں.“ ر گوید منڈل نمبر ۰ ۱ سوکت نمبر ۴۸ منقول از ستیارتھ پرکاش باب کے دفعہ ۹) اس سے معلوم ہوا کہ سب سے اوّل خدا تعالے تھا.اُس نے سب کو پیدا کیا.وہی سب کی پیدائش کا قدیم باعث ہے.۲.جس وقت یہ ذروں سے مل کر دنیا پیدا نہیں ہوئی تھی اُس وقت یعنی کائنات سے پہلے است یعنی شونیا اکاش (فضا) بھی نہیں تھی.کیونکہ اُس وقت اس کا کاروبار نہ تھا.اُس وقت ست پر کرتی ) یعنی کائنات کی غیر محسوس علت جس کو ست کہتے ہیں وہ بھی نہ تھی اور نہ پر مانو تھے اور وراٹ ( کائنات ) میں جوا کاش دوسرے درجے پر آتا ہے وہ بھی نہ تھا بلکہ اُس وقت صرف پر برہم کی سامر تھ ( قدرت ) جو نہایت لطیف اور اس تمام کائنات سے برتر و بے علت ہے موجود تھی.“ 66 ( بھاش بھوم کا اردو صفحہ ۷۰ ) ۳.اُس پرش (پرمیشور ) نے پرتھوی یعنی زمین کے بنانے کے لئے پانی سے رس کو لے کر مٹی کو بنایا.اسی طرح آگ کے رس سے پانی کو پیدا کیا اور آگ کو ہوا سے اور ہوا کوا کاش سے اور اکاش کو پر کرتی سے اور پر کرتی کو اپنی قدرت سے پیدا کیا.“ بھاش بھوم کا اردو صفحہ ۷۸ پیدائش عالم کا بیان منتر ۱۷) ۴.اُس پرش (پرمیشور ) کی غایت درجہ قدرت ہی اس دنیا کے بنانے کا مصالحہ ومواد ہے کہ جس سے یہ سب دنیا پیدا ہوئی.سوپر میشور سب کے چاہنے والا ہو کر اس دو قسم کی دنیا کو مرضع و منبع کرتا
56 56 ہے وہ ایشو ر اس کا ( دنیا کا بنانے والا ) دنیا میں محیط ہو کر دیکھ رہا ہے.“ بھاشیہ بھوم کا ہندی صفحه ۱۲۲، بحوالہ پیجر وید۳۰/۲).’دیوتاؤں کے پہلے یگ میں نیستی سے ہستی پیدا ہوئی.( یعنی دیوتاؤں سے پیشتر زمانہ میں نیستی سے ہستی پیدا ہوئی.(رگوید منڈل نمبر ۱۰) پر کرتی وغیرہ اعلیٰ ولطیف کا ئنات اور گھاس مٹی چھوٹے کیڑے مکوڑے وغیرہ ادنی مخلوقات نیز انسان کے جسم سے لے کر اکاش تک متوسط درجہ کی کائنات یہ تینوں قسم کی دنیا پرش (پرمیشور ) نے اپنی قدرت سے پیدا کیں.“ چیز تھی.“ اتھرون وید کا نڈ نمبر ۱۰ انوواک نمبر ۴ منتر نمبرے منقول از بھومکا) ے.اس کا ئنات سے پہلے صرف ایک آتما ( پرمیشور ) ہی تھا اور کوئی دوسری ( قابل تمیز ) رگ وید آدی بھاشیہ بھوم کا صفحہ ۵۳ منقول از نیک اُپنشد ادھیائے نمبرا.کھنڈ نمبرا.اصلاح وید پر بحث ) اس سے پہلے محیط کل پر پر میشور ہی تھا.“ ۹.اس سے پہلے دنیا کچھ بھی نہ تھی.“ شت پتھ برہمن کا نڈ نمبراا.ادھیائے رگوید صفحه ۵۳) شت پچھ برہمن کا نڈ نمبرا ادھیائے رگوید صفحه ۵۳) ۱۰.چونکہ وہ پر میشور آن یا مٹی وغیرہ کل کائنات فانی سے الگ اور جینے مرنے سے مبرا ہے اس لئے وہ بذاتہ غیر مولود اور سب کو پیدا کرنے والا ہے.وہی (خدا) اس کائنات کو اپنی قدرت سے بناتا ہے اس کی کوئی علت نہیں ہے بلکہ سب کی علت اولین علت فاعلی اسی پر میشور کو جاننا چاہیے.“ (رگوید بھاش بجوم کا صفحه ۷۳ ) الہ اے عزیز و اپر میشور اس دنیا میں پیشتر موجود تھا.وہ اپنی ذات سے ایک اور بے عدیل تھا.‘ ( اس حوالہ سے صاف معلوم ہو گیا کہ سب سے اوّل صرف پر میشور ہی اکیلا اور بے عدیل تھا.اگر روح و مادہ بھی اس کی طرح قدیم ہوتے تو ان کا ساتھ ہی ذکر ہوتا ).(رگ وید آدی بھوم کا اردو صفحه ۵۳ متر جم نہال سنگھ ) ۱۲.پر لے (قیامت) کے وقت یہ کائنات اسی کی قدرت میں سما جاتی ہے.(بھوم کا اردو صفحه ۷۳)
57 ۱۳.اور اُسی کی قدرت سے پھر یہ کائنات دوبارہ پیدا ہوتی ہے.(ایضا) ۱۴.یہ تمام کاروبار عالم اور روئے زمین تیری قدرت میں اس طرح قائم ہے جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے.(بھوم کا اردو صفحہ ۱۸۷) ۱۵.وہی تمام دنیا کا پیدا کرنے والا ، قائم رکھنے والا ، فنا کرنے والا.“ (ستیارتھ پرکاش بے دفعہ ۳) " ۱۲.مجھ پر میشور کو ہی ساری دنیا کا پیدا کرنے والا سمجھو (ستیارتھ پرکاش ب ۷ دفعہ ۸) کا وہ بآسانی تمام بلا امداد غیرے تمام دنیا کو بناتا ہے تو پھر ساتھ ہی اس کو روح اور مادہ کا محتاج ٹھہرانا دو متضاد با تیں ہیں.“ (ستیارتھ پرکاش بے دفعہ ۷ تا ۹ ) ۱۸.اس جہان میں جو کچھ ہے اس تمام مخلوق کا بنانیوالا ہوں.‘“ (ستیارتھ پرکاش بے دفعہ ۸ ) ۱۹.ُاس (خدا) کے دل میں خواہش ہوئی کہ اپنے بدن سے اس قسم کی خلقت پیدا کرنی چاہیے.تو اُس نے پہلے پانی (رج) کو پیدا کیا پھر اس نے پانی میں بیج ڈالا.“ (منوا دھیائے اشلوک ۸ منوسمرتی ۱٫۹) ۲۰.چونکہ وہ متحرک اور ساکن جہان کو زندہ اور قائم رکھتا ہے اس واسطے وہ تمام قادروں سے (ستیارتھ صفحہ ۱۴-۴۲-۱/۳۹) ۲۱.جو چیز ترکیب سے پیدا ہوتی ہے وہ ازلی ابدی کبھی نہیں ہوسکتی اور فعل بھی پیدائش اور قادر ہے.فنا سے آزاد نہیں ہے.“ (ستیارتھ پرکاش ب ۸ دفعہ ۲۸) ۲۲- رُوح میں ترکیب و تفریق ہے.(ستیارتھ پر کاش ب ۷ دفعہ ۵۳) الہذا روح حادث ثابت ہوئی.روح و مادہ.زمانہ وخلا کے غیر حادث ہونے پر نو اعتراضات منطقی وعلمی ہم صرف صانع کو قدیم اور غیر حادث مانتے ہیں مگر آر یہ لوگ صانع کے علاوہ رُوح و مادہ زمانہ اور مکان یعنی خلا کو بھی قدیم مانتے ہیں.دیکھو! اعقائد آریہ منتو یا انادی پدارتھ صفحہ ۷۴۶.اعتراضات:.(۱) کہ سوائے صانع کے دوسروں کو قدیم ماننے سے صانع کی ضرورت
58 نہیں رہتی.جب یہ مان لیا جائے کہ علاوہ صانع کے روح و مادہ مع اپنے خواص کے قدیم ہیں تو اتصال وانفصال بھی منجملہ خواص کے ہے.پس ترکیب کے لئے حاجت صانع کی نہیں؟ (۲) جو چیز قدیم ہو اس کی ذات ہی اس کی علت ہے اور جس کی ذات اس کے وجود کی علت ہو اُس میں کوئی نقص نہیں ہو سکتا کیونکہ وجود نقص علت قاصرہ کا مستلزم ہے اور قدیم میں علت قاصرہ ناممکن ہے.(۳) یہ کہ استحقاق صانع کے لئے روح و مادہ پر تصرف ثابت نہیں.کیونکہ یہ دونوں اپنے وجود اور خواص میں اس کے محتاج نہیں تو یہ اُن پر تصرف کیوں کرے گا.کیونکہ استحقاق تصرف کا باعث ملک ہے اور ملک یا خلق سے یا ورثہ سے یا بیچ سے یا ہبہ سے یا کسی پر غلبہ پانے سے پیدا ہوتا ہے.خلق کا عدم معروض ہے اور ور نہ اور بیچ اور ہبہ کی شقوق جانب واجب ہیں.خود ساقط ہیں.باقی رہ گیا غلبہ سے مالک بن جانا ،سو اس سے لازمی طور پر ماننا پڑے گا کہ خدا اور انسان کا مفہوم ایک ہے.جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر چڑھائی کر کے ایک ملک چھین کر اپنی ملکیت میں کرے.اسی طرح خدا بھی کرتا ہے.حالانکہ انسان اس کے صفات میں قطعاً کسی طرح بھی شریک نہیں.پس اس طریق سے کسی چیز کو اپنی ملک میں لانا گویا انسان کے برابر خدا کو ٹھہرانا ہے اور وہ محال ہے.(۴) اگر ایسا ہی مان لیا جائے تو علم ذات باری تعالیٰ ناقص رہے گا.اگر خالق کل اسے تسلیم نہ کیا جائے اس لئے کہ کسی چیز کی خلق سے وہ اسی لئے قاصر ہوگا کہ اسے اس چیز کی خلقی ترکیب معلوم نہیں اور جس چیز کا وہ خالق نہیں اس کے اصلاح و فساد سے بھی وہ باہر نہیں ہوسکتا.علی الخصوص جب علم ذات باری کو نظری مانا جائے پھر تو ذات باری کو ہر روح اور ذرہ مادہ کی شاگردی کرنی پڑے گی.(۵) اگر باعث بعض اشیاء کے عدم خلق کا عدم قدرت ہے تو قادر مطلق سرب شکتیمان صانع نہ رہا.اس پر یہ سوال کہ وہ اپنی مثل پیدا نہیں کر سکتا صحیح نہیں ہے.اس لئے کہ مخلوق کو خالق کی مثل قرار دینا محال ہے اور صانع کا اپنے آپ کو فتا کرنا.علاوہ ازیں اور عیوب میں مبتلا کرنا قدرت نہیں کہلا سکتا بلکہ خلاف قدرت ہے.(1) روح اور مخلوق کے عدم مخلوق فرض کرنے سے ان کو بطش شدید کرنا ظلم ہے کیونکہ جس کو استحقاق ہے ہی نہیں اس کو استحقاق بطش کیسے حاصل ہوا.(۷) سوائے واجب کے اور کوئی قدیم نہیں اور ماسوائے اُس کی قدرت سے وجود پذیر
59 ہوئے.آریوں کی مسلمہ کتب سے ثابت ہے دیکھ حوالہ پر کرتی کو اپنی قدرت سے پیدا کیا.“ رگوید بھاش بجوم کا صفحہ ۸ے طبع سوم و منوسمرتی ادھیائے نمبر اشلوک (۸) (۸) زمانہ اگر مقدار فعل کا نام ہے تب زمانہ فعل کی عرض ہوا اور فعل فاعل کا عرض ہوا.پس زمانہ مخلوق ہوا.اسی طرح خلا سے مراد اگر وہ محل ہے جس میں کچھ نہیں تو موجود نہیں.اور اگر خلا اس محل کا نام ہو جس میں کچھ ہو تو وہ حال کی عرض ہے.پس حال کے مخلوق ہونے سے محل مخلوق ہوا اور اگر خلا محض فرض کیا جائے تو وہ وجودی چیز نہیں بلکہ عدمی ہے ہماری کلام وجود میں ہے کہ سوائے واجب اور کوئی قدیم نہیں.نہ عدم میں کیونکہ عدم اصلی پر موجود کا قدیم ہے.الا الواجب تعالی کیونکہ اس کا کوئی عدم نہیں.(۹) قرآن شریف جو آخری الہامی کتاب ہے وہ ماسوائے اللہ سب کو مخلوق قرار دیتا ہے جیسے فرمایا: (1) اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد: ۱۷) (۲) خَلَقَ كُلَّ شَيْ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان: ۳) (۳) رَبَّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلِّ شَيْ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى (طه: ۵۱) (۴) وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ مَا مَسَّنَا مِنْ تُغُوبِ (ق:۳۹) ان آیات میں روح و مادہ وغیرہ ماسوائے اللہ تمام چیزیں آگئیں.تناسخ تناسخ کے معنے ہیں گناہوں اور نیکیوں کے باعث بار بار جنم لینا.آریوں کی طرف سے اثبات تناسخ کی بڑی اور ایک ہی دلیل انسانوں میں اختلاف کا پایا جانا ہے.اس پر مندرجہ ذیل سوال پیڑتے ہیں:.ا.ویدوں سے اس کا ثبوت دو کہ تناسخ کا مسئلہ برحق ہے.نیز یہ کہ اس کی دلیل اختلاف ہے.-۲.یہ دلیل دلیل نہیں ہو سکتی.اس لئے کہ اختلاف کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پہلے جنم کے اعمال ہیں مثلاً رات کو اگر کوئی جاتا ہو تو اس کے متعلق خیال کیا جائے کہ اس وقت دفاتر ، ڈاکخانہ جات، مدارس اور شفاخانے سب بند ہیں تو یہ شخص اس وقت سوائے چوری کرنے کے اور کہیں نہیں جارہا.تو جیسے یہ خیال باطل ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام سے جار ہا ہو.اسی طرح یہ خیال بھی باطل ہے کہ اختلاف دنیا کا باعث پچھلے جنم کے اعمال ہی ہیں.
60 ۳.اگر اختلاف کو دلیل مانا جائے تو پھر چاہیے کہ جہاں دلیل پائی جائے وہاں دعوی بھی پایا جائے اور جہاں اختلاف پایا جائے وہاں پچھلے جنم کے اعمال کا اُسے نتیجہ مانا جائے.مثلاً ہم کہتے ہیں کہ خدا میں تین صفتیں پائی جاتی ہیں (ست - چت انند ) اور روح میں (ست.چت ) اور مادہ میں (ست) ہے.کیا ان کا اختلاف بھی پچھلے جنم کے اعمال کی وجہ سے ہے.کیا وجہ ہے کہ خدا ہمیشہ حاکم اور روح ہمیشہ محکوم رہتی ہے.دوسری مثال:.پھر دیکھو فلکی اجرام میں کوئی سورج، کوئی ستارہ ، کوئی چاند کوئی سیارہ، کیا ان کا اختلاف بھی وہی وجہ رکھتا ہے؟ یا کوئی اور.تیسری مثال:.بعض بعض ایسی زمینیں ہیں کہ ان سے ہیرا اور محل نکلتا ہے اور کسی سے سنگ خارا اور بعض سے کچھ بھی نہیں.کیا اس اختلاف کا باعث بھی پچھلے جنم کے اعمال ہیں.۴.جونوں کی نوع میں جو اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً پھلدار درختوں آم کھجور اور بمبئی کے آم وغیرہ.پھر عرب کے گھوڑے اور ہندوستان کی گھوڑیاں.کشمیر کے سیب.یوپی کے آم وغیرہ کیا مختلف شہروں کے آموں وغیرہ میں مختلف ذائقہ اور خوبی اسی تناسخ کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے.پھر پتھروں کی مختلف قسمیں.بعض بہت قیمتی اور بعض بالکل روی پتھروں میں جو نہیں جاتی ہیں.(ستیارتھ پرکاش ب۳۳ دفعه ۹/۳۱) - آریہ کہتے ہیں کہ مکتی خانہ میں سنسکرت بولی جاتی ہے بلکہ وید کنٹھ ہوتے ہیں مگر جب دنیا میں آتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں.سوال اس پر یہ ہے کہ اگر وہاں ایسے ازبر ہوتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ یہاں آکر بالکل بھول جاتے اور عقل پر ایسے پتھر پڑ جاتے ہیں کہ کوئی حرف بھی یاد نہیں رہتا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ہی غلط ہے.علم طب رائیگاں جاتا ہے کیونکہ اگر تمام امراض وغیرہ خدا کی طرف سے ہیں اور گولا، لنگڑا، اندھا ، کانا ہونا کسی پچھلے جنم کے اعمال کے نتیجہ میں ہے تو ہمیں ان کا علاج نہیں کرنا چاہیے.اگر علاج کریں تو اس میں خدا کا مقابلہ ہوگا کیونکہ خدا تو انہیں سزا دینا چاہتا ہے مگر ہم اس سزا کو دور کرنا چاہتے ہیں.ے.آریہ لوگ تناسخ کے مسئلہ کے اس لئے قائل ہیں کہ اگر وہ اسے نہ مانیں تو وہ جانتے ہیں کہ ہمارا خدا ارواح کو پیدا تو کر سکتا نہیں.پس جب روحیں محدود اور پر میشور پیدا کرنے سے عاجز ہے.
61 پھر اگر وہ مکتی یافتہ روحوں کو بار بار جونوں کے چکر میں نہ لائے تو دنیا کیونکر چلے.اس طرح تو آہستہ آہستہ تمام ارواح اس کے ہاتھ سے چلے جائیں گے اور وہ خالی ہاتھ ہو بیٹھے گا.(دیکھو ستیارتھ پرکاش ب ۹ دفعه ۲۳ ۲۴) سیکتی خانہ سے کروڑ ہا سال کے بعد نکالا جاتا ہے.اگر یہ مسئلہ سچا ہوتا تو ہم کہتے ہیں کہ زمین بڑی ہونی چاہیے تھی ورنہ اتنے عرصہ کے لوگ اس پر آ ہی نہیں سکتے.۹.دنیا کا کارخانہ جو انواع و اقسام کا بہت بڑے تناسب سے قائم ہے اگر اسے کرموں کا نتیجہ خیال کیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت میں تمام مرد عورتیں ہو جا ئیں تمام عورتیں مرد ہو جائیں مگر ایسا ہوتا نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تناسخ باطل ہے.۱۰.اگر تناسخ برحق ہے تو آریوں کا یہ دعویٰ کہ پر میشور بڑا دیا لو کر پالو ہے باطل ہے کیونکہ انسان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اس کے پہلے کرموں کا نتیجہ ہے.خدا اُسے کچھ دے نہیں سکتا مگر وہی جو اس نے پچھلے اعمال کئے اور اس کا بدلہ اگر وہ کرم نہ کرتے تو وہ کچھ بھی نہ دیتا.پس پرمیشور کا ان پر کوئی احسان نہیں اور نہ ہی وہ دیا لو اور کر پالو ہے بلکہ مجبور ہے.ا.تناسخ کے ماننے سے دنیا سے پیار محبت اور اخلاق فاضلہ اُڑ جاتے ہیں کیونکہ جو کسی کے ساتھ احسان کرے گا وہ یہی سمجھے گا کہ مجھے اپنے کرموں کے نتیجہ میں مل رہا ہے.دوسرا چاہے اپنی جان و مال، عزت بھی کیوں نہ قربان کر دے.۱۲.تناسخ کے ماننے سے لازم آئے گا کہ پر میشور بہت ہی کمزور اور چھوٹی موٹی حکومت کے قابل بھی نہیں کیونکہ کسی ادنیٰ سے ادنی داروغہ کے جیل خانہ میں سے کسی کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے قیدی کوئی بلا تحاشا آزاد کرتا چلا جائے اور وہ داروغہ جیل چوں تک بھی نہ کرے مگر برعکس اس کے روز مرہ دیکھتے ہیں کہ لاکھوں اور کروڑوں قیدی چھریوں اور بندوقوں کے ذریعہ مسلمان عیسائی اور ہنود آزاد کرتے جاتے ہیں اور کوئی ان کو روکتا تک نہیں.پس ایک روح ذبح کرنے والے لوگ اور بھیڑیئے ، شیر اور چیتے وغیرہ تمام ان جانوروں پر جن کو وہ کھاتے ہیں اور اُن کی روحوں کو آزاد کرتے ہیں.اُن پر احسان کرتے ہیں اور مسلمان تو بہت ہی احسان کرتے ہیں.۱۳.منوسمرتی ادھیائے ۱۲ شلوک ۵۵ میں لکھا ہے کہ براہمن کو قتل کرنے کے نتیجہ میں سور، کتا، گائے، بکرا،اونٹ، بھیڑیا وغیرہ جونوں میں قاتل کو جانا پڑتا ہے.اس پر سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ
62 برہمن کو قتل کر کے ایک تو سور بن جائے، دوسرا کتا اور تیسرا بھیڑیا وغیرہ.اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں.صورت اول یہ ہے کہ اختلاف جون اس لئے ہے کہ نوعیت قتل میں فرق ہے اگر برہمن کو نگا کر کے مارا جائے تو سو را ور اگر کپڑے سمیت مارا جائے تو بکرا اور اگر جوتے سے مارا جائے تو گائے اور اگر الٹا کر کے یا درخت پر لٹکا کر مارا جائے تو بھیڑیا اور اونٹ.دوسری صورت یہ ہے کہ برہمنوں میں فرق ہے.اگر کسی برہمن بچہ کو مارا جائے تو فلاں جون اور جوان برہمن کو مارا جائے تو فلاں جون اور اگر بوڑھے کو مارا جائے تو فلاں جون.تو یا یہ اختلاف نوعیت قتل کی وجہ سے ہوگا یا نوعیت مقتول کی وجہ سے ہوگا.تیسری صورت یہ ہے کہ نوعیت قاتل میں فرق ہے قتل کرنے والا بچہ.جوان یا بوڑھا ہو یا نوعیت مقتول میں کہ عورت کو مارے یا مردکو.غرضیکہ اس اختلاف کی وجہ بتا ئیں کیا ہے؟ ( نیز ستیارتھ پرکاش ب ۹ دفعه ۴۷ ) ۱۴.ہم کہتے ہیں کہ جب ایشور نے ایک انسان کو اس کے اعمال کی وجہ سے سو کر بنایا تو سور کے لئے ضروری ہے کہ وہ گوشت کھائے.تو معلوم ہوا کہ تناسخ کے ماننے سے گوشت خوری اور جیو ہتیا ماننی پڑتی ہے.۱۵.اگر مختلف جونوں میں جانا بطور سزا و جزا ہے اور سزا اصلاح کے لئے دی جاتی ہے تو پھر سزا یا جزا یافتہ روح کو علم ہونا چاہیے کہ مجھ کو فلاں عمل کی وجہ سے سزامل رہی ہے تا کہ وہ آئندہ کو اس گناہ سے بچے ورنہ یہ اندھیر نگری والا حال ہوگا.کیا کوئی آریہ بتا سکتا ہے کہ وہ اندھا کا نا بالنگڑ اکس جرم کی وجہ سے بنایا گیا ہے یا اس کی والدہ یا بیوی کس عمل کی سزا میں عورت بنائی گئی ہے؟ ہر گز نہیں.۱۶.میں (خدا) خود ہی یہ کہتا ہوں جو دیوتاؤں یا انسانوں کا پیارا ہوں کہ میں جس کے لئے چاہتا ہوں اس کو بُرا بناتا ہوں.جس کو چاہتا ہوں اسے برہما بناتا ہوں.جس کو چاہتا ہوں رشی بناتا ہوں اور جس کے لئے چاہتا ہوں اسے معظمند بناتا ہوں.“ ( اتھروید ) اس حوالے سے تناسخ باطل ہو گیا کیونکہ پر میشور کے اختیار میں ہو گیا.اعمال کی ضرورت ہی نہ رہی.۱۷ سوال:.جب اختلاف دنیا کی وجہ یہ نہیں تو اور کیا ہے؟ جواب:.قرآن شریف فرماتا ہے: وَلَوْ بَسَط اللهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ (الشوری: ۲۸) یعنی ہم نے اختلاف دنیا کا اس لئے رکھا ہے تا کہ انتظام عالم میں خلل واقع نہ ہو.
63 اگر تمام ایک جیسے ہوں تو کبھی کا یہ سلسلہ درہم برہم ہو جاتا.۱۸.اگر دنیا کا تمام سلسلہ گناہوں کے سلسلہ پر چل رہا ہے تو پھر پر میشور سرب کہاں رہا.سب کچھ ہمارے گناہوں کے طفیل ہورہا ہے.پھر پر میشور کی کیا ضرورت ہے؟ ۱۹.ایشور، روح ، مادہ تعین کیوں ہیں؟ اس اختلاف کی کیا وجہ ہے؟ شکتیمان ۲۰.اگر پر میشور کے عطیات پچھلے اعمال کے بدلے پر ہی موقوف ہیں تو پھر دیا نند جی کا (ستیارتھ پر کارش به دفعه ۴۳) میں بے نظیر اولا دحاصل کرنے کے لئے یہ طریق جماع لکھنا کہ جب ویرج (منی) گرنے کا وقت ہو اس وقت مرد عورت بے حرکت ناک کے سامنے ناک آنکھ کے سامنے آنکھ یعنی سیدھا جسم رکھیں اور نہایت خوش دل رہیں.ہمیں نہیں.مرد اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑے اور عورت و مرج حاصل کرنے کے لئے اپان وایو کو اوپر کھینچے.جائے مخصوص کو اوپر سکوڑ کر ویر یہ کو او پر کشش کر کے رحم میں ٹھہرائے وغیرہ وغیرہ اس قدر طویل طویل آسن لکھنا فضول ٹھہرتا ہے کیونکہ پچھلے اعمال کی بدولت جو کچھ ملنا ہے وہ بہر حال ملنا ہے.یہ مفت کی کوشش اور محنت کرنے سے کیا حاصل؟ ۲۱.بعض گناہ بتائے گئے ہیں جن سے خاص خاص جونوں میں انسان پڑتا ہے.کاش سب گناہ بتا دیئے جاتے کہ فلاں گناہ سے فلاں فلاں جون میں ڈالا جاتا ہے تو ہمیں بہت آسانی ہوتی تا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی وہی تیار کر والی جاتی.(دیکھو بعض جونوں کے گناہ منوسمرتی ادھیائے ۱۲ شلوک ۵۴ تا آخر ) ۲۲.اگر تناسخ درست مانا جائے تو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا انکار کرنا پڑتا ہے.اس طرح ماننا پڑے گا کہ خدا ارواح کو پیدا نہیں کر سکتا اور نہ ہی کچھ گناہ معاف کرتا ہے.حالانکہ ایک شریف انسان کئی دفعہ قصور معاف کر دیتا ہے.گویا دریں صورت خدا کو ایک بھیانک اور کینہ ور ماننا پڑے گا.۲۳.اگر تناسخ درست ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسان جو نیک کام کرتا ہے اُن کا بدلہ نہیں مل سکتا کیونکہ اگر اس نے ہزار نیکیاں کیں اور ایک بدی کی اور پھر اس بدی کے عوض میں مثلاً کتے کی جون میں گیا تو پھر وہ درجہ بدرجہ گنہ گار ہوتا جائے گا اور آخر کا رنجات کا منہ نہ دیکھ سکے گا.۲۴.ہمیں بتایا جائے کہ مدار زندگی کیا ہیں؟ پس ظاہر ہے کہ وہ ہوا ، پانی ، آگ، کھانا وغیرہ ہیں اور ان کا انسانی پیدائش سے پہلے پیدا ہونا ضروری ہے.اگر کہو کہ پہلے پیدا ہوگئی تھیں تو پھر
64 بتلاؤ کہ وہ کن اعمال کے بدلہ میں تھیں.۲۵.انسان کے رہنے کے لئے جو زمین ہے وہ بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہوگی تو پھر وہ کس عمل کے بدلے مانی جائے گی ؟ ۲۶.اللہ تعالیٰ نے جب روح وماہ کو مرکب کر کے مخلوق پیدا کی تو کیا اس وقت انسان بنایا گیا تھا یا کچھ اور؟ اگر انسان بنایا گیا تھا تو وہ کس عمل کے بدلے میں؟ اگر کوئی اور مخلوق بنایا گیا تھا تو پھر اس کا انسان بننا ایک موہوم بات ہے کیونکہ اُن میں اعلیٰ کی طرف ترقی کا مادہ نہیں.۲۷.تناسخ کو مان کر قبول کرنا پڑے گا کہ میوہ جات وغیرہ سب گناہوں کے بدلے میں ہیں تو پھر ان کے کھانے کے متعلق آریہ صاحبان کو خود غور کرنی چاہیے اور نیز اگر کبھی ہند میں کوئی ایسا رشی آجاوے یا تمام ہندو ہی ہندو ہوں تو پھر کیا میوے نہیں پائے جائیں گے؟ یا نہ پائے گئے تھے.۲۸.اگر تناسخ کو صحیح مانا جائے تو گویا ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ پلیدی اور خباثت کو پسند کرتا ہے.نعوذ باللہ کیونکہ تاریخ کے رو سے ممکن ہے کہ ایک آدمی اسی سے شادی کرے جو پچھلی جون میں اس کی والدہ رہ چکی ہے.وغیرہ وغیرہ.آریہ جواب دیتے ہیں کہ رشتہ جسم سے ہوتا ہے.جون بدلنے سے رشتہ نہیں رہتا.اس پر اعتراض یہ پڑتا ہے کہ سات سال کے بعد یہاں جسم بدل جاتا ہے.کیا رشتے سات سال کے بعد نہیں رہتے.پھر اگر آریہ جواب دیں کہ نکاح کر لیں گے تو اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ نکاح تو کر لیا ماں کو ماں کیسے بنائیں گے؟ ۲۹.اگر تناسخ کو درست مانا جائے تو پھر انسان سوشل تعلقات قائم نہیں کر سکتا کیونکہ امکان ہے کہ جو اس کا گھوڑا تھا وہ اس کا باپ ہو اور کسی صورت میں نہ اس کو مار سکتا ہے نہ اس پر سواری وغیرہ کر سکتا ہے.۳۰.تناسخ کو ماننے سے اللہ تعالیٰ سے ہرگز ہرگز محبت نہیں ہوسکتی کیونکہ انسان کو یقین ہوگا کہ وہ مجھ پر تو کچھ احسان نہیں کرے گا.۳۱.اگر تناسخ مانا جائے تو پھر ایک دفعہ گناہ کرنے کے بعد تو بہ کا موقع نہ ملے گا اور وہ گناہ میں زیادہ بڑھتا جائے گا کیونکہ جب انسان مایوس ہو جائے تو پھر گناہ میں ترقی کرتا ہے.۳۲.پھر دعا کرنا فضول ہوگا.حالانکہ یہ خلاف واقعہ ہے.
65 ۳۳.ایک ہی گناہ سے گھوڑا پیدا ہوتا ہے تو پھر چاہیے تھا کہ تمام گھوڑے ایک قسم اور قدوقامت کے ہوں حالانکہ عربی گھوڑے اور پنجابی گھوڑے میں فرق بین ہے.پس بتایا جاوے کہ یہ اختلاف کن اعمال کا نتیجہ ہیں.اگر یہ اعمال کا نتیجہ نہیں تو پھر انسان کا اختلاف کیونکر اعمال کا نتیجہ ہو گیا.اسی طرح دیگر حیوانات کے متعلق قیاس کرلو.۳۴.طبقہ نباتات میں بھی باوجود ایک گناہ کے اختلاف ہے، جیسے کابلی چنے اور پنجابی چنے اور پھر دیگر نباتات میں اسی طرح ہے.اگر یہ اختلاف کسی عمل کا نتیجہ نہیں اور فی الواقعہ بھی نہیں کیونکہ چنا وغیرہ بننا مطلقاً ایک گناہ سے ہوتا ہے تو پھر انسان کا اختلاف کیونکر اعمال کا نتیجہ ہوسکتا ہے.پس ایشور اور روح اور حیوانات نباتات کا اختلاف جب کسی عمل کا نتیجہ نہیں تو کیونکر تسلیم کر لیا جاوے کہ انسان کا اختلاف اس کے اعمال کا نتیجہ ہے.۳۵.مندرجہ ذیل اشیاء مدار زندگی ہیں :.(۱) ہوا (۲) پانی (۳) سورج (۴) زمین (۵) کھانا وغیرہ اب ہر ایک چیز کا پیدائش سے پہلے ہونا ضروری ہے کیونکہ در میں صورت زندگی محال ہے جب باقی اشیاء جو مدار زندگی ہیں بغیر اعمال کے ہیں تو پھر کھانا بھی بغیر عمل کے ہوا.اور جب زندگی نہ ہوگی تو کھانا کیسے پیدا ہوسکتا ہے.جبکہ اس نے کوئی عمل نہیں کیا اور پھر جب تک عمل کرتا ہوگا تو کیا کھا تا ہوگا ؟ ۳۶.اگر کسی وقت سارے لوگ نیک ہو جائیں اور بدعملیاں ترک کر دیں تو پھر کیا آرام ہو.کیونکہ سب آرائش کے اسباب تو بد عملیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور جب بدعملیاں پیدا نہ ہوں تو آرام مشکل ہے.معلوم ہوا کہ مدعیان تناسخ یہ نہیں چاہتے کہ تمام دنیا نیک ہو جائے.لطیفہ:.پھر ہم گھوڑے وغیرہ کی جگہ زیادہ آرام کی سواری مثلاً موٹر وغیرہ بنالیں گے.سکتا ہے.احمدی:.گھوڑے کی جگہ تو موٹر بنالی لیکن عورت کی جگہ کیا بنالیں گے.۳۷.اگر چکر ا وا گون سزا ہے تو کیوں جرم نہیں بتایا جاتا.تا کہ اس سے بچ سکیں.۳۸.اگر چکر اواگون کا سزا ہے تو پھر جب گدھا اس کو محسوس نہ کرے یا ہم تم محسوس نہ کریں تو پھر یہ سزا کیسی؟ ۳۹.جب پرمیشور نے مثلاً کسی کو بکری کے قالب میں جانے کی تکلیف دی تو پھر ہم اس بکری کو ذبح کر کے اس سزا سے نکال سکتے ہیں.تو یہ پرمیشور نے سزا کیسی دی.دوسرے پھر گوشت خوری تو
66 اجر اور ثواب کا موجب ہوگی کیونکہ ہم تو اس کو اس کی سزا سے نکالتے ہیں.۴۰.انسانی زندگی کا انحصار دو چیزوں پر ہے.نباتات وحیوانات اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں جونوں کے چکر کے نتیجہ ہی میں ملتی ہیں.اگر نباتات و حیوانات نہ ہوتے تو دنیا کا سلسلہ ہی ختم ہو جاتا.
67 صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے ویدک دھرم از مهاشه محمد عمر صاحب مولوی فاضل ا.پہلا معیار :.ایشوری گیان حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی زندگی پاک اور پوتر ہو.چنانچہ آریہ سماج کے بانی مہرشی دیانند سرسوتی جی نے ستیارتھ پر کاش میں لکھا ہے کہ چاروں رشیوں پر ہی کیوں وید کا گیان ہوا؟ جواب:.وہی تمام لوگوں سے اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے پاک اور پوتر تھے اس لئے پر ما تمانے اُن کو ویدوں کا گیان دیا.“ پس جو کوئی دعویٰ الہام کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی آتما پوتر اور اس کا جیون پاک وصاف ہونا چاہیے.کر سکتے.“ حضرت مرزا صاحب: کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.“ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۴) دوسرا معیار:.جو پر بھو کے بھگت اور اس کی سیوا میں لگے رہتے ہیں اُن کا مقابلہ دشمن نہیں رگ وید منڈل نمبر ۵ سوکت نمبر ۴) لیکھرام کا آپ کے ساتھ مقابلہ کرنا اور مباہلہ میں مارا جانا.گنگا بشن نامی ایک آریہ کا ہلاک ہونا جو پہلے آپ کے مقابلہ پر آیا لیکن پھر ڈر کر کہیں بھاگ گیا.مگر خدا نے پھر بھی اس کو نہ چھوڑا..تیسرا معیار : " پر بھو جس کا رکھشک (مددگار ) ہوتا ہے.وہ مضبوط ہوتا ہے اور بل کو پراپت ہوتا ہے.ر گوید منڈل نمبر۷ سوکت نمبر ۳۲ منتر (۱۶) یعنی خدا تعالیٰ جس کی حفاظت کرتا ہے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا وہ دنیا میں باوجود مخالفین کے زیادہ ہونے کے دنیا میں ترقی کرتا جاتا ہے چنانچہ حضرت اقدس علیہ السّلام کے خلاف لوگوں نے کئی منصوبے کئے تا کہ آپ کو قتل کر دیں لیکن خدا نے اس اصول کے مطابق آپ کی حفاظت کی اور آپ کو ان لوگوں کے منصوبوں سے بچالیا.چنانچہ لیکھرام کے قتل پر آریوں اور ہندوؤں نے بزور کوشش کی کہ آپ کو نقصان پہنچے اور آپ کے قتل کے منصوبے سوچے گئے لیکن خدا نے ان میں دشمنوں کو نا کام رکھا.
68 جیسا کہ آپ نے سراج منیر صفحہ ۲۱ پر مفصل لکھا ہے.۴.معیار چہارم :.سانپ ہمفتری ، ڈشٹ.دوسرے آدمیوں کا مال پچرانے والے کبھی دنیا میں کامیاب نہیں ہوئے.اس میں بتایا گیا ہے کہ مفتری اور ڈشٹ کبھی دنیا میں بامراد اور کامیاب نہیں ہوتے بلکہ وہ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں.ان کا نام ونشان مٹ جاتا ہے.اگر حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ اپنے دعویٰ میں بچے نہ ہوتے تو یقینا آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے.پانچواں معیار: دھرم ایو تومنی دھر مور کھشی رکھشا.منو دھرم ادھرمی کو ماردیتا ہے اور دھرمی کی رکھشا کرتا ہے.یعنی جو آدمی دھرم پر ہوتا ہے وہ تباہ و برباد نہیں کیا جا تا بلکہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے.جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام اگر دھرم پر قائم نہ ہوتے تو اس اصول کے مطابق یقیناً مٹا دیئے جاتے اور ادھرم ان کا سارا کام تباہ کر دیتا لیکن انہوں نے ترقی کی.بخلاف لیکھرام کے کہ وہ چونکہ دھرم پر قائم نہ تھا اس لئے ادھرم نے اس کو نا کام کر کے مٹادیا اور اس کی مدد نہ کی.چھٹا معیار:.آپ کی پیشگوئیوں کا پورا ہونا لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی.دیانند کی موت کی پیشگوئی ، آریہ سماج کی موت کی پیشگوئی.دلیپ سنگھ کی پیشینگوئی تقسیم بنگال.وغیرہ.آریہ سماج کی موت کے متعلق اخبارات میں بہت سے مضامین نکلتے ہیں.وہاں دیکھ لیں.
69 وو سناتن دھرم حضرت کرشن علیہ السلام کی آمد کی نشانیاں (۱) شری کرشن جی خود فرماتے ہیں کہ:.” ہے بھارت ! جب دھرم کی نیستی اور ادھرم کا دور دورہ ہو جاتا ہے تب میں اوتار لیتا ہوں.“ (۲) پھر فرماتے ہیں: کہ نیک لوگوں کی حفاظت اور بدوں کو نیست و نابود کرنے اور صراط مستقیم یعنی دین خدا کو قائم کرنے کے لئے ہر ایک ٹیگ پر میرا اوتار ہوتا ہے.“ ( گیتا ادھیائ ۴ شلوک ۸،۷) (۳) شری و یاس جی پہلی نشانی مہا بھارت کے مصنف مقدس رشی بیان فرماتے ہیں کہ کلجگ کے دورے میں اندھا دھند ادھرمی ( بیدینی) کی علمداری رہتی ہے.جھوٹ، فریب، ہتیا (ایذاء رسانی) غصہ، لالچ کا دور دورہ ہوتا ہے.انسان کو خراب افعال سے رغبت اور نیک اعمال سے نفرت ہو جاتی ہے.جپ تپ ( عبادت ، ریاضت، پوجا پاٹ ، برت، ہوں ایسے ایسے تمام نیک کام براہمن تک چھوڑ دیتے ہیں اوروں کا کیا ذکر.خوردنی اور نا خوردنی چیزوں کا امتیاز نہیں رہتا.چھوت چھات کو واہیات سمجھتے ہیں.کھشتریوں کو رعیت پروری سے منظر ہوتا ہے.جرات اور بہادری کھو بیٹھتے ہیں.سنتوں کی خدمت گزاری سے کچھ کام نہیں رہتا.دولت ہی کی فکر میں اندھے رہتے ہیں.غلہ بے مزہ.پھل بے ذائقہ ہو جاتے ہیں.کم عمر صاحب اولاد ہو جاتی ہیں.آٹھ برس کی عمر میں حمل ٹھہر جاتا ہے.درختوں کی بارآوری کم ہو جاتی ہے.گائیوں کا دودھ گھٹ جاتا ہے.اوقات مناسب پر پانی نہیں برستا.امساک کے بارہ سے قحط عالمگیر ہوتے ہیں.ناخن اور بال بڑھا کر لوگ مہاتما بن جاتے ہیں.برہمچاری مال خوب مارتے ہیں.عورتوں کا چلن بگڑ جاتا ہے.خاوندوں کے ہوتے ہوئے نوکروں سے ملتفت ہوتی ہیں.مرد حسین بی بی سے محبت نہیں کرتے.زنانے بازاری کو گلے کا ہار بناتے ہیں.شراب خانے آباد رہتے ہیں.عبادت خانے سنسان.جہاں پہلے دھرم تھے وہاں بدفعلیاں اور بدعملیوں کی گرم بازاری رہتی ہے.“ (مہا بھارت بن پرب صفحه ۶۸۶،۸۹، ۶۸۷) (۴) جس وقت کلجگ آ گیا سمجھ لیجئے کہ دنیا کی ہوا پلٹ گئی.وہ وہ پاپ، وہ وہ گناہ ہوں گے کہ زمین کانپ اٹھے گی.لڑکے والدین کو بیوقوف سمجھیں گے.رضا جوئی فرمانبرداری کیسی؟
70 عور تیں لڑائی جھگڑے بکھیڑے سے خاوندوں کے ناک میں دم لائیں گی.جب اس طرح سے دھرم کا پیالہ چھلکنے کو ہوگا تو بھگوان جی کو تکلیف کرنی پڑے گی کہ لیگی اوتار میں جلوہ دکھائیں گے.پاپ کی ناؤ ڈوبے گی.دھرم کی بیل ہری بھری ہوگی.(مہابھارت بن پرب صفحہ۶۸۹) (۵) نہ کلنکی کی طاقتیں غیبی ہوں گی.طاقت میں بے نظیر، عقلمندی میں یکتائے روزگار.یوں تو نہ کوئی ہتھیار پاس ہوگا لڑائی کا اوزار ) مگر ایک اشارے میں سب کچھ موجود ہو جائے گا.ذات مبارک دھرم کو از سرنو زندہ کرے گی.بد کردار را جے لقمہ شیخ اجل ہو جائیں گے.دھرم کی خلاف ورزی عذاب میں سمجھی جائے گی.(ایضا صفحہ ۶۰ ۶۹۰۰)
71 عیسائیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت بائبل کی پیشینگوئیاں ا.استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.تم اسی طرف کان دھر یو.“ ۲ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۷ تا ۱۹ اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سوا چھا کہا.میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤنگا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے گا.تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا.“ ۳.استثناء باب ۳۳ آیت ۲۱ اور یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی.اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا.شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لئے تھی.“ ۴.زبور باب ۳۵.آیت ۱ تا ۲۸.”اے خدا وندان سے جو مجھ سے جھگڑتے ہیں...اور میری زبان تیری صداقت اور تیری ستائش کی بات تمام دن کہتی رہے گی.“ ۵.یسعیاہ باب ۴۲.آیت ۹ تا ۲۵ ”دیکھو تو سابق پیشینگوئیاں برآئیں اور میں نئی باتیں بتلاتا ہوں اس سے پیشتر کہ واقع ہوں میں تم سے بیان کرتا ہوں.خداوند کے لئے ایک نیا گیت گا ؤ.اے تم جو سمندر پر گزرتے ہو
72 اور تم جو اس میں بستے ہوائے بحری ممالک اور ان کے باشندو! تم زمین پر سرتا سر اس کی ستائش کرو.بیابان اور اس کی بستیاں.قیدار کے آباددیہات اپنی آواز بلند کریں گے.سلع کے بسنے والے ایک گیت گائیں گے.پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکار میں گے وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے.....کیونکہ انہوں نے نہ چاہا کہ اس کی راہوں پر چلیں اور وہ اس کی شریعت کے شنوا نہیں ہوئے اس لئے اس نے اپنے قہر کا شعلہ اور جنگ کا غضب اُس پر ڈالا.“ - غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶ ”میرا محبوب سرخ وسفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے.اس کا سر ایسا ہے جیسا چوکھا سونا.اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی مانند کالی ہیں.اُس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جواب دریا دودھ میں نہا کر تمکنت سے بیٹھتے ہیں اُس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاریوں کی مانند ہیں.اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوائر ٹپکتا ہے.اس کے ہاتھ ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جس میں ترسیس کے جواہر جڑے ہیں.اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہیں.اس کے پاؤں پر کھڑے کئے جائیں.اس کی قامت لبنان کی سی ہے.وہ خوبی میں رشک سرو ہے اُس کا منہ شیرینی ہے.ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے.اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا.یہ میرا جانی ہے.“ ے.یسعیاہ باب ۵۳ آیت ۱۰ تا ۱۲ " لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اسے کچلے.اُس نے اُسے غمگین کیا.جب اس کی جان گناہ کے لئے گزرائی جائے تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا اور اس کی عمر دراز ہوگی.اور خدا کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلے پر آئے گی.اپنی جان کا دکھ اُٹھا کے وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا.اپنی ہی پہچان سے میرا صادق بندہ بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ ان کی بدکاریاں اپنے اوپر اٹھالے گا.اس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ ایک حصّہ دوں گا.اور وہ لوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹے گا کہ اس نے اپنی جان موت کے لئے انڈیل دی اور گنہگاروں کے درمیان شمار کیا گیا اور اس نے بہتوں کے گناہ اُٹھالئے اور 66 گنہگاروں کی شفاعت کی.“ ۸- اعمال باب ۳ آیت ۲۲ ،۲۳ چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خدا وند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی
73 بر پا کرے گا.جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا.“ ۹ متنی باب ۲۱ آیت ۴۲ تا ۴۴ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا.وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوا.یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور تمہاری نظروں میں عجیب ہے.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اس کے پھل لائے گی دے دی جائے گی.اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا.“ ۱۰ لوقا باب ۱۳ آیت ۳۵ ”دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے.کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہر گز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.“ ۱۱.یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۶ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کی روح جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی.“ کا کچھ نہیں.“ ۱۲.یوحنا باب ۱۴ آیت ۳۰ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس ۱۳.یوحنا باب ۱۵ آیت ۲۶، ۲۷ لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا.یعنی سچائی کی روح جو باپ کی طرف سے نکلتا ہے.تو وہ میری گواہی دے گا اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو.“ ۱۴.یوحنا باب ۱۶ آیت ۸،۷ ”میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے.کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر میں جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا.“
74 ۱۵- یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ تا ۱۴ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ سچائی کا روح آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا.لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.وہ میرا جلال ظاہر کرے گا.“ ۱۶.لوقا باب ۲۰ آیت ۹ تا ۱۸ انگوری باغ کی تمثیل اور نوکر بیٹے اور خود خدا وند کے آنے کا قصہ.۱۷.مکاشفہ باب ۵ آیت ۱.قرآن مجید اور سورۃ فاتحہ کی پیشگوئی.تردید الوہیت مسیح ناصری علیہ السلام ا.خدا ایک ہے." الف - حوالجات از عہد نامہ قدیم : (۱) ۲ سلاطین ۱۹/۱۵ (۲) یسعیاه ۴۵/۶،۵ (۳) زبور ۸ تا ۸۶٫۱۰ (۴)۲ سموئیل ۷٫۲۲ (۵) زبور ۲/ ۹۰ (۶) استثنا ۱/۴ (۷) استثنا ۳۳/۲۶ (۸) اسموئیل ۲/۲ (۹) اسیموئیل ۳ ۷٫۴ (۱۰) ۲ سیموئیل ۲۲/۳۲ (۱۱) اسلاطین ۸/۳۹ (۱۲) استثنا ۴/۲۹ (۱۳) استثنا ۷٫۹ (۱۴) یسعیاہ ۴۳/۱۰ (۱۵) اسیموئیل ۱۷٫۴۶ (۱۶) اسلاطین ۸/۲۳ (۱۷) اتواریخ ۱۶/۲۵ (۱۸) ا تواریخ ۱۷/۲۰ (۱۹) اتواریخ ۲۹/۱۱ (۲۰) ۲ تواریخ ۶/۱۴ (۲۱) زبور ۱۸/۳۱ (۲۲) ز بور۴۸/۱۴ (۲۳) زبور۵۰/۷ ب از عہد نامہ جدید :- ۱ اعمال ۱۷/۲۳ پس جس کو تم بغیر معلوم کئے پوجتے ہومیں تم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں.“ ۲.یوحنا ۵/۴۴.” تم جو ایک دوسروں سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد سے ہوتی ہے کیونکر ایمان لا سکتے ہو.“ ۳.یوحنا ۱۷٫۳.اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے.جانیں.“ -۴- مرقس ۲۹، ۱۲/۳۰.اول یہ کہ اے اسرائیل اس پر خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے.
75 اور تو خداوند سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ.“ ۵.اکرنتھیوں ۴ تا ۶ / ۸ اور سوا ایک کے اور کوئی خدا نہیں.اگر آسمان وزمین میں بہت سے خدا کہلاتے ہیں.چنانچہ بہتیرے خدا اور بہتیرے خداوند ہیں لیکن ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ.“ ۶.افسیوں ۴/۶.اور سب کا خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے.“ ے.یوحتا ۲۰۱۷ میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں.۲.عیسائیوں کی دلیلیں اور اُن کی تردید پہلی دلیل:.پہلی دلیل جو عیسائی صاحبان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کو تورات وانجیل میں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کا بیٹا تھا.جواب نمبر1.ابن اللہ کا لفظ توریت اور انجیل میں صرف مسیح کے واسطے نہیں بولا گیا بلکہ یہ لفظ مسیح کے سوا سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے متعلق استعمال کیا گیا ہے لیکن عیسائی صاحبان ان تمام لوگوں کو خدا کے بیٹے تسلیم نہیں کرتے.حالانکہ جیسا مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ویسا ہی باقیوں کے حق میں ابن اللہ کا لفظ بولا گیا.(دیکھو ذیل کے حوالجات ):.ا.اسرائیل خدا کا بیٹا ہے.خروج باب ۴ آیت ۲۲ ۲.داؤد خدا کا بڑا بیٹا ہے.زبور باب ۸۹ آیت ۲۶ ، ۲۷ ۳.سلیمان خدا کا بیٹا ہے.۴.قاضی مفتی خدا کے بیٹے ہیں.ا تواریخ باب ۲۲ آیت ۹ ، ۱۰ زبور باب ۸۲ آیت ۶ ۵.سب بنی اسرائیل خدا کے بیٹے ہیں.رومیوں باب ۹ آیت ۴ ۶.تمام یتیم بچے خدا کے لڑکے ہیں.زبور باب ۶۸ آیت ۵ ے.بد کا رلوگ خدا کے لڑکے ہیں.یسعیاہ باب ۳ آیت ۱ جواب نمبر ۲:.اگر عیسائی صاحبان مسیح کو اس لئے خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں کہ اس کے لئے
76 لفظ ابن اللہ بولا گیاہے تو پھر ہم سے انسان سمجھتے ہیں اس لئے کہ انجیل میں اسے انسان کا بیٹا کہا گیا ہے.دیکھو حوالے :.ا.یسوع ابن داؤد بن ابراہیم.متی بابا آیت ا ۲.انسان کا بیٹا کھاتا پیتا آیا.متی باب ۱ آیت ۱۹دمتی ۱۰/۲۳٫۹/۶٫۸/۲۰ ۳.میں جو ابن آدم ہوں.انسان ہوں.متی باب ۴.آیت ۴ جواب نمبر ۳:.خدا کا بیٹا ہونے سے مطلب راستباز‘ اور خدا کا محبوب ہونا ہے.ا یوحنا ۲/۲۹ و ۲/۱ دوستی ۵/۴۵) معلوم نہیں کہ میسیج میں کونسی ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُسے تو خدا کا بیٹا بلکہ مجسم خدا سمجھا جاوے اور باقیوں کو محض عاجز انسان خیال کیا جاوے.دوسری دلیل : مسیح نے عظیم الشان معجزے دکھائے.کیونکہ وہ معجزے بشری طاقت سے بالا تر تھے.اس لئے معلوم ہوا کہ مسیح انسان نہ تھا خدا تھا.جواب نمبرا:.عیسائی صاحبان اگر معجزے دکھانا ہی الوہیت کی علامت سمجھتے ہیں تو پھر تمام انبیاء علیہم السلام خدا ہونے کے مستحق ہیں.اور کیوں نہیں؟ آپ لوگ موسیٰ، ایلیاہ وغیرہ کو خدا سمجھتے جنہوں نے آپ کے مسیح سے بھی بڑھ کر مجزے دکھائے.سینے :.ا.پہلا معجزہ: مسیح کا سب سے بڑا معجزہ مردوں کو زندہ کرنا ہے.مگر اس میں بھی مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.مسیح کے علاوہ اور انبیاء علیہم السلام سے بھی یہ کرامت صادر ہوئی.دیکھو حوالے :.ا.السیع نے مُردے زندہ کئے.۲ سلاطین باب ۴ آیت ۳۵ تا ۳۷ ۲- حز قیل نے ہزاروں پرانے مردے زندہ کئے.حز قیل باب ۳۷ آیت ۱ تا ۱۳ ۳.ایلیاہ نے مردے زندہ کئے.اسلاطین باب ۱۷ آیت ۲۲.الیشع کی لاش نے مردہ زندہ کر دیا.۲ سلاطین ۱۳٫۲۱ ناظرین خود انصاف فرما سکتے ہیں کہ اگر مسیح بسبب مردے زندہ کرنے کے خدا ہو سکتا ہے تو الیسع حز قیل اور ایلیاہ وغیرہ جنہوں نے ہزاروں مردے زندہ کئے کیوں نہ خدا سمجھے جاویں.لیکن عیسائی ان کو محض انسان ہی سمجھتے ہیں.جواب نمبر ۲:.انجیل سے ثابت ہے کہ مردوں سے مرا دروحانی مردے ہیں نہ کہ جسمانی:.
77 الف.یوحنا ۲۰/۱۸ وا.کرنتھیوں ۳۱ تا ۱۵/۵۱ وافسیوں ۲٫۱ و ۲/۵ ب.مُردہ سے مراد شہوات کلسیوں ۳ تا ۳٫۵ ج زندگی سے مراد یسوع پر ایمان لانا.یوحنا ۱۷/۳ ۲.دوسرا معجزہ:.بیماروں کو اچھا کرنا.جواب:.اس میں بھی اور انبیاء مسیح کے شریک ہیں.ا.الیشع نے نعمان سپہ سالار کو جو کوڑھی تھا اچھا کیا.(۲ سلاطین باب ۵ آیت ۱۴) ۲.یوسف نے اپنے باپ یعقوب کو آنکھیں دیں.دیکھو ( پیدائش باب ۴۶ آیت ۴ تا ۳۰) ۳.بیماروں سے روحانی بیمار مراد ہیں.مرقس ۱۲٫۱۷ و پطرس ۲/۲۴ ۴.روحانی اندھے بہرے منتی ۱۳/۱۳ ۱۵/۱۴ و یوحنا ۹/۳۹ ۳.تیسرا معجزہ: تھوڑے کھانے اور شراب کو بڑھا دینا.جواب:.یہ کام بھی بہت سے انبیاء سے ظہور پذیر ہوا بلکہ بعض انبیاء اس کام میں مسیح سے بھی بڑھے ہوئے ہیں.دیکھو حوالے :.ا.ایلیاہ نے مٹھی بھر آئے اور تھوڑے تیل کو بڑھا دیا کہ وہ سال بھر تک تمام نہ ہوا.دیکھو ( اسلاطین باب ۱۷ آیت ۱۲ تا ۱۶) ۲.الیشع نے بھی ذرا سے تیل کو اس قدر بڑھا دیا کہ گھر والوں کے پاس اُس کے رکھنے کے لئے کوئی برتن نہ رہا.(۲ سلاطین باب ۴ آیت ۲ تا ۶ ).چوتھا معجزہ:.بغیر کشتی کے دریا پر چلنا.جواب:.یہ بھی صرف مسیح کا کام نہ تھا بلکہ موسیٰ نے اس سے بڑھ کر معجزہ دکھایا.اس نے سمندر کو ایسی لاٹھی ماری کہ وہ پھٹ گیا اور سیال پانی الگ الگ دونوں طرف کھڑا ہو گیا.۲.یوشع نے مر دن کو خشک کر دیا.( کتاب یوشع ۳/۱۷) ۳.ایلیاہ نے دریا کے دوٹکڑے کر دیئے.(۲ سلاطین ۲/۸) ۴.الیشع نے ناکارہ چشموں اور بنجر زمینوں کو ایک پیالہ پانی سے اُچھال دیا.(۲ سلاطین ۱۹ تا ۲/۲۲) ۵.الیشع نے چادر مار کر پانی کے دوٹکڑے کئے.(۲ سلاطین ۲/۱۴)
78 ۶.موسیٰ کی دعا سے مینہ اور اولے تھم گئے.(خروج ۹٫۳۴) ے.موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر مینڈک پھیلا دیئے.(خروج ۹/۲۳).ہارون نے مینڈک مصر میں پھیلا دیئے.(خروج ۶، ۸/۷) ۹.موسیٰ نے ہاتھ پھیلا کر سب مصر پر اندھیرا کر دیا.(خروج ۱۰/۲۲) ۱۰.موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر سب سواریوں کو ہلاک کر دیا.(خروج ۲۶ تا ۱۴/۲۹) ا.یشوع نے چاند اور سورج کو حکم دے کر کھڑا کر دیا.( یشوع ۱۲ تا ۱۰/۱۴) ۱۲.یسعیاہ نے سورج کو دس درجہ پیچھے ہٹا دیا.(۲ سلاطین ۲۰/۱۱) ۱۳ تین شخص جلتی آگ میں ڈالے مگر نہ جلے.( دانیال ۲۱ تا ۳/۲۵) ۵.پانچواں معجزہ: مسیح نے پرندے بنائے.پس وہ خالق ٹھہرا.احمدی: تورات میں ہے.ہارون نے جوئیں بنائیں.(خروج ۸/۱۷) پس وہ بھی بقول شما خالق ٹھہرا.یک نہ شد دو شد.ایک اور بات یا درکھنے کے قابل ہے کہ حضرت مسیح نے مریدوں کو فر مایا کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم میرے جیسے کام کر سکتے ہو.اب عیسائی صاحبان سے سوال ہے کہ اگر معجزات عظیم الشان کی وجہ سے آپ لوگ مسیح کو خدا مانتے ہو.تب تو حواریوں کو بھی شریک الوہیت ماننا چاہیے.کیونکہ انہوں نے بھی معجزات دکھائے اور اگر آپ یہ کہیں کہ حواریوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ بالکل ہی بے ایمان تھے.ایک اور جواب: انجیل میں مسیح نے صاف فرما دیا کہ میرے بعد بہت سے جھوٹے نبی پیدا ہوں گے جو اتنے بڑے بڑے معجزات دکھا ئیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کاملین کو دھو کہ میں ڈال دیں لیکن تم ان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آنا.مسیح کے اس قول سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے نزدیک ایک جھوٹا آدمی معجزات دکھا سکتا ہے تو پھر معجزات خدائی کا معیار کس طرح ہوئے اور منجزات دکھانے سے مسیح کی خدائی کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟ تیسری دلیل :.جس سے مسیح کی الوہیت ثابت کی جاتی ہے وہ مسیح کا ایک قول ہے جو اس نے اپنے مخالف یہودیوں کو کہا.کہ تم نیچے سے ہو.میں اوپر سے ہوں تم اس جہان کے ہو.میں اس جہان کا نہیں.“
79 جواب: اس فقرہ کے معنے بالکل صاف ہیں کہ اے یہودیو! میں نبی ہوں.میرے علوم آسمانی ہیں اور تم زمینی علوم پر مٹے ہوئے ہو.تم میرا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو.یہ ایک عام محاورہ ہے.اردو میں بھی مستعمل ہے.دیکھو ہم ایک شخص کوز مینی یا دنیا دار کہتے ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ زمین میں اور دنیا میں رہتا ہے کیونکہ زمین اور دنیا میں تو نیک بھی رہتے ہیں.مسیح بھی تھیں برس تک ہمارے نزدیک ۱۲۰ برس تک ) اسی دنیا میں رہا.بلکہ اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ یہ شخص خدا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دنیا سے محبت کرتا ہے.اسی طرح مسیح نے بھی یہودیوں کو کہا کہ میں تمہاری طرح تقلیدی علوم کا اور زمینی فنون کا وارث نہیں بلکہ میں آسمانی علوم کا وارث ہوں لیکن اگر عیسائی خواہ مخواہ ضد سے اس فقرے سے مسیح کی الوہیت ثابت کرنا چاہیں تو وہ یا درکھیں کہ اس بات میں بھی مسیح کی خصوصیت نہیں بلکہ تمام نیک لوگ اور حواری اس بات میں شامل ہیں.دیکھو حوالے : ا میسج حواریوں کے متعلق خدا سے دعا میں عرض کرتا ہے:.اس لئے کہ جیسا میں دنیا کا نہیں ہوں وے بھی دنیا کے نہیں ہیں.“ (یوحنا باب ۱۷ آیت ۱۴) اب اگر اس دنیا کا نہ ہونے کی وجہ سے مسیح خدا ہو.تو پھر تمام حواری بھی اسی وجہ سے خدا سمجھنے چاہئیں.میں ہے.۲.ایک جگہ مسیح حواریوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :.اس لئے کہ دنیا کے نہیں ہو.“ ( یوحنا باب ۱۵ آیت ۱۹) چوتھی دلیل: مسیح کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں.میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ جواب: یہ الفاظ اگر مسیح کی خدائی کا ثبوت بن سکتے ہیں تو تمام لوگ جن کے متعلق انجیل میں خود یسوع نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بھی خدائی کے مستحق ہیں.دیکھو حوالہ :.ا مسیح خدا کے حضور حواریوں کی سفارش کرتا ہوا ایک جگہ کہتا ہے.تا کہ وہ سب ایک ہو جاویں.جیسا کہ اے باپ تو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں کہ وہ بھی ہم میں ایک ہوں.“ (یوحنا باب ۱۷ آیت ۲۱ تا ۲۳) اب اگر ایک ہو جانے کے لفظ سے کوئی خدا بن سکتا ہے تو تمام حواری بھی خدا ہونے
80 چاہئیں.نیز دیکھو( یوحنا باب ۱۴.آیت ۲۰) 9966 پانچویں دلیل: مسیح نے کہا کہ " میں خدا سے نکلا ہوں.تو مجھ سے پیدا ہوا.“ ( عبرانیوں ۱/۵ و یوحنا ۸/۴۲) جواب:.پورا حوالہ پڑھو.یسوع نے ان سے کہا.اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا سے نکلا اور آیا ہوں.کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا." (یوحنا ۸/۴۲) پس خود میج نے نکلنے کی تشریح کرکے بتادیا کہ اسے مراد جسم الہی نہیں بلکہ صرف صفت ارسال المرسلین کا اظہار ہے.چنانچہ مزید وضاحت کے لئے دیکھو :.(ایوحنا ۱۷/۸) ۲.” جو کوئی خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سنتا ہے.( یوحنا۸/۴۷) جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں خدا سے پیدا ہوئے.“ (ایوحنا ۱۲-۱/۱۳) ۴.جو کوئی راستبازی سے کام کرتا ہے وہ اس سے پیدا ہوا ہے.“ (ایوحنا ۲/۲۹) ۵.” جو کوئی خدا سے پیدا ہوا وہ گناہ نہیں کرتا.“ (ایوحنا۳/۹) ۶.جو کوئی محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے.“ (ایوحنا ا/۵) ے.شاعروں میں سے بعض نے کہا کہ ہم تو اس کی نسل ہیں.پس خدا کی نسل ہو کر یہ خیال کرنا مناسب نہیں.(اعمال ۱۷/۲۹٬۲۸).سب ایک ہی اصل سے ہیں.“ ( عبرانیوں ۲/۱۱) چھٹی دلیل :.یسوع کے لئے کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے.“ ( عبرانیوں ۱۳/۸) جواب : لیکن لکھا ہے:.ا.پیشتر اس کے کہ پہاڑ پیدا ہوئے اور زمین اور دنیا کو تو نے بنایا.ازل سے ابد تک تو ہی خدا ہے.‘ (زبور۹۰٫۲) ۲.”مجھ سے آگے کوئی خدا نہ بنا اور میرے بعد بھی کوئی خدا نہ ہوگا.“ (یسعیاہ باب ۴۳ آیت ۱۰) ۳.ملک صدق بے باپ، بے ماں، بے نسب نامہ ہے.نہ اس کے دنوں کا شروع ،نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا.(عبرانیوں۷/۳)
81 تحقیقی جواب : مسیح کے لئے کل اور آج یکساں ہونا، بلکہ اس کے علم کا ازلی وابدی ہونا محض دعویٰ ہے جو محتاج دلیل ہے.بلکہ خود انجیل سے اس کی تردید ہوتی ہے.مثلاً :.ا.انجیر کے درخت کا علم نہ ہوا کہ اس میں پھل ہے یا نہیں.(متی ۱ تا ۲/۸ و مرقس ۲/۲۳) ۲.”میرے کپڑے کو کس نے چھوا ؟ (لوقا ۴۷، ۴۵ ۹٫ و مرقس ۵/۳۰) ساتویں دلیل:.حضرت مسیح کا بے باپ پیدا ہونا.جواب: اگر مسیح اس وجہ سے خدا ہو سکتا ہے کہ وہ بے باپ تھا تو آدم تو ڈبل خدا ہونا چاہیے کیونکہ مسیح تو صرف بے باپ ہی تھا.مگر آدم بے باپ ہی نہ تھا بلکہ ماں بھی اس کی کوئی نہ تھی.اس طرح ملک صدق سالم بھی خدا مجسم ہونے کا حقدار نہ تھا.کیونکہ وہ بھی بغیر ماں باپ کے تھا.دیکھو عبرانیوں باب ۷ آیت ۳.پھر علاوہ ازیں تمام وہ حیوانات جو ابتدائے آفرینش میں خدا نے بے باپ اور ماں کے پیدا کئے سب کے سب خدا مجسم ہونے چاہئیں.اچھا ان کو جانے دیجیے.اب موجودہ لاکھوں کروڑوں کیڑے مکوڑے جو برسات آتے ہی بغیر ماں باپ ہوتے ہیں کیا وہ مسیح کے ساتھ خدائی کے حقدار نہیں؟ بلکہ ان کا زیادہ حق ہے کیونکہ مسیح کے متعلق تو کوئی شبہ بھی کر سکتا ہے کہ اس کا کوئی باپ بھی ہو مگر جس کی ماں بھی نہ ہو اُس پر کیا شبہ ہوسکتا ہے.گو ہم مریم کو پاکباز و عصمت تاب سمجھتے ہیں پر دنیا کا منہ کون بند کرے اور یہودیوں کے الزامات کا جواب کون دے.آٹھویں دلیل:.آدم نے گناہ کیا اس وجہ سے اس کی تمام نسل میں گناہ کا بیج بویا گیا.اور تمام انسان اس میں گرفتار ہوئے.مسیح چونکہ آدم کی پشت سے نہیں تھا اس لئے وہ گنہگار نہ ہوا.اور گناہ سے پاک صرف خدا ہے اس لئے مسیح خدا ہوا.جواب:.اس دلیل میں جس قدر بھی دعوے ہیں سب کے سب سرے سے ہی غلط ہیں.نمبر وار سینیے:.ا.آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی نسل کا گنہ گار ٹھہر نا خدا کے عدل کے بالکل خلاف ہے.کیا یہی عیسائیوں کے خدا باپ کا عدل ہے کہ باپ کے گناہ کرنے سے بیٹا گنہگار سمجھا جاوے؟ ۲.جو آدم کی پشت سے ہو وہ گنہگا ر ہوتا ہے.یہ بات بھی بالکل غلط ہے عقلاً بھی جیسا کہ اوپر ثابت کر آئے ہیں اور نقلا بھی.اپنے گھر کی کتاب کو قا کھولئے گا.باب ا آیت ۶.وے دونوں خدا
82 کے حضور راستباز اور خداوند کے حکموں اور قانونوں پر بے عیب چلنے والے تھے.“ دیکھیے یہ زکریا اور اس کی بیوی کی تعریف ہے.اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی بالکل بے گناہ تھے.تو یہ دعویٰ کرنا کہ آدم کی اولاد میں سب گنہگار ہیں.خود لوقا کے نزدیک غلط ہے کیونکہ زکریا اور اس کی بیوی بابا آدم ہی کی اولاد میں سے تھے..یہ کہنا کہ جو آدم کی پشت میں سے نہ ہو وہ بے گناہ ہوتا ہے ایک نہایت ہی بدیہی البطلان قضیہ ہے.کیا شیطان گنہگار نہیں ؟ اور کیا وہ آدم کی اولاد میں سے ہے؟ پھر سانپ نے گناہ کیا اور اسے مٹی کھانی پڑی.کیا وہ آدم کی پشت سے ہے؟ پھر تمام وہ دیو یا بھوت جنہیں مسیح اور اس کے حواری نکالا کرتے تھے خبیث روحیں نہ تھیں؟ کیا وہ بھی آدم کی نسل سے تھے؟ ۴.عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح بے گناہ تھا.مدعی ست گواہ چست والی بات یاد دلاتا ہے کیونکہ مسیح صاف اقرار کرتا ہے کہ مجھے نیک مت کہو نیک صرف باپ ہے.پھر اگر خود مسیح بھی دعویٰ کرتا تو کیا ہوتا.دلیل کے بغیر تو کوئی شخص نہیں مانتا.گو ہم اسے نیک سمجھتے ہیں اس لئے کہ ہمارے قرآن نے اس کی تعریف کی مگر یہودیوں کو کون لا جواب کرے.وہ فوراً الزام لگانے شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیا اور وہ کیا.بد چلن عورت سے تیل ملوایا.یہودیوں کے عالموں کو گندی گالیاں دیں.بغیر اجازت لینے کے حواریوں سمیت ایک کھیت کے سئے تو ڑ کر نوش کرنے لگا.کھاؤ پیو اور شرابی تھا.غرض ان یہودیوں کا منہ کون بند کرے.عیسائیوں کی یہ دلیل کہ مسیح اس وجہ سے کہ وہ آدم کی نسل سے نہ تھا پاک اور بے گناہ ہے قطعی طور پر غلط ہے.کیونکہ:.ا.آدم کا گناہ جو بقول عیسائیوں کے موروثی طور پر اب تک آدم کی نسل میں چلا آتا ہے.اس کا اصل ذمہ وار ( مطابق پیدائش ۱- ۳/۶) آدم نہ تھا بلکہ جو تھی جس نے شیطان کے دھوکہ میں آکر آدم کو بہکایا.پس مسیح بوجہ حوا کی اولاد ہونے کے گنہ گار ٹھہرا.۲.تورات میں لکھا ہے:.الف.اور وہ جوعورت سے پیدا ہوا ہے وہ کیونکر پاک ٹھہرے.“ (ایوب ۲۵/۴) ب.اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے وہ کیونکر صادق ٹھہرے.“ (ایوب ۵/۱۵) (۵) چونکہ مسیح بے گناہ تھا اس لئے وہ خدا ہوا مگر اس خدائی میں مسیح اکیلا نہیں.زکریا بھی گناہ
83 سے پاک تھا، اس لئے وہ بھی خدا ہوا.زکریا کی بیوی بھی گناہ سے پاک تھی اس لئے وہ بھی خدا ہوئی اور خدا کی بیوی بھی.اس حساب سے بیٹی بھی خدا ٹھہرا.کیونکہ اس کی ماں بھی خدا ، باپ بھی خدا، بلکہ یچی مسیح سے بڑا خدا ہونا چاہیے.کیونکہ مسیح کی ماں تو انسان تھی اور بیٹی کے ماں باپ دونوں خدا تھے.ملک صدق سالم بھی خدا ہونے کا مستحق ہے کیونکہ وہ آدم کی اولا د سے نہ تھا.اور جو آدم کی اولاد سے نہ ہو.وہ گناہ سے پاک ہوتا ہے.اور جو گناہ سے پاک ہو وہ خدا ہوتا ہے.اس لئے ملک صدق سالم بھی خدا ہوا.پھر تمام فرشتے بھی خدا ہیں کیونکہ وہ گناہ سے پاک ہیں.پھر تمام حیوانات چرند و پرند خدائی کے حقدار ہیں کیونکہ وہ گناہوں میں آلودہ نہیں.نویں دلیل:.خود تین دن مردہ رہ کر پھر زندہ ہو گیا.جواب: مسیح جسمانی طور پر مرکز نہیں جیا بلکہ روحانی طور پر زندہ کیا گیا.الف.اپطرس ۳/۱۸.وہ جسم کے اعتبار سے مارا گیا مگر روح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا.“ ب ” جس طرح یسوع مرکز جیا اسی طرح ہم بھی مر کر جیتے ہیں.“ (رومیوں ۶/۱۰ ۱۰۹.۸/۱۱ و پطرس ۲/۲۴) مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوا مسیح در اصل صلیب پر فوت نہ ہوا تھا.بوجہ ذیل: (۱) مسیح کا اپنے واقعہ صلیب کو یونس نبی سے مشابہ قرار دینا.مگر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.‘ ( متی ۱۲٫۳۹) (۲) پیلاطوس کی بیوی کو خواب آیا تھا کہ اگر مسیح ہلاک ہو گیا تو پھر تم ہلاک کئے جاؤ گے لیکن ان کا تباہ و برباد نہ ہونا.(متی ۲۷/۱۹) (۳) پیلاطوس اس کے چھوڑنے کی کوشش کرنے لگا.“ (یوحنا ۱۹/۱۲) (۴) حضرت مسیح کی دعا ایلی ایلی لما سبقتنی بھی مانع ہے.(متی ۲۷٫۴۶) (۵) صرف ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ صلیب پر رہنا.(1) پہلو چھیدنے سے خون نکلنا.(۷) مسیح کی ہڈیاں نہ توڑی جانا.( مرقس ۱۵/۲۳) (یوحنا ۱۹/۳۴) ( یوحنا ۱۹۳۳)
84 (۸) پیلاطوس کا تعجب کرنا کہ وہ اتنی جلدی مر گیا.(۹) حواریوں سے ملنا اور زخم دکھانا.(۱۰) مسیح علیہ السلام کا ملعون ٹھہرایا جانا.(۱۱) ساری رات دعا کرنا.(۱۲) مرہم عیسی دوا کا بننا.( مرقس ۱۵/۴۴) ( یوحنا ۲۵ - ۲۰/۲۷) (گلتیوں ۳/۱۳) (متی ۲۶٫۳۹) (۱۳) ابھی اور بھیٹروں کو جمع کرنا.دسویں دلیل:.چونکہ وہ آسمان پر چلا گیا اس لئے خدا ہے.جواب نمبر1: ایلیاہ پیغمبر رتھ سمیت آسمان پر چلا گیا.جواب نمبر ۲: مسیح آسمان پر نہیں گیا.(الف) کوئی آسمان پر نہیں گیا.(ب) مسیح پہلے بھی آسمان ہی سے آیا تھا.( یوحنا ۳۹.۱۹/۴۰) (یوحنا ۱۰/۱۶) (۲ سلاطین ۲/۱۱) (یوحنا ۲/۱۳) (یوحنا ۶/۳۸ ۶۲ ۶/۶۳) لہذا اب بھی روحانی طور پر وہ آسمان پر ہی ہے نہ کہ جسمانی طور پر.(ج) ”میں تمہارے لئے جگہ تیار کرنے جاتا ہوں.“ پس جہاں یسوع کے شاگر د گئے وہاں یسوع بھی گیا.ا.چونکہ میچ میں عوارض انسانیہ تھے اس لئے وہ خدا نہیں.( یوحنا ۲ ، ۱۴٫۳).چونکہ وہ قادر مطلق نہ تھا کیونکہ وہ کہتا ہے.دائیں بائیں بٹھانا میرا کام نہیں.“ ( متی ۲۰/۲۳ - مرقس ۱۰/۴۰) اور پھر صلیب پر سے کیوں نہ اترا.حالانکہ درمیں صورت یہودی ماننے کو تیار تھے.لہذا خدا نہ تھا.گیارہویں دلیل:.اور ضرور تھا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بچہ جنے گی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے.جس کا ترجمہ ہے.خدا ہمارے ساتھ.“ (متی ۲۲-۱/۲۳) جواب نمبرا:.یسعیاہ ۱۴رے کی اصل عبارت نقل کرنے میں عیسائی انجیل نویسوں نے تحریف کی ہے.اصل الفاظ یہ ہیں :.دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کا نام عمانوایل رکھے گی.“ (یسعیاہ ۷/۱۴)
85 جواب نمبر ۲:.مریم نے اپنے بچے کا نام یسوع رکھا نہ کہ عمانوایل.جواب نمبر ۳:.یسعیاہ ۸/۱ میں ایک لڑکے مہیر شالال حاش بز کی پیدائش کا ذکر ہے.پس وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے.جواب نمبر ۴:.عمانوایل کا ترجمہ ” خدا ہمارے ساتھ “ ہے.مگر یسوع کے ساتھ خدا نہ تھا.بوجو ہات ذیل:.الف.یسوع کی ناکام زندگی.ب.خود اس کا ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر اس کا اقرار کرنا.ج.چالیس دن اس کے ساتھ شیطان کا رہنا.د.اور پھر اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے اس سے جُدا ہونا.(لوقا ۴/۱۳ ) لہذا یسوع عمانوایل نہیں ہوسکتا.مسیح روح اللہ ہو کر خدا نہیں بن سکتا بارہویں دلیل:.قرآن مجید میں مسیح کو روح اللہ کہا گیا ہے.قرآن مجید میں مسیح کی نسبت روح منه (النساء : ۱۷۲) کا لفظ آیا ہے.دوسری جگہ آتا ہے.وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا (التحريم: (۱۳) ایسا ہی تیسری جگہ آتا ہے.إِنَّمَا المسيح عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللهِ رُوح منه (النساء: ۱۷۲) جواب:.ہمارا یہ مذہب نہیں اور نہ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ سوائے خدا کے مسیح یا کسی اور کو ہم خدا ما نیں بلکہ اسلامی تعلیم اس کے صریح خلاف ہے.چنانچہ مندرجہ بالا آیات میں سے دوسری آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَا تَقُولُوا ثَلَثَةٌ اِنْتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ (النساء: ۱۷۲) کہ تین خدا مت کہو.ایسے عقیدہ سے باز آجاؤ کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے.اسی طرح ایک جگہ فرماتا ہے.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (المائدة: ۷۳٫۱۸ ) نیز لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَثَةِ (المائدة : ۷۴) کہ ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح خدا ہے نیز ان لوگوں نے بھی کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے.علاوہ ازیں اگر کوئی روح اللہ کے لفظ سے خدا بن جاتا ہے تو اس میں حضرت مسیح کی خصوصیت نہیں.اس طرح سے تو پھر قرآن مجید کے رو سے ہزاروں کروڑوں بلکہ سب ہی خدا بن
جائیں گے.دیکھو:.86 الف.خدا تعالیٰ آدم کے متعلق فرماتا ہے.ثُمَّ سَوبهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رَوْحِهِ (السجدة:١٠) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (الحجر: ۳۰ ، ص ۷۴ ) گویا آدم میں بھی بعینہ مسیح کی طرح خدا کی روح پھونکی گئی.کیا وہ بھی خدا بن گیا.ب.جبرائیل کے حق میں فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (مريم: ۱۸) ج.پھر حز قیال ۳۷/۱۴ عربی بائبل میں ان لوگوں کے متعلق جو اپنے گھروں سے ہزاروں کی تعداد میں نکالے گئے تھے اور ان کو مار دیا گیا تھا اور پھر زندہ کیا.تو اس زندہ کرنے کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے فَاعْطِئُ فِيكُمُ رُوحِى ( حزقیال ۳۷/۱۴ عربی بائبل ) جس کے مقابل اردو بائبل میں یہ الفاظ ہیں :.اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا اور تم جیو گے.الغرض اس طرح صرف مسیح خدا نہ ہوا بلکہ سب سے پہلے آدم پھر اس کی اولا داور جبرائیل وغیرہ تمام خدا ہوئے.و.خود بائبل میں روح اللہ “ اور ”خدا کی روح کا لفظ غیر خدا کے لئے بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے بلکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نبوت ہے.ملاحظہ ہو:.ا.بادشاہ مصر نے حضرت یوسف کے متعلق کہا.کیا ہم ایسا جیسا کہ یہ مرد ہے کہ جس میں خدا کی روح ہے پاسکتے ہیں.( پیدائش ۳۸ /۴۱) ۲.دیکھو خداوند نے بضلی ایل کو حکمت اور فہم اور دانش اور سب طرح کی کاریگر یوں میں روح اللہ سے معمور کیا.( خروج ۳۰.۳۵/۳۱) ۳.نیز دیکھو حزقی ایل ۳۷/۱۴، گفتی ۲۷/۱۸،۲۴/۲ و خروج ۳۱٫۳ و دانیال ۴/۱۸،۹۷۸ ویسعیاہ ۶۱۷۱ ونحمیاہ ۹/۳۰ نئے عہد نامے میں یہ الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں.ا.بولنے والے تم (حواری ) نہیں بلکہ تمہارے باپ کی روح مجھ میں بھی ہے.“ (اکرنتھیوں ۷٫۴۰ ) ۲.انجیل کا مندرجہ ذیل حوالہ سب سے صاف ہے:.خدا نے کہا.آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنی روح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی.“ ۳.انجیل کے مندرجہ ذیل مقامات دیکھو:.لوقا ۳۵ /۱ و ۴۱ / ۱ و ۷۶۷ و ۱/۱۵٫۲/۲۵ - اعمال ۲٫۴ و ا کر نتھیوں ۴ تا ۱۲/۱۱ (اعمال ۲/۱۷)
87 تیرھویں دلیل: مسیح کو قرآن مجید میں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے.لہذاوہ خدا ہے.جواب: قرآن مجید میں ہے : قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لَّكَلِمَتِ رَبِّ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكهف : ١١٠) پس خدا کے کلمات کی تو کوئی حد ہی نہیں.اگر خدا کے کلمے خدا ہونے لگے تو پھر دنیا کا ذرہ ذرہ خدا بن جائے گا.خدا تعالیٰ ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اگر تمام درخت قلمیں اور سب سمندر سیاہی بن جائیں مَا نَفِدَتْ كَلِمَتُ اللهِ (لقمن : ۲۸) پھر بھی کلمات اللہ شمار نہ ہو سکیں.چودہویں دلیل:.انجیل میں مسیح کی نسبت وسیلہ لفظ استعمال ہوا ہے.جس سے ثابت ہوا کہ وہ خدا ہے.ایسا ہی نئے عہد کا درمیانی کہا گیا ہے.جواب:- چه خوش گفت است سعدی در زلیخا الا یا ایها الساقی ادر کاساوناوِلُها انجیل میں وسیلہ" کا لفظ بمعنی معرفت استعمال ہوا ہے.ملاحظہ ہو:.کیونکہ اس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اس نے مقرر کیا ہے.(اعمال: ۱۷٫۳۱) اب دیکھیے بائبل میں کیا لکھا ہے:.' تب بھی تو بہت برس تک ان کی برداشت کرتا رہا اور اپنی روح سے یعنی اپنے نبیوں کی معرفت سے انہیں سمجھاتا رہا ہے.“ ( نحمیاہ ۹/۳۰) پس تمام انبیاء ہی خدا اور انسانوں کے درمیان وسیلہ ثابت ہوئے مسیح کی خصوصیت کیا رہی؟ نیز ملاحظہ ہو ” تو نے روح القدس کے وسیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادم داؤد کی زبانی فرمایا.“ ( اعمال ۴/۲۵) لغت میں بھی ہے: اَلْوَسِيلَةُ : وَالْوَسِيْلَةُ مَا يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى الْغَيْرِ الْمَنْزَلَةُ عِنْدَ الْمُلُوكِ الدَّرَجَةُ.پس وسیلہ کے معنے مقرب الہی اور صاحب درجہ ہونے کے ہیں نہ کہ خدا ہونے کے.
88 کافی ہے.خدا کا تجسم محال ہے انجیل کا مندرجہ ذیل اقتباس عیسائی پادریوں کی تمام منطقیانہ موشگافیوں کے جواب کے لئے اگر چہ انہوں نے خدا کو جان لیا.مگر اس کی خدائی کے لائق اس کی بڑائی اور شکر گزاری نہ کی بلکہ وہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا.وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بے وقوف بن گئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا.(رومیوں:۲۱ تا ۱/۲۳) حواری خدا کی عبادت کرتے تھے ا.”ہم جو خدا کی روح سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور یسوع مسیح پر فخر کرتے ہیں.“ 66 (فلپیوں ۳/۳) ۲.مگر بچے پرستار روح اور راستی سے باپ کی پرستش کرتے ہیں.“ (یوحنا ۲۳ ۴/۲۴).حواریوں کا ایمان مسیح کا باپ سے کمتر ہونے پر بہت صاف تھا.چنانچہ پولوس کا کلام شرک سمجھا.” تم مسیح کے ہو.مسیح خدا کا ہے.ہر ایک مرد کا سر مسیح ہے اور مسیح کا سر خدا ہے.“ (۱.کرنتھیوں : ۳/۲۳) (۱.کرنتھیوں: ۱۱/۳) 9966 ۴.حواری سوائے باپ کے کسی کو خدا نہ کہتے تھے.”ہمارا ایک خدا ہے جو باپ ہے.“ (۱) کرنتھیوں ۸/۴۶) ۵.اس اکیلے خدا کی تعریف.وہ مبارک اور اکیلا حاکم.بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خدا ہے.فقط اسی کو ہے.وہ اس نور میں رہتا ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.اور اسے کسی انسان نے نہ دیکھا اور نہ دیکھ سکتا ہے.اس کی عزت اور سلطنت ابد تک رہے.(ا تی تھیں ۱۵، ۶/۱۶) مسیح نے خدائی کا دعوی نہیں کیا (اقبالی ڈگری) مسیح نے خدا ہونے کا دعویٰ بالکل نہیں کیا.یہ صرف عیسائی صاحبان کی خوش فہمی ہے کہ ان کو
89 خدا بنارہے ہیں.بلکہ اگر حضرت عیسی نے اپنے متعلق خدایا ابن کا لفظ استعمال بھی کیا ہے تو صرف انہی معنوں میں کیا ہے جن معنوں میں تمام نبیوں اور بزرگوں پر اس لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے.ثبوت اس کا سنیے :.ایک دفعہ حضرت مسیح نے یہودیوں کے سامنے دعویٰ کیا کہ میں ابن اللہ ہوں.یہود یہ سن کر طیش میں آگئے اور انہوں نے ارادہ کیا کہ مسیح پر پتھراؤ کریں.مسیح نے کہا کہ تم مجھے کس قصور پر سزا دیتے ہو.انہوں نے کہا کہ تو انسان ہو کر اپنے تئیں خدا بناتا ہے.اس کفر بکنے کی ہم سزا دیتے ہیں.مسیح نے جواب میں کہا:.کیا تمہاری شریعت میں نہیں لکھا کہ میں نے کہا تم خدا ہو.جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس کلام آیا خدا کہا.اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو.( یوحناباب ۱۰ آیت ۳۴ تا ۳۶) اس عبارت کو سنا کر مسیح نے اپنے ابن اللہ ہونے کی حقیقت کھول دی کہ تم ناحق مجھے کافر کہتے ہو جبکہ توریت میں لکھا ہے کہ تمام وہ لوگ جن کے پاس خدا کا کلام آیا یعنی یہود، خدا ہیں.تو پھر تم میرے ابن اللہ کہلانے پر خفا کیوں ہوتے ہو.جبکہ تمہارے ہاں کتب انبیاء میں لکھا ہے کہ قضاۃ اور بزرگ لوگ الو ہیم یعنی خدا ہیں.اسی طرح انہی معنوں میں میں بھی ابن اللہ ہونے کا مدعی ہوں.الهامی منطق (مسیح میں خدائی صفات نہ پائی جاتی تھیں.) ا.خدا آزمایا نہیں جاتا.( یعقوب ۱/۱۳) مسیح آزمایا گیا.(متی ۴۱۱ و عبرانیوں ۴/۱۵) لہذا مسیح خدا نہیں.۲.خدا نہیں مرتا.(۱ یتیم تھس ۶/۱۶ و دانی ایل ۶/۲۶) مسیح مرا.متی ۲۷/۵۰ و یوحنا ۱۹/۳۰ ور ومیوں ۵/۶) نتیجہ مسیح خدا نہیں ہے.۳.خدا قیوم ہے.مسیح قیوم نہیں ( متی ۲۰/۲۳.اپنے دائیں بائیں بٹھانا میرا کام نہیں ).اللہ تعالیٰ کسی سے دعا نہیں مانگتا.مسیح نے دعا مانگی (لوق ۲۲/۴۴٫۵/۱۶)
90 ۵.خدا قادر مطلق ہے.آپ سے ہر کام کر سکتا ہے.(۲.کرنتھیوں ۷۱۱ ) مسیح قادر مطلق نہ تھا اور آپ سے ہر کام نہ کر سکتا تھا.( یوحنا ۵/۳۰ و ۸/۲۸) صغرى: - الْمَسِيحُ غَيْرُ قَادِرٍ كبرى: وَ كُلُّ مَا هُوَ غَيْرُ قَادِرٍ فَلَيْسَ هُوَ بِالهِ نتیجہ :.فَالْمَسِيحُ غَيْرُ الهِ - صرف خدا عالم الغیب ہے.(۱.سلاطین ۸/۳۹) تو ہاں تو ہی اکیلا سارے بنی آدم کے دلوں کو جانتا ہے.) لیکن مسیح عالم الغیب نہ تھا.ثبوت کے لیے ملاحظہ ہو.(مرقس ۱۳/۳۲) لیکن اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا.نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ.“ انجیر کا درخت.(متی ۱۸ ۲۱/۱۹) ج.مجھے کس نے چھوا.(لوقا ۸/۴۶،۴۵) د.پطرس کو جنت کی کنجیاں (متی ۱۶/۱۹) مگر بعد میں پطرس شیطان (متی ۱۶/۲۳) ے.خدا قائم بالذات ہے.مسیح قائم بالذات نہیں.(۲) کرنتھیوں ۳/۴ اور ومیوں ۶/۱۰).خدا جو کہتا ہے ہو جاتا ہے.(حزقی ایل ۱۲/۲۵ وز بورا ۵۰ ومرقس ۱۴/۳۶) مسیح جو کہتا ہے وہ نہیں ہوتا.(الف) متی ۲۰/۲۳.اپنے دائیں بائیں بٹھانا میرا کام نہیں.ب.یوحنا ۵/۳۰.میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا.“ ج متی ۱۶/۲۸.شاگردوں سے کہا کہ تم میں سے کئی زندہ ہوں گے کہ میں آسمان سے واپس آجاؤں گا لیکن ابھی تک نہیں آیا.شاگر دسب مر گئے.۹.خدا نہیں تھکتا اور ماندہ نہیں ہوتا.(یسعیاہ ۴۰/۲۸ ویرمیاہ ۱۰/۶) مسیح تھکا ماندہ ہوا.( یوحنا۴/۶.چنانچہ یسوع سفر سے تھکا ماندہ ہو کر اس کو ئیں پر یونہی بیٹھ گیا.) ۱۰.”خدا تھکے ہوؤں کو زور بخشتا ہے اور نا تو انوں کی توانائی زیادہ کرتا ہے.“ ( يسعیا ۴۰/۲۹۰ وز بور۱۴۵/۱۴)
91 مگر مسیح کا اپنا یہ حال ہے کہ :.لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لیے سر دھرنے کی جگہ نہیں.(متی ۸/۲۰) لہذا مسیح خدا نہیں.وَتِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ خدامان لیں؟ نہیں مرسکتا.میں تھا؟ معقولی دلائل در تردید الوہیت مسیح ا.ہندو لوگ کرشن جی مہاراج کو خدا کہتے ہیں.کیا وجہ ہے کہ کرشن کو خدا نہ مانیں اور مسیح کو ۲.جب مسیح مرگیا ( متی ۲۷/۵۰) اور دورات دن مرا ر ہا.تو کیا خدا مر جایا کرتے ہیں؟ خدا ۳.جب مسیح نے تجسما ختیار کیا تھا تو ثلاثہ اقانیم اکٹھے یکجا تھے یا دو الگ اور اقنوم ثانی جسم اگر دو الگ الگ تھے تو مجموعہ الوہیت مکمل نہ رہا اور اگر ثلاثہ قانیم یکجا تھے تو صرف اقنوم ثانی نے ہی تجسم اختیار نہ کیا بلکہ لاشدا قائیم نے.۴.مسیح دشمنوں کے مقابلہ میں مغلوب ہوا.مصلوب وملعون ہوا.کیا خدا مغلوب ومصلوب و ملعون ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو عاجز انسان اور خدا کے درمیان ما بہ الامتیاز کیا شے ہے؟ ۵.جب مسیح نے یہ کہا تھا کہ اے باپ میں اپنی روح تیرے ہاتھ میں سونپتا ہوں اور مر گیا تھا.(لوقا ۲۳/۴۶) تب کونسی روح بول رہی تھی.انسانی یا الہی؟ اگر کہو انسانی فقط.تو الہی روح کہاں گئی تھی؟ اور یہ بھی بتاؤ کہ روحیں دو ہیں ؟ مگر مسیح ایک.ایک الہی روح جو غیر محدود اور ایک انسانی جو محدود ہے تو یہ دونوں ایک جسم میں کس طرح حلول کر سکتی ہیں؟ مسیح کہتا ہے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا ظاہر نہیں ہوا (متی ۱۱/۱۱) مسیح بھی عورت سے پیدا ہوا تھا.یوحنا سے چھوٹا ہوا.پس یوحنا بڑا خدا ہوا.کیونکہ جب یوحنا سے چھوٹا خدا ہو گیا تو یوحنا بڑا خدا ہوگا.ے.ایوب ۷/۹ میں لکھا ہے.”جو گور میں اترا ، پھر اوپر نہ آئے گا.تو مسیح مر کر قبر سے کیونکر نکلا..ایوب ۸/۲۰.” خدا سچے آدمی کو نہیں چھوڑے گا.وہ بدکاروں کی امداد نہیں کرتا.“ اور مسیح
92 مغلوب ، مصلوب اور یہودی کامیاب ہوئے.۹ استثناء ۱۸/۲۰ میں ہے.غیر معبودوں کی پرستش کی طرف بلانے والا جھوٹا ہے.وہ قتل کیا جاوے گا.مسیح نے آکر خود کو خدا کہا اور مقتول ہوئے تو جھوٹے ثابت ہوئے نہ کہ خدا اور سچا خدا.۱۰.اگر مسیح بغیر باپ ہونے کی وجہ سے خدا ہے تو ملک صدق سالم کیوں خدا نہیں.( عبرانیوں ۷۱۲ ) ۱۱ مرقس ۱۰/۱۸.اے نیک استاد ! مگر مسیح کو خود نیک ہونے سے انکار ہے.(حوالہ مذکور ) کفاره مسیحی مفہوم: اول:.ہر انسان گنہ گار ہے.نہ صرف بلوغت سے لے کر بلکہ پیدائشی گنہ گار ہے.دوم :.اس لئے کہ آدم و حوا نے گناہ کیا اور اولاد میں وراثتا آیا.اس لئے ہر انسان گنہ گار ہے.سوم.صفات الہی میں چونکہ خدا عادل ہے بلا وجہ بخش نہیں سکتا.اور وہ رحیم بھی ہے بوجہ عدل چھوڑ نہیں سکتا.بوجہ رح اقوم ثانی کو جسم اختیار کرنا پڑا نہ معلوم خود جسم اختیار کیا باپ کے حکم سے کیونکہ سب اقنوم الوہیت میں مساوی ہیں.خادم ) اور دوسری طرف خدا نے انسان بن کر اور مصلوب ہو کر جہان کے گناہ اٹھائے.جو کوئی اس پر ایمان لاتا ہے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بوجہ مسیح کی اس تکلیف کے جو اس نے صلیب پر برداشت کی.بنیا د کفارہ : گناہ پیدائش سے ہے عملوں سے نہیں.تمام لوگ پیدائش سے ( مرد وعورت سے پیدا ہوئے.اس لئے ) گنہگار ہوئے.مسیح بے گناہ (صرف عورت سے پیدا ہوا ) تھا.اس لئے قربان ہوا اور دنیا کو گنا ہوں سے نجات دی.تعریف کفارہ: کفارہ کے لفظی معنی ڈھکنا.ڈھانپنا.خدا کا ایک بیٹا ہے اور وہ ایک بیٹا ہے.اس خدا کے بیٹے نے مریم کے پیٹ میں حلول کیا اور وہ خدا کا بیٹا انسان کے بیٹے کی شکل میں پیدا ہوا.خدائی کا دعویدار ہوا.یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا کر جان نکال دی.یہ تکلیف خدا کے بیٹے نے محض انسان کے گناہوں کی وجہ سے اٹھائی اور اب وہ گناہوں کا کفارہ ہو گئے.اب کسی قسم کی سزا انسان کو نہ دی جائے گی.ضرورت کفارہ: انسان گنہ گار ہے اور گناہ کا نتیجہ موت ہے بلکہ جہنم کی سز انگر خدا رحیم ہے.اس کا رحم چاہتا ہے کہ انسان سزا سے بچ جاوے.پھر وہ عادل ہے.عدل کا تقاضا ہے کہ سزا ضرور دی
93 جائے.اب رحم اور عدل ایک جگہ کس طرح جمع ہوں.خدا کا بیٹا گنا ہوں کو اپنے اوپر لے کر اپنا مارا جانا قبول کر کے تمام جہانوں کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گیا.کفارہ کی تائید میں حوالجات کی تردید جو یسوعیوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں (۱) اچھا گڈریا میں ہوں.اچھا گڈریا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے.“ (۲) یسوع کے صلیب دئیے جانے کا دن قریب آیا تو ایک دن روٹی کھانے کے وقت روٹی اور انگور کا رس جماعت میں تقسیم کرتے ہوئے کہا.کھاؤ یہ میرا بدن ہے اور پیو، یہ میرا لہو ہے.ابطال :۱.آدم سے زیادہ گنہ گار حوا تھی.اس لئے جو صرف عورت سے پیدا ہو وہ زیادہ گنہگار ہوا تو قربان کیسے ہوا؟ قربان تو معصوم ہو سکتا ہے بقول شما ( دیکھو توریت.کہ سانپ نے بہکا کرحوا کو دانہ کھلا یا جس پر جوانے آدم کو بہکایا.پیدائش ۳/۱۳) ۲.انجیل میں لکھا ہے کہ یسوع کے مصلوب ہونے سے قبل یوحنا اور زکریا مع اپنی بیوی کے نہایت پاک راستباز تھے.ثابت ہوا کہ کفارہ پر ایمان لائے بغیر بھی آدمی راستباز ہو سکتا ہے.کفارہ ضروری نہ رہا نیز یسوع سے پہلے جتنے انبیاء تھے ان کی نجات کس طرح ہوئی ؟ الف.زکریا اور اس کی بیوی وہ دونوں خداوند کے حضور راستباز اور خداوند کے سارے حکموں اور قانونوں پر بے عیب چلنے والے تھے.“ ب یوحنا خداوند کے حضور بزرگ (لوقا ۱/۶،۵) (لوقا ۱/۱۵) ج.یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں.“ (متی ۱۱/۱۱) و.یوحنا نبی سے بھی بڑا تھا.“ (لوقا ۷/۲۷) - اگر کفارہ صحیح ہو تو لازم آتا ہے کہ یہودا اسکر یولی مسیح کے پکڑوانے والے کو جزائے خیر ملے اور نجات ابدی کو پہنچے.۴.یہ عدل نہیں کہ گنہگار دنیا میں اچھی طرح گناہ کریں اور عاقبت کو بھی جنت میں داخل ہوں.اور ان کے عوض حضرت مسیح بے گناہ صلیب پر چڑھائے جائیں اور دوزخ میں بھی رہیں.غرض یہ ظلم ہے.اگر حضرت عیسی اپنی خوشی سے کفارہ قبول کرتے تو صلیب پر کیوں پکار پکار کر کہتے کہ ایـلـی ایـلـی لما سبقتانی یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.معلوم ہوا
94 کہ جبر اصلیب دیا گیا.پس وہ کفارہ گناہوں کا کیسے ہوئے؟ (متی ۲۷۱۴۶).جب مسیح نے سب گناہ اٹھالئے تو گویا وہ مجموعہ گنا ہوں کا ہوئے.پس گناہ گار آدمی اپنے گنا ہوں سے عذاب ابدی میں رہے گا.تو کیا حال ہے اس کا جس نے سب کے گناہ اٹھائے.بتقدیر تسلیم کفارہ انبیاء جو پہلے مسیح سے گزرے ہیں لازم آتا ہے کہ کفارہ کے بغیر دوزخ میں رہے ہوں.کیونکہ تب تک کفارہ نہ ہوا تھا.ہم پوچھتے ہیں کہ کفارہ سب کا ہوا ہے یا کہ موجودین کا.بر تقدیر نانی آئندہ اور گزشتہ کے واسطے نیا کفارہ چاہیے.بر تقدیر اول جب لوگ اور گناہ پیدا نہ ہوئے تھے تو ان کے گناہ کیونکر ایک شخص نے اٹھالئے ؟.جب مسیح نے سب گناہ اٹھا لئے تو وہ گویا اول نمبر پر گنہگاروں میں سے ہوئے.پس محتاج ہوئے طرف کسی منجی کے.کیونکہ بجز منجی کے نجات ممکن نہیں.پس وہ بھی محتاج کفارہ کا ہو گا اور تسلسل لازم آئے گا.۱۰.کفارہ سے لازم آتا ہے کہ قاتل اور چور وغیرہ مجرموں کو پھانسی کی سزا نہ دی جائے.حالانکہ مسیحی لوگ سزا دیتے اور لیتے بھی ہیں..جب کفارہ ہو گیا.تو نیکی کرنے کی کیا حاجت رہی.باوجود اس کے مسیح نے چالیس روزے رکھے اور حواری بھی پابندی نیکی کی کرتے رہے.۱۲.اگر مسیح نے گناہ اٹھائے بھی ہیں تو لازم آتا ہے کہ امور غیر متناہی واقع ہوں.۱۳ مسیح اگر کفارہ ہونے کو آئے تھے تو آتے ہی کفارہ کیوں نہ ہوئے.بلکہ انجیل سے ثا ہے کہ خلقت کو نصیحت کرنے آئے تھے.(لوقا ۳/۱۸) ۱۴.اس کفارہ کے ہونے سے معافی گناہ کی تو نہیں ہوئی بلکہ زیادتی وقوع میں آئی ہے کیونکہ یہودی مسیح کی تحقیر کرنے کے باعث مستحق عذاب کے ہوئے.۱۵.اگر کفارہ موافق مرضی خدا کے ہوتا تو علامت رحمت ظاہر ہوتیں حالانکہ چارا نجیلوں سے ثابت ہے کہ بعد سولی کے اس طرح کی علامت خدا کے قہر کی ظاہر ہوئیں کہ کبھی نہ ہوئی ہوں گی.مثلاً جہان میں اندھیرا ہو جانا اور مردوں کا قبروں سے نکلنا، زمین کا کانپنا ، ہیکل کا پردہ پھٹ جانا.وغیرہ وغیرہ ۱۶.جبکہ با قرار مسیحیان حضرت عیسی جز وخدا ہیں تو یہ ظاہر ہے کہ صلیب پر کھینچنے والا انسان
95 تھا.پس اس سے غلبہ مخلوق کا خالق پر پایا جاتا ہے.۱۷.کفارہ کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ کسی بخشش کرنے والے کی حاجت نہ رہے حالانکہ کتاب اعمال میں موجود ہے کہ حوار بین کشیش دیتے تھے.اور مسیح حواریوں کو فرماتے تھے کہ جس کو تم بخشو گے وہ بخشا جائے گا.۱۸.اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی قیامت کو عدالت کریں گے.اگر یہ سچ ہے تو بطلان کفارہ میں کیا بیچ ہے.۱۹.ہر ایک فرقے پر اطاعت و تقلید پیشوا اپنے کی لازم ہے.پس اگر مسیح مصلوب ہوئے تو عیسائی کیوں صلیب پر نہیں چڑھتے.۲۰.اعتقاد کفارہ سے تحقیر شان متصور ہے.یہ تحقیر ان کے پیرو پولوس بھی کرتے رہے.قطع نظر مخالف کے.چنانچہ گلتیوں کے خط میں لکھا ہے جو سولی دیا گیا وہ لعنتی ہے.(گلتیوں ۳/۱۳) مصلوب خدا کا ملعون ہوتا ہے.(استثنا ۲۱/۲۳) ۲۱.اگر مسیح کفارہ ہونے آئے تھے تو دعارة بلا کی نہ مانگتے حالانکہ انجیل میں موجود ہے کہ مسیح نے رات بھر بہت تضرع سے یہ دعا مانگی کہ یہ عذاب سولی کا مجھ سے ٹل جائے.دیکھومتی ۲۶/۳۹ و مرقس ۱۴/۳۶ ولو قا ۲۲/۴۲ - ۲۲.مسیح من حیث الروح کفارہ ہوئے یا من حیث الجسم.بر تقدیر ثانی جسم ان کا بشریت کا تھا اور کل بشر گنہگار ہیں.بر تقدیر اول روح کو آپ خدا سمجھتے ہیں وہ سولی دیئے جانے سے مبرا ہے دوسرے روح محسوس نہیں جو صلیب پر کھینچا جاتا.اپنے جسم کے متعلق مسیح خود کہتا ہے جسم کمزور ہے.( مرقس ۳۸/ ۱۴) ۲۳.الف.جو ایمان لاتا ہے نجات پائے گا.یوحنا ۱۶تا۳/۱۹ و رومیوں ۳/۲۵ ب.ایمانداروں کی علامتیں دیکھو: متی ۱۷۱۲۰ و ۱۸/۹ و۲۱/۲۱ و مرقس ۱۲/۱۷ و یوحنا تا۱۴/۱.پہاڑ ہٹانا ، درخت سوکھانا ، زہر کھانا ، بیماروں کو شفا دینا.وغیرہ وغیرہ.مگر چونکہ کسی عیسائی میں یہ علامتیں نہیں، لہذا کوئی بھی ایماندار نہیں.کسی کی نجات نہ ہوئی.کفارہ باطل.۲۴.مسیح کی قربانی خلاف فطرت و عقل ہے.ہمیشہ چھوٹی چیز بڑی چیز پر قربان ہوتی ہے.لفظ قربانی ” قرب سے نکلا ہے.
96 ۲۵.کفارہ پر ایمان لانے کے بعد مسیحی لوگوں سے گناہ سرز دہی نہیں ہوتے یا ہوتے ہیں، لیکن معاف ہو جاتے ہیں اگر سرزد نہیں ہوتے ، مشاہدہ کے خلاف.ہو جاتے ہیں اور معاف ہوتے ہیں، دلیل دو.۲۶.مسیح نے اپنی مرضی سے کفارہ ہو کر اپنے ذمے بندوں کے گناہ لئے یا باپ کی مرضی سے.اگر باپ کی مرضی سے تو باپ غیر عادل.اگر اپنی مرضی سے تو خود غیر عادل.۲۷.انسان بوجہ گنہ گار ہونے کے کفارہ ہوسکتا تھا وہ فطرنا گنہگار ہے.تمام لوگ ابن آدم ہیں، مگر مسیح ابن اللہ ہے اور پاک ہے.اس لئے کفارہ ہوا.مگر ہم کہتے ہیں وہ ابن آدم بھی ہے.پھر حوا نے بھی گناہ کیا تھا بلکہ آدم سے پہلے اسی نے گناہ کیا، اور مریم بھی اولاد آدم سے تھی.مسیح ان سے پیدا ہوئے.ماں کے خواص بچے میں سرایت کرتے ہیں.مسیح کی ماں بے گناہ نہ تھی نسل آدم سے تھی.اس لئے مسیح گناہ سے کیسے پاک ہوئے؟ وہ بھی گناہگار ہوئے.“ جو عورت سے پیدا ہوا کیونکر پاک ٹھہرے.(ایوب ۲۵/۴ و ۱۵/۱۴) ۲۸.آدم کی وجہ سے ساری نسل کا گنہ گار ہونا خدا کے عدل کے خلاف ہے.۲۹.موت گناہ کی سزا ہے.جب گناہ معاف ہو چکا تو پھر موت کیسی؟ (رومیوں ۶/۱۶) ۳۰.عورت دردزہ سے بچہ جنے گی.مرد پسینہ کی کمائی سے روٹی کمائے گا مگر کفارہ پر ایمان لا کر بھی دردزہ ہوتا اور پسینہ کی کمائی سے روٹی نصیب ہوتی ہے.۳۱.یہودیوں نے احسان کیا کہ کفارہ ادا کر دیا.پھر لعنتی کیوں ہوئے؟ ۳۲.چونکہ مسیح کا دعویٰ صرف بنی اسرئیل کی ہدایت کے لئے آنے کا تھا.اس کا کفارہ بھی صرف بنی اسرئیل کے لئے ہوگا.تمہارا اس کی تبلیغ کر کے لوگوں کو دھوکہ دینا کیونکر جائز ہے.الف.” میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.“ ب.(متی ۱۵/۲۴) لڑکوں کی روٹی کتوں کے آگے ڈالنا اچھا نہیں.“ (متی ۱۵/۲۶) ج.اس نے شاگردوں کو ہدایت کی کہ بنی اسرئیلیوں کے سوا اور کسی کو تبلیغ نہ کرنا “ (متی ۱۰/۶،۵) د.پولوس کا یسوع کی وفات کے بعد غیر قوموں کو تبلیغ کرنا محض غصہ کی وجہ سے تھا.(اعمال ۵ تا ۱۸/۷) اور یسوع کے دوسرے شاگر د پطرس سے جھگڑے کہ تو نے غیر قوموں کے پاس جا کر کیوں
97 منادی کی.(اعمال ۱۱۳) اور اس کے جواب میں اس نے ایک بے معنی سا خواب سنا کر ان کو ٹالنا چاہا.اگر یسوع نے کبھی غیر قوموں کی ہدایت کا بھی دعوی کیا ہوتا.تو پطرس اپنی خواب سنانے کی بجائے یسوع کا وہ قول پیش کرتا جس سے ثابت ہوا کہ غیر قوموں میں تبلیغ محض پولوس کی ایجاد ہے.پس جب کفارہ بنی اسرئیل میں محدود ہو گیا تو خدا کی باقی ساری مخلوق اس سے محروم ہو گئی اور خدا کے بیٹے کی اتنی بڑی قربانی "کوه کندن و کاہ بر آوردن“ کی مصداق ہوئی.66 ۳۳.قول عیسائی کہ انسان کمزور ہے.گناہ اٹھا نہیں سکتا.اس لئے خدا کے بیٹے نے وہ گناہ اٹھا لئے.یہ عدل کے خلاف ہے.دوسروں کے عوض میں کسی کو سزا کیوں دی جاوے.اس موقع پر تو ”اندھیر نگری چوپٹ راجہ والی مثال صادق آئے گی.۳۴.قول عیسائی کہ اگر خدا گناہوں کی سزا نہ دیوے اور وہ بخش دے تو یہ عدل کے خلاف ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں نے عدل کی تعریف غلط مجبھی ہے.عدل کہتے ہیں کسی کا حق نہ مارنا.جیسے مزدور کو ایک روپیہ کی بجائے دو دے دیں تو یہ عدل کے خلاف نہیں.ہاں ایک روپیہ کی بجائے آٹھ آنے دے دیں تو خلاف عدل ہے.اسی طرح گناہ معاف کرنا عدل کے خلاف نہیں.ہاں بڑھ کر سزا دینا عدل کے خلاف ہے.ثواب میں انعام ہوتا ہے.اگر اعمال سے زیادہ دیا جائے تو خلاف عدل نہیں.اس کے متعلق انجیل کی شہادت.صاحب مکان کے مزدوروں کا قصہ نقلی دلائل امتی ۶/۱۴.اگر تم آدمیوں کے گناہ بخشو گے تو تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہیں بخش دے گا.پس جب خود خدا نہیں بخش سکتا تو وہ بندوں کو کیسے کہتا ہے کہ تم بخشو؟ ۲.استثنا ۱۸، ۹/۱۹.اسرائیلیوں کی ہلاکت کو نبی کی دعا سے ٹال دیا.معلوم ہوا کہ گناہ بغیر کفارہ بھی معاف ہو سکتے ہیں..پیدائش ۲۰۱۷ ”نبی کی دعا ہمارے واسطے شفاعت کرتی ہے اور ہمیں زندگی بخشتی ہے.کسی کفارہ کی ضرورت نہ رہی.کفارہ پر ایمان لانے سے خرابیاں (۱) دعا کا مسئلہ فضول جاتا ہے (۲) گناہ پر دلیری.عیسائی گناہ کرے یسوع بخشوا دے
98 گا.یوحنا ۲/۱(۳) نبی کو عنتی مانا پڑتا ہے (۴) توریت کا انکار کرنا پڑتا ہے.کیونکہ اس میں کفارہ کا ذکر نہیں (۵) خدا غیر عادل ٹھہرتا ہے کہ ناحق اپنے بیٹے کوسولی دی.۳۵.یسعیاہ ۵۵/۷.وہ جو شریر ہے اپنی راہ کو ترک کرے اور بد کردار اپنے خیالوں کو.اور خداوند کی طرف پھرے کہ وہ اس پر رحم کرے گا.اور ہمارے خدا کی طرف کہ وہ کثرت سے معاف کرے گا.اس میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ ترک گناہ بتایا ہے نہ کہ کفارہ.۳۶.اگر کفارہ سچ ہے تو خدارحیم نہیں.کیونکہ اس نے بہر حال سزا دے لی.پھر وہ رحم کہاں برتتا ہے؟ عیسائیوں کے مزعومہ عدل کو پورا کر لیا.۳۷.سزا کی غرض بندہ کی اصلاح ہے.بیٹے کو سزا دے کر بندے کی کیا اصلاح ہوئی.اس سے خدا تو خوش نہیں ہوتا.نہ نیکی سے اسے فائدہ ہے اور نہ بدی سے کوئی نقصان.پس اصل غرض سزا کی اصلاح نفس ہے.جب وہ نہ ہوئی تو کفارہ بے فائدہ.نیز کفارہ ساز گناہ کی سزا کی غرض سے ناواقف معلوم ہوتا ہے.۳۸.یسوعی کہتے ہیں کہ کفارہ ہو سکتا ہے.جیسے ایک بادشاہ کا قرض دار جب اپنا قرض ادانہ کر سکے تو بادشاہ کا بیٹا اگر اس قرض کو ادا کر دے تو وہ چھوٹ جاتا ہے.اسی طرح جب لوگوں کے گناہ بیٹے نے اٹھا لیے تو وہ سزا سے بری ہو گئے.مگر اتنا نہیں سوچا کہ جب بیٹا اتنا اختیار رکھتا ہے کہ اپنے خزانے سے دے دے اور رحم کرتا ہے تو کیا بادشاہ رحم نہیں کر سکتا ؟ ۳۹.گناہوں کی معافی کے ذرائع.تواریخ ۱۲ تا۱۷۱۱۴ اپنے تئیں عاجز کرنا، دعامانگنا، خدا کا مونہہ ڈھونڈنا ، برے را ہوں سے پھرنا.اگر یہ ذرائع انسان اختیار کرے تو بغیر کفارہ گناہ معاف ہوتے ہیں.۴۰.متی ۱۲/۳۱.روح کے خلاف کا کفر معاف نہ ہوگا.اس سے معلوم ہوا کہ یسوع کے نزدیک گناہ دو قسم کے ہیں.صغائر اور کبائر.کبائر بغیر سزا کے معاف نہیں ہو سکتے.پس کفارہ باطل کیونکہ کفارہ سب گناہوں کو یکساں معاف کرتا ہے.۴۱.متی ۷/۱۳.نجات کی راہ مشکل اور تنگ بتایا ہے.جو بہت محنت اور جانفشانی کا کام ہے حالانکہ کفارے کی راہ تو تنگ نہیں جو مرضی آئے کرے پس کفارہ نجات کے لیے نہیں.۴۲.خدا قربانی پسند نہیں کرتا بلکہ رحم پسند کرتا ہے.(متی ۱۲/۷) لہذا کفارہ باطل ہے.۴۳.کفارہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اعمال کی قطعاً ضرورت نہیں.مجرد ” ایمان ہی کافی ہے.
99 یہی وجہ ہے کہ کفارہ کے بانی (پولوس) نے شریعت کو لعنت“ قرار دیا ہے.جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے:.الف.مسیح جو ہمارے لیے لعنتی بنا.اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا.کیونکہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے.“ (گلتیوں ۳/۱۳) ب.اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں.تا کہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے...مگراب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی.جس کی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے.یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے.اس لیے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں.مگر اس کے فضل کے سبب اس مخلصی کے وسیلے سے جو یسوع مسیح میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں.اسے خدا نے اس کے خون کے باعث ایک کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو کونسی شریعت کے سبب سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے.چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے.“ (رومیوں ۱۹ تا ۳/۲۹) ج.جھوٹ جائز:.یہی وجہ ہے کہ پولوس کہتا ہے: ”اگر میرے جھوٹ کے سبب سے خدا کی سچائی.اس کے جلال کے لیے ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گنہ گار کی طرح مجھ پر حکم لگایا جاتا ہے.“ (رومیوں ۳۱۷) گویا اگر جھوٹ بول کر عیسائیت کی تبلیغ کی جائے تو کوئی حرج نہیں.و.کفارہ کی آزادانہ تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ یسوع کے معابعد ہی عیسائیوں میں خطرناک طور پر بد کاری شروع ہو گئی تھی.چنانچہ پولوس رسول عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے :.”یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرام کاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرامکاری جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی.چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے اور تم افسوس تو کرتے نہیں تا کہ جس نے یہ کام کیا تم میں سے نکالا جائے بلکہ شیخیاں مارتے ہو.“ (۱.کرنتھیوں ۵/۱۲) پس عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ کفارہ گناہ کو جڑ سے کاٹتا ہے باطل ہے.عیسائی:.قرآن میں بھی کفارہ ہے جیسا کہ لکھا ہے:.فَكَفَّارَتْ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسْكِينَ (المائدة: ٩٠) احمدی:.قرآن مجید میں لفظ کفارہ سزا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.آیت کا مطلب
100 یہ ہے کہ جو شخص قسم توڑے اس کو سزا یہ ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا ان کو کپڑے پہنائے یا ایک غلام آزاد کرے مگر کفارہ کی سزا تو بے گناہ مسیح کو دی جاتی ہے اور گناہ کرنے والا آرام اور مزے سے پھرتا ہے.نوٹ:.بعض عیسائی حج بدل کو بھی پیش کر دیا کرتے ہیں.سو یا د رکھنا چاہیے کہ حج بدل میں رو پید اس شخص کا ہوتا ہے جس کو حج بدل کا ثواب ملتا ہے لیکن یسوعی کفارہ میں خون تو مسیح کا بہایا گیا اور گناہ عیسائیوں کے معاف ہوئے.پس فرق ظاہر ہے.ابطال تثلیث (خادم) ا.تثلیث کا عقیدہ مسیح سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا اور نہ خود مسیح نے مشرح ذکر کیا.اگر مسیح کو معلوم تھا کہ یہود نے انہیں سولی دے دینا ہے تو انہوں نے اپنا عقیدہ کیوں نہ ظاہر کیا ؟ ۲.تین ایک اور ایک تین.یہ آپس میں ضدین ہیں.اگر مان لیا جاوے کہ ایک تین ہیں اور تین ایک ہے تو تقسيم الشيء الى نفسه لازم آتی ہے.اور وہ محال ہے.کیونکہ ایک کی تقسیم الی اجزائہ تو ہو سکتی ہے مگر الی نفسہ نہیں ہوسکتی.۳.تین اقانیم.اگر تینوں کامل ہیں تو ایک ہی کافی ہے تین کی ضرورت نہیں.اگر ناقص ہیں تو مجموعہ بھی ناقص ہوگا.۴ یوحنا ۳/۱۷ حقیقی اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح جسے تو نے بھیجا ہے جانیں.“ ۵- مرقس ۱۲/۳۰.خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے.“.متی ۲۲/۳۷ - خداوند ایک خدا سے محبت رکھ.“ ۷.استثنا ۴/۳۵.”خداوند و ہی خداوند ہے.اُس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں.“ ۸ - استثنا ۴/۳۹ خداوند و ہی خدا ہے کہ جوا و پر آسمان کے ہے.“ 66 ۹ استثنا۶/۴ - خداوند وہی خدا ہے.خدا ایک ہے.۱۰.یسعیاه ۴۵٫۵ و ۴۶/۵.” میں ہی خداوند ہوں اور میرے سوا کوئی اور معبود نہیں.اور نہ ہی میرے مشابہ ہے.“
101 ۱۱.مرقس ۱۳/۳۲.علم میں مساوی نہیں.۱۲.متی ۲۳ - ۲۰/۲۹.قدرت میں مساوی نہیں.۱۳.تثلیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے ترکیب ماننی پڑتی ہے اور مرکب غیر کا محتاج ہوتا ہے.اس سے اس کا ممکن ہونا ثابت ہے جو اس کی عدم الوہیت کو ثابت کرتا ہے.۱۴.اقانیم ثلاثہ میں جو امتیاز ہے وہ یا تو صفت کمال ہوگی یا نہ ہوگی اگر صفت کمال ہے تو باقی دواقنوم ناقص ہوئے.ورنہ وہ ناقص ہوا.۱۵.انسانیت محدود ہے.الوہیت بھی اس کے ساتھ مل کر محدود ہو جائے گی.۱۲.اگر الوہیت مسیح یا تثلیث درست ہو تو ہر ایک خدا کو مرکب فی الجزئکین یعنی ما بہ الاشتراک اور مابہ الامتیاز ماننا پڑے گا اور مرکب خدا نہیں ہوسکتا.۱۷.اگر مسیح واقعی خدا اور ابن اور اقنوم ثالث تھے اور ان کے حق میں بائبل میں پیشگوئیاں ہیں.تو بتاؤ یہود نے ان پیشگوئیوں کی کہاں تصدیق کی ہے؟ کیونکہ وہ انبیاء کے حقیقی وارث ہیں.اگر کہو وہ تعصب سے پیشگوئیوں کو نہیں مانتے تو یہ فضول سی بات ہے کیونکہ وہ متعصب تب ہوئے جب مسیح آچکے.جب آئے بھی نہ تھے اس وقت تو وہ مانتے ہوں گے اس وقت کی تصدیق بتاؤ کہ وہ مسیح ابن خدا کی آمد کے منتظر ہیں.تحریف بائبل قرآن مجید اہل کتاب کے متعلق فرماتا ہے:.ا - يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ قَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظَّامِمَّانُ كِرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ على خَابِنَةٍ مِنْهُمْ (المائدة: (۱۴) یعنی اہل کتاب کے متعلق تین باتیں یا درکھو: (۱) تحریف کرتے ہیں.(۲) دو قسم کی تحریف لفظی و معنوی.(۳) تو ہمیشہ ان کی خیانت پر اطلاع پا تا رہے گا.سو یہ لوگ واقعی ان تین صفات سے متصف ہیں.خود بائیبل میں لکھا ہے:.ان لوگوں نے شریعتوں کو عدول کیا.قانونوں کو بدلا (یسعیاه ۲۴/۵ و برمیاه ۸/۸) انجیل میں امکان تحریف.(مکاشفه ۲۲/۱۹،۱۸)
102 اب دیکھیئے تحریف مشتے از خروارے.اولاً وہ حوالجات پیش کرتا ہوں جو پرانی انا جیل ۱۸۹۶ء سے پہلے والی میں ہیں مگر بعد کے مطبوعہ میں نہیں ہیں.ا.متی ۱۷/۲۱ پر یہ جنس بغیر دعا اور روزہ کے نہیں نکلتی.“ متی ۱۸/۱۱.کیونکہ انسان کا بچہ کھوئے ہوؤں کو بچانے کے لیے آیا ہے.“ ۳.مرقس ۷/۱۶.اگر کسی کے کان سننے کے ہوں سن لے “ -۴ مرقس -۹/۴۴ - " جہاں ان کا کیڑا نہیں جاتا اور آگ نہیں بجھتی.“ -۵- مرقس ۱۱۱۲۶." پر اگر تم معاف نہ کرو تو ہمارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہارا قصور معاف نہ کرے گا“.۶.مرقس ۱۵/۲۸.تب پورا ہوا وہ نوشتہ جو کہتا ہے کہ وہ بدکاروں میں گنا گیا.“ ۷.لوقا ۱۷٫۳۶.دو کھیت میں ہوں گے.ایک لیا جائے گا.دوسرا چھوڑا جائے گا.“.لوقا ۲۳/۱۷.اور اسے لازم تھا کہ ہر عید میں کسی کو ان کے واسطے چھوڑ دے.“.یوحنا ۹/۴.چونکہ ایک فرشتہ اس حوض میں اتر کر پانی کو ہلاتا تھا.سو پانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی پہلے اس میں اتر تا تھا کیسی ہی بیماری میں گرفتار کیوں نہ ہو.چنگا ہو جاتا تھا.۱۰.اعمال ۱۵/۳۴ پر سیلاس کو وہاں رہنا پسند آیا.“ ا.متی ۱۹/۱۷.پرانی انجیل کے الفاظ :.”اس نے اسے کہا.تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے.نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.“ نئی انجیل کے الفاظ : " تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے.“ ۱۲.یوحنا کا پہلا خط ۵۱۷.تین ہیں جو آسمان پر گواہی دیتے ہیں.باپ.کلام.روح القدس.اور یہ تینوں ایک ہیں.۱۲.یوحنا انجیل ۷/۵۳.اور ہر ایک اپنے گھر کو گیا.“ ۱۴- یوحنا ۷٫۵۳ و اتا/ ۱۸ قلمی نسخوں میں نہیں پائی جاتیں.۱۵- استثنا ۵ تا ۳۴/۱۲ ( یہ موسیٰ کی پانچویں کتاب ہے ) اس میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ مرگئے.اگر یہ الہامی ہیں تو کس پر اتریں.حضرت موسیٰ تو زندہ نہ تھے.یہ الحاق ہے.
103 ۱۶.( تازہ تحریف) ۱۹۳۱ء سے پہلے کی چھپی ہوئی تمام بائبلوں میں استثناء ۳۳/۲ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی بایں الفاظ تھی کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.وہ فاران کی چوٹیوں سے ان پر جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد دسیوں کے ساتھ آیا.اس آیت میں پیشین گوئی تھی جو فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی.اس دن آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ تھے مگرنئی بائبل میں جوا۱۹۳ء میں چھپی ہے.دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا.“ کی بجائے لاکھوں قدوسیوں میں سے آیا.“ کر دیا ہے.ع کچھ تو لو گو خدا سے شرماؤ ۱۷.انجیل مطبوعہ ۱۸۹۶ منتی ۲۴۱۷ یوں تھی :.جگہ جگہ کال پڑیں گے، مری پڑے گی اور بھونچال آئیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشتی نوح میں ”مری پڑے گی“ کا حوالہ منتی کے نام سے دیا ہے.عیسائیوں نے ۱۹۰۸ء کی شائع کردہ انجیل سے’مری پڑے گی‘ نکال دیا ہے.مگر لطف یہ ہے کہ انجیل لوقا ۲۱ اردو میں اب تک موجود ہے.جابجا کال اور مری پڑے گی.“ مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حوالہ لوقا کا نہیں دیا اس لئے لوقا میں تحریف نہیں کی گئی اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ انگریزی انجیل میں ملتی ۲۴۱۷ میں اب بھی مری پڑنے کا ذکر موجود ہے :."There shall be famines and pestilences and earth quakes." (The Holy Bible Printed in Great Britain 1917) ۱۸.یشوع اور ایوب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یشوع مر گیا.( یشوع ۲۴/۲۹) ایوب مر گیا (۴۲/۱۷) اس قسم کی سینکڑوں ہزاروں تحریفیں اور اضافے بائیل میں موجود ہیں.پس یہ کتاب کس طرح الہامی کہلا سکتی ہے؟ (امریکن بائیبل کے نئے ایڈیشن میں سے مرقس کی آخری آیات کو جن میں مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہے نکال دیا گیا ہے.)
104 اختلافات بائبل لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء : ۸۳) نوٹ :.تناقضات و اختلافات بائبل کا مضمون در اصل تحریف بائبل کے مضمون کا ضروری جزو ہے کیونکہ الہامی کلام میں تناقضات کا وجود اس بات کو قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ ان دو مختلف اور متناقض بیانات میں سے ایک ضرور ہی انسانی تحریف یا بعد کا الحاق ہے.دونوں کلام خدا کے نہیں ہو سکتے.پس پادری صاحبان کے لیے دو راستوں میں سے ایک راستہ کھلا ہے.یا تو ہمارے پیش کردہ حوالوں میں تطابق ثابت کریں یا اس بات کا اقرار کریں کہ موجودہ بائبل محرف ومبدل ہے.ا.ا.سلاطین ۱۵/۳۲ میں لکھا ہے کہ آسا اور شاہ اسرائیل بعشا کے درمیان ان کی تمام عمر لڑائی رہی.اور ۲.تواریخ ۱۵/۱۹ میں لکھا ہے کہ آسا کی سلطنت کے پنتیسویں برس پھر لڑائی نہ رہی.۲.۱.سموئیل ۲۱/۱ میں لکھا ہے کہ داؤدا کیلا انیملک کا ہن کے پاس آیا مگر مرقس ۲/۲۶،۲۵ میں لکھا ہے کہ داؤد اپنے ساتھیوں سمیت ابیا تار کا ہن کے گھر گیا.-۳ پیدائش ۲۴ تا ۴۶/۲۷ میں لکھا ہے کہ یعقوب اپنی صلب سے پیدا شدہ اولا دا ور اولاد کی بیویوں سمیت کل چھیاسٹھ مردوں کے ساتھ آیا مگر خروج ۱/۵ میں لکھا ہے کہ صرف یعقوب اپنے ضلمی بیٹوں کے ساتھ جن کی تعداد ۷۰ تھی آیا..پیدائش ۲۲/۱۴ میں لکھا ہے کہ ابراہیم نے خدا کودیکھا اور اس جگہ کا نام یہوواہ بری رکھا.مگر خروج ۲ ۶/۳ میں لکھا ہے.خدا موسیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے ابراہیم واسحاق و یعقوب پر اپنا یہوواہ نام ظاہر نہیں کیا.۵.یرمیاہ ۴، ۳۴/۵ میں ہے کہ اے صدقیاہ ! تو تلوار سے نہیں مرے گا بلکہ آرام سے اور تجھ پر خوشبوئیاں سلگائی جائیں گی مگر یرمیاہ ۵۲/۱،۱۰ میں لکھا ہے کہ صدقیاہ کے سامنے اس کے بیٹوں کو مارا گیا پھر اس کی آنکھیں نکالی گئیں اور پیتل کی زنجیروں سے جکڑا گیا اور مرنے کے دن تک قید خانہ میں رہا..۲ سلاطین ۲۴/۶ میں لکھا ہے.یہو یقیم بادشاہ باپ دادوں میں شامل ہو کر سور ہا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا بادشاہ ہوا مگر یرمیاہ ۳۶/۳۰ میں لکھا ہے کہ وہ بمع خاندان کے تباہ کیا جائے گا.اس کی نسل سے کوئی تخت نشین نہ ہو گا اور اس کی لاش پھینکی جائے گی تا کہ گرمی اور سردی میں باہر رہے.۶
105 ۷.مرقس باب ۴۶، ۱۰/۴۷ میں لکھا ہے کہ بریجو سے نکلتے وقت راستے میں ایک اندھا نکلا مگرمتی ۲۰/۳۰،۲۹ میں لکھا ہے کہ دواند ھے ملے.۸- مرقس ۵/۲۱ که یسوع کو ایک بدروح والا ملا مگر منتی ۸/۲۸ میں دو کا ذکر ہے.۹ مرقس ۱۶/۵ میں مسیح کی قبر میں ایک سفید پوش آدمی مگر لو قا۴/ ۲۴ میں دو آدمیوں کا ذکر ہے.۱۰ مرقس ۱۵/۳۲ و متی ۲۷/۴۴ دونوں میں ہے کہ مسیح کے ساتھیوں یعنی دونوں چوروں نے مسیح کو ملامت کی اور طعنہ کیا مگر لوقا ۳۹ ۲۳/۴۰ میں لکھا ہے کہ ایک نے طعنہ دیا اور دوسرے نے اپنے ساتھی کو اس بات سے باز رکھا.ا.یوحنا ۲۰/۱۷.میرے بھائیوں کو کہ دو کہ میں اب خدا اور باپ کے پاس آسمان پر جاتا ہوں لیکن منتی باب ۲۸/۱۰ میں ہے کہ میرے بھائیوں کو کہو کہ کلیل کو جاویں.وہاں مجھے دیکھیں گے.۱۲.متی ۲۷۱۷،۵ کہ مسیح کو پکڑوانے والے یہودا اسکر یوطی نے مسیح کی گرفتاری پر جو روپیہ لیا تھا اس کو ہیکل میں واپس آکر پھینک دیا مگر اعمال ۱/۱۸ میں لکھا ہے کہ اس نے اس روپیہ سے ایک کھیت مول لیا.۱.متی ۱۲/۴۰ میں ہے کہ مسیح نے یونس جیسا معجزہ دکھانے کا اظہار کیا مگر متی اتا۲۸/۷ اور یوحنا ۲۰/۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اپنی قبر میں صرف ایک ہی دن رہا اور پھر غائب ہو گیا.۱۴.متی ۲۶/۳۴ و یوحنا ۱۳/۳۸ ان دونوں حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پطرس کو مرغ کی بانگ سے قبل ہی مسیح کا انکار کرنا پڑے گا مگر مرقس ۶۷ تا ۱۴/۷۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرغ کے دو بار بانگ دینے کی شرط ہے نہ کہ مطلق بانگ سے قبل کی اور ایسا ہی ہوا.۱۵.لوقا و۲۳/۱۶ میں مسیح نے اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھ کر عید الفطر کے دن جس میں فسح کرنا ضروری تھا بیٹھ کر کھانا کھایا اور یوحنا۱۹/۱۴ اسے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بے چارا تو عدالت میں رہا.۱۶.یوحنا ۱۲/۲۸ میں مسیح اپنے آپ کو باپ سے چھوٹا کہتا ہے مگر فلپیوں ۲/۶ میں خدا کے برابر ہونے میں غنیمت نہ جانا.۱۷.یوحنا ۵/۳۱ میں مسیح نے اپنے متعلق اپنی گواہی کو سچا قرار نہیں دیا اور یوحنا ۸/۱۴ میں اپنی گواہی کو سچا قرار دیا.۱۸.متی ۵/۳۹ میں لکھا ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ اگر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری گال
106 آگے کر دو گر لوقا ۲۲/۳۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو بٹوے اور جھولی اور کپڑے بیچ کر تلوار خریدنے کا اپنی حفاظت کے لیے حکم دیا.۱۹.متی ۸/۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر نحوم میں داخل ہوتے ہی ایک صو بیدار نے اپنے لڑکے کے علاج کے لیے بڑی منت سماجت کی اور لوقا ۲.۷ اے سے معلوم ہوتا ہے کہ صو بیدار پاس آیا ہی نہیں یہودیوں نے سفارش کی تھی.۲۰ اعمال ۹۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ سولس ( جو پولوس ہی ہے ) پر نور آیا اور ساتھیوں نے آواز سنی.مگر کسی نے نہ دیکھا مگر اعمال ۲۲/۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتھیوں نے نور د یکھا مگر آواز نہ سنی.اسموئیل ۴ ، ۳۱/۵ میں ہے کہ ساؤل نے خودکشی کی مگر ۲ سموئیل ۵ ،۱۱۰ میں ہے کہ ایک ۲۱.عمالیقی نے ساؤل کو مارا.۲۲ لوقا ۲۳/۲۶ که شمعون نام کرینی یسوع کے پیچھے پیچھے صلیب لیے پھرتا رہا اور یوحنا۱۹/۱۷ میں ہے.یسوع آپ اپنی صلیب اٹھا کر کھوپڑی مقام تک لے گیا.۲۳.پیدائش ۵۰/۱۳ میں ہے کہ یعقوب کا مدفن مکفیلہ کے کھیت کے کنارے میں جس میں ابراہام نے گورستان کی ملکیت کے لئے عفرون حتی سے عمرے کے مقابل مول لیا تھا.گاڑا اور اعمال ۱۶/ے میں ہے.اس مقبرے میں جس کو ابراہام بنی ہمور سے لیا تھا گاڑا.۲۴.گنتی ۳۸، ۳۳/۳۷ میں ہے کہ ہارون کی وفات کوہ ہورا روم میں ہوئی.مگر استثنا ۱۰/۶ میں لکھا ہے کہ موسیرہ میں ہوئی.۲۵.رومیوں ۲/۱۳ میں لکھا ہے کہ شریعت پر چلنے والا راستباز اور رومیوں ۳/۳۰ میں لکھا ہے راستباز نہیں.پیدائش ۲۵ تا ۱/۲۷ میں لکھا ہے کہ انسان کو حیوانات کے بعد پیدا کیا مگر پیدائش ۱۸.۲/۲۰ میں لکھا ہے کہ انسان حیوانات سے پہلے پیدا ہوا.۲۷.پاک جانور سات سات نر و مادہ اور ناپاک دو دو نر اور ان کی مادہ کشتی نوح میں چڑھائے.پیدائش ۷۱۲ اور پیدائش ۶/۱۹، ۷/۸ ۷/۱۴ میں لکھا ہے پاک جانور بھی دو دوکشتی میں رکھے.۲۸.اسلاطین ۷/۱۵ ہر ایک ستون ۱۸ ہاتھ اونچا اور ہر ایک گھیر سوت کا بارہ ہاتھ مگر ۲ تواریخ ۳/۱۵ میں ۲ ستون ۳۵ ہاتھ لمبے.
107 ۲۹.خروج ۲۴/۱۰،۹ تب موسیٰ اور ہارون اوپر گئے اور بنی اسرائیل کے خدا کو دیکھا مگر خروج ۲۰ تا ۳۳/۲۳ میں ہے.اور بولا تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا اس لیے کوئی انسان نہیں کہ مجھے دیکھے اور جیتا رہے.یعنی کوئی خدا کو نہیں دیکھ سکتا.۳۰ خروج ۳۱/۱۷ کہ چھ دن میں خدا وند نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا.پھر یسعیاہ ۲۴/ ۴۳ اور اپنی خطاؤں سے مجھے تھکا یا مگر ۴۰/۲۸ میں ہے.خداوند ابدی خدا ہے زمین کے کناروں کو پیدا کرنے والا.وہ تھک نہیں جاتا اور ماند نہیں ہوتا.۳۱.یسعیاہ ۴۵/۲۳ ہر ایک زبان میری قسم کھائے گی مگر متی ۵/۳۵،۳۴ پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ہرگز میری قسم نہ کھانا.ہے ۳۲.پیدائش ۱۷۱۱ میں خدائے قادر ہوں.متی ۱۹/۲۶ پر خدا سے سب کچھ ہوسکتا.مگر قاضیوں ۱/۱۹ میں ہے.خدا نے کو ہستانیوں کو خارج کیا پر نشیب کے رہنے والوں کو خارج نہ کر سکا کیونکہ ان کے پاس لوہے کی لاٹھیں تھیں.۳۳.گنتی ۲۳/۱۹ خدا انسان نہیں جو جھوٹ بولے نہ آدم زاد ہے کہ پشیمان ہو نیز اسموئیل ۲۹/ ۱۵ مگر پیدائش ۶/۶ میں ہے.تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا.۳۴.یوحنا ۳/۳۵ باپ بیٹے کو پیار کرتا ہے اور سب چیزیں اس کے ہاتھ میں دی ہیں مگر مرقس ۶/۵ میں ہے اور وہ کوئی معجزہ وہاں نہ دکھا سکا.۳۵.۲ سموئیل ۲۶۱/ ۲۴ بعد ا سکے خداوند کا غصہ اسرائیل پر بھڑ کا کہ اس نے داؤد کے دل میں ڈالا کہ ان کا مخالف ہو مگر ا تواریخ ۲۱/۱ میں ہے کہ شیطان نے داؤد کو بھڑ کا یا.۳۶.امثال ۳۰/۵ خدا کا ہر ایک سخن پاک ہے مگر ہوسیع ۱/۲ خدا نے ہوسیع کو فرمایا کہ جا اور ایک زنا کار عورت اور زنا کے لڑکے اپنے واسطے لے.۳۷.۲۰/۴ خروج.تو اپنے لیے مورت یا کسی چیز کی صورت جو او پر آسمان پر یا پانی میں یا زمین کے نیچے ہے مت بنا مگر خروج ۲۵/۲۰ تصویریں بنائی گئیں.۳۸.ہیمیتھیں ۶۷/۱۶ خدا نور میں رہتا ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا مگر اسلاطین ۸/۱۲ تب سلیمان نے کہا کہ خداوند نے فرمایا تھا کہ میں گھٹا کی تاریکی میں رہوں گا.
108 ۳۹.۲ تواریخ ۳۶/۹ یہویکین آٹھ برس کی عمر میں بادشاہ ہوا مگر ۲ سلاطین ۲۴/۸ میں ہے کہ یہویکین جب تخت پر بیٹھا اس وقت وہ اٹھارہ برس کا تھا.۴۰ ۲ سلاطین ۲۴/۸ یہویکین نے تین مہینے بادشاہت کی مگر ۲ تواریخ ۳۹/۹ میں تین ماہ دس روز سلطنت کی.۴۱ - ۲ سلاطین ۲۵/۱۹ پانچ آدمی جو بادشاہ کا منہ دیکھتے تھے پکڑے مگر یرمیاہ ۵۲/۲۵ میں ہے.بادشاہ کے مصاحبوں میں سے سات شخصوں کو پکڑا گیا.۴۲ زبور ۹۲/۱۲ صادق کھجور کے درخت کی مانند لہلہائے گا مگر یسعیاہ ۵/۱ میں ہے کہ راستباز ہلاک ہوتا ہے.۴۳.امثال ۱۲/۲۱ صادق پر کوئی بڑا حادثہ نہ پڑے گا مگر عبرانیوں ۱۲/۶ خداوند جسے پیار کرتا ہے اسے تنبیہ کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنالیتا ہے اس کو کوڑے بھی لگاتا ہے.۴۴- ۵۵ زبور آیت ۲۳.خونی اور دغا باز لوگ اپنی آدھی عمر کو نہ پہنچیں گے مگر ایوب ۲۱/۹٫۷ میں شریروں کی عمر زیادہ بتلائی ہے.۴۵.زبور ۷۳/۱۲ دیکھو یہ شریر جو سدا اقبال مند رہتے ہیں وہ اپنی دولت بڑھاتے جاتے ہیں مگر ایوب ۵، ۱۸/۹ میں ہے.ہاں شریر کا چراغ ضرور بجھایا جائے گا.۴۶.امثال ۲۰۱۱ کے یعنی شراب مسخر بناتی اور مست بنانے والی ہے.نیز امثال ۳۱ ۲۳/۳۲ مگر استثنا۱۴/۲۶ میں ہے.جس چیز کو تیرا جی چاہے مول لے ئے ہو یا مسکریا اور کوئی چیز.۴۷ ۲ سموئیل ۶/۲۳.ساؤل کی بیٹی میکل مرتے دم تک بے اولا در ہی مگر ۲ سموئیل ۲۱/۸ میں ہے.میکل بنت ساؤل کے پانچ لڑکے.۴۸.یوحنا ۸/۱۴ یسوع نے کہا اگر میں اپنی گواہی دیتا ہوں تو بھی میری گواہی سچ ہے مگر یوحنا ۵/۳۱.اگر میں اپنی گواہی آپ دوں تو میری گواہی حق نہیں.۴۹.یسوع ملعون ( گلتیوں ۳/۱۳).ملعون نہیں ۱.کرنتھیوں ۱۲ باب آیت ۳.۵۰ متی ۲/۲۳ تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا مگر عہد قدیم کے کسی صحیفہ میں یہ پیشگوئی نہیں ملتی.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ پہلے صحیفوں میں یہ پیشگوئی موجود تھی مگر بعد میں نکال دی گئی.یا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ منی میں غلط بیانی کی گئی ہے.دونوں صورتوں میں سے کوئی
109 بھی صورت ہو بائیل کا پایۂ اعتبار سے گرنا ثابت ہے.من نه گویم که این مکن آن کن مصلحت بین و کار آساں کن ۵۱.اور اس وقت جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہوا کہ انہوں نے اس کی قیمت کے وہ تمہیں روپے لے لئے (متی ۲۷۱۹) حالانکہ یہ یرمیاہ کی معرفت نہیں کہا گیا تھا بلکہ ذکر یا نبی کی معرفت کہا گیا تھا.(دیکھوڑ کر یا ۱۲ ۱۱/۱۳) ۵۲.یہودا اسکر یوطی نے جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی.(متی ۲۷/۵) لیکن اعمال ۱۱۱۸.وہ سر کے بل گرا.اس کا پیٹ پھٹ گیا اور ساری انتڑیاں نکل پڑیں.“ ۵۳.ایک سردار (یا ئر نامی ) نے آکر کہا کہ میری بیٹی مر چکی ہے.(متی ۹/۱۸) لیکن لوقا۸/۴۲ و مرقس ۵/۲۳ میں ہے کہ ”میری بیٹی مرنے کو ہے تو چل تا کہ وہ نہ مرے“.خلاف عقل و مشاہدات امور ا.خدا پچھتایا.پیدائش ۶/۶ علیم گل.پھر پچھتایا خلاف عقل ہے.۲.خرگوش جگالی کرتا ہے (احبار ۱۱/۶) خلاف مشاہدہ ہے..مر بوع جنگلی چو ہاجگالی کرتا ہے.استثنا۱۴۱۷ ۴.باپ سے بیٹا دو سال بڑا.یہود رام بادشاہ کا باپ چالیس سال کی عمر میں مرا.۲ تواریخ ۲۱/۵.تو اس کا بیٹا ۴۲ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا.۲.تواریخ ۲۲/۲۱.عیسائیت میں عورت کی حیثیت اسلام: (۱) عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء: ۲۰) (۲) هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ (البقرة: ۱۸۸) (۳) خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمْ لَاهْلِه (ترمذى كتاب المناقب باب فضل ازواج النبي ابن ماجه ابواب النكاح باب حسن معاشرة النساء ) (۴) خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (النساء: ۲) (۵) الْجَنَّةُ تَحْتَ اَقْدَامِ أُمَّهَاتِكُمُ.(روح البيان جز نمبر ۳ صفحه ۳۳۲ سورۃ الانفال آیت نمبر ۲۵) (۵) وَ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ.(بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم) مگر انجیل : (۱) عور تیں کلیسا کی مجلس میں نہ بولیں.(۱) کرنتھیوں ۱۴۱۳۴)
110 ۲.عورتیں سر نہ گوندھیں.سنگار نہ کریں.اچھے اور قیمتی کپڑے نہ پہنیں.(۱.پطرس ۳/۳ و امتیمتھیس ۸ تا۲/۱۰) ۳.عورتیں لمبے بال رکھیں.بال نہ کٹوا ئیں.(۱.کرنتھیوں ۵ ۱۴.۱۱/۱۶) ۴.مرد عورت کے لیے نہیں بلکہ عورت مرد کے لیے پیدا ہوئی.(۱.کرنتھیوں ۱۱/۱۹) ۵.عورت اپنے خاوند سے ہی پڑھے.(۱.کرنتھیوں ۱۴٫۳۵).عورت معلمہ نہ بنے.(تیمتھیس ۱۱ تا ۲/۱۳) ے.مرد کے لیے اچھا ہے کہ وہ عورت کو نہ چھوئے.(۱.کرنتھیوں ۷/۱ و ۷/۸).شادی کرنے سے شادی نہ کرنا بہتر ہے.(۱.کرنتھیوں ۸، ۳۲٬۲۹،۲۸ تا ۷/۴۰)
111 صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے بائیل پہلی دلیل: الف.وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے.“ (استثنا۱۸/۲۰) ب خداوند یوں کہتا ہے کہ ان نبیوں کی بابت جو میرا نام لے کر نبوت کرتے ہیں.جنہیں میں نے نہیں بھیجا.یہ نبی تلوار اور کال سے ہلاک کئے جائیں گے.( یرمیاہ : ۱۴ تا ۱۴/۱۶) ج.اور وہ جھوٹا نبی یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے گا.‘ (استثنا: ۱۳/۵) و.اور میرا ہاتھ ان نبیوں پر جو دھوکہ دیتے ہیں اور جھوٹی غیب دانی کرتے ہیں چلے گا....میں اپنے غضب کے طوفان سے اسے توڑوں گا اور میرے قہر سے چھما چھم مینہ برسے گا اور میرے خشم 66 کے پتھر پڑیں گے تاکہ اسے نابود کریں.(حزقی ایل باب ۱۳ آیت ۹ تا ۱۳).چنانچہ انجیل اعمال ۳۶، ۵/۳۷ میں دو جھوٹے نبیوں کا ذکر بھی ہے جو مارے گئے اور ان کے متبعین تتر بتر ہو گئے.پہلے کا نام تھی اس اور دوسرے کا نام یہود گیلی تھا.دوسری دلیل : یسوع کہتا ہے.” تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کر سکتا ہے.“ (یوحنا ۸/۴۶) نیز یوحنا ۱۴/۱۹ ” میں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں.“ حضرت مرزا صاحب : ” کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.“ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۴) تیسری دلیل : قبولیت دعا: ”جو دعا ایمان کے ساتھ ہوگی اس کے باعث بیمار بچ جائے گا اور خداوند اسے اٹھا کھڑا کرے گا.اور اگر اس نے گناہ کئے ہوں تو ان کی بھی معافی ہو جائے گی.پس تم آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو.اور ایک دوسرے کے لیے دعامانگوتا کہ شفا پاؤ.راستباز کی دعا کے اثر سے بہت کچھ ہوسکتا ہے.“ ( یعقوب ۱۵ تا ۵/۱۷ و یوحنا ۹/۳۱) میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تمہیں ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے.“ ( ضرورة الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۷)
112 مثالیں : عبد الکریم ، عبد الرحیم ابن نواب محمد علی خان صاحب، وعبد الحی صاحبزادہ حضرت خلیفة المسیح الا قول رضی اللہ عنہ چوتھی دلیل:.اے اسرائیلیو! یسوع ناصری ایک شخص تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پران معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اس کی معرفت تم کو دکھائے.“ (اعمال ۲/۲۲ و یوحنا ۳/۲ و ۹/۱۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام :." اور میرے مقابلہ سے خواہ اعجازی کلام میں اور خواہ آسمانی نشانوں میں تمام لوگوں کا عاجز آجانا اور میری تائید میں خدا تعالیٰ کی لاکھوں پیشگوئیاں پوری ہونا.یہ تمام نشان اور علامات اور قرائن ایک خدا ترس کے لئے میرے قبول کرنے کے لئے کافی ہیں.“ ( تذكرة الشهادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱ ) (۲) ''اور جن نشانوں نے اس حکم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آچکے ہیں.اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے.آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے، زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بند نہ رہیں.“ ( ضرورة الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۶ ) پانچویں دلیل:.کبھی نصرت نہیں ملتی در مولی سے گندوں کو (۱) پولوس رسول کہتا ہے : ” کیونکہ یہ تدبیر کا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہوا تو آپ برباد ہو جائے گا لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم ان لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے.“ (اعمال ۵/۳۹) ( ب ) ” جو پودا خدا نے نہیں لگایا.وہ جڑ سے اکھاڑا جائے گا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متی ۱۵/۱۳ و زبور ۱۵ تا ۳۴/۲۰ و امثال ۱۲/۲۱ و یسعیاه ۹/۱۴) یہ اگر انساں کا ہوتا کا روباراے ناقصاں ایسے کا ذب کے لئے کافی تھاوہ پروردگار کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہر یار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفر ۱۳۴) تفصیل نشانات دیکھو مضمون صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشمولہ ہذا.خادم
113 چھٹی دلیل:.دانیال نبی کہتا ہے:.جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ مکروہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی.ایک ہزار دوسونوے دن ہوں گے.مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے.۱۳۳۵ روز تک آتا ہے.“ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام۱۲۹۰ھ ہی میں مبعوث ہوئے.(دانیال ۱۲/۱۲/۱۱) ۱۲۹۰ یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سونوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ پاچکا تھا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۸) ساتویں دلیل: مسیح موعود مشرق سے آئے گا اور مغرب کی طرف بجلی کی طرح اس کی تبلیغ پہنچے گی.“ ( متی ۲۴/۲۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”خدا نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے چن لیا.میں گمنام تھا مجھے شہرت دی اور اس قدر جلد شہرت دی کہ جیسا کہ بجلی ایک طرف سے دوسری طرف اپنی چپکا ر ظاہر کر دیتی ہے (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۷) آٹھویں دلیل:.(۱) ستارے گریں گے اور چاند اور سورج تاریک ہو جائیں گے.( متی ۲۴/۲۹) یہ چاند اور سورج گرہن ۱۸۹۴ء بمطابق رمضان ۱۳۱۱ھ میں ظاہر ہوا.(۲) چاند سورج اور ستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے.“ (لوقا ۲۱/۲۵) نویں دلیل: لڑائیاں ہوں گی، بھونچال آئیں گے اور مری پڑے گی.(طاعون ) (لوقا ۲۱/۱۱ و زکریا ۱۴/۱۲) چنانچہ بائبل انگریزی زکریا ۱۴/۱۲ میں تو لفظ پلیگ PLAGUE“ بھی موجود ہے.۱۸۸۲ء میں یہ طاعون بھی پڑی.تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لیے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار دسویں دلیل: ” تو جان رکھ کہ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے وہ واقع اور پورا نہ ہوتو وہ بات خدا نے نہیں کہی.(استثنا۱۸/۲۲)
114 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہزاروں پیشین گوئیاں پوری ہوئیں.تفصیل دیکھو مضمون حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں مشمولہ کتاب ہذا.گیارہویں دلیل:.یسوع نے جھوٹے اور بچے نبی میں امتیاز یہ بتایا ہے:.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.“ ( متی ۱۶ تا ۷/۲۰ ولو قا ۴۴ ، ۶/۴۵ و متی ۳۳/ ۱۲ و یوحنا ۱۶ تا ۱۵/۲۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی عملی حالت دیکھو.بارھویں دلیل:.” پیادوں نے جواب دیا کہ انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا جیسا کہ یہ انسان کرتا ہے.“ ( یوحنا ۷۱۴۶) گویا مسیح کا بے مثل کلام مسیح کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل تھی اور یہی دلیل قرآن مجید نے اپنی صداقت کی پیش کی ہے: لَبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أنْ يَأْتُوْا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظهيرا (بنی اسرائیل : ۸۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.ا.میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۶ ) ۲ اعجاز احمدی لکھ کر دس ہزاری انعام شائع فرمایا.لکھا کہ ”خدا تعالیٰ اُن کی قلموں کو توڑ دے گا اور اُن کے دلوں کو نبی کر دے گا.“ (اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد 9 اصفر ۱۳۴۸) ۳.اعجاز ا مسیح “ وغیرہ سے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے تیرھویں دلیل:.نبی ہی غالب آتے ہیں.میں نے یہ باتیں تم سے اس لیے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاؤ.دنیا میں مصیبت اٹھاتے ہولیکن خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں.“ ( یوحنا۱۶/۳۳) نیز.یوحنا ۵/۴.قرآن مجید میں بھی ہے.كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلة: ۲۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.
115 وٹھٹھا کرو جس قدر چاہو ، گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو جس قدر چاہو پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اُس کا ہاتھ غالب ہے (اربعین نمبر۳.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۳ ۴۰ ۴۰۴۰ ) چودھویں دلیل:.انبیاء کی جماعتیں تدریجا ترقی کرتی ہیں.”دیکھو جہان اس کا پیرو ہو چلا ( یوحنا۱۲/۱۹) جماعت احمدیہ کی تدریجی ترقی کو دیکھو.
116 صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عیسائیوں کے اعتراضات پہلا اعتراض: مسیح ناصری نے آسمان سے آنا تھا.مرزا صاحب مسیح کیسے ہو سکتے ہیں؟ الجواب نمبر :.یہ کہنا کہ مسیح ناصری خود آئے گا غلط ہے.خود مسیح نے کہہ دیا ہے کہ میں اب واپس دنیا میں نہیں آؤں گا بلکہ جو کوئی آئے گا ”میرے نام پر آئے گا.دیکھو یوحنا ۱۶/۱۰.” میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.متی ۲۳/۳۹ میں ہے.اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.‘ (متی ۲۳/۳۹) جواب نمبر ۲:.جس طرح یوحنا ایلیاہ ہوسکتا ہے.حضرت مرزا صاحب بھی مسیح ہو سکتے ہیں.توریت میں ہے :.ایلیاہ رتھ سمیت آسمان پر چڑھ گیا.‘ (۲.سلاطین ۲/۱۱) پھر لکھا ہے:.ایلیاہ دوبارہ دنیا میں آئے گا.(ملا کی ۴/۵) مگر وہ آسمان سے نازل نہ ہوا.یسوع نے یوحنا کو جو پیدا ہوا تھا ”ایلیاہ“ قرار دیا.(متی ۱۱/۱۴) اسی طرح آج تم کہتے ہو کہ مسیح آسمان سیآئے گا.جواب نمبر ۳:.انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح موعود پیدا ہوگا.چنانچہ لکھا ہے کہ جب ابنِ آدم (یسوع) نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا.(متی ۱۹/۲۸) دوسرا اعتراض: مسیح تو جلال کے ساتھ آسمان سے اترے گا اور سب لوگ اس پر ایمان لے آویں گے.الجواب:.غلط ہے.(الف) لیسوع نے تو صاف کہا ہے : ”لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا.انہوں نے اس کو نہ پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا.اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دُکھ اٹھائے گا.(متی ۱۷/۱۲) گویا جس طرح انہوں نے ایلیاہ کو جو آنے والا تھا یوحنا“ کی شکل میں نہ پہچانا اور اس کی تکذیب کی.اسی طرح مسیح موعود کی بھی تکذیب کریں گے اور وہی پرانا اعتراض پیش کریں گے کہ اس نے آسمان سے نازل ہونا تھا.(ب) پھر یسوع کہتا ہے :.کہ خدا کی بادشاہت ظاہری طور پر نہ آئے گی.(لوقا ۱۷/۲۰)
117 لہذا آسمان سے جلال کے ساتھ نازل ہونا چہ معنی دارد.(ج) مسیح کی آمد چور کی طرح ہوگی.(۲.پطرس ۳/۱۰ وا ھسلینکیوں ۵۱۲ ولوقا۱۲۱۳۹ومتی ۲۴/۴۳) چور رات کو چھپ کر اور لباس بدل کر آتا ہے یا جلال کے ساتھ اپنی اصلی شکل میں.اسی طرح مسیح نے بھی بھیس بدل کر اپنے مثیل کے رنگ میں آنا تھا مگر تم نے اس کے کلام کونہ سمجھا.تیسرا اعتراض: مسیح نے کہا :.بہت سے جھوٹے مسیح آئیں گے تم ان پر ایمان نہ لانا.مرزا صاحب بھی انہیں میں سے ہیں.خواہ کتنے نشان دکھا ئیں ہم نہیں مانیں گے.الجواب:.یسوع نے جن جھوٹے مدعیان میسحیت ونبوت کا ذکر کیا ہے وہ وہی ہیں جو یسوع کو ” خداوند کہتے ہیں اور اس کے نام سے بدروحوں کو نکالنے کے اور اس کے فیض اور اسی کی برکت سے مسیحیت کے مدعی ہیں.چنانچہ لکھا ہے:.”جھوٹے نبیوں سے خبر دار رہو.جو تمہارے پاس بھیٹروں کے لباس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں.ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے جو مجھ سے اے خداوند ! اے خداوند ! کہتے ہیں اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند ،اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی؟ اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا.اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے.“ ( متی ۱۵ تا ۷/۲۲ ) گویا وہ جھوٹے نبی (۱) بُرے پھلوں والے (۲) یسوع کو خداوند کہنے والے (۳) اسی کی برکت سے سب کچھ کرنے والے ہوں گے.مرزا صاحب میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاتیں.آپ تو یسوع کی الوہیت کے سب سے بڑے دشمن تھے.آپ نے تحفہ قیصریہ میں مسیح کے نام سے آنے والا اپنے آپ کو کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں.اصل مسیح چونکہفوت ہو گیا ہے اس لیے آنے والا مثیل مسیح حضور علیہ السلام ہی کا وجود باجود ہے.ورنہ آپ نے یسوع کے فیض سے نبوت پانے کا بھی دعویٰ نہیں کیا.ہاں یسوع کی عبارت مندرجہ متی ۷/۱۸ میں ڈوٹی جیسے عیسائی مدعیانِ مسیحیت و نبوت شامل ہیں جو الوہیت مسیح کے قائل اور اسی کے نام سے سب کچھ کرنے کے مدعی ہیں.( مثلاً تھیو داس اور یہودا کلیلی دیکھو اعمال ۳۶، ۵/۳۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرنا سراسر ظلم ہے.آپ کی اولاد اور جماعت کو دیکھو.چوتھا اعتراض:.مری پڑنا.لڑائیوں کا ہونا.بھونچال آنا.چاند سورج کا تاریک ہونا
118 وغیرہ.یہ نشان تو مسیح کی آمد ثانی کے پہلے ہونے ہیں نہ کہ اس کی آمد کے بعد.الجواب:.یہ عقلاً غلط ہے.سزا ہمیشہ قانون کی خلاف ورزی کے بعد ہوتی ہے نہ کہ اس سے قبل؟ دنیا میں عالمگیر عذاب ہمیشہ نبی کی بعثت اور اس کی تکذیب کے بعد ہی آیا کرتے ہیں.جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل: ۱۶) اور یہی بات آپ کی توریت میں بھی لکھی ہے.اور یہ ہوگا کہ جو شخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ امت میں سے نیست و نابود ہو جائے گا.(استثنا ۸/۱۹ او اعمال ۳/۲۳) الہذا آپ کی انجیل کے کاتب نے اتنی غلطی کی ہے کہ پیچھے واقع ہونے والی بات کو پہلے لکھ دیا.پس کا تب کا قلم باطل ہے.( یرمیاہ: ۸/۸) اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کی آمدا چا نک ہوگی اور اس کا اس سے قبل کسی کو علم نہ ہوگا.پس اس سے پہلے بیماریاں پڑنا غلط ثابت ہوا.(متی ۳۲ تا ۲۴٫۴۳ مرقس ۳۲ تا ۱۳/۳۷) پانچواں اعتراض:.مرزا صاحب کو ان کے گھر میں قبولیت نہ ہوئی.قادیان میں بھی سب لوگ احمدی نہیں ہوئے.پنجاب اور ہندوستان نے ان کو قبول نہیں کیا.الجواب:.یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ کذب کی.خود یسوع کہتا ہے:.(الف) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کوئی نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا.(لوقا ۴/۲۴) (ب) نبی اپنے وطن اور اپنے گھر کے سوا کہیں بے عزت نہیں ہوتا.(متی ۱۳/۵۷) (ج) یہی تو مسیح ناصری کی پیشگوئی تھی کہ مسیح کی آمد ثانی کے وقت اس کی تکذیب ہوگی اور لوگ اسے نہیں مانیں گے.ا.لیکن پہلے ضرور ہے کہ بہت دُکھ اٹھائے اور اس زمانہ کے لوگ اسے رد کر یں.ابن آدم کے ظاہر ہونے کے دن بھی ایسا ہی ہوگا.“ (لوقا ۱۷/۲۵) ۲.لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آپکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا.اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دُکھ اٹھائے گا.(متی ۱۷/۱۲) (د) نئے عہد نامے میں صاف لفظوں میں موجود ہے کہ تکذیب ہونا اور دکھ پہنچنا سچے نبیوں کی علامت ہے.ملاحظہ ہو.یعقوب ۵/۱۰.”جن نبیوں نے خداوند کے نام سے کلام کیا ان کو دُکھ اٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو تم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے.“
119 چھٹا اعتراض:.مرزا صاحب کی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.محمدی بیگم وغیرہ.الجواب: محمدی بیگم وغیرہ پیشگوئیاں تفصیل سے دوسری جگہ درج ہیں.یہ سب پیشگوئیاں انذاری تھیں اور پوری ہوئیں لیکن تمہاری بائیل سے ثابت ہے کہ انذاری پیشگوئیاں ٹل جایا کرتی ہیں.یونس نبی کی چالیس یومی پیشگوئی دیکھو یوناہ باب ۳ آیت ۴.اسی طرح اپنے پولوس رسول کی پیشگوئی دیکھو اعمال ۱۰ تا ۲/۲۵ پہلے کہا:.اس سفر میں بہت تکلیف اور نقصان ہوگا.نہ صرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی.“ (اعمال ۲۷/۱۰) لیکن بعد میں کہا.خاطر جمع رکھو کیونکہ تم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہ ہو گا مگر جہاز کا ان سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی کی.(اعمال ۲۲ تا ۱۲۴ ۲۷) یسوع کی پیشگوئیوں کا حال مضمون ”قرآنی مسیح وانجیلی یسوع میں مذکور ہے.دیکھو صفحہ ۱۲۸.تم یسوع کی ایک پیشگوئی انجیل سے سچی ثابت کر دو ہم اسکے مقابلہ میں حضرت مرزا صاحب کی دو پیش کریں گے.آؤ میدان میں نکل کر مقابلہ کرو.دیدہ باید جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کو انعامی چیلنج بھی دیا مگر کسی عیسائی کو مقابلہ پر آنے کی جرات نہ ہوئی.حضرت علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.”میرا یہ بھی دعوی ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ثابت ہیں.اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قومی تر دکھلا سکے تو میں اسکو ایک ہزار روپیہ نقد دونگا“ (اشتہار مشمولہ رسالہ انجام آتھم وتبلیغ رسالت جلد ۶ - ص ۱۷) ساتواں اعتراض:.مرزا صاحب کی وفات کے بعد ان کی جماعت میں اختلاف پھیل گیا.الجواب:.ذرا انجیل پڑھو.یسوع کی وفات کے تھوڑا ہی عرصہ بعد پولوس کرنتھیوں کو یوں مخاطب کرتا ہے: "اے بھائیو! تم میں جھگڑے ہورہے ہیں.“ (۱.کرنتھیوں ۱/۱۱) تم میں بڑا نقص یہ ہے کہ آپس میں مقدمہ بازی کرتے ہو.‘ (1 کرنتھیوں ۶/۷) آٹھواں اعتراض :.مرزا صاحب نے اپنے آپ کو مریم قرار دیا.وہ عورت کس طرح بن گئے ؟ الجواب:.انجیل پڑھو.پولوس عیسائیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے: ا.میں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تا کہ پاکدامن کنواری کی مانند تم کو
120 مسیح کے پاس حاضر کروں.‘ (۲ کرنتھیوں ۱۱/۲) گویا عیسائی یسوع کی بیویاں ہیں.۲.میں تجھے دلہن کے بڑے کی بیوی دکھاؤں.(مکاشفہ ۲۱۱۹) اس میں یسوع کے بارہ شاگردوں کو یسوع کی بیویاں قرار دیا گیا ہے.۳.یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا ہے.یہ ہے میری ماں.(لوقا۸/۲۱) نواں اعتراض: مرزا صاحب نے اپنے متعلق حمل، حیض ، در وزہ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو مردوں کے لیے جائز نہیں.الجواب:.یہ سب استعارات ہیں (ان کی تشریح غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جوابات میں دیکھو) یہاں پر مختصر طور پر ذرا انجیل کے مندرجہ ذیل مقامات پڑھ لو.ا.پولوس عیسائیوں کو کہتا ہے :." کاش تم میری تھوڑی سی بیوقوفی برداشت کر سکتے.ہاں تم میری برداشت کرتے تو ہو.مجھے تمہاری بابت خدا کی سی غیرت ہے کیونکہ میں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تاکہ تم کو پاکدامن کنواری کی مانند مسیح کے پاس حاضر کروں.‘ (۲ کرنتھیوں ۱۱/۲۱) گویا تمام عیسائی کنواری عورتیں تھیں اور پولوس نے ان کی شادی مسیح سے کر دی.نوٹ :.اس عبارت میں پولوس نے اپنی بیوقوفی کا ذکر کیا ہے اور رومیوں ۷/۲۴ میں اپنے آپ کو کمبخت آدمی بھی قرار دیا ہے.دد پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے.“ ( یعقوب ۱/۱۵) ۲.پطرس عیسائیوں سے کہتا ہے: ” تم فانی تخم سے نہیں بلکہ تم غیر فانی سے خدا کے کلام کے وسیلے سے نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو.(۱.پطرس ۱/۲۳).جس طرح کہ پیٹ والی عورت جس کے جنے کا وقت نزدیک ہو درد دکھاتی ہے اور اس پیر سے جو اسے لگی چینیں مارتی ہے.اے خداوند ہم تیری نگاہ میں ویسے ہی ہیں.ہم حاملہ ہوئے.ہمیں دردزہ لگا.پر گویا ہوا جنے.“ (یسعیاہ ۲۶/۱۸،۱۷) یہ ہوا جنے کا محاورہ قابل غور ہے.یروشلم ان کے درمیان حائض عورت کی طرح ہے.( یرمیاہ کا نوحہے، ۱۷ اپرانا عہد نامہ ) اری اے بانجھ تو جو نہیں جنتی خوشی سے للکار...کیونکہ تیرا خالق تیرا شوہر ہے.“ (یسعیاه ۱ تا ۵۴/۵)
121 ۶.بنی اسرائیل کو کہا ہے.” تمہارے پیٹ میں کوڑے کا حمل ہو گا تم گرگٹ جنو گے.“ (یسعیاہ ۳۳۱۱) ے.خدا کی بیویوں کے پستان وغیرہ:.”خداوند کا کلام مجھے پہنچا اور اس نے کہا کہ اے آدم زاد! دو عورتیں تھیں.جو ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئیں.انہوں نے مصر میں زنا کاری کی.وہ اپنی جوانی میں یار باز ہوئیں.وہاں ان کی چھاتیاں ملی گئیں اور وہاں ان کے بکر کے پستان چھوٹے گئے.ان میں سے بڑی کا نام آہولہ اور اس کی بہن آہولیہ.اور وہ میری جو روئیں ہوئیں اور بیٹے بیٹیاں جنہیں.“ (حزقی ایل ۱ تا ۲۳/۵) ۸.مذکورہ بالا ہو لیہ کا حال سنو :." تب اس کی زنا کاری عام ہوئی اور اس کی برہنگی بے ستر ہوئی.تب جیسا میرا جی اس کی بہن سے ہٹ گیا تھا ویسا ہی میرا دل اس سے بھی ہٹا.تس پر بھی اس نے اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کر کے جب وہ مصر کی زمین میں چھنالہ کرتی تھی زنا کاری پر زنا کاری کی.سو وہ اپنے ان یاروں پر مرنے لگی جن کا بدن گدھوں کا سابدن اور جن کا انزال گھوڑوں کا سا انزال تھا.“ (حز قیل ۱۸ تا ۲۳/۲۰).جس طرح جوان مرد ایک کنواری کو بیاہ لاتا ہے اسی طرح وہ جو تجھ (یروشلم) کو تعمیر کرتے تجھے بیاہ لے جائیں گے اور جس طرح دولہا دلہن پر ریجھتا ہے.اسی طرح تیرا خدا تجھ پر ریجھے گا.‘ (یسعیاہ ۶۲/۵) ۱۰.خداوند یوں فرماتا ہے کہ تیری ماں کا طلاقنامہ جسے لکھ کر میں نے اسے چھوڑ دیا کہاں ہے؟ تمہاری خطاؤں کے باعث تمہاری ماں کو طلاق دی گئی.“ (یسعیاہ ۵۰) ا.خداوند نے مجھ سے کہا کیا تو نے دیکھا ہے کہ برگشتہ اسرائیل نے کیا کیا ہے؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کے تلے گئی اور وہاں زنا کاری کی اور جب وہ سب کچھ کر چکی تو میں نے کہا کہ میری طرف آ.پر وہ نہ پھری.اور اس کی بے وفا بہن یہوداہ نے یہ حال دیکھا.پھر میں نے دیکھا کہ جب اسی باعث سے کہ اس نے زنا کاری کی تھی.میں نے برگشتہ اسرائیل کو نکالا اور اسے طلاق نامہ لکھدیا.باوجود اس کے اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری.بلکہ اس نے بھی جا کے چھنالہ کیا اور ایسا ہوا کہ اس نے اپنے چھنالے کی بُرائی سے زمین کو نا پاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری کی.“ ( یرمیاہ ۶ تا ۳/۹) ۱۲.زیادہ تفصیل سے یروشلم (خدا کی بیوی ) کی زنا کاری کا حال ملاحظہ ہو.(حزقی ایل باب ۱۶ آیت ۱ تا ۶۳)
122 ۱۳.اور خداوند فرماتا ہے کہ از بسکہ صیہون کی بیٹیاں شوخ ہیں اور گردن کشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی ہیں اور اپنے پاؤں سے مت ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صیہون کی بیٹیوں کی چاندیوں کو گنجی کرے گا اور خداوند ان کے اندام نہانی کو اکھاڑے گا.“ ( يسعيا ه ۱۶، ۳/۱۷) ۱۴ خداوند نے یہوداہ کی کنواری بیٹی کو کولھو میں لتاڑا.(میرمیاہ کا نوحہ باب پہلا آیت ۱۵) ۱۵.پولوس کہتا ہے.کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کرا ہتی ہے اور دردزہ میں پڑی تڑپتی ہے.اور نہ فقط وہی بلکہ ہم بھی آپ اپنے باطن میں کراہ رہے ہیں.(رومیوں ۲۲.۸/۲۳) ۱۶.اے میرے بچو! تمہاری طرف سے مجھے پھر جننے کے سے درد لگے.“ ( گلتیوں ۴/۱۹) ۱۷.خدا کو دردزہ :.میں بہت مدت سے چپ رہا اور آپ کو دیکھتارہا.پر اب میں اس عورت کی طرح جس کو دردزہ ہو چلاؤں گا.ہانپیوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لوں گا.“ ( يسعيا ه ۴۲/۱۴) دسواں اعتراض:.مرزا صاحب نے بعض کتابوں کے حوالے غلط دیئے ہیں.الجواب:.ہم حضرت مرزا صاحب کی کتابوں کو سہو کتابت اور سبقت قلم سے پاک نہیں سمجھتے.خصوصاً جب کہ ہم آپ کو نبی مانتے ہیں مگر ذرا اپنے خداوند یسوع کا بتایا ہوا حوالہ کہ داؤد نے ابا تارسردار کا ہن کے عہد میں اس کے گھر سے نذر کی روٹیاں کہیں بائیل سے نکال دو.نیز متی میں جو یہ لکھا ہے.تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہوا کہ وہ ناصری کہلائے گا.(متی ۲/۲۳) اس کا حوالہ بائبل سے نکال دو.تمہارے انجیلی ملہم کی دیانتداری کا یہ حال ہے کہ یسعیاہ ۱۴/ے کی عبارت کنواری حاملہ ہوگی.بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کا نام عمانوایل رکھے گی.کونقل کرتے ہوئے کنواری حاملہ ہوگی اور بچہ جنے گی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے.“ کر دیا ہے.محض اس لیے کہ تمہارے خداوند کا نام اس کی والدہ نے عمانوایل نہیں بلکہ یسوع رکھا تھا.ھے کچھ تو لو گو خدا سے شرماؤ گیارہواں اعتراض :.مرزا صاحب کی عبداللہ آتھم والی پیشگوئی پوری نہ ہوئی؟ الجواب: اس میں شرط تھی.۱۵.ماہ تک ہادیہ میں گرایا جاوے گا...بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ( جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۲)
123 اس کا ثبوت کہ وہ راجع الی الحق ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انعامی اشتہارات ہیں.آپ نے آتھم کو حلف مؤکد بعذاب اٹھانے کے لیے چار ہزار روپیہ تک انعامی چیلنج دیا مگر وہ میدان میں نہ آیا.عیسائی : اس کے لیے حلف اٹھانا نا جائز تھا ( یعقوب ۵۱/۱۲ ومتی ۵/۳۴) اس لئے مرزا صاحب کا مطالبہ حلف درست نہ تھا.جواب:.غلط ہے.انجیل سے ثابت ہے کہ یسوع کے بعد اس کے شاگر داور رسول قسمیں کھاتے رہے چنانچہ پولوس نے مسیح کی قسم بھی کھائی.(تھیلدیکیوں ۵/۲۸،۲۷) (انجیلی اصطلاح میں خداوند سے مراد یسوع ہے ) فخر کی قسم.(۱.کرنتھیوں ۱۶/۲۱) پر گواہ ہے.اس لیے آتھم کا بہانہ شائستہ اعتناء نہ ہونے کے وجہ سے صداقت حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام بارھواں اعتراض: مرزا صاحب کی آمد کی وجہ سے تمام مسلمان پاک نہیں ہو گئے مگر خداوند یسوع کے کفارہ " پر ایمان لانے سے ہم پاک ہو گئے اور کفارہ نے گناہ کو جڑ سے کاٹ دیا.الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق جماعت احمدیہ کا جو ایک پاکبازوں کی جماعت ہے قیام ہوا.کیا مسیح کی آمد پر تمام یہودی پاک ہو گئے تھے؟ ہاں یسوع کی زندگی میں صرف بارہ آدمی ظاہری طور پر پاک ہوئے تھے جن کی حالت کا نقشہ انجیل نے خوب کھینچا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کے فضل سے مسیح سے لاکھوں گنا کامیابی ہوئی.باقی رہا کفارہ سے گناہ کا جڑ سے کٹنا.سو یہ بھی غلط ہے.انجیل میں ہے کہ یسوع کے بعد خود عیسائیوں میں بدکاری موجود تھی.چنانچہ پولوس رسول عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے :.” یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرام کاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرام کاری جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی.چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے اور تم افسوس تو کرتے نہیں تا کہ جس نے یہ کام کیا تم میں سے نکالا جائے بلکہ شیخیاں مارتے ہو.“ (۱.کرنتھیوں ۵/۱) غرضیکہ موجودہ عیسائیوں اور ان کی تبلیغ کی وہی کیفیت ہے جو سیح نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:.اے ریا کا رفقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے کہ ایک کو مرید کرنے کے لئے تری اور خشکی کا
124 دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اسے اپنے سے دونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو.“ (متی ۲۳/۱۵) تیرھواں اعتراض:.مرزا صاحب کہتے ہیں کرم خا کی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار گویا اپنے آپ کو انسان بھی نہیں سمجھتے چہ جائیکہ وہ مسیح ہوں.الجواب :.ذرا اپنی بائیل کو پڑھوتا تمہیں معلوم ہو کہ تم جس قول کو بغرض تکذیب پیش کر رہے ہو وہی قول صداقت مسیح موعود علیہ السلام کا مؤید ہے.(الف).داؤد کہتا ہے.پر میں کیڑا ہوں نہ انسان.آدمیوں کا تنگ ہوں اور قوم کی عار“ (۲۲ زبور آیت ۶) (ب) تمہارا صحیح کہتا ہے.لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لیے سر دھرنے کی جگہ نہیں.“ (متی ۸/۲۰) (ج) پولوس کہتا ہے :."ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں.“ (رومیوں ۷۱۲۴ ) (د) کاش تم میری تھوڑی سی بیوقوفی کی برداشت کر سکتے.(۲) کرنتھیوں باب ۱.آیت۱) (ھ) اس قسم کے الفاظ خدا کے نیک بندے اپنی نسبت بطور انکسار استعمال فرمایا کرتے ہیں.ان کو حقیقت پر محمول کر کے ان پر ہنسی اڑانا شریف آدمیوں کا شیوہ نہیں.حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :.میں نے حدیث شریف پڑھی ہے جس میں جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ زمانہ آخر میں مخلوق کا نیک گمان اس شخص کے متعلق ہوگا جو سب سے بدتر ہوگا اور وعظ بیان کرے گا.چنانچہ میں نے اپنے آپ کو سب سے بدترین دیکھا.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سچا ہونے کی وجہ سے وعظ بیان کرتا ہوں.“ ( تذکرہ اولیاء حضرت خواجہ فرید الدین عطار صفه ۲۳۱ اشاعت اول اگست ۲۰۰۴ ء ادارہ اسلامیات لاہور.کراچی ) (و) حضرت داتا گنج اپنی کتاب ”کشف المحجوب“ میں تحریر فرماتے ہیں:.داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ امام صاحب (امام جعفر صادق) کے پاس آئے اور کہا.اے رسول کے بیٹے ! مجھے کوئی نصیحت فرماؤ کیونکہ میرا دل سیاہ ہو گیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ اے ابا سلمان! آپ اپنے زمانہ کے زاہد ہیں.آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے؟ داؤد طائی نے فرمایا کہ اے
125 ย فرزند پیغمبر خداوند تعالیٰ نے آپ کو سب خلقت پر فضیلت دی ہے.آپ کو سب کے لیے نصیحت کرنا واجب ہے.امام صاحب نے فرمایا.اے ابا سلمان ! میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کو میراجد بزرگوار مجھے گرفت کرے کہ تو نے حق مطابعت ادا نہیں کیا اور یہ کام نسب سے صحیح اور نسبت سے قوی نہیں ہوتا...داؤد طائی رونے لگے اور کہا اے خداوند عز و جل جس کا خمیر نبوت کے پانی سے ہے اور اس کی طبیعت کی ترکیب دلائل روشن سے ہے اور جس کا نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ماں بتول یعنی فاطمتہ الزہرا ہے اس کے سامنے داؤد کون ہوتا ہے جو اپنے معاملہ پر غرہ ہو.یہ بھی انہیں سے روایت ہے کہ ایک روز اپنے غلاموں میں بیٹھے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ آؤ ہم بیعت کریں یعنی عہد کریں کہ قیامت کے دن جو شخص ہم میں سے نجات پائے وہ سب کی شفاعت کرے.اور وں نے کہا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ! آپ کو ہماری شفاعت کی کیا پروا ہے کیونکہ آپ کے جد مبارک سب خلقت کے شفیع ہیں.امام نے (امام جعفر صادق” نے ) کہا کہ میں اپنے فعلوں کے ساتھ شرم رکھتا ہوں کہ دا دا بزرگوار کو کس طرح مونہہ دکھاؤں اور یہ سب اپنے نفس کی عیب گیری ہے اور یہ صفت کامل صفتوں سے ہے اور سب باریاب جناب الہی کے انبیاء اور اولیاء اور رسول اسی صفت پر ہوئے ہیں.“ (کشف الحجوب صفحه ۱۹- ۱۹۰ نا شرکتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازارلا ہو طبع اول جنوری ۱۹۷۹ء) (ز) حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ دعا سکھائی گئی ہے:.(1) قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّى ضَعِيفٌ فَقَوّنِى وَ إِنِّي ذَلِيْلٌ فَاعَزِنِي وَ إِنِّي فَقِيرٌ فَارُزُقْنِی (مستدرک امام حاکم بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی جلدا باب القاف مطبع مصطفے مصر) یعنی یہ دعا کر کہ اے خدا ! میں کمزور ہوں تو مجھے طاقت دے.میں ذلیل ہوں مجھے عزت اور غلبہ دے.میں فقیر ہوں تو مجھے رزق عطا فرما.اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَسْمَعُ كَلَامِی وَ تَرى مَكَانِي وَ تَعْلَمُ سَيِّئُ وَ عَلَانِيَتِي لَا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِّنْ اَمْرِى وَ أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ وَابْتَهَلُ إِلَيْكَ ابْتِهَالَ الْمُذْنِبِ الدَّلِيلِ وَ اَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الصَّرِيرِ مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقْبَتُهُ وَ فَاضَتْ لَكَ عَبْرَتُهُ وَ ذَلَّ لَكَ جِسْمُهُ وَ رَغِمَ لَكَ اَنْفُهُ.(طبرانی بحوالہ الجامع الصغیر للسیوطی جلدا باب الالف صفحہ ۵۷مصری) یعنی اے اللہ ! تو میرے کلام کو سنتا اور میرے مکان کو دیکھتا ہے.تو میرے مخفی اور ظاہر کا علم
126 رکھتا ہے.میرے کام میں سے کوئی چیز تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور میں مفلس اور محتاج ہوں...اور میں تیرے سامنے ایک گنہگار ذلیل کی طرح گڑ گڑاتا ہوں اور ایک ایسے خوفزدہ نابینا کی سی دعا کرتا ہوں جس کی گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور اس کا جسم تیرے آگے سجدہ ریز ہے اور تیرے سامنے اس کی ناک ذلیل اور شرمندہ ہے.اب یہ سب چونکہ خالق کے آگے مخلوق کی مناجات ہے اس لیے اس میں جتنا بھی زیادہ ابتہال اور انکسارا اور تذلیل ہوگا اتنا ہی اس کا مقام بالا از اعتراض ہوگا.یہی صورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کی ہے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر جس پر اعتراض کیا گیا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز وانکسار اور دعا کا حامل ہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا ( بحوالہ زبور ) اوپر درج ہو چکی ہے.بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ مناجات لفظاً لفظاً حضرت داؤڑ کی دعا کا ترجمہ ہے.پس جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے یا اس پر تمسخر اڑاتا ہے وہ حد درجہ کا شقی اور متفنِّی انسان ہے اور اپنی بدفطرتی کے مظاہرہ کے سوا اور کچھ نہیں کرتا.(ح) حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ قول محمول به انکسار ہے جیسا کہ خود حضور فرماتے ہیں:.إِنَّ الْمُهَيْمِنَ لَا يُحِبُّ تَكَبُّرًا مِنْ خَلْقِهِ الضُّعَفَاءِ دُوْدِ فَنَاءِ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ا۲۷) کہ خدا تعالیٰ اپنی مخلوق سے جو کہ ضعیف اور کیڑے ہیں تکبر پسند نہیں کرتا.اس میں حضور نے تمام مخلوق کو کیڑے قرار دیا ہے اور تکبر سے اظہار نفرت فرمایا ہے.پھر فرماتے ہیں:.وَ مَا نَحْنُ إِلَّا كَالْفَتِيْل مَذَلَّةٌ بِأَعْيُنِهِمْ بَلْ مِنْهُ أَدْنَى وَ اَحْقَرُ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفر ۳۳۴) کہ ہم اپنے مخالفوں کی نظر میں ایک ریشہ خرما کی طرح ہیں بلکہ اس سے زیادہ حقیر اور ذلیل.پھر تحریر فرماتے ہیں :.اس آیت میں ان نادان موحدوں کا رڈ ہے جو یہ اعتقا در کھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ
127 علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن مٹی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے.یہ نا دان نہیں سمجھتے کہ وہ بطور انکسار اور تذلیل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی.ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباداللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباداللہ ہے کس قدرنا دانی اور شرارت نفس ہے.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۳)
128 قرآن کا مسیح اور انجیل کا یسوع تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں.( حاشیہ ) اگر پادری اب بھی اپنی پالیسی بدل دیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہوگی ور نہ جو کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے.“ ( ضمیمہ رسالہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۹۳٬۲۹۲ بقیه حاشیه ) ۲.مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے.“ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا ا صفحه ۲۹۳ بقیہ حاشیہ ) ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور اُن کی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو اُن کی شان بزرگ کے برخلاف ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے.“ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۸ تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات جلدے صفحہ ۷۷ ) ۴.میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسی جیسے راستباز پر بد زبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَادَا وَلِيَّالِی دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے.“ ( اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۹)
129 ۵.موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۸،۱۷).جس حالت میں مجھے دعوئی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسی علیہ السلام سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو برا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتلاتا ؟ کیونکہ اس سے تو خود میرا برا ہونا لازم آتا ہے.“ ،، (اشتہار ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۵۷ حاشیه طبع بار دوم و تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۷۰ حاشیہ) ے.”ہمارا جھگڑا اس یسوع کے ساتھ ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا ہے نہ اس برگزیدہ نبی کے ساتھ جس کا ذکر قرآن کی وحی نے مع تمام لوازم کے کیا ہے.تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۳۲ و مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۹ طبع بار دوم ) - هذَا مَا كَتَبْنَا مِنَ الْأَنَاجِيلِ عَلَى سَبِيلِ الْإِلْزَامِ.وَإِنَّا نُكَرِمُ الْمَسِيحَ وَ نَعْلَمُ إِنَّهُ كَانَ تَقِيًّا وَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ الْكِرَامِ.“ ( البلاغ (ترغیب المومنین ) رحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۱ حاشیه ) و ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کی شان مقدس کا بہر حال لحاظ ہے اور صرف (پادری) فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمتقابل ذکر کیا گیا ہے.اور وہ بھی سخت مجبوری سے کیونکہ اس نادان ( پادری فتح مسیح) نے نہایت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں.اور ہمارا دل کھایا ہے.(نور القرآن نمبر ۲ (رساله فتح مسیح ) روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۷۶) ا.ہم اس بچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعوی کیا نہ بیٹا ہونے کا.اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا.( نور القرآن نمبر ۲ (رساله فتح مسیح ) روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۹۵) ا.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھا اور نبی تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے.“ ( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۹) تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحها او مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه و طبع بار دوم )
130 ۱۲.قرآن شریف میں فقط اس مسیح کے معجزات کی تصدیق ہے جس نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا.کیونکہ مسیح کئی ہوئے ہیں.“ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ( تصدیق النبی) روحانی خزائن جلد ۲ صفر ۴ ۴۶ حاشیه ) نیز دیکھو (رسالہ آریہ دھرم ٹائٹل پیچ آخری صفحہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحی۴ ۲۷ و جنگ مقدس صفحه ۵۰ وانوار الاسلام صفحه ۳۴) غیر احمدی علماء کی تحریرات ا.جناب مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی اپنی کتاب ازالتہ الا و ہام صفحہ ۳۷ میں فرماتے ہیں: ہمراہ جناب مسیح بسیار زناں ہمراہ مے گشتند و مال خود مے خوار نیدند وزنان فاحشہ پایہا آنجناب رامے بوسیدند و آنجناب مرتا و مریم را دوست می داشت و خود شراب برائے نوشیدن دیگر کساں عطامی فرمودند ۲.مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیو بند لکھتے ہیں:.یہ نصاری جو دعویٰ محبت حضرت عیسیٰ سے کرتے ہیں تو حقیقت میں ان سے محبت نہیں کرتے کیونکہ دار و مدار ان کی محبت کا خدا کے بیٹے ہونے پر ہے.سو یہ بات حضرت عیسی میں تو معدوم، البتہ ان کے خیال میں تھی.اپنی خیالی تصویر کو پوجتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کو خداوند کریم نے ان کی واسطہ داری سے برطرف رکھا ہے.“ (ہدایۃ الشیعہ صفحہ ۳۲۵، ۳۲۶ از مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی.ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان ).جناب مولوی آل حسن صاحب فرماتے ہیں :.حضرت عیسی کا معجزہ احیاء موتی کا بعض بھان متی کرتے پھرتے ہیں کہ ایک آدمی کا سرکاٹ ڈالا بعد اس کے سب کے سامنے دھڑ سے ملا کر کہا اٹھ کھڑا ہو.وہ اٹھ کھڑا ہوا.“ ( استفسار صفحه ۳۳۶ از مولوی رحمت اللہ مہاجر مکی برحاشیہ ازالته الاوہام ) ۴.اشعیا اور ار میاہ اور عیسی علیہ السلام کی بہت سی غیب گوئیاں قوائد ریل و نجوم سے بخوبی نکل 66 سکتی ہیں.بلکہ اس سے بہتر ( استفسار صفحه ۳۳۶ مصنفہ مولوی رحمت اللہ مہاجر مکی برحاشیه از الته الا وہام ) ۵.حضرت عیسی علیہ السلام نے یہودیوں کو حد سے زیادہ جو گالیاں دیں.تو ظلم کیا.“ ( استفسار صفحه ۴۱۹ مصنفہ مولوی رحمت اللہ مہاجر مکی برحاشیہ از الته الا وحام )
131 حضرت مسیح علیہ السلام اور یسوع کے دو حلیے موجودہ انجیل نے یسوع کی ایسی گندی تصویر کھینچی ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی منصف مزاج انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خدا کے اس برگزیدہ نبی کی تصویر ہے جسے قرآن مجید نے حضرت عیسی علیہ السلام اور مسیح ابن مریم کے نام سے موسوم کیا ہے.ا.نسب نامہ قرآن مجید حضرت عیسی علیہ السلام کے نسب نامہ کو بالکل پاک اور مطہر قرار دیتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے : مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا (مریم: ۲۹) مگر انجیل کے یسوع کا نسب نامہ سخت نا پاک اور گندہ ہے.چنانچہ انجیل متیالا میں یسوع کا نسب نامہ“ کے عنوان کے نیچے تین عورتوں تا مار، راحاب اور ریاہ کی بیوی ( بنت سبع ) کا ذکر ہے (متی باب ۱ آیت ۷،۵،۲ ) اور تورات میں لکھا ہے کہ یہ تینوں بدکار اور زنا کار عورتیں تھیں.ملاحظہ ہو: راحاب فاحشہ تھی.( یشوع ۲/۱) تا مار نے اپنے خسر سے زنا کیا.( پیدائش ۳۸/۱۶) بنت سبع زوجہ اور یاہ نے (نعوذ باللہ ) داؤد سے زنا کیا.(۲ سموئیل ۱۱/۲) تو رات میں ہے:.بدکاروں کی نسل کبھی نام آور نہ ہوگی.(یسعیاہ ۱۴/۲۰) حرامی بچہ دس پشت تک خدا کی بادشاہت میں داخل نہ ہوگا.‘ (استثنا ۲۳/۱) ۲.مریم کا صدیقہ ہونا قرآن مجید نے حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کو صدیقہ قرار دیا ہے.فرمایا:.واقه صديقة (المائدة: ۷۶) نیز فرمایا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبَّهَا (التحریم : ۱۳) گویا وہ حضرت عیسی پر کامل طور پر ایمان لائی اور خدا کی باتوں پر کما حقہ عمل کرتی تھی.مگر انجیلی یسوع کے متعلق انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ماں اس پر ایمان نہ لائی تھی.چنانچه متی ۴۶ تا ۱۲/۵۰ و مرقس ۳۱ تا ۳/۳۵ میں ہے کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی جب یسوع کو ملنے آئے تو وہ اپنے شاگردوں میں کھڑا تھا.کسی نے جب اس کو بتایا کہ تیری ماں اور تیرے بھائی تجھ سے ملنا
132 چاہتے ہیں.تو اس نے جواب دیا.”کون ہے میری ماں؟ اور کون ہیں میرے بھائی؟ اپنے شاگردوں کی طرف منہ کر کے کہا : میری ماں اور میرے بھائی تو یہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں.(لوقا ۸/۲۱) گویا اس کی ماں اور اس کے بھائی خدا کے کلام کو سنتے اور اس پر عمل نہ کرتے تھے.کیونکہ اگر وہ واقعی خدا کی مرضی پر چلنے والی اور اس کی باتوں پر عمل کرنے والی ہوتی تو وہ بیسوع کے بیان کردہ معنوں کی رو سے اس کی روحانی ماں بھی ٹھہرتی ہے.تو اس صورت میں میسوع پر اس کی دونی عزت لازم آتی مگر اس کا کون ہے میری ماں“ کہنا اور پھر ماں کے معنے بیان کر کے اپنے شاگردوں کو اس میں شامل کرنا اور جسمانی ماں کو اس سے باہر نکالنا صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ اس کی ماں اس پر ایمان نہ لائی.لہذا انجیلی یسوع امه صديقة کا مصداق نہ رہا.مندرجہ بالا استدلال انجیل کی اس عبارت سے اور زیادہ قوی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بھائی بھی اس پر ایمان نہ لائے تھے.(یوحنا ۷/۵) کیا کوئی عیسائی موجودہ انجیل میں سے کوئی ایک ہی حوالہ ایسا پیش کر سکتا ہے کہ جس میں یہ لکھا ہو کہ یسوع کی ماں مریم یسوع پر ایمان لائی تھی؟ ہر گز نہیں.۳.ماں سے بدسلوکی قرآن مجید نے اپنے مسیح علیہ السلام کو برا بوَالِدَتی (مریم: ۳۳) قرار دیا ہے اور یوں بھی فَلَا تَقُل نَّهُمَا أَن (بنی اسرائیل: (۲۴) کے عام حکم سے انبیاء علیہم السلام کا استثنا نہیں.لہذا حضرت عیسی علیہ السلام اپنی والدہ کے کامل طور پر وفادار تھے اور اس سے انتہائی طور پر نیک سلوک کرتے تھے مگر انجیل کا یسوع اپنی ماں کو کون ہے میری ماں ! ( متی ۱۲۱۴۶د مرقس ۳/۳۳) ”اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام (یوحنا ۲/۴) کے الفاظ سے یاد کرتا ہے.گویا اپنے آپ کو اس سے کلی طور پر مستغنی اور بے تعلق قرار دیتا ہے اور اس کی نافرمانی کرتا ہے.ایسا آدمی تو یسوع کے فتوے کے مطابق واجب القتل ہے.(متی ۱۵/۴ و رومیوں ۱/۳۲) لہذا وہ برا بِوَالِدَتی (مریم: ۳۳ ) کا مصداق نہ رہا.۴.پاک انسان ہونا.قرآن مجید نے اپنے مسیح علیہ السلام کے متعلق آئذنهُ بِرُوحِ الْقُدْسِ (البقرة: ۲۵۴) فرمایا ہے گویا وہ بہت پاک اور مقدس انسان تھے.جس طرح کہ خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء ہوتے ہیں مگر انجیل کا یسوع انجیل کے رو سے ایک پاک کریکٹر کا انسان ثابت نہیں ہوتا.
133 ۵.ایک بد کار عورت سے محبت (الف) اس کے پاؤں پر ایک بد چلن عورت نے عطر ڈالا.(لوقا ۷۱۳ ) (ب) عطر ڈالنے والی بد چلن عورت کا نام مریم تھا.جومر تھا اور لعز رکی بہن تھی.(ج) یسوع اس بد چلن عورت سے محبت رکھتا تھا.(یوحنا ۱۱/۵) (یوحنا ۱۱/۳ و ۱۲/۲،۳) ( د ) اس بد چلن عورت کو بھی یسوع سے محبت تھی.(لوقا ۷۱۴۷) (ر) وہ بد چلن عورت روئی تو یسوع بھی گھبرا کر رونے لگا.(یوحنا ۱/۳۵) (و) یسوع اس بد چلن عورت کے گھر گیا اور اس سے تنہائی میں باتیں کرتا رہا.( لوقا ۳۷ تا ۷/۵۰ ) ( ز ) اس کے ساتھ عورتیں رہتی تھیں (لوقا ۸/۳۱ ومتی ۲۷/۵۵) ( ش ) ایک بد چلن سامری عورت سے جو کئی خاوند کر چکی تھی یسوع نے تنہائی میں معنی خیز گفتگو کی.( یوحنا۷ تا ۴/۱۹) (ص) یہ فقرہ خاص طور پر قابل غور ہے اتنے میں اس کے شاگر د آ گئے اور تعجب کرنے لگے کہ وہ عورت سے باتیں کر رہا ہے پس عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر کو چلی گئی.“ (یوحنا ۴/۲۸،۲۷) (ض) ایک نوجوان لڑکے سے محبت.(یوحنا ۲۱/۷ و ۱۹/۲۶) ( ط ) اس کو گود میں بٹھانا اور چھاتی سے لگانا ( یوحنا ۱۳ تا ۲۶/ ۲۱/۲۱،۲۰٫۱۳) گویا اس لڑکے سے یسوع کو محبت تھی اور شاگر دیسوع سے جب کوئی راز کی بات پوچھنا چاہتے تو براہ راست پوچھنے کی بجائے اس لڑکے کے ذریعہ سے دریافت کرتے اور یسوع بتا دیتا.یوحنا ۲۱/۲۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ پطرس کو یہ فکر تھا کہ یسوع کے چلے جانے کے بعد اس لڑکے کا کیا حال ہوگا اور اس کا کون پُرسان حال ہوگا مگر یسوع نے مہمل سے فقرہ میں بات کو ٹال دیا.یہی اور اسی قسم کی اور باتیں تھیں جن کی بناء پر جب پیلاطوس نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم یسوع پر کیا الزام لگاتے ہو تو انہوں نے جواب میں اس سے کہا کہ اگر یہ بد کار نہ ہوتا تو ہم اسے تیرے حوالے نہ کرتے.“ (یوحنا ۱۸/۳۰) بایں ہمہ جناب کا اپنا حال یہ تھا کہ ایک خون حیض والی عورت کے چھونے سے قوت نکل گئی.( مرقس ۳۰/ ۵ ولو قا ۸/۴۶)
134 ۶.بد نمونه قرآن مجید نے اپنے مسیح کو مَثَلًا لَّبَنِي إِسْرَائِيل (الزخرف: ۶۱) یعنی بنی اسرائیل کے لئے اچھا نمونہ قرار دیا ہے.مگر انجیلی یسوع کا نمونہ اس کے اخلاق و عادات قطعاً اس قابل نہیں تھیں کہ کوئی منصف مزاج انسان اس کو نمونہ کہہ سکے.ا.گالیاں دینا.زنا کارلوگ (متی ۱۲/۳۹) اے سانپو! افعی کے بچو! (متی ۲۳/۳۳)اے بدکارو! (متی ۷/۲۳).اندھو ( متی ۱۷ تا ۲۳/۱۹) وغیرہ.۲.گندے ہاتھوں سے کھانا کھانا.اس کے بعض شاگردوں نے جب اس کی موجودگی میں ناپاک یعنی بن دھوئے ہاتھوں سے روٹی کھائی.(مرقس ۷۱۲) تو اس پر بعض فقیہوں اور فریسیوں نے اعتراض کیا.اس کے جواب میں بجائے اپنے شاگردوں کو تادیب کرنے کے الٹا یہودیوں سے بحث کرنا شروع کر دیا اور کہا کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر انسان کو نا پاک نہیں کر سکتی.( مرقس ۷/۱۵) بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا آدمی کو نا پاک نہیں کرتا.متی ۱۵/۲۰.۳.مغلوب الغضب تھا.الف.یہودیوں کو گالیاں دیں.ب.انجیر کے درخت پر بلا وجہ غصہ کھایا.(مرقس ۱۱۴ اومتی ۱۹.۲۱/۱۵) ۴.غیر کی چیز پر بلا اجازت ہاتھ صاف کرنا جائز سمجھتا تھا.اس کے شاگردوں کا بالیں توڑنا اور اس کا حمایت کرنا.(متی ۱۲/۵،۱ مرقس ۲/۲۳) ۵.بزدل ہونا.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے بندوں کی عموماً اور انبیاء کی خصوصاًیہ صفت بتائی ہے کہ وہ بزدل نہیں ہوتے.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ (يونس: ٦٣) كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَ آنَا وَرُسُلِي (المجادلة: (۲۲) ع کجا غوغائے شاں بر خاطر من وحشتے آرد که صادق بزدلی نه بود وگر ببیند قیامت را درشین فارسی )
135 ملاحظہ ہو:.چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے نبی تھے لہذا بزدل نہ تھے مگر انجیل کا یسوع بز دل تھا..قتل کا مشورہ بن کر چھپ کرچلا گیا اور کہاکسی کومیرا نام نہ بتانا (متی ۱۵ تا۱۲/۱۷) ۲.ایک شہر میں تمہیں ستائیں تو دوسرے میں بھاگ جاؤ.( متی ۱۰/۲۳).اسی تعلیم کے نتیجے میں پولوس رسول قید خانہ سے سیوا جی مرہٹے کی طرح ٹوکرے میں بیٹھ کر بھاگا تھا.(۲.کرنتھیوں۱۱/۳۳،۳۲) ۴.جب یہودیوں نے مارنے کو پتھر اٹھائے تو ڈر کر کہا سب لوگ خدا کے بیٹے ہیں.ے.مفسد ہونا ( یوحنا ۳۱ تا ۱۰/۳۵) خدا کے انبیاء دنیا میں اصلاح کی غرض سے آتے ہیں جیسا کہ اِن أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا استطعت (هود: ۸۹) لہذا حضرت عیسی علیہ السلام بھی بوجہ نبی اور رسول ہونے کے بنی اسرائیل کی اصلاح ہی کے لئے آئے تھے.مفسد ہونا تو قرآن مجید نے منافق کی نشانی قرار دی ہے مگر انجیل کا یسوع دنیا میں اصلاح کے لئے نہیں بلکہ فساد کیلئے آیا تھا.ملاحظہ ہو:.الف.یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا ہوں.صلح نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں.“ (متی ۱۰/۳۴) اور کہا کپڑے بیچ کر تلوار خرید و.(لوقا۲۲/۳۷) ب.”میں زمین پر آگ ڈالنے آیا ہوں اور اگر آگ لگ چکی ہوتی تو میں کیا ہی خوش ہوتا.تم گمان کرتے ہو کہ میں صلح کرانے آیا ہوں میں کہتا ہوں کہ نہیں میں جدائی کرانے کیونکہ اب سے ایک گھر کے پانچ آدمی آپس میں مخالفت رکھیں گے.باپ بیٹے سے مخالفت رکھے گا اور بیٹا باپ سے.“ (لوقا ۱۲/۵۳،۵۲) ج.میر اوہی شاگر د ہوسکتا ہے جو اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں کا دشمن ہو.“ (لوقا ۱۴/۲۶) د.اور خود ہی کہتا ہے جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے.(لوقا ۱۱/۱۷) عیسائی:.خدا کے نبی جب آتے ہیں کچھ لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں کچھ ایمان لے آتے ہیں.اس طرح تفریق پڑ جاتی ہے.
136 احمدی:.خدا کے انبیاء کی آمد سے دو مخالف جماعتوں کا ہو جانا انبیاء کی آمد کی غرض نہیں قرار دی جاسکتی.گو اس کو بعثت نبوت کے متعلق قرار دے لیا جائے.مثلا ایک طالب علم بی.اے کا امتحان دے اور اس میں فیل ہو جائے.امتحان دینے سے اس کی غرض تو پاس ہونا تھی مگر وہ خلاف منشاء فیل ہو گیا.اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں لڑکے نے بی.اے کا امتحان دیا تا کہ وہ فیل ہو جائے تو یہ خلاف عقل ہوگا.اسی طرح یہ کہنا کہ فلاں نبی دنیا میں اس لئے آیا کہ تا دنیا میں لڑائیاں ہونے لگ جائیں.بالکل خلاف عقل بات ہے.۸.شیطان کا ساتھی قرآن مجید کہتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا (النحل : ۱۲۹) کہ متقیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے اور انبیاء کے ساتھ تو بوجہ ان کے اتقی الناس ہونے کے سب سے زیادہ.لہذا حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ بھی خدا تھا مگر انجیل میں جو یسوع کی سوانح زندگی درج ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے ساتھ نہ تھا.ا.اس کی نا کام زندگی.۲.اس کا ایلی ایلی لما سبقتانی کہنا.(متی ۲۷/۴۶).شیطان کا اس کے ساتھ چالیس روز رہنا اور پھر کچھ عرصہ کے لئے اس سے جدا ہونا.۹ جھوٹ بولنا (لوقا ۴/۱۳) قرآن مجید سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء سب سے زیادہ بچے اور بیچ بولنے والے اور راستباز ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام بھی راست گواور سعادت شعار انسان تھے مگر انجیل کا یسوع راست گو نہ تھا.ا.بھائیوں کو کہا تم عید پر جاؤ.میں نہیں جاتا مگر جب وہ چلے گئے تو ان کے پیچھے پیچھے چھپ کر خود بھی چلا.( یوحنا ۸ تا ۷/۱۰ ) ۲.یوحنا چاہو تو ا نو ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے( متی ۳ ۱۱/۴) مگر یوحنا کا انکار.(يوحنا ۱/۲۱)
137.داؤد....سردار کا ہن ابیا تار کے عہد میں خدا کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹیاں کھائیں.(مرقس ۲/۲۶) حالانکہ وہ سردار بیا تار نہیں بلکہ اخیملک تھا.(اسموئیل ۲۱/۱) ۱۰.غلط پیشگوئیاں قرآن مجید کی آیت:- فَلَا يُظهِرُ عَلى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (السجن : ۲۸،۲۷) کے مطابق انبیاء کی صداقت کا معیار ان کی کچی پیشگوئیاں ہیں اور ظاہر ہے کہ حضرت عیسی بھی بچے نبی ہونے کی وجہ سے اس میں داخل ہیں مگر انجیلی یسوع کی تمام پیشگوئیاں غلط نکلیں.(۱) تم میں سے کئی زندہ ہوں گے کہ میں آجاؤں گا.متی ۶/۲۸ او مرقس ۹/۱ (۲) شاگردوں کو کہا تم میرے ساتھ حکومت کرو گے.متی ۱۹/۲۸ (۳) ساتھ مصلوب ہونے والے چور کو کہا.تو میرے ساتھ آج ہی جنت فردوس میں ہوگا.لوقا ۲۳/۴۳ مگر وفات کے تین دن بعد کہتا ہے کہ میں ابھی تک خدا کے پاس او پر نہیں گیا.یوحنا ۲۰/۱۷ (۴) پطرس کو جنت کی کنجیاں (متی ۱۶۱۱۹) مگر پھر اس کو شیطان کہا.متی ۱۶/۲۳.(۵) الف.صرف یونس کا معجزہ ان کو دیا جائے گا.متی ۱۲/۳۹.ب.یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ( یوناہ باب آخری آیت پرانی بائبل ایڈیشن ۱۸۸۷ء) ج.یسوع صرف ایک ہی دن زمین میں رہا.(لوقا ۲۴/۱ دستی ۲۸/۱) د یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا مگر بقول عیسائیاں مرکز رہا.۱۱.ملعون قرآن مجید نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جَعَلَنِی مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ (مریم: ۳۲) کے الفاظ میں مبارک قرار دیا ہے مگر انجیلی یسوع بروئے انجیل لعنتی تھا.ا.الف میسج لعنتی تھا کیونکہ صلیب پر لٹکایا گیا.(گلتیوں۳/۱۳) ب.جو صلیب دیا جائے وہ خدا کا ملعون ہے.(استثنا ۲۱/۲۳) ۲.پطرس کو کہا.جو تو زمین پر باندھے گا.آسمان پر وہی بند ھے گا.(متی ۱۶/۱۹ و ۱۸/۱۸) پطرس نے یسوع کو لعنت کی.(متی ۲۶/۷۴)
138 ۱۲.مکذب انبیاء قرآن مجید مسیح تمام پہلے انبیاء کا مصدق تھا اور اپنے بعد بھی انبیاء کی آمد کا مبشر تھا.ومبشرا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ (الصف: مگر انجیلی یسوع تمام انبیاء کو چور اور ڈا کو کہتا تھا اور بعد میں آنے والوں کو جھوٹا کہتا تھا:.جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکو ہیں.“ ( یوحنا ۱۰/۸) اور بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے.متی ۲۴/۱۱.پس قرآن کا مسیح، موجودہ انجیل والا یسوع نہیں ہو سکتا.فَافَهَمُوا أَيُّهَا الْعَاقِلُونَ الطَّالِبُونَ لِلْحَقِّ.شراب: (۱) یسوع نے سب سے پہلے جو معجزہ دکھا یا وہ شراب بنانا تھا.(یوحنا۴/۴۶٫۲/۹،۷) ۲.پھر کہا.نئی سے نئی مشکوں میں بھرنی چاہیے.(لوقا ۵/۳ ).پولوس کہتا ہے: ” تھوڑی سی شراب پی لیا کر.( تیم تھیں ۵/۲۳) بھائی اور بہنیں :.اس کے بھائی اس کے پاس آئے.( لوقا ۸/۱۹ ومرقس ۱۳۱ ۳ و یوحنا۷/۵ ) اس کی بہنیں.(متی ۱۳/۵۶،۵۵) دلائل فضلیت مسیح بمقابلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب عیسائی پادری غیر احمدیوں کے عیسائیت نواز عقائد کو پیش کر کے مسلمانوں کو حلقہ عیسائیت میں پھنساتے چلے جاتے ہیں اور اسی غرض سے ایک رسالہ بنام حقائق قرآن“ بھی انہوں نے شائع کر رکھا ہے.غیر احمدیوں کے عقائد پر تو بے شک اس رسالہ کے مندرجہ اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں مگر خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے سامنے ان مزعومہ دلائل کی کچھ حقیقت نہیں.چند چیدہ اعتراضات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں.دلیل نمبر1:.حضرت مسیح کا معجزانہ طور پر پیدا ہونا الجواب نمبر :.بے شک قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور ہماراس پر ایمان ہے مگر بغیر باپ کے پیدا ہونے والے کو باپ کے پیدا ہونے والے پر فضیلت دینا غلطی ہے.قرآن مجید نے خود اس کا جواب دیا ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ (آل عمران : ۲۰) کہ عیسی کی مثال آدم کی ہے.اب آدم تو بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے عیسائی بھی آپ کو مانتے
139 ہیں.پس اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا فضیلت ہے تو بے ماں و باپ کے پیدا ہونا تو اس سے بھی بڑھ کر درجہ فضیلت ہونا چاہیے.پھر عیسائی صاحبان کیوں آدم کو حضرت عیسی سے افضل نہیں مانتے ؟ اسی طرح انجیل میں لکھا ہے.”ملک صدق...بے باپ، بے ماں، بے نسب نامہ ہے....بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا.“ (عبرانیوں ۱تا ۷۱۳ ) کیا عیسائی صاحبان ملک صدق کو حضرت عیسی سے افضل مانتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ بے باپ پیدا ہونا وجہ فضیلت نہیں.لہذا اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت عیسی علیہ السلام کو افضل قرار دینا غلطی ہے.جواب نمبر ۲:.اگر بے باپ پیدا ہونا وجہ فضیلت ہے تو کیا ہم ان تمام کیڑوں مکوڑوں کو جو برسات کے دنوں میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بے ماں اور بے باپ پیدا ہوتے ہیں تمام انسانوں سے افضل قرار دے سکتے ہیں؟ جواب نمبر ۳:.حضرت عیسی علیہ السلام کا بے باپ ہونا کس طرح موجب فضیلت ہو سکتا ہے جبکہ ان کی ولادت سے لے کر آج تک ساڑھے انیس سو سال گزر جانے تک ان پر اور ان کی والدہ صدیقہ پر پے بہ پے کفار نا نجار نا جائز ولادت کا الزام لگاتے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام تمام عمر اس اعتراض کا جواب دیتے رہے.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بریت آنذلهُ بِرُوحِ الْقُدُس (البقرة: ۲۵۲٫۸۸) کے الفاظ سے کرنی پڑی.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے متعلق کبھی کسی نے کوئی اعتراض کیا ؟ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو طعنہ زنی کا نشانہ بننا پڑا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بے باپ پیدا نہ ہونا بذات خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آپ کی فضیلت کو ثابت کرتا ہے.جواب نمبر ۴:.قرآن مجید کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بے باپ پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی.قرآن مجید میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا: إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (البقرة: ۱۲۵) که اے ابراہیم! تجھے لوگوں کا مقتداء اور راہنما ( نبی ) بناتا ہوں.انہوں نے عرض کیا کہ اے خدا! میری نسل میں بھی (نبوت رکھ ) تو خدا تعالیٰ نے فرمایا.ہاں تیری نسل میں جو ظالم ہوں گے وہ اس نعمت سے محروم کر دئے جائیں گے.دوسری جگہ فرمایا: وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ (العنکبوت : ۲۸ ) کہ ہم نے حضرت ابراہیم
140 کی نسل میں نبوت رکھی.اب حضرت ابراہیم کی اولاد کی دوشاخیں تھیں.بطریق ذیل: حضرت ابرا ہیم حضرت اسمعیل.بنی اسماعیل (عرب) حضرت اسحاق.یعقوب.اسرائیل.بنی اسرائیل چناچہ حضرت اسحق کی نسل سے (بنی اسرائیل میں ) پے بہ پے نبی ہوئے.حضرت موسیٰ داؤد وسلیمان، بیچی، زکریا علیہم السلام سب انبیاء بنی اسرائیل سے ہوئے لیکن بالآخر بنی اسرائیل ظالم ہو گئے اور اس وعدہ کے مستحق نہ رہے جو خدا تعالیٰ نے ابراہیم سے کیا تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کر کے بتا دیا کہ اب حضرت اسحق کی نسل میں نبوت کا خاتمہ ہے.اب چونکہ بنی اسرائیل ظالم ہوگئے ہیں اس لئے خدا کے وعدہ کے مطابق نبوت بنی اسمعیل کی طرف منتقل کر دی جائے گی.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے ان کے بعد نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی جو بنی اسرائیل سے نہ تھے.نیز حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے محض اپنی قدرت مجردہ سے بغیر باپ کے پیدا کر کے یہودیوں کو ایک نمونہ سے سمجھایا کہ تم اس پاک مولود کو جس کی والدہ ہر طرح سے بدکاری کی آلائش سے پاک ہے ولد الزنا قرار دیتے ہو اور حالت یہ ہے کہ تم میں سے ہزاروں بچے بد کاری کے نتیجہ میں ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے باپوں کا پتہ نہیں اور ہم نے تمہاری عملی حالت کے اظہار کے لئے عملی نمونہ قائم کیا ہے.گو خدا تعالیٰ نے اس بچہ کو محض روح القدس کے وسیلہ سے بغیر باپ کے پیدا کیا مگر تم میں اب کوئی نہیں جو نبی کا باپ بن سکے.لہذا تم اس قابل نہیں رہے کہ تم کو اس عہد کے مطابق جو خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے ساتھ کیا تھا نبوت کی نعمت سے مشرف کیا جائے.اس لئے اب وہ عظیم الشان نبی جو دس ہزار قد وسیوں کی جمعیت کے ساتھ اپنے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت لے کر آنے والا تھا مکہ کی بستی میں بنی اسمعیل کے گھرانے میں پیدا ہوگا اور تم سے نبوت چھین کر ان کو عنایت کی جائے گی تاکہ مسیح علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ ”جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا.یہ خدواند کی طرف سے ہوا اور تمہاری نظروں میں عجیب ہے.“ (متی ۲۱/۴۲) غرض یہ حکمت تھی جس کی بناء پر حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بے باپ پیدا کیا تا کہ یہودیوں کی عملی حالت پر گواہ رہے.پس اس کو وجہ فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی قرین قیاس نہیں ہوسکتا.بنی اسرائیل کی زنا کاری کے ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو: (حز قیل ۶/۶۲ اوحز قیل اتا ۲۳/۵ و۲۰،۱۷/ ۲۳ در میاه ۳/۶)
141 دلیل نمبر۲ حضرت مسیح کی والدہ کا تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہونا الجواب.قرآن مجید میں حضرت مریم کے متعلق اِضطفكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَلَمِينَ (آل عمران: ٢٣) تو بے شک آتا ہے مگر اس جگہ العلمین سے مراد دنیا میں قیامت تک پیدا ہونے والی عورتیں مراد لینا درست نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن مجید کے شارح اول بلکہ معلم اعظم اور يُعلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ (البقرة: ۱۳۰) کے مصداق ہیں.اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے.چنانچہ تفسیر بیضاوی میں یہ روایت درج ہے.فَقَالَ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَكِ شَبِيْهَةَ سَيِّدِةِ نِسَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ - ( بیضاوی تفسیر سورۃ آل عمران ۴۴- زیر آیت قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا.....آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت مریم بنی اسرائیل کی عورتوں کی سردار تھیں.اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مریم صدیقہ کو سَيِّدَةُ نِسَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ قرار دیا ہے.ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ پر فضیلت کیسے ثابت ہوئی ؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کو سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الجنة (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي باب مناقب فاطمہ جلد۲ صفحه ۱۹) سب جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا ہے.اب حضرت مریم یقینانِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ میں سے ہیں.پس فاطمہ ان سے افضل ٹھہریں.اس سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوئی.کیونکہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ اپنے زمانہ کی عورتوں میں سب سے افضل تھیں تو اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے کمال کا کیا دخل؟ ہاں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا کمال تھا.کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر تربیت کے نتیجہ میں آپ کی بیٹی حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ پر سبقت لے گئیں.قرآن مجید میں جہاں حضرت مریم کے متعلق زیر بحث الفاظ آئے ہیں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خبر یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت مریم کو خدا تعالیٰ نے تمام جہاں کی عورتوں میں سے چن لیا ہے تا یہ نتیجہ نکل سکے کہ گویا حضرت مریم" زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں سے بھی افضل ہیں بلکہ قرآن مجید میں ذکر یہ ہے کہ فرشتے نے جب وہ حضرت مریم کو ولادت مسیح کی خوشخبری دینے آیا اس وقت ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی سب عورتوں میں آپ کو چنا ہے.پس اس آیت سے اتنا ہی ثابت ہوسکتا ہے کہ اس وقت جب فرشتے نے یہ کہا کہ جس قدر عورتیں موجود تھیں ان میں سے حضرت مریم کو ایک نبی کی ماں بننے کے لئے خدا تعالیٰ نے چنا.بعد میں پیدا ہونے والی عورتوں کا نہ وہاں ذکر
142 ہے اور نہ یہ مناسب تھا نیز حضرت مریم کے متعلق قرآن میں جو تعریفی الفاظ آئے ہیں وہ یہودیوں کے بہتانات کی تردید کی غرض سے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:.وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمُ بُهْتَانًا عَظِيمًا (النساء: ۱۵۷) کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ مطہرہ پر بھی کوئی الزام لگا ؟ تا اس سے بریت کی ضرورت ہوتی.دلیل نمبر ۳ مسیح کی پیدائش کے وقت خارق عادت امور وقوع میں آئے مثلا نخل خشک ہرا بھرا ہو کر پھل لایا.چشمہ جاری ہو گیا.مریم کی تسکین کے لئے فرشتے نازل ہوئے.الجواب: مسیح کی پیدائش کے وقت کسی خارق العادت امر کے وقوع کا قرآن مجید میں ذکر نہیں.قرآن مجید میں کہیں نہیں لکھا کہ مخل خشک ہرا بھرا ہو گیا بلکہ قرآن مجید سے تو ثابت ہے کہ وہ کھجور کا درخت پہلے ہی ہرا بھرا تھا.چشمہ کا جاری ہونا کوئی خارق عادت امر نہیں ہے.ہزاروں چشمے دنیا میں جاری ہوتے ہیں.خارق عادت کے معنی تو یہ ہیں کہ ایسا واقعہ ظہور میں آئے جو کبھی دیکھا نہ گیا ہوگا نیز حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ یعنی ہاجرہ زوجہ ابراہیم علیہ السلام کی سخت گھبراہٹ کے وقت چشمہ زمزم جاری ہوا جس کا ذکر (بخاری کتاب الانبیاء باب يَرْقُونَ النَّسَلَانِ فِي الْمَشْى جلد ۲ صفر ۱۲۰ مصری ) میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرت اسمعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کو عرب میں چھوڑ جانا یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ہی پیش خیمہ تھا نیز قرآن مجید کی آیت فَاجَاءَهَا الْمُخَاص إلى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ بِلَيْتَنِي مِتُ قَبْلَ هَذَا وَ كُنْتُ نَسْيَا مَنْسِيًّا (مریم: ۲۴) یعنی حضرت مریم کو دردزہ کھجور کے تنا کے پاس لے گئی اور حضرت مریم نے شدت درد سے چلا کر کہا کہ اے کاش! میں اس سے پہلے ہی مر چکی ہوتی اور دنیا سے بے نام ہو چکی ہوتی.صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ حضرت مسیح کی ولادت کے وقت کوئی خارق عادت امر واقع نہیں ہوا.خارق عادت امر تو جب ہوتا اگر حضرت مریم کو اس تکلیف اور شدت سے دردوکرب نہ ہوتا.نیز ایک بچہ جننے والی عورت کو تھری إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ (مریم: ۲۶) کہنا کہ خود کھجور کا تنا ہلا اور جو کھجوریں نیچے گریں ان کو کھالے، جہاں اس کی قابل رحم حالت کا نقشہ کھینچ دیتا ہے وہاں اس بات کی مزید تائید بھی کرتا ہے کہ کوئی خارق عادت امر اس موقع پر ظہور میں نہیں آیا.بھلا جو فرشتہ تسکین دینے آیا تھا وہ کھجور کے درخت سے کھجوریں اتار کر بھی دے سکتا تھا.پس حضرت مریم کو زچگی کی حالت
143 میں کھجور کے تنے کو ہلانے کی تکلیف دہی کی کیا ضرورت تھی؟ پس ان آیات سے کہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت ثابت ہوتی ہے.بھلا حضرت مریم بیچاری تو اپنے مخصوص حالات کی بناء پر جب قوم کی طرف سے مقطوع ہو جانے پر مجبور ہو چکی تھیں اور کوئی انسان ان کی تسکین کے لئے وہاں موجود نہ تھا.نہ کوئی دائی تھی نہ عورت.ایسے موقع پر اگر خدا تعالیٰ نے اس پاک عورت کو آواز دے کر کھجور کا تنا ہلا کر کھجوریں کھانے کی ہدایت فرمائی تو ایک لا بدی امرکیا.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ایسے حالات میں نہ ہوئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے لئے کوئی امرا اپنی قوم کی نظروں میں استحقار سے دیکھے جانے کے قابل ہو.ہاں آپ کی جدہ حضرت ہاجرہ جب کہ وہ بے کس و بے بس تھیں اور کوئی انسان ان کی تسکین کے لئے وہاں موجود نہ تھا، وہاں بھی فرشتہ نازل ہوا.(بخاری کتاب الانبیاء باب يزفون النسلان في المشي ) مزید برآں حضرت مریم کے متعلق جس قدر قرآن مجید میں الفاظ ہیں بطور ذب“ کے ہیں نہ کہ بطور مدح کے.لہذا ان کی فضیلت ثابت نہیں ہوسکتی.دلیل نمبر ۴ مسیح کا تكلم في المهد و ایتاء کتاب و نبوت بزمانه شیر خوارگی الجواب: - قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نام نہ صرف تـكـلـم في المهد بلکہ تكلم في الكهل بھی مذکور ہے یعنی فرشتے نے حضرت مریم کو کہا کہ تیرا بیٹا مھد (چھوٹی عمر ) میں بھی کلام کرے گا اور کھل (چالیس سال کی عمر ) میں بھی.اب اگر مھد کے معنی گہوارہ لے کر اس کو معجزہ قرا دیا جائے تو کھل ( تھیں چالیس سال کی عمر ) میں کیا سب لوگ باتیں نہیں کرتے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی کیا خصوصیت ہوئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملتی ہے.باتیں چالیس سال کی عمر میں سب انسان ہی کرتے ہیں مگر نبی چالیس سال کی عمر میں نبوت کی باتیں کرتا ہے.جو اس کو دوسرے لوگوں سے ممیز کرتی ہیں.پس تکلم فی المهد ( بچپن کی عمر میں باتیں کرنے کا ) مطلب یہ ہوگا کہ بچپن میں باتیں تو سب بچے کرتے ہیں مگر خدا کینی بچپن ہی سے عقل کی باتیں کرتے ہیں.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات
144 چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اسی سورۃ مریم میں ہے آتَيْنَهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (مریم: ۱۳) کہ ہم نے اس کو بچپن ہی کی عمر میں دانائی دی یعنی وہ بچپن میں ہی دانائی کی باتیں کرتے تھے.چنانچہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان لوگوں کی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا زمانہ دیکھا شہادت ہے کہ حضور رعلیہ الصلوۃ والسلام بچپن ہی میں عام بچوں سے بہت ممیز تھے اور لغویات میں حصہ نہ لیتے تھے اور لغو کھیل کود کی طرف خیال نہ تھا.جیسا کہ عام بچوں کا ہوتا ہے.یہی وجہ تھی کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کی دانائی کی باتوں سے معلوم کر لیا کہ آپ بڑے ہو کر انبیاء کے سردار بنیں گے.( بخاری باب کیف بدء الوحی الی رسول الله صلى الله عليه وسلم) باقی رہا یہ کہنا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو بچپن ہی میں نبوت اور کتاب مل گئی تھی یہ قرآن سے ثابت نہیں.سورۃ آل عمران نکال کر دیکھئے وہاں فرشتہ حضرت مریم کے پاس آکر خوشخبری دے رہا ہے کہ تیرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا اور یہ امر خدا کی قدرت کاملہ کے آگے نا ممکن نہیں وَيُعَلِّمُهُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَيةَ وَالْإِنجِيلَ وَرَسُولًا إِلى بَنِي إِسْرَاوِيْلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِايَةٍ مِنْ ریكُم (آل عمران: ۵۰،۴۹) کہ وہ بچہ جو پیدا ہو گا اس کو اللہ تعالیٰ کتاب سکھائے گا پھر تو رات کا سبق پھر اس کے بعد انجیل اور وہ ہو گا بنی اسرائیل کی طرف رسول.یہ کہ میں آیا ہوں خدا کی طرف سے نشان لے کر.یعنی حضرت مسیح کا اپنا کلام شروع ہو جاتا ہے.فرشتہ نے قبل از وقت ولادت کی پیشین گوئی کو بیان کرتے کرتے بغیر کسی وقفہ کا ذکر کرنے کے اس پیدا ہونے والے کا اپنا کلام ذکر فرما دیا ہے.پیدائش کا ذکر بھی نہیں کیا.تو معلوم ہوا کہ قرآن مجید صرف ضروری باتوں کا ذکر ضروری جگہ پر فرما دیتا ہے.چنانچہ اتنے بڑے وقفہ کا ذکر نہیں کیا اور اسلوب بیان اور بیان پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ کلام اس زمانہ کا ہے جب آپ نبوت کی عمر کو پہنچ کر نبی بن چکے تھے اور منجزات دکھاتے تھے بچپن کا آیات مذکورہ میں کہیں ذکر نہیں.سورۃ مریم میں مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صبا (مریم:۳۰) کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی کل کا بچہ ہے اس کے ساتھ ہم کیسے گفتگو کریں.یہ تو ہمارے ہاتھوں میں پلا ہے.جیسا کہ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا (الشعرآء : ۱۹) کیا تو بچپن کی حالت میں میرے ہاتھوں میں نہیں پلا؟ آج تو مجھے ہی نصیحتیں کرنے آگیا ہے.اسی طرح یہاں بھی یہودی عمائد حضرت مریم کو جواب دیتے ہیں.سگان “ہمارے معنوں کی تائید کرتا ہے فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا (مریم: ۲۸ ) کی ”ف“ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ ولادت کے معابعد کا واقعہ ہے درست نہیں.عربی زبان میں ” فا نتیجہ کے لئے
145 بھی آتی ہے.مہ ہے.مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ جو رَسُولًا إلى بَنِي اِسراءيل (آل عمران: ۵۰) ہونے والا تھا.جب بڑا ہو گیا تو ان کی ماں ان کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی طرف آئیں تا کہ وہ ان کو تبلیغ حق کریں جو ان کی پیدائش کا مقصد تھا.چنانچہ اسی رکوع میں ہے فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا (مریم: ۲۳) پس حضرت مریم حاملہ ہو گئیں اور ایک دور کے مکان میں چلی گئیں.پس در وزہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے گئی.اب حمل کے بعد ہی دروزہ کا ذکر ہے اور فاجاءها المخاض پر ”ف“ استعمال ہوتی ہے.کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حمل ہوتے ہی دردزہ شروع ہو گیا ؟ پس ”ف“ سے معابعد لینا درست نہیں.۲.قرآن مجید سورۃ آل عمران کی آیت او پر نقل کر آیا ہوں کہ فرشتہ نے آکر مریم کو بتایا کہ حضرت مسیح کو پہلے علم کتاب عطا ہوگا پھر علم حکمت، پھر علم تو رات اور اس کے بعد ان کو پنی کتاب (انجیل ) عطا ہوگی اور یہی اللہ تعالیٰ کا باقی سب انبیاء کے ساتھ دستور ہے.یعنی پہلے ان کو فہم کتاب عطا ہوتا ہے پھر انہیں کتاب ملتی ہے.پھر قرآن مجید میں ہے اِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَو حَيْنَا إِلى نُوح و عيسى (النساء: ۱۲۴) یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! ہم نے آپ پر اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح علیہ السلام اور دیگر انبیاء حضرت عیسی والیوب وغیرھم علیہم السلام پر نازل کی تھی.اب قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اسی طرح وحی کا نزول بیان فرماتا ہے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام پر ہوا اور اس میں کسی قسم کا فرق قرار نہیں دیتا.نہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کوئی خصوصیت بیان فرماتا ہے بلکہ باقی انبیاء کے ساتھ ان کا بھی ذکر کر دیتا ہے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کو تو چالیس برس کے قریب حَتَّى إِذَا بَلَغَ اشده (الاحقاف:۱۲) کے ماتحت نبوت عطا ہوئی تھی.حضرت عیسی علیہ السلام بھی اس میں شامل ہیں.چنانچہ انجیل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس برس کی عمر میں منادی شروع کی.جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو برس تھیں ایک کا تھا.“ (لوقا باب ۳/۲۳) دلیل نمبر ۵ از روئے قرآن عیاں ہے کہ جس وقت مسیح کے دشمنوں نے آپ کو پکڑنا چاہا تو آسمان سے فرشتے نازل ہوئے اور اسے آسمان پر اٹھا لے گئے لیکن حضرت محمد صاحب کو بچانے کے لئے کوئی فرشتہ نازل نہیں ہوا؟
146 الجواب :.قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت مسیح کو خدا کا کوئی فرشتہ آسمان پر اٹھا کر لے گیا.قرآن کی تمیں آیات سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے.قرآن مجید میں بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلیہ کی آیت بے شک موجود ہے مگر رفع کا ترجمہ آسمان پر اٹھالینا قطعاً غلط ہے قرآن مجید میں ہے يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَتِ (المجادلة: ۱۲) کہ خدا تعالیٰ رفع کرتا ہے تمام ایمان والوں کا اور ان لوگوں کا جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم عطا ہوا ہو.کن معنوں میں ؟ فرمایا درجت یعنی مقامات اور درجات بلند کرنے کے معنوں میں.اس سے آسمان پر اٹھانا مراد نہیں ہوتا.اسی طرح حدیث میں بھی ہے.اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ( كنز العمال جلد ۳ کتاب الاخلاق قسم الاقوال - ۵۷۱۷ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان ) کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے آگے گر جائے اور انکساری اختیار کرے تو خدا تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان پر رفع کرتا ہے.اب اس حدیث میں ساتویں آسمان کا بھی لفظ ہے مگر پھر بھی اس کے معنے آسمان پر اٹھانے کے نہیں بلکہ درجات کے بلند ہونے کے لئے جاتے ہیں.مگر قرآن مجید میں جو لفظ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آئے ہیں بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ (النساء:۱۵۹) ان میں تو آسمان کا نام بھی نہیں.اسی طرح قرآن مجید میں ہے وَاذْكُرُ فِي الْكِتَبِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( مریم: ۵۸،۵۷) کہ حضرت اور لین سچے نبی تھے اور ہم نے ان کا بلند مکان پر رفع کیا.اب حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق بھی رفع کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مکانا عَليًّا بھی.کیا وہ بھی آسمان پر زندہ ہیں؟ ۲.قرآن مجید میں لکھا ہے يعنى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى (آل عمران : ۵۲) خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ اے عیسی! پہلے تجھ کو وفات دوں گا پھر تیرا رفع کروں گا.بَل زَفَعَهُ الله نے بتایا کہ ان کا رفع ہو چکا ہے.پس ثابت ہوا کہ ان کی وفات بھی ہو چکی ہے کیونکہ رفع سے پہلے وفات کا وعدہ ہے اور متوفیات کے معنے وفات دینے ہی کے ہیں جیسا کہ بخاری میں لکھا.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّيْكَ مُمِيْتُكَ.(بخارى كتاب التفسير.باب ما جعل الله من بحيرة و لاسائبة و لا وصيلة و لا حام) که حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مُتَوَفِيكَ کے
معنی موت دینے ہی کے ہیں.147 ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اس کو فرقاں سر بہ سر اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر (در سیمین اردو) پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے.کیونکہ نہ صرف یہ کہ ان کی طبعی زندگی کا خاتمہ ہو گیا بلکہ ان کی تعلیم بھی مرگئی.ان کی تعلیم کے ثمرات مٹ گئے.مگر ہمارا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہے.اس کی تعلیم زندہ ہے.اس کے فیوض روحانیہ کی نہر اب بھی جاری ہے اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری انسان کو اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچا سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے فرمایا.قَدْ مَاتَ عِيسَى مُطْرقًا وَّ نَبِيِّنَا حَيٌّ وَ رَبِّي إِنَّهُ وَافَانِي کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے لیکن ہمارا نبی زندہ ہے.خدا کی قسم میں نے اس کے فیوض کو خود تجربہ کیا ہے.(تفصیل کے لئے دیکھو مضمون درباره وفات مسیح علیه السلام صفحه ۲۳۳) دلیل نمبر ۶ مسیح کا مردوں کو زندہ کرنا اہل اسلام نے از روئے قرآن تسلیم کیا ہے؟ الجواب :.قرآن نے جن معنوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق مردہ زندہ کرنے کا محاورہ بولا ہے انہی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی تو مردے زندہ کرنے کا ذکر فرما دیا ہے:.یایھا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال: ۲۵) اے مومنو! اللہ اور رسول کا کہا مانو.جب وہ تم کو بلائے تا کہ تم کو زندہ کرے.اب یہی لفظ اُخي حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہی یحیی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق.یہ ہمارے علماء کی بدقسمتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے تو جسمانی مردے زندہ کرنا مراد لیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روحانی مردے.۲.پھر قرآن میں موتی ( یعنی مردوں ) کا مفہوم بیان کر دیا ہے.فرمایا: فإنك لا تُسْمِعُ الْمَوْلى (الروم: ۵۳ ) کہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا.اس کے متعلق حافظ نذیر احمد صاحب دہلوی اپنے ترجمہ قرآن میں لکھتے ہیں:.غرض یہ ہے کہ کا فر مردے اور بہرے ہیں ان میں سننے اور سمجھنے کی
148 صلاحیت نہیں اور نہ سننا چاہتے ہیں.“ ۳.( ترجمۃ القرآن از مولوی حافظ نذیر احمد صاحب مرحوم صفحه ۴ ۴۹ تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی ) و تلخیص المفتاح صفحه ۲ مطبع مجتبائی دہلی میں جو عربی بلاغت کی کتاب ہے لکھا ہے: أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ ضَالَّا فَهَدَيْنَاهُ (۲۰) یعنی وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گمراہ تھا ہم نے اسے ہدایت دی.پس ثابت ہوا کہ بلغاء کے نزدیک احیائے موتی کے معنے گمراہوں کو ہدایت دینا ہے اور یہی کام خدا کے انبیاء علیہم السلام کا ہے..انجیل میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوا ہے:.الف.اور اس (یسوع) نے تمہیں بھی زندہ کیا ہے جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب مردہ تھے.“ (افسیوں ۲/۱) ” جب قصوروں کے سبب مردہ ہی تھے تو ہم کو سیح کے ساتھ زندہ کیا.“ (افسیوں ۲/۵) ج.پولوس رسول کہتا ہے:.”اے میرے بھائیو! مجھے اس فخر کی قسم جو ہمارے خد واوند یسوع مسیح میں تم پر ہے.میں ہر روز مرتا ہوں.“ (اکرنتھیوں ۱۵/۳۱) ہاں ہم مانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے بارہ مردے زندہ کئے.یہوداہ اسکر یوطی وغیرہ.مگران کی زندگی کیسی تھی ؟ اس کے لئے جس کو ضرورت ہو وہ انجیل کا مطالعہ کرے مگر ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے مردہ زندہ کئے جن پر پھر موت نہیں آئی.ابوبکر و عمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم وہ مردے تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ کیا اور ایک وہ بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، فرمانبرداری کے طفیل نبوت کے مقام پر سرفراز کیا گیا.دلیل نمبرے صفت خلق حقیقی بھی خاصہ رب العالمین ہے اور یہ وصف بھی صرف حضرت مسیح میں پایا جاتا تھا.الجواب.یہ بالکل درست ہے کہ صفت خلق حقیقی خاصہ رب العالمین ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں صفت خالقیت نہ تھی.خدا کے انبیاء ایسے وقت میں آتے ہیں جبکہ لوگ زمین کی طرف جھک چکے ہوتے ہیں اور دنیا ہی دنیا ان کی نظروں میں ہوتی ہے.انبیاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جوز مینی مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہوتے ہیں بلندی کی طرف رفعت و منزلت کی طرف پرواز
149 کر جانا چاہتے ہیں اور وہ ان میں روحانیت اور للہیت کی ایسی روح پھونک دیتے ہیں کہ وہی زمینی لوگ پرندوں کی طرح اڑ کر آسمانی انسان بن جاتے ہیں پھر وہ اس شعر کے مصداق ہو جاتے ہیں.؎ ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار یہی معنے ہیں اس آیت کے انّي اَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الدِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُونُ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ (آل عمران: ۵۰) اخلق کے معنے ” پیدا کرتا ہوں“ کرنا قطعاً درست نہیں کیونکہ خلق کے معنے پیدا کرنے، کسی چیز کی ابتداء کرنے اور تجویز کرنے کے بھی ہوتے ہیں مگر اول الذکر معنوں میں یعنی پیدا کرنے کے معنوں میں سوائے خدا تعالیٰ کے یہ لفظ اور کسی کے لئے نہیں بولا جاتا.جیسا کہ مفردات راغب جو عربی لغت کی معتبر کتاب ہے لکھا ہے.پس اس جگہ اخْلُقُ لَكُم کے معنی ہوں گے میں تمہارے فائدہ کے لئے تجویز کرتا ہوں چنانچہ کتاب الشعراء والشعراء لابن قتیبہ کے صفحہ ۲۹ پر مشہور عربی شاعر کعب بن زہیر بن سلمیٰ کا یہ قول درج ہے.لَانُتَ تَفْرِى مَا خَلَقْتَ وَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَخْلُقُ ثُمَّ لَا يَفْرِى اور لَأَنْتَ تَفْرِى مَا خَلَقْتَ کا ترجمہ مَا قَدَرُتَ لکھا ہے.اسی طرح تفسیر بیضاوی تفسیر سورۃ آل عمران زیر آیت اخْلُقُ لَكُم الا لکھا ہے اَخْلُقُ لَكُمْ.اَقْدِرُ لَكُمْ پس اس آیت کے وہی معنے درست ہیں جو ہم نے کئے.قرآن مجید صاف لفظوں میں فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنَ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ تَسْلَبُهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ـ (الحج: ٧٢) جن لوگوں کو خدا کے سوا تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے خواہ وہ سب جمع ہو کر بھی بنانے کی کوشش کریں یہاں تک کہ اگر مکھی ان کی کوئی چیز اٹھا کر لے جائے تو وہ اس کو اس سے بھی نہ چھڑا سکیں.حضرت عیسی علیہ السلام بھی انہی معبودانِ باطلہ میں سے ہیں جیسا کہ فرمایا: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ المَسيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (المائدة: ۱۸) پس قرآن مجید تو یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح ایک مکھی بھی نہ بنا سکتے تھے چہ جائیکہ ان کے متعلق چمگادڑیں اور پرندے بنانے کا ادعا کیا جائے.ایسا دعویٰ کرنے والوں کو قرآن مجید کی یہ آیت پڑھنی چاہیے: آم جَعَلُوا لِلهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۖ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الرعد: ۱۷) کہ ان لوگوں نے اللہ کے شریک بنارکھے ہیں (جن کے متعلق کہتے ہیں) کہ انہوں نے بھی اس کی طرح پیدا کیا اور پھر ان کی پیدائش کی ہوئی چیزیں خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے ساتھ مل جل گئیں.ان کو کہ دو کہ صرف اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کے سوا اور کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے.
150 پس حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ کہنا کہ : اخْلُقُ لَكُم (آل عمران: ۵۰) والی آیت میں لفظ خلق انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے جن معنوں میں خدا تعالیٰ کے لئے بالبداہت باطل ہے.حضرت عیسی علیہ السلام یہودیوں کے پاس اس وقت آئے جبکہ وہ دنیا داری میں پھنس کر مٹی ہو چکے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام نے چاہا کہ وہ پرندوں کی طرح خدا کی طرف اڑنے لگ جائیں.پھر ان میں روحانیت کی روح پھونکی جس سے وہ خدا کی طرف اڑنے لگے.یہی معنی اس آیت کے ہیں إِلَيْهِ يَصْعَدُ الكَلِمُ الطَّيْب وَالعَمَل الصَّالِحُ يَرْفَعُه (فاطر: ۱۱) که خدا ہی کی طرف اوپر چڑھتے ہیں پاک کلمات اور نیک کام.وہ ان کو بلند کرتا ہے.ہاں حضرت عیسی علیہ السلام نے پطرس اور یہوداہ اسکر یوٹی جیسے پرندے بنائے جواڑے اور اڑ کر پھر زمین پر گر پڑے مگر خدا کے برگزیدہ رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر ، عمر ، عثمان وعلی رضی اللہ عنہم جیسے پرندے بنائے جنہوں نے فضائے روحانیت کی لا انتہا بلندیوں کی طرف پرواز کی.دنیوی نگاہوں نے اپنی پستی سے ان کی بلندی کو نا پنا چاہا مگر نگا ہیں نا کام واپس آئیں.رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا بنایا ہوا ایک پرندہ ( مسیح موعود ) اس بلندی پر پہنچا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق انتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةٍ لَا يَعْلَمُهَا الْخَلْقُ ( تذکرہ ایڈیشن سوم - الشركة الاسلامیہ صفحہ ۱۰۷، الہام ۱۸۸۳ء) کا ارشاد فرمایا.دلیل نمبر ۸ اندھوں کو بینائی بخشا اور بہروں کو شنوائی عطا کرنا اور کوڑھی کو شفا بخشا بھی قرآن نے مسیح کے اقتداری نشانات و معجزات تسلیم کئے ہیں.کیا آنحضرت نے بھی کوئی ایسا معجزہ دکھایا ؟ الجواب: - قرآن مجید میں ابرِئُ الْأَكْمَة وَالْاَبْرَصَ (آل عمران: ۵۰) آیا ہے جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے میں بری کرتا ہوں اندھے اور کوڑھے کو.ابری مضارع واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں بری کرتا ہوں.اُشفی کا لفظ نہیں جس کا ترجمہ یہ ہو کہ میں شفا دیتا ہوں.آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھوں اور کوڑھوں پر کوئی قید تھی جس سے حضرت عیسی علیہ السلام نے ان کو بری کیا.یا در ہے کہ تورات میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اندھے، کوڑھے لنگڑے بیکل میں داخل نہ ہوں کیونکہ وہ ناپاک ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام نے آکر ان کی اس قید کو ہٹا دیا.ملاحظہ ہو تو رات :.کیونکہ وہ مرد جس میں کچھ عیب ہے نزدیک نہ آئے جیسے اندھایا لنگر یا دا کھجلی بھرا وہ 09 عیب دار ہے...وہ اپنا کھائے مگر پردے کے اندر داخل نہ ہو.میرے مقدس کو بے حرمت نہ کرے.“
151 (احبار ۱۸ تا ۲۱/۲۴) پھر خدا وند نے موسیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم کر کہ ہر ایک مبروص اور جریان والا جو مردہ کے سبب ناپاک ہے ان کو خیمہ گاہ سے باہر کر دیں.کیا مرد اور کیا عورت دونوں کو نکال دو کہ اپنی خیمہ گاہوں کو جن میں میں رہتا ہوں نا پاک نہ کریں.( گفتی انا ۵/۳ ) پس یہ وہ قید تھی جس سے مسیح نے ان کو بری کیا.ہاں خدا کے انبیاء روحانی اندھوں کو بصارت و بصیرت عطا کرتے آئے ہیں.اندھا وہ ہے جو خدا کے انبیاء کی صداقت کو شناخت نہیں کرتا.فرمایا مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اعمی (بنی اسرائیل: ۷۳) کہ جو یہاں اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہے.قرآنِ مجید نے اپنی تمام آیات کو مُبْصِرَةٌ ( بینائی بخشنے والا ) قرار دیا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام نے بے شک پطرس ، یوحنا ، یہوداہ جیسے اندھوں اور کوڑھوں کو بینائی دی اور کام کرنے کے قابل بنایا مگر ان کی یہ بینائی اور قوت عارضی تھی.مسیح کے گرفتار ہوتے ہی ان کی یہ سب طاقتیں مسلوب ہو گئیں مگر ہمارے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اندھوں کو آنکھیں دیں اور کوڑھوں کو کام کرنے والا بنایا کہ جو شخص ان سے وابستہ ہوا، اس نے بھی بینائی پائی.دلیل نمبر ۹ قرآن میں بھی یہ لکھا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں جو کچھ کرتے اور کھاتے پیتے تھے حضرت مسیح ان کو وہ سب کچھ بتا دیتے تھے.الجواب:.قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ حضرت مسیح لوگوں کو یہ بتایا کرتے تھے آج تم گوشت کھا کر آئے ہو اور تم دال.بلکہ آیت یوں ہے:.وَانَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ في بيوتكم (آل عمران: ۵۰) کہ میں تم کو بتاتا ہوں (احکام) ان چیزوں کے متعلق جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ رکھتے ہو یعنی جمع و خرچ کے احکام بیان کرتا ہوں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا كُلُوا وَاشْرَبُوَ اوَلَا تُسْرِفُوا (الاعراف: ۳۲) کہ کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو.ورنہ یہ کہنا کہ حضرت عیسی" یہ بتا دیا کرتے تھے کہ آج زید سبزی کھا کر آیا ہے اور بکر کر و اور عمر نے اپنے گھر میں مکی اور باجرہ جمع کر رکھا ہے مضحکہ خیز ہے.دلیل نمبر ۱۰ قرآن میں تمام انبیاء کے گناہوں کا ذکر ہے.خصوصاً حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ملتا ہے کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ.ہم نے تجھے گمراہ پایا اور ہدایت کی.الجواب :.سائل نے دو آیات پیش کی ہیں (۱) وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (محمد:٢)
152 وَوَجَدَك ما لا فهدى (الضحى: ۸) پہلی آیت کا جواب :.ذنب کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن میں پانچ مرتبہ آیا ہے اور پانچوں مرتبہ جنگ اور فتوحات کے ذکر کے بعد ہی آیا ہے.چنانچہ ایک جگہ لا تكُن للْخَاسِنِينَ خَصِيَّة) (النساء: ۱۰۲) سورۃ مومن: ۸ میں پہلے نصرت کا ذکر ہے بعد میں استغفار کا.سورۃ محمد : ۲۰ میں بھی جنگ کے ذکر کے ساتھ.اسی طرح سورۃ نصر میں بھی فتوحات کے ذکر کے ساتھ استغفار کا حکم ہے.سورۃ فتح میں بھی إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (الفتح: ۲) کے بعد استغفار کرنے کا حکم ہے.پس معلوم ہوا کہ استغفار اور ذنب کا فتوحات اور نصرت الہی کے ساتھ گہرا واسطہ ہے.خدا تعالیٰ کی نصرت کبھی گنہ گاروں اور بدکاروں کو نہیں ملا کرتی.کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو پھر ذنب کے ساتھ فتوحات اور نصرت کا کیا جوڑ؟ نیز یہ کہنا کہ اے نبی ! تو اپنے اور مومنوں کے لئے استغفار کر، صاف طور پر بتا رہا ہے کہ اس آیت میں ذنب کے معنی اتم یعنی گناہ نہیں.بلکہ بشری کمزوری کے ہیں.قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اہم کا لفظ نہیں بلکہ ذنب کا لفظ ہے جس کے معنی بشری کمزوری کے ہیں.قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے کہ حضور پاک اور بے لوث انسان تھے.إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمِ (القلم: ۵) کہ اے نبی ! تو اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے خدا اسمعیل کی نسل میں سے ایک ایسا عظیم الشان نبی پیدا کر جويز كيهم (البقرة: ۱۳۰) کا مصداق ہو یعنی ان کو پاک کرے.قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے يُزَ كَيْهِمْ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو پاک بناتے ہیں.پھر فرمایا کہ بِايْدِى سَفَرَةٍ كِرَاهِم بَرَرَةٍ (عبس: ۱۷) کہ یہ مومن جن کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے قرآن دیا ہے نہایت ہی پاک لوگ ہیں.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو پاک بنا بھی دیا پس ایسے عظیم الشان انسان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ خود گنہ گار تھا سراسر بے انصافی ہے.پس ذنب کے معنے یہی ہیں کہ چونکہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا اس لئے فتوحات اور لڑائیوں کے بعد بعض دفعہ محض بشریت کی وجہ سے بعض ایسے فیصلے سرزد ہو جاتے ہیں جن سے موجودہ لوگ تو مستفید ہو جائیں مگر بعد میں آنے والے لوگ جو بوقت فیصلہ موجود نہیں ہوتے نقصان اٹھا لیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی! تو ایسی بشری کمزوریوں کے غلط نتائج سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ سے
153 استغفار کرلے.یعنی یہ دعا کرے کہ اس کمی کو خدا تعالیٰ پورا کر دے.کیونکہ وہ عالم الغیب ہے تا کہ نبوت کے عظیم الشان مقصد میں کوئی امر روک نہ ہو.ذَنَبَ ذَنْبا کے معنے لغت میں پیچھے آنے کے بھی ہیں.اگر ان معنوں کو مدنظر رکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی ! تو اپنے متبعین اور آئندہ آنے والے مومنین کے لئے مغفرت کی دعا کروبس.دوسری آیت کا جواب :.ضَال بمعنی گمراہ نہیں بلکہ ضال بمعنی متلاشی ہے.جیسا کہ سورۃ یوسف کی آیت اِنَّكَ لَفِي ضَلِكَ الْقَدِيمِ (يوسف : ۹۲) میں.آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تجھ کو دنیا کے لئے ہدایت کا متلاشی پایا اور تجھ کو ہدایت عطا کی.دوسرا قرینہ اس سورۃ (الضحی) کی ترتیب ہے اس میں وَوَجَدَكَ ضَا لَّا فَهَدى (الضحی: ۸) کے نتیجے میں اس کے بالمقابل وَأَمَّا السَّابِرَ فَلَا تَنْهَرُ (الضحى: ۱۱) یعنی اے نبی ! تو مال تھا ہم نے تجھ کو ہدایت عطا کی.پس تو بھی کسی سائل کو مت ڈانٹ.اس آیت کی بناوٹ ہی بتا رہی ہے کہ یہاں طالاً کے معنے سائل اور متلاشی کے ہیں.ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صاف طور پر قرآن میں آیا ہے مَا ضَلَّ صَاحِبَكُمْ وَمَا غَوى (النجم : ۳) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ کبھی گمراہ ہوئے اور نہ راہِ راست سے بھٹکے.باقی حضرت عیسی علیہ السلام کے گناہ ! ہم تو سب انبیا ء کو گناہ سے پاک مانتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أو أدنى (النجم: ۱۰۹) فرمایا.دلیل نمبر 11 حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت میں فتنہ دجال کو فرو کرنے کے لئے آئیں گے.الجواب: - حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا زندہ آسمان پر ہونا قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں جیسا کہ سوال نمبر ۵ کے جواب میں بیان ہوا اور جس شخص کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ آخری زمانہ میں فتنہ دجال کو فرو کرنے کے لئے مبعوث ہوگا اس نے اسی اُمت محمدیہ میں سے پیدا ہونا تھا.چنانچہ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی و مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۳۶ مطبوعہ مصر میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کہ مسیح موعود امت محمدیہ کا امام ہو گا جو اس امت ہی میں سے ہوگا.پھر بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو صیح ناصری کا حلیہ بیان فرمایا ہے وہ سرخ رنگ اور گھنگھریالے بال ہے مگر آنے والے مسیح کا حلیہ
154 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گندمی رنگ اور سیدھے بال بیان فرمایا ہے.( بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۵۹ مطبع الہیہ مصر) دو حلیے ایک آدمی کے نہیں ہو سکتے.پس اختلاف حلیتین بتاتا ہے کہ پہلا مسیح فوت ہو چکا اور آنے والا مسیح اسی دنیا سے پیدا ہونا تھا.حضرت محی الدین ابن عربی نے بھی لکھا ہے.وَجَبَ نُزُولُهُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِهِ بِبَدَنِ اخَرَ.“ (تفسیر عرائس البیان جلد اصفحہ ۲۶۲) کہ آخری زمانہ میں پہلا مسیح واپس نہیں آئے گا بلکہ اب وہ ایک نئے وجود کی صورت میں ہی ظہور پذیر ہوگا.پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا کمال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ایک انسان کو مسیح بنا سکتی ہے بلکہ اس سے بھی اگلے مقام پر لے جاسکتی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر تھا کہ وہ دجالی فتنہ سے جو پہلے مسیح کی بگڑی ہوئی اُمت کی طرف سے کھڑا کیا جانا تھا.جس کی بنیادیں پہلے مسیح کی خدائی پر مستحکم اور استوار کی جانی تھیں اس کو مٹانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی قوت قدسی ایک محمدی مسیح کھڑا کرے جو اس فتنہ کو عصائے محمدی سے پاش پاش کر دے اور الوہیت باطلہ و تثلیث نادرہ کی دھجیاں فضائے آسمان میں بکھیر کر رکھ دے.برتر گمان ودہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے ( در مشین اردو) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی پیشگوئیوں کے عین مطابق وہ آنے والا قادیان کی سرزمین میں ظاہر ہوا اور اپنی باطل شکن صدا سے تثلیث باطلہ کے قصر عظیم المنظر میں اضمحلال پیدا کر گیا.وہ آیا جس کی آمد دیکھنے کو نگاہ شوق سوئے آسمان ہے مسیح وقت آیا قادیاں میں جبھی تو قادیاں دارالاماں ہے مبارک وہ جو اسے قبول کریں اور اس کے دامن اطاعت کے ساتھ وابستہ ہو کر ا فواج باطل کے از باق کا ہمت آفریں کام کریں.(خادم)
155 سکھ مذہب حضرت بابا نانک صاحب مسلمان ولی اللہ تھے ہمارا عقیدہ ہے کہ جناب بابا نانک صاحب رحمتہ اللہ علیہ پکے مسلمان اور ولی اللہ تھے اور اس کی بنیاد ہمارے آقا و پیشوا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کشف ہے جس میں حضور کو بابا صاحب بحالت اسلام دکھائے گئے ( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۸۱ تا ۵۸۴ و تذکره صفحه ۱۵ ایڈیشن چہارم) اور پھر وہ دلائل ہیں جو آپ نے بابا صاحب کے اسلام کے ثبوت میں ۱۸۹۵ء میں کتاب ست بچن اور اس کے بعد چشمه معرفت“ (روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۵۰ تا ۳۶۸) میں تحریر فرمائے.علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کے علماء کی طرف سے بھی کئی ایک ٹریکٹ اور کتابیں اس موضوع پر شائع ہو چکی ہیں.ذیل میں ہم یکجائی طور پر بغیر کسی حاشیہ آرائی کے وہ امور درج کرتے ہیں جو اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں.بابا صاحب کے مسلمان ہونے کے عقیدہ کی ابتداء بابانا تک صاحب کے مسلمان ہونے کا عقیدہ آپ کے زمانہ زندگی ہی سے مسلمانوں میں چلا آتا ہے.یعنی بابا صاحب کی زندگی میں مسلمان آپ کو ولی اللہ کہتے تھے (جنم ساکھی بالا صفحہ ۱۳۲ جنم ساکھی منی سنگھ صفحه ۱۰۸ و صفحه ۱ او تواریخ گر و خالصہ صفر ۲۴ وصفه ۴۴ مصنفہ پروفیسر سندر سنگھ، بحوالہ سکھ گور و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباداللہ گیانی صفحہ ۳) بلکہ آپ کو ولی عارف یقین کرتے تھے ( تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۴۰۳ ، سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اللہ گیانی صفحه ۳) اور نانک در ولیش کے نام سے پکارتے تھے (جنم ساکھی بالاصفحہ ۱۳۶ و جنم ساکھی سری گر و سنگھ سبھا صفحہ ۲۴۸، بحوالہ سکھ گور و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباداللہ گیانی صفحه ۳) مسلمانوں میں بابا صاحب کی یادگاریں پھر لکھا ہے کہ آپ حاجی درویش بن کر سکے میں حج کے لئے گئے (جنم ساکھی بھائی بالا صفحہ ۱۳۱
156 ایڈیشن دوم ساکھی نمبر ۳۷ صفحہ ۲۱۶، بحوالہ سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از باداللہ گیانی صفی ) ) اور ممالک اسلامی میں آپ کے مقامات کو نانک قلندر یا ولی ہند کے دائرہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ( تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۳۹۶ مصنفہ گیانی گیان سنگھ، بحوالہ سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد الله گیانی صفحیم) قلندر مسلمان فقیروں کے لیے مشہور لفظ ہے ( ناواں تے تھاواں دا کوش مصنفہ ماسٹر متاب سنگھ ) اور گیانی گیان سنگھ نے لکھا ہے کہ مکہ شریف میں بابا نانک کا مکان مسجد کی شکل پر بنا ہوا ہے جو ولی ہند کے نام سے مشہور ہے (تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۴۴۲ بحوالہ ہمارا نا نک اور عباد اللہ گیانی صفحہ ۳۷) اور عرب میں بابا صاحب ولی ہند کے نام سے مشہور ہیں اور آپ کے مکانات مسجدوں کی شکل میں بنے ہوئے ہیں ( تواریخ گر وخالصہ صفحہ ۴۴۵ و ناواں تے تھاواں دا گوش صفحه ۳۵۰ بحوالہ ہمارا نا نک اور عباد اللہ گیانی صفحہ ۳۷) اور بغداد کے مسلمان بابا صاحب کو مسلمان پیر خیال کرتے ہیں ( تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۶۲ مصنفہ گیانی گیان سنگھ مطبوعہ وزیر ہند پریس امرتسر ۱۹۲۳ء) اور ہزارہ کے علاقہ میں ایسے لوگ آباد ہیں جو اپنے آپ کو نا نک ولی کے مرید بتاتے ہیں.(تواریخ گر و خالصه صفحه ۴۶۴) بابا صاحب کی وفات پر مسلمانوں کا دعویٰ بابا صاحب کی وفات پر بھی مسلمانوں نے پُر زور اصرار کیا کہ ہم آپ کی لاش مبارک کو جلانے نہیں دیں گے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ آپ پکے مسلمان اور حاجی ہیں ( تواریخ نگر و خالصہ صفحہ ۶۳ مصنفہ پروفیسر سندر سنگھ بحوالہ سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اللہ گیانی صفحه ۵۹) سردار خزان سنگھ صاحب نے بھی مسلمانوں کے اس اصرار کی وجہ یہی بتائی ہے کہ وہ آپ کو مسلمان یقین کرتے تھے.(ہسٹری اینڈ دی فلاسفی آف دی سکھ ریلی جن صفحہ ۱۰۶ بحوالہ سکھ گوڑ وصاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباداللہ گیانی صفحه ۵۹) بابا نانک صاحب کے اسلام پر ایک شہادت گوردوارا کے ٹربیونل کے جوں نے مقدمہ نانک کے فیصلہ میں لکھا.کچھ لوگوں کا خیال ہے (دیکھو ہیوز صاحب کی ڈکشنری آف اسلام صفحه ۵۸۳ تا ۵۹۱) کہ گرو نانک صاحب نے اپنے خاص اصول اسلام سے لئے ہیں.یہ بات پکی ہے کہ بابا صاحب نے اپنے آپ کو اسلام کا مخالف ظاہر نہیں کیا اور اس نے ایک مسلمان فقیر کی شکل میں مکے کی یا ترا کی.( اداسی سکھ نہیں صفحہ ۲۲ بحوالہ بحوالہ ہمارا
157 نانک اور عباداللہ گیانی صفحه ۱۵۴) بابا نانک صاحب کا نام مسلمانوں کا سا تھا گیانی گیان سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمان بابا صاحب کو ” نانک شاہ کے نام سے پکارتے تھے (تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۱۲۸ بحوالہ سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اللہ گیانی صفحہ ۳) اور جنم ساکھی بالا میں 'نانک شاہ ملنگ“ لکھا ہے.(جنم ساکھی بالا صفحہ ۲۸ بحوالہ سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اللہ گیانی صفحہ۳) یا در ہے کہ ملنگ مسلمان فقیروں کے ایک فرقہ کا نام ہے ( مہاں گوش مصنفہ سردار کا ہن سنگھ صاحب آف نابھہ ) اور ولی اللہ ، درویش، ملنگ یہ سب مسلمان فقیروں کے مخصوص القاب ہیں (ملاحظہ ہو وراں بھائی گورداس وار ۲۳.پوری ۳۰ بحوالہ سکھ گور و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباداللہ گیانی صفحہ ۳).بابانا تک صاحب کی تعلیم گیانی گیان سنگھ صاحب کا بیان ہے کہ مسٹرکنیم نے اسلامی تاریخوں کے حوالجات سے تحریر کیا ہے کہ بابا نانک صاحب کے ہمسایہ میں سید میر حسن صاحب نے جو اس علاقہ میں اولیاء کرامتی کی صلح کل اور بے لاگ پیر مانے ہوئے تھے اپنا سارا دینی و دنیاوی علم بابا نانک صاحب کو پڑھایا اور بڑے بڑے راہ حق کے بھید بتائے ( حاشیہ تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۸۶ بحوالہ ہمارا نا نک اور عباداللہ گیانی صفحہ ۵ ) اور یہ بھی لکھا ہے کہ جناب بابا نانک صاحب نے سرسہ شریف میں خواجہ عبدالشکور صاحب کے مزار پر چلہ کیا.( تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۲۲۴) بابا نانک صاحب کا السلام علیکم کہنا قرآن شریف میں مرقوم ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمُ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء : ۹۵) یعنی نہ کہو اس شخص کو جو تمہیں السلام علیکم کہے کہ تو مسلمان نہیں.اس ارشاد کے مطابق جو ہم کو السلام علیکم کہے گا ہم اسے مسلمان کہنے پر مجبور ہیں.بھائی گورداس جی نے بھی لکھا ہے کہ آپس میں ملتے وقت السلام علیکم کہنا مسلمانوں کا کام ہے (وار ۲۳.پوڑی ۳۰) اور یہ ثابت ہے کہ جناب بابا صاحب نے مسلمانوں کو ملتے وقت السلام علیکم کہا جس کے جواب میں ہر دو فریق نے وعلیکم السلام کہا.
158 جنم ساکھی بالاصفحہ ۱۳۷ صفحه ۴۷۶ صفحه ۵۱۲ و جنم ساکھی میکالف والی صفحہ ۱۳۸ بحوالہ ہمارا نانک اورعباداللہ گیانی صفحہ ۱۷۸) اس سے صاف ثابت ہے کہ مسلمان بابا نانک صاحب کو مسلمان یقین کرتے تھے اور وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے.یادر ہے کہ گرو گوبند سنگھ صاحب سے پہلے گر وصاحبان اور ان کے سکھوں میں پیریں پونا کہا جاتا تھا ( دار۲۳ - پوری ۲۰.مصنفه گورداس و گورمت سدھا کر صفحہ ۱۲۸ مصنفہ سردار کا ہن سنگھ ) یہ بالکل ثابت نہیں کہ جناب بابا صاحب نے کبھی ”پیریں پونا استعمال کیا ہو.بابا نانک صاحب کا اذان کہنا اذان دینا بھی ایک پکے مسلمان کی علامت ہے.بابا صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اذان کہی (جنم ساکھی بالا صفہ ۲۰۳، بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان صفحه ۸۲ ۸۳) نیز بھائی گورداس نے آپ کا بغداد اور مکہ شریف میں اذان کہنا بتایا ہے.ملاحظہ ہو( وار پہلی صفحہ ۱۳-۱۴ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان صفحہ ۸۲ ۸۳ ) اور مسٹر میکالف نے لکھا ہے کہ ”جب کبھی وقت آیا تو گرو نانک صاحب نے حضرت محمد صاحب کے ماننے والے پکے مسلمانوں کی طرح بانگ دی“.( میکالیف اتہاس صفحہ ۱۴۷ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان صفحه ۸۲-۸۳) اذان کہنے والا بلند آواز سے خدا تعالیٰ کی بزرگی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہوا مسلمانوں کو نماز کے لئے مسجد کی طرف بلاتا ہے.پس با بانا تک صاحب کے اذان دینے سے ثابت ہوا کہ وہ رسالت محمدیہ کے اقراری تھے.آپ فرماتے ہیں: بابا صاحب اور نماز خصم کی ندر دلیہ پسندی جنی کر ایک دھیا یا تیہ کر رکھے پہنچ کر ساتھی ناؤں شیطان مت کٹ جائی گرنتھ صاحب صفحہ ۲۲ سری راگ محلہ اگھر ۳ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان صفحہ ۹۰) یعنی خدا کی نگاہ اور دل میں وہی لوگ پسندیدہ ہیں جنہوں نے اس کو ایک جانا.تمہیں روزے
159 رکھے.پانچ نمازیں ادا کیں.علاوہ ازیں سری گرو گرنتھ صاحب میں بعض اور کئی مقامات پر بھی نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے بلکہ جنم ساکھیوں میں بابا صاحب نے نماز نہ پڑھنے والے کو عنتی قرار دیا ہے.چنانچہ لکھا ہے: ل لعنت بر سرتناں جو ترک نماز کرین تھوڑا بہتا کھٹیا ہتھو ہتھ گوین جنم ساکھی بالاصفحہ ۲۲ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحه ۹۲ و جنم ساکھی ولایت والی صفحہ ۲۴۷) اور جنم ساکھی منی سنگھ صفحہ ۱۰۷ میں بابا صاحب کا حکم نماز با جماعت ادا کرنے کا درج ہے.بابا نانک صاحب اور زکوۃ اسی طرح زکوۃ ادا کرنے کے بارے میں بابا صاحب کا ارشاد جنم ساکھی بالا صفحہ ۱۹۹ پر درج ہے.دین نه مالِ زکوة جوتنس داسنوبیان اک لیون چورلٹ اک آفت پوے اجان پھر لکھا ہے: ل لعنت بر سرتناں جو ز کوۃ نہ کڈھدے بیان دھکا پوندا غیب دا ہوندا سب زوال جنم ساکھی منی سنگھ صفر ۴ ۴۱ بحوالہ ہمارا نا تک اور عباداللہ گیانی صفحہ ۱۳۷) نیز تواریخ گر و خالصہ صفحہ ۴۱۰ میں زکوۃ ادا کرنے کا حکم درج ہے.بابا صاحب اور روزہ و حج آپ نے روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا ہے.ملاحظہ ہو( گرنتھ صاحب صفحہ ۲۲ جنم ساکھی بالاصفحہ ۱۴۳ و ۱۷۸ بحوالہ خالصہ دھرم کے گروؤں کی تاریخ از عبد الرحمن (۱۵) بابا صاحب کو الہام ہوا کہ اے نانک مکے مدینے حج کر.(جنم ساکھی بالاصفحہ ۱۳۶ و جنم ساکھی بالا ار دو صفحه ۱۵۳ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحہ ۹۹) اور با وا صاحب مردانہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ : ”اگر ہمارے نصیب میں حج کعبہ ہے تو ہم بھی جائیں گے.جنم ساکھی بالا صفحہ ۱۰۳.پھر لکھتا ہے کہ آپ حاجی درویش بن کر سکے کے حج کو حاضر ہوئے اور سورہ کلام (سورۂ کلام سے قرآن شریف کی کوئی سورۃ مراد ہے) کی صفت کرنے لگے.(جنم ساکھی بالاصفحہ ۱۳۱) اور آپ فرماتے ہیں.” جو صدق دل سے حج کرے.اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بے گناہ بچہ.
160 مردانہ خوب یاد رکھو جو کوئی مکہ شریف کو نہ مانے وہ کافر ہے.خواہ کوئی ہو.“ (جنم ساکھی بالا اردو صفحہ 4ے اوے ۱۷ بحوالہ سکھ گوڑ و صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اللہ گیانی صفحه ۲۹) بابا صاحب نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی تاکید فرمائی ہے.( خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحه ۱۵) جیسا کہ گرنتھ صاحب سری راگ محلہ میں لکھا ہے: برکت تین کو انگلی پڑھدے رہن درود یعنی اُن لوگوں کو اگلے جہان میں برکت ملے گی ، جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے رہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.ص صلاحیت محمدی مکھ تھیں آکھونت خاصه بنده ربدا سر متراں ہوں مت صلوت گذشت کو آکھو مکھ تے نت خاصے بندے رب دے سر متراں دے مت جنم ساکھی بالا والی صفحه ۲۱ بحوالہ ہمارا نا تک اور عباداللہ گیانی صفحه ۸-۸۱) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہمیشہ زبان سے کرتے رہو کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے خاص بندے اور پیاروں سے پیارے ہیں.اور لکھا ہے.مَن خُدائے رسول نوں سچا ای دربار م محمد من توں من کتیباں چار ( جنم ساکھی سری گر وسنگھ سبھا صفحہ ۲۴۷ بحوالہ ہمارا نا نک اورعباداللہ گیانی صفحہ دیباچہ) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ کیونکہ ان کا دربار سچا ہے.علاوہ ازیں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضور کو جبرائیل لے گیا اور آپ پردہ میں خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے.خدا تعالیٰ نے فرمایا.اے پیغمبر! تیرا شیشہ صاف ہے جس میں میری شکل نظر آتی ہے.جنم ساکھی بالا صفحہ ۶ ۵ و جنم ساکھی منی سنگھ صفحہ ۴۶۸) پھر لکھتا ہے کہ بابا صاحب نے مردانہ کو کہا کہ یہ مقام بزرگوں کا ہے.اس جگہ فرشتہ پیغمبری کی آیات لایا کرتا تھا جن میں ایک آیت یہ ہے لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک (نزهة النظر فی شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۳ حاشیہ ا محمدعبداللہ ٹو کی تح ادارہ السیدمحمد عبد الاحد۱۳۴۴ مطبع المجتبائی دہلی) یعنی اے پیغمبر! اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین آسمان پیدا نہ کرتا.“ (جنم ساکھی منی سنگھ صفحہ ۳۱۸) اور پوراتن جنم ساکھی صفحہا میں بابا صاحب کا قول درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے دربان ہیں.
161 بابا صاحب اور قرآن شریف گرنتھ صاحب رام گلی محلہ اصفحہ ۸۳۶ (بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان صفحہ ۱۰۰) میں لکھا ہے: ”کل پردان کتیب قرآن یعنی گل لیگ میں خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے قرآن شریف کو منظور فرمایا ہے اور ایک شخص کے سوال پر بابا صاحب فرماتے ہیں: قرآن کتیب کمائیے د یعنی قرآن شریف پر عمل کرو کر چانن صاحب ایویں ملے “.اس سے جو روشنی پیدا ہوگی.اس میں خدا ملے گا.( جنم ساکھی سنگھ سجا صفحہ ۱۲۹ و جنم ساکھی بالا صفحه ۴۱۲ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحه ۸۷) بابا صاحب کا ایک قول یہ ہے : توریت انجیل زبورتر یہ پڑھ ٹن ڈٹھے وید.رہیا قرآن شریف کل جگ میں پر وار جنم ساکھی بالا صفحہ ۱۴۷ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحه ۸۷ و چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۶۰) یعنی میں نے توریت، انجیل، زبور اور وید پڑھ اور سن کر دیکھ لئے ہیں.قرآن کتاب ہی گلن ینگ کی ہدایت کے لئے خدا تعالی نے منظور فرمائی ہے اور جناب بابا صاحب کا وہ قرآن شریف جس کو سفر میں آپ ساتھ رکھا کرتے تھے گرو ہر سہائے ضلع فیروز پور کے گوردوارہ میں آج تک موجود ہے.بابا صاحب اور قیامت آپ قیامت کے قائل تھے جیسا کہ لکھا ہے: آسمان دھرتی چلسی مقام وہی ایک سری راگ دن رڈ چلے نس کس چلے تار کا لکھ پلوئے محلہ اصفحہ ۶۰ مقام وہی ایک ہے نانک سچ بگوئے “ (گرنتھ صاحب آرد بحوالہ ہمارا نا تک اور عباداللہ گیانی صفحه ۹۲) یعنی آسمان اور زمین بھی فنا ہو جائیں گے.وہ ایک یعنی خدا ہی ہمیشہ قائم رہے گا.دن اور سورج فنا ہو جائیں گے اور لاکھوں ستارے بھی نیست و نابود ہو جائیں گے وہ ایک ہی ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.نانک سچ کہتا ہے ( جنم ساکھی بالاصفحہ ۲۳۳۱۵۲۱۳۹ بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان
162 صفحہ ۱۰۱ا جنم ساکھی سنگھ سجا صفحہ۰ ۲۵) میں قیامت کو برحق تسلیم کیا گیا ہے.بابا صاحب اور بہشت دوزخ کا عقیدہ بابا صاحب نے اسلامی بہشت اور دوزخ کے عقیدہ کو بھی تسلیم کیا ہے (دیکھو راگ ماجھ محلہ اصفحہ ۳۱ او جنم ساکھی بالاصفحه ۱۳۹ و ۱۹۱ و ۳۳۴ و گرنتھ صاحب آسا محله اصفحه ۴۳۷ بحوالہ ہمارا نا نک اور عباد اللہ گیانی صفحه ۱۰۳-۱۰۴) جنم ساکھیوں اور گرنتھ صاحب میں عقیدہ شفاعت کو برحق تسلیم کیا گیا ہے.طوالت کے ڈر سے صرف ایک حوالہ پر اکتفا کرتا ہوں.بابا صاحب نے فرمایا ہے: عملاں والے تیت دن ہوسن بے پرواہ سٹی چھٹے نا نکا حضرت جناں پناہ جنم ساکھی سنگھ سبھا صفحه ۲۵۰ بحوالہ ہمارا نا نک اور عباداللہ گیانی صفحہ ۹۶) یعنی قیامت کے دن وہ لوگ جن کے اعمال نیک ہوں گے بے فکر ہوں گے.نانک کہتا ہے وہی لوگ نجات پائیں گے جن کی پشت پناہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے.بابا صاحب کی شادی آپ نے اپنی دوسری شادی مسلمان حیات خان نامی کی دختر سے کی جس سے دولڑکیاں پیدا ہوئیں.(سکھاں دے راج دی و تھیا صفحہ ۱۰ مصنفہ پنڈت سرد ہا رام بحوالہ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبدالرحمان صفہ ۱۴۱) جنم ساکھیوں کے قلمی نسخوں میں بھی یہ واقعہ درج ہے.بابا صاحب کا چولہ پھر ایک زبر دست ثبوت بابا صاحب کے مسلمان ہونے کا آپ کا چولہ مبارک ہے.جو آج تک ڈیرہ بابا نانک میں آپ کی اولاد کے پاس بطور یادگار چلا آتا ہے.اس چولہ مبارک پر قرآن شریف کی آیات لکھی ہوئی ہیں اور گرو گرنتھ صاحب میں آپ کو بارگاہ خداوندی سے چولہ ملنے کا ذکر مذکور ہے چنانچہ لکھا ہے: ڈھاڈی سچے محل خصم بلایا سچی صفت صلاح کپڑا پایا گرنتھ صاحب راگ ماجھ محلہ اصفحہ ۱۴۰ بحوالہ حضرت بابا نانک کا مقدس چولہ از عباداللہ گیانی صفحہ ۲۸)
163 یعنی مالک ( خدا تعالیٰ ) نے ڈھاڈی یعنی خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے والے نانک کو اپنے حضور بلایا اور سچی صفت اور تعریف کا بھرا ہوا کپڑا (لباس عطا کیا اور گرنتھ صاحب کی لغت میں جو سکھوں کی ایک مشہور خالصہ ٹریکٹ سوسائٹی نے شائع کی ہے بتایا ہے کہ گرو گرنتھ صاحب میں گرو نانک صاحب کو خدا تعالیٰ کی درگاہ سے قباء ملنے کا ذکر ہے.کوش صفحہ ۸۸۱ بحوالہ حضرت بابا نانک کا مقدس چولہ از عباداللہ گیانی صفحہ ۲۷ بھائی گورداس کے کلام کا مرتبہ گرنتھ صاحب کے بعد دوم درجہ پر بتایا جاتا ہے.اس میں بھی بابا صاحب کو بارگاہ الہی سے ایک خلعت پہنایا جانا لکھا ہے.چنانچہ بھائی صاحب لکھتے ہیں: بھاری کری تپسی بد ھے بھاگ ہر سید بن آئی با با پیدھا نیچے کھنڈ نوں ندھ نام غریبی پائی دار ۲۴ پوری صفحہ ۲۲ بحوالہ حضرت بابا نانک کا مقدس چوله از عباداللہ گیانی صفحه ۲۹) گیانی ہزار سنگھ صاحب نے اس کلام کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے.یعنی بابا صاحب نے بہت عبادت کی." اور بہت خوش قسمتی سے خدا کے ساتھ بن آئی یعنی خداوند باری آپ پر بہت خوش ہوئے.گرو جی کو سچے کھنڈ ( خدا کے دربار) سے ایک پوشاک ملی.صاف ظاہر ہے کہ یہ وہی پوشاک ہے جس کا ذکر گرنتھ صاحب میں کیا گیا ہے.جنم ساکھی بالا صفحہ ۴۳۴ و نانک پر کاش اُتر آردھ ادھیائے ۱۷ مصنفہ بھائی سنتوکھ سنگھ و بابا گنیش سنگھ نے اپنی کتاب سری گرونانک سور یوے جنم ساکھی صفحہ ۳۹۸ بحوالہ حضرت بابا نانک کا مقدس چولہ از عباداللہ گیانی صفحہ ۱۵۹ میں چولہ صاحب کے متعلق تحریر کیا ہے کہ جب بابا صاحب کو بارگاہ الہی سے چولہ ملا تو پہن کر شہر کے دروازہ پر کھڑے ہو گئے.لوگوں نے بادشاہ کے حکم سے آپ کے گلے سے چولہ اتارنا چاہا لیکن چولہ آپ کے جسم کے ساتھ چمٹ گیا اور وہ اتارنے میں ناکام ہوئے وغیرہ اور جنم ساکھی کا بیان ہے کہ بابا صاحب نے اپنا چولہ اتار کر رکھ دیا اور اپنے بیٹوں کو اس کے اٹھانے کا حکم دیا لیکن وہ کرامتی چولہ کو نہ اٹھا سکے بلکہ ہلا بھی نہ سکے (صفحہ ۵۸۶ ) پس معلوم ہو گیا کہ یہ وہی چولہ تھا جس کا ذکر جنم ساکھی بالا میں بھی کیا گیا ہے.سکھوں کے اُداسی فرقہ کا بیان ہے کہ بابا نانک صاحب کی وفات کے بعد وہ عربی میں لکھا ہوا چولہ ھمی داس کو پہنایا گیا (جیونی سری چندر جی مہاراج صفحه ۱۲) اسی طرح جنم ساکھی بالا و نانک پر کاش وسری گرونانک سور یوے جنم ساکھی و خورشید خالصہ مصنفہ با وا نہال سنگھ وغیرہ میں چولہ صاحب کو کرامت والا بتایا ہے اور خورشید خالصہ کے مصنف نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ جو چولہ ڈیرہ بابا نانک میں ہے وہ جنم لکھی
164 ساکھی کا بیان کردہ ہے لیکن یہ کہنا کہ چولہ صاحب پر دیگر زبانوں کے حروف بھی درج ہیں.سراسر واقعہ کے خلاف ہے.سردار کرتار سنگھ صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نے جغرافیہ ضلع گورداسپورے میں چولہ صاحب کا خاکہ شائع کر کے یہ حقیقت آشکار کر دی کہ اس پر سوائے آیات قرآنی کے اور کسی زبان کا کوئی حرف نہیں.اصل خاکہ درج ذیل ہے.یہ مقدس چولہ اب تک ڈیرہ بابا نانک میں آپ کی اولاد کے پاس محفوظ ہے.جسے دیکھنے کے لئے ہر سال ہزار ہا کی تعداد میں لوگ دور دراز سفر کر کے آتے ہیں.جو شخص چاہے اب بھی تصدیق کر سکتا ہے کہ اس پر قرآن شریف کی آیتیں لکھی ہوئی ہیں.مذکورہ بالا تحقیق سے ثابت ہے کہ بابا صاحب کو یہ چولہ خدا کی طرف سے ملا اور یہ چولہ بڑا با برکت تھا جو بابا صاحب کو آفات اور تکالیف سے بچاتا تھا.بابا صاحب اسے زیب تن فرماتے تھے اور اس پر قرآن شریف کی آیتیں لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ اس کی بزرگی کو ہندو اور کے سب تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ پنڈت میلا رام صاحب وفا لکھتے ہیں : کہنا پڑتا ہے یہ سب کو تیرا چولہ دیکھ کر کی تجھی پر قطع قدرت نے قبائے معرفت فضل انبیاء صفحه ۳۲ مصنفہ بھائی سیواسنگھ ) لے یہ جغرافیہ بطور ریڈرسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور گورنمنٹ آف انڈیا سے رجسٹری شدہ ہے.اسے ملکھر آج ڈبل بک سیلز پبلشرز بٹالہ نے شائع کیا ہے.
165 کہاں ہیں جو ہر تے بیعت کا دم اطاعت پورسے کو بنا کر قدم ا در آئین یکمین تصویر ہے در یہی پاک چولہ جہانگیر ہے لا نوم لحستهات تا الان اليك السلالة المال الا السلام و آہ سے نور صداقت خوبی دو کہلایا اثر دو گیا نانک شاکر دین احمد سه بسه مُحَمَّد رَسُول اللَّه اسکا پرست ترجمہ میں گواہی دیتا ہون کو سم قل مواد هادی پیر شی گرا ہی تیا ان کے مواد کا بندہ اور کی انی اند کو پورا کریکی اور کا ر کراہت کرتے ہیں کے الظالمين مرو واكوي خلا يكن له كفوا احسد نیوالیا گیا اور هلها بين ايديهم وما خلفهم جب نظر کرتی ہے اس حوالہ کے ہر سامنے انہوں کے آیا تا ہو اور اذاجاء نصرالله والفتح دست الناس يخلون في واستغفره انه كان توابا دين الله اقولج انست عمل بات یگران این زوج در فوج داخل ہوتے ہیں میں اپنے رب کو پاکی کے با تو یاد گران بیگناه کی معافی چاه که ده تو قبول به در کئی معلوم فتح اگئی اور تم نے لوگوں کو کیا جوفہ اس کے کردن در استان لوکس سے ہے دیکھو اپنے دیں کو کس کس صدق کے کھلا گیا ؟ وہ بہادر تھا نہ رکھتا تھا کسی تیمن سے ڈر تھانہ
166 اور لالہ سنت رام جی لکھتے ہیں : چوله گورونانک دے تن دا ایہہ سب کشٹ مٹادے من دا ٹوٹ رہن نہ دیندا دهن دا دیندا جنم سدھا ر جی میلہ چولے صاحب دا آیا ویکھ رہیا سنسار جی چلو چلئے درشن کریے کھلا ہے دربار جی جواک واری درشن کردا وہ نر دو ہیں جہا نیں تر دا ہو جائے امرناں جمد ا مردا کچی ہے گفتار جی میلہ چولے صاحبدا آیا ویکھ رہیا سنسار جی چلو چلئے درشن کریے کھلا ہے دربار جی ہورہی چولے دی روشنائی اندر چارکوٹ دے بھائی دنیا سب درشن کو آئی ہورہی جے جے کا رجی میلہ چولے صاحبدا آیا ویکھ رہیا سنسار جی چلو چلئے درشن کریے کھلا ہے دربار جی عربی اس پر لکھی تمام پڑھ پڑھ دیکھے خلقت عام ہور ہیا درس صبح اور شام سب کر رہے دیدار جی میلہ چولے صاحبدا آیا ویکھ رہیا سنسار جی چلو چلئے درشن کریے کھلا ہے دربار جی جو جو سکھنا سکھ سکھ آون منگیاں گل مراداں پاون جو جو درس کرن تر جاون کدی نہ آوے ہار جی میلہ چولے صاحبدا آیا ویکھ رہیا سنسار جی چلو چلئے درشن کریے کھلا ہے دربارجی ( قصه استت میله چوله صاحب جیدی صفحه ۳) ان تمام امور سے صاف ثابت ہے کہ بابا نانک صاحب ایک مسلمان ولی تھے.فقط خاکسار گیانی واحد حسین مبلغ
167 صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے سکھ ازم.پرگنہ بٹالہ کا گرو ہندو، مسلمان اور سکھوں کی کتابوں میں ایک اوتار کی آمد کی پیشگوئی درج ہے.کسی نے اس کا نام نہ کلنک اور کسی نے امام مہدی اور مسیح رکھا ہے.دراصل یہ سب ایک ہی مہان پرش کے نام ہیں جیسا کہ ہند و صاحبان نے بھی تسلیم کیا ہے: نهه کلنک او تا رآ آاے امام دو جہاں منتظر ہیں ہم کہ اب ہوتا ہے تیرا کب ظہور تو مسلمانوں کا مہدی تو نصاری کا مسیح تو شه مگان پستی تو شہنشاہ طیور از پریتم ضیائی اخبار دیر بھارت لاہور کرشن نمبر.اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۶) اسی طرح سوامی بھولا ناتھ جی لکھتے ہیں: ”ہندو کہتے ہیں کہ وہ پورن برہم نش کلنک اوتار دھارن کریں گے مسلمانوں کا وشواش ہے کہ امام مہدی کا پر اور بھاؤ ہوگا.سکھوں کا وشواش ہے کہ کلکی اوتار ہوگا اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ایشور سے ایک ہو کر پدھاریں گے.پر تو اب یہ جاناشیش ہے کہ ساری ستائیں پر تھک پر تھک ہوں گی یا ایک ہی! اس کا اُتر یہ ہے کہ نہیں یہ ایک ہی ہوں گی.ہندو اسے اپنی درشٹ سے دیکھیں گے.مسلمان اپنی سے سکھ یا عیسائی اُسے اپنی درشٹ سے دیکھیں گے.“ ( رسالہ است یک ستمبر ۱۹۴۱، صفحہ ۱۳) موہن مغول سری گور بھگت مال صفحہ ۴۵۲ و دیگر سکھ کتب میں مرقوم ہے کہ سری کرشن جی مہاراج نے بھگت نام دیو جی کو شغل روپ میں درشن دیئے.جس پر بھگت جی نے کہا: دوار کا کی نگری میں کا ہے کے مگول.“ ( گرنتھ صاحب صفحہ (۶۷) یعنی ہے بھگوان دوار کا نگری میں مغل کہاں سے آگئے.اسی شہد میں کرشن جی کو ”میر مکند“ کہا گیا ہے جس کا ترجمہ ہے.مغل کرشن“ کیونکہ میر میرزا کا مخفف ہے اور گر وگرنتھ صاحب میں بابر بادشاہ کے لئے استعمال ہوا ہے.کوئی ہو پیر درج رہائے جاں میرے سنیا دھایا.“ (راگ آسا محله اصفحہ ۴۱۷) "
168 یعنی میر بابر کی چڑھائی کوسن کر کروڑوں پیر اس کو روک کر رہ گئے اور جنم ساکھی بالا صفحہ ۴۰۰ میں باہر کے لئے ”میر لفظ آیا ہے اور مکند“ کا ترجمہ ہے مکتی داتا اور کرشن.پس صاف ظاہر ہے کہ نہہ کلنک اوتار کا ظہور مغل کے جامہ میں ہی ہوگا.پھر لکھا ہے: ( آدگرنتھ صاحب صفحه ۸۳۹) کل کلوالی شرع نبیڑی قاضی کرشنا ہو آ، بابا نانک صاحب فرماتے ہیں کہ کلجگ کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لئے شری کرشن جی قاضی کے روپ میں برگٹ ہوں گے.بابانا تک صاحب فرماتے ہیں: آؤ پر کتے کو اللہ کہیے شیخاں آئی واری دیول.دیوتیاں کر لاگا ایسی کیرت چالی کوزه ها نگ نماز مصلا نیل روپ بنواری گھر گھر میاں سبھناں جیاں بولی اور تماری جے تو میر مہمیت صاحب قدرت کون جاری چارے کونٹ سلام کریں گے گھر گھر صفت تماری تیرتھ سمرت ئن دان کچھ لاہا ملے دیہاڑی نانک نام ملے وڈیائی میکا کھڑی سمائی بسنت منڈول محلہ اصفحہ ۱۹۰ اگرنتھ صاحب آد) ترجمہ:.اب آؤ پر کھ کو اللہ کہا جائے شیخوں کی باری آگئی ہے.مندر اور دیوتوں پر (خدا نے) ٹیکس لگا دیا ہے.یہی رواج ہو گیا ہے.اے اللہ کوزه ، بانگ نماز ، مصلا ، نیل روپ ورے بنواری یعنی کرشن کے سپرد کیا ہے اور ہر گھر میں میاں میاں اور ہر ایک زبان پر یہی ہے اے اللہ تیری بولی بھی اور ہوگئی ہے اگر تو نے میر یعنی میرزا کو زمین کا مالک بنایا ہے تو ” قدرت کون ہماری ہماری کیا طاقت ہے یعنی ہم کون ہیں.اس کو چارے کونٹ سلام کریں گے اور گھر گھر میں تیری صفت ہوگی.تیرتھ پر جانے اور پن دان کرنے سے جو پھل مالتا تھا وہ ایک گھڑی میں مل گیا.نوٹ :.یادر ہے بنواری یا بن والی یہ شری کرشن جی کا نام ہے (مہمان کرشن صفحہ ۲۵۰۸) بابا نانک صاحب فرماتے ہیں :.صفحہ ۲۳ آون اٹھترے جان ستا نویں ہو ر بھی اُٹھ سی مرد کا چیلہ“ آدگرنتھ صاحب صفحہ ۲۳ ۷ یعنی با بر مغل نے ۱۵۷۸ بکرمی میں ایمنا آباد پر حملہ کیا اور ۱۷۹۷ بکرمی میں مغل راج کا خاتمہ ہو جائے گا.( توایخ گر و خالصہ صفحہ ۱۳۴ مصنفہ گیانی گیان سنگھ ) ”ہور بھی اُٹھ سی مرد کا چیلہ“ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک مغل پہلے ہے اور ایک اور اٹھے گا.پر کے ارتھ پر کرن کے مطابق ہوتے ہیں.مضمون بابر کا ہے اور وہ ”مرد کا چیلہ بھی باہر کی طرح مغل ہی ہونا چاہیے.
169 نقل مطابق اصل: ا.آنے والا گر ونہہ کلنگ مسلمان ہوگا چکنا چور کرے گا پورا تا نکا لیکھ نہ مٹیا جائی مسلمان صفت شریعت بچے کی وڈیائی ارتھ :.ایہہ ورتارا ادرت جاوے گا.سنسار کے لکھے کون کون گر و کہاویں گے.جو گی، سنیاسی ، جنگم، برہمچاری برہمن کلجگ کے پچھے گورو کہاون گے.تنہاں کے باب ایہہ ہو وے گی.چکنا چور کرے.گور پورا تا نکا لیکھ نہ لیا جائی.انہاں دے باب ایہہ ہووے گا.سو مٹنے کا نہیں اور اک جو بندہ صاحب کا اٹھے گا.تسد ا نام ریسد ہوگا ( یعنی خدا رسیدہ رشی ہوگا.سو گورو کے حکم سے اٹھے گا.پر جامہ اس کا مسلمان ہووے گا یہ خدا تعالیٰ اس نوں اپنی بندگی بخشن گے.اوا کا پر کھانوں جانے گا.جہاں جہاں جھوٹ ہو جائے گا سو اس کو حوالے کرے گا.سوپا برہم کے حکم کے ساتھ چکنا چور کرے گا.جتنیاں جھوٹیاں ٹھوراں ہوں.تیر تھ.مڑیاں دیہورے.پیراں دے ٹھکانے.راج رنگ کٹیاں ٹھوراں ہن.جہاں جہاں جھوٹ ہووے گا.سوسزا پاون گے.اس وقت دھند دکا رورت جاوے گا.پڑھن گے پر کماون گے نہیں.‘ (وڈی جنم ساکھی صفحہ ۶۳۴) اُردو ترجمہ: کامل ڈشٹوں کا ناس کرے گا.کیونکہ نوشتہ تقدیریل نہیں سکتا.وہ گر و مسلمان ہوگا.اور صادق ہوگا صدق کی ہی بڑائی ہوا کرتی ہے.گر و صاحب خود تفسیر کرتے ہیں کہ زمانہ کی یہ حالت ہوگی کہ ہر قسم کے لوگ گر کہلائیں گے.یعنی جو گی سنیاسی ، جنگم، برہمچاری ، برہمن وغیرہ یہ سب کلجگ کے گرو کہلائیں گے.ان کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا کہ سچا اور کامل گر و اُن کو ملیا میٹ کرے گا.یہ نوشتہ تقدیر کامل نہیں سکتا.اس وقت ایک بندہ خدا کا مبعوث ہو گا.جسے خدا تعالیٰ بندگی کی توفیق بخشے گاوہ خدا پر ہی تو کل کرے گا اور دوسرے پر اس کا تکیہ نہ ہوگا.جہاں جہاں جھوٹ ہوگا اُن کے مُنہ پر مارے گا.سو خدا تعالیٰ کے حکم سے مخالفوں کو پیس ڈالے گا.جتنے جھوٹ کے اڈے ہوں گے یعنی تیرتھ، مڑیاں، دیہورے، پیروں کے مقام، راگ رنگ رلیوں کے مقام اور جہاں جہاں جھوٹ ہوگا وہاں جھوٹوں کی گت ہوگی اور کا ذبوں کو سزا دی جائے گی.اس وقت ظلم و فساد سے آسمان دھواں دھار ہو جائے گا.اس پیشگوئی کو اکثر لوگ پڑھیں گے مگر اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے خوش قسمت تھوڑے ہوں گے.لے یہ پیشگوئی نئے ایڈیشن میں سے نکال دی گئی ہے.
170 اے خالصہ جی! مسلمانی لباس میں گر و مرزا غلام احمد قادیانی پر گنہ بٹالہ میں آگیا ہے اسے مان کر گروجی کے پیارے بن جاؤ اور بے لکھ ہو کر اس کے سرابوں کا شکار نہ ہو جاؤ.۲.نہ کلنک اوتار مسلمان ہوگا.پیشگوئیاں کرے گا اور کتابوں کے ذریعہ خلق اللہ کی اصلاح کرے گا.( نقل مطابق اصل ) دھند وکار.جو ورتسی نہ ہندو نہ مسلمان رام رحیم نہ جان نہ کہے کلام ناں گا تیری نہ ترمینوں نہ فاتحہ نہ درود نہ تیرتھ نہ دیہورا نہ دیوی کی پوج گورمکھ کوئی نہ جان سن نہ کرے اپدیش اکو ورتن ورتئے نہ کو کرے اولیس بید کتیب نه جان سن نه دواره نه مسیت روزه با نگ نه ورت نہ نیم نہ کو کڑھے حدیث کوئی نہ کسی کی جان سی نہ کو کرے سلام نانک ٹھبد ورتدا اس کوئی مدھی جان اس کا مطلب خود گر و صاحب فرماتے ہیں کہ ایسا زمانہ جور و ظلم کا آنے والا ہے کہ ہندو مسلمان اپنے دین دھرم کو ترک کر دیں گے.ہندو گا تیری اور ترین کو بھول جاویں گے اور مسلمان فاتحہ اور درود کی حقیقت سے بے خبر ہوں گے.دیوی اور تیرتھ یاترا کو ترک کر دیں گے.ست گرو کو کوئی بھی نہ پہچانے گا اور نہ کوئی نصیحت لے گا.سب پر ایک ہی طرح کی اباحتی حالت وارد ہو جائے گی.ہندو اور مسلمان اپنی اپنی کتب اور مقامات مقدسہ کو یکسر فراموش کر دیں گے.مسلمان نماز روزہ کو جواب دے دیں گے اور مسجد کو دور سے سلام کریں گے یہ تقدیر اسی طرح پر جاری وساری ہوگی.تدا پر مارتھ ) بھائی اجیتیا ! جدوں گُرو اس دھرتی پر واشٹ ہو جاویں گے تاں پیچھے سنسار وچ ایسی ورت جاوے گی.کوئی کسے نوں جائے گا نہیں.اتے دھند و کارورت جاسی اجیہے من مکھ ہون گے.جو کوئی نہ ہندور ہے گا نہ مسلمان رہے گا نہ رام کو فن گے نہ رحیم کو من گے.نہ گا تیری ترپن.اشنان دھرم نہ نیم نہ تیر تھے.نہ پوجا.نہ دیوی نہ دیہورا.نہ دھرم سالہ نہ مسیت.نہ بانگ نہ نماز نہ فاتحہ نہ دعا سلام.نہ کو کسے دھیائے سی.نہ دیوی کی پوجا سنسار کرے گا.تیس سے نہ کوئی کتے جائیکے پرمیشور دا نام لوے گالس کو مارن گے.ایسا ور تار اورت جاوے گا.دوہاں دھراں داناش ہو جاوے گا.تاں اس سمے اک بھگت پیدا ہو جاوے گا.سونیل بستر پھرے گا.اتے اکثر وشبد پوتھیاں او چارے گا.تاں اِس دے واسطے پر میشور آپ اُتاری ہوئے کر سہائتا کرے گا اُتے شہدا کپ رہ جاوے گا کوئی کوئی والا ہی جانے
171 گا.اس پاس کوئی ورلا ہی جاوے گا.تاں اجیتے رندھاوئے ارواس کیتی.بچے بادشاہ جی ! اوہ کون بھگت ووے گا؟ تاں بچن ہویا اے بچہ اجیتیا تو سن ! ہوو شلوک: نہ کلنک ہوئے اترسی مہاں بلی اوتار سنت رچھیا جگ جگ و شطان کرےشتگار نواں دھرم چلائسی جگ ہوم ہوئے وار نانک کلجگ تارسی کیرتن نام اودھار (جنم ساکھی بالا کلاں صفحہ ۶۶۰) ارتھے :.گر و صاحب خود فرماتے ہیں کہ تسلا پر مارتھ بھائی اجیتیا جو گور و کلجگ وچ آیا ہے اتے جاں گر و جاماں بہن سی.تاں دھندو کارورت جاوے گا.اس سے اک بھگت پر میشور دی پوجا کرے گا اس دے گھر اک استری بہت چندری ہو جاوے گی.اوہ نار جائے لوکاں اگے چغلی کرے گی.نت کر کے سنت کو دیت دکھ دیون گے.تاں اوہ سنت واسطے گور و جامہ پہن سی.جہاں تک اس سنت دے دو کھی ڈشٹ ہوون گے.انہاں نوں چن چن کر مارے گا.مطلب:.اے اجیتیا جب گورو اس سرزمین سے گزر جائیں گے تو باہمی ہمدردی درمیان سے اُٹھ جاوے گی.ظلم سے آسمان ایسا تاریک ہو جاوے گا کہ ہندو اور مسلمان دونوں قو میں اپنے فرائض منصبی کو بالائے طاق رکھ دیں گے اور جو کوئی الگ ہو کر یا دالہی میں مشغول ہو گا لوگ اُسے ایذا دیں گے ایسا زمانہ آجاوے گا کہ ہر دو فریق کا ناش ہو گا.یعنی ہندو مسلمان دونو آپس میں لڑ لڑ کر مرمٹیں گے.پس ایسے زمانہ میں ایک بھگت پیدا ہو گا جو مسلمانی لباس پہنے گا یعنی مسلمان جامہ میں گورو آئے گا اور غیب کی باتوں والی کتابیں تالیف کرے گا یعنی پیشگوئیوں کی اشاعت کر کے نبی اللہ کہلائے گا.پھر اللہ تعالیٰ خود زمین پر اتر کر اس گورو کی نصرت فرمائے گا.اس کی تعلیم اور حقائق اور معارف جاننے والے قدرے قلیل لوگ ہوں گے اور اس کے پاس جانے والے بھاگوان بہت تھوڑے ہوں گے.پھر ا جیتے رندھاوے نے دست بستہ عرض کی کہ اے بچے بادشاہ !وہ بھگت کون ہو دے گا؟ تب گورونانک نے فرمایا.ترجمہ شلوک :.وہ آنے والا گوروشری نہہ کلنک اوتار ہوگا.بھلے لوگوں کی بھلائی کرے گا اور ڈشٹوں کو چن چن کر ہلاک کرے گا وہ از سر نو مذہب جاری کرے گا کیونکہ دوسری قومیں اپنے اپنے ا حق کے قبول کرنے میں بخیل ہوگی.
172 مذہب کو فراموش کر چکی ہوں گی.اس گرو کی بعثت کے قریب فساد عظیم برپا ہوگا.ایسے وقت میں وہ بھگت ایشور کی پوجا کرے گا.اس کی بڑی بیوی چندری یعنی حق کی مخالف ہوگی اور لوگوں اور شریکوں کے ہاں جا جا کر غیبت کیا کرے گی اور بُرے لوگ اس بھگت کو ایذاء دیں گے اور وہ گر و ڈھٹوں کو چن چن کر دعائے مباہلہ سے ) ہلاک کرے گا.چنانچہ امریکہ کا ڈوئی اورلیکھر ام آریہ مباہلہ سے ہلاک ہوئے.۳.مرزا مہدی ہوگا اور کرشن اوتار ( دسم گرنتھ گورو گوبند سنگھ جی کا) تو مر چھند : جنگ جیتو جب سرب تب باڈھیوات گرب دیا کال پڑکھ بسار ایہہ بھانت کیں بچار جگت جیت میں غلام اپنا جیاوت دجال کا حال نام یعنی دنیا میں دجال عام طور سے غلبہ حاصل کرے گا اور بہت غصہ میں آکر سب کو زیر کر کے غلام بنالے گا اور خدا کو چھوڑ کر اور دنیا کو غلام بنا کر اپنا نام جپاوے گا.جنگ ایس ریت چلائے سرائر پتر پھرائے نہیں کال پرکھ جنت نہیں دیو جاپ بهننت تب کال دیور سائے اک اور پرکھ بنائے رچے انس مهدی میر رسونت ہمبیر نہ توں کو بدھ کیں پین آپ موکیلیں جگ جیت آپ نہ کیں انت اکال ادھین ایہہ بھانت پورن سدھار بھئے چوٹیں اوتار مرزا امام مہدی اور کرشن اوتار ہو گا.دجال کو قتل کرے گا.مہدی میر سے مہدی مرزا مراد ہے کیونکہ جنم ساکھی کے صفحہ ۴۰۰ پر ساکھی میر بابر میں بابر مغل بادشاہ کوسری گورو نانک جی نے میر بابر کئی بار کہا ہے.
173 مطلب:.گورو گوبند سنگھ جی دسم گرنتھ میں فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں لوگ خدا کو چھوڑ دیں گے اور ہر ایک اپنی بڑائی کرے گا اور وہ دوسرے کو حقارت سے دیکھے گا اور لوگ خدا کی عبادت چھوڑ دیں گے اور دہر یہ ہو جائیں گے.تب خدا کی صفت قہاریت جوش میں آوے گی اور وہ ایک شخص کو اصلاح خلق کے لئے مبعوث فرمائے گا.۴.امام مہدی قوم مغل سے ہوگا وہ مستقل مزاج اور خلیق ہوگا.دجال کو یدھ یعنی قتل کر دے گا.آخر کا ر لوگ عاجز آجائیں گے اور وہ آہستہ آہستہ دنیا پر فتح پائے گا.اور چوبیسواں اوتار (کرشن ثانی) یعنی شری نہ کلنک اوتار وہی ہوگا جس کی قو میں منتظر ہوں گی جیسے کہ خود حضرت مسیح موعود قادیانی نے لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۳ میں دعویٰ کیا کہ میں مسلمانوں کے لئے مسیح موعود ہوں اور ہندوؤں وغیر ہم کے لیے نہہ کلنک اور کرشن خانی ہوں.گرنتھ صاحب میں لکھا ہے کہ وو " بلے چھلن سبل علن بھگت پھیلن کا ہن کر.نہ کلنک بجے ڈنکہ چڑھے چڑھو دل روند جیو “ (دیکھوگرنتھ صاحب صفحہ ۱۲۹۸) بھاٹ جی فرماتے ہیں کہ مہاراج نے باون روپ ہو کر راجہ بل کو چھلن کیا اور پاپیوں اور ظالموں کا نشٹ کیا اور بھگتوں یعنی تا بعد اروں کو ترقی دی، سر سبز کیا اور مہاراج کرشن جی جب نہر کلنک ہو کر دوبارہ تشریف لاویں گے تو اس وقت رڈ سورج اور اندر بمعنی چاند ان کے ساتھ ہوں گے یعنی اس کے گواہ ہوں گے.یہ پیشگوئی ۱۸۹۴ء میں پوری ہوچکی ہے.۵.آنے والے گورو کا مقام تاں مردانے نے پچھیا.گورو جی.کبیر بھگت جیہا کوئی اور بھی ہوئیا ہے.سری گرونانک جی آکھیا.مردانیاں.اک جھیٹا ہوسی.پر آساں توں پیچھے سو برس توں ہوسی.پھر مردانے پچھیا.جی کیہڑے تھا ئیں اتے ملک وچ ہوسی ؟ تاں گورو نے کہیا.مردانیاں وٹالے دے پر گنے وچ ہوسی.سُن مردانیاں نر نکار دے بھگت سب اگو روپ ہندے ہن.پر اوہ کبیر بھگت نالوں وڈا ہوسی.(دیکھو ساکھی بھائی بالا والی.وڈی ساکھی صفحہ ۲۵۱ مطبوعہ مفید عام پریس منشی گلاب سنگھ اینڈ سنز ) ترجمہ:.تب مردانے نے پوچھا.گورو جی ! کوئی بھگت کبیر جیسا بھی ہوا ہے؟ گور و صاحب
174 نے فرمایا:.اے مردانے ایک زمیندار ہوگا لیکن ہم سے سو سال کے بعد ہوگا پھر فرمایا کہ وہ گورو پرگنہ بٹالہ یعنی تحصیل بٹالہ میں ہوگا.اے مردانے سنو! خدا کے بھگت سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِم (البقرة: ۲۸۶) لیکن وہ بھگت کبیر سے بڑا ہوگا.فَضَّلْنَا بَعْضُهُمْ عَلَى بغض (البقرة: ۲۵۲) یعنی ہم نے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے.پس یہ گور و مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ہیں جو حسب حديث الْحَارِثُ ابْنُ حَرَّاتٍ (سنن ابوداؤ د کتاب المہدی) معز ز زمیندار ہیں.اعتراض:.بھائی سیواسنگھ جی کہتے ہیں کہ بابا ہنڈال جٹ کے چیلوں نے یہ ساکھی جنم ساکھی میں ڈال دی اور آنے والا گور و ہنڈال جٹ ہوگا.اس کے مصداق حضرت مرزا صاحب قادیانی نہیں ہیں.جواب :.صفحہ ۲۵۱ میں ہنڈال کا نام ونشان بھی نہیں.باقی رہا یہ کہ ہنڈال نے یہ پر سنگ خود ڈال دیا ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ہنڈال جنڈیا نہ ضلع امرت سر میں ہوا.نہ کہ پرگنہ بٹالہ میں.دیکھو تاریخ گور و خالصہ صفحہ ۷۰۶.پس اس پر سنگ سے ہنڈال اور اس کے مریدوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.
175 بابی یا بہائی مذہب یہ فتنہ اگر چہ پرانا ہے مگر چونکہ کبھی مقابل پر نہیں آیا اس لئے دبا رہا اور اس کی تردید و تنقید کی بھی چنداں ضرورت پیش نہ آئی مگر چند سالوں سے دو تین شخصوں کے بابی ہو جانے کے باعث اس کا چرچا ہوا ہے اور چونکہ بابیوں کا وطیرہ ہے کہ ظاہر کچھ اور باطن کچھ.بظاہر بھیٹر اور صلح کل بنتے ہیں لیکن باطن میں بھیڑیئے اور نسل انسانی اور حق کے دشمن قاتل ہیں اور بالخصوص اسلام اور بانی اسلام کے دشمن ہیں اور بظاہر اپنے تئیں مسلمان بتاتے ہیں اس لئے ان کے کذب اور ملمع سازی کی پردہ دری کرنے کے لئے ان کی کتب سے ان کے مذہب کی حقیقت بیان کی گئی ہے تا کہ لوگ ان کے دھوکہ میں نہ آدیں.ان میں ایک بڑا مرض یہ بھی ہے کہ اپنی کتب کی اشاعت عام نہیں کرتے جس طرح قرآن کریم بوجہ ایک کامل اور سچی شریعت ہونے کے دنیا کے ہر گوشہ میں اور صد ہا زبانوں میں اشاعت پا رہا ہے اور کوئی مسلمان بھی قرآن کریم کو پیش کرنے سے نہیں ہچکچاتا.اس طرح بابی اپنی کتابوں کو شائع نہیں کرتے بلکہ ڈرتے ہیں.تا ہم بڑی دقت اور مشکل سے جناب مولوی فضل دین صاحب وکیل نے ان کی کتب کو دستیاب کر کے یہ ذخیرہ بہم پہنچایا ہے.بہاء اللہ کا دعوی خدائی بابی یا بہائی عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں حالانکہ بہاء اللہ کی اصل کتابوں کی رو سے وہ اسلام سے کوسوں دور ہیں.اس کے ثبوت میں ہم اولاً بہاء اللہ کا دعوی خدائی کے ۲۰ حوالجات پیش کرتے ہیں.دعوی خدائی اور اسلام ایک جگہ ہرگز جمع نہیں ہو سکتے.ا.کتاب الاقدس مطبوعہ مطبع ناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ کے صفحہ ۱۶۲ اپر جناب بہاء اللہ اپنے ایک مرید کو خطاب کر کے لکھتے ہیں : - يَا أَكْبَرُ يَذْكُرُكَ مَالِكُ الْقَدْرِ فِي حِيْنِ أَحَاطَتْهُ الْأَحْزَانُ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالرَّحْمنِ کہ اے اکبر! تجھ کو قضا و قدر کا مالک ایسے وقت میں یاد کرتا ہے جبکہ اس کو غموں نے گھیرا ہوا ہے.
176 اس عبارت میں قضا و قدر کے مالک سے مراد بہاء اللہ خود ہے اگر دعوی خدائی نہ ہوتا تو اپنے تئیں قضا وقد رکا مالک نہ کہتے.۲.کتاب الاقدس صفحه ۲۲۵ - الَّذِى يَنطِقُ فِى السّجُنِ الْأَعْظَمِ أَنَّهُ لَخَالِقُ الْأَشْيَاءِ وَ مُوجِدُ الْأَسْمَاءِ قَدْ حَمَلَ الْبَلايَا لِإِحْيَاءِ الْعَالَمِ وَإِنَّهُ لَهُوَ الْاِسْمُ الْأَعْظَمُ الَّذِي كَانَ مَكْتُوبًا فِي أَزَلِ الْأَزَالِ کہ وہ شخص جو عکہ کے بڑے قید خانہ میں بولتا ہے ( یعنی خود بہاء اللہ ) وہ تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی ان کا ایجاد کرنے والا بھی ہے.اس نے مصیبتوں کو دنیا کے زندہ کرنے کے لیے اپنے اوپر اٹھایا اور اسم اعظم ہے جو ہمیشہ سے مخفی تھا..یہ بہاء اللہ خود عکہ کے قید خانہ میں سے اپنے متعلق لکھ رہا ہے.یہ الفاظ قابل غور ہیں.وَالْكِتَبُ يَقُولُ قَدْ جَاءَ مُنْزِلِی ( کتاب الاقدس صفحه ۲۴۰ ) کہ کتاب بیان پکار کر کہہ رہی ہے کہ میرا اتارنے والا آ گیا ہے.یہ کتاب بیان خدا کی طرف سے اتاری ہوئی بتلائی جاتی ہے.بہاء اللہ کہتا ہے کہ اس کے اتارنے والا میں آگیا ہوں.- يَا عِيسَى افْرَحُ بِمَا يَذْكُرُكَ مَالِكُ الْعَرْشِ وَالشَّرَى (کتاب الاقدس صفحه اے ) یہ بہاء اللہ کے خط بنام مرید کا ایک فقرہ ہے.اس میں عرش و فرش کا مالک بہاء اللہ اپنے تئیں قرار دیتا ہے.۵.کتاب الاقدس صفحہ ۶۹ پر بہاء اللہ نے محیط کل ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو خدا کی صفت ہے.- کتاب الاقدس صفحہ ۵۸ پر میمن ، قیوم ، رسولوں کو بھیجنے والا اور معبود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.۷.کتاب الاقدس صفحہ ۱۸۸ پر عالم کل یعنی محیط کل عالم ہونے کا دعویٰ کیا ہے.کتاب الاقدس باب شریعت میں عیسائیوں کے عقیدہ کی طرح انسانی ہیکل میں خدا تھے کیونکہ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسانوں کی ہر حال میں مدد کرنے پر قادر ہوں اور یہ صرف خدا کا کام ہے.۹.کتاب الاقدس باب شریعت میں تمام بادشاہوں کو پیدا کنندہ قرار دیا ہے اور یہ صفات خدائی ہیں.۱۰.کتاب الاقدس صفحہ ۱۵ اپر ہے يَذْكُرُونَ نُقْطَةَ الْبَيَانِ وَيَفْتُوْنَ عَلَىٰ مُرْسِلِهِ وَيَقْرَءُ وُنَ الْآيَاتِ وَيُنْكِرُونَ مُنْزِلَهَا.اس میں بہاء اللہ بانی گروہ کے اس حصہ کو جو بہاء اللہ کے دعاوی کو تسلیم نہیں کرتا مخاطب کر کے اپنی حیثیت یہ قرار دیتے ہیں کہ باپ کو بھیجنے والے اور اس پر کتاب بیان
177 اتارنے والے خود بہاء اللہ ہیں اور کتاب اور رسول کا اتارنا خدا کا کام ہے..کتاب مبین پہلا باب سورۃ الہیکل صفحہ ۳۸ میں بہاء اللہ اپنے منکروں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اِيَاكُمْ اِنْ تَفْعَلُوا بِى مَا فَعَلْتُمْ بِمُبَشِّرِى إِذَا نُزِّلَتْ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ مِنْ شَطْرِ فَضْلِي لَا تَقُولُوا أَنَّهَا مَا نُزِلَتْ عَلَى الْفِطْرَةِ إِنَّ الْفِطْرَةَ قَدْ خُلِقَتْ بِقَوْلِی.اس میں بہاء اللہ نے اپنے تئیں خالق فطرت بیان کیا ہے اور یہ صفت خدائی ہے.۱۲.کتاب مبین صفحہ ۲۹۸ میں بہاء اللہ کہتے ہیں.حَمَلْنَا الشَّدَائِدَ مِنْ كُلِّ دَنِي بَعْدَ إِذْ كَانَ فِي قَبْضَتِنَا مَلَكُوتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِینَ کہ ہم نے ہر ایک ذلیل سے ذلیل آدمی سے تکلیفیں اٹھائی ہیں باوجود یکہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہمارے ہاتھ میں ہے.۱۳.کتاب مبین صفحه ۳۳۳ (الاقدس الاعظم) میں بہاء اللہ لکھتے ہیں :.یہ کتاب اتاری گئی ہے عزیز حکیم کی طرف سے جو کہتا ہے کہ میں عکہ کے قید خانہ میں قید ہوں.۱۴.اقتدار از بہاء اللہ صفحہ ۳۶ پر لکھتے ہیں کہ قلم اعلیٰ نے اسی طرح پر نطق فرمایا جبکہ مخلوق کا قدیمی مالک ظالموں کی شرارت سے قید خانہ میں پڑا تھا.اس میں بہاء اللہ مالک قدیم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.۱۵.اقتدار از بہاء اللہ صفحہ ۱۱۴ میں لکھتے ہیں کہ : بہاء اللہ کو دیکھنے والا شخص ظاہر میں اس کو انسانی شکل میں دیکھتا ہے لیکن جب کوئی شخص اس کے باطن کی طرف غور کرے گا تو آسمانوں اور زمینوں کی کل مخلوق کا اس کو محافظ پاتا ہے.۱۶.اقتدار از بہاء اللہ صفحہ ۱۶ پر لکھتے ہیں.اے مخاطب دیکھ !خدا کا فضل اس حد تک پہنچا ہے کہ تو اپنے گھر میں آرام سے ہے اور خدا تعالیٰ جو بے حد مصیبتوں میں مبتلا ہے قید خانہ میں تجھ کو یاد کرتا ہے.مشتے از خروارے حوالجات سے بخوبی ظاہر ہے کہ جس طرح عیسائی مسیح کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ کامل انسان بھی تھے اور کامل خدا بھی تھے.جو دنیا کو نجات دینے کے لئے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے تھے اسی طرح بہاء اللہ بھی اپنے تئیں پیش کرتا ہے.اس بات سے بھی دھوکہ نہ کھانا چاہیے کہ بہاء اللہ کی کتابوں میں ایسی عبارتیں بھی موجود ہیں جن میں وہ اپنے تئیں انسان بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے جیسا کہ بہاء اللہ سے پہلے کئی گزر چکے ہیں اسی رنگ میں دعوی کرتے ہیں کہ اس میں کچھ نہ کچھ معقولیت کا رنگ بھی لوگوں کو نظر آئے کیونکہ ان کی ظاہری حالت کھانے پینے ، لگنے موتنے اور بشری لوازمات ایسے مواقع ہیں
178 جن کے ہوتے ہوئے خصوصاً اس زمانہ میں کوئی بھی خالص خدا نہیں منوا سکتا جیسا کہ عیسائی اب عیسی علیہ السلام کے متعلق انسانی ہیکل اور خدائی صفات ملا جلا کر ایسا گورکھ دھندہ پیش کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بہائی امریکہ اور یورپ کے علاقہ میں پائے جاتے ہیں.اسی دو عملی کے رنگ سے بہاء اللہ نے فائدہ اٹھایا ہے.اپنی کتاب مبین صفحہ ۵۳ پر لکھتا ہے قَدْ ظَهَرَتِ الْكَلِمَةُ الَّتِي سَتْرَهَا الْإِبْنُ إِنَّهَا قَدْ نُزِّلَتْ عَلَى هَيْكَلِ الْإِنْسَانِ فِى هَذَا الزَّمَانِ تَبَارَكَ الرَّبُّ الَّذِي هُوَ الْادَبُ قَدْ آتَى بِمَجْدَتِهِ الْاهَمَ بَيْنَ الْأُمَمِ کہ وہ کلمہ ہے جسے بیٹے نے پردہ میں رکھا تھا وہ ظاہر ہو گیا ہے اور وہ اس زمانہ میں ہیکل انسانی پر اترا ہے.مبارک ہے وہ رب جو اپنی عظمت کے ساتھ امتوں کے درمیان آیا ہے.اس حوالہ میں بہاء اللہ نے وہی باپ، بیٹے ، روح القدس کا گورکھ دھندہ پیش کر کے خدا اور انسان کو ہر دو حالتوں میں پیش کر کے دھوکہ دیا ہے.پس جہاں باقی لوگ بہاء اللہ کی انسانیت والی باتیں پیش کریں وہاں ان کو یہ حوالہ پیش کر کے ملزم کرنا چاہیے اور یہ سب کچھ عیسائیوں کی کاسہ لیسی ہے یا عیسائیوں کو پھنسانے کی ترکیب ہے کیونکہ وہ اس قسم کا لچر عقیدہ رکھنے کے عادی ہیں.۱۷.کتاب ادعیہ صفحہ ۱۵۹، ۱۶۷ محفل روحانی ملی بہائیاں پاکستان طبع ونشر نمود.۱۶ ابدیع میں بہاء اللہ ملاء اعلیٰ کو کم کرتا ہے ان دنوں تمام مخلوقات کے رب بہاء اللہ کی زیارت کرلو.اس کا طواف بھی.۱۸.الواح مبارکہ از بہاء اللہ صفحہ ۱۱۴ میں ایران کے بادشاہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بہاء اللہ لکھتے ہیں حال آنکه شان حق نیست که به نزد احد حاضر شود چه کہ جمیع از برائے اطاعت او خلق شده اند ولکن نظر بایں اطفال صغیر و جمعی از نساء که همه از یار و دیار دور مانده اند.این امر را قبول نمودیم.یعنی خدا کی شان نہیں کہ کسی کے پاس جائے مگر دور افتادہ بچوں اور عورتوں کی خاطر میں وو 66 نے ایسا کرنا پسند کیا ہے.۱۹.اقتدار کے صفحہ ۱۳۰ پر لکھتے ہیں: "وَ نَفْسِی عِنْدِي عِلْمٌ مَا كَانَ وَمَايَكُونُ “ کہ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ مجھے گزشتہ اور آئندہ سب کا علم ہے.اس میں عالم الغیب ہونے کا دعویٰ ہے.۲۰ - الواح مبارکه از حضرت بہاء اللہ کے صفحہ ۴ ۱۵ میں اپنے مریدوں کو کہتے ہیں: ( ترجمہ یہ ہے ) اے اللہ کے دوستو! تم فرش راحت پر آرام نہ کرو جب تم نے اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان لیا اور جو مصائب اس پر وارد ہیں اس کو سن لیا تو اس کی مدد کے لئے کھڑے ہو جاؤ.
179 بہاء اللہ کے نزدیک آنحضرت اور دوسرے انبیاء کا درجہ بابی یا بہائی عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں یا آپ کو افضل الانبیاء مانتے ہیں مگر چونکہ ان میں بھی شیعوں کی طرح تقیہ جائز ہے اس لئے اس دھوکہ دہی کو بھی وہ مذہباً جائز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سب بالکل جھوٹ ہے.اس کے لئے ذیل کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں : ا.کتاب ایقان صفحہ ۲۰۲ میں بہاء اللہ علی محمد باب کے متعلق لکھتا ہے : قدر و رتبه آنحضرت باب را ملاحظه فرما که قدرش اعظم از کل انبیاء وامرش اعلی وارفع از عرفان و ادراک کل اولیاء است.اس میں باب کو بہاء اللہ نے اپنے متعلق صرف بشارت دینے والا ظاہر کیا ہے.تو جب خود دعوی خدائی کیا تو ظاہر ہے کہ اپنے تئیں اولیاء سے کس قدر بزرگ تر سمجھتا ہوگا.چنانچہ ذیل کے حوالہ جات سے ظاہر ہے.۲.بہاء اللہ اپنی کتاب مبین لوح رئیس میں صفحہ ۱۳۵ کی ایک طویل عبارت میں لکھتا ہے کہ آنحضرت کا قول مَا عَرَفْنَاكَ حَقَّ مَعْرِفَتِكَ کہ اے خدا جیسا حق تھا ہم نے تجھے نہیں پہچانا اگر وہ پرانے زمانے میں ہوتے تو فوراً بول اٹھتے کہ اے رسولوں کے مقصود ! ہم نے تجھ کو پہچان لیا اور حضرت ابرا ہیم کا یہ قول که رَبِّ اَرِنِى كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى (البقرۃ: ۲۶۱) کہ اے رب دکھا کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے تو ان کو جواب ملا.اَوَلَمْ تُؤْمِنُ (البقرۃ: ۲۶۱) کیا تو اس بات پر ایمان نہیں لایا ؟ عرض کیا وَلكِن نِيَطْمن قلبى (البقرة: ۲۶۱) اطمینان قلب کے لئے.اگر ابراہیم میرے زمانے میں ہوتے تو اقرار کرتے کہ میرا دل مطمئن ہو گیا.اسی طرح حضرت موسی نے کہا تھا کہ رب آرتی وہ بھی میرے زمانے میں ہوتے تو ان کی مراد پوری ہوتی.اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ بہاء اللہ تمام نبیوں کے متعلق اپنازمانہ مبارک قرار دیتا ہے.۲ مبین صفحہ ۹ لوح ملک روس میں بہاء اللہ لکھتے ہیں.قَدْ ارْتَفَعَتْ آيَادِى الرُّسُلِ لِلقَائِی“.کہ تمام رسولوں کے ہاتھ میری زیارت کے لئے اٹھتے ہیں.مبین صفحہ ۷۹ - "مَا نَزَلَتِ الْكِتَابُ إِلَّا لِذِكْرِی“ کہ رسولوں پر جو تمام کتابیں نازل ہوئی ہیں ان کے نازل کرنے سے صرف میری ذات کا ذکر کرنا مقصود تھا.
180 ۴.مبین صفحہ ۲۸.ظَهَرَ نِشَانُ مَا ظَهَرَ فِي الْإِبْلَاءِ شِبُهَةٌ كَمَا رَتَيْتُمْ وَسَمِعْتُمْ.کہ بہاء اللہ اس شان سے ظاہر ہوا ہے کہ وہ بینظیر ہے جیسا کہ خود تم نے اس کو دیکھا اور سنا ہے.۵.مبین پہلا باب سورة الهيكل صفحه ۵ : "يَعْتَرِضُونَ عَلَى الَّذِي شَعْرَةً مِنْهُ خَيْرٌ عِنْدَ اللهِ مِمَّنْ فِي السَّمواتِ وَالْاَرْضِ “ کہ تم اس پر اعتراض کرتے ہو کہ جس کا ایک بال خدا کے نزدیک آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوقات سے بہتر ہے.( آسمان وزمین کی مخلوقات میں ملائکہ رسل سے افضل ہونے کا دعویٰ).مبین ۴۶ الوح رئیس.مَالَكُمُ أَعْرَضْتُمُ عَنِ الَّذِي خُلِقْتُمُ لَا مُرِهِ.اے لوگو تمہیں کیا ہو گیا جو اس ذات ( بہاء اللہ ) سے روگردانی کرتے ہو.جس کے حکم سے تم کو پیدا کیا گیا ہے.ے.کتاب الاقدس صفحہ ۷۵ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ.إِنَّا خَلَقْنَا الْخَلْقَ لِهَذَا الْيَوْمِ“ " کہ ہم نے تمام مخلوقات کو بہاء اللہ کے ظہور فرمانے کے دن کے لئے پیدا کیا ہے.مبین صفحه ۳۱۵ لَوْلَا هُ مَا نَزَلَ الْوَحْيُ فِي اَزْلِ الأَزَالِ“.کہ اگر یہ بہاء اللہ نہ ہوتا تو ازل سے ابد تک کسی پر بھی وحی کا نزول نہ ہوتا..بہاء اللہ اپنی کتاب ادعیہ محبوب صفا صفحه ۱۹۵ محفل روحانی ملی بهائیان پاکستان طبع و نشر نمود.۱۶ ابدیع میں باب کی نسبت لکھتا ہے کہ " إِنَّهُ سُلْطَانُ الرُّسُلِ “ باب تمام رسولوں کا بادشاہ ہے یہ دوسری طرف باب کی عبارت الواح مبارکہ صفحہ 11 میں بہاء اللہ نے نقل کی ہے کہ محمد رسول را مبعوث می فرمودیم کہ آنحضرت کو میں نے مبعوث کیا تھا.اس سے ظاہر ہے کہ باب رسولوں کا بادشاہ اور آنحضرت کو نبی بنا کر بھیجنے والا مانا جاتا ہے تو بہاء اللہ جو اپنی کتاب الاقدس صفحہ ۱۱۵.۱۹۵ میں لکھتا ہے کہ باب کو بھیجنے والا میں ہوں.اس کے مقابلہ میں آنحضرت اور دوسرے انبیاء کا کیا درجہ ہوسکتا ہے؟ شریعت بابیہ نے شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دیا اہل بہاء کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید میں جو وعدہ قیامت کا دیا گیا ہے وہ وعدہ پورا ہو چکا ہے.ان کے نزدیک قیامت صغریٰ سے مراد علی محمد باب کا زمانہ ہے جو ۱۲۶۶ء میں مارا گیا.اور قیامت کبری سے مراد بہاء اللہ ( مرزا حسین علی ایرانی) کا زمانہ ہے جو ۱۳۰۹ھ میں فوت ہوا.چنانچہ بہائیوں کی مسلمہ کتاب
181 بحر العرفان کے صفحہ ۲۲ میں لکھا ہے.قیامت صغریٰ ظہور حضرت اعلیٰ روح ما سوای فداه بوده که درسن ستین ظاهر شده و قیامت کبری ایس ایام است که در میں قیامت جمال قدم جل ذکر ما الاعظم ظاہر گردیدہ.اسی طرح کتاب نقطہ الکاف صفحہ ۲۹ میں جو بابیوں اور بہائیوں کی معتبر کتاب ہے.لکھا ہے که مراد از قیامت قیام و ظہور اوست کہ قیامت سے علی محمد باب کا ظاہر ہونا مراد ہے.تو اب یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم کی مقرر کردہ قیامت باب اور بہاء اللہ کی آمد پر آگئی تو اب جہاں کہیں بھی قیامت کا لفظ قرآن میں ہے اس سے باب اور بہاء اللہ مراد ہے.اس سے آگے نیا دور ہوگا.اب وہ حوالے پیش کئے جاتے ہیں کہ جن سے باب اور بہاء اللہ کے آنے سے شریعت محمدیہ منسوخ ہوگئی.ا.بحر العرفان صفحه ۱۱۵ - حَلَالُ مُحَمَّدٍ حَلَالٌ إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَحَرَامُ مُحَمَّدٍ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ یعنی آنحضرت کے حرام حلال کئے ہوئے قیامت یعنی آمد باب اور بہاء اللہ تک حرام حلال تھے.اب نیا دور ہے.۲.بحر العرفان صفحہ ۱۱۷.” میگویند قائم کہ ظاہر مے شود.بشریعت مقدسہ نبوی رفتار مے ، فرماییند و احکام را تغیر و تبدل نے دہد و بر ہم نے زند پس ظاہر مے شود از برائے چو و شغلش چیست.یعنی شیعہ جو کہتے ہیں کہ جب قائم آل محمد ظاہر ہوگا تو آنحضرت صلعم کی مقدس شریعت کا پیرو ہوگا اور احکام شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا تو ہم اہل بہاء کہتے ہیں کہ اگر قائم نے آکر شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی تھی تو اس کا آنا کس لئے اور اس کے آنے سے کیا مطلب؟ مدعا یہ کہ قائم آل محمد (علی محمد باب ) کے آنے کی تو غرض ہی یہ ہے کہ وہ شریعت اسلامی کو منسوخ کر کے ایک نئی شریعت کو قائم کرے..بحر العرفان صفحہ ۱۱۸: - البته شکی نیست کہ بدیں و آئین جدید ظاہر مے شود “ کہ اس میں ذرا شک نہیں کہ قائم آل محمد نیا دین اور نیا طریقہ لے کر آئے گا.۴.بحرالعرفان صفحه ۱۲۶: اینکه جمع ادیان را یکے سے فرمائید یعنی نسخ سے فرمائید شریعت قبل رائے یعنی وہ قائم آل محمد تمام دینوں کو ایک یعنی پہلی شریعت (شریعت محمدیہ ) کو منسوخ کر دے گا.۵.بحر العرفان صفحہ ۱۴۶ میں لکھا ہے کہ نماز کا حکم جو قرآن میں ہے وہ ۱۲۶۱ھ تک ہے.اس کے بعد اسلامی نماز کا حکم منسوخ ہو گا اور اس وقت نئی شریعت اور نئے احکام جاری ہوں گے.
182 ۶.اسی طرح بحر العرفان صفحه ۱۳۵ و کتاب الفرائد صفحه ۲۸۲ وصفه ۳۰۲ از شیخ عبدالسلام علی اصل الایقان و نقطہ الکاف صفحہ ۱۵۰ سے ظاہر ہے کہ شریعت اسلامی منسوخ اور نئی شریعت با بیہ قابل عمل ہے.شریعت با بیہ و بہائیہ کی اتباع کرنے کی تاکید ا.بہاء اللہ اپنی کتاب ادعیہ محبوب صفحہ ۱۹۵ حفل روحانی ملی بهائیان پاکستان طبع ونشر نمود.۱۶ ابدیع میں لکھتے ہیں يَا قَوْمِ فَاتَّبِعُوا حُدُودَ اللهِ الَّتِي فُرِضَتْ فِي الْبَيَانِ مِنْ لَّدُنْ عَزِيزِ حَكِيمٍ قُلْ إِنَّهُ لَسُلْطَانُ الرُّسُلِ وَكِتَابُهُ لَام الْكِتَابِ.‘اس حوالہ میں کتاب البیان کو تمام کتابوں کی ماں اور اس کی اتباع کرنے کا حکم ہے.۲.کتاب ایقان مصر صفحہ ۶۲ اپر بہاء اللہ لکھتے ہیں : ' در عهد موسی" تورات بود و در زمن عیسی انجیل و در عهد محمد الرسول اللہ فرقان و در این عصر بیان.صاف نسخ قرآن موجود ہے..کتاب الاقدس صفحہ ۱۶ میں لکھتے ہیں حسن....أخِـذَا كِتَابِيَ الَّذِي إِذْ نَزَّلَ خَضَعَتْ لَهُ كُتُبُ الْعَالَم“ اے میرے متبع ! میری کتاب کو پکڑلے جس کے اترنے پر دنیا کی تمام کتابیں اس کے سامنے سرنگوں ہیں یعنی اللہ کی کتابیں اس کے آنے سے منسوخ ہوگئی ہیں.۴.اسی طرح کتاب مبین کے صفحہ ۷۳ و کتاب اقتدار از بہاء اللہ صفحہ ۴۳ و مکاتب عبد البہاء در مصر محروسہ سنہ ۱۳۴۰ھ کی تیسری جلد صفحہ ۵۰۰ سے شیخ شریعت محمد یہ ثابت ہے.شریعت با بیہ و بہائیہ کے منکروں پر فتوی کفر بانی صلح کل ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں مگر ذیل کے فتووں سے ان کی حقیقت ظاہر ہے.ا علی محمد باب نے روح المعانی میں محمد بغداد شہاب الدین السید محمود السنوسی کے نام خط میں لکھا کہ جب تک تم البیان کی شریعت کے احاطہ میں داخل نہ ہو جاؤ خدا تمہارے اعمال کچھ بھی قبول نہ کرے گا خواہ تم ہر ایک چیز قربان کر دو اور سب کچھ خرچ کر دو تو خدا ہر گز تم سے راضی نہ ہوگا.سوائے اس تعلیم کے ذریعہ جو مجھ پر نازل ہوئی ہے.جو لوگ میرے اس دین میں داخل نہ ہوں گے ان کی وہی حالت ہے جیسی ان کی جو اسلام کے زمانہ میں اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے ( یعنی کفار ) آج مسلمانوں کو ان کا دین اور اعمال اس طرح نفع نہ دیں گے جس طرح محمد رسول اللہ کے مبعوث ہونے کے بعد
183 یہود و نصاریٰ کو ان کا دین کوئی نفع نہیں دے سکتا.۲.کتاب الاقدس صفحہ ۲۴۸ میں بہاء اللہ لکھتے ہیں."أَنَّهُ يَأْخُذُ من كفر بهِ ويُعَذِّبُ الَّذِينَ أَنْكَرُوا مَاظَهَرَ “ کہ خدا ہر اس شخص سے مواخذہ کرے گا جس نے اس بات کو نہ مانا اور ان کو عذاب دے گا جنہوں نے ان باتوں کا انکار کیا ہو.اسی طرح کتاب مبین صفحہ ۱۸۱ پر منکرین بہائیت کو گمراہ اور کتاب مبین کے صفحہ ۲۸۳ پر مکذبین با بیت کو خاسرین اور الواح مبارکہ از بہاء اللہ صفحہ ۱۷۸ میں مکذبین کو دوزخی کہا ہے.چند احکام شریعت با بید ا ( البيان باب دهـم مـن الواحد الرابع جز ا) کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ باب کی کتاب البیان کے سوا کوئی دوسری کتاب پڑھے یا پڑھائے اور یہ کہ جس قدر علوم متداولہ ہیں ان کو حاصل کرے یا آگے ان کی تعلیم دے.۲.سوائے اِن کتب کے جو ہابیہ مذہب کی تائید میں ہیں.باقی سب کتب کو دنیا سے نیست و نابود کر دیا جائے.البیان باب السادس من الواحد السادس).جو لوگ علی محمد باب پر ایمان نہیں لاتے وہ پلید اور واجب القتل ہیں.دیکھو نقطہ الکاف مقدمہ صفحہ ۷ ضرب اعناق و حرق کتب و اوراق و عدم بقاع قتل عام إِلَّا مَنْ آمَنَ وَ صَدَّقَ بود کہ حضرت باب کا یہی حکم ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لاتے ان کی گردنیں اڑا دی جائیں.ان کا قتل عام کیا جاوے.علوم وفنون اور مذاہب عالم کی سب کتابیں جلا دی جائیں اور ان کا ہر ایک ورق نذر آتش کیا جاوے اور تمام مقامات مقدسہ اور قبور انبیاء وغیرہ سب گرا دیے جائیں تا کہ بابی مذہب کے سوا اور کوئی مذہب دنیا میں نہ رہے.۴.کتاب فروع میں علی محمد باب نے اپنے مریدوں کو یہ حکم دیا ہوا تھا کہ اے اصحاب ہر چہ را در بازار گرفتید - بیا در ید من نظر نمایم تا حلال شود ، یعنی ہر ایک حرام چیز باب کے نظر کرنے سے حلال ہو جاتی ہے.اس حکم کی تفصیل نقطة الکاف صفحہ ۱۴۱ صفحہ ۱۵۰ میں ملتی ہے کہ مریدین بغیر اجازت دُکانوں سے چیزیں اٹھا لیتے تھے اور علی محمد باب کے سامنے لا کر اس کی نظر سے گزار کر حلال کرالیتے.۵ دلائل العرفان صفحہ ۲۴۷ مصنفہ مرزا حیاء علی بابی میں لکھا ہے.الباب التاسع من
184 الواحد التاسع في حرمة صلوة الجماعة الأصلوة المیت.‘ برخلاف شریعت اسلام کے نماز با جماعت سوائے نماز جنازہ کے حرام ٹھہرائی گئی ہے.نقطةۃ الکاف صفحہ ۲۳۰ میں مرزا جانی بابی لکھتے ہیں کہ میں نماز جمعہ پڑھا کرتا تھا مگر جب علی محمد باب نے دعویٰ کیا اور اپنی کتاب فروع میں نماز جمعہ کوحرام ٹھہرایا تو میں نے نماز جمعہ چھوڑ دی.ے.کتاب الاقدس عربی صفحه ۱۸ و ۱۹ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ میں لکھتا ہے کہ باب نے لڑکے اور لڑکیوں کے معاملہ نکاح میں کسی ولی یا کسی وکیل یا گواہ کی ضرورت نہیں رکھی بلکہ لڑکے لڑکی کی باہمی رضا مندی کافی رکھی ہے لیکن بہاء اللہ ان کی رضا مندی کے ساتھ والدین کی رضا مندی بھی ضروری قرار دیتا ہے اور ہر دو متضاد حکموں سے ظاہر ہے کہ باب اور بہاء اللہ دونوں کے حکموں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کا منبع ایک نہیں ہے اور دونوں حکم خود ساختہ ہیں.ان مشتے از خروارے احکام سے شریعت بابیہ کے غیر معقول ہونے کا بخوبی پتہ لگ جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ان سے نسخ شریعت محمدیہ کا ادعا بھی ثابت ہے.مزید چند حوالے بھی ذیل میں دیئے جاتے ہیں.بہاء اللہ کی تعلیم اسلام کے خلاف اسلام کی تعلیم ہے کہ سوائے ایک خدا کے اور کوئی معبود نہیں مگر اس کے بالمقابل بہاء اللہ کی تعلیم ملاحظہ ہو.ا.اطرازات اطر از ششم صفحہ ۱۳ مطبوعہ آگرہ میں بہاء اللہ لکھتے ہیں.إِنَّنِی اَنَا اللَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا أَنَا الْمُهَيْمِنُ الْقَيُّومُ “ پھر ۲.تجلیات (تجلی چہارم) صفحہ ۵ میں لکھتے ہیں : إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا أَنَارَبُّ كُلَّ شَيْءٍ وَإِنَّ مَا دُونِى خَلْقِي إِنَّ يَا خَلْقِی إِيَّايَ فَاعْبُدُونِ کہ میں خدا ہوں.میرے سوا تمام مخلوق ہے اس لئے صرف میری ہی عبادت کرو.۳- کتاب مبین صفحہ ۲۸۶ میں بہاء اللہ لکھتا ہے : لَا اِلهَ إِلَّا أَنَا الْمَسْجُونُ الْفَرِيدُ کہ کوئی خدا نہیں مگر میں اکیلا ( بہاء اللہ ) جو قید ہوں.بہاء اللہ کے مرید بہاء اللہ کے روضہ کی پرستش کرتے ہیں.دیوان نوش صفحہ کے بہاء اللہ کے روضہ کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے.
185 جز خاک آستان تو مسجود خلق نیست اے سجدہ گاہ جان رواں روضہ بہا گردید انبیاء ہمہ ساجد بر این تراب اے قبلہ گاہ کروبیاں روضہ بہا پھر صفحہ ۱۴۹ پر ہے: اے مقصد مقصود زماں روضہ ابھی اے معبد و معبود جہاں روضہ ابھی اے معنی اسرار نہاں روضہ ایہی اے سجدہ گاہ عالمیاں روضہ ابھی اس شریعت اسلامیہ میں جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کی تفصیل دی گئی ہے مگر برخلاف اس کے شریعت بہائیہ کتاب الاقدس میں صرف ماں سے نکاح حرام کیا گیا ہے.باقیوں کا ذکر نہیں.۳.اسلامی شریعت میں چار تک نکاح کو جائز رکھا ہے مگر برعکس اس کے شریعت بہائیہ میں دو سے زیادہ عورتیں نا جائز ہیں.(دیکھو کتاب الاقدس صفحه ۱۳۰ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ ) ۴.شریعت اسلامی میں مہر حسب توفیق و حیثیت جس قدر چاہیں مقرر کیا جاسکتا ہے مگر شریعت بہائیہ کتاب اقدس میں مہر کی مقدار شہروں میں ۱۹ مثقال سونا اور دیہات میں ۱۹ مثقال چاندی اور زیادہ سے زیادہ ۹۵ مثقال سونا اور ۹۵ مثقال چاندی علی الترتیب ہوسکتا ہے اس سے زیادہ مہر باندھنا حرام ہے.( الاقدس صفحہ ۱۳۵ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ ) ۵ اسلامی شریعت میں تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا مگر شریعت بہائیہ کتاب اقدس میں تین طلاق کے بعد رجوع ہو سکتا ہے.(الاقدس صفحہ ۲۰ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ ) ۶.اسلامی شریعت میں سود حرام اور خدا سے جنگ کرنے کے برابر ہے مگر شریعت بہائیہ میں جائز ہے.(دیکھو اشراقات - اشراق نم صفحہ ے نیا ایڈیشن صفحه ۴۳).اسلامی شریعت میں مردوں کے لئے سونے چاندی کے برتنوں اور ریشمی لباس کا استعمال نا جائز ہے مگر شریعت بہائیہ میں جائز ہے.مَنْ اَرَادَانُ يَسْتَعْمِلَ أَوَانِيَ الذَّهَبِ وَالْفِضَةِ لَا بَأسَ عَلَيْهِ.“ الاقدس صفحریم امطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ ).سرکا منڈوانا جو شریعت اسلامیہ میں جائز تھا اس کو شریعت بہائیہ نے ناجائز قرار دیا ہے."لَا تَحْلِقوا رُؤُسَكُمْ قَدْ زِيْنَهَا الله بِالْشَعْر یعنی اے اہل بہاء! اپنے سروں کو ہرگز نہ منڈوانا کہ بالوں سے ان کی زینت ہے.(کتاب الاقدس صفحهیم مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ ) ۹.شریعت اسلامیہ میں کھلے طور پر گانے بجانے کی ممانعت ہے مگر بر خلاف اس کے کتاب
186 اقدس میں لکھا ہے : إِنَّا حَلَلْنَا لكم اصغاء الاصوات والنغمات کہ ہم نے تمہارے لئے گانا بجانا الاقدس صفحہ ۶ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ ) جائز کر دیا ہے.۱۰.شریعت بہائیہ کے رو سے ایک خاوند جو سفر پر گیا ہوا ہو اس کی بیوی 9 ماہ انتظار کرنے کے بعد نیا نکاح کر سکتی ہے حالانکہ اسلامی شریعت میں یہ جائز نہیں.الاقدس صفحه ۶۱ ۶۲ مطبع الناصری بمبئی ۱۳۱۴ھ )
187 مذہب کتب شیعه کافی - مجمع البیان.عمدۃ البیان - الروضہ ہمیہ.شرع عرشیہ.تاج البلاغۃ شرح نہج البلاغة مؤلفہ عبدالحمید بن ابی الحدید شیعی - الصافی.بحارالانوار.کتب الخصال.غرر الفوائد.اکمال الدین.اسرار التنزیل.امالی.انارۃ البصائر - بشریٰ بالحسن - حقایق لدنی - الصراط السوی.کشف الغمہ.کلینی.حیات القلوب.ناسخ التواریخ.حجاج السالکین.جلاء العیون (ملا محمد باقر مجلسی ) - مجالس المومنین.روضۃ الصفا ( تاریخ ) استبصار - میسج الاحزان - کتب رد شیعہ ستر الخلافة - خلافت راشدہ.تحفہ اثناء عشریہ.شرائط المذاہب.آیات بینات.براہین قاطعہ.تشریف البشر.رسالہ فدک.معیار المذاہب.اسباب مقاطعه در میان سنی و شیعہ تحقیقات واقعات کربلا.اسماء ائمه شیعه (۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ (۲) حضرت حسن بن علی (۳) حضرت حسین بن علی (۴) ابو محمد علی بن حسین زین العابدین (۵) ابو جعفر محمد بن علی باقر ( محمد باقر) (1) جعفر صادق (۷) موسیٰ کاظمی (۸) علی رضا (۹) ابو جعفر محمد بن علی الجواد (۱۰) ابوالحسن علی بن علی بن محمد اتفا (۱۱) ابومحمد حسن بن عسکری (۱۲) امام مہدی علیہ السلام.خلفائے ثلاثہ کا ایمان از روئے قرآن ا - إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَيْكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (البقرة : ۲۱۹) ترجمه : تحقیق جو ایمان لائے اور جنہوں نے جہاد کیا راہ خدا میں وہی امید رکھتے ہیں رحمت الہی کی اور
اللہ بخشنے والا مہربان ہے.188 ٢- وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِيْنَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغُلِبُونَ (المائدة: ۵۷) ترجمہ: اور جو دوست رکھے اللہ اور اس کے رسول کو اور ان کو جو ایمان لائے.پس یقیناً گر وہ اللہ ہی کا غالب ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَأُولَيكَ هُمُ الْفَابِرُونَ (التوبة:(۲۰) جو کہ ایمان لائے اور ہجرت کی اور جہاد کیا راہ خدا میں اپنے مالوں اور اپنے جانوں سے بڑے درجے ہیں اللہ کے حضور اور یہی ہیں مراد پانے والے.ہر سہ خلفاء مہاجر اور مجاہد تھے.ضروری تھا کہ اس وعدہ الہی کے مطابق ان کو وہ درجات ملتے.اور چونکہ وہ آخر تک کامیاب ہوئے اس لئے هُمُ الْمُفْلِحُونَ کا وعدہ پورا ہوا.م فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ.....الآيه (آل عمران : ۱۹۶) ترجمہ:.پس جنہوں نے ہجرت کی اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میری راہ میں تکلیف دی گئی اور انہوں نے جنگ کی اور مارے گئے.میں ان کی بدیوں (کے اثر ) کوان ( کے جسم ) سے یقیناً مٹادوں گا اور میں انہیں یقیناً ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ( یہ انعام ) اللہ کی طرف سے بدلہ کے طور پر ملے گا اور اللہ تو وہ ہے جس کے پاس بہترین جزا ہے.ه لَبِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِينَةِ لَنَغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُ ونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا (الاحزاب : ٢١) ترجمہ: اگر باز نہ رہیں گے منافق اور وہ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور بد خبر اڑانے والے شہر میں البتہ لگا دیں گے ہم تجھ کو ان کے پیچھے.پھر نہ قریب پھٹکنے پاویں گے تیرے اس شہر میں مگر بہت کم.اگر خلفاء بخیال شیعوں کے منافق تھے تو ضرور تھا کہ آنحضرت ﷺ ان سے جہاد کرتے اور ان کو آنحضرت کے قریب رہنے کا موقع نہ ملتا.يايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظ عَلَيْهِمْ وَمَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (التوبة: ۷۳) مگر چونکہ اس قسم کا کوئی جہاد ثابت نہیں اور نہ ہی یہ خلفاء آپ سے تا وفات الگ ہوئے بلکہ وفات کے بعد بھی تا ایں دم قبر میں بھی ساتھ رہے.اس لئے ثابت ہوا کہ موجب قرآن یہ مومن تھے.
189 لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (الفتح : ۱۹) چونکہ تحت الشجرة کے حاضرین میں سے یہ خلفاء بھی تھے اس لئے ثابت ہوا کہ آپ ہی کو رضی اللہ کا سر ٹیفکیٹ ملا.٨ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيْسَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الفسِقُونَ (النور : ۵۲) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدا سلام دور دراز ملکوں میں پھیلا اور اسلام نے وہ موعودہ زور اور عروج پکڑا اور وعدہ الہی تھا کہ مومنوں کے ذریعہ اسلام تمکنت پکڑے گا پس خلفاء کا ایمان ثابت ہے.٩- وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّتٍ (المجادلة: ۲۳) جن کی روح القدس سے تائید کی ان میں یہ خلفاء بھی تھے اور یہی حزب اللہ ٹھہرے.١٠ - إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُ وا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنَ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا كَفَرُوا السُّفَلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ (التوبة:٢٠) به یار غار حضرت ابو بکر صدیق تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے سکینت اتاری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو اپنا رفیق الطریق بنایا.شیعہ مفسرین نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت ابو بکر ہی اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور میں موجود تھے اور صاحبہ سے مراد آپ ہی ہیں ( دیکھو تفسیر مجمع البیان از شیخ ابی الفضل المحسن الطبری و تفسیر صافی از علامه کاشانی سوره تو به زیر آیت اذ الخرجه الذين كفروا (تو به: ۴۰) اصحاب ثلاثہ کے ایمان کے دلائل کتب شیعہ سے ا.اگر اصحاب ثلاثہ مسلمان نہ تھے تو ان کے عہد خلافت میں قیصر و کسری کے ساتھ جو جہاد ہوئے وہ بھی ناجائز بھہرے اور جو مال غنیمت ان جہادوں میں مسلمانوں کے قبضہ میں آیا وہ بھی حلال نہ ہوا.اور جو لونڈیاں ان جہادوں میں بنائی گئیں وہ بھی حلال نہ ہوئیں.شہر بانو سر و پرویز کی لڑکی جو
190 حضرت حسین کے قبضہ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسیر ہو کر آئی وہ بھی جائز نہ ہوئی اور اس سے جو اولاد ہوئی اس کے متعلق کیا فتویٰ شیعہ حضرات لگائیں گے.۲.قیصر و کسری کے ساتھ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جو جہاد ہوا اور خدا کے حکم کے مطابق تھا جیسا کہ فروع کافی جلد ا باب مَنْ يَجِبُ عَلَيْهِ الْجِهَادُ صفہ ۶۱۲ میں ابو عمیر زبیری نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے وَإِنَّهُ لَيْسَ كَمَا ظَنَنْتَ وَلَا كَمَا ذَكَرْتَ وَلَكِنَّ الْمُهَاجِرِينَ ظُلِمُوا مِنْ جِهَتَيْنِ ظَلَمَهُمُ أَهْلُ مَكَّةَ بِإِخْرَاجِهِمْ مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ فَقَاتِلُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ لَهُمُ فِي ذَالِكَ وَظَلَمَهُمْ كِسْرِى وَقَيْصَرَ وَمَنْ كَانَ دُونَهُمْ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرْبِ وَالْعَجُمِ بِمَا كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ مِمَّا كَانَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَحَقَّ بِهِ مِنْهُمْ فَقَدْ قَاتَلُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَالِكَ وَبِحُجَّةِ هَذِهِ الْآيَةِ يُقَاتِلُ مُومِنُوا كُلَّ زَمَانٍ ، یعنی جس طرح تو نے سمجھایا کہا (یعنی یہ کہ قیصر و کسری کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں نا جائز تھیں) کیونکہ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تھا.ان پر اہل مکہ نے ان کے گھروں اور مال و دولت سے نکال کر ظلم کیا.پس مسلمانوں نے ان کے ساتھ خدا کے حکم سے جہاد کیا.اسی طرح قیصر و کسریٰ اور دیگر عربی و عجمی قبائل نے مسلمانوں پر ظلم کیا، اس ملک اور حکومت پر قبضہ کرنے کی وجہ سے جس پر ان سے زیادہ مسلمانوں کا حق تھا.پس مسلمانوں نے ان کے ساتھ خدا کے حکم کے ساتھ جنگ کی اور اسی آیت کے مطابق (یعنی أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظلِمُوا (الحج: ۴۰) ہر زمانہ کے مسلمان جہاد کرتے ہیں.۳.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے وقت پہلی مرتبہ پتھر پر کدال مار کر فرمایا.اللہ اکبر فارس کے ملک کی کنجیاں مجھے دی گئیں.(دیکھو حیات القلوب جلد ۲ صفحہ ۳۷۶ نولکشور و ناسخ التواریخ کتاب ۲ جلد اصفحه ۲۱۶ مطبوعہ ایران ) یہ کنجیاں حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو اپنا قائم مقام قرار دیا ہے.حضرت ابوبکر و عمرہ کی فضیلت - وَكَانَ أَفْضَلَهُمْ زَعَمْتَ فِى الإِسْلامِ وَانْصَحَهُمْ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ الْخَلِيفَةَ وَالْخَلِيفَةُ الْخَلِيْفَةِ وَلَعَمُرِ وَإِنَّ مَكَانَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ لَعَظِيْمٌ وَإِنَّ الْمَصَائِبَ بِهِمَا لِجُرُحٍ فِي الْإِسْلَامِ شَدِيدٌ فَرَحِمَهُمَا اللَّهُ وَجَزَاهُمَا اللَّهُ اَحْسَنَ مَا عَمَلًا (شرح نهج البلاغه جلد ۲
191 ج ۵ صفر ۲۱۹) فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتَلَ نَبِيِّنَا (نج البلاغه جز ثانی باب استناد صفحه ۵ (اردوترجمه ) خط نمبر ۹ شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز ) اور خلفاء میں سے اسلام میں سب سے افضل اور خدا اور رسول کے لئے سب سے زیادہ نصیحت کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق و خلیفہ فاروق تھے.اسی طرح جس طرح تیرا خیال ہے اور بخدا ان کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے اور ان کی جدائی کی وجہ سے اسلام کو سخت زخم لگا ہے.ان دونوں پر خدا تعالیٰ کی رحمت ہو اور خدا تعالیٰ اُن کے اچھے اور اعلیٰ کا موں کا ان کو اجر دے.وَلَا رَيْبَ إِنَّ الصَّحِيحَ مَا ذَكَرَهُ أَبُو عُمَرُ إِنَّ عَلِيًّا كَانَ هُوَ السَّابِقُ وَأَنَّ اَبَا بَكْرٍ هُوَ اَوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ اِسْلَامَهُ ( شرح نهج البلاغہ مولفہ عبدالحمید هبت الله بن حمد بن محمد بن حسین بن ابی الحدید شیعی جلدا جز ۲ صفحہ ۲۱۳) اور بے شک جس بات کا ابوبکر نے ذکر کیا ہے.سچ ہے کہ گو حضرت علیؓ نے پہلے اسلام قبول کیا لیکن ابو بکر نے سب سے پہلے اسلام کا اعلان کیا.- عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخْعِى قَالَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ ( شرح نهج البلاغہ جلدا جز و۲ صفحہ ۲۱۳) ابراہیم مخفی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سب سے پہلے اسلام لائے.عَنْ أَبِى نَصْرِ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرُ لِعَلِي أَنَا أَسْلَمْتُ قَبْلَكَ فِي حَدِيثِ ذِكْرِهِ فَلَمْ يَنكُرُهُ عَلَيْهِ.( شرح نہج البلاغہ جلدا جز و ۲ صفحہ ۳۱۳) ابونصر کہتے ہیں کہ کسی سے گفتگو میں حضرت ابو بکر نے حضرت علیؓ سے کہا کہ میں آپ سے پہلے مسلمان ہوا تھا مگر حضرت علی نے اس کے خلاف کچھ نہ کہا.وَقَالَ عَلِيٌّ وَ الزُّبَيْرُ مَا قَضَيْنَا إِلَّا فِي الْمَشْوَرَةِ وَ إِنَّا لَنَرَى اَبَابَكْرٍ أَحَقَّ النَّاسِ بِهَا إِنَّهُ لَصَاحِبُ الْغَارِ وَإِنَّا لَنَعْرِفْ لَهُ سُنَنَهُ وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلعم بِالصَّلَواةِ بِالنَّاسِ وَهُوَ حَقٌّ - ( شرح نهج البلاغه مؤلفہ ابن ابی الحدید شیعی جلد اجز و ۲ صفحه ۷۵ ) حضرت علی اور حضرت زبیر نے فرمایا کہ ہم نے سوائے مشورے کے اور کوئی فیصلہ نہیں کیا.کیونکہ ہم یقیناً حضرت ابوبکر کو اپنوں میں سے سب سے زیادہ اس امر کا مستحق خیال کرتے ہیں کیونکہ آپ صاحب غار ہیں.اور ہم ان کے اچھے طریقوں کو جانتے ہیں.اور آنحضرت صلعم نے جبکہ آپ زندہ تھے ابو بکر کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا.۹.کتاب كَشْفُ الْغُمَّةِ فِى مَعْرِفَةِ الْاَئِمَّةِ میں ہے.اِنَّه سُئِلَ الْاِمَامُ أَبُو جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَنْ حِلْيَةِ السَّيْفِ قَالَ نَعَمُ حَلَّى أَبُو بَكْرِ الصِّدِّيقَ سَيْفَهُ بِالْفِضَّةِ فَقَالَ
192 الرَّاوِيُّ تَقُولُ هَكَذَا فَوَثَبَ الْإِمَامُ عَنْ مَكَانِهِ فَقَالَ نَعَمُ الصِّدِّيقُ فَمَنْ لَّمْ يَقُلْ لَهُ الصِّدِّيقُ فَلَا صَدَّقَ اللَّهُ قَوْلَهُ فِي الدُّنْيَا.کہ امام جعفر سے پوچھا گیا کہ کیا تلوار کو سونا چڑھانا جائز ہے تو آپ نے فرمایا.ہاں جائز ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی تلوار کو سونا چڑھایا تھا.اس پر راوی نے متعجب ہو کر کہا کہ آپ ایسا ( یعنی ابو بکر صدیق کو کہتے ہیں ) تو امام اپنی جگہ سے اٹھ کر کہنے لگے ہاں وہ صدیق ہیں.ہاں وہ صدیق ہیں اور جو ان کو صدیق نہ کہے خدا دنیا میں اس کی بات کو سچا نہیں کرے گا.۱۰.حضرت علی حضرت عثمان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: وَاللَّهِ مَا اَدْرِكْ مَا أَقُولُ لَكَ مَا أَعْرِفْ شَيْئاً تَجْهَلُهُ وَلَا أَدُلُّكَ عَلَى شَيْءٍ لَا تَعْرِفُهُ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ مَا سَبَقْنَاكَ إِلَى شَيْءٍ....فَنُبَلِّغَكَهُ وَقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا وَسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا وَ صَحِبُتَ رَسُولَ اللهِ كَمَا صَحِبُنَا وَمَا اِبْنُ أَبِي قَحَافَةَ وَلَا اِبْنُ الْخَطَّابِ أَوْلَى بِعَمَلِ الحَقِّ مِنْكَ وَ أَنْتَ اَقْرَبُ إِلى رَسُولِ اللهِ.....وَقَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِهِ مَالَمْ يَنَالَا.نہج البلاغه جز ثانی نمبر ۱۵۹ و من كلام له عليه السلام لما اجتمع الناس.......بخدا میں نہیں جانتا کہ میں آپ کے سامنے کیا بیان کروں.مجھے کوئی ایسی نئی بات معلوم نہیں جو آپ نہ جانتے ہوں اور میں آپ کو کوئی ایسی نئی بات نہیں بتا رہا جو آپ کو معلوم نہ ہو.کیونکہ میر اعلم آپ سے زیادہ نہیں.ہم آپ سے کسی امر میں سبقت نہیں رکھتے کہ ہم آپ کو اس کی اطلاع دینے کے قابل ہوں اور نہ ہم کسی امر میں منفرد ہی ہیں کہ وہ امر آپ تک پہنچائیں.بے شک آپ نے وہ سب کچھ دیکھا اور سنا جو ہم نے دیکھا اور سنا.اور آپ بھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رہے جس طرح ہم تھے.ابوبکر اور حضرت عمر آپ سے کسی امر میں سبقت رکھنے والے نہ تھے اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کے باعث آنحضرت کے ان دونوں سے زیادہ مقرب ہیں..وَمِنْ كِتَابٍ لَهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ إِنَّهُ يَا يَعْنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوْا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَ عُثْمَانَ عَلَى مَا بَايَعُوا هُمْ عَلَيْهِ.....فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَ سَمُّوْهُ إِمَامًا كَانَ ذَالِكَ الله رضا - (نہج البلاغہ، جز ثالث_۶.و من كتاب له الى معاوية) حضرت علی نے حضرت معاویہ کو ایک خط میں (اپنی خلافت کا یہ ثبوت ) لکھا کہ میری بیعت انہی لوگوں
193 نے کی ہے جنہوں نے ابو بکر و عمر وعثمان کی بیعت کی اور اسی امر پر کی ہے جس امر پر ان کی کی تھی.ایسے لوگ ہیں کہ اگر ایک شخص پر مجتمع ہو کر اس کو اپنا امام کہہ دیں تو یہی امر خدا کے ہاں بھی موجب رضا ہوتا ہے.١٢- لِلَّهِ بَلادُ فَلان فَقَدْ قَوْمَ الْاَوَدَ وَ دَاوَى العَمَدَ وَ خَلَّفَ الْفِتْنَةَ وَأَقَامَ السُّنَّةَ ذَهَبَ نَقَّى الثَّوْبِ قَلِيْلَ الْعَيْبِ أَصَابَ خَيْرَهَا وَ سَبَقَ شَرَّهَا أَدَّى إِلَى اللَّهِ طَاعَتَهُ وَاتَّقَاهُ بحقه - (نہج البلاغہ جز ثانی _۲۲۳ _ ومن كلام له عليه السلام) فلاں آدمی کیا ہی اچھا تھا کیونکہ اس نے کبھی کو درست کیا اور دلوں کی بیماریوں کا علاج کیا.فتنہ کو پیچھے ہٹایا اور سنت کو قائم کیا اور انتقال کیا ایسی حالت میں کہ وہ پاک اور بے عیب تھا.خلافت کا اچھا حصہ پایا اور اُس میں پیدا ہونے والے شتر سے پہلے گزر گیا.اللہ کی اطاعت گزاری کی اور اس کے حقوق میں تقویٰ سے کام لیا.یہ سب عبارت حضرت علی نے حضرت عمر کی نسبت کہی.چنانچہ اس خطبے کے حاشیہ میں عبد الحمید بن ابی الحدید شیعی نے لکھا ہے کہ فلاں سے مراد عمر ہیں.۱۳.امام جعفر صادق سے حضرت ابو بکر و عمر کے متعلق کسی نے سوال کیا.تو انہوں نے جواب دیا : هُمَا إِمَامَانِ عَادِلَانِ قَاسِطَانِ كَانَا عَلَى الْحَقِّ وَمَا تَا عَلَيْهِ فَعَلَيْهِمَا رَحْمَةُ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ (رسالہ ادله تقیہ فی ثبوت تقیہ مؤلفہ سلطان العلماء سید محمد صاحب مجہتد ) کہ وہ دونوں امام تھے عدل اور انصاف کرنے والے.وہ دو نو حق پر تھے اور حق پر ہی ان کی وفات ہوئی اور قیامت کے دن ان پر خدا تعالیٰ کی رحمت ہوگی.نوٹ :.شیعوں کا اس قول کے متعلق یہ کہنا کہ امام جعفر نے دوسرے دن اس قول کی تاویل یہ کی تھی کہ ” اِمَامَانِ “ سے میری مراد ”اہل جہنم کے امام تھی.غلط ہے بوجوہات ذیل.(1) هُمَا إِمَامَانِ“ سے مراد اہل جہنم کے امام نہیں ہو سکتے.کیونکہ عربی زبان اس کی اجازت نہیں دیتی.هُمَا اِمَامَا اَهْلِ النَّارِ کہنا چاہیے تھا کیونکہ تثنیہ یا جمع کا صیغہ جب مضاف ہوتو اس کے آخر سے نون گر جاتا ہے جیسے هُمُ مُسْلِمُوا مَكَّةَ (یعنی وہ مکہ کے مسلمان ہیں هُمُ مُسْلِمُونَ مكة نہیں ہو سکتا.) (۲) امام سے جس شخص نے فتویٰ پوچھا اس کو تو آپ نے مندرجہ بالا صاف الفاظ میں
194 جواب دے دیا وہ اب اس فتویٰ کے مطابق حضرت ابو بکر و عمر کو مومن ہی سمجھے گا.اس کے چلے جانے کے بعد دوسرے دن اس قول کے الفاظ کی ظاہری مفہوم کے خلاف غلط تاویل کرنا بالکل غیر معقول ہے.اس شخص کی گمراہی (بقول شما) کا باعث تو حضرت امام جعفر ہی کا یہ قول ہوگا.امام جعفر نے اگر کوئی تشریح اپنے الفاظ کی کرنی ہوتی تو اس شخص کے سامنے ہی کرنی چاہیے تھی.۱۴.علامہ کا شانی اپنی تفسیر خلاصۃ المنهج تفسیر سورۃ الفتح آیت 19 میں لکھتے ہیں: آنحضرت فرمود بدوزخ نه رود یک کس ازاں مومناں کہ اوزیر شجر بیعت کردند و این را بیعت الرضوان نام نہادہ اند - بہت آنکه حق تعالی در حق ایشان فرمود که " لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (الفتح : ۱۹) کہ آنحضرت نے فرمایا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے سب کے سب جنتی ہیں کیونکہ خدا نے رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ کا ان کو خطاب دیا ہے.۱۵.بکشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ بیعت رضوان کی شرح میں روایت ہے.از جابر بن عبد اللہ روایت است که ما در آن روز هزار و چهارصد ( یعنی چودہ سو ) کس بودیم در آن روز من از آنحضرت صلحم شنیدم که آنحضرت خطاب بحاضران نمود و فرمود که شما بهترین اہل روئے زمین اند و همه در آن روز بیعت کردیم و کسے از اہل بیعت نکس و نمود مگر اجد بن قیس کہ آں منافق بیعت خود را شکست گویا بیعت رضوان کرنے والے چودہ سو مسلمان تھے اور سوائے اجد بن قیس کے سب کے سب جنتی ہیں مگر شیعہ تو صرف پختن یا ساڑھے چھ تن کو جنتی مانتے ہیں.۱۶.حضرت عثمان اس بیعت کے وقت موجود نہ تھے بلکہ بطور سفیر مکہ میں گئے ہوئے تھے ان کے متعلق لکھا ہے.فَلَمَّا انْطَلَقَ عُثْمَانُ وَبَايَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَالِهِ الْمُسْلِمِينَ وَ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلْعَمُ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأخْرى لِعُثْمَانَ وَقَالَ الْمُسْلِمُونَ طُوبَى لِعُثْمَانَ قَدْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلْعَمُ مَا كَانَ لِيَفْعَلَ فَلَمَّا جَاءَ عُثْمَانُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ أَطَفْتَ بِالْبَيْتِ فَقَالَ مَا كُنتُ لاطُوفَ بِالْبَيْتِ وَ رَسُولُ اللهِ صَلَعَمُ لَمْ يَطْفُ بِهِ ( فروع کافی جلد ۳ کتاب الروضه صفحه۱۱۵).حضرت عثمان چلے گئے تو آنحضرت نے مسلمانوں سے بیعت لی.اور آنحضرت نے اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر حضرت عثمان کی بیعت لینے کے لئے رکھا اور مسلمانوں نے کہا کہ عثمان بڑا خوش
195 قسمت ہے کہ اس نے کعبہ کا طواف بھی کر لیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کر لی مگر آنحضرت نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا.نوٹ : یہ واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے.حضرت عثمان تو بطور سفیر مکہ چلے گئے اور باقی مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے کفار نے روکا.آنحضرت نے مسلمانوں کی یہ بات سن کر فرمایا کہ عثمان تو ایسا کرنے والا نہیں ہے ( یعنی اس نے ایسا نہیں کیا ہوگا) پس جب عثمان واپس آئے آنحضرت نے ان سے پوچھا کیا آپ نے کعبہ کا طواف کیا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ میں طواف کر لیتا اس حالت میں کہ آنحضرت نے طواف نہ کیا ہو.یہ حوالہ حضرت عثمان کی شانِ ایمانی ثابت کرتا ہے.۱۷.اگر اصحاب ثلاثہ مومن اور خلفائے برحق نہیں تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو أَسَدُ اللهِ الْغَالِبِ عَلَى كُلِّ غَالِبٍ کے مصداق ہیں ان کی بیعت کیوں کی ؟ شیعوں کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ جلد ۲ کتاب دوم صفحہ ۴۴۹ پر لکھا ہے : ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ فَبَايَعَ.“ 66 یعنی حضرت علیؓ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر حضرت ابوبکر کی بیعت کی.اگر کہو کہ انہوں نے تقیہ کر کے باعث خوف بیعت کی تو اول تو یہ حضرت علی جیسے ” اَشْجَعُ النَّاسِ ” فاتح خیبر اور شیر خدا کی شان کے خلاف ہے.دوسرے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک ”فاسق، غاصب اور خائن کی مجبوراً بیعت کر لینا ایک مستحسن فعل تھا تو پھر حضرت امام حسین نے اپنے جلیل القدر والد کی اس اچھی سنت پر عمل کر کے کیوں یزید کی بیعت نہ کی.اپنی اور خاندان نبوت کے بیسیوں معصوموں کی جانیں کیوں قربان کروا ڈالیں؟ حالانکہ جہاں تک شجاعت اور مردانگی کا سوال ہے اس کے لحاظ سے اگر اس قسم کی کمزوری دکھانا ممکن ہوسکتا تھا تو امام حسین کے لئے ممکن ہوسکتا نہ کہ حضرت علی کے لئے.پس ثابت ہے کہ چونکہ حضرت امام حسین کے نزدیک یزید خلیفہ بر حق نہ تھا اس لئے انہوں نے جان دے دی لیکن ایسے شخص کی بیعت نہ کی لیکن چونکہ حضرت علی کے نزدیک حضرات ابو بکر وعمر وعثمان خلفائے برحق تھے اس لئے انہوں نے ان کی بیعت کر لی.دلائل و مطاعن شیعہ کا جواب شیعه: - إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ امَنُوا (المائدة : ۵۶) وَالَّذِينَ آمَنُوا سے حضرت علی مراد ہیں.لہذا وہ خلیفہ بلا فصل ہوئے؟
196 الجواب ا.اِنَّمَا کلمہ حصر ہے.اگر وَالَّذِينَ آمَنُوا سے مراد حضرت علی ہوں تو شیعوں کے باقی ائمہ کی امامت باطل ہوئی کیونکہ پھر سوائے اللہ رسول اور علی کے کسی اور کی امامت ممتنع ہو جائے گی.۲.وَالَّذِينَ آمَنُوا جمع کا صیغہ ہے.اس سے علی ( واحد ) مراد نہیں لیا جا سکتا..اس کے آگے ہے يُؤْتُونَ الزَّكوة.حضرت علیؓ کا زکوۃ دینا ثابت نہیں.۴.وَالَّذِينَ آمَنُوا سے مراد اگر حضرت علیؓ ہوں تو اس کے آگے اُن کے ساتھ دوستی کرنے والے گروہ کو غالب قرار دیا گیا ہے مگر بقول شماعلی کا معاملہ اس کے برعکس ہے.۵.اہل سنت کی تفاسیر میں جہاں وَالَّذِینَ آمَنُوا سے مراد حضرت علیؓ کو لکھا گیا ہے وہاں علماء اہل سنت نے شیعوں کا قول نقل کر کے اس کے آگے اس کی تردید کی ہے.پس وہ تمہارے لئے دلیل نہیں ہو سکتی (دیکھو الفوائد المجموعه في احاديث الموضوعة مصنفه امام شوکانی صفحه ۳۶۹_۳۷۰.66 مطبع ناشر دار الکتاب العربي ” فَإِنَّ ذَالِكَ مَوْضُوعٌ بِلَا خَوْف“ کہ یہ روایت بلاشبہ وضعی ہے.۶.لفظ ”ولی“ دوست، ناصر اور حاکم کے معنوں میں مشترک ہے اس کے معنے صرف حاکم لینا حجت نہیں ہو سکتا.جب تک اس کے لئے دلیل نہ دی جائے.ے.اس آیت میں ”ولی“ کے معنے محب و ناصر کے ہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود اور نصاری کی دوستی کا ذکر فرمایا ہے.اور اس کے بعد اس آیت میں اللہ، رسول اور مومنوں کو دوست بنانے کی تلقین کی گئی ہے..یہ آیت اصحاب ثلاثہ پر صادق آتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلی آیت میں یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوْامَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ (المائدة : (۵۵) ہے کہ اے مسلمانو! اگر تم میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو خدا ایک اور قوم کو لائے گا وغیرہ.آنحضرت کی وفات پر ظہور عرب جو ہوا یعنی تمام عرب والے مرتد ہو گئے ان کو حضرت ابو بکر اور ان کے اصحاب کے سوا اور کون مسلمان بنانے والا ہوا.وَالَّذِينَ آمَنُوا سے دوستی رکھنے والوں کو خدا نے غالب گروہ قرار دیا ہے اور وہ اصحاب ثلاثہ اور ان کے اصحاب ہیں.شيعه: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَا هُ“.(سنن الترمذى كتاب المناقب باب مناقب علی).جوابا.اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے : جو مجھ سے محبت کرے وہ علی سے بھی محبت کرے“
197 یا جس سے میں محبت کرتا ہوں علی بھی اس سے محبت کرتا ہے.”مولا‘ ظرف ہے جس کے معنی محل محبت کے ہیں.۲.ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی کے سامنے اعلان کیا تو اس کے دوتین ماہ ہی بعد آنحضرت ﷺ کی وفات کے دن وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی کہاں گئے تھے؟ ان میں سے ایک بھی تو خلافت کے لئے حضرت علی کا نام نہیں لیتا.۳.حضرت علی بھی اپنی خلافت کے لئے اس حدیث کو پیش نہیں کرتے.۴.یہاں تک کہ جب حضرت عثمان کی وفات پر حضرت علی خلیفہ منتخب ہوئے تو حضرت معاویہ نے انکار کر دیا.حضرت علیؓ نے اپنی خلافت منوانے کے لئے متعدد دلائل دیئے مگر خم غدیر کے واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا لہذا ثابت ہوا کہ یہ بعد کی اختراع ہے.شیعہ:.اَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا جواب :.یہ حدیث ضعیف ہے.دیکھو (ترمذی کتاب المناقب باب مناقب علی) ۲.اس حدیث کے متعلق لکھا ہے: ذَكَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِى فِى الْمَوْضُوعَاتِ مِنْ عِدَّةِ طُرُقٍ وَجَزَمَ بِبُطْلَانِ الْكُلِّ “ ( اللمعات بر حاشیه مشكوة مطبوعہ اصح المطابع دہلی صفحه ۵۶۴) اس حدیث کو ابن جوزی نے متعدد طرق سے روایت کر کے موضوع قرار دیا ہے.نیز اس کے سب طریقوں کو باطل قرار دیا ہے.نیز دیکھوفوائد الجموع فی احادیث الموضوع مصنفہ امام شوکانی مطبوعہ دار الکتاب العربی ۳۷۳ حدیث ۳۵ طبع اولی ۱۹۸۶ء) ۳.اس کا ترجمہ ہے ” میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ بہت بلند ہے؟ کہاں ہے ذکر علی ؟ ۴.ایک دروازہ والا بھی شہر ہوا ہے ؟ ہاں جیل خانے اور کوٹھڑی کا ایک دروازہ ہوتا ہے.شہر کے کم از کم چار دروازے ہونے چاہئیں.ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علم کا شہر ہیں اور ابوبکر وعمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم اس شہر کے چار دروازے ہیں حضرت علی بھی ان میں سے ایک ہیں.یادر ہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں ایک دروازے کا حصر نہیں.۵.خود حضرت علیؓ نے حضرت عثمان سے فرمایا.انكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ ( نبع البلاغہ جز ثانی.۱۵۹- ومن كلام له لما اجتمع الناس له ) کہ اے عثمان ! تو اتنا ہی عالم ہے جتنا میں.پس حضرت عثمان کی حضرت علیؓ سے مساوات علمی ثابت ہے.اگر وہ علم کا دروازہ ہیں تو عثمان بھی بوجہ مساوات علمی
198 رکھنے کے علم کا دروازہ ہوئے.شیعہ:.حضرت علیؓ کے لئے رجعت شمس کا معجزہ ظاہر ہوا اور یہ ان کی فضلیت کی دلیل ہے.جواب:.رجعت شمس والی روایت سراسر جعلی اور موضوع ہے.(ملاحظہ ہو موضوعات کبیر ملا علی قاری صفحه ۸۹ نیز الفوائد المجموعه فی احادیث الموضوعہ مصنفہ امام شوکانی مطبوعہ دار الكتاب العربي صفحه ۳۶۹-۳۷۰) شیعہ:.حدیث طیر سے حضرت علی کی فضیلت ثابت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا ! اس آدمی کو بھیج دے جو تمام انسانوں میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتا کہ وہ میرے ہمراہ اس پرندے کا گوشت کھائے تو حضرت علی تشریف لے آئے.جواب:.یہ روایت بھی سراسر جعلی ہے.چنانچہ لکھا ہے: لَهُ طُرُقْ كَثِيرَةٌ كُلُّهَا ضَعِيفَةٌ وَقَدْ ذَكَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِي فِي الْمَوْضُوعَاتِ الفوائد المجموعه فی احادیث الموضوع صفحه ۱۲۹) کہ یہ روایت جتنے طریقوں سے مروی ہے وہ سب ضعیف ہیں اور ابن جوزی نے کہا ہے کہ یہ روایت وضعی یعنی جعلی ہے.حضرت عثمان کا جنازہ اعتراض شیعہ :.حضرت علی نے حضرت عثمان کا جنازہ نہیں پڑھا.جواب:.غلط ہے حضرت عثمان کے جنازے پر حضرت علی حاضر ہوئے چنانچہ لکھا ہے.ا وَقِيلَ شَهِدَ جَنَازَتَهُ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ زَيْدُ ابْنُ ثَابِتٍ وَكَعْبُ ابْنُ مَالِكَ (کامل ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۱۸۰ مطبوعہ بیروت ۱۳۸۵ھ ) کہ حضرت عثمان کے جنازہ پر حضرت علی طلحہ ، زید بن ثابت اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم حاضر ہوئے.۲.اسی طرح شیعوں کی ناسخ التواریخ میں ہے: دد حسن بن علی یا عبداللہ بن زبیر و ابو جہم بن حذیفہ و چند تن جسد اور ا بر تخته پاره نهادند.و جشن نام بستان است در آنجا خاک سپردند (تاریخ التواریخ کتاب دوم جلد ۲ صفحه ۴۳۸) گویا حضرت علی نے حضرت عثمان کا جنازہ بوساطت امام حسن کرایا.یادر ہے کہ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے نیز جو امر حضرت علی کو ( بقول شما) جنازہ پڑھنے سے مانع تھا وہ حضرت حسنؓ کو کیوں مانع نہ ہوا.
199 حضرت ابو بکر وعمر کا جنگ سے بھا گنا اعتراض شیعہ :.حضرت ابوبکر و عمر جنگ سے بھاگے.جواب ا.غلط ہے.طبری میں ہے: وَنُهِضَ نَحْوَ الشَّعْبِ مَعَهُ عَلِيُّ ابْنُ أَبِي طَالِبِ وَأَبُو بَكْرِ ابْنَ أَبِي قَحَافَةَ وَعُمَرُ ابْنُ الْخَطَابِ - ( تاریخ الطبری جلد الثانی صفحه ۸۶ مطبع دار الكتب العلمیۃ بیروت لبنان ) اور گھائی کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کھڑے (دشمن کے ساتھ ) مقابلہ کرتے رہے.۲ - عَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أَحْدٍ انْصَرَفَ كُلُّهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ فَكُنتُ أَوَّلَ مَنْ فَاهُ (تاریخ الخلفاء صفحه ۳۵) حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے سب لوگ ادھر اُدھر چلے گئے تو سب سے پہلے میں آپ کے پاس پہنچا.٣ - وَمِمَّنْ ثَبَتَ مَعَهُ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أَبُو بَكْرِ وَ عُمَرُ - ( تاريخ الطبری جلد الثانى ذكر الخبر عن غزوه رسول الله موازن بحنين صفحه ۱۶۸ مطبع دار الكتب العلمية بیروت لبنان) کہ جنگ حنین میں حضرت ابو بکر وعمر آنحضرت کے ساتھ ثابت قدم رہے.- وَثَبَتَ (أَبُو بَكْرٍ) يَوْمَ أَحْدِوَيَوْمَ حُنَيْنٍ (تاریخ الخلفاء للامام السيوطى صفحہ ۳۶ اصح المطابع آرام باغ کراچی ) کہ حضرت ابو بکر جنگ اُحدا ور حنین میں ثابت قدم رہے.۵.اسی طرح جنگ خیبر کے متعلق لکھا ہے: وَإِنَّ أَبَابَكُر اَخَذَ رَايَةَ رَسُولِ اللهِ ثُمَّ نَهَضَ فَقَاتَلَ قِتَالَا شَدِيدَاثُمَّ رَجَعَ فَأَخَذَهَا عُمَرُ فَقَاتَلَ قِتَالَا شَدِيدًا هُوَ اَشَدُّ مِنَ الْقِتَالِ الْأَوَّلِ.تاریخ الطبری جلد الثاني ذكر الاحداث الكائنة في سنة سبع من الهجرة غزوه الخیبر صفحه ۱۳۸ مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان) کہ ( جب آنحضرت بیمار ہو گئے تو ) حضرت ابو بکر اور عمر نے یکے بعد دیگرے آنحضرت کا جھنڈا لے کر ایک دوسرے سے بڑھ کر کفار سے جنگ کی.
200.اسی طرح تاریخ الخلفاء میں حضرت ابوبکر کے متعلق حضرت علی کی شہادت موجود ہے.فَوَاللَّهِ مَا دَنَا مِنَّا اَحَدٌ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ شَاهِرًا بِالْسَّيْفِ عَلَىٰ رَأْسِ رَسُوْلِ اللَّهِ فَهُوَ أَشْجَعُ النَّاسِ ( تاريخ الخلفاء صفحہ ٣٧ للامام السيوطى اصبح المطابع آرام باغ کراچی ) کہ خدا کی قسم ! حضرت ابوبکر کے سوا اور کوئی ہم میں سے آنحضرت کے قریب نہیں ہوا.حضرت ابوبکر تلوار سونت کر آنحضرت کے سر پر پہرہ دے رہے تھے.پس آپ سب سے زیادہ شجاع تھے.پس کتب اہل سنت سے اصحاب ثلاثہ کا جنگوں کے موقع پر ثابت قدم رہنا ثابت ہے.اس لئے اہل سنت کے بالمقابل یہ طعن کوئی وقعت نہیں رکھتا.باقی رہیں اہل شیعہ کی روایات.سو وہ حجت نہیں؟ حضرت عمرؓ کا اپنے مردہ بیٹے کو کوڑے لگوانا اعتراض شیعہ :.حضرت عمر نعوذ باللہ اس قدرسخت دل تھے کہ انہوں نے اپنے بیٹے ابوشحمہ نامی کو شراب پینے کے مُجرم میں کوڑے لگوائے ، اور جب وہ کوڑوں کی مقررہ تعداد پورا ہونے سے پہلے مرگیا تو آپ نے اس کی لاش پر کوڑے لگوانے کا حکم دیا.جواب :.یہ روایت سراسر جعلی اور موضوع ہے:.إِنَّ عُمَرَ أَقَامَ الْحَدِ عَلَى وَلَدٍ لَه يُكْنى اَبَا شَحُمَةَ بَعْدَ مَوْتِهِ فِي قِصَّةٍ طَوِيْلَةٍ مَوْضُوع - (فوائد المجموع في الاحادیث الموضوع - مصنف امام شوکانی مبع دار الکتاب العرب صفحه ۲۳۲) که حضرت عمر کے بارہ میں وہ طویل قصہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک بیٹے کو جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کے مرجانے کے بعد بھی کوڑے لگوائے.وضعی ہے.باغ فدک اعتراض نمبر 1:.حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو آنحضرت کے ترکہ سے کچھ نہ دیا.حالانکہ حضرت ابو بکر کے لَا نَرث وَلَا نُورَث والی حدیث کے پیش کرنے پر حضرت فاطمہ نے قرآن کی آیت پیش کی له يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ - (النساء : ١٢) جواب نمبر :.حضرت ابوبکر صدیق نے ضد سے ایسا نہیں کیا کیونکہ انہوں نے آنحضرت سے حدیث سنی ہوئی تھی اور قرآن کریم کو آنحضرت ہی زیادہ سمجھتے تھے.جواب نمبر ۲:.اگر حضرت فاطمہ سے ضد تھی تو دیگر ازواج مطہرات اور خصوصاً اپنی لڑکی حضرت عائشہ کو
201 وراثت دیتے لیکن انہوں نے اس لیے نہ مانگی کہ ان کو مندرجہ بالا حدیث مانع تھی.اگر یہ کہیں کہ ان کو اس لئے نہ دی کہ حضرت فاطمہ دعوی نہ کر بیٹھیں تو وہ تو بہت جلد فوت ہو گئیں.بعد ان کے دے دیتے مگر ایسا نہ کیا.جواب نمبر ۳: لَا نَرِتْ وَلَا نُورَتْ (بخاری کتاب النمس - کتاب فضائل اصحاب النبی.کتاب الفرائض.کتاب المغازی.مسند احمد بن حنبل جلد ۲ باب الالف صفحه ۴۶۳ المكتبة الاسلامی بیروت ) والی حدیث شیعوں کے نزدیک بھی درست ہے چنانچہ اسی مفہوم کی حدیث شیعوں کی کتاب ( الاصول الکافی کتاب فــرض الـعـلـم باب صفة العلم و فضله و فضل العلماء من منشورات المكتبة الاسلاميه طهران ) میں محمد بن یعقوب را وی نے ابی البختری سے وہ ابوعبید اللہ جعفر بن صادق سے روایت کرتے ہیں: إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الانْبِيَاءِ وَ ذَلِكَ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوْرِثُوا فِي نَسْخَةٍ لَمْ يَرِثُوا دِرْهَمَا وَلَا دِينَارًا وَ أَنَّمَا أُورِثُوا أَحَادِيثَ مِنْ أَحَادِيثِهِمْ فَمَنْ أَخَذَ بِشَيْءٍ مِنْهَا فَقَدْ أَخَذَ بِحَظٍ وَافِر.“ کہ علماء نبیوں کے وارث ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ انبیاء نے وراثت نہیں چھوڑی.اور ایک نسخہ میں ہے.نہ وارث ہوئے کسی درہم یا دینار کے بلکہ وارث کئے گئے ان کے کلام میں سے کلام کے.اور اگر اس میں سے کسی نے کچھ لیا تو اس نے بہت بڑا حصہ لیا.( نیز دیکھیں ”منار الہدی از شیخ علی البحرانی صفحه ۲۳۴ باب منع فاطمۃ المیراث ) جواب نمبر ۴:.اگر حضرت ابوبکر نے مذکورۃ الصدر حدیث آنحضرت کے منہ سے نہیں سنی تھی تو ان کو حضرت فاطمہ کو ورثہ سے محروم کرنے سے کیا فائدہ تھا.کیا حضرت ابو بکر نے وہ زمین خود لے لی یا اپنے خاندان کو دے دی.اگر ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر کا مقصد سوائے شریعت کے حکم کو پورا کرنے کے اور کچھ نہ تھا.جواب نمبر ۵:.اگر حضرت فاطمہ کو انہوں نے اس حدیث کی وجہ سے محروم کیا تو اس وجہ سے اپنی اور اپنے دوست حضرت عمرؓ کی بیٹی کو بھی محروم کیا.جواب نمبر ۶:.جب حضرت علی خود خلیفہ ہوئے تو کیوں انہوں نے حضرت فاطمہ کی اولا د ( حضرت امام حسن و حسین کو آنحضرت کا ورثہ نہ دیا.اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کے نزدیک بھی آنحضرت کا ورثہ قابل تقسیم تھا.اگر حضرت ابوبکر اس واسطے غاصب ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کو فدک کا حصہ نہ دیا تو بعینہ حضرت علی بھی ایسے ہی غاصب ہیں.اعتراض نمبر ۲:.آنحضرت نے حضرت فاطمہ کے واسطے فدک کی وصیت کی مگر حضرت ابوبکر نے بخلاف
202 وصیت حضرت فاطمہ کو فدک پر تصرف نہ دیا.حضرت فاطمہ سخت ناراض ہوئیں حالانکہ آنحضرت نے فرمایا ہے.مَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِى (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب فاطمه جزہ مصری صفحہ ۳۶) یعنی جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا.جواب:.شیعہ لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صرف حضرت ابوبکر نے اس وصیت اور ہبہ نامہ کو جاری نہ فرمایا بلکہ حضرت علیؓ نے بھی جاری نہ فرمایا تھا.ہم دریافت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے تو اس واسطے اس کا اجرا نہ فرمایا کہ ان کو یہ حدیث معلوم تھی کہ آنحضرت نے فرمایا جو ہم چھوڑیں گے وہ صدقہ ہوگا لیکن پھر حضرت علی نے اپنی چند روزہ خلافت میں کیوں اس کو جاری نہ کیا ؟ پس معلوم ہوا کہ حضرت علی کو بھی یہ روایت پہنچ چکی تھی اور وہ اس کو درست تسلیم کرتے تھے اسی واسطے آپ نے بھی اس کو ویسے ہی رکھا جیسے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں چلی آتی تھی.باقی ناراضگی کے متعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ آپ نے اس وقت فرمائے تھے کہ جب حضرت علیؓ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت فاطمہ حضور کے پاس روتی ہوئی آئیں.آپ نے اس وقت کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا.جس میں آپ نے فرمایا :.أَلَا إِنَّ فَاطِمَةَ بِضْعَةُ مِنِّي يُؤذِينِي مَا اَذَا هَا وَيُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي ( بخاری کتاب النکاح باب ذَب الرجل ابنته فى الغيرة والا نصاف جزے مصری صفحه اسم ومسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل فاطمه رضى الله عنها - ابوداؤد کتاب النکاح باب الغيرة - ترمذی ابواب المناقب باب ما جاء في فضل فاطمه رضی الله عنها ) یعنی فاطمہ میرا ایک ٹکڑا ہے اگر اسے تکلیف ہوئی تو مجھے بھی ہوئی.پس جس نے اس کو ناراض کیا اس نے گویا مجھے بھی ناراض کیا.حدیث میں آپ نے ماضی کا صیغہ استعمال کیا کہ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے گویا مجھے ناراض کیا اور صاف ظاہر ہے کہ اس وقت سے پہلے صرف حضرت علیؓ کی وجہ سے حضرت فاطمہ کو تکلیف پہنچی تھی کہ جس کے باعث آنحضرت کو بھی تکلیف پہنچی اور آپ نے اس تکلیف کی شدت میں ایک خطبہ پڑھا جس میں پہلے مورد حضرت علی ہی ہیں ،حضرت ابو بکڑ سے اگر وہ ایک بات پر جو واقعہ میں حق تھی ناراض ہو گئیں تو آپ اس حدیث کے نیچے نہیں آسکتے کیونکہ یہ بعد کا واقعہ ہے اور آپ نے یہ قانون نہیں باندھا بلکہ ایک خاص واقعہ پر فرمایا تھا کہ فاطمہ کو جس نے تکلیف دی ہے
203 اس نے مجھے بھی تکلیف دی ہے.جواب نمبر ۲:.کتاب نهجة البلاغة میں شیخ ابن مظہر نے ایک بات کہی جس سے تمام جھگڑے دور ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے: إِنَّه لَمَّا وَعَظَتْ فَاطِمَةُ اَبَا بَكْرٍ فِى فِدْكِ كَتَبَ لَهَا كِتَابَاوَ رَدَّ عَلَيْهَا ، یعنی جب فاطمہ نے ابوبکر کو فدک کے معاملہ میں بہت نصیحت وغیرہ کی تو انہوں نے اس کو نوشتہ لکھ دیا یعنی فدک اس کو دے دیا.اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت ابو بکر پر طعن کا کوئی موقع ہی نہ رہا.فَأَقْسَمَ عَلَيْهَا لِتَرْضى فَرَضِيتُ (تاریخ النمیس جلد ۲ صفر ۱۹۳ مطبوعہ مصر) کہ حضرت فاطمہ کو راضی ہونے کے لئے قسم دی گئی ، پس وہ راضی ہوگئیں.فَمَشَى إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ وَشَفَعَ لِعُمَرَ وَطَلَبَ إِلَيْهَا فَرَضِيَتْ عَنْهُ“.(شرح نہج البلاغہ جلد جز و نمبر ۲ صفحہ ۷۶ ) کہ حضرت ابوبکر حضرت فاطمہ کے ہاں گئے اور حضرت عمرؓ کی سفارش کی.چنانچہ حضرت فاطمہ حضرت عمرؓ سے بھی راضی ہو گئیں.پھر آیت مَا آفَاءَ اللهُ عَلى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَ الْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر : ٨) ترجمہ : جو پہنچایا اللہ نے اپنے رسول کو ان بستی والوں میں سے پس اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور فقیروں اور مسافروں کے لئے ہے کہ نہ ہووے ہاتھوں ہاتھ لینا درمیان دولتمندوں کے تم میں سے اور جو کچھ دے تم کو رسول اسے لے لو اور جو منع کرے تم کو باز رہو.اور ڈرواللہ سے یقیناً اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ فدک کے مال میں کتنے حصہ دار تھے.یہ باغ فدک مال فئے میں سے تھا اور مال فئے میں ”رسول“ کا حصہ تو ہے مگر محمد کا نہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بارغ فدک سے حضور کی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کے باعث تھا.پھر اس میں وراثت کا کیا سوال؟
204 تردید دلائل تقیه تقیہ کی تعریف از کتب شیعه جو مومن به اطمینان قلب موافق شرع ره که بخوف دشمن دین فقط ظاہر میں موافقت کرے دشمن دین کی تو دیندار ممدوح و تقی ہے“.( قول فیصل مصنفہ مرزا رضا علی صفحہ ۳) قوله:.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقیہ کیا جبکہ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ اور بسم اللہ کا لفظ کاٹ دیا.[بخاری کتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ما صالح فلان بن فلان ] مسلم كتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ما صالح فلان بن فلان ] 66 اقول :.یہ تقیہ نہیں بلکہ در حقیقت ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ بوجہ معاہدہ فریقین دونوں فریقوں کا لحاظ ہونا تھا اس واسطے آپ نے کفار کا لحاظ کرتے ہوئے بسم اللہ کی بجائے بِاسْمِكَ اللهُمَّ (احمد بن حنبل مصری جلد ا مسند علی بن ابی طالب لکھوایا اور آپ نے یہ انکار نہیں کیا کہ میں رسول اللہ نہیں ہوں بلکہ اقرار کیا ہے اور فرمایا تھا کہ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللهِ وَ رَسُولُ اللهِ.( بخاری کتاب الصلح) قوله : إلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَيِنَ بِالْإِيْمَانِ الخ) (النحل: ۱۰۷) کہ کافر کے غلبہ کے وقت تقیہ جائز ہے.اقول : - جواب نمبر : کفر دو قسم کا ہے.(۱) عقائد (۲) اعمال.عقائد.انسان کے دل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان میں اکراہ ممکن نہیں کیونکہ کسی کے عقائد کو کوئی دوسرا شخص جبر انہیں بدل سکتا کیونکہ جبر اور اکراہ کے معنی تو یہ ہیں کہ قوت فیصلہ کو معطل کر دیا جائے.عقائد میں اکراہ اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے بدلنے یا نہ بدلنے میں بہر حال قوت فیصلہ کا دخل ہوتا ہے.مثلاً زید اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہے.بکر اُس کو کہتا ہے کہ اگر تم خدا کا انکار نہ کرو گے تو میں تمہیں قتل کردوں گا.اب زید کو دو چیزوں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے.یا تو خدا کی ہستی پر ایمان کو مقدم کرے یا اپنی زندگی کو.اگر وہ اپنی زندگی کو مقدم کر کے خدا کی ہستی کا انکار کر دیتا ہے تو والا مَنْ أُكْرِهَ میں نہیں آتا کیونکہ یہ انکار اس کی قوت فیصلہ کے استعمال کے نتیجہ میں ظاہر ہوا ہے.
205 کفر کی دوسری قسم اعمال کے متعلق ہے اور اس میں ”جبر اور اکراہ کئی صورتوں میں ممکن ہے.یعنی ہو سکتا ہے کہ کسی شخص سے جبر البعض ایسے اعمال سرزد کرائے جائیں جن میں اس کی قوت فیصلہ کا ایک ذرہ بھی دخل نہ ہو.مثلاً اگر زید وبکر اور عمر پکڑ کر خالد کو جبر اشراب پلانا چاہیں یا اور کسی نا جائز فعل کا ارتکاب کرانا چاہیں تو گو خالد اس سے بچنے کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو پھر بھی ممکن ہے کہ اسے لٹا کر جبر شراب اس کے منہ میں ڈال دی جائے.اب اس طریق پر شراب پینے میں خالد کے ارادہ اور اس کی قوت فیصلہ کا ذرہ بھی دخل نہیں.یوں تو شراب پینا یا زنا کرنا ایمان کے خلاف ہیں مگر مندرجہ بالا طریق پر ان کا ارتکاب کرایا جانا یقیناً إِلَّا مَنْ اُكْرِہ کے تحت آتا ہے کیونکہ وہ با وجود اپنے کامل طور پر ختم اور غیر متزلزل ارادہ کے اس سے بچ نہ سکا لیکن کسی شخص کی زبان کو کوئی دوسرا شخص زبر دستی پکڑ کو چلا نہیں سکتا کہ وہ اپنے عقائد کے خلاف کہے مگر اعمال کا صدور جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے بعض اوقات جبراً کرایا جاسکتا ہے.پس آیت مندرجہ بالا میں لفظ ایمان کفر کے بالمقابل ہے، اور کفر کے معنی زبانی انکار کے نہیں بلکہ اعمال کے رنگ میں بھی نافرمانی کے ہیں.جیسا کہ لغت میں ہے:.اكْفَرَ لَزِمَ الْكُفْرَ وَ الْعِصْيَانَ بَعْدَ الطَّاعَةِ وَالْإِيمَانِ “ (المنجز ير لفظ کفر ) اس نے کفر کیا.یعنی کفر اور عصیان سے وابستہ ہوا فرمانبرداری اور ایمان کے بعد.گو یا لفظ کفر میں ہر قسم کا عصیان داخل ہے.ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ عقائد کے متعلق اکراہ “ کیا ہی نہیں جاسکتا جو عقائد کے تبدیل کرانے کے لئے کسی شخص پر کیا جائے کیونکہ ایسی حالت میں دو مشکل راہوں میں سے ایک کو دوسری پر مقدم کرنے کا فیصلہ خود اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس پر جبر کیا جائے.اور یہ ظاہر ہے کہ ”ایمان“ کے مقابلہ میں ”جان کی کوئی قیمت نہیں.پس جو شخص ”جان“ کے خوف سے ”ایمان“ کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے یعنی بجائے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے دنیا کو دین پر مقدم کرتا ہے.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے یہ فیصلہ اکراہ کے ماتحت کیا ہے کیونکہ اکراہ تو اس صورت میں ہوتا جب وہ یہ کہ سکتا کہ یہ جو کچھ ہوا میرے فیصلہ سے نہیں ہوا.ہاں بعض اعمال ایسے رنگ میں دوسرے شخص سے جبر سر ز د کرائے جا سکتے ہیں جن میں اس کے اپنے فیصلہ کا دخل نہ ہو.جیسا کہ اوپر مثال دی گئی ہے.پس شیعوں کا تقیہ اس آیت سے ہر گز نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ اعمال کے متعلق اس رنگ میں استثناء نہیں مانتے جس رنگ میں اوپر بیان ہوا بلکہ وہ عقائد کو کسی کے خوف سے چھپانے اور اس کے خلاف
206 کہنے کا نام ” تقیہ رکھتے ہیں.جواب نمبر ۲:.اگر عقائد کو اس طریق پر چھپانے کی اجازت مل جائے تو کسی نبی کی جماعت بھی ترقی نہ کر سکتی.اگر اس رنگ میں تقیہ جائز ہوتا تو حضرت علی، حضرت ابوبکر ، حضرت بلال و غیر هم رضوان الله علیہم اجمعین صحابہ کرام جن کو محض اسلام لانے کی وجہ سے سخت تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنا پڑ ضرور اس سے فائدہ اٹھاتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو پھر مسلمان کون ہوتا ؟ پس ان بزرگوں کا انتہائی مصیبتیں اٹھا کر بھی انکار نہ کرنا صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک عقائد کے متعلق اکراہ ممکن نہ تھا اور یہ کہ ڈر کر عقائد کو تبدیل کرنا إِلَّا مَنْ أُخْرِہ کی استثناء میں نہیں آتا.جواب نمبر ۳:.تقیہ کے متعلق ایک نہایت ضروری سوال ہے اور وہ یہ کہ تقیہ کرنا اچھا ہے یا بُرا اگر کہو برا تو (۱) یہ عقائد شیعہ کے خلاف (۲) حضرت علیؓ نے کیوں کیا ( بقول شما ) اگر کہو اچھا تو حضرت امام حسین نے یزید کے بالمقابل کیوں نہ کیا؟ جواب نمبر ۴ : اللہ تعالیٰ نے جو کراہ اور جبر کے نتیجہ میں استثناء بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل جواب نمبرا میں بیان ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مستحسن قرار نہیں دیا بلکہ اسے بھی ایک قسم کا گناہ ہی قرار دیا ہے جیسا کہ اس کے آگے ہی فرمایا ہے.اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (النحل : ١) کم پھر اس اکراہ کے بعد تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے.پس معلوم ہوا کہ جو بعض اعمال اور افعال کے متعلق جبر اور کراہ کے بارے میں استثناء ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخشش کے ماتحت رکھا ہے پس صاف طور پر ثابت ہے کہ یہ اکراہ اور جبر کی حالت اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے متعلق نہیں بلکہ عوام کے کمزور ایمان والوں کے متعلق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور خواص مقربین کی ملائکہ کے ذریعہ حفاظت کرتا ہے اس لئے کفار کو ان پر اس رنگ میں تصرف حاصل ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ جبراً از راه اکراہ اعمال خلاف شریعت کا ارتکاب کر سکیں.پس حضرت علیؓ جیسے عظیم الشان انسان کے متعلق یہ کہنا کہ انہوں نے اپنے مخالفین سے ڈر کر بیعت کر لی اور اپنے عقائد کے خلاف عقائد حاضر کئے اور نعوذ باللہ جھوٹے ، خائن اور غاصب خلفاء پر ایمان لے آئے ، انتہائی طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہتک ہے.جواب نمبر ۵:.اگر فی الواقعہ حضرت علیؓ نے تقیہ کیا تھا ( بقول شما ) تو بعد میں ان کو بطور احتجاج ہجرت
207 کر کے خلفاء ثلاثہ کے خلاف جہاد کرنا چاہئے تھا کہ جنہوں نے آپ کو اپنی بیعت پر مجبور کیا تھا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا.ثابت ہوا کہ حضرت علی نے کبھی تقیہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس کے قائل تھے.(خادم) قوله : وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنُ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ (المومن (۲۹) کہ آل فرعون میں سے ایک شخص حز قیل نامی نے تقیہ کیا.فرعون سے تو وہ ممدوح خداوند ہو گیا.حالانکہ یہ تقیہ تو حید خدا میں تھا اور شیعہ کا تقیہ ولایت اور خلافت علی میں تھا.تو اس سے بڑھ کر محدوح خدا ہیں.اقول : حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون نے قتل کی دھمکی دی حز قیل بول اٹھا.آتَقْتُلُونَ رَجُلًا (المومن : ۲۹) تو اس وقت کیا حضرت موسی نے تقیہ کیا؟ نہیں ہرگز نہیں.اس وقت بھی حضرت موسی کو قتل کا خطرہ تھا اور اس وقت بھی انہوں نے تقیہ نہ کیا اور اگر تقیہ کوئی اچھی بات ہوتی تو حضرت موسی" بھی اس کو اختیار کرتے.اب رہا حز قیل تو اس نے زیادہ سے زیادہ کنم ایمان کیا نہ کہ تقیہ.کنتم ایمان اور تقیہ دوالگ الگ چیزیں ہیں.دوسرے یہ کہ يَكْتُمُ إِيْمَانَةَ (المومن : ٢٩) کے یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہ آدمی اُس دن سے پہلے ایمان کو چھپاتا تھا اور اُس دن آکر اس نے اپنے ایمان کا اظہار کیا.تو اس نے اظہار ایمان کیا نہ کہ تقیہ اور یہ بھی اس کے معنی ہو سکتے ہیں کہ ایمان کی چنگاری ابھی تک مخفی تھی لیکن اسی وقت دربار میں حضرت موسیٰ کی تقریر ومعجزات کے اثر کے ماتحت اس کے سینے میں ایمان کی چنگاری سلگ اٹھی اور جس وقت فرعون نے حضرت موسی کو قتل کی دھمکی دی تو وہ فوراً بول اٹھا کہ یہ ظلم ہے گویا اس نے اظہار ایمان کر دیا.قوله : جس طرح اللہ تعالیٰ اور حضرت ابراہیم نے اصنام باطلہ کوالہ برحق تعبیر کیا اور فرمایا.فراغ اقی الهتهم (الصفت : ۹۲) اور ایسا کرنے میں اللہ حق میں کوئی فرق نہ آیا.اسی طرح اگر امام حق نے مصلحتاو شریعتاً خلیفہ باطل کو خلیفہ یا امام کہا.تو نہ قائل کو کوئی ضرر ہے اور نہ خلیفہ باطل کو کوئی شرف حاصل ہوا.( قول فیصل مصنفہ مرزا رضا علی صفحه ۱۲) اقول : المتهم میں ہم سے مراد وہ کافر ہیں جو ان کو معبود سمجھتے تھے.تو یہ قیاس مع الفارق ہے کہ الهتهو میں تو مشرک ان کو معبود مانتے تھے.اب اگر حضرت علی حضرت ابو بکر کو امیر المومنین کہتے تھے تو آپ حضرت ابوبکر کو حق مانتے تھے.تو اس میں کوئی تقیہ نہیں.اگر کہو کہ آپ ان معنوں میں انہیں امیر المومنین کہتے تھے کہ آپ ان لوگوں کے خلیفہ تھے جو ان کی خلافت پر ایمان رکھتے تھے تو اس صورت میں بھی آپ تقیہ نہ کرتے تھے کیونکہ ان کو خلیفہ برحق نہیں مانتے تھے اور خلیفہ برحق نہ ماننے کی
208 صورت میں تقیہ نہ رہا.ا.اگر حضرت علی کا خلافت حضرت ابوبکر سے لے کر حضرت عثمان تک جو کہ ۲۵ سال کا عرصہ ہے کافر خلفاء کی بیعت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا اور ان کو سچا خلیفہ ماننا بسبب تقیہ کے ہوسکتا ہے تو اگر کوئی خارجی یہ کہے کہ حضرت علیؓ کا ۲۳ برس تک رسول مقبول عالیہ کو مانا بھی تقیہ کے سبب سے ہے تو جو جواب ان کا شیعہ دیں گے وہی جواب ہمارا بھی ہوگا.پس تقیہ ماننے کی صورت میں دلیل اسلام حضرت علی کی اُڑ جائے گی.۲.یہ طبعی قاعدہ ہے کہ ظاہر کا اثر باطن پر اور باطن کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے.اگر کسی شخص کے دل میں کسی کا بغض ہو لیکن ظاہر میں اس سے محبت کرے اور تعظیم سے پیش آئے تو آہستہ آہستہ وہ بغض دور ہو جائے گا.یہی حال ایمان کا ہے اگر اس کے مطابق نیک عمل نہ کیا جائے تو وہ آہستہ آہستہ دل سے مفقود ہو جاتا ہے.پس تقیہ اس لئے نا جائز ہوا کہ اس پر عمل کرنے کی صورت میں ایمان کے جاتے رہنے کا اندیشہ ہے.۳.عقلاً کفر اور ایمان کے بارے میں چار گروہ ہو سکتے ہیں:.الف.دل میں اور ظاہر میں دونوں میں ایمان ہو.ب.دل میں کفر اور ظاہر میں بھی کفر.ج.دل میں کفر اور ظاہر میں ایمان.و.دل میں ایمان مگر ظاہر میں کفر.قرآن شریف نے پہلے تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے مگر چوتھا گروہ کہ دل میں ایمان مگر ظاہر میں کفر ہو کا ذکر نہیں کیا.اس لئے کہ یہ گروہ ہو نہیں سکتا.کیونکہ ایمان ایسی چیز نہیں ہے جو دل میں چھپ سکے سوائے اس کے کہ وقتی طور پر ہو اور وہ بھی کمزور ایمان والا کرے گا اور وہ مجرم ہو گا.كَمَا قَالَ اللهُ تَعالى - إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمُ (النحل : 1) ۴.منافق اور کافر میں بلحاظ کفر کے کوئی فرق نہیں ہے مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء : ۱۴۶) کہ منافقوں کو سب سے زیادہ سزا ملے گی.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان لوگوں نے دلی عقیدہ کو چھپایا.پس جب کفر کے چھپانے پر سزا بڑھ جاتی ہے تو ایمان کے چھپانے پر بدرجہ اولی بڑھ جانی چاہئے.
209 ۵.حضرت علی نے مکہ کی زندگی میں دل میں اسلام رکھا اور ظاہر میں بھی اسلام رکھا.اگر تقیہ جائز ہوتا تو ظاہر میں بت پرستی کرتے کیونکہ وہاں زیادہ خطرہ تھا..حضرت علیؓ کو جب مکہ میں کافروں کی طرف سے تکلیف پہنچی تو انہوں نے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے وہاں سے ہجرت کر لی.اگر مدینہ میں بھی کسی وقت ان کو اپنے ایمان کے بچانے کی ضرورت پڑتی تو وہ ضرور وہاں سے ہجرت کرتے مگر انہوں نے وفات حضرت عثمان تک وہاں سے ہجرت نہ کی.اس لئے معلوم ہوا کہ ان کو وہاں ایمان بچانے کی ضرورت نہ پڑی.اگر کہو کہ انہوں نے کوفہ میں ہجرت کی تھی تو وہ اپنی خلافت کے زمانہ میں کی تھی جب کہ ڈر نہیں رہا تھا.ے.جبر کی صورت میں ایمان چھپانا جائز ہے یا فرض؟ اگر کہو کہ جائز ہے تو پھر وہ افضل ہے یا اس کا غیر افضل ہے؟ اور اگر فرض ہے تو اس کی عدم تعمیل یقینا گناہ کا موجب ہوگی اور پھر اگر فرض ہے تو پھر حضرت امام حسین نے یزید کی بیعت کیوں نہ کی؟ پس معلوم ہوا کہ تقیہ فرض نہیں.اور اگر جائز ہے تو وہ اولی ہے یا اس کا غیر اولیٰ ہے.قرآن مجید تو اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (النحل : ) کہہ کر جبر کی وجہ سے تقیہ کرنے والوں کو گناہگار قرار دیتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ کا غیر اولیٰ ہے اور امام کو یہی سزاوار ہے.کہ وہ اولی پر عامل ہو..حضرت عمار بن یاسر کو اگر تقیہ کی مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے تو ان کے ماں باپ کو شیعہ کیا سمجھتے ہیں.یقیناً ان کو نیک اور شہید جانتے ہیں.پس ایک بات جو کسی کی غلطی ہو اس کو ائمہ کے حق میں تجویز کرنے سے یہ بہتر ہے کہ ائمہ کے حق میں اولیٰ بات تجویز کرے..جس طرح اسلام میں کمزوروں کی رعایت کے لئے ڈر کے مارے ایمان چھپانے کو کفر قرار نہیں دیا ہے اسی طرح کامل مومنوں اور نبیوں کے لئے شجاعت اور بے خوفی کو لازم قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا.لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لايم (المائدة : (۵۵) لَا يَخْشَونَ أَحَدًا إِلَّا الله (الاحزاب : ٤٠) وَ هُمُ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ (الانبياء : ٢٩) لَا تَخَفْ اِنّى لَا يَخَافُ لَدَى الْمُرْسَلُونَ (النمل: (۱) پس عجیب بات یہ ہے کہ جو بات کمزوروں کے لئے جائز ہے وہ حضرت علیؓ میں پائی جائے اور جو بات کامل مومنوں کے لئے لازم تھی وہ آپ میں مفقود ہو؟ ١٠.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (النور: ۵۶)
210 آیت استخلاف جس میں صرف خلفاء کا ذکر ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے خلفاء کی ایک پہچان بتائی ہے کہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا (النور : ۵۲) یعنی ایام خلافت میں خوف کے معاملے بھی پیش آئیں گے مگر وہ دور ہو جائیں گے وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ (النور: ۵۶) کہ ان کا دین پوشیدہ نہیں ہوگا اور فرمایا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا (النور: ۵۶ ) یعنی میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کریں گے.پس اس آیت میں خلفاء کی تین علامتیں بیان فرمائی ہیں : الف.ان سے خوف کا دور ہونا.ب.ان کا اپنے دین کو ظاہر کرنا.ج.عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا.اگر ہم حضرت علی کو تقیہ باز سمجھیں اور ان کو پہلاخلیفہ سمجھیں تو ان تینوں میں سے کوئی علامت بھی حضرت علی میں پوری نہیں ہوتی اور حضرت ابو بکر صدیق میں یہ تینوں پوری ہوئی ہیں.اگر تقیہ نہ ہو تو پھر تینوں باتیں حضرت علی میں پوری ہوئی ہیں.نوٹ:.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَايَةٍ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَيِنٌ بِالْإِيْمَانِ وَلَكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ (النحل: ١٠٧) اس سے یہ بات ثابت ہے کہ مکرہ کو وہ سزا نہیں ملے گی جو کفر بعد الایمان اور کافر بالشرح صدر کو ملے گی.یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ مکرہ کلمہ کفر کہے تو جائز ہے اور گناہ نہیں.آیت تو کہہ رہی ہے کہ گناہ ہے تبھی تو اس کا تدارک فرمایا کہ ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ الخ (النحل :(1) اگر یہ گناہ ہی نہ ہوتا تو تدارک بتانے کی کیا ضرورت تھی.مسئلہ وراثت يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظَ الْأُنْثَيَيْنِ (النساء: ١٣) استدلال شیعہ:.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اسلامی قانون پیش کیا ہے کہ ہر شخص کی وارث اس کی اولاد ہے.چونکہ تمام احکام قرآنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ مساوی طور پر شریک ہیں اس لئے اس مسئلہ میں بھی آپ کا کوئی استثناء نہیں.بدیں وجہ حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو وراثت سے محروم کر کے ان کی حق تلفی کی.
211 جواب:.بیشک یہ آیت عام ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر عام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہوں جیسا کہ وَاَنْكِحُوا الْآيَا فى مِنْكُمُ (النور: ۳۳) میں باوجود یکہ خطاب عام ہے پھر بھی آنحضرت کی بیویاں اس سے مستثنیٰ ہیں.اسی طرح يُوصِيكُمُ اللهُ (النساء: ۱۲) والی آیت میں آنحضرت کا استثناء ہوسکتا ہے اگر کوئی کہے انکحوا الا یا طی والی آیت میں اس واسطے استثناء مانتے ہیں کہ اس استثناء کا خود قرآن کریم میں دوسری جگہ ذکر ہے جہاں فرمایا وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِمَ أَبَدًا (الاحزاب: ۵۴) لیکن يُوصِيكُمُ الله والی آیت کا استثناء قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ قرآن کریم کی عمومیت میں استثناء ضر ور قرآن ہی کے ذریعہ ہو بلکہ حدیث یا تعامل کے ذریعہ سے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَفْ وَلَا تَنْهَرُ هُمَا (بنی اسرائیل : (۲۴) یعنی اپنے والدین کو اُف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑ کو ، کے حکم سے آنحضرت کا حکم عام ہے مگر اس میں آنحضرت شامل نہیں.اور یہ استثناء قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں بلکہ واقعات سے ثابت ہے کیونکہ حضور کے والدین بچپن ہی میں فوت ہو چکے تھے.اسی طرح يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (النساء:۱۲) والی آیت میں جو استثناء ہے وہ آپ کی اس صحیح حدیث کی بناء پر ہے جو بخاری و مسلم بلکہ تمام صحاح میں موجود ہے.نَحْنُ مَعَاشِرُ الْأَنْبِيَاءِ لَا نَرِثُ وَلَا نُورَت ( بخاری کتاب شمس باب فضائل اصحاب النبی.مغازی فرائض.مسند احمد بن حنبل جلد ۲ باب الالف صفحه ۴۶۳) جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے.حدیث القرطاس شیعہ اور سنیوں کے درمیان ایک بحث قرطاس کے نام سے مشہور ہے اس کی بناء بخاری کی ایک حدیث پر ہے جو یہ ہے ( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي ووفاته) عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ لَمَّا حَضَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلَمُوا اَكْتُبُ لَكُمْ كِتَبالَنُ تَضِلُّوا بَعْدَه، فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجْعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللهِ فَاخْتَلَفَ اَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرَبُوا يَكْتُبُ لَكُمُ كتباً لا تَضِلُّوا بَعْدَه وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ غَيْرَ ذَالِكَ فَلَمَّا كَثُرَ اللَّغُطُ وَالْاخْتِلَافُ قَالَ
212 رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُوْمُوا عَنِّى لَا يَنْبَغِي عِنْدَ النَّبِيِّ التَّنَازَعُ.( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي ووفاته، کتاب العلم باب کتابتہ العلم ، کتاب الجہاد، کتاب الجزیه اخراج الیہود من جزیرۃ العرب ، کتاب المغازی) جوابا.یہ روایت صرف ابن عباس کی ہے جن کی عمر اس وقت صرف گیارہ سال کی تھی اس لئے واقعات کے عدم انضباط کا امکان ہے.۲.حضور کا مخاطب کوئی خاص شخص نہ تھا.لہذا حضرت علی وعمر عدم تعمیل کے ایک جیسے مجرم قرار پائیں گے بلکہ وہ فریق جو قلم دوات لانے کا حامی تھا وہ یقینا مجرم ہے کہ باوجود سمجھنے کے کہ حضور حکم دیتے ہیں قلم دوات نہ لائے.۳.نبی کریم نے فرمایا کہ قُومُوا عَنِّي لَا يَنْبَغِي عِنْدَ النَّبِيُّ التَّنَازَعُ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے قلم دوات نہ لانے کو نہیں بلکہ جھگڑا کرنے کو بُراسمجھا.اگر حضور ضرور کچھ لکھوانا چاہتے تھے تو با وجود چار دن بعد زندہ رہنے کے کیوں نہ آپ نے لکھوا دیا.اگر موقع نہیں ملا تو کم از کم زبانی طور پر ہی آپ لوگوں کو وہ بات بتا دیتے.۵.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبَّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه (المائدة: ۶۸) یعنی کوئی ایک پیغام نہ پہنچانا بھی رسالت کے منافی ہے.پس اگر وہ قرطاس والی حدیث الہی منشاء کے ماتحت تھی اور حضور اس کو پہلے نہیں پہنچا چکے تھے تو اب آپ کا فرض تھا کہ آپ باوجود حضرت عمرؓ کے روکنے کے لکھوا دیتے یا کم از کم زبانی یہ پیغام پہنچا دیتے.اگر کہو کہ حضرت عمرؓ کا ڈر تھا تو قرآن مجید فرماتا ہے : وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: ٦٨) یعنی پیغام الہی کے پہنچانے میں تجھے کوئی ضر نہیں پہنچا سکتا.۶.قرطاس میں ایسی بات حضرت نے لکھوائی تھی جس سے مسلمان گمراہی سے بچیں تو اگر کسی جگہ قرآن میں لکھا ہے کہ قرآن مجید ہی ایسی کتاب ہے جس سے لوگ گمراہی سے بچ سکتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ اس قرطاس میں حضرت نے قرآن کریم ہی کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا تھا تبھی حضرت عمرؓ نے کہا حَسْبُنَا كِتَابُ اللہ اور قرآن میں ہے يُبَيْنَ اللهُ لَكُمْ أنْ تَضِلُّوا (النساء: ۱۷۷) که قرآن کریم کے ذریعہ سے لوگ گمراہی سے بچ سکتے ہیں.ے.آنحضرت اپنی وفات سے دوماہ پیشتر حجۃ الوداع سے واپس آتے ہوئے خم غدیر کے مقام پر تمام مسلمانوں کو جمع کر کے فرماتے ہیں.اِنِّی تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللهِ
213 وَعِشْرَتِي - ( مسلم کتاب فضائل الصحابہ جلد مصری ) یعنی میں تم میں وفات پا کر دو چیزیں چھوڑ جاؤں گا.ایک قرآن مجید اور دوسرے اپنے حقیقی متبع ( خلفاء) اس سے معلوم ہوا کہ رسول مقبول اپنی وفات کے بعد اگر کسی تحریر کے پکڑنے کا حکم دیتے تو وہ کتاب اللہ ہے..یہ عجیب بات ہے کہ کلام اللہ جو ۲۳ سال تک نازل ہوتا رہا ہے جس میں اختتام پر یہ کہہ دیا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة:۴) اس سے تو گمراہی کا سد باب نہ ہوا مگر آ.کی تحریر سے گمراہی ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے..ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ رسول مقبول حضرت علی کو خلیفہ بنانے لگے تھے مگر اس میں لَنُ تَضِلُّوا کی نفی غلط ٹھہرتی ہے کیونکہ سنی لوگ حضرت علی کو خلیفہ اول نہیں سمجھتے مگر شیعہ سمجھتے ہیں.باوجود اس کے خود شیعوں کے آپس میں بیسیوں فرقے ہیں.مثلاً آغا خانی، بوہرے، زیدی علی الا ہی، نصیری، اسمعیلی وغیرہ.۱۰.اگر حضرت عمر کا قلم دوات نہ لانا اس لئے کفر فتق ہے کہ آپ نے حکم کی تعمیل نہ کی تو حضرت علیؓ نے علاوہ اس حکم کی عدم تعمیل کے حدیبیہ کے موقع پر بھی ایک حکم کی قولاً وفعلاً عدم تعمیل کی ہے جہاں انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں ہرگز آپ کا نام نہیں مٹاؤں گا باوجود یکہ رسول اللہ نے حکم دیا تھا کہ اُمحُ اِسْمِی مگر حضرت علی نے کہا وَاللَّهِ لَا اَمْحُوكَ اَبَدًا حَتَّى مَحَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخارى كتاب الصلح باب كيف يكتب هذا ماصالح فلان بن فلان ) كه خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا.یہاں تک کہ خود آنحضرت نے اسے مٹا دیا.تردید متعه جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو عرب میں آٹھ دس قسم کے نکاح رائج تھے جن میں سے ایک متعہ یعنی میعادی نکاح بھی تھا.جس طرح با وجود خود اپنے نقائص کے شراب ایک مدت تک حرام نہیں ہوئی اسی طرح متعہ بھی جنگ خیبر تک حرام نہیں ہوا.حضرت علی کرم اللہ کی روایت بخاری ( بخاری کتاب النکاح باب النهي عن نكاح المتعة ) میں پائی جاتی ہے کہ رسول کریم نے اعلان کیا کہ متعہ حرام کر دیا گیا ہے.پھر جنگ اوطاس ( ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء في نكاح المتعة ) پر جو فتح مکہ کے دنوں میں ہوئی تھی رسول مقبول نے متعہ کی اجازت تین دن کے لئے دی تھی (مشکوۃ
214 کتاب النکاح باب اعلان النکاح - ترندی کتاب النکاح باب ما جاء فى نكاح المتعة ) اس کے بعد ابد تک حرام ہو گیا.( ابو داؤد کتاب النکاح باب في نكاح المتعة - وابن ماجہ کتاب النکاح باب انھی عن نكاح المتعة ) اس لئے پہلی حرمت کے قبل کے واقعات یا تین دن کے واقعات حجت نہیں ہو سکتے ورنہ شراب پینا بھی اس دلیل سے جائز ہوگا.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ابن عباس یا ابن مسعود یا بعض اور اصحاب اخیر تک حلت متعہ کے قائل تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کے دو گروہ ہیں ایک حرمت کا قائل اور ایک حلت کا قائل.چونکہ حرمت کا قائل گروہ بغیر آنحضرت سے حرمت کے سننے کے ایک حلت کو حرمت میں تبدیل نہیں کر سکتا اور حلت کا قائل گروہ حرمت کے فتویٰ کے نہ پہنچنے کی وجہ سے حلت کا اظہار کر سکتا ہے اس لئے حرمت کے گروہ کو حلت کے گروہ پر ترجیح دی جاوے گی اور وہ احادیث جن میں لکھا.کہ آنحضرت کے عہد میں متعہ تھا مگر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کر دیا.وہاں متعہ الحج مراد ہے ھا ہے نہ کہ سعد النساء - اور حضرت عمرؓ کا یہ کہنا کہ مُتَّعَتَان كَانَتَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا أُحُرِّمُهُمَا ( مسند احمد بن حنبل جلد اصفحه ۵۲، جلد ۳ - صفحه ۳۲۵) یہاں پر حرام سے مراد اعلان اور اظہار حرمت ہے جیسا کہ حدیث أَنَا أُحَرِّمُ الْمَدِينَةَ كَمَا حَرَّ مَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ (ابو داؤد کتاب المناسک باب فضل مكه و مدينة - فردوس الاخبار جلد۲ صفحه ۱۲ نیا ایڈیشن ) میں ہے یعنی مستعہ الج اور متعہ النساء کو جو آنحضرت کے زمانہ میں ایک وقت تک ہوتے تھے مگر بعد میں وہ حرام ہو گئے اور کئی لوگوں کو اس کی حرمت معلوم نہ ہوئی اس لئے میں لوگوں پر ان دونوں کی حرمت ظاہر کرتا ہوں اور وہ احادیث جن میں جنگ اوطاس کے تین دن کے متعہ کا ذکر ہے.(مشکوۃ کتاب النکاح باب اعلان النکاح.پہلی فصل ) شیعوں کی کتب میں اس کے پہلے ٹکڑے دیئے گئے ہیں حالانکہ پوری حدیثیں یوں ہیں کہ تین دن کے بعد متعہ حرام قرار دیا گیا ہے فَهُوَ الْحَرامُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (فردوس الاخبار نیا ایڈیشن جلد اصفحہ ۹۷ روایت نمبر ۱۹۴ راوی سبرة الجھنی) اور یہ کہنا کہ اہل بیت کا اتفاق ہے کہ متعہ حلال ہے صحیح نہیں کیونکہ بارہ اماموں میں سے پہلے امام یعنی حضرت علی کی حدیث بخاری شریف میں موجود ہے کہ متعہ حرام ہے نیز حدیث میں ہے کہ خود آنحضرت نے خدا تعالیٰ کے خاص حکم سے متعہ کو حرام قرار دیا.ملاحظہ ہو:.إِنِّي كُنتُ اَحْلَلْتُ الْمُتْعَةَ وَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهَا حَرَامٌ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيمَةِ (فردوس الاخبار دیلمی جلد اباب الالف ذكر الاخبار جاءت عن النبی فی مناقبه ) کہ آنحضرت نے
215 فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے متعہ حلال کیا تھا مگر جبرائیل میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اطلاع دی کہ متعہ قیامت تک حرام ہے.نوٹ:.دیلمی کے صفحہ وسطر کا حوالہ ” فردوس الاخبار کے اس نسخے کے مطابق ہے جو کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن میں موجود ہے.(خادم) پس حضرت عمر پر کوئی الزام نہیں، انہوں نے جو کچھ کیا آنحضرت کے فتوئی اور حکم کے مطابق کیا اور یہ کہنا کہ متعہ کا رواج ہو جاوے تو زنا مفقود ہو جائے گا.ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ اگر شریعت نہ اتاری جاتی تو کوئی شخص گناہ گار نہ ہوتا.اب ہم قرآن مجید سے پہلے وہ مقام دیکھتے ہیں جہاں سے شیعہ لوگ متعہ نکالتے ہیں اور وہ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَأَتَوْهُنَّ أَجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرْضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء: ۲۵) کے الفاظ ہیں لیکن اگر اس آیت کے ماقبل اور مابعد میں تدبر کیا جاوے تو یہ آیت متعہ کی تائید میں نہیں بلکہ متعہ کے برخلاف ہے.اس رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ (النساء: ۲۴) یعنی ماؤں اور ان تمام عورتوں سے ہمبستر ہونا جن کا ماؤں کے بعد ذکر ہے حرام ہے یعنی ان سے مجامعت حرام ہے.آگے فرمایا وَ أُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ (النساء: (۲۵) یعنی ان عورتوں کے سوا باقی تمام عورتوں سے مجامعت کرنا جائز ہے مگر مجامعت کے لئے کچھ شرائط ہیں پہلے وہ پوری کرو پھر مجامعت کرو یعنی ا أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ (النساء: ۲۵) یعنی مہر مقرر کرو.۲- مُحْصِنِينَ (النساء : ۲۵) اس عورت کو قید میں لانے والے ہوں یعنی ایسا معاہدہ کریں کہ عورت پھر مرد سے چھوٹ نہ سکے.۳.غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ (النساء: ۲۵) یعنی غرض اس معاہدہ کی شہوت فرو کرنا نہ ہو.اب ان تین شرطوں کے بعد جب مرد ہمبستر ہو جاوے تو وہ جو پہلی شرط ہے یعنی مال مقرر کرنا اب اس کی پوری ادا ئیگی ضرور ہو گی.اس لئے فرما یا فما استمتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ (النساء : ۲۵) یعنی چونکہ تم نے ان سے فائدہ اٹھایا اس لئے ان کے مہر ادا کرو.اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی عورت سے ہمبستر ہونے کے لئے تین شرطوں کا پورا کرنا ضروری ہے.چونکہ متعہ میں دوسری شرط یعنی عورت کا قید ہو جانا مفقود ہے اس لئے معلوم ہوا کہ متعہ کے ذریعہ ہمبستر ہونا حرام ہے آگے وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلاً
216 أَنْ يُنْكِحَ الْمُحْصَنَتِ (النساء : ۲۲) اس کے بعد فرمایا ذلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمُ (النساء: ۲۶) یعنی لونڈی کو بیوی بنانا زنا سے بچنے کے لئے ہم نے جائز قرار دیا.ورنہ اَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لكُم (النساء : ۲۲) اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی مشکلات کا حل متعہ نہیں ہے بلکہ لونڈیوں کو بیوی بنانا ہے.اب ہم غور کرتے ہیں کہ آیا میعادی نکاح عقلاً قابل عمل درآمد ہے یا کہ نہیں.غور کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت سے نقائص ہیں اور وہ یہ ہیں :.ا.جو وفاداری خدا تعالیٰ نے عورت اور مرد کی طبیعت میں پیدا کی ہے وہ اس فعل سے مفقود ہو جائے گی.۲.شریعت کہتی ہے کہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ عِندَ اللهِ الطَّلَاقُ (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب كراهية الطلاق ) یعنی کو طلاق اپنے موقع پر جائز ہے مگر یہ سخت تکلیف دہ واقعہ ہے.اس سے معلوم ہوا کہ شریعت مرد و عورت کے تعلق کے بعد جدائی کو نا پسند کرتی ہے حالانکہ متعہ میں پہلے ہی سے جدائی کی شرط کر لی جاتی ہے پس معلوم ہوا کہ متعہ عقلاً جائز نہیں ہے.۳.تیسر انقص یہ ہے کہ قرآن کریم نے عدت کی صرف دوصورتیں رکھی ہیں.مطلقہ کی اور متوفى عنها زوجها کی.تیسری کوئی عدت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان نہیں فرمائی.اس سے معلوم ہوا کہ متعہ والی جدائی کی کوئی صورت ہی نہیں ہے اور جب کوئی صورت نہ ہوئی تو یہی متعہ کے نا جائز ہونے کی دلیل ہے.۴.متعہ میں اختلاط نسل کا ڈر ہے.۵.ایک شخص ایک عورت سے سفر میں تین دن کے لئے متعہ کرتا ہے اور تین دن کے بعد اپنے ملک میں واپس چلا جاتا ہے ممکن ہے کہ وہ عورت حاملہ ہوگئی ہو.ایسی صورت میں اولاد کے ضائع ہونے کا ڈر ہے.۶.جو دلیل نیوگ کے خلاف پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ فطرت صحیحہ کے مطابق ہوتا تو اس کا اعلان ہوتا.کیونکہ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ میں نکاح کے نتیجہ میں ہوں.یہی دلیل بعینہ متعہ کے خلاف پیش کی جاسکتی ہے کہ اس ملک میں لاکھوں شیعہ ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں متعہ کے نتیجہ میں ہوں اور نہ یہ کبھی کسی سے سنا ہے کہ میں اپنی لڑکی کا متعہ کرانا چاہتا ہوں.پس معلوم ہوا کہ متعہ فطرت صحیحہ کے خلاف ہے.ے.آنحضرت نے گیارہ نکاح کئے.دوست اور دشمن آپ کی بیویوں کے نام جانتے ہیں مگر
217 کوئی عورت ایسی نہیں جس سے آپ نے متعہ کیا ہو باوجود یکہ آپ کو تعد دازدواج کی دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ضرورت تھی.پس آپ کا متعہ نہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ متعدہ مستحسن امر نہیں..تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی نے متعد دنکاح کئے ہیں مگر کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں کہ آپ نے کوئی متعہ کیا ہو.اگر کیا ہے تو عورت کا نام ، متعہ اور مہر وغیرہ پوری کیفیت کے ساتھ بیان کیجئے..ہمارے نزدیک ائمہ اثناعشرہ میں سے کسی نے متعہ نہیں کیا اور ہم کسی مشتبہ مہم یا عمومی روایت کے قائل نہیں.ہم اس وقت ائمہ کے متعہ کو تسلیم کریں گے جبکہ شیعہ بالیقین کسی امام یا امام کی اولا د کو متعہ کی اولا د قرار دیں گے.۱۰.جو ماحصل زنا کا ہے اور جو نقائص زنا میں ہیں وہی متعہ کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں شیعہ جو نقص زنا میں نکالیں گے اگر غور کیا جائے تو وہی نقص متعہ میں بھی پایا جاوے گا.پس بحث مباحثہ میں شیعوں سے نقائص زنا پوچھنے چاہئیں پھر جب چھان بین کی جاوے گی تو لاز م وہی نقائص متعہ میں بھی ثابت ہوں گے.ا.ممنوعہ کی کوئی عدت شریعت میں نہیں لہذا اختلاط نسل کا خطرہ ہے.عدت خاوند کے طلاق دینے یا مرجانے کی وجہ سے ہوتی ہے مگر متعہ میں نہ خاوند مرتا ہے اور نہ وہ طلاق ہی دیتا ہے.اس لئے اس کی کوئی شرعی عدت نہیں اور جب عدت نہیں تو معلوم ہوا کہ متعہ جائز نکاحوں میں سے کوئی نکاح نہیں ہے.قاتلین حضرت امام حسین کون تھے؟ اہل کوفہ پکے شیعہ تھے :.ا.وبالجملہ اہل تشیع اہل کوفہ حاجت با قامت دلیل ندارد.وشنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل محتاج بدلیل است - ( مجالس المومنین مجلس اول صفحه ۳۵ مطبوعہ ایران ) یعنی اہل کوفہ کا شیعہ ہونا محتاج دلیل نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.ہاں کسی کو فی الاصل کوشنی قرار دینے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے.۲.مجالس المومنین میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے: أَلَا إِنَّ لِلَّهِ حَرَمًا وَهُوَ مَكَةُ وَالاإِنَّ لِرَسُولِ اللهِ حَرَماً وَهُوَ الْمَدِينَةُ وَالا إِنَّ لَا مِيْرٍ
218 الْمُؤْمِنِينَ حَرَمًا وَهُوَ الْكُوفَةُ.( مجالس المومنین مجلس اول صفحہ ۳۶) ۳.کوفہ وہ زمین ہے جس نے حضرت علیؓ کی محبت ابتدائے آفرینش سے قبول کی تھی.(جلاء العیون ترجمہ اردو جلد اباب ۱۳ فصل ۲ بیان اخبار شهادت حیدر کرار صفحه ۲۲۷) ۴.اہل کوفہ سلیمان بن خر دختراعی کے گھر جمع ہوئے تو ان کو مخاطب کر کے سلیمان بن خرد نے کہا اَنْتُمْ شِيعَتُهُ وَشِيْعَةُ ابيه.(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر ۲ صفحہ ۱۳۰) کہ اے اہل کوفہ تم امام حسین اور ان کے باپ حضرت علی کے شیعہ ہو.اہل کوفہ کا خط حضرت امام حسین کے نام جب حضرت امام حسین نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تو پہلے مکہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا.(جلاء العیون مترجم اردو مطبوع لکھنؤ جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۲ صفحه ۴۲۶ ) مگر شیعان اہل کوفہ کی طرف سے مندرجہ ذیل عریضہ حضرت امام حسین کو پہنچا :.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.ی عریضہ شیعوں اور فدایوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی بن ابی طالب ہے.اما بعد ، بہت جلد آپ اپنے دوستوں، ہوا خواہوں کے پاس تشریف لائیے کہ جمیع مردمانِ ولایت منتظر قدوم میمنت لزوم ہیں اور بغیر آپ کے دوسرے شخص کی طرف لوگوں کو رغبت نہیں ہے البتہ بہ تقبیل تمام ہم مشتاقوں پاس تشریف لائیے.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۳ مترجم اردو صفحه ۴۳۱) اہل کوفہ کی طرف سے دعوت کے ۱۲ ہزار خطوط حضرت امام حسین کو ملے تھے.ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۱۳۱) حضرت امام حسین کا جواب بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ یہ خط حسین بن علی کا مومنوں ،مسلمانوں ،شیعوں کی طرف ہے امابعد! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا میں تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا....واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسر عم ومحل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں.اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورہ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں انشاء اللہ بہت جلد تمہارے
219 پاس چلا آؤں گا.“ (جلاء العیون ترجمہ اردو صفحه ۴۳ جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۳ و ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب دوم صفحه ۱۳۱) امام مسلم کا کوفہ پہنچنا امام مسلم کی اہل کوفہ میں سے ۸۰ ہزار آدمیوں نے بیعت کی.بروایت ابو شخصف دیکھوناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۱۳۳) بروایت ابو مخنف ہشتاد ہزارکس با مسلم بیعت کرڈ“.امام مسلم کی شہادت اور وصیت شیعان اہل کوفہ نے امام مسلم کے ساتھ کس طرح غداری کر کے ان کو اور ان کے دونوں بچوں کو شہید کیا.بیان کرنے کی ضرورت نہیں.امام مسلم نے بوقت شہادت عمر بن سعد کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل وصیت کی :.”میری وصیت اول یہ ہے کہ اس شہر میں سات سو درہم کا میں قرض دار ہوں لازم ہے کہ شمشیر وزره میری فروخت کر کے میرا قرض ادا کر دے.دوسری وصیت یہ ہے کہ جب مجھے قتل کریں تو ابن زیاد سے اجازت لے کر مجھے دفن کر دینا.تیسری وصیت یہ ہے کہ امام حسین کو اس مضمون کا خط لکھ کر کہ کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسرعم کی نصرت و یاوری نہ کی.ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۳ صفحه ۴۴۲ و ۴۴۳ مترجم اردو) ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۱۴۲ میں ہے: وَالثَّالِثَةُ أَنْ تَكْتُبُوا إِلَى سَيّدِ الْحُسَيْنِ أَنْ يَرْجِعَ عَنْكُمْ فَقَدْ بَلَغَنِي إِنَّهُ خَرَجَ بِنِسَاءِ هِ وَ اَوْلَادِهِ فَيُصِيبُهُ مَا أَصَابَنِى ثُمَّ يَقُولُ اِرْجِعُ فِدَاكَ أَبِي وَ أُمِّي بِأَهْلِ بَيْتِكَ فَلَا يَغْرُرُكَ أَهْلُ الْكُوفَةِ فَإِنَّهُمْ أَصْحَابُ اَبِيْكَ الَّذِي تَمَنَّى فِرَاقُهُمُ بِالْمَوْتِ - کہ میری تیسری وصیت یہ ہے کہ تم میرے آقا حضرت امام حسین کولکھنا کہ وہ تمہارے پاس نہ آئیں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ مع عورتوں اور بچوں کے تشریف لا رہے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی وہی مصیبت پہنچے جو مجھے پہنچی ہے.پھر انہیں لکھنا کہ مسلم کہتا ہے کہ اے امام حسین! ( میرے ماں باپ آپ پر
220 فدا ہوں ) اپنے اہل بیت سمیت واپس لوٹ جائیے اور اہل کوفہ کے وعدے آپ کو دھوکے میں نہ ڈالیں، کیونکہ وہ آپ کے والد (حضرت علی) کے وہی صحابی ہیں جن سے جُدائی کے لئے آپ کے باپ نے موت کی خواہش کی تھی.امام حسین کی روانگی جانب کوفہ لیکن حضرت امام حسین کوفہ کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے.ان کو امام مسلم کی شہادت کی خبر مقام ثعلبیہ پر پہنچی.منزل زبالہ پر اپنے قاصد عبد اللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر بھی آپ کومی.اس پر آپ نے اپنے تمام اصحاب کو جمع کر کے فرمایا : خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کو شہید کیا ہے اور ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے جسے منظور ہو مجھ سے جدا ہو جائے.کوئی حرج نہیں ہے.“ پس ایک گروہ جو به طمع مال و غنیمت و راحت و عزت دنیا حضرت کے رفیق ہوئے تھے ان اخبار کے استماع سے متفرق ہو گئے اور اہل بیت و خویشان آنحضرت اور ایک جماعت کہ از روئے ایمان و یقین رفیق حضرت تھے باقی رہ گئے.خلاصۃ المصائب میں ہے: (جلاء العیون مترجم اردو جلد۲ باب ۵ فصل نمبر ۴ ۱ صفحه ۴۵۲) بَلَغَنِي خَبَرُ قَتْلِ مُسْلِمَ وَ عَبْدَ اللَّهِ ابْنِ يَقْطُرَ وَقَدْ حَذَ لَنَا شِيعَتُنَا.( خلاصة المصائب مطبوعہ نولکشور روایت ہفتم صفحہ ۵۶) کہ مجھے مسلم اور عبداللہ بن قطر کی شہادت کی خبر پہنچی ہے اور ہم کو ہمارے شیعوں نے ہی ذلیل و بیکس کیا ہے.نوٹ:.اس عبارت میں قَدْ خَذَ لَنَا شِيعَتُنَا کے الفاظ خاص طور پر یا در کھنے کے قابل ہیں کیونکہ حضرت امام حسین نے اپنی زبان سے فرما دیا ہے کہ ہماری ان تمام مصیبتوں کا موجب ہمارے شیعوں کے سوا اور کوئی نہیں.حضرت امام حسین کا خط اہل کوفہ کے نام امام مسلم بن عقیل اور عبد اللہ بن یقطر کی شہادت کی اطلاع ملنے سے قبل حضرت امام حسین نے مندرجہ ذیل خط اہل کوفہ کو لکھا: 'بسم اللہ الرحمن الرحیم.یہ خط حسین بن علی کی طرف سے برادران مومن
221 مسلم کو ہے.تم پر سلام الہی ہو...امابعد بدرستیکه خط مسلم بن عقیل کا میرے پاس پہنچا.اس خط میں لکھا تھا کہ تم لوگوں نے میری نصرت اور دشمنوں سے میرا حق طلب کرنے پر اتفاق کیا ہے.میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا احسان مجھ پر تمام کرے اور تم کو تمہارے حسن نیت وکردار پر بہترین جزائے ابرار عطا فرمائے.بدرستیکہ میں آٹھویں ماہ ذی الحجہ روز سہ شنبہ کو مکہ سے باہر آیا اور تمہاری جانب آتا ہوں.جب میرا قاصد تم تک پہنچے لازم ہے کہ کمر متابعت مضبوط باندھو اور اسباب کا رزار آمادہ رکھو اور میری نصرت کے مہیار ہو کہ میں اب بہت جلد تم تک پہنچتا ہوں.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“ (جلاء العیون متر جم جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر۴ صفحه ۴۴۹) نوٹ:.اس خط میں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ا.بقول شیعیان امام حسین کی روانگی بجانب کو فہ لڑائی اور کا رزار کے لئے تھی نہ کہ پُر امن رہنے کی نیت سے.۲.امام حسین کو علم غیب نہ تھا اور نہ انہیں امام مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہو سکا اور نہ اہل کوفہ کی غداری کا علم ان کو ہوا.حالانکہ اس خط کی تحریر سے قبل امام مسلم بن عقیل انہی کو فیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے تھے.نزول کر بلا اور اس کے بعد جب حضرت امام حسین میدانِ کربلا میں اُترے تو ابن زیاد نے ( جو یزید کی فوج کا سپہ سالار تھا) مندرجہ ذیل مکتوب حضرت امام حسین کو لکھا: میں نے سنا ہے آپ کر بلا میں اُترے ہیں اور یزید بن معاویہ نے مجھے خط لکھا ہے کہ آپ کو مہلت نہ دوں یا آپ سے بیعت لوں اور اگر انکار کیجئے تو یزید پاس بھیج دوں“.(جلاء العیون مترجم اردو جلد ۲باب ۵ فصل نمبر ۴ صفحه ۴۵۶) نوٹ :.اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن یزید کی طرف سے حضرت امام حسین کو شہید کرنے کی ہدایت یا اجازت نہ تھی.اس خط کو حضرت امام حسین نے پھاڑ دیا.بعد ازاں جب قرۃ بن قیس کوفی آپ سے ملنے کے لئے آیا تو آپ نے فرمایا:
222 تمہارے شہر کے لوگوں نے نامہ ہائے بیشمار مجھے لکھے اور بہت مبالغہ اور اصرار کر کے بلایا.اگر میرا آنا اب منظور نہیں تو مجھے واپس جانے دو.( ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر ۲ صفحه ۱۷۵) فرشتے لیٹ ہو گئے حضرت امام حسین کی تکلیف اور بے بسی کو دیکھ کر ملائکہ نے خدا تعالیٰ سے بصد اصرار عرض کیا کہ حضرت امام حسین کی مدد کرنے کی اجازت دی جائے بالآخر اللہ تعالیٰ نے اجازت دی لیکن جب فرشتے زمین پر پہنچے تو اس وقت حضرت امام حسین شہید ہو چکے تھے.(جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۵ صفحه ۴۹۸ صفحه ۵۴۰ مترجم اردو) ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک پانی کا معجزہ ذاکرین عام طور پر کربلا میں پانی کا بند کیا جانا کئی کئی دن تک امام حسین اور آپ کے مصاحبین کی تشنگی اور اس کے ساتھ بیسیوں متعلقہ روایات بیان کر کے عوام کو رلایا کرتے ہیں لیکن مندرجہ ذیل روایت ان سب روایات کی حقیقت کو آشکارا کرنے کے لئے کافی ہے.جلاء العیون اردو جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۴ صفحہ ۴۵۹ پر ہے: حضرت نے ایک بیلچہ دست مبارک میں لیا اور عقب خیمہ حرم محترم تشریف لائے اور پشت خیمہ سے ۹ قدم سمت قبلہ چلے اور وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا کہ بد اعجاز آنحضرت چشمه آب شیریں ظاہر ہوا اور امام حسین نے معہ اصحاب وہ پانی نوش کیا اور مشکیں وغیرہ بھر لیں.پھر وہ چشمہ غائب ہو گیا اور اس کا اثر بھی کسی نے نہ دیکھا.“ پس ایسے اعجازی بیلچہ کی موجودگی میں حضرت امام حسین کی تشنگی کی روایات گھڑ گھڑ کر بیان کرنا کیونکر جائز ہے؟ کیا یزید حضرت امام حسین کو شہید کرنا چاہتا تھا؟ اس سوال کا جواب مندرجہ ذیل روایات اہل شیعہ سے نفی میں ملتا ہے.ا.جلاء العیون اردو صفحہ ۴۵۶ کی وہ روایت جو نزول کر بلا اور اس کے بعد“ کے عنوان کے نیچے اوپر
223 درج ہو چکی ہے.(صفحہ ۲۲۱ پاکٹ بک بذا) ۲.ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۶۹ پر درج ہے کہ یزید کو تین شخصوں نے باری باری حضرت امام حسین کی شہادت کی اطلاع دی اور ان تینوں کو یزید نے زجر و توبیخ اور تنبیہ کی.وہ اشخاص زجر بن قیں محضر بن ثعلبہ اور شمر ذی الجوشن تھے.زجر بن قیس نے جب قتل حسین کی اطلاع دی تو لکھا ہے کہ یزید لخته سرفرو داشت و نخن نه کرد، و بس سر بر آورد وگفت قَدْ كُنتُ أَرْضَى بِطَاعَتِكُمُ بِدُونِ قَتْلِ الْحُسَيْنِ.أَمَّا لَوْ كُنْتُ صَاحِبُهُ لَعَفَوْتُ عَنْهُ.اگر من حاضر بودم حسین معفومی داشتم یعنی یزید دم بخود ہونے کے باعث سکتہ میں چلا گیا اور بعد ازاں سراٹھا کر کہنے لگا کہ میں اس بات پر زیادہ راضی تھا کہ تم میرے حکم کی اطاعت کرتے اور امام حسین کو قتل نہ کرتے اور اگر میں وہاں موجود ہوتا تو انہیں چھوڑ دیتا.اسی طرح محضر بن ثعلبہ نے اطلاع دیتے ہوئے اہل بیت امام حسین کی شان میں کچھ گستاخی کی تو یزید نے کہا: مَا وَلَدَتْ أُمُّ مَحْضَرٍ أَشَدَّ وَ اَلْتَمَ وَلَكِنْ قَبَّحَ اللَّهُ ابْنَ مَرْجَانَةَ یعنی محضر کی ماں نے ایسا سخت ترین اور کمینہ بچہ نہ جنا ہو گا لیکن خدا ابن زیاد کا بھلا نہ کرے.اسی طرح شمر ذی الجوشن دربار یزید میں آیا اور طالب انعام ہوا تو یزید نے اسے بھی ناکام و نامراد پھرایا اور کہا کہ خدا تیری رکاب آگ اور ایندھن سے بھر دے.( ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۲۶۹) پہلا ماتم کرنے اور کرانے والا یزید تھا ا.جب بعد از واقعه کر بلامبران اہل بیت امام حسین دمشق میں یزید کے ہاں بلائے گئے تو اس نے حکم دیا کہ ان کو فور أحرم سرائے ( زنانخانہ) میں لے جاؤ.یزید کے اپنے متعلق لکھا ہے.كَانَ بِيَدِهِ مِنْدِيلٌ فَجَعَلَ يَمْسَحُ دُمُوعَهُ فَاَمَرَهُمْ أَنْ يَحُولَنَّ إِلَى هِنْدَ بِنْتِ عَامَرَ فَإِذَا دَخَلْنَ عِنْدَهَا فَسُمِعَ عَنْ دَاخِلِ الْقَصْرِ بُكَاءً وَنِدَاءً وَعَوَيْلًا.( خلاصۃ المصائب نولکشور صفحه ۳۰۲) یعنی یزید کے ہاتھ میں رومال تھا جس سے وہ اپنے آنسو پونچھتا جا تا تھا.یزید نے کہا کہ حرم محترم
224 کو ہند بنت عامر کے ہاں ٹھہراؤ.چنانچہ جب وہ اندر داخل ہوئیں تو رونے اور چلانے کی صدا بلند ہوئی.۲.جب محذرات اہل بیت عصمت و طہارت اس ملعون ( یزید ) کے گھر میں داخل ہوئے تو عورات آل ابوسفیان (خاندان یزید ناقل) نے اپنے زیور اتار ڈالے اور لباس ماتم پہن کے آواز به نوحہ وگریہ وزاری بلند کی اور تین روز ماتم رہا.(جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۵ صفحه ۵۲۶ ) ۳.ہند بنت عبداللہ بن عامر جو یزید کی بیوی تھی کے متعلق لکھا ہے: اس نے پردہ کا مطلق خیال نہ کیا اور گھر سے نکل کے مجلس یزید ملعون میں جس وقت کہ مجمع عام تھا آکے کہا ، اے یزید ! تو نے سر مبارک امام حسین پسر فاطمتہ الزہرا کا میرے گھر کے دروازہ پر لٹکایا ہے.یزید نے دوڑ کے کپڑا اس کے سر پر ڈال دیا اور کہا گھر میں چلی جا اور گھر میں جا کر فرزند رسول خدا بزرگ قریش پر نوحه وزاری کرابن زیاد نے ان کے بارہ میں جلدی کی.میں ان کے قتل پر راضی نہ تھا (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۵ صفحه ۵۲۶ - ۵۲۷) و پس اہل بیت رسول خدا کو اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دی اور ہر صبح و شام امام زین العابدین کو دستر خوان پر بلاتا تھا.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۵ صفحه ۵۲۶ - وناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۲۷۸ مهیج الاحزان صفحه ۳۲۸) نوٹ :.مندرجہ بالا حوالہ میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ یزید نے حضرت امام حسین کا کاسہ سر اپنے محل کے دروازہ پر آویزاں کر دیا تھا، یہ اہل شیعہ کی دوسری روایات کے پیش نظر محض غلط اور مبالغہ آمیزی ہے کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ امام حسین کا سر مبارک کوفہ کے راستہ میں شام تک جانے سے پہلے ہی بذریعہ ایک مخلص و خیر خواہ کے نجف اشرف میں پہنچ گیا تھا.دمشق میں تو پہنچا ہی نہیں.فروع کافی جلد ا صفحه ۴ ۵۹ مطبع نولکشور باب موضع راس الحسين) اس فروع کافی والی روایت کو صاحب ناسخ التواریخ نے بحوالہ کتاب کامل الزیارة امام جعفر صادق سے تسلیم کیا ہے.ناسخ التواریخ صفحه ۳۸۸ جلد ۶ کتاب ۲) ۴.حضرت سکینہ دختر امام حسین نے ایک خواب دیکھا جو کہ یزید کے آگے بیان فرمایا.یزید
225 نے جب یہ خواب سنا اپنے منہ پر طمانچہ مار کے رونے لگا اور کہا.مجھے قتل حسین سے کیا مطلب تھا.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۵ صفحه ۵۲۸) ۵.آن ملعون طمانچہ بر روئے نحس خود ز دو گفت مرا چه کار با قتل حسین بود؟ ( مهیج الاحزان مجلس نمبر ۳ صفحه ۲۳۵) کہ اس ملعون (یزید ) نے اپنے منحوس چہرہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ مجھے قتل حسین سے کیا تعلق یا واسطہ تھا ؟ یزید نے اہل بیت رسالت کو طلب کر کے ان کو نہایت عزت وحرمت سے شام میں رہنے یا مدینہ منورہ کی طرف چلے جانے کا اختیار دیا، اور انہوں نے ماتم برپا کرنے کی اجازت چاہی جو منظور ہوئی ، اور ملک شام میں جس قدر قریش و بنی ہاشم تھے وہ ماتم وگر یہ زاری میں شریک ہوئے اور سات روز تک آنحضرت پر نوحہ وزاری کی.روز هشتم یزید نے ان کو طلب کیا اور عذرخواہی کر کے ان کو شام میں رہنے کی تکلیف دی.جب انہوں نے قبول نہ کیا تو محمل ہائے مزین ان کے واسطے آراستہ کئے اور خرچ کے لئے مال حاضر کیا اور ان سے کہا کہ یہ اس ظلم کا عوض ہے جو تم پر ہوا.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۵ صفحه ۵۳۲،۵۳۱ و مهیج الاحزان مجلس نمبر ۱۳ صفحه ۲۳۵) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید نے خود امام حسین کے ماتم کی اجازت دی اور ملک شام میں جو ماتم ہوا وہ خود یزید کی اجازت سے ہوا تھا.دوسرے یہ کہ امام حسین کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کو یزید بھی ظلم سمجھتا تھا.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ یزید با وجود اس کو ظلم قرار دینے اور سمجھنے کے خودا سے روا رکھتا.ے.یزید نے امام زین العابدین کو طلب کیا اور بخیال رفع تشنیع کہا خدا ابن مرجانہ ( ابن زیاد ) پر لعنت کرے.اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو امام حسین جو کچھ وہ مجھ سے طلب کرتے میں ان کو دیتا اور ان کے قتل پر راضی نہ ہوتا.آپ ہمیشہ مجھ کو خط لکھا کریں اور جو حاجت ہو مجھ سے طلب فرمائیں کہ میں بجالا ؤں گا.“ ایک سوال (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۵ صفحه ۵۳۲) خلاصتہ المصائب صفحہ ۳۰۲ مطبوعہ نولکشور وغیرہ کتب کی روایات کی بناء پر یزید کا امام حسین کے قتل پر آنسو بہانا ثابت ہے مگر جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۵ صفحہ ۳۷۸ پر درج ہے کہ جو امام حسین “ کو
226 یاد کرے اور اس کی آنکھ بنقدر پرمگس آنسو نکلے ، ثواب اس کا خدا پر ہے اور خدا اس کے لئے کسی ثواب پر راضی نہیں بغیر بہشت عطا کرنے کے “ تو اندریں صورت یزید کے انجام کے متعلق کیا فتویٰ ہے؟ خود شیعہ ہی قاتلین امام حسین ہیں ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ ابن زیاد دسپہ سالار لشکر یزید جس نے امام حسین کو شہید کیا ۸۰ ہزار کوفیوں پر مشتمل تھا.ملاحظہ ہو: وابی مختف لا لشکر ابن زیاد را هشتاد ہزار سوار نگاشته و گوید همگاں گوفی بودند و حجازی و شامی با ایشاں نہ بود (ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر صفحه ۱۷۴) یعنی ابو مخنف نے ابن زیاد کا لشکر اسی ہزار بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ سب کے سب کو فی تھے.ان میں نہ کوئی حجازی تھا اور نہ شامی.۲.فَتَكَمَّلَ الْعَسْكَرُ ثَمَانُونَ اَلْفَا فَارِسَ مِنْ اَهْلِ الْكُوفَةِ لَيْسَ شَامِيٌّ وَلَا حِجازی.( مرقع کر بلا مطبوعہ ریاضی پریس امرو یه صفحه ۲۰) کہ ابن زیاد کا لشکر سب کا سب ۸۰ ہزار کوفی سواروں پر مشتمل تھا.ان میں نہ کوئی شامی تھا نہ جازی.اب دیکھئے اسی ابو مخفف کی دوسری روایت جس میں وہ کہتا ہے کہ امام مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے ۸۰ ہزار کوفی تھے.بروایت ابو مخنف هشتاد ہزارکس با مسلم بیعت کرد ( ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۱۳۳) ۳.علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ کربلا میں جب وقت ظہر ہوا تو حضرت امام حسین اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور ابن زیاد کے لشکر کے درمیان کھڑے ہو کر ابن زیاد کے لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا.اَيُّهَا النَّاسُ ! میں تمہاری طرف نہیں آیا مگر جب کہ تمہارے خطوط متواتر اور تمہارے قاصد پیاپے میرے پاس پہنچے.تم نے لکھا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیے کہ ہمارا امام و پیشوا کوئی نہیں ہے شاید خدا ہم کو اور آپ کو حق و ہدایت پر متفق کرے، اگر تم اپنے عہد و گفتار پر برقرار ہو تو مجھ سے پیمان تازہ کر کے دل میرا مطمئن کرو اور اگر اپنے گفتار سے پھر گئے ہوا اور عہد و پیمان کوشکستہ کر دیا ہے اور میرے آنے سے بیزار ہو میں اپنے وطن واپس جاتا ہوں.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۴ صفحه ۴۵۳)
227 اس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین کے نزدیک بھی آپ کے قاتلین بھی وہی تھے جنہوں نے کوفہ سے بیشمار خطوط بھیج کر اور بیعت مسلم کر کے بلایا تھا.۴.ناسخ التواریخ ( مکمل حوالہ اگلے صفحہ پر درج ہے ) میں ہے کہ امام حسین نے لشکر یزید کے قاصد قرہ بن قیس کو مخاطب کر کے فرمایا: تمہارے شہر کے لوگوں نے نامہ ہائے بیشمار مجھے لکھے ، بہت مبالغہ اور اصرار کر کے مجھے بلایا.اگر میرا آنا اب منظور نہیں ہے تو مجھے واپس جانے دو.“ (ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۱۷۵) ۵.جب حضرت امام حسین دشت کربلا میں خیمہ زن تھے ، ایک عراقی مکہ کو جارہا تھا.دیکھا کہ خیمہ کے باہر کرسی پر بیٹھ کر خطوط کا مطالعہ فرما رہے تھے.جب اس نے وجہ بے کسی و بے وطنی کی دریافت کی تو امام نے فرمایا : بنوامیه مراسیم متل دادند و مردم کوفه مرا دعوت کردند، اینک مکاتیب ایشاں است ، حالانکه کشنده من ایشانند (ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۱۵۹) کہ بنوامیہ نے مجھے قتل کی دھمکی دی اور کوفہ والوں نے مجھے بلایا، یہ سب خطوط انہی کے ہیں اور حالانکہ میرے قاتل یہی لوگ ہیں.نوٹ:.اس روایت میں تو خود حضرت امام حسین نے اپنے قتل اور واقعات کربلا کی تمام ذمہ داری یزید سے ہٹا کر اہل کوفہ پر رکھی ہے.۶.ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر ۲ صفحہ ۱۶۶ میں بحوالہ کتاب نورالعین مرقوم ہے : حضرت سکینہ" دختر حضرت امام حسین سے روایت ہے کہ میں اپنے خیمہ میں تھی ، نا گاہ رونے کی آواز سنائی دی.میں چپکے سے اپنے پدر بزرگوار کے پاس چلی گئی ، وہ رو ر ہے تھے اور اپنے اصحاب سے فرما رہے تھے.”اے جماعت ! جس وقت تم میرے ساتھ باہر نکلے تم نے ایسا جانا کہ میں ایسی قوم میں جاتا ہوں جس نے دل و زبان سے میری بیعت کر لی ہے.اب وہ خیال دگر گوں ہو گیا ہے.شیطان نے ان کو فریفتہ کر لیا، یہاں تک کہ خدا کو بھول گئے.ان کی ہمت اب اس پر لگی ہے کہ مجھ کو قتل کریں اور میرے مجاہدین کو قتل کریں.“
228 حضرت زینب و دیگر اہل بیت امام کی تقریریں ا.بعد از واقعہ کربلا جب خاندان امام حسین کے بقیہ ممبران کو دمشق کی طرف لے جایا جارہا تھا تو جب یہ قافلہ کوفہ کے پاس سے گزرا تو کوفہ کے بہت سے لوگ دیکھنے کے لئے آئے اور ممبران اہل بیت امام حسین کو دیکھ کر رونے لگے اور ماتم کرنے لگے ، اس پر حضرت زینب ہمشیرہ حضرت امام حسین نے حسب ذیل تقریر فرمائی: اما بعد ، اے اہل کوفہ ! اے اہل غدر ومکر و حیلہ تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے.ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جو اپنے رستہ کو مضبوط بٹی اور پھر کھول ڈالتی ہے تم ہم پر گر یہ ونالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے.سچ ہے واللہ الا زم ہے کہ تم بہت گر یہ کرو اور کم خندہ ہو.تم نے عیب و عار ابدی خود خرید کیا.اس عار کا دھبہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہوگا.جگر گوشہ خاتم پیغمبران وسید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو !....اے اہل کوفہ ! تم پر وائے ہو! تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسول کو قتل کیا اور کن با پر دے گان اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ، ان کی حرمت کو ضائع کیا.تم نے ایسے بُرے کام کئے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا.(جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحه ۵۰۳-۵۰۴ نیز ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۲۴۳ مطبوعہ لندن ) ۲.بعد ازاں حضرت فاطمہ بنت امام حسین نے بھی اہل کوفہ کو لعن طعن کی ہے لکھا ہے : درودیوار سے صدائے نوحہ بلند ہوئی اور کہا اے دختر پاکان و معصومان.خاموش رہو کہ ہمارے دلوں کو تم نے جلا دیا اور ہمارے سینہ میں آتش حسرت روشن کر دی اور ہمارے دلوں کو کباب کیا.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحه ۵۰۵).اس کے بعد حضرت ام کلثوم خواہر امام حسین نے ہودج میں سے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی: ”اے اہل کوفہ ! تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں ! تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسین کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کر کے مال واسباب ان کا لوٹ لیا ؟ اور ان کی پر دیگان عصمت و طہارت کو اسیر کیا ؟ وائے ہو تم پر اور لعنت ہو تم پر ، کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا ظلم وستم کیا ہے اور کن گناہوں کا اپنی پشت پر انبار لگایا اور کیسے خون ہائے محترم کو بہایا دخترانِ
229 رسول مکرم کو نالاں کیا؟ بعد اس کے مرتبہ سید الشہداء میں چند شعر انشاء فرمائے جس کے سننے سے اہل کوفہ نے خروش واویلا واحسر تا بلند کیا.ان کی عورتوں نے بال اپنے کھول دیئے.خاک حسرت اپنے سر پر ڈال کے اپنے منہ پر طمانچے مارتی تھیں اور واویلا واثبورا کہتی تھیں اور ایسا ماتم بر پا تھا کہ دیدہ روزگار نے کبھی نہ دیکھا تھا.“ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحه ۵۰۶،۵۰۵ و ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر ۲ صفحه ۲۴۶) امام زین العابدین کی تقریر ۴.پھر امام زین العابدین نے اہل کوفہ سے خطاب کیا اور فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں ! تم جانتے ہو کہ میرے پدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی.آخر کار ان سے جنگ کی اور دشمن کو ان پر مسلط کیا.پس لعنت ہو تم پر اتم نے اپنے پاؤں سے جہنم کی راہ اختیار کی اور بری راہ اپنے واسطے پسند کی.تم لوگ کن آنکھوں سے حضرت رسول کریم حملے کی طرف دیکھو گے جس روز وہ تم سے فرمائیں گے.تم نے میری عزت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی.کیا تم میری امت سے نہ تھے.“ یہ سن کر پھر صدائے گریہ ہر طرف سے بلند ہوئی.آپس میں ایک دوسرے سے کہتا تھا ہم لوگ ہلاک ہوئے.جب صدائے فغاں کم ہوئی ، حضرت نے فرمایا.خدا اس پر رحمت کرے جو میری نصیحت قبول کرے سب نے فریاد کی کہ یا بن رسول اللہ ! ہم نے آپ کا کلام سنا.ہم آپ کی اطاعت کریں گے...جو آپ سے جنگ کرے اس سے ہم جنگ کریں اور جو آپ سے صلح کرے اس سے ہم صلح کریں.اگر آپ کہیے آپ کے ستمگاروں سے آپ کا طلب خون کریں.حضرت نے فرمایا.ہیہات ہیہات !! اے غدارو! اے مکارو!! اب پھر دوبارہ میں تمہارے فریب میں نہ آؤں گا اور تمہارے جھوٹ کو یقین نہ جانوں گا.تم چاہتے ہو مجھ سے بھی وہ سلوک کرو جو میرے بزرگوں سے کیا.بحق خداوند آسما نہائے دوّار! میں تمہارے قول و قرار پر اعتماد نہیں کرتا اور کیونکر تمہارے دروغ بے فروغ کو یقین کروں، حالانکہ ہمارے زخم ہائے دل ہنوز تازہ ہیں، میرے پدر اور ان کے اہل بیت کل کے روز تمہارے مکر سے قتل ہوئے اور ہنوز مصیبت حضرت رسول و پدر و برادر و عزیز و اقرباء میں نہیں بھولا اور اب تک ان مصیبتوں کی تلخی میری زبان پر ہے اور میرے سینے میں ان محبتوں کی آگ بھڑک رہی ہے.“ (جلاء العیون جلد ۲باب ۵ فصل ۱۵ صفحه ۵۰۷،۵۰۶)
230 ۵.ایک دوسری روایت میں ہے : فَقَالَ عَلِيُّ ابْنُ حُسَيْنِ بِصَوْتٍ ضَعِيفَءَ تَنُوحُوْنَ وَ تَبْكُونَ لَاجْلِنَا فَمَنْ قتلنا.سید سجاد باواز ضعیف فرمود، ہاں اے مردم بر ما گریند و بر ما نوحہ مے کنند.پس کشند که ما کیست؟ ما را که کشت و که اسیر کرد ( ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۲۴۳) که امام زین العابدین نے کمزور آواز سے کہا تم ہم پر نوحہ و ماتم کرتے اور روتے ہو.تو پھر ہم کو قتل کس نے کیا ہے؟.حضرت اُم کلثوم نے اہل کوفہ کی عورتوں کے رونے پر حمل پر سے کہا.”اے زنان کوفہ ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا ہم اہل بیت کو اسیر کیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو؟ خداوند عالم بروز قیامت ہمارا تمہارا حاکم ہے.“ ( جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحه ۵۰۷ و ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحه ۲۴۸) نوٹ:.ان سب تقاریر سے تین باتیں ثابت ہیں.اوّل:.قاتلین امام حسین شیعہ تھے اور حضرت امام حسین کے مبایعین تھے جیسا کہ حضرت امام زین العابدین کی تقریر میں بیعت کا لفظ بھی موجود ہے.دوم :.سب سے پہلے عالمگیر ماتم کرنے والے (یزید کے بعد ) خود اہل کوفہ قاتلین امام حسین ہی تھے جیسا کہ الفاظ ایسا ماتم برپا تھا کہ دیدۂ روزگار نے نہ دیکھا تھا سے ظاہر ہے.سوم :.موجودہ ماتم محض حضرت زینب کی بددعا کا نتیجہ ہے.واللہ لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور مت خندہ ہو“.سچ ہے.قریب ہے یار روز محشر چھپے گا کشتوں کا قتل کیونکر جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
231 چارسوال چکڑالویوں سے قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی ہے اہل قرآن حضرات سے ہم قرآن مجید میں مندرجہ وحی الہی کے علاوہ کسی اور وحی کے ہونے کا ثبوت طلب کیا کرتے ہیں اور ان کا یہ دعوی ہے کہ تمام وحی الہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ صرف قرآن مجید ہی ہے.اس کے متعلق ہم ان سے مندرجہ ذیل چار سوالات کرتے ہیں :.ا وَاذْ يَعِدُكُمُ اللهُ إِحْدَى الظَّابِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ (الانفال: ۸) یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کا وعدہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ہے.ہم پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ الہی جو مسلمانوں سے ہوا قرآن پاک میں کہیں درج ہے اگر درج ہے تو کہاں؟ اور اگر درج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ایسی وحی الہی بھی ہے جو قرآن کریم میں درج نہیں.٢ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِيْنَةٍ أو تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أَصُولِهَا فَاذْنِ اللهِ (الحشر: 1) یعنی اے مسلمانو! تم نے جو کھجور کے تنے کالے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم ، کھڑا رہنے دیا یہ خدا کے ہی حکم سے تھا.اب سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کھجور کے تنوں کو کاٹنے یا چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کا ذکر قباذن اللہ میں ہے کیا وہ قرآن میں درج ہے؟ اگر درج ہے تو کہاں ؟ اگر درج نہیں تو ثابت ہوا کہ ایسی وجی بھی ہے جو قرآن میں درج نہیں.وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّاتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَاكَ هَذَا قَالَ نَباتِي الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ( التحريم:۴) یعنی جب رسول کریم نے کوئی بھیدا اپنی بیوی کو بتایا تو اس نے راز فاش کر دیا.خدا تعالیٰ نے آپ کو بھید کا فاش ہونا بتا دیا تو آپ نے بیوی سے پوچھا.کچھ بات تو بتا دی اور کچھ چھپائی.تو اس بیوی نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا.آپ نے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت کو اس واقعہ کی خبر دی تھی.اب سوال یہ ہے کہ وہ اظہار الہی کیا قرآن میں ہے اگر ہے تو کہاں؟ اگر نہیں تو کیا ثابت نہیں ہوتا کہ ایسی وحی بھی ہے جو آنحضرت پر نازل ہوئی مگر قرآن میں درج نہیں.
232 ۴.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللهُ ہے وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنْفِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا (النساء : ۶۲) کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف کہ جسے خدا نے نازل کیا ( قرآن ) اور رسول کی طرف.تو تو منافقوں کو دیکھے گا کہ وہ تجھ (رسول) سے رکتے ہیں.بھاگتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ دو چیزیں منوانا چاہتا ہے.(۱) مَا أَنْزَلُ الله یعنی قرآن.(۲) الرَّسُولِ یعنی رسول.مگر فرمایا کہ منافق قرآن تو مان لیتے ہیں مگر رسول سے اب حل طلب سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ منافق ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہی جو احادیث کے منکر ہوں اور صرف قرآن کریم ماننے کے مدعی ہیں.خادم
233 وفات مسیح ناصری علیہ السلام از روئے قرآن کریم پہلی دلیل : وكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيب الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المائدة: ۱۱۸) مطلب: اللہ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسی ! کیا تو نے نصاری کو تثلیث کی تعلیم دی تھی؟ آپ انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے تعلیم تو کیا دینی تھی میری زندگی میں اور میرے سامنے یہ عقیدہ ظاہر نہیں ہوا.میں ان کا نگران تھا ما دمت فيهم جب تک میں ان میں تھا.پھر جب تو نے میری توقی کرلی تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر چیز کا محافظ ہے.استدلال نمبر :.اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے دوزمانے بتائے ہیں.پہلا اپنی قوم میں حاضری کا زمانہ (مَا دُمْتُ فِیهِم ) اور دوسرا غیر حاضری کا ( كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ) اور ان دونوں زمانوں کے درمیان حد فاصل تَوَفَّيْتَنِی ہے.گویا ان کی اپنی قوم سے غیر حاضری سے پہلے وفات“ ہے کیونکہ غیر حاضری کی وجہ تو فیتنی ہے.اب سوال یہ ہے کہ حضرت عیسی اپنی قوم میں حاضر ہیں یا غیر حاضر ؟ چونکہ غیر حاضر ہیں لہذا ان کی تو فی ہو چکی ہے.استدلال نمبر ۲:.اس آیت میں حضرت عیسی اقرار فرماتے ہیں کہ تثلیث پرستی کا عقیدہ میری زندگی میں نہیں پھیلا بلکہ میری توفی کے بعد پھیلا ہے اور اس زمانہ میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی ایک کھلی حقیقت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَثَةِ (المائدة: ۷۴) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (المائدۃ:۱۸) کہ ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے.پس صاف نتیجہ نکلا کہ حضرت عیسی کی تو فی ہو چکی ہے یعنی وہ فوت ہو چکے ہیں.غیر احمدی :.حضرت مرزا صاحب نے چشمہ معرفت صفحه ۴ ۲۵ طبع اول پر لکھا ہے: انجیل پر ابھی تہیں برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی.“ ( محمدیہ پاکٹ بک مؤلفہ مولانا محمد عبد اللہ صاحب معمار مرحوم امرتسری طبع اول مارچ ۱۹۵۰، صفحہ ۵۷۱ طبع دوم اپریل ۱۹۸۹ء)
234 جواب :.اس حوالہ میں انجیل کا ذکر ہے مسیح کی ہجرت کا ذکر نہیں اور انجیل اس وحی کے مجموعہ کا نام ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ان کی وفات تک نازل ہوتی رہی جس طرح قرآن مجید آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب زمانہ تک نازل ہوتا رہا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا أَوْحَيْنَا إلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلى نُوح و على (النساء:۱۲۴) یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ پر اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور عیسی علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر.پس چشمہ معرف کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ( جو ۱۲۰ برس کی عمر میں ہوئی ) کے تمیں برس کے قریب گزرنے پر عیسائی بگڑ گئے.نہ یہ کہ حضرت عیسی کی زندگی ہی میں مسیح کی پرستش شروع ہو گئی تھی.تَوَفِّی کے معنے حضرت امام بخاری نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ارشاد نقل کیا رض ہے: قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ مُتَوَفِّيْكَ مُمِيتُكَ ( بخاری کتاب التفسير سورة مائده زیر آیت فلما توفيتنى المائدة : ۱۱۸) که حضرت ابن عباس کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے شخص کی بات قابل قبول نہیں اس حالت میں کہ جب قرآن مجید و احادیث ولغت و تفاسیر کے مندرجہ ذیل حوالجات بھی ان کی تائید میں ہیں.( تفسیر ابن عباس کے متعلق نوٹ آگے ملاحظہ فرمائیں صفحہ ۲۳۷) لفظ تو فی باب تفعل کا مصدر ہے.سو قر آن کریم میں جہاں کہیں بھی اس کا کوئی مشتق استعمال ہوا ہے جب اللہ تعالیٰ یا ملائکہ اس کا فائل ہوں یا صیغہ مجہول ہو اور غائب مفعول اس کا انسان ہو تو سوائے قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں اور وہ قبض روح بذریعہ موت ہے.سوائے اس مقام کے کہ جہاں لیل یا منام کا قرینہ موجود ہو تو وہاں قبض روح کو نیند ہی قرار دیا گیا ہے.بہر حال قبضِ جسم کسی جگہ بھی مراد نہیں.چنانچہ قرآن کریم میں علاوہ متنازعہ فیہ جگہ کے ۲۳ جگہ لفظ تو فی کا مشتق استعمال ہوا ہے.۲۱.وَالَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ٣- تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ -۴- حَتَّى يَتَوَفَّهُنَّ الْمَوْتُ ۵ - إِنَّ الَّذِينَ تَوَفُهُمُ الْمَلَكَةُ ٢ - تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا دومرتبه البقرة: ۲۴۱،۲۳۵) (آل عمران: ۱۹۴) (النساء: ١٦) (النساء: ۹۸) (الانعام: ۶۲)
235 يتوقونهم تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ٩- أو توفيتك ١٠.اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ ال - تَوَفَّنِي مُسْلِمًا ۱۳،۱۲.تَتَوَفَّهُمُ الْمَلَيْكَةُ ١٢.ثُمَّ يَتَوَفَّكُمْ ۱۵ - منْ يُتَوَفَّى ١٢ - قُل يَتَوَفُكُمُ ۱۷ - يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا ۱۸ - وَمِنْكُمْ مَّنْ يُتَوَقُى ١٩ - اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (الاعراف: ۳۸) (الاعراف: ۱۲۷) (الرعد: ۴۱) (يونس: ۴۷) (يوسف:۱۰۲) ( دومرتبہ النحل: ۳۳٬۲۹) (النحل: ۷۱) (الحج: ٢) (السجدة: ١٢) (الزمر: ۴۳) (المومن:۶۸) (المومن: ۷۸) ۲۰ _ فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَيْكَةُ ۲۱ - يَتَوَفَّكُمْ بِالَّيْلِ (محمد: ۲۸) (الانعام: ۶۱) ۲۲ - إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَيْكَةُ يَضْرِبُونَ وَجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمُ (الانفال: ۵۱) ۲۳.وَلكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّكُمْ (یونس: ۱۰۵) کتب احادیث سے اس کی مثالیں بخاری میں ایک باب (بخاری کتاب المناقب باب وفات النبي صلى الله عليه وسلم ) بھی ہے.”باب توئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر آنحضرت نے صاف فرما دیا کہ حضرت عیسی کی توئی کے وہی معنے ہیں جو میری توفی کے ہیں.فرمایا: عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ إِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ يَارَبِّ أَصَيْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِى مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَاقُوْلُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمُتُ فِيهِمُ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ.فَيُقَالُ إِنَّ
236 هؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ.( بخاری کتاب التفسیر باب وكنت عليهم شهید اما دمت فيهم جلد ۳ صفحه ۹۱ مصری و جلد۲ صفحه ۱۵۹ کتاب بدء الخلق مصری) ترجمہ:.آنحضرت نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ دوزخ کی طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابہ ہیں.جواب ملے گا تو نہیں جانتا کہ تیرے پیچھے انہوں نے کیا کیا.اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے صالح بندے عیسی نے کہا تھا کہ میں ان کا اسی وقت تک کا نگران تھا جب تک ان میں تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان کا نگہبان تھا.نتیجہ :.اس حدیث سے صاف نتیجہ نکلا کہ حضرت عیسی کی توفی کی صورت وہی ہے جو آنحضرت کی توفی کی ہے.ورنہ آپ کا یہ فرمانا فَأَقُولُ كَمَا قَالَ درست نہیں رہتا.اب دیکھو آنحضرت نے بعینہ وہی لفظ تَوَفَّيْتَنِی جو مسیح کے لئے استعمال ہوا ہے اپنے لئے استعمال فرمایا ہے.پس تعجب ہے کہ آنحضرت کے لیے جب لفظ تو فی آئے تو اس کے معنی ”موت“ لئے جائیں مگر جب وہی لفظ حضرت مسیح کے متعلق استعمال ہو تو اس کے معنے آسمان پر اٹھا نا لئے جائیں.ایک لطیفہ :.اس کے جواب میں مؤلف محمدیہ پاکٹ بک لکھتا ہے : ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولا جائے تو حسب حیثیت و شخصیت اس کے جدا جدا معنے ہوتے ہیں.دیکھیے حضرت مسیح اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدائے پاک بھی اب کیا 1......خدا کا نفس اور مسیح کا نفس ایک جیسا ہے“ جواب:.گویا آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال حضرت مسیح کے بالمقابل ویسی ہی ہے جیسی مسیح کی اللہ تعالیٰ کے بالمقابل.اور گویا آپ کے نزدیک آنحضرت کی حیثیت اور شخصیت مسیح کی حیثیت اور شخصیت سے مختلف نوعیت کی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف محمد یہ پاکٹ بک بھی درپردہ الوہیت مسیح کا قائل ہے.ورنہ آنحضرت اور مسیح کی حیثیت نبوت اور بشریت کے لحاظ سے نوع ہر گز مختلف نہیں اور نہ خدا کی مثال پر حضرت مسیح کا قیاس کیا جاسکتا ہے.پس غیر احمدی کا جواب محض نفس کا دھوکہ اور قیاس مع الفارق ہے کیونکہ یہ تو درست ہے کہ انسان کا قیاس خدا پر نہیں کیا جا سکتا لیکن نبی کا قیاس نبی پر اور انسان کا قیاس انسان پر تو کیا جا سکتا ہے.خود قرآن مجید میں ہے مَا كُنتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ کہ اے محمد رسول اللہ ! کہہ دے کہ میں بھی پہلے انبیاء کی طرح
237 ایک نبی ہوں.نیز وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (ال عمران:۱۴۵) پس جو معنی آنحضرت کی توفی کے ہیں بعینہ وہی معنی حضرت عیسی کی توفی کے بھی لینے پڑیں گے.پھر بخاری میں ہے قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ مُتَوَفِّيكَ مُمِيْتُكَ کہ حضرت ابن عباس نے مُتَوَفِّيكَ کے معنی موت کیے ہیں.( بخاری کتاب التفسیر سورہ مائده زیر آیت فَلَمَّا تَوَفَيَتَنِي...۱۸۸) تفسیر ابن عباس ،، نوٹ :.بعض غیر احمدی مولوی تفسیر ابن عباس “ کے حوالہ سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس تو حیات مسیح کے قائل تھے اور وہ آیت یعِيسَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ الى (ال عمران :۵۶) میں تقدیم تاخیر کے قائل تھے.تو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ ہم نے حضرت ابن عباس کا جو مذہب پیش کیا ہے وہ اَصَحُ الكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللهِ یعنی صحیح بخاری میں درج ہے جس کی صحت اور اصالت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا مگر وہ مختلف اقوال جو دوسری تفاسیر یا تفسیر ابن عباس “ کے نام سے مشہور کتاب میں درج ہیں وہ قابل استناد نہیں کیونکہ ان تمام تفاسیر کے متعلق محققین کی رائے ہے کہ وہ جعلی اور جھوٹی تفسیر میں جو حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں.چنانچہ لکھا ہے: ا وَمِنُ جُمْلَةِ التَّفَاسِيرِ الَّتِى لَا يُوثقُ بِهَا تَفْسِيرُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَإِنَّهُ مَرُوِيٌّ مِنْ طَرِيقِ الْكَذَّابِينَ.فوائد المجموع فی الاحادیث الموضوعہ مصنفہ علامہ شوکانی صفحه و مطبوعه در مطبع محمدی لا ہور ۱۳۰۳ صفر ۱۰۴) یعنی نا قابل اعتبار اور غیر معتبر تفسیروں میں سے ایک تفسیر ابن عباس بھی ہے کیونکہ وہ کذاب راویوں سے مروی ہے.۲.حضرت امام سیوطی فرماتے ہیں: هذهِ التَّفَاسِيرُ الطَّوَالُ الَّتِي اَسْنَدُوهَا إِلَى ابْنِ ـاسِ غَيْرُ مَرْضِيَّةٍ وَ رُوَاتُهَا مَجَاهِيلٌ ( تفسیر اتقان جلد ۲ صفحه ۱۸۸ النفسیر البسيط زیر آیت الانفال: ۹) یہ لمبی لمبی تفسیر میں جن کو مفسرین نے ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے نا پسندیدہ اور ان کے راوی غیر معتبر ہیں.(خادم) توفی کے معنی عرف عام میں قرآن مجید اور احادیث کے علاوہ اگر عرف عام کو بھی دیکھا جائے تو بھی متوفی کے معنی میت
238 کے ہی ہوتے ہیں.مثال کے طور پر پٹواری کے رجسٹر اور دیگر دفاتر کو دیکھ لو.اور جنازہ کی دعا میں وَ مَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ کہ جس کو تو ہم میں سے وفات دے تو اس کو اسلام پر ہی وفات دے.توفی کے معنی لغت سے صحاح میں لفظ تَوَفِّی کے نیچے ہے تَوَفَّاهُ اللَّهُ أَيْ قَبَضَ رُوْحَهُ پھر لکھا ہے تُوُفِّيَ فُلَانٌ تَوَفَّاهُ اللهُ وَ اَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ پالیا اس کو موت نے ( اساس البلاغہ از علامہ محشری زیر مادہ وفی ) الْوَفَاةُ الْمَوْتُ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ.قَبَضَ رُوحَهُ ( قاموس جلد) زیر لفظ وفی از مجد الدین محمد بن یعقوب الفيروز آبادی) تَوَفَّهُ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِذَا قَبَضَ نَفْسَهُ ) تاج العروس زیر لفظ و فی از محب الدین ابی فیض السيد محمد مرتضى الحسینی الواسطی الزبیدی الحضی ) الْوَفَاةُ الْمَيَّةُ وَالْوَفَاةُ الْمَوْتُ وَ تُوَفِّيَ فلانٌ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ إِذَا قَبَضَ نَفْسَهُ وَ فِي الصَّحَاحِ إِذَا قَبَضَ رُوحه (لسان العرب زیر لفظ وفی از این منظور جمال الدین محمد بن مکرم الانصاری ) جب اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ قبض کرے.اور صحاح جوہری میں بجائے نفس کے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.تَوَفَّاهُ اللَّهُ أَيْ قَبَضَ رُوحَهُ (صحاح جو ہری زیر لفظ تَوَقِي) مُتَوَفِّى.وفات یافتہ ، مرا ہوا، انتقال کردہ شدہ، جہان سے گزرا ہوا ( فرہنگ آصفیہ زیر لفظ توقی) بعض تراجم میں توفی کے معنے بھر لینے کے لکھے ہیں اور اس کا مطلب بھی موت دینا ہے.(فرہنگ آصفیہ زیر لفظ توفّی ) ترقی کا مادہ کلیات ابوالبقاء صفحہ ۱۲۹ از یربحث التوفی پر لکھا ہے.اَلتَّوَقِّى الْإِمَاتَةُ وَ قَبُضُ الرُّوْحِ وَ عَلَيْهِ اِسْتِعْمَالُ الْعَامَّةِ...وَالْفِعْلُ مِنَ الْوَفَاةِ تُوَفِّيَ عَلَى مَا لَمْ يُسَمَّ فَاعِلُهُ لَانَّ الْإِنْسَانَ لَا يَتَوَفَّى نَفْسَهُ فَالْمُتَوَفِّيْ هُوَ اللَّهُ تَعَالَى اَوْ اَحَدٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَ زَيْدٌ هُوَ الْمُتَوَفَّى زرِبحث التوفّی یعنی توفی کے معنی مارنے اور قبض روح کرنے کے ہیں اور عام لوگوں کا استعمال اسی معنی پر ہے اور اشتقاق اس کا وفات سے ہے.توئی مجہول استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ انسان خود اپنی جان کو قبض
239 نہیں کرتا کیونکہ مارنے والا اللہ تعالیٰ ہے یا کوئی اس کا فرشتہ ہے اور انسان وہ ہے جس کو موت دی جاتی ہے.توفی کے معنی احادیث سے ا.قَالَ أَنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَيُتَوَفَّى كُلُّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانِ فَيَبْقَى مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ.( تفسیر ابن کثیر زیر آیت تو به : ۳۴).عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انَّهُ قَالَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا لَا تَلْبِسُ الْمُعَصْفَرَةَ مِنَ القِيَاب الخ ( مسند امام احمد بن حنبل حدیث ام سلمہ زوج النبی جلد ۲ صفحه۲ ۳۰ مطبع المكتب الاسلامی بیروت ) عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى وَ بَكَى أَصْحَابُهُ تُوُفِّيَ سَعُدُ ابْنُ مَعَاذٍ إِلَى اخِرِهِ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيرٍ.( کنز العمال جلد ۶ صفحه ۴۲ ).أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَتْ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوَّذَاتِ مَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِى تُوُفِّيَ فِيْهِ طَفِقْتُ اَنْفُتُ عَلَى نَفْسِهِ ( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی و وفاته) بِالْمُعَوَّذَاتِ.الخ - إِنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ رَأَيْتُ ثَلَثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِي حُجْرَتِي فَقَصَصْتُ رُءُ يَايَ عَلَى أَبِي بَكْرِ الصَّدِيقِ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ دُفِنَ فِي بَيْتِهَا قَالَ لَهَا أَبُوْبَكْرٍ هَذَا أَحَدُ أَقْمَارِكِ وَ هُوَ خَيْرُهَا - (موطا امام مالک المجلد الثانی کتاب الجنائز حدیث ۶۰۰) - عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ وَالَّذِى تُوُقِيَ نَفْسُهُ تِعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تُوُفِّيَ حَتَّى كَانَتْ اَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، الخ ( مسند امام احمد بن حنبل حديث ام سلمة زوج النبي ) ے.عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَالَ لَهَا يَا بُنَيَّةُ أَيُّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ (مسند امام احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۱۸ مصری) صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِطَلْحَةَ ابْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ مَا لِيَ أَرَاكَ قَدْ شُعِثْتُ وَاغْبَرَرُتَ مُنْذُ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخِ (مسند امام احمد بن حنبل حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه)
240 - عَنْ عُثْمَانَ أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنُوا عَلَيْهِ حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يُوَسْوِسُ وَ كُنتُ مِنْهُمْ فَقُلْتُ لَابِي بَكْرٍ تَوَفَّى اللهُ نَبِيَّة الخ.( کنز العمال جلدے صفحہ ۳ ۷ مصری ) توفی کے لیے انعامی اشتہار چونکہ متنازعہ فیہ جگہ میں توقی باب تفعل سے ہے اور اللہ تعالیٰ فاعل ہے اور ذی روح یعنی حضرت عیسی مفعول ہیں اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی صورت میں توفی کے معنے سوائے قبض روح کے دکھانے والے کو ایک ہزار روپیہ انعام مقررفرمایا ہے مگر آج تک کوئی مرد میدان نہیں بنا جو یہ انعام حاصل کرتا اور نہ ہی ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.بعض غیر احمدی مولوی کہا کرتے ہیں کہ تم نے توفی کے متعلق یہ قاعدہ کہاں سے لیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فاعل کوئی ذی روح مفعول ہو تو اس کے معنی قبض روح یا موت کے ہوتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قاعدہ کوئی من گھڑت قاعدہ نہیں ہے بلکہ کتب لغت میں مذکور ہے جیسا کہ قاموس ، تاج العروس اور لسان العرب میں ہے.ا تَوَفَّهُ اللهُ.قَبَضَ رُوحَهُ ) قاموس زیر لفظ و فی ) یعنی اللہ تعالیٰ نے اس ذی روح کی توفی کی یعنی اس کی روح قبض کرلی.اس حوالہ میں لفظ تَوَفّی باب تفعل سے ہے.اللہ فاعل مذکور ہے اور ہ کی ضمیر بھی جو ذی روح کی طرف پھرتی ہے اس کے معنے قبض روح صاف طور پر لکھے ہیں.اسی طرح تاج العروس زیر لفظ و فی جلد ۲۰ اور لسان العرب زیر لفظ وفی کے حوالے پہلے صفحہ ۲۳۸ پر درج ہو چکے ہیں.۲ - تَوَفَّاهُ اللهُ اى قَبَضَ رُوحَهُ - اللہ تعالٰی نے فلاں شخص کی توفی کی یعنی اس کی روح کو قبض کیا.(صحاح الجوهری از اسماعیل بن حماد الجو ہری الجزء السادس زیر لفظ وفی).استقراء کے طور پر یہ قاعدہ ہے، اس کے خلاف ایک مثال ہی بموجب شرائط پیش کرو.جو یقین نا ممکن ہے.(خادم) غیر احمدیوں کے عذر کا جواب محمدیہ پاکٹ بک از مولانا محمد عبداللہ صاحب معمار امرتسری صفحه ۵۴۶، ۵۴۷ مطبع المکتبه
241 السلفیہ شیش محل روڈ لاہور پر جو سوفی کے معنے تفسیر بیضاوی اور تفسیر کبیر کے حوالہ سے التَّوَقِی اَخُذُ الشَّيْءِ وَافِيًا اور تَوَفَّيْتُ مِنْهُ دَرَاهِمِی مذکور ہیں.ان ہر دو مثالوں میں تَوَفِّی کا مفعول ذی روح نہیں بلکہ پہلی مثال میں شیء اور دوسری میں درہم غیر ذی روح مفعول ہے مگر إذْ قَالَ اللهُ يُمِيْلى إلى مُتَوَفِّيكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي میں مفعول حضرت عیسی ذی روح ہیں.براہین احمدیہ کے حوالہ کا جواب اسی طرح محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۵۱۵ پر براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۹ حاشیہ کے حوالہ سے جو ترجمہ آيت: إني مُتَوَفِّيْنك كا بدیں الفاظ درج کیا گیا ہے کہ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا.وہ حجت نہیں کیونکہ اسی براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ پر انی متوفیک کا ترجمہ ”وفات دوں گا“ بھی درج ہے جو درست ہے.” نعمت دوں گا‘ والا ترجمہ لائق استناد نہیں کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ ترجمہ مستند نہیں ہے.ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں:.الف.یادر ہے کہ براہین احمدیہ میں جو کلمات الہیہ کا ترجمہ ہے وہ باعث قبل از وقت ہونے کے کسی جگہ مجمل ہے اور کسی جگہ معقولی رنگ کے لحاظ سے کوئی لفظ حقیقت سے پھیرا گیا ہے یعنی صرف عَنِ الظاھر کیا گیا ہے.پڑھنے والوں کو چاہیے کہ کسی ایسی تاویل کی پروا نہ کریں (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ حاشیه صفحه ۹۳) ب :.میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفی کے معنے ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں.میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے الہامی غلطی نہیں.میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں گوئیں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خدا تعالی قائم نہیں رکھتا مگر یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کر سکتا.خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان م غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو و نسیان لازمه بشریت ہے.“ کا کلام ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۷۱ ۲۷۲) ج.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ ایام الصلح کی عبارت میں تحریر فرمایا ہے وہ قرآن مجید و احادیث نبوی کے عین مطابق ہے کیونکہ یہی بات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:.
242 مَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ سُبُحْنَهُ فَهُوَ حَقٌّ وَ مَا قُلْتُ فِيْهِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُ وَ أُصِيبُ.(نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحه ۳۹۲) کہ جو بات میں اللہ تعالیٰ کی وحی سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے ( یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں) لیکن جو بات میں اس وحی الہی کے ترجمہ و تشریح کے طور پر اپنی طرف سے کہوں تو یا درکھو کہ میں بھی انسان ہوں ، میں اپنے خیال میں غلطی بھی کر سکتا ہوں.تفصیل کے لیے دیکھو پاکٹ بک ہذا.الہامات پر اعتراضات کا جواب صفحہ ۵۲۸ اسی طرح بخاری میں بھی ہے.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ انْسى كَمَا تَنْسَوْنَ (بخاری کتاب الصلوة باب التوجه نحو القبلة حيث كان ( کہ میں بھی انسان ہوں، تمہاری طرح مجھ سے بھی نسیان ہو جاتا ہے.تَوَفِّی کے معنی تفاسیر سے ا تفسیر خازن جلد نمبر اپر ہے.اَلْمُرَادُ بِالتَّوَفِّى حَقِيْقَةُ الْمَوْتِ - یعنی تَوَقِی سے مراد موت کی حقیقت ہے.(تفسیر خازن الجزء الاول زیر آیت اذ قال الله يعيسى....آل عمران: ۵۵) ۲.تفسیر کبیر پر لکھا ہے.مُتَوَفِّیک کے معنے ہیں.مُتَمِّمُ عُمْرَكَ فَحِينَئِذٍ اَتَوَفَّاكَ فَلَا أَتْرُكُهُمْ حَتَّى يَقْتُلُوكَ.( تفسیر کبیر جلد ۸ صفحه ۶۷ - زیر آیت اذ قال الله عیسی.آل عمران: ۵۲) تفسیر در منثور جلد ۲ صفحہ ۳۶ مطبوعہ مصر پر لکھا ہے.اَخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ مِنْ طَرِيقِ عَلِي عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ يَقُولُ إِنِّي مُمِيتُكَ.یعنی ابن عباس مُتَوَفِّیک کے معنی مارنے والا کرتے ہیں.۴ م تفسیر فتح البيان الجزء الرابع زیر آيت ما قلت لهم الا ما امرتنی به...پرلکھا ہے.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے نیچے قِيْلَ هَذَا يَدُلُّ عَلَى اَنَّ اللهَ سُبْحْنَهُ تَوَفَّهُ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَهُ یعنی خدا تعالیٰ نے عیسی کو اٹھانے سے قبل وفات دے دی تھی.۵ الف - تفسیر کشاف جلد اصفحہ ۳۰۶ پر مُتَوَفِّیک کے معنے لکھے ہیں وَ مُمِيتُكَ حَتْفَ انفک یعنی طبعی موت سے مارنے والا ہے.(الکشاف جلد ازمیر آیت اذ قال الله يعيسى...آل عمران: ۵۵) - ب - تفسیر مدارک بر حاشیه خاز زیر آیت و اذ قال الله يعيسى...آل عمران: ۵۵
243 ۷.تفسیر سرسید احمد خاں صاحب جلد ۲ صفحه ۱۹۳ زیر آیت فلما توفيتني....المائدة : ۱۱۷ پھر جب تو نے مجھ کو فوت کیا ، تو تو ہی ان پر نگہبان تھا.“ تفسیر فتح البیان زیر آیت انّی مُتَوَفِّیک پر ہے.قَالَ أَبُو زَيْدٍ مُتَوَفِّيْكَ قَابِضُكَ.....وَالْمَعْنَى كَمَا قَالَ فِی الْكَشَّافِ الخ اس نے بھی کشاف کے معنوں کو قبول کیا ہے اور وہ گزرچکے ہیں.۹ - تاج التفاسیر جلد ا صفحه ۴۹ زیر آیت يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ (البقرة: ۲۳۵) أَيْ يَمُوتُونَ مِنْكُمْ.۱۰.سراج التفاسیر جلد ا صفحه ۱۴۵ - يُتَوَفَّوْنَ أَنْ يَمُوتُونَ.- مجمع البیان جلدا - يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ أَى يُقْبَضُونَ وَيَمُوتُونَ - ( ج ۲ صفحه ۳۳۷ زیر آیت والذين يتوفون منكم و يزرون ازواجا.....۱۲ فتح البيان الجزء الثانی زیر آیت وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ - يَتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَالْمَعْنَى الَّذِينَ يَمُوتُونَ ۱۳ در الاسرار جلد اصفحہ ۴۰ - يُوَفَّوْنَ لِوَرُوُدِ حَمَامِهِمْ - -۱۴- ترجمۃ القرآن تفسیر عبداللہ چکڑالوی صفحه ۲۰۲ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ اور جو لوگ مرجاویں گے تم میں سے.۱۵.روح البیان.وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ أَى يَمُوتُونَ وَيُقْبَضُ أَرْوَاحُهُمُ بِالْمَوْتِ.( زیرآيت والذين يتوفون منكم......۱۶.فتح البيان تفسير سورة النساء زير آيت ان الذين توفاهم الملائكة.....الَّذِينَ تَوَفَّهُمُ أَي تُقْبَضُ أَزْوَاجُهُمُ.۱۷.فتح البیان زیر آیت اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا..اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا أَى يَقْبَضُ الْأَرْوَاحَ عِنْدَ حَضُورِ اجَالِهَا.۱۸.روح المعانی جلد ۵ صفحه ۴۰۹ - وَمِنْكُم مِّنْ يُتَوَى أَى مِنْكُمْ مَنْ يَمُوتُ مِنْ قَبْلِ الشَّيْخُوخَةِ بَعْدَ بُلُوغِ الرُّشْدِ أَوْ قَبْلَهُ ايضًا ۱۹.روح البیان - اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا يُقَالُ تَوَفَّهُ اللَّهُ قَبَضَ رُوحَهُ كَمَا فِي الْقَامُوسِ وَ مَعْنَى الْآيَةِ يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْوَاحَ الْإِنْسَانِيَّةَ عَنِ الْأَبْدَانِ الخِ زیر آیت الله يتوفى الانفس حين موتها......)
244 ۲۰.روح البیان جلد ۳ صفحه ۷۴.يَتَوَفكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ قَالَ فِي الصِّحَاحِ تَوَفَّاهُ قَبَضَ رُوحَهُ وَالْوَفَاةُ الْمَوْتُ.(نیا ایڈیشن جلد ۸ صفحه ۱۱۳) ۲۱.روح البیان جلد ۳ صفحه ۴۶۸ وَمِنْكُم مَّنْ يُتَوَفَّى يُقْبَضُ رُوحُهُ وَيَمُوتُ - ۲۲.روح البیان زیر آیت فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ - اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اگر بمیر انیم ترا پیش از ظهور آں عذاب.۲۳.روح البیان جلد ۲ صفحه ۳۴۱ - تَتَوَفهُمُ الْمَلَكَةُ أَي يَقْبِضُ أَرْوَاحَهُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ وَاعْوَانُه - ۲۴.روح البیان جلد ۲ صفحه ۲۵۳ - اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ أَى نَقْبِضُ رُوحَكَ الطَّاهِرَةَ قَبْلَ إِرَاءَ ةِ ذلک.(نیا ایڈیشن جلد ۴ صفحه ۳۸۸ تفسیر سورة الرعد : ۴۱) ۲۵.روح البیان زیر آیت مِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مِّنْ يُتَوَفَّى أَى يُقْبَضُ رُوحُهُ وَيَمُوتُ بَعْدَ بُلُوغ الرُّشْدِ اَوْ قَبْلَه....وَالتَّوَفِّي عِبَارَةٌ عَنِ الْمَوْتِ وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ قَبَضَ رُوحَة - ۲۶.روح البیان زیر آیت توفنى مسلمًا - تَوَفَّنِي مُسْلِمًا أَى اقْبِضُنِي إِلَيْكَ مُخْلِصًا بِتَوْحِيدِكَ ۲۷.انوار التنزیل مصنفہ قاضی ناصر الدین عبداللہ البیضاوی حاشیه صفحه ۳۲۴ مطبع دارالحیل بيروت- تَوَفَّنِي مُسْلِمًا اِقْبِضْنِي مفسرین کو غلطی لگی ہے فتح البیان جلد ۲ صفحہ ۴۹ زیر آیت مُتَوَفِّیک لکھا ہے:.وَإِنَّمَا احْتَاجَ الْمُفَسِّرُونَ إِلَى تَأْوِيلِ الْوَفَاةِ بِمَا ذُكِرَ لَانَّ الصَّحِيحَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى رَفَعَهُ إِلَى السَّمَاءِ مِنْ غَيْرِ وَفَاتٍ كَمَا رَجَّحَهُ كَثِيرٌ مِّنَ الْمُفَسِرِينَ وَاخْتَارَهُ ابْنُ جَرِيرِ الطَّبَرِيُّ وَ وَجُهُ ذَلِكَ أَنَّهُ قَدْ صَحَ فِي الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُزُولُهُ وَ قَتْلُهُ الدَّجَّالَ.یعنی کہتے ہیں کہ مفسرین نے جو وفات عیسی کی نص کی تاویلیں کی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیثوں میں ان کے لیے نزول کا لفظ دیکھا اور ان کے قتل دجال کا بیان پڑھا.
245 نہیں ہوتا.حالانکہ نزول سے آسمان پر جانا اور قتل دجال کے ذکر سے بعینہ ان کا زندہ رہنا ثابت (تفصیل اپنی جگہ پر دیکھیں) دوسری دلیل : اِذْ قَالَ اللَّهِ يُعِيسَى إِلى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىٰ وَمُطَهَرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ (آل عمران: ۵۲) ترجمہ: جب فرمایا اللہ تعالیٰ نے اے عیسی میں ہی تجھے وفات دینے والا ہوں اور عزت دینے والا ہوں تجھ کو اور یہود نا مسعود کے اعتراضات سے تجھے بری الذمہ کرنے والا ہوں اور تیرے ماننے والوں کو قیامت تک نہ ماننے والوں پر غالب کرنے والا ہوں.استدلال : اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیک کو پہلے رکھا ہے ، ہمارا کوئی حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ترتیب کو بدلیں ورنہ اس کی حکمت پر الزام آئے گا کہ اس نے اس چیز کو جو پیچھے تھی بلا وجہ آگے کر دیا (نعوذ باللہ ) دوم:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ حضور پہلے صفا کا طواف کریں گے یا مروہ کا.آپ نے فرمایا: - اَبدَءُ بِمَا بَدَأَ الله اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے.پس ہمیں بھی وہی پہلے رکھنا چاہیے جس کو اللہ تعالیٰ نے پہلے رکھا ہے.( نیز دیکھو حمدیہ پاکٹ بک صفحه ۵۹۳ ناشر مطبع المكتبة السلفية شیش محل روڈ لاہور.بحوالہ مسلم وجلالین ) سوم :.اگر مُتَوَ فیک کو پیچھے کیا جائے تو ساری ترکیب ہی درہم برہم ہو جائے گی اور صحیح طور پر مُتَوَفِّیک کی کوئی جگہ نہ ہوگی.کیونکہ وعدہ نمبر ۴ اب شروع ہے اور الی یوم القیامۃ رہے گا.توفی کے معنے اوپر گزر چکے ہیں اور رفع کے معنے بَلْ زَفَعَهُ اللهُ الیه (النساء:۱۵۹) کی بحث میں ملاحظہ کریں.غیر احمدی:.واؤ ترکیب کے لیے نہیں ہوتی جیسا کہ قرآن مجید کی آیت وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْدَةَ (النحل: ۷۹) میں ہے.جواب :.آیت محولہ میں تو نہایت پر معارف ترتیب ہے کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ہاں کان کھلے ہوتے ہیں ہن سکتا ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دینے کا حکم ہے.پس اس وجہ سے قرآن مجید میں سمع (سنے کو ) پہلے رکھا گیا ہے.دیکھنے کی وقت بعد میں ظاہر ہوتی ہے.اس لیے ابصار کو بعد میں بیان کیا گیا ہے اور چونکہ عقل اور سمجھ
246 بہت بعد میں آتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے افئِدَةَ (دل) کو سب سے پیچھے رکھا ہے.”دل، عقل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں ہے.لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا (الاعراف: ۱۸۰) که ان کے دل ہیں مگر ان دلوں سے یہ سمجھتے نہیں.پس آیت قرآنی میں حد درجہ ایمان افروز ترتیب ہے اس طرح وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَ قُوْلُوْا حِظَةٌ (البقرة : ۵۹) میں بھی ہر دو مقامات پر عدم ترتیب نہیں کیونکہ حِصّہ کہنا دروازے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی ہر دو مقامات میں بیان ہوا ہے یعنی دروازے میں داخل ہونا اور حِصّہ کہنا قرآن مجید کی دونوں آیات وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَ قَوْلُوا حِظَ اور قُولُوا حِظَةٌ وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا میں بیک وقت وقوع میں آنا بیان ہوا ہے.پس اس میں بھی تقدیم تاخیر کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پس حق اور سچ بات یہی ہے کہ انسان کے کلام میں تو واہ عالیہ اگر بغیر صحیح ترتیب کے مستعمل ہو تو ممکن ہے مگر اللہ تعالیٰ کا کلام بغیر ترتیب کے نہیں ہوسکتا.تعجب ہے کہ حیات مسیح کے باطل عقیدہ نے تم کو قرآن مجید کے مرتب اور مسلسل کتاب ہونے کا بھی منکر بنا دیا ہے.سچ ہے خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج تیسری دلیل : مَا المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمَّهُ صِدِّيقَةً كَانَا يَأْكُنِ الطَّعَامَ (المائدة: ۷۲) ترجمہ: نہیں مسیح ابن مریم مگر ایک رسول البتہ آپ سے پہلے رسول سب فوت ہو چکے اور آپ کی والدہ راستباز تھی.وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے.استدلال : اللہ تعالیٰ نے عیسی اور مریم کے ترک طعام کو ایک جگہ بیان فرما کر ظاہر کر دیا کہ دونوں کے یکساں واقعات ہیں.اب مریم کے ترک طعام کی وجہ موت مسلم ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح کے ترک طعام کی بھی یہی وجہ تھی کیونکہ گانا یا كان الطعام ماضی استمراری ہے.گویا اب نہیں کھاتے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا جَعَلَتْهُمْ جَسَدَ الَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَلِدِينَ (الانبياء: 9) یعنی ان (انبیاء) کو ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتا ہو یا ہمیشہ رہنے والا ہو.حدیث میں بھی آنحضرت فرماتے ہیں وَلَا مُسْتَغْنِى عَنْهُ رَبَّنَا (بخارى كتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه ) اے ہمارے رب ہمارے لئے اس سے استغناء نہیں ہوسکتا.پس بشر بصورت زندگی تو محتاج طعام ہے پس میچ کا احتیاج سے سوائے موت کے بری ہونا کیونکر ممکن ہے؟ چوتھی دلیل: - وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ
247 انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران: ۱۴۵) ترجمہ: آنحضرت صرف ایک رسول ہیں آپ سے پہلے کے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس اگر یہ مر جائے یا قتل کیا جائے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے.استدلال :.اس آیت میں آنحضرت سے پہلے تمام رسولوں کی نسبت گزر جانے کی خبر دی ہے اور گزر جانے کے طریق صرف دو قرار دیئے ہیں، موت اور قتل.یعنی بعض بذریعہ موت طبعی گزرے اور بعض بذریعہ قتل.اگر کوئی تیسری صورت گزرنے کی ہوتی تو اس کا بھی آیت میں ذکر ہوتا.مثلاً آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کی صورت جو سیح کے متعلق خیال کی جاتی ہے.چنانچہ اس کی تائید تفسیروں کے ان حوالجات سے بھی ہوتی ہے جو زیر عنوان ” خلا کے معنے تفسیر میں درج ہیں.(دیکھ صفحہ۲۴۹) اس آیت میں صاف لکھا ہے کہ آنحضرت سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں یعنی فوت ہو چکے ہیں جن میں حضرت عیسی بھی شامل ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چونکہ آیت مَا المسيح ابن مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (المائدة: 21 ) میں سے بظاہر سی باہر رہ جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کا با تخصیص ذکر فرمانے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی.غیر احمدی عذرات کا جواب مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے اس ضمن میں صفحہ ۵۷۷،۵۷۶ پر جو تر جمہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کا جنگ مقدس، شہادۃ القرآن اور فصل الخطاب کے حوالہ سے دیا ہے کہ کئی رسول یا ”بہت سے رسول“.یہ غیر احمدیوں کے چنداں مفید طلب نہیں ہوسکتا کیونکہ اس ترجمہ سے باقی رسولوں کی نفی نہیں ہوتی.البتہ اگر چند رسول یا بعض رسول ہوتا تو کوئی بات بھی تھی ورنہ جس قدر رسول آنحضرت سے قبل گزر چکے تھے.اس میں کیا شک ہے کہ وہ کئی اور بہت سے تھے.غیر احمدی :.قرآن مجید میں آتا ہے قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ المَثلتُ (الرعد: ۷ ) اس سے پہلے بہت سے عذاب گزر چکے ہیں.کیا یہاں خلا کے معنے موت ہیں؟ محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۶۰۹ ناشر المکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لا ہور ) جواب:.ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ خلا کا لفظ بصیغۂ ماضی جب انسانوں کے متعلق استعمال ہو تو ہمیشہ وفات یافتہ انسانوں ہی کے متعلق آتا ہے مگر کیا تمہاری پیش کردہ آیت میں مثــلـت (الرعد: ۷ ) (عذاب) ذی روح ہے؟
248 محمدیہ پاکٹ بک کی پیش کردہ دوسری آیت قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَرٌّ (الرعد: ۳۱) میں ہلاک شدہ قو میں ہی مراد ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد میں فرمایا: أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمٍ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُوْدَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللهُ جَاءَ تُهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ (ابراهيم: ١٠) یعنی کیا تمہیں ان قوموں کی خبر نہیں ملی جو تم سے پہلے تھیں یعنی قوم نوح، عاد ثمود اور وہ لوگ جو ان کے بعد ہوئے جن کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا ان کے پاس رسول آئے تو انہوں نے ان کا انکار کیا.انہی اقوام کی تباہی اور ہلاکت کی تفصیل سورۃ ہود اور دوسری سورتوں میں متعدد مقامات پر قرآن مجید میں دی گئی ہے.پس تمہاری پیش کردہ سورۃ رعد والی آیت میں بھی خلت کے معنے ہلاک شدہ ہی کے ہیں نہ کچھ اور.خلا کے معنی از روئے قرآن کریم رَفَعَ إِلَى السَّمَاءِ خَلَا کے اندر داخل نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کا خلا کسی کا نہیں ہوتا.اگر کوئی کہے کہ چونکہ آنحضرت نے آسمان پر نہ جانا تھا اس لیے وہ ذکر نہ کیا گیا.تو ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت نے تو قتل بھی نہ ہونا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا تھا وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: ۲۸) پھر قتل کا ذکر کیوں کیا.معلوم ہوا کہ رَفَعَ إِلَى السَّمَاءِ.خَلا میں شامل نہیں.دوم :.بہت جگہ یہ لفظ قرآن کریم میں موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، ملاحظہ ہو: ا - تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَم م في أمر قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ ه وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي ٢ - فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ دو (۲) مرتبه (البقرة: ۱۴۲،۱۳۵) (المائدة: ۷۶) (الرعد: ۳۱) (حم السجدة: ٢٦) (الاحقاف : ۱۸) (الاحقاف : ١٩) وَقَدْ خَلَتِ النُّذَرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِةٍ (الاحقاف: ۲۲) الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ وَ مَثَلاً مِنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ (یونس : ۱۰۳) (النور: ۳۵)
249 ١٠- الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ خلا کے معنی از لغت عرب سوم :.لغت سے خلا کے معنی مات کے ثابت ہیں:.(الاحزاب : ۳۹) خَلَا فُلانٌ إِذَا مَاتَ (لسان العرب زیر ماده خلا ).خَلَا الرَّجُلُ أَى مَاتَ (اقرب المواردز ير لفظ خلا) خَلَا فُلانٌ أَى مَاتَ (تاج العروس زیر لفظ خلا) شعر کی مثال إِذَا سَيِّدٌ مِّنَّا خَلَا قَامَ سَيِّدٌ قَؤُولٌ لِمَا قَالَ الْكِرَامُ فَعُولٌ (دیوان الحماسه لاً بی تمام جبیر بن اوس الطائی شاعر السموال بن عاد باب الحماسہ ناشر المكتبة السلفیہ لاہور ) خلا کے معنی از تفاسیر ۱- تفسیر مظہری زیر آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَضَتْ وَ مَاتَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ فَسَيَمُوتُ هُوَ أَيْضًا - ( ايضا جلد ۲ صفحہ ۱۴۷) ۲ تفسیر جامع البيان صفحه ۶۱ - قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ بِالْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ فَيَخْلُوا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(ايضا جز نمبر ا صفحه ۱۰۳) ۳- تفسیر بحر مواج جلد ۱ صفحه ۴۱۳ - معنی این است که بدرستی از و پیغمبران گذشته اند و همه از جہان رفته اند ۴ تفسیر سراج منیر جلد اصفحه ۲۵۱- فَسَيَخُلُوا كَمَا خَلَوُا بِالْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ یعنی پہلے رسول یا مر گئے یا قتل ہو گئے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوں گے.۵ تفسیر خازن زیرآیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول...وَ مَعْنَى الْآيَةِ فَسَيَخْلُوا مُحَمَّدٌ كَمَا خَلَتِ الرُّسُلُ مِنْ قَبْلِهِ.- حضرت امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وَ حَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّهُ تَعَالَى بَيَّنَ أَنَّ قَتْلَهُ لَا يُوجِبُ ضُعْفًا فِي دِينِهِ بَدَلِيْلَيْنِ.(الاَوَّلُ) بِالْقِيَاسِ عَلَى مَوْتِ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ وَ قَتْلِهِمْ.
250 (وَالثَّانِي أَنَّ الْحَاجَةَ إِلَى الرَّسُولِ لِتَبْلِيغِ الدِّينِ وَ بَعْدَ ذَلِكَ فَلَا حَاجَةَ إِلَيْهِ فَلَمْ يَلْزِمُ مِنْ قَتْلِهِ فَسَادُ الدِّينِ ( تفسير كبير رازى زير آيت ما كان لنفس ان تموت الا باذن الله....كم خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ آنحضرت کے قتل ہو جانے سے آپ کے دین میں کوئی کمزوری واجب نہیں آتی.اوّل اس وجہ سے کہ تمام گزشتہ انبیاء کی موت اور قتل پر قیاس کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے.دوسرے اس وجہ سے کہ نبی کی بعثت کی غرض تو تبلیغ دین ہوتی ہے.پس جب وہ تبلیغ دین کا فریضہ ادا کر چکے تو پھر اس کو زندہ رکھنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی.۷.حضرت داتا گنج بخش صاحب اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض رسول خدا ہیں.ان کے پہلے بھی رسول راہ رو عالم آخرت ہوئے.کیا اگر حضرت انتقال فرما گئے یا قتل کئے گئے تو تم پیچھے قدم ہٹ جاؤ گے یعنی الٹی چال چلو گے.“ ( کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۳۷.باب ۳ تصوف کے بیان میں فارسی عشرت پبلشنگ اڈس ہسپتال روڈ انارکلی لاہور) تفسیر مدارک بر حاشیه خازن زیر آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول...خَلَتْ مَضَتْ فَسَيَخْلُوا.۹ تفسیر کشاف زیر آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول.....فَسَيَخْلُوا كَمَا خَلَوْا.نبی کریم کا خلا ویسے ہی ہوگا جیسے پہلوں کا ہو چکا ہے.۱۰.تفسیر قنوی علی البیضاوی صفر ۱۲۴.جلد ۳_ فَسَيَخْلُوُا كَمَا خَلَوُا بِالْمَوْتِ أوِ الْقَتْلِ.....إِنَّهُمُ اعْتَقَدُوا إِنَّهُ رَسُولٌ كَسَائِرِ الرُّسُلِ فِي إِنَّهُ يَخْلُوا كَمَا خَلَوْا رُدَّ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ لَيْسَ إِلَّا رَسُولًا كَسَائِرِ الرُّسُلِ فَسَيَخْلُوُا كَمَا خَلَوْا یعنی لوگوں نے اعتقاد کیا کہ آنحضرت فوت نہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ باقی رسول جب فوت ہو گئے تو یہ کیوں نہ فوت ہوں گے.اس آیت سے وفات مسیح پر صحابہ کرام کا اجماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صدمہ آفات نے صحابہ کی کمر ہمت کو توڑ دیا حتی کہ حضرت عمر نے کہنا شروع کیا کہ جو کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوفوت شدہ کہے گا اس کی گردن اڑ دوں گا.چنانچہ بخاری کتاب النبی الی کسری و قیصر باب مرض النبی و وفاته میں مندرجہ ذیل حدیث ہے:.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَ عُمَرُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ إِجْلِسُ يَا
251 عُمَرُ فَأَبِي عُمَرُ أَنْ يَجْلِسَ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَّا بَعْدُ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَى لَا يَمُوتُ قَالَ اللهُ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إلى قوله الفكرِيْنَ وَقَالَ وَاللهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ فَتَلَقْهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ فَمَا أَسْمَحَ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا.فَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ ابْنُ الْمُسَيِّبِ أَنَّ عُمَرَ قَالَ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلَاهَا فَعَقَرْتُ حَتَّى مَا تُقِلُّنِى رِجَلَايَ وَ حَتَّى اَهْوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ حِيْنَ سَمِعْتُهُ تَلَاهَا أَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ.یہ خطبہ مسند امام ابوحنیفہ صفحہ ۱۸۸ اور حمام الاسلامیۃ صفحہ ۵۴ پر بھی موجود ہے.تو حضرت ابو بکر نے خطبہ پڑھا جس میں بتایا کہ جس طرح اور رسول فوت ہو چکے ہیں آنحضرت بھی فوت ہو گئے ہیں.جس پر صحابہ میں سے کسی نے انکار نہ کیا اور حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ میں کھڑا نہ ہوسکتا تھا اور زمین پر گر گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ آنحضرت فی الواقعہ فوت ہی ہو چکے ہیں.اس سے یوں استدلال ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کے استدلال کو اس طرح تو ڑا ہے کہ آپ ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.اگر حضرت عمر یا کسی اور صحابی کے ذہن میں بھی یہ بات ہوتی کہ حضرت عیسی زندہ بجسدہ العصری ہیں تو وہ آگے سے فوراً کہہ دیتا ہے کہ اجی عیسی بھی تو رسول ہی تھے وہ پھر کیوں زندہ ہیں، لیکن کسی کا ایسا نہ کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ان کے وہم میں بھی حیات عیسی کا عقیدہ نہ تھا بلکہ وہ سب کو وفات یا فتہ تسلیم کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سر تسلیم خم کیا اور بالکل چون و چرا نہ کی.اس اجماع سے ان روایات کی بھی حقیقت کھل جاتی ہے جو بعض صحابہ کرام کی طرف حیات عیسی کے بارے میں منسوب کی جاتی ہیں.کیونکہ اگر کوئی ایسی روایت ہو تو اس کی دوصورتیں ہیں (۱) یا تو وہ اس سے پہلے کی ہے (۲) یا بعد کی صورت اول میں وہ قابل استناد نہیں، کیونکہ اجماع سے وہ گر جائے گی اور صورت ثانی میں بہر حال قابلِ رڈ.اعتراض:.اگر الرُّسُل کا الف لام استغراقی مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ آنحضرت سے پہلے ہی تمام رسول فوت ہو جائیں کیونکہ من قبلہ بوجہ مقدم ہونے کے الرُّسُل کی صفت نہیں بن سکتی.ہاں خَلَتُ
252 فعل کے ساتھ متعلق ہوسکتی ہے.لہذا لازم آیا کہ آنحضرت سے پہلے ہی تمام رسول فوت ہوں ورنہ آنحضرت اور مرزا صاحب دونوں کی نفی ہوئی.جواب : مِن قَبْلِهِ الرُّسُل “ کی صفت ہی ہے جس کے معنی ہیں کہ تمام وہ رسول فوت ہو گئے جو آنحضرت سے پہلے تھے اور صفت کا موصوف سے پہلے آنا جائز ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:.صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اللهِ (ابراهیم: ۳۲) عَزِيزٌ اور حمید اللہ کی صفات ہیں جو اس پر اس آیت میں مقدم مذکور ہیں.چنانچہ لکھا ہے.وَيَجُوزُ اَنُ يَكُونَ الْعَزِيزُ الْحَمِيدُ صِفَتَيْنِ مُتَقَدِّمَيْنِ وَ يُعَرِّبُ الْإِسْمُ الْجَلِيلُ مَوْصُوفًا مُتَأَخِرًا (روح المعانی زیر آیت الى صراط العزيز الحميد) ٢- أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ اللهَ رَبَّكُمُ (الصفت : ۱۲۷،۱۳۶) کیا تم بعل کو پکارتے ( پوجتے ) ہو اور اَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ( یعنی سب سے اچھا بنانے والے ) خدا کو جو تمہارا رب ہے چھوڑتے ہو.اس آیت میں اَحْسَنَ الْخَالِقِينَ صاف طور پر اللہ کی صفت ہے مگر موصوف یعنی اللہ بعد میں ہے، اور صفت احسن الخالقین اس پر مقدم مذکور ہے.اسی طرح مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل بھی صفت ہے اور اس پر مقدم مذکور ہے.فلا اعتراض.پانچویں دلیل: - وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحَيَاءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (النحل : ۲۲،۲۱) ترجمہ :.یہ مشرک جن لوگوں کو اللہ کے سوائے پکارتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ انہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا وہ پیدا کیے گئے ہیں.مردہ ہیں زندہ نہیں اور نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے.استدلال :.حضرت عیسی بھی ان ہستیوں میں سے ہیں جن کو معبود مانا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ المُسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (المائدة: ۱۸) پس وہ بھی وفات یافتہ ہیں.ان کا کہیں استثناء نہیں.نوٹ :.بعض حیلہ ساز لوگ اس جگہ کہ دیا کرتے ہیں کہ اَمْوَاتُ.میت کی جمع ہے یعنی مرنے والے ہیں کسی وقت ضرور مریں گے.جواب :.یہ بالکل غلط ہے کہ اَمْوَاتُ.میت کی جمع ہے.اَمْوَاتٌ تو میت کی جمع ہے جس کے معنے
253 ہیں ” مرے ہوئے اور میت کی جمع میتُونَ ہے.دیکھو لغت کی کتاب المنجد زیرلفظ موت.اور آیت بھی اس کی مؤید ہے کیونکہ اس میں اَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاء (النحل : ۲۲) یعنی ایسے اموات جو زندہ نہیں ہیں.پس اموات کو میت کی جمع قرار دینا زبان اور قرآن دونوں سے نا واقفیت کی دلیل ہے.اگر ملائکہ اور جنوں کا اعتراض کرو تو یا دور ہے کہ وہ عالم امر سے ہیں اور يُخْلَقُونَ (النحل : ۲۱) میں عالم خلق کا بیان ہے اس لئے ان کا یہاں ذکر نہیں.ہاں حضرت عیسی کا ذکر ہے.ملائکہ اور جنوں کے نہ مرنے کا کیا ثبوت ہے؟ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (العنکبوت: ۵۸) کے کلیہ سے وہ کیونکر باہر رہ سکتے ہیں.چھٹی دلیل :.آیت قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (الاعراف: ۲۲) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو فرمایا کہ تم اسی زمین میں ہی زندگی بسر کرو گے اور اسی میں مرو گے اور پھر اسی سے اٹھائے جاؤ گے.استدلال :.یہ ایک عام قانونِ الہی ہر فرد بشر پر حاوی ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ فِيهَا تَخيَونَ کے صریح خلاف حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہوں.اس آیت میں تَحْيَونَ ( فعل ) پر فيها ( ظرف ) مقدم ہے.پس از روئے قواعد نحو اس میں حصر ہے جس سے استثناء ممکن نہیں.نوٹ:.اس آیت کی تائید میں یہ آیتیں بھی ہیں:..الَمُ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانَّا أَحْيَاء وأَمْوَاتًا (المرسلات : ۲۷،۲۶) کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹنے والی نہیں بنایا ؟ ٢ - وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلى حِينِ (البقرۃ: ۳۷) اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا ہے اور فائدہ اٹھانا ایک مدت تک.ساتویں دلیل: - وَأَوْطَنِى بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (مريم: ۳۲) ترجمہ:.(حضرت عیسی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں نماز پڑھتا اور زکوۃ ادا کرتا رہوں.استدلال : - حضرت عیسی کا زکوۃ دینا ان کی تمام زندگی بھر فرض قرار دیا گیا ہے اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے پاس زکوۃ دینے کے لائق روپیہ بھی ہوا اور مستحقین زکوۃ بھی زندہ رہیں.پس آسمان میں اگر وہ زندہ فرض کیسے جاویں تو وہاں روپیہ اور زکوۃ لینے والوں کا ایک گروہ بھی ان کے ہمراہ ہونا ضروری ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں.اگر کہو کہ حضرت عیسی کے پاس وہاں مال نہیں اس لیے ان پر زکوۃ فرض نہیں.تو
254 اس کا جواب یہ ہے کہ اگر حضرت عیسی کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ان کے پاس مال نہیں رہنا تھا تو مَا دُمْتُ حَيًّا (مریم: ۳۲) کی بجائے مَا دُمْتُ عَلَى الْأَرْضِ کہنا چاہیے تھا.جس کا مطلب یہ ہوتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ” میں جب تک زمین پر رہوں.زکوۃ دیتا رہوں.پس حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ کا خاص طور پر زکوۃ دینے کا حکم بتاتا ہے کہ حضرت عیسی صاحب نصاب تھے اور جب تک زندہ رہے صاحب نصاب رہے.دوسرا سوال اس آیت کے متعلق یہ ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر جو نماز پڑھتے ہیں تو کس طرف منہ کر کے؟ اگر کہو کہ عرش خداوندی کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں تو اس پر سوال یہ ہے کہ ان کو وہ کیسے معلوم ہوئی.اگر کہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بذریعہ وحی بتا دی ہوگی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح اسلامی نماز اس لئے نہیں پڑھتے کہ یہ آنحضرت پر نازل ہوئی تھی بلکہ اس لئے کہ یہ خود ان پر نازل ہوئی ہے.پس ثابت ہوا کہ ابھی تک موسوی شریعت منسوخ نہیں ہوئی.اگر کہو کہ آنحضرت نے حضرت عیسی کو معراج کی رات عند الملاقات بتادی ہوگی تو یہ غلط ہے.کیونکہ معراج کی رات جب حضرت عیسی آنحضرت سے ملے ہیں اس وقت تک ابھی نماز فرض ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بعد فرض ہوئی.اور نماز کے فرض ہونے کے بعد آنحضرت کے ساتھ ان کی ملاقات ثابت نہیں.پھر سوال یہ ہے کہ حضرت عیسی دار العمل میں ہیں یا دار الجزاء میں ؟ اگر کہو دار العمل میں تو پھر ان پر نما ز وزکوۃ وغیرہ تمام اعمال کا بجالا نا فرض ہے.اور اگر کہ دارالجزاء میں تو وہ دو قسم کا ہے (۱) دوزخ (۲) جنت.حضرت عیسی اول الذکر میں تو جا نہیں سکتے.پس معلوم ہوا کہ وہ جنت میں ہیں اور جنت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ (الحجر: ٢٩) که جنتی جنت سے نکالے نہیں جائیں گے.پس حضرت عیسی اب دنیا میں واپس نہیں آسکتے.آٹھویں دلیل: - وَالسَّلَمُ عَلَى يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ أَبْعَثُ حَيًّا (مريم: ۳۴) ترجمہ:.(حضرت عیسی کہتے ہیں ) کہ سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں دوبارہ اٹھایا جاؤں گا.استدلال :.سلامتی کے یہ تینوں اوقات بعینہ اس سورت میں حضرت بیٹی کے لیے بھی آئے ہیں اور اگر بفرض محال حضرت عیسی زندہ ہیں اور یہود نا مسعود کے نرغے سے بچ کر آسمان پر جا بیٹھے ہیں تو اس
255 سلامتی کا کہاں ذکر ہے؟ وہ تو زیادہ اظہار امتنان کا موقعہ تھا.ان مواقع مذکورہ میں تو سب نبی مور دسلامتی بنتے ہیں ، آپ کے شریک ہیں، لیکن دوا ہم اور عظیم الشان واقعات کی حضرت مسیح کے ساتھ خصوصیت ہے، یعنی آسمان پر جانا اور آسمان سے واپس آنا، یہ سلامتی کے ساتھ ذکر کرنے کے زیادہ قابل تھے.خصوصاً جب کہ یہ مسیح کا کلام ان کے اختیار سے نہیں بلکہ وحی الہی کے ماتحت ہے.نویں دلیل:.آیت وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرَقِيكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتُبًا نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (بنی اسرائیل: ۹۴) کفار نے آنحضرت سے جو نشانات طلب کیے ان میں سے ایک یہ بھی نشان انہوں نے طلب کیا اور سب سے اس کو آخر میں رکھا اور اپنے ایمانی فیصلہ کو اس پر ٹھہرایا کہ آپ آسمان پر جائیں اور وہاں سے کتاب لائیں جس کو ہم پڑھ کر آپ پر ایمان لائیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ حکم دیا کہ کہو میرا رب پاک ہے.میں بندہ رسول ہوں.یعنی اللہ کی قدرت میں تو کسی قسم کا نقص نہیں، لیکن رسول کو آسمان پر لے جانا سنت اللہ نہیں.جائے غور ہے کہ کفار کا یہ کہنا کہ تو آسمان پر چڑھ جاوے اور کتاب لا دے تب ہم ایمان لائیں گے، تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو آسمان پر نہ اٹھالیا تا کہ سب کفار ایمان لے آویں، بلکہ یہ فرمایا کہ ایسا نہ ہو گا.جس کی وجہ یہ ہے کہ تو ایک بشر رسول ہے اور بشر رسول آسمان پر نہیں جایا کرتے.بھائیو! غور کرو جب حضرت عیسی بھی بشر رسول ہیں تو وہ کیونکر آسمان پر جاسکتے ہیں.غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہو آسماں پر مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا دسویں دلیل: آیت وَمَا جَعَلْنَا لِبَر مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَأَبِنْ مِثْ فَهُمُ الْخَلِدُونَ (الانبياء: ۳۵) ترجمہ:.اور ہم نے تجھ سے پہلے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی انسان کو غیر طبعی زندگی نہیں دی.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تو تو فوت ہو جائے اور وہ زندہ رہیں.استدلال :.مسلمانو! دیکھو اللہ تعالیٰ کس قدر غیرت سے فرماتا ہے کہ أَفَأَبِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَلِدُونَ لیکن ایک تم ہو کہ میسی کو تو زندہ مانتے ہو مگر اس سید المعصومین کو فوت شدہ تسلیم کرتے ہو.استدلال صاف ہے، زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ تو تو جوانفع للناس
256 ہے دنیا سے رحلت کر جائے اور اور کوئی تجھ سے پہلے کا زندہ ہو.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے.گیارہویں دلیل: - آیت وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِ مِنْ بَعْدِى اسْمةَ أَحْمَدُ (الصف:۷) حضرت عیسی علیہ السلام نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا اس کا نام احمد ہوگا.تم کہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احمد ہیں تو ثابت ہوا کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں کیونکہ احمد نے بہر حال مِن بَعْدِی ہی آتا ہے.اگر آج بقول تمہارے وہی عیسی ابن مریم واپس آجائیں تو آنحضرت احمد ان سے پہلے ہو جائیں گے نہ کہ بعد.تو کیا اس وقت قرآن میں سے مِنُ بَعْدِی کاٹ کر اس کی جگہ اور تبدیلی کر دو گے؟ پس ثابت ہوا کہ اب جبکہ احمد آچکا ہے تو حضرت عیسی واپس نہیں آسکتے.بارہویں دلیل: آیت وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِيْنَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَ شُرَكَاؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ (يونس: ٢٩) ترجمہ:.اور جس دن ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور پھر ہم ان سے جنہوں نے شرک کیا کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو.پھر ہم ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے اور ان کے معبود مشرکوں سے کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے.اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے.ہم تو یقینا تمہاری عبادت سے غافل ہیں.فَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغْفِلِينَ (يونس:۳۰) ان آیات سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تمام معبودانِ باطلہ خدا کو گواہ رکھ کر کہیں گے کہ ہم کو معلوم نہیں کہ یہ لوگ ہماری عبادت کرتے تھے.ظاہر ہے کہ حضرت عیسی بھی انہی معبودوں میں سے ہیں کہ جن کی خدا کے سوا عبادت کی جاتی ہے.جیسا کہ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (المائدة: ۱۸) سے ثابت ہے.اب اگر بقول غیر احمدیان حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں اور صلیبوں کو توڑیں تو وہ کس طرح قیامت کے دن خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر یہ کہیں گے کہ مجھے معلوم نہیں کہ عیسائی میری عبادت کرتے اور مجھے خدا بناتے تھے؟ یا تو یہ کہو کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی غلط بیانی کریں گے یا یہ تسلیم کرو کہ اب دوبارہ دنیا میں وہ
257 تشریف نہیں لا ئیں گے.یہ تو ممکن نہیں کہ حضرت عیسی“ نعوذ باللہ غلط بیانی سے کام لیں.پس دوسری بات ہی درست ہے کہ وہ واپس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے.و هذا هو المراد.دیگر آیات:.ان مندرجہ بالا آیات کے علاوہ اس مسئلہ پر روشنی ڈالنے والی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :.ا وَاللهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ تُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمُ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا (النحل : ٧١) ترجمہ: اللہ وہ ذات ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو وفات دیتا ہے اور بعض تم میں رذیل ترین عمر (انتہائی بڑھاپے) کی طرف لوٹائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جاننے کے بعد نہ جاننے والا بن جاتا ہے.ہمارے دوست بتائیں کہ کیا حضرت عیسی کے اس قانون سے مستثنیٰ ہونے کا کوئی ثبوت ان کے پاس ہے؟ ہرگز نہیں.٢ - وَمِنْكُمْ مِّنْ يَتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ سینا (الحج: 1) ترجمہ اوپر گزر چکا ہے.٣ وَمَنْ تُعَمِّرُهُ نُنَكِّسُهُ فِي الْخَلَقِ (يس: ٢٩) ترجمہ:.جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں ہم پھر اس کو خلقت میں الٹاتے ہیں یعنی وہ جوانی کے بعد بڑھاپے سے ہوتا ہوانا دان بن جاتا ہے.کیا حضرت عیسی" پر یہ قانون حاوی نہیں؟ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفِ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَ شَيْبَةَ (الروم: ۵۵) ترجمہ: اللہ وہ ذات ہے جس نے تم کو ضعف سے پیدا کیا اور پھر کچھ عرصہ کے لئے قوت عطا فرمائی اور پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا بنایا.بقول مخالفین احمدیت بھی حضرت عیسی نے آسمان پر جانے سے پیشتر قوت پائی تھی.اب اتنے عرصہ کے بعد ضرور ہے کہ آپ دوبارہ ضعف کا شکار ہو چکے ہوں اور دنیا میں آ کر بجائے خدمت دین کرنے کے اپنی ہی خدمت کرائیں.ه وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي
258 الْأَسْوَاقِ (الفرقان: ۲۱) ترجمہ:.ہم نے اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تجھ سے پہلے رسول نہیں بھیجےمگر وہ کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں پھرا کرتے تھے.صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب رسولوں کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے، منجملہ ان کے ایک حضرت عیسی بھی ہیں.لہذا معلوم ہوا کہ آپ بھی اس دار فانی سے رحلت فرما گئے ہیں.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ (البقرة: ۱۵۷) وفات مسیح از احادیث ا لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِى ( تفسیر ابن کثیر زیر آیت اذ أخَدَ اللهُ مِيثَاقَ الشَّيونَ (ال عمران : ۸۱) اليواقيت والـجـواهـر شرح مواہب الله نیه جزء سادس صفحه ۶۳ دار المعرفۃ بیروت لبنان و فتح البیان حاشیه جلد ۲ صفحه ۲۴۶ وطبرانی کبیر ) ترجمہ:.اگر موسی و عیسی زندہ ہوتے تو ان کو میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا.نيز البحر المحيط سورة الكهف استدلال بروفات خضر) ۲- لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى فِى حَيَاتِهِمَا لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ.(مدارج السالکین مصنفہ امام ابن قیم جلد ۲ صفحه ۳۱۳ و بشارات احمد یہ مصنفہ علی حائری شیعه صفحه ۲۴ و برا مین محمد یه بر حاشیه بشارات احمدیہ صفحہ ۴۲) ترجمہ:.اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو ضرور آنحضرت کے اتباع میں ہوتے.لَوْ كَانَ عِيسَى حَيَّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعِی.( شرح فقہ اکبر مصری صفحه..اطبع اول ) ترجمہ:.اگر عیسی زندہ ہوتا تو اسے میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا.نوٹ :.غیر احمدی علماء نے اس حدیث میں يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ (النساء: ۴۷) کے مطابق یہود یا نہ خصلت کو پورا کر کے تحریف کر دی ہے.شرح فقہ اکبر کا جو نسخہ ہندوستان میں چھپا ہے اس میں انہوں نے بجائے عیسی کے موسیٰ کر دیا.اور اس تحریف کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ شرح فقہ اکبر مصری ایڈیشن میں کتابت کی غلطی سے ”موسی کی بجائے عیسی لکھا گیا تھا.ہم نے ہندوستانی ایڈیشن میں درست کر دیا ہے.لیکن یہ عذر کس قدر غیر معقول ہے اس کا علم اس امر سے ہوسکتا ہے کہ شرح فقہ اکبر صفحہ ۹۹ ۱۰۰۰ پر جہاں یہ حدیث ہے موسیٰ" کا ذکر ہی نہیں بلکہ بحث حضرت عیسی اور امام مہدی کی آمد کی
259 ہے.پھر موسیٰ" کا نام اس موقعے پر آنا قرین قیاس ہو ہی نہیں سکتا.چنانچہ ہم مکمل حوالہ نقل کر دیتے ہیں:.يَجْتَمِعُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ بِالْمَهْدِى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ قَدْ أَقِيِّمَتِ الصَّلَوةُ فَيُشِيرُ الْمَهْدِي لِعِيسَى بِالتَّقَدُّمِ فَيَمْتَنِعُ مُعَلَّلًا بِأَنَّ هَذِهِ الصَّلَوةُ أُقِيِّمَتْ لَكَ فَأَنْتَ أَوْلَى بِاَنْ تَكُونَ الْإِمَامُ فِى هَذَا الْمُقَامِ وَيَقْتَدِى بِهِ لِيُظْهِرَ مُتَابِعَتَهُ لِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَشَارَ إِلَى هَذَا الْمَعْنِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِهِ لَوْ كَانَ عِيسَى حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا (شرح فقہ اکبر ملاعلی قاری صفحه ۱۰۰ مطبوعہ مصر ) اتَّبَاعِی ترجمہ:.حضرت عیسی مہدی کے ساتھ ملیں گے، نماز کی اقامت کہی جائے گی تب مہدی آگے کھڑا ہونے کے لئے حضرت عیسی کو اشارہ کریں گے مگر حضرت عیسی“ اس عذر پر انکار کریں گے یہ نماز آپ کی خاطر قائم کی گئی ہے پس اس وجہ سے آپ امامت کے زیادہ حقدار ہیں.پس حضرت عیسی امام مہدی کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے تاکہ حضرت عیسی اس بات کو ظاہر کر دیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ اگر عیسی زندہ ہوتا تو اس کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.“ اب دیکھ لیں اس موقعے پر حضرت عیسی" کے آنحضرت کی متابعت کرنے کا ذکر ہے نہ کہ موسی کی متابعت کا ؟ پس مصری ایڈیشن میں جو عیسی کا لفظ ہے وہ " کا تب کی غلطی نہیں بلکہ ہندوستانی ایڈیشن (خادم) میں ” موسی“ کا لفظ لکھنا یقیناً تمہاری خیانت کا نتیجہ ہے..اخرَجَ الطَّبَرَانِي فِي الْكَبِيرِ بِسَنَدِ رِجَالٍ ثِقَاتٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ ا إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ سَنَةٍ رَوَاهُ الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكَ.( بحوالہ بیج الکرامہ صفحہ ۴۲۸ ومواہب اللدنیہ جلد صفحه ۴۲ و جلالین زیر آیت یعنى انى متوليك راوى ابن عمر حاشیه ) ترجمہ تحقیق عیسی بن مریم ایک سو بیس سال تک زندہ رہے.نیز دیکھو ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۲ صفحه ۴۹.۵ - إِنَّ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةً وَ إِنِّي لَا أُرَانِي إِلَّا ذَاهِبًا عَلَى رَأْسِ السِيِّينَ.(کنز العمال الجزء اكتاب الفضائل فضائل سائر الانبياء صلوات الله و سلامه......
260 ترجمہ: فرمایا حضرت نبی کریم نے کہ تحقیق عیسی ابن مریم ۱۲۰ سال تک زندہ رہا تھا اور میں غالباً ۶۰ سال کی عمر کے سر پر کوچ کروں گا.غیر احمدی:.اس روایت کا ایک راوی ابن لھیعہ سخت ضعیف ہے.‘ محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۶۲۳ طبع ۱۹۵۰ء) جواب :.یہ حدیث ایک طریق سے نہیں بلکہ کم از کم تین طریقوں سے مروی ہے یعنی حضرت عائشہ حضرت ابن عمر اور حضرت فاطمتہ الزہرا سے.اور یہی امر اس حدیث کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے.ابن لهيعه تو ایک طریق کا راوی ہے مگر دوسرے طریقوں کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے؟ خصوصاً اس کا کیا جواب جو لکھا ہے:.اَخرَجَ الطَّبَرَانِى فِى الْكَبِيْرِ بِسَنَدِ رِجَالٍ ثِقَاتٍ (حجج الكرامه صفحه ۴۲۸) اس حدیث کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں.ہے لکھا ہے: ۲.باقی رہا ابن لھیعہ.سو اس کی نسبت اس تہذیب التہذیب میں جس کا حوالہ تم نے دیا سَمِعْتُ التَّوْرِى يَقُولُ عِنْدَ ابْنِ لُهَيْعَةَ الأصُولُ وَ عِنْدَنَا الْفُرُوْعُ.قَالَ يَعْقُوبُ ابنُ عُثْمَانَ سَمِعْتُ أَحْمَدَ ابْنَ صَالِحٍ وَ كَانَ مِنْ خِيَارِ الْمُتَّقِينَ وَ يُثْنِي عَلَيْهِ.وَ قَالَ الْحَاكِمُ اسْتَشْهَدَ بِهِ مُسْلِمٌ فِى مَوْضِعَيْنِ وَ حَكَى السَّاجِي عَنْ أَحْمَدَ ابْنِ صَالِحٍ كَانَ ابْنُ لُهَيْعَةَ مِنَ الثَّقَاتِ....قَالَ ابْنُ شَاهِيْنَ قَالَ أَحْمَدُ ابْنُ صَالِحٍ ابْنُ لُهَيْعَةَ لَثِقَةٌ (تهذيب التهذيب جزء الثالث مطبع دار احياء التراث العربي ذكر عبدالله بن لهيعه صفحه ۲۴۲ تا ۲۴۴) یعنی ثوری نے کہا کہ ابن لہیعہ کے پاس اصول ہیں اور ہمارے پاس فروع.اور بقول یعقوب بن عثمان ابن لہیعہ کی تعریف احمد بن صالح نے کی ہے، اور امام حاکم نے کہا ہے کہ ابن لہیعہ سے امام مسلم نے بھی دو مواقع پر اشتہار کیا ہے اور ساجی اور ابن شاہین کہتے ہیں کہ احمد بن صالح نے کہا ہے کہ ابن لہیعہ ثقہ راوی ہے.نیز لکھا ہے: قَالَ أَبُو دَاوُدَ عَنْ أَحْمَدَ وَ مَا كَانَ مِثْلَ ابْنِ لُهَيْعَةَ بِمِصْرَ فِي كَثُرَةِ حَدِيثِهِ وَضَبْطِهِ وَ اَتْقَانِهِ.تهذيب التهذيب جلد ۵ صفحه ۳۷۵) کہ ابوداؤد نے احمد سے نقل کیا ہے کہ تمام مصر میں ابن لہیعہ کے برابر کوئی شخص بھی حدیث کی کثرت اور مضبوطی روایت اور تقویٰ کے لحاظ سے نہ تھا.
261 باقی مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے جو قول احمد کا ابن لہیعہ کے غیر ثقہ ہونے کی تائید میں نقل کیا ہے اس کے آگے ہی لکھا ہے وَهُوَ يُقَوّى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ (تهذيب التهذيب جلد۵ صفحه۳۷۵) که ابن لہیعہ کی ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت پہنچتی ہے.پس حدیث متنازعہ ایسی ہی ہے جو صرف ایک طریق سے مروی نہیں بلکہ تین مختلف طرق سے مروی ہے.پس نہایت ثقہ اور مضبوط ہے وھوالمراد.- مَا مِنْ نَفْسٍ مَّنْفُوسَةٍ فِى الْيَوْمِ يَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ حَيَّةٌ (کنز العمال جلدے صفحہ ۱۷۰.راوی جابر و مسلم کتاب نمبر 1) ترجمہ:.آج کوئی جاندار ایسا نہیں کہ اس پر سو(۱۰۰) سال آوے اور وہ فوت نہ ہو بلکہ زندہ ہو.یعنی سو سال کے اندر ہر جاندار انسان جانور وغیرہ مر جائیں گے.پس حضرت عیسی بھی فوت ہو گئے.قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلَّهِ رِيحًا يَبْعَثُهَا عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ تَقْبِضُ رُوحَ كُلّ مُؤْمِنٍ.هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْأَسْنَادِ.(مستدرک کتاب الفتن و الملاحم صفحہ ۴۵۷ مطابع النصر الحديثية الرياض ) ترجمہ :.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر سو (۱۰۰) سال کے بعد ایک ایسی ہوا بھیجتا ہے جو ہر مومن کی روح قبض کر لیتی ہے.اس حدیث کی سند صحیح ہے.پس حضرت مسیح بھی بوجہ مومن ہونے کے اس ہوا کی زد سے نہیں بچ سکتے.یادر ہے کہ اس حدیث میں زمین یا آسمان کی کوئی قید نہیں ہے..ابن مردویہ نے ابوسعید سے روایت کیا کہ ادَمُ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا تُعْرَضُ عَلَيْهِ اَعْمَالُ ذُرِّيَّتِهِ وَ يُوسُفُ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ وَ ابْنَاءُ الْحَالَةِ يَحْى وَعِيسَى فِى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ وَ إِدْرِيسُ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ وَ هَارُونُ فِي السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ وَ مُوسَى فِى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ وَ إِبْرَاهِيمُ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ.(کنز العمال كتاب الفضائل فضائل سائر الانبياء صلوات الله و سلامه علیهم اجمعین) ترجمہ:.آنحضرت نے فرمایا کہ آدم پہلے آسمان پر ہے ، اس پر اس کی اولاد کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور یوسف دوسرے آسمان پر ہے اور پھوپھی زاد بھائی سی و عیسی دونوں تیسرے آسمان پر ہیں اور حضرت اور میں چوتھے آسمان میں اور ہارون پانچویں میں اور موسیٰ چھٹے میں اور حضرت ابراہیم
ساتویں آسمان پر ہیں.262 اگر حضرت عیسی بجسد عنصری زندہ آسمان پر ہیں تو کیا باقی سارے انبیاء کو بھی اسی جسم سے زندہ ماننے کے لئے تیار ہو؟ جب نہیں اور ہر گز نہیں تو اکیلے حضرت عیسی کی کیا خصوصیت ہے کہ آپ سب سے نرالے زندہ ہیں؟ و.اختلاف حليتين آنحضرت نے پہلے مسیح کا حلیہ فَلَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ.( بخاری کتاب احادیث الانبیا ءباب قول الله تعالى هل اتاک حدیث موسیٰ ) ترجمہ:.سرخ رنگ، گھنگریالے بال اور مسیح قاتل دجال کا حلیہ : فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَاَحْسَنِ مَا يُرى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنكَبَيْهِ رَجِلُ الشَّعُرِ - ( بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول الله تعالى هل اتاک حدیث موسیٰ) ترجمہ: یعنی ایسا آدمی جو گندم گوں آدمیوں میں سے خوبصورت تر ، اس کے بال اس کے کندھوں پر پڑتے ہیں اور وہ سیدھے بالوں والا ہے.ایک آدمی کے دو حلیے نہیں ہو سکتے.پس ثابت ہوا کہ یہ دوالگ الگ آدمی ہیں.مسیح ناصری اور مسیح موعود.66 پس پہلا سیح فوت ہو چکا ہے اور آنے والا صحیح اسی امت میں سے ہے جیسا کہ اِمَامُكُمُ مِنكُم “ سے ثابت ہے.۱۰.(الف) أَوْحَى اللَّهُ تَعَالَى إِلَى عِيسَى أَنْ يَا عِيسَى انْتَقِلُ مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُؤْذَى.(کنز العمال كتاب الاخلاق من قسم الاقوال ۶۸۴۹) ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کی طرف وحی کی کہ اے عیسی ! تو ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جا.تا ایسا نہ ہو کہ تو پہچانا جائے اور تجھے تکلیف دی جائے.(ب) (عَنْ جَابِرٍ كَانَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُسِيحُ فَإِذَا أَمْسَى يَأْكُلُ بَقْلَ الصَّحْرَاءِ وَ شَرِبَ مَاءَ الْقَرَاحِ - (کنز العمال كتاب الاخلاق من قسم الاقوال ۶۸۴۹) ترجمہ :.حضرت عیسی بن مریم زمین کی سیاحت کیا کرتے تھے اور جنگل کی سبزیاں اور چشموں کا صاف پانی پیا کرتے تھے.
263 وفات مسیح پر اقوال ائمہ سلف سے استنباط ا.امام بخاری (بخاری كتاب التفسير سورة مائدة باب مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَّلَا سَائِبَةٍ وَّلَا وَصِيْلَةٍ وَّلَا حَامٍ - مصری صفحہ (۹) نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی والی مفصل حدیث اور حضرت ابوبکر کا خطبہ اور حضرت ابن عباس کے معنے مسمینگ کو اپنی صحیح میں درج فرما کر اپنا عقیدہ دربارہ وفات مسیح وضاحت سے بیان کر دیا..امام مالک کے متعلق صاف لکھا ہے.قَالَ مَالِكَ مَاتَ (مجمع البحار الانوار زي لفظ حکم جلد اوّل) یعنی حضرت امام مالک نے فرمایا کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں.(البيان والتحصیل از ابوالولید ابن رشد قرطبی صفحه ۴۴۸ مطبوعه مصر ) نیز لکھا ہے.فِي الْعُتُبِيَةِ قَالَ مَالِكٌ مَاتَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ - اكمال الاكمال شرح مسلم جلد ا صفحه ۲۶۵).امام ابوحنیفہ کا امام مالک پرا نکار ثابت نہیں.۴.صاحبین حضرت امام ابو یوسف ومحمد اور حضرت احمد بن حنبل اور امام شافعی نے اس مسئلہ میں سکوت اختیار کر کے بتا دیا کہ ہم اس مسئلہ میں امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے ساتھ ہیں.۵ - جلالین معہ کما لین صفحہ ۱۰۹ مطبع مجتبائی کے حاشیہ بین السطور پر ہے وَ تَمَسَّكَ ابْنُ حَزْمٍ بِظَاهِرِ الْآيَةِ وَقَالَ بِمَوْتِه امام ابن حزم نے آیت انِي مُتَوَفِّيكَ والی آیت کو ظاہر پرمحمول کر کے حضرت عیسی کے فوت ہو جانے کے عقیدہ کو بیان کیا اور وفات کے قائل ہوئے.- عبدالحق صاحب محدث دہلوی اپنے رسالہ مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّةِ صفحه ۴۹ و صفحه ۱۸ اپر فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی ۱۲۵ برس تک زندہ رہے.(قَدْ عَاشَ عِیسَی خَمْسًا وَ عِشْرِينَ سَنَةٍ وَ مِائَةٌ).ے.نواب صدیق حسن خان صاحب نے ترجمان القرآن جلد ۲ صفحہ ۵۱۳ پر لکھا ہے کہ سب انبیاء جو نبی کریم سے پہلے مر چکے ہیں اور مسیح کی عمر ۱۲۰ برس تھی ( نیز عمر مسیح ۱۲۰ سال کے لئے دیکھو حجج الكرامة صفح ۴۲۸) ۸.حافظ لکھو کے والے لکھتے ہیں یعنی جو یں پیغمبر گزرے زندہ رہیا نہ کوئی تفسیر محمدی صفحه ۳۲۰ زیر آیت و ما محمد الا رسول......
264.حضرت محی الدین ابن عربی " فرماتے ہیں : وَجَبَ نُزُولُهُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِهِ بِبَدَنِ اخَرَ.حضرت عیسی آخری زمانے میں ( تفسیر عرائس البیان مطبع نولکشور جلد اصفحه ۲۶۲) کسی دوسرے وجود میں نازل ہوں گے.۱۰.بعض صوفیاء کرام کا مذہب ہے کہ مسیح موعود کا بروز کے طور پر نزول ہوگا.( اقتباس الانوار صفحه ۵۳) عبارت یہ ہے:.و بعض بر آنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و نزول عبارت از میں بروز است ۱۱.حضرت عائشہ صدیقہ نے گواہی دی کہ حضرت مسیح کی عمر ۱۲۰ برس تھی.(زرقاني المقصد الاول في تشريف الله تعالى له عليه الصلوة والسلام يسبق نبوة في سابق ازلية) ۱۲.تفسیر محمدی تعارف سورۃ آل عمران صفحه ۲۴۷ پر وفات عیسی بزبان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بوقت بحث نجران یوں رقمطراز ہے.جو پودے نال مشابہ بیٹا ہوندا شک نہ کوئی ہے زندہ رب ہمیش نہ مرسی ، موت عیسی نوں ہوئی ۱.قَدْ مَاتَ عِیسی عیسی فوت ہو گیا ہے.(ابن جریر جلد ۳ صفحہ ۱۰۶) ۱۴.امام جبائی.اللہ نے مسیح کو فات دی اور اپنی طرف بلایا.تفسیر مجمع البیان زیر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي المائدة : ۱۱۷) ۱۵- تاریخ طبری ذکر الاحداث التي كانت فی ایام ملوک الطوائن المجلد الاول پر مسیح کی قبر کے کتبہ کی عبارت نقل کی گئی ہے: هذَا قَبْرُ رَسُولِ اللهِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ، ،، ۱۲.حضرت علی کی شہادت کی رات حضرت امام حسن نے خطبہ پڑھا اور اس میں کہا.لَقَدْ قُبِضَ اللَّيْلَةَ عُرِجَ فِيهِ بِرُوحِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةَ سَبْعِ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ.(طبقات كبير لابن سـعــد طـبـقـات بــدويين من المهاجرين ذكر عبدالرحمن بن الملجم ) کہ آپ (حضرت علی ) اس رات فوت ہوئے ہیں جس رات حضرت عیسی کی روح آسمان پر اٹھائی گئی تھی یعنی ۲۷ رمضان کو.اس حوالہ میں حضرت امام حسن نے صاف طور پر فیصلہ فرما دیا کہ حضرت عیسی کا جسم آسمان پر نہیں گیا.صرف روح اٹھائی گئی.
265 ۱۷.حضرت داتا گنج بخش تحریر فرماتے ہیں: اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات آدم صفی اور یوسف صدیق اور موسیٰ کلیم اللہ اور ہارون حلیم اللہ اور عیسی روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ کو آسمانوں میں دیکھا...لا زمی وہ ان کی روحیں ہوں گی.“ روح کو.(كشف المحجوب مصنفہ حضرت داتا گنج بخش چھٹی فصل مترجم اردو صفحه ۴۲۲ مطبوعہ ۱۲۷۹ھ ) پس اگر حضرت عیسی جسم سمیت آسمان پر زندہ ہوتے تو آنحضرت ان کے جسم کو دیکھتے نہ کہ ۱۸.حضرت امام رازی اپنی تفسیر میں حضرت ابو مسلم اصفہانی کا یہ قول نقل کرتے ہیں.وَكُلُّ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ يَكُونُونَ عِنْدَ بَعْثِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زُمْرَةِ الْامُوَاتِ وَالْمَيْتُ لَا يَكُونُ مُكَلَّفًا - ( تفسیر کبیر رازی جلد ۲ صفحہ ۷۳۷ مطبوعہ مصر آل عمران ع۹ زیر آیت وَ إِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيْنَ ) یعنی کل انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت فوت ہوکر زمرہ اموات میں شامل ہو چکے تھے اور کسی حکم پر عمل کرنے کے لئے وہ مکلف نہ رہے تھے.۱۹.حضرت خواجہ محمد پارسا اپنی کتاب فصل الخطاب کے صفحہ ۴۷۴ پر تحریر فرماتے ہیں:.وَ مُوسَى وَعِيسَى عَلى نَبِيِّنَا وَ عَلَيْهِمُ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ لَوْ أَدْرَكَاهُ لَزِمَهُمَا الدُّخُولُ فِي شَرِیعته - کہ اگر حضرت موسی و حضرت عیسی آنحضرت کے زمانہ کو پاتے تو ان پر آپ کی شریعت میں داخل ہو نا لا زم تھا.حیات مسیح کا عقیدہ مسلمانوں میں کیونکر آیا؟ فتح البیان جلد ۲ صفحہ ۴۹ پر لکھا ہے:.فَفِی زَادِ الْمَعَادِ لِلْحَافِظِ ابْنِ قَيْمٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى مَا يُذْكَرُ أَنَّ عِيسَى رُفِعَ وَ هُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَ ثَلاثِينَ سَنَةٍ لَا يُعْرَتْ بِهِ أَثْرٌ مُتَّصِلٌ يَجِبُ الْمَصِيرُ إِلَيْهِ.قَالَ الشَّامِيُّ وَهُوَ كَمَا قَالَ فَإِنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يُرُواى عَنِ النَّصَارَى ترجمہ:.حافظ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی ۳۳۴ سال کی عمر میں اٹھائے گئے اس کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی تا اس کا ماننا واجب ہو.شامی نے کہا
266 ہے کہ جیسا کہ امام ابن قیم نے فرمایا ہے فی الواقعہ ایسا ہی ہے.اس عقیدہ کی بناء حدیث رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ یہ نصاری کی روایات ہیں اور ان سے ہی یہ عقیدہ آیا ہے.پہلی دلیل اور اس کی تردید تردید حیات مسیح ناصری علیہ السلام وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبّه لَهُم.بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النساء: ۱۵۸ ۱۵۹) ترجمہ.نہ انہوں ( یہود نا مسعود) نے مسیح کوقتل کیا اور نہ صلیب پر مارا، بلکہ اللہ نے سینے کو اٹھالیا.بل ابطالیہ کا ابطال استدلال علماء : (۱) بَل اضرا بیہ ابطالیہ ہے جو ابطال جملہ اُولیٰ واثبات جملہ ثانیہ کی غرض سے آتا ہے.جب نہ قتل ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے تو یقینا زندہ آسمان پر اٹھائے گئے.جواب:.آسمان پر جانے اور مقتول و مصلوب ہونے میں کوئی ضدیت نہیں.کیا جو نہ مقتول ہو، نہ مصلوب وہ آسمان پر اٹھایا جاتا ہے؟ کیا آنحضرت کو حضرت موسی کو زندہ آسمان پر مانتے ہو؟ کیونکہ نہ وہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب.جواب نمبر ۲:.آیت مذکور میں بل کو ابطالیہ قرار دینا غلط ہے بوجوہات ذیل.قرآن کریم میں ہے وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ بَلِ ادْرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ (النمل: ۲۷،۲۲) الف.اس آیت میں تین دفعہ بل آیا ہے اور تینوں جگہ ابطالیہ نہیں بلکہ ترقی انْتِقَالُ مِنْ غَرْضِ إِلَى اخر ) کے لئے آیا ہے.بَلْ رَفَعَهُ اللهُ الَیهِ والی آیت میں بل کا ماقبل اور مابعد کلام خدا ہے.پس بل ابطالیہ نہیں ہوسکتا.نحویوں نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں بَل ابطالیہ نہیں آسکتا.ہاں جب خدا تعالیٰ کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید اس میں بَل ابطالیہ آسکتا ہے ورنہ اصالتاً خدا تعالیٰ کے کلام میں ابطالیہ وارد نہیں ہوسکتا.ملاحظہ ہو:.ا.مشہور نحوی ابن مالک کہتا ہے.اِنَّهَا لَا تَقَعُ فِي التَّنْزِيلِ إِلَّا عَلَى هَذَا الْوَجْهِ أَيْ لِانْتِقَالِ مِنْ غَرَضِ إِلَى اخَرَ) (القصر المینی جلد ا صفحه ۵۸۲) که قرآن کریم میں بل سوائے ترقی کے اور کسی صورت میں (یعنی بغرض ابطال ) نہیں آتا.
267 ۲- قَالَ السَّيُوطِئُ بَعْدَ أَنْ نَقَلَ غَيْرَ ذَلِكَ أَيْضًا فَهَذِهِ النُّقُولُ مُتَصَافِرَةٌ عَلَى مَا قَالُ ابْنُ مَالِك مِنْ عَدَمِ وُقُوعِ الْاِضْرَابِ الْإِبْطَالِى فِى الْقُرْآنِ (القصر المينى جلد اصفر ۵۸۳) که سیوطی نے بہت سے اقوال اور مثالیں نقل کر کے کہا ہے کہ یہ تمام مثالیں ابن مالک کے اس قول کی تائید کرتی ہیں کہ قرآن میں بل ابطالیہ نہیں آتا.-٣- فَإِنَّ الَّذِى قَرَّرَهُ النَّاسِ فِى اِضْرَابِ الْإِبْطَالِ إِنَّهُ الْوَاقِعُ بَعْدَ غَلَطٍ اَوْ نِسُيَانِ أَوْتَبَدُّلِ رَأْيِ وَالْقُرْآنُ مُنَزَّةٍ عَنْ ذلِكَ (القصر المینی جلد اصفح ۵۸۲ ) کہ نحویوں نے لکھا ہے کہ بل ابطالیہ یا تو غلطی یا نسیان کے بعد آتا ہے اور یا تبدیلی کرائے کے موقع پر اور قرآن مجید میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاسکتیں اس لئے قرآن مجید میں ابطالیہ نہیں آ سکتا.فَجَوَابٌ إِنَّهُ يُحكى (برحاشیہ مغنی اللبیب زیر ذکر بل) کہ ابن مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حکایہ عن الغیر بل ابطالیہ آ سکتا ہے ورنہ نہیں.استدلال نمبر ۲:.قَتَلُوہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی مع الجسم ہیں تو قعہ میں بھی حضرت عیسی مع الجسم اٹھائے گئے ہیں.جواب نمبر :.اول تو رفع کے معنی یہ نہیں لیکن اگر ہوں بھی تب بھی یہ ضروری نہیں کہ دَفَعَہ والی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی مع الجسم ہی ہوں.چنانچہ دیکھئے قرآن مجید میں ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَ لكِنْ لا تَشْعُرُونَ (البقرۃ: ۱۵۵) نہ کہو ان لوگوں کو مردہ جو خدا کی راہ میں شہید کیے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس.اب احیاء کا مبتداء محذوف هم ہے.اس کا مرجع مَنْ يُقْتَلُ ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں حالانکہ لفظ منُ میں یہی جسم مراد ہے.پس کیا ضرور ہے کہ ہم رَفَعَ میں جسم بھی مراد لیں.پھر سورۃ عبس میں ہے قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ...ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس: ۱۸ تا ۲۲) امَاتَهُ اور فَأَقْبَرَہ کی ضمائر کا مرجع الْإِنْسَانُ ہے جو روح اور جسم سے مرکب ہے مگر کیا قبر میں روح اور جسم دونوں اکٹھے رکھے جاتے ہیں؟ موت تو نام ہی إِخْرَاجُ الرُّوحِ مِنَ الْجَسَدِ کا ہے.اگر روح مع الجسم مدفون ہو تو پھر زندہ دفن ہوا جو محال ہے پس یہاں اقبرہ کی ضمیر کا مرجع انسان بمعنی مجرد جسم ہوگا.علم بدیع کی اصطلاح میں اسے صنعت استخدام کہتے ہیں.وَ مِنْهُ الْإِسْتِخْدَامُ وَ هُوَ أَنْ يُرَادَ
268 بِلَفْظِ لَهُ مَعْنَيَانِ اَحَدُهُمَا ثُمَّ بِضَمِيرِهِ الْأَخَرَ اَوْ يُرَادُ بِاحَدِ ضَمِيْرَيْهِ اَحَدُهُمَا ثُمَّ بِالْآخَرِ الأخَرَ (تلخيص المفتاح صفحه ال طبع المجتبائى الواقع في بلدة دهلی ) کہ ایک لفظ جو ذ و معنی ہو اس کی طرف دو ضمیریں پھیر کر اس سے دو الگ الگ مفہوم مراد لینا.مثالیں اوپر درج ہیں.پھر بھی اگر کوئی کہے کہ عیسٹی تو جسم اور روح دونوں کے مجموعہ کا نام ہے پھر تم اکیلی روح کا رفع کیوں مراد لیتے ہو؟ تو اول تو اسے کہنا چاہیے کہ کسی کا نام مختلف حیثیتوں سے ہوتا ہے مثلاً کہیں زید سیاہ ہے تو صرف جسم مراد ہو گا.حالانکہ ہم نے لفظ زید بولا تھا جو جسم اور روح دونوں کا نام تھا مگر قرینہ حالیہ نے اس جگہ اس معنے کو روک دیا.یا کہیں زید نیک ہے تو صرف روح مراد ہوگی.اسی طرح رفع ہمیشہ روح کا ہوتا ہے.اس خا کی جسم کے متعلق تو ازل سے یہی قانون الہی ہے قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (الاعراف: ۲۶) لفظ رفع کی بحث دوم :.ہم حضرت عیسی کے رفع کے قائل ہیں مگر وہ رفع تھا روحانی جو کہ جسم سے اعلیٰ ہے جس طرح کہ روح جسم سے اعلیٰ ہے.جواب نمبر ۳:.بندہ کے لئے جب لفظر فع استعمال ہو تو ہر جگہ درجات کا رفع مراد ہوتا ہے.خصوصاً جب رفع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو کیونکہ اس کی شان اعلیٰ ہے.قرآنِ مجید اور لفظ رَفَعَ ا وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَوتِ وَ فِي الْأَرْضِ (الانعام: ۴) کہ وہ خدا آسمان میں بھی ہے اور زمین میں بھی.۲ - أَيْنَمَا تُوَلَّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقرة: ۱۱۲) کہ جدھر تم منہ کر وادھر ہی اللہ ہے..نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: ۱۷) کہ ہم انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں.تو اس کی طرف رفع کے لئے آسمان پر جانا ضروری نہیں بلکہ وہ رفع اسی زمین پر ہوتے ہوئے ہو جاتا ہے.چنانچہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرت بین السجدتین ( دو سجدوں کے درمیان ) جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ وَار فَعُنِی بھی ہے.یعنی اے اللہ میرا رفع کر.(سنن ابن ماجه كتاب الجنائز باب اقامة الصلواة ما يقول بين السجدتين)
269 سب مومن مانتے ہیں کہ آپ کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر.بھائیو! جب وہی لفظ رَفَعَ آنحضرت کے لئے آتا ہے تو اس سے آسمان پر جانا مراد نہیں لیتے اور جب عیسی کے لئے آوے تو وہاں مراد لیتے ہو.ایں چہ بوالمجمی است ! پھر طرفہ یہ کہ تمام قرآن واحادیث میں کہیں بھی اس لفظ رفع کے معنی آسمان پر جانا نہیں.چنانچہ دیکھئے فرمایا: ا وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعَهُ بِهَا وَلَكِنَة أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ۱۷۷) اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رفع کر لیتے لیکن وہ جھک گیا زمین کی طرف.اس جگہ بالا تفاق درجات کی ترقی مراد ہے.آسمان پر لے جانے کا ارادہ بتانا مد نظر نہیں.۲.وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا (مریم: ۵۸) یعنی ہم نے اور بیس کا رفع بلند مکان پر کیا.فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ في صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ مُرْفُوعَةٍ ۵- وَفَرَسٌ مَّرْفُوعَةٍ يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا دَرَجَةٍ (النور: ۳۷) (عبس: ۱۵،۱۴) (الواقعة: ۳۵) (المجادلة: ١٢) گویا جب بھی کسی مومن اور عالم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ کہے کہ میں نے اس کا رفع کیا ہے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کا بلند ہونا ہوتا ہے.حضرت عیسی سے زیادہ ان کے زمانہ میں اور کون مومن اور عالم تھا؟ پس آپ کے رفع سے مراد بھی ترقی درجات ہے.احادیث اور لفظ رَفَعَ ا إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (كنز العمال الجزء الثالث كتساب الاخلاق قسم الاقوال حدیث نمبر ۵۷۱۷) کہ جب بنده فروتنی کرتا ہے ( خدا کے آگے گرتا ہے ) تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان پر رفع کر لیتا ہے.نوٹ: یہ حدیث محاورہ زبان کے لحاظ سے بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کے معنے سمجھنے کے لئے واضح نص ہے کیونکہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے.رفع کرنے والا بھی اللہ ہے اور خاص بات جواس میں موجود ہے وہ یہ کہ رفع کے فعل کا صلہ بھی الی ہی آیا ہے.جیسا کہ آیت بَلْ زَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ میں ہے.اور زائد بات یہ کہ اس میں ساتویں آسمان کا لفظ بھی موجود ہے (السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ) حالانکہ آیت
270 بَلْ زَفَعَهُ اللهُ الیہ میں آسمان کا لفظ بھی موجود نہیں ہے.وہاں رفع اللہ کی طرف ہے اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَوتِ وَ فِي الْأَرْضِ (الانعام: ۴) کہ اللہ تعالیٰ زمین میں بھی ہے اور آسمان میں بھی مگر مندرجہ بالا حدیث میں تو لفظ آسمان بھی موجود ہے مگر پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمه روحانی رفع یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ حضرت عیسی کے لئے جو لفظ رفع استعمال ہوا ہے اس میں بھی رفع کے معنی بلندی درجات ہی کے ہیں نہ کہ آسمان پر چڑھ جانے کے.مَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ " (مسلم کتاب البر والصلة باب استجاب الـعـفـو والتواضع - مصر) یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اللہ کے آگے گرا ہوا اور پھر اللہ نے اس کا رفع نہ کیا ہو (یعنی جو اللہ کے آگے گرے اللہ اس کا رفع کرتا ہے.).آنحضرت اپنے چچا حضرت عباس کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.رَفَعَكَ اللهُ يَا عَمّ (كنز العمال كتاب الفضائل.فضائل الصحابة حرف العين )اے میرے چا اللہ آپ کا رفع کرے.التَّوَاضُعُ لَا يَزِيدُ الْعَبُدَ إِلَّا رَفْعَةً فَتَوَاضَعُوا يَرْفَعُكُمُ اللهُ (كنز العمال الجزء الثالث كتاب الاخلاق من قسم الاقوال حدیث نمبر۵۷۱۷) کہ خاکساری انسان کو رفعت میں بڑھاتی ہے.پس تم انکساری کرو، اللہ تعالیٰ تمہارا رفع کرے گا.ه - مَنْ تَوَاضَعَ لِلهِ رَفَعَهُ اللهُ (کنز العمال الجزء الثالث كتاب الاخلاق من قسم الاقوال حدیث نمبر ۵۷۱۷) کہ جو شخص اللہ کے آگے گر جائے اللہ اس کا رفع کرتا ہے.٦- مَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ تَخَشُعًا لِلَّهِ رَفَعَهُ الله (کنز العمال جلد ۲ نفر ۲۵ حدیث ۵۹۵ زیر حرف صفحه الهمزة في الاخلاق من قسم الاولى ) کہ جو انکساری کرتے ہوئے اللہ کے آگے گرے تو اللہ اس کا رفع کرتا ہے.لغات عرب اور لفظ رَفَعَ ا.صحاح جوہری زیر لفظ رفع.اَلرَّفْعُ تَقْرِيبُكَ الشَّيْء - رفع سے مراد کسی چیز کو ” “.قریب کرنا ہے.گویا دفع کے معنے قرب کے ہیں.۲.اقرب الموارد زیر لفظ رفع رَفَعَهُ إِلَى السُّلْطَانِ رفعانًا أَيْ قَرَّبَهُ.قریب کیا اس کو بادشاہ کے یعنی اس کا مقرب بنایا.
271.لسان العرب زیر لفظ رفع - فِي أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى الرَّافِعُ هُوَ الَّذِي يَرْفَعُ الْمُؤْمِنَ بِالاسْعَادِ وَ اَوْلِيَاءَ هُ بِالتَقْرِيب.....وَالرَّفْعُ تَقْرِيْبُكَ الشَّيْءَ مِنَ الشَّيْءِ وَفِي التَّنْزِيلِ وَ فُرُشٍ مَّرْفُوعَةٍ أَى مُقَرَّبَةٍ لَهُمُ...وَيُقَالُ نِسَاءٌ مَرْفُوعَاتٌ أَيْ مُكَرَّمَاتٌ مِنْ قَوْلِكَ إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ مَنْ يَّشَاءُ.....وَقَوْلُهُ تَعَالَى فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ قَالَ الزُّجَاجُ قَالَ الْحَسَنُ تَأْوِيلُ أَنْ تُرْفَعَ اَنْ تُعَظَّمَ کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں رافع کا لفظ ہے کیونکہ وہ بلند کرتا ہے مومن کو سعادت کے ساتھ اور اپنے دوستوں کو قرب کے ساتھ.اور رفع کسی چیز کو کسی چیز کے قریب کرنا اور قرآن کریم میں ہے یعنی ان کی عزت کی جائے گی.۴.تاج العروس زير لفظ رفع - الرَّفْعُ ضِدُّ وَضَعَهُ وَ مِنْهُ حَدِيثُ الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ ارْفَعُنِی کہ رفع وضع کی ضد ہے.جیسا کہ حدیث میں دعا ہے کہ اے میرے رب میر ارفع کر..منتہی الارب جلد اصفحہ ۱۷۷ - رَفَعْتُهُ إِلَى السُّلْطَانِ رُفْعَانًا بِالضَّمِّ أَيْ قَرَّبْتُهُ - بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ يَحْتَمِلُ رَفَعَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَ رَفَعَهُ مِنْ حَيْثُ التَّشْرِيفِ (مفردات راغب بر حاشیہ نہایہ لابن الاثیر جلد ۲ صفحه ۸۰) تفاسیر سے رفع کے معنی آنحضرت صلعم کے لئے رَفَعَهُ إِلَيْهِ کا استعمال ا.یہ عجیب بات ہے کہ رَفَعَهُ إِلَيْهِ کے الفاظ بعینہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی استعمال ہوئے ہیں اور اس استعمال سے آیت متنازعہ فیہ کے معنی بالکل واضح ہو جاتے ہیں.چنانچہ تفسیر صافی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے.حَتَّى إِذَا دَعَى اللَّهُ نَبيَّهُ وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ ( تفسیر صافی زیر آیت وَ مَامُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( یعنی حتی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلایا اور آپ کا اپنی طرف رفع کیا ( یعنی آپ کو وفات دی).بعینہ اسی طرح آنحضرت کے لئے رَفَعَهُ إِلَيْهِ کا لفظ بمعنی وفات - کتابُ وَ مَا ثَبَتَ بالسنة ، صفحہ ۳۹ پر بھی ہے.ان ہر دو حوالوں میں لفظ رفع بھی ہے.اللہ فاعل مذکور ہے اور صلہ الی ہے مگر معنی موت کے ہیں.
272 ۲.تفسیر سرسید احمد خان سورة آل عمران زیر آیت ۹۹ تا ۱۰۱.” پہلی آیت میں اور چوتھی آیت میں لفظ رفع کا بھی آیا ہے جس سے عیسی کی قدر و منزلت کا اظہار مقصود ہے نہ یہ کہ ان کے جسم کو اٹھا لینے کا.“ تفسیر کبیر.اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ أَيْ وَ رَافِعُ عَمَلِكَ إِلَيَّ وَ هُوَ كَقَوْلِهِ تَعَالَى إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّب (فاطر: (۱) وَالْمُرَادُ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ أَنَّهُ تَعَالَى بَشَّرَهُ بِقَبُولِ طَاعَتِهِ وَ اَعْمَالِهِ...الخ.رَافِعُكَ اِلَی کے معنے ہیں کہ میں تیرے اعمال کو اٹھانے والا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرح اشارہ ہے.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کا ان کی نیکیوں کے قبول کرنے کی بشارت دی.وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ.هُوَ الرَّفْعَةُ بِالدَّرَجَةِ وَالْمَنْقَبَةِ لَا بِالْمَكَان وَالْجِهَةِ - ( تفسير كبير زير آيت اذْقَالَ اللَّهُ یعنی ) یعنی اس آیت سے جو مسیح کا رفع ثابت ہوتا ہے یہ درجات کی ترقی اور عزت کا رفع مراد ہے، رفع مکانی (جیسا کہ غیر احمدی مانتے ہیں ) اور جہت والا مراد نہیں.۴.تفسیر جامع البیان زیر آیت إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى رَافِعُكَ إِلَيَّ أَى مَحَلٌ كَرَامَتِی.یعنی اپنے عزت کے مقام کی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں.گویا جنت میں داخل کروں گا.به فرموده يايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِيدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ۵ تفسیر روح البیان جلد اصفحہ ۳۳۱ - رَافِعُكَ إِلَى أَى إِلَى مُحَةٍ كَرَامَتِي وَ مَقَرٍ مَلَائِكَتِي وَ جَعَلَ ذَلِكَ رَفْعًا إِلَيْهِ لِلتَّعْظِيمِ وَ مِثْلُهُ قَوْلُهُ ( إِنِّي ذَاهِبٌ إِلى رَبِّي ) الصفت : ١٠٠) وَ إِنَّمَا ذَهَبَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْعِرَاقِ إِلَى الشَّام.یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنی طرف رفع فرمانا صرف تعظیم کے لئے ہے جیسا کہ اس کے قول میں ہے اتِي ذَاهِب إلى رتی.حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف عراق سے شام کی طرف گئے تھے.لفظ رَفَعَ کے متعلق چیلنج مندرجہ بالا تحقیق سے ثابت ہے کہ قرآن مجید، احادیث، تفاسیر اور عرب کے محاورہ کے رو سے لفظ رفع جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے، تو اس کے معنی ہمیشہ ہی
273 بلندی درجات اور قرب روحانی کے ہوتے ہیں.ہم نے غیر حدی علماء کو بارہا یہ پانی دیا ہے کہ وہ کلام عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اللہ تعالیٰ مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لینے کے ہوں مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ ہی آئندہ پیش کی جاسکے گی.غیر احمدی علماء کے مطالبہ کا جواب ہمارے مندرجہ بالا چیلنج کا منہ چڑانے کے لئے مؤلف محمدیہ پاکٹ بک نے بھی اپنی پاکٹ بک کے صفحہ ۴۸ ۵ طبع ۱۹۵۰ء پر یہ لکھ کر اپنی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے.جب رَفَعَ يَرْفَعُ رَفْعًا فَهُوَ رَافِعٌ میں سے کوئی بولا جائے جہاں اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول جو ہر ہو ( عرض نہ ہو ) اور صلہ السی مذکور ہو اور مجرور اس کا ضمیر ہو،اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو، وہاں سوائے آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں.“ جواب نمبر : تم نے یہ من گھڑت قاعدہ کہاں سے اخذ کیا ہے.کہو کہ جس طرح تم نے رفع کے متعلق اپنے چینج میں ایک قاعدہ خود ہی بنالیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی بنا لیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم لفظ رفع کے متعلق چیلنج مندرجہ بالا میں جو شرائط درج کی ہیں وہ ہمارے خود ساختہ یا خود تراشیدہ نہیں بلکہ لغت عرب میں درج ہیں.چنانچہ لسان العرب زیر مادہ دفع میں لکھا ہے: بالتقريب.فِي أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى الرَّافِعُ هُوَ الَّذِى يَرْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ بِالْإِسْعَادِ وَ أَوْلِيَاءَ هُ کہ رافع اللہ تعالیٰ کا نام ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومنوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ ان کو سعادت بخشتا ہے اور اپنے دوستوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ ان کو اپنا مقرب بنالیتا ہے.گویا اللہ کے رفع کا فاعل اور انسان (مومن اولیاء) کے مفعول ہونے کی صورت میں لفظ رفع کے معنی بلندی درجات وحصول قرب الہی ہے.پس ہمارے چیلنج کی شرائط تو مندرجہ بالا حوالہ لغت پر مبنی ہیں مگرتم بتاؤ کہ تم نے جو قاعدہ درج کیا ہے اس کی سند محاورہ عرب میں کہاں ہے؟ جواب نمبر ۲:.تمہارے من گھڑت قاعدہ کی تغلیظ کے لئے مندرجہ ذیل دو مثالیں کافی ہیں:
274 ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.حَتَّى إِذَا دَعَى اللَّهُ نَبِيَّةَ وَ رَفَعَهُ إِلَيْهِ ( تفسیر صافی صفحه ۱۳ از بر آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول ) یعنی حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا اور ان کا اپنی طرف رفع کر لیا.۲.حضرت شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی، حافظ عبدالبر کا مندرجہ ذیل قول آنحضرت کی وفات کی نسبت نقل کرتے ہیں : كَانَ الْحِكْمَةُ فِي بَعْثِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَايَةَ الْخَلْقِ وَتَتْمِيْمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ وَ تَكْمِيلَ مَبَانِي الدِّينِ فَحِيْنَ حَصِلَ هَذَا الْآمُرُ وَ تَمَّ الْمَقْصُودُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ - (ماثبت بالسنة صفحه ۹۲ ومطبع محمدی لاہور صفحہ ۲۹) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت میں حکمت محض یہ تھی کہ مخلوق کو ہدایت ہو اور اخلاق اور دین کی تکمیل ہو.پس جب یہ مقصود حاصل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی طرف رفع فرمالیا.ان ہر دو حوالجات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن میں اللہ فاعل ، مفعول جو ہر ہے عرض نہیں ، صلہ بھی الی مذکور ہے اور مجر ور اسم ظاہر نہیں بلکہ ہ کی ضمیر ہے اور یہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہے مگر یہاں معنی آسمان پر مع جسم عصری اٹھائے جانے کے نہیں بلکہ متفقہ طور پر فوت ہو جانے کے معنی ہیں.لفظ رفع کی دوسری مثالیں پہلے گزر چکی ہیں.) قرآن کریم اور لفظ الی ا إِنِّي ذَاهِب إلى رَبِّي (الصفت: ١٠٠) ٢- الي مُهَاجِرُ إلى ربى ٣- إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ ه إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ 4 - إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (العنكبوت: ۲۷) (یونس: ۵ و الانعام: ۶۱) (الثريت: ۵۱) (البقرة: ۱۵۶) (البقرة: ٢٩)
275 اس استدلال پر چند اعتراضات اس آیت سے اگر حضرت عیسی کا آسمان پر جانا مراد ہو سکتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر محدود ہے اور وہ بھی دوسرے آسمان پر حالانکہ محدودیت باری تعالیٰ محال ہے.پس عقیدہ حیات مسیح بھی محال ہے.دوم: - کتب نحو میں السی کے معنی لکھے ہیں کہ یہ انتہاء غایت کے لئے آتا ہے تو اب اگر آسمان پر جانے کے معنی درست ہوں تو ماننا پڑے گا کہ (نعوذ باللہ ) حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلو بہ پہلو بیٹھے ہیں اور درمیان میں کچھ بھی فاصلہ نہیں.ورنہ پورے طور پر السی کے معنی متحقق نہیں ہو سکتے.پس ان معنوں پرضد کرنا سراسر جہالت ہے.استدلال نمبر ۳ "كَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء : ۱۵۹) خدا تعالیٰ نے خود اپنی طاقت اور قدرت کا ذکر کر کے بتا دیا ہے کہ یہاں آسمان پر جانا ہی مراد ہے.جواب الف :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر غار ثور میں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں سے بچایا تھا تو اس کا ذکر سورۃ التوبۃ: ۴۰ میں کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ کیا اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان پر اٹھالئے گئے تھے؟ یا زمین پر ہی رکھ کر خدا تعالیٰ نے حضور کو محفوظ رکھا اور اپنی قدرت کا ثبوت دیا.ب:.قدرت کسی چیز کو چھپانے میں نہیں بلکہ دشمن کے سامنے رکھ کر محفوظ رکھنے میں ہے.لہذا تمہارے اعتقاد کی رُو سے خدا تعالیٰ بزدل ٹھہرتا ہے.کیا زمین پر حضرت عیسی کو رکھنے میں یہودیوں کا خوف تھا؟ (نعوذ بالله) حیات مسیح کی دوسری دلیل وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرنَ بِهَا (الزخرف: ٢٣) ترجمہ بقول غیر احمدیان:.حضرت عیسی قیامت کی نشانی ہیں.پس تم اس میں مت شک کرو بلکہ اس پر ایمان لاؤ.جواب نمبرا: انہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی کا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کا مرجع قرآن کریم یا آنحضرت مانے چاہئیں.چنانچہ تفسیر معالم التنزیل میں زیر آیت طذ الکھا ہے: قَالَ الْحَسَنُ وَ جَمَاعَةٌ إِنَّهُ يَعْنِى اَنَّ الْقُرآنَ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ کہ حضرت امام حسن اور
276 ایک جماعت کا قول ہے کہ انہ کی ضمیر کا مرجع قرآن کریم ہے.پھر تفسیر جامع البیان میں بھی اس آیت وإِنه لَعِلْمُ السَّاعَةِ (الزخرف: (۶۲) کے نیچے لکھا ہے کہ وَقِيلَ الضَّمِيرُ لِلْقُرآنِ کہ بعض نے اس ضمیر کا مرجع قرآن کریم کو ٹھہرایا ہے.پھر تفسیر مجمع البیان میں اس آیت وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ (الزخرف: ۶۲) کے ماتحت لکھا ہے.وَقِيلَ إِنَّ مَعْنَاهُ أَنَّ الْقُرْآنَ لَدَلِيْلٌ لِلسَّاعَةِ ِلأَنَّهُ اخِرُ الْكُتُبِ کہ بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ قرآن کریم قیامت کی دلیل ہے کیونکہ وہ آخری کتاب ہے.اگر تمہاری بات ہی کو درست فرض کر لیا جائے تو اس صورت میں ان کی ضمیر کا مرجع ابن مریم مثلاً ( یعنی مثیل مسیح) ماننا ہوگا.مثل کے معنی لغت میں اَلشَّبُهُ وَالنَّظِيرُ (المنجد زیر ماده مثل) مانند اور نظیر کے ہیں یعنی مثیل.وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصدُّونَ “ (الزخرف: ۵۸) کہ جب ابن مریم کا مثیل بھیجا جائے گا تو خود آنحضرت کی قوم کہلانے والے لوگ اس پر تالیاں بجائیں گے.نیز منتهی الارب فی لغات العرب زیر مادہ مثل میں بھی مشکل کے معنے ماند اور ہمتا او نظیر کے لکھے ہیں.چنانچہ ہمارے بیان کردہ ان معنوں کی تائید شرح لشرح العقائد اسمی بالنبر اس ( جو اہلسنت کے عقائد کی معتبر کتاب ہے ) کے حاشیہ کی مندرجہ ذیل عبارت سے ہوتی ہے.قَالَ مَقَاتَلُ ابْنُ سُلَيْمَانَ وَ مَنْ تَابَعَهُ مِنَ الْمُفَسِرِينَ فِي تَفْسِيرِ قَوْلِهِ تَعَالَى وَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ.قَالَ هُوَ الْمَهْدِى يَكُونُ فِى اخِرِ الزَّمَانِ وَ بَعْدَ خُرُوجِهِ تَكُونُ أَمَارَاتُ السَّاعَةِ (شرح لشرح العقائد المسمّى بالنبراس صفحہ ۴۴۷ حاشيــه لـحـافـظ محمد عبد العزيز الفرهاروی ۱۳۱۳ھ ) کہ مقاتل بن سلیمان اور اس کے ہم خیال مفسرین نے لکھا ہے کہ إِنَّهُ لَعِلم لِلسَّاعَةِ سے مراد مہدی ہے جس کی آمد کے بعد قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوں گی.نوٹ:.تالیاں بجانے کی قرآنی پیشگوئی کو غیر احمدی قریباً ہر مناظرہ کے موقع پر پورا کیا کرتے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اِنَّمَا التَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ (بخارى كتاب السحو باب الاشارة في الصلوة جلد ا صفحه ۴ ۸ مصری و تجرید بخاری مترجم حدیث صفحہ ۳۸۷) یعنی تالیاں بجانا صرف عورتوں کا کام ہے.(خادم)
277 غیر احمدی:.اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے مسند احمد جلدا صفحہ ۳۱۷ المكتب الاسلامی بیروت و در منشور زیر آیت وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ.....وفتح البیان زیر آیت وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ وابن كثير وانْ مَنْ أَهْلِ الكتب الا ليُؤْمِنَنَّ بِہ میں مروی ہے کہ اس آیت میں نزول مسیح قبل از قیامت مراد ہے.ایسا ہی ابن جریر جلد ۵ صفحہ ۴۸ میں ہے.( محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۶۶-۵۶۷ مطبع ۱۹۵۰ء) جواب:- در منثور اور فتح البیان میں تو تمہاری پیش کردہ روایت کی سند درج نہیں ہے.البتہ ابن کثیر اور ابن جریر میں جس قدر سندات سے یہ تفسیر مروی ہے وہ سب کی سب موضوع ہیں.ابن کثیر میں یہ روایت دو طریقوں سے مروی ہے اور دونوں کا راوی عاصم بن ابی النجو د ہے جو ضعیف ہے.اس کے متعلق لکھا ہے: ثَبَتَ فِي الْقِرَأَةِ وَ هُوَ فِى الْحَدِيثِ دُونَ الثَّبُتِ....قَالَ يَحْيَ القَطَّانُ مَا وَجَدْتُ رَجُلًا اِسْمُهُ عَاصِمٌ إِلَّا وَجَدْتُهُ رَوى الْحِفْظَ وَ قَالَ النَّسَائِي لَيْسَ بِحَافِظِ وَ قَالَ الدَّارُ قُطْنِي فِي حِفْظِ عَاصِمٍ شَيْءٍ وَ قَالَ ابْنُ خَرَاشٍ فِي حَدِيثِهِ نَكَرَةٌ وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ لَيْسَ مَحَلُّهُ أَنْ يُقَالَ ثِقَةٌ (ميزان الاعتدال ذكر عاصم بن ابی النجود مصنفه علامه ذهبی شمس ) که بهہ راوی قرآن مجید اچھا پڑھتا تھا لیکن حدیث میں مضبوط راوی نہ تھا.بیٹی کہتے ہیں کہ عاصم نام کا میں نے کوئی راوی اچھے حافظہ والا نہیں دیکھا.امام نسائی نے بھی اس راوی کے متعلق کہا ہے کہ یہ اچھارا وی نہ تھا.ابن خراش نے کہا ہے کہ یہ منکرۃ الحدیث تھا اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ ثقہ نہ تھا.ابن جریر کے طریقوں میں سے پہلے تین میں تو یہی عاصم بن ابی النجو د راوی ہے جو منکر الحدیث اور غیر ثقہ ہے.علاوہ ازیں پہلے طریقہ میں ابن عاصم کے علاوہ ایک راوی ابو یکی مصدع بھی ہے جس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ غیر ثقہ تھا نیز لکھا ہے کہ قَدْ ذَكَرَهُ الْجَوْزُ جَانِى فِى الضُّعَفَاءِ....وَ قَالَ ابْنُ حَبَّانِ فِي الضُّعَفَاءِ كَانَ يُخَالِفُ الْإِثْبَاتَ فِى الرِّوَايَاتِ وَ يَنْفَرِدُ بِالْمَنَاكِيرِ.(تهذيب التهذيب ذكر مصدع ابوتيجى الا عرج المعرقب ) کہ یہ راوی ضعیف اور نا قابل اعتبار ہے.ابن جریر کے دوسرے طریقہ میں عاصم کے علاوہ ایک راوری غالب بن فائد ہے.اس کے متعلق علامہ ذہبی لکھتے ہیں: قَالَ الْأَزْدِي يَتَكَلَّمُونَ فِيهِ وَقَالَ الْعُقَيْلِيُّ يُخَالَفُ فِي حَدِيثِهِ (ميزان الاعتدال ذكر غالب بن فائده ) کہ اس راوی کے ثقہ ہونے میں محدثین کو کلام ہے اور عقیلی نے کہا کہ اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جاتا.
278 اس طرح حافظ ابن حجر نے لسان الميزان حرف الحاء ذكر الحسين بن عبدالله بن ضمیره بن ابی ضمیرہ الجزء الثانی پر عقیلی کا قول اس راوی کی نسبت نقل کیا ہے کہ صَاحِبُ وھم کہ یہ وہی آدمی تھا.اسی طرح ابن جریر کی چوتھی روایت کا ایک راوی فضیل بن مرزوق الرقاشی ہے جو شیعہ تھا اس کے متعلق ابو حاتم کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اس راوی کی روایت حجت نہیں اور قَالَ النَّسَائِی ضَعِيفٌ نیز ابن حبان نے اسے خطا کار اور ضعیف قرار دیا ہے نیز ابن معین نے بھی اسے ضعفاء میں شمار کیا ہے.(تهذيب التهذيب ذكر فضل بن مرزوق الجزء الرابع) پس یہ ہے تمہاری پیش کردہ تفسیر ابن عباس “ کی حقیقت.باقی رہی تمہاری شب معراج میں انبیاء کی چار کونسل والی ابن ماجہ کی روایت سو اس کی حقیقت حیات مسیح کی پندرہویں دلیل کے جواب میں دیکھو صفحہ ۳۰۱.غیر احمدی :.حضرت مرزا صاحب نے اعجاز احمدی صفحہ ۲۱ اور حمامۃ البشری پہلا ایڈیشن کے صفحہ و پر انہ کی ضمیر کا مرجع مسیح کو مانا ہے.(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۶۶ - ۵۶۷ مطبع ۱۹۵۰ء) جواب نمبر :.حضور نے بھی اسی صورت میں مانا ہے جس صورت میں ہم نے ایسا ہی مان کر جواب نمبر ۳۰۲ میں اس کا مفہوم بیان کیا ہے یعنی اس رنگ میں کہ اگر ان کی ضمیر کا مرجع مسیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی اس سے حیات مسیح ثابت نہیں ہوتی.کیونکہ اس صورت میں اس سے مراد مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی یا ہلاکت بنی اسرائیل کی پیشگوئی کی جائے گی.جواب نمبر ۲:.علم کے معنی ہیں جاننا.یہ مصدر ہے اور مصدر کبھی کبھی مبالغہ کے لئے بھی آ جاتا ہے.جیسے کہتے ہیں زَيْدٌ عَدْلٌ.زید بہت عادل ہے.اسی طرح یہاں ہے کہ مسیح قیامت کا اچھی طرح جاننے والا تھا یعنی اس کو یقین تھا کہ قیامت ہوگی اور وہاں وہ اپنے دشمنوں کو پابہ زنجیر دیکھے گا.اس میں یہود پر بھی ایک حجت ہے کیونکہ ان کا ایک گروہ منکرِ قیامت تھا یا وہ یہود نا مسعود کی ہلاکت کے وقت کو جانتا تھا.اگر نشانی بھی تسلیم کیا جائے تو ساعت سے مراد قیامت گبر کی تو ہو نہیں سکتی.جیسا کہ جواب نمبر میں گزر چکا ہے ہاں یہود کی ہلاکت کی گھڑی مراد ہو سکتی ہے اور مطلب یہ بن جائے گا کہ عیسی بن مریم کا بے باپ پیدا ہونا یا مبعوث ہونا اس بات کا بدیہی نشان تھا کہ سب بنی اسرائیل گندے ہو چکے ہیں اور ان کی ہلاکت دروازے پر کھڑی ہے.
279 جواب نمبر ۳:.ساعت سے مراد ہلاکت بنی اسرائیل کی گھڑی بھی ہوسکتی ہے.جواب نمبر ۴:.اگر فی الواقعہ یہ معنی درست ہوتے جو ہمارے دوست کرتے ہیں تو اگلے حصہ فَلا تَمْتَرُنَّ بِهَا (الزخرف: ۶۲) کالا نا لغو بن جاتا ہے کیونکہ یہ بات معقولیت سے بعید ہے کہ ابھی وہ نشانی آئی بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ آنحضرت کے منکروں کو فرماتا ہے کہ تم اس میں شک نہ کرو.ظاہر ہے کہ جب ابھی نشانی نے ایک نا معلوم مدت کے بعد آنا ہے تو ان کوشک سے ابھی کس بنا پر روکا جا تا ہے.پس معلوم ہوا کہ اس جگہ مسیح قیامت کی نشانی ہونے کا تذکرہ نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید کو قیامت کی نشانی ٹھہرایا گیا ہے ورنہ یہ حصہ بے معنی بنتا.جواب نمبر ۵:.فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا کے بعد ہے وَاتَّبِعُونِ کہ میری پیروی کرو.اگر قیامت کی نشانی مسیح تھے، تو اس کی مناسبت میں یہ فرمانا چاہیے تھا کہ تم اس کی پیروی کرنا.یہ کہنے کے کیا معنی کہ میری اتباع کرو.اس میں یہ کہہ کر کہ میری پیروی کرو، صاف بتا دیا کہ کوئی مسیح ناصری نہ آئے گا بلکہ تم اسے مسلمانو ! خود مسیح بنو اور اس کا طریق یہ ہے کہ تم میری اتباع کرو.لطیفہ: یہ متنازعہ فیہا آیت سورۃ زخرف کی ہے جس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ میں چونکہ عِلْمٌ لِلسَّاعَةِ ہیں اس لئے وہ ضرور قیامت سے پیشتر تشریف لائیں گے لیکن اگر مسیح کو عِلْمٌ لِلسَّاعَةِ مان بھی لیا جاوے تب بھی آپ اُمتِ محمدیہ میں نہیں آسکتے.کیونکہ اس سورۃ کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (الزخرف: ۸۶) کہ وہ عِلمُ السَّاعَة جسے تم دوبارہ زمین پر اتار رہے ہو وہ اب اللہ کے پاس بیٹھا ہے وہ تو تمہارے پاس ہرگز نہ آئے گا ہاں تم ہی اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے.پس اس کی انتظار فضول ترک کر دو.حیات مسیح کی تیسری دلیل وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (النساء:۱۲۰) ترجمہ:.اور کوئی اہل کتاب (یہودی) نہیں مگر وہ حضرت عیسی پر ضرور ایمان لائے گا اس کی موت سے پیشتر ، یعنی حضرت عیسی کے مرنے سے پہلے سب یہودایمان لائیں گے.چونکہ فی زماننا وہ سب ایمان نہیں لا رہے اس لئے ماننا پڑے گا کہ آپ اسی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں تشریف لا کر کفار سے منوائیں گے.جواب:.غیر احمدیوں کا مندرجہ بالا استدلال بہ ایں وجوہ باطل ہے.
280 وجہ اول:.یہ وہ ایمان ہے جس میں اہل کتاب کا ہر فرد شامل ہے کیونکہ لفظ ان من حصر کے لئے آتے ہیں اور جو ایمان غیر احمدی مراد لیتے ہیں وہ ہزار ہا مرنے والے اہل کتاب میں نہیں پایا جاتا.پس اگر یہ معنی ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان سب اہل کتاب کو حضرت عیسی کی آمد ثانی تک زندہ رکھتا تا وہ ایمان لے آویں اور خدا کا فرمودہ سچ ثابت ہو لیکن جب ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ معنی ہی غلط ہیں.اس جگہ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ سب یہودی ایمان لائیں گے جو اس وقت موجود ہوں گے.تو اوّل تو اس آیت میں اس کا ذکر نہیں.دوم احادیث میں صاف لکھا ہے کہ اصفہان کے ۷۰ ہزار یہود دجال کے ساتھ ہوں گے جو مارے جائیں گے اور کنز العمال كتاب القيامة من قسم الاول الفصل الثالث في اشراط الساعة جلدے صفحہ اے امصری.مطبوعہ حیدر آباد جلدے صفحہ ۱۷۴.پر لکھا ہے کہ ۲ ہزار یہودی عورتیں حضرت مسیح کا اتباع کریں گی.پس یہ معنی بھی غلط ہیں.وجہ دوئم:.یہ معنی اس لئے غلط ہیں کہ آگے پیچھے اس کے سب یہود کی بدیاں بھری ہوئی ہیں اور جو ان میں سے نیک ہیں ان کی نیکیوں کا ذکر لكن الرسحُونَ (النساء: ۱۶۳) سے ہوتا ہے.تو اب یہ طریق حکمت کے خلاف ہے کہ ایسی عظیم الشان نیکی کے بعد بھی ان کی بدیاں مذکور ہوں اور معاف نہ کی جائیں.پھر جس طرح یہ بات حکمت کے برخلاف ہے اسی طرح یہ قرآن کریم کے طرز بیان کے بھی بر عکس ہے اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ معنی ہی غلط ہیں.وجہ سوم.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كثيرا (النساء: ۸۳) کہ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اتنی بڑی کتاب میں ضرور کوئی اختلاف ( قوانین قدرت کے مضامین وغیرہ میں ) ہوتا.ایسا نہ ہونے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صداقت پر دلیل بیان فرمایا ہے، لیکن اگر غیر احمدیوں کے معنی صحیح تسلیم کیے جائیں تو قرآن کریم میں اختلاف پڑ جاتا ہے کیونکہ اس آیت سے ماقبل فرمایا ہے ” فَلَا يُؤْمِنُوْنَ إِلَّا قَلِيلًا (النساء: ۴۷) کہ یہ تھوڑا مانیں گے بلکہ مانیں گے ہی نہیں لیکن یہاں کہہ دیا کہ ”سب ایمان لے آئیں گئے“ (بقول غیر احمدی صاحبان ).وجہ چہارم :.خدا تعالیٰ حضرت عیسی کو فرماتا ہے وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ القِيمة (ال عمران : ۵۶) کہ میں تیرے متبعین کو یہود پر قیامت تک غلبہ دوں گا اور پھر فرماتا ہے فَأَغْرَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ (المائدة: ۱۵) کہ ہم نے ان میں قیامت تک بغض
281 اور عداوت ڈال دی ہے اور پھر الـمـائـدة : ۶۵ میں ہے.وَالْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إلى يَوْمِ القِيمة..اب ذرا سوچو کہ اگر سب اہل کتاب ایمان لے آئیں اور سب یہودی حضرت عیسی کے متبع ہو جائیں تو پھر ان پر تا قیامت غلبہ کیونکر ؟ اور ان میں بغض و عداوت کیسی ؟ پس ماننا پڑے گا کہ یہ معنی ہی غلط ہیں.وجہ پنجم.مَوتِہ میں کی ضمیر کی بجائے دوسری قراءت میں ھم کا لفظ آیا ہے جو جمع ہے اور جس سے صرف اہل کتاب ہی مراد لئے جا سکتے ہیں ٹھسم کے لئے دیکھیں عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ قَالَ هِيَ فِى قَرَاءَةِ أَبَيِّ قَبْلَ مَوْتِهِمْ.(ابن جرير جلد ۶ صفحه۱۵) یعنی ابن عباس نے فرمایا کہ ابی بن کعب کی قراءت میں مَوْتِہ کی جگہ مَوْتِهِمْ آیا ہے.قَبْلَ مَوْتِهِمْ کے راوی غیر احمدی: - قَبلَ مَوْتِهِمُ والی قراءت جو ابن عباس سے مروی ہے کذب محض ہے.اس میں دوراوی خصیف اور عتاب بن بشیر مجروح ہیں.( محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۶۲ ۵ طبع ۱۹۵۰ء) جواب:.ابن جریر نے ابن عباس سے پانچ روایات قَبْلَ مَوْتِهِمُ والی قراءت کی نقل کی ہیں جن میں سے چار روایات ایسی ہیں جن میں یہ دونوں راوی نہیں ہیں.پس دوسری روایات تو تمہارے نزدیک بھی قابل اعتراض نہ ٹھہریں.تو ابن عباس سے مَوتِهم والی قراءت ثابت تو ہوگئی.اعتراض کیا رہا.۲.باقی رہی پانچویں روایت جس کے راوی خصیف اور عتاب بن بشیر ہیں تو یہ روایت بھی درست ہے.خصیف بن عبد الرحمن کے متعلق لکھا ہے:.قَالَ ابْنُ مُعِينٍ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ وَ قَالَ مَرَّةً ثِقَةٌ.....قَالَ ابْنُ سَعْدٍ كَانَ ثِقَةٌ قَالَ السَّاجِي صُدُوقٌ (تهذيب التهذيب ذكر خصيف بن عبدالرحمن الجزری ) کہ خصیف ثقہ راوی تھا.جن لوگوں نے خصیف پر اعتراض کیا ہے ان کے نزدیک وہ روایت جو خصیف سے عبدالعزیز بن عبد الرحمن روایت کرے وہ نا قابل اعتبار ہوتی ہے.کیونکہ لکھا ہے وَ الْبَلاءُ مِنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ لَا مِنْ خَصِيْفِ (ایضاً) یعنی نقص عبدالعزیز میں ہے نہ کہ خصیف میں لیکن روایت متنازعہ میں عبدالعزیز راوی نہیں ہے.اس طرح اس روایت کا دوسرا راوی عتاب بن بشیر بھی قابل اعتبار اور ثقہ ہے جیسا کہ لکھا ہے:.قَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِيُّ عَنْ أَبِى مُعِينٍ ثِقَةٌ...كَذَا أَرْخَهُ ابْنُ حَبَّانَ فِي الثَّقَاتِ....قَالَ الْحَاكِمُ عَنْ الدَّارِ قُطْنِى ثِقَةٌ (تهذيب التهذيب ذكر عتاب بن بشير الجزرى )
282 یعنی عتاب بشیر کو ابن معین اور ابن حبان اور دار قطنی نے ثقہ قرار دیا ہے.غیر احمدی:.ابن جریر میں ابن عباس کا قول قَبْلَ مَوْتِ عیسی سعید بن جبیر کے طریق سے باسناد صحیح درج ہے.بحوالہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۷۲ ۵ طبع ۱۹۵۰).جواب:.ابن جریر میں سعید بن جبیر کے طریق سے صرف دو روایات درج ہیں.پہلی روایت محمد بن بشار نے ابن مہدی عبد الرحمن سے اور اس نے سفیان سے اور اس نے ابی حصین سے اور اس نے سعید بن جبیر سے.سو یہ روایت ضعیف ہے.کیونکہ لکھا ہے:.قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَيَارٍ سَمِعْتُ عَمْرِو ابْنَ عَلِيِّ يَحْلِفُ أَنَّ بَنْدَارًا يُكَذِّبُ فِيمَا يَرُوِى عَنْ يَحْى قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَلِيِّ ابْنِ الْمَدِينِي سَمِعْتُ أَبِى وَ سَئَلْتُهُ عَنْ حَدِيثٍ رَوَاهُ بَنْدَارٌ عَنِ ابْنِ مَهْدِي...فَقَالَ هَذَا كَذِبٌ فَرَأَيْتُ يَحْىٰ لَا يَعْبَأُ بِهِ وَيَسْتَضْعِفُهُ قَالَ وَ رَأَيْتُ الْقَوَارِيُرِى لَا يَرْضَأُ بِه - (تهذيب التهذيب الجزء الخامس بیروت لبنان طبع ثامنیه ۱۹۹۵ء صفحہ ۴۸) کہ عبداللہ بن محمد کہتے ہیں کہ عمر و بن علی نے حلف اٹھا کر کہا کہ محمد بن بشار بندار جھوٹ بولتا تھا ان روایات میں جو اس نے بیٹی سے روایت کی ہیں.اسی طرح سے علی بن المدینی سے محمد بن بشار کی ایک روایت جواب مہدی سے لی ہے پوچھی گئی تو انہوں نے اس روایت کو کذب محض قرار دیا.اس طرح یحیی بن معین محمد بن بشار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے (اس کی پرواہ نہ کرتے تھے ) بلکہ اسے ضعیف قرار دیتے تھے.اسی طرح قواریری بھی اسے پسند نہ کرتا تھا.یہ تو حال ہے پہلی روایت کا.(یادر ہے کہ یہ روایت بھی محمد بن بشار نے ابن مہدی سے روایت کی ہے ).دوسری روایت کا ایک راوی ابی بن العباس بن سہل الانصاری ہے جس کے متعلق لکھا ہے:.قَالَ أَبُو بَشْرِ الدُّوَلَابِيُّ لَيْسَ بِالْقَوِي قُلْتُ وَ قَالَ ابْنُ مُعِينٍ ضَعِيفٌ وَ قَالَ أَحْمَدُ مُنْكِرُ الْحَدِيثِ.وَ قَالَ النَّسَائِي لَيْسَ بِالْقَوِي وَ قَالَ الْعُقَيْلِيُّ لَهُ أَحَادِيثُ لَا يُتَابَعُ عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا.....قَالَ الْبُخَارِيُّ لَيْسَ بِالْقَوِيّ تهذيب التهذيب ذكر ابن عباس بن سهل بن سعد الانصاری ) که ابوبشر الدولابی نے کہا ہے کہ یہ راوی ثقہ نہیں.ابن معین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے اور امام احمد کے نزدیک منکر الحدیث تھا اور نسائی نے بھی غیر قوی قرار دیا ہے.عقیلی نے لکھا ہے کہ اس راوی کی حدیث قابل اتباع نہیں ہوئی.امام بخاری کے نزدیک بھی یہ راوی قوی نہیں ہے.ابن جریر میں قَبلَ مَوْتِ عِیسی والی روایت ابن عباس سے صرف ایک ہی روایت ہے
283 اگر چہ وہ سعید بن جبیر کے طریق سے تو نہیں لیکن پھر بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں بھی یہی ابی ابن العباس راوی ہے جو ضعیف ہے.پھر لکھا ہے وَتَدُلُّ عَلَيْهِ قَرَاءَ ةُ أَبَيِّ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمْ بِضَمِّ النُّونِ مَعْنَى وَ إِنْ مِنْهُمْ اَحَدٌ إِلَّا سَيُؤْمِنُونَ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمُ - ( تفسیر کشاف زیر آیت وَإِنْ مِنْ أَنه أَهْلِ الْكِتَبِ یعنی ان معنوں پر حضرت ابی بن کعب کی یہ قراءت دلالت کرتی ہے إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمْ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے.حضرت ابی ابن کعب کی قراءت کی اہمیت بخاری کی اس حدیث سے ظاہر ہے سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَبَدَأَ بِهِ وَ سَالَمِ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَ مَعَاذِ ابْنَ جَبَلٍ وَ أَبَي بُنِ كَعْبٍ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب ابی بن کعب جلد ۲ صفحه ۹۴ (مصری) که آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن شریف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت سالم، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابی ابن کعب سے سیکھو.اب متقی مومن کا فرض ہے کہ وہ دونوں قراء توں کو مد نظر رکھ کر معنے کرے اور وہ یہی ہوں گے کہ یہود کا ہر فرد اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسی کے مصلوب ہونے پر ایمان لائے گا اور لاتا ہے ورنہ وہ یہودیت کو ترک کر کے صداقت عیسی کا قائل ہو جائے گا جو باطل ہے.وجه ششم: وَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِ عِيْسَى وَ عَنْهُ أَيْضًا قَالَ قَبْلَ مَوْتِ الْيَهُودِي....وَ قِيلَ الضَّمِيرُ الْاَوَّلُ لِلهِ وَ قِيْلَ إِلى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ قَالَ بِهِ عِكْرَمَةُ (فتح البیان زیر آیت وَإن من أهل الكتب) که حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ عیسی کی موت سے پہلے اور انہی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہودی کی موت سے پہلے...اور کہا گیا ہے کہ پہلی ضمیر اللہ کی طرف پھرتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آنحضرت کی طرف پھرتی ہے اور حضرت عکرمہ کا بھی یہی مذہب ہے.اس آیت میں دو ضمیر میں ہیں.ایک بہ اور دوسری بھم.ان دونوں ضمیروں کے مرجع کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے.پہلی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی ، اللہ، نبی اور قرآن بتائے ہیں اور دوسری ضمیر کا مرجع عیسی اور کتابی بتاتے ہیں.پس یہ دلیل غیر احمدیوں کی تب صحیح ہو سکتی ہے کہ تین مرجع میں مسیح پر
284 اتفاق ہوتا لیکن ایسا نہیں.پس اس قراءت کے ہوتے ہوئے بھی غیر احمدیوں کے بیان کردہ معنی درست نہیں ہو سکتے.وجہ دہم :.اس کے بعد فرمایا وَ يَوْمَ الْقِيمَ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء: ۱۲۰) کہ وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہو گا یعنی ان کے خلاف گواہی دے گا اور اگر اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ وہ سب مان جائیں گے تو گواہی کیسی اور اس گواہی کی کیا ضرورت؟ کیونکہ گواہی کی ضرورت تو ہمیشہ انکار کے بعد ہوتی ہے.قیامت کے ساتھ گواہی کو مخصوص کرنا بتاتا ہے کہ مسیح دنیا میں نہیں آئے گا.ورنہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ دنیا میں آکر گواہی دے گا.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے نون ثقیلہ کے معنی حال کے بھی کئے ہیں.وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَنْ تَيُبَظِنَنَّ (النساء: ۷۳ ) کا ترجمہ ” کوئی تم میں سے ستی کرتا ہے.“ (تفسیر ثنائی زیر آیت وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيْبَظِنَّ...نوٹ:.بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے جو اس آیت کا ترجمہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قبل موتہ سے مراد حضرت مسیح کی وفات لیتے تھے لیکن یہ صریحا مغالطہ ہے.حضرت خلیفہ اول موتہ کی ضمیر کا مرجع کتابیں ہی لیتے تھے اور جو تر جمہ غیر احمدی «فصل الخطاب جلد ۲ صفحہ ۸۰‘ کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں، اس میں اس کی موت سے پہلے“ کے الفاظ ہیں.یہ تصریح موجود نہیں کہ اس سے مراد کتابی ہے یا حضرت مسیح.ورنہ حضرت خلیفہ اول کامذہب وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتب - الخ ( النساء:۱۲۰) کا ترجمہ یہ ہے اور نہیں کوئی اہل کتاب مگر ضرور 66 ایمان لائے گا ساتھ اس قتل کے قبل موت اپنی کے.“ ย الحکم جلد نمبر ۳۳.مؤرخه ار ستمبر ۱۹۰۱، صفحها احاشیه ) حضرت ابو ہریرہ کا اجتہاد بعض غیر احمدی علماء حضرت ابو ہریرہ کا اجتہاد بخاری کے حوالہ سے پیش کیا کرتے ہیں کہ انہوں نے نزول مسیح کی حدیث کو وَ اِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ والی آیت کے ساتھ منطبق کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت سے نزول مسیح ہی مراد ہے نہ کچھ اور.جواب: اس کا یہ ہے کہ یہ حضرت ابو ہریرہ کا اپنا اجتہاد ہے جو حجت نہیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ راوی تو
285 اعلیٰ درجہ کے ہیں مگر مجہتد نہیں.ملاحظہ ہو :.ا وَالْقِسْمُ الثَّانِى مِنَ الرُّوَاةِ هُمُ الْمَعْرُوفُونَ بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَةِ دُونَ الْإِجْتِهَادِ وَالْفَتْوَى كَابِي هُرَيْرَةَ وَ أَنَسِ ابْنِ مَالِك اصول نظام الدین اسحاق بن ابراهيم الشاشي البحث الثاني.فصل في اقسام الخبر والقسم الثاني من الرواة.مطبوعه نول کشور صفحه ۴۰ وکتب خانہ رشیدیہ د بلی صفحه ۸۲ ) که راویوں میں سے دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ اور دیانتداری کے لحاظ سے تو مشہور ہیں مگر اجتہاد اور فتویٰ کے اعتبار سے قابل اعتبار نہیں جیسے ابو ہر میر ا وانس بن مالک.ب.مولانا ثناء اللہ امرتسری پانی پتی اپنی تفسیر بنام تفسیر مظہری میں تحریر فرماتے ہیں:.تَأْوِيلُ الْآيَةِ بِارْجَاعِ الضَّمِيرِ الثَّانِى إِلى عِيْسَى مَمْنُوعٌ.إِنَّمَا هُوَزَعْمٌ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ لَيْسَ ذَلِكَ فِي شَيْءٍ فِي الْأَحَادِيثِ ( تفسیر مظہری جلد ۳ صفحه ۲۷۳ زیر آیت قران مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ ) یعنی آیت زیر بحث میں ضمیر ثانی ( یعنی موتہ کی ضمیر کو ) حضرت عیسی کی طرف پھیر کر آیت کے معنی کرنا غلط ہے، جائز نہیں.یہ تو محض ابو ہریرہ کا اپنا زعم ہے جو احادیث کے بالمقابل وقعت نہیں رکھتا کیونکہ حدیث سے ایسا ثابت نہیں ہوتا.پس اہل اصول اور محدثین کے نزدیک حضرت ابو ہریرہ ثقہ راوی ہیں اور ان کی روایت درست مگر ان کا اپنا خیال اور قول ہر گز حجت نہیں خصوصاً جبکہ قرآن مجید کی ۳۰ آیات ، متعدد احادیث اور رہبرانِ اُمت کے بیسیوں اقوال اس کے خلاف ہوں.چنانچہ اسی بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ کا ایک اور اجتہا درج ہے.آنحضرت کی حدیث ما من بنى آدم مولود إِلَّا يمسح الشيطان حِيْنَ يُولَدُ فَيَسْتَهِلْ صَارِحًا مِنْ مَسَ الشَّيْطَانِ - (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قوله تعالیٰ واذكر في الكتاب مريم...مسلم کتاب الفصائل باب (۱۴۶) ( کہ ہر بچہ کو بوقت پیدائش شیطان مس کرتا ہے بجز مریم اور ابن مریم کے، کہ وہ دونوں میں شیطان سے پاک ہیں) کے متعلق حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں.فَاقْرَءُ وُا إِنْ شِئْتُمْ إِنِّى أَعِيْدُهَا بِكَ وَ ذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ (بخاری کتاب التفسير.تفسير سورة آل عمران جلد ۳ مطبع الهيه مصر ) که آنحضرت کی اس حدیث کے سمجھنے کے لئے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھو کہ حضرت مریم کی والدہ نے کہا کہ میں مریم اور اس کی ذریت کے لئے شیطان الرجیم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں.حالانکہ حضرت ابو ہریرہ کا یہ اجتہاد قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ حضرت مریم کی والدہ کی مندرجہ بالا دعا حضرت مریم کی ولادت کے بعد کی ہے اور حدیث میں جس
286 مس شیطان کی نفی ہے وہ وقت ولادت کی ہے.پس جس طرح ابو ہریرہ کا اس آیت کے متعلق اجتہاد مندرجہ بخاری غلط ہے اس طرح ان کا وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكتب (النساء : ۱۶۰) والی آیت کے متعلق اجتہاد مندرجہ بخاری بھی غلط ہے اور نا قابل استناد.اگر ان کا یہ قول اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ (النساء: ۱۵۸) اس ضمیر کا مرجع ہوتو مطلب یہ ہوگا کہ با وجود اس کے کہ خدا نے یہودیوں کے اس قول کی تردید پوری طرح کر دی ہے پھر بھی وہ اپنے اس قول پر ایمان رکھیں گے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر دیا، ورنہ ان کا مذہب ہی درہم برہم ہو جاتا ہے مثلاً دیکھ لو اگر ایک یہودی حضرت عیسی کو غیر مصلوب تسلیم کرلے تو پھر وہ آپ پر ایمان لائے گا اور اسی طرح اگر ایک عیسائی مصلوبیت مسیح کو چھوڑ دے تو پھر ان کے مذہب کا بھی کچھ نہیں رہتا اور کفارہ مع دیگر اصولوں کے رخصت ہو جاتا ہے.پس یہی معنی ہیں.ان کے ایمان سے حقیقی اور قابل قبول ایمان مراد نہیں.حیات مسیح کی چوتھی دلیل فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ تُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ (المائدة: ۱۸) که خدا کو کون روک سکتا ہے اگر وہ عیسی بن مریم کو مارنے کا ارادہ کرے.ثابت ہوا ابھی تک خدا تعالیٰ نے ان کو مارنے کا ارادہ نہیں کیا.جواب :.اس کے آگے وَأَمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (المائدة: ۱۸) بھی پڑھو کہ اگر خدا چاہے عیسی اور ان کی والدہ اور موجودات ارضی کو ہلاک کرنا.تو کیا حضرت مریم بھی زندہ ہیں اور کیا دنیا کی کوئی چیز ہلاک نہیں ہوتی ؟ حالانکہ کوئی سیکنڈ اور سکینڈ کا کوئی حصہ نہیں گزرتا جب دنیا میں کوئی جاندار نہیں مرتا.اصل مطلب یہ ہے کہ اگر خدا تعالی چاہتا تو مسیح، مریم اور موجودات ارضی کو جمیعاً ( یکدم) ہلاک کر دیتا مگر خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ دنیا کو ہلاک کرتا ہے.أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ تَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانبياء: ۴۵) حیات مسیح کی پانچویں دلیل يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا (آل عمران : ۴۷ ) کہ عیسی مہد اور چالیس سال کی عمر میں کلام کریں گے.انہوں نے مہد میں تو کلام کیا مگر ۳۳ سال کی عمر میں چونکہ آسمان پر اٹھائے گئے
287 اس لئے ابھی تک انہوں نے کھل کی عمر میں کلام نہیں کیا.لہذا آسمان سے واپس آ کر وہ کھل میں بھی کلام کریں گے.جواب:.گھل کے معنی لغت سے ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر کے مجمع الجار جلد ۳ صفحہ ۲۳۶ ز میر لفظ گھل ) بقول تمہارے جب وہ ۳۳ سال کی عمر میں اٹھائے گئے تو تین سال انہوں نے گھل میں بھی کلام کر لیا.واپس لانے کی کیا ضروت ہے.۲.ہم تو احادیث صحیحہ کی بناء پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ۱۲۰ سال تک زندہ رہے، لہذا ان کا گھل کی عمر میں بھی کلام کرنا ثابت ہو گیا.حیات مسیح کی چھٹی دلیل وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (ال عمران: ۴۹) الكتاب اور الحكمة سے قرآن میں ہر جگہ قرآن اور حدیث مراد ہے.ثابت ہوا کہ خدا تعالی عیسی کو قرآن وحدیث سکھائے گا.آمدثانی ثابت.جواب:.یہ قاعدہ ہی غلط ہے، قرآن کریم میں ہے فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْرَهِيْمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (النساء: ۵۵) لہذا یہ تمہارا خود ساختہ قاعدہ غلط ہے.حضرت امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں.الْمُرَادُ مِنَ الْكِتبِ تَعْلِيمُ الْخَطِ وَالْكِتَابَةِ ثُمَّ الْمُرَادُ مِنَ الْحِكْمَةِ تَعْلِيمُ الْعُلُومِ وَ تَهْذِيبُ الاخلاق ( تفسیر کبیر زیر آیت وَرَسُولاً إلى بني اسراءيل - آل عمران:۴۹) یعنی ( تمہاری پیش کر دہ آیت میں ) کتاب سے مراد خط و کتابت ( یعنی لکھنا پڑھنا ) اور حکمت سے مراد علوم روحانی واخلاقی ہیں.حیات مسیح کی ساتویں دلیل وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاوِيْلَ عَنْكَ (المائدة :(1) یعنی اے عیسی جب میں نے بنی اسرائیل کا ہاتھ تجھ سے روک لیا، اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی کو یہودیوں کے ہاتھ لگے ہی نہیں.اگر یہ مانا جائے کہ وہ صلیب پر لٹکائے گئے اور ان کے ہاتھوں سے خون بہا اور پھر اس قدر مصیبتیں جھیلنے کے بعد صلیب پر سے زندہ اتارے گئے تو اس سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے.جواب:.گف ، عَنْ کا جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ سراسر غلط ہے.قرآن مجید میں ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ (المائدة: ۱۲) کہ اے مسلمانو ! تم خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ
288 قوم ( کافرین ) نے تمہاری طرف اپنے ہاتھ دراز کرنے کا ارادہ کیا تھا.پس خدا نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا.کیا جنگوں کے موقع پر کبھی کوئی مسلمان زخمی یا شہید نہیں ہوتا تھا.پس در حقیقت كَفِ يَـــد سے مراد حقیقی فتح سے کا فروں کو روکنا ہے یعنی یہ کہ کا فرمسلمانوں پر حقیقی فتح نہیں پاسکتے.حیات مسیح کی آٹھویں دلیل وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (آل عمران : ۵۵ ) کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی سے وعدہ کیا تھا کہ میں تم کو کافروں سے پاک کروں گا یعنی کامل طور پر یہودیوں کے ہاتھوں سے بچاؤں گا.اگر احمدیوں کا مذہب مانا جائے کہ حضرت عیسی صلیب پر لٹکائے گئے مگر زندہ اتر آئے ، تو اس سے اس وعدہ کی تکذیب ہوتی ہے.جواب: تطهیر سے مراد اس آیت میں کافروں کے الزامات سے بری کرنا ہے نہ کہ ان کے ہاتھوں سے زخمی ہونے سے بچانا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَبْرَكُمْ تَطْهِيرًا (الاحزاب : ۳۴) کہ اے اہل بیت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور کرے اور تم کو اچھی طرح پاک کرے.اب یہ تو ظاہر ہے کہ ازواج نبی کے علاوہ حضرت امام حسین بھی اہل بیت میں سے ہیں.ان کی بھی تطہیر ہوئی؟ کیا ان کو یزیدیوں کے ہاتھ سے جسمانی طور پر کوئی گزند نہیں پہنچا.پس حضرت عیسی کے لئے تطہیر کے اور معنے لینا خلاف اسلوب قرآن ہے.حیات مسیح کی نویں دلیل لَن يَسْتَنكِفَ المَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلهِ وَلَا المَلكَةُ الْمُقَرَّبُونَ (النساء: ۱۷۳) که مسیح خدا کی عبادت سے انکار نہیں کرے گا.جواب:.ہاں بے شک حضرت مسیح نے خدا تعالیٰ کا عبد ہونے سے نہ بھی پہلے انکار کیا اور نہ خدا کی عبادت کرنے اور کرانے سے قیامت کے دن منکر ہوں گے، چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِيَ الْهَيْنِ
289 مِنْ دُونِ اللهِ (المائدۃ: ۱۱۷) کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت مسیح سے پوچھے گا کہ کیا آپ نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بنا کر ہماری عبادت کیا کرو؟ تو مسیح اس کے جواب میں کہیں گے.مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمُ (المائدة : ۱۱۸) کہ میں نے ان سے وہی کچھ کہا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا، یعنی یہ کہ تم بھی اسی اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے.غرضیکہ لن يستنكف والی آیت میں جس عدم انکار از عبادت کا ذکر ہے وہ قیامت کے دن ہوگا، جیسا کہ قرآن مجید نے دوسری جگہ خود اس کا ذکر بالتفصیل کر دیا ہے یعنی سورہ مائدہ آخری رکوع میں جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے.لطيفه مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے حیات مسیح کی نویں دلیل یہ کھی ہے." قرآن مجید میں جہاں کہیں کسی شخص کو مقرب فرمایا ہے.سب جگہ مذکور ساکنین آسمان ہیں چنانچہ سورۃ واقعہ میں جنتیوں کے حق میں لفظ مقرب وارد ہے اور قرآن و حدیث سے ظاہر ہے کہ جنت آسمان پر ہے، دوسرے موقع پر حضرت مسیح کے لیے ” وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ “ آیا ہے.مطلب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر ہیں.“ محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۷۳،۵۷۲ بار دوم ۱۹۸۹ء مطبع آرٹ پرنٹر لا ہورنا شر المکتبۃ السلفیہ لا ہور نمبر ۲) احمدی:ا.جنت زمین پر ہو یا آسمان پر لیکن ہم یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح فی الواقعہ جنتیوں میں سے ہیں کیونکہ بقول تمہارے لفظ مقرب جہاں کہیں قرآن مجید میں آیا ہے وہاں اس سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا جنتی.حضرت مسیح فرشتے تو نہیں لہذا جنتی ضرور ہیں.بہر حال ان کی وفات ثابت ہے کیونکہ جنت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ (الحجر:۴۹) ۲.باقی تمہارا لکھنا کہ ” قرآن مجید میں مقرب کا لفظ صرف ساکنین آسمان کے لئے آیا ہے.تمہاری قرآن دانی کی دلیل ہے.سورہ اعراف اور سورہ شعراء میں فرعون کے جادوگروں کی نسبت لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (الاعراف : ۱۱۵ و الشعراء :۴۳) کا لفظ آیا ہے.تمہارے نزدیک کیا فرعون کا دربار آسمان پر منعقد ہوتا تھا..ذرا یہ بھی بتا دینا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمہارے نزدیک اپنی وفات تک اللہ تعالیٰ کے مقرب تھے یا نہیں؟
290 ۴.حضرت مسیح کے لئے جہاں مقرب کا لفظ آیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں.وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ (آل عمران : ۴۶) کہ وہ دنیا میں بھی وجیہہ ہوگا اور آخرت میں بھی وجیہہ اور مقرب ہوگا.پس حضرت مسیح کا مقرب ہونا الاخرة کے بعد ہے نہ کہ پہلے.لہذا اگر تمہارا خود ساختہ قاعدہ مان بھی لیا جائے تب بھی حضرت مسیح کی وفات ہی اس سے ثابت ہوتی ہے.معلوم نہیں کس طرح تم نے اسے حیات مسیح کی دلیل ٹھہرالیا ہے؟ غیر احمدی:.حضرت مسیح کا صلیب پر لٹکایا جانا اس کے وجیہہ ہونے کے منافی ہے.جواب:.جی نہیں ! صلیب پر اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مارے جانا بے شک وجاہت کے خلاف تھا کیونکہ عہد نامہ قدیم میں صلیب پر مارے جانے والے کو لعنتی کہا گیا ہے نہ کہ صلیب پر لٹکائے جانے والے کو.پس مسیح کا محض صلیب پر لکھنا اور زخمی ہونا ان کے وجیہہ ہونے کی نفی نہیں کرتا.آنحضرت کا دانت مبارک جنگ اُحد میں شہید ہو گیا.حضور دشمنوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر بے ہوش ہو گئے لیکن کیا تمہارے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم وجیہ نہ تھے ؟ حیات مسیح کی دسویں دلیل كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمُ (بخارى كتاب الانبياء باب نزول عيسى بن مريم) کہ اے مسلمانو ! تمہاری کیسی خوش قسمتی ہوگی کہ جب تم میں ابن مریم نزول فرما ہوں گے.جواب:.اس حدیث میں مِنَ السَّمَاءِ کا لفظ تو آیا نہیں.ہاں دولفظ ہیں جن سے ہمارے دوستوں کو مغالطہ لگا ہے.ایک نَزَلَ اور ایک ابن مریم نزول کے متعلق یا در ہے کہ اس کے لئے آسمان سے اترنا ضروری نہیں.ملاحظہ ہو.لفظ نُزُول قرآن میں ا قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْكُمُ (الطلاق: ۱۲۱۱) کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف محمد رسول اللہ کو نازل فرمایا جو تم پر اللہ کی نشانیاں پڑھتا ہے.کیا آپ آسمان سے آئے تھے؟ أَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ (الزمر :) اللہ نے تمہارے واسطے جانور نازل کئے.أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ (الحدید : ۲۶) ہم نے لوہا نازل کیا.وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر: ۲۲)
291 اور کوئی چیز بھی نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور نہیں اتارتے ہم اس کو مگر ایک مقررہ اندازہ پر.ه قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا (الاعراف: ۲۷) ہم نے لباس نازل کیا.لفظ نُزُول اور احادیث ۱.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ تَحْتَ شَجَرَةٍ (كنز العمال صفر ۳۹۲ حدیث ۱۳۳۸۳) آنحضرت ایک درخت کے نیچے اترے.۲ - كَانَ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا فِي سَفَرٍ لَمْ يَرْتَحِلُ حَتَّى يُصَلِّى فِيْهِ رَكْعَتَيْنِ (کنز العمال جلد۷صفحہ ۳۸ کتاب شمائل من قسم الاقوال باب آداب السفر حدیث نمبر ۱۸۱۵۳) آنحضرت سفر میں مقام کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھ کے کوچ کرتے تھے.-٣- لَمَّا نَزَلَ الْحَجَرَ فتح الباری شرح بخاری جلد ٨ كتاب المغازى باب نزول النبي الحجر ) جب آنحضرت حجر کی زمین میں اترے.اُمت محمدیہ کے لئے نُزُول کا لفظ لَتَنْزِلَنَّ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِى اَرُضًا يُقَالُ لَهَا الْبَصْرَةُ (كنز العمال جلد۷ صفحه۸۰ اکتاب القيامة من قسم الاقوال (الاکمال ) حدیث نمبر ۱۸۲۴) میری امت کا ایک گروہ ایک ایسی زمین میں اترے گا جس کا نام بصرہ ہوگا.دجال کے لئے نُزُول کا لفظ يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ هِمَّتُهُ الْمَدِينَةَ حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ (مشكوة كتاب الفتن باب علامات بين يدى الساعة و ذكر الدجال - كنز العمال الجز الثاني عشر صفحه ۰۸اکتاب الفضائل فضائل الامكنة والازمنة حديث نمبر ۳۴۸۵۳) فَيَنْزِلُ بَعْضَ السَّبَاخ (بخاری کتاب الفتن باب لا يدخل الدجال المدينة مشكواة كتاب الفتن باب علامات بين يدى الساعة و ذكر الدجال ) ترجمہ :.کہ مسیح دجال مشرق کی طرف سے مدینہ کا قصد کر کے آئے گا.یہاں تک کہ اُحد کی پیٹھ کی طرف اترے گا (۲) مدینہ کی ایک شور زمین میں اترے گا.پس لفظ نزول سے دھو کہ نہ کھانا چاہیے کہ ضرور حضرت مسیح آسمان سے ہی آویں.
292 بي كامِنَ السَّمَاءِ نوٹ:.اس جگہ بعض جاہل امام بیہقی ۱۳۲۸ھ کی کتاب الاسماء والصفات بیروت.لبنان صفحہ نمبر ۴۲۴ سے یہ حدیث پیش کر دیا کرتے ہیں.كَيْفَ اَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيْكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اول.یادر ہے کہ امام موصوف اس کے بعد لکھتے ہیں.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ يَحْى بنِ بَكْرٍ وَ اَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ وَ مِنْ وَجْهِ اخَرَ عَنْ يُونُسَ وَ إِنَّمَا أَرَادَ نُزُولُهُ مِنَ السَّمَاءِ بَعْدَ الرَّفْعِ إِلَيْهِ - صفحه ۴۲۴ کہ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے ایک اور وجہ سے یونس سے لیا ہے اور اس نے ارادہ نزول من السماء کا ہی کیا ہے.امام کہتا ہے رواہ البخاری.بخاری میں راوی اور الفاظ سب موجود ہیں مگر مِنَ السَّمَاءِ نہیں ہے پس معلوم ہوا یہ حدیث کا حصہ نہیں.دوم.اس روایت کا ایک راوی ابو بکر محمد بن اسحاق بن محمد الناقد ہے جس کے متعلق لکھا ہے كَانَ يَدَّعِي الْحِفُظَ وَ فِيهِ بَعْضُ التَّسَاهُل - (لسان الميزان لابن حجر حرف الميم.ذكر محمد بن اسحاق ) کہ اس راوی میں تساہل پایا جاتا ہے.پس مِنَ السَّمَاءِ کے الفاظ کا اضافہ بھی اس راوی کا تساہل ہے اصل حدیث کے الفاظ نہیں.اس طرح اس روایت کا ایک اور راوی احمد بن ابراہیم بھی ضعیف ہے.دیکھو لسان المیزان حرف الالف.پس مِنَ السَّمَاءِ حجت نہیں.علاوہ ازیں اس روایت کا راوی یحی بن عبد اللہ ہے اس کے متعلق لکھا ہے.قَالَ أَبُو حَاتَم لَا يُحْتَجُ بِه.....وَ قَالَ النَّسَائِي ضَعِيفٌ...لَيْسَ بِثِقَةٍ قَالَ يَحْيِي....لَيْسَ بِشَيْءٍ - (تهذيب التهذيب ذکر یحیٰ بن عبدالله بن بكير و میزان الاعتدال ذکر یحی بن عبدالله الجابر الكوفي) اس طرح اس روایت کا ایک اور راوی یونس بن یزید بھی ضعیف ہے.یہ روایت یونس بن یزید نے ابن الشہاب الزہری سے روایت کی ہے اور اس کے متعلق لکھا ہے کہ قَالَ أَبُو زَرْعَةُ الدَّمَشْقِى سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ ابْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ فِي حَدِيثِ يُونُسَ عَنِ الزُّهْرِئُ مُنْكَرَاتٌ.قَالَ ابْنُ سَعْدٍ لَيْسَ بِحُجَّةٍ.كَانَ سَيِّئَ الْحِفْظِ.(تهذيب التهذيب ذكر يونس بن یزید بن ابی النجاد ) کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ یونس کی ان روایت میں جو
293 زہری سے اس نے روایت کی ہیں منکرات ہیں.ابن سعد کہتے ہیں کہ یونس قابل حجت نہیں ہے اور وکیج کہتے ہیں کہ اس کا حافظہ خراب تھا.اس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے كَانَ يُدَرِّسُ فِي النَّادِرِ (میزان الاعتدال از ابو عبدالله محمد بن احمد بن عثمان الذهبي زير لفظ يونس بن یزید الایلی ) کہ کبھی کبھی یہ تدلیس سے کام لیا کرتا تھا.پس اس راویت میں بھی مِنَ السَّمَاءِ کے الفاظ کی ایزاد بھی اس کے حافظہ کی غلطی یا تدلیس کا نتیجہ ہوسکتی ہے.سوم.بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ ۱۳۲۸ھ میں چھپا ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی بلکہ وفات کے بعد.اس لیے مولویوں نے اس میں مِنَ السَّمَاءِ کا لفظ اپنے پاس سے از راہ تحریف اور الحاق زائد کر دیا ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام جلال الدین سیوطی نے بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس میں مِنَ السَّمَاءِ کا لفظ نہیں.چنانچہ وہ اپنی تفسیر (در منثور از علامہ جلال الدین سیوطی جلد ۲ صفحہ ۲۴۲) پر اس حدیث کو یوں بیان کرتے ہیں:.وَ أَخْرَجَ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ وَالْمُسْلِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الْأَسْمَاءِ وَالصَّفَاتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ اَنْتُمُ إِذَا نَزَلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ امام مذکور کا با وجود اس محولہ بالا روایت کو دیکھنے کے مِنَ السَّماءِ چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں بعد کی ایزاد ہے.بہر حال حدیث نہیں.فَانْدَفَعَ الشَّكُ مِنْهُ.حیات مسیح کی گیارہویں دلیل حدیث میں ہے اِنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتُ (جامع البيان ابن جریر جلد ۶ صفحه ۱۹) کہ یقیناً عیسی نہیں مرے.جواب.ابن جریر بلحاظ حوالہ حدیث قابل استناد نہیں بوجہ ذیل: شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی اپنی تصنیف عجالہ نافعہ میں تحریر فرماتے ہیں: اس طبقہ میں وہ حدیثیں ہیں جن کا نام ونشان پہلے قرنوں میں معلوم نہیں تھا اور متاخرین نے روایت کی ہیں تو ان کا حال دو شقوں سے خالی نہیں.یا سلف نے تشخص کیا اور ان کی اصل نہ پائی کہ ان کی روایت سے مشغول ہوتے یا ان کی اصل پائی اور ان میں قدح وعلت دیکھی کہ روایت نہ کی اور
294 دونوں طرح یہ حدیثیں قابل اعتماد نہیں کہ کسی عقیدہ کے اثبات پر عمل کرنے کو ان سے سند لیں.اس قسم کی حدیثوں نے بہت سے محدثین کی راہزنی کی ہے.اس قسم کی حدیثوں کی کتابیں بہت تصنیف ہوئی ہیں.تھوڑی سی ہم بیان کرتے ہیں:.“ کتاب الضعفاء لابن حبان.تصانیف الحاکم.کتاب الضعفا للعقیلی ، کتاب الکامل لابن عدی ، تصانیف خطیب.تصانیف ابن شاہین اور تفسیر ابن جریر (عماله نافعه از عبدالعزیز محدث دہلوی ترجمہ فصل اوّل طبع رابع صفحه ۳۷) مراسیل حسن بصری ۲.یہ روایت مرفوع متصل نہیں بلکہ مرسل ہے اور حضرت حسن بصری سے مروی ہے جو تا بعی تھے صحابی نہ تھے.مراسیل حسن بصری کے متعلق لکھا ہے: مَا اَرْسَلَ فَلَيْسَ بِحُجَّةٍ (تهذيب التهذيب حرف الحاء - زير لفظ الحسن ( یعنی حسن بصری کی مرسل روایت حجت نہیں ہوتی.لہذا لَم يَمُتُ والی روایت بھی حجت نہیں.حضرت احمد بن حنبل فرماتے ہیں: لَيْسَ فِي الْمُرْسَلَاتِ أَضْعَفُ مِنَ الْمُرْسَلَاتِ الْحَسَنَ.تہذیب التہذیب از احمد بن حجر عسقلانی متوفی ۵۸۵۴ زیر لفظ عطاء بن ابی رباح ) غیر احمدی :.حضرت حسن بصری کی مرسل میں تو وہی کلام کرے جس کو ان کے اقوال کا پورا علم نہ ہو کیونکہ حسن بصری نے جس قدر روایات صحابی کا نام لئے بغیر آنحضرت سے کی ہیں وہ سب کی سب انہوں نے حضرت علیؓ سے لی ہیں لیکن حجاج بن یوسف کے خوف سے انہوں نے حضرت علی کا نام نہیں لیا.جواب نمبر :.یہ تو حضرت حسن بصری پر کسی انسان کے خوف سے حق نہ کہنے کا الزام ہے.نمبر ۲ یہ ثابت ہے کہ حضرت حسن بصری نے حضرت علیؓ سے ایک حدیث بھی نہیں سنی.ملاحظہ ہو.سُئِلَ أَبُو زَرْعَةِ هَلْ سَمِعَ الْحَسَنُ أَحَدًا مِنَ الْبَدْرِيِّينَ قَالَ رَآهُمُ رُؤْيَةً رَأْيَ عُثْمَانَ وَ عَلِيًّا قِيْلَ هَلْ سَمِعَ مِنْهُمَا حَدِيثًا قَالَ لَا - تهذيب التهذيب زير لفظ الحسن ) يعنى ابوزرعہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا حضرت حسن بصری نے کسی بدری صحابی کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں حضرت عثمان ، حضرت علیؓ کو صرف ایک نظر دیکھا ہے.پوچھا گیا کہ انہوں نے حضرت عثمان یا حضرت علیؓ سے کوئی حدیث بھی سنی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.اس طرح لکھا ہے:
295 مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ اَحَدٍ مِنْ اَهْلِ بَدْرٍ مُشَافَهَةً قَالَ التِّرْمَذِيُّ لَا يُعْرَفُ لَهُ سِمَاعٌ مِنْ عَلِيِّ (تهذيب التهذيب زير لفظ الحسن ) کہ حضرت حسن بصری نے کسی بدری صحابی سے بھی کوئی حدیث نہیں سنی.امام ترمذی نے کہا ہے کہ حسن بصری کا حضرت علیؓ سے کوئی حدیث سننا ثابت نہیں.۳.علامہ شوکانی لکھتے ہیں :.فَاِنَّ اَئِمَّةَ الْحَدِيثِ لَمْ يَثْبِتُوا لِلْحَسَنِ مِنْ عَلِيِّ سِمَاعًا (كتاب فوائد المجموع فی احادیث الموضوع صح ۸۳ مطبع محمدی لاہور ) کہ ائمہ حدیث کے نزدیک حضرت علی سے حضرت حسن بصری کا کوئی حدیث سننا ثابت نہیں.( نیز دیکھوتکملہ مجمع البحار جلد ۳ صفحه ۵۱۸ زیر مج ارز ) ۴.اس روایت کے چار راوی ضعیف ہیں (۱) اسحاق بن ابراہیم بن سعید المدنی نے اس کے متعلق لکھا ہے.قَالَ أَبُو ذَرُعَةٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ لَيْسَ بِقَوِيِّ وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ لِيْنُ الْحَدِيثِ تہذیب التہذیب و میزان الاعتدال زیر لفظ الحق بن ابراہیم بن سعد ) کہ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ اس راوی کی حدیث قابل انکار ہے اور قومی راوی نہیں ہے.ابو حاتم نے کہا کہ اس کی روایت کمزور ہوتی ہے.(۲) دوسرا راوی عبد اللہ بن ابی جعفر عیسی بن ماہان ہے.اس کی نسبت لکھا ہے.قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ ابْنِ سَلَامٍ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ ابْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أَبِي جَعْفَرَ كَانَ فَاسِقًا....يُعْتَبَرَ حَدِيثُهُ مِنْ غَيْرِ رَوَايَتِهِ عَنْ أَبِيْهِ وَ قَالَ السَّاجِيُ فِيهِ ضُعُف (تهذيب التهذيب از احمد بن حجر عسقلانی زیر لفظ عبدالله بن ابی جعفر و میزان الاعتدال زیر لفظ عبدالله بن ابی جـعـفـر عيسى بن ماهان ) یعنی عبد العزیز بن سلام کہتے ہیں کہ یہ راوی فاسق تھا اور جوروایت یہ اپنے باپ سے کرے وہ لائق اعتبار نہیں ہوتی اور ساجی نے کہا ہے کہ اس راوی کی روایت کمزور ہے.یا درکھنا چاہئے کہ لَم يَمُتُ والی روایت اس راوی نے اپنے باپ سے ہی روایت کی ہے لہذا یہ روایت تو بہر حال مردود ہے.(۳) تیسرا راوی اس دوسرے راوی عبد اللہ کا باپ ابو جعفر عیسی بن ماہان ہے.اس کے تعلق لکھا ہے.قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أَحْمَدَ عَنْ أَبِيهِ لَيْسَ بِقَوِي فِي الْحَدِيثِ.....قَالَ عُمَرُ ابْنُ عَلِيِّ فِيْهِ ضُعْفٌ.....قَالَ النَّسَائِي لَيْسَ بِالْقَوِيّ (تهذيب التهذيب زير لفظ ابو جعفر عیسیٰ بن ماهان و میزان الاعتدال ) یعنی امام احمد کے نزدیک یہ راوی قوی نہیں، عمر بن علی کے نزدیک ضعیف ہے اور نسائی اور بجلی کے نزدیک بھی قوی نہیں نیز اس راوی کو خطا کار اور سیئ الحفظ بھی کہا گیا ہے.
296 (۴) چوتھا راوی ربیع بن انس البکری المصری ہے اس کے متعلق لکھا ہے.قَالَ ابْنُ مَعِينٍ كَانَ يَتَشَيَّعُ فَيُفْرِطُ النَّاسُ يَتَّقُونَ مِنْ حَدِيثِهِ مَا كَانَ مِنْ رَوَايَةِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْهُ لَانَّ فِي حَدِيثِهِ عَنْهُ اِضْطِرَابًا كَثِيرًا (تهذیب التهذیب از احمد بن حجر عسقلانی زیر لفظ ربیع بن انس البكرى المصری) کہ یہ راوی غالی شیعہ تھا اور جو روایت اس سے ابو جعفر عیسی بن ماہان کرے، اس روایت سے لوگ بچتے ہیں کیونکہ ایسی روایت سخت مخدوش ہوتی ہے ظاہر ہے کہ یہ لَم يَمُتُ والی روایت وہ ہے جو اس راوی سے ابو جعفر عیسی بن ماہان نے کی ہے لہذا قابل توجہ نہیں.پس اول تو یہ روایت مرسلات حسن سے ہے اور اس وجہ سے حدیث مرفوع متصل نہیں.دوسرے اس کے پانچ میں سے چار راوی ضعیف اور غیر ثقہ ہیں اور بعض شیعہ بھی.پس سخت جھوٹی اور جعلی ہے.حیات مسیح کی بارہویں دلیل انَّ عِيسَى يَأْتِي عَلَيْهِ الْفَنَاءُ - ( جامع البیان ابن جریر جلد ۳ صفحه ۱۶۳ الطبعة الثالثة ۱۹۲۸، مطبع مصطفی البابی الحلی مصر) جواب.اس روایت کے راوی بھی وہی ہیں جو اِنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتُ ( جامع البيان ابن جرير جلد ۶ صفحه ۱۹) والی روایت کے ہیں یعنی اسحاق بن ابراہیم بن سعید ، عبداللہ بن ابی جعفر ابو جعفر عیسی بن ماہان اور ربیع بن انس.جن پر جرح پچھلی روایت پر بحث کے ضمن میں درج ہو چکی ہے.حیات مسیح پر تیر ہویں دلیل يُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِی (۱.مشکواۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ عليه السلام بروایت ابن جوزى فى الكتاب الوفاء - ا مطبع مجیدی صفحه ۳۸۰ ، ۲ مطبع احمدی صفحه ۴۷۲) (۲.شرح لشرح العقائد المسمى بالنبراس از حافظ محمد عبد العزيز الفرها روی ۱۳۱۳ھ صفحه ۵۸۶) جواب.اس کے دس۱۰ جواب ہیں.(۱) فرض کرو کہ آج حضرت عیسی آسمان سے نازل ہو کر مدینہ میں تشریف لے جا کر فوت ہو جا ئیں تو آنحضرت کی قبر مبارک کو کون سا سعید الفطرت مسلمان اکھاڑے گا؟ ہاں ممکن ہے کوئی احراری تیار ہو جائے.
297 (۲) حضرت عائشہ صدیقہ کا خواب اس حدیث کے ظاہری معنی لینے سے روکتا ہے جو یہ ہے.اِنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ رَأَيْتُ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِي حُجُرَتِي فَقَصَصْتُ رُءُ يَايَ عَلَى أَبِي بَكْرِ الصِّدِيقٌ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُقِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ دُفِنَ فِي بَيْتِهَا قَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ هَذَا اَحَدُ أَقْمَارِكَ وَهُوَ خَيْرُهَا (موطا امام مالک جلد اصفحه ۱۲۱ مصری ) کہ حضرت اُم المومنین عائشہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تین چاند میرے حجرہ میں گرے ہیں.میں نے اپنا یہ خواب اپنے والد صاحب ابوبکر صدیق سے بیان کیا.پس جب آنحضرت فوت ہوئے اور حضرت عائشہ کے حجرہ میں مدفون ہوئے تو حضرت ابو بکڑ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ یہ تیرے تین چاندوں میں سے ایک ہے جوسب سے بہتر ہے.آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر و عمر فوت ہوئے اور اسی حجرہ میں مدفون ہوئے.گویا حضرت عائشہ کے خواب کے مطابق تین چاند ان کے حجرہ میں گر چکے اب اگر حضرت عیسیٰ بھی اس میں مدفون ہوں تو حضرت عائشہ کا خواب غلط ہوتا ہے.(۳) آنحضرت نے فرمایا انا...اَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُ عَنْهُ الْقَبَرُ (مسلم کتاب الفضائل باب تـفـضـيـل نبينا على جميع الخلائق ) میری خصوصیت یہ ہے کہ میں پہلا انسان ہوں گا جس کی قیامت کے دن قبر پھاڑی جائے گی.اب اگر حضرت عیسی بھی حضور کی قبر میں ساتھ ہی مدفون ہوں تو جس وقت آنحضرت کی قبر پھاڑی جاوے گی تو وہ بھی اس خصوصیت میں شامل ہو جائیں گے.(۴) ترمندی میں ہے کہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ أَتِي أَهْلُ الْبَقِيعِ فَيُحْشَرُونَ - ( ترندی.ابواب المناقب بَابِ اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنشَقُ عَنْهُ الْأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ) کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں پہلا انسان ہوں کہ جس کی زمین ( قبر ) پھاڑی جائے گی.پھر میرے بعد ابو بکر اور ابو بکر کے بعد عمر اور عمر کے بعد جنت البقیع کے باقی مومن.پس سب اکٹھے کئے جائیں گے.اگر حضرت عیسی نے بھی آنحضرت کی قبر میں یا بقول شما حضور کے روضہ میں دفن ہونا ہوتا تو دوسرے تیسرے یا کم از کم چوتھے نمبر پر ہی ان کا نام آجاتا.آنحضرت نے اپنے روضہ ( حجرہ عائشہ) میں مدفون ہونے والے اپنے سمیت تینوں چاندوں کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے بعد جنت البقیع
298 ( قبرستان ) میں مدفون صحابہ کا ذکر فرمایا ہے اور حضرت عیسی کا نام نہیں لیا.پس یہ اس بات کی قطعی شہادت ہے کہ آنحضرت کی مدینہ والی قبر میں یا حضور کے روضہ میں حضرت مسیح موعود کے دفن ہونے کی کوئی صورت نہیں.(۴) ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ میں تیسرے دن کے بعد اپنی قبر میں نہ رہوں گا تو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں حضرت عیسی بقول تمہارے مدفون ہوں گے تو اس وقت تو آ نحضر تصلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود نہ ہوں گے تو پھر معنی کی شرط پوری نہ ہوئی.(۵) تم لوگ کنز العمال ( جلدا الفصل الاول ابواب في فضائل سائر الانبياء حدیث نمبر ۳۲۲۳۲) کی روایت پیش کرتے ہو کہ مَا تَوَفَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيًّا إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ کہ نبی جہاں مرتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے.(اور اسی وجہ سے حضرت مرزا صاحب پر اعتراض کیا کرتے ہو اور اس کا جواب دوسری جگہ دیا ہے ) اور تم مانتے ہو کہ اسی بناء پر آنحضرت چونکہ حجرہ عائشہ میں فوت ہوئے اور اسی میں مدفون بھی ہوئے.تو اب اگر حضرت عیسی واقعی آسمان سے آجائیں تو کیا وہ آنحضرت کی قبر مبارک کے اندر جا کر فوت ہوں گے.(۶) اسی حدیث میں ہے کہ فَاقُومُ اَنَا وَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ (كنز العمال جلد 4 صفحہ ۱۹۹) پھر میں اور عیسی بن مریم ایک ہی قبر میں جوا بو بکڑا اور عمر کے درمیان ہوگی کھڑے ہوں گے تو گویا اس کے مطابق حضرت عیسی جس قبر میں مدفون ہوں گے وہ ابوبکر و عمر کی قبروں کے درمیان ہونی چاہیے اور ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر کی قبروں کے درمیان کوئی جگہ موجود نہیں ہے.(۷) - الف.اگر کہو کہ قبر سے مراد مقبرہ ہے تو یہ کسی لغت کی کتاب سے دکھاوا اور انعام لو.ب.اندریں صورت فَاقُومُ اَنَا وَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ ( كنز العمال جلد ۶ صفحہ۱۹۹) قبر کا ترجمہ مقبرہ کرو گے؟ کیا حضرت ابوبکر و حضرت عمرؓ کے درمیان ایک مقبرہ ہوگا ؟ ج.مقبرہ تو کہتے ہی مَوضِعُ الْقُبُور (المنجد زیر لفظ قبر ) کو ہیں.پھر قبر کس طرح مقبرہ بن سکتی ہے؟ د.جب تم خود اس حدیث کے لفظی معنی نہیں کرتے بلکہ غلط تاویل کرتے ہو تو ہمارے لئے
299 کیوں نا جائز ہے کہ ہم قرآن شریف وحدیث اور واقعات کی روشنی میں اس کے صحیح معنی بیان کریں؟ (۸) قرآن مجید میں ہے قُتِلَ الْإِنْسَانَ مَا اكْفَرَهُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَه....تم آمانَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس : ۱۸ تا۲۲) گویا ہر انسان خواہ وہ ہندو ہو خواہ پارسی مرکز ” قبر میں ہی جاتا ہے پھر بتاؤ کہ وہ لوگ جن کی لاشیں جلا دی جاتی ہیں یا جن کو درندے کھا جاتے ہیں ، یا جن کو مچھلیاں سمندر میں کھا جاتی ہیں کیا وہ بھی اس آیت کے مطابق قبر میں جاتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں جاتے تو ثابت ہوا کہ (۱) وہ انسان نہیں (۲) ان (غیر مسلموں) کو عذاب قبر نہیں ہوگا اور اگر کہو کہ قبر میں جاتے ہیں تو ثابت ہوا کہ قبر سے مراد ظاہری قبر کی مٹی نہ رہی بلکہ کوئی روحانی حالت ”قبر“ کے نام سے موسوم ہوئی.پس کیوں قبر کے وہی معنی يُدْفَنُ مَعِيَ فِى قَبْرِى (مشكوة المصابيح كتاب الفتن باب نزول عيسى بروایت ابن جوزي في الكتاب الوفا مطبع مجید کا نپور صفحہ ۴۸۰ و مطبع احمدی دہلی صفحه ۴۷۲ ) والی حدیث میں نہ لئے جائیں.اس طرح حدیث میں بھی آتا ہے.اَلْقَبُرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ اَوْحُفْرَةٌ مِنْ حُفْرِ النِّيْرَانِ (ترمذی ابواب صفة القيامة حدیث نمبر ۲۴۶۰) کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے.(۹) اگر آج حضرت عیسی آجا ئیں تو کیا تم اس وقت تک ایمان نہ لاؤ گے جب تک کہ وہ مرکز آنحضرت کی قبر میں مدفون نہ ہو جائیں؟ (۱۰) اگر اس حدیث میں عیسی بن مریم سے مسیح ناصری مراد لیتے ہو تو پھر اسی حدیث سے ثابت ہوا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں کیونکہ آنحضرت نے فرمایا يُدْفَنُ مَعِی کہ وہ آنحضرت کے ساتھ ہی دفن کر دیئے گئے گویا آنحضرت نے فرمایا کہ دنیا میں اگر کسی انسان کو اللہ تعالیٰ اتنا لمبا زمانہ زندہ رکھتا تو یقیناً ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوتے.آپ سے زیادہ خدا کو اور کون پیارا ہے؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.آفَابِنُ مِتَ فَهُمُ الْخُلِدُونَ (الانبياء : ۳۵) کہ خدا تعالیٰ کی غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ آنحضرت تو فوت ہو جائیں اور آپ سے پہلے انبیاء اتنا عرصہ زندہ رہیں.پس آنحضرت نے فرما دیا کہ یاد رکھو جب تم مجھ کو دفن کر رہے ہو گے تو اسی وقت یہ ثابت ہو جائے گا کہ پہلا کوئی نبی زندہ نہیں رہا.قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (المائدة: (۶) کم از کم اس وقت تو مانو گے کہ عیسی بھی زندہ نہیں گویا عیسی میرے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گے.(فَافُهُمْ أَيُّهَا الْعَاقِلُونَ).
300 حیات مسیح کی چودہویں دلیل ترمذی ابواب المناقب باب ما جاء في فضل النبي صلى الله علیه و سلم پر ایک روایت ہے جس میں عبداللہ بن سلام نے اپنے دادا سے یہ روایت کیا ہے کہ قَالَ مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِيْسَى بْنُ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ قَالَ فَقَالَ أَبُوْ مَوْدُودٍ قَدْ بُقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.جواب نمبر :.یہ آنحضرت کا قول نہیں اس لئے حجت نہیں.۲.خود ترمذی نے اسے غریب قرار دیا ہے..اس کا ایک راوی مسلم بن قتیبہ ہے.اس کے متعلق علامہ ذہبی فرماتے ہیں.قَالَ أَبُو حَاتَمٍ كَثِيرُ الْوَهُم (ميزان الاعتدال زیر لفظ مسلم بن قتیبه ) کہ یہ بڑا وہی آدمی تھا.اس روایت کا دوسرا راوی عثمان بن اضحاک ہے اس کے متعلق لکھا ہے.وَ قَالَ الْأَجْرِى سَأَلْتُ أَبَا دَاوُدَ عَنِ الصَّحَاكِ مِنْ عُثْمَانَ الْحَرَامِ فَقَالَ ثِقَةٌ وَابْنُهُ عُثْمَانُ ضَعِيفٌ (تهذيب التهذيب زیر لفظ ضحاک بن عثمان بن عبد الله ( کہ ابوداؤد کہتے ہیں کہ عثمان بن ضحاک خود ضعیف ہیں لیکن اس کا باپ ثقہ تھا نیز دیکھو میزان الاعتدال ذكر عثمان بن ضحاک بن عبدالله ضَعَّفَهُ أَبُو دَاوُدَ کہ اسے ابوداؤد نے ضعیف قرار دیا ہے.نوٹ: اس راوی کا باپ بھی بعض محدثین کے نزدیک ثقہ نہ تھا.چنانچہ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ذكر عثمان بن ابي صفية الانصاري في حَدِيثِهِ ضُعُف.....قَالَ أَبُو حَاتَم لَا يُحْتَجُ وَ قَالَ أَبُو زَرْعَةٍ لَيْسَ بِالْقَوِی اسی طرح ملاحظہ ہو تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ذکر عثمان بن ابی صفية جہاں لکھا ہے قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ كَانَ كَثِيرُ الْخَطَاءِ لَيْسَ بِحُجَّةٍ اسی طرح اس روایت کا تیسرا راوی محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام ہے.اس کے متعلق لکھا ہے ذَكَرَلَهُ الْبُخَارِيُّ حَدِيثًا وَقَالَ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ وَلَا يَصِحُ (تهذيب التهذيب ذكر محمد بن يوسف بن عبد الله بن سلام ) کہ اس روای سے امام بخاری نے ایک حدیث نقل کی ہے اور امام بخاری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ یہ راوی قابل اتباع نہیں اور نہ ثقہ ہے.پس چونکہ اس روایت کے تین راوی غیر معتبر ہیں لہذا حجت نہیں.
301 حیات مسیح کی پندرہویں دلیل ابن ما جہ موقوفا اور مسند احمد میں مرفوعاً مروی ہے کہ معراج کی رات انبیاء کی چار کونسل میں جب قیامت کا ذکر ہوا تو حضرت عیسی نے فرمایا.فَذَكَرَ خُرُوجَ الدَّجَّالِ قَالَ فَانْزِلُ وَ اَقْتُلُه - (ابن ماجه باب فتنة الدجال و خروج عيسى بن مریم ) ( محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۵۳۳) جواب نمبر: ۱.یہ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے حدیث نبوی نہیں.۲.اس روایت کا پہلا راوی محمد بن بشار بن عثمان البصر کی بندار ہے جس کے متعلق لکھا ہے قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ ابْنُ سَيَّارٍ سَمِعْتُ عَمَرَو ابْنَ عَلِيِّ يَحْلِفُ إِنَّ بِنُدَارًا يَكْذِبُ فِيمَا يَرْوِي عَنْ يَحْيَى قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَلِي ابْنُ الْمَدِينِي سَمِعْتُ أَبِي وَ سَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثٍ رَوَاهُ بِنُدَارٌ عَنِ ابْنِ الْمَهْدِي....فَقَالَ هَذَا كَذِبٌ وَ اَنْكَرَهُ أَشَدَّ الْإِنْكَارِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الدَّوْرَقِيُّ فَرَأَيْتُ يَحْيِي لَا يَعْبَأُ بَهِ وَيَسْتَضْعِفُهُ قَالَ وَ رَأَيْتُ الْقَوِارِيرِ ئَ لَا يَرْضَأُ بِهِ.(تهذيب التهذيب ذكر محمد بن بشار بن عثمان البصرى بندار) یعنی عمرو بن علی نے حلف اٹھا کر کہا کہ یہ راوی ہر اس روایت میں جو وہ بیچی سے روایت کرتا ہے جھوٹ بولتا تھا.علی بن المدینی نے اس راوی کی اس روایت کو جو اس نے ابن مہدی سے لی ہے کذب قرار دیا.یحیی ابن معین نے اس راوی کو بے وقعت اور ضعیف قرار دیا ہے اور اسے قواریری نے بھی پسندیدہ راوی قرار نہیں دیا.اسی طرح اس روایت کا دوسرا راوی یزید بن ہارون ہے ، اس کے متعلق بی ابن معین کا قول یہ ہے کہ يَزِيدٌ لَيْسَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لِأَنَّهُ لَا يُمَيِّزُ وَلَا يُبَالِي عَمَّنْ روایتهذيب التهذيب ابن حجر عسقلانی زیر لفظ یزید بن هارون ) کہ یہ راوی تو حدیث کے جاننے والوں میں سے تھا ہی نہیں کیونکہ نہ یہ تمیز کرتا تھا اور نہ پرواہ کرتا تھا کہ کس سے روایت لے رہا ہے.پس یہ چار کونسل “ والی روایت بھی نا قابل اعتبار ہے.حیات مسیح کی سولہویں دلیل يَنْزِلُ أَخِي عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ عَلَى جَبَلٍ أَفِيُقَ.(كنز العمال.كتاب القيامة ذكر نزول عیسی - جلد ۴ حدیث نمبر ۳۹۷۱۹ دار الكتب العلمیہ بیروت لبنان) جواب نمبر :.یہ بے سند قول ہے.۲.صاحب کنز العمال نے اسے ابن عساکر کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اس کے آگے
302 کر “ کے حروف درج ہیں اور ابن عسا کر کے متعلق شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اپنے رسالہ عجالہ نافعہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نور محمد کارخانه تجارت کتب، آرام باغ ، کراچی صفحه ۵ پر تحریر فرماتے ہیں :.” و طبقہ رابعہ احادثے کہ نام و نشان آنها، در قرون سابقه معلوم نبود و متاخران انرا روایت کرده اند پس حال آنها از دوشق خالی نیست یا سلف تشخص کردند آنها را صلے نیافته اند تا مشغول.بروایت آنها می شدند.یا.یافتند و دراں قدح و علتے دیدند که باعث شد ہمہ انہارا بر طرق روایت انہاد علی کل تقدیر ایں احادیث قابل اعتماد نیستند که در اثبات عقیدہ یا عملے بآ نها تمسک کرده شود وَ لَنِعْمَ مَا قَالَ بَعْضُ الشُّيُوخِ فِي أَمْثَالِ هَذِا فَإِنْ كُنْتَ لَا تَدْرِى فَتِلْكَ مُصِيبَةٌ وَإِنْ كُنْتَ تَدْرِى فَالْمُصِيبَةُ أَعْظَمُ وایس قسم احادیث راه بسیاری از محدثین زده است...در من قسم احادیث کتب بسیار مصنفه شده اند برخی را بشماریم کتاب الضعفاء لابن حبان تفسیر ابن جریر تصانیف ابن عساکر.یعنی طبقہ رابعہ وہ حدیثیں ہیں جن کا نام ونشان پہلے قرنوں میں معلوم نہیں تھا اور متاخرین نے روایت کی ہیں تو ان کا حال دوشقوں سے خالی نہیں یا سلف نے تشخص کیا اور ان کی اصل نہ پائی کہ ان کی روایت سے مشغول ہوتے.یا ان کی اصل پائی اور ان میں قدح اور علت دیکھی کہ روایت نہ کیا اور دونوں طرح یہ حدیثیں قابل اعتبار نہیں کہ کسی عقیدہ کی اثبات پر یا عمل کرنے کو ان سے سند لیں اور کسی بزرگ نے ان جیسوں کے متعلق کیا خوب شعر فر مایا ہے.کہ اگر تو تجھے علم نہ ہوتو یہ مصیبت ہے لیکن اگر تجھے علم ہو تو یہ مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے.اس قسم کی حدیثوں نے بہت سے محدثین کی راہزنی کی ہے.اس قسم کی حدیثوں کی کتابیں بہت تصنیف ہوئی ہیں.تھوڑی سی ہم بیان کرتے ہیں.کتاب الضعفاء لابن حبان تفسیر ابن جریر...ابن عساکر کی جملہ تصانیف.پس یہ روایت ابن عساکر میں ہونے کے باعث ہی کمزور ہے.- تمہاری وہ منارہ مشقی کے پاس نازل ہونے والی روایت مندرجہ ترندی مسلم ابو داؤد وغیرہ کہاں گئی؟ حیات مسیح کی ستر ہویں دلیل معراج کی رات آنحضرت نے حضرت عیسی کو دیکھا تو ان کا حلیہ عروہ بن مسعود کی طرح
303 بیان فرمایا (رواه مسلم بحواله مشکواة المصابيح كتاب الروياً باب في المعراج بروایت ابو هريره ) (مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول الله صلى الله عليه سلم الى السموات و فرض الصلوة بروایت جاہر جلد اصفحہ اے ) اور مسلم میں دوسری جگہ جہاں آخری زمانہ میں نزول مسیح کا ذکر کیا ہے، وہاں بھی اس کا حلیہ "كَانَّهُ عُرْوَةُ ابْنُ مَسْعُودٍ ( عروہ بن مسعود کی طرح ) بیان فرمایا ہے.پس ثابت ہوا کہ مسیح ایک ہی ہے.( محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۵۸۴، ۵۸۵ بار دوم ۱۹۸۹ء) جواب.تمہاری پیش کردہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں : پہلی روایت : یہ روایت مسلم جلد اصفحہ اے مصری میں ہے.اس کا ایک راوی ابوالز بیر محمد بن مسلم مکی ہے جو ضعیف ہے اس کے متعلق لکھا ہے.كَانَ أَيُّوبُ يَقُوْلُ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرَ وَ أَبُو الزُّبَيْرَ ابُو الزُّبَيْرَ.....كَانَ يَضْعِفُهُ....قُلْتُ لِشَعْبَةٍ مَالَكَ تَرَكْتَ حَدِيث أَبِي الزُّبَيْرَ قَالَ رَأَيْتُهُ يَزْن قَالَ شَعْبَةُ قَدِمُتُ مَكَّةَ فَسَمِعْتُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِندَهُ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْئَلَةٍ فَرَدَّ عَلَيْهِ فَافْتَرَى عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا الزُّبَيْرَءَ تَفْتَرِى عَلَى رَجُلٍ مُسْلِمٍ قَالَ إِنَّهُ أَغْضَبَنِى قُلْتُ وَمَنْ يُغْضِبُكَ تَفْتَرِى عَلَيْهِ.(تهذيب التهذيب.و میزان الاعتدال ذکر محمد بن تدرس الاسدی) یعنی ایوب اور عیینہ کہا کرتے تھے کہ ہم سے ابوز بیر نے روایت کی ہے اور ابوز بیر بس ابوز بیر ہی ہے.یعنی وہ اسے ضعیف قرار دیتے تھے.ورقاء کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے پوچھا کہ آپ نے ابوز بیر کی روایت کو ترک کیوں کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسے زنا کرتے دیکھا ہے.ایک دفعہ مکہ میں ابوزبیر کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے سامنے ابوزبیر نے ایک شخ خص افتراء کیا ، اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم ایک مسلمان پر افتراء کرنے کی جرات کرتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اس پر افتراء اس لئے کیا ہے کیونکہ اس نے مجھے غصہ دلایا تھا.میں نے کہا کہ کیا جو شخص تم کو ناراض کرے گا تو اس پر افتراء کرے گا.۲.اس روایت کا دوسرا راوی قتیبہ بن سعید التیمی ہے یہ بھی ضعیف ہے چنا نچہ لکھا ہے.قَالَ الْعُقَيْلِيُّ حَدِيثُهُ غَيْرُ مَحْفُوظٍ مَجْهُولٌ فِى النَّسَبِ وَالرَّوَايَةِ وَ اسْنَادُهُ لَا يُصِحُ - (تهذيب التهذيب ابن حجر و میزان الاعتدال زیر لفظ قتیبه بن سعید التیمی ) یعنی عقیلی نے کہا ہے کہ
304 اس راوی کی روایت بالکل غیر محفوظ ہوتی ہے.یہ اپنے نسب اور روایات کرنے اور سند دینے میں مجہول تھا اور اس کی حدیث نہ مستند ہوتی ہے نہ ہی درست.یہ تو تمہاری پہلی حدیث کا حال ہے باقی رہی دوسری روایت ( حلیہ بوقت نزول ) سوده بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی شعبہ بن حجاج واسطی بصری ہے.اس کے متعلق لکھا ہے.كَانَ يُخْطِئُ فِي أَسْمَاءِ الرِّجَالِ كَثِيرًا (تهذيب التهذيب ذكر شعبه بن حجاج واسطی بصری ) کہ عجلی کے نزدیک یہ راوی اسماء الرجال میں غلطی کیا کرتا تھا اور یہی خیال دار قطنی کا ہے.اس دوسری روایت کا دوسرا راوی عبید اللہ بن معاذالعمیری ہے سو اس کے متعلق ابن معین کہتے ہیں.ابنُ مُمَيِّنَةٍ وَ شَهَابٌ وَ عُبَيْدُ اللَّهِ ابْنُ مَعَاذٍ لَيْسُوا أَصْحَابُ حَدِيثٍ لَيْسُوا بشَيْءٍ کہ ابن ممینہ اور شہاب اور عبید اللہ بن معاذ تینوں علم وحدیث نہ جانتے تھے اور نہ یہ راوی کسی حیثیت کے ہیں.(تهذیب التهذیب حرف العين زير لفظ عبيدالله بن معاذ) پس جب سابقہ مسیح کا حلیہ جس حدیث میں بتایا گیا ہے وہی ضعیف ہے اور اسی طرح نزول والی حدیث بھی.تو اندرین حالات اس مزعومہ یگانگت کو دلیل ٹھہر انا عبث ہے.حیات مسیح کی اٹھارویں دلیل کیا حضرت موسی زندہ ہیں؟ غیر احمدی.حضرت مرزا صاحب نے نورالحق صفحہ ۵۰ پر تحریر فرمایا ہے کہ حضرت موسی کی نسبت قرآن مجید میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے.پس ہم پر فرض ہے کہ ہم ان کے آسمان پر زندہ ہونے پر ایمان لائیں.(محمدیہ پاکٹ بک از محمدعبداللہ معمار امرتسری صفحه ۶۱۰ مطبع طفیل آرٹ پرنٹرز لاہور ناشر المکتبۃ السلفیہلا ہور نمبر۲ طبع ثانی اپریل ۱۹۸۹ء) جواب.الف :.اسی نورالحق میں تمہاری محولہ بالا عبارت سے سات ہی سطر میں آگے لکھا ہے وَمَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا تُوُفِّيَ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِ عِيسَى الرُّسُلُ “ اور اس کا ترجمہ بھی اسی جگہ درج ہے کہ اور کوئی نبی ایسا نہیں جو فوت نہ ہوا ہو اور حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے جو نبی آئے وہ فوت ہو چکے ہیں“.(نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۷۰ ) پس جہاں تک حضرت موسی کی جسمانی وفات کا تعلق ہے اس کا فیصلہ تو اس جگہ پر موجود ہے
305 اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کا یہی مذہب ہے کہ سب کے سب نبی بلا استثناء جسمانی طور پر فوت ہو چکے ہیں ایک بھی زندہ نہیں.حضرت مسیح موعود نے جو حضرت موسی کی حیات کا ذکر فرمایا ہے تو وہ الزامی طور پر ہے یعنی یہ کہ اگر نصوص صریحہ قرآنیہ و حدیثیہ و عقلیہ کے باوجود حضرت عیسی کی وفات ثابت نہیں تو پھر کسی نبی کی بھی وفات ثابت نہیں ہوتی.خصوصاً حضرت موسی کی.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے بعینہ یہی مضمون دوسری جگہ بالتفصیل تحریر فرمایا ہے : اب بتلاؤ کہ اس قدر تحقیقات کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے مرنے میں کسر کیا رہ گئی اور اگر با وجود اس بات کے کہ اتنی شہادتیں قرآن اور حدیث اور اجماع اور تاریخ اور نسخہ مرہم عیسی اور وجود قبرسرینگر میں اور معراج میں بزمرہ اموات دیکھے جانا اور عمر ایک سو بیس سال مقرر ہونا اور حدیث سے ثابت ہونا کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ کسی اور ملک کی طرف چلے گئے تھے اور اسی سیاحت کی وجہ سے اُن کا نام نبی سیاح مشہور تھا.یہ تمام شہادتیں اگر ان کے مرنے کو ثابت نہیں کرتیں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا.سب بجسم عصری آسمان پر جا بیٹھے ہیں کیونکہ اس قدر شہادتیں اُن کی موت پر ہمارے پاس موجود نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کی موت خود مشتبہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ اُن کی زندگی پر یہ آیت قرآنی گواہ ہے یعنی یہ کہ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِه ، تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۱۰۱) (ب) ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نعوذ باللہ مردہ ہیں مگر حضرت عیسی قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہو گئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے انہیں باتوں سے گمراہ کیا اور ان بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے.دیکھئے اللہ جل شانہ اپنے نبی کریم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِہ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنا زندہ ہوجانا اور آسمان پر اٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جاملنا بیان فرماتے ہیں پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں.معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر
306 زندہ پایا اور حضرت عیسی کو حضرت بیٹی کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.خدا تعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحمت کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کا فر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کیلئے دین سے نکلتے جاتے ہیں خدا تعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱۰ ۶۱۱۰ نیز تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحه ۱۳۹) (ج) اسی مضمون کو ایک اور جگہ اسی طرح بیان فرماتے ہیں: ’’ہاں اگر نص صریح سے ثابت ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام با وجود جسمانی حیات کے جسمانی تحلیلوں اور تنزل حالات اور فقدان قوی سے منزہ ہیں تو وہ نص پیش کریں اور یونہی کہہ دینا کہ خدا ہر ایک بات پر قادر ہے ایک فضول گوئی ہے اور اگر بغیر سند صریح کے اپنا خیال ہی بطور دلیل مستعمل ہوسکتا ہے تو ہم بھی کہ سکتے ہیں کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفات پھر زندہ ہو کر مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں اور پیرانہ سالی کے لوازم سے مستثنیٰ ہیں اور حضرت عیسی سے بدرجہا بڑھ کر تمام جسمانی قومی اور لوازم کا ملہ حیات اپنی ذات میں جمع رکھتے ہیں اور آخری زمانہ میں پھر نازل ہوں گے.اب بتلاؤ کہ ہمارے اس دعویٰ اور تمہارے دعوی میں کیا فرق ہے.“ ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۸۶) پس یہ تینوں مفصل حوالہ جات نور الحق صفحہ ۵۰ کی مجمل عبارت کی تشریح ہیں اور مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بھی دوسرے انبیاء کی طرح جنت میں زندہ ہیں ، اور ان کے ساتھ ہی حضرت عیسی بھی ہیں.نیز یہ جواب غیر احمدی مولویوں کو ملزم کرنے کے لئے دیا گیا ہے یعنی بطور الزام خصم ہے نہ کہ اپنا عقیدہ.حیات مسیح کی انیسویں دلیل حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: إِنَّهُ رُفِعَ بِجَسِدِهِ وَ إِنَّهُ حَى الآنَ (طبقات كبير لابن سعد جلدا صلح ٣٣ ذكر القرون والسنين التي بين آدم و محمد )
307 جواب:.یہ ایک جھوٹی اور جعلی روایت ہے.چنانچہ اس کے سارے ہی راوی ضعیف ہیں.پس یہ حضرت ابن عباس کا قول نہیں ہو سکتا.خصوصا جب کہ بخاری شریف کی مستند روایات سے ان کا مذہب مُتَوَفِّيْكَ مُمِیتُک ثابت ہے تو اس کے بالمقابل یہ سراپا جعلی روایت کیا حقیقت رکھتی ہے؟ اس روایت کا پہلا راوی ہشام بن محمد السائب ہے قَالَ ابْنُ عَسَاكِرٍ رَافَضِيٌّ لَيْسَ بِشِقَةٍ عَنِ ابْنِ الْكَلْبِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاس (میزان الاعتدال از ابی عبدالله محمد احمد بن عثمان الذهبی ۷۴۸ه زیر لفظ هشام بن محمد السائب ) یعنی اس روای کی تمام وہ روایات جو اس نے اپنے باپ سے ابو صالح کی معرفت ابن عباس سے روایت کی ہیں ، سب ضعیف ہیں اور روایت متنازعہ بھی اسناد کے لحاظ سے بعینہ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ “ ہے، لہذا جھوٹی ہے.-۲- دوسرا راوی محمد بن السائب الکلمی ہے.یہ تو کذاب سبائی جماعت میں سے تھا جنہوں نے حضرت عثمان کو شہید کیا تھا اس کے متعلق عبد الواحد بن غیاث کا قول ہے جو عن مہدی منقول ہے کہ یہ راوی کلبی کا فر تھا.معمر بن سلیمان کے باپ اور لیث بن ابی سلیم کا قول ہے:.كَانَ مِنْ كُوْفَةٍ كَذَابَانِ اَحَدُهُمَا الْكَلْبِيُّ....وَالْآخَرُ الْأَسَدِی کہ کوفہ میں دو کذاب تھے ایک تو یہی راوی کلبی اور دوسرا اسدی (تهذیب التهذيب ابن حجر عسقلانی زیر لفظ محمد بن سائب کلبی) یہ راوی امام الوضا عین تھا.(فوائد المجموعه صفحه ۱۴۷) ابوصالح:.اس کے متعلق لکھا ہے: أَبُو صَالِحٍ لَمْ يَسْمَعُ مِنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (تهذيب التهذيب زيـر لـفـظ محمد بن السائب و ميزان الاعتدال ذكر ابو صالح النخعی ) کہ ابوصالح نے نہ حضرت ابن عباس کو دیکھا اور نہ ان سے کوئی حدیث سنی.پس یہ روایت از سرتا پا جعلی ہے.حضرت مسیح ناصری امت محمدیہ کا موعود نہیں ہو سکتے حدیث نزول میں سے جس لفظ سے غلطی لگتی ہے وہ ” ابن مریم “ ہے.ابن مریم سے کیا مراد ہے؟ سواس کی تشریح، صداقت حضرت مسیح موعود پر اعتراضات کے جواب میں ”ابن مریم بننے کی حقیقت کے ذیل میں کی گئی ہے.(صفی۴ ۵۰) وہاں سے دیکھا جائے.علاوہ ازیں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام امت محمدیہ کے موعود بوجوہ ذیل نہیں ہو سکتے.اول: قرآن و حدیث سے مسیح کی وفات بالصراحت ثابت ہو چکی ہے اور وفات یافتہ
308 ہستیوں کے متعلق فرمان الہی ہے فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (الزمر: ۴۳) کہ جس پر ایک دفعہ موت وارد ہو جائے وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا.دوم : اگر مسیح ناصری امت محمدیہ یا ساری دنیا کے لئے رسول ہو کر آئیں تو پھر قرآن مجید میں سے رَسُولاً إلى بني اسراءيل (ال عمران: ۵۰) کے الفاظ کاٹ دینے چاہئیں.کیا ایسی صورت میں قرآن مجید کی نعوذ باللہ اصلاح کرو گے.پس جس صورت میں قرآن مجید قیامت تک واجب العمل ہے تو پھر حضرت مسیح ناصری امت محمد یہ یا غیر اسرائیلی دنیا کی طرف نہیں آسکتے.سوم : امت محمدیہ کو ارشاد ہوتا ہے: كُنتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران: 1) کہ تم سب امتوں سے بہتر ہو.اب اگر امت محمدیہ میں سے کوئی عیسی بن مریم نہ بنے تو یہ فرمان بے معنی بن جاتا ہے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو بھی ناقص ٹھہرانا پڑے گا کیونکہ آپ کی قدوسیت ایک مسیح بھی نہ بناسکی بلکہ جب امت اصلاح کی محتاج ہوئی تو بنی اسرائیل کے ایک نبی کے زیر بار احسان ہونا پڑا(نعوذ بالله منه) چهارم : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح اور مسیح ناصری کا جو حلیہ بیان فرمایا ہے.وہ بالکل متضاد اور متبائن ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا صیح اور ہے صحیح ناصری اور ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ (بخارى كتاب بدء الخلق باب واذكر في الکتاب مریم ) کہ مسیح ناصری سرخ رنگ، گھنگریالے بالوں اور چوڑے سینہ والا تھا.پھر آنے والے موعود کے متعلق فرمایا فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أَدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكَبَيْهِ رَجُلُ الشَّعْرِ (بخاری کتاب بدء الخلق باب واذكر في الکتاب مریم کہ اس کا رنگ گندمی ہوگا اور خوبصورت ہوگا.اس کے سر کے بال پیٹھ پر پڑتے ہوں گے.درمیانہ قد کا آدمی ہوگا.پس معلوم ہوا کہ علیحدہ علیحدہ دو مسیح ہیں.مسیح اور مہدی ایک ہیں اب اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ آنیوالا سیخ ناصری نہیں، یہ بتادینا بھی مناسب ہے کہ
309 بعض مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ مسیح و مہدی دو اشخاص ہیں نا درست ہے.اوّل:.اس لئے کہ آنحضرت نے جہاں آخری زمانے کے مصلح کا ذکر فرمایا ہے وہاں پر صرف مسیح کا نام آتا ہے اور مہدی کا ذکر تک نہیں فرماتے ہیں:.كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ اَنَا اَوَّلُهَا وَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اخِرُهَا ـ (مشكوة كتاب المناقب باب ثواب هذه الامة )(اكمال الدین صفحه ۵۷ اشیعہ کتاب ) (كنز العمال كتاب القيامة باب نزول عيسى من قسم الاقوال ) ( حجج الكرامه از نواب صدیق حسن خان صفحه ۴۲۳ ) کہ وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کا اول میں اور آخر مسیح ہے.اگر حضرت امام مہدی کوئی علیحدہ وجود ہوتے تو ان کا بھی ذکر فرماتے.پس معلوم ہوا کہ دونوں ایک وجود ہیں.دوم:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کو مہدی بھی قرار دیا ہے جیسے فرمایا.يُوشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يُلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيَّا وَ حَكَمًا عَدَلًا (مسند امام احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۱۱ الطبعۃ الثانی ۱۹۷۸ء مکتبہ اسلامی بیروت) که عیسی بن مریم جو امت کے موعود ہیں وہ امام مہدی بھی ہوں گے اور حکم اور عادل بھی ہوں گے.مہدی کی پیشگوئی کے لئے جو لفظ رکھے ہیں وہی یہاں رکھ کر بتا دیا کہ ہماری مراد وہی مہدی ہے.سوم.محدثین نے باب مہدی کی سب احادیث کو مجروح قرار دیا ہے ملاحظہ ہو مقدمہ ابن خلدون لیکن اس ضمن میں یہ حدیث صحیح ہے.وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى بُنُ مَرْيَمَ (سنن ابن ماجه كتاب الفتن باب شدة الزمان ) کیونکہ اس کا راوی محمد بن خالد الجندی معتبر ہے کیونکہ اس سے امام شافعی جیسے نقاد نے روایت کی ہے اور ابن معین نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے.(تهذیب التهذیب ذکر محمد بن خالد الجندی) اور پھر بیٹی بن معین کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ هُوَ اِمَامُ الْجَرْح وَالتَّعْدِيلِ ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ كُلُّ حَدِيثٍ لَا يَعْرِفُهُ ابْنُ مُعِينٍ فَلَيْسَ هُوَ بِحَدِيثٍ (تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی حرف الياء زیر لفظ یحیی بن معین ) کہ جس حدیث کو ابن معین نہیں جانتا وہ حدیث ہی نہیں.پس ایسا شخص جس راوی کو ثقہ قراردیتا ہو اس کی روایت میں کیونکر اشتباہ ہو سکتا ہے.پس معلوم ہوا کہ مسیح ہی مہدی ہے اور کوئی مہدی نہیں.چهارم: مسیح موعود اور مہدی معہود کے حلیہ، کام اور حالت نزول کے ایک ہونے سے ظاہر ہے کہ دراصل ایک ہی وجود ہے لیکن مختلف حیثیتوں سے جداجداناموں سے پکارا گیا ہے.
مسیح موعود کا حلیہ 310 فَإِذَا رَجُلٌ أَدَمٌ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ مہدی معہود کا حلیہ (بخاری کتاب الا نبیاء باب واذكر في الكتاب مريم ) ادَمٌ ضَرْبٌ مِّنَ الرِّجَالِ (ا) رواه ابونعیم کنز العمال كتاب الـفـضــائـل فضائل سائر الانبياء حدیث نمبر ۳۲۳۴۵، ۲ - النجم الثاقب جلد ۲ صفحہ ۹۰، ۳.مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول الله والفتن لنعيم بن حماد) یعنی آنے والا موعود مسیح اور مہدی گندمی رنگ اور درمیانہ قد کا ہوگا.مسیح کی حالت نزول يَنْزِلُ....بَيْنَ مَهْزُورَتَيْنِ (۱) ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في فتنة الدجال ، ۲.مشكواة المصابيح كتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة و ذكر الدجال) مہدی کی حالت نزول عَلَيْهِ عَبَا نَتَانِ قُطُوفَتَانِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (ابوداؤد ) یعنی اس پر دو زرد چادر میں ہوں گی.مسیح کا کام يُفِيضُ الْمَالَ (مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم.و بخاری کتاب الانبياء باب نزول عيسى بن مريم ( وَلَيْدُ عَونَّ إِلَى الْمَالِ - (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم و مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ بن مریم) مہدی کا کام فَيُقْسِمُ الْمَالَ وَيَعْمَلُ فِى النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمُ (سنن ابی داؤد کتاب المهدی بروایت ام سلمه حدیث نمبر ۸ ) پس معلوم ہوا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہیں.
311 اب جب مسیح ناصری امت مرحومہ کا موعود نہیں تو سوال ہوگا کہ پھرا بن مریم کیوں فرمایا ؟ تو یا در ہے کہ تشابہ صفات کی وجہ سے ایک شخص کا نام دوسرے کو دیا جاتا ہے جیسا بخاری کتاب الاذان باب اهل العلم والفضل احق بالامۃ پر یہ حدیث ہے کہ آنحضرت نے اپنی بیویوں کو فرمایا اِنَّ كُنَّ لَاَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُف کہ تم یوسف والیاں ہو.اس میں آپ نے اپنے آپ کو یوسف اور اپنی ازواج مطہرات کو یوسف والیاں ٹھہرایا ہے حالانکہ آپ یوسف نہ تھے.پس معلوم ہوا کہ مشابہت اور مماثلت کی وجہ سے ایک کا نام دوسرے کو دے دیا جاتا ہے.جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص حاتم ہے یا بولتے ہیں، ابو یوسف، ابوحنیفہ.کیا ابو یوسف ابوحنیفہ ہے؟ کیونکہ ان میں غایت درجہ کی مماثلت تھی.اسی طرح مسیح موعود کا نام مثیل ابن مریم ہونے کی وجہ سے ابن مریم ہو گیا.چوں مرا نورے پئے قوم سیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من نهاده اند در متین فارسی صفحه ۳۹ نیا ایڈیشن مطبوعه نظارت اشاعت) اس طرح یہ بھی ہے چوں مراحکم از پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۸) عقیدہ حیات مسیح اور حضرت مسیح موعود بعض غیر احمدی خصوصیت سے براہین احمدیہ کی وہ عبارت پیش کیا کرتے ہیں جس میں حضرت اقدس نے مسیح ناصری کو زندہ تسلیم کیا ہے.ان کا اعتراض یہ ہے کہ کیا براہین احمدیہ کی تحریر کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن مجید کا علم میچ نہیں دیا تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیا تھا.چنانچہ براہین احمدیہ کی محولہ عبارت نکال کر دیکھ لو.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ دربارہ حیات مسیح درج فرمایا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی جو علم آپ کو اللہ کی طرف سے اس بارے میں دیا گیا تھا وہ بھی درج فرما دیا ہے.اس جگہ ہم وہ عبارت درج کرتے ہیں.
312 جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا.اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسارا اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جو ہر کے دوٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے.اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.سوچونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خدا وند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۹۴٬۵۹۳ بقیه حاشیه در حاشیه نمبر۳) اب دیکھ لو کہ حضرت اقدس نے کس صفائی سے اپنے خیال کو جو دوسرے مسلمانوں کے رسمی عقیدہ پر مبنی تھا، نہایت سادگی سے بیان فرما دیا ہے، لیکن جو علم اس کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا اس کو بھی نہایت صفائی سے بیان فرما دیا ہے.منقولہ بالا عبارت میں ”لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے.“ کے الفاظ خصوصیت سے قابل غور ہیں، کیونکہ ”لیکن“ کا لفظ بتا تا ہے کہ اس سے پہلے جو لکھا گیا اس کے خلاف اب کچھ لکھا جانے لگا ہے.” ظاہر کیا گیا ہے.“ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ جو اس سے پہلے لکھا گیا وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر نہیں، بلکہ عام انسانی خیال کی بناء پر ہے.لیکن ما بعد جس مشابہت تامہ اور پیشگوئی مسیح موعود کا مصداق ہونے کا جو مذکور ہے وہ صحیح علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں:.اسی واسطے میں نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو....لکھنا جو الہامی نہ تھا محض رسمی تھا مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخود غیب کا دعویٰ نہیں.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۵۰) پس براہین احمدیہ کے حوالے حیات مسیح کی سند میں پیش کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی
313 اپنے قبلہ کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا بطور سند کے پیش کرے، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل محض رسمی تھا.کیونکہ سنتِ انبیاء یہی ہے کہ وہ پہلے نبی کی امت کے عام عقائد اور اصولی اعمال پر گامزن رہتے ہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص حکم کے ذریعہ ان کو روکا نہ جائے.یہی حال یہاں ہے.(خادم)
314 پہلی آیت عدم رجوع موتی مردوں کا اس دنیا میں دوبارہ نہ آنا ! از روئے قرآن کریم وَحَرُمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبیاء: ۹۶) یعنی ہر ایک فوت شدہ بستی پر واجب ہے کہ وہ اس دنیا کی طرف واپس نہ آئیں گے.دوسری آیت أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ (يس: ٣٢) کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر لوگ ان سے پہلے ہلاک کئے اور پھر وہ دوبارہ ان کی طرف نہیں آتے.تیسری آیت فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (يس: ۵۱) جب موت آجاتی ہے تو نہ وصیت کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوبارہ اپنے اہل وعیال کی طرف آسکتے ہیں.چوتھی آیت إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلَّى أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَابِلُهَا وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المؤمنون: ۱۰۱،۱۰۰) که یہاں تک کہ ان میں سے جب ایک مرجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے تا کہ میں اعمال صالحہ بجالاؤں (لیکن) یہ بات ہر گز نہ ہوگی.یہ صرف ایک بات ہے جو وہ منہ سے کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک روک ہے قیامت کے دن تک.یعنی وہ دنیا میں ہرگز نہیں آسکتے.پانچویں آیت فَيُمْسِكُ التِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأخْرى (الزمر: ۴۳) اللہ تعالیٰ روکے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کو وارد کرتا ہے، اور سونے والے نفس کو واپس بھیجتا ہے.یعنی مردہ نفس دوبارہ بھی نہیں آتا.
315 چھٹی آیت وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبرًا مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُ وَامِنَّا (البقرة : ۱۲۸) یعنی کہیں گے وہ جنہوں نے پیروی کی بتوں کی ، کاش! ہمارے لئے بھی دنیا میں لوٹنا ہوتا تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جاتے جیسے یہ ( آج) ہم سے بیزار ہوئے.یعنی افسوس کہ دنیا میں ہمیں دوبارہ نہ لوٹایا گیا.ساتویں آیت ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيْتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُونَ (المؤمنون: ۱۷،۱۲) پھر پیدائش کے بعد تم مرو گے اور مر کر پھر قیامت کے دن ہی اٹھائے جاؤ گے.اس سے پہلے ہرگز نہ اٹھائے جاؤ گے.آٹھویں آیت وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يُلَيْتَنَا نَرَدُّ وَلَا تُكَذِّبَ بِايْتِ رَبَّنَا وَ تَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانعام: ۲۸) کہ جب کفار آگ پر کھڑے کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے اے کاش! ہم دوبارہ دنیا میں لوٹائے جاتے تو نہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے بلکہ مومنوں میں سے ہوتے.نوٹ :.اس جگہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تو کفار کے لئے ہے مومن لوٹائے جا سکتے ہیں، تو یاد رہے کہ عقلاً اگر دنیا میں کوئی لوٹایا جانا چاہیے تو وہ کفار ہی ہیں تا کہ وہ اپنی اصلاح کر لیں.مومنوں کو تو آنے کی ضرورت ہی نہیں.پس جب کفار بھی لوٹائے نہ جائیں گے تو ماننا پڑے گا کہ کوئی بھی اس دنیا میں (واپس) نہ آئے گا.ایک اور طرح سے استدلال قرآنِ کریم سے ثابت ہے کہ مرنے والے انسان کی روح بعد از مرگ فوراً اپنے اعمال کے مطابق جزا سزا پانے لگ جاتی ہے.مومنوں کی ارواح اعلی علیین میں اور منکرین کی اسفل السافلین میں بھیج دی جاتی ہیں.ضرورت اس مضمون کی دو جگہ ضرورت ہوتی ہے ایک تو تب جب وفات مسیح عقلاً نظراً ثابت ہونے پر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہوا اگر مر گئے تو خدا تعالیٰ پھر زندہ کر دے گا.دوسرے جو بہ پسند لوگ حضرت عیسی کو محی الاموات حقیقی معنوں میں مانتے ہیں.تو اس مضمون سے دونوں کی تردید ہو جاتی ہے.
316 عدم رجوع موتی از احادیث ا قَالَ يَا عَبْدِى تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأَقْتَلُ فِيْكَ ثَانِيَةً قَالَ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّى أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ فَنَزَلَتْ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا في سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا.الآية ( رواه الترمذى بحوالہ مشکواة كتاب المناقب باب جامع المناقب ) کہ اللہ تعالیٰ نے شہید جایز کے باپ کو فرمایا کہ کوئی آرزو کر.اس نے کہا، اے میرے رب مجھے دنیاوی زندگی بخش کہ تیرے راستہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں.فرمایا کہ یہ تو میرا قانون ہو چکا ہے کہ یہاں سے دنیا کی طرف نہیں لوٹیں گے.وَ قُلْنَا ادْعُ اللَّهَ يُحْيِيهِ لَنَا فَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لِصَاحِبِكُمْ...اِذْهَبُوا فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمُ ( رواه مسلم بحوالہ مشکوة مجتبائى باب ما يحل اكله وما يحرم ) کہ ایک آدمی فوت شدہ کے متعلق صحابہ نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ! دعا فرمائیں کہ یہ زندہ ہو جائے تو آپ نے فرمایا.تمہیں چاہیے کہ اب اس کے لئے دعائے مغفرت کرو اور دفن کر دو.اس حدیث سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ اس دنیا میں زندہ کر کے نہیں بھیجتا، انبیاء بھی ایسا نہیں کر سکتے.احباب غور کریں کہ اگر حضرت عیسی فی الواقعہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہ کیا؟ محض اس لئے کہ خدا کے قانون کے برخلاف ہے.هَذَا هُوَ الْمُرَادُ.عدم رجوع موتی پر اجماع امت ہے کیونکہ کسی حدیث اور تفسیر اور فقہ وغیرہ میں کسی مسلمان نے ایسے احکام بیان نہیں کئے کہ اگر مردہ دوبارہ لوٹ آئے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ بیوی، مال وغیرہ اس کو ملے گا یا نہیں ؟ پس شریعت کے باوجود مکمل ہونے کے اور فقہاء کا بھی اس کا ذکر نہ کرنا صاف بتاتا ہے کہ یہ عقیدہ ہی باطل ہے.وهُوَ المقصود.
317 پہلی آیت مسئله امکان نبوت دلائل امکان نبوت از روئے قرآن مجید اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ (الحج : ۷۶ ) کہ اللہ تعالیٰ چنتا ہے اور چنے گا فرشتوں میں سے رسول اور انسانوں میں سے بھی.اس آیت میں يَصْطَفى مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لئے آتا ہے پس يَصْطَفیٰ کے معنی ہوئے چلتا ہے اور چنے گا اس آیت میں يَصْطَفیٰ سے مراد صرف حال نہیں لیا جا سکتا کیونکہ الف.آیت کی ترکیب اصل میں اس طرح ہے.اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَاللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ النَّاسِ رُسُلاً کہ اللہ فرشتوں میں سے بھی رُسُل چنتا ہے اور انسانوں میں سے بھی رُسُل چلتا ہے.لفظ رُسُل جمع ہے اس سے مراد آنحضرت (واحد) نہیں ہو سکتے.پس ماننا پڑے گا کہ آنحضرت کے بعد رسالت کا سلسلہ جاری ہے اور يَصْطَفى مستقبل کے لئے ہے.نوٹ:.بعض غیر احمدی رُسل بصیغہ جمع کا اطلاق واحد پر ثابت کرنے کے لئے وَإِذَا الرُّسُلُ أقتَتْ (المرسلات : ۱۲) والی آیت پیش کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں رُسل کو بمعنی رسول واحد لیا ہے سو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ شہادۃ القرآن کی عبارت محولہ میں حضرت مسیح موعود نے جمع کا ترجمہ واحد نہیں کیا، بلکہ جمع ہی رکھا ہے.چنانچہ حضرت اقدس نے تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۴۴ و ۲۴۵ پر اس آیت کا الہامی ترجمہ رقم فرمایا ہے.وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضاء و قدر کا اندازہ جو مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آجائے گا....پس یہی معنے آیت وإِذَا الرُّسُلُ أَقتَتْ کے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا اور یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسولوں کی آخری میزان ظاہر کرنے والا مسیح موعود ہے“ پس یہ عبارت صاف طور پر بتا رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اس آیت میں رُسل سے
318 مراد ” مرسلین اور رسولوں بصیغہ جمع ہی لیا ہے.ہاں اقتث کے لفظ سے میزان کننده ( میزان ظاہر کرنے والا ) کا وجود نکالا ہے.پس مخالفین کا شہادۃ القرآن کا حوالہ پیش کرنا سراسر دھوکہ ہے.ب: - يَصْطَفى مضارع منسوب بذاتِ خداوندی ہے اور اس آیت کی اگلی آیت ہے يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمُ (الحج: ۷۷) خدا تعالی جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے.کیا خدا تعالی اس آیت کے نزول کے وقت جانتا تھا اب وہ نہیں جانتا يَعْلَمُ بھی مضارع ہے.غیر احمدی:.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خود خدا کی اس قدیم سنت سے باہر ہو کہ وہ انسانوں میں سے رسول چنتا ہے جو اس کی تبلیغ کرتے ہیں.اسی سنت قدیمہ کی رو سے اب بھی یہ رسول بھیجا گیا ہے، بجائے اس کے کہ ارسال رسل کی سنتِ الہیہ سے موجودہ نبوت کا استدلال کیا جاتا آئندہ نبوت کا خواہ مخواہ ذکر چھیڑ دیا گیا بیہودہ ترجمہ ہے.محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۶ طبع خانی ۱۹۸۹ء از مولوی محمد عبد الله معمار امرتسری ) جواب:.جب سنت قدیمہ یہی ہے کہ وہ تبلیغ کے لئے رسول بھیجا کرتا ہے تو پھر اب بھی نبوت جاری ہے.کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب: ۶۳- فاطر :۴۴) کہ اللہ تعالی کی سنت کبھی بدلا نہیں کرتی.اندریں حالات تمہارا ارسال رسل“ کا انکار کرنا بیہودہ ہے“ یا ہمارا اقرار؟ غیر احمدی:.تشریعی نبی بھیجنا بھی تو خدا کی سنت ہے وہ کیوں بدل گئی ؟ جواب:.یہ کس نے کہا ہے کہ تشریعی نبی بھیجنے کی سنت بدل گئی ہے.تشریعی نبی بھیجنے کے لئے تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب سابقہ شریعت ناقص یا نا مکمل ہو یا ناقص تو نہ ہو مگر محرف (مبدل ) ہو گئی ہو تو نئی شریعت نازل فرماتا ہے اور غیر تشریعی نبی بھیجنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جس وقت ضرورتِ زمانہ کے لحاظ سے نہ سابقہ شریعت ناقص ہوا اور نہ محرف ہوئی ہو بلکہ لوگوں میں بد عملی اور ضلالت و گمراہی پیدا ہو گئی ہو تو اللہ تعالیٰ ان میں تبلیغ اور اصلاح کے لئے غیر تشریعی نبی بھیجا کرتا ہے.پس چونکہ قرآن کریم مکمل شریعت ہے اور اس میں تحریف بھی نہیں ہوئی بلکہ یہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے عین مطابق یہ ضروری ہے کہ کوئی تشریعی نبی نہ آئے بلکہ غیر تشریعی نبی آئے.پس جب تک قرآن کریم میں تحریف ثابت نہ کرو، یا یہ ثابت نہ کرو کہ قرآن مجید ( نعوذ باللہ ) ناقص کتاب ہے ، اس وقت تک تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم کے بعد تشریعی
319 نبی کا نہ آنا سنت قدیمہ کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مکمل اور غیر محرف شریعت کی موجودگی میں نئی شریعت کا نہ بھیجنا ہی خدا کی سنت ہے جو اس وقت بھی جاری ہے لیکن کیا تم انکار کر سکتے ہو کہ اس وقت دنیا میں ضلالت و گمراہی اور بدعملی کا دور دورہ نہیں ؟ اگر ہے اور ضرور ہے تو پھر تمہاری تسلیم کردہ "سنت ارسال رسل“ کے مطابق اس زمانہ میں کوئی غیر تشریعی نبی کیوں نہیں آسکتا ؟ غیر احمدی :.رُسل صیغہ جمع ہونے کا کیا یہ مطلب ہے کہ دس دس ہیں ہیں اکٹھے رسول آ ئیں؟ جواب: نہیں! بلکہ صیغہ جمع کا مفادصرف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالی صرف ایک ہی رسول نہیں بھیجے گا بلکہ وقتا فوقتا نبی بھیجتا رہے گا اور وہ رسول من حیث المجموع اتنے ہوں گے کہ ان پر صیغہ جمع اطلاع پائے.غیر احمدی:.صیغہ مضارع کبھی حال کے لئے اور کبھی استقبال کے لئے ہوتا ہے.محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۴۶۳ طبع خانی ۱۹۸۹ء از مولوی محمد عبد الله معمار امرتسری) جواب:.اس آیت میں استقبال کے لئے ہی ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رسول واحد تھے.ان پر رُسل صیغہ جمع کا اطلاق نہیں پاسکتا نیز ان کا اصطفاء تو اس آیت کے نزول سے کئی سال پہلے ہو چکا تھا.نزول کے وقت تو نہیں ہو رہا تھا.اس لئے یہاں مضارع حال کے لئے ہو ہی نہیں سکتا بلکہ بہر حال مستقبل کے لئے ہے.اگر ” حال ماضی کے لئے ہوتا تو اس سے پہلے یا ما بعد کسی واقعہ ماضی کا ذکر ہوتا لیکن اس آیت سے پہلے بھی اور بعد بھی آخر سورۃ تک کسی واقعہ ماضی کی طرف اشارہ تک نہیں بلکہ سب جگہ موجود ہ مخالفین ہی سے خطاب ہے لیکن اگر واقعہ ماضی ہو تو اِنَّ اللَّهَ اصْطَفی‘ فرمایا ہوتا جیسے إِنَّ اللهَ اصْطَفَى أَدَم (آل عمران (۳۴) وغیرہ آیات ہیں پس یہ آیت امکانِ نبوت کے لئے نص قطعی ہے جس کا تمہارے پاس کوئی جواب نہیں.نوٹ:.بعض دفعہ مخالفین کہا کرتے ہیں کہ آیت ہذا میں ایک عام قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے رسول بھیجا کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ مضارع سے عام قاعدہ صرف ایک ہی صورت میں مراد لیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مضارع استمرار تجد دی کے طور پر استعمال کیا جائے لیکن استمرار تجد دی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں زمانہ مستقبل بھی ضرور پایا جائے ہم مخالفین کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا استمرار تجد دی دکھا ئیں جس میں زمانہ مستقبل شامل نہ ہو صرف ماضی اور حال مراد ہو.
320 استمرار تجددی کے لئے مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں.ا وَقَدْ تُفِيدُ الْإِسْتَمَرَارَ التَّجَدُّدِى بِالْقَرَائِنِ إِذَا كَانَ الْفِعْلُ مُضَارِعًا كَقَوْلِ طَرِيفِ اَوَكُلَّمَا وَرَدَتْ عُكَاظَ قَبِيْلَةٌ بَعَثُوا إِلَى عَرِيْفَهُمْ يَتَوَسَّمُ کتاب قواعد اللغة العربية صفحه ۳۹ از رعنوان الكلام على الخبر) اور کبھی جب فعل مضارع ہو.بعض قرائن سے استمرار تجددی کا بھی فائدہ دیتا ہے جیسا کہ طریف شاعر کا یہ شعر ہے جب کبھی عکاظ کے میدان میں کوئی قبیلہ آ کر اترتا ہے تو وہ اپنے بڑے آدمی کو میری طرف بھیجتے ہیں جو گھاس کی تلاش کرتا رہتا ہے یا جو میری طرف دیکھتا رہتا ہے یہاں يَتَوَسَّمُ مضارع ہے جس نے استمرار تجددی کا کام دیا ( یہی مضمون بتغیر الفاظ تلخیص المفتاح از محمد بن عبدالرحمن القزوینی صفحه ۲۰ سطر مطبع مجتبائی دہلی پر ہے ) ۲- تفسیر بیضاوی تفسیر سورة آل عمران رکوع ۴ زیر آیت إِنِّي أَعِيْدُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ 66 الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ (آل عمران: ۳۷) لکھا ہے اُعِيُدُهَا فِي كُلِّ زَمَانٍ مُسْتَقْبِل لِعِي أَعِيدُ هَا میں استمرار تجد دی ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ میں اس کے لئے پناہ مانگتی ہوں.ہر آنے والے زمانہ کے لئے.گویا استمرار تجد دی میں زمانہ مستقبل بالخصوص پایا جاتا ہے.اسی طرح آیت اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَكَةِ (الحج :۷۶) میں استمرار تجددی ہوسکتا ہے اور اس کے لئے قریبہ الرسل بصیغہ جمع اور فعل مضارع کا خدا کی طرف منسوب ہونا ہے ( استمرار میں تینوں زمانے شامل ہوتے ہیں.کوئی زمانہ مستثنی نہیں ہوسکتا.خصوصاً زمانہ مستقبل جس کا ہونا اس میں لازمی ہے) نوٹ.اگر کوئی کہے کہ اگر استمرار تجددی تسلیم کر لیا جائے تو لازم آئے گا کہ ہر ایک سیکنڈ میں نبی اور رسول آتے رہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ استمرار کے لئے وقت اور ضرورت کی قید ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے.كَانَا يَا كُنِ الطَّعَامَ (المائدة: ۷۶ ) کہ حضرت عیسی اور ان کی والدہ کھانا کھایا کرتے تھے." كَانَا يَا كُلان ماضی استمراری ہے ( کیونکہ یاکلان مضارع پر گانا داخل ہوا ) تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ تمام دن رات کھانا ہی کھاتے رہتے تھے.یہاں استمرار کا مطلب یہ ہے کہ عند الضرورت کھانا کھاتے تھے.اسی طرح اللَّهُ يَصْطَفِئُ کا مطلب ہے کہ عند الضرورت خدا تعالیٰ رسول بھیجتا رہے گا.
321 پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ میں انسانوں کو بھی نبوت کے لئے چنتا رہوں گا اور فرشتوں کو بھی مختلف ڈیوٹیوں کے لئے بھیجتا رہوں گا.گویا سلسلہ نبوت جاری رہے گا.یادر ہے کہ ملائکہ صرف وحی لانے ہی کے لئے نہیں آتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے جس قدر احکام ہیں ان کے نفاذ کے لئے لا تعداد ملائکہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ چن کر ہمیشہ بھیجتا رہتا ہے.پس منکرین نبوت کا یہ کہنا کہ انبیاء کی طرف ایک ہی فرشتہ وحی لایا کرتا ہے بے اثر ہے.یہاں صرف وحی لانے کا ذکر نہیں بلکہ عام طور پر احکام الہی کے نفاذ کے لئے فرشتوں کے چننے کا ذکر ہے.دوسری آیت:.مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيْزُ الْخَيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللهَ يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرُ عَظِيمٌ (آل عمران : ۱۸۰) خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر اے مومنو! تم اس وقت ہو.یہاں تک کہ پاک اور ناپاک میں تمیز کر دے گا.خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو غیب پر اطلاع نہیں دے گا ( فلاں پاک ہے اور فلاں ناپاک ) بلکہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہے گا بھیجے گا ( اور ان کے ذریعے سے پاک اور ناپاک میں تمیز ہوگی ) پس اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا.اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تم کو بہت بڑا اجر ملے گا.سورۃ آل عمران مدنی سورۃ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کم از کم تیرہ سال بعد نازل ہوئی جبکہ پاک اور ناپاک میں ابو بکر و ابوجہل میں.عمر اور ابولہب میں.عثمان اور عقبہ وشیبہ وغیرہ میں کافی تمیز ہو چکی تھی مگر خدا تعالیٰ اس کے بعد فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ مومنوں میں پھر ایک دفعہ تمیز کرے گا مگر اس طور سے نہیں کہ ہر مومن کو الہا ما بتا دے کہ فلاں مومن اور فلاں منافق ہے بلکہ فرمایا کہ رسول بھیج کر ہم پھر ایک دفعہ یہ تمیز کردیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ایک دفعہ یہ تمیز ہوگئی.اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور تمیز کرے گا پس اس سے سلسلہ نبوت ثابت ہے.تیسری آیت:.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَيكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ
322 وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَك رَفِيقًا (النساء:۷۰) جو اطاعت کریں گے اللہ کی اور اس کے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پس وہ ان میں شامل ہو جائیں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبی ، صدیق ، شہید اور صالح اور یہ ان کے اچھے ساتھی ہوں گے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ میں طریق حصول نعمت اور تحصیل نعمت کو بیان کیا ہے.آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچتا ہے.دوسری جگہ جہاں انبیاء سابق کی اتباع کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس کے نتیجہ میں انعام نبوت نہیں دیا گیا.جیسا کہ فرمایا: - وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِةٍ أو لَيْكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ (الحديد:٢٠) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ اور باقی تمام انبیاء پر وہ صدیق اور شہید ہوئے.یا در ہے کہ یہاں آمَنُوا صیغہ ماضی اور رُسُلِهِ صیغہ جمع ہے.بخلاف مَنْ يُطِعِ اللَّهَ والی آیت کے کہ اس میں يُطع مضارع ہے اور الرسول خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے.گویا پہلے انبیاء کی اطاعت زیادہ سے زیادہ کسی انسان کوصدیقیت کے مقام تک پہنچا سکتی تھی.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ایک انسان کو مقام نبوت پر بھی فائز کر سکتی ہے.اگر کہا جائے کہ مَنْ يُطِعِ الله والی آیت میں لفظ مع ہے.مِن نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گے.خود نبی نہ ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ا.اگر تمہارے معنے تسلیم کر لئے جائیں تو ساری آیت کا ترجمہ یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نبیوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود نبی نہ ہوں گے.وہ صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود صدیق نہ ہوں گے وہ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود شہید نہ ہوں گے وہ صالحین کے ساتھ ہوں گے مگر خود صالح نہ ہوں گے.تو گویا نہ حضرت ابو بکر صدیق ہوئے ، نہ عمر ، عثمان، علی و حضرت حسین شہید ہوئے اور نہ امت محمدیہ میں کوئی نیک آدمی ہوا.تو پھر یہ امت خیر امت نہیں بلکہ شرامت ہوئی.لہذا اس آیت میں مع بمعنی ساتھ نہیں ہوسکتا بلکہ مع بمعنی من ہے.۲.جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَ
323 أَخَلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (النساء: ۱۴۷) مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور خدا کی رسی کو مضبوط پکڑا اور اللہ کے لئے اپنے دین کو خالص کیا.پس وہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں.اور خدا تعالیٰ مومنوں کو عنقریب بڑا اجر دے گا.کیا یہ صفات رکھنے والے لوگ مومن نہیں صرف مومنوں کے ساتھ ہی ہیں اور کیا ان کو اجر عظیم عطا نہیں ہو گا ؟ چنانچہ تفسیر بیضاوی میں آیت بالا کے الفاظ فَأُولَبِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ کا ترجمہ یہ کیا ہے فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَمِنْ عِدَادِهِمْ فِي الدَّارَينِ“.( بيضاوى زير آيت فأوليك مَعَ الَّذِينَ الْغَوَ اللَّه عَليهِم النساء: ۷۰) یعنی وہ لوگ دونوں جہانوں میں مومنوں کی گنتی میں شامل ہیں پس مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ کا ترجمہ بھی یہ ہو گا کہ وہ دونوں جہانوں میں منعم علیہم یعنی انبیاء کی گنتی میں شامل ہوں گے.“ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران: (۱۹۴) ) که مومن یہ دعا کرتے ہیں ) کہ اللہ ! ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے.اس آیت کا کیا یہ مطلب ہے.اے اللہ ! جب نیک لوگوں کی جان نکلے ہماری جان بھی ساتھ ہی نکال لے ؟ نہیں بلکہ یہ ہے کہ اے اللہ ! ہم کو بھی نیک بنا کر مار.۴.ایک جگہ شیطان کے متعلق آتا ہے.آئی آن يَكُونَ مَعَ الشَّجِدِينَ (الحجر: ٣٦) کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا اور دوسری جگہ مِنَ السُّجِدِينَ (الاعراف: ۱۲) آتا ہے.نوٹ:.مَعَ کے معنی معیت (ساتھ ) کے بھی ہوتے ہیں.جیسا کہ آیت اَنَّ اللهَ مَعَ المتقين (البقرة: ۱۹۵، التوبۃ:۱۲۳) ( کہ خدا نیک لوگوں کے ساتھ ہے ) میں اور مع کے معنی من بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر مثالیں دی گئی ہیں اور مَنْ يُطِعِ اللہ والی آیت میں تو اس کے معنی سوائے من کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر یہ معنے نہ کئے جائیں تو امت محمدیہ نعوذ باللہ شر امت قرار پاتی ہے جو بالبداہت باطل ہے.لہذا ہمارے جواب میں اِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (التوبة: ٤٠) اور أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرة: ۱۹۵) پیش کرنا غیر احمدیوں کے لئے مفید نہیں.نبوت موہبت ہے بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
324 پیروی میں نبوت ملے گی.تو اس سے یہ ماننا لازم آئے گا کہ نبوت ایک کسی چیز ہے.حالانکہ نبوت موہبت الہی ہے نہ کہ کہی.اور نبی تو ماں کے پیٹ سے ہی نبی پیدا ہوتا ہے.جواب:.اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک نبوت وہی ہے لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی موہبت نازل نہیں ہوتی جب تک کہ انسان کی طرف سے بعض اعمال ایسے سرزد نہ ہوئے ہوں جو اس موہبت کے لئے جاذب بن جائیں.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (الشوری: ۵۰ ) کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کو لڑکیاں موہبت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے موہت کرتا ہے.دوسری جگہ فرمایا وَهَبْنَا لَةَ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وكلا (مریم: ۵۰) کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق اور یعقوب موہبت کئے.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد موہبت ہے لیکن کیا اولاد کے حصول کے لئے کسی انسانی عمل کی ضرورت نہیں ؟ بیشک نبوت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی اور اطاعت اور اعمال صالحہ شرط ہیں لیکن اعمال صالحہ بھی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق کے بغیر بجالائے نہیں جاسکتے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷ ) اعمال صالحہ کا صادر ہونا خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۷ حاشیه ) عورتیں کیوں نبی نہیں بنتیں؟ بعض غیر احمدی وَمَنْ يُطِعِ الله (النساء:۷۰) والی آیت و نیز صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحه: ۷) والی آیت پر ( جب یہ امکان نبوت کی تائید میں پیش کی جائے ) یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اگر نبوت کا ملنا اطاعت نبوی پر موقوف ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ عورتوں میں سے کسی کو نبوت نہیں ملتی حالانکہ اطاعت نبوی تو عورتیں بھی کرتی ہیں.اسی طرح صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِ کی دعا اگر حصول نبوت کو مستلزم ہے تو یہ دعا تو عورتیں بھی کرتی ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ عورتیں نبی نہیں بنتیں ؟ تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض محض آیات مذکورہ بالا پر غور نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے حالانکہ اس کا جواب بھی ان آیات میں موجود ہے اور وہ یہ کہ
325 مَن يطع الله والی آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے ہم ان کو نبی بنائیں گے بلکہ فرمایا جولوگ اطاعت کریں گے ہم ان کو ان لوگوں میں شامل کر دیں گے جن پر ہم نے انعام کیا انعم الله عَلَيْهِمْ (النساء : ۷۰ ) ( بصیغہ ماضی ) یعنی نبی ، صدیق اور صالح.جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ زمانہ ماضی میں جس جس طرح ہم نے مندرجہ بالا انعامات تقسیم کئے تھے.اب ہم اطاعت نبوی کے نتیجہ میں وہی انعام اسی طریق پر امت محمدیہ کے افراد میں تقسیم کریں گے.اب سوال یہ ہے کہ کہ کیا انعم اللهُ عَلَيْهِمْ (النساء:0) میں جولوگ شامل ہیں ان میں سے کوئی عورت بھی کبھی نبی" ہوئی ؟ تو اس کا جواب خدا تعالیٰ خود دیتا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِ (الانبياء: ۸) یعنی اے نبی ! ہم نے آج تک کسی عورت کو نبی نہیں بنایا.پس جب کبھی کوئی عورت نبوت کا انعام پانے والی کبھی ہوئی ہی نہیں.تو پھر امت محمدیہ میں کس طرح ہو سکتی ہے؟ کیونکہ اس امت کو تو وعدہ ہی یہ دیا گیا ہے کہ فأوتيكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصِّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ (النساء : ۷۰ ) کہ تم کو بھی وہی انعامات ملیں گے جو پہلی امتوں کو ملے.مردوں کو نبوت ملی.عورتیں زیادہ سے زیادہ صدیقیت کے مقام تک پہنچیں.چنانچہ اس امت میں بھی انتہائی مقام مردوں کے لئے نبوت اور عورتوں کے لئے صدیقیت مقرر ہوا.اسی طرح صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا میں بھی اَنْعَمتَ صیغہ ماضی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! جو جو انعامات تو پہلی امتوں کے افراد پر نازل کرتا رہا ہے وہ ہم پر بھی نازل کر.پس چونکہ پہلی امتوں میں کبھی کوئی عورت نبی نہیں ہوئی اس لئے اب بھی کوئی عورت نبی نہیں ہوگی.جب امت محمدیہ کا کوئی مرد صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيْهِر کی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! مجھے پر بھی وہ انعام نازل فرما جو تو نے پہلی امتوں کے مردوں پر کئے.اور جب کوئی امت محمدیہ کی عورت یہ دعا کرتی ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اے خدا! تو نے جو انعام پہلی امتوں کی عورتوں پر نازل کئے وہ مجھ پر بھی نازل فرما.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے پر حکمت کلام میں ماضی کا صیغہ رکھ کر اس اعتراض کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا.فالحمد للہ علی ذلک.ہر اطاعت کرنے والا نبی کیوں نہیں بنتا بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ والی دعا تو امت محمدیہ
326 کے افراد کرتے رہتے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے بھی کی.پھر مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ والی آیت کے ماتحت ان سب کو نبوت ملنی چاہیئے تھی ؟ الجواب نمبر 1:.اس کا جواب یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام: ۱۲۵) کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بہتر جانتا ہے کہ کس کو نبی بنائے ، کب نبی بنائے اور کہاں نبی بنائے؟ الجواب نمبر ۲:.اللہ تعالیٰ سورۃ نور میں فرماتا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلِحَتِ لَيَستَخْلِفَتهُم فِي الْأَرْضِ ( النور : (۵۶) کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے اور اعمال صالحہ بجالانے والے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ ان سب کو زمین میں خلیفہ بنائے گا.اب ظاہر ہے کہ آیت استخلاف مندرجہ بالا کی رو سے خلیفہ صرف حضرت ابوبکر، عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہی ہوئے.کیا تمام صحابہ میں صرف یہ چار مومن باعمل تھے؟ کیا حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ ، حضرت بلال، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، طلحہ، زبیر رضوان اللہ علیہم وغیرہ صحابہ نعوذ باللہ مومن نہ تھے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بیشک یہ سب مومن تھے لیکن خلافت اللہ کی دین ہے جس کو چاہے دے لیکن وعدہ عام ہے جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب نبوت وخلافت صرف انہی لوگوں کو مل سکتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبردار ہوں.اس کے بغیر نہیں مل سکتی.علاوہ ازیں جب کسی قوم سے ایک شخص نبی ہو جائے تو وہ انعام نبوت سب قوم پر ہی سمجھا جاتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے: يقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء (المائدة: ۲۱) کہ اے قوم اس نعمت کو یاد کرو جو خدا نے تم پر نازل کی جب کہ اس نے تم میں سے نبی بنائے.گویا کسی قوم میں سے کسی شخص کا نبی ہونا اس تمام قوم پر خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھا جاتا ہے.پس صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ والی آیات میں جس نعمت نبوت کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ نہیں کہ ہر کوئی نبی بنے بلکہ صرف اس قدر ضروری ہے کہ اس امت میں سے بھی ضرور نبوت کی نعمت کسی فرد پر نازل کی جائے.ہمارے ترجمہ کی تائید حضرت امام راغب رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کے وہی معنے بیان کئے ہیں جو اوپر بیان
327 ہوئے چنانچہ تفسیر بحرالمحیط ( مؤلفہ محمد بن یوسف ) اندلی میں لکھا ہے: وَ قَوْلُهُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ وَالظَّاهِرُ أَنَّ قَوْلَهُ مِنَ النَّبِيِّينَ تَفْسِيرٌ لِلَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ فَكَأَنَّهُ قِيْلَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْكُمُ الْحَقَهُ اللَّهُ بِالَّذِينَ تَقَدَّمَهُمْ مِمَّنْ أَنْعَمَ عَلَيْهِمُ.قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ أَنْعَمَ عَلَيْهِمُ مِنَ الْفِرَقِ الْأَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَالثَّوَابِ النَّبِيُّ بِالنَّبِيِّ وَالصِّدِّيقُ بِالصِّدِّيقِ وَالشَّهِيدُ بِالشَّهِيدِ وَالصَّالِحُ بِالصَّالِحِ وَ أَجَازَ الرَّاغِبُ اَنْ يَّتَعَلَّقَ مِنَ النَّبِيِّينَ بِقَوْلِهِ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ اى مِنَ النَّبِيِّينَ وَ مِنْ بَعْدِهِمُ (تفسير البحر المحيط زیر آیت وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهِ وَالرَّسُولَ.النساء : ۶۹ ) یعنی خدا کا فرمانا کہ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ “ “ یہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کی تفسیر ہے اور یہ ظاہر ہے کہ خدا کا قول مِنَ النَّبِيِّينَ تفسیر ہے.اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ کی.گویا یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم میں سے جو شخص اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا.اللہ تعالیٰ اس کو ان لوگوں میں شامل کر دے گا جن پر قبل از میں انعامات ہوئے اور امام راغب نے کہا ہے کہ ان چار گروہوں میں شامل کرے گا مقام اور نیکی کے لحاظ سے.نبی کو نبی کے ساتھ اور صدیق کو صدیق کے ساتھ اور شہید کو شہید کے ساتھ اور صالح کو صالح کے ساتھ.اور راغب نے جائز قرار دیا ہے کہ اس امت کے نبی بھی نبیوں میں شامل ہوں.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ یعنی مِنَ النَّبِيِّينَ ( نبیوں میں سے ).اس حوالہ سے صاف طور پر حضرت امام راغب کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس امت میں بھی انبیاء کی آمد کے قائل تھے.چنانچہ اس عبارت کے آگے مؤلف البحر المحیط ( محمد بن یوسف بن علی بن حیان الاندلسی جو۴ ۷۵ھ میں فوت ہوئے ) نے امام راغب کے مندرجہ بالا قول کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ راغب کے اس قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی آپ کی امت میں سے بعض غیر تشریعی نبی پیدا ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے.اس پر مصنف اپنا مذہب لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ درست نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے.لیکن ہمیں مؤلف بحر الحیط یعنی محمد بن یوسف الاندلسی کے اپنے عقیدہ سے سروکار نہیں ہمیں تو
328 یہ دکھانا مقصود ہے کہ آیت مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ الخ کا جو مفہوم آج جماعت احمد یہ بیان کرتی ہے وہ نیا نہیں بلکہ آج سے سینکڑوں سال قبل امام راغب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کا وہی ترجمہ کرتے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے.غیر احمدی - ترندی میں حدیث ہے کہ النَّاجِرُ الصَّدُوقَ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ“ آج تک کتنے لوگ تجارت کی وجہ سے نبوت حاصل کر چکے ہیں؟ محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۷۱ طبع ثانی ۱۹۸۹ء مطبع طفیل آرٹ پرنٹ لا ہور از مولوی عبداللہ معمار امرتسری) جواب:.یہ روایت ضعیف ہے.کیونکہ اسے قبیصہ ابن عقبہ الکوفی نے سفیان ثوری سے اور سفیان ثوری نے ابوحمزہ عبداللہ بن جابر سے.اس نے حسن سے اور اس نے ابوسعید سے روایت کیا ہے.قبیصہ کے متعلق لکھا ہے:.قَالَ ابْنُ مَعِينٍ هُوَ ثِقَةٌ إِلَّا فِي حَدِيثِ الثَّوْرِى وَ قَالَ أَحْمَدُ كَثِيرُ الْغَلْطِ...قَالَ ابْنُ مَعِينِ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيّ ( میزان الاعتدال جلد ۲ صفحه ۳۱ ذكر قبيـصـه بـن عقبه ) که ابن معین فرماتے ہیں کہ قبیصہ کی وہ روایت جو وہ سفیان ثوری سے روایت کرے کبھی قبول نہ کرنا احمد کے نزدیک یہ راوی کثرت سے غلط روایت کرتا تھا اور ابن معین کے خیال میں یہ قوی راوی نہ تھا.یہ روایت بھی اس راوی کی سفیان ثوری ہی سے ہے.لہذا جھوٹی ہے.۲.اگر درست بھی ہوتی تو بھی حرج نہ تھا کیونکہ التاجرُ الصَّدُوقُ الْآمِينُ تو خود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ ہیں.لہذا آپ ہی وہ خاص تاجر اور وہ سچ بولنے والے امین نبی تھے جن کی تعریف اس قول میں کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ حضور نبی تھے.چوتھی آیت:.يُبَنِي أَدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاعراف: ۳۶) اے بنی آدم (انسانو ! ) البتہ ضرور آئیں گے تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کریں گے تمہارے سامنے میری آیتیں.پس جولوگ پر ہیز گاری اختیار کریں گے اور اپنی اصلاح کریں گے ان کو کوئی غم اور ڈر نہ ہوگا.امَّا يَأْتِيَنَّ“ کا ترجمہ یہ ہے البتہ ضرور آئیں گے کیونکہ يَأْتِيَنَّ مضارع مؤکد به نون ثقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے جیسا کہ کتاب الصرف مؤلفه حافظ عبدالرحمن
329 امرتسری میں لکھا ہے: نون تاکید.یہ حرف آخر مضارع میں آتا ہے اور اس کے آنے سے مضارع کے پہلے لام مفتوح کا آنا ضروری ہوتا ہے.یہ نون مضارع کے آخر حرف پر فتحہ اور معنے تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کے دیتا ہے، جیسے لَيَفْعَلَنَّ ( وہ البتہ ضرور کرے گا ) اس کو مضارع مؤکد بلام تا کید و نون تاکید کہتے ہیں اور اس پر حاشیہ میں لکھا ہے:.اکثر تو لام مفتوح آتا ہے.مگر کبھی اما بھی آجاتا ہے.جیسے اِمَّا يَبْلُغَنَّ " دیکھو کتاب الصرف سبق نمبر ۱۳ انون تاکید صفحه ۱۵ ایڈیشن نمبر ۹ صفحه ۲۳) نیز ملاحظہ ہو بیضاوی جلد ۲ صفحه ۲۸۲ مطبع احمدی زیر آیت فَإِمَّا نَذَهَبَنَ بِك (الزخرف: ۴۲ )لکھا ہے.وَمَا مَزِيدَةُ مُؤَكَّدَةٌ بِمَنْزِلَةِ لَام الْقَسَمِ فِي اسْتِجُلابِ النُّونِ الْمُؤكَّدَةِ “ پس يَأْتِي “ ( آئے گا) مضارع کے آخر میں ”نون تاکید آیا اور اس کے شروع میں اما آیا.پس اس کے معنے ہوئے البتہ ضرور آئیں گے رسل (ایک سے زیادہ رسول).نوٹ :.یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس میں تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے.یہاں یہ نہیں لکھا ہوا کہ ہم نے گزشتہ زمانہ میں یہ کہا تھا نیز اس آیت سے پہلے کئی مرتبہ " يَا بَنِي آدَمَ “ آیا ہے اور اس میں سب جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگ مخاطب ہیں جیسا کہ يُبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲) اے انسانو! ہر مسجد (یا نماز ) میں اپنی زینت قائم رکھو.چنانچہ امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :.فَاِنَّهُ خِطَابٌ لِاهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَلِكُلِّ مَنْ بَعْدَهُمْ ( تفسیر اتقان جلد ۲ صفحه ۳۶ مصری) کہ یہ خطاب اس زمانہ اور اگلے زمانہ کے تمام لوگوں کو ہے.(ب) تفسیر حسینی موسومہ بہ تفسیر قادری میں ہے:.” یہ خطاب عرب کے مشرکوں کی طرف ہے.اور صحیح بات یہ ہے کہ خطاب عام ہے.(تفسیرحسینی جلدا صفحه ۳۰۵ آخری سطر مطبوعه نولکشو رزمیہ آیت يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ ) ( ج ) امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:.وَإِنَّمَا قَالَ رُسُلٌ وَ إِنْ كَانَ خِطَابًا لِلرَّسُولِ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ وَ هُوَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ
330.....وَأَمَّا قَوْلُهُ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَقِيلَ تِلْكَ الْآيَاتُ هِيَ الْقُرْآنُ....ثُمَّ قَسَمَ تَعَالَى حَالَ الْأُمَّةِ فَقَالَ (فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ ) ( تفسیر کبیر رازی زیر آیت وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمُ يَحْرفُونَ البقرة : ١١٣).غیر احمدی : - يبَنِي أَدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِد (الاعراف: ۳۲) میں مسجد کا لفظ غیر مذاہب کے معبدوں کے لیے استعمال ہوا ہے نہ کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے لئے.جواب:.آیت زیر بحث کے سیاق و سباق میں سوائے مسلمانوں کے کسی اور قوم کا ذکر ہی نہیں اور یہ تمام نصائح مسلمانوں کو کی گئی ہیں.چنانچہ يُبَنِی آدَمَ اِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ (الاعراف: ۳۲) سے پہلی دو آیات یہ ہیں :.قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللهِ مَالَمْ يُنَزِلْ بِهِ سُلْطَنَّا وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ - وَلِكُلِّ أمةٍ أَجَلَّ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ يُبَنِي أَدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ (الاعراف: ۳۴ تا ۳۶) ان آیات کا ترجمہ تفسیر حسینی سے نقل کیا جاتا ہے: " کہہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! سوائے اس کے نہیں کہ حرام کئے رب تیرے نے گناہ کبیرہ کہ بڑے عذاب کے سبب ہیں جو ظاہر ہے ان میں سے جیسے کفر اور جو پوشیدہ ہے جیسے نفاق اور حرام کیا وہ گناہ جس پر حد مقررنہیں ہے.جیسے گناہ صغیرہ اور حرام کیا ظلم یا تکبر ساتھ حق کے...اور حرام کیا یہ کہ شرک لاؤ تم ساتھ اللہ کے اور شرک پکڑو اس کی عبادت میں اس چیز کو کہ خدا نے نہیں بھیجی...کوئی دلیل اور یہ بھی حرام کیا ہے کہ کہو تم جھوٹ اور افتراء کرو خدا پر جو کچھ تم نہیں جانتے ہو.کھیتوں اور چار پایوں کی تحریم اور بیت الحرام کے طواف میں برہنہ ہونا اور واسطے ہر گروہ کے ایک مدت ہے جو خدا نے مقرر کر دی ہے.ان کی زندگی کے واسطے.تغیرحسینی جلد اصفحه ۳۰۵ اردومترجم مکتبه سعید ناظم آباد کراچی زیر آیت الاعراف: ۳۳ تا ۳۵) صاف ظاہر ہے کہ قل“ کہہ کر خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور پھر حضور کے ذریعہ سے یہ پیغام تمام بنی نوع انسان کو پہنچایا گیا ہے کہ اِمايَاتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ (الاعراف: ۳۲) باقی رہا تمہارا کہنا کہ مسجد سے مراد اصحاب کہف (عیسائیوں) کی مسجد ہے تو یہ محض مغالطہ آفرینی ہے کیونکہ یہ آیت عیسائیوں کے گرجوں کے اندرا اچھے اچھے کپڑے پہن کر جانے کی ہدایت
331 نہیں دیتی بلکہ کعبہ شریف خصوصاً اور دوسری اسلامی مساجد میں عموماً نماز پڑھنے کے لیے جانے والوں کو مخاطب کرتی ہے.چنانچہ تفسیر حسینی میں خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۲) کی مندرجہ ذیل تشریح کی گئی ہے.بعض مفسر اس بات پر ہیں کہ یہ خطاب عام ہے اور اکثر مفسر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے.اس واسطے بنو ثقیف اور دوسری ایک جماعت عرب مشرکوں کی تھی کہ ان کے مرد اور عورتیں بر ہنہ طواف کرتی تھیں اور کپڑے اتار ڈالنے سے یہ فال لیتے تھے کہ گنا ہوں سے ہم بری ہو گئے اور بنو عامر احرام کے دنوں میں حیوان کھانے سے پر ہیز کرتے تھے اور تھوڑے سے کھانے پر قناعت کر کے اس فعل کو اطاعت جانتے تھے اور کعبہ کی تعظیم کا خیال باندھتے تھے.مسلمانوں نے کہا کہ یہ تعظیم وتکریم کرنا ہم کو تو بہت سزا وار اور لائق ہے.حق تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ خُذُوا زِينَتَكُو اپنے کپڑے کہ ان کے سبب سے تمہاری زینت ہے عِندَ كُلِّ مَسْجِدِ نزدیک ہر مسجد کے جس کا تم طواف کرتے ہو یا جس میں تم نماز پڑھتے ہو.تفسیر حسینی زیر آیت خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدِ الاعراف:۳۲) (ب) حضرت امام رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ اَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ كَانُوا يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ عُرَاةً.اَلرِّجَالُ بِالنَّهَارِ وَالنِّسَاءُ بِاللَّيْلِ وَكَانُوا إِذَا وَصَلُّوا إِلَى مَسْجِدِ مِنَى طَرَهُوا ثِيَابَهُمُ وَآتُوا الْمَسْجِدَ عُرَاةً وَقَالُوا لَا نَطُوفٌ فِي ثِيَابِ أَصَبْنَا فِيهَا الذُّنُوبَ....فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ يَا رَسُولَ اللهَ فَنَحْنُ اَحَقُّ اَنْ نَّفْعَلَ ذَلِكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ أَيْ الْبِسُوا ثِيَابَكُمْ وَكُلُوا اللَّحْمَ.( تفسير كبير رازى يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُم الاعراف:۳۲) یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عرب قبائل بباعث جاہلیت کے خانہ کعبہ کا طواف ننگے بدن کرتے تھے.دن کو مرد اور رات کو عورتیں طواف کرتی تھیں.اور جب وہ مسجد منی کے قریب پہنچتے تھے تو اپنے کپڑے اتار کر مسجد میں ننگے بدن آتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہم ان کپڑوں کے ساتھ کبھی طواف نہیں کریں گے جن میں ہم گناہ کرتے ہیں.پھر جب اس بارے میں مسلمانوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی یہ حکم دیا کہ اپنے کپڑے پہنو اور گوشت کھاؤ.( ج ) تفسیر بیضاوی میں ہے:
332 خُذُوا زِيْنَتَكُمْ ثِيَابَكُمْ لِمَوَارَاةِ عَوْرَاتِكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ لِطَوَافٍ أَوْ صَلَوَةٍ.وَ مِنَ السُّنَّةِ أَنْ يَأْخُذَ الرَّجُلُ اَحْسَنَ هَيْئَتِهِ لِلصَّلوةِ وَ فِيهِ دَلِيْلٌ عَلَى وَجُوْبِ سَتْرِ الْعَوْرَةِ في الصلوة.وَكُلُوا وَاشْرَبُوا مَا طَابَ لَكُمُ رُوِيَ أَنَّ بَنِي عَامِرٍ فِي أَيَّامٍ حَجَهِمْ كَانُوا لَا يَأكُلُونَ الطَّعَامَ إِلَّا قُوْتًا.....فَهَمَّ الْمُسْلِمُونَ بِهِ فَنَزَلَتْ - ( بینادی زیر آیت خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِد - الاعراف :۳۲) پس ثابت ہوا کہ یہاں مسجد سے مراد عیسائیوں کے گرجے نہیں بلکہ کعبۃ اللہ اور مسلمانوں کی دوسری مسجد میں مراد ہیں.نیز یہ کہ حضرت آدم کے زمانہ کا واقعہ بیان نہیں کیا جارہا بلکہ مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے.غیر احمدی:.لفظ ”رسول“ نبی اور رسول اور محدث تینوں معنوں پر مشتمل ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے.جواب:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصطلاح تو خاص تھی جس کے رو سے لفظ محدث بالواسطہ غیر تشریعی نبی کا ہم معنی اور قائمقام ہے.اس لحاظ سے اگر لفظ ”رسول“ میں غیر تشریعی نبوت کا حامل شامل ہو تو پھر بھی امکان نبوت ثابت ہے.غیر احمدی:.لفظ رسول تو تشریعی و غیر تشریعی دونوں قسم کی نبوت پر مشتمل ہے پھر اس آیت سے تشریعی نبوت کا امکان بھی ثابت ہوا.جواب:.جی نہیں ! بلکہ اس آیت میں تو اس کے بالکل برعکس یہ بتایا گیا ہے کہ اب جن رسولوں کی آمد کا وعدہ دیا جا رہا ہے وہ سب غیر تشریعی نبی ہوں گے اور صرف يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ التي (الاعراف: ۳۶) وہ سابقہ نازل شدہ آیات قرآنی ہی کو پڑھ پڑھ کر سنایا کریں گے.ملاحظہ ہو حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد فرماتے ہیں:.وَأَمَّا قَوْلُهُ ( يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي) فَقِيلَ تِلْكَ الْآيَاتُ هِيَ الْقُرْآنُ - ( تغير كبير رازی زیر آیت فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.الاعراف: ۳۶) نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان موعودہ رسولوں کی بعثت کی غرض تو تقویٰ پیدا کرنا اور اصلاح کرنا ہوگی جیسا کہ فرمایا ہے.فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ (الاعراف : ۳۶) یعنی جو تقوی اختیار کرے گا اور اپنی
333 اصلاح کرے گا وہی امن میں ہوگا.دوسرا نہیں.یہی وجہ ہے کہ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ اس آیت اتُيَانُ الرُّسُلِ اَمْرٌ جَائِزٌ غَيْرُ وَاحِبٍ “ ( بیضاوی زیر آیت لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةٌ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ الاعراف : ۳۵ نیز تفسیر ابی السعود بر حاشیہ تفسیر کبیر زیر آیت فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ جلد۲ صفحه ۲۹۹ مصری ) یعنی يُبَنِي أَدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسولوں کا آنا جائز ہے.اگر چہ ضروری نہیں کہ رسول ضرور ہی آئیں.بہر حال امکان نبوت کو تسلیم کر لیا گیا ہے.پانچویں آیت:.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة: ٧،٦ ) که اے اللہ ! ہم کو سیدھا راستہ دکھا.ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمت نازل کی ، گویا ہم کو بھی وہ نعمتیں عطا فرما جو پہلے لوگوں کو تو نے عطا فرما ئیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ نعمتیں کیا تھیں؟ قرآن مجید میں ہے: يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا (المائدة: ٢١) موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا.اے قوم! تم خدا کی اس نعمت کو یاد کرو.جب اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا، ثابت ہوا کہ نبوت اور بادشاہت دو نعمتیں ہیں جو خدا تعالیٰ کسی قوم کو دیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھائی ہے اور خود ہی نبوت کو نعمت قرار دیا ہے اور دعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی قبولیت کا فیصلہ فرما چکا ہے.لہذا اس سے امت محمدیہ میں نبوت ثابت ہوئی.چھٹی آیت:.يَايُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (المؤمنون: ۵۲) اے رسولو! پاک کھانے کھاؤ اور نیک کام کرو.یہ جملہ ندائیہ ہے جو حال اور مستقبل پر دلالت کرتا ہے اور لفظ رُسُلُ بصیغہ جمع کم از کم ایک سے زیادہ رسولوں کو چاہتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اکیلے رسول تھے.آپ کے زمانہ میں کوئی بھی اور رسول نہ تھا.لہذا ماننا پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول آئیں گے.ورنہ کیا خدا تعالیٰ وفات یافتہ رسولوں کو یہ حکم دے رہا ہے کہ اٹھو! اور پاک کھانے کھاؤ اور نیک کام کرو.
334 اس امر کا ثبوت کہ یہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں کو نہیں ہے :.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَايُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطيبتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا (المؤمنون: ۵۲) وَ قَالَ تَعَالَى يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنُكُمْ (البقرة: ۱۷۳) (مسلم كتاب الزكوة باب قبول الصدقة من الكسب الطيب بحوالہ محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۸۶ ایڈیشن ۱۹۸۹ ء ) یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک ہے اور سوائے پاکیزگی کے کچھ قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی حکم دیا ہے جو اس نے نبیوں کو دیا ہے.کہ اے رسولو ! پاک چیزیں کھاؤ اور مناسب حال اعمال بجا لاؤ.ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے (مسلمانوں کو ) فرمایا کہ اے ایمان والو اس پاک رزق سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دیا ہے.یہ حدیث صاف بتا رہی ہے کہ جس طرح یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيْبَتِ مَا رَزَقْنكُمْ (البقرة: ۱۷۳) والا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے فوت ہو چکنے والے مومنوں کو نہیں بلکہ موجودہ یا بعد میں ہونے والے مومنوں کو دیا گیا ہے.اسی طرح یايُّهَا الرُّسُلُ کا خطاب بھی گزشتہ انبیاء کو نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ یا آپ کے بعد آنے والے رسولوں سے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو کوئی اور رسول تھا نہیں.لہذا ثابت ہوا کے بعد پیدا ہونے والے ایسے رسولوں سے خطاب ہے جو قرآن کی شریعت کے تابع ہوں گے.غیر احمدی:.آیت یابها الرسل میں ذکر پہلی امتوں کا ہے جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خطاب نہیں ہے.بلکہ پہلے انبیاء سے ہے.جواب:.جی نہیں ! یہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کو ہرگز نہیں ہے.جیسا کہ اوپر درج شدہ حدیث سے ثابت کیا گیا ہے.اب تفسیر بھی دیکھ لو لکھا ہے :.ا.امام ثعالبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :.کہ رُسُلُ اللہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جیسے کہ یا تیهَا الرُّسُلُ میں لفظ جمع کے ساتھ انہی کی طرف خطاب ہے اور یہ تی ی تعظیم کی راہ سے ہے.شرح معارف میں لکھا ہے کہ جب تک حق تعالیٰ نے سب انبیاء علیہم السلام کے خصائل اور شمائل حضرت سید الانبیاء میں جمع نہیں کئے.حضرت کو آیت یا يُّهَا الرُّسُلُ سے خطاب نہیں فرمایا.( تفسیر حسینی قادری زیر آیت مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللهِ انعام : ۱۲۵ نیز دیکھو جلد ۲ صفحہ ۵۷ وصفحه ۹۹)
335 ۲ تفسیر اتقان مصنفہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ میں ہے:.خِطَابُ الْوَاحِدِ بِلَفْظِ الْجَمْعِ نَحْوَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ....فَهُوَ خِطَابٌ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحْدَهُ إِذْ لَا نَبِيَّ مَعَهُ وَلَا بَعْدَهُ.» ( تفسیر اتقان جلد ۲ صفحه ۳۴ مصری زیر آیت يَايُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطيبتِ - المومنون : ۵۲ ) یعنی اس آیت میں یا يُّهَا الرُّسُلُ کا خطاب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ہے.کیونکہ بخیال مصنف آنحضرت کے زمانہ یا ما بعد کوئی نبی نہیں..امام راغب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَ قَوْلُهُ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا قِيْلَ عُنِيَ بِهِ الرَّسُولُ وَصَفْوَةً اَصْحَابِهِ فَسَمَّاهُمُ رُسُلًا لِضَمِهِمْ إِلَيْهِ.“ (مفردات راغب حرف الراء مع السين زير لفظ رُسل ) یعنی اس آیت میں خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چیدہ اصحاب سے کیا گیا ہے اور ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستگی کے باعث ”رسول“ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.پس یہ ثابت ہے کہ یہ خطاب انبیاء سابقہ کو نہیں.باقی رہا یہ کہنا کہ لفظ رُسُل جو جمع کا صیغہ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واحد کے لئے آیا ہے تو یہ محض خوش فہمی اور ایک کو سوالا کھ کے کہنے کے مترادف ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے شیعہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں وَالَّذِينَ آمَنُوا سے مراد حضرت علی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ قرآن مجید قیامت تک کے لئے شریعت ہے اس لئے اس میں تمام ایسے احکام بیان فرما دیئے گئے جن پر قیامت تک عمل کیا جانا ضروری تھا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء آنے والے تھے ان کے لئے بھی مکمل ہدایات قرآن مجید میں نازل فرما دی گئیں.ان ہدایات میں سے ایک ہدایت پر مشتمل یہ آیت بھی ہے.ساتویں آیت:.وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُوْلَ اللهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (الاحزاب: ۵۴) تمہارے لئے یہ مناسب نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو ایذاء دو.اور نہ یہ مناسب ہے کہ
336 تم رسول کی وفات کے بعد اس کی بیویوں سے شادی کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے رسول تھے.حضور صلعم جب فوت ہوئے آپ کی بیویوں کے ساتھ کسی نے شادی نہ کی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضور کی ازواج مطہرات بھی فوت ہو گئیں.اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سلسلہ نبوت بند ہو گیا ہے.تو نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ اس کی وفات کے بعد اس کی بیویاں زندہ رہیں گی اور نہ ان کے نکاح کا سوال ہی زیر بحث آئے گا.تو اب اگر اس آیت کو قرآن مجید سے نکال دیا جائے تو کون سا نقص لازم آتا ہے؟ اور اس آیت کی موجودگی میں ہمیں کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ لیکن چونکہ قرآن مجید قیامت کے لئے شریعت ہے اور اس کا ایک ایک لفظ قیامت تک واجب العمل اور ضروری ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک کے انبیاء کے ازواج مطہرات ان کی وفات کے بعد بیوگی کی حالت میں ہی رہیں گی.نوٹ :.یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص نہیں بلکہ عام ہے کیونکہ اس میں الرَّسُولُ يَا النَّبِيُّ“ کا لفظ نہیں کہ خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہوں بلکہ یہاں رَسُولَ اللهِ" کا لفظ ہے جو عام ہے یعنی اس میں ہر رسول داخل ہے.لہذا دھوکہ سے بچنا چاہیے.لفظ رَسُولَ اللہ قرآن مجید میں دوسرے انبیاء کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.(دیکھو الصف: ۲) آٹھویں آیت:.وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفُ مُّرْتَابُ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِى أيتِ اللهِ بِغَيْرِ سلطن آتُهُمْ الخ (المؤمن: ۳۵، ۳۶) کہ اس سے قبل تمہارے پاس حضرت یوسف علیہ السلام کھلے کھلے نشان لے کر آئے.مگر تم ان کی تعلیم میں شک کرتے رہے.یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گئے تم کہنے لگ گئے کہ اب خدا تعالیٰ ان کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجے گا.اسی طرح سے خدا تعالی گمراہ قرار دیتا ہے ان لوگوں کو جو حد سے بڑھ جاتے ہیں اور ( خدا کی آیات میں شک کرتے ہیں.وہ لوگ آیات الہی میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر اس
337 کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو کوئی دلیل عطا ہوئی ہو.قرآن مجید میں پہلے انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعتوں کے واقعات محض قصے کہانی کے طور پر بیان نہیں ہوتے بلکہ عبرت کے لئے آتے ہیں.خدا تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی امت کا جو یہ عقیدہ بیان کیا ہے تو اس سے ہمیں کیا فائدہ ہے ؟ نیز يُضِلُّ اور يُجَادِلُونَ مضارع کے صیغے ہیں جو مستقبل پر حاوی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ (حم السجدة : ۴۴) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے متعلق بھی وہی کچھ کہا جائے گا جو آپ سے پہلے رسولوں کے متعلق کہا گیا.حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق جیسا کہ بتایا جا چکا ہے لن بعت الله مِن بَعْدِم رَسُولًا (المؤمن : ۳۵) کہا گیا.مولوی عبدالستار اپنی مشہور پنجابی منظوم کتاب ( قصہ یوسف زلیخا ) لکھتے ہیں جعفر صادق کرے روایت اس و چه شک نہ کوئی اس ویلے وچہ حق یوسف دے ختم نبوت ہوئی د قصص ال محسنين (قصص الحسنین صفحه ۲۷ مطبوعہ مطبع کریمی لاہور جنوری ۱۹۳۰ ء ہے.ایس سنت سنگھ تاجران کتب لاہور ) یعنی حضرت امام جعفر صادق روایت فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام پر نبوت ختم ہوگئی.پس ضرور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی کہا جاتا کہ آپ کے بعد خدا تعالی کوئی نبی نہیں بھیجے گا.نویں آیت:.وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا (الجن: ۸) بعض جن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سن کر اپنی قوم کے پاس گئے تو جا کر کہنے لگے.اے جنو! تمہاری طرح انسانوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اب خدا تعالیٰ کسی نبی کو نہیں بھیجے گا مگر (ایک اور نبی آگیا.) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو آپ سے قبل پہلے نبیوں کی امتیں یہی
338 عقیدہ رکھتی تھیں کہ نبوت کا دروازہ ہمارے نبی پر بند ہو چکا ہے.مَا يُقَالُ لَكَ (حسم السجدة : ۴۴) کے مطابق ضرور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی کہا جاتا.چنانچہ لکھا ہے: الإِجْمَاعَ الْيَهُودِ عَلَى أَنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدِ مُوسى - (مسلم الثبوت از مولوی محمد فیض الحسن خوامتن صفحہ ۷ العار على شرح المحلى على جمع الجوامع جلد نمبر صفه ٢٣٢ الكتاب الثالث في الاجتماع من الادلة الشرعية مسئله الصحيح امكان الاجماع) کہ یہود کا اجماع ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.ب.حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى كَانُوا يَقُولُونَ حُصَلَ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ أَنَّ هَاتَيْنِ الشَّرِيعَتَيْنِ لَا يَتَطَرَّقُ إِلَيْهِمَا النَّسْخُ وَالتَّغْيِيرُ وَأَنَّهُمَا لَا يَجِيءُ بَعْدَهُمَا نَبِيٌّ.(تفسیر کبیر رازی زیر آیت وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا.الانعام (۲۲) کہ یہود اور نصاریٰ یہ کہا کرتے تھے کہ تو رات اور انجیل سے ظاہر کرتا ہے کہ یہ دونوں شیر یعتیں کبھی منسوخ نہیں ہوں گی اور ان کے بعد کبھی نبی نہیں آئے گا.دسویں دلیل:.وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ ا كثر الأولِينَ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ قُنْذِرِينَ (الصَّفْت: ۷۳۷۲) کہ پہلی امتوں کی جب اکثریت گمراہ ہوگئی تو ہم نے ان کی طرف نبی بھیجے.گویا جب کسی امت کا اکثر حصہ ہدایت کو چھوڑ دے تو خدا تعالیٰ کے انبیاء ان کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تا کہ ان کو پھر صراط مستقیم پر چلا ئیں.۲- فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ (البقرة : ۲۱۴) ہم نے انبیاء رسل اور کتابیں بھیجیں تا کہ وہ (نبی) ان اختلافات کا فیصلہ کریں جو ان لوگوں میں پیدا ہو گئے تھے.ثابت ہوا کہ اختلاف اور تفرقہ کا وجو دضرورت نبی کو ثابت کرتا ہے.- وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنِ (الجمعة: ۳) کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ کی آمد سے قبل یہ لوگ صریحا گمراہی میں تھے.
339 گویا جب گمراہی پھیل جائے تو خدا تعالیٰ نبی بھیجتا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : (۴۲) که خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا یعنی عوام اور علماء یا غیر اہل کتاب کی حالت خراب ہوگئی تو نبی بھیجا گیا.ان چار آیات سے ثابت ہے کہ جب دنیا میں گمراہی پھیل جاتی ہے.تفرقے پڑ جاتے ہیں.پہلے نبی کی امت کا اکثر حصہ اس کی تعلیم کو چھوڑ دیتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نبی اور رسول کو مبعوث فرماتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ضلالت و گمراہی ، امت محمدیہ کے اکثر حصہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو چھوڑ دینا.علماء اور عوام کا بگڑ نا واقع ہوایا نہیں ؟ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ وَ فِي رَوَايَةِ شِبُرًا بِشِبْرٍ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَا نِيَةٌ لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يُصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً وَ تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَّ سَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً (ترمذى كتاب الايمان باب ما جاء في افتراق هذه الامة) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ البتہ ضرور آئے گا میری امت پر وہ زمانہ جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا.یہ ان کے قدم بقدم چلیں گے.یہاں تک کہ اگر کسی یہودی نے علانیہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کی ہوگی تو میری امت میں سے بھی ضرور کوئی ایسا ہو گا جو یہ کرے گا.اور بنی اسرائیل کے بہتر (۷۲) فرقے ہو گئے تھے اور میری امت کے تہتر (۷۳) فرقے ہو جائیں گے.سوائے ایک کے باقی سب کے سب جہنمی ہوں گے.- عَنْ عَلِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوْشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اِسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمُ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِيْهِمْ تَعُودُ رَوَاهُ الْبَيْهَقِي فِي شِعْبِ الْإِيْمَانِ.(مشكوة كتاب العلم باب الاعتصام بالكتاب والسنة)
340 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا.جب اسلام میں کچھ باقی نہ رہے گا مگر نام اور قرآن کا کچھ باقی نہ رہے گا مگر الفاظ.مسجد میں آبا د نظر آئیں گی مگر ہدایت سے کوری.ان لوگوں کے مولوی آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے انہی سے فتنے اٹھیں گے اور ان ہی میں واپس لوٹیں گے.ان ہر دو حدیثوں سے ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ضلال مبین پھیلے گی.امت محمدیہ میں تفرقے پڑیں گے.اسلام کا صرف نام رہ جائے گا اور قرآن کے فقط الفاظ اور پھر علماء اور عوام کی حالت بھی نا گفتہ بہ ہو جائے گی.گویا کہ ظهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ (الروم: ۴۲) کا پورا نقشہ کھنچ جائے گا.پس قرآن کی بتائی ہوئی مندجہ بالا سب ضروریات اور احادیث کی بتائی ہوئی سب جملہ علامات موجود ہیں جو بعثت رسول کو مستلزم ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان ثابت ہے.گیارہویں دلیل:.وَإِنْ مِنْ قَرْيَةِ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذلِكَ فِي الْكِتَبِ مَسْطُورًا (بنی اسرائیل: ۵۹) کہ قیامت سے پہلے پہلے ہم ہر ایک بستی کو عذاب شدید میں مبتلا کریں گے اور یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے.ب.دوسری جگہ فرمایا: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل: ۱۶) کہ جب تک ہم نبی نہ بھیج لیں اس وقت تک عذاب نازل نہیں کیا کرتے ( یعنی نبی بھیج کر اتمام حجت کر کے پھر سزا دیتے ہیں ) ج.پھر فرمایا: - وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أَمْهَا رَسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايتنا (القصص : ٦٠) کہ خدا تعالی بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان میں کسی رسول کو مبعوث نہ فرمائے.تا کہ ( عذاب سے قبل ) وہ ان کو خدا تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنائے (اور ان پر اتمام حجت ہو جائے.)
341 د.ایک اور مقام پر فرماتا ہے: وَلَوْ اَنَا أَهْلَكْنُهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا اَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ ابْتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزُى (طه: ۱۳۵) کہ اگر ہم نبی کے ذریعہ نشان کھانے سے قبل ہی ان پر عذاب نازل کر کے ان کو ہلاک کر دیتے تو وہ ضرور یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تا کہ ہم اس رسول کی یوں ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی پیروی کر لیتے ( اس آیت کا مضمون سورۃ القصص : ۴۸ میں بھی بیان کیا گیا ہے ) ان سب آیات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکال کہ خدا تعالیٰ انبیاء بھیجتا رہے گا.چونکہ عذاب سے قبل نبی آتا ہے اور عذاب آئے گا تو نبی بھی آئے گا.بارہویں آیت:.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (الـمــائـدة: (۴) کہ آج کے دن ہم نے تمہارا دین کامل کر دیا ہے.گویا قرآن شریف کو مکمل شریعت قرار دیا ہے.شریعت کا کام دنیا میں انسان کا خدا کے ساتھ تعلق قائم کرانا ہوتا ہے جس قدر شریعت ناقص ہوگی اسی قدر وہ خدا کے ساتھ انسان کا ناقص تعلق قائم کرائے گی.اور جتنی وہ کامل ہوگی اتنا ہی وہ تعلق بھی جوانسان کا خدا سے قائم کرائے گی کامل ہو گا.اب قرآن مجید مکمل شریعت ہے اس لئے ثابت ہوا کہ یہ خدا کے ساتھ ہمارا تعلق بھی کامل پیدا کرتی ہے اور سب سے کامل تعلق جو ایک انسان کا خدا کے ساتھ ہو سکتا ہے وہ نبوت ہے.اگر کہو کہ قرآن مجید کسی انسان کو نبوت کے مقام پر نہیں پہنچا سکتا تو دوسرے لفظوں میں یہ ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید کامل نہیں بلکہ ناقص شریعت ہے اور یہ باطل ہے اور جو ستلزم باطل ہو وہ بھی باطل ہے.لہذا تمہارا خیال باطل ہے کہ قرآن نبوت کے مقام تک نہیں پہنچا سکتا.تیرھویں آیت:.وَإِذْ اَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيْنَ لَمَا أَتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَبٍ وَ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ تُصَدِّقُ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ (ال عمران : ۸۲) جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب تم کو کتاب اور حکمت دے کر بھیجا جائے اور پھر تمہارے پاس ہمارا رسول آئے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا.
342 حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّهُ تَعَالَى اَوْجَبَ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ الْإِيْمَانَ بِكُلِّ رَسُولٍ جَاءَ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمُ ( تفسیر کبیر رازی زیر آیت وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ ال عمران: ۸۱) یعنی خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء پر یہ بات واجب کر دی کہ وہ ہر اس رسول پر ایمان لائیں جوان کی اپنی نبوت کا مصدق ہو.اب سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عہد لیا گیا یا نہیں.قرآن مجید میں ہے.وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوح وَإِبْراهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى (الاحزاب : ۸) کہ ہم نے جب نبیوں سے عہد لیا تو آپ سے بھی لیا اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم اور موسیٰ اور عیسی بن مریم علیہم السلام سے بھی یہی عہد لیا.اگر آپ کے بعد نبوت بند تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہیں لینا چاہیے تھا مگر آپ سے بھی اس عہد کا لینا امکان نبوت کی دلیل ہے.امکان نبوت از روئے احادیث نبوی پہلی حدیث : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ ابْنُ مُحَمَّدٍ.حَدَّثَنَا دَاوُدُ ابْنُ شَبِيْبِ الْبَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ابْنُ عُتَيْبَةَ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلَّم وَقَالَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِى الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا.(سنن ابن ماجه کتاب الجنائز باب ما جاء في الصلوة على ابن رسول الله ذكر وفاته) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک آتا ہے.اور فرمایا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا.یہ واقعہ وفات ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۹ھ میں ہوا.اور آیت خاتم النبین ۵ھ میں نازل ہوئی.گویا آیت خاتم النبین کے نزول کے چار سال بعد حضور فرماتے ہیں کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا.گویا حضور کے نزدیک اس کا نبی نہ بننا اس کی موت کی وجہ سے ہے
343 نہ کہ انقطاع نبوت کے باعث اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کا مطلب یہ سمجھتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو آپ کو یہ فرمانا چاہیے تھا لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَمَا كَانَ نَبِيًّا لانِّى خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تب بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبین ہوں.جیسے کوئی آدمی کہے کہ اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو بی.اے ہو جاتا.کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بی.اے کی ڈگری ہی بند ہے؟ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی.اے کی ڈگری تو مل سکتی ہے لیکن اس کی موت اس کے حصول میں مانع ہوئی یہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ نبوت تو مل سکتی ہے مگرا براہیم کو چونکہ وہ فوت ہو گیا اس لئے اسے نہیں مل سکی.حدیث کی صحت کا ثبوت ا.یہ حدیث ابن ماجہ میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے.۲.اس حدیث کے متعلق شہاب علی البیضاوی میں لکھا ہے :.اَمَّا صِحَّةُ الْحَدِيثِ فَلَا شُبُهَةَ فِيْهَا لَانَّهُ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَغَيْرُهُ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ حَجَرٍ (حاشية الشهاب على البيضاوى جلد 2 صفحہ ۷۵ ابحث في اطلاق الاب صلى الله عليه وسلم مطبوعہ دار صادر بیروت ) کہ اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور دوسروں نے بھی جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے.۳.ملاعلی قاریؒ جیسا محدث لکھتا ہے: لَهُ طُرُقْ ثَلَاثَةٌ يُقَوَّى بَعْضُهَا بِبَعْضٍ ) موضوعات کبیر صفحه ۲۹۱ زیر حدیث ۳۷۹ المکتبة الاثر یہ سانگلہ ہل ضلع شیخو پورہ) کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے مگر یہ موضوع نہیں کیونکہ یہ تین طریقوں سے مروی ہے اور اس کا ہر ایک طریقہ دوسرے طریقہ سے تقویت پکڑتا ہے انہوں نے اس کو اس قدر صحیح قرار دیا ہے کہ آیت خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کی اس لئے تاویل کی ہے کہ وہ اس حدیث کے معارض نہ ہو چنانچہ فرماتے ہیں:.فَلا يُنَاقِضُ قَوْلُهُ تَعَالَى وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِه ( موضوعات کبیر صفحه ۲۹۲ زیر حدیث ۳۷۹ المکتبة الاثر یہ سانگلہ ہل ضلع شیخو پوره ) کہ یہ حدیث خاتم النبین کے مخالف نہیں ہے کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں آ سکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کر
344 آپ کی امت میں سے نہ ہو.۴.یہ حدیث جیسا کہ حضرت ملا علی قاری کی مندرجہ بالا تحریر سے ثابت ہے تین طریقوں سے مروی ہے یعنی صرف حضرت ابن عباس ہی کی مندرجہ بالا روایت نہیں بلکہ حضرت ابن عباس کے علاوہ حضرت انس اور حضرت جابر سے بھی مروی ہے.حضرت حافظ ابن حجر العسقلانی " بحوالہ حضرت سیوطی فرماتے ہیں کہ حضرت انس والی روایت بھی صحیح ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: وَبَيَّنَ الْحَافِظُ السُّيُوطِئُ أَنَّهُ صَحْ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَا أَدْرِكْ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى إِبْرَاهِيمَ لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا.“ (الفتاوى الحديثية مصنفہ حضرت امام ابن حجر ہیثمی مطلب ماورد فی حق ابراہیم ابن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فحه ۱۵۰ مطبوعہ مصر ) یعنی حضرت امام سیوطی نے بیان کیا ہے کہ حضرت انس سے صحیح روایت ہے کہ آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے سوال کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ (اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا ) تو حضرت انسؓ نے فرمایا یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن خدا کی رحمت ہو ابراہیم پر کہ اگر وہ زندہ رہتے تو یقیناً نبی ہوتے.یہ روایت تیسرے طریقے سے حضرت جابر سے مروی ہے جیسا کہ حضرت امام سیوطی فرماتے ہیں: وَرَوَاهُ ابْنُ عَسَاكِرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، " الفتاوی الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر میشمی مطبوعه مصری صفحه ۱۵۰) پس یہ حدیث تین مختلف طریقوں سے اور تین مختلف صحابیوں سے مروی ہے.اس لئے اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا.اسناد اس حدیث کی اسناد میں چھ روای ہیں :.ا.عبدالقدوس بن محمد.اس کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب تہذیب التہذیب میں جو اسماء الرجال کی بہترین کتاب ہے لکھا ہے:." قَالَ النَّسَائِي ثِقَةٌ وَذَكَرَهُ ابْنُ حَبَّانٍ فِي الثَّقَاتِ (تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی حرف عین زیر لفظ عبدالقدوس بن محمد)
345 کہ نسائی نے کہا کہ یہ روای ثقہ ہے اور ابن حبان نے اسے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے.۲.داؤد بن شبیب الباہلی:.قَالَ أَبُو حَاتِمٍ صُدُوقٌ وَ ذَكَرَهُ ابْنُ حَبَّانَ فِي الثّقات (تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی حرف دال زیر لفظ داؤد ) کہ ابو حاتم نے کہا کہ سچا ہے اور ابن حبان نے اسے ثقہ رایوں میں شمار کیا ہے..ابراہیم بن عثمان اس کے متعلق بعض لوگوں نے کہا کہ ضعیف ہے مگر اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی یہ واسط کے شہر میں قاضی تھا اس کے متعلق بھی تہذیب التہذیب میں لکھا ہے: قَالَ يَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ مَا قَضَى عَلَى النَّاسِ رَجُلٌ يَعْنِي فِي زَمَانِهِ أَعْدَلَ فِي قَضَاءٍ مِّنْهُ.....قَالَ ابْنُ عَدِي لَهُ اَحَادِيتُ صَالِحَةٌ وَهُوَ خَيْرٌ مِّنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي حَيَّةَ.(تهذيب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی حرف الف زیر لفظ ابراهيم، تهذيب الكمال و الاكمال فی اسماء الرجال مصنفه از حافظ جمال الدين ابى الحجاج يوسف جز اوّل زیر لفظ ابراهيم) کہ یزید بن ہارون نے کہا ہے کہ اس کے زمانہ میں اس سے زیادہ عدل اور انصاف کے ساتھ کسی نے فیصلے نہیں کئے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ اس کی حدیثیں کچی ہوتی ہیں اور ابوحیہ سے اچھا راوی ہے.ابوحیہ کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھا ہے.قَالَ النَّسَائِي ثِقَةٌ.....وَوَثَقَهُ الدَّارُ قُطْنِي....ابنُ حَبَّانَ (تهذيب التهذيب از حافظ ابن حجر عسقلانی حرف الف زیر لفظ ابوحیه ) که دارقطنی ابن قانع اور ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور نسائی نے کہا ثقہ ہے.ابراہیم بن عثمان جب ابوحیہ سے اچھا ہے اور ابوحیہ ثقہ ہے پس ثابت ہوا کہ ابراہیم بن عثمان اس سے بڑھ کر ثقہ ہے بھلا جو شخص اتنا عادل ہو کہ اس کے زمانہ میں اس کی نظیر نہ ملے اس کے متعلق بلا وجہ یہ کہ دینا کہ وہ جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا صریحا ظلم ہے حقیقت یہ ہے کہ چونکہ وہ بڑا عادل اور با انصاف آدمی تھا.نا جائز طور پر کسی کی رعایت نہ کرتا تھا.بعض لوگوں نے کینہ کی وجہ سے اس کے متعلق یہ کہہ دیا کہ وہ برا ہے.پس جب تک کوئی معقول وجہ پیش نہ کی جائے اس وقت تک اس کے مخالفین کی کوئی بات قابل سند نہیں.
346 وو عادل تو کہتے ہی اس کو ہیں جو چیز کو اپنے محل پر رکھے.جب وہ عادل“ تھا تو وہ کس طرح جھوٹے اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر سکتا تھا.اور ہم اس کے متعلق تہذیب التہذیب ہی سے دکھا چکے ہیں کہ لَهُ أَحَادِیتُ صَالِحَة کہ اس کی احادیث قابل اعتبار ہیں علاوہ ازیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ حدیث تین مختلف طریقوں اور تین مختلف صحابیوں سے مروی ہے.اس لئے اگر محض ایک طریقہ (بطریق حضرت ابن عباس) کے ایک راوی پر تم جرح بھی کرو پھر بھی حدیث کی صحت مشکوک نہیں ہو سکتی جیسا کہ حضرت ملا علی قاری اور حضرت امام سیوطی اور حضرت حافظ ابن حجر کے اقوال سے اوپر ثابت کیا جا چکا ہے.بعض امثله تضعیف کسی کے محض یہ کہہ دینے سے کہ فلاں راوی ضعیف ہے درحقیقت وہ راوی نا قابل اعتبار نہیں ہو جاتا.جب تک اس کی تضعیف کی کوئی معقول وجہ نہ ہو کیونکہ اس امر میں اختلاف یسیر موجود ہے چنانچہ.ابراہیم بن عبداللہ بن محمد کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھا ہے زَعَمَ ابْنُ الْقَطَّانَ إِنَّهُ ضَعِيفٌ کہ ابن قطان کے نزدیک ضعیف ہے اس کے آگے اسی صفحہ پر لکھا ہے:.66 ۲.قَالَ الْخَلِيلِيُّ كَانَ ثِقَةٌ....وَ قَالَ مُسْلِمَةُ بُنُ قَاسِمِ الْأَنْدُلِسِيُّ كُوْفِي ثِقَةٌ (تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ ابراھیم ) کہ خلیلی نے کہا ہے کہ وہ ثقہ تھا اور مسلمہ بن قاسم اندلسی نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے اسی طرح ابراہیم بن صالح بن درہم البابلی ابومحمد البصری کے متعلق لکھا ہے: قَالَ الدَّارُ قُطْنِی ضَعِيف کہ دار قطنی نے کہا کہ ضعیف ہے حالانکہ ذَكَرَهُ ابْنُ حَبَّانَ فِي التِقَاتِ تهذيب التهذيب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ ابراهیم ) کہ ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے غرضیکہ بعض لوگوں کا ابراہیم بن عثمان کو محض ضعیف قرار دے دینا حجت نہیں.خصوصا جب کہ ہم اس حدیث کی صحت کے متعلق شہاب علی البیضاوی “ اور ”ملا علی قاری“ جیسے محدث کی شہادت جو نا قابل تردید ہے پیش کر چکے ہیں.۴.اس حدیث کا چوتھا راوی اَلْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ہے.قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ الدَّوْرِيُّ كَانَ صَاحِبُ عِبَادَةٍ وَفَضْلٍ وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ مَا كَانَ بِالْكُوفَةِ بَعْدَ إِبْرَاهِيمَ وَالشَّعْبِي مِثْلَ الْحَكَمُ وَ قَالَ ابْنُ مَهْدِى الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ثِقَةٌ ثَبَتَ - تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر
347 عسقلانی زیر لفظ الْحَكَمُ ) کہ ابن عباس الدوری نے کہا کہ یہ راوی صاحب عبادت وفضیلت تھا اور و شعمی کو چھوڑ کر ایسا عبادت گزار اور صاحب فضیلت آدمی کوفہ میں نہ تھا.اور ابن مہدی نے کہا کہ ابراہیم و یہ راوی ثقہ اور قابل اعتبار ہے.ه مِقْسَمُ وَ قَالَ ابْنُ شَاهِيْنَ فِي الثَّقَاةِ قَالَ أَحْمَدُ ابْنُ صَالِحِ الْمِصْرِئُ ثِقَةٌ ثَبَتْ لَا شَكٍّ فِیهِ ابن شاہین اور احمد بن صالح نے اسے ثقہ اور قابل اعتبار بتایا ہے.(تهذيب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ مقسم) - عبد اللہ بن عباس :.ملا علی قاری کہتے ہیں : - حَدِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ صَحِيحٌ لَا يُنْكِرُهُ إِلَّا مُعْتَزَلِى ( موضوعات کبیر صفحہ ۳۹) کہ ابن عباس کی روایت کا سوائے معتزلی کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے.شَاهَدَ جِبْرِيلَ مَرَّتَيْنِ الاعْمَالُ فِي أَسْمَاءِ الرِّجَالِ اردو ترجمہ صفحہ ۷ ) کہ آپ نے دومرتبہ جبرائیل کی زیارت کی.یہ تو ہوئی اس حدیث کی صحت جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے.(تهذیب التهذيـــب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ عبد الله بن عباس) دوسری حدیث علامہ قسطلانی نے حضرت انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے و قَدْ رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكَ قَالَ لَوْ بَقِيَ يَعْنِي إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ لَكَانَ نَبِيًّا وَ لَكِنْ لَمْ يَبْقَ لَأَنَّ نَبِيَّكُمُ اخِرُ الْأَنْبِيَاءِ.(مواہب اللہ نید از علامہ قسطلانی جزء ثالث صفحه ۶۳ اطبع اولی مطبوعہ مصر ۱۳۲۶ھ ) کہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ (ابراہیم ) باقی رہتا تو نبی ہو جاتا.اس کے آگے ( ناقل ) اپنی رائے لکھتا ہے کہ مگر وہ زندہ نہ رہا کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں راوی کا اپنا اجتہاد حجت نہیں اور وہ کس قدر غلط ہے.اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں گو یا خدا کو ڈر تھا کہ اگر ابراہیم زندہ رہا تو خواہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوتا ہو یا نہ وہ ضرور نعوذ باللہ جبر انبی بن جائے گا.اس لئے اسے بچپن میں مار دیا.نوٹ نمبر :.مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے لکھا ہے کہ امام نووی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں بلکہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان عظیم قرار دیتے ہیں؟ محمدیہ پاکٹ بک از مولوی عبد الله معمار امرتسری صفحه ۵۰۱ ایڈیشن اپریل ۱۹۸۵ء)
348 جواب:.حدیث نبوی کے مقابلہ میں امام نووی کی رائے کیا حیثیت رکھتی ہے.پھر یہ کہ نووی نے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس حدیث کے معنی کیا ہیں.اولا دنوح نبی نہ تھے اس کا جواب ایک تو ملاعلی قاری نے دیا ہے جو نقل ہو چکا.دوسرا جواب علامہ شوکانی نے درج کیا ہے وہ یہ ہے:.لَهُ تَاوِيلُه.وَهُوَ عَجِيْبٌ مِنَ النَّوَوِى مَعَ وَرُودِهِ عَنْ ثَلاثَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَ كَأَنَّهُ لَمْ يَظْهَرُ فوائد المجمو عدا محمد بن علی شوکائی ذکر ابراہیم ما شردار الکتب العربی بیروت لبنان الطبعة الاولی ۱۹۸۶ء) کہ نووی کا یہ اعتراض تعجب خیز ہے حالانکہ اس حدیث کو تین صحابیوں نے بیان کیا ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ نو وی کو اس حدیث کے اصل معنی سمجھ نہیں آئے.نوٹ نمبر ۲:.یہ کہنا کہ لو محال کے لئے آتا ہے صریکا دھوکا ہے کیونکہ ”لو “ جس جملہ میں آئے اس کی شرط تو محال ہوتی ہے مگر جز اممکن ہوتی ہے جیسا کہ لَوْ كَانَ فِيهِمَا أَلِهَةً إِلَّا الله لَفَسَدَنَا (الانبياء: (۳۳) اگر خدا کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان ) خراب ہو جاتے.اب خدا کے سوا اور خدا کا ہونا تو ممکن نہیں مگر زمین میں فساد کا ہونا ممکن ہے اسی طرح لو عَاشَ إِبْرَاهِيمُ والی حدیث میں ابراہیم کا زندہ رہنا محال ہے مگر اس کا نبی بنا ممکن.تیسری حدیث: - وَرَوَى الْبَيْهَقِى بِسَنَدِهِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسِ إِنَّهُ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ تَتِمُّ رَضَاعَهُ وَ لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا.(تاریخ ابن عساکر جلد اصفحه۲۹۵ سطره مطبوعہ دارالميسرة بیروت) چوقی حدیث : وَ عَنْ جَابِرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَرْفُوعًا لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا.( اصفحه۲۹۵ مصنف حجر تاریخ ابن عساکر جلد اصفحه ۲۹۵ مطبوعہ دار امیرة بیروت) نیز الفتاوی الحدیثیه مصنف امام ابن حجر ایٹمی صفحه ۱۵ مطبوعه مصر) پانچویں حدیث : فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِیسَی وَ أَصْحَابُهُ (مسلم کتاب الفتن باب صفة الدجال ) آنے والے مسیح کو نبی اللہ قرار دیا ہے، پہلا مسیح فوت ہو چکا اور اس کا حلیہ آنے والے مسیح کے حلیے سے مختلف ہے لہذا یہ آنے والا بخاری کی حدیث امامُكُمْ مِنْكُمُ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم) اسی امت میں سے نبی ہونا تھا.چھٹی حدیث:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَبُو بَكْرٍ أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ
349 يَكُونَ نَبِيٌّ (كنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق از امام عبد الرؤف مناوی صفحه 4 حاشيه المطبعة المیمنہ بمصر ) کہ ابو بکر اس امت میں سب سے افضل ہے سوائے اس کے کہ امت میں سے کوئی نبی ہو.یعنی اگر نبی ہو تو حضرت ابو بکر اس سے افضل نہیں لہذا امکانِ نبوت فی خیر الامت ثابت ہے ( نیز دیکھو جامع الصغير السيوطى مصری حاشیه حرف الالف مطبوعہ مصر) ساتویں حدیث : - اَبُو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٌّ.(طبرانی و ابن عدي في الكابل بحوالہ جامع الصغیر السیوطی جز اول صفحہ ۲۸ مكتبه نزار مصطفى الباز الطبعة الثانية ۲۰۰۰ء) کہ ابو بکر سب انسانوں سے بہتر ہیں.ہاں اگر کوئی نبی انسانوں میں سے ہو تو اس سے بہتر نہیں.( نیز کنز العمال جلد ۶ صفحه ۳۷ عن سلمہ بن الاکوع ) اگر انسانوں میں سے کوئی نبی ہونا ہی نہ تھا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استثناء فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبی کے الفاظ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی کی آمد کا امکان ہے.نوٹ :.یا درکھنا چاہیے کہ نبی ، حدیث مذکورہ بالا میں كَانَ يَكُونَ کی خبر واقع نہیں ہوا کہ یہ خیال کیا جا سکے کہ حضرت ابوبکر کی نبوت کی نفی مقصود ہے اگر گان“ کی خبر ہوتا.تو نبی“ کی بجائے نبیٹا ہونا چاہیے تھا.پس چھٹی اور ساتویں حدیث کا ترجمہ سوائے اس کے جو ہم نے بیان کیا قواعد عربیہ کے لحاظ سے اور کوئی نہیں ہوسکتا.66 20 آٹھویں حدیث: - تَكُونُ النَّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ....ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ....ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ...ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ.(رواه احمد و البيهقي في دلائل النبوة ، مشكواة كتاب الرقاق، باب الانذار والتحذیر نیز محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۱۷ ایڈیشن (اول) ترجمہ: تم میں نبوت رہے گی جب تک کہ اللہ تعالیٰ چاہے گا.پھر اس کے بعد منہاج نبوت پر خلافت ہو گی اور وہ رہے گی جب تک کہ اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر اس کے بعد بادشاہت شروع ہوگی اور وہ بھی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.پھر اس کے بعد خلافت ہوگی منہاج نبوت پر.اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں دوبارہ منہاج نبوت پر خلافت ہوگی جس طرح ابتدائے اسلام میں منہاج نبوت پر خلافت قائم ہوئی تھی.ظاہر ہے کہ منہاج نبوت پر خلافت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی ہوئی تھی تو لازم آیا کہ آخری زمانہ میں بھی نبی ہو
350 جس کی وفات پر دوبارہ خلافت شروع ہو.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مندرجہ بالا حدیث مندرجہ مشکوۃ کتاب الرقاق صفحہ ۴۶۱ مطبع اصبح المطابع میں بین السطور لکھا ہے: الظَّاهِرُ أَنَّ الْمُرَادَ بِهِ زَمَنُ عِيسَى وَالْمَهْدِی“ کہ ظاہر ہے کہ منہاج نبوت پر دوبارہ خلافت قائم ہونے کا زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہوگا.دلائل امکان نبوت از اقوال بزرگان حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: (ل) اِنَّ النَّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ اللَّهِ صَلْعَمُ إِنَّمَا هِيَ النُّبُوَّةُ التَّشْرِيحُ لَا مَقَامُهَا فَلَا شَرُعَ يَكُونُ نَاسِحًا لِشَرْعِهِ صَلْعَمُ وَلَا يَزِيدُ فِي شَرْعِهِ حُكْمًا آخَرَ وَ هَذَا مَعَى قَوْلِهِ صَلْعَمُ إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنَّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيٌّ يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِى بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي وَلَا رَسُوْلَ أَى لَا رَسُوْلَ بَعْدِى إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ بِشَرْعٍ يَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ فَهَذَا هُوَ الَّذِي انْقَطَعَ وَسُدَّ بَابُهُ لَا مَقَامُ النُّبُوَّةِ.فتوحات مکیه از ابن عربی جلد ۲ صفحه ۳ مطبوعہ دار صا در بیروت ) کہ وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پرختم ہوئی.وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس آنحضرت صلعم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہی معنی ہیں کہ آنحضرت صلعم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی اور لَا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ“ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میرے شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ہاں اس صورت میں نبی آسکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آ سکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو.پس یہ وہ ختم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا.ورنہ مقام نبوت بند نہیں.(ب) فَمَا ارْتَفَعَتِ النُّبُوَّةُ بِالْكُلِيَّةِ لِهَذَا قُلْنَا إِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّةُ التَّشْرِيحَ فَهَذَا مَعْنَى لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ فَعَلِمْنَا أَنَّ قَوْلَهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ أَى لَا مُشَرِّعَ خَاصَّةً لِأَنَّهُ لَا يَكُونُ بَعْدَهُ
351 نَبِيٌّ هَذَا مِثْلُ قَوْلِهِ إِذَا هَلَكَ كِسْرِی فَلا كِسْرَىٰ بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ.(فتوحات مکیه از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحه ۵۸ باب ۷۳ سوال ۱۵ مطبوعہ دار صادر بیروت ) کہ نبوت کلی طور پر اٹھ نہیں گئی.اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے یہی معنی ہے لا نبی بعدی کے.پس ہم نے جان لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لا نبی بعدی فرمانا انہی معنوں سے ہے کہ خاص طور پر میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نہ ہوگا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کوئی نبی نہیں یہ بعینہ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ قیصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد قیصر نہ ہوگا اور جب یہ کسری ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہ ہوگا.(ج) فَإِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ بِالتَّشْرِيعِ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدَهُ صلعم وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا مُشْرِعَ وَلَا شَرِيعَةَ وَ قَدْ عَلِمْنَا إِنَّ عِيسَى يَنْزِلُ وَلَا بُدَّ مَعَ كَوْنِهِ رَسُولًا وَلَكِنْ لَّا يَقُولُ بِشَرُعٍ بَلْ يَحْكُمُ فِيْنَا بِشَرُعِنَا فَعَلِمُنَا أَنَّهُ اَرَادَ انْقِطَاعَ الرِّسَالَةِ وَالنُّبُوَّةِ بِقَوْلِهِ لَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا مُشَرِّعَ وَلَا شَرِيعَةَ.“ فتوحات مکیه از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحہ ۹۰ سوال نمبر ۸۸ مطبوعہ دار صادر بیروت ) 66 ۲.حضرت امام شعرانی فرماتے ہیں:.(وَقَوْلُهُ صلعم لَا نَبِيَّ بَعْدِى وَلَا رَسُولَ الْمُرَادُ بِهِ لَا مُشَرِّعَ بَعْدِى.“ الیواقیت والجواہر جز اول صفحه ۳۷۴ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان) کہ آنحضرت صلعم کا یہ قول کہ میرے بعد نبی نہیں اور نہ رسول اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں.(ب) فَإِنَّ النُّبُوَّةَ سَارِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي الْخَلْقِ وَإِنْ كَانَ التَّشْرِيعُ قَدْ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيْعُ جُزْءٌ مِّنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.(فتوحات مکیہ جلد۲ باب ۷۳سوال نمبر ۸۲ صفحه ۱۵۵مصر ) که نبوت قیامت کے دن تک مخلوقات میں جاری ہے لیکن جو تشریعی نبوت ہے وہ بند ہوگئی ہے.تشریعی نبوت ، نبوت کا ایک جزو ہے.(ج) وَأَمَّا النُّبُوَّةُ التَّشْرِيْعُ وَالرِّسَالَةُ فَمُنْقَطِعَةٌ فِي مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ فَلَا نَبِيَّ بَعْدَهُ مُشَرِّعًا....إِلَّا إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَطَفَ بِعِبَادِهِ وَأَبْقَى لَهُمُ النَّبُوَّةَ الْعَامَةَ الَّتِي لَا تَشْرِيْعَ فِيْهَا فَصُوصُ الْحِكَمِ فَصُّ حِكْمَةٍ قَدْرِيَّةٍ فِى كَلِمَةٍ عَزِيرِيَّةٍ ) کہ جو نبوت
352 اور رسالت شریعت والی ہوتی ہے.پس وہ تو آنحضرت صلحم پر ختم ہو گئی ہے پس آپ کے بعد شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا.ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کر کے ان میں عام نبوت جس میں شریعت نہ ہو باقی رہنے دی.۳.عارف ربانی سید عبدالکریم جیلانی ابن ابراہیم جیلانی فرماتے ہیں:.فَانْقَطَعَ حُكْمُ النُّبُوَّةِ التَّشْرِيْعِ بَعْدَهُ وَكَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ ( الانسان الکامل از سید عبدالکریم بن ابراہیم جیلانی "باب ۳۶ ترجمه اردو خزینه التصوف صفحه ۶۶) که تشریعی نبوت کا حکم آنحضرت صلعم کے بعد ختم ہو گیا.پس اس وجہ سے آنحضرت صلعم خاتم النبین ہوئے.۴.حضرت ملاعلی قاری فرماتے ہیں: قُلْتُ وَ مَعَ هَذَا لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَصَارَ نَبِيًّا وَكَذَا لَوْ صَارَ عُمَرَ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ اَتْبَاعِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ.....فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِّنْ أُمَّتِهِ.( موضاعات کبیر از ملاعلی قاری صفحه ۱۰الناشر نورمحمد اصح المطابع و کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی ) میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرت صلعم کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو جا تا اور اسی طرح اگر عمر نبی ہو جاتا تو آ نحضرت کے متبعین میں سے ہوتے.پس یہ قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے.کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا.جو آنحضرت صلعم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت سے نہ ہو.۵.حضرت سید ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:.خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ أَى لَا يُوجَدُ بَعْدَهُ مَنْ يَّأْمُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيعِ عَلَى النَّاسِ.تمهیمات الہبیه از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تفہیم نمبر ۵۳) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبی ختم ہو گئے.یعنی آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہوسکتا جس کو خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے.- مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی فرماتے ہیں:.علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدیدہ نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے اور جو نبی آپ کے ہمعصر ہو
353 گا.پس بہر تقدیر بعثت محمد یہ عام ہے.“ ( دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحه از محمد عبد الحی لکھنوی در مطبع یوسفی واقع فرنگی محل لکھنو ) ے.جنات مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیو بند ” تحذیر الناس“ میں فرماتے ہیں:.(0) سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا با میں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ الليتين فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے.“ تحذیر الناس صفحه ۳ نا شر مولوی محمد اسحق ما لک کتب خانہ رحیمیہ دیو بند سہارن پور ) (ب) اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.‘ (تحذیر الناس صفحہ ۲۵).حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.آئے گا.66 در منشور از علامه جلال الدین سیوطی جلد ۵ صفحه ۳۰۴ الناشر دار المعرفة بیروت لبنان و تکمله مجمع البحار جلده صفحه ۸۵) کہ یہ تو کہہ کہ آنحضرت صلعم خاتم النبین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں حضرت امام ابن حجر ایمی حدیث " لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا “ کی مفصل بحث میں اس حدیث کو صحیح ثابت کر کے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم نبی تھے.چنانچہ وہ حضرت علیؓ کی روایت بدیں الفا ظ نقل کرتے ہیں:.وَادْخَلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي قَبْرِهِ فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيٍّ إِبْنُ نَبِيِّ وَ بَكَى وَ بَكَى الْمُسْلِمُونَ حَوْلَهُ.» (الفتاوى الحديثية صفح ٢٣٦- دار احياء التراث العربي بيروت الطبعة الأولى) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم کی تدفین کے وقت ان کی قبر میں ہاتھ ڈالا اور فرمایا خدا کی قسم! وہ نبی ہے اور نبی کا بیٹا بھی ہے پس آپ بھی چشم پر آب ہو گئے اور دوسرے مسلمان بھی حضور کے اردگر در و پڑے.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کا جنازہ پڑھائے بغیر اس کو دفن فرمایا تھا.
354 حضرت شیخ الاسلام علامہ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مندرجہ ذیل قول حضرت امام ابن حجر ہیثمی نقل کرتے ہیں:.إِنَّهُ لَا يُصَلِّي نَبِيٌّ عَلَى نَبِيِّ وَ قَدْ جَاءَ لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا.“ (الفتاوى الحديثية صفحه ۲۳۶ دار احياء التراث العربي بيروت الطبعة الاولى) یعنی علامہ زرکشی فرماتے ہیں کہ نبی نبی کا جنازہ نہیں پڑھایا کرتے اور حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا.اس کے بعد امام ابن حجر اہیمی لکھتے ہیں:.وَلَا بُعْدَ فِي إِثْبَاتِ النُّبُوَّةِ لَهُ مَعَ صِغَرِهِ لَأَنَّهُ كَعِيْسَى الْقَائِلُ يَوْمَ وُلِدَ ( إِنِّي عَبْدُ اللهِ امْنِي الْكِتَب وَجَعَلَنِى نَبِيًّا ) وَكَيَحْيَ الَّذِي قَالَ تَعَالَى فِيْهِ وَأَتَيْنَهُ الْحُكْمُ صبيا.“ (الفتاوى الحديثية صفحه ۲۳۶ - دار احياء التراث العربي بيروت الطبعة الاولى ) که صاحبزاده حضرت ابراہیم کا بچپن کی عمر ہی میں نبی ہونا بعید از قیاس نہیں کیونکہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح تھے.جنہوں نے اپنی پیدائش ہی کے دن کہا تھا کہ میں نبی ہوں اور نیز آپ حضرت سخی کی طرح ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو بچپن ہی کی عمر میں حکمت عطا فرمائی.پھر فرماتے ہیں: وَبِهِ يُعْلَمُ تَحْقِيقُ نُبُوَّةِ سَيِّدِنَا إِبْرَاهِيمَ فِي حَالِ صِغَرِهِ.“ ہی نبی تھے.(الفتاوى الحديثية صفحہ ۲۳۶- دار احياء التراث العربي بيروت الطبعة الاولى) کہ ان دلائل سے یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ گئی کہ حضرت صاحبزادہ ابراہیم بچپن کی عمر میں گویا حضرت امام ابن حجر ابیشی امام شیخ بدرالدین الزرکشی اور حضرت شیخ الاسلام حافظ ابن حجر العسقلانی کے مندرجہ بالا اقوال و تحریرات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم ابن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کم از کم حضرت امام ابن حجر ہیثمی کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد پیدا ہونے کے باوجود نبی تھے.مسیح موعود بعد نزول نبی اللہ ہوگا ٩- مَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَّتِهِ كَفَرَ حَقًّا (حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صفحه ۴۳۱ مطبع شاہجہانی واقع بلدہ بھوپالی) کہ امام جلال الدین صاحب سیوطی فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول نبی نہ ہوں گے وہ پکا کافر ہے.
355 پھر لکھا ہے فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَإِنْ كَانَ خَلِيفَةً فِي الْأُمَّةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ فَهُوَ رَسُولٌ وَ نَبِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى حَالِهِ» (حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صفحه ۴۲۶ مطبع شاہجہانی واقع بلدہ بھوپالی) کہ وہ باوجود اس بات کے کہ وہ امت محمدیہ کے ایک خلیفہ ہوں گے پھر بھی بدستور رسول اور نبی رہیں گے.پس یہ کہنا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بعد از نزول نبی نہ ہوں گے باطل ہے.۱۰ نواب نور الحسن خان ابن نواب صدیق حسن خاں صاحب لکھتے ہیں.حديث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِی بے اصل ہے ہاں لا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا.“ اقتراب الساعۃ صفحہ ۶۲ اطبع في مطبعة مفید عام الکائنہ فی آگرہ مطبوعه ۱۳۰۱ھ ) مولا نا روم اور ختم نبوت مثنوی مولانا روم کے متعلق مولانا جامی کہتے ہیں کہ مثنوی مولوی معنوی هست قرآن در زبان پهلوی (۱ نفحات الانس“ از عبد الرحمن بن احمد الجامی در ذکر الشیخ مولانا جلال الدین رومی.۲.الہام منظوم دفتر اول ترجمه مثنوی مولانا روم از شیخ عاشق حسین سیماب صدیقی الوارثی اکبر آبادی شائع کرده فیروز دین مقدمه صفحه ۸) ا.مثنوی مولانا روم کے مندرجہ ذیل اشعار مسئلہ ختم نبوت کی حقیقت واضح کرتے ہیں:.(( مَعْنِي نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ ـ این شناس این است را هر دراهم که نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِد “ کے معنی سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ یہ رسالت کے راستہ میں ایک مشکل ہے.(ب) تا ز راه خاتم پیغمبراں بو که برخیز و زلب ختم گراں یعنی تا کہ ممکن ہے کہ لب ہلانے سے خاتم النبیین کے راستے سے ایک بھاری ختم اٹھ جائے.(ج) ختمہائے کا بنیاء بگذاشتند آن بدین احمدی بر داشتند وہ بہت سے ختم جو پہلے نبی چھوڑ گئے تھے وہ سب دین احمدی میں اٹھا دیئے گئے.( د ) قفل بائے نا کشوده مانده بود از کف انا فتحنا بر کشور یعنی بہت سے تالے بند پڑے ہوئے تھے مگر آنحضرت صلعم نے انا فتحنا کے ہاتھ سے سب کھول دیئے.(ھ) او شفیع است ایس جہان و آں جہاں این جہاں دردین و آنجا در جناں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں میں شفیع ہیں اس جہان میں دین کے اور اگلے جہان میں
جنت کے.356 ( و) پیشه اش اندر ظهور و در مکون اهْدِ قَوْمِي إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ظاہر و باطن میں آنحضرت صلعم کا وظیفہ یہی تھا کہ اے خدا میری قوم کو ہدایت دے کہ انہیں علم نہیں ہے.(ز) بازگشته از دم او هر دو باب در دو عالم دعوت او مستجاب آپ کے دم سے دونوں دروازے کھل گئے اور دونوں جہاں میں آپ کی دعا مستجاب ہوئی.(ح) بهر این خاتم شد است او که بجود مثل اونے بود نے خواهند بود آپ ان معنوں میں خاتم ہیں کہ بخشش میں نہ آپ کے برابر کوئی ہوا اور نہ ہوگا.(ط) چونکه در صنعت بر داستا د دست نے تو گوئی ختم صنعت بر تو ہست جس طرح جب کوئی استاد صنعت میں سبقت لے جاتا ہے تو کیا تم یہ نہیں کہتے کہ اے استاد! تجھ پر کاریگری ختم ہے؟ (ی) در کشاد ختمها، تو خاتمی در جهان روح بخشاں حاتمی اے نبی صلعم ! تو ہر قسم کے ختموں کو کھولنے کی وجہ سے ” خاتم “ (یعنی افضل ) ہے اور روح پھونکنے والوں میں تو حاتم کی طرح ہے.(ک) ہست اشارات محمد ، المراد کل کشاد، اندر کشاد، اندر کشاد الغرض محمد رسول اللہ صلعم کی تعلیم یہ ہے کہ سب رستے کھلے ہی کھلے ہیں کوئی بھی بند نہیں ہے.(ل) صد ہزاراں آفریں بر جانِ او هر قدوم و دور فرزندان او آنحضرت صلحم اور آپ کے فرزندوں کی تشریف آوری اور ان کے دور پر لاکھوں آفریں.(م) آل خلیفه زادگان مقبلش زاده اند از عنصر جان و دلش وہ اس کے اقبال مند جانشین اس کے عصر جان و دل سے پیدا ہوئے ہیں.(ن) گرز بغدا دوہرے وازرے اند بیمزاج آب و گل نسل دے اند وہ خواہ بغدا د یا ہرے یارے کے رہنے والے ہوں.مٹی اور پانی کے اثر سے بے نیاز ہو کر وہ حضور یہی کی نسل سے ہیں.(س) شاخ گل ہر جا کہ روئید هم گل است تیم مل ہر جا کہ جو شد هم مثل است
357 گلاب کی شاخ جہاں بھی آگے وہ گلاب ہی ہے اور شراب کا منکا جہاں بھی جوش مارے وہ مٹکا ہی ہے.(ع) گرز مغرب برزند خورشید سر عین خورشید است نے چیزے دگر اگر آفتاب مغرب سے نکلے تو بھی وہ آفتاب ہی ہے.( مثنوی مولانا روم دفتر ششم صفحه ۳۰،۲۹ الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور ) ایک عذر اور اس کا جواب بعض غیر احمدی مولوی نزول عیسی والے اعتراض کے جواب میں یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ خاتم النبیین“ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا.جواب:.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عذر تمہارے دماغ کی لا یعنی اختراع ہے ” خاتم النبین “ کا اگر وہی ترجمہ تسلیم کر لیا جائے جو تم کیا کرتے ہو.یعنی ختم کرنے والا.تو پھر بھی اس میں اس میں وہ کون سا لفظ ہے.جس کا ترجمہ تم پیدا نہ ہوگا“ کرتے ہو؟ اگر تمہارے لئے ناجائز طور پر تاویلیں کرنے کی گنجائش ہے تو ہمارے لئے قرآن و حدیث واقوال آئمہ کی روشنی میں صحیح معنی کرنے کی کیوں گنجائش نہیں؟ نیز موضوعات کبیر ملا علی قاری صفحہ ۵۹ و تحذیر الناس صفحہ ۲۸ کے حوالے دیکھو برصفحہ ۳۵۳،۳۵۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ختم کیا ؟ پھر سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کیا کیا؟ آپ سے پہلے آدم ، نوح، ابراہیم ، لوڈ ، اسمعیل ، احلق ، یعقوب ، موسی وغیر ہم انبیاء علیہم السلام تو سب کے سب پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کیا ختم کیا.البتہ ایک نبی حضرت عیسی علیہ السلام ایسے تھے جو بقول شما ابھی ختم نہ ہوئے تھے.سو وہ اب بھی ختم نہیں ہوئے بلکہ تمہارے خیال میں ابھی انہوں نے قیامت سے قبل آتا ہے تو پھر تم ہی بتاؤ کہ تمہارے عقیدہ ختم نبوت کی حقیقت کیا رہ گئی؟ تردید دلائل انقطاع نبوت از روئے قرآن مجید پہلی آیت: - مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ التين (الاحزاب: ۴۱) الجواب:.ا.خائمُ ( تاء کی زبر کے ساتھ ) کے معنی ختم کرنے والا نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ اسم فاعل نہیں بلکہ اسم آلہ ہے جس طرح عالَمُ مَايُعْلَمُ بِہ یعنی جس سے علم حاصل ہو یعنی اللہ تعالیٰ
358 کی ہستی معلوم ہو چونکہ دنیا سے خدا کی ہستی معلوم ہوتی ہے.اس لئے اسے عالم کہتے ہیں.اسی طرح خَاتَمُ ہے جس کے معنی يُخْتَمُ بِہ ہوں گے.یعنی جس سے مہر لگائی جائے.پس خاتم کا ترجمہ ختم کرنے والا نہیں ہو سکتا.اسم فاعل میں عین کلمہ مکسور ہوتا ہے.جیسے قاتل ناصر.فاعل وغیرہ مگر خاتم میں میں کلمہ یعنی تا مکسور نہیں بلکہ مفتوح ہے.۲.عربی زبان میں ”حاتم بفتحہ تا ء جب کسی جمع کے صیغہ کی طرف مضاف ہو مثلاً خَاتَمُ الشُّعَرَاءِ، خَاتَمُ الْفُقَهَاءِ.خَاتَمُ الْأَكَابِرِ.خَاتَمُ الْمُحَدِّثِينَ.خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ.خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ وغیرہ ہو تو اس کے معنے ہمیشہ بعد میں آنے والوں سے افضل“ کے ہوتے ہیں ہمارا غیر احمدی علماء کو چیلنج ہے کہ وہ عربی زبان کا کوئی مستعمل محاورہ پیش کریں جس میں خاتم کسی جمع کے صیغے کی طرف مضاف ہوا ہو اور پھر اس کے معنے بند کرنے والے کے ہوں کسی لغت کی کتاب لسان العرب، تاج العروس وغیرہ کا حوالہ دے دینا کافی نہ گا.جب تک اہل زبان میں اس محاورہ کا استعمال نہ دکھایا جاوے لغت کی کتابیں لکھنے والے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کتابوں میں ان کے اپنے عقائد کا داخل ہو جانا یقینی ہوتا ہے.مثلا المنجد اور الفرائد الدریہ دونوں عربی کی لغات ہیں جن کے مؤلف عیسائی ہیں اور انہوں نے ” ثالوث کا ترجمہ تثلیث مقدس The Holy Trinity کیا ہے.اب مقدس کسی لفظ کا ترجمہ نہیں بلکہ مؤلف کا اپنا اعتقاد ہے بعینہ اسی طرح ایک لغت لکھنے والا اگر اس عقیدہ کا حامی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت بند ہے تو وہ طبعا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کا ترجمہ نبیوں کو ختم کرنے والا ہی کرے گا قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے لغات لکھنے والوں کا ترجمہ مد نظر رکھ کر خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کا لفظ نہیں بولا بلکہ اس اسلوب بیان کو مدِ نظر رکھا ہے جو اہل زبان کا ہے لہذا ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ایک عرب جب خاتم کو کسی جمع کے صیغے مثلاً شعراء الفقهاء- المھاجرین وغیرہ کی طرف مضاف کرتا ہے تو اس سے اس کی مراد کیا ہوتی ہے جس طرح یہ لفظ قرآن مجید میں مستعمل ہوا ہے.ہما را دعوی ہے کہ اس طریق پر یہ لفظ ہمیشہ افضل کے معنوں میں آتا ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال فرمایا ہے.(۱) اِطْمَئِنَّ يَا عَمَ فَإِنَّكَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ فِي الْهِجُرَةِ كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ.( کنز العمال از علامہ علا والدين حرف العين في ذكر العباس) ”اے چچا (عباس) آپ مطمئن رہتے کہ آپ اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس طرح میں خاتم النبیین ہوں.“
359 اب کیا حضرت عباس کے بعد کوئی مہاجر نہیں ہوا ؟ حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی کے علاوہ آج تک ہزاروں لوگوں نے ہجرت کی اور قیام پاکستان کے بعد تو ایسی ہجرت“ ہوئی جس کی مثال ہی نہیں ملتی.پس ثابت ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو ان معنوں میں خاتم المہا جرین قرار دیا ہے کہ ان کے بعد ان کی شان کا کوئی مہاجر نہ ہوگا.اگر کہو کہ یہاں صرف مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کا حضرت عباس کو خاتم قرار دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں تو ملکہ کا کوئی لفظ نہیں.جس لفظ ( یعنی الف لام ) کی تخصیص سے تم مکہ کی قید نکالتے ہو.اسی الف لام کی تخصیص سے ہم خاتم النبیین کے معنے صاحب شریعت نبیوں کا ختم کرنے والا کریں تو اس پر اعتراض کیوں؟ نوٹ:.بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر خاتم بمعن افضل“ لیا جائے تو لازم آئے گا کہ حضرت عباس ابو بکر و عمر وعلی رضوان اللہ علیہم بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نعوذ باللہ افضل ہوں کیونکہ یہ بھی سب مہاجرین ہیں.جواب:.ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ لفظ ” خاتم جب کسی صیغہ جمع کی طرف مضاف ہو تو اس میں موصوف کے بعد آنے والوں پر اس کی افضلیت مراد ہوتی ہے.پس حضرت عباس رضی اللہ عنہ خاتم المہاجرین ہیں یعنی اپنے بعد میں آنے والے سب مہاجرین سے افضل ہیں.اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا بھی ان ہی معنوں سے ہوگا کہ آپ اپنے بعد میں آنے والوں نبیوں سے افضل ہیں.تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء سے افضل نہیں ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضور اپنے سے بعد میں آنے والے نبیوں سے بوجہ خاتم النبین ہونے کے افضل ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے پہلے ابنیاء سے بھی افضل ہیں کیونکہ حضور خود فرماتے ہیں:.إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَ إِنَّ ادَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ.“ ،، ا.مشکوۃ المصابيح كتاب الفتن باب فضائل سید المرسلين صلوات الله وسلام عليه الفصل الاوّل.۲.مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۸ حدیث العرباض بن ساریه ۳ کنز العمال جلدا اصفحہ ۱۸۸ کتاب الرابع من حرف الفاء كتاب الفضائل من قسم الافعال باب الاول الفصل الثالث فی فضائل متفرقه تبنيعن التحديث بالنعم دار الكتب العلمیہ بیروت لبنان)
360 کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبین ہوں جبکہ حضرت آدم ابھی مٹی اور پانی میں تھے نیز محمدیہ پاکٹ بک مطبوعه ۱۹۸۹ صفه ۴۰۲) گویا جس قدر انبیاء آئے وہ سب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین بننے کے بعد آئے.لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل“ ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎ سب پاک ہیں پیمبراک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے نوٹ نمبر ۲:.اس موقعہ پر بعض غیر احمدی لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ (بخارى كتاب الجهاد والسير باب فضل الجهاد ۲ - كنز العمال جلد اول كتاب الاذكار من قسم الافعال من حرف الهمزه باب في القرآن فصل في تفسير سورة البقرة) والی حدیث بھی پیش کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ یہ حدیث تو ہماری مؤید ہے کیونکہ اس میں لا جُرَةَ“ کا لفظ اسی طرح مستعمل ہوا ہے جس طرح لَا نَبِيَّ بَعْدِی میں.اب کیا لا هِجْرَةَ“ کے معنی یہ ہیں کہ اب مطلقا ہجرت ہی بند ہے؟ بیا یہ کہ صرف ایک خاص ہجرت جو مکہ سے مدینہ کی طرف تھی وہ بند ہے؟ ظاہر ہے کہ مطلقا، ہجرت بند نہیں کیونکہ یہ واقعات کے بھی خلاف ہے اور اس سے قرآن مجید کی آیات متعلقہ ہجرت کو منسوخ ماننا پڑتا ہے اب رہی دوسری صورت کہ خاص ہجرت بند کی گئی.تو بعینہ اسی طرح لَا نَبِيَّ بَعْدِی میں بھی قطعا نبوت بند نہ ہوئی بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت مراد لینی پڑے گی یعنی تشریعی نبوت یا بلا واسطہ نبوت و ہوالمراد.چنانچہ حضرت امام رازی حدیث لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ کے بارے میں لکھتے ہیں : وَ أَمَّا قَوْلُهُ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتح فَالْمُرَادُ الْهِجُرَةُ المَخْصُوصَةُ ( تفسیر کبیر جلد ۱۵ صفحه ۲۱۳ الطبعة الثانية دار الکتب العلمیۃ طہران.مسند احمد بن حنبل مسند عبد اللہ بن عباس حدیث (۱۹۹۱) یعنی اس حدیث میں مطلق ہجرت کی نفی نہیں بلکہ مخصوص ہجرۃ کی نفی مراد ہے اسی طرح تمہارا "لا نفی جنس بھی اڑ گیا ! ٢ - أَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتَ يَا عَلِيُّ خَاتَمُ الْأَوْصِيَاءِ“ (کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق بر حاشیہ جامع الصغیر مصری جلد اصفحہ اے ) کہ میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی ! تو خاتم الاوصیاء ہے کیا حضرت علی کے بعد نہ کوئی موصی ہو سکتا ہے اور نہ کوئی وصی؟
361 ب.ایک دوسری روایت میں ہے.أَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَاَنْتَ يَا عَلِيٌّ خَاتَمُ الْأَوْلِياءِ.“ (تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبيين احزاب رکوع ۳) کہ اے علی ! میں خاتم الانبیاء ہوں اور تو خاتم الاولیاء ہے.۳.فتوحات مکیہ کے ٹائٹل پیج پر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کو خاتم الاولیا لکھا ہے.۴.خود دیو بندی علماء نے اس محاورہ کو استعمال کیا ہے چنانچہ مولوی محمود الحسن صاحب دیو بندی نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی وفات پر جو مرثیہ لکھا.اس کے ٹائٹل پیج پر متوفی کو خاتم الاولیاء والمحد ثین کہا ہے.۵.مولوی بدر عالم صاحب مدرس دیو بند نے اپنے رسالہ ”الجواب الفصیح کے صفحہ پر مولوی انورشاہ سابق صدرالمدرسین دیوبند کو خاتم المحد ثین و آئمۃ السابقین لکھا ہے.۶.حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کے رسالہ ” عجالہ نافعہ جلد اول) کے ٹائٹل پہنچ پر حضرت شاہ صاحب موصوف کو خاتم المحد ثین لکھا ہے.وو ے.حضرت غوث اعظم پیرانِ پیر سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بگ تُخْتَمُ الْوَلَايَةُ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴ صفحه ۲۳ نولکشور ) اور اس کا ترجمہ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی نے یہ کیا ہے:.در زمان تو مرتبہ ولایت و کمال تو فوق کمالات همه باشد و قدم تو برگردن همه افتد ( فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴ صفحہ ۷ ) یعنی حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ اے انسان تو خلقت سے مر جائے گا تو ترقی کرتے کرتے خاتم اولیاء ہو جائے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ولایت کے مرتبہ کے کمال پر پہنچ جائے گا اور تیرا مقام ولایت سب ولیوں سے بالا تر ہوگا اور تیرا قدم باقی ولیوں کی گردن پر ہوگا.چنانچہ ندائے غیب ترجمہ اردو فتوح الغیب مطبوعہ اسلامیہ ٹیم پریس لاہور میں بگ تُخْتَمُ الْوَلَايَةُ کا ترجمہ یہ لکھا کہ تو ایسا عزت دار ہو جائے گا کہ تیری مثل کوئی نہ ہوگا اور تو گا نہ وتہاء پردہ الہی میں چھپا لیا جائے گا.تیری مانند اولیاء وقت بھی نہ ہوسکیں گے بلکہ تو اس وقت ہر ایک رسول اور نبی کا وارث ہو جائے گا ولایت کا ملہ تجھ کول جائے گی.‘ (ندائے غیب صفحہ ۷ ) پس خاتم النبیین کے بھی معنی یہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو کوئی رسول نہ پا
سکے گا اور آپ کو نبوت کا ملہ مل گئی ہے.362 مولوی بشیر احمد صاحب دیوبندی لکھتے ہیں:.خَاتَمُ الْاَ كَابِرِ.حضرت گنگوہی کی وفات نے شہادت فاروقی کا نقشہ پیش کر دیا.“ (رساله القاسم جلد ۲ صفحه ۹،۵) و خَاتَمَةُ الْحُفَّاظِ شَمْسُ الدِّينِ اَبِي الْخَيْرِ محمد بن محمد بن محمد الجزري الدمشقي.“ (دیباچه التجرید الصریح صفحریم و صفحه ۵) ۱۰.مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں:.غالب اور ذوق جو خاتم الشعراء ہیں.ان کے ہاں وہ الفاظ بے تکلف ملتے ہیں جن کو شیخ ناسخ مدتوں سے چھوڑ چکے تھے.“ موازنہ انیس ود بیراز شبلی نعمانی صفحه ۲۹ عالمگیر پریس لاہورنا شر شیخ مبارک علی تاجر کتب اندرون لوہاری گیٹ لاہور ) ۱۱.مولا ناشبیلی مرحوم کی نسبت لکھا ہے :.خاتم المصنفین مولا ناشبلی » ( افادات مہدی مرتبہ مہدی بیگم صفیرم و طبع دوم مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ ) ۱۲.مولوی عبدالستار صاحب اپنی مشہور پنجابی کتاب «مقص الحسنین “ میں لکھتے ہیں.جعفر صادق کرے روایت اس و چه شک نہ کوئی اس ویلے وچہ حق یوسف دے ختم نبوت ہوئی ۱۳.مولانا حالی لکھتے ہیں :.قصص المحسنين مطبوعہ مطبع کریمی لا ہور جنوری ۱۹۳۰ صفحه ۲۷۹) قانی کو اہل ایران خاتم الشعراء سمجھتے ہیں.“ ( حیات سعدی از مولانا الطاف حسین حالی حاشیہ صفہ ہے طبع سمبر ۱۹۴۶ء ناشران شیخ جان محمد اله بخش تاجران کتب علوم مشرقیه کشمیری بازار لاہور ) اور شیخ علی حزین...کوہندوستان میں خاتم الشعراء سمجھتے ہیں.“ حیات سعدی از مولانا الطاف حسین حالی حاشیه صفحه ۰۱ اطبع تمبر ۱۹۴۶ ء ناشران شیخ جان محمد اله بخش تاجران کتب علوم مشرقیه کشمیری بازار لاہور ) ۱۴.فارس کا مشہور شاعر انوری با دشاہ غیاث الدین محمد غوری کی تعریف میں کہتا ہے.بر تو سلطانیت ختم و بر من مسکین سخن چون شجاعت بر علی و بر مصطفی پیغمبری
یہ شعر اس طرح بھی ہے 363 ختم شد بر تو سخاوت برمن مسکیں سخن چوں شجاعت بر علی، بر مصطفے پیغمبری کلیات انوری مطبوعہ منشی نولکشور ۱۲۹۷ھ لکھنو پریس ) ۱۵ - لَخَاتَمُ الْحُفَّاظِ وَ الْمُجْتَهِدِينَ مُجَدِّدُ الْمِائَةِ التَّاسِعَةِ الشَّيْخُ أَبِي الْفَضْلِ جَلالُ الدِّينِ عَبْدُ الرَّحْمَنُ السَّحَاوِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرِ الشَّهِيرُ بِالسُّيُوطِيِّ.“ المصنوع فی احادیث الموضوع صفحه ۳ مصنفہ شیخ محمد طاہر ) ۱۶ ابو تمام الطائی مؤلف حماسہ کی وفات پر حسن بن وہب (ایک عربی شاعر ) مرثیہ لکھتا ہے:.فُجِعَ الْقَرِيضُ بِخَاتَمِ الشُّعَرَاءِ وَغَدِيرِ رَوْضَتِهَا حَبِيبِ الطَّائِي وفیات الاعیان و ابن خلکان جلد ۲ صفحه ۱۸ مطبوعہ دارصا در بیروت) ترجمہ: کہ شاعری کو بہت رنج پہنچا ہے.خاتم الشعراء ( یعنی ابو تمام ) اور حبیب الطائی جو شاعری کے صحن کا حوض تھا ( کی وفات) سے اس شعر میں (ابو تمام ) کو خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے کیا شاعر کا مطلب یہ ہے کہ ابو تمام کے بعد کوئی شاعر پیدا نہ ہو گا ؟ یہ بحث نہیں کہ ابو تمام فی الواقع خاتم الشعراء ہے یا نہیں؟ بہر حال حسن بن وہب تو اسے خاتم الشعراء کہتا ہے.حالانکہ وہ خود شاعر ہے اور یہ بھی شعر ہے بہر حال محاورہ زبان ثابت ہے.خَاتَمُ الْمُحَدِّثِينَ وَالْمُفَسِرِينَ مَوْلَانَا شَاهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ عَلَيْهِ الرَّحْمَةِ.66 ( ہدیۃ الشیعہ مصنفہ محمد قاسم نانوتوی بانی دیو بند صفحه ۱۲٬۱۱ مکتبہ نعمانیہ اردو بازار گوجرانوالہ) ۱۸.حضرت امام رازی فرماتے ہیں:.عِندَ هَذِهِ الدَّرَجَةِ فَازُوا بِالْخِلَعِ الْاَرْبَعَةِ الْوُجُودِ وَالْحَيَاةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْعَقْلِ فَالْعَقْلُ خَاتَمُ الْكُلّ.وَالْخَاتَمُ يَجِبُ اَنْ يَكُونَ اَفْضَلَ أَلَا تَرَى أَنَّ رَسُولَنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ كَانَ أَفْضَلَ الأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ وَالْإِنْسَانُ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ الْمَخْلُوقَاتِ الْجَسُمَانِيَّةِ كَانَ اَفْضَلَهَا فَكَذَالِكَ الْعَقْلُ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ الْخِلَعِ الْفَائِضَةِ مِنْ حَضْرَةِ ذِى الْجَلَالِ كَانَ أَفْضَلَ الْخِلَعِ وَ اَكْمَلَهَا.“ ( تفسیر کبیر جلد ۶ صفر ۳۴ دار الكتب العلمیه طهران )
364 یعنی اس مقام پر پہنچ کر انسان چار خلعتوں سے ممتاز کیا جاتا ہے یعنی وجود حیات ، قدرت اور عقل.اور عقل ان سب کی خاتم ہے اور خاتم کے لئے ضروری ہے کہ افضل ہو.کیا تو نہیں دیکھتا کہ ہمارے رسول کریم صلحم بوجہ خاتم النبین ہونے کے تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تھے اور اسی طرح انسان بوجه خاتم الخلوقات ہونے کے تمام مخلوقات جسمانی سے افضل ہے اسی طرح عقل بھی بوجہ ان چاروں خلعتوں کی خاتم ہونے کے سب خلعتوں سے افضل اور اکمل ہے.پس صاف ثابت ہوا کہ خاتم کے جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں وہی درست ہیں.۱۹.امام زرقانی ” خاتم النبیین کے معنی لکھتے ہیں:.وَالْخَاتَمُ....أَمَّا بِفَتْحِهَا فَمَعْنَاهُ اَحْسَنُ الْأَنْبِيَاءِ خَلْقًا وَخُلْقًا لَانَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَالُ الْأَنْبِيَاءِ كَالْخَاتَمِ الَّذِي يُتَجَمَّلُ بِهِ وَ أَمَّا بِالْكَسْرِ.....فَمَعْنَاهُ اخَرُ الانبياء ( شرح مواہب اللہ نیہ جلد ۳ صفحه ۱۶۳ ۱۶۴ دار المعرفت بیروت) " کہت کی زبر ساتھ خاتم النبیین کے معنی ہیں.احسن الانبیاء ( یعنی سب نبیوں سے اچھا.نبی ) بلحاظ صورت و سیرت کے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کا جمال ہیں.انگوٹھی کی طرح جس سے خوبصورتی حاصل کی جاتی ہے اورت کی زیر کے ساتھ ہو تو خاتم کے معنی ہیں آخری نبی.“ یادر ہے قرآن مجید میں ت کی زبر کے ساتھ ہی خاتم ہے نہ کہ زیر کے ساتھ.۲۰.مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیو بند لکھتے ہیں :.الف.”ہمارے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کا اقرار بشر وانهم وانصاف ضرور ہے علی ھذا القیاس جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ علم سے اوپر کوئی ایسی صفت نہیں جس کو عالم سے تعلق ہو تو خواہ مخواہ اس بات کا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام مراتب کمال اسی طرح ختم ہو گئے جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں.اس لئے جیسے بادشاہ کو خاتم الحکام کہہ سکتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الکاملین اور خاتم النبین کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص پر مراتب کمال ختم ہو جائیں گے تو بائیں وجہ کہ نبوت سب کمالات بشری میں اعلیٰ ہے.چنانچہ مسلم بھی ہے سوائے آپ کے اور کسی نبی نے دعوئی خاتمیت نہ کیا بلکہ انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ جہان کا سردار آتا ہے خود اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسی خاتم نہیں کیونکہ حسب اشارہ مثال خاتمیت بادشاہ خاتم وہی ہو گا جو سارے جہان کا سردار ہو اس وجہ سے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
365 سب میں افضل سمجھتے ہیں پھر یہ آپ کا خاتم ہونا آپ کے سردار ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بقر ینہ دعویٰ خاتمیت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے یہ بات یقینی سمجھتے ہیں کہ وہ جہان کے سردار جن کی خبر حضرت عیسی علیہ السلام دیتے ہیں.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.“ (دیکھو حجتہ الاسلام مصنفہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیو بند صفحه ۵۳ ۵۴۰ مطبع احمدی علی گڑھ ) ب.یہی مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی دیو بند لفظ خاتم النبیین کی تشریح بایں الفاظ فرماتے ہیں : اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء ماسبق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ اللبِينَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی کہ (یعنی کیونکہ ) اس میں ایک تو خدا کی جانب نعوذ باللہ زیادہ گوئی کا وہم ہے....دوسرے رسول اللہ صلعم کی جانب نقصان قدر کا احتمال باقی یہ احتمال که یه دین آخری دین تھا.اس لئے سد باب اتباع مدعیان نبوت کیا ہے جو کل جھوٹے دعوی کر کے خلائق کو گمراہ کریں گے البتہ فی حد ذاتہ قابل لحاظ ہے پر جمله مَا كَانَ مُحَمَّد اَبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ اور جملہ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ میں کیا تناسب تھا.جو ایک دوسرے پر عطف کیا اور ایک کو مستدرک منہ اور دوسرے کو استند راک قرار دیا اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی بے ربطی اور بے ارتباطی خدا کے کلام معجز نظام میں متصور نہیں.اگر سد باب مذکور منظور ہی تھا.تو اس کے لئے اور بیسیوں مواقع تھے بلکہ بناء خاتمیت اور بات پر ہے جس سے تاخر زمانی اور سدِ باب مذکور خود بخود لازم آ جاتا ہے اور افضلیت نبوی دوبالا ہو جاتی ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتا ہے.جیسے موصوف بالعرض کا وصف بالعرض کا وصف موصوف بالذات سے مکتب ہوتا ہے.موصوف بالذات کا وصف کسی غیر سے مکتسب اور مستعار نہیں ہوتا.مثال درکار ہو تو لیجئے !از مین و کہسا راور در و دیوار کا نور اگر آفتاب کا فیض ہے تو آفتاب کا نور کسی اور کا فیض نہیں اور ہماری غرض وصف ذاتی ہونے سے اتنی ہی تھی...سواسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کو تصور فرمائیے.یعنی آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور
366 سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض.اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے.پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں آپ پر سلسلہ نبوت مختم ہو جاتا ہے غرض آپ جیسے نبی الامہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی ہیں.اور یہی وجہ ہوئی کہ شہادت وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ....الخ (ال عمران :۸۲) اور انبیاء کرام علیہم السلام سے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی اتباع اور اقتدا کا عہد لیا گیا ادھر آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر حضرت موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو میرا ہی اتباع کرتے علاوہ بریں بعد نزول حضرت عیسی کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے.“ پھر فرماتے ہیں:.تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتوی صفحه ۳ ۴۰ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیو بند سہارنپور ) جیسے خاتم بفتح التاء (یعنی مہر.خادم ) کا اثر اور نقش مختوم علیہ پر ہوتا ہے.ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے.“ حاصل مطلب آیہ کریمہ ( وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ.خادم ) اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوۃ معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہد ہے کیونکہ اوصاف معروض و موصوف بالعرض.موصوف بالذات کے فرع ہوتے ہیں.موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کی اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل...سو جب ذات با برکات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم موصوف بالذات بالنبوۃ ہوئی اور انبیاء باقی موصوف بالعرض تو یہ بات اب ثابت ہو گئی کہ آپ والد معنوی ہیں اور انبیاء باقی آپ کے حق میں بمنزلہ اولاد معنوی اور امتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں غور کیجئے.“ ( تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتوی صفحه ۱۰ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیو بند سہارنپور ) پھر فرماتے ہیں:.جیسے انبیاء گذشتہ کا وصف نبوت میں حسب تقریر مسطور اس لفظ سے آپ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے اور آپ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا اس میں انبیاء گذشتہ ہوں یا کوئی اور.اس طرح اگر فرض کیجئے آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں یا آسمان میں کوئی نبی ہو تو وہ بھی اس وصف نبوت میں آپ ہی کا محتاج ہو گا اور اس کا سلسلہ نبوت بہر طور آپ پر مختم ہوگا اور کیوں نہ ہو عمل کا سلسلہ علم پر ختم ہوتا ہے جب علم ممن للبشر ہی ختم ہو گیا تو پھر سلسلہ علم و عمل کیا چلے؟
367 غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے.“ تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتوی صفحه ۱۴۰۱۳ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیو بند سہارنپور ) پھر نتیجہ اس تمام بحث کا ان الفاظ میں نکالتے ہیں :.ہاں اگر خاتمیت ہمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا اس بیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اور کسی کو افراد مقصود بالتخلق میں سے مماثل نبوی صلم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افراد خارجی ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی، افراد مقدرہ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتوی صفحه ۲۵ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیو بند سہارنپور) نوٹ:.صفحات کا نمبر اس ایڈیشن کا دیا گیا ہے جو مطبع قاسمی دیو بند کا مطبوعہ ہے اور تحذیر الناس مطبوعہ خیر خواہ سر کا رسہارنپور میں آخری عبارت بجائے صفحہ ۲۵ کے صفحہ ۲۸ پر ہے.(خادم) ان سب عبارات سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے نزد یک خاتم النبیین کے معنی آخری نبی یا نبیوں کا بند کرنے والا نہیں بلکہ افضل الانبیاء ”نبی الابنیاء ابوالانبیاء اور موصوف بوصف نبوت بالذات“ کے ہیں.نوٹ: بعض غیر احمدی علماء یہاں پر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مولوی محمد قاسم نانوتوی کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.سو اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے اپنے عقیدہ کی یہاں بحث نہیں بلکہ لفظ ” خاتم “ کے حقیقی اور اصلی معنوں کی ہے اور جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا رہا ہے لفظ خاتم النبین“ کے معنی مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بھی بعینہ وہی بیان کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں.پھر ان کی مندرجہ بالا عبارت میں لفظ ”پیدا“ ہو سب سے بڑھ کر قابل غور ہے کیونکہ یہاں یہ تاویل پیش نہیں کی جاسکتی کہ نزول مسیح کے عقیدہ کے پیش نظر ایسا لکھا گیا.اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا بھی خاتمیت کے منافی نہیں.بشرطیکہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے مستفاض ہو.
368 یعنی بالعرض ہو.بالذات نہ ہو.پس ہماری بحث صرف اس امر میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اور حضور کی غلامی اور متابعت میں کسی نبی کا آنا ہرگز لفظ ” خاتم النبیین “ کے خلاف نہیں ہے پھر یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ مولوی محمد قاسم صاحب فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا.“ ہم موجودہ دیوبندی علماء سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ بھی یہی الفاظ کہنے کے لئے تیار ہیں اور کیا آپ کا بھی یہی عقیدہ ہے؟ یقینا نہیں کیونکہ موجودہ دیوبندی علماء کا عقیدہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی نبی آنحضرت صلعم کے بعد پیدا ہو خواہ آپ کا غلام اور امتی ہو اور آپ کی پیروی کے ماتحت ہی نبی ہوا اور حضور اور حضور کی شریعت کا تابع ہو پھر بھی اس کی آمد سے ” خاتمیت محمدی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے.اسی لئے تو آنحضرت صلعم کے ایک غلام اور امتی بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف تحفظ ختم نبوت“ کا سٹنٹ کھڑا کر رکھا ہے.پس مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے حوالے صرف لفظ خاتم کے حقیقی معنوں کی تحقیق کے سلسلہ میں پیش کئے ہیں نہ کہ ان کے ذاتی عقیدہ کے اظہار کے لئے.۲۱.حضرت مولانا روم نے بھی خاتم کے معنی افضل ہی کئے ہیں.فرماتے ہیں بہر ایں خاتم شد است او که بجود مثل اونے بود نے خواهند بود چونکه در صنعت بر داستا د دست تو نہ گوئی ختم صنعت بر تو ہست ( مثنوی مولانا روم دفتر ششم صفحه ۸ مطبوعه نولکشو ر ۱۸۹۶ء مفصل دیکھو پاکٹ بک ہذا صفحه ۳۵۵) ۲۲ تفسیر حسینی المعروف بہ تفسیر قادری میں ہے:.عین الا جو بہ میں لکھا ہے کہ ہر نوشتے کی صحت مہر کے سبب سے ہے اور حق تعالیٰ نے پیغمبر کو مہر کہا تا کہ لوگ جان لیں کہ محبت الہی کے دعوی کی تصیح آپ کی متابعت ہی سے کر سکتے ہیں ان كنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونى يخبكُمُ الله ہر کتاب کا شرف اور بزرگی مہر کے سبب سے ہے تو سب پیغمبروں کو شرف حضرت کی ذات سے ہے اور ہر کتبہ کی گواہ اس کی مہر ہوتی ہے تو محکمہ قیامت میں گواہ آپ ہوں گے.“ ( تفسیر حسینی مترجم اردو جلد اصفحه ۲۰۲ زیر آیت خاتم النبین سورۃ احزاب) پس اس عبارت سے ”خاتم النبین“ کے معنی مصدق الانبیاء اور افضل الانبیاء اور شاہد الانبیاء ثابت ہوئے.پس اگر اس آیت کے بقول تمہارے ایک معنی آخری کے بھی ہوتے تب بھی إِذَا جَاءَ الاحْتِمَالُ بَطَلَ الاستدلال کے اصل کے ماتحت یہ آیت انقطاع نبوت پر دلیل نہیں بن سکتی تھی
369 کیونکہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہے کہ مہر تصدیق کے لئے بھی ہوتی ہے.توثیق کے لئے بھی ہوتی ہے.شرف اور عظمت کے لئے بھی ہوتی ہے.پس مہر کو صرف ایک خاص مفہوم میں مقید کرنے والا تحکم سے کام لیتا ہے.نیز جو شخص یہ کہتا ہے کہ خاتم (مہر) کے معنی اس آیت میں صرف اور بکلی بند کرنے کے ہیں اس ادعائے باطل کے اثبات کا بار ثبوت اس پر ہے، لیکن جیسا کہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے مندرجہ بالا حوالہ از تحذیر الناس صفحہ ۳ سے ثابت ہے آیت خاتم النبین کا سیاق وسباق اور ترکیب قطعا ان معنوں کی تائید نہیں کرتے.پس آیت کا صحیح مفہوم وہی ہے جو مندرجہ بالا حوالہ جات میں بیان کیا گیا ہے.پس ثابت ہوا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے اہل عرب کے محاورہ زبان کے مطابق خاتم النبیین کے معنی " فضل الانبیاء کے ہیں ختم کے معنی پنجابی ، اردو، فارسی میں آخری اور انقطاع کے بے شک ہوں.جس طرح لفظ مکر کے معنی اردو فارسی میں دھو کے کے ہیں.مگر عربی میں تدبیر کرنے کے اسی طرح ” خاتم کے جمع کے صیغے کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں عربی زبان میں بجز افضل اور صاحب کمال کے کوئی معنی نہیں آتے.نوٹ:.خاتم القوم عربی زبان کا کوئی محاورہ نہیں اور نہ کسی عرب نے کبھی اس کو استعمال کیا ہے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ محاورہ زبان ثابت کرو.آج اگر مؤلف لسان العرب یا تاج العروس ہمارے زمانہ میں زندہ ہوتے تو ہم ان سے دریافت کرتے کہ آپ نے جو خاتم النبین“ کے معنے ختم کرنے والا کئے ہیں.اس کے لئے اہل زبان کے کون سے مستعمل محاورہ کی آپ کے پاس سند ہے اور وہ محاورہ کب اور کہاں استعمال ہوا ہے؟ پس آج جو شخص ان لوگوں کا قائم مقام ہو کر ہم سے ختم نبوت پر بحث کرتا ہے اس سے ہمارا حق ہے کہ یہ مطالبہ کریں کہ وہ اہل زبان کا محاورہ پیش کرے لغت کی کتابوں سے ہماری بھی تائید ہوتی ہے تکملہ مجمع بحارالانوار میں جو لغت کی کتاب ہے لفظ خاتم کے نیچے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول لکھا ہے:.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ» (تکمله مجمع بحار الانوارجلد چہارم صفحه ۸۵ نیز دیکھو در منثور از علامه جلال الدین سیوطی جلد ۵ صفحه ۲۰۴ مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان ) کہ یہ تو کہو کہ آنحضرت صلح خاتم النبیین ہیں مگر یہ بھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ آوے گا.اس کے آگے لکھا ہے:
370 هذَا نَاظِرٌ إِلَى نُزُولِ عِيسَى وَهَذَا أَيْضًا لَا يُنَافِي حَدِيثَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ اَرَادَ لَا نَبِيَّ يَنْسَخُ شَرْعَهُ (تکمله مجمع بحارالانوار صفحه ۸۵) که یه قول حضرت عائشہ صدیقہ کا نزول مسیح کا موید ( محافظ ) ہے اور لا نَبِيَّ بَعْدِی والی حدیث کا بھی مخالف نہیں.کیونکہ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ والی آیت اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِئ کا مطلب تو یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو آنحضرت کی شریعت کو منسوخ کرے.۲.اسی طرح مجمع البحار جلد اصفحہ ۳۲۹ مطبع نولکشور پر لکھا ہے.أُوتِيتُ....خَوَاتِمَهُ أَى اَلْقُرْآنُ خُتِمَتْ بِهِ الْكُتُبُ السَّمَاوِيَّةُ وَهُوَ حُجَّةٌ عَلَى سَائِرِهَا وَ مُصَدِّقٌ لَهَا.“ کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں.اسی طرح قرآن بھی خاتم الکتب ہے ان معنوں میں کہ وہ سب کتابوں کی مصدق ہے.الجواب نمبر ۲:.کائم کے معنے انگوٹھی کے ہوتے ہیں اور انسان انگوٹھی زینت کے لئے پہنتا ہے پس ” خاتم النبین“ کے معنے نبیوں کی زینت ہوئے.چنانچہ ان معنوں کی تائید تفسیر فتح البیان جلدا صفحہ ۱۰۱ مکتبہ العصر یہ بیروت سے ہوتی ہے.صَارَ كَالْخَاتِم لَهُمُ الَّذِي يَحْتَمُونَ بِهِ وَيَتَزَيَّنُونَ بِكَوْنِهِ مِنْهُمْ» یعنی آنحضرت صلعم نبیوں کی انگوٹھی بن گئے یعنی اس وجہ سے کہ آنحضرت اُن میں سے ایک ہیں وہ آپ کے وجود سے زینت حاصل کرتے ہیں.ب - مجمع البحرین میں زیر لفظ ختم صفحہ ۴ ۵۱ خاتم النبین “ کے یہ معنی لکھتے ہیں:.خَاتَمُ بَمَعْنِي الزَيْنَةِ مَاخُوذُ مِنَ الْخَاتَمِ الَّذِى هُوَ زِيْنَةٌ لِلابسه.“ کہ خاتم کے معنے زینت کے ہیں اور یہ معنے انگوٹھی سے نکلے ہیں جو پہننے والی کے لئے زینت کا موجب ہوتی ہے.ج.ان معنوں کی تائید عربی کے مشہور شاعر شہاب الدین الموسوی المعروف بابن معتوق کے قصیدہ میمیہ کے اس شعر سے ہوتی ہے جو اس نے آنحضرت صلعم کی مدح میں کہا ہے طَوُقُ الرَّسَالَةِ تَاجُ الرُّسُلِ خَاتَمُهُمُ بَلُ زِيْنَةٌ لِعِبَادِ اللَّهِ كُلِّهِمْ (كتاب المجموعة البنهانية في المدائح النبوية.قافية الميم مطبوعه بيروت فی مطبعة المعارف ۱۳۲۰ھ مولفه ، یوسف اسماعيل النبهانی جزوم)
371 کہ آنحضرت صلعم نبوت کی مالا ہیں.آپ نبیوں کا تاج اور ان کی انگوٹھی (خاتم) ہیں.نہیں(صرف نبیوں ہی کے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ) خدا کے تمام بندوں کے لئے زینت ہیں.اس شعر میں طوق (مالا) تاج اور خاتم (انگوٹھی ) تینوں زینت کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں.چنانچہ لفظ ” بل“ کے ساتھ زینت کا لفظ خود پکار پکار کر کہہ رہا ہے اس شعر میں لفظ خاتم“ آخری کے معنے میں نہیں بلکہ زینت کے معنی میں آتا ہے.نیز چونکہ انگوٹھی انکی کو گھیر لیتی ہے.اس لئے اس 66 لحاظ سے خاتم النبین کے معنی ہوں گے کہ تمام انبیاء کے کمالات کو اپنے اندر جمع کر لینے والا.۳- تذکرة الاولیاء مصنفہ جناب شیخ فرید الدین عطار فارسی صفحہ ۲۷۲ میں لکھا ہے.مجذوب کے بہت سے درجہ ہیں.ان میں سے بعض کو نبوت کا تہائی حصہ ملتا ہے اور بعض کو نصف اور بعض کو نصف سے زیادہ یہاں تک کہ بعض مجذوب ایسے ہوتے ہیں.جن کا حصہ نبوت میں سے تمام مجذوبوں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ خاتم الاولیاء ہوتا ہے.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور یہ مجذوب ممکن ہیں کہ امام مہدی ہوں.“ ( تذکرۃ الاولیاء باب ۵۸ حضرت حکیم محمدعلی الترندی وارد وترجمه ظهیرالاصفیاء از مولانا سید اعجاز احمد مطبع شدہ اسلامیہ ٹیم پریس لاہور ) نوٹ:.مندرجہ بالا اردو ترجمہ انوار الاز کیاء وترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء مطبع مجیدی کانپور کے صفحہ ۵۳۷ سے لیا گیا ہے.لفظ ختم اور محاورہ اہل عرب لفظ خاتم کا صیغہ جمع پر مضاف ہو کر افضل“ ہونے کے معنوں میں ہونا بدلائل ثابت کیا جا چکا ہے.اب بعض مثالیں لفظ ختم کے فعل استعمال ہونے کی صورت میں محاورہ اہل زبان سے پیش کی جاتی ہیں کیونکہ بعض دفعہ بعض لوگ خُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ“ کی حدیث بھی پیش کر دیا کرتے ہیں اور اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے.ا.یزید بن معاویہ کے متعلق لکھا ہے :."كَانَ فَصِيحًا كَرِيمًا شَاهِدًا مُفْلِقًا قَالُوا بُدِئَ الشِّعْرُ بِمَلِكِ وَ خُتِمَ بِمَلِكِ إِلَى امْرَءِ الْقَيْسِ وَإِلَيْهِ.كتاب الفخرى لابن طقطقى باب الدولة الاموية ذكر يزيد) که یزید بہت فصیح شاعر تھا اور نہایت اچھے شعر کہتا تھا.مشہور مقولہ ہے کہ شعر ایک بادشاہ سے شروع ہوا اور بادشاہ پر ختم ہوا.اس سے مراد امراء القیس اور یزید ہیں.یعنی امراء القیس سے شاعری
372 شروع ہوئی اور یزید بن معاویہ پر ختم ہوئی.کیا عربی کے اس مقولہ کا مطلب یہ ہے کہ یزید کے بعد کوئی شاعر نہیں ہوا ؟ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ یزید اپنے زمانہ کا بہترین شاعر تھا.۲.اسی طرح وفیات الاعیان لابی العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر لابن خلقان جلد۲ صفحہ اے میں ابوالعباس محمد بن یزید المعروف بالمبر دنحوی کے ذکر میں لکھا ہے.وَكَانَ الْمُبَرَّدُ الْمَذْكُورُ وَاَبُو الْعَبَّاسِ اَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْمُلَقَّبُ بِتَعْلَبِ صَاحِبَ كِتَابَ الْفَصِيحِ عَالَمِيْنَ مُتَعَارِضِينَ قَدْ خُتِمَ بِهِمَا تَارِيخُ الْأَدَبَاءِ.“ که مبر داور ابو العباس ثعلب مصنف کتاب الفصیح.دونوں بڑے عالم تھے اور ان دونوں کے ساتھ ادیبوں کی تاریخ ختم ہوئی.اب کیا ادباء کی تاریخ کے ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مبر داور اتعاب کے بعد کوئی ادیب نہیں ہوا.نہیں.ہر گز نہیں مراد صرف یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے زمانہ کے بہترین ادیب تھے.لفظ ختم “ اور قرآن مجید بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں لفظ ختم “ بند کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت اليَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ (يس:۶۶) میں کہ قیامت کے دن دوزخیوں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی قیامت کے روز دوزخی منہ سے بات نہ کر سکیں گے.پس ثابت ہوا کہ ختم یعنی مہر سے مراد بند کرنا ہے.الجواب:.اس کا جواب یہ ہے کہ گو لفظ ختم اور اس کے مشتقات کے متعلق بحث نہیں بلکہ بحث خاص طور پر لفظ خاتم بفتحه تاء کے صیغہ جمع کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں آخری یا افضل کے معنوں میں ہونے کی ہے لیکن آیت مذکورہ بالا سے بھی ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ نَخْتِم سے مراد مطلق بند کرنا ہے کیونکہ آیت محولہ کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت کے دن دوزخی زبان سے بات ہی نہیں کر سکیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں زبان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ تمام اعضاء اور جوارح کی نمائندہ ہونے کی ہے یعنی اگر کوئی تکلیف انسان کے سر میں ہو تو اس کا اظہار بھی زبان کرتی ہے اور اگر ہاتھ یا پاؤں میں کوئی خرابی ہو تو وہ بھی زبان ہی بتاتی ہے تو بظاہر خیال ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے قیامت کے دن بھی صرف زبان ہی اپنے علاوہ دوسرے اعضاء کے گناہ بیان کر دے گی.
373 تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اس دن ہر عضو اپنے گناہ خود بھی بیان کرے گا.ہاتھ اپنے گناہ بیان کریں گے ، پاؤں اپنی بدیاں گنائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ بدزبانی ، غیبت اور جھوٹ وغیرہ گناہ جن کا ارتکاب خود زبان سے ہوا ہوگا.وہ کون بیان کرے گا؟ کیا ہاتھ بتائیں گے یا پاؤں؟ ظاہر ہے کہ زبان کے اپنے گناہ خود زبان ہی بتائے گی.پس قیامت کے دن دوزخی کا منہ بند ہونا تو ثابت نہ ہوا.بلکہ دوزخی کا بولنا اور اس کے منہ کا کھلا رہنا ثابت ہو.اگر کہو کہ تمہارا یہ استدلال محض قیاسی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ استدلال قیاسی نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں ہی موجود ہے کہ قیامت کے دن دوزخیوں کی زبان بند نہیں ہوگی.بلکہ وہ باتیں کریں گے.چنانچہ سورۃ نور رکوع ۳ میں ہے يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(النور: ۲۵) یعنی قیامت کے دن ان کی زبانیں ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے.ان اعمال کی جو وہ کیا کرتے تھے.پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ قیامت کے دن با وجود منہ پر مہر لگ جانے کے دوزخی باتیں کریں گے.چنانچہ ایک دوسری جگہ بھی ہے کہ جب جسم اور ہاتھ اور پاؤں دوزخیوں کے خلاف گواہی دیں گے تو لکھا ہے.وَقَالُو الِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا (حم سجدہ (۲۳) وہ اپنے جسموں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ گویا ان کی زبان بند نہ ہوگی.پس الْيَوْمَ نَخْتِمُ “ والی آیت میں ختم“ کے معنی ہرگز بکلی بند کرنے کے نہیں ہیں.ہمارے نزدیک اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زبان پر تصدیق اور سچائی کی مہر لگا دے گا.پس وہ سچ سچ سب کچھ بیان کر دے گی اور جو کچھ وہ اپنے خلاف کہے گی اس کے لئے تو کسی مزید تائید اور شہادت کی ضرورت نہ ہوگی لیکن جو کچھ وہ دوسرے اعضاء کے خلاف کہے گی اس کی تصدیق کرنے کے لئے ہر ایک عضو اپنے اپنے کردہ گناہوں کا اقبال کر لے گا.اس طرح سے الہی مہر کی تصدیق ہو جائے گی.ان معنوں کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے.
374 (۱) حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ الدَّنَانِيرُ وَالدَّرَاهِمُ خَوَاتِيمُ اللهِ فِى اَرْضِهِ مَنْ جَاءَ بِخَاتَمِ مَوْلَاهُ قُضِيَتُ حَاجَتُه.(فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۲۱۷ و جامع الصغیر للسيو علی مصری الطبعة الثانيه جلد ۲ صفحه ۱۴) کہ زمین میں دینار اور درہم اللہ تعالیٰ کی مہریں ہیں.پس جو شخص اپنے آقا کی مہر لے کر آتا ہے.اس کی حاجت پوری ہو جاتی ہے.(۲) امينُ خَاتَمُ رَبِّ الْعَالَمِينَ عَلَى لِسَانِ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ.....مَعْنَاهُ طَابِعُ اللهُ عَلَى عِبَادِهِ لأَنَّهُ يُدْفَعُ بِهِ الْأَفَاتُ وَالْبَلَايَا.....الْحَدِيتُ امِيْنُ دَرَجَةً فِي الْجَنَّةِ قِيْلَ مَعْنَاهُ إِنَّهُ طَابِعُ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَقِيْلَ إِنَّهُ كَلِمَةٌ يَكْتَسِبُ بِهَا قَائِلُهَا دَرَجَةٌ فِي الْجَنَّةِ (فردوس الاخبار دیلمی صفحه ۵۵،۵۴ و جامع الصغیر للسیوطی باب الالف جلد اصفحہم مصری ) حدیث " آمین خدا تعالیٰ کی مہر ہے.خدا کے مومن بندوں کی زبان پر اس کے معنی یہ ہیں کہ ”آمین اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہر ہے کیونکہ اس سے آفات اور بلائیں خدا کے بندوں سے دور ہو جاتی ہیں دوسری حدیث میں ہے کہ ”آمین“ جنت میں ایک درجہ ہے کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ”آمین“ خدا کی ایک مہر ہے اس کے بندوں پر اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا کہنے والا جنت میں درجہ حاصل کرتا ہے.پس ان احادیث کی روشنی میں (جو محض محاورہ عربی ثابت کرنے کے لئے پیش کی گئی ہیں) آیات قرآنی کا مطلب یہی ہوگا کہ قیامت کے دن ان کی زبان پر مہر لگا دی جائے گی یعنی اس کو جھوٹ بولنے سے محفوظ کیا جائے گا.سچ بولنے کی ممانعت نہ ہوگی.چنانچہ اس دن زبان جو کہے گی وہ بیچ ہی ہوگا.(۱) ورنہ حوالہ مندرجہ بالا میں ”خدا کے بندوں پر مہر لگنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں ہوسکتا کہ مومن کی زبان بند ہو جاتی ہے بلکہ ظاہر ہے کہ اس کے معنی الہی حفاظت اور تصدیق ہی کے ہیں.۲.اسی طرح خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمُ (البقرة: ۸) کی آیت پیش کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں پر مہر لگادی ہے.الجواب :.(۱) احادیث مندرجہ بالا سے خوب وضاحت ہو جاتی ہے.(۲) یہ آیت تو تمہاری تغلیط اور ہماری تائید کرتی ہے کیونکہ اگر ختم کے معنی بند کرنا ہو تو
375 پھر اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ کافروں کی حرکت قلب بند ہوگئی لیکن ظاہر ہے کہ یہ غلط ہے.(۳):.کیا ان کافروں میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا ؟ (۴):.زیادہ سے زیادہ تم اس کے یہی معنے کرو گے کہ کافروں کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی.اب ان کے دل میں ایمان کی بات داخل نہیں ہو سکتی.لیکن سوال یہ ہے کہ کافروں کے دل میں کیا کوئی کفر اور بدی کی بات بھی داخل ہو سکتی یا ان کے دل پر اثر کر سکتی ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ جو چیزان کے دل کے اندر موجود ہے ( یعنی کفر ) اس کی تائید اور تصدیق کرنے والی چیزوں کے داخل ہونے کے لئے ان کے دل کے دروازے کھلے ہیں بند نہیں ہوئے.ہاں اس کے خلاف ( ایمان یا ہدایت وغیرہ) کی باتوں کے لئے دروازہ بند ہے.پس تمہارے معنوں کو تسلیم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوا کہ جس چیز پر مہر لگائی جائے اس کے مؤید کے لئے دروازہ بند نہیں ہوتا بلکہ اس کے مخالف کے لئے بند ہوتا ہے.پس اگر خَاتَمُ النَّبِيِّينَ “ کے آیت کے معنی بھی اس اصول کے ماتحت لیتے ہو.تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے خلاف کوئی نبی نہیں آ سکتا.ہاں آپ کی تائید کے لئے نبی آ سکتا ہے.یا در ہے کہ یہ معنی ہم نے تمہارے معنوں کو تسلیم کر کے لکھے ہیں.ہمارے نقطۂ نگاہ سے اس کے معنوں کے لئے مندرجہ بالا حدیث پر غور کرو تو معنے یہ ہوں گے کہ کافروں کے دلوں میں جو گند ہے خدا اس کا اظہار اپنی مہر کے ذریعہ کرتا ہے یعنی یہ تصدیق کرتا ہے کہ ان کے دلوں میں گند بھرا ہے اور یہ ،، لهُ هُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (البقرة: وہ ایسے ہٹ دھرم ہیں کہ باوجود صداقت کے کھل جانے کے پھر بھی ایمان نہیں لاتے گویا ان کا ایمان نہ لانا خدا تعالیٰ کی مہر کے نتیجہ میں نہیں.جیسا کہ تمہارا خیال ہے کیونکہ اس طور پر خدا تعالیٰ کی ذات مورد اعتراض بنتی ہے کہ اگر وہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس میں ان کا کیا قصور؟ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی.اب وہ بیچارے کا فر رہنے پر مجبور ہیں.لیکن ہمارے نزدیک یہ بات نہیں بلکہ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ان کی اندرونی کیفیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور اس کے گندہ اور قابل نفرت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی.بہر حال تم قرآن مجید کی کوئی بھی آیت پیش نہیں کر سکتے.جس میں ختم “ کا مشتق کلی طور پر بند کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہو.اور اگر ایسا ہو بھی تو آیت خَاتَمَ النَّبِيِّينَ پر اس کا اثر نہیں
376 کیونکہ وہاں لفظ خاتم تاء کی زبر کے ساتھ اسم آلہ ہے اور عربی میں جب یہ لفظ جمع کی طرف مضاف ہو.اس کے معنے بلا استثناء ہمیشہ افضل کے ہوتے ہیں.کیا کوئی ہے جو ہمارے اس چیلنج کو توڑ سکے؟ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلواران سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود اور لفظ ”خَاتَم “ کا استعمال بعض غیر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض اُردو کتب سے ” خاتم الاولاد “ اور ” خاتم الخلفاء “ وغیرہ کے محارے پیش کیا کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ عربی زبان میں اگر لفظ خاتم صیغہ جمع کی طرف مضاف ہو تو تو محارہ عربی کے مطابق اس کے معنی بجز افضل کے نہیں ہوتے.اردو فارسی اور پنجابی میں اگر یہ لفظ ” بند کرنے والے“ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہو تو اس سے مخالف کو کوئی فائدہ نہیں.جیسا کہ لفظ مکر کی مثال سے واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ لفظ اردو، فارسی اور پنجابی میں دھوکہ اور فریب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن عربی میں محض تدبیر کے معنوں میں بولا جاتا ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں " مَكَرُوا وَمَكَرَ الله وَالله خَيْرُ الْمُكِرِينَ “ (ال عمران: (۵۵) والی آیت میں لفظ مکر اللہ تعالیٰ کی نسبت استعمال ہوا ہے.ا.اگر حضرت مسیح موعود کی کسی اُردو عبارت میں لفظ ” خاتم الاولاد“ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا اس بحث میں پیش کرنا مفید نہیں.کیونکہ ہماری بحث قرآن مجید کی آیت خاتم النبین“ سے متعلق ہے جو اردو میں نہیں بلکہ عربی زبان میں ہے.۲.تریاق القلوب صفحہ ۱۵۷ طبع اول و صفحه ۳۰۰ طبع ثانی کی تمہاری پیش کردہ عبارت یہ ہے:.”میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں اُن کے لئے خاتم الاولاد تھا.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۷۹) اس عبارت میں خاتم الاولاؤ سے مراد اولاد کا سلسلہ بکلی منقطع کرنے والا نہیں ہوسکتا کیونکہ کیا آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ آپ کے بعد ختم ہو گیا؟ نہیں بلکہ آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ آپ کے ذریعہ سے چلا اور آپ خاتم الاولاد ان معنوں میں ہوئے کہ آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ آپ کے سوا دوسرے بچوں کے ذریعہ سے منقطع ہو گیا.لیکن صرف آپ کے ذریعہ سے آگے
377 ان کی اولاد چلی.ظاہر ہے کہ ابنُ الْاِبنِ ابن “.حضرت مسیح موعود کا ایک دوسرا الہام تھا:.شروع ہوگی.“ 66 يَنْقَطِعُ ابَاتُكَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ“ ( تذکرہ صفحه ۵۳ ایڈیشن نمبر ۴ ) کہ تیرے والدین اور آباؤ اجداد کی نسل منقطع ہو جائے گی اور آئندہ تیرے ذریعہ سے پھر اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں یہ کلام الہی درج ہے.ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۰۲).اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.اندریں حالات ” خاتم الاولاد“ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے والدین کا ان معنوں میں آخری بچہ ہو کہ اس کے سوا ان کی اولاد کا سلسلہ کسی اور بچے کے ذریعہ سے نہ چلے بلکہ صرف اس کے ذریعہ سے اولاد کا سلسلہ چلے.پس ” خاتم النبین “ کے بھی یہی معنی ہوئے کہ دوسرے نبیوں کا سلسلہ ختم ہو جائے اور آئندہ نبیوں کا سلسلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ چلے.جس طرح خاتم الاولاؤ کے بعد اولاد کا سلسلہ بند نہیں ہوا اسی طرح خاتم النبین“ کے معنی یہ نہیں ہو سکتے کہ آئندہ نبیوں کا سلسلہ بکلی بند ہو جائے.البتہ موسی عیسی، یحیی، زکریا اور دیگر انبیا علیہم السلام کی نبوتیں حضرت محمد رسول اللہ صلعم کی بعثت سے ختم ہو گئیں.اب ” خاتم النبیین“ کے ذریعہ توسط اور فیض سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوگا.پس تریاق القلوب کے حوالے سے تمہارا مقصود حاصل نہیں ہوسکتا..اس تریاق القلوب کے اگلے صفحہ یعنی طبع اول تقطیع کلاں کے صفحہ ۱۵۸ وطبع ثانی تقطیع خورد کے صفحہ ۳۰۲ پر عربی عبارت کر کے (جس میں لفظ خاتم الا ولا داستعمال ہوا ہے ) حضرت نے اس کا خود ہی اردو تر جمہ بصورت ذیل درج فرمایا ہے فَهُوَ خَاتَمُ الاولادِ (فصوص الحکم نص حکمت نقشیه کلمه شیشیه جز و دوم ) اور وہ خاتم الاولاد ہو گا یعنی اس کی وفات کے بعد کوئی کامل بچہ پیدا نہیں ہوگا.پس ثابت ہوا کہ خاتم الاولاد کا محاورہ عربی کے لحاظ سے ترجمہ ” کامل بچہ ہے اور مراد یہ ہے کہ آپ کے والدین کے دوسرے بچے بھی تھے لیکن چونکہ آگے ان کی نسل منقطع ہو گئی اس لئے وہ کامل بچے کہلانے کے مستحق نہ تھے لیکن چونکہ آپ ایسے بچے تھے جن کے ذریعہ آئندہ کے لئے آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ چلا اس لئے ” کامل بچہ کہلانے کے آپ مستحق ہوئے.اس مفہوم کے لحاظ سے آنحضرت صلعم کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ” کامل نبی ہیں کیونکہ آپ
378 کے آنے سے گذشتہ تمام نبیوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن آپ کے ذریعہ اور آپ کے طفیل سے آئندہ غیر تشریعی اور امتی نبیوں کا سلسلہ جاری ہوا.احراری: میں نکلا تھا“ کا لفظ مضحکہ خیز ہے.احمدی:.یہ طرز کلام حضرت مسیح موعود کا اپنا نہیں بلکہ قرآن مجید کی اس آیت کا لفظی ترجمہ ہے.وَاللهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ (النحل: ۷۹ ) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے اور اللہ نے نکال تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے.پس اس نکلنے میں تو خود معترض بھی شامل ہے.یوں بے حیا بن کر قرآنی محاورات پر جو چاہے اعتراض کرتا رہے! ۴.حضرت مسیح موعود نے خاتم کا محاورہ جب بھی عربی عبارت میں استعمال فرمایا ہے وہاں اس کے معنی افضل ہی کے ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں:."هو خاتم الحسينين و الجميلين، كما أنه خاتم النبيين والمرسلين.66 آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۳ ) یعنی آنحضرت صلعم تمام حسینوں اور جمیلوں کے بھی خاتم ہیں جس طرح آپ رسولوں اور نبیوں کے خاتم ہیں.“ الف.پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ عربی محاورہ کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب خاتم“ کو افضل ہی کے معنوں میں استعمال فرماتے تھے.ب:.ایک دوسری جگہ یہ عربی عبارت لکھتے ہیں: ” فحينئذ تكون وارث كل رسول ونبي..........وبك تُختم الولاية تحفہ بغداد - روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۴، فتوح الغیب مقالہ نمبرم صفحه ۲۳ فارسی از شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ندائے غیب صفحہ کے ترجمہ اردو ) اور اس عربی عبارت کا ترجمہ حضور اپنی طرف سے یہ تحریر فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ تجھے اپنے نبیوں اور رسولوں کا وارث بنادے گا یعنی ان کے علوم و معارف اور برکات جو خفی اور نا پدید ہو گئے تھے.وہ از سر نو تجھ کو عطا کئے جائیں گے اور ولایت تیرے پر ختم ہوگی یعنی تیرے بعد کوئی نہیں اُٹھے گا جو تجھ سے بڑا ہو (برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۶ حاشیہ ) یہ دونوں عربی عبارتیں فیصلہ کن ہیں.
379 حضرت مسیح موعود کی دیگر تحریرات بعض غیر احمدی حضرت مسیح موعود کی بعض اس قسم کی تحریرات پیش کرتے ہیں جن میں معترضین کے نزدیک حضور نے خاتم النبین کا ترجمہ ”بند کرنے والا کیا ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کو بند قرار دیا ہے.الجواب ا:.حضرت اقدس نے جس نبوت یا رسالت کو بند قرار دیا ہے وہ غیر شریعی براہ راست نبوت ہے.چنانچہ فرماتے ہیں : ” اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں.“ ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱) ۲.یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا.اور جس کے معنے یہ ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے...اس (خدا) نے میرا نام نبی رکھا ہے.سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.میں اس پر قائم ہوں.اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں.“ خط اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء، بد را اجون ۱۹۰۸ء صفحہ ا کالم ۲۰۱ تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحه ۵۳۱).اب بحجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.“ (تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ) یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں.ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے نبوت ہی باطل ہوتی ہے.کیا ہم ختم نبوت کے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ تمام برکات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ملنی چاہئیں تھے وہ سب بند ہو گئے.“ (چشم مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۸۳) ۵ خدا تعالیٰ کا یہ قول وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِین اس آیت کے یہ معنے
380 ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لئے مہر ٹھہرائے گئے ہیں.یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی مہر کے کسی کو حاصل نہیں ہو گا.“ (چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۸۸) اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا.یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه۱۰۰ بقیه حاشیه ) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سینکڑوں حوالجات موجود ہیں.جن سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت اقدس نے جہاں آنحضرت صلعم کے بعد نبوت کو بند قرار دیا ہے.وہاں محض تشریعی اور براہ راست نبوت مراد لی ہے.اور جہاں حضرت اقدس نے نبوت کو جاری تسلیم فرما دیا ہے وہاں صرف غیر تشریعی اور بالواسطہ نبوت مراد لی ہے.فَلا تَضَارَ.66 غیر احمدی:.حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے.ا لا تَعْلَمُ أَنَّ الرَّبَّ الرَّحِيمَ الْمُتَفَضّلَ سَمَّى نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ بِغَيْرِ اسْتَثْنَاءِ “.(حمامتہ البشری.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۰۰) کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کا نام خاتم النبین بلا استثناء رکھا ہے غیر تشریعی نبوت کہاں گئی ؟ الجواب.ہم آیت ” خاتم النبین “ کی بحث میں بدلائل قو یہ ثابت کر آئے ہیں کہ خاتم النبین کاترجمہ کا ترجمہ افضل النبين“ ہے پس حضرت اقدس کی عبارت کا اردو میں ترجمہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو افضل الانبیاء بلا استثناء قرار دیا ہے.“ یعنی کوئی ایک بھی نبی ایسا نہیں جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم افضل نہ ہوں اسی طرح لا نَبِيَّ بَعْدِي“ والی حدیث کے متعلق بھی ہم ثابت کر آئے ہیں کہ اس کے معنی بھی یہی ہیں کی حضور کے خلاف بلا حضور کی اتباع کے نیز حضور کی طرح صاحب شریعت کوئی نہینہ آئے گا.پس اس حوالہ سے تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوتا لا نَبِيَّ بَعْدِی“ کا جو تر جمہ ہم نے کیا ہے وہ خود تمہارے بزرگ قبل از احمدیت کر چکے ہیں ملاحظہ ہو :.ہاں لَا نَبِيَّ بَعْدِی“ آیا ہے.اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی
381 نبی شرع ناسخ نہیں لاوے گا.“ اقتراب الساعة مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ صفحه ۱۶۲ مصنفہ نواب نور الحسن خان) غیر احمدی:.حضرت و مرزا صاحب نے مسیح ابن مریم کوسلسلہ موسویہ کا ” خاتم الخلفاء“ قرار دیا ہے اور اپنے آپ کو سلسلہ محمدیہ کا خاتم الخلفاء قرار دیا ہے.جواب : " خاتم الالخلفاء" کے معنی افضل الخلفاء کے ہیں.آخری خلیفہ کے نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آپ کو اسی طرح سلسلہ محمدیہ کا خاتم الخلفاء قرار دیا ہے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو سلسلہ موسویہ کا.اب سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد سلسلہ خلافت تسلیم کیا ہے یا نہیں ؟ الف:.تو ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”حمامۃ البشری میں تحریر فرمایا ہے:.،، يُسَافِرُ الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ أَوْ خَلِيفَةٌ مِّنْ خُلَفَائِهِ إِلَى أَرْضِ دِمَشْقَ.“ ( حمامۃ البشری.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۲۵) کہ مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق کا سفر اختیار کرے گا.نیز دیکھو پیغام صلح صفحہ ۳۱ و نیز ڈائری ۱۴ اپریل ۱۹۰۸ء) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد سلسلہ خلافت تسلیم فرمایا ہے.پس خاتم الخلفاء کے معنی آخری خلیفہ کے نہ ہوئے.بلکہ افضل الخلفاء کے ہوئے.ب:.زیادہ وضاحت کے لئے اسی خطبہ الہامیہ میں حضرت اقدس فرماتے ہیں: "إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنَا خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ لَا وَلِيٌّ بَعْدِى إِلَّا الَّذِي هُوَ مِنِّى وَعَلَى عَهْدِى “ خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۰ ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں.مگر وہی جو مجھ سے ہو اور میرے عہد پر قائم ہو.غرضیکہ حضرت مرزا صاحب نے خاتم الانبیاء کا مفہوم بالکل واضح فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.مگر وہی جو آپ میں سے ہو اور آپ کے عہد پر آئے یعنی بالواسطہ بغیر شریعت کے.سو یہی مذہب جماعت احمدیہ کا ہے.خلافت کے متعلق تو حضرت بانی سلسلہ فرماتے ہیں:.
382 وو ولایت و امامت وخلافت حقہ کبھی ختم نہیں ہوگی.یہ سلسلہ آئمہ راشد بن خلفاء ربانیین کا کبھی بند نہیں ہوگا.(الحاکم جلد نمبر ۳۸ صفحه ۳ کالم نمیرا، ۸ دسمبر ۱۸۹۸ء قادیان) دوسری آیت:.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : ٤ ) دلیل صفحه ۴۰۷ الجواب :.یہ آیت تو امکانِ نبوت کی دلیل ہے ( تفصیل دیکھو دلائل امکان نبوت بارہویں اگر کہو کہ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی میں نعمت سے مراد نبوت ہے اور وہ تمام ہوگئی یعنی ختم ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے.ا.قرآن میں تو رات کے متعلق ہے تَمَا مَا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْ (الانعام: ۱۵۵) گویا تو رات تمام تھی مگر اس کے بعد پھر کتاب آگئی ( قرآن ) پس جس طرح اتمام کتاب کے بعد کتاب آگئی اسی طرح ا تمام نعمت کے بعد نعمت آگئی.فلا اعتراض! ۲.اس آیت میں تو اتمام نعمت کا ذکر ہے اور نعمت صرف نبوت ہی نہیں بلکہ بادشاہت، صدیقیت ،شہادت، صالحیت یہ سب نعمتیں ہیں جیسا کہ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ (النساء : ٧٠) نيز يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا الـمـائـدة : ۲۱) پس اگر أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کے بعد نبوت بند ہو گئی ہے تو پھر امت محمدیہ میں بادشاہی ، صد یقینا ورشہادت اور صالحیت سب بند ہو گئیں.مگر یہ خلاف واقعہ ہے.پس تمہارا ترجمہ غلط ہے اور صحیح ترجمہ یہ ہے کہ تم کو پوری نعمت دی گئی.۳.قرآن مجید میں ہے کہ جب حضرت یوسف نے اپنا خواب حضرت یعقوب کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے جواب دیا.يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ ابْرُ هِيم و اسحق (يوسف:۷) کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تجھ پر اپنی نعمت تمام کرے جس طرح اس نے تیرے باپ دادا ابراہیم و اسحاق پر اپنی نعمت تمام کی تھی.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی نعمت تمام ہوئی.پھر حضرت الحق ، یعقوب و یوسف علیہم السلام پر نعمت تمام ہوئی اور پھر آنحضرت صلعم کے ذریعہ مسلمانوں پر بھی نعمت تمام ہوئی.اس کے معنے بند کرنا کس طرح ہوئے؟ کیا حضرت ابراہیم اور اسحاقی پر نبوت بند
383 ہوگئی تھی ؟ پس اس کے یہ معنے ہیں کہ میں نے تم کو پوری پوری نعمت دی ہے اس آیت کا ترجمہ تفسیر حسینی میں مندرجہ ذیل درج ہے:.اور پوری کرے گا اپنی نعمت کہ نبوت ہے تجھ پر اور اولاد یعقوب پر یعنی تیرے بھائیوں پر ایک قول کے بموجب انہیں پیغمبر کہتے ہیں یا یعقوب علیہ السلام کی نسل پر کہ اس میں انبیاء علیہم السلام پیدا کرے گا ( تفسیر حسینی جلد اصفحه ۴۸۵ مترجم اردو تفسیر سورۃ یوسف ع۱) پس ا تمام نبوت ”بر امت محمدیہ کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ میں سے نبی پیدا کرے گا جس طرح آل یعقوب پر ا تمام نعمت سے مرادان میں نبی پیدا کرنا تھی.تیسری آیت: - وَمَا اَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ (سباء: ۲۹) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے رسول ہیں لہذا اب کوئی نبی نہیں آ سکتا.الجواب: - حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے.کیا ان کے بعد بنی اسرائیل ہی کے لئے حضرت داؤد سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام نبی ہو کر نہیں آئے ؟ پس آنحضرت صلعم چونکہ تمام دنیا کی طرف رسول ہیں (ب) آپ کے بعد جو رسول آپ کی اتباع میں آئے گا وہ بھی تمام دنیا کی طرف ہوگا.۲.قرآن مجید تمام دنیا کے لئے شریعت ہے پس جو نبی قرآن کی اشاعت کے لئے آئے گا وہ بھی ساری دنیا ہی کی طرف آئے گا..حضرت عیسی علیہ السلام جو بقول غیر احمدی آئیں گے وہ کن لوگوں کی طرف آئیں گے؟ چوتھی آیت: - وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ۱۰۸) چونکہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے رحمت ہو کر آئے ہیں اس لئے اب کسی نبی کے لئے گنجائش نہیں.الجواب :.تیسری دلیل کا جواب پڑھو.پانچویں آیت: - يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۸) الجواب :.تیسری دلیل پڑھو چھٹی آیت: - يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ (البقرة: ۵) بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہوگی.الجواب :.(۱) اول تو عدم ذکر سے عدم هی لازم نہیں آتا لیکن ذرا غور تو کرو کہ اسی آیت میں
384 کیا يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کا لفظ موجود نہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی ساری وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اور اس "ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ “ ( قرآن مجید ) میں متعدد مقامات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں اور غلاموں پر وحی الہی اور ملائکہ کے نزول کا ذکر موجود ہے اور بعد میں آنے والے امتی نبیوں کی بعثت کی خبر دے کر ان پر ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے ( جن کی کسی قدر تفصیل دلائل امکان نبوت از روئے قرآن مجید میں دی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ ہوں لیکن بطور مزید مثال ایک آیت درج ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم سجدہ: ۳۱) کہ وہ مومن جو اسلامی توحید پر استقامت اختیار کریں گے ان پر فرشتے یہ پیغام لے کر نازل ہوں گے کہ کوئی خوف نہ کرو اور مت حزیں ہواور ہم تم کو جنت کی بشارت دیتے ہیں.ہم تمہارے اس دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی دوست ہیں.یہ آیت اس امر کے اثبات کے لئے نص قطعی ہے کہ قرآن مجید اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبعین پر اسی دنیا میں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے.چنانچہ.تفسیر بیضاوی جلد ۲ صفحه ۲۶۷ مطبع احمدی دہلوی و تفسیر قادری المعروف به تفسیر حسینی جلد ۲ صفحه ۳۸ مترجم اردو پر اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مومنوں پر اسی دنیا میں الہام الہی کے نزول کا اس آیت میں وعدہ دیا گیا ہے.(۲) پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.رَفِيعُ الدَّرَجَتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاقِ (المومن : (۱۶) اس کا ترجمہ تفسیر قادری سے نقل کیا جاتا ہے:.”وہ ہے بلند کرنے والا در جے.خداوند عرش ہے ڈالتا ہے روح کو اپنے حکم سے یا بھیجتا ہے جبرئیل کو جس پر چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے یعنی جسے چاہتا ہے مرتبہ نبوت عطا فرماتا ہے تا کہ ڈراوے وہ جس پر وحی آئے لوگوں کو ملاقات کے دن سے.(تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۳۶۰) اس آیت میں ”تلقی مضارع کا صیغہ ہے جو مستقبل کے زمانہ پر بھی دلالت کرتا ہے.پس اس مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ میں بھی آئندہ وحی اور نبوت کا اجراء بیان کیا گیا ہے.پس جو شخص يُؤْمِنُونَ يمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کا مصداق ہے وہ طبعی طور پر اس وحی پر ایمان لاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
385 اتباع کے طفیل حضور کے غلاموں پر نازل ہوتی ہے.پھر اس شخص سے علیحدہ طور پر اقرار لینے کی کیا ضرورت تھی؟ (۳) اس طرح تو کوئی شخص یہ بھی کہ سکتا ہے کہ اس آیت میں ایمان بالملائکہ کا بھی کوئی ذکر نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ ملائکہ پر ایمان لانا ضروری نہیں یا یہ کہ سرے سے ان کا کوئی وجود ہی نہیں.تو اس کا جواب بھی یہی ہوگا کہ ملائکہ پر ایمان مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے اندر شامل ہے اور مذکور ہے.اس لئے علیحدہ طور پر اس کے ذکر کی ضرورت نہیں.(۴) اسی طرح اس آیت میں تمہارے خود تسلیم کردہ سیح موعود اور مہدی کا بھی تو ذکر نہیں.آنحضرت صلعم کے بعد وحی علاوہ مندرجہ بالا نیز دیگر آیات قرآنی کے (جن کی تفصیل مضمون ” دلائل امکان نبوت“ میں درج کی گئی ہے ) احادیث نبوی میں بھی اس وحی کی خبر دی گئی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود اور امام مهدی پر نازل ہوگی دیکھو صیح مسلم.کتاب الفتن و اشراط الساعةباب صفت الدجال و نزول المسيح جلد ومشكواة كتاب الفتن باب فى العلامات بين يدى الساعة لَهُ أَوْحَى اللَّهُ تَعَالَى إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ “ کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود پر وحی نازل کرے گا.نیز دیکھونج الکرامہ صفحہ ۴۳۱ و اقتراب الساعۃ صفحہ ۶۳ مطبع مفید عام الكائنة فی آگرہ جہاں حضرت امام سیوطی حضرت حافظ ابن حجر اور دیگر بزرگان کی تصریحات کی بناء پر لکھا ہے کہ مسیح موعود پر بعد نزول حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ وحی نازل ہوگی مفصل حوالجات فریل میں درج ہیں :.ا.علامہ ابن حجر بیٹی سے جب پوچھا گیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس پر وحی نازل ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا.نَعَمْ يُوحَى إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحْيٌ حَقِيقِيٌّ كَمَا فِي حَدِيثِ مُسْلِمٍ (روح المعانى سورة احزاب زیر آیت نمبر ۳۹ تا ۴۸) ہاں خدا تعالیٰ ان پر وحی حقیقی نازل کرے گا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے.۲.حدیث مسلم میں ہے يَقْتُلُ عِيسَى الدَّجَّالَ عِنْدَ بَابِ لُدِ الشَّرْقِيَ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ إِنِّى قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَادًا مِنْ عِبَادِى “ 66 (مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب ذكر الدجال ، مشكوة صفحه ۴۵۳ کتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة)
386 که مسیح موعود دجال کو باب لد شرقی پر قتل کرے گا اور جب وہ اس حالت میں ہوں گے تو خدا تعالیٰ مسیح موعود پر وحی کرے گا کہ میں نے اپنے بندوں میں سے بعض بندے تیری حمایت میں نکالے ہیں.۳.اس حدیث کو نقل کر کے نواب صدیق حسن خاں صاحب نجح الکرامہ میں لکھتے ہیں :.و ظاہر آنست کہ آرندہ وحی بسوئے او جبرئیل علیہ السلام باشد بلکہ ہمیں یقین داریم ودراں تر دو نمی کنیم چه جبرائیل سفیر خدا است در میان انبیاء علیهم السلام و فرشتہ دیگر برائے ایس کار معروف نیست حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحه ۴۳۱ ) کہ ہمیں یقین ہے کہ مسیح موعود کی طرف جبرائیل ہی وحی لے کر آویں گے کیونکہ انبیا ء کی طرف خدا کی وحی لانے کے لئے وہی مقرر ہیں.اور ان کے سوا کوئی دوسرا فرشتہ اس کام پر مقرر نہیں ہے.۴.علامہ ابن حجر ہیثمی فرماتے ہیں :.وَ ذَلِكَ الْوَحْيُ عَلَى لِسَانِ جِبْرِيلَ إِذْ هُوَ السَّفِيرُ بَيْنَ اللَّهِ تَعَالَى وَ أَنْبِيَائِهِ (روح المعانی جلد ۸ احزاب زیر آیت نمبر ۳۹ تا ۴۸ صفحه ۶۵) علاوہ ازیں امام ابن حجر اہیمی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم (جو آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد پیدا ہوئے) نبی تھا اور پھر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی طرف حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوئے جس طرح جبرئیل حضرت عیسی علیہ السلام پر ماں کی گود میں وحی لے کر نازل ہوئے اور حضرت بیچی علیہ السلام پر تین سال کی عمر میں نازل ہوئے.لکھتے ہیں:.وَلَا بُعْـدَ فِي إِثْبَاتِ النُّبُوَّةِ لَهُ مَعَ صِغَرِهِ لَأَنَّهُ كَعِيْسَى الْقَائِلِ يَوْمَ وُلِدَ إِنِّي عَبْدُ اللهِ اتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِى نَبِيًّا وَ كَيَحْيِيَ الَّذِي قَالَ تَعَالَى فِيْهِ وَآتَيْنَهُ الْحُكْمَ صَبيًّا.“ (الفتاوی الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر امیشی مطلب ما ورد في حق ابراهيم ابن نبينا ) 66 کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیم چھوٹی عمر میں نبی ہو گیا تو اس میں کوئی بعید از عقل بات نہیں کیونکہ وہ حضرت عیسی کی طرح ہیں جنہوں نے پیدائش کے دن کہا تھا کہ میں خدا کا بندہ ہوں.مجھے اللہ نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے.نیز وہ حضرت بیٹی کی طرح ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو بچپن ہی کی عمر میں دانشمندی عطا فرمائی تھی.پھر فرماتے ہیں:.وَ احْتَمَالُ نُزُولِ جِبْرِيلَ بِوَحْيِ لِعِيسَى اَوْ يَحْيَى يَجْرِى فِي إِبْرَاهِيمَ وَ يُرَجِحُهُ
387 أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوَّمَهُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ أَوْ عُمُرُهُ ثَمَانِيَةَ أَشْهُرٍ.الفتاوی الحدیثیہ مصنفه امام ابن حجر بیشمی مطلب ما ورد في حق ابراهيم ابن نبينا ) کہ جس طرح حضرت عیسی اور یحییٰ علیہ السلام پر بچپن میں جبرئیل وحی لے کر نازل ہوئے اس طرح احتمال ہے کہ حضرت ابراہیم ابن النبی صلعم پر جبرئیل وحی لے کر بچپن کی عمر میں نازل ہوئے اور یہ بات بدیں وجہ وزنی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچہ ابراہیم کو عاشورہ کے روزے رکھوائے حالانکہ ان کی عمر ابھی صرف آٹھ ماہ کی تھی.۵.علامہ ابن حجر مذکور فرماتے ہیں: "وَخَبُرُ لَا وَحُيَ بَعْدِي بَاطِلٌ وَ مَا أَشْهَرَانَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلْعَمُ فَهُوَ لَا أَصْلَ لَهُ.“ (روح المعانی جلد ۸ احزاب زیر آیت ۳۹ تا ۴۸ ).اس کا ترجمہ فارسی میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے یہ کیا ہے:.و آنکه برانسنه عامه مشهور شده که نزول جبرائیل بسوئے ارض بعد موت رسول خدا صلحم نشود بے اصل محض است ( حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحه ۴۳۱) کہ یہ حدیث کہ میرے بعد کوئی وحی نہیں باطل ہے ( موضوع ہے ) اور یہ جو عام طور پر مشہور ہے کہ جبرائیل وفات نبوی کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوں گے اس کی کوئی بنیاد نہیں.مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر من قبلک سے غیر احمدیوں کا استدلال باطل ہے.ساتویں آیت :.عَلى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ (المائدة:۲۰) جواب : "قرة" کے معنے ختم ہو جانا نہیں بلکہ اس کے معنی وقفہ کے ہیں جو دو رسولوں کے درمیان ہوتا ہے.چنانچہ لغت میں لکھا ہے :."Interval between two fits of fever, between the missions of (الفرائد الدریہ صفحه ۵۴۴) ".two prophets, interregnum truce یعنی فترة کے معنی ہیں بخار کے دو حملوں کا درمیانی وقفہ، دونبیوں کا درمیانی زمانہ ، عارضی صلح.پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی کے بعد جب ایک وقفہ پڑ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا گیا چنانچہ لکھا ہے:.وَ الْفَتْرَةُ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ “
388 (البحر المحيط زیر آیت المائدہ:۱۲) کہ فترة سے مراد وہ زمانہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان گزرا.۳.حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نَبِيٌّ أَتَانَا بَعْدَ يَاسِ وَفَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَالْأَوْثَانُ فِي الْأَرْضِ تُعْبَدُ ( شرح دیوان حسان قافیه الدال ) یعنی ہمارے پاس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاس اور فترة کے بعد آئے ہیں (یعنی ایسے وقت جب کہ کافی عرصہ نبی کو مبعوث ہوئے گزر چکا تھا) اور حالت یہ ہے کہ زمین میں بتوں کی پرستش کی جاتی ہے.۴.یہ آیت امکانِ نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس خیال سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ایک لمبے عرصہ تک کسی نبی کے مبعوث نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہ خیال نہ کرنے لگ جائیں کہ شاید خدا تعالیٰ نے اب نبی بھیجنا ہی بند کر دیا ہے اللہ تعالیٰ نے نبی بھیج دیا.ان تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ (المائدة :۲۰) تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا.بعینہ یہی صورت حال اب بھی ہے.تر دید دلائل انقطاع نبوت از روئے حدیث پہلی حدیث : لَا نَبِيَّ بَعْدِي ( بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذكر عن بنی اسرائیل) الجواب نمبر :.اس حدیث کی دوسری روایت ہے.قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا عَلِيُّ اَمَا تَرْضَى اَنْ تَكُونَ مِنِّي كَهَارُونَ مِنْ مُوسَى غَيْرَ اَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ - (طبقات کبیر لابن سعد جلد ۳ صفحه ۲۵ بیروت ۱۹۵۷ء) کہ آنحضرت نے فرمایا تھا کہ اے علی کیا تو خوش نہیں کہ تو مجھے ایسا ہی ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ہارون مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد تو نبی نہیں ہوگا.لا نَبِيَّ بَعْدِی “ کی تشریح کر دی کہ آنحضرت صلعم کا خطاب عام نہیں بلکہ خاص حضرت علیؓ سے ہے.الجواب نمبر ۲:.اسی بخاری میں آنحضرت صلعم کی بعینہ ایسی ہی ایک اور حدیث ہے؟ ”عنُ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلْعَمُ إِذَاهَلَكَ كِسْرى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ وَ إِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ “ (بخاری کتاب الایمان والنذور باب كيف كانت يمين النبي صلى الله عليه وسلم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسری مرے گا تو اس کے بعد کوئی کسری
389 نہ ہوگا اور جب یہ قیصر مرے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا.اپنے متعلق لا نَبِيَّ بَعْدِی اور قیصر کے متعلق لا قَيْصَرَ بَعْدَهُ‘ فرمایا.کیا قیصر کے بعد کوئی نہیں ہوا ؟ اور کیا کسری شاہ ایران کے بعد اور کوئی کسری نہیں ہوا ؟ اگر ہوئے ہیں اور نسلاً بعد نسل ہوتے رہے ہیں تو پھر حدیث لَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ اور لا کسری بَعُدَہ کے کیا معنے ہیں.اگر اس کے معنے یہ ہیں کہ ان قیصر و کسریٰ کے بعد اس شان کے قیصر و کسری نہ ہوں گے جیسا کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی کتاب المناقب دار نشر الكتب الاسلامیہ لا ہور جلد ۶ میں اس حدیث کا مطلب ہے ”مَعْنَاهُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ يَمْلِكُ مِثْلَ مَا يَمُلِكُ.‘ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ قیصر مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی ایسا قیصر نہ ہو گا جو اس طرح حکومت کرے جس طرح یہ کرتا ہے.تو لا نَبِيَّ بَعْدِی کا مطلب بھی یوں ہوگا کہ آپ جیسا نبی آپ کے بعد نہیں ہو گا.یہ لا صفت موصوف کی نفی کے لئے ہوتا ہے.جیسا کہ مقولہ لا فتى إِلَّا عَلِيٌّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُوالْفِقَارِ (موضوعات کبیر از ملا علی قاری صفحه ۸۱،۵۹ ) کیا حضرت علیؓ کے بعد کوئی جوان نہیں ہوا ؟ اور کیا ذوالفقار کے بعد کوئی تلوار نہیں بنی؟ پس اس میں حضرت علی جیسے جو ان کی اور ذوالفقار جیسی تلوار کی نفی ہے.مطلق نفی نہیں.پس "لا نفی جنس کا نہیں بلکہ صفت موصوف کی نفی کے لئے آیا ہے.الف.امام رازی رحمۃ اللہ علیہ حدیث لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْح (بخاري.كتاب المناقب مناقب انصار باب هجرة النبي و اصحابه الى المدينة) کی تشریح میں فرماتے ہیں.وَأَمَّا قَوْلُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ فَالْمُرَادُ الْهِجُرَةُ الْمَخْصُوصَةُ ( تفسیر کبیر جلده صفحه ۵۸۰ مطبوعه مصرز بر آیات إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمُ.الانفال :۷۳) یعنی حضور کے ارشاد لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتح “ کا مطلب یہ نہیں کہ فتح مکہ کے بعد ہر قسم کی ہجرت بند ہوگئی بلکہ صرف ایک خاص ہجرت مراد ہے جو مکہ سے مدینہ کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوتی تھی.پس بعینہ اسی طرح لا نَبِيَّ بَعْدِی میں بھی ہر قسم کی نبوت مراد نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص نبوۃ کا انقطاع مراد ہے جو شریعت جدیدہ کی حامل ہو اور جو قر آنی شریعت کو منسوخ کرے نیز براہ راست ہو.نوٹ:.بعض غیر احمدی ایام الصلح کے حوالہ سے کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ کا نفی عام کے لئے ہے تو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ حوالہ ایام الصلح پر حضرت
390 اقدس بحث حضرت مسیح ناصری کی بعثت ثانی کے متعلق فرما کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اب مسیح ناصری واپس نہیں آسکتا اور یہ کہ کر غیر احمدیوں کو ملزم کر رہے ہیں کہ جب لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے مطابق نبوت بند ہوگئی اور لا نفی عام کے لیے ہے تو پھر کس طرح آنحضرت کے بعد مسیح نبی اللہ کا واپس آنا مانتے ہو؟ لا کا نفی عام ہونا غیر احمدیوں کو مسلم ہے اور یہی بتانا حضرت اقدس کا مقصود تھا کیونکہ جب بقول غیر احمد یاں لَا نَبِيَّ بَعْدِی سے کسی قسم کا استثناء جائز ہی نہیں تو پھر مسیح ناصری کی آمد ثانی کے لیے وہ استثناء کہاں سے نکالتے ہیں؟ ور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنا عقیدہ دربارہ امکانِ نبوت ایسا واضح کر دیا ہے کہ اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں.لا نفی کمال جس کا ذکر ہم نے بعض مثالیں دے کر اوپر کیا ہے اس کو حضرت اقدس نے بھی تسلیم فرمایا ہے.ملاحظہ ہو:.’یاد رکھنا چاہیے کہ نفی کا اثر اسی حد تک محدود ہوتا ہے جو متکلم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے.خواہ وہ اراده تصریحا بیان کیا گیا ہو یا اشارہ مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام ونشان باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے یہ بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے سمجھنا کہ اس کا یہ دعوی ہے کہ کل کو ہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی یہ دلیل پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے.وہ نفی جنس کا ” لا “ ہے جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہیے درست نہیں.“ ( تصدیق النبی از حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ ناشر فخر الدین ملتانی صفحه ۱۰) ب: "لا كسرى بَعْدَه یعنی....دوسرا سری پیدا نہیں ہو گا جو ظلم اور جور و جفا میں اُس کا قائم مقام ہو.اس حدیث سے استنباط ہو سکتا ہے کہ پھر ایسی ہی خصلت کا کوئی اور انسان اُس قوم کے لئے پیدا ہونا خیال محال ہے.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۷۹) پس حضرت اقدس نے کمال موصوف کی نفی والا لا » تسلیم فرمایا ہے بلکہ جو استنباط ہم نے لا کسری بعدہ کی حدیث سے کیا تھا اُس کی حرف بحرف تصدیق بھی فرما دی ہے.ایام اصلح کے حوالہ میں حضرت اقدس نے غیر احمدیوں کو الزامی طور پر اُن کے مسلمہ عقیدہ کے رُو سے ساکت کیا ہے کہ لانبی بعدی کے لا نفی عام سے حضرت عیسی کی استثناء کس طرح ہو سکتی ہے؟ گویا یہ دلیل اس شحض کے لیے ہے جو حیات مسیح کا قائل ہو مگر نبوت کو آنحضرت صلعم کے بعد ختم
391 مانتا ہوں مگر حضرت اقدس تو حضرت عیسی علیہ السلام و قطعی طور پر بروئے نصوص صریحہ قرآنیہ حدیثیہ وحی الہی وفات یافتہ تسلیم کرتے تھے.حضور کے نزدیک مسیح ناصری کا واپس آنا اس لیے محال نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں بلکہ اس لیے کہ مردہ واپس دنیا میں نہیں آیا کرتا.حضرت اقدس کی یہ دلیل اس طرح کی ہے جس طرح ہم نے وفات مسیح کے دلائل کے ضمن میں ”اِسْمُهُ أَحْمَدُ“ والی پیشگوئی کو پاکٹ بک ہذا میں درج کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اگر حضرت مسیح ناصری دنیا میں واپس آجائیں تو اندریں صورت وہ آنحضرت صلعم کے بعد اور آنحضرت صلعم کے قبل ہو جائیں گے حالانکہ پیشگوئی اسْمُهُ أَحْمَدُ“ میں ”احمد“ رسول کو بہر حال حضرت مسیح سے بعد میں ہونا چاہیے.اب کوئی تمہارے جیسا عظمند ہمارے اس استدلال کو لے کر کھڑا ہو جائے اور شور مچاوے کہ دیکھو مصنف احمدیہ پاکٹ بک کا مذہب یہ ہے کہ اِسمُهُ أَحْمَدُ والی پیش گوئی کے مصداق حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نہیں.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.حالانکہ ظاہر ہے کہ ہم نے اسمه احمد کی پیش گوئی سے وفات مسیح پر استدلال غیر احمدیوں کے عقیدہ کے رُو سے کیا ہے کیونکہ وہ اسمُهُ احمد کی پیشگوئی کا مصداق آنحضرت صلعم ہی کو مانتے ہیں.بعینہ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "لا نَبِيَّ بَعْدِی سے وفات مسیح پر استدلال فرمایا ہے.کیونکہ غیر احمدی لَا نَبِيَّ بَعْدِی کا ترجمہ آخری نبی ہی کرتے ہیں اور یہ کونفی عام ہی کے لیے قرار دیتے ہیں.ورنہ حضرت اقدس کا اپنا مذہب درباره امکان نبوت دوسری جگہ پر ملاحظہ فرما ئیں جس میں سے ایک حوالہ یہ ہے.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.“ تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۱۲) نیز ”لا“ کے متعلق حضرت اقدس کی تحریرات سے دو حوالے اور درج ہو چکے ہیں.(خادم) جواب نمبر ۳:.پھر اس حدیث میں لفظ بعدی بھی غور طلب ہے قرآن مجید میں لفظ "بعد " مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے.ا.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَايْتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثية : ۷ ) کہ اللہ اور اس کی آیات کے بعد کونسی بات پر وہ ایمان لائیں گے؟ اللہ کے بعد کیا مطلب؟ کیا اللہ کے فوت ہونے کے بعد؟ یا اللہ کی غیر حاضری میں؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں معنے باطل ہیں.پس بعداللہ“ کا مطلب یہی ہوگا کہ اللہ کے خلاف.
392 اللہ کو چھوڑ کر یا میرے خلاف رہ کر کوئی نبی نہیں ہوسکتا.۲.حدیث میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِى اَحَدُهُمَا أَسْوَدُ الْعَنُسِيُّ وَالْآخَرُ مُسَيْلَمَةُ بخارى كتاب المغازی باب وقد بني حنيفه ) یعنی آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ خواب میں میں نے سونے کے جو دو نگن دیکھے اور ان کو پھونک مارا کر اُڑایا.تو اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ اس سے مراد دو کذاب ہیں جو میرے بعد نکلیں گے.پہلا اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ ہے اس حدیث میں آنحضرت صلعم نے يَخْرُجَانِ بَعْدِی فرمایا ہے کہ وہ دونوں کذاب میرے بعد نکلیں گے یہاں ”بعد" سے مراد غیر حاضری یا وفات نہیں بلکہ مخالفت ہے کیونکہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی دونوں آنحضرت صلعم ہی کی زندگی میں مدعی نبوت ہو کر آنحضرت صلعم کے بالمقابل کھڑے ہو گئے تھے چنانچہ اسی بخاری میں آنحضرت صلعم کی دوسری حدیث درج ہے.فَأَوَّلْتُهُمَا الْكَذَّابَيْنِ الذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَاءَ وَ صَاحِبَ الْيَمَامَةِ ( بخاری کتاب التعبير الرؤيا.باب النفخ فى المنام وكتاب المغازى باب وفدبني حنيفه ) پس میں نے اس سے مراد لی دو کذاب.جن کے میں اس وقت درمیان ہوں اسود عنسی اور 66 مسلمۃ الیمامی.پس آنَا بَيْنَهُما صاف طور پر بتاتا ہے کہ دوسری روایت میں يَخْرُجَانِ بَعْدِی میں ” بعدی سے مراد میرے مد مقابل اور میرے مخالف ہی ہے نہ کہ وفات یا غیر حاضری.پس لا نبی بعدی میں بھی بعدی سے مراد ہے کہ میرے مد مقابل اور مخالف ہو کر کوئی نبی نہیں آسکتا.نوٹ:.بعض غیر احمدی کہا کرتے میں کہ حدیث ہذا میں ” بعدی سے مراد میرا مخالف ہونا نہیں بلکہ یہاں ”بعد“ کا مضاف الیہ محذوف ہے یعنی مراد بَعدَ نُبُوَّتِی “ ہے کہ میری نبوت کے بعد نیز اسی طرح سے قرآن مجید کی آیات میں ” بعد اللہ “ کے لفظ میں بھی ”بعد“ کا مضاف الیہ محذوف ہے یعنی ”بَعْدَ آيَاتِ اللهِ‘ مراد ہے.الجواب نمبر :.یہ محض عربی زبان سے ناواقفیت کا ثبوت ہے.کیونکہ قرآن مجید کی محولہ بالا آیات اور حدیث لا نَبِيّ بَعْدِی “ ہر دو میں بعد کا مضاف الیہ مذکور موجود ہے.چنانچہ آیت میں بعد کا مضاف الیہ اللہ ہے اور حدیث میں ” بعد کا مضاف الیہ ہی ہے آیت مذکور میں تو بعد کا مضاف الیہ ایتِ اللهِ یا كتب الله کو قرار دینا اور بھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس سے نہایت قبیح تکرار آیت قرآن میں مانا پڑتا ہے.جو صریحانا قابل قبول ہے.یعنی آیت یوں بن جائے
393 گی.فَبَاتِ حَدِيثٍ بَعْدَ ايَتِ اللهِ وَ التِهِ يُؤْمِنُونَ که خدا تعالیٰ کی آیات اور آیات کے بعد کونسی بات کو مانو گے یا یوں ہوگا کہ خدا تعالیٰ کی کتاب اور آیات کے بعد کونسی چیز مانو گے.ظاہر ہے کہ آیات اور کتاب پر ایمان لانا کوئی الگ الگ چیز نہیں اور یہ بے معنی تکرار قرآن مجید میں محض اس لیے بنایا جاتا ہے کہ کہیں ”بعد “ کے معنی ”خلاف ثابت نہ ہو جا ہیں.جواب نمبر ۲:.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ اگر بقول شما یخرجان بعدی “ میں ”بعد“ کا مضاف الیہ محذوف ہے تو ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی میں ” بعد“ کا مضاف الیہ محذوف ہے اور وہ یہ ہے بَعْدَ اِخْتِتَامِ زَمَانِ نُبُوَّتِی وَ هُوَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ “ یعنی میرے زمانہ نبوت (جو قیامت تک ہے ) کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.یعنی جو نبی آئے گا وہ میرے زمانہ نبوت میں یعنی میرے ماتحت ہو کر آئے گا.صاحب شریعت نبی نہ ہوگا کہ میرے زمانہ نبوت کو منسوخ کر سکے.لَا نَبِيَّ بَعْدِی اور علماء گذشتہ ا.ہم نے لا نَبِيَّ بَعْدِی کے جو معنے گئے ہیں.بزرگان امت نے بھی مختلف زمانوں میں اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں.چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:.وَهَذَا مَعُنى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمُ إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ بَعْدِي وَ لَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرُعٍ يُخَالِفُ شَرُعِيُ بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي - (فتوحات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحه ۳ مصری مطبوعہ دارالکتب العربیه الکبری) یہی معنی ہیں حدیث إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ اور لَا نَبِيَّ بَعْدِي “ کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو معبوث ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر عمل کرتا ہو.ہاں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے حکم کے ماتحت ہو کر آئے تو پھر نبی ہوسکتا ہے.۲.حضرت امام شعرانی اپنی کتاب الیواقیت والجواہر میں فرماتے ہیں:.قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلا نَبِيَّ بَعْدِى وَلَا رَسُوْلَ الْمُرَادُ بِهِ مُشْرِعَ بَعْدِى.“ ( الیواقیت والجواھر جلد ۲ صفحه ۲۴ از عبدالوہاب الشعرانی ) کہ آنحضرت کا یہ فرمانا کہ "لَا نَبِيَّ بَعْدِى وَلَا رَسُول“ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے
394 بعد صاحب شریعت کوئی نبی نہ ہوگا..لغت کی کتاب تکملہ مجمع البحار الانوار میں اس کے مصنف امام محمد طاہر فرماتے ہیں:.وَهذَا أَيْضًا لَا يُنَافِي حَدِيثَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي لَا نَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ يَنْسَخُ شَرُعَهُ تکملہ مجمع البحار الانوار صفحه ۸۵ مطبوعه مطبع نول کشور آ گره) کہ حضرت عائشہؓ کا قول قُولُوا اَنَّهُ خَاتَمُهُ الْاَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ ( در منشور جلده صفحه ۲۰۴ تکمله مجمع الجار الانوار صحه ۸۵) کہ یہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے مخالف نہیں ہے کیونکہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی سے مراد تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.۴.نواب نور الحسن خان صاحب لکھتے ہیں :.حديث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِی بے اصل ہے.ہاں لَا نَبِيَّ بَعْدِی “ آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا.“ (اقتراب الساعته از نواب نورالحسن خان صفحه ۶۲ مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ ) دوسری حدیث : لَوْ كَانَ بَعْدِى نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرُ ( ترمذى كتاب المناقب، باب مناقب عمر و مشكواة كتاب المناقب باب مناقب عمر ( کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو حضرت عمر ہوتے.الجواب:.(۱) ترمندی اور مشکوۃ دونوں میں یہ حدیث موجود ہے.مگر دونوں میں اس کے آگے ہی لکھا ہوا ہے.هَذَا حَدِيثُ غَرِيبٌ “ ( ترمذی حوالہ مذکورہ بالا و مشکواة کتاب المناقب باب مناقب عمر ) کہ یہ حدیث غریب ہے اور حدیث غریب جس کا ایک ہی راوی ہوتا ہے ہو قابل استناد نہیں ہوتی.صرف ایک گواہ کے کہنے سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا تھا یہ بات ثابت نہیں ہو سکتی کہ فی الواقع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا تھا.غیر احمدی: ” کیا غریب حدیث ضعیف یا غلط ہوتی ہے.ہرگز نہیں صحیح ہوتی ہے“ محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۳۱۹ با اول یکم مارچ ۱۹۵۰)
395 جواب:.امام ترمذی نے اس روایت کو غریب اس لئے کہا ہے کہ اس کا صرف ایک ہی راوی مشرح بن ھامان کے طریقہ سے مروی ہے مشرح بن ھا عان کے متعلق لکھا ہے:.قَالَ ابْنُ حَبَّانَ فِي الضُّعَفَاءِ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهَا فَالصَّوَابِ تَرْكُ مَا انْفَرَدَبِهِ قَالَ ابْنُ دَاوُدَ إِنَّهُ كَانَ فِي جَيْشِ الْحُجَّاجَ الَّذِيْنَ حَاصَرُوا ابْنَ الزَّبَيْرِ وَ رَمُو الْكَعْبَةَ بِالْمَنْجَنِيقِ - (تهذيب التهذیب جلده از پر لفظ مشرح بنهاعان وميزان الاعتدال جلد ۳ زیر لفظ مشرح بن هاعان) یعنی مشرح بن ھا ان کو ابن حبان نے ضیعف قرار دیا ہے اس کی روایات کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور صحیح بات یہ ہے کہ جس روایت کا یہ اکیلا ہی راوی ہو وہ روایت درست تسلیم نہ کی جائے بلکہ ترک کر دی جائے ابن داؤد کہتے ہیں کہ یہ راوی حجاج کے اس لشکر میں شامل تھا جنہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کا محاصرہ کیا اور گھمانیوں سے کعبہ پر پتھر برسائے تھے.پس یہ روایت اس شخص کی ہے جس نے کعبہ پر سنگ باری کی اور پھر وہ اس روایت میں منفرد ہے اور اس امر پر محدثین کا اتفاق ہے کہ مشرح بن ہاعان کی ایسی روایت جس میں وہ منفرد ہو.قابل قبول نہیں ہوتی.ترمذی نے یہ حدیث نقل کر کے لکھدیا ہے کہ روایت لکان عبر “ میں مشرح بن ها عان منفرد ہے لہذا یہ حدیث صرف غریب ہی نہیں بلکہ ضعیف بھی ہے.ب:.مشرح بن ھاعان کے متعلق امام شوکانی لکھتے ہیں کہ وہ ”متروک“ ہے.فِی اَسْنَادِهِ مَتْرُوكَان هُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَاقِدٍ وَ مِشْرَحُ بُنُ هَاعَانٍ - (الفوائد المجموعه في الاحاديث الموضوعه مطبوعہ محمدی پریس لاہور صفحہ ۱۳ اسطرا ) ج:.چنانچہ حضرت امام سیوطی نے اپنی کتاب جامع الصغیر میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے.ملاحظہ ہو جامع الصغیر مصری باب السلام جلد ۲ صفحہ ۳ے جہاں پر یہ روایت نقل کر کے آگے (ض) کا نشان دیا ہے، جس کے معنی ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے.اسی طرح اس حدیث کا ایک اور راوی بکر بن عمر والمعافری بھی ہے اس کے متعلق (تھذیب التهذيب زير لفظ بكر بن عمرو المعافری میں لکھا ہے کہ قَالَ أَبُو عَبْدِ الْحَاكَمِ يُنْظُرُ فِي أَمْرِهِ کہ اس روایت کو مشوک سمجھا جاتا ہے.پس یہ روایت ہی ضعیف اور نا قابل حجت ہے.غیراحمدی:.حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام صفحہ ۹۸ پر یہ روایت لکھی ہے.
396 جواب :.حضرت مسیح موعود نے یہ کہاں تحریر فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے؟ محض کسی قول کا نقل کرنا تو اس امر کو مستلزم نہیں کر نقل کرنے والا اس قول کو مستند اور ثقہ بھی سمجھتا ہے.الجواب ۲:.اس حدیث کی دوسری روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 66 تھا لَوْ لَمْ أُبْعَثْ لَبُعِثْتَ يَا عُمَرُ ( مرقاه شرح مشکوۃ جلد۵ صفحه ۵۳۹ ، وبرحاشیہ مشکوۃ مجتبائی باب مناقب.یہ حدیث صحیح ہے.تعصبات سیوطی صفحہ ۲۷) ب - لَو لَمْ أبْعَثْ فِيكُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ فِيكُمُ ( كنوز الحقائق صفحه ۱۰۳ صفحه ۱۵۹ جلد۲) یعنی اگر میں تم میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر تم میں مبعوث ہوجا تا.چونکہ آنحضرت صلعم نبی ہوکر مبعوث ہو گئے اس لیے عمر نبی نہ بنے.تیسری حدیث - كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نبي الخ.(بخاری کتاب الا نبیاء باب ماذكر عن نبی اسرائیل ) الجواب نمبرا: - سَيَكُونُ خُلَفَاءَ کے الفاظ جو حدیث میں آئے ہیں صاف بتا رہے ہیں کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد قریب کا زمانہ مراد لیا ہے.جیسا کہ لفظ ”س“ سے ظاہر ہے جو مستقبل قریب کے لئے آتا ہے یعنی میرے معا بعد خلفاء ہوں گے اور معابعد نبی کوئی نہیں ہوگا.۲.اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں قاعدہ یہ تھا کہ ان میں ہر نبی بادشاہ بھی ہوتا تھا جب کوئی نبی مرتا تو اس کا جانشین بھی بادشاہ نبی ہوتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بادشاہت اور نبوت جمع نہیں ہوگی.(مشکوۃ كتاب الرقاق باب الا نذار والتحذير ) چنانچہ دیکھ لو.ابو بکر، عمر، عثمان علی بادشاہ (خلیفے ) تو ہوئے مگر نبی نہ تھے اور جو نبی ہوا ( یعنی مسیح موعود ) وہ بادشاہ نہ ہوا.۳.اس حدیث سے یہ نکالنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا قطعاً غلط ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو مسلم کی حدیث میں نبی اللہ“ کر کے پکارا ہے.(دیکھو مشکوۃ صفحہ ۴۶۹ مجتبائی ومشکواۃ اصح المطابع في ٢٧٣ ومسلم كتاب الفتن واشراط الساعة باب ذكر الدجال ونزول مسيح) ۴:.یہ حدیث صرف آنحضرت اور مسیح موعود کے درمیانی زمانہ کے لیے ہے کیونکہ آنحضرت
397 66 صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ يَعْنِی عِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ نَازِلٌ (ابو دؤد كتاب الملاحم باب خروج الدجال ) کہ اس نازل ہونے والے اور ے میرے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا.بخاری میں بھی لیس بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِی کے الفاظ آتے ہیں.(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر مريم ) الجواب : تمیں کی تعیین بتاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی سچے نبی بھی آنے والے تھے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جو بھی آئیں گے جھوٹے ہی آئیں گے.۲:.یہ حدیث بخاری، ترمذی اور ابو داؤد میں ہے اور جہاں تک اس حدیث کے راویوں کا تعلق ہے یہ حدیث قابل استناد نہیں.کیونکہ بخاری نے اسے ابوالیمان سے بطریقہ شعیب وابوالزنا نقل کیا ہے.ابوالزناد کے متعلق ربیعہ کا قول ہے کہ لَيْسَ بِشِقَةٍ وَلَا رَضى (ميزان الاعتدال ذكــر عبدالله بن ذكوان ابوالزناد ) کہ راوی نہ ثقہ ہے اور نہ پسندیدہ.ابوالیمان راوی نے یہ روایت شعیب سے لی ہے مگر لکھا ہے لَمْ يَسْمَعُ أَبُو الْيَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ.( میزان الاعتدال ذكر ابوالیمان) کہ ابوالیمان نے شعیب سے ایک حدیث بھی نہیں سنی.امام احمد بن حنبل نے بھی یہی فرمایا ہے.پس یہ روایت قابل استناد نہ رہی.:.تمہیں دجالوں والی حدیث کو ترمذی نے جس طریقہ سے نقل کیا ہے اس کی اسناد میں ابو قلا به اور ثوبان دور اوی نا قابل اعتبار ہیں.ابوقلابہ کے متعلق تو لکھا ہے کہ لَيْسَ أَبُو قَلَابَةَ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ مَعْدُودٌ فِى الْبُلْه - (تهذيب التهذيب زير لفظ ابو قلابه) إِنَّهُ مُدَلِّسٌ عَمَّنْ لَحِقَهُمْ وَعَمَّنْ لَمْ يَلْحَقُهُمْ “ (میزان الاعتدال زیر لفظ ابوقلابه) کہ ابوقلابہ فقہاء میں سے نہ تھا بلکہ وہ لوگوں کے نزدیک ابلہ مشہور تھا.اور جو اسے ملا اس کے بارے میں اور جو اس سے نہیں ملا اس کے بارے میں بھی وہ تدلیس کیا کرتا تھا.اسی طرح ثوبان کے متعلق از دی کا قول ہے کہ يَتَكَلَّمُونَ فِيهِ.(ميزان الاعتدال زير لفظ ثوبان) کہ اس راوی کی صحت میں کلام ہے.ترمذی کے دوسرے طریقہ میں عبد الرزاق بن ہمام اور معمر بن راشد دو راوی ضعیف ہیں.عبدالرزاق بن ہمام تو شیعہ تھا - قَالَ النَّسَائِيُّ فِيهِ نَظَر...إِنَّهُ لَكَذَّابٌ وَالْوَاقِدِيُّ اَصْدَقُ مِنْهُ
398 قَالَ الْعَبَّاسُ الْعَنُبَرِيُّ كَانَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ كَذَّابًا يَسْرِقُ الْحَدِيثَ ـ (تهذيب التهذيب زير لفظ عبدالرزاق و زیر لفظ معمر بن راشد کہ نسائی کے نزدیک قابل اعتبار نہیں.اور عباس عنبری کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا اور واقدی سے بھی زیادہ جھوٹا تھا یہ شخص کذاب تھا اور حدیثیں چرایا کرتا تھا.سیہ روایت عبدالرحمن بن ہمام نے معمر سے لی ہے اور میزان میں لکھا ہے کہ قَالَ الدَّارُ قُطْنِي يُخْطِئُ عَلَى مَعْمَرَ فِي أَحَادِيثِ قَالَ ابْنُ عُيُيْنَةَ أَخَافُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (ميزان الاعتدال زیر لفظ معمر بن راشد ) کہ یہ ان روایات میں علم غلطی کرتا تھا جو یہ معمر سے لینا بیان کرتا تھا ابن عیینہ کہتے ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ یہ راوی قرآن مجید کی اس آیت کا مصداق تھا.الَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (الكهف: ۱۰۵) اسی طرح معمر بن راشد کے متعلق یحیی ابن معین کہتے ہیں کہ ”ضعیف“ تھا (میزان الاعتدال زیر لفظ مــعــمــربــن راشد ) اور ابن سعد کہتے ہیں کہ شیعہ تھا اور ابو حاتم کہتے ہیں کہ بصرہ میں اس نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں غلط روایات بھی ہیں.(تهذیب التهذيب زرافظ معمر بن راشد) ۴:.ابوداؤد کے راویوں میں ابو قلا بہ اور ثوبان بھی ہیں جن کے متعلق ضمن ب مندرجہ بالا میں بحث ہو چکی ہے.ان کے علاوہ سلیمان بن حزب اور محمد بن عیسی بھی ضعیف ہیں.سلیمان بن حزب کے متعلق خود ابوداؤد کہتے ہیں کہ راوی ایک حدیث کو پہلے ایک طرح بیان کرتا تھا، لیکن جب کبھی دوسری دفعہ اسی حدیث کو بیان کرتا تھا.تو پہلی سے مختلف ہوتی تھی اور خطیب کہتے ہیں کہ یہ شخص روایت کے الفاظ میں تبدیلی کر دیا کرتا تھا (تهذيب التهذيب زير لفظ سلطان بن حزب ) محمد بن عیسی کے متعلق تو ابوداؤد کہتے ہیں.كَانَ رُبَمَا يُدَرِّسُ (تهذيب التهذيب زیر لفظ محمد بن عیسیٰ ) کہ کبھی کبھی تدلیس کر لیتا تھا.ابوداؤد کے دوسرے طریقہ میں عبدالعزیز بن محمد اور العلاء بن عبد الرحمن ضعیف ہیں.عبد العزیز بن محمد کو امام احمد بن حنبل نے خطار کار.ابوزرعہ نے سَيِّئُ الْحِفْظِ اور نسائی نے کہا ہے کہ سیی لَيْسَ بِالْقَوِي“ (یعنی قوی نہیں) ابن سعد کے نزدیک "کثیر الغلط “ اور ساجی کے نزدیک وہمی تھا (تهذيب التهذيب زير لفظ عبد العزیز بن محمد ( اسی طرح ابوداؤد کا دوسرا راوی العلاء بن عبد الرحمن بھی ضعیف ہے کیونکہ ان کے متعلق ابن معین کہتے ہیں.هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعَةِ لَيْسَ حَدِيْتُهُمْ حُجَّةٌ “ (۱) سہل بن ابی صالح (۲) والعلاء بن عبدالرحمن (۳) و عاصم بن عبید الله (۴) ابن عقیل.(تهذیب التهذيب زرلفظ العلاء بن عبدالرحمن)
399 پس جہاں تک راویوں کا تعلق ہے یہ روایت قابل استناد نہیں.۵:.اگر صحیح تسلیم کر لی جائے تو یا درکھنا چاہیے کہ مسلم کی شرح کمال الا کمال میں لکھا ہے.هذَا الْحَدِيثَ ظَهَرَ صِدْقُهُ فَإِنَّهُ لَوْ عُدَّ مَنْ تَنَبَّاً مِنْ زَمَنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْآنَ لَبَلَغَ هَذَا الْعَدَدُ وَ يَعْرِفُ ذَلِكَ مَنْ يُطَالِعُ التَّارِيخَ - (اکمال الا کمال جلدے صفحہ ۴۵۸ مصری ) کہ تمیں دجال آچکے ہیں.اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک کے تمام نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو گنا جائے تو یہ تعداد پوری ہو چکی ہے اور اس بات کو وہ شخص جو تاریخ کا مطالعہ کرے جان لے گا.اس کتاب کے لکھنے والا ۸۲۸ ھ میں فوت ہوا.گویا چار سو سال گزرے کہ تمیں دجال آچکے J......ہیں مگر مولوی اب تک تمیں کے عدد کو طویل کئے جارہے ہیں.:.نواب صدیق حسن خانصاحب آف بھوپال حضرت مرزا صاحب کے دعوئی سے قبل اپنی کتاب حجج الکرامہ میں تحریر فرماتے ہیں: کہ دجالوں کی تعداد پوری ہو چکی ہے چنانچہ ان کی اصل عبارت فارسی حسب ذیل ہے:.بالجمله آنچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اخبار بوجود دجالین کذابین در یں امت فرموده بود، واقع شد بیج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس امت میں دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی وہ پوری ہو کر تعداد مکمل ہو چکی ہے.غرضیکہ خواہ ۲۷ د جالوں کی آمد کی پیشگوئی ہو.خواہ نہیں کی بہر حال وہ تعداد پوری ہو چکی ہے.غیر احمدی :.حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قیامت تک یا دنیا کے اخیر تک یہ دجال آئیں گے.( انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۴۶، ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۹۷) تم اس تعداد کا اب ہی پورا ہونا بتاتے ہو؟ الجواب:.اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک قیامت سے پہلے ہی ان دجالوں نے آنا تھا اور اکمال الا کمال اور حج الکرامہ کے حوالوں میں بھی یہی درج ہے.ان میں سے ایک بھی ایسا دجال نہیں جو قیامت کے بعد ہوا ہو.مثلاً ہم کہیں کہ زید مرنے سے پہلے دو بیویاں کرے گا.اب اگر زید میں سال کی عمر میں دو بیویاں کرلے تو تمہارے جیسا کوئی عقلمند فورا کہ دے گا کہ چونکہ ابھی تک زید مرا نہیں.لہذا ثابت ہو کہ اس نے دو بیویاں نہیں کیں..
400 نہ سمجھا تھک گئے ہم اس بت خود سر کو سمجھاتے سمجھ جاتا اگر اتنا کسی پتھر کو سمجھاتے پانچویں حدیث : - سَبْعُونَ دَجَّالُونَ (فتح البخاری شرح بخاری جز و ۲۹ صفحه ۵۶۴ مطبوعه د بلی از حافظ ابن حجر طبرانی میں بروایت عبداللہ عمرذکر ہے.حج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان مطیع شاہجہانی بھوپال صفحه ۲۳۳) ستر دجال آئیں گے.الجواب.یہ حدیث ضعیف ہے.( حج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہجہانی بھوپال صفحه ۲۳۳) حافظ ابن حجر گفته سند ایں ہر دو حدیث ضعیف ست.۲.اس حدیث میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعوی کریں گے بلکہ یہ مذکور ہے کہ وہ جھوٹی حدیثیں بنائیں گے.پس یہ صرف واقدی جیسے وضاعوں کے متعلق ہے نیز ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے اتنا بڑا طومار جھوٹی حدیثوں کا کھڑا کر رکھا ہے.پس مولویوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے.چھٹی حدیث.مَثَلِی وَ مَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِى كَقَصْرٍ - ( بخاری.مسلم مشکوۃ.فضائل سیدالمرسلین.قصر نبوت والی حدیث ) الجواب الاول :.یہ روایت قابل استناد نہیں.کیونکہ بلحاظ روایت ضعیف ہے.یہ دو طریقوں سے مروی ہے پہلے طریقہ میں زہیر بن محمد تمیمی ضعیف ہے اس کے متعلق لکھا ہے:.قَالَ مَعَاوِيَةُ عَنْ يَحْيَى ضَعِيفٌ.....وَذَكَرَهُ أَبُو زَرُعَةٍ فِي أُسَامَى الضُّعَفَاءِ...قَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِ....لَهُ أَغَالِيطٌ كَثِيرَةٌ وَقَالَ النَّسَائِي ضَعِيفٌ وَفِي مَوْضِعِ اخَرَ لَيْسَ بِالْقَوِيّ.“ (تهذيب التهذيب زيرلفظ زهير بن محمد تیمی) کہ بیچی کے نزدیک اور ابوزرعہ کے نزدیک ضعیف ہے.عثمان الدارمی کہتے ہیں کہ اس کی غلط روایات کی کثرت سے ہیں.نسائی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے.اس حدیث کے دوسرے طریقہ میں عبداللہ بن دینار مولی عمر اور ابو صالح الخوزی ضعیف ہیں.عبداللہ بن دینار کی روایت کو عقیلی نے مخدوش قرار دیا ہے.(تهذيب التهذيب زير لفظ عبد الله بن دینار ) اور ابوصالح الخوزی کو ابن معین قرار دیتے ہیں.(تهذيب التهذيب زير لفظ ابو صالح الخوزى وميزان الاعتدال زیر لفظ ابوصالح الخوزی) الجواب الثاني : باوجود اس امر کے کہ اس روایت کے راوی ضعیف ہیں.اگر بغرض
401 بحث اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی تمہارا بیان کردہ مفہوم غلط ہے.بلکہ تم حدیث کا جو مطلب لیتے ہو اور اگر وہ مطلب لیا جائے تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے کیونکہ تمہاری تشریح کے مطابق ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر اینٹ کی جگہ پر کر دی.گویا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے تو نبوت کے محل میں ایک موری یا سوراخ باقی رہ جاتا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو خدا نے فرمایا ہے.لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك (نزهة النظر في شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۳ حاشیه از محمد عبد اللہ ٹونکی و موضوعات کبیر از ملا علی قاری صفحہ ۸۱،۵۹) کہ اگر آپ نہ ہوتے تو میں تمام جہان کو پیدا نہ کرتا.پس اس حدیث سے وہ مفہوم مراد نہیں ہے جو مولوی بیان کرتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث میں شریعت کے محل کا ذکر ہے جس کو نبی تعمیر کرتے ہیں پہلے انبیاء اپنے اپنے وقت میں ضرورت کے مطابق احکام شریعت لاتے رہے اور اس محل کی تکمیل کا سامان جمع ہوتا رہا.چونکہ عقل انسانی ارتقاء کے بلند ترین مقام پر ابھی تک نہیں پہنچی تھی.اس لیے وہ شریعتیں ناقص تھیں اور ان میں کمی باقی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت تکمیل عقل انسانی ہو چکی تھی اور احکام شریعت کو سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو چکی تھی.اس لیے خدا تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.آپ نے آکر پہلی شریعتوں کو بھی قرآن میں شامل کر لیا اور جو کمی باقی تھی اس کو بھی پورا کر کے شریعت کے محل کو پورا کر دیا.قرآن مجید میں ہے فِيهَا كُتُبُ قَيْسَةٌ ( البينة: (۴) گویا اس میں سب پہلی شریعتیں بھی شامل ہیں عقلِ انسانی کی وہ ترقی جو عیسی علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کے زمانہ میں ہوئی.اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اینٹ کی جگہ (موضع لبنة ) قرار دیا ہے.الجوب الثالث : اس حدیث میں الانْبِيَاءُ مِنْ قَبْلِی کا فقرہ بتاتا ہے کہ اس میں آنحضرت نے صرف پہلے انبیاء ہی کا ذکر کیا ہے.بعد میں آنے والے انبیاء کا ذکر مقصود نہیں.الجواب الرابع :.اب جبکہ عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ اینٹ کہاں لگے گی؟ جہاں سے ان کے لیے گنجائش نکالو گے وہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے بھی گنجائش ہوگی.اگر کہو کہ عیسا علیہ السلام ابھی زندہ ہیں تو گویا معلوم ہوا کہ عیسی علیہ السلام والی اینٹ نہیں لگی.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمانا چاہیے تھا کہ دو اینٹوں کی جگہ باقی ہے.ایک میں اور ایک عیسی بن مریم.پس وفات مسیح ثابت ہے.
402 ساتویں حدیث : أَنَا الْعَاقِبُ الَّذِى لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ (ترمذى كتاب الادب باب ما جاء فی اسماء النبی) و جواب نمبر 1:.یہ روایت قابل حجت نہیں.کیوں کہ اس کا ایک راوی سفیان بن عیینہ ہے جس نے یہ روایت زہری سے لی ہے.سفیان بن عیینہ کے متعلق لکھا ہے.كَانَ يُدَلِّسُ....قَالَ أَحْمَدُ يُخْطِئُ فِي نَحْوِ مِنْ عِشْرِينَ حَدِيثٍ عَنِ الزُّهْرِى....عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعَيْدِ الْقَطَّانُ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ اخْتَلَطَ سَنَةِ سَبْعٍ وَّ تِسْعِيْنَ وَ مِائَةٍ فَمَنْ سَمِعَ مِنْهُ فِيْهَا فَسَمَاعُهُ لَا شَيْءٌ - (ميزان الاعتدال زير لفظ سفيان بن عيينة ( يعنی یہ راوی تدلیس کیا کرتا تھا امام احمد کہتے ہیں کہ زہری سے بیسیوں روایات میں اس نے غلطی کی ہے ( یہ عاقب والی روایت بھی اس نے زہری ہی سے لی ہے ) یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ سفیان بن عیہ کی سن ۱۹۷ھ میں عقل ماری گئی تھی.پس جس نے اس کے بعد اس سے روایت لی ہے وہ بے حقیقت ہے اس روایت کے دوسرے راوی زہری کے متعلق لکھا ہے کہ " كَانَ يُدَرِّسُ فِي النَّادِرِ ( ميزان الاعتدال زیر لفظ محمد بن مسلم زهری ) کہ یہ راوی کبھی کبھی تذلیں بھی کر لیا کرتا تھا پس اس روایت میں بھی اسی راوی نے ازراہ تدلیس وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِی کے الفاظ بڑھا دیئے کیونکہ شمائل ترمذی شریف مجتبائی میں جہاں یہ حدیث ہے وہاں ” وَ الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ“ کے الفاظ کے اوپر بین السطور میں لکھا ہے ” هذَا قَولُ الزَّهْرِی“ کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ علامہ زہری کا اپنا قول ہے.(شمائل ترمذی مجتبائی مطبوعه ۱۳۴۲ھ صفحه ۲۶ باب ما جاء في اسماء رسول الله ) نمبر ۲:.’عاقب عربی لفظ ہے اور صحابہ جن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کلام فرما رہے تھے وہ بھی عرب تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجمہ کرنے کی کیا ضرورت تھی یہ ترجمہ ہی صاف بتلا رہا ہے کہ یہ ترجمہ کسی ایسے آدمی نے کیا ہے جو اس حدیث کو ان لوگوں کے سامنے بیان کر رہا تھا جو عرب نہ تھے.نمبر ۳:.چنانچہ حضرت ملا علی قاری نے صاف طور پر فرما دیا ہے الظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا تَفْسِيرٌ لِلصَّحَابِي أَوْ مَنْ بَعْدَهُ وفِي شَرْحِ مُسْلِمٍ قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ الْعَاقِبُ الَّذِي يُخْلِفُ فِي الْخَيْرِ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ ( مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۳۷۶ و بر حاشیه مشکو مجتبائی باب اسماء النبی ) کہ صاف ظاہر ہے
403 که الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِی کسی صحابی یا بعد میں آنے والے شخص نے بطور تشریح بڑھا دیا ہے اور ابن عربی نے لکھا ہے عاقب وہ ہوتا ہے جو کسی اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائم مقام ہو.ضروری نوٹ:.غیر احمدی عُلَمَاءُ هُمُ نے ہمارے اس زبر دست جواب کی تاب نہ لا کر تر مندی کے نئے ایڈیشن میں اس حدیث کے الفاظ میں یہودیانہ مماثلت کو پورا کرنے کے لیے تحریف کر دی ہے.چنانچہ ترمندی مجتبا ئی جو ۱۳۶۶ھ یا اس سے قبل چھپی ہے اس میں وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نسی کے الفاظ ہیں ( یعنی عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ) مگر بعد کی اسی مطبع کی چھپی ہوئی ترندی میں الفاظ یوں ہیں الْعَاقِبُ الَّذِى لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ ) که عاقب ہو کہ میرے بعد کوئی بنی نہیں).گویا بَعْدَه غائب کے صیغے کو بدل کر بعدی متکلم کا صیغہ بنا دیا ہے تا کہ متکلم کے صیغے سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ الفاظ بھی آنحضرت ہی کے ہیں.کسی دوسرے شخص کے نہیں.مگر خدا کے فضل سے ان کی چوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں نے پکڑ لی.آٹھویں حدیث : إِنِّي أَخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ " (سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب فتنة الدجال و خروج عیسی ابن مريم.و كتاب الزهد باب صفت امة محمد صلى الله عليه وسلم) جواب نمبر :.یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ ابن ماجہ نے جن راویوں سے اسے نقل کیا ہے ان میں سے عبدالرحمن بن محمد الحار بی اور اسمعیل بن رافع ( ابو رافع ) ضعیف ہیں.عبدالرحمن بن محمد کے متعلق لکھا ہے.قَالَ ابْنُ مَعِينٍ يَرُوِيُّ الْمَنَاكِيْرَ عَنِ الْمَهْجُولِينَ قَالَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ أَبِيهِ اَنَّ الْمُحَارِبِيَّ كَانَ يُدَرِّسُ قَالَ ابْنُ سَعْدٍ كَانَ كَثِيرُ الْغَلَطِ.(میزان الاعتدال از ابو عبد الله محمد بن احمد عثمان الذھمی ۷۴۸ ھ زیر لفظ عبدالرحمن بن محمد المحاربي, تهذيب التهذيب زير لفظ عبدالرحمن بن محمد المحاربی) کہ ابن معین کہتے ہیں کہ یہ راوی مجہول راویوں سے نا قابل قبول روایات بیان کیا کرتا تھا.امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ راوی تدلیس کیا کرتا تھا.ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ راوی بہت غلط روایات کیا کرتا تھا.اس کا دوسرا راوی ابورافع اسمعیل بن رافع بھی ضعیف ہے کیوں کہ لکھا ہے:.ضَعْفَهُ أَحْمَدُ وَ يَحْيِي وَ جَمَاعَةٌ قَالَ الدَّارُ قُطْنِى مَتَرُوكَ الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ عَدِي أَحَادِيْثُهُ كُلُّهَا فِيْهِ نَظَرْ ( میزان الاعتدال از ابوعبد الله حمد بن احمد عثمان الذهمی زیر لفظ ابورافع اسمعیل بن رافع جلد اصفه۱۰۵ حیدر آبادی)
404 یعنی امام احمد بیٹی اور ایک جماعت محدثین نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے دار قطنی اسے متروک الحدیث کہتے ہیں اور ابن عدی کے نزدیک اس کی تمام کی تمام روایات مشکوک ہیں.اسی طرح اسے نسائی نے متروک الحدیث قرار دیا ہے اور ابن معین ، ترمذی اور ابن سعد کے نزدیک بھی ضعیف ہے.(تهذيب التهذيب زرافظ ابورافع اسمعيل بن رافع ) پس یہ روایت بھی جعلی ہے.جواب نمبر ۲:.حدیث کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اس میں صرف ان انبیاء کاختم ہونا مذکور ہے جو آ کر نئی امت بناتے ہیں اور نئی شریعت لے کر آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر ہو کر دعویٰ نبوت کریں.جواب نمبر ۳:.اس حدیث کی تشریح مسلم کی دوسری حدیث کرتی ہے:.قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّى اخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَنَّ مَسْجَدِى أَخِرُ الْمَسْجِدِ (مسلم كتاب الحج باب فضل الصلوة في مسجد المدينة و مكة وكنز العمال كتاب الفضائل فضائل الامكنة والازمنة فضل الحرمين والمسجد الاقصی حدیث نمبر ۳۴۹۹۴) که رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد اور کوئی مسجد نہیں بنی؟ بلکہ جتنی مسجد میں دنیا میں موجود ہیں سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد ہی تعمیر ہوئی ہیں کیا ان کی تعمیر نا جائز ہوئی ہے؟ نہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اب میری مسجد کے بعد اور کوئی ایسی مسجد نہیں بن سکتی جو اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے نہ بنائی گئی ہو جو میری مسجد کا مقصد ہے یا جس میں وہ نماز نہ پڑھی جائے جو میری مسجد میں پڑھی جاتی ہے یا جس کا قبلہ اور ہو.غرضیکہ مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں یہاں اخِرُ الْمَسْجِدِ آیا پس یہی آخر الانبیاء کا مطلب ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے یا میری شریعت کے خلاف ہو یا میری اتباع کے خلاف ہو یا میری اتباع اور متابعت سے باہر ہو کر نبوت کا دعوی کرے.مگر ہماری بحث غیر تشریعی امتی نبوت میں ہے.لفظ آخر کی مثالیں عربی نمبر :.شَرَ وُدِّى وَ شُكْرِى مِنْ بَعِيدٍ لَا خَيْرَ غَالِبٍ أَبَدًا رَبِيعٍ (ديوان الحماسه لابی تمام حبیب بن اوس الطائى باب الحماسه وقال قيس بن زهیر صفحه ۱۲۵ مترجم اردو)
405 اس شعر کا ترجمہ مولوی ذوالفقار علی صاحب دیو بندی جو حماسہ کے شارح ہیں یوں کرتے ہیں.ربیع ابن زیاد نے میری دوستی اور شکر دور بیٹھے ایسے شخص کے لیے جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لیے عدیم المثل ہے خرید لیا ہے گویا آخر کا ترجمہ ہمیشہ کے لیے عدیم المثل ہوا.پس انہی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخر الانبیاء یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم النظیر ہیں.نمبر ۳.امام جلال الدین سیوطی نے امام ابن تیمیہ کے متعلق لکھا ہے.سَيِّدُنَا الْإِمَامُ الْعَالِمُ الْعَلَّامَةُ.اِمَامُ الْائِمَّةِ قُدْوَةُ الْأُمَّةِ عَلَّامَةُ الْعُلَمَاءِ وَارِتْ الْأَنْبِيَاءِ اخِرُ الْمُجْتَهِدِينَ الاشباه والنظائر جلد ۳ صفحه ۳۱ مطبوعہ حیدر آباد و محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۵۳۴ ایڈیشن اپریل ۱۹۸۹ء) گویا امام ابن تیمیہ آخر المجتہدین تھے کیا ان کے بعد کوئی اور مجتہد نہیں ہوا ؟ اردو:.ڈاکٹر سر محمد اقبال اپنے استاد داغ کا مرثیہ لکھتے ہوے کہتے ہیں.چل بسا داغ آہ میت اس کی زیب دوش ہے آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے گویا داغ دلی کا آخری شاعر تھا.اسی مرثیہ میں آگے چل کر ڈاکٹر صاحب موصوف کہتے ہیں چل دیئے ساقی جو تھے مہ خانہ خالی رہ گیا یاد گار بزم دتی ایک حالی رہ گیا بانگ درا از ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صفحه ۵۷) گویا داغ کے بعد حاکی بزم دتی کی یادگار ہیں.نیز داغ کے بعد بھی دلی میں سینکڑوں شاعر ہوئے ہیں جلیل وغیرہ ان میں سے ممتاز ہیں.نویں حدیث: اَنَا الْمُقَفّى (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی اسمائه صلى الله علیہ وسلم) مقفی کے معنی ہیں آخری نبی.الجواب:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک مقفی ہیں مگر منظمی کا ترجمہ آخری نبی جو غیر احمدی علماء کرتے ہیں وہ قطعاً غلط ہے علامہ ابن الانباری فرماتے ہیں.مَعْنَاهُ الْمُتَّبَعُ لِلنَّبِيِّينَ المال الا کمال شرح مسلم جلد ۲ صفحہ ۱۴۳) کہ منتفی کے معنے ہیں کہ وہ جس کی انبیاء اتباع کریں گویا یہ نام بذات خود اس امر کا مقتضی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انبیاء آویں جو آپ کی پیروی اور اتباع کریں اس کو انقطاع نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کرنانا دانی ہے.دسویں حدیث:.یعفور نامی گدھے کا عقیدہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی
406 نبی نہ آئے گا.چنانچہ ابن حبان اور ابن عسا کرنے اس کو روایت کیا ہے کہ اس نے کہا لَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ غَيْرُكَ کہ اے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کے سوا کوئی نبیوں میں سے باقی نہیں ہے.(دیکھو رسالہ حجتہ اللہ علمی صفحہ ۴۶۰ بحوالہ رسالہ ختم نبوت مصنفہ النبی الخیر مولوی محمد بشیر کوٹلی لوہاراں صفحہ ۱۲۶ ۲۷) اللعلم الجواب:.اس روایت کا جواب یہی ہے کہ اس کا کوئی جواب نہیں فی الواقعہ گدھے کا یہی خیال ہے کہ نبوت بند ہو گئی ، لیکن تمہا را بیان کردہ گدھا تو ساتھ ہی ساتھ وفات مسیح کا بھی اعلان کر رہا ہے کیونکہ کہتا ہے کہ میری خواہش تھی کہ مجھ پر کوئی نبی سواری کرے.اب آپ کے سوا کوئی نبی نہیں رہ گیا اور میری نسل میں سے میرے سوا کوئی گدھا باقی نہیں اگر تمہارے نزدیک گدھے کا یہی مذہب درست ہے تو وفات مسیح کا بھی اقرار کرو.تمہاری اس مضحکہ خیز روایت کے پیش نظر وہ کون سے گدھے پر سواری کریں گے؟ تحقیقی جواب:.یہ روایت محض بے اصل اور بے سند ہے اور اس روایت کو پیش کرنا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں حد درجہ گستاخی کے مترادف ہے.گیارھویں حدیث :.حدیث میں ہے "إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبي 666 (ترمذى كتاب الرؤيا باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات ، مسند احمد مسند المكثرين من الصحابه مسند انس بن مالک فتوحات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحه ۳) جواب ان.یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کے چار راوی (۱) حسن بن محمد الزعفرانی ابوالعلی بغدادی (۲) عفان بن مسلم البصری.(۳) عبدالواحد بن زیاد اور (۴) المختار بن فلفل المخذ ومی ضعیف ہیں.گویا سوائے حضرت انس کے شروع سے لے کر آخر تک تمام سلسلہ اسناد ضعیف راویوں پر مشتمل ہے حسن بن الزعفرانی کے متعلق علامہ ذہبی لکھتے ہیں ضَعْفَهُ ابْنُ قَانِعِ وَ قَالَ الدَّارُ قُطْنِيُّ قَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ “ ( میزان الاعتدال جلد اصفحه ۲۴۱ مطبوعہ حیدر آباد و مطبوعہ انوار محمدی جلد اصفحه ۲۱۲) یعنی ابن قانع کہتے ہیں کہ ضعیف تھا.دار قطنی کہتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک اس راوی کی صحت کے بارے میں کلام ہے.ابن عدی کہتے ہیں کہ اس راوی نے ایسی احادیث کی روایات کی ہیں جن کا میں نے انکار کیا.اسی طرح دوسرے راوی عفان بن مسلم البصری کے متعلق ابو خیثمہ کہتے ہیں.انگرنَا عَفَّانَ (ميزان الاعتدال زیر لفت اعفان بن مسلم البصری ) کہ ہم اس راوی کو قابل قبول نہیں سمجھتے.
407 تیسرے راوی عبدالواحد بن زیاد کے متعلق لکھا ہے:.فَقَالَ يَحْيِي لَيْسَ بِشَيْءٍ (ميزان الاعتدال زیر لفظ عبدالواحد بن زیاد ) کہ بیٹی کہتے ہیں یہ راوی کسی کام کا نہیں ہے.اسی طرح چوتھے راوی مختار بن فلفل کے متعلق کے متعلق لکھا ہے کہ يُخْطِئُ كَثِيرًا...تَكَلَّمَ فِيهِ السَّلَيْمَانِي فَعَدَّهُ فِي رُوَاةِ الْمَنَاكِيْرِ عَنْ أَنَس (تهذيب التهذيب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ مختار) کہ یہ راوی روایت میں اکثر غلطی کرتا تھا.سلیمانی نے کہا ہے کہ یہ راوی انس سے نا قابل قبول روایات بیان کرنے والوں میں سے ہے چنانچہ روایت زیر بحث بھی اس راوی نے انس سے ہی روایت کی ہے لہذا محدثین کے نزدیک قابل انکار ہے اور حجت نہیں.۲.حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں : إِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوَجُودِ رُسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ النُّبُوَّةُ التَّشْرِيعُ لَا مُقَامَهَا فَلَا شَرْعَ يَكُونُ نَاسِخًا لِشَرْعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَزِيدُ فِي حُكْمِهِ شَرْعًا أَخَرَ وَ هَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِ وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ يَكُونُ عَلَى شَرُعٍ يُخَالِفُ شَرْعِيُ بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي فتوحات مکیه از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحه ۳ مطبوعہ دارصا در بیروت - لبنان ) کہ وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی نہ اس میں کوئی حکم کم کرسکتی ہے نہ زیادہ.یہی معنی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے کہ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو.ہاں اس صورت میں نبی آسکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے ماتحت آئے.( مفصل دیکھو دلائل امکانِ نبوت از اقوال بزرگان صفحه ۳۵۰) بارہویں حدیث : لَا نُبُوَّةَ بَعْدِى (مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل علی ابن ابی طالب و ترمذی کتاب فضائل الصحابه) جواب (۱) یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کے چار راویوں میں تین ضعیف ہیں.قتیبہ.حاتم بن اسمعیل المدنی.بکیر بن مسمار الزہری.قتیبہ کے متعلق لکھا ہے.قَالَ الْخَطِيبُ هُوَ مُنْكَرٌ جِدًا (تهذیب التهذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ قتیبہ ) کہ خطیب کہتے ہیں کہ وہ سخت
408 نا قابل قبول راوی ہے حاتم بن اسمعیل راوی کے متعلق نسائی کہتے ہیں کہ لَيْسَ بِالْقَوِيّ (تھذیب التهذيب زير لفظ حاتم بن اسمعیل راوی) کہ یہ راوی ثقہ نہیں تھا.چوتھے راوی بکیر بن مسمار الزہری کے متعلق لکھا ہے.قَالَ الْبُخَارِيُّ فِيْهِ نَظَرٌ (تهذيب التهذيب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیر لفظ بکیر و میزان الاعتدال زیر لفظ بکیر بن مسمار الزهرى ) امام بخاری کہتے ہیں کہ اس راوی کے ثقہ ہونے میں کلام کیا جاتا ہے لہذا یہ روایت بھی حجت نہیں ہے.(ب) لَا نُبُوَّةَ بَعْدِی کے الفاظ ایک اور روایت میں بھی آتے ہیں.جس کو ابونعیم نے حضرت معاد سے روایت کیا ہے لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے رَوَاهُ أَبُو نَعِيمٍ عَنْ مَعَاذٍ مَرْفُوعًا وَهُوَ مَوْضُوعَ افَتُهُ بَشَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيِّ (الـفـوائد المجموعه في احاديث الموضوعة از امام شوکانی مطبوعہ محمدی پر لیس صفحہ ۱۱۶) کہ اس کا راوی بشر بن ابراہیم وضاع ہے اور یہ روایت جعلی ہے.تیرھویں حدیث : كُنتُ اَوَّلَ النَّبِيِّينَ فِى الْخَلْقِ وَاخِرَهُمُ فِي الْبَعْثِ“ ( موضوعات کبیر از ملا علی قاری صفحه ۱۶ اودر منثور از جلال الدین سیوطی جزو ۵ صفحه ۱۸۴ تفسير سورة الاحزاب زیر آیت نمبر ۹،۸) جواب:.یہ روایت بھی موضوع ہے لکھا ہے:.قَالَ الصَّغَانِيُّ هُوَ مَوْضُوعٌ وَكَذَا قالَ ابْنُ تَيْمِيَّةَ (الفوائد المجموعه فی احادیث الموضوعه از امام شوکانی مطبوعه محمدی پریس صفحه ۱۰۸) که صفانی اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ روایت موضوع ہے.چودھویں حدیث : لا يُبْعَثُ بَعْدِى نَبِيًّا ( الفوائد المجموعه از امام شوکانی مطبوعه محمدی پریس صفحہ ۱۵۲) کہ اللہ تعالیٰ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کرے گا.جواب :.یہ رویت بھی جھوٹی اور جعلی ہے.امام شوکانی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں.هُوَ مَوْضُوع (الفوائد المجموعه فی احادیث الموضوعة از امام شوکانی مطبوعه محمدی پر لیس صفحه ۵۲ اسطر نمبر ۱۰) کہ یہ روایت جعلی ہے.پس غیر احمدی علماء کی طرف سے جس قدر روایات اپنی تائید میں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی اس امر کے اثبات کے لیے کافی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی پیروی اور غلامی میں آپ کی امت میں سے کوئی غیر تشریعی نبی نہیں آسکتا.پندرہویں حدیث: إِنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلْعَمُ
409 (اقتراب الساعة از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الكامنة فی آگر صفحه ۱۶۳) (روح المعانی سورۃ الاحزاب جواب :.یہ حدیث بے اصل ہے زیر آیت نمبر ۳۹،۳۸) (اقتراب الساعة صفحه ١٦٣) لکھا ہے: یہ حدیث إِنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلْعَمْ - بے اصل ہے.حالانکہ کئی حدیثوں میں آنا جبریل کا آیا ہے.“ ( اقتراب الساعة از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الكامنة فی آگره صفه ۱۶۳) ۲.حضرت علامہ ابن حجر فرماتے ہیں :.وَ مَا اشْتَهَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ فَهُوَ لَا أَصْلَ لَهُ روح المعانی الاحزاب آیت نمبر ۳۸، ۳۹ ونج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحه ۴۳۱ ) پس یہ روایت بھی حجت نہیں.شرک فی الرسالت کا الزام احراری محض عوام کو دھوکہ دینے کی نیت سے کہا کرتے ہیں کہ ہم ” شرک فی الرسالت برداشت نہیں کر سکتے.جواب:.(۱) شرک فی الرسالة “ کے قابل اعتراض ہونے کی اصطلاح تم نے کہاں سے نکالی ہے؟ کیونکہ شرک تو اسلامی اصطلاح میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو ہم پلہ یا حصہ دار ماننے کا نام ہے کیونکہ وہ واحد ہے، لیکن رسالت تو ایک ایسا انعام الہی ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی شریک ہیں.پس اگر شرک فی الرسالۃ کوئی قابلِ اعتراض چیز ہے تو ہر مسلمان ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ اس شرک فی الرسالة کا اقرار کرتا ہے.تم خود مسیح کی آمد ثانی کے قائل ہو جو نبی اللہ کا ہے.پھر شرک فی الرسالة کی غیرت کہاں گئی.قرآن مجید میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کو وادی طور میں اِنِّي أَنَا رَبُّكَ ( طه : ۱۳) کی صدا لگائی اور دربار فرعون میں جانے کا حکم ملا تو حضرت موسی نے یہ دعا کی.وَاجْعَل لي وزيرا مِنْ أَهْلِى هُرُونَ أَخي الشدُدْية آزرى (طه: ۳۲۳۰) اس آیت کا تر جمہ تفسیر قادری المعروف بہ تفسیر حسینی اردو وفاری سے نقل کیا جاتا ہے.
410 اور کر دے میرے واسطے یعنی مقرر کر مدد دینے والا یا بوجھ بانٹنے والا میرے لوگوں میں سے ہارون میرا بھائی مضبوط کر اس کے سبب سے میری پیٹھ اور شریک کر اس اے میرے کام میں یعنی انہیں نبوت میں میرا شریک کر دے.( جلد ۲ صفحہ ۳۶) (۴) حضرت امام رازی رحمتہ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں:.وَاشْرِكْهُ فِي أَمْرِئُ وَالْآمُرُ ههنا النبوة (تفسیر کبیر رازی جلد ۶ صفحه ۴۷ مصری زیر آیت وَاشْرِكَهُ فِي أَمْرِى طه: ۳۲) یعنی یہ شریک فی النبوة کرنے کی دعا ہے.(۵) تفسیر ابی السعود میں ہے:."اِجْعَلْهُ شَرِیکی فِي نُبُوَّتِي“ (برحاشیہ تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ ۴۹ مصری زیر آیت وَاشْرِكْهُ فِی اَمرِ طه :۳۲) یعنی یہ دعا کی کہ اے خدا! ہارون کو میری نبوت میں شریک کر دے.پس یہ شرک فی الرسالة“ تو وہ اعلیٰ اور عمدہ چیز ہے جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کر کے لجاجت سے حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بہت بڑا انعام اور فضل قرار دیا.جیسا کہ فرماتا ہے: قَدْ أُوتِيْتَ سُؤلَكَ يَمُوسى وَلَقَدْ مَنَنَا عَلَيْكَ مَرَّةً أخرى (طه: ۳۸،۳۷) کہ اے موسیٰ! ہم نے تیری یہ شرک فی الرسالة والی دعا قبول کر لی اور صرف یہ نہیں بلکہ اس کے علاوہ ہم نے پہلے بھی ایک موقع پر تجھ پر ایک اور بڑا فضل کیا تھا.سورۃ مریم: ۵۴ میں ہے وَوَهَبْنَالُهُ مِنْ رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَرُون نینا ، یعنی ہم نے اپنی طرف سے خاص رحمت کے طور سر حضرت موسی کے بھائی ہارون کو نبی بنایا.پس ثابت ہوا کہ جس طرح موسی کے نبی بن جانے کے بعد ان کے بھائی کا ان کے تابع نبی ہونا حضرت موسی کی توہین نہیں بلکہ عزت افزائی اور فضل خداوندی ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غلاموں میں سے کسی کا نبی ہونا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی میں رہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علو مرتبت اور شان عظمیٰ کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ باعث تو ہین ہے چنانچہ لکھا ہے: ا.خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو دیکھنا چاہیے کہ ایسا پیغمبر جو کلمہ خدا وروح اللہ ہے زمان آخر میں ان کی امت میں داخل شامل ہو گا.یہ رتبہ تو دنیا میں پایا جاوے گا آخرت میں پورا پورا رتبه مزیت سب انبیاء ورسل پر ظاہر ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.(اقتراب الساعة از نواب نور الحسن خان صفحریم ۹ مطبع مفید عام الكامنة فی آگر د ۱۳۰۱ھ ) لَيْسَ فِى الرُّسُلِ مَنْ يَّتَّبِعُهُ رَسُولٌ إِلَّا نَبِيَّنَا صَلْعَمُ وَ كَفَى بِهَذَا شَرْفًا لِهَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُحَمَّدِيَّة ( حج الكرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۲۷ سط نمبر1 الفصل الاول در مطبع
411 شاہجہانی) یعنی جملہ انبیاء علیہم السلام میں سے سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی ایسا نبی نہیں ہے جس کے تابع کوئی دوسرا نبی ہو اور یہ امت محمدیہ کی ایک بہت بڑی فضیلت ہے.گویا جس چیز کو احراری معترض کی خود ساختہ اصطلاح کے نام سے نا قابل برداشت توہین قرار دیتا ہے علماء گذشتہ کے نزدیک یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی فضیلت ہے اور امت محمدیہ کے شرف اور مرتبہ کو ثابت کرنے والی ہے.حضرت موسی کا جواب :.(۶) تو رات میں ہے کہ حضرت موسی کے زمانہ میں بھی ”شرک فی الرسالة“ کی جھوٹی ”غیرت کا مظاہرہ کیا گیا تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا وہی جواب دیا جو آج ہم احرایوں کو دیتے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے انعام کے دروازے بند کرنے والے کون ہو؟ ملاحظہ ہو.تو رات میں ہے :.تب موسی نے باہر جا کر خداوند کی با تیں قوم سے کہیں اور بنی اسرائیل سے ستر شخص اکٹھے کئے اور انہیں خیمہ کے آس پاس کھڑا کیا.تب خداوند بدلی میں ہو کر اترا اور اس سے بولا اور اس کی روح میں سے جو اس میں تھی کچھ لے کے ان ستر بزرگ شخصوں کو دی.چنانچہ جب روح نے ان میں قرار پکڑا تو وہ نبوت کرنے لگے اور بعد اس کے پھر نہ کی اور ان میں سے دو شخص خیمہ گاہ ہی میں رہے تھے جن میں سے ایک کا نام الداد تھا دوسرے کا نام میداد.چنانچہ روح نے ان میں قرار پکڑا اور وہ خیمہ گاہ ہی میں نبوت کرتے تھے.تب ایک جوان نے دوڑ کے موسی کو خبر دی کہ الدادا اور میداد خیمہ گاہ میں نبوت کرتے ہیں.سو مولی کے خادم نون کے بیٹے یشوع نے جو اس کے خاص جوانوں میں سے تھا.موسیٰ سے کہا کہ اے میرے خداوند موسیٰ ! انہیں منع کر.موسی نے اسے کہا کیا تجھے میرے لئے رشک آتا ہے کاش کہ خداوند کے سارے بندے نبی ہوتے اور خداوند ان میں اپنی روح ڈالتا (گنتی باب ۱۱ آیت ۲۴ تا ۳۰) غیر احمدی:.یہ تو رات کا حوالہ ہے یہ بطور دلیل پیش نہیں ہو سکتا.جواب:.قرآن میں ہے:.فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَتَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكَ (يونس : ۹۵) صحیح حدیث میں ہے ”حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لَا هَرَجَ ( بخاری.ترندی.مسند احمد حنبل.ابوداؤد بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی جلد اصفحہ ۱۲۶ مطبوعہ مصر باب البساء و
412 جلد اصفحہ ۴۷ باب الحاء) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بنی اسرائیل کی روایات بیان کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی اور فرمایا کہ بے شک بنی اسرائیل کی روایات اخذ کر لیا کرو.اس میں کوئی حرج نہیں ہے.خیر یہ تو عام حکم ہے لیکن روایت زیر بحث میں تو جس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے اور خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس نظریہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سورۃ طہ کی مندرجہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے.پس اس کی صحت میں تو قطعاً کوئی کلام نہیں ہوسکتا.شرک فی الرسالة“ کا نعرہ بلند کرنے والوں سے ایک سوال جہاں تک حضرت مسیح موعود کا تعلق ہے حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے ایک ذرہ بھر بھی علیحدگی کو خسران و تاب قرار دیا، لیکن ذرا مندرجہ بالا حوالہ جات کو پڑھ کر پھر ان لوگوں سے جو شرک فی النبوۃ کا جھوٹا نعرہ بلند کرتے ہیں.پوچھئے کہ احمدیوں کے خلاف تو ” تحفظ ختم نبوت“ کے بہانے سے اشتعال انگیزی اور منافرت خیزی کی مہم چلا رہے ہو.لیکن قادری سلسلہ کے لوگوں کے خلاف کیوں محاذ نہیں بناتے.بلکہ اُن کے ساتھ تمہارا کامل اتحاد ہے.ملاحظہ ہوں حوالہ جات ذیل:.ا."كَانَ فِي زَمَنِ الْغَوْثِ رَجُلٌ فَاسِقٌ مُصِرٌّ عَلَى الذُّنُوبِ وَلَكِنْ تَمَكَّنَتْ مَحَبَّةَ الْغَوْثِ فِي قَلْبِهِ الْمَحْجُوبِ.فَلَمَّا تُوُفِّيَ دَفَنُوهُ فَجَاءَ مُنْكَرٌ وَ نَكِيرٌ وَ سَثَالًا مَنْ رَبُّكَ وَ مَنْ نَبِيُّكَ وَ مَا دِينُكَ فَأَجَابَهُمَا فِي كُلِّ سُؤَالٍ بِعَبْدِ الْقَادِرِ فَجَاءَ هُمَا الْخِطَابُ مِنَ الرَّبِّ الْقَدِيرِ يَا مُنْكَرُ وَ نَكِيرُ إِنْ كَانَ هَذَا الْعَبْدُ مِنَ الْفَاسِقِينَ لَكِنَّهُ فِي مَحَبَّةِ مَحْبُوبِیُ السَّيْدِ عَبْدِ الْقَادِر مِنَ الصَّادِقِينَ فَلَاجُلِهِ غَفَرْتُ لَهُ ( مناقب تاج الاولیاء و برہان الاصفیاء مطبوعہ مصر القطب الربانی والغوث الصمدانی السید عبد القادر الگیلانی مصنفہ الشیخ عبد القادر القادری ابن محی الدین الا وطی مطبوعہ مصر صفحه ۲۳) ترجمہ:.حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہ میں ایک بدکار آدمی تھا جو گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا تھا لیکن اس کے دل پر حضرت غوث الاعظم کی محبت غلبہ پا چکی تھی پیس جب وہ شخص مر گیا تو اسے دفن کر دیا گیا پھر اس کے پاس منکر نکیر آئے اور اس سے تین سوال کئے (۱) تیرا رب کون ہے (۲) تیرا نبی کون ہے (۳) تیرا دین کونسا ہے؟ پس اس شخص نے ان تینوں سوالوں میں سے ہر سوال کا جواب ”عبد القادر دیا ( یعنی یہ کہا کہ میرا رب عبد القادر ہے.میرا نبی عبدالقادر ہے اور میرا
413 دین بھی عبد القادر ہے ) پس رب قدیر کی طرف سے آواز آئی کہ اے منکر اور نکیر ! سنو!اگر چہ یہ شخص فاسق تھا لیکن یہ میرے محبوب عبد القادر کا سچا عاشق ہے.پس اس محبت کی وجہ سے میں نے اسے بخش دیا ہے.“ فرمائیے! کہیں شرک فی التوحید شرک فی الرسالة‘ اور شرک فی الدین میں کوئی کسر تو باقی نہیں رہی.66 فَقَالَ لِلْعِيُسِوِي إِنَّ نَبِيَّكُمُ بِأَيِّ كَلَامٍ كَانَ يُخَاطِبُ الْمَيِّتَ حِيْنَ اَحْيَائِهِ فَقَالَ فِي جَوَابِهِ كَانَ يُخَاطِبُهُ بِقَوْلِهِ قُم باذن الله.....فَقَالَ لَهُ الْغَوُتُ إِنَّ صَاحِبَ هَذَا الْقَبَرِ كَانَ مُغَنِّيَّا فِي الدُّنْيَا إِنْ اَرَدْتَ أَنْ أَحْيِيَهُ مُغَنِّيًا فَأَنَا مُجِيبٌ لَكَ فَقَالَ نَعَمْ فَتَوَجَّهَ إِلَى الْقَبَرِ وَ قَالَ قُمْ بِإِذْنِي.فَانْشَقَّ الْقَبَرُ وَ قَامَ الْمَيِّتُ حَيًّا مُغَنِّيًا کتاب مناقب تاج الاولیاء مطبوعه مصر ) د یعنی حضرت غوث الاعظم جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عیسائی سے بحث کے دوران میں 66 اس عیسائی سے دریافت کیا: ”تمہارا نبی (عیسی) مردوں کو کیا کہہ کر زندہ کیا کرتا تھا؟ عیسائی نے جواب دیا قم باذن اللہ کہہ کر " حضرت غوث الاعظم نے فرمایا کہ اس قبر میں مدفون شخص دنیا مین مغنی تھا اگر تو چاہے تو میں اس کو اس طرح زندہ کر سکتا ہوں کہ یہ گاتا ہوا زندہ ہو جائے.عیسائی نے کہا.بہت اچھا کر کے دکھائیے.تو حضرت غوث الاعظم نے فرمایا قسم بِاِذْنِی ( یعنی میرے حکم سے اٹھ ! ) پس قبر پھٹ گئی اور وہ مردہ گا تا ہوا زندہ اٹھ کھڑا ہوا.“ گو یا مسیح ناصری کو خدا کے حکم سے مردے زندہ کرتے تھے.مگر حضرت غوث الاعظم نے اپنے حکم سے مردہ زندہ کیا..ایک اور فضیلت ملاحظہ فرمائیے :.لَمَّا عُرِجَ بِحَبِيْبِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ اسْتَقْبَلَ اللَّهُ اَرْوَاحَ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ مِنْ مَقَامَاتِهِمُ لَاجُلٍ زِيَارَتِهِ فَلَمَّا قَرُبَ نَبِيًّا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْعَرْشِ الْمَجِيْدِ رَاهُ عَظِيمًا رَفِيعًا لَا بُدَّ لِلصَّعُودِ إِلَيْهِ مِنْ سُلَّم وَ مِرْقَاةٍ فَأَرْسَلَ اللَّهُ إِلَيْهِ رُوْحِي فَوَضَعْتُ كَتُفِي مَوْضِعَ الْمِرْقَاةِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَضَعَ قَدَمَيْهِ عَلَى رَقَبَتَى سَأَلَ اللَّهَ تَعَالَى عَنِّى فَالْهَمَهُ هَذَا وَلَدُكَ اسْمُهُ عَبْدِ الْقَادِرِ کتاب مناقب تاج الا لیاء مطبوعہ مصر صفحه ۸) حضرت غوث الاعظم جیلانی فرماتے ہیں کہ معراج شب جب حبیب خدا آنحضرت صلی اللہ
414 علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ نے جملہ انبیاء اور اولیاء کی روحوں کو ان کے مقامات سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال و زیارت کے لیے بھیجا.پھر جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرش الہی کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ عرش الہی بہت بڑا اور اونچا ہے اور اس پر سیڑھی کے بغیر چڑھنا مشکل ہے.پس آپ کو سیڑھی کی کی ضرورت پیش آئی تو یکدم اللہ تعالیٰ نے میری (غوث الاعظم کی ) روح کو بھیج دیا.چنانچہ میں نے اپنا کندھا سیڑھی کی جگہ کر دیا پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے کندھے پر پاؤں رکھنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے میرے بارے میں دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آپ کا بیٹا ہے اور اس کا نام عبد القادر ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرش الہی تک حضرت غوث الاعظم کی مدد سے پہنچ سکے.حضرت غوث الاعظم فرماتے ہیں:.- وَمَا مِنْ نَبِي خَلَقَهُ اللهُ تَعَالَى وَلَا وَلِي إِلَّا وَقَدْ حَضَرَ مَجْلِسِئُ هَذَا الْأَحْيَاءُ بِابْدَانِهِمْ وَالْأَمْوَاتُ بِاَروَاحِهِمُ ) کتاب مناقب تاج الاولیاء مذکور صفحہ ۴۷ مصری ) کوئی ایک نبی یا ولی ایسا نہیں جو میری اس مجلس میں حاضر نہ آیا ہو ان میں سے جو زندہ ہیں وہ اپنے جسموں سمیتیہاں آئے اور جو فوت ہو چکے ہیں ان کی روحیں حاضر ہوئیں.نوٹ:.اگر حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ تھے تو یقیناً وہ بھی آسمان پر سے اترے کر حضرت غوث الاعظم کی مجلس میں حاضر ہوئے ہوں گے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کم از کم ایک مرتبہ تو آسمان سے نزول فرما چکے ہیں.اب دوبارہ آسمان پر چڑھنے کے لئے کس نص کی ضرورت ہے.اس حاضری سے آنحضرت بھی مستی نہیں ہیں.۵.حضرت غوث الاعظم فرماتے ہیں.هَذَا وُجُودُ جَدِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وُجُودَ عَبْدَ الْقَادِرِ “ (کتاب المناقب تاج الاولیاء مصری صفحه ۳۵ گلدسته کرامات صفحه ۸) کہ یہ میرا اپنا عبدالقادر کا وجود نہیں بلکہ میرے نانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.٢ - " هُوَ مُتَصَرِّفٌ فِي التَّكْوِينِ بالاذن الْمُطْلَقِ (مناقب تاج الاولیاء مصری صفحه ۳۰) یعنی حضرت غوث الاعظم کو كُنْ فَيَكُون“ کا تصرف حاصل ہے.لَهُ الأخلاقُ الْمُحَمَّدِيَّةُ وَالْحُسْنُ الْيُوسُفِيِّ.وَالصِّدْقُ الصِّدِيقِيُّ وَالْعَدْلُ الْعُمَرِيُّ وَالْحِلْمُ الْعُثْمَانِيُّ وَالْعِلْمُ وَالشُّجَاعَةُ وَالْقُوَّةُ الْحَيْدَرِيَّةُ (مناقب تاج الاولياء
415 مصری صفحه ۱۳) یعنی حضرت غوث الاعظم میں اخلاق محمدی، حسنِ یوسفی ، صدق صدیقی ، عدل عمر، حلم عثمان اور حضرت علی کا علم ،شجاعت اور قوت تھی.-- هُوَ فِي مَقَامِ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى (کتاب مناقب تاج الاولیاء صفحه ۲۸ مطبوعہ مصر) یعنی حضرت غوث الاعظم مقام دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنی میں ہیں.۹.حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں:.لوگ جانتے ہیں کہ میں ان جیسا ایک شخص ہوں اگر عالم غیب میں میری صفت دیکھیں تو ہلاک ہو جائیں اور فرماتے ہیں: ”میری مثال اس دریا کی طرح ہے جس کہ نہ گہراؤ معلوم ہے نہ اوّل و آخر ، ایک نے پوچھا کہ عرش کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں ”پوچھا کرسی کیا ہے؟ فرمایا ”میں ہوں“ پوچھا خدا کیا ہے؟ فرمایا ”میں“ کہا خدا عزوجل کے برگزیدہ بندے ابراہیم و موسی وعیسی محمد علیہم الصلوۃ والسلام فرمایا ”سب میں ہوں“ کہا کہتے ہیں کہ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں جبرئیل، میکائیل، اسرافیل عزرائیل علیہم السلام فرمایا ! وہ سب میں ہوں.“ (ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرة الاولیاء چودھواں باب صفحه ۵۵،۱۵۴ او تذکرۃ الاولیاء اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز مطبع علمی پر ملنگ پر لیس با رسوم صفحه ۱۲۸) ب:.ابو یزید سے لوگوں نے کہا کہ فروائے قیامت میں خلائق لوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے ہوں گے کہا قسم خدا کی میرا لواء (جھنڈا ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لواء سے زیادہ ہے کہ خلائق اور پیغمبر میرے لواء کے نیچے ہوں گے.مجھ جیسا نہ آسمان میں پائیں گے اور نہ زمین میں.(ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء مطبع اسلامیہ لا ہور با رسوم صفحہ ۱۵۹ چودھواں باب ) نوٹ : یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بایزید بسطامی مجذوب تھے.کیونکہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بایزید بسطامی کے بارے میں لکھا ہے کہ بقول حضرت جنید بغدادی آپ کے مقام اولیاء امت میں ایسا ہے جیسے جبرئیل کا مقام دوسرے فرشتوں میں.(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۲۲ شائع کردہ شیخ الہی بخش محمد جلال الدین ۱۳۲۲ھ مطبع عزیزی لاہور ) مستلزم کفر یا مدار نجات کی آمد ! غیر احمدی:.ایسا وجود جس کا انکار مستلزم کفر یا مدار نجات ہوا گر آ جائے تو امت محمدیہ میں تفرقہ پڑ جائے گا اس لئے ممتنع ہے.
416 جواب نمبر :.یہ ایک بلا دلیل مفروضہ ہے.یہ کہاں لکھا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کسی کو بھی عذاب نہیں دے گا یا اس امت میں تفرقہ نہیں پڑے گا.حدیث میں تو یہ لکھا ہے إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِى النَّارِ إِلَّا مِلَّةَ وَاحِدَةٌ ( مشکوۃ اصبح المطالع باب الاعتصام بالكتاب والسنة صفحه ۳۰ مطبع احمدی ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود کے بہتر فرقے ہوئے تھے لیکن میری امت کے ۷۳ فرقے ہو جائیں گے ان میں سے ۷۲ دوزخی ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے.پس تفرقہ بھی موجود ہے اور اکثریت کا فی النار ہونا بھی مسلم ہے.پھر یہ احتیاط کس لئے ہے؟ نمبر ۲.مسیح موعود اور امام مہدی کی آمد کا عقیدہ ایک اجماعی عقیدہ ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ ان کا انکار کفر ہے ملاحظہ ہو:.الف.جو کوئی تکذیب مہدی کی کرے گاوہ کافر ہو جائے گا.رَوَاهُ أَبُو بَكْرِ الْإِسْكَافُ فِي فَوَائِدِ الْأَخْبَارِ وَ ابُو الْقَاسِمِ السُّهَيْلِيُّ فِي شَرْحِ السِّيَرِ لَهُ“ ( اقتراب الساعه از نواب نورالحسن صاحب صفحہ ۱۰۰ مطبع مفید عام الكامنة فی آگره ۱۳۰۱ھ ) ب.وابو بکر بن ابی خیثمہ اسکاف چنانکہ سہیلی از وے نقل کرده در یں باب تو غل نموده در فوائد الاخبار بسند خود از مالک بن انس از محمد بن منکد راز جابر آورده که گفت رسول خدا صلعم مَنْ كَذَّبَ بِالْمَهْدِى فَقَدْ كَفَرَ ( حج الكرامه از نواب صدیق حسن خان صفحه ۳۵۱ مطبع شاہجہانی واقع بلدہ بھو پال ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مہدی کی تکذیب کرنے والا کافر ہوگا.ج.حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.وَمَنْ قَالَ بِسَلْبِ نُبُوَّتِهِ كَفَرَ حَقًّا كَمَا صَرَّحَ بِهِ السُّيُوطِئُ فَإِنَّهُ النَّبِيُّ لَا يَذْهَبُ عَنْهُ وَصْفُ النُّبُوَّةِ فِي حَيَاتِهِ وَلَا بَعْدَ مَوْتِه و عیسی را بعد نزول وحی الہی آید چنانکه در حدیث نواس بن سمعان نزد مسلم وغیرہ آمد و يَقْتُلُ عِيسَى الدَّجَّالَ عِنْدَ بَابِ لُدٍ الشَّرَقِيَّ فَبَيْنَمَاهُمْ كَذَالِكَ وَإِذْ أَوْحَى اللَّهُ تَعَالَى إِلَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِنِّي قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَادًا مِّنْ عِبَادِى لَا يَدَانِ لَكَ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزُ عِبَادِى إِلَى الطُّورِ الْحَدِيثِ - وظاہر آنست که آرنده وی بسوئے او جبرئیل علیہ السلام باشد بلکہ ہمین یقین داریم و درال تر درنمی کنیم چه جبرئیل سفیر خدا است در میان انبیاء علیہم السلام وفرشتہ دیگر برائے این کار معروف نیست - (نج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صفحه ۴۳۱ مطبع شاہجہانی واقع بلدہ بھوپال)
417 ۳.یہ تو خیر امام مہدی یا مسیح موعود کا ذکر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی بعض ہستیاں ایسی ہیں جن پر ایمان لانا مدار نجات ہے ملاحظہ ہو:.(الف) قرآن مجید : - أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: ٢٠) (ب) مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِى مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ (مستدرک امام حاکم بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی جلد ۲ صفحه ۱۵۴ مطبوعہ مصر باب الميم ) یعنی میرے اہل بیت کی مثال نوح کی کشتی کی ہے جو کوئی اس پر سوار ہو گا نجات پائے گا اور جو پیچھے رہے گا وہ غرق ہوگا.( یہ حدیث ہے) اس حدیث میں اہل بیت نبوی پر ایمان لانے کو مدار نجات ٹھہرایا گیا ہے.( ج ) حدیث میں ہے حُبُّ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنَ الْإِيْمَانِ وَ بُغْضُهُمَا نِفَاقِ وُحُبُّ الْأَنْصَارِ مِنَ الْإِيْمَانِ وَ بُغْضُهُمْ كُفْرٌ ( ابن عساكر بحوالہ جامع الصغير للسيوطى حرف الحاء صفحہ ۱۴۶ جلد ) یعنی ابوبکر و عمر کی محبت ایمان میں سے ہے اور ان سے بغض نفاق (کفر) ہے انصار کی محبت ایمان اور ان سے بغض کفر ہے.(د) " مَنْ سَب اَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ “ (طبرانی بحوالہ جامع الصغیر جلد ۲ صفحہ ۱۷۲) یعنی جو کوئی میرے اصحاب کو گالی دے گا اس پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور جملہ انسانوں کی لعنت ( ه ) اللہ تعالیٰ نے حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی کو الہام کیا.مَقْبُولُكَ مَقْبُولِی وَ مَرْدُودُكَ مَرْدُودِی ( کتاب مناقب تاج الاولیاء مصری صفحه ۲۲۲۱) که تیرا مقبول میرا مقبول اور تیرا مردود میرا مردود ہے.(و) وَمَنْ يَنْحَرِف عَنْ طَاعَتِهِ يَقَعُ مِنْ ذُرِّوَةِ الْقُرْبِ إِلَى أَسْفَلِ الْبُعْدِ وَالْحِرْمَانِ (مناقب تاج الاولیاء مصری صفحہ ۱۳) یعنی جس نے حضرت غوث الاعظم کی فرمانبرداری سے انحراف کیا وہ قریب کی بلندیوں سے گر کر اسفل السافلین میں جا گرا.( ز ) حضرت غوث الاعظم کا منکر کا فر ہے.( مناقب تاج الاولیاء مصری صفحہ ۱۳) (ح) شیخین یعنی ابو بکر اور عمر کو برا کہنے سے کافر ہوتا ہے.“ (مَا لَا بُدَّ مِنْهُ ( اردو ) شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز مصنفہ مولوی ثناء اللہ صاحب پانی پتی صفحه ۸۸) (ط) شیعوں کا عقیدہ ہے کہ بارہ اماموں پر ایمان لا نامدار نجات ہے.ملاحظہ ہو حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.نَحْنُ قَوْمٌ اَمَرَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِطَاعَتِنَا وَ نَهَى عَنْ مَعْصِيَتِنَا نَحْنُ الْحُجَّةُ
418 الْبَالِغَةُ عَلَى مَنْ دُونَ السَّمَاءِ وَفَوْقَ الْأَرْضِ “ ( كافي كتاب الحجة از حضرت جعفر صادق باب ۵۳ ) کہ ہم ( ائمہ) ایک ایسی معصوم جماعت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو ہماری فرمانبرداری کرنے اور ہماری نافرمانی نہ کرنے کا حکم دیا ہے.ہم حجت بالغہ ہیں ان پر جو آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہیں.(۴) حدیث مجددین میں ہے کہ "إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا “ (ابوداود کتاب الملاحم باب مَا يُذْكَرُ فِي قَرْنِ الْمِائَةِ - نيز مشکوة كتاب العلم الفصل الثاني حديث نمبر ۵۰) اس کی تفصیل دیکھو دلائل صداقت مسیح موعوڈ پندرہویں دلیل ) ۵.حدیث میں ہے.مَنْ لَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ.رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ فِي مَسْنَدِهِ وَ أَبُو نَعِيمٍ فِى حُلْيَةٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ.(کنز العمال جلد ۳ صفحه ۲۲۰ کتاب القیامہ نمبر ۵۴-۳۸۸۵۳) نوٹ :.یہ حدیث اہلِ شیعہ کے ہاں بھی مسلم ہے.(ملاحظہ ہو کلینی صفحه ۹۶ صفحہ ۱۹۰) یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرے گا.“ ۶.امام مہدی کے بارہ میں ابو دائود کتاب الملاحم باب خروج دجال قبل يوم القيامة کی حدیث میں ہے کہ إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ، یعنی جب تم امام مہدی کا زمانہ پاؤ تو تمہیں چاہیے کہ اسے شناخت کرو اور ایک دوسری روایت میں ہے.فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْحَبُوا عَلَى التَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيْفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدی) یعنی جب تم امام مہدی کا زمانہ پاؤ تو اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف پر سے گھٹنوں کے بل ہی اس کے پاس جانا پڑے کیونکہ وہ خلیفہ اللہ ہے.۷.شیعوں کے بارے میں حضرت مجددالف ثانی اور حضرت غوث الاعظم جیلانی کے فتاویٰ کفر کی تفصیل ملاحظہ ہو مضمون بعنوان "حر به تکفیر ( آخری حصہ پاکٹ بک هذا)
419 صداقت حضرت مسیح موعود عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ خادم
420 ولائل صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی دلیل:.(حصہ اوّل) فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس: ۱۷) کہ میں نے تم میں دعویٰ نبوت سے قبل ایک لمبی عمر گزاری ہے.کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے.اگر میں پہلے جھوٹ بولتا تھا تو اب بھی بولتا ہوں لیکن اگر میری چالیس سالہ زندگی پاک اور بے عیب ہے تو یقیناً آج میرا دعویٰ الہام ونبوت بھی حق ہے.در جوانی تو به کردن شیوه پیغمبری است حضرت قطب الاولیاء ابو اسحق ابراہیم بن شہر یار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:."جو شخص جوانی میں اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگا وہ بڑھاپے میں بھی اللہ ہی کا تابعدار رہے گا.“ (تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار باب ۷۶ حالات ابو اسحق ابراہیم بن شہر یار مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لا ہور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ الدین سراج الدین صفحه ۴۲۷ ) حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صاحبانِ حق کے پیشرو اور امام ہوئے اور محبانِ خدا کے پیشوا.جب تک برہانِ حق اور رسالت نے ان پر ظہور نہ پایا اور وحی نازل نہ ہوتی تب تک نیک نام رہے اور جب دوستی کی خلعت نے سر مبارک پر زیب دیا تو خلقت نے ملامت سے ان پر زبان درازی کی بعض نے کا ہن کہہ دیا اور بعض نے شاعر اور بعض نے دیوانہ اور بعض نے جھوٹ کا الزام دیا.ایسی ہی اور گستاخی جائز رکھی.“ (کشف المحجوب باب چہارم "علامت کے بیان میں مترجم اردو شائع کردہ شیخ ابی بخش جلال دین لاہوری ۱۳۲۲، صفحه ۲۶،۶۵) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو اس سے قبل ابولہب اور دوسرے کا فر یہی کہتے تھے مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا ( بخاری کتاب التفسیر تفسير سورة الشعراء.و انذر عشیرتک الاقربین ) کہ ہم نے آپ سے سوائے سچ کے اور کبھی کچھ تجربہ نہیں کیا مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دعوی بیان فرمایا.فَإِنِّي نَذِيرٌ بَيْنَ يَدَى عَذَابٍ شَدِید کہ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا
421 ہوں اور یہ کہ ایک خطر ناک عذاب آنے والا ہے.تو انہی مصدقین نے انکار کیا اور ابولہب نے تو تبا لگ بھی کہہ دیا کہ آپ کو ہلاکت ہو.چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی لوگ جو پہلے مَا جَرَّبُنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا کہا کرتے تھے بعد از دعویٰ نبوت جھوٹا کہنے لگ گئے.قَالَ الْكَفِرُونَ هذا سحر كَذَّابٌ (ص:۵) که آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف جادوگر ہیں بلکہ نعوذ باللہ کذاب بھی ہیں.پس ثابت ہوا کہ نبی کی قبل از دعوئی زندگی دوست و دشمن کے تجربہ کے رو سے پاک ہوتی ہے.گو پاک تو اس کی دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی ہوتی ہے مگر چونکہ دعویٰ نبوت کی وجہ سے لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اس پر طرح طرح کے اعتراض دشمن بات کرے انہونی“ کے مطابق کیا کرتے ہیں.پس اگر کسی مدعی نبوت کی صداقت پر کنی ہو تو اس کی دعوی سے قبل کی زندگی پر نظر ڈالنی چاہیے.حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تائم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتر ایا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میںکوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے.“ ( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ی۶۴) اس چیلنج کو شائع ہوئے۵۲ سال گزر گئے مگر آج تک کسی شخص کو اس کے قبول کرنے کی جرات نہیں ہوئی.ہاں مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن کے زمانہ سے جانتا تھا.یہ شہادت دی.مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.(اشاعۃ السنتہ جلد نمبر ۱ از مولی محمد حسین بٹالوی) مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی روسے ( وَاللَّهُ حَسِيْبُهُ)
422 شریعت محمدیہ پر قائم و پر ہیز گار وصداقت شعار ہیں.“ ( اشاعۃ السنۃ جلدے نمبر ۹) اب ہم اس ( براہین احمدیہ) پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں.ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور اس کا مؤلف ( حضرت مسیح موعود ) بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکالا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.“ (اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۶) اعتراض:.مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ حیات مسیح کا عقیدہ مشرکانہ عقیدہ ہے اور خود بارہ سال حیات مسیح کے قائل رہے.جواب (۱) حد ہمیشہ اتمام حجت کے بعد لگتی ہے جب تک نبی ایک بات کو ممنوع قرار نہیں دے دیتا اس وقت تک اس کی خلاف ورزی کرنے والا کسی فتویٰ کے ماتحت نہیں آتا.چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ وَ أَبِيهِ إِنْ صَدَقَ (مسلم کتاب الايمان باب بيان الصلوات التي هي احد اركان الاسلام ) کہ اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ کامیاب ہو گیا.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”باپ کی قسم واہیہ کے الفاظ میں کھائی ہے مگر دوسری جگہ فرمایا :- (۲) مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللهِ فَقَدْ اَشُرَكَ (ترمذی ابواب الايمان والنذور باب ما جاء في عن من حلف بغير الله ومشكوة كتاب الايمان والنذور باب الايمان والنذور) جوخدا کے سوا کسی کی قسم کھائے وہ مشرک ہو جاتا ہے.چنانچہ مشکوۃ مجتبائی کتاب الاطعمه باب اكل المضطر صفحہ ۳۷۰ میں ابو داؤد کی یہ روایت درج ہے: قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكَ وَ اَبِي الجُوعُ“ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے باپ کی قسم یہ بھوک ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے باپ کی قسم کھائی ہے اور اس کے متعلق حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں: "و قوله و ابي الجوع قِيلَ لَعَلَّ هذَا الْحَلْفَ قَبْلَ النَّهْي عَنِ الْقَسْمِ بِالْآبَاءِ (مرقاة برحاشیہ مشکوۃ مجتبائی صفحه ۳۷۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ” میرے باپ کی قسم کہا گیا ہے کہ شاید باپوں کی قسم کی ممانعت سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تم اٹھائی ہے یا عادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکل گئی ہے.
423 (۳) فَقَدْ لَبِثْتُ والی آیت میں تو چالیس سالہ قبل از دعوی زندگی میں جھوٹ اور فسق و فجور سے پاکیزگی کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے.ورنہ عقائد تو انبیاء کوخدا تعالیٰ کی وحی ہی آکر مکمل طور پر بتاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے چیلنج میں فرمایا :.تم کوئی عیب ، افترا یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا.“ (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا.مَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذِبَ (بخارى كتاب التفسير تفسير سورة النساء باب قوله إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا الخ) کہ جو کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے پھر فرمایا لَا تُفَضِلُونِى عَلَى مُوسى “ ( صحیح بخاری کتاب الانبیاء کتاب خصومات باب مايذكر في الاشخاص ) کہ مجھ کو موسی سے افضل نہ کہو.مگر بعد میں فرمایا.آنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ لَا فَخَرَ“ کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ بطور فخر نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے.پھر فرمایا ”آنَا اِمَامُ النَّبِيِّينَ وَأَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِینَ“ کہ میں تمام نبیوں کا امام اور رہبر ہوں.نیز دیکھو مسلم جلد۲ صفحہ ۳۰۷ جہاں لکھا ہے کہ کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا.يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ! تو آپ نے فرمایا.ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ کہ میں تمام انسانوں سے افضل نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سب انسانوں سے افضل ہیں.(۵) آج اگر کوئی مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تو اس پر یہودی اور کافر ہونے کا فتوی لگ جائے مگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد ۱۴ سال اور ے مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے.(بخاری کتاب الصلواة باب التوجه نحو القبله) كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے.سولہ یا سترہ مہینے (ہجرت کے بعد ) اس تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو خدا تعالیٰ نے سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ کہ کر بیوقوف قرار دیا ہے.نوٹ : بعض مخالف مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض اس قسم کی عبارات پیش کر دیا
424 کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں دعویٰ سے قبل گمنام تھا.مجھے کوئی نہ جانتا تھا وغیرہ وغیرہ اور ان عبارات سے یہ دھوکا دیتے ہیں کہ جب آپ کو ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا پھر آپ کی پہلی زندگی پر اعتراض کون کرے؟ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرنی چاہیے:.اور میں اپنے باپ کی موت کے بعد محروموں کی طرح ہو گیا.اور میرے پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ بجز چند گاؤں کے لوگوں کے اور کوئی مجھ کو نہیں جانتا تھا.یا کچھ اردگرد کے دیہات کے لوگ تھے کہ روشناس تھے اور میری یہ حالت تھی کہ اگر میں کبھی سفر سے اپنے گاؤں میں آتا تو کوئی مجھے نہ پوچھتا کہ تو کہاں سے آیا ہے اور اگر میں کسی مکان میں اتر تا تو کوئی سوال نہ کرتا کہ تو کہاں اترا ہے اور میں اس گمنامی اور اس حال کو بہت اچھا جانتا تھا اور شہرت اور عزت اور اقبال سے پر ہیز کرتا تھا.پھر میرے رب نے مجھے عزت اور برگزیدگی کے گھر کی طرف کھینچا اور مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ مجھے مسیح موعود بنائے گا اور اپنے عہد مجھ میں پورے کرے گا اور میں اس بات کو دوست رکھتا تھا کہ گمنامی کے گوشہ میں چھوڑا جاؤں ریویوار دو فروری ۱۹۰۳ء جلد ۲ نمبر ۲ صفحه ۵۸،۵۷) ۲.اگر معترض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل از دعوئی زندگی کو نہیں جانتا تو مولوی محمد حسین بٹالوی تو جانتا تھا جس نے لکھا کہ:.مؤلف براہین احمدیہ کے حالات اور خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین میں سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھا کرتے تھے ) ہمارے ہم مکتب بھی (اشاعۃ السنہ جلدے نمبر ۶).پھر اسی طرح مولوی سراج الدین صاحب ( جو مولوی ظفر علی صاحب آف ”زمیندار“ کے والد تھے ) نے شہادت دی کہ:.مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء وا۱۸۶ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ۲۳۰ سال کی ہوگی.ہم چشم دید شہادت سے کہتی ہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.“ زمیندار ۸/ جون ۱۹۰۸ء) ۴.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل آریوں کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کی قبل از دعوئی زندگی کونہیں جانتے اس پر اعتراض کیا کریں؟
425 تو اس کا بھی یہی جواب ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو ابو جہل اور ابولہب تو جانتے تھے.ہم جب ان کی گواہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بے عیب اور پاک ہونا ثابت کر سکتے ہیں تو صداقت واضح ہے.بعینہ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت آپ کی قبل از دعوئی زندگی کو دیکھنے والوں کی شہادت سے ثابت ہوتی ہے.نوٹ :.بعض مولوی جب کوئی جواب نہیں دے سکتے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل از دعوئی زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ قبل از دعوئی زندگی کا پاک ہونا دلیل صداقت نہیں کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا.شاید در پردہ کوئی اور اعمال ہوں.الجواب:.(۱) یا درکھنا چاہیے کہ یہ محض دھوکہ ہے اور اس کا ازالہ خود آیت فَقَدْ لَبِثْتُ فيكُمُ عُمُرًا (یونس (۱۷) میں موجود ہے یعنی یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص در حقیقت پاک نہ ہو بلکہ در پردہ کوئی اور اعمال ہوں اور کچھ عرصہ تک وہ لوگوں کی نظر میں پاک باز بنا رہے.جیسا کہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت ہو اور درحقیقت اس کی زندگی ناپاک ہو اور وہ ایک لمبے عرصہ تک جو چالیس برس تک ممتد ہو پاک باز بنار ہے.چنانچہ قرآن مجید کی آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ " فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ “ کہ میں تم میں رہا ہوں بلکہ فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرا یعنی میں تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں.پس لمبے عرصہ ( محمرًا ) تک اس کا پاک باز ہونا یقینا حقیقی راست بازی کی دلیل ہے.(۲) ہم نے یہ نہیں کہا کہ محض عمدہ چال چلن حقیقی پاکیزگی پر گواہ ہے اور نہ ہم نے یہ کہا کہ ظاہری راست بازی کے لئے صرف یہ دعوی کافی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ ہماری بحث تو ایک مدعی الہام کی قبل از دعوی زندگی کی پاکیزگی کے متعلق ہے.ہم نے یہ دلیل نہیں دی کہ جس شخص کو عام لوگ راست باز کہیں وہ ضرور حقیقی طور پر سچا ہوتا ہے.بلکہ ہم نے تو یہ کہا ہے کہ مدعی نبوت کی دعویٰ سے پہلی زندگی پر دشمن سے دشمن کو بھی کوئی صحیح اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملتا.چنانچہ یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے کہ آپ کے مخالفین کو بھی حضور کے دعوی سے پہلی زندگی پر اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوئی.پس سوال عام راستباز کا نہیں بلکہ مدعی وحی و الہام کی قبل از دعویٰ پاکیزہ زندگی کا ہے.
426.حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقی راستباز کے متعلق وہ عبارت تحریر نہیں فرمائی بلکہ ”ظاہری راستباز“ کے متعلق تحریر فرمائی ہے جیسا کہ اس کا پہلا ہی جملہ یہ ہے.ایک ظاہری راستباز کے لئے “ (۴) اگر بغرض بحث اس عبارت کو مدعی نبوت کے متعلق بھی تسلیم کر لیا جائے تو حضور نے تحریر فرمایا ہے کہ محض دعویٰ پاکیزگی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کوئی امتیازی نشان بھی ہونا چاہیے سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کے ثبوت میں ہم محض حضرت اقدس کا دعویٰ ہی پیش نہیں کرتے بلکہ آپ کے اشد ترین دشمنوں کی شہادت کے علاوہ آسمانی نشان بھی حضور کے اس دعوی کی تائید میں پیش کرتے ہیں.مثلاً پاکیزہ زندگی بسر کرنے میں تو خود انسان کا بھی دخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی زندگی کے بڑھانے یا گھٹانے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا.پس لو تَقَوَّلَ “ والے معیار کے مطابق (جس کو ہم نے دوسری دلیل کے ضمن میں تفصیل سے بیان کیا ہے ) حضرت اقدس علیہ السلام کا بعد از دعوی وحی والہام ۲۳ برس سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہنا ایک یقیناً امتیازی نشان ہے نیز اس کے علاوہ وہ لاکھوں نشانات بھی جو حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہماری تائید میں ہیں.پس حضرت اقدس کے نزدیک حضور کی قبل از دعوئی زندگی کا پاکیزہ ہونا یقینا دلیل صداقت ہے.چنانچہ حضور خود تحریر فرماتے ہیں:.یہ پاک زندگی جو ہم کو ملی ہے یہ صرف ہمارے منہ کی لاف و گزاف نہیں اس پر آسمانی گواہیاں ہیں.“ پس (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۴۲) صوفیا ءاب بیچ ہے تیری طرح تیری تراہ آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار دوسری دلیل :.(مسیح الموعود ) وَلَوْ تَقَوْلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ فَمَا مِنكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِيْنَ (الحاقه: ۴۵ (۴۷) کہ اگر یہ کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتا ( اور کہتا کہ یہ الہام مجھے خدا کی طرف سے ہوا ہے ) تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی
427 شاہ رگ کاٹ دیتے.گویا اگر کوئی شخص جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو صداقت کی کسوٹی ہیں.آپ ۲۳ سال دعوئی وحی والہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی جھوٹا مدعی الہام ووحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا.جتنا عرصہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رہے.ا.قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کے ماتحت بدلیل استقراء ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی جھوٹے مدعی نبوت والہام کو دعوی کے بعد ۲۳ سال کی مہلت نہیں ملی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین میں ۵۰۰ رو پید انعام کا وعدہ بھی کیا ہے مگر آج تک کسی کو جرات نہیں ہوئی.توریت میں بھی یہی لکھا ہے کہ ”جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا‘ ( دیکھو مضمون صداقت حضرت مسیح موعود از روئے پائیل) ۲ - شرح عقائد نسفی میں بھی (جواہل سنت و الجماعت کی معتبر کتابوں میں سے ہے ) لکھا ہے:.فَإِنَّ الْعَقْلَ يَجْزِمُ بِاِمْتِنَاعِ إِجْتِمَاعِ هَذِهِ الْأُمُورِ فِي غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْكَمَالَاتِ فِى حَقِّ مَنْ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَفْتَرِى عَلَيْهِ ثُمَّ يُمْهِلُهُ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً ( شرح عقائد نسفی بالنبراس از علامہ عبد العزیز پر ہاروی مطبوعہ میرٹھ محث النبوات صفحہ ۱۰۰) کہ عقل اس بات کو نا ممکن قرار دیتی ہے کہ یہ باتیں ایک غیر نبی میں جمع ہو جائیں.اس شخص کے حق میں جس کے متعلق خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ خدا پر افتراء کرتا ہے پھر اس کو ۲۳ سال کی مہلت دے.- پھر شرح عقائد نسفی کی شرح نبراس میں لکھا ہے:.فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ بُعِثَ وَعُمُرُهُ أَرْبَعُونَ سَنَةٌ وَتُوُفِّى وَ عُمُرُهُ ثَلَاثَةَ وَ سِتُّوْنَ سَنَةً ( شرح عقائد نسفی شرح نبراس از علامہ عبد العزیز پر ہاروی مطبوعہ میرٹھ صفحه ۴۴۴ ۲۳ سال کی میعاد ہم نے اس لیے بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چالیس کی عمر میں نبی ہوئے اور ۶۳ سال کی عمر میں حضور نے وفات پائی.۴.نبراس میں علامہ عبدالعزیز پر ہاروی فرماتے ہیں:." وَقَدْ اِدَّعَى بَعْضُ الْكَذَّبِينَ النُّبُوَّةَ كَمُسَيْلَمَةِ الْيَمَامِي وَالْاَسْوَدِ الْعَنْسِى وَ سَجَّاحِ الْكَاهِنَةِ فَقُتِلَ بَعْضُهُمْ وَتَابَ بَعْضُهُمْ وَبِالْجُمْلَةِ لَمْ يَنتَظِمُ أَمُرُ الْكَاذِبِ فِي النُّبُوَّةِ
428 إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ.“ ( شرح عقائد نسفی شرح نبراس از علامہ عبدالعزیز پر ہاروی نبر اس صفحہ۴۴۴ مطبوعہ میرٹھ) کہ بعض جھوٹوں نے نبوت کا دعویٰ کیا.جیسا کہ مسیلمہ یمامی، اسود عنسی وغیرہ نے.پس ان میں سے بعض قتل ہو گئے اور باقیوں نے توبہ کر لی اور نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت کا کام چند دن سے زیادہ نہیں چلتا.۵.امام ابن قیم ایک عیسائی سے مناظرہ کے دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں:.وَهُوَ مُسْتَمِرٌّ فِي الْاِفْتِرَاءِ عَلَيْهِ ثَلَاثَةً وَ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ مَعَ ذَالِكَ يُؤَيِّدُهُ (زادالمعاد جلد اصفحه ۵۰۰ زیر آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضُ الْأَقاويل الى سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴ تا ۴۹ ) کہ یہ کس S.....طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مدعی خدا پر ۲۳ سال سے افتراء کرتا ہے اور پھر بھی خدا اس کو ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کی تائید کرتا ہے.وہ پھر کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا.۶.پھر فرماتے ہیں:.نَحْنُ لَا تُنْكِرُ أَنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْكَذِبِينَ قَامَ فِي الْوُجُودِ وَ ظَهَرَتْ لَهُ شَوْكَتُهُ وَلَكِنْ لَّمْ يَتِمُ لَهُ آمُرُهُ وَلَمْ تَطْلُ مُدَّتُهُ بَلْ سَلَّطَ عَلَيْهِ رُسُلَهُ....فَمَحَقُوا أَثَرَهُ وَقَطَعُوا دَابِرَهُ وَاسْتَأَصَلُوا شَافَتَهُ هَذِهِ سُنَّتْهُ فِى عِبَادِهِ مُنْذُ قَامَتِ الدُّنْيَا وَإِلَى أَنْ يَّرِثَ الْأَرْضُ وَمَنْ عَلَيْهَا - (زاد المعاد جلد اصفحه ۵۰۰ زیر آیت وَلَوْ تَقَوْلَ عَلَيْنَا بَعْنَى الْأَقاويل....الخ سورة الحاقة آیت نمبر ۴۴ تا ۴۹) کہ ہم اس امر کا انکار نہیں کرتے کہ بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوئے اور ان کی شان و شوکت بھی ظاہر ہوئی مگر ان کا مقصد کبھی پورا نہ ہوا اور نہ ان کولمبا عرصہ مہلت ملی بلکہ خدا نے اپنے فرشتے ان پر مسلط کر دیئے جنہوں نے ان کے آثار مٹادیئے اور ان کی جڑیں اکھاڑ دیں اور بنیا دوں کو اکھاڑ پھینکا.یہی خدا کی اپنے بندوں میں جب سے دنیا بنی اور جب تک دنیا موجودر ہے گی سنت ہے.مفسرین : علامہ فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:.هذَا ذِكُرُهُ عَلَى سَبِيلِ التَّمْثِيلِ بِمَا يَفْعَلُهُ الْمُلُوكُ بِمَنْ يَتَكَذَّبُ عَلَيْهِمْ فَإِنَّهُمْ لَا S.......يُمْهِلُونَهُ بَلْ يَضْرِبُونَ رَقَبَتَهُ فِی الْحَالِ ( جلد ۸ صفح ۲۹۱ زیر آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ...الخ سورة الحاقة آیت نمبر ۴۴ تا ۴۹)
429 کہ یہ جوفرمایا کہ اگر یہ جھوٹا الہام بنا تا تو ہم اس کی رگ جان کاٹ دیتے یہ بطور مثال ذکر کیا ہے جس طرح بادشاہ اس شخص کو جو جھوٹ موٹ اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرے مہلت نہیں دیتے..پھر فرماتے ہیں : - هذَا هُوَ الْوَاجِبُ فِي حِكْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى لِئَلَّا يَشْتَبِهَ الصَّادِقُ بالكاذب ( تفسیر کبیر جلد ۸ صفحه ۲۹ زرآيت وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيل..الخ سورة الحاقة آیت نمبر ۴ تا ۴۹ ) کہ خدا کی حکمت کے لئے یہی ضروری ہے ( کہ جھوٹے کو جلدی برباد کر دیا جائے ) تا کہ صادق کے ساتھ کا ذب بھی نہ مل جائے.(مشتبہ نہ ہو جائے ) S.......۹.امام جعفر طبری تفسیر ابن جریر زیر آیت وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيل....الخ سورة الحاقة آیت نمبر ۴۴ تا ۴۹ میں لکھتے ہیں:.إِنَّهُ كَانَ يُعَاجِلُهُ بِالْعُقُوبَةِ وَلَا يُؤَخِّرُهُ بِهَا.“ 66 کہ خدا تعالیٰ جھوٹے مدعی نبوت والہام کو فوراً سزا دیتا ہے اور قطعا تا خیر نہیں کرتا.-۱۰ مولوی ثناء اللہ : الف نظام عالم میں جہاں اور قوانین الہی ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کو سرسبزی نہیں ہوتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.(مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ۱۷) ب.واقعات گذشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سرسبزی نہیں دکھائی.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہیں بتلا سکتے.مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے دعویٰ نبوت کئے اور خدا پر کیسے کیسے جھوٹ باندھے لیکن آخر کا رخدا کے زبر دست قانون کے نیچے آکر کچلے گئے...تھوڑے دنوں میں بہت کچھ ترقی کر چکے تھے.مگرتا ہکے.“ ( مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ۱۷) ج.دعویٰ نبوت کا ذبہ مثل زہر کے ہے.جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہوگا.( ایضا حاشیہ صفحہ ۱۷) ۱۱- تفسیر روح البیان جلد ۴ صفحه ۴۶۲ زیر آیت وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأقاويل.....الخ سورة الحاقة آیت نمبر ۴۴ تا ۴۸ پر ہے:.فِي الْآيَةِ تَنْبِيَّة أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَوْ قَالَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ شَيْئًا أَوْ زَادَ أَوْ نَقَصَ حَرْفًا وَاحِدًا عَلَى مَا أُوحِيَ إِلَيْهِ لَعَاقَبَهُ اللَّهُ وَهُوَ أَكْرَمُ النَّاسِ عَلَيْهِ فَمَا ظَنُّكَ بِغَيْرِهِ کہ اس آیت میں تنبیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس سے کوئی الہام بنا لیتے یا
430 جو وحی خدا کی طرف سے نازل ہوئی اس میں ایک حرف بھی بڑھاتے یا کم کر دیتے تو خدا تعالیٰ آپ کو سزا دیتا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی نظر میں سب دنیا سے معزز ہیں.پھر اگر کوئی دوسرا (اس طرح پر ) افتراء کرے تو اس کا کیا حال ہو؟ ۱۲.یہی مضمون تفسیر کشاف زیر آیت وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأقاويل..الخ سورة الحاقة آيت نمبر ۴۴ تا ۴۸ و ابن کثیر جلد ۱۰ صفحه اے بر حاشیہ فتح البیان و فتح البیان جلد ۱ صفحه ۲۷ و جلالین مجتبائی صفحه ۴۷۰ زیر آیت وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأقاويل...الخ سورة الحاقة آیت نمبر ۴۴ تا ۴۹ و شہاب علی البیضاوی جلد ۸ صفحه ۲۴۱ زیر آیت S......S.......وَلَوْ تَقَولُ عَلَيْنَا بَعْلى الأقاويل....الخ سورة الحاقة آيت نمبر ۴۴ تا ۴۹ و السراج المنير مصنفہ علامہ الخطيب البغدادی جلد ۲ صفحہ ۶۳۶ پر بھی ہے.نوٹ نمبر :.بعض غیر احمدی مولوی ہمارے استدلال سے تنگ آ کر کہا کرتے ہیں ” لو“ حرف شرط جب کسی جملہ میں مستعمل ہو تو اس کی جزا فوراً اسی وقت محقق ہو جایا کرتی ہے پس " لو تَقَوَّل والی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ نبی کوئی جھوٹا الہام بنا تا تو فوراً اسی وقت قتل کر دیا جاتا تو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ یہ قاعدہ ” کو “ کے متعلق بالکل من گھڑت ہے.کسی کتاب میں مذکور نہیں نیز قرآن مجید میں ہے.لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْقَدَ كَلِمَتُ رَبِّي (الکھف:۱۱۰) کہ اگر تمام سمندر خدا تعالیٰ کے کلمات کو لکھنے کے لئے سیا ہی بن جائیں تو وہ سمند ر ختم ہو جائیں مگر خدا کے کلمات ختم نہ ہوں گے.کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سمندر لکھنا شروع کرنے کے ساتھ ہی یکدم ختم ہو جاتے یا یہ کہ باری باری کر کے آہستہ آہستہ سب ختم ہو جاتے.جوں جوں خدا کے کلمات احاطہ تحریر میں لائے جاتے توں توں سیاہی بھی ختم ہو جاتی.نوٹ نمبر ۲:.بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ حضرت یحیی علیہ السلام شہید کئے گئے تھے.ان کو ۲۳ برس کی مہلت بعد از دعوی نہ ملی تھی.جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے اور یہی جماعت احمدیہ کا مذہب ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی تو تحریر فرمایا ہے:.(1) عادت اللہ اِس طرح پر ہے کہ اول اپنے نبیوں اور مرسلوں کو اس قدر مہلت دیتا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصہ میں اُن کا نام پھیل جاتا ہے اور اُن کے دعوئی سے لوگ مطلع ہو جاتے ہیں اور پھر آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ لوگوں پر اتمام حجت کر دیتا ہے“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷)
431 پس یہ تو درست ہے کہ بیچی علیہ السلام شہید ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہاں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دعوی کے بعد ۲۳ برس گزرنے سے پہلے ہی شہید کئے گئے تھے ؟ پس جب تک کوئی صریح حوالہ حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب سے پیش نہ کرو اس وقت تک ۲۳ سالہ معیار کے جواب میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا نام نہ لو.(۲) اگر ایسا کوئی حوالہ ہو بھی (جس کا ہونا یقینا ناممکن ہے.مگر بغرض بحث ) تو بھی ہماری دلیل پر کوئی اثر نہیں.کیونکہ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ جھوٹا مدعی نبوت بعد از دعویٰ الہام و وحی ۲۳ برس کی مہلت نہیں پا سکتا اور اگر کوئی مدعی نبوت بعد از دعوئی الہام و وحی ۲۳ برس تک زندہ رہے تو یقینا وہ سچا ہے ہے لیکن اس کا عکس کلیہ نہیں.اس اعتراض کا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے خوب جواب دیا ہے." کا ذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.“ اس پر مولوی صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں :.اس سے یہ نہ کوئی سمجھے کہ جو نبی قتل ہوا وہ جھوٹا ہے بلکہ ان میں عموم وخصوص مطلق یعنی یہ ایسا مطلب ہے جیسا کوئی کہے کہ جو شخص زہر کھاتا ہے مر جاتا ہے.اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ہر مرنے والے نے زہر ہی کھائی ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو کوئی زہر کھائے گا وہ ضرور مرے گا اور اگر اس کے سوا بھی کوئی مرے تو ہوسکتا ہے گو اس نے زہر نہ کھائی ہو.یہی تمثیل ہے کہ دعویٰ نبوت کا ذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا اگر اس کے سوا بھی کوئی ہلاک ہو تو ممکن ہے.ہاں یہ نہ ہوگا کہ زہر کھانے والا بیچ رہے.“ سچ ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: واہ رے جوش جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار ایک وہم اور اس کا ازالہ (مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ۷ حاشیہ) بعض لوگ اس کے جواب میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى
432 اللهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ مَتَاع فِي الدُّنْيا (يونس : ۷۱،۷۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتری کو دنیا میں فائدہ ملتا ہے یعنی اس کو لمبی مہلت ملتی ہے.(تلخیص از محمدیہ پاکٹ بک صفحه ۳۰۴٬۳۰۳ طبع ۱۹۵۰ء ایڈیشن دوم ) جواب:.متاح في الدُّنیا سے مراد لمبی مہلت نہیں بلکہ تھوڑی مہلت ہے.چنانچہ خود تم نے اگلے ہی صفحے پر قرآن مجید کی ایک دوسری آیت اس مقصد کے لئے نقل کر کے خود ہی اس کا ترجمہ کر کے اسے واضح کر دیا ہے:.إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَاعٌ قَلِيْلَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ (النحل: ۱۱۸،۱۱۷) تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے.انہیں نفع تھوڑا ہے اور عذاب دردناک.“ غرضیکہ قرآن مجید نے مفتری کے لئے لمبی مہلت کہیں بھی تسلیم نہیں کی جو۲۳ سال تک دراز ہو جائے ہاں تھوڑی مہلت خواہ وہ ایک سال ہو یا دو یا پانچ سال یعنی ہماری بیان کردہ انتہائی مہلت سے کم ہو تو اس سے ہمیں انکار نہیں.اگر مفتری کو اتنی لمبی مہلت ملے جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آیت لَوْ تَقَوَّل“ کی دلیل باطل ہو جاتی ہے کیونکہ مخالف بآسانی کہہ سکے گا کہ فلاں مدعی نبوت بھی با وجود جھوٹا ہونے کے تَقَولَ “ کرتا رہا اور ۲۳ سال تک خدا تعالیٰ نے اس کی قطع و تین نہ کی.تو حضور کا ۲۳ 66 سال تک زندہ رہنا کس طرح سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور عدم تقول پر دلیل ہو سکتا ہے؟ یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ آیت خاص ہے یعنی اگر با وجود اتنی بڑی نعمت کے آپ جھوٹا الہام بناتے تو ہلاک کئے جاتے.یہ تو قابل قبول نہیں.کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کا کوئی نبی بھی ( خواہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزاروں حصہ کم انعام الہی ہوا ہو ) اور خواہ وہ کتنے ہی کم درجہ کا ہو.وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کر سکے.یعنی اپنے پاس سے الہام گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر سکے.چہ جائیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس کا امکان تسلیم کیا جائے.پس جب یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کا کوئی سچا نبی جھوٹا الہام بنائے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگر فلاں سچا نبی جھوٹا الہام بنائے تو ہم اسے ہلاک کر دیں اور پھر اس کو اس امر کی دلیل کے طور پر پیشکر لیا کہ یہ سچا ہے.اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ابتداء سے یہ قانون ہے کہ وہ جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والوں یا اپنے پاس سے جھوٹا الہام ووحی گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کرنے والوں کو ۲۳ سالسے کم عرصہ میں ہی تباہ و برباد کردیا کرتا ہے اور اس مسئلہ پر تورات، انجیل اور قرآن مجید متفق ہیں.
433 پس خدا تعالیٰ نے یہی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دی ہے کہ دیکھو جب ہمارا قانون جاری وساری ہے اور تم کو بھی مسلّم ہے کہ جھوٹا نبی تباہ و بر با دو ہلاک کیا جاتا ہے تو پھر اگر یہ نبی جھوٹا ہوتا اور الہام جھوٹا بنا کر میری طرف منسوب کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا.پس اس کا ۲۳ سال کی مہلت پانا اور اس عرصہ میں اس کا ہلاک نہ کیا جانا صریح طور پر اس کی صداقت کو ثابت کرتا ہے.باقی رہا سورۃ الانعام: ۹۴ کی آیت وَلَوْ تَرى إِذِ الظَّلِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الخ پیش کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ افتراء علی اللہ کرنے والوں کو اس جہان میں سزا نہیں ملے گی.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے.عربی میں لفظ ”موت“ میں ”قتل“ اور ” تو فی“ دونوں شامل ہوتے ہیں اور موت کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ مفتری قتل نہیں ہو سکتا یا اس کا قتل ہونا یا ہلاک ہونا ضروری نہیں.باطل ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ہماری تائید اور بھی واضح الفاظ میں فرما دی ہے.وَاِن كَادُوا لَيَفْتِتُوْنَكَ عَنِ الَّذِى أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفَتَرِى عَلَيْنَا غَيْرَةً إِذَا لَّا ذَقْتُكَ ضِعْفَ الْحَيُوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا (بنی اسرائیل: ۷۴ تا ۷۶ ) یعنی کا فر تجھے اس وحی سے جو ہم نے تجھ پر نازل کی برگشتہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ تو ہم پر افتراء کر کے کوئی اور وحی بنالے.اور اگر تو ایسا کرے تو وہ تجھ کو اپنا دوست بنالیں.اگر ہم نے تجھ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو تو ان کے داؤ میں آجاتا ، لیکن اس صورت میں ہم تجھے دنیا و آخرت میں دگنا عذاب چکھاتے اور کوئی شخص بھی تجھے ہم سے نہ بچا سکتا.(ترجمہ کا آخری حصہ تو مؤلف محمدیہ پاکٹ بک کو بھی مسلم ہے دیکھو صفحہ ۳۰۲ ایڈیشن دوم طبع ۱۹۵۰ء) دیکھو اس آیت میں بھی صاف الفاظ میں بتا دیا کہ اگر نبی اپنے پاس سے کوئی وحی بنا تا تو اسی دنیا میں عذاب الہی میں مبتلا کیا جاتا علاوہ اگلے جہان کے عذاب کے.یہ کہنا کہ یہ آیت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے.خوش فہمی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی دوسرانبی کفار کے کہنے پر لگ کر اپنے پاس سے وحی بنا لیتا اور افتراء علی اللہ کرتا تو خدا اسے کوئی عذاب نہ دیتا لیکن نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تو ان پر عذاب نازل کرتا گر ہمیں مکتب است و ایں ملاں کا ر طفلاں تمام خواهد شد !
434 ایک اعتراض اور اس کا جواب بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ لَو تَقَوَّلَ “ والی آیت تو مدعیان نبوت کے لئے ہے.مگر مرز اصاحب نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۱ء میں کیا ہے.الجواب :.یہ غلط ہے کہ یہ آیت صرف مدعیان نبوت کے لئے ہے.اگر چہ مدعیان نبوت بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ آیت کے الفاظ ہیں :.لَو تَقَولَ عَلَيْنَا کہ اگر یہ قول ( الہام، وحی ) اپنے پاس سے بنا کر ہماری طرف منسوب کرے تو وہ ہلاک کیا جاتا ہے لَو تَنَبَّنَا کا لفظ نہیں.کہ اگر یہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرے.پس اس آیت میں ہرایسے مفتری علی اللہ کا ذکر ہے جو اپنے پاس سے جان بوجھ کر جھوٹا الہام ووحی بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے.ہو سکتا ہے کہ ایسا مفتری علی اللہ مدعی نبوت بھی ہو.۲.اگر بغرض بحث یہ مان بھی لیا جائے کہ یہاں صرف مدعی نبوت“ ہی مراد ہے تو پھر بھی تمہارا اعتراض باطل ہے.کیونکہ حضرت اقدس کا الہام "هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى براہین احمدیہ میں موجود ہے جس میں حضور علیہ السلام کو ”رسول“ کر کے پکارا گیا ہے اور حضور نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب فرمایا.اگر خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو رسول نہیں کہا تھا تو پھر آیت زیر بحث کے مطابق ان کی قطع و تین ہونی چاہیے تھی مگر حضرت مرزا صاحب براہین کے بعد تقریبا ۳۰ سال تک زندہ رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ مذہب نہیں کہ حضرت مرزا صاحب براہین کی تالیف کے زمانہ میں نبی نہ تھے بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضور علیہ السلام براہین کے زمانہ میں بھی نبی تھے ہاں لفظ نبی کی تعریف میں جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی جو یہ تھی کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری ہے.نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو.اس تعریف کی رو سے نہ حضرت مرزا صاحب ۱۹۰۱ ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں.کیونکہ آپ کوئی شریعت نہ لائے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع بھی تھے.پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریعی نبی نہ تھے اس لئے اوائل میں حضور علیہ السلام اس تعریف نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے جس سے مراد صرف اس قدر تھی کہ میں صاحب شریعت براہ راست نبی نہیں ہوں، لیکن بعد میں جب حضور علیہ
435 السلام نے نبی کی تعریف سب مخالفین پر واضح فرما کر اس کو خوب شائع فرمایا کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا تابع نہ ہو بلکہ کثرت مکالمہ ومخاطبہ مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا نام نبوت ہے.تو اس تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسول کہا.اب ظاہر ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تعریف نبوت کے رو سے حضرت صاحب علیہ السلام کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضرت صاحب بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء مثلاً حضرت ہارون ، سلیمان ، یحیی ، زکریا ، اسحاق ، یعقوب، یوسف وغیرہ علیہم السلام بھی نبی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے لیکن ۱۹۰۱ ء کے بعد کی تشریح کے رو سے ( جو ہم نے اوپر بیان کی ہے) ۱۹۰۱ء سے پہلے بھی حضور نبی تھے.غرضیکہ حضرت صاحب کی نبوت یا اس کے دعوی کے زمانہ کے بارہ میں کوئی اختلاف یا شبہ نہیں بلکہ بحث صرف ” تعریف نبوت کے متعلق ہے ورنہ حضرت صاحب کا دعویٰ ابتداء سے آخر تک یکساں چلا آتا ہے.جس میں کوئی فرق نہیں.آپ کے الہامات میں لفظ نبی اور رسول براہین کے زمانہ سے لے کر وفات تک ایک جیسا آیا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے جس چیز کو ۱۹۰۱ء کے بعد نبوت قرار دیا ہے اس کا اپنے وجود میں موجود ہونا حضور نے براہین کے زمانہ سے تسلیم فرمایا ہے.پس حضور علیہ السلام کو دعویٰ نبوت والہام ووحی کے بعد تمیں برس کے قریب مہلت ملی جو آپ کی صداقت کی بتین دلیل ہے.حق بر زبان جاری چنانچہ خود مصنف محمدیہ پاکٹ بک کو بھی (جس نے یہ اعتراض کیا ہے ) ایک دوسری جگہ اقرار کرنا پڑا ہے جیسا کہ لکھتا ہے:.مرزا صاحب بقول خود براہین احمدیہ کے زمانہ میں ”نبی اللہ تھے.“ (تلخیص از محمد یه پاکٹ بک مطبوعہ ۱۹۵۰ صفحه ۲۵۸) لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کا بد انجام شرائط :- جھوٹے مدعیان نبوت کے لئے جو اس آیت کے ماتحت قابل سزا ہیں مندرجہ ذیل
436 باتوں کا ہونا ضروری ہے:.ا.وہ مجنون نہ ہو.تَقَوَّل باب تفعل سے ہے جس میں بناوٹ پائی جاتی ہے -۲ وہ لفظی الہام کا قائل ہو.یعنی یہ نہ کہتا ہو کہ جو دل میں آئے وہ الہام ہے.کیونکہ آیت ۲.میں بَعْضَ الْاقَاوِيلِ کا لفظ موجود ہے..وہ اپنے دعوی کا اعلان بھی لوگوں کے سامنے کرے.خود خاموش نہ ہو.کیونکہ آیت میں تقول“ کا فاعل خود مدعی ہے کوئی دوسرا نہیں.یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مدعی خود تو نہ کوئی دعوی کرے.نہ الہام پیش کرے.بلکہ اس کی بجائے کوئی اور شخص اپنے آپ سے بنا کر دعاوی اس کی طرف منسوب کر دے.يز فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِرِينَ ( الحاقة: (۴۸) کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہونے چاہئیں جن کے متعلق یہ خیال ہو سکے کہ یہ ہر مشکل میں اس مدعی کے مد د معاون ہوں گے.۴.وہ مدعی الوہیت نہ ہو.گو یا خدا کو اپنے وجود سے الگ ہستی خیال کرنے والا ہو.آیت زیر بحث میں لفظ علينا اس مضمون کو بیان کرتا ہے.علاوہ ازیں قرآن مجید میں خدائی کے دعوی کرنے والے کا علیحدہ طور پر ذکر موجود ہے.وَمَنْ يَقُل مِنْهُمْ إِلَى الَهُ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ كَذلِكَ نَجْزِي الظَّلِمِينَ (الانبياء : ٣٠) کہ جو شخص کہے کہ میں خدا ہوں اللہ کے سوا تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیتے ہیں.ایسے ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں.پس ثابت ہوا کہ مدعی الوہیت کے لئے ضروری نہیں کہ اسے اس دنیا میں سزا دی جائے بلکہ یہ کا ذب مدعی نبوت ہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے لازمی اور ضروری قرار دیا ہے کہ اسے اسی دنیا میں سزا دی جائے کیونکہ کوئی انسان خدا نہیں ہوسکتا.پس مدعی الوہیت کا دعومی عقلمندوں کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتا مگر نبی چونکہ انسان ہی ہوتے ہیں.اس لئے جھوٹے مدعی نبوت سے لوگوں کو دھوکہ لگنے کا امکان ہے.اسی لئے خدا اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے.چنانچہ علامہ ابومحمد ظاہری نے بھی اپنی کتاب الفصل فـي الــمــال والاهواء والنحل جلدا صفحہ ۱۰۹ میں لکھا ہے:.وَ مُدَّعِيُّ الرَّبُوْبِيَّةِ فِى نَفْسِ قَوْلِهِ بَيَانُ كَذِبِهِ قَالُوا فَظُهُورُ الْآيَةِ عَلَيْهِ لَيْسَ مُوجِبًا بِضَلالٍ مَنْ لَهُ عَقْلٌ.وَاَمَّا مُدَّعِيُّ النُّبُوَّةِ فَلا سَبِيلَ إِلَى ظُهُورِ الْآيَاتِ عَلَيْهِ لَأَنَّهُ
437 كَانَ يَكُونُ مُضِلَّا لِكُلِّ ذِى عَقْلٍ.“ 66 کہ مدعی الوہیت کا دعویٰ ہی خود اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے لہذا اس سے کسی نشان کا ظہور کسی صاحب عقل کو گمراہ نہیں کر سکتا.مگر کا ذب مدعی نبوت سے نشان ظاہر نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ ہر صاحب عقل کو گمراہ کرنے کا باعث ہوگا.ب.یہی فرق نبر اس شرح الشرح العقائد نسفی صفحه ۴۴۴ بحث الخوارق“ میں مذکور ہے نیز تفسیر کبیر امام رازی جلد ۸ صفحه ۲۹.حوالہ مندرجہ پاکٹ بک ہذا صفحہ ۴۲۷.ا.ابو منصور جواب ا: وہ مدعی نبوت نہ تھا.چنانچہ ” منهاج السنہ “ میں بھی جس کا حوالہ غیر احمدی دیا کرتے ہیں ، اس کا دعوی نبوت مذکور نہیں.۲.علامہ ابو منصور البغدادی لکھتے ہیں:.وَادَّعَى هَذَا الْعَجُلِيُّ أَنَّهُ خَلِيفَةَ الْبَاقِرِ وَقَفَ يُوسُفُ بُنُ عُمَرَ التَّقْفِيُّ وَآتَى الْعِرَاقِ...فَاَخَذَ أَبَا مَنْصُورَ الْعَجَلِي وَصَلَبَهُ.(الفرق بين الفرق الفصل الخامس صفحہ ۱۴۹ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی ) کہ ابو منصور عجلی نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ باقر کا خلیفہ ہے.پس جب یوسف ابن عمر النفی کو اس بات کا علم ہوا تو وہ عراق آیا اور ابو منصور کو پکڑ کر صلیب دے دی..اس کا ۲۷ سال بعد دعوی زندہ رہنا شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب ”منہاج السنیہ میں ( جس کا غیر احمدی حوالہ دیا کرتے ہیں ) قطعاً نہیں لکھا.۴.غیر احمدی اس کا سن قتل ۳۶۸ ھ بتایا کرتے ہیں حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے کیونکہ جیسا کہ او پر مذکور ہوا اس کا قاتل یوسف بن عمر اشتفی ہے اور وہ خود ۱۲۷ھ میں مرا جیسا کہ علامہ ابن خلکان کی کتاب ”وفیات الاعیان جلد ۲ ذکر یوسف بن عمر اشتقی مطبوعہ دارصا در بیروت پر لکھا ہے:.وَذَالِكَ فِي سَنَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٌ کہ یوسف بن عمر اشتفی کی موت ۱۲۷ھ میں ہوئی جبکہ وہ ۶۵ سال کی عمر کا تھا.اب قاتل تو ۱۲۷ھ میں مرگیا اور مقتول بقول غیر احمدیان ۳۶۸ ھ میں مرا.العجب.
438 ۲ محمد بن تو مرت جواب: ا.اس کا دعویٰ نبوت کہیں بھی مذکور نہیں.۲.ہاں اس نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت ضرور کی اور ۱۴ھ میں شاہ مراکش نے اسے دارالسلطنت سے نکال دیا اور وہ جیل سوس میں جا کر بغاوت کرتا رہا..اس نے خود دعوی مہدویت بھی نہیں کیا.فَقَامَ لَهُ عَشْرَةُ رِجَالِ اَحَدُهُمُ عَبْدُ الْمُؤْمِنِ فَقَالُوا لَا يُوجَدُ إِلَّا فِيْكَ فَانْتَ الْمَهْدِيُّ ( کامل فی التاریخ لا بن الاثیر جلد، صفحه ۵۷۱ مطبوعہ دار بیروت للطباعة والنشر ۱۹۶۶ء) کہ اس کے دس ساتھی ہو گئے جن میں سے ایک عبدالمومن تھا.انہوں نے اسے کہا کہ تیرے سوا مہدی کی صفات اور کسی میں پائی نہیں جاتیں لہذا تو ہی مہدی ہے.۴.اگر اس کا دعویٰ مہدویت ثابت بھی ہو جائے تب بھی وہ لو تَقَوَّل والی آیت کے نیچے نہیں آ سکتا جب تک کہ جھوٹے الہام یا وحی کا مدعی نہ ہو.۳.عبد المومن جواب :.یہ محمد بن تو مرت کا خلیفہ تھا.یہ بھی اس کے ماتحت آ جاتا ہے.۴.صالح بن طریف جواب:.ا.اس نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا.لہذا تقول نہ ہوا.۲.اس نے خیال کیا تھا کہ وہ خود مہدی ہے.ثُمَّ زَعَمَ أَنَّهُ الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَخْرُجُ فِي اخِرِ الزَّمَانِ.(مقدمہ ابن خلدون جلد 4 صفحہ ۲۰۷) یعنی اس نے خیال کیا کہ وہ مہدی جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ میں ہوں.مگر اس نے کبھی کوئی الہام پیش نہیں کیا.۳.اس نے اپنے دعوئی مہدویت کا بھی اعلان کبھی نہیں کیا.وَأَوْصَى بِدِينِهِ إِلَى ابْنِهِ إِلْيَاسَ وَعَهِدَ إِلَيْهِ بِمَوَالَاةِ صَاحِبِ الْأنْدُلُسِ مِنْ بَنِى أُمَيَّةٍ وَ بِإِظْهَارِ دِينِهِ إِذَا قَوَى أَمْرُهُمْ وَقَامَ بِأَمْرِهِ بَعْدَهُ اِبْنُهُ إِلْيَاسُ وَلَمْ يَزَلْ مُظْهِرًا لِلإِسْلَامِ مُسِرًّا لِمَا أَوْصَاهُ بِهِ أَبُوهُ (ابن خلدون جلد ۶ صفحه ۲۰۷) کہ اس نے اپنے بیٹے الیاس کو وصیت کی کہ وہ اس کے مذہب پر قائم رہے اور اس سے عہد لیا کہ وہ حاکم اندلس کے ساتھ دوستی رکھے گا اور اپنے مذہب کا اظہار صرف اس وقت کرے گا جب وہ طاقتور ہو جائے.پس وہ اپنے باپ کے حکم پر قائم رہا اور یہی ظاہر کرتا رہا کہ وہ مسلمان ہے اور اپنا
439 مذہب چھپا تا رہا جیسا کہ اس کے باپ نے اسے وصیت کی تھی.۵.عبید اللہ بن مهدی جواب:.ا.اس نے نبوت کا کبھی دعوی نہیں کیا.۲.اس نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا.۳.ابن خلکان نے وفیات الاعیان جلد نمبر ے ذکر المهدی عبید الله پر ایک روایت درج کی ہے کہ عبید اللہ ابومحمد الملقب بالمہدی کو دوسرے یا تیسرے سال الیع نے جو سجلماستہ کا حاکم تھا قید خانہ میں قتل کر دیا تھا اور پھر ایک شیعہ نے بعد میں جھوٹ موٹ ایک دوسرے آدمی کو عبید اللہ قرار دے دیا.۶.بیان بن سمعان جواب:.یہ نہ مدعی وحی ، نہ مدعی نبوت ، نہ مدعی الہام.ہاں اس کے بعض واہیات عقائد تھے مگر وہ تقول کی آیت کے ماتحت کسی طرح نہیں آسکتا.سوال تو صرف تَقَوَّل عَلَى الله کا ہے نہ کہ غلط عقائد رکھنے کا.چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منھاج السنۃ میں لکھتے ہیں:.بَيَانُ بْنُ سَمْعَانِ التَّيْمِيُّ الَّذِى تُنْسَبُ إِلَيْهِ الْبَيَانِيَةُ مِنْ غَالِيَةِ الشَّيْعَةِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَلى صُورَةِ الْإِنْسَان وَإِنَّهُ يَهْلِكُ كُلَّهُ إِلَّا وَجْهَهُ وَادَّعَى بَيَانُ أَنَّهُ يَدْعُوا الزُّهْرَةَ فَتُجِيبُهُ وَأَنَّهُ يَفْعَلُ ذَالِكَ بِالْإِسْمِ الأَعْظَمِ فَقَتَلَهُ خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقَسْرِيُّ (منهاج السنة جلدا صفحه ۲۳۸) که بیان بن سمعان تیمی وہ تھا جس کی طرف غالی شیعوں کا فرقہ بیانیہ منسوب ہوتا ہے اور وہ کہا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ انسان کی شکل کا ہے سارا خدا بھی آخر کار ہلاک ہو گا.مگر اس کا چہرہ بیچ رہے گا اور یہ کہ وہ زہرہ ستارے) کو بلاتا ہے اور وہ اس کو جواب دیتی ہے اور یہ بات وہ صرف اسم اعظم کی برکت سے کرتا ہے.پس خالد بن عبداللہ قسری نے اسے قتل کیا.مُقنع جواب:.وہ ۱۵۹ھ میں ظاہر ہوا.اور ۱۶۲ ھ میں یعنی ۴ سال بعد اس نے زہر کھا کر خودکشی کر لی اور اس کا سر قلم کیا گیا.( تاریخ کامل ابن اثیر جلد 4 صفحہ ۹)
440 _ابوالخطاب الاسدی جواب :.وہ مدعی الہام یا نبوت نہیں بلکہ مدعی الوہیت تھا.۲.وہ قتل ہوا.چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ جلد اصفحہ ۲۳۹ پر فرماتے ہیں:.وَعَبَدُوا اَبَا الْخَطَّابِ وَ زَعَمُوا أَنَّهُ إِلهُ وَخَرَجَ أَبُو الْخَطَّابَ عَلَى أَبِي جَعْفَرَ الْمَنْصُورِ فَقَتَلَهُ عِيْسَى ابْنُ مُوسَى فِى سِجْنَةِ الْكُوفَةِ.“ کہ لوگ ابوالخطاب کو خدا کر کے پوجنے لگے اور یہ خیال کیا کہ وہ خدا ہے.پھر ابوالخطاب نے ابو جعفر منصور پر حملہ کیا.پس عیسی بن موسیٰ نے کوفہ میں اسے قتل کر دیا نیز دیکھو.(کتاب الفصل فی الملل و النحل از امام ابن حزم جلد ۲ صفحه ۱۱۴) ۹.احمد بن کیال جواب:.ا.اس نے نہ دعوی نبوت کی نہ دعویٰ وحی والہام.۲.وہ سخت نا کام ونامراد ہوا.لَمَّا وَقَفُوا عَلى بِدُعَتِهِ تَبَرَّءُ وُا مِنْهُ وَلَعَنُوهُ “ (الملل والنحل جلد ۲ صفحہ ۷ ابر حاشیہ الملل والنحل از امام ابن حزم) کہ اس کے متبعین کو جب اس کی بدعت کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے براءت کا اظہار کیا اور اس پر لعنت بھیجی.۱۰.مغیرہ بن سعد بجلی جواب.اس کے متعلق کہیں بھی نہیں لکھا کہ اس نے وحی یا الہام یا نبوت کا دعویٰ کیا ہو.پس اس کو پیش کرنا جہالت ہے.پیش کرے.لَوْ تَقَوَّلَ والی آیت کے تحت وہی آئے گا جو مدعی کوحی والہام ہوا اور اپنا الہام یا وحی کو لفظاً تیسری دلیل :.يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ (البقرة: ۱۴۷) که نبی کو اس طرح سے پہچانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹے کو.گویا جس طرح بیوی کی پاکیزگی خاوند کے لئے اس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ پیدا ہونے والا اس کا ہی بچہ ہے.اسی طرح مدعی نبوت کی قبل از دعوئی پاکیزگی اس کے دعوی کی صداقت پر دلیل ہوتی
441 ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج اورمحمد حسین بٹالوی کی شہادت دیکھو دلیل نمبر میں.چوتھی دلیل:.يُصلحُ قَدْ كُنتَ فِيْنَا مَرْجُوا قَبْلَ هَذَا " كه جب صالح علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان کی قوم نے کہا کہ اے صالح ! آج سے پہلے تیرے ساتھ ہماری بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں.تجھ کو کیا ہو گیا کہ تو نبی بن بیٹھا.(ھود: ۶۳) گویا جب نبی ابھی دعویٰ نہیں کرتا تو قوم اس کی مداح ہوتی ہے مگر جب دعوی کر دیتا ہے تو هُوَ كَذَّابٌ أَثِر ( القمر : ۲۶) کہنے لگ جاتے ہیں.کہ یہ اول درجہ کا جھوٹا اور شریر ہے.ایک شبہ کا ازالہ بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے متعلق مولوی محمدحسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ صاحب نے حسنِ ظن کا اظہار کیا تو وہ بھی اسی طرح غلط تھا.جس طرح خود مرز اصاحب کا خواجہ کمال الدین اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کے متعلق اندازہ ان کی بعد کی زندگی سے غلط ہو گیا.الجواب :.یہ قیاس مع الفارق ہے.ہماری دلیل تو یہ ہے کہ جو مدعی نبوت ہو اس کی پہلی زندگی کا پاکیزہ ہونا ضروری ہے.نیز یہ کہ مخالفین کی بھی اس سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں.ہم نے کب کہا ہے کہ جس کی زندگی کے متعلق کسی کو حسن ظن ہو وہ ضرور نبی ہوتا ہے.خواہ وہ نبوت کا دعویٰ کرے یا نہ کرے.حیرت ہے کہ مخالفین کی عقلیں حق کی مخالفت کے باعث اس قدر مسخ ہو چکی ہیں کہ وہ اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے.کیا خواجہ کمال الدین یا مولوی محمد علی صاحبان نے نبوت کا دعویٰ کیا ؟ اگر نہیں تو پھر ان کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام کے اظہار خیال کو پیش کرنا بے معنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی تعریف کی ہے تو وہ بالکل ویسی ہی ہے جیسی کہ بیعت رضوان والوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شما بہترین از روئے زمین اند کہ تم دنیا کے بہترین انسان ہو مگر ان میں سے اجد بن قیس بعد میں مرتد ہو گیا تھا.لیکن اجد بن قیس نے نبوت کا دعوی نہیں کیا اور نہ ان لوگوں نے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے.جن کا نام تم لیتے ہو.
442 پانچویں دلیل:.أَمْ يَقُولُونَ افْتَريهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيْتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَدِقِيْنَ فَإِلَّمْ يَسْتَجِيْبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ (هود: ۱۵،۱۴) کہ کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں بلکہ اس نے اپنے پاس سے بنالیا ہے.ان سے کہہ دے کہ پھر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لا ؤ اور سوا خدا کے جس کو چاہو بطور مددگار بلالو.پس اگر تم اور تمہارے مددگار بنانے پر کامیاب نہ ہوں.تو پھر جان لو کہ یہ انسانی علم کا نتیجہ نہیں بلکہ علم الہی سے ہے.قرآن مجید کا یہ چیلنج اس کے کلام الہی ہونے پر زبردست دلیل ہے اور پچھلی تیرہ صدیاں قرآن مجید کے اس دعوی کی صداقت پر گواہ ہیں مگر چودہویں صدی میں جو قلم کا زمانہ ہے اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات ہونے شروع ہو گئے.مخالفین نے اپنی بد باطنی کا اظہار یہ کہہ کر کرنا شروع کیا کہ قرآن کا یہ چیلنج بدؤں اور جاہل عربوں کو دیا گیا تھا اور ایسیز مانہ میں دیا گیا تھا جبکہ چاروں طرف جہالت کا دور دورہ تھا.پس ان لوگوں کا قرآن شریف کی مثل لانے پر قادر نہ ہوسکنا قرآن کی صداقت کی دلیل نہیں ہوسکتا.ہاں اگر ہمارے زمانہ میں جبکہ علوم وفنون کی ترقی سے انسانی دماغ ارتقاء کی انتہائی منازل طے کر چکا ہے کوئی شخص اس قسم کا چیلنج دے تو ایک نہیں ہزاروں انسان اس کا جواب لکھنے پر آمادہ ہو جائیں.اس اعتراض کو غلط ثابت کرنے اور مخالفین اسلام کا ایک دفعہ پھر منہ بند کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا اور آپ نے تمام دنیا کے سامنے بضرب دہل اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو اپنے خاص مکالمہ مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور مجھ کو وہ علوم اور معارف عطا فرمائے ہیں کہ دنیا کا کوئی انسان ان میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعجاز احمدی اور اعجاز مسیح وغیرہ کتابیں لکھیں اور کہا کہ اگر اعجاز احمدی کا جواب وقت مقررہ کے اندر لکھو تو دس ہزار روپیہ انعام لو.اور فرمایا:.خدا تعالیٰ اُن کی قلموں کو توڑ دے گا اور اُن کے دلوں کو نجی کر دے گا.“ ( اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۴۸) پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کی دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا اور میر اسلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں..اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۴۷)
443 وَتَدَمَّرَ.“ 66 اعجاز مسیح کے متعلق پانچ سورو پید انعام کا اشتہار دیا اورکھا.فَإِنَّهُ كِتَابٌ لَيْسَ لَهُ جَوَابٌ وَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ ٹائٹل پیج ) کہ یہ وہ کتاب ہے جس کا کوئی جواب نہیں اور جو شخص اس کے جواب کے لئے کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ وہ کس طرح نادم اور شرمندہ کیا جائے گا.پھر فرمایا:.وَإِنِ اجْتَمَعَ آبَاءُ هُمْ وَأَبْنَاءُ هُمْ.وَأَكَفَاءُ هُمْ وَعُلَمَاءُ هُمْ.وَحُكَمَاءُ هُمُ وَفُقَهَاءُ هُمْ.عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا التَّفْسِيرِ.فِى هَذَا الْمُدَى الْقَلِيلِ الْحَقِيرِ.لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ كَالظَّهِيرِ » (اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۷،۵۶) اگر ان کے باپ اور ان کے بیٹے اور ان کے ہمسر اور ان کے علماء اور ان کے حکماء اور ان کے فقہاء ( غرضیکہ چھوٹے بڑے) سب مل کر اس مدت میں جس میں میں نے اس کو لکھا ہے اس جیسی کتاب لکھنا چاہیں تو کبھی بھی نہ لکھ سکیں گے.چنانچہ جب مولوی محمد حسین فیض ساکن بھیں ضلع جہلم نے اس کا جواب لکھنا چاہا تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا.مَنَعَهُ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَاءِ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اسے جواب لکھنے سے روک دیا ہے.چنانچہ وہ ابھی نوٹ ہی تیار کر رہا تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر مر گیا اور پیر گولڑوی نے اس کے لکھے ہوئے نوٹوں کو میعاد مقررہ گزرجانے کے بعد سرقہ کر کے اپنے نام سے شائع کر دیا اور اس کا نام سیف چشتیائی رکھا.تفصیل دیکھو ( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۵۲ تا ۴۵۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اعجازی کتب کے لئے میعاد اس لئے مقرر کی کہ (۱) یہ اعتراض نہ ہو سکے کہ قرآن کا مقابلہ کیا ہے اور اس طرح سے قرآن کے معجزہ میں کسی قسم کا شبہ نہ پڑ سکے.کیونکہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ مجھے جو اعجازی کلام کا معجزہ دیا گیا ہے.وہ قرآن کے ماتحت اور اس کے ظل کے طور پر ہے.چنانچہ فرماتے ہیں:.”ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرا یہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں.“ الْقُرْآنُ ( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۷) ب كُلَّمَا قُلْتُ مِنْ كَمَالِ بَلاغَتِى فِي الْبَيَانِ فَهُوَ بَعْدَ كِتَابِ اللَّهِ الجد النور.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴ ۴۶ حاشیه )
444 ماتحت ہے.یعنی میں نے اپنے کمال فصاحت اور بلاغت کے متعلق جو کچھ کہا وہ سب قرآن مجید کے ج- ضرورة الامام - صفحہ ۲۲ پر فرمایا : - قرآن شریف کے معجزہ کے کل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جواس کا مقابلہ کر سکے.“ (ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۶) ۲.میعاد کا مقرر کرنا معجزہ کی شان کو کم نہیں کرتا جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.لَوْ قَالَ نَبِيٍّ آيَةً صِدْقِى آنِى فِى هَذَا الْيَوْمِ أُحَرِّكْ اِصْبُعِي وَلَا يَقْدِرُ اَحَدٌ مِنَ الْبَشَرِ عَلَى مُعَارِضَتِى فَلَمْ يُعَارِضُهُ اَحَدٌ فِى ذَالِكَ الْيَوْمِ ثَبَتَ صِدْقُهُ“ (الاقتصاد في الاعتقاد صفحه ۹۴) یعنی اگر مدعی نبوت یہ کہے کہ میری صداقت کا یہ نشان ہے کہ آج میں اپنی انگلی کو حرکت دیتا ہوں مگر انسانوں میں سے کوئی میرے مقابلہ پر ہرگز ایسا نہیں کر سکے گا.پس اگر فی الواقعہ اس دن کو ئی شخص اس کے مقابلہ میں انگلی نہ ہلا سکے تو اس مدعی کی صداقت ثابت ہوگئی.۲.چونکہ آپ نے اعجازی کلام کے جواب کے لئے انعام مقرر کیا تھا اس لئے اس کے واسطے کوئی میعاد مقرر ہونی چاہیے تھی تا کہ انعام کا فیصلہ ہو سکے کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اعجاز احمدی کی مزعومہ غلطیاں باقی رہا یہ اعتراض کہ اعجاز احمدی میں غلطیاں ہیں ایسا ہی ہے جیسے عیسائیوں کا اعتراض قرآن مجید کی عربی پر ہے.إِنَّ فِيْهِ لَحْنَّا نَحْوَ اِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَان عَلَى قِرَاءَةِ أَنَّ الْمُشَدَّةِ (نبراس شرح الشرح العقا ندفى صفحه ٤٣٩) طَعْنُ الْمَلَاهِدَةِ فِى اِعْجَازِ الْقُرْآنِ ) نبراس صفحہ ۴۳۸ ) کہ ملحدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن میں غلطیاں ہیں جیسا کہ اِنْ هذَانِ لَسَاحِرَان والی آیت میں جو قراءة ان مشدہ والی ہے اس میں اِنَّ هَذَینِ چاہیے.اسی طرح قرآن مجید میں آتا ہے کہ نما سقط في أَيْدِيهِمْ (الاعراف: ۱۵۰) اس کی ترکیب کے متعلق روح المعانی میں لکھا ہے: ذَكَرَ بَعْضُهُمْ إِنَّ هَذَا التَّرْكِيْبُ لَمْ يُسْمَعُ قَبْلَ نُزُولِ الْقُرْآنِ وَلَمْ تَعْرِفُهُ الْعَرَبُ وَلَمْ يُوجَدُ فِى اَشْعَارِهِمْ وَ كَلَامِهِمْ (روح المعانی زیر آیت
445 لَنَّاسُقِطَ فِي آيد نهم (الاعراف:۱۵۰) کہ بعض نے کہا ہے کہ یہ ترکیب نزول القرآن سے قبل نہیں سنی گئی اور نہ اس کو عرب جانتے تھے اور نہ اہل عرب کے اشعار اور کلام میں یہ ترکیب پائی جاتی ہے.پس غلطیاں نکالنا تو آسان ہے.صرف اس کی مثل بنانا ہی مشکل ہے جس طرح اہل عرب کا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هذا کہنا کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن جیسی کتاب بنا سکتے ہیں.نیز اعجاز احمدی کی غلطیاں نکال کر جن لوگوں نے اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے ان کی آنکھوں کو روشنی پہنچانے کے لئے حضرت مولا نا محمد اسمعیل صاحب ہلال پوری مرحوم مولوی فاضل و منشی فاضل قادیان نے ایک کتاب تنویر الابصار" کے نام سے شائع فرما دی ہوئی ہے جس میں مزعومہ اغلاط کی حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے.غیر احمدی: - مولوی غنیمت حسین مونگھیری اور قاضی ظفر الدین نے جواب میں قصیدے لکھے.الجواب:.کیا ان لوگوں نے میعاد کے اندر یہ جواب لکھے؟ نہیں! بلکہ میعاد گزرنے کے سالہا سال بعد.پس مشتے که بعد از جنگ یاد آید بر کله خود باید زد غیر احمدی:.بیس دن کی میعاد بہت تھوڑی تھی.الجواب:.(۱) حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الاقتصاد في الاعتقاد، صفر و کا حوالہ اوپر درج ہو چکا ہے کہ اگر نبی یہ کہے کہ میں اپنی انگلی کو آج حرکت دیتا ہوں اور کسی کو جرات نہیں ہو سکتی کہ آج....وہ اپنی انگلی کو میرے بالمقابل حرکت دے سکے تو گو اس میں میعاد ایک دن کی ہو صداقت کی دلیل ہے.(۲) محمدیہ پاکٹ بک کے مؤلف کا یہ لکھنا کہ میں دن میں ایسی کتاب کا لکھنا قطعی طور پر ناممکن ہے اور یہ کہنا کہ بڑے سے بڑا ز وونولیس مصنف بھی صرف پانچ صفحہ روزانہ کا مضمون لکھ سکتا ہے محض ایک بہانہ سازی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف ”حقیقۃ النبوۃ، جس میں مسئلہ نبوت پر فیصلہ کن بحث ہے اور مولوی محمد علی صاحب امیراہل پیغام کے تمام دلائل کا مکمل رد ہے یہ کتاب تقریباً تین صد (۲۹۷) صفحات کی ہے مگر یہ بیس روز کے اندر اندر تصنیف اور طبع ہو کر شائع بھی ہوگئی.مضمون نویس نے مضمون لکھا.کاتب نے کتابت بھی کی.پریس میں بھی گئی.پروف بھی دیکھے گئے مگر تین سو صفحات کی معرکۃ الآراء تصنیف میں یوم کے اندر تصنیف ہونے کے علاوہ شائع بھی ہوگئی.مگر اعجاز احمدی تو گل توے صفحات کا رسالہ ہے.یعنی حقیقۃ النبوة“ سے تیسرے حصے سے بھی کم ہے
446 مگر عجیب بات ہے اور یہ بھی خدا کا ایک نشان ہے کہ بڑے بڑے مخالف جبہ دار مولوی اس کے جواب سے عاجز آگئے اور اب سوائے بہانہ سازی اور حیلہ جوئی کے ان کو کوئی چارہ نظر نہیں آتا.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف ”القول الفصل“ جو خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب“ کا مکمل رد ہے اور مبسوط جواب.ہے.یہ رسالہ ۷۸ صفحات پر مشتمل ہے اور بلحاظ مضمون کے اعجاز احمدی‘ سے اس کا مضمون زیادہ ہے لیکن یہ رسالہ صرف ایک دن میں لکھا گیا.علاوہ ازیں اور بھی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں.”حقیقہ النبة “ اور ” القول الفصل“ کی میعاد معینہ کی اصالت اور صحت میں کوئی کلام نہیں کیونکہ میعاد ہذا بطور معجزہ یا نشان کے بیان نہیں کی گئی بلکہ محض سرسری طور پر ایک واقعہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ معجزہ نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ دعوئی اور تحدی نہیں ہے لیکن باوجود اس کے کہ اعجاز احمدی“ کا مضمون ان دونوں کتابوں سے کم ہے اور میعاد بہت زیادہ.نیز حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے دس ہزاری انعام اور تحدی بھی ہے کہ ”خدا ان کے قلموں کو توڑ دے گا مگر کوئی بھی جواب نہ لکھ سکا.عقل کے اندھو! حیلہ سازی سے کیا بنتا ہے تمہیں دس ہزار روپیہ جو دیا جا رہا تھا تو اسی لئے کہ ۹۰،۸۰ ملاں مل کر ہی بیٹھ جائیں.اعجاز احمدی کا ایک ایک صفحہ آپس میں تقسیم کر کے اس کا جواب دو چار گھنٹہ میں لکھ دیں.اسی طرح ۲۰۰۱۵ کا تب لگا کر ایک ہی دن میں اس کی کتابت کروالیں اور مختلف پر یسوں میں اس کو چھپوا کر دوسرے ہی دن اس کا جواب شائع کر دیں.اے دنیا کے کیڑو! دس ہزار روپیہ میں ایک ۸۰ صفحہ کی کتاب کا جواب ہیں یوم میں ( تم لاکھوں مولویوں کا لکھنا) کونسی بڑی بات تھی.اور اگر تمہیں مال کا طمع نہ تھا تو کم از کم آرام طلبی چھوڑ کر لوگوں کی ہدایت ہی کے لئے کچھ محنت کرتے.مگر اس وقت خدا نے اپنے اعجازی ہاتھ سے تمہارے قلموں کو توڑ دیا اور تمہارے دلوں کو نبی کر دیا تھا.اس لئے اس وقت تو تم مبہوت ہو کر رہ گئے لیکن اب جبکہ تیر ہاتھ سے نکل چکا ہے تم لا جواب ہونے کی صورت میں بھی منقولہ ملاں آں باشد کہ چپ نہ شور کے مطابق قابل شرم اور مضحکہ خیز حیلہ سازیوں سے وقت گزارتے ہوے کچھ تو خوف خدا کر و لوگو کچھ تو لو گو خدا سے شرماؤ
447 چھٹی دلیل:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ وَلَا يَتَمَنَونَ أَبَدًا بِمَا قَدَمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ (الجمعة: ۸،۷) یعنی یہودی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں اور یہ کہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے.(نَحْنُ ابو اللهِ وَاحِباؤُه ) فرمایا.ان سے کہہ دو کہ اے یہود یو ! اگر تم اپنے آپ کو خدا کے دوست سمجھتے ہو تو اپنے لئے بد دعا کر وہ موت کی تمنا کرو.مگر یاد رکھو کہ یہ لوگ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی بداعمالیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں.اور خدا ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے.ان آیات سے معلوم ہوا کہ برے اعمال کرنے والے ظالم لوگ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں وہ موت کی تمنا نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و راہ نما اے کہ مے داری تو بر دلہا نظر اے کہ از تو نیست چیزے مستتر گر تو می بینی مرا پُر فسق وشر گر تو دیداستی که هستم بد گهر پاره پاره کن من بدکار را شاد کن این زمره اغیار را آتش افشاں بر در و دیوار من دشمنم باش و تباه کن کار من مگر اس کے باوجود آپ کی جماعت نے ترقی کی.آپ کو خدا نے لمبی عمر عطا فرمائی اور اپنے دعوی کی تبلیغ کرنے کی توفیق عطا فرمائی اولاد بڑھی اور ہر قسم کے روحانی جسمانی فوائد حضور کو (۳۳: حاصل ہوئے.غیر احمدی:.ابو جہل نے بھی اِن كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ اثْتِنَا بِعَذَابِ اليْم کی بددعا کی تھی.(الانفال : ٣ جواب : سورۃ الجمعہ کی آیت میں تو یہ مذکور ہے کہ وہ شخص بد دعا نہیں کرتا جو خود اپنی ذات کے متعلق کوئی دعویٰ رکھتا ہو.مثلاً یہ کہتا ہو کہ خدا تعالیٰ میرا دوست ہے یا مجھ سے محبت کرتا ہے.یا اس نے مجھے مامور کیا ہے.مگر یہ کہنا کہ اے خدا! اگر قرآن سچا ہے تو مجھ پر عذاب آئے.یہ ایسی ہی بددعا تھی جس طرح ایک بچہ اپنی نادانی سے آگ کے کوئلے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ سزا ہمیشہ اتمام حجت کے بعد ہی مقرر فرمایا ہے.
448 ۲.یہ بد دعا ابوجہل نے کی تھی.جیسا کہ بخاری کتاب التفسير باب و اذ قالوا اللهم ان كان هذا هو الحق میں مذکور ہے اور ابو جہل جنگ بدر میں مقتول ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللہ زلمی کا ارشاد فرمایا ہے.گویا کفاران آسمانی پتھروں کے ساتھ ہلاک کئے گئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے.ابو جہل بھی انہیں کافروں میں سے تھا اس نے ڈبل بددعا کی تھی.(۱) اهْطِر عَلَيْنَا حِجَارَةً (۲) أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابِ ایم.پہلی بددعا کے مطابق وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے نکلے ہوئے آسمانی پتھروں کا نشانہ بنا اور ہلاک ہوا اور دوسری بددعا کے مطابق وہ مقتول ہوا اور قرآن مجید نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے کو عذاب قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا.قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبَهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُم (التوبة: ۱۴) کہ کافروں کو قتل کرو.خدا چاہتا ہے کہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے پس ابو جہل کی بددعا کے مطابق خدا نے اس کو ڈبل ہی سزا دی.گویا آسمانی پتھر بھی اس پر پڑے اور عذاب الیم بھی آیا.یادر ہے کہ آیت وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمُ (الانفال: ۳۴) میں یہ صرف وعدہ تھا کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہیں ان پر عذاب نہیں آئے گالیکن جب حضور بعد از ہجرت مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو اس کے بعد ابو جہل اور اس کے ساتھیوں پر عذاب آیا.انت فيهم سے مراد آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں موجود ہوتا ہے.ساتویں دلیل:.فَانْجَيْنَهُ وَ أَصْحَب السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَهَا آيَةً لِلعَلَمِينَ - (العنكبوت : ١٦) کہ ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھ کشتی میں بیٹھنے والوں کو بچا لیا اور اس بچنے کو تمام جہان کے لئے بطور صداقت نوح علیہ السلام نشان مقرر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہند میں سخت طاعون پڑی اور پنجاب میں بھی بشدت آئی مگر حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے.انى أحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ وَ أَحَافِظُكَ خَاصَةٌ ( الهام ۱۹۰۲ ، نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰ ) کہ میں ان تمام لوگوں کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوں گے طاعون سے محفوظ رکھوں گا.خاص کر تیری ذات کو.چنانچہ آج تک حضور علیہ السلام کے گھر کے اندر کبھی کوئی چوہا بھی نہیں مرا.لہذا آپ کی صداقت ثابت ہے اور حضور علیہ السلام خود بھی طاعون سے اس تحدی کے باوجود محفوظ رہے.
449 قادیان میں طاعون پڑنے کے متعلق تفصیل دوسری جگہ پیشگوئیوں پر غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جواب میں درج ہے.اس جگہ صرف اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ حضرت اقدس نے کہیں بھی نہیں لکھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی.بلکہ دافع البلاء میں تو صاف لکھا ہے کہ قادیان میں طاعون تو آئے گی مگر طاعون جارف یعنی بر بادی بخش نہیں آئے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.نوٹ:.بے شک ایمان کامل والوں کو بھی اس وعدہ میں شامل کیا گیا ہے، لیکن کامل اور ناقص ایمان والوں میں امتیاز مشکل ہے.مگر ظاہری مکان کی چار دیواری میں رہنے والوں کے لئے کامل ایمان کی شرط نہیں.لہذا اسی کو اس جگہ دلیل صداقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.جس کا تمہارے پاس سوائے بہانہ سازی کے کوئی جواب نہیں.آٹھویں دلیل:.خدا تعالیٰ یہاں اپنے بچے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو عَلَى رَغْمِ أَنْفِ الْأَعْدَاءِ ترقیات اور پے بہ پے فتوحات عطا فرماتا ہے وہاں جھوٹے مدعیان نبوت کو ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہوتی اور خسران اور شکست کا طوق ان کے گلے کا ہار ہوکر رہ جاتا ہے.قرآن مجید نے اس زبر دست معیار صداقت کا ذکر متعدد مقامات پر فرمایا ہے:.ا فرمایا: فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَلِبُونَ (المائدة : ۵۷ ) یا درکھو کہ خدا ہی کی جماعت ہمیشہ غالب اور کامیاب ہوتی ہے.۲.اور اس کے بالمقابل کذابوں کی جماعت کا ذکر اس طرح فرماتا ہے.أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَنِ هُمُ الْخَسِرُونَ (المجادلة: ۲۰) یا درکھو کہ شیطانی گروہ ہمیشہ نا کام ونامراد ہوتا ہے اور گھائے اور خسارے میں رہتا ہے.اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ ”غالب گروہ کون سا ہے.کیونکہ ہر ایک جماعت یہی دعوی کرتی ہے کہ وہ غالب ہے..اس اہم سوال کو خدائے تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ حل فرمایا ہے.فرمایا: آفلا يَرَوْنَ أَنَا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبياء: ۴۵ ) کہ یہ لوگ جو مدعی نبوت کے منکر ہیں.ایک زمین کے ٹکڑے کی طرح ہیں.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم اس زمین کو آہستہ آہستہ چاروں طرف سے کم کرتے چلے جا رہے ہیں.کیا اب بھی وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہی ”غالب“
450 ہیں یعنی سچے نبی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی جماعت تدریجا بڑھتی ہے اور اس کے مقابل اس کے مخالفین کی جماعت بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے.مدعی نبوت کی تدریجی ترقی اور اس کے بالمقابل اس کے مخالفین کا تدریجی تنزل اس مدعی کے صادق اور منجانب اللہ ہونے پر قطعی اور یقینی دلیل ہے.-۴.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ (المومن:۵۲) کہ ہم اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی اسی دنیا میں مدد کرتے ہیں اور پھر قیامت کے دن بھی ہم ہی ان کے مددگار ہوں گے.گویا خدا تعالیٰ کا یہ از لی اور ابدی قانون ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی دشمنوں کے مقابلہ میں مدد اور نصرت فرماتا ہے اور ان کے مخالفین کی معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کو جو انبیاء کی تباہی اور بربادی کے لئے کی جاتی ہیں ) کبھی کامیاب ہونے نہیں دیتا..چنانچہ ایک اور جگہ کھلے الفاظ میں اپنے اس اٹل قانون کا ذکر فرماتا ہے.كتب الله لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلي (المجادلة:۲۲) کہ خدا نے روزِ ازل سے یہ لکھ چھوڑا اور مقرر کر دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہی ہمیشہ غالب رہیں گے.گویا ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت ہو اور پھر اس کی جماعت دن بدن بڑھتی چلی جائے.یہ خدا تعالیٰ کا غیر متغیر اور غیر متزلزل قانون ہے جو جھوٹے اور بچے مدعیان نبوت کے درمیان ایک واضح اور روشن فیصلہ کرتا ہے.تاریخ کے اوراق اس اصول کی صداقت پر معتبر گواہ ہیں.آج دنیا میں موسیٰ اور ابراہیم اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا تو موجود ہیں مگر فرعون، نمرود، مسیلمہ کذاب و غیر هم کی طرف منسوب ہونے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں.۶.خدا تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (النحل: ۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.جھوٹے مدعیان وحی والہام کی ناکامی کا باعث یہ ہے کہ ایسے جھوٹے مدعیوں کے دعوی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اور نصرت نہیں ہوتی جو خدا کے سچے نبیوں اور رسولوں کے شامل حال ہوتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو دوسرے مقام پر بیان فرمایا ہے.لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (ال عمران : ۶۲) أَلَا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّلِمِينَ (هود:١٩) کہ کذابوں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنانے والے ظالموں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے..خدا کی لعنت کا خوفناک نتیجہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.وَمَنْ يَلْعَنِ
451 اللهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (النساء: ۵۳ ) کہ جس پر خدا لعنت کرے اس کا کوئی مددگار اور محمد ومعاون نہیں رہتا.پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ وہ لوگ جو جھوٹے طور پر نبوت اور رسالت کا دعوی کرتے ہیں وہ خدا کی لعنت کے نیچے ہوتے ہیں اور آخر کار وہ بے یار و مددگار ہو جاتے ہیں.ان کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا.اور جلد سے جلد خدا تعالیٰ ان کو جڑھ سے اکھاڑ دیتا ہے.۹.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ خَابَ مَنِ افْتَری (طه: ۶۲) کہ وہ شخص جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے.نا کام ونامراد رہتا ہے.۱۰.اسی طرح سورۃ اعراف : ۱۵۳ میں بھی خدا تعالیٰ پر افتر کی کرنے والوں کے متعلق اپنا قانون بیان فرمایا دیا ہے کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور وہ اسی دنیا میں ذلیل ورسوا اور خائب و خاسر رہتے ہیں.( كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ ) تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ نوٹ :.یا درکھنا چاہیے کہ مندرجہ بالا دس آیات میں اللہ تعالیٰ نے جس معیار کا ذکر کیا ہے.وہ یہ ہے کہ صادق مدعی نبوت تدریجا آہستہ آہستہ ترقی پاتا چلا جاتا ہے.اس کی ترقی یکدم اور فوری نہیں ہوتی.تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وہ اتفاقی طور پر کامیاب ہو گیا.اور یہ کہ ہمیں اس کے استیصال اور مقابلہ کے لئے پورا موقع نہیں ملا.ورنہ ہم اگر ذرا زیادہ زور لگاتے تو اس کو مٹا سکتے تھے اور اس طرح سے یہ امر دنیا پر مشتبہ ہو جاتا کہ مدعی کی ترقی اتفاقی تھی یا خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت اس کے شامل حال تھی.پس خدا تعالی ان کوکھا دیتا ہے تاوہ بھی کو مٹانے پس خدا تعالیٰ ان کے مخالفین کو کھلا کھلا موقع دیتا ہے تا وہ انفرادی طور پر بھی اس کو مٹانے کے منصوبے کر لیں اور پھر اپنی تمام طاقتیں مجتمع کر کے بھی زور لگالیں.ایک بار کوشش کر لیں.پھر کر لیں.پھر کر لیں.تا کسی کو اس میں شبہ نہ رہ جائے کہ مخالفین کی ناکامی اور مدعی کی کامیابی میں خدا کا زبردست ہاتھ کام کر رہا تھا.چنانچہ مسیلمہ کذاب کے گو دو سال کے عرصہ میں دولاکھ کے قریب پیرو ہو گئے مگر اسی عرصہ میں وہ انتہائی بے بسی کے ساتھ قتل ہوا.جس سرعت اور تیزی کے ساتھ وہ اٹھا تھا اسی کے ساتھ وہ گرا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے کھڑے ہوئے اور خدا نے آپ کو بتایا کہ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کہ تیرے پاس اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ سٹرک میں گڑھے پڑ جائیں گے.میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مسیلمہ کذاب کی جماعت ایک دوسال
452 کے عرصہ میں یکدم کچھ بڑھ گئی مگر وہ اور اس کی جماعت فور اتباہ کر دیے گئے.سچ کی نشانی یہی ہے کہ اس کی ترقی تدریجا ہوتی ہے.جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ہوئی اور ہو رہی ہے اور آئندہ ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ _ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ.نویں دلیل:.ا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :٤٢ ) - إن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِينِ (الجمعة: ٣) کہ نبی اس وقت آتا ہے جب دنیا پر کفر و ضلالت کی گھنگھور گھٹائیں چھا جاتی ہیں.اختلافات پھیل جاتے ہیں.روحانیت مرجاتی ہے فسق و فجور عام ہو جاتے ہیں.چنانچہ موجودہ زمانہ کی حالت کے متعلق شہادتیں ملاحظہ ہوں :.ا.سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے.فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے معمولی اور بہت معمولی اور بے کار کتاب جانتے ہیں.“ ( اہلحدیث ۴ ارجون ۱۹۱۲ ء ).اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے.مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں علماء اس اُمت کے بدتر ان کے ہیں.“ بلایا ہے.اقتراب الساعته از نواب نور احسن خان صفحه ۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے:.نہ صرف یہ کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانہ نے مجھے (پیغام صلح.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷ ۴۸) جہاں میں چار سو گراہیاں ہیں زمانہ خودہی ہے طالب نبی کا دسویں دلیل:.(خادم) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أو كَذَبَ بِايْتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ (الانعام: ۲۲) کہ اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا خدا کی آیات کا انکار
453 کرے اور خدا ان ظالموں کو کامیاب نہیں کرتا.( نیز دیکھو یونس: ۷۰ و النحل :۱۱۷) ع کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے مقصد میں کامیاب ہونا آپ کی صداقت کی زبر دست دلیل ہے.گیارہویں دلیل:.علِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ (الجن: ۲۷-۲۸) کہ خدا عالم الغیب ہے.وہ اپنے غیب پر اپنے رسولوں کے سوا اور کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا ( یعنی اس پر غیب ظاہر نہیں کرتا ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لاکھوں پیشگوئیاں بیان کیں جو پوری ہوئیں اور اس کا انکار مخالف بھی نہیں کر سکتے.مثلاً سعد اللہ لدھیانوی اور اس کے بیٹے کے ابتر ہونے کی پیشگوئی (تفصیل کے لئے دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۲ او تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶ ، ۱۸،۱۳۷۷) چند اور پیشگوئیاں بطور نمونہ درج کرتا ہوں.تفصیلاً حقیقۃ الوحی میں دیکھو.ا.کرم دین جہلمی والے مقدمہ سے بریت اور اس کا مفصل حال پہلے سے شائع کیا.(مواہب الرحمن - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۵۰) وَمِنْ آيَاتِي مَا أَنْبَأَنِي الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ، فِي أَمْرِ رَجُلٍ لَئِيمٍ وَبُهْتَانِهِ الْعَظِيمِ، وَأُوحِيَ إِلَى أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتَخَطَّفَ عِرْضَكَ، ثُمَّ يَجْعَلُ نَفْسَهُ غَرُضَكَ وَأَرَانِي فِيْهِ رُؤْيَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَأَرَانِى أَنَّ الْعَدُوَّ أَعَدَّ لِذَالِكَ ثَلَاثَةَ حُمَامًا لِتَوْهِيُنٍ وَإِعْنَاتٍ...وَرَأَيْتُ أَنَّ آخِرَ أَمْرِى نِجَاةٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ.اور یہ مقدمہ چندو لال اور آ تمارام کی کچہری میں چلتا رہا.جس میں آخر کار حضرت اقدس بری ہوئے.۲.ڈوئی کی موت کی پیشگوئی.کہ اگر مباہلہ کرے یا اگر نہ بھی کرے تب بھی اس کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا.سو وہ ایک لاکھ کی ملکیت سے بے دخل ہوا اور پھر اس کے بیوی بچے اس سے علیحدہ ہو گئے اور آخر فالج کے ذریعہ بہت خراب حالت میں مرا.(تفصیل دیکھو تہ حقیقت الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحه۵۱۲)
454 ۴.عبدالرحیم ابن نواب محمد علی خان کے متعلق.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹) ۵.دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں چراغ دین جمونی کے طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی.سو وہ ۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے بمرض طاعون ہلاک ہوا.کیا یہ کم نشان ہے؟ ۶.پیشگوئی زلزلہ کا دھکا.عَفَتِ الرِّيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا.“ یہ چارا پریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ والے زلزلہ کے نام سے واقع ہوا.ے.آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ (الهام ۳ رمئی ۱۹۰۵ء شائع شده اخبار بدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۷ /اپریل ۱۹۰۵ء صفر نمبرا.و تذکرہ صفحہ ۴۶۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) اس الہام میں بتایا گیا تھا کہ (۱) کسی ملک میں ایسے ایسے عظیم الشان انقلابات وقوع پذیر ہونگے کہ ہر طرف سے نادر خان کو ” المدد المدد کی پکار سے بلایا جائے گا اور جب لوگ اس کو نادر خان“ کہہ رہے تھے خدا اس کو نادر شاہ کے نام سے پکارتا تھا.اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ نادر خاں“ تخت پر متمکن ہو کر نا درشاہ“ کے لقب سے حکومت کرے گا.۲.پھر اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آخر کار وہ نادر شاہ کسی ہیبت ناک اور فوری حادثہ کے باعث طرفۃ العین میں صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائیگا اور اس کا یہ قتل ایسے وقت میں ہوگا جبکہ ملک کو اس کی خدمات کی اشد ضرورت ہوگی اور چاروں طرف سے آوازیں آئیں گی کہ آہ ! نادرشاہ کہاں گیا.“ چنانچہ اس پیشگوئی کا پہلا حصہ ۱۹۲۹ء میں پورا ہوا.جبکہ افغانستان میں امان اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے اور بچہ سقہ کے ہاتھ سے حکومت لے لینے کے لئے ” نادر خاں“ کو فرانس سے بلایا گیا.اور نادر خاں“ کابل میں آکر نادرشاہ“ کے لقب سے سر میر آرائے سلطنت ہوا.اسی وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے جہاں اس الہام کے ایک پہلو کے پورا ہونے پر اظہار مسرت کیا گیا وہاں ساتھ ہی اس الہام کے دوسرے پہلو کی طرف بھی صاف طور پر اشارہ کر دیا گیا تھا.چنانچہ نادر خاں کے قتل سے % 3 سال پہلے لکھا گیا کہ:.دوسرے مفہوم میں ایک ایسا خیال جھلک رہا ہے کہ موسوم ( نادر شاہ) کو کوئی خطرناک مصیبت پیش آئے گی اور اس کے نقصان پر بہت رنج و غم محسوس کیا جائیگا.او پر لکھا جاچکا ہے کہ آہ! نادر شاہ کہاں گیا کا ایک اور مفہوم بھی ہو سکتا ہے.اس لئے ممکن ہے کہ یہ الفاظ کسی اور موقع پر کسی
455 اور طرح بھی پورے ہوں لیکن ہم نادرشاہ کی بہتری کے لئے دعا کرتے ہیں.“ الفضل ۳ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ا کالم او۳) چنانچه ۱۸ دسمبر ۱۹۳۳ء کو معین دن کے وقت نادر شاہ افغانستان ایک شخص عبد الخالق“ نامی کے ہاتھوں سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا اور افغانستان نہیں بلکہ تمام عالم اسلامی نے آہ! نادر شاہ کہاں گیا زبانِ حال سے پکارا..مندرجہ بالا الہام کے بعد اگلا الہام یہ تھا:.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی صَدَّقْنَا الرُّؤْيَاءَ إِنَّا كَذَالِكَ نَجْزِى الْمُتَصَدِّقِينَ.“ یعنی (زلزلہ کی نسبت ) تیرے رویاء کو سچا کر دکھایا اور اسی طرح ہم صدقہ دینے والوں کو اجر دیتے ہیں.“ ( بدر جلد نمبرے مورخہ ۱۸ مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۵ و تذکره صفه ۴۶۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) وہ رویا جس کی طرف مندرجہ بالا عبارت میں اشارہ ہے یہ ہے:.رویا میں دیکھا کہ بشیر احمد (ابن حضرت مسیح موعود ) کھڑا ہے.وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا.“ ( بدر جلد ۶ نمبر ۱۸ مورخه صفحه ا کالما، ومکاشفات صفحه ۵۹) مندرجہ بالا الہامات کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی:.اور آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہوگا مجھے خبر دی....اور فرمایا: ” پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی لیکن راست باز اس سے امن میں ہیں.“ ( الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۳) ”خدا کے نشان ابھی ختم نہیں ہوئے اُس پہلے زلزلہ کے نشان کے بعد جو۴ را پریل ۱۹۰۵ء میں ظہور میں آیا جس کی ایک مدت پہلے خبر دی گئی تھی پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والا ہے وہ بہار کے دن ہوں گے نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہو گا جب کہ درختوں میں پتہ نکلتا ہے یا درمیان اُس کا یا اخیر کے دن.جیسا کہ الفاظ وحی الہی یہ ہیں.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں تھا اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالبا مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے.“ ( الوصیت - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۴)
456 ایک سخت زلزلہ آئے گا اور زمین کو یعنی زمین کے بعض حصوں کو زیر وزبر کر دے گا جیسا کہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۴) لوط کے زمانہ میں ہوا.“ مندرجہ بالا الہامات اور رویا اور عبارات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) کانگڑے والے زلزلے سے زیادہ شدید زلزلہ آئیگا (۲) زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آئیگا (۳) وہ زلزلہ بہار کے دنوں میں جو جنوری سے شروع ہوتے ہیں آئیگا (۴) جنوری کے مہینہ میں خوف کے ایام شروع ہونگے (۵) وہ زلزلہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی زندگی میں آئیگا (۶) صاحبزادہ صاحب موصوف سب سے پہلے شخص ہونگے جو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف متوجہ ہو کر دوسروں کو توجہ دلائیں گے ( ۷ ) وہ زلزلہ نادرشاہ کے قتل کے بعد جو پہلی بہار آئے گی اس میں آئیگا.چنانچہ جیسا کہ یہاں ہوا.نادر شاہ ۸ / نومبر ۱۹۳۳ء کو قتل ہوا.اور اس کے بعد جو پہلی بہار آئی یعنی جنوری ۱۹۳۴ء میں شمال مشرقی ہندوستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا جو زلزلہ بہار کے نام سے مشہور ہے وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں آیا اور آپ ہی نے سب سے پہلے اس طرف توجہ دلائی اور ایک ٹریکٹ ایک اور نشان“ کے عنوان سے شائع کیا.اس پیشگوئی میں ایک لطیف امر قابل غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے متعلق الہام ہوا کہ رَبِّ لَا تَرِنِي زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ رَبِّ لَا تَرِنِى مَوْتَ اَحَدٍ مِنْهُمُ کہ اے میرے رب ! مجھ کو وہ قیامت خیز زلزلہ نہ دکھانا.اے میرے رب! مجھے میری جماعت میں سے ایک آدمی کی موت نہ دکھانا.چنانچہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں نہیں آیا.جیسا کہ حضرت کا الہام تھا اخَّرَهُ اللَّهُ إِلَى وَقْتِ مُسَمًّى.اس میں تا خیر ڈال دی (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳ حاشیہ ) اور پھر اس زلزلہ میں صرف ایک احمدی فوت ہوا.۹.پنڈت دیانند کے متعلق فرمایا ہے کہ انکی زندگی کا خاتمہ ہوگیا ہے.اس الہام کا گواہ لالہ شرم پت ساکن قادیان ہے جس کو حضرت اقدس نے قبل از وقوع یہ بات بتائی تھی.سو وہ اسی سال مر گیا.۱۰.اپنی کتاب انوار الاسلام میں سعد اللہ لدھیانوی کے اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہونے کی پیشگوئی کی جس کا حلیہ بھی بیان فرمایا.خصوصا یہ کہ اس کے جسم پر پھوڑے ہیں.(دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۶۶ حاشیه مطبوعہ نمبر ۱۸۹۴ء) چنانچہ اس کے قریبا پانچ سال بعد حضرت خلیفہ اول کے گھر عبدالحی پیدا ہوا جس
کے جسم پر پھوڑے تھے.457 لیکھرام کی موت کی پیشگوئی بہت ہی واضح طور پر بیان فرمائی.الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران محمد اور پھر عِجُلٌ جَسَدٌ لَّهُ حَوَارٌ لَهُ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ.اور پھر دن کی بھی تعیین فرمائی کہ وَبَشَّرَنِي رَبِّي وَ قَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ وَ الْعِيْدُ أَقْرَبُ لیکھرام کے چھ سال کے اندر مرنے کی پیشگوئی کرامات الصادقین جو صفر ۱۳۱۱ھ میں مطبوع ہوئی اور پھر ۲۲ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں جو آئینہ کمالات اسلام میں ہے.اس کے ٹکڑے ہونے کے متعلق پیشگوئی کی تھی.پھر وہ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہوائے.١٢- يَأْ تِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۷ حاشیه در حاشیه ) ۱۳.سرالخلافہ کے۶۲ صفحہ پر مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے دعا کی.نیز حمامتۃ البشری صفحہ مطبوعه ۱۸۹۳ء میں ) اس پر الہام ہوا.اے بسا خانه دشمن که تو ویراں کر دی.“ ( تذکره صفحه ۴۲۵ الهام ۱۲ اپریل ۱۹۰۴، مطبوع ۲۰۰۴ء) سو پھر طاعون ملک میں آئی اور ہزاروں دشمن ہلاک ہوئے.نمونہ دیکھئے:.رسل بابا امرتسری، محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ، چراغ دین جمونی، نوراحمد تحصیل حافظ آباد، زین العابدین مقرب مولوی فاضل انجمن حمایت الاسلام، حافظ سلطان سیالکوٹی، مرزا سردار بیگ سیالکوٹی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۶) ۱۴.مباہلہ کے طور پر لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَذِبِين کہنے پر مندرجہ ذیل منکرین مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوئے.رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا.پھر سانپ کے ڈسنے سے مر گیا.مولوی عبدالعزیز ، مولوی عبد اللہ، مولوی محمد لدھیانوی ، مولوی شاہ دین لدھیانوی دیوانہ ہو کر ہلاک ہوا.عبد الرحمن محی الدین لکھو کے والے بعد الہام طذ اہلاک ہو گئے.کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہو گیا.۱۵.مولوی غلام دستگیر قصوری بددعا کے بعد ہلاک ہو گیا اور نمونہ برائے اخوان خود مولویان منکر ین مسیح ہیں.لے خاکسار خادم کے والد حضرت ملک برکت علی اسی نشان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعوڈ پر ایمان لائے.(خادم)
458 ۱۶.مواہب الرحمان صفحه ۱۲۷، ۱۲۸ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۴۶ تا ۳۴۸ میں محمد حسین بھیں کے متعلق پیشگوئی تھی.سو وہ مطابق وعید ہلاک ہوا.- يَعْصِمُكَ اللهُ وَلَوْ لَمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ (براہین احمدیہ ) حالانکہ بعد میں مارٹن کلارک وغیرہ نے مقدمہ بنایا.پھر بھی خدا نے بچایا.۱۸ - إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةِ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قد رعذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۳) ۱۹.دلیپ سنگھ والی پیشگوئی (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۴۸) ۲۰.عبد الحق غزنوی نے حضرت مسیح کو کافر کا فتوی دیا تو حضرت مسیح موعود نے اس کے اصرار مباہلہ پر دعا کی.کہ اگر میں کا ذب ہوں تو کا ذبوں کی طرح تباہ کیا جاؤں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے.(صفحہ ۲۴۰ حقیقۃ الوحی ) سو یہ پوری ہوئی.٢١ - رب لا تذرني فردا و انتَ خَيْرُ الورثين كی دعا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی متجاوز از پانچ لاکھ ہیں اور یہ آپ کی صداقت کا بین ثبوت ہے.۲۲.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو بخار ہوا.اور ان کو ظن ہو گیا کہ یہ طاعون ہے چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتے تھے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کو طاعون ہوگئی تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے.پھر آپ نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا تو بخار اتر گیا.۲۳ـشَـتَـانِ تُذْبَـحَـانِ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ.صاحبزادہ سید عبداللطيف مرحوم اور شیخ عبد الرحمن مرحوم شہدائے کابل مراد ہیں.۲۴.حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے مضمون متعلقہ جلسہ دھرم مہوتسو کے بارے میں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ مضمون بالا رہا.سول اینڈ ملٹری گزٹ اور بھی بہت سے اردو اخبارات نے اس کا اقرار کیا.۲۵.فروری ۱۹۰۴ء کو بنگال کی تقسیم کے متعلق پیشگوئی فرمائی پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی.پھر 1911ء میں ملک معظم جارج پنجم اس کے پورا ہونے کا باعث بنے.
459 بارہویں دلیل:.66 وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة ) كه أُخَرِينَ “ میں بھی جو ابھی تک صحابہ سے نہیں ملے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول کی بعثت مقدر ہے.سورۃ جمعہ کی اس آیت کو پہلی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں مقرر کی گئی ہیں.پہلی بعثت آپ کی امیین میں ہوئی اور دوسری بعثت آخرین کی جماعت میں ہوگی.اس کی تفصیل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے بتائی ہے.چنانچہ بخاری شریف میں ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِندَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يُرَاجِعُهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا وَ فِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ وَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ.(بخاری کتاب التفسير سورة جمعه باب قوله و الخريْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ - وتجريد البخاری مکمل معه عربی ترجمہ شائع کردہ لاہور فیروز الدین اینڈ سنز جلد ۲ صفحہ ۳۷.نیز مشکواۃ کتاب المناقب باب جامع المناقب الجمعة زير آيت ۴) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ جمعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جس میں یہ آیت بھی تھی.وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ حضور سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں.جن کا اس آیت میں ذکر ہے یعنی آخرِينَ مِنْهُمْ سے کون لوگ مراد ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا.حتی کہ حضور سے تین دفعہ پوچھا گیا.اسی مجلس میں حضرت سلمان فارسی بھی بیٹھے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان پر رکھ کر فرمایا.کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا.تو ان (اہلِ فارس) میں سے ایک شخص یا ایک سے زائد اشخاص اس کو پالیں گے.اس حدیث نے قرآن مجید کی اس آیت کی بالکل صاف اور واضح تفسیر کر دی ہے.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) اس میں کسی شخص کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کی آمد گویا
460 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی آمد تصور کی جائے گی.(۲) اس کے ماننے والے صحابہ کے رنگ میں رنگین ہو کر صحابی کہلانے کے مستحق ہونگے.(۳) وہ شخص فارسی الاصل ہو گا.(۴) وہ ایسے زمانہ میں مبعوث ہوگا.جبکہ اسلام دنیا سے اٹھ جائے گا اور قرآن کے الفاظ ہی الفاظ دنیا میں باقی رہ جائیں گے.(۵) اس کا کام کوئی نئی شریعت لانا نہ ہوگا بلکہ قرآن مجید کو ہی دوبارہ دنیا میں لا کر شائع کرے گا اور اسی کی طرف لوگوں کو بلائے گا.یا درکھنا چاہیے کہ اس حدیث میں ہرگز یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ شخص حضرت سلمان فارسی کی نسل میں سے ہو گا بلکہ بتایا یہ گیا ہے کہ ھو لاء ان میں سے ہوگا.یعنی قوم فارس میں سے یعنی فارسی الاصل ہو گا.اگر یہ کہنا ہوتا کہ وہ سلمان فارسی کی نسل میں سے ہوگا تو بجاۓ مَنْ هَؤُلَاءِ کہنے کے مَنْ هَذَا فرماتے کہ اس میں سے ہو گا.چنانچہ اسی حدیث کی دوسری روایت میں جو فردوس الاخبار دیلمی میں ہے.اس موقع پر یہ الفاظ ہیں : فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ فَضَرَبَ عَلَى فَخُذِ سَلْمَانَ فَقَالَ قَوْمُ هَذَا (دیلمی صفه ۱۶۲ نسخه موجوده کتب خانہ آصفیہ نظام دکن ) صحابہ نے پوچھا.یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ میں ذکر فرمایا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کی ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اس کی قوم سے، پس مسیح موعود کا فارسی الاصل ہونا ضروری ہے نہ کہ سلمان کی نسل سے ہونا.دوسری بات جو قابل غور ہے.وہ یہ ہے کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح موعود کی بعثت کا زمانہ بتا دیا ہے."وَلَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَّا “ گویا جب ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا یعنی عملی طور پر مسلمان زوال پذیر ہورہے ہو نگے.6671 ، پس اس حدیث سے مراد حضرت امام ابو حنیفہ ہر گز نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دوسری صدی کے قریب پیدا ہوئے.اور وہ زمانہ عروج اسلام کا زمانہ تھا لیکن یہ اس زمانہ کے متعلق پیشگوئی ہے جس کے متعلق فرمایا کہ ایمان اٹھ جائیگا اوراس زمانہ کے متعلق نواب نورالحسن خاں صاحب لکھتے ہیں کہ اب اسلام کا صرف نام قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے.“ اقتراب الساعه صفحه ۱۲ مطبع مفید عام الکا یہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ ) نیز ” سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے.“ (اہلحدیث امرتسر ارجون ۱۹۱۲) غرضیکہ یہی وہ زمانہ ہے جو خود پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ کسی مصلح ربانی کی ضرورت ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ
461 نے اس فارسی الاصل مرد، فتح نصیب جرنیل کو معین ضرورت کے وقت قادیان کی مقدس بستی میں کھڑا کیا جس نے ایمان اور قرآن کو دوبارہ دنیا میں لانے کی ڈیوٹی کو کماحقہ سرانجام دیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.آسمان بار دنشاں الوقت میگویدز میں ایں دوشاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار (ب) افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں.اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ میں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو.“ (ضمیمه اربعین نمبر ۳ ۴.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۶۹ ) نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مغل ہیں اس لئے فارسی الاصل نہیں ہو سکتے ؟ تو اس کے جواب میں شاہانِ اسلامیہ کی تاریخ کے متعلق مستند ترین کتاب میڈ یول انڈیا مصنفہ مسٹر سٹینلے لین پول ( جو تاریخ کی مشہور کتاب ہے ).(Mediaeval India under Mohammadan Rule) میں لکھا ہے کہ شاہان مغلیہ کے زمانہ میں یہ عام طور پر قاعدہ تھا کہ جو شخص درہ خیبر کے راستہ سے ہندوستان میں داخل ہوتا.خواہ وہ افغان ہو یا فارسی یا کسی اور قوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہو پھر بھی مغل ہی کہلاتا تھا.اس لئے کسی کا محض ”مرزا یا مغل“ کہلانا اسے فارسی الاصل ہونے سے محروم نہیں کرتا."The term Mughal......came to mean any fair man from central Asia or Afghanistan as distinguished from the darker native, foreign invaders or governing Muslim class, Turks, Afghans, Pathans and Mughals eventually because so mixed that were indifferently termed Mughals." کتاب مذکور مطبوعہ ٹی فشران ون لمیٹڈ لندن پندرھواں ایڈیشن ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۹۷ حاشیہ ) یعنی لفظ مغل ہندوستان کے کالے باشندوں کو ایشیاء کے دوسرے باشندوں سے ممتز کرنے کے لئے بولا جاتا تھا.مختلف حملہ آور یا حکمران مسلمان، ترک، افغان، پٹھان اور مغل کچھ
462 اسی طرح مل جل گئے کہ سب کو بلا امتیاز مغل“ کے نام سے پکارا جانے لگا.ہر گورے شریف آدمی کو دمغل“ کہا جاتا تھا.ناقابل تردید ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی الاصل ہونے کا نا قابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ بندوبست مال ۱۸۶۵ء میں حضرت صاحب کے دعوئی سے سالہا سال پہلے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد اور دوسرے بزرگ زندہ موجود تھے قادیان کے مالکان کے شجرہ نسب کے ساتھ فٹ نوٹ میں بعنوان ” قصبہ قادیان کی آبادی اور وجہ تسمیہ“ لکھا ہے:.مورث اعلیٰ ہم مالکان دیہ کا بعہد شاہانِ سلف ( ملک فارس) سے بطریق نوکری......کر......اس جنگل افتادہ میں گاؤں آباد کیا.“ اور اس کے نیچے مرزا غلام مرتضی صاحب و مرزا غلام جیلانی صاحب و مرزا غلام محی الدین وغیرھم کے دستخط ہیں.پس :.) یہ سرکاری کا غذات کا اندراج حضرت صاحب کے دعوئی سے سالہا سال قبل کا حضرت صاحب کے فارسی الاصل ہونے کا یقینی ثبوت ہے.(ب) مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتا ہے :." مؤلّف براہین احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے.“ (اشاعۃ السنہ جلد ے صفہ ۱۹۳) ( ج ) ” جناب مرزا صاحب یافث بن نوح کی اولاد سے ہیں.“ ( ٹریکٹ امر بھائی اور قرآنِ حکیم مصنفہ ایم.اے لطیف صفحہ ۱۶) یافث بن نوح کے متعلق ملاحظہ ہو غیاث اللغات فارسی :.شیخ ابن حجر شارح صحیح بخاری گفته است که فارسی منسوب بفارس بن غامور بن یافث بن نوح علیه السلام است.پس حضرت اقدس علیہ السلام کا فارسی الاصل ہونا ثابت ہے.جیسا کہ فرماتے ہیں:.ا.اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ.نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا.معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے انکو ملا تھا جس
463 طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے.بہر حال جو کچھ خدا نے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنی سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۸۱ حاشیه ) (ب) یادر ہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے.اب خدا کی کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے.سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا شکی اور ظنی.“ (اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلدی اصفه۳۶۵ حاشیہ) تیرھویں دلیل:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الآيَاتُ بَعْدَ الْمِأْتَيْنِ (مشكوة كتاب الفتن باب اشراط الساعة ) کہ مسیح و مہدی کے ظہور کی نشانیاں بارھویں صدی کے گزرنے پر ظاہر ہوں گی.چنانچہ ہم نے جو معنے گئے ہیں.حضرت ملاعلی قاری نے بھی ان کی تائید کی ہے.وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ اللَّامُ فِي الْمِاتَيْنِ لِلْعَهْدِ رَى بَعْدَ الْمِأَتَيْنِ بَعْدَ الْأَلْفِ وَهُوَ الْوَقْتُ لِظُهُورِ الْمَهْدِيّ.“ (مشكوة كتاب الفتن باب اشراط الساعة - نیز دیکھو حاشیہ ابن ماجہ جلد ۲ صفحه ۲۶ مصری حاشیہ علامہ سندھی) که ممکن ہے الماتین کا الف لام اس عہد کے لئے ہو جو ایک ہزار کے دو سو سال بعد کا ہے ( یعنی ۱۲۰۰) اور وہی وقت ظہور مہدی کا ہے.چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی اپنی کتاب بنج الکرامہ صفحه ام وصفحه ۳۹۴ و صفحه ۳۹۵ مطبع شاہجہانی بھوپال پر بہت سی روایات نقل کر کے یہی نتیجہ نکالا ہے.کہ مہدی تیرھویں صدی میں نازل ہونا چاہیے.نواب نور الحسن خاں لکھتے ہیں.اس حساب سے ظہور مہدی کا شروع تیرھویں صدی پر ہونا چاہیے تھا مگر یہ صدی پوری گزرگئی مہدی نہ آئے.اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے.اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ مہینے گزر چکے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم وکرم فرمائے.چار چھ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں.“ اقتراب الساعه از نواب نور الحسن خان صاحب صفحہ ۲۲۱ مطبع مفید عام الكامیة فی آگرہ) بَعْدَ الْمِأَتَيْنِ“ کے رو سے بارھویں صدی کے ختم ہونے پر تیرھویں صدی میں امام مہدی کا
464 پیدا ہونا ضروری تھا.ایسے وقت میں کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر چالیس سال کا ہو کر دعوی کر سکے.یہ تو ممکن نہیں کہ مہدی بارہویں صدی میں پیدا ہو.کیونکہ بَعْدَ الْمِاتَینِ میں لفظ بعد بتا تا ہے کہ وہ بارہویں صدی کے ختم ہونے سے پہلے پیدا نہیں ہوسکتا.پھر اس وجہ سے کہ امام مہدی نے اپنی صدی کا مجدد ہونا تھا اسلئے اسے تیرھویں صدی میں ایسے وقت میں پیدا ہونا تھا کہ انگلی صدی کے سر پر اس کی عمر چالیس سال کی ہو.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جو ۴ ارشوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ پیدا ہوئے اور ۱۲۹۰ھ کو چودھویں صدی کے سر پر آپ عین چالیس برس کی عمر میں شرف مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو کر دعویٰ مہدویت کے ساتھ ظاہر ہوئے اور عین چودھویں صدی کے سر پر آپ نے دعویٰ کیا.گویا حدیث اور روایات کے عین مطابق آپ دنیا میں تشریف لائے.سچ ہے.وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ! چودھویں دلیل:.حدیث شریف میں ہے:.( مسیح موعود ) إِنَّ لِمَهْدِيّنَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ.“ (دار قطنی کتاب العیدین باب صفة الصلواة الخسوف) کہ ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں.اور یہ صداقت کے دونوں نشان کبھی کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے ظاہر نہیں ہوئے.رمضان میں چاند کو ( چاند گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات کو اور سورج گرہن کے دنوں میں سے ) درمیانے دن کو سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ یہ گرہن ۱۸۹۴ء میں لگا.یعنی چاند کی ۱۳.۱۴.۱۵ تاریخوں میں سے۱۳ تاریخ کو رمضان کے مہینہ میں چاند (قمر) کو اور ۲۷.۲۸.۲۹ تاریخوں میں سے ۲۸ تاریخ کو ماہ رمضان میں سورج کو گرہن لگا.رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن لگنا حدیث شریف میں مراد نہیں ہوسکتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”قمر“ بولا ہے اور قمر پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند کو کہتے ہیں.پہلی رات
465 کے چاند کو ہلال کہتے ہیں.يُسَمَّى الْقَمَرُ لِلَيْلَتَيْنِ مِنْ اَوَّلِ الشَّهْرِ هِلَالا.....قَالَ الْجَوْهَرِيُّ الْقَمَرُ بَعْدَ ثَلَاثٍ إلى آخِرِ الشَّهْرِ.قَالَ ابْنُ السَّيْدَةِ وَ الْقَمُرُ يَكُونُ فِى لَيْلَةِ الثَّالِثَةِ مِنَ الشَّهْرِ.(لسان العرب زیر لفظ قمر) کہ جو ہری کہتا ہے کہ قمر وہ ہوتا ہے جو دوسری رات کے بعد کا چاند ہو اور اسی طرح ابن سیدہ نے بھی کہا ہے کہ مہینہ کی تیسری رات کو چاند قمر ہو جاتا ہے.وَهُوَ قَمَرٌ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَى اخِرِ الشَّهْرِ وَأَمَّا قَبْلُ ذَالِكَ فَهُوَ هِلَالٌ.“ " ( منجد زير لفظ قمر ) کہ تین راتوں کے بعد چاند قمر ہو جاتا ہے اور اس سے پہلے جو چاند ہوتا ہے اس کو ہلال کہتے ہیں.پس حدیث میں اول اور درمیانے سے مراد وہی ہو سکتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے.یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس کا پورا ہونا خود اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے.۳.اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے جو خود ایک بڑا عالم اور علم حدیث میں لگا نہ تھا.جیسا کر ضمن نمبر ۱۲ میں نخبۃ الفکر کے حوالہ سے بتایا گیا ہے.(شرح نخبة الفكر للقارى الموضوع جزء نمبر صفحه ۴۳۶) نوٹ :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حدیث کی صحت کے متعلق خوب مفصل بحث تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرما دی ہے.وہاں سے دیکھی جائے.چاند کو یہ گرہن ۲۱ / مارچ ۱۸۹۴ء کولگا.دیکھو اخبار آزادم رمئی ۱۸۹۴ء.نیز سول اینڈ ملٹری گزٹ ۶ را پریل ۱۸۹۴ء.۳.یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں پائی جاتی ہے.جس سے اس کی صحت کا پتہ چلتا ہے.(۱) دار قطنى كتاب العيدين باب صفة الصلوة الخسوف (۲) فناوئی حدیثیہ حافظ ابن حجرمکی.مصنفہ علامہ شیخ احمدشہاب الدین ابن حجر ہیتمی مطلب في علامة خروج المہدی وان القحطانی بعد المہدی.(۳) احوال الآخرة حافظ محمد لکھو کے صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۳۰۵ھ.(۴) آخری گت مصنفه مولوی محمد رمضان حنفی.مجتبائی مطبوعہ ۱۲۷۸ھ
466 (۵) حج الکرامه صفحه ۳۴۴ - مؤلفہ نواب صدیق حسن خان صاحب - مطبع شاہجہانی واقع بلدہ بھوپال (1) عقائد الاسلام مصنفہ مولانا عبدالحق صاحب محدث دہلوی صفحه ۱۸۳٬۱۸۲ مطبوعه ۱۲۹۲ھ (۷) قیامت نامه فارسی و علامات قیامت اردو مصنفہ شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی.(۸) اقتراب الساعة نواب نورالحسن خان صفحہ ۱۰۶ و ۱۰۷ مطبوعہ ۱۳۰ھ.(۹) مکتوبات امام ربانی مجد دالف ثانی جلد ۲ صفحه ۱۳۲ مکتوب نمبر ۶۷ (۱۰) اکمال الدین صفحه ۱۳۶۹ از شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمۃ جلد دوم مطبوعہ کتاب فروشی تہران.(۱) حج الکرامہ میں لکھا ہے کہ نعیم بن حماد، ابوالحسن خیری، حافظ ابو بکر بن احمد اور بہتی اس کے راوی ہیں ( صفحه ۳۴۴) (۱۲) علاوہ ازیں یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور دار قطنی اس بلند پایہ کا محدث ہے کہ شرح نخبۃ الفکر میں لکھا ہے:.قَالَ الدَّارُ قُطْنِيُّ يَا أَهْلَ بَغْدَادَ لَا تَظُنُّوا أَنَّ أَحَدًا يَقْدِرُ أَنْ يُكْذِبَ عَلَى رَسُولِ اللهِ وَأَنَا حَيٌّ (شرح نخبة الفكر للقارى.الموضوع جز نمبر صفحه ۴۳۶) که امام دار قطنی نے فرمایا کہ اے اہل بغداد! یہ خیال نہ کرو کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی حدیث منسوب کر سکتا ہے جبکہ میں زندہ ہوں.پندرہویں دلیل:.حدیث شریف میں ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلَّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.66 (ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة ومشكوة كتاب العلم ) کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا جو آکر دین کی تجدید کرے گا.صحت حدیث (1) وَقَدْ اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلى تَصْحِيح هَذَا الْحَدِيثِ مِنْهُمُ الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ وَالْبَيْهَقِيُّ فِى الْمُدْخَلِ وَ مِمَّنْ نَصَّ عَلَى صِحَّتِهِ مِنَ الْمُتَاخِرِينَ الْحَافِظُ
467 ابْنُ حَجَرٍ.(حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۱۳۳ طبع شاہجہانی بھوپال ) کہ استادانِ حدیث کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے.ان میں سے حاکم نے مستدرک میں بیہقی نے مدخل میں اس کو لکھا ہے اور متاخرین میں سے جن لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ان میں حافظ ابن حجر عسقلانی بھی ہیں.(ب) هذا الْحَدِيثُ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى الصَّحِيحِ مِنْهُمُ الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرِكِ وَالْبَيْهَقِيُّ فِى الْمَدْخَل.“ (مرقاة الصعود شرح ابن داؤد زير حديث هذا) یعنی استادان حدیث کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے.جن میں سے امام حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے مدخل میں اس حدیث کی صحت کا اقرار کیا ہے.( ج ) علامہ سیوطی اپنے رسالہ ” تنبیہ میں لکھتے ہیں:.اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى صِحْتِه.که تمام محدثین اس حدیث کی صحت پر متفق ہیں نیز اپنی کتاب جامع الصغیر جلد اصفحہ ہے باب الالف میں بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے.(د) حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال میں لکھا ہے:.چنانچه در حدیث مشہور آمده است إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلَّ مِائَةِ سَنَةِ الخِ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ.الْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ کہ مشہور حدیث میں ہے کہ ہر صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ مسجد دمبعوث کیا کرے گا.اس حدیث کو ابوداؤد اور امام حاکم اور بیہقی نے معرفہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے.( 0 ) یہ حدیث ابوداؤد میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے.ضروری نوٹ: بعض غیر احمدی دوست جب عاجز آجاتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ مجدد کے لئے دعوی کرنا ضروری نہیں.اس لئے ممکن ہے کہ اس صدی کا مجدددنیا میں موجود ہو ( رشید احمد گنگوہی وغیرہ) مگر اس نے دعوئی نہ کیا ہو.کیا کسی پہلے مجدد نے بھی دعوی مجددیت کیا ہے؟ اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ:.ا.تمام گزشتہ مجددین کی جملہ تحریرات ہمارے پاس محفوظ نہیں ہیں تا کہ ہم ہر ایک کا دعویٰ ان کی اپنی زبانی دکھا سکیں.ہاں جن مجددین کی بعض تحریرات محفوظ ہیں ان میں سے تین کا دعویٰ درج کیا جاتا ہے.ا.حضرت امام ربانی مجددالف ثانی تحریر فرماتے ہیں:.
468 صاحب این علوم و معارف مجدد ایں الف است كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى النَّاظِرِينَ فِي عُلُومِه وَ مَعَارِف.....و بدانند که بر سرمائی مجددی گذشته است، اما مجد دمائه دیگر است و مجددالف دیگر.چنانچه در میان مائة والف فرق است، در مسجد دین اینها نیز همانقدر فرق است بلکہ زیادہ ازاں.مکتوبات امام ربانی جلد ۲ صفحه ۱۵،۱۴ مکتوب چهارم ) ب.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:.قَدْ الْبَسَنِيَ اللَّهُ خِلْعَةَ الْمُجَدَّدِيَّةِ.(تفہیمات الہیہ بحوالہ بیج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۸ مطبع شاہجہانپوری بھوپال) ج.حضرت امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:.إِنِّيَ الْمُجَدِّدُ.حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۸ مطبع شاہجہانپوری بھوپال) ۲.اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ عام طور پر دعویٰ کرنا ضروری نہیں پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ چودھویں صدی کے مجدد کے لئے دعوی کرنا ضروری تھا.کیونکہ بقول شما ”جھوٹا مجدد‘ (نعوذ باللہ ) میدان میں کھڑ اللکار رہا تھا.ہائے ! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے.“ ضمیمه اربعین نمبر ۳ ۴.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۶۹) افسوس ان لوگوں کی حالتوں پر.ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی اور صدی پر بھی سترہ برس گزر گئے مگران کا مجد داب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے.“ اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۳۹۹) پس اگر اس وقت کوئی سچا مسجد “ بھی بقول شما بقید حیات موجود تھا (جس کو خدا تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو گمراہی سے بچانے کے لئے مبعوث کیا ہوا تھا تو اس کا فرض تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بالمقابل دعوی کر کے اُمت محمدیہ کو گمراہی سے بچاتا.ان حالات میں اس کا خاموش رہنا تو السَّاكِتُ عَنِ الْحَقِّ شَيْطَانٌ اَخْرَسُ “ ( تذكرة الاولياء صفحہ ۳۹۰ باب ۸۶) کے مطابق اس کو گونگا شیطان“ قرار دیتا ہے.چہ جائیکہ اس کو مدعی مفقود اور گواہ موجود“ کا مصداق بناتے ہوئے مضحکہ خیز طور پر ” مجدد قرار دیا جائے.
469 فہرست مجد دین اُمت محمدیہ (۱) پہلی صدی:.حضرت عمر بن عبد العزیز.(۲) دوسری صدی:.حضرت امام شافعی (احمد بن حنبل).(۳) تیسری صدی : - حضرت ابو شریح و ابوالحسن الشعری.(۴) چوتھی صدی:.حضرت ابوعبید اللہ نیشاپور قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ الله لیم.(۵) پانچویں صدی:.حضرت امام غزائی.(۶) چھٹی صدی:.حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ.(۷) ساتویں صدی:.حضرت امام ابن تیمیہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری.(۸) آٹھویں صدی:.حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ و حضرت صالح بن عمر رحمۃ اللہ علیہ.(۹) نویں صدی:.حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ.(۱۰) دسویں صدی:.حضرت امام محمد طاہر گجراتی رحمتہ اللہ علیہ.( بیج الکرامۃ صفحہ ۳۹۶،۳۹۵) (۱۱) گیارہویں صدی:.حضرت مجددالف ثانی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ.(سنج الکرامۃ صفحہ ۳۹۶،۳۹۵) (۱۲) بارہویں صدی:.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ.(۱۳) تیرہویں صدی:.حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ.(۱۴) چودہویں صدی :.و بر سر مائتہ چہار دہم کہ وہ سال کامل آنرا باقی است.اگر ظہورِ مهدی علیه السلام ونزول عیسی صورت گرفت.پس ایشاں مجددو مجتہد باشند.حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۱۳۵ تا۱۳۹ مطبع شاہجہان پوری بھوپال) کہ چودہویں صدی کے سر پر جس کو ابھی پورے دس سال باقی رہتے ہیں اگر مہدی اور مسیح موعود ظا ہر ہو گئے تو وہی چودہویں صدی کے مجدد ہوں گے.چہار دہم.ب.پس تو اں گفت که دریں وہ سال که از مائة ثالث عشر باقی است ظهور کند یا برسر حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ام مطبع شاہجہان پوری بھوپال) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عین وقت ( چودھویں صدی کے سر ) پر ظاہر ہوئے پس اگر آپ مجدد نہیں ہیں تو کوئی اور مجدد بتاؤ.جو چودہویں صدی کے سر پر آیا ہو.اگر کوئی غیر مسلم تم سے
470 پوچھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق چودہویں صدی کا مسجد دکہاں ہے تو اسے کیا جواب دو گے؟ اب تو چودھویں صدی میں سے بھی ۷۲ برس گزر گئے.سچ تو یہی ہے کہ وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ( مسیح موعود ) پس خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر تبر نہ چلا ؤ اور مخالفین اسلام کو اسلام پر مزید اعتراضات کرنے کا موقع نہ دو.سولھویں دلیل:.وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَاءِيلَ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَى مِنَ التَّوْرَيةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ (سورة الصف:۷) اور جب عیسی بن مریم نے کہا.اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں.تصدیق کرتا ہوں اس کی جو میرے سامنے ہے یعنی تو رات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا.اس کا نام احمد ہوگا.ان آیات میں حضرت عیسی علیہ السلام نے احمد رسول کی آمد کی بشارت دی ہے.اور صرف اس کا نام بتانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی بعض نہایت ضروری علامات بھی بیان فرما دی ہیں.اس پیشگوئی کے حقیقی مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ آپ کا غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.اس کی کئی وجوہ ہیں :.پہلی وجہ:.ان آیات کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ (الصف: ۸) کہ اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ( الہام کا جھوٹا دعویٰ کرے) اور وہ بلایا جائے گا اسلام کی طرف.اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جب احمد رسول اللہ آئے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر احمد رسول اللہ (نعوذ باللہ ) فی الواقعہ خدا کی طرف سے نہیں تو اندر میں صورت وہ
471 مفتری علی اللہ ٹھہرتا ہے اور مفتری علی اللہ سے بڑھ کر اور کوئی ظالم نہیں ہوسکتا.اور جو ظالم ہو اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ اِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ (الانعام:۲) کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.نیز اِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ) (النحل: ۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے ہیں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.پس اگر احمد رسول فی الواقعہ اپنے دعوئی میں سچا نہیں تو اندر میں صورت اس کو اسلامی تعلیم کی رو سے نا کام ونامراد ہو جانا چاہیے مگر وہ اپنے تمام دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے تمام مقاصد میں کامیاب و کامران ہوگا اور اس کی کامیابی اور کامرانی قطعی طور پر ثابت کر دے گی کہ وہ اپنے دعوئی میں صادق ہے اور اسلامی تعلیم کی رو سے وہ حق پر اور اس کے مخالفین ناحق پر ہیں.مگر باوجود اس واضح طریق فیصلہ کے پھر بھی اس کو اس کے مخالفین دعوت اسلام دیں گے اور کہیں گے کہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے.پس آاور مسلمان ہو جا.اس طرح وہ احمد رسول جو اسلامی تعلیم کی رو سے مفتری علی اللہ ثابت نہیں ہوا الٹا اسلام کی طرف دعوت دیا جائے گا.پس پہلی نشانی جو اس احمد رسول کی بتائی گئی ہے وہ هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَام کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف دعوت دیا جائے گا.اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :.ا.وہ احمد رسول ایسے زمانہ میں آئے گا جبکہ دنیا میں اسلام کے علمبر دار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ پہلے سے موجود ہوں گے گویا وہ خود بانی اسلام نہیں ہوگا.ب.اس کے مخالفین اس پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور خود کو حقیقی مسلمان قرار دیں گے.پس مندرجہ بالا علامات صاف طور پر بتا رہی ہیں کہ اس پیشگوئی کا حقیقی مصداق ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام، احمد کے متعلق ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف اپنے آپ کو اسلام کے مدعی قرار نہیں دیتے تھے.۲.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانی اسلام ہیں.آپ کے مخالفین نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان قرار نہیں دیا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیر مسلم قرار دے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اسلام کی طرف دعوت دی.نوٹ :.یا د رکھنا چاہیے کہ هُوَ يُدعی میں هُوَ کی ضمیر کا مرجع خواہ مَنْ أَظْلَمُ 66
472 اور مَنِ افْتَری “ کو قرار دیا جائے اور خواہ احمد کو قرار دیا جائے.دونوں صورتوں میں حقیقی مرجع ”احمد“ ہی بنتا ہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا.کیونکہ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ میں جس شخص کی طرف اشارہ ہے.وہ وہی ہے جس پر مفتری علی اللہ ہونے یعنی الہام کا جھوٹا دعویٰ کرنے کا الزام ہے اور جس کی اس الزام سے بریت مقصود ہے.ظاہر ہے کہ وہ احمد رسول ہی ہے جس کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينُ (النمل: ۱۴) که در حقیقت یہ خدا کا رسول نہیں بلکہ جادوگر ہے اور جادو کی مدد سے یہ نشانات دکھاتا ہے.پس من أظلم میں احمد رسول کے منکروں کا ذکر نہیں بلکہ خود احمد رسول کی بریت کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس احمد رسول پر مفتری ہونے کا الزام لگاتے ہو حالانکہ مفتری سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوتا اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہے کہ یہ ظالم نہیں.کیونکہ اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران ہے.پس هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ میں ھو کی ضمیر کا مرجع بہر حال احمد رسول“ ہی ہے نہ کوئی اور.دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی نے جادو گر قرار نہیں دیا.سو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے دشمنوں نے ”جادوگر ساح“.رمال اور نجومی قرار دیا ہے.چند حوالہ جات درج ذیل ہیں :.ا.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اپنی سرقہ کردہ کتاب موسومہ سیف چشتیائی میں لکھتے ہیں:.د تمہارے تمیں سال کے سحروں اور شعبدہ بازیوں کو دفعہ ہی نگل گیا.“ (سیف چشتیائی از مہر علی گولڑوی صفحه ۱۰۷) ۲.معلوم ہوا کہ اب تک ساحر قادیانی کا گھر نحوستوں سے بھرا ہوا ہے.“ تکذیب براہین احمدیہ مصنفہ یکھرام جلد ۲ صفحہ ۲۹۸ مطبع دھرم پر چارک جلندھر ) ۳.یہی ساحر قادیانی ہے.“.مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتا ہے :.(ایضاً صفحه ۳۰۰) اگر چہ یہ پیشگوئی ( متعلقہ وفات احمد بیگ.خادم ) تو پوری ہوگئی.مگر یہ الہام سے نہیں بلکہ علم ریل یا نجوم وغیرہ سے کی گئی تھی.“ (اشاعۃ السنہ بحوالہ اشتہار ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۹).ایک مخالف مولوی پنجابی شعر میں کہتا ہے
473 جادوگر ہے ساحر بھارا مسمریزم جانے رمل نجوم تے ہور بہتیرے کسی علم پچھانے بجلی آسمانی مصنفہ مولوی فیض محمد تصفحه ۱۲۳) یعنی مرزا قادیانی (علیہ الصلوۃ والسلام ) جادوگر اور ساحر ہیں اور مسمریزم اور ریل و نجوم وغیرہ علوم خوب جانتے پہچانتے ہیں.دوسری وجہ: يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ.“ (الصف: ۹) کہ لوگ چاہیں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.واللهُ مُتِمُّ نُورِه مگر خدا تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرے گا.اس آیت میں (جو اسمه أَحْمَدُ والی آیت کے ساتھ ہی ملحق ہے ) اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ احمد رسول کا زمانہ وہ ہوگا جس میں اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش نہیں کی جائے گی.بلکہ مزعومہ دلائل کے ساتھ اسلام کا مقابلہ کیا جائیگا.گویا منہ کی پھونکیں ماری جائینگی.سو یہ علامت بھی صاف طور پر بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی پیشگوئی کے مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص غلام احمد رسول اللہ ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ منہ کی پھونکوں کا نہ تھا بلکہ لوگ اسلام کو تلواروں کی طاقت سے مٹانا چاہتے تھے.لیکن آج دلائل مزعومہ کے زور یعنی منہ کی پھونکوں سے اسلام کو بجھایا جارہا ہے.یہی وجہ ہے کہ حاسد سلسلہ رسوائے عالم اخبار ”زمیندار“ کے ٹائٹل پر بھی یہ شعر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا تیسری وجہ:.یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلى الدين كله الخ ، کہ وہی اللہ ہے جس نے احمد رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسلام کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دے.اس آیت کے متعلق تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے کیونکہ اسلام کا یہ موعودہ غلبہ اسی کے زمانہ میں ہوگا.جیسا کہ حدیث میں ہے:.ا وَيُهْلِكُ اللهُ فِي زَمَنِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ (ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج دجال قبل يوم القيامة)
474 کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ میں تمام جھوٹے دینوں کو نیست ونابود کر کے صرف اسلام کو قائم کرے گا.ب.ابن جریر میں ہے:.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ذَالِكَ عِندَ خُرُوجِ عِیسی.( ابن جریر زیر آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ....الخ الصف: 9) کہ اس آیت میں جس غلبہ اسلامی کا ذکر ہے وہ مسیح موعود کی بعثت کے بعد واقع ہوگا.نیز دیکھو تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ سورۃ صف زیر آیت بالا.ج.نیز لکھا ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي قَوْلِهِ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الذِيْنِ كُلِّهِ الحَ قَالَ حِيْنَ خُرُوجِ عِيسَى.“ ابن جریر زیر آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ الخ الصف : ٩) کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدَيْنِ گیلا: کے متعلق فرمایا کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے ظہور کے بعد ہو گا.پس ثابت ہے کہ یہ آیت ساری کی ساری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی پیشگوئی ہے.نہ کسی اور کی.چوتھی وجہ:.یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل عیسی علیہ السلام ہیں.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل کی پیشگوئی کی اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے مثیل ( مسیح موعود ) کی.پانچویں وجہ:.یہ کہ اس پیشگوئی کا قرآن مجید میں ذکر کرنے سے مقصود بخیال غیر احمدیاں صرف عیسائیوں پر اتمام حجت کرنا اور احمد رسول کی صداقت کی ایک دلیل دینا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا والدین نے جو نام رکھا وہ احمد نہیں بلکہ محمد تھا.عیسائی تو ہرگز نہیں مانتے کہ آپ کا نام احمد تھا.کسی مدعی کا یہ کہنا کہ اللہ نے میرا نام یہ رکھا ہے اس کے ماننے والوں کے لئے تو حجت ہوسکتا ہے لیکن اس کے منکروں پر ہر گز حجت نہیں ہو سکتا اور جو پہلے ہی مانتا ہے اس کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں اور جو نہیں مانتا اس کے لئے یہ دعوی دلیل نہیں بن سکتا.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جائے تو یہ عیسائیوں کے لئے کوئی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی.لہذا اس کے بیان
475 کرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا.پس اس پیشگوئی کا مصداق وہی ہے جس کے نام کا ضروری حصہ احمد ہے.صفاتی نام نہیں بلکہ ذاتی نام (علم) ہے.بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صفاتی نام ”احمد“ بھی ہے مگر یہ آپ کا تعلق انسانوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہے جس کو کوئی انسان خود بخود نہیں دیکھ سکتا.کیونکہ ”احمد“ کے معنی ہیں ”سب سے زیادہ تعریف کرنے والا.اور محمد کے معنی ہیں ”سب سے زیادہ تعریف کیا گیا.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد اور تعریف کرنے والے ہیں.اس لئے آپ صفاتی طور پر احمد ہیں لیکن دنیا کے ساتھ آپ کا تعلق محمدیت کا ہے.پس ایک عیسائی کے لئے آپ کی شان احمدیت کو سمجھ کر اس پر ایمان لانا ممکن نہیں ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کے محمد ہیں اور احمد اللہ تعالیٰ کے ہیں.نوٹ:.بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام حضور کے والدین نے یا حضور کے دادا نے بوقت پیدائش احمد رکھا تھا مگر ان تمام روایات کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ یہ سب موضوع روایات ہیں.ان میں سے اکثر واقدی کی ہیں.جو جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں کا استاد ہونے کی وجہ سے رئیس الوضا عین“ کہلاتا ہے.چنانچہ ان روایات کے متعلق حضرت امام محمد شوکانی لکھتے ہیں : - وَمِنْهَا أَحَادِيتُ الَّتِى تُرُواى فِى تَسْمِيَّةِ أَحْمَدَ لَا يُثْبَتُ مِنْهَا شَيْءٌ.(فوائد المجموعه فى احاديث الموضوعه للشوکانی صفحه ۱۴۶/۱۰۸) یعنی بعض وہ روایات ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضور کا نام احمد رکھا گیا تھا لیکن ان روایات سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا.چھٹی وجہ : یہ ہے کہ لفظ محمد کے معنے ہیں کہ سب سے زیادہ تعریف کیا گیا.“ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ”محمد“ ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ کوئی شخص آپ کا ”احمد“ ( سب سے زیادہ تعریف کرنے والا) ہو.گویا خود لفظ ”محمد“ میں یہ پیشگوئی ہے کہ کوئی انسان دنیا میں احمد ہو کر آئے گا.جو اس نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ تعریف کرے گا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم صفاتی طور پر ”احمد مانتے ہیں لیکن یہ تعلق آپ کا خدا سے ہے مگر یہ پیشگوئی (اسمةَ أَحْمَدُ والی ) عیسائیوں پر اتمام حجت کے لئے بیان کی گئی ہے اور عیسائی اس تعلق کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا سے ہے جان یامان نہیں سکتے.لہذا ضروری ہے کہ اس پیشگوئی کا وہی مصداق ہو جو ظاہری
476 طور پر احمد ہو یعنی جس کا علم احمد ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام احمد تھا.غلام احمد کے لفظ میں لفظ ”غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے اکثر ناموں کے ساتھ پایا جاتا ہے.غلام مرتضی ، غلام قادر ، غلام مجتبی وغیرہ اور ظاہر ہے کہ علم وہی ہوتا ہے جوتمیز واقع ہو اور غلام احمد میں سے تمیز احمد ہے.پس وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم ہے.چنانچہ اس کا دوسراز بر دست ثبوت یہ ہے کہ آپ کے والد مرز اعلام مرتضی صاحب بھی آپ کا نام احمد ہی سمجھتے تھے.جیسا کہ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر جود و گاؤں آباد کئے ان کے نام قادر آباد اور احمد آباد علی الترتیب مرزا غلام قادرا ور غلام احمد علیہ السلام کے نام پر رکھے.غیراحمدی: فَلَمَّا جَاءَهُمُ بِالْبَيِّنت میں لَمَّا ماضی جَاءَ پر آیا ہے اور جب ماضی پر لَمَّا داخل ہو تو اس کے معنی ہمیشہ ماضی ہی کے ہوتے ہیں.مستقبل کے نہیں ہو سکتے.احمدی:.یہ قاعدہ درست نہیں.قرآن مجید میں ہے.فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيِّتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا (الملک: ۲۸) کہ جب وہ قیامت کو دیکھیں گے تو کافروں کے منہ خراب ہو جائیں گے.اس آیت میں راوہ ماضی ہے اور اس پر کما داخل ہوا ہے.مگر یہ متقبل ( یعنی قیامت) کے متعلق ہے.بعینہ اسی طرح فَلَمَّا جَاءَهُمْ بھی مستقبل کے متعلق ہے.نوٹ:.حدیث أَنَا بَشَارَتْ عِیسی “ میں جس بشارت کا ذکر ہے وہ سورۃ صف والی بشارت نہیں.کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے در حقیقت دو نبیوں کی بشارت دی ہے.(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی.(۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی.چنانچہ انجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو بشارت ہے وہ ان الفاظ میں ہے.اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے.“ ( یوحنا ۱۴٫۳.و یوحنا ۷ - ۱۶/۱۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بشارت کا اپنے آپ کو مصداق قرار دیا ہے.( تفصیل مضمون ”آنحضرت کی نسبت بائبل میں پیشگوئیاں پاکٹ بک طذا میں دیکھو.) سترھویں دلیل:.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ “ (الواقعة: ۸۰) که قرآن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف انہی پر کھولے جاتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت امام ربانی مجددالف ثانی اپنے مکتوبات میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
477 ”مساس نکنند اسرار مکنون قرآنی را مگر جماعته را که از لوث تعلقات بشریہ پاک شده باشند.ہرگاہ نصیب پاکاں مساس اسرار قر آنی بود بدیگران چه رسد؟“ مکتوبات امام ربانی جلد ۳ صفحه ۱ المکتوب چهارم شروع) پس قرآن مجید کے حقائق و معارف پر آگاہ ہونا صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا کہ قرآن مجید کے علوم اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں.دنیا کا کوئی عالم میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے.مگر مولویوں نے اپنی خاموشی سے ثابت کر دیا کہ آسمانی علوم انہیں پر کھولے جاتے ہیں جو آسمان سے اپنے تعلقات وابستہ کر چکے ہوں.اور یہ کہ دنیا کے مولویوں اور عالموں کا کوئی بڑے سے بڑا استاد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں علاوہ مختلف آیات کی تفسیر لکھنے کے قرآن مجید کی تفسیر کے نہایت قیمتی اصول بتائے اور خودان اصول کے مطابق آیات قرآنی کی تفسیر کر کے بتا دیا کہ آسمانی علوم آسمان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں ہی کا حصہ ہوتے ہیں.محض ضَرَبَ يَضْرِبُ ضَرْبًا کی گردان رٹ لینے اور عربی سیکھ لینے سے قرآن مجید نہیں آجاتا.اگر قرآن مجید کے حقائق و معارف کے سمجھنے کا معیار محض عربی زبان کا جاننا ہی ہوتا تو "جرجی زیدان یا اس جیسے عیسائی دہریہ اور یہودی جو عربی زبان کے مسلم استاد اور ادیب ہیں وہ قرآن مجید کے حقائق و معارف اور معانی ومطالب کے سب سے بڑے مفسر ہوتے.مگر خدا تعالیٰ نے لَا يَمَةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ فرما کر بتا دیا کہ قرآن مجید کے علوم کو وہی مس کر سکتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوں.گویا جتنی جتنی طہارت و پاکیزگی زیادہ ہوگی، اتنا اتنا علوم قرآنی کا دروازہ کھلتا چلا جائے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے علوم قرآنی کے مقابلہ میں تمام دنیا کے علماء و فضلاء وفصحاء و بلغاء کا صاف طور پر عاجز آجانا آپ کے صادق اور راستباز ہونے پر نا قابل تر دید گواہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.پھر ایک اور پیشگوئی نشان الہی ہے جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں درج ہے.اور وہ یہ ہے الرَّحْمَنُ - عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمن:۳۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم قرآن کا وعدہ دیا تھا.سواس وعدہ کو ایسے طور سے پورا کیا کہ اب کسی کو معارف قرآنی میں مقابلہ کی طاقت نہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور
478 کسی سورۃ کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کر سکے گا اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رخ نہیں کیا.پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ان کے لئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں.“ (ضمیمه انجام ، روحانی خزائن جلدا آنتقم صفحه ۲۹ تا ۲۹۳) ”میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ میں فصیح بلغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سورۃ کی تفسیر لکھ سکتا ہوں شخص خواہ وہ اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور با لمواجہ بیٹھ کرکوئی دوسراشخ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا.(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۱ ) اب کس قدر ظلم ہے کہ اس قدر نشانوں کو دیکھ کر پھر کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور مولویوں کے لئے تو خود ان کی بے علمی کا نشان اُن کے لئے کافی تھا کیونکہ ہزار ہار وپے کے انعامی اشتہار دئے گئے کہ اگر وہ بالمقابل بیٹھ کر کسی سورۃ قرآنی کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں میرے مقابل پر لکھ سکیں تو وہ انعام پاویں.مگر وہ مقابلہ نہ کر سکے تو کیا یہ نشان نہیں تھا کہ خدا نے اُن کی ساری علمی طاقت سلب کر دی.باوجود اس کے کہ وہ ہزاروں تھے تب بھی کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ سیدھی نیت سے میرے مقابل پر آوے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ اس مقابلہ میں کس کی تائید کرتا ہے.“ ( نزول ابیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۷ - ۴۰۸) نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو طرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں.(۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا.(۲) دوسرے یہ کہ زبان قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کر کے بھی اس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو نا کام اور نا مرادر ہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق و معارف و نکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں.اس الہام کے بعد میں نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی تفسیریں لکھیں اور نیز عربی زبان میں کئی کتابیں نہایت بلیغ و فصیح تالیف کیں اور مخالفوں کو ان کے مقابلہ کے لئے بلا یا بلکہ بڑے بڑے انعام ان کے لئے مقرر کئے اگر وہ مقابلہ کرسکیں اور ان میں سے جو نامی آدمی تھے
479 جیسا کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ ان لوگوں کو بار بار اس امر کی طرف دعوت کی گئی کہ اگر کچھ بھی ان کو علم قرآن میں دخل ہے یا زبان عربی میں مہارت ہے یا مجھے میرے دعوئی مسیحیت میں کا ذب سمجھتے ہیں تو ان حقائق و معارف پر از بلاغت کی نظیر پیش کریں جو میں نے کتابوں میں اس دعویٰ کے ساتھ لکھے ہیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بالاتر اور خدا تعالیٰ کے نشان ہیں مگر وہ لوگ مقابلہ سے عاجز آگئے.نہ تو وہ ان حقائق معارف کی نظیر پیش کر سکے جن کو میں نے بعض قرآنی آیات اور سورتوں کی تفسیر لکھتے وقت اپنی کتابوں میں تحریر کیا تھا اور نہ اُن بلیغ اور فصیح کتابوں کی طرح دو سطر بھی لکھ سکے جو میں نے عربی میں تالیف کر کے شائع کی تھیں.“ تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۳۰-۲۳۲) خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے.اول.ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں.اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے.دوم اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے.سوم.اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں.پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہو کر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھے میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالا تفاق منظور ہو کر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں.“ (ضمیمہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۰۳ حاشیہ) ” میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بنا دیں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے.اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے.پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.“ (ضمیمہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۴) غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے.تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کر سکے.سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا.“ (ضمیمه انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۱) ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور
480 مولوی عبدالجبار غزنوی اور محد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں.بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دوچار عرب کے ادیب بھی طلب کرلیں.اربعین ضمیمہ نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلدی اصفحه ۴ ۴۸) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علوم قرآن کے مقابلہ کے لئے تمام دنیا کے علماء کو للکارا مگر انہوں نے فرار اختیار کر کے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ خدا کا پیارا مسیح آسمانی علوم لے کر دنیا میں آیا تھا جس کے بالمقابل ان کے زمینی اور خشک علوم کی حیثیت جہالت سے بڑھ کر نہ تھی.اٹھارہویں دلیل:.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.کہ اگر مخالفین با وجود زبردست دلائل اور عظیم الشان نشانات کے پھر بھی خدا کے فرستادہ پر ایمان نہ لائیں تو آخری طریق فیصلہ ”مباہلہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین اپنے جھگڑے کو اس احکم الحاکمین خدا کی عدالت میں لے جائیں جو اپنے فیصلہ میں غلطی نہیں کرتا.چنانچہ فرماتا ہے.فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ - (ال عمران: ۶۲) کہ اگر یہ لوگ باوجود دلائل بینہ اور براہین قاطعہ کے پھر بھی نہیں مانتے تو ان سے کہہ دے کہ آؤ! ہم دونوں فریق اپنے اہل وعیال اور جماعت کو لے کر خدا کے سامنے دعائے مباہلہ کریں اور جھوٹے پر لعنت اللہ کہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکرین نے بھی جب با وجود دلائل بینہ کے آپ کی مخالفت کو نہ چھوڑا تو آپ نے ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا لیکن حق کی کچھ ایسی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہوئی کہ بجز فرار کے ان کو کوئی چارہ کار نظر نہ آیا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.لَمَّا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارَى حَتَّى يَهْلِكُوْا كُلُّهُمْ “ تفسیر کبیر از امام فخرالدین رازیؒ جلد ۲ صفحه ۱۹۹ زیر آیت مذکور ) کہ اگر وہ مباہلہ کرتے تو ایک سال کے اندر سب کے سب ہلاک ہو جاتے.پس مذہبی اختلافات کے لئے آخری فیصلہ مباہلہ ہے.فریقین احکم الحاکمین خدا کی عدالت سے صحیح اور سچے فیصلے کے لئے ملتجی ہوتے ہیں اور وہ ایک سال کے اندر جھوٹے کو برباد کر کے حق اور باطل میں ابدی فیصلہ صادر فرما دیتا ہے.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے پیارے آقا وسردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت پر عمل کیا اور جب دلائل عقلی و نقلی اور نشانات ارضی و سماوی غرضیکہ ہر
481 طریق سے ان پر اتمام حجت ہو چکی تو آپ نے ان کو آخری طریق فیصلہ ( مباہلہ ) کی طرف بلایا اور تحریر فرمایا:.سواب اٹھو اور مباہلہ کے لئے تیار ہو جاؤ.تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا.اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر.دوسرے الہامات الہیہ پر.سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا تو ڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعوئی کا دوسراشق باقی رہا.سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کر سکتا کہ اب اس دوسری بناء کے تصفیہ کیلئے مجھ سے مباہلہ کرلو.“ ( انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۵) اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعا کروں گا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے.یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آ جائے.تا میری ذلت ظاہر ہوا اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں.اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم وخبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں.اور تیرے منہ کی باتیں ہیں.تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر یک شخص جو مباہلہ کیلئے حاضر ہو جناب الہی میں یہ دعا کرے اور یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں ”آمین“.اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا.یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں.تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے.اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤنگا.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں
482 مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا.اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.“ آپ نے یہاں تک لکھا کہ میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان ( انجام انتقم ، روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۶۷) کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.“ یہ دعوت مباہلہ تحریر فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالف علماء کو نہایت غیرت دلانے والے الفاظ میں مخاطب فرمایا.دو گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہوا اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے ( انجام انتقم ، روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۶۷) یہ وہ آخری طریق فیصلہ تھا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ بالا پر شوکت الفاظ میں اپنے ملکفر علماء کو دعوت دی.رسالہ ” انجام آتھم ان کو بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا.مگران میں سے ایک بھی میدان میں نہ آیا.انیسویں دلیل:.حدیث میں ہے :.وَلَيُتْرَكُنَّ الْقِلاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا (مسلم باب نزول عیسی که مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں بیکا ر ہو جائیں گی اور ان پر تیز سفر نہیں کیا جائے گا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعوڈ ایسے زمانہ میں آئے گا جبکہ ایسی ایسی سواریاں ایجاد ہوں گی کہ جن کے باعث اونٹنیاں لمبے اور جلدی کے سفروں میں متروک ہو جائیں گی.بار برداری یا معمولی مسافت کا کام اگر اونٹوں سے لیا جاتا رہے تو وہ خلاف حدیث نہیں کیونکہ یہ امر عقلاً محال ہے کہ کسی وقت کلّی طور پر سب کی سب اونٹنیاں بیکار کر دی جائیں.حدیث میں فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا “ کے الفاظ واضح ہیں.اور قرآن مجید میں ” اَلْعِشَارُ “ کا لفظ ہے جس کے معنی حاملہ اونٹنی کے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی ایسی اعلیٰ سواریاں نکل آئیں گی کہ ہر سفر کے لیے اونٹوں کا لابدی ہونا باقی نہ رہے گا.یعنی جیسا کہ زمانہ قدیم میں شدت ضرورت کے ماتحت حاملہ اونٹنیوں کو بھی کام کاج اور مشقت سے
483 مستثنی نہیں کیا جاتا تھا اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں ایسا نہ ہوگا.نیز اس حدیث نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ قرآن مجید کی آیت ” إِذَا الْعِشَارُ عُظَلَت “ بھی زمانہ مسیح موعود کے متعلق ہے.کیونکہ لَيُتُرَ كُنَّ الْقِلَاصُ والی حدیث صریح طور پر مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق ہے.بیسویں دلیل:.مولوی ثناء اللہ مرحوم امرتسری جماعت احمدیہ کے مشہور معاندین میں سے تھے اور عام طور پر یہ دعوی کیا کرتے تھے کہ وہ جماعت احمدیہ کے لڑیچر سے خوب واقف ہیں.ہم اس جگہ اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کہ ان کا یہ ادعا کس حد تک درست تھا، لیکن بانگ بلند کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اس دعوئی کو بھی صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک روشن اور واضح نشان بنایا ہے.آج سے تمیں سال قبل ۱۹۲۳ء میں جب وہ حیدر آباد دکن میں بغرض تردید احمدیت گئے ہوئے تھے سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب آف سکندر آباد نے ( جو جماعت احمدیہ کے ایک ممتاز فرد ہیں.) ایک اشتہار انعامی دس ہزار سات صدر و پیہ شائع کیا جس میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ فی الواقعہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے دعاوی میں سچا نہیں سمجھتے تو وہ حلف اٹھا کر اس امر کا اعلان کر دیں.اگر اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہ جائیں تو دس ہزار روپیدان کی خدمت میں پیش کیا جائے گا.اور حلف اٹھانے کے وقت نقد پانسور و پید ان کی نذر ہوگا.علاوہ ازیں اس شخص کو بھی جو مولوی ثناء اللہ صاحب کو اس حلف کے اٹھانے پر آمادہ کرے دو صد روپیہ انعام دیا جائے گا.اس اعلان کے بعد مولوی ثناء اللہ تقریباً ۲۶ سال زندہ رہے مگر مولوی صاحب موصوف نے حلف مؤکد بعذ اب اٹھانے کا نام نہ لیا اور ان کا اس سید ھے اور صاف طریق فیصلہ سے پہلوتہی کرنا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ ان کو دل سے اس بات کا یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے.ہم ذیل میں جناب سیٹھ صاحب کا انعامی اشتہار نقل کر کے تمام اہل انصاف حضرات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ حیرت انگیز مگر دانشمندانہ گریز بتاتا ہے کہ وہ صداقت کی بنا پر احمدیت کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا اصل موجب دنیا طلبی کے سوا اور کچھ نہیں.جیسا کہ حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:.إِذَا خَرَجَ هَذَا الْإِمَامُ الْمَهْدِى فَلَيْسَ لَهُ عَدُوٌّ مُّبِينٌ إِلَّا الْفُقَهَاءُ خَاصَّةٌ فَإِنَّهُ لَا يَبْقَى لَهُمْ تَمِيزٌ عَنِ الْعَامَّةِ ( فتوحات مکیه از امام محی الدین ابن عربی جز ثالث مطبوعہ دارا حیاء التراث الاسلامی
484 بیروت - لبنان جلد ۳ صفحه ۳۳۸) کہ جب حضرت امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اس زمانہ کے مولوی خاص طور پر ان کے دشمن ہوں گے محض اس وجہ سے کہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان پر ایمان لانے سے عوام پر اثر اور رسوخ قائم نہیں رہے گا.نقل اشتهار مؤرخه ۲۲ فروری ۱۹۲۳ء مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مؤرخہ، افروری ۱۹۲۳ء کو ایک خاص مجلس میں جس میں کہ ہمارے شہر کے ایک معزز محترم باوقار انسان یعنی عالی جناب مہاراجہ سرکرشن پرشاد بہادر بالقا بہ بھی رونق افروز تھے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میرے حیدر آباد آنے کا اصل مقصود سیٹھ عبداللہ الہ دین ہیں تا کہ ان کو ہدایت ہو جائے.اس لئے میں اپنے ذاتی اطمینان اور تسلی کے لئے بذات خود یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب اس حلف کے مطابق جو میں اس اشتہار میں درج کرتا ہوں قسم کھا جائیں مگر قبل اس کے کہ مولوی صاحب حلف اٹھا ئیں ضروری ہوگا کہ ایک اشتہار کے ذریعہ صاف طور پر حیدر آبا د وسکندر آباد میں شائع کر دیں کہ میں اس حلف کو جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور اپنے عقائد کے درمیان حق و باطل کے تصفیہ کا فیصلہ کن معیار قرار دیتا ہوں اور یہ کہ اس حلف کے بعد سال کی میعاد کے اخیر دن تک میں اپنے اس اقرار معیار فیصلہ کن کے خلاف کوئی تحریر یا تقریر شائع نہ کروں گا اور نہ بیان کروں گا.ہاں ویسے مولوی صاحب کو اختیار ہے کہ مرزا صاحب کی تردید بڑے زور سے کرتے رہیں مگر اس حلف کے فیصلہ کن معیار ہونے سے حلف کے بعد سال بھر تک انکار نہ کریں.میری طرف سے یہ اقرار ہے کہ اس حلف کے بعد اگر مولوی صاحب ایک سال تک صحیح وسلامت رہے یا ان پر کوئی عبرتناک و غضبناک عذاب نہ آیا تو میں اہل حدیث ہو جاؤں گا.یا مولوی ثناء اللہ صاحب کے حسب خواہش مبلغ دس ہزار روپیہ مولوی صاحب موصوف کو بطور انعام کے ادا کردوں گا.حلف کے الفاظ یہ ہیں:.جو مولوی ثناء اللہ صاحب جلسہ عام میں تین مرتبہ دہرائیں گے اور ہر دفعہ خود بھی اور حاضرین بھی آمین کہیں گے.میں ثناء اللہ ایڈیٹر اہلحدیث خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات پر حلف کرتا ہوں کہ میں نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے تمام دعاوی و دلائل کو بغور دیکھا اور سنا اور سمجھا اور اکثر تصانیف ان
485 کی میں نے مطالعہ کیں اور عبداللہ الہ دین کا چیلنج انعامی دس ہزار روپیہ کا بھی پڑھا.مگر میں نہایت وثوق اور کامل ایمان اور یقین سے یہ کہتا ہوں کہ مرزا صاحب کے تمام دعاوی والہامات جو چودہویں صدی کے مجدد و امام وقت و مسیح موعود و مہدی موعود اور اپنے نبی ہونے کے متعلق ہیں وہ سراسر جھوٹ وافتراء اور دھوکا و فریب اور غلط تاویلات کی بناء پر ہیں.برخلاف اس کے عیسی علیہ السلام وفات نہیں پائے بلکہ وہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ہنوز اسی خا کی جسم کے ساتھ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور وہی مسیح موعود ہیں اور مہدی علیہ السلام کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا.جب ہوگا تو وہ اپنے منکروں کو تلوار کے ذریعہ قتل کر کے اسلام کو دنیا میں پھیلائیں گے.مرزا صاحب نہ مجدد وقت ہیں، نہ مہدی ہیں نہ مسیح موعود ہیں، نہ امتی نبی ہیں بلکہ ان تمام دعاوی کے سبب میں ان کو مفتری اور کافر اور خارج از اسلام سمجھتا ہوں.اگر میرے یہ عقائد خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹے اور قرآن شریف و سیح احادیث کے خلاف ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی در حقیقت اپنے تمام دعاوی میں خدا تعالیٰ کے نزدیک سچے ہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادروز والجلال خدا جو تمام زمین آسمان کا واحد مالک ہے اور ہر چیز کے ظاہر وباطن کا تجھے علم ہے.پس تمام قدرتیں تجھی کو حاصل ہیں.تو ہی قہارا و منتقم حقیقی ہے اور تو ہی علیم و خبیر سمیع و بصیر ہے.اگر تیرے نزدیک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعاوی والہامات میں صادق ہیں اور جھوٹے نہیں اور میں ان کے جھٹلانے اور تکذیب کرنے میں ناحق پر ہوں تو مجھ پر ان کی تکذیب اور ناحق مقابلہ کی وجہ سے ایک سال کے اندر موت وارد کر یا کسی دردناک اور عبرت ناک عذاب میں مبتلا کر کہ جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو.تاکہ لوگوں پر صاف ظاہر ہو جائے کہ میں ناحق پر تھا اور حق و راستی کا مقابلہ کر رہا تھا.جس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا مجھے ملی ہے.آمین ! آمین !! آمین !!! نوٹ :.اس عبارت حلف میں اگر کوئی ایسا عقیدہ درج ہو جسے مولوی ثناء اللہ صاحب نہیں مانتے تو میرے نام ان کی دستخطی تحریر آنے پر اس عقیدہ کو اس حلف سے خارج کر دوں گا.خاکسار عبداللہ الہ دین سکندر آباد ۱۲ فروری ۱۹۲۳ء نقل اشتهار مورخه ۸ مارچ ۱۹۲۳ء
486 مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور ان کے ہم خیالوں پر آخری اتمام حجت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعاوی والہامات کے مخالف اپنے عقائد ظاہر کرتے ہیں اور جن کے متعلق سکندر آبا د وحیدر آباد میں انہوں نے بہت سے لیکچر دیئے ہیں اگر در حقیقت ان عقائد میں مولوی ثناء اللہ کے نزدیک حضرت مرزا صاحب حق پر نہیں ہیں اور جو عقائد مولوی ثناء اللہ صاحب بیان کرتے ہیں وہی بچے ہیں تو کیوں مولوی صاحب اپنے ان عقائد کو حلفاً بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب خود اپنی تفسیر ثنائی جلد اول زیر آیت إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ (آل عمران: ۲۹) صفحه۱۹۳ اشاعت دسمبر ۲۰۰۲ء میں لکھتے ہیں کہ گواہی نہ چھپاؤ.جو کوئی اس کو چھپائے گا خواہ وہ کسی غرض سے چھپا دے تو جان لو کہ اس کا دل بگڑا ہوا ہے.“ یہ قرآن شریف کی آیت شریفہ کا ترجمہ ہے اور حکم الہی ہے کہ شہادت کو نہ چھپاؤ بلکہ ظاہر کر و.تو پھر مولوی ثناء اللہ صاحب اس حکم کی تعمیل کیوں نہیں کرتے.یہ شہادت ایسی تھی کہ اس کے لئے مولوی صاحب کو محض ثواب کی خاطر بھی تیار ہو جانا چاہیے تھا مگر جب انہوں نے ۶ فروری ۱۹۲۳ء کے اشتہار میں دس ہزار روپیہ کا مجھ سے مطالبہ کیا تو وہ بھی میں نے دینا منظور کیا.اب میں آخری اتمام حجت کے طور پر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب میرے اشتہار مورخہ ۱۲ فروری ۱۹۲۳ء کے الفاظ و شرائط کے مطابق اب حلف اٹھانے کو تیار ہو جائیں ( ہاں اس میں جو عقائد وہ نہ مانتے ہوں.وہ ان کی د تخطی تحریر آنے پر نکال دیئے جا سکتے ہیں ) تو میں ان کو فوراً مبلغ پانسو روپیہ نقد بھی دینے کے لئے تیار ہوں جس کا مولوی صاحب حلف کے وقت ہی مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ ایک سال تک موت یا عبرتناک غضبناک عذاب سے جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو.بچ جائیں تو پھر دس ہزار روپیہ ان کو نقد دیا جائے گا.اس کے علاوہ مولوی صاحب کے ہم خیالوں میں جو کوئی صاحب ان کو اس بات کے لئے آمادہ کریں گے دوصد رو پید ان کو بھی انعام دیا جائے گا.اگر اب بھی مولوی ثناء اللہ صاحب نے میرے اشتہار مورخہ ۱۲ / فروری ۱۹۲۳ء کے مطابق حلف اٹھانے سے گریز کیا تو مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے ہم خیالوں پر ہماری طرف سے ہر طرح اتمام حجت سمجھی جائے گی اور آئندہ کے لیے ان کو کسی طرح کا حق حاصل نہ ہوگا کہ حضرت مرزا صاحب یا آپ کی جماعت کے عقائد پر بے جا حملے کریں.مولوی ثناء اللہ صاحب کو اس حلف کے لئے میں نے ابتداء سے اس لئے منتخب کیا ہے کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی
487 کتابوں کا کافی مطالعہ کیا ہوا ہے اور بذریعہ کئی مباحثات کے ان پر حجت پوری ہو چکی ہے.فقط مؤرخہ ۱۹ رجب ۱۳۴۱ ھ مطابق ۸ مارچ ۱۹۲۳ء خاکسار عبداللہ الہ دین احمدی مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام پاکٹ بک کے سابق ایڈیشن کی اشاعت کے وقت جناب سیٹھ صاحب مذکور نے ہمیں اختیار دیا تھا کہ ہم اس انعامی اعلان کو پھر شائع کریں.یہ خاکساران کو وہی حلف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے اور پھر ان کے لئے پہلے کی طرح ایک انعام پانصد روپیہ کا اور دوسرا دس ہزار روپیہ کا مقرر کرتا ہے.اور ہمارے غیر احمدی بھائیوں میں سے جو شخص بھی ان کو حلف اٹھانے کے لئے آمادہ کرے گا اس کے لئے بھی حسب سابق دو سو روپیہ انعام تیار ہے.اب بھی اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے حلف اٹھانے سے گریز کیا تو اسے آسمان وزمین تم گواہ رہو کہ ہم نے ہر طرح سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مخالفین ومنکرین پر اتمام حجت کر دی.اب ان کے اور خدا کے درمیان معاملہ ہے.“ اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ ”ہم اپنی بصیرت کی بناء پر کہتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اب بھی اپنی مخصوص حیلہ بازی کے ذریعہ لیت ولعل کرتے رہیں گے اور ہرگز حلف مؤکد بعذ اب اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوں گے.چنانچہ ہماری بصیرت درست ثابت ہوئی.اس ایڈیشن کی اشاعت کے وقت وہ حسرت ناک موت مرچکے ہیں.کیا کوئی ہے جو جماعت احمدیہ کی صداقت کے اس واضح اور کھلے نشان سے فائدہ اٹھائے اَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ، سچ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.سنت اللہ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا ثابت کر دیتا ہے.تب جیسے نور کے نکلے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں.سومیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے.اگر میں سچ سچ مفتری اور بدکار اور خائن اور در دونکو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے.بات سہل تھی.کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطور ایک حکم کے فعل کے مان لیتے مگر ان لوگوں کو تو اس قسم کے مقابلہ کا نام سننے سے بھی موت آتی ہے.(اربعین نمبر۴.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۵۱ ۴۵۲۰ )
488 نوٹ:.سابق ایڈیشن محمدیہ پاکٹ بک میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے عذر کیا ہے کہ میں کئی کئی مرتبہ پہلے مطبوعہ حلف کھا چکا ہوں.سویا در ہے کہ یہ صریحاً جھوٹ ہے.مولوی صاحب نے آج تک کبھی مؤکد بعذاب حلف نہیں اٹھائی جس کا ان سے مطالبہ ہے.نیز ان کا یہ کہنا کہ میں اس شرط پر حلف اٹھاؤں گا کہ حضرت امیر المؤمنین مجھے یہ بات لکھ دیں محض دفع الوقتی ہے کیونکہ مطالبہ حلف حضرت صاحب کی طرف سے نہیں جناب سیٹھ صاحب کا ذاتی مطالبہ ہے اور انعام بھی انہی کی طرف سے مقرر ہے.ضروری یادداشت پاکٹ بک ہذا میں فردوس الاخبار دیلمی کے جس قد ر حوالے ہیں ان کا نمبر صفحہ اس نسخہ کے مطابق ہے جو کتب خانہ آصفیہ نظام حیدر آباد دکن میں موجود ہے اور جس کا نمبر ۲۱۴ فن حدیث ہے.اس کا ثبوت کہ حوالے درست ہیں وہ مصدقہ نقل ہے جس پر مہتمم صاحب کتب خانہ آصفیہ کے دستخط ہیں جو خاکسار خادم کے پاس محفوظ ہے اس کی نقل مطابق اصل درج ذیل ہے.و نقل عبارت فردوس الاخبار صحیح ہے مقابلہ کیا گیا.دستخط سید عباس حسین مہتمم کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی ۲۲ جمادی الاول ۱۳۵۲ھ حیدر آباد دکن اصل تحریر جو چاہے مجھ سے دیکھ سکتا ہے.۲.یا درکھنا چاہیے کہ کتاب کا اصل نام ” دیلمی، دال کے ساتھ ہے.دیلمی مشہور محدث گزرا ہے.وفات ۵۵۰۷ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اس کے متعلق هُوَ حُسْنُ الْمَعْرِفَةِ فِی الْحَدِيثِ لکھا ہے.نیز کشف الظنون جلد اصفحہ ۱۸۲ پر بھی اس کا ذکر ہے اس سے مشکوۃ اور سیوطی وغیرہ نے روایت لی ہے.خادم یادداشت نمبر ۲:.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات کے جوابات کو چا را ابواب پر تقسیم کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے.باب اوّل:.الہامات پر اعتراضات کے جوابات اس باب میں الہامات پر تمام اعتراضات کے جوابات درج ہیں.اس حصہ کے آخر میں الہامات کے متعلق اعتراضات کے جوابات درج ہیں.مثلاً یہ کہ حضرت اقدس کو غیر زبان میں کیوں الہامات ہوئے.بعض الہامات کے معنی سمجھ نہ سکے.آپ کو شیطانی الہام ہوتے تھے.آپ کو بعض دفعہ الہام بھول جاتا تھا.غرضیکہ الہامات کے متعلق
489 اصولی اعتراضات کے جوابات بھی اس باب اوّل کے آخر میں درج ہیں.باب دوم : پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات اس میں پیشگوئیوں پر بحث ہے.مثلاً محمدی بیگم، ثناء اللہ عبدالحکیم، اپنی عمر کے متعلق ، منظور محمد صاحب کے ہاں بیٹا ہونا، عبداللہ انتم ،ایمان بٹالوی ، قادیان میں طاعون محمد حسین بٹالوی کی ذلت اور نافلۃ لک والی پیشگوئی.باب سوم :.حضرت صاحب کی تحریرات پر اعتراضات اور ان کے جوابات.اس باب میں تمام وہ اعتراضات درج ہیں جن کا تعلق حضرت صاحب کی تحریرات کے ساتھ ہے.مثلاً شعر کہنا.تحریرات میں صحت حوالجات جھوٹ کا الزام.براہین احمدیہ کا روپیہ یا وعدہ خلافی.سخت کلامی و تناقضات.بعض ایسے امور کا آپ کی تحریرات میں ہونا جس کو مخالفین خلاف قدرت و عقل قرار دیتے ہیں.مثلاً بکرے کا دودھ دینا وغیرہ.سو اس باب میں تمام ایسے اعتراضات کا جواب ہے.خصوصاً غلط حوالوں، جھوٹ اور تناقضات، جہاد، انگریز کی خوشامد کے الزامات یا تو ہین فاطمه و حسین و مریم یا دعوئی فضیلت بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ الزامات کا جواب اسی باب میں ہے.باب چہارم: حضرت اقدس کی ذات پر اعتراضات کے جواب.اس باب میں ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جن کا تعلق حضرت اقدس کی ذات یا جسم کے ساتھ ہے.مثلاً آپ کا نام ابن مریم نہ ہونا.جائے نزول، آپ پر کفر کا فتویٰ لگنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن نہ ہونا، بیمار ہونا،کسر صلیب، صاحب شریعت نہ ہونا کسی کا شاگرد ہونا، حج نہ کرنا، الزام مراق، ملازمت مخالفین کے لئے بددعا کرنا، ادویہ کا استعمال.سوان اعتراضات پر بحث اسی باب چہارم میں ہے اگر آپ اس تقسیم کو ذہن نشین کرلیں تو آپ کو عند الضرورت حسب خواہش مضمون تلاش کرنے میں بہت آسانی رہے گی.خادم
490 حصہ دوم صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جوابات الہامات پر اعتراضات ا أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ.جواب:.الف.حضرت مسیح موعود نے اس کو استعارہ قرار دیا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه۸۹ حاشیه " تَفْسِيرُ الْقَوْلِ بِمَا لَا يَرْضَى بِهِ قَائِلُهُ “ درست نہیں ہوتی.ب.عربی زبان میں یہ محاورہ اتحاد ومحبت کے معنوں میں مستعمل ہے.قرآن میں ہے من شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنّى (البقرة : ۲۵۰) یعنی جو اس نہر میں سے پانی پئے گا وہ مجھ سے نہیں اور فَسَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنّى (ابراهیم : ۳۷) یعنی جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا.ج.حدیث شریف میں بھی ہے.(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ (مشكوة المصابيح كتاب المناقب والفضائل باب مناقب على الفصل الاول صفحه ۴۲۸ و بخاری کتاب الصلح باب كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا ) (۲) اشعری قبیلہ کو فرمایا هُمُ مِنّى وَاَنَا مِنْهُمُ ( بخاری کتاب المغازی باب قدوم الاشعريين قصه عمان والبحرين - وترمذی ابواب المناقب باب في ثقيف و بنى حنيفة وبخارى كتاب المظالم باب شرکت فی الطعام) یعنی وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے.(۳) حدیث میں ہے:.اَنَا مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُونَ مِنِّي فَمَنْ أَذَى مُؤْمِنًا فَقَدْ أَذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ أَذَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ (فردوس الاخبار دیلمی صفحه الباب الف راوی حضرت عبدالله بن جراد ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خدائے عزب وجبلت سے ہوں اور مومن مجھ سے
491 ہیں.پس جو شخص کسی مومن کو ایذا دیتا ہے وہ مجھ کو ایذا دیتا ہے اور جو مجھ کو ایذا دیتا ہے اس نے گویا خدا کو ایذا پہنچائی.(۴) مندرجہ ذیل حدیث اس سے بھی واضح ہے.يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّخِيُّ مِنِّى وَأَنَا مِنْهُ (فردوس الاخبار دیلمی صفحه ۲۹ سطر باب الیاء راوی انس بن مالک) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بھی مجھ سے ہے اور میں سخی سے ہوں.اس حوالہ میں اللہ تعالیٰ نے ”مین “ کا محاورہ انسانوں کے متعلق استعمال فرمایا ہے.(۵) ایک اور حدیث میں ہے.الْعَبُدُ مِنَ اللهِ وَهُوَمِنْهُ.“ (بيهقي في شعب الايمان بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی "باب امین جلد ۲ صفحہ ۶۸ مصری حدیث نمبر ۷ ۵۶۶ ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام یا بندہ خدا میں سے ہے.اور خدا بندے سے.(۶) ایک اور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "أَبُو بَكْرٍ مِنَى وَآنَا منه.(فردوس الاخبار دیلمی بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی "باب الالف جلد اصفحہ ۲۸ حدیث نمبر ۷۲ ) (۷) ایک اور حدیث ہے:.” إِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّى وَأَنَا مِنْهُ.“ (مسند امام احمد بن حنبل جلد اول صفحه ۴۹۴ مسند عبداللہ بن عباس بحوالہ کنوز الحقائق في حديث خیر الخلائق مصنفہ امام عبد الرؤف المنادى باب الالف بر حاشیہ جامع الصغیر جلد ۱ صفحه ۶۵ مصری ) (۸) ایک حدیث میں ہے: ” بَنُو نَاجِيَةٍ مِنِّى وَاَنَا مِنْهُم.د دیگر حوالے :." (کنوز الحقائق باب الباء بر حاشیہ جامع الصغیر جلد اصفحہ ۸۸) (۱) تفسیر بیضاوی میں آیت مَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنّى (البقرة: ۲۵۰) کی شرح میں لکھا ہے:.ای لَيْسَ بِمُتَّحِدِ بی بیضاوی زیر آیت بالا ) یعنی جو پانی پئے گا اس کا مجھ سے اتحاد نہ ہوگا.(۲) تفسیر ابی السعود میں آیت بالا البقرۃ : ۲۴۹ کے ماتحت لکھا ہے :.لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ بِى وَمُتَّحِدٍ مَعِى مِنْ قَوْلِهِمْ فَلَانٌ مِنِّى كَأَنَّهُ بَعْضُهُ لِكَمَالِ (برحاشیه تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت مَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي.البقرة: ۲۴۹) اخْتِلاطِهَمَا.“ (۳) حدیث کی شرح میں لکھا ہے: قَوْلُهُ هُمُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ يُرَادُ بِهِ الْإِتِصَالُ أَغْنِي هُمُ مُتَّصِلُونَ بِي ( حاشیہ بخاری کتاب المغازی بساب قدوم الاشعريين واهل اليمن ) کہ اس سے
492 مرادا تصال ہے یعنی وہ میرے قریب ہیں.(۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم، حسن خلق اور پر ہیز گاری کے متعلق فرمایا:.قلات مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنّى وَلَا مِنَ اللهِ.(معجم الصغير الطبراني جلدازي من اسمه عبدالوهاب ) (۵) وفیات الاعیان لابن خلکان میں ہے:.بَلُ هَذَا كَمَا يُقَالُ مَا أَنَا مِنْ فَلان وَلَا فَلانٌ مِنِّى يُرِيدُونَ بِهِ الْبُعْدُ مِنْهُ وَالْانفَةُ وَمِنْ هَذَا قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَدُ الزِّنَا لَيْسَ مِنَّا وَعَلِيٌّ مِنِّى وَاَنَا مِنْهُ وفيات الاعيان.ذكر ابو تمام الطائی ) کہ ابوتمام کا قول لَسْتُ مِنْ سَعُود اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے نہیں ہوں اور نہ وہ مجھ سے ہے.اہل زبان کی مراد اس سے اس شخص سے بعد اور نفرت کا اظہار ہوتا ہے اور ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ ولد الز نا ہم میں سے نہیں اور یہ کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں.(۶) عرب شاعر عمر و بن شاش اپنی بیوی سے کہتا ہے.فَإِن كُنتِ مِنّى أو تُرِيدِيْنِ صُحْبَتِى (ديوان الحماسه صفحه ۴۳ مکتبہ اشرفیہ قول عمرو بن شاس) کہ اگر تو مجھ سے ہے اور میری مصاحبت چاہتی ہے.پس انتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْكَ کا مطلب یہ ہے کہ تجھے مجھ سے محبت ہے اور مجھے تجھ سے.تیرا وہی مقصد ہے جو میرا ہے.(۷) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری آیت مَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنّى (البقرة:۲۵۰) کا ترجمہ اپنی تفسیر ثنائی میں یوں کرتے ہیں: "جو شخص اس ( نہر ) سے پئے گا وہ میری جماعت سے نہ ہوگا اور جو نہ پئے گا تو وہ میرا ہمراہی ہوگا.“ ( تفسیر ثنائی جلدا تفسیر زیر آیت مَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي.البقرة: ٢۴٩) ۲.الف - اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ أَوْلَادِى ب - أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ وَلَدِى جواب:.۱.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۸۹ حاشیه ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
493 یادر ہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے.نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے اور فرمایا يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح :(۱) ایسا ہی بجائے قُلْ يَعِبَادِ اللهِ (یعنی کہہ دے اے اللہ کے بندو! خادم ) کے قُل لِعِبَادِی (الزمر : ۵۴ ) ( یعنی اے نبی ! ان سے کہہ.اے میرے بندو! ) اور یہ بھی فرما یا فاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ (البقرة : ۲۰۱) پس اس خدا کے کلام کو ہشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ اور یقین رکھو کہ خدا اتخاذ ولد سے پاک ہے اور میری نسبت بینات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا الهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ ) اربعین نمبر ۲ صفحه ۸ بحوالہ براہین احمدیہ صفحہ ۴۱ ) ( یعنی کہہ دے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس پر وحی ہوتی ہے بیشک تمہارا ایک ہی خدا ہے اور سب خیر و خوبی قرآن میں ہے.( دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ حاشیه صفحه ۶- تذکر صفحہ ۳۹۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ۲.قرآن مجید میں ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءكُمْ کہ خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.گویا خدا ہمارا باپ نہیں ہے مگر بمنزلہ باپ ہے.جس طرح ایک بیٹا اپنا ایک ہی باپ مانتا ہے اور اس رنگ میں اس کی توحید کا قائل ہوتا ہے.اسی طرح خدا بھی چاہتا ہے کہ اس کو وحدہ لاشریک یقین کیا جائے اور جو اس رنگ میں خدا تعالیٰ کی توحید کا قائل اور اس کے لئے غیرت رکھنے والا ہو وہ خدا تعالیٰ کو بمنزلہ اولاد ہوگا.۳.الہام میں اَنْتَ وَلَدِی نہیں بلکہ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِی ہے جو صریح طور پر خدا کے بیٹے کی نفی کرتا ہے.۴.حدیث میں ہے.(الف) الخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللَّهِ مَنْ اَحْسَنَ إِلَى عِبَالِه “ (مشكوة كتاب الآداب باب الشفعه الفصل الثالث ) کہ تمام لوگ اللہ کا کنبہ : پس بہترین انسان وہ ہے جو خدا کے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرے.66 (ب) اَنَّ الْفُقَرَاءَ عِيَالُ اللهِ » ( تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ (التوبة:۲۰) کہ غرباء خدا کے بال بچے یا کنبہ ہیں.( نیز دیکھو جامع الصغیر امام السیوطی مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحه ۱۲)
494 ۵.شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی لفظ ” ابن اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:.اگر لفظ ابنا بجائے محبوبان ذکر شده باشد چه عجب (الفوز الکبیر صفحه۸) نیز دیکھوالسحجة البالغة باب ۳۶ جلدا.اردوترجمہ موسومه به شموس الله الباز نہ مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہور جلد اصفحہ ۰۹ فر ماتے ہیں:.فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمُ خَلْفٌ لَمْ يَفْطَنُوُا الْوَجْهَ التَّسْمِيَّةَ وَكَادُوا يَجْعَلُونَ الْبُوَّةَ حَقِيقِيَّةٌ.“ یعنی ابتدائی نصاری کے بعد ان کے نا خلف پیدا ہوئے جنہوں نے مسیح علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کی وجہ تسمیہ کو نہ سمجھا اور وہ بیٹے کے لفظ سے حقیقی معنوں میں بیٹا سمجھے.“.جناب مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی اپنی کتاب ”ازالۃ الا وہام میں فرماتے ہیں:.فرزند عبارت از عیسی علیه السلام است که نصاری آنجناب را حقیقۃ ابن اللہ میدانند واہلِ اسلام ہمہ آنجناب را ابن الله بمعنی عزیز و برگزیده خدا می شمارند ، از الته الا و بام صفحه ۵۲۰) که فرزند سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جن کو عیسائی خدا کا حقیقی بیٹا سمجھتے ہیں مگر تمام اہل اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن الله بمعنی خدا کا پیارا و برگزیدہ مانتے ہیں.گویا ابن اللہ کے معنی خدا کا پیارا اور برگزیدہ ہوئے.اور ان معنون میں مسلمان بھی مسیح کو ابن اللہ مانتے ہیں.أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِى.جواب (۱) توحید اور تفرید " مصدر ہیں.جن کا ترجمہ ہوگا ” واحد جاننا “ اور ” یکتا جاننا“.پس الہام کا مطلب یہ ہے کہ تو خدا کو واحد اور یکتا جاننے کے مقام پر ہے.یعنی اپنے زمانہ میں سب سے بڑا موحد ہے.فلا اعتراض؟ (۲) حضرت مرزا صاحب نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں:.تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی تو حید اور تفرید کو “ اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۱۳ ) (۳) حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے :.تاج کرامت میرے سر پر رکھ کر توحید کا دروازہ مجھ پر کھول دیا.جب مجھ کو میری صفات کے اس کی صفات میں مل جانے کی اطلاع ہوئی تو اپنی خودی سے مشرف فرما کر اپنی بارگاہ سے میرا نام رکھا.دُوئی اٹھ گئی اور یکتائی ظاہر ہوگئی.پھر فرمایا کہ جو تیری رضا وہی میری رضا ہے.حالت یہاں تک پہنچی کہ ظاہر وباطن سرائے بشریت کو خالی پایا.سینہ ظلمانی میں ایک سوراخ کھول دیا.مجھ کو
495 تجرید اور تو حید کی زبان دی.تو اب ضرور میری زبان لُطف صدی سے اور میرا دل نُور ربانی سے اور آنکھ صنعت یزدانی سے ہے.اسی کی مدد سے کہتا ہوں اور اسی کی قوت سے پھرتا ہوں.جب اس کے ساتھ زندہ ہوں تو ہرگز نہ مروں گا.جب اس مقام پر پہنچ گیا.تو میرا اشارہ ازلی ہے اور عبادت ابدی.میری زبان ، زبان تو حید ہے اور روح، روح تجرید.اپنے آپ سے نہیں کہتا کہ بات کرنے والا ہوں اور نہ آپ کہتا ہوں کہ ذکر کرنے والا ہوں.زبان کو وہ حرکت دیتا ہے.میں درمیان میں ترجمان ہوں.حقیقت میں وہ ہے نہ میں.“ (ظہیرالاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء.چودھواں باب.ذکر معراج شیخ بایزید بسطامی مطبوعہ مطبع اسلامی لا ہور بار سوم صفحہ ۱۵۷،۱۶۵.و تذکرۃ الاولیاء اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنٹر مطبوعہ مطبع علمی لا ہور صفحہ ۱۳۰) نوٹ : حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کی عظیم شخصیت کے متعلق نوٹ دوسری جگہ زیر عنوان ”حجر اسود منم صفحہ ۵۲۰ پر ملاحظہ فرمائیں.۴ - اَنْتَ مِنْ مَّاءِ نَا وَهُمْ مِّنْ فَشَلٍ جواب :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا یہ مفہوم بتایا ہے:.اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی ، تقویٰ کا پانی، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حُبّ اللہ کا پانی ہے جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۶ ۵ حاشیہ) ۲.قرآن مجید میں ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (الانبياء : ۳۸) اس کی تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ أَنَّهُ لِكَثْرَةِ عَجَلِهِ فِي أَحْوَالِهِ كَأَنَّهُ خُلِقَ مِنْهُ (جلالين مع سمالین زیر آیت خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ.الانبياء: ۳۷) کہ انسان اپنی مختلف حالتوں میں بڑی جلد بازی سے کام لیتا ہے.گویا کہ اسی سے پیدا ہوا.یہ نہیں کہ انسان جلدی کا بیٹا ہے.۳.خدا کا پانی الہام الہی اور محبت الہی کو بھی کہتے ہیں.جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے
496 ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اب میرے مولی اس طرف دریا کی دھار ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۲۹) فَإِنْ شِئْتَ مَاءَ اللَّهِ فَاقْصِدْ مَنَاهَلِي فَيُعْطِكَ مِنْ عَيْنٍ وَعَيْنٌ تَنوَّرُ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد کے صفحہه (۸) اگر تو خدا کا پانی چاہتا ہے تو میرے چشمے کی طرف آ.پس تجھ کو چشمہ دیا جائے گا.نیز وہ آنکھ بھی ملے گی جو نورانی ہوگی.( نیز دیکھو در نشین عربی صفحہ ۳۳) اس جگہ بھی خدا کے پانی سے مراد رضائے الہی ہے.پس الہام مندرجہ عنوان میں بھی یہی مراد ہے.۵- رَبُّنَا عَاج جواب:.یہ لفظ ”عاج ( ہاتھی دانت ) نہیں بلکہ ”عاج“ به تشدید ج ہے جس کا ترجمہ پکارنے والا.آواز دینے والا ہے.یہ لفظ حج سے مشتق ہے.دیکھئے لغت میں ”عَجَّ عَـجـا وَعَجِيجا آواز کرد - بانگ کرد - وَمِنْهُ الْحَدِيثُ اَفْضَلُ الْحَجَ الْعَجُ وَالتَّجُ یعنی برداشتن آواز به تلبیه وقربان کردن هدیه را منتہی العرب والفرائد الدریہ ) که عَجَّ عَجَّا وَعَجِيْجًا کے معنے آواز دینے اور پکارنے کے ہیں.جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حج میں افضل ترین آواز دینا ( تلبیہ اور لبیک کہنا ) اور قربانی دینا ہے.الہام کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خدا دنیا کو اپنی طرف بلاتا ہے.- اسْمَعُ وَلَدِى اے میرے بیٹے سن! (البشر کی جلد ا صفحه ۴۹) جواب.الف.یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا کوئی الہام اِسْمَعُ وَلَدِی ہے.حضرت کی کسی کتاب سے دیکھا ؤ اور انعام لو.ب.حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام تو اَسْمَعُ وَاری ہے کہ میں اللہ سنتا بھی ہوں اور دیکھتا بھی ہوں ( مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۲۳.نیز انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفهیم ۵ ) ( أسْمَعُ وَ آری
497 قرآن مجید کی آیت ہے طہ : ۴۷ ) ج.معترض نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ حضرت اقدس علیہ السلام کی تالیف یا تصنیف نہیں بلکہ با بومنظور الہی کی مرتبہ ہے.اس میں انہوں نے جلد ا صفحہ ۴۹ پر حوالہ دیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے مکتوبات جلد اصفحہ ۲۳ سے یہ الہام نقل کیا گیا ہے مگر اصل کتاب مکتوبات میں اسمعُ وَلَدِی نہیں بلکہ اسْمَعُ وَاری“ ہے.بابو منظو ر الہی صاحب کی مرتبہ کتاب البشری میں کاتب کی غلطی سے واری کی بجائے وَلَدِی بن گیا.حضرت اقدس کی کسی کتاب میں ولدی“ نہیں ہے.با بو منظور الہی صاحب نے ”الفضل“ جلد 9 صفحہ ۹۶ میں اس غلطی کا اعتراف کیا ہے کہ البشری جلد ا صفحہ ۴۹ سطر ۱۰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام مغلطی سے اَسْمَعُ وَاری کی بجائے اِسْمَعُ وَلَدِی چھپا ہے اور ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے.أَنْتَ اسْمِيَ الْأَعْلَى یعنی تو میرا سب سے بڑا نام یعنی خدا ہے جواب :.ترجمہ غلط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس کا ترجمہ کر دیا ہے.” تو میرے اسم اعلیٰ کا مظہر ہے یعنی ہمیشہ تجھ کو غلبہ ہوگا.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۱۵) ۲.گویا اس الہام میں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلی.خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی غالب رہیں گے.۳.حضرت غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو مندرجہ ذیل الہام الہی ہوا:.فَجَاءَ الْخِطَابُ مِنَ الرَّبِّ الْقَدِيرِ اطْلُبُ مَاتَطْلُبُ فَقَدْ أَعْطَيْنَكَ عِوَضًا عَنْ اِنْكِسَارِ قَلْبِكَ...فَجَاءَهُ الْخِطَابُ مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْقَدِيرِ جَعَلْتُ أَسْمَاءَكَ مِثْلَ أَسْمَائِي فِي الثَّوَابِ وَالتَّأْثِيرِ وَمَنْ قَرَأَ إِسْمَا مِنْ أَسْمَاءِ كَ فَهُوَ كَمَنْ قَرَأَ إِسْمًا مِّنْ اَسْمَائِي“ (رساله حقیقة الحقائق بحوالہ کتاب مناقب تاج الاولیاء و برہان الاصفیاء المقطب الربانی والغوث الصمدانی عبد القادر الکیلانی.مصنفہ علامہ عبد القادر بن محی الدین الاربلی مطبوعہ مطبع عیسی البانی الحلمی مصر صفحہ ۱۷ ) اللہ تعالیٰ نے حضرت سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تیرے دل کے انکسار کے باعث میں تجھے یہ کہتا ہوں کہ جو تو چاہتا ہے مانگ وہ میں تجھے
498 دوں گا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ (اے عبدالقادر ! ) میں نے ثواب اور تاثیر میں تیرے ناموں کو اپنے ناموں کی طرح بنا دیا ہے پس جو شخص تیرے ناموں میں سے کوئی نام لے گا گویا اس نے میرا نام لیا.“ ۴.حضرت محی الدین ابن عربی اپنی کتاب ” فصوص الحکم میں تحریر فرماتے ہیں :." حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ....خطبہ لوگوں کو سنا رہے تھے کہ میں ہی اسم اللہ سے لفظ دیا گیا ہوں اور میں ہی اس اللہ کا پہلو ہوں جس میں تم نے افراط و تفریط کی ہے.اور میں ہی قلم ہوں اور میں ہی لوح محفوظ ہوں.اور میں ہی عرش ہوں.اور میں ہی کرسی ہوں.اور میں ہی ساتوں آسمان ہوں.اور میں ہی ساتوں زمین ہوں.“ فصوص الحکم مترجم اردو شائع کردہ شیخ جلال الدین سراج دین تاجران کتب لاہور ۱۳۲۱ھ مطبوعہ مطبع دو مجتبائی صفحه۶۰ و ۶ مقدمہ فصل ششم ” عالم انسانی کی حقیقت).”اسم“ کے معنے اس الہام میں صفت کے ہیں.جیسا کہ اس حدیث میں ”اِنَّ لِی أَسْمَاءُ.....أَنَا الْمَاحِى" کہ میرے کئی نام ہیں...میں ماحی ہوں جس سے کفر کو مٹایا جائے گا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ہے.پس اس الہام میں اس صفت کی طرف اشارہ ہے جو اغلی یعنی سب پر غالب آنے والی ہے.چونکہ ہر نبی خدا کی اس صفت کا مظہر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس صفت کا مظہر قرار دیا ہے.اِعْمَلُ مَا شِئْتَ فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَكَ جواب:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - لَعَلَّ اللَّهَ إِطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمُ (بخاری کتاب المغازی باب فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا - وسلم كتاب الفضائل باب فضائل اهل بدر ومشكوة مجتبائی صفحہ ۵۷۷) کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر پر واقف ہوا اور کہا کہ جو چاہو کرو.اب تم پر جنت واجب ہوگئی یا یہ فرمایا کہ میں نے تم کو بخش دیا.ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے مقبولوں پر ایک وہ حالت آتی ہے جب بدی اور گناہ سے ان کو انتہائی بعد ہو جاتا ہے اور اس پر انتہا ئی کراہت ان کی فطرت میں داخل کر دی جاتی ہے.فلا اعتراض ۲.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کی تفسیر فرما دی ہے.اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیات شرعیہ تجھے حلال ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں
499 کہ تیری نظر میں منہیات مکر وہ کئے گئے ہیں اور اعمال صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے.گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی اور سب ایمانیات اس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئی.وذالك فضل الله يؤتيه من يشاء " (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۹ بقیه حاشیه در حاشیه نمبر۴ نیز الحکم جلد نمبر ۳۱ مورخ ۲۴/اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۴) ٩- كُن فَيَكُونُ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تو ہے مگر اس کے پہلے قلی محذوف ہے.جس طرح سورۃ الفاتحہ کے پہلے قُل محذوف ہے.یعنی یہ خدا تعالیٰ نے اپنے متعلق فرمایا ہے.یہ اعتراض تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی آریہ یا عیسائی کہہ دے کہ دیکھو محد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا بھی میری عبادت کرتا ہے.کیونکہ خدا اس کو کہتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنَ مَا هُوَ جَوَابُكُمْ فَهُوَ جَوَابُنَا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۲۴۱۲۳) ۲.اگر مندرجہ بالا جواب تسلیم نہ کرو تو حضرت پیران پیر“ جناب سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ارشاد پڑھ لو:.الف.قَالَ اللهُ تَعَالَى فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا اللَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْءٍ كُنْ فَيَكُونُ وَ اَطِعْنِي اَجْعَلُكَ تَقُولُ لِلشَّيْءٍ كُنْ فَيَكُوْنُ وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ بِكَثِيرٍ مِنْ أَنْبِيَائِهِ وَ أَوْلِيَاءِ هِ وَخَوَاصِهِ مِنْ بَنِي آدَمَ.“ ( فتوح الغیب مقالہ نمبر 4 او بر حاشیہ قلائد الجواہر فی مناقب الشیخ عبد القادر مطبوعه مصر صفحه ۳۱) ب - ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيْكَ التَّكْوِينُ فَتَكُونُ بِالإِذْنِ الصَّرِيحِ الَّذِي لَا غَبَارَ عَلَيْهِ.(ايضاً) ہر دو عربی عبارتوں کا ترجمہ ندائے غیب ترجمہ اردو فتوح الغیب مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور کے صفحہ ۲۴ پر یہ درج ہے:.اللہ تعالیٰ نے بعض کتابوں میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے بنی آدم میں اللہ ہوں اور نہیں میرے سوا کوئی دوسرا معبود.میں جس چیز کو کہتا ہوں کہ ہو جا.وہ ہو جاتی ہے.تو میری فرمانبرداری کر تجھے بھی ایسا ہی کردوں گا کہ جس چیز کو تو کہے گا ہو جا.وہ ہو جائے گی.اور اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے کئی
500 نبیوں اور ولیوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے.غرضیکہ اس کے بعد تجھ کو درجہ تکوین (یعنی كُن فَيَكُونُ کرنے کا.خادم ) عطا ہوگا اور تو اپنے ہی حکم اور اذنِ صریح سے پیدا کر سکے گا.“ ( ندائے غیب صفحه ۲۴ متر جم صفحه ۳۲ از سید عبدالقادر جیلانی).جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال بالِ جبریل میں فرماتے ہیں : خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ا لَوْلاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفَلَاكَ جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح فرماتے ہیں :.ا.ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگایا جاتا ہے اور زمین پر مستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں پس (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۲ حاشیه ) یہ اسی کی طرف اشارہ ہے.“ ۲.حضرت پیران پیر غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اولیاء اللہ اور واصل باللہ لوگوں کی تعریف میں فرماتے ہیں جو فتوح الغیب میں درج ہے.بِهِمْ ثَبَاتُ الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ وَقَرَارُ الْمَوْتَى وَالْأَحْيَاء إِذْ جَعَلَهُمْ مَلِيْكَهُمْ أَوْتَادًا لِلْارْضِ الَّتِي دَحَى فَكُلٌّ كَالْجَبَلِ ( فتوح الغیب مقاله ۱۴ آخری سطور نیز قلائد الجواہر حاشیہ صفحہ ۲۸) ترجمہ :.انہیں ہی کی وجہ سے زمین و آسمان اور زندوں اور مردوں کا قیام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ الَّذِي رَسَا." نے ان کو گستردہ زمین کے لئے بطور میخ کے بنایا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو ہ وقار ہے.(ندائے غیب ترجمہ از اردو فتوح الغیب صفحه ۲۲ متر جم صفحه ۲۹ از سید عبدالقادر جیلانی) ۳.حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:.بِهِمُ تَمُطُرُ السَّمَاءُ وَتُنْبِتُ الْاَرْضُ وَهُمْ شَمِنُ الْبَدْوِ وَالْعِبَادِ بِهِمُ يُدْفَعُ الْبَلَاءُ عَنِ الْخَلْقِ“ (رساله الفتح الربانی والفیض الرحمانی کلام الشیخ عبد القادر جیلانی مطبوع میمینه مصر جلد ۱۴۱۲) یعنی انہی اولیاء اللہ ہی کی وجہ سے آسمان بارش برساتا اور زمین نباتات اگاتی ہے اور وہ ملکوں اور انسانوں کے محافظ ہیں اور انہی کی وجہ سے مخلوقات پر سے بلا ملتی ہے.
501 ۴.حضرت امام ربانی مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.ایشاں امانِ اہل ارض اند و غنیمت روز گاراند - بِهِمْ يُمْطَرُونَ وَبِهِمْ يُرْزَقُونَ درشانِ شان است ( مکتوبات امام ربانی جلد ۲ مکتوب نمبر ۹۲) ۵.ڈاکٹر سر محمد اقبال فرماتے ہیں: پھر فرماتے ہیں عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو ” صاحب لولاک نہیں ہے جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی ( بال جبریل صفحہ نمبر ۱۰) مرے کلام پر حجت ہے نکتہ لولاک ( بال جبریل صفحہ نمبر ۴۶) ا رَأَيْتُنِي فِي الْمَنَامِ عَيْنَ اللَّهِ.آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۴) میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں.“ (کتاب البریہ.رحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۰۳) جواب :.یہ خواب ہے اور خواب کو ظاہر پر محمول کرنا ظلم ہے (حضرت یوسف کا خواب ) اگر کہو کہ خواب میں بھی ایسا کام نبی نہیں کر سکتا جو بیداری میں نا جائز ہو تو اس کے لئے مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث پڑھو.الف.رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سَوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ“ (مسلم کتاب الرؤيا باب رؤيا النبي) ب إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ.(بخارى كتاب الرؤيا باب النفخ فى المنام ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے ہیں.بیداری میں سونا مرد کے لئے پہنانا جائز ہے.ج.حضرت امام اعظم یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارہ میں حضرت شیخ فرید الدین
502 عطار رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : (۱) ایک رات خواب میں دیکھا کہ آپ ( امام ابو حنیفہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استخوان مبارک (یعنی ہڈیاں.خادم ) لحد میں سے جمع کر رہے ہیں.ان میں سے بعض کو پسند کرتے تھے اور بعض کو نا پسند.چنانچہ خواب کی ہیبت سے آپ بیدار ہوئے اور ابن سیرین کے ایک رفیق سے خواب کو بیان کیا.انہوں نے جواب دیا کہ خواب نہایت مبارک ہے تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور حفظ سنت میں اس حد تک پہنچ جاؤ گے کہ صحیح کو غیر صحیح سے علیحدہ کرو گے.“ (تذکرۃ الاولیاء اٹھارواں باب صفحه ۱۴۵ و ۱۴۶ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز مطبوع علمی پریس لاہور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحه ۱۸۳ شائع کرده حاجی چراغ دین سراج دین مطبوعہ جلال پر نٹنگ پریس لاہور ) (۲) اسی سلسلہ میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :.پھر ایک رات انہوں ( حضرت امام اعظم ) نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیاں مبارک آپ کی لحد سے جمع کرتے تھے اور ان میں سے بعض کو اختیار کرتے تھے.ہیبت کے سبب خواب سے بیدار ہوئے.ایک اصحاب محمد ابن سیرین نام سے تعبیر پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور جناب کی سنت کی حفاظت میں تو بہت بڑے درجہ تک پہنچے گا.یہاں تک کہ اس میں تیرا تصرف ہو جائے گا کہ صحیح اور غلط میں فرق کرے گا.“ ( کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الہی بخش محمد جلال الدین تاجران کتب کشمیری بازار لاہور ۱۳۲ ھ صفحه ۱۰۶) ۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے آگے ہی تعبیر بھی لکھی ہے اس کو کیوں حذف کرتے ہو.” وَ لَا نَعْنِي بِهَذِهِ الْوَاقِعَةِ كَمَا يُعْنَى فِى كُتُبِ أَصْحَابِ وَحْدَةِ الْوَجُوْدِ وَ مَا نَعْنِي بِذَالِكَ مَا هُوَ مَذْهَبُ الْحُلُولِيِّينَ، بَلْ هَذِهِ الْوَاقِعَةُ تَوَافِقُ حَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْنِى بِذَالِكَ حَدِيثِ الْبُخَارِي فِى بِيَان مَرْتَبَةِ قُرُبِ النَّوَافِلِ لِعِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ “ ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۶ نیز دیکھو تذ کرہ صفحہ ۱۹ تا ۱۹۶) کہ میں اس خواب سے وحدت الوجودیوں کی طرح یہ معنی نہیں لیتا کہ گویا میں خود خدا ہوں.اور نہ حلولیوں کی طرح یہ کہتا ہوں کہ خدا مجھ میں حلول کر آیا بلکہ میرے خواب کا وہی مطلب ہے جو بخاری کی قرب نوافل والی حدیث کا مطلب ہے کہ جب میرا بندہ نوافل میں میرے آگے گرتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے.ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے
503 وہ پکڑتا ہے.پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.“ (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) ۳.نیز تعطیر الانام فی تعبیر المنام مؤلفہ علامہ سید عبدالغنی النابلسی مطبوعہ مصر میں جو تعبیر خواب کی بہترین کتاب ہے، لکھا ہے:.مَنْ رَأَى فِى الْمَنَامِ كَأَنَّهُ صَارَ الْحَقَّ سُبْحَانَهُ تَعَالَى اهْتَدَى إِلَى الصِّرَاطِ المُسْتَقِيم.صفحہ ۹.کہ جو شخص خواب میں یہ دیکھے کہ وہ خدا بن گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب خدا تعالیٰ اس کو ہدایت کی منزل مقصود تک پہنچائے گا.یہ حوالہ تعطیر الا نام کے نسخہ مطبوعہ مطبع حجازی قاہرہ کے صفحہ ۹ پر ہے) ۱۲.زمین اور آسمان کو بنایا جواب نمبرا :.یہ بھی مندرجہ بالا کشف ہی کا حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی خواب کے ضمن میں لکھا ہے کہ میں نے خواب ہی میں زمین و آسمان بنایا اور اس کی تعبیر بھی حضور نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۶ پر اس خواب کو نقل فرما کر یہ تحریر کی ہے.إِنَّ هَذَا الْخَلْقَ الَّذِى رَأَيْتُهُ إِشَارَةً إِلى تَائِيدَاتٍ سَمَاوِيَّةٍ وَ أَرْضِيَّةٍ “ کہ یہ زمین و آسمان جو میں نے خواب میں دیکھے ہیں.یہ تو اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ آسمانی اور زمینی تائیدات میرے ساتھ ہوں گی.نمبر ۲:.پھر آپ اپنی کتاب چشمہ مسیحی صفحہ ۳۵ حاشیہ پر تحریر فرماتے ہیں:.ایک دفعہ کشفی رنگ میں میں نے دیکھا کہ میں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا.اور پھر میں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کر یں اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا حالانکہ اس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے.اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.چشم مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۷۶،۳۷۵ حاشیه ) نمبر ۳: پھر فرمایا : ” خدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے.وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین ؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا اُن سے ظاہر ہوگا.اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی
504 کے اذن سے ظاہر ہورہے ہیں.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۷ ) ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان ورنی زمین بنائی جاتی ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۲) (۴) انہی معنوں میں یہ محاورہ کتب سابقہ انجیل میں بھی مستعمل ہوا ہے.اس وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی.‘ (۲) پطرس باب ۳ آیت ۱۳) جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم فرماتے ہیں زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر اور جب با نگ اذاں کرتی ہے بیدا را سے کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر ۱۳.ابن مریم بننے کی حقیقت حیض جمل اور دردزہ کی تشریح بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے:.( ضرب کلیم منظم به عنوان عالم نو ) مَا مِنْ مَوْلُودِ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِيْنَ يُوْلَدُ فَيَسْتَهِلُّ صَارِحًا مِنْ مَّسَ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا ( بخاری کتاب التفسیر باب و انی اعیذها بک....کتاب بدء الخلق باب قول الله تعالی و اذکر فی الکتاب (مریم) کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو بوقت ولا دت شیطان مس کرتا ہے اور بچہ جب اسے میں شیطان ہوتا ہے تو وہ چیختا ہے ، چلاتا ہے مگر مریم اور ابن مریم کو مس شیطان نہیں ہوتا.اس پر طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب صرف ” مریم“ اور ”ابن مریم ہی مسن شیطان سے پاک ہیں تو پھر کیا باقی انبیاء کو عموماً اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصا مست شیطان ہوا تھا ؟ اس کا جواب علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں یہ دیا ہے:.مَعْنَاهُ إِنَّ كُلَّ مَوْلُودٍ يَطْمَعُ الشَّيْطَانُ فِي أَغْوَائِهِ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا فَإِنَّهُمَا كَانَا مَعْصُومَيْنِ وَكَذَلِكَ كُلُّ مَنْ كَانَ فِي
505 صِفَتِهِمَا.“ (تفسیر کشاف زیر آیت واذکر فی الکتاب (مریم) کہ اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ شیطان ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے.سوائے مریم اور ابن مریم کے.کیونکہ وہ دونوں پاک تھے اور اسی طرح ہر وہ بچہ ( بھی اس میں شامل ہے ) جو مریم اور ابن مریم کی صفت پر ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں مریم اور ابن مریم سے صرف دو انسان ہی مراد نہیں بلکہ دو قسم کے انسان مراد ہیں.گویا جو مریمی صفت میں اور ابن مریمی صفت میں مومن اور انبیاء ہوں وہ سب ” مریم“ اور ” ابن مریم کے نام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یاد کئے گئے ہیں.ان صفات کی مزید تشریح قرآن مجید میں ہے:.ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِى مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ التى أحْصَنَتْ فَرَجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُوا وَصَدَّقَت بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقِنِينَ (التحريم: ۱۳۱۲) کہ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں کی مثال فرعون کی بیوی ( آسیہ ) کے ساتھ دی ہے جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے جنت میں گھر بنا اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور ان ظالموں کی قوم سے مجھ کو رہائی بخش نیز ( خدا نے مثال دی ہے مومن مردوں کی ) مریم بنت عمران کے ساتھ جس نے اپنی شرمگاہ کی پوری حفاظت کی.پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور وہ خدا کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہوئی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی.ان آیات سے ماقبل کی ملحقہ آیات میں کا فر مردوں کو دو عورتوں نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ ان کے خاوند مومن تھے مگر وہ دونوں کا فرد تھیں.مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ مومن دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) آسیہ ( زوجہ فرعون ) صفت (۲) مریمی صفت پہلے وہ مومن جو کفر کے غلبہ کے نیچے دب چکے ہوں اور وہ اس سے نجات پانے کے لیے دست بدعا ہوں.اور دوسرے وہ مومن جن پر روز ازل سے ہی بدی غلبہ نہ پاسکی.الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (الانبياء : ٩٢) یہ دوسری قسم کا مومن قرآنی اصطلاح میں ” مریم“ کہلاتا ہے.پھر وہ مریمی حالت سے ترقی کر کے (فَنَفَخَنَا فِيهِ مِنْ رُّوحِا - الانبیاء : ۹۲) کے مطابق ابن مریم کی حالت میں چلا جاتا ہے کیونکہ مقامِ مریکی صدیقیت ہے اور مقام ابن مریم مقام نبوت.گویا ہر نبی پر دوزمانے آتے ہیں.پہلے وہ مقامِ مریمی
506 میں ہوتا ہے اور اسی حالت کے متعلق قرآن مجید نے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرا مِنْ قَبْلِهِ (یونس : ۱۷) میں اشارہ کیا ہے.اس کے بعد اس مریمی حالت سے ترقی کر کے نبوت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور ان دونوں حالتوں میں وہ سنِ شیطان سے پاک ہوتا ہے.یہی معنی ہیں بخاری کی مندرجہ عنوان حدیث کے.سورۃ تحریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح حضرت مریم صدیقہ اپنی پاکیزگی کے انتہائی مقام پر پہنچ کر حاملہ ہوئیں اور اس حمل سے حضرت عیسی علیہ السلام جو خدا کے نبی تھے پیدا ہوئے.اسی طرح ایک مومن مرد بھی پہلے مریمی حالت میں ہوتا ہے اور پھر ایک روحانی اور مجازی حمل سے گذرتا ہوا مجازی ابن مریم کی ولادت کا باعث ہوتا ہے.وہ مومن مرد مجاز اور استعارہ کے رنگ میں مریم ہوتا ہے اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں حمل سے گزرتا ہے.اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں ابن مریم کی ولادت کا باعث ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے تمام کافروں اور مومنوں کو چار عورتوں ہی سے تشبیہ دی ہے.مرد عورتیں تو نہیں ہاں استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ان کو عور تیں قرار دیا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عباسیہ طوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے.قیامت کے دن جب آواز آئے گی کہ اے مردو! تو مردوں کی صف میں سے سب سے پہلے حضرت مریم علیہا الصلوۃ والسلام کا قدم پڑے گا.“ ( تذکرۃ الاولیاء ذکر حضرت رابعہ بصری نواں باب صفحه ۵۱ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لا ہور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحه ۵۵) اسی نکتۂ معرفت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مندرجہ ذیل اشعار میں اشارہ فرمایا ہے نہ مدتی بودم برنگ مریمی دست ناداده پیران زمی بعد ازان آن قادر و رب مجید روح عیسی اندران مریم دمید پس به نفخش رنگ دیگر شد عیان زاد زان مریم مسیح این زمان (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۲) پھر فرمایا ” یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۸) اس موقع پر کشتی نوح کی اصل عبارت سیاق وسباق کے ساتھ پڑھنی چاہیے.
507 ۱۴.روحانی حمل روحانی حمل اور معنوی حمل کے لئے مندرجہ ذیل حوالے یا درکھنے چاہئیں:.ا الْخَوْفٌ ذَكَرْ وَ الرَّجَاءُ أُنْثَى مِنْهُمَا يَتَوَلَّدُ حَقَائِقُ الْإِيْمَانِ.“ التعرف لمذهب اهل التصوف قولهم في التقوى صفحه ۹۸) مشہور صوفی حضرت سہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوف مذکر اور امید مونث ہے اور ان دونوں کے ملنے سے حقائق ایمان پیدا ہوتے ہیں.۲.اسی طرح سے امام الطائفہ الشیخ سہروردی فرماتے ہیں:.يَسِيرُ المُرِيدُ جُزءُ الشَّيْخ كَمَا أَنَّ الْوَلَدَ جُزُءُ الْوَالِدِ فِي الْوَلَادَةِ الطَّبْعِيَّةِ وَتَصِيرُ هَذِهِ الْوَلَادَةُ انِفًا وَّلَادَةً مَعْنَوِيَّةٌ.“ (عوارف المعارف جلد اصفحه ۴۵) -۳ قرآن مجید میں حمل کا لفظ خدا تعالیٰ کے متعلق بھی ہے.فرمایا :.وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نوچ (مریم: ۵۹) پھر مومنوں کے متعلق بھی آیا ہے.لَا تَخلَ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا (البقرۃ: ۲۸۷) یہاں حمل اٹھانے کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے.پس محض لفظ حمل پر مذاق اڑانا جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر لکھ دیا ہے:.استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا." (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۵۰) لیا ہے فرمایا:.اور حمل کے لفظ سے حقیقی اور عام معنے مراد نہیں لئے گئے بلکہ ” حامل صفتِ عیسوی.مریکی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.“ تو پھر اس پر بے وجہ مذاق اڑانا شرافت سے بعید ہے.مندرجہ ذیل حوالے پڑھو.۱۵.حیض کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۸) ا - كَمَا أَنَّ لِلنِّسَاءِ مَحِيْضًا فِى الظَّاهِرِ وَهُوَ سَبَبُ نُقْصَانِ إِيْمَانِهِنَّ لِمَنْعِهِنَّ عَنِ الصَّلوةِ وَالصَّوْمِ فَكَذَلِكَ لِلرِّجَالِ مَحِيضٌ فِي الْبَاطِنِ هُوَ سَبَبُ نُقَصَانِ إِيْمَانِهِمُ
508 لِمَنْعِهِمْ عَنْ حَقِيقَةِ الصَّلوة “ (روح البیان زیر آیت وَقَدِّمُوا لَانْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا الله...الخ البقرة: ۲۲۳) کہ جس طرح عورتوں کو ظاہر میں حیض آتا ہے جو ان کے ایمان میں نقص کا موجب ہوتا ہے ان کو نماز اور روزہ سے روک کر.اسی طرح مردوں کو بھی باطن میں حیض آتا ہے اور وہ ان کے ایمان میں نقص پیدا کرتا ہے ان کو نماز کی حقیقت سے ناواقف کرنے کے سبب.گویا وہ شخص جو حقیقت نماز سے بے بہرہ ہوصوفیا کی اصطلاح میں کہیں گے کہ اسے حیض ہے.۲.جیسے عورتوں کو حیض آتا ہے ایسا ہی ارادت کے رستہ میں مریدوں کو حیض آتا ہے اور مریدوں کے رستہ میں جو حیض آتا ہے تو وہ گفتار کے رستہ سے آتا ہے اور کوئی مرید ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس حیض میں ٹھرارہتا ہے اور کبھی اس سے پاک نہیں ہوتا.“ (انوار الاز کیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء مصنفقہ شیخ فریدالدین عطار مطبع مجیدی کانپور صفحه ۴۵۰ در ذکر ابوبکر واسطی) نوٹ:.غیر احمدیوں نے اب جو نیا ترجمہ تذکرۃ الاولیاء کا شائع کیا ہے اس میں سے یہ عبارت نکال دی ہے.مگر ۱۹۲۸ ء سے پہلے چھپے ہوئے ترجموں میں یہ عبارت موجود ہے.گویا يُحَرِّقُونَ الْكَلِمُ عَنْ مَّوَاضِعِہ کی مماثلت کو پورا کیا ہے.خادم ۳.حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :.ایک دفعہ آپ (حضرت بایزید بسطامی ) مسجد کے دروازہ پر پہنچ کر کھڑے ہوگئے اور رونے لگے.لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں اپنے آپ کو حیض والی عورت کی مانند پا تا ہوں جو مسجد میں جانے سے بوجہ اپنی ناپاکی کے ڈرتی ہے.“ ( تذکرۃ الاولیاء چودھواں باب ذکر خواجه بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز صفحہ ۱۰۸ وظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ دین سراج دین صفحه ۱۰۸) حضرت بایزید بسطامی کی عظیم شخصیت یادر ہے کہ حضرت بایزید بسطامی وہ عظیم الشان انسان ہیں کہ جن کی نسبت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کشف الحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:.معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیفور بن علی بسطامی رحمۃ اللہ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا ، اس کی شان بہت بڑی ہے.اس حد تک کہ
509 جنید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ابُو يَزِيدَ مِنَّا بِمَنْزِلَةِ جِبْرِيلَ مِنَ الْمَلَئِكَةِ یعنی ابويزيد ہمارے درمیان کیسا ہے جیسا کہ جبریل فرشتوں میں اس کی روایتیں بہت بلند ہیں جن میں احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور تصوف کے دس اماموں سے ایک یہ ہوئے ہیں.اور اس سے پہلے علم تصوف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا.اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ ہوا ہے.(کشف المحجوب باب ذکران تابعین کا جومشائخ طریقت کے امام ہوئے ہیں.ترجمہ اردو مطبوعہ ۱۳۲۲ صفحہ۱۲۲) ۴.بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ کیا کسی نبی نے بھی حیض کا لفظ مردوں کی طرف منسوب کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں مندرجہ ذیل حدیث یا درکھنی چاہیے.حدیث میں ہے.الـــــــبُ حَيْضُ الرَّجُلِ وَالْاِسْتَغْفَارُ طَهَارَتُهُ (فردوس الاخبار دیلمی صفحه ۱۶۱ اسطر ۱۷.راوی سلمان ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ مرد کا حیض اور استغفار اس کی طہارت ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا مطلب صرف یہ ہے کہ دشمن تجھ کو جھوٹ یا کسی اور بدی میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے تجھ میں کوئی بدی اور گندگی نہیں.۵.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں نہیں لکھا کہ مجھے حیض آیا.بلکہ آپ نے تو اس بات کی نفی کی ہے.حضور نے لفظ حیض کی نفی کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کا مفہوم بھی بیان کیا ہے:.یہ لوگ خون حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں.اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۵۲ بقیه حاشیه ) گویا یہاں عورتوں والا حیض مراد نہیں بلکہ ”مردوں والا حیض مراد ہے جیسا کہ حوالہ نمبر او۲و۳ وغیرہ میں صوفیاء کرام کی تحریرات اور حدیث شریف سے دکھایا جا چکا ہے.۱۶- دروزه اسی طرح دردزہ کا محاورہ ہے جو تکلیف اور مصیبت“ کے معنوں میں ہزار ہا سال سے مردوں کے متعلق بھی بولا جاتا رہا ہے.ا.خود حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی تشریح فرمائی ہے.”مخاض“ دردِ زہ سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں.با محاورہ ترجمہ یہ ہے.دردانگیز دعوت جس کا
510 نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحہ ۶۹ بقیہ حاشیہ نیز دیکھوکشتی نوح حاشیہ صفحہ ۷۴ ) ۲.انجیل میں ہے : ” کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی اور دردِ زہ میں پڑی تڑپتی ہے.“ (رومیوں ۸/۲۲) تو رات میں ہے.خدا کہتا ہے: ”میں بہت مدت سے چپ رہا.میں خاموش ہور ہا اور اپنے کو روکتا رہا.مگر اب میں اس عورت کی طرح جس کو دردزہ ہو چلا ؤں گا اور ہانیوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لوں گا.“ (یسعیاہ ۴۲/۲۴) تفصیل دیکھو صداقت مسیح موعود پر عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب صفحہ ۱۲۰) موجودہ انجیل و تورات خدا کا کلام ہوں یا نہ ہوں مگر محاورہ تو ماننا پڑے گا کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے ایجاد نہیں کیا بلکہ پہلی کتابوں میں پہلے سے ہی موجود ہے.پھر اس پر اعتراض کیا ہے.خصوصاً جبکہ حضرت اقدس نے خود ہی تشریح فرما دی ہے.۱۷.کشف سُرخی کے چھینٹے جواب ۱.خواب میں خدا تعالیٰ کو انسانی صورت میں دیکھنا جائز ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - رَأَيْتُ رَبِّي فِى صُورَةِ شَابٍ اَمْرَدَ قِطَةٌ لَهُ وَفُرَةٌ مِنْ شَعُرٍ وَ فِي رِجْلَيْهِ نَعْلَانِ مِنْ ذَهَب “ (الیواقیت والجواہر از علامہ عبد الوہاب الشعرانی جلد اصفحہ اے طبرانی و موضوعات کبیر از ملا علی قاری حرف المترا مطبع اصبح المطابع کراچی) کہ میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان بے ریش لڑکے کی صورت میں دیکھا.اس کے لمبے لمبے گھنے بال ہیں.اور اس کے دونوں پاؤں میں سونے کی جوتیاں ہیں.یہ حدیث صحیح ہے.ملا علی قاری" جیسے جلیل القدر محدث نے اسے درج کر کے اس کی تائید میں یہ قول نقل کیا ہے.حَدِيتُ ابْنِ عَبَّاسِ لَا يُنْكِرُهُ إِلَّا الْمُعْتَزَلِيُّ.“ (موضوعات کبیر صفحه ۴۶ مطبع اصبح المطابع کراچی ) کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور اس سے سوائے معتزلی کے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا.اس حدیث کے معنی ملا علی قاری نے کئے ہیں.اِنْ حُمِلَ عَلَى الْمَنَامِ فَلَا اَشْكَالَ فِي الْمَقَامِ.“ (موضوعات کبیر صفحہ ۴۶ مطبع اصبح المطابع کراچی ) ( نوٹ :.موضوعات کے بعض ایڈیشنوں میں یہ حدیث اس کے متعلقہ حوالجات صفحہ ۳۹ پر
511 ملتے ہیں ) یعنی اگر اس واقعہ کو خواب پر محمول کیا جائے تو پھر کوئی مشکل نہیں رہتی.بات صاف ہو جاتی ہے.۲.حضرت سید عبدالقادر جیلانی پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.،، رَأَيْتُ رَبَّ الْعِزَّةِ فِي الْمَنَامِ عَلَى صُورَةِ أُمِّي (بحر المعاني صفحه ۶ ) یعنی میں نے خدا کو اپنی والدہ کی صورت میں دیکھا..جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند ) نے ایام طفلی میں یہ خواب دیکھا کہ گویا میں اللہ جل شانہ کی گود میں بیٹھا ہوا ہوں.ان کے دادا نے یہ تعبیر فرمائی کہ تم کو اللہ تعالی علم عطا فرمائے گا اور بہت بڑے عالم ہو گے اور نہایت شہرت حاصل ہوگی.' ( سوانح عمری مولوی محمد قاسم صاحب مؤلفہ مولوی محمد یعقوب نانوتوی صفحه ۳۰) ۴:.پھر لکھا ہے: إِنَّكَ تَرى فِى الْمَنَامِ وَاجِبُ الْوُجُودِ الَّذِي لَا يُقْبَلُ الصُّوَرَ فِي صُورَةٍ يَقُولُ لَكَ مُعَبِّرُ الْمَنَامِ صَحِيحٌ مَا رَأَيْتَ وَلَكِنْ تَاوِيْلُهُ كَذَا وَكَذَا.“ (الیواقیت والجواہر از عبدالوہاب اشرافی جلد اصفحہ۱۱۵) تم (اگر ) خدا تعالیٰ کو جو کسی صورت میں مقید نہیں ہوتا خواب میں دیکھو تو تعبیر بتانے والا تم سے کہے گا کہ جو کچھ تم نے دیکھا صحیح ہے لیکن اس کی تعبیر یہ یہ ہے.۵.خواب میں واقع متمثل کس طرح ہو سکتا ہے.اس کے لئے دیکھو مندرجہ ذیل عبارات:.تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۴۰ پر حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں ایک واقعہ درج ہے کہ آپ کا ہمسایہ شمعون نامی آتش پرست تھا.حضرت حسنؓ نے سنا کہ وہ سخت بیمار ہے اور قریب المرگ ہے.آپ نے اسے تبلیغ کی.اور وہ اس شرط پر مسلمان ہوا کہ حضرت حسن اسے جنت کا پروانہ لکھ دیں.اس پر اپنے اور اپنے بزرگان بصری کے دستخط ثبت کر کے شمعون کی قبر میں (جب وہ مر جائے ) اس کے ہاتھ میں دے دیں.تا کہ اگلے جہان میں گواہ رہے.چنانچہ حسن نے ایسا ہی کیا.مگر بعد میں خیال آیا کہ میں نے یہ کیا کیا ؟ اس کو جنت کا پروانہ کیونکر لکھ دیا.لکھا ہے کہ:.اسی خیال میں سو گئے.شمعون کو دیکھا کہ شمع کی طرح تاج سر پر اور مکلف لباس بدن میں پہنے ہوئے بہشت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے...اس نے حضرت حسنؓ سے کہا.حق تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اپنے محل میں اتارا ہے اور اپنے کرم سے اپنا دیدار دکھایا.اب آپ کے ذمہ کچھ بوجھ نہیں رہا.اور آپ سبکدوش ہو گئے.لیجیئے یہ اپنا اقرار نامہ کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں.جب حضرت حسن ”خواب سے بیدار ہوئے تو خط آپ کے
512 ہاتھ میں تھا.“ - قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الْجَلَاءِ دَخَلْتُ مَدِينَةَ رَسُولِ اللَّهِ وَبِي فَاقَةٌ فَتَقَدَّمُتُ إِلَى قَبْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَ عَلَى صَاحِبَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِي فَاقَةٌ وَأَنَا ضَيْفُكَ ثُمَّ تَنَجَّيْتُ وَ نِمْتُ دُونَ الْقَبْرِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ إِلَى فَقُمْتُ فَدَفَعَ إِلَيَّ رَغِيْفًا فَاكَلْتُ بَعْضَهُ وَانْتَبَهْتُ وَفِي يَدِى بَعْضُ (انوارالاز کیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحه ۴۰ ذکر الحسن بصریؒ) 66 الرَّغِيفِ.(منتخب الكلام فى تعبير الاحلام مؤلفه سیرین و قشیر یہ مصری صفحه ۱۰۰) اس عبارت کا تر جمہ شیخ فرید الدین عطار کے الفاظ میں یہ ہے:.حضرت عبداللہ بن جلاء فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں گیا.اور مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر میں گیا.اور حضور اور حضور کے دونوں ساتھیوں کو السلام علیکم کہا اور عرض کیا کہ حضرت میں بھوکا ہوں.اور آپ ہی کا مہمان ہوں.یہ کہہ کر میں قبر سے پرے ہٹ کر سو گیا.خواب میں کیا دیکھتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف تشریف لائے ہیں.میں ( بغرض تعظیم کھڑا ہو گیا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نان دیا.میں نے اس میں سے آدھا کھا لیا جب بیدار ہوا تو نان کا باقی حصہ میرے ہاتھ میں تھا.“ ( تذکرۃ الاولیاءذ کر عبد الله بن جلاء صفحه ۴۹۸ ، مصنفہ شیخ فرید الدین عطار ) ے.حضرت سید اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”صراط مستقیم“ میں لکھا ہے کہ:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در منام دیدند و آنجناب سه خر ما بدست مبارک خود ایشان را خورانیدند و در نفس خود ذائقہ ازاں رویائے حقہ ظاہر وباہر یافتند صراط مستقیم مترجم صفحه ۱۷ از سید اسمعیل شہید ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ تین کھجور میں ایک ایک کر کے کھا رہے ہیں....جب بیدار ہوئے تو واقعی منہ میں ذائقہ موجود تھا.۸- حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کشف ملا حظہ ہو.فَرَأَى بَيْنَ النَّوْمِ وَالْيَقْظَةِ إِنَّ الْغَوْتَ قَدْ جَاءَ وَبِيَدِهِ تَاجٌ أَحْمَرُ وَ عَمَامَةٌ خَضْرَاءُ فَاسْتَقْبَلَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ حَضْرَةَ الْغَوْثِ فَدَنَا إِلَيْهِ فَوَضَعَ التَّاجَ الْأَحْمَرَ عَلَى رَأْسِهِ وَلَفَّ عَلَيْهِ الْعَمَامَةَ الْخَضْرَاءَ بِيَدِهِ الْمُبَارَكَةِ فَقَالَ يَا وَلَدِى أَحْمَدُ أَنْتَ مِنْ رِجَالِ اللَّهِ 66 وَغَابَ عَنْ نَظْرِهِ فَاسْتَيْقَظَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ فَوَجَدَ التَّاجَ وَالْعَمَامَةَ عَلَى رَأْسِهِ فَشَكَرَ اللَّهَ تَعَالَى.مناقب تاج الاولیاء و برہان الاصفیاء مطبوعہ مصر مصنفہ علامہ عبد القادر الاربلی صفحه ۴۱ )
513 ترجمہ:.حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں دیکھا کہ حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ہاتھ میں سُرخ تاج اور سبز عمامہ پکڑے ہوئے تشریف لائے.پس داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کمال ادب سے حضرت غوث الاعظم کے سامنے کھڑے ہو گئے.حضرت غوث الاعظم نے داتا صاحب کو اپنے پاس بلایا.تو داتا صاحب حضرت غوث الاعظم کے قریب گئے.پس حضرت غوث الاعظم نے وہ سُرخ تاج حضرت داتا گنج بخش کے سر پر رکھ دیا اور اس کے اوپر سبز عمامہ اپنے دست مبارک سے لپیٹ دیا.اور فرمایا اے میرے بیٹے احمد ! تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ہے.یہ کہہ کر حضرت غوث الاعظم غائب ہو گئے.پس داتا گنج بخش صاحب بیدار ہو گئے.تو تاج اور عمامہ اپنے سر پر پایا اوراللہ کا شکر ادا کیا.غیر احمدی معترض جو کشف میں سرخ چھینٹوں پر اعتراض کیا کرتا ہے کہ وہ کاغذ کس کا رخانے کا بنا ہوا تھا.سیاہی اور قلم کہاں کے بنے ہوئے تھے ؟ وہ ذرا یہ بھی بتا دے کہ وہ عمامہ کس کارخانے کے بنے ہوئے کپڑے کا تھا اور تاج کی ساخت کیا تھی؟ ۹.حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اولیاء کی وحی کے طریقے مختلف ہیں.کبھی وہ خیال میں پاتے ہیں اور کبھی وہ حس میں دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے دل میں پاتے ہیں اور کبھی لکھی ہوئی عبارت پاتے ہیں اور یہ اکسر اولیا کو واقع ہوتا ہے.اور ابو عبداللہ قضیب البان اور تقی ابن مخلد شاگرد امام احمد رضی اللہ عنہ کو کتابت کے ذریعہ سے ملگ الالہام کی زبان سے وحی آتی تھی اور جب وہ خواب سے بیدار ہوتے تھے تو ایک کاغذ پر کچھ لکھا ہوا پاتے تھے...میں نے خود اس کتابت کو دیکھا ہے.وہ ایک فقیر پر مطاف میں اسی صفت پر اترا تھا.اس میں دوزخ سے اس کی نجات لکھی ہوئی تھی.جب عام لوگوں نے اسے دیکھا تو سکھوں نے یقین کیا کہ وہ مخلوق کی کتابت نہیں ہے.یہی واقعہ ایک عورت فقیرہ پر ہوا جو میرے شاگردوں میں سے تھی.اس نے خواب میں دیکھا کہ حق تعالیٰ نے اس کو ایک ورق دیا.جب وہ بیدار ہوئی تو اس کا ہاتھ بند ہو گیا اور اسے کوئی کھول نہ سکا.مجھے الہام ہوا کہ میں اس کو یہ کہوں کہ جب تیرا ہاتھ کھلے تو فوراً اس کو نگل جائے.پھر اس نے یہ نیت کر کے ہاتھ کو منہ کہ پاس لے گئی.پھر فوراً اس کا ہاتھ کھل گیا اور وہ فورا نگل گئی.لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے اسے کیونکر جانا میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر الہام کیا کہ کوئی
514 شخص اس کو نہ پڑھے.( فتوحات مکیہ باب ۲۸۵ بحوالہ ترجمه ار دوفصوص الحکم تذکره شیخ اکبر ابن عربی صحه ۲۳۲) ۱۰.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف سے مندرجہ ذیل باتیں مدنظر تھیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت سے قلم کے ساتھ زیادہ سیاہی لگا کر اس کو چھڑ کا:.(الف) خدا نیست سے ہست کر سکتا ہے اور آریوں کا عقیدہ غلط ہے کہ خدا نیست سے.ہست نہیں کر سکتا.بلکہ مادہ ہی سے کوئی چیز بنا سکتا ہے.(ب) سرخی کے چھینٹے لیکھر ام سے قتل کی پیشگوئی کے طور پر تھے.( ج ) دستخط کرانے سے مراد یہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے لیکھرام کے قتل کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا.۱۱.حدیث شریف میں ہے:.خَلَقَ اللهُ ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ بِيَدِهِ خَلَقَ آدَمَ بِيَدِهِ وَكَتَبَ السَّورةَ بِيَدِهِ وَ غَرَسَ الْفِرْدَوْسَ بِيَدِهِ » (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ۱۰۰) کہ خدا تعالیٰ نے تین چیزیں خاص اپنے ہاتھ سے بنائیں.حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا.تو رات کو اپنے ہاتھ سے لکھا اور فردوس کو اپنے ہاتھ سے بویا.اب تم جس قدر اعتراض سرخی کے چھینٹوں والے کشف پر کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھا بھی کرتا ہے؟ وہ کاغذ کس کارخانے کا بنا ہوا تھا؟ سیاہی کس کارخانے کی تھی ؟ قلم کیسا تھا؟ وغیرہ وغیرہ.یہ سب اعتراضات كَتَبَ التَّوْرَاةَ بِيَدِہ پر بھی پڑ سکتے ہیں.مَا هُوَ جَوَابُكُمْ فَهُوَ جَوَابُنَا.۱۲.حضرت عبداللہ سنوری جو موقع کا گواہ تھا، نے حلفی بیان دیا کہ اس وقت کوئی ایسی صورت نہ تھی کہ سرخی کہیں سے آسکتی بلکہ میں نے خود سیاہی حضرت اقدس کے گرتے پر گرتی دیکھی.مفہوم از الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۱۶ء جلده صفحه ۲۴) ۱۸ - كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جواب:.۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے خدا تعالیٰ کا جلال اور حق کا ظہور مرا دلیا ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۷۸ پر ہے:.يَظْهَرُ بِظُهُورِهِ جَلَالَ رَبِّ الْعَلَمِينَ.“ نیز حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۹٬۹۸: ”جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا.“
515 ۲.حدیث شریف میں ہے:.اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا.“ (بخارى كتاب التهجد باب الدعا و الصلوة من آخر الليل ومشكوة كتاب الصلواة باب التحريض على قیام اللیل ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب ہر رات پہلے آسمان پر اتر آتا ہے.کیا معنے ؟ لکھا ہے:.(الف) - النُّزُولُ وَالْهُبُوطُ وَالصَّعُودُ وَالْحَرَكَاتُ مِنْ صِفَاتِ الْأَجْسَامِ وَاللَّهُ تَعَالَى مُتَعَالٍ عَنْهُ وَالْمُرَادُ نُزُولُ الرَّحْمَةِ وَقُرْبُهُ تَعَالى.‘ ( حاشیہ مشکواۃ مجتبائی کتاب الــصـــولـة بــاب التحريض علی قیام اللیل ) کہ نازل ہونا، اترنا، چڑھنا اور حرکات یہ تو اجسام کی صفات ہیں.خدا تعالیٰ ان سے پاک ہے اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے سے مراد اس کی رحمت کا نازل ہونا اور اس کے قرب کا حاصل ہونا ہے.(ب).اسی حدیث کی شرح میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا (الحديث) قَالُوا هَذَا كِنَايَةٌ عَنْ تَهِيوِ النُّفُوسِ لِاسْتِزَالِ رَحْمَةِ اللَّهِ...وَ عِنْدِى إِنَّهُ مَعَ ذَالِكَ كَنَا يَةٌ عَنْ شَيْءٍ مُّتَجَدِدٍ يَسْتَحِقُ أَنْ يُعَبَّرَ عَنْهُ بِالنَّزُولِ." ( الحجة البالغة جلد۲ صفحہ ۳۷ باب النوافل مترجم اردو مطبوعه حمایت اسلام پریس ) ترجمه از شموس الله البازغة:.اور نبی صلعم نے فرمایا ہے يَنزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ الخ یعنی جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہتا ہے تو ہمارا پر وردگار آسمانِ دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے کہ مجھ سے کچھ طلب کرے تو میں اس کی مراد پوری کروں.الخ علماء نے اس حدیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ نفس انسانیہ اس بات کے قابل ہو جائے کہ رحمت الہیہ کے نزول کو برداشت کر سکے اور میرے نزدیک اور معنی بھی ہو سکتا ہے.وہ یہ ہے کہ دل کے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہو جائے کہ جس کو نزول کے ساتھ بھی تعبیر کر سکتے ہیں.“ (حاشیہ صفحہ ۳۷ جلد۲) ۳.موطا امام مالک صفحہ ہے کے حاشیہ باب ماجاء فی ذکر اللہ میں لکھا ہے:.قَوْلُهُ يَنْزِلُ رَبُّنَا أَى نُزُولُ رَحْمَةٍ.“ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ خدا نازل ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے.
516 تلخیص المفتاح مطبع مجتبائی کے صفحہ ۲۶ پرلکھا ہے:.وَقَدْ يُطْلَقُ الْمَجَازُ...بِحَذْفِ لَفْظِ أَوْ زِيَادَةِ لَفْظِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى وَ جَاءَ رَبُّكَ أَيْ اَمُرُرَبِّكَ ، یعنی بعض دفعہ مجاز میں کوئی لفظ حذف کیا جاتا ہے یا زیادہ کیا جاتا ہے.جیسے خدا تعالیٰ کا فرمانا جَاءَ رَبُّكَ کہ تیرا رب آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم آیا.پس كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ کا مطلب بھی صاف ہے کہ خدا کی رحمت.خدا کے فضل.خدا کے جلال اور اس کے حکم کا نزول ہوتا ہے.١٩ - يَتِمُّ اِسْمُكَ وَلَا يَتِمُّ اسْمِى تیرا نام پورا ہو جائے گا مگر میرا ( خدا کا ) نام پورا نہ ہوگا.الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اس الہام کی تشریح فرمائی ہے:.ا.براہین احمدیہ حصہ دوم.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ ۲۶۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر میں الہام یا أَحْمَدُ يَتِمُّ اِسْمُكَ وَلَا يَتِمُّ اِسْمِی درج فرما کر اس کے آگے بین السطور تحریر فرماتے ہیں :.” آئی أَنْتَ فَانِ فَيَنْقَطِعُ تَحْمِيدُكَ وَلَا يَنْتَهِي مَحَامِدُ اللهِ فَإِنَّهَا لَا تَعُدُّ وَلَا تُحْصى ، یعنی اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ اے احمد! تو فوت ہو جائے گا اور تیرے کمالات اور محامد ختم ہو جائیں گے.مگر خدا کے محامد ختم نہیں ہوں گے کیونکہ وہ لا تعداد اور بے شمار ہیں.۲.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ام پر تحریر فرماتے ہیں: إِذَا آنَارَ النَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّهِ أَوْ بَلَّغَ الْأمْرَ بِقَدْرِ الْكِفَايَةِ فَحِيْنَئِذٍ يَتِمُّ اِسْمُهُ وَيَدْعُوْهُ رَبُّهُ وَيُرْفَعُ رُوْحُهُ إِلَى نُقْطَتِهِ النَّفْسِيَّةِ.“ یعنی جب انسانِ کامل لباس خلافت زیب تن کر لیتا ہے اور اس کے بعد یہ بندہ زمین پر ایک مدت تک جو اس کے رب کے ارادہ میں ہے توقف کرتا ہے تا کہ مخلوق کو نور ہدایت کے ساتھ منور کرے اور جب خلقت کو اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن کر چکایا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کر دیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہو جاتا ہے.اور اس کا رب اس کو بلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطہ نفسی کی طرف اٹھائی جاتی ہے.گویا وہ فوت ہو جاتا ہے.پس الهام يَتِمُّ اِسْمُكَ وَلَا يَتِمُّ اِسْمِ کا مطلب یہ ہے کہ تو فوت ہو جائے گا مگر میں (یعنی خدا) فوت نہیں ہوں گا.فلا اعتراض.
517 -٢٠ - اَلْاَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِى عربی غلط ہے هُوَ کی بجائے هُمَا چاہیے.کیونکہ زمین و آسمان دو ہیں نہ کہ ایک.جواب:.یہ جائز ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں ہے.اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ (التوبة: ۲۲) کہ اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کو خوش کیا جائے.آپ کے قاعدہ کے مطابق یہاں بھی پُر ضُوهُ کی بجاۓ يُرْضُوهُمَا چاہیے تھا.۲۱.تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا“ الجواب ا.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت ہی کے تخت مراد ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں شامل نہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں یہ ایک فرد مخصوص ہوں اور جسقد رمجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذرے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا“.یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قد را مورغیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو (۱۳۰۰) برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۰۶ ) ۲.چنانچہ اربعین نمبر نمبر ۲ ( جو کٹھے چھپے ہیں ) اس کے صفحہ 9 پر اور پھر اربعین ( جو علیحدہ چھپا ہے ) کے صفحہ ے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام اني فَضَّلْتُكَ عَلَى الْعَلَمِينَ» درج ہے.اس کا ترجمہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دو ایڈیشنوں کے صفحہ ۷ اپر کیا ہے.اور جس قدر لوگ تیرے زمانے میں ہیں سب پر میں نے تجھے فضیلت دی.“ کے تخت ہیں.پس معلوم ہوا کہ آپ کا تخت جو سب سے اونچا بچھایا گیا تو اس سے مراد بھی امت محمدیہ ہی ۳.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو خدا کے فضل سے نبی اللہ ہیں اور آپ کا مقام مسیح ناصری علیہ السلام سے بھی بلند ہے.مگر حضرت پیران پیر سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :.
518 أَنَا مِنْ وَرَاءِ عُقُولِكُمْ فَلَا تَقِيْسُونِى عَلَى اَحَدٍ وَلَا تَقِيْسُوا أَحَدًا عَلَيَّ“ (فتوح الغیب مترجم فارسی صفحہ ۲۲) یعنی میں تمہاری عقلوں سے بالا ہوں.مجھ کو کسی دوسرے پر قیاس نہ کرو اور نہ کسی دوسرے کو مجھ پر قیاس کرو.٢٢ - أَ تَعْجَبِينَ لَا مُرِ اللَّهِ عربی غلط ہے.مِنْ اَمْرِ الله چاہیے تھا.عجب “ کا صلہ لام نہیں آتا.جواب:.”عجب“ کا صلہ لام آتا ہے، ملاحظہ ہومشہور عرب شاعر جعفر بن علبتہ الحارثی جبکہ وہ مکہ میں قید تھا کہتا ہے:.عَجِبْتُ لِمَسْرَاهَا وَ أَنِّي تَخَلَّصَتْ إِلَى وَبَابُ السِّجُن دُونِي مُغْلَقُ (ديوان الحماسه قول جعفر بن علی صفحه ۲ امکتبه اشرفیه) کہ میں نے اپنی معشوقہ کے چلے جانے پر تعجب کیا کہ ایسی حالت میں کہ قید خانے کا دروازہ مقفل ہے پھر وہ کس طرح میرے پاس پہنچ گئی.اس شعر میں عجب کا صلہ لام آیا ہے.پس تمہارا اعتراض باطل ہے.۲۳ - يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ حمد“ کا لفظ سوائے خدا کے کسی اور پر بولا نہیں جاتا ؟ جواب:.”حمد“ کا لفظ غیر اللہ پر بھی بولا جاسکتا ہے.ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی محمد تھا.۲.ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی شخص نے کچھ سوال کیا تو حضور نے تھوڑی دیر ٹھہر کر فر مایا.این السائل.کہ وہ سائل کہا ہے؟ اس کے متعلق بخاری ومسلم میں لکھا ہے.كَأَنَّهُ حَمِدَهُ - گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی (حمد) تعریف کی.(بخاری کتاب الزكاة باب الصدقة على اليتامى مصرى و مسلم کتاب الزكواة باب تخوف ماتخرج من زمرة الانبياء ) افْعَلْ هَذَا الَّذِى اَمَرْتُكَ بِهِ لِنُقِيْمُكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُقَامًا مَّحْمُودًا
519 يَحْمَدُكَ فِيهِ الْخَلَائِقُ كُلُّهُمْ وَخَالِقُهُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَی“ (تفسیر ابن کثیر زیر آیت عَسَى أَنْ يُبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.اسراء: (۷۹) که يَبْعَثُكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے.یہ جو میں نے تجھے حکم دیا اس کو بجالا.تا کہ میں تجھ کو قیامت کے دن مقام محمود پر کھڑا کروں.تمام دنیا تیری حمد کرے گی اور خالق کون و مکان ( خدا تعالیٰ ) بھی تیری حمد کرے گا.۴.حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.فَيَحْمَدُنِي وَاَحْمَدُهُ وَيَعْبُدُنِي وَاعْبُدُهُ كہ اللہ تعالیٰ میری حمد کرتا ہے اور میں اس کی حمد کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں.حضرت امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ مندرجہ بالا ارشاد کی حسب ذیل تشریح فرماتے ہیں.إِنَّ مَعْنَى يَحْمَدُنِي أَنَّهُ يَشْكُرُنِى إِذَا أَطَعْتُهُ كَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فَاذْكُرُونِي اَذْكُرُكُمْ وَأَمَّا فِى قَوْلِهِ فَيَعْبُدُنِي وَاعْبُدُهُ أَى يُطِيْعُنِي بِإِجَابَتِهِ دُعَائِي كَمَا قَالَ تَعَالَى 66 لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ اَنْ لَا تُطِيعُوهُ وَ إِلَّا فَلَيْسَ اَحَدٌ يَعْبُدُ الشَّيْطَانَ كَمَا يَعْبُدُ اللَّهَ.(اليواقيت و الجواهر الفصل الثاني في تاويل كلمات اظيفت الى الشيخ محي الدين ) یعنی حضرت امام ابن عربی کا یہ فرمانا کہ اللہ میری حمد کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اطاعت و فرمانبرداری کا شکریہ ادا کرتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا اور شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں.تو اس جگہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرما کر میری بات مانتا (میری اطاعت کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان کی عبادت نہ کرو.یعنی شیطان کا کہا نہ مانو.ورنہ دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جو شیطان کی اس رنگ میں عبادت کرتا ہو جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے.پس عبارت بالا میں لفظ ”حمد بعینہ اسی طرح استعمال ہوا ہے جس طرح حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی مندرجہ بالا عبارت میں.۴.قرآن مجید میں ہے:.وَيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُ وَ بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا (ال عمران : ۱۸۹) کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بغیر کسی کام کرنے کے ہی تعریف کی جائے.علی ہذا القیاس متعدد مثالیں ہیں جن کو بخوف تطویل درج نہیں کیا گیا.
520 میں ہوں.۲۲- حجر اسود تنم حضرت فرماتے ہیں کہ خواب میں کسی شخص نے میرے پاؤں کو بوسہ دیا.میں نے کہا کہ حجر اسود جواب:.ا.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح فرما دی ہے."وَانی آنا الْحَجَرُ الأَسودُ الَّذِى وُضِعَ لَهُ الْقُبُولُ فِي الْأَرْضِ وَالنَّاسُ يَمَسُّهُ يَتَبَرَّكُونَ “.اس پر حاشیہ میں لکھتے ہیں.قَالَ الْمُعَبِّرُونَ إِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فِي عِلْمِ الرُّؤْيَا الْمَرْءُ الْعَالِمُ الْفَقِيهُ الْحَكِيمُ (الاستفتاء عربی صفحه ام ) کہ میں وہ حجر اسود ہوں جس کو خدا نے دنیا میں مقبولیت دی ہے اور جس کو لوگ برکت حاصل کرنے کے لئے چھوتے ہیں.حاشیہ میں لکھتے ہیں :.کہ استادان فن تعبیر نے لکھا ہے کہ علم الرویا میں حجر اسود سے مراد عالم، فقیہ اور حکمت والا انسان ہوتا ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رویا کی تعبیر بھی فرما دی ہے.۲.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علیؓ کو فرماتے ہیں:.يَا عَلِيُّ أَنْتَ بِمَنْزِلَةِ الْكَعْبَةِ.» (فردوس الاخبار دیلمی صفحه ۴ ۳۱ باب الیاء ) یعنی اے علی ! تو بمنزلہ کعبہ کے ہے..حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ حریر فرماتے ہیں :." حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن اب طالب کرم اللہ وجہ....خطبہ لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ میں اسم اللہ سے لفظ دیا گیا ہوں.اور میں ہی اس اللہ کا جنب ( پہلو ) ہوں جس میں تم نے افراط و تفریط کی ہے اور میں ہی قلم ہوں.اور میں ہی لوح محفوظ ہوں اور میں ہی عرش ہوں اور میں ہی کرسی ہوں اور میں ہی ساتوں آسمان ہوں اور میں ہی ساتوں زمین ہوں.“ متقدمه فصوص الحکم فصل هشتم مترجم اردو صح ۶۰ ۶۱ ) ۴.حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.د میں مدت تک کعبہ کا طواف کرتا رہا لیکن خدا جب خدا تک پہنچ گیا تو خانہ کعبہ میرا طواف کرنے لگا.“ (تذکرۃ الاولیاء باب ۷۸ صفحه ۲۹۷) حضرت بایزید بسطامی کی عظمت شان ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرے کہ بایزید بسطامی کا قول حجت نہیں لیکن
521 یاد رکھنا چاہیکہ حضرت بو یزید رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کا اقرار فرمایا ہے.چنانچہ حضرت داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیفور بن بن علی بسطامی رحمۃ اللہ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا اور اس کی شان بہت بڑی ہے اس حد تک کہ جنید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ :.ابُو يَزِيدَ مِنَّا بِمَنْزِلَةِ جِبْرِيلَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ يعنى ابويزيد ہمارے درمیان ایسا ہے جیسا کہ جبرائیل فرشتوں میں اور تصوف کے دس اماموں میں سے ایک یہ ہوئے ہیں اور اس سے پہلے علم تصوف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ تھا.“ (کشف الحجاب مترجم اردو صحه ۱۳۲ ذکر امام مشائخ تبع تابعین) ۵.حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں حضرت رابعہ بصری کی نسبت تحریر فرماتے ہیں :.ایک دوسری مرتبہ آپ ( حضرت رابعہ بصریؒ) حج کو جارہی تھیں.جنگل میں کیا دیکھتی ہیں کہ کعبہ مکرمہ آپ کے استقبال کو آرہا ہے.حضرت رابعہ بصریؒ نے کہا.”مجھ کو مکان کی ضرورت نہیں صاحب مکان درکار ہے.کعبہ کے جمال کو دیکھ کر کیا کروں گی.“ (تذکرۃ الاولیاء اردو نواں باب صفحه ۴ ۵ مطبوعه علمی پریس ) ۶.حضرت عطار رحمتہ اللہ حضرت شبلی کی نسبت تحریر فرماتے ہیں :.ایک دفعہ آگ لے کر کعبہ کی طرف چلے اور کہنے لگے.میں جا کر خانہ کعبہ کو جلاتا ہوتا کہ لوگ خداوند کعبہ کی طرف متوجہ ہوں.( تذکرۃ الاولیاء چو دھواں باب صفحہ ۱۲۲) ۷.حضرت ابوالقاسم نصیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت لکھا ہے:.ایک دفعہ مکہ میں لوگ طواف کر رہے تھے اور آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے.آپ اسی وقت باہر جا کر لکڑیاں اور آگ لے آئے.لوگوں نے پوچھا.یہ کیا حرکت ہے ؟ آگ اور لکڑیوں کا یہاں کیا کام؟ فرمایا کہ کعبہ کو جلا دوں گا تا کہ سب غافل لوگ خدا کی طرف رجوع کرلیں.“ (تذکرۃ الاولیاء ترجمہ اردو باب ۹۴ صفحه ۳۱۸)
522 ۲۵.ٹیچی ٹیچی سوال:.مرزا صاحب کا الہام ہے ٹیچی ٹیچی جواب :.بالکل غلط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی ایسا الہام نہیں.ایک خواب ضرور ہے جس میں حضور نے ایک آدمی دیکھا جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا.اور اس نے اپنا نام ” ٹیچی بتایا.پنجابی زبان میں ٹیچی کے معنے ہیں وقت مقررہ پر آنے والا.پس اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بر وقت امداد فرمائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جو مشکلات لنگر خانے کے اخراجات کی نسبت اس خواب کے بعد دیکھنے سے پہلے درپیش تھیں وہ اس خواب کے بعد جلد ہی دور ہو گئیں.پس یہ کہنا کہ مرزا صاحب کو ٹیچی نیچی الہام ہوا محض شرارت ہے.سوال :.کیا ٹیچی ٹیچی بھی فرشتہ ہوتا ہے؟ جواب:.اوّل تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے حضرت اقدس نے کہیں بھی تحریر نہیں فرمایا کہ وہ ”فرشتہ تھا.بلکہ اسے فرشتہ نما انسان قرار دیا ہے، لیکن تم ذرا یہ بتاؤ کہ کیا فرشتے کانے بھی ہوا کرتے ہیں؟ بخاری میں ہے:.عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامَ فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَهُ فَرَجَعَ إِلى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدِ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِ عَيْنَهُ وَقَالَ ارْجِعُ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتَنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَاغَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ قَالَ أَى رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ الْمَوْتُ.“ ( بخاری کتاب الصلاة باب مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ نيز مشكوة كتاب احوال القيامة وبدء الخلق باب بدء الخلق و ذكر الانبياء) اس کا ترجمہ تجرید بخاری اردو شائع کردہ مولوی فیروزالدین اینڈ سنز لاہور سے نقل کیا جاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت حضرت موسی کے پاس بھیجا گیا جب وہ آیا تو موسی" نے اسے ایک طمانچہ مارا.جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی.پس وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جومر نا نہیں چاہتا.اللہ نے اس کی آنکھ دوبارہ عنایت کی اور ارشاد ہوا پھر جا کر ان سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں.پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے.ہر بال کے عوض میں انہیں ایک ایک سال زندگی دی جائے گی.حضرت موسی بولے اے پروردگار! پھر کیا ہوگا اللہ نے فرمایا پھر موت آئے گی.جس پر موسی نے کہا تو
523 پھر ابھی سہی.“ ( تجرید البخاری اردو جلد اول صفحه ۱۵۰) بھلا ٹیچی تو محض نام ہے.تم تو عملاً عزرائیل کو بھی کا نا مانتے ہو.۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا بلکہ فرمایا ہے کہ فرشتہ معلوم ہوتا تھا.“ (مکاشفات صفحہ ۳۸) نیز خواب میں جو اس فرشتہ نما انسان نے جو اپنا نام بتایا ہے وہ صرف پیچی ہے.مگر تم محض شرارت سے ٹیچی نیچی“ کہتے ہو جو یہود کی مثل يُحْرِقُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ ۖ کا مصداق بننا ہے.عزرائیل کو طمانچہ مارکر کا نا کرنے کی حدیث بخاری کتاب بدء الخلق باب وفات موسى وذكره بعده نیز مسلم کتاب الفضائل باب فضائل موسى نيز مشكلوة كتاب بدء الخلق باب ذكر الانبياء فصل الاول میں بھی موجود ہے.۳.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ بتایا ہے:.ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۶) اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تو اس پر کیا اعتراض ہے.یہ تو ایک صفاتی نام ہے.نبی کی اپنی زبان ( پنجابی ) میں.گویا خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے اور تم اس پر ہنستے ہو اور مذاق اڑاتے ہو.اگر نبی کی اپنی زبان میں الہام نہیں ہوتا تو اس پر اعتراض کرتے ہو.کہ غیر زبان میں الہام کیوں ہوا.خدا تعالیٰ نے تم کو اسی کشف کے ذریعہ سے ملزم اور ماخوذ کیا ہے کہ تمہاری پنجابی زبان تو ایسی زبان ہے کہ غالباً اس کے اکثر حصہ پر مذاق ہی مذاق اڑایا جا سکتا ہے.اسی لئے عام طور پر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو افضح الالسنہ (عربی) میں الہام کیا.کیونکہ ضرورت زمانہ اور ملہم کی فطرتی پاکیزگی مقتضی تھی کہ فصاحت اور بلاغت کا معجزہ اسے دیا جاتا مگر پنجابی زبان اس کی متحمل نہ ہوسکتی تھی.اس لیے آپ کو الہامات کا اکثر حصہ عربی زبان میں ہوا..باقی رہا تمہارا کہنا کہ اس نے جھوٹ بولا اور پہلے کہا میرا کوئی نام نہیں اور بعد میں دوبارہ پوچھنے پر اپنا نام بتایا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ٹیچی جیسا کہ بیان ہوا اس کا ذاتی نام (علم) نہیں، بلکہ صفاتی نام ہے.گویا نفی ذاتی نام کی ہے اور اثبات صفاتی کا.جب اس نے کہا کہ میرا کوئی نام نہیں تو اس نے اپنے
524 ذاتی نام (یعنی علم) کی نفی کی.اور جب اس سے کہا گیا کہ کچھ تو بتاؤ تو اس نے اپنی ڈیوٹی ( یعنی وقت پر پہنچ کر مددکرنا ) کو مدنظر رکھ کر اپنا صفاتی نام بتا دیا.اب اس کو جھوٹ کہنا انہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو انبیاء کو بھی جھوٹ بولنے کا عادی قرار دیا کرتے ہیں.گویا ہر بات میں ان کو جھوٹ ہی نظر آیا کرتا ہے.(اس کی تفصیل آگے آئے گی.) ۶.بخاری شریف کے پہلے باب کی دوسری حدیث میں ہے:.فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ.“ (بخاری_کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحی که اکثر دفعه فرشته وحی لے کر ٹن ٹن ٹلی کی آواز کی طرح آتا ہے.یہ اب علی علی“ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ اس کی آمد کی کیفیت بیان کی گئی ہے.اسی طرح یہاں بھی ٹیچی اس کی صفت ہے.ے.ہاں فرشتوں کے نام ” صفاتی بھی ہوتے ہیں جو ان کے ذاتی نام (علم) کے سوا ہوتے ہیں.حدیث شریف میں ہے:.اِسمُ جِبْرِيلَ عَبْدُ اللَّهِ وَاسْمُ مِيْكَائِيلَ عَبَيْدُ اللَّهِ وَاسْمُ إِسْرَائِيلَ عَبْدُ الرَّحْمنِ.( دیلمی صفحه ۵ ۵ باب الالف راوی ابوامامیه ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل کا نام عبداللہ ہے اور حضرت میکائیل کا نام عبید اللہ اور حضرت اسرافیل کا نام عبدالرحمن ہے.اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:.ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا.اس وقت مجھ کو معراج ہوئی جرائیل جو میرے ساتھی تھے انہوں نے مجھ کو آسمان دنیا کے دروازہ پر چڑھایا جس کا نام باب الحفظ ہے اور اس کا دربان ایک فرشتہ اسمعیل نام ہے.اس کے ما تحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فرشتے ہیں.“ (سیرت ابن هشام جلد اول باب الاسراء والمعراج مترجم اردو صفحه ۱۴۰) اس سے ثابت ہوا کہ فرشتوں کے صفاتی نام بھی ہوتے جوان کی ڈیوٹیوں کے اعتبار سے لگائے گئے ہیں.اب حضرت جبرائیل کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عبداللہ بتایا ہے.اگر کوئی از راه تمسخر شرارت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق یہ کہے کہ ”میاں عبد اللہ “ ”میاں اسمعیل“ یہ وحی لایا ہے.تو جو جواب تمہارا سو وہی ہمارا سمجھ لو.
525 ۲۶.کمترین کا بیڑا غرق ہو گیا“ یہ مرزا صاحب کو اپنے متعلق الہام ہوا.( البشری جلد ۲ صفحه ۱۲۱) جواب: تم دھوکہ سے کام لیتے ہو.”البشری جس میں یہ الہام درج ہے.اس کے آگے تشریح بھی موجود ہے:.کمترین کا بیڑہ غرق ہو گیا.یعنی کسی کے قول کے طرف اشارہ ہے یا شاید کمترین سے مراد کوئی شریر مخالف ہے.“ (البشری جلد ۲ صفحه ۱۲۱) تم لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ تو پڑھتے ہومگر وَانْتُم سُگاری ہضم کر جاتے ہو.کچھ تو لو گو خدا سے شرماؤ ۲۷.میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا جواب: وَانْتُمْ سُگاری “ بھی پڑھو لکھا ہے :.اس وحی کے بعد ایک ناپاک روح کی آواز آئی.میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا.“ ( البشرى جلد ۲ صفحه ۹۵) گویا تمہارے جیسی ناپاک روح کے متعلق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں خدا تعالیٰ کے عذاب سے بے خبر ہے اور اسی حالت نیند میں ہی اپنے لئے سامان جہنم بہم پہنچا رہی ہے.فَاعْتَبِرُوا.حضرت اقدس علیہ السلام کا اپنے متعلق الہام ہے:.خوش باش که عاقبت نکو خواهد بود (البشری جلد ۲ صفحه ۸۹) ۲.اس الہام کو حضرت اقدس علیہ السلام نے اس زلزلہ کے متعلق قرار دیا ہے جو اس مئی ۱۹۳۵ء کو کوئٹہ میں موسم بہار کے آخری دن (الوصیت صفحه ۱۳ حاشیه روحانی خزائن جلد ۲۰) میں آیا.جبکہ رات کو لوگ غفلت کی نیند سوتے تھے.مگر بعض بدکاروں کی بداعمالیوں کے باعث زلزلہ بھیج کر ان کو ہلاک کر دیا اور ان میں سے ناپاک روحیں سوتے سوتے واصل جہنم ہوئیں (مرنے والوں میں سے کئی نیک بھی تھے جیسا کہ طوفان نوح میں غرق ہونے والوں میں شیر خوار بچے عورتیں اور جانور بھی شامل تھے ) چنانچہ
526 حضرت اقدس علیہ السلام اپنے اشتہار ۱۸/ اپریل ۱۹۰۵ء متعلقہ زلزلہ مذکور میں تحریر فرماتے ہیں:.جب خدا تعالیٰ اس وحی کے الفاظ میرے دل پر نازل کر چکا تو ایک روح کی آواز میرے کان میں پڑی جو ایک ناپاک روح تھی اور میں نے اس کو کہتے سنا میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا.(دیکھواشتہار ۱۸ راپریل ۱۹۰۵ء بعنوان الانذار آخری صفحہ ) پس اس الہام میں یہ بتایا گیا کہ وہ زلزلہ رات کو آئے گا جبکہ بعض بد کار سوتے سوتے واصل جہنم ہو جائیں گے.( تذکرہ صفحہ ۲۵۲ ایڈیشن نمبر۴ ) ۲۸.ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں جواب:.اس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود تشریح فرمائی:.یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے اور یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت کی فتح نصیب ہوگی جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کیے جائیں گے.دوسرے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہوگی.خود بخو دلوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے.فقرہ كَسَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی مکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فقرہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ مدینہ کی طرف.البشری جلد ۲ صفحه ۱۰۶ و تذکره صفحه ۵۰۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء والحکم جلده انمبر ۲ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۶ ء صفحه۳) کیا پیپر منٹ بھی بولتا ہے؟ ۲۹.خاکسار پیپرمنٹ الجواب :.یہ حضرت اقدس علیہ السلام کا کشف ہے.آپ کو ایک شیشی دکھائی گئی جس کے لیبل پر لکھا تھا ” خاکسار پیپر منٹ، جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بیماری کا جس میں آپ اس وقت مبتلا تھے علاج پیپر منٹ ہے.( تذکرہ صفحہ ۲۴۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) پیپر منٹ تو نہیں بولا مگر تم ذرا بخاری میں پڑھو جہاں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نگے نہا رہے تھے کہ پتھر جس پر آپ نے کپڑے رکھے ہوئے تھے آپ کے کپڑے لے کر بھاگ گیا اور آپ اس کے پیچھے دوڑے.اسے پکڑ کر سوٹیاں ماریں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم اب تک اس پتھر پر حضرت موسی کی سوٹیوں کے نشان موجود ہیں.فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ فَخَرَجَ مُوسَى فِي أَثَرِهِ
527 يَقُولُ ثَوْبِيَ الْحَجَرُ ثَوْبِيَ الْحَجَرُ.(بخاری کتاب الصلوۃ باب مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا.نیز مشکوة کتاب بدء الـحـق باب ذکر الانبیاء ) کہ حضرت موسی ایک دفعہ نہانے گئے اور اپنے کپڑے اتار کر آپ نے ایک پتھر پر رکھے.پس وہ پتھر بھاگ گیا اور موسی اسکے پیچھے ننگے بھاگے.بھاگتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے اے پتھر ! میرے کپڑے دے جا، او پتھر میرے کپڑے دے جا.تمہارے ہاں پتھر کپڑے اٹھا کر بھاگ سکتا ہے.مسجد نبوی کا شہتیر اور یعفور گدھا باتیں کر سکتے ہیں ، لیکن اگر ہمارے ہاں عالم کشف میں کسی شیشی کے لیبل پر خاکسار پیپر منٹ“ لکھا ہوامل جائے تو اس پر بھی اعتراض کر دیتے ہو.حالانکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں.یہ ایک کشفی نظارہ ہے جس میں علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی امرمحل اعتراض نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ تمام علم طب اور علم تا خیر الا دو یہ الہامی ہے.ملاحظہ ہو:.قَدْ ثَبَتَ أَنَّ عِلْمَ الطَّبِ وَمَنَافِعَ الأدْوِيَّةِ وَمَضَارَّهَا إِنَّمَا عُرِفَتْ بِالْوَحْيِ.“ نبراس شرح الشرح العقائد نفسی صفحہ ۴۲۷ ) کہ یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ علم طب.ادویہ کے فوائد اور نقصانات محض وحی الہی سے معلوم ہوئے ہیں.فلا اعتراض ٣٠ - أَفْطِرُ وَاصُومُ جواب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تشریح فرماتے ہیں: ظاہر ہے کہ خداروزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی میں اپنا قہر نازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دُوں گا.اُس شخص کی مانند جو بھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے.اور اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ میں بیمار تھا.میں بھوکا تھا.میں نگا تھا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۷) ۲.پھر فرماتے ہیں: میں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو میں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصہ برس کا میں روزہ رکھوں گا.یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں رہے گی.“ ( دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۲۷، ۲۲۸ نیز دیکھو تذکره صفحه ۳۴۶ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
528.وہ حدیث جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حوالہ دیا ہے مسلم میں ہے.عن ابی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي يَا ابْنَ ادَمَ اسْتَطْعَمُتُكَ فَلَمْ تُطْعِمُنِي يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تُسْقِنِي (مسلم كتاب البر والصلة باب عيادة المريض ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو کہے گا.اے ابن آدم ! میں بیمار تھا.تو نے میری تیمار داری نہ کی اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھان نہ کھلایا اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے نہ پلایا.الخ (بحوالہ ریاض الصالحين كتاب عيادة المريض وتشييع الميت) پس خدا بیمار ہوسکتا ہے.بھوکا پیاسا ہوسکتا ہے.مگر روزہ نہیں رکھ سکتا.٣١ - اُخْطِئُ وَ أُصِيبُ جواب:.۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مندرجہ ذیل تشریح فرمائی ہے:.اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دونگا اور بھی ارادہ پورا کرونگا.جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ میں مومن کی قبض روح کے وقت تردد میں پڑتا ہوں.حالانکہ خداتر ڈو سے پاک ہے اسی طرح یہ وحی الہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پورا ہو جاتا ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی میں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۶) ۲.وہ حدیث جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے.بخاری میں ہے:.وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ.“ (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے کسی چیز کے متعلق کبھی اتنا تر در نہیں کیا جتنا ایک مومن کی روح قبض کرنے کے وقت مجھے ہوتا ہے.۳۲.کرمہائے تو مارا کرد گستاخ یہ حضرت مرزا صاحب کا الہام ہے مگر حضرت مرزا محمود احمد صاحب فرماتے ہیں:.
529 نادان ہے وہ شخص جس نے کہا ” کرمہائے تو مارا کرد گستاخ کیونکہ خدا کے فضل انسان کو گستاخ نہیں بنایا کرتے اور سرکش نہیں کر دیا کرتے بلکہ اور زیادہ شکر گذار اور فرمانبردار بناتے ہیں.“ الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۱۷ صفحه ۱۳ کالم ۳) الجواب :.یہ الہام تو ہے مگر حکایتاً عن الغير خدا کا کلام ہے.جس طرح قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ہے.اپنا لَتَارِكُوا الهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ يَزِ سُحِرٌ كَذَّابٌ.وغیرہ اب سوال یہ ہے کہ کیا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے." کر مہائے تو مارا کرد گستاخ (نعوذ باللہ ) یا کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کو کہہ رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ دونوں صورتیں باطل ہیں لفظ ”م“ ایک جماعت کو چاہتا ہے جس کا یہ قول حکایت نقل ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جماعت جماعت مومنین نہیں.کیونکہ خدا کے فضل مومن کو گستاخ نہیں بناتے.پس یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت اقدس کا ایک دوسرا الہام ہے کہ شَرُّ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کہ شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا.پس یہ اہل پیغام ہیں جنہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی مہربانیوں اور لطف و کرم کا نتیجہ گستاخی اور استخفاف سے دیا اور حضرت اور حضرت کے اہل بیت کے دشمن ہو گئے بمطابق الهام سَيَقُولُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلا ( کہ دشمن کہے گا تو رسول نہیں) اور تیر ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام کا ایک اور شعر بھی ہے وَمِنْ عَجَبٍ أُشَرِفُكُمْ وَأَدْعُو وَمِنْكَ الْمَشْرُفِيَّةُ وَالرِّمَاحُ تحفہ بغداد.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۳۷) کہ تعجب ہے کہ میں تمہاری عزت کرتا ہوں اور تمہیں بلاتا ہوں مگر تمہاری طرف سے نیزے ۳۳ خیراتی مرزا صاحب کے پاس ایک فرشتہ آیا جس کا نام ”خیراتی رام تھا.الجواب: - لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز خیراتی رام نہیں لکھا.بلکہ ایک فرشتے کا بحالت رویا آنے کا ذکر فرمایا ہے.جس نے اپنا نام ”خیراتی “ بتایا ہے.آگے یہ تمہارا کام ہے کہ تم کیا بالسنتهم والی آیت کے مطابق اپنے پاس سے الفاظ کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ
530 بنادو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ” راعِنَا “ کو ”رَاعِینَا “ کر کے پکارتے تھے.باقی رہا فرشتے کا نام تو در حقیقت یہ لفظ ” خیراتی ، ہندی ، پنجابی یا اردو کانہیں بلکہ عربی زبان کا لفظ ہے جو خیراتی ہے جو خیر سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ”نیکیوں والا.کسی نسبتی ہے.یہ اس فرشتے کا صفاتی نام ہے.چنانچہ ہمارے مندرجہ بالا معنوں کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر سے ہوتی ہے:.اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے.ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا وہ بھی اُن کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چار پائی پر بیٹھا رہا.تب میں نے اُن فرشتوں اور مولوی عبداللہ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو.تب میں نے یہ دُعا کی کہ رَبِّ اذْهَبْ عَنِّى الرِّجْسَ وَطَهَّرْنِي تَطْهِيرًا.اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور مولوی عبداللہ صاحب بھی آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے تمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہوسکتی.“ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ رویا ۱۸۷۴ء میں یعنی ماموریت سے پہلے کا ہے.تم تو دو فرشتوں کے قائل ہو کہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں.ایک نیکیوں والا اور دوسرا بدیوں والا.پھر اعتراض کیوں؟ دو ۳۴ جے سنگھ بہادر جواب:.اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے طاقتور شیر کو فتح نصیب ہوگی اور غلام احمد کی جے“ کے نعرے بلند ہوں گے.جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد اور دشمن کو بتایا گیا کہ وہ ناکام رہے گا.بعے ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار ونزار باقی لفظ ” جے سنگھ پر مذاق اڑانا ایسی ہی جہالت ہے جیسے کوئی شخص خدا کے متعلق گاڈیا
531 پر میشور کا لفظ سن کر اس کا مذاق اڑائے.۳۵.گورنر جنرل جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.د مسیح جس کا دوسرا نام مہدی ہے دنیا کی بادشاہت سے ہرگز حصہ نہیں پائے گا بلکہ اس کے لئے آسمانی بادشاہت ہوگی.اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح حکم ہو کر آئے گا اور وہ اسلام کے تمام فرقوں پر حاکم عام ہوگا جس کا ترجمہ انگریزی میں گورنر جنرل ہے سو یہ گورنری اُس کی زمین کی نہیں ہوگی بلکہ ضرور ہے کہ وہ حضرت عیسی ابن مریم کی طرح غربت اور خاکساری سے آوے.سوالیسا ہی وہ ظاہر ہوا.“ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۴) ۳۶.آریوں کا بادشاہ جواب:.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ یعنی تمام انسانوں کا بادشاہ نہیں مانتے؟ کیا آریہ انسان نہیں؟ تو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آریوں ، دہریوں، عیسائیوں اور یہودیوں غرضیکہ سب کے بادشاہ ہیں.۲.کیا کسی قوم کا بادشاہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ کا بھی وہی مذہب ہے جو رعایا کا ہو؟ کیا جارج ششم آریوں کا بادشاہ نہیں تھا تو کیا وہ بھی آرہا تھا.اور نگزیب کیا ہندؤں کا بادشاہ نہ تھا.تو کیا وہ بھی ہندو تھا؟ بادشاہ کی رعایا میں مومن بھی ہوتے ہیں اور کافر بھی.شریف لوگ بھی ہوتے ہیں اور بد معاش بھی.وہ سب کا بادشاہ ہوتا ہے.آخر انسانوں میں بدمعاش بھی تو شامل ہیں.پھر آنا سَيِّدُ وُلْدِ ادَمَ جو آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں سب انسانوں کا سردار ہوں تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ خدا را اعتراض کرتے وقت کبھی خدا کا خوف بھی دل میں رکھا کرو.۳۷- إِنِّي بَايَعْتُكَ بَايَعْنِي رَبِّي خدا نے مرزا صاحب کی بیعت کی (نعوذ باللہ ) البشری میں اس کا یہی ترجمہ لکھا ہے کہ ”میں نے تیری بیعت کی.“ الجواب:.بابو منظور الہی صاحب کا ترجمہ مندرجہ البشریٰ بالکل غلط ہے اور نہ جماعت احمدیہ پر حجت ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود کے ترجمہ کے بالمقابل کچھ حیثیت نہیں رکھتا.حضرت مسیح موعود اپنی
532 کتاب دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۸ پر اس الہام کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں :.میں نے تجھ سے ایک خرید و فروخت کی ہے تو بھی اس خرید وفروخت کا اقرار کرا ور کہہ دے کہ خُدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی.“ ( نیز دیکھو تذکره صفحه ۳۴۶ مطبوع ۲۰۰۴ء) ۲.اس الہام میں خدا کے ساتھ اس خرید وفروخت کا ذکر ہے جو قرآن مجید کی اس آیت میں مذکور ہے.إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة: 1) کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ ایک سودا کیا ہے اور وہ یہ کہ ان کے مال اور جانیں خرید لی ہیں اور ان کے بدلہ میں ان کو جنت دی ہے.۳۸- اسْهَرُ وَانَامُ " جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ سونے سے پاک ہے.مطلب اس الہام سے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بعض گنہ گاروں سے چشم پوشی کرتا ہے اور بعض دفعہ سزا بھی دیتا ہے.خدا تعالیٰ کے متعلق بھوکا رہنے ، کھانے پینے ، کپڑا پہنے نگا رہنے وغیرہ کے اگر استعارات استعمال ہو سکتے ہیں.( جیسا کہ ہم مسلم کی حدیث کے حوالہ سے أُفطِرُ وَاصُوم کے جواب میں بیان کر آئے ہیں.تو سونے جاگنے کا استعارہ کیوں استعمال نہیں ہوسکتا ؟ ۳۹- اصْبِرُ سَنَفْرُعُ يَا مِرُزَا کہ مرزا صبر کر ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں: (مکاشفات صفحہ ۲۸) جواب:.ہاں خدا تعالیٰ کبھی یہ بھی فرمایا کرتا ہے کہ اے بندو! ابھی ہم فارغ ہوتے ہیں.قرآن مجید میں ہے:.سَنَفْرُغُ لَكُمْائية التقلنِ (الرحمن : ۳۲) اے دو مخلوق ! ( یعنی جنو! اور انسانو!) ہم عنقریب تمہارے لئے فارغ ہوں گے.فلا اعتراض نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں لفظ ”لک“ نہیں ہے.اس لئے اس میں تہدید کا پہلو نہیں ہے.نیز لفظ اصبر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام تسکین دہی کی غرض سے ہے پس مولوی محمدعلی امیر پیغام کی کتاب بیان القرآن کا حوالہ قابل اعتنا نہیں اور نہ ہم پر حجت ہے.
533 ۴۰.قرآن خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں جواب نمبر 1:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قرآنِ مجید میرے منہ کی باتیں ہیں.الہام میں صیغہ غائب سے صیغہ متکلم کی طرف تشریحا تبدیلی ہوئی ہے.جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو لہم ہیں اس کی تشریح فرما دی ہے.سوال پیش ہوا کہ حضور کو جو الہام ہوا ہے ” قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں“ اس الہام الہی میں میرے کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے؟ یعنی کس کے منہ کی باتیں؟ فرمایا: ”خدا کے منہ کی باتیں اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں ( بدر جلد ۶ نمبر ۲۸.مورخہا ا جولائی ۱۹۰۷ صفحہ ۶) چنانچہ بعینہ اسی طرح ا الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة: ۳تا۵) میں پہلے سب غائب کے صیغے ہیں اور پھر یکدم صیغہ حاضر شروع ہو جاتا ہے.کیا خدا تعالیٰ (نعوذ باللہ ) آنحضرت کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہرگز نہیں.فلا اعتراض ۲.قرآن مجید میں ہے : ” وَاللهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ میت (فاطر: ۱۰) اور اللہ ہے جو بھیجتا ہے ہوائیں جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں.پس ہم اس کو ہا تک لاتے ہیں مردہ بستی کی طرف.اس آیت میں پہلے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر بصیغہ غائب کیا گیا ہے پھر اسی آیت میں آگے چل کر یکدم سُقنا صیغہ متکلم شروع ہو گیا ہے.کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بادل آلودہ ہواؤں کو اٹھاتا تو اللہ تعالیٰ ہے مگر مردہ بستی کی طرف ہانک کر لانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.(نعوذ باللہ) وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَانْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا (الزخرف: ١٢) اور وہ جس نے اندازہ کے مطابق آسمان سے پانی اتارا اور پھر ہم نے زندہ کیا اس سے مردہ بستی کو.وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام: ۱۰۰) وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا.پھر ہم نے اس میں سے ہر چیز کی سبزی نکالی.۵.قرآن مجید میں ہے: مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ (ال عمران: ۱۸۰) کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر کہ تم اب ہو.اس آیت میں المُؤْمِنِينَ مفعول بصورت صیغہ غائب ہے مگر انتو عَلَيْهِ “میں انہی مومنین کو ضمیر مخاطب سے ذکر کیا ہے حالانکہ اگر معترض کا اسلوب بیان مد نظر ہوتا تو عَلى مَا اَنْتُمْ عَلَيْهِ کی بجائے عَلى مَاهُمُ عَلَيْهِ چاہیے تھا مگر
534 صیغہ غائب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی فقرہ میں صیغہ مخاطب میں تبدیل کر کے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسا ہو جایا کرتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.قرآن مجید میں اس اسلوب بیان کی بیسوں مثالیں ہیں مگر انہیں پر اکتفا کی جاتی ہے.جواب نمبر ۲.اگر مندرجہ بالا جواب کو قبول نہ کرو تو حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ کی زبان سے جواب سنو.فرماتے ہیں:.ا عارف...ذات حق میں واصل ہو جاتا ہے.ان کی گردش اللہ تعالیٰ کی گردش اور ان کی باتیں اللہ تعالی کی باتیں ہوتی ہیں اور ان کی نظر خدا کی نظر ہوتی ہے.حضور پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں کسی بندہ کو اپنا دوست بنا تا ہوں تو میں اس بندے کے کان آنکھیں اور زبان ، ہاتھ پاؤں وغیرہ بن جاتا ہوں.تا کہ وہ مجھ سے سنے، دیکھے، بولے، کام کرے اور چلے.“ ( تذکرۃ الاولیاء اردو باب ۱۳صفحہ ۱۰۱ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز - با رسوم مطبع علمی پرنٹنگ پریس لاہور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیا ء شائع کردہ حاجی چراغ دین سراجدین مطبوعہ جلال پرنٹنگ پریس صفحہ ۱۱۷) نوٹ:.یادر ہے کہ حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ کی عظیم الشان شخصیت کا کسی مسلمان کو انکار نہیں.چنانچہ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے کشف الحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۱۵ میں ان کی عظمت و بزرگی کا خاص طو پر ذکرفرمایا ہے.۲.حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.اور بندہ کی عزت اس میں ہوتی ہے کہ اپنے فعلوں اور امکان مجاہدہ بجمالِ حق میں آفتِ فعل سے بچا ہو.اور اپنے فعلوں کو خدا تعالیٰ کے فضل میں مستغرق جانے اور مشاہدہ کو ہدایت کے پہلو میں منفی.پس اس کا قیام حق سے ہے.وہ تعالیٰ شانہ اس کے اوصاف کا وکیل ہو اور اس کے فعل کو سب اسی کی طرف نسبت ہوتا کہ اپنے کسب کی نسبت سے نکل گیا ہو.چنانچہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو جبرائیل سے خبر دی ہے اور جبرائیل نے خدا تعالیٰ سے جیسا کہ فرمایا: - لَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبُّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ لَهُ سَمْعًا وَيَدًا وَبَصْرًا وَمُؤَيَّدًا وَلِسَانًا فَبِي يَسْمَعُ وَبِي يُبْصِرُ وَبِي يَبْطِشُ وَبِي يَنطِقُ.یعنی بندہ مجاہدہ کے ساتھ ہم سے تقرب کرتا ہے.ہم اس کو اپنا دوست بناتے ہیں.اس کی ہستی کو اس میں فنا کر دیتے ہیں اور اس سے اس کے فعلوں کی نسبت ہٹاتے ہیں.تا کہ جو کچھ سنے ہم سے سنے جو کہے ہم سے کہے جو دیکھے ہم سے دیکھے اور جو کچھ پکڑے ہم سے
535 پکڑے یعنی ہمارے ذکر میں مغلوب ہو اور اس کا کسب اس کے ذکر سے فنا ہو اور ہمارا ذکر اس کے ذکر پر غالب ہو جائے اور آدمیت کی نسبت اس کے ذکر سے قطع ہو جائے.تب اس کا ذکر ہمارا ذکر ہوگا.حتی کہ حالت غلبہ میں اس صفت پر ہو جائے جو کہ ابو یزید نے کہا.سُبْحَانِى مَا أَعْظَمُ شَأْنِی اور جس نے ان کی کلام کی تاک پر کہا وہ کہنے والا ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الْحَقُّ يَنْطِقُ عَلَى لِسَانِ عُمر یعنی حق عمر کی زبان سے گویا ہے.اس کی اصلیت ایسی ہوتی ہے کہ حق کا قہر آدمیت پر اپنا غلبہ ظاہر کرتا ہے.اس کو اس اس کی ہستی سے نکال دیتا ہے.یہاں تک کہ اس کے کلام استحالہ سے سب کلام حق ہوتی ہے.(کشف الحجاب مترجم اردو صفحہ ۲۸۷) ۴۱.انگریزی الہامات کی زبان پر اعتراض مکتوبات جلد اصفحہ ۶۸ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بایں الفاظ میں شائع ہوا ہے."You have to go Amritsar" (1) ( یو بیوٹو گوامرتسر ) یعنی تمہیں امرتسر جانا ہوگا.اس پر اعتراض کیا گیا کہ لفظ (go) اور امرتسر کے درمیان لفظ ٹو (to) چاہیے تھا.یعنی عبارت اسی طرح ہونی چاہیے تھی."You have to go to Amritsar" اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ لفظ to کا اس الہام میں رہ جانا محض سہو کتابت کا نتیجہ ہے اصل الہام سے مفقود نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اسی جگہ تحریر فرماتے ہیں:.فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تا خر بھی ہو جاتا ہے.اس کو غور سے دیکھ لینا چاہیے.( مکتوبات جلد اصفحه ۶۸ و تذکر صفه ۹۲ ایڈیشن ۲۰۰۴ء) پھر فرماتے ہیں: چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے اور الہام الہی میں ایک سُرعت ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۷ حاشیہ) اس امر کا ثبوت کہ لفظ "go" کے بعد "to" کارہ جانا محض سہو کتابت سے ہے یہ ہے کہ اس الہام سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس الہام سے بالکل مشابہ ایک اور الہام ہو چکا ہے جس میں لفظ to کو go کے بعد استعمال کیا گیا ہے.وہ الہام براہین احمدیہ حصہ چہارم.
536 روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۵۹ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ و تذکرہ صفہ ۹۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ ء پر ہے.Then will you go to Amritsar ”دن ول یو گوٹو امرت سر 66 یعنی تب تم امرتسر بھی جاؤ گے.اس الہام میں فقرہ go to Amritsar استعمال ہوا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ مہم (خدا تعالیٰ ) کو تو go to کا محاورہ معلوم تھا مگر اس کے لکھنے میں سہو کتابت کے باعث لفظ to رہ گیا.اس قسم کا سہو اس قدر عام ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی لیکن ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک دوسرے الہام کو بطور دلیل پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ معترضین کا اعتراض سراسر باطل ہے.۲.لفظ «ضلع“ کا استعمال انگریزی میں مندرجہ بالا الہام سے اگلا الہام ہے:.(۲) "He halts in the Zilla Peshawar" کہ وہ ضلع پشاور میں قیام کرتا ہے.(تذکرہ صفحہ۹۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) اس الہام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انگریزی میں لفظ ” ضلع استعمال نہیں ہوتا.جواب:.غلط ہے.انگریزی میں لفظ ضلع کا استعمال ہوتا ہے.ا.دی نیو آکسفورڈ ڈکشنری "by Judy Pearsall under word "Zilla لکھا ہے:.ZILLAH:- ADMINISTRATIVE DISTRICT.۲:.دی پبلک سروس انکوائریز ایکٹ کی دفعہ نمبر ۸ میں دو دفعہ یہ لفظ ”ضلع انگریزی میں استعمال ہوا ہے.دیکھو دی پنجاب کورٹس ایکٹ مرتبہ وشائع کردہ شمیر چند بیرسٹر ایٹ لاء مطبوعہ ۱۹۳۳ء صفحه ۸۳.علاوہ ازیں آکسفورڈ ڈکشنری زیر لفظ "Zilla" پر لفظ ضلع موجود ہے.۳.بائی“ بمعنے ”ساتھ“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے:.GOD IS COMING BY HIS ARMY ( گاڈ از کمنگ بائی ہر آرمی ) ( تذکره صفحه ۵۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
537 یعنی خدا اپنی فوج کے ساتھ آ رہا ہے.اس الہام پر یہ اعترض کیا جاتا ہے اس میں لفظ 'بائی“ کا استعمال درست نہیں.اس کی بجائے لفظ With ( ساتھ ) استعمال ہونا چاہیے تھا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض انگریزی زبان کے نہ جاننے کے باعث پیدا ہوتا ہے.کیونکہ انگریزی زبان میں لفظ by بائی with کے معنی میں استعمال ہوتا ہے.ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو.انگلش ڈایا لکٹ ڈکشنری مصنفہ جوزف رائٹ صفحہ ۴۷۰.اس میں لکھا ہے:."BY together with, in company with, I will go if you go by me, come along by me." یعنی لفظ ”بائی“ کے معنے ہیں ساتھ.”ہمراہ “.جیسا کہ کہتے ہیں.میں تب جاؤں گا اگر تم میرے ساتھ (بائی ) جاؤ گے تم میرے ساتھ آؤ.محولہ بالا ڈکشنری وہ ڈکشنری ہے جس کے متعلق لکھا ہے:.Complete vocabulary of all english dialect کہ یہ انگریزی زبان کے تمام محاورات کا خزینہ ہے.علاوہ ازیں انگریزی کی سب سے بڑی ڈکشنری مصنفہ و پیسٹر (WEBSTER) جس کا نام ہے.انٹرنیشنل ڈکشنری آف انگلش لینگونج" مطبوعہ ۱۹۰۷ء پر لفظcome کے نیچے لکھا ہے: (Come by: To pass "by way of") یعنی کم بائی come by) کے معنے ہیں.بذریعہ.پس اس الہامی فقرہ کے معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ افواج آرہا ہے.یعنی خدا کا آنا بذریعہ افواج قاہرہ ہوگا.پس انگریزی زبان میں لفظ by (بائی ) with کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام انگریزی زبان کے لحاظ سے بالکل بامحاورہ اور درست ہے.ایکسچینج بمعنی چینج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے."Words of God cannot exchange"
538 ہو سکتے.ورڈز آف گاڈ کین ناٹ ایکسچینج ) تذکرہ صفحہ ۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء یعنی خدا کے الفاظ تبدیل نہیں اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں لفظ exchange(اینچ) لفظ change کے معنے میں استعمال ہوا ہے.حالانکہ بلحاظ قواعد و اسلوب اہل زبان یہ لفظ "change" کے معنے میں استعمال نہیں ہوسکتا.اگر الہام میں لفظ ایکسچینج کی بجائے چینج ہوتا تو درست ہوتا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ بھی انگریزی زبان سے ناواقفیت کے باعث پیدا ہوا ہے.ورنہ انگریزی زبان میں exchange کا لفظ change کے معنے میں استعمال ہوتا ہے.چنانچہ انگریزی زبان کی مشہور اور مروج لغت آکسفورڈ ڈکشنری میں لفظ exchange کے معنے change لکھے ہیں.علاوہ ازیں Marrey's Dictionary میں لفظ exchange کے ماتحت لکھا ہے کہ یہ لفظ change کے معنے میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے استعمال کا ثبوت بطور مثال یہ فقرہ لکھا ہے."I return again just to the time not with the time exchanged." یعنی میں وقت مقررہ پر واپس آیا ہوں.تبدیل شدہ وقت پر نہیں.پس انگریزی زبان میں یکسچینج کا لفظ چھینج کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں ہوا.اور اس پر اعتراض کرنا انگریزی زبان سے نا واقفیت کا ثبوت ہے.ایک اور مفہوم علاوہ ازیں ایکسچینج Exchange کا لفظ مسلمہ طور پر "Inter change" کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.اگر اس لحاظ سے الہام کے الفاظ کو دیکھا جائے تو الہام کے معنے یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ آپس میں بدل نہیں سکتے.مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس قد رافصح اور ابلغ ہوتا ہے کہ اس کا ہر لفظ اپنی جگہ پر نہایت موزوں ہو کر بیٹھتا ہے اور جو جہاں استعمال ہو.وہ وہاں ہی صحیح معنے دیتا ہے.اور اگر کسی لفظ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا لفظ وہاں رکھا جائے تو عبارت کا مفہوم بگڑ جائے گا.چنانچہ اعلیٰ کلام کی یہ
539 خصوصیت مسلم ہے کہ اس کا ہر لفظ با معنی اور برمحل ہوتا ہے.خصوصاً قرآن مجید کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس میں بلاغت کا یہ کمال اس قدر نمایاں ہے کہ اگر اس کا ایک لفظ بھی بدل دیا جائے تو آیت کا مفہوم اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ سیاق و سباق عبارت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں خواہ لفظ سیکھنے کو چلینج کے معنے میں لیا جائے خواہ انٹر چینج (inter change) کے معنے میں، الہام کی زبان بالکل درست اور محاورہ اہلِ زبان کے عین مطابق ہے اور اس پر اعتراض کرنے سے بجز اس کے کہ معترض کی اپنی علمی پردہ دری ہو اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.۴۲.قابل تشریح الہامات ا.قرآن مجید میں حروف مقطعات كهيعص طس ، طسم حم.ن.قيس وغيره وغیرہ کے متعلق بھی مخالفین تمہاری طرح گول مول الہام ہونے کا مضحکہ اڑاتے ہیں.۲.تمہارے ہی جیسے دشمنان حق نے حضرت شعیب سے بھی کہہ دیا تھا کہ تمہارے الہامات گول مول ہیں جن کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی.چنانچہ قرآن مجید میں ہے:.يُشْعَيْبُ مَا نَفَقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ (هود : (۹۲) کہ اے شعیب ! ہمیں اکثر باتوں کی جو تو کرتا ہے سمجھ نہیں آتی.۳.حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ "الاقتصاد فی الاعتقاد میں لکھتے ہیں:.قرآن مجید کے سب معنی سمجھنے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی...مقطعات قرآنی ایسے حروف یا الفاظ ہیں جو اہل عرب کی اصطلاح میں کسی معنے کے لئے موضوع نہیں.“ علم الکلام اردو تر جمه الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ ۶۶) ۴.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ”الفوز الکبیر میں قرآن مجید کی ان آیات کے متعلق جن میں تخصیص نہ ہو لکھتے ہیں:.اجتهاد را در میں قسم دخلی هست و قصص متعدده را آنجا گنجائش ہست“ (الفوز الکبیر صفحه ۴) کہ اس قسم کے الہامات میں اجتہاد کا راستہ کھلا ہے اور کئی قصوں کی ان آیات کی تشریح میں شامل کئے جانے کی گنجائش ہے.
540 ۵.امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :.66 فِي قَوْلِهِ تَعَالَى الحَرَ وَمَا يَجْرِى مَجْرَاهُ مِنَ الْفَوَاتِحِ قَوْلَانِ اَحَدُهُمَا أَنَّ هذَا عِلْمٌ مَسْئُورٌ وَسِرٌّ مَحْجُوبٌ اِسْتَأْثَرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهِ.وَ قَالَ أَبُو بَكْرِ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِى كُلّ كِتَبٍ سِرِّ وَ سِرُّهُ فِي الْقُرْآنِ أَوَائِلُ السُّوَرِ.(تفسير كبير رازی زیر آیت اله.البقرة: ا - قول المتكلمين في الم وامثالها.المسئلة الثانية) کہ الحر وغیرہ مقطعات کی نسبت دو قول ہیں.پہلا قول یہ ہے کہ یہ چھپا ہوا علم اور راز داروں پر پردہ ہے جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں.اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی بھید ہر کتاب میں ہوتا ہے اور قرآن میں اس کا بھید قرآن مجید کی سورتوں کے ابتدائی مقطعات ہیں.لا بُعْدَ فِي تَكَلَّمِ اللهِ تَعَالَى بِكَلامِ مُفِيدٍ فِي نَفْسِهِ لَا سَبِيلَ لَاحَدٍ إِلَى مَعْرِفَتِهِ الْيُسَتْ فَوَاتِحُ السُّوَرِ مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ وَهَلْ يَجُوزُ لَاحَدٍ أَنْ يَقُولَ إِنَّهَا كَلَامٌ غَيْرُ مُفِيدٍ وَهَلْ لَاحَدٍ سَبِيلٌ إِلَى دَركه.“ (السرج الوہاج شرح مسلم جلد ۲ صفحہ ۷۴ سے مصنفہ نواب صدیق حسن خان ) یعنی یہ امر کوئی بعید نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا الہام یا وحی نازل ہو جو اپنی ذات میں مفید تو ہومگر اس کے معنے کوئی نہ سمجھ سکے.کیا قرآن مجید کے حرف مقطعات اس طرح کے نہیں ہیں.کیا کسی کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ ان کا کوئی فائدہ نہیں.پھر کیا کوئی ان کا علم حاصل کر سکتا ہے؟ ( یعنی نہیں کر سکتا.) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ الہامات جو خاص واقعات کے متعلق مشتمل ہیں وہ ہیں، ان کی تشریح خود حضرت اقدس نے فرما دی اور جو بعض آئندہ زمانہ کی پیشگوئیوں پر اپنے وقت پر پورے ہوں گے اور ان کے معنے واقعات کی روشنی میں کھل جائیں گے.جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:.سَيُرِيكُمُ الله فَتَعْرِفُونَهَا ( العمل : (۹۴) کہ ہم تم کو اپنے نشان دکھا ئیں گے تو تم ان کو پہچان لو گے.اور بعض الہامات جو عام ہیں ان کی تشریح و تفسیر کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے حوالہ سے اوپر درج کیا جاچکا ہے.بہر حال ان الہامات کو گول مول قرار دینا یا ان کو غیر مفید بتانا اپنی شقاوت قلبی اور کور باطنی پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے.اب ذیل میں چند الہامات مع تشریح درج کئے جاتے ہیں :.
541 ا.”عُتُمُ عُتُمُ عُتُم “ بے معنی فقرہ ہے جواب الف:.تمہارے جیسے داناؤں نے حضرت شعیب کو کہا تھا کہ يُشْعَيْبُ مَا نَفَقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُوْلُ (هود : ۹۲) اے شعیب ! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں.ب.حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.قرآن مجید کے سب معنے سمجھنے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی...مقطعات قرآنی ایسے حروف 66 یا الفاظ ہیں جواہل عرب کی اصطلاح میں کسی معنے کے لئے موضوع نہیں.“ علم الکلام ترجمہ اردو الاقتصاد فی الاعتقاد صفحه ۵۶) غُتُم ثم قم حضرت اقدس علیہ السلام کا کوئی الہام نہیں ہے.بلکہ غَشَمَ غَشَمَ غَثَمَ لَهُ ہے اور اس کے معنی ہیں اس کو مال یکدم دیا گیا.الہام کے ساتھ ترجمہ بھی الہام ہوا ہے.الہام کے یہ الفاظ ہیں غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَهُ دَفَعَ إِلَيْهِ مِنْ مَّالِهِ دَفْعَةً.( تذكره صفحه ۲۶۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء ) دیا گیا اس کو مال اس کا.لغت میں ہے : غَدُمًا لَهُ دَفَعَ لَهُ دَفْعَةٌ جَيْدَةً مِّنَ الْمَالِ (منجد زیر لفظ غشم) کہ عثم کے معنے ہیں اس کو یکدم مال دیا گیا.پھر عربی انگریزی ڈکشنری ”الفرائد الدریہ میں لکھا ہے:.To give at once to any one.یکدم کسی کو مال دینا.پس یہ الہام بے معنے نہیں اور تمہارا اس کو غُتُم غُتُم پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بد زبان دشمن اسلام الح کو الم الم پڑھ کر اس پر تمسخر اڑائے.نیز دیکھو لسان العرب میں لکھا ہے:.غَثَمَ لَهُ مِنَ الْمَالِ غَيْمَةً إِذَا دَفَعَ لَهُ دَفْعَةً كَ يا غَثَمَ له کے معنے لفظاً لفظاً لغت میں وہی ہیں جو حضرت اقدس کے الہام میں ہیں.نیز دیکھو قرب الموارد.۲.ایک ہفتہ تک کوئی باقی نہ رہے گا“ بے معنی ہے جواب: - خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج: ۴۸)‘ کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک دن انسانوں کے ہزار سال کے برابر ہے اور انجیل میں بھی ہے.یہ خاص بات تم پر پوشیدہ نہ رہے کہ خدا وند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر
542 ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر.خداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا.“ (پطرس ۳/۸) ا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور سات ہزار سال کے بعد دنیا پر قیامت آ جائے گی.چنانچہ حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ ۳۸ پر لکھا ہے :.ور بعض روایات آمده که عمر دنیا ہمفت ہزار سال است.پس بس.چنانچہ حکیم تر مندی در نوادرالاصول در حدیث طویل.باسناد خود تا ابو ہریرہ روایت کرده که فرمود رسول خدا صلح.....مدت دنیا از روز یکه مخلوق شده تا آن روز که فتاشود بماند و آں ہفت ہزار سال است.....وانس بن مالک گفته که فرمود رسول خدا صلعم عمر دنیا که هفت هزار سال است.اخرجه ابن عساكر في تاريخه و نیز وی مرفوعا از انس روایت کرده که عمر دنیا هفت روز است.لیکن بطریق صحیح از ابن عباس آمده که دنیا هفت روز است و هر روز هزار سال “ حج الکرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ ۳۸.۳۹ فصل سوم در بیان عمر د نیا ) ۲.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الہام کی تشریح بہ تفصیل بیان فرمائی ہے.چنانچہ اس الہام کے متعلق حضرت اقدس فرماتے ہیں:.اور دنیا کی عمر بھی ایک ہفتہ بتلائی گئی ہے.اس جگہ ہفتہ سے مراد سات ہزار سال ہیں.ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے.اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج: ۴۸ ) ( بدر ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء) ۳.دنیا کی عمر سات ہزار سال کے متعلق تفصیلی بحث دیکھ تحفہ گولڑو یہ برا ہی احمد یہ حصہ پنجم." پہلے بیہوشی پھر فشی پھر موت" بے معنی الہام ہے جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں:.۳۰ جون ۱۸۹۹ء میں مجھے یہ الہام ہوا.پہلے بیہوشی ، پھر غشی ، پھر موت ،ساتھ ہی اسکے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا.چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم ۳۰ / جون ۱۸۹۹ء میں درج ہو کر شائع کیا گیا پھر
543 آخر جولائی ۱۸۹۹ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست یعنی ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسسٹنٹ سرجن ایک نا گہانی موت سے قصور میں گزر گئے.اول بے ہوش رہے پھر ایک دفعہ غشی طاری ہو گئی.پھر اس ناپائدار دنیا سے کوچ کیا اور ان کی مت اور اس الہام میں صرف ہیں ۲۰ بائیں ۲ دن کا فرق تھا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۳ ۲۲۴ و نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰۹) ۴.موت ۱۳ ماہ حال کو.ایک دم میں دم رخصت ہوا پیٹ پھٹ گیا سوال: کس کا؟ جواب:.یہ الہام ۵ شعبان ۱۳۲۴ ھ کو ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” مجھ کو ۳۰ / جولائی ۱۹۰۶ء میں اور بعد اس کے اور کئی تاریخوں میں وحی الہی کے ذریعہ سے بتلایا گیا کہ ایک شخص اس جماعت میں سے ایک دم میں دُنیا سے رخصت ہو جائے گا اور پیٹ پھٹ جائے گا اور شعبان کے مہینہ میں وہ فوت ہوگا.چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق شعبان ۱۳۲۴ھ میں میاں صاحب نور مہاجر جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی جماعت میں سے تھا ایک دفعہ ایک دم میں پیٹ پھٹنے کے ساتھ مر گیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۳۵) ۵ ایلی اوس جواب : ایلی“ کا ترجمہ ہے ” اے خدا !“ اور اوس“ کا ترجمہ ہے انعام.عطیہ المنجد میں ہے:.اسَ أَوْسًا وَإِيَاسًا : اَعْطَى عَوَّضَ.اَلاَوُسُ : اَلْعَطِيَّةُ (المنجد زیر لفظ اس ) کہ اس.اوسا کے معنے ہیں.اس نے انعام دیا.معاوضہ دیا.اوس“ کے معنے ہیں عطیہ “ اور یہی معنى الفَرَائِدُ الدُّرِّيَّةُ زیر لفظ اس میں بھی مذکور ہیں.پس ایلی اوس“ کے معنے ہوں گے.اے میرے خدا! مجھ پر انعام کر.مجھے اجر دے.- هُوَشَعُنَا نَعْسًا جواب: الف : هُوَ شَعْنَا کے معنے ہیں " کرم کر کے نجات دے.“ 66 اے خداوند میں منت کرتا ہوں کہ نجات بخشے.“ (دیکھوز بور ۱۱۸/۲۵) ب.انجیل مطبوعہ ۱۹۲۸ء میں ہے.ابن داؤد کو هُوَ شَعْنَا“ اور اس آیت میں هُوَ شَعْنَا
544 پر حاشیہ میں لکھا ہے.اس کے معنے ہیں کرم کر کے نجات دے.“ (متی ۲۱/۹) ج - نَعِسًا كا ترجمہ عبرانی میں ہے granted ( قبول ہوئی ) گویا هُوَ شَعُنا میں جو دعا تھی نَعِسًا کے لفظ میں ساتھ ہی اس کی قبولیت بھی الہاما بتا دی گئی.۲.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الہام کا تر جمہ تحریر فرما دیا ہے:.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ھو شعنا نعسا.ترجمہ.اے خدا ! میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما.ہم نے نجات دی.یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی بیکسی ناداری کسی آئندہ زمانہ میں وہ دُور کر دی جائیں گی.چنانچہ پچیس ۲۵ برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام ونشان نہ رہا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفر ۱۰۵،۱۰۴) ے.آسمان مٹھی بھر رہ گیا جواب:.اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب آسمان سے قہری نشان ظاہر ہوں گے.آسماں اے غافلواب آگ برسانے کو ہے (مسیح الموعود ) نیز حضرت اقدس علیہ السلام نے جنگ یورپ کی پیشگوئی کرتے ہوئے بھی فرمایا :.اک نمونہ قہر کا ہو گا وہ ربانی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۲).ایک دانہ کس کس نے کھانا جواب.(۱) یہ الہام ۸ فروری ۱۹۰۶ ء کا ہے.اس کے سباق میں جو الہامات ہیں وہ درج ذیل ہیں.ز مین کہتی ہے يَا نَبِيَّ اللهِ كُنتُ لَا أَعْرِفُكَ يُخْرِجُ هَمُّهُ وَ غَمُّهُ دَوْحَةَ اِسْمعِيلَ فَاخْفِهَا حَتَّى يَخْرُجَ ایک دانہ کس کس نے کھانا.( بدر جلد نمبرے مورخہ ۶ ارفروری ۱۹۰۶ء صفحه و الحکم جلد نمبر ۵ مورخه ارفروری ۱۹۰۶ء صفحه ۱ و تذکرہ صفحہ ۵۰۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) زمین کہتی ہے.اے نبی
545 اللہ ! میں تجھے نہیں پہچانتی تھی.اس کا ( مسیح موعود کا ھم اور غم اسماعیل کے درخت کواگانے کا موجب ہوگا.پس اس کو پوشیدہ رکھ.یہاں تک کہ وہ ظاہر ہو جائے.ایک دانہ کس کس نے کھانا.ظاہر ہے کہ یہاں دانہ سے مراد دوحہ اسمعیل یعنی اسماعیل کے درخت کا دانہ ہے.یعنی وہ غم اور قوم کا درد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھا وہ بطور پیج کے ہو کر ایک دن اسمعیل کا عظیم الشان درخت بن جائے گا.یعنی شوکت اسلام کے ظہور کا موجب ہو گا.اور تمام دنیا اس سے برکت پائے گی.غرضیکہ یہ غنم جس کو آج اکیلا خدا کا مسیح کھا رہا ہے ایک دن رحمت و برکت کا موجب بن کر ثمر دار درخت بن جائے گا اور پھر سب دنیا اس پھل کو کھائے گی.یہ ہے وہ دانہ جسے کس کس نے کھانا.“ (۲) یہ دانہ قرآن مجید بھی ہو سکتا ہے کہ باوجود اس قدر مختصر ہونے کے پھر بھی تمام دنیا کے لئے روحانی غذا بن کر ان کی بھوک کو مٹاتا ہے کیونکہ اسمعیل کے درخت ( یعنی شوکتِ سلسلہ محمدیہ ) کا سب سے اونچا اور خوبصورت پھل یہی قرآن مجید ہے.۹.چھپیں دن یا چھپیس (۲۵) دن تک جواب:.یہ الہام ۷ / مارچ ۱۹۰۷ ء کا ہے (دیکھو بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۴ ار مارچ ۱۹۰۷ صفحه ۳ والحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۰۷ء صفحها بحوالہ تذکره صفحه ۵۹۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی دن اس کی تشریح میں فرمایا تھا:.و کوئی ہولناک یا تعجب انگیز واقعہ ہے.“ (بدر ۱۴ مارچ ۱۹۰۷ صفحہ۳) چنانچہ اس الہام سے پورے پچیسویں دن یعنی ۳۱ مارچ ۱۹۰۷ء کو (اس الہام کے شائع ہو چکنے کے کئی دن بعد ) ایک پر ہیبت آتشیں گولہ آسمان پر سے مختلف شہروں میں گرتا ہوا نظر آیا.چنانچہ لاہور کے مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے بھی اس پر لکھا:.کئی نامہ نگاروں نے ہمیں اس شہاب کے متعلق خطوط لکھے جو اتوار (۳۱ / مارچ) کی شام کو پونے پانچ بجے کے قریب دیکھا گیا.تو اس کے پیچھے ایک بہت لمبی دوہری دودھارا یسی تھی جیسے دھواں ہوتا ہے.(سول اینڈ ملٹری گزٹ ۳ اپریل ۱۹۰۷ء ) نوٹ:.الہام ایسوسی ایشن میں جماعت احمدیہ کے قیام کی پیشگوئی ہے.۱۰.الہام مضر صحت الحکم جلد ۹ نمبر ۲۱ مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۵ء صفحه۱)
546 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محنت شاقہ وشب بیداری کا ذکر ہے اور الہام ” آثار صحت میں ایک آدمی کی بحالی صحت کی خبر دی گئی ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دن دعا فرمائی تھی.( آثار صحت دیکھو بدر جلد۲ نمبر ۱۶ مورخه ۸ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۳۳) ا.زندگی کے فیشن سے دور جاپڑے ہیں جواب:.اس کے ساتھ ایک اور الہام بھی ہے فَسَحِقُهُمُ تَسْحِيْفًا (دیکھو تذکر و صفحه ۴۲۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) جس کی تشریح میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی دعا کا ذکر کیا ہے.کہ اے خدا! اپنے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت اس الہام میں فرمائی.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں یہ الہام ہوا.طاعون کا دور دورہ ہوا اور لاکھوں دشمن ہلاک ہوئے.تعیین تو اس صورت میں کی جاتی اگر ایک دو دشمنوں نے ہلاک ہونا ہوتا.۱۲ - شَرُّ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ الجواب :.یہ الہام بدر جلد انمبر ۸ مورخه ۲۵ رمئی ۱۹۰۵صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ صفحه امورخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۵ء پر بھی ہے.اور ساتھ ہی درج ہے کہ شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ( جو بعد میں پیغامی پارٹی کے رکن ہو گئے تھے ) کے لئے حضرت اقدس نے دعا فرمائی تو الہام ہوا.شَرُّ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا.اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہی لوگ جن پر حضرت اقدس کی طرف سے بے شمار مہربانیاں ہوئی تھیں ایک وقت آئے گا کہ حضور کی شان میں استخفاف کر کے حضور کے مشن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.چنا نچہ فتنہ غیر مبایعین اٹھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب ان کے رکن رکین بن گئے.۱۳.لاہور میں ایک بے شرم ہے الجواب:.یہ الہام ۱۳ مارچ ۱۹۰۷ء کا ہے اور بدر جلد ۶ نمبر۱۱ مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۳ و الحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۰۷ ء صفحه او تذکره صفحه ۵۹۴ پر درج ہے.اس کی تشریح کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کے الہامات بھی درج کئے جائیں.لا ہور میں ایک بے شرم ہے وَيْلٌ لَّكَ وَلا فُكِكَ إِنِّي نَعَيْتُ إِنِّي أَنَا اللَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا أَنَا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّدِقِينَ.ایک امتحان ہے.بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ
547 66 دیے جائیں گے.إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُظْهِرَكُمْ تَطْهِيرًا ترجمہ:.لاہور میں ایک بے شرم ہے.اے بے شرم ! تجھ پر اور تیرے جھوٹ پر لعنت.میں نے ایک شخص کی وفات کی خبر دی.بے شک میں ہی خدا ہوں.میرے سوا اور کوئی خدا نہیں.خدا بیچوں کے ساتھ ہوتا ہے.ایک امتحان ہے.بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دیئے جائیں گے.اے اہل بیت !خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری پلیدی کو دور کرے اور تمہیں پاک کرے.یہ سب الہامات ۱۳ مارچ کے ہیں.ان میں مندرجہ ذیل امور کی خبر دی گئی ہے:.ا.کوئی شخص فوت ہوگا.۲.اس دن ایک بہت بڑا فتنہ ہوگا..اس فتنہ میں دو فریق ہو جائیں گے (ایک فریق پکڑا جائے گا دوسرا چھوڑ ا جائے گا ) اور دونوں اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے کوشش کریں گے.۴.وہ فریق جو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا سچا ہوگا.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّادِقِينَ ۵.اس فتنہ میں کوئی شخص جس کا تعلق لاہور سے ہو گا.انتہائی بے شرمی کا اظہار کرے گا اور ایسا طرز عمل اختیار کرے گا جس میں کذب بیانی اور دھوکا سے کام لیا گیا ہوگا..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت یعنی حضور کی بیوی اور بچوں کے خلاف بھی وہ فتنہ اٹھایا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ ان کو ان حملوں سے محفوظ رکھے گا.ے.وہ لاہور کا ” بے شرم “ اپنی بہتان طرازی سے اپنی ”بے شرمی کا ثبوت کسی شخص کی وفات سے پہلے دے چکا ہوگا یعنی وفات بعد میں ہوگی.مگر اس سے قبل وہ جھوٹ وغیرہ کا واقعہ ہو چکا ہوگا کیونکہ لاہور میں ایک بے شرم اور اس کے جھوٹ کا ذکر الہام میں پہلے ہے اور اس کے بعد وفات کا ذکر ہے.اب دیکھ لو یہ سب پیشگوئیاں کس عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں.۱۳ مارچ کے دن یا الہام ہوا تھا اور عین ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو یعنی الہام ہی کی تاریخ کو حضرت خلیفہ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات حسرت آیات ہوئی اور انسی نُعَيْتُ “ کا الہام پورا ہوا ( کہ میں نے کسی کے فوت ہونے کی خبر دی ) آپ کی وفات سے قبل خفیہ طور پر مولوی مد علی صاحب ایم.اے لا ہوری پارٹی کے امیر نے ایک ٹریکٹ لکھ کر اور طبع کرا کے اس انتظار میں رکھا ہوا تھا کہ جب حضرت خلیفۃ امسیح اول رضی اللہ عنہ فوت ہو
548 جائیں اس وقت اس کو تقسیم کیا جائے گا.اس ٹریکٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور وصیت کے متعلق انتہائی کذب آفرینی سے کام لیا گیا تھا.وہ ٹریکٹ ۱۳ مارچ کو حضرت خلیفتہ امسیح اول کی وفات کے دن تقسیم کیا گیا.جس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ ایک خطرناک امتحان میں پڑگئی.دوفریق ہو گئے.مولوی محمد علی صاحب اور آپ کا لاہوری فریق آئندہ کے لئے خلافت کو مٹانا چاہتے تھے اور اس کوشش میں تھے کہ حضرت خلیفتہ امسیح اول کا کوئی جانشین منتخب نہ کیا جائے مگر دوسری طرف ایک دوسرا فریق تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور حضرت خلیفہ مسیح اول کی وصیت کے مطابق انتخاب خلافت کو ضروری قرار دیتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت بھی اسی دوسرے گروہ کے ہم خیال تھے.چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرا گروہ کامیاب ہوگیا اور لاہوری فریق نا کام ہوا.حضرت سید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ منتخب ہوئے.صادقین کو حمایت الہی حاصل ہوئی اور اہل بیت پر جو الزامات لگائے جاتے تھے ان کی تطہیر کا وعدہ پورا ہوا.غرضیکہ یہ سب پیشگوئیاں عظیم الشان طور پر پوری ہوئیں جو صداقت حضرت مسیح موعود علیه السلام پر زبر دست گواہ ہیں.اس قدر تفصیل اور بسط کے باوجود بھی اگر کسی کو ملا ہور میں ایک بے شرم ہے“ کا مطلب سمجھ میں نہ آئے تو اس کا کیا علاج؟ ۱۴.ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے.“ اس کی تفصیل مندرجہ بالا اعتراض کے جواب میں دیکھیں.۱۵.جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے“ جواب:.یہ الہام ۱۲ / اپریل ۱۹۰۴ء کا ہے اور اس سے پہلا الہام ”اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویراں کر دی“ ہے.یہ دونوں الہامات الحکم جلد ۸ نمبر ۳ اصفحہ مورخہ ۲۴ اپریل ۱۹۰۴ء میں درج ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ یہ طاعون کے متعلق ہیں.پس ان کا مطلب واضح ہے.۱۶.لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیر خدا نے ان کو پکڑا.جواب:.یہ الہام اپنے ساتھ کے سابقہ الہامات سے متعلق ہے جو درج ذیل ہے :.آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا.اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے.آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری
549 ساری مرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں.اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیر خدا نے ان کو پکڑا.شیر خدا نے فتح پائی.“ اربعین نمبر ۳ ، روحانی خزائن جلدی اصفحه ۴۲۸ - ۴۲۹ و تذکره ۳۲۴٬۳۲۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ان الہامات میں انگریزوں کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اچھے تعلقات کو لفظ ” تھا‘ (صیغہ ماضی) کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ ان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگی.اور موجودہ خوشگوار تعلقات ایک دن داستان ”عہد گذشتہ اور حکایات ماضی بن کر رہ جائیں گے.ایک نہایت اہم اور تعجب انگیز تغیر ہو گا.حکومت کی فوجیں اور احرار کے ادعائے باطل جماعت احمدیہ کو غم میں ڈالیں گے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جس طرح مسیح ناصری اور اس کی جماعت کو باوجود اس کے کہ حکومت وقت بھی ان کے خلاف ہوگئی تھی.یہودی بھی ان کے خلاف سازش کر کے متحد ہو گئے تھے.پھر بھی کامیاب و کامران کیا تھا.اسی طرح اب بھی وہ جماعت احمدیہ کی مدد کرے گا اور اپنی بے پناہ آسمانی فوجوں سے جماعت کو منصور ومظفر بنائے گا.اسی ضمن میں احرار اور دوسرے مخالفین احمدیت کی لاف و گزاف اور تعلیوں کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے دعوی کر دیا کہ وہ احمد بیت کو کچل کے رکھ دیں گے مگر خدا تعالیٰ کا شیر ( حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ) انتہائی دلیری اور شجاعت اور اولوالعزمی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرے گا اور ان کو شکست فاش دے گا.اب دیکھ لو یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں جو آج سے ۴۵ سال قبل کی گئیں اور پھر یہ کس قدر خارق عادت طور پر پوری ہوئیں.اور احرار کو کس قدر شکست فاش نصیب ہوئی.کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے ا.اُعْطِيتُ صِفَتَ الْإِفْنَاءِ وَ الْإِحْيَاءِ الجواب :.۱.حضرت اقدس کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا تھا.پہلے مسیح کی صفت احیاء موٹی“ کو تو تم بھی مانتے ہو مگر اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ہو.پھر مسیح محمد می پر اعتراض کیوں؟ کیا پہلے مسیح کا قول قرآن مجید میں درج نہیں کہ اخي المولى بِاذْنِ الله “ کہ میں اللہ کے حکم سے مردے زندہ کرتا ہوں اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ اُعْطِيتُ صِفَتَ الْإِفْنَاءِ وَ الْإِحْيَاءِ مِنْ
550 رَّبِّ الْفَعَالِ.“ کہ مجھے رب قادر کی طرف سے مارنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے پھر اس پر اعتراض کیوں؟.ہاں اگر کہو کہ مردے زندہ کرنا تو بے شک شانِ مسیحیت ہے مگر مارنے کی صفت تو پہلے مسیح میں نہ تھی ؟ تو اس کا جواب یہ کہ مسیح محمدی کو اللہ تعالیٰ نے دونوں صفتوں سے متصف فرمایا ہے جیسا کہ مسیح موعود کی صفت اہلاک کا ذکر حدیث نبوی میں بھی ہے کہ مسیح موعود کے دم سے دشمن ہلاک ہوں گے.چنانچہ لکھا ہے:.فَلا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ مِنْ رِيْحِ نَفْسِهِ إِلَّا مَاتَ “ ( مسلم ومرقاة (ملاعلی قاریؒ ) كتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة و مشكوة باب العلامات بين کہ جس کا فرتک مسیح کا دم پہنچے گا.وہ ہلاک ہو جائے گا.يدى الساعة) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سینکڑوں دشمن لیکھرام، آٹھم، ڈوئی،سعداللہ لدھیانوی وغیرہ آپ کے دم سے ہلاک ہوئے.- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس ارشاد کا تم نے حوالہ دیا ہے وہ خطبہ الہامیہ میں ہے اور اسی خطبہ الہامیہ میں اس سے ذرا آگے چل کر حضرت اقدس علیہ السلام نے خود ہی اس کی تشریح کر دی ہے کہ مارنے اور زندہ کرنے سے کیا مراد ہے.ملاحظہ ہو:.إِبْدَائِي سِنَانٌ مُذَرَّبٌ.وَدُعَائِي دَوَاءٌ مُجَرَّبٌ.أرى قَوْمًا جَلَالًا.وَقَوْمًا اخَرِينَ جَمَالًا وَبِيَدِى حَرْبَةٌ أَبِيدُبِهَا عَادَاتِ الظُّلْمِ وَالذُّنُوبِ.وَفِي الْأُخْرَى شَرْبَةٌ أعِيْدُ بِهَا حَيَاةَ الْقُلُوبِ.فَاسٌ لِلاِفْنَاءِ.وَأَنْفَاسٌ لِلاحْيَاءِ.“ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۱-۶۲) ترجمہ : ” مجھے تکلیف دینا ایک تیز نیزہ ہے اور میری دعا ایک مجرب دعا ہے میں ایک قوم کو اپنا جلال دکھاتا ہوں اور دوسری قوم کو جمال دکھاتا ہوں اور میرے ایک ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جس کے ساتھ میں ظلم اور گناہ کی عادتوں کو ہلاک کرتا ہوں.اور دوسرے ہاتھ میں ایک شربت ہے جس سے میں دلوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں.گویا ایک کلہاڑی فنا کرنے کے لئے ہے اور دم زندہ کرنے کے لئے.“ اب دیکھو حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی خطبہ الہامیہ میں زندہ کرنے اور مارنے کی صفت کی کس خوبی سے تشریح فرما دی ہے کہ مارنے سے مراد کفر.گناہ اور ظلم کو مارنا ہے اور زندہ کرنے سے مراد
551 روحانیت عطا کر کے دلوں کو زندگی بخشتا ہے.جیسا کہ پہلا مسیح کرتا تھا.نہ پہلے مسیح نے حقیقی نی مردے زندہ کئے اور نہ دوسرے مسیح نے ایسا کیا اور نہ خدا کے سوا کئی جسمانی مردوں کو زندہ کر سکتا ہے.ہاں روحانی طور پر انبیاء علیہم السلام میں یہ صفت پائی جاتی ہے اور اسی کا اظہار محولہ عبارت میں کیا گیا ہے.۴۳.مرزا صاحب کو شیطانی الہام ہوتے تھے جواب :..قرآن مجید میں ہے: " تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفاك اثير (الشعراء:۲۲۳) که شیطانی الہامات بد کار اور جھوٹے لوگوں کو ہوا کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاملہ اس کے برعکس ہے.حضور نے تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۲ پر چیلنج دیا ہے کہ تم کوئی عیب، افتر ایا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر ہیں لگا سکتے.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے اور پھر حضرت اقدس کی پاکیزہ زندگی کی مولوی محمد حسین بٹالوی جیسا دشمن بھی گواہی دے چکا ہے.رُهُمْ كَاذِبُونَ“ کہ شیطانی الہامات اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر پیشگوئیاں پوری ہوئیں جن پر تم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے.بلکہ خاموشی سے ان کے صدق پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہو.۳.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ” انجام آتھم کے صفحہ ا۵ میں اپنے الہامات کے خدائی ہونے پر غیر احمدی علماء کو مباہلہ کا چیلنج دیا ہے.تم اس وقت کیوں مقابلہ پر نہ آئے.تم تو ہر نبی پر القائے شیطانی ہو جانے کے قائل ہو.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی تمہارے مولویوں نے مانا ہے کہ آپ کو ( نعوذ باللہ ) شیطانی الہام ہوا.اس لئے اگر حضرت مرزا صاحب پر بھی یہی بہتان باندھو.تو معذور ہو.قَدْ قَرَءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُورَةِ النَّجْمِ بِمَجْلِسٍ مِنْ قُرَيْشٍ بَعْدَ." أَفَرَءَ يْتُمُ اللَّهَ وَالْعُزَّى وَمَنُوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى “ (النجم: (۲۱،۲۰) بِالْقَاءِ الشَّيْطَان عَلى لِسَانِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ عِلْمِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجي“.فَفَرِحُوا بِذَالِكَ.،، جلالین مع کمالین جلدا زیر آیت و ما ارسلنا(الحج:۵۳) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین قریش کی ایک مجلس میں سورۃ النجم کی آیات
552 أَفَرَءَ يُتُمُ اللهَ وَالْعُزُی (النجم:۲۰) کے آگے القاء شیطانی کے باعث یہ پڑھ دیا.تلگ الْغَرَانِيقُ الْعُلى وَ إِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجی“ کہ یہ بہت عظیم الشان بت ہیں اور قیامت کو ان کی شفاعت کی توقع رکھنی چاہیے.بتوں کی یہ تعریف سن کر مشرک بہت خوش ہوئے.اس کے آگے لکھا ہے کہ جبرائیل آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ یہ الہام الہی نہیں بلکہ شیطانی القاء ہے.تمہارے اکثر مفسرین نے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَنِّى أَلْقَى الشَّيْطنُ فِي أَمْنِيَّتِ) (الحج: ۵۳) کا ترجمہ یہی کیا ہے کہ ہر نبی کو القاء شیطانی ہوتا رہا ہے اور سورۃ النجم کی تفسیر میں انہوں نے مندرجہ بالا فضول اور لچر قصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے (استغفر الله العياذ بالله) تفسیر حسینی جلد ۲ صفحه ۸۴ مترجم اردو زیر آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَثْى (الحج: ۵۳) لکھا ہے:.جیسے ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تلاوت کرتے تھے تو اس شیطان نے جسے ابیض کہتے ہیں آپ کی آواز بنا کر یہ کلمات پڑھ دئیے.شعر تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَ إِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجي اس وقت جب حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہ نجم پڑھتے تھے اور یہاں تک پہنچے کہ 66 وَمَوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى “ پس تم لوگ جو تمام نبیوں کے سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی القائے شیطانی سے پاک نہیں سمجھتے بحالیکہ آپ کی محبت کا دم بھرتے ہو تو حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کواگر ( نعوذ باللہ ) شیطانی الہام پانے والا کہہ دو تو کیا گلہ ہو سکتا ہے؟ مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن ہو جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے ۴۴.غیر زبانوں میں الہامات مَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (ابراهيم: ۵) جواب.(۱) اس آیت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ نبی کو الہام“ اس کی قوم کی زبان میں
553 ہوتا ہے.مفسرین نے اس کے یہ معنی کئے ہیں.إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ أَى مُتَكَلِّمًا بِلُغَةِ مَنْ أُرْسِلَ إِلَيْهِمُ مِنَ الْأُمَمِ.(روح المعاني جلد ۵ صفحه ۱۷۶ زیر آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُول....الخ ابراہیم: ۵) کہ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ کا یہ مطلب ہے کہ وہ نبی اس قوم کی زبان بولا کرتا ہے جس کی طرف وہ مبعوث ہوتا تھا.(ب) - إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ إِلَّا مُتَكَلّمًا بِلُغَتِهِمُ ( تفسیر مدارج النزيل زیر آیت مَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولِ الخ و برحاشیہ خازن زیر آیت بالا) کہ نبی اپنی قوم کی زبان بولا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی پنجابی اور اردو ہی بولتے تھے.۲.اس آیت میں گزشتہ انبیاء کا ذکر ہے جیسا کہ لفظ از سلنا “بصیغہ ماضی سے ثابت ہے اور دوسرا قرینہ ان معنوں کی تائید میں قومی “ کا لفظ ہے کیونکہ گزشتہ انبیاءعلیہم السلام مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوتے تھے مگر جو نبی کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہ ہو بلکہ تمام قوموں کی طرف مبعوث ہو وہ اس آیت میں شامل نہیں ہوسکتا.اگر قوم سے نبی کی قومیت رکھنے والے لوگ مرا د لو جیسا کہ آنحضرت کے ساتھ قریش تھے.تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ آنحضرت کا سارا قرآن کریم قریش کی زبان میں ہی الہام نہیں ہوا.جیسا کہ آیت ان هذين تسحرن (طه: ۶۴) قریش کی زبان میں إِنْ هدَینِ چاہی تھی..اگر کہو کہ اس آیت میں نبی کا اس قوم کی زبان میں الہام ہونا ہی مراد ہے، خواہ لفظ الہام اس آیت میں موجود ہو یا نہ ہو تو یہ بھی غلط ہے.کیونکہ قرآن حضرت سلیمان کے متعلق ہے مخلصنا منطق الطير (النمل: ۱۷) کہ حضرت سلیمان کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پرندہ کی بولی سکھائی.گویا ان کو کوؤں، چیلوں، کبوتروں، بٹیروں ، ہدہدوں اور تمام دیگر جانوروں کی زبان میں الہام ہوا.آخر انگریزی، عربی، فارسی وغیرہ تو انسانوں ہی کی زبانیں ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا مگر کائیں کائیں تو انسانوں کی زبان نہیں.اس میں بھی اگر کوئی نبی کو الہام ہوسکتا ہے تو یہاں کیا اعتراض ہے؟ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو پرندوں کی زبان سکھانے کے لئے اس کے قواعد اور اس کے الفاظ بھی بتائے ہوں گے.فلا اعتراض.نوٹ.یہ کہنا کہ تعلمنا کے لفظ میں طبعی فہم و تفہیم ہی داخل ہے.پلہ چھوڑانے کے لئے کافی نہیں، کیونکہ ما ارسلنا والی آیت زیر بحث میں بھی تو الہام“ کا لفظ نہیں.وہاں بھی طبعی فہم وتفہیم
554 کیوں مراد نہ لی جائے؟ یعنی وہ الہام جو محض طبعی فہم و تفہیم کے لئے ہوں وہ تو نبی کی اپنی زبان میں ہوں مگر جو دوسری قوموں کی ہدایت کے لئے ہوں وہ مختلف زبانوں میں ہو سکتے ہیں.۲.یہ کہنا کہ حضرت سلیمان کو پرندوں کی زبان والے الہام ہوتے تھے وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے نہ تھے محض دھو کہ رہی ہے کیونکہ خواہ وہ کسی کی ہدایت کے لئے ہوتے تھے ،سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ حضرت سلیمان کی اپنی زبان تھی یا نہیں ؟ کیا وہ ان کی قوم کی زبان تھی؟ نہیں ہر گز نہیں.پس تمہاری تاویل سے ثابت ہو گیا کہ مَا ارسلنا والی آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم بیان کرتے ہو بلکہ یہ ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تا کہ تبلیغ واشاعت کے لئے شاگر د تیار کر سکے.اس کے الہامات کی زبان کا وہاں ذکر ہی نہیں نیز یہ کہ یہ آیت آنحضرت سے پہلے انبیاء کے متعلق ہے.فَافُهُمْ..حضرت مسیح موعود انگریزی زبان کا ایک لفظ بھی نہ جانتے تھے مگر پھر بھی آپ پر اس زبان میں الہام ہونا ایک معجزہ ہے.خصوصا اس حالت میں کہ قادیان میں بھی کوئی انگریزی زبان دان اس وقت موجود نہ تھا.یہ دلیل ان لوگوں کو دی گئی ہے جو الہام کو مہم کے دماغی خیالات قرار دیتے ہیں تا کہ معلوم ہو کہ الہام میں نبی کے اپنے خیالات کا دخل نہیں ہوتا بلکہ الہام ایسی زبان میں بھی نازل ہوسکتا ہے جن کو ہم خود بھی نہ جانتا ہو.پھر اکثر اس الہام کے معنی خود خدا تعالیٰ خود ہی ملہم کو بتا دیتا ہے.جلد یا بدیر.جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہوا.۴.اور ہم نے یہ جو لکھا کہ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ مِیں آنحضرت سے پہلے انبیاء کا ذکر ہے کیونکہ وہ خاص خاص قوموں کی طرف رسول ہو کر آتے تھے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مشکوۃ فضائل نبوی کے ضمن میں ایک حدیث ہے:.عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الأنْبِيَاءِ قَالَ اللهُ تَعَالَى وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ الله مَنْ يَشَاءُ....و قَالَ اللهُ تَعَالَى لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ فَأَرْسَلَهُ اللهُ إِلَى الْجِنِّ وَالْإِنْسِ.(مشكوة كتـاب الـفــضــائـل باب فضائل سيد المرسلين......الفصل الثالث ) کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کی نسبت فرمایا: ”ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ ان کے سامنے کھول کر بیان کر سکے.مگر ہمارے نبی کریم کی نسبت فرمایا.”ہم نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے.“
555 گویا آپ کو اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی طرف رسول کر کے بھیجا.هَذَا حَدِيثُ صَحِيحُ الْأَسْنَادِ.(مستدرک للحاكم كتاب التفسير زير تفسير سورة ابراھیم ) کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مضبوط ہے.مندرجہ بالا عبارت سے چار باتیں ثابت ہوئیں:.ا.مَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ والی آیت گزشتہ انبیاء کے متعلق ہے.۲.آنحضرت صلعم اس آیت میں شامل نہیں صرف حضور سے پہلے رسول شامل ہیں.۳.قوم سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی ہدایت کے لئے وہ نبی آئے.۴.آنحضرت کی قوم تمام دنیا ہے کیونکہ آپ تمام دنیا کی طرف بھیجے گئے.پس اس آیت میں حضرت مسیح موعود بھی شامل نہیں کیونکہ آپ بھی کسی خاص قوم کی طرف نہیں بلکہ ساری دنیا کی طرف آئے تھے.دو غیر احمدی.حضرت مرزا صاحب نے چشمہ معرفت صفحہ ۲۰۹ میں لکھا ہے.” یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالا طاق ہے.“ جواب:.خدا کے لئے دھوکہ نہ دو، وہاں چشمہ معرفت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ملہم جس زبان کو نہ سمجھتا ہو اس میں اس کو الہام نہیں ہوسکتا.وہاں تو ذکر یہ ہے کہ آریہ کہتے ہیں کہ الہامی کتاب اس زبان میں نازل ہونی چاہیے جو کسی انسان کی زبان نہ ہوتا کہ الیشور جی مہاراج نا انصاف نہ ٹھہریں.یہی وجہ ہے کہ وید سنسکرت میں نازل ہوئے جو کہیں بولی نہیں جاتی.حضرت مسیح موعود نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان (نہ کہ مہم کی ) زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کوکسی اور زبان میں ہو جس کو کوئی (انسان) سمجھتا ہی نہ ہو کیونکہ یہ تکلیف’مالا طاق“ ہے کیونکہ اس کو ملہم کسی دوسرے سے بھی سمجھ نہیں سکتا، لیکن اگر کسی ایسی زبان میں الہام ہو جو انسانی زبان ہو وہ تکلیف مالا يطاق نہیں کیونکہ اگر ملہم خود اس زبان کو نہیں جانتا تو دوسروں سے معلوم کر سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے صفحہ ۲۱۹ پر تحریر فرمایا ہے کہ مجھے مختلف زبانوں میں الہام ہوتے ہیں.نوٹ:.اس سوال کے جواب کے لئے چشمہ معرفت صفحہ ۲۰۸ تا صفحہ ۲۱۰ کا مطالعہ کرنا
556 ضروری ہے.کیونکہ اس دھوکہ کا علم اصل عبارت کو پڑھنے سے ہی ہوسکتا ہے.۴۵ و بعض الہامات مرزا صاحب سمجھ نہ سکے اور بعض کے غلط معنی سمجھے" جواب: - حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں:.ا.انبیاء اور مسلمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام.“ اعجاز احمدی ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۱۵) اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اُس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اُٹھتے ہیں اور اس قدر تواتر سے جمع ہوتے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے.اور پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہاد کی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی جیسا کہ جو چیزیں انسان کے نزدیک لائی جائیں اور آنکھوں کے قریب کی جائیں تو انسان کی آنکھ اُن کے پہنچانے میں غلطی نہیں کھاتی اور قطعا حکم دیتی ہے کہ یہ فلاں چیز ہے اور اس مقدار کی ہے اور وہ حکم صحیح ہوتا ہے لیکن اگر کوئی چیز قریب نہ لائی جائے اور مثلاً نصف میل یا پاؤ میل سے کسی انسان کو پوچھا جائے کہ وہ سفید شے کیا چیز ہے تو ممکن ہے کہ ایک سفید کپڑے والے انسان کو ایک سفید گھوڑا خیال کرے یا ایک سفید گھوڑے کو انسان سمجھ لے.پس ایسا ہی نبیوں اور رسولوں کو اُن کے دعویٰ کے متعلق اور اُن کی تعلیموں کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے، جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا لیکن بعض جزوی امور جو اہم مقاصد میں سے نہیں ہوتے اُن کو نظر کشفی دور سے دیکھتی ہے اور اُن میں کچھ تو اتر نہیں ہوتا.اس لئے کبھی اُن کی تشخیص میں دھوکا بھی کھا لیتی ہے.“ ( اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳۵) ۲.حدیث میں ہے.قَالَ أَبُو مُوسى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَّكَّةَ إِلى اَرْضِ بِهَا نَخْلٌ فَذَهَبَ وَهْلِيُّ إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرٌ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَقُرِبُ.(بخاری کتاب التعبير باب هجرة النبى و اصحابه الى المدينة و كتاب الحیل باب اذا راى بقرا تنحر ) ترجمہ:.حضرت ابو موسی سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کہ بہت کھجوریں ہیں.پس میرا
557 خیال اس طرف گیا کہ وہ یمامہ ہے یا ہجر مگر دراصل وہ تھامد بینہ (يثرب) حالانکہ رُؤْيَا النَّبِيِّ وَحُى - (بخاری کتاب الوضو باب تخفیف فی الوضوء ) نبی کی رؤیا وحی ہوتی ہے.چنانچہ بخاری میں رویائے نبوی کو وحی میں شامل کیا گیا ہے.اَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَاءِ الصَّالِحَة.(بخارى كتاب التفسير باب قوله خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ) کہ آنحضرت کو وحی میں سب پہلے رو یا صادقہ شروع ہوئیں..آنحضرت نے اپنی ازواج سے فرمایا.اَسْرَعُكُنَّ لَحُوقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا یعنی تم میں سب سے پہلے میری وفات کے بعد جو آ کر مجھ سے اگلے جہاں میں ملے گی وہ وہ ہے جس کے ہاتھ تم سب سے زیادہ لمبے ہیں.بیویوں نے حضور کے سامنے اپنے اپنے ہاتھ نا پے تو ہاتھ لمبے حضرت سودہ کے تھے مگر وفات سب سے پہلے حضرت زینب نے پائی جس سے معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھ سے مراد ظاہری ہاتھوں کا لمبا ہونا نہ تھا بلکہ سخاوت کرنے والی مر تھی.“ (بخاری کتاب الزكاة حديث نمبر ۴۲۰ باب انا اسرع بک لحوقا و مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل زينب بحواله مشكوة كتاب الزكاة الفصل الثالث) ۴.قرآن کریم میں بھی حضرت نوح کا واقعہ مذکور ہے.واضعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْنَا وَلَا تُخَاطِنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوْا إِنَّهُمْ مُّخْرَقُونَ (هود: ۳۸) کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوع کو وحی کی اور حکم دیا کہ تو ہمارے حکم سے ایک کشتی بنا.تو ظالموں کے متعلق ہم سے کوئی بات نہ کرنا کیونکہ وہ ضرور غرق ہو جائیں گے.پھر فرمایا.قُلْنَا احْمِلُ فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ (هود: (۴۱) کہ ہم نے کہا اے نوح ! اس کشتی میں سوار کر ہر ایک جوڑے میں سے دودو اور اپنے اہل کو بھی بجز اس کے جس کے متعلق پہلے ہم کہہ چکے ہیں اور مومنوں کو بھی.پس جب طوفان تلاطم خیز آیا اور حضرت نوح کا بیٹا ( جو ظالم تھا اور جس کے متعلق حکم تھا إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ (هود: (۴۱) کہ اس کو کشتی میں نہ بٹھانا ) جب وہ ڈوبنے لگا تو نَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يُبْنَى اركب معنا (هود:۴۳) حضرت نوح نے اس کو آواز دی اور کہا کہ اے بیٹا ! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا، مگر وہ نہ آیا اور ڈوب گیا.اس پر حضرت نوح خدا تعالیٰ کو کہتے ہیں.وَنَادَى نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِى وَإِنْ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ أَحْكَمُ الْحَكِمِينَ قَالَ يَتُوحُ إِنَّهُ
558 لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرَ صَالِحٍ فَلَا تَتَلَن مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِدِينَ (هود: ۴۶ - ۴۷) اور پکارا نوح نے اپنے رب کو اور کہا اے اللہ ! میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے تھا اور تیرا وعدہ بھی سچا (ہوتا) ہے اور تو ( تو ) احکم الحاکمین ہے ( یعنی سب سے زیادہ سچا فیصلہ کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح ! وہ تیرے اہل میں سے نہیں تھا کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے.پس تو مجھ سے ایسی بات کے متعلق گفتگو نہ کر جس کا تجھ کو علم نہیں.میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے نہ بن.ان آیات سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ نبی ایک وقت تک وحی سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے ہاں خدا تعالیٰ اس کو غلطی پر قائم نہیں رکھتا جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے بھی فرمایا ہے.اگر سوال ہو کہ حضرت نوح کتنا عرصہ تک اس اجتہادی غلطی میں مبتلا رہے تو اس کے لئے تفسیر حسینی کا ملاحظہ کرنا چاہیے.لکھا ہے:.حضرت نوح علیہ السلام کو جب یہ الہام ہوا لا تُخَاطِنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُّخْرَقُونَ تو اس کے بعد انہوں نے وہ درخت بویا جس کی لکڑی سے کشتی بنائی گئی.وہ درخت میں سال میں مکمل ہوا.اسے کاٹ کر حضرت نوح دو سال تک وہ کشتی بناتے رہے.چالیس دن رات طوفان نے جوش مارا اور کشتی طوفان میں چھ ماہ تک رہی.گویا اصل ”اہل“ والے الہام کے نازل ہونے سے لیکر کشتی سے اترنے تک کم از کم 12 22 سال ہوتے ہیں.“ تلخیص از تفسیر حسینی موسومه به تفسیر قادری مترجم اردوز یر آیت واصنع الفلک باعيننا (هود:۳۸) ۵.پھر اہل سنت والجماعت کے عقائد کی مشہور و معروف کتاب نبر اس شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ ۳۹۲ میں لکھا ہے:.إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ يَجْتَهِدُ فَيَكُونُ خَطَا كَمَا ذَكَرَهُ الأصُولِيُّونَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشَاوِرُ الصَّحَابَةَ فِيمَ لَمْ يُوحَ إِلَيْهِ وَ هُمُ يُرَاجِعُونَهُ فِي ذَلِكَ وَ فِى الْحَدِيثِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثْتُكُمْ عَن اللَّهُ سُبْحَانَهُ فَهُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِيْهِ مِنْ قَبْلِ نَفْسِى فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُءُ وَأُصِيبُ کہ آنحضرت کبھی کبھی اجتہاد بھی کرتے تھے اور کبھی وہ غلط بھی ہو جاتا تھا جیسا کہ اصولیوں نے لکھا ہے اور ان امور میں جن کے متعلق آپ پر وحی نازل نہ ہوئی ہوتی آپ اپنے صحابہ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور حدیث میں ہے کہ آپ نے
559 فرمایا کہ جو بات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے (یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں ) ہاں جو بات میں اس وحی الہی کی تشریح میں اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں ، اجتہاد میں غلطی کرتا ہوں اور درست اجتہاد بھی.۴۶.نبی کا الہام بھول جانا حضرت مرزا صاحب اپنے بعض الہامات بھول گئے.جواب :.وحی دو قسم کی ہوتی ہے.(۱) جو لوگوں کے لئے بطور نشان اور بغرض ہدایت نازل ہوتی ہے.(۲) نبی کی اپنی ذات کے متعلق ہوتی ہے اور اس کا لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.اول الذکر قسم کی وحی نبی کو بھول نہیں سکتی ، ہاں دوسری قسم کی وحی بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنی خاص حکمت کے ماتحت نبی کے لوحِ دل سے محو فرما دیتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے.سَنُقْرِئُكَ فَلَا تُنسى إِلَّا مَا شَاء الله (الاعلی: ۷.۸) کہ اے نبی ہم تیرے سامنے قرآن مجید پڑھیں گے اس کو مت بھولنا سوائے اس کے جس کو خدا تعالیٰ خود بھلانا چاہتا ہے.٢ - يَمْحُوا اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ (الرعد: ۴۰ ) کہ خدا تعالیٰ جس وجی کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مضبوط کر کے دل میں ثبت کر دیتا ہے..بخاری میں ہے عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلا يَقْرَءُ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ رَحِمَهُ اللهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا آيَةً أَسْقَطْتُهُنَّ مِنْ سُورَةٍ كَذَا وَكَذَا.(بخارى كتاب الشهادات باب شهادة الاعملى......) کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول خدا نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے سنا، تو آپ نے فرمایا.اللہ اس پر رحمت کرے، اس نے فلاں فلاں سورۃ کی فلاں فلاں آیت جو میں بھول چکا تھا مجھے یاد دلا دی.- یہ ضروری نہیں کہ جو وحی نبی پر نازل ہو وہ سب لوگوں تک پہنچائی جائے.قرآن مجید سے ثابت ہے کہ کئی ایسے الہامات آنحضرت کو ہوئے جو قرآن مجید میں من وعن مذکور نہیں جیسے وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ (الانفال: ٨ ) وہ اصل وعدہ قرآن میں کہاں ہے؟ نیز آیت وَإِذْ أَسرَّ النَّبِيُّ ( التحريم: ٢) مَا قَطَعْتُمُ مِنْ لَّيْنَةٍ (الحشر: 1)
560 ۵.بخاری میں ہے.فَقَالَ اعْتَكَفْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ فَخَرَجَ صُبُحَةٌ عِشْرِينَ فَخَطَبَنَا فَقَالَ إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِثُمَّ انْسِيْتُهَا أَوْ نَسِيتُهَا فَلْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوِتْرِ (بخاری کتاب باب الصلاة و التراويح.باب التماس ليلة القدر في السبع الاواخر) حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا.پھر آپ بیسیویں کی تاریخ کی صبح کو باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی مگر پھر مجھ سے بھلا دی گئی.یا یہ فرمایا کہ میں بھول گیا.پس اب تم اس کو (رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو.۶.بخاری میں اس سے بھی زیادہ واضح حدیث اس باب میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحِي فُلَانٌ وَ فُلانٌ....فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَّكُمْ (بخارى كتاب التراويح باب رفع معرفة ليلة القدر ) کہ آنحضرت ایک دن ہمیں لیلۃ القدر کا پتہ بتانے کے لئے باہر تشریف لائے تو ( آپ نے دیکھا کہ) مسلمانوں میں سے دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے آپ نے فرمایا کہ میں باہر آیا تھا کہ تم کو لیلۃ القدر بتاؤں کہ فلاں فلاں دو آدمی آپس میں جھگڑے اس لیے (لیلۃ القدر ) مجھے بھلا دی گئی اور قریب تھا کہ اس کا علم تمہارے لئے مفید ہوتا یا یہ کہ اس کا بھول جانا تمہارے لئے مفید ہو.
561 حصہ سوم پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات ا.پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ وغیرہ خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ:.جب کوئی قوم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو عذاب نازل کرنے سے قبل آخری اتمام حجت کے طور پر ایک حکم دیا کرتا ہے کبھی وہ حکم اپنی ذات میں نہایت معمولی ہوتا ہے مگر اس کی خلاف ورزی اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسی قانون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ تُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتَرَ فِيهَا فَفَسَتُوْا فِيهَا فَحَقَ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمرْنَهَا تدميران (بنی اسرائیل: ۱۷) کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو ایک حکم دیتے ہیں جس کی وہ نافرمانی کرتے ہیں.پس ان پر فرد جرم لگ جاتا ہے اور ہم ان کو بالکل تباہ و بربادکر دیتے ہیں.چنانچہ اسی قسم کی اتمام حجت کی ایک مثال سورۃ الشمس میں بیان فرمائی ہے.فَقَالَ لھم رَسُولُ اللهِ نَاقَةَ اللهِ وَسُقَيْهَا فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَوْبَهَا (الشمس : ۱۵،۱۴) پس قوم ہود سے اللہ تعالیٰ کے نبی (صالح) نے فرمایا کہ خدا کی اس اونٹنی کا خیال رکھو، اور اس کا پانی بند نہ کرو.پس انہوں نے اس کا انکار کیا اور انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیئے.پس ان کو خدا تعالیٰ نے ان کے گناہ اور نا فرمانی کے باعث ہلاک کر دیا.پس یہی سنت الہیہ تھی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ معاملہ کیا.وہ لوگ ( جیسا کہ تفصیل آگے آئے گی ) خدا تعالیٰ کے منکر ، آنحضرت اور قرآن کے دشمن تھے، ہندو تہذیب اور ہندوانہ رسوم کا ان پر گہرا اثر تھا، جس طرح ہندوؤں کے ہاں اپنی گوت اور خاندان میں نکاح نا جائز سمجھا جاتا ہے اسی طرح وہ لوگ ( مرزا احمد بیگ وغیرہ ) بھی یہ خیال کرتے تھے کہ اسلام نے جو چا، ماموں اور خالہ کی لڑکی کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیا ہے.یہ
562 نہایت قابل اعتراض ہے وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ مندرجہ بالا رشتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرنا حقیقی ہمشیرہ کے ساتھ نکاح کرنے کے مترادف ہے.اس لئے آنحضرت نے جو اپنی پھوپھی کی لڑکی ( حضرت زینب) سے نکاح کیا وہ بھی نا جائز تھا.سوخدا تعالیٰ نے ان کی بد کرداریوں اور نا فرمانیوں کے باعث ( جن کی تفصیل آگے آئے گی ) ان کو قوم صالح کی طرح ایک آخری حکم دیا کہ وہ (احمد بیگ ) اپنی لڑکی کا نکاح حضرت مسیح موعود سے کر دیں گے تو یہ نکاح قرآن مجید کی آیت كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: ۱۱۹) کے مطابق ( کہ صادقین کے ساتھ تعلق پیدا کرو ) موجب رحمت اور برکت ہوگا.۲.چونکہ حضرت اقدس کا رشتہ ان لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا تھا جس میں ہندووانہ رسوم کے ماتحت با ہمی نکاح کو وہ برا سمجھتے تھے، اس لئے خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے اسی امر کو چنا.جس طرح آنحضرت کے زینب (مطلقہ زید) کے ساتھ نکاح کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.لگی لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَا بِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا (الاحزاب : ۳۸) کہ ہم نے یہ نکاح کیا تا کہ مومن اپنے متبوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کو برا نہ سمجھیں.گویا اس بد رسم کو مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کا حضرت زینب سے نکاح کیا.بعینہ اس جگہ بھی اسی امر کو چنا، تا ان کی اصلاح ہو اور یہ خیالات فاسدہ ان کے دماغ سے نکل جائیں.۲.تیسری حکمت اس میں یہ تھی کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو ان کی اصلاح مقصود تھی اور تاریخ اسلامی سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کے ساتھ جسمانی رشتہ لڑکی کے خاندان کی اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے جیسا کہ اُم حبیبہ بنت ابوسفیان اور سودہ بنت زمعہ کے آنحضرت کے نکاح میں آجانے کی وجہ سے ان کے خاندان حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے یہی آخری حکم مرزا احمد بیگ وغیرہ کو دیا.مخالفین انبیاء کا شیوہ تکذیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام شروط کے ساتھ لفظ لفظاً پوری ہوگئی جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں.”ہم نے سلطان محمد کے بارے میں اس کی موت کی وجہ تاخیر علیحدہ اشتہار میں ایسے طور سے ثابت کر دی ہے جس کے قبول کرنے سے کسی ایماندار کو عذر نہیں ہوگا اور بے ایمان جو چاہے سو کہے یاد
563 رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ پوری ہوئی جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا ““ (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحه ۴۱) نوٹ:.بعض ان لوگوں کو جن کو حضرت مسیح موعود کی کتابوں کا علم نہیں خاکسار پر طعن کیا ہے کہ گویا یہ دعویٰ کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی خاکسار کی ایجاد ہے جیسا کہ مولوی ثناء اللہ جس نے اس پاکٹ بک کی نقل کر کے ایک اشتہاری پاکٹ بک شنائی پاکٹ بک“ کے نام سے شائع کی ہے اس کے صفحہ ۶۷ پر یہی اعتراض لکھا ہے حالانکہ یہ محض اس کی لائعملی کا نتیجہ ہے.کیونکہ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی ہے.(خادم) اہل بصیرت نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود کی صداقت وحقانیت کی ایک دلیل سمجھا.اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں آدمی حلقہ بگوش احمدیت ہوئے مگر عُلَمَاءُ هُمُ اپنے شیوہ استہزاء وتمسخر سے باز نہ آئے.“ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ فلا قضی زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَ وَ جَنَّكَهَا (الاحزاب : ۳۸) کہ جب زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی تو ہم نے آپ کے ساتھ آسمان پر نکاح پڑھ دیا.یہی لفظ رو جنگها کا حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے محمدی بیگم کے متعلق فرمایا.وہاں شرائط کے تحقق کے باعث حضرت زینب کا نکاح ہو گیا مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں.یہاں شرائط کے عدم تحقق کے باعث محمدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو اس پر بھی مخالفین اعتراضات کرنے میں پیش پیش ہیں.غرضیکہ نکاح کا ہونایا نہ ہونا باعث اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث در حقیقت وہ فطری بغض ہے جو روز ازل سے معاندین و مکذبین کے شامل رہا ہے.چنانچہ ہم محمدی بیگم کے ساتھ متعلقہ پیشگوئی کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ درج ذیل کر کے اہل بصیرت حضرات سے اپیل کرتے ہیں، اگر وہ خدا کے لئے انصاف و خدا ترسی کے ساتھ اس پیشگوئی پر نظر ڈالیں گے تو ان پر روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ اس پیشگوئی پر مخالفین کی طرف سے جس قد راعتراضات کئے جاتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں بلکہ یہ بھی کہ یہ پیشگوئی بعینہ اسی طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو بیان فرمایا تھا، پوری ہوئی.وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ.
564 مخالف علماء کی غلط بیانیاں مخالف علماء اس پیشگوئی پر اعتراض کرنے کے لئے ہمیشہ صداقت وانصاف کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ محمدی بیگم کے ساتھ میرا نکاح ہو جائیگا، اگر میرا نکاح محمدی بیگم سے نہ ہوا تو میں جھوٹا ہو جاؤں گا اور بد سے بدتر ٹھہروں گا.چونکہ مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے نہیں ہوا لہذا مرزا صاحب جھوٹے ہیں.(نعوذ باللہ ) سیہ وہ طریق ہے کہ جس سے وہ اس پیشگوئی کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں.حالانکہ خدا شاہد ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے.افتراء اور دھوکا ہے.اگر حضرت مسیح موعود نے اسی طرح پیشگوئی فرمائی ہوتی تو غیر احمدی علماء کا اعتراض درست ہوتا مگر واقعہ یہ ہے کہ مخالف علماء ہمیشہ اصل واقعات کو حذف کر کے بے حد تحریف کے ساتھ پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.پیشگوئی کی غرض وغایت اس پیشگوئی کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی اصل غرض و غایت کو بیان کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود خود تحریر فرماتے ہیں:.إِنَّ اللَّهَ رَأَى ابْنَاءَ عَمِّي، وَ غَيْرَهُمْ مِنْ شُعُوبِ أَبِي وَ أُقِي الْمَغْمُورِينَ فِي الْمُهْلِكَاتِ، وَالْمُسْتَغْرِقِيْنَ فِى السَّيِّئَاتِ مِنَ الرُّسُومِ الْقَبِيحَةِ وَالْعَقَائِدِ الْبَاطِلَةِ وَ الْبِدْعَاتِ.وَرَآهُمُ مِنْقَادِينَ لِجَذَبَاتِ النَّفْسِ وَاسْتِيْفَاءِ الشَّهَوَاتِ، وَالْمُنْكِرِينَ لِوُجُودِ اللَّهِ وَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ “ ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۶) کہ خدا تعالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں...( احمد بیگ وغیرہ) کو مہلک خیالات و اعمال میں مبتلاء اور رسوم قبیحہ ، عقائد باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا، اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے لحاظ سے پیروانِ جذبات و شہوات نفسانیہ ہیں.اور نیز یہ کہ وہ وجود خداوندی کے منکر اور فسادی ہیں.“ اس کے آگے یہاں تک فرمایا.وَكَانُوا أَشَدُّ كُفْرًا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَالْمُنْكِرِينَ لِقَضَاءِ اللَّهِ وَ قَدْرِهِ وَ مِنَ الدَّهْرِييْنَ.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۷ ) کہ وہ لوگ خدا اور رسول کے پکے منکر اور قضا و قدر کے نہ ماننے والے بلکہ دہریہ تھے.
565 ان کی بے دینی اور دہریت کا پوری طرح علم مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے.جو حضرت مسیح موعود نے آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرمایا ہے:.فَاتَّفَقَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا فِي بَيْتِى إِذْ جَاءَ نِي رَجُلٌ بَاكِيًا فَفَزِعْتُ مِنْ بُكَائِهِ فَقُلْتُ أَجَاءَ كَ نَعْيُ مَوْتٍ؟ قَالَ بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوا عَنْ دِينِ اللهِ فَسَبَّ اَحَدُهُمْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبًّا شَدِيدًا غَلِيظًا مَا سَمِعْتُ قَبْلَهُ مِنْ فَمِ كَافِرٍ، وَ رَأَيْتُهُمْ أَنَّهُمْ يَجْعَلُونَ الْقُرْآنَ تَحْتَ أَقْدَامِهِمْ وَ يَتَكَلَّمُونَ بكَلِمَاتٍ يَرْتَعِدُّ اللَّسَانُ مِنْ نَقْلِهَا، وَيَقُولُونَ اَنْ وُجُودَ الْبَارِئُ لَيْسَ بِشَيْءٍ وَ مَا مِنْ إِلَهِ فِي الْعَالَمِ، إِنْ هُوَ إِلَّا كِذَبُ الْمُفْتَرِينَ.قُلْتُ اَوَلَمْ حَدَّرْتُكَ مِنْ مَجَالِسَتِهِمْ فَاتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَقْعَدُ مَعَهُمْ وَ كُنْ مِنَ التَّائِبِينَ.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۸) یعنی ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا، میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ! میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین خداوندی سے مرتد ہو چکے ، پس ان میں سے ایک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت گندی گالی دی، ایسی گالی کہ اس سے پہلے میں نے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہیں اور ایسے کلمات بولتے ہیں کہ زبان بھی ان کو نقل کرنے سے گندی ہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا کا وجود کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیا میں کوئی معبود نہیں، یہ صرف ایک جھوٹ ہے جو مفتریوں نے بولا.میں نے اسے کہا کہ کیا میں نے تمہیں ان کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں کیا تھا ؟ پس خدا سے ڈرو اور آئندہ ان کے پاس کبھی نہ بیٹھا کر واورتو بہ کرو.وَكَانُوا يَسْتَهْزِءُ وُنَ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَيَقُولُونَ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ) أَنَّ الْقُرْآنَ مِنْ مُفْتَرِيَاتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) وَكَانُوا مِنَ الْمُرْتَدِيْنَ» (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۶۸) کہ وہ خدا اور رسول پر تمسخر کرتے اور کہتے تھے کہ قرآن نعوذ باللہ آ نحضرت کا افتراء ہے اور وہ مرتد تھے.غرضیکہ ان لوگوں کی یہ کیفیت تھی جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور من اللہ
566 ہونے کا دعویٰ فرمایا.ایسے لوگوں کے لئے جو خدا کی ہستی ہی کے سرے سے منکر تھے.ایسا دعویٰ اور زیادہ استہزاء اور تمسخر کا محرک ہوا.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کے ساتھ نہایت بے باکی اور شرارت کے ساتھ سلوک کرنا شروع کیا اور کہا.فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۸ ) که اگر ( مرزا صاحب ) سچا ہے تو کوئی نشان ہمیں دکھائے.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”فَكَتَبُوا كِتَابًا كَانَ فِيْهِ سَبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ سَبُّ كَلامِ اللهِ تَعَالَى وَ إِنْكَارُ وُجُودِ الْبَارِى عَزَّ اِسْمُهُ، وَ مَعَ ذَلِكَ طَلَبُوا فِيهِ آيَاتِ صِدْقِي مِنَى وَ آيَاتِ وُجُودِ اللهِ تَعَالَى وَ أَرْسَلُوا كِتَابَهُمْ فِي الْآفَاقِ وَالْأَقْطَارِ وَأَعَانُوا بِهَا كَفَرَةِ الْهِنْدِ وَ عَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۸ ) انہوں نے ایک خط لکھا جس میں آنحضرت اور قرآن مجید کو گالیاں دی ہوئی تھیں اور خدا تعالیٰ کی ہستی کے لئے نشان طلب کیا ہوا تھا اور انہوں نے اپنا یہ خط آفاق و اقطار میں شائع کیا اور ہندوستان کے دوسرے غیر مسلموں (عیسائیوں) نے اس میں ان کی بہت مدد کی اور انہوں نے انتہائی سرکشی کی.یہ خط اخبار چشمہ نور اگست ۱۸۸۵ء میں شائع ہوا تھا.ان کی اس انتہائی شوخی اور مطالبہ نشان پر حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ سے دعا فرمائی جس کا ذکر حضور نے آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۹ پر بدیں الفاظ شروع فرمایا:.وَقُلْتُ يَا رَبِّ يَا رَبِّ انْصُرُ عَبْدَكَ وَ اخْذُلُ اَعْدَاءَ كَ.الخ کہ میں نے کہا اے میرے خدا! اے میرے خدا! اپنے بندے کی مددفرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضور کو الہاما وہ نشان دیا گیا جس کے لئے وہ لوگ اس قدر بے تاب ہورہے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا:.إِنِّي رَأَيْتُ عِصْيَانَهُمْ وَطُغْيَانَهُمْ فَسَوْفَ أَضْرِبُهُمْ بِأَنْوَاعِ الْآفَاتِ أُبِيْدُهُمْ مِنْ تَحْتِ السَّمَاوَاتِ وَ سَتَنْظُرُ مَا أَفْعَلُ بِهِمْ وَ كُنَّا عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَادِرِينَ إِنِّي أَجْعَلُ نِسَاءَ هُمْ أَرَامِلَ وَ أَبْنَاءَ هُمْ يَتَامَى وَ بُيُوتَهُمْ خَرِبَةً لِيَذُوقُوا طَعْمَ مَا قَالُوا وَ مَا كَسَبُوا وَلَكِنْ لَّا أَهْلِكُهُمْ دَفَعَةً وَاحِدَةً بَلْ قِلِيلًا قَلِيلًا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ وَ يَكُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِينَ إِنَّ لَعْنَتِى
567 نَازِلَةً عَلَيْهِمْ وَ عَلَى جُدْرَانِ بُيُوتِهِمْ وَ عَلَى صَغِيرِهِمْ وَكَبِيرِهِمْ وَنِسَائِهِمْ وَ رِجَالِهِمْ وَ نَزِيْلِهِمُ الَّذِي دَخَلَ أَبْوَابَهُمْ.وَكُلُّهُمْ كَانُوا مَلْعُوْنِيْنَ.،، (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۹) کہ میں نے ان کی بد کرداری اور سرکشی دیکھی پس میں عنقریب ان کو مختلف قسم کی آفات سے ماروں گا اور ان کو زیر آسمان ہلاک کروں گا.اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں.اور ہم ہر ایک چیز پر قادر ہیں.میں ان کی عورتوں کو بیوائیں، انکے بچوں کو یتیم اور ان کے گھروں کو ویران کر دونگا تا کہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں ان کو یکدم ہلاک نہیں کرونگا بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چار دیواری پر اور ان کے بڑوں اور ان کے چھوٹوں پر اور ان کی عورتوں اور ان کے مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہوں گے.پیشگوئی کی مزید تفصیل مندرجہ بالا عبارت میں صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ خدا ان کی عورتوں کو بیوائیں اور ان کے بچوں کو یتیم کر دے گا مگر اس کے ساتھ ہی تو بہ اور رجوع کی شرط بھی مذکور ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو یکدم ہلاک نہیں کرے گا تا کہ اگر وہ تو بہ کر لیں تو بچ جائیں.ان عورتوں کو بیوائیں اور بچوں کے یتیم بننے کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ اگر مرزا احمد بیگ اپنی دختر کلاں (محمدی بیگم ) کا رشتہ حضرت مسیح موعود سے کر دے تو وہ اور اس کا خاندان اسی طرح روحانی برکات سے حصہ پائے گا جس طرح ام حبیبہ بنت ابوسفیان اور سودہ بنت زمعہ نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر اپنے قبیلہ اور خاندان کو پہنچایا.کہ ان کے خاندان اور قبیلے ان کے نکاحوں کے باعث اسلام میں داخل ہو گئے.) الہام الہی نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ اپنی اندرونی حالت (جس کا ذکر اوپر آچکا ہے) کے باعث ہرگز یہ رشتہ نہیں کرے گا اور اس صورت میں جس دن وہ کسی اور شخص سے اس کا نکاح کر دے گا اس کے بعد تین سال کے عرصہ میں اور جس شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہوگا وہ اڑھائی (12 2) سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا اور لڑکی بیوہ ہونے کے بعد نکاح میں آئے گی.حضرت مسیح موعود کے
568 اپنے الفاظ حسب ذیل ہیں :.اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کیلئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۸ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۶) الہام الہی نے ساتھ ہی ایک اور بات بتادی کہ اوّل مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح ضرور کسی دوسری جگہ کر دے گا.چنانچہ اس کے لئے الہامات یہ ہیں:.كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَ كَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِءُونَ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَ يَرُدُّ هَا إِلَيْكَ.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۶) یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تمسخر و استہزاء کیا.خدا تعالیٰ انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا.یہ دونوں الہامات بتا رہے ہیں کہ لڑکی کا رشتہ ضرور کسی دوسری جگہ ہو جائے گا.وہ لوگ اس منشاء الہی کی تکذیب کریں گے اور لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر دیں گے.دوسرا الہام تو صریح طور پر بتا رہا ہے کہ نکاح ضرور دوسری جگہ ہوگا.واپس لانا يَرُدُّهَـا کا لفظ اس پر صریح نص ہے.اس کے ساتھ دوسری بات یہ بھی بتا دی گئی کہ احمد بیگ اور اس کے داماد وغیرہ کی ہلاکت تو بہ اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں ہوگی.لا أُهْلِكُهُمْ دَفَعَةً وَاحِدَةً بَلْ قَلِيلًا قَلِيلًا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ وَيَكُونُونَ مِنَ التَّوَّابِينَ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۹ ) کہ میں ان کو یکدم ہلاک نہ کروں گا، بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کرلیں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں.اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا.لیکن اگر وہ رجوع
569 کریں گے تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا.“ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحه ۶۴۸) دونوں عبارتیں بالکل واضح ہیں اور کسی تشریح کی محتاج نہیں.صاف طور پر ان میں تو بہ کی شرط مذکور ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں پر (جن کی ہلاکت کی پیشگوئی تھی ) اگر وہ تو بہ نہ کریں اور رجوع نہ لائیں گے تو عذاب نازل ہوگا، لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ ان پر رجوع کرے گا.۳.تیسرا ثبوت اس امر کا کہ پیشگوئی میں تو بہ کی شرط مذکور تھی.حضرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل الہامات ہیں جو حضور نے اس پیشگوئی کے متعلق شائع فرمائے.رَأَيْتُ هَذِهِ الْمَرْءَ ةَ وَاثْرُ الْبُكَاءِ عَلَى وَجْهِهَا فَقُلْتُ أَيَّتُهَا الْمَرْءَةَ تُوُبِى تُوُبِى فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ وَالْمُصِيبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كَلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۰ حاشیہ اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء) کہ میں نے اس عورت ( محمدی بیگم کی نانی ) کو ( کشفی حالت میں ) دیکھا اور رونے کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت تو بہ کر ! تو بہ کر ! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے ایک مردمر جائے گا اور اس کی طرف کتے باقی رہ جائیں گے.ان الہامات میں تُوبِی تُوبِی کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ وہ مصیبت جو اس خاندان پر آنے والی تھی وہ تو بہ سے مل سکتی تھی اور تُو بی تو بی میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کرنے سے خدا تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ اس انداری پیشگوئی میں تو بہ کا دروازہ بہت وسیع ہے.کبیرہ گنا ہوں کو چھوڑ کر جو دوسرے صغیرہ گناہ ہوتے ہیں، ان کیلئے ایک آدمی کی دعا سے دوسرے کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ التحیات میں یہ دعا سکھائی گئی ہے ربَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَی کہ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش.اسی طرح سے اپنی ذریت کے لئے بھی دعا سکھلائی گئی.رَبِّ اجْعَلَنِي مُقِيمَ الصَّلوة وَمِنْ ذُرِّيَّتِي کہ اے اللہ ! مجھے اور میری ذریت ( اولاد ) کو بھی نماز کا قائم کر نیوالا بنا.غرضیکہ تُوبِی تُوبِی میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کر کے بتایا گیا ہے کہ اس پیشگوئی میں جو تو بہ کی شرط لگائی گئی ہے تو اس کے لئے دروازہ بہت کھلا ہے یہانتک کہ ”نانی“ کی دعا اور استغفار سے نواسی کی مصیبت ٹل سکتی ہے چہ جائیکہ وہ خود تو بہ اور استغفار کریں.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی اصل پیشگوئی یہ نہ تھی کہ محمدی بیگم میرے نکاح میں آجائیگی بلکہ پیشگوئی یہ تھی کہ احمد بیگ اور سلطان محمد
570 اگر تو بہ نہ کریں گے.(دیکھومندجہ بالا اقتباس نمبر۲ از اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) تو تین اور اڑھائی سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائیں گے اور انکی ہلاکت کے بعد محمدی بیگم ” بیوہ ہو کر حضرت کے نکاح میں آئے گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے خود اسی اشتہار 20 فروری 1886ء میں صاف طور پر تحریر فر ما دیا ہے:.” خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائیگا اور وہ جو اس سے نکاح کرے گا روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہو جائے گا اور آخر وہ عورت میرے نکاح میں آئے گی.“ ۲.اس سے بھی واضح حوالہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمدی بیگم کا حضرت کے نکاح میں آنا ، احمد بیگ اور سلطان محمد دونوں کی موت پر موقوف تھا ، یہ ہے:.يَمُوتُ بَعْلُهَا وَأَبُوهَا إِلى ثَلاثِ سَنَةٍ مِنْ يَوْمِ النِّكَاحِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكَ بَعْدَ مَوْتِهما (کرامات الصادقین آخری ٹائٹل پیج ) کہ اس کا خاوند اور باپ یوم نکاح سے تین سال کے عرصہ میں مر جائیں گے اور ان دونوں کی موت کے بعد ہم اس عورت کو تیری طرف واپس لائیں گے..اس سے بھی واضح حوالہ جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نکاح کی پیشگوئی اصل پیشگوئی نہ تھی، بلکہ اصل پیشگوئی احمد بیگ اور سلطان محمد کی ہلاکت تھی ، یہ ہے:.كَانَ أَصْلُ الْمَقْصُودِ الْإِهْلافُ وَتَعْلَمُ أَنَّهُ هُوَ الْمَلَاكُ، وَأَمَّا تَزَوِّيْجُهَا إِيَّايَ بَعْدَ إِهْلَاكِ الْهَالِكِيْنَ وَالْهَالِكَاتِ ، فَهُوَ لِإِعْظَامِ الْآيَةِ فِي عَيْنِ الْمَخْلُوقَاتِ (انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۶-۲۱۷) کہ میری پیشگوئی کا اصل مقصد تو ( ان دونوں ) کا ہلاک کرنا تھا اور اس عورت کا میرے نکاح میں آنا ان کی موت کے بعد ہے، اور وہ بھی محض نشان کی عظمت کو لوگوں کی نظر میں بڑھانے کے لئے نہ کہ اصل مقصود.غرضیکہ یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ مرزا سلطان محمد اور احمد بیگ اگر تو بہ نہ کریں گئے تو تین سال کے عرصہ میں فوت ہو جائیں گے اور ان کی وفات کے بعد محمدی بیگم حضرت کے نکاح میں آئے گی.یہاں پر طبعا سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو یہ بتایا کہ احمد بیگ اور سلطان محمد اگر تو بہ نہ کریں گے تو تین برس کے عرصہ میں ہلاک ہوں گے، جب خدا نے تو بہ کی شرط لگا دی
571 ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس شرط سے فائدہ اٹھائیں گے یا نہیں؟ اور اگر اٹھائیں گے تو کس حد تک؟ کیونکہ خد تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اس کو تو معلوم تھا کہ احمد بیگ اور سلطان محمد تو بہ کی شرط سے فائدہ اٹھا ئیں گے یا نہیں؟ تو اس سوال کا جواب تُوبِی تُوبِی والے الہام کے ساتھ ہی اگلے الفاظ میں دیا ہے.فرمایا:.تُوبِى تُوُبِى فَإِنَّ الْبَلَاءَ عَلَى عَقِبِكِ وَالْمُصِيبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى منْهُ كَلاتٌ مُتَعَدَدَةٌ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۲۰ حاشیہ.اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء) یعنی اے عورت! تو بہ کر تو بہ کر ، تجھ پر اور تیری لڑکی کی لڑکی پر عذاب نازل ہونے والا ہے ان دونوں مردوں میں سے احمد بیگ اور سلطان محمد میں سے ) ایک مرد ہی مرے گا.( یعنی وہ تو بہ نہیں کرے گا لیکن دوسرا تو بہ کر کے شرط سے فائدہ اٹھا لے گا اور نہیں مرے گا اور اس طرح سے عورت بیوہ نہ ہوگی نہ ہی نکاح ہوگا ) اور کتے بھونکتے رہ جائیں گے کہ کیوں نکاح نہیں ہوا.یعنی بے وجہ اعتراض کرتے رہیں گے.اس الہام میں صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ احمد بیگ اور سلطان محمد میں سے ایک شخص توبہ کی شرط سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور اس کی موت ہوگی اور دوسرا شخص اس شرط سے فائدہ اٹھا کر بچ جائے گا.يَمُوتُ واحد مضارع مذکر کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک مرد مرے گا.“ خادم اب ہم مندرجہ بالا بحث میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ درحقیقت حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی ی تھی.۱.احمد بیگ ضرور اپنی لڑکی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کر دے گا.(يَرُدُّهَا إِلَيْكَ) ۲.نکاح کرنے کے بعد اگر تو بہ نہ کریں گے تو تین سال کے عرصہ میں احمد بیگ اور اس کا داماد مر جائیں گے اور اندریں صورت لڑکی بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی.“ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و ضمیمہ ریاض ہند امر تسر مارچ ۱۸۸۶ء) ۳.تو بہ کی شرط سے دونوں میں سے ایک فائدہ نہیں اٹھائے گا اور مرجائے گا.(يَمُوتُ) دوسرا شخص اس شرط سے فائدہ اٹھائے گا اور توبہ کر کے بچ جائے گا.(يَمُوتُ) کیونکہ دونوں میں سے ایک نے مرنا ہے.
572 ۵.لڑ کی بیوہ نہ ہوگی.( نتیجہ شق چہارم).اس وجہ سے نکاح نہ ہوگا کیونکہ نکاح بیوہ ہونے کے بعد ہی ہونا تھا.انجام آنتقم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۱۶) ے.اور وہ لوگ جو ہر حالت میں زبان نکالنے کے عادی ہیں (جن کو قرآن کریم نے اعراف ع ۲۲ میں یکھت کے لفظ سے یاد کیا ہے ) وہ اس پر اعتراض کرتے رہیں گے.(يَبْقَى مِنْهُ كَلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ) پیشگوئی پوری ہوگئی غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مندرجہ بالا امور پر مشتمل تھی.آؤ اب ذرا واقعات پر نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا خدا کے مسیح موعود کی بیان فرمودہ باتیں پوری ہوئیں یا نہ؟ واقعات نے بتا دیا کہ حضرت مسیح موعود نے جس طرح پیشگوئی کی تھی ، حرف بحرف اسی طرح پوری ہوئی :.ا.احمد بیگ نے محمدی بیگم کا نکاح سے اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزا سلطان محمد سے کر دیا.۲.احمد بیگ نے تو بہ کی شرط سے فائدہ نہ اٹھایا اور روز نکاح سے پانچ مہینے اور ۲۴ دن بعد یعنی ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہو گیا.اور يَمُوتُ والے الہام کا ایک پہلو پورا ہو گیا.۳.سلطان محمد نے توبہ کی شرط سے پیشگوئی کے مطابق فائدہ اٹھایا اور تو بہ کر کے بچ گیا يَمُوتُ دوسرا پہلو بھی پورا ہو گیا.) ۴.چونکہ سلطان محمد تو بہ کی شرط سے فائدہ اٹھا کر بیچ گیا اس لئے محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی.۵.چونکہ بیوہ نہ ہوئی اس لئے نکاح بھی نہ ہوا ( کیونکہ نکاح بیوہ ہونے کے بعد ہونا تھا) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۱۶) معترضین آج تک اعتراض کرتے اور اپنی مخصوص ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے اور خود بخوريَبْقَى مِنْهُ كَلابٌ مُتَعَدِّدَةٌ والے الہام کو پورا کرتے ہیں.غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طریق سے پیشگوئی فرمائی تھی، بعینہ اسی طرح پوری ہوئی ہم بیان کر چکے ہیں کہ پیشگوئی میں تو بہ" کی شرط تھی.محمدی بیگم کا حضرت کے نکاح میں آنا تین سال میں سلطان محمد اور احمد بیگ کی موت پر موقوف تھا اور ان دونوں کا تین سال میں مرنا ان کے تو بہ نہ کرنے پر موقوف تھا.سلطان محمد نے توبہ کی ، وہ تین سال میں نہ مرا.محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی.لہذا نکاح نہ ہوا.اِذَا فَاتَ الشَّرُطُ فَاتَ الْمَشْرُوطُ.
573 ہمارے تمام بیان کا انحصار صرف دو باتوں پر ہے.ا.پیشگوئی میں تو بہ کی شرط موجود تھی.۲.سلطان محمد نے تو بہ“ کی شرط سے فائدہ اٹھایا.اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہوں تو پھر کسی منصف مزاج اور حق پسند انسان کو اس پیشگوئی پر کوئی معمولی سے معمولی اعتراض بھی نہیں ہوسکتا.کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود سے صرف اس صورت میں ہونا تھا کہ سلطان محمد تو بہ نہ کرے اور تین سال میں مرجائے اور پھر یہ بھی ثابت کر دیا جائے کہ سلطان محمد نے فی الواقعہ تو بہ کی اور اس وجہ سے تین سال میں مرنے سے بچ گیا تو بات بالکل صاف ہوتی ہے.سو اس بات کا ثبوت کہ اصل پیشگوئی میں تو بہ کی شرط موجود تھی ہم پچھلے صفحات میں تفصیلاً آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۶۹ واشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء والهام تُوبِى تُوبِي فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِیکِ درج کر کے دے آئے ہیں.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود کی دو اور تحریر میں درج کرتے ہیں:.ا ما كان إلهام في هذه المقدمة إلَّا كان معه شرط ( انجام انتقم، روحانی خزائن جلدا صفحه ۲۲۲ ۲۲۳) کہ اس پیشگوئی کے متعلق مجھے ایک بھی ایسا الہام نہیں ہوا کہ جس میں شرط مذکور نہ ہو.۲.اور بعض نادان کہتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور وہ نہیں سمجھتے کہ یہ پیشگوئی بھی عبداللہ آتھم کے متعلق کی پیشگوئی کی طرح شرطی تھی اور اس میں خدا تعالیٰ کی وحی اُس کی منکوحہ کی نانی کو مخاطب کر کے یہ تھی تو بی تو بی فانّ البلاء علی عقبک یعنی اے عورت تو بہ تو بہ کر کہ تیری لڑکی کی لڑکی پر بلا آنے والی ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۶۹) سلطان محمد کی تو بہ کا ثبوت اب صرف اس امر کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ باقی رہا کہ مرزا سلطان محمد نے توبہ کی اور فی الواقعہ پیشگوئی کی اس شرط سے فائدہ اٹھایا؟ سویا در ہے کہ اس کی تو بہ کے پانچ ثبوت ہیں:.1 ب سے پہلا ثبوت اس امر کا کہ سلطان محمد نے تو بہ کی فطرتِ انسانی ہے.یہ ظاہر ہے کہ جب دو انسانوں کے متعلق ایک ہی حالت میں سے گزرنے کی پیشگوئی ہواور ان دونوں میں سے ایک پر بعینہ پیشگوئی کے مطابق حالت طاری ہو جائے تو دوسرے کو بھی یقین ہو جائے گا کہ میری بھی یہی کیفیت
574 ہونے والی ہے.زید اگر عمر اور بکر سے یہ کہے کہ تم دونوں دو گھنٹہ کے اندر کوئیں میں گر کر مر جاؤ گے.اب اگر ایک ہی گھنٹہ بعد عمر واقعی کوئیں میں گر کر مر جائے تو طبعا وفطرتا بکر کو اپنی موت کا یقین ہو جائے گا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ اور سلطان محمد دونوں کی موت کی پیشگوئی کی تھی ، اور احمد بیگ عین میعاد مقررہ کے اندر حسب پیشگوئی مرگیا تو سلطان محمد پر خوف طاری ہونا اور اس کا تو بہ واستغفار کی طرف رجوع کرنا یقینی اور لازمی امر تھا.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں:.(الف) سو ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ احمد بیگ کے مرنے کے بعد جس کی موت پیشگوئی کی ایک جز تھی دوسری جز و والے کا کیا حال ہوا ہوگا ؟ گویا وہ جیتا ہی مر گیا ہوگا.چنانچہ اس کے بزرگوں کی طرف سے دو خط ہمیں بھی پہنچے جو ایک حکیم صاحب باشندہ لاہور کے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے، جن میں انہوں نے اپنی تو بہ اور استغفار کا حال لکھا ہے سو ان تمام قرائن کو دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ تاریخ وفات سلطان محمد قائم نہیں رہ سکتی.“ ( اشتہار 4 ستمبر ۱۸۹۴ء مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۲) (ب) ” اور جب احمد بیگ فوت ہو گیا تو اس کی بیوہ عورت اور دیگر پس ماندوں کی کمر ٹوٹ گئی.وہ دعا اور تضرع کی طرف بہ دل متوجہ ہو گئے.جیسا کہ سنا گیا ہے کہ اب تک احمد بیگ کے داماد کی والدہ کا کلیجہ اپنے حال پر نہیں آیا.سوخدا دیکھتا ہے کہ وہ شوخیوں میں کب آگے قدم رکھتے ہیں.پس اس (حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۵۹) وقت وعدہ اس کا پورا ہوگا.“ ۲.سلطان محمد کی تو بہ کا دوسرا ثبوت اس کا مندرجہ ذیل تحریری اور دستخطی بیان ہے.انبالہ چھاؤنی ۱۳.۳.۲۰ برادرم سلمه ! نوازشنامہ آپ کا پہنچا.یاد آوری کا مشکور ہوں میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک بزرگ، اسلام کا خدمت گزار، شریف النفس خدایاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہا ہوں.مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا.نیازمند سلطان محمد از انباله رسالہ نمبر ۹ ( ان کا اصل خط عکسی اگلے صفحہ پر دیکھیں)
انبالہ چھائیے 575 20/3/13 الك پر اور علیکم.نوازش نامه اپ کی پونچایا داوری کا شاور میں جناب مرزائی کا یہ رقوم کو نیک - بزرگ اسلام کا خدمتگذار شراین تقصیر خدا یار پہلے ہی اور اب یہی خیال کر رہا ہوں.بھی ان کے مریدوں سے کئے قسم کا مخالفت نہیں تھے بلکہ افسوس کرتا ہوں ہوں میں فہد ایک امورات درجہ کر ان کے زندگے میں اون شرف حاصل کر کا ن ا محمد از انباله نیاز مند سلطان رساله ۹۰۶
576 مندرجہ بالا الفاظ اگر کسی عام آدمی نے لکھے ہوں تو کوئی اہم بات نہ ہو مگر سلطان محمد جس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے موت اور اس کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب واشتہارات میں اس کا ذکر بھی فرمایا تھا، اس کو تو حضرت مسیح موعود سے طبعاً انتہائی دشمنی اور عناد ہونا چاہیے تھا.علاوہ ازیں حضرت اقدس بار بار تحریر فرما رہے تھے کہ سلطان محمد نے تو بہ کی ہے اور وہ خود تو اس امر کو جانتا تھا کہ اس نے توبہ کی ہے یا نہیں ؟ اگر فی الواقعہ اس نے تو یہ نہ کی تھی تو وہ جانتا تھا کہ حضرت صاحب نعوذ باللہ سچ نہیں فرمار ہے تو ایسے شخص کے قلم سے یہ نکلنا کہ میں جناب مرزا جی مرحوم کو نیک بزرگ“ وغیرہ سمجھتا ہوں ،اگر معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ۳.تیسرا ثبوت سلطان محمد کی تو بہ کرنے کا اس کا اپنا بیان ہے.”میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں مگر خدا تعالی غفور رحیم بھی ہے، اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے...میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی...باقی رہی بیعت کی بات، میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہوگا.باقی میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نالش کروں.اگر وہ روپیہ میں لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا مگر وہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا.(الفضل 9/13 جون 1921ء) ۴.چوتھا ثبوت سلطان محمد صاحب کی تو بہ کا وہ تحریری بیان ہے جو ان کے صاحبزادہ برادرم محمد الحق بیگ صاحب نے اخبار الفضل میں شائع کرایا:.بسم اللہ الرحمن الرحیم احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته! پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واللہ میں کسی لالچ یا د نیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعویٰ میں صادق اور مامور من اللہ ہیں.اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو
577 اس میں کلام نہیں ہو سکتا.آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں.یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں.مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو.حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہوگئی.میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انداری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ مَا نُرْسِلْ بِالْأَيْتِ إِلَّا تَخْوِيْفًا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں.جب وہ قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی اصلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے، جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسیٰ کی قوم کے حالات ولما وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْز سے ظاہر ہے.اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا.یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحب کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی ، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی.اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا.جس کا نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفور الرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا.میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اوران کا انکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی درست فرمایا ہے.
578 صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آدیں یہ دن اور یہ بہار خاکسار مرزا محمد الحق بیگ پٹی ضلع لاہور.حال وارد چک نمبر ۱۶۵.۲ بی منقول از الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۲ صفحه ۹) ۵.پانچواں ثبوت مرزا سلطان محمد صاحب کی تو بہ کا وہ چیلنج ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معترض علماء کو دیا.فرمایا:.فیصلہ تو آسان ہے سواگر جلدی کرنا ہے تو احمد بیگ کے داما دسلطان محمد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے.پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو 66 میں جھوٹا ہوں.“ اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھی رہے جب تک وہ گھڑی نہ آجائے کہ اس کو بے باک کر دے.سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اور اس کو بے باک اور مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو.“ ( انجام آنقم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۲ حاشیه ) اس اعلان کو شائع ہوئے پچاس سال گزر گئے اور حضرت مسیح موعود اس اعلان کے بعد بارہ سال تک زندہ رہے.مگر کوئی مخالف مولوی مرزا سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہارنہ دلا سکا.پس مندرجہ بالا پانچ دلائل سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ مرزا سلطان محمد نے پیشگوئی کے مطابق توبہ کی اور اس وجہ سے تین سالہ میعاد کے اندر فوت نہ ہوئے ،محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی اور اس لئے نکاح نہ ہوا.“ ( اذا فات الشرط فات المشروط ) 66 اور ان سب امور کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلاب متعددہ “ نے مختلف مواقع پر اپنی بدگوئی کی عادت کے مطابق حضرت اقدس کی اس پیشگوئی پر تمسخر اور استہزاء کیا اور حضور کی یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود نے بے شک ازالہ اوہام اور اپنی دوسری کتابوں میں زور دیا ہے کہ میرا نکاح محمدی بیگم سے ہو جائے گا اور بڑی متحد یا نہ عبارتیں تحریر فرمائی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ نکاح کب ہو گا؟ ظاہر ہے کہ جب سلطان محمد کی موت پر وہ بیوہ ہو جائے گی.سلطان محمد کی تو بہ
579 کب ہوگی؟ اگر وہ تو بہ کرے گا.“ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر عبارت جو مخالف مولوی پیش کرتے ہیں درست ہے اور ہمیں مسلم ہے مگر سوال یہ ہے کہ پیشگوئی کے بعد اگر سلطان محمد تو بہ نہ کرتا اور پھر بھی زندہ رہتا اور نکاح نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پر اعتراض ہو سکتا تھا مگر یہاں تو نکاح سلطان محمد کی عدم تو بہ کے ساتھ مشروط تھا.اس لئے جس قدر عبارات نکاح کے متعلق ہیں وہ بھی سلطان محمد کے تو بہ نہ کرنے کے ساتھ مشروط ہیں.بیعت کیوں نہ کی؟ بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ سلطان محمد نے تو بہ کر لی تو کیا ہوا.بات تو جب تھی کہ وہ بیعت کر لیتا.سو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء سے لے کر ۱۸۸۸ء تک مکمل ہوئی اور توبہ کی شرط بھی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء اور ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کا دعوی نہ تو نبی ہونے کا تھا، نہ مسیح موعود اور مہدی ہونے کا ، نہ ہی آپ اس وقت بیعت لیتے تھے بلکہ جو شخص بیعت کرنے آتا حضور لَسْتُ بِمَأْمُورٍ “ ( کہ میں مامور نہیں ہوں ) کہہ کر انکار کر دیتے تھے ( بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی) نہ اس زمانہ میں احمدی غیر احمدی کا سوال تھا کیونکہ حضور نے اپنی جماعت کا نام ”مسلمان فرقہ احمدیہ ۱۹۰۰ء میں رکھا.پس تو بہ کی شرط سے مراد ہرگز ہرگز بیعت“ یا نبوت مسیحیت و مہدویت کا اقرار یا احمدی ہونا نہ تھا.اس زمانے میں حضرت کا دعویٰ صرف اس قد رتھا کہ میں اسلام کا خدمت گزار ہوں ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۷ ) اور اسی بات کا احمد بیگ وسلطان محمد کو انکار تھا.اب سلطان محمد کے خط کو دیکھ لو، اس میں اس نے حضرت کو اسلام کا خدمت گذار تسلیم کیا ہے.نیز ” خدایا کہ کر خدا کی ہستی کا بھی اقرار کر لیا ہے اور شریف النفس“ کہ کر تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی یہ پیشگوئی ہرگز ہرگز نفسانیت کے جوش کے ماتحت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تھا جس کی تکمیل میں حضرت نے اس کو شائع کیا.پس اگر سلطان محمد کو اس پیشگوئی کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود کو اسلام کا خدمت گذار“ اور ”شریف النفس اور خدا یاد نہ کہتا.پس جس جس چیز کا پیشگوئی کی اشاعت کے وقت ان لوگوں کو انکار تھا، بعینہ انہی امور کا اقرار اس خط میں موجود ہے.پس سلطان محمد نے مکمل تو بہ کی ہے.بیعت وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
580 تقدیر مبرم حضرت مسیح موعود نے انجام آتھم میں نکاح کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے مگر حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر بعض حالات اور شرائط کے ساتھ مشروط ہونے کی صورت میں تقدیر مبرم بنتی ہے اور جب تک وہ شرط یا شرائط پوری نہ ہوں اس وقت تک اس تقدیر کے قطعی مبرم ہونے کا تحقیق نہیں ہوتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود آتھم کے متعلق تحریر فرماتے ہیں.ا.اب آتھم صاحب قسم کھالیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرطا نہیں اور تقدیر مبرم ہے“ ضیاءالحق ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۶) گویا آتھم کی موت تقدیر مبرم اس صورت میں ہو گی جبکہ وہ قسم کھالے گا.قسم نہ کھانے کی صورت میں تقدیر مبرم نہ ہوگی پس جس طرح اس تقدیر مبرم کے ساتھ قسم کھانے کی شرط ہے اسی طرح محمدی بیگم کے نکاح میں سلطان محمد کی عدم توبہ کی شرط ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے او پر ثابت کیا جا چکا ہے.۲.تقدیر مبرم کا دعا اور صدقہ سے ٹل جانا احادیث نبویہ سے بھی ثابت ہے چنانچہ حدیث میں ہے اَكْثَرُ مِنَ الدُّعَاءِ فَإِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَمَ) (كنز العمال كتاب الذكار من قسم الاقوال الباب الثامن في الدعا الفصل الأوّل نيز ديکھو جامع الصغير للسيوطى مصرى جلد اصفر ۴ ۵ باب الالف) کہ کثرت سے دعا کرو کیونکہ دعا تقدیر مبرم کو بھی ٹال دیتی ہے.- رُوِيَ أَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُدْفِعُ الْبَلَاءَ الْمُبْرَمَ النَّازِلَ مِنَ السَّمَاءِ.(روض الریاحین.برحاشیہ قصص الانبیاء صفحہ ۳۶۴) کہ آنحضرت نے فرمایا کہ صدقہ بلاء مبرم کو بھی جو آسمان سے نازل ہونے والی ہو روک دیتا ہے.الدُّعَاءُ جُندٌ مِنْ اَجْنَادِ اللهِ مُجَنَّدَةٌ يَرُدُّ الْقَضَاءَ بَعْدَ أَنْ يُبْرُمَ.(فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۰۷ آخری سطر، وجامع الصغیر للسیوطی جلد ۲ صفحہ ۷ اباب الاول) دعا خدا تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر جرار ہے جو قضاء کو اس کے مبرم ہونے کے بعد بھی ٹلا دیتی ہے.
581 ۵.روح البیان جلد اصفحہ ۲۵۷ مطبوعہ مصر پر بھی قضاء مبرم کے ٹلنے کا ذکر ہے..حضرت مسیح موعود کا یہی مذہب تھا کہ قضاء مبرم دعا اور صدقہ سے مل سکتی ہے اور جہاں حضور نے یہ لکھا ہے کہ یہ تقدیر مبرم جو ٹل نہیں سکتی تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ تو بہ اور دعا کے بغیر ٹل نہیں سکتی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.إنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَا (النساء: ٤٩) کہ اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا اس گناہ کو کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس گناہ کے سوا باقی جس کو چاہے بخشد.مگر دوسری جگہ فرمایا.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:۵۴) کہہ دے اے میرے بندو! جنہوں نے گناہ کیا تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو، اللہ تعالیٰ سب گنا ہوں کو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.اس آیت میں جملہ گناہوں کے معاف کرنے کا ذکر ہے.پس تطبیق کی صورت یہی ہے کہ شرک کے گناہ کی معافی کو تو بہ کی شرط سے مشروط کیا جائے یعنی سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت کا یہ مطلب لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو بغیر تو بہ کے نہیں بخشے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے جہاں تقدیر مبرم کے نہ ٹلنے کا ذکر فرمایا ہے وہاں بھی مراد بصورت عدم دعا اور تو بہ ہی ہے نہ کہ مطلقا کیونکہ حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹ پر تحریر فرمایا ہے کہ جب میں نے عبدالرحیم خلف حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی صحت یابی کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے مگر جب زیادہ تضرع اور ابتہال سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس تقدیر کو ٹلا دیا اور عبدالرحیم اچھا ہوگا.پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک مبرم قسم کی تقدیر بھی دعا اور توجہ سے مل سکتی ہے.ثناء اللہ (امرتسری) کا خط مولوی ثناء اللہ امرتسری نے ہزاروں جتن کر کے اہل حدیث مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۹۲۴ء میں حضرت مسیح موعود کی وفات کے سولہ سال بعد ایک غیر مصدقہ تحریر مرزا سلطان محمد کی طرف منسوب کر کے
582 شائع کی.ہماری طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ یا تواصل تحریر ہمیں دکھائی جائے یا اس کا عکس شائع کیا جائے ( جس طرح ہم نے کیا ہے ) تا کہ پبلک پر اصل حقیقت واضح ہو، مگر اپنی موت تک مولوی صاحب ہمارے اس مطالبہ سے عہدہ برآنہیں ہو سکے.نیز اگر ایسی کوئی تحریر ہو بھی تو وہ قابل اعتناء نہیں اور مشتے که بعد از جنگ یاد آیڈ کی مصداق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کے چیلنج کے الفاظ یہ ہیں.” پھر اس کے بعد جو میعاد خدائے تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں.“ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۲ حاشیہ ) پس اس عبارت کے پیش نظر سلطان محمد کی کسی ایسی تحریر کا حضرت اقدس کی زندگی میں شائع ہونا ضروری تھا.مقدمہ دیوار میں حضرت کا بیان بعض غیر احمدی ،مولوی، حضرت مسیح موعود کے بیان مقدمہ گورداسپور متعلقہ دیوار سے یہ الفاظ پیش کر کے عوام کو مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا.”میرے ساتھ اس کا نکاح ہوگا امید کیا مجھے یقین ہے.“ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ یہود یا نہ تحریف سے حضرت کے درمیانی الفاظ حذف کر دیا کرتے ہیں.اصل الفاظ یہ ہیں :.”میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا جیسا کہ پیشگوئی میں درج ہے وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی جیسا کہ پیشگوئی میں تھا.ایک وقت آتا ہے کہ عجیب اثر پڑے گا...پیشگوئی کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے اور یہی پیشگوئی تھی کہ وہ دوسرے کے ساتھ بیاہی جاوے گی اس لڑکی کے باپ کے مرنے اور خاوند کے مرنے کی پیشگوئی شرطی تھی اور شرط تو بہ اور رجوع الی اللہ کی تھی.لڑکی کے باپ نے تو بہ نہ کی ، اس لئے وہ بیاہ کے بعد چند مہینوں کے اندر مر گیا اور پیشگوئی کی دوسری جز پوری ہوگئی ، اس کا خوف اس کے خاندان پر پڑا اور خصوصاً شوہر پر پڑا اور جو پیشگوئی کا ایک جز تھا.انہوں نے تو بہ کی.چنانچہ اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے خط بھی آئے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کو مہلت دی.عورت اب تک زندہ ہے.“ (الحاکم، ارا گست ۱۹۰۱ء صفحریم او ۱۵)
583 نکاح فسخ یا تاخیر میں؟ حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے کہ نکاح فسخ ہو گیایا تاخیر میں پڑ گیا (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۷۰ ) اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلطان محمد اپنی توبہ پر قائم رہے اور بیبا کی کر کے تکذیب کا اشتہار نہ دے تو اس صورت میں وہ حضرت کی زندگی میں نہیں مرے گا اور محمدی بیگم کا نکاح حضرت سے نہیں ہو گا ( فسخ ہو گیا لیکن اگر انجام آتھم والے چیلنج کے جواب میں اس نے حضرت کی زندگی میں تکذیب کا اشتہار دے دیا تو پھر خدا کی مقرر کردہ میعاد کے اندر اندر مر جائے گا اور محمدی بیگم حضرت کے نکاح میں آجائے گی.اندریں صورت نکاح ” تاخیر میں پڑا متصور ہوگا.یہی معنی ہیں حضرت مسیح موعود کی عبارت بل الآمُرُ قَائِمٌ عَلَى حَالِهِ کے کہ سلطان محمد کی تو بہ سے کلی طور پر معاملہ ختم نہیں ہو گیا اور وعیدی موت اس سے ہمیشہ کے لئے نہیں ٹل گئی بلکہ اب بھی اس کے سر پر تھی ہوئی کھڑی ہے جس وقت وہ تکذیب کرے گا اسی وقت خدا تعالیٰ کی مقررہ میعاد کے اندر پکڑا جائے گا.غرضیکہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات اس پیشگوئی کے متعلق بالکل صاف اور واضح ہیں.زَوَّجُنگها یه الهام در حقیقت قرآن مجید کی ایک آیت ہے فَلَمَّا قَضَى زَيْدُ مِنْهَا وَطَرًا زَوَجَنَّهَا (الاحزاب: ۳۸) کہ ہم نے آنحضرت کا نکاح زینب کے ساتھ اس کے مطلقہ ہونے کے بعد کر دیا.حضرت کو یہی الہام محمدی بیگم کے متعلق ہوا.پس اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلطان محمد کی بیوہ ہونے کے بعد ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے اس الہام کو انجام آنقم ، روحانی خزائن جلد ا اصفحہ ۶۰ پر درج کر کے اس کے مندرجہ ذیل ترجمہ فرمایا ہے:.بعد واپسی کے ہم نے نکاح کر دیا.“ یعنی سلطان محمد کی موت پر يَرُدُّهَا إِلَيْكَ کا دوسرا مفہوم جب پورا ہوگا تو اس وقت خدا تعالیٰ نے نکاح پڑھ دیا ہے.۲.حضرت مسیح موعود نے اس کو اور واضح فرمایا ہے: اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے
584 یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اُسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ أَيَّتُهَا الْمَرْدُةُ تُؤْبِي تُؤْبِي فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِیک پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گی یا تاخیر میں پڑ گیا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۷ ) اس فتح یا تاخیر کی تشریح اوپر گزر چکی ہے.۳.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: أَخْرَجَ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاكِرٍ عَنْ أَبِى اَمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِخَدِيجَةَ أَمَا شَعُرُتِ اَنَّ اللَّهَ زَوَّجَنِى مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ وَكُلْثُومَ أُخْتَ مُوسَى وَامْرَءَ ةَ فِرْعَوْنَ قَالَتْ هَنِيئًا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ (فتح البیان زیر آیت فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا....الخ احزاب : ۳۷ و فردوس الاخبار دیلمی صفحه (۳۵) که طبرانی اور ابن عساکر نے ابوامامہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت نے حضرت خدیجہ سے فرمایا کہ اے خدیجہ ! کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا نے میرا نکاح پڑھ دیا ہے عیسی کی ماں مریم ، موسی کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ ! حضرت خدیجہ نے فرمایا ! یا رسول اللہ آپ کو مبارک ہو!.اس حدیث کے الفاظ میں بھی زَوَّجَنِی اسی طرح ماضی ہے جس طرح ز و جنگها میں ہے.غیر احمدی علماء کے نزدیک آنحضرت کو یہ الہام ہونے کے بعد بھی کہ حضرت زینب" آپ کی بیوی ہیں پھر بھی آپ حضرت زید سے فرماتے رہے کہ زینب کو بیوی بنا کر رکھو اور اسے طلاق نہ دو.جلالین میں آتا ہے:.أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَرَادَ أَنْ يُزَوِّجَهَا زَيْدًا فَكَرِهَتْ ذَلِكَ ثُمَّ إِنَّهَا رَضِيَتْ بِهِ فَتَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ ثُمَّ أَعْلَمَ اللهُ نَبِيَّهُ بَعْدُ أَنَّهَا مِنْ أَزْوَاجِهِ فَكَانَ يَسْتَحْيِ أَنْ يَّأْمُرَهُ بِطَلَاقِهَا وَ كَانَ لَا يَزَالُ بَيْنَ زَيْدٍ وَ زَيْنَبَ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ فَأَمَرَهُ أَنْ يُمْسِكَ عَلَيْهِ زَوْجَتَهُ وَ كَانَ يَخْشَى النَّاسَ أَنْ يَعِيبُوا عَلَيْهِ.جلالین مع سمالین زیر آیت فلما قضى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا....الخ احزاب : ۳۷) یعنی آنحضرت نے ارادہ فرمایا کہ زینب کا نکاح زیڈ کے ساتھ کر دیں لیکن پہلے حضرت زینب نے کراہت کی، پھر بعد میں راضی ہو گئیں.پس ان دونوں کی شادی ہوگئی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو بتا دیا کہ زینب آپ کی بیویوں میں سے ہے.پس آنحضرت شرماتے تھے اس بات
585 سے کہ زید کو حکم دیں کہ وہ زینب کو طلاق دے دے اور اس عرصہ میں زینب اور زیڈ میں میاں بیوی کے تعلقات قائم رہے پس آنحضرت نے زید کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے اور آپ ڈرتے تھے کہ لوگ آپ پر الزام نہ لگائیں.اس حوالہ سے تمسخر اور استہزاء کا بھی جو بعض بد زبان مخالف کیا کرتے ہیں جواب ہو گیا کہ خدا کی طرف سے آنحضرت کو علم ہو چکنے کے باوجود کہ زینب آپ کی بیوی ہے پھر بھی وہ ایک عرصہ تک زید کے پاس رہیں.پیشگوئی کے نتائج اس پیشگوئی کے بعد مندرجہ ذیل اصحاب اسی خاندان میں سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے :.ا.اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب ( والدہ محمدی بیگم ) یہ موصیبہ تھیں.۲.ہمشیرہ محمدی بیگم.۳.مرزا محمد احسن بیگ جو مرزا احمد بیگ کے داماد ہیں اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے ہیں.۴.عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم.۵.مرزا محمد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب ۶ - مرز امحمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب ۷.دختر مرز انظام دین اور ان کے گھر کے سب افراد احمدی ہیں.مرزا گل محمد پسر مرزا نظام دین صاحب ۹.اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب( موصیہ تھیں ) ۱۰ محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم ۱۱.مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمد صاحب پٹی یہ وہ افراد ہیں جو خاص طور پر اس خاندان کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں اور یہ سب کے سب اس نکاح والی پیشگوئی کے بعد ہی داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے ہیں.پیشگوئی میں اگر کوئی امر قابل اعتراض ہوتا تو پہلے ان لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا چاہیے تھا.مگر وہ لوگ جو اس کے متعلق سب سے بڑھ کر مقام غیرت پر ہو سکتے تھے ایمان لاتے ہیں اور خود مرزا سلطان محمد صاحب کہتے ہیں کہ میں ایمان
586 سے کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی.“ ان حالات میں ان مخالف مولویوں کا اس پر اعتراض کرنا صاف طور پريَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كَلابٌ مُتَعَدِّدَةٌ کے الہام کو پورا کرنا ہے اور اس کے سوا ان لوگوں کا اور کوئی مقصد نہیں.پیشگوئی کی غرض باقی رہا استہزاء اور مذاق ، اور یہ کہنا کہ نعوذ باللہ یہ پیشگوئی کسی نفسانی خواہش کے ماتحت کی گئی تھی.ایسے امور ہیں کہ جن کا جواب کوئی مہذب انسان دینے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.پیشگوئی کی غرض و غایت ہم ابتداء میں نہایت واضح طور پر بیان کر آئے ہیں کہ ان لوگوں کی مذہبی اور عملی حالت اس نشان کا باعث بنی.چنانچہ مولوی محمد یعقوب مصنف عشرہ کاملہ جیسا دشمن اپنی کتاب تحقیق لاثانی میں لکھتا ہے.(۱) مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کی بنیاد بھی تکذیب ہی ہے.جیسا کہ نکاح آسمانی کے متعلق ان کا پہلا الہام ہے كَذَّبُوا بِايْتِنَا وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِءُ وُنَ (تحقیق لاثانی صفحه 1) لیکن اگر مولوی لوگ ان روشن واقعات کے باوجود بھی یہی کہتے جائیں کہ یہ پیشگوئی نفسانی تھی تو ان پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ لوگ خدا کے اس برگزیدہ نبی پر جس کو یہ نہیں مانتے اس قسم کے حملے کریں تو معذور ہیں ، خصوصاً جبکہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے وہ مقدس انبیاء علیہم السلام بھی جن کو یہ لوگ بھی نبی مانتے ہیں اور ان کی عزت کرنے کا دعوی کرتے ہیں نہیں بچ سکے.اور تو اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی امت میں سے ہونے اور جن کا کلمہ پڑھنے کے یہ لوگ مدعی ہیں، ان کے متعلق علماء نے یہ لکھا ہے:.أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ زَيْنَبَ وَذَلِكَ أَنَّهُ رَاهَا بَعْدَ مَا اَنْكَحَهَا زَيْدًا فَوَقَعَ فِى نَفْسِهِ وَقَالَ سُبُحْنَ اللهِ مُقَلِبَ الْقُلُوبِ بیضاوی زیر آیت أمسك عليك زوجك....الخ S......احزاب : ۳۷ اور کمالین بر حاشیه جلالين زير آيت أمسك عليك زوجك....الخ احزاب: ۳۷) که نعوذ بالله آنحضرت نے زینب کو دیکھا اس وقت کہ اس کا زیڈ کے ساتھ نکاح ہو چکا تھا.پس آپ کے دل میں ان کی محبت پیدا ہوگئی اور فرمایا.پاک ہے وہ اللہ جو دلوں کو پھیر دیتا ہے.(۲) حضرت یوسف جن کی بریت کے لئے ایک سورۃ قرآن مجید میں نازل ہوئی ان کے
587 متعلق لکھتے ہیں :.وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ قَصَدَتْ مُخَالِطَتَهُ وَهَمَّ مَخَالِطَتَهَا لِمَيْلِ الشَّهَوَاتِ الْغَيْرِ الاختيارى (جامع البیان صفحه ۲۰۳ نیز جلالین مجتبائی صفحه ۱۹) کہ نعوذ باللہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی زلیخا سے زنا کا ارادہ کیا.(۳) حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ان مفسرین نے لکھا ہے.طَلَبَ امْرَءَ ةَ شَخْصِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهَا وَتَزَوَّجَهَا وَدَخَلَ بِهَا (جلالین مجتبا ئی صفحہ ۳۷۸ حاشیہ ) کہ حضرت داؤد نے ایک شخص ( اور یاہ نامی ) کی بیوی لے لی.اور اپنی سو بیویاں کیں.(نعوذ باللہ من شرورهم ) (۴) اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق اسی جلالین کے صفحہ ۳۸۰ پر لکھا ہے کہ آپ ایک عورت پر عاشق ہو گئے اور پھر اس سے نکاح کر لیا (معاذ اللہ ) غرضیکہ پہلے انبیاء کے متعلق بھی یہی بے ہودہ گوئی رہی ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق معاندین وہی شیوہ اختیار کریں تو انہیں معذور سمجھنا چاہیے.بہو کو طلاق دلوانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشک احمد بیگ وغیرہ کو لکھا تھا کہ اگر تم یہ رشتہ نہ دو گے تو میں اپنے بیٹے فضل احمد سے کہہ کر تمہاری لڑکی کو طلاق دلوا دوں گا مگر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں.کیونکہ شریعت اسلامی کے متعلق خسر کو حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بیٹے کو حکم دے کر طلاق دلوا سکتا ہے، خواہ بیٹا رضامند ہو یا نہ ہو.چنانچہ حدیث میں ہے:.(۱) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَتْ تَحْتِى اِمْرَأَةٌ أُحِبُّهَا وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا فَأَمَرَنِي أَنْ اطَلَّقَهَا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ عُمَرَ طَلِّقُ امْرَاتَكَ ترندی کتاب الطلاق باب ما جاء في الرجل يسأله ابوه ان يطلق امراته ومشکوۃ مجتبائی صفحہ ۴۲۱ باب الشفعة ) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی جس سے مجھے محبت تھی لیکن میرے باپ ( حضرت عمرؓ) اس سے نفرت کرتے تھے، پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں مگر میں نے انکار کیا.پھر میں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا.اے عبداللہ بن عمرؓر
اپنی بیوی کو طلاق دے دو.588 (ب) الطَّلَاقُ لِرَضَاءِ الْوَالِدَيْنِ فَهُوَ جَائِزٌ.(مشکوۃ صفحه۴۲۱ مطبع حیدری) کہ اپنے والدین کی خواہش کی تعمیل میں طلاق دینا جائز ہے.( ج ) بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں حضرت اسمعیل کو چھوڑ آئے اور ان کے وہاں پر جو ان ہو جانے کے بعد مکہ گئے تو حضرت اسمعیل گھر پر نہ تھے، ان کی بیوی گھر پر تھی.آپ اس سے باتیں کرتے رہے اور جاتی دفعہ ان کی بیوی سے کہہ گئے کہ جب اسمعیل گھر آئیں تو انہیں میرا السلام علیکم کہ دینا اور کہنا کہ غَیر عُتْبَةَ بَابِكَ کہ اپنے دروازے کی دہلیز کو بدل دو.جب حضرت اسمعیل گھر آئے تو ان کی بیوی نے حضرت ابراہیم کا پیغام دیا تو حضرت اسمعیل نے فرما یا ڈاک أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحِقِی بِاَهْلِكِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى (بخاری کتاب بدء الخلق باب يزفون النساء في الشيء ، تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ فیروز اینڈسٹر مطبوعہ ۱۲۴۱ھ لاہور جلد ۲ صفحه ۱۳۷ و ۱۳۸) کہ وہ میرے والد (ابراہیم) تھے اور وہ مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تجھے طلاق دے دوں.پس تو اپنے والدین کے پاس چلی جا.پس آپ نے اسے طلاق دے دی اور بنو جرہم کی اور ایک عورت سے شادی کر لی.۲.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَرَكَنُوا إِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (هود: ۱۱۴) کہ ظالم لوگوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھو ورنہ تم کو بھی عذاب پہنچ جائے گا.پس حضرت مسیح موعود نے اگر اپنے بیٹے کو انبیاء گزشتہ کی سنت پر عمل کر کے ان لوگوں سے قطع تعلق کرنے کی ہدایت کی جو خدا اور اس کے رسول کے دشمن اور دہریہ تھے تو اپنے فرض کو ادا کیا.- حضرت مسیح موعود کو خصوصاً اس معاملہ میں یہ الہام ہوا تھا کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَطَعُوا تَعَلَّقَهُمْ مِنْهُمْ وَ بَعْدُوا مِنْ مَجَالِسِهِمْ فَأُولَئِكَ مِنَ الْمَرْحُومِينَ.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۹-۵۷۰ ) کہ سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اور نیک کام کئے اور ان سے قطع تعلق کیا اور ان کی مجالس سے دور رہے.پس ان پر رحم کیا جائے گا ( باقی ان سب پر عذاب نازل ہوگا.پس حضرت مسیح موعود کو وَقَطَعُوا تَعَلَّقَهُمْ مِنْهُمْ پرعمل کرنا چاہتے تھے.
589 کوشش کیوں کی گئی ؟ باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ اگر وعدہ خدا کی طرف سے تھا تو پھر اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کیوں کی گئی اور دوسرے فریق کے بعض لوگوں کو خطوط کیوں لکھے گئے؟ جواب:.سو یا د رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ جن لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے ان کی مدد اسی صورت میں فرمایا کرتا ہے.جب وہ خود بھی جہاں تک ممکن ہو سکے اس وعدہ الہی کے پورا کرنے میں کوشش کریں مثلاً آنحضرت کے ساتھ فتح کا وعدہ تھا مگر کیا حضور نے جنگ کے لئے تیاری نہیں فرمائی، کیا لشکر تیار نہیں کیا ؟ حضرت یوسف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ان کو کامیاب و کامران کرے گا- لَتُنَبَتَنهُمُ بِاَمْرِهِمُ هَذَا.پھر بھی حضرت یوسف نے جیل خانہ میں سے ایک مشرک شخص سے سفارش کروائی اور اسے کہا کہ اذكرني عِنْدَرَ بكَ (يوسف:۴۳) کہ بادشاہ کے سامنے میرا ذکر کرنا.آنحضرت سے وعدہ تھا کہ تمام عرب مسلمان ہوگا پھر کیا حضور نے تبلیغ کا کام بند کر دیا تھا؟ پس رعایت اسباب ضروری ہے، نیز اتمام حجت کی غرض سے بھی حضرت مسیح موعود کا ان لوگوں کو خطوط لکھنا ضروری تھا کیونکہ اگر بصورت عدم تو بہ ان پر عذاب آتا تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں اس پیشگوئی کا علم ہی نہ تھا، اس لئے ہم بے قصور ہیں خود حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں: یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے طرح طرح کی امید دینے سے کیوں کوشش کی گئی نہیں سمجھتے کہ وہ کوشش اسی غرض سے تھی کہ وہ تقدیر اس طور سے ملتوی ہو جائے اور وہ عذاب ٹل جائے.یہی کوشش عبداللہ انتم اور لیکھرام سے بھی کی گئی تھی.یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کسی پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کوئی جائز کوشش کرنا حرام ہے.ذرہ غور سے اور حیا سے سوچو کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف میں یہ وعدہ نہیں دیا گیا تھا کہ عرب کی بُت پرستی نابود ہوگی اور بجائے بُت پرستی کے اسلام قائم ہو گا.اور وہ دن آئے گا کہ خانہ کعبہ کی کنجیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوں گی.جس کو چاہیں گے دیں گے.اور خدا یہ سب کچھ آپ کرے گا مگر پھر بھی اسلام کی اشاعت کے لئے ایسی کوشش ہوئی جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷)
590 بستر عیش " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام ہرگز محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے:.ا.یہ الہام حضرت مسیح موعود ہی کے متعلق نہیں بلکہ آپ کی مقدس جماعت بھی اس الہام میں مخاطب ہے:.۲.یہ الہام اس دنیوی زندگی کے متعلق نہیں بلکہ آخرت کے متعلق ہے.چنانچہ یہ الہام مکمل طور پر یوں ہے.۵/ دسمبر ۱۹۰۵ ء.بَلاء وَاَنْوَارٌ - بستر عیش - خوش باش که عاقبت نکو خواهد بود - فبشرای لِلْمُؤْمِنِينَ ( پس مومنوں کے لیے بشارت ہے ) ( البدر جلد ۳ صفحه ۶ کالم ۳ والبشر کی جلد ۲ صفحه ۸۸) فارسی الہام صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ عاقبت کے متعلق ہے.عربی الہام بتا رہا ہے کہ اس میں جماعت احمد یہ بھی مخاطب ہے..لفظ ” عیش بھی ہمارا مؤید ہے.جیسا کہ حدیث لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ كه حقیقی زندگی (عیش ) آخرت ہی کی ہے.۴.قرآن مجید میں اہل جنت کے متعلق ہے مُتَكِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَابِنُهَا مِنْ استبرق (الرحمن : ۵۵ ) کہ تکیہ لگائے ہوں گے بستروں پر جن کے استر گاڑھے ریشم کے ہوں گے.۵- الْفَرَاشُ مَا يُفْرَشُ وَيُنَامُ عَلَيْهِ (المنجد زير لفظ فرش ) وہ جو بچھایا جائے اور اس پر سویا جاۓ گویا جنت کی عیش ( زندگی ) میں ہر مومن کا بستر ہوگا.پس الہام ”بستر عیش میں اسی کی طرف اشارہ ہے.بِكُرٌ وَثَيِّبٌ ( یعنی کنواری اور بیوہ) جواب:.یہ الہام جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا ہے حضرت ام المومنین کے نکاح کے متعلق تھا ( دیکھو نزول مسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ حاشیہ صفحہ ۱۴۶) جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ حضرت کے گھر میں کنواری ہوں گی جب آئیں گی.مگر بیوہ رہ جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا بتایا یہ گیا تھا
591 کہ حضرت کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں گی اور حضور کی زندگی میں فوت نہ ہوں گی ) محمدی بیگم کی یہ پیشگوئی چونکہ عدم تو بہ اور اس کے نتیجہ میں ہلاکت سلطان محمد سے مشرو ہاتھی ، اس لئے اس کے عدم تحقق کے باعث یہ الہام بجائے اس رنگ میں پورا ہونے کے دوسرے رنگ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا پورا ہو گیا.وعید کاٹلنا ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی میں تو بہ کی شرط تھی ، اور سلطان محمد نے اس شرط سے فائدہ اٹھایا لیکن اگر پیشگوئی میں تو بہ کی شرط نہ بھی ہوتی تو بھی یہ وعیدی پیشگوئی تھی اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق سلطان محمد کا تو بہ واستغفار سے تین سال کے عرصہ میں بچ جانا کوئی غیر ممکن امر نہ تھا.چنانچہ:.ا.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال ۳۴۰) کہ خدا تعالیٰ استغفار کرنے والوں پر عذاب نازل نہیں کرتا.۲.حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا اِنَّ أَجَلَكُمْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً کہ تمہاری زندگی بس ۴۰ راتیں ہیں.اس میں کوئی شرط تو بہ وغیرہ کی مذکور نہیں تھی.مگر وہ لوگ بہت ڈرے.تو بہ و استغفار کی فَتَضَرَّعُوا إِلَى اللهِ تَعَالَى فَرَحِمَهُمْ وَكَشَفَ عَنْهُمْ ( تفسیر کبیر از امام رازی زیر آیت وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - الانفال: ۳۳ و فتح البیان زیر آیت وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - الانفال: ۳۳ و تفسیر ابن جریر زیر آیت وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ.الانفال :۳۳) کہ وہ لوگ خدا کے سامنے گڑ گڑائے.پس خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور ان پر سے عذاب کو ٹلا دیا.۳.روح المعانی میں خلف وعید کے متعلق لکھا ہے:.اِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَزَّوَجَلَّ يَجُوزُ اَنْ يُخْلِفَ الْوَعِيدَ وَإِن امْتَنَعَ أَنْ يُخْلِفَ الْوَعْدَ وَبِهَذَا وَرَدَتِ السُّنَّةُ.فَفِي حَدِيثِ اَنْسِ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ وَعَدَهُ اللهُ عَلَى عَمَلِهِ ثَوَابًا فَهُوَ مُنْجِزْ لَهُ وَمَنْ اَوْعَدَهُ عَلَى عَمَلِهِ عَقَابًا فَهُوَ بِالْخَيَارِ وَمِنْ اَدْعِيَةِ الْاَئِمَّةِ الصَّادِقِينَ يَا مَنْ إِذَا وَعَدَ وَفي وَإِذَ تَوَعَّدَ عَفى.(روح المعانی از علامہ ابن حجر ابیشی زیر آیت وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - الانفال:۳۳)
592 کہ خدا تعالیٰ کے لئے جائز ہے کہ وہ وعید ( عذاب کی پیشگوئی میں ) تخلف کرے، اگر چہ وعدہ میں تخلف ممتنع ہے اور احادیث سے بھی یہ ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ کسی سے انعام (ثواب) کا وعدہ کرے تو اسے ضرور پورا کرتا ہے.ہاں عذاب ( وعید ) کی صورت میں وہ مختار ہے، کبھی سزا دیتا ہے کبھی نہیں.اور ائمہ صادقین کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے کہ ”اے وہ اللہ جب تو وعدہ کرے تو پورا کرے اور جب ڈرائے ( وعید کرے ) تو معاف فرمائے..أَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ الْمَشْهُورَ فِى الْجَوَابِ أَنَّ آيَاتِ الْوَعْدِ مُطْلَقَةٌ وَ آيَاتِ الْوَعِيدِ وَإِنْ وَرَدَتْ مُطْلَقَةٌ حُذِفَ قَيْدُهَا لِيَزِيدَ التَّخْوِيْفَ (روح المعانی از علامہ ابن حجر بیشمی زیر آیت وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - الانفال :۳۳) کہ وعدہ ہمیشہ مطلق ( اور غیر مشروط) ہوتا ہے اور ( وعید ) خواہ وہ بظاہر غیر مشروط ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس میں کوئی نہ کوئی شرط حذف کر دی گئی ہوتی ہے تا کہ خوف زیادہ بڑھ جائے.۵.حضرت علامہ فخر الدین رازی فرماتے ہیں.وَعِنْدِي جَمِيعُ الْوَعِيْدَاتِ مَشْرُوطَةٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ فَلا يَلْزِمُ مِنْ تَرْكِهِ دَخُولُ الْكِذَبِ فِى كَلَامِ اللهِ ( تفسیر کبیر رازی زیر آیت وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - الانفال:۳۳) کہ میرے نزدیک تمام وعیدی پیشگوئیوں میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تب پوری ہوگی.پس اگر وعید نہ ہو تو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا.۶ تفسیر بیضاوی میں ہے بِاَنَّ وَعِيدَ الْفُسَّاقِ مَشْرُوطٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ (بیضاوی تفسیر آل عمران زیر آیت إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ) کہ خدا تعالیٰ کافروں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کرتا ہے.تو ہمیشہ اس میں مخفی طور پر یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تو عذاب آئے گا..مسلم الثبوت صفحه ۲۸ - إِنَّ الْإِيعَادَ فِي كَلَامِهِ تَعَالَى مُقَيَّدٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید میں عدم عفو کی شرط ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ آنحضرت کی پیشگوئی
593 يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ نکاح محمدی بیگم کے متعلق ہے.تو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ:.ا.نکاح محمدی بیگم حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مطابق سلطان محمد کی موت بصورت عدم تو بہ کے ساتھ مشروط تھا، لہذا آنحضرت کی پیشگوئی کو بھی شرائط بالا کے ساتھ مشروط تسلیم کرنا پڑے گا.پس بوجه عدم تحقق شرائط آنحضرت کی یہ پیشگوئی محمدی بیگم کے نکاح کے ساتھ پوری ہونے کے بجائے دوسرے رنگ میں پوری ہوگئی.یعنی وہ ” موعود اولا د حضرت اقدس کو اس دوسرے نکاح سے عطا کی گئی جو حضرت ام المؤمنین کے ساتھ ہوا.۲.چنانچہ یہ ہمارا اپنا خیال نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں:.کئی برس پہلے خبر دی گئی تھی یعنی مجھے بشارت دی گئی تھی کہ تمہاری شادی خاندان سادات میں ہوگی اور اس میں سے اولاد ہوگی تا پیشگوئی حدیث يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ پوری ہو جائے.یہ حدیث اشارت کر رہی ہے کہ مسیح موعود کو خاندان سیادت سے تعلق دامادی ہوگا کیونکہ مسیح موعود کا تعلق جس سے وعدہ يُولَدُلہ کے موافق صالح اور طیب اولاد پیدا ہو.اعلیٰ اور طیب خاندان سے چاہئے.اور وہ خاندان سادات ہے." ایک سوال اربعین نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۳۸۵ حاشیه ) ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ کی موت کی تین سال کی میعاد اور سلطان محمد کے لئے ۲ سال کی میعاد مقرر فرمائی تھی جس سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سلطان محمد کو مرنا چاہیے تھا.ا.سو یا د رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود کا سلطان محمد کے لئے اڑھائی سال اور مرزا احمد بیگ کے لئے تین سال کی میعاد مقرر فرمانا ہر اہل بصیرت انسان کے لئے حضرت مسیح موعود کی صداقت اور راستبازی کی ایک دلیل ہے.کیونکہ احمد بیگ عمر کے لحاظ سے بڑا تھا اور اس کا داماد جوان.طبعی طور پر احمد بیگ کی موت کے متعلق یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ وہ سلطان محمد سے پہلے مرے گا.اور اگر حضرت مسیح موعود اپنی طرف سے اندازہ لگا کر پیشگوئی کرتے تو احمد بیگ کی وفات کے لئے سلطان محمد سے کم میعاد مقرر فرماتے.لیکن الہام میں ایسا نہیں.بلکہ احمد بیگ کے لئے تین سال اور سلطان محمد کے لئے اڑھائی
594 سال کا وعدہ کیا گیا.پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی انسانی دماغ کا اختراع نہ تھا.دوسرا امر جو اس میعاد کے تعین سے معلوم ہوتا ہے ، وہ یہ کہ یہ پیشگوئی جذبات انسانی کے نتیجہ میں نہیں کی گئی تھی کیونکہ زیادہ قصور احمد بیگ کا تھا اور وہ مستہز مین اور مکفرین کے گروہ میں شامل تھا.نیز رشتہ کے لئے اسی کے ساتھ سلسلہ جنبانی کیا گیا تھا، اور یہ سب کچھ اسی کے انکار کا نتیجہ تھا.اور اگر جذبات انسانیہ کا کوئی اثر ہو سکتا تھا تو یہی کہ حضرت مسیح موعود طبعا احمد بیگ کی میعاد کم مقرر فرماتے مگر واقعہ اس کے خلاف ہوا جس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی جذبات کا نتیجہ نہ تھی بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو اطلاع دی اسی طرح سے شائع فرما دیا..پیشگوئی میں زیادہ سے زیادہ مدت بتائی گئی تھی.پس اگر احمد بیگ اور سلطان محمد اپنی اسی حالت پر بدستور قائم رہتے.جس حالت میں کہ وہ پیشگوئی بیان کرنے کے وقت تھے تو ان کی موت کی میعاد علی الترتیب تین واڑھائی سال ہوتی.مگر احمد بیگ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا اور لڑکی کا نکاح کر دینے کے بعد اور زیادہ شوخ ہو گیا ، اس لئے وہ میعاد مقررہ کے اندر بہت ہی جلد پکڑا گیا.بخلاف سلطان محمد کے کہ اس نے اصلاح کی اور توبہ واستغفار کی طرف رجوع کیا.كَمَا مَرَّ.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے احمد بیگ کی میعاد تین سال مقرر کر کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ مہلت ہے جو احمد بیگ کو دی جاتی ہے.اگر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا تو تین سال سے بہت پہلے جلد ہی مرجائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے احمد بیگ کو جو خط ۱۳۰۴ھ میں لکھا تھا.اس میں حضور نے تحریر فرمایا تھا.وَ آخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُكَ فَتَمُوتُ بَعْدَ النِّكَاحِ إِلَى ثَلَاثِ سِنِينَ، بَلْ مَوْتُكَ قَرِيبٌ “ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۷۳) کہ تیرے خاندان پر جو آخری مصیبت آئے گی وہ تیری موت ہوگی تو روز نکاح سے تین سال کے عرصہ میں مرجائے گا بلکہ تیری موت اس سے بھی قریب ہے.ب.حضرت مسیح موعود اپنے اشتہار ۲۰ را پریل ۱۸۸۶ء میں تحریر فرماتے ہیں:.خدا نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ ہے اگر وہ اپنی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس
595 کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا ( حاشیہ اشتہار ۲۰ اپریل ۱۸۸۶ ضمیمه اخبار ریاض ہند امرتسر مارچ ۱۸۸۶ء مشموله آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۴۸).مندرجہ بالا دونوں حوالہ جات میں حضرت اقدس نے صراحت فرما دی ہے کہ احمد بیگ کو اگر وہ زیادہ شوخی نہ کرے تو زیادہ سے زیادہ تین سال مہلت مل سکتی ہے، لیکن وہ شوخی کر کے جلدی فوت ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.ایک قابل غورا مر! مندرجہ بالا عربی عبارت از آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۷۳ میں سے فقرہ اخِرُ الْمَصَائِبِ مونگ ( کہ تیرے خاندان پر جو آخری مصیبت آئے گی وہ تیری موت ہوگی ) خاص طور پر قابل غور ہے.کیونکہ اس میں بھی ایک زبر دست پیشگوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ کو بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یوں مقدر فرمایا ہے کہ اس کی موت کو اس کے خاندان کے لئے ”آخری مصیبت بنائے ، اور اس کے بعد پھر کوئی مصیبت اس خاندان پر اس پیشگوئی کے ماتحت نہ آئے.اس لئے احمد بیگ کی موت جب ۱۸۹۲ء میں ہوگئی تو آخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُک“ کے مطابق ضروری تھا کہ سلطان محمد اس کے بعد فوت نہ ہو.غرضیکہ احمد بیگ کی موت کا واقعہ ہو جانا اور پیشگوئی کے مطابق واقع ہو جانا اس پیشگوئی کے عظیم الشان نتائج کی خوشخبری دیتا تھا جو اس خاندان کے اکثر افراد کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی صورت میں نمودار ہوئے.اور اس طرح سے یہ پیشگوئی اس خاندان کے اس مطالبہ فَلْيَأْتِنَا بِايَةٍ إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ( اگر یہ سچا ہے تو نشان دکھائے ) کے جواب میں ایک زبر دست نشان ثابت ہوئی، جس نے ان لوگوں کی جود ہر یت اور ارتداد کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، کایا پلٹ دی اور ان کو خدا کے پیارے مسیح موعود کی شناخت اور قبولیت کی روشنی سے منور کر دیا.دہریت کی جگہ اسلام نے اور ارتداد کی جگہ تعلق و محبت رسول نے لے لی.اور یہی وہ عظیم الشان تغیر ہے جسے دنیا میں پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء تشریف لائے اور جس کی جھلک خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ داروں میں اس پیشگوئی کے ذریعہ دکھائی.حضور فرماتے ہیں:.ا.کس قدر میرے دعوی کی تائید میں مجھ سے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور جو کچھ کہا جاتا ہے کہ
596 فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی.یہ محض افترا ہے بلکہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوگئیں اور میری کسی پیشگوئی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جو پہلے نبیوں کی پیشگوئیوں پر جاہل اور بے ایمان لوگ نہیں کر چکے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۹۶) ۲.اے نادان! اول تعصب کا پردہ اپنی آنکھ پر سے اُٹھا.تب مجھے معلوم ہو جائے گا کہ سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں.خدا تعالیٰ کی نصرت ایک تند اور تیز دریا کی طرح مخالفوں پر حملہ کر رہی ہے پر افسوس کہ ان لوگوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا.زمین نے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی.اور دوستوں میں بھی نشان ظاہر ہوئے ہیں اور دشمنوں میں بھی.مگر اندھے لوگوں کے نزدیک ابھی کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا.لیکن خدا اس کام کو نا تمام نہیں چھوڑے گا جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۰۵) ۲ صفح۳۰۵).ایک یہ بھی اُن کا اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.اس اعتراض کے جواب میں تو صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.اگر وہ میری کتابوں کو غور سے دیکھتے یا میری جماعت کے اہلِ علم اور واقفیت سے دریافت کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ کئی ہزار پیشگوئی اب تک پوری ہو چکی ہے اور ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے صرف ایک دو گواہ نہیں بلکہ ہزار ہا انسان گواہ ہیں.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۸-۳۶۹) ۴.ایک دو اور پیشگوئیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں.مگر یہ سراسران کا افترا ہے اور بیچ اور واقعی یہی بات ہے کہ میری کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کہ جو پوری نہیں ہوگئی.اگر کسی کے دل میں شک ہو تو سیدھی نیت سے ہمارے پاس آجائے اور بالمواجہ کوئی اعتراض کر کے اگر شافی کافی جواب نہ سنے تو ہم ہر ایک تاوان کے سزاوار ٹھہر سکتے ہیں.“ (حقیقة المهدی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۰ - ۴۴۱ )
597 ۲.ڈاکٹر عبدالحکیم مُرتد والی پیشگوئی اپنی وفات کے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات جواب:.۱.دسمبر ۱۹۰۵ء میں اپنی وفات سے اڑھائی سال قبل حضرت اقدس نے الوصیت‘ شائع فرمائی اس کے صفحہ پر یہ الہامات درج ہیں.قَرُبَ اَجْلُكَ الْمُقَدَّرُ“ تیری وفات کا وقت مقررہ آ گیا ہے قَلَّ مِیعَادُ رَبِّكَ (تیرے رب کی طرف سے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے.) ” بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.“ ۲ ریویو دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴۸۰ میں ہے.رویا ( خواب ) ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفی اور مقطر پانی ہے.اس کے ساتھ الہام تھا ” آب زندگی“.اس میں دو تین گھونٹ' زندگی کا پانی اس میں باقی رہنا مذکور ہے اور اس کے پورے اڑھائی سال بعد حضور فوت ہوئے.گویا کل میعاد تین سال بتائی گئی.جس کو بعد میں عبد الحکیم نے چرا کر اپنے نام سے شائع کیا.جیسا کہ آگے آئے گا.۳ ۲۰ فروری ۱۹۰۷ لاہور سے ایک افسوسناک خبر آئی اور انتقال ذہن لاہور کی طرف ہوا ہے (ماہ مارچ ۱۹۰۷ صفہ ۲ الہامات حضرت مسیح موعود " ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں“.( بدر جلد ۶ نمبر۱۱ ۴ ار مارچ ۱۹۰۷ صفحہ ۳ واحکام جلد نمبر ۷۹ ار مارچ ۱۹۰۷ء صفحه۱).( ریویو آف ریلیجنز جلد ۶ نمبر۳) ۲۴ دسمبر ۱۹۰۷ ء : بخرام که وقت تو نزدیک رسید ، ۲۷ کو ایک واقعہ ( ہمارے متعلق ) الله خَيْرٌ وابقى “ (یعنی اللہ ہی سب سے بہتر اور باقی رہنے والا ہے.) حضور کی وفات کی یہ افسوسناک خبر “ لاہور کی طرف سے آئی اور حضور ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء کو کفن میں لپیٹ کر قادیان لائے گئے.۵.۷ مارچ ۱۹۰۸ء ماتم کدہ “ اس کے بعد غنودگی میں دیکھا کہ ” ایک جنازہ آتا ہے.“
598 عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئی:.حضرت مسیح موعود نے جب الوصیت“ شائع فرما دی اور اپنا وہ رویا بھی شائع فرما دیا جس میں حضور کی عمر ” دو تین سال بتائی گئی تھی تو اس کے پورے سات مہینے بعد عبد الحکیم مرتد نے ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۶ ء کو لکھا:.سہ سالہ پیشگوئی:.”مرزا مسرف، کذاب اور عیار ہے.صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے.“ کانا دجال صفحه ۵۰ و اعلان الحق اتمام الحجہ تکملہ صفه ۳ طبع ثانی مطبع بلالی ٹیم پریس سا ڈھورہ ریاست پٹیالہ ) حضرت مسیح موعود کا جواب اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۶ / اگست ۱۹۰۶ء کو اشتہار مشمولہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۴۰۹ صفحہ ۴۱۱’ خدا بچے کا حامی ہو.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۴۰۹ روحانی خزائن جلد۲۲) شائع فرمایا، اور اس میں خدا کا یہ الہام درج کیا.خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں.“ اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.ان پر کوئی غالب نہیں آ سکتا.فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے.پر تو نے وقت کو نہ پہچانا.نہ دیکھا نہ جانا.رَبِّ فَرِقْ بَيْنَ صَادِقٍ وَ كَاذِبٍ.أَنْتَ تَرَى كُلَّ مُصْلِحٍ وَ صَادِقٍ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۱ ) ( یعنی اے رب بچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھلا دے.اور تو ہر مصلح اور بچے کو جانتا ہے ) پہلی پیشگوئی منسوخ اور ۴ اما ہمیہ نئی پیشگوئی: عبد الحكيم مرتد شجره خبيثه تھا جو مَا لَهَا مِنْ قَرَارِ کے مطابق اپنی بات پر قائم نہ رہا اور اپنی سہ سالہ پیشگوئی کو بدیں الفاظ منسوخ کرتے ہوئے لکھا: اللہ تعالیٰ نے اس کی شوخیوں اور نافرمانیوں کی سزا میں سہ سالہ میعاد میں سے جواار جولائی ۱۹۰۹ ء کو پوری ہونی تھی دس مہینے اور گیارہ دن کم کر دیئے اور مجھے یکم جولائی ۱۹۰۷ء کو الہا نا فرمایا " مرزا آج سے چودہ ماہ تک یہ سزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا.“ (رساله اعلان الحق اتمام الجبه و تکملہ صفحہ 4 طبع ثانی مطبع بلالی سٹیم پریس ساڈھورہ ریاست پٹیالہ مؤلفہ عبدالحکیم مرتد ) 66
599 حضرت مسیح موعود کا جواب اس کے جواب میں حضور نے ۵/ نومبر ۱۹۰۷ء کو تبصرہ نامی اشتہار شائع فرمایا ” اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا اور میں تیری عمر کو بھی بڑھا دوں گا.یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ء سے ۱۴ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں.ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھا دوں گا.تا معلوم ہو کہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۹۱ اشتہار مورخہ ۱۵ نومبر ۱۹۰۷ء و بدر نمبر ۴۶ جلد ۶ مورخہ ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۶) نوٹ:.اس الہام میں لفظ ”جھوٹا کروں گا اور عمر کو بڑھاؤں گا، خاص طور پر قابل غور ہیں کیونکہ ”بڑھاؤں گا“ کا لفظ بتاتا ہے کہ حضور کی تاریخ وفات تو حضرت کے اپنے الہامات کے مطابق یکم ستمبر ۱۹۰۸ء سے پہلے ہی تھی مگر محض دشمن کو جھوٹا کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ اس کو بڑھانے“ کی پیشگوئی کرتا ہے.گویا عمر بڑھانا محض دشمن کو جھوٹا کرنے کی غرض سے ہے اور بس.چودہ (۱۴) ماہیہ پیشگوئی بھی منسوخ : چودہ ماہ والی پیشگوئی کے مطابق میعاد پیشگوئی یکم ستمبر ۱۹۰۸ نکلتی تھی مگر تبصرہ کے شائع ہونے کے بعد مرتد ڈاکٹر نے اس میں اور تبدیلی کر دی اور لکھا:.ا.الہام ۱۶ / فروری ۱۹۰۸ء.مرزا ۲۱ / ساون ۱۹۶۵ء (مطابق ۴ / اگست ۱۹۰۸ء) تک اعلان الحق اتمام الحجة وتعملہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحه ۳۲) ہلاک ہو جائے گا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب جب عبد الحکیم مرتد نے ۱۶ / فروری ۱۹۰۸ء کوم را گست ۱۹۰۸ ء تک والی پیشگوئی شائع کی تو اس وقت حضرت اقدس چشمہ معرفت لکھ رہے تھے.حضور نے اس کی یہ پیشگوئی چشمہ معرفت میں نقل فرمائی اور تحریر فرمایا : ”میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۷) اگست والی پیشگوئی بھی منسوخ :.مگر عبدالحکیم مرتد اس پر بھی قائم نہ رہا اور لکھا کہ
600 مگر کسی طرح اس ( حضرت مسیح موعود ) کی بیبا کی اور سرکشی میں کمی نہ ہوئی، مرزائیوں کا ارتداد اور کفر بے حد بڑھتا گیا.جس کی تفصیل ” کانا دجال“ کے مطالعہ سے ظاہر ہوگی.ایک موقعہ پر بے اختیار میری زبان سے یہ بد دعا نکلی، اے خدا اس ظالم کو جلد غارت کر.اے خدا اس بدمعاش ( خاکش بدہن، خادم ) کو جلد غارت کر اے خدا اس بد معاش کو جلد غارت کر “ اس لئے ۴ /اگست ۱۹۰۸ء مطابق ۲۱ ساون سمت ۱۹۶۵ ء تک کی میعاد بھی منسوخ کی گئی.(اعلان الحق و اتمام الحجہ وتکملہ از ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی صفحه ۹) جائے گا.۲.پھر اپنے ۸ مئی ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتا ہے:.”مرزا قادیانی کے متعلق میرے جدید الہامات شائع کر کے ممنون فرما دیں:.(۱) مرزا ۲۱ رساون سمت ۱۹۶۵ء (۴ /اگست ۱۹۰۸ء) کو مرض مہلک میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو (۲) مرزا کے کنبہ میں ایک بڑی معرکتہ الآراء عورت مر جائے گی.پیسه اخبار ۱۹۰۸ء ۱۵ رمتی و اہلحدیث ۱۵ مئی ۱۹۰۸ ء ) گویا اب اس نے ۴ را گست ۱۹۰۸ء کی تعیین کر دی.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر بڑھانے کی ضرورت نہ رہی.آپ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو فوت ہوئے اور اس کے شر سے محفوظ رہے وہ جھوٹا ہو گیا اور حضرت مسیح موعود کی اپنی پیشگوئیوں کے مطابق ۲۷ کو حضور کا جنازہ لاہور سے قادیان کی طرف لایا گیا اور حضور دار الامان میں مدفون ہوئے.کو کی صحت کا ثبوت م را گست تک والا " الہام ۶ ار فروری ۱۹۰۸ ء کا ہے.(اعلان الحق و تکملہ واتمام الحجہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحه ۸) مگریم را گست کو والا " الہام مئی کے پہلے ہفتہ کا ہے.(دیکھو اعلان الحق و اتمام الحجة و تکملہ از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحه ۳۲ سطر ۱۸) دو ۲.تک والا " الہام جدید نہیں بلکہ تین مہینے کا پرانا الہام تھا.۸ مئی کو اس نے کو والا الہام“ لکھا ہے اور اس کو جدید قرار دیا ہے اور خود اقرار کیا ہے کہ مئی ۱۹۰۸ء میں مجھے کو والا الہام ہوا تھا.( دیکھو اعلان الحق وغیرہ از ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی صفحه ۳۲)
601.دوسرا الہام جو معرکۃ الآراء عورت کی موت کے متعلق ہے وہ ۸ مئی ۱۹۰۸ء کا ہے، یعنی اس دن کا جس دن اس نے یہ الہام بغرض اشاعت اخبارات میں بھی بھیجا ہے.(اعلان الحق از ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی صفحہ ۸ آخری سطر ) مگر یک والے الہام کے ساتھ ”معرکۃ الآراء عورت“ کی موت کا ذکر نہیں.۴.عبدالحکیم مرتد نے خود اقرار کیا ہے جیسا کہ اوپر درج ہو چکا ہے کہ "م را گست ۱۹۰۸ ء مطابق ۲۱ ساون سمت ۱۹۶۵ ء تک کی میعاد بھی منسوخ کی گئی.“ (اعلان الحق وغیرہ از ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی صفحه ۹) عبدالحکیم مُرتد جھوٹا ہو گیا مولوی ثناء اللہ امرتسری کی شہادت ہم خدا لگتی کہنے سے رُک نہیں رک سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اسی پر بس کرتے یعنی ۱۴ ما ہیہ پیشگوئی کر کے مرزا کی موت کی تاریخ مقرر نہ کر دیتے جیسا کہ انہوں نے کیا.چنانچہ ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء کے اہلحدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ ۲۱ ساون یعنی ۴ /اگست کو مرزا مرے گا تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا جو معزز ایڈیٹر پیسہ اخبار نے ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پر چبھتا ہوا کیا ہے کہ ۲۱ / ساون کو کی بجائے ۲۱ ساون تک ہوتا تو خوب ہوتا.( اہلحدیث ۱۲ جون ۱۹۰۸ء ) ضروری نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشک ” تبصرہ میں لکھا ہے کہ میرا دشمن میری آنکھوں کے سامنے ہی اصحاب فیل کی طرح نیست و نابود ہو جائے گامگر (اول) یہ حضرت اقدس کا اپنا اجتہاد ہے، الہام تو جو حضور کو ہوا وہ وہیں درج ہے."أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبِّكَ بِأَصْحب الفيل ( سورة الفیل :۲) حضرت نے ”تر “ کے لفظ سے یہ استعمال فرمایا ہے کہ گویا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہی ہلاک ہو جائے گا.حالانکہ یہ آیت قرآن مجید میں جہاں آتی ہے وہاں آنحضرت کو اصحاب فیل کی تباہی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مخاطب کرتی ہے اور الم تر “ کے الفاظ اس موقعہ پر پر مستعمل ہوتے ہیں.جب کہ اصحاب فیل کی تباہی کا واقعہ آنحضرت نے اپنی آنکھوں سے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا بلکہ وہ آپ کی ولادت سے بھی قبل ہو چکا تھا.اسی طرح اس الہام میں بھی حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا تھا کہ عبدالحکیم پر جو عذاب آئے گا آپ اپنی زندگی میں اس کو نہیں دیکھ سکیں گے، جس طرح اصحاب فیل کی تباہی کو آنحضرت نے نہ دیکھا تھا اور نبی کے اجتہاد سے یہ ممکن ہے جیسا
602 که نبر اس شرح الشرح عقاید سفی صفحہ ۳۹۲ میں ہے.گاننِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ وَ يَكُونُ خَطْئًا كَمَا ذَكَرَهُ الْأُصُولِيُّونَ....وَفِي حَدِيثِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَهُوَ حَقٌّ وَمَا أَقُولُ فِيْهِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أُخْطِئُى وَ أُصِيبُ کہ آنحضرت بعض اوقات اجتہاد کرتے تھے تو وہ غلط بھی ہوتا تھا، جیسا کہ اصولیوں نے لکھا ہے اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ جو بات تو میں کہوں کہ خدا نے کہی ہے تو وہ بالکل درست اور حق ہو گی مگر جو بات اس کی تشریح کرتے ہوئے میں اپنی طرف سے کہوں ضروری نہیں کہ درست ہی ہو کیونکہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں کبھی درست بات بتا تا ہوں اور کبھی مجھ سے بھی خطا ہو جاتی ہے.( مفصل دیکھو صفحہ ۹۳۷ پاکٹ بک طذا) ( دوم ) حضرت مسیح موعود کی یہ سب تحریرات عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئیوں کے بالمقابل ہیں.جب اس نے اپنی طرف سے شرائط کو تبدیل کر دیا تو حضرت کے جوابات بھی بحال نہ رہے.تم الزام تو اس صورت میں دیتے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہتا اور پھر حضرت پر اسے اعتراض کرنے کا موقعہ ملتا.حضرت کی غرض تو رَبِّ فَرِقْ بَيْنَ صَادِقٍ وَ كَاذِبِ“ کی تھی.کیا بچے جھوٹے میں فرق نہیں ہوا ؟ کیا حضرت اس کے شر سے محفوظ نہیں رہے؟ اور اس کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹا نہیں کیا؟ اور پھر کیا وہ ۱۹۱۹ء میں پھیپھڑے کی مرض (سل) سے ہلاک نہیں ہوا؟ اور وہ فرشتوں کی کچھچی ہوئی تلوار سے مسلول نہیں کیا گیا؟ اگر یہ سب واقعات بچے ہیں اور یقیناً بچے ہیں تو حضرت مسیح موعود کی صداقت میں کون سے شک وشبہ کی گنجائش ہے؟.مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ سوال :.مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ کی موت کی پیشگوئی کی؟ جواب:.یہ افتراء ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز ثناء اللہ کی موت کی پیشگوئی نہیں کی.چنانچہ آپ اشتہار ”آخری فیصلہ میں لکھتے ہیں.یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں“ مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۷۹ اشتہار مورخہ ۱۵ اپریل ۱۹۷ء) کوئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضور نے ثناء اللہ کے متعلق حضور کی زندگی میں مرنے کی پیشگوئی کی تھی.ہاں اس کو دعوت مباہلہ دی تھی جس کی تفصیل درج ذیل ہے:.
603 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”انجام آتھم ، میں تمام علماء گدی نشینوں اور پیروں کو آخری فیصلہ ( مباہلہ ) کی دعوت دی.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.وَ آخِرُ الْعَلَاجِ خُرُوجُكُمْ إِلَى بَرَازِ الْمُبَاهَلَةِ..........هذَا آخِرُ حِيَلٍ أَرَدْنَاهُ فِى هَذَا الْبَابِ ( انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۶۵) که آخری علاج تمہارے لئے میدان مباہلہ میں نکلنا ہے...اور یہی آخری طریق فیصلہ ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے.اس دعوت مباہلہ میں آپ نے فرمایا کہ فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددعا کریں کہ فریقین میں سے جو فریق جھوٹا ہے ، اے خدا تو اس کو ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر.کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر “ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۶۶) اور اس کے بعد لکھا: د گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ توہین و تکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو.“ انجام آنقم روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۶۷) اس رسالہ کے مخاطبین میں سے مولوی ثناء اللہ کا نمبر 1 تھا.مولوی صاحب نے اس چیلنج کا کچھ جواب نہ دیا، اور اپنی مہر خاموشی سے اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی، لیکن جب ہر طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس بدقسمت جانور کی طرح جو شیر کو دیکھ کر انتہائی بدحواسی سے خود ہی اس پر حملہ کر بیٹھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کی.جس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا.حضرت مسیح موعود کا جواب ”مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لئے بہ دل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دُعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی مر جائے“ (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۳۱)
604 اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے.“ (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۲۱) ثنائی حیلہ جوئی چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے، اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا.میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرات نہیں.“ لیکن جب پھر ہرطرف سے لعن طعن ہوئی تو لکھا:.وو ثناء اللہ کی دوبارہ آمادگی الہامات مرزا صفحه ۸۵ طبع دوم و صفحه اطبع ششم) البتہ آیت ثانیہ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ (آل عمران (۶۲) پر عمل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں.میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے.“ ( اہل حدیث ۲۲ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۴) مرزائیو! بچے ہو تو آؤ اور اپنے گورو کو ساتھ لاؤ.وہی میدان عید گاہ امرتسر تیار ہے جہاں تم پہلے صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو ( جھوٹ ہے وہاں ہرگز کوئی ایسا مباہلہ نہیں ہوا.جس میں فریقین نے ایک دوسرے کے حق میں بددعا کی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی بددعا نہیں کی تھی ، خادم) اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہے کیونکہ جب تک پیغمبر جی سے فیصلہ نہ ہو، سب امت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا.( اہل حدیث ۲۹ / مارچ صفحہ ۱۰.۱۹۰۷ ء ) مولوی ثناء اللہ صاحب کی یہ تحریر ۲۹ / مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے مگر اس سے کچھ دن قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں (جو اس وقت زیر تصنیف تھی یہ تحریر فرما چکے تھے کہ میں بخوشی قبول کروں گا اگر وہ ( ثناء اللہ ) مجھ سے درخواست مباہلہ کریں.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۱ ) ”مباہلہ کی درخواست کرے.“ (ایضا صفحہ ۳۳) و (ایضا ۴۶۵ ) حضرت اقدس کی یہ تحریر ۲۵ / فروری ۱۹۰۷ ء کی ہے جیسا کہ تمہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۳۶ سطر ۱۰ سے معلوم ہوتا ہے.اس تحریر سے ظاہر ہے کہ حضرت کا ارادہ یہ تھا کہ اب اگر مولوی ثناء اللہ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کرے تو اسے بھاگنے نہ دیا جائے.چنانچہ جب اس نے ۲۹ / مارچ ۱۹۰۷ کو دعوت مباہلہ دی
605 جوا و پر درج ہو چکی ہے ) تو حضرت کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب بدر ۴ را پریل ۱۹۰۷ میں دیا گیا، لیکن مولوی ثناء اللہ پھر فرار کی راہ اختیار کرنے لگا، جیسا کہ اس کے جواب میں مندرجہ اہل حدیث ۱۹؎ اپریل ۱۹۰۷ سے ظاہر ہے.تو اس کے جواب کے اشاعت سے قبل ہی اللہ تعالی نے حضرت اقدس کو اس کے ارادہ سے مطلع فرما دیا اور حضور نے ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ء کا اشتہار آخری فیصلہ شائع فرما دیا تا کہ ثناء اللہ کے لئے گول مول کر کے ٹالنے کی گنجائش ہی نہ رہے اور وہ مجبور ہو کر تصرف الہی کے ماتحت موت کو اپنے سر پر سوار دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ تمہاری یہ تحریر مجھے منظور نہیں ، اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے.( اخبار اہل حدیث ۱۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء) چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب ”مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے.وہ بیشک ( آپ ) قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص ( حضرت مسیح موعود ) اپنے دعوئی میں جھوٹا ہے اور بیشک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.مباہلہ کی بنیاد جس آیت قرآنی پر ہے اس میں تو صرف لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ آیا ہے.“ اخبار بدر ۴ را پریل ۱۹۰۷ ، صفحیم) ثنائی فرار میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا، میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں.میں نے حلف اٹھا نا کہا ہے.مباہلہ نہیں کہا قسم اور ہے مباہلہ اور ہے.“ ( اہل حدیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ صفحیم ) ابھی یہ شنائی فرار معرض ظہور میں نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو علیم وخبیر ہے اپنے مسیح موعود کو اس کی اطلاع دے کر اپنے شکار کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کے لئے ایک طریق کی تحریک فرمائی.چنانچہ اس کے مطابق حضور نے آخری اتمام حجت کے طور پر ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء کو اپنی طرف سے دعاء مباہلہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ“ کے عنوان سے شائع فرما دی.جس میں اپنی طرف سے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ بچے کی زندگی میں جھوٹے کو ہلاک کر دے اور بالآ خر لکھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اس اشتہار کو اہل حدیث میں شائع فرما کر ” جو چاہیں اس کے نیچے
606 لکھ دیں، اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.“ نیچے یہ لکھا:.ہوسکتی ہے.“ مولوی ثناء اللہ نے اس اشتہار کو اہلحدیث ۲۶ مارچ ۱۹۰۷ء میں شائع کیا اور اس کے اول.اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا.“ (اخبار اہلحدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ ء ) تمہاری یہ تحریر کسی صورت میں بھی فیصلہ کن نہیں ہوسکتی.(ایضا) ”میرا مقابلہ تو آپ سے ہے.اگر میں مرگیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ”خدا کے رسول چونکہ رحیم کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑے مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں.“ خدا تعالی جھوٹے ، دغا باز ، مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں.“ نوٹ:.یہ آخری عبارت نائب ایڈیٹر کی طرف سے لکھی گئی ہے مگر مولوی ثناء اللہ نے اس کی تصدیق کی اور لکھا کہ ”میں اس کو صحیح جانتا ہوں.‘ ( اہل حدیث ۳۱ / جولائی ۱۹۰۷ء) مختصر یہ کہ یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.“ ( اقتباسات از اہلحدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۶،۵) مولوی ثناء اللہ پھر لکھتا ہے:.آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرما گئے ، اور مسیلمہ با وجود کا ذب ہونے کے صادق سے پیچھے مرا‘ ( مرقع قادیانی اگست ۱۹۰۷ صفحه ۹) کوئی ایسی نشانی دکھاؤ جو ہم بھی دیکھ کر عبرت حاصل کریں ، مر گئے تو کیا دیکھیں گے اور کیا ہدایت پائیں گے.“ (اخبار وطن امرتسر ۲۶ را پریل ۱۹۰۷ صفحہ۱۱) پس چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی پرانی عادت کے مطابق نجران کے عیسائیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مباہلہ سے فرار اختیار کیا، اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور ثناء اللہ کو خدا تعالیٰ نے اس کے تسلیم کردہ اصول کے رو سے ”جھوٹے ، دغا باز ، مفسد اور نا فرمان لوگوں کی طرح لمبی عمر دی
607 اور اسے حضرت مسیح موعود کے پیچھے زندہ رکھ کر مسیلمہ کذاب ثابت کر دیا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار مسودہ مباہلہ“ ہے جس طرح قرآن مجید کی آیت مباہلہ میں لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (سورة ال عمران : ۶۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسودہ مباہلہ تھی.وہاں چونکہ عیسائی بھاگ گئے تھے اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور وہ نہ مرے.،، آنحضرت نے فرمایا کہ لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارَى كُلِّهِمْ حَتَّى يَهْلِكُوا (تفسیر کبیر رازی جلد ۸ صفحه ۸۵ مصری مطبوعہ ۱۹۳۸ء پہلا ایڈیشن زیر آیت لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ - آل عمران : ۶۲) اگر عیسائی مباہلہ کر لیتے اور آنحضرت کی طرح لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الكَذِبِينَ کہہ دیتے تو ان میں سے ہر ایک ایک سال کے اندر ہلاک ہو جاتا.اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر مولوی ثناء اللہ بھی حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں میدانِ مباہلہ سے بھاگ نہ جاتا اور حضرت کی خواہش کے مطابق وہی بد دعا کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے خود تحریر فرمایا ہے کہ اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کا ذب صادق کے پہلے مرجائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے.‘ ( اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۲۱) پس جس طرح وہاں پر نجران کے عیسائیوں کا فرار خدائی فیصلہ بروئے مباہلہ“ کے رستہ میں روک ثابت ہوا.یہاں بھی ثناء اللہ کا مندرجہ بالا فرار اس کو ہلاکت سے بچا گیا.نہ حضرت مسیح موعود آنحضرت سے بڑے ہیں اور نہ مولوی ثناء اللہ نجران کے عیسائیوں سے بڑا ہے.اشتہار آخری فیصلہ مسودہ مباہلہ تھا ا.خود مولوی ثناء اللہ لکھتا ہے: ”کرشن قادیانی نے ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا.“ ( مرقع قادیان جون ۱۹۰۸ صفحہ ۱۸) ۲.آج تک مرزا صاحب نے کسی مخالف سے ایسا کھلا مباہلہ نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ گول مول رکھا کرتے تھے.“ (اشتہار مرزا قادیانی کا انتقال اور اس کا نتیجہ شائع کردہ ثناء اللہ اس رمئی ۱۹۰۸ء).حضرت مسیح موعود کے اشتہار کا عنوان ہے.مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۷۹ اشتہار مرقومه ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء) اور مولوی ثناء اللہ کے نزدیک آخری فیصلہ مباہلہ ہی ہوتا ہے.جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
608 ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جائیں، کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض’بد را بدر بائید رسانید کہہ دے کہ آؤ ایک آخری فیصلہ بھی سنو ، ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے ، اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں، اپنے بھائی بند نزد یکی اور تمہارے بھائی بند نزدیکی بلائیں.پھر عاجزی سے جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں.خدا خود فیصلہ دنیا میں ہی کر دے گا.“ (تفسیر ثنائی زیرہ آیت آل عمران: ۶۱) ۴.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی یہ دعائے مباہلہ ہی تھی جیسا کہ حضور فرماتے ہیں:.مباہلہ ایک آخری فیصلہ ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نصاری کو مباہلہ کے واسطے طلب کیا تھا مگر ان میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی ( بدرے مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۵.حضرت اقدس نے بعینہ ”آخری فیصلہ والی دعا کے مطابق ایک اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے متعلق شائع فرمایا تھا.اس کے متعلق حضور فرماتے ہیں:.۲/ نومبر ۱۸۹۸ء کا ہمارا اشتہار جو مباہلہ کے رنگ میں شیخ محمد حسین اور اس کے دو ہم راز رفیقوں کے مقابل پر نکلا ہے وہ صرف ایک دعا ہے.“ (راز حقیقت صفحهب اشتہار۳۰/نومبر ۱۸۹۸ء) اب یہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء ایک آخری فیصلہ ہے چاہیے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سے انتظار کرے.“ ( راز حقیقت صفحه ۱۴) گویا حضرت نے اشتہار کو جو ”مباہلہ کے رنگ میں ایک دعا‘ پر مشتمل تھا آخری فیصلہ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ حضور کے نزدیک آخری فیصلہ سے مرادمباہلہ ہی ہوتا ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۸) حضور تحریر فرماتے ہیں کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں.“ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۵۲ نیز مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۸ اشتهارمورخه ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء).حضرت مسیح موعود کے نزدیک صرف اور صرف مباہلہ کی صورت میں جھوٹا سچے کی زندگی میں مرتا ہے ، جیسا کہ حضور تحریر فرماتے ہیں.یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مر جاتا ہے.ہم نے تو اپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا ہم نے تو یہ لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ بچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے.کیا آنحضرت کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہی
609 ہلاک ہو گئے تھے بلکہ ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے.ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے.ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہوتے ہیں.دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں.کیا یہ کسی نبی ، ولی، قطب،غوث کے زمانہ میں ہوا کہ اس کے سب اعداء مر گئے ہوں ، بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے، ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ بچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں، ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے 66 کے ہی جھوٹے بچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں.وہ جگہ تو نکا لو جہاں یہ لکھا ہے.“ (احکم ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۹) ۷.ثناء اللہ اگر اس کو اشتہار مباہلہ نہ سمجھتا تھا تو اس کے جواب میں یہ کیوں لکھا تھا کہ اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا.“ ( اخبار اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء) کیونکہ ظاہر ہے کہ یکطرفہ بددعا کے لئے دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی.منظوری یا عدم منظوری کا سوال صرف اور صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ دعائے مباہلہ ہو.عنوان اشتہار ہے ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ“ (مجموعہ اشتہارات جلد۳ صفحه ۵۷۸ اشتہار مورخہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء) ”ساتھ“ کا لفظ صاف طور پر بتارہا ہے کہ یہ یکطرفہ دعا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی رضا مندی کا سوال ہے.اگر یک طرفہ دعا ہوتی تو ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق آخری فیصلہ ہونا چاہئے تھا.مجسٹریٹ جب فیصلہ کرتا ہے تو زید یا بکر کے متعلق فیصلہ کرتا ہے لیکن جب یہ کہا جائے کہ زید نے بکر کے ساتھ فیصلہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زید اور بکر دونوں کی رضا مندی سے یہ فیصلہ ہوا.اگر ایک فریق بھی نارضامند ہو تو اندر میں صورت وہ فیصلہ قائم نہ رہے گا.پس چونکہ مولوی ثناء اللہ اس فیصلہ پر رضامند نہ ہوا اور لکھا کہ یہ تحریر مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے.“ (اخبار اہلحدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء) تو وہ دعا فیصلہ نہ رہی.اسی وجہ سے ثناء اللہ نے بھی لکھا تھا کہ:.یہ دعا فیصلہ کن نہیں ہوسکتی.“ ۹.حضرت اقدس کا لکھنا کہ جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد۳
610 صفحه ۵۷۹، اشتہار مرقومه ۱۵ / اپریل ۱۹۰۷ء مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت اس مسودہ مباہلہ کو مکمل اسی صورت میں سمجھتے تھے جب ثناء اللہ بھی اس کے نیچے اپنی منظوری لکھدے.ورنہ اگر یکطرفہ دعا ہوتی تو اس کے نیچے ثناء اللہ کے لکھنے یا نہ لکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا.۱۰.حضرت اقدس کا لکھنا کہ اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۷۹ مرقومه ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء) صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ حضرت کا منشاء یہی تھا کہ ثناء اللہ کے ہاتھ سے حضور کی دعا اور اپنی تصدیق دونوں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں تا مسودہ مباہلہ مکمل ہوکر ثناء اللہ کا خاتمہ کر دے.11.مولوی ثناء اللہ خود لکھتا ہے : ”مرزا جی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا.(مرقع قادیانی دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۱۲.وہ ( حضرت مسیح موعود ) اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء میں چیخ اٹھا تھا کہ اہلحدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے.“ (اہلحدیث ۱۹ جون ۱۹۰۸ء) ۱۳.حضور لکھتے ہیں : میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی نا کام ہو جاتا ہے.“ اور ہم ابھی حضرت کے مفلوظات ( از احکم ۱۰ار اکتوبر ۱۹۰۷ء) سے دکھا چکے ہیں کہ یہ اصل صرف اور صرف مباہلہ ہی کی صورت میں ہوتا ہے.۱۴.حضرت اقدس نے اپنے اس اشتہا میں جو انجام جھوٹے کا تحریر فرمایا ہے وہ بعینہ وہی ہے جو انجام آتھم میں حضرت نے جھوٹا مباہلہ کرنے والے کا تحریر فرمایا ہے.دیکھیں انجام آتھم صفحه ۶۵ تا صفحہ ۲ ۷ نیز دیکھیں صفحہ ۱۶۵.۱۵.مولوی ثناء اللہ لکھتا ہے.”مرزائیوا کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے فیصلہ کے لئے بلایا ہے؟ بتلاؤ تو انعام لو.“ (الحدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء) اگر حضور کا اشتہار ۱۵ را پریل ۱۹۰۷ء ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۷۹ ) محض یک طرفه بد دعا تھی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے انبیاء میں نہ ملتی ہو اور جس کا ثناء اللہ کو انکار ہوجیسا کہ وہ لکھتا ہے: اس قسم کے واقعات بیشمار ملتے ہیں جن میں حضرات انبیاء علیہم السلام نے مخالفوں پر
611 بددعائیں کیں.“ (رؤ داد مباحثہ لدھیانہ صفحہ ۶۷) پس مولوی ثناء اللہ کے مطالبہ کا مطلب صرف یہی ہے کہ انبیاء جب مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں تو پہلے اپنے مخالفوں کی منظوری لے لیتے ہیں.یہاں پر حضرت نے ثناء اللہ کی بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا.پس ثناء اللہ اس طریق کار کی مثال مانگتا تھا نہ کہ محض بددعا کی کیونکہ اس کے لئے منظوری کی ضرورت نہیں.ثنائی عذرات ثناء اللہ کو عذر ہے کہ مباہلہ کے لئے شرط یہ تھی کہ حقیقۃ الوحی شائع ہونے اور ثناء اللہ کو بذریعہ رجسٹری بھیجنے کے بعد مباہلہ ہوگا.اب حضرت اقدس نے حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہی اس کو کیوں شائع کر دیا؟ سواس کا جواب یہ ہے کہ ثناء اللہ نے اپنے اخبار اہلحدیث ۲۹ / مارچ ۱۹۰۷ء میں جب چیلنج مباہلہ دیا تو حضرت نے اس کو مہلت دینا ہی پسند فرمایا کہ باوجود اس قدر شوخیوں اور دلآزاریوں کے جو ثناء اللہ سے ہمیشہ ظہور میں آتی ہیں حضرت اقدس نے پھر بھی رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جب کہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے.( بدر۴ را پریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲) لیکن چونکہ ثناء اللہ نے ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کے اہلحدیث میں پھر فرار اختیار کر لینا تھا (جس کا حوالہ اوپر ذکر ہو چکا ہے صفحہ ۴۸۲) اور خدا تعالیٰ کو اس کا علم تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۵ را پریل ہی کو اس کے فرار کے شائع ہونے سے پہلے ہی دعا مباہلہ لکھنے کی ہدایت فرما دی، چنانچہ حضرت فرماتے ہیں: ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیا درکھی گئی ہے.“ ( بدر ۲۵ / اپریل ۱۹۰۷، صفحہ ے کالم نمبر ) حضرت اقدس کا ثناء اللہ سے کوئی معاہدہ نہ تھا کہ حقیقۃ الوحی چھپنے تک مباہلہ نہ ہوگا.یہ صرف حضور کا اپنا ارادہ تھا بوجہ رحم کے.ثناء اللہ نے اس تجویز کی منظوری کا اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ معاہدہ کی صورت اختیار کر لیتا.اللہ تعالیٰ نے حضرت کے ارادہ کو ( بوجہ اس فرار کے جو ثناء اللہ کرنے والا تھا ) بدل دیا.اس بات کا ثناء اللہ کے لئے کوئی فرق نہ تھا کہ مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے پہلے ہو
612 یا بعد میں کیونکہ وہ تو ۲۹ / مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰ کے اہل حدیث میں مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر چکا تھا.اب مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہو یا بعد میں یہ حضرت کی مرضی پر موقوف تھا.حضوڑ کا ارادہ کتاب کے چھپنے کے بعد مباہلہ کرنے کا تھا ، تا ثناء اللہ کو ایک اور موقعہ دیا جائے.مگر اللہ تعالیٰ نے ثناء اللہ کی بدنیتی کو دیکھ کر فوراً حضرت کے ارادہ کو بدل دیا پس شاء اللہ کا اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا.ایڈیٹر صاحب بدر کی تحریر باقی رہا مولوی ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ بدر ۱۳ / جون ۱۹۰۷ ء صفحہ ۲ کالم نمبرا میں ایڈیٹر صاحب بدر نے لکھا ہے کہ مباہلہ قرار نہیں پایا تو اس کا جواب یہ ہے.(۱) مولوی ثناء اللہ خود مانتا ہے کہ یہ تحریر ایڈیٹر صاحب بدر کی اپنی ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے.” بے نور بدر کے ایڈیٹر نے کمال ایمانداری سے اپنا جواب تو شائع کر دیا.( مرقع قادیانی نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۲۲).(ب).خود ایڈیٹر صاحب مفتی محمد صادق صاحب اخبار بدر کا بیان ہے کہ یہ تحریر ان کی اپنی طرف سے تھی، حضور ( مسیح موعود ) کے حکم یا علم سے نہیں لکھی گئی جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: اخبار بدر مورخه ۱۳ / جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر اول میں جو نوٹ بعنوان نقل "خط بنام مولوی ثناء اللہ صاحب شائع ہوا ہے، یہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کے مطالبہ حقیقۃ الوحی کا جواب ہے جو میں نے خو دلکھا تھا اور یہ میرے ہی الفاظ ہیں کیونکہ حضرت اقدس نے اس کے متعلق کوئی ہدایت نہ دی تھی ، میں نے اپنی طرف سے جواب لکھ دیا تھا.اس بیان کی اشاعت مناسب ہے تا کہ کوئی شخص اس نوٹ کو حضرت کی طرف منسوب کر کے مغالطہ نہ دے سکے.“ تجلیات رحمانیہ صفحہ ۷۴ ابار اول از قلم ابو العطاء اللہ دتہ جالندھری مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۱ء) جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں حضرت مسیح موعود اس اشتہار کو دعائے مباہلہ سمجھتے ہیں اور خود مولوی ثناء اللہ بھی اس کو دعائے مباہلہ ہی قرار دیتا تھا تو اس کے بالمقابل ایڈیٹر صاحب بدر کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ خود اہلحدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی بلکہ حضرت علی کی تفسیر تک کو نہیں مانتے.( اہلحدیث ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم از بر عنوان اقتداء اہلحدیث) حضرت خلیفة البس الثانی ایدہ اللہ تعالی کی تحریر مولوی ثناء اللہ یہ کہا کرتا ہے کہ حضرت خلیفتہ اُسیح الثانی نے حضرت مسیح موعود کی وفات کے
613 موقعہ پر جو مضمون ”محمود اور خدائی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ بعنوان ”صادقوں کی روشنی شائع کیا اس میں لکھا ہے کہ یہ دعا دعائے مباہلہ نہیں تھی.اب تم کیوں اس کو مباہلہ کی دعا قرار دیتے ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صریحا دھوکہ ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ اشتہار آخری فیصلہ دعائے مباہلہ نہ تھا.کیونکہ مباہلہ تو اس صورت میں ہوتا کہ ثناء اللہ بھی بالمقابل قسم کھاتا یا دعا کرتا.مگر چونکہ اس نے بالمقابل دعا نہیں کی اس لئے مباہلہ نہیں ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اسی مضمون میں صفائی اور صراحت کے ساتھ اس مجوزہ طریق کار کو مباہلہ قرار دیا ہے اور پھر ثناء اللہ کے انکار کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ مباہلہ نہیں ہوا.چنانچہ چندا اقتباسات اس مضمون سے یہاں درج کئے جاتے ہیں.(1).یہ ایک فیصلہ کا طریق تھا جس سے جھوٹے اور بچے میں فرق ہو جائے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ حق اور باطل میں کچھ ایسا امتیاز پیدا ہو جائے کہ ایک گروہ بنی نوع انسان کا اصل واقعات کی تہ تک پہنچ جائے اور شرافت اور نیکی کا مقتضا یہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ اس دعا کو پڑھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیتا کہ ہاں مجھ کو یہ فیصلہ منظور ہے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اس کو سوائے ہوشیاری اور چالا کی کے اور کسی بات سے تعلق ہی نہیں.اور اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اللہ اپنی تمام گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ ایک ذات پاک ایسی بھی ہے جو جھوٹوں اور بچوں میں فرق کر دکھلاتی ہے اور وہ جو بدی اور بدذاتی کرتا ہے اپنے کئے کی سزا کو پہنچتا ہے اور شریر اپنی شرارت کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے.مگر جبکہ برخلاف اس کے اس نے اس فیصلہ سے بھی انکار کیا اور لکھ دیا کہ مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں تو آج جبکہ حضرت صاحب فوت ہو گئے ہیں اس کا یہ دعوی کرنا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرنے کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں اور یہ میری سچائی کی دلیل ہے، کہاں تک انصاف پر مبنی ہے.“ ( تفخیذ الاذہان صفحہ ۵۹ بابت ماہ جون ، جولائی ۱۹۰۸ء) (۲).یہ جان بوجھ کر حضرت کی وفات کو اس دعا کی بناء پر قرار دیتا ہے کیونکہ باوجودا قرار کرنے کے کہ میں نے انکار کر دیا تھا پھر اپنی سچائی ظاہر کرتا ہے.کیا یہ اتنی بات سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ اس مباہلہ یا دعا کی ضرورت تو بچے اور جھوٹے کے فیصلہ کے لئے تھی.(ایضا صفہ ۱۶۳) (۳).اس وقت تو سچائی کے رعب میں آ کر اس نے حیلہ بازی سے اپنا سر عذاب الہی کے نیچے سے نکالنا چاہا مگر جب کہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بدل گیا تو اس نے اس
614 منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دوہرا نا شروع کر دیا.“ (ایضاً صفحه ۶۴) مندرجہ بالا تینوں اقتباسات سے صاف طور پر عیاں ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے اشتہار ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء کو مسودہ اور دعائے مباہلہ ہی قرار دیا ہے اور ثناء اللہ کے انکار کو انکار مباہلہ کے لقب سے موسوم کیا ہے.پس ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ حضرت نے اس کو دعائے مباہلہ قرار نہیں دیا سرتا سر دھوکہ ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حافظ محمد حسن مرحوم اہلحدیث لاہور کے مطالبہ کے جواب میں مندرجہ ذیل حلفی بیان دیا:.د میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں کہ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ پر اس اعلان کے مطابق آتے جو آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے خلاف ۱۹۰۷ء میں کیا تھا تو وہ ضرور ہلاک ہوتے ، اور مجھے یہ یقین ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کی وفات پر جو میں نے مضمون لکھا تھا اس میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے متعلق جو کچھ حضرت مسیح موعود نے لکھا تھا وہ دعاء مباہلہ تھی.پس چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کے مقابل پر دعا نہیں کی بلکہ اس کے مطابق فیصلہ چاہنے سے انکار کر دیا وہ مباہلہ کی صورت میں تبدیل نہ ہوئی اور مولوی صاحب عذاب سے ایک مدت کے لئے بچ گئے.میری اس تحریر کے شاہد میری کتاب ”صاقوں کی روشنی از حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفتہ المسیح الثانی ( ایڈیشن اول ۲ جولائی ۱۹۰۸ء شائع شدہ) کے یہ فقرات ہیں :.مگر جب کہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بدل گیا تو اس نے منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دہرانا شروع کر دیا.نیز اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اللہ اپنی گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا.“ ( صادقوں کی روشنی صفحہ ۳۰) غرض میرا یہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود کی دعا دعاء مباہلہ تھی لیکن بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا وہ دعاء مباہلہ نہیں تھی اور اللہ تعالیٰ نے عذاب کے طریق کو بدل دیا.“ خاکسار مرزا محمود احمد ۱۶۳
615 جملہ خبریہ مولوی ثناء اللہ صاحب کہا کرتے ہیں کہ آخری فیصلہ“ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۷۹ از الشركة الاسلامیۃ ) کے اشتہار میں سب جملے خبر یہ ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اشتہار بطور پیشگوئی کے ہے.نیز حضرت کا الہام ہے اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ الہام مورخه ۱۳ اپریل ۱۹۰۷ ء تذکره صفحه ۲۴ مطبوع ۲۰۰۴، مطبوعہ بدر جلد ۶ نمبر ۱۶- ۱۸ اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۳ والحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۷ صفحه ۲) ا.اس کا جواب یہ ہے جب حضرت نے اس میں صاف طور پر لکھدیا ہے کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں محض دعا کے طور پر میں نے فیصلہ چاہا ہے.پھر اس کو کس طرح پیشگوئی قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور پھر دعا کو ”جملہ خبریہ قرار دینا بھی شاء اللہ جیسے عالم کے سوا اور کسی کا کام نہیں کیونکہ دعا کبھی جملہ خبریہ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہمیشہ ”جملہ انشائیہ ہوتا ہے.۲.حضرت کا الہام أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ...اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ اس دعا کے متعلق ہے تو پھر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ جیسا کہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ دعائے مباہلہ تھی جس کا نتیجہ اس صورت میں نکلنا تھا کہ فریقین اس پر متفق ہو جاتے اور اس کی منظوری کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ اگر فریق ثانی نے اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیا تو یقیناً یقیناًوہ ہلاک ہو جائے گا.جیسا کہ آنحضرت نے نجران کے مفرور عیسائیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَى النَّصَارَى كُلِّهِمْ حَتَّى يَهْلِكُوا ( تفسیر کبیر رازی زیر آیت نمبر ۶۲ سورۃ آل عمران) گویا آنحضرت کی طرف سے جو دعا لعنَتَ اللهِ عَلَى الكَذِبِينَ (آل عمران : ۶۲) قرآن مجید میں مذکور ہے اس کو اللہ تعالی نے قبول فرما لیا.اور اگر عیسائی اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیتے تو وہ یقیناً یقیناً ہلاک ہو جاتے.لطیفہ ثناء اللہ :.آپ لوگ تو مجھ کو ابوجہل کہا کرتے ہیں.خدا نے مرزا صاحب کی دعا کے اثر کو ابو جہل کی خواہش کے مطابق کیوں بدل دیا ؟ ابو جہل تو آنحضرت سے پہلے مر گیا تھا.احمدی:.اگر محض یہ دعا ہوتی تو نہ گلتی.وہ دعائے مباہلہ تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق بچے کے بالمقابل جھوٹے فریق کی منظوری بھی ضروری ہے (جس کی تفصیل او پر مذکور ہے ) لیکن ابو جہل اول نے تو بددعا کی تھی کہ اے اللہ اگر آنحضرت سچے ہیں تو مجھ کو ہلاک کر.اس سے وہ ہلاک ہو گیا تم بھی ذرا اسی قسم کی بددعا کرو، پھر اگر بچ جاؤ تو ہم تمہیں ابوجہل نہیں کہیں گے.تم
616 ’ابوجہل“ کے لقب پر فخر کیا کرتے ہو، ذرا ابو جہل کی مماثلت کو پورا بھی کرو تو بات ہے.بددعا کر کے پھر بیچ کر یہ ثابت کیوں نہیں کر دیتے کہ درحقیقت تم ابو جہل نہیں ہو؟ ایک اور ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک مولوی ثناء اللہ اشتہار آخری فیصلہ کو دعائے مباہلہ “ اور ”مسودہ مباہلہ ہی سمجھتارہا.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء( تاریخ دعا) سے ایک سال کا عرصہ گزر گیا تو حضرت مسیح موعود کی وفات سے چند دن پہلے اپنے ایک مضمون میں جو مرقع قادیانی میں پہلی جون کو چھپا لکھتا ہے :.”مرزائی جماعت کے جوشیلے ممبرو! اب کس وقت کے منتظر ہو.تمہارے پیر مغاں کی مقرر کردہ مباہلہ کی میعاد کا زمانہ تو گزر گیا.(مرقع قادیانی یکم جون ۱۹۰۸ء صفحه ۱۸) گویا وہ اس اشتہار کو دعا مباہلہ ہی قرار دیتا ہے مگر کہتا ہے کہ دیکھ لو میں ایک سال میں نہیں مرا اور نہ مرزا صاحب فوت ہوئے.لہذا وہ دعا بے اثر گئی لیکن جب بعد ازاں حضور فوت ہو گئے تو جھٹ کہنے لگ گیا کہ مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا صاحب فوت ہوئے ہیں.اس پر جب اسے پکڑا گیا کہ مباہلہ تو اس صورت میں ہوتا کہ تم بھی اس کا اقرار کر کے بددعا کرتے ،تو ( اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے ) جھٹ پینترا بدلا.اور اب یہ کہتا ہے کہ وہ مباہلہ کی دعا نہیں تھی، بلکہ یک طرفہ دعا تھی.سچ ہے جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں.بد گمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کر دیا ور نہ تھے میری صداقت پر برا ہیں بیشمار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۱ و در نشین اردو صفحه ۱۲۰) ۴.اپنی عمر کے متعلق پیشگوئی حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے فرمایا: - ثَمَانِينَ حَوْلًا أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ (الهام ۱۸۲۵ء متذکره صفحه ۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) کہ تیری عمر اسی برس یا اس کے قریب ہوگی حضور فرماتے ہیں.” جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر اور چھیاسی کے اندراندر عمر کی تعین کرتے ہیں.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۱۳۱)
پھر حضور کو الہام ہوا:.617 اسی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم “ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۰) چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود ساڑھے پچھتر ( پ ۷۵ ) سال کی عمر میں فوت ہوئے.طرز تحقیق کسی کی عمر کا ٹھیک ٹھیک حساب لگانے کے لئے دو باتوں کا علم ضروری ہے:.(۱) تاریخ پیدائش.(۲) تاریخ وفات حضرت اقدس کی تاریخ وفات ۲۴ / ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء ہے.مگر حضور کی تاریخ پیدائش حضرت کی کسی کتاب میں درج نہیں.کیونکہ حضور کی پیدائش جس زمانہ میں ہوئی اس میں پیدائش کی یاداشت رکھنے کا دستور نہ تھا اور نہ کوئی سرکاری رجسٹر تھے جن میں اس کا اندراج ہوتا.یہی وجہ ہے کہ محض اندازوں کے باعث حضرت صاحب کی عمر کے متعلق متعدد تحریرات میں مختلف اندازے لکھے ہوئے ہیں.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اب اس وقت تک جوسن ہجری ۱۳۲۳ ہے میری عمر ستر (۷۰) برس کے قریب ہے وَاللهُ اعْلَمُ“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۵) پس معلوم ہوا کہ حضور کی تاریخ پیدائش محفوظ نہیں.بائیں بعض ایسے قرائن اور تعیینیں حضرت کے ملفوظات میں موجود ہیں جن سے صحیح اور پکا اور پختہ علم حضور کی تاریخ پیدائش کا ہو جاتا ہے.چنانچہ از روئے حساب حضور کی تاریخ پیدائش ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعه ثابت ہوتی ہے جس کے لئے جو دلائل ہیں ان کو درج ذیل کیا جاتا ہے.اندازہ عمر میں اختلاف لیکن پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ عمر کے اندازہ میں اختلاف کوئی قابل اعتراض چیز نہیں.ایسا اختلاف ابتداء سے ہی چلا آتا ہے.چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کے اندازے
618 میں بھی اختلاف ہے.ملاحظہ ہو:.بعض ساٹھ برس کی اور بعض باسٹھ برس چھ مہینے کی اور بعض پینسٹھ برس کی کہتے ہیں مگر ارباب تحقیق تریسٹھ برس کی لکھتے ہیں.“ (تفريح الاذكياء في احوال الانبياء باب تتمة در احوال جناب رسالتمآب جلد ۲ صفحہ ۳۳۰، ۳۳۱ مطبع نولکشور لکھنو) اب دیکھ لو کہ باوجود اس کے کہ آنحضرت کی پیدائش کے تمام حالات محفوظ ہیں پھر بھی حضور کی تاریخ ولادت کے متعلق اختلاف ہے اور یہ محض اندازہ کے باعث ہے.پس اسی قسم کا اختلاف حضرت اقدس کی عمر کے متعلق بھی ہے.اور مختلف مقامات پر محض انداز اعمر لکھی گئی ہے جو حساب کر کے اور گن کر نہیں بتائی گئی، جیسے عام طریق ہے کہ عمر کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ فلاں کی عمر ۶۰.۷۰ کی ہوگی.وہ ۷۰ ۸۰ کا ہے میری عمر ۴۰ - ۴۵ سال کی ہے.اب خواہ ۵ ۱۰ سال کا اختلاف کتنا اہم ہو پھر بھی طریق کلام یہی ہے.پس محض اسی قسم کے اندازہ کو بطور دلیل پیش کرنا اور تناقض قرار دے کر اس پر اعتراض کرنا نادانی ہے.تاریخ پیدائش کی تعیین ہم نے حضرت کی جو تاریخ ولادت لکھی ہے اس کے لئے مندرجہ ذیل دلائل ہیں.حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں:.(۱) عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے.“ (تحفہ گولڑو یه صفحه ۱۰۰ حاشیه طبع اول) (۲) ”میری پیدائش کا مہینہ پھاگن تھا.چاند کی چودھویں تاریخ تھی، جمعہ کا دن تھا اور چھپلی رات کا وقت تھا.“ ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب صفحه ۲۳۸ و صفحه ۲۳۹) اب مندرجہ بالا قطعی اور یقینی تعین سے کہ جس میں کسی غلطی یا غلط نہی کی گنجائش نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا از روئے حساب معلوم کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ پھاگن کے مہینہ میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ مندرجہ ذیل سالوں میں جمع ہوئیں:.( تفصیل اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو )
619 تاریخ انگریزی تاریخ اسلامی (چاند) دان تاریخ ہندی ۱۸۳۱۷ ۴ فروری سه ۲۰ شعبان سلام جمعہ کے بھاگن شتدا بگرم تقویم عمری ایک سو پچیس برس کی جنتری طلا مرتبہ میاں معراج الدین عمر معراج منزل نولکھا لاہور ار فروری ۱۳ ۱۴ رمضان شاه جمعہ یکم بھاگن شما بگرم ۱۸۳۳ ۱۷ رمضان ۱۳۴۵ جمعه ۴ پھاگن منتشله بگرم ۱۸ فروری ۲۸ فروری ۳ ماه ۱۸ر شوال ۱۳۳۶ جمعه ۵ پھاگن 1 بگرم ۱۳ فروری ۳۵ مه ۱۴ شوال ۱۳ جمعه یکم بھاگن بالله بجرم ۲۵ فروری ۳ ماه ۱۷ شوال اشاره جمعہ اور پھاگن ۱۹۹۳ بگرم ۲۳ فروری ما HAPS - ١٨٩٣ بگرم مار ذیقعد ۱۳۵۷ جمعه ۴ - بھاگن.فروری ۳دلار ۲۰ ذیقعد ۱۲۵۳ء جمعہ ، بھاگن شاشه بگرم یکم فروری شسشاه ۱۵ ذیقعد ۵۱۶۵۳ جمعه ۳- پھاگن ۹۵ بگرم ۲۱ فروری ته ارزی الحج ۱۲۵۵ جمعه بھاگن ۱۹۹۶مه بگرم التوفیقات العامیہ مصری از محمد مختار باشا مصری صفحه ۶۲۲ و صفحه ۶۲۸) + مری = 1-9 • ١١٣ 114 114.ام 119 ۱۷ فروری ساته - دار رمضان ۱۳۴۵ مو جمعہ یکم بھاگی مته کبری (التوفيقات الهامیه از محمد مختار پاشا مصری ۳۲۰ ) ۲۱ فروری نشسته و ارذی الحج شاه جمعه ۴۰ پھاگن یکری درر ' =
620 دیکھو توفیقات الہامیہ مصری و تقویم عمری ہندی) اس نقشہ سے صاف طور معلوم ہو جاتا ہے کہ ماہ پھاگن میں جمعہ کو چاند کی چودھویں تاریخ صرف دو سالوں میں آئی.(۱) ۱۷ / فروری ۱۸۳۲ء (۲) ۱۳/ فروری ۱۸۳۵ء مطابق ۱۴/شوال ۱۲۵۰ ھ ہجری.ست ہے.اب حضرت مسیح موعود کی دوسری تحریرات کو دیکھیں تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہی تاریخ یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سونوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ پاچکا تھا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۸) گویا ٹھیک ۱۲۹۰ھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سلسلہ وحی والہام شروع ہوا اس وقت حضور ”جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے کی عمر کتنی تھی ؟ فرماتے ہیں:.مشرف کیا.“ پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں: تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳ ۲۸) تھا برس چالیس کا میں اس مسافرخانہ میں جبکہ میں نے وحی ربانی سے پایا افتخار براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۵) پس ثابت ہوا کہ ۱۲۹۰ھ میں حضور کی عمر ۴۰ برس تھی.۱۲۹۰-۴۰ = ۱۲۵۰.پس حضور کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ ھ ثابت ہوا.غرضیکہ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ حضرت اقدس کی تاریخ ولادت ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ ہے.حضرت کی وفات ۲۴ / ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی.اب ۱۳۲۶-۱۲۵۰ = ۶ ۷ سال.گویا حضور کی عمر ۷۵ سال ۶ مہینے اور ا دن ہوئی.جو عین پیشگوئی کے مطابق ہے.
621 ایک دھوکا بعض مخالفین حضرت اقدس کی بعض ایسی تحریرات پیش کر کے دھوکا دیا کرتے ہیں جن میں حضور نے تحریر فرمایا ہے کہ میں چودھویں صدی کے سر پر آیا اور اس سے مراد۱۳۰۰ھ لیتے ہیں.حالانکہ یہ غلط ہے ”صدی کے سر سے مراد صدی کے پہلے سال کے شروع ہونے سے دس سال پہلے یا ۲۰،۱۰ سال بعد تک کا زمانہ ہوتا ہے، یعنی جب پہلی صدی کے ۹۰،۸۰ سال گزر جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انگلی صدی کا سرا آ پہنچا ہے.اور جب اگلی صدی میں سے ۱۵،۱۰ سال گزر جاتے ہیں تب بھی وہ اس صدی کا سر ہی کہلاتا ہے کیونکہ یہی طریق کلام ہے کہ جب حساب رہا کوں کا ہو تو کسور حذف ہو جاتی ہیں یعنی ایک سے ۹ تک اور جب حساب صدیوں کا ہو تو اس کی کسور دہاکے ہوتے ہیں جو حذف کر دیے جاتے ہیں اور ہزاروں کے حساب میں کسور صدیاں ہوتی ہیں.چنانچہ دیکھ لو آ نحضرت نے فرمایا تھا.أَخْبَرَنِي إِنَّ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَ مِائَةَ سَنَةٍ وَلَا أَرَانِي إِلَّا ذَاهِبًا عَلَى رَأْسِ الستين ( الكرامه صفر ۳۸ از نواب حمد صدیق حسن خانصاحب مطلب شاہجہانی بھوپال ) کہ میں۶۰ سال کے سر پر ۴۲۸ پہنچوں گا.اب حضور کی عمر پورے ۶۰ سال کی نہیں تھی بلکہ ۶۳ ، ۶۵ سال تھی.جیسا کہ (تفریح الاذكياء في احوال الانبياء جلد۲ صفحہ ۳۰) کے حوالہ سے اوپر درج ہو چکا ہے اب ۶۳ یا ۶۵ کو بھی ۶۰ کا ”سر ہی کہیں گے کیونکہ اہل عرب میں کسور حذف کر دیئے جاتے ہیں.۲.اسی طرح سے نبر اس شرح عقائد نسفی صفحہ ۵۸۷ پر ہے وَ جَاءَ فِي رَوَايَةٍ أَنَّهُ يَمُكُتُ خَمْسًا وَّ أَرْبَعِينَ.....فَلَا يُنَافِيهِ حَدِيثُ اَرْبَعِينَ لأَنَّ النَّيْفَ كَثِيرًا مَا يُحْذَفُ “ کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ امام مہدی ۴۵ سال زندہ رہے گا.یہ دوسری حدیث کے جس میں ۴۰ برس آتا ہے خلاف نہیں کیونکہ عام طور پر کسور کو رہا کوں میں سے حذف کر دیا جاتا ہے..نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں:.اولیت مائة تا بست و پنج سال از آغاز هر مائة محتمل است بلکه تا نصف مائة “ ( حج الكرامه صفحه ۱۳۴ مطبع شاہجہانی بھوپال ) ” کہ صدی کے سر سے مراد صدی کے شروع ہونے سے ۲۵ سال تک بلکہ ۵۰ سال تک ہوسکتی ہے.غرضیکہ حضرت اقدس نے جس جس جگہ چودھویں صدی کے سر پر اپنا ظاہر ہونا یا آنا لکھا ہے تو اس سے مراد۱۲۹۰ھ ہی ہے نہ کہ ٹھیک ٹھیک ۱۳۰۰ھ.پس اس دھوکہ سے بچنا چاہیے.
622 دیگر اندازی جیسا کہ اوپر درج ہوا حضرت اقدس کی تاریخ پیدائش کی تعیین ہو جانے کے باعث حضرت کی عمر ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگئی کہ عین پیشگوئی کے مطابق تھی لیکن چونکہ بعض تحریرات مخالفین اس قسم کی پیش کیا کرتے ہیں جن میں محض اندازہ کی بناء پر عمر بیان کی گئی ہے اور وہ بوجہ اندازے ہونے کے حجت اور دلیل نہیں بن سکتے.لیکن یہ بتانے کے لئے کہ محض اندازے کی بناء پر جو عمر بتائی جائے وہ قطعی اور یقینی نہیں ہوتی خود حضرت اقدس کی بعض تحریرات پیش کی جاتی ہیں جن سے حضرت اقدس کی عمر حضور کی تاریخ وفات تک ۷۴ اور ۷۶ کے درمیان ہی ثابت ہوتی ہے.ا.”میری طرف سے ۲۳ / اگست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا جس میں یہ فقرہ ہے کہ میں عمر میں ستر ۷۰ برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس (۵۰) برس کا جوان ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۶ حاشیه ومجموعه اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۶۴ حاشیہ اشتہار مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۲ء) گویا ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء کو حضرت کی عمر ۷۰ کے قریب تھی اس کے ۵ سال بعد ۱۹۰۸ء میں حضور فوت ہوئے، تو بوقت وفات آپ کی عمر ۷۵ سال کے قریب ثابت ہوئی اور قمری لحاظ سے ے ے برس.۲.الف.” مجھے دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے.اس کی عمر تو میری عمر کے برابرتھی یعنی قریب ۶۴ سال کے.اگر شک ہو تو اس کی پینشن کے کاغذات دفتر سر کاری میں دیکھ لو.“ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۰۹) ب آتھم کی عمر قریباً میرے برابر تھی.( انجام آنقم.روحانی خزائن جلدا اصفہے حاشیہ ) ج.مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور فوت ہو گئے.“ ( انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ) گویا حضرت کی عمر بوقت وفات ۶۴ + ۱۲= ۶ ۷ گویا قریباً سال ہوئی.نوٹ: بعض لوگ اخبار بدر ۸ر گست ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ کالم نمبر۳ کا حوالہ دے کر یہ مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ گویا اس حوالہ میں حضرت مرزا صاحب ( مسیح موعود ) نے کتاب اعجاز احمدی کی تصنیف کے وقت جو آپ کی عمر تھی اس کا مقابلہ عبداللہ تھم کی عمر سے کیا ہے.“
623 حالانکہ خوب اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بالکل غلط ہے.حضرت اقدس کی ایک دوسری تحریر اس بات کو بالکل واضح کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود آتھم کی زندگی میں ہی آتھم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ اگر آپ چونسٹھ (۶۴) برس کے ہیں، تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ (۶۰) کے ہو چکی.“ (اشتہار ۵ را کتوبر ۱۸۹۴ء- منقول از تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۶۰ بار اول.مجموعہ اشتہارات جلد ۸۹) گویا اس حساب سے ۱۸۹۴ء میں حضرت کی عمر قریباً 4 تھی ، اس کے ۱۴ سال بعد ۱۹۰۸ء میں آپ فوت ہوئے.۶۰ + ۱۴ = ۷۴ اور قمری ۷۶.گویا حضرت مسیح موعود کی عمر عبداللہ آ قم کی عمر کے مطابق حساب کی رو سے کم سے کم ۷۴ سال بنتی ہے جو عین پیشگوئی کے مطابق ہے اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں اعجاز احمدی کی تصنیف کے وقت آپ کی عمر قریباً ۶۸ سال تھی نہ کہ ۶۴ سال، جیسا کہ مخالفین بدر کی عبارت پیش کر کے دھوکہ دینا چاہتے ہیں..حضرت اقدس نے اپنی کتاب نصرة الحق ۱۹۰۵ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷ میں ی تحریر فرما کر کہ خدا نے مجھے بتایا کہ میری عمر۸۰ سے پانچ سال کم و بیش ہوگی.فرماتے ہیں:.اب میری عمر ستر ۷۰ برس کے قریب ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۵۸) اس کے تین سال بعد آپ فوت ہوئے تو اس لحاظ سے آپکی عمر سے سال کے قریب اور قمری لحاظ سے ۷۵ سال کے قریب ثابت ہوئی.مخالفین کی شہادت ا.ظفر علی خان آف زمیندار کے والد مولوی سراج الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود کی وفات پر لکھا:.”مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ۲۳۰ سال کی ہوگی.اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.“ (اخبار زمیندار ۸ جون ۱۹۰۸ صفحه ۵ بحواله عسل مصفی جلد ۲ صفحه ۶۳۴) ۲.مولوی ثناء اللہ امرتسری : ”مرزا صاحب.....کہہ چکے ہیں کہ میری موت عنقریب ۸۰ سال سے کچھ نیچے اوپر ہے جس کے سب زینے غالباً آپ طے کر چکے ہیں.“ اہلحدیث ۳ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۲)
624 اس تحریر کے پورا ایک سال بعد حضور فوت ہوئے..چنانچہ خود مرزا صاحب کی عمر بقول اس کے ۷۵ سال کی ہوئی.“ اہلحد بیث ۲۱ جولائی ۱۹۰۸ ، صفحہ ۳ کالم نمبر ۲) ۴.مرزا صاحب رسالہ اعجاز احمدی میں عبد اللہ آتھم....عیسائی کی بابت لکھتے ہیں.اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے.“ ( اعجاز احمدی صفحہ ۳) اس عبارت سے پایا جاتا ہے کہ عبد اللہ آتھم کی موت کے وقت مرزا صاحب کی عمر ۶۴ سال کی تھی.آئیے اب ہم تحقیق کریں کہ آتھم کب مرا تھا؟ شکر ہے کہ اس کی موت کی تاریخ بھی مرزا صاحب کی تحریروں میں پائی جاتی ہے.مرزا صاحب رسالہ انجام آتھم صفحہ ا.روحانی خزائن جلدا اصفحہ پر لکھتے ہیں.چونکہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور فوت ہو گئے.“ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ۱۸۹۶ء میں مرزا صاحب کی عمر ۶۴ سال کے قریب تھی.بہت خوب ! آئیے اب یہ معلوم کریں کہ آج ۱۹۰۸ء میں ۱۸۹۶ء کو گزرے ہوئے کتنے سال ہوئے.ہمارے حساب میں (اگر کوئی مرزائی غلطی نہ نکالے تو ) گیارہ سال ہوتے ہیں.بہت اچھا ۶۴ کے ساتھ اا کو ملانے سے ۷۵ سال ہوتے ہیں.تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی عمر آج کل ۷۵ سال ہے.“ ( مرقع قادیانی فروری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۲) گویا فروری ۱۹۰۸ء میں حضرت کی عمر بقول ثناء اللہ ۷۵ سال تھی، اس کے تین مہینے بعد حضور فوت ہوئے تو حضرت کی عمر بہر حال مذکورہ بالا عمر سے زیادہ ہی ہوگی کم تو نہیں ہوسکتی جیسا کہ اب ثناء اللہ اور دوسرے دشمن کہتے ہیں.” جو شخص ستر برس سے متجاوز ہو ( جیسے خود بدولت بھی ہیں ) ( مرزا صاحب.خادم ) ( تفسیر ثنائی مطبوعہ ۱۸۹۹ء حاشیہ نمبر ۴ بر آیت انّی مُتَوَقِيكَ (آل عمران : ۵۶) جلد دوم) گویا ۱۸۹۹ء میں حضرت کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ تھی.۱۹۰۸ء میں یعنی 9 سال بعد آپ فوت ہوئے تو اس حساب سے حضور کی عمر ۷۹ سال سے زیادہ ثابت ہوئی.۶.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۵ نمبر ۸صفحہ ۱۹۱.۱۸۹۳ء میں حضرت کے متعلق سخت غصہ میں آکر لکھتا ہے : ۶۳ برس کا تو وہ ہو چکا ہے.“ اس کے بعد حضرت اقدس ۱۴ برس زندہ رہے.گویا ۶۳ + ۱۴=۷۷ سال ہوئی اور یہ امر خاص طور پر یا درکھنے کے لائق ہے کہ حضرت مسیح موعود کی عمر کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی کی یہ شہادت جو اس نے حضرت کی وفات
625 سے قبل دی بمقابلہ مخالفین سب سے زیادہ قابل استناد ہے.کیونکہ وہ حضرت کا بچپن سے دوست اور ہم مکتب بھی تھا چنانچہ وہ خود لکھتا ہے:.مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے ( جب ہم قطبی اور شرح ملا پڑھا کرتے تھے ) ہمارے ہم مکتب بھی ہیں.“ (اشاعۃ السنۃ جلدے نمبر ۶ تا ۱۱.بابت سال ۱۸۸۴ء صفحه ۱۷۰،۱۶۹) ایک اعتراض اور اس کا جواب بعض مخالفین نے اعتراض کیا ہے کہ جب حضرت اقدس کی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں تو پھر عمر کی پیشگوئی دلیل صداقت کیونکر ہوسکتی ہے کیونکہ اس کا صدق و کذب معلوم نہیں ہوسکتا.جواب:.ا.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس ہی کے ملفوظات میں ایسے قرائن جمع کرا دیئے تھے کہ جن سے تاریخ پیدائش معلوم ہو کر تم پر حجت ہو سکتی تھی.چنانچہ اب جبکہ تاریخ پیدائش تحقیق کے رو سے معین ہوگئی تو تمہارا اعتراض بھی ساتھ ہی اڑ گیا.۲.اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ فرض کرو کہ تاریخ پیدائش معین نہ بھی ہوتی پھر بھی یہ پیشگوئی دلیل صداقت تھی.وہ اس طرح کہ :.(۱) مخالفین احمدیت مثلاً مولوی ثناء اللہ امرتسری و مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کی شہادت غیر احمد یوں پر حجت ہے.(۲) یہ بات کہ حضور کی عمر چہتر (۷۶) اور چھیاسی (۸۶) کے درمیان ہوگی، الہام الہی کی بناء پر معلوم ہوئی ہے.اب حضرت اقدس کی وفات کے متعلق بھی الہامات الہی بکثرت موجود ہیں جن کے عین مطابق حضور فوت ہوئے مثلاً الف.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دسمبر ۱۹۰۵ء میں الوصیت شائع فرماتے ہیں اور اس لکھتے ہیں کہ مجھے الہام ہوا قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ جَاءَ وَقْتُكَ» (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۱) یعنی تیر اوقت وفات قریب آ گیا اور تیری عمر کی میعاد جو مقرر کی گئی تھی اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا.گویا اللہ تعالیٰ نے صاف بتا دیا کہ ۴ے سال سے متجاوز عمر پانے کی جو پیشگوئی حضور نے کی
626 تھی اس کے مطابق حضور کی عمر پوری ہو گئی.اب تم اس الہام کو مانو یا نہ مانو، بہر حال اتنا تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک تو آپ کی وفات عین پیشگوئی کے مطابق ۷۴ اور ۷۶ سال کے اندراندر ہوئی.ب.پھر حضور فرماتے ہیں: رویا:.” ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے.پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفی اور مقطر پانی ہے اس کے ساتھ الہام تھا.آب زندگی.“ ریویو آف ریلیجنز اردو جلد نمبر ۱ ص ۴۸۰ ماه دسمبر ۱۹۰۵ء و تذکره صفحه ۵۷۳ ایڈیشن سوم مطبوعه ۱۹۶۹ء الشركة الاسلامیہ ربوہ ) اس میں دو تین گھونٹ‘ زندگی کا پانی باقی رہنا بتایا گیا ہے سو اس کے مطابق پورے اڑھائی سال بعد حضرت اقدس فوت ہوئے.غرضیکہ جس ملہم نے یہ بتایا کہ آپ کی عمر ۷۴-۷۶ کے درمیان ہوگی اسی ملہم نے وفات کے قریب بتادیا کہ وہ میعا داب قریب الاختتام ہے اور اب اس میں دو تین سال رہ گئے ہیں.سو اس کے مطابق عین پ دے سال کی عمر میں حضور کی وفات ہوئی.ایک شبہ کا ازالہ بعض مخالفین یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ الہام جو یا.یا“ کا لفظ آتا ہے کہ ” اسی سال یا اس سے چار پانچ سال کم یا چار پانچ سال زیادہ.یہ تکلم کے دل میں شک اور شبہ پر دلالت کرتا ہے.کیا اللہ تعالی کو صحیح علم نہ تھا ؟ الجواب :.اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوتو صحیح صحیح معلوم تھا، لیکن عمر کی تعین کر کے اس کو معین طور پر ظاہر کرنا مناسب نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ عبدالحکیم مرتد اور ثناء اللہ جیسے دشمنوں کے ساتھ حضرت اقدس کا مقابلہ ہوگا اور حضور کی وفات کے متعلق من گھڑت پیشگوئیاں شائع کر دیں گے.اور اس طرح سے حق مشتبہ ہو جائے گا.چنانچہ عبد الحکیم مرتد نے اسی دو تین گھونٹ پانی والے رویا کے شائع ہونے پر جھٹ تین سال کی میعاد لگا کر پیشگوئی کر دی.سو اللہ تعالیٰ کی حکمت نے بجائے کوئی سال وفات کے لئے معین کرنے کے آپ کی عمر کی پہلی اور آخری حد بتادی تا کہ مخالفین کو جھوٹا کرنے کی گنجائش رہے.اسی طرح مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۵۷۹ از الشرکة الاسلامیۃ ) بھی حضور نے تحریر فرمایا.اب مولوی ثناء اللہ صاحب اگر مباہلہ پر آمادہ ہوتے تو یقینا اللہ تعالی حضرت اقدس کو اور عمر دیتا اور مولوی ثناء اللہ کو حضور کی زندگی ہی میں موت دیتا.پس’یا.یا‘“ کے الفاظ
627 یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ملہم کو شبہ ہے بلکہ اس کے برعکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملہم کو حضرت کی وفات سے ۳۰ سال قبل ہی آپ کی وفات کے قریب کے حالات کا علم تھا کہ دشمن کس طرح آپ کے الہامات سے پیشگوئیاں اڑا کر حضور علیہ السلام کی وفات کو اپنی پیشگوئی کا نتیجہ قرار دے کر حق کو مشتبہ کرنے کی ناپاک کوشش کریں گے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نَزیدُ عُمُرَکَ.(بدرجلد۲ نمبر۴۳ مورخه ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۳) کے الہام کے لئے بھی گنجائش رکھ لی..یا.یا‘ کا لفظ کئی دفعہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی آجایا کرتا ہے.اور اس میں کوئی حکمت ہوتی ہے.چنانچہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے.اِمانُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نتَوَفَّيَنَّكَ (يونس: ۴۷ ) کہ اے نبی ! یا تو ہم آپ کو آپ کی بعض پیشگوئیاں پوری ہوتی دکھا دیں گے یا آپ کو وفات دے دیں گے.۳.قرآن مجید میں ہے: "وَاخَرُونَ مُرْجَونَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيم " (التوبة: ١٠٦) کہ کچھ اور بھی ہیں ( یعنی وہ تین صحابہ کعب بن مالک.ہلال بن امیہ اور مرارۃ بن الربیع ) جو جنگ تبوک میں جانے سے پیچھے رہ گئے تھے.خدا تعالیٰ کے حکم کی انتظار میں.جن کا معاملہ تاخیر میں ڈالا گیا تھا.اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دے گا یا معاف فرما دے گا.اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے.اس آیت میں بھی دیا.یا “ آیا ہے.اس کے متعلق تفسیر حسینی میں لکھا ہے :.” یا عذاب کرے گا اللہ ان پر اگر وہ اس گناہ پر اڑے رہیں گے...اور یا تو بہ دے گا انہیں اگر نادم ہوں گے اس کام سے.یہ تر دید یعنی یہ یا یہ کہنا بندوں کے واسطے ہے.ورنہ اللہ کے نزدیک تردید نہیں.“ تفسیر قادری زیر آیت وَ اخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِامْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ (التوبة:۱۰۶) تفسیر حسینی فارسی زیر آیت وَ اخَرُونَ مُرْجَوْنَ لأمر الله....التوبة : ١٠٦) یعنی اللہ تعالیٰ کو تیجہ کا علم تھا.مگر اللہ تعالیٰ چونکہ لوگوں کوتر ڈر میں رکھنا چاہتا تھا اس لئے یا کا لفظ استعمال کیا گیا.یہی حال یہاں ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ عبدالحکیم اور الہی بخش وغیرہ دشمنوں سے حضرت مسیح موعود کے وقت وفات کو مصلی مخفی رکھنا چاہتا تھا تا کہ وہ کوئی جھوٹی پیشگوئی بنا کر حق کو مشتبہ نہ کرسکیں.اس لئے او“ کا لفظ رکھا گیا.پس محض لفظ یا “ کی بناپر اللہ تعالی پر اعتراض کرنا نادانی ہے.
628 نوٹ:.یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الحکم صفحہ ۱۵ کالم نمبرا مورخہ ۱۷.۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء میں یہ فرمایا ہے کہ میں نے کسی بزرگ سے دعا کروا کے ۱۵ سال عمر بڑھوالی ہے اور اب میری عمر ۹۵ سال ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نیقطعا عمر کا ۹۵ سال ہونا نہیں فرمایا بلکہ ایک خواب کا واقعہ بیان فرمایا ہے اور خواب تعبیر طلب ہے.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سونے کے کنگن پہنے کا خواب.اور حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب.(۲) مردان علی صاحب حیدر آبادی نے ۵ سال اپنی عمر کے کاٹ کر حضرت کے پیش کئے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حضرت نے اسے قبول فرما لیا تھا.کوئی شخص اپنی عمر کاٹ کر دوسرے کو نہیں دے سکتا ور نہ صحابہ اپنی زندگیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتے.مردان علی صاحب نے اپنے اخلاص کا اظہار اس طریق سے کیا.وہ حوالہ دکھاؤ جس میں حضرت نے یہ فرمایا ہو کہ میں نے مردان علی صاحب کی پیشکش کو منظور کر لیا.(۳) مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت اقدس کا خواب میں اصرار سے اپنی اس قدر عمر پانے کے لیے جو حضور کی جماعت کو مستحکم کرنے کے لیے کافی ہو، دعا کرانا.مگر حضرت مولوی صاحب مرحوم کا دعانہ کرنا اور بجائے دعا کے ہاتھ اوپر اٹھا کر اکیس اکیس کہتے جانا ( دیکھو تذکرۃ ایڈیشن اول صفحه ۵۲۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل ہے اور وہ اس طرح سے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی زبان سے بتادیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جماعت کے استحکام کے لئے کل ۲۱ سال ملیں گے.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت ۱۳۰۶ھ کے اوائل میں لی ہے اور وفات ۱۳۲۶ھ میں ہوئی.گویا آپ بیعت کے بعد ۲۱ سال تک اپنے سلسلہ کو مستحکم فرما کر تشریف لے گئے.عمر دنیا اور حضرت مسیح موعود کی بعثت مرزا صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب ہزار ہفتم سے گیارہ سال قبل پیدا ہوئے اور گیارہ برس کے اندر ہی آپ فوت ہوئے کیونکہ آپ کی وفات کے قریب کی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ ابھی ہزار ششم ختم نہیں ہوا.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۲۵۲ حاشیہ) الجواب: اس کے جواب کے لئے مندرجہ ذیل حوالہ جات یا درکھنے چاہئیں.
629 ا.حضرت مسیح موعود نے تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۲۴۷ بقیہ حاشیہ پر دیکھا ہے:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کے رُو سے ۴۷۳۹ برس بعد میں مبعوث ہوئے.آدم صفی اللہ کی پیدائش کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت تک یہی مدت گزری تھی یعنی ۴۷۳۹ برس بحساب قمری (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۴۷ بقیہ حاشیہ) ان دونوں حوالوں میں بعثت.” وقت اور ” زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش یا چالیس برس کی عمر نہیں، بلکہ وفات نبوی “ ہے.جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام محولہ بالا عبارتوں کے آگے چل کر فرماتے ہیں:.حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے...۳۹ ۴۷ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہیں.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۲۵۲٬۲۵۱) اس حساب کے رُو سے میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۲۵۲ حاشیہ ) ۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تحریر فرمایا ہے کہ مسیح موعود کی بعثت ہزار ششم کے آخر میں ہوئی.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۸۶) اس عبارت میں مسیح موعود کی بعثت سے مراد ماموریت نہیں بلکہ پیدائش ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.پیدائش مسیح موعود ہزارششم کے آخر میں ہے.“ (تحفہ گولڑو یہ.روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۲۸۶) ( نیز دیکھولیکچر سیالکوٹ صفحہ ۷ ایڈیشن اول نومبر ۱۹۰۲ء، حقیقۃ الوحی صفحه ۲۱ سطر وازالہ اوہام صفحه ۶۸ ایڈیشن اوّل) تحفہ گولڑویہ سے ہی ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہزار ششم ختم ہو گیا.بلکہ ہفتم میں سے بھی نصف صدی سے زائد آپ کی زندگی میں گزرچکی تھی.چنانچہ لکھتے ہیں:.مدت ہوئی کہ ہزار ششم گذر گیا اور اب قریباً پچاسواں سال اس پر زیادہ جارہا ہے.اور اب دنیا ہزار ہفتم کو بسر کر رہی ہے.“ (تحفہ گولڑوی.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۲۵۲ حاشیہ) ۴.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۳۶ میں جو حضور نے چھٹے ہزار کو جاری مانا ہے تو اس کا باعث یہ ہے کہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۲ پر جو حضرت مسیح موعود نے
630 آنحضرت صلعم کی وفات تک ۴۷۳۹ برس تحریر فرمائے ہیں تو یہ قرآنی حساب یعنی سورۃ والعصر کے حروف ابجد کی بناء پر ہے.ورنہ عام مروجہ اور مشہور تاریخیں جو عیسائیوں کے حساب کے مطابق ہیں.ان کی رو سے آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلعم کی وفات تک ۴۶۳۶ برس بنتے ہیں.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۲ ” عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائیل کا رکھا گیا ہے ۴۶۳۶ برس ہیں.یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک ۴۶۳۶ برس اس حساب سے ۱۹۰۶ء (۱۳۲۴ھ ) میں ۹۶۰ برس بنتے ہیں.یعنی ابھی چھٹا ہزار ہی جاری ثابت ہوتا ہے.پس چشمہ مسیحی میں حضرت اقدس نے عیسائیوں کا یہی مروجہ حساب مراد لیا ہے.سورۃ العصر کے حروف ابجد والا حساب مراد نہیں.( نیز دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰۱ ایڈیشن اوّل) اسی طرح حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: چونکہ عرب کی عادت میں یہ داخل ہے کہ وہ کسور کو حساب سے ساقط رکھتے ہیں اور مخل مطلب نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ سات ہزار سے اس قدر زیادہ بھی ہو جائے جو آٹھ ہزار تک نہ پہنچے.مثلاً دو تین سو برس اور زیادہ ہو جائیں.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۲۵۱ بقیہ حاشیہ ) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہل عرب کے جس قاعدہ کا ذکر کیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے:.وَ جَاءَ فِي رِوَايَةٍ إِنَّهُ يَمْكُتُ خَمْسًا وَ اَرْبَعِينَ.فَلَا يُنَا فِيْهِ حَدِيثُ أَرْبَعِينَ لَانَّ النَّيْفَ كَثِيرًا مَا يُحْذَقُ عَنِ الْعَشْرَاتِ.( نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی از علامہ محمد عبد العزیز الفرها روی صفحه ۵۸۷) کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ مسیح موعود دنیا میں ۴۵ سال رہے گا (مشکوۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عيسى فصل نمبر...پس یہ روایت اس حدیث کے مخالف نہیں ہے جس میں آتا ہے کہ وہ چالیس سال تک رہے گا.(در منثور زير آيتان من اهل الكتاب.النساء : ٢٠) کیونکہ عام طور پر کسر دہا کوں سے حذف کر دی جاتی ہے.پس اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.۵.منظور محمد صاحب کے ہاں بیٹا اعتراض: حضرت مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ میاں منظور صاحب کے گھر بیٹا ہوگا جس کا
631 نام بشیر الدولہ اور عالم کباب وغیرہ ہوگا.(تذکرہ ایڈیشن سوم صفحه ۵۹۸ وصفحه ۶۲۶) جواب: حضرت اقدس کے اصل الفاظ درج کئے جاتے ہیں :.۱۹ فروری ۱۹۰۶ء کو رؤیا دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے.تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا.بشیر الدولہ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے.معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے.“ ( بدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۲۳ فروری ۱۹۰۶ صفحه ۲ و مکاشفات صفحه ۴۹ از حضرت مسیح موعود و تذکره صفحه ۵۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء ) پس حضرت اقدس نے صاف فرما دیا ہے کہ منظور محمد کی تعیین نہیں کی جاسکتی.اور نہ الہاماً یہ تعیین کی گئی.اور حضرت اقدس نے ضروری قرار نہیں دیا کہ منظور محمد سے مراد میاں منظور محمد صاحب ہی ہوں.حقیقت یہ ہے کہ خواب ہے اور خواب میں نام صفات کے لحاظ سے بتائے جاتے ہیں.پس منظور محمد سے وہ شخص مراد ہے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے زیادہ منظور نظر اور محبوب ہے.ہاں ہاں جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسمُهُ اِسْمِي“ (اقتراب الساعة صفحه ۶ مطبوع نول کشور مطبع مفید عام الکائنہ فی آگر ہس) کا ارشاد فرمایا.وہی جس کو آپ نے اپنا سلام دیا.پس وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے خادم حضرت مسیح موعود ہی ہیں جنہوں نے فرمایا وَمَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِى وَمَا رَأى.(خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۹) پس اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعے یہ خبر دی تھی کہ وہ کلمتہ اللہ اور سلسلہ احمدیہ کی اقبال مندی کا نشان عنقریب اپنی عظیم الشان صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی وہ موعودہ صفات جو ۱۹۰۶ ء تک دنیا کی نظر سے مخفی تھیں اب ان کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے.چنانچہ ۱۹۰۶ ء ہی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنے سن بلوغ کو پہنچے.اور آپ نے رسالہ تشخید الاذہان جاری فرمایا.جس کی خوبیوں کا اعتراف مولوی محمدعلی صاحب ایم اے کو بھی کرنا پڑا.۱۹۱۴ء میں ۲۵ سال کی عمر میں آپ خلیفہ اسی ہوئے.اور اسی سال زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جنگ عظیم کی صورت میں پوری ہوئی.( تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ۵۹۹) ایک اور ثبوت پھر حضرت اقدس کے اس صریح ارشاد کے علاوہ کہ معلوم نہیں منظور محمد کے لفظ سے کس
632 طرف اشارہ ہے.( تذکرہ صفحہ ۵۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) بعض اور بھی قرائن ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ”عالم کباب (ایضاً صفحہ ۵۳۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) لڑکے سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہی ہیں نہ کوئی اور.ا.عالم کباب لڑکے کے مندرجہ ذیل نام اور صفات بیان کی گئی ہیں :.۴.کلمۃ اللہ.کلمۃ العزیز بشیر الدولہ ناصرالدین.فاتح الدین.شادی خاں هذَا يَوْمٌ مُبَارَكٌ تذکره ۵۳۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کی تشریح بھی فرمائی ہے:.(۱) بشیر الدولہ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لیے بشارت دینے والا ہوگا.اس کے پیدا ہونے کے بعد (یا اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد ) زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی اور گروہ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی.“ تذکره صفحه ۵۳۳ مطبوعه ۲۰۰۴ء) (۲) عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے.دنیا پر ایک سخت تبا ہی آئے گی.اس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالم کباب رکھا گیا.“ ( تذکره صفحه ۵۳۴ مطبوع ۲۰۰۴ء) غرضیکہ عالم کباب کی صفت بشیر الدولہ اور نصرالدین اور رحمت اللہ اور راح الدین سے سلسلہ کی ترقی کی بشارت ہے.اب دیکھئے بعینہ یہی صفات اور نام حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی مصلح موعود کے ہیں.ملاحظہ ہو:.٣.وہ کلمۃ اللہ ہے.(اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء و تذکره صفحه ۱۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) بشیر الدین وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا...وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کا رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.“ ( تذکره صفحه ۱۱۱۰۱۱۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء)
633 ود فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.(تذکرہ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۲ء) اب دیکھ لیجئے کہ بشیر الدولہ کے بالمقابل "بشیر الدین کلمۃ اللہ اور کلمۃ العزیز کے بالمقابل کلمۃ اللہ مصلح موعود خلیفتہ ایسیح الثانی کے نام ہیں، جماعت کی ترقی کے متعلق بعینہ ایک ہی قسم کے الفاظ دونوں کے متعلق ہیں.عالم کباب کا نام فاتح الدین“ ہے تو مصلح موعود کو فتح کی کلید قرار دیا گیا ہے.اگر عالم کباب کی آمد کو هَذَا يَوْمٌ مُبَارَک کہا ہے تو مصلح موعود کی بشارت میں دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه ( تذکرہ صفحہ ۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) فرمایا ہے اور اگر ”عالم کباب“ کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ وہ مخالفین و معاندین کے لیے عذاب الہی کا موجب ہوگا نیز فرمایا کہ وہ لڑکا نیکوں کے لیے اور اس سلسلہ کے لیے ایک سعد ستارہ کی طرح مگر بدوں کے لیے اس کے برخلاف ہوگا.( الحکم ارجون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱.البدر ۴ ارجون ۱۹۰۶ء صفحه ۲) تو بعینہ اسی طرح مصلح موعود کے متعلق فرمایا ہے کہ ”تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجاوے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے....اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے..جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.“ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء.و تذکره صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) غرضیکہ دونوں کے نام اور صفات ایک ہی ہیں.پس ثابت ہوا کہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں.ایک اعتراض بعض لوگ ریویو اور بدر کے حوالہ سے ایک ڈائری پیش کیا کرتے ہیں کہ گویا حضرت اقدس علیہ السلام نے الہاما منظور محد کی تعین فرما دی ہے اور اپنے قلم سے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ وہ لڑکا میاں منظور محمد صاحب کے ہاں ان کی بیوی محمدی بیگم کے پیٹ سے پیدا ہوگا.جواب : محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف کا یہ لکھنا کہ ڈائری محولہ از ریویو جون ۱۹۰۶ ء حضرت اقدس کے قلم سے لکھی گئی.(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۳۲ تا ۳۷) محض جہالت ہے.وہ حضرت صاحب کی تحریر نہیں بلکہ ڈائری نویس نے محض اپنی یادداشت کی بناء پر تحریر کر کے طبع کرائی ہے.وہ ڈائری کی مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر قابل قبول نہیں.ا.وہ ڈائری حضرت اقدس کی تصریح مندرجہ بدر جلد ۲ نمبر ۸ و مکاشفات از محمد منظور الہی جنجوعه
634 احمدی جون ۱۹۱۳ء صفحه ۴۹ در یویو مارچ ۱۹۰۶ء صفحه ۱۲۲ دالحکم جلد.انمبر ۷ ۲۴ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ کالم ۴ کے خلاف ہے.جس کا حوالہ اوپر درج ہو چکا ہے کہ معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے.“ ۲.حضرت اقدس کی دوسری ڈائریوں سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ مخالفین کی محولہ ڈائری ( ریویو جلد ۵ نمبر ۶ صفحه ۲۴۴٬۲۴۳ جون ۱۹۰۶ نیز بدر جلد ۲ نمبر ۲۴-۱۴ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) محض ڈائری نولیس کی غلطی کا نتیجہ ہے.وہ لکھتا ہے کہ حضرت اقدس نے فرمایا:.لڑکا ہوگا.“ بذریعہ الہام الہی معلوم ہوا ہے کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمدی بیگم کا ایک حالانکہ احکم جلد نمبر ۲۰ پر چه اجون ۱۹۰۶ صفحہا کالم نمبر میں جو حضرت اقدس علیہ السلام کے الفاظ لکھے ہیں وہ یہ ہیں:.یہ ہر دو نام بذریعہ الہام الہی معلوم ہوئے.“ اسی طرح الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۲ - ۲۴ جون ۱۹۰۶ء صفحہا کالم نمبرا.و بدر جلد۲ نمبر ۲۵.۲۱ جون ۱۹۰۶ ، صفحہ ۳ پر لکھا ہے:.ہوئے ہیں.”میاں منظور محمد کے اس بیٹے کے نام جو بطور نشان ہوگا بذریعہ الہام الہی مفصلہ ذیل معلوم پس ثابت ہوا کہ دراصل الہام الہی سے صرف اس لڑکے کے نام ہی معلوم ہوئے تھے، یہ امر کہ وہ لڑکا منظور محمد کے گھر ان کی بیوی محمدی بیگم کے پیٹ سے پیدا ہوگا، یہ عین الہامی نہیں ہے ( ڈائری نولیس نے اس فرق کو نہ سمجھنے کے باعث بجائے یہ لکھنے کے کہ ”میاں منظور محمد صاحب کے گھر جولٹڑ کا پیدا ہوگا بذریعہ الہام معلوم ہوا کہ اس کے دو نام ہوں گے.“ لفظ الہام الہی کو فقرہ کے شروع میں رکھ دیا ہے جس سے مضمون بگڑ کر وہ مفہوم بن گیا ہے جو حضرت اقدس کے دوسرے ملفوظات اور واقعات کے صریحاً خلاف ہے.پس دوسری ڈائریوں سے ریویو والی ڈائری (جس کا مخالف نے حوالہ دیا ہے ) مردود ثابت ہوئی.اس سے جماعت احمدیہ کے خلاف حجت نہیں پکڑی جاسکتی کیونکہ وہ حضرت اقدس کی تحریر نہیں بلکہ حاضرین مجلس میں سے کسی کی اپنی یادداشت کی بناء پر لکھی ہوئی تحریر ہے جس میں غلط فہمی یا الفاظ کا ادھر ادھر ہو جانا کوئی مشکل امر ہیں.
635 حقیقۃ الوحی کا حوالہ حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے کہ اس لڑکے کا پیدا ہونا معرض التواء میں پڑ گیا.کیونکہ حضور نے دعا فرمائی تھی کہ رَبِّ اَخِرُ وَقتَ هذا “ (حقیقة الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳)اے اللہ ! زلزلہ میں تا خیر ڈال دے اور اللہ تعالیٰ نے حضور کو بتا دیا کہ أَخَّرَهُ اللَّهُ إِلَى وَقتٍ مُسَمًّى (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۰۳) کہ اللہ تعالیٰ نے زلزلہ کو کسی اور وقت پر ٹال دیا.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳ کے حوالہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ زلزلہ اسی وقت " ظاہر ہو گا جبکہ عالم کباب ظاہر ہو جائے گا.ا.باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ منظور محمد اور محمدی بیگم کا لفظ موجود ہے.پھر ان سے کوئی دوسرا کیونکر مراد ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال علم دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے.کیونکہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تمام دنیا کے خزانوں کی کنجیاں وُضِعَتْ فِي يَدَيَّ (بخارى كتاب الرؤيا والتعبير باب المفاتيح في اليد) کہ وہ چابیاں میرے ہاتھ میں رکھی گئیں.حالانکہ ظاہر ہے کہ قیصر وکسری کے خزانوں کی کنجیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں حاصل نہیں ہوئیں.بلکہ حضور کی وفات کے بعد حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں یہ ملک فتح ہوئے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد حضرت عمرؓ ہو سکتے ہیں تو منظور محمد سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیوں نہیں ہو سکتے ؟ جو حقیقی اور اصلی منظور محمد ہیں.۲.پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب میں اگر چاند سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ اور سورج سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام اورستاروں سے مراد بھائی ہو سکتے ہیں حالانکہ صریح لفظ چاند سورج اور ستاروں کا موجود ہے تو پھر اس خواب میں منظور محمد کی تعبیر کیوں نہیں ہو سکتی؟.اسی طرح لکھا ہے: قَالَ السُّهَيْلِيُّ قَالَ اَهْلُ التَّعْبِيرِ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ أُسَيْدَ بْنَ أَبِي الْعَيْصِ وَالِيَّا عَلَى مَكَّةَ مُسْلِمًا فَمَاتَ عَلَى الْكُفْرِ وَ كَانَتِ الرُّؤْيَا لِوَلَدِهِ عَتَّابِ حِيْنَ أَسْلَمَ فَوَلَّاهُ.تاریخ الخمیس مصنفہ علامہ شیخ حسین بن محمد ابن الحسن الدیار بکری جلد ۲ صفحہ ایڈیشن اول مطبوع ۱۳۰۲ھ ) یعنی سہیلی کہتے ہیں کہ اہل تعبیر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص اسید بن ابی العیص کو خواب میں دیکھا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور مکہ شریف کا گورنر بنا ہوا ہے لیکن اسید مذکور بغیر مسلمان
636 ہوئے مرگیا لیکن یہ خواب اس کے بیٹے عتاب کے حق میں نکلی.پس اگر اسید کافر سے مراد عتاب مسلمان بھی ہو سکتا ہے تو ایک مومن کی جگہ دوسرا اس سے اعلیٰ مومن کیوں نہیں ہوسکتا ؟ انبیاء کی ذمہ واری قرآن مجید اور احادیث نبوی اور اقوال آئمہ سلف سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے اور انبیاء اور خدا تعالیٰ کے مامورین صرف اور صرف اس چیز کی صحت کے لیے جواب دہ ہوتے ہیں کہ جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتی ہے.وہ اپنے اجتہاد کے ذمہ وار نہیں ہوتے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:.66 مَا حَدَّثْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ اللهِ سُبْحَانَهُ فَهُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِيْهِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِى.“ (ترمذى.ابواب الصلوة.باب ماجاء في وصف الصلوة ) فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُ وَأُصِيْبُ نبراس شرح الشرح العقائد النسفی صفحہ ۲۹) یعنی جو بات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہوں وہ حق ہے مگر جو اس کی تشریح میں اپنی طرف سے کروں اس کے متعلق یاد رکھو کہ میں انسان ہوں کبھی میرا خیال درست ہوگا اور کبھی نادرست.اسی طرح لکھا ہے: " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ يَجْتَهِدُ فَيَكُونُ خَطَاءً نبراس شرح الشرح عقائد النسفی صفہ ۲۹۲) کہ آنحضرت صلعم کئی دفعہ اپنی وحی کی تعبیر یا تشریح اپنی طرف سے فرماتے تھے تو بعض دفعہ غلط بھی ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:.انبیاء اور مسلمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام.“ اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۱۵) لیس جبکہ واقعات اور حضرت اقدس کے دوسرے اقوال سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہیں اور حضور کے سوا کسی شخص کے لیے یہ پیشگوئی نہ تھی.تو پھر بھی ایک ڈائری کو (جس کی صحت اور محفوظیت مسلّم نہیں) پیش کر کے اعتراض کرتے جانا طریق انصاف نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.اگر کسی خاص پہلو پر پیشگوئی کا ظہور نہ ہواور کسی دوسرے پہلو پر ظاہر ہو جائے اور اصل امر
637 جو اس پیشگوئی کا خارق عادت ہونا ہے وہ دوسرے پہلو میں بھی پایا جائے.اور واقعہ کے ظہور کے بعد ہر ایک عقلمند کو سمجھ آجائے کہ یہی صحیح معنے پیشگوئی کے ہیں جو واقعہ نے اپنے ظہور سے آپ کھول دیئے ہیں تو اس پیشگوئی کی عظمت اور وقعت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا.اور اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۰) ولادت معنوی بعض مخالف کہا کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں جب یہ پیشگوئی حضرت صاحب نے کی اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الثانی پیدا ہو چکے تھے.الجواب:.تو اس کا جواب یہ ہے کہ الہام میں ولادت سے ولادت جسمانی مراد نہیں بلکہ ولادت معنوی مراد ہے.جیسا کہ امام الشیخ سہر وردی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:.يَصِيرُ المُرِيدُ جُزْء الشَّيْخِ كَمَا أَنَّ الْوَلَدَ جُزْءُ الْوَالِدِ فِي الْوَلَادَةِ الطَّبْعِيَّةِ وَ تَصِيرُ هَذِهِ الْوَلَادَةُ انِفًا وَلَادَةً مَعْنَوِيَّةً كَمَا وَرَدَ عَنْ عِيسَى صَلوةُ اللَّهِ عَلَيْهِ " لَنْ يَّلِجَ مَلَكُوتَ السَّمَاءِ مَنْ لَّمْ يُولَدُ مَرَّتَيْنِ فَبِالْوَلَادَةِ الأولى يَصِيرُلَهُ ارْتِبَاطٌ بِعَالَمِ الْمَلَكِ وَ بِهَذِهِ الْوَلَادَةِ يَصِيرُ لَهُ اِرْتِبَاطٌ بِالْمَلَكُوتِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى " وَ كَذَلِكَ نُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوْتَ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوْقِنِينَ وَ صَرُفَ الْيَقِينِ الْكَمَالِ يَحْصِلُ فِي هَذِهِ الْوَلَادَةِ.وَبِهَذِهِ الْوَلَادَةِ يَسْتَحِقُ مِيرَاتُ الْأَنْبِيَاءِ مَا وُلِدَ.“ (عوارف المعارف جلد ا صفحه ۴۵ مطبوعہ الوہیۃ البہیہ قاہرہ مصر شعبان ۱۲۹۲ھ ) یعنی مرید اپنے پیر کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے جس طرح بیٹا اپنے باپ کا ولادت طبعی میں.مرید کا یہ پیدا ہونا حقیقی پیدا ہونا نہیں بلکہ معنوی اور استعاری طور پر ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ کوئی شخص خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا.جب تک کہ وہ دو دفعہ پیدا نہ ہو.ولادت طبعی (حقیقی) میں انسان کا تعلق دنیا سے ہوتا ہے.مگر ولادتِ معنوی میں اس کا تعلق آسمان ( ملکوت اعلیٰ ) سے ہوتا ہے.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ ہم نے اسی طرح ابرا ہیم کو ملکوت سماوی وارضی دکھا ئیں تا کہ وہ یقین کرے.دراصل حقیقی اور کامل یقین اسی ولادت معنوی سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اسی ولادت کے باعث انسان وراثت انبیاء کا مستحق ہو جاتا ہے اور جس شخص کو وراثت انبیاء نہ ملی وہ پیدا نہ ہوا.“
638 پس اس پیشگوئی میں بھی ولادت سے مرا طبعی ولادت نہیں ، بلکہ ولادتِ معنوی ہے.جو انسان کو انبیاء کا وارث بناتی ہے.سو یہ عجیب بات ہے کہ ۱۹۰۶ء میں ہی حضرت اقدس علیہ السلام نے اس لڑکے کی پیدائش معنوی کی پیشگوئی فرمائی.۱۹۰۶ ء ہی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے رسالہ تفخیذ الا ذہان جاری فرمایا جس سے حضور کے کمالاتِ دینیہ و روحانیہ کا اظہار شروع ہوا اور ”سلطان القلم‘ کی وراثت حقیقی کا تمغہ آپ کو ملا.پھر ۱۹۱۴ء میں حضور ایدہ اللہ اپنے معنوی بلوغ کو پہنچ کر اور سریر آرائے خلافت ہوکر کامل و مکمل طور پر ” عالم کباب کا مصداق ہے ، جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.۶.قادیان میں طاعون اعتراض: مرزا صاحب نے کہا تھا کہ قادیان میں طاعون ہرگز نہیں آئے گی.یہ پیشگوئی غلط نکلی.الجواب:.یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت اقدس نے قادیان میں طاعون کا آنا ممنوع قرار دیا ہے.بلکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ قادیان میں طاعون آئے گی تو سہی مگر طاعون جارف یعنی جھاڑو دینے والی طاعون نہیں آئے گی.چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام دافع البلاء میں فرماتے ہیں:.ا.ہم دعوے سے لکھتے ہیں کہ قادیاں میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے.( دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۲۵ حاشیه ) ۲.پھر فرماتے ہیں:.میں قادیاں کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا خصوصا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے.“ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۷) " کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں بھی کوئی واردات شاذ و نادر طور پر ہو جائے جو بر بادی بخش نہ ہو اور موجب فرار و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذونادر معدوم کا حکم رکھتا ہے.“ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۵ حاشیه ) ۴- إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةِ.اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا.یہ معنی نہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی.اولیٰ کا لفظ عربی زبان میں
639 اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آ جاتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۳) اوی“ کا لفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا ابتلا کے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے.اور کثرت مصائب اور تلف ہونے سے بچایا جائے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوى (الضحى: ) ) اسی طرح تمام قرآن شریف میں اوی“ کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا کسی قوم کو کسی قدر تکلیف کے بعد پھر آرام دیا گیا.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۹) پس ان پیشگوئیوں کے مطابق قادیان کو ایک دفعہ کسی قدر عذاب کے بعد اپنی امان میں لے لیا گیا اور اسی کو حضرت اقدس علیہ السلام نے صرف قادیان ہی کی نسبت سے ” طاعون زور پر تھا.“ قرار دیا ہے (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۸۷ حاشیہ ) چنانچہ خود دوسری جگہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۴ میں تحریر فرماتے ہیں کہ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی.“ وَبِضِدِّهَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْيَاءُ پس قادیان میں کبھی بھی طاعون جارف نہیں آئی جو بربادی انگن ہوتی ہے.ہاں حضرت اقدس علیہ السلام نے اعلان فرمایا تھا اِنّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ....أحَافِظُكَ خاصة ( تذکره صفحه۳۵۰ مطبوع ۲۰۰۴ء) کہ تیرے گھر کی چاردیواری میں رہنے والے طاعون سے محفوظ رہیں گے اور تیری تو خاص حفاظت کی جائے گی (خواہ چار دیواری کے اندر ہوں یا باہر ) چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت اقدس علیہ السلام نے بانگ دہل اعلان فرمایا:.” میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں.اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی.“ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۸) چنانچہ چراغ دین جمونی ہلاک ہوا.تفصیل دیکھو حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۸۶
640 میں.پھر اس چیلنج کو کوئی اور منظور نہ کر سکا.لہذا حضرت کی صداقت ثابت ہوئی.“ ۷.محمد حسین بٹالوی کا ایمان حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ محمد حسین بٹالوی ایمان لائے گا مگر وہ ایمان نہ لایا ؟ (اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹) الجواب نمبر :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمد حسین بٹالوی کو فرعون قرار دیا ہے.دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۶۴ ، ۶۵ ،۶۶ پھر فرماتے ہیں :.فرعون سے مراد محمد حسین ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بالآخر ایمان لائے گا.مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمان فرعون کی طرح صرف اس قدر ہوگا کہ آمَنْتُ بِالَّذِي آمَنْتُ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ یا پرہیز گار لوگوں کی طرح.واللہ اعلم.“ (استفتاء.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۳۰ حاشیه ) فرعون کے ایمان لانے کا واقعہ جس کی طرف حضرت اقدس نے محولہ بالہ عبارت میں اشارہ فرمایا ہے.قرآن مجید سورۃ یونس آیت ۹۱ میں ہے کہ جب فرعون غرق ہونے لگا.تو اس نے آواز دی کہ أمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا اسْرَاءِ يْلَ وَآنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (يونس: ٩١) کہ میں ایمان لایا کہ وہی ایک خدا ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں.اب فرعون کے ایمان لانے کا بجز خدا تعالیٰ کی شہادت کے اور کون انسان گواہ ہے.بعینہ اسی طرح محمد حسین کے ایمان کا بھی خدا کا الہام گواہ ہے.اب کوئی آریہ یا عیسائی تم سے فرعون کے ایمان لانے کا ثبوت پوچھے تو جو جواب تم اس کو دو گے وہی جواب ہماری طرف سے سمجھ لو.جواب نمبر ۲: حضرت اقدس علیہ السلام کی پیشگوئی میں تھا أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ يُؤْمِنُ بِايْمَانِی ( تذکره صفحه ۱۹۱ مطبوع ۲۰۰۴ء) که مولوی محمد حسین بٹالوی میرا مومن ہو نا مان لے گا.چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.کیونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی اول المکفرین نے ۱۹۱۲ء میں لالہ دیو کی نندن صاحب مجسٹریٹ درجہ اول وزیر آباد کی عدالت میں مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ میں حلفاً بیان کیا کہ میں احمدی جماعت کو 66 مسلمان سمجھتا ہوں.“ اب بتاؤ حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں کسی کو یہ وہم بھی ہوسکتا تھا کہ کسی وقت یہی
641 مولوی محمد حسین جو سب سے پہلے فتوی کفر دینے والا ہے، خود حضرت اقدس اور آپ کی جماعت کو مسلمان سمجھنے لگ جائے گا.- عبد الله استم یہ ثابت کرنے کے لیے کہ حقیقی اور سچاند ہب خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے اور یہ کہ موجودہ عیسائیت کسی صورت میں بھی اس مذہب کی قائمقام نہیں ہوسکتی جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاک ہاتھوں سے قائم ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے آپ کو عیسائیت پر کھلا کھلا غلبہ عطا کیا.عیسائیوں نے اپنے نمائندہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کو جون ۱۸۹۳ء میں خدا کے مسیح موعود کے بالمقابل کھڑا کیا.جب اس پر دلائل بینہ اور براہین قاطعہ کی رو سے کامل طور پر حجت ہو چکی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے بزرگ و برتر سے اطلاع پا کر اعلان فرمایا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے ہمارے آقا وسردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کونعوذ باللہ دجال (اندرونہ بائبل از پادری عبدالله آنقتم ڈپٹی ۱۸۹۳ء) کہا ہے.اس لئے اس جرم کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا ہے کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے تو پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہادیہ میں گرایا جائے گا اور اس یہ ثابت ہو گا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بے انتہا غیرت ہے اور یہ کہ اس کے نزدیک سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے.خدا کے پیارے مسیح موعود کی یہ ہیبت ناک پیشگوئی شائع کر دی گئی اور اس میں آتھم کو ہلاکت سے بچنے کا طریق بھی بتلا دیا گیا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع کرے گا تو اس ہلاکت سے بچ جائے گا.پیشگوئی کا شائع ہونا تھا کہ ڈپٹی اٹھم کے لیے جس ہاویہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے.وہ تو بہ اور استغفار، دعا اور رجوع میں لگ گیا.وہ اس گستاخی کے لیے جو اس نے پاکبازوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی تھی روتا اور گڑگڑاتا رہا.وہ برابر پندرہ ماہ تک انتہائی پریشانی سراسیمگی اور بدحواسی کے ساتھ در بدر پھرتا رہا.وہی عیسائیت جس کی اشاعت اور تبلیغ ( اس پیشگوئی سے قبل ) اس کی غذا تھی اب اس کو موت کا پیالہ نظر آتی تھی.وہی اسلام اور بانی اسلام جن کی تردید کرنا اور جن کو گالیاں دینا وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا تھا اب اس کی نظر میں اس قدر قابل اعتراض و تردید نظر نہ آتے تھے.
642 و ہی عبد اللہ آتم جس کے لیے ایک دن بھی عیسائیت کی تبلیغ اور اسلام کی تردید کے بغیر گزارنا غیر ممکن تھا متواتر پندرہ مہینے ایک غیر منقطع سکوت اور لامتناہی خاموشی کے ساتھ شہر بہ شہر پھرتارہا اور ایک حرف بھی اپنی زبان سے اسلام یا بانی اسلام کے خلاف نہیں نکالا.یہ معنی خیز خاموشی ، حیرت انگیز سکوت اور عبرت ناک سراسیمگی اسلام اور خدا کے مسیح موعود کی صداقت پر زبر دست دلیل تھی اور اس طرح سے عبداللہ اعظم کا پندرہ ماہ کا عرصہ گزارنا سعید الفطرت انسانوں کے لیے یقیناً یقیناً خدا کے زبر دست مگر رحمدل ہاتھ کی کرشمہ نمائی کا زبر دست ثبوت تھا.مگر نور کے دشمنوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی شرمندگی کو مٹانے کے لیے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ عبد اللہ آتھم نے در حقیقت رجوع نہیں کیا تھا اور یہ کہ خدا کے مسیح موعود کی پیشگوئی نعوذ باللہ جھوٹی نکلی.خدا کا مسیح موعود ایک دفعہ پھر خدا کی طرف سے حجت باہرہ اور دلائل بینہ کی تلوار ہاتھ میں لے کر میدان میں نکلا اور عبداللہ انتم ہی کے ذریعہ ایک دوسرے نشان سے صاف اور واضح طور پر اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ سچا اور حقیقی دین خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پے در پے اشتہارات شائع کئے کہ اگر تم لوگ اس دعوی میں بچے ہو کہ عبداللہ انتم نے رجوع نہیں کیا تو تم اسے کہو کہ وہ حلف اٹھا کر کہہ دے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اگر اس حلف کے بعد وہ ایک سال تک زندہ رہ جائے تو میں جھوٹا ہوں.آپ نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ چار ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ عبداللہ انھم ہر گز فتم نہیں کھائے گا.کیونکہ اس سے زیادہ اس بات کو کوئی نہیں جانتا کہ اس نے فی الحقیقت حق کی طرف رجوع کیا لیکن اگر اب آتھم عیسائیوں کے اس قول کی تردید نہ کرے اور نہ قسم کھائے تو بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہو چکا اور آگے کچھ نہیں.“ انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۷،۱۶) اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا.اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.اشتہار مورخہ ۲۷/اکتوبر ۱۸۹۴ء)
643 چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ساتویں اشتہار مورخہ ۳۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء میں مسٹر آتھم اور پادری فتح مسیح کے عنوان سے ایک اشتہار دیا جس میں آتھم کے متعلق تحریر کیا کہ اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان کو ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لیے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.چنانچہ آتھم کے قسم نہ کھانے اور سات اشتہارات پر سات دفعہ انکار کرنے کے بعد آخر ساتویں اشتہار کو ابھی سات مہینے نہیں گزرے تھے کہ آتھم ۲۷ / جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور را ہی ملک عدم ہوا.“ خدا تعالیٰ نے آتھم کے ذریعہ سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر زندگی اور موت کے دونشان ظاہر فرمائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنے سے آتھم نے پندرہ ماہ کے عرصہ میں زندگی پائی اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے نشان کو چھپانے کے نتیجہ میں اسے ”موت“ حاصل ہوئی.اور اس نشان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت حقیقی زندگی بخشتی ہے.اور آپ کی مخالفت ایک موت کا پیالہ ہے جس کا پینے والا روحانی موت سے بچ نہیں سکتا.۹ - محمد حسین کی ذلت مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ محمد حسین ذلیل ہوگا.یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی.الجواب : محمد حسین پر کئی ذلتیں آئیں.تفصیل کے لیے دیکھو کتاب ” بطالوی کا انجام مصنفہ جناب میر قاسم علی صاحب.اجمالاً یہاں کچھ لکھا جاتا ہے.ا.محمد حسین نے حضرت اقدس علیہ السلام پر اس وجہ سے فتویٰ کفر لگایا کہ آپ گویا مہدی خونی کے قائل نہیں.مگر بعد میں اس نے خود گورنمنٹ سے زمین حاصل کرنے کی غرض سے بطور خوشامد یہ لکھا کہ کوئی ایسا جنگ اور جہاد کرنے والا مہدی نہیں آئے گا اور یہ کہ اس مہدی کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں سب موضوع اور ضعیف ہیں.چنانچہ اس نے ۱۴.اکتوبر ۱۸۹۴ء کو ایک انگریزی فہرست شائع کی.جس میں مہدی کی آمد کا انکار کیا.اس پر غیر احمدی علماء ہی سے حضرت اقدس نے خونی مہدی کے منکر کے متعلق فتوی کفر حاصل کر لیا.پس محمد حسین اپنے مسلمات کی رو سے ذلیل ہوا.تفصیل دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہارے جنوری ۱۸۹۹ء)
644 ۲.محمد حسین نے حضرت اقدس کے الہام وَ تَعْجَبُ لَامْرِى ( تذکره صفحه ۲۷۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) پر نحوی اعتراض کیا تھا کہ عجب کا صلہ لام نہیں آتا.اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے احادیث کتب لغت اور شعراء عرب کے کلام سے عجب کے صلہ لام کی مثالیں شائع کیں تو محمد حسین نے خود اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اپنی خفت کو یہ کہ کر مٹانا چاہا کہ میں نے کہا تھا کہ قرآن میں ”عجب“ کا ”من“ صلہ آیا ہے.(الہامات مرزا مصنفہ ثناء اللہ امرتسری صفحه ۸۳ دفعه ششم).محمد حسین نے خونی مہدی کا انکار کر کے گورنمنٹ سے زمین حاصل کی.اور بخاری میں ہے کہ جس گھر میں ہل داخل ہو جاتا ہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے.عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ وَ رَأَى سِكَةً وَّ شَيْئًا مِنْ آلَةِ الْحَرْثِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ هذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ الذُّلَّ“ (بخاری کتاب السحرث والمزارعة باب مَا يُحْذَرُ مِنْ عواقب.....و مشكوة كتاب البيوع الفصل الاول ( حضرت ابوامامہ باہلی سے روایت ہے کہ انہوں نے ہل کا ایک پھل اور کھیتی کرانے کا ایک آلہ دیکھا تو فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ جس قوم کے گھر میں داخل ہوتا ہے اس میں ذلت آ جاتی ہے.محمد حسین بٹالوی کا عالم اور غیر زمیندار ہوکر ”اَخْلَدَ إِلَى الْاَرْضِ“ کا مصداق بننا يقيناً حدیث کے الفاظ میں اس کے لیے ذلیل ہونا تھا، لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے گھر میں ہل کو داخل نہیں کیا بلکہ حضور تو پیدا ہی زمیندار خاندان میں ہوئے تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مندرجہ ابوداؤ د "حَارِث حَرَّات (ابو داؤد کتاب المهدی حوالہ مشکواۃ باب شرائط الساعة ) والی پوری ہوئی.اس لیے آپ کے لیے یہ موجب ذلت نہیں.نوٹ :.یادر ہے کہ یہاں حدیث میں صرف ان لوگوں کا ذکر ہے جو تجارت یا دوسرے پیشے چھوڑ کر اور غیر زمیندار ہو کر زمیندار بننے کی کوشش کرتے ہیں نیز اس زمینداری کا ذکر ہے جو انسان کو دنیا داری میں مشغول کر دے اور اپنے مذہبی عقائد سے منحرف کرائے.جیسا کہ محمد حسین کے ساتھ ہوا ور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کو بھی زمیندار قرار دے کر بتا دیا کہ زمینداری برا پیشہ نہیں.١٠_ نَافِلَةً لَّكَ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ ایک اور بیٹا مبارک احمد کے بعد پیدا ہوگا مگر وہ پیدا نہ ہوا.
645 الجواب :.حضرت اقدس نے خود اس الہام کی تشریح فرما دی ہے :.” چند روز ہوئے الہام ہوا تھا " إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٌ لَّكَ ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ ” نافلة “ پوتے کو بھی کہتے ہیں.یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو.“ الحکم جلد نمبر ۱۳ ۱۰ اپریل ۱۹۰۶، صفحہ.و تذکرۃ صفحہ ۵۱۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں :.إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ نَافِلَةٌ لَكَ.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۹) پس وہ نافلة جس کی بشارت دی گئی تھی صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مولوی فاضل فرزند اکبر حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ نصرہ العزیز ہیں.وَالْعِلْمُ عِندَ اللهِ.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضور کے بھائیوں کے کئی ایک اور صاحبزادے ہیں.گویا دشمنوں کے ابتر ہونے کے مقابلہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کو پوتوں تک کی بشارت دی گئی.نوٹ: بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ” پسر خامس“ کی بھی پیشگوئی فرمائی تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے الہام بَشَّرَنِي بِخَامِس (یعنی پسر خامس) سے مراد پوتا لیا ہے.(دیکھو حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۷)
حصہ چہارم 646 تحریرات پر اعتراضات ا.شاعر ہونا قرآن مجید میں ہے وَ مَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ يُزِ الشُّعَرَاءُ يَتَّبِعَهُمُ الْغَاوُنَ (الشعراء: ۲۲۵) نبی شاعر نہیں ہوتا.مرزا صاحب شاعر تھے.الجواب:.(۱) بیشک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاعر نہ تھے اور قرآن مجید نے شاعر کی تعریف بھی کر دی ہے.فرمایا: - أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (الشعراء: ۲۲۷،۲۲۶) کہ کیا تو نہیں دیکھتا کہ شاعر ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں.یعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں.گویا شاعر وہ ہے.ا.جو ہوائی گھوڑے دوڑائے.خیالی پلاؤ پکائے.۲.اس کے قول اور فعل میں مطابقت نہ ہو.فرمایا: مَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ “ (يس: ۷۰ ) ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوائی گھوڑے دوڑانا اور محض باتیں بنانا نہیں سکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں.اور (۲) لغت میں ہے:.وَقَوْلُهُ تَعَالَى حِكَايَةً عَنِ الْكُفَّارِ (بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ وَقَوْلُهُ شَاعِرٌ مَجْنُونٌ.....لَمْ يَقْصِدُوا هَذَا الْمَقْصِدَ فِيْمَا رَمَوْهُ بِهِ وَ ذَلِكَ أَنَّهُ ظَاهِرٌ مِنَ الْكَلَامِ أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى أَسَالِيبِ الشَّعْرِ وَلَا يَخْفَى ذَالِكَ عَلَى الْإِغْتَامِ مِنَ الْعَجَمِ فَضْلًا عَنْ بُلَغَاءِ الْعَرَبِ وَ إِنَّمَا رَمَوْهُ بِالْكَذِبِ فَإِنَّ الشَّعْرَ يُعَبَّرُ بِهِ عَنِ الْكَذِبِ وَالشَّاعِرُ الْكَاذِبُ.....قِيْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَكْذَبُه.(مفردات راغب زیر لفظ شعر) کہ قرآن مجید میں جو یہ آتا ہے کہ کا فرآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوشاعر اور مجنون کہتے ہیں.اس سے مراد کا فروں کی کلام موزوں کہا نہ تھی.بلکہ جس بات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تھا وہ اور تھی کیونکہ قرآن کا نثر ہونا تو ایسی بات ہے کہ کلام سے خود ہی ظاہر ہے ( کہ یہ شعروں کی طرز پر نہیں ) اور یہ امر ایک عام آدمی پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ بلغاء عرب نثر اور نظم میں تمیز نہ کر سکتے
647 ہوں.پس اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا.کیونکہ شعر سے مراد ”جھوٹ“ لی جاتی ہے اور شاعر کے معنے ہیں’ کا ذب‘ (جھوٹا ) عربی ضرب المثل ہے کہ سب سے اچھا شعر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو.(۳) منطق کے امام علامہ شریف کہتے ہیں.وَالشّعُرُ...إِنَّ مَدَارَهُ عَلَى الْاَ كَاذِيبِ وَمِنْ ثَمَّةٍ قِيْلَ اَحْسَنُ الشَّعْرِ اَكْذَبُهُ الحافية الكبرى على شرح المطابع صفہ یہ ے ے مصری ) کہ شعر کا مدار جھوٹ پر ہوتا ہے اور ضرب المثل میں ہے کہ سب سے اچھاوہ شعر ہے جس میں بہت جھوٹ ہو.(۴).قرآن مجید میں ہے وَ مَا عَلَّمْتُهُ الشَّعْرَ “ (بس : ۷۰) کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر نہیں سکھایا.اب اگر شعر سے مراد کلام موزوں لیا جائے تو یہ غلط ہے کیونکہ قرآن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا گیا ہے اس میں کلام موزوں بھی ہے جیسا کہ یہ آیت :.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل: ۸۲) (۵).حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقعہ پر فرمایا:.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ (بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى وَيَوْمَ حُنَيْنٍ.....کہ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.“ اب وزن کے لحاظ سے یہ بحر رجز محذوف ہے اور قافیہ بھی ملتا ہے..پھر حدیث شریف میں ہے کہ ایک جنگ کے موقعہ پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلی پر زخم آگیا تو آپ نے اس انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا.ے هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيْتِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَالَقِيتِ (بخاری کتاب الجهاد والسير باب من ينكب او يَطْعِنُ في سبيل الله) کہ سوائے اس کے نہیں کہ تو ایک انگلی ہے جس میں سے کہ خون بہہ رہا ہے اور یہ جو کچھ تجھے ہوا خدا کی راہ میں ہوا ہے.“ اب یہ بھی کلام موزوں ہے.بس اگر شعر سے مراد کلام موزوں لیا جائے تو یہ بالبداہت باطل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کی زد پڑتی ہے.پس ثابت ہوا کہ شعر سے مراد جھوٹ ہی
648 ہے.پس نفس شعر بلحاظ کلام موزوں کے بری چیز نہیں.ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعر نہ کہتے اور نہ پڑھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے نیز حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام ہے:.در کلام تو چیزی است که شعراء را دراں دخلی نیست ۲.غلط حوالے اور جھوٹ کے الزامات ( در شین اردو نیا ایڈیشن صفحه ۸۳) تذکره صفحه ۵۰۸ مطبوع ۲۰۰۴ء) مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں بعض حوالے غلط دیے ہیں مثلاً " هـذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ، بخاری میں نہیں ہے.الجواب :.نبی کو ہم سہو اور نسیان سے پاک نہیں مانتے.ا.قرآن میں ہے:.فَنَسِی (طه: ۱۱۶) کہ آدم بھول گیا.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق نَيَا حُوتَهُمَا “ (الکھف: ۶۲) کہ وہ مچھلی بھول گئے اور آگے لکھا ہے کہ شیطان نے انہیں بھلا دیا.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف: ۱) نيز أُصِيبُ وَ أُخْطِيءُ ( نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ ۳۹۳) کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں.بعض دفعہ خطا کرتا ہوں.۲.بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو (۲) رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا " وَ رَجُلٌ يَدْعُوهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَا الْيَدَيْنِ فَقَالَ أَنَسِيْتَ اَمُ قُصِرَتْ؟ فَقَالَ لَمُ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرُ قَالَ بَلَى قَدْ نَسِيْتَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.“ دوسری روایت میں ہے فَقَالَ اَ كَمَا يَقُولُ ذُو الْيَدَيْنِ؟ فَقَالُوا نَعَمُ فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى مَا تَرَكَ ( بخاری کتاب السهو باب يكبر في السجدتي السهو وباب تشبيك الاصابع في المسجد وغیرہ ) کہ ایک شخص وہاں موجود تھا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کے نام سے پکارا کرتے تھے.اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز قصر کر کے حضور نے پڑھی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز
649 قصر کی گئی ہے.اس پر اس صحابی نے جواب دیا کہ حضور" بھول گئے ہیں.“ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہتا ہے؟ تو سب نے جواب دیا کہ ہاں ! وہ ٹھیک کہتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ روکھڑے ہوئے اور دورکعتیں جو آپ نے چھوڑ دی تھیں پڑھیں اور بعد میں سجدہ سہو بھی کیا.( نیز دیکھو صحیح مسلم کتاب الصلوة باب السهو في الصلوة و السجود له ) اب کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لَمُ اَنسَ وَ لَمْ تُقْصَرُ“ کوکوئی جھوٹ قرار دے سکتا ہے.ہرگز نہیں.۳ صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے.عَنْ أُبَـيِّ ابْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَعَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ فَقَرَءَ عَلَيْهِ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا.(البيّنة : ٢) وَقَرَءَ فِيْهَا إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ وَلَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَّعْمَلُ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ وَقَرَأَ عَلَيْهِ لَوْ أَنَّ لِابْنِ ادَمَ وَادِيًا مِّنْ مَّالٍ لَّابْتَغَى إِلَيْهِ ثَانِيَا وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيَا لَّابْتَغَى إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلُا جَوْفَ ابْنَ آدَمَ إِلَّا التَّرَابُ وَيَتُوبُ الله عَلى مَنْ تَابَ إِلَى اللهِ.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.(ترمذی ابواب مناقب في فضل ابی ابن کعب ) کہ حضرت ابی کعب فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کر سناؤں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا “ والی سورۃ پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دین صرف خالص اسلام ہے.نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیت.پس جو اچھا کام کرے اس کو نقصان نہیں پہنچے گا.اور اگر بنی آدم (انسان ) کے لئے ایک وادی مال و دولت سے بھری ہوتی تو ضرور وہ ایک دوسری وادی چاہتا اور اگر اس کو دوسری وادی بھی مل جاتی تو وہ تیسری کی تلاش کرتا اور انسان کے پیٹ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے.اب اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْحَنِيْفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ الخ کو قرآن مجید لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا والی سورۃ کی آیات قرار دیا ہے ذرا کوئی مولوی صاحب لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا والی سورۃ میں تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ سے نکال کر دکھا ئیں.
650 نوٹ:.ا.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آیات منسوخ ہوگئی ہیں.کیونکہ یہ بات کہ خدا کے نزدیک دین حنفية المسلمة ہے اور یہ کہ انسان بڑا حریص ہے.یہ سب اخبار ہیں نہ کہ احکام اور اس پر سب غیر احمدی علماء کا اتفاق ہے کہ اخبار میں نسخ جائز نہیں.۲.کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب خدا کے نزدیک دین حنفية المسلمة “ نہیں بلکہ وو یہودیت اور نصرانیت ہو گیا ہے؟.ان آیات کی ناسخ کونسی آیت ہے جس کی وجہ سے یہ آیات منسوخ ہو گئی ہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث مذکور بالا میں لفظ " قَرَءَ فِيهَا “ ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورۃ کی تفسیر قرار نہیں دیا جا سکتا ورنہ ” قَالَ فِيهَا “ کہنا چاہیے تھا.۴.علامہ سعدالدین تفتازانی، ملاخسر و ، ملاعبدالحکیم ان تینوں نے لکھا ہے کہ حدیث يَكْفُرُ لَكُمُ الْأَحَادِيْتُ مِنْ بَعْدِی بخاری میں ہے حالانکہ یہ حدیث موجودہ بخاری میں نہیں ہے.(توضيح مع حاشيه التلويح شرح الشرح مطبع كريميه قزان ۱۳۳۱ جلد ا صفحه ۴۳۳) اسی طرح سے حدیث خَيْرُ السَّوْدَانِ ثَلَاثَةٌ لُقْمَانُ وَ بَلَالٌ وَ مَهْجَعُ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ.عَنْ وَائِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ بِهِ مَرْفُوعًا كَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ الرَّبِيعِ لَكِنْ قَوْلُ الْبُخَارِي سَهُو قَلَمٍ إِمَّا مِنَ النَّاسِخِ اَوْ مِنَ الْمُصَنَّفِ فَإِنَّ الْحَدِيثِ لَيْسَ مِنَ الْبُخَارِيِّ.( موضوعات کبیر از مولاناعلی القاری صفحه ۲۴ ناشر نورمحمداح المطابع کارخانہ تجارت آرام باغ کراچی مطبع ایجوکیشنل پریس کراچی) کہ حدیث سوڈان کے بہترین آدمی تین ہیں یعنی (۱) لقمان (۲) بلال (۳) محیع جو آنحضرت صلعم کے غلام تھے.یہ حدیث بخاری میں وائلہ بن الاسقع سے مرفوعاً مروی ہے.حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ علامہ ابن ربیع کا یہ کہنا کہ یہ حدیث بخاری میں ہے یہ یا تو مصنف کا سہو قلم ہے اور یا کاتب کا کیونکہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے.وہ مولوی جو " فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِيُّ ابن ماجه كتاب الفتن باب خروج المهدى ) والی حدیث کے بخاری میں نہ ملنے پر حضرت مسیح موعود پر کا ذب ہونے کا الزام لگاتے ہیں کیا وہ اپنے علامہ سعد الدین تفتازانی.ملا و علامہ خسرو، ملا عبدالحکیم اور علامہ ابن الربیع کو بھی کا ذب کہیں گے؟.امام بیہقی کی کتاب ” الاسماء والصفات ناشر دار احیاء التراث العربی صفحہ ۴۲۴ میں لکھا ہے
651 که كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيْكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ که بخاری میں ہے کہ كَيْفَ اَنْتُمُ إِذَا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.حالانکہ قطعاً بخاری میں مِنَ السَّمَاءِ کا لفظ نہیں ہے.(وَهَذَا خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِيُّ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب شہادۃ القرآن صفحه ام ایڈیشن اوّل میں جو یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے.اس کے متعلق بھی ہم وہی جواب دیتے ہیں جو حضرت ملاعلی قاری نے امام ابن الربیع کی طرف سے دیا تھا.وَلَكِنْ قَوْلُ الْبُخَارِي سَهُو قَلَم أَمَّا مِنَ النَّاسِخِ اَوْ مِنَ الْمُصَنَّف (موضوعات بر صفر ۶۴) کہ یہ قول کہ یہ حدیث بخاری میں ہے یا تو سہو کتابت ہے یا سبقت قلم مصنف.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں صاف طور پر فرما دیا ہے:.میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے امامین حدیث ( بخاری ومسلم.خادم ) نے ان کو نہیں لیا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۶) گویا بخاری و مسلم میں مہدی کے متعلق احادیث نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ هَذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ “ ( آسمان سے آواز آنا کہ یہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے ) بہر حال مہدی کے متعلق ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے صاف بیان کے مطابق یہ حدیث بخاری میں نہیں.ہاں یہ حدیث اسی طرح صحیح ہے جس طرح بخاری کی دوسری احادیث کیونکہ كَذَا ذَكَرَهُ السُّيُوطِئَ وَفِي الزَّوَائِدِ : هذَا أَسْنَادٌ صَحِيحٌ.رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.وَرَوَاهُ الْحَاكِمُ فِى الْمُسْتَدْرِكِ وَقَالَ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.(ابن ماجه كتاب الفتن باب خروج المهدى ) كه حديث هذَا خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِيُّ “ کو امام سیوطی نے بھی ذکر کیا ہے اور زوائد میں ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اس کو امام حاکم نے مستدرک کتاب التاريــخ بــاب تـذكـــرة الانبياء هبوط عیسی...میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق بھی صحیح ہے.نیز یہ حدیث ابو نعیم اور تلخیص المتشابه ونج الکرامۃ صفحہ ۳۶ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال پر درج ہے.بھلا تم لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا سکتے ہو جو حضرت
652 ابراہیم علیہ السلام جن کو تم نبی مانتے ہو اور جن کے متعلق قرآن مجید میں ہے صدِّيقًا نَّبِيًّا (مریم: ۴۲) کہ وہ سچ بولنے والے نبی تھے تم ان کے متعلق بھی یہ کہتے اور مانتے ہو کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے.ا.بخاری میں ہے:.عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِى اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبُ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلاثًا.....عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمُ يَكْذِبُ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلامُ إِلَّا ثَلاثَ كَذِبَاتٍ (بخاری کتاب بدء الخلق باب قول الله تعالیٰ واتخذ الله ابراهيم خليلا و مشكوة باب بدء الخلق وذكر الانبياء عليهم السلام پہلی فصل نيز مسلم كتاب الفضائل باب من فضائل ابراهیم خلیل الله ) که حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہ بول مگر تین جھوٹ.۲ صحیح ترندی میں ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبُ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ قَوْلُهُ اِنّى سَقِيمٌ وَلَمْ يَكُنْ سَقِيمًا وَقَوْلُهُ لِسَارَةَ أُخْتِى وَقَوْلُهُ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُ هُمُ....هَذَا حَدِيثُ حَسَنٌ صَحِيحٌ.ترمذی ابواب التفسير سورة الانبياء) کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی کسی چیز میں جھوٹ نہ بولا.مگر صرف تین موقعوں پر.ان کا کہنا کہ میں بیمار ہوں حالانکہ وہ بیمار نہ تھے.پھر ان کا کہنا کہ یہ بت ان کے بڑے بت نے توڑے ہیں اور ان کا اپنی بیوی سارہ کو کہنا کہ یہ میری بہن ہے.یہ حدیث صحیح ہے.۳.بخاری میں ہے کہ قیامت کے دن جب سخت گھبراہٹ طاری ہوگی اور لوگ بھاگے بھاگے سب انبیاء کے پاس جائیں گے کہ وہ ان کی خدا تعالیٰ کے حضور شفاعت کریں.تو سب انکار کر دیں گے.جب وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو فَيَقُولُ لَهُمْ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضْبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ فَذَكَرَ هُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي.“ (بخاری کتاب التفسير باب ذرية من حملنا مع نوح) حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو جواب دیں گے کہ میرا رب آج سخت غصہ میں ہے کہ اس سے قبل کبھی اتنا غضبناک نہ ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضبناک ہوگا اور میں نے تین جھوٹ بولے
653 تھے (ابو حیان نے ایک حدیث میں ان تینوں جھوٹوں کی تفصیل دی ہے ) پس مجھے تو اپنے نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ.جس نبی کو قرآن کریم سچا کہتا ہے تم اس کے متعلق کہتے ہو کہ اس نے نعوذ باللہ تین جھوٹ بولے.گویا تمہارے نزدیک جھوٹ بولنا معیار صداقت ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اگر تم اعتراض کرو تو تم معذور ہو.مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن ہو جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے ۳.قرآن وحدیث میں طاعون مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن وحدیث میں طاعون کی پیشگوئی ہے.یہ جھوٹ ہے؟ الجواب: قرآن مجید میں ہے: إِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةَ مِنَ الْأَرْضِ تكلمهم (النمل: ۸۳) کہ جب ان پر اتمام حجت ہو جائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا کیونکہ لوگ خدا کی آیات پر یقین نہیں کرتے تھے.تُكَلِّمُهُمْ کے معنے کاٹنے کے ہی ہیں جیسا کہ لغت کی کتاب منجد زیر لفظ کلم میں ہے.كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا جَرَحَهُ یعنی اس نے اس کو زخم لگایا.كَلَمَ كَلْما کے معنی بھی زخم لگانے کے ہیں.۲.بخاری میں ہے:.عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ كَلْمٍ يُكْلَمُهُ الْمُسْلِمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَكُونُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهَا.(بخارى كتاب الوضوء باب مَايَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ في السمن والماء ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک زخم جو کسی مسلم کو خدا کی راہ میں لگے قیامت کے دن اپنی اسی حالت میں ہوگا.چنانچہ طاعون کا کیڑا انسانوں کو کاتا ہے.جس سے طاعون ہوتی ہے.حدیث صحیح مسلم میں ہے:.فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمُ فَيُصْبِحُونَ فَرُسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ (مسلم کتاب الفتن باب ذكر صفت الدجال وما معه ومسلم شرح نووی کتاب الفتن باب ذكر صفت الدجال وما معه ) پس خدا کا نبی مسیح موعود اور اس کے صحابی متوجہ ہوں گے اور خدا تعالیٰ ان کے مخالفوں کی گردنوں میں ایک
654 پھوڑا ( طاعون ) ظاہر کرے گا.پس وہ صبح کو ایک آدمی کی موت کی طرح ہو جائیں گے.(نغف کے معنے پھوڑا اور طاعون ہے.دیکھو عربی ڈکشنری مصنفہ LANE جلد ۸ صفحه ۲۸۱۸و ضمیمه صفحه ۳۰۳۶).بحارالانوار میں ہے: قُدَّامُ الْقَائِمِ...مَوْتَانِ مَوْتُ أَحْمَرُ وَ مَوْتُ أَبْيَضُ.....فَالْمَوْتُ الْأَحْمَرُ اَلسَّيْفُ وَالْمَوْتُ الأَبْيَضُ الطَّاعُونُ “ ( بحارالانوار مصنفہ علامہ محمد باقر مجلسی جلد ۵۲ باب علامة ظهوره عليه السلام من السفياني والدجال.داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان ) کہ امام مہدی کی علامات میں ہے کہ اس کے سامنے دو قسم کی موتیں ہوں گی.پہلی سرخ موت اور دوسری سفید موت.پس سرخ موت تو تلوار ( لڑائی) ہے اور سفید موت طاعون ہے.۴.مندرجہ بالا جواب میں جو ہم نے قرآن مجید کی آیت أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةَ مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُم (النمل: ۸۳) کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں ایک کیڑا نکلے گا جوان کو کاٹے گا.اس کی تائید بحارالانوار کے مندرجہ ذیل حوالہ سے بھی ہوتی ہے.سمَّ قَالَ (ابو عبد الله امام حسين) وَقَرَءَ تُكَلِّمُهُمُ مِنَ الْكَلِمِ وَ هُوَ الْجُرُحُ وَالْمُرَادُ بِهِ الْوَسُمُ یعنی امام باقر فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی مندرجہ بالا دابتہ الارض والی آیت کے متعلق حضرت امام حسین نے فرمایا کہ اس آیت میں تُعَلِّمُهُم مراد یہ ہے کہ وہ کیڑا ان کو کاٹے گا اور زخم پہنچائے گا.( بحار الانوار از علامه محمد باقر مجلسی جلد ۵۳ باب تاریخ الامام - الثانی عشر - دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان و نیز دیکھو اقتراب الساعته از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ صفحہ ۱۹۷) خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ کی کتابوں میں بہت تصریح سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ضرور طاعون پڑے گی اور اس مری کا انجیل میں بھی ذکر ہے اور قرآن شریف میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ قَرْيَةِ الَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيِّمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا الخ (بنی اسرائیل: ۵۹) یعنی کوئی بستی ایسی نہیں ہوگی جس کو ہم کچھ مدت پہلے قیامت سے یعنی آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ہلاک نہ کر دیں یا عذاب میں مبتلا نہ کریں.“ ( نزول مسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۹۶) یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابتہ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ
655 آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُعَلِّمُهُمُ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِالتِنَا لَا يُوقِنُونَ (النمل: (۸۳) اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے.دیکھوسورۃ النمل الجز نمبر ۲ نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۵، ۴۱۶) یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ وہ دابتہ الارض یعنی طاعون کا کیٹر از مین میں سے نکلے گا اس میں یہی بھید ہے کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ اُس وقت نکلے گا کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابتہ الارض بن جائیں گے.ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابتہ الارض ہیں اور اب ہم نے اس رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ دابتہ الارض طاعون کا کیڑا ہے.ان دونوں بیانوں میں کوئی شخص تناقض نہ سمجھے.قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں.“ (نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲) نیادر ہے کہ اہل سنت کی صحیح مسلم اور دوسری کتابوں اور شیعہ کی کتاب اکمال الدین میں بتفریح لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ اکمال الدین جو شیعہ کی بہت معتبر کتاب ہے اُس کے صفحہ ۳۴۸ میں لکھا ہے کہ یہ بھی اس کے ظہور کی ایک نشانی ہے کہ قبل اس کے کہ قائم ہو یعنی عام طور پر قبول کیا جائے دنیا میں سخت طاعون پڑے گی.“ نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۹۶، ۳۹۷) تورات و انجیل میں طاعون کی پیشگوئی مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ تورات اور انجیل ( زکریا ۱۴/۱۲ پرانا عہد نامہ ) میں طاعون کی پیشگوئی ہے.یہ جھوٹ ہے.جواب: جھوٹ نہیں بلکہ تمہاری اپنی بدقسمتی ہے کہ بے وجہ نبی کے منکر ہو گئے ہو.انجیل متی کا
656 حوالہ حضرت نے دیا ہے اور یہ حوالہ درست ہے.انجیل مطبوعہ ۱۸۵۷ء میں منتی ۲۴/۸ پر مذکور ہے کہ مسیح کی ایک نشانی مری کا پڑنا بھی ہے.لیکن بعد میں عیسائیوں نے اس کو منتی ۲۴/۸ سے نکال دیا ہے.يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مُوَاضِعِهِ (النساء: ۲۷) لیکن اگر تم نے مزید تسلی کرنی ہو تو انجیل لوقا ۲۱/۱۰ پر جو ۱۹۲۸ء میں چھپی ہے اس میں بھی موجود ہے.جابجا کال اور مری پڑے گی.“ تفصیل دیکھوز بر عنوان "مسیح کی آمد ثانی کی علامات پاکٹ بک ہذا ) تورات : حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تورات میں بھی طاعون کی پیشگوئی کا ذکر کیا ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۵ ) چنانچہ اس کے لئے زکریا ۱۴/۱۲ دیکھو اور انگریزی بائبل مطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ۱۸۸۵ ، صفحہ ۱۰۰۷ میں تو لفظ پلیگ (PLAGUE) بھی موجود ہے."And this shall be the plague where with the Lord will smite ( زکریا ۱۴/۱۲) ".all the people یعنی یہ پلیگ ہوگی جس سے خدا تعالیٰ خدا کے گھر کے خلاف لڑائی کرنے والوں کو ہلاک کرے گا.نوٹ:.(۱) بائبل کے اس حوالہ میں جو لفظ ”پلیگ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ طاعون ہی ہے.چنانچہ ملاحظہ ہو انگریزی عربی ڈکشنری موسومہ بہ القاموس العصرى الانکلیزی عربی مؤلفہ الیاس انطون زیر لفظ طعن " جہاں لکھا ہے.طاعون PLAGUE یعنی پلیگ کے معنے طاعون ہیں.۲.اسی طرح عربی سے انگریزی اور فارسی سے انگریزی ڈکشنریوں میں لفظ ” طاعون“ کا ترجمہ پلیگ اور Pestilences لکھا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ لفظ پلیگ تو تو رات زکریا ۱۴/۱۲ میں آتا ہے اور لفظ Pestilences مسیح کی آمد ثانی کی علامات میں لوقا ۲۱/۱۱ میں ہے.دیکھو مسیح کی آمد ثانی کی علامات پاکٹ بک طذا ) نیز حضرت اقدس نے متی ۲۴/۸ کا حوالہ دیا ہے جو انگریزی انجیل متی ۲۴/۸ میں اب بھی موجود ہے اور جیسا کہ ثابت ہوا ہر دو لفظوں کا ترجمہ طاعون ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بائیل کا حوالہ درست دیا ہے.ذرا لگتے ہاتھ اِسْمةَ أَحْمَدُ (الصف:۷) اور النَّبِيُّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ (الاعراف: ۱۵۸) کے مطابق تو رات اور انجیل سے ”احمد“ کا نام اور ایک اُمی نبی کی پیشگوئی نکال دینا تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ انجیل وتورات
657 محرفہ سے اگر کوئی حوالہ نہ ملے تو یہ مصنف کی غلطی نہیں.بلکہ عیسائیوں کی ہشیاری کا نتیجہ ہے کہ وہ ہر دس سال کے بعد انجیل کو تبدیل کر دیتے ہیں.(دیکھو مضمون تحریف بائبل پاکٹ بک ہذا) ۵.غلام دستگیر قصوری کا مباہلہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ غلام دستگیر قصوری نے بددعا کی تھی.یہ جھوٹ ہے.اس کے ساتھ کوئی مباہلہ نہ ہوا تھا.الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۷ پر جن علماء کو مباہلہ کیلئے مقابل پر بلایا ہے اور اپنی طرف سے ان کے لیے بد دعا کر دی ہے ان میں مولوی غلام دستگیر کا نام بھی ہے.( انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۷۰ ) اس کے بالمقابل ان میں سے جو شخص بھی بددعا کرے گا اس کا مباہلہ حضرت کے ساتھ متفق ہو جائے گا.چنانچہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے بددعا کی.اللَّهُمَّ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا مَالِكَ الْمُلْكِ جیسا کہ تو نے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحار الانوار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کا ذب اور جعلی مسیح کا بیڑا غرق کیا ( جوان کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا) و یسا ہی دعا اور التجاء اس فقر قصوری کی ہے جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے کہ تو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبتہ النصوح کی توفیق عطا فرما.اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت قرآنی کا بنا فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: (٤٦) إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَبِالْإِجَابَةِ جَدِيرٌ تَبَّا لَهُ وَلَا تُبَاعِهِ.“ (فتح رحمانی به دفع کید کادیانی لدھیانہ مطبع احمدی ۱۳۱۵ھ مؤلفه غلام دستگیر قصوری صفحہ ۲۷ وصفحہ ۲۸ و نیز حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۴).مولوی محمد اسمعیل علیگڑھی کی بددعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۴۳ حاشیہ پر لکھا ہے.مولوی اسمعیل نے اپنے ایک رسالہ میں میری موت کے لئے بد دعا کی تھی پھر بعد اس بددعا کے جلد مر گیا اور اس کی بددعا اُسی پر پڑ گئی.“ جواب: تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیوں یہ حوالہ طلب نہ کیا.جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تم کو اصل بات کا علم ہے.بات یہ تھی کہ مولوی اسمعیل علیگڑھی نے ایک کتاب لکھی
658 جس میں یہ بددعا تھی.ابھی وہ کتاب چھپ رہی تھی کہ علیگڑھی مرگیا.مولویوں نے اس کی کتاب میں سے وہ سب بددعائیں نکال ڈالیں تا کہ حضرت مسیح موعود کی صداقت پر گواہ نہ بن جائے.وہ کتاب جو ابھی زیر طبع تھی مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے دیکھی تھی اور انہوں نے اس کے متعلق شہادت بھی دی تھی کہ اس کتاب کا سائز فتح اسلام ( مؤلفہ حضرت مسیح موعود ) کا سائز تھا.اگر اس نے کوئی ایسی بددعا نہ کی تھی تو تم نے حضرت مسیح موعود سے کیوں حوالہ نہ مانگا.تمہاری تحریف کی تو یہ حالت ہے کہ شرح فقہ اکبر مطبوعہ مصر کے صفحہ ۹۹ پر لَوْ كَانَ مُوسى حَيًّا، لکھ دیا ہے تا کہ کسی طرح عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت نہ ہو.ع کچھ تو لو گو خدا سے شرماؤ ے.حدیث سوسال کے بعد قیامت آجائے گی اس کا حوالہ دو.جواب :.یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں ہے.(۱) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَمَّا رَجَعْنَا مِنْ تَبُوكِ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَتَى السَّاعَةُ فَقَالَ لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ سَنَةٍ وَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ الْيَوْمَ ( معجم صغیر طبرانی جز اول صفحہ ۳۱.دار الکتب العلمیة بیروت) ابوسعید کہتے ہیں کہ جب ہم جنگ تبوک سے واپس آئے تو ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کب ہوگی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام بنی آدم پر سو سال نہ گزرے گا مگر آج کے زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا.یاد رہے کہ سائل کا سوال قیامت کے متعلق ہے.(۲) فَقَالَ اَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ عَلى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمِ عَلَى ظَهْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ.“ (ترمذی ابواب الفتن باب لا تاتى مائة سنة و على الارض نفس منفوسة اليوم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کی اس رات سے سو سال نہ گزرے گا کہ روئے زمین کے موجودہ زندوں میں سے کوئی باقی نہ رہے گا.(۳) اس حدیث پر یہ حاشیہ لکھا ہے :.اِنَّ الْغَالِبَ عَلَى أَعْمَارِهِمْ أَنْ لَّا تَتَجَاوَزَ ذَلِكَ الأمُرُ الَّذِى أَشَارَ إِلَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَكُونُ قِيَامَةُ أَهْلِ ذَلِكَ الْعَصْرِ قَدُ قَامَتُ “ (ترندی ابواب الفتن باب ۶۴ حدیث نمبر ۷ ۲۲۵ دار احیاء التراث العربی )
659 کہ ان کی عمر کے لئے غالب امر یہی تھا کہ وہ اس مدت سے جس کی تعیین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی تجاوز نہ کریں.پس اس زمانہ کے تمام لوگوں پر قیامت آگئی.(۴) صحیح مسلم میں ہے.مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةِ الْيَوْمَ يَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةً سَنَةٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ حَيَّةٌ.(كنز العمال كتاب القيامة من قسم الاقوال حديث نمبر ۳۸۳۴۰ ومسلم کتاب الفتن باب قرب الساعة) یعنی سو سال نہیں گزرے گا کہ آج کے زندوں میں سے کوئی بھی زندہ جان باقی نہ ہوگی.“ (۵) مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتا ہے :.آنحضرت فداہ امی وابی نے فوت ہوتے وقت فرمایا تھا کہ جو جاندار زمین پر ہیں.آج سے سو سال تک کوئی بھی زندہ نہ رہے گا.“ دجال یا "رجال" ( تفسیر ثنائی جلد ۲ صفحه ۱۰۵) اعتراض :.مرزا صاحب نے تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳ے میں يَخْرُجُ فِي اخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالٌ يَخْتَلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ.کو حدیث قرار دیا ہے اور یہ دجال نہیں بلکہ رجال“ رکے ساتھ ہے.الجواب:.یہ دجال دال کے ساتھ ہی ہے.چنانچہ کنز العمال كتاب القيامة من قسم الاقوال حدیث نمبر ۳۸۴۴۱ میں ” دال “ ہی کے ساتھ ہے.۲ قلمی نسخہ میں بھی ” دال “ ہی کے ساتھ ہے.چنانچہ مولانا مخدوم بیگ صاحب نائب شیخ الحدیث لکھتے ہیں:.(کنز العمال كتاب القيامة من قسم الاقوال حدیث نمبر (۳۸۴۴) يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالٌ يَخْتَلُوْنَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ الحَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قلمی نسخہ میں دجال بالدال صاف طور پر لکھا ہے.مخدوم بیگ عفی عنہ مدرس مدرسه نظامیه منقول از تجلیات رحمانیہ از مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب مطبوعہ سٹیم پریس ۹ - قرآنی پیشگوئی درباره تکفیر مسیح موعود دسمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۹۲) بعض غیر احمدی مولوی یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں یہ پیشگوئی ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس پر کفر کا فتو ی لگایا جائے گا.
660 یہ جھوٹ ہے.الجواب:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن آیات قرآنی سے استنباط فرما کر یہ تحریر فرمایا ہے کہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگے گا حضور نے اپنی تحریرات میں ان آیات کا حوالہ بھی دیا ہے.ا.قرآن نے بہت سے امثال بیان کر کے ہمارے ذہن نشین کر دیا ہے کہ وضع عالم دوری ہے اور نیکوں اور بدوں کی جماعتیں ہمیشہ بروزی طور پر دنیا میں آتی رہتی ہیں وہ یہودی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے.خدا نے دعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سکھلا کر اشارہ فرما دیا کہ وہ بروزی طور پر اس اُمت میں بھی آنے والے ہیں تا بروزی طور پر وہ بھی اس مسیح موعود کو ایذا دیں جو اس اُمت میں بروزی طور پر آنے والا ہے.“ ( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۸۳ ۴۸۴ ) وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَك هُمُ الفَسِقُونَ (النور: ۵۶).پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے.“ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدی اصفحه ۱۹۱،۱۹۰ بقیہ حاشیہ) ۳.نیز دیکھ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۶،۱۰۳۵۶ طبع اول ۴ مفصل ومزید بحث دیکھو پاکٹ بک صفحہ ۸۲۵ پر.۱۰.مفتری جلد پکڑا جاتا ہے اعتراض:.حضرت نے لکھا ہے: ”دیکھو خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں.“ (نشان آسمانی.روحانی خزائن جلدہ صفحہ ۳۹۷) حالانکہ قرآن پاک میں کہیں نہیں لکھا کہ میں مفتری کو جلد ہلاک کرتا ہوں بلکہ اس کے الٹ ہے.إِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا (یونس: ۷۱۷۰ ).( محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۵۱ او صفحریم ۱۷ مطبوعہ یکم مارچ ۱۹۳۵ء) الجواب:.(1) افترا علی اللہ کرنے والے کو پکڑنے کے متعلق الہی قانون پر ہم نے مفصل بحث صداقت حضرت مسیح موعود کی دوسری دلیل کے ضمن میں کردی ہے.(دیکھو پاکٹ بک بذ اصفحہ ۳۳۵) (۲) مگر اس جگہ جو آیت تم نے پیش کی ہے اس کے مفہوم کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے.
661 متاع في الدُّنيا سے مراد معترض نے غالباً لمبی مہلت لی ہے تبھی تو اس کو جلد پکڑے جانے‘ کے الٹ قرار دیا ہے.حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے.تم خود اپنی محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۲۷۲ و صفحه ۲۴۷ مطبوعه ۱۹۳۵ء پر اپنے ہاتھ کاٹ چکے ہو.جہاں پر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت نقل کی ہے:.إِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم (النحل : ۱۱۸،۱۱۷) اور خود ہی یہ ترجمہ بھی کیا ہے.تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے انہیں نفع تھوڑا ہے.عذاب دردناک گویا پہلی آیت میں جو صرف ”متائع“ کا لفظ تھا جس سے تم نے مغالطہ دینا چاہا کہ گویا مفتری کو لمبی مہلت ملتی ہے.اس آیت نے صاف کر دیا کہ مَتَاع قليل “ کہ لمبی مہلت نہیں بلکہ تھوڑی مہلت ملتی ہے.ہاں تمہارا یہ کہنا کہ ۲۳ برس کی مہلت کو جلد (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۲۴۹) کیونکر قرار دیا جاتا ہے اور کیا ۲۳ سال کا "جلد" ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ۲۳ برس تو زیادہ سے زیادہ مہلت ہے جس تک کسی صورت میں بھی کوئی مفتری نہیں پہنچ سکتا.اور سچے کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے خواہ سوسال جیئے.مگر ہاں بعض دفعہ ۲۳ سال کیا ۱۴۰۰ سال کا جلد ہوا کرتا ہے.ملاحظہ ہو:.ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - اَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ (ابن ماجه کتاب الفتن باب اشراط الساعة ) کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں جس طرح دو جڑی ہوئی انگلیاں.مگر ۱۳۷۲ سال گزر گئے ابھی تک وہ جلد ختم نہیں ہوا.۲.ہاں سنو ! قرآن مجید میں ہے."اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ “ (القمر: ٢) كه قیامت ” قریب آگئی اور چاند کے دوٹکڑے ہو گئے.۱۴۰۰ سال گزرنے کو آئے مگر ابھی تک قیامت نہ آئی.فرمائیے یہ جلد کتنا طویل ہو گیا.ا.انبیاء گزشتہ کے کشوف حضرت مرزا صاحب نے اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۷۱ میں لکھا ہے کہ اسلام کے موجودہ ضعف اور دشمنوں کے متواتر حملوں نے اُس کی ضرورت ثابت کی اور اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگادی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا.کسی نبی
662 کے کشف کا حوالہ دو.جواب:.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اربعین نمبر ۲ یا کسی دوسری کتاب میں اس ضمن میں انبیاء گزشتہ" کا لفظ نہیں لکھا بلکہ اولیاء گزشتہ لکھا ہے.چنانچہ اربعین (جو حضرت اقدس کے زمانہ میں چھپی تھی) اس کے دونوں ایڈیشنوں میں علی الترتیب صفحہ ۲۳ وصفحہ ۲۵ پر اولیاء گزشتہ ہی کا لفظ ہے، ہاں اربعین نمبر ۲ کے ایک نئے ایڈیشن میں جو بک ڈپو نے شائع کیا ہے کاتب کی غلطی سے لفظ اولیا ء کی بجائے انبیاء “ لکھا گیا ہے.وہ حجت نہیں.تمہیں شرم آنی چاہیے کہ محض کتابت کی غلطیوں کی بناء پر مخلوق خدا کو دھوکا دے کر حق کے راستہ میں روکاوٹیں پیدا کرتے ہو.حالانکہ تم کو بارہا مناظرات میں اربعین نمبر ۲ ایڈیشن اول علیحدہ صفحہ ۲۳ اور مجموعہ نمبر او نمبر ۲ صفحہ ۲۵ سے لفظ ’اولیا ء“ دکھایا بھی جاچکا ہے.۱۲.انبیاء گزشتہ کی پیشگوئی حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ہر نبی نے مسیح موعود کی آمد کی خبر دی ہے اس کا حوالہ دو؟ الجواب: بخاری شریف میں ہے:.قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مَا بُعِثَ نَبِيٌّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْاعْوَرَ الْكَذَّابَ (بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو دقبال سے نہ ڈرایا ہو.“ پس جہاں تمام انبیاء دقبال کا ذکر کرتے رہے ضروری ہے کہ اس کے قاتل مسیح موعود کا بھی اس کے ساتھ ہی ذکر کرتے رہے ہوں.۲.ذرا مہر بانی کر کے پہلے تمام نبیوں کی کتابوں سے’ کانے دجال کا ذکر نکال کر دکھا دو.ہم وہیں سے مسیح موعود کی آمد کی پیشگوئی بھی نکال دیں گے..ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ انبیاء گزشتہ اپنی امتوں کے سامنے دجال کی آمد کا ذکر تو کریں مگر اس کے قاتل مسیح موعود کا ذکر نہ کریں.اس کی تائید دلائل النبوت کے مندرجہ ذیل حوالہ سے ہوتی ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ...قَالَ مُوسَى ) يَا رَبِّ إِنِّي أَجِدُ فِي الْاَلْوَاحِ أُمَّةً يُؤْتَوْنَ الْعِلْمَ الأَوَّلَ وَالْآخِرَ فَيَقْتَلُونَ قُرُونَ الضَّلَالَةِ
663 الْمَسِيحَ الدَّجَّالِ فَاجْعَلُهَا أُمَّتِي قَالَ تِلْكَ أُمَّةُ أَحْمَدَ.66 (دلائل النبوة لابی نعیم جلد اصفحریم ۱ مطبوع ۱۳۲۰ھ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کی کہ اے اللہ ! میں نے اپنی الواح میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک ایسی قوم ہوگی جن کو اگلا اور پچھلا سب علم دیا جائے گا اور وہ گرا ہی کی طاقتوں یعنی دجال کو قتل کریں گے.اے خدا! میری امت کو وہ قوم بنا دے.اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ نہیں وہ قوم تو احمد کی جماعت ہے.اس روایت میں دجال کے خروج اور مسیح موعود کی بعثت کو علت و معلول اور لازم وملزوم قرار دیا گیا ہے.نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دجال کا مقابلہ کرنے والی جماعت احمد کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوگی.یعنی ”جماعت احمدیہ کہلائے گی.۱۳.مکتوبات کا حوالہ بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶ پر جو حوالہ مکتوبات کا دیا ہے کہ جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر ہوں.وہ نبی ہوتا ہے.یہ غلط ہے.مکتوبات میں لفظ نبی نہیں بلکہ محدث کا ہے.الجواب : مکتوبات امام ربانی حضرت مجددالف ثانی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کی زبان فارسی ہے مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶ پر اردو عبارت لکھی ہے.پس حضرت اقدس علیہ السلام نے مکتوبات کی اصل عبارت نقل نہیں فرمائی بلکہ مکتوبات کی کسی عبارت کا مفہوم درج فرمایا ہے اور مکتوبات میں ایسی عبارت موجود ہے جس کا مفہوم وہی ہے جو حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے.چنانچہ وہ عبارت درج ذیل کی جاتی ہے:.متشابهات قرآنی نیز از ظاہر مصروف اند و بر تاویل محمول قَالَ اللهُ تَعَالَى وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا الله یعنی تاویل آن متشابه را هیچ کس نمی داند مگر خدائے عزوجل.پس معلوم شد که متشابه نزد خدائے جل وعلا نیز محمول بر تاویل است و از ظاہر مصروف وعلمائے راسخین را نیز از علم این تاویل قلبی عطا می فرمائد.چنانچہ بر علم غیب که مخصوص با دست سبحانه خاص رسل را اطلاع می بخشد آن تاویل را خیال نکنی که در رنگ تاویل بدست بقدرت و تاویل وجہ بذات حاشا و کلاً آن تاویل از اسرار است که به اخص
664 خواص علم آن عطامی فرماند (مکتوبات امام ربانی جلد صفحه ۲۴۶ مطبع نولکشور مکتوب نمبر۳۱۰) یعنی قرآن مجید کے متشابہات بھی ظاہری معنی سے پھر کر محمول برتاویل ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ان کی تاویل سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا.پس معلوم ہوا کہ متشابہات خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک بھی محمود بر تاویل ہیں اور ان کے ظاہری معنے مراد نہیں اور خدائے تعالیٰ علمائے راسخین کو بھی اس علم کی تاویل سے حصہ عطا فرماتا ہے.چنانچہ اس سے بڑھ کر علم غیب جو خدا تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اس کی اطلاع صرف رسولوں کو ہی عطا فرماتا ہے.اس تاویل کو ویسی نہ سمجھنا چاہیے جیسی کہ ہاتھ سے مراد قدرت اور وجہ سے مراد ذات الہی ہے.حاشا و کلا ایسا نہیں بلکہ اس تاویل کا علم تو وہ اپنے خاص الخاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے.اس عبارت میں حضرت امام ربانی مجددالف ثانی نے بتصریح تحریر فرمایا ہے کہ اسرار قرآنی کو اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے خواص امت پر کھولتا ہے مگر جن کو اپنے مخصوص علم غیب سے اطلاع دیتا ہے وہ ”رسول“ ہوتے ہیں.پس تمہارا اعتراض بے محل ہے.۱۴.تفسیر ثنائی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نے حمامة البشرکی صفحہ ۴۷ طبع اول میں تفسیر ثنائی ( از مولانا ثناء اللہ پانی پتی) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کی درایت کمزور تھی.حالانکہ تفسیر ثنائی مصنفہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری میں یہ کہیں نہیں ملتا.الجواب: - تجاہل عارفانہ سے کام نہ لو تفسیر ثنائی سے مراد مولوی ثناء اللہ امرتسری کی نام نہاد تفسیر نہیں.بلکہ جناب مولانا ثناء اللہ صاحب پانی پتی کی مشہور و معروف تفسیر ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسری جگہ معترض کی محولہ کتاب (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۳ طبع اول) سے کئی سال پہلے تصریح فرما چکے ہیں.قَالَ صَاحِبُ التَّفْسِيرِ الْمَظْهَرِي اَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ صَحَابِيٌّ جَلِيلُ الْقَدْرِ، وَلَكِنَّهُ أَخْطَأَ فِي هَذَا التَّأْوِيلِ.(حمامة البشر گی.روحانی خزائن جلد ے صفحہ ۲۴۰) که مصنف تفسیر مظہری نے لکھا ہے کہ گو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں لیکن انہوں نے اِنُ مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ والی آیت میں اپنی طرف سے تاویل کرنے میں غلطی
665 کھائی ہے.پس حضرت اقدس علیہ السلام نے جس تفسیر کا حوالہ دیا ہے وہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر نہیں بلکہ تفسیر مظہری مؤلفہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ہے.اس تفسیر میں بعینہ آیت محولہ "وَ اِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ“ کے نیچے لکھا ہے:.تَأْوِيلُ الْآيَاتِ بِارْجَاعِ الضَّمِيرِ الثَّانِي إِلَى عِيْسَى مَمْنُوعٌ إِنَّمَا هُوَ زَعْمٌ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ لَيْسَ ذَلِكَ فِي شَيْءٍ فِي الْأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ وَكَيْفَ يَصِحُ هَذَا التَّأْوِيلُ مَعَ إِنَّ كَلِمَةً إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ شَامِلٌ لِلْمَوْجُودِيْنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَجْهَ أَنْ يُرَادَ بِهِ فَرِيقٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ يُوْجَدُوْنَ حِيْنَ نُزُولِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ “ (تفسیر مظہری تفسیر سورة النساء زير آيت و ان من اهل الكتاب الا ليومنن به (النساء: ١٦٠) یعنی آيت إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ مِیں قَبْلَ مَوْتِہ کی ضمیر کو عیسی علیہ السلام کی طرف پھیرنا ممنوع ہے.(حضرت ابو ہریرہ نے اس سے حضرت عیسیٰ مراد لئے ہیں تو ) یہ حضرت ابوہریرہ کا اپنا زعم ہے جس کی تصدیق کسی حدیث سے نہیں ہوتی اور ان کا یہ خیال درست ہو کیونکر سکتا ہے جبکہ کلمہ "ان من میں تمام وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ اس سے مراد صرف وہ یہودی لئے جائیں جو حضرت عیسی کے نزول کے وقت موجود ہوں گے.ย ۱۵.حضرت ابو ہریرۃ کا اجتہاد باقی عبارت محولہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت ابو ہریرہ کے اجتہاد کو جو مردود قرار دیا ہے تو یہ درست ہے.ملاحظہ ہو:.۱.اصول حدیث کی مستند کتاب اصول شاشی ( علامہ نظام الدین اسحاق بن ابراہیم الشاشی ) میں ہے.الْقِسْمُ الثَّانِي مِنَ الرُّوَاةِ هُمُ الْمَعْرُوفُونَ بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَةِ دُونَ الْإِجْتِهَادِ وَالْفَتْوَى كَابِي هُرَيْرَةَ وَانْسِ ابْنِ مَالِك (اصول شاشى مع شرح از محمد فیض الحسن الاصل الثاني بحث تقسيم الراوی علی قسمین مطبوع کانپور صفحہ ۷۵ ) کہ راویوں میں سے دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ اور دیانتداری کے لحاظ سے تو مشہور ہیں.اجتہاد اور فتویٰ کے لحاظ سے قابل اعتبار نہیں جیسے
666 ابو ہریرہ اور انس بن مالک.۲.عَنْ أَبِي حَسَّانِ أَنَّ رَجُلَيْنِ دَخَلَا عَلَى عَائِشَةَ فَحَدَّثَهَا أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الطَّيَرَةُ فِى الْمَرُءَةِ وَالْفَرْسِ وَالدَّارِ فَغَضِبَتْ غَضْبًا شَدِيدًا فَقَالَتْ مَا قَالَهُ إِنَّمَا قَالَ كَانَ اَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَطَيَّرُونَ مِنْ ذَالِكَ.“ (اصول الشاشى مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃ صفحہ ۲۹) کہ دو شخص حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور کہا کہ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ عورت، گھوڑے اور گھر میں بدشگونی ہوتی ہے.اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً نہیں فرمایا بلکہ آپ نے تو یہ فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان کو بدشگون سمجھتے تھے.۳.حضرت ابو ہریرہ بے شک روزہ دار کے حق میں فتویٰ دیتے تھے کہ صبح ہونے سے پہلے غسل کر چکے اور عائشہ صدیقہ کی روایت چونکہ مرفوع ہے.اس لیے بحکم اصول حدیث وہ مقدم ہے.کیونکہ شارع علیہ السلام کا فعل ہے اور ابو ہریرہ کا فتویٰ ان کا اجتہادی ہے.( اہلحدیث ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۰ء ).فقہاء میں بعض اس بات کے قائل ہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس کے سامنے جب اس مسئلہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا.تو حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا.اگر یہ صحیح ہو تو اس پانی کے پینے سے بھی وضوٹوٹ جائے گا جو آگ پر گرم کیا گیا ہو.حضرت عبداللہ بن عباس حضرت ابو ہریرہ کو ضعیف الروایت نہیں سمجھتے تھے لیکن چونکہ ان کے نزدیک یہ روایت درائت کے خلاف تھی اس لیے انہوں نے تسلیم نہیں کی اور یہ خیال کیا کہ سمجھنے میں غلطی ہوگی.( اہلحدیث ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء) ۱۶.مبارک احمد کی وفات کی پیشگوئی صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اس کی وفات کے متعلق میں پہلے سے پیشگوئی کر چکا ہوں کہ وہ بچپن میں فوت ہو جائے گا ( تریاق القلوب طبع اوّل صفحه ۴۰ حاشیہ ) یہ جھوٹ ہے(نعوذ بالله) جواب:.مبارک احمد کی وفات پر حضرت اقدس علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا.اسی حوالہ میں
667 موجود ہے.اللہ تعالی نے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی موت کی خبر دے رکھی تھی.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۳ میں لکھا ہے.اِنِّی اَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَأصِيبُهُ - تذکره صفحه ۲۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء مگر قبل از وقت ذہول رہتا ہے اور ذہن منتقل نہیں ہوا کرتا “.(الحکم جلدا انمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) نمبر۳۴ ا.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۱۳ ( جس کا حوالہ حضرت نے دیا ہے ) اس میں ہے.إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللهِ وَاصِيبُهُ - کہ میں اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہوں اور اسی کی طرف چلا جاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تریاق القلوب میں اس الہام کو مع ترجمہ درج فرما کر اپنی طرف سے لکھتے ہیں :.اس کا مطلب یہ ہے کہ یڑ کا چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے گا.یا یہ رجوع بحق ہوگا“.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۱۳) ۲- ۱۸/ نومبر ۱۹۰۶ء:.دیکھا کہ ہمارے باغ ( بہشتی مقبرہ) میں کچھ لوگ ایک جڑھ لگا رہے ہیں ساتھ ہی الہام ہوا ”مبارک.(الحکم جلد نمبر ۴۰ ۲۴۰ نومبر ۱۹۰۶ صفحه۱).خواب میں دیکھا کہ میں نے ایک عورت کو تین روپے دیئے ہیں اور اس سے کہتا ہوں کہ کفن کے لئے میں آپ دوں گا.گویا کوئی مرگیا ہے.اس کی تجہیز و تکفین کے لئے تیاری کی ہے“.الحکم جلد نمبر ۲۷.۳۱ / جولائی ۱۹۰۷ء صفحه ۳) حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۱۶ رستمبر ۱۹۰۷ء کو فوت ہوئے..میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک گڑھا قبر کے اندازہ کی مانند ہے اور ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس میں ایک سانپ ہے.اور پھر ایسا خیال آیا کہ وہ سانپ گڑھے میں سے نکل کر کسی طرف بھاگ گیا ہے اس خیال کے بعد مبارک احمد نے اس گڑھے میں قدم رکھا اس کے قدم رکھنے کے وقت محسوس ہوا کہ وہ سانپ ابھی گڑھے میں ہے اور اس سانپ نے حرکت کی.الحکم جلدا انمبر ۶.۷ارفروری ۱۹۰۷ ء صفحہ۱) ۵ - إِنَّ خَبَرَ رَسُولِ اللهِ وَاقِع رسول اللہ نے جوخبر بتلائی تھی وہ واقع ہونے والی ہے.فرمایا: کسی پیشگوئی کے ظہور کا وقت قریب آ گیا ہے.ایک بڑا ستارہ ٹوٹا ہے.“ الحکم جلدا انمبر ۲۸-۲۴ /اگست ۱۹۰۷ء صفحه ۳)
668 ۱۷.كَانَ فِي الْهِنْدِ نَبِيًّا ا.مرزا صاحب نے چشمہ معرفت ضمیمہ صفحہ میں حدیث لکھی ہے کہ "كَانَ فِي الْهِنْدِ نَبِيًّا أَسْوَدَ اللَّوُن اِسْمُهُ كَاهِنًا اس کا حوالہ دو.ب.مرزا صاحب نے ایسے شخص کو نبی کہا جس کا قرآن میں نام نہیں.الجواب:.(۱) یہ حدیث تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف میں ہے.(ب) قرآن مجید میں ہے ا.وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا “ (النحل: ۳۷) کہ ہم نے ہر قوم میں نبی بھیجے ہیں.٢ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: ۲۵) وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد: ۸) پس ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن مجید کے قبل بھی ہندوستان میں کوئی نبی ہو چکا ہے.(ج) باقی رہا ان کو نبی قرار دینا جس کا نام قرآن مجید میں بطور نبی نہ لکھا ہوا ہو تو آپ ہی کے علماء نے مندرجہ ذیل بزرگوں کو نبی کیسے قرار دیا.ا.ذوالقرنین نبی تھا.(تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت وَيَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ - الكهف:۸۳) حالانکہ قرآن مجید میں کہیں نہیں لکھا کہ ذوالقرنین نبی تھا.۲.خضر ( تغیر کبیر زیر آیت تما كتاتيغ - الكهف :۲۵) حالانکہ قرآن مجید میں خضر کا نام تک نہیں.۳ - لقمان ابن جریر زیر آیت وَلَقَد اتينا لقمنَ الْحِكْمَةَ - لقمان : ١٣) فَعَزَزْنَا بِثَالِثٍ “ والی آیت سورۃ یسین کے متعلق مفسرین نے (خصوصاً حضرت ابن عباس نے ) (۱) یوحنا (۲) پولوس (۳) شمعون کو ”هُم رُسُلُ اللهِ“ کہا ہے.(روح المعانی زیر آیت فَعَزَّزُنَا بِثَالِتٍ - یس : ۱۵) ۵.خالد بن سنان نبی تھا ( جمل لابی بقاء جلد اصفحه ۴۹۹ و تفسیر حسینی جلد اصفحه ۱۲۹) ۶.نیز مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے بھی کرشن کو نبی مانا ہے.(دیکھو دھرم پر چار صفحه ۸ و مباحثہ شاہجہان پور صفحه ۳۱)
669 ۱۸.ایس مشت خاک را گر نہ بخشم چه کنم مرزا صاحب نے لکھا ہے (البدر جلد نمبر ۱ مورخہ ۲ جنوری ۱۹۰۳، صفحہ ۷۷ ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں مندرجہ بالا الہام ہوا.اس کا حوالہ دو؟ جواب:.یہ حدیث کتاب کو ثر النبی "باب الفاء میں ہے جو قادیان کے کتب خانہ میں موجود ہے.باقی رہا نبی کو غیر زبان میں الہام ہونا.تو اس کا جواب بالتفصیل الہامات پر اعتراضات کے جوابات میں گزر چکا ہے.۱۹.طاعون کے وقت شہر سے نکلنا مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ حدیث میں ہے جس شہر میں وہا ہو.اس شہر کے لوگ بلا توقف شہر سے باہر نکل آئیں.ریویو جلد ۶ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳۶۵) جواب:.(الف) يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الطَّاعُونَ رِجْسٌ فَتَفَرَّقُوا عَنْهُ فِي الشَّعَابِ.اے لوگو ! یہ طاعون نہایت خبیث ہے.پس تم گھاٹیوں اور میدانوں میں پھیل جاؤ.( قول عمر و بن عبسہ کنز العمال جلد ۲ صفحه۲۲۴ بڑی سختی والی ہمسند احمد بن حنبل حدیث شرجیل بن مسنہ حدیث ۱۷۷۵۳) (ب) قرآن مجید میں ہے.وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ( ق :۱۲) پس شہر یا گاؤں کی ملحقہ زمینیں شہر ہی میں شامل ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو منع فرمایا ہے.وہ شہر سے باہر نکلنے سے ہے.اس امر سے منع نہیں فرمایا کہ شہر یا گاؤں کی ملحقہ اراضیات میں بھی نہ جایا جائے.۲۰.چاند و سورج کو دو دفعہ گرہن حضرت مرزا صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۵ طبع اول میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ مہدی کے وقت میں کسوف خسوف رمضان دو دفعہ ہو گا.چنانچہ امریکہ اور ہندوستان میں دو دفعہ یہ کسوف خسوف ہوا.جو میری صداقت کی دلیل ہے.حدیث و کتاب کا حوالہ دو جہاں دو مرتبہ خسوف کا ذکر ہو.الجواب:.اس کے حوالہ کے لیے دیکھو مج الکرامۃ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپالی صفحه ۳۴۴.پیش از یں کہ ماہ رمضان گزشته باشد.دودے دو کسوف شمس و قمر شده باشد - انتی و در اشاعت گفته دو بار در رمضان خسوف قمر شود
670 وَكَمْ نَدِمْتَ عَلَى مَا كُنْتَ قُلْتَ بِهِ وَمَا نَدِمْتَ عَلَى مَا لَمْ تَكُنْ تَقُل ۲۱.معیارِ طہارت حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک مکتوب محرره ۲۵ نومبر ۱۹۰۳ء میں جوالفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ 9 میں شائع ہوا صحابہ کے متعلق لکھا ہے کہ اگر کپڑے پر منی گرتی تھی تو خشک ہونے کے بعد اس کو جھاڑ دیتے تھے.ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لئے پڑتے تھے...عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے...کسی مرض کے وقت میں اونٹ کا پیشاب بھی پی لیتے تھے.(اخبار الفضل قادیان ۲۲ فروری ۱۹۲۴ صفحه ۹ ) ان امور کا ثبوت دو؟ جواب:.یہ سب امور حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ ثابت کرنے کے لیے تحریر فرمائے ہیں کہ محض شک اور شبہ کی بناء پر آدمی کو غسل کرنے اور کپڑے دھونے کا وہم نہیں کرنا چاہیے.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام اسی خط میں تحریر فرماتے ہیں :.اسی طرح شک وشبہ میں پڑنا بہت منع ہے.شیطان کا کام ہے جو ایسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے.ہر گز وسوسہ میں نہیں پڑنا چاہیے گناہ ہے اور یادر ہے کہ شک کے ساتھ غسل واجب نہیں ہوتا اور نہ صرف شک سے کوئی چیز پلید ہو سکتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب و ہمیوں کی طرح ہر وقت کپڑا صاف نہیں کرتے تھے.(اخبار الفضل قادیان ۲۲ فروری ۱۹۲۴ء صفحه ۹) اس کے بعد آپ نے وہ مثالیں درج فرمائی ہیں جن کا حوالہ معترض نے دیا ہے.باقی رہا ان امور کا جن کا حضور نے ذکر فرمایا ثبوت تو سنو :.ا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی سمجھے کہ اسے رات کو احتلام ہوا تھا مگر تری نہ دیکھے تو اسے غسل کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر غسل نہیں ہے.(منفی لا بن تیمیہ صفحہ ۱۳۸طب اولی مطبع رحمانیہ بمصر ) كُنْتُ أَفْرِكَ الْمَنِى مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَابِسًا ( منتقی لا بن تیمیه صفحه ۲۸ باب ما جاء فی المی طبع اولی مطبع رحمانیہ بمصر ) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر سے خشک شدہ منی کھرچ دیتی تھی..حضرت ابوسعید الخدری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہم بئر بضاعہ
671 کے پانی سے وضو کر لیا کریں.تو حضور صلعم نے فرمایا المَاءُ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ کہ یہ پانی پاک ہے پلید نہیں.پس بے شک وضو کر لیا کرو.حالانکہ وہیں پر لکھا ہے :.هِيَ بِرِّ تُلْقَى فِيهَا الْحِيَضُ وَلُحُومُ الْكِلابِ کہ یہ وہ کنواں تھا جس میں خون حیض اور کتوں کا گوشت پڑتا تھا.وہیں پر ابو داؤد کی روایت کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کنوئیں کا پانی صحابہ پی بھی لیا کرتے تھے.(مشقی مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ ۱ اباب حكـم الـسمـاء اذا لاقته النجاسة طبع اولى مطبع رحمانیہ بمصر ) ۴.عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھانے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے.وَطَعَامُ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتُبَ حِلٌّ لَّكُمْ (المائدۃ ) کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاتھ کا یا ان کا بنا ہوا کھانا حلال ہے.باقی رہا اس کے متعلق یہ مشہور ہونا کہ اس میں سور کی چربی ہوتی تھی.تو اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام کا مکمل فقرہ یوں ہے:.عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ اس میں سور کی چربی پڑتی ہے اصول یہ تھا کہ جب تک یقین نہ ہو ہر ایک چیز پاک ہے.محض شک سے کوئی چیز پلید نہیں ہو جاتی“.(اخبار الفضل قادیان ۲۲ فروری ۱۹۲۴ء صفحه ۹ مکتوب محرره ۲۵ نومبر ۱۹۰۳ء) پس یہ کہنا کہ اس پنیر میں فی الواقعہ سور کی چربی ہوتی تھی حضرت اقدس علیہ السلام پر افتراء ہے حضرت اقدس نے تو یہ فرمایا ہے کہ بات غلط طور پر لوگ مشہور کرتے ہیں مگر چونکہ یہ بات غلط تھی اور صحابہ کے علم کے رو سے بھی اس پنیر میں سور کی چربی نہ ہوتی تھی.اس لیے وہ اس کو استعمال کر لیتے تھے.غرضیکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے.اور صحابہ کا یہ فعل قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کے عین مطابق تھا لیکن ممکن ہے کہ معترض کی تسلی بغیر حوالے کے نہ ہو.اس لیے مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں :.ا.وَجُوخٌ اِشْتَهَرَ عَمَلُهُ بِشَحْمِ الْخِنْزِيرِ وَ جُبُنٌ شَامِيٌّ اِشْتَهَرَ عَمَلُهُ بِالْفَحْتِ الْخِنْزِيرِ وَقَدْ جَاءَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبْنَةٌ مِنْ عِنْدِهِمْ فَأَكَلَ مِنْهَا وَلَمْ يَسْتَلْ عَنْ ذَالِكَ.ذَكَرَهُ شَيْخُنَا فِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ“.(فتح امین شرح قرة العین مصنفہ علامہ شیخ زین الدین بن عبدالعزیز مطبوع ۱۳۱۱ھ صفحریه اباب الصلوۃ) ب.جوخ جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ چربی سور کے اور پنیر شام کا جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ مایۂ سؤر کے اور آیا جناب سرور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پنیر ان کے پاس سے.پس کھایا
672 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اور نہ پوچھا اس سے.“ (رسالہ اظہار حق در باب ”جو از طعام اہل کتاب شائع کردہ خان احمد شاہ صاحب قائمقام اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ہوشیار پور مطبوعہ مطبع اتالیق ہند لا ہور صفحہ ۱۶ا جس پر مولوی سید نذیر حسین دہلوی.مولوی محمد حسین بٹالوی.مولوی عبد الحکیم کلانوری ،مولوی غلام علی قصوری اور دیگر علماء ہند کے دستخط ومواہیر ثبت ہیں مطبوعہ ۱۸۷۵ء) ۵.حضرت ام منہیس بنت محض اپنا ایک شیر خوار بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائیں.بچہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا.لکھا ہے کہ فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَهُ عَلَيْهِ وَ لَمْ يَغْسِلُهُ - (منفی مؤلفه ابن تیمیه صفحه۲۳) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور اپنے کپڑے پر اس کا چھینٹا دیا مگر کپڑے کو نہ دھویا.۶.شکل یا عرینہ کے چند مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے مدینہ میں بباعث نا موافقت آب و ہوا وہ بیمار ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اونٹوں کا پیشاب اور اونٹنیوں کا دودھ پینے کا حکم دیا.“ (مشتلقی مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ ۲۵) غرضیکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جو اس ضمن میں تحریر فرمایا ہے.اس میں کسی شک وشبہ کی یا اعتراض کی گنجائش نہیں.۲۲.تورات کے چارسونبی اعتراض :.حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۶۲۹ طبع اوّل میں لکھا ہے کہ تو رات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چارسونبیوں کو شیطانی الہام ہوا تھا.ا.سلاطین باب ۲۲ آیت ۶ تا ۱۹.تو رات میں ہرگز یہ نہیں لکھا.بلکہ وہاں تو یہ لکھا ہے کہ وہ بعل بت کے پجاری تھے.(۱.سلاطین باب ۱۶ آیت ۲،۳۱.سلاطین باب ۱۰ آیت ۱۹) الجواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن چارسونبیوں کا ذکر فرمایا ہے وہ جھوٹے نبی نہیں تھے.اور نہ وہ بعل بت کے پجاری تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خود تورات کا حوالہ دیا ہے.مجموعه توریت میں سے سلاطین اول باب ۲۲ آیت ۱۹ میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سونبی نے اس کی فتح کے بارہ میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کوشکست آئی.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۹ )
673 مگر جو جھوٹے نبی بعل بت کے پجاری تھے ان کا ذکر باب ۲۲ میں نہیں بلکہ میں ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حوالہ باب ۲۲ کا دیا ہے.نہ کہ باب ۱۶ کا.۲.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے:.بائیل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا.اور ایک پیغمبر جس کو حضرت جبرائیل سے الہام ملا تھا.سو یہ خبر سچی نکلی مگر اس چار سونبی کی پیشگوئی جھوٹی ظاہر ہوئی.“ ( ضرورة الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۸۸) اور یہ سب کچھ ا.سلاطین باب ۲۲ آیت ۵ تا ۲۸ میں لکھا ہوا موجود ہے اور یہوسفط نے شاہ اسرائیل سے کہا.آج کے دن خداوند (نہ کہ بعل.خادم ) کی مرضی الہام سے دریافت کیجئے.تب شاہ اسرائیل نے اس روز نبیوں کو جو چار سو کے قریب تھے اکھٹا کیا.اور ان سے پوچھا.پھر یہوسفط بولا.ان کے سوا خداوند کا کوئی نبی ہے؟ (اس کے بعد لکھا ہے کہ میکا یاہ نبی کو بلایا گیا.خادم ) اس نے (میکایاہ نے) جواب میں کہا دیکھ خداوند تیرے نے ان سب نبیوں کے منہ میں جھوٹی روح ڈالی ہے اور خداوند ہی نے تیری بابت ( مجھ کو ) خبر دی ہے.“ (ا.سلاطین باب ۲۲) غرض باب ۲۲ والے نبی بعل والے نبی نہیں ہیں.بعل والے نبیوں کا ذکر باب ۱۶ میں الگ طور پر درج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر نہیں فرمایا اور ان کی تعداد چار سو نہیں بلکہ چار سو پچاس تھی.(۱.سلاطین ۱۸٫۲۲) پس حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کا ذکر نہیں فرمایا.۳.جہاں تک حوالہ کا تعلق تھاوہ گذر چکا لیکن ہمیں حیرت ہے کہ تو رات کے ان نبیوں پر شیطانی الہام کے ذکر سے تم اتنا کیوں چمکتے ہو جبکہ تم ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی مانتے ہو کہ ایک دفعہ آپ کو بھی شیطانی الہام ہو گیا تھا ( نعوذ باللہ ) دیکھو جلالین مجتبائی صفحہ ۲۸ وزرقانی شرح مواہب الدنیہ جلد اصفحه ۳۴۰ مفصل بحث کے لیے دیکھو پاکٹ بک ہذا مضمون حضرات انبیاء علیہم السلام پر غیر احمدی علماء کے بہتانات‘ آخری حصہ) ۲۳.وعدہ خلافی مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کا اشتہار دیا.لوگوں سے روپے لیے کہ تین سو دلائل (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ) لکھوں گا مگر سب روپے کھا گئے اور دلائل شائع نہ کئے جس سے قومی نقصان ہوا اور وعدہ خلافی بھی.
674 الجواب:.اس اعتراض کے تین حصے ہیں.(۱) وعدہ خلافی.(۲) روپیہ.(۳) قومی نقصان.یعنی اگر وہ دلائل شائع ہوتے تو ان سے بہت فائدہ پہنچتا.سو وعدہ خلافی کے متعلق یا د رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا ارادہ تو فی الواقع تین سو دلائل براہین احمدیہ نامی کتاب ہی میں لکھنے کا تھا مگر ابھی چار حصے ہی لکھنے پائے تھے کہ اللہ تعالی نے آپ کو مامور فر ما دیا اور اس سے زیادہ عظیم الشان کام کی طرف متوجہ کر دیا.اس لیے حضور کو مجبور ابراہین احمدیہ کی تالیف کا کام چھوڑ نا پڑا اور یہ بات اہل اسلام کے ہاں مسلم ہے کہ حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ وعدہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے.جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالی مومن مردوں اور مومن عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہے.اب اگر ایک مومن مرتد ہو جائے تو گو پہلے خدا کا اس کے ساتھ وعدہ جنت کا تھا مگر اب وہ دوزخ کے وعدہ کا مستحق ہو جائے گا.اسی طرح اگر ایک ہند و بعد میں مسلمان ہو جائے تو گو اس کے ساتھ پہلے وعدہ جہنم کا تھا.مگر اب تبدیلی حالات کی وجہ سے وہ جنت کا مستحق بن جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبدیلی حالات کا ذکر براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ٹائیٹل پیج کے آخری صفحہ پر زیر عنوان ”ہم اور ہماری کتاب فرمایا ہے.۲.حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات آنے کا وعدہ کر گئے مگر حسب وعدہ نہ آئے.دوسرے دن جب آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا."لَقَدْ كُنتَ وَعَدَتَّنِي أَنْ تَلْقَانِي فِي الْبَارِحَةِ قَالَ أَجَلُ وَلَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ.“ (مشكوة كتاب اللباس باب التصوير الفصل الاوّل) کہ آپ تو کل آنے کا وعدہ کر گئے تھے.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وعدہ تو کر گئے تھے مگر ہم ایسے مکان میں داخل نہیں ہوا کرتے جس میں کتا یا صورت ہو.عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَتِ الْيَهُودُ لِقُرَيْشٍ اِسْأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ وَ عَنْ أَصْحَابِ الْكَهْفِ وَذِي الْقَرْنَيْنِ فَسَتَلُوهُ فَقَالَ ابْتُونِى غَدًا أُخْبِرُكُمْ وَلَمْ يَسْتَثْنِ فَابْطَا عَنْهُ الْوَحْيُ بِضْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا حَتَّى شَقَّ عَلَيْهِ وَ كَذَّبَتْهُ قُرَيْضٌ.( تفسیر کمالین برحاشیه جلالین زیر آیت و يَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ بنی اسرائیل: ۸۵) مجاھد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ یہودیوں نے قریش سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
675 سے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کر و.پس انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا.کل آنا.میں تم کو بتاؤں گا اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی استثناء نہ کی.یعنی آپ نے انشاء اللہ بھی نہ فرمایا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب عشرہ تک وحی رکی رہی.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ امر شاق گذرا.اور آنحضرت صلعم کو قریش نے جھوٹا آدمی قرار دیا.(نعوذ باللہ ) اعلان پڑھو:.دوسرا سوال براہین احمدیہ کا روپیہ:.اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایسے لوگ جو آئندہ کسی وقت جلد یا بدیر اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں.یا ان کے دل میں بھی بدظنی پیدا ہو سکتی ہے.وہ براہ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرما دیں اور میں ان کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا ان کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے کر رو پیدان کے حوالے کرے اور میں ایسے صاحبوں کی بدزبانی اور بد گوئی اور دشنام دہی کو بھی محض اللہ بخشتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتب فوت ہو گیا ہو اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو.تو چاہیے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے ، وہ خط میری طرف بھیج دے.تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا.“ (تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۳۵، ۱۳۶ نیز دیکھوار بعین نمبر ۴ صفحہ ۲۸ پر حضرت اقدس کا عام اشتہار و تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۷۷ اشتہار یکم مئی ۱۸۹۳ء و کتاب ایام الصلح صفحہ ۱۷۳) اس بات کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محض اعلان پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کے مطابق عملی طور پر روپیہ واپس بھی کیا دشمن سلسلہ ڈاکٹر عبدالحکیم خان کا مندرجہ ذیل معاندانہ بیان ہے:.پوری قیمت وصول کر کے اور سوا سو آدمیوں کو قیمت واپس دے کر کل کی طرف سے اپنے آپ کو فارغ البال سمجھا جائے.“ (الذکر احکیم نمبر۶ عرف کانا دجال صفحه ۴۰ آخری سطر ) گویا شدید سے شدید دشمن بھی تسلیم کرتا ہے کہ قیمت واپس دی گئی گو وہ اپنے دجالا نہ فریب سے حق کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے تا ہم حق بات اس کے قلم سے نکل گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:.
676 وو و پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۹) ”ہم نے دو مرتبہ اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتا بیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت لے لے.چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی.اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی....خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی.( تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۷ ۸ و ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۲) باقی رہا تیسرا سوال کہ تین سو دلائل لکھتے تو اسلام کو فائدہ ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے پہلے چار حصوں میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اسلام کی صداقت پر دو قسم کے دلائل دیئے ہیں.ا.اعلیٰ تعلیمات ۲.زندہ معجزات اور حقیقت یہ ہے کہ یہی دونوں ہزار ہا دلائل پر حاوی ہیں.چنانچہ خود حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے:.” میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیقت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ہزار ہانشانوں کے قائمقام ہیں.پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا.اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶) نیز حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں جواستی (۸۰) سے بھی زیادہ ہیں ان میں صداقت اسلام کے تین سو سے بھی زائد دلائل بیان فرما دیئے ہیں.اگر غیر احمدی علماء مقابل پر آئیں تو ہم ان کتابوں میں سے وہ دلائل نکال کر دکھا سکتے ہیں.۲۴.پانچ (۵۰) پچاس (۵۰) کے برابر مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ 9 پر لکھا ہے کہ میں نے براہین احمدیہ کے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ کیا تھا.مگر اب صرف پانچ ہی لکھتا ہوں.پانچ بھی پچاس ہی کے برابر ہیں.صرف ایک نقطے کا فرق ہے.
677 جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو پانچ کو پچاس کے برابر قرار دیا ہے تو یہ حساب اپنی طرف سے نہیں لگایا.بلکہ خدا تعالی کا بتایا ہوا حساب ہے.اگر اعتبار نہ ہوتو بخاری کی یہ حدیث پڑھو.فَقَالَ هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ (بخارى كتاب الصلوة باب كيف فرضت الصلاة في الاسراء ) کہ معراج کی رات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے پچاس نمازوں میں تخفیف کرانے کے لیے آخری مرتبہ اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا لیجیے یہ پانچ ! یہ پچاس ہیں.“ اور مشکوۃ کتاب الصلوۃ میں حدیث معراج کے یہ الفاظ ہیں :.قَالَ هَذِهِ خَمْسُ صَلوةِ لِكُلِّ وَاحِدٍ عَشْرٌ فَهَذِهِ خَمْسُونَ صَلوةٌ“ (مشكوة كتاب الصلوۃ حدیث معراج ) کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں.ہر ایک دس کے برابر ہے.پس یہ پچاس نمازیں ہوگئیں.فلا اعتراض.۲۵.مبالغہ کا الزام مرزا صاحب نے مبالغے کئے ہیں.لکھا ہے کہ میرے شائع کردہ اشتہارات ساٹھ ہزار کے قریب ہیں.(اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۴۱۸ ) اور میری کتابیں پچاس الماریوں میں سماسکتی ہیں؟ ( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵) جواب:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۱۸ کی محولہ عبارت میں یہ نہیں لکھا کہ میں نے ساٹھ ہزار اشتہار تحریر یا تصنیف کیا ہے.بلکہ لکھا ہے کہ شائع کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں.کہ اربعین کی تحریر ( ۱۹۰۰ ء ) تک جس قد راشتہارات حضور علیہ السلام نے شائع فرمائے تھے ان کی مجموعی تعداد اشاعت‘ ساٹھ ہزار کے قریب تھی.جو درست ہے.کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کل اشتہارات جو میر قاسم علی صاحب کو دستیاب ہو سکے وہ ۲۶۱ ہیں.میر صاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تبلیغ رسالت میں مطبوعہ اشتہارات کے سوا اور کوئی اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شائع کردہ نہیں.ان مطبوعہ اشتہارات میں سے اکثر اشتہارات کی تعداد اشاعت سات سات سو ہے.جیسا کہ ان میں سے بعض اشتہارات کے آخر میں درج ہے.تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۵۰،صفحہ ۷۰ و جلد ۸ صفحه ۳۸،صفحه ۴۶ جلده اصفحه ۸) بعض اشتہارات کی تعداد اشاعت چھ ہزار بھی ہے ( تبلیغ رسالت جلده اصفحہ ۸۲ ) اور بعض کی
678 تین ہزار ( جلد ۸صفحہ ۸۸) اور بعض کی دو ہزار ( جلدے صفحہ ۴۸ ) اور بعض کی چودہ صد ( جلدے صفحہ ۵۵ ) اور بعض کی ایک ہزار بھی ہے ( جلدے صفحہ ۸۸ وجلد ۸ صفحه ۸۲) غرضیکہ تعداد اشاعت اشتہارات کی مختلف ہے.اگر فی اشتہار تین صد اوسط سمجھ لی جائے اور اس حساب سے تبلیغ رسالت میں مجموعہ ۲۶۱ اشتہارات کی تعداد اشاعت ۸۳۰۰ ۷ بنتی ہے اور اربعین ۱۵ار دسمبر ۱۹۰۰ ء تک ۲۲۶ اشتہارات کی تعداد اشاعت ۶۷۸۰۰ بنتی ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ساٹھ ہزار کے قریب قرار دیا ہے.اسی طرح اپنی کتب کی تصنیف کے لحاظ سے تعداد حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے تمہاری محوله تریاق القلوب صفحہ ۱۵ کی عبارت میں نہیں بتائی.بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنے رسائل اور کتب کی اشاعت کے لحاظ سے تعداد مد نظر رکھ کر تحریر فرمایا ہے کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵) اور یہ درست ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد خود مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے بھی اسی تسلیم کی ہے.جن میں سے براہین احمدیہ.تحفہ گولڑویہ ازالہ اوہام.آئینہ کمالات اسلام.حقیقۃ الوحی.چشمہ معرفت جیسی ضخیم کتابیں لکھی ہیں.جن کی تعداد اشاعت ۲۹۰۰ ( نزول اسبح ) تذکرۃ الشهر دتین ۸۰۰ - تریاق القلوب ۷۰۰.ایام اصلح ۷۰۰.اربعین ۷۰۰.براہین احمدیہ حصہ پنجم ۱۶۰۰ وغیرہ ہیں.پس ان کتب کے جملہ نسخوں کو اگر الماریوں میں رکھا جائے تو پچاس سے زائد الماریاں بھر سکتی ہیں.لہذا کوئی مبالغہ نہیں.الصد اسی طرح اپنے نشانات کی تعداد کے بارے میں جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات ہیں.ان میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اپنے نشانات کی تعداد دس لاکھ قرار دی ہے اس کی تشریح بھی خود ہی فرمائی ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزار ہا نشانوں کا جامع ہے.مثلاً یہ پیشگوئی کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اور خطوط بھی آئیں گے.اب اس صورت میں ہر ایک جگہ سے جواب تک کوئی روپیہ آتا ہے یا پارچات اور دوسرے ہدیے آتے ہیں یہ سب بجائے خود ایک ایک نشان ہیں کیونکہ ایسے
679 وقت میں ان باتوں کی خبر دی گئی تھی جبکہ انسانی عقل اس کثرت مد دکوڈ ور از قیاس و محال بجھتی تھی.ایسا ہی یہ دوسری پیشگوئی یعنی يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيق...اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی چنا نچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں اور اگر خطوط بھی اس کے ساتھ شامل کئے جائیں تو شاید یہ اندازہ کروڑ تک پہنچ جائے گا مگر ہم صرف مالی مدد اور بیعت کنندوں کی آمد پر کفایت کر کے ان نشانوں کو تخمینا دس لاکھ نشان قرار دیتے ہیں.بے حیا انسان کی زبان کو قابو میں لانا تو کسی نبی کے لئے ممکن نہیں ہوا.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۵) پس نشانات کی تعداد کے متعلق حضور علیہ السلام کی تحریرات میں مختلف طریق سے اندازہ لگایا گیا ہے مبالغہ نہیں ہے.اسی طرح کشتی نوح کی محولہ عبارت کہ دیکھوزمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱) یہ محاورہ زبان ہے جو کثرت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.گنتی کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا.تمہارے جیسا عقلمند تو قرآن مجید کی آیت مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلى “پڑھ کر ان اندھوں کے لئے سرمہ تریاق چشم تجویز کرنے بیٹھ جائے گا.یا کفار کے لیے ثمر الْبَرِيَّةِ “ (البينة: ۷ ) کا لفظ دیکھ کر ان کے فی الواقعہ جانور ہونے کا تصور کر لے گا ؟ یہ تو تھا حقیقی جواب.لیکن ذرا یہ تو بتاؤ کہ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ“ (بخارى كتاب الرقاق باب الصحة والفراغ) کے کیا معنے ہیں؟ کیا تم اور تمہارے سب لواحقین مردہ ہو؟ کیا دنیا کے جملہ انسانوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں ہے؟ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ یہ زندگی ہی نہیں ہے.پھر ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لَائِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ (مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالک جلد ۴ صفحه ۲۹ حدیث نمبر ۱۲۴۸۹ مطبع دار الاحیاء التراث بیروت لبنان ) کہ امام اور امیر کے لئے قریشی النسل ہونا ضروری ہے.پھر فرمایا:.لا يَزَالُ هَذَا الْآمُرُ فِى هَذِ الْحَيِّ مِنْ قُرَيش.(بخاری کتاب الاحکام باب
680 الامراء من قریش) یعنی امیر کا قریشی ہونا ضروری ہے.مگر دوسری جگہ فرماتے ہیں :.اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِن اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمُ عَبْدٌ حَبُشِيٌّ.(بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة للامام) سوان ہر دو اقوال کو نقل کر کے ابن خلدون لکھتا ہے :.قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا وَإِنْ وُلِيَّ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبْشِيٌّ ذُو زَبِيبَةٍ وَهذَا لَا تَقُومُ بِهِ حُجَّةٌ فِى ذَالِكَ فَإِنَّهُ خَرَجَ مَخْرَجَ التَّمْثِيلِ وَالْفَرْضِ لِلْمُبَالِغَةِ فِي إِيْجَابِ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ.“ ( مقدمه ابن خلدون مصری صفحه ۶۲ افصل الخامس والعشرون في معنى الخلافة والامامة) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ اگر تم پر کوئی حبشی بھی حکمران بنایا جائے تو تم پر فرض ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو.اس امر کی حجت نہیں ہو سکتا کہ امیر کے لئے قریشی النسل ہونا ضروری نہیں کیونکہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطاعت اور فرمانبرداری پر زور دینے کے لئے تمثیل اور مبالغہ سے کام لیا ہے.پس ثابت ہوا کہ کسی چیز پر زور دینے کے لئے مبالغہ سنت نبوی ہے.پس تمہارا اعتراض باطل ہو گیا.تمہارے جیسا معترض تو شاید قرآن مجید کی آیت وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ في سَمِ الْخِيَاطِ (الاعراف: ۴۱) کو پڑھ کر ایسی سوئی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو کہ جس کے ناکے میں سے اونٹ گزر سکے اور نہ مل سکنے پر قرآن مجید پر مبالغہ آمیزی کا الزام لگانے لگ جائے.اسی طرح حدیث شریف "مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ» (مسلم كتاب الايمان باب الدليل على ان من مات على التوحيد دخل الجنة قطعا ) اور دوسری مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں.۲۶.تناقضات اعتراض:- حضرت مرزا صاحب کے اقوال میں تناقض ہے؟ جواب:.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے اقوال میں کوئی تناقض نہیں.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ نبی پہلے ایک بات اپنی طرف سے کہے.مگر اس کے بعد خدا تعالیٰ اس کو بتا دے کہ یہ بات غلط ہے اور
681 درست اس طرح ہے.تو دوسرا قول نبی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہوگا.لہذا تناقض نہ ہوا.تناقض کے لئے ضروری ہے کہ ایک ہی شخص کے اپنے دو اقوال میں تضاد ہو.۲.قرآن مجید میں ہے:.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا‘ (النساء : ۸۳) کہ اگر یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا.بلکہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا.تو اس میں اختلاف ہوتا.پس ثابت ہوا کہ کلام اللہ کے سوا باقی سب کے کلام میں اختلاف ہونا چاہیے.نبی بھی انسان ہے اور وہ بھی ربَّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵) کی دعا کرتا ہے.جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی کہ اے اللہ! میرا علم بڑھا.پس جو کلام نبی خدا کے بتائے ہوئے علم سے پہلے کرے گا وہ ہو سکتا ہے کہ اس کلام کے مخالف ہو جو اللہ تعالی کی طرف سے اسے دیا جائے.مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہ:.إِنَّ ابْنِى مِنْ أَهْلِى (هود: ۴۶) که یقینا میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے.مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا:.إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِك (سورة هود: ۴۷ ) کہ وہ یقیناً آپ کے اہل میں سے نہیں ہے.اب اس وحی الہی کے بعد اگر حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اہل میں شمار نہ کریں (جیسا کہ واقعہ ہے ) تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ پہلا قول حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا خیال تھا.مگر دوسرا قول خدا کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر ہے ہاں الہام الہی میں اختلاف نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ علیم کل ہستی کی طرف سے ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.وَعَدَّمْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء : ۱۱۴) کہ اللہ تعالی نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو پہلے آپ کو نہ تھا.اب ظاہر ہے کہ آپ کے زمانہ قبل از علم کے کلام اور زمانہ بعد از علم کے کلام میں اختلاف ہونا ضروری ہے.مگر یہ امر آپ کی نبوت کے منافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دلیل صداقت ہے کیونکہ یہ عدم تصنع پر دلالت کرتا ہے.اسی قسم کا اختلاف وفات مسیح کے مسئلہ کے متعلق ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے پہلے اپنا خیال براہین احمدیہ ہر چہارم حصص صفحه ۳۶۱ حاشیه صفحه ۵۲۰ در حاشیہ طبع اول میں لکھ دیا.لیکن بعد میں جو م دیا.اللہ تعالیٰ نے آپ پر منکشف فرمایا.وہ بھی کچھ براہین احمدیہ اور کچھ بعد کی تحریرات میں درج فرما دیا.
682 اب ظاہر ہے کہ وہ پہلا قول جس میں حضرت مسیح ناصری کو زندہ قرار دیا گیا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے.مگر جس میں ان کو وفات یافتہ قرار دیا گیا ہے (کشتی نوح صفحہ 1 طبع اول ) وہ اللہ تعالیٰ کا ہے.پس ان میں تناقض نہ ہوا..مندرجہ بالا قسم کی مثالیں حدیث میں بھی ہیں:.ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لا تُخَيَّرُونِي عَلَى مُوسَى (بخاری کتاب الخصومات باب ما يذكر في الاشخاص والخصومة بين المسلم واليهودی) کہ مجھ کو موتی سے اچھا نہ کہو.پھر فرماتے ہیں:.مَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذِبَ“ (بخاری کتاب التفسير باب انا أوحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إلى نوع..يونس الخ سورة النساء) کہ جو یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں وہ جھوٹا ہے.مسلم شریف کی حدیث میں آتا ہے: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ (مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة ) کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا.اور حضور صلعم کو مخاطب کر کے کہا.اے تمام انسانوں سے افضل ! اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.وہ تو براہیم علیہ السلام ہیں.یعنی ابراہیم علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں نہ کہ میں.مشکوۃ صفحہ ۴۱۷ باب المفاخرة والعصبية فصل الاول مطبع اصبح المطالع پر اس حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں : قَوْلُهُ ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ قِيْلَ ذَاكَ تَوَاضَعٌ مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقِيلَ كَانَ قَبْلَ عِلْمِهِ بِأَنَّهُ سَيِّدُ وُلْدِ ادَم.“ (مرقاة برحاشیہ مشکوة اصبح المطابع صفحه ۲۱۷ حاشیہ نمبر ۸) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ وہ ابراہیم ہے.“ کہا گیا ہے کہ حضور کا یہ فرمانا از راہ انکسار تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابھی یہ اطلاع نہ ملی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے افضل ہیں.بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.آنَا سَيِّدُ وُلدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ (ترمذی ابواب التفسير سورة بنی اسرائیل ابواب المناقب )( کہ میں تمام انسانوں کا
683 سردار ہوں اور یہ فخر نہیں ہے ) أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسلم بحوالہ مشکوۃ اصح المطابع صفحه له باب فــضــائـل سـيـد المرسلين صلی اللہ علیہ وسلم ) میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا.پھر فرمایا: - أَنَا اِمَامُ النَّبِيِّينَ آنَا سَيِّدُ النَّبِيِّينَ» (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۳۳۱ جلد ۳ نیا ایڈیشن ) میں تمام نبیوں کا امام ہوں.میں تمام نبیوں کا سردار ہوں.۴.اس ضمن میں حجتہ اللہ البالغہ (حضرت سید شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ) کا مندرجہ ذیل حوالہ فیصلہ کن ہے:.اعْلَمُ أَنَّ النَّسْخَ قِسُمَان اَحَدُهُمَا أَنْ يَنظُرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الارْتِفَاقَاتِ اَوْ وُجُوهِ الطَّاعَاتِ فَيَضْبِطَهَا بِوُجُوهِ الضَّبْطِ عَلَى قَوَانِينِ التَّشْرِيعِ وَهُوَ إِجْتِهَادُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَا يُقَرِّرُهُ اللَّهُ عَلَيْهِ بَلْ يَكْشِفُ عَلَيْهِ مَا قَضَى اللَّهُ فِي الْمَسْئَلَةِ مِنَ الْحُكْمِ اَمَّا بِنُزُولِ الْقُرْآنِ حَسَبَ ذَالِكَ أَوْ تَغْسِيرِ اجْتِهَادِهِ إِلَى ذَالِكَ وَتَقْرِيرِهِ عَلَيْهِ مِثَالُ الْاَوَّلِ مَا أَمْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْإِسْتِقْبَالِ قِبَلَ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِنَسْخِهِ وَ مِثَالُ الثَّانِى أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْاِنْتِبَاذِ إِلَّا فِي السَّقَاءِ ثُمَّ اَبَاحَ لَهُمُ الانْتِبَاذَ فِى كُلِّ انِيَّةٍ...وَعَلَى هَذَا التَّخْرِيحِ هَذَا مِثَالُ لِاخْتِلَافِ الْحُكْمِ حَسَبُ اِخْتِلَافِ الْمُظَنَّاتِ وَفِى هَذَا الْقِسْمِ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامِي لَا يَنْسَخُ كَلَامَ اللهِ وَ كَلَامُ اللهِ يَنْسَخُ كَلَامِی» (حجة اللہ البالغۃ مترجم جلد اصفحہ ۲۳۷ صفحه ۲۳۸ باب اسباب النسخ) اس عربی عبارت کا ترجمہ بھی اسی کتاب سے نقل کیا جاتا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:.جاننا چاہیے کہ نسخ کی دو قسمیں ہیں (۱) یہ کہ پیغمبر امور نافع اور عبادات کے طریقوں میں خوض کر کے شریعت کے قوانین کے ڈھنگ پر ان کو کر دیتے ہیں.ایسا آنحضرت کے اجتہاد سے ہوا کرتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ اس حکم و اجتہاد کو باقی نہیں رکھتا بلکہ اس حکم کو آنحضرت پر ظاہر کر دیتا ہے جو خدا نے اس مسئلہ کے متعلق قرار دیا ہے اس حکم کا اظہار یا یوں ہوتا ہے کہ قرآن میں وہ وار د کیا جائے یا اس طرح پر کہ آنحضرت کے اجتہادہی میں تبدیلی ہو جائے اور دوسرا اجتہاد آپ کے ذہن میں قرار پا جائے.پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت نے نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تھا پھر قرآن
684 میں اس حکم کی منسوخیت نازل ہوئی اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت نے بجز چھاگل کے ہر برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کر دی تھی.پھر ہر ایک برتن میں نیز بنانا لوگوں کے لیے جائز کر دیا.اس تو جیہہ کے لحاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ موقعوں کے بدلنے سے حکم بدل جایا کرتا ہے.اسی قسم کے متعلق آپ نے فرمایا کہ میرا کلام، کلام الہی کو سخ نہیں کرسکتا اور کلام الہی میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے.“ کتاب حجت الله البال مع اردوترجمه اسمی به موس الل البازغة مطوعه مطبع حمایت اسلام پریس لاہور جلد صحه ۱۲۳۷ صفحه ۲۳۸ باب ۷۴) اس عبارت میں جو دوسری قسم نسخ کی بیان ہوئی ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے.کیونکہ اس میں ضروری نہیں کہ وحی کے ذریعہ نبی کے پہلے حکم کو منسوخ کیا جائے بلکہ خود اللہ تعالی کا تصرف قلب ملہم پر ہی ایسا ہوسکتا ہے.کہ وہ اپنے پہلے اجتہاد کو منسوخ کر دے مگر یہ پھر بھی تناقض نہ ہوگا کیونکہ پہلا خیال مہم کا اپنا تھا.مگر دوسرا خیال خدا تعالی کی طرف سے ہے.۵.حدیث شریف میں ہے: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْسَخُ حَدِيثُهُ بَعْضُهُ بَعْضًا (مسلم کتاب الطهارة باب الحيض ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک قول سے اپنے ایک گذشتہ قول کو منسوخ کر دیتے تھے..بعض اوقات نبی اپنے اجتہاد اور خیال سے اپنی وحی یا الہام کے ایک معنے بیان کرتا ہے مگر بعد میں واقعات سے اس کے دوسرے معنے ظاہر ہو جاتے ہیں.جو وحی الہی کے تو مطابق ہوتے ہیں مگر نبی کے اپنے خیال یا اجتہاد کے مطابق نہیں ہوتے.مثلاً حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ آپ کی ہجرت ایسے شہر کی طرف ہوگی.جہاں بہت کھجوریں ہیں.آپ صلعم نے سمجھا کہ اس سے مراد یمامہ یا ہجر ہیں.لیکن وہ در حقیقت مدینہ شریف تھا.جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا.( بخاری کتاب التعبير باب اذا رأى بقرا تُنْحَرُ) ے.بعض دفعہ تحقیقات کے بعد نبی کی رائے بدل جاتی ہے.مثلاً بخاری شریف میں حدیث ہے: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنِي حَارِثَةَ فَقَالَ اَرَكُمْ يَا بَنِي حَارِثَةَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ بَلْ أَنْتُمْ فِيهِ (بخارى كتاب الحج باب حرم مدینه و تجرید بخاری مترجم اردو مع متن حصہ اول صفحه ۳۵۶) یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک قبیلہ بنو حارث کے ہاں گئے اور فرمایا کہ بنی حارثہ ! میرا خیال ہے کہ ”تم لوگ حرم سے باہر نکل گئے ہو.“ پھر
685 حضور (صلعم) نے ادھرادھر دیکھا اور فرمایا.”نہیں تم حرم کے اندرہی ہو.“ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خیال کہ قَدْ خَرَجْتُم مِنَ الْحَرَمِ اور دوسرے خیال که بل انتُمْ فِیهِ» میں تناقض ہے یا نہیں ؟ یہ اسی طرح کا تناقض ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے ایک انگریز مؤرخ کی تحقیق کے پیش نظر مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر شام میں لکھی ،لیکن بعد میں تحقیقات اور الہام الہی سے معلوم ہوا کہ قبرمیخ کشمیر میں ہے.تب آپ نے پہلے خیال کی تردید کر دی.نوٹ:.مندرجہ بالا حدیث کے جواب میں یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جو بنو حارثہ کو حرم سے باہر قرار دیا تو یہ ظن اور گمان کے تحت فرمایا.(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۷۲) محض دفع الوقتی ہے کیونکہ ہمارا مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ بعض اوقات نبی ایک خیال کا اظہار کرتا ہے مگر بعد میں تحقیق سے وہ خیال غلط ثابت ہونے پر نبی اس کی تردید کر دیتا ہے اور یہ امر خلاف نبوت نہیں..حدیث میں ہے کہ كَانَ.....يُحِبُّ مَوَافَقَةَ اَهْلِ الْكِتَابِ فِيْمَا لَمْ يُؤْمَرُ (مسلم كتاب الفضائل باب صفة شعره وصفاته وحليته) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام امور میں یہود اور نصاریٰ کی موافقت کرتے تھے جن کے متعلق حضور صلعم کو کوئی حکم نہ ملا تھا..قرآن مجید کی آیات کے متعلق بھی مخالفین اسلام نے اعتراض کیا ہے کہ ان میں اختلاف ہے.جماعت احمد یہ تو خدا کے فضل سے نہ قرآن مجید میں تناقض اور اختلاف کی قائل ہے.نہ ناسخ منسوخ فی القرآن کو ہم مانتے ہیں.لیکن ان اعتراضات کے وزنی ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ تم لوگوں نے تنگ آکر اور لاجواب ہو کر یہ تسلیم کر لیا کہ قرآن مجید کی بعض آیات بعض کی ناسخ ہیں.گویا جن آیات کے مضمون میں اختلاف نظر آیا اور جن میں باہم تطبیق نہ ہو سکی.ان میں سے جو پہلے نازل ہوئی وہ منسوخ اور جو بعد میں نازل ہوئی وہ اس کی ناسخ قرار دی.چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں:.عَلَى مَا حَرَّرْتُ لَا تَتَعَيَّنُ النَّسْخُ إِلَّا فِى خَمْسِ مَوَاضِع“ (الفوز الكبير صفحه ۱۸، ۲۱ مطبع مجتبائی دہلی مطبوعہ ۱۹۲ء) کہ میری تحریر کی رو سے قرآنِ مجید کی صرف پانچ آیات منسوخ ثابت ہوتی ہیں.قرآن مجید کی منسوخ قرار دی جانے والی آیات میں سے چند درج ذیل ہیں :.
686 (1) يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا القِيْتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْقًّا فَلَا تُوَتُوهُمُ الْأَدْبَارَ “ (الانفال : ۱۲) ( تفسیر قادری مترجم جلد صفحه ۳۶۰ مطبع نولکشور لکھنو) (٢) إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ “ (الانفال : ٦٦) ( تفسیر قادری جلد ا صفحه ۴ ۳۷ مطبع نولکشور لکھنو) ( دیگر آیات کے لیے دیکھو تفسیر حسینی جلد اصفحه ۳۹۰ وصفحه ۴۵۳ مطبع نولکشور لکھنو) پس تم لوگوں کے منہ سے ( جو قرآن مجید میں بھی اختلاف اور تناقض کے قائل ہیں ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے اقوال میں تناقض کا الزام کچھ بھلا معلوم نہیں دیتا.۱۰.مولوی ثناءاللہ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:.آپ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی مشرکانہ عادت دیکھ کر قبرستان کی زیارت سے منع فرمایا تھا اور بعد اصلاح اجازت دے دی اور ان کے بخل کو مٹانے کی غرض سے قربانیوں کے گوشت تین دن زائد ر کھنے سے منع کر دیا تھا جس کی بعد میں اجازت دے دی.ایسا ہی شراب کے برتنوں میں کھانا پینا منع کیا تھا مگر بعد میں ان کے استعمال کی اجازت بخشی 6 ( تفسیر ثنائی مؤلفہ مولوی ثناء اللہ امرتسری جلد اصفحہ ۱۰۶ سورة البقرة).ہم ضمن نمبر 9 میں اشارہ کر آئے ہیں کہ قرآن مجید کی آیات کے متعلق بھی منکرین اسلام نے تمہاری طرح یہ کہ کر کہ ان میں اختلاف ہے اپنی بد باطنی کا ثبوت دیا ہے.چنانچہ پنڈت دیانند بانی آریہ سماج اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں لکھتا ہے:.کہیں خدا کومحیط کل لکھا ہے اور کہیں محدودالمکان.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک شخص کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ بہت لوگوں کا بنایا ہوا ہے.“ (ستیارتھ باب دفعہ ۲ صفحہ ۷۳۰) کہیں قرآن میں لکھا ہے کہ اونچی آواز سے اپنے پروردگار کو پکارو اور کہیں لکھا ہے کہ دھیمی آواز سے خدا کو یاد کرو.اب کہئے کون سی بات کچی اور کونسی جھوٹی ہے.ایک دوسرے کے متضاد باتیں پاگلوں کی بکواس کی مانند ہوتی ہیں.(ستیارتھ پرکاش باب ۱۴دفعہ ۷۵ ) چنانچہ چند آیات قرآنی بطور نمونہ لکھی جاتی ہیں.جن میں تمہارے جیسے بد باطن دشمنوں کو اپنی کوتاہ نہی سے تناقض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے.(1) يَأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِم “ (التوبة: ۷۳) یعنی اے
687 نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر.اوران پرسختی کر.اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے: "لَا إِكْرَاهُ فِي الدِّينِ (البقرۃ: ۲۵۷) کہ دین میں جبر جائز نہیں.(۲) وَوَجَدَكَ صَا لَّا فَهَدى (الضحی (۸) کہ اے نبی ! ہم نے آپ کو ضال “پایا اور ہدایت دی مگر دوسری جگہ فرمایا: ”فَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوی “ (النجم:۳) کہ آنحضرت صلعم ضال نہیں ہوئے.نوٹ : محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ پہلی آیت میں ضال بمعنی گمراہ نہیں.بلکہ ” طالب خیر اور متلاشی کے معنوں میں ہے.مگر دوسری آیت میں بمعنی گمراہ ہے.اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ بعض دفعہ دو عبارتوں میں ایک ہی لفظ کا استعمال ایک جگہ بصورت ایجاب مگر دوسری جگہ بصورت سلب ہوتا ہے.مگر اس لفظ کے مختلف معانی ہونے کے باعث دونوں جگہ اس کے دوالگ الگ مفہوم ہوتے ہیں.لہذا ان میں تناقض قرار دینا تمہارے جیسے سیاہ باطن“ انسانوں ہی کا کام ہو سکتا ہے.بعینہ اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات میں مسیح یا انجیل یا نبوت کے الفاظ دو مختلف مفہوموں کے لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں.کسی جگہ مسیح سے مراد انجیلی یسوع ہے اور کسی جگہ قرآنی مسیح علیہ السلام.اسی طرح کسی جگہ انجیل سے مراد محرف و مبدل انجیل ہے اور کسی جگہ اصل انجیل جو مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی.کسی جگہ نبوت سے مراد تشریعی براہ راست نبوت ہے (اور اس کی اپنے متعلق نفی فرمائی ہے ) مگر دوسری جگہ نبوت سے مراد بالواسطہ غیر تشریعی نبوت ہے (اور اس کو اپنے وجود میں تسلیم فرمایا ہے ) پس ایسی تحریرات کو متناقض اور متخالف قرار دینا بھی انتہائی سیہ باطنی ہے.(خادم) (۳) اللہ تعالی ایک جگہ فرماتا ہے: " إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الانفال: ۳) که جب مومنوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل جوش مارنے لگ جاتے ہیں.مگر دوسری جگہ فرمایا: - أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْبِنُ القُلوبُ (الرعد: ۲۹) کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے.(۴) ایک جگہ فرمایا: الم يجدك يتيما فاوی “ (الضحی :۷) کہ اے نبی! ہم نے تجھے یتیم پایا اور تجھے اپنی پناہ میں لے لیا.مگر دوسری جگہ فرمایا: " فَلا تَقُل لَّهُمَا أَفْ “ (سورۃ بنی اسرائیل:۲۴) که تو اپنے والدین کواف تک نہ کہہ.
688 (۵) ایک جگہ فرمایا: - فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النَّاءِ.فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً “ (النساء:۴) کہ دو دو چار چار بیویاں کرلو.اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے.تو پھر ایک ہی کرو.مگر دوسری جگہ فرمایا: - وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النَّسَاء (النساء: ۱۳۰) کہ تم ہرگز اپنی بیویوں میں انصاف نہیں کر سکو گے.خواہ تم کتنی خواہش کرو.غرضیکہ اور بھی بہت سی آیات ہیں.اب ظاہر ہے کہ گو بظاہر ان میں اختلاف اور تناقض معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت تناقض نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ان میں تناقض کی وحدتیں پائی نہیں جاتیں.ہر ایک ان میں سے مختلف مواقع پر مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف مضامین کی حامل ہیں.لہذا بوجه عدم تحقق وحدت ان میں تناقض نہیں بعینہ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں بھی در حقیقت کوئی تناقض یا اختلاف نہیں.مگر جس طرح دشمنانِ اسلام نے قرآن مجید پر تناقض اور اختلاف کا جھوٹا الزام لگایا تھا.اسی طرح دشمنانِ احمدیت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال کے متعلق تناقض کا الزام لگایا ہے.پس تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ “ (البقرة:119) کے مطابق دونوں اعتراض کنندگان غلطی پر ہیں.نہ قرآن مجید میں اختلاف اور نہ خادم قرآن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں حقیقی تناقض ہے.اب ہم ذیل میں ان مقامات کو لیتے ہیں جن کو پیش کر کے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کی ناکام کوشش کیا کرتے ہیں.تناقض کی تعریف لیکن قبل اس کے کہ ہم مفصل بحث کریں.تناقض کی تعریف از روئے منطق درج کرتے ہیں.مشہور شعر ہیں در تناقض ہشت وحدت شرط واں وحدت موضوع (۱) و محمول (۲) ومکاں (۳) وحدت شرط (۴) واضافت (۵) جزو کل (۶) قوت (۷) وفعل است در آخر زماں (۸) یعنی موضوع محمول، مکان ، شرط، اضافت، جز و کل اور بالقوۃ و بالفعل اور زمانہ کے لحاظ سے اگر دو قضیے متفق ہوں.مگر ان میں ایجاب وسلب کا اختلاف بلحاظ حکم اور موجہ میں کیفیت اور محصورہ میں کمیت کا اختلاف ہو تو وہ دونوں قضیے متناقض کہلائیں گے.
689 ۲۷.کسی سے قرآن پڑھنا " حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب "ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۹۴ پر تحریر فرمایا ہے:.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے.“ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفر ۳۹۴) لیکن دوسری جگہ کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ۰ ۱۸ حاشیہ پر رقم فرماتے ہیں:.” جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا.جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں (کتاب البرية روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۰ حاشیه ) جواب:.اس کے متعلق گذارش یہ ہے کہ اعتراض کرتے وقت علمائے بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے از راہ تحریف ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴ کی نصف عبارت پیش کرتے ہیں.اصل حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عبارت متنازعہ کا مکمل فقرہ درج ذیل ہے :.سو آ نے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہوگا.سوئیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفتر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفر ی۳۹۴) معترض کی پیش کردہ عبارت کے سیاق میں علم دین اور سیاق میں اسرار دین“ کے الفاظ صاف طور پر مذکور ہیں جن سے ہر اہل انصاف پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس عبارت میں قرآن کریم کے ناظرہ پڑھنے کا سوال نہیں بلکہ اس کے معانی و مطالب، حقائق و معارف کے سیکھنے کا سوال ہے اور عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے موعود کا نام جو مہدی رکھا.تو وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ علوم و اسرار دین
690 کسی انسان سے نہیں سیکھے گا.گویا حقائق و معارف قرآن مجید میں اس کا کوئی استاد نہیں ہوگا.چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے میرا بھی کوئی استاد نہیں جس سے میں نے علم دین “یا ” اسرار دین کی تعلیم پائی ہو اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ کا بلا ترجمہ و تشریح کسی شخص سے پڑھنا.علم و اسرار دین سیکھنے کے مترادف نہیں ہے کیونکہ الفاظ قرآن اور علم قرآن میں خود قرآن مجید نے فرق کیا ہے.جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے ” هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ “ (سورة الجمعه (۳) کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے.آپ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات ( یعنی الفاظ قرآن ) پڑھتے ، ان کا تزکیہ نفس کرتے اور ان کو کتاب ( یعنی قرآن مجید ) اور حکمت کا علم بھی دیتے ہیں.اس آیت میں يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ائیت کے الفاظ میں الفاظ قرآن کا ذکر فرمایا ہے اور يُعَلِّمُهُمُ الكتب فرما کر قرآن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف کا تذکرہ فرمایا ہے پس مندرجہ بالا آیت سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ صرف ” قرآن کا پڑھنا، علیم قرآن حاصل کرنا نہیں ہے.یا یوں کہو کہ الفاظ قرآن کے کسی شخص سے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ علم دین بھی اس شخص سے حاصل کیا گیا.دوسری عبارت جو معترضین کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ سے پیش کرتے ہیں.اس میں صرف اس قدر ذکر ہے کہ چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید پڑھا.اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضور نے علم دین یا اسرار دین یا قرآن مجید کے حقائق و معارف یا معانی و مطالب کسی شخص سے پڑھے تا یہ خیال ہو سکے کہ حضرت مسیح موعود کی دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.ہمارا دعویٰ ہے کہ کتاب البریہ کی عبارت میں چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کا ذکر ہے اور ایام الصلح صفحہ ۱۴۷ کی عبارت میں کسی شخص سے قرآن مجید کے مطالب و معارف سیکھنے کی نفی کی گئی ہے.گویا جس چیز کی نفی ہے وہ اور ہے اور دوسری جگہ جس چیز کا اثبات ہے وہ اور ہے.ایک شبہ اور اس کا ازالہ ممکن ہے کوئی معترض یہ کہے کہ سیاق و سباق دیکھنے کی کیا ضرورت ہے دونوں عبارتوں میں قرآن مجید ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے.ہم تو دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنے لیں گئے.اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک جگہ ایک لفظ بول کر فی کی ہو.اور دوسری جگہ اس لفظ کا استعمال کر کے اس
691 کا اثبات کیا گیا ہو.مگر اس کے باوجود مفہوم اس لفظ کا دونوں جگہ مختلف ہو.بغرض تشریح دو مثالیں لکھتا ہوں.ایک مثال ا.قرآن مجید کی رو سے بحالت روزہ بیوی سے مباشرت ممنوع ہے مگر بخاری، مسلم و مشکوۃ متینوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ ذیل روایت درج ہے:.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَ هُوَ صَائِمٌ وَ كَانَ أَمْلَكَكُمْ لِارْبِهِ ( بخاری جلد ا كتاب الصوم باب المباشرة للصائم ومشكوة كتاب الصوم باب تنزيه الصوم و تجرید بخاری جلد اصفحه ۳۷۰) کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزہ میں ازواج کے بوسے لے لیا کرتے تھے اور ان سے مباشرت کرتے تھے.اس حالت میں کہ آپ کا روزہ ہوتا تھا مگر آپ اپنی خواہش پر تم سب سے زیادہ قابور رکھتے تھے.اب کیا قرآن کریم کے حکم لَا تُبَاشِرُ وهُن “ (البقرة: ۱۸۸) کو مندرجہ بالا روایت کے الفاظ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ کے بالمقابل رکھ کر کوئی ایماندار شخص یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی چیز کی نفی اور ایک ہی چیز کا اثبات کیا گیا ہے.ظاہر ہے کہ حدیث مندرجہ بالا میں ”مباشرت“ سے مراد مجامعت نہیں بلکہ محض عورت کے قریب ہونا ہے اور اس پر قرینہ اسی روایت کا اگلا جملہ وَكَانَ اَمْلَكَكُمْ لِاربہ ہے لیکن اس کے برعکس قرآن مجید میں لفظ مباشرت آیا ہے وہاں اس سے مراد مجامعت“ ہے.پس گو دونوں جگہ لفظ ایک ہی استعمال ہوا ہے مگر اس کا مفہوم دونوں جگہ مختلف ہے اور سیاق و سباق عبارت سے ہمارے لئے اس فرق کا سمجھنا نہایت آسان ہے.دوسری مثال قرآن مجید میں ہی ہے.ایک جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے ”مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوى “ (النجم :(۳) کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ”ضال نہیں ہوئے اور نہ راہ راست سے بھٹکے لیکن دوسری جگہ فرمایا.وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدى (الضحی : ۸) کہ اے رسول ! ہم نے آپ کو ” ضال‘ پایا اور آپ کو ہدایت دی.دونوں جگہ ”ضال “ ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے.ایک جگہ اس کی نفی کی گئی ہے مگر دوسری جگہ اس کا اثبات ہے کیا کوئی ایماندار کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے.ہرگز نہیں کیونکہ ہر اہل علم دونوں عبارتوں کے سیاق و سباق سے سمجھ سکتا ہے کہ دونوں جگہ لفظ ”ضال‘ایک معنے میں
692 استعمال نہیں ہوا.بلکہ دونوں جگہ اس کا مفہوم مختلف ہے.ایک جگہ اگر گمراہ مراد ہے اور اس کی نفی ہے.تو دوسری طرف تلاش کرنے والا قرار دینا مقصود ہے اور اس امر کا اثبات ہے.پس ہمارے مخالفین کا یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرنا کہ لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے سیاق وسباق عبارت دیکھنے کی کیا ضرورت ہے.حد درجہ کی نا انصافی ہے.قرآن کریم کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی سے نہیں پڑھا ہم معترض کی پیش کردہ دونوں عبارتوں پر ان کے سیاق وسباق کے لحاظ سے جب غور کرتے ہیں.تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ کی عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ میری چھ سات سال کی عمر میں میرے والد صاحب نے میرے لئے ایک استاد مقرر کیا.جن سے میں نے قرآن مجید پڑھا.اور ہر عظمند انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ چھ سات سال کے عرصہ میں بچہ قرآن مجید کے معانی و مطالب اور حقائق و معارف سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا.پس یہ امرتسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت کے والد بزرگوار نے چھ سات سال کی عمر کے بچہ کو معارف قرآنیہ سکھانے کے لیے ایک استاد مقرر کیا ہو.پس اس عبارت میں چھ سات سال کی عمر کا قرینہ ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ حضور نے اس حوالہ میں قرآن مجید کے مجرد الفاظ کا استاد سے پڑھنا ستسلیم فرمایا ہے.مگر حضور کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کا ترجمہ یا قرآنی مطالب بھی حضور نے خدا کے سوا کسی استاد سے پڑھے ہوں.اس کے بالمقابل معترض کی پیش کردہ عبارت از ایام الصلح ، صفحہ ۴۷ طبع اول میں حضرت نے صاف لفظوں میں یہ فرمایا ہے.علیم دین اور اسرار دین کے لحاظ سے قرآن مجید کسی سے نہیں پڑھا.اور یہ حقیقت ہے جس کی نفی کسی دوسری عبارت میں نہیں کی گئی.اس امر کے ثبوت میں کہ ایام الصلح ، کی عبارت میں قرآن مجید کے الفاظ کا ذکر نہیں بلکہ قرآن مجید کے معانی و مطالب کے کسی انسان سے سیکھنے کی نفی ہے.ہم ایام الصلح کی عبارت کا سیاق و سباق اور اس کا مضمون دیکھتے ہیں.ایام الصلح کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس موقعہ پر اپنے دعویٰ مہدویت کی صداقت کے دلائل کے ضمن میں ایک دلیل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.(۱) ''آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین
693 خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہو گا.سومیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفتر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.“ ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴) (ب) اس مضمون پر بحث کرتے ہوئے ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں:.مہدویت سے مراد وہ بے انتہا معارف الہیہ اور علوم حکمیہ اور علمی برکات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر واسطہ کسی انسان کے علم دین کے متعلق سکھلائے گئے.“ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۶) اس عبارت میں بعینہ وہی مضمون ہے جو معترض کی پیش کردہ عبارت میں ہے اور اس کے ساتھ ہی اس میں ان الفاظ کی مکمل تشریح بھی موجود ہے جن کے اجمال سے معترض نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کی ہے.(ج) اگلے صفحہ پر اسی مضمون کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سہ کر ر بیان فرمایا ہے.”روحانی اور غیر فانی برکتیں جو ہدایت کا ملہ اور قوت ایمانی کے عطا کرنے اور معارف اور لطائف اور اسرار الہیہ اور علوم حکمیہ کے سکھانے سے مراد ہے اُن کے پانے کے لحاظ سے وہ مہدی کہلائے گا." ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد۴ اصفحہ ۳۹۷) اس عبارت میں بھی مہدویت کی تعریف کو دہرایا گیا ہے.” معارف لطائف“ اور اسرایا الہیہ اور علوم حکمیہ کے الفاظ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ معترض کی پیش کردہ صفحہ ۱۴۷ والی عبارت میں بھی انہی امور کا ذکر ہے.قرآن مجید کے الفاظ پڑھنے کا ذکر نہیں.جیسا کہ اس عبارت میں علم دین اور اسرار دین کے الفاظ اس پر گواہی دے رہے ہیں اور جن کے متعلق او پر لکھا جا چکا ہے.(د) اسی دلیل کو اور زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہوئے صفحہ ۱۵۶ پر حضرت اقدس فرماتے ہیں:.ہزار ہا اسرار علم دین کھل گئے.قرآنی معارف اور حقائق ظاہر ہوئے.کیا ان باتوں کا پہلے
694 نشان تھا؟“ (ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴ ۴۰ ) اس عبارت میں بھی حضور نے جن چیزوں کے خدا تعالیٰ سے سیکھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ قرآنی معارف و حقائق ہیں.نہ کہ الفاظ قرآنی ! (ھ) آگے چل کر بطور نتیجہ تحریر فرماتے ہیں:.سو میری کتابوں میں اُن برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے.براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی اُستاد کے جاری کئے ہیں.اس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں.“ ( ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۰۶ ) (و) پھر فرماتے ہیں:.جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں دوسرا ہر گز نہیں لکھ سکتا.اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۰۷) (ایضاً حاشیه ) (ز) اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں: مہوتسو کے جلسہ میں بھی اس کا امتحان ہو چکا ہے.“ (ح) اسی طرح صفحہ ۱۶۰ پر بھی حقائق و معارف اور نکات اور اسرار شریعت کے الفاظ موجود ہیں غرضیکہ ایام الصلح کے مندرجہ بالا اقتباسات سے جو سب کے سب معترضین کی پیش کردہ عبارت کے ساتھ ملحق ہیں یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی انسان سے جس چیز کے پڑھنے کی نفی فرمائی ہے.وہ قرآنی الفاظ نہیں بلکہ حقائق و معارف قرآنیہ ہیں.حضرت اقدس نے ایام الصلح ، یا کسی اور کتاب میں ایک جگہ بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ میں نے قرآن مجید ناظرہ بھی کسی شخص سے نہیں پڑھا.نہ یہ چیلنج دیا ہے کہ میں استاد نہ ہونے کے باوجود قرآن مجید کے الفاظ اچھی طرح پڑھ سکتا ہوں.اور یہ کہ فن قرآت میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.ہاں حضور نے یہ دعوی ضرور فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف، مطالب اور نکات حضور کے الہام الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ “ ( تذکرہ صفحه ۴۴ ایڈیشن سوم ) کے مطابق حضور کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئے اور اس لحاظ سے یقیناً حضور علیہ السلام نے قرآن مجید کسی انسان سے نہیں پڑھا.اور اسی امر کا دعویٰ حضور علیہ السلام نے ایام الصلح صفحہ ۴۷ پر بھی کیا ہے.جس کو معاندین جماعت احمد یہ انتہائی نا انصافی سے بطور
695 اعتراض پیش کر کے نا واقف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں وَمِنْ تَلْبِيسِهِمْ قَدْ حَرَّفُوا الْأَلْفَاظَ تَفْسِيرًا وَقَدْ بَانَتْ ضَلَالَتُهُمْ وَلَوْ الْقُوُا الْمَعَاذِيرًا مسیح الموعود ) نور الحق.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۷۸) ۲۸.حضرت مسیح کی چڑیوں کی پرواز مرزا صاحب نے آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۸ طبع اول میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی چڑیوں کی پرواز قرآن مجید سے ثابت ہے لیکن ازالہ اوہام صفحہ ۳۰۷ طبع اول حاشیہ پرلکھا ہے کہ پرواز ثابت نہیں؟ جواب: اصل عبارتیں درج ذیل ہیں:.اس فن (علم الترب) کے ذریعہ سے ایک جماد میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جانداروں کی طرح چلنے لگتا ہے تو پھر اگر اس میں پرواز بھی ہو تو بعید کیا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا جانور جومٹی یا لکڑی وغیرہ سے بنایا جاوے اور عمل الترب سے اپنی روح کی گرمی اس کو پہنچائی جائے وہ در حقیقت زندہ نہیں ہوتا بلکہ بدستور بے جان اور جماد ہوتا ہے صرف عامل کے روح کی گرمی با روت کی طرح اُس کو جنبش میں لاتی ہے اور یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا ہلنا اور جنبش کرنا بھی بپا یہ ثبوت نہیں پہنچتا اور نہ در حقیقت ان کا زندہ ہو جانا ثابت ہوتا ہے." (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۶-۲۵۷ حاشیه ) آئینہ کمالات اسلام کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:.حضرت مسیح کی چڑیاں باوجود یکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کی مٹی تھیں اور کہیں خدا تعالی نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہو گئیں.“ (صفحہ ۶۸ طبع اول ۱۸۹۳ء) پس کوئی اختلاف نہیں کیونکہ انکار حقیقی زندگی کے ساتھ سچ سچ کے پرواز کا ہے اور اقرار غیر حقیقی اور عارضی پرواز کا.۲۹.مُریدوں کی تعداد مرزا صاحب نے پہلے اپنے مریدوں کی تعداد پانچ ہزار ( انجام انتقم صفحہ ۱۴) بیان کی لیکن جب
696 ایک سال کے بعد ہی انکم ٹیکس کا سوال ہوا تو جھٹ لکھ دیا کہ میرے مریدوں کی تعدا د دوصد ہے.(ضرورت الامام صفحه ۴۳ طبع اول) جواب:.پہلی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مریدوں کی عورتوں اور بچوں سمیت مجموعی لکھی ہے اور دوسری ضرورت الامام صفحہ ۴۳ طبع اول‘ والی تعداد صرف چندہ دینے والوں کی ہے.اس میں چندہ نہ دینے والے بچے اور عورتیں شامل نہیں ہیں.کیا اس فہرست میں حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ وغیرہ کے نام بھی درج ہیں؟ ظاہر ہے کہ مؤخر الذکر موقعہ پر سوال آمدنی کا تھا اور وہی لسٹ مطلوب تھی جو ان لوگوں کی ہو جو خود کماتے اور چندہ دیتے ہیں.پس جب مجسٹریٹ نے ان لوگوں کی لسٹ طلب کی جو چندہ دیتے تھے.تو کیا اس کے جواب میں ان لوگوں کی فہرست دے دی جاتی جو چندہ نہیں دیتے تھے؟ بریں عقل و دانش بہائید گریست ۳۰.منکرین پر فتوی کفر اعتراض:.مرزا صاحب تریاق القلوب صفحہ ۳۰ اطبع اول متن و حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ :.”میرے دعوی کے انکار سے کوئی کا فریا دجال نہیں ہو سکتا.مگر عبدالحکیم مرتد کو لکھتے ہیں کہ جس شخص کو میری دعوت پہنچی ہے اور وہ مجھے نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے؟ جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس اعتراض کا مفصل جواب حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۵ تا صفحه ۶۷ طبع اول پر دیا ہے.وہاں سے دیکھا جائے.۲.پہلی عبارت میں لکھا ہے کہ میرے دعوی کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوتا کیونکہ ”اپنے دعوئی کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا انہی نبیوں کی شان ہے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیں.گویا صرف تشریعی نبی کا انکار کفر ہے.اب حقیقۃ الوحی میں حضرت نے اپنے دعوئی کے متعلق لکھا ہے کہ ” جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے." (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۸)
697 66 "جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا تو وہ مومن کیونکر ہوسکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۸) پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار خواہ اپنی ذات میں کفر نہ ہو.مگر بوجہ اس کے کہ آپ کا انکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( جو تشریعی نبی ہیں) کے انکار کو مستلزم ہے لہذا کفر ہے.پس دونوں عبارتوں میں کوئی تناقض نہیں.کیونکہ تریاق القلوب صفحہ ۳۰ طبع اوّل کی عبارت میں بتایا گیا ہے کہ غیر تشریعی انبیاء کا انکار بالذات کفر نہیں ہوتا.اور حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۳ طبع اول کی عبارت میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ غیر تشریعی نبی کا انکار ستلزم ہوتا ہے.تشریعی نبی کے انکار کو اس لئے وہ بالواسطہ کفر ہے.۳۱.تشریعی نبوت کا دعویٰ حضرت مرزا صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں تحریر فرمایا ہے کہ میں غیر تشریعی نبی ہوں.صاحب شریعت نہیں مگر اربعین نمبر ہ صفحہ طبع اول متن و حاشیہ پر لکھا ہے کہ میں صاحب شریعت نبی ہوں.جواب:.سراسر افتراء ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ہرگز اربعین چھوڑ کسی اور کتاب میں بھی تحریر نہیں فرمایا.کہ میں تشریعی نبی ہوں بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنی آخری تحریر میں بھی ھذت کے ساتھ اس الزام کی تردید فرمائی ہے.جیسا کہ فرماتے ہیں :.یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ میں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتا.اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں.یہ الزام میرے پر میچ نہیں.بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے 66 (اخبار عام ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء) بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر ایک کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے.“ سو جو حوالہ تم اربعین نمبر ۴ صفحه ۶ طبع اول متن و حاشیہ سے پیش کرتے ہو.اس میں ہرگز یہ نہیں لکھا ہوا کہ میں تشریعی نبی ہوں.آپ نے تو مخالفین کو ملزم کرنے کے لیے تو تَقَوَّل کی بحث کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر کہو کہ لو تقول والا ۲۳ سالہ معیار تشریعی انبیاء کے متعلق ہے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے.پھر معترض کو مزید ملزم اور لاجواب کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ
698 تمہاری مراد صاحب شریعت سے کیا ہے اگر کہو ”صاحب شریعت“ سے مراد وہ ہے جس کی وحی میں امر اور نہیں ہوتو اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں.کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی.“ گویا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مخالفین کو محض ”اس تعریف کی رو سے ملزم کیا ہے.نہ یہ کہ صاحب شریعت نبی کی تعریف اپنی مسلمہ پیش کی ہے.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے آگے جو اپنی وحی ہو پیش کی ہے.قُل لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ “ (سورة النور : ٣١) اربعین نمبر ۴ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۳۵-۴۳۶) یه قرآن مجید کی آیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ” تجدید کے رنگ میں نازل ہوئی ہے.پس حضرت اقدس علیہ السلام کی وحی قرآنی شریعت کی تجدید کر کے از سر نو اس کو دنیا میں شائع کرنے کے لئے ہے.مستقل طور پر اس میں نہ کوئی نئے اوامر ہیں نہ نوا ہی.پس آپ کا دعویٰ ” صاحب شریعت ہونے کا نہ ہوا.بلکہ شریعت کے مجدد ہونے کا ہوا.چنانچہ اسی صفحہ ۶ اربعین نمبر ۲ طبع اول دسمبر ۱۹۰۰ ء کے حاشیہ پر حضرت اقدس علیہ السلام نے صاف طور پر تحریر فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امر اور نہی میری وحی میں تجدید کے رنگ میں نازل فرمائے ہیں.اب ظاہر ہے کہ صاحب شریعت نبی اس کو کہتے ہیں.جس کی وحی میں نئے اوامر اور نئے نواہی ہوں.جو پہلی شریعت کے اوامر و نواہی کو منسوخ کرنے والے ہوں.مگر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی میں ہرگز ایسا نہیں.لہذا یہ کہنا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے.محض افتراء اور بہتان ہے کہاں الزامی جواب جو حضرت اقدس علیہ السلام نے محولہ عبارت میں دیا ہے.اور کہاں اپنی طرف سے اپنا ایک عقیدہ بیان کرنا ہے کہا ہم نے جو دل کا دردتم اس کو گلہ سمجھے تصدق اس سمجھ کے مرحبا سمجھے تو کیا سمجھے ۳۲.دعوائے نبوت اور اس کی نفی اس کے متعلق ہم مفصل بحث مسئلہ ختم نبوت کے ضمن میں کر آئے ہیں.وہاں سے ملاحظہ ہو.
699 ۳۳.یسوع کی مذمت اور حضرت مسیح کی تعریف ا.اس کے متعلق بحث دیکھو مضمون ”قرآنی مسیح اور انجیلی یسوع پاکٹ بک ہذا..ہم اصولی طور پر تناقضات کے مضمون کے شروع میں صفحہ ۶۸۰ پاکٹ بک ہذا پر ثابت کر آئے ہیں کہ محض ایک لفظ کے دو جگہ استعمال ہونے اور اس کے ایجاب وسلب سے تناقض ثابت نہیں ہوتا.جہاں یسوع کی مذمت ہے اور اس کی تعلیم کو ناقص قرار دیا گیا ہے.وہاں عیسائیوں کے بالمقابل انجیلی مسلمات پر اعتراض کیا ہے اور جہاں مسیح عیسی یا یسوع کی تعریف کی ہے.وہاں اسلامی تعلیم کے لحاظ سے اہل اسلام کو مخاطب کیا ہے.پس دونوں عبارتوں میں تناقض نہیں.اسی طرح حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۵ پر جو ایک شریر کے جسم میں یسوع کی روح قرار دی ہے وہاں انجیلی یسوع مراد ہے.مگر تحفہ قیصریہ صفہ ۱۲ تا ۲۱ طبع اول میں حقیقی اور اسلامی مسیح مراد ہیں.لہذا کوئی تناقض نہیں ہے.۳۴.حیات مسیح میں اختلاف مسیح کی زندگی اور موت اور دوبارہ نزول کے متعلق مفصل بحث مسئلہ وفات مسیح کے ضمن میں (پاکٹ بک ہذا ) ملاحظہ ہو.۳۵ مسیح کی بادشاہت مسیح کی بادشاہت کی جو تاویل حضرت اقدس نے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 29 طبع اول پر کی ہے وہ حضور کی اپنی طرف سے ہے جو اسلامی نقطۂ نگاہ ہے اور اعجاز احمدی صفحہ ۱۳ و صفحه ۱۴ پر حضرت نے یہودیوں کا اعتراض نقل کیا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں.ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷۹ والی تاویل میں حضرت صاحب نے اپنی طرف سے بادشاہت کو آسمانی بادشاہت“ قرار دے کر حضرت مسیح کی اجتہادی غلطی تسلیم فرمائی ہے اب یہ تاویل یہودی معترضین پر حجت نہیں.نہ ان کو مسلم ہے اسی وجہ سے اعجاز احمدی صفحہ ۱۳ طبع اول پر حضرت صاحب نے اپنے مخالفین کو کہا ہے کہ بتاؤ یہودیوں کو ان اعتراضات کا تم کیا جواب دے سکتے ہو.پس دونوں عبارتوں میں کوئی تناقض نہ ہوا.۳۶ سخت کلامی کا جواب مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں.مثلاً ”اے بدذات فرقہ مولویاں.“ ( انجام آنقم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۱)
700 الجواب:.حضرت مرزا صاحب نے ہرگز ہرگز شریف اور مہذب مولویوں یا دوسرے مسلمانوں کو گالی نہیں دی.یہ محض احراریوں کی شر انگیزی ہے کہ وہ عوام الناس اور شریف علماء کو ہمارے خلاف اشتعال دلانے کی غرض سے اصل عبارات کو ان کے سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے اور کانٹ چھانٹ کر پیش کر کے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں.حالانکہ حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی.پادری یا پنڈت تھے جو حضرت صاحب کو نہایت فخش اورنگی گالیاں دیتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب اور حضور کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹون بھی بنا کر شائع کئے ان کی گالیوں کی کسی قدر تفصیل حضرت صاحب کی کتاب کتاب البریہ صفحه ۱۲۳ تا صفحه ۱۳۳ اور کشف الغطاء صفحہ ۱۵ تا صفحہ ۳۱ میں موجود ہے.ان لوگوں میں محمد بخش جعفر زٹلی، شیخ محمد حسین ، سعد اللہ لدھیانوی اور عبدالحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے.سعد اللہ لدھیانوی کی صرف ایک نظم بعنوان "نظم حقانی مسلمی به سرائر کا دیانی میں حضرت صاحب کی نسبت "روسیاہ بے شرم، احمق، بھانڈ ، یاوہ گو، نجمی، بدمعاش، لا چی، جھوٹا ، کافر، دجال، حمار وغیرہ الفاظ موجود ہیں.اسی طرح رساله اعلان الحق و اتمام الحجة و تکملہ صفحہ ۳۰ پر آپ کی نسبت حرامزدہ “ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے.پس حضرت مرزا صاحب کے سخت الفاظ اس قسم کے بد زبان لوگوں کی نسبت بطور جواب کے ہیں لیکن تعجب ہے کہ وہ معدودے چند مخصوص لوگ جو ان تحریرات کے اصل مخاطب تھے.عرصہ ہوا فوت بھی ہو چکے اور آج ان کا نام لیوا بھی کوئی باقی نہیں لیکن احراری آج سے ۶۰ ۷۰۰ برس پہلے کی شائع شدہ تحریریں پیش کر کے موجودہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ تحریرات تمہارے متعلق ہیں.حالانکہ بسا اوقات بے خود احراری اور ان کے سامعین وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان تحریروں کی اشاعت کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے.-۲.پھر یہ بات تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ اس قسم کی گندی اور مخش گالیاں جیسی حضرت صاحب کے مخالفین نے آپ کو دیں سن کر کوئی شریف یا نیک فطرت انسان ان گالیاں دینے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھ سکتا.پس اگر ایسے لوگوں کی نسبت حضرت صاحب نے جوابی طور پر بظاہر سخت الفاظ استعمال فرمائے ہوں تو بموجب ارشاد خداوندی " لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظلم “ (النساء:۱۴۹) حضرت صاحب کی کس تحریر کو بھی سخت یا نا مناسب نہیں کہا جاسکتا.
701.پھر حضرت صاحب نے ان گالیاں دینے والے گندے دشمنوں کو بھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ آپ نے ان کی نسبت جو کچھ فرمایا.دراصل وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا بڑا نرم ترجمہ کیا ہے.حدیث میں ہے.عُلَمَاءُ هُمُ شَرُّ مَّنْ تَحْتَ أدِيمِ السَّمَاءِ“ (مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث) کہ وہ علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.گویا اگر آسمان کے نیچے بدذات بھی رہتے ہیں تو فرمایا شَرُّهُمْ یعنی ان سے بھی وہ بدتر ہوں گے.پس حضرت نے تو نرم الفاظ استعمال فرمائے ہیں ورنہ آنحضرت صلعم نے تو تفضیل کل کا صیغہ بولا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دیا ہے.(1) لَيْسَ كَلامُنَا هَذَا فِى اَخْيَارِهِمْ بَلْ فِي اَشُرَارِهِم.» (الهدای روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۱۴ حاشیہ) کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے ورنہ غیر احمدیوں میں سے جو علماء شریر نہیں.ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا.فرماتے ہیں:.(۴) نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ هَتْكِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِيْنَ، وَقَدْحِ الشُّرَفَاءِ الْمُهَذَّبِينَ، سَوَاءٌ كَانُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أوِ الْمَسِيحِينَ أَوِ الآرِيَةِ لجبد النور روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۰۹) ہم نیک علما ء کی ہتک اور شرفاء کی تو ہین سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں.خواہ ایسے لوگ مسلمان ہوں یا عیسائی یا آریہ (۵) صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حد اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں تو ہین اور ہتک آمیز باتیں منہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں.سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بد زبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے.“ اشتہار مشموله لیام الصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۲۸ اردو ٹائمثل و تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۷۷ ) علماء کی حالت اور غیر احمدی گواہیاں ا.نواب نورالحسن خاں صاحب آف بھوپال لکھتے ہیں.اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے...علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے زمین کے ہیں.انہیں سے فتنے 66 نکلتے ہیں.انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں.“ (اقتراب الساعۃ ۱۲) ۲- اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء که طالب دنیا باشند 66 ( الفوز الکبیر صفحہ مصنفہ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی مطبع مجتبائی دہلی )
702.آج کل تھرڈ کلاس مولوی جو ذرہ ذرہ بات پر عدم جواز اقتداء کا فتویٰ دے دیا کرتے ہیں.سوان کی بابت بہت عرصہ ہوا فیصلہ ہو چکا ہے هَلْ أَفْسَدَ النَّاسَ إِلَّا الْمُلُوكُ وَ عُلَمَاءُ سُوْءٍ وَ رُهْبَانُهَا (اہل حدیث کے جون ۱۹۱۲ء) شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا بادشا ہوں.علماء سوء اور رہبان کے سوا کسی اور چیز نے لوگوں کو خراب کیا ہے؟ ۴.افسوس ہے ان مولویوں پر جن کو ہم ہادی رہبر وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ سمجھتے ہیں.ان میں یہ نفسانیت یہ شیطنت بھری ہوتی ہے.تو پھر شیطان کو کس لئے برا بھلا کہنا چاہیے.(اہلحدیث کے ارنومبر ۱۹۱۱ء) ۵.”مولوی اب طالب جیفہ دنیا ہو گئے.وارث علم پیمبر کا پتہ لگتا نہیں.“ (اہل حدیث ۳ مئی ۱۹۱۲ء) بعینہ وہی عقائد باطلہ جن کی تکذیب کے لئے خدا نے ہزار ہا پیغمبر بھیجے تھے.ان نام کے مسلمانوں نے اختیار کرلئے ہیں.“ ( تفسیر ثنائی از مولوی ثناء اللہ امرتسری سورة البقرة زیر آیت واتبعوا ما تتلوا الشياطين.......ے.نام کے بنی اسرائیل تو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور صفحہ دنیا سے نام غلط کی طرح مٹ گئے مگر آہ ! کام کے بنی اسرائیل اب بھی موجود و ترقی پزیر ہیں.ہم نے سجادہ نشینی کا فخر حاصل کیا اور عنانی اسرائیلی ہاتھ میں لے لی اور اپنا گھوڑا گھوڑ دوڑ میں بنی اسرائیل سے بھی آگے بڑھا دیا.صادق و مصدوق فَدَاهُ أَبِى وَ أُمِّى رَسُولٌ كَرِيمٌ عَلَيْهِ التَّحِيَّةُ وَالتَّسْلِیم نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس قبل ہماری اس شہ سواری اور گوئے سبقت کی پیش بری کی ان الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ یقیناً میری امت کے بھی لوگ ہو بہو بنی اسرائیل کی طرح افعال بد میں منہمک ہوں گے.حتیٰ کہ اگر اس میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ماں سے زنا کرنے والے افراد موجود ہوں گے واقعہ یہ ہے کہ آج ہم مدعی اہلحدیث بھی حَد وَالنَّعْلَ بِالنَّعْلِ بنی اسرائیل کی طرح ہر معاملہ میں مصلحت دوراندیشی ضرورت وقت و پالیسی، زر پرستی، کاسہ لیسی ، خوشامد و چاپلوسی کو معبود حق سمجھ کر اسی کی پوجا کرنے لگے.“ (اہلحدیث ۲۵ / ستمبر ۱۹۳۱ ، صفحه ۱)
703 مشکوۃ صفحہ ۳۰ میں حضرت علیؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول صلعم نے فرمایا کہ لوگوں پر عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا.اور قرآن کا رسم خط.اس وقت مولوی آسمان کے تلے بدترین مخلوق ہوں گے (اقتراب الساعۃ صفحہ۱۳۲) سارا فتنہ وفساد انہی کی طرف سے ہوگا.ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل وہی زمانہ آ گیا ہے.(اہلحدیث ۲۵ / اپریل ۱۹۳۰ صفحه ۵) ۹.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری لکھتے ہیں :.قرآن مجید میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے کہ کچھ حصہ کتاب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے افسوس ہے کہ آج ہم اہلحدیثوں میں بالخصوص یہ عیب پایا جاتا ہے.( الاحد بیث ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ صفحه ۹) گالی اور سخت کلامی میں فرق ا.گالی اور ہے اور اظہار واقعہ اور چیز.اگر کوئی شخص جو خود اندھا ہو اور دوسرے کو کانا کہے تو دوسرے آدمی کا حق ہے کہ اسے کہے کہ میں تو کانا نہیں.چونکہ تم اندھے ہو اس لئے تمہیں میری آنکھ نظر نہیں آتی اب یہ اظہار واقعہ ہے مگر گالی نہیں.خود قرآن مجید نے اپنے منکروں کو شر الْبَرِيَّةِ (البينة:) ( بدترین مخلوق ).کالا نعام (الاعراف: ۱۸۰ ) ( چوپائیوں کی طرح) قرار دیا ہے بلکہ زبیم (القلم:۱۴) ( حرامزادہ) بھی قرار دیا ہے.نوٹ :..ڈیم کے معنی ہیں حرامزادہ دیکھو تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت لا تطع گل حَلَّافٍ مَّهِينِ (القلم: (۱) فَالْحَاصِلُ أَنَّ الزَّنِيمَ هُوَ وَلَدُ الزِّنَا.یعنی نتیجہ یہ نکلا کہ زَنِيْهِ “ولد الزنا کو کہتے ہیں.ب تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۲ صفحه ۵۶۴ پر سورۃان وسورة القلم : ۱۴.عُثْل بَعْدَ ذلِك زنیم میں زَنیم “ کا ترجمہ یہ لکھا ہے.زنیم حرامزادہ نطفہ نا تحقیق کہ اس کا باپ معلوم نہیں.ج.زنیہ “ کے معنی عربی لغات فیروزی صفحہ ۱۴۰ پر حرامزادہ ' درج ہیں.و الْمُنْجِدُ (لغت کی کتاب ) میں زنیم کے معنے لکھتے ہیں ”السلیم“ زیرمادہ زنم اور ،، دو الیم “ کے معنی اس لغت میں زیر مادہ لام پر الدَّنِيُّ الأَصْلُ “ یعنی ”بد اصل“ لکھے ہیں.ر الفرائد الدریۃ عربی انگریزی ڈکشنری FALLONS انگریزی واردو ڈکشنری زیر مادہ
704 زنم میں بھی زنیم کے معنی IGNOBLE درج ہیں جس کے معنی ولد الحرام یا بد اصل کے ہیں.۲.بخاری میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار مکہ کا سفیر عروہ بن مسعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا کہ حضرت ابوبکر نے اسے مخاطب کر کے کہا:.أمُصُصُ بِبَطْرِ اللَّاتِ “ (بخارى كتاب الشروط.باب الشروط في الجهاد و المصالحة و تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور جلد ۲ صفحہ ۱۳) حضرت ابو بکر نے عروہ سے کہا کہ لات کی شرمگاہ چوس ( یہ عرب میں نہایت سخت گالی سمجھی جاتی تھی ) یادر ہے کہ حضرت ابوبکر نے یہ الفاظ آنحضرت صلعم کی موجودگی میں فرمائے مگر حضور صلعم نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ خاموش رہے.یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شخص حضرت ابو بکڑ سے نہیں بلکہ آنحضرت سے باتیں کر رہا تھا اور اس نے آنحضرت صلعم کو گالی نہیں دی تھی بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ اے محمد ! یہ مسلمان اگر ذراسی بھی تیز لڑائی ہوئی تو آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے.اس پر حضرت ابو بکر نے اُمُصُصُ بِبَطْرِ اللَّاتِ کہا آنحضرت صلحم حضرت ابو بکر کے فقرے کو بھی سن رہے تھے.مگر آپ نے حضرت ابو بکر صدیق کو منع نہیں فرمایا.۳- گومندرجہ بالا حدیث حدیث تقریر کا درجہ رکھتی ہے.مگر پھر بھی ایک اور حدیث درج کی جاتی ہے.عن أبي ابْنِ كَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ تَعَنَّا بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَاعِضُوُهُ بِهَنِ اَبِيْهِ وَلَا تَكْنُوا (مشكواة كتاب الآداب باب المفاخرة و العصبيــه الفصل الثاني ) اس حدیث کا اردو ترجمہ الْمُلْتَقَطَات شرح مشکوۃ سے درج کیا جاتا ہے.روایت ہے ابی بن کعب سے کہ کہا.سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے کہ جو کوئی کہ نسبت کرے ساتھ نسبت جاہلیت کے.پس کٹو اؤ اس کو ستر باپ اس کے کا اور کنایہ نہ کر یعنی یوں کہو کہ اپنے باپ کا ستر کاٹ کر اپنے منہ میں لے لے.اس حدیث میں نہایت تشدید ہے فخر بالا باء پر اور حقیقت میں اپنی قوم کی بڑائی کرنا عبث ہے.(المشکوۃ بالملتقطات كتاب الآداب باب المفاخرة والعصية) ۴.ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: الْعَضُّ اَخُذُ الشَّيْءِ بِالْأَسْنَانِ بِهَنِ آبِيْهِ بِفَتْحِ الْهَاءِ وَ تَخْفِيفِ النُّونِ كِنَايَةٌ عَنِ
705 الْفَرْجِ أَى قُولُوا لَهُ.اُعْضُضْ بِذَكَرِ اَبِيْكَ وَ اَيْرِهِ أَوْ فَرْجِهِ وَلَا تَكْنُوا بِذِكْرِ الْهَنِ مِنَ الايْرِ بَلْ صَرِّحُوا له.(مرقاة بر حاشیه مشکوة صفحه ۳۵۶ مطبع انصاری) کہ عض کے معنی ہیں کسی چیز کا دانتوں سے پکڑنا...الخ.غیر احمدی علماء نے حضرت مسیح موعود کو جو گالیاں دیں.ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں.صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ عبدالحکیم نے اپنے رسالہ ”اعلان الحق صفحہ ۳۰ میں حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کو حرامزادہ لکھا ہے.(لَعْنَتُ اللهِ عَلَى مَنْ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ.خادم ) نیز محمد علی بوپڑی نے اپنے رسالہ ”صوت ربانی بر سر دجال قادیانی میں بھی یہی لفظ لکھا ہے.۳۷- ذُرِّيَةُ الْبَغَايَا (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً غیر احمدیوں کو ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا نہیں کہا.بوجوہات ذیل: جواب:.آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت تک تو حضرت غیر احمدیوں کو کافر بھی نہیں کہتے تھے.چہ جائیکہ ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا کہتے.آپ کی طرف سے جوابی فتوئی حقیقۃ الوحی ۱۵ رمئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۱،۱۲۰ طبع اول میں شائع ہوا ہے.۲.اس عبارت میں حضور نے اپنی خدمات اسلامی کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے.قد حُبَ إِلَيَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِينَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّينَ وَ أُجَادِلَ الْبَرَاهَمَةَ وَالْقِسِيْسِينَ کہ جب میں ہیں سال کا ہوا تبھی سے میری یہ خواہش رہی کہ میں آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں چنانچہ میں نے براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ اور آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کتابیں لکھیں جو اسلام کی تائید میں ہیں.كُلُّ مُسْلِمٍ ( آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۴۷ ) ( یعنی ہر مسلمان ) ان کتابوں کو بنظر استحسان دیکھتا اور ان کے معارف سے مستفید ہوتا اور میری دعوت اسلام کی تائید کرتا ہے مگر یہ ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ ان کے مخالف ہیں.چنانچہ براہین احمدیہ اور سرمہ چشمہ آریہ کے جواب میں لیکھرام آریہ نے حبط احمدیہ اور تکذیب براہین احمدیہ شائع کیں مگر مسلمان حضرت کی تائید میں تھے.چنانچہ محمد حسین بٹالوی نے براہین پر ریویو (رسالہ اشاعۃ السنتہ جلد کے صفحہ ۱۶۹) لکھا.مسلم بک ڈپو لاہور نے سرمه چشمه آریہ ( پر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ اشاعۃ السنتہ جلد ۹ صفحہ ۱۴۹ تا ۱۵۸ شائع ہوا) کو اپنے خرچ پر شائع کیا.
706 ۳.اس امر کا ثبوت کہ آئینہ کمالات اسلام کی محولہ بالاعبارت میں غیر احمدی مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا گیا یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اسی آئینہ کمالات اسلام میں جس کے صفحہ ۵۴۰ کا تم نے حوالہ دیا ہے صفحہ ۵۳۵ پر ملکہ وکٹوریا آنجہانی قیصرہ ہند کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.وَ فِي آخِرِ كَلَامِی اَنْصَحُ لَكِ يَا قَيْصَرَةُ خَالِصًا لِلَّهِ وَ هُوَ اَنَّ الْمُسْلِمِيْنَ عَضُدُكِ الْخَاصُ وَ لَهُمْ فِي مُلْكِكِ خَصُوصِيَّةٌ تَفْهِمِيْنَهَا فَانظُرِى إِلَى الْمُسْلِمِينَ بِنَظْرٍ خَاصِ وَ أَقَرِى أَعْيُنَهُمْ وَ الَّفِي بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَاجْعَلِي أَكْثَرَهُمْ مِنَ الَّذِينَ يُقَرِّبُونَ التَّفْضِيلَ التَّفْضِيلَ.اَلتَّخْصِيصَ التَّخْصِيصَ.“ 66 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۳۵) یعنی اے ملکہ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمان تیرا باز و ہیں.پس تو ان کی طرف نظر خاص سے دیکھ اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا اور ان کی تالیف قلوب کر اور ان کو اپنا مقرب بنا اور بڑے سے بڑے خاص عہدے مسلمانوں کو دے.غرضیکہ اسی آئینہ کمالات اسلام میں مخالفین کی پیش کردہ عبارت سے پہلے تو یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتا ؤ اور ان کی تالیف قلوب لازمی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسی جگہ ان کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں جو ان کی دل شکنی کا باعث ہوں.۴.علاوہ ازیں ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا والی عبارت میں الفاظ يعني يَقْبُلُنِي وَيُصَدِّقُ دَعْوَتِي.( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۷-۵۴۸) کے مجھے قبول کرتا اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے تو اس جگہ دعوت سے مراد دعوت الی الاسلام اور اسی کا قبول کرنا ہے.(ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۸۹) فرماتے ہیں:.وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّى عَاشِقُ الْإِسْلَامِ وَ فَدَاءُ حَضْرَةِ خَيْرِ الْأَنَامِ وَ غُلَامُ أَحْمَدٍ الْمُصْطَفى حُبّبَ إِلَيَّ مُنْذُ صَبَوْتُ إِلَى الشَّبَابِ.....أَنْ اَدْعُوَ الْمُخَالِفِينَ إِلَى دَيْنِ اللَّهِ الا جُلَى.فَأَرْسَلْتُ إِلَى كُلِّ مُخَالِفٍ كِتَابًا وَدَعَوْتُ إِلَى الْإِسْلَامِ شَيْخًا وَ شَابًّا.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحه ۳۸۹،۳۸۸) درج ہے.اس عبارت کا فارسی ترجمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳ و۳۹۴ حاشیہ میں حسب ذیل خدا تعالیٰ خوب میداند که من عاشق اسلام و فدائے حضرت سید نام و غلام احمد مصطفیٰ
707 ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میباشم از عنفوان وقتے کہ بالغ بستن شباب وموفق بتالیف کتاب شده ام دوستدار آن بوده ام که مخالفین را بسوئے دین روشن خدا دعوت کنم.بنا بر آن بسوئے ہر مخالفے مکتو بے فرستادم و جوان و پیر را ندائے قبول اسلام در دادم " یعنی خدا کی قسم! میں عاشق اسلام اور فدائے حضرت خیر الانام ہوں اور حضرت احمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں.اور جب سے میں جوان ہوا اور مجھے کتاب لکھنے کی توفیق ملی میری یہی دلی خواہش رہی کہ میں اللہ تعالیٰ کے روشن دین کی طرف مخالفین کو دعوت دوں چنانچہ میں نے ہر ایک مخالف کی طرف مکتوب روانہ کیا اور چھوٹے بڑے کو اسلام کی طرف دعوت دی.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۹۳-۳۹۴) یہ عبارت آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳-۳۹۴ کی ہے اور مخالفین کی پیش کردہ ” ذرية البـغـايا“ والی عبارت صفحہ ۵۴۸،۵۴۷ پر ہے جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:.وَ قَدْ حُبِّبَ إِلَيَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِينَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّينَ.وَ أَجَادِلَ الْبَرَاهِمَةَ وَ الْقِسِيْسِينَ.وَقَدْ أَلَّفْتُ فِي هَذِهِ الْمُنَاظَرَاتِ مُصَنَّفَاتٍ عَدِيدَةٌ ( جس کا ترجمہ پچھلے صفحہ پر دیا جا چکا ہے ) اب ان دونوں عبارتوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو بالکل ایک ہی مضمون ہے.پس ثابت ہوا کہ صفحہ ۵۴۸ پر لفظ " دعوتی“ میں جس ”دعوت“ کا ذکر ہے وہ صفحہ ۳۸۹ پر مذکور دعوتِ اسلام“ ہی ہے نیز دیکھو ازالہ اوہام حصہ اول خورد صفحه ۱۱۲ حاشیہ.۵.تاج العروس زیر مادہ بغی میں ہے اَلْبَغْى الامَةُ فَاجِرَةٌ كَانَتْ أَوْ غَيْرَ فَاجِرَةٍ كم ”بغی“ کے معنی لونڈی کے ہیں.خواہ وہ بد کار نہ ہو.تب بھی یہ لفظ اس پر بولا جاتا ہے.الْبَغِيَّةُ فِي الْوَلَدِ نَقِيضُ الرُّشْدِ وَيُقَالُ هُوَ ابْنُ بَغِيَّةٍ ) تاج العروس زیر مادہ بھی) کہ کسی کو یہ کہنا کہ وہ ابن بغتیہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت سے دور ہے کیونکہ لفظ ”بغیــه » «رشد» یعنی صلاحیت کا مخالف ہے.گویا ذُرِّيَّةُ الْبَغَايَا کا ترجمہ ہوگا ہدایت سے دور..حضرت مسیح موعود نے خود ابن البغاء کا ترجمہ ”سرکش انسان کیا ہے.سعد اللہ لدھیانوی کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ میں نے اپنے قصیدہ انجام آتھم میں اس کے متعلق لکھا تھا آذَيْتَنِي حُبُنًا فَلَسْتُ بِصَادِقِ إِنْ لَمْ تَمُتُ بِالْخِزْيِ يَا ابْنَ بِغَاءِ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۸۲)
708 یعنی خباثت سے تو نے مجھے ایذاء دی ہے.پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعوئی میں سچانہ شہروں گا اے سرکش انسان الحکم جلدا انبر بابت۲۴ فروری ۱۹۰۷، صفحہ۱۲) معلوم ہوا کہ ابن البغاء کا ترجمہ ”سرکش انسان“ ہے.نہ کہ کنجری کا بیٹا اور اس سے وہ اعتراض بھی دور ہو گیا جو بعض غیر احمدی انجام آتھم وروحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۸۲ کے عربی قصیدہ کے فارسی ترجمہ سے اے نسل بدکاراں کے الفاظ پیش کر کے کرتے ہیں کیونکہ انجام آتھم کی عربی عبارت کے نیچے جو تر جمہ ہے وہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا ہے.مگر ہمارا پیش کردہ ترجمہ خود حضرت مسیح موعود کا بیان فرمودہ ہے.جو بہر حال مقدم ہے.ے.حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ: مَنْ شَهِدَ عَلَيْهَا بِالزِّنَا فَهُوَ وَلَدُ الزِّنَا (کتاب الوصیۃ صفحہ ۳۹ مطبوعہ حیدرآباد) کہ جو حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگائے وہ حرامزادہ ہے اس موقعہ پر جو حل طلب معمہ ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ پر تہمت زنا لگانے سے ایک انسان کی اپنی ولادت پر ( جو سالہا سال پہلے واقعہ ہو چکی ہو ) کس طرح اثر پڑتا ہے؟ مَا هُوَ جَوَابُكُمْ فَهُوَ جَوَابُنَا.۸.شیعوں کی معتبر ترین کتاب کافی کلینی کے حصہ سوم موسومہ بہ فروع کافی مطبوعہ نولکشور لکھنو کے آخری حصہ یعنی کتاب الروضہ صفحہ ۱۳۵ میں ہے.عَنْ أَبِى حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّ بَعْضَ أَصْحَابِنَا يَفْتَرُونَ وَيَقْذِفُونَ مَنْ خَالَفَهُمْ فَقَالَ الْكَسَّفُ عَنْهُمُ اَجْمَلُ ثُمَّ قَالَ وَاللهِ يَا اَبَا حَمْزَةَ إِنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ اَوْلَادُ الْبَغَايَا مَاخَلَا شِيعَتِنَا.ابوحمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر سے کہا کہ بعض لوگ اپنے مخالفین پر کئی کئی طرح کے بہتان لگاتے اور افتراء کرتے ہیں آپ نے فرمایا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا اچھا ہے پھر آپ نے فرمایا.اے ابوحمزہ خدا کی قسم ! ہمارے شیعوں کے سوا باقی تمام لوگ اولا د بغایا ہیں.۹.حضرت امام جعفر صادق کا مندرجہ ذیل قول بھی ملاحظہ ہو.”مَنْ أَحَبَّنَا كَانَ نُطْفَةَ الْعَبْدِ وَمَنْ اَبْغَضَنَا كَانَ نُطْفَةَ الشَّيْطَان» (فروغ كافي جلد ۲ کتاب النکاح صفحه ۲۱۶ مطبوعہ نولکشور لکھنو) کہ جو شخص ہمارے ساتھ محبت کرتا ہے وہ تو اچھے آدمی کا نطفہ ہے مگر وہ جو ہم سے عداوت رکھتا ہے وہ 66 نطفہ شیطان ہے." اب ایک طرف امام ابو حنیفہ کا فتویٰ پڑھو.کہ حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگانے والے سب حرامزادے ہیں اور دوسری طرف حضرت امام باقر کا فتویٰ پڑھو کہ سوائے شیعوں کے باقی سب
709 لوگ اولا د بغایا ہیں اور ہم سے نفرت کرنے والے شیطان کا نطفہ ہیں.پھر بتاؤ اگر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کیا جائے.تو ان فقرات کے کوئی معنے بنتے ہیں؟ اور اس طرح روئے زمین کا کوئی انسان ولد الزنا ہونے سے بچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.ا.چنانچہ احراریوں کا سرکاری آرگن اخبار مجاہد، لاہور ۴ مارچ ۱۹۳۶ء مندرجہ بالاحوالجات از فروغ کافی“ کے جواب میں رقمطراز ہے:.ولد البغایا.ابن الحرام اور ولد الحرام.ابن الحلال.بنت الحلال وغیرہ یہ سب عرب کا اور ساری دنیا کا محاورہ ہے جو شخص نیکو کاری کو ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجود یکہ اس کا حسب و نسب درست ہو.صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام.ولد الحرام کہتے ہیں.اس کے خلاف جو نیکو کار ہوتے ہیں.ان کو ابن الحلال کہتے ہیں.اندریں حالات امام علیہ السلام کا اپنے مخالفین کو اولاد بغایا“ کہنا بجا اور درست ہے.‘ ( اخبار مجاہد لا ہور۴ مارچ ۱۹۳۶ء) پس آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کی عبارات میں بھی مراد ہدایت سے دور یا سرکش یا بد فطرت انسان ہی ہیں نہ کہ ولد الزنا یا حرامزادے! ۱.حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کی نسبت لکھا ہے.”ایک دفعہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے کہ اتفاقاً گیندا اچھل کر مجلس میں آپڑا.کسی کو جا کر لانے کی جرات نہ ہوئی.آخر ایک لڑکا گستاخانہ اندر آیا اور گیند اٹھا کر لے گیا.آپ (حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ) نے دیکھ کر فرمایا کہ شاید یہ لڑ کا حلال زادہ نہیں ہے.چنانچہ دریافت پر ایسا ہی معلوم ہوا.لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہو گیا ؟ فرمایا! اگر یہ حلال زادہ ہوتا تو اس میں شرم و حیا ہوتی.“ تذکرہ اولیاء باب اٹھارھواں.مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز بار سوم صفحه ۱۳۴۷) ثابت ہوا کہ جس میں شرم وحیا نہ ہو وہ ”حلال زادہ نہیں ہوتا.۳۸.جنگل کےسور إِنَّ الْعَدَا صَارُوا خَنَازِيرَ الْفَلَا وَنِسَاءُ هُمُ مِنْ دُونِهِنَّ الْأَكْلَبُ نجم الہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۵۳ ) جواب : یہ عام خطاب نہیں بلکہ صرف ان دشمنوں کو ہے جو گندی گالیاں دیتے تھے.خواہ وہ
710 مرد ہوں.خواہ عورتیں.چنانچہ اس کا اگلا شعر ہے سَبُّوا وَمَا أَدْرِي لَاتِ جَرِيمَةٍ نجم الہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحری۴ ۵) کہ وہ مجھ کو گالیاں دیتے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں اور کس جرم کے بدلے گالیاں دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ا دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہر یک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچا 66 دیوے پھر اگر وہ سچ کوسن کر ا فر وختہ ہو تو ہوا کرے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۲) ب.مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی.لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں.مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدرسختی مصلحت تھی.اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریۃ رکھا ہے اور با ایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے.اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا.اول یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کاختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں.دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قد رسخت پا کر اپنی پُر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا اور اس طرح وہ وحشیانہ انتقاموں سے دستکش رہیں.یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے کہ اس قوم کے جاہلوں کا غیظ و غضب کوئی اور راہ اختیار کرے.مظلوموں کے بخارات نکلنے کے
711 لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سخت حملوں کا سخت جواب دیں.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۱ ۱۲) نیز دیکھوازالہ اوہام صفحی ۳۴، صفحه ۳۵ طبع اوّل تقطیع کلاں صفحہ ۷ طبع اول حصہ اول، کتاب البریہ صفحه ۹۳ طبع اوّل صفحہ ۱۱۱ تا ۱۸ تبلیغ رسالت جلد نمبرے صفحہ ۹۷ وتتمہ حقیقۃ الوحی صفحه ۲۰ تا ۲۳ طبع اول ) ۳۹.مبارک احمد کا قبل از ولادت بولنا وو مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ میرے بچے مبارک احمد نے اپنی والدہ کے شکم میں باتیں کیں.جواب:.مبارک احمد کے جس کلام کا ذکر تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۱۳ ۲۱۴ پر ہے وہ براہ راست بچے کا کلام نہیں بلکہ الہام الہی ہے جو خدا تعالی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا یعنی اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوفرمایا کہ إِنِّي أَسْقُطُ مِنَ اللَّهِ وَ أُصِيْبُهُ ( تذکره صفحه ۲۷۶ مطبوعه ۲۰۰۴ ) ( یعنی میں اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہوں اور جلد ہی خدا تعالیٰ کی طرف واپس چلا جاؤں گا ) یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے حضور کو مبارک احمد کی ولادت سے پہلے الہام کئے اور یہ کلام حکایت مبارک احمد کی طرف سے تھا.جیسا کہ قرآن کریم کی آیت ” إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “ که خدا تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی طرف سے یہ الفاظ الہام کئے ہیں.پس اسی طرح چونکہ الہامی فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ کلام مبارک احمد کی طرف سے کیا تھا اور جملہ کا متکلم بالواسطہ مبارک احمد تھا.اس لئے حضرت اقدس نے استعارہ لکھا ہے کہ گویا اس کے بچے ہی نے باتیں کیں.یہ قول صاحبزادہ مبارک احمد کا ایسا ہی ہے جیسے قرآن مجید سورۃ آل عمر آن رکوع ۵ میں ہے کہ جب فرشتہ حضرت مریم کے پاس حضرت مسیح کی ولادت کی بشارت لے کر آیا تو اس کی بشارت کے ساتھ ہی آئی قد جِئْتُكُمْ بِايَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ (ال عمران : ۵۰ شروع ہو جاتا ہے ( کہ میں آیا ہوں تمہاری طرف، خدا کی طرف سے نشان لے کر ) مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی رو سے وہ آواز مبارک احمد کی طرف سے نہ آئی تھی بلکہ الہامی کلام میں اللہ تعالیٰ نے حکا تیا اس کی طرف سے کلام کیا تھا.۲.لیکن تمہارے ہاں تو یہاں تک لکھا ہے کو ایک دفعہ حضرت پیران پیر سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ نے آپ سے کچھ بات کہی تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا.اے اماں! کیا تجھے یاد نہیں کہ جب میں تیرے پیٹ میں تھا تو ان دنوں ایک سائل فقیر بھیک مانگنے تیرے دروازہ پر آیا.تو اسے ایک شیر کھانے کے لئے دوڑا تھا.جس سے ڈر کر وہ سائل بھاگ گیا تھا.کیا تجھے
712 معلوم نہیں کہ وہ شیر میں ہی تھا ؟ ( گلدسته کرامات صفحه ۲۱۵ از سید عبدالقادر جیلانی) ۳.لواور سنو! بحار الانوار جلد ۱۰ میں علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ مصباح الانوار سے اور امالی شیخ صادق سے روایت کرتے ہیں جس کے ترجمہ پر اکتفا کی جاتی ہے.مفضل ابن عمر بیان کرتے ہیں میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب سیدہ (حضرت فاطمہ.خادم ) کی ولادت کس طرح ہوئی.آپ نے فرمایا کی جب خدیجہ سے جناب رسول اللہ نے شادی کی تو مکہ کی عورتوں نے انھیں چھوڑ دیا.نہ وہ ان کے پاس آتی تھیں نہ ان کو سلام کرتی تھیں اور نہ کسی اور عورت کو ان کے پاس آنے دیتی تھیں.اس بات سے جناب خدیجہ کو بہت دہشت ہوئی اور ادھر جناب رسول اللہ کی طرف سے بھی خوف دامن گیر تھا.اس حالت میں جناب سیدہ کا حمل قرار پایا.جناب سیدہ خدیجہ سے باتیں کیا کرتی تھیں اور انھیں تسلی و دلاسا دیتی رہتی تھیں.اور صبر کی تلقین فرماتی تھیں.خدیجہ نے رسول اللہ سے یہ بات چھپارکھی تھی.ایک روز رسول اللہ تشریف لائے تو آپ نے سنا کہ خدیجہ جناب فاطمہ سے باتیں کر رہی ہیں پوچھا! یہ کس سے باتیں کرتی ہیں خدیجہ نے عرض کیا کہ یہ بچہ جو میرے شکم میں ہے مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میری وحشت کو دور کرتا ہے آپ نے فرمایا " اے خدیجہ.جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ یہ بچہ لڑکی ہے.“ (سیرة الفاطمه اعنی سوانح عمری حضرت سید صلواۃ اللہ علیہ تصنیف سید حکیم ذاکرحسین صاحب مترجم نهج البلاغه مطبوع ۱۹۲۱ء صفحه ۳۰،۲۹) ۴۰.بکرے کا دودھ سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۹۹ میں مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مظفر گڑھ میں ایک بکرے نے اڑھائی سیر دودھ دیا.جواب:.الف.امام ابن جوزی فرماتے ہیں : - فَبُعِثَ بِهِ إِلَى الْخَلِيْفَةِ الْمُقْتَدِرِ وَ أُهْدِي مَعَهُ تَيْسًا لَهُ ضَرْعٌ يُحْلَبُ لَبَنًا حَكَاهُ الصَّوَلِيُّ وَابْنُ كَثِيرٍ (حجج الكرامه صفحه ۲۵۹ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال) کہ ایک لمبے قد کا آدمی خلیفہ مقتدر کے پاس بھیجا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک بکرا بھی ہدیہ بھیجا گیا اس بکرے کے تھن تھے اور وہ دودھ دیتا تھا، اس واقعہ کو صولی اور حافظ ابن کثیر نے بیان کیا ہے.ب.مولوی شبلی نعمانی لکھتے ہیں :.” جہانگیر کا جانور خانہ حقیقت میں ایک عجائب خانہ تھا.
713 اس میں ایسے بھی بہت سے جانور تھے جن کی خلقت غیر معمولی خلقت تھی.ان میں ایک بکرا تھا جو بقدر ایک پیالہ کے دودھ دیتا تھا.(مقالات شیلی صفحه ۱۹۰ نیز ترک جهانگیری صفحه ۷۲ ) نوٹ:.جماعت احمد یہ آنبہ ضلع شیخو پورہ نے خاص طور پر ایک دودھ دینے والا بکرا خریدا تھا اور مولوی صاحبان کے لئے ”الفضل میں اشتہار دیا گیا تھا کہ وہ اس بکرے کو دیکھ کر تسلی کر لیں.۲۸ نومبر ۱۹۳۴ء تک وہ بکرا جماعت کے پاس موجود رہا.(خادم) ج.امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ۳۰۰ ھ میں ایک خچر نے بچہ جنا.“ تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحه ۳۸ مطبع جنید برقی پریس دہلی ) نوٹ:.یا درکھنا چاہیے کہ ہم وفات مسیح کے اس لئے قائل نہیں کہ گویا ہمارے نزدیک خدا کسی کو زندہ رکھنے پر قادر نہیں بلکہ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ عیسی فوت ہو چکے ہیں اور یہ کہ کوئی انسان آسمان پر نہیں جا سکتا.چونکہ خدا تعالی جھوٹ نہیں بول سکتا اور نہ وعدہ خلافی کرسکتا ہے اس لئے عیسی بھی زندہ نہیں رہ سکتے نیز اگر اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة: ۲۱) کا وہ مفہوم ،، درست ہو جو تم لوگ لیتے ہو تو ذرا یہ تو بتا دو کہ کیا خدا اگر چاہے تو اپنے جیسا ایک خدا بنا سکتا ہے؟ یا درکھنا کہ خدا غیر مخلوق اور قدیم ہے اور جو پیدا ہو گا وہ بہر حال مخلوق ہوگا.۴۱.عورت مرد ہوگئی سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۹۹ میں حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ایک مرد نے اپنے بچہ کو اپنا دودھ پلایا.الجواب : ا بیج الکرامہ میں لکھا ہے:.وَفِی ۷۷۶ أَحْضَرَ وَالِي لَا شُمُونِينَ إِلَى الْأَمِيرِ مِنْجَكَ بِنا عُمْرُهَا خَمْسُ عَشْرَ سَنَةٍ فَذَكَرَ أَنَّهَا لَمْ تَزِلُ بِئْنَا إِلَى هَذِهِ الْغَايَةِ فَاسْتَدَّ الْفَرْجُ وَظَهَرَ لَهَا ذَكَرٌ وَأَنْثَيَانِ وَاحْتَمَلَتْ فَشَاهَدُوُهَا وَسَمُّوهَا مُحَمَّدًا وَلِهَذِهِ القَضِيَّةِ نَظِيْرٌ ذَكَرَهَا ابْنُ كَثِيرٍ فِى تَارِيخِهِ وَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ وَقَعَ فِي عَصْرِنَا نَظِيرُ ذلِكَ فِی ۵۸۴۲ ( حج الکرامه صفحه ۲۹۳ سطرا از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال ) کہ ۷۷۶ھ میں والٹی اشمونین نے امیر منجک کے سامنے ایک لڑکی پیش کی.جس کی عمر پندرہ سال کی تھی اور اس نے ذکر کیا کہ اب تک تو لڑکی رہی مگر بعد میں اس کی شرمگاہ مفقود ہوگئی اور اعضاء مردمی ظاہر ہو
714 گئے.پھر وہ محتلم ہوئی اور انہوں نے یہ سب باتیں اس میں مشاہدہ کیں اور اس کا نام محمد رکھا اور اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی ہے جس کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ۸۴۲ ھ میں اسی قسم کا ایک واقعہ ظہور میں آیا ہے.۲.حضرت امام سیوطی لکھتے ہیں کہ المعتصد باللہ ابوالفتح خلیفہ بنوعباس کے عہد خلافت میں :.۷۵۴ ہجری میں..طرابلس میں ایک لڑکی تھی جس کا نام نفیسہ تھا.تین مردوں سے اس کا نکاح ہوا مگر کوئی اس پر قادر نہ ہو سکا جب اس لڑکی کی عمر پندرہ برس کی ہوئی تو اس کے لپستان غائب ہو گئے اور پھر اس کی شرمگاہ سے گوشت بلند ہونا شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے مرد کا آلہ تناسل بن گیا اور خصیتین بھی ظاہر ہو گئے.“ تاریخ الخلفاء مصنفہ حضرت امام سیوطی باب المحتضد بالله ابو الفتح منقول از محبوب العلما ءار دو تاریخ الخلفاء.مطبوعہ پبلک پرنٹنگ پریس لاہور ( ترجمہ کردہ مولوی محمد بشیر صاحب صدیقی ) مولوی فاضل علی پوری صفحه ۶۰۰ ) ۴۲.مرزا صاحب نے بددعائیں دیں الجواب: (۱) قرآن مجید سے حضرت نوح کی بددعا سورۃ نوح میں پڑھو.رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكُفِرِينَ دَيَّارًا (نوح (۲۷) کہ میرے رب زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیو.(۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمتہ للعالمین ہیں انہوں نے بھی بد دعا کی.بخاری شریف میں ہے.قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِى جَهْلٍ وَ عَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَ شَيْبَةَ بنِ رَبِيعَةَ.( بخاری کتاب الوضوء باب إِذَا الْقِي عَلَى ظَهَرَ الْمُصَلِّي....کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ قریش کو ضرور ہلاک کر.آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا.پس قریش پر یہ شاق گذرا کیونکہ آپ نے ان کو بددعادی تھی.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر فرمایا.اے اللہ ! ابو جہل کو ضرور ہلاک کر.اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کو ہلاک کر.(۳) اسی طرح قریش ہی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا ذکر بخاری جلدا کتاب الاذان باب يَهْوِى بِالتَّكْبِيرِ حِيْنَ يَسْجُدُ میں بھی ہے:.قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ...فَيَقُولُ اللَّهُمَّ اشْدُدُ
715 وَطأتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمُ سِنِينَ كَسِنِى يُوسُفَ وَاهْلُ الْمَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُوْنَ لَهُ.“ حدیث ہذا کا اردو ترجمہ تجرید البخاری مترجم اردو سے نقل کیا جاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو کہتے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ...چنانچہ آپ فرماتے اے اللہ اپنی گرفت قبیلہ مضر پر سخت کر دے.اور ان پر قحط سالیاں ڈال دے جیسے یوسف کے عہد کی قحط سالیاں تھیں.اس زمانہ میں قبیلہ مضر کے مشرقی لوگ آپ کے مخالف تھے.“ تجرید البخاری مترجم جلد ا صفحه ۴ ۱۸ شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور ) (۴) بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی تسلیم کے بعض آدمیوں کو قبیلہ بنی عامر کی طرف بغرض سفارت و تبلیغ بھیجا.مگر انہوں نے دھوکہ سے قتل کر دیا صرف ایک لنگڑے صحابی بچ گئے اس واقعہ کی خبر جب آنحضرت کو ملی تو آپ چالیس دن تک قبیلہ بنی عامر کے لئے بد دعا فرماتے رہے.فَدَعَا عَلَيْهِمُ اَرْبَعِينَ صَبَاحًا عَلَى رَعْلٍ وَذَكْوَانَ وَ بَنِي لَحْيَانَ وَ بَنِي عُصَيَّةَ الَّذِينَ عَصَوُا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.» ( بخاری باب الحُوَرُ الْعِيْن وَ صِفَتهُن و تجرید البخاری مطبوعہ فیروز الدین اینڈ سنز لاہور حصہ دوم صفحه ۴۵ و صفحه ۴۶) ترجمہ.پھر آپ نے چالیس دن تک قبیلہ رعل اور ذکوان اور بنی لحیان بنی عصیہ (کے لوگوں ) پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی بددعا کی.(۵) بخاری شریف کتاب الاذان باب فصل اللهم ربنا لک الحمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ مَا يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَيَدْعُوا لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَلْعَنُ الْكُفَّارَ.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز نماز میں بعد از رکوع سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد بالالتزام مسلمانوں کے حق میں دعا فرماتے تھے اور کافروں پر لعنت بھیجا کرتے تھے.۴۳.انگریز کی خوشامد کا الزام مجلس احرار کی طرف سے بار بار الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے انگریز کی خوشامد کی اور اس غرض سے تریاق القلوب.کتاب البریہ.نورالحق اور تبلیغ رسالت کے حوالجات پیش کئے جاتے ہیں.ذیل کی سطور میں ان کے اس الزام کا کسی قدر تفصیل سے جواب عرض کیا
گیا ہے.716 خوشامد کی تعریف:.افسوس ہے کہ معترضین حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر خوشامد کا الزام لگاتے وقت ایک ذرہ بھی خدا کا خوف نہیں کرتے کیونکہ اول تو آپ کی تحریرات کے اس حصہ پر جس میں انگریزی حکومت کے ماتحت مذہبی آزادی حکومت کی مذہبی امور میں غیر جانبداری اور قیام امن و انصاف کے لئے عادلانہ قوانین کے نفاذ کی تعریف کی گئی ہے.لفظ ” خوشامد کا اطلاق نہیں ہو سکتا.ظاہر ہے کہ برمحل سچی تعریف کو خوشامد نہیں کہہ سکتے بلکہ خوشامد جھوٹی تعریف کو کہتے ہیں جو کسی نفع کے حصول کی غرض سے کی جائے.پس حضرت مرزا صاحب پر انگریز کی خوشامد کا الزام لگانے والوں پر لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ آپ نے انگریزی حکومت کے بارے میں جو تعریفی الفاظ استعمال فرمائے وہ حقیقت پر مبنی نہ تھے بلکہ خلاف واقعات تھے اور یہ کہ آپ نے انگریز سے فلاں نفع حاصل کیا لیکن ہم یہ بات پورے وثوق اور کامل تحدی سے کہہ سکتے ہیں اور مخالف سے مخالف بھی ضرور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے دور میں مذہبی آزادی تبلیغ کی آزادی اور قیام امن وانصاف کی جو تعریف فرمائی وہ بالکل درست تھی.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو مذہبی آزادی انگریزی نظام کے ماتحت رعایا کو حاصل تھی.اس کی مثال موجودہ زمانہ میں کسی اور حکومت میں پائی نہیں جاتی.حضرت سیّد احمد بریلوی کے ارشادات چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی مجد دصدی سیز دہم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انگریزی حکومت کے اس قابل تعریف پہلو کی بے حد تعریف فرمائی ہے.فرماتے ہیں:.الف.سرکار انگریزی که او مسلمانان رعایا ئے خود را برائے ادائے فرائضِ مذہبی شان آزادی بخشیده است “ (سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صفحہ ۱۵ مطبع سٹیم پریس لاہور ) ب سر کار انگریزی مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے.ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہیں “ ( سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ اے مطبع سٹیم پریس لاہور )
717 ج سید صاحب ( حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں تھا.وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے.“ (ایضا صفحہ ۱۳۹) و.حضرت مولانا سید اسمعیل صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ انگریزی حکومت کے متعلق فرماتے ہیں:.ایسی بے رور یا اور غیر متعصب سر کار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں.“ ( سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ ۵۷ مطبع سٹیم پرس لاہور ) غرضیکہ ان ہر دو قابل فخر مجاہد ہستیوں نے بھی انگریزی حکومت کی بعینہ وہی تعریف کی جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کی بلکہ حضرت سید احمد بریلوی تو حکومت انگریزی کو اپنی ہی عملداری سمجھتے تھے.کیا احراری شعبدہ باز جوش خطابت میں ان بزرگان اسلام پر بھی انگریزی حکومت کی خوشامد کا الزام لگائیں گے؟ پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کے حق میں جو کچھ لکھا وہ بطور خوشامد نہیں بلکہ مبنی بر صداقت تھا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:.ا.بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نا دان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسی بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا.کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو ! اے نادانوں میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۷۵ حاشیہ ) ۲.یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اور ہریک ظالم کے حملہ سے ان کو بچاتی ہے.میں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہو کر کیا ہے بلکہ یہ کام محض اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کیا ہے.“ نور الحق حصہ اول - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۰ ۴۱)
718 ۳.بے شک میں جیسا کہ میرے خدا نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذ ہب سمجھتا ہوں لیکن اسلام کی کچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو در حقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور آبرو کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے.میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا.میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہو جائے.“ (اشتہار ۱۲۱ کتوبر ۱۸۹۹ تبلیغ رسالت جلد۴ صفحه ۴۶ ) ۴.”میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں.کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا.“ تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۱۰) ۵.میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں.بلکہ میں انصاف اور ایمان کے رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گزاری کروں.“ ( تبلیغ رسالت جلده صفحه ۱۲۳) آپ یا آپ کی اولاد نے حکومت سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا ان تحریرات سے واضح ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریز کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ کسی لالچ یا طمع یا خوف کے زیر اثر نہیں تھا اور یہ محض دعوئی ہی نہیں بلکہ اس کو واقعات کی تائید بھی حاصل ہے کیونکہ یہ امر واقعہ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ نہیں کہ سکتا حضرت مرزا صاحب یا حضور کے خلفاء میں سے کسی نے گورنمنٹ سے کوئی مربع یا جاگیر حاصل کی یا کوئی خطاب حاصل کیا بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف عیسائی پادریوں نے اور بعض اوقات حکومت کے بعض کارندوں نے بھی آپ اور آپ کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.پس جب یہ ثابت ہے کہ حضور نے کوئی مادی فائدہ گورنمنٹ انگریزی سے حاصل نہیں کیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کی غیر جانبداری اور امن پسندی اور مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ مینی بر حقیقت تھا.تو پھر آپ پر ”خوشامد کا الزام لگا نا محض تعصب اور تحکم نہیں تو اور کیا ہے؟
719 زور دار الفاظ میں تعریف کی وجہ :.اس جگہ ایک سوال ہو سکتا ہے کہ گو یہ درست ہے کہ جو کچھ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے حق میں لکھا وہ خلاف واقعہ نہ تھا لیکن پھر بھی حضرت مرزا صاحب کو اس قدر زور سے بار بار انگریز کی تعریف کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ آپ خاموش بھی رہ سکتے تھے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وسوسہ صرف ان ہی لوگوں کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جن کو اس پس منظر کا علم نہیں جس میں وہ تحریرات لکھی گئیں.پس منظر :.اس ضمن میں سب سے پہلے یہ یا درکھنا چاہیے کہ ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے حالات اور تفصیلات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے وہ زمانہ کس قدر را بتلاء اور مصائب کا زمانہ تھا.وہ تحریک ہندوؤں کی اٹھائی ہوئی تھی، لیکن اس کو جنگِ آزادی کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان بھی من حیث القوم پس پردہ شامل ہیں.سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی.اس لئے نئی حکومت کے دل میں متقدم حکومت کے ہم قوم لوگوں کے بارے میں شکوک وشبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا اس پر ۱۸۵۷ء کا حادثہ مستزاد تھا.دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت، صنعت و حرفت، سیاست و اقتصادی غرضیکه ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے.مسلمانوں کا انہوں نے معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا.وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے.یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک تریں دور تھا.پنجاب میں انگریزی تسلط سے پہلے سکھ دور کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے.مسلمانوں کو اس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑا.انہیں جبر ہند و یا سکھ بنایا گیا.اذانیں حکما ممنوع قرار دی گئیں.مسلمان عورتوں کی عصمت دری مسلمانوں کا قتل اور ان کے ساز وسامان کی لوٹ مار سکھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا.سکھوں کے انہی بے پناہ مظالم کے باعث مجد دصدی سیز دہم ( تیرھویں ) حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنا پڑا تھا.پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ ،مسلمانوں پر ان کا علمی سیاسی اور اقتصادی تفوّق اور ان کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے اور اس کے ساتھ
720 ساتھ سکھوں کے جبر واستبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات تھے ان حالات میں انگریزی دورِ حکومت شروع ہوا.انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت ہوگی بلکہ دوسری قوموں کی طرف سے بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا.ایسے قانون بنا دیئے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل وانصاف سے ہونے لگا.ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہوگئی اور سکھوں کے جبر واستبداد سے بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو اس طرح نجات مل گئی گویا کہ وہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے.قرآن مجید کی واضح ہدایت:.ایک طرف دومشرک تو میں ( ہندو اور سکھ ) مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھیں تو دوسری طرف ایک عیسائی حکومت تھی جس کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کا مسلمانوں کو فیصلہ کرنا تھا.ان حالات میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی اس تعلیم پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ امَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ اشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّانطری“ (المائدة: ۸۳) ترجمہ:.یقیناً یقینا تو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودی اور مشرک ہیں اور یقیناً یقیناً تو دیکھے گا کہ دوستی اور محبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسلمانوں کے قریب عیسائی کہلانے والے ہیں.اس واضح حکم میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ یہود یا ہنود اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف عیسائی ہوں تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستی اور مودۃ کا ہاتھ عیسائیوں کی طرف بڑھائیں.چنانچہ عملاً یہی مسلمانوں نے کیا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ قرآنی تعلیم مشعل راہ نہ بھی ہوتی تو پھر بھی مسلمانوں کا مفاد اسی میں تھا.اور یہی حالات کا اقتضاء تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلہ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرتے اور انگریزوں کی مذہبی رواداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ رہ کر اپنی پر امن تبلیغی مساعی کے ذریعہ سے اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرتے.بعد کے حالات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریزی عملداری کے ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد برعظیم ہندو پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تھی لیکن انگریزوں کے انخلاء ( ۱۹۴۷ء) کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی.گویا کہ تین صدیوں کی اسلامی حکومت کے دوران
721 میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد تھی صرف ایک صدی سے بھی کم زمانے میں اس سے دس گنا بڑھ گئی.چنانچہ سرسید احمد خاں صاحب علی گڑھی ، مولانا شبلی نعمانی، نواب محسن الملک بہادر ، نواب صدیق حسن خاں صاحب اور دوسری عظیم الشان شخصیات نے دور اول میں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے دور آخر میں ہندو کی غلامی پر انگریز کے ساتھ تعاون کو ترجیح دی.اور مندرجہ بالا قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کی طرف دست تعاون بڑھایا.سرسید مرحوم نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے متعدد کتب و رسائل تصنیف کئے.مسلمانوں کی مغربی علوم میں ترقی کے لئے شبانہ روز کوششیں کیں جن کا نمونہ علیگڑھ یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے.چنانچہ احمدیت کے ذلیل ترین معاند اخبار ”زمیندار“ لاہور کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان دنوں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ انگریز کی حمایت کی جاتی.“ ( زمیندار ۲۷/۱۱/۵۲ صفحه ۳ کالم نمبر ۵) مہدی سوڈانی پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک ۱۸۷۹ء اور اس کے برطانوی حکومت کے ساتھ تصادم کے باعث انگریزی قوم کے دل و دماغ پر یہ چیز گہرے طور پر نقش ہو چکی تھی کہ ہر مہدویت کے علمبر دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیغ وستان کو ہاتھ میں لے کر غیر مسلموں کو قتل کرے.حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مہدویت یہی وہ دور تھا جس میں حضرت مرز صاحب نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے مامور ہو کر مسیح اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا.قرآنی تعلیم کے پیش نظر آپ اگر چہ حکومت انگریزی کے ساتھ تعاون اور وفاداری کو ضروری سمجھتے تھے لیکن بدقسمتی سے دور انحطاط کے مسلمان علماء نے مہدی موعود کا یہ غلط تصور دنیا کے سامنے پیش کر رکھا تھا کہ وہ آتے ہی جنگ و پرکار کا علم بلند کر دے گا اور ہاتھ میں تلوار لے کر غیر مسلموں کو قتل کرے گا اور بزور شمشیر اسلامی حکومت قائم کر دے گا.اس لئے اور مہدی سوڈانی کا تازہ واقعہ اس کا ایک بین ثبوت تھا.اس لئے جب آپ نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو ضروری تھا کہ انگریزی حکومت آپ اور آپ کی تحریک کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتی لیکن اس پر مستزاد یہ ہوا کہ مخالف علماء نے جہاں ایک طرف اولیاء امت کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ( کہ امام مہدی پر علمائے وقت کفر کا
722 فتویٰ دیں گے ) آپ پر کفر کا فتویٰ لگا کر مسلمانوں میں آپ کے خلاف اشتعال پھیلایا تو دوسری طرف حکومت انگریزی کو بھی یہ کہ کر اکسایا کہ یہ شخص امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے در پردہ حکومت کا دشمن ہے اور اندر ہی اندر ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو طاقت پکڑتے ہی انگریزی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دے گی.پھر نہ صرف یہ کہ یہ جھوٹا پراپیگنڈہ مخالف علماء کی طرف سے کیا گیا بلکہ عیسائی پادریوں کی طرف سے بھی حکومت کے سامنے اور پریس میں بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ یہ شخص مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا اراداہ یہ ہے کہ خفیہ طور پر ایک فوج تیار کر کے گورنمنٹ انگریزی کے خلاف مناسب موقع پر اعلان جنگ کر دے.دراصل یہ شخص اور اس کی جماعت حکومت انگریزی کے غدار ہیں اور ان کا وجود انگریزی حکومت کے لئے سخت خطرناک ہے.چونکہ یہ الزامات محض بے بنیاد اور بے حقیقت تھے اس لئے حضرت مرزا صاحب کے لئے ضروری تھا کہ ان کی پر زور الفاظ میں تردید فرما کر حقیقت حال کو آشکارا کرتے.تعریفی عبارتیں بطور ” ذب تھیں نہ بطور مدح پس تعریفی الفاظ بطور مدح نہ تھے بلکہ بطور ذب“ یعنی بغرض رفع التباس تھے.ا.اس کی مثال قرآن مجید میں بھی موجود ہے.قرآن مجید میں حضرت مریم کی عفت اور عصمت کی بار بار اور زور دار الفاظ میں تعریف بیان کی گئی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ اور حضور کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی عفت اور عصمت کا قرآن مجید میں خصوصیت سے ذکر نہیں کیا گیا.حالانکہ وہ اپنی عفت اور عصمت کے لحاظ سے حضرت مریم سے کسی رنگ میں بھی کم نہیں ہیں بلکہ حضرت فاطمتہ الزہرا اپنے مدارج عظمت کے لحاظ سے حضرت مریم سے افضل ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم و منقبة فاطمة عليها السلام بنت النبي صلى الله عليه وسلم) ۲.لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مریم صدیقہ کی پاکیزگی اور عفت و عصمت کا قرآن مجید میں بار بار زور دار الفاظ میں ذکر ہونا اور ان کے مقابل پر حضرت فاطمتہ الزہرا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا قرآن مجید میں ذکر نہ ہونا ہر گز ہرگز اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت مریم کو ان پر کوئی فضیلت حاصل تھی کیونکہ حضرت مریم پر زنا اور بدکاری کی تہمت لگی اس لئے ان کی بربیت اور رفع التباس
723 کے لئے بطور ” ذب“ ان کی تعریف کی ضرورت تھی مگر چونکہ حضرت فاطمتہ الزہرا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ پر ایسا کوئی الزام نہ تھا اس لئے باوجود ان کی عظمت شان کے ان کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہ تھی.بعینہ اسی طرح چونکہ حضرت مرزا صاحب پر آپ کے مخالفین کی طرف سے آپ کے دعولی مہدویت کے باعث حکومت سے غداری اور اس کے خلاف تلوار کی لڑائی کی خفیہ تیاریوں کا الزام تھا اس لئے ضروری تھا کہ اظہارِ حقیقت کے لئے زور دار الفاظ میں ان الزامات کی تردید کی جاتی.احراریوں کی پیش کردہ عبارتوں پر تفصیلی بحث سول اینڈ ملٹری گزٹ ( جو انگریزی حکومت کا ایک مشہور آرگن تھا ) کی اشاعت ستمبر، اکتوبر ۱۸۹۴ء میں ایک مضمون شائع ہوا.جس میں لکھا گیا کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اس مضمون کا ذکر اپنے اشتہار ۱۰دسمبر ۱۸۹۴ء مطبوعه تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۱۹۲، صفحہ ۱۹۳ میں کر کے اس کی تردید فرمائی ہے.یہی وہ اشتہار ہے جس کی جوابی عبارتوں کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں لیکن بد دیانتی سے اس اشتہار کی مندرجہ ذیل ابتدائی سطور کو حذف کر دیتے ہیں.سول ملٹری گزٹ کے پرچہ تمبر یا اکتوبر ۱۸۹۴ء میں میری نسبت ایک غلط اور خلاف واقعہ رائے شائع کی گئی جس کی غلطی گورنمنٹ پر کھولنا ضروری ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحب راقم نے اپنی غلط نہی یا کسی اہل غرض کے دھوکہ دینے سے ایسا اپنے دل میں میری نسبت سمجھ لیا ہے کہ گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہوں.لیکن یہ خیال ان کا سراسر باطل اور دور از انصاف ہے.66 سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں.ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہد دولت نے ایک دم میں ہمیں چھوڑ دیا.اور ہم نے اگر کسی کتاب میں پادریوں کا نام دنبال رکھا ہے یا اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے تو اس کے وہ معنی مراد نہیں جو بعض ہمارے مخالف مسلمان سمجھتے ہیں.ہم کسی ایسے دجال کے قائل نہیں جو اپنا کفر بڑھانے کے لئے خونریزیاں کرے اور نہ کسی ایسے مسیح اور مہدی کے قائل ہیں جو تلوار کے ذریعہ سے دین کی ترقی کرے.یہ اس زمانہ کے بعض کو نہ اندیش مسلمانوں کی غلطیاں ہیں جو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کے منتظر ہیں اور چاہیے کہ گورنمنٹ
724 ہماری کتابوں کو دیکھے کہ کس قدر ہم اس اعتقاد کے دشمن ہیں.“ مجھے افسوس ہے کہ سول ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر کو ان واقعات کی کچھ بھی اطلاع ہوتی تو وہ ایسی تحریر جو انصاف اور سچائی کے برخلاف ہے ہرگز شائع نہ کرتا.( تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه۱۹۲ تا صفحه۱۹۹) علاوہ ازیں شیخ محمد حسین بٹالوی نے کئی رسائل شائع کئے جن میں یہ لکھا ہے کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا ”باغی“ ہے.چنانچہ اس کا ذکر حضرت مرزا صاحب نے مختلف کتب اور اشتہارات میں کیا ہے.چند عبارتیں ملاحظہ ہوں.الف.چونکہ شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے خود غرض مخالف واقعات صحیحہ کو چھپا کر عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.ایسے ہی دھوکوں سے متاثر ہو کر بعض انگریزی اخبارات جن کو واقعات صحیحہ نہیں مل سکے ہماری نسبت اور ہماری جماعت کی نسبت بے بنیاد باتیں شائع کرتے ہیں.سو ہم اسی اشتہار کے ذریعہ سے اپنی محسن گورنمنٹ اور پبلک پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ہنگامہ اور فتنہ کے طریقوں سے بالکل متنفر ہیں.“ (اشتہار ۲۷ فروری ۱۸۹۵ تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه۱) پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں :.آپ نے جو میرے حق میں گورنمنٹ کے باغی ہونے کا لفظ استعمال کیا ہے یہ شاید اس لئے کیا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ نالش اور استغاثہ کرنے کی میری عادت نہیں ورنہ آپ ایسے صریح جھوٹ سے ضرور بچتے.( تبلیغ رسالت ۴ صفحه ۲۵ نیز دیکھو تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۹۲) ۴۴.تریاق القلوب کی پچاس الماریوں والی عبارت اسی طرح احراری معترضین تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۵۵ کی عبارت بھی خوشامد کے الزام کی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں.اس میں پچاس الماریوں“ کے الفاظ کو خاص زور سپیش کرتے ہیں لیکن جو شخص اصل کتاب نکال کر اس میں سے یہ عبارتیں پڑھے گا اسے فی الفور معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مرزا صاحب نے وہاں بھی انگریزی حکومت کی تائید میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ بطور ذب“ کے ہے.یعنی مخالفین کے الزام ”بغاوت کی تردید میں لکھا ہے.چنانچہ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۵۵ کی وہ عبارت جسے احراری معترضین پیش کرتے ہیں اس سے پہلے یہ الفاظ ہیں:.
725 ”اور تم میں سے جو ملازمت پیشہ ہیں وہ اس کوشش میں ہیں کہ مجھے اس محسن سلطنت کا باغی ٹھہرا دیں.میں سنتا ہوں کہ ہمیشہ خلاف واقعہ خبریں میری نسبت پہنچانے کے لئے ہر طرف سے کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ میں باغیانہ طریق کا آدمی نہیں ہوں.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵) اس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جس کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں.نور الحق حصہ اول کی عبارت احراری معترضین نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ کے صفحہ ۴۰ وصفحہ ۴۱ کا حوالہ بھی اس الزام کی تائید میں پیش کرتے ہیں لیکن جو شخص کتاب نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ کا صفحه ۳۳ و صفحه ۳۴ پڑھے گا اس کو علم ہو جائے گا کہ یہ عبارتیں بھی پادری عمادالدین کی طرف سے عائد شدہ الزام بغاوت کے جواب میں لکھی گئیں.چنانچہ حضور ملکہ وکٹوریہ کومخاطب کر کے فرماتے ہیں:.ایک شخص نے ایسے لوگوں میں سے جو اسلام سے نکل کر عیسائی ہو گئے ہیں یعنی ایک عیسائی جو اپنے تئیں پادری عماد الدین کے نام سے موسوم کرتا ہے ایک کتاب ان دنوں میں عوام کو دیکھو کہ دینے کے لئے تالیف کی ہے اور اس کا نام تو زین الاقوال رکھا ہے اور اس میں ایک خالص افترا کے طور پر میرے بعض حالات لکھے ہیں اور بیان کیا ہے کہ یہ شخص ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دشمن ہے اور مجھے اس کے طریق چال چلن میں بغاوت کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے ایسے کام کرے گا اور وہ مخالفوں میں سے ہے.اب ہم گورنمنٹ عالیہ کو ان باتوں کی اصل حقیقت سے مطلع کرتے ہیں جو ہم پر اس نے افترا کیں اور گمان کیا کہ گویا ہم دولت برطانیہ کے بدخواہ ہیں.“ ( نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳ و ۳۴) اس کے آگے وہ عبارتیں شروع ہوتی ہیں جو احراری معترضین پیش کرتے ہیں.لیکن ص۳۰ طبع اول کی عبارت کو نقل کرنے میں یہ صریح تحریف اور بددیانتی کرتے ہیں کہ درمیان سے یہ عبارت حذف کر دیتے ہیں:.اور میں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امیدوار ہوکر کیا ہے.“ نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۱ ) پس ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ سب عبارتیں بھی دشمن کے جھوٹے الزام کی تردید
726 میں ہیں نہ کہ بطور خوشامد جیسا کہ احراری معترضین ظاہر کرتے ہیں.کتاب البریہ کی عبارت اب ہم کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ۳ کی عبارت کو لیتے ہیں جو احراری معترضین کی طرف سے بار بار پیش کی جاتی ہے وہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:.یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارۃ اور کہیں صراحتا میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میرا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳) یادر ہے کہ پادری مارٹن کلارک ایک بہت بڑا عیسائی پادری تھا اور انگریز حکام اس کی عزت کرتے تھے اس نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا استغاثہ دائر کیا تھا اس مقدمہ کے دوران میں اس نے بطور مستغیث عدالت میں جو بیان دیا اس میں یہ کہا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ انگریزوں کا باغی ہے اور اس کا وجود انگریزوں کے لئے خطرناک ہے.خود کاشتہ پودہ والی عبارت آخری عبارت جو احراریوں کی طرف سے اس الزام کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اشتہار ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹ کی ہے.یہ اشتہار تبلیغ رسالت صفحہ ے سے شروع ہو کر صفحہ ۲۸ پر ختم ہوتا ہے.اس اشتہار کے صفحہ ۱۹ کے حوالہ سے احراری خود کاشتہ پودہ“ کا لفظ اپنے سیاق وسباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں.اس الزام کا مفصل جواب تو آگے آتا ہے لیکن اس جگہ یہ بتانا مقصود ہے کہ معترضین اس عبارت کو بھی پیش کرتے وقت دیانت سے کام نہیں لیتے اور اپنی پیش کردہ عبارت سے اوپر کی مندرجہ ذیل عبارت حذف کر جاتے ہیں.مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیده یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں.میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر
727 بستہ ہو جاتے ہیں.( تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹) علاوہ ازیں اس اشتہار کے شروع ہی میں اس اشتہار کی اشاعت کی غرض ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:.بسا اوقات ایسے نئے فرقہ (جماعت احمدیہ ) کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے.گورنمنٹ میں خلاف واقع خبر میں پہنچاتے ہیں.اور مفتریانہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں.پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بدظنی پیدا کرے یا بدظنی کی طرف مائل ہو جائے.لہذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں.“ تبلیغ رسالت جلدے صفحہ ۸ سطرا ) غرضیکہ اس اشتہار کی اشاعت کے لئے بھی یہی ضرورت پیش آئی تھی کہ مخالفین نے گورنمنٹ کو بانی سلسلہ احمدیہ اور حضور کی جماعت کے خلاف یہ کہہ کر بدظن کرنا چاہا تھا کہ یہ لوگ گورنمنٹ کے باغی ہیں.احراریوں کی پیش کردہ تمام عبارتوں کو ان کے محولہ اصل مقام سے نکال کر دیکھ لو.ہر جگہ یہی ذکر ہوگا کہ چونکہ مخالفوں نے مجھ پر حکومت سے بغاوت کا جھوٹا الزام لگایا ہے اس لئے میں ان کی تردید میں یہ لکھتا ہوں کہ یہ الزام محض جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور میں درحقیقت گورنمنٹ کا خیر خواہ ہوں.پس حضرت مرزا صاحب نے جس جس جگہ انگریزی حکومت کی تعریف کی ہے وہ تعریف بطور مدح نہیں بلکہ بطور ذب“ کے ہے.یعنی رفع التباس کے لئے ہے جس طرح قرآن مجید میں حضرت مریم کی عصمت و پاکیزگی کا بالخصوص ذکر بطور مدح نہیں بلکہ بطور ذب“ کے ہے ہجرت حبشہ کی مثال :.اس کی ایک اور واضح مثال تاریخ اسلام میں ہجرت حبشہ کی صورت میں موجود ہے.حبشہ میں عیسائی حکومت تھی.مکہ میں مشرکوں کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کے استبداد پر عیسائی حکومت کو ترجیح دیتے ہوئے صحابہ کو اپنی بعثت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی.سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے.
728 جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شدت بلا کو ملاحظہ فرمایا جو ان کے اصحاب پر کفاروں کی طرف سے نازل ہوئی تھی اگر چہ خود حضور باعث حفاظت الہی اور آپ کے چچا ابو طالب کے سبب سے مشرکوں کی ایذاء رسانی سے محفوظ تھے.مگر ممکن نہ تھا کہ اپنے اصحاب کو بھی محفوظ رکھ سکتے.اس واسطے آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ملک حبش میں چلے جاؤ تو بہتر ہے.کیونکہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق اور راستی سرزمین ہے.(سیرت ابن ہشام مترجم اردو مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۰۶) پس حضور کے حکم کے مطابق مسلمان ایک مشرک نظام سے نکل کر ایک عیسائی حکومت کے سایہ میں جا کر آباد ہو گئے.ظاہر ہے کہ وہ وہاں حاکم ہو کر نہیں بلکہ محکوم ہو کر رہنے کے لئے گئے تھے اور فی الواقعہ محکوم ہو کر ہی رہے.ان مہاجرین میں علاوہ بہت سے دیگر صحابہ اور صحابیات کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر ( جو حضرت علی کے بھائی تھے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت جعفر، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت ابوحذیفہ حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا جیسے جلیل القدرصحابہ اور صحابیات شامل تھیں.حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ”جب ہم حبشہ میں تھے.نجاشی بادشاہ جبش کے پاس تو ہم بہت امن سے تھے.کوئی برائی کی بات ہمارے سننے میں نہ آئی تھی اور ہم اپنے دین کے کام بخوبی انجام دیتے تھے پس قریش نے اپنے میں سے دو بہادر شخصوں کو جو عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن عاص ہیں نجاشی کے پاس مکہ کی عمدہ عمدہ چیزیں تحفہ کے واسطے دے کر روانہ کیا.پس یہ دونوں شخص نجاشی کے پاس آئے اور پہلے اس کے ارکان سلطنت سے مل کر ان کو تحفے اور ہدیئے دئے اور ان سے کہا کہ ہمارے شہر سے چند جاہل نو عمر لوگ اپنا قدیمی دین و مذہب ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں اور ایک ایسا نیا مذہب اختیار کیا ہے کہ جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ تم جانتے ہو اب ہم بادشاہ کے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ان لوگوں کو بادشاہ ہمارے ساتھ روانہ کر دے....پھر ان دونوں نے وہ ہدیے جو بادشاہ کے واسطے لائے تھے اس کے حضور پیش کیے.اس نے قبول کئے پھر ان سے گفتگو کی.انہوں نے عرض کیا اے بادشاہ ! ہماری قوم میں سے چند نو عمر جہلا
729 اپنے قومی مذہب کو ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور آپ کا مذہب بھی اختیار نہیں کیا ہے ایک ایسے نئے مذہب کے پیرو ہوئے ہیں جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ جانتے ہیں.آپ ان کو ہمارے ساتھ روانہ کر دیں.نجاشی کے افسرانِ سلطنت اور علماء مذہب نے بھی ان دونوں کے قول کی تائید کی نجاشی بادشاہ جیش نے کہا میں ان سے ان دونوں شخصوں کے قول کی نسبت دریافت کرتا ہوں کہ وہ کیا کہتے......ہیں؟ اگر واقعی یہی بات ہے تو جو یہ دونوں کہتے ہیں تو میں ان کو ان کے حوالے کر دوں گا اور ان کی قوم کے پاس بھیج دوں گا.اور اگر کوئی اور بات ہے تو نہ بھیجوں گا.حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ پھر نجاشی نے اصحاب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا جب یہ لوگ (صحابہ) پہنچے.نجاشی نے ان سے کہا وہ کونسا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے اور اپنی قوم کا مذہب چھوڑ دیا ہے اور کسی اور مذہب میں بھی داخل نہیں ہوئے.ام سلمہؓ فرماتی ہیں صحابہ میں سے حضرت جعفر بن ابی طالب نے گفتگو کی اور عرض کیا کہ اے بادشاہ ! ہم لوگ اہلِ جاہلیت تھے.بتوں کی پرستش ہمارا مذہب تھا.مردار خواری ہم کرتے تھے.فواحش اور گناہ کا ارتکاب ہمارا وطیرہ تھا.قطع رحم اور پڑوس کی حق تلفی اور ظلم وستم کو ہم نے جائز رکھا تھا.جوز بر دست ہوتا وہ کمزور کو کھا جاتا تھا.پس ہم ایسی ہی ذلیل حالت میں تھے جو اللہ نے ہم پر کرم کیا اور اپنا رسول ہم میں ارسال فرمایا ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیار کرنے پر ہم کو تکلیفیں دیں اور ہم کوستا یا تا کہ ہم اس دین کو ترک کر دیں اور بتوں کی پرستش اختیار کریں اور جس طرح افعال خبیثہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں ہم بھی حلال سمجھیں.پس جب ان کا ظلم حد سے زیادہ ہوا اور انہوں نے ہمارا وہاں رہنا دشوار کر دیا ہم وہاں سے نکل کھڑے ہوئے.اور آپ کے ملک کو ہم نے پسند کیا اور آپ کے پڑوس کی ہم نے رغبت کی اور اے بادشاہ ہم کو امید ہوئی کہ یہاں ہم ظلم سے محفوظ رہیں گے.نجاشی نے جعفر سے پوچھا کہ جو کچھ تمہارے نبی پر نازل ہوتا ہے اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟ یعنی تم کو یاد ہے؟ جعفر نے کہا ہاں یاد ہے.نجاشی نے کہا پڑھو.پس جعفر نے سورۃ مریم شروع کی.“ (سیرۃ ابن ہشام مترجم اردو صفحہ ۱۱۱ و صفحه ۱۱۲ جلد۲) حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں سورۃ مریم بھی صرف آیت ذلك عِيسَى ابْنُ مريمَ (مریم: ۳۵) تک پڑھی تھی ( دیکھو تفسیر مدارک التنزیل مصنفه امام نسفی جلد اصفحه ۲۳۱ مطبع السَّعادة مصر زیر آیت ذلِك بِإِن مِنْهُمْ قِسِنِينَ وَرُهْبَانًا الى المائدة : ۸۳)
730 ایک قابل غور سوال اب یہاں ایک قابل غور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نجاشی نے قرآن مجید سنے کی فرمائش کی تو حضرت جعفر نے سارے قرآن مجید میں سے سورۃ مریم کو کیوں منتخب کیا ؟ ظاہر ہے کہ سورۃ مریم قرآن مجید کی پہلی سورۃ نہیں تھی.حضرت جعفر سورۃ فاتحہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف بھی پڑھ کر سنا سکتے تھے جو ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہو چکی تھیں اور ان تینوں سورتوں میں عیسائیت کا بالخصوص ذکر ہے.سورۃ فاتحہ کی آخری آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّائِينَ “ میں یہود اور نصاری کی دینی اتباع سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور سورۃ بنی اسرائیل اور کہف میں حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت کرنے کے علاوہ عیسائی قوم کی تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے.پس اگر محض قرآن شریف کے سنانے کا سوال تھا تو پھر اوّل تو حضرت جعفر کو سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے تھی کیونکہ وہ ام القرآن ہے اور سارے قرآن کا خلاصہ.لیکن سورۃ مریم قرآن مجید کا خلاصہ نہیں.پھر اگر عیسائیت کے متعلق اسلامی نظریہ کا بیان مقصود تھا تو سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف سے بڑھ کر اور کوئی بہتر انتخاب نہ ہوسکتا تھا.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حضرت جعفر نے نجاشی کے دربار میں پڑھنے کے لئے سورۃ مریم کو منتخب فرمایا اور اس میں سے بھی دور کوع بھی پورے نہیں بلکہ قریباً تم ارکوع کی تلاوت کی جس میں حضرت عیسی علیہ السلام اور آپ کی والدہ حضرت مریم کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے اور جس حصہ میں عیسائیت کے بارے میں کوئی اختلافی عقیدہ بیان نہیں کیا گیا.پھر حضرت جعفر خاص طور پر آیت ذلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ (مریم: ۳۵) پر آ کر رک جاتے ہیں جس سے اگلی آیت یہ ہے مَا كَانَ لِلهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلد سُبحته (مریم: ۳۶) کہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے وہ اس سے پاک ہے.اس آیت میں ابنیت مسیح کی نفی کی گئی ہے اور عیسائیت کے ساتھ سب سے بڑا اختلافی مسئلہ بیان کر کے اگلی آیات میں عیسائیوں کی تباہی اور اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے.لیکن حضرت جعفر" مصلیتا پچھلی آیت پر آ کر رک جاتے ہیں اور صرف اسی حصہ پر اکتفا کرتے ہیں جس کے سننے سے ہر ایک عیسائی کا دل خوش ہوتا ہے.پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وفد قریش کا اعتراض تو یہ تھا کہ یہ لوگ ایک نئے دین کے متبع ہیں جو عیسائیت سے مختلف ہے اور نجاشی نے بھی یہی اعلان کیا تھا کہ اگر ان کا یہ دعوئی درست ثابت ہوا تو
731 میں مسلمانوں کو قریش کے حوالے کردوں گا اور اسی دعوی کی تائید یا تردید حضرت جعفر سے مطلوب تھی لیکن انہوں نے جو آیات تلاوت فرما ئیں ان سے کسی رنگ میں بھی وفد قریش کے دعوی کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت جعفر نے اس موقعہ پر بجائے یہ کہنے کے کہ ہاں یہ درست ہے کہ ہم ایک نئے دین کے علمبردار ہیں اور ایک نئی شریعت کے حامل ہیں جس نے توراۃ اور انجیل کو منسوخ کر دیا ہے ہم حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کے عقیدہ کو ایک جھوٹا اور مشرکانہ عقیدہ سمجھتے اور عیسائی مذہب کو ایک محرف و مبدل اور غلط مذہب سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی اور عیسی بلکہ تمام انبیاء گذشتہ سے ہر لحاظ سے افضل ہے.آپ نے سورۃ مریم کی صرف وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں حضرت مسیح اور حضرت مریم کا تقدس اور پاکیزگی بیان کی گئی ہے لیکن ان سب سوالوں کا جواب یہی ہے کہ چونکہ وفد قریش کا مقصد تحقیق حق نہیں تھا بلکہ احراریوں کی طرح محض اشتعال انگیزی تھا اور وہ اختلافی امور میں بحث الجھا کر نجاشی، اس کے درباریوں اور عیسائی درباریوں اور عیسائی پادریوں کو (جو اس وقت دربار میں حاضر تھے ) مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہتے تھے.اس لئے حضرت جعفر نے ان کی اس شر انگیز اور مفسدانہ سکیم کو نا کام بنانے کے لئے بجائے اختلافی امور میں الجھنے کے قرآن مجید کی اس تعلیم پر زور دیا جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں.اسی طرح انہوں نے نجاشی کی حکومت کی (جو ایک غیر مسلم نصرانی حکومت تھی ) جو تعریف کی وہ سراسر درست اور حق تھی اور بطور ذب یعنی بغرضر فع التباس تھی.اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ اس کو خوشامد“ کہا جاسکتا ہے.نیز نجاشی کی حکومت کی تعریف اس وجہ سے بھی خوشامد نہیں کہلا سکتی کہ قریش مکہ کے جبر و استبداد اور ظلم و تعدی اور احیاء فی الدین کے مقابلہ میں حبشہ کی عیسائی حکومت کے اندر مذہبی آزادی اور عدل وانصاف کا دور تھا.پس اس تقابل کے نتیجہ میں حضرت جعفر اور دیگر مہاجر صحابہ کے دل میں جنہوں نے قریش مکہ کے بھڑکائے ہوئے جلتے تنور سے نکل کر حبشہ کی عیسائی حکومت کے ماتحت امن وامان اور سکون و آرام پایا تھا نجاشی کے لئے جذبات تشکر و امتنان کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا.اور پھر نجاشی کے سامنے ان جذبات کا اظہار بموجب حكم "مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ.“ (ابو داؤد کتاب الادب باب فى شكر المعروف و ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى الشكر لمن احسن الیک) ضروری تھا.
732 انگریزی حکومت کی تعریف سکھوں کے ظلم وستم سے تقابل کے باعث تھی بعینہ اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں بھی جب بعض مخالف علماء اور پادریوں نے حکومت وقت کو آپ اور آپ کی جماعت کے خلاف بھڑ کانے کی کوشش کی اور ”آپ پر باغی ہونے کا جھوٹا الزام لگایا تو ضروری تھا کہ حضرت مرزا صاحب اس الزام کی تردید پر زور الفاظ میں کرتے اور حکومت کو اپنے ان جذبات امتنان سے اطلاع دیتے جو سکھوں کے وحشیانہ مظالم سے نجات حاصل ہونے کے بعد انگریزی حکومت کے پر امن دور میں آجانے کے باعث آپ کے دل میں موجود تھے.حضرت مرزا صاحب کی تحریرات چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی ان تحریرات میں جن میں آپ نے انگریزی حکومت کی امن پسندانہ پالیسی کی تعریف فرمائی ہے بار بار اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے.فرماتے ہیں:.الف.مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دست تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیا ہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بدتر تھی.دینی فرائض کا ادا کرنا تو در کنار بعض اذانِ نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے.ایسی حالت زار میں اللہ تعالیٰ نے دور سے اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابر رحمت کی طرح بھیج دیا.جس نے آن کر نہ صرف ان ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کر کے ہر قسم کے سامان آسائش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دینِ متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں.“ (اشتہار، ا جولائی ۱۹۰۰ تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۲۱) ب.رہی یہ بات کہ اس ( شیخ محمد حسین بٹالوی) نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا.سوخدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں.اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی محافظ نہیں تو پھر کیونکر شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں.کیا یہ امرکسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سننے سے ہی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے.کسی مسلمان
733 مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کر سکے.“ پھر فرماتے ہیں:.(اشتہار ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحه ۶۸) ج ” ان احسانات کا شکر کرنا ہم پر واجب ہے جو سکھوں کے زوال کے بعد ہی خدا تعالیٰ.کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمارے نصیب کئے...اگر چہ گورنمنٹ کی عنایات سے ہر ایک کو اشاعت مذہب کے لیے آزادی ملی ہے لیکن اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اس آزادی کا پورا پورا فائدہ محض مسلمان اٹھا سکتے ہیں اور اگر عمد فائدہ نہ اٹھا ئیں تو ان کی بدقسمتی ہے.وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے کسی کو اپنے اصولوں کی اشاعت سے نہیں روکا لیکن جن مذہبوں میں سچائی کی قوت اور طاقت نہیں کیونکر ان مذہبوں کے واعظ اپنی ایسی باتوں کو وعظ کے وقت دلوں میں جما سکتے ہیں؟.اس لیے مسلمانوں کو نہایت ہی گورنمنٹ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ گورنمنٹ کے اس قانون کا وہی اکیلے فائدہ اٹھا رہے ہیں.“ اشتهار ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ تبلیغ رسالت جلد ۴ صفحه ۲۰ تا ۲۳) ( نیز ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۴۹۱) پس مطابق مقولہ ہے تنور سے نکل کر دھوپ میں وَبِضِدِهَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْيَاء انگریزی نظام حکومت قابل تعریف تھا لیکن اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ذات میں آئیڈئیل نظام تھا بلکہ اس لئے کہ اپنے پیشرو سکھ نظام کے مسلمانوں پر ننگ انسانیت مظالم اور جبر و استبداد کے مقابلہ میں اس نظام کی مذہبی رواداری اور شہری حقوق میں عدل و انصاف کا قیام عمدہ اور لائق شکریہ تھا.مسلمانان ہند کی مثال اس شخص کی سی تھی جو بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پڑا جل رہا ہے اور اس کو کوئی ہاتھ اس آگ میں سے نکال کر دھوپ میں ڈال دے.اب اگر چہ وہ شخص دھوپ میں ہے لیکن آگ کے شعلوں کی تپش کے تصور سے وہ اس ہاتھ کو رحمت خداوندی جان کر اس کا شکر یہ ادا کرے گا اور اگر ایسا نہ کرے تو کا فرنعمت ہوگا.پھر یہ جذبات تشکر اسی طرح کے تھے جس طرح مہاجرین حبشہ نے قریش مکہ کے جبر واستبداد کے مقابلہ میں حبشہ کے عیسائی نظام کو ایک فضل خداوندی اور نعمت غیر مترقبہ سمجھا.یہاں تک کہ دشمنوں کے مقابلہ میں نجاشی کی کامیابی اور کامرانی کے لئے صحابہ رو رو کر دعائیں بھی کرتے رہے.
734 چنانچہ حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:.ہم نے وہاں (حبشہ میں) نہایت اطمینان سے زندگانی بسر کی.پھر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ نجاشی کی سلطنت میں کوئی دعویدار پیدا ہوا اور اس نے نجاشی پر لشکرکشی کی.فرماتی ہیں اس خبر کوسن کر ہم لوگ بہت رنجیدہ ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اگر خدانخواستہ وہ مدعی غالب ہوا تو نامعلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے.فرماتی ہیں.نجاشی بھی اپنا لشکر لے کر اس کے مقابلہ کو گیا اور دریائے نیل کے اس پار جنگ واقع ہوئی.فرماتی ہیں صحابہ نے آپس میں کہا کوئی ایسا شخص ہو جو دریا کے پار جا کر جنگ کی خبر لائے زبیر بن عوام نے کہا میں جاتا ہوں.صحابہ نے ایک مشک میں ہوا بھر کر ان کے حوالے کی اور وہ اس کو سینے کے تلے دبا کر تیرتے ہوئے دریا کے پار گئے اور وہاں سے سب حال تحقیق کر کے واپس آئے.فرماتی ہیں ہم یہاں نجاشی کی فتح کے واسطے نہایت تضرع وزاری کے ساتھ خدا سے دعا مانگ رہے تھے کہ اتنے میں زبیر بن عوام واپس آئے اور کہا کہ اے صحابہ ! تم کو خوشخبری ہو کہ نجاشی کی فتح ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو ہلاک کیا.فرماتی ہیں پھر تو نجاشی کی سلطنت خوب مستحکم ہو گئی اور جب تک ہم وہاں رہے نہایت چین اور آرام سے رہے.یہاں تک کہ پھر حضور کی خدمت میں مکہ میں حاضر ہوئے.(سیرت ابن ہشام مترجم اردو صفحه ۱۱۳ جلد۲) پس اگر کوئی انصاف پسند اور غیر متعصب انسان سکھ نظام کے صبر آزما دور ۱۸۵۷ء کے سانحہ اور اس کے بعد کے تاریخی حالات کو مدنظر رکھ کر ان عبارات کو پڑھے اور اس امر کو بھی پیش نظر رکھے کہ وہ تحریرات مخالفین کی طرف سے انگریزی گورنمنٹ کا باغی ہونے کے جھوٹے الزام کی تردید میں ضرورتاً لکھی گئی تھیں.تو وہ کبھی ان کو محل اعتراض قرار نہیں دے سکتا.تصویر کا دوسرا رخ پھر یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریز کی جتنی تعریف کی ہے وہ صرف مادی اور دنیوی امور میں اس کی قابل تعریف خوبیوں کی ہے لیکن جہاں تک دینی اور روحانی پہلو کا تعلق ہے آپ نے انتہائی صفائی کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر بے خوف ہوکر اس کی انتہائی مذمت کی ہے اور آپ نے کبھی اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ انگریز آپ کی ان تحریرات سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں؟ آپ نے انگریز کو دقبال قرار دیا چنانچہ آپ وہ پہلے انسان ہیں جس نے انگریزی قوم کو دجال موعود“ قرار دیا اور میں سمجھتا
735 ہوں کہ کوئی اس امر میں اختلاف نہیں کر سکتا کہ عربی زبان میں دجال سے زیادہ ذلیل نام اور کوئی نہیں ہوسکتا.آپ نے دعوئی مسیحیت کے بعد جو سب پہلی کتاب ”ازالہ اوہام لکھی اسی میں آپ نے بدلائل بینہ یہ ثابت کیا کہ احادیث نبوی میں جس دجال کے آخری زمانہ میں ظہور کی خبر دی گئی تھی وہ یہی انگریز قوم ہے.آپ نے ریل گاڑی کو خر دجال“ قرار دیا.کیونکہ احادیث نبوی اور روایات میں جو علامات ’دجال اور اس کے گدھے کی بتائی گئی تھیں وہ انگریز اور ان کی ایجاد کردہ ریل گاڑی میں پائی جاتی تھیں.دجال کے کانا ہونے کی تشریح احادیث نبوی میں یہ بتایا گیا تھا کہ دجال‘ دائیں آنکھ سے کانا ہوگا لیکن اس کی بائیں آنکھ کی نظر غیر معمولی طور پر تیز ہوگی.اور اس کی تشریح علماء گزشتہ نے یہ کی تھی کہ دائیں آنکھ سے دین اور بائیں آنکھ سے دنیا مراد ہے.دائیں آنکھ سے دجال کا نا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین اور روحانیت سے یکسر بے بہرہ ہوگا لیکن اس کی بائیں آنکھ کے اچھا اور عمدہ ہونے بلکہ بموجب حدیث مسند احمد (باب خروج دقبال) بروایت ابن عباس كَأَنَّهُ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ ( چمکتے ستارے کی طرح) ہونے سے مراد یہ تھی کہ وہ دنیوی اور مادی امور میں ترقی کرے گا اور دنیوی نقطہ نگاہ سے اس کے کام قابل تعریف ہوں گے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ اپنی تحریرات میں انگریزوں کے ان دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھا یعنی ان کے دنیوی نظام کے قابل تعریف حصہ کو سراہا لیکن دینی اور روحانی امور میں ان کی ضلالت وگمراہی کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کی.خیر دنبال کی علامات پھر خرد جبال کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی تھی کہ وہ ایک ایسی سواری ہوگی جو آگ اور پانی کے یکجا بند کرنے سے (بھاپ سے چلے گی) تَخْرُجُ نَارٌ مِّنْ حَبْسِ سَيْلٍ تَسِيرُ سَيْرَ بَطِيْئَةِ مَطِيْئَةَ الْإِبِلِ تَسِيرُ بِالنَّهَارِ وَ تُقِيمُ بِاللَّيْلِ تَغُدُو وَ تَرُوْحُ مَنْ أَدْرَكَتُهُ أَكَلَتْهُ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو يَعْلَى وَالْبَغْوِيُّ وَابْنُ قَانِعٍ وَابْنُ حَبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاكِمُ وَابْنُ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.(کنز العمال باب منتخب علامات کبری قیامت و مسک العارف صفحه ۵۰ مطبع ضیاء الاسلام پر لیس قادیان مؤلف سید محمد احسن ) ترجمہ: وہ سواری پانی اور آگ کے بند کرنے سے اونٹوں کی طرح چلے گی.کبھی دن کو چلے
736 گی اور رات کو ٹھہرے گی اور کبھی دن کو بھی رات کو بھی چلے گی.جو اس کے پاس جائے گا اسے اپنے اندر نگل جائے گی.“ پھر لکھا تھا:.رَكَبٌ ذَوَاتِ الْفُرُوجِ وَالسُّرُوجِ.“ (بحارالانوار از علامہ باقر مجلسی جز ۵۲۰ صفحه ۱۹۲ تاریخ الامام الثاني عشر مطبع دارا حیاء التراث بیروت) کہ وہ ایسی ہوگی جس میں بہت سے چراغ روشن ہوں گے.اور اس کے اندر بہت سے دروازے اور کھڑکیاں ہوں گی.حدیث میں اسے گدھا قرار دیا گیا ہے.لَهُ حَمَارٌ مَا بَيْنَ عَرُضِ أُذُنَيْهِ أَرْبَعِينَ بَاعًا رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَابْنُ عَسَاكِرٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ( کنز العمال جلدے صفحہ ۲۰۰ حدیث نمبر۲۱۱۰ واقتراب الساعه از نواب نور الحسن خان صاحب صفحه ۱۲۴) کہ دجال کے ساتھ گدھا ہو گا جس کے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ چالیس باع ہوگا.پس ایسا گدھا جس کے دوکانوں کے درمیان ستر اسی گز کا فاصلہ ہوگا آگ اور پانی کے بند کرنے سے چلے اور جس کے اندر بہت سے چراغ روشن ہوں.کھڑکیاں اور دروازے ہوں اور لوگوں اور سامان کو اپنے پیٹ کے اندر ڈال دے گدھی کا بچہ تو ہو نہیں سکتا وہ یقین ریل گاڑی ہی ہے.انگریز کو ماجوج قرار دیا پھر حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف یہ کہ انگریزی قوم کو دجال“ قرار دیا.بلکہ ان کو ماجوج بھی ثابت کیا اور فرمایا کہ آخری زمانہ میں جو یا جوج اور ماجوج نامی دو خطرناک قوموں کے خروج کی پیش گوئی قرآن شریف اور حدیث میں کی گئی ہے وہ روس اور انگریز یعنی یا جوج سے مراد روسی قوم اور ماجوج سے مرا د انگریز قوم ہے.(دیکھو ازالہ اوہام مطبوعه ۱۳۰۸۶۱۸۹۱ھ صفحه ۰۲ ۵ طبع اوّل) پس حضرت بانی سلسلہ احمد یہ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں کو دجال“ اور ماجوج قرار دے کر ان کی روحانی اور دینی لحاظ سے مکروہ شکل کو اس کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا.
737 دو نہریں:.انگریز کے پاس دینی اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے دو نہریں تھیں.وہ ہندوستان میں سیاسی تفوق کے باعث دنیوی حکومت کرنا چاہتا تھا اور دینی نقطہ نگاہ سے وہ اہل ہند کو نوک شمشیر سے نہیں بلکہ تبلیغ ترغیب و تحریص وغیرہ ذرائع سے عیسائی بنانا چاہتا تھا.ہندوستانی عوام اور مسلمان انگریزوں کی تبلیغی مساعی کی طرف تو کوئی توجہ ہی نہ کرتے تھے اور نہ اس کے خطرہ کو محسوس کرتے تھے ECCLESLASTICAL DEPARTMENT کو جو انگریزی حکومت کا ایک شعبہ تھا اور جس کی سر پرستی میں تمام مشنری نظام چل رہا تھا مسلمانوں نے کبھی بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا اور نہ اس کے خلاف کبھی آواز اٹھائی.انہوں نے اگر کبھی کوئی آواز اٹھائی تو وہ انگریزوں کے سیاسی تفوق اور اقتدار کے خلاف تھی.گویا انگریز کی پیش کردہ دو نہروں ( دینی اور دنیوی سرگرمیوں ) میں سے اکثر مسلمانوں نے دینی نہر کو بھی محل اعتراض نہ ٹھہرایا لیکن دنیوی نہر کو اپنے لئے نا قابل برداشت قرار دیتے ہوئے انگریز کے سیاسی ودنیوی اقتدار کو قبول کرنا اپنے لئے موت سمجھا.حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں یہ ہدایت فرمائی تھی:.مَعَهُ نَهْرَانِ تَجْرِيَانِ اَحَدُهُمَا رَأْيَ الْعَيْنِ مَاءً أَبْيَضُ وَالْآخَرُ رَأْيَ الْعَيْنِ نَارٌ تَأَجُحْ فَأَمَّا أَدْرَكَنَّ وَاحِدًا مِنْكُمْ فَلْيَأْتِ النَّهْرَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا ثُمَّ لِيُغْمِضُ ثُمَّ لِيَطَاطَى رَأْسَهُ فَلْيَشْرِبْ مِنْهُ فَأَنَّهُ مَاءً بَارِدٌ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَ أَبُو دَاؤُدَ عَنْ حُذَيْفَةَ وَأَبِي مَسْعُودٍ مَعًا.(کنز العمال جلدے صفحہ ۱۹۵ حدیث نمبر ۲۰۶۲ - ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال و اقتراب الساعة از نواب نور الحسن خان صاحب صفحه ۱۳۵) کہ دجال اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ دو جاری رہنے والی نہریں ہوں گی.ایک تو بظاہر سفید پانی کی نظر آنے والی ہوگی اور دوسری بظاہر شعلہ بار آگ نظر آئے گی پس جو تم میں سے دجال کا زمانہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس نہر پر جائے جو بظاہر آگ نظر آنے والی ہوگی.پھر گئی کرے پھرسر نیچا کر کے پانی سر پر ڈالے اور پی لے کیونکہ وہ ٹھنڈا پانی ہوگا.حدیث کی تشریح اس حدیث میں بھی دراصل اس دوسری تمثیل ہی کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں یہ
738 بتایا گیا تھا کہ دجال کی دو آنکھوں میں سے ایک کی بصارت تیز تر ہوگی لیکن دوسری آنکھ نابینا ہوگی.پس مندرجہ بالا حدیث میں بھی دو نہروں سے مراد د قبال کی دینی اور دنیوی تحریکیں ہی ہیں اور حضور کا منشا یہ ہے کہ جہاں تک اس کی دینی اور مذہبی کارروائیوں کا تعلق ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سے اغماض نہ برتیں بلکہ پورے زور سے ان کا مقابلہ کریں اور دین اسلام کا روحانی تفوق بدلائل قو یہ دجال کے مذہب پر ثابت کریں.لیکن جہاں تک اس کی دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے گو اس وجہ سے کہ اس نے نام کی مسلمان مغل حکومت سے ہندوستان کی زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ہوگی ،مسلمان اس کے سیاسی اقتدار کے آگے جھکنے کو اپنے لئے آگ میں کودنا تصور کریں گے.پھر بھی اس نظام کے ساتھ تعاون کرنے ہی میں مسلمانوں کا فائدہ مضمر ہوگا.اسی لئے حضور نے فرمایا کہ دجال کے اس پانی کو سر نیچا کر کے اپنے سر پر ڈال لینا، یعنی اس کی حکومت کو قبول کر لینا اور فَلْيَشْرِبُ مِنْهُ“ کا مطلب یہ تھا کہ اس کے ساتھ تعاون کرنا.جیسا کہ ابتدائی سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے بعد کے حالات کا طبعی اقتضاء یہی تھا کہ مشرکین یعنی ہندو اور سکھوں کے مقابلہ میں مسلمانان ہند نصرانی حکومت کو تر جیح دیتے اور ہندو کی جاری کردہ تحریک عدم تعاون میں شامل نہ ہوتے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کسی خوشامد کے خیال سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں جہاں تک انگریز کی دنیا وی سیاست کا تعلق تھا اس کی حکومت کو جو آپ کے مامور ہونے سے بیسیوں سال پہلے قائم اور استوار ہو چکی تھی اور جس نے سکھوں کے مظالم کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے لئے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا اعلان کر دیا تھا اور جس نے دنیا وی علم و فنون کا راستہ مسلمانوں کے لئے کھولا تھا اپنے تعاون کا یقین دلاتے لیکن جہاں تک انگریز کی پیش کردہ دوسری نہر ( عیسائیت کی تبلیغ ) کا تعلق ہے آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح اس سے اغماض نہیں برتا بلکہ تن تنہا اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور اس بات کی قطعا پر واہ نہ کی کہ انگریز آپ کی عیسائیت کے خلاف کوششوں سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں.آپ نے انگریز کے خدا کو مردہ ثابت کیا آپ نے عیسائیت کے مقابلہ میں جو سب سے زبر دست اور فیصلہ کن حربہ استعمال فرمایا وہ
739 انگریزوں کے ”خدا مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ تھا.آپ نے بدلائل قو یہ ثابت کیا کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں.آپ نے کوئی کتاب بھی ایسی تصنیف نہیں فرمائی جس میں اس مسئلہ پر زور نہ دیا ہو.احراری معترضین پچاس الماریوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اُن کتابوں میں نصرانیت کے جھوٹا اور نا قابل قبول مذہب ہونے کے بارے میں جو دلائل قویہ مذکور ہیں ان کا کیوں ذکر نہیں کرتے ؟ کیا یہ انگریز کی خوشامد کا نتیجہ تھا کہ ا.آپ نے انگریز کو د قبال قرار دیا.۲.آپ نے انگریز کو ماجوج ثابت کیا.۳.آپ نے انگریز کے خدا کی وفات بدلائل قویہ ثابت کر کے صلیب کو توڑ دیا.۴.آپ نے امریکہ اور نگلستان میں تبلیغی لٹریچر شائع کیا اور کئی انگریزوں اور امریکنوں کو حلقہ عیسائیت سے نکال کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زنجیر غلامی میں جکڑ دیا.ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی اس ضمن میں یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں اور تمام دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان موجود تھے.کئی اسلامی سلطنتیں موجود تھیں.لاکھوں کی تعداد میں علماء بھی موجود تھے.مصر میں، دیوبند میں فرنگی محل میں، بریلی میں ، سہارن پور میں، دہلی میں لکھنو وغیرہ میں ہزاروں اسلامی ادارے تھے.بڑے بڑے مسلمان نواب اور بادشاہ موجود تھے لیکن کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ ان کروڑوں مسلمانوں میں سے سوائے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ملکہ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دے سکے یا بیرونی عیسائی ممالک میں تبلیغا سلام کا فریضہ ادا کرے؟ حضرت بانی سلسلہ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں:.اس (خدا) نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ در حقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.“ تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۲ ۲۷۳) ”میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں
740 اطلاع دوں.میں حضرت یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں.میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے “ ( تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۳ ۲۷۴) ”اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان باریک پہلوؤں کا لحاظ کیا ہے جو انجیل نے نہیں کیا.اسی طرح قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کے لئے آگے قدم رکھتا ہے.بالخصوص بچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے.اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عددکس نمبر تک پہنچ جاتا.سوشکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی.دوبارہ قائم ہو گئی.“ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:.66 تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۲) ”اے قادر و توانا! قیصرہ ہند کومخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ 66 رَّسُولُ اللهِ پر اس کا خاتمہ کر “ (اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۱۳۲) غرضیکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاں انگریزی حکومت کے اس پہلو کی تعریف کی کہ وہ دین میں مداخلت نہیں کرتی اور رعایا کے مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ عناصر کے مابین عدل وانصاف کی پالیسی پر عمل کرتی ہے وہاں آپ نے اس کے دینی اور روحانی پہلو کے خلاف سب سے پہلے علم بلند کیا اور اس شان سے کیا کہ اس میدان میں آپ کے سوا ساری دنیا کے مسلمانوں میں سے ایک حص بھی نظر نہیں آتا.پس جس طرح با وجود اس امر کے کہ شراب ام الخبائث ہے یعنی بدترین چیز ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اس کی برائیوں کی مذمت فرمائی ہے، وہاں اس کی خوبیوں کا اعتراف بھی فرمایا ہے.اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے انگریزوں کے اچھے اور قابل تعریف کا موں کو جہاں سراہا ہے وہاں ان کے بُرے قابل نفرت واصلاح کاموں کی پر زور مذمت بھی فرمائی ہے.خلاصہ کلام:.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں انگریزی دور کی تعریف میں جو
741 کچھ لکھا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے سکھوں کے جبر و استبداد اور ان کے وحشیانہ مظالم کی طویل داستان ۱۸۵۷ء کا سانحہ اور اس کے ماسبق و مابعد کا تاریخی پس منظر، مسلمانوں کی مذہبی و روحانی، تعلیمی و اقتصادی حالت کا علم ہونا ضروری ہے.اور یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ سب تحریرات جو مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، مخالفین کی طرف سے عائد کردہ بغاوت کے جھوٹے الزام کے جواب میں بطور ذب“ ہیں.پھر یہ کہ حضور علیہ السلام یا حضور کی جماعت یا اولا د نے انگریزی حکومت سے ایک کوڑی کا بھی نفع حاصل نہیں کیا.نہ کوئی جاگیر لی ، نہ خطاب، نہ مربعے، بلکہ جو حق بات تھی اس کا ضرورتا اظہار کیا گیا.پھر یہ ضروری پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کی دنیوی اور مادی ترقیات کے لئے ان کی تعریف کی ہے وہاں اُن کے روحانی اور مذہبی نقائص کی اس سے زیادہ زور کے ساتھ مذمت بھی فرمائی ہے.(اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی نظم مندرجہ نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۲۳ تا ۱۳۱ و در یشین عربی صفحه ۱۰۹ یا صفحه ۱۱۸ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں حضرت نے اللہ تعالیٰ سے ہندوستان میں عیسائیوں کے غلبہ اور تسلط کے خلاف فریا د کر کے ان کی تباہی اور ہلاکت کے لیے بددعا فرمائی ہے.) ۴۵.خود کاشتہ پودہ کا الزام مرزا صاحب نے اپنے مکتوب ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء بنام لیفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب میں لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا زیر گزارش نمبر ۵ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۲۱ ہے.جواب:.(۱) جھوٹ ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے ہرگز ہرگز اپنی جماعت کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا نہیں قرار دیا.اگر یہ ثابت کر دو کہ حضرت اقدس نے اپنی جماعت کو انگریزوں کا ”خود کاشتہ پودہ قرار دیا ہے تو منہ مانگا انعام لو.(۲) حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ مکتوب کوئی مخفی یا پوشیدہ دستاویز نہیں ہے جو تمہارے ہاتھ لگ گئی ہے بلکہ حضرت اقدس نے خود اس مکتوب کو طبع کرا کے اشتہار کی صورت میں بکثرت پبلک میں تقسیم کرایا تھا اور پھر حضور کی وفات پر وہ اشتہار تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹ صفحہ ۲۰ پر طبع ہوا.(۳) اس مکتوب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے ”خود کاشتہ پودہ“ کا لفظ حضرت کے
742 خاندان کی دیرینہ خدمات کے پیش نظر اس خاندان کی نسبت استعمال فرمایا ہے نہ کہ جماعت احمدیہ کے متعلق.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں:.مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں.اس لئے اندیشہ ہے کہ اُن کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور سرلیپل گرفن کی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضایع اور برباد نہ جائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے.اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں.صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جان شار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے.“ تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۱۹ صفحه ۲۰ مجموعه اشتہارات جلد ۳ صفحه ۲۱) عبارت مندرجہ بالا صاف ہے اور کسی تشریح کی محتاج نہیں.اس میں حضرت اقدس نے جماعت احمد یہ یا اپنے دعاوی کو سرکار کا خود کاشتہ پودہ قرار نہیں دیا، بلکہ یہ لفظ اپنے خاندان کی گذشتہ خدمات کے متعلق استعمال فرمایا ہے.ورنہ اپنے دعاوی کی نسبت تو حضرت اقدس نے اسی خط میں صاف طور پر لیفٹیننٹ گورنر کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ میں نے دعوئی خدا کے حکم سے اس کی وحی اور الہام سے مشرف ہو کر کیا ہے.ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلدے صفحہ اسطر ۶.”خدا تعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی.“ نوٹ:.اس سلسلہ میں تفصیل مزید انگریز کی خوشامد کے الزام“ کے جواب میں گذر چکی
743 ہے جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ اشتہار مخالفین کے اس الزام کے جواب میں بطور ذب، یعنی بغرض رفع التباس شائع فرمایا تھا نہ کہ بطور مدح! مخالفین نے حضرت اقدس علیہ السلام پر گورنمنٹ کا باغی اور غدار ہونے کا الزام لگایا تھا.یہ الزام لگانے والے صرف مذہبی مخالف ہی نہیں بلکہ حضرت کے خاندانی اور ذاتی دشمن بھی تھے جیسا کہ اسی خود کاشتہ پودہ “ والی مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہے.۴.حضرت اقدس کی ساری عمر عیسائیت کے استیصال میں گزری.آپ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں اور دوسری یورپین اقوام اور پادریوں کو کھلے الفاظ میں ۱۸۹۰ء میں (یعنی اس مکتوب سے آٹھ سال پہلے ) دجال قرار دیا.انجیلی تعلیم اور انجیلی یسوع کی وہ خبر لی کہ ممکن نہیں کہ اس کو پڑھ کر عیسائی خوش ہو.پس یہ کہنا کہ وہ حکومت انگریزی جس کا مذہب عیسائیت ہے اور جو لاکھوں روپیہ چرچ کے ذریعہ تبلیغ عیسائیت میں صرف کرتی ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عیسائیت کی تر دید اور استیصال کے لئے سازش کر کے کھڑا کیا انتہائی شرارت اور کذب بیانی ہے.۵.اگر بقول تمہارے حضرت اقدس نے مسیحیت اور مہدویت کا دعوی انگریز کی سازش“ سے کیا تھا اور آپ اس کے ایجنٹ تھے تو پھر آپ کو مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے باعث یہ خوف کس طرح ہو سکتا تھا کہ گورنمنٹ کے دل میں بدگمانی پیدا ہوگی.پس جیسا کہ اس عبارت کے لفظ خاندان سے ثابت ہے حضرت اقدس کا اشارہ اس اشتہار کے صفحہ کی مندرجہ ذیل عبارت کے مضمون کی طرف ہے.”ہمارا خاندان سکھوں کے ایام میں ایک سخت عذاب میں تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ انہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صدہا دیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا.ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کا اندیشہ تھا چہ جائیکہ اور رسوم عبادت آزادی سے بجالا سکتے.پس یہ اس گورنمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی.“ ( تبلیغ رسالت جلد هفتم صفحه ۱) پس اس تمام عبارت میں حضرت اقدس اپنے خاندان کی تباہ شدہ جا گیر اور پھر اس کے ایک نہایت ہی قلیل حصہ کی انگریزی حکومت کے زمانے میں واگزاری کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں نہ کہ اپنی جماعت کی طرف.۶.حضرت اقدس علیہ السلام یا آپ کی اولا د نے انگریز سے کونسا مربع یا جاگیر حاصل کی یا
744 خطاب کیا.ے.اگر خود کاشتہ پودہ سے مراد تم جماعت احمد یہ لیتے ہو اور یہ الزام لگاتے ہوئے کہ حضرت مرزا صاحب سے دعویٰ مسیحیت و مہدویت سازش کر کے انگریز نے کروایا تھا تو اس بات کا جواب دو کہ (۱) انگریز نے دعویٰ تو کرا دیا مگر ۱۸۹۴ء میں حدیث ( دارقطنی از امام حد با فرکتاب الـعــديـن باب صفة صلاة الخسوف والكسوف و هيئتهما ) کی پیشگوئی کے عین مطابق چاند اور سورج کو رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں پر گرہن بھی انگریز نے لگا دیا تھا؟ (ب) ستارہ ذوالسنین بھی انگریز نے نکالا تھا؟ (ج) حضرت مرزا صاحب سے طاعون کے آنے سے قبل بطور پیشگوئی اشتہار بھی انگریز نے شائع کروایا.اور پھر انگریز ہی طاعون بھی لے آیا؟ مار بھی دیا.(د) سعد اللہ لدھیانوی اور اس کا بیٹا بھی انگریز ہی کی کوشش سے ابتر رہے؟ (ھ) احمد بیگ ہوشیار پوری کو محرقہ تپ بھی انگریز نے چڑھایا اور پیشگوئی کی میعاد کے اندر (و) حضرت کی پیشگوئیوں کے عین مطابق کانگڑہ کا اور مابعد بہار اور کوئٹہ کا زلزلہ بھی انگریز ہی کی سازش کا نتیجہ تھا؟ (ز) ع زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار کی پیشگوئی بھی انگریز ہی نے پوری کردی؟ (ح) يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کا الہامی وعدہ بھی انگریز ہی نے پورا کیا ؟ (1) اعجاز احمدی اور اعجاز مسیح کی معجزانہ تحدی کے مقابلہ میں مخالف علماء انگریز ہی کے ایماء پر مقابلہ سے ساکت اور خاموش رہے؟ (ی) غلام دستگیر قصوری، رسل بابا امرتسری، محمد اسمعیل علیگڑھی، چراغدین جمونی، فقیر مرزا آف دوالمیال، شجھ چنتک آریہ اخبار کا عملہ، دیانند و غیرہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے انگریز ہی نے مارے.غرضیکہ حضرت اقدس علیہ السلام کی تائید میں زمین نے بھی نشان ظاہر کئے اور آسمان نے
745 بھی.پس ”خود کاشتہ پودہ کی عبارت سے مراد حضرت کا دعویٰ یا جماعت لینا صریح بد دیانتی ہے.(ک) پھر یہ عجیب بات ہے کہ انگریز نے حضرت مرزا صاحب سے یہ تو کہا کہ تم عین چودہویں صدی کے سر پر دعوی مجددیت کر دو اور خود کو حدیث مجدد کا مصداق قرار دو.اور ادھر اللہ تعالیٰ سے بھی سازش کر لی کہ کسی بچے مجدد کو چودہویں صدی میں نہ آنے دے.حالانکہ حضرت مرزا صاحب نے اعلان فرمایا:.ہائے ! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے.“ اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۴۶۹) افسوس ان لوگوں کی حالتوں پر.ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی اور صدی پر بھی سترہ برس گزر گئے.مگر ان کا مجد داب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے.مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں اگر خدانہ چاہتا تو میں نہ آتا.“ اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۹۹) ۴۶ تنسیخ جہاد کا الزام مجلس احرار نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف جو اشتعال انگیزی اور افتراء پردازی کی مہم شروع کر رکھی ہے اس کی ریڑھ کی ہڈی یہ اعتراض ہے کہ جماعت احمد یہ جہاد کی منکر ہے.اور یہ کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کو قیامت تک منسوخ قرار دے کر اسلام کے ایک بہت بڑے رکن کا انکار کیا ہے.بعض علماء کا نظریہ:.یہ الزام کس قدر بے بنیاد اور دور از حقیقت ہے اس کا صحیحا ندازہ تو مندرجہ ذیل سطور کے مطالعہ سے ہو سکے گا لیکن قبل اس کے کہ ہم اس مسئلہ کی حقیقت پر تفصیلی بحث کریں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ حضرت مرزا صاحب سے ماقبل و مابعد دیگر علماء کی اصطلاح میں لفظ ”جہاد سے مراد کیا تھی؟ کیونکہ اس سے ہمیں اس پس منظر کا علم ہو سکے گا جس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے بارے میں صحیح اسلامی نظریہ کو واضح فرمایا.نیز یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ اس نقطہ نگاہ کی وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی ؟
746 سویا درکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ماقبل یا بعد علماء کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کے نزدیک ”جہاد“ کا نظریہ ہرگز وہ نہیں تھا جو آج کل کے عام مسلمانوں کا ہے.کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلامی اصطلاح میں غیر مسلموں کے خلاف جارحانہ اقدام کا نام ”جہاد“ نہیں، بلکہ دافعانہ جنگ کو جہاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.لیکن قارئین کے لئے یہ امر یقینا باعث تعجب ہو گا کہ بعض اسلامی علماء کے نزدیک غیر مسلموں کو بزور شمشیر مسلمان بنانے کا نام جہاد تھا.اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل تحریرات قابل ملاحظہ ہیں :.ا.تمام شرائع میں سے کامل ترین وہ شریعت ہے جس میں جہاد کا حکم پایا جائے.اس واسطے خدائے تعالیٰ کو اپنے بندوں کا اوامر و نواہی کے ساتھ مکلف کرنا ایسا ہے کہ جیسے ایک شخص کے غلام مریض ہورہے ہیں اور اس نے اپنے خاص لوگوں میں سے ایک شخص کو یہ حکم دیا کہ ان کو کوئی دوا پلائے.پھر اگر شخص ان کو مجبور کر کے ان کے منہ میں دوا ڈالے تو یہ بات نا مناسب نہ ہوگی.مگر رحمت کا مقتضی ہے کہ اول ان غلاموں سے اس دوا کے فوائد بیان کرے تا کہ خوشی کے ساتھ اس دوا کو پی لیں اور نیز اس دوا میں کوئی شیریں چیز مثلاً شہد شامل کر دے تا کہ رغبت طبعی اور نیز رغبت عقلی اس کی معین ہو جائے.پھر اکثر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ریاستوں کی محبت اور ان کا شوق اور شہوات دنیہ اور اخلاق سبھی اور وساوس شیطانی ان پر غالب ہوتے ہیں اور ان کے آبا ؤ اجداد کے رسوم ان کے قلوب میں مرتکز ہو جاتے ہیں تو ان فوائد پر وہ کان نہیں دھرتے اور جس چیز کا حضور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اس میں وہ فکر نہیں کرتے اور نہ اس کی خوبی میں ان کو غور ہوتا ہے.تو ان کے حق میں رحمت کا مقتضی یہ نہیں ہے کہ صرف اثبات حجت کا ان پر اقتصار کیا جائے بلکہ رحمت ان کے حق میں یہی ہے کہ ان پر جبر کیا جائے تاکہ خواہ مخواہ ایمان ان پر ڈالا جائے جس طرح تلخ دوا کے پلانے پر مجبور کیا جاتا ہے.(حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہور جلد ۲ صفحہ ۴۰۷ ، ۴۰۸ ) ۲.مشہور مصنف ایم اسلم لکھتے ہیں:.” خلیفہ وقت کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا یعنی خدا اور اس کے رسول کا مقدس پیغام خدا کی مخلوق تک پہنچانا اور انہیں دعوت اسلام دینا.جب کسی حکمران کو دعوت اسلام دی جاتی ہے تو دوشرطیں پیش کی جاتیں.ایک یہ کہ مسلمان ہو جائے دوسرے یہ کہ اگر مسلمان نہیں ہوتے تو جز یہ دو اور دونوں شرطیں نہ مانی جاتیں تو پھر مجاہدین اسلام کو ان سرکشوں کا بھر کس نکالنے کا حکم ملتا اور اس کا نام جہاد ہے.“ (حزب المجاہد صفحہ ۳۵)
747 ۳.واضح ہو کہ اہل اسلام کے ہاں کتب احادیث اور فقہ میں جہاد کی صورت یوں لکھی ہے کہ پہلے کفار کو موعظہ حسنہ سنا کر اسلام کی طرف دعوت کی جائے.اگر مان گئے تو بہتر نہیں تو کفار عرب سے باعث شدت کفر اور بت پرستی ان کے ایمان یا قتل کے سوا کچھ نہ مانا جائے.“ صیانۃ الانسان مطبوعہ مطبع مصطفائی لا ہو ۱۸۷۳ء صفحه ۲۳۲ مصنفہ ولی اللہ صاحب لاہوری) ۴.سابق علماء تو الگ رہے اب تک مولوی ابو الاعلی مودودی صاحب اس بیسویں صدی کے نصف آخر میں بھی یہی عقیدہ رکھتے اور اسی کی اشاعت کر رہے ہیں.ملاحظہ ہو:.و یہی تھی پالیسی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا.عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی سب سے پہلے اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول اور مسلک کی طرف دعوت دی مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انہوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حملہ کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچایا.(رسالہ جہاد فی سبیل اللہ مصنفہ مولوی ابوالاعلی مودودی صفحه ۲۸، صفحه ۲۹) ان اقتباسات کو پڑھ کر ہر درد دل رکھنے والے سعید الفطرت مسلمان کا سرندامت کے ساتھ جھک جاتا ہے.جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ جبر و اکراہ کا یہ نظریہ اس مقدس ترین وجود کی طرف منسوب کیا جارہا ہے جو تمام نسلِ انسانی کے لئے پیام امن و سلامتی لے کر آیا.جس نے اپنی مقدس حیات کا ایک ایک لمحہ ظلم و تشدد اور جبر و اکراہ کو دنیا سے مٹانے کے لئے وقف کر دیا جس رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نسل انسانی کو لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کا امن بخش اور حیات آفرین پیغام سنایا اور جو خود عمر بھر اپنے دشمنوں کے ظلم وستم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنارہا مگر خود کسی انسان بلکہ حیوان پر بھی ظلم نہیں کیا.عیسائی، ہندو اور دیگر دشمنان اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیرت انگیز معجزانہ کامیابی و کامرانی کو داغدار کرنے کے لئے یہ الزام لگاتے چلے آئے ہیں کہ اسلام اپنی صداقت اور حقانیت کے اثر سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے، لیکن ایک غیر جانبدار اور صحیح الدماغ محقق دشمنان اسلام اور مقدس بانی کو بد نام کرنے کی نیت سے ایسا کہتا ہے.لیکن جب مسلمانوں کے اپنے علماء خود ہی یہ اعلان کرنے لگیں کہ اسلام کی
748 تعلیم کو بزور شمشیر منوانا اور غیر مسلموں کو یہ جبر و اکراہ حلقہ بگوش اسلام کرنا عین تعلیم اسلام ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور کے خلفائے راشدین کا طرز عمل بھی یہی رہا ہے اور وہ غیر مسلموں کو ان کی مرضی کے خلاف جبر و اکراہ سے مسلمان بنایا کرتے تھے.تو پھر حقیقی اسلام کے علمبرداروں کے ہاتھ میں غیر مسلموں کے مقابلہ میں رہ ہی کیا جاتا ہے.؎ گر مسیحاد شمن جاں ہو تو کیونکر ہو علاج؟ کون رہبر ہو سکے جو خضر بہکانے لگے؟ یہ ظالمانہ اور جارحانہ ”جہاد“ کا منگھڑت اور خلاف اسلام نظریہ ( جو آج تک مولوی ابوالاعلی مودودی اور ان کے ہم خیال علماء کے ہاں رائج ہے ) تبلیغ واشاعت اسلام کے رستہ میں ایک زبر دست روک ثابت ہو رہا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ اس غلط نظریہ کی پر زور تردید کی جائے تا اسلام کا خوبصورت اور منور چہرہ داغدار نہ ہونے پائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلط نظریہ کی کما حقہ تر دید فرمائی اور یہی وہ جارحانہ لڑائی AGGRESSION ہے جس کے بارے میں حضور نے بار بار تحریر فرمایا ہے کہ اسلام میں جائز نہیں اور نہ اس قسم کی لڑائی کرنے کی مسلمانوں کو اجازت ہے.موقوف“ اور ” التوا“ کے معنے اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم احرار کے اصل اعتراض کو لیتے ہیں.معترضین کی طرف سے عام طور پر اس الزام کی تائید میں تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶ وصفحہ ۳۰ طبع اوّل، اربعین نمبر ۴ صفحه ۱۳ اطبع اوّل اور حقیقۃ المہدی کے حوالجات پیش کئے جاتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ ان محولہ بالا مقامات پر کسی جگہ بھی ”اسلامی جہاد کے قیامت تک منسوخ ہونے کا ذکر نہیں.تحفہ گولڑویہ میں التواء “ اور موخر الذکر مقام پر موقوف“ کا لفظ ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ التوا“ اور ”موقوف دونوں ہم معنے ہیں اور ان کا مفہوم عارضی طور پر کسی کام کو دوسرے وقت پر ڈال دینا ہوتا ہے.ہمیشہ کے لئے ختم ہونا یا منسوخ ہو جانا اس سے مراد نہیں ہوتا.پر لفظ ”وقف یا وقفہ“ کے معنے ہی دو کلاموں کے درمیانی عارضی سکون اور ٹھہرنے کے ہیں.قرآن مجید کی آیات کے درمیان بھی ”وقف آتا ہے.مگر کیا وقف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے
749 آگے کوئی آیت نہیں؟ عربی میں ”وَقَفَ لِفُلان“ کے معنے ہیں.اس نے فلاں کا انتظار کیا اور وَقَفَ عَلَى حَضُورِ فلان کے معنے ہیں.اس نے فلاں کے آنے تک کام ملتوی رکھا.“ أَوْقَفَ وَ تَوَقَّفَ عَنْ“ کے معنی ہیں ”ملتوی کرنا.“ وَقْفَةُ کے معنی ہیں اسٹیشن ٹھہراؤ اور موقوف“ کے معنی ہیں ”ٹھہرا ہوا“ (تسبل العربیہ زیر مادہ وقف) نیز ملاحظہ ہو م الفرائد الدریہ زیر مادہ وقف جس میں لکھا ہے وَقَفَ عَلَى الْكَلِمَةِ پڑھتے پڑھتے تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرنا.) وَقَفَ لِفُلان.کسی کا انتظار کرنا.أَوْقَفَ وَتَوَفَّفَ عَنْ کے معنی ہیں کسی معاملہ کو دوسرے وقت تک اٹھا رکھنا.پس موقوف کے معنی ”ملتوی کے ہیں نہ کہ ہمیشہ کے لئے منسوخ ہو جانے کے؟ اندریں صورت معترضین کا مسیح موعود علیہ السلام پر منسوخی جہاد کا الزام لگانا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ قرآن مجید کا کوئی لفظ منسوخ نہیں ہو سکتا حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے تتبع میں تمام احمدی قرآن مجید کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر حرف کو ناقابل تنسیخ یقین کرتے ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا.پس قرآن مجید اور حدیث صحیح میں جہاد کے بارے میں جو احکام ہیں احمدی ان پر دل و جان سے ایمان لاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہیں.قرآن مجید نے جہاد بالسیف کے بارے میں جو حکم دیا ہے وہ ان الفاظ میں ہے کہ اذن لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج: ٤٠) یعنی مومنوں کے ساتھ کفار دین کے باعث جنگ شروع کریں تو جوابی طور پر مومن تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھا ئیں.جماعت احمد یہ جہاد بالسیف کی قائل ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اسی کتب میں کسی ایک جگہ بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ اگر کفار کی طرف سے تلوار اٹھائی جائے تب بھی جوابی طور پر تلوار نہ اٹھائی جائے.یا یہ کہ قرآن مجید کی یہ یا دوسری آیات دربارہ جہاد منسوخ ہیں.حضور نے تو صاف الفاظ میں تحریر فرمایا ہے: وَأُمِرُنَا أَنْ نُعد لِلْكَافِرِيْنَ كَمَا يُعَدُّوْنَ لَنَا، وَلَا نَرْفَعُ الْحُسَامَ قَبْلَ أَنْ نُقْتَلَ بِالْحُسَامِ.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۵۴)
750 کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم کافروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا کہ وہ ہمارے ساتھ کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھا ئیں ہم بھی اس وقت تک ان پر تلوار نہ اٹھائیں.یادر ہے کہ یہ عبارت اسی حقیقۃ المہدی کی ہے جس کے صفحہ کا حوالہ معترضین دیتے ہیں.اس عبارت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کفار کی تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کے مسئلہ کے قائل ہیں اور قرآنی حکم دربارہ جہاد کو ہرگز منسوخ نہیں سمجھتے.بلکہ لفظ امـرنـا فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ ہم اس امر کے لئے مامور ہیں کہ اگر کفارا سلام کے خلاف تلوار اٹھا ئیں گے تو ہم بھی جوابی طور پر ان کے ساتھ تلوار سے جہاد کریں گے.پس معترضین کے پیش کردہ حوالہ میں جو لفظ ” موقوف“ استعمال ہوا ہے تو اس کے صرف یہی معنی ہیں کہ چونکہ اس وقت کفار کی طرف سے اسلام کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی جارہی اس لئے قرآنی تعلیم کی رو سے اس وقت مسلمانوں کے لئے تلوار اٹھانا موقوف ہے.اس وقت تک کہ کفار تلوار اٹھا ئیں.کیونکہ از روئے قرآن وحدیث ”جہاد بالسیف مشروط ہے.کفار کی طرف سے تلوار کے اٹھائے جانے کے ساتھ.پس شرط کے عدم تحقق کے باعث مشروط (جہاد بالسیف) بھی کبھی متحقق نہیں ہوسکتا.چنانچہ اس عبارت کے شروع میں یہ الفاظ ہیں.رُفِعَتْ هَذِهِ السُّنَّةُ بِرَفْعِ أَسْبَابِهَا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ.“ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴ ۴۵ ) یعنی تلوار کے جہاد کی شرائط کے پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں ہو رہا.حضور تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں.اِنَّ وَجُوهَ الْجِهَادِ مَعْدُومَةٌ فِي هَذَا الزَّمَنِ وَهَذِهِ الْبَلادِ.“ ( تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۸۲ ) یعنی ” جہاد اس لئے نہیں ہوسکتا کیونکہ اس وقت اور اس ملک میں جہاد کی شرائط پائی نہیں جاتیں.پھر تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۷۸ میں جہار ممانعت جہاد کا فتوی دیا ہے.وہاں تحریر فرمایا ہے.اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال فرما چکا ہے سید کونین مصطفے عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا ان اشعار میں ”اب“ اور ”التواء کے الفاظ صاف طور پر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جہاد کا حکم قیامت تک کے لئے منسوخ نہیں بلکہ بوقت موجودہ عدم تحقق شرائط کے باعث ”جہاد“ عملاً ملتوی ہے اور وہ بھی حضرت صاحب کی اپنی ذاتی رائے یا فتویٰ سے نہیں بلکہ خود حضرت شارع علیہ السلام کی حدیث صحیح مندرجہ بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی علیہ السلام کی سند کی بنا پر.
751 پھر حضور تحریر فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں.یہی جہاد ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے.“ ( مکتوب بنام حضرت ناصر نواب صاحب مندرجہ رساله درود شریف صفحه ۶۶ مؤلفه حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب ہلالپوری) آخری الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ تلوار کے جہاد کی ممانعت ابدی نہیں بلکہ عارضی ہے.اور جب دوسری صورت ظاہر ہوگی یعنی کفار کی طرف سے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی اس وقت تلوار کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہو گا.پس یہ ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی تعلیم دربارہ جہاد کو ہرگز منسوخ نہیں کیا بلکہ اس پر عمل کیا.کیونکہ قرآن مجید سے جہاد کی دوہی صورتیں ثابت ہیں:.اول.قرآن مجید کی تعلیم اور اس کی خوبیاں دنیا میں پھیلانا جیسا کہ سورۃ فرقان میں ہے.وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) یعنی قرآن مجید کو دنیا کے سامنے پیش کر ، یہی جہاد کبیر ہے.مکتوب مندرجہ رسالہ درود شریف صفحہ ۶۶ کی عبارت میں اسی پہلی صورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آج کل تو قرآن مجید میں بیان شدہ پہلی قسم کے جہاد کی شرائط موجود ہیں، اس لیے آج کل یہی جہاد ہے جس کا کرنا از روئے تعلیم اسلام واجب ہے.اور جب دوسری قسم کی شرائط پیدا ہو جائیں گی اس وقت دوسری قسم جہاد ( یعنی تلوار کے ساتھ مدافعانہ جنگ پر عمل کرنا ضروری ہوگا.ظاہر ہے کہ ”جہاؤ کے معنی اسلامی اصطلاح میں صرف تلوار کے ساتھ جنگ کرنے ہی کے نہیں بلکہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور عمل کی تلقین کرنے کے بھی ہیں.احراری معترضین جماعت احمد یہ پر اعتراض کرتے وقت صرف ”جہاد“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کی مراد اس سے صرف جہاد سیفی ہوتا ہے.اس مغالطہ کی حقیقت قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت پر نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتی ہے.يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ (التوبه: ۷۳ ) کہ اے نبی کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کر.ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے ساتھ جہاد کے کرنے کا حکم آجانے کے باوجود منافقوں کے خلاف کبھی تلوار نہیں اٹھائی بلکہ ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک فرمایا.یہاں تک کہ عبداللہ
752 بن ابی بن سلول کو ( جور نیس المنافقین تھا) اپنے چغہ مبارک میں دفن فرمایا.پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاد کے معنی صرف تلوار ہی کے ساتھ لڑائی کے نہیں ہوتے بلکہ تبلیغ وتذکیر کے ذریعہ کفار اور منافقین کی باطنی و روحانی اصلاح کی کوشش کرنے کے بھی ہوتے ہیں.شرعی حکم کی تنسیخ اور فتوی میں فرق احراری معترضین اپنے جوش خطابت میں ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ منسوخی جہاد مستقل کفر ہے.گویا ان کے نزدیک اگر کوئی شخص حضرت مرزا صاحب کی طرح یہ فتوی دے کہ چونکہ آجکل دشمنان دین اسلام کے بالمقابل تلوار نہیں اٹھاتے اس لئے تعلیم اسلامی کے رو سے ان کے ساتھ تلوار کا جہاد جائز نہیں.تو ایسا فتوی دینے والا فرضیت جہاد کا منکر ہونے کے باعث خارج از اسلام سمجھا جائے گا.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس طریق کو جاری کرنے کے نتیجہ میں کوئی مفتی بھی فتوی کفر سے بچ نہیں سکتا کیونکہ اگر اس طریق تکفیر کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ایسے شخص کو بھی جو ایک غیر صاحب نصاب شخص کے بارہ میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اس پر زکوۃ فرض نہیں فرضیت زکوۃ کا منکر قرار دے کر خارج از اسلام تسلیم کرنا پڑے گا.دور کیوں جائیں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا شعر ہے:.فمَا وَجَبَتْ عَلَيَّ زَكُوةُ مَالِ وَهَلْ تَجِبُ الزَّكُوةُ عَلَى الْجَوَادِ ترجمہ:.مجھ پر مال کی زکوۃ واجب نہیں اور کیا سخی پر ز کوۃ واجب ہوتی ہے؟ ( ہر گز نہیں) ( کشف انجوب مصنفہ حضرت داتا گنج بخش مترجم اردوصفحه ۲۸۸ مطبوعہ فیروز اینڈ سنز ۲۰۰۳ء) پس کس قدر ظلم ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں تو جہاد بالسیف کا حکم موجود ہے لیکن میں ان آیات اور احادیث کو منسوخ کرتا ہوں بلکہ صرف اس قدر رفرمایا کہ قرآن مجید اور حدیث میں خدا اور رسول کا حکم یہ ہے کہ جب تک مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے خلاف تلوار نہ اٹھائی جائے ان کے ساتھ جہاد بالسیف کرنا جائز نہیں اور چونکہ موجودہ وقت میں مخالفین اسلام کی طرف سے تلوار نہیں اٹھائی جا رہی اس لئے اس وقت جہاد بالسیف کرنے کی از روئے قرآن و حدیث اجازت نہیں، احراری معترضین ان کے خلاف ”فرضیت جہاد کے انکار کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں.
753 حضرت سید احمد بریلوی کا انگریز کے خلاف جہاد نہ کرنے کا فتویٰ پھر اگر محض اس فتوی کی بناء پر کہ انگریز کے خلاف جہاد بالسیف از روئے تعلیم اسلامی جائز نہیں.اگر حضرت مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کی تکثیر کو درست تسلیم کیا جائے تو تیرھویں صدی کے مجد دحضرت سید احمد بریلوی اور ان کے خلیفہ حضرت اسمعیل شہید پر بھی یہی فتویٰ عائد ہوگا کیونکہ ان ہر دو بزرگوں نے بھی (جن کو احراری بھی اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں ) انگریزی حکومت کے خلاف عدم جہاد کا بعینہ وہی فتویٰ دیا ہے جو ان کے بعد حضرت مرزا صاحب نے دیا.مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کی شخصیت یاد رہے کہ حضرت سید احمد بریلوی اور اسمعیل شہید کے فتاویٰ اس کتاب سے نقل کئے گئے ہیں جو مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری کی تصنیف ہے اور مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری وہ بزرگ ہیں جو حضرت سید احمد شہید کی تحریک میں شامل تھے اور بقول مولانا غلام رسول صاحب مہر :.مولوی محمد جعفر صاحب کا گھر کئی برس تک سید صاحب کے مجاہدین کے لئے چندہ بھیجنے کا ایک مرکز بنا رہا.اسی بناء پر وہ گرفتار ہوئے.انگریزوں نے ان پر مقدمہ چلایا اور پھانسی کی سزا دی.جائیداد ضبط کر لی یہ سزا اس لئے جبس دوام میں تبدیل ہوئی کہ مولوی صاحب کیلئے پھانسی پر جان دے دینا آسان تھا اور انگریز چاہتے تھے کہ انہیں قید کی مصیبتوں میں مبتلا رکھ کر زیادہ سے زیادہ ایذاء پہنچائیں.“ مولوی محمد جعفر صاحب نے سرکار انگریزی کی مخالفت ہی کے باعث اٹھارہ سال جزائر انڈیمان میں بسر کئے.ان کی جائیداد ضبط ہوئی اور جو تکلیفیں اٹھا ئیں ان کے بیان کا یہ موقع نہیں وہ ان کارناموں کی وجہ سے عظیم تھے.“ ( احراری اخبار آزادلا ہور ۱۲ اکتو بر ۱۹۵۲ء جلد۲ کالم۳) پس مولوی محمد جعفر صاحب وہ انسان تھے جن کو انگریز کی خوشامد کی کوئی ضرورت نہ تھی علاوہ ازیں سوانح احمدی اس زمانہ میں لکھی گئی جبکہ سید احمد صاحب بریلوی کو دیکھنے والے اور ان سے ملنے والے لوگ زندہ موجود تھے.اگر یہ روایات درست نہ ہوتیں تو اسی وقت ان کی تردید میں ضرور وہ لوگ آواز بلند کرتے.اس وقت اصل دستاویزات محولہ ابھی موجود تھیں اس لئے ان پر جرح و تنقید کا وقت وہی تھا.پھر یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جبکہ جماعت احمد یہ کا کوئی وجود ہی نہ تھا اور نہ
754 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا فتوی درباره ممانعت جہاد (۱۹۰۲ء) ہی موجود تھا.پس یہ تحریرات امر متنازعہ فیہ سے بہت عرصہ پہلے کی ہیں.مولانا غلام رسول صاحب مہر یا کسی اور بزرگ کا جس کو حضرت سید احمد بریلوی اور سید اسمعیل صاحب شہید کے مندرجہ بالا فتاویٰ سے اختلاف ہو.اکتوبر ۱۹۵۲ء میں یعنی حضرت سید احمد صاحب بریلوی کی شہادت کے ایک سوا کیس اور کتاب کی تحریر کے ساٹھ ستر سال بعد ان روایات کی صحت پر اعتراض کرنا کسی طرح بھی ان کی صحت و اصالت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا.بلکہ ہر اہل علم اور انصاف پسندانسان کے نزدیک ان روایات کو غلط ثابت کرنے کا بار ثبوت بہر حال اس شخص پر ہوگا جوان قدیم اور سید صاحب شہید کے قریب ترین زمانہ میں تحریر شدہ شہادتوں کے غلط ہونے کا ادعا کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کسی بھی پرانے واقعہ کا اثبات ممکن نہ رہے گا.مثلاً اگر کوئی معترض قرآن مجید.احادیث اور تاریخ اسلامی میں درج شدہ واقعات کا یہ کہہ کر انکار کر دے کہ جب تک اصل گواہ اور ان کی شہادتیں میرے سامنے پیش نہ کی جائیں میں ان کی صحت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور یہ بھی کہے کہ ان روایات کو درست ثابت کرنے کا بار ثبوت اس شخص پر ہے جوان روایات کو درست قرار دیتا ہے تو ہر ایک اہل علم و عقل کے نزدیک ایسے معترض کا اعتراض درخور اعتناء نہ ہوگا کیونکہ ان روایات کی صحت و اصالت پر اعتراض کرنے کا وقت وہ تھا جب وہ احاطہ تحریر میں لائی گئیں لیکن اگر اس وقت کسی شخص نے ان پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھائی پھر ایک لمبا زمانہ گذر جانے کے بعد جبکہ اصل شواہد اور دستاویزات مرورِ زمانہ کے باعث نا پید ہو چکی ہوں اعتراض بے حقیقت ہو کر رہ جاتا ہے جب تک کہ ایسا معترض اپنی تائید میں نا قابل تردید ثبوت اور دلائل پیش نہ کرے.پس آج جبکہ حضرت سید احمد شہید اور حضرت اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہا کے یہ فتاویٰ جماعت احمدیہ کی تائید میں پیش کئے گئے ہیں کسی اختلاف رائے رکھنے والے بزرگ کا اعتراض ہرگز قابل اعتناء قرار نہیں دیا جا سکتا.مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کی نسبت حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک اور سیرت نگار مولانا ابوالحسن صاحب ندوی لکھتے ہیں :.سید صاحب کے بہت بڑے تذکرہ نگار اور واقف حال تھے.آپ سید صاحب کے خلفاء سے بیعت اور سید صاحب کے نہایت بچے اور پر جوش معتقد تھے اور آپ کی کتاب ( سوانح احمدی.
755 خادم ) سب سے زیادہ کمل اور مقبول ومشہور ہے“.(سیرت سیداحمدشہید صفحہ ۱۸ صفحه ۲۳) اسی طرح نواب صدیق حسن خاں صاحب بھو پالی لکھتے ہیں:." سید احمد شاہ صاحب ساکن نصیر آباد بریلی میں ایک شخص تھے وہ کلکتہ گئے تھے اور ہزاروں مسلمان فوج انگریزی کے ان کے مرید ہو گئے.مگر انہوں نے کبھی یہ ارادہ ساتھ سرکار انگریزی کے ظاہر نہیں کیا اور نہ سرکار نے ان سے کچھ تعرض کیا“.(ترجمان وہابیہ صفحہ ۴۵) اس شہادت سے یہ ثابت ہوا کہ جو کچھ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری نے لکھا وہ بالکل صحیح اور درست تھا.یا در ہے کہ حضرت سید احمد بریلوی اور سید اسمعیل شہید وہ بزرگ ہیں جو ہندوستان بر خیل مجاہدین کے سردار اور اول المجاہدین تھے جنہوں نے یو.پی سے اٹھ کر پنجاب کی سکھ حکومت کے خلاف سرحد پار کر کے افغانستان کی طرف سے حملہ آور ہو کر سالہاسال تلوار کے ساتھ جہاد کیا اور عین میدانِ جہاد میں شہید ہوئے.انہوں نے سکھ حکومت کے خلاف یہ جہاد محض اس وجہ سے کیا کہ سکھ دین میں جبر کر رہے تھے.اس لئے اسلامی تعلیم کے رو سے سکھوں کے خلاف علم جہاد بلند کرنا ضروری تھا لیکن ان ہر دو بزرگوں نے عمر بھر کبھی انگریزی حکومت کے ساتھ جہاد نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس صاف صاف لفظوں میں یہ فتویٰ دیا کہ (0) نہ با کسے از امراء مسلمین منازعت داریم.نہ از رؤسائے مومنین مخالفت با کفا ر لینام مقابلہ داریم نه بامدعیان اسلام صرف بادر از موئیان جویان متقابلہ ایم.نہ باکلمہ گویان و نہ اسلام جویان.ونه به سرکار انگریزی که او مسلمان رعایا ئے خود را برائے ادائے فرض مذہبی شان آزادی بخشیده است.“ مکتوب حضرت سید احمد بریلوی.سوانح احمدی صفحه ۱۱۵ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھا میری) یعنی ہم کسی مسلمان امیر سے جنگ یا پر کار کرنا نہیں چاہتے صرف کفار ٹیم سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں.ہم مدعیان اسلام سے بھی جنگ نہیں کرنا چاہتے.صرف لمبے بالوں والوں (سکھوں) سے مقابلہ کرنے کے خواہشمند ہیں.کلمہ گویوں یا مسلمان کہلانے والوں یا سر کار انگریزی سے کہ جس نے اپنی مسلمان رعایا کو مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے کامل آزادی دے رکھی ہے.ہم جنگ نہیں کرنا چاہتے.یہ تیرہویں صدی کے مجدد کا فتویٰ ہے.جس کو تمام اہل حدیث اور اہل سنت واہل دیو بند اور احراری اپنا بزرگ خیال کرتے ہیں.یہ ان کا اپنا تحریر فرمودہ فتویٰ ہے اس کے الفاظ نہ با سرکار
756 انگریزی که مسلمان رعایا ئے خود را برائے ادائے فرض مذهبی شان آزادی بخشیده است دوباره ملاحظہ فرمائیں.کیا بعینہ یہ وہی فتویٰ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہے اور جس کی بناء پر آپ کو جہاد کا منکر قرار دیا جا رہا ہے؟ پس انگریزی حکومت کے خلاف عدم جہاد بالسیف کے فتویٰ میں حضرت مرزا صاحب منفرد نہیں.بلکہ ان کے ساتھ حضرت سید احمد بریلوی شہید رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل ہیں.پس اگر گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کی ممانعت کا فتویٰ آپ کے نزدیک بذات خود کفر ہے تو ایس گنا ہسیت که در شهر شما نیز کنند (ب).حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا مکتوب کے علاوہ آپ کا تفصیلی فتوی درباره ممانعت جہاد ملاحظہ فرمائیں.لکھا ہے.”جب آپ رحمۃ اللہ علیہ سکھوں سے جہاد کرنے تشریف لے جاتے تھے.کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ اتنی دور سکھوں پر جہاد کرنے کو کیوں جاتے ہو.انگریز پر جو اس ملک پر حاکم ہیں اور دینِ اسلام سے کیا منکر نہیں ہیں.گھر کے گھر میں ان سے جہاد کر کے ملک ہندوستان لے لو.یہاں لاکھوں آدمی آپ کا شریک اور مددگار ہو جائے گا کیونکہ سینکڑوں کوس سفر کر کے سکھوں کے ملک سے پار ہو کر افغانستان جانا اور وہاں برسوں رہ کر سکھوں سے جہاد کرنا یہ ایک ایسا امر محال ہے جس کو ہم لوگ نہیں کر سکتے.سید صاحب نے جواب دیا کہ کسی کا ملک چھین کر ہم بادشاہت کرنا نہیں چاہتے.انگریزوں کا یا سکھوں کا ملک لینا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ سکھوں سے جہاد کرنے کی قدرتی یہ وجہ ہے کہ وہ ہمارے برادرانِ اسلام پر ظلم کرتے ہیں.اور اذان وغیرہ فرائض مذہبی کو ادا کرنے سے مزاحم ہوتے ہیں اور سر کا رانگریزی گومنکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی.اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں علامیہ وعظ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں.وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کے لئے تیار ہے ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیاء سننِ سید المرسلین ہے سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکا رانگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصول مذہب طرفین کا خون بلا سبب گراویں.
757 یہ جواب باصواب سن کر سائل خاموش ہو گیا اور اصل جہاد کی غرض سمجھ لی“.(سوانح احمدی صفحه ۴۵ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری ) ( ج ).اس واسطے ہر گھڑی اور ہر ساعت جہاد اور قتال کا ارادہ کرتے رہتے تھے اور سر کا رانگریزی گو کا فر تھی مگر اس کی مسلمان رعایا کی آزادی اور سر کا انگریزی کی بے روریائی اور بوجہ موجودگی ان حالات کے ہماری شریعت کے شرائط سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کو مانع تھیں اس واسطے ان کو منظور ہوا کہ اقوام سکھ پنجاب پر جو نہایت ظالم اور احکامات شریعت کی حارج اور مانع تھے جہاد کیا جائے.“ سوانح احمدی صفحه ۴۵ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری) (د).یہ تو تھا فتویٰ حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اب آپ کے خلیفہ حضرت سید اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں.لکھا ہے:.اثناء قیام کلکتہ میں جب ایک روز مولانا محمد اسمعیل صاحب شہید وعظ فرما رہے تھے ایک شخص نے مولانا سے یہ فتویٰ پوچھا کہ سرکار انگریزی پر جہاد کرنا درست ہے یا کہ نہیں؟ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ ایسی بے ردور یاء اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ (لازم ہے کہ ) ان پر جہاد کیا جائے.“ ( سوانح احمدی صفحہ ۵۷ مصنفہ مولوی محمدجعفر صاحب تھانیسر ی) (ھ).سید صاحب (سید احمد بریلوی) کا سر کار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں تھا وہ اس آزاد عمل داری کو اپنی ہی عمل داری سمجھتے تھے.“ (سوانح احمدی صفحه ۱۳۹ مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری ) مندرجہ بالا فتاویٰ کو پڑھنے کے بعد ہر صاحب انصاف سمجھ سکتا ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد بالسیف نہ کرنے کا حکم ایسا ہے جس پر تیر ہوئیں اور چودہویں صدی کے مجددین کا اتفاق ہے پھر اس کے خلاف اگر کوئی دوسرا شخص معترض ہو تو اس کے اعتراض کو کیا وقعت دی جاسکتی ہے؟ پھر یاد رہے کہ حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت مولانا محمد اسمعیل شہید وہ بزرگ ہیں.جنہوں نے اپنی زندگیاں جہاد بالسیف کے لئے وقف کر دی ہوئی تھیں وہ سکھوں کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ‘ (الاحزاب: ۲۴) کے مصداق ہو کر میدان جہاد میں شہید ہو گئے.اس لئے ان بزرگان نے حکومت انگریزی کے خلاف تلوار نہ اٹھانے کا جوفتوی صادر کیا
758 اس کی صحت اور درستی میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا.حضرت مرزا صاحب کا فتویٰ حضرت مرزا صاحب نے ممانعت جہاد کا جو فتویٰ دیا ہے وہ بعینہ وہی ہے جو حضرت سید احمد بریلوی اور ان کے خلیفہ سید اسمعیل شہید نے دیا تھا اور آپ کے بھی بعینہ وہی دلائل ہیں جو ان بزرگان کے ہیں.چنانچہ حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:.نادان مولوی نہیں جانتے کہ جہاد کے واسطے شرائط ہیں.سکھا شا ہی لوٹ مار کا نام جہاد نہیں اور رعیت کو اپنی محافظ گورنمنٹ کے ساتھ کسی طور سے جہاد درست نہیں“.ب.پھر فرماتے ہیں :.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۸۲) بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسی بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا.کیا انگر یز مذہبی جوش والے میرے اس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو! اے نادانوں میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار میں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۷۵ حاشیہ ) ج.پھر فرماتے ہیں :.جاننا چاہیے کہ قرآن شریف یوں ہی لڑائی کے لئے حکم نہیں فرما تا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ایمان لانے سے روکیں اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کاربند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا
759 چاہتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے جو ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں.“ نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۲) در شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے.جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں..قطعی حرام ہے“.(تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۶۵) ھ.” اس زمانہ کے نیم ملا فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اُٹھائی تھی اور انہی شبہات میں نا سمجھ پادری گرفتار ہیں مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعدی کا الزام اُس دین پر لگایا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے له لا إكْرَاة في الدين یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملہ سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے مگر اب کون مخالفوں میں سے دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور مسلمان ہونے والے کو کون روکتا ہے اور مساجد میں نماز پڑھنے اور بانگ دینے سے کون منع کرتا ہے.پس اگر ایسے امن کے وقت میں ایسا مسیح ظاہر ہو کہ وہ امن کا قدر نہیں کرتا بلکہ خواہ نخواہ مذہب کے لئے تلوار سے لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بلاشبہ ایسا شخص جھوٹا کذاب مفتری اور ہرگز سچا مسیح نہیں ہے.مجھے تو خواہ قبول کر دیا نہ کرو مگر میں تم پر رحم کر کے تمہیں سیدھی راہ بتلاتا ہوں کہ ایسے اعتقاد میں سخت غلطی پر ہو.لاٹھی اور تلوار سے ہرگز ہرگز دین دلوں میں داخل نہیں ہو سکتا اور آپ لوگوں کے پاس ان بیہودہ خیالات پر دلیل بھی کوئی نہیں.صحیح بخاری میں مسیح موعود کی شان میں صاف حدیث موجود ہے کہ يَضَعُ الْحَرُبَ یعنی مسیح موعود لڑائی نہیں کرے گا تو پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ لوگ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد اصح الکتب ہے اور دوسری طرف صحیح بخاری کے مقابل پر ایسی حدیثوں پر عقیدہ کر بیٹھتے ہیں کہ جو صریح بخاری کی حدیث کے منافی پڑی ہیں.چاہیے تھا کہ اگر کروڑ ایسی کتاب ہوتی تب بھی اس کی پرواہ نہ کرتے کیونکہ ان کا مضمون نہ صرف صحیح بخاری کی حدیث کے منافی بلکہ قرآن شریف سے بھی صریح مخالف ہے.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۸-۱۵۹)
760 و.تمام سچے مسلمان جو دُنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے.پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۷ حاشیه ) کیا ان عبارتوں سے صاف طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مرزا صاحب اپنے وقت میں حرمت جہاد کا فتویٰ قرآن مجید اور حدیث نبوی کی بناء پر دے رہے ہیں نہ کہ اسلامی حکم کو منسوخ قرار دے کر ؟ علاوہ ازیں تریاق القلوب کے مؤخر الذکر حوالجات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جس نظریہ جہاد کی مخالفت فرمائی ہے وہ غیر مسلموں کوجبر امسلمان بنانے کا وہ غلط تصور ہے جو مولوی ابو الاعلیٰ مودودی جیسے علماء کہلانے والے ابتدا سے لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے آئے ہیں اور جن کا ذکر مضمون ہذا کی ابتدائی سطور میں کسی قدر تفصیل ہے کیا جاچکا ہے.ز.پھر مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:.”ہم نے سارا قرآن شریف تذبر سے دیکھا مگر نیکی کی جگہ بدی کرنے کی تعلیم کہیں نہیں پائی ہاں یہ بیچ ہے کہ اس گورنمنٹ کی قوم مذہب کے بارے میں نہایت غلطی پر ہے وہ اس روشنی کے زمانہ میں ایک انسان کو خدا بنارہے ہیں اور عاجز مسکین کو رب العالمین کا لقب دے رہے ہیں مگر اس صورت میں تو وہ اور بھی رحم کے لائق اور راہ دکھانے کے محتاج ہیں کیونکہ وہ بالکل صراط مستقیم کو بھول گئے اور دور جا پڑے ہیں ہم کو چاہیے کہ ان کے لئے جناب الہی میں دعا کریں کہ اے خداوند قادر ذوالجلال ان کو ہدایت بخش اور ان کے دلوں کو پاک تو حید کے لئے کھولدے اور سچائی کی طرف پھیر دے تا وہ تیرے بچے اور کامل نبی اور تیری کتاب شناخت کرلیں اور دینِ اسلام ان کا مذہب ہو جائے ، ہاں پادریوں کے فتنے حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان کی مذہبی گورنمنٹ ایک بہت شور ڈال رہی ہے مگر ان کے فتنے تلوار کے نہیں ہیں.قلم کے فتنے ہیں سواے مسلمانو! تم بھی قلم سے ان کا مقابلہ کرو....خدا تعالیٰ کا منشاء قرآن شریف میں صاف پایا جاتا ہے کہ قلم کے مقابل پر قلم ہے اور تلوار کے مقابل پر تلوار.مگر کہیں نہیں سنا گیا کہ کسی عیسائی پادری نے دین کے لئے تلوار بھی اٹھائی
761 ہو پھر تلوار کی تدبیریں کرنا قرآن کریم کو چھوڑنا ہے.“ ( تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۹۳ ) کیا مرزا صاحب نے قیامت تک جہاد کو منسوخ کیا پس اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ میں قرآن مجید کی آیات درباره جہاد بالسیف کو منسوخ کرتا ہوں اور یہ حکم دیتا ہوں کہ اب خواہ دین میں جبر ہو اور مخالفین اسلام دین کے خلاف تلوار اٹھا ئیں پھر بھی ان کے ساتھ جہاد بالسیف حرام ہے تو ہم اس کو چیلنج کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب یا آپ کے کسی خلیفہ کی کسی تحریر سے اس مضمون کا کوئی ایک حوالہ ہی پیش کرے.حضرت مرزا صاحب نے ہرگز قرآن مجید کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کیا.نہ آپ ایسا کر سکتے تھے.آپ کا دعوی تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر یہ وحی ہوئی ہے."يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشريعة ( تذکرۃ ایڈیشن نمبر ۲۴ صفحہ ۷۰ ) کہ مسیح موعود کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ احیاء دین اور اقامت شریعت کرے.پس آپ نے ہرگز کسی اسلامی حکم کو منسوخ نہیں کیا.آپ تو ناسخ والمنسوخ فی القرآن کے بھی قائل نہ تھے.حالانکہ تمام غیر احمدی علما ءاب تک ناسخ ومنسوخ فی القرآن کا مسئلہ مانتے ہیں.احمدی جماعت ہر گز جہاد کو منسوخ نہیں سمجھتی.نہ سیفی جہاد کی منکر ہے.ہمارا ایمان ہے کہ اگر دین میں جبر ہو اور اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی جائے تو جہاد بالسیف فرض ہو جاتا ہے اور جس وقت تحقق شرائط کے باعث جہاد فرض ہو جائے پھر اس میں کوتاہی کرنے والا قابل مؤاخذہ ہوتا ہے.اس بارہ میں حضرت مرزا صاحب کی تحریرات کے حوالے قبل از میں نقل کئے جاچکے ہیں.پس اصل سوال یہ نہیں کہ مرزا صاحب نے کیا فی الواقع جہاد کو منسوخ کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف جہاد بالسیف کرنا از روئے تعلیم اسلام فرض تھا یا نہیں.کیا مرزا صاحب کے زمانہ میں جہاد بالسیف کی شرائط موجود تھیں یا نہیں؟ اگر شرائط موجود نہیں تھیں تو جہاد بالسیف یقیناً فرض نہیں تھا.پھر حضرت مرزا صاحب پر کوئی اعتراض نہیں رہتا.کیونکہ حضرت مرزا صاحب کا فتویٰ درست تھا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانہ میں شرائط جہاد تق تھیں اور جہاد بالسیف فرض تھا.تو اس کے جواب میں حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت سید اسمعیل شہید کے فتاوی او پر نقل
762 کئے جاچکے ہیں.ان کی تائید میں اہلحدیث کے ایک بہت بڑے رہنما نواب نور الحسن خانصاحب آف بھوپال کا فتویٰ جو انہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کے بارے میں اپنی مشہور و معروف کتاب اقتراب الساعة ۱۸۸۳ء میں تحریر کیا.درج کیا جاتا ہے:.اس تیرہ سو برس میں کوئی ایسا فتنہ نہیں ہوا جس کی خبر حدیث میں اول سے موجود نہ ہو.جو لوگ اس علم سے ناواقف ہیں.وہی فتویٰ جہاد کا حق میں ہر فتنہ کے دیتے ہیں.ورنہ دنیا میں مدت سے صورت جہاد کی پائی نہیں جاتی.ہم یہ نہیں کہتے کہ حکم جہاد کا اسلام میں نہیں ہے یا تھا مگر اب منسوخ ہو گیا یہ کہتے ہیں کہ اس زمانے کی لڑائی بھڑائی خواہ مسلمان و کافر میں ہو.یا با ہم مسلمانوں کے مشکل ہے کہ جہاد شرعی ٹھہر سکے.( اقتراب الساعۃ صفحہ سے مطبع مفید عام الکامنتۃ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ ) لیکن اگر احراری معترضین کے لئے یہ فتاویٰ تسلی بخش نہ ہوں تو پھر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جس کا حل کرنا ضروری ہوگا.فیصلہ کا آسان طریق حدیث شریف میں ہے کہ لا يُجْمِعُ أُمَّتِی عَلی ضَلَالَةٍ “ یعنی میری امت کبھی گمراہی پر اجماع نہیں کر سکتی.(ترمذی ابواب الفتن باب في لزوم الجماعة) پھر صحیحین کی حدیث " لَا يَزَالُ....أُمَّتِى أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ.(مشكوة كتاب المناقب باب ثواب هذه الامة الفصل الاول ( يه حديث لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ (ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء في اهل الشام) که قیامت تک میری امت میں ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایک گروہ حق پر قائم رہنے والوں کا موجود رہے گا جو اسلامی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے والا ہوگا.نیز حدیث بخاری لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ.(بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب قول النبى لا تزال طائفة من امتى ظاهرين) قرآن مجید کی آیت كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: ۱۱۹) سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ صادقین کا گروہ ہر وقت دنیا میں موجود رہتا ہے جن کی معیت کا ہر طالب حق کو حکم دیا گیا.ابوداؤد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ.(ابو داؤد أوّل كتاب الجهاد باب في دوام الجهاد)
763 پھر ایک اور حدیث میں ہے: تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ مِلَّةٌ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةَ وَاحِدَةً قَالُوا مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي.(مشكوة كتاب الايمان باب الاعتصام بالكتاب و السنة) کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے.وہ سب ناری ہوں گے.سوائے ایک فرقہ کے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! جنتی فرقہ کون ہے؟ تو حضور نے فرمایا.وہ فرقہ وہ ہوگا جو میرے اور میرے اصحاب کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا.قرآن مجید اور احادیث کے مندرجہ بالا حوالجات سے قطعی طور پر یہ ثابت ہے کہ قیامت تک ہر وقت اور ہر زمانہ میں بچے اور خالص مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت ضرور مسلمانوں میں موجود رہے گی.اس وقت یہ بحث نہیں کہ زمانہ زیر بحث میں وہ جماعت کونسی تھی ؟ بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں کوئی نہ کوئی جماعت موجود ضرور تھی.اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں حکومت انگریزی کے خلاف جہاد بالسیف فرض تھا اور شریعت اسلامی کے رو سے ایسے جہاد کی شرائط تحق تھیں.تو پھر اس جنتی فرقہ اور اس حق پر قائم ہونے والی جماعت نے کیوں انگریزوں کے خلاف جہاد نہ کیا اور تمام امت محمدیہ کا اس ضلالت پر کیونکر اجماع ہو گیا ؟ جیسا کہ مولوی ظفر علی آف ”زمیندار“ لکھتے ہیں :.”جہاد یہی نہیں کہ انسان تلوار اٹھا کر میدانِ جنگ میں نکل کھڑا ہو.بلکہ یہ بھی ہے کہ تقریر سے تحریر سے.سفر حضر ہر طرح سے جد و جہد کرے.ہندوستانیوں کا اصول جہاد بے تشد د جد و جہد ہے اس پر تمام ہندوستانیوں کا اتفاق ہے.“ ( اخبار زمیندار۱۴ جون ۱۹۳۶ء) پس حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں مسلمانوں کے کسی ایک فرقہ کا بھی انگریزوں کے ساتھ جہاد بالسیف نہ کرنا اس بات کی ناقابل تردید دلیل ہے کہ اس زمانہ میں فی الواقعہ جہاد بالسیف فرض نہ تھا.کیونکہ یہ سب فرقوں کو مسلم ہے کہ جس وقت جہاد بالسیف فرض ہو جائے اس وقت جہاد سے (سوائے بیمار، بوڑھے اور معذور کے ) تخلف کرنے والا گمراہ اور جہنمی ہوتا ہے اور کبھی ناجی نہیں ہوسکتا.پس یا تو تمام اسلامی فرقوں کو جن میں اہلحدیث، اہلسنت اور شیعہ سب شامل ہیں خارج از اسلام قرار دیں.کیونکہ انہوں نے فریضہ جہاد سے اس وقت تخلف کیا جبکہ از روئے قرآن مجید ان پر جہاد بالسیف فرض تھا اور یا یہ تسلیم کریں کہ حضرت مرزا صاحب کا فتوی دربارہ ممانعت جہاد درست تھا اور میں سمجھتا
764 ہوں کہ آخر الذکر نتیجہ ہی صحیح ہے.کیونکہ ممانعت جہاد کے فتوی کی بناء پر مرزا صاحب علیہ السلام کو کافر کہتے کہتے تمام عالم اسلامی کو خارج از اسلام تسلیم کرنا پڑتا ہے.مسئلہ جہاد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں یہ امر بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ مسئلہ جہاد کے بارے میں اس وقت احمدی جماعت اور غیر احمدی حضرات کے درمیان قطعاً کوئی اختلاف نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ و عیسی مسیح کر دے گا جنگوں کا التواء (تحفہ گولٹر و بی روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۲۷) اس میں جہاد بالسیف ایک وقت تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ایک دوسرے مقام پر تحریر فرمایا :.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالی کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرئے“.( مکتوب بنام میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رساله درود شریف صفحه ۶۶ مؤلفہ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب ہلال پوری ) حضرت امام جماعت احمدیہ کا اعلان دربارہ ”جہاد“ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس امر کا علم کیونکر ہوگا کہ اب ”التواء کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور یہ کہ اب جہاد کی دوسری صورت ظاہر ہو چکی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سلسلہ خلافت موجود ہے اور یہ کام اپ خلیفہ وقت کا ہے کہ وہ اس التواء کے زمانہ کے ختم ہونے کا اعلان کرے.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مجلس شوریٰ جماعت احمد یہ منعقدہ ستمبر ۱۹۴۷ء بمقام رتن باغ لاہور میں تمام نمائندگان جماعتہائے احمدیہ کے سامنے اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس تلوار کے جہاد کے التواء کا اعلان حسب ارشادِ نبوى يَضَعُ الْحَرْبَ ( بخاری ) فرمایا تھا.اب اس "التواء کا زمانہ ختم ہورہا ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد کو چاہئے کہ وہ تلوار کے جہاد کے لئے تیاری کریں.تا کہ جب وقتِ جہاد آئے تو سب اس میں
765 شمولیت کے قابل ہوں.پھر اس کے بعد جب محاذ کشمیر پر عملاً جنگ کرنے کا وقت آیا تو مولوی ابوالاعلیٰ مودودی اور دوسرے علماء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہو گیا.کہ آیا کشمیر کی جنگ آزادی شرعاً جہاد ہے یا نہیں.مولوی ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا کہ یہ جہاد نہیں.اسی طرح احراری لیڈ رسید عنایت اللہ شاہ بخاری خطیب مسجد کالری گیٹ گجرات نے بھی کہا کہ جو لوگ محاذ کشمیر پر جا رہے ہیں حرام موت“ مرنے جارہے ہیں لیکن جماعت احمدیہ نے بجائے اس اصطلاحی بحث میں پڑ کر وقت ضائع کرنے کے فی الفور میدان عمل میں آکر اس محاذ پر فرقان فورس کی شکل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہ ثابت کر دیا کہ جب بھی ملک وملت کے لئے تلوار کے ساتھ جنگ کرنے کا وقت آئے جماعت احمد یہ احراریوں کی طرح زبانی جمع خرچ نہیں کرتی بلکہ اس میں عملاً حصہ لیتی ہے اور در حقیقت یہی وہ عملی فضیلت ہے جو جماعت احمدیہ کو اپنے مخالفین پر حاصل ہے.یہ بھی یادر ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد نے ”فرقان فورس کی تنظیم کے ماتحت محاذ جنگ میں محض رضا کارانہ طور پر حصہ لیا.کسی قسم کی تنخواہ حکومت سے وصول نہیں کی بلکہ ہزاروں احمدی نوجوان اپنے اپنے کاروبار چھوڑ چھاڑ کر رضا کارانہ طور پر محاذ جنگ پر گئے.حکومت پاکستان اور پاکستان کی بہترین خدمات سرانجام دیتے رہے.ان کی ان شاندار خدمات کے لئے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف اور دیگر ذمہ وارحکام پاکستان نے جماعت احمدیہ کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے صرف مجلس شوری ہی کے موقع پر اس التواء کے بارہ میں اعلان نہیں فرمایا بلکہ ما بعد اپنے کلام میں بھی اس کا ذکر فرمایا جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.حضور فرماتے ہیں:.ہو چکا ہے ختم اب چگر تری تقدیر کا سونے والے اٹھ کہ وقت آیا ہے اب تدبیر کا کاغذی جامے کو پھینک اور آہنی زرہیں پہن وقت اب جاتا رہا ہے شوخی تحریر کا مدتوں کھیلا گیا ہے لعل و گوہر سے عدو اب دکھا دے تو ذرا جوہر اسے شمشیر کا پیٹ کے دھندوں کو چھوڑ اور قوم کے فکروں میں پڑ ہاتھ میں شمشیر لے عاشق نہ بن کفگیر کا ہو چکی مشق ستم اپنوں کے سینوں پر بہت اب ہو دشمن کی طرف رخ خنجر و شمشیر کا اخبار الفضل جلد ۲لا ہور پاکستان ۱۴؍ جولائی ۱۹۴۸ء)
766 غرضیکہ اب اس مسئلہ کے بارے میں قطعا کوئی اختلاف باقی نہیں ہے مگر افسوس ہے کہ احراری اور ان کے ہم نوا اب تک محض عوام کو دھوکہ دے کر جماعت احمدیہ کے خلاف مشتعل کرنے کی غرض سے جماعت احمدیہ پر یہ جھوٹا الزام لگاتے چلے جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ جماعت احمد یہ جہاد کی منکر ہے.محاذ کشمیر پر احمدی نوجوان اور احراری بوکھلاہٹ پھر یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو احراری فتنہ پرداز ہمارے خلاف یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہ لوگ جہاد کے منکر ہیں مگر دوسری طرف جب جماعت احمدیہ کے نو جوانوں کو عملاً برسر پر کار دیکھتے ہیں تو یوں گو ہر افشاں ہوتے ہیں :.میں ان مرزائیوں سے پوچھتا ہوں.جب کشمیر کی حسین وادی ڈوگرہ شاہی کے پنجہ استبداد کا شکار تھی اس خطہ کشمیر جنت نظیر کی عزت و آبر ولوٹی جا رہی تھی.ہندوستان اور کشمیری مسلمانوں کے درمیان معرکة الآراء جنگ جاری تھی.اسلام اور کفر کی ٹکر تھی اس وقت مرزائی کشمیر میں کس پوزیشن سے تشریف لے گئے تھے ؟ جب کہ دنیائے اسلام کے تمام جلیل القدر علماء اور حجاز سے لیکر پاکستان کے آخری کونے تک کے تمام مفتیانِ دین نے واضح الفاظ میں جہاد کشمیر کے سلسلہ میں فتوے صادر کئے بیانات اور تقریروں کے ذریعہ اس جہاد کی اہمیت بیان کی تو کیا اس وقت امتِ مرزائیہ کے موجودہ ڈکٹیٹر مرزا بشیر الدین صاحب محمود نے مرزا غلام احمد کے اس خلاف جہاد فتوی کی تردید کرتے ہوئے مرزائی جماعت کے اراکین کی غلام انہی دور کی ؟“ جب مرزائیوں کے نام نہاد نبی نے ہمیشہ کے لئے جہاد کوحرام قرار دیدیا ہے تو کیا کشمیر میں محض مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور انہیں دھوکا دینے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے؟“.تقریر شیخ حسام الدین احراری ملتان کا نفرنس دیکھو ” آزاد کا کانفرنس نمبر ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ صفحہ ۱۰ کالم ۴) جہاں تک جماعت احمدیہ کی پوزیشن کا تعلق ہے وہ تو اوپر واضح کی جا چکی ہے کہ احمدی جماعت ہرگز جہاد کی منکر نہیں ہے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ کے لئے جہاد کو حرام قرار دیا.یہ محض احمدی جماعت پر بہتان ہے جس کی احمدی جماعت سابقہ پچاس سال سے تردید کرتی چلی آئی ہے مگر احراری افتراء پردازی بدستور جاری ہے.اوپر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشادات اور اعلان بھی درج ہو چکے ہیں جن میں صاف
767 طور پر بتایا گیا ہے کہا وہ التواء کا زمانہ ختم ہورہا ہے.اس لئے اب احمدی جماعت اگر کسی جہاد میں شریک ہوتی ہے تو وہ احمدیت کی تعلیم کے عین مطابق ہے.احراریوں سے ایک سوال البتہ حسام الدین احراری کے مندرجہ بالا اعلان کی بناء پر ایک حل طلب سوال پیدا ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ یہ تو آپ نے تسلیم کر لیا ہے کہ ” جبکہ دنیائے اسلام کے تمام جلیل القدر علماء اور حجاز سے کے کر پاکستان کے آخری کونے تک کے تمام مفتیانِ دین نے واضح الفاظ میں جہاد کشمیر کے سلسلہ میں فتوے صادر کئے بیانات اور تقریروں کے ذریعہ اس جہاد کی اہمیت بیان کی.تو احمدی جماعت کے نوجوان محاذ کشمیر پر پہنچ گئے اور مہاراجہ کی فوجوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کے ان تمام جلیل القدر علماء کے فتاویٰ کا مجلس احرار اور ان کے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری پر کیا اثر ہوا؟ کیا مجلس احرار نے ”جیوش احرار محاذ کشمیر پر بھیجے ؟ کیا ان کے امیر شریعت نے ان ” جلیل القدر علماء کے فتاوی کے ساتھ عملاً اظہار اتفاق کیا ؟ ۱۹۵۰ء کے سیلاب کے موقع پر جس طرح احراری اخبار آزاد کے کالم کے کالم احراری رضا کاروں کو نمائشی دعوت عمل دینے میں سیاہ ہوتے رہے کیا ایک کالم بھی اس فتویٰ جہاد کی اہمیت بیان کرنے میں صرف کیا گیا ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ احرار کے مایہ ناز لیڈر سید عنایت اللہ شاہ بخاری گجراتی نے اسلام کے جلیل القدر علماء کے بالمقابل گجرات میں یہ فتویٰ دیا کہ جو لوگ محاذ کشمیر پر جا کر شہید ہورہے ہیں وہ حرام موت مر رہے ہیں اور کیا اس فتوی کی بدولت اس احراری لیڈر کو سیفٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر ۳ کے ماتحت جیل کی ہوا نہیں کھانی پڑی تھی؟ کیا سید عطاء اللہ شاہ صاحب کے جواں سال صاحبزادگان میں سے کسی کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ محاذ کشمیر پر جا کر اس جہاد میں شریک ہوسکتا یا کیا احرار کے سالا را علی یا نائب سالار اعلی یا آزاد کے ایم اے فائنل میں سے کسی کو اس جہاد“ میں اس ” اسلام اور کفر کی ٹکر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ؟ اس وقت ”جیوش احرار کہاں تھے؟ وہ سرخ پوش احراری نوجوان اور ان کا وہ فوجی بینڈ کہاں تھا؟ جس کا مظاہرہ ”یوم تشکر“ کے موقع پر لاہور کے گلی کو چوں اور سڑکوں پر کیا گیا تھا؟ وہ اور بینڈ بجانے والے ”جہاد کشمیر کے موقع پر کیا موت کی نیند سور ہے تھے؟ احمدی جماعت کے وہ نو جوان جنہوں نے اپنی تعلیم اپنے کاروبار اور اپنی کھیتی باڑی کو ترک کر کے
768 کشمیر کے محاذ پر جا کر اپنی جانیں قوم و ملک کی خدمت کے لئے پیش کیں اور کوئی تنخواہ نہیں لی.کوئی صلہ نہیں مانگا.جنہوں نے اپنی جوانمردی اور شجاعت کے باعث ایک چپہ بھر زمین پر بھی دشمن کا قبضہ نہیں ہونے دیا.ان پر تو تم اعتراض کرتے ہو، لیکن تمہارا اپنا یہ حال ہے کہ جس وقت یہ احمدی نوجوان ڈوگرہ فوج کی تو پوں اور ہوائی جہازوں کی بم باری کے سامنے سینے تان کر کھڑے تھے اور هَلْ مِنْ مُبَارِزِ کا نعرہ لگا رہے تھے اس وقت تم لوگ چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں گھسے بیٹھے تھے.دھوکہ باز کون ہے؟ احراری معترض کہتا ہے کہ احمدی نوجوان محاز کشمیر پر لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے گئے تھے.اخبار آزاد کا کانفرنس نمبر ۲۱ دسمبر ۱۹۵۰، صفحہ، کالم نمبر.لیکن یہ نادان نہیں جانتا کہ دھوکہ باز انسان اپنی جان کی بازی کھیل کر لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا کرتا.احمدی نوجوانوں نے اگر دھوکہ دینا ہوتا تو کبھی محاذ کشمیر پر نہ جاتے.قرآن مجید اس پر شاہد ہے کہ منافق کبھی حقیقی جنگ میں نہیں جاتا.وہ ہمیشہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے.پس اگر احمدی نوجوانوں نے دھوکہ دینا ہوتا تو وہ بجائے محاذ کشمیر پر جانے کے احراریوں کی طرح خاموشی کے ساتھ ملتان اور شجاع آباد میں بیٹھ کر یہ وقت گزار دیتے.پس دھوکہ باز وہ احمدی نوجوان نہیں تھے جن میں سے بعض نے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى تحية (الاحزاب:۲۴) کے مطابق اپنی جانیں محاذ کشمیر پر جان آفرین کے سپرد کر دیں اور باقی مشهد مَنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب:۲۴) کے مصداق ہوئے.دھوکہ باز وہ لوگ ہیں جو خود تو اپنے اہل وعیال میں بیٹھ کر آرام اور تنعم کی زندگی بسر کرتے رہے لیکن آج ان احمدی نوجوانوں پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں جنہوں نے ملک وقوم کی بہترین خدمات سرانجام دیں.جن کی خدمات کوحکومت پاکستان کے تمام ذمہ دار افسروں نے سراہا.آہ! ان گفتار کے غازیوں کو ”کردار“ کے غازیوں پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے ایک ذرہ بھی شرم محسوس نہیں ہوتی.اسلامی جہاد کی اقسام تعلیم اسلامی کے رو سے جہاد کی دو قسمیں ہیں:.ا.جہاد کبیر یا جہادا کبر ۲.جہاد صغیر یا جہاد اصغر قرآن مجید کے رو سے جہاد کبیر سے مراد قرآن مجید کے احکام کی تبلیغ اور ان پر عمل کرنا اور کرانا
769 ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:.وَجَاهِدَهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) قرآن مجید کے ساتھ جہاد کر یعنی قرآن مجید کی تبلیغ واشاعت کر.احادیث میں جہاد کے معنی:.اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احادیث بھی قابل توجہ ہیں:.ا.بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.اَفْضَلُ الْجِهَادِ حَجٌ مَبْرُورٌ (بخاری کتاب الجهاد و السير باب فضل الجهاد والسير) كَلِمَةُ حَقٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرِ الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ.(مشکواة و نیز نسائی کتاب البيعة باب فضل من تكلم بالحق عند امام جائر).آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگ سے واپس مدینہ تشریف لاتے ہوئے فرماتے ہیں:.رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْاَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاَكْبَرِ“ (رد المختار على الدر المختار كتاب الجهاد جلد ۳ صفحہ ۲۳۷) کہ ہم چھوٹے جہاد ( یعنی جنگ) سے فارغ ہو کر جہادا کبر ( بڑے جہاد ) یعنی اقامت دین و تبلیغ واشاعت اسلام و اصلاح عمل میں مشغول ہونے کے لئے جارہے ہیں.پس ”جہادا کبر تبلیغ واقامت دین ہے اور جہاد اصغر تلوار کی لڑائی ہے.جماعت احمد یہ کے دور اول یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مندرجہ بخاری شریف ( يَضَعُ الْحَرْبَ ) کے مطابق جماعت احمدیہ کے لئے جہاد کبیر یعنی اقامت واشاعت اسلام و اصلاح عمل مقدر تھا.سو جماعت نے یہ جہادا کبر اس شان سے کیا کہ اس وقت روئے زمین پر کسی اور جماعت میں اس کی مثال نہیں مل سکتی.اسی طرح جب دور ثانی میں ”جہاد صغیر کا حکم ملے گا تو انشاء اللہ العزیز جماعت احمد یہ اس میدان میں بھی عدیم النظیر کا رہائے نمایاں سرانجام دے گی لیکن اس کے بالمقابل احراریوں کا کیا حال ہے؟ نہ ان کے لئے ”جہاد کبیر میں حصہ لینا مقدر ہے اور نہ جہاد صغیر میں.جہاد کبیر یعنی تبلیغ و اشاعت اسلام و اصلاح عمل کے میدان میں ان کی مساعی محض صفر ہیں.پھر کس طرح امید کی جائے کہ جب ان کے لئے جہاد سیفی کا حکم آ جائے گا تو وہ جان کی قربانی کے میدان میں ثابت قدم نکلیں گے؟ افسوس ہے؟ بقول ڈاکٹر
770 سر محمد اقبال آج کا ملا فی سبیل اللہ جہاد تو کر نہیں سکتا.البتہ فی سبیل اللہ فساد کے لئے ہر وقت تیار ہے.(نعوذ بالله من شرور هذه الطائفة) دیگر علماء کی شہادتیں اس امر کے مزید ثبوت کے طور پر کہ جہادا کر تبلیغ واقامت دین و اصلاح نفس ہی کا دوسرا نام ہے چند علماء کے اقوال ذیل میں درج ہیں :.ا.تفسیر قادری موسومه به تفسیر حسینی مترجم اردو جلد نمبر ۴۲۰ زیر آیت "يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُوْنَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ (التوبة: ۱۲۳) لکھا ہے:.حق تعالیٰ مسلمانوں کو پاس ( نزدیک.خادم ) کے کافروں سے قتال کرنے کا حکم فرماتا ہے.اور کوئی دشمن نفس امارہ کفرانِ نعمت کرنے والے سے بدتر نہیں ہے اور سب دشمنوں سے زیادہ تیرے قریب وہی ہے کہ اغدای عَدُوكَ نَفْسُكَ الَّذِي بَيْنَ جَنْبَيْكَ ( بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے ) تو اس سے قتال میں مشغول ہونا کہ جہادا کبر ہے.ادنی اور انسب معلوم ہوتا ہے اور مثنوی مولانا روم علیہ الرحمۃ میں اسی کی طرف اشارہ ہے:.اے شہاں کشتیم ما خصم بروں ماند از و خصمی بتر در اندروں قَدْ رَجَعُنَا مِنْ جِهَادِ الْأَصْغَرِيم این زماں اندر جہادِ اکبریم سهل شیرے دال کہ صفها بشکند شیر آن را داں که خود را بشکند ( تفسیر قادری موسومه به حسینی جلد ا صفحه ۴۲۰ مترجم اردوز بر آیت پایها الذین امنوا قاتلوا الذين يلونكم من الكفار وليجدوا فيكم غلظة...سورة توبة : ۱۲۳) ۲.اس زمانہ میں ملحدین کے ساتھ بحث و مناظرہ کرنا ہی جہاد ہے.“ حضرت داتا گنج بخش کا ارشاد ( تفسیر حقانی طبع ششم جلده صفحه ۲۱۳).حضرت داتا گنج بخش ہجویری اپنی کتاب کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي اللَّهِ (تَرَمَدَى ابواب فضائل الجهاد باب ما جاء في فضل من مات مرابطا) یعنی مجاہد وہ شخص ہے جس نے راہ خدا
771 میں اپنے نفس سے جہاد کیا.یعنی خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کو نفسانی خواہشوں کو روکا اور یہ بھی حضرت نے فرمایا ہے کہ رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ یعنی ہم نے چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف رجوع کیا یعنی غزا میں فی سبیل اللہ قتل ہونا یہ چھوٹا جہاد سمجھا گیا اور اپنے نفسانی خواہشوں کا توڑ نا بڑا جہاد قرار پایا.قِيْلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ قَالَ أَلَا وَهِيَ مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ (الرد المختار على الدر المختار كتاب فضل الجهاد ) یعنی پو چھا گیا کہ یا رسول اللہ ! جہادا کبر کیا ہے فرمایا کہ یہ نفس پر قہر کرنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس پر قہر کرنے کو جہاد پر فضیلت فرمائی.اس لئے کہ اس میں زیادہ رنج ہوتا ہے کیونکہ وہ جہاد خواہش پر چلنا ہوتا ہے اور مجاہدہ اس کا قہر کرنا.پس تجھے خدا عزت فرمائے مجاہدہ نفس اور اس کے سیاست کا طریق واضح اور ظاہر ہے جو کہ سب دینوں اور مذاہبوں میں عمدہ ہے.سب انبیاء کا آنا اور شریعت کا ثبوت اور کتابوں کا نازل ہونا اور تکلیف کے سب احکام مجاہدہ ہے“.(کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الہی بخش ومحمد جلال الدین ۱۳۲۲ صفی ۱۹۳ ۱۹۲ طبوع، فیروز سن ۲۰۰۳ - کشف انجو ب فاری صفه ۲۱۳) ۴.یہی عقیدہ حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے.(ملاحظہ ہو تذکرۃ الاولیاء مصنفہ شیخ فرید الدین عطار باب ۲۷ مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز صفحہ ۱۶۷) ۵.مولوی ابوالکلام آزاد اپنے رسالہ ”مسئلہ خلافت و جزیرہ عرب میں لکھتے ہیں :.”جہاد کی حقیقت کی نسبت سخت غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں.بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد کے معنے صرف لڑنے کے ہیں.مخالفین اسلام بھی اسی غلط انہی میں مبتلا ہو گئے.حالانکہ ایسا سمجھنا اس عظیم الشان مقدس حکم کی عملی وسعت کو بالکل محدود کر دینا ہے.جہاد کے معنے کمال درجہ کوشش کرنے کے ہیں.قرآن وسنت کی اصطلاح میں اس کمال درجہ سعی کو جو ذاتی اغراض کی جگہ حق پرستی اور سچائی کی راہ میں کی جائے جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے.یہ سعی زبان سے بھی ہے.حال سے بھی ہے.اتفاق وقت و عمر سے بھی محنت و تکالیف برداشت کرنے سے بھی ہے اور دشمنوں کے مقابلہ میں لڑنے اور اپنا خون بہانے سے بھی ہے جس سعی کی ضرورت ہو.اور جو سعی جس کے امکان میں ہواس پر فرض ہے اور جہاد فی سبیل اللہ میں لغت و شرع دونوں اعتبار سے داخل.یہ بات نہیں ہے کہ جہاد سے مقصود مجردلڑائی ہی ہو.سورۃ فرقان میں ہے.فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - الفرقان :۵۳ یعنی کفار کے مقابلہ میں بڑے سے بڑا جہاد کرو.سورۃ فرقان بالاتفاق مکی ہے اور معلوم ہے کہ جہاد بالسیف
772 یعنی لڑائی کا حکم ہجرت مدینہ کے بعد ہوا.پس یکی زندگی میں کونسا جہا د تھا جس کا اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے، جہاد بالسیف تو ہو نہیں سکتا.یقیناً وہ حق کی استقامت اور اس کی راہ میں تمام مصیبتیں اور شد تیں جھیل لینے کا جہاد تھا.اس پر ”جہاد کبیر“ کا اطلاق ہوا.اسی طرح منافقوں کے ساتھ بھی جہاد کرنے کا حکم دیا گیا.حالانکہ منافق تو خود اسلام کے ماتحت مقہورانہ و محکومانہ زندگی بسر کر رہے تھے.ان سے جنگ وجدال کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ ان سے جنگ کی گئی.سو یہ جہاد بھی تبلیغ حق وا تمام حجت و مقادمت فساد کا جہاد تھا جو قلب و زبان سے تعلق رکھتا ہے.لڑائی کے الگ کر دینے کے بعد بھی حقیقت جہاد باقی رہتی ہے.“ مسئله خلافت و جزیره عرب صفحه ۲۳۹ تا ۲۴۲ مطبوعہ اردو پر لیس لاہور مارچ ۱۹۶۰ء) ۶.مولوی ظفر علی صاحب آف ”زمیندار“ لکھتے ہیں:.”جہاد یہی نہیں کہ انسان تلوار اٹھا کر میدانِ جنگ میں نکل کھڑا ہو بلکہ یہ بھی ہے کہ تقریر سے، تحریر سے سفر ، حضر ہر طرح سے جدو جہد کرے.ہندوستان کا اصولِ جہاد بے تشد دو جد و جہد ہے.اس پر تمام ہندوستانیوں کا اتفاق ہے.“ اسلام نے جب بھی جہاد ( جہاد بالسیف.خادم ) کی اجازت دی ہے مخصوص حالات میں دی ہے.جہاد ملک گیری کی ہوس کا ذریعہ تکمیل نہیں ہے...اس کے لیے امارت شرط ہے.اسلامی حکومت کا نظام شرط ہے.دشمنوں کی پیشقدمی اور ابتداء شرط ہے.اتنی شرطوں کے ساتھ جو مسلمان خدا کی راہ میں نکلتا ہے.اس کو کوئی شخص مطعون نہیں کر سکتا.البتہ اگر مسلمانوں نے اپنی حکومت وسلطنت کے زمانہ میں کبھی ملک گیری کے لیے توسیع مملکت کے لیے اقوام وام کو غلام بنانے کے لیے تلوار اٹھائی ہے تو اس کو ” جہاؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے“.زمیندار ۴ ارجون ۱۹۳۶ء) پھر مولوی ظفر علی صاحب لکھتے ہیں :.حضرت نوح علیہ السلام کا جوش تبلیغ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توحید پرستی حضرت عیسی علیہ السلام کا جمال، حضرت داؤد علیہ السلام کا نغمہ حکماء کی تصانیف علماء کے مجاہدے اور زاہدوں کی شب زندہ داریاں سب کی سب جہاد ہی کی مختلف صورتیں تھیں“.مختصر یہ کہ اس آیت ( وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - الفرقان:۵۳) میں جاھد سے مراد یہ ہے کہ کافروں کو وعظ ونصیحت کر اور انہیں دعوت و تبلیغ کر کے سمجھا.امام فخر الدین رازی نے اپنی مشہور تفسیر کبیر میں یونہی
773 روشنی ڈالی ہے.( زمیندار ۲۵ / جون ۱۹۳۶ء ) ے.مولانا سید سلیمان صاحب ندوی لکھتے ہیں :.”جہاد کے معنے عموماً قال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں.مگر مفہوم کی یہ نگی قطعاً غلط.اس کے معنے محنت اور کوشش کے ہیں.اس کے قریب قریب اس کے اصطلاحی معنے بھی ہیں.یعنی حق کی بلندی اور اشاعت اور حفاظت کے لئے ہر ایک قسم کی جد و جہد کرنا.قربانی اور ایثار گوارا کرنا اور ان تمام جسمانی و مالی و دماغی قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو ملی ہیں.اس کی راہ میں صرف کرنا.یہانتک کہ اس کے لئے اپنی اور اپنے عزیز واقارب کی.اہل عیال کی خاندان کی.قوم کی جان تک کو قربان کر دینا اور حق کے مخالفوں اور دشمنوں کی کوششوں کو توڑنا ان کی تدبیروں کو رائیگاں کرنا.ان کے حملوں کو روکنا.اور اس کے لئے جنگ کے میدان میں اگر ان سے لڑنا پڑے تو اس کے لئے بھی پوری طرح تیار رہنا بھی جہاد ہے.“ افسوس ہے کہ مخالفوں نے اتنے اہم اور اتنے ضروری اور اتنے وسیع مفہوم کو جس کے بغیر دنیا میں کوئی تحریک نہ کبھی سرسبز ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے صرف دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کے تنگ میدان میں محصور کر دیا ہے.یہاں ایک شبہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”جہاد“ اور قتال دونوں ہم معنی ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ان دونوں میں عام و خاص کی نسبت ہے، یعنی ہر جہاد قتال نہیں بلکہ جہاد کی مختلف قسموں میں سے ایک قتال اور دشمنوں کے ساتھ لڑنا بھی ہے.“ (سیرت النبی جلد پنجم صفحه ۴۰۵ مطبع معارف شہر اعظم گڑھ ۱۹۵۲ء) امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کبیر کا حوالہ جوا و پر دیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے.امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.وَأَمَّا قَوْلُهُ وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا فَقَالَ بَعْضُهُمُ الْمُرَادُ بَذْلُ الْجُهْدِ فِي الْآدَاءِ وَالدُّعَاءِ وَقَالَ بَعْضُهُمُ الْمُرَادُ الْقِتَالُ وَ قَالَ اخَرُونَ كَلَاهُمَا وَالْاقْرَبُ الْأَوَّلُ لَانَّ السُّورَةَ مَكَّيَّةٌ وَالامُرُ بِالْقِتَالِ وَرَدَ بَعْدَ الْهِجْرَةِ بِزَمَانِ.“ تفسیر کبیر امام رازی طبع ثانیهد دار الکتب العلمیه طهران زیر آیت ) یعنی بعض علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں جہاد سے مراد دعا اور اصلاح کی کوشش ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد جنگ ہے.اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے دونوں باتیں مراد ہیں لیکن
774 صحیح معنے پہلے ہی ہیں.کیونکہ یہ سورۃ مکی ہے اور جنگ کا حکم ہجرت کے ایک لمباز مانہ بعد نازل ہوا تھا.۹ تفسیر ابی المسعود میں آیت مندرجہ بالا کی تفسیر میں لکھا ہے:.وَجَاهِدَهُمْ بِهِ الْقُرْآنَ بِتَلاوَةٍ مَّا فِي تَضَاعِيُفِهِ مِنَ الْقَوَارِعِ وَالزَّوَاجِرِ وَالْمَوَاعِظِ وَ تَزْكِيْرِ أَحْوَالِ الْأُمَمِ الْمُكَذِّبَةِ جِهَادًا كَبِيرًا) فَإِنَّ دَعْوَةَ كُلَّ الْعَالَمِيْنَ عَلَى الْوَجْهِ الْمَذْكُورِ جِهَادٌ كَبِيرٌ.( تفسیر ابی السعود بر حاشیه تفسیر کبیر امام رازی جلد۵ صفحه ۲۲۵) یعنی ہم سے مراد قرآن ہے.تو کافروں کے ساتھ جہاد کر.یعنی قرآن مجید ان کو پڑھ کر سنا اور اس میں جو تنبیہات و عذابات ہیں ان سے اور نیز سابقہ انبیاء کی مکذب امتوں کے بد انجام کی جو خبریں ہیں ان کو سنا کر ان کو درس عبرت دے.یہی جہاد کبیر ہے.کیونکہ مندرجہ بالا طریق پر تمام دنیا کے لوگوں کو تبلیغ و دعوت کا کام کرنا واقعی بہت بڑا جہاد ہے.“ ۱۰ تفسیر جلالین میں آیت بالا کے نیچے لکھا ہے:.وَجَاهِدَهُمْ بِهِ أَى الْقُرْآنَ جِهَادًا كَبِيرًا “ ( تفسیر جلالین مع الكمالين و جامع البیان صفحه ۳۰۷ زیر آیت هو الذي مرج البحرين ناشر سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی ) یعنی کافروں سے جہاد کبیر کر.یعنی قرآن کو پیش کرنے کے ذریعہ سے.خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ”جہاد کبیر ہی مقدر تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ يَضَعُ الْحَرْبَ یعنی مسیح موعود آئے گا تو وہ جہاد بالسیف کو ملتوی کر دے گا.(بخاری) چنانچہ تفسیر قادری حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۴۳۵ میں مرقوم ہے:.حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْ زَارَهَا یہاں تک کہ رکھ دیں لڑائی والے ہتھیار اپنے...سب جگہ دین اسلام پہنچ جائے اور قتال کا حکم باقی نہ رہے اور یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت ہوگی.( تفسیر قادری المعروف حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحه ۴۳۵ سورة محمد ) لیکن جنگ کے بند ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ اب اس کے بعد کبھی تلوار کی جنگ ہو ہی نہیں سکتی.خواہ دشمن اسلام کے خلاف تلوار اٹھا ئیں.پس ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم ہرگز جہاد بالسیف کو حرام اور نا جائز نہیں سمجھتے اور نہ ہی قرآن
775 مجید کی آیات دربارہ جہاد بالسیف کو مسنوخ سمجھتے ہیں.بلکہ ہمارا اعلان ہے کہ اسلام میں جن شرائط کے ماتحت جہاد بالسیف فرض ہوگا.اگر وہ آج متحقق ہوں تو آج بھی ہم جہاد بالسیف کرنے کے لئے تیار ہیں.پس ظالم اور جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ کہ کر جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرتا ہے کہ احمدی جماعت جہاد کی منکر ہے.پھر ہمارے اس اعلان کے بعد بھی جو شخص اس کذب بیانی اور جھوٹے پروپیگینڈا سے باز نہیں آتا اسے اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنا چاہیے کیونکہ کسی شخص کا عقیدہ وہی سمجھا جاتا ہے جو وہ خود بیان کرے نہ وہ جو اس کا دشمن اس کی طرف منسوب کرے پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہم جہاد کے منکر نہیں ہیں.اور ہمارا عقیدہ ہے کہ جہاد بالسیف کا اسلامی حکم منسوخ نہیں مگر دشمن یہ کہتا ہے کہ نہیں تم جہاد کو منسوخ سمجھتے ہوں.کیا کوئی عظمند انسان ہمارے دشمنوں کی اس سینہ زوری اور محکم کو مبنی بر انصاف قرار دے سکتا ہے؟ ۴۷.کرم خاکی ہوں“ کا جواب بعض بد زبان احراری حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کے نہایت گندے اور شرمناک معنے بیان کر کے اپنی بد فطرتی اور ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہیں.سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے.جواب نمبر :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعائی نہیں ہے.بلکہ دراصل یہ شعر حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے جس کا حضرت اقدس علیہ السلام نے اردو میں ترجمہ فرمایا ہے.حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ مناجات زبور میں موجود ہے.ملاحظہ ہو.پر میں تو کیڑا ہوں.انسان نہیں.آدمیوں میں انگشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر انگریزی بائبل کے الفاظ یہ ہیں :.(زبور ۲۲/۰۶) But i am a worm, and no man, a reproach of men and despised of the people.اس کا لفظی ترجمہ حضرت اقدس علیہ السلام کا زیر نظر شعر ہے:.
776 کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار اگر یہ بد زبان احراری حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ہوتے تو یقیناً حضرت داؤد علیہ السلام کا مندرجہ بالا شعر اپنی احرار کا نفرسوں میں پڑھکر حضرت داؤد علیہ السلام پر بھی بعینہ وہی پھبتیاں کستے جو آجکل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کستے ہیں.نوٹ:.زبور کا حوالہ حجت ہے.بوجو ہات ذیل:.ا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ جب تک تو رات یا زبور کے کسی فرمودہ کے خلاف اللہ تعالیٰ کا تازہ حکم نازل نہ ہوتا.اس کو درست اور واجب العمل سمجھتے.كَانَ يُحِبُّ مُوَافَقَةً أَهْلِ الْكِتَابِ فِيْمَا لَمْ يُؤْمَرُ فِيهِ.(مسلم) كتاب الفضائل باب صفة شعره وصفاته وحليته ) بى اصل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ جلد ۲ صفحہ ۲ ۳۰ پر بھی ذکر فرمایا ہے.ب.حدیث نبوی میں ہے:.حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ“ (ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في الحديث عن بنی اسرائیل و بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ما ذكر عن بنی اسرائیل ومسندامام احمد مسند ابو ہریرہ حدیث ۱۳۰.اوجامع الصغیر للسیوطی حرف الحاءحدیث ۳۱۳۱ باب الحدود ومشكواة كتاب العلم الفصل الاوّل) تر ندی میں اس حدیث کے آگے لکھا ہے: هذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.“ نیز امام سیوطی نے بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے (حوالہ مذکورہ بالا) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے بے شک روایت لے لو.اس میں کوئی حرج نہیں.چنانچہ صحابہ مثلاً حضرت عبد اللہ بن سلام وغيرهم رضوان الله علیهم اجمعین نے تورات اور زبور سے بے شمار روایات کی ہیں اور دیگر علمائے امت نے بھی.جواب نمبر ۲:.یہ الفاظ انسانوں کو مخاطب کر کے نہیں بلکہ بطور مناجات و دعا اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے عرض کئے گئے ہیں.جیسا کہ اس سے اگلے اور پچھلے اشعار سے نیز خود اس شعر میں ”میرے پیارے“ کے الفاظ سے ظاہر ہے.اے خدا اے کارساز و عیب پوش و ر کر دگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پر وردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
777 بدگمانوں سے بچایا مجھے کو خود بن کر گواہ کردیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب وجوار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار رفضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۷) یہ سراسر پس یہ دعا ہے اور مناجات میں اللہ تعالیٰ کی مافوق التصور ہستی کے بالمقابل انتہائی تذلل و انکسار اختیار کرنا انبیاء وصلحاء کا شیوہ ہے اور اس پر اعتراض کرنا بد بختوں کا کام ہے اور دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اے خدا! میرے دشمن مجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے عار محسوس کرتے ہیں.گویا میں ان کی نظروں میں انسان بھی نہیں ہوں.چنانچہ اس نظم کا ایک اور شعر ہے.کس کے آگے ہم کہیں اس دردِ دل کا ماجرا اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا در کنار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۹) جواب نمبر ۳:.حضرت ایوب علیہ السلام اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:.الهى ! أَنَا عَبْدٌ ذَلِیلٌ." ( تفسیر کبیر امام رازی جلد ۲ صفحه ۲۰۵ طبع ثانی ناشر دار الکتب العلمیة طهران ) ”اے خدا! میں ذلیل انسان ہوں“.لیکن اگر کوئی شخص اس مناجات کی بناء پر حضرت ایوب علیہ السلام کو انہی الفاظ سے مخاطب کرے تو اس سے بڑھ کر بد بخت اور کون ہوسکتا ہے.جواب نمبر ۴:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ملاحظہ ہو:.66 قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي ضَعِيفٌ فَقَوِنِى وَ إِنِّى ذَلِيْلٌ فَاعِزُنِي وَ إِنِّي فَقِيرٌ فَارْزُقْنِي ، (مستدرک امام حاکم بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی جلد اباب القاف مصری صفحه ۸۷) یعنی کہ اے خدا! میں کمزور ہوں تو مجھے طاقت دے.میں ذلیل ہوں مجھے عزت اور غلبہ عطا فرما.میں فقیر ہوں مجھے رزق دے.( آمین ) جواب نمبر ۵ - اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَسْمَعُ كَلَامِی وَ تَرى مَكَانِی وَ تَعْلَمُ سِرِى وَ عَلَانِيِّنِي وَلَا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ اَمْرِى وَ أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ....وَابْتَهِلُ إِلَيْكَ
778 اِبْتِهَالَ الْمُذْنِبِ الدَّلِيلِ وَادْعُوكَ دَعْوَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ.الطبرانی بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی جلد اصفحہ ۵۷ مصری باب الالف ) د یعنی اے اللہ! تو میرے کلام کوسنتا اور میرے مکان کو دیکھتا ہے تو میرے مخفی اور ظاہر کا علم رکھتا ہے میرے کام میں سے کوئی چیز تجھ سے مخفی نہیں ہے اور میں مفلس اور محتاج ہوں...اور میں تیرے حضور میں ایک گنہ گار ذلیل کی طرح گڑ گڑاتا ہوں اور ایک خائف نابینا کی سی دعا کرتا ہوں.“ چونکہ یہ خدا کے بندے کی اپنے خالق کے حضور مناجات ہے اس لئے اس میں جتنا بھی تذلل وانکسار زیادہ ہوگا.دعا کر نیوالے کی علو مرتبت پر دلیل ہوگا نہ کہ محل اعتراض.جواب نمبر ۶.حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں :.میں نے حدیث شریف پڑھی ہے جس میں جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زمانہ آخر میں مخلوق کا نیک گمان اس شخص کے متعلق ہو گا جو سب سے بدتر ہو گا اور وعظ بیان کرے گا.چنانچہ میں نے اپنے آپ کو سب سے بدترین دیکھا.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سچا ہونے کی وجہ سے وعظ بیان کرتا ہوں.“ ( تذکرة الاولياء شیخ فریدالدین عطار باب ۳ در بیان حضرت جنید بغدادی مترجم اردو مطبع علمی پرنٹنگ پریس صفحه ۷۱۲.ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء جلال پرنٹنگ پر لیس لا ہور صفحہ ۳۰۲) جواب نمبرے:.حضرت داتا گنج بخش اپنی کتاب کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:.’داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ امام صاحب ( امام جعفر صادق) کے پاس آئے اور کہا.اے رسول اللہ کے بیٹے ! مجھے کوئی نصیحت فرماؤ کیونکہ میرا دل سیاہ ہو گیا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ اے ابا سلمان ! آپ اپنے زمانہ کے زاہد ہیں آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے، داؤد طائی نے فرمایا کہ اے فرزند پیغمبر خداوند تعالیٰ نے آپ کو سب خلقت پر فضیلت بخشی ہے آپ کو سب کے لئے نصیحت کرنا واجب ہے امام صاحب نے فرمایا کہ اے ابا سلمان ! میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کو میرا دا دا بزرگوار مجھے گرفت کرے کہ تو نے حق متابعت ادا نہیں کیا اور یہ کام نسب سے صحیح اور قوی نہیں ہوتا...داؤد طائی رونے لگے اور کہا کہ اے خداوند عز و جل ! جس کا خمیر نبوت کے پانی سے ہے اور اس کی طبیعت کی ترکیب دلائل روشن سے ہے اور جس کا دادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ماں بتول فاطمتہ الزہراء ہے اس کے سامنے داؤد کون ہوتا ہے.جو اپنے معاملہ پر غزہ ہو.یہ بھی انہیں سے روایت ہے کہ ایک
779 روز اپنے غلاموں میں بیٹھے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ آؤ ہم بیعت کریں یعنی عہد کریں کہ قیامت کے دن جو شخص ہم میں سے نجات پائے وہ سب کی شفاعت کرے اور وں نے کہا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ! آپ کو ہماری شفاعت کی کیا پروا ہے، کیونکہ آپ کے جد مبارک سب خلقت کے شفیع ہیں.امام صاحب (امام جعفر صادق) نے کہا کہ میں اپنے فعلوں کے ساتھ شرم رکھتا ہوں کہ داد بزرگوار کو کس طرح منہ دکھاؤنگا اور یہ سب اپنے نفس کی عیب گیری ہے.اور یہ صفت کامل صفتوں سے ہے اور سب باریاب جناب الہی کے انبیاء اور اولیاء اور رسول اسی صفت پر ہوئے ہیں“.(کشف المحجوب مترجم اردو باب چھٹا مطبوعہ مطبع عزیزی ۱۳۳۲ھ صفحہ ۹۱) جواب نمبر ۸:.خدا کے نیک بندوں سے انکسار تذلل کا اظہار صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے وقت ہی نہیں بلکہ مناسب موقع پر دوسرے انسانوں کے سامنے بھی ہوتا ہے.چنانچہ خلیفہ المسلمین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے:.إِنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ اَ اَنْتَ خَلِيْفَةُ رَسُولِ اللَّهِ ! قَالَ لَا أَنَا الْخَالِفَةُ بَعْدَهُ.(ابوداؤ د کتاب المہدی آٹھویں حدیث.نہا یہ مطبوعہ مصر صفحه ۵۶ ومنتخب کنز العمال بر حاشیه مسند احمد بن مقبل جلد ۴ صفحه ۳۶۱) یعنی ایک اعرابی نے حضرت ابو بکڑ سے پوچھا کہ کیا آپ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.تو آپ نے فرمایا نہیں بلکہ میں تو ”خالفہ ہوں اور ”خالفہ “ کے معنی مجمع البحار الانوار جلدا صفحه ۳۷۰ وتاج العروس فصل الخاء باب الفاء و لسان العرب فصل الخاء المعجمة ميں الَّذِي لَا خَيْرَ فِيهِ لکھے ہیں یعنی وہ جس میں کوئی بھلائی نہ ہو.اب احراریوں کی طرح شیعہ بھی حضرت ابوبکر کے اس منکسرا نہ فقرہ کو اڑائے پھرتے ہیں.(دیکھو لکلمۃ الحق مباحثہ جلالپور جٹاں از حافظ روشن علی صاحب صفحه ۲۰) جواب نمبر ۹.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں:..إِنَّ الْمُهَيْمِنَ لَا يُحِبُّ تَكَبُّرًا مِنْ خَلْقِهِ الْضُّعَفَاءِ دُودَ فِنَاءِ (انجام آن صفحه ۱۷) ( انجام آنقم روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۷۱) کہ خدا تعالیٰ اپنی مخلوق سے جو ضعیف اور کیڑے ہیں.تکبر پسند نہیں کرتا.اس شعر میں حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمام مخلوق کو کیڑے اور کرم خاکی
780 قرار دیا ہے اور تکبر سے اظہار نفرت فرمایا ہے.ب.پھر فرماتے ہیں.وَمَا نَحْنُ إِلَّا كَالْفَتِيْل مُذَلَّةٌ بِأَعْيُنِهِمُ بَلْ مِنْهُ أَدْنَى وَاَحْقَرُ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۶۷) ترجمہ:.کہ ہم اپنے مخالفوں کی نظر میں ایک ریشہ خرما کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل.ج:.پھر تحریر فرماتے ہیں :.اس آیت میں ان نادان موحدوں کا رڈ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن مٹی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے.یہ نادان نہیں سمجھتے وہ بطور انکسار اور تذلیل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباداللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباداللہ ہے کس قدرنا دانی اور شرارت نفس ہے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۳) ۴۸.عدالت میں معاہدہ حضرت مرزا صاحب نے مجسٹریٹ سے ڈر کر عدالت میں لکھ دیا کہ میں کوئی ایسی پیشگوئی جو کسی کی موت کے متعلق ہو بغیر فریق ثانی کی اجازت کے شائع نہ کروں گا.جواب نمبر.حضرت اقدس علیہ السلام کا طریق ابتداء ہی سے یہ تھا کہ حضور کسی کی موت کی پیشگوئی بغیر اس فریق کی اپنی خواہش اور اجازت کے شائع نہ فرمایا کرتے تھے.یہ معاہدہ بعدالت ایم ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور میں ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو ہوا ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۱۳۴) جس کا تم حوالہ دیتے ہو مگر ۱۸۸۶ء میں یعنی اس معاہدہ سے ۱۳ سال قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے لیکھرام پیشاوری واندر من مراد آبادی کے متعلق جب اپنی مشہور انذاری پیشگوئی شائع فرمانے کا ارادہ فرمایا.تو ان سے کہا کہ اگر تم چا ہو تو میں تمہارے قضا و قدر کے متعلق جو علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کو شائع کر دوں.
781 اس پر اندر من مراد آبادی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا.اس لئے حضور علیہ السلام نے اس کی موت کی پیشگوئی شائع نہ فرمائی.ہاں لیکھرام نے اجازت دی.سو اس کی موت کی چھ سالہ پیشگوئی حضور نے شائع فرما دی.پھر جو اس کا انجام ہوا وہ سب کو معلوم ہے.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام اپنے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں یعنی معاہدہ عدالت سے ۱۳ سال پہلے تحریر فرماتے ہیں:.اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقتِ ظہور سے خبر نہ دی جائے.“ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و تبلیغ رسالت جلد ا صفحه ۵۸) پھر حضور عدالت ڈوئی والے معاہدہ کا ذکر کر کے فرماتے ہیں :.یہ ایسے دستخط نہیں ہیں جن سے ہمارے کاروبار میں کچھ بھی حرج ہو بلکہ مدت ہوئی کہ میں کتاب انجام آتھم کے صفحہ اخیر میں بتفریح اشتہار دے چکا ہوں کہ ہم آئندہ ان لوگوں کو مخاطب نہیں کریں گے جب تک خود ان کی طرف سے تحریک نہ ہو بلکہ اس بارے میں ایک الہام بھی شائع کر چکا ہوں جو میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے.مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے محض شرارت سے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ اب الہام کے شائع کرنے کی ممانعت ہو گئی اور ہنسی سے کہا کہ اب الہام کے دروازے بند ہوگئے.مگر ذرہ حیا کو کام میں لا کر سوچیں کہ اگر الہام کے دروازے بند ہو گئے تھے تو میری بعد کی تالیفات میں کیوں الہام شائع ہوئے.اسی کتاب کو دیکھیں کہ کیا اس میں الہام کم ہیں؟“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴ ۳۱ حاشیه ) پھر اس معاہدہ سے چھ سال قبل حضور نے تحریر فرمایا:.اس عاجز نے اشتہار ۲۰ رفروری ۱۸۸۶ء میں اند من مراد آبادی اور لیکھر ام پشا وری کو اس بات کی دعوت دی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں سو اس اشتہار کے بعد ”اندرمن“ نے تو اعراض کیا.اور کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو.میری
782 طرف سے اجازت ہے.“ (اشتہار۲۰ فروری ۱۸۹۳ء نیز تذکره صفحه ۳۲۱ طبع سوم، تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحریم ) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اشتہار ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ء یعنی عدالت میں معاہدہ زیر اعتراض کرنے.(۲۴ فروری ۱۸۹۹ء) سے ایک ماہ قبل تحریر فرماتے ہیں :.کہ میرا ابتدا ہی سے یہ طریق ہے کہ میں نے کبھی کوئی انداری پیشگوئی بغیر رضا مندی مصداق پیشگوئی کے شائع نہیں کی.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۲۸۷) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق ابتداء ہی سے یہ تھا کہ ابتداء اپنی طرف سے نہ کرتے تھے بلکہ فریق مخالف کی رضا مندی حاصل کر کے اس کو شائع فرماتے تھے.اس وقت عدالت کا معاہدہ تو کوئی نہ تھا.پس جب سالہا سال بعد عدالت میں یہی طریق فیصلہ قرار پایا تو حضور نے اس کو اپنے سابقہ طرز عمل کے مطابق پاکر اس کا اقرار کر لیا جس میں خوف کا کوئی دخل نہ تھا.اگر مجسٹریٹ کسی شخص سے یہ کہے کہ تم سچ بولنے یا نماز پڑھنے کا اقرار کرو.اس پر ایک ایسے شخص کا اقرار جو پہلے ہی سچ بولتا اور نماز پڑھتا ہو.بزدلی یا ڈر نے پر محمول نہ ہوگا بعینہ اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کا اقرار آپ کے سابقہ طرز عمل کے عین مطابق ہونے کے باعث محل اعتراض نہیں ہوسکتا.جواب نمبر ۲.لیکن تم ذرا مندرجہ ذیل امور کے متعلق بھی اپنے رائے کا اظہار کرو.بخاری میں ہے:.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجِدَارِ آمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟ قَالَ نَعَمُ.....قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفَعًا؟ قَالَ فَعَلَ ذَالِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُ وُا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَآءُ وُا وَلَوْ لَا اَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدُهُمْ بِجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ اَنْ اُدْخِلَ الْجَدُرَ فِى الْبَيْتِ وَاَنْ الْصِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ.(بخاری كتاب الحج باب فضل مكة و بنيانها والبقرة : ١٢٦ تا ١٢٩) ترجمہ:.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کعبہ کی دیوار کے متعلق دریافت کیا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں داخل ہے تو آپ نے فرمایا.”ہاں“.پھر میں نے عرض کی کہ دروازہ کی کیا کیفیت ہے یہ اس قدر اونچا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا.یہ تمہاری قوم نے اس لئے کیا کہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں.اگر تمہاری قوم کا
783 زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ وہ اس کو برا منائیں گے.تو میں ضرور دیوار کو کعبہ میں داخل کر دیتا.اور اس کے دروازے کو زمین سے ملا دیتا“.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تیری قوم جاہلیت کے قریب نہ ہوتی تو کعبہ کو گرا کر اس کے دو دروازے بناتا.ایک شرقی دروازہ اور ایک غربی دروازہ.“ کی گئی ہے.تجرید بخاری مترجم اردو کتاب الحج باب وجوب الحج و فضله نیز دیکھو جامع ترمذی كتاب الحج باب وما جاء في كسر الكعبة) اس میں عوام کے خوف سے دیوار کعبہ کے متعلق نہایت مفید خواہش کی تکمیل سے کنارہ کشی جواب نمبر۳ صلح حدیبیہ کا واقعہ سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ بسم الله الرحمن الرحیم اور رسول اللہ کٹوا دیا اور اس شرط پر صلح کی کہ اگر کوئی غیر مسلموں میں سے مسلمان ہو کر ہمارے پاس آئے گا تو ہم اس کو واپس کر دیں گے، لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر کافروں کے پاس چلا جائے تو وہ اسے واپس نہ کریں نیز یہ کہ طواف کعبہ بھی اس سال نہ ہو گا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاہدہ کے بعد واپس چلے گئے.یہ واقعہ بخاری ومسلم میں موجود ہے.اور مشكواة باب الصلح الفصل الاول - تجرید بخاری مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۱۶ میں بھی ہے لیکن اس جگہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مندرجہ ذیل الفاظ درج کئے جاتے ہیں جو لکھا ہے کہ آپ نے صلح نامہ کی تحریر کے وقت کہے لکھا ہے:.وَثَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَى أَبَا بَكْرٍ.فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَيْسَ بِرَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَ بَلَى قَالَ أَوَ لَسُنَا بِالْمُسْلِمِينَ؟ قَالَ بَلَى قَالَ اَوَ لَيْسُوا بِالْمُشْرِكِيْنَ؟ قَالَ بَلَى قَالَ فَعَلَّامَ نُعْطِيَ الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا ؟ قَالَ أَبُو بَكْرِ يَا عُمُرُ الْزِمُ غَرُزَهُ فَاِنّى اَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ.قَالَ عُمَرُ وَ أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُوْلُ اللَّهِ ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَسْتَ بِرَسُول اللَّهِ؟ قَالَ بَلَى قَالَ اَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِيْنَ؟ قَالَ بَلَى قَالَ أَوْ لَيْسُوا بِالْمُشْرِكِيْنَ؟ قَالَ بَلَى قَالَ فَعَلَّامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا.“ (سیرۃ ابن ہشام عربی جلد ۳ صفحه ۱۱۸۲امر احد نه مطبوعہ دار الكتب العلمیة بیروت لبنان)
784 ترجمہ:.حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ بڑی تیزی سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا.اے ابوبکر! کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول نہیں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ہیں.پھر حضرت عمرؓ نے کہا.کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا.ہیں! پھر حضرت عمرؓ نے کہا، کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا.ہاں ! پھر حضرت عمرؓ نے کہا.پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ ایسی شرائط پر صلح کریں جس میں ہمارے دین کی ہتک ہو.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا اے عمر ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب پکڑے رہ.کیونکہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.حضرت عمر نے کہا میں بھی شہادت دیتا ہوں کہ حضور اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد حضرت عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا.اے رسول اللہ! کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں ہوں.پھر حضرت عمر نے کہا.کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہیں.پھر حضرت عمرؓ نے کہا.کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ حضور نے فرمایا ! ہاں ہیں! تو اس پر حضرت عمرؓ نے کہا پھر ہم کیوں دب کر صلح کریں جس سے ہمارے دین کی ہتک ہو.اب دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا جلیل القدر انسان بھی دب کر صلح کرنا اپنی ہتک قرار دیتا ہے.لیکن کیا فی الحقیقت یہ ایسا ہی تھا.نہیں ہرگز نہیں.بعینہ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقرار بھی تم کو بزدلی نظر آتا ہے.مگر اہل بصیرت اس کو بھی حضرت اقدس کی فتح سمجھتے ہیں کیونکہ اس معاہدہ کے رو سے مولوی محمد حسین بٹالوی اوّل المکفرین نے اپنا فتویٰ کفر واپس لے لیا تھا.(تفصیل کے لئے دیکھو تریاق صفحہ ۳۰ اطبع اول) جواب نمبر ۴.اوپر بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ معاہدہ میں تحریر فر مایا.وہ ہرگز عدالت کے ڈر یا خوف کے باعث نہیں تھا لیکن قرآن مجید میں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے الوالعزم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دربار فرعون میں خوف زدہ ہو گئے.فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيْفَةً مُوسَى (طه: ۶۸) کہ موسیٰ علیہ السلام ساحروں کی رسیاں اور سوئیاں سانپ کی طرح دوڑتی دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے.اسی طرح دربار فرعون میں جانے سے پہلے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف کھاتے اور ڈرتے تھے قرآن مجید میں ہے:.قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافَ أنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أو أن يظلی “ (طه: ۴۶) کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے کہا.اے ہمارے رب ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں فرعون ہم پر
785 زیادتی نہ کرے یا ہمارے مقابلہ میں نہ اٹھ کھڑا ہو.قَالَ رَبِّ إِنِّى قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ (القصص:۳۴) کہ اے میرے رب ! میں نے فرعونیوں کا ایک آدمی قتل کیا ہوا ہے.اس لئے مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں مجھ کوقتل نہ کر دیں.پس میری بجائے میرے بھائی ہارون کو دربار فرعون میں بھجوائیے.حضرت امام رازی تحریر فرماتے ہیں:.أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ كَيْفَ كَانَ يَخَافُ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَسْكَرِهِ (تغير كبير زير آيت إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر سورۃ کوثر :۲) یعنی موسیٰ کی طرف دیکھ کہ وہ فرعون اور اس کے لشکر سے کس قدر خوفزدہ تھے.امام رازی پھر تحریر فرماتے ہیں :.انَّ ذلِكَ الْخَوْفَ كَانَ مِنْ لَوَازِمِ الْبَشْرِيَّةِ كَمَا أَنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَخَافُ فِرْعَوْنَ مَعَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى كَانَ يَأْمُرُهُ بِالذَّهَابِ إِلَيْهِ مِرَارًا ( تفسیر کبیر زیر آیت قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُونَكَ يَمُوسی سورۃ طہ:۳۷) یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا خوف لوازم بشریت میں سے تھا جس طرح موسی علیہ السلام فرعون سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بار فرعون کے پاس جانے کا حکم بھی دیا تھا.جواب نمبر ۵:.پھر کیا ۲۰ فروری ۱۸۹۹ء کے اس معاہدہ کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے کوئی انداری پیشگوئی شائع نہیں فرمائی ؟ اس کے بعد غلام دستگیر قصوری بھی الدین لکھو کے، چراغ الدین جمونی، سعد اللہ لدھیانوی، ڈوئی امریکن ، الہی بخش اکا ؤنٹنٹ وغیرہ ہلاک ہوئے اور ظاہر ہے کہ ان میں سے بعض کی ہلاکت بددعا اور بعض کی حضرت اقدس کی پیشگوئی کے نتیجہ میں ہوئی.پس معاہدہ عدالت الہام الہی میں روک نہیں ہوا.بلکہ وہ ایسے طریق پر تھا کہ جس پر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام ابتدائے دعوئی ہی سے عمل پیرا تھے.۴۹.جغرافیہ دانی پر اعتراض مرزا صاحب نے لکھا ہے:.قادیان لاہور سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے“.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه آخر )
786 جواب:.دراصل فقرہ بالا میں لفظ ” سے کاتب کی غلطی سے بجائے ” قادیان“ اور ”لاہور کے درمیان لکھا جانے کے ”لاہور کے بعد لکھا گیا ہے جس سے مضمون بگڑ گیا ہے اصل فقرہ یوں تھا.قادیان سے لاہور گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے.“ اور یہی درست ہے.اس بات کا ثبوت کہ یہ غلطی مصنف کی نہیں بلکہ کا تب کی ہے یہ ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ”ستارہ قیصریہ کے پہلے صفحہ پر تحریر فرماتے ہیں.قادیان......جو لاہور سے تخمیناً بفاصلہ ستر ۷۰ میل مشرق اور شمال کے گوشہ میں واقع اور گورداسپورہ کے ضلع میں ہے.“ (ستاره قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۱) ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو قادیان کی سمت لاہور سے معلوم تھی.ہاں اگر کا تب کو معلوم نہ ہو تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں.۵۰ - معراج مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ معراج جسمانی نہ تھا بلکہ روحانی تھا.الجواب:.(۱) بخاری میں معراج کی حدیث کے آخر میں ہے:.وَاسْتَيْقَظَ وَ هُوَ فِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.(بخارى كتاب التوحيد باب قوله وكلم الله موسى تكلیتا) کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور آپ مسجد حرام میں تھے.کیا آسمان سے اترنے والا آدمی بیدار ہوا کرتا ہے یا سویا ہوا؟ (۲) حضرت معاویہؓ - حضرت عائشہ حضرت خدیجہ - حضرت حسن بصری.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.حضرت امام ابن قیم.یہ سب معراج روحانی کے قائل تھے.چنانچہ تفسیر کشاف زیر تفسیر سورۃ الاسراء مصنفہ ابوالقاسم الزمخشری متوفی ۱۱۴۴ھ میں ہے.وَاخْتُلِفَ فِي إِنَّهُ كَانَ فِي الْيَقْظَةِ أَمُ فِى الْمَنَامِ فَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ وَاللَّهِ مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ وَ عَنِ الْحَسَنِ كَانَ فِي الْمَنَامِ رُؤْيَا رَاهَا.“ (تفسیر کشاف تفسیر سورۃ بنی اسرئیل آیت:۱)
787 کہ اس بات میں اختلاف ہے کہ معراج بیداری کی حالت میں ہوا یا سوتے ہوئے.پس حضرت عائشہ کا قول ہے کہ آپ نے فرمایا.خدا کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم یہاں سے گم نہیں ہوا.بلکہ آپ کی روح اٹھائی گئی تھی اور حضرت معاویہ نے بھی فرمایا کہ آپ کی روح اٹھائی گئی اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ معراج نیند کی حالت میں ایک خواب تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا.حضرت عائشہ کا قول وغیرہ.(زادالمعاد مصنفہ حافظ ابن قیم جزء ثالث صفحه ۳۰،۳۱ دار الکتب العلمیة بیروت و تفسیر کبیر سورۃ بنی اسرائیل زیر آیت: ۱.سیرت ابن ہشام جلد اصفحه ۳۰۰،۲۹۹ مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت لبنان.ابن جریر بنی اسرائیل زیر آیت: ۱.حجتہ اللہ البالغہ مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ باب الاسراء وتذكرة الملوک جلدہ صفحہ اوا قارہ جلد ۲ صفحہ ۲۴۲ میں درج ہے ) نوٹ:.یا د رکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی شہادت خواہ عینی نہ بھی ہو پھر بھی قابل قبول ہے کیونکہ انہوں نے حلف اٹھا کر بیان کی ہے نیز اس کے متعلق لکھا ہے:.فَإِذَا لَمْ تُشَاهِدُ ذَالِكَ عَائِشَةُ دَلَّ عَلَى أَنَّهَا حَدَّثَتْ عَنْ غَيْرِهَا مِنَ الصَّحَابَةِ فَحَدِيْتُهَا مِنْ مُرْسَلَاتِ الصَّحَابَةِ فَهُوَ صَحِيحٌ أَيْضًا (شہاب علی الشفا جلد ۲ صفحہ ۲۰۵) کہ جبکہ حضرت عائشہ نے یہ واقعہ خود نہیں دیکھا.تو اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ نے روایت اپنے علاوہ کسی صحابی سے لی ہے پس اندریں صورت یہ حدیث مرسلات صحابہ سے ہوگی جو وہ بھی صحیح ہے.پس حضرت عائشہ کی شہادت سب سے زیادہ وزن دار ہے اور ان کا حلف اٹھانا بتاتا ہے کہ غالباً انہوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات معلوم کی ہوگی.ورنہ پورے وثوق کے بغیر قسم نہیں اٹھائی جاسکتی.پس جبکہ معراج کے جسمانی یا روحانی ہونے کا مسئلہ ابتداء ہی سے اختلافی ہے.پھر کیا اعتراض؟ ۵۱.حج بند مرزا صاحب نے حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے کہ خدا نے میرے وقت میں حج بند کر دیا ہے.اب کوئی حج کی ضرورت نہیں ہے.جواب نمبر :.یہ جھوٹ ہے حقیقۃ الوحی کیا کسی کتاب سے دکھا دو تو انعام لو.۲.حضرت نے تو حقیقۃ الوحی میں یہ لکھا ہے کہ بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں حج کسی مدت تک روک دیا جائے گا.چنانچہ میرے زمانہ میں ایک دفعہ سخت بیماری پڑنے کی وجہ سے ایک سال ۱۸۹۹-۱۹۰۰ ء کے لئے روک دیا گیا.بس حضرت اقدس نے قطعا یہ نہیں فرمایا کہ خدا نے
788 اب حج کے فریضہ کو منسوخ کر دیا ہے.(نعوذ باللہ ) (دیکھو حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۶).جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه هم اطبع اول ) ۴.حدیث جس کی طرف حضرت اقدس نے اشارہ فرمایا ہے.منتخب کنز العمال جلد 4 صفحہ ۱۳ وسلسلة الاحاديث الصحيحة حدیث ۲۴۳۰ پر ہے:.لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُحَجَّ الْبَيْتَ رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى وَالْحَاكِمُ.۵- اِقْتِرَابُ السَّاعَة صفحه ۲۸ ، ۲۹ طبع اوّل مطبوعہ مفید عام پر لیس پر مندرجہ بالا حدیث کا علامات قیامت میں بدیں الفاظ ذکر ہے.اٹھائیسویں علامت بند ہو جانا راہ حج کا اور اٹھا لے جانا حجر اسود کا کعبہ معظمہ سے ہے حدیث ابی سعید میں مرفوعاً آیا ہے.قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ گھر کا حج نہ ہوگا.رواہ الحاکم و صحيحه و البزار و ابو یعلی و ابن حبان...یہ دونوں کام ہو چکے.حج بھی بند ہوا.رکن کو بھی قرامطہ لے گئے.۳۲۰ ھ سے لے کر ۳۲۷ھ تک بسبب فتنہ قرامطہ بغداد سے حج بند ہو گیا گویا حج بند ہونے سے مراد عارضی طور پر رکنا ہے.۵۲.تقدیر اور ملائکہ کوئی نہیں (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ ٹائٹل پہنچ ) جواب:.جھوٹ ہے.ازالہ اوہام کے ٹائٹل پہنچ چھوڑ حضرت اقدس کی کسی کتاب میں بھی تقدیر اور ملائکہ کا انکار نہیں بلکہ حضرت اقدس نے تو بار بار خدا تعالیٰ کی تقدیر اور ملائکہ کا اقرار کیا ہے.قبضہ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۸) پھر فرمایا.تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں رازدار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۸)
789 اے مری جاں کی پنہ فوج ملائک کو اُتار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۹) ۲.ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.(ایام اصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۳) ۵۳.قرآن میں گالیاں بھری ہیں.جواب:.سفید جھوٹ ہے.حضرت نے تو لکھا ہے کہ اگر ہر وہ بات جو قدرے سخت ہو خواہ وہ امر واقعہ ہو.گالی ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ قرآن میں گالیاں ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۰) کیونکہ قرآن مجید تو کافروں کے سب پر دے کھول کر رکھ دیتا ہے.اسے گالی قرار دینا خود حماقت ہے کیونکہ اظہار واقعہ اور چیز ہے اور گالی اور.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو شرطی طور پر لکھا ہے نہ کہ مطلق.۵۴.خدا کی طاقتیں تیندوے کے جال کی طرح کیس كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: (۱۲) ( توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه۹۰) جواب:.خدا تعالیٰ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ کا مصداق تو ضرور ہے مگر اس کی بعض صفات کو بیان کرنے کے لئے اگر دنیوی مثال نہ دی جائے تو کہاں سے دی جائے.خود قرآن مجید نے مثل نُورِهِ كَمِشکوة (النور : ۳۶) فرمایا ہے.یعنی خدا کے نور کی مثال ایک قندیل کی طرح ہے جس طرح نور خداوندی کی مثال مشکوۃ سے دی جاسکتی ہے.بعینہ اسی طرح خدا کی صفات کا ایک ہی وقت میں مختلف ا وقت اور مختلف مقامات میں اثر پذیر ہونا بھی تیندوے کے جال والی مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے.۵۵.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیده درباره ولادت مسیح علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ یہی تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور خدا کے فضل سے یہی جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے.اہل پیغام کے عقیدہ کے ہم ذمہ دار نہیں اور نہ وہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی پرواہ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے چند حوالجات لکھے جاتے ہیں.(1) هُوَ خَلْقُ عِيسَى مِنْ غَيْرِ أَبِ بِالْقُدْرَةِ الْمُجَرَّدَةِ.(مواہب الرحمن روحانی خزائن
790 جلد ۱۹ صفحه ۲۹۱) اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی خدا تعالیٰ کی قدرت مجردہ سے بے باپ پیدا ہوئے.(۲) كَذَالِكَ تَوَلَّدُ عِيسَى مِنْ دُون الأب (مواہب الرحمن روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۹۵) اسی طرح سے حضرت عیسی علیہ السلام کا بے باپ پیدا ہونا ہے.(۳) اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام یوسف نجار کے نطفہ سے پیدا ہوئے وہ جہالت کی وجہ سے حقیقت کو نہیں جانتے.“ (ترجمہ عربی موہب الرحمن روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۹۵) (۴) کشتی نوح صفحه ۴۵ طبع اول.مریم صدیقہ نے پارسائی کی.(۵) من عجب تر از مسیح بے پدر ( در مشین فارسی صفحه ۱۱۴) کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۸ ) (۶) تحفہ گولڑویہ صفحه ۲۳،صفه ۶۳ ، صفحہ ۶۸ حاشیہ صفحہ اے، حاشیہ صفحہ ۲۰ طبع اول.۵۶.نبی کی ہر دعا قبول نہیں ہوتی مرزا صاحب نے مبارک احمد اور مولوی عبد الکریم صاحب کی صحت کیلئے دعائیں کیں.مگر قبول نہ ہوئیں اور وہ فوت ہو گئے.الجواب:.ضروری نہیں کہ نبی کی ہر دعا قبول ہو.ا.صحیح ترمذی میں ہے.آنحضرت صلعم نے فرمایا: - إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ فِيهَا ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِى وَاحِدَةً (ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في سؤال النبي ثلاثا.....) که میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں.جن میں سے خدا نے دومنظور کر لیں اور ایک نا منظور کر دی.وہ نا منظور دعا یہ ھی.سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضُهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَمَنَعَنِيُّهَا (ايضأنيز مشکواة كتاب احوال القيامة و بدء الخلق باب فضائل سید المرسلین ) کہ میں نے دعا کی کہ میری امت کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے نہ لڑے مگر خدا نے منظور نہ کی.اسْتَأْذَنُتُ رَبِّي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَا مِّى فَلَمْ يَأْذَنُ لِي.“ (مسلم کتاب الجنائز باب استئذان النبي صلى الله علیه وسلم ربۂ ) کہ میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے اپنی والدہ کے لئے استغفار کرنے کی اجازت دی جائے مگر خدا تعالیٰ نے مجھے اجازت نہ دی.نیز دیکھو تفسیر قادری موسومه به تفسیر حسینی مترجم اردو جلد از یر آیت مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يُسْتَغْفِرُوا.....صفحه ۴۱۵ مطبع مجیدی کانپور۱۹۳۰ء)
791.حضرت ابو حامد محمد امام غزالی اپنی کتاب الاقْتِصَادُ فِي الْإِعْتِقَادِ باب دوم القدرت“ میں فرماتے ہیں:.کئی دفعہ یہ بات ہوئی ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے خدا سے دعائیں مانگیں اور ان کو اپنی - دعائیں قبول ہونے کا بھی یقین تھا مگر خدا تعالیٰ نے کسی مصلحت کی وجہ سے ان کو قبول نہ کیا.“ (اردوترجمہ علم الکلام صفحہ اے پہلا ایڈیشن ) ۴.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعاؤں کی قبولیت کی تفصیل حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۳۴۰۲۰ و آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد۲ صفحہ ۳۲۷ و ۳۲۸ پر بیان فرمائی ہے.۵۷.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دعوی فضیلت کا الزام.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار مجزات ظہور میں آئے.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلدی اصفحه ۴۰) ب.اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشانات ظاہر کئے جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں.“ ( تمه حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ صفحه ۵۰۳) الجواب :.(۱) تذکرۃ الشہادتین صفحه ۱۲ باستثناء قرآن کریم (۲) نزول اسیح صفحه ۸۴ ایک جلسہ کرو اور ہمارے معجزات اور پیشگوئیاں سنو اور ہمارے گواہوں کی شہادت رویت جو حلفی شہادت ہوگی قلمبند کرتے جاؤ اور پھر اگر آپ لوگوں کے لئے ممکن ہو تو باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں کسی نبی یا ولی کے معجزات کو ان کے مقابل پیش کرو.“ ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۶۲ ) (۳) ایک معجزہ کی نشانوں پر مشتمل ہوسکتا ہے.مگر ایک نشان کئی معجزوں پرمشتمل نہیں ہوتا.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.اُس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھائے ہوں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس نے اِس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ہے کہ باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی تمام انبیاء علیہم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے.“ (تمہ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۲۸-۴۲۹ )
پھر فرماتے ہیں:.792 د کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے...ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں.“ تخمه حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۲۸-۴۲۹) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے معجزات سے کئی لاکھ زیادہ ہیں اب اگر یہ سوال ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزات کیوں لکھتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تین ہزار معجزات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کل معجزات نہیں بلکہ یہ صرف وہ منجزات ہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سامنے ظاہر ہوئے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں.وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف وہ منجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیشگوئیاں تو دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی.جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں.ماسوائے اس کے بعض معجزات اور پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ ہمارے لئے بھی اس زمانہ میں محسوس و مشہود کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.“ ثابت ہیں.پس ثابت ہوا کہ تصدیق النبی صفحه ۲۰ مرتبه فخر الدین ملتانی از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ا.تین ہزار معجزات سے مراد صرف اس قدر معجزات ہیں جو صحابہ کی شہادتوں سے ب.پیشگوئیاں ان معجزات میں شامل نہیں.ج.وہ پیشگوئیاں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پوری ہوئیں.وہ علاوہ ان تین ہزار معجزات کے دس ہزار سے زیادہ تھیں.و.آپ کی پیشگوئیاں اور معجزات قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے لہذا ان کو گنا ہی نہیں جاسکتا.حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.
793 کرامات اولیاء سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہیں.‘‘ (کشف المحجوب مترجم اردہ شائع کرده برکت علی اینڈ سنز علمی پر لیس صفحہ ۲۵۷) پس اندریں حالات حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے نشانات، جن میں اکثر پیشگوئیاں بھی شامل ہیں.اگر تین لاکھ کی بجائے دس لاکھ بھی ہوں پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات سے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں ٹھہرتی.(۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ی سہولت کال پہلے کی نبی یا سول کو ہرگزنہیں ہوئی مگر ہمارےنبی صلی اللہ علیہ سلماس سے باہر ہیں کیونکہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ انہیں کا ہے.“ ( نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۰ حاشیه ) ان عبارات میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اپنے نشانات و معجزات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب فرمایا ہے.تو یہ کسر نفسی کے طور پر نہیں بلکہ امر واقع ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض نشانات جو حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۳ طبع اول سے آخیر کتاب تک لکھے ہیں.اگر ان کو بغور دیکھا جائے تو وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نشانات اور معجزات ثابت ہوتے ہیں.مثلاً حقیقۃ الوحی صفحه ۱۹۳ پر پہلا نشان حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث مجددین کو قرار دیا ہے.کہ ہر صدی پر مسجد دین آنے کی پیشگوئی میری صداقت کا نشان ہے.اب یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس کا چودہویں صدی کے سر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں پورا ہونا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے وہاں اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان ہے.اسی طرح حقیقۃ الوحی صفحه ۱۹۴ پر حدیث کسوف و خسوف رمضان.صحیح دارقطنی صفحہ۱۸۸ کو حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی صداقت کا دوسرا نشان قرار دیا ہے اور در حقیقت یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے اور اس کا ۱۸۹۴ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانہ میں پورا ہونا.جہاں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے وہاں اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا نشان ہے.على هذا القیاس - حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۸ پر ایک نشان ستارہ ذوالسنین کے نکلنے کی پیشگوئی اور اس کا حضرت اقدس علیہ السلام کے وقت میں پورا ہونا.ستارہ ذوالسنین نکلنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے جو نجی الکرامہ صفحہ ۲۵۰ پر درج ہے.پس یہ بھی آنحضرت صلی اللہ
794 علیہ وسلم کا نشان ہے.غرضیکہ اسی طرح پانچواں، چھٹا، ساتواں هَلُمَّ جُرا.نشان حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی صداقت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی پیشگوئیوں کو قرار دیا ہے.فرماتے ہیں:.میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے.وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی نجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسکے ٹور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۸ - ۱۱۹) غرضیکہ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قرار دیئے ہیں.انتہائی بد دیانتی اور شرارت ہے.خصوصاً جبکہ حضرت اقدس کا دعوی ہی یہ ہے."كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ “ کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاگرد ہوں اور ہر ایک برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ الاستفتاء روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۰۵ ) وسلم ہی کے پاک وجود سے ہے.“ نیز فرمایا:.
795 وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نو رسا را نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( در مشین اردو صفحه ۸۴،۸۲) (1) جیسا کہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعو علیہ السلام کا دعویٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہونے کا ہے لیکن حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ جن کی عظیم شخصیت کا اقرار حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھی (کشف المحجوب مترجم اردو صفحه ۱۲۲ مطبوعہ دین محمدی پریس ) پر فرمایا ہے.تفصیل ملاحظہ ہو.الہامات پر اعتراضات کا جواب زیر عنوان ”حجر اسود منم“ کے جواب میں.حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کی نسبت لکھا ہے:.بایزید سے لوگوں نے کہا کہ قیامت کے دن ساری خلقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگی.تو فرمایا.قسم خدا کی میرا لواء (جھنڈا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لواء سے زیادہ ہے کہ خلائق اور پیغمبر میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے.مجھ جیسا نہ آسمان میں پائیں گے نہ زمین میں.“ اس کے آگے حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.” جب کوئی شخص ایسا ہے تو اس کو زبانِ حق حاصل ہوگی اور کہنے والا بھی حق ہو گا.اس کا بولنا حق کا بولنا ہوگا تو ضرور حق بایزید کی زبان سے کہتا ہے کہ میرا لواء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لواء سے برتر ہے.جب یہ روا ہے کہ انني انا الله “ (طه : ۱۵) ایک درخت سے ظاہر ہو.تو یہ بھی روا ہے کہ لِوَانِيُّ أَعْظَمُ مِنْ لِوَاءِ مُحَمَّدٍ اور سُبْحَانِى مَا أَعْظَمُ شَانِی بایزید سے ظاہر ہو.“ (ظہیر الاصفیاء اردوترجمہ تذکرة الاولیاء باب چودھواں صفحہ ۱۵۹ و تذکرة الاولیاء اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز صفحه ۱۳۰) (۷) اس سلسلہ میں مزید حوالجات ملاحظہ ہوں مضمون ختم نبوت کے آخر میں شرک فی الرسالة“ کا نعرہ بلند کرنے والوں سے ایک سوال.۵۸.میرے لئے دوگر ہن مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک نشان گرہن کا ظاہر ہوا تھا اور میرے لئے دوکا.لَهُ خَسَفَ الْقَمَرُ الْمُنِيرُ وَ إِنَّ لِي غَسَا الْقَمَرَانِ الْمُشْرِقَانِ أَتُنْكِرُ الجواب : مفصل طور پر پچھلے اعتراض کے جواب میں گزر چکا ہے کہ خسوف و کسوف کا نشان
796 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مندرجہ دار قطنی صفحہ ۱۸۸ کے مطابق ۱۸۹۴اسکے رمضان میں ظاہر ہوا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.اِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ کہ ہمارے مہدی کے لئے یہ دو نشان ہوں گے.پس ان دو نشانوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ظاہر ہونا سب سے پہلے تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا نشان ہے.پس یہ دونشان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے بھی دو نشان ہوئے.ایک نشان شق القمر کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ظاہر ہوا.وہ ان دو کے علاوہ ہے غرضیکہ در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے یہ تین نشان ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے اس کے بالمقابل دونشان.اب اگر کوئی کہے کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ہی نشان اور اپنے دو نشان لکھے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام اس قصیدہ میں اپنے مخالف علماء مولوی ثناء اللہ وغیرہ کو مخاطب فرما رہے ہیں.اب ظاہر ہے کہ مخالف مولوی یہ نہیں مانتے کہ حدیث مذکور کسوف و خسوف مندرجہ سنن دار قطنی صفحہ ۱۸۸ کے مطابق ۱۸۹۴ء میں چاند اور سورج کو گرہن لگا.وہ تو اس کو حدیث ہی قرار نہیں دیتے بلکہ امام محمد باقر رحمتہ اللہ علیہ کا قول قرار دیتے ہیں.گویا ان کے نزدیک یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی نہ تھی جو پوری ہوئی بلکہ یا تو کسی جھوٹے راوی کی پیشگوئی تھی یا زیادہ سے زیادہ امام محمد باقر کی.پس بخیال غیر احمد یاں آنحضرت صلعم کی تائید میں ایک ہی نشان شق القمر کا ہوا.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو الزامی طور پر کہا کہ آنحضرت صلعم کی تائید میں ایک نشان تھا اور میری تائید میں دونشان.ورنہ حضرت صاحب کے نزدیک تو جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلعم کے معجزات ہیں.“ تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۶۰) یہی حقیقت ہے.باقی رہا محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف کا صفحہ ۲۵۵ پرلکھنا کہ لَهُ خَسَفَ الْقَمَرُ الْمُنِيرُ “ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کے زمانہ میں صرف چاند گرہن ہوا تھا اور چاند کے دوٹکڑے نہ ہوئے تھے محض جہالت ہے.کیونکہ عربی زبان میں خَسَفَ کے معنی ٹوٹنے.سوراخ دار ہونے کے بھی ہیں.اور گرہن لگنے کے بھی.پس اعجاز احمدی کے شعر میں جہاں آنحضرت صلعم کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا وہاں اس کے معنی اِنْشَقَّ الْقَمَرُ ہی کے ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود کے لئے استعمال ہوا وہاں اس
797 کے معنی محض گرہن کے ہیں جیسا کہ واقعہ میں ہوا تھا.شق القمر“ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مذہب "سرمه چشم آریه نیز چشمه معرفت حصہ دوم صفحه ۲۱ طبع اول پر صاف طور پر مذکور ہے کہ آنحضرت صلعم کی انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے ہو گئے.نوٹ:.بعض غیر احمدی قاضی اکمل صاحب کا یہ شعر محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں (اخبار پیغام مل لا ہور مورخ ۴ ۱ مارچ ۱۹۱۷ء) پیش کیا کرتے ہیں.سو یا د رکھنا چاہیے کہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس شعر کی نسبت تحریر فرمایا ہے کہ الفاظ نا پسندیدہ اور بے ادبی کے ہیں.“ الفضل ۱۹ را گست ۱۹۳۴ء صفحه ۵ جلد ۲۲ نمبر (۲۲) اسی طرح ڈاکٹر شاہنواز صاحب کے ایک مضمون شائع شدہ ریویو آف ریلیجنز کا ایک فقرہ کہ حضرت مسیح موعود کا ذہنی ارتقاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھا.“ پیش کیا کرتے ہیں.حالانکہ سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے اس نتیجہ کو غلط قرار دیا ہے اور ان الفاظ کو نا مناسب اور قابل اعتراض قرار دیا ہے.الفضل نمبر ۲۲ جلد ۲۲ مورخه ۱۹ / اگست ۱۹۳۴ صفحه ۵) ۵۹-صدحسین است در گریبانم الجواب:.(1) اس شعر میں حضرت اقدس نے اپنی فضیلت یا اپنے مقام کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر فرمایا ہے جیسا کہ مصرع اول میں ہے:.کر بلائے است سیر ہر آنم (۲) گر بیان" بمعنی ”جیب نہیں ہوا کرتا بلکہ گریبان کے نیچے تو انسان کا اپنا وجود خصوصاً دل زیادہ قریب ہوتا ہے.پس شعر کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت میں کربلا کے میدان اور شہادت حسین کا خیال ذہنی اور حالی طور پر رکھتا ہوں.گویا میرے دل میں سوحسین کے لئے جگہ ہے پس یہ اظہار محبت ہے.(۳) حضرت اقدس نے اپنی اور اپنے معتقدین کی تکالیف اور کابل کے شہداء کے پیش نظر یہ فرمایا ہے.(۴) گو اس شعر میں حضرت اقدس نے حضرت امام حسین پر اپنی فضیلت کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ
798 اپنی تکالیف کو بیان فرمایا ہے.مگر تا ہم ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں اور نبی بہر حال ایک غیر نبی سے افضل ہے.بھلا تم ہی بتاؤ کہ تمہارا مسیح موعود حضرت امام حسین سے بڑا ہوگا یا چھوٹا ؟ (۵) امام محمد بن سیرین کی روایت بج الکرامہ صفحہ ۳۸۶ میں درج ہے.تَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيفَةٌ خَيْرًا مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ “ (حج الكرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۳۸۶) که اس امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل ہوگا.نیز دیکھو اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۰۱.ابن سیرین سے مروی ہے کہ مہدی بہتر ہیں ابی بکر وعمر سے کہا کیا.کیا ان سے وہ بہتر ہوں گے؟ کہا ! لگتا ہے کہ بعض انبیاء سے بھی بہتر ہوں.“ اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۰ مطبوعہ ۱۳۰۱ھ مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ) (1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو صرف اسی قدر لکھا ہے.”صد حسین است در گریبانم.تمہارے معنی ہی مان لئے جائیں تو پھر بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت سید عبد القادر جیلانی پیرانِ پیر فرماتے ہیں.لَيْسَ فِي جُبَّتِی سِوَى اللهِ (مکتوبات امام ربانی مجددالف ثانی جلد اصفحه ۳۴۴ مکتوب نمبر ۲۷۲) کہ میرے پیراہن میں اللہ کے سوا اور کچھ نہیں.ہزار امام حسین بھی اللہ کے برابر نہیں ہو سکتے.فرمائیے حضرت پیرانِ پیر پر آپ کیا فتویٰ لگاتے ہیں؟ (۷) حضرت پیرانِ پیر فرماتے ہیں: - اَلْمَهْدِى الَّذِي يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُونُ فِي الْأَحْكامِ الشَّرْعِيَّةِ تَابِعًا لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ فِي الْمَعَارِفِ وَ العُلُومِ وَ الْحَقِيقَةِ تَكُونُ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْاَوْلِيَاءِ تَابِعِينَ لَهُ كُلُّهُمْ لَانَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( شرح فصوص الحکم مطبعة الزاہر مصریه صفحه ۵۲،۵) که امام مهدی علیه السلام جو آخری زمانہ میں ہوں گے.چونکہ وہ احکام شرعی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے.اس لئے معارف اور علوم اور حقیقت میں تمام کے تمام ولی اور نبی اس کے تابع ہوں گے کیونکہ اس کا باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہوگا.(۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر سے حضرت امام حسین کی توہین ہرگز مقصود نہیں ہوسکتی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسی جیسے راستباز پر بد زبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَادَى لِی وَلِيًّا دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے.“ (اعجاز احمدی روحانی خزائن
799 جلد ۱۹ صفحه ۱۴۹) نیز مفصل دیکھو حضوڑ کا اشتہار ۱۸اکتو بر۱۹۰۵ء تبلیغ رسالت جلده اصفی ۲ ۱۰، ۱۰۵.۶۰.ہر رسولے نہاں یہ پیراهنم جواب: حضرت سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں: لَيْسَ فِي جُبَّتِى سِوَى اللَّهِ مکتوبات امام ربانی جلد اصفحه ۳۴ مکتوب نمبر ۲۷۲) کہ میرے پیراہن میں اللہ کے سوا اور کچھ نہیں.نیز رسالہ صراط مستقیم حضرت اسمعیل شہید صفحه ۱۳ ۱۴.۶۱ منم محمد واحمد که مجتبی باشد الجواب:1.حضرت پیران پیر سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:.میں اپنے جد امجد کے قدم پر ہوں نہ اٹھایا کوئی قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام سے کہ نہ رکھا میں نے قدم اپنا اس جگہ پر.روایت شیخ شہاب الدین سہروردی.کتاب بهجه الاسرار بحوالہ گلدسته کرامات تالیف ۱۲۷۷ھ مطبوعہ نولکشور صفحه ۱۱۲) ۲.پھر فرماتے ہیں: هَذَا وُجُودُ جَدِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وُجُودَ عَبْدِ الْقَادِرِ ( کتاب مناقب تاج الاولیاء مطبوعه مصر صفحه ۳۵ گلدسته کرامات صفحه ۱۰) کہ یہ عبد القادر کا وجود نہیں بلکہ محمد کا وجود ہے.أَنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (شرح فصوص الحکم مطبعة الزاہر مصریہ صفحه ۵۱ ۵۲ ) کہ مہدی کا باطن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہوگا.( یہ حضرت سید عبد القادر جیلانی کا قول ہے.پس اگر ایک غیر نبی کے اس قسم کے اقوال تمہارے نزدیک محل اعتراض نہیں تو ایک نبی کے اقوال پر تمہارا اعتراض مضحکہ خیز ہے.۴.حضرت اسمعیل شہید صراط مستقیم صفحه ۱۳ ۱۴ مترجم اردو مطبع احمدی لاہور پر فرماتے ہیں:.چوں امواج جذب و کشش رحمانی نفس کاملہ ایں طالب را در قعر یج بحار احدیت فرو میکشد - زمزمه أَنَا الْحَقُّ وَلَيْسَ فِي جُبَّتِى سِوَى اللهِ از اں سر برے زند کہ کلام ہدایت التیام كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِه الخ...و نهار دریں معاملہ تعجب نہ نمائی و با نکار پیش نہ آئی زیرا کہ چون از نار وادی مقدس نداء انّى اَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ سر برزد.اگر از نفس کاملہ کہ اشرف موجودات است و نمونه حضرت ذات است - آواز انا الحق بر آید محل تعجب نیست “
800 ۵.امام مہدی کی علامات میں ہے:.يَقُولُ يَا مَعْشَرَ الْخَلَائِقِ....أَلَا وَمَنْ أَرَادَ اَنْ يَنظُرَ إِلَى مُحَمَّدٍ....فَهَا أَنَا ذَا مُحَمَّدٌ ( بحارالانوار جلد ۵۳ باب ما يكون عند ظهوره عليه السلام از علامہ باقر مجلسی) یعنی امام مہدی کہے گا اے لوگو ! تم میں سے جو کوئی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہتا ہے وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوں.گویا منم محمد واحم کہ مجتبی باشد کہنا مہدویت کی علامت ہے نہ کہ محل اعتراض ! (مکمل حوالہ دیکھو پاکٹ بک ہذا صفحه ۸۰۳) ۶.حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے:.کسی نے پوچھا عرش کیا ہے؟ فرمایا! میں ہوں“ پو چھا کرسی کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں پوچھا لوح کیا ہے؟ فرمایا میں کہا خدائے عزوجل کے برگزیدہ بندے ہیں.ابراہیم ، موسی ، عیسی ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ”سب میں ہوں.“ (ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرة الاولیاء چودہواں باب صفحه ۵۵،۱۵۴ و تذکرۃ الاولیاء اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز با رسوم صفحه ۱۲۸.مزید تفصیل ملاحظہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دعوی فضیلت کے الزام کے جواب میں صفحہ ۷۹۱ ) ۶۲.حضرت فاطمہ کی ران پر سر رکھنا مرزا صاحب نے یہ لکھ کر کہ میں نے خواب میں حضرت فاطمہ کی ران پر سر رکھا.حضرت فاطمہ کی توہین کی ہے.جواب نمبرا.(تمہاری دھوکہ دہی اور تحریف کو طشت از بام کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی اصل عبارت نقل کی جاتی ہے: ”کشف دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمة الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس خاکسار کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.غرض میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی ہے اور ایک حصہ فاطمی.(تحفہ گولڑو بی روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۱۸) گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ حضور حضرت فاطمہ کی اولا د سے ہیں اور عبارت میں مادرانہ عطوفت“ کا لفظ بھی موجود ہے.ب.دوسری جگہ پر تحریر فرماتے ہیں:.پھر ایک کشف میں...میرا سر بیٹوں کی طرح
801 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہے.“ ( نزول اصبح روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲ حاشیه در حاشیہ) ج ما در مہربان کی طرح.(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۳ حاشیه در حاشیه ) اب دیکھو ان عبارتوں میں کس قدر صراحت کے ساتھ اپنے آپ کو حضرت فاطمۃ الزہرا کا بیٹا قرار دیا گیا ہے.جواب ۲.لیکن ذرا حضرت سید عبدالقادر جیلانی کے اس کشف کی تعبیر کر دینا:.قَالَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَانِى فِي حِجْرٍ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا وَ أَنَا أَرْضِعُ ثَدْيَهَا الْأَيْمَنَ ثُمَّ اَخْرَجْتُ ثَدْيَهَا الْأَيْسَرَ فَرَضَعْتُهُ فَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(قلائد الجواہر فی مناقب الشيخ عبد القادر صاحب جیلانی ” مطبوعہ مصرصفحہ ۵۷سطر۸) فرمایا حضرت سید عبد القادر جیلانی نے خواب میں دیکھا کہ میں حضرت عائشہ کی گود میں ہوں اور ان کے دائیں پستان کو چوس رہا ہوں.پھر میں نے بایاں پستان باہر نکالا اور اس کو چوسا.پس اس وقت آنحضرت صلحم اندر تشریف لے آئے.“ بتائیے! حضرت عائشہ کی تو ہین تو نہیں ہوئی.یادر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی اور حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا کوئی جسمانی رشتہ، (مثلاً نسل حضرت عائشہ سے ہونا وغیرہ) حضرت عائشہ سے نہ تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہونے کے باعث ان کے فرزند تھے.خادم.جواب نمبر ۳.دیو بندیوں کے معلم ولی اللہ مولوی حسین علی دیو بندی آف واں بھچراں ضلع میانوالی اپنی کتاب بُلُغَةُ الْحَيْرَان صفحہ ۸ تمہ پر لکھتے ہیں : رَأَيْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاتَفَنِي وَذَهَبَ بِي فِي مُعَانَقَتِهِ عَلَى الصِّرَاطِ أَى پُل صراط.....وَ رَأَيْتُ أَنَّهُ يَسْقُطُ فَأَمْسَكْتُهُ وَاَعْصَمْتُهُ عَنِ السُّقُوطِ ( بلغة الحير ان مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہور با راول آخری حصہ کتاب کا صفحہ ۸) یعنی میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلعم نے میرے ساتھ معانقہ فرمایا اور معانقہ ہی کی حالت میں پل صراط کی طرف چل پڑے.میں نے دیکھا کہ حضور گرنے لگے ہیں.پس میں نے آپ کو پکڑ لیا اور گرنے سے بچالیا.“ لیکن یہ پڑھ کر بھی احراری حضرات جوش میں نہیں آتے.جواب نمبر ۴.امام عظم رحمتہ اللہ علیہ حضرت امام ابوحنیفہ کا ایک رؤیا درج ذیل ہے :.
802 ایک رات میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استخوان مبارک ( ہڈیاں.خادم ) لحد میں جمع کر رہے ہیں.ان میں سے بعض کو پسند کرتے ہیں اور بعض کو نا پسند چنانچہ خواب کی ہیبت سے بیدار ہوئے (تذکرۃ الاولیاء اردو باب اٹھارہوں صفحہ ۴۶ نیز کشف الحجب مصنفہ حضرت داتا گنج بخش مترجم ارد صفحه ۱۰۶ سطر نمبر۲) حوالجات نمبر ۳ ۴ کے پیش نظر سید عطاء اللہ بخاری امیر شریعت احرار کا یہ قول بھی ملاحظہ فرماویں:.خدا کو جو جی میں آئے کہو مگر محمد کے متعلق سوچ لینا یہ معاملہ عقل وخرد کا نہیں بلکہ عشق کا ہے پھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ قانون کیا کہتا ہے پھر جو ہونا ہو گا وہ ہو جائیگا اور جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا“ ( تقریر سید عطاء اللہ بخاری بر موقعه احرار کا نفرنس لاہور مطبوعہ آزادم ارنومبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲) لیکن تعجب ہے کہ احمدیوں کے خلاف تو بنی فاطمہ میں سے آنے والے مہدی کے اس رویا پر کہ حضرت فاطمتہ الزہرا نے اس کو فی الواقع اپنا بیٹا خیال فرمایا.اشتعال انگیزی کو انتہا تک پہنچارہے ہیں لیکن مولوی حسین علی کے پل صراط والے رویا کو پڑھنے سنے پر بھی ان کی جھوٹی غیرت جوش میں نہیں آتی بلکہ ان کو رحمتہ اللہ علیہ سے ملقب کہہ کر پکارتے ہیں.یادر ہے کہ مولوی حسین علی مذکور کو دیو بندی علما ء اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں اسی طرح حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے رویا کی تاویل کرتے ہیں اور اس کو ظاہر پر محمول کر کے اشتعال انگیزی نہیں ہوتی.حالانکہ ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر اب تک بجنسہ محفوظ ہے.استخوان مبارک کے انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.بیج ہے.گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا وے قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہگاروں میں تھے (میر تقی میر) ۶۳.میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار الجواب:.اس شعر سے مراد یہ ہے کہ ان انبیاء کی کوئی نہ کوئی صفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی پائی جاتی ہے.یہ نہیں کہ آپ جامع جمیع صفات انبیاء ہیں چنانچہ خود حضرت اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:.
803 میں آدم ہوں.میں نوح ہوں.میں ابراہیم ہوں.میں اسحاقی ہوں...سوضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو.“ تتمہ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۲۱) ۲.بحارالانوار میں امام باقر فرماتے ہیں:.يَقُولُ الْمَهْدِيُّ) يَا مَعْشَرَ الْخَلَائِقِ....اَلا وَمَنْ اَرَادَ أَنْ يَّنْظُرَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ فَهَا أَنَا ذَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلُ اَلا وَمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّنْظُرَ إِلَى مُوسَى وَيُوْشَعُ فَهَا أَنَا ذَا مُوسَى وَيُوشَعُ أَلَا مَنْ اَرَادَ اَنْ يَّنْظُرَ إِلى عِيسَى وَشَمُعُونَ فَهَا أَنَا ذَا عِيسَى وَشَمُعُونَ أَلَا وَمَنْ اَرَادَ أَنْ يَّنْظُرَ إِلَى مُحَمَّدٍ وَامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَهَا أَنَا ذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ( بحارالانوار جلد ۵۳ باب ما يكون عند ظهوره عليه السلام) د یعنی امام مہدی کہے گا کہ اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم.اسمعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیم و اسمعیل ہوں اور اگر تم میں سے موسی و یوشع کو دیکھنا چاہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں اور اگر تم میں سے کوئی عیسی و شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میسی اور شمعون میں ہوں اور اگر کوئی تم میں سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المؤمنین علی کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المؤمنین میں ہوں.“ ۳.پھر فرماتے ہیں:.قَوْلُهُ فَهَا أَنَا ذَا آدَمُ يَعْنِي فِي عِلْمِهِ وَفَضْلِهِ وَاَخْلَاقِه.(بحار الانوار جلد ۱۳ صفحه ۳۰۹) امام مہدی کا یہ فرمانا کہ میں آدم ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کے تمام فضل اور اخلاق مجھ میں پائے جاتے ہیں غرضیکہ میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار کہنا امام مہدی کی علامت ہے اور حضرت اقدس میں اس علامت کا پایا جانا آپ کی صداقت کی دلیل ہے.نہ کہ جائے اعتراض.۴.امام مہدی کی تو خیر یہ علامت تھی لیکن ابو یزید بسطامی کی تو یہ علامت نہ تھی مگر فرماتے ہیں:.پوچھا کہتے ہیں ابراہیم.موسیٰ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے بندے ہیں.فرمایا ” میں ہوں جو شخص حق تعالیٰ میں محو ہو جاتا ہے وہ حق بن جاتا ہے اور جو کچھ ہے حق ہے ایسی صورت میں وہ
804 سب کچھ ہو تو کوئی تعجب کا مقام نہیں.“ ( تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فرید الدین عطار چودھواں باب صفحہ ۱۲۸) ۶۴.غار ثور کی خستہ حالت حضرت مرزا صاحب نے یہ لکھا کہ غار ثور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ لی تھی نہایت خستہ حالت میں تھی اس میں جانوروں کا میلا پڑا ہوا تھا آنحضرت کی توہین کی ہے؟ جواب: (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز تو ہین نہیں کی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ہمارے لئے غیرت کا مقام ہے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو یہ ما نہیں کہ حضور کو جب دشمنوں نے مارنا چاہا تو خدا تعالیٰ نے آپ کو مکہ سے رات کی تاریکی میں ہجرت کا حکم دیا اور پھر ایک نہایت گندے غار میں آپ کو پناہ دی مگر جب مسیح کے دشمنوں نے ان کو مارنا چاہا تو خدا ان کو آسمان پر اٹھا کرلے گیا.ملاحظہ ہو:.(ب) غار ثور کی خستہ حالت کے متعلق حضرت اقدس نے جو کچھ لکھا وہ درست ہے صدیق رضی اللہ عنہ چوں دید کہ پائے مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجروح گشت.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم را بر گردن نیشاند و گفت یا رسول اللہ ! اینجا توقف کن تا اول من در میں غار در آیم که شب است تا ریک و غار خالی از حشرات نمی باشد تا از اشک دیده منزلت را آب زنم و بجا روب مژه مسکنت را بردیم پس صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایس گفت و در غار آمد غارے دید بسا خراب شده و مدتے کسے آنجا نہ رسیدہ واز عہد بعید روئے پیچ نزیلے نہ دیده و بر مثال سجلات زلات عصاة سیاه و تاریک گشته و مانند بیت الاحزان محزومان بے سامان گشته و در غایت ضیق و ناہمواری چوں اکباد عشاق...پر از حیات وعقارب پس ابو بکر رضی اللہ عنہ جامه در برداشت پاره پاره کرده و بدست مبارک خود دران تاریکی یک یک سوراخ را تشخص کرده به پاره آن جا محکم میکرد.پس ابوبکر بر آں طریقہ تمام سورا خہا مسدود ساخت.مگر یک سوراخ که جامه او بداں وفا نہ کرد و پاشنہ پائے خود را بانجا فشرد و آنچه در خدمتگاری دست میداد پیش مے برد.بعد ازاں آنحضرت رسالت را صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استدعا نمود...آقا در غار در آمد (مدارج النبوة جلد رکن نمبر ، باب اول فصل اول در بیان مقدمات ہجرت آنحضرت صلعم صفحه ۷،۶)
805 پھر لکھتے ہیں :.’پائہائے مبارک آں سرور مجروح شد.ابو بکر صدیق او را بر دوش خود داشت و به در غار رسایند و نخست خود در غار در آمد تا آفتے و مکرو ہے با حضرت نرسد و هوام در آن غار مسکن داشتند پس باندروں رفت و به نشست او احتیاط کرد و حجره تاریک بود - هر سوراخی که یافت وصله از جامه خود که بر وقیمتی بود پاره می ساخت و سوراخ بأن مضبوط می کرد در آمد یک سوراخ ماند که جامه بال وفا نہ کر د.پاشنه پائے خود با محکم گردانید.پس گفت یا رسول اللہ ! در آی.حضرت در آمد (مدارج النبوة جلد نمبر ۲ صفحه ۸۲ مصنفہ عبدالحق صاحب محدث دہلوی) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۱۲ پر غار ثور کی جس خستہ و خراب حالت کا نقشہ کھینچا ہے وہ بالکل درست ہے باقی تمہارا یہ کہہ کر دھوکہ دینا کہ صفحہ ۱۳ اتحفہ گولڑویہ میں حضرت نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ کا ذکر فرمایا ہے.انتہائی شرارت ہے کیونکہ حضوڑ کا روضہ حجرہ عائشہ میں تھا یعنی وہ مکان تھا جس میں حضور آپنی زندگی میں خود رہتے تھے.کیا وہ غیر آباد تھا؟ ۶۵.حضرت مریم کی توہین کا الزام مرز اصاحب نے چشمہ مسیحی کے صفحہ نمبر ۲۵ تا ۲۸ طبع اول پر حضرت مریم پر نعوذ باللہ تہمت لگائی.جواب: یہ جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مریم پر زنا کا الزام لگایا ہے اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ حضرت نے اپنی طرف سے ان کے یوسف نجار کے ساتھ نکاح پر کوئی اعتراض کیا ہے.یہ اعتراض کہ حضرت مریم نے باوجود ہیکل کی خدمت کا عہد کرنے کے حمل کے سات مہینے بعد یوسف کے ساتھ نکاح کیوں کر لیا.یہ حضرت مسیح موعود کا اعتراض نہیں بلکہ انجیل کی تعلیم کی رو سے یہودیوں کا اعتراض ہے جس کو حضرت مسیح موعود نے عیسائیوں کے بالمقابل درج کیا ہے.یہ لوگ (عیسائی.خادم ) اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے اور نہیں دیکھتے کہ انجیل کس قدر اعتراضات کا نشانہ ہے.دیکھو یہ کس قدر اعتراض ہے کہ مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیا تھا تا وہ ہمیشہ بیت چشمہ مسیحی روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۵۵) المقدس کی خادمہ ہو.“ گویا یہ اعتراض انجیل پر وارد ہوتا ہے مگر قرآنی تعلیم پر یہ اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ اس اعتراض کو نقل کر کے حضرت مسیح موعود نے اس کے ساتھ ہی فرما دیا ہے.ہم قرآن شریف کی تعلیم کے
806 رُو سے یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ وہ حمل محض خدا کی قدرت سے تھا.‘ (چشمہ مسیحی روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۵۶) باقی رہا حضرت مریم کا خدا تعالیٰ کی قدرت مجردہ سے حاملہ ہو جانے کے بعد یوسف سے نکاح کر لینا.یہ کوئی ناجائز فعل نہیں ہے اور اس کے لئے تاریخی طور پر ثبوت موجود ہے.چنانچہ تاریخ کی مشہور و معروف کتاب الکامل ابن اثیر میں لکھا ہے:.قَدْ ذَكَرُنَا حَالَ مَرْيَمَ فِى خِدْمَةِ الْكَنِيسَةِ وَكَانَتْ هِيَ وَابْنُ عَمِّهَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنَ مَاثَانِ النَّجَّارُ يُلِيَانِ لِخِدْمَةِ الْكَنِيسَةِ وَكَانَ يُوسُفُ حَكِيْمًا نَجَّارًا يَعْمَلُ بِيَدِهِ وَيَتَصَدَّقُ بِذلِكَ وَقَالَتِ النَّصَارَى إِنَّ مَرْيَمَ كَانَ قَدْ تَزَوَّجَهَا يُوْسُفُ ابْنُ عَمِّهَا إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يُقَرِّبُهَا إِلَّا بَعْدَ رَفْعِ الْمَسِيحِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَكَانَتْ مَرْيَمُ إِذَا نَفِدَ مَآءُ هَا وَمَآءُ يُوْسُفَ بْنِ عَمِهَا أَخَذَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قَلْتَهُ وَانْطَلَقَ إِلَى الْمَغَارَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَاءُ يَسْتَعْذِبَانِ مِنْهُ ثُمَّ يَرْجِعَانِ إِلَى الْكَنِيسَةِ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِى لَقِيَهَا فِيهِ الْجِبُرَائِيلُ نَفِدَ مَآءُ هَا فَقَالَتْ لِيُوْسُفَ لِيَذْهَبُ مَعَهَا إِلَى الْمَاءِ فَقَالَ عِنْدِي مِنَ الْمَاءِ مَا يَكْفِيُنِي إِلَى غَدٍ فَاخَذَتْ قُلْتَهَا وَانْطَلَقَتْ وَحْدَهَا حَتَّى دَخَلَتِ الْمَغَارَةَ فَوَجَدَتْ جِبْرَائِيلَ.(تاريخ كامل ابن اثير ذكر ولادة المسيح عليه السلام) ترجمہ: حضرت مریم کے کلیسا کی خدمت کا حال ہم نے اوپر ذکر کر دیا ہے.مریم اور اس کے چچا کا بیٹا یوسف بن یعقوب بن ماثان نجار.دونوں کلیسا کی خدمت پر مقرر تھے اور یوسف حکیم اور ترکھان تھا جو اپنے ہاتھوں سے کام کر کے صدقہ دیا کرتا تھا اور عیسائی کہتے ہیں کہ مریم سے اس کے چچا کے بیٹے یوسف نے نکاح کر لیا ہوا تھا.لیکن حضرت عیسی کے رفع کے بعد تک وہ حضرت مریم کے نزدیک نہیں گیا تھا.واللہ اعلم ! اور مریم اور یوسف کے مشکیزے کا پانی جب ختم ہو جاتا تو وہ دونوں اپنا اپنا برتن لیتے اور اس غار میں جاتے جہاں پانی تھا.اور وہاں سے پانی لے کر واپس گرجا میں آجاتے تھے لیکن جس دن حضرت جبرائیل حضرت مریم سے ملے اس دن حضرت مریم کا پانی ختم ہو گیا تھا اور انہوں نے یوسف سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ پانی لینے چلے مگر اس نے جواب دیا میرے پاس ہنوز پانی ہے جو کل تک کفایت کرے گا.پس مریم نے اپنا برتن لیا اور اکیلی چل پڑی.یہاں تک کہ غار میں داخل ہوئی اور وہاں پر انہوں نے جبرائیل کو دیکھا.“
807 حصہ پنجم حضرت کی ذات پر اعتراضات ا.ابن مریم کیسے ہوئے اعتراض:.مرزا صاحب ابن مریم کس طرح ہو گئے آپ کی والدہ کا نام تو چراغ بی بی تھا.جواب:.(۱) إِطْلَاقُ اِسْمِ الشَّيْءِ عَلَى مَايُشَابِهُهُ فِي أَكْثَرِ خَوَاصِهِ جَائِزٌ حَسَنٌ.(تفسیر کبیر جلد۲ صفحه۱۸۹) کہ ایک چیز کا نام دوسری چیز کو جواکثر خواص میں اس سے ملتی ہو ) دینا جائز ہے.(۲) اسم علم بھی بطور مجاز دوسرے کے لئے بولا جاتا ہے.چنانچہ بلاغت کی کتاب تلخیص المفتاح صفحہ ۶۰،۵۹ میں لکھا ہے وَلَا تَكُونُ عَلَمَا إِلَّا إِذَا تُضَمَّنَ نُوعٌ وَصَفِيَّةٌ كَحَاتَم.“ که علم استعارہ استعمال نہیں ہوتا ہاں جب کوئی صفت پائی جائے تب اسم علم بھی استعمال ہو سکتا ہے.جیسے حاتم ہے.(تلخیص المفتاح از محمد عبد الرحمن قزوینی صفحه ۲۰۰۵۹ مطبع مجتبائی دہلی ) (۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا."مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي زُهْدِهِ فَلْيَنْظُرُ إِلى أَبِي الدَّرْدَاءِ منصب امامت صفحه ۵۳ مصنفہ سید اسمعیل شہید ) کہ تم میں سے جو شخص عیسی بن مریم کو زہد کی حالت میں دیکھنا چاہے وہ حضرت ابو درداء کو دیکھے.(۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو یوسف والیاں“ قرار دیا ہے چنانچہ بخاری شریف میں ہے إِنَّ كُنَّ لَانْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوْسُفَ.(بخارى كتاب الصلواة باب اهل العلم والفضلاء احق بالامامة) اس کا ترجمہ تجرید بخاری مترجم اردو سے نقل کیا جاتا ہے.چنانچہ حفصہ نے عرض کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ٹھہر و بیشک یقینا تم لوگ یوسف کی ہم نشین عورتیں ہو.“ ( تجرید جلد اصفحہ ۹۷) نوٹ.یا د رکھنا چاہیے کہ ”صَوَاحِبُ “ جمع ہے صَاحِبَةٌ“ کی جس کے معنی ہیں ”بیوی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے آلى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ (الانعام:۱۰۲) کہ خدا کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی بیوی کوئی نہیں ہے.پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کو صَوَاحِبُ يُوسُفَ قرار دینے کے کیا معنی ہوئے.
808 (۵) حضرت خواجہ میر در ددہلوی فرماتے ہیں:.اللہ ! اللہ ! بہر انسان بقدرت کا ملہ حق تعالیٰ عیسی وقت خویش است و ہر دم اور برائے خود معامله نفس عیسوی در پیش است (رساله در د مطبع شاہجہانی بھوپال صفحه ۲۱) (1) شیخ معین الدین اجمیری فرماتے ہیں و میدم روح القدس اندر معینی میدید من نے گوئیم مگر من عیسی ثانی شدم (دیوان خواجہ معین الدین چشتی صفحه ۱۶ بحوالہ مسل مصفی جلد صفحه ۶۲۳) (۷) ابن مریم ہونے کے متعلق تفصیلی بحث الہامات پر اعتراضات کے جواب زیر عنوان ابن مریم بننے کی حقیقت پاکٹ بک ہذا صفحه ۵۰۴ پر ملاحظہ ہو.کسر صلیب مسیح موعود نے تو آکر کسر صلیب کرنی تھی؟ جواب.(الف) علامہ بدرالدین رحمتہ اللہ علیہ شارح صحیح بخاری نے لکھا ہے.فُتِحَ لِي هُنَا مَعْنَى مِنَ الْفَيْضِ الْإِلهِي وَهُوَ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ كَسْرِ الصَّلِيْبِ إِظْهَارُ كَذِبِ النَّصَارَى“ ( عینی شرح بخاری جلده صفحه ۴ ۵۸ مصری ) کہ مجھ کو اس مقام پر فیض الہی سے الہام آ یہ بتایا گیا ہے کہ کسر صلیب سے مراد عیسائیت کو جھوٹا ثابت کرنا ہے.(ب) حضرت حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:.أَى يُبْطِلُ دِينَ النَّصْرَانِيَّةِ فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد ۶ صفحه ۳۵) یعنی کسر صلیب کا مطلب دین عیسائیت کا ابطال ہے.(ج) حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کسر صلیب کے یہی معنی کئے ہیں لکھتے ہیں:.أَى فَيُبْطِلُ النَّصْرَانِيَّة (مرقاة المفاتيح كتاب الفتن باب نزول عیسی ) یعنی مسیح موعود نصرانیت کو جھوٹا ثابت کرے گا.(و) علامہ نووی نے بھی یہی معنی کئے ہیں.(دیکھو نووی شرح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم ) (ه) " يُرِيدُ ابْطَالًا لِشَرِيعَةِ النَّصَارى ، ( مجمع بحارالانوارجلد ۲ صفحه ۲۵۷ از شیخ محمد طاہر مطبع نول کشور ) کہ کسر صلیب کا مطلب عیسائیت کا ابطال ہے.
809 (و) باقی رہا یہ کہنا کہ حضرت مراز صاحب نے اپنے زمانہ ہی میں عیسائیت کو نیست و نابود کیوں نہیں کر دیا ؟ تو سنو ! جواب:.(۱) قرآن مجید میں ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل : ۸۲ ) که حق ( قرآن ) آیا اور باطل ( کفر ) بھاگ گیا اور باطل بھاگنے ہی والا ہے.اب قرآن مجید کے آنے سے جس طرح دنیا سے باطل بھاگ گیا ہوا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعوڈ کے آنے سے عیسائیت بھی تباہ ہو چکی ہے.(۲) اصل بات وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ (الانفال : (۴۳) کہ ہلاک وہ ہوا جو دلائل سے مغلوب ہوا.(۳) حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " أَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ.(بخارى كتاب المناقب باب ما جاء فی اسماء رسول الله صلى الله عليه وسلم ،حواله مشكوة كتاب الرؤيا باب أسماء النبي اصح المطابع (کہ میں ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو دنیا سے مٹادے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث ہوئے۱۳۷۲ برس گزر گئے کیا ظاہری طور پر کفر دنیا سے مٹ گیا ؟ پھر اس جگہ اتنے بیتاب ہونے کا کیا باعث ہے.۴.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلبہ اسلام کا ہونا اپنے زمانہ میں قرار دیا ہے اور زمانہ کے متعلق حضرت فرماتے ہیں :.مسیح موعود کا زمانہ اس حد تک ہے جس حد تک اس کے دیکھنے والے یا دیکھنے والوں کے دیکھنے والے اور یا پھر دیکھنے والوں کے دیکھنے والے دنیا میں پائے جائیں گے اور اس کی تعلیم پر قائم ہوں گے.غرض قرون ثلاثہ کا ہونا بر عایت منہاج نبوت ضروری ہے.“ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۷۸ حاشیه ) ب.یا درکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزرگیا.اور دنیا دوسرے رنگ
810 میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.“ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۷) ج خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا.“ (رساله الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴) و پوری ترقی دین کی کسی نبی کی حین حیات میں نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کا یہ کام تھا کہ انہوں نے ترقی کا کسی قدرنمونہ دکھلا دیا اور پھر بعد اُن کے ترقیاں ظہور میں آئیں...سوئمیں خیال کرتا ہوں کہ میری نسبت بھی ایسا ہی ہوگا.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۵) ه مسیح موعود صرف اس جنگ روحانی کی تحریک کے لئے آیا.ضرور نہیں کہ اُس کے روبرو ہی اس کی تکمیل بھی ہو بلکہ یہ تم جو زمین میں بویا گیا آہستہ آہستہ نشو ونما پائے گا یہاں تک کہ خدا کے پاک وعدوں کے موافق ایک دن یہ ایک بڑا درخت ہو جائے گا.اور تمام سچائی کے بھوکے اور پیاسے اس کے سایہ کے نیچے آرام کریں گے.دلوں سے باطل کی محبت اُٹھ جائے گی گویا باطل مر جائے گا اور ہر ایک سینہ میں سچائی کی روح پیدا ہو گی اس روز وہ سب نوشتے پورے ہو جائیں گے جن میں لکھا ہے کہ زمین سمندر کی طرح سچائی سے بھر جائے گی.مگر یہ سب کچھ جیسا کہ سنت اللہ ہے تدریجا ہوگا.اس تدریجی ترقی کے لئے مسیح موعود کا زندہ ہونا ضروری نہیں بلکہ خدا کا زندہ ہونا کافی ہوگا.یہی خدا تعالیٰ کی قدیم سنت ہے اور الہی سنتوں میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.پس ایسا آدمی سخت جاہل ہوگا کہ جو مسیح موعود کی وفات کے وقت اعتراض کرے کہ وہ کیا کر گیا.کیونکہ اگر چہ یکدفعہ نہیں مگر انجام کار وہ تمام پیج جو مسیح موعود نے بویا تدریجی طور پر بڑھنا شروع کرے گا اور دلوں کو اپنی طرف کھینچے گا یہاں تک کہ ایک دائرہ کی طرح دنیا میں پھیل جائے گا.(ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۲۹۵)
811 جماعت احمدیہ کی خدمات کا اقرار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عظیم الشان خدمت اسلام کرنے والی جماعت اپنے پیچھے چھوڑی.یہی کسر صلیب کا مفہوم ہے.جماعت احمدیہ کو ایسے صحیح عقائد دیئے ، خصوصاً مسئلہ وفاتِ مسیح.اور پھر دلائل کا وہ بے بہا خزانہ دیا کہ عیسائی مناظرین کی جرات نہیں کہ احمدی مناظرین کے بالمقابل میدان میں کھڑے ہوسکیں.پھر لنڈن میں مسجد بنانا اور اس کے مینار سے مرکز کفر وشرک میں لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا نعرہ بلند کرنا یہ بھی جماعت احمد یہ ہی کے حصہ میں آیا.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ.ذیل میں چند اقتباسات مخالفین سلسلہ کی تحریرات سے درج کئے جاتے ہیں جن میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامی کا خصوصاً معرکہ شدھی کے متعلق خدمات کا اقرار کیا ہے.ا.مولوی ظفر علی آف زمیندار لکھتے ہیں :.مسلمانان جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار.کمر بستگی.نیک نیتی اور تو کل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے.وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی.“ ( زمیندار ۲۴ جون ۱۹۲۳ء) ۲.مولانا محمد علی صاحب جو ہر برا در مولانا شوکت علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں:.دو نا شکر گزاری ہوگی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکران سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم اور تجارت میں بھی انتہائی جد و جہد سے منہمک ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا.“ ( اخبار ہمدرد د بلی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء)
812 ۳.احمدی بھائیوں نے جس خلوص.جس ایثار.جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے.( زمیندار ۱۸ اپریل ۱۹۲۳ء) ۴.جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی.“ ( اخبار مشرق ۲۵ مارچ ۱۹۲۳ء) ۵.اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جماعت سے مرعوب نہیں ہے اور خالص اسلامی خدمات سرانجام دے رہی ہے.( اخبار مشرق گورکھ پور ۲ ستمبر ۱۹۲۷ء).گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے، لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور امریکہ یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء و دیو بند فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ بھی تبلیغ واشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں.کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بلا دقت ایک ایک مشن کا خرچ اس طرح سے دے سکتے ہیں.یہ سب کچھ ہے، لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے.فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چکا ہے.“ ( زمیندارے ادسمبر ۱۹۲۷ء) ے.جناب مولانا عبد الحلیم صاحب شر رفرماتے ہیں:.احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ واشاعت کرتا ہے.خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے.اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی کچی اور پر جوش خدمت ادا کرتے ہیں جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے.“ ( رسالہ دلگد از بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء).جماعت احمدیہ کے اخلاق پر الزام بعض لوگ شہادۃ القرآن کے حوالہ سے کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی بہت مذمت کی ہے.پس آپ کے آنے کا اثر کیا ہوا؟
813 جواب.شہادۃ القرآن حضرت اقدس کے ابتدائے دعوئی کی تصنیف ہے جب کہ ابھی سلسلہ بیعت شروع ہوئے دو تین سال کا عرصہ ہوا تھا.پس ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو غیر احمدیت کی حالت سے نکل کر اس سلسلہ میں داخل ہوئے تھے ان کی وہ پرانی بیماری یک دم تو دور نہ ہوسکتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کے عظیم الشان اثر کا اندازہ ابتدائی سالوں میں کرنا نادانی ہے.لازم ہے کہ حضرت کی وفات کے قریب احمدیوں کی اخلاقی حالت کا مقابلہ ان کی ابتدائے دعوی مسیح موعود کی اخلاقی حالت کے ساتھ کیا جائے تو اس میں زمین آسمان کا فرق نکلے گا.بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائے دعوئی میں بعض مریدین کی بداخلاقی کا ذکر فرما کر ان کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی جس طرح ایک شفیق اور محسن باپ اپنے بیٹوں کی خطا کاریوں پر ان کو سرزنش بھی کرتا ہے لیکن کیا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنی اصلاح نہیں کر لی تھی؟ اور کیا حضرت نے بعد میں اپنی جماعت کی حیرت انگیز اخلاقی و روحانی ترقی کا ذکر نہیں فرمایا ؟ " أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الكتب وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ “ (البقرة: ۸۶) لوسنو ! ا.افسوس کہ ہماری جماعت کی ایمانداری اور اخلاص پر اعتراض کرنے والے دیانت اور راستبازی سے کام نہیں لیتے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۲) ۲.پھر اپنی جماعت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:.اکثران میں صالح اور نیک بخت ہیں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ۱۷۲) ۳.”میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گنا ہوں سے تو بہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فردان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے.‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۹) ۴.”ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور ڈکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزار ہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل
814 محبت سے پر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں.جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا! در حقیقت ذرہ ذرہ پر تیرا تصرف ہے تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۴۰،۲۳۹).میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ بچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں.اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندگان میں اسقدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ، ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں.اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ و نادر میں داخل ہے.میں دیکھتا ہوں میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے.یہ بھی ایک معجزہ ہے.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں.“ الذکر احکیم نمبر.صفحہ ۱۶، صفحہ ۱۷.وسیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ ۱۴۶، ۱۴۷ مصنفہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے).میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقوی ترقی پذیر میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.نا پاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں.اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں.“ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۱۵ بقیہ حاشیہ) ے.میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتا ہے.اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے.میری طرف سے کسی امر کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار.حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے واسطے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو.“ (الحکم جلد ۸نمبر ۲۵، ۲۶.۳۱ جولائی و ۱۰ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۴)
815 وَأَشْكُرُ اللَّهَ عَلَى مَا أَعْطَانِي جَمَاعَةً أُخْرَى مِنَ الْأَصْدِقَاءِ الْأَنْقِيَاءِ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالصَّلَحَاءِ الْعُرَفَاءِ الَّذِينَ رُفِعَتِ الْأَسْتَارُ مِنْ عُيُونِهِمْ، وَمُلِئَتِ الصِّدْقُ فِي قُلُوبِهِمْ.يَنْظُرُونَ الْحَقَّ وَيَعْرِفُونَهُ، وَيَسْعَوْنَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَمْشُونَ كَالْعَمِينِ.وَقَدْ خُصُّوا بِإِفَاضَةِ تَهْتَانِ الْحَقِّ وَوَابِلَ الْعِرْفَانِ، وَرَضَعُوا شَدَى لِبَانِهِ، وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوْبِهِمُ وَجْهَ الله وَشَرَحَ اللَّهُ صُدُورَهُمْ وَفَتَحَ أَعْيُنَهُمْ وَآذَانَهُمْ، وَسَقَاهُمْ كَأْسَ الْعَارِفِينَ.“ (حمامة البشری.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۸۱) پس شہادۃ القرآن صفحہ ۹۸ تا ۱۰۴ کے زمانہ کی تحریر سے ( جو اوائل دعویٰ کا زمانہ ہے ) تمسک کر کے جماعت احمدیہ کے اخلاق اور روحانیت پر حملہ کرنا بد دیانتی ہے اور اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ تمہارے جیسا کوئی عقلمند کسی طبیب یا ڈاکٹر کے مطب یا ہسپتال میں نو آمد مریضوں کو دیکھ کر فوراً کہہ اٹھے کہ یہ طبیب یا ڈاکٹر تو بڑا نا قابل ہے.کیونکہ اس کے پاس جس قدر مریض ہیں ان میں سے ایک بھی تندرست نہیں.حالانکہ کسی معالج کی اہلیت یا عدم اہلیت کے اندازہ کیلئے اس کے نو وار دمریضوں کو نہیں دیکھا جا تا بلکہ ان لوگوں کی حالت کو دیکھا جاتا ہے جو کافی عرصہ اس کے زیر علاج رہ چکے ہوں.۴ میسیج کا جائے نزول مسیح نے تو منارہ مشقی پر نازل ہونا تھا.(مسلم کتاب الفتن باب نزول عیسی بن مریم) الجواب.مینارہ والی حدیث پر علامہ سندی نے یہ حاشیہ لکھا ہے:.وَ قَدْ وَرَدَ فِي بَعْضِ الْأَحَادِيثِ اَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ بِبَيْتِ الْمُقَدَّسِ وَ فِي رَوَايَةٍ بِالْاُرُدُنِ وَ فِي رَوَايَةٍ بِمُعَسْكَرِ الْمُسْلِمِينَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.» ( حاشیہ ابن ماجه کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ ابن مریم و مرقاة المفاتيح كتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة و ذكر الدجّال) کہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ عیسی علیہ السلام بیت المقدس میں نازل ہوں گے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اردن میں نازل ہوں گے اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں ، خدا جانے درست بات کونسی ہے.پس جہاں مسیح نازل ہوا و ہی درست اور صحیح ہے.۵.مہدی کا بنی فاطمہ میں ہونا حدیث میں ہے کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد سے ہوگا.
816 جواب:.ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بنی فاطمہ میں سے ہیں.کیونکہ آپ کی بعض دادیاں سادات میں سے تھیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.وو میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی.ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۲ حاشیه ) اگر کہونسل ماں کی طرف سے نہیں بلکہ باپ کی طرف سے چلتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قاعدہ عام خاندانوں میں ہو تو ہومگر خاندان سادت میں ابتداء ہی سے نسل لڑکی کی طرف سے چلتی ہے.کیونکہ اس خاندان کی نسل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلی تھی.۲.مخالفین کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض ہونا کہ آپ بنی فاطمہ سے نہیں ہیں بذات خود حضرت کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ لکھا ہے:.يَقُولُ لَهُ لَسْنَا نَعْرِفُكَ وَ لَسْتَ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ كَمَا قَالَ الْمُشْرِكُونَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(بحار الانوار باب الآيات المأوّلة بقيام القائم ) که امام مہدی کو اس کے مخالف کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے کہ تو کون ہے کیونکہ تو حضرت فاطمہ کی نسل سے نہیں ہے.(امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ ان کا یہ اعتراض ایسا ہی بودا اور نا قابل اعتناء ہوگا ) جیسا کہ آنحضرت صلعم پر مشرکین مکہ کی طرف سے جس قدر اعتراضات کئے گئے وہ مکہ نا قابل اعتناء تھے.۳.احادیث میں مہدی کے نسب کے متعلق اس قدر اختلاف ہے کہ اس بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف حجت نہیں پکڑی جاسکتی.ملاحظہ ہو:.الف- الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِى مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ.(كنز العمال كتاب القيامة جلد نمبرے صفحه ۱۸۶ حدیث نمبر ۱۹۳۸ ) کہ مہدی بنی فاطمہ میں سے ہوگا.ب سَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمُ يُشْبِهُ فِي الْخُلْقِ وَلَا يُشْبِهُ فِي الْخَلْقِ ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةً يَمَلُا الْأَرْضَ عَدْلًا اَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ.(النجم الثاقب جلد ۲ صفحه ۹۰ حاشیه مطبع احمدی پٹنہ) کہ حضرت حسنؓ کی نسل سے وہ پیدا ہوگا.جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور جس کے کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام ہوں گے اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا.ج - إِنَّ الْمَهْدِى مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ.رَوَاهُ ابْنُ عَسَاكَرٍ عَنْ جَابِرٍ.(النجم الثاقب
817 جلد ۲ صفحه ۱۹۳ حاشیه مطبع احمدی پٹنہ ) کہ مہدی امام حسین کی اولاد سے ہوگا.و.قَالَ يَا عَمَ أَمَا شَعُرُتَ إِنَّ الْمَهْدِى مِنْ وُلْدِكَ.(حج الكرامه از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۳۵۲ و کنز العمال جلد ۶ صفحه ۱۷۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے عباس! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مہدی آپ کی اولاد سے ہوگا.گویا مہدی حضرت عباس کی نسل سے ہوگا.ذ.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ شخص جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا میری نسل سے ہوگا.( تاریخ الخلفاء از علامہ جلال الدین سیوطی نور محمد اصبح المطابع - کارخانه تجارت کتب کراچی صفحه ۲۲۹ بزبان عربی) غرضیکہ امام مہدی کے متعلق اس بارے میں بہت اختلاف ہے اور صحیح بات وہی ہے جو اس روایت میں ہے کہ ابشِرُكُمْ بِالْمَهْدِي يُبْعَثُ فِي أُمَّتِي عَلَى اخْتِلَافٍ مِنَ النَّاسِ وَ زَلَازِلٍ.(النجم الثاقب جلد۲ صفحه ۱۲ مطبع احمدی پٹنہ ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو مہدی کی خوشخبری دیتا ہوں جو میری اُمت سے ہوگا اور وہ ایسے زمانہ میں مبعوث ہو گا جب کہ لوگوں میں بہت اختلاف عقائد ہو گا اور زلزلے آئیں گے.۶.مہدی کا مکہ میں پیدا ہونا امام مہدی نے تو مکہ میں پیدا ہو کر مدینہ سے ظاہر ہونا تھا.جواب: الف.اس معاملہ میں بھی روایات میں شدید اختلاف ہے ملاحظہ ہو :.ان يُخْرُجَ مِنْ تَهَامَةٍ (جواہر الاسرار صفحه (۵۶) کہ مہدی تہامہ سے ظاہر ہوگا.ب يَخْرُجُ الْمَهْدِيُّ مِنَ الْقَرْيَةِ يُقَالُ لَهَا كَدْعَةٌ.(جواہر الاسرار صفحه ۵۶) که امام مہدی ایک گاؤں سے ظاہر ہوگا جس کا نام کدعہ ہوگا.اور اس کے پاس ایک مطبوعہ کتاب ہوگی جس میں اس کے۳۱۳ اصحاب کے نام ہوں گے.(یہ کتاب جس میں حضرت اقدس کے ۳۱۳ اصحاب کے نام ہیں.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۲۴ تا ۳۲۸ ہے.(خادم) مهدی کدعہ نامی گاؤں میں پیدا ہوگا.( حج الکرامہ صفحہ ۳۵۸ از نواب صدیق حسن خان صاحب) ج - يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ.“ (ابو داؤد کتاب المهدى ) د یعنی وہ مدینہ سے ظاہر ہو کر مکہ کی طرف جائے گا.“
818 ۷.مولد میں اختلاف الف.مہدی کا مولد بلا د مغرب ہے.( حج اکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۳۵۶ تا ۳۵۸.اقتراب الساعۃ صفحه ۲ از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ) ب تولد او در مکه معظمه باشد (رساله مهدی مصنفه علی متقی) ج.مسند احمد بن حنبل "باب خروج مہدی میں ہے کہ.” مہدی خراسان کی طرف سے آئے گا.“ د مہدی حجاز سے آئے گا اور دمشق کی طرف جائے گا.‘ ( حج الکرامۃ صفحہ ۳۵۸) غرضیکہ اس معاملہ میں بھی اختلاف ہے درست وہی روایت ہے جس میں مہدی کہ کدعہ نامی گاؤں سے ظاہر ہونے کا ذکر ہے جو لفظ قادیان کی بدلی ہوئی صورت ہے.بوجہ عدم احتیاط رواۃ.ضعیف ہے..مہدی کا نام محمد ہونا مہدی کا نام محمد ان کے والد کا نام عبداللہ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ ہوگا؟ جواب:.ا.یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی عاصم بن ابی الحجو د ہے جو ضعیف ہے.عاصم بن ابی النجود کے متعلق مفصل بحث مسئلہ حیات مسیح کے ضمن میں حضرت ابن عباس کی تفسیر متعلقہ آیت إِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ میں گزر چکی ہے وہاں سے دیکھی جائے.(پاکٹ بک ہذا صفحہ ۲۷۶) ۲.ابن خلدون نے اس روایت پر نہایت مبسوط بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ روایت ( مقدمه ابن خلدون مطبوعه مصر ۲۶- د مترجم اردو مطبع نفیس اکیڈمی حصہ دوم صفحه ۱۵۸ تا ۱۶۰).یہ روایت خلیفہ مہدی عباسی کو خوش کرنے کے لئے وضع کی گئی تھی کیونکہ اس کا نام محمد اور اس کے باپ کا نام عبداللہ تھا اور مہدی لقب تھا.چنانچہ امام سیوطی نے اس روایت کا اطلاق اسی مہدی عباسی پر کیا ہے ملاحظہ ہو : ” تاریخ الخلفاء باب ذکر مہدی (اردوترجمه موسومه به محبوب العلماء مطبوعہ پبلک پرنٹنگ پریس لا ہور ۳۴۱) ۴.بر بنائے تسلیم یہ استعارہ کے رنگ میں تھا.جس کا مطلب یہ تھا کہ امام مہدی کا وجود اپنے آقا اور مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ ہوگا جیسا کہ حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی " فرماتے ہیں: اِنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ.(شرح فصوص الحکم صفحه ۵۱ ۵۳ مطبعہ الزاہر یہ مصریہ ) کہ مہدی کا باطن محمد صلعم کا باطن ہوگا.
819 لکھا ہے:.۵.مہدی کے نام کے متعلق بھی روایات میں اختلاف ہے:.الف.مہدی کا نام محمد ہوگا.(اقتراب الساعه صفحه ۶ از نواب نور الحسن خان صاحب ) ب.مہدی کا نام احمد ہوگا.( اقتراب الساعہ صفحہ ۶۱ از نواب نور الحسن خان صاحب) چنانچه اکثر روایتوں میں اس کا نام محمد آیا ہے.بعض میں احمد بتایا ہے.“ ج مہدی کا نام عیسی ہوگا.(جواہر الاسرار صفحہ ۶۸) یہ اختلاف بتا تا ہے کہ مہدی کے یہ نام بطور صفات کے ہیں نہ کہ ظاہری نام.۹.صاحب شریعت ہونا نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے.مگر مرزا صاحب صاحب شریعت نہ تھے.جواب.صاحب شریعت ہونا ضروری نہیں.ا.قرآن مجید میں ہے:.66 إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْريةً فِيهَا هُدًى وَنُوْرٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا “ (المائدة: ۴۵ ) کہ ہم نے تورات نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا اور انبیاء (بنی اسرائیل ) جو تورات کو مانتے تھے وہ سب فیصلہ تو رات سے ہی کیا کرتے تھے.اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازی تحریر فرماتے ہیں:.يُرِيدُ النَّبِيِّينَ الَّذِيْنَ كَانُوا بَعْدَ مُوسَى وَذَلِكَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى بَعَثَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْوُفًا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ لَيْسَ مَعَهُمْ كِتَابٌ إِنَّمَا بَعَثَهُمْ بِإِقَامَةِ التَّوْرَاةِ.“ (تفسیر کبیر زیر آیت إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَةً فِيهَا هُدًى وَنُوْرُ.المائدۃ: ۴۵ ) یعنی اس آیت میں نبیوں سے مراد وہ نبی ہیں جو موسیٰ کے بعد مبعوث ہوئے.اس لئے کے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ہزاروں نبی ایسے مبعوث فرمائے جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی بلکہ وہ محض تو رات ہی کو قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے گئے تھے.۲.دوسرے مقامات پر امام رازی نے بالوضاحت تحریر فرمایا ہے:.فَجَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ مَا أُوتُو الْكِتَابَ وَإِنَّمَا أُوتِيَ بَعْضُهُمْ.(تفسیر کبیر زیر آیت وَإِذْ أَخَذ الله ميثاق الشهرين - آل عمران (۸۲) که تمام انبیاء کو کتاب نہیں ملی تھی بلکہ ان میں سے صرف
820 بعض انبیاء کو کتاب ملی تھی.۳.امام رازی حضرت الحق ، ایوب ، یعقوب، یونس، ہارون ، داؤ د اور سلیمان علیہم السلام کے نام لکھ کر تحریر فرماتے ہیں: "لَأَنَّهُمُ مَا جَاءُ وُا بِكِتَابِ نَاسِخِ“ ( تفسیر کبير زير آيت وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِي - الحج ۵۳) ۴.علامہ ابوالسعو دتحریر فرماتے ہیں:.وَالنَّبِيُّ....مَنْ بَعْتُهُ لِتَقْرِيرِ شَرِيعَةٍ سَابِقَةٍ كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِينَ كَانُوا بَيْنَ مُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ.( تفسیر ابی السعو د بر حاشیه تفسیر کبیر زیر آیت وَمَا أرسلنا من قبلكَ مِنْ رَّسُوْنِ وَلَا نَبِيَّ الحج :۵۳) یعنی نبی وہ ہوتا ہے جس کی بعثت کی غرض محض سابق شریعت کو قائم کرنا ہوتی ہے جس طرح کہ وہ تمام انبیاء تھے جو حضرت موسیٰ اور عیسی کے درمیان مبعوث ہوئے.۵- انَّ الرَّسُولَ لَا يَجِبُ اَنْ يَكُونَ صَاحِبَ شَرِيعَةٍ جَدِيدَةٍ (مُسْتَقِلَّةٍ) فَإِنَّ أَوْلَادَ إِبْرَاهِيمَ كَانُوا عَلَى شَرِيعَتِه.(روح المعانی جلد ۵ صفحه ۱۸۶) یعنی رسول کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نئی شریعت لانے والا ہو کیونکہ ابراہیم کی اولاد میں جو نبی آئے وہ سب ابراہیم کی شریعت پر تھے.غیر احمدی - قرآن مجید میں ہے او ليك الَّذِينَ اتَنهُمُ الكِتب (الانعام: ۹۰) پس ہر نبی کا صاحب کتاب ہونا ضروری ہے.جواب: اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر نبی کے لئے فرد فردا مستقل جدید کتاب لے کر نازل ہونا ضروری ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کسی نہ کسی منزل من اللہ کتاب کی طرف لوگوں کو دعوت دے کر اس کتاب کے ذریعہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے خواہ وہ کتاب اللہ تعالیٰ نے خود اس پر نازل فرمائی ہو یا اس سے کسی پہلے نبی پر نازل ہوئی ہو.چنانچہ ملاحظہ ہو حوالجات ذیل:.ا.حضرت امام رازی تحریر فرماتے ہیں:.الف " أَنَّ جَمِيعَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ أَوتُوا الْكِتَابَ بِمَعْنَى كَوْنِهِ مُهْتَدِيًا بِهِ دَاعِيًا إِلَى الْعَمَلِ بِهِ وَ إِنْ لَمْ يُنْزَلُ عَلَيْهِ.زیرآیت إِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِينَ (ال عمران: ۸۲) کہ ہر نبی کو ان معنوں میں کتاب دی گئی ہے کسی نہ کسی کتاب کے ذریعہ سے رشد و ہدایت کا
821 کام کرتا اور اس پر عمل کرنے کی لوگوں کو دعوت دیتا تھا.اگر چہ وہ کتاب خود اس پر نازل نہ ہوئی ہو.ب.امام رازی آيت أو لَكَ الَّذِينَ أَتَيْهُمُ الكِتب کی تفسیر میں لکھتے ہیں :.وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مِنْهُ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ تَعَالَى فَهُمَا تَامَّا لِمَا فِي الْكِتَابِ وَ عِلْمًا مُحِيطًا بِحَقَائِقِهِ وَاَسْرَارِهِ وَهَذَا هُوَ الْأَوْلى لَانَّ الْأَنْبِيَاءَ الثَّمَانِيَةَ عَشْرَ الْمَذْكُورِينَ مَا أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ كِتَابًا.(تفسير كبير زير آيت أُولَيْكَ الَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الكتب الى الانعام : ٩٠) یعنی اس ایتاء کتاب کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو کتاب کے حقائق و معارف اور اسرار و رموز کا کامل علم عطا فرماتا ہے اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیونکہ قرآن مجید میں جن اٹھارہ انبیا ء کا ذکر ہے ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ کتاب نازل نہیں کی ہوئی تھی.۲ تفسیر بیضاوی میں ہے.وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ يُرِيدُ بِهِ الْجِنْسَ وَلَا يُرِيدُ بِهِ أَنَّهُ أُنْزِلَ مَعَ كُلَّ وَاحِدٍ كِتَابًا يَخُصُّهُ فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ كِتَابٌ يَخُصُّهُمْ وَ إِنَّمَا كَانُوا يَأْخُذُونَ بِكُتُبِ مَنْ قَبْلَهُمْ “ ( تفسیر بیضاوی زیر آیت وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ - البقرة :۲۱۳) اس آیت میں لفظ کتاب بطور جنس استعمال ہوا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک نبی کو الگ الگ خاص کتاب دی گئی.کیونکہ انبیاء میں سے اکثریت ان کی ہے جن کے پاس کوئی ان کی مخصوص کتاب نہ تھی.بلکہ وہ اپنے سے پہلے نبی کی کتاب سے ہی احکام اخذ کرتے تھے.۳.حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے.“ (تذکرۃ الاولیا ء باب چھٹا ذکر حضرت حسن بصری اردو ترجمہ ) ۴.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں :.اوْ يَكُونُ نَظْمَ مَا قَضَى لِقَوْمٍ مِنْ اِسْتِمُرَارِ دَوْلَةٍ أَوْ دِيْنٍ يَقْتَضِئُ بَعْثَ مُجَدَّدٍ كَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ وَ جَمُعِ مِنْ أَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ.“ (حجۃ اللہ البالغہ حصہ اوّل صفحہ ۱۵۹ مترجم اردو مطبع حمایت اسلام پریس لاہور ) یعنی انبیاء کی دوسری قسم وہ ہے کہ جو ایسے وقت میں مبعوث کئے جاتے ہیں جبکہ پہلے نبی کے ذریعہ سے قائم شدہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے تجدید کی ضرورت کے لئے ایک مسجد دکو مبعوث کرنا
822 مقصود ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت داؤ داور سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء“ ۵ تفسیر حسینی میں لکھا ہے:.ایک کتاب جس کا نام زبور تھا اور اس میں حق تعالیٰ کی ثنا تھی فقط.اوامر نوا ہی کچھ نہ تھے.بلکہ حضرت داؤد کی شریعت وہی تو ریت کی شریعت تھی.“ ( تفسیر قادری حسینی جلد مترجم اردو صفحه ۲۰۶ زیر آیت وَآتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا - النساء : ۱۶۴) حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت جو لِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حَرَّمَ عَلَيْكُمْ (ال عمران: ۵۱) آیا ہے تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت عیسی کوئی نئی شریعت لائے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود کے علماء نے از خود جن حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا.حضرت عیسی نے ان کے بارہ میں تو راۃ کے اصل حکم کو بحال فرما کر تو ریت ہی کو قائم کیا.چنانچہ لکھا ہے:.إِنَّ الْأَحْبَارَ كَانُوا قَدْ وَضَعُوا مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ شَرَابِعَ بَاطِلَةً وَ نَسَبُوُهَا إِلَى مُوسَى فَجَاءَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَفَعَهَا وَابْطَلَهَا وَأَعَادَ الْأَمْرَ إِلَى مَا كَانَ فِي زَمَنِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ.( تفسیر کبیر زیر آیت لأُحِلَّ لَكُمْ - ال عمران (۱۶۴) یعنی یہود کے علماء نے بعض احکام باطل آپ ہی اپنے پاس سے وضع کر کے ان کو موسی" کی طرف منسوب کر رکھا تھا.پس عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے.انہوں نے ان غلط احکام کو قائم نہ رہنے دیا، بلکہ ان کو باطل قرار دے کر سابق اصل حکم کو برقرار رکھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا.“ ے.حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں:.نبی کبھی صاحب شریعت ہوتا ہے جیسے رسل علیہم السلام ہیں اور کبھی صاحب شریعت جدید نہیں ہوتا ہے بلکہ پہلی ہی شریعت میں اس کے حقائق کو ان کی استعداد کے موافق تعلیم کرتا ہے.جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں.“ (فصوص الحکم مقدمہ فصل نمبر ۱۲ نبوت ورسالت کے بیان میں مترجم اردو صفحہ۴ ۷ ) عقلی دلیل :.یہ دعویٰ کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے اور یہ کہ جب تک پہلے نبی کے احکام کو منسوخ کر کے نیا حکم نہ لائے کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا.اس قدر خلاف عقل ہے کہ کوئی شخص جسے تاریخ انبیاء کا علم ہوا اپنی زبان سے یہ دعوی نکال نہیں سکتا کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں
823 اور ایک ہی قوم اور شہر بلکہ ایک ہی مکان میں بعض دفعہ دو دو تین تین بلکہ چار چار اور اس سے زیادہ بھی نبی ہوتے رہے ہیں.مثلاً حضرت موسیٰ و ہارون.ابراہیم و اسمعیل واستحق.یعقوب و یوسف.داؤ دو سلیمان، حضرت زکریا و یکی اور عیسی علیہم السلام.پس اگر ہر نبی کے لئے جدید شریعت کا لانا ضروری ہو تو پھر یہ مضحکہ خیز صورت تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایک ہی شہر میں ایک نبی نماز ظہر کے وقت یہ اعلان کرتا ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہیں تو عصر کے وقت دوسرا نبی یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے.اب چار نمازیں فرض ہو گئی ہیں.اس طرح تو مذہب مذہب نہیں رہے گا بلکہ تماشا بن کے رہ جائے گا.أوليك الَّذِينَ اتَيْنْهُمُ الْكِتَبَ (الانعام: ۹۰) کی تفسیر میں علامہ شہاب الدین فرماتے ہیں:.الْمُرَادُ بِايْتَائِهِ التَّفْهِيمُ السَّامُ بِمَا فِيهِ مِنَ الْحَقَائِقِ وَالتَّمْكِينِ مِنَ الْإِحَاطَةِ بِالْجَلَائِلِ وَالدَّقَائِقِ أَعَمُّ مِنْ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ بِالْإِنْزَالِ ابْتِدَاء....فَإِنَّ الْمَذْكُورِينَ لَمْ يُنْزَلُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ كِتَابٌ مُعَيَّنٌ.( تفسیر ابی السعو د بر حاشیہ تفسیر کبیر زیر آیت الانعام: ۹۰ - روح المعانی زیر آیت الانعام:۹۰) کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو پوری پوری تفہیم عطا کرے گا ان حقائق اور دقائق کی جو اس کتاب میں ہیں عام اس سے کہ ان کو کوئی خاص کتاب دی جائے کیونکہ وہ انبیاء جن کا قرآن میں ذکر ہے ان میں سے کئی ایسے ہیں جن پر کوئی کتاب معین نازل نہیں ہوئی.نیز دیکھو تذکرۃ الاولیاء ذکر حضرت حبیب عجمی انوار الا ز کیا ، صفحہ ۶۵ چھٹا باب ) ١٠.آیت اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَب کے نیچے لکھا ہے "لَا مَعَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى الإطلاقِ إِذْلَمْ يَكُنْ لِبَعْضِهِمُ كِتَابٌ وَ إِنَّمَا كَانُوا يَأْخُذُونَ بِكُتُبِ مَنْ قَبْلَهُمُ.روح البیان زیر آیت وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الكِتب البقرة : ۲۱۳ تفسير الى السعو دو برحاشیه تفسیر کبیر زیر آیت وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتب البقرة: ۲۱۳) یعنی اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ایک نبی کو الگ الگ کتاب دی گئی تھی کیونکہ ایسے انبیاء بھی ہوئے ہیں جن کے پاس اپنی کتاب کوئی نہ تھی پہلے نبی کی کتاب سے ہی وہ استنباط کیا کرتے تھے.وَإِذْ اَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا أَتَيْتُكُم مِّنْ كِتُبِ (ال عمران : ۸۲) الأَرَادَ بِالنَّبِيِّينَ الَّذِينَ بُعِثُوا بَعْدَ مُوسى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ بَعَثَ
824 فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْوُفًا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَ لَيْسَ مَعَهُمْ كِتَابٌ إِنَّمَا بُعِثُوا بِإِقَامَةِ التَّوْرَاةِ وَ اَحْكامِهَا.( تفسیر خازن زیر آیت يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ المائدة: ۴۵) کہ آیت يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ “ میں نبیوں سے مراد وہ نبی ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ہزاروں نبی ایسے بھیجے کہ جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی.بلکہ وہ محض تو راہ اور اس کے حکموں کو قائم کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.۱۲.مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں:.” پھر ان کے بعد اور رسولوں کو ( جو کہ صاحب شریعت مستقلہ نہ تھے ) یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسی ابن مریم کو بھیجا.“ حمائل مترجم اشرف علی تھانوی مطبوعہ دہلی زیر آیت شش قفينا على اثارِهِمْ بِرُسُنا (الحديد: ۲۸) ۱۳ - يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِيْنَ أَسْلَمُوا کے نیچے لکھا ہے:.اوپر ذکر تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء بھیجے جو ہمیشہ احکام تو رات کی حکم برداری میں خود بھی لگے رہتے اور بنی اسرائیل کے عابدوں اور عالموں کو بھی ان کی تاکید کرتے.ان آیتوں میں فرمایا کہ ان انبیاء بنی اسرائیل کے قدم بقدم سب انبیاء بنی اسرائیل تھے اور آخر پر اللہ تعالیٰ نے عیسی بن مریم کو تو رات کے احکام کی تصدیق و نگرانی کے لئے بھیجا.“ حمائل مترجم اشرف على المائدة : ۴۵) مرزا صاحب پر کفر کا فتویٰ لگا ؟ ۱۰.کفر کا فتویٰ جواب:.ا.ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا.قرآن مجید میں ہے.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَ (يس: ۳۱) ۲.وَ إِذَا خَرَجَ هَدَ الْإِمَامُ الْمَهْدِى فَلَيْسَ لَهُ عَدُوٌّ مُّبِينٌ إِلَّا الْفُقَهَاءُ خَاصَّةً فَإِنَّهُ لَا تَبْقَى لَهُمْ رِيَاسَةٌ.وَلَا تَمِييُزٌ عَنِ الْعَامَّةِ.“ (فتوحات مکیه از محی الدین ابن عربی جلد ۳ صفحه ۳۳۶ مطبع دار صا در بیروت )
825 کہ جب امام مہدی آئیں گے تو اس کے سب سے زیادہ شدید دشمن اس زمانہ کے علماء اور فقہاء ہوں گے.کیونکہ اگر مہدی کو مان لیں تو ان کی عوام پر برتری اور ان پر امتیاز باقی نہ رہے گا.۳.علماء وقت کہ خوگر تقلید فقہا و اقتدائے مشائخ و آبائے خود باشند گویند که این شخص خانہ برانداز دین وملت ماست و بمخالفت برخیزند و بحسب عادت خود محکم بتکفیر تضلیل وے کنند.“ حج الکرامه صفحه ۳۶۳ از نواب صدیق حسن خان صاحب) ۴.حدیث عُلَمَاءُ هُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ“ (مشکوۃ کتاب العلم فصل سوم ) سے بھی یہی پتہ چلتا ہے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ امام مہدی کو میرا سلام کہنا.(درمنثور جلد ۲ صفحه ۲۴۵ مطبع دار المعرفه بیروت لبنان و بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۸۳ مطبوعہ ایران ) یہ بھی بتاتا ہے کہ آنحضرت کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں گے جو مہدی پر لعنت بھیجیں گے.اور اس کے تریاق کے طور پر آنحضرت صلعم نے اسے اپنا سلام بھیجا ہے.( تفصیل دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحه ۴۳ حاشیه ) امام ربانی مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ 'جب مسیح موعود آئے گا تو علماء ظواہر مجتہدات اور اعلى نبينا وعلیہ الصلوۃ والسلام از کمال دقت و غموض ماخذ، انکار نمائندو مخالف کتاب وسنت دانند “ مکتوبات امام ربانی حضرت مجددالف ثانی حصہ نمبرے مکتوب نمبر ۵۵) یعنی علماء ظواہر حضرت مسیح موعود کے اجتہادات کا انکار کریں گے اور ان کو قرآن مجید اور سنت نبوی کے خلاف قرار دیں گے کیونکہ وہ باعث دقیق ہونے اور ان کے مآخذ کے مخفی ہونے کے مولوی کی سمجھ سے بلند و بالا ہوں گے..یہی حال مہدی علیہ السلام کا ہوگا کہ اگر وہ آگئے تو سارے مقلد بھائی ان کے جانی دشمن بن جاویں گے.ان کے قتل کی فکر میں ہوں گے.کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے.“ اقتراب الساعه صفحه ۲۲۴ از نواب نور الحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ ) ے.پھر لکھا ہے: ”ان ( امام مہدی) کے دشمن علماء اہل اجتہاد ہوں گے اس لئے کہ ان کو دیکھیں گے کہ خلاف مذہب آئمہ حکم کرتے ہیں.ان (امام مہدی ) کا دشمن کھلم کھلا کوئی نہ ہوگا مگر یہی فقہ والے بالخصوص کیونکہ ان کی ریاست باقی نہ رہے گی.عام لوگوں سے کچھ امتیاز نہ ہوگا“.......اقتراب الساعه صفحه ۹۵ از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ ) علماءکا حربہ تکفیر ملاحظہ ہو.(پاکٹ بک ہذا صفحه ۸۸۳)
826 ا کسی کا شاگرد ہونا اعتراض.نبی کسی کا شاگر دنہیں ہوتا.مرزا صاحب شاگر در ہے.جواب.(۱) قرآن مجید :.موسیٰ علیہ السلام ایک بندہ خدا (خضر) سے کہتے ہیں:.قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِحُكَ عَلَى أَنْ تُعَلَّمَنِ مِمَّا عَلِمْتَ رُشْدًا (الكهف : ٦٧) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کی اس امر میں پیروی کروں کہ آپ مجھے وہ علم پڑھا ئیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟ اگر نبی کا کسی سے علم سیکھنا منافی نبوت ہے تو کیا حضرت موسی“ نے اپنی نبوت سے دستبردار ہونے کے لئے یہ تدبیر نکالی تھی ؟ تمہارا یہ من گھڑت قاعدہ کہ نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا.کہاں لکھا ہے؟ قرآن وحدیث کا ایک ہی حوالہ پیش کر دور نہ اپنی جہالت کا ماتم کرو!.حدیث میں ہے:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسبت فرماتے ہیں.إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ اَبْيَاتٍ مِنْهُمْ وَ شَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ.(بخاری کتاب الانبياء باب يَزِفُونَ النَّسْلَان فِي الْمَشْي وتجريد بخاری مترجم اردو مع اصل متن عربی مرتبه مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور ۱۳۴۱ھ جلد ۲ صفحه ۱۳۷ تر جمه از تجرید بخاری) یہاں تک کہ جس وقت ان ( بنو جرہم.خادم ) میں سے کچھ گھر والے (چشمہ زمزم کے اردگرد جمع.خادم ) ہو گئے اور وہ بچہ (حضرت اسمعیل.خادم ) جوان ہوا اور اس نے ان سے عربی زبان سیکھی.“ ۴.حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ آنحضرت صلعم نے قصہ موسیٰ و خضر کے سلسلہ میں فرمایا: - قَالَ جِئْتُ لِتُعَلَّمَنِي مِمَّا عُلِمتَ رُشْدًا.“ (بخاری کتاب الانبياء باب فضل خضر حديث الخضر مع موسى عليهما السلام صحيح مسلم كتاب الفضائل.باب من فَضَائِلِ خِضر ) یعنی حضرت موسی نے خضر سے کہا کہ میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں تا کہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ پڑھا ئیں جو آپ کو دیا گیا ہے.“ ۵ تفسیر :.اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی تحریر فرماتے ہیں:.اسْتَدَلَّ الْعُلَمَاءُ بِسُؤَالِ مُوسَى السَّبِيلِ إِلَى لِقَاءِ الْخِضْرِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا
827 وَسَلَّمَ عَلَى اسْتِحْبَابِ الرِّحْلَةِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَاسْتِحْبَابِ الْإِسْتِكْثَارِ مِنْهُ وَإِنَّهُ يَسْتَحِبُّ لِلْعَالِمِ وَإِنْ كَانَ مِنَ الْعِلْمِ بِمَحَلَّ عَظِيمٍ اَنْ يَّاخُذَهُ مِمَّنْ هُوَ اَعْلَمُ مِنْهُ وَيَسْعَى إِلَيْهِ فِي تَحْصِيلِهِ وَ فِيهِ فَضِيلَةُ طَلَب العِلْم.“ (حاشيه النووى على مسلم كتاب الفضائل باب فضائل زكريا و الخضر) یعنی موسیٰ علیہ السلام کے خضر کی ملاقات کی درخواست کرنے سے علماء نے اس بات کی دلیل لی ہے کہ طلب علم کے لئے سفر کرنا اور حصول علم کے لئے بار بار درخواست کرنا جائز ہے.نیز یہ کہ اگر چہ کوئی خود کتنا ہی بڑا صاحب علم کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے سے علم حاصل کرے اور حصول علم کی غرض سے کوشش کر کے اس کے پاس جائے.نیز اس سے علم کے سیکھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے.۶- تفسیر سعیدی ترجمه اردو تفسیر قادری حسینی جلد ۲ صفحہ ۱۵ میں ہے:.ر سول ایسا چاہیے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے ان سے ان اصول و فروع دین کا عالم زیادہ ہو جو ان کی طرف لایا ہے اور جو علم اس قبیل سے نہیں اس کی تعلیم امور نبوت کے منافی نہیں اور انتم أَعْلَمُ بِأَمُورِ دُنْيَا كُمُ اس قول کا مؤید ہے.( جلد اصفحہ ۶۳۸ الکھف: ۶۶، ۶۷) ے تفسیر بیضاوی میں ہے:.وَلَا يُنَافِي نُبُوَّتَهُ وَ كَوْنَهُ صَاحِبَ شَرِيعَةٍ اَنْ يَّتَعَلَّمَ مِنْ غَيْرِهِ مَا لَمْ يَكُنْ شَرْطًا فِي أَبْوَابِ الدِّينِ.بیضاوی زیر آیت هَلْ اتَّبِحُكَ الى الكهف : ٦٧) یعنی حضرت موسی کا کسی غیر سے ایسا علم سیکھنا جو امور دین میں سے نہ ہو.ان کی نبوت اور ان کے صاحب شریعت ہونے کے منافی نہیں ہے ( یعنی نہ صرف نبی بلکہ صاحب شریعت نبی بھی دوسرے علوم میں دوسروں کا شاگر دہوسکتا ہے.) تفسیر الجلالین الکمالین از علامہ جلال الدین سیوطی میں زیر آیت الکھف : اے لکھا ہے:.فَقَبِلَ مُوسَى شَرْطَهُ رِعَايَةً لَا دَبِ الْمُتَعَلِمَ مَعَ الْعَالِمِ.زیر آیت حَتَّى أحدث لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا - الكهف: ١ ) کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خضر کی پیش کردہ شرط اسی طرح قبول کر لی جس طرح ایک
828 شاگرد اپنے استاد کی شرط کو کمال ادب سے قبول کیا کرتا ہے.۹.یادر ہے کہ خضر کے نبی ہونے میں بھی اختلاف ہے جلالین میں ہے:.نُبُوَّةً فِي قَولٍ وَ وِلَايَةٌ فِي آخِرٍ وَعَلَيْهِ اَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ.جلالین زیر آیت فَوَجَدَا عَبْدًا - الكهف:۲۲ نیز دیکھو ای نووی علی لمسلم - فضائل زكريا والخضر عليهما السلام) یعنی علماء کی اکثریت اس طرف ہے کہ خضر نبی نہیں بلکہ ولی تھے.۱۲.کیا کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں ہوسکتا غیر احمدی : ” آج تک کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں آیا اور نہ کسی نبی نے کوئی کتاب لکھی.“ جواب:.ایسا کہنا صریح جہالت ہے کیونکہ ایسی “ ہونا تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے.اگر ہر نبی ہی ”اُمی“ ہو تو پھر آپ کی یہ خصوصیت کیونکر ہوئی؟ اور پھر النَّبِيَّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ (الاعراف: ۱۵۸) فرمانے کی کیا ضرورت تھی ؟ چنانچہ لکھا ہے:.ا.پڑھا لکھا ہونا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہے.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ ہر نبوت کی تفصیل شرح اور علوم باطنی کے حقیقی راز دان تھے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش ہونا گوارا نہ فرمایا.چنانچہ گذشتہ آسمانی کتب میں بھی امی کے لقب کے ساتھ آپ کو بشارتیں دی ہیں.تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب ہے.راج.پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحه ۱۳ صفحه ۱۴ باختلاف الفاظ مطبوعه مطبع ۲ تفسیر حسینی میں ہے:.فیض عام علی گڑھ ۱۳۲۶ھ زیر عنوان " تمہید صفحه ۸) حضرت موسیٰ اور حضرت داؤد علیہما السلام پر کتاب جو ایک بار اتری تو وہ لکھتے پڑھتے تھے اور ہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ اجمعین امی تھے.“ ( تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحه ۴۰ از بیر آیت رله ترتيلا الفرقان: ۳۳) ۳.بیضاوی میں آیت مندرجہ بالا (الفرقان : ۳۳) کے ماتحت لکھا ہے:.وَكَذَالِكَ اَنْزَلْنَاهُ مُفَرِّقًا لِنُقَوّى بِتَفْرِيْقِهِ فُؤَادَكَ عَلَى حِفْظِهِ وَفَهُمِهِ لَانَّ حَالَهُ
829 يُخَالِفُ حَالَ مُوسَى وَدَاوُدَ وَ عِيسَى عَلَيْهِمُ السَّلامُ حَيْثُ كَانَ أُمِّيَّا وَكَانُوا يَكْتُبُونَ.“ بیضاوی مطبوعه مطبع احمدی دبلی جلد ۳ صفحه ۹۶) یعنی ہم نے ایسے ہی قرآن مجید کو بیک وقت نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تا کہ ہم تیرے دل کو اس سے مضبوط کریں اور تو اسے بآسانی یا درکھ سکے اور سمجھ سکے.یہ اس لئے ہوا کہ آنحضرت صلعم کا حال موسیٰ.داؤد اور عیسی علیہم السلام سے مختلف تھا.بدیں وجہ کہ آپ ”اُمی“ تھے مگر موسیٰ داؤد اور عیسی علیہم السلام لکھے پڑھے ہوئے تھے.۴.حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.إِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ يَكُنْ مِنْ اَهْلِ الْقِرَاءَةِ وَالْكِتَابَةِ فَلَوْ نُزِّلَ عَلَيْهِ ذَلِكَ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَانَ لا يَضْبِطُهُ وَلَجَازَ عَلَيْهِ الْغَلَطُ وَالسَّهُمُ وَإِنَّمَا نَزَلَتِ التَّوْرَاةُ جُمْلَةً لَأَنَّهَا مَكْتُوبَةٌ يَقْرَءُ هَا مُوسَى.“ ( تفسیر کبیر رازی جلد ۶ صفحه ۴۷۲ مطبوعہ مطبع اول.نیا ایڈیشن جلد ۲۴ صفحہ ۷۸ مصر زیر آیت بالا الفرقان : ۳۳) یعنی آنحضرت صلعم لکھے پڑھے ہوئے نہیں تھے.پس اگر آپ پر قرآن مجید ایک ہی مرتبہ سارا نازل ہو جاتا تو آپ اسے محفوظ نہ رکھ سکتے اور اس میں غلطیاں اور سہو جائز ہو جاتا لیکن تو رات جو بیک وقت نازل ہو گئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لکھی لکھائی تھی اور حضرت موسی“ پڑھنا جانتے تھے.“ ۵.حدیث نبوی میں ہے :.اَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ إِدْرِيسُ.(مسند امام احمد بن حنبل بحوالہ کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق مصنفہ امام عبدالرؤف المنادی باب الالف بر حاشیہ جامع الصغیر مطبوعہ مصر جلد اصفحه ۸۹) کہ سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنا شروع کیا.۶.سیرۃ ابن ہشام میں ہے:.یہی اور میں پیغمبر ہیں اور انہی کو پہلے نبوت ملی اور انہی نے قلم سے لکھنا ایجاد کیا.“ (سیرۃ ابن ہشام مترجم اردو جلد اصفحہ امطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور و مطبوعہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن ۱۳۶۷ھ ) احراری امیر شریعت :- اگر نبی کسی سے پڑھے تو پھر استاد کبھی کبھی اس کے کان بھی کھینچے گا.اسے مار بھی پٹے گی.بڑا ہو کر پھر کس طرح ان کے سامنے سراٹھا سکے گا.
830 جواب:.ہر طالب علم ضروری تو نہیں کہ تمہارے جیسا ہو.بعض ہونہار اور نیک طالبعلم ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی بھی استاد سے مار پٹنے تک نوبت نہیں آنے دیتے بلکہ استادان کی عزت کرتے ہیں لیکن اگر محض احتمال اور فرضی قیاس آرائی پر بنیا درکھنا جائز ہو تو پھر تو یہ بھی کہو کہ کسی نبی کا باپ ، ماں بڑا بھائی ، دادا، چا کوئی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بچپن میں ان بزرگان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھوں کان کھنچوانے اور مار پیٹنے کا خطرہ اور احتمال ہے.خیر یہ تو بچپن میں مار کھانے کا قصہ ہے لیکن قرآن مجید میں تو لکھا ہے کہ ایک نبی نے بڑے ہو کر بلکہ نبی بن کر اپنے چھوٹے بھائی موسی سے ڈاڑھی اور سر کے بال نچوائے.ملاحظہ ہو:.وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمُ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُوْنَنِي فَلَا تُشْمِتْ فِي الْأَعْدَاء (الاعراف: ۱۵۱) کہ موسیٰ نے (غصہ کی حالت میں ) اپنے بھائی ( ہارون ) کا سر پکڑ کر اسے اپنی طرف جھٹکا دیا تو حضرت ہارون نے کہا ”اے میری ماں کے بیٹے ! مجھے قوم نے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر دیتے.پس تو دشمنوں کو خوشی نہ دکھا.نیز ملاحظہ ہو سورۃ طہ: ۹۵.قَالَ يَبْنَؤُم لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِى وَلَا بِرَأْسِى (طه: ۹۵) کہ اے میری ماں کے بیٹے ! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑ ! مگر با وجود اس شماتت اعداء اور مار پیٹ کے ہارون نبی کے نبی ہی رہے.یہ تو قرآن ہے مگر یہاں احراری امیر شریعت کی عقل کے رو سے کوئی نبی پڑھا لکھا نہیں ہو سکتا محض اس خوف سے کہ کہیں بچپن میں استاد سے مارنہ کھا بیٹھے پھر بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ ۲.پھر حضرت مسیح موعود کے اساتذہ تو ہمیشہ آپ کی عزت کرتے تھے اور ہرگز ثابت نہیں کہ حضور کوکسی استاد نے کبھی ایک دفعہ بھی مارا ہو.پس محض فرضی احتمالات و قیاسات پر اعتراضات کی بنیاد رکھنا اور واقعات کو نظر انداز کر دینا کسی معقول انسان کا شیوہ نہیں ہوسکتا.۱۳.نبی کا نام مرکب نہیں ہوتا.مرزا صاحب کا نام مرکب تھا ؟ الجواب:.۱.یہ معیار کہاں لکھا ہے.بھلا نام کے مرکب یا مفرد ہونے کا نبوت کے ساتھ کیا تعلق؟ ۲.قرآن مجید میں ہے.اِذْ قَالَتِ الْمَلَكَهُ يُمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ منه اسْمُهُ الى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا ( ال عمران : ۴۶) اس آیت میں
831 فرشتے نے حضرت عیسی کا نام اسمُهُ المَسَحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ “بتایا ہے جو مرکب ہے.اسمعیل بھی مرکب ہے اِسْمَعُ اور ایل جس کا ترجمہ ہے ”سن لی اللہ نے میری! یعنی اللہ نے میری دعا سن لی.۱۴.حج کرنا الجواب:.۱.حج کے لئے بعض شرائط ہیں (۱) راستہ میں امن ہو.مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سبيلا (ال عمران (۹۸) (۲) صحت ہو.(۳) بوڑھے والدین نہ ہوں.(دیکھو تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت آل عمران:۹۸ نیز دیکھو کشف المحجوب مصنفہ داتا گنج بخش مترجم اردو صفحه ۳۷۷- ما لا بد منه اردو صفحه ۲۸ تاجران کتب برکت علی اینڈ سنز لاہور ) جن کی خدمت اس پر فرض ہو یا چھوٹی اولاد نہ ہو جس کی تربیت اس پر فرض ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں تینوں شرائط نہ پائی جاتی تھیں.لاہور گئے ، رستہ میں قتل کرنے کے لئے لوگ بیٹھ گئے.امرتسر اور سیالکوٹ میں گئے مخالفین نے اینٹیں ماریں.دہلی گئے وہاں آپ پر حملہ کیا گیا اور مکہ میں تو حضرت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا.پس آپ پر حج کے لیے جانا فرض نہ تھا کیونکہ حج صرف اس حالت میں ہو سکتا ہے کہ رستہ میں امن ہو.خود آنحضرت صلعم نے حدیبیہ کے سال حج نہیں کیا.محض اس وجہ سے کہ کا فرمانع ہوئے.بعد ا ولا تھی.۲.آپ کو دوران سر اور ذیا بیطس کی دو بیماریاں تھیں.۳.آپ کے والد بزرگوار آپ کے سر پر چالیس سال کی عمر تک زندہ رہے اور اس کے ۴.تذکرۃ الا لیاء میں ہے.ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ حج کا کیا.جب میں بغداد پہنچا تو حضرت ابو حازم مکی کے پاس گیا.میں نے ان کو سوتے پایا.میں نے تھوڑی دیر صبر کیا.جب آپ بیدار ہوئے تو فرمانے لگے کہ میں نے اس وقت حضرت پیغمبر علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو تیرے لئے پیغام دیا اور فرمایا کہ کہہ دو اپنی ماں کے حقوق کی نگہداشت کرے کہ اس کے لئے وہی بہتر ہے حج کرنے سے.اب تو لوٹ جا.اور اس کے دل کی رضا طلب کر.میں واپس پھرا اور مکہ معظمہ نہ گیا.“ ( تذكرة الاولياء ذکر ابو حازم مکی "باب نمبرے صفحہ ۶۸.انوار الا ز کیاء اردو ترجمہ ظہیر الاصفیاء صفحہ ۵۷)
832 بھلا ایک ماں کی خدمت تو حج سے بہتر ہے پھر اسلام ( جس پر ہزاروں مائیں قربان کی جاسکتی ہیں ) کی خدمت کرنا کیوں حج سے بہتر نہیں.۵.فَجَانَتْ اِمْرَأَةٌ مِنْ خَتُعَم...فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكْتُ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَفَاحُجُ عَنْهُ قَالَ نَعَمُ.(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضله) خثعم قبیلہ کی ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا یا رسول اللہ میرا باپ بہت بوڑھا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج فرض ہو گیا ہے.وہ بوجہ بڑھاپا اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا.کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں.آنحضرت صلعم نے فرمایا ہاں.یہی حدیث مسلم کتاب الحج باب الحج عن العاجز....مع شرح نووی میں بھی ہے.عَنْ عِكْرَمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ أَفَاحُجُ عَنْهُ قَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ دَيْنٌ اَكُنتَ تَقْضِيْهِ قَالَ نَعَمُ قَالَ فَدَيْنُ اللهِ اَحَقُّ.( نسائی کتاب مناسک الحج باب تشبيه قضاء الحج بقضاء الدين) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عکرمہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے آنحضرت صلعم سے عرض کیا.یا رسول اللہ میرا باپ فوت ہو گیا اور اس نے حج نہیں کیا.کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ فرمایا کیا اگر تیرے باپ پر کوئی قرضہ ہوتا تو تو اس کو ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا ہاں.فرمایا پھر اللہ کا قرضہ زیادہ قابل ادائیگی ہے یعنی اس کو ادا کر دو.حضرت مسیح موعود کی طرف سے بھی حج بدل کرایا گیا اور حضرت حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم نے فریضہ حج ادا کیا.فَجٍّ الرَّوْحَاءِ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ مسیح موعود حج کرے گا اور فَج الروحاء سے عمرہ کرے گا.آنحضرت نے مسیح موعود کو حج کرتے دیکھا ہے :.الجواب..آنحضرت صلعم نے دجال کو بھی حج کرتے دیکھا ہے.کیا د قبال بھی حاجی ہوگا ؟ "رَجُلٌ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ.“ (بخاری کتاب بدء الخلق كتاب الانبياء باب واذكر في الكتاب مريم )
833 کہ آنحضرت صلعم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا آپ نے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ دجال ہے.باقی رہی حدیث لَيُهِلَّـنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجْ الرَّوْحَاءِ حَاجًا اَوْ مُعْتَمِرًا اَوْ لَيَثْنِيَنَّهُما.(صحيح مسلم كتاب الحج باب اهلال النبي و هديه ) تو یا درکھنا چاہیے کہ (۱) حدیث کے الفاظ میں اَوُ.اَوُ.او کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آنحضرت کے اصل الفاظ محفوظ نہیں ہیں.یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی محمد بن مسلم بن شہاب الزہری ہے.اس کے متعلق لکھا ہے قَالَ أَبُو الزَّنادِ كُنَّا نَكْتُبُ الْحَلَالَ وَالْحَرَامَ وَكَانَ ابنُ شُهَابٍ يَكْتُبُ كُلَّمَا سَمِعَ.“ (تهذيب التهذيب باب المیم زیرلفظ محمد ) کہ ابولز نا د نے کہا ہے کہ ہم تو حلال اور حرام کی بابت حدیث جمع کرتے تھے.مگر ابن شہاب جو سنتا تھا لکھ لیتا تھا.پس وہ حجت نہیں ہے اور ابو داؤد کہتے ہیں کہ "قَدْ رُوِيَ مِأَتَيْنِ عَنْ غَيْرِ الثَّقَاتِ کہ زہری کی روایت کردہ روایتوں میں دوصد کے قریب روایتیں غیر ثقہ راویوں سے مروی ہیں.(تهذيب التهذيـب بـاب المیم زیر لفظ محمد) نیز اس کے متعلق علامہ ذہبی کی رائے یہ ہے کہ كَانَ يُدَرِّسُ فِي النَّادِرِ.(میزان الاعتدال زیر لفظ محمد بن مسلم) اسی طرح حدیث کا دوسرا راوی سعید بن منصور بن شعبۃ الخراسانی ابو عثمان ہے اس کے متعلق لکھا ہے کہ إِذَا رَأَى فِي كِتَابِهِ خَطَاءً لَمْ يَرْجِعُ عَنْهُ.(تهذيب التهذيب باب الحاء زير لفظ حرملة و ميزان الاعتدال زیر لفظ سعيد بن منصور ( یعنی یہ راوی اتنا ضدی تھا کہ اگر اپنی تحریر کردہ حدیث میں کوئی غلطی بھی دیکھتا تھا تو اپنی غلطی سے رجوع نہ کرتا تھا.اسی طرح دوسری سند میں سعد بن عبدالرحمن الابھی بھی ہے جس نے یہ روایت زہری سے لی ہے.اس کے متعلق لکھا ہے کہ ”وَهُوَ دُونَهُمْ فِي الزُّهْرِيِّ فِي حَدِيثِهِ عَنِ الزُّهْرِيِّ بَعْضُ الْاِضْطِرَابِ.(تهذيب التهذيب باب السين زير لفظ معد) کہ لیٹ کی جو روایت زہری سے ہو وہ مشکوک ہوتی ہے.پس روایت متنازعہ بھی مشکوک ہے.تیسرے طریقہ میں حرملہ بن یحی بن عبداللہ بھی ضعیف ہے.ابو حاتم اس کے متعلق کہتے ہیں کہ لا يُحتج به کہ اس کا قول حجت نہیں نیز یہ روایت اس راوی نے ابن وہب سے لی ہے.حالانکہ یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان دشمنی تھی.پس یہ روایت حجت نہیں.(تهذيب التهذيب بـاب الحاء زير لفظ حُرملة) مختصر یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے اور اس میں زہری کی تدلیس اور لیٹ کا اضطراب اور حرملہ کی
834 عدم ثقاہت کا دخل ہے.لہذا حجت نہیں.۲.فَ الرَّوحاء کوئی میقات نہیں.چنانچہ (الف) فَجَّ بمعنی طریق است و ہر دور امکانیست ما بین مدینه طیبه رواد می صغرا در راه مکه مکرمه (حج الکرامته صفحه ۱۳۲۹ از نواب صدیق حسن خان صاحب بزبان فارسی ) پس ثابت ہوا کہ یہ میقات نہیں.ب لَيْسَ بِمِيْقَاتٍ ( المال الا كمال شرح مسلم جلد ۳ ص ۳۹۸) کہ نج روحاء کوئی میقات نہیں.ج.لغت کی کتاب قاموس میں ہے الرَّوحَاءُ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ عَلَى ثَلَاثِينَ وَ أَرْبَعِينَ مِيَّلًا مِنَ الْمَدِينَةِ ( قاموس فصل الراء باب الحاء ) كه روحاءحرمین کے درمیان مدینہ سے میں چالیس میل کے فاصلہ پر ہے.پس یہ نہ میقات ہے اور نہ میقات کے بالمقابل.مسلم کی ایک دوسری حدیث اس حدیث کی شرح کرتی ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ فَقَالَ أَيُّ وَادٍ هَذَا؟ فَقَالُوا وَادِى الْأَزْرَقِ فَقَالَ كَانِى اَنْظُرُ إِلى مُوسَى فَذَكَرَ مِنْ لَوْنِهِ وَ شَعُرِهِ...وَاضِعًا أَصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ لَهُ جُوَارٌ إِلَى اللهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي.قَالَ ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةً فَقَالَ أَيُّ ثَنِيَّةٌ هَذِهِ؟ فَقَالُوا هَرْشَي...فَقَالَ كَانِّی اَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ.....مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَيِّيًا.“ (مسلم کتاب الايمان باب الاسراء برسول الله الى السموت و فرض الصلوة) حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ ہم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان گئے.پس ہم ایک وادی سے گزرے.آنحضرت صلعم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ وادی ارزق.آنحضرت صلعم نے فرمایا گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر آنحضرت صلعم نے حضرت موسیٰ کے رنگ اور بالوں کا کچھ ذکر کیا انہوں نے اپنی انگلیاں دونوں کانوں میں ڈالی ہوئی ہیں اور وہ اس وادی سے گزرتے ہوئے لبیک کہہ رہے ہیں.راوی کہتا ہے کہ پھر ہم آگے چلے یہاں تک کہ ہم ایک ٹیلے پر پہنچے.آنحضرت نے پوچھا یہ کونسا ئیلا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہرشی ٹیلہ ہے آنحضرت صلحم نے فرمایا کہ گویا میں یونس کو ایک سرخ اونٹنی پر سوار ایک صوف کا جبہ پہنے ہوئے اس وادی سے گزرتے ہوئے اور لبیک کہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں.“
835 معلوم ہوا کہ جس طرح کشفی حالت میں آنحضرت صلعم نے ان انبیاء کو تلبیہ کہتے ہوئے دیکھا اسی طرح وادی فج الروحاء میں احرام باندھے ہوئے حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھا..چنانچہ تصوف کی مشہور کتاب التعرف کی شرح میں ابوابراہیم اسمعیل بن محمد بن عبداللہ المستملی لکھتے ہیں.قَالَ أَبُو مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَرَّ بِالصَّخْرَةِ مِنَ الرَّوْحَاءِ سَبْعُونَ نَبِيًّا حُفَاةً عَلَيْهِمُ الْعَبَاءُ يَطُوفُونَ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ.(شرح التعرف صفحہ ۷ ) کہ ابوموسیٰ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں نے روحاء کے مقام پر ایک چٹان کے پاس گذشتہ ستر نبیوں کو ننگے پاؤں چادریں اوڑھے کعبہ کا طواف کرتے دیکھا ہے.پس اسی لج الروحاء کے مقام پر حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی دیکھا ہے.۵.پس اس کشف کی تعبیر ہوگی اور تعبیر یہ ہے.وَاَنْ رَّاى أَنَّهُ حَجَّ أَوِعْتَمَرَ فَإِنَّهُ يَعِيْشُ عَيْشًا طَوِيلًا وَ تُقْبَلُ أمُورُهُ (تعطير الأنام في تعبير الاحلام باب الحاء ) یعنی جو شخص یہ دیکھے کہ اس نے حج یا عمرہ کیا ہے پس اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ لمبی عمر پائے گا اور اس کی مراد میں پوری ہوں گی.- وَمَنْ رَّاى فَعَلَ شَيْئًا مِنَ الْمَنَاسِكِ فَهُوَ خَيْرٌ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَ قِيْلَ إِنَّ الاحْرَامَ تَجَرَّدَ فِي الْعِبَادَةِ اَوْخُرُوجٌ مِنَ الذُّنُو.....فَإِنَّهُ يَدُلُّ عَلَى حُصُولِ رَحْمَةٍ.(كتاب الاشارات في علم العبارات باب • ا صفحه ام بر حاشیہ تعطیر الانام جلد اباب الصاد) کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے حج کے مناسک میں سے کوئی ادا کیا ہے.تو یہ بہر حال اچھا ہے.اور کہا گیا ہے کہ احرام باندھنا ( خواب میں ) صرف عبادت کے لئے یا گنا ہوں سے نکلنے کے لئے خاص ہے.کیونکہ یہ حصول رحمت پر دلالت کرتا ہے.وَمَنْ رَأَى كَأَنَّهُ خَارِجٌ إِلَى الْحَجِ فِي وَقْتِه....وَإِنْ كَانَ مَغْمُومًا فُرِجَ عَنْهُ..فَإِنْ رَأى كَأَنَّهُ يُلَتِى فِى الْحَرَمِ فَإِنَّهُ يَظُفُرُ بِعَدُوِّهِ وَيَأْمَنُ خَوْفَ الْغَالِبِ.منتخب الكلام في تفسير الاحلام لامام محمد بن سیرین باب نمبر ۴ صفحه ۳۷ برحاشیہ تعطیر الا نام باب الباء جلد اصفحہ ۳۷) کہ خواب میں جو شخص یہ دیکھے کہ حج کے ایام میں حج کے لئے جارہا ہے پس اگر تو اس کو کوئی خوف ہے تو وہ امن پائے گا اور اگر وہ ہدایت یافتہ نہیں تو ہدایت پائے گا.اور اگر وہ مغموم ہے تو غم دور ہوگا اور اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ احرام کی حالت میں لبیک کہہ رہا ہے پس وہ کامیاب ہو جائے گا اور خوف سے امن میں ہو جائے گا.
836.اور یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ دجال کا فر ہے.اس کا طواف سے کیا کام؟ جواب اس کا یہ دیا ہے علماء نے کہ یہ آنحضرت کے مکاشفات سے ہے.خواب میں تعبیر اس کی یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کو دکھایا.روز ہوگا کہ عیسی گرد دین کے پھریں گے واسطے قائم کرنے دین کے اور درستی کرنے خلل و فساد کے.اور درقبال بھی پھرے گا گرد دین کے بقصد خلل وفساد ڈالنے کے دین میں.كَذَا قَالَ الطَّيِّبِيُّ.مظاہر حق شرح مشکوۃ کتاب علامات قیامت باب حلیه دجّال و مرقاۃ شرح مشکواة كتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة و ذكر الدجال - مجمع البحار الانوار جلد ۲ صفحه۳۲۲ و بر حاشیه مشکوۃ صفحه۴۰۵ مطبع نظامی ) " لَيُهِنَّ" کا مضارع اس حدیث میں مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ترجمہ قرآن کو مدنظر رکھتے ہوئے حال کے لئے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ مولوی صاحب مذکور نے آیت وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِنَ (النساء: ۷۳ ) کا ترجمہ کوئی تم میں سے سستی کرتا ہے کیا ہے.(دیکھو تفسیر ثنائی تفسیر سورۃ النساء زیر آیت وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ أَيْبَطِنَ ) ۱۵.مرزا صاحب سے تو خدا کا وعدہ حفاظت تھا.پھر کیا ڈر تھا؟ جواب: - ا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: ۶۷ ) کا وعدہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھا اور یہ وعدہ ابتدائے نبوت میں ہوا تھا.“ در منشور زیر آیت وَاللهُ يَعْصِكَ مِنَ النَّاسِ - المائدة : ۶۷) پھر حضرت ہجرت کے لئے رات کو نکلے اور غار ثور میں چھپنے کی کیا ضرورت تھی؟ نیز در منشور میں ہے کہ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ بَعَثَ مَعَهُ أَبُو طَالِبٍ مَنْ يكلُوهُ » نیز دیکھوا بن کثیر بر حاشیہ فتح البیان زیر آیت وَاللهُ يَعْصِكَ مِنَ النَّاسِ.و بر محيط زیر آیت وَاللهُ يَعْصِكَ مِنَ النَّاسِ ) کہ رسول خد صلعم جب کہیں جاتے تو حضرت ابو طالب کسی آدمی کو بطور حفاظت ساتھ بھیج دیتے تھے.نیز اگر یہ کہو کہ مرزا صاحب نے بنچ بنائے اسلام بھی پورے نہ کئے تو تم یہ بتاؤ کہ نبیوں کے سردار آنحضرت صلعم نے پانچ بناء اسلام کو پورا کیا ہے؟ آپ کا زکوۃ دینا ثابت کرو نیز حضرت علی کا..جنگ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہ پہنی.فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ
837 رَأَيْتُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ الدِّرُعَ ( بیضاوی زیر آیت المائدۃ:۵۱) که بدر کی جنگ کے موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرہ بکتر پہنے ہوئے دیکھا.۳ تغییر حسینی میں لکھا ہے:.و تفسیر وسیط میں محمد بن کعب قرظی سے منقول ہے کہ لیلۃ العقبہ میں پچہتر آدمی اہل مدینہ میں سے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرتے تھے.عبداللہ رواحہ نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ شرط کر لیجئے جو خدا اور رسول کے واسطے آپ چاہتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ خدا کے واسطے تو میں یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤ.اور اپنے واسطے یہ شرط کرتا ہوں کہ ان چیزوں سے میری حفاظت کرو جن سے اپنی جانوں اور مالوں کی حفاظت کرتے ہو.“ ( تفسیر قادری مترجم زیر آیت لَا يَزَالُ بُنْيَاتُهُمُ الَّذِي - التوبة: ١١٠) ۱۶.مرزا صاحب نے ملازمت کی الجواب.بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِاهْلِ مكة (بخارى كتاب الاجارة باب رَغيِ الْغَنَمِ ) کہ میں چند قیراط لے کر کفار مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا نیز قرآن مجید میں حضرت موسیٰ" کا اپنے خسر کی بکریاں چرانا پڑھو.۱۷.چندہ لیتے تھے؟ حضرت مرزا صاحب چندہ لیتے ہیں.حالانکہ مہدی نے تو مال بانٹنا تھا یہاں تک کہ کوئی قبول کرنے والا باقی نہیں رہے گا.جواب:.مولویوں کو پیسوں کی خاص طور پر فکر ہوتی ہے.حدیث میں يَفِيضُ الْمَالُ ہے.(دیکھو ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء في نزول عيسى بن مریم ( یعنی اس زمانہ میں دولت اور مال زیادہ ہوگا.جیسا کہ اب ہے.۲.اگر يَفِيضُ الْمَالُ“ (ترمذى كتاب الفتن باب ما جاء في نزول عيسى بن مريم ) کو صحیح سمجھ کر یہ معنی کئے جائیں کہ مسیح موعود آکر مال تقسیم کرے گا مگر کوئی اس کو قبول نہیں کرے گا تو اس سے مراد د نیوی مال و دولت تو ہو نہیں ہو سکتا کیونکہ ترمذی شریف کی ایک اور صحیح حدیث میں ہے:.لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالِ لَابْتَغَى عَلَيْهِ ثَانِيَا وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيَا لَابْتَغَى عَلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا
838 يَمَلا جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التَّرَابُ “ (ترمذی کتاب المناقب ابی ابن کعب) اگر انسان کو ایک وادی مال و دولت سے بھر پور مل جائے تو اس پر بھی وہ ضرور دوسری وادی کا آرزومند ہوگا اور جب اس کو دوسری وادی بھی حاصل ہو جائے تو اس پر بھی وہ تیسری وادی کا خواہشمند ہوگا اور ( سچ تو یہ ہے کہ ) انسان کے پیٹ کو سوائے خاک کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی (یعنی قبر میں ہی جا کر اس کی حرص مٹتی ہے.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ مہدی کے وقت میں یہ انسانی فطرت بدل جائے اور آنحضرت صلعم کا یہ فرمان غلط ہو جائے.پس مہدی کے مال بانٹنے سے مراد وہ علوم آسمانی اور حقائق معارف کا خزانہ ہے جو مسیح موعود نے لوگوں کو دیا اور جس کو تمہارے جیسے بدقسمت قبول نہیں کرتے.۳.اس مال سے مراد وہ متعدد انعامات ہیں جو آپ نے اپنی مختلف کتابوں کے جواب لکھنے والوں کے لیے مقرر فرمائے.مگر کسی کو ان کے قبول کرنے کی جرات نہیں ہوئی.۴.قرآن مجید میں ہے:.الف - إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِمُوا بَيْنَ يَدَى نَجُوكُمْ صَدَقَةً (المجادلة: ۱۳) کہ اے مسلمانو! جب تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشورہ کرنے جاؤ تو کچھ چندہ بھی لے جایا کرو.ب.اِنَّ الله اشترى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة: 1) کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے مال اور ان کی جانیں خرید کر اس کے عوض ان کو جنت دے دیا ہے.ج.قرآن مجید میں سینکڑوں آیات انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق ہیں.۵.الزامی جواب بخاری میں ایک نہایت دلچسپ حدیث ہے.جس کے مطابق حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ بعض صحابہ کسی گاؤں میں بحالت سفر ٹھہرے اور اہل گاؤں سے دعوت طلب کی ،مگران لوگوں نے مہمانی سے انکار کیا.اتنے میں اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا.سب علاج کئے لیکن فائدہ نہ ہوا.کسی نے انہیں کہا کہ گاؤں سے باہر جو لوگ (صحابہ) ٹھہرے ہوئے ہیں ان سے پوچھو.شاید ان میں سے کسی کو کوئی علاج معلوم ہو.چنانچہ جب وہ لوگ صحابہ کے پاس آئے تو ایک صحابی نے
839 کہا ہاں میں دم کرنا جانتا ہوں.مگر چونکہ تم لوگوں نے ہمیں مہمانی دینے سے انکار کر دیا تھا اس لئے اب بلا اُجرت علاج نہیں کروں گا.اس پر ان لوگوں کے ساتھ ان کا معاوضہ چند بھیٹریں ، بکریاں مقرر ہوا.اس صحابی نے قبیلہ کے سردار پر الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ پڑھ کر دم کیا جس سے وہ یکدم اچھا ہو گیا اور اس صحابی کو گاؤں والوں نے معاوضہ ادا کر دیا.اس پر باقی صحابہ نے کہا اس معاوضہ میں ہمارا بھی حق ہے پس ہمارا حصہ بانٹ دو مگر وہ صحابی جنہوں نے دم کیا تھا کہتے تھے کہ چونکہ دم میں نے کیا ہے اس لئے یہ میرا ذاتی حق ہے کسی دوسرے کا اس میں حصہ یا دخل نہیں.اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ آنحضرت صلعم کے پاس چلتے ہیں جو فیصلہ حضور کریں.آخر وہ سب اصحاب آنحضرت صلعم کے حضور پیش ہوئے.حضور صلعم نے سب واقعہ سنا.پھر اس دم کرنے والے صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا:.وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ اَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهُما فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 66 (بخارى كتاب الاجارة باب مَا يُعْطِى فى الرقية على أحياءِ العَرَب بفاتحة الكتاب) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم کو کیسے معلوم ہوا کہ (سورۃ فاتحہ سے ) جھاڑ پھونک یا دم کیا جاتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا اب اس کو بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگا دو.“ یہ کہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے.سوال یہ ہے کہ (۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حصہ کیوں نکلوایا.(۲) مسکرائے کیوں تھے؟ ۶.اسی طرح بخاری کتاب الوكالة باب الوكالة في قضاء الديوان پر ہے کہ آنحضرت صلعم سے ایک شخص نے اپنا سابقہ قرض طلب کیا اور آپ سے جھگڑا کر کے سخت کلامی کی.جس پر صحابہ اسے مارنے لگے مگر آنحضرت نے صحابہ کو اس سے منع فرمایا مگر اپنا قرض صحابہ سے ادا کروایا.۱۸.مراق مرزا صاحب نے لکھا ہے مجھے مراق ہے ( بد رجلد۲ نمبر ۲۳ صفحہ ۵ کالم نمبر۲.۷ جون ۱۹۰۶ء) اور مراق کا ترجمہ ہے.ہسٹیر یا بقول مرزا بشیر احمد صاحب (سیرۃ المہدی جلد اصفحہ ۱۳ مطبوعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء) اور
840 جس کو ہسٹیریا ہو، وہ نبی نہیں ہو سکتا.بقول ڈاکٹر شاہ نواز خاں صاحب اسٹنٹ سرجن جہلم (ریویو آف ریلیجنز جلد ۲۵ جلد ۸ صفحه ۱۲۱ ۲۹۲۰ اگست ۱۹۲۶ء) پس ثابت ہوا مرزا صاحب نبی نہ تھے ان کو کا ٹالپسی CATALEPSY کا مرض تھا.(رسالہ مراق مرزا مؤلفہ حبیب اللہ صفحہ ۲) جواب:.(۱) خدا کے انبیا ء کو ہمیشہ مجنون ہی کہا جاتا ہے.قرآن میں کہا ہے أَنَّا لَتَارِكُوا الِهَتِنَا لِشَاعِرِ مَجْنُونِ (الصَّفت: ۳۷) (۲) سب انبیاء کے سردار آنحضرت صلعم کے بد باطن دشمنوں نے آپ کے متعلق بھی یہی بکواس کی تھی.چنانچہ ملاحظہ ہو کتاب "A Contribution to the History of Islamic Civilisation" (by Von Kremer Page 180-185) اصل الفاظ یہ ہیں :."Our acquaintance here with the fable, later on repeated with a peculiar zest, that Mohammed invented the story of his intercourse with Gebriel in order to allay the anxiety of Khadijah for epileptic fits with which he was often seized.ii) Guibert of Nogent writes, Mohammed however, was soon seized with epileptic fits, and Khadijah frightened and alarmed at this malady, hastened to the hermit for an explanation.She was, thereupon assured that the apparent epilepsy was only the condition in which Mohammed was honoured with divine revelations.".حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ مجھ کو مراق ہے.یہ غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مراق تھا.حضرت مسیح موعود کو دوران سر یعنی سر درد کا مرض ضرور تھا اور حضرت نے اپنی قریباً ہر ایک کتاب میں اس کا ذکر فرمایا ہے.مگر حضور نے ایک مقام پر بھی اس کا نام مراق نہیں رکھا.بدرے جون ۱۹۰۶ء جس کا حوالہ معترضین نے دیا ہے وہ حضرت کی تحریر نہیں بلکہ
841 ڈائری ہے.اور ڈائری حضرت مسیح موعود کی تحریر کے بالمقابل اور خلاف ہونے کی صورت میں حجت نہیں.پس اگر مراق کے لفظ سے مراد مالیخولیا ہے تو یہ حضرت کی تحریرات کے سراسر خلاف ہے.لہذا قابل قبول نہیں.حضرت نے جب صدہا مرتبہ اسی بیماری کا نام اپنی تحریرات میں ”دوران سر“ تحریر فرمایا ہے اور ایک جگہ بھی ” مراق نہیں لکھا تو ڈائری اس کے خلاف پیش نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامنگیر ہو جائے جیسا کہ جذام اور جنون اور اندھا ہونا اور مرگی.تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الہی ہو گیا اس لئے پہلے سے اُس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہر یک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کرونگا.“ اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۹ حاشیه ) ۴.الزامی جواب تم لوگ ہمیشہ خدا کے نبیوں کے متعلق ایسی ایسی باتیں گھڑتے ہی رہتے ہو جس سے انہیں خلل دماغ کا مریض تسلیم کرنا پڑے.حضرت مرزا صاحب کے تو تم دشمن ہو مگر تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی لحاظ نہیں کیا.یہاں تک کہ آپ کے متعلق لکھ دیا کہ آپ پر جادو کا اثر ہو گیا اور آپ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپ سمجھتے تھے کہ میں نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ آپ نے نہ کیا ہوتا تھا.( گویا نعوذ باللہ حواس قائم نہ رہے تھے ).چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلَهُ.66 (بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة ابليس وجنوده - تجرید بخاری از علامه حسین بن مبارک زبیدی ۹۰۰ ھ فیروز الدین اینڈ سنز لاہور ) ترجمه از تجرید بخاری:.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا ( اس سے ) آپ کو خیال ہوتا کہ ایک کام کیا ہے حالانکہ آپ نے اس کو کیا نہ ہوتا.“ پھر با وجود ان روایات کے حضرت مسیح موعود پر اعتراض کرو تو معذور ہو کیونکہ یرقان کے
842 مریض کو ہر چیز زرد ہی نظر آتی ہے.باقی رہا دورانِ سر اور اس پر مذاق اول تو اس لئے کہ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب خروج الدجال و نزول مسیح جلد۲ مصری کی حدیث میں ہے که مسیح موعود دو زرد چادریں پہنے ہوئے ہو گا.یہ آپ کی صداقت کی دلیل ہے اور اس لئے بھی کہ ڈاکٹری کی رو سے دوران سردماغ کے اعلیٰ ہونے پر دلالت کرتا ہے."The Subjects of Migraine are nearly always of an active capable and intelligant type." (A Text Book of The Practice of Medicine.U.W.Migraine) یعنی دوران سر کے مریض قریباً ہمیشہ قابل اور عالی دماغ آدمی ہوتے ہیں.“ باقی رہا سائل کا طرز استدلال.سو وہ خود ہی اس کی غلطی پر گواہ ہے.حضور نے کب کہا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بے شک حضرت اُم المومنین کی زبانی ہسٹیریا کا لفظ بولا ہے مگر ( اول ) آپ کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں کہ جو ترجمہ دوران سرکا کیا ہے وہ درست ہو اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہسٹیریا کا مرض تھا.پس تیسرا حوالہ جو معترض نے نقل کیا ہے وہ بھی بے فائدہ ہے.نہ حضرت اپنی نسبت ہسٹیر یا تسلیم کرتے ہیں نہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہسٹیریا کا ترجمہ مالیخولیا کرتے یا سمجھتے ہیں.پس مخالف کا استدلال قطعاً باطل ہے.ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب نے محولہ بالا رسالہ میں طبی نقطہ نگاہ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو قطعاہسٹیریا نہ تھا.ہم نے جو انگریزی عبارتیں (VON KREMER) کی نقل کی ہیں ان میں وہ آنحضرت صلعم کی نسبت (EPILEPSY) کا لفظ استعمال کرتا ہے اور لطف یہ کہ مولوی ثناء اللہ نے حضرت مسیح موعود کی نسبت (CATALEPSY) کا لفظ استعمال کیا ہے اور انگریزی ڈکشنری میں دونوں کا ترجمہ ایک ہی بتایا گیا ہے.تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ “ (البقرة: ١١٩) نوٹ.اسی کتاب کے صفحہ ۱۸۵ وصفحہ ۱۸۸ پر VON KREMER(فان کریمر ) نے آنحضرت کی وفات کے متعلق ایسی گندی اور نا قابل بیان فحش نویسی کی ہے کہ ہم اسے یہاں انگریزی میں بھی نقل نہیں کر سکتے.ان غیر احمدیوں کو جو حضرت مسیح موعود کی وفات کے متعلق مخش کلامی کیا کرتے ہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے.وہ اس قدر دل آزار ہے کہ حضرت مسیح موعود کے متعلق جو کچھ غیر احمدی کہا کرتے ہیں وہ دسواں حصہ بھی اس تحریر کے مقابلہ میں دل آزار نہیں.
843 ۱۹ میہی دوائیاں مرزا صاحب قوت باہ کی دوائیاں کھایا کرتے تھے.جواب.قرآن مجید میں ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ “ (الکھف: ااا) کہ کہہ دے کہ میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں.بوجہ بشریت تمام بشریت کے تقاضے (جو گناہ نہ ہوں) انبیاء کے ساتھ ہوتے ہیں.کوئی نبی اس سے مستفی نہیں.چنانچہ آنحضرت صلعم کے متعلق بھی اسی قسم کے واقعات ہیں :.ا.حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب ” کیمیائے سعادت میں فرماتے ہیں:.اور غرائیب اخبار میں منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ میں ضعف شہوت دیکھا تو جبرائیل نے مجھے ہریسہ کھانے کو کہا اور اس کا سبب یہ تھا کہ حضور کی نوعورتیں تھیں اور وہ تمام عالم پر حرام ہو چکی تھیں اور ان کی امید تمام جہان سے منقطع ہو چکی تھی.“ ( کیمیائے سعادت.مترجم اردو از ملک عنایت اللہ صاحب پر و فیسر مشن کالج مطبوعہ دین محمدی پریس.رکن سوم مہلکات میں اصل پیٹ اور شرمگاہ کی خواہش کے علاج میں صفحہ ۲۷۰) درج ہے:.نوٹ:.کیمیائے سعادت کے فارسی ایڈیشن مطبع نولکشور کے صفحہ ۲۷۸ پر یہ روایت ۲.ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے اپنی قوت باہ کا شکوہ کیا.جبرائیل نے کہا کہ تم ہریسہ کھایا کرو اس میں قوت چالیس مردوں کی رکھی ہے.“ انس بن مالک کہتے ہیں کہ فرمایا حضرت نے کہ تم خضاب کیا کروحنا کا ، کہ قوت باہ پیدا کرتی..ان حدیثات کو غایت الاحکام فی صناعت الاحکام نجم الدین ابن اللبو دی ۶۶۱ ھ والے نے بیان کیا ہے.“ ( طب نبوی شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز صفحہے ) ۴.تم لوگوں نے تو حضرت یحیی علیہ السلام کے متعلق اپنی تفاسیر میں لکھا ہے کہ وہ ”حضور“ تھے.ان معنوں میں کہ ان میں قوت باہ مطلقاً مفقود تھی.(اس سے زیادہ بیان کرنا قرین مصلحت نہیں.خادم )
844 دیکھو تفسیر ابن کثیر جلد تفسیر زیر آیت سَيْدًا وَ حَصُورًا (آل عمران: ۴۰) ۵.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے:.وَكَانَ النِّسَاءُ وَالطَّيِّبُ اَحَبَّ شَيْءٍ إِلَيْهِ وَكَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِى اللَّيْلَةِ الْوَاحِدَةِ وَكَانَ قَدْ أُعْطِيَ قُوَّةُ ثَلِثِيْنَ فِي الْجِمَاعِ وَغَيْرِه (زاد المعاد فصل: في هديه النكاح و معاشرته أهله) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویاں اور خوشبو بہت پیاری تھی اور آپ آپنی سب بیویوں کے پاس ایک ہی رات میں ہو آیا کرتے تھے اور حال یہ تھا کہ آپ کو جماع وغیرہ کے لحاظ سے تمہیں مردوں کی قوت عطا ہوئی تھی.66 ٢ - "كَانَ يَطُوفُ عَلَى جَمِيعِ نِسَائِهِ فِي لَيْلَةٍ بِغُسْلِ وَاحِدٍ.“ (جامع الصغیر امام سیوطی جلد ۳ باب الکاف حدیث نمبر ۷۰۸۵.مسند امام احمد بن حنبل حدیث نمبر ۱۲۵۱۴،۱۲۵۱۵ ، بخاری کتاب الغسل باب الجنب يخرج و يمشى فى السوق وغيره مسلم کتاب الحيض باب ماجاء جواز نوم الجنب.....الخ ابوداؤد كتاب الطهارة باب ما جاء في الرجل يطوف......الخ - ترمذی ابواب الطهارة باب ما جاء في الرجل يطوف على نسائه بغسل واحد _نسائی کتاب الطهارة باب اتيان النساء قبل احداث الغسل ابن ماجه كتاب الطهارة باب ما جاء في من يغتسل من جميع نساء ه غسلا واحدًا.تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ فیروز اینڈ سنز ۱۳۴۱ھ جلدا صفحه ۸۱ ) ترجمه از تجرید بخاری بحوالہ مذکورہ بالا:.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس (ایک ہی غسل میں.خادم ) ایک ہی ساعت کے اندر رات اور دن میں دورہ کر لیتے تھے.اور وہ گیارہ تھیں.(ایک روایت میں آیا ہے کہ وہ نو تھیں.انس سے پوچھا گیا کہ آپ ان سب کی طاقت رکھتے تھے؟ وہ بولے ہم تو کہا کرتے تھے کہ آپ کو تمیں مردوں کی قوت دی گئی ہے.ے.ایک اور حدیث میں ہے:.أَتَانِی جِبْرِيلُ بِقِدْرٍ فَاكَلْتُ مِنْهَا فَأُعْطِيتُ قُوَّةَ اَرْبَعِينَ رُجُلا فِي الْجِماع (جامع الصغير للسيوطى مصرى باب الالف الهمزه جلدا) د یعنی جبرئیل میرے پاس ایک مٹی کی ہنڈیا لائے.سو میں نے اس میں سے کھایا تو مجھے جماع میں چالیس مردوں کی قوت دی گئی.“ ۸.ایک اور روایت میں ہے:.
845 أُعْطِيتُ قُوَّةَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا فِي الْبِضَاعِ.» (فردوس الاخبار دیلمی بحوالہ کنز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق باب الالف برحاشیہ جامع الصغیر باب الالف مصری جلدا) کہ مجھے جماع میں تمہیں مردوں کی قوت دی گئی ہے.“.حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک ہی رات میں سو بیویوں سے مجامعت کی.(مسند امام احمد بن حنبل مسند ابي هريرة حديث نمبر ۷۰۹۷ - بخارى كتاب النكاح باب قول الرجل لا طُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى نِسَائِی مسلم كتاب الايمان بَابُ الْإِسْتِثْنَاءِ فِي اليمين وغيرها.نسائى كتاب الايمان والنذور باب الاستثناء فى اليمين - حوالہ جامع الصغير للسيوطى حرف الكاف مصری جلد ۲ صفحه ۸۵) ۲۰.ٹانک وائین مرزا صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم کی معرفت ٹانک وائن منگوائی؟ جواب:.1.ٹانک وائن شراب نہیں ہوتی بلکہ ایک دوائی ہے جو مختلف قسم کی بیماریوں خصوصاً بچہ پیدا ہونے کے بعد زچہ کے لئے مفید ہے.چنانچہ مشہور کتاب METERIA MEDICA" OF PHARACAUTICAL COMBINATIONS AND ".SPECIALITIES میں جو علم اجزاء وخواص الا دو یہ کی کتاب ہے ٹانک وائن“ کے متعلق لکھا ہے:.("Restorative after childs birth prophylactic against malarial fevers, anaemia, anorexia" Page 197) کہ ٹانک وائن بچہ کی ولادت کے بعد زچہ کی بحالی طاقت کے لئے مفید ہے نیز ملیریا کے زہر کو زائل کرنے اور کمی خون اور بھوک نہ لگنے کے لئے بھی مفید ہے.اب جب ہم حضرت اقدس کے محولہ خط کو جس میں ٹانک وائن کا ذکر ہوا ہے پڑھتے ہیں تو اس میں کہیں بھی حضور نے اس کے متعلق یہ نہیں لکھا کہ میں نے اسے خود استعمال کرنا ہے.حضرت اقدس خاندانی حکیم بھی تھے اور اکثر غریب بیماروں کو بعض اوقات نہایت قیمتی ادویہ اپنی گرہ سے دے دیا کرتے تھے.لہذا محض دوائی منگوانے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسے حضور نے خود استعمال فرمایا.انتہائی بغض کا نتیجہ ہوگا.۲.ہاں اس خط کے ساتھ ملحق خط میں حضرت اقدس نے اپنے گھر میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی ولادت کا ذکر فرما کر بعض دوائیں طلب فرمائی ہیں پس ٹانک وائین بھی غالبا ز چہ ہی کے
846 لئے منگوائی گئی.کیونکہ یہ دوائی اسی موقع پر استعمال کی جاتی ہے.پس اندر میں حالات بلا وجہ زبان طعن دراز کرنا انتہائی بدبختی ہے.خصوصاً جبکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ شراب نہیں بلکہ ایک دوائی کا نام ہے.اور اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ یہ دوائی کسی شراب فروش کی دکان سے نہیں ملتی.بلکہ انگریزی دوائی فروشوں کی دکان پر سے ملتی ہے.پس یہ ثابت ہے کہ ٹانک وائین شراب نہیں بلکہ دوائی ہے اور وہ دوائی بھی حضرت نے خود استعمال نہیں فرمائی لیکن غیر احمدیوں کے نزدیک تو خالص شراب کا استعمال بھی مندرجہ ذیل صورتوں میں جائز ہے.ملاحظہ ہو:.ا شراب میں تھوڑی سی ترشی آجائے تو پینا حلال ہے.“ ( فتاوی ہندیہ ترجمہ فتاوی عالمگیری مطبع نولکشور بار دوم ۱۹۰۱ ء جلد ۴ صفحه ۴۰۶) ا گیہوں وجود شہد وجوار کی شراب حلال ہے.“ (معین الہدایہ ترجمہ ہدایہ جلد ۲ صفحه ۳۹۸ مطبوعہ نولکشور بار اول ۱۸۹۶ء) چھوارے و منقی کی شراب حلال ہے.“ مزدوری ترجمه قدوری صفحه ۲۴۳ مطبع مجتبائی دہلی بار دوم ۱۹۰۸ء) ۴.” جس نے شراب کے نو پیالے پٹے اور نشہ نہ ہوا.اور پھر دسواں پیا اور نشہ ہو گیا تو یہ دسواں پیالہ حرام ہے.پہلے نو پیالے نہیں.“ (غایۃ الاوطار ترجمه در مختار جلد ۴ صفحریم ۲۶ مطبع نولکشور بار چهارم ۱۹۰۰ء) ۵.پیاسے کو شراب پینا ضرور تا جائز ہے.‘ ( ایضاً جلد اصفحہ ۱۰۶) جو گوشت شراب میں پکایا گیا ہو.وہ تین بار جوش دینے اور خشک کرنے سے پاک ہو جاتا ہے.(ایضاً جلدا صفحہ ۱۰۷) (فتاوی ہندیہ ترجمہ فتاوی عالمگیری صفحه ۵۶ جلد او صفه ۱۳۴، صفحه ۴۰۷ منقول از حقیقۃ الفقه الموسومه به الاسم التاریخی افاضات الجدیدہ محبوب المطابع برقی پریس دہلی مصنفہ الحاج مولوی محمد یوسف صاحب جے پوری بر صفحات ۱۴۷، ۱۴۸، ۱۷۰،۱۶۹حصہ اوّل) ے.علاوہ ازیں شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ ”جو کوئی چیز مسکر مخلوط ہو وئے تو بناء بر مذہب امام صاحب درست ہے.“ ( شرح وقایہ جلد۴ صفحه ۵۹ و کتاب الاشر یہ آخری سطر مترجم اردو.موسومہ بہ نورالہدایہ جلدم
847 صفحه ۲۱ مطبوعہ مطبع نظامی کانپور ) اور ظاہر ہے کہ دوائی ٹانک وائین مخلوط ہی کی صورت زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے.نہ اس سے زیادہ.۸.پھر لکھا ہے:.(الف) شراب بقد رسکر کے حرام ہے یہ مذہب امام ابوحنیفہ کا ہے.“ (شرح وقايه كتاب الأشربه) ب.اور جائز ہے سرکہ بنانا خمر کا.“ (نور الهدایہ ترجمہ اردو شرح وقايه كتاب الأشربه) ج.اسی طرح نبیذ کھجور کا یا انگور خشک کا جب تھوڑ اسا پکا لیا جائے.اگر چہ اس میں شدت ہو جائے لیکن ان تینوں کا اس مقدار تک پینا درست ہے کہ نشہ نہ کرے اور لہو و طرب کے قصد سے نہ پیئے.بلکہ قوت کے لئے استعمال کرے.“ ( نور الهدایہ ترجمہ اردو شرح وقايه كتاب الأشربه) د ”نسائی نے مثلث کی حلت کو حضرت عمرؓ سے روایت کیا.امام صاحب کے نزدیک صرف آخر کا پیالہ ہے جس سے نشہ ہوا.(نور الهدایہ ترجمہ اردو شرح وقايه كتاب الأشربه) ر اور مکروہ ہے خمر (شراب) کی تلچھٹ کا پینا اور اس کو کنگھی میں مل کر بالوں کو لگانا ،لیکن تلچھٹ کا پینے والا جب تک مست نہ ہو وے تو اس کو حد نہ لگے گی.(شرح وقایہ کتاب الأشربه) ۱۲.ریشمی کپڑے اور کستوری ”مرزا صاحب نے اپنے ایک مرید کولکھا کہ میری لڑکی مبارکہ کے لئے ریشمی گر نہ چاہیے جس کی قیمت چھ روپے سے زائد نہ ہو اور گوٹا لگا ہوا ہو.“ ( خطوط امام بنام غلام صفحه ۵ مجموعه مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور ) نیز کستوری استعمال کیا کرتے تھے.جواب:.کستوری کا استعمال ذیا بیطس کی بیماری کے لئے بطور علاج کے تھا اور ہم نے آج تک قرآن مجید، حدیث یا کسی دوسری فقہ کی کتاب میں یہ نہیں پڑھا کہ کستوری حرام ہے.قرآن مجید میں ہے.يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (الـمـؤمـنـون : ۵۲ ) کہ اے رسولو! جو پاک چیزیں ہیں وہ کھاؤ اور نیک کام کرو.باقی رہا مبارکہ کے لئے ریشمی کرتا اور گوٹا لگا ہوا تو عورتوں کے لئے یہ دونوں چیزیں اسلامی شریعت کی رو سے حلال ہیں.ہاں اگر یہ اعتراض ہو کہ خدا کے محبوبوں کو اچھی پوشاکوں اور اچھے کھانوں
848 سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو اس کا جواب سن لو! ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے.“ (سيرة النبي مشبلی نعمانی حصہ اول جلد ۲ صفه ۱۲ اطبع یاز دہم ۱۹۷۹ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد ) ۲.ابوداؤد میں ہے کہ: ”ایک صحابی پر کسی حروری نے اعتراض کیا کہ تم نے قیمتی حلہ کیوں پہنا.تو انہوں نے جواب میں کہا.میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر قیمتی لباس دیکھا ہے.“ (ابو داؤد كتاب اللباس باب لباس الغليظ ).حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسیر کستوری ایک ہی مرتبہ پانی میں ڈال دی اور اپنے اور اپنے بالوں کے اوپر مل دی (کشف المحجوب مترجم اردو تئیسواں باب بخشش اور سخاوت کے بیان میں ) ۴.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی میں زعفران لگایا کرتے تھے:.66 "كَانَ يَلْبَسُ النِّعَالَ السَّبُنِيَةَ وَ يُصَفَرُ لِحْيَتَهُ بِالْوَرُسِ وَالزَّعْفَرَانَ.“ (بخارى كتاب اللباس باب النِّعَالَ السَّبُنِيَّةِ وَغَيْرَهَا - مسلم ابوداود كتاب الترجل باب في خضاب الصفرة بحوالہ جامع الصغیر مصنفه امام سیوطی مصری جلد ۲ صفحه ۱۲۱) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رنگے ہوئے چمڑے کی جوتی پہنتے تھے اور ہندوستانی زعفران اور دوسرے زعفران سے داڑھی کو رنگا کرتے تھے.“ ۵." حضرت عثمان نے اپنے دانتوں کو سونے کے تار سے باندھ رکھا تھا.“ تاريخ الخلفاء مصنفه امام سیوطی مترجم اردو باب بيان الأمراء، ذكر عثمان ) ۶.حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ " پیران پیر جن کا دعویٰ ہے کہ ”میں اپنے جد امجد کے قدم پر ہوں.نہ اٹھایا کوئی قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام سے کہ نہ رکھا میں نے اپنا قدم اس جگہ پر.“ گلدستہ کرامات صفحہے.روایات شیخ شہاب الدین سہروردی مطبع مجتبائی دہلی ) نیز فرماتے ہیں کہ :.هَذَا وَجُودُ جَدِي مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وَجُوْدَ عَبْدِ الْقَادِرِ.“ (ايضاً صفحه۱)
849 کہ میرا وجود نہیں بلکہ میرے نا نا آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.ان کے کپڑوں کی یہ کیفیت تھی.(الف) جناب فیض مآب ملائک رکاب محبوب سبحانی قدس اللہ سرہ نہایت مقبول وضع اور خوش پوشاک رہتے تھے اور جسم مبارک کے کپڑے بھی ایسے بیش قیمت اور گراں بہا ہوتے تھے کہ ایک گز کپڑا دس دینار کوخریدا جاتا تھا.بلکہ ایک دفعہ عمامہ کر امت شمامہ جناب غوشیہ کا ستر ہزار دینار کوخریدا گیا تھا.“ گلدسته کرامات صفحه ۱۱۲ مطبع مجتبائی ، مناقب چهل و سوم در بیان بعض مخزن کرامات مطبع افتخار د بلی صفحه ۸۰) (ب) جناب غوث الاعظم نعلین ( جوتیاں ) قَدَمَيْنِ شَرِیفَتَيْنِ اپنے کی اس قدر بیش قیمت پہنا کرتے تھے کہ وہ نعلین یاقوت سرخ اور زمرد سبز سے مرصع ہوا کرتی تھیں اور نیچے کے تلووں میں ان کے میخیں چاندی اور سونے کی جڑی ہوئی تھیں اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی نعلین آٹھ دن سے زیادہ اپنے پائے مبارک میں پہنی ہوں.“ گلدسته کرامات صفحه ۱۲ مطبع مجتبائی مناقب چهل و چهارم در تعریف تعلین مطبع افتخار د بلی صفحه (۸) (ج) اور کبھی کوئی پوشاک ایک روز سے زیادہ آپ کے بدن شریف پر نہیں رہتی تھی اور سوداگر اور تجارا قالیم دور دراز سے پار چات عمدہ اور لباس ہائے بیش قیمت آپ کے واسطے لایا کرتے تھے اشیائے معطر سے آپ کو بہت شوق تھا کہ ہنگام مصروفیت عبادت جسم شریف اور لباس کو اس قدر عطر لگایا جاتا تھا کہ تمام مکان عالیشان مدرسہ معطر ہوجاتا تھا اور اکثر یہ شعر آپ کی زبان حق ترجمان پر رہتا تھا ہزار بار بشویم دہن زعطر و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است گلدسته کرامات صفحه ۲۱ مطبع مجتبائی ) ے.حضرت امام جعفر صادق نے اعلیٰ لباس زیب تن کیا.“ (تذکرة الاولیاء مترجم اردو پہلا باب صفحه۱۵ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز علمی پرنٹنگ پریس ) نیز محبوبان الہی کے اعلیٰ لباس کے پہنے کی حکمت ملاحظہ فرمائیں ( کشف المجوب از حضرت داتا گنج بخش صاحب مترجم اردو مولوی فیروز الدین صاحب صفحه ۵۴ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ) لیکن حضرت مسیح موعود کا لباس تو بالکل سادہ ہوتا تھا جس کا تم بھی انکار نہیں کر سکتے.
850 ۲۲.طبیعت کی سادگی اور محویت غیر احمدی :.حضرت مرزا صاحب بعض اوقات ایک پاؤں کا جوتا دوسرے میں پہن لیتے تھے.کبھی قمیض کے بٹن نیچے اوپر لگا لیتے تھے عام طور پر لوگوں کے نام بھول جاتے تھے.کیا اس قسم کا شخص بھی مقرب بارگاہ الہی ہوسکتا ہے؟ جواب.یہی تو مقربان بارگاہ الہی کی علامت ہے کہ ان کو انقطاع الی اللہ کی وہ حالت میسر ہوتی ہے جس سے دنیا وار لوگ بکلی محروم ہوتے ہیں ان کی یہ محویت اس لئے ہوتی ہے کہ ان کو دنیا اور اس کے دھندوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا.کیونکہ وہ دن رات اپنے خالق کی طرف سے مفوضہ فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف رہتے ہیں ان کو دنیا اور دنیا کے دھندوں میں قطعاً انہماک نہیں ہوتا کیونکہ وہ دنیا میں نہیں ہوتے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو ز میں سے کیا نقار " ( در تمین اردو صفحه ۸۲) ا.حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:.انْتُمْ أَعْلَمُ بِأمُورِ دُنْيَاكُمُ “ (کنز العمال جلد ۱ صفحه ۲۲۵ نیا ایڈیشن ) یعنی دنیا میری نہیں بلکہ تمہاری ہے اور تم ہی اپنی دنیا کے امور کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو.نیز دیکھیں مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال عن انس و عائشة ) ۲.حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہم کو ہدایت فرمائی ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کے جاتے رہنے میں خطرہ نہیں.ان کی طرف دل مشغول نہ کرنا چاہیے.کیونکہ جب تو فانی کی طرف مشغول ہوگا تو باقی سے در پردہ رہے گا.جبکہ نفس اور دنیا طالب کے واسطے حق سے حجاب ہوتا ہے.اس لئے دوستانِ خدا وند عز و جل نے اس سے منہ موڑا ہے.“ تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو مولوی فیروز الدین صاحب فصل اول ذکر حضرت ابو بکر صدیق) پھر فرماتے ہیں:.ایک گروہ نے لباس کے ہونے یا نہ ہونے میں تکلف نہیں کیا.اگر خداوند تعالیٰ نے ان کو گڈری دی تو پہن لی.اور اگر قبادی تو بھی پہن لی.اور اگر ننگا رکھا تو بھی ننگے رہے.اور میں کہ علی بن
851 عثمان جلابی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہوں اس طریق کو میں نے پسند کیا ہے اور اپنا لباس پہنے میں ایسا ہی کیا ہے.“ ۳.چند مثالیں ملاحظہ ہوں :.تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو چوتھاباب فصل سوم ) الف.حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ فرید الدین عطار تحریر فرماتے ہیں:.میں سال تک ایک کنیز آپ کے ہاں رہی، لیکن آپ نے اس کا منہ تک نہ دیکھا.آپ نے اس لونڈی کو مخاطب کر کے فرمایا.اس تہیں سالی کی مدت مجھ کو یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف دھیان کروں.اس وجہ سے تیری طرف متوجہ نہ ہو سکا.“ ( تذکرۃ الاولیاء اردو ترجمہ صفحہ ۳۷ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز) (ب) حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت لکھا ہے:.آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرید جو ہمیں سال سے ایک دم کے لئے آپ سے جدا نہ ہوا تھا، جب بلاتے تھے تو اس سے اس کا نام دریافت فرماتے.ایک دن اس مرید نے عرض کی کہ حضرت ! شاید آپ مذاق میں ایسا کہتے ہیں اور ہر روز میرا نام دریافت فرماتے ہیں.فرمایا کہ میں مذاق نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے نام نے تمام مخلوق کو میرے ذہن سے فراموش کر دیا ہے.اگر چہ میں تیرا نام یاد کرتا ہوں لیکن پھر بھول جاتا ہوں.“ ( تذکرۃ الاولیا ءار دو صفحہ ۱۱۹.باب چودھواں شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز ) ج.حضرت داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے:.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی ہے، گر پڑے گی.فرمایا میں سال ہوئے میں نے چھت کو نہیں دیکھا پھر آپ سے پوچھا گیا کہ خلقت سے کیوں نہیں ملتے ؟ فرمایا اگر اپنے آپ سے فراغت ہو تو دوسروں کے پاس بیٹھوں.“ ( تذکرۃ الاولیاء اردو صفحه ۴ ۱۵.اکیسواں باب شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز ) و.حضرت ابو سفیان ثوری کی نسبت لکھا ہے:.ایک دفعہ آپ نے ایک کپڑا الٹا پہن لیا.لوگوں نے کہا کہ سیدھا کر کے پہنو مگر آپ نے نہ کیا اور فرمایا کہ یہ کپڑا میں نے خدا کی خاطر پہنا ہے.خلقت کی خاطر اس کو بدلنا نہیں چاہتا.“ ( تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۴۰.سولہواں باب شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )
852 ۲۳.پردہ کے عدم احترام کا الزام غیر احمدی.حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں.بلکہ ایک ضعیفہ عورت بانو نام نے ایک مرتبہ آپ کے رضائی کے اوپر سے پاؤں دبائے.جواب:.اس اعتراض کی بنیا د حضرت مسیح موعود یا حضور کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ زبانی رادیات پر ہے.اور ظاہر ہے کہ حجت صرف حضرت مسیح موعود یا حضور کے خلفاء کی تحریرات ہیں.حضرت اقدس کی اپنی تحریرات کے برخلاف کوئی ڈائری یا کسی اور کا قول یا روایت ہرگز حجت نہیں.احراری معترضین اس سلسلہ میں جس قدر روایات پیش کرتے ہیں وہ سب ایسی کتابوں کی ہیں جن کی غلطی یا خطا سے منزہ ہونے کا دعویٰ خود ان کے مؤلفین یا مرتبین کو بھی نہیں ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تالیف ”سیرۃ المہدی“ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں.جیسا کہ خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے دیباچہ میں تحریر فرمایا ہے :.الف.اس سے یہ مراد نہیں کہ میں ان روایات کی تفصیل کے متعلق بھی صحت کا یقین رکھتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جو روایت کا طریق ہے اور جو روایات کے متعلق لوگوں کے حافظہ کی حالت ہے وہ مجھے ایسا خیال کرنے سے مانع ہے.پھر تحریر فرماتے ہیں:.(سیرت المہدی حصہ اوّل عرض حال صفحه ب مطبوعه ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء) میرا مقصود یہ رہا ہے کہ روایت کے سب پہلو واضح ہو جائیں تا کہ اول تو اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ ظاہر ہو جاوے.(ایضاً صفحہ ج) پھر فرماتے ہیں:.”میں الفاظ روایت کی صحت کا دعویدار نہیں ہوں.(ایضاً صفحہ ) علاوہ ازیں سیرت المہدی حصہ سوم کے شروع میں عرض حال صفحہ ا کے عنوان کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حصہ اول کی کئی روایات کی غلطیاں بیان فرمائی ہیں.نیز خود حصہ سوم کی بعض روایات کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ :.اگر یہ روایت درست ہے.“ ( مثلا دیکھیں حصہ سوم.صفحه ۵۰،۲۶،۲۲، ۱۳۸،۵۵) اسی طرح صفحه ۶۴ پر بھی درج کردہ روایت کی صحت کے بارے میں شک کا اظہار فرمایا ہے.اسی طرح صفحہ ۱۳۹ اپر روایت نمبر ۱۰ے کے بھی ایک اہم حصہ کو مغالطہ کا نتیجہ قرار دیا ہے.
853 ب.خود سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۵ روایت نمبر ۴۷۷ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود غیر محرم عورتوں سے لمس سے پر ہیز فرماتے تھے.پس ضروری ہے کہ مباحثات میں استدلال کی بنیاد صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خلفاء کی تحریرات پر رکھی جائے نہ کہ روایات پر..جہاں تک شریعت اسلامی کی تعلیم کا سوال ہے قرآن مجید نے ایسے مردوں یا عورتوں کو جو غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ » ( یعنی شہوانی جذبات سے خالی ) ہوں.مثلا بوڑھے اور بوڑھیاں یا خدا کے صالح اور پاک بندے، ایک دوسرے سے پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا.چنانچہ (الف) قرآن مجید میں سورة نور آیت:۳۲ رکوع ۴ میں جہاں پردے کے احکام ہیں وہاں أَوِ التَّبِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ من الرجال کے الفاظ موجود ہیں جن کو پردے کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا ہے.الف.اس کی تفسیر میں حضرت امام رازی تفسیر کبیر میں تحریر میں فرماتے ہیں:.اَوْ شُيُوخٌ صُلَحَاءُ إِذَا كَانُوا مَعَهُنَّ غَضُّوا اَبْصَارَهُمْ..وَقَالَ بَعْضُهُمُ الشَّيْخُ وَ سَائِرُ مَنْ لَا شَهْوَةَ لَهُ.“ تفسیر کبیر رازی زیر آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا - النور :۳۲) یعنی ایسے صالح بوڑھے جو عورتوں کی معیت کے وقت غض بصر کرنے والے ہوں یا تمام بوڑھے اور ایسے تمام لوگ جو شہوت سے پاک ہوں.ب تفسیر بیضاوی جلد ۲ میں آیت ( النور : ۳۲) کی تفسیر میں لکھا ہے " هم الشيوخ الأهمام“ یعنی اس سے مراد معمر بوڑھے ہیں.ج تفسیر حسینی میں ہے: ”بے شہوت والے مردوں میں سے یعنی وہ مرد جو کھانا مانگنے گھروں میں آتے ہیں اور عورتوں سے کچھ حاجت ہی نہیں رکھتے یعنی ان سے شہوت کا دغدغہ نہیں جیسے بہت بوڑھا.“ ( تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۳ زیر آیت النور :۳۲) ۳.احادیث نبویہ کی روشنی میں : الف - عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكِ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ وَ كَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَاطْعَمَتُهُ وَ جَعَلَتْ تَفْلِى رَأْسَهُ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ ، " (الادب المفرد باب هَلْ يَفْلِيُّ اَحَدٌ رَأْسَ غَيْرِهِ)
854 حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان کے گھر جایا کرتے تھے تو وہ حضور کو کھانا پیش کرتیں.( وہ حضرت عبادہ بن صامت کی زوجہ تھیں.) حضرت ام حرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور حضور کے سرسے جوئیں نکالنے لگیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہو گئے.ب.اسی طرح الادب المفرد میں ہے کہ حضرت سعد کے بازو کی رگ میں غزوہ احزاب کے موقع پر زخم آگیا تو ان کو مدینہ میں رفیدہ نامی ایک عورت کے پاس اس کے گھر میں رکھا گیا وہ ان کا علاج اور مرہم پٹی کرتی تھیں.خود آنحضرت صلم بھی صبح شام اس عورت کے ہاں سعد کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے رہے.ج.اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن میں حلوہ کھا رہی تھیں کہ حضرت عمرؓ بھی تشریف لے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں کھانے میں ان کے ساتھ ہو گئے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ”فَاَصَابَتْ يَدَهُ إِصْبَعِی کہ اس اثناء میں حضرت عمرؓ کا ہاتھ میری انگلی کے ساتھ چھو گیا.( الادب المفرد باب اكل الرجل مع امرته حدیث ۱۰۵۳) و.بخاری میں ہے:.عَنْ أَنَسٍ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنُ يَدْخُلُ بَيْتًا بِالْمَدِينَةِ غَيْرَ بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ إِلَّا عَلَى اَزْوَاجِهِ فَقِيْلَ لَهُ قَالَ إِنِّي أَرْحَمُهَا قُتِلَ اَخُوُهَا مَعِي.“ (بخارى كتاب الجهاد والسير باب فضل من جهز غازيا او خلفه بخير ) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے گھروں کے علاوہ سارے مدینہ میں صرف اُم سلیم کے گھر میں بالالتزام تشریف لے جاتے تھے.بعض لوگوں نے حضور سے اس کا سبب دریافت کیا تو حضور نے فرمایا کہ ام سلیم کا بھائی میرے ہمراہ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا.اس لیے میرے دل میں ام سلیم کے لیے خاص رحم ہے.(صفحہ ۴۱) صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور کے بعد ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما حضرت زید بن ثابت کی بیوی اُم ایمن کے ہاں ان کی ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے.(مسلم كتاب فضائل الصحابة بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ ايْمَن ) غرضیکہ کہ بیسیوں حوالے اس قسم کے موجود ہیں.و.حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.
855 امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زائدہ نام کی باندی کی حدیث مشہور ہے کہ ایک روز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور آپ کو سلام کہا.پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے زائدہ! کیوں میرے پاس دیر سے آئی ہو.تو مُوَفَّقَہ ہے اور میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں.“ تلخیص از کشف المجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الہی بخش محمد جلال الدین مطبوعه ۱۳۱۴ھ باب معجزات و کرامات کا فرق ) ز.حضرت داتا صاحب تحریر فرماتے ہیں.فقیہوں کا اتفاق ہے کہ جب راگ درنگ موجود نہ ہوں اور آوازوں کے سننے سے بری نیت ظاہر نہ ہو تب اس کا سننا مباح ہے اور اس پر بہت آثار و اخبار لاتے ہیں.جیسے کہ عائشہؓ سے روایت ہے:.66 قَالَتْ كَانَتْ عِنْدِي جَارِيَّةٌ تُغَنِّى فَاسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَلَمَّا أَحَسَّتْهُ وَ سَمِعَتْ حِسَّهُ فَرَّتْ فَلَمَّا دَخَلَ عُمَرُ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ كَانَتْ عِنْدَنَا جَارِيَّةٌ تُغَنِّى فَلَمَّا سَمِعَتْ حِسَّكَ فَرَّتْ فَقَالَ عُمَرُ فَلا أَبْرَحُ حَتَّى اَسْمَعَ مَا سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ.ترجمہ :.عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے.میرے پاس ایک لونڈی گا رہی تھی اتنے میں حضرت عمرؓ نے اندر آنے کی اجازت چاہی.جب اس لونڈی نے معلوم کیا اور ان کے آنے کی آواز سنی تو بھاگ گئی.پھر جب حضرت عمر اندر داخل ہوئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے.تب حضرت عمر نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنستے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ ہمارے پاس لونڈی گا رہی تھی.جب اس نے آپ کی آواز سنی تو بھا گی.پھر حضرت عمر نے کہا کہ میں نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ حضرت کا سنا ہوا نہ سنوں.پھر رسول اللہ صلعم نے اس کو بلایا.تب وہ آکر گانے میں مصروف ہوئی اور رسول اللہ صلعم سنتے تھے اور اکثر اصحاب نے ایسی روایت بیان کی ہے.(کشف المحجوب مترجم اردو صفحه ۴۶۲ لحن اور آواز سنے کا باب صفحہ ۴۶۹، صفحہ ۴۷) ۴.اولیاء امت کی مثالیں الف.حضرت داتا گنج بخش تحریر فرماتے ہیں:.جوانمردوں کا سپاہی اور خراسان کا آفتاب ابو حامد احمد بن خضر و بی بیخی رحمۃ اللہ علیہ بلند اور
856 اشراف وقت سے خاص تھا اور اپنے زمانہ میں قوم کا پیشوا اور خاص....اور فاطمہ جو اس کی زوجہ تھی طریقت میں اس کی بڑی شان تھی جب احمد کو بایزید کی زیارت کا قصد ہوا.فاطمہ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا.جب بایزید کے پاس آئے تو منہ سے پردہ اٹھایا اور گستاخانہ کلام شروع کی.احمد کو اس سے تعجب ہوا.اور اس کے دل میں غیرت نے جوش مارا اور کہا.اے فاطمہ! یہ کیا گستاخی ہے؟ جو آج تو نے بایزید سے کی ہے مجھے بتانی چاہیے.فاطمہ نے کہا کہ اس سبب سے کہ تو میری طبیعت کا محرم ہے.میں تجھ سے خواہش نفسانی کو پہنچتی ہوں اور اس سے خدا سے ملتی ہوں.اور کہا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری صحبت کی پرواہ نہیں رکھتا اور تو میرا محتاج صحبت ہے.وہ ہمیشہ ابو یز یڈ کے ساتھ شوخی کرتی.تا آنکہ ایک روز بایزید نے فاطمہ کا ہاتھ دیکھا کہ حنا سے رنگین ہے.پوچھا کہ اے فاطمہ! تو نے ہاتھ پر حنا کیوں لگائی ہے؟ اس نے جوب دیا کہ اے بایزید! جب تک تو نے میرے ہاتھ اور حنا کو نہیں دیکھا تھا مجھے تجھ سے خوشی تھی.اب کہ تیری نظر مجھ پر پڑی پھر صحبت ہماری حرام ہوگئی...ابو یزید نے کہا مَنُ اَرَادَ اَنْ يَنْظُرَ الِى رَجُلٍ مِنَ الرِّجَالِ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِبَاسِ النِّسَاءِ فَلْيَنْظُرُ إِلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنها.یعنی جو کسی مرد کو عورتوں کے لباس میں چھپا ہوادیکھنا چاہے تو اس کو کہا کہ فاطمہ کی طرف دیکھ.اور ابو حفص حدا درحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے.لَوْلَا أَحْمَدُ خِضْرَوِيَةٌ مَا ظَهَرَتِ الْفَتْوَّةُ.يعنى احمد بن خضر و یہ نہ ہوتا تو جوان مردی اور مروت پیدا نہ ہوتی.“ (تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو فصل ۲۳.ذکر حضرت ابو حامد احمد بن خضرویه) ب.حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:.آپ (حضرت احمد خضرویہ) کی بیوی امرائے بلخ میں سے تھی.اور وہ بھی طریقت میں بے نظیر تھیں.آپ کے نکاح میں آتے ہی انہوں نے ترک دنیا کو اپنا شغل کیا اور ریاضت مجاہدہ میں مشغول ہوگئیں اور کمال حاصل کیا.حضرت بایزید بسطامی سے بے تکلفانہ گفتگور ہا کرتی تھی.آپ کے دل میں بہت غیرت آئی کہ بیوی نے بایزید کے سامنے پردہ کیوں نہ کیا.لیکن بیوی نے کہا تم میری طبیعت کے محرم ہوا اور تم سے میں اپنی خواہش تک پہنچوں گی.لیکن بایزید طریقت کے محرم ہیں.ان سے خدا تک پہنچوں گی.“ (تذکرة الاوليا وذكر احمد خضرویه باب ۳۳ مترجم اردو شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز با رسوم صفحہ ۱۸۳ ظہیر الاصفیاء صفحه۲۷۳ مطبوعہ ۱۹۱۷ء اردو تر جمه تذکرۃ الاولیاء) 66
857 ج.حضرت عطار رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابو بکر شبلی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے تحریر فرماتے ہیں:.ایک دن شیخ ( حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ) کے گھر میں گئے.آپ کی اہلیہ شانہ کر رہی تھیں.شبلی نے شانہ چھینا چاہا.آپ کی اہلیہ نے پردہ کرنا چاہا مگر شیخ جنید ) نے فرمایا کہ نہ سر ڈھکونہ پردہ کرو کیونکہ یہ اپنے آپ میں نہیں ہیں.ان لوگوں کو کچھ خبر نہیں.( ایضاً صفحہ ۲۹۸ ذکر ابوبکر شبلی باب نمبر ۷۸ وایضاً صفحه ۵۲۴) وہ ایک دفعہ (شیلی) علی الصبح باہر گئے.تو ایک نو خیز حسین عورت کو ننگے سر دیکھا.آپ نے کہا کہ اے گل سر بہ پوش ( یعنی اے پھول اپنے سر کو ڈھک لے ) عورت نے جواب دیا کہ یا شیخ! گل سر نے پوشد ( پھول اپنا سر نہیں ڈھانکتا ہے ) عورت کا یہ جواب سن کر نعرہ مارا اور بیہوش ہو گئے.“ (تذکرۃ الاولیاء باب ۷۸ صفحه ۲۹۹ اردو ترجمہ ایڈیشن مذکور شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لا ہور ) ھ.حضرت عطار رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا.خادم) کی خدمت میں گئے.آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوئیں اور صبح تک نماز میں مصروف رہیں.میں دوسرے گوشے میں ذکر الہی میں مصروف رہا.صبح آپ ( رابعہ رحمۃ اللہ علیہا) نے فرمایا کہ اس بات کا کس طرح شکر یہ ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے رات بھر ہم کونماز کی تو فیق بخشی.(تذکرة الاولیا ء باب نمبر ۹ صفحه ۶۳) و.خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا) کے ہاں تھا.حقیقت اور طریقت کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن ہم دونوں میں سے کسی کے دل میں بھی مرد یا عورت ہونے کا خیال تک بھی نہ آیا.لیکن جب میں وہاں سے واپس ہوا تو اپنے آپ کو مفلس اور ان کو مخلص پایا.“ ( ایضا باب ۹ صفحه ۵۷،۵۶) ز خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ.خادم) نے ایک دفعہ آپ ( حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیہا.خادم) سے دریافت کیا کہ کیا تم کو شوہر کی رغبت نہیں؟ فرمایا عقد نکاح جسم پر ہوتا ہے اور یہاں میرا وجود ہی نہیں.میں مالک کی مملوک ہوں مالک سے پوچھو.“ (ایضاً صفحہ ۵۷) ح ایک رات خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ) اپنے چند رفیقوں کے ہمراہ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا) کے ہاں تشریف لے گئے لیکن وہاں چراغ نہ تھا.اور خواجہ حسن بصری
858 رحمۃ اللہ علیہا) کو چراغ کی ضرورت تھی.چنانچہ رابعہ ( رحمتہ اللہ علیہا) نے اپنی انگلی پر پھونک ماری جس سے انگلی فوراً روشن ہوگئی اور صبح تک چراغ کا کام دیتی رہی.اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ تو میں کہوں گا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرتا ہے اس کو اس کرامت سے ضرور حصہ ملے گا.‘ (ایضاً) ط.ایک دفعہ چند آدمی آپ ( حضرت رابعہ بصری ) کے پاس آئے.دیکھا کہ گوشت کو دانتوں سے کاٹ رہی ہیں.لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس چھری نہیں ہے؟ فرمایا کہ جدائی کے خوف سے میں نے کبھی چھری نہیں رکھی.(ایضا صفحہ ۶) ی.”حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد آپ (حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا) کی خدمت میں گیا.آپ اس وقت کچھ کھانا پکانا چاہتی تھیں اور گوشت ہانڈی میں ڈال دیا تھا.آپ کی توجہ گفتگو میں پڑگئی اور ہانڈی کا خیال نہ رہا.(ایضاً صفحہ ۶۳) (۵).باتو والی روایت مندرجہ سیرۃ المہدی“ کے بارے میں مندرجہ بالا جوابات کے علاوہ مندرجہ ذیل باتیں بھی قابل توجہ ہیں:.ا.وہ ایک بوڑھی بیوہ تھی.اور اس کے ارزل العمر تک پہنچ چلنے کا ثبوت خودروایت کا نفس مضمون ہے.ب.جسم کے مس کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوسکتا.کیونکہ روایت کے اندر ہی سردی کے موسم اور رضائی کا ذکر موجود ہے کہ وہ رضائی کے اوپر سے دبارہی تھی.ج.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا اور دیگر گھر کے لوگ موجود تھے اور بانو مذکورہ کی سادگی پر ہنس رہے تھے.مگر حدیث نمبر الف مندرجہ بالا دوبارہ مطالعہ فرمائیے.سر کو سہلانے یا اس سے جوئیں نکالنے کے لیے سر کو چھونا بہر حال ضروری ہے.(پاکٹ بک طذ اصفحہ ۸۵۳) ۲۴- عدم احترامِ رمضان کا الزام غیر احمدی:.حضرت مرزا صاحب نے امرتسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی لی اور رمضان کا احترام نہ کیا.
859 جواب: - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امرتسر میں مسافر تھے.اس لیے بموجب شریعت آپ پر روزہ رکھنا فرض نہ تھا.ملاحظہ ہو:.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ فَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ آخر “ (البقرة: ۱۸۵) که بیمار اور مسافر بجائے رمضان میں روزہ رکھنے کے بعد میں روزہ رکھ کر گنتی پوری کرے.حدیث:.حدیث شریف میں ہے:.الف "إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَ شَطْرَ الصَّلوةِ.“ ( مسند امام احمد بن حنبل حدیث انس بن مالک نمبر ۱۸۵۶۸.ابو داؤد کتاب الصيام باب من اختار الفطر طبع نول کشور صفحه ۲۶۹) یعنی اللہ تعالیٰ نے مسافر پر سے روزے اور نصف نماز کا حکم اٹھا دیا ہے.ب - صَائِمُ رَمَضَانَ فِي السَّفْرِ كَالْمُفْطَرِ فِي الْحَضَرِ.“ (ابن ماجه كتاب الصيام باب ما جاء في الافطار في السفر.جامع الصغير للسيوطى باب الصاد جلد ۲ مطبوعہ مصر ) ترجمہ:.رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے والا مسافر ویسا ہی ہے.جیسا حضر میں روزہ نہ رکھنے والا.نوٹ:.حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے.66 ج عَلَيْكُمُ بِرُخُصَةِ اللهِ الَّذِى رَخَّصَ لَكُمْ.» (مسلم کتاب الصيام باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان) یعنی تم پر خدا کی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنا ضروری ہے.د.لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ.“ (مسلم کتاب الصيام باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان للمسافر في غير معصية......الخ و بخاری کتاب الصيام باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لمن ظلل عليه الخ وتجريد بخاری متر حجم اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز ۱۳۴۱ھ جلدا صفحه ۳۷۳ و صفحه ۶۰۰) یعنی سفر کی حالت میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے.هـ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
860 وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَرَفَعَهُ إِلَى يَدِهِ لِيَرَاهُ النَّاسُ فَافْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَ ذَالِكَ فِي رَمَضَانَ.“ (بخاری کتاب الصوم باب مَنْ أَفْطَرَ فِي السَّفْرِ لِيَرَاهُ النَّاسُ ومسلم كتاب الصيام باب جواز الصوم والفطر........یعنی آنحضرت صلحم مدینہ سے روزہ رکھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے.مقام عسفان پر پہنچ کر حضور صلعم نے پانی منگوایا اور پھر پانی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اس غرض سے اونچا اٹھایا کہ سب لوگ آپ کو پانی پیتے ہوئے دیکھ لیں.پھر آپ نے روزہ توڑ دیا اور یہ واقعہ رمضان کے مہینہ میں ہوا.نوٹ:.یہ واقعہ حدیبیہ کے سفر کا ہے.اس حدیث پر علماء نے بہت طول وطویل بحثیں کی ہیں.بعض علماء کا خیال یہ ہے.أَنَّهُ خَرَجَ مِنَ الْمَدِينَةِ فَلَمَّا بَلَغَ كُرَاعَ الْعَمِيمِ فِي يَوْمِهِ أَفْطَرَ فِي نَهَارِهِ وَاسْتَدَلَّ بِهِ هَذَا الْقَائِلُ عَلَى أَنَّهُ إِذَا سَافَرَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجَرِ صَائِمًا لَهُ أَنْ يُفْطَرَ فِي يَوْمِهِ.“ (مسلم) كتاب الصوم بَابُ جَوَازِ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِى شَهْرٍ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرٍ....الخ حاشیه نووى) ود یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس روز مدینہ سے روانہ ہوئے اسی روز اس مقام پر پہنچ کر دن کے وقت ہی روزہ توڑ ڈالا.اور اس سے ان لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ جو شخص طلوع فجر کے بعد روزہ رکھ کر سفر پر نکلے اس پر واجب ہے کہ وہ دن ہی میں روزہ توڑ دے.لیکن جن علماء نے اس سے اختلاف کی ہے ان کا خیال ہے لَا يَجُوزُ الْفَطْرُ فِي ذَالِكَ الْيَوْمِ وَ إِنَّمَا يَجُوزُ لِمَنْ طَلَعَ عَلَيْهِ الْفَجَرُ فِي السَّفَرِ.“ (ايضاً ) یعنی روزہ کی حالت میں سفر پر نکلنے والوں کے لیے اس دن روزہ رکھنا جائز نہیں بلکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر سفر کی حالت میں صبح طلوع کرے تو مسافر کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے.مطلب یہ ہے کہ اس خیال کے علماء کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رمضان کے مہینے میں دن کے وقت تمام لوگوں کو دکھا کر پانی پیا تھا وہ سفر کا پہلا دن نہیں بلکہ دوسرا دن تھا اور آپ نے دوسرے دن روزہ نہیں رکھا تھا.یہاں ہمیں علماء کے اس اختلاف میں پڑنے کی ضرورت نہیں.جو بات بہر حال ثابت ہے
861 اور جس سے کسی عقیدہ یا خیال کے عالم کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ میں سفر کی حالت میں نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھا بلکہ تمام لوگوں کو دکھا کر دن کے وقت پانی پیا.اس حدیث کے الفاظ فَرَفَعَهُ إِلى يَدَيْهِ لِيَرَاهُ النَّاسُ “ اس ضمن میں بالکل واضح ہیں.یہاں تک کہ امام بخاری نے تو باب کا عنوان ہی ”مَنْ اَفْطَرَ فِی السَّفَرِ لِيَرَاهُ النَّاسُ“ رکھا ہے.یعنی و شخص جو رمضان میں لوگوں کو دکھا کر کھانا کھائے.ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی مسافر رمضان میں عام لوگوں کے سامنے کھائے پیئے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں.اور اس پر عدم احترامِ رمضان کا خود ساختہ نعرہ لگانا جائز نہیں.در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی امرتسر میں اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی سنت پر عمل فرمایا اور لوگوں کے سامنے سفر کی حالت میں چائے پی لی.یہ اعتراض کرنے والے احراری اگر سفر حدیبیہ کے وقت مقام عسفان پر موجود ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کرنے سے بھی باز نہ آتے."6 و مَنْ لَمْ يَقْبَلْ رُحْصَةَ اللَّهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ جِبَالِ عَرَفَةَ.( مسند احمد بن حنبل "مسند عبد اللہ بن عمر حدیث نمبر ۵۳۶۹ حوالہ جامع الصغير السيوطى باب الميم جلد ٢) و یعنی جو کوئی اللہ کی دی ہوئی رخصتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا اس پر عرفہ پہاڑ کے برابر گناہ ہے.“ ز او پر بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ پیش کیا جا چکا ہے.اب اُمت محمدیہ کے مایہ ناز ولی اللہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے:.یاد رہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ اس شان کے بزرگ ہیں کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی نسبت فرمایا ہے:.أبُو يَزِيدَ مِنَّا بِمَنْزِلَةِ جِبْرِيلَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ » یعنی ابو یزید ہمارے اولیاء امت کے درمیان ایسا ہے کہ جیسے جبرائیل فرشتوں میں.تلخیص از کشف الحجوب مصنفہ حضرت داتا گنج بخش مترجم اردو تیسری فصل.شیخ ابوحدان کی ملامت کی حقیقت) علاوہ ازیں خود حضرت داتا گنج بخش صاحب نے حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے
862 مزار پر کئی کئی ماہ تک مجاورت بھی کی.چنانچہ خود تحریر فرماتے ہیں:.میں کہ علی بن عثمان جلابی رحمتہ اللہ علیہ کا بیٹا ہوں.ایک وقت مجھے مشکل پیش آئی اور میں نے بہت کوشش کی اس امید پر کہ مشکل حل ہو جائے گی ، مگر حل نہ ہوئی.اس سے پہلے مجھے اس قسم کی مشکل پیش آئی تھی اور میں شیخ ابو یزید کی قبر پر مجاور ہوا تھا.آنکہ مشکل حل ہوئی.اس مرتبہ بھی میں نے وہاں کا ارادہ کیا اور تین مہینے اس کی قبر پر مجاور ہوا تھا اور ہر روز تین مرتبہ فسل اور تمیں مرتبہ وضو کرتا تھا.“ (تلخیص از کشف الحجاب چوتھا باب "علامت میں ذکر شیخ ابوحمدان کی ملامت کی حقیقت ) اب حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ بھی حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی سنیے :.ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ حجاز سے آرہے تھے اور شہر رے میں یہ چرچا ہوا کہ بایزید آئے ہیں.شہر کے لوگ استقبال کو گئے تا کہ ادب اور تعظیم سے ان کو لائیں.ابو یزید ان کی خاطر داری میں مشغول ہوۓ اور راہ حق سے رہ کر پریشان ہوئے اور جب بازار سے آئے تو آستین سے ایک روٹی نکال کر کھانے لگے.اور یہ ماجرا رمضانِ مبارک میں ہوا.سب لوگ اس سے برگشتہ اور بے اعتقاد ہوئے اور ان کو اکیلا چھوڑ دیا.پھر ابو یزید نے اس مرید سے جوان کے ساتھ تھا کہا کہ تو نے دیکھا ہے کہ میں نے شریعت مبارک کے ایک مسئلہ پر عمل کیا سب خلقت نے مجھے رڈ کیا.“ تلخیص از کشف المحجوب "علامت کا بیان چو تھا اب مترجم اردو.یہی واقعہ تذکرۃ الاولیاء ارد صفحه ۱۰۷ باب چودھواں اور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغدین سراجدین جلالی پرنٹنگ پریس با رسوم صفحہ ۱۳۵.۱۹۱۷ء پر بھی درج ہے.) ح ظہیر الاصفیاء اردو تر جمہ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک واقعہ درج ہے کہ آپ نے رمضان کے مہینہ میں مین بازار میں پانی پیا.(باب ۲۹ صفحہ ۱۷۵) ۲۵ بہشتی مقبره ا.قرآن مجید میں ہے:.إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ (سورة توبة (1) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ یہ سودا کیا ہے کہ ان کی جانیں اور ان کے مال لے لئے ہیں اور ان کے بدلے ان کو جنت دی ہے.۲.اسی طرح سورۃ صف آیت ۱۱ ۱۳ رکوع ۲ میں ”احمد رسول“ سے متبعین کو بالخصوص مخاطب
کر کے فرمایا:.863 "يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ باللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ (سورة الصف: ۱۱تا۱۳) اس آیت میں ان مومنوں کے لیے جو ایمان اور عملی صورت میں مالی و جانی قربانیاں کرنے والے ہوں جنت کا وعدہ دیا گیا ہے.٣- كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا * الوَصِيَّةُ للوالدين وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (البقرة : ۱۸۱) یعنی تم میں سے جب کسی کو موت آوے اس حالت میں کہ وہ مال بطور تر کہ چھوڑ نے والا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ معروف کے مطابق والدین اور اقر بین کو وصیت کر جائے.۴.شریعت اسلامیہ میں بموجب ارشاد نبوی صلحم مندرجہ بخاری شریف کتاب الوصايا بَابُ الْوَصِيَّةِ بِالثلث اپنی متروکہ جائیداد کے ۱۱۳ حصہ کے بارے میں ہر شخص کو وصیت کرنے کا حق ہے.۵.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کردے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا.“ (رساله الوصیت.روحانی خزائن جلد۲۰صفحه۳۲۱ حاشیه ) لیکن بایں ہمہ مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں :.66 الف."مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِى مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرَقَ.مستدرک امام حاکم بحوالہ جامع الصغير للسيوطى جلد اباب الميم و تجرید الاحادیث از علامہ مناوی صفحه ۳۰۷) کہ میرے اہل بیت کی مثال نوح کی کشتی کی سی ہے جو کوئی اس کشتی پر سوار ہو گا نجات پائے گا اور جوان سے پیچھے ہٹے گا وہ غرق ہو جائے گا.ب.حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ اللہ علیہ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت تحریر فرماتے ہیں:.لوگوں نے پوچھا آپ کی مسجد اور دوسری مسجدوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا.بروئے
864 شریعت سب یکساں ہیں.مگر بروئے معرفت اس مسجد میں بہت طول ہے.میں دیکھتا ہوں کہ دوسری مسجدوں میں سے ایک نور نکل کر آسمان کی طرف جاتا ہے مگر اس مسجد پر ایک نور کا قبہ بنا ہوا ہے اور آسمان سے نور الہی اس طرف آتا ہے.فرماتے ہیں ایک روز نداسنی کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص تمہاری مسجد میں آئے گا اس پر دوزخ حرام کر دی جائے گی.“ ( تذکرۃ الاولیاء باب ۷ اردو ترجمہ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز لا ہور با رسوم صفحہ۲۹۴) نوٹ :.یادر ہے کہ حضرت ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.شرف اہل زمانہ اور اپنے زمانہ میں یگانہ ابوالحسن علی بن احمد الخرقانی رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوئے ہیں.اور ان کے زمانے میں سب اولیا ء ان کی تعریف کرتے تھے...اور استاد ابوالقاسم عبدالکریم قشیری رحمتہ اللہ علیہ سے میں نے سنا ہے کہ جب ولایت خرقان میں آیا تو اس پیر ( یعنی ابوالحسن خرقانی".خادم) کے دبدبہ کے باعث میری فصاحت تمام ہوئی اور عبارت نہ رہی اور میں نے خیال کیا کہ میں ولایت سے جدا ہو گیا ہوں.“ تلخیص از کشف الحجاب مترجم اردو شائع کرده شیخ الہی بخش ومحمد جلال الدین فصل سوم ذکر حضرت ابوالحسن بن احمد الخرقانی "باب چھٹا ) ج.حضرت ابونصر سراج رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.فرماتے ہیں کہ جو جنازہ میری قبر کے پاس سے گزرے گا اس کی مغفرت ہوگی.“ ( تذکرۃ الاولیاء ایڈیشن متذکرہ بالا صفحه ۳۰۰ باب نمبر (۷۹) و.تذکرۃ الاولیاء میں حضرت ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ محمود غزنوی کی ایک گفتگو کا حال ان الفاظ میں مذکور ہے :.محمود نے کہا بایزید (رحمۃ اللہ علیہ ) کی نسبت کچھ فرما ئیں.آپ ( حضرت ابوالحسن خرقانی" ) نے کہا کہ بایزید نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھ کو دیکھا وہ شفاعت سے بے خوف ہو گیا.محمود نے کہا کہ کیا بایزید پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہیں ؟ ابو جہل اور ابولہب نے ان کو دیکھا مگر ان کی شفاعت نہ کی گئی؟ فرمایا کہ ادب کر و پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے ان کے چاروں صحابہ کرام کے اور
865 کسی نے نہ دیکھا.اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے.وَتَرْبَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَ هُمُ لا يُبْصِرُونَ “ (الاعراف : ۱۹۹) محمود کو یہ بات پسند آئی.“ ( تذکرۃ الاولیاء مترجم اردو باب ۷ ۷ صفحه ۲۷۹ و ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو ) ( تذکرۃ الاولیاء باب ۷۷ صفحه ۲۸۲ مطبوعہ شیخ چراغدین سراجدین کشمیری بازارلا ہور ) ۲.دن میں سوسو دفعہ پیشاب مرز اصاحب نے اربعین نمبر ۴ صفحہ ۴ و صفحہ ۵ طبع اول میں لکھا ہے کہ مجھے دن میں بعض دفعہ سو سود فعہ پیشاب آ جاتا ہے مرزا صاحب نماز کس وقت پڑھتے ہوں گے؟ جواب:.یہ تو بعض مواقع کا ذکر ہے.ورنہ عام طور پر حضرت اقدس کو ۲۰۱۵ مرتبہ پیشاب آتا تھا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفر ۱۳۶۴ ونسیم دعوت صفحه ۶۹ طبع اول ) نماز کے متعلق تمہیں اتنی فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا ہے:.” وہ بیماری ذیا بیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں.بسا اوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہر حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھنے تک میں زندہ رہوں گا.(اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۴۷۱) باقی رہا کثرت پیشاب اور اس پر مضحکہ! تو اس کے جواب میں ذرا مندرجہ ذیل حوالہ جات پر پڑھ لو:.لکھتے ہیں:.ا.حضرت امام رازی رحمتہ اللہ علیہ حضرت ایوب علیہ السلام کے ابتلاء کی تفصیل دیتے ہوئے فَانْقَضَ عَدُوُّ اللَّهِ سَرِيعا فَوَجَدَ أَيُّوبَ عَلَيْهِ السَّلَامُ سَاجِدًا لِلَّهِ تَعَالَى فَآتَاهُ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ فَنَفَخَ فِى مَنْخَرِهِ نَفْحَةٌ اِشْتَعَلَ مِنْهَا جَسَدُهُ وَ خَرَجَ بِهِ مِنْ فَرْقِهِ إِلَى قَدَمِهِ ثَالَيْلُ وَ قَدْ وَقَعَتْ فِيْهِ حِكَةٌ لَا يَمْلِكُهَا وَ كَانَ يَحِكُ بِاظْفَارِهِ حَتَّى سَقَطَتْ أَظْفَارُهُ ثُمَّ
866 حَكَّهَا بِالْمَسُوحِ الْخُشْنَةِ ثُمَّ حَكَهَا بِالْفَخَّارِ وَالْحِجَارَةِ وَ لَمْ يَزَلْ يَحُكُهَا حَتَّى تَقَطَّعَ لَحْمُهُ وَتَغَيَّرَ وَنَتَنَ فَاَخْرَجَهُ اَهْلُ الْقَرْيَةِ وَجَعَلُوهُ عَلَى كُنَاسَةٍ وَ جَعَلُوا لَهُ عَرِيْشًا وَ رَفَضَهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ غَيْرُ امْرَءَتِهِ إِنَّ أَيُّوبَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَقْبَلَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى..مُسْتَغِيْنًا مُتَضَرِّعًا إِلَيْهِ.فَقَالَ يَا رَبِّ لَاتِ شَيْءٍ خَلَقْتَنِي.يَا لَيْتَنِي كُنتُ عَرَفْتُ الذَّنْبَ الَّذى اَذْنَبْتُهُ وَالْعَمَلَ الَّذِي عَمِلْتُ حَتَّى صَرَّفْتَ وَجْهَكَ الْكَرِيمَ عَنِّي....الهى أَنَا عَبْدٌ ذَلِيْلٌ إِنْ أَحْسَنْتَ فَالْمَنُ لَكَ وَ إِنْ أَسَأْتَ فَبِيَدِكَ عُقُوبَتِي....الْهِي تَقَطَّعَتْ أَصَابِعِي وَ تَسَاقَطَتْ لَهُوَاتِي وَتَنَاثَرَ شَعُرِى وَ ذَهَبَ الْمَالُ وَ صِرْتُ اَسْأَلُ الْمُقْمَةَ فَيُطْعِمُنِي مَنْ يَمُنُّ بِهَا عَلَيَّ وَ يُعَيِّرُنِي بِفَقْرِى وَ هَلَاكِ أَوْلَادِى وَ رَوَى ابْنُ شِهَابٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَيُّوبَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَقِيَ فِي الْبَلَاءِ ثَمَانِيَ عَشَرَةَ سَنَةٌ فَرَفَضَهُ الْقَرِيبُ وَالْبَعِيْدُ إِلَّا رَجُلَيْنِ مِنْ اِخْوَانِهِ.“ ( تفسیر کبیر زیر آیت وَأيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّة الى مَشَى القُرُّ وَانتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ الانبياء: ۸۴) ترجمہ:.یعنی دشمن خدا ( ابلیس ) لپک کر حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس پہنچا.دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سجدے میں گرے ہوئے تھے پس شیطان نے زمین کی طرف سے اس کی ناک میں پھونک ماری جس سے آپ کے جسم پر سر سے پاؤں تک زخم ہو گئے اور ان میں نا قابل برداشت کھجلی شروع ہوگئی.حضرت ایوب علیہ السلام اپنے ناخنوں سے کھجلاتے رہے یہاں تک کہ آپ کے ناخن جھڑ گئے پھر اسے کھردرے کمبل سے جسم کو کھلاتے رہے پھر مٹی کے ٹھیکروں اور پتھروں وغیرہ سے کھجلاتے رہے.یہاں تک کہ ان کے جسم کا گوشت علیحدہ ہو گیا اور اس میں بد بو پڑ گئی.پس گاؤں والوں نے آپ کو باہر نکال کر ایک روڑی پر ڈال دیا اور ایک چھوٹا سا عریش ان کو بنا دیا.آپ کی بیوی کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی....حضرت ایوب علیہ السلام نے درگاہ خداوندی میں نہایت تضرع سے یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! مجھے تو نے کس لیے پیدا کیا تھا ؟ اے کاش! مجھے اس گناہ کا علم ہوسکتا جو مجھ سے سرزد ہوا اور اس عمل کا پتہ لگ سکتا جس کی پاداش میں تو نے اپنی توجہ مجھ سے ہٹالی الہی میں ایک ذلیل انسان ہوں اگر تو مجھ پر مہربانی فرمائے تو یہ تیرا حسان ہے اور اگر تکلیف دینا چاہے تو تو میری سزا دہی پر قادر ہے.الہی میری انگلیاں جھڑ گئی ہیں اور میرے حلق کا کو ابھی گر چکا ہے.میرے سب بال جھڑ گئے ہیں.میرا مال بھی ضائع ہو چکا ہے اور میرا
867 یہ حال ہو گیا ہے کہ میں لقمے کے لئے سوال کرتا ہوں تو کوئی مہربان مجھے کھلا دیتا ہے اور میری غربت اور میری اولاد کی ہلاکت پر مجھے طعنہ دیتا ہے ابن شہاب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اس مصیبت میں اٹھارہ سال تک مبتلا ر ہے.یہاں تک کے سوائے دو بھائیوں کے باقی سب دور ونزدیک کے لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی.“ ۲ تفسیر حسینی المعروف قادری میں ہے:.حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے انواع و اقسام کی مصیبتیں ان (حضرت ایوب علیہ السلام ) پر مقدر فرما ئیں.تو بلائیں ان پر ٹوٹ پڑیں.غرضیکہ ان کے اونٹ بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے اور بکریاں بہتیا آنے سے ڈو ہیں.اور کھیتی کو آندھی نے پراگندہ کر دیا.اور سات بیٹے تین بیٹیاں دیوار کے نیچے دب کر مر گئے.اور ان کے جسم مبارک پر زخم پڑ گئے.اور متعفن ہوئے اور ان میں کیڑے پڑ گئے.جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے مرتد ہو گئے.جس گاؤں اور مقام میں حضرت ایوب علیہ السلام جاتے وہاں سے وہ مرتد انہیں نکال دیتے.ان کی بی بی رحیمہ نام حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں رہیں.سات برس.سات مہینے.سات دن.سات ساعت.ایوب علیہ السلام اس بلا میں مبتلا رہے اور بعضوں نے تیرہ یا اٹھارہ برس بھی کہے ہیں.عشرات حمیدی میں لکھا ہے کہ جو لوگ ایوب علیہ السلام پر ایمان لائے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ اگر ان میں کچھ بھی بھلائی ہوتی تو اس بلا میں نہ مبتلا ہوتے.اس سخت کلام نے ان کے دل مبارک کو زخمی کر دیا اور انہوں نے جناب الہی میں آني مسنی الفسر (الانبياء : ۸۴ ) عرض کیا.یا اس قدر ضعیف اور نا تواں ہو گئے تھے کہ فرض نماز اور عرض نیاز کے واسطے کھڑے نہ ہو سکتے تھے.تو یہ بات ان کی زبان پر آئی.یا کیڑوں نے دل و زبان میں نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا اور یہ دونوں عضو تو حید اور تمجید کے محل ہیں.ان کے ضائع ہونے سے ڈر کر یہ کلمہ زبان مبارک پر لائے.یا ان کی بی بی کمال تہی دستی اور بے چارگی کی وجہ سے اپنا گیسو بیچ کر ان کے واسطے کھانا لائیں.ایوب علیہ السلام نے اس حال سے مطلع ہو کر آئِي مَسَّنِيَ الضُّرُّ کی آواز نکالی.اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کے جسم مبارک میں جو کیڑے پڑتے تھے.ان میں سے ایک کیٹر از مین پر آگرا اور جلتی ہوئی خاک پر تڑپنے لگا.تو ایوب علیہ السلام نے اسے اٹھا کر پھر اسی جگہ پر
868 رکھ دیا.چونکہ یہ کام اختیار سے واقع ہوا.تو اس نے ایسا کا نا کہ ایوب علیہ السلام تاب نہ لا سکے اور یہ کلمہ ان کی زبان مبارک پر جاری ہوا.( تفسیر حسینی مترجم اردو الموسومه به تفسیر قادری زیر آیت آني مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ الانبياء: ۸۴) ۳.حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن احمد الخواص رحمۃ اللہ علیہ جن کو حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے ”سر ہنگ متوکلان اور سالار مستسلمان“ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کا تو کل میں بڑا شاندار اور بلند درجہ تھا اس کے نشان اور کرامتیں بہت ہیں (تلخیص از کشف انجوب مترجم اردو باب ۱۸افضل ۵۴ ذکر ابو اسحاق ان کی نسبت حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.آخر عمر میں آپ کو دستوں کی بیماری لگ گئی دن رات میں ساٹھ بار غسل کرتے جب حاجت سے فارغ ہوتے غسل کر لیتے “ (تذکرة الاولیاء مترجم اردو باب نمبر ۸ صفح۳۰۴۰٫۳۰۳ تلخیص از کشف الحجاب اردو صفحه باب ۱۸ فصل ۵۴ ذکر ابواسحاق ) ۴.یہی حضرت ابراہیم الخواص رحمۃ اللہ علیہ اپنا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:.ایک روز میں نواحی شام میں جارہا تھا تو انار کے درخت دیکھے.میرے نفس نے انار کی آرزو کی مگر چونکہ ترش تھے اس لیے میں نے نہ کھائے جنگل میں پہنچ کر ایک شخص کو دیکھا کہ بے دست و پا اور ضعیف ہے.اس کے بدن میں کیڑے پڑ گئے ہیں اور بھڑیں اس کو کاٹ رہی ہیں مجھ کو اس پر شفقت آئی اور کہا کہ اگر تو کہے تو میں تیرے لیے دعا کروں تا کہ اس بلا سے تو رہائی پائے.“ جواب دیا.” میں نہیں چاہتا میں نے پوچھا.کیوں؟ جواب دیا.اس واسطے کہ مجھے عافیت پسند ہے اور اس کو بلا.مگر میں اس کی پسند کواپنی پسند پر ترجیح دیتا ہوں.“ میں نے کہا اگر تم چاہو کہ ان بھڑوں کو میں تم سے علیحدہ سے رکھوں.جواب دیا.”اے خواص! اپنے آپ سے شیریں انار کی آرزو علیحدہ رکھو.تو میری سلامتی چاہنا اپنے لیے ایسا دل چاہو جو کچھ آرزو نہ کرے.“ میں نے کہا کہ تم نے کیسے جانا کہ میں خواص ہوں اور انار شیریں کی آرزو رکھتا ہوں؟“ جوب دیا کہ ” جو حق تعالیٰ کو پہچانتا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی.میں نے کہا تمہاری حالت ان بھڑوں اور کیڑوں کے ساتھ کیا ہے؟ جواب دیا ”میری بھڑیں ڈنگ مارتی ہیں اور کیڑے کھاتے ہیں مگر جب وہ ایسا ہی چاہتا ہے تو بہت اچھا ہے.ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیا ءباب ۸۱ شائع کردہ حاجی چراغدین سراجدین لاہور با رسوم ۴۹۶ ، ۴۹۷ )
869 ۵.حضرت پیرانِ پیر غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے:.ایک دفعہ آپ کو کچھ خلل اسہال کا ہوا اور رات بھر باون مرتبہ اتفاق جانے بیت الخلاء کا عمل میں آیا تو آپ نے باون مرتبہ ہی غسل تازہ کیا.گلدسته کرامات صفحه ۳۶۴ نیز کتاب مناقب تاج الاولیاء مطبوعہ مصر صفحه ۳۶) ۲۷ تصویر کھنچوانا مرزا صاحب نے فوٹو کھنچوائی حالانکہ لکھا ہے."كُلُّ مُصَوّرٍ فِي النَّارِ “ " جواب:.ا.تمہارے پیش کردہ کلیہ میں سے تو خدا تعالیٰ بھی مستثنی نہیں کیا گیا.حالانکہ قرآن مجید میں ہے کہ وہ مُصوّر ہے.جیسا کہ فرمایا: - هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ (سورة الحشر : ۲۵) ۲.قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کے متعلق لکھا ہے :.الف " يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانِ كَالْجَوَابِ وَقَدُورٍ رسِلِتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا (سورة سبا : ۱۴) ب.ان آیات کا ترجمہ تفسیر حسینی الموسومہ بہ قادری میں مندرجہ ذیل ہے:.کام بناتے تھے جن سلیمان (علیہ السلام) کے واسطے جو چاہتے تھے سلیمان.دراور دالان اچھے اور دیوار میں خوب اور بناتے تھے مورتیں.اور فرشتوں اور انبیاء علیہم السلام کی صورتیں اس وضع پر جس پر کہ وہ عبادت کے وقت رہتے تھے.تا کہ لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر اسی صورت سے عبادت کریں..اور بناتے تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واسطے لکڑی وغیرہ کے کاسے.بڑے حوضوں کے مثل اور دیگیں اونچی اونچی کہا ہم نے کہ نیک کام کرو.اے آل داؤد! واسطے شکران ہم.نعمتوں کے کہ ثابت ہیں.“ ( تفسیر قادری المعروف به تفسیر حسینی اردوزیر آیت سباء ۱۴۰) ج امام رازی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :.إِنَّ اللهَ تَعَالَى اَنْزَلَ عَلَى ادَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ تَابُوتًا فِيْهِ صُوَرُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ أَوْلَادِهِ فَتَوَارَثَهُ اَوْلَادُ ادَمَ إِلَى اَنْ وَصَلَ إِلَى يَعْقُوبَ.“ ( تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت فِيْهِ سَكِينَةً مِنْ رَّبِّكُمْ البقرة: ۲۵۰) 66 یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک ” تابوت“ نازل فرمایا جس میں حضرت
870 آدم علیہ السلام کی اولاد میں ہونے والے سب نبیوں کی تصویریں تھیں.پس وہ صندوق اولا د آدم میں بطور ورثہ چلتا چلا آیا.یہاں تک کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا.“ و تفسیر بیضاوی میں تابوت سکینہ“ (سورة البقرة : ۲۵۰) کی تشریح میں لکھا ہے:.قِيلَ صُوَرُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ آدَمَ إِلى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقِيْلَ التَّابُوْتُ هُوَ الْقَلْبُ.( بیضاوی جلد اصفحه ۱۸ مطبع احمدی) یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک سب انبیاء علیہم السلام کی تصویریں اس صندوق میں تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ تابوت سے مراد دل ہے.۳.اسی طرح سورۃ البقرۃ: ۳۳۶۲۵۰ کی آیت:." أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيهِ سَكِيْنَةٌ مِنْ ذَيْكُمْ “ کی تفسیر میں لکھا ہے.تابوت سکینتہ اور وہ ایک صندوق تھا کہ سب انبیا علیہم السلام کی تصویر یں اس میں بنی ہوئی تھیں.“ ( تفسیر قادری ترجمہ اردو تفسیر حسینی زیر آیت البقرة : ۲۵۰) ۴.اصل بات یہ ہے کہ تصویر اور فوٹو میں بار یک امتیاز ہے.ممنوع تصویر ہے فوٹو نہیں.تصویر سے مراد ابھری ہوئی صورت“ یعنی ”بت“ ہے.فوٹو درحقیقت تصویر نہیں بلکہ عکس ہوتا ہے اور فوٹو گرافی کو عکاسی“ کہتے ہیں.چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ ذیل تشریح درج ہے:.إِنَّهُ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ يُرِيدُ السَّمَاثِيلَ الَّتِي فِيهَا الأَرْوَاحُ.(بخارى كتاب بدء الخلق باب اذا قَالَ أَحَدُكُمُ آمين ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد لفظ ” تصویر سے وہ بت ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان میں روحیں ہیں.۵.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اس اعتراض کا مفصل جواب براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶۵ تا ۳۶۷ پر تحریر فرمایا ہے.وہاں سے دیکھا جائے.۲۸.وفات مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی.سیرت مسیح موعود مؤلفہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب
871 کے آخری صفحہ پر لکھا ہے کہ وفات کے قریب آپ کو دست آئے.جواب :.دستوں کا آنا ہیضہ کو مستلزم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو دستوں کی پرانی بیماری تھی.چنانچہ ۱۹۰۳ء میں یعنی اپنی وفات سے چھ سال قبل حضرت اقدس اپنی کتاب تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۶ پر تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے دوستوں کی پرانی بیماری ہے.نیز الزامی جواب کے لیے کتاب مصنفہ فان کریمر صفحہ ۱۸۸ پڑھو.یہ کتاب پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہے.۲۹.نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے حدیث میں ہے "مَا قُبِضَ نَبِيٍّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ “ مگر مرزا صاحب فوت لاہور میں ہوئے اور دفن قادیان میں.جواب.(الف):.یہ حدیث ضعیف ہے.کیونکہ اس کا راوی الحسین بن عبداللہ جس کے متعلق لکھا ہے.تَرَكَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَ عَلِيُّ ابْنُ الْمَدْيِنِي وَالنَّسَائِي وَ قَالَ الْبُخَارِيُّ يُقَالُ: أَنَّهُ كَانَ يُتَهُمُ بالزَّنْدِقَةِ ( حاشیه علامه سندی بر ابن ماجه الجزء الاول صفحه ۲۵۶ مصری ) یعنی امام احمد بن حنبل اور علی ابن المدینی اور نسائی ” نے اس راوی کو ترک کیا ہے اور امام بخاری نے کہا ہے کہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زندیق ہے.ب.یہ حدیث کنز العمال میں بھی ہے.وہاں لکھا ہے.لَمْ يُقْبَرُ نَبِيٌّ إِلَّا حَيْتُ يَمُوتُ (حم عن ابى بكر وَ فِيْهِ اِنْقِطَاعٌ (كنز العمال حرف الشين كتاب الشمائل باب شمائل الاخلاق حدیث نمبر ۱۰۵۲) کہ نبی جہاں مرتا ہے وہیں قبر میں رکھا جاتا ہے اس حدیث میں انقطاع ہے گویا نا قابل قبول ہے.ج "وَ قَدْ رُوِيَ أَنَّ الْأَنْبَيَاءَ يُدْفَنُونَ حَيْثُ يُقْبَضُونَ كَمَا رَوَى ذَالِكَ ابْنُ مَاجَةَ بِأَسْنَادٍ فِيْهِ حُسَيْنُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَاشَمِيُّ وَ هُوَ أَضْعَفُ.“ ( نیل الاوطار جلد ۲ صفحه ۲۵۹) کہ مروی ہے کہ انبیاء جہاں فوت ہوں وہاں مدفون بھی ہوتے ہیں.جیسا کہ ابن ماجہ نے اس کو روایت کیا ہے.اس سند سے جس میں حسین بن عبداللہ ہاشمی ہے جو کہ اؤل درجہ کا ضعیف راوی ہے.و ملا علی قاری فرماتے ہیں:.
872 " رَوَاهُ الحِرْمَذِيُّ وَقَالَ غَرِيبٌ وَ فِي أَسْنَادِهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ.،، (مرقاة جلده اصفحہ ۳۰۷ شرح مشکواة کتاب الفضائل مکتبہ حقانیہ پشاور ) کہ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ حدیث غریب ہے اور اس سند میں عبدالرحمن بن ملیکی ہے جو ضعیف ہے.نوٹ:.ا.یہ روایت ترمذی ابواب الجنائز صفحہ ۱۷۰ میں ہے اور اس کے آگے ہی لکھا ہے کہ اس حدیث کا راوی عبد الرحمن بن ابی بکر ملیکی ضعیف ہے.نیز عبدالرحمن بن ابی بکر المیکی کے بارے میں تہذیب التہذیب باب العین زیر لفظ عبدالرحمن پر لکھا ہے کہ وہ ”ضعیف“ ”مَشْرُوكَ الْحَدِيثِ“ لَيْسَ بِشَيْءٍ.لَا يُتَابِعُ فِي حَدِيثِهِ ، لَيْسَ بِقَوِيّ“ علاوہ ازیں اس روایت کا ایک اور راوی ابو معاویہ (محمد بن خازم الضریر الکوفی) ہے.اس کی نسبت لکھا ہے کہ اَبُوْ مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ فِي غَيْرِ حَدِيثِ الأَعْمَشِ مُضْطَرِبٌ لَا يَحْفَظُهَا حِفْظًا جيدًا.تهذيب التهذيب باب الميم زر لفظ (محمد) ۲.تم لوگ ایک حدیث پیش کیا کرتے ہو کہ "يُدْفَنُ مَعِيَ فِي قَبْرِئُ (مشكوة كتاب " الفتن باب نزال عیسیٰ علیه السلام فصل نمبر۳) پس اگر یہ درست ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے تو بتاؤ کیا عیسی بوقت وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک میں داخل ہو کر آنحضرت کی قبر پر لیٹ جائیں گے.۳.ایک حدیث بھی اس کی تردید کرتی ہے.ملا علی قاری فرماتے ہیں :.وَ قَدْ جَاءَ أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ لَبْثِهِ فِى الْأَرْضِ يَحُجُّ وَيَعُودُ فَيَمُوتُ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ فَيُحْمَلُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَيُدْفَنُ فِى الْحُجُرَةِ الشَّرِيفَةِ.“ (مرقاة برحاشيه مشكوة مجتبائى كتاب الفضائل الفصل الثالث ) کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسی زمین میں اپنی عمر کا زمانہ گزار کر حج کرنے جائیں گے اور پھر واپس آئیں گے اور مکہ اور مدینہ کے درمیان فوت ہوں گے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ان کو اٹھا کر لے جایا جائے گا اور پھر آنحضرت صلعم کے حجرہ میں دفن کیا جائے گا.۴.یہ روایت واقعات کے بھی خلاف ہے.رُوِيَ أَنَّ يَعْقُوبَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَاتَ بِمِصْرَ فَحُمِلَ إِلَى أَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ
873 وَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَمِلَ تَابُوتَ يُوْسُفَ بَعْدَ مَا أَتَى عَلَيْهِ زَمَانٌ إِلَى أَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ.“ ( بحر الرائق شرح کنز الدقائق از شیخ اسمعیل حقی البروسوی متوفی ۱۱۳۷ھ جلد ۲ صفحہ ۲۱۰.نیز روح البیان زیر آیت إِذْ حَضَر يَعْقُوبَ الْمَوْتُ البقرة : ۱۳۴) کہ روایت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں فوت ہوئے.پس وہ مصر سے ارض شام کی طرف اٹھا کر لائے گئے اور موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کا تابوت بہت مدت گزرنے کے بعد شام میں لائے.( نیز شمائل ترمذی حاشیہ نمبر، صفحہ ۳۳ باب في وفاة رسول الله ) ۵ تفسیر حسینی میں لکھا ہے.یوسف صدیق علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ بنی اسرائیل جب تک ان ( حضرت یوسف علیہ السلام.خادم ) کا تابوت اپنے ساتھ نہ لے چلیں گے مصر کے باہر نہ جاسکیں گے.اور ان لوگوں میں سے کسی کو یہ خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف کہاں دفن ہیں؟ پس خود حضرت موسیٰ علیہ السلام ندا کرتے تھے کہ جو کوئی مجھے حضرت یوسف کے صندوق کا پتہ دے وہ جو مراد ہے چاہے لے.قوم بھر میں سے ایک بڑھیا بڑی عمر کی بولی.کہ اس شرط سے میں بتاتی ہوں کہ بہشت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بی بی ہوں.اور اسی شرط پر اس نے پتہ بتایا کہ وہ صندوق دریائے نیل کے گڑھے میں ہے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے نکالنے میں مشغول ہوئے.جب چاند آدھے آسمان پر پہنچا تو اپنا کام کر کے راہ لی.( تفسیر حسینی مترجم اردوز میر آیت و أوحينا إلى موتى آن آسرِ بِعِبَادِقَ - الشعراء:۵۳) ۳۰.” يُدْفَنُ مَعِيَ فِي قَبْرِى“ جواب:.اس کا مفضل جواب ”حیات مسیح کی تیرھویں دلیل کے جواب مندرجہ صفحہ ۲۹۶ پاکٹ بک ہذا پر ملاحظہ فرمائیں.۳۱.وراثت غیر احمدی:.(۱).بخاری میں ہے کہ نبیوں کا ورثہ نہیں ہوتا ، لیکن مرزا صاحب کا ورثہ تھا.(۲) مرزا صاحب نے لڑکیوں کو ورثہ دینے کی مسلمانوں کو تلقین نہیں کی اور نہ آپ کی لڑکیوں کو ورثہ ملا.پہلے سوال کا جواب (۱) اسی بخاری میں جہاں آنحضرت صلعم کی حدیث انبیاء کے ورثہ نہ ہونے والی درج ہے.وہیں پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ ذیل تشریح بھی درج ہے:.
874 يُرِيدُ بِذَالِكَ نَفْسَهُ (بخاری کتاب المغازی باب حدیث نبی نضیر نیز تجرید بخاری مترجم اردو جلد ۲ صفحه ۲۴۵ روایت نمبر ۴۳۵ قصہ بنونضیر ) یعنی آنحضرت صلعم کی اس سے مراد صرف اپنا وجود تھا.باقی انبیاء کی وراثت کے متعلق بیان کرنا مقصود نہ تھا.(۲) قرآن مجید سے حضرت عائشہ صدیقہ کی اس تشریح کی تائید ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیاء کا ورثہ ان کے ورثاء نے لیا اور انبیاء نے بھی اپنے باپ کا ورثہ لیا.ملاحظہ ہو.الف.حضرت داؤدعلیہ السلام خدا کے نبی اور بادشاہ تھے.آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کے وارث ہوئے.تخت کے بھی اور نبوت کے بھی.قرآن مجید میں ہے.وَوَرِثَ سُلَيْمَنُ دَاوُدَ ( العمل : (۱۶) که حضرت سلیمان علیہ السلام وارث ہوئے حضرت داؤد کے.گویا نبی (سلیمان) نے ورثہ لیا اور نبی ( داؤد ) کا ورثہ ان کے وارث نے حاصل بھی کیا.چنانچہ حضرت امام رازی تحریر فرماتے ہیں:.قَالَ قَتَادَةُ وَرَّتَ اللهُ تَعَالَى سُلَيْمَانَ مِنْ دَاوُدَ مُلْكَهُ وَ نُبُوَّتَهُ.66 ( تفسیر کبیر زیر آیت وَدَاوُدَ وَسُليمنُ إِذْ يَحْكُمَن فِي الْحَرْثِ - الانبياء: ۷۹) یعنی حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو حضرت داؤد کا ان کی حکومت اور نبوت دونوں کا وارث کیا.پس حضرت سلیمان با وجود نبی ہونے کے اپنے باپ حضرت داؤد نبی کے دنیوی و دینی، جسمانی وروحانی میراث کے پانے والے ہوئے.سلیمان نے ہزار گھوڑا ورثہ میں پایا.نقص الانبیاء مصنفہ عبدالواحد قصہ حضرت سلیمان تفسیر خازن زیر آیت وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ إِذْ يَحْكُمَن فِي الْحَرْثِ الانبياء: ۷۹ ومعالم التنزيل زیر آیت ووَرِثَ سُلَيْمَنُ دَاوُدَ النمل : ١٦) ب.اسی طرح حضرت امام رازی کی تفسیر کبیر جلد۲ صفحہ ۴۳۶ مطبوعہ مصر پر لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کا ” تابوت سکینہ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل فرمایا گیا اس میں سب نبیوں کی تصویر میں تھیں اور وہ اولاد آدم میں بطور ورثہ منتقل ہوتے ہوتے حضرت یعقوب تک پہنچا ( اصل عبارت ملاحظہ ہو زیر عنوان تصویر کھنچوانا‘ صفحہ ۸۶۹ پاکٹ بک ہذا.) ثابت ہوا کہ یہ صندوق حضرت اسحاق کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ورثہ میں پایا.
875 ج.حضرت زکریا نے خدا سے دعا کی کہ اے خدا! مجھے بیٹا عطا کر جو يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ (مریم: ۷) کہ وہ بیٹا میرا اور یعقوب کے گھرانے کا وارث ہو.إِنَّ الْمُرَادَ مِنْ وِرَاثَةِ الْمَالِ ( لوزی جلد ۲ صفحه ۹۲) دوسرے سوال کا جواب :.تمہارا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود کی بیٹیوں کو ورثہ نہیں ملا سفید جھوٹ ہے.کاغذات مال اس امر کے گواہ ہیں کہ حضرت اقدس کی دونوں بیٹیوں کو شریعت اسلام کے عین مطابق پورا پورا حصہ دیا گیا اور وہ اپنے اپنے حصوں پر قابض ہیں.یوں ہی اپنے پاس سے گھڑ گھڑ کے جھوٹے اعتراض کرنے سے کیا فائدہ ہے؟ نیز دیکھو کتاب حضرت مسیح موعود کے کارنامے صفحہ ۱۱۸، باقی رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی یا نہیں کہ لڑکیوں کو ورثہ دینا چاہیے تو اس کا جواب یقیناً اثبات میں ہے.مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں.ا.عام تعلیم کہ قرآن مجید کے تمام حکموں پر عمل کرو.(کشتی نوح صفحه ۲۴،صفحہ۲۵ طبع اول و ایام الصلح صفحه ۸۶، صفحه ۸۷) ۲.خاص مسئلہ وراثت یا لڑکیوں کو حصہ دینے کے متعلق..فاسقہ کے حق وراثت کے متعلق فتویٰ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۱) ( بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳ وفتاوی احمد یه صفحه ۱۴۹ مطبوعہ ۱۰ر ستمبر ۱۹۳۵ء) ۴.بیوی کی وفات پر مہر شرعی حصص کے ساتھ تقسیم کیا جائے.(فتاوی احمد یه صفحه ۱۴۸، مطبوع ۱۰ ستمبر ۱۹۳۵ء) ۵.نیز دیکھو آر یہ دھرم صفحه اتا صفحه ۷۸ طبع اول و مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۴۳ تا ۱۸۸-۱۸۸۸ء ۶.ورثہ کے متعلق..قرآن شریف نے مرد سے عورت کا حصہ نصف رکھا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ نصف اس کو والدین کے ترکہ میں سے مل جاتا اور باقی نصف وہ اپنے سسرال میں سے جالیتی ہے.( الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۸ کالم۳) غیر احمدی:.حضرت اماں جان نے آپ کی وفات کے بعد وراثت میں سے کیوں حصہ نہ لیا ؟ جواب:.بر بنائے تسلیم.اپنے حق کو اپنی مرضی اور خوشی سے ترک کر دینا اعلیٰ اخلاق میں سے ہے نہ کہ قابل اعتراض.مثال ملاحظہ ہو :.حضرت امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:.
876 ابو مجاہد سے مروی ہے کہ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ( حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ماجد ) نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی میراث سے حصہ شرعی نہیں لیا بلکہ اپنے پوتے ہی کو دے دیا.آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد چھ مہینے اور چند یوم تک ہی زندہ رہے.“ تاریخ الخلفاء مترجم موسومه به محبوب العلماء شائع کردہ ملک غلام محمد اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور مطبوع مطبع پبلک پرنٹنگ پر لیس صفحه ۴ ۱۰ فصل وفات ابوبکر) ایک ناقابل تردید ثبوت:.یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے بلکہ ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء تک پنجاب کے تمام اضلاع میں مغل قوم کے تمام افراد شریعت کی بجائے رواج زمیندارہ کے پابند تھے مگر رواج عام پنجاب کی مشہور و معروف اور مستند ترین کتاب The Digest of Customary Law پنجاب کا رواج زمینداره) مصنفہ Sir W.H.Rattigan سر ڈبلیو.ایچ.ریٹیگن) کے گیارھویں ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۲۹ء کے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے:.The family of the Mughal Barlas of Qadian, Tehsil Batala, is governed by Muhammadan Law.د یعنی قادیان کا مغل برلاس خاندان رواج زمیندارہ کا نہیں بلکہ قانونِ شریعت کا پابند ہے.“ اب دیکھنا چاہیے کہ پنجاب کے تمام مغلوں میں سے صرف قادیان کے اس مغل خاندان کو شریعت کے پابند ہونے کا فخر کیونکر حاصل ہو گیا ؟ جبکہ حضرت مسیح موعود کی بعثت سے قبل یہ خاندان بھی دوسرے مغل خاندانوں کی طرح رواج زمیندارہ ہی کا پابند تھا تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ حضرت مسیح موعود ہی کے احیائے شریعت کے عظیم الشان کارنامہ کا ایک پہلو ہے.پس بجائے اس کے کہ حضرت کے اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا حاسد بد ہیں اب بھی اعتراض کرنے سے باز نہیں آتا.یہ حقیقت ہے کہ حضور کی بعثت سے قبل حضور کا خاندان شریعت کی بجائے رواج کا پابند تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور کی بعثت کے بعد یہ خاندان ( تمام باقی مغل خاندانوں سے بالکل منفرد ہوکر ) شریعت کا پابند ہوگیا.کیا یہ تغیر مرزا کمال دین اور نظام دین کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر مانا پڑے گا کہ یہ حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ کا نتیجہ تھا کہ ” ابنائے فارس‘ نے ابد تک کے لیے احیائے شریعت کا علم
877 اپنے ہاتھوں میں تھام لیا.کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے ۳۲.ایک بیٹے کے دوباپ یا ایک بیوی کے دو خاوند احراری مقررین اپنے جوش خطابت میں جو جی میں آئے احمدیت کے خلاف اناپ شناپ کہتے چلے جاتے ہیں.اس قسم کی بے سروپا باتوں میں سے ایک احسان احمد شجاع آبادی کے الفاظ میں یہ ہے:.”ایک نبی کی امت کے۷۲ فرقے ہو سکتے ہیں.لیکن جس طرح ایک بیوی کے دو خاوند نہیں ہو سکتے ، اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہو سکتے.“ تقریر شجاع آبادی احراری مندرجہ اخبار تعمیر نو گجرات تبلیغ نمبر ۵ دسمبر ۱۹۴۹ء.صفحہ ۷ کالم نمبر۱) احراری مقررین کے اس قسم کے لغو اعتراضات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ خدایا! کیا یہ لوگ فی الحقیقت اپنی ان باتوں کو درست بھی سمجھتے ہیں؟ یا کیا ان لوگوں کا مبلغ علم اسی حد تک محدود ہے کہ جس طرح ایک بیوی کے دو خاوند نہیں ہو سکتے اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہو سکتے.کیا ان لوگوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ بنی اسرائیل میں بیک وقت حضرت موسیٰ“ اور حضرت ہارون دو نبی تھے ؟ حضرت عیسی اور حضرت بی بیک وقت نبی تھے.حضرت یعقوب اور حضرت یوسٹ بیک وقت نبی تھے.حضرت ابراہیم.حضرت اسمعیل اور حضرت الحق علیہ السلام بیک وقت نبی تھے.پھر یہ لوگ کس بنا پر یہ کہنے کی جرات کرتے ہیں کہ کسی قوم میں بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہو سکتے ؟ اور کس عقل کی بنا پر یہ لوگ ایک بیوی کے دو خاوند یا ایک بیٹے کے دوباپ کی بے معنے مثال پیش کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون کے بیک وقت ایک ہی قوم میں نبی ہونے سے کوئی حرج واقعہ نہیں ہوتا کیونکہ اگر چہ وہ دونوں براہ راست نبی تھے لیکن چونکہ شریعت موسیٰ علیہ السلام کی تھی اور حضرت ہارون ان کے تابع تھے.اس لیے نہ باپوں والی مثال ان پر صادق آتی ہے نہ دو خاوندوں والی ! لیکن حضرت بانی سلسہ احمدیہ پر تو یہ مثال کی طور پر بھی صادق نہیں آسکتی کیونکہ حضرت مرزا صاحب.حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح براہ راست نبی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
878 امتی اور غلام ہیں کلمہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کاہی ہے.شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے اور مسیح موعود کا مقام صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور نائب کا ہے.باپ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور مسیح موعود آپ کا روحانی فرزند ہے.یادر ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی شرائط بیعت میں آپ کے ساتھ جس تعلق کے قیام کا عہد لیا جاتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اس عاجز سے تعلق اخوت رکھے گا.گویا جماعت احمدیہ کے افراد کا تعلق بانی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اخوت کا ہے کیونکہ ان کا روحانی باپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.پس اندھا ہے وہ دشمن جو یہ اعتراض کرتا ہے کہ احمدیوں کے عقائد کے رو سے دوباپ ماننے پڑتے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں:.مے خانہ وہی ساقی بھی وہی پھر اس میں کہاں غیرت کا محل ہے دشمن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر شمخانے دو کلام محمود صفحه ۴ ۵ انظم نمبر۹۴) پھر فرماتے ہیں:.شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے ( کلام محمود صفحه ۴ ۱۸ نظم نمبر ۱۳۳) ہمارا ایمان ہے کہ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں.اس وجہ سے آپ ابوالانبیاء یعنی تمام اگلے اور پچھلے نبیوں کے باپ ہیں قیامت تک حضور ہی کی ابوت چلے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام محض حضور کے نائب اور روحانی فرزند کا ہے.اے کاش احراری معترضین کے دل میں خدا کا خوف ہو اور موت کا دن ان کو یاد ہو جب اس احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہو کر اپنے تمام اقوال و اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہوگا.اس وقت یہ ”جوش خطابت “یہ زبان کی چالاکیاں اور یہ اشتعال انگیز نعرے کام نہیں آئے گی.۳۳.کیا نبی کے آنے سے قوم بدل جاتی ہے! مولوی محمد علی صاحب احراری بھی ایک دور کی کوڑی لائے ہیں.آپ نے ہر مقام پر ہر احرار کانفرنس میں یہ نیا علمی نکتہ پیش کیا ہے کہ چونکہ قوم نبی سے بنتی ہے اس لیے ہر نئے نبی کے آنے
879 پر اس کی قوم کا نام بھی بدل جاتا ہے.موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے یہودی کہلاتے تھے مگر جب حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو جن یہودیوں نے ان کو مان لیا.وہ یہودی نہ رہے بلکہ عیسائی ہو گئے.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو جن عیسائیوں نے حضور کے دعویٰ کو قبول کر لیا وہ عیسائی نہ رہے بلکہ مسلمان کہلانے لگے.بعینہ اسی طرح مرزا صاحب کے ماننے والے مسلمان نہیں کہلا سکتے.ان کو احمدی یا قادیانی کہا جائے گا کیونکہ انہوں نے ایک نیا نبی تسلیم کر لیا ہے.یہ ہے وہ مایہ ناز اعتراض کہ جب گجرات احرار کا نفرنس منعقدہ ۳۰ نومبر ۱۹۴۹ء کے موقع پر مولوی محمد علی احراری نے اسے بیان کیا تو ” امیر شریعت احراز‘ نے اچھل اچھل کر اس نئے نکتہ پر انہیں دل کھول کر داد دی.بلکہ یہاں تک کہا جا میں نے تجھے سارے ارمان بخش دیئے“ پھر مولوی محمد علی احراری نے ہر مقام پر یہی اعتراض دہرایا اور قریباً ہر جگہ امیر شریعت احرار نے اسی انداز میں انہیں داد علم و عقل کے ساتھ یہی ڈرامہ دہرایا.اب آئیے ! اس اعتراض کا تجزیہ کریں اور دیکھیں اس میں کس قدر صداقت اور سچائی ہے.پہلا مغالطہ :.اس مزعومہ دلیل میں پہلا مغالطہ تو یہ دیا گیا ہے کہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پہلا نبی جو آیا وہ حضرت عیسی علیہ السلام تھے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان قریباً چودہ سو سال کا فاصلہ ہے اس عرصہ میں بنی اسرائیل میں ہزاروں انبیاء آئے.حضرت یوشع بن نون ، داؤد، سلیمان جز قیل ہسموئیل ، یوئیل ،ملا کی ، ایلیاہ، میکاہ، عزراء وغیرہ ہزاروں نبی ہیں جو حضرت عیسی سے پہلے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک ہی قوم بنی اسرائیل میں آئے.پس اگر یہ بات درست ہے! کہ قوم نبی سے بنتی ہے اور نئے نبی کے آنے سے قوم بدل جاتی ہے تو پھر مولوی محمد علی صاحب احراری اور ان کے اس نکتہ پر عش عش کر اٹھنے والے احراری امیر شریعت بتائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے بھائی ہارون جو نبی تھے تو ان کے ذریعہ سے کونسی نئی قوم معرض وجود میں آئی تھی اور ان کے ماننے والوں کا نام کیا رکھا گیا تھا ؟ پھر ان کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام بن نون کے نبی ہونے پر جونئی قوم پیدا ہوئی تھی وہ کونسی تھی ؟ اور اس کا کیا نام تھا؟ اسی طرح ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعہ کونسی نئی قوم بنی تھی ! پھر ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے کس قوم کی تشکیل فرمائی تھی ان کی قوموں کے کیا کیا نام تھے ؟ خود احراری معترض کو بھی مسلم ہے کہ موسیٰ کی قوم کا نام یہودی تھا اور یہ نام
880 قائم رہا جب تک کہ عیسی علیہ السلام نہیں آگئے.تب جا کر بقول معترض اس قوم کا نام بدلا.اگر قوم نبی سے بنتی ہے اور نئے نبی کے آنے سے پہلے نبی کی قوم کا نام بدل جاتا ہے تو پھر کیوں اس قوم کا نام چودہ سو سال تک نہ بدلا؟ اور اس وقت باوجود اس کے کہ بقول قرآن مجید " ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَقُرًا" (المومنون: ۴۵) وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ “ (البقرة: ۸۸) کہ اللہ تعالیٰ نے پہ یہ پے اور قدم بقدم رسول بھیجے مگر پھر بھی اس قوم کا نام نہ بدلا.تو اب کیوں نام بدل جائیگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ یا تو یہ لوگ علم دین سے بکلی بے بہرہ ہیں جو ایسی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں کہ ایک طالب علم بھی دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑے اور یا جان بوجھ کر مغالطہ آفرینی کر کے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں.دوسرا مغالطہ:.احراری معترض نے دوسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ گویا ” یہودی اس قوم کا نام ہوا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائی.حالانکہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام خود اپنی نبوت سے پہلے بھی یہودی تھے.پولوس رسول حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے کے باوجود خود کو یہودی قرار دیتا ہے.(دیکھو اعمال باب ۲۲ آیت۳) کیونکہ یہودی مذہب نہیں بلکہ نسل ہے آج اس وقت دنیا میں لاکھوں عیسائی موجود ہیں جو نسلاً یہودی ہیں.پس احراری معترض کا یہ کہنا کہ موسیٰ کے ماننے والے ” یہودی“ کہلائے اور حضرت عیسی کے ماننے والے عیسائی بالبداہت باطل ہے.تیسرا مغالطہ:.احراری معترض نے تیسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ گویا مسلمان کا نام اور لقب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کے باعث دیا گیا.حالانکہ قرآن مجید سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام مسلم تھا.قرآن مجید میں ہے.الف- مَا كَانَ إِبْرهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلكِنْ كَانَ حَنِيفًا لِما (ال عمران : ۲۸) کہ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ خالص مسلمان تھا.ب وَوَطى بِهَا إِبْرهِم بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِى إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الَّذِيْنَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (البقرة : ۱۳۳) که حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب نے اپنی اولا د کو یہ وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے دین (اسلام) کو چن لیا ہے.پس تم پر ایسی حالت میں موت
881 آئے جبکہ تم مسلمان ہو.ج.حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا قرآن مجید میں ہے:.رب تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصّلِحِينَ (يوسف : ۱۰۲) کہ اے میرے خدا! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا دے.و.موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی مسلم ہی تھا.قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے کہا.66 قَالَ أَمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أُمَنَتْ بِهِ يَنُوا إِسْرَاءِيْلَ وَآنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ “ (یونس: ۹۱) کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ اس خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لاتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں.اگر موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام ” یہودی تھا تو فرعون کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں یہودی ہوتا ہوں نہ یہ کہ مسلمان ہوتا ہوں.ھ.حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی مسلمان ہی تھا.ملاحظہ ہو قرآن مجید میں ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو جو خط لکھا اس میں لکھا.” أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأَتُونِي مُسلِمِينَ (النمل : ۳۲) کہ میرے بالمقابل سرکشی نہ کرو اور میرے پاس مسلمان ہو کر آ جاؤ.و.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی مسلمان ہی تھا.قرآن مجید میں ہے:.فَلَمَّا أَحَشَ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ أَمَنَا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسلِمُونَ (ال عمران: ۵۳) کہ جب عیسی علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ان کے مخالفین ان کی نبوت کے انکار پر مصر ہیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ خدا کے دین کا مددگار کون ہے ؟ حواریوں نے عرض کیا ہم خدا کے دین کے انصار ہیں.پس اے عیسی آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں.پس قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہر بچے نبی کے پیروں کا نام مسلمان ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : (۲۰) خدا کے نزدیک صحیح اور درست ایک ہی مذہب ہے جس کا نام اسلام ہے.پس خدا کی طرف سے جو بھی نبی آئے گا وہ خدا کے دین اسلام ہی کی طرف انسانوں کو دعوت دے گا اور اس کے ماننے والوں کا نام ”مسلم “ ہی ہوگا.
882 ۳۴.حضرت مرزا صاحب کے ماننے والوں کا کیا نام رکھا گیا احراری معترض نے یہ مغالطہ بھی دیا ہے کہ خود حضرت مرزا صاحب نے اپنی جماعت کا نام مسلمان نہیں رکھا بلکہ احمدی رکھا.اور مردم شماری کے کاغذوں میں بھی جماعت کو ” احمدی“ کا نام لکھانے کی ہدایت کی.حالانکہ یہ محض تلبیس اور جھوٹ ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے ہرگز اپنی جماعت کا نام محض ”جماعت احمدیہ یا اپنے ماننے والوں کا نام محض ”احمدی نہیں رکھا.اور نہ اپنی جماعت کو محض احمدی‘ نام مردم شماری کے کاغذوں میں لکھانے کی ہدایت فرمائی جس اشتہار میں حضرت مرزا صاحب نے اپنی جماعت کا نام تحریر فرمایا ہے وہ ۴ نومبر ۱۹۰۰ء کو شائع ہوا اور تبلیغ رسالت جلد نمبر ۹ صفحہ نمبر ۸ تا ۹۱ پر موجود ہے اس میں حضور تحریر فرماتے ہیں:.یادر ہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا ہے ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے.“ (مجموعہ اشتہارات جلد نمبر صفحہ ۳۵۷) اور وہ نام جو اس سلسلہ کے لیے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لیے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمد یہ ہے.اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکار ہیں.یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیہ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۶۴، ۳۶۵) اس فرقہ کا نام ”مسلمان فرقہ احمدیہ اس لیے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم “ دیکھواشتہارم نومبر ۱۹۰۰ء تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۹۱٬۹۰) پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے خود اپنی جماعت کے لیے لفظ ” مسلمان“ کو ترک کر دیا ہے وہ جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے.جماعت احمد یہ مسلمان فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جس طرح دوسرے تمام فرقوں کے علیحدہ علیحدہ امتیازی نام ہیں مثلاً’اہلسنت والجماعت“ حنفی یا اہلحدیث یا شیعہ وغیرہ اسی طرح اس فرقہ کا بھی احمدی‘ نام ہے.لیکن جس طرح باقی سب فرقے اسلام کے فرقے ہی ہیں بلکہ اصل اور حقیقی اسلام کے حامل ہونے کے مدعی ہیں اسی طرح اس فرقہ کا بھی دعوی ہے کہ اصل اور حقیقی اسلام اسی فرقہ میں ہے.
883 به تکفیر اسلامی فرقوں کے ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ تکفیر :.مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگے گا (۱) فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحه ۴ ۳۷ (۲) حج الکرامه صفحه ۳۶۳(۳) مکتوبات امام ربانی جلد۲ صفحه ۱۰۷ مکتوب نمبر ۵۵ (۴) اقتراب الساعۃ صفحه ۹۵ و صفحه ۲۲۴ مندرجہ بالاحوالجات کی اصل عبارات ملاحظہ فرمائیں پاکٹ بک ہذا صفحہ ۸۲۵،۸۲۴.(۱) شیعہ کافر ہیں:.اہل سنت کے بزرگان و علماء نے بالا تفاق شیعوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے.ملاحظہ ہوں حوالجات ذیل:.ا.دربار رسالت سے:.اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِي بنِ أَبِي طَالِبٍ إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ..يُقَالُ لَهُمُ الرَّافِضَةُ فَاقْتُلُهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ إِنَّهُمْ مُشْرِكُونَ.(رواه الامام الهادى يحيى بن الحسين امام اليمن في كتابه الاحكام مسلسلا بآبائه الكرام من عنده الى عند الحسن ابن علی ابن ابی طالب......وهو الامام العظيم الذي صار علماً يقتدى بمذهبه في غالب الديار اليمنية.سراج الوہاج جلد ۲ صفحہ ۵۷۸ از صدیق بن حسن بن علی الحسینی القو جی مطبع صدیق الكائن بھوپال) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم ہوگی جس کو رافضی کر کے پکارا جائے گا تم ان کو قتل کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں.(۲) دربار غوث الاعظم سے:.(الف) عَلَيْهِمْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَلَائِكَتَهُ وَسَائِرُ خَلْقِهِ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ لَأَنَّهُمُ بَالَغُوا فِي عُلُوهِمْ وَمَرَدُوا عَلَى الْكُفْرِ وَتَرَكُوا الْإِسْلَامَ وَفَارَقُوا الْإِيْمَانَ وَجَحَدُوا الإلهُ وَالرُّسُلَ وَالتَّنْزِيلَ.66 (غنیۃ الطالبین.مصنفہ حضرت پیران پیر غوث الاعظم جیلانی " مع زبدۃ السالکین صفحه ۲۲۰ مطبع مرتضوی دیلی ) اس عبارت کا ترجمہ تحفہ دستگیر تر جمہ اردو غنیۃ الطالبین سے نقل کیا جاتا ہے.
884 ان پر خدا کی اور تمام فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت تا قیامت ہے خدا ان کا نام ونشان اس جہان سے مٹا ڈالے اور ان کی سبزیوں کو زمین سے دور کرے اور ان میں زمین پر پھرنے والا کوئی باقی نہ رہے.کیونکہ یہ لوگ اپنے غلو میں بہت بڑھ گئے ہیں.کفر پر جم گئے ہیں.اسلام کو چھوڑ بیٹھے ہیں خدا وند کریم اور قرآن اور تمام پیغمبروں کو نہیں مانتے جولوگ ایسی باتیں کرتے ہیں خدا ان سے اپنی پسنہ میں رکھے.“ (غنیۃ الطالبین مترجم اردو المعروف به تحفه دستگیر شائع کردہ ملک سراج الدین اینڈسٹر لاہور صفحہ ۱۳۱) ب.پھر حضرت غوث الاعظم تحریر فرماتے ہیں:.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب کو گالی نہ دو.پس جس شخص نے میرے اصحاب کو گالی دی اس پر خدا کی لعنت ہے اور آخر زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا کہ وہ اصحابوں کے رتبہ کو کم کرے گا.خبر دار تم نے ہرگز ان کے ساتھ کھانا پینا نہیں.ہرگز ان کے ساتھ نکاح کرنا کرانا نہیں اور ان کے ساتھ نماز بھی نہ پڑھنی اور ان پر نماز جنازہ بھی نہ پڑھنی.“ (غنیۃ الطالبین مترجم اردو صفحہ ۱۲۰ بعنوان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی فضلیت اور بزرگی ) ۳.امام ربانی مجددالف ثانی : "بدترین جمیع مبتدعان جماعه اند که باصحاب پیغمبر علیه و علیہم الصلوۃ والسلام بغض دارند - اللہ تعالی در قرآن مجید خود ایشاں را کفار می نامد - لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّار...قرآن و شریعت لازم مے آید.قرآن جمع حضرت عثمان ست علیہ الرضوان اگر عثمان مطعون ست.قرآن ہم مطعون است اَعَاذَنَا اللَّهُ سُبْحَانَهُ عَمَّا يَعْتَقِدُ الزَّنَادِقَةُ مکتوبات امام ربانی جلد مکتوب پنجاه و چهارم ) ( ب ) بدترین فرق شیعه شنیعہ وحواله مذکور بالا صفحه ۲۷) یعنی تمام بدعتیوں سے بدترین جماعت شیعوں کی ہے جو کہ اصحاب پیغمبر علیہ السلام سے بغض رکھتے ہیں.خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کا نام کافر رکھا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ (الفتح ۳۰) صحابہ قرآن و شریعت کی تبلیغ کرنے والے تھے.پس اگر صحابہ پر طعن کیا جائے تو قرآن و شریعت پر طعن لازم آتا ہے.قرآن مجید حضرت عثمان کا جمع کیا ہوا ہے پس اگر عثمان پر طعن کیا جائے تو قرآن پر طعن ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو ان زندیقوں کے عقائد سے بچائے رکھے.آمین (ب) تمام فرقوں سے بدترین فرقہ شیعہ شنیعہ ہے.مکتوبات امام ربانی جلد دفتر اول حصہ دوم صفحه ۲۷ مکتوب نمبر ۴ ۵ مطبوعه مجددی پریس امرتسر ۱۳۳۸ھ )
885 گویا صرف در بار رسالت ہی سے نہیں بلکہ دربار خداوندی سے بھی شیعوں کی تکفیر کا فتویٰ بقول امام ربانی مجد دالف ثانی صادر ہو چکا ہے.۴ دربار عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ سے:.فتاوی عالمگیری میں ہے:.الرَّافِضِيُّ إِذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا وَالْعَيَاذُ بِاللَّهِ فَهُوَ كَافِرٌ مَنْ اَنْكَرَ اِمَامَةَ أَبِي بَكْرِ الصِّدِيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَهُوَ كَافِرٌ...وَكَذَالِكَ مَنْ اَنْكَرَ خِلَافَةَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ..هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ خَارِجُوْنَ عَنْ مِلَّةِ الْإِسْلَامِ وَأَحْكَامُهُمْ أَحْكَامُ الْمُرْتَذِيْنَ كَذَا فِى الظَّهِيرِيَّةِ.“ (فتاوی عالمگیری مرتبه بحکم شہنشاہ اورنگ زیب جلد ۲ صفحه ۲۶۴) یعنی رافضی جو کہ حضرت ابو بکر و عمر کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے وہ کافر ہے.اور جو حضرت ابوبکر کی امامت سے انکار کرے وہ بھی کافر ہے اسی طرح جو حضرت عمر کی خلافت کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے.یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور مرتد ہیں ان پر مرتدوں کے احکام نافذ ہوتے ہیں ایسا ہی ظہیر یہ “ میں لکھا ہوا ہے.“ نوٹ :.حضرت اور نگ زیب عالمگیر کے زمانہ حکومت میں تمام اہل سنت والجماعت علماء نے متفقہ طور پر شیعوں کے کفر پر اجماع کر کے شیعوں کو مرتد اور کافر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور حکومت وقت سے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا.مولوی کفایت حسین اور وہ دوسرے سادہ لوح شیعہ جو آج احراریوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں.ذرا تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں اور اور نگ زیب عالمگیر کے زمانہ کے علماء کے فتاویٰ اور حکومت کے دباؤ کے ماتحت شیعوں کی قابلِ رحم حالت کو اگر ایک دفعہ یاد کر کے ” آنچه بر خود پسندی بر دیگران نیز مپسند کے منقولہ کو پیش نظر رکھیں تو یقین ہے کہ ان کا ضمیر ان کو ضرور ملامت کرے.بشرطیکہ ضمیر کی آواز بھی باقی ہو اور وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا (الشمس : ۱) کی کیفیت نہ طاری ہو چکی ہو.خادم ۵.قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی : ” جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ صحابہ آپس میں بغض اور دشمنی رکھتے تھے وہ شخص قرآن کا منکر ہے اور جو شخص ان (صحابہ) کے ساتھ بغض اور جنگی رکھتا ہے قرآن میں اس کو کافر کہا گیا ہے.چنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ (اف:۳۰) (مَا لَا بُدَّ منه.مترجم اردو شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز مطبوعہ دین محمدی الیکٹرک پریس لاہور صفحہ افصل نعت جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم )
886 ۶.علماء اہل حدیث کا فتویٰ شیعوں کے بارے میں: شیخ عبدالحق محدث دہلوی:.شیعہ پانچ مذاہب کفار کا مجموعہ اور خلاصہ ہیں.یعنی یہود، نصاری ، مجوس، صائبین، ہندو ( تحفہ اثناعشریه قلمی صفحه ۵۰۲ نیز صفحات ذیل: صفحه ۵۰۳٬۵۰۱،۴۵۶،۶،۵ و صفحه ۵۰۴) ب.نواب صدیق حسن خاں صاحب آف بھوپال: روئے زمین پر جس قد ر فرقہ خبیثہ موجود ہے وہ کسی ایک اصحاب رسول الہ کو کافر کہ کر کا فر ہو گیا ہے.جب وہ اصحاب رسول اللہ کو کافر کہتے ہیں تو کس طرح کا فرنہیں.یہ اسلام کے دشمن ہیں جو ان کو کا فرنہیں کہتا وہ بھی کافر ہے.“ ( منقول از سراج الو باج جلد ۲ صفحه ۵۷۶ و ۵۷۷ از حسن بن علی الحسینی الفقو جی مطبع صدیق الکائن.بھوپال ۱۳۰۱ھ ) ے.اہلسنت والجماعت کے متعدد علماء نے اپنے دستخطوں اور مہروں سے شیعوں کے خلاف مندرجہ ذیل فتوی کفر صادر کیا.فرقه امامیه منکرِ خلافت صدیق اند و و در کتب فقه مسطور است کہ ہر کہ انکارِ خلافت حضرت صدیق نماند منکر اجماع قطع گشت و کا فرشد...پس در حق ایشان نیز حکم کفار جاری است (رد تبرا صفحه ۲۰، جواب استفتاء نمبرا از سید الفت حسین مطبوعہ نصر المطابع دہلی ) ۲.اہلسنت والجماعت کے خلاف شیعوں کا فتویٰ کفر الف.اہلسنت یہود و نصاری سے بدتر ہیں.تحفہ اثنا عشری قلمی صفحه ۴۷۰ نیز حدیقہ شہداء صفحه ۶۵) ب.اگر کسی سنی کے جنازہ پر شیعہ حاضر ہو اور نماز جنازہ پڑھنی پڑ جائے تو میت کے حق میں یہ دعا کرے.اللَّهُمَّ اَمَلَاجَوْفَهُ نَارًا وَ قَبْرَهُ نَارًا وَسَلَّطْ عَلَيْهِ الْحَيَّاتَ وَالْعَقَارِبَ.“ کردے.“ (جامع العباسی در بیان نماز واجب و سنت باب دوم فصل نمبر ۸اشتم ) د یعنی اے اللہ ! اس کے پیٹ اور قبر کو آگ سے بھر دے! اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط اہلحدیث کا اہلسنت پر فتویٰ کفر الف.چاروں اماموں کے پیرو اور چاروں طریقوں کے تتبع یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی، حنبلی اور
887 چشتیه و قادر یہ نقشبندیہ مجددیہ سب لوگ کافر ہیں.“ (جامع الشواہد صفحہ ۲ بحوالہ الاعتصام السنۃ مطبوعہ کانپور صفحہ ۷و۸) ب.” کذب کو قرآن و حدیث میں برابر شرک کے رکھا ہے اس لیے مقلدین پر اطلاق لفظ مشرکین کا تقلید پر اطلاق لفظ شرک کا کیا جاتا ہے دنیا میں آج کل اکثر لوگ یہی مقلد پیشہ ہیں.وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (يوسف : ۱۰۷) یہ آیت ان پر بخوبی صادق آتی ہے.(اقتراب الساعۃ صفحه ۱ از نور احسن خان ۱۳۰۱ھ ) ج.کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں (اول) یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا اللہ کا حاضر و ناظر جان کر ورد کرنا جائز ہے یا نہ اور اس ورد کا پڑھنے والا کیسا ہے؟ الجواب: ”جس کا یہ عقیدہ ہے وہ مشرک ہے جو شخص مجوز اور مفتی ان امور کا ہے وہ رأس المشرکین ہے.اس کے پیچھے نماز درست نہیں اور اس طرح کا اعتقادر رکھنے والا چاروں مذہب میں کافر اور مشرک ہے.“ ( مجموعہ فتاوی صفحه ۵۲ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ) د.کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس امر میں کہ یہ گروہ مقلدین جو ایک ہی امام کی تقلید کرتے ہیں.اہل سنت و الجماعت میں داخل ہیں یا نہیں ؟ اور ان کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ اور ان کو اپنی مسجد میں آنے دینا اور ان کے ساتھ مخالطت اور مجالست جائز ہے یا نہیں؟ الجواب:.بیشک نماز پیچھے ایسے مقلدین کے جائز نہ ہوگی کہ ان کے عقائد اور اعمال مخالف اہل سنت والجماعۃ ہیں بلکہ بعض عقیدے اور عمل موجب شرک اور بعض مفسد نماز ہیں.ایسے مقلدوں کو اپنی مسجدوں میں آنے دینا شرعاً درست نہیں.“ (مجموعہ فتاوی صفحہ نمبر۵۵٬۵۴ مطبع صدیقی لا ہور ).اہلحدیث کے خلاف اہلسنت کا فتویٰ ستر علماء اہلسنت والجماعۃ کا فتوی:.الف.فرقہ غیر مقلدین جن کی علامت ظاہری اس ملک میں آمین بالجبر اور رفع یدین اور نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور امام کے پیچھے احمد پڑھنا ہے.اہلسنت سے خارج ہیں اور مثل دیگر فرق مقلد رافضی و خارجی و غیر ہما کے ہیں.ان کے پیچھے نماز درست نہیں.ان سے مخالطت اور مجالست کرنا اور ان کو اپنی خوشی سے مسجد میں آنے دینا شرعا ممنوع ہے.“ (جامع الشواهد فى اخراج الوهابيين عن المساجد صفحه ۳ تا ۸ بحوالہ کتاب العتصام السنۃ مطبوعہ کانپور صفحہ ۸،۷)
888 ب ” تقلید کو حرام اور مقلدین کو مشرک کہنے ولا شرعاً کافر بلکہ مرتد ہوا.“ (انتظام المساجد باخراج اهل الفتن عن المساجد صفحہ ۷ مصنفہ مولوی محمد لدھیانوی) ج غیر مقلدین سب بیدین پکے شیاطین پورے ملا عین ہیں.“ (چابک لیث بر اہلحدیث مصنفہ مولوی محمد ظہیر حسین اعظم گڑھی صفحه ۴ ۳ صفحه ۳۵) در علماء اور مفتیانِ وقت پر لازم ہے کہ بجر ومسموع ہونے ایسے امر کے اس کے کفر اور ارتداد کے فتویٰ میں تردد نہ کریں.ورنہ زمرہ مرتدین میں یہ بھی داخل ہوں گے.“ انتظام المساجد باخراج اهل الفتن عن المساجد صفحہ ) ھ جو با وصف اطلاع احوال ان میں سے کسی کا معتقد ہو تو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے اور ان سفہاء اور ان کے نظراء تمام خبثاء جو شخص ان ملحدوں کی حمایت اور مروت ورعایت کرے ان کی ان باتوں کی تصدیق و تحسین و تو جیہ وتاویل کرے وہ عد وخدا، دشمن مصطفے ہے.“ (چابک لیث بر اہلحدیث مصنفہ مولوی محمدظہیر حسین اعظم گڑھی صفحه ۴ ۳ صفحه ۳۵) ۴.دیوبندی کا فرو مرند الف."وَبِالْجُمْلَةِ هَؤُلَاءِ الطَّوَائِفُ كُلُّهُمْ كُفَّارٌ مُرْتَدُّونَ خَارِجُوْنَ عَنِ الْإِسْلَامِ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ حُسَامُ الْحَرَمَيْنِ عَلى منحر الكفر والمَيْن مع سلیس ترجمہ اردو سمی مبین احکام و تصدیقات اعلام ۱۳۴۵ء مطبوعہ بریلی.جمادی الاولی ۱۳۲۶ھ بار اول.مصنفہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی صفحه ۲۴) یعنی یہ سب گروہ ( یعنی گنگوہیہ، تھانوی، نانوتویہ ودیوبندیہ وغیرہ) اجماع اسلام کے رو سے کفار اور مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.یادر ہے مندرجہ بالا عربی عبارت اصل کتاب کے صفحہ ۲۴ پر ہے اور اردو تر جمہ صفحہ ۲۵ پر.خادم ) اس کتاب میں مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے (جو کہ فرقہ حنفیہ بریلویہ کے بانی تھے اور مولوی ابوالحسنات صاحب صدر جمعیت العلماء پاکستان اور ان کے والد مولوی دیدار علی مرحوم کے پیر ہیں ) اپنا اور علماء حرمین شریفین کا متفقہ فتویٰ ان کے دستخطوں اور مہروں کے ساتھ شائع کیا ہے جس میں جماعت احمدیہ کے علاوہ دیوبندیوں کے تمام گروپوں کو بھی کافر و مرتد قرار دیا گیا ہے کتاب مذکور کے ٹائٹل پیج پر لکھا ہے:.
889 و جس میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روشن کر دکھایا کہ طوائف قادیانیہ گنگوہیہ وتھانویہ ونا نوتو یہ ودیو بند یہ وامثالہم نے خدا اور رسول کی شان کو کیا کچھ گھٹایا.علمائے حرمین شریفین نے باجماع امت ان سب کو زندیق و مرتد فرمایا.ان کو مولوی در کنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے ان سے بات کرنے کو زہر وحرام و تباہ کن اسلام بتایا.“ گویا اس فتویٰ میں مولوی رشید احمد گنگوہی ، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی اور ان کے مریدوں اور دیگر تمام دیو بندی خیال کے لوگوں کو باجماع امت“ کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کیا گیا ہے اور ان کی تکفیر و تفسیق کو احمدی جماعت کی تکفیر و تفسیق سے ممیز نہیں کیا بلکہ ایک ہی رنگ میں بیان کیا ہے اور جیسا اجماع امت ایک کے خلاف ہے ویسا ہی دوسرے کے بھی خلاف ہے.پس آج تعجب ہے کہ مولوی عبد الحامد بدایونی اور نام نہاد جمیعۃ العلماء پاکستان کے صدر نے اپنے پیر اور علماء حرمین شریفین کے ان متفقہ فتاوی اور اجماع امت کے خلاف ایک نیا امتیاز کہاں سے پیدا کر دیا ہے.ب.پھر احمد رضا خان صاحب بریلوی نے محمد قاسم نانوتوی ، مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی محمود الحسن وغیرہ دیو بندی مولویوں کی نسبت لکھا ہے:.یہ قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے.ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے.ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی انہیں نماز نہ پڑھنے دیں جو ان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کا فر ہو جائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی حرامی ہوگی از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی.“ ( فتوی مذکورہ بالا ) ۵ حنفی بریلوی پر دیوبندی کا فتوی الف.”مولوی احمد رضا خان بریلوی اور ان کے ہم خیال کافر.اکفر.دجال مائۃ حاضرہ.مرند - خارج از اسلام (رد التكفير على الفحاش الشَّنظیر مصنفہ مولوی سید محمد مرتضی دیو بندی مطبوعه شمس المطابع مراد آبا دشعبان ۱۳۴۳ھ ) ب: فتاوی رشیدیہ ( رشید احمد گنگوہی حصہ سوم با را ول صفحہ ۳۲ میں.
890 "جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے سادات حنفیہ کے نزدیک قطعاً مشرک و کافر ہے شامی نے ردالمختار کی کتاب الارتداد میں صاف طور پر ایسے عقیدہ رکھنے والے کی تکفیر کی ہے.اور جو یہ کہتے ہیں کہ علم غیب تجمیع اشیاء آنحضرت کو ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے.سومحض باطل اور خرافات میں سے ہے.“ اس فتویٰ پر بہت سے علماء دیو بند کی مہریں ہیں جن میں مولوی محمود الحسن دیو بندی بھی ہیں.ج.لیکن سید انورشاہ صاحب دیوبندی کا فتوی بایں الفاظ درج ہے:.بڑا تعجب ہے جو زمرہ علماء میں ہو کر ایسے شخص کی تکفیر میں تردد کرے.اور قطعاً اس کو کافر نہ کہے.بھلا کوئی عالم کہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی بتلائی سے بھی بعض چیزوں کی خبر نہ ہو، ہرگز نہیں.بڑا افتور تو وہ شخص بر پا کر رہا ہے جو ہر جگہ یہ کہتا پھرتا ہے کہ آپ کو جمیع اشیاء کا علم دیدیا گیا ہے حالانکہ یہ صریح شرک ہے اور تمام فقہاء متفق اللفظ ایسے شخص کی تکفیر کرتے ہیں.یہ شخص کس دلیل سے حجت پکڑتا ہے.حالانکہ یہ تمام احادیث کے مخالف ہے.“ اكفار الملحدين في ضروريات الدين) د سوال :.جو شخص رسول اللہ صلعم کو غیب دان جانے اس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ الجواب: - از بنده رشید احمد گنگوہی : "جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب جو خاصہ حق تعالیٰ ہے ثابت کرتا ہے اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے.لانَّهُ كَفَرَ ( در المختار ) (فتاوی رشید یہ حصہ سوم صفحہ ۱۱۳، نیا ایڈیشن جنوری ۱۹۷۱ ء سعید کمپنی صفحه ۴ ۶ صفحه ۶۵) نوٹ:.مندرجہ بالا تمام فتاوی درباره جماعت حنفیہ بریلویہ مولوی حسین علی آف واں بھچراں کی تصنیف بُلُغَةُ الْحَيْرَان کے آخر میں بطور تتمہ صفحہ اتام تک یکجائی شائع شدہ موجود ہیں.ھ.مولوی مرتضی حسن ناظم تعلیم دیو بند کا فتوی بریلویوں کے خلاف ان کے ان عقائد باطلہ پر مطلع ہو کر بھی انہیں کافر و مرتد ملعون جہنمی نہ کہنے والا بھی ویسا ہی مرتد کافر ہے پھر اس کو جو ایسا نہ سمجھے وہ بھی ایسا ہی ہے.“ ( اخبار وکیل امرتسر ۴ اکتوبر ۱۹۲۷ء) و.کوکب الیمانی علی اولاد الزوانی....ان کتابوں میں ثابت کیا گیا ہے کہ ایسے عقائد والے کا فر ہیں.ان کا نکاح کوئی نہیں سب زانی ہیں.“ (بلغۃ الحیران آخر میں تقہ صفحہ ے صفحہ ۸)
891 ۶.سرسید احمد خان پر فتویٰ کفر الف.اس شخص کی اعانت کرنی اور اس سے علاقہ اور رابطہ پیدا کرنا ہرگز درست نہیں.اصل میں یہ شخص شاگرد مولوی نذیر حسین و بابی بنگالی دہلوی غیر مقلد کا ہے.یہ شخص بہ سبب تکذیب آیاتِ شاگردمولوی یہی قرآنی کے مرتد ہو کر ملعون ابدی ہوا اور مرتد ہوا.ایسا مرتد کہ بلا قبول اسلام اسلامی عملداری میں جزیہ دے کر بھی نہیں رہ سکتا، مگر اہل کتاب اور ہنود وغیرہ جزیہ دے کر اسلامی عملداری میں رہ سکتے ہیں.گویا نہایت سخت کا فرومرتد ہے.“ (انتظام المساجد صفحه ۱۳ تا صفحه ۱۵ مصنفہ مولوی محمد لدھیانوی) ب.مولونا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں :.سرسید کو ملحد.لامذہب.کرسٹان.نیچری.دہریہ.کافر.دجال اور کیا کیا خطاب دیئے گئے ان کے کفر کے فتوؤں پر شہر شہر اور قصبہ قصبہ کے مولویوں سے مہریں اور دستخط کرائے گئے.یہاں تک کہ جولوگ سرسید کی تکفیر پر سکوت اختیار کرتے تھے ان کی بھی تکفیر ہونے لگی.“ ( حیات جاوید حصہ دوم صفحہ ۲۷۸ پانی پتی ۱۹۰۲ء) ج.مکہ معظمہ کے مذاہب اربعہ کے مفتیوں نے جو فتو کی سرسید احمد خاں پر لگا یا وہ یہ ہے:.شخص صال اور مضل ہے بلکہ وہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے کہ مسلمانوں کے اغوا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا فتنہ یہود و نصاریٰ کے فتنے سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو مجھے...ضرب اور جس سے اس کی تادیب کرنی چاہیے.(ایضا) علماء مدینہ کا فتوی:.اگر اس شخص نے گرفتاری سے پہلے تو بہ کر لی تو قتل نہ کیا جائے ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفاظت کے لئے اور ولاۃ امر پر واجب ہے کہ ایسا کریں.(ایضا) د علیگڑھ یونیورسٹی کے متعلق علماء حرمین شریفین کا فتوی:.یہ مدرسہ جس کو خدا بر باد اور اس کے بانی کو ہلاک کرے اس کی اعانت جائز نہیں.اگر یہ مدرسہ بن کر تیار ہو جائے تو اس کو منہدم کرنا اور اس کے مددگاروں سے سخت انتقام لینا واجب ہے.“ ( حیات جاوید مصنفہ مولانا حاکی جلد ۲ صفحه ۲۸۸ مطبوعه باراوّل) نوٹ:.احباب علماء کے فتاویٰ تکفیر کی زیادہ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرما ئیں مقدمہ بہاولپور
892 صفحه ۱۵۷ و نیز رساله حربہ تکفیر اور علمائے زمانہ مطبوعہ قادیان ۱۹۳۳ء.خلاصہ کلام صرف اس قدر ہے کہ مسلمان کہلانے والے فرقوں میں سے ایک فرقہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر باقی ۷۲ فرقوں نے متفقہ طور پر کفر کا فتویٰ نہ دیا.ے.دیگر کلمات کفر الف.اگر یوں کہے کہ آسمان پر میرا خدا ہے اور زمین پر تو ہے تو کافر ہو گا.“ ما لا بد منه مترجم اردو شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور صفحہ ۸۹ و فارسی نسخه صفحه ۱۴۶ مطبع نظامی کانپور ۱۲۸۰ھ ) ب.اگر کوئی بدوں گواہ کے نکاح کرے اور کہے کہ خدا اور رسول کو گواہ کیا.یا کہے کہ فرشتوں کو گواہ کیا میں نے تو کافر ہوگا.(ایضاً) ج.اگر کہے کہ روزی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن بندے سے ڈھونڈھ لینا چاہیے تو کافر ہوگا.(ایضاً) و.اگر کہے کہ فلانا اگر نبی ہو گا تب بھی اس پر ایمان نہ لاؤں گا تو کافر ہوگا.(ایضا) اگر کوئی شخص گناہ کرے خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ اور دوسرا شخص اسے کہے کہ توبہ کر اور وہ کہے کہ میں نے کیا کیا ہے جو تو بہ کروں تو کا فر ہو گا.“ (مالا بدمنه مترجم اردو شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور صفحہ ۸۹) ر اگر کوئی کہے کہ مجھ کو علم کی مجلس سے کیا کام یا کہے کہ جن باتوں کو علماء کہتے ہیں ان کو کون کر سکتا ہے تو کافر ہوگا.(ایضا صفحہ ۹۳) ز "روافض جو کہتے ہیں کہ پیغمبر نے دشمنوں کے خوف سے خدا تعالیٰ کے بعض احکام کو نہیں پہنچایا یہ کفر ہے.(ایضاً صفحہ ۹۴) احراری کیا ہیں؟ احراریات ا.پنجاب میں چند پنجابیوں نے ایک انجم قائم کر رکھی ہے جسے مجلس احرار کہتے ہیں.یہ مجلس غالباً دنیا بھر میں سب سے پہلی انجمن ہے جس کا کوئی اصول و عقیدہ نہیں.اگر پہلے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو اب سمجھ لیجئے کہ اگر کوئی احراری شیخ حسام الدین بن کر اسٹیج پر آجائے اور مجلس احرار کی دف
893 بجا بجا کر کانگرس کے گیت گانے لگے تو وہ احرار کا صدر ہوگا.اگر کوئی چودھری افضل حق کے نام سے اخباری زبان میں چلائے کہ کانگریسی لیڈرسرمایہ دار ہیں اور سرمایہ داری کی تخریب مجلس احرار کے مقصد میں شامل ہے تو وہ متفکر احرار کہلائے گا گویا کانگرس کا ہوا خواہ بھی قائد احرار ہے اور کانگرس پر لعنتیں بھیجنے والا بھی زعیم احرار ہے.اب بتائیے کہ احرار بذات خود کیا ہیں.“ (روزنامہ زمیندار ۳ جولائی ۱۹۴۱ء) حر بمعنی آزاد عربی زبان کا لفظ ہے اس کی جمع احرار ہے.پنجاب میں ایک جماعت قائم ہوئی تھی ، اس کا صدر مقام لا ہور رہا ہے.شروع شروع میں یہ نقال جماعت تھی تحریک کشمیر ختم ہوئی تو اس کی عملی سرگرمیاں بھی ختم ہو گئیں.مگر دفتر با قاعدہ رہا اور احکام برابر جاری ہوتے رہے لیکن نصب العین کوئی نہ تھا.اور نہ کوئی لائحہ عمل ، اس لئے جملہ احکام ہوائی تو ہیں ثابت ہوئیں.نصب العین پوچھو تو کوئی نہیں.صرف لکیر کے فقیر ہیں اور لفظ ” احرار کی مالا جپ رہے ہیں کوئی پوچھے کہ کانگرسی ہو تو کہتے ہیں کانگرسی کیا ہیں؟ کانگرسیوں کے کرتا دھرتا مہاتما گاندھی یہی غنیمت سمجھتے ہیں کہ زیر سایہ برطانیہ کم از کم سول اتھارٹی ہی مل جائے مگر ہم مکمل آزادی چاہتے ہیں.کوئی پوچھے کہ لیگی ہو تو کہتے ہیں نہیں.ہم تو سارے ہندوستان پر حکومت الہیہ چاہتے ہیں.اگر کوئی سر پھرا کہہ دے کہ کچھ کر کے بھی دکھائے تو فرماتے ہیں کہ ہندو قوم ساری کانگرس کے ساتھ ہے اور مسلمان قوم تمام کی تمام لیگ سے جاملی ہے ہم کریں تو کیا کریں؟“ (روزنامہ زمیندار ۲ فروری ۱۹۴۹ء).آٹھ اور آٹھ سولہ دن ہوئے کہ پنجاب میں ایک نئی پارٹی نے جنم لیا ہے قارئین کرام اس چوں چوں کے مربے سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس میں کون کون اتو باٹے اکٹھے ہوئے ہیں....اس کا نام ہے " مجلس احرار.یہ جماعت معرض ظہور میں کیوں آئی اس کا جواب دینا ضروری ہے اس کے شرکاء وہ لوگ ہیں جو کبھی ملی کانگرس کے دامن سے وابستہ تھے اور ان کے باپو گاندھی جی مہاراج کی کر پا سے انہیں بھوجن اور پوشن مل جایا کرتا تھا لیکن جہاں کانگرس کا کام تمام ہوا.کانگرس سے انہیں طلاق مل گئی اور ان کا روزینہ بند ہو گیا.کانگرس سے الگ ہو کر ان کے پاس سوائے ازیں کوئی چارہ کارنہ تھا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کوئی نیا پھندا پھیلا ئیں.لہذا انہوں نے مجلس احرار اسلام کی طرح ڈالی....عوام حیران ہیں کہ آخر ان احراریوں کو کیا ہو گیا جو یکدم مہاراجہ (کشمیر) کے اشارے پر ناچنے لگ گئے ! کسی نے خوب کہا ہے کہ
894 اے زرتو خدا نیست ولیکن بخدا ستار العیوب و قاضی الحاجاتی ان کی بلا سے قوم جہنم میں جائے یا کسی گھاٹی میں گرے انہیں اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے.“ ( سیاست ۱۵ ستمبر ۱۹۳۱ صفحه ۳) احراری اور ان کا امیر شریعت:.اس ۴.احرار تبلیغ کے وسائل اختیار نہیں کرتے جو اسوہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے اور قرآن الحکیم کی تعلیم کے مطابق ہمیں اختیار کرنا چاہیے بلکہ قادیا نوں کو اور نہ صرف ان کو بلکہ ہر شخص کو جو دیا نتداری کے ساتھ ان سے اختلاف رکھتا ہے غلیظ گالیاں دیتے ہیں.اس لحاظ سے بدترین مجرم وہ شخص ہے جس کو یہ لوگ امیر شریعت“ کہتے ہیں.سید عطاء اللہ شاہ احراری ( ان کو بخاری کہنا سادات بخارا کی توہین ہے ) عامیانہ مذاق کا آدمی ہے وہ بازاری گالیاں دینے میں مشاق ہے اسی لئے عام آدمی ان کی تقریر کو گھنٹوں اسی طرح ذوق شوق سے سنتے ہیں.جس طرح وہ میراثیوں اور ڈوموں کی گندی کہانیوں کو سنتے رہے ہیں.عطاء اللہ احراری کا وجود علماء کی جماعت کے لئے رسوا کرنے والا ہے.(سیاست ۱۸ جون ۱۹۳۵ء صفحه۳) ۵.مولوی ظفر علی آف زمیندار بزبان امیر شریعت احرار کہتے ہیں:.اک طفل پری رو کی شریعت فگنی نے کل رات نکالا میرے تقویٰ کا دوالا میں دین کا پتلا ہوں وہ دنیا کی ہے مورت اس شوخ کے نخرے میں مرا گرم مسالا (لاہور.۲۶ دسمبر ۱۹۳۶ء و چمنستان یعنی مجموعہ کلام مولوی ظفر علی خاں صفحہ ۹۶.مطبوعہ پبلشرز یونائٹیڈ لاہور ۱۹۴۴ء بار اول ) مجلس احرار انگریز کا خود کاشتہ پودا:.۶.مولوی ظفر علی خاں لکھتے ہیں :.آج مسجد شہید گنج کے مسئلہ میں احرار کی غلط روش پر دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض ہونے پر انگریزی حکومت احرار کی سپر بن رہی ہے اور حکومت کے اعلیٰ افسر حکم دیتے ہیں کہ احرار کے جلسوں میں کوئی گڑ بڑ پیدا نہ کی جائے تو کیا اس بد یہی الانتاج منطقی شکل سے یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ مجلس احرار حکومت کا خود کاشتہ پودا ہے؟ جس کی آبیاری کرنا اور جسے صرصر حوادث سے بچانا حکومت اپنے ذمہ ہمت پر فرض سمجھتی ہے.“ (روزنامہ زمیندار ۱۳۱اگست ۱۹۳۵ء) ے.مولوی ظفر علی صاحب اپنے احباب کی ایک شاعرانہ مجلس کا تذکرہ لکھتے ہیں:.
895 ایک دوسرے صاحب نے فرمایا کہ احرار کے متعلق ایک شعر ضرور ہونا چاہیے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ احرار کی شریعت کے امیر مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے امروہہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سور ہیں اور سو رکھانے والے ہیں.“ أَوْ كَمَا قَالَ.پھر میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدر مجلس احرار اس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیتے جاتے تھے.غصے میں آکر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ:.دس ہزار جینا اور شوکت اور ظفر جواہر لعل کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں.“ اس پر میں نے یاروں کی فرمائش یوں پوری کی کیا کہوں آپ سے کیا ہیں احرار کوئی لچا ہے اور کوئی ثقہ چمنستان مجموعه منظومات ظفر علی صاحب صفحه ۱۲۵ مطبوعہ پبلشرز یونائیٹڈ لاہور ۱۹۴۴ ء باراول).گالیاں دے جھوٹ بول احرار کی ٹولی میں مل نکتہ یوں ہی ہو سکے گاحل سیاسیات کا ( ایضاً صفحه ۹۲) ۹.آج اسلام اگر ہند میں ہے خوار و ذلیل تو یہ سب ذلت اسی طبقہ غدار سے ہے ( ایضاً صفحه م) ۱۰.چمنستان صفحہ ۲۳۲ پر ظفر علی خاں لکھتے ہیں:.میں نے صدر مجلس احرار سے دریافت کیا کہ بندہ پرور ! آپ خاکساروں کے کیوں مخالف ہیں ؟ پٹیل.نہرو.بوس.گاندھی کے خلاف کیوں یلغار نہیں کرتے.اس کے جواب میں صدر مجلس احرار کی زبان سے جن حقائق کا انکشاف فرمایا گیا وہ آج بھی ملت کو تفکر و تدبر کی دعوت دیتے ہیں.“ 66 مولانا ظفر علی خان فرماتے ہیں ؎ پل رہے ہیں ان کے چندوں پر مگر احرار ہند پھر ہوں کیوں وہ اپنے ہی پر وردگاروں کے خلاف نیز (ایضاً صفحه ۲۳۲) نرالی وضع کا مومن ہے طبقہ احرار کہ سر جھکا ہوا مشرک کے آستاں پر ہے د (ایضاً صفحه ۱۶۸) ا.تقسیم بر اعظم ہندو پاکستان کے موقعہ پر مسلمانوں کا جوقتل عام ہوا اس میں ہمارے خون
896 کا قطرہ قطرہ مجلس احرار اسلام اور اس کے زعماء کی بیدردی اور لا پرواہی کی داستان ہے ہمارے خون کی واحد ذمہ داری مجلس احرار کے سر ہے اور بس.“ (زمیندار اس جنوری ۱۹۴۸ء) ۱۲ خود مفکر احرار چوہدری افضل حق کہتے ہیں:.باسی کڑھی کے ابال کی طرح ہم اٹھتے ہیں اور پیشاب کے جھاگ کی طرح ہم بیٹھ جاتے ہیں.(زمزم لاہور ۱۵ جولائی ۱۹۴۱ء) ۱۳ مجلس احرار ٹھگوں کی ٹولی اور چوروں کی جمیعت ہے.“ اخبار احسان لاہور ۵ فروری ۱۹۳۶ء) ۱۴.احرار کے نام سے کسی کو منسوب کرنا ذلت اور تحقیر کے مترادف ہے.“ ( اخبار ” نو جوان افغان ہری پور ( ہزارہ ) ۱۷ جولائی ۱۹۳۷ء ) احراری لیڈروں کے اپنے اقوال ا.قاعد اعظم کی نسبت :.مسٹر جناح نے ایک بے درد وحشت پسند کی طرح ہمارے درمیان ایک بم پھینکا ہے جس سے انتشار اور ابتری پیدا ہوگئی ہے.حالانکہ آج متحدہ عمل ( یعنی کانگرس اور ہندوؤں کے ساتھ اتحاد.ناقل ) وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی.کٹر قوم پرست جناح اول درجہ کا فرقہ پرست بن چکا ہے ہمیں اس سوال پر اچھی طرح سوچ بچار کرنی چاہیے.مسٹر جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی جو قرار داد منظور کی ہے اسے اگر کلیۂ شرانگیز نہیں کہا جا سکتا تو کم از کم اسے مصلحت وقت کے خلاف ضرور کہا جاسکتا ہے.یہ اس امر کا بد یہی ثبوت ہے کہ ہندوستانی سیاست ایک سخت مرض میں مبتلاء ہے.جناح ایک ہوشیار سیاست دان ہے اور اس نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں کی چپقلش سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور زخم پر پھاہا ر کھنے کی بجائے خنجر سے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا مناسب سمجھا ہے.“ پاکستان اور اچھوت مصنفہ مفکر احرار چوہدری افضل حق زیر عنوان ”مسئلہ صفحہ سے شائع کردہ مکتبہ اردو لا ہور مرکنٹائن پریس لاہور ) ۲.گاندھی جناح سمجھوتا نہیں ہو سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاتما گاندھی جتنا جھکتے جائیں گے.مسٹر جناح اپنے مطالبات کو زیادہ کرتے جائیں گے.مسٹر جناح ان کی مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان.
897 ہندوستان کی آزادی کی راہ میں ایک روڑا ہے کانگرس کے اثر اور بڑھتی ہوئی طاقت کو زائل کرنے کے لیے حکومت انگریزی نے خود مسلم لیگ کو طاقت بخشی.لیگی وزارتیں مسٹر جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ سب انگریز کے اشارے پر ناچ رہے ہیں.چونکہ انگریز ہندوستان کو کچھ دینا نہیں چاہتا.اس لیے مسٹر جناح نے ان کے اشارے پر مطالبہ پاکستان پیش کر دیا.دراصل پاکستان حاصل کرنے کے لیے مسٹر جناح نے مطالبہ پاکستان پیش نہیں کیا یہ صرف ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ مسٹر جناح اور گاندھی جی میں صلح ہو جائے.“ ( احراری لیڈروں سے نمائندہ پر یس کا انٹرویو ملاپ جالندھر ۱۲ اگست ۱۹۴۴ء) احرار اس پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں.“ تقریرد چوہدری افضل حق یکم دسمبر ۱۹۴۱ء صدارتی خطبہ ڈسٹرکٹ احرار کا نفرنس قصور.منقول از خطبات احرار صفحه ۸۳ مطبوعه با راول۱۹۴۴ء مرتبه شورش کاشمیری) ،، 66 ۴.قائد اعظم کو احرار نے کافر اعظم اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا.“ حیات محمد علی جناح مؤلفہ رئیس احمد جعفری صفحه ۹۱ بمبئی ۱۹۴۶ ءاور مسٹر جناح کا اسلام صفحہ ۹ شائع کردہ جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام نیز هفت روزه چٹان لاہور مورخ ۵۰-۱۱-۶) ۵ صدر مجلس احرار نے قیام پاکستان سے پہلے کہا:.د مسلم لیگ نے ہمیشہ آزادی کی راہ میں روڑے اٹکائے.ملک آزاد ہونے پر مسٹر جناح اور دوسرے لیگی لیڈروں پر مقدمہ چلایا جائے گا“ (روزنامہ جنگ کراچی.استقلال نمبر ۶۴۹) ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کا نام نہادر ہنما ایک پارسی عورت کو حلقہ زوجیت میں لینے کے لیے حلفیہ اقرارنامہ کے ذریعہ مسلمان ہونے سے انکار کرتا ہے اور آج تک کلمہ توحید پڑھ کر 66 مسلمان نہیں ہوا.لیکن پھر بھی مسلمانوں کا قائد اعظم.“ (رسالہ مسٹر جناح کا اسلام صفحہ شائع کردہ جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام و ہفت روزہ چٹان لاہور ۶ نومبر ۱۹۵۰ء) ے.ہم لیگ کو دام فرنگ سمجھ کر دور ہی رہنا چاہتے ہیں.“ (خطبات احرار صفحه ۲۲ از چوہدری افضل حق ) پاکستان ایک خونخوار سانپ ہے جو ۱۹۴۰ء سے مسلمانوں کا خون چوس رہا ہے اور مسلم لیگ ہائی کمانڈ ایک سپیرا ہے.( احراری اخبار آزاد کا اداریہ 9 نومبر ۴۹ء )
898 ۹.” ہمیں پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے دام فریب میں نہ پھنساؤ.“ ( خطبات احرار صفحه ۱۰۱ بار اول از چوہدری افضل حق ) ۱۰.قومی بوجھ جھکڑ ایسے حال میں شمالی ہند کو پاکستان بنارہے ہیں.(ایضا صفحہ ام) 1.سیالکوٹ میں احراری امیر شریعت سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگ قادیانیوں کے پیچھے تو لٹھ لیے پھرتے ہیں لیکن کمیونزم کے خلاف کیوں کچھ نہیں کہتے حالانکہ کمیونزم سراسرد ہر بیت ہے تو اس سوال کا مندرجہ ذیل جواب احراری امیر شریعت نے دیا:.کمیونزم کی ٹکر امپریلزم سے ہے.کفر کفر سے لڑتا ہے اسلام سے اس کا کیا مقابلہ اور مقابلہ تو تب ہو کہ اسلام کہیں موجود ہو؟ ہم نے اسلام کے نام سے جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے.ہمارے دل دین کی سمجھ سے عاری ، ہماری آنکھیں بصیرت سے نا آشنا کان کچی بات سننے سے گریزاں سے بید لی ہائے تماشا کہ نہ غیرت ہے نہ ذوق بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں میں کمیونزم سے کیوں ٹکراؤں؟ وہ کون سا اسلام ہے جس پر کمیونزم ضر میں لگا رہا ہے.ہمارا اسلام بتوں سے تجھ کو تمنا خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کا فری کیا ہے؟ یہ اسلام جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھلایا تھا.کیا ہماری رفتار، ہماری گفتار، کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا تھا ؟ میں کہتا ہوں کہ گورنری سے گداگری تک مجھے ایک بات ہی بتلاؤ جو قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہو فکر کج ، دماغ پریشان ، احکام الہی سے انکار اور پھر اصرار.سکندرحیات نے کالرہ بل بنوایا کہ جائیداد کا وارث بڑا لڑکا ہے اور لڑکیاں حصہ دار نہیں.قرآن کے 17 رکوع کے انکار کے باوجود بھی ہم مسلمان اور پھر اس اسلام کو کمیونزم سے خطرہ؟ لیکن بقول احراری مزکور اس اسلام کو احمدیت سے ضرور خطرہ ہے؟ خادم ) کاش اسلام کا کہیں نظارہ ہوتا کوئی بستی ہوتی جہاں اسلام بستا.ہمارا تو سارا نظام کفر ہے قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے قرآن صرف تعویذ کے لیے قسم کھانے کے لیے ہے.( تقریر عطاء اللہ شاہ بخاری سیالکوٹ احرار کا نفرنس منقول از ”آزاد“ (احراری اخبار )۹ دسمبر ۱۹۴۹ء) ۱۲.احراری امیر شریعت نے کہا کہ قائد اعظم سے ملاقات کی درخواست کرتے ہوئے میں
899 نے قائد اعظم کے جوتوں میں اپنی سفید داڑھی رکھی اور کہا کہ میری ٹوپی لے جاکر ان کے قدموں میں رکھ دو.مگر قائد اعظم نے ملاقات کی اجازت نہ دی.“ (احراری اخبار آزادلا ہور جلد نمبر ۵۳ مورخه ۴۹-۱۱-۱۴) ۱۳.احرار اب تبلیغی جماعت ہے.اس کا ملکی الیکشن یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں.مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت کا بیان یہ ہمارا فرض تھا.ہم نے اپنے فرض کو چھوڑ کر سیاست کے کانٹوں کو ہاتھ میں لیا.خدا نے ہمیں سزا دی اور الحمد للہ اب ہم سیاست سے تائب ہو چکے ہیں اور پھر اپنے اصل مقام پر آتے ہیں.“ ( تقریر عطاء اللہ شاہ بخاری.لاہور کا نفرنس آزاد۳۰ اپریل ۵۰ صفحه ۵ ) ۱۴.لیکن:.آج ہمارا ہاتھ اقتدار سے خالی اور ہمارے جیب و دامان اختیار سے تہی ہیں.ہم نے ٹھنڈے دل اور پر سکون دماغ سے غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس طبقہ جس پارٹی کے ہاتھ میں اقتدار ہے اس سے الجھا نہ جائے ہم نے ایک شہری ، ایک انسان، ایک مسلمان اور ایک سیاسی گروپ کی حیثیت سے اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کر دیا کہ برسراقتدار پارٹی کے لیے سنگ راہ نہ بنیں.“ ”ہم نے دسمبر ۴۸ء میں حزب مخالف بنانے کی خواہش کا اظہار کیا.مگر اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے گروپ نے اسے درست نہ سمجھا.اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس رستہ کو ان کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے.“ ( تقریر احسان احمد شجاع آبادی احراری سیالکوٹ احرار کانفرنس آزادلا ہور۹ دسمبر ۱۹۴۹ء) ۱۵.چوہدری افضل حق احراریوں کو یوں مخاطب کرتے ہیں :.انتہاء درجہ کے تنگ دل اور متعصب فرقہ پرست تمہیں فرقہ پرست کہیں گے ان کی پرواہ نہ کرو.کتوں کو بھونکتا چھوڑو.کاروانِ احرار کو اپنی منزل کی طرف چلنے دو احرار کا وطن لیگی سر مایہ دار کا پاکستان نہیں ہے.(خطبات احرار صفحہ ۹۹ بار اول ۱۹۴۴ء) سرمایہ دار نظام میں گھس کر کامیاب حملہ کیسا ممکن ہے؟ با وجود اس کے ہم نے لیگ میں دود فعہ گھنے کی کوشش کی تاکہ اس پر قبضہ جما ئیں.دونوں دفعہ قاعدے اور قانون نئے بنا دیئے گئے تا کہ ہم بیکار ہو جائیں.( تقریر چوہدری افضل حق ” خطبات احرار، صفحه ۹۵ بار اول ۱۹۴۴ء) ۱۷.سید عطاء اللہ بخاری نے پسرور کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم کو مخاطب کر کے کہا:.تم کہتے ہو کہ ہم نے پاکستان بنانا ہے.میں کہتا ہوں کہ اب تک کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ
900 نہیں جنا جو پاکستان بنانا تو کجا پاکستان کی پ“ کا ایک نقطہ بھی بنا سکے.(روز نامہ جدید نظام لاہور.استقلال نمبر ۱۹۵۰ء ور پورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحه ۲۷۴) ۱۸.مسلم لیگ حکومت انگریزی کا خود کاشتہ پودا:.”ہندوستان کے نام نہاد مسلمانوں کی رائے عامہ مدتوں ان لوگوں (مسلم لیگ.خادم) کی طرف دار رہی جو بلحاظ ضمیر مردہ تھے اور بلحاظ ضمیر حکومت انگلشیہ کے خود کاشتہ پودے تھے.“ سچ ہے بقول مولوی ظفر علی خان احرار آرگن اخبار ” فضل، سہارنپورمورخه ۴۵-۷-۱۳) پنجاب کے احرار اسلام کے غدار زمیندار - ۱۰ اگست ۱۹۳۵ ء ٹائٹل پیج ) حضرت مسیح موعود کی کتب سے چند اقتباسات ا.آریہ سماج کی ہلاکت کی پیش گوئی :.ا.اور یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہند و یا نندی مذہب والے کچھ چیز ہیں.وہ صرف اُس زنبور کی طرح ہیں جس میں بجر نیش زنی کے اور کچھ نہیں.وہ نہیں جانتے کہ توحید کیا چیز ہے.اور روحانیت سے سراسر بے نصیب ہیں.عیب چینی کرنا اور خدا کے پاک رسولوں کو گالیاں دینا اُن کا کام ہے اور بڑا کمال ان کا یہی ہے کہ شیطانی وساوس سے اعتراضات کے ذخیرے جمع کر رہے ہیں اور تقویٰ اور طہارت کی رُوح اُن میں نہیں.یادرکھو کہ بغیر روحانیت کے کوئی مذہب چل نہیں سکتا.اور مذہب بغیر روحانیت کے کچھ بھی چیز نہیں.جس مذہب میں روحانیت نہیں اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق وصفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اُس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مُردہ ہے.اس سے مت ڈرو.ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گے.کیونکہ یہ مذہب آریا کا زمین سے ہے نہ آسمان سے.اور زمین کی باتیں پیش کرتا ہے نہ آسمان کی.پس تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.“ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۸،۶۷) زلازل کے متعلق عام پیشگوئی:.یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی
901 کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قد رسخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر وزبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہوگئے جیسا کہ خدا نے فرمایا.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل :۱۲) اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اسے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کر و تاتم پر رحم کیا جائے جو خدا کو
902 چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ.“ عالم گیر جنگ نمبر ۲ نمبر ۳ کی پیشگوئی:.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۹،۲۶۸) ا.ایسا ہی یا جوج ماجوج کا حال بھی سمجھ لیجئے.یہ دونوں پرانی قومیں ہیں جو پہلے زمانوں میں دوسروں پر کھلے طور پر غالب نہیں ہو سکیں اور اُن کی حالت میں ضعف رہا لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں یہ دونوں تو میں خروج کریں گی یعنی اپنی جلالی قوت کے ساتھ ظاہر ہوں گی.جیسا کہ سورہ کہف میں فرماتا ہے وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ یعنی یہ دونوں تو میں دوسروں کو مغلوب کر کے پھر ایک دوسرے پر حملہ کریں گی اور جس کو خدائے تعالیٰ چاہے گا فتح دے گا.چونکہ ان دونوں قوموں سے مراد انگریز اور روس ہیں اس لئے ہر ایک سعادتمند مسلمان کو دعا کرنی چاہیے کہ اُس وقت انگریزوں کی فتح ہو.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۳) ۲.ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مدد کے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کر دے گا.اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اور وہ دن بڑے سخت ہوں گے.اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دے گا.“ مسئلہ وفات مسیح کے متعلق پیشگوئی:.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۲۶) ہر ایک مخالف یقین رکھے کہ اپنے وقت پر وہ جان کندن کی حالت تک پہنچے گا اور مرے گا مگر حضرت عیسی کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.یہ بھی میری پیشگوئی ہے جس کی سچائی کا ہر ایک مخالف اپنے مرنے کے وقت گواہ ہو گا.جس قدر مولوی اور مُلاں ہیں اور ہر ایک اہلِ عناد جو میرے مخالف کچھ لکھتا ہے وہ سب یاد رکھیں کہ اس اُمید سے وہ نامراد مریں گے کہ حضرت عیسی کو وہ آسمان سے اترتے دیکھ لیں.وہ ہرگز اُن کو اُترتے نہیں دیکھیں گے یہاں تک کہ بیمار ہوکر غرغرہ کی حالت تک پہنچ جائیں گے اور نہایت تلخی سے اس دنیا کو چھوڑیں گے.کیا یہ پیشگوئی نہیں؟ کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پوری نہیں ہو
903 گی؟ ضرور پوری ہوگی پھر اگر اُن کی اولاد ہوگی تو وہ بھی یا درکھیں کہ اسی طرح وہ بھی نامراد مریں گے اور کوئی شخص آسمان سے نہیں اُترے گا.اور پھر اگر اولاد کی اولاد ہوگی تو وہ بھی اس نامرادی سے حصہ لیں گے.اور کوئی ان میں سے حضرت عیسی کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.ذاتی تجربہ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶۹) چونکہ ہر ایک شخص کی حالت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہمارے مقابل پر تقویٰ کو ضائع کیا اور راستی سے دشمنی کی وہ نہایت خطرناک حالت میں ہیں اور اگر وہ اس بدسیرت میں اور بھی ترقی کریں اور رفتہ رفتہ کھلے کھلے طور پر قرآن شریف سے منہ پھیر لیں تو ان سے کیا تعجب ہے !!“ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۰) اہل بیعت حضرت مسیح موعود کی پاکیزگی الف: ”سوچونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا.اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولا د پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئیندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.ہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.“ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۵) ب مجھے اس الہام میں ایک نئی بیوی کا وعدہ دیا اور اس الہام میں اشارہ کیا کہ وہ تیرے لئے مبارک ہوگی اور تو اس کے لئے مبارک ہوگا اور مریم کی طرح اُس سے تجھے پاک اولا د دی جائے گی.سوجیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا.“ ( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۸)
904 ج یا در ہے کہ یہ شخص ( بٹالوی) بد گوئی میں حد سے بڑھ گیا تھا.جس شخص کو اس کی گندی تحریروں پر علم ہوگا جو میری نسبت اور میرے اہل بیت آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس شیخ ہے ادب تیز مزاج نے سراسر ظلم اور ناحق پسندی کی خصلت سے اشاعۃ السنہ میں شائع کی ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک شریف جس کی فطرت میں نقص نہ ہو.اور جس کے نیک گوہر میں کچھ کھوٹ نہ ہو اور جس کے نجیب الطرفین ہونے میں کچھ خلل نہ ہو.وہ کبھی اس بات پر راضی نہیں ہوگا کہ معزز شرفاء کے بارے میں اور سادات کی شان میں اور اُن پاکدامن خاتونوں کی نسبت جو خاندان نبوت میں سے اور اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں ایسی گندی گالیاں اور ناپاکی سے بھرے افترا منہ پر لاوے ( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۲۷، ۳۲۸) و جن عظیم الشان لوگوں کو بڑے بڑے عظیم ذمہ داریوں کے کام ملتے ہیں اور بعض اوقات خدا تعالیٰ سے علم پا کر خضر کی طرح ایسے کام بھی اُن کو کرنے پڑتے ہیں جن سے ایک کو تہ بین شخص کی نظر میں وہ بعض اخلاقی حالتوں میں یا معاشرت کے طریقوں میں قابلِ ملامت ٹھہرتے ہیں.اُن کے دشمنوں کی باتوں کی طرف دیکھ کر ہرگز بدظن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اندھے دشمنوں نے کسی نبی اور رسول کو اپنی نکتہ چینی سے مستثنی نہیں رکھا.مثلاً وہ موسیٰ مردِ خدا جس کی نسبت توریت میں آیا ہے کہ وہ زمین کے تمام باشندوں سے زیادہ تر حلیم اور امین ہے مخالفوں نے اُن پر یہ اعتراض کئے ہیں کہ گویا وہ نعوذ باللہ نہایت درجہ کا سخت دل اور خونی انسان تھا.ایسا ہی حضرت مسیح پر بھی اُن کے دشمنوں نے اعتراض کیا ہے کہ وہ تقویٰ کے پابند نہ تھے..ایسا ہی عیسائیوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت اور تقوی اور امانت پر اعتراض کئے ہیں اور ایسا ہی روافض نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی عفت اور امانت اور دیانت اور عدالت پر انواع اقسام کے عیب لگائے ہیں.اور ایسا ہی خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فاسق قرار دیتے ہیں اور بہت سے امور خلاف تقویٰ اُن کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ حلیہ ایمان سے بھی اُن کو عاری سمجھتے ہیں تو اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ صدیق کے لئے تقویٰ اور امانت اور دیانت شرط ہے تو کیوں خدا تعالیٰ نے اُن کے حالات کو عوام کی نظر میں مشتبہ کر دیا.حالانکہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ نہ رسول ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور نہ نبی ہونے کا.اور نہ اپنے تئیں ولی اور امام اور خلیفتہ المسلمین کہلاتے ہیں لیکن با ایں ہمہ کوئی اعتراض اُن کے چال چلن اور زندگی پر نہیں ہوتا تو اس سوال کا جواب یہ
905 ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیا کہتا اپنے خاص مقبولوں اور محبوبوں کو بد بخت شتاب کاروں سے جن کی وہ عادت بدگمانی ہے مخفی رکھے جیسا کہ خود وجود اس کا اس قسم کی بدظنی کرنے والوں سے مخفی ہے..قصہ جو قرآن شریف میں حضرت آدم صفی اللہ کی نسبت مذکور ہے اپنے اندر یہ پیشگوئی مخفی رکھتا اندر یہ ہے کہ اہل کمال کی ہمیشہ نکتہ چینی ہوا کرے گی.خدا تعالیٰ نے اسی غرض سے خضر کا قصہ بھی قرآن شریف میں لکھا ہے تا لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک شخص ناحق خون کر کے اور یتیموں کے مال کو عمدا نقصان پہنچا کر پھر خدا تعالیٰ کے نزدیک بزرگ اور برگزیدہ ہے.ہاں اس سوال کا جواب دینا باقی رہا کہ اس طرح پر امان اُٹھ جاتا ہے اور شریر انسانوں کے لئے ایک بہانہ ہاتھ آجاتا ہے.اس اشکال کا جواب یہی ہے کہ ایسے اعتراضات صرف بدظنی سے پیدا ہوتے ہیں اگر کوئی حق کا طالب اور متقی طبع ہے تو اُس کے لئے مناسب طریق یہ ہے کہ ان کاموں پر اپنی رائے ظاہر نہ کرے جو متشابہات میں سے اور بطور شاذ و نادر ہیں کیونکہ شاذ نادر میں کئی وجوہ پیدا ہو سکتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ متشابہات کا پہلو جو شاذ نادر ہیں..کے طور پر پاک لوگوں کے وجود میں پایا جاتا ہے یہ شریر انسانوں کے امتحان کے لئے رکھا گیا ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اپنے پاک بندوں کا طریق اور عمل ہر ایک پہلو سے ایسا صاف اور روشن دکھلاتا کہ شریر انسان کو اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہ کیا تا وہ خبیث طبع انسانوں کا خبث ظاہر کرے.نبیوں اور رسولوں اور اولیاء کے کارناموں میں ہزار ہا نمونے ان کی تقویٰ اور طہارت اور امانت اور دیانت اور صدق اور پاس عہد کے ہوتے ہیں اور خود خدا تعالیٰ کی تائیدات اُن کی پاک باطنی کی گواہ ہوتی ہیں.لیکن شریر انسان ان نمونوں کو نہیں دیکھتا اور بدی کی تلاش میں رہتا ہے آخر ہلاکت کی راہ اختیار کر کے جہنم میں جاتا ہے.“ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۲۰ تا ۴۲۵ بقیه حاشیه ) ھ.اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں.وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بد بخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اور دولت عظمیٰ کو نا اہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے.اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جوشقی از لی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولت قبول سے محروم رہ جائیں.یہ سنت
906 ہیں.اللہ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے پس چونکہ تمام تہتوں کا معقولی طور پر جواب دینا ایک نظری امر تھا اور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتا ہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے.اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی اور اپنے نبیوں کی بریت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا.کیونکہ ہر ایک نجی اور پلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ نعوذ باللہ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور نا پاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھلائے جاتے.“ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۹۰۸۹) و.حضرت موسیٰ پر بھی زنا کی تہمت لگی تھی.(ماخوذ از تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵ حاشیه ) حضرت موسی پر الزام لگانے والے بنی اسرائیل ہی تھے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۹۶) کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے ز میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز اُن میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلا کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں.اور بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتامُر دار کی طرف.پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اذان نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں.کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقام خوف ہے.“ ح.مولوی محمد علی صاحب کو رویا میں کہا:.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۴) آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ.“ ( بدر جلد ۳ نمبر ۲۹ یکم اگست ۱۹۰۴، صفحهم، تذکره صفحه ۴۳۵ مطبوع ۲۰۰۴ء) ط آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا.اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ
907 تھے.آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا.“ (اربعین نمبر۳.روحانی خزائن جلدے اصفحہ ۴۲) مخالفین سے خطاب اور اپنے دعوئی پر استقامت (ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو جس قدر چا ہو.پھر یا درکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اس کا ہاتھ غالب ہے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۳) ب.دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے.اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جوا خیر وقت تک مجھے سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۵۰،۴۹) ج مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پر بنا کر اُن کے منہ پر مارے گا.دیکھو صد با دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر وفریب جو نبیوں
908 کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ.اتنی بد دعا ئیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دُور سے اعتراض کرتے ہیں.جن دلوں پر مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں.اے خدا! تو اس اُمت پر رحم کر.آمین.“ اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۴۷۳) و.اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصو بے لاحاصل ہیں.اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس بچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یا درکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ بیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند تو ڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چپکے اور اس کا بول بالا ہو.کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے من نه آنستم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میان خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار باد یہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث
909 دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں.کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے.کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں ہرگز نہیں ہو سکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے.پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام “ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳ ۲۴) ہ ہائے ! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے.“ اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۶۹ ) و " مجھے اس خدائے کریم وعزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اُس نے ارادہ فرمایا ہے.“ اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۳۴۸) یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے.تم خدا سے مت لڑو.تم اس کو نابود نہیں کر سکتے.اس کا ہمیشہ بول بالا ہے.اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کیلئے پیدا ہوا.اور یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا.سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو.کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہوگئی ہواور شائد یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو.“ ( اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۵۶) اگر یہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک تمام باشندے اس ملک کے جو مسلمان کہلاتے ہیں مجھے قبول کر لیتے.پس تمام منکروں کا گناہ ان لوگوں کی گردن پر ہے.یہ لوگ راستبازی کے محل میں نہ آپ داخل ہوتے ہیں نہ کم فہم لوگوں کو داخل ہونے دیتے ہیں.کیا کیا مگر ہیں جو کر رہے ہیں اور کیا کیا منصوبے ہیں جو اندر ہی اندر اُن کے گھروں میں ہورہے ہیں.مگر کیا وہ خدا پر غالب آجائیں گے اور کیا وہ اُس قادر مطلق کے ارادہ کو روک دیں گے جو تمام نبیوں کی زبانی ظاہر کیا گیا ہے.وہ اس ملک کے شریر
910 امیروں اور بدقسمت دولتمند دنیا داروں پر بھروسا رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں وہ کیا ہیں.صرف ایک مرے ہوئے کیڑے.“ ( تذکرۃ الشہا دتین.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۶) مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہوا ہے میں اس سے برگشتہ ہو جاؤں.یہ دنیا کی زندگی کب تک اور یہ دنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے تا میں ان کے لئے اُس یار عزیز کو چھوڑ دوں.مجھے ڈراتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں.لیکن مجھے اُسی عزیز کی قسم ہے جس کو میں نے شناخت کر لیا ہے کہ میں ان لوگوں کی دھمکیوں کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا.مجھے اس کے ساتھ غم بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسرے کے ساتھ خوشی ہو مجھے اس کے ساتھ موت بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اُس کو چھوڑ کر لمبی عمر ہو.جس طرح آپ لوگ دن کو دیکھ کر اُس کو رات نہیں کہہ سکتے.اسی طرح وہ نور جو مجھ کو دکھایا گیا میں اس کو تاریکی نہیں خیال کر سکتا.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۹۷) مخالف چاہتے ہیں کہ میں نابود ہو جاؤں اور ان کا کوئی ایسا دا ؤ چل جائے کہ میرا نام ونشان نہ رہے مگر وہ ان خواہشوں میں نامراد رہیں گے اور نامرادی سے مریں گے اور بہتیرے اُن میں سے ہمارے دیکھتے دیکھتے مر گئے اور قبروں میں حسرتیں لے گئے مگر خدا تمام میری مرادیں پوری کرے گا.یہ نادان نہیں جانتے کہ جب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اس جنگ میں مشغول ہوں تو میں کیوں ضائع ہونے لگا اور کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۵) حضرات انبیاء علیہم السلام پر غیر احمدی علماء کے بہتانات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تو یہ لوگ دشمن ہیں اس لیے اگر ان کے متعلق قابل شرم باتیں کیں تو معذور ہیں مگر ان انبیاء کی نسبت بھی جن کو یہ خود مانتے ہیں یہ لوگ شرارت سے باز نہیں آتے.یہاں تک کہ تمام نبیوں کے سردار آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی اُمت ہونے کا دعویٰ کرتے اور جن کا کلمہ پڑھتے ہیں ان پر بھی الزامات لگاتے وقت انہیں شرم نہیں آتی.ا.حضرت ابراہیمؑ کے تین جھوٹ :.اس کا ذکر کذبات میں آچکا ہے لَمْ يَكْذِبُ إِبْرَاهِيمُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ.“
911 هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ( ترمذی جلد ۲ صفحہ ۴۶ امجتبائی.نیز مطبع احمدی ترندی جلد ۲ صفحه ۶۳ او بخاری جلد ۲ صفحه ۱۴۶مطبوعہ مجتبائی) یعنی حضرت ابراہیم نے صرف تین جھوٹ بولے.۲.حضرت آدم علیہ السلام :- حضرت آدم علیہ السلام نے شرک کیا.( تفسیر محمدی زیر آیت قلنا أنهما الاعراف : ۱۹۱ - جلالين ومعالم التنزیل زیر آیت الاعراف : ١٩٠) جب حوا علیھا السلام حاملہ ہوئیں تو ابلیس ایک نامعلوم صورت پر حوا علیھا السلام کے سامنے ظاہر ہوا اور بولا کہ تیرے پیٹ میں کیا چیز ہے جو علیھا السلام بولیں کہ مجھے نہیں معلوم.ابلیس نے کہا کہ شاید منہ یا کان یا نتھنے سے نکلے یا تیرا پیٹ پھاڑ کر نکالیں.حضرت حوا علیھا السلام ڈریں اور یہ ماجرا حضرت آدم علیہ السلام سے بیان کیا.حضرت آدم علیہ السلام بھی خوفناک ہوئے.پھر ابلیس دوسری صورت پر ان کے سامنے ظاہر ہوا اور ان کے رنج کا سبب پوچھا.ان دونوں نے حال بیان کیا.ابلیس بولا کہ رنج نہ کرو.میں اسم اعظم جانتا ہوں اور مستجاب الدعوات ہوں.خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس حمل کو تمہارے مثل خوبصورت اور درست خلقت کرے اور آسانی کے ساتھ یہ تیرے پیٹ سے نکلے.بشر طیکہ اس کا نام عبد الحارث رکھو.اور ابلیس کا نام ملائکہ میں حارث تھا.حوا علیھا السلام نے اس کا یہ فریب مان لیا.پھر جب عطا کیا خدا نے ان دونوں کو فرزند صالح جسم اور تندرست....اور حوا نے واسطے خدا کے ایک شرکت والا اور نام میں شریک کیا عبادت میں نہیں.یعنی عبد اللہ کے بدلے عبدالحارث نام رکھا.“ ۳.حضرت یوسف علیہ السلام :.( تفسیر قادری موسومه به تفسیر حسینی زیر آیت الاعراف : ۱۹۰ مترجم اردو) وَلَقَدْ هَمَّتْ به قَصَدَتْ مُخَالِطَتَهُ وَهَمَّ بِهَا قَصَدَ مُخَالِطَتَهَا لِمَيْلِ الطَّبْعِ وَالشَّهْوَةِ الْغَيْرِ الْاخْتِيَارِي “ (جامع البيان زير آيت وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا يوسف : ۲۴ و جلالين مع کمالین زیر آیت وَلَقَد هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا سورة يوسف) کہ اس عورت ( زلیخا) نے حضرت یوسف سے زنا کا ارادہ کیا.اور حضرت یوسف نے بھی
912 نعوذ باللہ اس کے ساتھ میلان طبع اور شہوت غیر اختیاری کے باعث زنا کا ارادہ کیا.۴.حضرت داؤد علیہ السلام :.لِتَنْبِيْهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَكَانَ لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ اِمْرَعَةً وَ طَلَبَ امْرَءَةَ شَخْصٍ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهَا تَزَوَّجَهَا وَ دَخَلَ بِهَا.“ ( جلالين مع سمالین زیر آیت وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمن...الخ ص ۳۴) کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو تنبیہ کی اس وجہ سے کہ حضرت داؤد کی ۹۹ بیویاں تھیں.انہوں نے ایک اور شخص (جس کے پاس صرف ایک ہی بیوی تھی ) سے اس کی بیوی لے کرخود نکاح کرلیا.۵.حضرت سلیمان علیہ السلام :- وَذَالِكَ لِتَزَوُّجِهِ بِاِمْرَأَةٍ هَوَاهَا (أَحَبَّهَا) جلالین زیر آیت وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمن...الخ ص :۳۴) کہ خدا سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ انہوں نے ایک عورت کو اپنی بیوی بنالیا جس سے آپ کو عشق ہو گیا تھا.( نیز دیکھو تفسیر معالم التنزيل زیر آیت وَلَقَد فتناسليس...الخ ص ۳۴۰- تفسیر محمدی زیر آیت وَلَقَدْ فَتَنا سليم الخ ص ۱۳۴۰ و جامع البیان زیر آیت وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَن....الخ ص ۳۴۰) ۶.حضرت اور لیس علیہ السلام :.جھوٹ بول کر جنت میں داخل ہو گئے مگر پھر واپس نہ نکلے.۷.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم :- (معالم التنزيل - تفسیر محمدی - زیر آیت و رفعله معانا علی مریم : ۵۸) ا زَيْنَبَ وَ ذَلِكَ أَنَّهُ رَأَهَا بَعْدَ مَا أَنْكَحَهَا بِزَيْدٍ فَوَقَعَ فِي نَفْسِهِ وَ قَالَ سُبْحَانَ اللهِ مُقَلِبُ الْقُلُوبِ وَ سَمِعَتْ زَيْنَبُ بِتَسْبِيحِهِ وَ ذَكَرَتْ لِزَيْدٍ فَوَقَعَ فِي نَفْسِهِ كَرَاهَةً صُحْبَتِهَا وَ أَتَى النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ قَالَ أُرِيدُ أَنْ أُفَارِقَ صَاحِبَتِي قَالَ مَا رَأَيْتَ مِنْهَا قَالَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ مِنْهَا إِلَّا خَيْرًا وَلَكِنَّهَا لِشَرُفِهَا.“ ( تفسیر بیضاوی تفسیر سورة الاحزاب : ۳۸ آنيك عليك زوجك )
913 کہ یہ آیت ( أمسك عَلَيْكَ زَوْجَكَ ) زینب کے متعلق ہے اور وہ اس طرح سے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلعم نے زینب کو دیکھا.اس کے بعد کہ آپ نے زینب کا نکاح زید سے کر دیا ہوا تھا.پس آپ کے دل میں (نعوذ باللہ) زینب کا عشق ہو گیا اور آپ نے فرمایا سُبحَانَ اللَّهِ مُقَلِبُ الْقُلُوبِ» که پاک ہے وہ اللہ جو دلوں کو پھیر دیتا ہے.زینب نے آپ کی یہ تسبیح سن لی اور زید سے ذکر کر دیا.پس زید کے دل میں زینب کے ساتھ صحبت کے متعلق کراہت پیدا ہوگئی اور وہ آنحضرت صلعم کے پاس آیا.اور آ کر کہا کہ میں اپنی بیوی سے علیحدہ ہونا چاہتا ہوں.آنحضرت نے پوچھا.کیا تجھ کو اس میں کوئی عیب نظر آتا ہے.زید نے کہا.بخدا نہیں.اس میں مجھے کوئی گناہ نظر نہیں آیا یہ تو محض حضرت زینب کے شرف اور عظمت کی وجہ سے ہے.آنحضرت نے یہ سن کر فرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ.ب قَالَ مَقَاتِلُ أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى زَيْدًا يَوْمًا فَطَلَبَهُ فَأَبْصَرَ زَيْنَبَ نَائِمَةً وَكَانَتْ بَيْضَاءَ جَمِيْلَةً جَسِيْمَةٌ مِنْ اَتَمَ نِسَاءِ قُرَيْش ( کمالین بر حاشیه جلالین زیر آیت امسک علیک زوجک.الاحزاب : (۳۸) کہ مقاتل نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلعم ایک دن زید کے گھر گئے اور وہاں پر زینب کو سوئے ہوئے دیکھا اور وہ گوری حسین اور جسیم تھی قریش کی تمام حسین ترین عورتوں میں سے.ج.آنحضرت صلعم کو (نعوذ باللہ ) شیطانی الہام ہوا.قَدْ قَرَءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِى سُوْرَةِ النَّجْمِ بِمَجْلِسٍ مِنْ قُرَيْشٍ بَعْدَ أَفَرَةِ يُتُمُ اللَّتَ وَالْعُزَّى وَمَنْوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى بِالْقَاءِ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ عِلْمِهِ بِهِ تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلى وَإِنَّ شِفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجِي، فَفَرِحُوْا بِذَالِکَ.جلالین مجتبائی صفحہ ۲۸۲ مطبوعه ۱۳۰۶ تفسیر زیر آیت النجم:۲۰) صفر ۲۸ زیر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین قریش کی ایک مجلس میں سورۃ النجم کی آیات أَفَرَةِ يُتُمُ اللَّتَ وَالعُری کے آگے القائے شیطانی سے لاعلمی میں یہ پڑھ دیا کہ تِلْكَ الْغُرَانِيقَ العلی کہ یہ تینوں بت بڑی عظمت اور شان والے ہیں اور قیامت کو بھی ان کی شفاعت کی امید رکھنی چاہیے.بتوں کی یہ تعریف سن کر مشرک بہت خوش ہوئے.اس کے آگے لکھا ہے کہ بعد میں جبرائیل آئے اور انہوں نے آنحضرت صلعم کو بتایا کہ یہ الہام الہی نہیں بلکہ شیطانی القاء تھا.اس روایت کی سند کے متعلق مندرجہ ذیل حوالہ کافی ہے
914 نَبَّهَ عَلَى ثُبُوتِ اَصْلِهَا شَيْخُ الْإِسْلَامِ أَبُو حَاتِمِ الْحَافِظُ الْكَبِيرُ ابْنُ حَافِظِ الشَّهِيرِ (والطبرى) مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَابْنُ الْمُنْذِرِ.وَمِنْ طُرُقٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ ابْنِ آيَاسِ عَنْ سَعِيدِ ابْنِ.....قَالَ قَرَءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَكَّةَ وَالنَّجْمِ فَلَمَّا بَلَغَ الخ“ (زرقانی شرح مواهب اللدنيه جلد اصفحه ۳۴۰ مطبوعہ از ہر یہ پریس مصر ۱۳۲۵ھ مصنفہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی ) نیز تفسیر حسینی مترجم اردوز بر آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ (الحج :۵۳) میں لکھا ہے.”ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تلاوت کرتے تھے تو اس شیطان نے جسے ابيض “ کہتے ہیں آپ کی آواز بنا کر یہ کلمات پڑھ دیئے.تِلْكَ الْعَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجي.“ و.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو چل گیا:.سُحِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ.(بخاری کتاب الطب باب السحر) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسحور ہو گئے.یہاں تک کہ ان کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے فلاں کام کیا ہے.حالانکہ انہوں نے وہ کام کیا نہیں ہوتا تھا.صحابہ کی تو ہین مسجد نبوی میں ( آیت حجاب کے نازل ہونے سے پہلے ) ایک خوبصورت سفید رنگ کی عورت نماز پڑھنے کے لئے آئی.تو صحابی بے اختیار ہو کر اس کو تاڑنے لگے.جو پچھلی صف میں تھے ان کی خواہش تھی کہ آگے آجائیں.اور جو انگلی صف میں تھے وہ اس صف میں ملنے کے لئے پیچھے آنا چاہتے تھے پھر نماز شروع ہوئی.تو اگلی صف والے صحابی جب رکوع میں جاتے تھے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے اس عورت کو دیکھتے تھے اس پر سورۃ حجر رکوع ۲ کی یہ آیت نازل ہوئی کہ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمَنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ کہ ہم اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی.یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے اور اس کے آگے لکھا ہے.هَذَا حَدِيث صَحِيحِ الْأَسْنَادِ (مستدرک حاکم جلد ۲ صفحه ۳۵۳ مطبوعه حیدر آباد ) راوی نوح بن قیس قَالَ الذَّهَبِيُّ صَحِيحٌ هُوَ صُدُوقٌ خَرَجَ لَهُ مُسْلِمٌ.که
915 را وی نوح بن قیس ثقہ اور سچا ہے اور اس سے مسلم نے روایت لی ہے.ب.عمر بن عذبہ رضی اللہ عنہ خرمے بیچتے تھے.ایک عورت خوبصورت خرمے مول لینے آئی.تو اس سے کہا کہ میرے گھر کے اندر بہت خوب خرمے ہیں.جب وہ عورت گھر کے اندر آئی تو عمر بن عذبہ نے اس کا بوسہ لے لیا اور فور أنا دم ہو کر حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس شریف میں حاضر ہوئے اور رو کر گذرا ہوا حال عرض کیا.تو یہ آیت نازل ہوئی اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: ۱۱۵ نیز دیکھو تفسیر قادری موسومه به تغییر حسینی مترجم اردو) ج.پھر لکھا ہے.قریش کا قافلہ بہت اسباب لئے ہوئے شام سے پھرا اور ابوسفیان اور بعض رؤسائے عرب اس قافلے کے سردار تھے.جبرئیل علیہ السلام آئے اور حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی اور آپ نے مسلمانوں سے یہ حال بیان کیا.قافلہ میں بہت مال اور تھوڑے آدمی ہونے کے سبب سے مسلمان مائل ہوئے کہ راہ پر چل کر قافلہ مارلیں.پھر اسی قصد پر مسلمان مدینہ منورہ سے نکلے.( تفسیر حسینی زیر آیت كَمَا اخْرَجَكَ الخ الانفال :1) د.جنگ بدر کے ذکر میں سورۃ انفال رکوع ۲ کی پہلی آیت إِذْ يُغَشِيْكُمُ النُّعَاسُ آمَنَةً (الانفال :۱۲) کی تفسیر میں لکھا ہے :.حق تعالیٰ نے صحابہ پر اونگھ غالب کر دی اور اس نیند میں اکثر صحابہ کو احتلام ہو گیا.صبح ہی شیطان ملعون نے وسوسہ دینا شروع کیا کہ تم لوگوں کو نماز پڑھنا چاہیے اور بعضے بے وضو ہو بعضے نجس اور پانی تمہارے پاس ہے نہیں.حق تعالیٰ نے برمحل پانی برسا دیا.چنانچہ فرماتا ہے وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاء مَاء لِيُظْهِرَكُمْ بِهِ ( تفسیر حسینی زیر آیت الانفال :۱۲) دیو بندیوں کی توہین رسالت الف.مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:.الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا.فخر عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے.شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی.فخر عالم (صلی اللہ
916 علیہ وسلم ) کی وسعت علمی کی کون سی نص قطعی ہے؟“ (براہین قاطعه حاشیه صفحه ۵۰ تا ۵ مطبع کتب خانه امداد بیدیو بند ۱۳۲، مطبوعہ ہاشمی پریس) یعنی شیطان کا علم محیط زمین نص سے ثابت ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم ثابت نہیں.ب.نماز کے دوران میں :.زنا کے وسوسے سے اپنی بیوی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا اسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالتمآب ہی ہوں اپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا ہے.صراط مستقیم صفحه ۹۳ مترجم اردو ۱۳۲۴ھ مطبع احمدی )
917 چار سوال اہل پیغام سے اہل پیغام کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی اور رسول نہ تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں جو اپنی نسبت نبوت غیر تشریعی کا دعوی پایا جاتا ہے.اس سے مراد صرف محدثیت اور مجددیت ہے نہ کہ نبوت.کیونکہ آنحضرت صلعم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے.اس پر ہماری طرف سے چار لا منحل سوالات ہیں جو مختلف مواقع پر کئے جاتے رہے ہیں.پہلا سوال :.یہ کہ حضرت مسیح موعود د فرماتے ہیں :.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا.تجلیات الهی روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۱۲) اس حوالہ سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ نبوت تشریعی اور نبوت غیر تشریعی“ آپس میں نقیضین ہیں جن کا اجتماع کسی صورت میں ممکن نہیں.گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ ”نبوت تشریعی اور نبوت غیر تشریعی‘ کا کسی ایک شخص میں ایک ہی وقت میں جمع ہونا غیر ممکن ہے.پس جو شخص تشریعی نبی ہوگا اس کے لئے ممکن نہیں کہ اس کے ساتھ ہی وہ غیر تشریعی نبی بھی ہو.پس اہل پیغام کے عقیدہ کے مطابق ”غیر تشریعی نبی سے مراد مجددا اور محدث لی جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تشریعی نبی مجدد یا محدث نہیں ہو سکتا کیونکہ تشریعی نبوت نقیض ہے غیر تشریعی نبوت کی اور غیر تشریعی نبوت سے مراد مجددیت اور محدثیت ہے بقول اہل پیغام.پس تشریعی نبوت نقیض ہوئی مجددیت اور محدثیت کی.دونوں چیزوں کا ایک وقت میں اجتماع محال اور غیر ممکن ٹھہرا.نتیجہ صاف ہے کہ تشریعی نبی کا مجددیا محدث ہونا محال ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے صاف طور پر ثابت ہے کہ ہر تشریعی نبی محدث ہوتا ہے اور مجد د بھی اور اس طرح سے مجددیت اور محدثیت ہمیشہ تشریعی نبی کے ساتھ جمع ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (جو تشریعی نبی تھے ) کی نسبت تحریر فرمایا ہے:.پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجد داعظم تھے.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۶) پس اگر اہل پیغام کے خیال کے مطابق غیر تشریعی نبوت سے مراد مجددیت اور محدثیت لی
918 جائے تو اجتماع نقیضین لازم آتا ہے جو محال ہے اور جوستلزم محال ہو.وہ بھی محال اور باطل ہوتا ہے.پس غیر تشریعی نبوت سے مراد مجددیت اور محمد جمیت لینا علمی اور عقلی طور پر محال اور باطل ہے.فَتَدَبَّرُوا أَيُّهَا الْعَاقِلُونَ.پس ماننا پڑے گا کہ غیر تشریعی نبوت سے مراد ہرگز ہرگز مجددیت اور محدثیت نہیں ہے بلکہ اس سے وہ نبوت مراد ہے جو بغیر کتاب کے ہو اور یہ ظاہر ہے کہ ایک نبی ایک ہی وقت میں شریعت لانے والا اور نہ لانے والا نہیں ہوسکتا.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام حضور کی اپنی تحریرات کے رو سے مجددیت اور محدثیت کے اوپر والا مقام ہے جو مقامِ نبوت ہے.وَهُوَ الْمُرَادُ.یہ ایک علمی سوال ہے جو سالہا سال سے غیر مبالغ مبلغین اور مناظرین کے سامنے پیش ہوتا رہا ہے.مگر وہ اس کا کوئی حل نہیں کر سکے.دوسرا سوال: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.خدا نے اس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.“ ریویو جلد ا صفحه ۴۷۸ نمبر ۶ و حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۲) اس حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح ناصرٹی پر اپنی کی فضلیت کا دعوی کیا ہے اس کے متعلق ہمارا اہل پیغام سے یہ سوال ہے کہ:.ا.کیا ایک غیر نبی کو نبی پر کلی فضلیت ہو سکتی ہے؟ جواب معہ حوالہ اور عبارت ہونا چاہیے.ب.اس ضمن میں خاص طور پر قابل غور امر یہ ہے کہ ایک نبی کی سب سے بڑی شان شانِ نبوت“ ہی ہوتی ہے.باقی تمام شانیں اس کے بعد اور اس کے ماتحت ہوتی ہیں.پس یہ تو ممکن ہے کہ کسی غیر نبی کو نبی پر جزوی فضیلت حاصل ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ ایک غیر نبی ( جس کو شانِ نبوت ملی ہی نہیں ) وہ ایک نبی پر شانِ نبوت میں بھی صرف بڑھ کر ہی نہ ہو بلکہ ” بہت بڑھ کر ہو؟ تو دوسرا سوال اس حوالہ کے متعلق یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں تھے تو آپ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے شان نبوت میں کیونکر بڑھ کر ہیں؟ ہاں ایک بات جواب دیتے وقت مد نظر رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹.۱۵۰ میں یہ تسلیم فرمالیا ہے کہ محولہ بالا عبارت میں حضرت مسیح ناصری پر جزوی فضیلت سے بڑھ کر آپ کو دعوی ہے اس لئے اس عبارت کا کوئی ایسا مفہوم بیان کرنے کی کوشش کرنا جس سے صرف جزوی فضیلت کا دعوی نکلتا ہو.
919 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کے صریح خلاف ہوگا.اور اس لئے نا قابلِ قبول ہے.اس ضمن میں یہ بھی مد نظر رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح ناصری پر اپنی فضیلت کو آيت تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقرۃ: ۲۵۴) کے ماتحت قرار دیا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۶) نیز آپ نے فطرتی استعدادوں کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دیا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۵) کارناموں کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو افضل بتایا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۹) پھر جلال اور قوی نشانوں کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو افضل قرار دیا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۸) پھر ” معارف اور معرفت میں بھی مسیح ناصرتی پر اپنی فضیلت بتائی ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۵) اور یہ بھی حضور نے فرمایا ہے کہ میرے دل پر جو خدا تعالیٰ کی تجلی ہوئی.وہ میسج پر نہیں ہوئی.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۶) غرضیکہ نبوت کے تمام اجزاء میں آپ مسیح ناصری سے افضل ہیں حضور علیہ السلام نے نزول مسیح حاشیه صفحه ۳ تا صفحہ ۶ پر اپنے آپ میں شان نبوت بھی تسلیم فرمائی ہے.غرضیکہ مسیح ناصری پر کلکی فضیلت حضور کی نبوت“ کا ناقابل تردید ثبوت ہے.تیسرا سوال:.وہی وزنی پتھر ہے جو پچھلے تمہیں سال سے اہل پیغام کے مقاصد مذمومہ کے آگے سد راہ ہے اور جس کو با وجود ایڑی چوٹی کا زور لگانے سے ہلا نہیں سکے.یعنی حقیقۃ الوحی کا صفحہ ۳۹۱.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۶ ، ۴۰۷ )
920 اس عبارت کے متعلق ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعد کی تحریرات میں بمطابق اشتہار فروری ۱۸۹۲ء نبی بمعنی محدث ہی ہے اور ۱۹۰۱ء کی بعد کی تحریرات میں بجائے نبی کے لفظ کے محدث کا لفظ سمجھنا چاہیے.تو حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۱ کی مندرجہ بالا عبارت میں ”نبی کی بجائے محدث کا لفظ لگا کر عبارت کا مفہوم شائع فرمائیں.جو ہر اہل انصاف کی عقل کے مطابق یہ بنے گا کہ ۱۳۰۰ سال میں محدث کا نام پانے کے لئے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی مخصوص ہوئے اور آپ سے پہلے کوئی محدث اس امت میں نہیں گذرا.اس ضمن میں دوسرا حل طلب امر یہ ہے کہ بقول مولوی محمد علی صاحب ”نبی“ ہونا اور ہے اور نبی کا نام پانا شے دیگر ہے.ان کے نزدیک نبی کا نام پانے سے کوئی شخص فی الواقعہ نبی نہیں بن جاتا.تو جب حقیقۃ الوحی کی مندرجہ بالا عبارت میں ”نبی" کی جگہ محدث“ کا لفظ لگایا جائے گا.تو عبارت یوں بن جائے گی ” پس محدث کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.“ اس سے مولوی محمد علی صاحب کی تحریرات کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلے گا:.نہیں ہیں.ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف محدث کا نام پانے والے ہیں.حقیقی طور پر محدث بھی ۲.امت محمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوا کوئی غیر حقیقی محدث بھی نہیں ہوا.چہ جائیکہ اصلی محدث ! حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی مصلح موعود ہیں چوتھا سوال :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ( مجموعه اشتہارات جلد اصفحہ ۱۰۱) میں تحریر فرماتے ہیں:.سو مجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نوراللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی
921 برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ.كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور.جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيًّا.“ (مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۵ ۹۶ بار دوم اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء صفحه ۳) پھر فرماتے ہیں:.اور خدا نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دوسیا لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ ”مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.“ بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۵۲ حاشیہ - بار دوم ) بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ...مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا.اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۵۵ حاشیہ.بار دوم ) ۹ سالہ میعاد: "ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے، بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.“ (اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء و مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۹۸ بار دوم ) سبز اشتہارصفحہ ۲۱ حاشیہ کی عبارت او پر نقل ہو چکی ہے جس میں درج ہے کہ مصلح موعود کا نام
922 الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا.نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے.اب بشیر ثانی کے متعلق دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:.محمود ہے.دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا.جس کا دوسرا نام سبز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۴۶ حاشیه بار دوم ) خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اول کی موت سے پہلے ۱۰ر جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے.وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا.یخلق الله ما يشاء.“ (سبز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۵۲ بار دوم ) دوسرالٹر کا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا.جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.نا دان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے.کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور انجام کا راس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے.“ (سبز اشتہار حاشیہ اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۴۶.بار دوم ) مصلح موعود کی پیدائش پیشگوئی مندرجہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے مطابق پہلے بشیر اول مندرجہ ۷/ اگست ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوا اور نومبر ۱۸۸۸ میں فوت ہو گیا اور بشیر ثانی مصلح موعود مورخه ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوا اور اس کا ذکر حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲ جون ۱۸۸۹ء میں فرمایا:.خدائے عزوجل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء واشتہار ( یکم) دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اوالعزم ہوگا اور حسن واحسان میں تیرا نظیر ہو گا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.سو آج ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق
923 ور جمادی الاول ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اورمحمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائیگی.( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۹۱ با راول) کامل انکشاف کے بعد کی اطلاع“ ا.اسی خیال اور انتظار میں ” سراج منیر کے چھاپنے میں توقف کی گئی تھی تا جب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کھل جاوے.تب اس کا مفصل اور مبسوط حال لکھا جائے.“ ( سبز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۴۳.بار دوم ) کتاب سراج منیر میں لکھتے ہیں :.پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا.اور اس پیشگوئی کی اشاعت کیلئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے.“ (سراج منیر روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۶) سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا.سو محمود پیدا ہو گیا.کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو! “ سراج منیر روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۶ حاشیه ).محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے.“ ضمیمه انجام آنقم روحانی خزائن جلد ا اصفحه ۲۹۹) (0) ”میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ مودت میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا.جس کی تاریخ
924 اشاعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے اور یہ اشتہار مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہزاروں آدمیوں میں شائع کیا گیا اور اب تک اس میں سے بہت سے اشتہارات میرے پاس موجود ہیں.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۱۴) (ب) محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا.پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو.تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو مطابق ۹ر جمادی الاول ۱۳۰۶ھ میں بروز شنبہ محمود پیدا ہوا.اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر تحمیل تبلیغ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں.اور اس کے صفحہیم میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے اے فخر رسل قرب تو معلوم شد دیر آمده زراه دور آمده تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۱۹) ۴.() ”میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اُس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے.دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم ستمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اُس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری ۱۸۸۹ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷۴) (ب) چونتیسواں نشان یہ ہے کہ میرا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا اور مخالفوں نے جیسا کہ اُن کی عادت ہے اس لڑکے کے مرنے پر بڑی خوشی ظاہر کی تھی تب خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام محمود ہوگا اور اُس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا
925 تب میں نے ایک سبز رنگ اشتہار میں ہزار ہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ابھی ستر دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہوگیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۷) غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے صاف اور واضح الفاظ میں حضرت خلیفہ سیح الثانی کو مصلح موجودہ قرار دیا ہے.حضرت خلیفۃ السیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا دعویٰ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے آپ کو غیر مشروط طور پر اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و سبز اشتہار کی پیشگوئی کا مصداق اور مصلح موعود قرار دیا ہے.(الفضل ۲۷ فروری ۱۹۳۴، جلد۲۱ نمبر ۱۰۳ صفحہ ۶ کالم نمبر۲) پر حضرت ایدہ اللہ تعالی کی ڈائری شائع ہو چکی ہے.جس میں خاکسار خادم کے سوال کے جواب میں حضور نے اپنے آپ کو مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا.یہ ڈائری بعد تحریر حضرت اقدس کو دکھا کر شائع کی گئی.بعد ازاں ۱۹۴۴ء (الفضل ۲۴ فروری ، ۱۵ / مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۲ کالم ۳) میں حضور نے الہام الہی کی بنا پر مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا.ایک شبہ اور اس کا ازالہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تریاق القلوب میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کو تین کو چار کرنے والا مطابق اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء قرار دیا ہے.جواب:.(1) " تین کو چار کرنے والا کے الہام میں اشارہ چار (۴) لڑکوں کی پیدائش کا ذکر ہے.سومبارک احمد بھی بوجہ ان میں سے ایک ہونے کے اس کا مصداق ہے لیکن حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ وہ صلح موعود ہے.۲.مبارک احمد کی ولادت کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام کو ۱۸۸۳ء اور ۱۸۸۶ء میں علیحدہ رؤیا اور الہامات کے ذریعہ علم دیا گیا تھا.پس تریاق القلوب صفحه ۴۰، ۴۳،۴۱ نیز انجام آنقم صفحه ۱۸۳،۱۸۲ کی عبارت میں انہی رؤیا اور کشوف کی طرف اشارہ ہے.فرماتے ہیں:.(۱۸۸۳ء میں مجھ کو الہام ہوا کہ تین کو چار کرنے والا مبارک...اس کی نسبت تفہیم یہ
926 تھی کہ اللہ تعالیٰ اس دوسری بیوی سے چارلڑ کے مجھے دے گا اور چوتھے کا نام مبارک ہوگا.“ نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفر ۴ ۵۷) ب.شاید چار ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ...ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے تین ان میں سے تو آم کے پھل تھے مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا.وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا.کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولا د ہے.“ ( مکتوب بنام حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ مورخہ ۱۸ جون ۱۸۸۶ء مطبوعہ الحکم ۱۷/جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶) گویا یہ رویا قریباً جنوری یا فروری ۱۸۸۶ء میں ہوا.اور ہر دو عبارات کی رو سے مبارک احمد کے متعلق نیز چار بیٹوں کے متعلق الگ الہام ”تین کو چار کرنے کا بھی تھا مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اس کو مصلح موعود قرار دیا جائے؟ کیا کہیں یہ لکھا ہے کہ سوائے مصلح موعود کے کوئی اور تین کو چار کرنے والا نہیں ہوسکتا؟ مبارک احمد نو سالہ میعاد کے اندر پیدا نہیں ہوا تھا.کیونکہ اس کی تاریخ پیدائش ۱۴ رجون ۱۸۹۹ ء ہے.گویا نو سالہ میعاد ختم ہونے کے چار سال بعد وہ پیدا ہوا.اس لئے اس کے متعلق تو یہ شبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ صلح موعود ہے.تین کو چار کرنے والا کی جو صفت مصلح موعود کی بیان کی گئی ہے.وہ الگ ہے.وہ اکیلی صفت نہیں بلکہ اس کے ساتھ بیسیوں دوسری علامات ہیں.جو مبارک احمد مرحوم میں پائی نہ جاتی تھیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کو خود مبارک احمد کی ولادت سے بھی پہلے معلوم تھا کہ وہ چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے گا.(ملاحظہ ہو پاکٹ بک ہذا صفحہ ۶۶۶) پس حضرت اقدس علیہ السلام کے ذہن میں یہ شبہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مبارک احمد مصلح موعود ہے.امر واقعہ جب ہم امر واقعہ کے لحاظ سے دیکھتے ہیں تو یہ عقدہ بالکل حل ہو جاتا ہے کیونکہ مطلقاً حضرت اقدس علیہ السلام کے بیٹوں میں سے حضرت خلیفہ امسیح الثانی مصلح موعود ہی چوتھے بیٹھے ہیں.(۱) حضرت مرزا سلطان احمد صاحب (۲) فضل احمد (۳) بشیر اول (۴) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ.پس اس لحاظ سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مطلقاً بلاشرط تین کو چار کرنے والے ہوئے لیکن مرزا مبارک احمد نہ تو مطلقاً حضرت اقدس کے چوتھے لڑکے تھے.کیونکہ اس لحاظ سے وہ ساتویں تھے نہ وہ
927 صرف دوسری بیوی کے لڑکوں میں سے ہی چوتھے تھے.کیونکہ اس لحاظ سے وہ پانچویں تھے.(۱) بشیر اول (۲) حضرت خلیفۃ اسیح الثانی (۳) مرزا بشیر احمد (۴) مرزا شریف احمد (۵) مرزا مبارک احمد.ہاں دوسری بیوی کے زندہ بچوں میں وہ چوتھے تھے.اور اسی لحاظ سے ان کا ذکر حضرت اقدس علیہ السلام نے تریاق القلوب صفحہ ۴۴ میں فرمایا ہے، لیکن اشتہار ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ ء میں نہ تو ”دوسری بیوی“ کی قید ہے اور نہ زندہ بچوں کی شرط ہے.پس بلا شرط و قید اگر کوئی ”تین کو چار کرنے والا ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں جو نو برس کے عرصہ میں میعاد پیشگوئی کے اندر پیدا ہوئے.حضور عمر پانے والے اور خلیفہ ثانی بھی ہو گئے اور دیگر صفات مصلح موعود کا ظہور بھی حضور کی ذات میں ہوا.پس حضور ہی بلاشبہ مصلح موعود ہیں.نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از تحریرات خود ا.پکٹ جو انگلستان کا ایک جھوٹا مدعی نبوت تھا.اس کے خلاف اشتہار لکھا.اور اس کے آخر میں جس جگہ راقم مضمون کا نام لکھا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الفاظ لکھے:.The Prophet Mirza Ghulam Ahmad یعنی النبی مرزا غلام احمد “.( ذکر حبیب صفحه ۱۰۶ ۱۰۷ از مفتی محمد صادق صاحب ) ۲.اس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰ حاشیه ) آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اُس کا انہیں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور امتی بھی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۳۱) ۴.سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه )
928 ۵.خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.میں آدم ہوں میں شیث ہوں میں نوح ہوں میں ابراہیم ہوں میں الحق ہوں میں اسمعیل ہوں میں یعقوب ہوں میں یوسف ہوں میں موسیٰ ہوں میں داؤ دہوں میں عیسی ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر ا تم ہوں یعنی ظلمی طور پر محمد اور احمد تہوں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۶ ) - الهام يَوْمَيذٍ تُحَدِثُ أَخْبَارَهَا بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا - ( ترجمه از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) اُس دن زمین اپنی باتیں بیان کرے گی کہ کیا اسپرگزرا.خدا اس کے لئے اپنے رسول پر وحی نازل کرے گا کہ یہ مصیبت پیش آئی ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۵) ے.”خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۹).اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.وہی مسیح موعود کہلائے گا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفر ۱۰۴ حاشیه ) ۹ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۴ حاشیه ) ۱۰.پس اس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے.یادر ہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں تکذیب ہو مگر اس تکذیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۵) ا.اور کانگڑہ اور بھا گسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے.اُن کا کیا قصور
929 تھا.اُنہوں نے کونسی تکذیب کی تھی.سویا در ہے کہ جب خدا کے کسی مُرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہومگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے.“ (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۶) ۱۲.اور اس امتحان کے بعد اگر فریق مخالف کا غلبہ رہا اور میرا غلبہ نہ ہوا تو میں کاذب ٹھہروں گا ور نہ قوم پر لازم ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر آئندہ طریق تکذیب اور انکار کو چھوڑ دیں اور خدا کے مرسل کا مقابلہ کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کریں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۱) ۱۳.نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶ ۴۰ ،۴۰۷ ) ۱۴." پس خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہو گیا.تب وہ وقت آگیا کہ ان کو اپنے جرائم کی سزادی جاوے (تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۸۶) ۱۵.” میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے.“ (تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۳) ١٢ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے.“ تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۰) وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے“.(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد۲۲ صفحه ۵۰۲) ۱۸ صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴ (۱۵)
930 ۱۹.جبکہ میں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا مسیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اُس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیے کہ آنے والا اسی کچھ چیز ہی نہیں نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حکم.جو کچھ ہے پہلا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۹) ۲۰.میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی اللہ رکھا ہے.“ ( نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۷) ۲۱.” میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کا ملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.“ (نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۸ حاشیه ) ۲۲.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اور اُس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالیٰ کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کو تمام انبیاء کے صفات کا ملہ کا مظہر ٹھہرایا ہے.“ (نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۶) ۲۳.اس فیصلہ کے کرنے کے لئے خدا آسمان سے قرنا میں اپنی آواز پھونکے گا وہ قرنا کیا ہے؟ وہ اُس کا نبی ہوگا.“ ( چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۴) ۲۴.اس طرح پر میں خدا کی کتاب میں عیسی بن مریم کہلایا.چونکہ مریم ایک امتی فرد ہے اور عیسی ایک نبی ہے.پس میرا نام مریم اور عیسی رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا کہ میں اُمتی بھی ہوں اور نبی بھی.“ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۱) ۲۵.خدا نے نہ چاہا کہ اپنے رسول کو بغیر گواہی چھوڑے...قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اُس کے رسول کا تخت گاہ ہے.“ دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۰،۲۲۹) سچا خداوہی خدا ہے جس نے قادیاں میں اپنا رسول بھیجا.“ دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۱) ۲۶.’ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے
931 بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۶) ۲۷.میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خود 66 دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کرسکتا ہوں.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱) ۲۸.اس واسطہ کو لحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسٹمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں.“ ۲۹.میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱) آخری خط حضرت اقدس مندرجہ اخبار عام لا ہور ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء) ۳۰.میں صرف اسی وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والا اور بغیر کثرت کے یہ معنے تحقیق نہیں ہو سکتے.“ آخری خط حضرت اقدس مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) ۳۱.”ہمارا دعوی ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں.دراصل یہ نزاع لفظی ہے خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہوا ور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں.“ " ( بدر ۱۵ مارچ ۱۹۰۸ء جلد نمبر ۹ صفحه ۲ کالم نمبر ) ۳۲.پس اسی بنا پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے کہ اس زمانہ میں کثرت مکالمہ مخاطبہ الہیہ اور کثرت اطلاع بر علوم غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے.“ آخری خط حضرت اقدس مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے.تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں ، اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں.“ آخری خط حضرت اقدس مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء )
932 ۳۴.میں نبی ہوں اور امتی بھی ہوں تا کہ ہمارے سید و آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنیوالا مسیح امتی بھی ہوگا اور نبی بھی ہوگا.“ (آخری خط حضرت اقدس مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء ) ۳۵.یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اُس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اور انتشار روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعدا در رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصہ لیتی ہے ایسا ہی اُس وقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب اُن ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس قدر لوگوں کو خوا ہیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل اُن کے کھلنے کا دروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اُترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسب استعداد حصہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہے مگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دنیا پر کھولا جاتا ہے اور اُس کا زمانہ ایک لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اُترتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سلم جب سے خدا نے دنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۹ حاشیه ) ۳۶.اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے کیونکہ خدا کے نبی اس کی صور ہوتے ہیں.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۵) ۳۷.کبھی نبی کی وجی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے.اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہوا اور مجمل ہو.“ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۵) ۳۸.اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گذر چکے ہیں ایک
933 ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں سووہ میں ہوں.اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہر ہوئے فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھا یایا ابوجہل ہو سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۱۱۸،۱۱۷) ۳۹.ایمان در حقیقت وہی ایمان ہے جو خدا کے رسول کو شناخت کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اس ایمان کوز وال نہیں ہوتا اور اس کا انجام بد نہیں ہوتا.ہاں جو شخص سرسری طور پر رسول کا تابع ہو گیا اور اُس کو شناخت نہیں کیا اور اُس کے انوار سے مطلع نہیں ہوا اُس کا ایمان بھی کچھ چیز نہیں اور آخر ضر وردہ مرتد ہو گا جیسا کہ مسیلمہ کذاب اور عبد اللہ ابن ابی سرح اور عبیدہ اللہ بن جحش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودا اسکر یوطی اور پانسو اور عیسائی مرتد حضرت عیسی کے زمانہ میں اور جموں والا چراغدین اور عبدالحکیم خان ہمارے اس زمانہ میں مرتد ہوئے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۳) ۴۰ سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے.اے غافلو! تلاش تو کر وشاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے.جس کی تم تکذیب کر رہے ہو.“ پیغامی:.میں نبی ہوں؟ (تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۱،۴۰۰) یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نبی بنا کر بھیجے اور ایک وقت تک آپ کو پتہ نہ لگے کہ جواب:.حضرت اقدس خود تحریر فرماتے ہیں:.” اُس وقت مجھے مسیح موعود ٹھہرایا گیا کہ جبکہ مجھے بھی خبر نہیں تھی کہ میں مسیح موعود ہوں“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴ ۲۸)
934 غیر مبایعین کی پیش کردہ عبارتوں کا صحیح مفہوم ا.جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول کہ د من نیستم رسول و نیاورده ام کتاب اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۱،۲۱۰) یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعوی کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ سے یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے.اس (خدا) نے میرا نام نبی رکھا ہے سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میر انام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں.یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطه یا شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے.“ ( حضرت اقدس کا آخری خط محرره ۲۳ رمئی ۱۹۰۸ء مطبوعہ اخبار عام لاہور ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء)
935 ۳.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے.“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ) ۴.اس نکتہ کو یا د رکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی با عتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کا ملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.“ ا.نبوت کی تعریف:.(نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۱ حاشیه ) ۲.خدا کی اصطلاح:.و نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا منبع نہ ہو.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۰۶) ”خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اُس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبر میں دی گئی ہیں.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۱) (ب).اے نادانو...آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ ومخاطبہ رکھتے ہیں میں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۳) ۳.نبیوں کی اصطلاح:.جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے.جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.“ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱)
936 ۴.قرآن شریف کی اصطلاح :- جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لا يُظهِرُ عَلى غَيْبة کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.“ محدث نہیں ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۸) خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہا را مرغیب ہے ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۹) ب " قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ سے ظاہر ہے پس مصفی غیب ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) ج - آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ایسی کھلی کھلی پیشگوئی پانے کیلئے نبی ہونا ضروری ہوا.“ صرف خدا کے مرسلوں کو دی جاتی ہے.“ ۵ اسلامی اصطلاح حمتہ الله روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴ ۱۵) خدا کی طرف سے کلام پا کر جو غیب پر مشتمل زبر دست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچا دے خدا اور اسلامی اصطلاح میں نبی کہلاتا ہے.“ (حجۃ اللہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ) ب.ایسے لوگوں کو اصطلاح اسلام میں نبی اور رسول اور محدث کہتے ہیں اور وہ خدا کے پاک مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں اور خوارق اُن کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر دعائیں اُن کی قبول ہوتی ہیں اور اپنی دعاؤں میں خدا تعالیٰ سے بکثرت جواب پاتے ہیں.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۵)
۶.مذاہب سابقہ کی اصطلاح:.937 یہ ضرور یا درکھو کہ اس اُمت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے.پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.“ ے.ہماری اصطلاح.پر مشتمل ہو.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) ("میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲ ) ب.”ہم خدا کے ان کلمات کو جو نبوت یعنی پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیشگوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں اس کا نام نبی رکھتے ہیں.“ ۸.اس تعریف کا انکار نادانی ہے.تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ) ”ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الہیہ کے قائل ہیں لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۸۹) ۹.خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو اُن کی بھی اُن سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۲) دیگر اصطلاحات کا مفہوم ا.ظلی نبی: ظلمی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰ و ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۲)
938 اس موہبت کے لئے محض بروز اور ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) ۲.امتی نبی : ” جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت کی پیروی سے پایا ہے نہ براہ راست.“ (تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحه ۴۰۱ حاشیه ) مستقل نبوت:- ( - ”بنی اسرائیل میں اگر چہ بہت نبی آئے مگر اُن کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح اُن کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست اُن کو منصب نبوت ملا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۰ حاشیه ) ب.حضرت کا آخری خط مورخه ۲۳ رمئی ۱۹۰۸ء مطبوعہ اخبار عام لاہور ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء حقیقی نبوت: ( لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے جو ایسا سمجھتا ہے کہ اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت ہے جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے.“ مکتوب حضرت مسیح موعود بنام مولوی محمد علی صاحب ۷ ار ا گست ۱۸۹۹ء برصفحه النو قافی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ضمیمه صفحه ۱۹۶) ب وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا وَسَيّدِنَا إِنِّى نَبِيٌّ أَوْ رَسُولٌ عَلَى وَجْهِ الْحَقِيقَةِ وَالْإِفْتَرَاءِ وَتَرْكِ الْقُرْآنِ وَاحْكَامِ الشَّرِيعَةِ الْغَرَّاءِ فَهُوَ كَافِرٌ كَذَّابٌ.غرض ہمارا نذهب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سر چشمہ سے جدا ہو کر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بننا چاہتا ہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا.اور عبادت میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا.پس بلا شبہ وہ مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.“ انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۸ حاشیہ ) ۵ - مجازی نبی : وَسُمِّيْتُ نَبِيًّا مِنَ اللَّهِ عَلَى طَرِيقِ الْمَجَازِ لَا عَلَى وَجْهِ
939 الْحَقِيقَةِ.فَلَا تَهِيْجُ هَهُنَا غَيْرَةُ اللَّهِ وَلَا غَيْرَةُ رَسُوْلِهِ، فَإِنِّي أُرَبَّي تَحْتَ جَنَاحِ النَّبِيِّ، 66 وَقَدَمِي هَذِهِ تَحْتَ الْأَقْدَامِ النَّبَوِيَّةِ “ الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۸۹) یعنی میرا نام اللہ تعالیٰ نے نبی حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں رکھا ہے.پس اس اللہ اور رسول کی غیرت جوش میں نہیں آتی کیونکہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروں کے نیچے پرورش پائی ہے اور میرا یہ قدم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام مبارک کے نیچے ہے.پس اس عبارت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ”مجازی نبوت کا لفظ ”حقیقی نبوت کے بالمقابل بایں معنی استعمال ہوا ہے کہ میں آنحضرت صلعم کے ماتحت اور حضور کے فیض سے نبوت پانے والا ہوں یعنی غیر تشریعی بالواسطہ نبی ہوں.گویا مجازی نبوت کے معنے ہیں ” غیر تشریعی بالواسطہ نبوت“.ب.جیسا کہ اوپر بیان ہوا ”مجازی نبی“ کا لفظ ”حقیقی نبی“ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے.پس اصطلاح میں جو مفہوم حقیقی نبی کا ہے اس کے الٹ مفہوم مجازی نبی کا سمجھا جا سکتا ہے.اوپر ضمن نمبر ۴ میں حقیقی نبی کی اصطلاح کا مفہوم حضرت اقدس کی تحریرات سے صاحب شریعت اور براہ راست نبوت پانے والا ثابت کیا گیا ہے.پس مجازی نبی“ کا مفہوم اس کے بالمقابل غیر تشریعی بالواسطہ نبی ہی ہو سکتا ہے نہ کہ غیر نبی.ج.عام اصطلاح میں بھی لفظ مجازی“ کوئی مستقل لفظ نہیں بلکہ ہمیشہ لفظ حقیقی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے اور ہمیشہ حقیقت سے مجاز کا پتہ لگایا جاتا ہے.نہ کہ مجاز سے حقیقت کا.چنانچہ لکھا ہے: أَمَّا الْحَقِيقَةُ فَاسْمٌ لِكُلّ لَفْظِ يُرِيدَ بِهِ مَا وُضِعَ لَهُ....وَالْمُرَادُ بِالْوَضْعِ تَعْيِينُهُ لِلْمَعْنَى بِحَيْثُ يَدُلُّ عَلَيْهِ مِنْ غَيْرِ قَرِيْنَةٍ فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ التَّعْيِينُ مِنْ جِهَةٍ وَاضِعِ اللَّغَةِ فَوَضْع لُغَوِيٌّ.وَإِنْ كَانَ مِنَ الشَّارِعِ فَوَضْعٌ شَرْعِيٌّ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ مَخْصُوص فَوَضْع عُرَفِيٌّ خَاصٌ.وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ غَيْرُ مُعَيَّنٍ فَوَضْعٌ عُرَفِيٌّ عَامٌ وَالْمُعْتَبَرُ فِي الْحَقِيقَةِ هُوَ الْوَضْعُ لِشَيْءٍ مِنْ اَوْضَاعِ الْمَذْكُورَةِ وَ فِي الْمَجَازِ عَدُمُهُ.“ (کتاب نور الانوار باب بحث الحقیقت و المجاز صفحه ۷۵ شرح المنار ) یعنی حقیقت اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے مراد وہی معنے لئے گئے ہوں جن کے لئے وہ مقرر کیا گیا ہو.اور وضع یعنی مقرر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس لفظ سے کسی قرینہ کے بغیر وہ معنے سمجھے جاتے ہوں.اب اگر یہ تین لغت بنانے والے کی طرف سے
940 ہوا سے وضع لغوی“ کہتے ہیں اور اگر یہ تین شریعت نے کی ہو تو اسے ”وضع شرعی“ کہیں گے اور اگر یہ تعیین کسی خاص جماعت نے کی ہو تو اسے ”وضع عرفی خاص“ کہیں گے اور اگر عرف عام سے یقین ہو تو اسے وضع عرفی عام کہتے ہیں اور مجاز میں انہی تعینیوں کا عدم مراد ہے.اب ظاہر ہے کہ ان چاروں اوضاع ( یعنی وضع لغوی ، وضعی شرعی، وضع عرفی خاص اور وضع عرفی عام ) میں سے حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں لفظ حقیقی نبی“.”وضع عرفی خاص کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے.یعنی یہ حضور اور حضور کی جماعت کی ایک خاص وضع کردہ اصطلاح ہے.جس کا مفہوم حضرت اقدس نے تشریعی براہِ راست نبوت بیان فرمایا ہے.پس مجازی نبی کی اصطلاح بھی اس کے بالمقابل وضع عرفی خاص ہونے کی جہت سے غیر تشریعی بالواسطہ نبی کے معنوں میں ثابت ہوئی.و.اس امر کی مزید مثالیں کہ لفظ مجاز ہمیشہ حقیقت کا عکس ہوتا ہے.درج ذیل ہے.ڈاکٹر سر محمد اقبال فرماتے ہیں :.وجود افراد کا مجازی ہے ہستی قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پر یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں (با نگ درا - پیام عشق صفحہ ۱۳۸) (با نگ در اس شمع اور شا عرصفحہ ۲۲۰) اشعار بالا میں ڈاکٹر صاحب نے قوم کے وجود کو حقیقی قرار دیکر اس کے بالمقابل افراد کے وجود کو مجازی قرار دیا ہے، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ افراد قوم ”موجود ہی نہیں؟ یا ان کا در حقیقت کوئی وجود پایا ہی نہیں جاتا؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں.بلکہ آپ نے صرف قوم کے وجود کے بالمقابل افراد کے وجود کو مجازی قرار دیا ہے نہ کہ مطلقا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے خود کو مطلقاً مجازی نبی قرار نہیں دیا.بلکہ حقیقی نبی یعنی اپنے آقا و مطاع آنحضرت صلعم کے بالمقابل جو صاحب شریعت ہیں اپنے آپ کو مجازی نبی کہا ہے.پس چونکہ آپ کی خاص اصطلاح ( مندرجہ بالا ) میں حقیقی نبی“ سے مراد صاحب شریعت براہ راست نبی ہے اس لئے ”مجازی نبی“ کے معنے آپ کی
941 اصطلاح میں صرف غیر تشریعی بالواسطہ نبی ہوں گے.قَد انْقَطَعَتْ..نبوت نامه - الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى اَنَّ النُّبُوَّةَ التَّامَّةَ الْحَامِلَةَ لِوَحْيِ الشَّرِيعَةِ ترجمہ:.مذکورہ حدیث بتا رہی ہے کہ نبوت تامہ جو وحی شریعت والی ہوتی ہے منقطع ہے.( توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱) تمت بالخير