Language: UR
اس کتاب میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کی کتب، تحریرات، ملفوظات و مکتوبات وغیرہ سے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی فلسطین کے علاقہ سے واقعہ صلیب کے بعدخفیہ مگر کامیاب ہجرت کرکے ہندوستان میں آکر کشمیر میں رہنے اور یہاں فوت ہونے کے بارہ میں اہم اقتباسات کو باحوالہ جمع کردیا گیا ہے، جس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے کسر صلیب کے مشن کی تکمیل اور کشمیر کے شہر سری نگر کے محلہ خانیار میں حضرت مریم صدیقہ علیھا السلام کے بیٹے کی قبر کی موجودگی، مرہم عیسیٰ وغیرہ سمیت دیگر تمام قابل قدر اور اہم شواہد و جدید اور حیران کن تحقیقات کے متعلق مواد ایک جگہ جمع کردیا گیاہے۔ اس ٹائپ شدہ کتاب کے آخر پر انڈیکس وغیرہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
فلسطین سے کشمیر تک ( ایک عظیم الشان تحقیق) Syria Palestine Iraq Iran Church of The Holy Sepulcher Jerusalem Tomb of Yuz Asaf Srinagar Kashmir Afghanistan
فلسطین سے کشمیر تک ( ایک عظیم الشان تحقیق) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی کتب تحریرات و ملفوظات سے ہجرت مسیح اور قبر مسیح سے متعلق اہم اقتباسات واقعه صلیب سیل
سن اشاعت نومبر 2011ء
نمبر شمار 1 2 3 فلسطین سے کشمیر تک عنوان کتب حضرت مسیح موعود عليه السلام تفصیل صفحہ نمبر ازالہ اوہام ایک عیسائی اخبار ” نور افشاں میں بیان صعود مسیح (1891) کے متعلق ایک دلیل کے جواب میں نئے عہد نامہ کے بعض بیانات کے حوالہ سے گلیل میں حضرت مسیح کی وفات کا استدلال اتمام الحجه فلما توفیتنی کے الفاظ سے حضرت مسیح کے (1894) زندہ آسمان پر جانے کا رڈ ، بلاد شام میں حضرت 1 3 مسیح کی قبر کا ذکر ، حضرت سید مولوی محمد السعیدی (1895) طرابلسی الشامی صاحب کا بلده قدس (یروشلم) میں قبر مسیح سے متعلق خط ست بچن مرہم عیسی یا مرہم حواریین کے ذریعے صلیب کے بعد مسیح کے زخموں کا علاج ہونے اور مرہم عیسی کے نسخہ کا مختلف قرابادینوں میں پائے جانے کا ذکر ، کشمیریوں کے بنی اسرائیلی الاصل ہونے اور مسیح کے ان علاقوں کی طرف آنے کا ذکر، کشمیر میں مسیح کی قبر کا ذکر اس کتاب میں حضرت مسیح موعود نے پہلی بار حضرت مسیح کے صلیب سے بچ کر کشمیر میں آنے اور قبرسیح کے کشمیر میں ہونے کا ذکر فرمایا ہے؛ نیز اس کتاب میں حضور نے اس سے قبل بلاد شام میں بیان شدہ مسیح کی قبر کی وضاحت بھی فرمائی) 6
نمبر شمار عنوان 4 سراج منیر 5 6 (1897) کتاب البریه (1898) ii تفصیل فلسطین سے کشمیر تا صفحہ نمبر حضرت مسیح کے یونس نبی سے مشابہت کے نشان کا ذکر حضرت مسیح کے صلیبی زخموں کے لیے مرہم عیسی کے تیار کرنے اور مرہم عیسی کے نسخہ کا مختلف قرابادینوں میں پائے جانے کا ذکر یہودیوں کے ہاتھوں پیلاطوس کے ذریعے حضرت مسیح کے صلیب سے بچائے جانے کا ذکر ، چالیس دن تک مرہم عیسی کے ذریعے مسیح کے زخموں کا علاج ہونے کا ذکر مسیح کے رفع جسمانی نہ ہونے کا ذکر، یونس نبی سے مشابہت کا ذکر مسیح کے کشمیر میں آکر فوت ہونے کا ذکر 6 19 20 20 راز حقیقت لعنتی موت سے حضرت مسیح کے بچائے 24 (1898) جانے، 120 سال عمر پانے ، ہندوستان، کشمیر اور تبت میں جلا وطن یہودیوں کو تبلیغ کرنے اور کشمیر میں فوت ہونے اور مرہم عیسی کا ذکر، برنباس کی انجیل اور تنبت سے برآمد ہونے والی انجیل کا ذکر، بنارس، نیپال اور تبت وغیرہ کی طرف مزید تحقیقات کے لیے ایک قافلہ بھجوانے کا ذکر، بنی اسرائیل کے جلاوطن قبائل کا ہندوستان، کشمیر اور ان سے ملحقہ علاقوں میں آنے اور ان میں سے بعض گروہوں کا بدھ مذہب قبول کرنے کا ذکر کشمیر کے ایک باشندہ ، مولوی عبد اللہ صاحب کا یوز آسف کی قبر کے بارے میں تحقیقی خط اور مزار یوز آسف کا نقشہ، مرہم عیسی اور تاریخ کشمیر اعظمی کے حوالہ سے یوز آسف کے پیغمبر ہونے کا ذکر
نمبر شمار عنوان 8 9 7 !!! تفصیل فلسطین.صفحہ نمبر كشف الغطاء حضرت مسیح کا صلیب کی لعنتی موت سے بیچ کر 40 ہندوستان اور کشمیر آنے ، بدھ مذہب کے لوگوں (1898) ایام الصلح (1899) سے بحشیں کرنے کا بیان، مرہم عیسی سے شفا پانے اور مرہم عیسی کے نسخہ کا مختلف طبی کتب میں پائے جانے کا ذکر ، روسی سیاح کے بدھ مذہب کی کتابوں سے حضرت عیسی کے ہندوستان، کشمیر اور تبت آنے کے ثبوت کا ذکر ، یونس نبی والے نشان اور برنباس کی انجیل کا ذکر، یوز آسف کی کشمیر میں قبر اور یوز آسف کے سوانح اور تعلیمات کا انجیلی مسیح کی سوانح اور تعلیمات سے مشابہت کا ذکر حضرت عیسی کے صلیب سے بچنے اور کشمیر کی طرف ہجرت کے پانچ مختصر دلائل ، افغانوں کے یہودی الاصل ہونے کے بارے میں سات قرائن کا ذکر، طاعون کے علاج کے لیے مرہم عیسی کے نسخہ کی تیاری کا ذکر، مرہم عیسی کے نسخہ کا مختلف قرابادینوں میں پائے جانے اور مسیح کے صلیب سے بچنے کا ایک ثبوت ہونے کا بیان، حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے کے چندا جیلی دلائل کا ذکر سیح ہندوستان میں اس کتاب میں حضرت مسیح کے صلیب سے بیچ 60 (1899) کر ہندوستان اور کشمیر کی طرف آنے کا بیان ہے.دیباچہ کے علاوہ چار ابواب میں تقسیم ہے
نمبر شمار عنوان 10 دیباچه 11 iv تفصیل فلسطین سے کشمیر تا صفحہ نمبر اس کتاب کو لکھنے کی غرض وغایت کا بیان حضرت مسیح کی پہلی اور آخری زندگی کے بارے میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں پائے جانے والے غلط خیالات کا رڈ ، اس کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کرنے کا بیان 60 پہلا باب حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت سے 72 متعلق انجیلی شہادتوں کا بیان متی باب 12 آیت 40 میں یونس نبی جیسا نشان دکھانے کی پیشگوئی کا ذکر مسیح جیسے برگزیدہ آدمی پر لعنت کا مفہوم وارد نہ ہو سکنے کا ذکر، متی باب 26 آیت 32 میں ہے کہ میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تکلیل کو جاؤں گا، جی اٹھنے کے بعد تکمیل کو جانا اور حواریوں کے ساتھ مچھلی کھانے کا ذکر، برنباس کی انجیل کے حوالہ سے مسیح کے صلیب نہ دئے جانے کا ذکر، جمعہ کے روز دن کے اخیر حصہ میں صلیب دئیے جانے اور شام | کو جلد اتارے جانے کا ذکر مسیح کی موت کی خبر سن کر پیلاطوس کی حیرانی کا ذکر صلیب کے بعد مسیح کی ہڈیاں نہ توڑے جانا ایک سپاہی کے بھالا مارنے پر جسم سے خون اور پانی نکلنے کا ذکر، مسیح کے حق میں پیلاطوس کی بیوی کے خواب اور پیلاطوس کی مسیح کو بچانے کے لیے تدبیر کا ذکر صلیب سے پہلے مسیح کا رورو کر دعائیں کرنا اور صلیب پر ایلی ایلی لما سبقتانی پکارنا ، ابن آدم کے دوبارہ اپنی بادشاہت میں زمین پر
نمبر شمار عنوان 12 V تفصیل فلسطین سے کشمیر تا صفحہ نمبر آنے کی تشریح، متی میں درج صلیب کے واقعہ کے بعد مسیح کے جی اٹھنے پر قبروں کے کھلنے اور مردوں کے شہر میں آنے کی تشریح باب دوم حضرت مسیح " کے صلیب سے بچنے اور ہجرت سے متعلق 104 قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی شہادتیں 1.وما قتلوه ومــا صلبوه ولكن شبه لهم، 2.وجيها في الدنيا والآخرة و من المقربين ملک پنجاب سے مسیح کی شبیہ اور نام والے سکے دریافت ہونے کا ذکر جن سے اس علاقہ میں سیخ کی وجاہت کا پتا چلتا ہے).و جعلنی مبار کا اینما کنت اور و مطهرك من الذين كفروا کی تشریح حدیث میں مسیح کی عمر ایک سو چھپیں سال آنے کا ذکر، کنز العمال کی حدیثوں کے حوالہ سے مسیح کے سیاحت کرنے کا بیان 13 تیسرا باب طب کی کتابوں میں پائے جانے والے نسخہ مرہم 109 عیسی کے حوالہ سے حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت کا بیان مرہم عیسی کے نسخہ کا ذکر اور اس نسخہ کی مفصل تحقیق ، ان کتب کی فہرست جن میں یہ نسخہ پایا جاتا ہے، اس اعتراض کا رڈ کہ یہ مرہم نبوت سے پہلے کے زمانہ یا نبوت کے دور کی چوٹوں کے لیے بنائی گئی ہوگی
فلسطین.صفحہ نمبر vi نمبر شمار عنوان 14 تفصیل چوتھا باب حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت سے 117 یہ باب تین فصلوں میں منقسم ہے) متعلق تاریخی کتابوں کی شہادتوں کا ذکر 117 پہلی فصل حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت سے متعلق اسلامی کتابوں کی شہادت کا بیان کتاب روضۃ الصفا کے حوالہ سے مسیح کی سیاحت کا ذکر، کتاب سراج الملوک میں مسیح کی نسبت امام السائحين لکھا ہونے کا ذکر ( یعنی سیاحت کرنے والوں کا امام)، لسان العرب کے حوالہ سے مسیح “ کے سیاحت کرنے کا ذکر دوسری فصل حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت سے 123 متعلق بدھ مذہب کی کتابوں کی شہادتوں کا ذکر بدھ کا خطابوں اور واقعات میں مسیح سے مشابہ ہونا ، بدھ اور مسیح کی اخلاقی تعلیم میں مشابہت کا بیان، گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی پیشگوئی کی جس کا نام متیا ہوگا ، ان کتابوں کا بیان جن میں یہ پیشگوئی ہے اور اس پیشگوئی کے مصداق مسیح “ کے ہونے کا ذکر، بدھ کے چھٹے مرید کا نام لیا ہونا اور بدھ کے بیٹے کا نام را حولتا ہونا اور اس سے مراد بھی در اصل مسیح ہونے کا بیان 15 16
نمبر شمار عنوان 17 تیسری فصل vii تفصیل فلسطین سے کشمیر تا صفحہ نمبر 141 بنی اسرائیل کے جلاوطن قبائل کے افغانستان، ہندوستان اور کشمیر کی طرف آنے کے متعلق تاریخی کتابوں کی شہادتوں کا بیان بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کے ہندوستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آنے کا بیان اور ان کو تبلیغ حق کے لیے مسیح " کا ان علاقوں میں آنے کا بیان، ڈاکٹر برنیئر کے حوالہ سے کشمیریوں کے بنی اسرائیلی ہونے کا بیان، کشمیریوں کے بنی اسرائیلی ہونے پر فارسٹر نامی ایک انگریز کی شہادت، افغانوں کے بنی اسرائیلی ہونے پر ایچ ڈبلیو بلیو کی شہادت، افغانستان میں بنی اسرائیلیوں کے ہونے پر طبقات ناصری کی شہادت، افغانوں کے بنی اسرائیلی ہونے پر ای بلفور، ڈاکٹر وولف اور ڈاکٹر مور کی شہادت، پریسٹر جان کا ذکر، فرانسیسی سیاح فرائر ، اور ربی بنیا میں کی شہادتوں کا بیان، بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کے مشرقی علاقوں میں آنے کے بارے میں جوزی فس اور سینٹ جیروم کی شہادت، افغانوں کے بنی اسرائیلی ہونے کے بارے میں جی ٹی ویگن، جیمز برائس، جی بی میلسن ، جی پی فرائر کی شہادت ، خواجہ نعمت اللہ کی کتاب مخزن افغانی کے حوالہ سے بنی اسرائیل
نمبر شمار عنوان 18 19 viii فلسطین سے کشمیر تا صفحہ نمبر تفصیل کے افغانستان میں آنے اور افغانوں کے بنی اسرائیل ہونے کا بیان ، بنی اسرائیل کے کشمیر میں آباد ہونے کے بارے میں اے کے جانسٹن کی گواہی ،سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایک مضمون کے حوالہ سے افغانوں کے بنی اسرائیلی ہونے کا بیان ستاره قیصریه یونس نبی سے مشابہت والے نشان کا ذکر ، حضرت 154 (1899) مسیح کا صلیب سے بچ کر نصیبین سے ہوتے ہوئے افغانستان (کوه لغمان) میں آنے اور 120 سال کی عمر میں کشمیر سری نگر میں وفات پانے کا ذکر تریاق القلوب اپنی کتاب " مسیح ہندوستان میں“ کو ایک بڑا بھاری 154 (1900) معجزہ قرار دینے کا ذکر، دو طریق سے اپنے کسر صلیب کرنے کا بیان (۱) نشانات کے ذریعے (۲) عیسائیوں کے مذہبی اصولوں کی حقیقت واقعات صحیحہ کے ذریعہ واضح کر کے، لعنت کے مفہوم کا حضرت مسیح جیسے پاک انسان پر صادق نہ آنے کا ذکر، عیسائی مذہب پر فتح پانے کے طریق اور انا جیل کے حوالہ سے مسیح کے صلیب سے بچنے کا ذکر، مرہم عیسی کے ذریعے حضرت مسیح " کے صلیبی زخموں کا علاج ہونے اور نصیبین سے ہوتے ہوئے افغانستان کو د لغمان اور پھر کشمیر جانے اور کشمیر میں کوہ سلیمان پر عبادت کرنے کا ذکر، کوہ سلیمان (سرینگر) پر مسیح کے یادگاری کتبوں کا ذکر
نمبر شمار عنوان 20 20 21 ix تفصیل فلسطین.صفحہ نمبر تحفه غزه نویه حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے کے حوالہ سے 166 یونس نبی والے نشان کا ذکر، کنز العمال کی حدیث (1900) تحفہ گولڑویہ (1900) کے حوالہ سے حضرت مسیح کی ہجرت کا ذکر مرہم عیسی کے حوالہ سے حضرت مسیح کے صلیب 167 سے بچنے کا ذکر، کنز العمال کی حدیث کا بیان، یوز آسف اور انجیل کی تعلیم میں مشابہت کا بیان، خلیفہ نو ر الدین کے کشمیر میں تحقیق کی غرض سے بھجوانے کا بیان، کشمیر کی پورانی تاریخوں کے حوالہ سے یوز آسف کے مسیح ہونے کا بیان، سری نگر میں کوہ سلیمان پر یوز آسف کے کتبوں کا ذکر جن پر لکھا تھا کہ یہ ایک شہزادہ نبی تھا جو بلادِ شام سے آیا تھا، یہود کے ہاتھوں مسیح کی ایذاء رسانیوں اور ان سے نجات پا کر نصیبین سے ہوتے ہوئے پشاور کی راہ سے پنجاب اور پھر کشمیر آنے کا ذکر ، مرہم عیسی کے ذریعہ آپ کے صلیبی زخموں کا علاج ہونے اور کنز العمال کی حدیث کے حوالہ سے آپ کی سیاحت کا ذکر ، حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے کے بارے میں جرمن کے بعض عیسائی محققوں کا بیان، حضرت مسیح “ کے صلیب سے بچنے سے متعلق یسعیاہ باب 53 کی ایک پیشگوئی کا بیان
نمبر شمار عنوان X تفصیل فلسطین سے کشمیر تک صفحہ نمبر (1902) 22 الهدى و التبصرة لمن يرى حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت اور سری نگر میں قبر 183 کا بیان، کتاب اکمال الدین کے حوالہ سے یوز آسف کے مسیح ہونے کا ذکر، کشمیر کے بعض مقامات کی بنی اسرائیلی مقامات سے مشابہت کا بیان، حضرت مسیح کے صلیب کی لعنتی موت سے بچنے اور رفع جسمانی نہ ہونے کے دلائل، لفظ یوز آسف کی تشریح، حضرت مسیح کی قبر واقعہ سری نگر میں قبر کے ساتھ کسی تعارفی کتبے کے ہونے کا بیان، سری نگر اور اس کے نواح کے 72 معتبر افراد کی قبر عیسی و یوز آسف کے بارے میں شہادت کا بیان ، ہجرت مسیح کا نقشہ، قبر مسیح کا نقشہ نسخہ مرہم عیسی کا ذکر، اوای کے لفظ کے استعمال کا ذکر ، یسوع کے معنوں کا ذکر 23 کشتی نوح حضرت مسیح “ اور ان کی والدہ کا کشمیر کی طرف ہجرت 196 (1902) کرنے کا بیان ، لغت عرب سے لفظ اولیٰ کی بحث، مسیح ناصری اور مسیح محمدی میں واقعاتی مشابہتوں کا بیان ، پیج " کے صلیب سے بچنے سے متعلق یونس نبی کے نشان کا ذکر ، حضرت مسیح کی ہجرت کے بعد پولوس کے عیسائیت کو بگاڑنے کا ذکر ، صاحب المنار کے ایک اعتراض کا جواب، کریئر ڈلا سیرا جنوبی اٹلی کے ایک اخبار کے حوالہ سے پروشلم سے پطرس حواری کے ایک خط کی دریافت کا ذکر، کشمیر میں قمر مسیح کے بارہ میں ایک اسرائیلی عالم توریت کی شہادت کا ذکر
فلسطین سے کشمیر تا صفحہ نمبر xi نمبر شمار عنوان لله 24 25 25 26 26 تفصیل تحفة الندوة مرہم عیسی کے نسخہ کا ذکر ، مسیح کے صلیب سے 203 بچنے سے متعلق یروشلم سے پطرس حواری کے (*1902) ایک خط کی دریافت کا ذکر مواہب الرحمن مرہم عیسی کا ذکر ، سری نگر میں قبر عیسی کا ذکر (1903) 205 تذكرة الشهادتين مسیح ناصری اور مسیح محمدی میں 16 مشابہتوں کا 207 217 (1903) بیان، مرہم عیسی کا ذکر لیکچر سیالکوٹ حضرت مسیح کے رفع جسمانی کی تردید صلیب سے بچنے 27 27 20 28 29 29 (1904) اور مرہم عیسی کے ذریعے شفایاب ہونے کا ذکر مرہم عیسی کے نسخہ کا مختلف قرابادینوں میں پائے جانے کا ذکر لیکچر لدھیانہ حضرت مسیح کی عمر احادیث میں 120 سال یا 219 (1905) 125 سال بیان ہونے کا ذکر چشمه سیحی بدھ کی اخلاقی تعلیم اور انجیل کی اخلاقی تعلیم میں 219 مشابہت کا بیان، حضرت مسیح کے ہندوستان آنے (1906) اور سری نگر میں قبر کا ذکر ، یوز آسف کی تعلیم اور مسیح کی تعلیم میں مشابہت ، یوز آسف کی کتاب در اصل مسیح کی ہندی انجیل ہے میسج کے یونس نبی سے مشابہت کے معجزہ کا بیان، نسخہ مرہم عیسی کے حوالہ سے صلیب سے بچنے کا بیان
نمبر شمار عنوان xii فلسطین سے کشمیر تک تفصیل صفحہ نمبر 30 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور مرہم عیسی 221 31 (1905) سے شفا پا کر کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کا ذکر ، مولوی سید محمد عبد اللہ صاحب کے بعض شبہات کا ازالہ ، صلیب پر لٹکانے کے حوالہ سے یہود کے دو گروہوں کا ذکر ( بعض مار کر صلیب پر لٹکانے کے قائل تھے اور بعض الٹکا کر مارنے کے ) ، جوزیفس پہلی صدی عیسوی کا یہودی مؤرخ ) کا اپنے تین دوستوں کو صلیب سے اتروا کر علاج کروانے کا ذکر جن میں سے ایک بچ گیا، کوریئر ڈلا سرا جنوبی اٹلی کا ایک اخبار ) کے حوالہ سے یروشلم سے ایک راہب کی وفات پر اس کی باقیات سے پطرس حواری کے خط کی دریافت کا ذکر ، حضرت مسیح کے کشمیر آنے اور ان کے پیچھے دیگر حواریوں کے کشمیر میں آنے کا ذکر، دھوما حواری کے ہندوستان آنے کا ذکر، یوز آسف کے کشمیر کی پرانی تاریخوں کے حوالہ سے شہزادہ نبی ہونے اور ہجرت کشمیر کا ذکر ، کشمیر کے ملک میں بہت سی جگہوں اور چیزوں کے عبرانی نام ہونے کا ذکر حقیقة الوحی حضرت عیسی کے رفع جسمانی کارڈ کسی اور پر مسیح کی 235 (1907) شبیہ ڈال دینے کا رڈ، حضرت مسیح کے صلیب سے زندہ اتارے جانے اور مرہم عیسیٰ سے علاج ہونے کا ذکر، حضرت عیسی کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر کا ذکر
35 34 =4 xiii فلسطین سے کشمیر تک تفصیل صفحہ نمبر نمبر شمار 32 عنوان چشمه معرفت تاریخ طبری کے حوالہ سے ایک جگہ حضرت عیسی 236 (1908) کی قبر کا ذکر ریویو آف ریلیجنز 33 عیسائی مذہب پر ایک خاص ریویو مسیح صلیب پر نہیں مرا : حضرت مسیح کے صلیب 238 از حضرت مسیح موعود سے بچنے کے چھ زبردست دلائل (ستمبر 1903ء) حضرت مسیح کی قبر بمقام سری نگر: حضرت مسیح کے ہجرت کر کے کشمیر میں آنے اور سری نگر میں فوت ہونے ذکر کشمیر کے ہندوؤں کے پاس ان کی زبان میں ایک کتاب (بھوشیہ پران) کا ذکر جس میں شہزادہ نبی کا تذکرہ ہے.یوز آسف اور مسیح کے درمیان مشابہتوں کا مجموعه اشتهارات ذکر ، اپنے مسیح موعود ہونے کا بیان دوائے طاعون مرہم عیسی سے حضرت مسیح کے علاج کا ذکر، مرہم 253 (23 جولائی 1898 ء ) عیسی کے طاعون کے لیے مفید ہونے کا ذکر حضرت مسیح کا صلیب کی لعنتی موت سے بچ کر ہندوستان اور نمیر کی طرف آنے اور سری نگر میں آپ کے مزار کا ذکر الاشتهار الانصار حضرت مسیح کی خدائی کے عقیدہ کے بارے میں اپنے غم 254 (14اکتوبر 1899 ء) کا ذکر مرہم عیسی کے ذریعہ صلیبی موت سے نجات پا کر حضرت مسیح کا نصیبین ، افغانستان سے ہوتے ہوئے کشمیر میں آنے کا بیان، خلیفہ نورالدین صاحب کے تحقیق کی غرض سے کشمیر جانے کا ذکر، کو د لغمان (افغانستان) میں شہزادہ نبی کے چبوترہ کے بارے میں مزید تحقیق کے لیے تین افراد کو افغانستان بھیجوانے کا ذکر،
نمبر شمار عنوان 36 36 حاشیه درباره xiv فلسطین سے کشمیر تکہ صفحہ نمبر تفصیل مرزا خدا بخش صاحب کو صیبین جانے کے لیے منتخب کرنا نصیبین کی طرف بھجوائے جانے والے اس تحقیقی وفد کے لیے سفر خرچ کا ذکر افغانستان میں صوبہ لغمان میں لامک نبی کی قبر کے 257 37 32 کوہ پغمان میں شہزادہ نبی کا چبوترہ بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک روایت کا ذکر ضمیمہ اشتہار الانصار نصیبین جانے والے آدمیوں کے خرچ کے انتظام 258 کا ذکر، قرعہ اندازی کے ذریعہ مرزا خدا بخش (189914) صاحب کے ساتھ جانے والے دو آدمیوں کا ذکر ، اس وفد کو وداع کرنے کے لیے قادیان میں 12 نومبر 1899ء کو ایک جلسہ کے انعقاد کا ذکر 38 جناب بشپ صاحب کے لیکچر حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے بچنے کے چار 259 زندہ رسول پر کچھ ضروری بیان گواہوں کا ذکر (۱) مسیح کا یونس نبی سے اپنی مشابہت (190025) بیان کرنا.(۲) مرہم عیسی کا نسخہ.(۳) یوز آسف کا قصہ.(۴) سری نگر محلہ خانیار کی قبر حضرت مسیح کا سری نگر میں کوہ سلیمان پر عبادت کرنے کا ذکر، یوز آسف، یسوع آسف سے بگڑ کر بننے کا ذکر 39 ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب جو حضرت مسیح کے صلیب سے نجات پاکر کشمیر 261 اس نے تمام مسلمانوں کی میں آکر فوت ہونے کا ذکر، کشمیر میں قبر مسیح کے ہلاکت کے لیے کی ہے (ستمبر 1902ء) بارے میں ایک کتاب کے لکھنے کا ذکر
نمبر شمار عنوان مکتوبات احمد 40 مکتوبات بنام نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ XV تفصیل فلسطین سے کشمیر تکہ صفحہ نمبر 262 262 41 | مکتوب 21 جولائی 1898 ء دوائی طاعون کے ساتھ مرہم عیسی کے بھجوانے کا ذکر مکتوب 29 اگست 1899 ء مرزا خدا بخش صاحب کو نصیبین بھیجنے کا ذکر سفر پر 263 42 43 جانے سے پہلے ان کو اپنے پاس بلا کر ضروری یاداشتیں نوٹ کروانے کا ذکر مکتوب 9 نومبر 1899 ء دو آدمی نصیبین کی طرف برفاقت مرزا خدا بخش 264 صاحب بھجوانے اور ان کے لیے پانچ سوروپے کی 44 مکتوبات بنام حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن مدراسی صاحب 45 45 46 46 47 ضرورت کا ذکر 264 11 جون 1899ء مدراس میں یوز آسف کے میلے سے متعلق 264 تحقیق کا ذکر 2 اکتوبر 1899ء کشمیر سے خلیفہ نور دین صاحب کے قمر مسیح سے 265 متعلق تحقیقات کر کے واپس آنے کا ذکر مکتوب بنام خواجہ کمال الدین یوز آسف کا صلیب سے بیچ کر افغانستان کے رستے 266 صاحب ( غیر مطبوعہ) کشمیر میں آنے کا ذکر ، افغانستان میں یوز آسف کے چبوترہ سے متعلق تحقیق کا ذکر، دفتر کابل سے یوز آسف کے چبوترے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا ذکر ، محمود غزنوی کے اس چبوترہ کی دوبارہ مرمت کرنے کا ذکر
نمبر شمار عنوان ملفوظات xvi فلسطین سے کشمیر تک صفحہ نمبر تفصیل 48 48 هفته مختتمه جلال آباد میں یوز آسف کے چبوتروں سے متعلق 268 10 جولائی 1899 ء ایک خط کے آنے کا ذکر ، اس خط کے آنے سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خوشی کا ذکر 49 جلسہ الوداع کی تقریب پر اپنی بعثت کی غرض کا بیان، عیسی ابن مریم کے 269 حضرت اقدس کی تقریر متعلق اصل حقائق کا بیان مسیح کے صلیب سے (نصیبین کی طرف جو وفد جانا بچ کر کشمیر آنے کی اہمیت کا ذکر ، وفات مسیح کے تھا ان کو رخصت اور الوداع مسئلہ پر زور دینے کی وجہ کا بیان، حضرت مسیح کا کرنے کے لیے قادیان میں واقعہ صلیب کے بعد نصیبین جانے کا ذکر ، ایک جلسہ الوداع کے نام سے مخلص اور وفادار جماعت کا بیان ،خدا کی خاطر سفر ایک جلسہ 12، 13، 14 نومبر کی عظمت کا بیان، جماعت کی مروت اور ہمت کا 1899 ء منعقد کیا گیا) بیان ، مالی قربانی محض اللہ کرنے کا بیان 50 50 51 19 اپریل 1901 ء فورمن کالج اور امریکی مشن کے دو پادریوں کا قادیان 276 میں آنے کا ذکر ، واقعہ صلیب کا ذکر، کشمیر میں مسیح کی قبر کا بیان، یوز آسف کے مسیح ہونے کا بیان، اٹلی میں یوز آسف کے نام پر گرجے کے ہونے کا ذکر 22 دسمبر 1901 - حضرت مسیح “ کے صلیب سے بچنے اور کشمیر میں 281 آ کر فوت ہونے کے متعلق ایک کتاب کے لکھنے کا ذکر، انا جیل کے حوالہ سے مسیح کے صلیب سے بچنے کا ذکر، کشمیریوں کے بنی اسرائیلی ہونے کا ذکر، مرہم عیسی کا ذکر
xvii فلسطین سے کشمیر تک نمبر شمار 52 42 53.....54 55 عنوان تفصیل صفحہ نمبر تقریر 27 دسمبر 1901ء کسر صلیب کے کثرت سے سامان پیدا ہونے کا 283 ذکر میچ کا یونس نبی سے مشابہت والے نشان کے سوا کوئی اور معجزہ نہ دینے کا ذکر ، سری نگر میں مسیح کی قبر اور مرہم عیسی کا ذکر 14 جون 1902ء مسیح کی قبر کی اشاعت یورپ میں سرینگر میں مسیح کی قبر سے متعلق ایک مختصر اشتہار یورپ اور دوسرے ممالک میں شائع کرنے کا ذکر 5اکتوبر 1902ء واقعہ صلیب کے بعد مسیح کی زندگی کے متعلق پطرس کی شہادت پطرس حواری کی عمر سے متعلق بحث، سری علم سے ایک راہب کے مرنے کے بعد اس کی باقیات سے پطرس حواری کے ایک قدیم خط کی دریافت کا ذکر جس میں پطرس مسیح کی وفات بڑھاپے کی عمر میں ہونے کا ذکر کرتا ہے 17 اکتوبر 1902ء مردوں کے قبروں سے نکلنے کی تعبیر عالم رویاء میں مردوں کو قبروں سے نکلتے دیکھنے کی تعبیر کہ کوئی گرفتار آزاد ہوگا.طاعون کا علاج طاعون کے لیے مرہم عیسی اور جدوار کے استعمال پر ایک اعتراض کا جواب 284 284 286
نمبر شمار عنوان 56 8 نومبر 1902ء 57 58 59 18 نومبر 1902ء xviii تفصیل کشمیر سے ایک پرانے صحیفہ کی برآمدگی فلسطين.شمیر سے ایک پادری کے ذریعہ ایک پرانے صحیفہ کی دریافت کابیان اور اس پر حضرت مسیح موعود کا تبصرہ ایک عظیم الشان رویاء بہشتی مقبرہ کا ذکر، کشمیر سے کسر صلیب کے لیے پرانی انجیلیں نکلنے کا ذکر اور جو شخص کسر صلیب کے اس کام میں معاونت کرے گا اس کے لیے بہشتی ہونے کی بشارت کشمیر میں قبر مسیح کشمیر میں قبر مسیح ثابت ہونے سے تمام جھگڑوں کے فیصلہ ہونے کا ذکر، خدا کے الہام سے پہلی بار اس امر کے بارے میں راہنمائی کا ذکر صفحہ نمبر 287 287 3 اپریل 1903ء توہین عیسی علیہ السلام کے اعتراض کا جواب اور 289 حضرت مسیح کے صلیب سے بیچ کر کشمیر آنے اور سرینگر محلہ خانیار میں وفات پانے کا ذکر 9 جولائی 1903ء سرینگر والی قبر کے بارے میں اس اعتراض کا رو کہ یہ مسیح کی نہیں بلکہ کسی حواری کی قبر ہے 290
نمبر شمار 60 61 62 عنوان Xix تفصیل فلسطین سے کشمیر تک صفحہ نمبر 23 ستمبر 1905ء کشمیر میں مسیح کی قبر اور آپ کے بعض حواریوں کی 291 قبریں ہونے کا ذکر ، بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کے کشمیر آنے کا ذکر، کشمیر کے دیہات اور بعض دوسری چیزوں کے نام شام کے بعض دیہات وغیرہ سے مشابہہ ہونے کا بیان مفتی محمد صادق صاحب کو ایسے نام جمع کرنے کا ارشاد، شیعہ کتاب اکمال الدین کا ذکر، کشمیریوں کے رسم و رواج کا یہودی رسم و رواج سے مشابہہ ہونے کا ذکر ، فرانسیسی سیاح برنئر کے حوالہ سے کشمیریوں کے بنی اسرائیلی ہونے کا ذکر، تھوما اور حضرت مریم کے ہندوستان آنے کا ذکر ، فلما توفیتنی پر ایک اعتراض کا جواب 23 اکتوبر 1907ء کشمیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ابوسعید عرب صاحب کا کشمیر کی سیاحت اور قمر مسیح کو دیکھنے کے احوال کا ذکر، یوز آسف کی قبر کے مسیح کی قبر ہونے کے شواہد کا بیان اشاریہ 294
ازالہ اوہام 1 فلسطین سے کشمیر تک بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر كتب حضرت مسیح موعود عليه السلام ازالہ اوہام (1891ء) پر چہ نور افشان میں مسیح کے صعود کی نسبت یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ مسیح کے صعود کی نسبت گیارہ شاگر د چشم دید گواہ موجود ہیں جنہوں نے اُسے آسمان کو جہاں تک حد نظر ہے جاتے دیکھا.چنانچہ معترض صاحب نے اپنے دعوے کی تائید میں رسولوں کے اعمال باب اول کی یہ آیتیں پیش کی ہیں.(۳) اُن پر ( یعنی اپنے گیارہ شاگردوں پر ) اُس نے (یعنی مسیح نے ) اپنے مرنے کے پیچھے آپ کو بہت سی قومی دلیلوں سے زندہ ثابت کیا کہ وہ چالیس دن تک انہیں نظر آتا رہا اور خدا کی بادشاہت کی باتیں کہتا رہا.اور اُن کے ساتھ ایک جا ہو کے حکم دیا کہ یروشلم سے باہر نہ جاؤ اور وہ یہ کہہ کے اُن کے دیکھتے ہوئے اُوپر اُٹھایا گیا اور بدلی نے اُن کی نظروں سے چھپالیا.اور اس کے جاتے ہوئے جب وے آسمان کی طرف تک رہے تھے دیکھو دومردسفید پوشاک پہنے ہوئے اُن کے پاس کھڑے تھے (۱۱) اور کہنے لگے اے جلیلی مردو تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اُسی طرح جس طرح تم نے اسے آسمان کو جاتے دیکھا پھر آوے گا.اب
ازالہ اوہام فلسطین سے کشمیر تک پادری صاحب صرف اس عبارت پر خوش ہو کر سمجھ بیٹھے ہیں کہ در حقیقت اسی جسم خاکی کے ساتھ مسیح اپنے مرنے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھایا گیا.لیکن انہیں معلوم ہے کہ یہ بیان لوقا کا ہے جس نے نہ مسیح کو دیکھا اور نہ اُس کے شاگردوں سے کچھ سنا.پھر ایسے شخص کا بیان کیوں کر قابل اعتبار ہو سکتا ہے جو شہادت رویت نہیں اور نہ کسی دیکھنے والے کے نام کا اُس میں حوالہ ہے.ماسوا اس کے یہ بیان سراسر غلط انہی سے بھرا ہوا ہے.یہ تو سیح ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جا کر فوت ہو گیا.لیکن یہ ہرگز سچ نہیں کہ وہی جسم جو دفن ہو چکا تھا پھر زندہ ہو گیا.بلکہ اسی باب کی تیسری آیت ظاہر کر رہی ہے کہ بعد فوت ہو جانے کے کشفی طور پر مسیح چالیس دن تک اپنے شاگردوں کو نظر آتا رہا.اس جگہ کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ مسیح بوجہ مصلوب ہونے کے فوت ہوا.کیونکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے صلیب سے مسیح کی جان بچائی تھی بلکہ یہ تیسری آیت باب اول اعمال کی مسیح کی طبعی موت کی نسبت گواہی دے رہی ہے جو گلیل میں اس کو پیش آئی.اس موت کے بعد مسیح چالیس دن تک کشفی طور پر اپنے شاگردوں کو نظر آتا رہا.جو لوگ کشف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ ایسے مقامات میں بڑا دھو کہ کھاتے ہیں.اسی وجہ سے حال کے عیسائی بھی جو روحانی روشنی سے بے بہرہ ہیں اس عالم کشف کو در حقیقت عالم جسمانی سمجھ بیٹھے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ مقدس اور راستباز لوگ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں اور اکثر صاف باطن اور پُر محبت لوگوں کو عالم کشف میں جو بعینہ عالم بیداری ہے نظر آجایا کرتے ہیں.چنانچہ اس بارہ میں خود یہ عاجز صاحب تجربہ ہے.بارہا عالم بیداری میں بعض مقدس لوگ نظر آئے ہیں.اور بعض مراتب کشف کے ایسے ہیں کہ میں کسی طور سے کہہ نہیں سکتا.کہ اُن میں کوئی حصہ غنودگی یا خواب یا غفلت کا ہے بلکہ پورے طور پر بیداری ہوتی ہے اور بیداری میں گذشتہ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور باتیں بھی ہوتی ہیں.یہی حال حواریوں کی رویت کا ہے جو انہیں کشفی طور پر مسیح ابن مریم مرنے کے بعد جبکہ وہ جلیل میں جا کر کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا چالیس دن برابر نظر آتا رہا اور انہوں نے اس کشفی حالت میں صرف مسیح کو نہیں دیکھا بلکہ دوفرشتے بھی دیکھے جو سفید پوشاک پہنے ہوئے کھڑے تھے.جس سے اور زیادہ ثابت
اتمام الحجه 3 فلسطین سے کشمیر تک ہوتا ہے کہ وہ کشف کا ہی عالم تھا.انجیل میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے کشفی طور پر حضرت موسیٰ اور حضرت بیٹی کو بھی خواب میں دیکھا تھا.غرض اعلیٰ درجہ کا کشف بعینہ عالم بیداری ہوتا ہے اور اگر کسی کو اس کو چہ میں کچھ دخل ہو تو ہم بڑی آسانی سے اس کو تسلیم کرا سکتے ہیں مگر محض بیگانوں اور بے خبروں کے مقابل پر کیا کیا جائے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 353 تا 354) اتمام الحجيد (1894ء) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے لفظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی دونوں شریک ہیں گویا یہ آیت دونوں کے حق میں وارد ہے تو اس آیت کے خواہ کوئی معنے کر و دونوں اس میں شریک ہوں گے.سواگر تم یہ کہو کہ اس جگہ توفی کے معنے زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہے تو تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اس زندہ اٹھائے جانے میں حضرت عیسی کی کچھ خصوصیت نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں کیونکہ آیت میں دونوں کی مساوی شراکت ہے.لیکن یہ تو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ وفات پاگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کی قبر مبارک موجود ہے تو پھر اس سے تو بہر حال ماننا پڑا کہ حضرت عیسی بھی وفات پاگئے ہیں.اور لطف تو یہ کہ حضرت عیسی کی بھی بلاد شام میں قبر موجود ہے اور ہم زیادہ صفائی کے لئے اس جگہ حاشیہ میں اخویم تمی فی اللہ سید مولوی محمد السعیدی طرابلسی کی شہادت درج کرتے ہیں اور وہ طرابلس بلادشام کے رہنے والے ہیں اور انہیں کی حدود میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے اور اگر کہو کہ وہ قبر جعلی ہے تو اس جعل کا ثبوت دینا چاہیئے.اور ثابت کرنا چاہیئے کہ کس وقت یہ جعل بنایا گیا ہے اور اس صورت میں دوسرے انبیاء کی قبروں کی نسبت بھی تسلی نہیں رہے گی اور امان اٹھ جائے گا.اور کہنا پڑے گا کہ شاید وہ تمام قبریں جعلی ہی ہوں.بہر حال آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے یہی معنے ثابت ہوئے کہ مار دیا.بعض نادان نام کے مولوی کہتے ہیں کہ یہ تو سچ ہے کہ اس آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے مارنا ہی معنے ہیں نہ اور کچھ ہاں ہم نے کسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی بلا شام میں قبر ہے مگراب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے کیلئے مجبور کرتی ہے
اتمام الحجه 4 لیکن وہ موت نزول کے بعد وقوع میں آئے گی اور اب تک واقع نہیں ہوئی.فلسطین سے کشمیر تک اتمام الحجہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 296 تا 297) جب میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کی نسبت حضرت سید مولوی محمد السعیدی طرابلسی الشامی سے بذریعہ خط دریافت کیا تو انہوں نے میرے خط کے جواب میں یہ خط لکھا جس کو میں ذیل میں معہ ترجمہ لکھتا ہوں.يا حضرة مولانا وامامنا السلام عليكم ورحمة الله وبركاته نسأل الله الشافي ان يشفيكم.اماما سالتم عن قبر عيسى عليه السلام وحالات اخرى مما يتعلق به فابینه مفصلا في حضرتكم وهو ان عيسى عليه السلام ولد فى بيت لحم وبينه وبين بلدة القدس ثلثة اقواس وقبره في بلدة القدس والى الان موجود وهنالك كنيسة وهي اكبر الكنائس من كنائس النصارى وداخلها قبر عيسى عليه السلام كما هو مشهود وفي تلک الكنيسة ايضا قبر امه مريم ولكن كل من القبرين عليحدة وكان اسم بلدة القدس فى عهد بنی اسرائیل یروشلم ويقال ايضا اورشليم وسميت من بعد المسيح ايلياء ومن بعد الفتوح الاسلامية الى هذا الوقت اسمها القدس والاعاجم تسميها بيت المقدس و اما عدة اميال الفصل بينها وبين طرابلس فلا اعلمها تحقيقا نعم يعلم تقريبا نظرا على الطرق والمنازل.وتختلف الطرق.الطريق الاول من طرابلس الى بيروت فمن طرابلس الى بيروت منزلين متوسطين (وقدر المنزل عندنا مــن الـصبـاح الــى قريب العصر) ومن بيروت الى صيدا منزل واحد ومن صيدا الى حيفا منزل واحد و من حيفا الى عكامنزل واحد ومن عكا الى سور منزل واحد ويقال لبلاد الشام سوريه نسبةً الى تلك البلدة في القديم.ثم من سور الى يا فامنزل كبير وهي على ساحل البحر ومنها الى القدس منزل صغير والان صنع الريل منها الى القدس ويصل القاصد من
اتمام الحجه 5 فلسطین سے کشمیر تک يافا الى القدس في اقل من ساعة فعدة المسافة من طرابلس الى القدس تسعة ايام مع الراحة واليها طرق من طرابلس واقربها طريق البحر بحيث لوركب الانسان من طرابلس بالمركب النارى يصل الى يافا بيوم وليلة ومنها الى القدس ساعة في الريل والسلام عليكم ورحمة الله و بركاته ادام الله وجود كم وحفظكم وايدكم ونصركم على اعدائكم.أمين.كتبه خادمكم محمد السعيدي الطرابلسي عفا الله عنه ترجمہ: اے حضرت مولانا واما منا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو شفا بخشے.( میری بیماری کی حالت میں یہ خط شامی صاحب کا آیا تھا ) جو کچھ آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی قبر اور دوسرے حالات کے متعلق سوال کیا ہے سو میں آپ کی خدمت میں مفصل بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بیت اللحم میں پیدا ہوئے اور بیت اللحم اور بلدہ قدس میں تین کوس کا فاصلہ ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر بلدہ قدس میں ہے اور اب تک موجود ہے اور اس پر ایک گر جا بنا ہوا ہے اور وہ گر جا تمام گر جاؤں سے بڑا ہے اور اس کے اندر حضرت عیسی کی قبر ہے اور اسی گر جامیں حضرت مریم صدیقہ کی قبر ہے اور دونوں قبریں علیحدہ علیحدہ ہیں.اور بنی اسرائیل کے عہد میں بلدہ قدس کا نام میروشلم تھا اور اس کو اور شلم بھی کہتے ہیں.اور حضرت عیسی کے فوت ہونے کے بعد اس شہر کا نام ایلیاء رکھا گیا اور پھر فتوح اسلامیہ کے بعد اس وقت تک اس شہر کا نام قدس کے نام سے مشہور ہے اور عجمی لوگ اس کو بیت المقدس کے نام سے بولتے ہیں.مگر طرابلس اور قدس میں جو فاصلہ ہے میں تحقیقی طور پر اس کو بتلا نہیں سکتا کہ کس قدر ہے ہاں راہوں اور منزلوں کے لحاظ سے تقریباً معلوم ہے.اور طرابلس سے قدس کی طرف جانے کی کئی راہیں ہیں.ایک راہ یہ ہے کہ طرابلس سے بیروت کو جائیں اور طرابلس سے بیروت تک دو متوسط منزلیں ہیں.اور ہم لوگ منزل اس کو کہتے ہیں جو صبح سے عصر تک سفر کیا جائے اور پھر بیروت سے صیدا تک ایک منزل ہے اور صیدا سے حیفا تک ایک منزل اور حیفا سے عکا تک ایک منزل اور عکاسے سور تک ایک منزل اور بلاد شام کو سور یہ اسی
ست بچن 6 فلسطین سے کشمیر تک نسبت کی وجہ سے کہتے ہیں یعنی اس بلدہ قدیمہ کی طرف منسوب کر کے سور یہ نام رکھتے ہیں پھر سور سے یا فا تک ایک منزل کبیر ہے اور یا فا بحر کے کنارے پر ہے اور یافا سے قدس تک ایک چھوٹی سی منزل ہے اور اب یا فا سے قدس تک ریل طیار ہو گئی ہے.اور اگر ایک مسافر یافا سے قدس کی طرف سفر کرے تو ایک گھنٹہ سے پہلے پہنچ جاتا ہے.سو اس حساب سے طرابلس سے قدس تک نو دن کا سفر آرام کے ساتھ ہے مگر سمندر کا راہ نہایت قریب ہے.اور اگر انسان اگن بوٹ میں بیٹھ کر طرابلس سے قدس کو جانا چاہے تو یافا تک صرف ایک دن اور رات میں پہنچ جائے گا اور یافا سے قدس تک صرف ایک گھنٹہ کے اندر.والسلام.خدا آپ کو سلامت رکھے اور نگہبان اور مددگار ہو اور دشمنوں پر فتح بخشے.آمین.منہ اتمام الحجہ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 297 تا 300 حاشیہ) ست بچن ( 1895ء) مرہم حوار تین جس کا دوسرا نام مرہم عیسی بھی ہے یہ مرہم نہایت مبارک مرہم ہے جو زخموں اور جراحتوں اور نیز زخموں کے نشان معدوم کرنے کے لئے نہایت نافع ہے.طبیبوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی کے لئے تیار کی تھی یعنی جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود علیہم اللعنت کے پنجہ میں گرفتار ہو گئے اور یہودیوں نے چاہا کہ حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچ کر قتل کریں تو انہوں نے گرفتار کر کے صلیب پر کھینچنے کی کارروائی شروع کی مگر خدا تعالیٰ نے یہود کے بد ارادہ سے حضرت عیسی کو بچالیا.کچھ خفیف سے زخم بدن پر لگ گئے سو وہ اس عجیب و غریب مرہم کے چند روز استعمال کرنے سے بالکل دور ہو گئے یہاں تک کہ نشان بھی جو دوبارہ گرفتاری کیلئے کھلی کھلی علامتیں تھیں بالکل مٹ گئے.یہ بات انجیلوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب حضرت مسیح نے صلیب سے نجات پائی کہ جو در حقیقت دوبارہ زندگی کے حکم میں تھی تو وہ اپنے حواریوں کو ملے اور اپنے زندہ سلامت ہونے کی خبر دی.حواریوں نے تعجب سے
ست بچن 7 فلسطین سے کشمیر تک دیکھا کہ صلیب پر سے کیونکر بچ گئے اور گمان کیا کہ شاید ہمارے سامنے ان کی روح متمثل ہوگئی ہے تو انہوں نے اپنے زخم دکھلائے جو صلیب پر باندھنے کے وقت پڑ گئے تھے تب حواریوں کو یقین آیا کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے ہاتھ سے ان کو نجات دی.حال کے عیسائیوں کی یہ نہایت سادہ لوحی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ یسوع مسیح مرکز نئے سرے زندہ ہوا.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ خدا جو محض قدرت سے اس کو زندہ کرتا.اس کے زخموں کو بھی اچھا کر دیتا.بالخصوص جبکہ کہا جاتا ہے کہ دوسرا جسم جلالی ہے جو آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف جا بیٹھا.تو کیا قبول کر سکتے ہیں کہ جلالی جسم پر بھی یہ زخموں کا کلنک باقی رہا اور مسیح نے خود اپنے اس قصہ کی مثال یونس کے قصہ سے دی اور ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا پس اگر مسیح مر گیا تھا تو یہ مثال صحیح نہیں ہو سکتی بلکہ ایسی مثال دینے والا ایک سادہ لوح آدمی ٹھہرتا ہے جس کو یہ بھی خبر نہیں کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مشابہت تامہ ضروری ہے.غرض اس مرہم کی تعریف میں اس قد رلکھنا کافی ہے کہ مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس مرہم نے مسیح کو اچھا کیا انجیلوں سے یہ پتہ بھی بخوبی ملتا ہے کہ انہیں زخموں کی وجہ سے حضرت مسیح پلاطوس کی بستی میں چالیس ۴۰ دن تک برابر ٹھہرے اور پوشیدہ طور پر یہی مرہم ان کے زخموں پر لگتی رہی آخر اللہ تعالیٰ نے اسی سے ان کو شفا بخشی اس مدت میں زیرک طبع حواریوں نے یہی مصلحت دیکھی کہ جاہل یہودیوں کو تلاشی اور جستجو سے باز رکھنے کے لئے اور نیز ان کا پر کینہ جوش فرو کرنے کی غرض سے پلاطوس کی بستیوں میں یہ مشہور کر دیں کہ یسوع مسیح آسمان پر معہ جسم اٹھایا گیا اور فی الواقعہ انہوں نے یہ بڑی دانائی کی کہ یہودیوں کے خیالات کو اور طرف لگا دیا اور اس طرف پہلے سے یہ انتظام ہو چکا تھا اور بات پختہ ہو چکی تھی کہ فلاں تاریخ پلاطوس کی عملداری سے یسوع مسیح باہر نکل جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حواری ان کو کچھ دور تک سڑک پر چھوڑ آئے اور حدیث صحیح سے جو طبرانی * میں ہے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ستاسی ۸۷ برس زندہ رہے اور ان برسوں میں انہوں نے بہت سے ملکوں کی سیاحت کی اسی لئے ان کا نام مسیح ہوا.اور کچھ ا أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرَيْنَ وَمِائَةَ سَنَة.(المعجم الكبير للطبراني، جلد 2 ، ما اسندت فاطمة، ما روت
ست بچن 8 فلسطین سے کشمیر تک تعجب نہیں کہ وہ اس سیاحت کے زمانہ میں تبت میں بھی آئے ہوں جیسا کہ آجکل بعض انگریزوں کی تحریروں سے سمجھا جاتا ہے ڈاکٹر بر نیئر اور بعض دوسرے یوروپین عالموں کی یہ رائے ہے کہ کچھ تعجب نہیں کہ کشمیر کے مسلمان باشندہ دراصل یہود ہوں پس یہ رائے بھی کچھ بعید نہیں کہ حضرت مسیح انہیں لوگوں کی طرف آئے ہوں اور پھر تبت کی طرف رخ کر لیا ہو اور کیا تعجب کہ حضرت مسیح کی قبر کشمیر یا اس کے نواح میں ہو.یہودیوں کے ملکوں سے ان کا نکلنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبوت ان کے خاندان سے خارج ہو گئی.جو لوگ اپنی قوت عقلیہ سے کام لینا نہیں چاہتے ان کا منہ بند کرنا مشکل ہے مگر مرہم حواریین نے اس بات کا صفائی سے فیصلہ کر دیا کہ حضرت مسیح کے جسم عنصری کا آسمان پر جانا سب جھوٹے قصے اور بیہودہ کہانیاں ہیں اور بلا شبہ اب تمام شکوک و شبہات کے زخم اس مرہم سے مندمل ہو گئے ہیں.عیسائیوں اور نیم عیسائیوں کو معلوم ہو کہ یہ مرہم معہ اس کے وجہ تسمیہ کے طب کی ہزار ہا کتابوں میں موجود ہے اور اس مرہم کا ذکر کرنے والے نہ صرف مسلمان طبیب ہیں بلکہ مسلمان.مجوسی.عیسائی سب اس میں شامل ہیں.اگر چاہیں تو ہم ہزار کتاب سے زیادہ اس کا حوالہ دے سکتے ہیں اور کئی کتابیں حضرت مسیح کے زمانہ کے قریب قریب کی ہیں اور سب اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کے زخموں کے لئے تیار کی تھی دراصل یہ نسخہ عیسائیوں کی پرانی قرابادینوں میں تھا جو یونانی میں تالیف ہوئی تھیں پھر ہارون اور مامون کے وقت میں وہ کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان ہے کہ یہ کتا ہیں باوجود امتداد زمانہ کے تلف نہیں ہوسکیں یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ کے فضل نے ہمیں ان پر مطلع کیا.اب ایسے یقینی واقعہ سے انکار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی ہے.ہمیں امید نہیں کہ کوئی نظمند عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے اس سے انکار کرے کیونکہ اعلیٰ درجہ کے تواتر کا انکار کرنا حماقت بلکہ دیوانہ پن ہے.اور وہ کتابیں جن میں یہ مرہم مذکور ہے در حقیقت ہزار ہا ہیں جن میں سے ڈاکٹر حنین کی بھی ایک کتاب ہے جو ایک پورانا عیسائی طبیب ہے ایسا ہی اور بہت سے عیسائیوں اور
ست بچن 9 فلسطین سے کشمیر تک مجوسیوں کی کتابیں ہیں جو ان پورانی یونانی اور رومی کتابوں سے ترجمہ ہوئی ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد کے قریب ہی تالیف ہوئی تھیں اور یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی طبیبوں نے یہ نسخہ عیسائی کتابوں سے ہی نقل کیا ہے مگر چونکہ ہر ایک کو وہ سب کتا ہیں میتر نہیں ہو سکتیں لہذا ہم چند ایسی کتابوں کا حوالہ ذیل میں لکھتے ہیں جواس ملک میں یا مصر میں چھپ کر شائع ہوگئی ہیں اور وہ یہ ہیں.بوعلی سینا کا قانون مطبوعہ مصر + علامه شارح قانون + قرشی شارح قانون + شفاء الا سقام جلد دوم قرشی شاری قانون صفحه ۴۰۵ کامل الصناعه مطبوعہ مصرتصنيف على: صفحه ۶۰۲ اکسیر اعظم جلد رابع + میزان الطب + قرابادین قادری صفحه ۳۰۳ قلمی صفحه ۱۵۲ باب میم امراض جلد صفحه ۵۰۸ رياض الفوائد + منہاج البيان + قرا با دین کبیر جلد ۲ صفحه ۵۷۵ قلمی ورق ۶۵۶۴ تذکرہ داؤ دانگا کی مطبوعہ مصر صفحہ ۳۳۳۰۳۰۳ باب حرف امیم.+ + ذخیره خوارزم شاه قرابادین بقائی جلد دوم صفحه ۴۹۷ لوامع شہر یہ تصنیف سید حسین شہر کاظمی + قرابادین حسین بن اسحاق عیسائی + قرابادین رومی اور اگر بڑی بڑی کتابیں کسی کو میسر نہ آویں تو قرابادین قادری تو ہر جگہ اور ہر شہر میں مل سکتی ہے اور اکثر دیہات کے نیم حکیم بھی اس کو اپنے پاس رکھا کرتے ہیں سواگر ذرہ تکلیف اٹھا کر اس کے صفحہ ۵۰۸ باب بستم امراض جلد میں نظر ڈالیں تو یہ عبارت اس میں لکھی ہوئی پائیں گے ”مر ہم حوار بین کہ مسمی ست بمر هم سلیخا و مرہم رسل و آنرا مر هم عیسی نیز نامند و اجزائے ایں نسخہ دوازده عدد است که حوار بین جمتہ عیسی علیہ السلام ترکیب کردہ برائے تحلیل اورام و خنازیر وطواعین و تنقیه جراحات از گوشت فاسد و اوساخ و جهت رومانیدن گوشت تازه سودمند.اور اس جگہ نسخہ کے اجزاء لکھنے کی حاجت نہیں کیونکہ ہر ایک شخص قرابادین وغیرہ کتابوں میں دیکھ سکتا ہے.لیکن اگر یہ شبہ پیش ہو کہ ممکن ہے کہ حضرت عیسی کو نبوت سے پہلے کہیں سے چوٹیں لگی ہوں یا گر گئے ہوں یا کسی نے مارا ہواور حواریوں نے ان کے زخموں کے اور ام اور قروح کی تکالیف کیلئے یہ نسخہ تیار کیا ہو تو اسکا جواب یہ ہے کہ نبوت سے
ست بچن 10 فلسطین سے کشمیر تک پہلے حواریوں سے انکا کچھ تعلق نہ تھا بلکہ حواریوں کو حواری کا لقب اسی وقت سے ملا کہ جب وہ لوگ حضرت عیسی کی نبوت کے بعد ان پر ایمان لائے اور انکا ساتھ اختیار کیا اور پہلے تو انکا نام مجھے یا ماہی گیر تھا سو اس سے صاف تر اور کیا قرینہ ہوگا کہ یہ مرہم اس نام کی طرف منسوب ہے جو حواریوں کو حضرت مسیح کی نبوت کے بعد ملا اور پھر ایک اور قرینہ یہ ہے کہ اس مرہم کو مرہم رسل بھی کہتے ہیں.کیونکہ حواری حضرت عیسی کے رسول تھے.اور اگر یہ گمان ہو کہ ممکن ہے کہ یہ چوٹیں حضرت مسیح کو نبوت کے بعد کسی اور حادثہ سے لگ گئی ہوں اور صلیب پر مر گئے ہوں جیسا کہ نصاریٰ کا زعم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ چوٹیں نبوت کے بعد لگی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس ملک میں نبوت کا زمانہ صرف تین برس بلکہ اس سے بھی کم ہے پس اگر اس مختصر زمانہ میں بجز صلیب کی چوٹوں کے کسی اور حادثہ سے بھی یسوع کو چوٹیں لگی تھیں اور ان چوٹوں کے لئے یہ مرہم طیار ہوئی تھی تو اس دعوئی کا بار ثبوت عیسائیوں کی گردن پر ہے جو حضرت عیسی کو جسم سمیت آسمان پر چڑھا رہے ہیں یہ مرہم حوار تین متواترات میں سے ہے اور متواترات علوم حسیہ بدیہ کی طرح ہوتے ہیں جن سے انکار کرنا حماقت ہے.اگر یہ سوال پیش ہو کہ ممکن ہے کہ چوٹوں کے اچھا ہونے کے بعد حضرت عیسی آسمان پر چڑھائے گئے ہوں تو اس کا جواب یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو آسمان پر چڑھانا ان کا منظور ہوتا تو زمین پر ان کیلئے مرہم طیار نہ ہوتی آسمان پر لیجانے والا فرشتہ اسکے زخم بھی اچھے کر دیتا اور انجیل میں دیکھنے والوں کی شہادت رویت صرف اس قدر ہے کہ ان کو سڑک پر جاتے دیکھا اور تحقیقات سے ان کی قبر کشمیر میں ثابت ہوتی ہے اور اگر کوئی خوش فہم مولوی یہ کہے کہ قرآن میں ان کی رفع کا ذکر ہے تو اسکے جواب میں یہ التماس ہے کہ قرآن میں رفع الی اللہ کا ذکر ہے نہ رفع الی السماء کا پھر جبکہ اللہ جل شانہ نے یہ فرمایا ہے کہ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى* تو اس سے قطعی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ رفع موت کے بعد ہے کیونکہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا سو اس میں کیا کلام ہے کہ خدا کے نیک بندے وفات کے بعد خدا کی طرف اٹھائے جاتے ہیں.سو وفات کے بعد نیک بندوں کا رفع ہونا آل عمران : 56
11 فلسطین سے کشمیر تک سنت اللہ میں داخل ہے مگر وفات کے بعد جسم کا اٹھایا جانا سنت اللہ میں داخل نہیں اور یہ کہنا کہ توفی کے معنی اس جگہ سونا ہے سراسرالحاد ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ متوفیک ممیتک اور اس کی تائید میں صاحب بخاری اسی محل میں ایک حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لایا ہے پس جو معنی توفی کے ابن عباس اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام متنازعہ فیہ میں ثابت ہو چکے اسکے برخلاف کوئی اور معنی کرنا یہی ملحدانہ طریق ہے مسلمان کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام متنازعہ فیہ میں یہی معنی کئے پس بڑی بے ایمانی ہے جو نبی کریم کے معنوں کو ترک کر دیا جائے اور جبکہ اس جگہ توفی کے معنی قطعی طور پر وفات دینا ہی ہوا تو پھر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وفات آئندہ کے زمانہ میں ہوگی کیونکہ آیت فلما تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ لحصاف صاف بتلا رہی ہے کہ وفات ہو چکی وجہ یہ کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی جناب الہی میں عرض کرتے ہیں کہ عیسائی میری وفات کے بعد بگڑے ہیں پھر اگر فرض کر لیں کہ اب تک حضرت عیسی فوت نہیں ہوئے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ ابتک عیسائی بھی نہیں بگڑے حالانکہ ان کم بختوں نے عاجز انسان کو خدا بنادیا اور نہ صرف شرک کی نجاست کھائی بلکہ سو رکھانا شراب پیناز نا کرنا سب انہی لوگوں کے حصہ میں آ گیا کیا کوئی دنیا میں بدی ہے جو ان میں پائی نہیں جاتی کیا کوئی ایسا بدکاری کا کام ہے جس میں یہ لوگ نمبر اول پر نہیں.پس صاف ظاہر ہے کچھ یہ لوگ بگڑ گئے اور شرک اور ناپاکیوں کا جذام ان کو کھا گیا.اور اسلام کی عداوت نے ان کو تحت الثرمی میں پہنچا دیا اور نہ صرف آپ ہی ہلاک ہوئے بلکہ انکی ناپاک زندگی نے ہزاروں کو ہلاک کیا یورپ میں کتوں اور کتیوں کی طرح زنا کاری ہو رہی ہے شراب کی کثرت شہوتوں کو ایک خطرناک جوش دے رہی ہے اور حرامی بچے لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں یہ کس بات کا نتیجہ ہے اسی مخلوق پرستی اور کفارہ کے پر فریب مسئلہ کا.منہ ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301 تا 308) قرآن شریف میں جو وارد ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ یعنی عیسی نہ مصلوب ہوا المائده: 118 النساء : 158
ست بچن 12 فلسطین سے کشمیر تک نہ مقتول ہوا.اس بیان سے یہ بات منافی نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر زخمی ہو گئے.کیونکہ مصلوبیت سے مراد وہ امر ہے جو صلیب پر چڑھانے کی علت غائی ہے اور وہ قتل ہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے اس اصل مقصود سے ان کو محفوظ رکھا.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ * یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دیئے وطن سے نکالا.دانت شہید کیا انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے.سو در حقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے محفوظ رکھا اسی طرح جن لوگوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا تھا.ان کی اس کارروائی کی علت غائی حضرت مسیح کا زخمی ہونا نہ تھا بلکہ ان کا اصل ارادہ حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی کے ذریعہ سے قتل کر دینا تھا سو خدا نے ان کو اس بدارادہ سے محفوظ رکھا اور کچھ شک نہیں کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے پس قول ما صلبوہ ان پر صادق آیا.منہ ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301 حاشیہ) ڈاکٹر بر نیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کشمیر میں یہودیت کی بہت سی علامتیں پائی جاتی ہیں چنانچہ پیر پنجال سے گزر کر جب میں اس ملک میں داخل ہوا تو دیہات کے باشندوں کی صورتیں یہود کی سی دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ان کی صورتیں اور ان کے طور طریق اور وہ نا قابل بیان خصوصیتیں جن سے ایک سیاح مختلف اقوام کے لوگوں کی خود بخود شناخت اور تمیز کر سکتا ہے.سب یہودیوں کی پورانی قوم کی سی معلوم ہوتی تھیں میری بات کو آپ محض خیالی ہی تصور نہ فرمائیے گا ان دیہاتوں کے یہودی نما ہونے کی نسبت ہمارے پادری صاحبان اور اور بہت سے فرنگستانیوں نے بھی میرے کشمیر جانے سے بہت عرصہ پہلے ایسا ہی لکھا ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ اس شہر کے باشندے باوجود یکہ تمام مسلمان ہیں مگر پھر بھی ان میں سے اکثر کا نام موسیٰ ہے.تیسرے یہاں یہ عام روایت ہے المائده: 68
13 فلسطین سے کشمیر تک کہ حضرت سلیمان اس ملک میں آئے تھے.چوتھے یہاں کے لوگوں کا یہ بھی گمان ہے کہ حضرت موسیٰ نے شہر کشمیر ہی میں وفات پائی تھی اور ان کا مزار شہر سے قریب تین میل کے ہے.پانچویں عموماً یہاں سب لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اونچے پہاڑ پر جو ایک مختصر اور نہایت پورا نا مکان نظر آتا ہے اس کو حضرت سلیمان نے تعمیر کرایا تھا اور اسی سبب سے اس کو آج تک تخت سلیمان کہتے ہیں.سو میں اس بات سے انکار کرنا نہیں چاہتا کہ یہودی لوگ کشمیر میں آ کر بسے ہوں پہلے رفتہ رفتہ تنزل کرتے کرتے بت پرست بن گئے ہوں گے اور پھر آخر اور بت پرستوں کی طرح مذہب اسلام کی طرف مائل ہو گئے ہوں گئے یہ رائے ڈاکٹر بر نیر کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب سیر و سیاحت میں لکھی ہے.مگر اسی بحث میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ غالباً اسی قوم کے لوگ پیکن میں موجود ہیں جو مذہب موسوی کے پابند ہیں اور ان کے پاس توریت اور دوسری کتابیں بھی ہیں.مگر حضرت عیسی کی وفات یعنی مصلوب ہونے کا حال ان لوگوں کو بالکل معلوم نہیں“ ڈاکٹر صاحب کا یہ فقرہ یاد رکھنے کے لائق ہے کیونکہ آج تک بعض نادان عیسائیوں کا یہ گمان ہے کہ حضرت عیسی کے مصلوب ہونے پر یہود اور نصاری کا اتفاق ہے اور اب ڈاکٹر صاحب کے قول سے معلوم ہوا کہ چین کے یہودی اس قول سے اتفاق نہیں رکھتے اور ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ حضرت عیسی سولی پر مر گئے اور ڈاکٹر صاحب نے جو کشمیریوں کے یہودی الاصل ہونے پر دلائل لکھے ہیں یہی دلائل ایک غور کرنے والی نگاہ میں ہمارے متذکرہ بالا بیان پر شواہد بعینہ ہیں یہ واقعہ مذکورہ جو حضرت موسیٰ کشمیر میں آئے تھے چنانچہ ان کی قبر بھی شہر سے قریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے صاف دلالت کرتا ہے کہ موسیٰ سے مراد عیسی ہی ہے کیونکہ یہ بات قریب قیاس ہے کہ جب کشمیر کے یہودیوں میں اس قدر تغیر واقع ہوئے کہ وہ بہت پرست ہو گئے اور پھر مدت کے بعد مسلمان ہو گئے تو کم علمی اور لا پروائی کی وجہ سے عیسی کی جگہ موسیٰ انہیں یا درہ گیا ورنہ حضرت موسیٰ تو موافق تصریح توریت کے حورب کی سرزمین میں اس سفر میں فوت ہو گئے تھے جو مصر سے کنعان کی طرف بنی اسرائیل نے کیا تھا اور حورب کی ایک وادی میں بیت فغفور کے مقابل دفن کئے گئے دیکھواستثناء ۳۴ باب ورس ۵.ایسا ہی
ست بچن 14 فلسطین سے کشمیر تک معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان کا لفظ بھی رفتہ رفتہ بجائے عیسی کے لفظ کے مستعمل ہو گیا.ممکن ہے کہ حضرت عیسی نے پہاڑ پر عبادت کے لئے کوئی مکان بنایا ہو کیونکہ یہ شاذ و نادر ہے کہ کوئی بات بغیر کسی اصل صحیح کے محض بے بنیاد افترا کے طور پر مشہور ہو جائے.ہاں یہ غلطی قریب قیاس ہے کہ بجائے عیسی کے عوام کو جو پچھلی تو میں تھیں سلیمان یاد رہ گیا ہو اور اس قدر غلطی تعجب کی جگہ نہیں.چونکہ یہ تین نبی ایک ہی خاندان میں سے ہیں اس لئے یہ غلطیاں کسی اتفاقی مسامحت سے ظہور میں آگئیں تبت سے کوئی نسخہ انجیل یا بعض عیسوی وصایا کا دستیاب ہونا جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ جب قرائن قویہ قائم ہیں کہ بعض نبی بنی اسرائیل کے کشمیر میں ضرور آئے گو ان کے تعین نام میں غلطی ہوئی اور ان کی قبر اور مقام بھی اب تک موجود ہے تو کیوں یہ یقین نہ کیا جائے کہ وہ نبی در حقیقت عیسی ہی تھا جو اول کشمیر میں آیا اور پھر تبت کا بھی سیر کیا اور کچھ بعید نہیں کہ اس ملک کے لوگوں کے لئے کچھ وصیتیں بھی لکھی ہوں اور آخر کشمیر میں واپس آ کر فوت ہو گئے ہوں.چونکہ سرد ملک کا آدمی سرد ملک کو ہی پسند کرتا ہے اس لئے فراست صحیحہ قبول کرتی ہے کہ حضرت عیسی کنعان کے ملک کو چھوڑ کر ضرور کشمیر میں پہنچے ہوں گے.میرے خیال میں کسی کو اس میں کلام نہ ہوگا کہ خطہ کشمیر کو خطہ شام سے بہت مشابہت ہے پھر جبکہ ملکی مشابہت کے علاوہ قوم بنی اسرائیل بھی اس جگہ موجود تھی تو حضرت مسیح اس ملک کے چھوڑنے کے بعد ضرور کشمیر میں آئے ہوں گے مگر جاہلوں نے دور دراز زمانہ کے واقعہ کو یاد نہ رکھا اور بجائے عیسی کے موسیٰ یا سلیمان یا درہ گیا.اخویم حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں قریباً چودہ ۱۴ ابرس تک جموں اور کشمیر کی ریاست میں نو کر رہا ہوں اور اکثر کشمیر میں ہر ایک عجیب مکان وغیرہ کے دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا لہذا اس مدت دراز کے تجربہ کے رو سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر بر نیر صاحب نے اس بات کے بیان کرنے میں کہ اہل کشمیر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ کشمیر میں موسیٰ کی قبر ہے غلطی کی ہے جو لوگ کچھ مدت کشمیر میں رہے ہیں وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ کشمیر میں موسیٰ نبی کے نام سے کوئی قبر مشہور نہیں ڈاکٹر صاحب کو بوجہ اجنبیت زبان کے ٹھیک ٹھیک نام کے
ست بچن 15 فلسطین سے کشمیر تک لکھنے میں غلطی ہوگئی ہے یاممکن ہے کہ سہو کا تب سے یہ غلطی ظہور میں آئی ہو اصل بات یہ ہے کہ کشمیر میں ایک مشہور و معروف قبر ہے جس کو یوز آسف نبی کی قبر کہتے ہیں اس نام پر ایک سرسری نظر کر کے ہر ایک شخص کا ذہن ضرور اس طرف منتقل ہوگا کہ یہ قبر کسی اسرائیلی نبی کی ہے کیونکہ یہ لفظ عبرانی زبان سے مشابہ ہیں مگر ایک عمیق نظر کے بعد نہایت تسلی بخش طریق کے ساتھ کھل جائے گا کہ در اصل یہ لفظ یسوع آسف ہے یعنی یسوع غمگین.اسف غمگین_اسف اندوہ اور غم کو کہتے ہیں چونکہ حضرت مسیح نہایت غمگین ہو کر اپنے وطن سے نکلے تھے اس لئے اپنے نام کے ساتھ آسف ملا لیا مگر بعض کا بیان ہے کہ دراصل یہ لفظ یسوع صاحب ہے پھر اجنبی زبان میں بکثرت مستعمل ہو کر یوز آسف بن گیا.لیکن میرے نزدیک یسوع آسف اسم بامسٹمی ہے اور ایسے نام جو واقعات پر دلالت کریں اکثر عبرانی نبیوں اور دوسرے اسرائیلی راست بازوں میں پائی جاتی ہیں چنانچہ یوسف جو حضرت یعقوب کا بیٹا تھا اس کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے کہ اس کی جدائی پر اندوہ اور غم کیا گیا جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اس بات کی طرف اشارہ فرما کر کہا ہے.یا اسفی عَلى يُوسُف پس اس سے صاف نکلتا ہے کہ یوسف پر اسف یعنی اندوہ کیا گیا اس لئے اس کا نام یوسف ہوا ایسا ہی مریم کا نام بھی ایک واقعہ پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ کہ جب مریم کا لڑکا عیسی پیدا ہوا تو وہ اپنے اہل وعیال سے دور تھی اور مریم وطن سے دور ہونے کو کہتے ہیں اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرما کر کہتا ہے وَاذْكُرُ فِى الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا یعنی مریم کو کتاب میں یاد کر جبکہ وہ اپنے اہل سے ایک شرقی مکان میں دور پڑی ہوئی تھی سوخدا نے مریم کے لفظ کی وجہ تسمیہ یہ قرار دی کہ مریم حضرت عیسی کے پیدا ہونے کے وقت اپنے لوگوں سے دور دو مہجور تھی یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس کا لڑکا عیسی قوم سے قطع کیا جائیگا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح اپنے ملک سے نکل گئے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کشمیر میں جا کر وفات پائی اور اب تک کشمیر میں ان کی قبر موجود ہے يُزَارُ وَ يُتَبَرَّكُ بِهِ ہاں ہم نے کسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی بلا دشام میں قبر ہے مگر اب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے کیلئے مجبور کرتی ہے کہ واقعی قبر وہی ہے جو کشمیر میں ہے اور یوسف : 85 مریم : 17
16 فلسطین سے کشمیر تک ملک شام کی قبر زندہ درگور کا نمونہ تھا جس سے وہ نکل آئے اور جب تک وہ کشمیر میں زندہ رہے ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر مقام کیا گویا آسمان پر چڑھ گئے.حضرت مولوی نور دین صاحب فرماتے ہیں کہ یسوع صاحب کی قبر جو یوز آسف کی قبر کر کے مشہور ہے وہ جامع مسجد سے آتے ہوئے بائیں طرف واقع ہوتی ہے جب ہم جامع مسجد سے اس مکان میں جائیں جہاں شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ کے تبرکات ہیں تو یہ قبر تھوڑی شمال کی جانب عین کو چہ میں ملے گی اس کو چہ کا نام خانیار ہے اور یہ اصل قدیم شہر سے قریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے جیسا کہ ڈاکٹر بر نیر نے لکھا ہے پس اس بات کو بھی خیانت پیشہ عیسائیوں کی طرح ہنسی میں نہیں اڑانا چاہئے کہ حال میں ایک انجیل تبت سے دفن کی ہوئی نکلی ہے جیسا کہ وہ شائع بھی ہو چکی ہے بلکہ حضرت مسیح کے کشمیر میں آنے کا یہ ایک دوسرا قرینہ ہے.ہاں یہ ممکن ہے کہ اس انجیل کا لکھنے والا بھی بعض واقعات کے لکھنے میں غلطی کرتا ہو جیسا کہ پہلی چار انجیلیں بھی غلطیوں سے بھری ہوئی ہیں.مگر ہمیں اس نادر اور عجیب ثبوت سے بکلی منہ نہیں پھیرنا چاہئے جو بہت سی غلطیوں کو صاف کر کے دنیا کو صحیح سوانح کا چہرہ دکھلاتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.منہ ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحه 302 تا 307 حاشیه در حاشیه ) ہمارے متعصب مولوی ابتک یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام معہ جسم عنصری آسمان پر چڑھ گئے ہیں اور دوسرے نبیوں کی تو فقط روحیں آسمان پر ہیں مگر حضرت عیسی جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر موجود ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر چڑھائے بھی نہیں گئے بلکہ کوئی اور شخص صلیب پر چڑھایا گیا لیکن ان بیہودہ خیالات کے رد میں علاوہ ان ثبوتوں کے جو ہم ازالہ اوہام اور حمامتہ البشری وغیرہ کتابوں میں دے چکے ہیں ایک اور قوی ثبوت یہ ہے کہ صحیح بخاری صفحہ ۳۳۹ میں یہ حدیث موجود ہے لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبياء هم مساجد.یعنی یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا یعنی ان کو سجدہ گاہ مقرر کر دیا اور ان کی پرستش شروع کی.اب ظاہر ہے کہ نصاری بنی اسرائیل کے دوسرے نبیوں کی قبروں کی ہرگز
ست بچن 17 فلسطین سے کشمیر تک پرستش نہیں کرتے بلکہ تمام انبیاء کو گنہگار اور مرتکب صغائر و کبائر خیال کرتے ہیں.ہاں بلاد شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کی پرستش ہوتی ہے اور مقررہ تاریخوں پر ہزارہا عیسائی سال بسال اس قبر پر جمع ہوتے ہیں سو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ قبر حضرت عیسی علیہ السلام کی ہی قبر ہے جس میں مجروح ہونے کی حالت میں وہ رکھے گئے تھے اور اگر اس قبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر سے کچھ تعلق نہیں تو پھر نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کا قول صادق نہیں ٹھہرے گا اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ آنحضرت ﷺ ایسی مصنوعی قبر کو قبر نبی قراردیں جو محض جعلسازی کے طور پر بنائی گئی ہو.کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی شان سے بعید ہے کہ جھوٹ کو واقعات صحیحہ کے محل پر استعمال کریں پس اگر حدیث میں نصاریٰ کی قبر پرستی کے ذکر میں اس قبر کی طرف اشارہ نہیں تو اب واجب ہے کہ شیخ بطالوی اور دوسرے مخالف مولوی کسی اور ایسے نبی کی قبر کا ہمیں نشان دیں جس کی عیسائی پرستش کرتے ہوں یا کبھی کسی زمانہ میں کی ہے.نبوت کا قول باطل نہیں ہوسکتا چاہئے کہ اس کو سرسری طور پر نہ ٹال دیں اور ردی چیز کی طرح نہ پھینک دیں کہ یہ سخت ہے ایمانی ہے بلکہ دو باتوں سے ایک بات اختیار کریں.(۱) یا تو اس قبر کا ہمیں پتا دیویں جو کسی اور نبی کی کوئی قبر ہے اور اس کی عیسائی پرستش کرتے ہیں.(۲) اور یا اس بات کو قبول کریں کہ بلاد شام میں جو حضرت عیسی کی قبر ہے جس کی نسبت سلطنت انگریزی کی طرف سے پچھلے دنوں میں خریداری کی بھی تجویز ہوئی تھی جس پر ہر سال بہت سا ہجوم عیسائیوں کا ہوتا ہے اور سجدے کئے جاتے ہیں وہ در حقیقت وہی قبر ہے جس میں حضرت مسیح مجروح ہونے کی حالت میں داخل کئے گئے تھے پس اگر یہ وہی قبر ہے تو خود سوچ لیں کہ اسکے مقابل پر وہ عقیدہ کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں چڑھائے گئے بلکہ چھت کی راہ سے آسمان پر پہنچائے گئے.کس قدر لغو اور خلاف واقعہ عقیدہ ٹھہرے گا.لیکن یہ واقعہ جو حدیث کی رو سے ثابت ہوتا ہے یعنی یہ کہ ضرور حضرت عیسی قبر میں داخل کئے گئے یہ اس قصہ کو جو مر ہم حوار بین کی نسبت ہم لکھ چکے ہیں نہایت قوت دیتا ہے کیونکہ اس سے اس بات کیلئے قرائن قویہ پیدا ہوتے ہیں کہ ضرور حضرت مسیح کو یہودیوں کے ہاتھ سے ایک جسمانی صدمہ پہنچا
ست بچن 18 فلسطین سے کشمیر تک تھا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے کیونکہ توریت سے ثابت ہے کہ جو مصلوب ہو وہ لعنتی ہے اور مصلوب وہی ہوتا ہے جو صلیب پر مرجاوے وجہ یہ کہ صلیب کی علت غائی قتل کرنا ہے سو ہرگز ممکن نہیں کہ وہ صلیب پر مرے ہوں کیونکہ ایک نبی مقرب اللہ لعنتی نہیں ہوسکتا اور خود حضرت عیسی نے آپ بھی فرما دیا کہ میں قبر میں ایسا ہی داخل ہوں گا جیسا کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوا تھا یہ ان کے کلام کا ماحصل ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قبر میں زندہ داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے جیسا کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا کیونکہ نبی کی مثال غیر مطابق نہیں ہو سکتی سو وہ بلا شبہ قبر میں زندہ ہی داخل کئے گئے اور یہ کر اللہ تھا تا یہودان کو مردہ سمجھ لیں اور اس طرح وہ ان کے ہاتھ سے نجات پاویں.یہ واقعہ غار ثور کے واقعہ سے بھی بالکل مشابہ ہے اور وہ غار بھی قبر کی طرح ہے جواب تک موجود ہے اور غار میں توقف کرنا بھی تین دن ہی لکھا ہے جیسا کہ مسیح کے قبر میں رہنے کی مدت تین دن ہی بیان کی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ثور کی یہ مشابہت جو مسیح کی قبر سے ہے اس کا اشارہ بھی حدیثوں میں پایا جاتا ہے اسی طرح ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے یونس نبی سے مشابہت سے ایک اشارہ کیا ہے.پس گویا یہ تین نبی یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور سی اور یونس علیہ السلام قبر میں زندہ ہی داخل ہوئے اور زندہ ہی اس میں رہے اور زندہ ہی نکلے (یوسف علیہ السلام کا کنویں میں سے زندہ نکلنا بھی اسی سے مشابہ ہے.منہ ) اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ یہی بات صحیح ہے جو لوگ مرہم حوار بین کے مضمون پر غور کریں گے وہ بالضرور اس نکتہ تک پہنچ جائیں گے کہ ضرور حضرت مسیح مجروح ہونے کی حالت میں قبر میں زندہ داخل کئے گئے تھے پلاطوس کی بیوی کی خواب بھی اسی کے موید ہے کیونکہ فرشتہ نے اسکی بیوی کو یہی بتلایا تھا کہ عیسی اگر صلیب پر مر گیا تو اس پر اور اسکے خاوند پر تباہی آئے گی.مگر کوئی تباہی نہیں آئی.جس کا یہ نتیجہ ضروری ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.م منه ( ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 309 تا310 حاشیه در حاشیه )
سراج منیر 19 فلسطین سے کشمیر تک سراج منیر (1897ء) قرآن شریف نے یہ خوب سچائی ظاہر کی کہ مسیح کو صلیبی موت سے بچا کر لعنت کی پلیدی سے بری رکھا اور انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے کیونکہ مسیح نے یونس کے ساتھ اپنی تشبیہ پیش کی ہے اور کوئی عیسائی اس سے بے خبر نہیں کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا پھر اگر یسوع قبر میں مردہ پڑا رہا تو مردہ کو زندہ سے کیا مناسبت اور زندہ کو مردہ سے کونسی مشابہت.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ یسوع نے صلیب سے نجات پاکر شاگردوں کو اپنے زخم دکھائے پس اگر اس کو دوبارہ زندگی جلالی طور پر حاصل ہوئی تھی تو اس پہلی زندگی کے زخم کیوں باقی رہ گئے کیا جلال میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی اور اگر کسر رہ گئی تھی تو کیونکر امید رکھیں کہ وہ زخم پھر کبھی قیامت تک مل سکیں گے یہ بیہودہ قصے ہیں جن پر خدائی کا شہتیر رکھا گیا ہے.مگر وقت آتا ہے بلکہ آ گیا کہ جس طرح روئی کو دھنکا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ ان تمام قصوں کو ذرہ ذرہ کر کے اڑا دے گا.افسوس کہ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ یہ کیسا خدا تھا جس کے زخموں کیلئے مرہم بنانے کی حاجت پڑی تم سن چکے ہو کہ عیسائی اور رومی اور یہودی اور مجوسی دفتروں کی قدیم طبی کتابیں جو اب تک موجود ہیں گواہی دے رہی ہیں کہ یسوع کی چوٹوں کے لئے ایک مرہم طیار کیا گیا تھا جس کا نام مرہم عیسی " ہے جواب تک قرابادینوں میں موجود ہے نہیں کہہ سکتے کہ وہ مرہم نبوت کے زمانہ سے پہلے بنایا ہوگا کیونکہ یہ مرہم حواریوں نے طیار کیا تھا اور نبوت سے پہلے حواری کہاں تھے یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ ان زخموں کا کوئی اور باعث ہوگا نہ صلیب کیونکہ نبوت کے تین برس کے عرصہ میں کوئی اور ایسا واقعہ بجر صلیب ثابت نہیں ہوسکتا اور اگر ایسا دعویٰ ہو تو بار ثبوت بذمہ مدعی ہے.جائے شرم ہے کہ یہ خدا اور یہ زخم اور یہ مرہم واقعی صحیح اور سچی حقیقوں پر کہاں کوئی پردہ ڈال سکتا ہے اور کون خدا کے ساتھ جنگ کر سکتا ہے.“ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 65 تا 66)
کتاب البریہ 20 کتاب البریہ (1898ء) فلسطین سے کشمیر تک اور بداندیشوں کے حملے راستبازوں پر قدیم سے ہوتے چلے آئے ہیں.مجھ سے پہلے یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت بھی یہی ارادہ کیا کہ ناحق مجرم ٹھہرا کر سولی دلا دیں مگر خدا کی قدرت دیکھو کہ کس طرح اس نے اپنے اس مقبول کو بچالیا.اس نے پیلاطوس کے دل میں ڈال دیا کہ یہ شخص بے گناہ ہے اور فرشتہ نے خواب میں اس کی بیوی کو ایک رُعب ناک نظارہ میں ڈرایا کہ اس شخص کے مصلوب ہونے میں تمہاری تباہی ہے.پس وہ ڈر گئے اور اس نے اپنے خاوند کو اس بات پر مستعد کیا کہ کسی حیلہ سے میسیج کو یہودیوں کے بد ارادہ سے بچالے.پس اگر چہ وہ بظاہر یہودیوں کے آنسو پونچھنے کے لئے صلیب پر چڑھایا گیا لیکن وہ قدیم رسم کے موافق نہ تین دن صلیب پر رکھا گیا جوکسی کے مارنے کے لئے ضروری تھا اور نہ ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ یہ کہہ کر بچالیا گیا کہ اس کی تو جان نکل گئی.اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا تا خدا کا مقبول اور راستباز نبی جرائم پیشہ کی موت سے مر کز یعنی صلیب کے ذریعہ سے جان دے کر اس لعنت کا حصہ نہ لیوے جو روز ازل سے ان شریروں کے لئے مقرر ہے جن کے تمام علاقے خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں اور در حقیقت جیسا کہ لعنت کا مفہوم ہے وہ خدا کے دشمن اور خدا ان کا دشمن ہو جاتا ہے.پس کیونکر وہ لعنت جس کا یہ ناپاک مفہوم ہے ایک برگزیدہ پر وارد ہو سکتی ہے؟ سو اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے.اور جیسا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے وہ کشمیر میں آکر فوت ہوئے اور اب تک نبی شہزادہ کے نام پر کشمیر میں ان کی قبر موجود ہے.اور لوگ بہت تعظیم سے اس کی زیارت کرتے ہیں اور عام خیال ہے کہ وہ ایک شہزادہ نبی تھا جو اسلامی ملکوں کی طرف سے اسلام سے پہلے کشمیر میں آیا تھا اور اس شہزادہ کا نام غلطی سے بجائے یسوع کے کشمیر میں یوز آسف کر کے مشہور ہے جس کے معنے ہیں کہ یسوع غم ناک.اور جب پلا طوس کی بیوی کو فرشتہ نظر آیا اور اس نے اس کو دھمکایا کہ اگر یسوع مارا گیا تو تمہاری تباہی ہوگی یہی اشارہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بچانے کے لئے تھا.ایسا دنیا
ب البريه 21 فلسطین سے کشمیر تک میں کبھی نہیں ہوا کہ اس طرح پر کسی راستباز کی حمایت کے لئے فرشتہ ظاہر ہوا ہو اور پھر رؤیا میں فرشتہ کا ظاہر ہونا عبث اور لا حاصل گیا ہو اور جس کی سفارش کے لئے آیا ہو وہ ہلاک ہو گیا ہو.غرض یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس وقت کے یہودی اپنے ارادہ میں نامراد رہے اور حضرت عیسی علیہ السلام جس کو ٹھے میں رکھے گئے تھے جو قبر کے نام سے مشہور تھا اور دراصل ایک بڑا وسیع کوٹھا تھا وہ اس سے تیسرے دن بخیر و عافیت باہر آ گئے اور شاگردوں کو ملے اور ان کو مبارک باد دی کہ میں خدا کے فضل سے دنیوی زندگی کے ساتھ بدستو ر اب تک زندہ ہوں اور پھر ان کے ہاتھ سے لے کر روٹی اور کباب کھائے اور اپنے زخم ان کو دکھلائے اور چالیس دن تک ان کے ان زخموں کا اس مرہم کے ساتھ علاج ہوتا رہا جس کو قرابادینوں میں مرہم عیسی یا مرہم رسل یا مرہم حوار تین کے نام سے موسوم کرتے ہیں.یہ مرہم چوٹ وغیرہ کے زخموں کے لئے بہت مفید ہے اور قریباً طب کی ہزار کتاب میں اس مرہم کا ذکر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے اس کو بنایا گیا تھا.وہ پرانی طلب کی کتابیں عیسائیوں کی جو آج سے چودہ سو برس پہلے رومی زبان میں تصنیف ہو چکی تھیں ان میں اس مرہم کا ذکر ہے اور یہودیوں اور مجوسیوں کی طبابت کی کتابوں میں بھی یہ نسخہ مرہم عیسی کا لکھا گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرہم الہامی ہے اور اس وقت جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر کسی قدر زخم پہنچے تھے انہیں دنوں میں خدا تعالیٰ نے بطور الہام یہ دوائیں ان پر ظاہر کی تھیں.یہ مرہم پوشیدہ راز کا نہایت یقینی طور پر پتہ لگاتی ہے اور قطعی طور پر ظاہر کرتی ہے کہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے تھے کیونکہ اس مرہم کا تذکرہ صرف اہل اسلام کی ہی کتابوں میں نہیں کیا گیا بلکہ قدیم سے عیسائی یہودی مجوسی اور اطباء اسلام اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے آئے ہیں.اور نیز یہ بھی لکھتے آئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ مرہم طیار کی گئی تھی.حسن اتفاق سے یہ سب کتابیں موجود ہیں اور اکثر چھپ چکی ہیں اگر کسی کو سچائی کا پتہ لگانا اور راستی کا سراغ چلا نا منظور ہو تو ضرور ان کتابوں کا ملا حظہ کرے شاید آسمانی روشنی اس کے دل پر پڑ کر ایک بھاری بلا سے نجات پا جائے اور حقیقت کھل جائے.اس مرہم کو ادنی ادنی
کتاب البریه 22 فلسطین سے کشمیر تک طبابت کا مذاق رکھنے والے بھی جانتے ہیں یہاں تک کہ قرابادین قادری میں بھی جو ایک فارسی کی کتاب ہے تمام مرہموں کے ذکر کے باب میں اس مرہم کا نسخہ بھی لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہی مرہم حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بنائی گئی تھی.پس اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ دنیا کے تمام طبیبوں کے اتفاق سے جو ایک گروہ خواص ہے جن کو سب سے زیادہ تحقیق کرنے کی عادت ہوتی ہے اور مذہبی تعصبات سے پاک ہوتے ہیں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیار کی تھی.ایک عجیب فائدہ اس مرہم کے واقعہ کا یہ ہے کہ اس سے حضرت عیسی کے آسمان پر چڑھنے کی بھی ساری حقیقت کھل گئی اور ثابت ہو گیا کہ یہ تمام باتیں بے اصل اور بے ہودہ تصورات ہیں.اور نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ رفع جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے حقیقت میں وفات کے بعد تھا اور اسی رفع مسیح سے خدا تعالیٰ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے اس جھگڑے کا فیصلہ کیا جو صد ہا برس سے ان کے درمیان چلا آتا تھا یعنی یہ کہ حضرت عیسی مردودوں اور ملعونوں سے نہیں ہیں اور نہ کفار میں سے جن کا رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ سچے نبی ہیں اور در حقیقت ان کا رفع روحانی ہوا ہے جیسا کہ دوسرے نبیوں کا ہوا.یہی جھگڑا تھا اور رفع جسمانی کی نسبت کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ وہ غیر متعلق بات تھی جس پر کذب اور صدق کا مدار نہ تھا.بات یہ ہے کہ یہود یہ چاہتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب کا الزام دے کر ملعون ٹھہر اویں یعنی ایسا شخص جس کا مرنے کے بعد خدا کی طرف روحانی رفع نہیں ہوتا اور نجات سے جو قرب الہی پر موقوف ہے بے نصیب رہتا ہے.سوخدا نے اس جھگڑے کو یوں فیصلہ کیا کہ یہ گواہی دی کہ وہ صلیبی موت جو روحانی رفع سے مانع ہے حضرت مسیح پر ہرگز وارد نہیں ہوئی اور ان کا وفات کے بعد رفع الی اللہ ہو گیا ہے.اور وہ قرب الہی پا کر کامل نجات کو پہنچ گیا.کیونکہ جس کیفیت کا نام نجات ہے اسی کا دوسرے لفظوں میں نام رفع ہے اسی کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے کہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ - بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ الیه افسوس کہ ہمارے بنی فہم علماء پر کہاں تک غباوت اور بلادت وارد ہوگئی ہے کہ وہ یہ النساء : 158 النساء: 159
23 فلسطین سے کشمیر تک کتاب البریہ بھی نہیں سوچتے کہ قرآن نے اگر اس آیت میں کہ إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى رفع جسمانی کا ذکر کیا ہے تو اس ذکر کا کیا موقعہ تھا اور کونسا جھگڑا اس بارے میں یہود اور نصاری کا تھا.تمام جھگڑا تو یہی تھا کہ صلیب کی وجہ سے یہود کو بہانہ ہاتھ آ گیا تھا کہ نعوذ باللہ یہ شخص یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ملعون ہے.یعنی اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا.اور جب رفع نہ ہوا تو لعنتی ہونا لازم آیا کیونکہ رفع الی اللہ کی ضد لعنت ہے.اور یہ ایک ایسا انکار تھا جس سے حضرت عیسی علیہ السلام اپنے نبوت کے دعوے میں جھوٹے ٹھہرتے تھے کیونکہ توریت نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص مصلوب ہو اس کا رفع الی اللہ نہیں ہوتا یعنی مرنے کے بعد راستبازوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف اس کی روح اٹھائی نہیں جاتی یعنی ایسا شخص ہر گز نجات نہیں پاتا.پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے سچے نبی کے دامن کو اس تہمت سے پاک کرے اس لئے اس نے قرآن میں یہ ذکر کیا وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ اور یہ فرمایا إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ـ تا معلوم ہو کہ یہودی جھوٹے ہیں.اور حضرت عیسی علیہ السلام کا اور بچے نبیوں کی طرح رفع الی اللہ ہو گیا اور یہی وجہ ہے جو اس آیت میں یہ لفظ نہیں فرمائے گئے کہ رافعک الی السماء بلکہ یہ فرمایا گیا کہ رَافِعُكَ إِلَيَّ تا صریح طور پر ہر ایک کو معلوم ہو کہ یہ رفع روحانی ہے نہ جسمانی کیونکہ خدا کی جناب جس کی طرف راستبازوں کا رفع ہوتا ہے روحانی ہے نہ جسمانی.اور خدا کی طرف روح چڑھتے ہیں نہ کہ جسم میں اس وقت محض قوم کی ہمدردی سے اصل بات سے دور جا پڑا اور اصل تذکرہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے شیر اعدا سے حضرت عیسی علیہ السلام کو بچالیا تھا چنانچہ خود حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ میری مثال یونس نبی کی طرح ہے اور یونس کی طرح میں بھی تین دن قبر میں رہوں گا.اب ظاہر ہے کہ مسیح جو نبی تھا اس کا قول جھوٹا نہیں ہوسکتا اس نے اپنے قصہ کو یونس کے قصہ سے مشابہ قرار دیا ہے اور چونکہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا بلکہ زندہ رہا اور زندہ ہی داخل ہوا تھا اس لئے مشابہت کے تقاضا سے ضروری طور پر مانا پڑتا ہے کہ مسیح بھی قبر میں نہیں مرا اور نہ مردہ داخل ہوا.ورنہ مردہ کو زندہ سے کیا مشابہت؟ غرض اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو دشمنوں کے شر سے بچالیا.آل عمران: 56 النساء : 158.
راز حقیقت 24 فلسطین سے کشمیر تک ایسا ہی موسیٰ علیہ السلام کو بھی اس نے فرعون کے بدارادہ سے بچایا.ہمارے سید ومولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مگہ کے دشمنوں کے ہاتھ سے بچایا.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 20 تا 25) راز حقیقت (1898ء) دیکھو حضرت موسیٰ نبی علیہ السلام جو سب سے زیادہ اپنے زمانہ میں حلیم اور متقی تھے تقویٰ کی برکت سے فرعون پر کیسے فتح یاب ہوئے.فرعون چاہتا تھا کہ ان کو ہلاک کرے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کے آگے خدا تعالیٰ نے فرعون کو مع اس کے تمام لشکر کے ہلاک کیا پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بد بخت یہودیوں نے یہ چاہا کہ ان کو ہلاک کریں اور نہ صرف ہلاک بلکہ اُن کی پاک روح پر صلیبی موت سے لعنت کا داغ لگا دیں کیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو شخص لکڑی پر یعنی صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہے یعنی اس کا دل پلید اور ناپاک اور خدا کے قرب سے دور جاپڑتا ہے اور راندہ درگاہ الہی اور شیطان کی مانند ہو جاتا ہے.اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے.اور یہ نہایت بد منصوبہ تھا کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت سوچا گیا تھا تا اس سے وہ نالائق قوم یہ نتیجہ نکالے کہ یہ شخص پاک دل اور سچا نبی اور خدا کا پیارا نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ لعنتی ہے جس کا دل پاک نہیں ہے اور جیسا کہ مفہوم لعنت کا ہے وہ خدا سے بجان و دل بیزار اور خدا اُس سے بیزار ہے لیکن خدائے قادر قیوم نے بدنیت یہودیوں کو اس ارادہ سے ناکام اور نا مراد رکھا اور اپنے پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اس کو ایک سو بیس ۱۲۰ برس تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اُس کے سامنے ہلاک کیا.ہاں خدا تعالیٰ کی اُس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی اولوالعزم نبی ایسا نہیں گزرا جس نے قوم کی ایڈا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو.حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پاکر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبت میں آئے ہوئے تھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا
راز حقیقت 25 فلسطین سے کشمیر تک کر آخر کار خاک کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سری نگر خان یار کے محلہ میں باعزاز تمام دفن کئے گئے.آپ کی قبر بہت مشہور ہے.يُزَارُ ويُتَبَرَّكُ بِهِ.را از حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 154 تا 155) حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک سو بیس ۱۲۰ برس کی عمر ہوئی تھی.لیکن تمام یہود و نصاریٰ کے اتفاق سے صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب کہ حضرت ممدوح کی عمر صرف تینتیس برس کی تھی.اس دلیل سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب سے بفضلہ تعالیٰ نجات پا کر باقی عمر سیاحت میں گزاری تھی.احادیث صحیحہ سے یہ ثبوت بھی ملتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی سیاح تھے.پس اگر وہ صلیب کے واقعہ پر مع جسم آسمان پر چلے گئے تھے تو سیاحت کس زمانہ میں کی.حالانکہ اہل لغت بھی مسیح کے لفظ کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لفظ سح سے نکلا ہے اور مسح سیاحت کو کہتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عقیدہ کہ خدا نے یہودیوں سے بچانے کے لئے حضرت عیسی کو دوسرے آسمان پر پہنچا دیا تھا سراسر غفوخیال معلوم ہوتا ہے.کیونکہ خدا کے اس فعل سے یہودیوں پر کوئی حجت پوری نہیں ہوتی.یہودیوں نے نہ تو آسمان پر چڑھتے دیکھا اور نہ آج تک اتر تے دیکھا.پھر وہ اس مہمل اور بے ثبوت قصے کو کیونکر مان سکتے ہیں.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کریم حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے حملہ کے وقت جو یہودیوں کی نسبت زیادہ بہادر اور جنگ جو اور کینہ ور تھے صرف اسی غار کی پناہ میں بچا لیا جو مکہ معظمہ سے تین میل سے زیادہ نہ تھی تو کیا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بزدل یہودیوں کا کچھ ایسا خوف تھا کہ بجز دوسرے آسمان پر پہنچانے کے اُس کے دل میں یہودیوں کی دست درازی کا کھٹکا دُور نہیں ہو سکتا تھا بلکہ یہ قصہ سرا سرا فسانہ کے رنگ میں بنایا گیا ہے.اور قرآن کریم کے صریح مخالف اور نہایت زبردست دلائل سے جھوٹا ثابت ہوتا ہے.ہم بیان کر چکے ہیں کہ صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت شناخت کرنے کے لئے مرہم عیسی ایک علمی ذریعہ اور اعلیٰ درجہ کا معیار حق شناسی ہے اور اس واقعہ سے پورے طور پر مجھے اس لئے واقفیت ہے کہ میں ایک انسان خاندان طبابت میں سے
راز حقیقت 26 فلسطین سے کشمیر تک ہوں اور میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم جو اس ضلع کے ایک معزز رئیس تھے ایک اعلیٰ درجہ کے تجربہ کار طبیب تھے جنہوں نے قریباً ساٹھ سال اپنی عمر کے اس تجربہ میں بسر کئے تھے اور جہاں تک ممکن تھا ایک بڑا ذخیرہ طبی کتابوں کا جمع کیا تھا.اور میں نے خود طب کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کتابوں کو ہمیشہ دیکھتا رہا.اس لئے میں اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزار کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہوگی جن میں مرہم عیسی کا ذکر ہے.اور ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسی کے لیے بنائی گئی تھی.ان کتابوں میں سے بعض یہودیوں کی کتابیں ہیں اور بعض عیسائیوں کی اور بعض مجوسیوں کی.سو یہ ایک علمی تحقیقات سے ثبوت ملتا ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب سے رہائی پائی تھی اگر انجیل والوں نے اس کے برخلاف لکھا ہے تو ان کی گواہی ایک ذرہ اعتبار کے لائق نہیں کیونکہ اول تو وہ لوگ واقعہ صلیب کے وقت حاضر نہیں تھے اور اپنے آقا سے طرز بے وفائی اختیار کر کے سب کے سب بھاگ گئے تھے اور دوسرے یہ کہ انجیلوں میں بکثرت اختلاف ہے یہاں تک کہ برنباس کی انجیل میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے سے انکار کیا گیا ہے.اور تیسرے یہ کہ ان ہی انجیلوں میں جو بڑی معتبر سمجھی جاتی ہیں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملے.اور اپنے زخم اُن کو دکھلائے.پس اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت زخم موجود تھے جن کے لئے مرہم طیار کرنے کی ضرورت تھی.لہذا یقینا سمجھا جاتا ہے کہ ایسے موقعہ پر وہ مرہم طیار کی گئی تھی.اور انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام چالیس روز اُسی گردو نواح میں بطور مخفی رہے اور جب مرہم کے استعمال سے بکلی شفا پائی تب آپ نے سیاحت اختیار کی.افسوس کہ ایک ڈاکٹر صاحب نے راولپنڈی سے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں اُن کو اس بات کا انکار ہے کہ مرہم عیسی کا نسخہ مختلف قوموں کی کتابوں میں پایا جاتا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو اس واقعہ کے سننے سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے بلکہ زندہ مگر مجروح ہونے کی حالت میں رہائی پائی بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور خیال کیا کہ اس سے تمام منصوبہ کفارہ کا باطل ہوتا ہے.لیکن یہ قابل شرم بات ہے کہ اُن کتابوں
راز حقیقت 27 فلسطین سے کشمیر تک کے وجود سے انکار کیا جائے جن میں یہ نسخہ مرہم عیسی موجود ہے.اگر وہ طالب حق ہیں تو ہمارے پاس آ کر اُن کتابوں کو دیکھ لیں.اور صرف عیسائیوں کے لئے یہی مصیبت نہیں کہ مرہم عیسی کی علمی گواہی اُن عقائد کورڈ کرتی ہے اور تمام عمارت کفارہ و تثلیث وغیرہ کی یکدفعہ گر جاتی ہے بلکہ ان دنوں میں اس ثبوت کی تائید میں اور ثبوت بھی نکل آئے ہیں کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیبی واقعہ سے نجات پا کر ضرور ہندوستان کا سفر کیا ہے اور نیپال سے ہوتے ہوئے آخر تتبت تک پہنچے اور پھر کشمیر میں ایک مدت تک ٹھہرے.اور وہ بنی اسرائیل جو کشمیر میں بابل کے تفرقہ کے وقت میں سکونت پذیر ہوئے تھے اُن کو ہدایت کی اور آخر ایک سو بیس برس کی عمر میں سری نگر میں انتقال فرمایا اور محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور عوام کی غلط بیانی سے یوز آسف نبی کے نام سے مشہور ہو گئے.اس واقعہ کی تائید وہ انجیل بھی کرتی ہے جو حال میں تبت سے برآمد ہوئی ہے.یہ انجیل بڑی کوشش سے لندن سے ملی ہے.ہمارے مخلص دوست شیخ رحمت اللہ صاحب تا جرقریباً تین ماہ تک لندن میں رہے اور اس انجیل کو تلاش کرتے رہے.آخر ایک جگہ سے میسر آ گئی.یہ انجیل بدھ مذہب کی ایک پرانی کتاب کا گویا ایک حصہ ہے.بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ شہادت ملتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ملک ہند میں آئے اور ایک مدت تک مختلف قوموں کو وعظ کرتے رہے.اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو اُن کے ان ملکوں میں آنے کا ذکر لکھا گیا ہے اُس کا وہ سبب نہیں جو لا نے بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ انہوں نے گوتم بدھ کی تعلیم استفادہ کے طور پر پائی تھی ایسا کہنا ایک شرارت ہے، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو واقعہ صلیب سے نجات بخشی تو انہوں نے بعد اس کے اس ملک میں رہنا قرین مصلحت نہ سمجھا اور جس طرح قریش کے انتہائی درجہ کے ظلم کے وقت یعنی جب کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ملک سے ہجرت فرمائی تھی.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے یہودیوں کے انتہائی ظلم کے وقت یعنی قتل کے ارادہ کے وقت ہجرت فرمائی.اور چونکہ بنی اسرائیل بخت النصر کے حادثہ میں متفرق ہو کر بلا د ہند اور
28 فلسطین سے کشمیر تک کشمیر اور محبت اور چین کی طرف چلے آئے تھے اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان ہی ملکوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا.اور تواریخ سے اس بات کا بھی پتہ ملتا ہے کہ بعض یہودی اس ملک میں آکر اپنی قدیم عادت کے موافق بدھ مذہب میں بھی داخل ہو گئے تھے.چنانچہ حال میں جو ایک مضمون سول ملٹری گزٹ پر چہ تاریخ ۲۳ نومبر ۱۸۹۸ء میں چھپا ہے اُس میں ایک محقق انگریز نے اس بات کا اقرار بھی کیا ہے اور اس بات کو بھی مان لیا ہے کہ بعض جماعتیں یہودیوں کی اس ملک میں آئی تھیں اور اس ملک میں سکونت پذیر ہوگئی تھیں اور اُسی پر چہ سول میں لکھا ہے کہ دراصل افغان بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں“ غرض جب کہ بعض بنی اسرائیل بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے تو ضرور تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں آ کر بدھ مذہب کے رڈ کی طرف متوجہ ہوتے اور اس مذہب کے پیشواؤں کو ملتے.سوایسا ہی وقوع میں آیا.اسی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے سوانح بدھ مذہب میں لکھے گئے.معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس ملک میں بدھ مذہب کا بہت زور تھا اور بید کا مذہب مر چکا تھا اور بدھ مذہب بید کا انکار کرتا تھا.خلاصہ یہ کہ ان تمام امور کو جمع کرنے سے ضروری طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے.یہ بات یقینی اور پختہ ہے کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں اُن کے اس ملک میں آنے کا ذکر ہے اور جو مزار حضرت عیسی علیہ السلام کا کشمیر میں ہے جس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ قریباً انیس ۹۰۰ سو برس سے ہے.یہ اس امر کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے.غالباً اُس مزار کے ساتھ کچھ کتنے ہوں گے جواب مخفی ہیں.ان تمام امور کی مزید تحقیقات کے لئے ہماری جماعت میں سے ایک علمی تفتیش کا قافلہ طیار ہورہا ہے جس کے پیشر وا خویم مولوی حکیم حاجی حرمین نورالدین صاحب سلمہ رتبہ قرار پائے ہیں یہ قافلہ اس کھوج اور تفتیش کے لئے مختلف ملکوں میں پھرے گا اور ان سرگرم دینداروں کا کام ہوگا کہ پالی زبان کی کتابوں کو بھی دیکھیں کیونکہ یہ بھی پتہ لگا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اُس نواح میں بھی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں گئے تھے.لیکن بہر حال کشمیر جانا اور پھر تبت میں جا کر بدھ مذہب کی پستکوں سے یہ تمام پستہ لگانا اس جماعت کا فرض منصبی ہوگا.
راز حقیقت 29 فلسطین سے کشمیر تک اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لا ہور نے ان تمام اخراجات کو اپنے ذمہ قبول کیا ہے.لیکن اگر یہ سفر جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے بنارس اور نیپال اور مدراس اور سوات اور کہ اور مثبت وغیرہ ممالک تک کیا جائے جہاں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی بود و باش کا پتہ ملا ہے تو کچھ شک نہیں کہ یہ بڑے اخراجات کا کام ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہر حال اللہ تعالیٰ اس کو انجام دے دے گا.ہر ایک دانش مند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے کہ اس سے یک دفعہ عیسائی مذہب کا تمام تانا بانا ٹوٹتا ہے اور انیس سو برس کا منصوبہ یکدفعہ کالعدم ہو جاتا ہے.اس بات کا اطمینان ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس ملک ہند اور کشمیر وغیرہ میں آنا ایک واقعی امر ہے.اور اس کے بارے میں ایسے زبر دست ثبوت مل گئے ہیں کہ اب وہ کسی مخالف کے منصوبہ سے چھپ نہیں سکتے.معلوم ہوتا ہے کہ ان بیہودہ اور غلط عقائد کی اسی زمانہ تک عمر تھی.ہمارے سید و مولی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا ہے صلیب کو توڑے گا اور آسمانی حربہ سے دجال کو قتل کرے گا.اس حدیث کے اب یہ معنے کھلے ہیں کہ اُس مسیح کے وقت میں زمین و آسمان کا خدا اپنی طرف سے بعض ایسے امور اور واقعات پیدا کر دے گا جن سے صلیب اور تثلیث اور کفارہ کے عقائد خود بخود نابود ہو جائیں گے مسیح کا آسمان سے نازل ہونا بھی ان ہی معنوں سے ہے کہ اُس وقت آسمان کے خدا کے ارادہ سے کسر صلیب کے لئے بدیہی شہادتیں پیدا ہو جائیں گی.سو ایسا ہی ہوا.یہ کس کو معلوم تھا کہ مرہم عیسی کا نسخہ صد ہا طبتی کتابوں میں لکھا ہوا پیدا ہو جائے گا اس بات کی کس کو خبر تھی کہ بدھ مذہب کی پرانی کتابوں سے یہ ثبوت مل جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بلاد شام کے یہودیوں سے نومید ہوکر ہندوستان اور کشمیر اور تبت کی طرف آئے تھے.یہ بات کون جانتا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کشمیر میں قبر ہے.کیا انسان کی طاقت میں تھا کہ ان تمام باتوں کو اپنے زور سے پیدا کر سکتا.اب یہ واقعات اس طرح سے عیسائی مذہب کو مٹاتے ہیں جیسا کہ دن چڑھ جانے سے رات مٹ جاتی ہے.اس واقعہ کے ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کو وہ صدمہ پہنچتا ہے جو اُس چھت کو پہنچ سکتا ہے جس کا تمام بوجھ ایک شہتیر پر تھا.شہتیر ٹوٹا اور چھت
راز حقیقت 30 فلسطین سے کشمیر تک.گری.پس اسی طرح اس واقعہ کے ثبوت سے عیسائی مذہب کا خاتمہ ہے.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.انہی قدرتوں سے وہ پہنچانا گیا ہے.دیکھو کیسے عمدہ معنے اس آیت کے ثابت ہوئے کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمُ * یعنی قتل کرنا اور صلیب سے مسیح کا مارنا سب جھوٹ ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو دھوکا لگا ہے اور مسیح خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق صلیب سے بچ کر نکل گیا.اور اگر انجیل کو غور سے دیکھا جائے تو انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے.کیا مسیح کی تمام رات کی دردمندانہ دعارد ہوسکتی تھی.کیا مسیح کا یہ کہنا کہ میں یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ مردہ قبر میں رہا.کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں تین دن مرار ہا تھا.کیا پیلاطوس کی بیوی کے خواب سے خدا کا یہ منشا نہیں معلوم ہوتا کہ مسیح کو صلیب سے بچالے.ایسا ہی مسیح کا جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھائے جانا اور شام سے پہلے اتارے جانا اور رسم قدیم کے موافق تین دن تک صلیب پر نہ رہنا اور ہڈی نہ توڑے جانا اور خون کا نکلنا کیا یہ تمام وہ امور نہیں جو بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ یہ تمام اسباب مسیح کی جان بچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دُعا کرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کے اسباب ظہور میں آئے.بھلا مقبول کی ایسی دُعا جو تمام رات رو رو کر کی گئی کب رد ہو سکتی تھی.پھر مسیح کا صلیب کے بعد حواریوں کو ملنا اور زخم دکھلانا کس قدر مضبوط دلیل اس بات پر ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرا.اور اگر یہ بھی نہیں ہے تو بھلا اب مسیح کو پکارو کہ تمہیں آکر مل جائے جیسا کہ حواریوں کو ملا تھا.غرض ہر ایک پہلو سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب سے جان بچائی گئی اور وہ اس ملک ہند میں آئے.کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے ان ہی ملکوں میں آ گئے تھے جو آخر کار مسلمان ہو گئے اور پھر اسلام کے بعد بموجب وعدہ توریت کے اُن میں کئی بادشاہ بھی ہوئے.اور یہ ایک دلیل صدق نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کیونکہ توریت میں وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل نبی موعود کے پیرو ہو کر حکومت اور سلطنت پائیں گے.غرض مسیح ابن مریم کو صلیبی موت سے مارنا یہ ایک ایسا اصل ہے کہ اسی پر مذہب کے تمام اصولوں کفارہ اور تثلیث وغیرہ کی بنیاد رکھی گئی تھی.اور یہی وہ خیال ہے کہ جو نصاریٰ کے چالیس کروڑ انسانوں کے النساء : 158
راز حقیقت 31 فلسطین سے کشمیر تک دلوں میں سرایت کر گیا ہے.اور اس کے غلط ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اگر عیسائیوں میں کوئی فرقہ دینی تحقیق کا جوش رکھتا ہے تو ممکن ہے کہ ان ثبوتوں پر اطلاع پانے سے وہ بہت جلد عیسائی مذہب کو الوداع کہیں اور اگر اس تلاش کی آگ یورپ کے تمام دلوں میں بھڑک اُٹھے تو جو گر وہ چالیس کروڑ انسان کا انیس سو برس میں تیار ہوا ہے ممکن ہے کہ انہیں ماہ کے اندر دست غیب سے ایک پلٹا کھا کر مسلمان ہو جائے.کیونکہ صلیبی اعتقاد کے بعد یہ ثابت ہونا کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مارے گئے بلکہ دوسرے ملکوں میں پھرتے رہے یہ ایسا امر ہے کہ یکدفعہ عیسائی عقائد کو دلوں سے اڑا تا ہے اور عیسائیت کی دنیا میں انقلاب عظیم ڈالتا ہے.اے عزیزو! اب عیسائی مذہب کو چھوڑو کہ خدا نے حقیقت کو دکھا دیا.اسلام کی روشنی میں آؤ تا نجات پاؤ اور خدائے علیم جانتا ہے کہ یہ تمام نصیحت نیک نیتی سے تحقیق کامل کے بعد کی گئی ہے.منہ راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 154 تا 166 حاشیہ ) ایک نادان مسلمان نے اپنے دل سے ہی یہ بات پیش کی ہے کہ شاید یوز آسف سے زوجہ آصف مراد ہو جو سلیمان کا وزیر تھا.مگر اُس جاہل کو یہ خیال نہیں آیا کہ زوجہ آصف نبی نہیں تھی اور اُس کو شہزادہ نہیں کہہ سکتے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ دونوں مذکر نام ہیں.مؤنث کے لئے اگر وہ یہ صفات بھی رکھتی ہو نبیہ اور شہزادی کہا جائے گا.نہ نبی اور شہزادہ.اس سادہ لوح نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ اُنیس سو کی مدت حضرت عیسی کے زمانہ سے ہی مطابق آتی ہے.سلیمان تو حضرت عیسی سے کئی سو برس پہلے تھا.ماسوا اس کے اس نبی کی قبر کو جو سری نگر میں واقع ہے بعض یوز آسف کے نام سے پکارتے ہیں مگرا کثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.ہمارے مخلص مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے جب سری نگر میں اس مزار کی نسبت تفتیش کرنا شروع کیا تو بعض لوگوں نے یوز آسف کا نام سُن کر کہا کہ ہم میں وہ قبر عیسی صاحب کی قبر مشہور ہے.چنانچہ کئی لوگوں نے یہی گواہی دی جو اب تک سری نگر میں زندہ موجود ہیں جس کو شک ہو وہ خود کشمیر میں جا کر کئی لاکھ انسان سے
راز حقیقت 32 دریافت کر لے اب اس کے بعد ا نکار بے حیائی ہے.منہ فلسطین سے کشمیر تک راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 161 نوٹ ) صرف یہی بات نہیں کہ بدھ مذہب کی بعض کتابوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ہندوستان اور تبت میں آنے کا تذکرہ ہے بلکہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کی پرانی تحریروں میں بھی اس کا تذکرہ ہے.منہ راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 163 حاشیہ) حال میں مسلمانوں کی تالیف بھی چند پرانی کتابیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں صریح یہ بیان موجود ہے کہ یوز آسف ایک پیغمبر تھا جو کسی ملک سے آیا تھا اور شہزادہ بھی تھا.اور کشمیر میں اُس نے انتقال کیا.اور بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبی چھ ۶۰۰ سو برس پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گزرا ہے.منہ ر از حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 164 حاشیہ ) خط مولوی عبد اللہ صاحب باشند و کشمیر فائدہ عام کے لئے معہ نقشہ ، مزار حضرت عیسی علیہ السلام اس اشتہار میں شائع کیا جاتا ہے از جانب خاکسار عبد الله بخدمت حضور مسیح موعود السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت اقدس! اس خاکسار نے حسب الحکم سرینگر میں عین موقعہ پر یعنی روضہ مزار شریف شاہزادہ یوز آسف نبی اللہ علیہ الصلوۃ والسلام پر پہنچ کر جہاں تک ممکن تھا بکوشش تحقیقات کی اور معمر اور سن رسیدہ بزرگوں سے بھی دریافت کیا اور مجاوروں اور گرد و جوار کے لوگوں سے بھی ہر ایک پہلو سے استفسار کرتارہا.جناب من عند التحقیقات مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ مزار در حقیقت جناب یوز آسف علیہ السلام نبی اللہ کی ہے اور مسلمانوں کے محلہ میں یہ مزار واقع ہے.کسی ہندو کی وہاں سکونت نہیں اور نہ اُس جگہ ہندوؤں کا کوئی مدفن ہے.اور معتبر لوگوں کی شہادت سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ قریباً اُنیس سو ۱۹۰۰ برس سے یہ مزار ہے.اور مسلمان بہت عزت اور
راز حقیقت 33 فلسطین سے کشمیر تک تعظیم کی نظر سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس کی زیارت کرتے ہیں.اور عام خیال ہے کہ اس مزار میں ایک بزرگ پیغمبر مدفون ہے جو کشمیر میں کسی اور ملک سے لوگوں کو نصیحت کرنے کے لئے آیا تھا.اور کہتے ہیں کہ یہ نبی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبا چھ سو برس پہلے گذرا ہے.یہ اب تک نہیں کھلا کہ اس ملک میں کیوں آیا.مگر یہ واقعات بہر حال ثابت ہو چکے ہیں.اور تو اتر شہادت سے کمال درجہ کے یقین تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ بزرگ جن کا نام کشمیر کے مسلمانوں نے یوز آسف رکھ لیا ہے یہ نبی ہیں اور نیز شہزادہ ہیں.اس ملک میں کوئی ہندوؤں کا لقب ان کا مشہور نہیں ہے جیسے راجہ یا اوتار یا رکھی ومنی وسدہ وغیرہ بلکہ بالا تفاق سب نبی کہتے ہیں اور نبی کا لفظ اہل اسلام اور اسرائیلیوں میں ایک مشترک لفظ ہے.اور جبکہ اسلام میں کوئی نبی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آیا اور نہ آ سکتا تھا اس لئے کشمیر کے عام مسلمان بالا تفاق یہی کہتے ہیں کہ یہ نبی اسلام کے پہلے کا ہے.ہاں اس نتیجہ تک وہ اب تک نہیں پہنچے کہ جبکہ نبی کا لفظ صرف دو ہی قوموں کے نبیوں میں مشترک تھا یعنی مسلمانوں اور بنی اسرائیل کے نبیوں میں اور اسلام میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آ نہیں سکتا تو بالضرور یہی متعین ہوا کہ وہ اسرائیلی نبی ہے کیونکہ کسی تیسری زبان نے کبھی اس لفظ کا استعمال نہیں کیا.بلاشبہ اس اشتراک کا صرف دو زبانوں اور دو قوموں میں تخصیص ہونالازمی ہے.مگر بوجہ ختم نبوت اسلامی قوم اس سے باہر نکل گئی.لہذا صفائی سے یہ بات طے ہو گئی کہ یہ نبی اسرائیلی نبی ہے.پھر اس کے بعد تو اتر تاریخی سے یہ ثابت ہو جانا کہ یہ نبی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گذرا ہے پہلی دلیل پر اور بھی یقین کا رنگ چڑھاتا ہے اور زیرک دلوں کو زور کے ساتھ اس طرف لے آتا ہے کہ یہ نبی حضرت مسیح علیہ السلام ہیں کوئی دوسرا نہیں کیونکہ وہی اسرائیلی نبی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گذرے ہیں.پھر بعد اس کے اس متواتر خبر پر غور کرنے سے کہ وہ نبی شہزادہ بھی کہلاتا ہے یہ ثبوت نور علی نور ہو جاتا ہے کیونکہ اس مدت میں بجز حضرت عیسی علیہ السلام کے کوئی نبی شہزادہ کے نام سے کبھی مشہور نہیں ہوا.پھر یوز آسف کا نام جو یسوع کے لفظ سے بہت ملتا ہے ان تمام یقینی باتوں کو اور
راز حقیقت 34 فلسطین سے کشمیر تک بھی قوت بخشتا ہے.پھر موقعہ پر پہنچنے سے ایک اور دلیل معلوم ہوئی ہے کہ جیسا کہ نقشہ منسلکہ میں ظاہر ہے اس نبی کی مزار جنوبا وشمالاً واقع ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شمال کی طرف سر ہے اور جنوب کی طرف پیر ہیں اور یہ طرزِ دفن مسلمانوں اور اہلِ کتاب سے خاص ہے اور ایک اور تائیدی ثبوت ہے کہ اس مقبرہ کے ساتھ ہی کچھ تھوڑے فاصلے پر ایک پہاڑ کوہ سلیمان کے نام سے مشہور ہے.اس نام سے بھی پتہ ملتا ہے کہ کوئی اسرائیلی نبی اس جگہ آیا تھا.یہ نہایت درجہ کی جہالت ہے کہ اس شہزادہ نبی کو ہندو قرار دیا جائے.اور یہ ایسی غلطی ہے کہ ان روشن ثبوتوں کے سامنے رکھ کر اس کے رڈ کی بھی حاجت نہیں سنسکرت میں کہیں نبی کا لفظ نہیں آیا بلکہ یہ لفظ عبرانی اور عربی سے خاص ہے اور دفن کرنا ہندوؤں کا طریق نہیں.اور ہندو لوگ تو اپنے مُردوں کو جلاتے ہیں لہذا قبر کی صورت بھی قطعی یقین دلاتی ہے کہ یہ نبی اسرائیلی ہے قبر کے مغربی پہلو کی طرف ایک سوراخ واقع ہے.لوگ کہتے ہیں کہ اس سوراخ سے نہایت عمدہ خوشبو آتی رہی ہے.یہ سوراخ کسی قدر کشادہ ہے، اور قبر کے اندر تک پہنچی ہوئی ہے.اس سے یقین کیا جاتا ہے کہ کسی بڑے مقصود کے لئے یہ سوراخ رکھی گئی ہے غالباً کتبہ کے طور پر اس میں بعض چیزیں مدفون ہوں گی.عوام کہتے ہیں کہ اس میں کوئی خزانہ ہے مگر یہ خیال قابلِ اعتبار معلوم نہیں ہوتا.ہاں چونکہ قبروں میں اس قسم کا سوراخ رکھنا کسی ملک میں رواج نہیں.اس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس سوراخ میں کوئی عظیم الشان بھید ہے، اور صد ہا سال سے برابر یہ سوراخ چلے آنا یہ اور بھی عجیب بات ہے.اس شہر کے شیعہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے جو کسی ملک سے بطور سیاحت آیا تھا اور شہزادہ کے لقب سے موسوم تھا.شیعوں نے مجھے ایک کتاب بھی دکھلائی جس کا نام عین الحیات ہے.اس کتاب میں بہت سا قصہ بصفحہ ۱۱۹ ابن بابویہ اور کتاب کمال الدین اور اتمام النعمت کے حوالہ سے لکھا ہے لیکن وہ تمام بیہودہ اور لغو قصے ہیں.صرف اس کتاب میں اس قدر سچ بات ہے کہ صاحب کتاب قبول کرتا ہے کہ یہ نبی سیاح تھا اور شہزادہ تھا جو کشمیر میں آیا تھا.اور اس شہزادہ نبی کے مزار کا پتہ یہ ہے کہ جب جامع مسجد سے روضہ بل یمین کے کوچہ میں آویں تو یہ مزار شریف آگے ملے گی.اس مقبرہ کے بائیں طرف کی دیوار کے
راز حقیقت 35 فلسطین سے کشمیر تک پیچھے ایک کو چہ ہے اور داہنی طرف ایک پرانی مسجد ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تبرک کے طور پر کسی پُرانے زمانہ میں اس مزار شریف کے قریب مسجد بنائی گئی ہے اور اس مسجد کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات ہیں.کسی دوسری قوم کا نام ونشان نہیں اور اس نبی اللہ کی قبر کے نزدیک داہنے گوشہ میں ایک پتھر رکھا ہے جس پر انسان کے پاؤں کا نقش ہے.کہتے ہیں کہ یہ قدم رسول کا ہے.غالباً اس شہزادہ نبی کا یہ قدم بطور نشان کے باقی ہے.دو باتیں اس قبر پر بعض مخفی اسرار کی گویا حقیقت نما ہیں.ایک وہ سوراخ جو قبر کے نزدیک ہے دوسرے یہ قدم جو پتھر پر کندہ ہے.باقی تمام صورت مزار کی نقشہ مسلکہ میں دکھائی گئی ہے.فقط را از حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 167 تا 170) حضرت عیسی علیہ السلام جو یسوع اور جیزس یا یوز آسف کے نام سے بھی مشہور ہیں یہ اُن کا مزار ہے اور بموجب شہادت کشمیر کے معمر لوگوں کے عرصہ انیس سو برس کے قریب سے یہ مزارسری نگر محلہ خان یار میں ہے.وامی مسقف یوتره آبادی وشه بند اشر آستانه بطرت طراف گار مشف سوراخ جہاں سے پہلے خوش برائی تھی راه بیطرف جامع مسجد می کند و دیگر کارارات روکان بقالی راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 171)
راز حقیقت 36 فلسطین سے کشمیر تک وہ نبی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گذرا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں اور کوئی نہیں.اور یسوع کے لفظ کی صورت بگڑ کر یوز آسف بننا نہایت قرین قیاس ہے کیونکہ جب کہ یسوع کے لفظ کو انگریزی میں بھی چیز س بنا لیا ہے تو یوز آسف میں جیزس سے کچھ زیادہ تغیر نہیں ہے.یہ لفظ سنسکرت سے ہرگز مناسبت نہیں رکھتا.صریح عبرانی معلوم ہوتا ہے اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں کیوں تشریف لائے اس کا سبب ظاہر ہے.اور وہ یہ ہے کہ جبکہ ملک شام کے یہودیوں نے آپ کی تبلیغ کو قبول نہ کیا اور آپ کو صلیب پر قتل کرنا چاہا تو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق اور نیز دعا کو قبول کر کے حضرت مسیح کو صلیب سے نجات دے دی.اور جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح کے دل میں تھا کہ اُن یہودیوں کو بھی خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں کہ جو بخت النصر کی غارت گری کے زمانہ میں ہندوستان کے ملکوں میں آگئے تھے.سواسی غرض کی تکمیل کے لئے وہ اس ملک میں تشریف لائے.ڈاکٹر بر نیر صاحب فرانسیسی اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں کہ کئی انگریز محققوں نے اس رائے کو بڑے زور کے ساتھ ظاہر کیا ہے کہ کشمیر کے مسلمان باشندے دراصل اسرائیلی ہیں جو تفرقہ کے وقتوں میں اس ملک میں آئے تھے.اور اُن کے کتابی چہرے اور لمبے گرتے اور بعض رسوم اس بات کے گواہ ہیں.پس نہایت قرین قیاس ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام شام کے یہودیوں سے نومید ہو کر اس ملک میں تبلیغ قوم کے لئے آئے ہوں گے.حال میں جو روی سیاح نے ایک انجیل لکھی ہے جس کولندن سے میں نے منگوایا ہے وہ بھی اس رائے میں ہم سے متفق ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں آئے تھے اور جو بعض مصنفوں نے واقعات یوز آسف نبی کے لکھے ہیں جن کے یورپ کے ملکوں میں بھی ترجے پھیل گئے ہیں ان کو پادری لوگ بھی پڑھ کر سخت حیران ہیں کیونکہ وہ تعلیمیں انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بہت ملتی ہیں بلکہ اکثر عبارتوں میں توارد معلوم ہوتا ہے.اور ایسا ہی تبتی انجیل کا انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بہت توارد ہے.پس یہ ثبوت ایسے نہیں ہیں کہ کوئی شخص معاندانہ تحکم سے یکدفعہ ان کو ر ڈ کر سکے بلکہ ان میں سچائی کی روشنی نہایت صاف پائی جاتی
راز حقیقت 37 فلسطین سے کشمیر تک ہے اور اس قدر قرائن ہیں کہ یکجائی طور پر ان کو دیکھنا اس نتیجہ تک پہنچاتا ہے کہ یہ بے بنیاد قصہ نہیں ہے، یوز آسف کا نام عبرانی سے مشابہ ہونا اور یوز آسف کا نام نبی مشہور ہونا جو ایسا لفظ ہے کہ صرف اسرائیلی اور اسلامی انبیاء پر بولا گیا ہے اور پھر اُس نبی کے ساتھ شہزادہ کا لفظ ہونا اور پھر اس نبی کی صفات حضرت مسیح علیہ السلام سے بالکل مطابق ہونا اور اس کی تعلیم انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بالکل ہمرنگ ہونا اور پھر مسلمانوں کے محلہ میں اس کا مدفون ہونا اور پھر انیس سو سال تک اس کے مزار کی مدت بیان کئے جانا اور پھر اس زمانہ میں ایک انگریز کے ذریعہ سے تبتی انجیل برآمد ہونا اور اس انجیل سے صریح طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کا اس ملک میں آنا ثابت ہونا یہ تمام ایسے امور ہیں کہ ان کو یکجائی طور پر دیکھنے سے ضرور یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بلا شبہ حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں آئے تھے اور اسی جگہ فوت ہوئے اور اس کے سوا اور بھی بہت سے دلائل ہیں کہ ہم انشاء اللہ ایک مستقل رسالہ میں لکھیں گے.من المشتهر راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 167 تا 170 حاشیہ) نبی کا لفظ صرف دوزبانوں سے مخصوص ہے اور دنیا کی کسی اور زبان میں یہ لفظ مستعمل نہیں ہوا یعنی ایک تو عبرانی میں یہ لفظ نبی آتا ہے اور دوسری عربی میں.اس کے سوا تمام دنیا کی اور زبانیں اس لفظ سے کچھ تعلق نہیں رکھتیں.لہذا یہ لفظ جو یوز آسف پر بولا گیا کتبہ کی طرح گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص یا اسرائیلی نبی ہے یا اسلامی نبی مگرختم نبوت کے بعد اسلام میں کوئی اور نبی نہیں آسکتا لہذا متعین ہوا کہ یہ اسرائیلی نبی ہے.اب جو مدت بتلائی گئی ہے اُس پر غور کر کے قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں اور وہی شہزادہ کے نام سے پکارے گئے ہیں.منہ راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 168 نوٹ ) یہ ضرور نہیں کہ سلیمان سے مراد سلیمان پیغمبر ہوں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اسرائیلی امیر ہوگا جس کے نام سے یہ پہاڑ مشہور ہو گیا.اس امیر کا نام سلیمان ہوگا.یہ یہودیوں کی اب تک عادت ہے کہ نبیوں کے نام پر اب تک نام رکھ لیتے ہیں.بہر حال اس نام سے
راز حقیقت 38 فلسطین سے کشمیر تک بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہود کے فرقہ کی کشمیر میں گذر ہوئی ہے جن کے لئے حضرت عیسی کا کشمیر میں آنا ضروری تھا.منہ را از حقیقت روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 169 نوٹ) خاتمہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے مخالفوں کو ذلیل کرنے کے لئے اور اس راقم کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ جو سرینگر میں محلہ خان یار میں یوز آسف کے نام سے قبر موجود ہے، وہ درحقیقت بلاشک وشبہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.مرہم عیسی جس پر طب کی ہزار کتاب بلکہ اس سے زیادہ گواہی دے رہی ہے اس بات کا پہلا ثبوت ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام نے صلیب سے نجات پائی تھی وہ ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.اس مرہم کی تفصیل میں کھلی کھلی عبارتوں میں طبیبوں نے لکھا ہے کہ یہ مرهم ضربہ سقطہ اور ہر قسم کے زخم کے لئے بنائی جاتی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیار ہوئی تھی یعنی ان زخموں کے لئے جو آپ کے ہاتھوں اور پیروں پر تھے.اس مرہم کے ثبوت میں میرے پاس بعض وہ طبی کتا بیں بھی ہیں جو قریباً سات سو برس کی قلمی لکھی ہوئی ہیں.یہ طبیب صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ عیسائی، یہودی اور مجوسی بھی ہیں جن کی کتابیں اب تک موجود ہیں.قیصر روم کے کتب خانہ میں بھی رومی زبان میں ایک قرابا دین تھی اور واقعہ صلیب سے دو سو برس گزرنے سے پہلے ہی اکثر کتا بیں دنیا میں شائع ہو چکی تھیں.پس بنیاد اس مسئلہ کی کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے اوّل خود انجیلوں سے پیدا ہوئی ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور پھر مرہم عیسی نے علمی تحقیقات کے رنگ میں اس ثبوت کو دکھلایا.پھر بعد اس کے وہ انجیل جو حال میں بہت سے دستیاب ہوئی اُس نے صاف گواہی دی کہ حضرت عیسی ضرور ہندوستان کے ملک میں آئے ہیں.اس کے بعد اور بہت سی کتابوں سے اس واقعہ کا پتہ لگا.اور تاریخ کشمیر اعظمی
راز حقیقت 39 فلسطین سے کشمیر تک جو قریباً دوسو برس کی تصنیف ہے، اس کے صفحہ ۸۲ میں لکھا ہے کہ ”سید نصیر الدین کے مزار کے پاس جو دوسری قبر ہے عام خیال ہے کہ یہ ایک پیغمبر کی قبر ہے.اور پھر یہی مؤرخ اسی صفحہ میں لکھتا ہے کہ ایک شہزادہ کشمیر میں کسی اور ملک سے آیا تھا اور زہد اور تقویٰ اور ریاضت اور عبادت میں وہ کامل درجہ پر تھا وہی خدا کی طرف سے نبی ہوا اور کشمیر میں آکر کشمیریوں کی دعوت میں مشغول ہوا جس کا نام یوز آسف ہے اور اکثر صاحب کشف خصوصاً ملاً عنایت اللہ جو راقم کا مرشد ہے.فرما گئے ہیں کہ اس قبر سے برکات نبوت ظاہر ہورہے ہیں.یہ عبارت تاریخ اعظمی کی فارسی میں ہے جس کا ترجمہ کیا گیا.اور محمدن اینگلو اور ٹیل کالج میگزین ستمبر ۱۸۹۶ ء اور اکتوبر ۱۸۹۶ء میں بہ تقریب ریویو کتاب شہزادہ یوز آسف جو مرزا صفدر علی صاحب، سرجن فوج سر کار نظام نے لکھی ہے تحریر کیا ہے کہ یوز آسف کے مشہور قصہ میں جو ایشیا اور یورپ میں شہرہ آفاق ہو چکا ہے، پادریوں نے کچھ رنگ آمیزی کر دی ہے، یعنی یوز آسف کے سوانح میں جو حضرت مسیح کی تعلیم اور اخلاق سے بہت مشابہ ہے شاید یہ تحریریں پادریوں نے اپنی طرف سے زیادہ کر دی ہیں.لیکن یہ خیال سراسر سادہ لوحی کی بنا پر ہے بلکہ پادریوں کو اُسوقت یوز آسف کے سوانح ملے ہیں جبکہ اس سے پہلے تمام ہندوستان اور کشمیر میں مشہور ہو چکے تھے اور اس ملک کی پرانی کتابوں میں اُن کا ذکر ہے اور اب تک وہ کتابیں موجود ہیں پھر پادریوں کو تحریف کے لئے کیا گنجائش تھی.ہاں پادریوں کا یہ خیال کہ شاید حضرت مسیح کے حواری اس ملک میں آئے ہوں گے اور یہ تحریریں یوز آسف کے سوانح میں اُن کی ہیں یہ سراسر غلط خیال ہے بلکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یوز آسف حضرت یسوع کا نام ہے جس میں زبان کے پھیر کی وجہ سے کسی قدر تغیر ہو گیا ہے.اب بھی بعض کشمیری بجائے یوز آسف کے عیسی صاحب ہی کہتے ہیں.جیسا کہ لکھا گیا.والسلام على من اتبع الهدى راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 172 خاتمہ کتاب)
كشف الغطاء 40 کشف الغطاء (1998ء) فلسطین سے کشمیر تک خدا تعالیٰ نے یہ نہایت فضل کیا ہے کہ ان لوگوں کے ان باطل خیالات کے دور کرنے کے لئے مسیح موعود کا آسمان سے اتر نا خلاف واقعہ ثابت کر دیا ہے.کیونکہ خدا کے فضل سے میری کوششوں سے ثابت ہو چکا ہے اور اب تمام انسانوں کو بڑے بڑے دلائل اور کھلے کھلے واقعات کی وجہ سے ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز آسمان پر مع جسم عنصری نہیں گئے.بلکہ خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اور ان دعاؤں کے قبول ہونے کی وجہ سے جو تمام رات حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی جان بچانے کے لئے کی تھیں صلیب سے اور صلیبی لعنت سے بچائے گئے اور ہندوستان میں آئے اور بدھ مذہب کے لوگوں سے بخشیں کیں آخر کشمیر میں وفات پائی اور محلہ خان یار میں آپ کا مزار مقدس ہے جو شہزادہ نبی کے مزار کے نام پر مشہور ہے.پھر جب کہ آسمان سے آنے والا ثابت نہ ہوسکا بلکہ اس کے برخلاف ثابت ہوا تو اس مہدی کا وجود بھی جھوٹ ثابت ہو گیا جس نے ایسے مسیح کے ساتھ مل کر خونریزیاں کرنا تھا.کیونکہ بموجب قاعدہ تحقیق اور منطق کے دولازمی چیزوں میں سے ایک چیز کے باطل ہونے سے دوسری چیز کا بھی باطل ہونا لازم آیا.لہذا ما نا پڑا کہ یہ سب خیالات باطل اور بے بنیاد اور لغو ہیں اور چونکہ توریت کے رو سے مصلوب لعنتی ہو جاتا ہے اور لعنت کا لفظ عبرانی اور عربی میں مشترک ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ملعون خدا سے در حقیقت دور جا پڑے اور خدا اس سے بیزار ہو جائے اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے تو پھر نعوذ باللہ خدا کا ایسا پیارا.ایسا برگزیدہ.ایسا مقدس نبی جو مسیح ہے اس کی نسبت ایسی بے ادبی کوئی سچی تعظیم کرنے والا ہر گز نہیں کرے گا اور پھر واقعات نے اور بھی اس پہلو کو ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے.بلکہ اس ملک سے کفار کے ہاتھ سے نجات پا کر پوشیدہ طور پر ہندوستان کی طرف چلے آئے.لہذا ان نادان مولویوں کے یہ سب قصے باطل ہیں اور یہ سب خطر ناک امیدیں لغو ہیں اور ان کا نتیجہ بھی بجز مفسدانہ
الغطاء 41 فلسطین سے کشمیر تک خیالات کے اور کچھ نہیں.اگر میرے مقابل پر ان لوگوں کے اعتقادات کا عدالت میں اظہار لیا جائے تو معلوم ہو کہ کیسے یہ لوگ خطر ناک اعتقادات میں مبتلا ہیں کہ نہ صرف راستی سے دور بلکہ امن اور سلامت روشی سے بھی دور ہیں.اور میں اخیر پر اس رسالہ کو اس بات پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ عیسائی عقیدوں کے لحاظ سے حضرت مسیح کا دوبارہ آنا پولیٹیکل مصالح سے کچھ تعلق نہیں رکھتا مگر جس طور سے حال کے اسلامی مولویوں نے حضرت عیسی کا آسمان سے اترنا اور مہدی کے ساتھ اتفاق کر کے جہادی لڑائی کرنا غلط طور پر اپنے اعتقاد میں داخل کر لیا ہے یہ عقیدہ نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ خطر ناک بھی ہے اور جو کچھ حال میں حضرت عیسی کے ہندوستان میں آنے اور کشمیر میں وفات پانے کا مجھے ثبوت ملا ہے وہ ان خطرناک خیالات کو دانشمند دلوں سے بکلی مٹا دیتا ہے.اور میری یہ تحقیق عارضی اور سرسری نہیں بلکہ نہایت مکمل ہے.چنانچہ ابتدا اس تحقیق کا اُس مرہم سے ہے جو مر ہم عیسی کہلاتی ہے اور مرہم حوار بین بھی اس کو کہتے ہیں اور طب کی ہزار کتاب سے زیادہ میں اس کا ذکر ہے اور مجوسی اور یہودی اور عیسائی اور مسلمان طبیبوں نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے.چونکہ میں نے بہت سا حصہ اپنی عمر کافنِ طبابت کے پڑھنے میں بسر کیا ہے اور ایک بڑا ذخیرہ کتابوں کا بھی مجھ کو ملا ہے اس لئے چشم دید طور پر یہ دلیل مجھ کو ملی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے فضل سے اور اپنی دردمندانہ دعاؤں کی برکت سے صلیب سے نجات پاکر اور پھر عالم اسباب کی وجہ سے مرہم حوار بین کو استعمال کر کے اور صلیبی زخموں سے شفا پا کر ہندوستان کی طرف آئے تھے.صلیب پر ہرگز فوت نہیں ہوئے کچھ غشی کی صورت ہوگئی تھی جس سے خدا کی مصلحت سے تین دن ایسی قبر میں بھی رہے جو گھر کے دار تھی اور چونکہ یونس کی طرح زندہ تھے آخر اس سے باہر آگئے.اور پھر دوسرا ماخذ اس تحقیق کا مختلف قوموں کی وہ تاریخی کتا ہیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام ہندوستان اور تبت اور کشمیر میں آئے تھے اور حال میں جو ایک روسی سیاح نے بدھ مذہب کی کتابوں کے حوالہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کا اس ملک میں آنا ثابت کیا ہے وہ کتاب میں نے دیکھی ہے اور میرے پاس ہے وہ کتاب بھی اس رائے کی مؤید ہے.
كشف الغطاء 42 فلسطین سے کشمیر تک اور پھر سب سے اخیر شاہزادہ نبی کی قبر جوسری نگر محلہ خان یار میں ہے جس کو عوام شہزادہ یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسی صاحب نبی کی قبر کہتے ہیں اس مطلب کی مؤید ہے اور اس قبر میں ایک کھڑ کی بھی ہے جو بر خلاف دنیا کی تمام قبروں کے اب تک موجود ہے.کشمیر کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قبر کے ساتھ کوئی خزانہ بھی مدفون ہے اس لئے کھڑکی ہے میں کہتا ہوں شاید کچھ جواہرات ہوں مگر میری دانست میں یہ کھڑ کی اس لئے رکھی ہے کہ کوئی عظیم الشان کتبہ اس قبر کے اندر ہے یہ اسی طرح کا واقعہ معلوم ہوتا ہے جیسا کہ انہی دنوں میں ضلع پیرا کوئی میں جو ممالک شمال مغرب کے ضلع سرحد نیپال میں ایک گاؤں ہے ایک ٹیلہ کے اندر سے ایک بھاری صندوق نکلا ہے جس میں جواہرات اور زیور اور کچھ ہڈی اور راکھ تھی اور صندوق پر یہ کندہ تھا کہ گوتم بدھ سا کی منی کے پھول ہیں.اور نبی کا لفظ جو اس صاحب قبر کی نسبت کشمیر کے ہزار ہا لوگوں کی زبان پر جاری ہے یہ بھی ہمارے مدعا کے لئے ایک دلیل ہے کیونکہ نبی کا لفظ عبری اور عربی دونوں زبانوں میں مشترک ہے دوسری کسی زبان میں یہ لفظ نہیں آیا اور اسلام کا اعتقاد ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی نبی نہیں آئے گا اس لئے متعین ہوا کہ یہ عبرانی نبیوں میں سے ایک نبی ہے اور پھر شاہزادہ کے لفظ پر غور کر کے اور بھی ہم اصل حقیقت سے نزدیک آجاتے ہیں.اور پھر کشمیر کے تمام باشندوں کا اس بات پر اتفاق دیکھ کر کہ یہ نبی جس کی کشمیر میں قبر ہے ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گزرا ہے.صاف طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کو متعین کر رہا ہے اور صفائی سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ یہی وہ پاک اور معصوم نبی اور خدا تعالیٰ کے جلال کے تخت سے ابدی شہزادہ ہے جس کو نالائق اور بدقسمت یہودیوں نے صلیب کے ذریعہ سے مارنا چاہا تھا.غرض یہ ایسا ثبوت ہے کہ اگر اس کے تمام دلائل یکجائی نظر سے دیکھے جائیں تو ہماری قوم کے غلط کار مولویوں کے خیالات اس سے پاش پاش ہو جاتے ہیں اور امن اور صلح کاری کی مبارک عمارت اپنی چمک دکھلاتی ہے جس سے ضروری طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ کوئی آسمان پر گیا اور نہ وہ لڑنے کے لئے مہدی کے ساتھ شامل ہوکر شور قیامت ڈالے گا بلکہ وہ کشمیر میں اپنے خدا کی رحمت کی گود میں سو گیا.( کشف الغطاء.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 208 تا 213)
الغطاء 43 فلسطین سے کشمیر تک یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور انہوں نے خود یونس نبی کے مچھلی کے قصہ کو اپنے قصہ سے جو تین دن قبر میں رہنا تھا مشابہت دے کر ہر ایک دانا کو یہ سمجھا دیا ہے کہ وہ یونس نبی کی طرح قبر میں زندہ ہونے کی حالت میں داخل کئے گئے اور جب تک قبر میں رہے زندہ رہے.ورنہ مردوں کو زندوں سے کیا مشابہت ہو سکتی ہے اور ضرور ہے کہ نبی کی مثال بے ہودہ اور بے معنی نہ ہو انجیل میں ایک دوسری جگہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے جہاں لکھا ہے کہ زندہ کو مردوں میں کیوں ڈھونڈتے ہو.بعض حواریوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسی صلیب پر فوت ہو گئے تھے ہر گز صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ کا قبر سے نکلنا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھلانا اور یونس نبی سے اپنی مشابہت فرمانا یہ سب باتیں اس خیال کو ر ڈ کرتی ہیں اور اس کے مخالف ہیں.پھر حواریوں میں اس مقام میں اختلاف بھی ہے چنانچہ برنباس کی انجیل میں جس کو میں نے بچشم خود دیکھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر فوت ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور انجیل سے ظاہر ہے کہ برنباس بھی ایک بزرگ حواری تھا اور آپ کا آسمان پر جانا ایک روحانی امر ہے.آسمان پر وہی چیز جاتی ہے جو آسمان سے آتی ہے اور جو زمین کا ہے وہ زمین میں جاتا ہے.توریت اور قرآن نے بھی یہی گواہی دی ہے اور جب کہ یہودی صلیبی کارروائی کی وجہ سے حضرت مسیح کے روحانی رفع سے منکر تھے اس لئے ان کو جتایا گیا کہ حضرت مسیح آسمان پر گئے یعنی خدا تعالیٰ نے نجات دے کر لعنت سے جو نتیجہ صلیب تھا ان کو بری کر لیا اور ان چند حواریوں کی گواہی کیونکر لائق قبول ہوسکتی ہے جو واقعہ صلیب کے وقت حاضر نہ رہے اور جن کے پاس شہادت رویت نہیں ہے.منہ (کشف الغطاء.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 210 تا 211 حاشیہ) ایک اور دلیل ہمارے اس دعوئی پر یہ ہے کہ جس قدر حال تک کتابیں یوز آسف کی سوان اور تعلیم کے متعلق ہم کوملی ہیں جس کی قبر سرینگر میں ہے وہ تمام تعلیم انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بشدت مشابہت رکھتی ہے بلکہ بعض فقرات تو بعینہ انجیل کے فقرات ہیں.منہ ( کشف الغطاء.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 212 حاشیہ)
ایام الصلح 44 یام اصلح ( جنوری 1899 ء ) فلسطین سے کشمیر تک اس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات حیات کی بحث میں حق میری طرف ہے.پھر اس ثبوت کے ساتھ اور بہت سے دلائل ہیں کہ اس مسئلہ موت مسیح کو حق الیقین تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ۱۲۰ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر پائی.اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور اللہ جل شانہ کا قرآن شریف میں فرمانا فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوتُونَ کے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کرہ زمین کے سوا دوسری جگہ نہ زندگی بسر کر سکتا ہے اور نہ مرسکتا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح یعنی نبی سیاح ہونا بھی اُن کی موت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ سیاحت زمین تقاضا کرتی ہے کہ وہ صلیب سے نجات پا کر زمین پر ہی رہے ہوں.ورنہ بجز اس زمانہ کے جو صلیب سے نجات پاکر ملکوں کا سیر کیا ہو اور کوئی زمانہ سیاحت ثابت نہیں ہوسکتا صلیب کے زمانہ تک نبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھے.یہ زمانہ تبلیغ کے لئے بھی تھوڑا تھا چہ جائیکہ اس میں تمام ملک کی سیاحت کرتے.ایسا ہی مرہم عیسی جو قریب طب کی ہزار کتاب میں لکھی ہے ثابت کرتی ہے کہ صلیب کے واقعہ کے وقت حضرت عیسی آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ اپنے زخموں کا اس مرہم کے ساتھ علاج کراتے رہے.اس کا نتیجہ بھی یہی نکلا کہ زمین پر ہی رہے اور زمین پر ہی فوت ہوئے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحه 272 تا 273) ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ نے یہودیوں کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اور نہ صرف نجات بلکہ ایمان لانے کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی قوم کو سلطنت اور بادشاہی بھی مل گئی.اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں آئے کہ جب یہودی لوگ سخت ذلت میں پڑے ہوئے تھے.اور آپ نے جیسا کہ دوسرے ایمان لانے والوں پر آزادی اور نجات کا دروازہ کھولا اور کفار کے ظلم آل عمران: 145 الاعراف : 26
ایام الصلح 45 فلسطین سے کشمیر تک اور تعدّی سے چھڑایا اور آخر خلافت اور بادشاہت اور حکومت تک پہنچایا.ایسا ہی یہودیوں پر بھی آپ نے آزادی اور نجات کا دروازہ کھولا اور پھر حکومت اور امارت تک پہنچایا.یہاں تک کہ چند صدیوں کے بعد ہی وہ رُوئے زمین کے بادشاہ ہو گئے کیونکہ یہ قوم افغان جن کی اب تک افغانستان میں بادشاہت پائی جاتی ہے.یہ لوگ دراصل یہودی ہی ہیں.اور بر نیر صاحب اپنی کتاب وقائع عالمگیر میں یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ تمام کشمیری بھی دراصل یہودی ہیں اور اُن میں بھی ایک بادشاہ گذرا ہے اور افغانوں کی بادشاہت مسلسل کئی صدیوں سے چلی آتی ہے.اب جبکہ یہودیوں کی کتب مقدسہ میں نہایت صفائی سے بیان کیا گیا ہے کہ موسیٰ کی مانند ایک منجی ان کے لئے بھیجا جائے گا یعنی وہ ایسے وقت میں آئے گا کہ جب قوم یہود فرعون کے زمانہ کی طرح سخت ذلت اور دُکھ میں ہوگی.اور پھر اُس منجی پر ایمان لانے سے وہ تمام دکھوں اور ذلتوں سے رہائی پائیں گے تو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی جس کی طرف یہود کی ہر زمانہ میں آنکھیں لگی رہی ہیں وہ ہمارے سید ومولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے ذریعہ سے توریت کی پیشگوئی کمال وضاحت سے پوری ہوگئی.کیونکہ جب یہودی ایمان لائے تو اُن میں سے بڑے بڑے بادشاہ ہوئے یہ اس بات پر دلیل واضح ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام لانے سے اُن کا گناہ بخشا اور اُن پر رحم کیا جیسا کہ توریت میں وعدہ تھا.(ایاما الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 297 تا303) اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ تمام افغان یوسف زئی.داؤ دز کی.لودی.سروانی.اورکزئی.سد وزئی.بارک زئی وغیرہ دراصل بنی اسرائیل ہیں.اور ان کا مورث اعلیٰ قیس ہے.اور چونکہ یہ بھی ایک مشہور واقعہ افغانوں میں ہے کہ والدہ کی طرف سے ان کے سلسلہ کی ابتدا سارہ بنت خالد بن ولید سے ہے.یعنی قیس اُن کے مورث نے سارہ سے شادی کی تھی اس لئے اور ان معنوں سے وہ خالد کی آل بھی ٹھہرے.لیکن بہر حال یہ متفق علیہ افغانوں میں تاریخی امر ہے کہ قیس مورث اعلیٰ اُن کا بنی اسرائیل میں سے تھا.یہ بات یہودیوں اور عیسائیوں اور مسلمانوں یعنی تینوں فرقوں نے بالا تفاق تسلیم کی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے قریباً سات سو برس پہلے بخت نصر بابلی نے بنی اسرائیل کو گرفتار کر کے
ایام الصلح 46 فلسطین سے کشمیر تک بابل میں پہنچا دیا تھا اور اس حادثہ کے بعد بنی اسرائیل کی بارہ قوموں میں سے صرف دو قو میں یہودا اور بن یامین کی اپنے ملک میں واپس آئیں اور دس قو میں اُن کی مشرق میں رہیں اور چونکہ اب تک یہود پتہ نہیں بتلا سکے کہ وہ قومیں کہاں ہیں اور نہ انہوں نے اُن سے خط و کتابت اور رشتہ کا تعلق رکھا.اس لئے اس واقعہ سے یہ احتمال پیدا ہوتا ہے کہ انجام کار وہ قومیں مسلمان ہو گئی ہوں گی.پھر جب ہم اس قصہ کو اسی جگہ چھوڑ کر افغانوں کے سوانح پر نظر کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادوں سے قدیم سے یہ سنتے آئے ہیں کہ دراصل وہ اسرائیلی ہیں جیسا کہ کتاب مخزن افغانی میں مفضل لکھا ہے تو اس امر میں کچھ بھی شک وشبہ نہیں رہتا کہ یہ لوگ انہی دس قوموں میں سے ہیں جو مشرق میں نا پیدا نشان بتلائی جاتی ہیں اور ان ہی اسرائیلیوں میں سے کشمیری بھی ہیں جو اپنی شکل اور پیرایہ میں افغانوں سے بہت کچھ ملتے ہیں.اور تاریخ بر نیر میں کئی اور انگریزوں کے حوالہ سے ان کی نسبت بھی یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ اسرائیلی الاصل ہیں.اور ایسے امر کے بحث کے وقت جس کو ایک قوم پشت به پشت اپنے خاندان اور نسب کی نسبت تسلیم کرتی چلی آئی ہو یہ بالکل نا مناسب ہے کہ ہم چند بیہودہ قیاسوں کو ہاتھ میں لے کر اُن کی مسلمات کو ر ڈ کر دیں.اگر ایسا کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کوئی قوم بھی اپنی صحت قومیت کو ثابت نہیں کر سکتی.ہمیں اس بات کو اول درجہ کی دلیل قرار دینا چاہئیے کہ ایک قوم باوجود ہزاروں اور لاکھوں اپنے افراد کے پھر ایک بات پر متفق ہو پھر جبکہ کل افغان ہندوستان اور کابل اور قندھار وغیرہ سرحدی زمینوں کے اپنے تئیں اسرائیلی ظاہر کرتے ہیں تو سخت بیوقوفی ہو گی کہ خواہ نخواہ ان کی مسلمات قدیمہ سے انکار کیا جائے.قوموں کی جانچ پڑتال میں یہی کافی ثبوت اور اطمینان کے لئے وضع استقامت ہے کہ جو کسی قوم میں ان کے خاندان اور قومیت کی نسبت مشہور واقعات ہوں اُن کو مان لیا جائے اور ایسے امور میں اس سے زیادہ ثبوت ممکن ہی نہیں کہ ایک قوم باوجود اپنی کثرت برادری اور کثرت انتشار نطفہ کے ایک قول پر متفق ہو اور اگر یہ ثبوت قابلِ اعتبار نہ ہو تو پھر اس زمانہ میں مسلمانوں کی جس قدر قو میں ہیں مثلاً سید اور قریشی اور مغل وغیرہ یہ سب بے ثبوت اور صرف زبانی دعوئی ٹھہریں گی.لیکن یہ
امام الصلح 47 فلسطین سے کشمیر تک وو ہماری سخت غلطی ہوگی کہ ہم ان اخبار مشہورہ متواترہ کو نظر انداز کریں جو ہر ایک قوم اپنی صحت قومیت کے بارے میں بطور تاریخی امر کے اپنے پاس رکھتی ہے.ہاں یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم اپنے خاندان کے بیان کرنے میں حد سے زیادہ مبالغات کر دے مگر ہمیں نہیں چاہئیے کہ مبالغات کو دیکھ کر یا کئی فضول اور بے ربط باتیں پا کر اصل امر کو بھی رڈ کر دیں.بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ وہ زوائد جو در حقیقت فضول معلوم ہوں چھوڑ دیئے جائیں اور نفس امر کو جس پر قوم کا اتفاق ہے لیا جائے.پس اس طریق سے ہر ایک محقق کو ماننا پڑے گا کہ قوم افغان ضرور بنی اسرائیل ہے.ہر ایک کو خود اپنے نفس کو اور اپنی قوم کو زیر بحث رکھ کر سوچنا چاہیے کہ اگر وہ قوم جس میں وہ اپنے تئیں داخل سمجھتا ہے کوئی دوسرا شخص محض چند قیاسی باتیں مد نظر رکھ کر اس قوم سے اس کو خارج کر دے اور تسلیم نہ کرے کہ وہ اس قوم میں سے ہے اور اس کے ان ثبوتوں کو جو پشت به پشت کے بیانات سے معلوم ہوئے ہیں نظر انداز کرے اور مجمع عظیم کے اتفاق کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھے تو ایسا آدمی کیا فتنہ انگیز معلوم ہوتا ہے.پس بقول شخصے کہ ہر چہ برخود نہ پسندی بر دیگرے نہ پسند یہ بھی نا مناسب ہے کہ دوسروں کی قسم قومیت پر جو ایک بڑی قومی اتفاق سے مانی گئی ہے ناحق کا جرح کیا جائے.ہمیں کیا حق پہنچتا ہے اور ہمارے پاس کیا دلیل ہے کہ ہم ایک قوم کے مسلّمات اور متفق علیہ امرکو یوں ہی زبان سے رڈ کر دیں.جب ایک امر منقولی اتفاق سے صحیح قرار دیا گیا ہے تو اس کے بعد قیاس کی گنجائش نہیں.یہ بھی یا درکھنا چاہئیے کہ بہت سی باتیں فضولی اور شیخی کے طور پر بعض قوموں کے لوگ اپنی قومیت کی نسبت بیان کیا کرتے ہیں.لیکن محقق لوگ فضول باتوں کی وجہ سے اصل واقعات کو ہر گز نہیں چھوڑتے بلکہ خُذْ مَاصَفَا وَدَعْ مَا كَدَز پر عمل کر لیتے ہیں مثلاً گوتم بدھ کے سوانح میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وہ منہ کی راہ سے پیدا ہوا تھا.لیکن جب ہم گوتم کے سوانح لکھنا چاہیں تو ہمیں نہیں چاہئیے کہ منہ کی راہ کی پیدائش پر نظر ڈال کر بدھ کے اصل وجود سے ہی انکار کر دیں.تاریخ نویسی کا امر بڑا نازک امر ہے.اس میں وہ شخص جادہ استقامت پر رہتا ہے کہ جو افراط اور تفریط دونوں سے پر ہیز کرے.یہ اعتراض بھی ٹھیک نہیں کہ اگر افغان لوگ عبرانی الاصل تھے تو ان -
ایام الصلح 48 فلسطین سے کشمیر تک کے ناموں میں کیوں عبرانی الفاظ نہیں اور ان کا شجرہ پیش کردہ توریت کے بعض مقامات سے کیوں اختلاف رکھتا ہے.یہ سب قیاسی باتیں ہیں جو قومی تاریخ اور تواتر کو مٹا نہیں سکتیں.دیکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے اس شجرہ کو صحیح نہیں قرار دیا جو وہ لوگ حضرت اسمعیل تک پہنچایا کرتے تھے اور بجز چند پشت کے باقی کذب کا ذبین قرار دیا ہے.مگر اس سے یہ لازم نہیں آیا کہ قریش بنی اسمعیل نہیں ہیں.پھر جب کہ قریش جو علم انساب میں بڑے حریص تھے تفصیل وارسلسلہ یاد نہ رکھ سکے تو یہ قوم افغان جن میں اکثر غفلت میں زندگی بسر کرنے والے گذرے ہیں اگر انہوں نے اپنے سلسلہ کی تفاصیل بیان کرنے میں غلطی کی یا کچھ جھوٹ ملایا تو اصل مقصود میں کیا فرق آ سکتا ہے.اور اب تو ریت بھی کونسی ایسی محفوظ ہے جو نص قطعی کا حکم رکھتی ہو.ابھی ہم نے معلوم کیا ہے کہ یہود کے نسخوں اور عیسائیوں کے نسخوں میں بہت فرق ہے.غرض یہ نکتہ چینی خوب نہیں ہے اور یہ بات بھی صحیح نہیں کہ افغانوں کے نام عبرانی طرز پر نہیں.بھلا بتاؤ کہ یوسف زئی ، داؤ دز کی اور سلیمان زئی یہ عبرانیوں کے نام ہیں یا کچھ اور ہے.ہاں جب یہ لوگ دوسرے ملکوں میں آئے تو ان ملکوں کا رنگ بھی ان کی بول چال میں آ گیا.دیکھو سادات کے نام بھی ہمارے ملک میں چنن شاہ اور گھمن شاہ اور نتھو شاہ اور متوشاہ وغیرہ پائے جاتے ہیں تو اب کیا اُن کو سید نہیں کہو گے؟ کیا یہ عربی نام ہیں؟ غرض یہ بیہودہ نکتہ چینیاں اور نہایت قابل شرم خیالات ہیں.ہم قوم کی متواترات سے کیوں انکار کریں.اس سے عمدہ تر اور صاف تر ذریعہ حقیقت شناسی کا ہمارے ہاتھ میں کون سا ہے؟ کہ خود قوم جس کی اصلیت ہم دریافت کرنا چاہتے ہیں ایک امر پر اتفاق رکھتی ہے.ماسوا اس کے دوسرے قرائن بھی صاف بتلا رہے ہیں کہ حقیقت میں یہ لوگ اسرائیلی ہیں.مثلاً کوہ سلیمان جو اول افغانوں کا مسکن تھا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس پہاڑ کا یہ نام اسرائیلی یادگار کے لحاظ سے رکھا گیا ہے.دوسرے ایک بڑا قرینہ یہ ہے کہ قلعہ خیبر جو افغانوں نے بنایا کچھ شک نہیں کہ یہ خیبر کا نام بھی محض اسرائیلی یادگار کے لئے اُس خیبر کے نام پر جو عرب میں ہے جہاں یہودی رہتے تھے رکھا تھا.ان النبي لا حتى بلغ النضر بن كنانة ثم قال فمن قال غير ذلك فقد كذب.(السيرة الحلبية تالیف ابی الفرج نور
ایام الصلح 49 فلسطین سے کشمیر تک تیسرا قرینہ ایک یہ بھی ہے کہ افغانوں کی شکلیں بھی اسرائیلیوں سے بہت ملتی ہیں.اگر ایک جماعت یہودیوں کی ایک افغانوں کی جماعت کے ساتھ کھڑی کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا منہ اور ان کا اونچا ناک اور چہرہ بیضاوی ایسا با ہم مشابہ معلوم ہوگا کہ خود دل بول اُٹھے گا کہ یہ لوگ ایک ہی خاندان میں سے ہیں.چوتھا قرینہ افغانوں کی پوشاک بھی ہے افغانوں کے لمبے گرتے اور جیسے یہ وہی وضع اور پیرامید اسرائیلیوں کا ہے جس کا انجیل میں بھی ذکر ہے.پانچواں قرینہ اُن کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلا تکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں.حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھر نا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے.مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں یہ مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے.حتی کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے حمل بھی ہو جاتا ہے جس کو بُر انہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیں جس میں پہلے مہر بھی مقرر ہو جاتا ہے.چھٹا قرینہ افغانوں کے بنی اسرائیل ہونے پر یہ ہے کہ افغانوں کا یہ بیان کہ قیس ہمارا مورث اعلیٰ ہے ان کے بنی اسرائیل ہونے کی تائید کرتا ہے.کیونکہ یہودیوں کی کتب مقدسہ میں سے جو کتاب پہلی تاریخ کے نام سے موسوم ہے اس کے باب ۹ آیت ۳۹ میں قیس کا ذکر ہے اور وہ بنی اسرائیل میں سے تھا.اس سے ہمیں پتہ ملتا ہے کہ یا تو اسی قیس کی اولاد میں سے کوئی دوسرا قیس ہو گا جو مسلمان ہو گیا ہوگا اور یا یہ کہ مسلمان ہونے والے کا کوئی اور نام ہوگا اور وہ اس قیس کی اولاد میں سے ہوگا.اور پھر باعث خطاء حافظہ اس کا نام بھی قیس سمجھا گیا.بہر حال ایک ایسی قوم کے منہ سے قیس کا لفظ نکلنا جو کتب یہود سے بالکل بے خبر تھی اور محض ناخواندہ تھی.یقینی طور پر یہ سمجھاتا ہے کہ یہ قیس کا لفظ انہوں نے اپنے باپوں سے سُنا تھا کہ ان کا مورث اعلیٰ ہے.پہلی تاریخ آیت ۳۹ کی یہ عبارت
ایام الصلح 50 فلسطین سے کشمیر تک ہے.اور نیر سے قیس پیدا ہوا اور قیس سے ساؤل پیدا ہوا اور ساؤل سے یہوشتن.“ ساتواں قرینہ اخلاقی حالتیں ہیں.جیسا کہ سرحدی افغانوں کی زودرنجی اور تلون مزاجی اور خود غرضی اور گردن کشی اور کج مزاجی اور کج روی اور دوسرے جذبات نفسانی اور خونی خیالات اور جاہل اور بے شعور ہونا مشاہدہ ہو رہا ہے.یہ تمام صفات وہی ہیں جو توریت اور دوسرے صحیفوں میں اسرائیلی قوم کی لکھی گئی ہیں اور اگر قرآن شریف کھول کر سورہ بقرہ سے بنی اسرائیل کی صفات اور عادات اور اخلاق اور افعال پڑھنا شروع کرو تو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا سرحدی افغانوں کی اخلاقی حالتیں بیان ہو رہی ہیں.اور یہ رائے یہاں تک صاف ہے کہ اکثر انگریزوں نے بھی یہی خیال کیا ہے.بر نیر نے جہاں یہ لکھا ہے کہ کشمیر کے مسلمان کشمیری بھی دراصل بنی اسرائیل ہیں.وہاں بعض انگریزوں کا بھی حوالہ دیا ہے اور ان تمام لوگوں کو اُن دس فرقوں میں سے ٹھہرایا ہے جو مشرق میں گم ہیں جن کا اب اس زمانہ میں پتہ ملا ہے کہ وہ در حقیقت سب کے سب مسلمان ہو گئے ہیں.پھر جبکہ افغانوں کی قوم کے اسرائیلی ہونے میں اتنے قرائن موجود ہیں اور خود وہ تعامل کے طور پر اپنے باپ دادوں سے سنتے آئے ہیں کہ وہ قوم اسرائیلی ہیں اور یہ باتیں ان کی قوم میں واقعات شہرت یافتہ ہیں تو سخت نا انصافی ہوگی کہ ہم محض تحکم کے طور سے اُن کے اِن بیانات سے انکار کریں.ذرا یہ تو سوچنا چاہئیے کہ ان کے دلائل کے مقابلہ پر ہمارے ہاتھ میں انکار کی کیا دلیل ہے؟ یہ ایک قانونی مسئلہ ہے کہ ہر ایک پرانی دستاویز جو چالیس برس سے زیادہ کی ہو وہ اپنی صحت کا آپ ثبوت ہوتی ہے پھر جبکہ صد ہا سال سے دوسری قوموں کی طرح جو اپنی اپنی اصلیت بیان کرتی ہیں افغان لوگ اپنی اصلیت قوم اسرائیل قرار دیتے ہیں تو ہم کیوں جھگڑا کریں اور کیا وجہ کہ ہم قبول نہ کریں؟ یادر ہے کہ یہ ایک دو کا بیان نہیں یہ ایک قوم کا بیان ہے جو لاکھوں انسانوں کا مجموعہ ہے اور پشت بعد پشت کے گواہی دیتے چلے آئے ہیں.اب جبکہ یہ بات فیصلہ پا چکی کہ تمام افغان در حقیقت بنی اسرائیل ہیں تو اب یہ دوسرا امر ظاہر کرنا باقی رہا کہ پیشگوئی توریت استثنا باب ۱۸ آیت ۱۵ سے ۱۹ تک کی افغانی 1 تواریخ باب 9 آیت 39
ایام الصلح 51 فلسطین سے کشمیر تک سلطنت سے بکمال وضاحت پوری ہو گئی.یہ پیشگوئی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے یہ مقدر کیا ہے کہ موسیٰ کی طرح دنیا میں ایک اور نبی آئے گا.یعنی ایسے وقت میں جب کہ پھر بنی اسرائیل فرعون کے زمانہ کی مانند طرح طرح کی ذلتوں اور دکھوں میں ہوں گے اور وہ نبی ان کو جو اس پر ایمان لائیں گے اُن دُکھوں اور بلاؤں سے نجات دے گا.اور جس طرح موسیٰ پر ایمان لانے سے بنی اسرائیل نے نہ صرف دکھوں سے نجات پائی بلکہ ان میں سے بادشاہ بھی ہو گئے ایسا ہی ان اسرائیلیوں کا انجام ہو گا جو اس نبی پر ایمان لائیں گے یعنی آخر ان کو بھی بادشاہی ملے گی اور ملکوں کے حکمران ہو جائیں گے.اسی پیشگوئی کو عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام پر لگانا چاہا تھا جس میں وہ ناکام رہے کیونکہ وہ لوگ اس مماثلت کا کچھ ثبوت نہ دے سکے.اور یہ تو ان کے دل کا ایک خیالی پلاؤ ہے کہ یسوع نے گناہوں سے نجات دی.کیا یورپ کے لوگ جو عیسائی ہو گئے ہر ایک قسم کی بدکاری اور زنا کاری اور شراب خوری سے سخت متنفر اور موحدانہ زندگی بسر کرتے ہیں؟ ہم نے تو یورپ دیکھا نہیں.جنہوں نے دیکھا ہے اُن سے پوچھنا چاہئیے کہ یورپ کی کیا حالت ہے؟ ہم نے تو یہ سُنا ہے کہ علاوہ اور باتوں کے ایک لندن میں ہی شراب خواری کی یہ کثرت ہے کہ اگر شراب کی دوکانیں سیدھے خط میں لگائی جائیں تو تخمیناستر میل تک اُن کا طول ہو سکتا ہے.اب دیکھنا چاہئیے کہ اول تو گنا ہوں سے نجات پانا ایک ایسا امر ہے جو آنکھوں سے چھپا ہوا ہے کون کسی کے اندرونی حالات اور خطرات کے بجز خدا تعالیٰ کے واقف ہو سکتا ہے.پھر یورپ جو عیسائیوں کے لئے عیسائیت کی زندگی کا ایک کھلا کھلا نمونہ ہے جو کچھ ظاہر کر رہا ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں.ہم محض اس قوم کی معصومانہ زندگی قبول کر سکتے ہیں جس کے بعض افراد معصومانہ زندگی کے نشان اپنے ساتھ رکھتے ہوں اور راستبازوں کے برکات اُن میں پائے جاتے ہوں.سو یہ قوم تو اسلام ہے جس کی راستبازی کے انوار کسی زمانہ میں کم نہیں ہوئے.ورنہ صرف دعوئی دلیل کا کام نہیں دے سکتا ماسوا اس کے یہ دعویٰ کہ گناہوں کا منجی کسی دوسرے زمانہ میں آنے والا تھا اس وجہ سے بھی نا معقول ہے کہ اگر ایسا منجی بھیجنا منظور تھا تو موسیٰ
ایام الصلح 52 فلسطین سے کشمیر تک کے وقت میں ہی اس کی ضرورت تھی کیونکہ بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں غرق تھے.یہاں تک کہ بُت پرستی کر کے گناہوں کی معافی کے محتاج تھے.پس یہ کس قدر غیر معقول بات ہے کہ گناہ تو اُسی وقت بکثرت ہوں یہاں تک کہ گوسالہ پرستی تک نوبت پہنچی اور گناہوں سے نجات دینے والا چودہ ۱۴۰۰ سو برس بعد آوے جبکہ کروڑہا انسان ان ہی گناہوں کی وجہ سے داخل جہنم ہو چکے ہوں.ایسے ضیعف اور بودے خیال کو کون قبول کر سکتا ہے اور اس کے مقابل پر یہ کس قد رصاف بات ہے کہ اس منجی سے مراد بلا ؤں سے نجات دینے والا تھا اور وہ درحقیقت ایسے وقت میں آیا کہ جب کہ یہودیوں پر چاروں طرف سے بلا ئیں محیط ہوگئی تھیں.کئی دفعہ غیر قوموں کے بادشاہ ان کو گرفتار کر کے لے گئے.کئی دفعہ غلام بنائے گئے اور دو دفعہ ان کی ہیکل مسمار کی گئی.ہمارے معنوں کے رُو سے زمانہ ثبوت دیتا ہے کہ در حقیقت بلاؤں سے نجات دینے والا ایسے وقت آنا چاہیئے تھا جس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے.مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یسوع جو ہیرو دوس کے زمانہ میں پیدا ہوا وہی زمانہ گناہوں کے منجی کے بھیجنے کا زمانہ تھا.تا گناہوں سے نجات بخشے.غرض روحانی منجی ہونا ایسی بات ہے کہ محض تکلف اور بناوٹ سے بنائی گئی ہے.یہودی جس حالت کے لئے اب تک روتے ہیں وہ یہی ہے کہ کوئی ایسا منجی پیدا ہو جو اُن کو دوسری حکومتوں سے آزادی بخشے.کبھی کسی یہودی کے خواب میں بھی نہیں آیا کہ روحانی منجی آئے گا اور نہ توریت کا یہ منشا ہے.توریت تو صاف کہہ رہی ہے کہ آخری دنوں میں پھر بنی اسرائیل پر مصیبتیں پڑیں گی اور اُن کی حکومت اور آزادی جاتی رہے گی پھر ایک نبی کی معرفت خدا اس حکومت اور آزادی کو دوبارہ بحال کرے گا.سو یہ پیشگوئی بڑے زور وشور اور وضاحت کے ساتھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے پوری ہوگئی کیونکہ جب یہود لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اسی زمانہ میں حکومت اور امارت اور آزادی اُن کو مل گئی اور پھر کچھ دنوں کے بعد وہ لوگ بہ برکت قبول اسلام روئے زمین کے بادشاہ ہو گئے اور وہ شوکت اور حکومت اور امارت اور بادشاہت ان کو حاصل ہوئی جو حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بھی حاصل نہیں ہوئی تھی.تاریخ سے ثابت ہے کہ
امام الصلح 53 فلسطین سے کشمیر تک افغانوں کا عروج جو بنی اسرائیل ہیں شہاب الدین غوری کے وقت سے شروع ہوا.اور جب بہلول لودی افغان تخت نشین ہوا تب ہندوستان میں عام طور پر افغانوں کی امارت اور حکومت کی بنیاد پڑی.اور یہ افغان بادشاہ یعنی بہلول بہت حریص تھا کہ ہندوستان میں افغانوں کی حکومت اور امارت پھیلا دے اور ان کو صاحب املاک اور جا گیر کرے اس لئے اس نے اپنی سلطنت میں جوق جوق افغان طلب کر کے ان کو عہدے اور حکومت اور بڑے بڑے املاک عطا کئے اور جب تک کہ ہندوستان کی سلطنت بہلول اور شیر شاہ افغان سوری کے خاندان میں رہی تب تک افغانوں کی آبادی اور اُن کی دولت اور طاقت بڑی ترقی میں رہی یہاں تک کہ یہ لوگ امارت اور حکومت میں اعلیٰ درجہ تک پہنچ گئے.افغانوں کی سلطنت اور اقبال اور دولت کے تصور کے وقت احمد شاہ ابدالی ست وزئی کے اقبال پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہئیے.جو افغانوں میں سے ایک زبر دست بادشاہ ہوا ہے اور پھر تیمورشاہ سد وزئی اور شاہ زمان اور شجاع الملک اور شاہ محمود اور امیر دوست محمد خان اور امیر شیر علی خان ہوئے.اور اب بھی والی ملک کا بل افغان ہے.جو اس ملک کا بادشاہ کہلاتا ہے یعنی امیر عبدالرحمن.ان تمام واقعات سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کو جو دوبارہ آزادی اور شوکت اور سلطنت کا وعدہ دیا گیا تھا وہ اُن کے مسلمان ہونے کے بعد آخر پورا ہو گیا.اس سے توریت کی سچائی پر ایک قوی دلیل پیدا ہوتی ہے کہ کیونکر توربیت کے وہ تمام وعدے بڑی قوت اور شان کے ساتھ انجام کار پورے ہو گئے اور اس جگہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ وہ نبی جو بنی اسرائیل کی دوبارہ مصیبتوں کے وقت منجی ٹھہرایا گیا تھا وہ سید نا محمد مصطفے می ہیں.ہاں جس طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صرف راہ میں بنی اسرائیل کو چھوڑ کر وفات پائی اور قوم اسرائیل کو اُن کے بعد سلطنت ملی اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جیسے جیسے بنی اسرائیل اسلام میں داخل ہوتے گئے حکومت اور امارت اُن کو ملتی گئی یہاں تک کہ آخر کار دُنیا کے بڑے بڑے حصوں کے بادشاہ ہو گئے.منہ ایام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 297 تا 303 حاشیہ )
ایام الصلح 54 فلسطین سے کشمیر تک اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ میں نے طاعون کے علاج کے لئے ایک مرہم بھی طیار کی ہے یہ ایک پر انا نسخہ ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے اور اس کا نام مرہم عیسی ہے اگر چہ امتدادزمانہ کے سبب سے بعض دواؤں میں تبدیلی ہوگئی ہے یعنی طب کی بہت سی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طبیب نے کوئی دوا اس نسخہ میں داخل کی ہے اور دوسرے نے بجائے اس کے کوئی اور داخل کر دی ہے.لیکن یہ تغیر صرف ایک دودواؤں میں ہوا ہے اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک دوا ہر ایک ملک میں پائی نہیں جاتی یا کم پائی جاتی ہے یا بعض موسموں میں پائی نہیں جاتی.سو جس جگہ یہ اتفاق ہوا کہ ایک دوا مل نہیں سکی تو کسی طبیب نے اُس کا بدل کوئی اور دوا ڈال دی اور در حقیقت قرابادینوں کے تمام مرکبات میں جو بعض جگہ اختلاف نسخوں کا پایا جاتا ہے اس کا یہی سبب ہے مگر ہم نے بڑی کوشش سے اصل نسخہ طیار کیا ہے.اس مرکب کا نام مرہم عیسی ہے اور مرہم حوار بین بھی اسے کہتے ہیں اور مرہم الرسل بھی اس کا نام ہے کیونکہ عیسائی لوگ حواریوں کو مسیح کے رسول یعنی اینچی کہتے تھے کیونکہ اُن کو جس جگہ جانے کے لئے حکم دیا جاتا تھا وہ ایلچی کی طرح جاتے تھے.یہ نہایت عجیب بات ہے کہ جیسا کہ یہ نسخہ طب کے تمام نسخوں سے قدیم اور پرانا ثابت ہوا ہے ایسا ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ دنیا کی اکثر قوموں کے طبیبوں نے اس نسخہ کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے.چنانچہ جس طرح عیسائی طبیب اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں ایسا ہی رومی طبابت کی قدیم کتابوں میں بھی یہ نسخہ پایا جاتا ہے.اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ یہودی طبیبوں نے بھی اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور وہ بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ یہ نسخہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے بنایا گیا تھا اور نصرانی طبیبوں کی کتابوں اور مجوسیوں اور مسلمان طبیبوں اور دوسرے تمام طبیبوں نے جو مختلف قوموں میں گذرے ہیں اس بات کو بالا تفاق تسلیم کر لیا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بنایا گیا تھا.چنانچہ ان مختلف فرقوں کی کتابوں میں سے ہزار کتاب ایسی پائی گئی ہے جن میں یہ نسخہ مع وجہ تسمیہ درج ہے اور وہ کتابیں اب تک موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اکثر وہ کتا ہیں ہمارے کتب خانہ
ایام الصلح 55 فلسطین سے کشمیر تک میں ہیں اور شیخ الرئیس بوعلی سینا نے بھی اس نسخہ کو اپنے قانون میں لکھا ہے.چنانچہ میرے کتب خانہ میں شیخ بوعلی سینا کے قانون کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے جو پانسو ۵۰۰ برس کا لکھا ہوا ہے اس میں بھی یہ نسخہ مع وجہ تسمیہ موجود ہے.ان تمام کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرہم عیسی اس وقت تیار کی گئی تھی کہ جب نالائق یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلیب پر چڑھا دیا تھا اور اُن کے پیر وں اور ہاتھوں میں لوہے کے کیل ٹھونک دیئے تھے لیکن خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ ان کو صلیبی موت سے بچاوے.اس لئے خدائے عز وجل نے اپنے فضل و کرم سے ایسے اسباب جمع کر دیئے جن کی وجہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی جان بچ گئی.منجملہ ان کے ایک یہ سبب تھا کہ آنجناب جمعہ کو قریب عصر کے صلیب پر چڑھائے گئے اور صلیب پر چڑھانے سے پہلے اُسی رات پیلاطوس کی بیوی نے جو اس ملک کا بادشاہ تھا ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر یہ شخص جو یسوع کہلاتا ہے قتل کیا گیا تو تم پر تباہی آئے گی.اُس نے یہ خواب اپنے خاوند یعنی پیلاطوس کو بتلایا اور چونکہ دنیا دار لوگ اکثر وہمی اور بُز دل ہوتے ہیں.اس لئے پیلاطوس خاوند اُس کا اس خواب کوسُن کر بہت ہی گھبرایا اور اندر ہی اندر اس فکر میں لگ گیا کہ کسی طرح یسوع کو قتل سے بچا لیا جائے.سو اس دلی منصوبہ کے انجام کے لئے پہلا داؤ جو اُس نے یہودیوں کے ساتھ کھیلا وہ یہی تھا کہ یہ تدبیر کی کہ یسوع کو جمعہ کے روز عصر کے وقت صلیب دی جائے.اور اُسے معلوم تھا کہ یہودی صرف اسے صلیب دینا چاہتے ہیں کسی اور طریق سے قتل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہودیوں کے مذہب کے رُو سے جس شخص کو صلیب کے ذریعہ قتل کیا جائے خدا کی لعنت اُس پر پڑ جاتی ہے اور پھر خدا کی طرف اُس کا رفع نہیں ہوتا.اور بعد اس کے یہ امر ممکن ہی نہیں ہوتا کہ خدا اس سے محبت کرے اور یا وہ خدا کی نظر میں ایمانداروں اور راستبازوں میں شمار کیا جائے.لہذا یہودیوں کی یہ خواہش تھی کہ یسوع کو صلیب دے کر پھر توریت کے رو سے اس بات کا اعلان دے دیں کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو ہر گز مصلوب نہ ہو سکتا اور اس طرح پر مسیح کی جماعت کو متفرق کر دیں یا جو لوگ اندر ہی اندر کچھ نیک ظن رکھتے تھے اُن کی طبیعتوں کو خراب کر دیں.اور
امام الصلح 56 فلسطین سے کشمیر تک خدانخواستہ اگر واقعہ صلیب وقوع میں آ جاتا تو حضرت عیسی علیہ السلام پر یہ ایک ایسا داغ ہوتا کہ کسی طرح اُن کی نبوت درست نہ ٹھہر سکتی اور نہ وہ راستباز ٹھہر سکتے اس لئے خدا تعالیٰ کی حمایت نے وہ تمام اسباب جمع کر دئیے جن سے حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب ہونے سے بچ گئے.ان اسباب میں سے پہلا سبب یہی تھا کہ پیلاطوس کی بیوی کو خواب آیا اور اُس سے ڈر کر پیلاطوس نے یہ تدبیر سوچی کہ یسوع جمعہ کے دن عصر کے وقت صلیب دیا جائے.اس تدبیر میں پیلاطوس نے یہ سوچا تھا کہ غالبا اس قلیل مدت کی وجہ سے جو صرف جمعہ کے ایک دو گھنٹے ہیں یسوع کی جان بچ جائے گی کیونکہ یہ ناممکن تھا کہ جمعہ ختم ہونے کے بعد مسیح صلیب پر رہ سکتا.وجہ یہ کہ یہودیوں کی شریعت کے رُو سے یہ حرام تھا کہ کوئی شخص سبت میں یا سبت سے پہلی رات میں صلیب پر رہے اور صلیب دینے کا یہ طریق تھا که صرف مجرم کو صلیب کے ساتھ جوڑ کر اُس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اور تین دن تک وہ اسی حالت میں دھوپ میں پڑا رہتا تھا.اور آخر کئی اسباب جمع ہو کر یعنی درد اور دھوپ اور تین دن کا فاقہ اور پیاس سے مجرم مر جاتا تھا.مگر جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے جو شخص جمعہ میں صلیب پر کھینچا جاتا تھا وہ اُسی دن اُتار لیا جاتا تھا کیونکہ سبت کے دن صلیب پر رکھنا سخت گناہ اور موجب تاوان اور سزا تھا.سو یہ داؤ پیلاطوس کا چل گیا کہ یسوع جمعہ کی آخری گھڑی میں صلیب پر چڑھایا گیا.اور نہ صرف یہی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل نے چند اور اسباب بھی ایسے پیدا کر دیئے جو پیلاطوس کے اختیار میں نہ تھے اور وہ یہ کہ عصر کے تنگ وقت میں تو یہودیوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا اور ساتھ تو ہی ایک سخت آندھی آئی جس نے دن کو رات کے مشابہ کر دیا.اب یہودی ڈرے کہ شاید شام ہوگئی کیونکہ یہودیوں کو سبت کے دن یا سبت کی رات کسی کو صلیب پر رکھنے کی سخت ممانعت تھی اور یہودیوں کے مذہب کے رُو سے دن سے پہلے جو رات آتی ہے وہ آنے والے دن میں شمار کی جاتی ہے.اس لئے جمعہ کے بعد جو رات تھی وہ سبت کی رات تھی.لہذا یہودی آندھی کے پھیلنے کے وقت میں اس بات سے بہت گھبرائے کہ ایسا نہ ہو کہ سبت کی رات میں یہ شخص صلیب پر ہو.اس لئے جلدی سے انہوں نے اتار لیا اور دو چور جو
ایام الصلح 57 فلسطین سے کشمیر تک ساتھ صلیب دئیے گئے تھے اُن کی ہڈیاں توڑی گئیں لیکن مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں کیونکہ پیلاطوس کے سپاہیوں نے جن کو پوشیدہ طور پر سمجھایا گیا تھا کہ دیا کہ اب نبض نہیں ہے اور یسوع مر چکا ہے.مگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ راستباز کا قتل کرنا کچھ سہل امر نہیں اس لئے اس وقت نہ صرف پیلاطوس کے سپاہی یسوع کے بچانے کے لئے تدبیر میں کر رہے تھے بلکہ یہود بھی حواس باختہ تھے اور آثار قہر دیکھ کر یہودیوں کے دل بھی کانپ گئے تھے اور اُس وقت وہ پہلے زمانہ کے آسمانی عذاب جو ان پر آتے رہے اُن کی آنکھوں کے سامنے تھے.اس لئے کسی یہودی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ یہ کہے کہ ہم تو ضرور ہڈیاں توڑیں گے اور ہم باز نہیں آئیں گے کیونکہ اُس وقت رب السماوات والارض نہایت غضب میں تھا اور جلال الہی یہودیوں کے دلوں پر ایک رُعب ناک کام کر رہا تھا.لہذا انہوں نے جن کے باپ دادے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے غضب کا تجربہ کرتے آئے تھے جب سخت اور سیاہ آندھی اور عذاب کے آثار دیکھے اور آسمان پر سے خوفناک آثار نظر آئے تو وہ سراسیمہ ہو کر گھروں کی طرف بھاگے.اس بات پر یقین کرنے کے لئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے پہلی دلیل یہ ہے کہ وہ انجیل میں یونس نبی سے اپنی مشابہت بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یونس کی طرح میں بھی قبر میں تین دن رہوں گا جیسا کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں رہا تھا.اب یہ مشابہت جو نبی کے منہ سے نکلی ہے قابل غور ہے.کیونکہ اگر حضرت مسیح مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں رکھے گئے تھے تو پھر مر دہ اور زندہ کی کس طرح مشابہت ہو سکتی ہے؟ کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں مرارہا تھا؟ سو یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ ہرگز مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ وہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوئے.پھر دوسری دلیل یہ ہے کہ پیلاطوس کی بیوی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ اگر یہ شخص مارا گیا تو اس میں تمہاری تباہی ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر حقیقت میں عیسیٰ علیہ السلام صلیب دیے جاتے یعنی صلیبی موت سے مر جاتے تو ضرور تھا کہ جو فرشتہ نے پیلاطوس کی بیوی کو کہا تھا وہ وعید پورا ہوتا.حالانکہ تاریخ سے ظاہر ہے کہ پیلاطوس پر کوئی تباہی نہیں آئی.تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے
ايام الصلح 58 فلسطین سے کشمیر تک لئے تمام رات دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الہی تمام رات رو رو کر دعامانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو.چوتھی دلیل یہ ہے کہ صلیب پر پھر مسیح نے اپنے بچنے کے لئے یہ دُعا کی.ایلـی ایـلـی لـما سبقتانی“ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب کیونکر ممکن ہے کہ جب کہ اس حد تک اُن کی گدازش اور سوزش پہنچ گئی تھی پھر خدا اُن پر رحم نہ کرتا.پانچویں دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ رکھے گئے اور شاید اس سے بھی کم اور پھر ا تارے گئے اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ اس تھوڑے عرصہ اور تھوڑی تکلیف میں اُن کی جان نکل گئی ہو اور یہود کو بھی پختہ نظن سے اس بات کا دھڑ کا تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا.چنانچہ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہود قتل مسیح کے بارے میں ظن میں رہے اور یقینی طور پر انہوں نے نہیں سمجھا کہ در حقیقت ہم نے قتل کر دیا.چھٹی دلیل یہ ہے کہ جب یسوع کے پہلو میں ایک خفیف سا چھید دیا گیا تو اُس میں سے خون نکلا اور خون بہتا ہوا نظر آیا اور ممکن نہیں کہ مُردہ میں خون بہتا ہوا نظر آئے.ساتویں دلیل یہ ہے کہ یسوع کی ہڈیاں توڑی نہ گئیں جو مصلوبوں کے مارنے کے لئے ایک ضروری فعل تھا.کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ تین دن صلیب پر رکھ کر پھر بھی بعض آدمی زندہ رہ جاتے تھے پھر کیونکر ایسا شخص جو صرف چند منٹ صلیب پر رہا اور ہڈیاں نہ توڑی گئیں وہ مر گیا؟ آٹھویں دلیل یہ ہے کہ انجیل سے ثابت ہے کہ یسوع صلیب سے نجات پا کر پھر اپنے حواریوں کو ملا اور اُن کو اپنے زخم دکھلائے اور ممکن نہیں کہ یہ زخم اُس حالت میں موجود رہ سکتے کہ جب کہ یسوع مرنے کے بعد ایک تازہ اور نیا جلالی جسم پاتا.نویں دلیل حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر یہی نسخہ مرہم عیسی ہے.کیونکہ ہرگز خیال نہیں ہوسکتا کہ مسلمان طبیبوں اور عیسائی ڈاکٹروں اور رومی مجوسی اور یہودی طبیبوں نے باہم سازش کر کے یہ بے بنیاد قصہ بنالیا ہو.بلکہ یہ نسخہ طبابت کی صدہا کتابوں میں لکھا ہوا اب تک موجود ہے.ایک ادنیٰ استعداد کا آدمی بھی قرابا دین قادری میں اس نسخہ کو امراض الجلد میں لکھا ہوا پائے گا.یہ بات ظاہر ہے کہ مذہبی رنگ کی تحریروں میں کئی قسم کی
ایام الصلح 59 فلسطین سے کشمیر تک کمی زیادتی ممکن ہے کیونکہ تعصبات کی اکثر آمیزش ہو جاتی ہے.لیکن جو کتا بیں علمی رنگ میں لکھی گئیں ان میں نہایت تحقیق اور تدقیق سے کام لیا جاتا ہے.لہذا یہ نسخہ مرہم عیسی اصل حقیقت کے دریافت کرنے کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ذریعہ ہے.اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ خیالات کہ گویا حضرت عیسی آسمان پر چلے گئے تھے کیسے اور رکس پایہ کے ہیں.اور خود ظاہر ہے کہ حضرت عیسی کے جسم کو آسمان پر اُٹھانے کے لئے کوئی بھی ضرورت نہیں تھی.خدا تعالیٰ حکیم ہے عبث کام کبھی نہیں کرتا.جبکہ اس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غار ثور میں صرف دو تین میل کے فاصلے پر مکہ سے چھپا دیا اور سب ڈھونڈنے والے نا کام اور نامراد واپس کئے تو کیا وہ حضرت مسیح کو کسی پہاڑ کی غار میں چھپا نہیں سکتا تھا اور بجز دوسرے آسمان پر پہنچانے کے یہودیوں کی ہمت اور تلاش پر اس کو دل میں کھڑ کا تھا ؟ ایام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 347 تا 353) غرض حضرت عیسی کی نسبت کوئی خصوصیت قرار دینا قرآنی تعلیم کے مخالف اور عیسائیوں کی تائید ہے اور جیسا کہ نصوص قطعیہ کے رُو سے حضرت عیسی کی وفات ثابت ہوتی ہے ایسا ہی تاریخی سلسلہ کے رُو سے بھی اُن کا مرنا بپایہ ثبوت پہنچتا ہے.دیکھو نسخہ مرہم عیسی جس کا ذکر میں مفصل لکھ چکا ہوں.کیسی صفائی سے ظاہر کر رہا ہے کہ حضرت عیسی واقعہ صلیب کے وقت آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے.بلکہ زخمی ہو کر ایک مکان میں پوشیدہ پڑے رہے اور چالیس دن تک اُن کی مرہم پٹی ہوتی رہی کیا یہ تمام دنیا کے طبیب اسلامی اور عیسائی اور مجوسی اور روسی اور یہودی جھوٹے ہیں اور تم سچے ہو؟ اب سوچو تمہارا یہ عقیدہ آسمان پر اٹھائے جانے کا کہاں گیا یہ نہ ایک نہ دو بلکہ ہزار کتاب متفرق فرقوں کی ہے جو واقعات صحیحہ کی گواہی دے کر جھوٹے منصوبوں کی قلعی کھول رہی ہیں.یہ کس اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے ذرا خدا سے ڈر کر سوچو.پھر یہ بھی آثار میں لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم نبی سیاح تھا بلکہ وہی ایک نبی تھا جس نے دنیا کی سیاحت کی.لیکن اگر یہ عقیدہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب -
60 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں واقعہ پر جو باتفاق علماء نصاری و یہود واہل اسلام ان کی تینتیس ۳۳ برس کی عمر میں وقوع میں آیا تھا وہ آسمان کی طرف اٹھائے گئے تھے تو وہ کونسا زمانہ ہوگا جس میں انہوں نے سیاحت کی تھی آپ لوگ اس قدر اپنے علم کی پردہ دری کیوں کراتے ہیں اگر تقویٰ ہے تو کیوں حق کو قبول نہیں کرتے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 391 تا392) مسیح ہندوستان میں (1899 ء) دیباچہ اس کتاب کو میں اس مراد سے لکھتا ہوں کہ تا واقعات صحیحہ اور نہایت کامل اور ثابت شده تاریخی شہادتوں اور غیر قوموں کی قدیم تحریروں سے اُن غلط اور خطر ناک خیالات کو دور کروں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثر فرقوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پہلی اور آخری زندگی کی نسبت پھیلے ہوئے ہیں.یعنی وہ خیالات جن کے خوفناک نتیجے نہ صرف تو حید باری تعالیٰ کے رہزن اور غارت گر ہیں بلکہ اس ملک کے مسلمانوں کی اخلاقی حالت پر بھی ان کا نہایت بد اور زہریلہ اثر متواتر مشاہدہ میں آ رہا ہے اور ایسی بے اصل کہانیوں اور قصوں پر اعتقاد رکھنے سے بداخلاقی اور بداندیشی اور سخت دلی اور بے مہری کی رُوحانی بیماریاں اکثر اسلامی فرقوں میں پھیلتی جاتی ہیں اور ان کی صفت انسانی ہمدردی اور رحم اور انصاف اور انکسار اور تواضع کی پاک صفات اس قدر روز بروز کم ہوتی جاتی ہیں کہ گویا وہ اب جلد تر الوداع کہنے کو تیار ہیں.اس سخت دلی اور بداخلاقی کی وجہ سے بہتیرے مسلمان ایسے دیکھے جاتے ہیں کہ ان میں اور درندوں میں شاید کچھ تھوڑا ہی سا فرق ہوگا.اور ایک جین مت کا انسان اور یا بدھ مذہب کا ایک پابند ایک مچھر یا پتو کے مارنے سے بھی پر ہیز کرتا اور ڈرتا ہے.مگر افسوس کہ ہم مسلمانوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ وہ ایک ناحق کا خون کرنے اور ایک بے گناہ انسان کی جان ضائع کرنے کے وقت بھی اُس قادر خدا کے مواخذہ سے نہیں ڈرتے جس نے زمین کے تمام جانوروں کی نسبت انسان کی جان کو بہت زیادہ قابل قدر قرار دیا ہے.اس قد رسخت دلی اور بے رحمی اور بے مہری کا کیا سبب ہے؟
61 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں یہی سبب ہے کہ بچپن سے ایسی کہانیاں اور قصے اور بے جا طور پر جہاد کے مسئلے ان کے کانوں میں ڈالے جاتے اور اُن کے دل میں بٹھائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ ان کی اخلاقی حالت مردہ ہو جاتی ہے اور ان کے دل ان نفرتی کاموں کی بدی کو محسوس نہیں کر سکتے.بلکہ جو شخص ایک غافل انسان کو قتل کر کے اس کے اہل وعیال کو تباہی میں ڈالتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ گویا اُس نے بڑا ہی ثواب کا کام بلکہ قوم میں ایک فخر پیدا کرنے کا موقعہ حاصل کیا ہے.اور چونکہ ہمارے اس ملک میں اس قسم کی بدیوں کے روکنے کے لئے وعظ نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو نفاق سے.اس لئے عوام الناس کے خیالات کثرت سے ان فتنہ انگیز باتوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں چنانچہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اپنی قوم کے حال پر رحم کر کے اردو اور فارسی اور عربی میں ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں یہ ظاہر کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کا مسئلہ اور کسی خونی امام کے آنے کے انتظار کا مسئلہ اور دوسری قوموں سے بغض رکھنے کا مسئلہ یہ سب بعض کو نہ اندیش علماء کی غلطیاں ہیں ورنہ اسلام میں بجز دفاعی طور کی جنگ یا ان جنگوں کے سوا جو بغرض سزائے ظالم یا آزادی قائم کرنے کی نیت سے ہوں اور کسی صورت میں دین کے لئے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں اور دفاعی طور کی جنگ سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جن کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ مخالفوں کے بلوہ سے اندیشہ جان ہو یہ تین قسم کے شرعی جہاد ہیں بجز ان تین صورتوں کی جنگ کے اور کوئی صورت جو دین کے پھیلانے کیلئے ہو اسلام میں جائز نہیں.غرض اس مضمون کی کتابیں میں نے بہت سا روپیہ خرچ کر کے اس ملک اور نیز عرب اور شام اور خراسان وغیرہ ممالک میں تقسیم کی ہیں لیکن اب مجھے خدائے تعالیٰ کے فضل سے ایسے باطل اور بے اصل عقائد کو دلوں میں سے نکالنے کے لئے وہ دلائل قومیہ اور کھلے کھلے ثبوت اور قرائن یقینیہ اور تاریخی شہادتیں ملی ہیں جن کی سچائی کی کرنیں مجھے بشارت دے رہی ہیں کہ عنقریب اُن کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں ان عقائد کے مخالف ایک تعجب انگیز تبدیلی پیدا ہونے والی ہے اور نہایت یقین سے امید کی جاتی ہے کہ ان سچائیوں کے سمجھنے کے بعد اسلام کے سعادت مند فرزندوں کے دلوں میں سے علم اور انکسار اور رحم دلی کے خوشنما اور شیریں چشمے جاری ہوں گے اور اُن کی رُوحانی
62 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں تبدیلی ہوکر ملک پر ایک نہایت نیک اور بابرکت اثر پڑے گا.ایسا ہی مجھے یقین ہے کہ عیسائی مذہب کے محقق اور دوسرے تمام سچائی کے بھوکے اور پیاسے بھی اس میری کتاب سے فائدہ اٹھائیں گے.اور یہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ اس کتاب کا اصل مدعا مسلمانوں اور عیسائیوں کی اُس غلطی کی اصلاح ہے جو ان کے بعض اعتقادات میں دخل پاگئی ہے یہ بیان کسی قدر تفصیل کا محتاج ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.واضح ہو کہ اکثر مسلمانوں اور عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں.اور یہ دونوں فرقے ایک مدت سے یہی گمان کرتے چلے آئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور کسی وقت آخری زمانہ میں پھر زمین پر نازل ہوں گے.اور ان دونوں فریق یعنی اہلِ اسلام اور مسیحیوں کے بیان میں فرق صرف اتنا ہے کہ عیسائی تو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان دی اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گئے اور اپنے باپ کے دائیں ہاتھ جا بیٹھے اور پھر آخری زمانہ میں دنیا کی عدالت کے لئے زمین پر آئیں گے اور کہتے ہیں کہ دنیا کا خدا اور خالق اور مالک وہی یسوع مسیح ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں.وہی ہے جو دنیا کے اخیر میں سزا جزا دینے کے لئے جلالی طور پر نازل ہو گا تب ہر ایک آدمی جس نے اس کو یا اس کی ماں کو بھی خدا کر کے نہیں مانا پکڑا جائے گا اور جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا.مگر مسلمانوں کے مذکورہ بالا فرقے کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ صلیب پر مرے بلکہ اس وقت جبکہ یہودیوں نے ان کو مصلوب کرنے کے لئے گرفتار کیا خدا کا فرشتہ ان کو مع جسم عنصری آسمان پر لے گیا اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مقام ان کا دوسرا آسمان ہے جہاں حضرت یحی نبی یعنی یوھتا ہیں.اور نیز مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام خدا کا بزرگ نبی ہے مگر نہ خدا ہے اور نہ خدا کا بیٹا اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے منارہ کے قریب یا کسی اور جگہ اتریں گے اور امام محمد مہدی کے ساتھ مل کر جو پہلے سے بنی فاطمہ میں سے دنیا میں آیا ہوا ہو گا دنیا کی تمام غیر قوموں کو قتل کر
مسیح ہندوستان میں 63 فلسطین سے کشمیر تک ڈالیں گے اور بجز ایسے شخص کے جو بلا توقف مسلمان ہو جائے اور کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.غرض مسلمانوں کا وہ فرقہ جو اپنے تئیں اہلِ سنت یا اہلِ حدیث کہتے ہیں جن کو عوام وہابی کے نام سے پکارتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ زمین پر نازل ہونے سے اصل مقصد یہ قرار دیتے ہیں کہ تا وہ ہندوؤں کے مہادیو کی طرح تمام دنیا کو فنا کر ڈالیں.اول یہ ھمکی دیں کہ مسلمان ہو جائیں اور اگر پھر بھی لوگ کفر پر قائم رہیں تو سب کو تہ تیغ کر دیں.اور کہتے ہیں کہ اسی غرض سے وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ رکھے گئے ہیں کہ تا ایسے زمانہ میں جبکہ اسلامی سلاطین کی طاقتیں کمزور ہو جائیں آسمان سے اتر کر غیر قوموں کو ماریں اور جبر سے مسلمان کریں یا بصورت انکار قتل کر دیں.بالخصوص عیسائیوں کی نسبت بڑے زور سے فرقہ مذکورہ کے عالم یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تو وہ دنیا کی تمام صلیبیوں کو توڑ دیں گے اور تلوار کے ساتھ سخت بے رحمی کی کارروائیاں کریں گے اور دنیا کو خون میں غرق کر دیں گے.اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے یہ لوگ یعنی مسلمانوں میں سے اہلِ حدیث وغیرہ بڑے جوش سے یہ اعتقاد ظاہر کرتے ہیں کہ مسیح کے اترنے سے کچھ عرصہ پہلے بنی فاطمہ میں سے ایک امام پیدا ہوگا جس کا نام محمد مہدی ہوگا اور دراصل خلیفہ وقت اور بادشاہ وہی ہوگا کیونکہ وہ قریش میں سے ہوگا.اور چونکہ اصل غرض اس کی یہ ہوگی کہ تمام غیر قوموں کو جو اسلام سے منکر ہیں قتل کر دیا جائے بجز ایسے شخص کے کہ جو جلدی سے کلمہ پڑھ لے اس لئے اُس کی مدد اور ہاتھ بٹانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور گو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بجائے خود ایک مہدی ہیں بلکہ بڑے مہدی وہی ہیں لیکن اس سبب سے کہ خلیفہ وقت قریش میں سے ہونا چاہئیے اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام خلیفہ وقت نہیں ہوں گے بلکہ خلیفہ وقت وہی محمد مہدی ہوگا.اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر زمین کوانسانوں کے خون سے بھر دیں گے اور اس قدر خونریزی کریں گے جس کی نظیر ابتداء دنیا سے اخیر تک کسی جگہ نہیں پائی جائے گی اور آتے ہی خونریزی ہی شروع کر دیں گے اور کوئی وعظ وغیرہ نہیں کریں گے اور نہ کوئی نشان دکھائیں گے اور کہتے ہیں کہ اگر چہ حضرت عیسی علیہ السلام
مسیح ہندوستان میں 64 فلسطین سے کشمیر تک امام محمد مہدی کے لئے بطور مشیر یا وزیر کے ہوں گے اور عنان حکومت صرف مہدی کے ہاتھ میں ہوگی لیکن حضرت مسیح تمام دنیا کے قتل کرنے کے لئے حضرت امام محمد مہدی کو ہر وقت اکسائیں گے.اور تیز مشورے دیتے رہیں گے.گویا اُس اخلاقی زمانہ کی کسر نکالیں گے جبکہ آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ کسی شر کا مقابلہ مت کرو اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دو.یہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت عقیدے ہیں اور اگر چہ عیسائیوں کی یہ ایک بڑی غلطی ہے کہ وہ ایک عاجز انسان کو خدا کہتے ہیں لیکن بعض اہلِ اسلام جن میں سے اہلِ حدیث کا وہ فرقہ بھی ہے جن کو وہابی بھی کہتے ہیں ان کے یہ عقائد کہ جو خونی مہدی اور خونی مسیح موعود کی نسبت ان کے دلوں میں ہیں ان کی اخلاقی حالتوں پر نہایت بداثر ڈال رہے ہیں.یہاں تک کہ وہ اس بداثر کی وجہ سے نہ کسی دوسری قوم سے نیک نیتی اور صلح کاری اور دیانت کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ کسی دوسری گورنمنٹ کے نیچے سچی اور کامل اطاعت اور وفاداری سے بسر کر سکتے ہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا عقیدہ سخت اعتراض کی جگہ ہے کہ غیر قوموں پر اس قدر جبر کیا جائے کہ یا تو بلا توقف مسلمان ہو جائیں اور یاقتل کئے جائیں.اور ہر ایک کانشنس بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قبل اس کے کہ کوئی شخص کسی دین کی سچائی کو سمجھ لے اور اس کی نیک تعلیم اور خوبیوں سے مطلع ہو جائے یونہی جبر اور کراہ اور قتل کی دھمکی سے اس کو اپنے دین میں داخل کرنا سخت نا پسندیدہ طریقہ ہے اور ایسے طریقہ سے دین کی ترقی تو کیا ہوگی بلکہ برعکس اس کے ہر ایک مخالف کو اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے.اور ایسے اصولوں کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ نوع انسان کی ہمدردی بکلی دل سے اٹھ جائے اور رحم اور انصاف جو انسانیت کا ایک بھاری خلق ہے ناپدید ہو جائے اور بجائے اُس کے کینہ اور بداندیشی بڑھتی جائے اور صرف درندگی باقی رہ جائے اور اخلاق فاضلہ کا نام ونشان نہ رہے.مگر ظاہر ہے کہ ایسے اصول اس خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتے جس کا ہر ایک مواخذہ اتمام حجت کے بعد ہے.سوچنا چاہئیے کہ اگر مثلاً ایک شخص ایک بچے مذہب کو اس وجہ سے قبول نہیں کرتا کہ وہ
مسیح ہندوستان میں 65 فلسطین سے کشمیر تک اس کی سچائی اور اس کی پاک تعلیم اور اس کی خوبیوں سے ہنوز ناواقف اور بے خبر ہے تو کیا ایسے شخص کے ساتھ یہ برتاؤ مناسب ہے کہ بلا توقف اس کو قتل کر دیا جائے بلکہ ایسا شخص قابلِ رحم ہے اور اس لائق ہے کہ نرمی اور خلق سے اُس مذہب کی سچائی اور خوبی اور روحانی منفعت اُس پر ظاہر کی جائے نہ یہ کہ اس کے انکار کا تلوار یا بندوق سے جواب دیا جائے.لہذا اس زمانہ کے ان اسلامی فرقوں کا مسئلہ جہاد اور پھر اس کے ساتھ یہ تعلیم کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک خونی مہدی پیدا ہوگا جس کا نام امام محمد ہوگا اور مسیح اس کی مدد کے لئے آسمان سے اترے گا اور وہ دونوں مل کر دنیا کی تمام غیر قوموں کو اسلام کے انکار پر قتل کر دیں گے.نہایت درجہ اخلاقی مسئلہ کے مخالف ہے.کیا یہ وہ عقیدہ نہیں ہے کہ جوانسانیت کے تمام پاک قومی کو معطل کرتا اور درندوں کی طرح جذبات پیدا کر دیتا ہے اور ایسے عقائد والوں کو ہر ایک قوم سے منافقانہ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے یہاں تک کہ غیر قوم کے حکام کے ساتھ بھی کچی اطاعت کے ساتھ پیش آنا محال ہو جاتا ہے بلکہ دروغ گوئی کے ذریعہ سے ایک جھوٹی اطاعت کا اظہار کیا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس ملک برٹش انڈیا میں اہلِ حدیث کے بعض فرقے جن کی طرف ہم ابھی اشارہ کر آئے ہیں گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت دو رویہ طرز کی زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی پوشیدہ طور پر عوام کو وہی ☆ خونریزی کے زمانہ کی امیدیں دیتے ہیں اور خونی مہدی اور خونی مسیح کے انتظار میں ہیں اور اسی کے مطابق مسئلے سکھاتے ہیں اور پھر جب حکام کے سامنے جاتے ہیں تو ان کی خوشامد میں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسے عقیدوں کے مخالف ہیں.لیکن اگر سچ سچ مخالف ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریرات کے ذریعہ سے اس کی عام اشاعت نہیں کرتے اور کیا وجہ کہ وہ آنے والے خونی مہدی اور مسیح کی ایسے طور سے انتظار کر رہے ہیں کہ گویا اہلِ حدیث میں سے بعض بڑی گستاخی اور نہ حق شناسی سے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ عنقریب مہدی پیدا ہونے والا ہے اور وہ ہندوستان کے بادشاہ انگریزوں کو اپنا اسیر بنائے گا اور اس وقت عیسائی بادشاہ گرفتار ہوکر اس کے سامنے پیش کیا جائے گا.یہ کتابیں اب تک ان اہلِ حدیث کے گھروں میں موجود ہیں.منجملہ ان کے کتاب اقتراب الساعۃ ایک بڑے مشہور اہلِ حدیث کی تصنیف ہے جس کے صفحہ ۶۴ میں یہی قصہ لکھا ہے.منہ
مسیح ہندوستان میں 66 فلسطین سے کشمیر تک اس کے ساتھ شامل ہونے کے لئے دروازے پر کھڑے ہیں.غرض ایسے اعتقادات سے اس قسم کے مولویوں کی اخلاقی حالت میں بہت کچھ تنزل پیدا ہو گیا ہے اور وہ اس لائق نہیں رہے کہ نرمی اور صلح کاری کی تعلیم دے سکیں بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو خواہ نخواہ قتل کرنا دینداری کا ایک بڑا فرض سمجھا گیا ہے.ہم اس سے بہت خوش ہیں کہ کوئی فرقہ اہلِ حدیث میں سے ان غلط عقیدوں کا مخالف ہو.لیکن ہم اس بات کو افسوس کے ساتھ بیان کرنے سے رک نہیں سکتے کہ اہل حدیث کے فرقوں میں سے وہ چھپے وہابی بھی ہیں جو خونی مہدی اور جہاد کے مسائل کو مانتے ہیں اور طریق صحیح کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں اور کسی موقع کے وقت میں دوسرے مذاہب کے تمام لوگوں کو قتل کر دینا بڑے ثواب کا طریق خیال کرتے ہیں.حالانکہ یہ عقائد یعنی اسلام کے لئے قتل یا ایسی پیشگوئیوں پر عقیدہ رکھنا کہ گویا کوئی خونی مہدی یا خونی مسیح دنیا میں آئے گا اور خونریزی اور خونریزی کی دھمکیوں سے اسلام کو ترقی دینا چاہے گا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے بالکل مخالف ہیں.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں اور پھر بعد اس کے بھی کفار کے ہاتھ سے دکھ اٹھایا اور بالخصوص مکہ کے تیرہ برس اس مصیبت اور طرح طرح کے ظلم اٹھانے میں گذرے کہ جس کے تصور سے بھی رونا آتا ہے لیکن آپ نے اس وقت تک دشمنوں کے مقابل پر تلوار نہ اٹھائی اور نہ ان کے سخت کلمات کا سخت جواب دیا جب تک کہ بہت سے صحابہ اور آپ کے عزیز دوست بڑی بے رحمی سے قتل کئے گئے اور طرح طرح سے آپ کو بھی جسمانی دکھ دیا گیا اور کئی دفعہ زہر بھی دی گئی.اور کئی قسم کی تجویز میں قتل کرنے کی کی گئیں جن میں مخالفوں کو ناکامی رہی جب خدا کے انتقام کا وقت آیا تو ایسا ہوا کہ مکہ کے تمام رئیسوں اور قوم کے سر بر آوردہ لوگوں نے اتفاق کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہر حال اس شخص کو قتل کر دینا چاہیئے.اس وقت خدا نے جو اپنے پیاروں اور صدیقوں اور راستبازوں کا حامی ہوتا ہے آپ کو خبر دے دی کہ اس شہر میں اب بجز بدی کے کچھ نہیں اور قتل پر کمر بستہ ہیں یہاں سے جلد بھاگ جاؤ تب آپ بحکم الہی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.مگر پھر بھی مخالفوں نے پیچھا نہ چھوڑا بلکہ تعاقب کیا.اور بہر حال اسلام کو پامال کرنا چاہا.جب اس حد تک ان لوگوں کی شورہ پشتی
مسیح ہندوستان میں 67 فلسطین سے کشمیر تک بڑھ گئی اور کئی بے گناہوں کے قتل کرنے کے جرم نے بھی ان کو سزا کے لائق بنایا تب ان کے ساتھ لڑنے کے لئے بطور مدافعت اور حفاظت خود اختیاری اجازت دی گئی اور نیز وہ لوگ بہت سے بے گناہ مقتولوں کے عوض میں جن کو انہوں نے بغیر کسی معرکہ جنگ کے محض شرارت سے قتل کیا تھا اور ان کے مالوں پر قبضہ کیا تھا اس لائق ہو گئے تھے کہ اسی طرح ان کے ساتھ اور ان کے معاونوں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا.مگر مکہ کی فتح کے وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو بخش دیا لہذا یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کبھی دین پھیلانے کے لئے لڑائی کی تھی یا کسی کو برا اسلام میں داخل کیا تھا سخت غلطی اور ظلم ہے.یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ اس زمانہ میں ہر ایک قوم کا اسلام کے ساتھ تعصب بڑھا ہوا تھا اور مخالف لوگ اس کو ایک فرقہ جدیدہ اور جماعت قلیلہ سمجھ کر اس کے نیست و نابود کرنے کی تدبیروں میں لگے ہوئے تھے اور ہر ایک اس فکر میں تھا کہ کسی طرح یہ لوگ جلد نابود ہو جا ئیں اور یا ایسے منتشر ہوں کہ ان کی ترقی کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے اس وجہ سے بات بات میں ان کی طرف سے مزاحمت تھی اور ہر ایک قوم میں سے جو شخص مسلمان ہو جا تا تھا وہ قوم کے ہاتھ سے یا تو فی الفور مارا جاتا اور یا اس کی زندگی سخت خطرہ میں رہتی تھی تو ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے نومسلم لوگوں پر رحم کر کے ایسی متعصب طاقتوں پر یہ تعزیر لگا دی تھی کہ وہ اسلام کے خراج دہ ہو جائیں اور اس طرح اسلام کے لئے آزادی کے دروازے کھول دیں اور اس سے مطلب یہ تھا کہ تا ایمان لانے والوں کی راہ سے روکیں دور ہو جائیں اور یہ دنیا پر خدا کا رحم تھا اور اس میں کسی کا حرج نہ تھا.مگر ظاہر ہے کہ اس وقت کے غیر قوم کے بادشاہ اسلام کی مذہبی آزادی کو نہیں روکتے ، اسلامی فرائض کو بند نہیں کرتے اور اپنی قوم کے مسلمان ہونے والوں کو قتل نہیں کرتے ، ان کو قید خانوں میں نہیں ڈالتے ان کو طرح طرح کے دکھ نہیں دیتے تو پھر کیوں اسلام ان کے مقابل پر تلوار اٹھاوے.اور یہ ظاہر ہے کہ اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا.اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان
مسیح ہندوستان میں 68 فلسطین سے کشمیر تک کے لئے ممکن ہے تدبر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبڑا پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں کی حقیقت پر مطلع ہو جائیں گے.کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ * یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں.کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو.ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزرگئی اور دین اسلام کے مٹا دینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں.ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی.اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر بچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے.لیکن ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان سے صدق اور وفاداری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے.اس وفا دار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی و فاداری اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آسکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منور نہ ہو.غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں.اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں (۱) دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری.(۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون.(۳) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان البقرہ: 257
مسیح ہندوستان میں 69 فلسطین سے کشمیر تک ہونے پر قتل کرتے تھے.پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے.کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے.یہ بات ایسی نہ تھی کہ سمجھ نہ آسکتی یا اس کے سمجھنے میں کچھ مشکلات ہوتیں.لیکن نادان لوگوں کو نفسانی طمع نے اس عقیدہ کی طرف جھکایا ہے کیونکہ ہمارے اکثر مولویوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ مہدی کی لڑائیوں کے ذریعہ سے بہت سا مال ان کو ملے گا یہاں تک کہ وہ سنبھال نہیں سکیں گے اور چونکہ آج کل اس ملک کے اکثر مولوی بہت تنگ دست ہیں اس وجہ سے بھی وہ ایسے مہدی کے دن رات منتظر ہیں کہ تا شاید اسی ذریعہ سے ان کی نفسانی حاجتیں پوری ہوں لہذا جو شخص ایسے مہدی کے آنے سے انکار کرے یہ لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اس کو فی الفور کا فرٹھہرایا جاتا اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے.چنانچہ میں بھی انہی وجوہ سے ان لوگوں کی نظر میں کافر ہوں کیونکہ ایسے خونی مہدی اور خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں ہوں بلکہ ان بیہودہ عقیدوں کو سخت کراہت اور نفرت سے دیکھتا ہوں اور میرے کافر کہنے کی صرف یہی وجہ نہیں کہ میں نے ایسے فرضی مہدی اور فرضی مسیح کے آنے سے انکار کر دیا ہے جس پر ان کا اعتقاد ہے بلکہ ایک یہ بھی وجہ ہے کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے الہام پا کر اس بات کا عام طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ حقیقی اور واقعی مسیح موعود جو وہی درحقیقت مہدی بھی ہے جس کے آنے کی بشارت انجیل اور قرآن میں پائی جاتی ہے اور احادیث میں بھی اس کے آنے کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ میں ہی ہوں مگر بغیر تلواروں اور بندوقوں کے.اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ نرمی اور آہستگی اور حلم اور غربت کے ساتھ اس خدا کی طرف لوگوں کو توجہ دلاؤں جو سچا خدا اور قدیم اور غیر متغیر ہے اور کامل تقدس اور کامل علم اور کامل رحم اور کامل انصاف رکھتا ہے.اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں.جوشخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں.مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو بچے خدا کی طرف رہبری
مسیح ہندوستان میں 70 فلسطین سے کشمیر تک کروں.اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں.اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدائے تعالیٰ کی پاک کتابوں کی رو سے صادق کی شناخت کے لئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں اور پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں اس لئے ان روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چاہتیں اور تاریکی سے خوش ہیں.مگر میں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے نوع انسان کی ہمدردی کروں.سو اس زمانہ میں عیسائیوں کے ساتھ بڑی ہمدردی یہ ہے کہ ان کو اس سچے خدا کی طرف توجہ دی جائے جو پیدا ہونے اور مرنے اور درد دکھ وغیرہ نقصانوں سے پاک ہے.وہ خدا جس نے تمام ابتدائی اجسام و اجرام کو کروی شکل پر پیدا کر کے اپنے قانون قدرت میں یہ ہدایت منقوش کی کہ اس کی ذات میں کرویت کی طرح وحدت اور یک جہتی ہے اس لئے بسیط چیزوں میں سے کوئی چیز سہ گوشہ پیدا نہیں کی گئی یعنی جو کچھ خدا کے ہاتھ سے پہلے پہلے نکلا جیسے زمین ، آسمان، سورج، چاند اور تمام ستارے اور عناصر وہ سب کر دی ہیں جن کی کرویت توحید کی طرف اشارہ کر رہی ہے.سو عیسائیوں سے سچی ہمدردی اور سچی محبت اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں کہ اس خدا کی طرف ان کو رہبری کی جائے جس کے ہاتھ کی چیزیں اس کو تثلیث سے پاک ٹھہراتی ہیں.اور مسلمانوں کے ساتھ بڑی ہمدردی یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالتوں کو درست کیا جائے اور ان کی ان جھوٹی امیدوں کو کہ ایک خونی مہدی اور مسیح کا ظاہر ہونا اپنے دلوں میں جمائے بیٹھے ہیں جو اسلامی ہدایتوں کی سراسر مخالف ہیں زائل کیا جائے.اور میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ حال کے بعض علماء کے یہ خیالات کہ مہدی خونی آئے گا اور تلوار سے اسلام کو پھیلائے گا یہ تمام خیالات قرآنی تعلیم کے مخالف اور صرف نفسانی آرزوئیں ہیں اور ایک نیک اور حق پسند مسلمان کے لئے ان خیالات سے باز آجانے کے لئے صرف اسی قدر کافی ہے کہ قرآنی ہدایتوں کو غور سے پڑھے اور ذرہ ٹھہر کر اور فکر اور سوچ سے کام لے کر نظر کرے کہ کیونکر خدائے تعالیٰ کا پاک کلام اس بات کا مخالف ہے کہ کسی کو دین میں داخل کرنے کے لئے قتل کی دھمکی دی جائے.غرض یہی ایک دلیل ایسے عقیدوں کے باطل
مسیح ہندوستان میں 71 فلسطین سے کشمیر تک ثابت کرنے کے لئے کافی ہے لیکن تاہم میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ تاریخی واقعات وغیرہ روشن ثبوتوں سے بھی مذکورہ بالا عقائد کا باطل ہونا ثابت کروں.سو میں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئیے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر پا کر سرینگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سرینگر محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے.اور میں نے صفائی بیان کے لئے اس تحقیق کو دس ۱۰ باب اور ایک خاتمہ پر منقسم کیا ہے.(۱) اول وہ شہادتیں جو اس بارے میں انجیل سے ہم کوملی ہیں.(۲) دوم وہ شہادتیں جو اس بارے میں قرآن شریف اور حدیث سے ہم کو ملی ہیں.(۳) سوم وہ شہادتیں جو طبابت کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں.(۴) چہارم وہ شہادتیں جو تاریخی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں.(۵) پنجم وہ شہادتیں جو زبانی تو اترات سے ہم کو ملی ہیں.(1) ششم وہ شہادتیں جو قرائن متفرقہ سے ہم کو ملی ہیں.(۷) ہفتم وہ شہادتیں جو معقولی دلائل سے ہم کو ملی ہیں.(۸) ہشتم وہ شہادتیں جو خدا کے تازہ الہام سے ہم کو ملی ہیں.یہ آٹھ ۸ باب ہیں.(۹) نویں باب میں برعایت اختصار عیسائی مذہب اور اسلام کا تعلیم کی رو سے مقابلہ کر کے دکھلایا جائے گا اور اسلامی مذہب کے سچائی کے دلائل بیان کئے جائیں گے.(۱۰) دسویں باب میں کچھ زیادہ تفصیل ان امور کی کی جائے گی جن کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے.اور یہ بیان ہوگا کہ میرے مسیح موعود اور منجانب اللہ ہونے کا ثبوت کیا ہے.اور اخیر پر ایک خاتمہ کتاب کا ہو گا جس میں بعض ضروری ہدا یتیں درج ہوں گی.ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور یونہی بدظنی سے ان سچائیوں کو ہاتھ سے پھینک نہ دیں اور یاد رکھیں کہ ہماری یہ تحقیق سرسری نہیں ہے بلکہ یہ ثبوت نہایت تحقیق اور تفتیش سے بہم پہنچایا گیا ہے.اور ہم خدائے تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کام میں ہماری مدد کرے اور اپنے خاص الہام اور القا سے سچائی کی پوری روشنی ہمیں عطا فرمادے کہ ہر ایک صحیح علم اور صاف معرفت اسی سے اترتی اور اسی کی توفیق سے دلوں کی رہنمائی کرتی ہے.آمین ثم آمین.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 3 تا 15 دیباچہ)
مسیح ہندوستان میں 72 فلسطین سے کشمیر تک پہلا باب جاننا چاہئیے کہ اگر چہ عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام یہودا اسکر یوطی کی شرارت سے گرفتار ہوکر مصلوب ہو گئے اور پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے.لیکن انجیل شریف پر غور کرنے سے یہ اعتقاد سراسر باطل ثابت ہوتا ہے.متی باب ۱۲ آیت ۴۰ میں لکھا ہے کہ جیسا کہ یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.اب ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا.اور اگر زیادہ سے زیادہ کچھ ہوا تھا تو صرف بیہوشی اور غشی تھی.اور خدا کی پاک کتا بیں یہ گواہی دیتی ہیں که یونس خدا کے فضل سے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور زندہ نکلا.اور آخر قوم نے اس کو قبول کیا.پھر اگر حضرت مسیح علیہ السلام مچھلی * کے پیٹ میں مر گئے تھے تو مردہ کو زندہ سے کیا مشابہت اور زندہ کو مردہ سے کیا مناسبت؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح ایک نبی صادق تھا اور جانتا تھا کہ وہ خدا جس کا وہ پیارا تھا لعنتی موت سے اس کو بچائے گا.اس لئے اس نے خدا سے الہام پا کر پیشگوئی کے طور پر یہ مثال بیان کی تھی اور اس مثال میں جتلا دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہ مرے گا اور نہ لعنت کی لکڑی پر اس کی جان نکلے گی بلکہ یونس نبی کی طرح صرف غشی کی حالت ہوگی.اور مسیح نے اس مثال میں یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ وہ زمین کے پیٹ سے نکل کر پھر قوم سے ملے گا اور یونس کی طرح قوم میں عزت پائے گا.سو یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی.کیونکہ مسیح زمین کے پیٹ میں سے نکل کر اپنی ان قوموں کی طرف گیا جو کشمیر اور تبت وغیرہ مشرقی ممالک میں سکونت رکھتی تھیں یعنی بنی اسرائیل کے وہ دس ۱۰ فرقے جن کو شالمنذرشاہ اسور سامریہ سے مسیح سے سات سوا کیس ۷۲۱ برس پیشتر اسیر کر کے لے گیا آخر وہ ہندوستان کی طرف آکر اس ملک کے متفرق مقامات میں سکونت پذیر ہوگئے تھے.اور ضرور تھا کہ مسیح اس سفر کو اختیار کرتا.کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے لے.اور ان کے سوا اور یہودی بھی بابلی حوادث سے مشرقی بلا د کی طرف جلاوطن ہوئے.منہ ہ کا تب کی غلطی سے پہلے ایڈیشن میں مچھلی لکھا گیا.اصل میں زمین ہے.
مسیح ہندوستان میں 73 فلسطین سے کشمیر تک یہی اس کی نبوت کی علت غائی تھی کہ وہ ان گمشدہ یہودیوں کو مانتا جو ہندوستان کے مختلف مقامات میں سکونت پذیر ہو گئے تھے وجہ یہ کہ در حقیقت وہی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں جنہوں نے ان ملکوں میں آکر اپنے باپ دادے کا مذہب بھی ترک کر دیا تھا اور اکثر ان کے بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے.اور پھر رفتہ رفتہ بت پرستی تک نوبت پہنچی تھی.چنانچہ ڈاکٹر بر نیر نے بھی اپنی کتاب وقائع سیر وسیاحت میں کئی اہل علم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ کشمیر کے باشندے دراصل یہودی ہیں کہ جو تفرقہ شاہ اسور کے ایام میں اس ملک میں آگئے تھے.بہر حال حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کرتے جو اس ملک ہند میں آکر دوسری قوموں میں مخلوط ہوگئی تھیں.چنانچہ آگے چل کر ہم اس بات کا ثبوت دیں گے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فی الواقع اس ملک ہند میں آئے اور پھر منزل بمنزل کشمیر میں پہنچے.اور اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کا بدھ مذہب میں پتہ لگایا.اور انہوں نے آخر اس کو اسی طرح قبول کیا جیسا کہ یونس کی قوم نے یونس کو قبول کر لیا تھا.اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ مسیح انجیل میں اپنی زبان سے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہے.ماسوا اس کے صلیب کی موت سے نجات پانا اس کو اس لئے بھی ضروری تھا کہ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ جو کوئی کا ٹھ پر لٹکایا گیا سولعنتی ہے.اور لعنت کا ایک ایسا مفہوم ہے کہ جو عیسی میسیج جیسے برگزیدہ پر ایک دم کے لئے بھی تجویز کرنا سخت ظلم اور نا انصافی ہے.کیونکہ باتفاق تمام اہل زبان لعنت کا مفہوم دل سے تعلق رکھتا ہے.اور اس حالت میں کسی کو ملعون کہا جائے گا جب کہ حقیقت میں اس کا دل خدا سے برگشتہ ہو کر سیاہ ہو جائے اور خدا کی رحمت سے بے نصیب اور خدا کی محبت سے بے بہرہ اور خدا کی معرفت سے بکلی تہی دست اور خالی اور شیطان کی طرح اندھا اور بے بہرہ ہو کر گمراہی کے زہر سے بھرا ہوا ہواور خدا کی محبت اور معرفت کا نور ایک ذرہ اس میں باقی نہ رہے اور تمام تعلق مہر و وفا کا ٹوٹ جائے اور اس میں اور خدا میں باہم بغض اور نفرت اور کراہت اور عداوت پیدا ہو جائے.یہاں دیکھو جلد دوم واقعات سیروسیاحت ڈاکٹر بر نیر فرانسیسی
☆ 74 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک تک کہ خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے.غرض ہر ایک صفت میں شیطان کا وارث ہو جائے اور اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے.اب ظاہر ہے کہ ملعون کا مفہوم ایسا پلیدا اور نا پاک ہے کہ کسی طرح کسی راستباز پر جو کہ اپنے دل میں خدا کی محبت رکھتا ہے صادق نہیں آ سکتا.افسوس کہ عیسائیوں نے اس اعتقاد کے ایجاد کرنے کے وقت لعنت کے مفہوم پر غور نہیں کی ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ لوگ ایسا خراب لفظ مسیح جیسے راستباز کی نسبت استعمال کر سکتے.کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح پر بھی ایسا زمانہ آیا تھا کہ اس کا دل در حقیقت خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا سے بیزار اور خدا کا دشمن ہو گیا تھا ؟ کیا ہم گمان کر سکتے ہیں کہ مسیح کے دل نے کبھی یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اب خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اور کفر اور انکار کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے؟ پھر اگر مسیح کے دل پر کبھی ایسی حالت نہیں آئی بلکہ وہ ہمیشہ محبت اور معرفت کے نور سے بھرا رہا تو اے دانشمندو! یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیونکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح کے دل پر نہ ایک لعنت بلکہ ہزاروں خدا کی لعنتیں اپنی کیفیت کے ساتھ نازل ہوئی تھیں.معاذ اللہ ہرگز نہیں.تو پھر ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ وہ لعنتی ہوا؟ نہایت افسوس ہے کہ انسان جب ایک بات منہ سے نکال لیتا ہے یا ایک عقیدہ پر قائم ہو جاتا ہے تو پھر گو کیسی ہی خرابی اس عقیدہ کی کھل جائے کسی طرح اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا.نجات حاصل کرنے کی تمنا اگر کسی حقیقت حقہ پر بنیاد رکھتی ہوتو قابل تعریف امر ہے لیکن یہ کیسی نجات کی خواہش ہے جس سے ایک سچائی کا خون کیا جاتا اور ایک پاک نبی اور کامل انسان کی نسبت یہ اعتقاد کیا جاتا ہے کہ گویا اس پر یہ حالت بھی آئی تھی کہ اس کا خدائے تعالیٰ سے رشتہ تعلق ٹوٹ گیا تھا.اور بجائے یک دلی اور یک جہتی کے مغائرت اور مبائت اور عداوت اور بیزاری پیدا ہوگئی تھی اور بجائے نور کے دل پر تاریکی چھا گئی تھی.یہ بھی یادر ہے کہ ایسا خیال صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی شانِ نبوت اور مرتبہ رسالت کے ہی مخالف نہیں بلکہ ان کے اس دعوی کمال اور پاکیزگی اور محبت اور معرفت کے بھی ہلو دیکھو کتب لغت.لسان العرب صحاح جو ہری، قاموس ،محیط ،تاج العروس وغیرہ.منہ
مسیح ہندوستان میں 75 فلسطین سے کشمیر تک مخالف ہے جو انہوں نے جابجا انجیل میں ظاہر کیا ہے.انجیل کو پڑھ کر دیکھو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاف دعوی کرتے ہیں کہ میں جہان کا نور ہوں.میں ہادی ہوں.اور میں خدا سے اعلیٰ درجہ کی محبت کا تعلق رکھتا ہوں.اور میں نے اُس سے پاک پیدائش پائی ہے اور میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں.پھر باوجود ان غیر منفک اور پاک تعلقات کے لعنت کا ناپاک مفہوم کیونکر مسیح کے دل پر صادق آ سکتا ہے.ہر گز نہیں پس بلا شبہ یہ بات ثابت ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا یعنی صلیب پر نہیں مرا کیونکہ اس کی ذات صلیب کے نتیجہ سے پاک ہے.اور جبکہ مصلوب نہیں ہوا تو لعنت کی ناپاک کیفیت سے بیشک اس کے دل کو بچایا گیا.اور بلاشبہ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ وہ آسمان پر ہر گز نہیں گیا کیونکہ آسمان پر جانا اس منصوبہ کی ایک جز تھی اور مصلوب ہونے کی ایک فرع تھی.پس جبکہ ثابت ہوا کہ وہ نہ لعنتی ہوا اور نہ تین دن کے لئے دوزخ میں گیا اور نہ مرا تو پھر یہ دوسری جز آسمان پر جانے کی بھی باطل ثابت ہوئی اور اس پر اور بھی دلائل ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ قول ہے جو مسیح کے منہ سے نکلا لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے آگے جلیل کو جاؤں گا دیکھو متی باب ۲۶ آیت ۳۲.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح قبر سے نکلنے کے بعد جلیل کی طرف گیا تھا نہ آسمان کی طرف.اور مسیح کا یہ کلمہ کہ اپنے جی اٹھنے کے بعد اس سے مرنے کے بعد جینا مراد نہیں ہوسکتا.بلکہ چونکہ یہودیوں اور عام لوگوں کی نظر میں وہ صلیب پر مر چکا تھا اس لئے مسیح نے پہلے سے اُن کے آئندہ خیالات کے موافق یہ کلمہ استعمال کیا.اور در حقیقت جس شخص کو صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھو کے گئے یہاں تک کہ وہ اس تکلیف سے غشی میں ہوکر مردہ کی سی حالت میں ہو گیا.اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پا کر پھر ہوش کی حالت میں آ جائے تو اس کا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ میں پھر زندہ ہو گیا اور بلا شبہ اس صدمہ عظیمہ کے بعد مسیح کا بچ جانا ایک معجزہ تھا معمولی بات نہیں تھی.لیکن یہ درست نہیں ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ مسیح کی جان نکل گئی تھی.سچ ہے کہ انجیلوں میں ایسے لفظ موجود ہیں لیکن یہ اسی قسم کی انجیل نویسوں کی غلطی ہے جیسا کہ اور بہت سے تاریخی واقعات کے لکھنے میں انہوں
مسیح ہندوستان میں 76 فلسطین سے کشمیر تک نے غلطی کھائی ہے.انجیلوں کے محقق شارحوں نے اس بات کو مان لیا ہے کہ انجیلوں میں دو حصے ہیں (۱) ایک دینی تعلیم ہے جو حواریوں کو حضرت مسیح علیہ السلام سے ملی تھی جو اصل روح انجیل کا ہے.(۲) اور دوسرے تاریخی واقعات ہیں جیسے حضرت عیسی کا شجرہ نسب اور ان کا پکڑا جانا اور مارا جانا اور مسیح کے وقت میں ایک معجزہ نما تالاب کا ہونا وغیرہ یہ وہ امور ہیں جو لکھنے والوں نے اپنی طرف سے لکھے تھے.سو یہ باتیں الہامی نہیں ہیں بلکہ لکھنے والوں نے اپنے خیال کے موافق لکھی ہیں اور بعض جگہ مبالغہ بھی حد سے زیادہ کیا ہے.جیسا کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ جس قد ر مسیح نے کام کئے یعنی معجزات دکھلائے اگر وہ کتابوں میں لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سمانہ سکتیں.یہ کس قدر مبالغہ ہے.ماسوا اس کے ایسے بڑے صدمہ کو جو مسیح پر وارد ہوا تھا موت کے ساتھ تعبیر کرنا خلاف محاورہ نہیں ہے.ہر ایک قوم میں قریباً یہ محاورہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص ایک مہلک صدمہ میں مبتلا ہوکر پھر آخریچ جائے اس کو کہا جاتا ہے کہ نئے سرے زندہ ہوا اور کسی قوم اور ملک کے محاورہ میں ایسی بول چال میں کچھ بھی تکلف نہیں.ان سب امور کے بعد ایک اور بات ملحوظ رکھنے کے لائق ہے کہ برنباس کی انجیل میں جو امور بعد غالباً لندن کے کتب خانہ میں بھی ہوگی یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا اور نہ صلیب پر جان دی.اب ہم اس جگہ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گو یہ کتاب انجیلوں میں داخل نہیں کی گئی اور بغیر کسی فیصلہ کے رڈ کر دی گئی ہے مگر اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک پرانی کتاب ہے اور اسی زمانہ کی ہے جب کہ دوسری انجیلیں لکھی گئیں.کیا ہمیں اختیار نہیں ہے کہ اس پرانی اور دیرینہ کتاب کو عہد قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھاویں؟ اور کیا کم سے کم اس کتاب کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مسیح علیہ السلام کے صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے.پھر ماسوا اس کے جب کہ خودان چار انجیلوں میں ایسے استعارات موجود ہیں کہ ایک مردہ کو کہ دیا ہے کہ یہ سوتا ہے مرا نہیں تو اس حالت میں اگر غشی کی حالت میں مردہ کا لفظ بولا گیا تو کیا یہ بعید ہے.ہم لکھ چکے ہیں کہ نبی کے کلام میں
مسیح ہندوستان میں 77 فلسطین سے کشمیر تک جھوٹ جائز نہیں.مسیح نے اپنی قبر میں رہنے کے تین دن کو یونس کے تین دنوں سے مشابہت دی ہے.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ یونس تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ایسا ہی مسیح بھی تین دن قبر میں زندہ رہا اور یہودیوں میں اس وقت کی قبریں اس زمانہ کی قبروں کے مشابہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک کو ٹھے کی طرح اندر سے بہت فراخ ہوتی تھیں اور ایک طرف کھڑ کی ہوتی تھی جس کو ایک بڑے پتھر سے ڈھانکا ہوا ہوتا تھا.اور عنقریب ہم اپنے موقعہ پر ثابت کریں گے کہ عیسی علیہ السلام کی قبر جو حال میں سری نگر کشمیر میں ثابت ہوئی ہے وہ بعینہ اسی طرز کی قبر ہے جیسا کہ یہ قبر تھی جس میں حضرت مسیح غشی کی حالت میں رکھے گئے.غرض یہ آیت جس کو ابھی ہم نے لکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا.اور مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے نکل کر جلیل کی سڑک پر جاتا ہوا دکھائی دیا اور آخر ان گیاراں حواریوں کو ملا جب کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں جو زخمی تھے دکھائے اور انہوں نے گمان کیا کہ شاید یہ روح ہے.تب اس نے کہا کہ مجھے چھوؤ اور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور ان سے ایک بھوئی ہوئی مچھلی کا ٹکڑا اور شہر کا ایک چھتا لیا اور ان کے سامنے کھایا.دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۱۴.اور لوقا باب ۲۴ آیت ۳۹ اور ۴۰ اور ۴۱ اور ۴۲.ان آیات سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ہر گز آسمان پر نہیں گیا بلکہ قبر سے نکل کر جلیل کی طرف گیا اور معمولی جسم اور معمولی کپڑوں میں انسانوں کی طرح تھا.اگر وہ مر کر زندہ ہوتا تو کیونکر ممکن تھا کہ جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے اور اس کو روٹی کھانے کی کیا حاجت تھی اور اگر تھی تو پھر اب بھی روٹی کھانے کا محتاج ہوگا.ناظرین کو اس دھو کے میں نہیں پڑنا چاہئیے کہ یہودیوں کی صلیب اس زمانہ کی پھانسی کی طرح ہوگی جس سے نجات پانا قریباً محال ہے کیونکہ اس زمانہ کی صلیب میں کوئی رسا گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ تختہ پر سے گرا کر لٹکایا جاتا تھا بلکہ صرف صلیب پر کھینچ کر ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اور یہ بات ممکن ہوتی تھی کہ اگر صلیب پر کھینچنے اور
مسیح ہندوستان میں 78 فلسطین سے کشمیر تک کیل ٹھونکنے کے بعد ایک دو دن تک کسی کی جان بخشی کا ارادہ ہو تو اسی قدر عذاب پر کفایت کر کے ہڈیاں توڑنے سے پہلے اس کو زندہ اتارلیا جائے.اور اگر مارنا ہی منظور ہوتا تھا تو کم سے کم تین دن تک صلیب پر کھنچا ہوا ر ہنے دیتے تھے اور پانی اور روٹی نزدیک نہ آنے دیتے تھے اور اسی طرح دھوپ میں تین دن یا اس سے زیادہ چھوڑ دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے تھے اور پھر آخر ان تمام عذابوں کے بعد وہ مرجاتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس درجہ کے عذاب سے بچا لیا جس سے زندگی کا خاتمہ ہو جاتا.انجیلوں کو ذرہ غور کی نظر سے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ تین دن تک صلیب پر رہے اور نہ تین دن کی بھوک اور پیاس اٹھائی اور نہ ان کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ قریباً دو گھنٹہ تک صلیب پر رہے اور خدا کے رحم اور فضل نے ان کے لئے یہ تقریب قائم کر دی کہ دن کے اخیر حصے میں صلیب دینے کی تجویز ہوئی اور وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف تھوڑا سا دن باقی تھا اور اگلے دن سبت اور یہودیوں کی عید فسح تھی اور یہودیوں کے لئے یہ حرام اور قابل سزا جرم تھا کہ کسی کو سبت یا سبت کی رات میں صلیب پر رہنے دیں اور مسلمانوں کی طرح یہودی بھی قمری حساب رکھتے تھے اور رات دن پر مقدم سمجھی جاتی تھی.پس ایک طرف تو یہ تقریب تھی کہ جو زمینی اسباب سے پیدا ہوئی.اور دوسری طرف آسمانی اسباب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیدا ہوئے کہ جب چھٹا گھنٹہ ہوا تو ایک ایسی آندھی آئی کہ جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اندھیرا تین گھنٹے برابر رہا.دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۳۳.یہ چھٹا گھنٹہ بارہ بجے کے بعد تھا.یعنی وہ وقت جو شام کے قریب ہوتا ہے.اب یہودیوں کو اس مدت اندھیرے میں یہ فکر پڑی که مبادا سبت کی رات آ جائے اور وہ سبت کے مجرم ہوکر تاوان کے لائق ٹھہر ہیں.اس لئے انہوں نے جلدی سے میسیج کو اور اس کے ساتھ کے دو چوروں کو بھی صلیب پر سے اتار لیا.اور اس کے ساتھ ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پلاطوس کچہری کی مسند پر بیٹھا تھا اس کی جورو نے اسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ (یعنی اس کے قتل کرنے کے لئے سعی نہ کر) کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اس کے سبب سے بہت
مسیح ہندوستان میں 79 فلسطین سے کشمیر تک تکلیف پائی دیکھو متی باب ۲۷ آیت ۱۹.سو یہ فرشتہ جو خواب میں پلاطس کی جورو کو دکھایا گیا.اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ سمجھے گا کہ خدا کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاوے.جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی آج تک یہ کبھی نہ ہوا کہ جس شخص کے بچانے کے لئے خدائے تعالیٰ رویا میں کسی کو ترغیب دے کہ ایسا کرنا چاہئیے تو وہ بات خطا جائے.مثلاً انجیل متی میں لکھا ہے کہ خداوند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کے کہا اٹھ اس لڑکے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ جا اور وہاں جب تک میں تجھے خبر نہ دوں ٹھہرارہ کیونکہ ہیرو دوس اس لڑکے کو ڈھونڈے گا کہ مار ڈالئے“.دیکھو انجیل متی باب ۲ آیت ۱۳.اب کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یسوع کا مصر میں پہنچ کر مارا جانا ممکن تھا اسی طرح خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک تدبیر تھی کہ پلاطوس کی جور وکو مسیح کے لئے خواب آئی.اور ممکن نہ تھا کہ یہ تدبیر خط جاتی اور جس طرح مصر کے قصہ میں مسیح کے مارے جانے کا اندیشہ ایک ایسا خیال ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک مقرر شدہ وعدہ کے برخلاف ہے.اسی طرح اس جگہ بھی یہ خلاف قیاس بات ہے کہ خدائے تعالیٰ کا فرشتہ پلاطوس کی جورو کو نظر آوے اور وہ اس ہدایت کی طرف اشارہ کرے کہ اگر مسیح صلیب پر فوت ہو گیا تو یہ تمہارے لئے اچھا نہ ہوگا تو پھر اس غرض سے فرشتہ کا ظاہر ہونا بے سود جاوے اور مسیح صلیب پر مارا جائے کیا اس کی دنیا میں کوئی نظیر ہے؟ ہرگز نہیں.ہر ایک نیک دل انسان کا پاک کانشنس جب پلاطوس کی بیوی کے خواب پر اطلاع پائے گا تو بیشک وہ اپنے اندر اس شہادت کو محسوس کرے گا کہ در حقیقت اس خواب کا منشاء یہی تھا کہ مسیح کے چھڑانے کی ایک بنیاد ڈالی جائے.یوں تو دنیا میں ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنے عقیدہ کے تعصب سے ایک کھلی کھلی سچائی کو ر ڈ کر دے اور قبول نہ کرے.لیکن انصاف کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ پلاطوس کی بیوی کی خواب مسیح کے صلیب سے بچنے پر ایک بڑے وزن کی شہادت ہے.اور سب سے اول درجہ کی انجیل یعنی متی نے اس شہادت کو قلمبند کیا ہے.اگر چہ ایسی شہادتوں سے جو میں بڑے زور سے اس کتاب میں لکھوں گا مسیح کی خدائی اور مسئلہ کفارہ یک لخت باطل ہوتا ہے لیکن ایمانداری اور حق پسندی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہونا.
مسیح ہندوستان میں 80 فلسطین سے کشمیر تک چاہئیے کہ ہم سچائی کے قبول کرنے میں قوم اور برادری اور عقائد رسمیہ کی کچھ پرواہ نہ کریں.جب سے انسان پیدا ہوا ہے آج تک اس کی کو تہ اندیشیوں نے ہزاروں چیزوں کو خدا بنا ڈالا ہے.یہاں تک کہ بلیوں اور سانپوں کو بھی پوجا گیا ہے.لیکن پھر بھی عظمند لوگ خدا دا د توفیق سے اس قسم کے مشرکانہ عقیدوں سے نجات پاتے آئے ہیں.اور منجملہ اُن شہادتوں کے جو انجیل سے ہمیں مسیح ابن مریم کی صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر ملتی ہیں اس کا وہ سفر دور دراز ہے جو قبر سے نکل کر جلیل کی طرف اس نے کیا.چنانچہ اتوار کی صبح کو پہلے وہ مریم مگر لینی کو ملا.مریم نے فی الفور حواریوں کو بر کی کہ میسج تو جیتا ہے لیکن وہ یقین نہ لائے پھر وہ حواریوں میں سے دو کو جبکہ وہ دیہات کی طرف جاتے تھے دکھائی دیا آخر وہ گیارہوں کو جبکہ وہ کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور ان کی بے ایمانی اور سخت دلی پر ملامت کی.دیکھو انجیل مرقس باب ۱۶ آیت ۹ سے آیت ۱۴ تک.اور جب مسیح کے حواری سفر کرتے ہوئے اس بستی کی طرف جارہے تھے جس کا نام املوس * ہے جو یروشلم سے پونے چارکوس کے فاصلے پر ہے تب مسیح ان کو ملا.اور جب وہ اس بستی کے نزدیک پہنچے تو صحیح نے آگے بڑھ کر چاہا کہ ان سے الگ ہو جائے.تب انہوں نے اس کو جانے سے روک لیا کہ آج رات ہم اکٹھے رہیں گے اور اس نے ان کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھائی اور وہ سب مع مسیح کے املوس و نام ایک گاؤں میں رات رہے.دیکھولوقا باب ۲۴ آیت ۱۳ سے ۳۱ تک.اب ظاہر ہے کہ ایک جلالی جسم کے ساتھ جو موت کے بعد خیال کیا گیا ہے مسیح سے فانی جسم کے عادات صادر ہونا اور کھانا اور پینا اور سونا اور جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کرنا جو یروشلم سے قریباً سترہ سے کوس کے فاصلے پر تھا بالکل غیر ممکن اور نامعقول بات ہے.اور باوجود اس کے کہ خیالات کے میلان کی وجہ سے انجیلوں کے ان قصوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا ہے تاہم جس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں ان سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اُسی فانی اور معمولی جسم سے اپنے حواریوں کو ملا اور پیادہ پاجلیل کی طرف ایک لمبا سفر کیا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھلائے اور رات ان کے پاس روٹی کھائی اور سویا.اور آگے چل کر ہم ثابت کریں گے کہ اس نے اپنے زخموں کا ایک مرہم کے استعمال سے علاج کیا.ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے درست اما ؤس ہے.
مسیح ہندوستان میں 81 فلسطین سے کشمیر تک اب یہ مقام ایک سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایک جلالی اور ابدی جسم پانے کے بعد یعنی اس غیر فانی جسم کے بعد جو اس لائق تھا کہ کھانے پینے سے پاک ہوکر ہمیشہ خدائے تعالیٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھے اور ہر ایک داغ اور درد اور نقصان سے منزہ ہو اور ازلی ابدی خدا کے جلال کا اپنے اندر رنگ رکھتا ہوا بھی اس میں یہ نقص باقی رہ گیا کہ اس پر صلیب اور کیلوں کے تازہ زخم موجود تھے جن سے خون بہتا تھا اور درد اور تکلیف ان کے ساتھ تھی جن کے واسطے ایک مرہم بھی طیار کی گئی تھی.اور جلالی اور غیر فانی جسم کے بعد بھی جوابد تک سلامت اور بے عیب اور کامل اور غیر متغیر چاہئیے تھا کئی قسم کے نقصانوں سے بھرا رہا اور خود مسیح نے حواریوں کو اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلا ئیں اور پھر اسی پر کفایت نہیں بلکہ اس فانی جسم کے لوازم میں سے بھوک اور پیاس کی دردبھی موجود تھی ورنہ اس لغو حرکت کی کیا ضرورت تھی کہ مسیح جلیل کے سفر میں کھانا کھاتا اور پانی پیتا اور آرام کرتا اور سوتا.اس میں کیا شک ہے کہ اس عالم میں جسم فانی کے لئے بھوک اور پیاس بھی ایک درد ہے جس کے حد سے زیادہ ہونے سے انسان مرسکتا ہے.پس بلا شبہ یہ بات سچ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور نہ کوئی نیا جلالی جسم پایا بلکہ ایک غشی کی حالت ہوگئی تھی جو مرنے سے مشابہ تھی.اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہوا کہ جس قبر میں وہ رکھا گیا وہ اس ملک کی قبروں کی طرح نہ تھی بلکہ ایک ہوا دار کوٹھہ تھا جس میں ایک کھڑکی تھی اور اس زمانہ میں یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ قبر کو ایک ہوادار اور کشادہ کوٹھہ کی طرح بناتے تھے اور اس میں ایک کھڑ کی رکھتے تھے اور ایسی قبریں پہلے سے موجود رہتی تھیں اور پھر وقت پر میت اس میں رکھی جاتی تھی.چنانچہ یہ گواہی انجیلوں سے صاف طور پر ملتی ہے.انجیل لوقا میں یہ عبارت ہے اور وے یعنی عورتیں اتوار کے دن بڑے تڑکے یعنی کچھ اندھیرے سے ہی ان خوشبوؤں کو جو طیار کی تھیں لے کر قبر پر آئیں اور ان کے ساتھ کئی اور بھی عورتیں تھیں.اور انہوں نے پتھر کو قبر پر سے ڈھلکا ہوا پایا.(اس مقام میں ذرہ غور کرو ) اور اندر جا کے خداوند یسوع کی لاش نہ پائی“ دیکھو لوقا باب ۲۴.آیت ۲ و ۳.اب اندر جانے کے لفظ کو ذرہ سوچو.ظاہر ہے کہ اسی قبر کے اندر انسان جاسکتا ہے کہ جو ایک کو ٹھے کی طرح ہو اور اس میں کھڑ کی ہو.اور ہم اپنے محل پر
مسیح ہندوستان میں 82 فلسطین سے کشمیر تک اسی کتاب میں بیان کریں گے کہ حال میں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی قبرسری نگر کشمیر میں پائی گئی ہے وہ بھی اس قبر کی طرح کھڑکی دار ہے.اور یہ ایک بڑے راز کی بات ہے جس پر توجہ کرنے سے محققین کے دل ایک عظیم الشان نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کوملی ہیں پلاطس کا وہ قول ہے جو انجیل مرقس میں لکھا ہے.اور وہ یہ ہے.اور جبکہ شام ہوئی اس لئے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے پہلے ہوتا.یوسف ارتیا جو نامور مشیر اور وہ خود خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا آیا اور دلیری سے پلاطس پاس جا کے یسوع کی لاش مانگی اور پلاطس نے متعجب ہو کر شبہ کیا کہ وہ یعنی مسیح ایسا جلد مر گیا.دیکھو مرقس باب * ۱۶ آیت ۴۲ سے ۴۴ تک.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عین صلیب کی گھڑی میں ہی یسوع کے مرنے پر شبہ ہوا.اور شبہ بھی ایسے شخص نے کیا جس کو اس بات کا تجربہ تھا کہ اس قدر مدت میں صلیب پر جان نکلتی ہے.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کوملی ہیں انجیل کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.پھر یہودیوں نے اس لحاظ سے کہ لاشیں سبت کے دن صلیب پر نہ رہ جائیں کیونکہ وہ دن طیاری کا تھا.بلکہ بڑا ہی سبت تھا پلا طوس سے عرض کی کہ ان کی ٹانگیں توڑی اور لاشیں اتاری جائیں.تب سپاہیوں نے آ کر پہلے اور دوسرے کی ٹانگیں جو اس کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے تو ڑیں لیکن جب انہوں نے یسوع کی طرف آ کے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانمیں نہ توڑیں.پر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اس کی پہلی چھیدی اور فی الفور اس سے لہو اور پانی نکالا.دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ سے آیت ۳۴ تک.ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کسی مصلوب کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ دستور تھا کہ جو صلیب پر کھینچا گیا ہو اس کو کئی دن صلیب پر رکھتے تھے اور پھر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے لیکن مسیح کی ہڈیاں دانستہ نہیں توڑی گئیں اور وہ ضرور صلیب پر سے ان دو چوروں کی طرح زندہ اتارا گیا.اسی وجہ سے پسلی چھیدنے سے خون بھی نکلا.مردہ کا خون جم جاتا ہے.اور اس جگہ یہ بھی صریح معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر یہ کچھ سازش کی بات تھی.پلاطوس ایک خدا ترس اور نیک دل آدمی تھا.کھلی کھلی رعایت حمد ایڈیشن اول میں سہو ہے.درست باب 15 ہے.
83 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک سے قیصر سے ڈرتا تھا کیونکہ یہودی مسیح کو باغی ٹھہراتے تھے مگر وہ خوش قسمت تھا کہ اس نے مسیح کو دیکھا.لیکن قیصر نے اس نعمت کو نہ پایا.اس نے نہ صرف دیکھا بلکہ بہت رعایت کی اور اس کا ہرگز منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پاوے.چنانچہ انجیلوں کے دیکھنے سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ پلا طوس نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ مسیح کو چھوڑ دے.لیکن یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑ دیتا ہے تو تو قیصر کا خیر خواہ نہیں اور یہ کہا کہ یہ باغی ہے اور خود بادشاہ بننا چاہتا ہے.دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۲.اور پلاطوس کی بیوی کی خواب اور بھی اس بات کی محرک ہوئی تھی کہ کسی طرح مسیح کو مصلوب ہونے سے بچایا جائے ورنہ ان کی اپنی تباہی ہے.مگر چونکہ یہودی ایک شریر قوم تھی اور پلاطوس پر قیصر کے حضور میں مخبری کرنے کو بھی طیار تھے.اس لئے پلا طوس نے مسیح کے چھڑانے میں حکمت عملی سے کام لیا.اول تو مسیح کا مصلوب ہونا ایسے دن پر ڈال دیا کہ وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف چند گھنٹے دن سے باقی تھے.اور بڑے سبت کی رات قریب تھی اور پلاطوس خوب جانتا تھا کہ یہودی اپنی شریعت کے حکموں کے موافق صرف شام کے وقت تک ہی مسیح کو صلیب پر رکھ سکتے ہیں.اور پھر شام ہوتے ہی ان کا سبت ہے جس میں صلیب پر رکھنا روا نہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور مسیح شام سے پہلے صلیب پر سے اتارا گیا.اور یہ قریب قیاس نہیں کہ دونوں چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے وہ زندہ رہے.مگر مسیح صرف دوگھنٹہ تک مرگیا بلکہ یہ صرف ایک بہا نہ تھا جو مسیح کو ہڈیاں توڑنے سے بچانے کے لئے بنایا گیا تھا.سمجھ دار آدمی کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ دونوں چور صلیب پر سے زندہ اتارے گئے اور ہمیشہ معمول تھا کہ صلیب پر سے لوگ زندہ اتارے جاتے تھے اور صرف اس حالت میں مرتے تھے کہ ہڈیاں توڑی جائیں اور یا بھوک اور پیاس کی حالت میں چند روز صلیب پر رہ کر جان نکلتی تھی.مگر ان باتوں میں سے کوئی بات بھی مسیح کو پیش نہ آئی نہ وہ کئی دن صلیب پر بھوکا پیاسا رکھا گیا اور نہ اس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور یہ کہہ کر کہ مسیح مر چکا ہے یہودیوں کو اس کی طرف سے غافل کر دیا گیا.مگر چوروں کی ہڈیاں تو ڑ کر اسی وقت ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا.بات تو تب تھی کہ ان دونوں چوروں میں سے بھی کسی کی نسبت کہا جاتا کہ یہ مر چکا ہے اس کی
مسیح ہندوستان میں 84 فلسطین سے کشمیر تک ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں.اور یوسف نام پلا طوس کا ایک معزز دوست تھا جو اس نواح کا رئیس تھا اور مسیح کے پوشیدہ شاگردوں میں داخل تھا وہ عین وقت پر پہنچ گیا.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی پلا طوس کے اشارہ سے بلایا گیا تھا.مسیح کو ایک لاش قرار دے کر اس کے سپر د کر دیا گیا کیونکہ وہ ایک بڑا آدمی تھا اور یہودی اس کے ساتھ کچھ پر خاش نہیں کر سکتے تھے.جب وہ پہنچا تو مسیح کو جوششی میں تھا ایک لاش قرار دے کر اس نے لیا اور اسی جگہ ایک وسیع مکان تھا جو اس زمانہ کی رسم پر قبر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اس میں ایک کھڑ کی بھی تھی اور ایسے موقع پر تھا جو یہودیوں کے تعلق سے الگ تھا اسی جگہ پلاطوس کے اشارہ سے مسیح کو رکھا گیا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ حضرت موسیٰ کی وفات پر چودھویں صدی گذر رہی تھی اور اسرائیلی شریعت کے زندہ کرنے کے لئے مسیح چودھویں صدی کا مجد د تھا.اور اگر چہ یہودیوں کو اس چودھویں صدی میں مسیح موعود کا انتظار بھی تھا اور گذشتہ نبیوں کی پیشگوئیاں بھی اس وقت پر گواہی دیتی تھیں.لیکن افسوس کہ یہودیوں کے نالائق مولویوں نے اس وقت اور موسم کو شناخت نہ کیا اور مسیح موعود کو جھوٹا قرار دے دیا.نہ صرف یہی بلکہ اس کو کافر قرار دیا اس کا نام ملحد رکھا اور آخر اس کے قتل پر فتویٰ لکھا اور اس کو عدالت میں کھینچا.اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ خدا نے چودھویں صدی میں کچھ تاثیر ہی ایسی رکھی ہے جس میں قوم کے دل سخت اور مولوی دنیا پرست اور اندھے اور حق کے دشمن ہو جاتے ہیں.اس جگہ اگر موسیٰ کی چودھویں صدی اور موسیٰ کے مثیل کی چودھویں صدی کا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں باہم مقابلہ کیا جائے تو اول یہ نظر آئے گا کہ ان دونوں چودھویں صدیوں میں دو ایسے شخص ہیں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ دعوی سچا تھا اور خدا کی طرف سے تھا.پھر اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوگا کہ قوم کے علماء نے ان دونوں کو کا فر قرار دیا اور ان دونوں کا نام ملحد اور دجال رکھا اور ان دونوں کی نسبت قتل کے فتوے لکھے گئے اور دونوں کو عدالتوں کی طرف کھینچا گیا جن میں سے ایک رومی عدالت تھی اور دوسری انگریزی.آخر دونوں بچائے گئے اور دونوں قسم کے مولوی یہودی اور مسلمان ناکام رہے.اور خدا نے ارادہ کیا کہ دونوں مسیحوں کو ایک بڑی جماعت بناوے اور دونوں قسم
مسیح ہندوستان میں 85 فلسطین سے کشمیر تک کے دشمنوں کو نامراد ر کھے.غرض موسیٰ کی چودھویں صدی اور ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چودھویں صدی اپنے اپنے مسیحوں کے لئے سخت بھی ہیں اور انجام کار مبارک بھی.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے محفوظ رہنے کے بارے میں ہمیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب ۲۶ میں یعنی آیت ۳۶ سے آیت ۴۶ تک مرقوم ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار کئے جانے کا الہام پا کر تمام رات جناب الہی میں رو رو کر اور سجدے کرتے ہوئے دعا کرتے رہے.اور ضرور تھا کہ ایسی تضرع کی دعا جس کے لئے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بے قراری کے وقت کا سوال ہو ہرگز رد نہیں ہوتا.پھر کیوں مسیح کی ساری رات کی دعا اور دردمند دل کی دعا اور مظلومانہ حالت کی دعارڈ ہوگئی.حالانکہ مسیح دعوی کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سنتا ہے.پس کیونکر باور کیا جائے کہ خدا اس کی سننا تھا جبکہ ایسی بے قراری کی دعاسنی نہ گئی.اور انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دلی یقین تھا کہ اس کی وہ دعا ضرور قبول ہوگئی اور اس دعا پر اس کو بہت بھروسہ تھا.اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اس نے اپنی امید کے موافق نہ پایا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی “اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا.یعنی مجھے یہ امید ہر گز نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہو گا اور میں صلیب پر مروں گا.اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دعا سنے گا.پس ان دونوں مقامات انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کو خود دلی یقین تھا کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی اور میرا تمام رات کا رو رو کر دعا کرنا ضائع نہیں جائے گا اور خود اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اگر دعا کرو گے تو قبول کی جائے گی.بلکہ ایک مثال کے طور پر ایک قاضی کی کہانی بھی بیان کی تھی کہ جو نہ خلقت سے اور نہ خدا سے ڈرتا تھا.اور اس کہانی سے بھی مدعا یہ تھا کہ تا حواریوں کو یقین آ جائے کہ بے شک خدائے تعالیٰ دعا سنتا ہے.اور اگر چہ مسیح کو اپنے پر ایک بڑی مصیبت
86 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں کے آنے کا خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم تھا.مگر مسیح نے عارفوں کی طرح اس بنا پر دعا کی کہ خدائے تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور ہر ایک محو واثبات اس کے اختیار میں ہے.لہذا یہ واقعہ کہ نعوذ باللہ مسیح کی خود دعا قبول نہ ہوئی یہ ایک ایسا امر ہے جو شاگردوں پر نہایت بداثر پیدا کرنے والا تھا.سو کیونکر ممکن تھا کہ ایسا نمونہ جو ایمان کو ضائع کرنے والا تھا حواریوں کو دیا جاتا جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مسیح جیسے بزرگ نبی کی تمام رات کی پُر سوز دعا قبول نہ ہو سکی تو اس بد نمونہ سے ان کا ایمان ایک سخت امتحان میں پڑتا تھا.لہذا خدائے تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس دعا کو قبول کرتا یقیناً سمجھو کہ وہ دعا جو کلسمینی نام مقام میں کی گئی تھی ضرور قبول ہوگئی تھی.ایک اور بات اس جگہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ جیسا کہ مسیح کے قتل کے لئے مشورہ ہوا تھا اور اس غرض کے لئے قوم کے بزرگ اور معزز مولوی قیافا نامی سردار کا ہن کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے کہ کسی طرح مسیح کو قتل کر دیں یہی مشورہ حضرت موسیٰ کے قتل کرنے کے لئے ہوا تھا.اور یہی مشورہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے لئے مکہ میں دارالندوہ کے مقام میں ہوا تھا.مگر قادر خدا نے ان دونوں بزرگ نبیوں کو اس مشورہ کے بداثر سے بچالیا.اور مسیح کے لئے جو مشورہ ہوا ان دونوں مشوروں کے درمیان میں ہے.پھر کیا وجہ کہ وہ بچایا نہ گیا حالانکہ اس نے ان دونوں بزرگ نبیوں سے بہت زیادہ دعا کی.اور پھر جبکہ خدا اپنے پیارے بندوں کی ضرور سنتا ہے اور شریروں کے مشورہ کو باطل کر کے دکھاتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ مسیح کی دعا نہیں سنی گئی.ہر ایک صادق کا تجربہ ہے کہ بیقراری اور مظلومانہ حالت کی دعا قبول ہوتی ہے.بلکہ صادق کے لئے مصیبت کا وقت نشان ظاہر کرنے کا وقت ہوتا ہے چنانچہ میں خود اس میں صاحب تجر بہ ہوں.مجھے یاد ہے کہ دو برس کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھ پر ایک جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا ایک صاحب ڈاکٹر مارٹن کلارک عیسائی مقیم امرت سر پنجاب نے عدالت ضلع گورداسپورہ میں دائر کیا اور یہ استغاثہ پیش کیا کہ گویا میں نے ایک شخص عبد الحمید نامی کو بھیج کر ڈا کٹر مذکور کوقتل کرنا چاہا تھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ اس مقدمہ میں تینوں قوم کے چند منصوبہ باز آدمی یعنی عیسائی اور ہندو اور مسلمان
مسیح ہندوستان میں 87 فلسطین سے کشمیر تکہ میرے مخالف متفق ہو گئے اور جہاں تک ان سے ہوسکتا تھا یہ کوشش کی کہ مجھ پر اقدام قتل کا الزام ثابت ہو جائے.عیسائی پادری مجھ سے اس وجہ سے ناراض تھے کہ میں اس کوشش میں تھا اور اب بھی ہوں کہ مسیح کی نسبت جو ان کا غلط خیال ہے اس سے خدا کے بندوں کو نجات دوں اور یہ اول نمونہ تھا جو میں نے ان لوگوں کا دیکھا.اور ہندو مجھ سے اس وجہ سے ناراض تھے کہ میں نے لیکھرام نامی ان کے ایک پنڈت کی نسبت اس کی رضامندی سے اس کے مرنے کی نسبت خدا کا الہام پا کر پیشگوئی کی تھی اور وہ پیشگوئی اپنی میعاد میں اپنے وقت پر پوری ہوگئی اور وہ خدا کا ایک ہیبت ناک نشان تھا اور ایسا ہی مسلمان مولوی بھی ناراض تھے کیونکہ میں ان کے خونی مہدی اور خونی مسیح کے آنے سے اور نیز ان کے جہاد کے مسئلہ کا مخالف تھا.لہذا ان تین قوموں کے بعض سر بر آوردہ لوگوں نے یہ مشورہ کیا کہ کسی طرح قتل کا جرم میرے پر لگ جائے اور میں مارا جاؤں یا قید کیا جاؤں.اور ان خیالات میں وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھے.اور خدا نے مجھے اس گھڑی سے پہلے کہ ایسے منصوبے مخفی طور پر کئے جائیں اطلاع دے دی.اور پھر انجام کار بری کرنے کی مجھے خوشخبری سنائی.اور یہ خدا کے پاک الہام صد ہا لوگوں میں قبل از وقت مشہور کئے گئے اور جبکہ میں نے الہام کی خبر پا کر دعا کی کہ اے میرے مولیٰ اس بلا کو مجھ سے رڈ کر.تب مجھے الہام ہوا کہ میں رڈ کروں گا اور تجھے اس مقدمہ سے بری کر دوں گا اور وہ الہام بہتوں کو سنایا گیا جو تین سو سے بھی زیادہ تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں.اور ایسا ہوا کہ میرے دشمنوں نے جھوٹے گواہ بنا کر اور عدالت میں گذران کر اس مقدمہ کو ثبوت تک پہنچا دیا اور تین قوموں کے لوگوں نے جن کا ذکر ہو چکا ہے میرے مخالف گواہی دی.تب ایسا ہوا کہ جس حاکم کے پاس وہ مقدمہ تھا جس کا نام کپتان ڈبلیوڈ گلس تھا جو ضلع گورداسپورہ کا ڈپٹی کمشنر تھا خدا نے طرح طرح کے اسباب سے تمام حقیقت اس مقدمہ کی اس پر کھول دی.اور اس پر کھل گیا کہ وہ مقدمہ جھوٹا ہے.تب اس کی انصاف پسندی اور عدل پروری نے یہ تقاضا کیا کہ اس ڈاکٹر کا جو پادری کا بھی کام کرتا تھا کچھ بھی لحاظ نہ کر کے اس مقدمہ کو خارج کیا.اور جیسا کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے الہام پا کر موجودہ خوفناک صورتوں کے
مسیح ہندوستان میں 88 فلسطین سے کشمیر تک برخلاف عام جلسوں میں اور صدہا لوگوں میں اپنا انجام بری ہونا بتلایا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا اور بہت سے لوگوں کی قوت ایمان کا باعث ہوا.اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی اس قسم کی کئی تہمتیں اور مجرمانہ صورت کے الزام میرے پر مذکورہ بالا وجوہات کی وجہ سے لگائے گئے اور عدالت تک مقدمے پہنچائے گئے.مگر خدا نے مجھے قبل اس کے جو میں عدالت میں بلایا جاتا اپنے الہام سے اول اور آخر کی خبر دے دی.اور ہر ایک خوفناک مقدمہ میں مجھے بری ہونے کی بشارت دی.اس تقریر سے مدعا یہ ہے کہ بلا شبہ خدائے تعالی دعاؤں کو سنتا ہے بالخصوص جبکہ اس پر بھروسہ کرنے والے مظلوم ہونے کی حالت میں اس کے آستانہ پر گرتے ہیں تو وہ ان کی فریاد کو پہنچتا ہے اور ایک عجیب طور پر ان کی مدد کرتا ہے اور ہم اس بات کے گواہ ہیں تو پھر کیا باعث اور کیا سبب کہ مسیح کی ایسی بے قراری کی دعا منظور نہ ہوئی ؟ نہیں بلکہ منظور ہوئی اور خدا نے اس کو بچالیا.خدا نے اس کے بچانے کے لئے زمین سے بھی اسباب پیدا کئے اور آسمان سے بھی.یوحنا یعنی یکی نبی کو خدا نے دعا کرنے کے لئے مہلت نہ دی کیونکہ اس کا وقت آچکا تھا.مگر مسیح کو دعا کرنے کے لئے تمام رات مہلت دی گئی اور وہ ساری رات سجدہ میں اور قیام میں خدا کے آگے کھڑا رہا.کیونکہ خدا نے چاہا کہ وہ بیقراری ظاہر کرے.اور اس خدا سے جس کے آگے کوئی بات ان ہونی نہیں اپنی مخلصی چاہے.سوخدا نے اپنی قدیم سنت کے موافق اس کی دعا کو سنا.یہودی اس بات میں جھوٹے تھے جنہوں نے صلیب دے کر یہ طعنہ مارا کہ اس نے خدا پر توکل کیا تھا کیوں خدا نے اس کو نہ چھڑایا کیونکہ خدا نے یہودیوں کے تمام منصوبے باطل کئے اور اپنے پیارے مسیح کو صلیب اور اس کی لعنت سے بچالیا اور یہودی نا مرا در ہے.اور منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کوملی ہیں انجیل متی کی وہ آیت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.بابل راستباز کے خون سے بر خیاہ کے بیٹے ذکریا کے خون تک جسے تم نے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا.دیکھو متی باب ۲۴ * آیت ۳۵ ۳۶۹.اب ان آیات پر اگر نظر غور کرو تو واضح ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے.درست باب 23 ہے
مسیح ہندوستان میں 89 فلسطین سے کشمیر تک ہوگا کہ ان میں حضرت مسیح علیہ السلام نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہودیوں نے جس قدر نبیوں کے خون کئے ان کا سلسلہ ذکر یا نبی تک ختم ہو گیا.اور بعد اس کے یہودی لوگ کسی نبی کے قتل کرنے کیلئے قدرت نہیں پائیں گے.یہ ایک بڑی پیشگوئی ہے اور اس سے نہایت صفائی کے ساتھ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے بچ کر نکل گئے اور آخر طبعی موت سے فوت ہوئے.کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی ذکریا کی طرح یہودیوں کے ہاتھ سے قتل ہونے والے تھے تو ان آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام ضرور اپنے قتل کئے جانے کی طرف بھی اشارہ کرتے.اور اگر یہ کہو کہ گو حضرت مسیح علیہ السلام بھی یہودیوں کے ہاتھ سے مارے گئے.لیکن ان کا مارا جانا یہودیوں کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ بطور کفارہ کے مارے گئے تو یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ یوحنا باب ۱۹ آیت 11 میں مسیح نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہودی مسیح کے قتل کرنے کے ارادہ سے سخت گناہ گار ہیں.اور ایسا ہی اور کئی مقامات میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے.اور صاف لکھا ہے کہ اس جرم کی عوض میں جو مسیح کی نسبت ان سے ظہور میں آیا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہر گئے تھے.دیکھو انجیل متی باب ۲۶ آیت ۲۴.اور منجملہ ان انجیلی شہادتوں کے جو ہم کوملی ہیں انجیل متی کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھی جاتی ہے.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گئے“.دیکھوانجیل متی باب ۱۶ آیت ۲۸.ایسا ہی انجیل یوحتا کی یہ عبارت ہے.یسوع نے اسے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ جب تک میں آؤں وہ (یعنی یوحنا حواری) یہیں ٹھہرے یعنی یروشلم میں.دیکھو یوحنا باب ۲۱ آیت ۲۲ یعنی اگر میں چاہوں تو یودتا نہ مرے جب تک میں دوبارہ آؤں.ان آیات سے بکمال صفائی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے وعدہ کیا تھا کہ بعض لوگ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک کہ وہ پھر واپس ہو اوران زندہ رہنے والوں میں سے یوحنا کو بھی قرار دیا تھا.سوضرور تھا کہ یہ وعدہ پورا ہوتا.چنانچہ عیسائیوں نے بھی اس بات کو مان لیا ہے کہ یسوع کا اس زمانہ میں جبکہ بعض اہل زمانہ زندہ
90 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں ہوں پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے آنا نہایت ضروری تھا تا وعدہ کے موافق پیشگوئی ظہور میں آوے.اسی بنا پر پادری صاحبوں کو اس بات کا اقرار ہے کہ یسوع اپنے وعدہ کے موافق یروشلم کی بربادی کے وقت آیا تھا اور یوحنا نے اس کو دیکھا کیونکہ وہ اس وقت تک زندہ تھا مگر یادر ہے کہ عیسائی اس بات کو نہیں مانتے کہ مسیح اس وقت حقیقی طور پر اپنے قرار دادنشانوں کے موافق آسمان سے نازل ہوا تھا.بلکہ وہ کہتے ہیں کہ کشفی رنگ میں یوحنا کو نظر آ گیا.تا اپنی اس پیشگوئی کو پورا کرے.جومتی باب ۱۶ آیت ۲۸ میں ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ اس قسم کے آنے سے پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی یہ تو نہایت ضعیف تاویل ہے.گویا نکتہ چینوں سے نہایت تکلف کے ساتھ پیچھا چھڑانا ہے.اور یہ معنی اس قدر غلط اور بدیہی البطلان ہیں کہ اس کے رد کرنے کی بھی حاجت نہیں.کیونکہ اگر مسیح نے خواب یا کشف کے ذریعہ سے کسی پر ظاہر ہونا تھا تو پھر ایسی پیشگوئی گویا ایک ہنسی کی بات ہے.یو اس طرح تو ایک مدت اس سے پہلے حضرت مسیح پولوس پر بھی ظاہر ہو چکے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی جومتی باب ۱۶ آیت ۲۸ میں ہے اس نے پادری صاحبوں کو نہایت گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہے.اور وہ اپنے عقیدہ کے موافق کوئی معقول معنی اس کے نہیں کر سکے.کیونکہ یہ کہنا ان کے لئے مشکل تھا کہ مسیح یروشلم کی بربادی کے وقت اپنے جلال کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا تھا.اور جس طرح آسمان پر ہر ایک طرف چپکنے والی بجلی سب کو نظر آ جاتی ہے سب نے اس کو دیکھا تھا.اور انجیل کے اس فقرہ کو بھی نظر انداز کرنا ان کے لئے آسان نہ تھا کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے.لہذا نہایت تکلف سے اس پیشگوئی کو کشفی رنگ میں مانا گیا مگر یہ نادرست ہی ہے کشفی طور پر تو ہمیشہ خدا کے ☆ ہا میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ اس زمانہ کے مولوی عیسائیوں سے بھی زیادہ متی باب ۲۶ آیت ۲۴ کے پر تکلف معنی کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مسیح نے اپنے آنے کے لیے یہ شرط لگا دی تھی کی بعض شخص اس زمانہ کے ابھی زندہ ہونگے اور ایک حواری بھی زندہ ہو گا جب مسیح آئے گا تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وہ حواری اب تک زندہ ہو کیونکہ مسیح اب تک نہیں آیا اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ حواری کسی پہاڑ میں پوشیدہ طور پر مسیح کے انتظار میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہے.منہ
91 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں برگزیدہ بندے خاص لوگوں کو نظر آ جایا کرتے ہیں.اور کشفی طور میں خواب کی بھی شرط نہیں بلکہ بیداری میں ہی نظر آ جاتے ہیں چنانچہ میں خود اس میں صاحب تجر بہ ہوں.میں نے کئی دفعه کشفی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا ہے.اور اور بعض نبیوں سے بھی میں نے عین بیداری میں ملاقات کی ہے.اور میں نے سید و مولیٰ اپنے امام نبی مد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی دفعہ عین بیداری میں دیکھا ہے اور باتیں کی ہیں.اور ایسی صاف بیداری سے دیکھا ہے جس کے ساتھ خواب یا غفلت کا نام ونشان نہ تھا.اور میں نے بعض اور وفات یافتہ لوگوں سے بھی ان کی قبر پر یا اور موقعہ پر مین بیداری میں ملاقات کی ہے اور ان سے باتیں بھی کی ہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ اس طرح پر عین بیداری میں گذشتہ لوگوں کی ملاقات ہو جاتی ہے اور نہ صرف ملاقات بلکہ گفتگو ہوتی ہے اور مصافحہ بھی ہوتا ہے اور اس بیداری اور روزمرہ کی بیداری میں لوازم حواس میں کچھ بھی فرق نہیں ہوتا.دیکھا جاتا ہے کہ ہم اسی عالم میں ہیں اور یہی کان ہیں اور یہی آنکھیں ہیں اور یہی زبان ہے.مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم اور ہے.دنیا اس قسم کی بیداری کو نہیں جانتی کیونکہ دنیا غفلت کی زندگی میں پڑی ہے یہ بیداری آسمان سے ملتی ہے یہ ان کو دی جاتی ہے جن کو نئے حواس ملتے ہیں.یہ ایک صحیح بات ہے اور واقعات حقہ میں سے ہے پس اگر مسیح اسی طرح یروشلم کی بربادی کے وقت یوحنا کو نظر آیا تھا تو گو وہ بیداری میں نظر آیا اور گواس سے باتیں بھی کی ہوں اور مصافحہ کیا ہوتا ہم وہ واقعہ اس پیشگوئی سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا.بلکہ یہ وہ امور ہیں جو ہمیشہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں.اور اب بھی اگر ہم توجہ کریں تو خدا کے فضل سے مسیح کو یا اور کسی مقدس نبی کو عین بیداری میں دیکھ سکتے ہیں.لیکن ایسی ملاقات سے متی باب ۱۶ آیت ۲۸ کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہو سکتی.سواصل حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح جانتا تھا کہ میں صلیب سے بیچ کر دوسرے ملک میں چلا جاؤں گا اور خدا نہ مجھے ہلاک کرے گا اور نہ دنیا سے اٹھائے گا جب تک کہ میں یہودیوں کی بربادی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں اور جب تک کہ وہ بادشاہت جو برگزیدوں کے لئے آسمان میں مقرر ہوتی ہے اپنے نتائج نہ دکھلاوے میں ہرگز وفات نہیں پاؤں گا.اس لئے مسیح نے یہ پیشگوئی کی تا اپنے شاگردوں کو اطمینان دے کہ عنقریب تم
92 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں میرا یہ نشان دیکھو گے کہ جنہوں نے مجھ پر تلوار اٹھائی وہ میری زندگی اور میرے مشافہ میں تلواروں سے ہی قتل کئے جائیں گے.سواگر ثبوت کچھ چیز ہے تو اس سے بڑھ کر عیسائیوں کے لئے اور کوئی ثبوت نہیں کہ مسیح اپنے منہ سے پیشگوئی کرتا ہے کہ ابھی تم میں سے بعض زندہ ہوں گے کہ میں پھر آؤں گا.یاد رہے کہ انجیلوں میں دو قسم کی پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح کے آنے کے متعلق ہیں.(۱) ایک وہ جو آخری زمانہ میں آنے کا وعدہ ہے وہ وعدہ روحانی طور پر ہے اور وہ آنا اس قسم کا آنا ہے جیسا کہ ایلیا نبی مسیح کے وقت دوبارہ آیا تھا.سو وہ ہمارے اس زمانہ میں ایلیا کی طرح آچکا ہے اور وہ یہی راقم ہے جو خادم نوع انسان ہے جو سیح موعود ہو کر مسیح علیہ السلام کے نام پر آیا.اور مسیح نے میری نسبت انجیل میں خبر دی ہے.سومبارک وہ جو مسیح کی تعظیم کے لئے میرے باب میں دیانت اور انصاف سے غور کرے.اور ٹھوکر نہ کھاوے.(۲) دوسری قسم کی پیشگوئیاں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے متعلق انجیلوں میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت مسیح کی اس زندگی کے ثبوت کے لئے بیان کی گئی ہیں جو صلیب کے بعد خدائے تعالیٰ کے فضل سے قائم اور بحال رہی اور صلیبی موت سے خدا نے اپنے برگزیدہ کو خدا بچالیا جیسا کہ یہ پیشگوئی جو ابھی بیان کی گئی.عیسائیوں کی یہ غلطی ہے کہ ان دونوں مقاموں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیتے ہیں.اور اسی وجہ سے بڑی گھبراہٹ اور طرح طرح کے مشکلات ان کو پیش آتے ہیں.غرض مسیح کے صلیب سے بچ جانے کے لئے یہ آیت جو متی ۶ اباب میں پائی جاتی ہے بڑا ثبوت انجیل متی کی مندرجہ ذیل آیت ہے.”اور اس وقت انسان کے بیٹے کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا.اور اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور انسان کے بیٹے کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے“.دیکھو متی باب ۲۴ آیت ۳۰.اس آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ جبکہ آسمان سے یعنی محض خدا کی قدرت سے ایسے علوم اور دلائل اور شہادتیں پیدا ہو جائیں گی کہ جو آپ کی الوہیت یا صلیب پر فوت ہونے اور آسمان پر جانے اور دوبارہ آنے کے عقیدہ کا باطل ہونا ثابت کر دیں گی.اور جو قو میں آپ کے نبی صادق ہونے کی منکر تھیں بلکہ صلیب دیئے
مسیح ہندوستان میں 93 فلسطین سے کشمیر تک جانے کی وجہ سے ان کو لعنتی سمجھتی تھیں جیسا کہ یہود.ان کے جھوٹ پر بھی آسمان گواہی دے گا کیونکہ یہ حقیقت بخوبی کھل جائے گی کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے اس لئے لعنتی بھی نہیں ہوئے تب زمین کی تمام قومیں جنہوں نے ان کے حق میں افراط یا تفریط کی تھی ماتم کریں گی اور اپنی غلطی کی وجہ سے سخت ندامت اور خجالت ان کے شامل حال ہوگی.اور اسی زمانہ میں جبکہ یہ حقیقت کھل جائے گی لوگ روحانی طور پر مسیح کو زمین پر نازل ہوتے دیکھیں گے.یعنی ان ہی دنوں میں مسیح موعود جو ان کی قوت اور طبیعت میں ہو کر آئے گا آسمانی تائید سے اور اس قدرت اور جلال سے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس کے شامل ہوگی اپنے چمکتے ہوئے ثبوت کے ساتھ ظاہر ہوگا اور پہچانا جائے گا.اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قضا و قدر سے حضرت عیسی علیہ السلام کا ایسا وجود ہے اور ایسے واقعات ہیں جو بعض قوموں نے ان کی نسبت افراط کیا ہے اور بعض نے تفریط کی راہ لی ہے.یعنی ایک وہ قوم ہے کہ جو انسانی لوازم سے ان کو دور تر لے گئی ہے.یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں کہ اب تک وہ فوت نہیں ہوئے اور آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.اور ان سے بڑھ کر وہ قوم ہے جو کہتے ہیں کہ صلیب پر فوت ہو کر اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے ہیں اور خدائی کے تمام اختیار ان کو مل گئے ہیں بلکہ وہ خود خدا ہیں.اور دوسری قوم یہودی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر مارے گئے اس لئے نعوذ باللہ وہ ہمیشہ کے لئے لعنتی ہوئے اور ہمیشہ کے لئے مور دغضب.اور خدا اُن سے بیزار ہے اور بیزاری اور دشمنی کی نظر سے ان کو دیکھتا ہے اور وہ کا ذب اور مفتری اور نعوذ باللہ کا فر اور ملحد ہیں اور خدا کی طرف سے نہیں ہیں.سو یہ افراط اور تفریط ایسا ظلم سے بھرا ہوا طریق تھا کہ ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ اپنے بچے نبی کو ان الزاموں سے بری کرتا.سوانجیل کی آیت مذکورہ بالا کا اسی بات کی طرف اشارہ ہے اور یہ جو کہا کہ زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی.یہ اس بات کی طرف ایما کی گئی ہے کہ وہ تمام فرقے جن پر قوم کا لفظ اطلاق پاسکتا ہے اس روز چھاتی پیٹیں گی اور جزع فزع کریں گی اور ان کا ماتم سخت ہوگا.اس جگہ عیسائیوں کو ذرہ توجہ سے اس آیت کو پڑھنا چاہئیے اور سوچنا چاہیے کہ جبکہ اس آیت میں کل قوموں کے چھاتی پیٹنے کے بارے
94 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں میں پیشگوئی کی گئی ہے تو اس صورت میں عیسائی اس ماتم سے کیونکر باہر رہ سکتے ہیں.کیا وہ قوم نہیں ہیں.اور جبکہ وہ بھی اس آیت کے رو سے چھاتی پیٹنے والوں میں داخل ہیں تو پھر وہ کیوں اپنی نجات کا فکر نہیں کرتے.اس آیت میں صاف طور پر بتلایا گیا ہے کہ جب مسیح کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا تو زمین پر جتنی قومیں ہیں وہ چھاتی پیٹیں گی.سوایسا شخص میسیج کو جھٹلاتا ہے جو کہتا ہے کہ ہماری قوم چھاتی نہیں پیٹے گی.ہاں وہ لوگ چھاتی پیٹنے کی پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہر سکتے جن کی جماعت ابھی تھوڑی ہے اور اس لائق نہیں ہے جو اُس کو قوم کہا جائے.اور وہ ہمارا فرقہ ہے بلکہ یہی ایک فرقہ ہے جو پیشگوئی کے اثر اور دلالت سے باہر ہے کیونکہ اس فرقہ کے ابھی چند آدمی ہیں جو کسی طرح قوم کا لفظ ان پر صادق نہیں آ سکتا.مسیح نے خدا سے الہام پا کر بتلایا کہ جب آسمان پر ایک نشان ظاہر ہو گا تو زمین کے کل وہ گروہ جو باعث اپنی کثرت کے قوم کہلانے کے مستحق ہیں چھاتی پیٹیں گے اور کوئی ان میں سے باقی نہیں رہے گا مگر وہی کم تعدا دلوگ جن پر قوم کا لفظ صادق نہیں آ سکتا.اس پیشگوئی کے مصداق سے نہ عیسائی باہر رہ سکتے ہیں اور نہ اس زمانہ کے مسلمان اور نہ یہودی اور نہ کوئی اور مکذب.صرف ہماری یہ جماعت باہر ہے کیونکہ ابھی خدا نے ان کو تخم کی طرح بویا ہے.نبی کا کلام کسی طور سے جھوٹا نہیں ہوسکتا.جبکہ کلام میں صاف یہ اشارہ ہے کہ ہر ایک قوم جو زمین پر ہے چھاتی پیٹے گی تو ان قوموں میں سے کونسی قوم باہر رہ سکتی ہے.مسیح نے تو اس آیت میں کسی قوم کا استثنا نہیں کیا.ہاں وہ جماعت بہر صورت مستقی ہے جو ابھی قوم کے اندازہ تک نہیں پہنچی یعنی ہماری جماعت.اور یہ پیشگوئی اس زمانہ میں نہایت صفائی سے پوری ہوئی کیونکہ وہ سچائی جو حضرت مسیح کی نسبت اب پوری ہوئی ہے وہ بلاشبہ ان تمام قوموں کے ماتم کا موجب ہے کیونکہ اس سے سب کی غلطی ظاہر ہوتی ہے اور سب کی پردہ دری ظہور میں آتی ہے.عیسائیوں کے خدا بنانے کا شور وغوغا حسرت کی آہوں سے بدل جاتا ہے.مسلمانوں کا دن رات کا ضد کرنا کہ مسیح آسمان پر زندہ گیا.آسمان پر زندہ گیا رونے اور ماتم کے رنگ میں آ جاتا ہے اور یہودیوں کا تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.
مسیح ہندوستان میں 95 فلسطین سے کشمیر تک اور اس جگہ یہ بھی بیان کر دینے کے لائق ہے کہ آیت مذکورہ بالا میں جو لکھا ہے کہ اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی.اس جگہ زمین سے مراد بلاد شام کی زمین ہے جس سے یہ تینوں تو میں تعلق رکھتی ہیں.یہودی اس لئے کہ وہی ان کا مبدء اور منبع ہے اور اسی جگہ اُن کا معبد ہے.عیسائی اس لئے کہ حضرت مسیح اسی جگہ ہوئے ہیں اور عیسائی مذہب کی پہلی قوم اسی ملک میں پیدا ہوئی ہے.مسلمان اس لئے کہ وہ اس زمین کے قیامت تک وارث ہیں اور اگر زمین کے لفظ کے معنی ہر یک زمین لی جائے تب بھی کچھ حرج نہیں کیونکہ حقیقت کھلنے پر ہر یک مکذب نادم ہوگا.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی وہ عبارت ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں.اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھیں اٹھیں اور اس کے اٹھنے کے بعد ( یعنی مسیح کے اٹھنے کے بعد ) قبروں میں سے نکل کر اور مقدس شہر میں جا کر بہتوں کو نظر آئیں.دیکھو انجیل متی باب ۲۷ آیت ۵۲.اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ قصہ جو انجیل میں بیان کیا گیا ہے کہ مسیح کے اٹھنے کے بعد پاک لوگ قبروں میں سے باہر نکل آئے اور زندہ ہو کر بہتوں کو نظر آئے یہ کسی تاریخی واقعہ کا بیان نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر گویا اسی دنیا میں قیامت نمودار ہو جاتی اور وہ امر جو صدق اور ایمان دیکھنے کے لئے دنیا پر مخفی رکھا گیا تھا وہ سب پر کھل جاتا اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ہر یک مومن اور کافر کی نظر میں آنے والے عالم کی حقیقت ایک بدیہی چیز ہو جاتی جیسا کہ چاند اور سورج اور دن اور رات کا وجود بدیہی ہے تب ایمان ایسی قیمتی اور قابل قدر چیز نہ ہوتی جس پر اجر پائیں گے کچھ امید ہوسکتی.لوگ اور بنی اسرائیل کے گذشتہ نبی جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے سچ سچ واقعہ صلیب کے وقت زندہ ہو گئے تھے اور زندہ ہو کر شہر میں آگئے تھے اور حقیقت میں مسیح کی سچائی اور خدائی ثابت کرنے کے لئے یہ معجزہ دکھلایا گیا تھا جو صدہا نبیوں اور لاکھوں راستبازوں کو ایک دم میں زندہ کر دیا گیا تو اس صورت میں یہودیوں کو یہ ایک عمدہ موقعہ ملا تھا کہ وہ زندہ شدہ نبیوں اور دوسرے راستبازوں اور اپنے فوت شدہ باپ دادوں سے مسیح کی نسبت دریافت کرتے کہ کیا یہ شخص جو خدائی کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت خدا ہے یا کہ اپنے اس دعوی میں جھوٹا ہے اور قرین قیاس ہے کہ اس پائیں گئے سہو کتابت ہے.درست پانے کی ہے.
مسیح ہندوستان میں 96 فلسطین سے کشمیر تک موقعہ کو انہوں نے ہاتھ سے نہ دیا ہوگا اور ضرور دریافت کیا ہوگا کہ یہ شخص کیسا ہے کیونکہ یہودی ان باتوں کے بہت حریص تھے کہ اگر مردے دنیا میں دوبارہ آجائیں تو ان سے دریافت کریں تو پھر جس حالت میں لاکھوں مردے زندہ ہو کر شہر میں آگئے اور ہر ایک محلہ میں ہزاروں مردے چلے گئے تو ایسے موقعہ کو یہودی کیونکر چھوڑ سکتے تھے ضرور انہوں نے نہ ایک نہ دو سے بلکہ ہزاروں سے پوچھا ہوگا اور جب یہ مردے اپنے اپنے گھروں میں داخل ہوئے ہوں گے.تو ان لاکھوں انسانوں کے دنیا میں دوبارہ آنے سے گھر گھر میں شور پڑ گیا ہوگا اور ہر ایک گھر میں یہی شغل اور یہی ذکر اور یہی تذکرہ شروع ہو گیا ہوگا کہ مردوں سے پوچھتے ہوں گے کہ کیا آپ لوگ اس شخص کو جو یسوع مسیح کہلاتا ہے حقیقت میں خدا جانتے ہیں.مگر چونکہ مُردوں کی اس گواہی کے بعد جیسا کہ امید تھی یہودی حضرت مسیح پر ایمان نہیں لائے اور نہ کچھ نرم دل ہوئے بلکہ اور بھی سخت دل ہو گئے تو غالباً معلوم ہوتا ہے کہ مردوں نے کوئی اچھی گواہی نہیں دی.بلکہ بلا توقف یہ جواب دیا ہوگا کہ یہ شخص اپنے اس دعوئی خدائی میں بالکل جھوٹا ہے اور خدا پر بہتان باندھتا ہے تبھی تو لاکھوں انسان بلکہ پیغمبروں اور رسولوں کے زندہ ہونے کے بعد بھی یہودی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور حضرت مسیح کو مار کر پھر دوسروں کے قتل کی طرف متوجہ ہوئے.بھلا یہ بات سمجھ آ سکتی ہے کہ لاکھوں راستباز کہ جو حضرت آدم سے لے کر حضرت یحی تک اس زمین پاک کی قبروں میں سوئے ہوئے تھے وہ سب کے سب زندہ ہو جائیں اور پھر وعظ کرنے کے لئے شہر میں آئیں اور ہر ایک کھڑا ہو کر ہزار ہا انسانوں کے سامنے یہ گواہی دے کہ در حقیقت یسوع مسیح خدا کا بیٹا بلکہ خود خدا ہے اسی کی پوجا کیا کرو اور پہلے خیالات کو چھوڑو ورنہ تمہارے لئے جہنم ہے جس کو خود ہم دیکھ کر آئے ہیں.اور پھر باوجود اس اعلیٰ درجہ کی گواہی اور شہادت رویت کے جو لاکھوں راستباز مردوں کے منہ سے نکلی یہودی اپنے انکار سے باز نہ آئیں.ہمارا کانشنس تو اس بات کو نہیں مانتا.پس اگر فی الحقیقت لاکھوں راستباز فوت شدہ پیغمبر اور رسول وغیرہ زندہ ہو کر گواہی کے لئے شہر میں آئے تھے تو کچھ شک نہیں کہ انہوں نے کچھ الٹی ہی گواہی دی ہوگی اور ہر گز حضرت مسیح کی خدائی کو تصدیق نہیں کیا ہوگا تبھی تو یہودی لوگ مردوں کی گواہیوں کو سن کر اپنے کفر پر پکے ہو گئے اور حضرت مسیح تو ان
97 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں سے خدائی منوانا چاہتے تھے مگر وہ تو اس گواہی کے بعد نبوت سے بھی منکر ہو بیٹھے.غرض ایسے عقیدے نہایت مضر اور بداثر ڈالنے والے ہیں کہ ایسا یقین کیا جائے کہ یہ لاکھوں مردے یا اس سے پہلے کوئی مردہ حضرت مسیح نے زندہ کیا تھا کیونکہ ان مردوں کے زندہ ہونے کے بعد کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں ہوا.یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اگر مثلاً کوئی شخص کسی دور دراز ملک میں جاتا ہے اور چند برس کے بعد اپنے شہر میں واپس آتا ہے تو طبعا اس کے دل میں یہ جوش ہوتا ہے کہ اس ملک کے عجائب غرائب لوگوں کے پاس بیان کرے اور اس ولایت کے عجیب در عجیب واقعات سے ان لوگوں کو اطلاع دے نہ یہ کہ اتنی مدت کی جدائی کے بعد جب اپنے لوگوں کو ملے تو زبان بند ر کھے اور گونگوں کی طرح بیٹھا رہے بلکہ ایسے موقعہ میں دوسرے لوگوں میں بھی فطرتا یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے پاس دوڑے آتے ہیں اور اُس ملک کے حالات اس سے پوچھتے ہیں اور اگر ایسا اتفاق ہو کہ ان لوگوں کے ملک میں کوئی غریب شکستہ حال وارد ہو جس کی ظاہری حیثیت غریبانہ ہو اور وہ دعوی کرتا ہو کہ میں اُس ملک کا بادشاہ ہوں جس کے پایہ تخت کا سیر کر کے یہ لوگ آئے ہیں.اور میں فلاں فلاں بادشاہ سے بھی اپنے شاہانہ مرتبہ میں اول درجہ پر ہوں تو لوگ ایسے سیاحوں سے ضرور پوچھا کرتے ہیں کہ بھلا یہ تو بتلائیے کہ فلاں شخص جو ان دنوں میں ہمارے ملک میں اس ملک سے آیا ہوا ہے کیا سچ مچ یہ اس ملک کا بادشاہ ہے اور پھر وہ لوگ جیسا کہ واقعہ ہو بتلا دیا کرتے ہیں تو اس صورت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح کے ہاتھ سے مُردوں کا زندہ ہونا فقط اس حالت میں قابلِ پذیرائی ہوتا جبکہ وہ گواہی جو ان سے پوچھی گئی ہوگی جس کا پوچھا جانا ایک طبعی امر ہے کوئی مفید نتیجہ بخشتی لیکن اس جگہ ایسا نہیں ہے.پس ناچار اس بات کے فرض کرنے سے کہ مُردے زندہ ہوئے تھے اس بات کو بھی ساتھ ہی فرض کرنا پڑتا ہے کہ ان مردوں نے حضرت مسیح کے حق میں کوئی مفید گواہی نہیں دی ہوگی جس سے ان کی سچائی تسلیم کی جاتی بلکہ ایسی گواہی دی ہوگی جس سے اور بھی فتنہ بڑھ گیا ہو گا.کاش اگر انسانوں کی جگہ دوسرے چارپایوں کا زندہ کرنا بیان کیا جاتا تو اس میں بہت کچھ پردہ پوشی متصور تھی.مثلاً یہ کہا جاتا کہ حضرت مسیح نے
مسیح ہندوستان میں 98 فلسطین سے کشمیر تک کئی ہزار بیل زندہ کئے تھے تو یہ بات بہت معقول ہوتی اور کسی کے اعتراض کے وقت جبکہ مذکورہ بالا اعتراض کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ ان مردوں کی گواہی کا نتیجہ کیا ہوا تو ہم فی الفور کہہ سکتے کہ وہ تو بیل تھے ان کی زبان کہاں تھی جو بھلی یا بُری گواہی دیتے.بھلا وہ تو لاکھوں مردے تھے جو حضرت مسیح نے زندہ کئے آج مثلاً چند ہندوؤں کو اگر بلا کر پوچھو کہ اگر تمہارے فوت شدہ باپ دادے دس ہیں زندہ ہوکر دنیا میں واپس آجائیں اور گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے تو کیا پھر بھی تم کو اس مذہب کی سچائی میں شک باقی رہ جائے گا.تو ہر گز نفی کا جواب نہیں دیں گے.پس یقیناً سمجھو کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں کہ اس قدر انکشاف کے بعد پھر بھی اپنے کفر اور انکار پراڑ ا ر ہے.افسوس ہے کہ ایسی کہانیوں کی بندش میں ہمارے ملک کے سکھ خالصہ عیسائیوں سے اچھے رہے اور انہوں نے ایسی کہانیوں کے بنانے میں خوب ہوشیاری کی.کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گورو با وانا نک نے ایک دفعہ ایک ہاتھی مردہ زندہ کیا تھا.اب یہ اس قسم کا معجزہ ہے کہ نتائج مذکورہ کا اعتراض اس پر وارد نہیں ہوتا.کیونکہ سکھ کہہ سکتے ہیں کہ کیا ہاتھی کی کوئی بولنے والی زبان ہے کہ تا باوا نا نک کی تصدیق یا تکذیب کرتا.غرض عوام تو اپنی چھوٹی سی عقل کی وجہ سے ایسے معجزات پر بہت خوش ہوتے ہیں مگر عقلمند غیر قوموں کے اعتراضوں کا نشانہ بن کر کوفتہ خاطر ہوتے ہیں اور جس مجلس میں ایسی بیہودہ کہانیاں کی جائیں وہ بہت شرمندہ ہوتے ہیں.اب چونکہ ہم کو حضرت مسیح علیہ السلام سے ایسا ہی محبت اور اخلاص کا تعلق ہے جیسا کہ عیسائیوں کو تعلق ہے بلکہ ہم کو بہت بڑھ کر تعلق ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کس کی تعریف کرتے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم کس کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو دیکھا ہے لہذا اب ہم اس عقیدہ کی اصل حقیقت کو کھولتے ہیں کہ جو انجیلوں میں لکھا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے وقت تمام راستباز فوت شدہ زندہ ہو کر شہر میں آگئے تھے.پس واضح ہو کہ یہ ایک کشفی امر تھا جو صلیب کے واقعہ کے بعد بعض پاک دل لوگوں نے خواب کی طرح دیکھا تھا کہ گویا مقدس مردے زندہ ہو کر شہر میں آگئے ہیں.اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور جیسا کہ خوابوں کی تعبیر خدا کی پاک کتابوں میں کی گئی ہے.مثلاً
99 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں جیسا کہ حضرت یوسف کی خواب کی تعبیر کی گئی.ایسا ہی اس خواب کی بھی ایک تعبیر تھی.اور وہ یہ تعبیر تھی کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور خدا نے اس کو صلیب کی موت سے نجات دے دی.اور اگر ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ تعبیر تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی تو اس کا یہ جواب ہے کہ فن تعبیر کے اماموں نے ایسا ہی لکھا ہے اور تمام معبرین نے اپنے تجربہ سے اس پر گواہی دی ہے.چنانچہ ہم قدیم زمانہ کے ایک امام فن تعبیر یعنی صاحب کتاب تعطیر الا نام کی تعبیر کو اس کی اصل عبارت کے ساتھ ذیل میں لکھتے ہیں.اور وہ یہ ہے من رأى أن الموتى وثبوا من قبورهم و رجعوا الى دورهم فانه يطلق من في السجن.دیکھو کتاب تعطیر الانام فى تعبير المنام مصنفہ قطب الزمان شیخ عبد الغني النابلسی صفحه ۲۸۹.ترجمہ: اگر کوئی یہ خواب دیکھے یا کشفی طور پر مشاہدہ کرے کہ مردے قبروں میں سے نکل آئے اور اپنے گھروں کی طرف رجوع کیا تو اس کی یہ تعبیر ہے کہ ایک قیدی قید سے رہائی پائے گا اور ظالموں کے ہاتھ سے اس کو خلصی حاصل ہوگی.طرز بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قیدی ہوگا کہ ایک شان اور عظمت رکھتا ہوگا.اب دیکھو یہ تعبیر کیسی معقولی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام پر صادق آتی ہے اور فی الفور سمجھ آ جاتا ہے کہ اسی اشارہ کے ظاہر کرنے کے لئے فوت شدہ راستباز زندہ ہو کر شہر میں داخل ہوتے نظر آئے کہ تا اہلِ فراست معلوم کریں کہ حضرت مسیح صلیبی موت سے بچائے گئے.ایسا ہی اور بہت سے مقامات انجیلوں میں پائے جاتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے نہیں مرے بلکہ مخلصی پا کر کسی دوسرے ملک میں چلے گئے.لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ جس قدر میں نے بیان کیا ہے وہ منصفوں کے سمجھنے کے لئے کافی ہے.ممکن ہے کہ بعض دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہو کہ انجیلوں میں یہ بھی تو بار بار ذکر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت ہو گئے اور پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے.ایسے اعتراضات کا جواب میں پہلے بطور اختصار دے چکا ہوں.اور اب بھی اس قدر بیان کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی واقعہ کے بعد حواریوں
مسیح ہندوستان میں 100 فلسطین سے کشمیر تک کو ملے اور گلیل تک سفر کیا اور روٹی کھائی اور کباب کھائے اور اپنے زخم دکھلائے اور ایک رات بمقام اما ؤس حواریوں کے ساتھ رہے اور خفیہ طور پر پلاطوس کے علاقہ سے بھاگے اور نبیوں کی سنت کے موافق اس ملک سے ہجرت کی اور ڈرتے ہوئے سفر کیا تو یہ تمام واقعات اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے اور فانی جسم کے تمام لوازم ان کے ساتھ تھے اور کوئی نئی تبدیلی ان میں پیدا نہیں ہوئی تھی اور آسمان پر چڑھنے کی کوئی عینی شہادت انجیل سے نہیں ملتی.اور اگر ایسی شہادت ہوتی بھی تب بھی لائق اعتبار نہ تھی.کیونکہ انجیل نویسوں کی یہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ وہ بات کا بتونگڑا بنا لیتے ہیں اور ایک ذرہ سی بات پر حاشیے چڑھاتے چڑھاتے ایک پہاڑ اس کو کر دیتے ہیں.مثلا کسی انجیل نویس کے منہ سے نکل گیا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے.اب دوسرا انجیل نویس اس فکر میں پڑتا ہے کہ اس کو پورا خدا بناوے اور تیسرا تمام زمین آسمان کے اختیار اس کو دیتا ہے اور چوتھا واشگاف کہہ دیتا ہے کہ وہی ہے جو کچھ ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں.غرض اس طرح پر کھینچتے کھینچتے کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں.دیکھو وہ رؤیا جس میں نظر آیا تھا کہ گویا مُردے قبروں میں سے اٹھ کر شہر میں چلے گئے.اب ظاہری معنوں پر زور دے کر یہ جتلایا گیا کہ حقیقت میں مُردے قبروں میں سے باہر نکل آئے تھے اور یروشلم شہر میں آ کر اور لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں.اس جگہ غور کرو کہ کیسے ایک پر کا کو ابنایا گیا.پھر وہ ایک کوا نہ رہا بلکہ لاکھوں کو لے اڑائے گئے.جس جگہ مبالغہ کا یہ حال ہو اس جگہ حقیقتوں کا کیونکر پنہ لگے.غور کے لائق ہے کہ ان انجیلوں میں جو خدا کی کتا میں کہلاتی ہیں ایسے ایسے مبالغات بھی لکھے گئے کہ مسیح نے وہ کام کئے کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جاتے تو وہ کتا ہیں جن میں وہ لکھے جاتے دنیا میں سما نہ سکتیں.کیا اتنا مبالغہ طریق دیانت وامانت ہے.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر مسیح کے کام ایسے ہی غیر محدود اور حد بندی سے باہر تھے تو تین برس کی حد میں کیونکر آگئے.ان انجیلوں میں یہ بھی خرابی ہے کہ بعض پہلی کتابوں کے حوالے غلط بھی کوئی بیان نہیں کرتا کہ میں اس بات کا گواہ ہوں اور میری آنکھوں نے دیکھا ہے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے تھے.منہ
101 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں دیئے ہیں.شجرہ نسب میسیج کو بھی صحیح طور پر لکھ نہ سکے.انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی عقل کچھ موٹی تھی یہاں تک کہ بعض حضرت مسیح کو بھوت سمجھ بیٹھے اور ان انجیلوں پر قدیم سے یہ بھی الزام چلا آتا ہے کہ وہ اپنی صحت پر باقی نہیں رہیں.اور خود جس حالت میں بہت سی اور بھی کتابیں انجیل کے نام سے تالیف کی گئیں.تو ہمارے پاس کوئی پختہ دلیل اس بات پر نہیں کہ کیوں ان دوسری کتابوں کے سب کے سب مضمون رڈ کئے جائیں اور کیوں ان انجیلوں کا گل لکھا ہوا مان لیا جائے.ہم خیال نہیں کر سکتے کہ کبھی دوسری انجیلوں میں اس قدر بے اصل مبالغات لکھے گئے ہیں جیسا کہ ان چارانجیلوں میں.عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو ان کتابوں میں مسیح کا پاک اور بے داغ چال چلن مانا جاتا ہے اور دوسری طرف اس پر ایسے الزام لگائے جاتے ہیں جو کسی راستباز کی شان کے ہرگز مناسب نہیں ہیں.مثلاً اسرائیلی نبیوں نے یوں تو توریت کے منشاء کے موافق ایک ہی وقت میں صد ہا بیویوں کو رکھا تا پاکوں کی نسل کثرت سے پیدا ہو.مگر آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی نبی نے اپنی بے قیدی کا یہ نمونہ دکھلایا کہ ایک نا پاک بد کردار عورت اور شہر کی مشہور فاسقہ اس کے بدن سے اپنے ہاتھ لگاوے اور اس کے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ملے اور اپنے بال اس کے پاؤں پر ملے.اور وہ یہ سب کچھ ایک جوان ناپاک خیال عورت سے ہونے دے اور منع نہ کرے.اس جگہ صرف نیک ظنی کی برکت سے انسان ان اوہام سے بچ سکتا ہے جو طبعاً ایسے نظارہ کے بعد پیدا ہوتے ہیں.لیکن بہر حال یہ نمونہ دوسروں کے لئے اچھا نہیں.غرض ان انجیلوں میں بہت سی باتیں ایسی بھری پڑی ہیں کہ وہ بتلا رہی ہیں کہ یہ انجیلیں اپنی اصلی حالت پر قائم نہیں رہیں یا ان کے بنانے والے کوئی اور ہیں حواری اور ان کے شاگرد نہیں ہیں.مثلاً انجیل متی کا یہ قول اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے.کیا اس کا لکھنے والامتی کو قراردین صحیح اور مناسب ہوسکتا ہے؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس انجیل متی کا لکھنے والا کوئی اور شخص ہے جو متی کی وفات کے بعد گذرا ہے.پھر اسی انجیل متی باب ۲۸ آیت ۱۲و۱۳ میں ہے.تب انہوں نے یعنی یہودیوں نے بزرگوں کے ساتھ اکٹھے ہو کر صلاح کی اور ان پہرہ والوں کو بہت روپے دیئے اور کہا تم کہو کہ رات
مسیح ہندوستان میں 102 فلسطین سے کشمیر تک کو جب ہم سوتے تھے اس کے شاگر د یعنی مسیح کے شاگرد آ کر اسے چرا کر لے گئے.دیکھو یہ کیسی بیچی اور نا معقول باتیں ہیں.اگر اس سے مطلب یہ ہے کہ یہودی اس بات کو پوشیدہ کرنا چاہتے تھے کہ یسوع مُردوں میں سے جی اٹھا ہے اس لئے انہوں نے پہرہ والوں کو رشوت دی تھی کہ تا یہ عظیم الشان معجزہ ان کی قوم میں مشہور نہ ہو تو کیوں یسوع نے جس کا یہ فرض تھا کہ اپنے اس معجزہ کی یہودیوں میں اشاعت کرتا اس کو مخفی رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کے ظاہر کرنے سے منع کیا.اگر یہ کہو کہ اس کو پکڑے جانے کا خوف تھا تو میں کہتا ہوں کہ جب ایک دفعہ خدائے تعالیٰ کی تقدیر اس پر وارد ہو چکی اور وہ مرکز پھر جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہو چکا تو اب اس کو یہودیوں کا کیا خوف تھا.کیونکہ اب یہودی کسی طرح اس پر قدرت نہیں پاسکتے تھے.اب تو وہ فانی زندگی سے ترقی پا چکا تھا.افسوس کہ ایک طرف تو اس کا جلالی جسم سے زندہ ہونا اور حواریوں کو ملنا اور جلیل کی طرف جانا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانا بیان کیا گیا ہے اور پھر بات بات میں اس جلالی جسم کے ساتھ بھی یہودیوں کا خوف ہے اس ملک سے پوشیدہ طور پر بھاگتا ہے کہ تا کوئی یہودی دیکھ نہ لے اور جان بچانے کے لئے سترہ سے کوس کا سفر جلیل کی طرف کرتا ہے.بار بار منع کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی کے پاس بیان نہ کرو.کیا یہ جلالی جسم کے چھن اور علامتیں ہیں ؟ نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی جلالی اور نیا جسم نہ تھا وہی زخم آلودہ جسم تھا جو جان نکلنے سے بچایا گیا.اور چونکہ یہودیوں کا پھر بھی اندیشہ تھا اس لئے برعایت ظاہر اسباب مسیح نے اس ملک کو چھوڑ دیا.اس کے مخالف جس قدر باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب بیہودہ اور خام خیال ہیں کہ پہرہ داروں کو یہودیوں نے رشوت دی کہ تم یہ گواہی دو کہ حواری لاش کو چُرا کر لے گئے اور ہم سوتے تھے.اگر وہ سوتے تھے تو ان پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ تم کو سونے کی حالت میں کیونکر معلوم ہو گیا کہ یسوع کی لاش کو چوری اٹھالے گئے.اور کیا صرف اتنی بات سے کہ یسوع قبر میں نہیں کوئی عقلمند سمجھ سکتا تھا کہ وہ آسمان پر چلا گیا ہے.کیا دنیا میں اور اسباب نہیں جن سے قبریں خالی رہ جاتی ہیں؟ اس بات کا بار ثبوت تو مسیح کے ذمہ تھا کہ وہ آسمان پر جانے کے وقت دو تین سو یہودیوں کو ملتا اور پلاطوس سے بھی ملاقات کرتا.جلالی
مسیح ہندوستان میں 103 فلسطین سے کشمیر تک جسم کے ساتھ اس کو کس کا خوف تھا مگر اس نے یہ طریق اختیار نہیں کیا اور اپنے مخالفوں کو ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ خوفناک دل کے ساتھ جلیل کی طرف بھاگا.اس لئے ہم قطعی طور پر یقین رکھتے اور مانتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ وہ اس قبر میں سے نکل گیا جو کو ٹھے کی طرح کھڑ کی دار تھی اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر حواریوں کو ملا مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ اس نے کوئی نیا جلالی جسم پایا.وہی جسم تھا اور وہی زخم تھے اور وہی خوف دل میں تھا کہ مبادا بد بخت یہودی پھر پکڑ لیں.متی باب ۲۸ آیت ۷ و ۸ و ۹ و ۱۰ کوغور سے پڑھو.ان آیات میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ وہ عورتیں جن کو کسی نے یہ پستہ دیا تھا کہ مسیح جیتا ہے اور جلیل کی طرف جا رہا ہے اور کہنے والے نے چپکے سے یہ بھی کہا تھا کہ شاگردوں کو جا کر یہ خبر کر دو.وہ اس بات کو سن کر خوش تو ہو ئیں مگر بڑی خوفناک حالت میں روانہ ہوئیں یعنی یہ اندیشہ تھا کہ اب بھی کوئی شریر یہودی مسیح کو پکڑ نہ لے.اور آیت ۹ میں ہے کہ جب وہ عورتیں شاگردوں کو خبر دینے جاتی تھیں تو یسوع انہیں ملا اور کہا سلام.اور آیت دس میں ہے کہ یسوع نے انہیں کہا مت ڈرو یعنی میرے پکڑے جانے کا اندیشہ نہ کرو پر میرے بھائیوں کو کہو کہ جلیل کو جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے.یعنی یہاں میں ٹھہر نہیں سکتا کہ دشمنوں کا اندیشہ ہے.غرض اگر فی الحقیقت مسیح مرنے کے بعد جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہوا تھا تو یہ بار ثبوت اس پر تھا کہ وہ ایسی زندگی کا یہودیوں کو ثبوت دیتا.مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ اس بار ثبوت سے سبکدوش نہیں ہوا.یہ ایک بدیہی بیہودگی ہے کہ ہم یہودیوں پر الزام لگاویں کہ انہوں نے مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت کو روک دیا بلکہ مسیح نے خود اپنے دوبارہ زندہ ہونے کا ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ بھاگنے اور چھپنے اور کھانے اور سونے اور زخم دکھلانے سے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ صلیب پر نہیں مرا.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 16 تا 50) نوٹ: اس جگہ مسیح نے عورتوں کو ان الفاظ سے تسلی نہیں دی کہ اب میں نئے اور جلالی جسم کے ساتھ اٹھا ہوں اب میرے پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا.بلکہ عورتوں کو کمزور دیکھ کر معمولی تسلی دی جو ہمیشہ مرد عورتوں کو دیا کرتے ہیں.غرض جلالی جسم کا کوئی ثبوت نہ دیا بلکہ اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلا کر معمولی جسم کا ثبوت دے دیا.منہ
مسیح ہندوستان میں 104 فلسطین سے کشمیر تک باب دوم ان شہادتوں کے بیان میں جو حضرت مسیح کے بچ جانے کی نسبت قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ہم کو ملی ہیں کی یہ دلائل جواب ہم اس باب میں لکھنے لگے ہیں بظاہر ان کی نسبت ہر ایک کو خیال پیدا ہوگا کہ عیسائیوں کے مقابل پر ان وجوہات کو پیش کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ لوگ قرآن شریف یا کسی حدیث کو اپنے لئے حجت نہیں سمجھتے.لیکن ہم نے محض اس غرض سے ان کو لکھا ہے کہ تا عیسائیوں کو قرآن شریف اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ معلوم ہو اور ان پر یہ حقیقت کھلے کہ کیونکر وہ سچائیاں جو صد ہابرس کے بعد اب معلوم ہوئی ہیں وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے پہلے سے بیان کر دی ہیں.چنانچہ اُن میں سے کسی قدر ذیل میں لکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمُ الآية.وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينا الآیة یعنی یہودیوں نے نہ حضرت مسیح کو درحقیقت قتل کیا اور نہ بذریعہ صلیب ہلاک کیا بلکہ ان کو محض ایک شبہ پیدا ہوا کہ گویا حضرت عیسی صلیب پر فوت ہو گئے ہیں اور ان کے پاس وہ دلائل نہیں ہیں جن کی وجہ سے ان کے دل اس بات پر مطمئن ہو سکیں کہ یقیناً حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر جان نکل گئی تھی.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے مارنے کا ارادہ کیا گیا مگر یہ محض ایک دھوکا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ایسا خیال کر لیا کہ در حقیقت حضرت مسیح علیہ السلام کی جان صلیب پر نکل گئی تھی بلکہ خدا نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے جن کی وجہ سے وہ صلیبی موت سے بیچ رہا.اب انصاف کرنے کا مقام ہے کہ جو کچھ قرآن کریم نے یہود اور نصاری کے برخلاف فرمایا تھا آخر کار وہی بات سچی نکلی.اور اس زمانہ کی اعلیٰ درجہ کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ النساء: 158
مسیح ہندوستان میں 105 فلسطین سے کشمیر تک حضرت مسیح در حقیقت صلیبی موت سے بچائے گئے تھے.کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہودی اس بات کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ کیونکر حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بغیر ہڈیاں توڑنے کے صرف دو تین گھنٹہ میں نکل گئی.اسی وجہ سے بعض یہودیوں نے ایک اور بات بنائی ہے کہ ہم نے مسیح کو تلوار سے قتل کر دیا تھا.حالانکہ یہودیوں کی پرانی تاریخ کے رو سے مسیح کو تلوار کے ذریعہ سے قتل کرنا ثابت نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ مسیح کے بچانے کے لئے اندھیرا ہوا.بھونچال آیا.پلاطوس کی بیوی کو خواب آئی.سبت کے دن کی رات قریب آگئی جس میں مصلوبوں کو صلیب پر رکھنا روا نہ تھا.حاکم کا دل بوجہ ہولناک خواب کے مسیح کے چھڑانے کے لئے متوجہ ہوا.یہ تمام واقعات خدا نے اس لئے ایک ہی دفعہ پیدا کر دیئے کہ تا مسیح کی جان بچ جائے.اس کے علاوہ میسیج کو ششی کی حالت میں کر دیا کہ تا ہر ایک کو مُردہ معلوم ہو.اور یہودیوں پر اس وقت ایک ہیبت ناک نشان بھونچال وغیرہ کے دکھلا کر بزدلی اور خوف اور عذاب کا اندیشہ طاری کر دیا.اور یہ دھڑ کہ اس کے علاوہ تھا کہ سبت کی رات میں لاشیں صلیب پر نہ رہ جائیں.پھر یہ بھی ہوا کہ یہودیوں نے مسیح کوششی میں دیکھ کر سمجھ لیا کہ فوت ہو گیا ہے.اندھیرے اور بھونچال اور گھبراہٹ کا وقت تھا.گھروں کا بھی ان کو فکر پڑا کہ شاید اس بھونچال اور اندھیرے سے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی.اور یہ دہشت بھی دلوں پر غالب ہوئی کہ اگر یہ شخص کا ذب اور کافر تھا جیسا کہ ہم نے دل میں سمجھا ہے تو اس کے اس دکھ دینے کے وقت ایسے ہولناک آثار کیوں ظاہر ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے.لہذا ان کے دل بے قرار ہو کر اس لائق نہ رہے کہ وہ مسیح کو اچھی طرح دیکھتے کہ آیا مر گیا یا کیا حال ہے.مگر در حقیقت یہ سب امور مسیح کے بچانے کے لئے خدائی تدبیریں تھیں.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَلَكِنُ شُبِّهَ لَهُمُ * یعنی یہود نے مسیح کو جان سے مارا نہیں ہے لیکن خدا نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا جان سے مار دیا ہے.اس سے راستبازوں کو خدائے تعالیٰ کے فضل پر بڑی امید بڑھتی ہے کہ جس طرح اپنے بندوں کو چاہے بچالے.اور قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت حضرت مسیح کے حق میں ہے.وَجِيهاً فِى النساء : 158
106 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت اور مرتبہ اور عام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی.اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرو دوس اور پلاطوس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی.اور یہ خیال کہ دنیا میں پھر آ کر عزت اور بزرگی پائیں گے.یہ ایک بے اصل وہم ہے جو نہ صرف خدائے تعالیٰ کی کتابوں کے منشاء کے مخالف بلکہ اس کے قدیم قانونِ قدرت سے بھی مغائر اور مبائن اور پھر ایک بے ثبوت امر ہے مگر واقعی اور سچی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس بد بخت قوم کے ہاتھ سے نجات پا کر جب ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے فخر بخشا.تو اس ملک میں خدائے تعالیٰ نے ان کو بہت عزت دی اور بنی اسرائیل کی وہ دس تو میں جو گم تھیں اس جگہ آکر ان کو مل گئیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آ کر اکثر ان میں سے بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے اور بعض ذلیل قسم کی بت پرستی میں پھنس گئے تھے.سو اکثر ان کے حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے سے راہ راست پر آگئے.اور چونکہ حضرت مسیح کی دعوت میں آنے والے نبی کے قبول کرنے کے لئے وصیت تھی اس لئے وہ دس فرقے جو اس ملک میں آکر افغان اور کشمیری کہلائے.آخر کار سب کے سب مسلمان ہو گئے.غرض اس ملک میں حضرت مسیح کو بڑی وجاہت پیدا ہوئی.اور حال میں ایک سکہ ملا ہے جو اسی ملک پنجاب میں سے برآمد ہوا ہے اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام پالی تحریر میں درج ہے اور اُسی زمانہ کا سکہ ہے جو حضرت مسیح کا زمانہ تھا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آ کر شاہانہ عزت پائی.اور غالبا یہ سکہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہے جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا.ایک اور سکہ برآمد ہوا ہے اس پر ایک اسرائیلی مرد کی تصویر ہے.قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی تصویر ہے.قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے یہ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہوگا.یسو ان سکوں سے ثابت ہے کہ اُس نے خدا سے بڑی برکت پائی اور وہ فوت نہ ہوا جب تک اس کو ایک شاہانہ عزت نہ دی گئی.اسی طرح ا.آل عمران: 46 وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَمَا كُنتُ (مریم: 32)
107 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا * یعنی اے عیسی میں ان الزاموں سے تجھے بری کروں گا اور تیرا پاکدامن ہونا ثابت کر دوں گا اور ان تہمتوں کو دور کر دوں گا جو تیرے پر یہود اور نصاری نے لگائیں.یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی اور اس کا ماحصل یہی ہے کہ یہود نے یہ تہمت لگائی تھی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح مصلوب ہو کر ملعون ہوکر خدا کی محبت ان کے دل میں سے جاتی رہی اور جیسا کہ لعنت کے مفہوم کے لئے شرط ہے ان کا دل خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزار ہو گیا اور تاریکی کے بے انتہا طوفان میں پڑ گیا اور بدیوں سے محبت کرنے لگا اور کل نیکیوں کا مخالف ہو گیا اور خدا سے تعلق توڑ کر شیطان کی بادشاہت کے ماتحت ہو گیا اور اس میں اور خدا میں حقیقی دشمنی پیدا ہوگئی.اور یہی تہمت ملعون ہونے کی نصاری نے بھی لگائی تھی مگر نصاری نے اپنی نادانی سے دوضروں کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے.انہوں نے ایک طرف تو حضرت مسیح کو خدا کا فرزند قرار دیا اور دوسری طرف ملعون بھی قرار دیا ہے اور خود مانتے ہیں کہ ملعون تاریکی اور شیطان کا فرزند ہوتا ہے یا خود شیطان ہوتا ہے سو حضرت مسیح پر یہ سخت نا پاک تہمتیں لگائی گئی تھیں.اور مُطَهَرُک کی پیشگوئی میں یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ وہ آتا ہے کہ خدائے تعالیٰ ان الزاموں سے حضرت مسیح کو پاک کرے گا.اور یہی وہ زمانہ ہے.اگر چہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تطہیر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی سے بھی عظمندوں کی نظروں میں بخوبی ہوگئی کیونکہ آنجناب نے اور قرآن شریف نے گواہی دی کہ وہ الزام سب جھوٹے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام پر لگائے گئے تھے.لیکن یہ گواہی عوام کی نظر میں نظری اور باریک تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے انصاف نے یہی چاہا کہ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو مصلوب کرنا ایک مشہور امر تھا اور امور بدیہیہ مشہودہ محسوسہ میں سے تھا اسی طرح تظہیر اور بریت بھی امور مشہودہ محسوسہ میں سے ہونی چاہئیے.سواب اسی کے موافق ظہور میں آیا یعنی تطہیر بھی صرف نظری نہیں بلکہ محسوس طور پر ہوگئی اور لاکھوں انسانوں نے اس جسم کی آنکھ سے دیکھ لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے.اور جیسا کہ کلکتہ یعنی سری کے مکان پر حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچا گیا تھا ایسا آل عمران : 56
108 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک ہی سری کے مکان پر یعنی سرینگر میں ان کی قبر کا ہونا ثابت ہوا.یہ عجیب بات ہے کہ دونوں موقعوں میں سری کا لفظ موجود ہے.یعنی جہاں حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر کھینچے گئے اس مقام کا نام بھی گلگت یعنی سری ہے اور جہاں انیسویں صدی کے اخیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ثابت ہوئی اس مقام کا نام بھی گلگت یعنی سری ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ گلگت کہ جو کشمیر کے علاقہ میں ہے یہ بھی سری کی طرف ایک اشارہ ہے.غالبا یہ شہر حضرت مسیح کے وقت میں بنایا گیا ہے اور واقعہ صلیب کی یاد گار مقامی کے طور پر اس کا نام گلگت یعنی سری رکھا گیا.جیسا کہ لاسہ جس کے معنی ہیں معبود کا شہر.یہ عبرانی لفظ ہے اور یہ بھی حضرت مسیح کے وقت میں آباد ہوا ہے.اور احادیث میں معتبر روایتوں سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح کی عمر ایک سو پچیس ۱۲۵ برس کی ہوئی ہے.اور اس بات کو اسلام کے تمام فرقے مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں دو ایسی باتیں جمع ہوئی تھیں کہ کسی نبی میں وہ دونوں جمع نہیں ہوئیں.(۱) ایک یہ کہ انہوں نے کامل عمر پائی یعنی ایک سو چھپیں ۱۲۵ برس زنده رہے.(۲) دوم یہ کہ انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں کی سیاحت کی.اس لئے نبی سیاح کہلائے.اب ظاہر ہے کہ اگر وہ صرف تینتیس ۳۳ برس کی عمر میں آسمان کی طرف اٹھائے جاتے تو اس صورت میں ایک سو چھپیں ۱۲۵ برس کی روایت صحیح نہیں ٹھہر سکتی تھی اور نہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں یعنی تینتیس برس میں سیاحت کر سکتے تھے.اور یہ روائتیں نہ صرف حدیث کی معتبر اور قدیم کتابوں میں لکھی ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے فرقوں میں اس تواتر سے مشہور ہیں کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں.کنز العمال جو احادیث کی ایک جامع کتاب ہے اس کے صفحہ ۳۴ میں ابو ہریرہ سے یہ حدیث لکھی ہے.اوحی اللہ تعالی الى عيسى ان يا عيسى انتقل من مكان الى مكان لئلا تعرف فتؤذى يعنى اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے عیسی ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرتارہ یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جاتا کہ کوئی پہچان کر دکھ نہ دے.اور پھر اسی کتاب میں جابر سے روایت کر کے یہ حدیث لکھی جلد دوم عاش عيسى ابن مريم مائة و خمسا وعشرين سنة.الطبقات الكبرى تاليف محمد بن سعد بن منيع الظهرى.
مسیح ہندوستان میں ہے.109 فلسطین سے کشمیر تک كان عيسى ابن مريم يسيح فاذا امسى اكل بقل الصحراء و يشرب الماء القراح یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سیر کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے.اور پھر اسی کتاب میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے جس کے یہ لفظ ہیں.قال احب شيء الى الله الغرباء قيل اى شيء الغرباء، قال الذين يفرون بدينهم و يجتمعون الى عيسى ابن مریم یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں.پوچھا گیا کہ غریب کے کیا معنی ہیں کہا وہ لوگ ہیں جو عیسی مسیح کی طرح دین لے کر اپنے ملک سے بھاگتے ہیں..مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 50 تا 56) تیسر اباب ان شہادتوں کے بیان میں جو طبابت کی کتابوں میں سے لی گئی ہیں دکھ ایک اعلیٰ درجہ کی شہادت جو حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے پر ہم کو ملی ہے اور جو ایسی شہادت ہے کہ بجز ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا وہ ایک نسخہ ہے جس کا نام مرہم عیسی ہے جو طب کی صدہا کتابوں میں لکھا ہوا پایا جاتا ہے.ان کتابوں میں سے بعض ایسی ہیں جو عیسائیوں کی تالیف ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے مؤلف مجوسی یا یہودی ہیں.اور بعض کے بنانے والے مسلمان ہیں.اور اکثر ان میں بہت قدیم زمانہ کی ہیں.تحقیق سے ایسا معلوم ہوا ہے کہ اول زبانی طور پر اس نسخہ کا لاکھوں انسانوں میں شہرہ ہو گیا اور پھر لوگوں نے اس نسخہ کو قلمبند کر لیا.پہلے رومی زبان میں حضرت مسیح کے زمانہ میں ہی کچھ تھوڑا عرصہ واقعہ صلیب کے بعد ایک قرابادین تالیف ہوئی جس میں یہ نسخہ تھا اور جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ نسخہ بنایا گیا تھا.پھر وہ قرابادین کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی یہاں تک کہ مامون رشید کے زمانہ میں عربی زبان میں اس جلد دوم صفحه ای - جلد چھ صفحه ۵۱ كنز العمال في سنن الاقوال والافعال للشيخ علاء الدين على المتقى بن حسام الدين الهندى مطبع دائرة
110 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں کا ترجمہ ہوا.اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے طیار کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ان چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی ضربہ یا سقطہ سے لگ جاتی ہیں اور چوٹوں سے جو خون رواں ہوتا ہے وہ فی الفور اس سے خشک ہو جاتا ہے اور چونکہ اس میں مر بھی داخل ہے اس لئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ رہتا ہے.اور یہ دوا طاعون کے لئے بھی مفید ہے.اور ہر قسم کے پھوڑے پھنسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے.یہ معلوم نہیں کہ یہ دوا صلیب کے زخموں کے بعد خود ہی حضرت عیسی علیہ السلام نے الہام کے ذریعہ سے تجویز فرمائی تھی یا کسی طبیب کے مشورہ سے طیار کی گئی تھی.اس میں بعض دوائیں اکسیر کی طرح ہیں.خاص کر مر جس کا ذکر توریت میں بھی آیا ہے.بہر حال اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام کے زخم چند روز میں ہی اچھے ہو گئے.اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ تین روز میں یروشلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پاگئے.پس اس دوا کی تعریف میں اس قدر کافی ہے کہ مسیح تو اوروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس دوا نے مسیح کو اچھا کیا.اور جن طب کی کتابوں میں یہ نسخہ لکھا گیا وہ ہزار کتاب سے بھی زیادہ ہیں.جن کی فہرست لکھنے سے بہت طول ہوگا اور چونکہ یہ نسخہ یونانی طبیبوں میں بہت مشہور ہے اس لئے میں کچھ ضرورت نہیں دیکھتا کہ تمام کتابوں کے نام اس جگہ لکھوں محض چند کتابیں جو اس جگہ موجود ہیں ذیل میں لکھ دیتا ہوں.فہرست ان طبقی کتابوں کی جن میں مرہم عیسی کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ وہ مرہم حضرت عیسی کے لئے یعنی ان کے بدن کے زخموں کے لئے بنائی گئی تھی قانون شیخ الرئیس بوعلی سینا جلد ثالث صفحہ نمبر ۱۳۳.شرح قانون علامہ قطب الدین شیرازی جلد ثالث.کامل الصناعة تصنیف علی بن العباس المحجوسی جلد دوم صفحه ۶۰۲- کتاب مجموعه بقائی مصنفہ محمود محمد اسماعیل مخاطب از خاقان بخطاب پدر محمد بقا خان جلد ۲ صفحہ ۴۹۷.
مسیح ہندوستان میں 111 فلسطین سے کشمیر تک کتاب تذکرة اولوالالباب مصنفہ شیخ داؤد الضرير الانطا کی صفحه ۳۰۳.قرابادین رومی مصنفہ قریب زمانہ حضرت مسیح جس کا ترجمہ مامون رشید کے وقت میں عربی میں ہوا امراض جلد.کتاب عمدة الحتاج مصنفہ احمد بن حسن الرشیدی الحکیم اس کتاب میں مرہم عیسی وغیرہ ادویہ سوکتاب میں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ کتابوں میں سے لکھی گئی ہیں.اور وہ تمام کتابیں فرینچ زبان میں تھیں.کتاب قرابادین فارسی مصنفہ حکیم محمد اکبر ارزانی امراض جلد - کتاب شفاء الاستقام جلد دوم صفحہ ۲۳۰.کتاب مرأة الشفا مصنفہ حکیم نفقو شاه نسخه قلمی امراض جلد.ذخیرہ ، خوارزم شاہی امراض جلد - شرح قانون گیلانی جلد ثالث- شرح قانون قرشی جلد ثالث.قرابا دین علوی خان امراض جلد کتاب علاج الامراض مصنفہ حکیم محمد شریف خان صاحب صفحه ۸۹۳ - قرابادین یونانی امراض جلد - تحفۃ المؤمنین بر حاشیہ مخزن الادویہ صفحہ ۷۱۳.کتاب محیط فی الطب صفحہ ۳۶۷.کتاب اکسیر اعظم جلد رابع مصنفہ حکیم محمد اعظم خان صاحب المخاطب بناظم جہاں صفحہ ۳۳۱.کتاب قرا با دین معصومی لمعصوم بن کریم الدین الشوستری شیرازی.کتاب عجالہ نافع محمد شریف دہلوی صفحه۴۱۰.کتاب طب شہری مسمی بلوامع شہر یہ تالیف سید حسین شہر کاظمی صفحه ۴۷ - کتاب مخزن سلیمانی ترجمه اکسیر عربی صفحہ ۵۹۹ - مترجم محمد شمس الدین صاحب بہاولپوری.شفاء الامراض مترجم مولانا الحکیم محمد نور کریم صفحه ۲۸۲.کتاب الطب دارا شکوہی مؤلفہ نورالدین محمد عبد الحکیم عین الملک الشیرازی ورق ۳۶۰ کتاب منهاج الدکان بدستور الاعیان فی اعمال و ترکیب النافعه للا بدان تالیف افلاطون زمانہ و رئیس اوانہ ابوالمنا ابن ابی نصر العطار الاسرائیلی الہارونی (یعنی یہودی) صفحه ۸۶ - کتاب زبدة الطب لسيد الامام ابوابراہیم اسمعیل بن حسن الحسینی الجرجانی ورق ۱۸۲.طب اکبر مصنفہ محمداکبر ارزانی صفحه۲۴۲ - کتاب میزان الطب مصنفه محمد اکبر ارزانی صفحه ۱۵۲- سدیدی مصنفہ رئیس المتکلمین امام الحقين السديد الكا ذ رونی صفحه ۲۸۳ جلد ۲.کتاب حاوی کبیر ابن ذکر یا امراض جلد.قرابا دین ابن تلمیذ امراض جلد.قرا با دین ابن ابی صادق امراض جلد.یہ وہ کتابیں ہیں جن کو میں نے بطور نمونہ اس جگہ لکھا ہے.اور یہ بات اہل علم اور خاص کر
مسیح ہندوستان میں 112 فلسطین سے کشمیر تک طبیبوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اکثر ان میں ایسی کتابیں ہیں جو پہلے زمانہ میں اسلام کے بڑے بڑے مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں اور یورپ کے طالب العلم بھی ان کو پڑھتے تھے.اور یہ کہنا بالکل سچ اور مبالغہ کی ایک ذرہ آمیزش سے بھی پاک ہے کہ ہر ایک صدی میں قریباً کروڑہا انسان ان کتابوں کے نام سے واقف ہوتے چلے آئے ہیں اور لاکھوں انسانوں نے ان کو اول سے آخر تک پڑھا ہے اور ہم بڑے زور سے کہہ سکتے ہیں کہ یورپ اور ایشیا کے عالم لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ ان بعض عظیم الشان کتابوں کے نام سے ناواقف ہو جو اس فہرست میں درج ہیں.جس زمانہ میں ہسپانیہ اور لیمنو اور ستلیر نم " ☆ دار العلم تھے اس زمانہ میں بوعلی سینا کی کتاب قانون جو طب کی ایک بڑی کتاب ہے جس میں مرہم عیسی کا نسخہ ہے اور دوسری کتابیں شفاء اور اشارات اور بشارات جو طبعی اور ہیئت اور فلسفہ وغیرہ میں ہیں بڑے شوق سے اہلِ یورپ سیکھتے تھے.اور ایسا ہی ابونصر فارابی اور ابوریحان اور اسرائیل اور ثابت بن قرہ اور حنین بن اسحاق اور اسحاق وغیرہ فاضلوں کی کتابیں اور ان کی یونانی سے ترجمہ شدہ کتابیں پڑھائی جاتی تھیں یقیناً ان کتابوں کے ترجمے یورپ کے کسی حصہ میں اب تک موجود ہوں گے.اور چونکہ اسلام کے بادشاہ علم طب وغیرہ کو ترقی دینا بدل چاہتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے یونان کی عمدہ عمدہ کتابوں کا ترجمہ کرایا اور عرصہ دراز تک ایسے بادشاہوں میں خلافت رہی کہ وہ ملک کی توسیع کی نسبت علم کی توسیع زیادہ چاہتے تھے انہی وجوہ اور اسباب سے انہوں نے نہ صرف یونانی کتابوں کے ترجمے عربی میں کرائے بلکہ ملک ہند کے فاضل پنڈتوں کو بھی بڑی بڑی تنخواہوں پر طلب کر کے طب وغیرہ علوم کے بھی ترجمے کرائے پس ان کے احسانوں میں سے حق کے طالبوں پر یہ ایک بڑا احسان ہے جو انہوں نے ان رومی و یونانی وغیرہ طبی کتابوں کے ترجمے کرائے جن میں مرہم عیسی موجود تھی اور جس پر کتبہ کی طرح یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ مرہم حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی.فاضل حکماء عہد اسلام نے جیسا کہ ثابت بن قرہ اور حنین بن اسحاق ہیں جن کو علاوہ علم طب وطبعی و فلسفہ وغیرہ کی یونانی ہسپانیہ یعنی اندلس کیمنو یعنی قسطمونیہ ستلیر نم یعنی مشترین.منہ ☆
113 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں زبان میں خوب مہارت تھی جب اس قرابادین کا جس میں مرہم عیسی تھی ترجمہ کیا تو عقلمندی سے شلیخا کے لفظ کو جو ایک یونانی لفظ ہے جو باراں کو کہتے ہیں بعینہ عربی میں لکھ دیا تا اس بات کا اشارہ کتابوں میں قائم رہے کہ یہ کتاب یونانی قرابا دین سے ترجمہ کی گئی.اسی وجہ سے اکثر ہر ایک کتاب میں شلیخا کا لفظ بھی لکھا ہوا پاؤ گے.اور یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ اگر چہ پرانے سکتے بڑی قابل قدر چیزیں ہیں اور ان کے ذریعہ سے بڑے بڑے تاریخی اسرار کھلتے ہیں لیکن ایسی پرانی کتابیں جو مسلسل طور پر ہر صدی میں کروڑ ہا انسانوں میں مشہور ہوتی چلی آئیں اور بڑے بڑے مدارس میں پڑھائی گئیں اور اب تک درسی کتابوں میں داخل ہیں ان کا مرتبہ اور عزت ان سکوں اور کتبوں سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے.کیونکہ کتبوں اور سکوں میں جعل سازی کی بھی گنجائشیں ہیں لیکن وہ علمی کتا ہیں جو اپنے ابتدائی زمانہ میں ہی کروڑ ہا انسانوں میں مشہور ہوتی چلی آئی ہیں اور ہر ایک قوم ان کی محافظ اور پاسبان ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہے.ان کی تحریر میں بلا شبہ ایسی اعلیٰ درجہ کی شہادتیں ہیں جو سکوں اور کتبوں کو ان سے کچھ بھی نسبت نہیں.اگر ممکن ہو تو کسی سکہ یا کتبہ کا نام تو لو جس نے ایسی شہرت پائی ہو جیسا کہ بوعلی سینا کے قانون نے.غرض مرہم عیسی حق کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان شہادت ہے.اگر اس شہادت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام تاریخی ثبوت اعتبار سے گر جاویں گے کیونکہ اگر چہ اب تک ایسی کتابیں جن میں اس مرہم کا ذکر ہے قریباً ایک ہزار ہیں یا کچھ زیادہ.لیکن کروڑہا انسانوں میں یہ کتابیں اور ان کے مؤلف شہرت یافتہ ہیں.اب ایسا شخص علم تاریخ کا دشمن ہوگا جو اس بدیہی اور روشن اور پُر زور ثبوت کو قبول نہ کرے.اور کیا یہ حکم پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس قدر عظیم الشان ثبوت کو ہم نظر انداز کر دیں اور کیا ہم ایسے بھاری ثبوت پر بدگمانی کر سکتے ہیں جو یورپ اور ایشیا پر دائرہ کی طرح محیط ہو گیا ہے.اور جو یہودیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کے نامی فلاسفروں کی شہادتوں سے پیدا ہوا ہے.اب اے محققوں کی روحو! اس اعلیٰ ثبوت کی طرف دوڑو.اور اے منصف مزاجو! اس معاملہ میں ذرہ غور کرو.کیا ایسا
مسیح ہندوستان میں 114 فلسطین سے کشمیر تک چمکتا ہوا ثبوت اس لائق ہے کہ اس پر توجہ نہ کی جائے؟ کیا مناسب ہے کہ ہم اس آفتاب صداقت سے روشنی حاصل نہ کریں؟ یہ وہم بالکل لغو اور بیہودہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت کے زمانہ سے پہلے چوٹیں لگی ہوں یا نبوت کے زمانہ کی ہی چوٹیں ہوں مگر وہ صلیب کی نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہاتھ اور پیر زخمی ہو گئے ہوں.مثلاً وہ کسی کو ٹھے پر سے گر گئے ہوں اور اس صدمہ کے لئے یہ مرہم طیار کی گئی ہو.کیونکہ نبوت کے زمانہ سے پہلے حواری نہ تھے اور اس مرہم میں حواریوں کا ذکر ہے.شلیخا کا لفظ جو یونانی ہے جو باراں کو کہتے ہیں.ان کتابوں میں اب تک موجود ہے.اور نیز نبوت کے زمانہ سے پہلے حضرت مسیح کی کوئی عظمت تسلیم نہیں کی گئی تھی تا اس کی یادگار محفوظ رکھی جاتی اور نبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھا.اور اس مدت میں کوئی واقعہ ضربہ یا سقطہ کا بجز واقعہ صلیب کے حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت تاریخوں سے ثابت نہیں.اور اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ ممکن ہے کہ ایسی چوٹیں کسی اور سبب سے حضرت عیسی علیہ السلام کو گی ہوں تو یہ ثبوت اس کے ذمہ ہے کیونکہ ہم جس واقعہ کو پیش کرتے ہیں وہ ایک ایسا ثابت شدہ اور مانا ہوا واقعہ ہے کہ نہ یہودیوں کو اس سے انکار ہے اور نہ عیسائیوں کو یعنی صلیب کا واقعہ.لیکن یہ خیال کہ کسی اور سبب سے کوئی چوٹ حضرت مسیح کو لگی ہوگی کسی قوم کی تاریخ سے ثابت نہیں.اس لئے ایسا خیال کرنا عمد اسچائی کی راہ کو چھوڑنا ہے.یہ ثبوت ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کے بیہودہ عذرات سے رڈ ہو سکے.اب تک بعض کتابیں بھی موجود ہیں جو مصنفوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ ایک پرانا قلمی نسخہ قانون بوعلی سینا کا اُسی زمانہ کا لکھا ہوا میرے پاس بھی موجود ہے.تو پھر یہ صریح ظلم اور سچائی کا خون کرنا ہے کہ ایسے روشن ثبوت کو یونہی پھینک دیا جائے.بار بار اس بات میں غور کرو اور خوب غور کرو کہ کیونکر یہ کتا بیں اب تک یہودیوں اور مجوسیوں اور عیسائیوں اور عربوں اور فارسیوں اور یونانیوں اور رومیوں اور اہل جرمن اور فرانسیسیوں اور دوسرے یورپ کے ملکوں اور ایشیا کے پرانے کتب خانوں میں موجود ہیں اور کیا یہ لائق ہے کہ ہم ایسے ثبوت سے جس کی روشنی سے انکار کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں یونہی منہ پھیر لیں؟ اگر یہ کتا بیں صرف اہل اسلام کی تالیف
115 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں اور اہلِ اسلام کے ہی ہاتھ میں ہوتیں تو شاید کوئی جلد باز یہ خیال کر سکتا کہ مسلمانوں نے عیسائی عقیدہ پر حملہ کرنے کے لئے جعلی طور پر یہ باتیں اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں.مگر یہ خیال علاوہ ان وجوہ کے جو ہم بعد میں لکھتے ہیں اس وجہ سے بھی غلط تھا کہ ایسے جعل کے مسلمان کسی طور سے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد بلا توقف آسمان پر چلے گئے.اور مسلمان تو اس بات کے قائل بھی نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر کھینچا گیا یا صلیب پر سے ان کو زخم پہنچے پھر وہ عمداً ایسی جعل سازی کیونکر کر سکتے تھے جو ان کے عقیدہ کے بھی مخالف تھی.ماسوا اس کے ابھی اسلام کا دنیا میں وجود بھی نہیں تھا جبکہ رومی و یونانی وغیرہ زبانوں میں ایسی قرابا دینیں لکھی گئیں اور کروڑہا لوگوں میں مشہور کی گئیں جن میں مرہم عیسی کا نسخہ موجود تھا اور ساتھ ہی یہ تشریح بھی موجود تھی کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بنائی تھی.اور یہ قومیں یعنی یہودی و عیسائی واہل اسلام و مجوسی مذہبی طور پر ایک دوسرے کے دشمن تھے.پس ان سب کا اس مرہم کو اپنی کتابوں میں درج کرنا بلکہ درج کرنے کے وقت اپنے مذہبی عقیدوں کی بھی پرواہ نہ رکھنا صاف اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مرہم ایسا واقعہ مشہورہ تھا کہ کوئی فرقہ اور کوئی قوم اس سے منکر نہ ہوسکی.ہاں جب تک وہ وقت نہ آیا جو مسیح موعود کے ظہور کا وقت تھا اس وقت تک ان تمام قوموں کے ذہن کو اس طرف التفات نہیں ہوئی کہ یہ نسخہ جو صدہا کتابوں میں درج اور مختلف قوموں کے کروڑہا انسانوں میں شہرت یاب ہو چکا ہے اس سے کوئی تاریخی فائدہ حاصل کریں.پس اس جگہ ہم بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خدا کا ارادہ تھا کہ وہ چمکتا ہوا حربہ اور وہ حقیقت نما برہان کہ جو صلیبی اعتقاد کا خاتمہ کرے اس کی نسبت ابتدا سے یہی مقدر تھا کہ مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا میں ظاہر ہو.کیونکہ خدا کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ صلیبی مذہب نہ گھٹے گا اور نہ اس کی ترقی میں فتور آئے گا جب تک کہ مسیح موعود دنیا میں ظاہر نہ ہو.اور وہی ہے جو کسر صلیب اس کے ہاتھ پر ہوگی.اس پیشگوئی میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ
مسیح ہندوستان میں 116 فلسطین سے کشمیر تک کی اصل حقیقت کھل جائے گی.تب انجام ہوگا اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہو جائے گی.لیکن نہ کسی جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسباب سے جو علمی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے.یہی مفہوم اس حدیث کا ہے جو صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں درج ہے.پس ضرور تھا کہ آسمان ان امور اور ان شہادتوں اور ان قطعی اور یقینی ثبوتوں کو ظاہر نہ کرتا جب تک کہ مسیح موعود دنیا میں نہ آتا.اور ایسا ہی ہوا.اور اب سے جو وہ موعود ظاہر ہوا ہر ایک کی آنکھ کھلے گی اور غور کرنے والے غور کریں گے کیونکہ خدا کا مسیح آ گیا.اب ضرور ہے کہ دماغوں میں روشنی اور دلوں میں توجہ اور قلموں میں زور اور کمروں میں ہمت پیدا ہو.اور اب ہر ایک سعید کو فہم عطا کیا جائے گا اور ہر ایک رشید کو عقل دی جائے گی کیونکہ جو چیز آسمان میں چمکتی ہے وہ ضرور زمین کو بھی منور کرتی ہے.مبارک وہ جو اس روشنی سے حصہ لے.اور کیا ہی سعادت مند وہ شخص ہے جو اس نور میں سے کچھ پاوے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ پھل اپنے وقت پر آتے ہیں ایسا ہی نور بھی اپنے وقت پر ہی اتر تا ہے.اور قبل اس کے جو وہ خود اترے کوئی اس کو اتار نہیں سکتا.اور جبکہ وہ اترے تو کوئی اس کو بند نہیں کر سکتا.مگر ضرور ہے کہ جھگڑے ہوں اور اختلاف ہو مگر آخر سچائی کی فتح ہے.کیونکہ یہ امر انسان سے نہیں ہے اور نہ کسی آدم زاد کے ہاتھوں سے بلکہ اس خدا کی طرف سے ہے جو موسموں کو بدلا تا اور وقتوں کو پھیرتا اور دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے.وہ تاریکی بھی پیدا کرتا ہے مگر چاہتا روشنی کو ہے.وہ شرک کو بھی پھیلنے دیتا ہے مگر پیار اس کا توحید سے ہی ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کا جلال دوسرے کو دیا جائے.جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہو جائے خدا کا قانون قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے.جتنے نبی اس نے بھیجے سب اسی لئے آئے تھے کہ تا انسانوں اور دوسری مخلوقوں کی پرستش دور کر کے خدا کی پرستش دنیا میں قائم کریں اور ان کی خدمت یہی تھی کہ لا الہ الا اللہ کا مضمون زمین پر چمکے جیسا کہ وہ آسمان پر چمکتا ہے.سوان سب میں سے بڑا وہ ہے جس نے اس مضمون کو بہت چمکایا.جس نے پہلے باطل الہوں کی کمزوری ثابت کی اور علم اور طاقت کے رو سے ان کا بیچ ہونا ثابت کیا.اور جب سب کچھ
مسیح ہندوستان میں 117 فلسطین سے کشمیر تک ثابت کر چکا تو پھر اس فتح نمایاں کی ہمیشہ کے لئے یاد گار یہ چھوڑی کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ اس نے صرف بے ثبوت دعوی کے طور پر لَا إِلهَ إِلَّا الله نہیں کہا بلکہ اس نے پہلے ثبوت دے کر اور باطل کا بطلان دکھلا کر پھر لوگوں کو اس طرف توجہ دی کہ دیکھو اس خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں جس نے تمہاری تمام قوتیں توڑ دیں اور تمام شیخیاں نابود کر دیں.سو اس ثابت شدہ بات کو یاد دلانے کے لئے ہمیشہ کے لئے یہ مبارک کلمہ سکھلایا کہ لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 56 تا 65) باب چهارم ان شہادتوں کے بیان میں جو تاریخی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں کچھ چونکہ اس باب میں مختلف قسم کی شہادتیں ہیں اس لئے صفائی ترتیب کے لئے ہم اس کو کئی فصل پر منقسم کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہیں.پہلی فصل ان شہادتوں کے ذکر میں جوان اسلامی کتابوں سے لی گئی ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کی سیاحت کو ثابت کرتی ہیں.کتاب روضۃ الصفا جو ایک مشہور تاریخی کتاب ہے اس کے صفحہ ۱۳۰.۱۳۱.۱۳۲.۱۳۳ ۱۳۴.۱۳۵ میں بزبان فارسی وہ عبارت لکھی ہے جس کا خلاصہ ترجمہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں.اور وہ یہ ہے:.حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح اس واسطے رکھا گیا کہ وہ سیاحت بہت کرتے تھے ایک پشمی طاقیہ ان کے سر پر ہوتا تھا اور ایک پشمی کرتہ پہنے رہتے تھے.اور ایک عصا ہاتھ میں ہوتا تھا.اور ہمیشہ ملک بہ ملک اور شہر بشہر پھرتے تھے اور جہاں رات پڑ جاتی وہیں رہ جاتے تھے.جنگل کی سبزی کھاتے تھے اور جنگل کا پانی پیتے اور پیادہ سیر کرتے تھے.ایک
118 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں دفعہ سیاحت کے زمانہ میں ان کے رفیقوں نے ان کے لئے ایک گھوڑا خریدا اور ایک دن سواری کی مگر چونکہ گھوڑے کے آب و دانہ اور چارے کا بندوبست نہ ہو سکا اس لئے اس کو واپس کر دیا.وہ اپنے ملک سے سفر کر کے نصیبین میں پہنچے جو ان کے وطن سے کئی سوکوس کے فاصلہ پر تھا.اور آپ کے ساتھ چند حواری بھی تھے.آپ نے حواریوں کو تبلیغ کے لئے شہر میں بھیجا.مگر اس شہر میں حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کی نسبت غلط اور خلاف واقعہ خبریں پہنچی ہوئی تھیں اس لئے اس شہر کے حاکم نے حواریوں کو گرفتار کر لیا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کو بلایا.آپ نے اعجازی برکت سے بعض بیماروں کو اچھا کیا اور اور بھی کئی معجزات دکھلائے.اس لئے نصیبین کے ملک کا بادشاہ مع تمام لشکر اور باشندوں کے آپ پر ایمان لے آیا اور نزول مائدہ کا قصہ جو قرآن شریف میں ہے وہ واقعہ بھی ایام سیاحت کا ہے.یہ خلاصہ بیان تاریخ روضۃ الصفا ہے.اور اس جگہ مصنف کتاب نے بہت سے بیہودہ اور لغو اور دور از عقل معجزات بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب کئے ہیں.جن کو ہم افسوس کے ساتھ چھوڑتے ہیں اور اپنی اس کتاب کو ان جھوٹ اور فضول اور مبالغہ آمیز باتوں سے پاک رکھ کر صرف اصل مطلب اس سے لیتے ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سیر کرتے کرتے نصیبین تک پہنچ گئے تھے اور نصیبین موصل اور شام کے درمیان ایک شہر ہے جس کو انگریزی نقشوں میں نسی بس کے نام سے لکھا ہے.جب ہم ملک شام سے فارس کی طرف سفر کریں تو ہماری راہ میں نصیبین آئے گا اور وہ بیت المقدس سے قریباً ساڑھے چار سوکوس ہے اور پھر نصیبین سے قریباً ۴۸ میل موصل ہے جو بیت المقدس سے پانسو میل کے فاصلہ پر ہے اور موصل سے فارس کی حد صرف سو میل رہ جاتی ہے اس حساب سے نصیبین فارس کی حد سے ڈیڑھ سو میل پر ہے اور فارس کی مشرقی حد افغانستان کے شہر ہرات تک ختم ہوتی ہے یعنی فارس کی طرف ہرات افغانستان کی مغربی حد پر واقع ہے اور فارس کی مغربی حد سے قریباً نو سو میل کے فاصلہ پر ہے اور ہرات سے درہ خیبر تک قریبا پانسومیل کا فاصلہ ہے.دیکھو نقشہ طذا.
مسیح ہندوستان میں F نقشه سفر حضرت مسیح علیہ اسلام ب حساب المریزی میل نشان برای تصفیه 119 (یو سی بیٹس.اے عیسائی تاریخ یونانی جس کو ہین مرنامی ایک شخص لندن کے رہنے والے نے ۱۶۵۰ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اس کے پہلے باب چودھویں فصل میں ایک خط ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ انگیرس نام نے دریائے فرات کے پار سے حضرت عیسی کو اپنے پاس بلایا تھا.انگیرس کا حضرت عیسی کی طرف خط اور حضرت عیسیٰ کا جواب بہت جھوٹ اور مبالغہ سے بھرا ہوا ہے.مگر اس قدر سچی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس بادشاہ نے یہودیوں کا ظلم سن کر حضرت عیسی کو اپنے پاس پناہ دینے کے لئے بلایا تھا اور بادشاہ کو خیال تھا کہ یہ سچا نبی ہے.منہ ) ? فلسطین سے کشمیر تک
مسیح ہندوستان میں 120 فلسطین سے کشمیر تک یہ ان ملکوں اور شہروں کا نقشہ ہے جن سے حضرت مسیح علیہ السلام کا کشمیر کی طرف آتے ہوئے گذر ہوا.اس سیر و سیاحت سے آپ کا یہ ارادہ تھا کہ تا اول ان بنی اسرائیل کو ملیں جن کو شاہ سلمندر پکڑ کر ملک میدیا میں لے گیا تھا.اور یادر ہے کہ عیسائیوں کے شائع کردہ نقشہ میں میدیا بحیرہ خزر کے جنوب میں دکھایا گیا ہے جہاں آج کل فارس کا ملک واقع ہے.اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ کم سے کم میدیا اس ملک کا ایک حصہ تھا جسے آج کل فارس کہتے ہیں اور فارس کی مشرقی حد افغانستان سے متصل ہے اور اس کے جنوب میں سمندر ہے.اور مغرب میں ملک روم.بہر حال اگر روضۃ الصفا کی روایت پر اعتبار کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نصیبین کی طرف سفر کرنا اس غرض سے تھا کہ تا فارس کی راہ سے افغانستان میں آویں اور ان گمشدہ یہودیوں کو جو آخر افغان کے نام سے مشہور ہوئے حق کی طرف دعوت کریں افغان کا نام عبرانی معلوم ہوتا ہے.یہ لفظ ترکیبی ہے جس کے معنی بہادر ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی فتح یابیوں کے وقت یہ خطاب بہادر کا اپنے لئے مقرر کیا.اب حاصل کلام یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام افعانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب کی طرف آئے.اس ارادہ سے کہ پنجاب اور ہندوستان دیکھتے ہوئے پھر کشمیر کی طرف قدم اٹھاویں.یہ تو ظاہر ہے کہ افغانستان اور کشمیر کی حد فاصل چترال کا علاقہ اور کچھ حصہ پنجاب کا ہے.اگر افعانستان سے کشمیر میں پنجاب کے رستے سے آویں تو قریبا اسی کوس یعنی ۳۰ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور چترال کی راہ سے سوکوس کا فاصلہ ہے.لیکن حضرت مسیح نے بڑی عقلمندی سے افغانستان کا راہ اختیار کیا تا اسرائیل کی کھوئی بھیڑیں جو افغان تھے فیضیاب ہو جا ئیں.اور کشمیر کی مشرقی حد ملک تبت سے متصل ہے اس لئے کشمیر توریت میں بنی اسرائیل کے لئے وعدہ تھا کہ اگر تم آخری نبی پر ایمان لاؤ گے تو آخری زمانہ میں بہت سی مصیبتوں کے بعد پھر حکومت اور بادشاہت تم کو ملے گی.چنانچہ وہ وعدہ اس طور پر پورا ہوا کہ بنی اسرائیل کی دس قوموں نے اسلام اختیار کر لیا.اسی وجہ سے افغانوں میں بڑے بڑے بادشاہ ہوئے اور نیز کشمیریوں میں بھی.منہ
121 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک میں آ کر با سانی تبت میں جاسکتے تھے.اور پنجاب میں داخل ہو کر ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ قبل اس کے جو کشمیر اور تبت کی طرف آویں ہندوستان کے مختلف مقامات کا سیر کریں.سوجیسا کہ اس ملک کی پرانی تاریخیں بتلاتی ہیں یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ حضرت مسیح نے نیپال اور بنارس وغیرہ مقامات کا سیر کیا ہوگا اور پھر جموں سے یا راولپنڈی کی راہ سے کشمیر کی طرف گئے ہوں گے.چونکہ وہ ایک سرد ملک کے آدمی تھے.اس لئے یہ یقینی امر ہے کہ ان ملکوں میں غالبا وہ صرف جاڑے تک ہی ٹھہرے ہوں گے اور اخیر مارچ یا اپریل کے ابتدا میں کشمیر کی طرف کوچ کیا ہوگا اور چونکہ وہ ملک بلا دشام سے بالکل مشابہ ہے اس لئے یہ بھی یقینی ہے کہ اس ملک میں سکونت مستقل اختیار کر لی ہوگی.اور ساتھ اس کے یہ بھی خیال ہے کہ کچھ حصہ اپنی عمر کا افغانستان میں بھی رہے ہوں گے اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں شادی بھی کی ہو.افغانوں میں ایک قوم عیسی خیل کہلاتی ہے.کیا تعجب ہے کہ وہ حضرت عیسی کی ہی اولاد ہوں.مگر افسوس کہ افغانوں کی قوم کا تاریخی شیرازہ نہایت درہم برہم ہے اس لئے ان کے قومی تذکروں کے ذریعہ سے کوئی اصلیت پیدا کرنا نہایت مشکل امر ہے.بہر حال اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ افغان بنی اسرائیل میں سے ہیں جیسا کہ کشمیری بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں اور جن لوگوں نے اپنی تالیفات میں اس کے برخلاف لکھا ہے انہوں نے سخت دھوکا کھایا ہے اور فکر دقیق سے کام نہیں لیا.افغان اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ قیس کی اولاد میں سے ہیں اور قیس بنی اسرائیل میں سے ہے.خیر اس جگہ اس بحث کو طول دینے کی ضرورت نہیں.ہم اپنی ایک کتاب میں اس بحث کو کامل طور پر لکھ چکے ہیں.اس جگہ صرف حضرت مسیح کی سیاحت کا ذکر ہے جو نصیبین کی راہ سے افغانستان میں ہو کر اور پنجاب میں گذر کر کشمیر اور تبت تک ہوئی.اس لمبے سفر کی وجہ سے آپ کا نام نبی سیاح بلکہ سیاحوں کا سردار رکھا گیا.چنانچہ ایک اسلامی فاضل امام عالم علامہ یعنی عارف باللہ ابی بکر محمد بن محمد ابن الولید الفہر کی الطرطوشی المالکی جو اپنی
مسیح ہندوستان میں 122 فلسطین سے کشمیر تکہ عظمت اور فضیلت میں شہرہ آفاق ہیں اپنی کتاب سراج الملوک میں جو مطبع خیر یہ مصر میں ۱۳۰۶ھ میں چھپی ہے یہ عبارت حضرت مسیح کے حق میں لکھتے ہیں جو صفحہ ۶ میں درج ہے.این عیسی روح الله و كلمته رأس الزاهدین و امام السائحين“ یعنی کہاں ہے عیسی روح اللہ وکلمتہ اللہ جوزاہدوں کا سردار اور سیاحوں کا امام تھا یعنی وہ وفات پا گیا اور ایسے ایسے انسان بھی دنیا میں نہ رہے.دیکھو اس جگہ اس فاضل نے حضرت عیسی کو نہ صرف سیاح بلکہ سیاحوں کا امام لکھا ہے.ایسا ہی لسان العرب کے صفحہ ۴۳۱ میں لکھا ہے.”قیل سُمِّيَ عيسى بمسيح لانه كان سائحًا في الارض لا يستقر.یعنی عیسی کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین میں سیر کرتا رہتا تھا اور کہیں اور کسی جگہ اس کو قرار نہ تھا.یہی مضمون تاج العروس شرح قاموس میں بھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح وہ ہوتا ہے جو خیر اور برکت کے ساتھ مسح کیا گیا ہو یعنی اس کی فطرت کو خیر و برکت دی گئی ہو.یہاں تک کہ اس کا چھونا بھی خیر و برکت کو پیدا کرتا ہو اور یہ نام حضرت عیسی کو دیا گیا اور جس کو چاہتا ہے اللہ تعالیٰ یہ نام دیتا ہے.اور اس کے مقابل پر ایک وہ بھی مسیح ہے جو شر اور لعنت کے ساتھ مسح کیا گیا یعنی اس کی فطرت شر اور لعنت پر پیدا کی گئی یہاں تک کہ اس کا چھونا بھی شر اور لعنت اور ضلالت پیدا کرتا ہے اور یہ نام مسیح دجال کو دیا گیا اور نیز ہر ایک کو جو اس کا ہم طبع ہواور یہ دونوں نام یعنی مسیح سیاحت کرنے والا اور مسیح برکت دیا گیا یہ با ہم ضد نہیں ہیں اور پہلے معنی دوسرے کو باطل نہیں کر سکتے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ ایک نام کسی کو عطا کرتا ہے اور کئی معنی اس سے مراد ہوتے ہیں اور سب اس پر صادق آتے ہیں.اب خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سیاح ہونا اس قدر اسلامی تواریخ سے ثابت ہے کہ اگر ان تمام کتابوں میں سے نقل کیا جائے تو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ مضمون اپنے طول کی وجہ سے ایک ضخیم کتاب ہوسکتی ہے.اس لئے اسی پر کفایت کی جاتی ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 66 تا 72)
مسیح ہندوستان میں 123 فلسطین سے کشمیر تک دوسری فصل اُن تاریخی کتابوں کی شہادت میں جو بدھ مذہب کی کتابیں ہیں.واضح ہو کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں سے انواع اقسام کی شہادتیں ہم کو دستیاب ہوئی ہیں جن کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ضرور اس ملک پنجاب و کشمیر وغیرہ میں آئے تھے.اُن شہادتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں تاہر ایک منصف ان کو اول غور سے پڑھے اور پھر ان کو اپنے دل میں ایک مسلسل صورت میں ترتیب دے کر خود ہی نتیجہ مذکورہ بالا تک پہنچ جائے.اور وہ یہ ہیں.اول وہ خطاب جو بدھ کو دیئے گئے مسیح کے خطابوں سے مشابہ ہیں اور ایسا ہی وہ واقعات جو بدھ کو پیش آئے مسیح کی زندگی کے واقعات سے ملتے ہیں.مگر بدھ مذہب سے مرادان مقامات کا مذہب ہے جو تبت کی حدود یعنی لیہ اور لاسہ اور گلگت اور ہمس وغیرہ میں پایا جاتا ہے.جن کی نسبت ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح ان مقامات میں گئے تھے.خطابوں کی مشابہت میں یہ ثبوت کافی ہے کہ مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی تعلیموں میں اپنا نام نور رکھا ہے ایسا ہی گوتم کا نام بدھ رکھا گیا ہے جو سنسکرت میں نور کے معنوں پر آتا ہے اور انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام استاد بھی ہے ایسا ہی بُدھ کا نام ساستا یعنی استاد ہے.ایسا ہی حضرت مسیح کا نام انجیل میں مبارک رکھا گیا ہے.اسی طرح بدھ کا نام بھی سکت ہے یعنی مبارک ہے.ایسا ہی حضرت مسیح کا نام شاہزادہ رکھا گیا ہے اور بدھ کا نام بھی شاہزادہ ہے.اور ایک نام مسیح کا انجیل میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آنے کے مدعا کو پورا کرنے والا ہے.ایسا ہی بدھ کا نام بھی بدھ کی کتابوں میں سدار تھا رکھا گیا ہے یعنی اپنے آنے کا مدعا پورا کرنے والا.اور انجیل میں حضرت مسیح کا ایک نام یہ بھی ہے کہ وہ چھکوں ماندوں کو پناہ دینے والا ہے.ایسا ہی بدھ کی کتابوں میں بدھ کا نام ہے اسٹرن سٹرن یعنی بے پناہوں کو پناہ دینے والا.اور انجیل میں حضرت مسیح بادشاہ بھی کہلائے ہیں گو آسمان کی بادشاہت مراد لے لی ایسا ہی بُدھ بھی بادشاہ کہلایا ہے.اور واقعات کی مشابہت کا یہ ثبوت ہے کہ مثلاً جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے اور
124 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں شیطان نے ان کو کہا کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو تمام دنیا کی دولتیں اور بادشاہتیں تیرے لئے ہوں گی.یہی آزمائش بدھ کی بھی کی گئی اور شیطان نے اس کو کہا کہ اگر تو میرا یہ حکم مان لے کہ ان فقیری کے کاموں سے باز آ جائے اور گھر کی طرف چلا جائے تو میں تجھ کو بادشاہت کی شان و شوکت عطا کروں گا لیکن جیسا کہ مسیح نے شیطان کی اطاعت نہ کی ایسا ہی لکھا ہے کہ بدھ نے بھی نہ کی.دیکھو کتاب ٹی ڈبلیورائس ڈیوڈس بدھ ازم.اور کتاب مونیر ولیمس بدھ ازم کے * اب اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ حضرت مسیح علیہ السلام انجیل میں کئی قسم کے خطاب اپنی طرف منسوب کرتے ہیں.یہی خطاب بُدھ کی کتابوں میں جو اس سے بہت عرصہ پیچھے لکھی گئی ہیں بدھ کی طرف منسوب کی گئی ہیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے ایسا ہی ان کتابوں میں بدھ کی نسبت دعوی کیا گیا ہے کہ وہ بھی شیطان سے آزمایا گیا بلکہ ان کتابوں میں اس سے زیادہ بدھ کی آزمائش کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ جب شیطان بدھ کو دولت اور بادشاہت کی طمع دے چکا تب بدھ کو خیال پیدا ہوا کہ کیوں اپنے گھر کی طرف واپس نہ جائے.لیکن اس نے اس خیال کی پیروی نہ کی اور پھر ایک خاص رات میں وہی شیطان اس کو پھر ملا اور اپنی تمام ذریات ساتھ لایا اور ہیبت ناک صورتیں بنا کر اس کو ڈرایا اور بدھ کو وہ شیاطین سانپوں کی طرح نظر آئے جن کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور ان سانپوں نے زہر اور آگ اس کی طرف پھینکنی شروع کی لیکن زہر پھول بن جاتے تھے اور آگ بُدھ کے گرد ایک ہالہ بنالیتی تھی.پھر جب اس طرح پر کامیابی نہ ہوئی تو شیطان نے اپنی سولہ لڑکیوں کو بلایا اور اُن کو کہا کہ تم اپنی خوبصورتی بدھ پر ظاہر کرو لیکن اس سے بھی بدھ کے دل کو تزلزل نہ ہوا اور شیطان اپنے ارادوں میں نامراد رہا اور شیطان نے اور اور طریقے بھی اختیار کئے مگر بدھ کے استقلال کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ گئی اور بدھ اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب کو طے کرتا گیا اور آخر کار ایک لمبی رات کے بعد یعنی سخت آزمائشوں اور دیر پا امتحانوں کے پیچھے بدھ نے اپنے دشمن یعنی شیطان کو مغلوب کیا اور سچے علم کی روشنی اس پر کھل گئی اور صبح ہوتے ہی یعنی امتحان سے کم نیز دیکھو چائنیز بدھ ازم مصنفہ اڈکٹس + بدھ مصنفہ اولڈن برگ ترجمہ ڈبلیو ہوئی، لائف آف بدھ.ترجمہ راک ہل.منہ 1.Buddhism by T.W.Rhys Davids, 2.Buddhism by Sir Monier Williams
مسیح ہندوستان میں 125 فلسطین سے کشمیر تک فراغت پاتے ہی اس کو تمام باتوں کا علم ہو گیا اور جس صبح کو یہ بڑی جنگ ختم ہوئی وہ بدھ مذہب کی پیدائش کا دن تھا.اُس وقت گوتم کی عمر پینتیس برس کی تھی اور اس وقت اس کو بدھ یعنی نور اور روشنی کا خطاب ملا اور جس درخت کے نیچے وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا وہ درخت نور کے درخت کے نام سے مشہور ہو گیا.اب انجیل کھول کر دیکھو کہ یہ شیطان کا امتحان جس سے بدھ آزمایا گیا کس قدر حضرت مسیح کے امتحان سے مشابہ ہے یہاں تک کہ امتحان کے وقت میں جو حضرت مسیح کی عمر تھی قریباً وہی بدھ کی عمر تھی اور جیسا کہ بدھ کی کتابوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیطان در حقیقت انسان کی طرح مجسم ہو کر لوگوں کے دیکھتے ہوئے بدھ کے پاس نہیں آیا بلکہ وہ ایک خاص نظارہ تھا جو بد ھ کی آنکھوں تک ہی محدود تھا اور شیطان کی گفتگو شیطانی الہام تھی یعنی شیطان اپنے نظارہ کے ساتھ بدھ کے دل میں یہ القا بھی کرتا تھا کہ یہ طریق چھوڑ دینا چاہئیے اور میرے حکم کی پیروی کرنی چاہئیے میں تجھے دنیا کی تمام دولتیں دے دوں گا.اسی طرح عیسائی محقق مانتے ہیں کہ شیطان جو حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آیا تھا وہ بھی اس طرح نہیں آیا تھا کہ یہودیوں کے سامنے انسان کی طرح ان کی گلیوں کو چوں سے ہو کر اپنی مجسم حالت میں گذرتا ہوا حضرت مسیح کو آملا ہوا اور انسانوں کی طرح ایسی گفتگو کی ہو کہ حاضرین نے بھی سنی ہو بلکہ یہ ملاقات بھی ایک کشفی رنگ میں ملاقات تھی.جو حضرت مسیح کی آنکھوں تک محدود تھی اور باتیں بھی الہامی رنگ میں تھیں.یعنی شیطان نے جیسا کہ اس کا قدیم سے طریق ہے اپنے ارادوں کو وسوسوں کے رنگ میں حضرت مسیح کے دل میں ڈالا تھا.مگر ان شیطانی الہامات کو حضرت مسیح کے دل نے قبول نہ کیا بلکہ بدھ کی طرح ان کو ر ڈ کیا.اب سوچنے کا مقام ہے کہ اس قدر مشابہت بُدھ میں اور حضرت مسیح میں کیوں پیدا ہوئی.اس مقام میں آریہ تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح نے اس سفر کے وقت جبکہ ہندوستان کی طرف انہوں نے سفر کیا تھابُدھ مذہب کی باتوں کو سن کر اور بدھ کے ایسے واقعات پر اطلاع پا کر اور پھر واپس اپنے وطن میں جا کر اسی کے موافق انجیل بنالی تھی.اور بدھ کے اخلاق میں سے چرا کر اخلاقی تعلیم لکھی تھی اور جیسا کہ بدھ نے اپنے تئیں نور کہا اور علم کہا اور دوسرے خطاب اپنے نفس کے لئے مقرر کئے وہی تمام خطاب مسیح نے اپنی
مسیح ہندوستان میں 126 فلسطین سے کشمیر تک طرف منسوب کر دیئے تھے.یہاں تک کہ وہ تمام قصہ بدھ کا جس میں وہ شیطان سے آزمایا گیا اپنا قصہ قرار دے دیا.لیکن یہ آریوں کی غلطی اور خیانت ہے یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے پہلے ہندوستان کی طرف آئے تھے اور نہ اس وقت کوئی ضرورت اس سفر کی پیش آئی تھی بلکہ یہ ضرورت اس وقت پیش آئی جب کہ بلا دشام کے یہودیوں نے حضرت مسیح کو قبول نہ کیا اور ان کو اپنے زعم میں صلیب دے دیا جس سے خدائے تعالیٰ کی باریک حکمت عملی نے حضرت مسیح کو بچالیا.تب وہ اس ملک کے یہودیوں کے ساتھ حق تبلیغ اور ہمدردی ختم کر چکے اور باعث اس بدی کے ان یہودیوں کے دل ایسے سخت ہو گئے کہ وہ اس لائق نہ رہے کہ سچائی کو قبول کریں اس وقت حضرت مسیح نے خدائے تعالیٰ سے یہ اطلاع پا کر کہ یہودیوں کے دس گم شدہ فرقے ہندوستان کی طرف آگئے ہیں ان ملکوں کی طرف قصد کیا.اور چونکہ ایک گروہ یہودیوں کا بُدھ مذہب میں داخل ہو چکا تھا اس لئے ضرور تھا کہ وہ نبی صادق بدھ مذہب کے لوگوں کی طرف توجہ کرتا.سواس وقت بدھ مذہب کے عالموں کو جو مسیحایدھ کے منتظر تھے یہ موقع ملا کہ انہوں نے حضرت مسیح کے خطابات اور ان کی بعض اخلاقی تعلیمیں جیسا کہ یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور بدی کا مقابلہ نہ کرو“.اور نیز حضرت مسیح کا بگوا یعنی گورا رنگ ہونا جیسا کہ گوتم بدھ نے پیشگوئی میں بیان کیا تھا یہ سب علامتیں دیکھ کر ان کو بدھ قرار دے دیا.اور یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح کے بعض واقعات اور خطابات اور تعلیمیں اسی زمانہ میں گوتم بدھ کی طرف بھی عمداً یا سہواً منسوب کر دیئے گئے ہوں کیونکہ ہمیشہ ہندو تاریخ نویسی میں بہت کچے رہے ہیں.اور بدھ کے واقعات حضرت مسیح کے زمانہ تک قلمبند نہیں ہوئے تھے اس لئے بدھ کے عالموں کو بڑی گنجائش تھی کہ جو کچھ چاہیں بُدھ کی طرف منسوب کر دیں سو یہ قرین قیاس ہے کہ جب انہوں نے حضرت مسیح کے واقعات اور اخلاقی تعلیم سے اطلاع پائی تو ان امور کو اپنی طرف سے اور کئی باتیں ملا کر بدھ کی طرف منسوب کر دیا ہو گا.☆ نوٹ : ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ بدھ مذہب میں قدیم سے ایک بڑا حصہ اخلاقی تعلیم کا موجود ہے مگر ساتھ اس کے ہم یہ بھی کہتے ہیں اس میں سے وہ حصہ بعینہ انجیل کی تعلیم اور انجیل کی مثالیں اور انجیل کی عبارتیں ہیں یہ حصہ بلاشبہ اُس وقت بدھ مذہب کی کتابوں میں ملایا گیا ہے جبکہ حضرت مسیح اس ملک میں پہنچے.منہ
مسیح ہندوستان میں 127 فلسطین سے کشمیر تک چنانچہ آگے چل کر ہم اس بات کا ثبوت دیں گے کہ یہ اخلاقی تعلیم کا حصہ جو بدھ مذہب کی کتابوں میں انجیل کے مطابق پایا جاتا ہے اور یہ خطابات نور وغیرہ جو مسیح کی طرح بدھ کی نسبت لکھے ہوئے ثابت ہوتے ہیں اور ایسا ہی شیطان کا امتحان یہ سب امور اس وقت بدھ مذہب کی پستکوں میں لکھے گئے تھے جبکہ حضرت مسیح اس ملک میں صلیبی تفرقہ کے بعد تشریف لائے تھے.اور پھر ایک اور مشابہت بُدھ کی حضرت مسیح سے پائی جاتی ہے کہ بدھ ازم میں لکھا ہے کہ بدھ ان ایام میں جو شیطان سے آزمایا گیا روزے رکھتا تھا اور اس نے چالیس روزے رکھے.اور انجیل پڑھنے والے جانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے بھی چالیس روزے رکھے تھے.اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے بدھ اور مسیح کی اخلاقی تعلیم میں اس قدر مشابہت اور مناسبت ہے کہ ہر ایک ایسا شخص تعجب کی نظر سے دیکھے گا جو دونوں تعلیموں پر اطلاع رکھتا ہو گا.مثلاً انجیلوں میں لکھا ہے کہ شر کا مقابلہ نہ کرو.اور اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور غربت سے زندگی بسر کرو اور تکبر اور جھوٹ اور لالچ سے پر ہیز کرو اور یہی تعلیم بدھ کی ہے.بلکہ اس میں اس سے زیادہ شد و مد ہے یہاں تک کہ ہر ایک جانور بلکہ کیڑوں مکوڑوں کے خون کو بھی گناہ میں داخل کیا ہے بدھ کی تعلیم میں بڑی بات یہ بتلائی گئی ہے کہ تمام دنیا کی غم خواری اور ہمدردی کرو اور تمام انسانوں اور حیوانوں کی بہتری چاہو اور باہم اتفاق اور محبت پیدا کرو.اور یہی تعلیم انجیل کی ہے.اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح نے مختلف ملکوں کی طرف اپنے شاگردوں کو روانہ کیا اور آپ بھی ایک ملک کی طرف سفر اختیار کیا.یہ باتیں بدھ کے سوانح میں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ بدھ ازم مصنفہ سر مونیر ولیم * میں لکھا ہے کہ بدھ نے اپنے شاگردوں کو دنیا میں تبلیغ کے لئے بھیجا اور ان کو اس طرح پر خطاب کیا.باہر جاؤ اور ہر طرف پھر نکلو اور دنیا کی غمخواری اور دیوتاؤں اور آدمیوں کی بہتری کے لئے ایک ایک ہو کر مختلف صورتوں میں نکل جاؤ اور یہ منادی کرو کہ کامل پر ہیز گار بنو.پاک دل بنو.برہم چاری یعنی تنہا اور مجرد رہنے کی خصلت اختیار کرو.اور کہا کہ میں بھی اس مسئلہ کی منادی کے لئے جاتا ہوں.اور بدھ بنارس کی طرف گیا اور Buddhism by Sir Monier williams
128 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک اس طرف اس نے بہت معجزات دکھائے.اور اس نے ایک نہایت مؤثر وعظ ایک پہاڑی پر کیا.جیسا کہ مسیح نے پہاڑی پر وعظ کیا تھا.اور پھر اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بدھ اکثر مثالوں میں وعظ کیا کرتا تھا اور ظاہری چیزوں کو لے کر روحانی امور کو ان میں پیش کیا کرتا تھا.دیا.اب غور کرنا چاہئیے کہ یہ اخلاقی تعلیم اور یہ طریق وعظ یعنی مثالوں میں بیان کرنا یہ تمام طرز حضرت عیسی علیہ السلام کی ہے.جب ہم دوسرے قرائن کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس طرز تعلیم اور اخلاقی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو معا ہمارے دل میں گذرتا ہے کہ یہ سب باتیں حضرت مسیح کی تعلیم کی نقل ہیں جبکہ وہ اس ملک ہندوستان میں تشریف لائے اور جابجا انہوں نے وعظ بھی کئے تو ان دنوں میں بدھ مذہب والوں نے ان سے ملاقات کر کے اور ان کو صاحب برکات پا کر اپنی کتابوں میں یہ باتیں درج کرلیں بلکہ ان کو بُدھ قرار دے.کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ جہاں کہیں عمدہ بات پاتا ہے بہر طرح کوشش کرتا ہے کہ اس عمدہ بات کو لے لے یہاں تک کہ اگر کسی مجلس میں کوئی عمدہ نکتہ کسی کے منہ سے نکلتا ہے تو دوسرا اس کو یاد رکھتا ہے.تو پھر یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ بدھ مذہب والوں نے انجیلوں کا سارا نقشہ اپنی کتابوں میں بھینچ دیا ہے مثلاً یہاں تک کہ جیسے مسیح نے چالیس روزے رکھے ویسے ہی بدھ نے بھی رکھے اور جیسا کہ مسیح شیطان سے آزمایا گیا ایسا ہی بُدھ بھی آزمایا گیا اور جیسا کہ میچ بے پدر تھا ویسا ہی بُدھ بھی.اور جیسا کہ مسیح نے اخلاقی تعلیم بیان کی ویسا ہی بُدھ نے بھی کی.اور جیسا کہ مسیح نے کہا کہ میں نور ہوں ویسا ہی بُدھ نے بھی کہا.اور جیسا کہ مسیح نے اپنا نام استاد رکھا اور حواریوں کا نام شاگرد ایسا ہی بُدھ نے رکھا.اور جیسا کہ انجیل متی باب ۱۰ آیت ۹٫۸ میں ہے کہ سونا اور روپا اور تانبا اپنے پاس مت رکھو یہی حکم بدھ نے اپنے شاگردوں کو دیا.اور جیسا کہ انجیل میں مجرد رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ایسا ہی بدھ کی تعلیم میں ترغیب ہے.اور جیسا کہ میسیج کو صلیب پر کھینچنے کے بعد زلزلہ آیا ایسا ہی لکھا ہے کہ بدھ کے مرنے کے بعد زلزلہ آیا.* نوٹ جیسا کہ عیسائیوں میں عشاء ربانی ہے ایسا ہی بدھ مذہب والوں میں بھی ہے.منہ
مسیح ہندوستان میں 129 فلسطین سے کشمیر تک پس اس تمام مطابقت کا اصل باعث یہی ہے کہ بدھ مذہب والوں کی خوش قسمتی سے مسیح ہندوستان میں آیا اور ایک زمانہ دراز تک بُدھ مذہب والوں میں رہا اور اس کے سوانح اور اس کی پاک تعلیم پر انہوں نے خوب اطلاع پائی.لہذا یہ ضروری امر تھا کہ بہت سا حصہ اس تعلیم اور رسوم کا ان میں جاری ہو جاتا کیونکہ ان کی نگاہ میں مسیح عزت کی نظر سے دیکھا گیا اور بدھ قرار دیا گیا.اس لئے ان لوگوں نے اس کی باتوں کو اپنی کتابوں میں لکھا اور گوتم بدھ کی طرف منسوب کر دیا.بدھ کا بعینہ حضرت مسیح کی طرح مثالوں میں اپنے شاگردوں کو سمجھانا خاص کر وہ مثالیں جو انجیل میں آچکی ہیں نہایت حیرت انگیز واقعہ ہے.چنانچہ ایک مثال میں بدھ کہتا ہے کہ ” جیسا کہ کسان بیج بوتا ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ دانہ آج پھولے گا اور کل نکلے گا ایسا ہی مرید کا حال ہوتا ہے یعنی وہ کچھ بھی رائے ظاہر نہیں کر سکتا کہ اس کا نشو و نما اچھا ہوگا یا اس دانہ کی طرح ہوگا جو پتھریلی زمین میں ڈالا جائے اور خشک ہو جائے.دیکھو بعینہ بیروہی مثال ہے جو انجیل میں اب تک موجود ہے.اور پھر بڑھا ایک اور مثال دیتا ہے کہ ایک ہرنوں کا گلہ جنگل میں خوشحال ہوتا ہے تب ایک آدمی آتا ہے اور فریب سے وہ راہ کھولتا ہے جو ان کی موت کا راہ ہے یعنی کوشش کرتا ہے کہ ایسی راہ چلیں جس سے آخر پھنس جائیں اور موت کا شکار ہو جائیں.اور دوسرا آدمی آتا ہے اور وہ اچھا راہ کھولتا ہے یعنی وہ کھیت ہوتا ہے تا اس میں سے کھائیں.وہ نہر لاتا ہے تا اس میں سے پیویں اور خوشحال ہو جائیں ایسا ہی آدمیوں کا حال ہے وہ خوشحالی میں ہوتے ہیں شیطان آتا ہے اور بدی کی آٹھ راہیں ان پر کھول دیتا ہے تا ہلاک ہوں.تب کامل انسان آتا ہے اور حق اور یقین اور سلامتی کی بھری ہوئی آٹھ راہیں ان پر کھول دیتا ہے تا وہ بچ جائیں.بدھ کی تعلیم میں یہ بھی ہے کہ پر ہیز گاری وہ محفوظ خزانہ ہے جس کو کوئی چرا نہیں سکتا.وہ ایسا خزانہ ہے کہ موت کے بعد بھی انسان کے ساتھ جاتا ہے.وہ ایسا خزانہ ہے جس کے سرمایہ سے تمام علوم اور تمام کمال پیدا ہوتے ہیں.اب دیکھو کہ بعینہ یہ انجیل کی تعلیم ہے اور یہ باتیں بدھ مذہب کی ان پرانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں جن کا زمانہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ سے کچھ زیادہ نہیں ہے بلکہ وہی زمانہ ہے.پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۵ میں ہے کہ بدھ کہتا ہے کہ میں ایسا ہوں کہ کوئی مجھ پر
130 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں داغ نہیں لگا سکتا.یہ فقرہ بھی حضرت مسیح کے قول سے مشابہ ہے اور بدھ ازم کی کتاب کے صفحہ ۴۵ میں لکھا ہے کہ بدھ کی اخلاقی تعلیم اور عیسائیوں کی اخلاقی تعلیم میں بڑی بھاری مشابہت ہے.میں اس کو مانتا ہوں.میں یہ مانتا ہوں کہ وہ دونوں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا سے محبت نہ کرو.روپیہ سے محبت نہ کرو.دشمنوں سے دشمنی مت کرو.بُرے اور نا پاک کام مت کرو.بدی پر نیکی کے ذریعہ سے غالب آؤ.اور دوسروں سے وہ سلوک کرو جو تم چاہتے ہو کہ وے تم سے کریں.یہ اس قدر انجیلی تعلیم اور بدھ کی تعلیم میں مشابہت ہے کہ تفصیل کی ضرورت نہیں.بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جس کا نام منتیا بیان کیا تھا.یہ پیشگوئی بدھ کی کتاب لگاوتی سکتا میں ہے جس کا حوالہ کتاب اولڈن برگ کے صفحہ ۱۴۲ میں دیا گیا ہے.اس پیشگوئی کی عبارت یہ ہے ”متیا لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہوگا جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں“.اس جگہ یادر ہے کہ جو لفظ عبرانی میں مشیحا ہے وہی پالی زبان میں منیا کر کے بولا گیا ہے.یہ تو ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں آتا ہے تو اس میں کچھ تغیر ہو جاتا ہے چنانچہ انگریزی لفظ بھی دوسری زبان میں آکر تغیر پا جاتا ہے جیسا کہ نظیر کے طور پر میکسمولر صاحب ایک فہرست میں جو کتاب سیکرڈ ( بکس ) آف دی ایسٹ سے جلد نمبر کے ساتھ شامل کی گئی ہے صفحہ ۳۱۸ میں لکھتا ہے کہ ٹی ایچ انگریزی زبان کا جو تھ کی آواز رکھتا ہے فارسی اور عربی زبانوں میں ث ہو جاتا ہے یعنی پڑھنے میں ث یاس کی آواز دیتا ہے.سوان تغییرات پر نظر رکھ کر ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ مسیحا کا لفظ پالی زبان میں آ کر منتیا بن گیا.یعنی وہ آنے والا متیا جس کی بدھ نے پیشگوئی کی تھی وہ درحقیقت مسیح ہے اور کوئی نہیں.اس بات پر بڑا پختہ قرینہ یہ ہے کہ بدھ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ جس مذہب کی اس نے بنیادرکھی ہے وہ زمین پر پانچ سو برس سے زیادہ قائم نہیں رہے گا.اور جس وقت ان تعلیموں اور اصولوں کا زوال ہوگا.تب متیا اس ملک میں آکر دوبارہ ان اخلاقی تعلیموں کو دنیا میں قائم کرے گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پانسو برس بعد بدھ کے 1.Buddha by Dr.Herman Oldenberg, 2.Sacred Books of the East
مسیح ہندوستان میں 131 فلسطین سے کشمیر تک ہوئے ہیں اور جیسا کہ بدھ نے اپنے مذہب کے زوال کی مدت مقرر کی تھی.ایسا ہی اس وقت بدھ کا مذہب زوال کی حالت میں تھا.تب حضرت مسیح نے صلیب کے واقعہ سے نجات پاکر اس ملک کی طرف سفر کیا اور بدھ مذہب والے اُن کو شناخت کر کے بڑی تعظیم سے پیش آئے.اور اس میں کوئی بھی شک نہیں کر سکتا کہ وہ اخلاقی تعلیمیں اور وہ روحانی طریقے جو بدھ نے قائم کئے تھے حضرت مسیح کی تعلیم نے دوبارہ دنیا میں ان کو جنم دیا ہے.عیسائی مؤرخ اس بات کو مانتے ہیں کہ انجیل کی پہاڑی تعلیم اور دوسرے حصوں کی تعلیم جو اخلاقی امور پر مبنی ہے یہ تمام تعلیم وہی ہے جس کو گوتم بدھ حضرت مسیح سے پانس ۵۰۰ برس پہلے دنیا میں رائج کر چکا تھا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بدھ صرف اخلاقی تعلیموں کا سکھلانے والا نہیں تھا بلکہ وہ اور بھی بڑی بڑی سچائیوں کا سکھلانے والا تھا.اور ان کی رائے میں بدھ کا نام جو ایشیا کا نور رکھا گیا وہ عین مناسب ہے.اب...بدھ کی پیشگوئی کے موافق حضرت مسیح پانسو برس کے بعد ظاہر ہوئے اور حسب اقرارا اکثر علماء عیسائیوں کے ان کی اخلاقی تعلیم بعینہ بدھ کی تعلیم تھی تو اس میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ وہ بدھ کے رنگ پر ظہور فرما ہوئے تھے.اور کتاب اولڈن برگ میں بحوالہ بدھ کی کتاب لکاوتی ستنا کے لکھا ہے کہ بدھ کے معتقد آئندہ زمانہ کی امید پر ہمیشہ اپنے تئیں تسلی دیتے تھے کہ وہ متیا کے شاگرد بن کر نجات کی خوشحالی حاصل کریں گے یعنی ان کو یقین تھا کہ متیا ان میں آئے گا اور وہ اس کے ذریعہ سے نجات پائیں گے.کیونکہ جن لفظوں میں بدھ نے ان کو متیا کی امید دی تھی وہ لفظ صریح دلالت کرتے تھے کہ اس کے شاگر د متیا کو پائیں گے.اب کتاب مذکور کے اس بیان سے بخوبی یہ بات دلی یقین کو پیدا کرتی ہے کہ خدا نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دونوں طرف سے اسباب پیدا کر دیئے تھے یعنی ایک طرف تو حضرت مسیح بوجہ اپنے اس نام کے جو پیدائش باب ۳ آیت ۱۰ سے سمجھا جاتا ہے.یعنی آسف جس کا ترجمہ ہے جماعت کو اکٹھا کرنے والا یہ ضروری تھا کہ اس ملک کی طرف آتے جس میں یہودی آکر آباد ہوئے تھے.اور دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ حسب منشاء بدھ کی پیشگوئی کے بدھ کے معتقد آپ کو دیکھتے اور آپ سے فیض اٹھاتے.سوان دونوں باتوں کو یکجائی پیدائش باب 3 آیت 10 سہو ہے.درست حوالہ پیدائش باب 49 آیت 10 ہے
132 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں نظر کے ساتھ دیکھنے سے یقینا سمجھ میں آتا ہے کہ ضرور حضرت مسیح علیہ السلام تبت کی طرف تشریف لے گئے تھے اور خود جس قدر تبت کے بدھ مذہب میں عیسائی تعلیم اور رسوم دخل کر گئے ہیں اس قدر گہرا دخل اس بات کو چاہتا ہے کہ حضرت مسیح ان لوگوں کو ملے ہوں اور بدھ مذہب کے سرگرم مریدوں کا ان کی ملاقات کے لئے ہمیشہ منتظر ہونا جیسا کہ بدھ کی کتابوں میں اب تک لکھا ہوا موجود ہے بلند آواز سے پکار رہا ہے کہ یہ انتظار شدید حضرت مسیح کے ان کے اس ملک میں آنے کے لئے پیش خیمہ تھا.اور دونوں امور متذکرہ بالا کے بعد کسی منصف مزاج کو اس بات کی حاجت نہیں رہتی کہ وہ بدھ مذہب کی ایسی کتابوں کو تلاش کرے جن میں لکھا ہوا ہو کہ حضرت مسیح تبت کے ملک میں آئے تھے.کیونکہ جبکہ بدھ کی پیشگوئی کے مطابق آنے کی انتظار شدید تھی تو وہ پیشگوئی اپنی کشش سے حضرت مسیح کوضرور تبت کی طرف کھینچ لائی ہوگی.اور یاد رکھنا چاہئیے کہ متیا کا نام جو بدھ کی کتابوں میں جابجا مذکور ہے بلاشبہ وہ مسیحا ہے.کتاب تبت تا تار منگولیا بائی ایچ ٹی پر نسب * کے صفحہ ۱۴ میں متیا بدھ کی نسبت جو دراصل مسیحا ہے یہ لکھا ہے کہ جو حالات ان پہلے مشنریوں (عیسائی واعظوں) نے تبت میں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے.ان حالات پر غور کرنے سے وہ اس نتیجہ تک پہنچ گئے کہ لاموں کی قدیم کتب میں عیسائی مذہب کے آثار موجود ہیں.اور پھر اسی صفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ متقدمین یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کے حواری ابھی زندہ ہی تھے کہ جبکہ عیسائی دین کی تبلیغ اس جگہ پہنچ گئی تھی اور پھر اے اصفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وقت عام انتظار ایک بڑے منجی کے پیدا ہونے کی لگ رہی تھی جس کا ذکر ٹے سے ٹس نے اس طرح پر کیا ہے کہ اس انتظار کا مدار نہ صرف یہودی تھے بلکہ خود بُدھ مذہب نے ہی اس انتظار کی بنیاد ڈالی تھی یعنی اس ملک میں متیا کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.اور پھر اس کتاب انگریزی پر مصنف نے ایک نوٹ لکھا ہے اس کی یہ عبارت ہے.کتاب پتاکتیان اور اتھا کتھا میں ایک اور بدھ کے نزول کی پیشگوئی بڑی واضح طور پر درج ہے جس کا ظہور گوتم یا ساکھی منی سے ایک ہزار سال بعد لکھا گیا ہے.گوتما بیان کرتا ہے کہ میں پچیسواں بُدھ ہوں.اور بگو امتیا نے Tibet Tartary And Mongolia by Henry T.Prinsep
133 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں ابھی آنا ہے یعنی میرے بعد اس ملک میں وہ آئے گا جس کا نام متیا ہوگا اور وہ سفید رنگ ہوگا.پھر آگے وہ انگریز مصنف لکھتا ہے کہ متیا کے نام کو مسیحا سے حیرت انگیز مشابہت ہے.غرض اس پیشگوئی میں گوتم بدھ نے صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ اس کے ملک میں اور اس کی قوم میں اور اس پر ایمان لانے والوں میں مسیحا آنے والا ہے یہی وجہ تھی کہ اس کے مذہب کے لوگ ہمیشہ اس انتظار میں تھے کہ ان کے ملک میں مسیحا آئے گا.اور بدھ نے اپنی پیشگوئی میں اس آنے والے بدھ کا نام بگو امتیا اس لئے رکھا کہ بگواسنسکرت زبان میں سفید کو کہتے ہیں.اور حضرت مسیح چونکہ بلا دشام کے رہنے والے تھے اس لئے وہ بگوا یعنی سفید رنگ تھے.جس ملک میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی یعنی مگدھ کا ملک جہاں راجہ گر یہا واقع تھا اس ملک کے لوگ سیاہ رنگ تھے اور گوتم بدھ خود سیاہ رنگ تھا.اس لئے بدھ نے آنے والے بدھ کی قطعی علامت ظاہر کرنے کے لئے دو باتیں اپنے مریدوں کو بتلائی تھیں.ایک یہ کہ وہ بگوا ہو گا.دوسرے یہ کہ وہ متیا ہوگا یعنی سیر کرنے والا ہوگا اور باہر سے آئے گا.سو ہمیشہ وہ لوگ انہی علامتوں کے منتظر تھے جب تک کہ انہوں نے حضرت مسیح کو دیکھ لیا.یہ عقیدہ ضروری طور پر ہر ایک بدھ مذہب والے کا ہونا چاہئیے کہ بدھ سے پانسو۵۰۰ برس بعد بگو امتیا ان کے ملک میں ظاہر ہوا تھا.سو اس عقیدہ کی تائید میں کچھ تعجب نہیں ہے کہ بدھ مذہب کی بعض کتابوں میں متیا یعنی مسیحا کا ان کے ملک میں آنا اور اس طرح پر پیشگوئی کا پورا ہو جانا لکھا ہوا ہو.اور اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ لکھا ہوا نہیں ہے تب بھی جبکہ بدھ نے خدائے تعالیٰ سے الہام پا کر اپنے شاگردوں کو یہ امید دی تھی کہ بگوا منتیا ان کے ملک میں آئے گا.اس بنا پر کوئی بدھ مت والا جو اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتا ہواس واقعہ سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ بگوا متیا جس کا دوسرا نام مسیحا ہے اس ملک میں آیا تھا کیونکہ پیشگوئی کا باطل ہونا مذہب کو باطل کرتا ہے.اور ایسی پیشگوئی جس کی میعاد بھی مقر رتھی اور گوتم بدھ نے بار بار اس پیشگوئی کو اپنے مریدوں کے پاس بیان کیا تھا.اگر وہ اپنے وقت پر پوری نہ ہوتی تو بدھ کی جماعت گوتم بدھ کی سچائی کی نسبت شبہ میں پڑ جاتی اور ایک ہزا رو پانچ ہزار سال والی میعاد میں غلط ہیں.منہ
134 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں کتابوں میں یہ بات لکھی جاتی کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہمیں ایک اور دلیل یہ ملتی ہے کہ تبت میں ساتویں صدی عیسوی کی وہ کتابیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں مسیح کا لفظ موجود ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا نام لکھا ہے اور اس لفظ کو مِی شِی ھو کر کے ادا کیا ہے.اور وہ فہرست جس میں مِی شِيْ هُو پایا گیا ہے اس کا مرتب کرنے والا ایک بدھ مذہب کا آدمی ہے.دیکھو کتاب اے ریکارڈ آف دی بدھسٹ ریچن مصنفہ آئی سنگ مترجم جی ٹکا کو سول اور جی ٹکا کو سو ایک جاپانی شخص ہے جس نے آئی سنگ کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے.اور آئی سنگ ایک چینی سیاح ہے جس کی کتاب کے حاشیہ پر اور ضمیمہ میں ٹکا کوسونے تحریر کیا ہے کہ ایک قدیم تالیف میں منی شنی هو (مسیح) کا نام درج ہے اور یہ تالیف قریباً ساتویں صدی کی ہے اور پھر اس کا ترجمہ حال میں ہی کلیرنڈن پرلیں آکسفورڈ میں جی ٹکا کو سو نام ایک جاپانی نے کیا.* غرض اس کتاب میں مشیح کا لفظ موجود ہے جس سے ہم یہ یقین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ لفظ بُدھ مذہب والوں کے پاس باہر سے نہیں آیا بلکہ بدھ کی پیشگوئی سے یہ لفظ لیا گیا ہے جس کو کبھی انہوں نے مشیح کر کے لکھا اور کبھی بگوا متیا کر کے.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو بُدھ مذہب کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں ایک یہ ہے کہ بدھ ایزم مصنفہ سر مونیر ولیم صفحہ ۴۵ میں لکھا ہے کہ چھٹائر ید بدھ کا ایک شخص تھا جس کا نام یسا تھا.یہ لفظ یسوع کے لفظ کا مخفف معلوم ہوتا ہے.چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام بدھ کی وفات سے پانچسو برس گزرنے کے بعد یعنی چھٹی صدی میں پیدا ہوئے تھے اس لئے چھٹا مرید کہلائے.یادر ہے کہ پروفیسر میکسمولر اپنے رسالہ نائن مینتھ سنچری کے اکتوبر ۱۸۹۴ صفحه ۵۱۷ میں گذشتہ بالا مضمون کی ان الفاظ سے تائید کرتے ہیں کہ یہ خیال کئی دفعہ ہر دل عزیز مصنفوں نے پیش کیا ہے کہ مسیح پر بدھ مذہب کے اصولوں نے اثر ڈالا تھا اور پھر لکھتے ہیں کہ آج تک اس وقت کے حل کرنے کے لئے کوشش ہو رہی ہے کہ کوئی ایسا سچا تاریخی راستہ معلوم ہو جائے جس کے ذریعہ سے بدھ مذہب مسیح کے زمانہ میں فلسطین میں پہنچ سکا ہو اب اس عبارت سے بدھ مذہب کی ان کتابوں کی تصدیق ہوتی ہے جن میں لکھا دیکھو صفحہ ۱۶۹و۲۲۳ کتاب حذا.منہ ہے 1.A Record of the Buddhist Religion by I.Tsing, translated by J.Tikakusu
135 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک کہ یسا بدھ کا مرید تھا.کیونکہ جبکہ ایسے بڑے درجہ کے عیسائیوں نے جیسا کہ پروفیسر میکسمولر ہیں اس بات کو مان لیا ہے کہ حضرت مسیح کے دل پر بدھ مذہب کے اصولوں کا ضرور اثر پڑا تھا تو دوسرے لفظوں میں اسی کا نام مرید ہونا ہے.مگر ہم ایسے الفاظ کو حضرت مسیح علیہ السلام کی شان میں ایک گستاخی اور ترک ادب خیال کرتے ہیں.اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو یہ لکھا گیا کہ یسوع بدھ کا مرید یا شاگرد تھا تو یہ تحریر اس قوم کے علماء کی ایک پرانی عادت کے موافق ہے کہ وہ پیچھے آنے والے صاحب کمال کو گذشتہ صاحب کمال کا مرید خیال کر لیتے ہیں.علاوہ اس کے جبکہ حضرت مسیح کی تعلیم اور بدھ کی تعلیم میں نہایت شدید مشابہت ہے جیسا کہ بیان ہو چکا تو پھر اس لحاظ سے کہ بدہ حضرت مسیح سے پہلے گزر چکا ہے بدھ اور حضرت مسیح میں پیری اور مریدی کا ربط دینا بیجا خیال نہیں ہے گو طریق ادب سے دور ہے.لیکن ہم یورپ کے محققوں کی اس طرز تحقیق کو ہرگز پسند نہیں کر سکتے کہ وہ اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ کسی طرح یہ پتہ لگ جائے کہ بدھ مذہب مسیح کے زمانہ میں فلسطین میں پہنچ گیا تھا.مجھے افسوس آتا ہے کہ جس حالت میں بدھ مذہب کی پرانی کتابوں میں حضرت مسیح کا نام اور ذکر موجود ہے تو کیوں یہ محقق ایسی ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں کہ فلسطین میں بدھ مذہب کا نشان ڈھونڈتے ہیں اور کیوں وہ حضرت مسیح کے قدم مبارک کو نیپال اور تبت اور کشمیر کے پہاڑوں میں تلاش نہیں کرتے.لیکن میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی سچائی کو ہزاروں تاریک پردوں میں سے پیدا کرنا ان کا کام نہیں تھا بلکہ یہ اس خدا کا کام تھا جس نے آسمان سے دیکھا کہ مخلوق پرستی حد سے زیادہ زمین پر پھیل گئی اور صلیب پرستی اور انسان کے ایک فرضی خون کی پرستش نے کروڑ ہا دلوں کو سچے خدا سے دور کر دیا.تب اس کی غیرت نے ان عقائد کے توڑنے کے لئے جو صلیب پر مبنی تھے ایک کو اپنے بندوں میں سے دنیا میں مسیح ناصری کے نام پر بھیجا.اور وہ جیسا کہ قدیم سے وعدہ تھا مسیح موعود ہو کر ظاہر ہوا.تب کسر صلیب کا وقت آ گیا یعنی وہ وقت کہ صلیبی عقائد کی غلطی کو ایسی صفائی سے ظاہر کر دینا جیسا کہ ایک لکڑی کو دوٹکڑے کر دیا جائے.سواب آسمان نے کسر صلیب کی ساری راہ کھول دی تا وہ شخص جو سچائی کا طالب ہے اٹھے اور تلاش کرے.مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا گو ایک غلطی تھی تب بھی اس میں ایک راز تھا اور وہ یہ کہ
136 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں جو مسیحی سوانح کی حقیقت گم ہو گئی تھی اور ایسی نابود ہوگئی تھی جیسا کہ قبر میں مٹی ایک جسم کو کھا لیتی ہے وہ حقیقت آسمان پر ایک وجود رکھتی تھی اور ایک مجسم انسان کی طرح آسمان میں موجود تھی اور ضرور تھا کہ آخری زمانہ میں وہ حقیقت پھر نازل ہو.سو وہ حقیقت مسیحیہ ایک مجسم انسان کی طرح اب نازل ہوئی اور اس نے صلیب کو تو ڑا اور دروغگو ئی اور ناحق پرستی کی بُری خصلتیں جن کو ہمارے پاک نبی نے صلیب کی حدیث میں خنزیر سے تشبیہ دی ہے صلیب کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ایسی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں جیسا کہ ایک خنر بر تلوار سے کاٹا جاتا ہے.اس حدیث کے یہ معنی صحیح نہیں ہیں کہ مسیح موعود کا فروں کو قتل کرے گا اور صلیبوں کو توڑے گا بلکہ صلیب توڑنے سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں آسمان اور زمین کا خدا ایک ایسی پوشیدہ حقیقت ظاہر کر دے گا کہ جس سے تمام صلیبی عمارت یکدفعہ ٹوٹ جائے گی.اور خنزیروں کے قتل کرنے سے نہ انسان مراد ہیں نہ خنزیر بلکہ خنزیروں کی عادتیں مراد ہیں یعنی جھوٹ پر ضد کرنا اور بار بار اس کو پیش کرنا جو ایک قسم کی نجاست خوری ہے پس جس طرح مرا ہواختر برنجاست نہیں کھا سکتا اسی طرح وہ زمانہ آتا ہے بلکہ آ گیا کہ بُری خصلتیں اس قسم کی نجاست خوری سے روکی جائیں گی.اسلام کے علماء نے اس نبوی پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اصل معنے صلیب توڑنے اور خنز برفیل کرنے کے یہی ہیں جو ہم نے بیان کر دیئے ہیں.یہ بھی تو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور آسمان سے ایسی روشن سچائیاں ظاہر ہو جائیں گی کہ حق اور باطل میں ایک روشن تمیز دکھلا دیں گی.پس یہ خیال مت کرو کہ میں تلوار چلانے آیا ہوں نہیں بلکہ تمام تلواروں کو میان میں کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں.دنیا نے بہت کچھ اندھیرے میں کشتی کی.بہتوں نے اپنے بچے خیر خواہوں پر حربے چلائے اور اپنے دردمند دوستوں کے دلوں کوڈ کھایا اور عزیزوں کو زخمی کیا.مگر اب اندھیرا نہیں رہے گا.رات گذری، دن چڑھا.اور مبارک وہ جواب محروم نہ رہے.!! اور منجملہ ان شہادتوں کے جو بدھ مذہب کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں وہ شہادت ہے جو کتاب بد ھ ایزم مصنفہ اولڈن برگ صفحہ ۴۱۹ میں درج ہے.اس کتاب میں بحوالہ کتاب
مسیح ہندوستان میں 137 فلسطین سے کشمیر تک مہاوا کا صفحہ ۴ ۵ فصل نمبرا کے لکھا ہے کہ بدھ کا ایک جانشین را حولتا نام بھی گذرا ہے کہ جو اس کا جان نثار شاگرد بلکہ بیٹا تھا.اب اس جگہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ را حولتا جو بُدھ مذہب کی کتابوں میں آیا ہے یہ روح اللہ کے نام کا بگاڑا ہوا ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کا نام ہے.اور یہ قصہ کہ یہ را ولتا بدھ کا بیٹا تھا جس کو وہ شیر خوارگی کی حالت میں چھوڑ کر پردیس میں چلا گیا تھا اور نیز اپنی بیوی کو سوتی ہوئی چھوڑ کر بغیر اس کی اطلاع اور ملاقات کے ہمیشہ کی جدائی کی نیت سے کسی اور ملک میں بھاگ گیا تھا یہ قصہ بالکل بیہودہ اور لغو اور بدھ کی شان کے برخلاف معلوم ہوتا ہے.ایسا سخت دل اور ظالم طبع انسان جس نے اپنی عاجز عورت پر کچھ رحم نہ کیا اور اس کو سوتے ہوئے چھوڑ کر بغیر اس کے کہ اس کو کسی قسم کی تسلی دیتا یونہی چوروں کی طرح بھاگ گیا اور زوجیت کے حقوق کو قطعاً فراموش کر دیا نہ اسے طلاق دی اور نہ اس سے اس قدر نا پیدا کنار سفر کی اجازت لی اور یکدفعہ غائب ہو جانے سے اس کے دل کو سخت صدمہ پہنچایا اور سخت ایذا دی اور پھر ایک خط بھی اس کی طرف روانہ نہ کیا یہاں تک کہ بیٹا جوان ہو گیا اور نہ بیٹے کے ایام شیر خوارگی پر رحم کیا ایسا شخص کبھی راستباز نہیں ہو سکتا جس نے اپنی اس اخلاقی تعلیم کا بھی کچھ پاس نہ کیا جس کو وہ اپنے شاگردوں کو سکھلاتا تھا.ہمارا کانشنس اس کو ایسا ہی قبول نہیں کر سکتا جیسا کہ انجیلوں کے اس قصہ کو کہ مسیح نے ایک مرتبہ ماں کے آنے اور اس کے بلانے کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی تھی بلکہ ایسے الفاظ منہ پر لایا تھا جس میں ماں کی بے عزتی تھی.پس اگر چہ بیوی اور ماں کی دل شکنی کرنے کے دونوں قصے بھی باہم ایک گونہ مشابہت رکھتے ہیں لیکن ہم ایسے قصے جو عام اخلاقی حالت سے بھی گرے ہوئے ہیں نہ مسیح کی طرف منسوب کر سکتے ہیں اور نہ گوتم بدھ کی طرف.اگر بدھ کو اپنی عورت سے محبت نہیں تھی تو کیا اس عاجز عورت اور شیر خوار بچہ پر رحم بھی نہیں تھا.یہ ایسی بداخلاقی ہے کہ صدہا برس کے گذشتہ رفتہ قصے کو سن کر اب ہمیں درد پہنچ رہا ہے کہ کیوں اس نے ایسا کیا.انسان کی بدی کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنی عورت کی ہمدردی سے لا پروا ہو بجز اس صورت کے کہ وہ عورت نیک چلن اور تابع حکم نہ رہے اور یا بے دین اور بدخواہ اور دشمن جان ہو جائے.سو ہم ایسی گندی کارروائی بدھ کی طرف
138 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں منسوب نہیں کر سکتے جو خود اس کی نصیحتوں کے بھی برخلاف ہے.لہذا اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ غلط ہے.اور در حقیقت را حولتا سے مراد حضرت عیسی ہیں جن کا نام روح اللہ ہے اور روح اللہ کا لفظ عبرانی زبان میں را حولتا سے بہت مشابہ ہو جاتا ہے اور را حولتا یعنی روح اللہ کو بدھ کا شاگر د اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے جس کا ذکر ا بھی ہم کر چکے ہیں.یعنی مسیح جو بعد میں آکر بدھ کے مشابہ تعلیم لایا.اس لئے بدھ مذہب کے لوگوں نے اس تعلیم کا اصل منبع بدھ کو قرار دے کر مسیح کو اس کا شاگرد قرار دے دیا.اور کچھ تعجب نہیں کہ بدھ نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسیح کو اپنا بیٹا بھی قرار دیا ہو.اور ایک بڑا قرینہ اس جگہ یہ ہے کہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ جب را حولتا کو اس کی والدہ سے علیحدہ کیا گیا تو ایک عورت جو بدھ کی مرید تھی جس کا نام مگر الیانا تھا اس کام کے لئے درمیان میں اینچی بنی تھی.اب دیکھو مگدالیانا کا نام در حقیقت مگر لینی سے بگاڑا ہوا ہے.اور مگد لینی ایک عورت حضرت عیسی علیہ السلام کی مرید تھی جس کا ذکر انجیل میں موجود ہے.یہ تمام شہادتیں جن کو ہم نے مجملاً لکھا ہے ہر ایک منصف کو اس نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے اور قطع نظر ان تمام روشن شہادتوں کے بدھ مذہب اور عیسائی مذہب میں تعلیم اور رسوم کے لحاظ سے جس قدر باہمی تعلقات ہیں بالخصوص تبت کے حصہ میں یہ امرایسا نہیں ہے کہ ایک دانشمند سہل انگاری سے اس کو دیکھے.بلکہ یہ مشابہت یہاں تک حیرت انگیز ہے کہ اکثر محقق عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ بدھ مذہب مشرق کا عیسائی مذہب ہے اور عیسائی مذہب کو مغرب کا بُدھ مذہب کہہ سکتے ہیں.دیکھو کس قدر عجیب بات ہے کہ جیسے مسیح نے کہا کہ میں نور ہوں میں راہ ہدایت ہوں یہی بدھ نے بھی کہا ہے.اور انجیلوں میں مسیح کا نام نجات دہندہ ہے بدھ نے بھی اپنا نام منجی ظاہر کیا ہے.دیکھولتا وسترا اور انجیل میں مسیح کی پیدائش بغیر باپ کے بیان کی گئی ہے ایسا ہی بدھ کے سوانح میں ہے کہ دراصل وہ بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا گو بظاہر حضرت مسیح کے باپ یوسف کی طرح اس کا بھی باپ تھا.یہ بھی لکھا ہے کہ بدھ کی پیدائش کے وقت ایک ستارہ نکلا تھا.اور سلیمان کا قصہ جو اس نے حکم دیا تھا کہ اس بچے کو آدھا آدھا کر
مسیح ہندوستان میں 139 فلسطین سے کشمیر تک کے ان دونوں عورتوں کو دو کہ لے لیں.یہ قصہ بدھ کی جانکا میں بھی پایا جاتا ہے اس سے سمجھ آتا ہے کہ علاوہ اس کے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے اس ملک کے یہود جو اس ملک میں آگئے تھے ان کے تعلقات بھی بدھ مذہب سے ہو گئے تھے اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو طریق پیدائش دنیا لکھا ہے وہ بھی تو ریت کے بیان سے بہت ملتا ہے اور جیسا کہ توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے ایسا ہی بدھ مذہب کے رو سے ایک جوگی مرد ایک جوگی عورت سے درجہ میں زیادہ سمجھا جاتا ہے.ہاں بدھ تناسخ کا قائل ہے مگر اس کا تناسخ انجیل کی تعلیم سے مخالف نہیں ہے.اس کے نزدیک تناسخ تین قسم پر ہے.(۱) اول یہ کہ ایک مرنے والے شخص کی عقدِ ہمت اور اعمال کا نتیجہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک اور جسم پیدا ہو.(۲) دوسری وہ قسم جس کو تبت والوں نے اپنے لاموں میں مانا ہے.یعنی یہ کہ کسی بدھ یا بد ھستوا کی روح کا کوئی حصہ موجودہ لاموں میں حلول کر آتا ہے یعنی اس کی قوت اور طبیعت اور روحانی خاصیت موجودہ لامہ میں آجاتی ہے اور اس کی روح اس میں اثر کرنے لگتی ہے.(۳) تیسری قسم تناسخ کی یہ ہے کہ اسی زندگی میں طرح طرح کی پیدائشوں میں انسان گذرتا چلا جاتا ہے.یہاں تک که در حقیقت اپنے ذاتی خواص کے لحاظ سے انسان بن جاتا ہے.ایک زمانہ انسان پر وہ آتا ہے کہ گویا وہ بیل ہوتا ہے اور پھر زیادہ حرص اور کچھ شرارت بڑھتی ہے تو کتا بن جاتا ہے اور ایک ہستی پر موت آتی ہے اور دوسری ہستی پہلی ہستی کے اعمال کے موافق پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہ سب تغیرات اسی زندگی میں ہوتے ہیں.اس لئے یہ عقیدہ بھی انجیل کی تعلیم کے مخالف نہیں ہے.اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ بدھ شیطان کا بھی قائل ہے.ایسا ہی دوزخ اور بہشت اور ملائک اور قیامت کو بھی مانتا ہے اور یہ الزام جو بدھ خدا کا منکر ہے یہی حض افترا ہے.بلکہ بدھ ویدانت کا منکر ہے اور اُن جسمانی خداؤں کا منکر ہے جو ہندو مذہب میں بنائے گئے تھے.ہاں وہ وید پر بہت نکتہ چینی کرتا ہے اور موجودہ وید کو صحیح نہیں مانتا اور اس کو ایک بگڑی
140 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں ہوئی اور محرف اور مبدل کتاب خیال کرتا ہے اور جس زمانہ میں وہ ہندو اور دید کا تابع تھا اس زمانہ کی پیدائش کو ایک بُری پیدائش قرار دیتا ہے.چنانچہ وہ اشارات کے طور پر کہتا ہے کہ میں ایک مدت تک بندر بھی رہا اور ایک زمانہ تک ہاتھی اور پھر میں ہرن بھی بنا اور کتا بھی اور چار دفعہ میں سانپ بنا.اور پھر چڑیا بھی بنا اور مینڈک بھی بنا اور دو دفعہ مچھلی بنا اور دس دفعہ شیر بنا اور چار دفعہ مرغا بنا اور دو دفعہ میں سور بنا اور ایک دفعہ خرگوش بنا اور خرگوش بننے کے زمانہ میں بندروں اور گیدڑوں اور پانی کے کتوں کو تعلیم دیا کرتا تھا.اور پھر کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں بھوت بنا اور ایک دفعہ عورت بنا اور ایک دفعہ ناچنے والا شیطان بنا.یہ تمام اشارات اس اپنی تمام زندگی کی طرف کرتا ہے جو بزدلی اور زنانہ خصلت اور نا پا کی اور درندگی اور وحشیانہ حالت اور عیاشی اور شکم پرستی اور تو ہمات سے بھری ہوئی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ وہ وید کا پیرو تھا کیونکہ وہ وید کے ترک کرنے کے بعد کبھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ پھر بھی کوئی حصہ گندی زندگی کا اس کے اندر رہا تھا بلکہ اس کے بعد اس نے بڑے بڑے دعوے کئے اور کہا کہ وہ خدا کا مظہر ہو گیا اور نروان کو پا گیا.بدھ نے یہ بھی کہا ہے کہ جب انسان دوزخ کے اعمال لے کر دنیا سے جاتا ہے تو وہ دوزخ میں ڈالا جاتا ہے اور دوزخ کے سپاہی اس کو کھینچ کر دوزخ کے بادشاہ کی طرف اس کو لے جاتے ہیں اور اُس بادشاہ کا نام یمہ ہے اور پھر اس دوزخی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تو نے ان پانچ رسولوں کو نہیں دیکھا تھا جو تیرے آگاہ کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے.اور وہ یہ ہیں.بچپن کا زمانہ.بڑھاپے کا زمانہ.بیماری.مجرم ہو کر دنیا میں سزا پا لینا جو آخرت کی سزا پر ایک دلیل ہے.مردوں کی لاشیں جو دنیا کی بے ثباتی ظاہر کرتی ہیں.مجرم جواب دیتا ہے کہ جناب میں نے اپنی بیوقوفی کے سبب ان تمام باتوں پر کچھ بھی غور نہ کی.تب دوزخ کے موکل اس کو کھینچ کر عذاب کے مقام پر لے جائیں گے اور لوہے کی زنجیروں کے ساتھ جو آگ سے اس قدرگرم کئے ہوئے ہوں گے کہ آگ کی طرح سرخ ہوں گے باندھ دیئے جائیں گے اور نیز بدھ کہتا ہے کہ دوزخ میں کئی طبقے ہیں جن میں مختلف قسم کے گنہ گار ڈالے جائیں گے.غرض یہ تمام علیمیں بآواز بلند پکار رہی ہیں
141 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں کہ بدھ مذہب نے حضرت مسیح کے فیض صحبت سے کچھ حاصل کیا ہے.لیکن ہم اس جگہ اس سے زیادہ طول دینا پسند نہیں کرتے اور اس فصل کو اسی جگہ ختم کر دیتے ہیں کیونکہ جبکہ بدھ مذہب کی کتابوں میں صریح طور پر حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے کے لئے پیشگوئی لکھی گئی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور پھر اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مذہب کی اُن کتابوں میں جو حضرت مسیح کے زمانہ میں تالیف ہوئیں انجیل کی اخلاقی تعلیمیں اور مثالیں موجود ہیں تو ان دونوں باتوں کو باہم ملانے سے کچھ شک نہیں رہ سکتا کہ ضرور حضرت مسیح اس ملک میں آئے تھے.سو جس شہادت کو ہم بدھ مذہب کی کتابوں میں سے ڈھونڈنا چاہتے تھے خدا کا شکر ہے کہ وہ شہادت کامل طور پر ہمیں دستیاب ہوگئی ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 72 تا 93) تیسری فصل ان تاریخی کتابوں کی شہادت میں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس ملک پنجاب اور اس کی مضافات میں آنا ضرور تھا.چونکہ طبعا یہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام واقعہ صلیب سے نجات پا کر کیوں اس ملک میں آئے اور کس ضرورت نے ان کو اس دور دراز سفر کے لئے آمادہ کیا.اس لئے اس سوال کا تفصیل سے جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.اور گو ہم پہلے بھی اس بارے میں کسی قد رلکھ آئے ہیں لیکن ہم مناسب دیکھتے ہیں کہ اس بحث کو مکمل طور پر درج کتاب کیا جائے.سو واضح ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے فرض رسالت کے رو سے ملک پنجاب اور اس کے نواح کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انجیل میں اسرائیل کی گمشدہ بھیٹر میں رکھا گیا ہے ان ملکوں میں آگئے تھے جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے.اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک کی طرف سفر کرتے اور اُن گم شدہ بھیڑوں کا پتہ لگا کر خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچاتے اور جب
فلسطین سے کشمیر تک 142 مسیح ہندوستان میں تک وہ ایسا نہ کرتے تب تک ان کی رسالت کی غرض بے نتیجہ اور نامکمل تھی کیونکہ جس حالت میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن گمشدہ بھیڑوں کی طرف بھیجے گئے تھے تو پھر بغیر اس کے کہ وہ اُن بھیڑوں کے پیچھے جاتے اور ان کو تلاش کرتے اور ان کو طریق نجات بتلاتے یونہی دنیا سے کوچ کر جانا ایسا تھا کہ جیسا کہ ایک شخص ایک بادشاہ کی طرف سے مامور ہو کہ فلاں بیابانی قوم میں جا کر ایک کنواں کھودے اور اس کنویں سے ان کو پانی پلاوے.لیکن یہ شخص کسی دوسرے مقام میں تین چار برس رہ کر واپس چلا جائے اور اس قوم کی تلاش میں ایک قدم بھی نہ اٹھائے تو کیا اس نے بادشاہ کے حکم کے موافق تعمیل کی ؟ ہر گز نہیں.بلکہ اس نے محض اپنی آرام طلبی کی وجہ سے اس قوم کی کچھ پرواہ نہ کی.ہاں اگر یہ سوال ہو کہ کیونکر اور کس دلیل سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کی دس قو میں اس ملک میں آگئی تھیں تو اس کے جواب میں ایسے بدیہی ثبوت موجود ہیں کہ ان میں ایک معمولی اور موٹی عقل بھی شبہ نہیں کر سکتی.کیونکہ یہ نہایت مشہور واقعات ہیں کہ بعض قو میں مثلاً افغان اور کشمیر کے قدیم باشندے در اصل بنی اسرائیل ہیں مثلاً الائی کو ہستان جو ضلع ہزارہ سے دو تین دن کے راستہ پر واقع ہے اس کے باشندے قدیم سے اپنے تئیں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.ایسا ہی اس ملک میں ایک دوسرا پہاڑ ہے جس کو کالا ڈا کہ کہتے ہیں اس کے باشندے بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم بنی اسرائیل ہیں اور خاص ضلع ہزارہ میں بھی ایک قوم ہے جو اسرائیلی خاندان سے اپنے تئیں سمجھتے ہیں ایسا ہی چلاس اور کابل کے درمیان جو پہاڑ ہیں جنوب کی طرف شرقاً وغرباً ان کے باشندے بھی اپنے تئیں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.اور کشمیر کے باشندوں کی نسبت وہ رائے نہایت صحیح ثابت ہوتی ہے جو ڈاکٹر بر نیر نے اپنی کتاب سیر و سیاحت کشمیر کے دوسرے حصے میں بعض محقق انگریزوں کے حوالہ سے لکھی ہے.یعنی یہ کہ بلا شبہ کشمیری لوگ بنی اسرائیل ہیں اور ان کے لباس اور چہرے اور بعض رسوم قطعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی خاندان میں سے ہیں.اور فارسٹر نامی ایک انگریز اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جب میں کشمیر میں تھا تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہوں.اور کتاب دی ریسز آف افغانستان 1.Francis Bernier, 2.George Forster
143 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں مصنفہ ایچ ڈبلیو بلیوں سی ایس آئی مطبوعہ تھا کر سپنک اینڈ کو کلکتہ میں لکھا ہے کہ افغان لوگ ملک سیریا سے آئے ہیں.بخت نصر نے انہیں قید کیا اور پرشیا اور میدیا کے علاقوں میں انہیں آباد کیا.ان مقامات سے کسی بعد کے زمانہ میں مشرق کی طرف نکل کر غور کے پہاڑی ملک میں جابسے جہاں بنی اسرائیل کے نام سے مشہور تھے اس کے ثبوت میں ادریس نبی کی پیشگوئی ہے کہ دس قو میں اسرائیل کی جو قید میں ماخوذ ہوئی تھیں.قید سے بھاگ کر ملک ارسارۃ میں پناہ گزین ہوئیں.اور وہ اسی ملک کا نام معلوم ہوتا ہے جسے آج کل ہزارہ کہتے ہیں اور جو علاقہ غور میں واقع ہے.طبقات ناصری جس میں چنگیز خان کی فتوحات ملک افغانستان کا ذکر ہے اس میں لکھا ہے کہ شنیسی خاندان کے عہد میں یہاں ایک قوم آباد تھی جس کو بنی اسرائیل کہتے تھے اور بعض ان میں بڑے بڑے تاجر تھے.یہ لوگ ۱۲۲ ء میں جبکہ محمد یعنی اس زمانہ میں جبکہ سیدنا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کا اعلان کیا ہرات کے مشرقی علاقہ میں آباد تھے ایک قریش سردار خالد ابن ولید نامی اُن کے پاس رسالت کی خبر لے کر آیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جھنڈے کے نیچے آئیں.پانچ چھ سردار منتخب ہو کر اس کے ساتھ ہوئے جن میں بڑا قیس تھا جس کا دوسرا نام رکش ہے.یہ لوگ مسلمان ہو کر اسلام کی راہ میں بڑی جان فشانی سے لڑے اور فتوحات حاصل کیں اور ان کی واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کو بہت تھے دیئے اور ان پر برکت بھیجی اور پیشگوئی کی کہ اس قوم کو عروج حاصل ہوگا.اور بطور پیشگوئی فرمایا کہ ہمیشہ ان کے سردار ملک کے لقب سے مشہور ہوا کریں گے اور قیس کا نام عبدالرشید رکھ دیا اور پہطان کے لقب سے سرفرازا.اور لفظ پہطان کی نسبت افغان مؤلّف یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی جہاز کا سگان ہے اور چونکہ نو مسلم قیس اپنی قوم کی رہنمائی کے لئے جہاز کے سُکان کی طرح تھا اس لئے پہطان کا خطاب اس کو ملا.اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ کسی زمانہ میں غور کے افغان آگے بڑھے اور علاقہ قندھار میں جو آج کل ان کا وطن ہے آباد ہوئے.غالباً اسلام کی پہلی صدی میں ایسا ظہور میں 1.H.W.Bellew,
144 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں آیا.افغانوں کا قول ہے کہ قیس نے خالد بن ولید کی لڑکی سے نکاح کیا اور اس سے اس کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے جن کا نام سرابان، پطان، اور گرگشت ہیں.سرابان کے دو لڑکے تھے جن کا نام سچر ج یئن اور کرش ین ہیں.اور ان ہی کی اولا دافغان یعنی بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.ایشیا کو چک کے لوگ اور مغربی اسلامی مؤرخ افغانوں کو سلیمانی کہتے ہیں.اور کتاب سائیکلو پیڈیا آف انڈیا ایسٹرن اینڈ سدرن ایشیا مصنفه ای بیلفور جلد سوم میں لکھا ہے کہ قوم یہود ایشیا کے وسط جنوب اور مشرق میں پھیلی ہوئی ہیں.پہلے زمانہ میں یہ لوگ ملک چین میں بکثرت آباد تھے اور مقام یہ چو( صدر مقام ضلع شو ) ان کا معبد تھا.ڈاکٹر وولف جو بنی اسرائیل کے دس غائب شدہ فرقوں کی تلاش میں بہت مدت پھرتا رہا اس کی یہ رائے ہے کہ اگر افغان اولاد یعقوب میں سے ہیں تو وہ یہودا اور بن یمین قبیلوں میں سے ہیں.ایک اور روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی لوگ تا تار میں جلا وطن کر کے بھیجے گئے تھے اور بخارا.مرد اور خیوا کے متعلقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود تھے.پرسٹر جان شہنشاہ تا تار نے ایک خط میں جو بنام الکسیس کام نی نس" شہنشاہ قسطنطنیہ ارسال کیا تھا اپنے ملک تا تار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دریا ( آموں) کے پار بنی اسرائیل کے دس قبیلے ہیں جو اگر چہ اپنے بادشاہ کے ماتحت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت ہماری رعیت اور غلام ہیں.ڈاکٹر مور کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تا تاری قوم چوزن " یہودی الاصل ہیں.اور ان میں اب تک یہودی مذہب کے قدیم آثار پائے جاتے ہیں چنانچہ وہ ختنہ کی رسم ادا کرتے ہیں.افغانوں میں یہ روایت ہے کہ وہ دس گم شدہ بنی اسرائیلی قبائل ہیں.بادشاہ بخت نصر نے یروشلم کی تباہی کے بعد گرفتار کر کے غور کے ملک میں بسایا جو بامیان کے نزدیک ہے اور وہ خالد بن ولید کے آنے سے پہلے برابر یہودی مذہب کے پابند ر ہے.افغان شکل و شباہت میں ہر طرح سے یہود نظر آتے ہیں اور ان ہی کی طرح چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ سے شادی کرتا ہے.ایک فرانسیسی سیاح فرائرے نامی جب ہرات کے علاقہ میں سے گذر رہا تھا تو اس نے لکھا ہے کہ اس علاقہ میں بنی اسرائیل بکثرت ہیں 1.Edward Balfour, 2.Dr.Wolff, 3.Prester John, 4.Alexius Comnenus, the
مسیح ہندوستان میں 145 فلسطین سے کشمیر تک اور اپنے یہودی مذہب کے ارکان کے ادا کرنے کی پوری آزادی انہیں حاصل ہے.ربی بن یمین ساکن شہر ٹولیڈ ول (سپین) بارھویں صدی عیسوی میں گم شدہ قبیلوں کی تلاش میں گھر سے نکلا.اس کا بیان ہے کہ یہ یہودی لوگ چین ایران اور تبت میں آباد ہیں.جوزی فس کے جس نے ۹۳ء میں یہودیوں کی قدیم تاریخ لکھی ہے اپنی گیارھویں کتاب میں عزرا نبی کے ساتھ قید سے واپس جانے والے یہودیوں کے بیان کے ضمن میں بیان کرتا ہے کہ دس قبیلے دریائے فرات کے اس پار اب تک آباد ہیں اور ان کی تعداد شمار سے باہر ہے دریائے فرات سے اس پار سے مراد فارس اور مشرقی علاقے ہیں ) اور سینٹ جروم جو پانچویں صدی عیسوی میں گذرا ہے ہوسیع نبی کا ذکر کرتے ہوئے اس معاملہ کے ثبوت میں حاشیہ پر لکھتا ہے کہ اس دن سے (بنی اسرائیل کے ) دس فرقے شاہ پار تھیا یعنی پارس کے ماتحت ہیں اور اب تک قید سے رہا نہیں کئے گئے.اور اسی کتاب کی جلد اول میں لکھا ہے کہ کونٹ جورن سٹرنا اپنی کتاب کے صفحہ ۲۳۳ ۲۳۴۰ میں تحریر کرتا ہے کہ افغان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بخت نصر نے ہیکل یروشلم کی تباہی کے بعد بامیان کے علاقہ میں انہیں جلا وطن کر کے بھیج دیا.(بامیان کا علاقہ غور کے متصل اور افعانستان میں واقع ہے) اور کتاب اے نیرے ٹو آف اے وزٹ ٹو غزنی کابل افغانستان.مصنفہ جی ٹی ویگن " ایف جی ایس مطبوعہ ۱۸۴۰ء کے صفحہ ۶ میں لکھا ہے کہ کتاب مجمع الانساب سے ملا خدا داد نے پڑھ کر سنایا کہ یعقوب کا بڑا بیٹا یہودا تھا اس کا بیٹا اسرک تھا.اُسرک کا بیٹا اکنور.اکنور کا بیٹا معالب.معالب کا فرلائی.فرلائی کا بیٹا قیس تھا.قیس کا بیٹا طالوت.طالوت کا ارمیاہ.اور ارمیاہ کا بیٹا افغان تھا اس کی اولا د قوم افغان ہے اور اسی کے نام پر افغان کا نام مشہور ہوا.افغان بخت نصر کا ہم عصر تھا اور بنی اسرائیل کہلاتا تھا اور اُس کے چالیس بیٹے تھے.اس کی چونتیسویں پشت میں دو ہزار برس بعد وہ قیس ہوا جومحمد (رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ میں تھا.اس سے چونسٹھ نسلیں ہو لیں.سلم نامی افغان کا سب سے بڑا بیٹا اپنے وطن شام سے ہجرت کر کے غور مشکوہ کے علاقہ میں جو ہرات کے قریب ہے آباد ہوا.اس کی اولا دافغانستان میں پھیل گئی.1.Benjamin of toleda, 2.Flavious Josephus, 3.Jerome, 4.The British Empire in
مسیح ہندوستان میں 146 فلسطین سے کشمیر تک اور کتاب اے سائیکلو پیڈیا آف جیوگرافی مرتبہ جیمز برائیس ایف جی ایس مطبوعہ لندن ۱۸۵۶ء کے صفحہا میں لکھا ہے کہ افغان لوگ اپنا سلسلہ نسب سال بادشاہ اسرائیل سے ملاتے ہیں اور اپنا نام بنی اسرائیل رکھتے ہیں.الگزنڈر برنس تسکا قول ہے کہ افغان یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ وہ یہودی الاصل ہیں.شاہ بابل نے انہیں قید کر کے غور کے علاقہ میں لا بسایا جو کابل سے شمال مغرب میں واقع ہے.یہ لوگ ۲۲ ء تک اپنے یہودی مذہب پر رہے.لیکن خالد بن عبد اللہ ( غلطی سے ولید کی جگہ عبداللہ کھا ہوا ہے ) نے اس قوم کے ایک سردار کی لڑکی سے بیاہ کر لیا اور ان کواس سال میں دین اسلام قبول کرایا.اور کتاب ہسٹری آف افغانستان مصنفہ کر نیل جی بی میلسن کے مطبوعہ لندن ۱۸۷۸ء صفحہ ۳۹ میں لکھا ہے کہ عبداللہ خان ہراتی اور فرانسیسی سیاح فرائر یانی سرولیم جونز (جو ایک بڑا متجر عالم علوم شرقیہ گذرا ہے ) اس بات پر متفق ہیں کہ افغان قوم بنی اسرائیلی الاصل ہیں اور دیس گم شدہ فرقوں کی اولاد ہیں.اور کتاب ہسٹری آف دی افغانس مصنفہ جی پی فرائز ( فرانسیسی ) مترجمه کپتان ولیم جے سی مطبوعہ لندن ۱۸۵۸ء صفحہ میں لکھا ہے که شرقی مؤرخوں کی کثرت رائے یہی ہے کہ افغان قوم بنی اسرائیل کے دس فرقوں کی اولاد سے ہیں اور یہی رائے افغانوں کی اپنی ہے.اور یہی مورخ اس کتاب کے صفحہم میں لکھتا ہے کہ افغانوں کے پاس اس بات کے ثبوت کے لئے ایک دلیل ہے جس کو وہ یوں پیش کرتے ہیں کہ جب نادر شاہ ہند کی فتح کے ارادہ سے پشاور پہنچا تو یوسف زئی قوم کے سرداروں نے اس کی خدمت میں ایک بائبل عبرانی زبان میں لکھی ہوئی پیش کی اور ایسا ہی کئی دوسری چیزیں پیش کیں جو ان کے خاندانوں میں اپنے قدیم مذہب کے رسوم ادا کرنے کے لئے محفوظ چلی آتی تھیں.اس کیمپ کے ساتھ یہودی بھی موجود تھے جب ان کو یہ چیزیں دکھلائی گئیں تو فوراً انہوں نے ان کو پہچان لیا اور پھر یہی مؤرخ اپنی کتاب کے صفحہ چہارم کے بعد لکھتا ہے کہ عبداللہ خان ہراتی کی رائے میرے نزدیک بہت قابل اعتبار ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:.ملک طالوت (سال کے دو بیٹے تھے ایک کا نام افغان دوسرے کا نام جالوت.افغان اس قوم کا مورث اعلیٰ تھا.داؤد اور سلیمان کی حکومت کے 1.James Bryce, 2.Alexander Burnes, 3.G.B.malleson, 4.J.P.Ferrier
147.فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں بعد بنی اسرائیل میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور فرقے فرقے الگ الگ بن گئے.بخت نصر کے زمانہ تک یہی حالت رہی.بخت نصر نے چڑھائی کر کے ستر ہزار یہودی قتل کئے اور شہر نتباہ کیا.اور باقی یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا.اس مصیبت کے بعد افغان کی اولاد خوف کے مارے جو دیا سے ملک عرب میں بھاگ کر جابسے اور بہت عرصہ تک یہاں آباد رہے.لیکن چونکہ پانی اور زمین کی قلت تھی اور انسان اور حیوان کو تکلیف تھی اس لئے انہوں نے ہندوستان کی طرف چلے آنے کا ارادہ کیا.ابدالیوں کا ایک گروہ عرب میں پڑا رہا اور ( حضرت ) ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ان کے ایک سردار نے ان کا رشتہ خالد بن ولید سے قائم کیا..جب ایران اہل عرب کے قبضہ میں آیا تو یہ قوم عرب سے نکل کر ایران کے علاقوں فارس اور کرمان میں جابسے.اور حملہ چنگیز خان تک یہیں بستے رہے.اس کے مظالم کی تاب نہ لا کر ابدالی فرقہ مکران سندھ اور ملتان کے راستے ہندوستان پہنچا.لیکن یہاں انہیں چین نصیب نہ ہوا (آخر کار ) وہ کوہ سلیمان پر جا ٹھہرے.باقی ماندہ ابدالی فرقے کے لوگ بھی یہاں جمع ہو گئے.ان کے چوبیس فرقے تھے جو افغان کی اولاد میں سے تھے جس کے تین بیٹے تھے جن کے نام سرابند (سرابان) ارکش ( گرگشت) کرلن (بطان) ان میں ہر ایک کے آٹھ فرزند ہوئے جن کے نام پر چوبیس قبیلے ہوئے.ان کے نام مع قبائل یہ ہیں:.سرا بند کے بیٹے قبائل کے نام گرگشت (ارکش) کے بیٹے قبائل کے نام ابدال ابدالی خلج خلجی غلہ کی یوسف یوسف زئی کا کر کا کری بابور با بوری جمهوربین جمورینی وزیر وزیری ستوریان ستوریانی لوہان لوہانی پین پینی
مسیح ہندوستان میں برچ برچی 148 فلسطین سے کشمیر تک تکانی خوگیانی تکان خوگیان نصری شرانی شران قبائل کرلن کے بیٹے قبائل کرین کے بیٹے زازی بٹیمی زاز باب سوری بالي بنانیشی سور بنکنیش آفریدی لنڈ بیوری آفرید طوری لنڈ ہیپور طور تَمَّ كَلامُهُ اور کتاب مخزن افغانی * تالیف خواجہ نعمت اللہ ہراتی بعہد جہانگیر شاہ تالیف شده ۱۰۱۱ ہجری جس کو پروفیسر برنہارڈ ڈورن (خار کو یونیورسٹی) نے بمقام لندن ترجمہ کر کے ۱۸۳۶ء میں شائع کیا ہے اس کے مفصلہ ذیل ابواب میں یہ بیان ہے.باب اول میں بیان ” تاریخ یعقوب اسرائیل ہے جس سے اس (افغان) قوم کا شجرہ نسب شروع ہوتا ہے.باب دوم میں مضمون تاریخ شاہ طالوت ہے.یعنی افغانوں کا شجرہ نسب طالوت سے ملایا گیا ہے.صفحہ ۲۲ و ۲۳ میں لکھا ہے کہ طالوت کے دو بیٹے تھے.برخیاہ اور ارمیاہ.برخیاہ کا بیٹا آصف تھا اور ارمیاہ کا افغان.اور صفحہ ۲۴ میں لکھا ہے کہ افغان کے ۲۴ بیٹے تھے اور افغان کی اولاد کے برابر کوئی اور اسرائیلی قبیلہ میں نہ تھا.اور صفحہ ۶۵ میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے تمام شام معتبر تواریخ مثلاً تاریخ طبری، مجمع الانصاب گزیدہ جہاں کشائی مطلع الانوار ، معدن اکبر سے خلاصہ کر کے یہ کتاب بنائی گئی ہے.(دیکھو صفحہ ۳ دیباچہ از مصنف)
149 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک پر قبضہ کر لیا اور اقوام بنی اسرائیل کو جلا وطن کر کے غور، غزنی، کابل، قندہار اور کوہ فیروز کے کو ہستانی علاقوں میں لا بسایا جہاں خاص کر آصف اور افغان کی اولا درہ پڑی.باب سوم میں یہ بیان ہے کہ بخت نصر نے جب بنی اسرائیل کو شام سے نکال دیا تو آصف اور افغان کی نسل کے چند قبائل عرب میں جاگزین ہوئے.اور عرب ان کو بنی اسرائیل اور بنی افغان کے ناموں سے نامزد کرتے تھے.اور اس کتاب کے صفحہ ۱۳۷ ۳۸ مصنف مجمع الانساب اور مستوفی مصنف تاریخ گزیدہ کے حوالہ سے تفصیلاً بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں خالد بن ولید نے ان افغانوں کی طرف دعوت اسلام کا پیغام بھیجا جو بخت نصر کے واقعہ کے بعد غور کے علاقہ ہی میں رہ پڑے تھے.افغان سردار بسر براہی قیس جو ۳۷ پشتوں کے بعد طالوت کی اولاد تھا حاضر خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے.قیس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرشید رکھا.(اس جگہ عبدالرشید قیس کا شجرہ نسب طالوت (سال) تک دیا ہے).نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداروں کا نام پٹھان رکھا جس کے معنی سُگان جہاز کے ہیں.کچھ عرصہ کے بعد سردار واپس اپنے ملک میں آئے اور اسلام کی تبلیغ کی.اور اسی کتاب مخزن افغانی کے صفحہ ۶۳ میں لکھا ہے کہ بنی افغنہ یا بنی افغان ناموں کی نسبت فرید الدین احمد اپنی کتاب رسالہ انساب افغانیہ میں مفصلہ ذیل عبارت لکھتا ہے:.”بخت نصر مجوسی جب بنی اسرائیل اور شام کے علاقوں پر مستولی ہوا اور یروشلم کو تباہ کیا تو بنی اسرائیل کو قیدی اور غلام بنا کر جلا وطن کر دیا اور اس قوم کے کئی قبیلے جو موسوی شریعت کے پابند تھے اپنے ساتھ لے گیا اور حکم دیا کہ وہ آبائی مذہب چھوڑ کر خدا کی بجائے اس کی پرستش کریں.لیکن انہوں نے انکار کیا.بنا بریں بخت نصر نے نہایت عاقل اور فہیم لوگوں میں سے دو ہزار کو مار ڈالا اور باقیوں کے لئے حکم دیا کہ اس کے مقبوضات اور شام سے کہیں باہر چلے جائیں.ان کا ایک حصہ ایک سردار کے ماتحت بخت نصر کے مقبوضات سے نکل کر کو ہستان غور میں چلا گیا اور یہاں ان کی اولا درہ پڑی.دن بدن ان کی تعداد بڑھتی گئی اور لوگوں نے ان کو بنی اسرائیل بنی آصف اور بنی افغان کے ناموں سے موسوم کیا.
150 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک صفحہ ۶۴ میں مصنف مذکور کا قول ہے کہ معتبر کتب مثلاً تاریخ افغانی، تاریخ غوری و غیره میں یہ دعویٰ درج ہے " افغان بہت زیادہ حصہ تو بنی اسرائیل ہیں اور کچھ حصہ قبطی“.نیز ابوالفضل کا بیان ہے کہ بعض افغان اپنے آپ کو مصری الاصل سمجھتے ہیں اور یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل یروشلم سے مصر واپس گئے.اس فرقہ (یعنی افغان ) نے ہندوستان کو نقل مقام کیا.اور صفحہ ۶۴ میں فرید الدین احمد افغان کے نام کی بابت یہ لکھتا ہے:.افغان نام کی نسبت بعض نے یہ لکھا ہے کہ ( شام سے ) جلا وطنی کے بعد جب وہ ہر وقت اپنے وطن مالوف کا دل میں خیال لاتے تھے تو آہ وفغان کرتے تھے لہذا ان کا نام افغان ہوا اور یہی رائے سر جان ملکم کی ہے دیکھو ہسٹری آف پرشیا جلد اصفحہ ۱۰۱.اور صفحہ ۶۳ میں مہابت خان کا بیان ہے کہ ”چوں ایشان از توابع ولواحق سلیمان علیہ السلام اند بنابراں ایشان را مردم عرب سلیمانی گویند اور صفحہ ۶۵ میں لکھا ہے تقریباً تمام مشرقی مؤرخوں کی یہی تحقیقات ہے کہ افغان قوم کا اپنا یہی اعتقاد ہے کہ وہ یہودی الاصل ہیں.اور اس رائے کو زمانہ حال کے بعض مؤرخوں نے بھی اختیار کیا ہے یا غالباً صحیح سمجھا ہے....اور یہ رواج کہ افغان یہودیوں کے نام اپنے نام رکھتے ہیں بیشک افغانوں کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے ہے (لیکن مترجم برنہارڈ دورن کا یہ خیال کوئی ثبوت نہیں رکھتا.پنجاب کے شمال و مغربی حصہ میں اکثر ایسی قومیں ہندی الاصل آباد ہیں جو آباد ہوگئی ہیں لیکن ان کے نام یہودی ناموں کی طرز پر ہرگز نہیں.جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ہو جانے سے ایک قوم میں یہودی نام داخل نہیں ہو جاتے ) افغان کے خط و خال یہودیوں سے حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتے ہیں اور اس بات کو ان محققوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے جو افغانوں کے دعوائے یہودی الاصل ہونے پر کچھ التفات نہیں کرتے.اور یہی ایک ثبوت ہے جو ان کے یہودی الاصل ہونے کے بارے میں مل سکتا ہے.سرجان ملکم کے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں : اگر چہ افغانوں کا (یہودیوں کی ) معز نسل سے ہونے کا دعویٰ بہت مشتبہ ہے.لیکن ان کی شکل و ظاہری خط و خال اور ان کے اکثر رسوم سے یہ امرصاف ظاہر ہے کہ وہ
مسیح ہندوستان میں 151 فلسطین سے کشمیر تک (افغان) فارسیوں، تاتاریوں اور ہندیوں سے ایک جدا قوم ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی بات اس بیان کو معتبر ٹھہراتی ہے جس کی مخالفت بہت سے قوی واقعات کرتے ہیں اور جس کا کوئی صاف ثبوت نہیں ملتا.اگر ایک قوم کی دوسری قوم کے ساتھ شکل و وضع میں مشابہت رکھنے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو کشمیری اپنے یہودیوں والے خط و خال کی وجہ سے یقیناً یقیناً یہودی الاصل ثابت ہوں گے اور اس بات کا صرف بر نیر نے ہی نہیں بلکہ فارسٹر اور شاید دیگر محققوں نے ذکر کیا ہے.......اگر چہ فارسٹر بر نیر کی رائے کو تسلیم نہیں کرتا تاہم وہ اقرار کرتا ہے کہ جب وہ کشمیریوں میں تھا تو اس نے خیال کیا کہ وہ ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہے.اور کتاب ڈکشنری آف جیوگرافی مرتبہ اے کے جانسٹن کے صفحہ ۲۵۰ میں کشمیر کے لفظ کے بیان میں یہ عبارت ہے:.یہاں کے باشندے دراز قد ، قوی ہیکل، مردانہ شباہت والے، عورتیں مکمل اندام والیس، خوبصورت ، بلند خمدار بینی والے ، شکل و وضع میں بالکل یہودیوں کے مشابہ ہیں.اور سول اینڈ ملٹری گزٹ ( مطبوعہ ۲۳ / نومبر ۱۸۹۸ء صفحریه ) میں بعنوان مضمون سواتی اور آفریدی (اقوام ) لکھا ہے کہ ہمیں ایک اعلیٰ درجہ کا قیمتی اور دلچسپ مضمون ملا ہے جو برٹش ایسوسی ایشن کے ایک حال کے جلسہ میں ایسوسی ایشن مذکورہ کی شاخ متعلقہ تاریخ طبعی نوع انسان میں پیش کیا گیا ہے اور جو کمیٹی تحقیقات تاریخ طبعی انسان کے موسم سرما کے جلسہ میں ابھی سنایا جاتا ہے.ہم وہ کمل مضمون ذیل میں درج کرتے ہیں.ہندوستان کی مغربی سرحد کے پٹھان یا پکٹان باشندوں کا حال قدیمی تاریخوں میں موجود ہے اور بہت سے فرقوں کا ذکر ہیروڈوٹس نے اور سکندراعظم کے تاریخ نویسوں نے کیا ہے.وسطی زمانہ میں اس پہاڑ کا غیر آباد اور ویرانہ کا نام روہ تھا.اور اس علاقہ کے باشندوں کا نام رہیلہ تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہ رسیلے یا پٹھان قوم افغانان کے نام و نشان سے پہلے ان علاقوں میں آباد تھے.اب سارے افغان پٹھانوں میں شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ پٹھانی زبان یعنی پشتو بولتے ہیں.لیکن وہ ان سے کسی رشتہ کا اقرار SWATIS AND AFRIDIS by Sir Thomas Holdich, The Civil and Military 00 1000
152 فلسطین سے کشمیر تک مسیح ہندوستان میں نہیں کرتے.اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہم بنی اسرائیل ہیں یعنی ان فرقوں کی اولاد ہیں جن کو بخت نصر قید کر کے بابل لے گیا تھا.مگر سب نے پشتو زبان کو اختیار کر لیا ہے.اور سب اسی مجموعه قوانین ملکی کو مانتے ہیں جس کا نام پکتان والی ہے اور جس کے بہت سے قواعد پرانی موسوی شریعت سے عجیب طور پر مشابہت رکھتے ہیں اور بعض اقوام راجپوت کے پرانے رسم و رواج سے بھی ملتے جلتے ہیں.اگر ہم اسرائیلی آثار کوز پر نظر رکھ کر دیکھیں تو ظاہر ہوگا کہ پٹھانوں کی قومیں دو بڑے حصوں میں منقسم ہو سکتی ہیں.یعنی اول وہ فرقے ہندی الاصل ہیں جیسے وزیری، آفریدی ، اورک زئی وغیرہ.دوسرے افغان جو سامی (SEMITIC) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سرحد پر زیادہ آبادی انہی کی ہے.اور کم سے کم یہ ممکن ہے کہ پاکنان والی جو ایک غیر مکتوب ضابطہ قواعد ملکی ہے.سب کا مل کر تیار ہوا ہے اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ موسوی احکام راجپوتی رسوم سے ملے ہوئے ہیں جن کی ترمیم اسلامی رسوم نے کی ہے.وہ افغان جو اپنے تئیں درانی کہلاتے ہیں اور جب سے کہ درانی سلطنت کی بنیاد پڑی ہے یعنی ۱۵۰ سال سے اپنے تئیں درانی ہی نامزد کر تے آئے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اصلا اسرائیلی فرقوں کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل کش (قیس) سے جاری ہوتی ہے جس کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پٹھان کے نام سے موسوم کیا.جس کے معنی سریانی زبان میں سگان کے ہیں کیونکہ اس نے لوگوں کو اسلام کی لہروں میں (کشتی کی طرح ) چلانا تھا.اگر ہم قوم افغان کا قوم اسرائیل سے کوئی قدیمی رشتہ نہ مانیں تو ان اسرائیلی ناموں کی کوئی وجہ بیان کرنا ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے جو عام طور پر رائج ہیں.اور بعض رسوم مثلاً عید فضح کے تہوار کے رائج ہونے کی وجہ بیان کرنا اور بھی ہمارے لئے دشوار ہو جاتا ہے.اور قوم افغان کی یوسف زئی شاخ اگر عید فصح کی حقیقت کو سمجھ کر نہیں مناتے تو کم سے کم ان کا تہوار عید فضح کی نہایت عجیب اور عمدہ نقل ہے.ایسا ہی اسرائیلی رشتہ نہ ماننے کی حالت میں ہم اس اصرار کی بھی کوئی وجہ نہیں بتلا سکتے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افغانوں کو اس روایت کے بیان کرنے اور اس پر قائم رہنے میں ہے.اس سے معلوم ہوتا
153 مسیح ہندوستان میں فلسطین سے کشمیر تک ہے کہ اس روایت کی صداقت کی کوئی اصلی بنیا دضرور ہوگی.بلیو (BELLEW ) کی رائے ہے کہ اسرائیلی رشتہ کا درحقیقت سچا ہونا ممکن ہے مگر وہ بیان کرتا ہے کہ افغانوں کی تین بڑی شاخوں میں سے جو اپنے تئیں قیس کی اولاد بیان کرتے ہیں کم سے کم ایک شاخ سارا بور کے نام سے موسوم ہے اور یہ لفظ پشتو زبان میں اس نام کا ترجمہ ہے جو پرانے زمانے میں سورج بنسی راجپوتوں کا نام تھا جن کی نسبت یہ معلوم ہے کہ ان کی بستیاں مہا بھارت کی لڑائی میں چندر بنسی خاندان سے شکست کھا کر افغانستان میں آبسی تھیں.اس طرح معلوم ہوا کہ ممکن ہے کہ افغان بنی اسرائیل ہوں جو قدیمی راجپوتوں میں مل گئے ہوں اور ہمیشہ سے میری نظر میں افغانوں کے اصل ونسل کے مسئلہ کا صحیح حل نہایت ہی اغلب طور پر یہی معلوم ہوتا رہا ہے.بہر نمط آج کل کے افغان روایت و تامل کی بنا پر اپنے تئیں برگزیدہ قوم یعنی ابراہیم کی اولاد میں سے شمار کرتے ہیں.ان تمام تحریرات کو جو نامی مؤلفوں کی کتابوں میں سے ہم نے لکھی ہیں یکجائی طور پر تصور میں لانے سے ایک صادق کو یقین کامل ہو سکتا ہے کہ یہ قو میں جو افغان اور کشمیری اس ملک ہندوستان اور اس کے حدود اور نواح میں پائی جاتی ہیں دراصل بنی اسرائیل ہیں.اور ہم اس کتاب کے دوسرے حصہ میں انشاء اللہ زیادہ تر تفصیل سے اس بات کو ثابت کریں گے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر دور دراز یعنی ہندوستان کے سفر کی علت غائی یہی تھی کہ تا وہ اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں جو تمام اسرائیلی قوموں کو تبلیغ کا فرض ان کے ذمہ تھا جیسا کہ وہ انجیل میں اس بات کی طرف اشارہ بھی کر چکے ہیں.پس اس حالت میں یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ ہندوستان اور کشمیر میں آئے ہوں.بلکہ تعجب اس بات میں ہے کہ بغیر ادا کرنے اپنے فرض منصبی کے وہ آسمان پر جا بیٹھے ہوں.اب ہم اس حصہ کو ختم کرتے ہیں.وَالسّلام على مَنِ اتَّبع الهدى ( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 93 تا 107 )
ستاره قیصریه ، تریاق ا 154 ستارہ قیصریہ (1899ء) فلسطین سے کشمیر تک بہت سے قطعی دلائل اور نہایت پختہ وجوہ سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ خدا نے اس پاک نبی کو صلیب پر سے بچالیا.اور آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ مر کر بلکہ زندہ ہی قبر میں نشی کی حالت میں داخل کیے گئے.اور پھر زندہ ہی قبر سے نکلے جیسا کہ آپ نے انجیل میں خود فرمایا تھا کہ میری حالت یونس نبی کی حالت سے مشابہہ ہوگی.آپ کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں کہ یونس نبی کا معجزہ دکھلاؤں گا سو آپ نے یہ معجزہ دکھلایا کہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے.یہ وہ باتیں ہیں یہ جوا انجیلوں سے ہمیں معلوم ہوتی ہیں.لیکن اس کے علاوہ ایک بڑی خوشخبری جو ہمیں ملی ہے وہ یہ ہے کہ دلائل قاطعہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے اور یہ امر ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ آپ یہودیوں کے ملک سے بھاگ کر نصیبین کی راہ سے افغانستان میں آئے.اور ایک مدت تک کو دلغمان میں رہے.اور پھر کشمیر میں آئے اور ایک سو بیس برس کی عمر پا کر سرینگر میں آپ کا انتقال ہوا.اور سرینگر محلہ خانیار میں آپ کا مزار ہے چنانچہ اس بارے میں میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے مسیح ہندوستان میں.یہ ایک بڑی فتح ہے جو مجھے حاصل ہوئی ہے.اور میں جانتا ہوں کہ جلد تر یا کچھ دیر سے اس کا نتیجہ ہوگا کہ یہ دو بزرگ تو میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی جو مدت سے بچھڑی ہوئی ہیں.باہم شیر وشکر ہو جائیں گی.(ستارہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 123 تا 124 ) تریاق القلوب (1900ء) میں نشانوں کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور ایک بڑا بھاری معجزہ میرا یہ ہے کہ میں نے حسی بدیہی ثبوتوں کے ذریعہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کو ثابت کر دیا ہے اور ان کی جائے وفات اور قبر کا پتہ دے دیا ہے.چنانچہ جو شخص میری کتاب مسیح ہندوستان میں اوّل سے آخر تک پڑھے گا.گو وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی یا آریہ ممکن نہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اس بات کا وہ قائل نہ ہو جائے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کا خیال لغو اور
تریاق القلوب 155 فلسطین سے کشمیر تک جھوٹ اور افترا ہے.غرض یہ ثبوت نظری حد تک محدود نہیں بلکہ نہایت صاف اور اجلی بدیہیات ہے جس سے انکار کرنا نہ صرف بعید از انصاف بلکہ انسانی حیا سے دُور ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 145) تیسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ آسمانی نشانوں سے اسلام کی برکت اور عزت ظاہر کی جائے اور زمین کے واقعات سے امور محسوسہ بدیہیہ کی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر گئے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرگئے.اور یہ تیسری صورت ایسی ہے کہ ایک متعصب عیسائی بھی اقرار کر سکتا ہے کہ اگر یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ جائے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے تو پھر عیسائی مذہب باطل ہے اور کفارہ اور تثلیث سب باطل اور پھر اس کے ساتھ جب آسمانی نشان بھی اسلام کی تائید میں دکھلائے جائیں تو گویا اسلام میں داخل ہونے کے لئے تمام زمین کے عیسائیوں پر رحمت کا دروازہ کھول دیا جائے گا.سو یہی تیسری صورت ہے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں.خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو مجھے آسمانی نشان عطا فرمائے ہیں اور کوئی نہیں کہ ان میں میرا مقابلہ کر سکے.اور دنیا میں کوئی عیسائی نہیں کہ جو آسمانی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے.اور دوسرے خدا کے فضل اور کرم اور رحم نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ صلیب پر فوت ہوئے نہ آسمان پر چڑھے بلکہ صلیب سے نجات پاکر کشمیر کے ملک میں آئے اور اسی جگہ وفات پائی.یہ باتیں صرف قصہ کہانیوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ بہت سے کامل ثبوتوں کے ساتھ ثابت ہو گئی ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں مفصل بیان کر دیا ہے.اس لئے میں زور سے اور دعوے سے کہتا ہوں کہ جس کسر صلیب کا بخاری میں وعدہ تھا اس کا پورا سامان مجھے عطا کیا گیا ہے اور ہر ایک معقل گواہی دے گی کہ بجز اس صورت کے اور کوئی مؤثر اور معقول صورت کسر صلیب کی نہیں.اب میں سوال کرتا ہوں کہ اگر میں جھوٹا ہوں اور مسیح موعود نہیں ہوں تو ہمارے مخالف علماء اسلام بتلاویں کہ جب اُن کا مسیح موعود دنیا میں ظاہر ہوگا تو وہ کسر صلیب کے لئے کیا
تریاق القلوب 156 فلسطین سے کشمیر تک کارروائی کرے گا اور ہمیں معقول طور پر سمجھا ئیں کہ کیا وہ ایسی کارروائی ہوگی جس سے چالیس کروڑ عیسائی اپنے دین کا باطل ہونا دلی یقین سے سمجھ سکے.اس سوال کے جواب میں ہمارے گرفتار تقلید مولوی بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ جب ان کا مسیح آئے گا تو لوگوں کو تلوار سے مسلمان کرے گا اور ایسا سخت دل ہوگا کہ جزیہ بھی قبول نہیں کرے گا.اس کی تقسیم اوقات یہ ہوگی کہ کچھ حصہ دن کا تو لوگوں کو قتل کرنے میں بسر کرے گا اور کچھ حصہ دن کا جنگلوں میں جا کرسؤروں کو مارتا رہے گا.اب ہر ایک عظمند موازنہ کرسکتا ہے کہ کیا وہ امور جو اشاعت اسلام اور کسر صلیب کے لئے ہم پر کھولے گئے ہیں وہ دلوں کو کھینچنے والے اور مؤثر معلوم ہوتے ہیں یا ہمارے مسلمان مخالفوں کے فرضی مسیح موعود کا یہ طریق کہ گویا وہ آتے ہی بے خبر اور غافل لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دے گا.یادر ہے کہ عیسائی مذہب اس قدر دنیا میں پھیل گیا ہے کہ صرف آسمانی نشان بھی اس کے زیر کرنے کے لئے کافی نہیں ہو سکتے کیونکہ مذہب کو چھوڑ نا بڑا مشکل امر ہے.لیکن یہ صورت کہ ایک طرف تو آسمانی نشان دکھلائے جائیں اور دوسرے پہلو میں اُن کے مذہب اور اُن کے اصولوں کا واقعات حقہ سے تمام تانا بانا تو ڑ دیا جائے اور ثابت کر دیا جائے کہ حضرت مسیح کا مصلوب ہونا اور پھر آسمان پر چڑھ جانا دونوں باتیں جھوٹ ہیں.یہ طرز ثبوت ایسی ہے کہ بلا شبہ اس قوم میں ایک زلزلہ پیدا کر دے گی.کیونکہ عیسائی مذہب کا تمام مدار کفارہ پر ہے اور کفارہ کا تمام مدار صلیب پر اور جب صلیب ہی نہ رہی تو کفارہ بھی نہ رہا.اور جب کفارہ نہ رہا تو مذہب بنیاد سے گر گیا.ہم اپنے بعض رسالوں میں یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ صلیب کا عقیدہ خود ایسا ہے جس سے حضرت مسیح کسی طرح بچے نبی نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ جبکہ توریت کی رو سے مصلوب ملعون ہوتا ہے اور لعنت کا مفہوم لغت کے رو سے یہ ہے کہ کسی شخص کا دل خدا تعالیٰ سے بکلی برگشتہ ہو جائے اور خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا اُس سے بیزار ہو جائے اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اُس کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے.سو ملعون ہو جانا اور لعنتی بن جانا جس کا مفہوم اس قدر بد ہے.یہ سخت تاریکی کیونکر مسیح جیسے راستباز کے دل پر وارد ہوسکتی ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے کفارہ کا منصوبہ بنانے
تریاق القلوب 157 فلسطین سے کشمیر تک کے وقت لعنت کے مفہوم پر ذرہ غور نہیں کی اور بھول گئے ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ لقب جو شیطان پلید کو دیا گیا ہے وہی نعوذ باللہ حضرت مسیح کو دیتے.نہایت ضروری ہے کہ اب بھی عیسائی صاحبان عربی اور عبرانی کی کتابوں کو غور سے دیکھ کر لعنت کے مفہوم کو سمجھ لیں کہ یہ کیا چیز ہے.انہیں کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ یہ لفظ صرف اس شخص پر اطلاق پاتا ہے جس کا دل سیاہ اور ناپاک اور خدا سے دُور اور شیطان کی طرح ہو گیا ہو اور تمام تعلقات خدا تعالیٰ سے ٹوٹ گئے ہوں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کون ایماندار یہ ناپاک لقب اس راستباز کی نسبت روارکھ سکتا ہے جس کا نام انجیل میں نورلکھا ہے.کیا وہ نور کسی زمانہ میں تاریکی ہو گیا تھا؟ کیا وہ جو درحقیقت خدا سے ہے اس کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ در حقیقت شیطان سے ہے؟ ماسوا اس کے جبکہ یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ حضرت مسیح ہرگز مصلوب نہیں ہوئے اور کشمیر میں اُن کی قبر ہے تو اب راستی کے بھوکے اور پیاسے کیونکر عیسائی مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں.یہ سامان کسر صلیب کا ہے جو خدا نے آسمان سے پیدا کیا ہے نہ یہ کہ مار مار کر لوگوں کو مسلمان بناویں.ہماری قوم کے علماء اسلام کو ذرہ ٹھہر کر سوچنا چاہیئے کہ کیا جبر سے کوئی مسلمان ہوسکتا ہے اور کیا جبر سے کوئی دین دل میں داخل ہوسکتا ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحه 167 تا 170 ) عیسائی مذہب پر فتح پانے کا بجز حضرت مسیح کی طبعی موت ثابت کرنے اور صلیبی موت کے خیال کے جھوٹا ثابت کرنے کے اور کوئی طریق نہیں سو یہ خدا نے بات پیدا کر دی ہے نہ ہم نے کہ کمال صفائی سے ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح صلیب سے جان بچا کر کشمیر میں آگئے تھے اور وہیں فوت ہوئے.یہ وہ اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے جیسا کہ آفتاب کا آسمان پر چمکنا.منہ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 169 حاشیہ ) اور عیسائیوں کی نسبت جو اتمام حجت کیا گیا وہ بھی دو قسم پر ہے.ایک وہ کتابیں ہیں جو میں نے عیسائیوں کے خیالات کے رد میں تالیف کیں جیسا کہ براہین احمدیہ اور نورالحق اور کشف الغطاء وغیرہ.دوسرے وہ نشان جو عیسائیوں پر حجت پوری کرنے کے لئے میں
تریاق القلوب 158 فلسطین سے کشمیر تک نے دکھلائے اور میں نے ان کتابوں میں جو عیسائیوں کے مقابل پر لکھی گئی ہیں ثابت کر دیا ہے کہ عیسائیوں کا خونِ مسیح اور کفارہ کا مسئلہ ایسا غلط ہے کہ ایک دانشمند اور منصف کے لئے کافی ہے کہ اسی مسئلہ پر غور کر کے خدا سے ڈرے اور اس مذہب سے علیحدہ ہو جائے اور میں نے ان کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو عنتی ٹھہرانے کا عقیدہ جو عیسائیوں کے مذہب کا اصل الاصول ہے ایسا صریح البطلان ہے کہ ایک سطحی خیال کا انسان بھی معلوم کر سکتا ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ایسا مذہب سچا ہو جس کی بنیاد ایسے عقیدے پر ہو جو ایک راستباز کے دل کو لعنت کے سیاہ داغ کے ساتھ ملوث کرنا چاہتا ہے کیونکہ لعنت کا لفظ جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے نہایت پلید معنے رکھتا ہے اور اس لفظ کے ایسے خبیث معنے ہیں کہ بجز شیطان کے اور کوئی اس کا مصداق نہیں ہوسکتا.کیونکہ عربی اور عبرانی کی زبان میں ملعون اس کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ کے لئے رڈ کیا جائے.اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے.کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے رحمت الہی سے رڈ کیا گیا ہے.اور خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں توریت سے قرآن شریف تک کسی ایسے شخص کی نسبت ملعون ہونے کا لفظ نہیں بولا گیا جس نے انجام کا رخدا کی رحمت اور فضل سے حصہ لیا ہو.بلکہ ہمیشہ سے یہ ملعون اور لعنتی کا لفظ انہی ازلی بدبختوں پر اطلاق پاتا رہا ہے جو ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت اور نجات اور نظر محبت سے بے نصیب کئے گئے اور خدا کے لطف اور مہربانی اور فضل سے ابدی طور پر دور اور مہجور ہو گئے اور ان کا رشتہ دائمی طور پر خدا تعالیٰ سے کاٹ دیا گیا اور اُس جہنم کا خلود اُن کے لئے قرار پایا جو خدا تعالیٰ کے غضب کا جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے کی امید نہ رہے.اور نبیوں کے منہ سے بھی یہ لفظ کبھی ایسے اشخاص کی نسبت اطلاق نہیں پایا جو کسی وقت خدا کی ہدایت اور فضل اور رحم سے حصہ لینے والے تھے.اس لئے یہودیوں کی مقدس کتاب اور اسلام کی مقدس کتاب کی رُو سے یہ عقیدہ متفق علیہ مانا گیا ہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ خدا کی کتابوں میں اُس پر ملعون کا لفظ بولا گیا ہو.وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور بے نصیب ہوتا ہے.جیسا کہ اس آیت میں یہی اشارہ ہے.مَلْعُوْنِيْنَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا
تریاق القلوب 159 فلسطین سے کشمیر تک وَقُلُو اتقتيلا یعنی زنا کار اور زنا کاری کی اشاعت کرنے والے جو مدینہ میں ہیں یہ لعنتی ہیں یعنی ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے رڈ کئے گئے اس لئے یہ اس لائق ہیں کہ جہاں ان کو پاؤ قتل کر دو.پس اس آیت میں اس بات کی طرف یہ عجیب اشارہ ہے کہ لعنتی ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم ہوتا ہے اور اس کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے جس پر جھوٹ اور بدکاری کا جوش غالب رہتا ہے.اور اسی بنا پر قتل کرنے کا حکم ہوا کیونکہ جو قابل علاج نہیں اور مرض متعدی رکھتا ہے اس کا مرنا بہتر ہے.اور یہی توریت میں لکھا ہے کہ لعنتی ہلاک ہو گا.علاوہ اس کے ملعون کے لفظ میں یہ کس قدر پلید معنی مندرج ہیں کہ عربی اور عبرانی زبان کی رُو سے ملعون ہونے کی حالت میں ان لوازم کا پایا جانا ضروری ہے کہ شخص ملعون اپنی دلی خواہش سے خدا تعالیٰ سے بیزار ہو اور خدا تعالیٰ اس سے بیزار ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے دلی جوش کے ساتھ دشمنی رکھے اور ایک ذرہ محبت اور تعظیم اللہ جل شانه کی اُس کے دل میں نہ ہو.اور ایسا ہی خدا تعالیٰ کے دل میں بھی ایک ذرہ اُس کی محبت نہ ہو یہاں تک کہ وہ شیطان کا وارث ہو نہ خدا کا.اور یہ بھی لعنتی ہونے کے لوازم میں سے ہے کہ شخص ملعون خدا تعالیٰ کی شناخت اور معرفت اور محبت سے بکلی بے نصیب ہو.اب ظاہر ہے کہ یہ لعنت اور ملعون ہونے کی حالت کا مفہوم ایسا نا پاک مفہوم ہے کہ ایک ادنیٰ سے ادنی ایماندار کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت اس کو منسوب کیا جائے کیونکہ ملعون ہونے سے مراد وہ سخت دلی کی تاریکی ہے جس میں ایک ذرہ خدا کی معرفت کا نور خدا کی محبت کا نور خدا کی تعظیم کا نور باقی نہ ہو.پس کیا روا ہے کہ ایسے مردار کی سی حالت ایک سیکنڈ کے لئے بھی مسیح جیسے راستباز کی طرف منسوب کی جائے.کیا نور اور تاریکی دونوں جمع ہو سکتی ہیں.لہذا اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی مذہب کے یہ عقائد سراسر باطل ہیں.نیک دل انسان ایسی نجات سے بیزار ہو گا جس کی اوّل شرط یہی ہو کہ ایک پاک اور معصوم اور خدا کے پیارے کی نسبت یہ اعتقا درکھا جائے کہ وہ ملعون ہو گیا اور اُس کا دِل عمد أخدا سے برگشتہ ہو گیا اور اس کے سینہ میں سے خدا شناسی کا نور جاتا رہا اور وہ شیطان کی طرح خدا تعالیٰ کا دشمن ہو گیا.اور خدا سے بیزار ہو گیا الاحزاب : 62
تریاق القلور 160 فلسطین سے کشمیر تک اور شیطان کا وارث ہو گیا اور اُس کا سارا دل سیاہ ہو گیا.اور لعنت کی زہرناک کیفیت سے اُس کا دل اور اس کی آنکھیں اور اس کے کان اور اس کی زبان اور اس کے تمام خیالات بھر گئے.اور اس کی پلید زمین میں بحر لعنتی درختوں کے اور کچھ باقی نہ رہا.کیا ایسے اصولوں کو کوئی ایماندار اور شریف انسان اپنی نجات کا ذریعہ ٹھہراسکتا ہے اگر نجات کا یہی ذریعہ ہے تو ہر ایک پاک دل شخص کا کانشنس یہی گواہی دے گا کہ ایسی نجات سے ہمیشہ کا عذاب بہتر ہے.تمام انسانوں کا اس سے مرنا بہتر ہے کہ لعنت جیسا سڑا ہوا کمر دار جو شیطان کی خاص وراثت ہے مسیح جیسے پاک اور پاک دل کے منہ میں ڈالیں اور اس مردار کا اس کے دل کو ذخیرہ بناویں اور پھر اس مکروہ عمل سے اپنی نجات اور رہائی کی امید رکھیں.غرض یہ وہ عیسائی تعلیم ہے جس کو ہم نے سراسر ہمدردی اور خیر خواہی کی راہ سے اپنی کتابوں میں رڈ کیا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ یہ بھی ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام کا سولی ملنا ہی جھوٹ ہے.انجیل خود گواہی دیتی ہے کہ وہ سُولی نہیں ملے.اور پھر خود حضرت مسیح نے انجیل میں اپنے اس واقعہ کی مثال حضرت یونس کے واقعہ سے منطبق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ میرا قبر میں داخل ہونا اور قبر سے نکلنا یونس نبی کے مچھلی کے نشان سے مشابہ ہے.اور ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہ مردہ داخل ہوا تھا اور نہ مردہ نکلا تھا.بلکہ زندہ داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا.پھر اگر حضرت مسیح قبر میں مُردہ داخل ہوا تھا تو اس کے قصے کو یونس نبی کے قصے سے کیا مشابہت.اور ممکن نہیں کہ نبی جھوٹ بولے اس لئے یہ اس بات پر یقینی دلیل ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ مُردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوئے اور اگر موجودہ انجیلیں تمام و کمال اس واقعہ کے مخالف ہوتیں تب بھی کوئی سچا ایماندار قبول نہ کرتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا سولی پر مر جانے کا واقعہ صحیح ہے کیونکہ اس سے صرف یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ حضرت مسیح اپنی اس مشابہت قرار دینے میں جھوٹے ٹھہرتے ہیں اور مشابہت سراسر غلط ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ اُن بیلوں گدھوں کی طرح لعنتی بھی ہو گئے جن کی نسبت توریت میں مار دینے کا حکم تھا اور نعوذ باللہ اُن کے دل میں لعنت کی وہ زہر سرایت کر گئی جس نے
تریاق القلوب 161 فلسطین سے کشمیر تک شیطان کو ہمیشہ کے لئے ہلاک کیا ہے.لیکن موجودہ انجیلوں میں سے وہ انجیلیں بھی اب تک موجود ہیں جیسا کہ انجیل برنباس جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے سولی ملنے سے انکار کیا گیا ہے اور ان چار انجیلوں کو دوسری انجیلوں پر کچھ ترجیح نہیں کیونکہ یہ سب انجیلیں حواریوں کے زمانہ کے بعد بعض یونان کے لوگوں نے بے سروپا روایات کی بنا پر لکھیں ہیں اور ان میں حضرت مسیح کے ہاتھوں کی کوئی انجیل نہیں بلکہ حواریوں کے ہاتھوں کی بھی کوئی انجیل نہیں اور یہ بات قبول کی گئی ہے کہ انجیل کا عبرانی نسخہ دنیا سے مفقود ہے.ماسوا اس کے یہ چاروں انجیلیں جو چوسٹھ انجیلوں میں سے محض تحکم کے طور پر اختیار کی گئی ہیں اُن کے بیانات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوا.چنانچہ ہم اپنے رسالہ مسیح ہند میں میں اس بحث کو صفائی سے طے کر چکے ہیں.اور ان انجیلوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ایک باغ میں اپنی رہائی کے لئے تمام رات دعا کرتے رہے اور اس غرض اور مدعا سے کہ کسی طرح سولی سے بچ جائیں ساری رات رونے اور گڑ گڑانے اور سجدہ کرنے میں گزری.اور یہ غیر ممکن ہے کہ جس نیک انسان کو یہ توفیق دی جائے کہ تمام رات در ددل سے کسی بات کے ہو جانے کے لئے دعا کرے اور اُس دعا کے لئے اس کو پورا جوش عطا کیا جائے اور پھر وہ دعا نا منظور اور نا مقبول ہو.جب سے کہ دنیا کی بنیاد پڑی اُس وقت سے آج تک اس کی نظیر نہیں ملی.اور خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں بالا تفاق یہ گواہی پائی جاتی ہے کہ راستبازوں کی دعا قبول ہوتی ہے اور اُن کے کھٹکھٹانے پر ضرور کھولا جاتا ہے.پھر مسیح کی دعا کو کیا روک پیش آئی کہ باوجود ساری رات کی گریہ وزاری اور شور وغوغا کے رڈی کی طرح پھینک دی گئی اور قبول نہ ہوئی.کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں اس واقعہ کی کوئی اور نظیر بھی ہے کہ کوئی مسیح جیسا راستباز یا اس سے کمتر تمام رات رورو کر اور جگر پھاڑ کر دعا کرے اور بیقراری سے بے ہوش ہوتا جائے اور خود اقرار کرے کہ میری جان گھٹ رہی ہے اور میرا دل گرا جاتا ہے اور پھر ایسی دردناک دعا قبول نہ ہو؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہماری کوئی دعا قبول کرنا نہیں چاہتا تو جلد ہمیں اطلاع بخشتا ہے اور اُس دردناک حالت تک ہمیں نہیں پہنچا تا جس میں اس کا قانونِ قدرت یہی
162 فلسطین سے کشمیر تک تریاق القلوب واقع ہے کہ اس درجہ پر وفادار بندوں کی دعا پہنچ کر ضرور قبول ہو جایا کرتی ہے.پھر مسیح کی دا کو کیا بلا پیش آئی کہ نہ تو وہ قبول ہوئی اور نہ انہیں پہلے ہی سے اطلاع دی گئی کہ یہ دعا قبول نہیں ہوگی اور نتیجہ یہ ہوا کہ بقول عیسائیوں کے خدا کی اس خاموشی سے مسیح سخت حیرت میں پڑا یہاں تک کہ جب صلیب پر چڑھایا گیا تو بے اختیار عالم نومیدی میں بول اُٹھا کہ ايلى ايلى لما سبقتانی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.غرض میں نے اپنی کتابوں سے حق کے طالبوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ پہلے اس بات کو ذہن میں رکھ کر کہ مقبولوں کی اوّل علامت مستجاب الدعوات ہونا ہے خاص کر اس حالت میں جب کہ اُن کا دردِ دل نہایت تک پہنچ جائے پھر اس بات کو سوچیں کہ کیونکر ممکن ہے کہ باوجود یکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے مارے غم کے بے جان اور ناتوان ہوکر ایک باغ میں جو پھل لانے کی جگہ ہے بکمال در دساری رات دعا کی اور کہا کہ اے میرے باپ اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دیا جائے مگر پھر بھی با ایں ہمہ سوز و گداز اپنی دعا کا پھل دیکھنے سے نامراد رہا.یہ بات عارفوں اور ایمانداروں کے نزدیک ایسی جھوٹ ہے جیسا کہ دن کو کہا جائے کہ رات ہے یا اُجالے کو کہا جائے کہ اندھیرا ہے یا چشمہ شیریں کو کہا جائے کہ تلخ اور شور ہے.جس دعا میں رات کے چار پہر برابر سوز و گداز اور گریہ وزاری اور سجدات اور جانکا ہی میں گذریں کبھی ممکن نہیں کہ خدائے کریم ورحیم ایسی دعا کو نامنظور کرے.خاص کر وہ دعا جو ایک مقبول کے منہ سے نکلی ہو.پس اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کی دعا قبول ہو گئی تھی اور اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کی نجات کے لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے تھے جو اُس کی رہائی کے لئے قطعی اسباب تھے.از انجملہ ایک یہ کہ پیلاطوس کی بیوی کو فرشتہ نے خواب میں کہا کہ اگر یسوع سولی پر مر گیا تو اس میں تمہاری تباہی ہے اور اس بات کی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کو خواب میں فرشتہ کہے کہ اگر ایسا کام نہیں کرو گے تو تم تباہ ہو جاؤ گے اور پھر فرشتہ کے کہنے کا ان کے دلوں پر کچھ بھی اثر نہ ہواور وہ کہنا رائگاں جائے.اور اسی طرح یہ بات بھی سراسر فضول اور جھوٹ معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا تو یہ پختہ ارادہ ہو کہ وہ
تریاق القلوب 163 فلسطین سے کشمیر تک یسوع مسیح کو سولی دے اور اس طرح پر لوگوں کو عذاب ابدی سے بچاوے اور فرشتہ خواہ نخواہ یسوع مسیح کے بچانے کے لئے تڑپتا پھرے.کبھی پیلاطوس کے دل میں ڈالے کہ مسیح بے گناہ ہے اور کبھی پیلاطوس کے سپاہیوں کو اس پر مہربان کرے اور ترغیب دے کہ وہ اس کی ہڈی نہ توڑیں اور کبھی پیلاطوس کی بیوی کے خواب میں آوے اور اس کو یہ کہے کہ اگر یسوع مسیح سولی پر مر گیا تو پھر اس میں تمہاری تباہی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ خدا اور فرشتہ کا باہم اختلاف رائے ہو اور پھر رہائی کے اسباب میں سے جو ان چارانجیلوں میں مرقوم ہیں ایک یہ بھی سبب ہے کہ یہودیوں کو یہ موقع نہ ملا کہ وہ قدیم دستور کے موافق پانچ چھ روز تک حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکا رکھتے تا بھوک اور پیاس اور دُھوپ کے اثر سے مرجاتا اور نہ دستور قدیم کے موافق اُن کی ہڈیاں توڑی گئیں جیسا کہ چوروں کی تو ڑی گئیں.اگر چہ یہ رعایت مخفی طور پر پیلاطوس کی طرف سے تھی کیونکہ رعبناک خواب نے اس کی بیوی کا دِل ہلا دیا تھا لیکن آسمان سے بھی یہی ارادہ زور مار رہا تھا ورنہ کیا ضرورت تھی کہ مین صلیب دینے کے وقت سخت آندھی آتی اور زمین پر سخت تاریکی چھا جاتی اور ڈرانے والا زلزلہ آتا.اصل بات یہ تھی کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہودیوں کے دل ڈر جائیں اور نیز ان پر وقت مشتبہ ہوکر سبت کے توڑنے کا فکر بھی ان کو دامنگیر ہو جائے کیونکہ جس وقت حضرت مسیح علیہ السلام پر چڑھائے گئے وہ جمعہ کا دن تھا اور قریباً دو پہر کے بعد تین بجے تھے.اور یہودیوں کو سخت ممانعت تھی کہ کوئی مصلوب سبت کے دن یا سبت کی رات جو جمعہ کے بعد آتی ہے صلیب پر لٹکا نہ رہے اور یہودی قمری حساب کے پابند تھے اس لئے وہ سبت کی رات اُس رات کو سمجھتے تھے کہ جب جمعہ کے دن کا خاتمہ ہو جاتا ہے.پس آندھی اور سخت تاریکی کے پیدا ہونے سے یہودیوں کے دلوں میں یہ کھٹکا شروع ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ لاشوں کو سبت کی رات میں صلیب پر رکھ کر سبت کے مجرم ہوں اور مستحق سزا ٹھہریں اور دوسرے دن عید فسح بھی تھی جس میں خاص طور پر صلیب دینے کی ممانعت تھی.پس جبکہ آسمان سے یہ اسباب پیدا ہو گئے اور نیز یہودیوں کے دلوں پر الہی رعب بھی غالب آگیا تو اُن کے دلوں میں یہ دھڑ کہ شروع ہو گیا کہ ایسا نہ ہو کہ اس تاریکی میں سبت کی رات
تریاق القلوب 164 فلسطین سے کشمیر تک آ جائے لہذا مسیح اور چوروں کو جلد صلیب پر سے اتارلیا گیا اور سپاہیوں نے یہ چالا کی کی کہ پہلے چوروں کی ٹانگوں کو توڑنا شروع کر دیا اور ایک نے اُن میں سے یہ مکر کیا کہ مسیح کی نبض دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے اب اس کی ٹانگیں توڑنے کی ضرورت نہیں.اور پھر یوسف نام ایک تاجر نے ایک بڑے کو ٹھے میں اُن کو رکھ دیا اور وہ کوٹھا ایک باغ میں تھا اور یہودی مُردوں کے لئے ایسے وسیع کو ٹھے کھڑکی دار بھی بنایا کرتے تھے.غرض حضرت مسیح اس طرح بچ گئے اور پھر چالیس دن تک مرہم عیسی سے اُن کے زخموں کا علاج ہوتا رہا جیسا کہ کتاب مسیح ہند میں میں ہم ثابت کر چکے ہیں.اور پھر جب خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے حضرت مسیح علیہ السلام کو مرہم عیسی کے استعمال سے شفا ہوگئی اور تمام صلیبی زخم اچھے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس ملک سے انہوں نے پوشیدہ طور پر ہجرت کی جیسا کہ سنت انبیاء ہے.اور اس ہجرت میں ایک یہ بھی حکمت تھی کہ تا خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کی سنت ادا ہو جائے کیونکہ اب تک وہ اپنے وطن کی چار دیواری میں ہی پھرتے تھے اور ہجرت کی تلخی نہیں اُٹھائی تھی.اور اس سے پہلے انہوں نے اپنی ہجرت کی طرف اشارہ بھی کیا تھا جیسا کہ انجیل میں اُن کا یہ قول ہے کہ ”نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں الغرض پھر آپ پیلاطوس کے ملک سے گلیل کی طرف پوشیدہ طور پر آئے اور اپنے حواریوں کو گلیل کی سڑک پر ملے.اور ایک گاؤں میں اُن کے ساتھ اکٹھے رات رہے اور ا کٹھے کھانا کھایا اور پھر جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ” مسیح ہند میں میں ثابت کیا ہے کئی ملکوں کی سیر کرتے ہوئے نصیبین میں آئے.اور نصیبین سے افغانستان میں پہنچے اور ایک مدت تک اس جگہ جو کوه لغمان کہلاتا ہے اس کے قریب سکونت پذیر رہے اور اس کے بعد پنجاب میں آئے اور پنجاب کے مختلف حصوں کو دیکھا اور ہندوستان کا بھی سفر کیا اور غالبا بنارس اور نیپال میں بھی پہنچے پھر پنجاب کی طرف لوٹ کے کشمیر کا قصد کیا اور بقیہ عمر سری نگر میں گذاری اور و ہیں فوت ہوئے اور سری نگر محلہ خان یار کے قریب دفن کئے گئے اور اب تک وہ قبر یوز آسف نبی کی قبر اور شہزادہ نبی کی قبر اور عیسی نبی کی قبر کہلاتی ہے اور سرینگر میں یہ واقعہ عام طور پر مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی یہ قبر ہے اور اس مزار کا زمانہ تخمین دو ہزار برس
تریاق القلوب 165 فلسطین سے کشمیر تک بتلاتے ہیں اور عوام اور خواص میں یہ روایت بکثرت مشہور ہے کہ یہ نبی شام کے ملک سے آیا تھا.غرض یہ دلائل اور حقائق اور معارف ہیں جو عیسائی مذہب کے باطل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر ثابت کئے جن کو میں نے اپنی تالیفات میں بڑے بسط سے لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ ان روشن دلائل کے بعد نہ عیسائی مذہب قائم رہ سکتا ہے اور نہ اس کا کفارہ ٹھہر سکتا ہے بلکہ اس ثبوت کے ساتھ یہ عمارت یکدفعہ گرتی ہے کیونکہ جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مصلوب ہونا ہی ثابت نہ ہوا تو کفارہ کی تمام اُمید میں خاک میں مل گئیں.اور یہ وہ فتح عظیم ہے جو حدیث کسر صلیب کی منشاء کو کامل طور پر پورا کرتی ہے اور وہ کام جو مسیح موعود کو کرنا چاہیئے یہی کام تھا کہ ایسے دلائل واضح سے عیسائی مذہب کو گرا دے نہ یہ کہ تلواروں اور بندوقوں سے لوگوں کو قتل کرتا پھرے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 236 تا 245) اور میں چونکہ مسیح موعود ہوں.اس لیے حضرت مسیح کی عادت کا رنگ مجھ میں پایا جانا ضروری ہے.حضرت مسیح علیہ السلام وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب پر چڑھے گو خدا کے رحم نے اُن کو بچالیا.اور مرہم عیسی نے اُن کے زخموں کو اچھا کر کے آخر کشمیر جنت نظیر میں اُن کو پہنچا دیا.سو انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار کیا اور اس طرح اُس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عنان گھوڑے پر چڑھتا ہے سوایسا ہی میں بھی مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب سے پیار کرتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے حضرت مسیح کو صلیب سے بچا لیا اور ان کی تمام رات کی دعا جو باغ میں کی گئی تھی قبول کر کے ان کو صلیب اور صلیب کے نتیجوں سے نجات دی ایسا ہی مجھے بھی بچائے گا اور حضرت مسیح صلیب سے نجات پا کر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے اور جیسا کہ اُس جگہ شہزادہ نبی کا چبوترہ اب تک گواہی دے رہا ہے وہ ایک مدت تک کوہ لغمان میں رہے اور پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے آخر کشمیر میں گئے اور کوہ سلیمان پر ایک مدت تک عبادت
نه غزنویه 166 فلسطین سے کشمیر تک کرتے رہے اور سکھوں کے زمانہ تک اُن کی یادگار کا کوہ سلیمان پر کتبہ موجود تھا آخر سرینگر میں ایک سو چھپیس برس کی عمر میں وفات پائی اور خان یار کے محلہ کے قریب آپ کا مقدس مزار ہے.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 498تا499) مرہم عیسی ایک نہایت مبارک مرہم ہے جس سے حضرت عیسی علیہ السلام کے زخم اچھے ہوئے تھے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے سولی سے نجات پائی تو صلیب کی کیلوں کے جو زخم تھے جن کو آپ نے حواریوں کو بھی دکھلایا تھاوہ اسی مرہم سے اچھے ہوئے تھے.یہ مرہم طب کی ہزار کتاب میں درج ہے اور قانون بوعلی سینا میں بھی مندرج ہے اور رومیوں اور یونانیوں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور مسلمانوں غرض تمام فرقوں کے طبیبوں نے اس مرہم کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے..منه تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 498 حاشیہ) تحفہ غزنویہ (1900ء) اور انجیل میں خود تراشیدہ نشان مانگنے والوں کو صاف لفظوں میں حضرت مسیح مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اس زمانہ کے حرام کا رلوگ مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کو بجز یونس نبی کے نشان کے اور کوئی نشان دکھلایا نہیں جائے گا یعنی نشان یہ ہوگا کہ باوجود دشمنوں کی سخت کوشش کے جو مجھے سولی پر ہلاک کرنا چاہتے ہیں میں یونس نبی کی طرح قبر کے پیٹ میں جو مچھلی سے مشابہ ہے زندہ ہی داخل ہوں گا اور زندہ ہی نکلوں گا اور پھر یونس کی طرح نجات پا کر کسی دوسرے ملک کی طرف جاؤں گا.یہ اشارہ اس واقعہ کی طرف تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جیسا کہ اُس حدیث سے ثابت ہے کہ جو کنز العمال میں ہے یعنی یہ کہ عیسی علیہ السلام صلیب سے نجات پا کر ایک سرد ملک کی طرف بھاگ گئے تھے یعنی کشمیر جس کے شہر سری نگر میں ان کی قبر موجود ہے.تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 540)
167 فلسطین سے کشمیر تک تحفہ گولڑویہ ( 1900ء) غرض حضرت مسیح علیہ السلام کی موت قرآن اور حدیث اور اجماع صحابہ اور ا کا برائمہ اربعہ اور اہل کشوف کے کشوف سے ثابت ہے اور اس کے سوا اور بھی دلائل ہیں.جیسا کہ مرہم عیسی جو ہزار طبیب سے زیادہ اس کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آئے ہیں جن کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مرہم جو زخموں اور خون جاری کے لئے نہایت مفید ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے تیار کی گئی تھی اور واقعات سے ثابت ہے کہ نبوت کے زمانہ میں صرف ایک ہی صلیب کا حادثہ اُن کو پیش آیا تھا کسی اور سقطہ یا ضربہ کا واقعہ نہیں ہوا پس بلاشبہ وہ مرہم انہی زخموں کے لئے تھی.اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے زندہ بچ گئے اور مرہم کے استعمال سے شفا پائی اور پھر اس جگہ وہ حدیث جو کنز العمال میں لکھی ہے حقیقت کو اور بھی ظاہر کرتی ہے.یعنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کو اس ابتلا کے زمانہ میں جو صلیب کا ابتلا تھا حکم ہوا کہ کسی اور ملک کی طرف چلا جا کہ یہ شریر یہودی تیری نسبت بدا رادے رکھتے ہیں اور فرمایا کہ ایسا کر جوان ملکوں سے دُور نکل جاتا تجھ کو شناخت کر کے یہ لوگ دُکھ نہ دیں.اب دیکھو کہ اس حدیث اور مرہم عیسی کا نسخہ اور کشمیر ک قبر کے واقعہ کو باہم ملا کر کسی صاف اصلیت اس مقولہ کی ظاہر ہو جاتی ہے.کتاب سوانخ یوز آسف جس کی تالیف کو ہزار سال سے زیادہ ہو گیا ہے اس میں صاف لکھا ہے کہ ایک نبی یوز آسف کے نام سے مشہور تھا اور اس کی کتاب کا نام انجیل تھا اور پھر اُسی کتاب میں اُس نبی کی تعلیم لکھی ہے اور وہ تعلیم مسئلہ تثلیت کو الگ رکھ کر بعینہ انجیل کی تعلیم ہے.انجیل کی مثالیں اور بہت سی عبارتیں اُس میں بعینہ درج ہیں چنانچہ پڑھنے والے کو کچھ بھی اس میں شک نہیں رہ سکتا کہ انجیل اور اس کتاب کا مؤلف ایک ہی ہے اور طرفہ تر یہ کہ اس کتاب کا نام بھی انجیل ہی ہے.اور استعارہ کے رنگ میں یہودیوں کو ایک ظالم باپ قرار دے کر ایک لطیف قصہ بیان کیا ہے جو عمدہ نصائح سے پر ہے اور مدت ہوئی کہ یہ کتاب یورپ کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور
168 فلسطین سے کشمیر تک یورپ کے ایک حصہ میں یوز آسف کے نام پر ایک گرجا بھی طیار کیا گیا ہے اور جب میں نے اس قصہ کی تصدیق کے لئے ایک معتبر مرید اپنا جو خلیفہ نورالدین کے نام سے مشہور ہیں کشمیر سری نگر میں بھیجا تو انہوں نے کئی مہینے رہ کر بڑی آہستگی اور تدبر سے تحقیقات کی.آخر ثابت ہو گیا کہ فی الواقع صاحب قبر حضرت عیسی علیہ السلام ہی ہیں جو یوز آسف کے نام سے مشہور ہوئے.یوز کا لفظ یسوع کا بگڑا ہوا یا اس کا مخفف ہے اور آسف حضرت مسیح کا نام تھا جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہے جس کے معنے ہیں یہودیوں کے متفرق فرقوں کو تلاش کرنے والا یا اکٹھے کرنے والا.اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کشمیر کے بعض باشندے اس قبر کا نام عیسی صاحب کی قبر بھی کہتے ہیں.اور اُن کی پرانی تاریخوں میں لکھا ہے کہ یہ ایک نبی شہزادہ ہے جو بلادِ شام کی طرف سے آیا تھا.جس کو قریباً اُنیس ۱۹۰۰ سو برس آئے ہوئے گذر گئے اور ساتھ اس کے بعض شاگرد تھے اور وہ کوہ سلیمان پر عبادت کرتا رہا اور اُس کی عبادت گاہ پر ایک کتبہ تھا جس کے یہ لفظ تھے کہ یہ ایک شہزادہ نبی ہے جو بلا د شام کی طرف سے آیا تھا.نام اس کا یوز ہے.پھر وہ کتبہ سکھوں کے عہد میں محض تعصب اور عناد سے مٹایا گیا اب وہ الفاظ اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے.اور وہ قبر بنی اسرائیل کی قبروں کی طرح ہے اور بیت المقدس کی طرف منہ ہے اور قریبا سرینگر کے پانسو آدمی نے اس محضر نامہ پر بدین مضمون دستخط اور مہریں لگائیں کہ کشمیر کی پرانی تاریخ سے ثابت ہے کہ صاحب قبر ایک اسرائیلی نبی تھا اور شہزادہ کہلاتا تھا کسی بادشاہ کے ظلم کی وجہ سے کشمیر میں آ گیا تھا اور بہت بڑھا ہو کر فوت ہوا اور اُس کو عیسی صاحب بھی کہتے ہیں اور شہزادہ نبی بھی اور یوز آسف بھی.اب بتلاؤ کہ اس قدر تحقیقات کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے میں کسر کیا رہ گئی اور اگر باوجود اس بات کے کہ اتنی شہادتیں قرآن اور حدیث اور اجماع اور تاریخ اور نسخہ مرہم عیسی اور وجود قبر سرینگر میں اور معراج میں بزمرہ اموات دیکھے جانا اور عمر ایک سوئیس سال مقرر ہونا اور حدیث سے ثابت ہونا کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ کسی اور ملک کی طرف چلے گئے تھے اور اسی سیاحت کی وجہ سے اُن کا نام نبی سیاح مشہور تھا.یہ تمام شہادتیں اگر ان کے مرنے کو ثابت نہیں کرتیں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا.(تحفہ گولڑ ویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحه 99 تا 101 )
تحفہ گولڑو 169 فلسطین سے کشمیر تک یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کو غور سے دیکھنے اور اُن کے تاریخی واقعات پر نظر ڈالنے سے جو تواتر کے اعلیٰ درجہ پر پہنچے ہوئے ہیں جن سے کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا یہ حال معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں اوائل حال میں تو بے شک یہودی ایک مسیح کے منتظر تھے تا وہ ان کو غیر قوموں کی حکومت سے نجات بخشے اور جیسا کہ ان کی کتابوں کی پیشگوئیوں کے ظاہر الفاظ سے سمجھا جاتا ہے داؤد کے تخت کو اپنی بادشاہی سے پھر قائم کرے چنانچہ اس انتظار کے زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے دعوی کیا کہ وہ مسیح میں ہوں اور میں ہی داؤد کے تخت کو دوبارہ قائم کروں گا.سو یہودی اس کلمہ سے اوائل حال میں بہت خوش ہوئے اور صد با عوام الناس بادشاہت کی امید سے آپ کے معتقد ہو گئے اور بڑے بڑے تاجر اور رئیس بیعت میں داخل ہوئے لیکن کچھ تھوڑے دنوں کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام نے ظاہر کر دیا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں ہے اور میری بادشاہت آسمان کی ہے.تب اُن کی وہ سب اُمیدیں خاک میں مل گئیں اور ان کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص دوبارہ تخت داؤد کو قائم نہیں کرے گا بلکہ وہ کوئی اور ہوگا.پس اسی دن سے بغض اور کینہ ترقی ہونا شروع ہوا اور ایک جماعت کثیر مرتد ہو گئی پس ایک تو یہی وجہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھی کہ یہ شخص نبیوں کی پیشگوئی کے موافق بادشاہ ہو کر نہیں آیا.پھر کتابوں پر غور کرنے سے ایک اور وجہ یہ بھی پیدا ہوئی کہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا تھا کہ مسیح بادشاہ جس کی یہودیوں کو انتظار تھی وہ نہیں آئے گا جب تک ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں نہ آئے چنانچہ انہوں نے یہ عذر حضرت مسیح کے سامنے پیش بھی کیا لیکن آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس جگہ ایلیا سے مراد مثیل ایلیا ہے یعنی بی.افسوس کہ اگر جیسا کہ اُن کی نسبت احیاء موتی کا گمان باطل کیا جاتا ہے وہ حضرت ایلیا کو زندہ کر کے دکھلا دیتے تو اس قدر جھگڑا نہ پڑتا اور نص کے ظاہری الفاظ کی رُو سے حجت پوری ہو جاتی.غرض یہودی اُن کے بادشاہ نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی نسبت شک میں پڑ گئے تھے اور ملا کی نبی کی کتاب کی رو سے یہ دوسرا شک پیدا ہوا پھر کیا تھا سب کے سب تکفیر اور گالیوں پر آگئے اور یہودیوں کے علماء نے اُن کے لئے ایک کفر کا فتویٰ طیار کیا اور ملک کے تمام علماء کرام اور
170 فلسطین سے کشمیر تک صوفیہ عظام نے اس فتوے پر اتفاق کر لیا اور مہریں لگا دیں مگر پھر بھی بعض عوام الناس میں سے جو تھوڑے ہی آدمی تھے حضرت مسیح کے ساتھ رہ گئے.اُن میں سے بھی یہودیوں نے ایک کو کچھ رشوت دے کر اپنی طرف پھیر لیا اور دن رات یہ مشورے ہونے لگے کہ توریت کے نصوص صریحہ سے اس شخص کو کا فرٹھہرانا چاہئے تا عوام بھی یکدفعہ بیزار ہو جائیں اور اس کے بعض نشانوں کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاویں.چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے پھر کام بن جائے گا.کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہے یعنی وہ شیطان کی طرف جاتا ہے نہ خدا کی طرف.سو یہودی لوگ اس تدبیر میں لگے رہے اور جو شخص اس ملک کا حاکم قیصر روم کی طرف سے تھا اور بادشاہ کی طرح قائم مقام قیصر تھا اس کے حضور میں جھوٹی مخبریاں کرتے رہے کہ یہ شخص در پردہ گورنمنٹ کا بد خواہ ہے.آخر گورنمنٹ نے مذہبی فتنہ اندازی کے بہانہ سے پکڑ ہی لیا مگر چاہا کہ کچھ تنبیہ کر کے چھوڑ دیں مگر یہود صرف اس قدر پر کب راضی تھے.انہوں نے شور مچایا کہ اس نے سخت کفر بکا ہے قوم میں بلوا ہو جائے گا مفسدہ کا اندیشہ ہے اس کو ضرور صلیب ملنی چاہئے.سورومی گورنمنٹ نے یہودیوں کے بلوہ سے اندیشہ کر کے اور کچھ مصلحت ملکی کو سوچ کر حضرت مسیح کو اُن کے حوالہ کر دیا کہ اپنے مذہب کے رو سے جو چاہو کرو اور پیلا طوس گورنر قیصر جس کے ہاتھ میں یہ سب کا روائی تھی اس کی بیوی کو خواب آئی کہ اگر یہ شخص مر گیا تو پھر اس میں تمہاری تباہی ہے.اس لئے اس نے اندرونی طور پر پوشیدہ کوشش کر کے مسیح کو صلیبی موت سے بچا لیا مگر یہود اپنی حماقت سے یہی سمجھتے رہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا.حالانکہ حضرت مسیح خدا تعالیٰ کا حکم پا کر جیسا کہ کنز العمال کی حدیث میں ہے اس ملک سے نکل گئے اور وہ تاریخی ثبوت جو ہمیں ملے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ نصیبین سے ہوتے ہوئے پشاور کی راہ سے پنجاب میں پہنچے اور چونکہ سرد ملک کے باشندے تھے اس لئے اس ملک کی شدت گرمی کا تحمل نہ کر سکے لہذا کشمیر میں پہنچ گئے اور سری نگر کو اپنے وجود باجود سے شرف بخشا اور کیا تعجب کہ انہی کے زمانہ میں یہ شہر آباد بھی ہوا ہو.بہر حال سری نگر کی زمین مسیح کے قدم رکھنے کی جگہ ہے.غرض حضرت مسیح تو سیاحت
171 فلسطین سے کشمیر تک کرتے کرتے کشمیر پہنچ گئے.لیکن یہودی اسی زعم باطل میں گرفتار ر ہے کہ گویا حضرت مسیح بذریعہ صلیب قتل کئے گئے کیونکہ جس طرز سے حضرت مسیح صلیب سے بچائے گئے تھے اور پھر مرہم عیسی سے زخم اچھے کئے گئے تھے اور پھر پوشیدہ طور پر سفر کیا گیا تھا یہ تمام امور یہودیوں کی نظر سے پوشیدہ تھے.ہاں حواریوں کو اس راز کی خبر تھی اور گلیل کی راہ میں حواری حضرت مسیح سے ایک گاؤں میں اکٹھے ہی رات رہے تھے اور مچھلی بھی کھائی تھی با ایں ہمہ جیسا کہ انجیل سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے حواریوں کو حضرت مسیح نے تاکید سے منع کر دیا تھا کہ میرے اس سفر کا حال کسی کے پاس مت کہو سو حضرت مسیح کی یہی وصیت تھی کہ اس راز کو پوشیدہ رکھنا اور کیا مجال تھی کہ وہ اس خبر کو افشا کر کے نبی کے راز اور امانت میں خیانت کرتے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت مسیح کا نام سیاحت کرنے والا نبی رکھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح نے اکثر حصہ دنیا کا سیر کیا ہے اور یہ حدیث کتاب کنز العمال میں موجود ہے اور اسی بنا پر لُغتِ عرب کی کتابوں میں مسیح کی وجہ تسمیہ بہت سیاحت کرنے والا بھی لکھا ہے (دیکھو لسان العرب مسح کے لفظ میں.منہ ).غرض یہ قول نبوی کہ مسیح سیاح نبی ہے تمام سر بستہ راز کی بھی تھی اور اسی ایک لفظ سے آسمان پر جانا اور اب تک زندہ ہونا سب باطل ہوتا تھا مگر اس پر غور نہیں کی گئی.اور اس بات پر غور کرنے سے واضح ہوگا کہ جبکہ عیسی مسیح نے زمانہ نبوت میں یہودیوں کے ملک سے ہجرت کر کے ایک زمانہ دراز اپنی عمر کا سیاحت میں گذارا تو آسمان پر کس زمانہ میں اُٹھائے گئے اور پھر اتنی مدت کے بعد ضرورت کیا پیش آئی تھی ؟ عجیب بات ہے یہ لوگ کیسے بیچ میں پھنس گئے ایک طرف یہ اعتقاد ہے کہ صلیبی فتنہ کے وقت کوئی اور شخص سولی مل گیا اور حضرت مسیح بلا توقف دوسرے آسمان پر جا بیٹھے اور دوسری طرف یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ صلیبی حادثہ کے بعد وہ اسی دنیا میں سیاحت کرتے رہے اور بہت سا حصہ عمر کا سیاحت میں گزارا.عجب اندھیر ہے کوئی سوچتا نہیں کہ پیلاطوس کے ملک میں رہنے کا زمانہ تو بالا تفاق ساڑھے تین برس تھا.اور دُور دراز ملکوں کے یہودیوں کو بھی دعوت کرنا مسیح کا ایک فرض تھا.پھر وہ اس فرض کو چھوڑ کر آسمان پر کیوں چلے
172 فلسطین سے کشمیر تک گئے کیوں ہجرت کر کے بطور سیاحت اس فرض کو پورا نہ کیا ؟ عجیب تر ا مر یہ ہے کہ حدیثوں میں جو کنز العمال میں ہیں اسی بات کی تصریح موجود ہے کہ یہ سیر و سیاحت اکثر ملکوں کا حضرت مسیح نے صلیبی فتنہ کے بعد ہی کیا ہے اور یہی معقول بھی ہے کیونکہ ہجرت انبیاء علیہم السلام میں سنت الہی یہی ہے کہ وہ جب تک نکالے نہ جائیں ہر گز نہیں نکلتے اور بالا تفاق مانا گیا ہے کہ نکالنے یا قتل کرنے کا وقت صرف فتنہ صلیب کا وقت تھا.غرض یہودیوں نے بوجه صلیبی موت کے جو اُن کے خیال میں تھی حضرت مسیح کی نسبت یہ نتیجہ نکالا کہ وہ نعوذ باللہ ملعون ہو کر شیطان کی طرف گئے نہ خدا کی طرف.اور اُن کا رفع خدا کی طرف نہیں ہوا بلکہ شیطان کی طرف ہبوط ہوا.کیونکہ شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہے.ایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائے عرش ہے اور دوسری شیطان کی اور وہ بہت نیچی ہے اور اس کا انتہاز مین کا پاتال ہے.غرض یہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مومن مرکز خدا کی طرف جاتا ہے.اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں جیسا کہ آیت ارْجِعِي إِلى رَبِّک اس کی شاہد ہے اور کا فرنیچے کی طرف جو شیطان کی طرف ہے جاتا ہے.جیسا کہ آیت لَا تُفَتِّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ اس کی گواہ ہے.خدا کی طرف جانے کا نام رفع ہے اور شیطان کی طرف جانے کا نام لعنت.اِن دونوں لفظوں میں تقابل اضداد ہے.نادان لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھے.یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر رفع کے معنے مع جسم اٹھانا ہے تو اس کے مقابل کا لفظ کیا ہوا.جیسا کہ رفع رُوحانی کے مقابل پر لعنت ہے.یہود نے خوب سمجھا تھا مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہو گئے اور نصاری نے بھی لعنت کو مان لیا مگر یہ تاویل کی کہ ہمارے گناہوں کے لئے مسیح پر لعنت پڑی اور معلوم ہوتا ہے کہ نصاری نے لعنت کے مفہوم پر توجہ نہیں کی کہ کیسا نا پاک مفہوم ہے جو رفع کے مقابل پر پڑا ہے جس سے انسان کی رُوح پلید ہو کر شیطان کی طرف جاتی ہے اور خدا کی طرف نہیں جاسکتی.اسی غلطی سے انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے ہیں.اور کفارہ کے پہلوکو اپنی طرف سے تراش کر یہ پہلو اُن کی نظر سے چُھپ گیا کہ یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ نبی کا دل ملعون ہو کر خدا کورڈ کر الفجر : 29 ۲.الاعراف:41
173 فلسطین سے کشمیر تک دے اور شیطان کو اختیار کرے.مگر حواریوں کے وقت میں یہ غلطی نہیں ہوئی بلکہ اُن کے بعد عیسائیت کے بگڑنے کی یہ پہلی اینٹ تھی.اور چونکہ حواریوں کو تاکیڈا یہ وصیت کی گئی تھی کہ میرے سفر کا حال ہر گز بیان مت کرو اس لئے وہ اصل حقیقت کو ظاہر نہ کر سکے اور ممکن ہے کہ توریہ کے طور پر انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہو کہ وہ تو آسمان پر چلے گئے تا یہودیوں کا خیال دوسری طرف پھیر دیں.غرض انہی وجوہ سے حواریوں کے بعد نصاریٰ صلیبی اعتقاد سے سخت غلطی میں مبتلا ہو گئے مگر ایک گروہ اُن میں سے اس بات کا مخالف بھی رہا اور قرائن سے انہوں نے معلوم کر لیا کہ مسیح کسی اور ملک میں چلا گیا صلیب پر نہیں مرا اور نہ آسمان پر گیا ( اس گروہ کا ایک فرقہ اب تک نصاری میں پایا جاتا ہے جو حضرت مسیح کے آسمان پر جانے سے منکر ہیں.منہ ).بہر حال جبکہ یہ مسئلہ نصاری پر مشتبہ ہو گیا اور یہودیوں نے صلیبی موت کی عام شہرت دے دی تو عیسائیوں کو چونکہ اصل حقیقت سے بے خبر تھے وہ بھی اس اعتقاد میں یہودیوں کے پیرو ہو گئے مگر قدرقلیل، اس لئے اُن کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے تھے اور اس عقیدہ کی حمایت میں بعض فقرے انجیلوں میں بڑھائے گئے جن کی وجہ سے انجیلوں کے بیانات میں باہم تناقض پیدا ہو گیا چنانچہ انجیلوں کے بعض فقروں سے تو صاف سمجھا جاتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور بعض میں لکھا ہے کہ مرگیا.اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے یہ فقرے پیچھے سے ملا دیئے گئے ہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحه 104 تا 110 ) ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور مسیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ فرمایا ہے اور کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں مگر افسوس کہ ہمارے مخالفین اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ حضرت مسیح نے کب اور کس ملک کی طرف ہجرت کی بلکہ زیادہ تر تعجب اس بات سے ہے کہ وہ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسیح نے مختلف ملکوں کی بہت سیاحت کی ہے بلکہ ایک وجہ تسمیہ اسم مسیح کی یہ بھی لکھتے ہیں لیکن جب کہا جائے کہ وہ کشمیر میں بھی گئے تھے تو اس سے انکار کرتے ہیں حالانکہ جس
174 فلسطین سے کشمیر تک حالت میں انہوں نے مان لیا کہ حضرت مسیح نے اپنے نبوت کے ہی زمانہ میں بہت سے ملکوں کی سیاحت بھی کی تو کیا وجہ کہ کشمیر جانا اُن پر حرام تھا؟ کیا ممکن نہیں کہ کشمیر میں بھی گئے ہوں اور وہیں وفات پائی ہو اور پھر جب صلیبی واقعہ کے بعد ہمیشہ زمین پر سیاحت کرتے رہے تو آسمان پر کب گئے؟ اس کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے.منہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 106 تا 107 حاشیہ ) منجملہ گواہوں کے ایک یہ بھی زبر دست گواہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے ثبوت ہر یک پہلو سے اس زمانہ میں پیدا ہو گئے ہیں یہاں تک کہ یہ ثبوت بھی نہایت قوی اور روشن دلائل سے مل گیا کہ آپ کی قبر سری نگر علاقہ کشمیر خان یار کے محلہ میں ہے یادر ہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات حیات ہے.اگر حضرت عیسی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل بیچ ہیں.اور اگر وہ در حقیقت قرآن کے رُو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں.اب قرآن درمیان میں ہے اس کو سوچو.منہ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 264 حاشیہ ) ایسا ہی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام نے ایک سو بیس ۱۲۰ برس عمر پائی ہے.لیکن ہر ایک کو معلوم ہے کہ واقعہ صلیب اُس وقت حضرت عیسی کو پیش آیا تھا جبکہ آپ کی عمر صرف تینتیں ۳۳ برس اور چھ مہینے کی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ باقی ماندہ عمر بعد نزول پوری کر لیں گے تو یہ دعوی حدیث کے الفاظ سے مخالف ہے ماسوا اس کے حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعوے کے بعد چالیس برس دنیا میں رہے گا تو اس طرح پر تینتیں ۳۳ برس ملانے سے کل تہتر سے برس ہوئے نہ ایک سو بیس ۱۲۰ برس.حالانکہ حدیث میں یہ ہے کہ ایک سو بیس برس اُن کی عمر ہوئی.اور اگر یہ کہو کہ ہماری طرح عیسائی بھی مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں مسیح نے خود اپنی آمد ثانی کو الیاس نبی کی آمد ثانی سے مشابہت دی ہے.جیسا کہ انجیل متی ۷ ا باب آیت ۱۰ واا و۲ ا سے یہی ثابت ہوتا ہے.ماسوا اس کے عیسائیوں میں
175 فلسطین سے کشمیر تک سے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے.چنانچہ نیولائف آف جیزس جلد اوّل صفحہ ۴۱۰ مصنفہ ڈی ایف سڑ اس میں یہ عبارت ہے :- ( جرمن کے بعض عیسائی محققوں کی رائے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا) Crucifiction they maintain, even if the feet as well as the hands are supposed to have been nailed occasions but very little loss of blood.It kills therefore only very slowly by convulsions produced by the straining of the limbs or by gradual starvation.So if Jesus supposed indeed to be dead, had been taken down from the cross after about six hours, there is every probability of his supposed death having been only a death-like swoon from which after the descent from the cross Jesus recovered again in the cool cavern covered as he was with healing ointments and strongly scented spices.On this head it is usual to appeal to an account in Josephus, who says that on one occasion, when he was returning from a military recognizance, on which he had been sent, he found several Jewish prisoners who had been crucified.He saw among them three acquaintances whom he begged Titus to give to him.They were
فلسطین سے کشمیر تک 176 immediately taken down and carefully attended to, one was really saved, but two others could not be recovered.(A new life of Jesus by D.F.Strauss.Vol I.page 410) ترجمہ :.وہ یہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر چہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں میں میخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے.اس واسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشیخ میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں.پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ قریب ۶ گھنٹہ صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا.تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت ہی خوشبودار دوائیاں مل کر اُسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اُس کی بیہوشی دُور ہوئی.اس دعوے کی دلیل میں عموماً یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں میں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں.ان میں سے میں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے.پس میں نے ٹیٹس (حاکم وقت) سے اُن کے اُتار لینے کی اجازت حاصل کی اور اُن کو فوراً اتار کر اُن کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے.“ اور کتاب ماڈرن ڈاوٹ اینڈ کرسچن بیلیف کے صفحہ ۳۴۷٫۴۵۷,۴۵۵ میں یہ عبارت ہے:- The former of these hypotheses that of apparent death, was employed by the old Rationalists, and more recently by Schleiermacher in his life of Christ Schleiermacher's supposition.That Jesus Modern Doubt and Christian Belief by Theodore Christlieb.D.D.
177 فلسطین سے کشمیر تک afterwards lived for a time with the disciples and then retired into entire solitude for his second death.ترجمہ:- شلیر میجرز اور نیز قدیم متقین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہر اموت کی سی حالت ہوگئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتارہا اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا.“ حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب کی موت سے بچنے کے متعلق ایک پیشگوئی یسعیاہ باب ۵۳ میں اس طرح پر ہے :- וא ת - דךך ך و ایت - دورو ישותת כי נגזר می يسوحيح کی نجزار اور اس کے بقائے عمر کی جو بات ہے سوکون سفر کر کے جائے گا کیونکہ وہ מארץ م ايريض : ויתן את ويثين ايت רשעים رشاعیم علیحدہ کیا گیا ہے قبائل کی زمین سے اور کی گئی شریروں کے درمیان اس کی قبر پر כברו قبرو ואת وایت עשיר عاسیر وہ دولتمندوں کے ساتھ ہوا اپنے مرنے میں ہو אם ام - תשים تاسیم אשם آشام נפשן نفشو جب کہ تو گناہ کے بدلے میں اس کی جان کو دے گا (تو وہ بچ جائے گا) במחיר بمو تايو
178 יראה זרע يرايه زیرع יאריך ימים یے اریک یا میم اور صاحب اولاد ہوگا.اس کی عمر لمبی کی جائے گی נפשן فلسطین سے کشمیر تک מעמ مے عمل نفشو יראה ישבע یرایه يسباع وہ اپنی جان کی نہایت سخت تکلیف دیکھے گا (یعنی صلیب پر بیہوشی ) پر وہ پوری عمر پائے گا.(تحفہ گولڑ ویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 311 تا 315) اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ صلیب سے اتار کر مسیح کو سزا یافتہ مردوں کی طرح قبر میں رکھا جاوے گا مگر چونکہ وہ حقیقی طور پر مُردہ نہیں ہوگا اس لئے اس قبر میں سے نکل آئے گا اور آخر عزیز اور صاحب شرف لوگوں میں اس کی قبر ہوگی اور یہی بات ظہور میں آئی کیونکہ سری نگر محلہ خان یار میں حضرت عیسی علیہ السلام کی اس موقعہ پر قبر ہے جہاں بعض سادات کرام اور اولیاء اللہ مدفون ہیں.منہ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 314 حاشیہ) چنانچہ ہم اُن محقق عیسائیوں کا ذیل میں ایک قول نقل کرتے ہیں تا مسلمانوں کو معلوم ہو کہ اُن کی طرف سے تو مسیح کے نزول کے بارے میں اس قدر شور انگیزی ہے کہ اس فضول خیال کی حمایت میں تمہیں ہزار مسلمان کو کا فرٹھہرا رہے ہیں مگر وہ لوگ جو مسیح کو خدا جانتے ہیں اُن میں سے یہ فرقہ بھی ہے جو بہت سے دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ مسیح ہرگز آسمان پر نہیں گیا بلکہ صلیب سے نجات پا کر کسی اور ملک کی طرف چلا گیا اور وہیں مرگیا.چنانچہ سوپر نیچرل ریچن صفحہ ۵۲۲ میں اس بارے میں جو عبارت ہے اس کو ہم مع ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں.اور وہ یہ ہے:.The first explanation adopted by some able critics is that Jesus did not really die on the cross but
.فلسطین سے کشمیر تک 179 being taken down alive and his body being delivered to friends, he subsequently revived.In support of this theory it is argued that Jesus is represented by Gospels as expiring after having been but three or six hours upon the cross which would have been but unprecedentedly rapid death.It is affirmed that only the hands and not the feet were nailed to the cross.The crucifragian not usually accompanying crucifixion is dismissed as unknown to the three synoptits and only inserted by the fourth evangelist for dogmatic reasons and of course the lance disappears with the leg- breaking.Thus the apparent death was that profound faintness which might well fall upon an organization after some hours of physical and mental agony on the cross, following the continued strain and fatigue of the previous night.As soon as he had sufficiently recovered it is supposed that Jesus visited his disciples a few times to re-assure them, but with pre-caution on account of the Jews, and was by them believed to have risen from the dead, as indeed he himself may likewise have supposed, reviving as he had done from the faintness of death.Seeing however that his death had set the
.فلسطین سے کشمیر تک 180 crown upon his work the master withdrew into impenetrable obscurity and was heard no more.Gfrorer who maintains the theory of Scheintod with great ability thinks that Jesus had believers amongst the rulers of the Jews who although they could not shield him from the opposition against him still hoped to save him from death.Joseph, a rich man, found the means of doing so.He prepared the new sepulchre close to the place of execution to be at hand, begged the body from Pilate - the immense quantity of spices bought by Nicomedus being merely to distract the attention of the Jesus being quickly carried to the sepulchre was restored to life by their efforts.He interprets the famous verse John xx: 17 curiously, The expression "I have not yet ascended to my father." He takes as meaning simply the act of dying "going to heaven" and the reply of Jesus is I Iam not yet dead, Jesus sees his desciples only a few times mysteriously and believing that he had set the final seal to the truth of his work by his death he then retires into impenetrable gloom Das Heiligthum and die Wabrhcit p 107 p 231 (Pp.523 of the Supernatural religion)
181 فلسطین سے کشمیر تک پہلی تفسیر جو بعض لائق محققین نے کی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع دراصل صلیب پر نہیں مرا بلکہ صلیب سے زندہ اتار کر اس کا جسم اس کے دوستوں کے حوالہ کیا گیا اور وہ آخر بیچ نکلا.اس عقیدہ کی تائید میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ اناجیل کے بیان کے مطابق یسوع صلیب پر تین گھنٹے یا چھ گھنٹہ رہ کر فوت ہوا.لیکن صلیب پر ایسی جلدی کی موت کبھی پہلے واقع نہیں ہوئی تھی.یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف اس کے ہاتھوں پر میخیں ماری گئی تھیں.اور پاؤں پر میخیں نہیں لگائی گئی تھیں.چونکہ یہ عام قائدہ نہ تھا کہ ہر ایک مصلوب کی ٹانگ توڑی جائے اس واسطے تین انجیل نویسوں نے تو اس کا کچھ ذکر ہی نہیں کیا.اور چوتھے نے بھی صرف اپنے طرز بیان کی تکمیل کی خاطر اس امر کا بیان کیا اور جہاں ٹانگ توڑنے کا ذکر نہیں ہے تو ساتھ ہی برچھی کا واقعہ بھی کالعدم ہو جاتا ہے پس ظاہر اموت جو واقع ہوئی وہ ایک سخت بیہوشی تھی جو کہ چھ گھنٹہ کے جسمانی اور دماغی صدموں کے بعد اس کے جسم پر پڑی کیونکہ گذشتہ شب بھی متواتر تکلیف اور تھکاوٹ میں گذری تھی جب اُسے کا فی صحت پھر حاصل ہو گئی.تو اپنے حواریوں کو پھر یقین دلانے کے واسطے کئی دفعہ ملا.لیکن یہودیوں کے سبب نہایت احتیاط کی جاتی تھی.حواریوں نے اس وقت یہ سمجھا کہ یہ مر کر زندہ ہوا ہے.اور چونکہ موت کی سی بیہوشی تک پہنچ کر وہ پھر بحال ہوا اس واسطے ممکن ہے کہ اُس نے آپ بھی دراصل یہی سمجھا ہو کہ میں مرکر پھر زندہ ہوا ہوں اب جب اُستاد نے دیکھا کہ اس موت نے میرے کام کی تکمیل کر دی ہے تو وہ پھر کسی نا قابل حصول اور نامعلوم تنہائی کی جگہ میں چلا گیا اور مفقودالخبر ہو گیا.گفر وررجس نے شنٹور کے اس مسئلہ کی نہایت قابلیت کے ساتھ تائید کی ہے.وہ لکھتا ہے کہ یہود کے حکام کے درمیان یسوع کے مرید تھے جو کہ اس کو اگر چہ اس مخالفت سے بچا نہیں سکتے تھے تاہم ان کو امید تھی کہ ہم اس کو مرنے سے بچالیں گے.یوسف ایک دولتمند آدمی تھا.اور اُسے مسیح کے بچانے کے وسائل مل گئے.نئی قبر بھی اس مقام صلیب کے قریب ہی اُس نے طیار کرالی اور جسم بھی پلاطوس سے مانگ لیا.اور نکو میڈس جو بہت سے مصالح خرید لایا تھا تو وہ صرف یہود کی توجہ ہٹانے کے واسطے تھے اور یسوع کو جلدی سے قبر میں رکھا گیا.اور ان لوگوں کی سعی سے وہ بچ گیا.
182 فلسطین سے کشمیر تک گفر ورر نے یوحنا باب ۲۰.آیت ۷ کی مشہور آیت کی عجیب تفسیر کی ہے.وہ لکھتا ہے کہ مسیح کا جو یہ فقرہ ہے کہ میں ابھی اپنے باپ کے پاس نہیں گیا اس فقرہ میں آسمان پر جانے سے مراد صرف مرنا ہے اور یسوع نے جو یہ کہا کہ مجھے نہ چھوڑ کیونکہ میں ابھی تک گوشت اور خون ہوں.اس میں گوشت اور خون ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ میں ابھی مرا نہیں.یسوع اس واقعہ کے بعد پوشیدہ طور پر کئی دفعہ اپنے حواریوں کو ملا اور جب اُسے یقین ہو گیا کہ اس موت نے اُس کے کام کی صداقت پر آخری مہر لگادی ہے تو وہ پھر کسی نا قابل حصول تنہائی میں چلا گیا.دیکھو کتاب سو پر نیچرل ریچن صفحه ۵۲۳ - اور یا در ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے مسئلہ کو مسلمان عیسائیوں سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اُس کی موت کا بار بار ذکر ہے.لیکن بعض نادانوں کو یہ دھوک لگا ہوا ہے کہ اس آیت قرآن شریف میں یعنی وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ * میں لفظ شُبہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسی کی جگہ کسی اور کو سولی دیا گیا اور وہ خیال نہیں کرتے کہ ہر ایک شخص کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے پس اگر کوئی اور شخص حضرت عیسی کی جگہ صلیب دیا جاتا تو صلیب دینے کے وقت ضرور وہ شور مچاتا کہ میں تو عیسی نہیں ہوں.اور کئی دلائل اور کئی امتیازی اسرار پیش کر کے ضرور اپنے تئیں بچالیتا نہ یہ کہ بار بار ایسے الفاظ منہ پر لاتا جن سے اس کا عیسی ہونا ثابت ہوتا.رہا لفظ شُبِّهَ لَهُمُ.سواس کے وہ معنے نہیں ہیں جو سمجھے گئے ہیں اور نہ ان معنوں کی تائید میں قرآن اور احادیث نبویہ سے کچھ پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ موت کا وقوعہ یہودیوں پر مشتبہ کیا گیا وہ یہی سمجھ بیٹھے کہ ہم نے قتل کر دیا ہے حالانکہ مسیح قتل ہونے سے بچ گیا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہ سکتا ہوں کہ اس آیت میں شُبّه لَهُمُ کے یہی معنے ہیں اور یہ سنت اللہ ہے.خدا جب اپنے محبوبوں کو بچانا چاہتا ہے تو ایسے ہی دھوکا میں مخالفین کو ڈال دیتا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ثور میں پوشیدہ ہوئے تو وہاں بھی ایک قسم کے شُبِّهَ لَهُمْ سے خدا نے کام لیا یعنی مخالفین کو اس دھوکا میں ڈال دیا کہ انہوں نے خیال کیا کہ اس غار کے منہ پر عنکبوت نے اپنا جالا بنا ہوا ہے اور کبوتری نے انڈے دے رکھے ہیں.پس کیونکر ممکن النساء : 158
الهدى والتبصرة لمن يرى 183 فلسطین سے کشمیر تک ہے کہ اس میں آدمی داخل ہو سکے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں جو قبر کی مانند تھی تین سو دن رہے جیسا کہ حضرت مسیح بھی اپنی شامی قبر میں جب غشی کی حالت میں داخل کئے گئے تین دن ہی رہے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو یونس پر بزرگی مت دو یہ بھی اشارہ اس مماثلت کی طرف تھا کیونکہ غار میں داخل ہونا اور مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونا یہ دونوں واقعہ باہم ملتے ہیں.پس نفی تفصیل اس وجہ سے ہے نہ کہ ہر ایک پہلو سے.اس میں کیا شک ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نہ صرف یونس سے بلکہ ہر ایک نبی سے افضل ہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 333 تا 338) الهدى و التبصرة لمن يرى (1902ء) يقولون إن الله يحط عيسى من مقامه.ويُكدر صفو أيامه.ويُعيده إلى دار المحن من غير اجترامه وما هذا الا بهتان وما عندهم عليها من برهان.بل توفاه الله وأدخله في الجنان.كما ذكره في القرآن.وقبره قريب من هذه البلدان.وإن طلبتم المزيد من البيان.فتعالوا أقص عليكم قصته الثابتة عند المسلمين وأهل الصلبان وليس هي من مُسلّمات فرقة دون الأخرى.بــل أمـر اتفق عليه كل من كان من أولى النهى.وما كان حديثا يُفترى.وإنّـا رأيناها بنظر أقصى.وما زاغ البصر وما طغى.وثبت بثبوت قطعى أن عيسى هاجر إلى مُلک کشمير بعد ما نجاه الله من الصليب بفضل كبير.ولبث فيه إلى مدة طويلة حتى مات ولحق الأموات وقبره موجود إلى الآن في بلدة سرِى نَكَرُ، التي هي من أعظم أمصار هذه الخطّة.وانعقد عليه إجماع سكان تلك الناحية.وتواتر على لسان أهلها أنه قبر نبى كان ابن ملک و کان من بني إسرائيل.وكان اسمه”یوزآسف“ فليسألهم من يطلب الدليل.واشتهر بين عامتهم أن
الهدى والتبصرة لمن يرى 184 فلسطین سے کشمیر تک اسمه الأصلى عيسى صاحب“ وكان من الأنبياء.وهاجر إلى كشمير في زمان مضى عليه من نحو ۱۹۰۰ سنة.واتفقوا على هذه الأنباء بل عندهم كتب قديمة توجد فيها هذه القصص فى العربية والفارسية ومنها كتاب سُمّى "إكمال الدين" وكتب أخرى كثيرة الشهرة.وقد رأيت في كتب المسيحيين أنهم يزعمون أن يوز آسف كان تلميذا من تلامذة المسيح.وقد كتبوا هذا الأمر بالتصريح.ولا يوجد قوم من اقوامهم الا وهم ترجموا هذه القصة في لسانهم وعمروا بيعة على اسمه في بعض بلدانهم.ولا شك أن زعم كونه تلميذًا باطل بالبداهة.فإن أحدًا من تلامذة عيسى ما كان ابن ملك و ما سمع منهم دعوى النبوّة.ثم مع ذالك كان يوز آسف سمّى كتابه الإنجيل.وما كان صاحب الإنجيل الا عيسى.فخذ ما حصحص من الحق واترك الأقاويل.وإن كنت تطلب التفصيل.فاقرأ كتابا سُمّى بإكمال الدين تجد فيه كل ما تسكن الغليل.ثم هو من مؤيدات هذا القول أن كثيرا من مدائن كشمير سُمّى بأسماء المدن القديمة.أعنى مُدُنا كانت في أرض بعث المسيح وما لحقها من القرى القريبة.كحمص.وجلجات.واسكردو.وغيرها التي تركناها خوف الإطالة.وهذا المقام ليس كمقام تمر عليه كغافلين.بل هو المنبع للحقيقة المخفيّة التي سُمّيت النصارى لها الصّلين.ولقد سماهم الله بهذا الاسم فى سورة الفاتحة ليشير إلى هذه الضلالة.وليشير إلى ان عقيدة حياة المسيح أم ضلالا تهم كمثل أم الكتاب من الصحف المطهرة فإنهم لو لم يرفعوه إلى السماء بجسمه العنصري لما جعلوه من الآلهة.وما كان لهم أن يرجعوا لى التوحيد من غير أن يرجعوا من هذه العقيدة فكشف الله هذه العقدة رُحما على هذه الأمة.وأثبت بثبوت بين واضح أن عيسى ما صُلب.وما رفع إلى السماء.وما كان
185 الهدى والتبصرة لمن يرى فلسطین سے کشمیر تک رفعه أمرًا جديدا مخصوصا به بل كان رفع الروح فقط كمثل رفع اخوانه من الأنبياء.وأما ذكر رفعه بالخصوصية في القرآن.فكان لذبّ ما زعم اليهود وأهل الصلبان فإنهم ظنوا أنه صُلب ولعن بحكم التوراة.واللعن ينافي الرفع بل هو ضدّه كما لا يخفى على ذوى الحصاة.فرد الله على هاتين الطائفتين بقوله بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ * والمقصود منه أنه ليس بملعون بل من الذين يُرفعون ويُكرمون أمام عينيه.وما كان انكار اليهود الا من الرفع الروحانى الذى لا يستحقه المصلوب.وليس عندهم رفع الجسم مدار النجاة فالبحث عنه لغو لا يلزم منه اللعن والذنوب.فإن إبراهيم وإسحاق ويعقوب وموسى ما رفع أحد منهم إلى السماء بجسمه العنصري كما لا يخفى.ولا شك أنهم بعدوا من اللعنة وجعلوا من المقربين.ونجوا بفضل الله بل كانوا سادة الناجين.فلو كان رفع الجسم إلى السماء من شرائط النجاة.لكان عقيدة اليهود في أنبيائهم أنهم رفعوا مع الجسم إلى السماوات.فالحاصل أن رفع الجسم ما كان عند اليهود من علامات أهل الإيمان وما كان إنكارهم الا من رفع روح عیسی و کذلك يقولون إلى هذا الزمان.فإن فرضنا أن قوله تعالى بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ * كان لبيان رفع جسم عيسى إلى السماء.فأين ذكر رفع روحه الذي فيه تطهيره من اللعنة وشهادة الإبراء.مع أن ذكره كان واجبا لرد ما زعم اليهود والنصارى من الخطاء وكفاك هذا إن كنت من أهل الرشد والدهاء.أتظن أن الله ترك بيان رفع الروح الذي يُنجى عيسى مما أُفتِى عليه في الشريعة الموسوية.وتصدّى لذكر رفع الجسم الذي لا يتعلّق بأمر يستلزم اللعنة عند هذه الفرقة؟ بل امر لغو اشتهر بين زُمع النصارى والعامة.وليس تحته شيء من الحقيقة.وما حمل النصارى على ذالك الا طعن اليهود بالإصرار.وقولهم أن عيسى ملعون بما النساء : 159
الهدى والتبصرة لمن يرى 186 فلسطین سے کشمیر تک صلب كالأشرار.والمصلوب ملعون بحكم التوراة وليس ههنا سعة الفرار.فضاقت الأرض بهذا الطعن على النصارى.وصاروا في أيدى اليهود كالأسارى.فنحتوا من عند أنفسهم حيلة صعود عيسى إلى السماء لعلهم يُطهّروه من اللعنة بهذا الافتراء.وما كان مفر من تلك الحادثة الشهيرة التي اشتهرت بين الخواص والعوام.فإن الصليب كان موجبا لللعنة باتفاق جميع فرق اليهود وعلمائهم العظام.فلذالك نُحتت قصة صعود المسيح مع الجسم حيلة للابراء.فما قبلت لعدم الشهداء.فرجعوا مضطرين إلى قبول إلزام اللعنة.وقالوا حملها المسيح تنجيةً للأمة.وما كانت هذه المعاذير الا كخبط عشواء.ثم بعد مدة اتبعوا الأهواء.وجعلوا متعمدين ابن مريم لله كشركاء.وصار صعود المسيح وحمله اللعنة عقيدة بعد ثلاث مائة سنة عند المسيحيين.ثم تبع بعض خيالاتهم بعد القرون الثلاثة الفيج الأعوج من المسلمين.واعلم أرشدك الله أن رسولنا صلعم ما رأى عيسى ليلة المعراج الا في أرواح الأموات.وإن في ذالك لآية لذوى الحصاة.وكل مؤمن يُرفع روحه بعد الموت وتُفتح له أبواب السماوات.فكيف وصل المسيح إلى الموتى ومقاماتهم مع أنه كان فى ربقة الحياة؟ فاعلم أنه زور لا صدق فيه.وقد نُسج عند استهزاء اليهود ولعنهم بنص التوراة.لا يُقال أن عيسى لقى الموتى كما لقيهم نبينا ليلة المعراج.فإن المعراج على المذهب الصحيح كان كشفا لطيفا مع اليقظة الروحانية كما لا يخفى على العقل الوهاج.وماصعد إلى السماء الا روح سيدنا ونبينا مع جسم نوراني الذي هو غير الجسم العنصرى الذى ما خُلق من التربة.وما كان لجسم أرضى أن يُرفع إلى السماء.وعد من الله ذى الجبروت والعزة وإن كنت في ريب فاقرأ اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتَا أَحْيَاء وَأَمْوَاتًا.* المرسلات: 26,27
الهدى والتبصرة لمن يرى 187 فلسطین سے کشمیر تک فانظر أ تُكذب القرآن لابن مريم و اتق الله تُقاتا.وانظر في قوله فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ولا تؤذ ربك كما آذيتني.وقد سأل المشركون سيدنا صلى الله عليه وسلم أن يرقى فى السماء إن كان صادقا مقبولا.فقيل قُلُ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا فما ظنك أليس ابن مريم بشرا كمثل خير المرسلين؟ أو تفترى على الله وتُقدّمه على أفضل النبيين؟ ألا إنه ما صعد إلى السماء.ألا ان لعنة الله على الكاذبين.وشهد الله أنه قد مات ومن أصدق من الله رب العالمين؟ ألا تُفكر في قوله عز اسمه وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل أو على قلبك القُفل؟ وقد انعقد الإجماع عليه قبل كل إجماع من الصحابة ورجع الفاروق من قوله بعد سماع هذه الآية.فما لك لا ترجع من قولك وقد قرأنا عليك كثيرا من الآيات؟ أ تكفر بالقرآن أو نسيت يوم المجازات؟ وقد قال الله فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوتُونَ.فكيف عاش عيسى إلى الألفين في السماء ما لكم لا تُفكرون؟ فالحق والحق أقول.إن عيسى مات.ورفع روحه ولحق الأموات.وأما المسيح الموعود فهو منكم كما وعد الله في سورة النور.وهو أمر واضح وليس كالسر المستور.وإنّه "إمامكم منكم كما جاء في حديث البخارى والمسلم.ومن كفر بشهادة القرآن وشهادة الحديث فهو ليس بمسلم.وقد أخبرنا التاريخ الصحيح الثابت أن عيسى ما مات على الصليب.وهذا أمر قد وُجد مثله قبله وليس من الأعاجيب.وشهدت الأناجيل كلها أن الحواريين رأوه بعد ما خرج من القبر وقصد الوطن والإخوان.ومشوا معه إلى سبعين فرسخ وباتوا معه وأكــلــوا مـعـه اللحم والرغفان فيا حسرة عليك إن كنتَ بعد ذالك تطلب البرهان.أتظن أن سلّم السماء ما كان الا على سبعين ميل من مقام الصليب ؟ فاضطر عيسى إلى أن يفرّ ويبلغ نفسه إلى سلمها العجيب؟ بل ا.المائدہ : 118 ٢.بنی اسرائیل: 94 ۳.آل عمران : 145 ۴.الاعراف : 26
الهدى والتبصرة لمن يرى 188 فلسطین سے کشمیر تک فر مهاجرا على سُنّة الأنبياء خوفا من الأعداء.وكان يخاف استقصاء خبره.واستبانة ســره.فلذالک اختار طريقا منكرًا مجهولا عسير المعرفة.الذى كان بين القرى السامرية.فإن اليهود كانوا يُعافونها ولا يمشون عليها من العيافة والنفرة.فانظر فى صورة سبل موامى اقتحمها على قدم الخيفة.وإنا سنرسم صورتها ههنا لتزداد في البصيرة.ولتعلم أن صعود عيسى إلى السماء تهمة عليه ومن أشنع الفرية.أكان في السماء قبيلة من بنى إسرائيل فدلف إليهم لإتمام الحجة؟ ولما لم يكن الأمر كذالك فأى ضرورة نقل أقدامه إلى السماء ؟ وما العذر عنده إنه لم لم يُبلّغ دعوته إلى قومه المنتشرين في البلاد والمحتاجين إلى الاهتداء ؟ والـعـجـب كل العجب أن الناس يُسمّونه نبيّا سيّاحًا وقالوا إنه سلک فی سیره مسالک لم يرضها السير ولا اهتدت إليه الطير.وطوى كل الأرض أو أكثرها ووطأ حمى الأمن وغير الأمن.ورأى كل ما كان موجودًا في الزمن.ومع ذالك يقولون أنه رُفع عند واقعة الصليب من غير توقف إلى السماء.ومـا بــرح أرض وطنه حتى دُعِيَ إلى حضرة الكبرياء.فمـا هـذه التناقض أتفهمون؟ وما هذه الاختلاف أتوفّقون؟ فالحق والحق أقول.إن القول الآخر صحيح.وأما القول بالرفع فهو مردود قبيح.فإن الصعود إلى السماء قبل تكميل الدعوة إلى القبائل كلهم كانت معصية صريحة وجريمة قبيحة.ومن المعلوم أن بنى إسرائيل في عهد عيسى عليه السلام كانوا متفرقين منتشرين في بلاد الهند وفارس و كشمير.فكان فرضه أن يُدركهم ويُلاقيهم ويهديهم إلى صراط الرب القدير.وترك الفرض معصية.والإعراض عن قوم منتظرين ضالين جريمة كبيرة.تعالى شأن الأنبياء المعصومين من هذه الــجــرائـم.التي هي أشنع الذمائم.ثم بعد ذالک نکتب صورة سبيل
الهدى والتبصرة لمن يرى 189 اختارها المسيح عند هجرته وهي هذه.٣٣ الممالك المتعلقة يجليل نامه فلسطین سے کشمیر تک القرى المتعلقة.بحر تبرياس بحس بردن الممالك الأخر بحيرة لوط اليهوم بالفرق المالك المتعلقة ۳۵ فحاصل الكلام إنه لا شك ولا شُبهة ولا ريب أن عيسى لما منّ الله عليه بتخليصه من بليّة الصليب هاجر مع أمه وبعض صحابته إلى کشمیر وربـوتـه التي كانت ذات قرار ومعين ومجمع الأعاجيب.وإليه أشار ربنا ناصر النبيين ومعين المستضعفين في قوله: وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِينٍ * ولا شك أن الإيواء لا يكون الا بعد مصيبة.وتعب وكربة ولا يُستعمل هذا اللفظ الا بهذا المعنى.وهذا هو الحق من غير شك وشُبهة.ولا يتحقق هذه الحالة المُقَلقِلة في سوانح المسيح الا عند واقعة الصليب.وليست ربوة في المؤمنون: 51.
الهدى والتبصرة لمن يرى 190 فلسطین سے کشمیر تک الارتفاع في جميع الدنيا من البعيد والقريب.كمثل ارتفاع جبال کشمير وكـمـثـل مـا يـتـعـلـق بشعبها عند العليم الأريب.ولا يسع لك تخطئة هذا الكلام من غير التصويب.وأما لفظ "القرار " في الآية فيدل على الاستقرار في تلك الخطة بالأمن والعافية.من غير مزاحمة الكفرة الفجرة.ولا شك أن عيسى عليه السلام ما كان له قرار في أرض الشام.وكان يخرجه من أرض إلى أرض اليهود الذين كانوامن الأشقياء واللئام.فما رأى قرارًا الا فى خطة كشمير.وإليه أشار في هذه الآية ربنا الخبير.وأمّا الماء المعين فهي إشارة إلى عيون صافية وينابيع منفجرة توجد في هذه الخطة.ولذالك شبه الناس تلك الأرض بالجنّة.ولا يوجد لفظ صعود المسيح إلى السماء في إنجيل متى ولا في إنجيل يوحنّا.ويوجد سَفَره إلى جليل بعد الصليب وهذا هو الحق وبه آمنًا.وقد أخفى الحواريون هذا السفر خوفا من تعاقب اليهود.وأظهروا أنه رفع إلى السماء ليكون جوابا لفتوى اللعنة وليصرف خيال العدوّ الحسود.ثم خلف من بعدهم خلف كثير الإطراء قليل الدهاء.وحسبوا هذه التورية حقيقة كما هي سيرة الجهلاء.وجعلوا ابن مريم إلها بل أجلسوه على عرش حضرة الكبرياء.وما كان الأمر الا من حِيَل الإخفاء.وما كان معه مقدار شبر من الارتقاء.وقد سمعت أنه مات في أرض كشمير.وقبـره معروف عند صغير وكبير.فلا تجعلوا الموتى إلها واستغفروا لهم ووحدوا ربكم الجليل القدير تكاد السماوات تتفطرن من هذا الزور.ووالله إنّه ميت فاتقوا الله ويوم النشور.وصلوا على محمدان لذى جاء كم بالنور.وكان على النور ومن النور.وقد ذكرنا أن المسلمين يقولون أن القبر المذكور قبر عيسى.وإن النصارى يقولون إن
الهدى والتبصرة لمن يرى 191 فلسطین سے کشمیر تک هذا القبر قبر أحد من تلاميذه فالأمر محصور في الشقين كما ترى.ولا سبيل إلى الشق الثاني.وليس هو الا كالأهواء والأماني.فإن الحواريين ما كانوا الا تلامذة المسيح ومن صحابته المخصوصين.ومن أنصاره المنتخبين.وما سُمّى أحد منهم ابن ملك ولا نبيا وما كانوا الا خُدّام الـمـسـيـح.فتقرر أنه قبر نبي الله عيسى وأى دليل تطلب بعدهذا الثبوت الصريح ؟ فاسأل قومًا رفعوه إلى السماء وينتظرون رجوعه كالحمقى.والموت خير للفتى من جهالة هى أظهر وأجلى فاليوم ظهر صدق قول الله عزّ وجل فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي.* وبطل ما كانوا يفترون.فسبحان الذي أحق الحق وأبطل الباطل وأظهر ما كانوا يكتمون.توبوا إلى الله أيها المعتدون.وبأي حديث بعد ذالك تتمسّكون؟ ولستُ أريد أن أطول هذا البحث في هذه الرسالة الموجزة.وقد كتبنا لك بقدر الكفاية.فإن شئت فاقرأ كتبى المطوّلة في العربية.ولكني أرى أن أزيد علمك في معنى اسم يوز آسف الذى هو اسم ثانى لصاحب القبر عند سكان هذه الخطة.وعند النصارى كلهم من غير الاختلاف والتفرقة.فاعلم أنها كلمة عبرانية مركبة من لفظ يسوع ولفظ آسف.ومعنى يسوع النجاة.ويستعمل في الذي نجا من الحوادث والعواصف.وأما لفظ "آسف" فمعناه جامع الفرق المنتشرة.وهو اسم المسيح في الإنجيل.كما لا يخفى على ذوى العلم والخبرة وكذالك جاء في بعض صحف أنبياء بني إسرائيل.وهذا أمر مُسَلّم عند النصارى.فلا حاجة إلى أن نذكر الأقاويل فثبت من هذا المقام أن عيسى لم يمت مصلوبا.بل نجاه الله من الصليب وما تركه معتوبًا.ثم هاجر عيسى ليستقرى ويجمع شتات قبائل من بنى إسرائيل وشعوبًا.فبلغ كشمير وألقى عصا التسيار في المائده: 118
الهدى والتبصرة لمن يرى 192 فلسطین سے کشمیر تک تلك الخطة إلى أن مات ودفن في محلّة خان يار مع بعض الأحبة وإن تحقق أن رسم الكتبة لتعريف القبور كان في زمن المسيح.ولا أخال الا كذالك بالعلم الصحيح لافتى العقل أن قبره عليه السلام لا يخلو من هذه الآثار.وإن كُشِفَ لظهر كثير من الشواهد وبينات من الأسرار.فندعو الله أن يجعل كذالك ويقطع دابر الكفار.وإنا أخذنا عكس قبر المسيح فكان هكذا ومن رآه فكأنه رأی قبر عیسی.زیارت نبی - بمقام خانیار- سری نگر کشمیر 0 0 DOD حين Tombs проп 000 0 [] Tombs, 0 000 10000 Graveyard هذه قبور رجال اخرين بي اخر h-l втор hh Form ثم بعد ذالک نكتب أسماء رجال ثقاة من سكان تلك البلدة.الذين شهدوا أنه قبر نبی الله عیسی یوز آسف من غير الشك والشبهة.VA
الهدى والتبصرة لمن يرى 1 2 193 فلسطین سے کشمیر تک وهم هؤلاء.مولوی واعظ رسول صاحب میر واعظ ١٦ میرزا محمد بیگ صاحب ٹهیکه دار امامیه کشمیر ابن محمد یحیی صاحب مرحوم.ساکن محله مدينه صاحب.مولوى أحمد الله واعظ برادر واعظ رسول ۱۷ أحمد كله مندی بل ضلع نوشهره امامیه.میر واعظ كشمير.۱۸ حکیم علی نقی صاحب امامیه.واعظ محمد سعد الدين عتيق عفى عنه برادر ۱۹ حکیم عبد الرحیم صاحب امامیه تحصیلدار میر واعظ.عزیز الله شاه محله کاچ گری.۲۰ مولوی حیدر علی صاحب ابن مصطفی صاحب امامیه.سندیافته كربلاء معلی مجتهد فرقه اماميه.حاجی نور الدین وکیل عرف عیدگاهی.عزیز میر نمبر دار قصبه پانپور ذیلدار.۲۱ مهر مفتی مولوی شریف الدین صاحب.ابن مولوی مفتی عزیز الدین مرحوم.مهر منشی عبد الصمد وكيل عدالت ساكن فتح كدل ۲۲ مهر مفتی مولوی ضیاء الدین صاحب.مهر حاجی غلام رسول تاجر ساکن محله ۲۳ مولوی صدر الدین مدرس مدرسه همدانیه ملک پوره ضلع زینه کدل امام مسجد وازه پوره ۹ مهر عبد الجبار خانيار.۲۴ مهر عبد الغنى كلاشپوری إمام مسجد.1.مهر أحمد خان تاجر.إسلام أباد.۲۵ حبيب الله جلد ساز متصل جامع مسجد.11 مهر محمد سلطان میررجوری کدل ۲۶ عبد الخالق کھانڈی پورہ تحصیل هری پور.۱۲ ممه جیو صراف كدل.۲۷ مهری عبد الله شیخ محله وڈی کدل اصل ۱۳ حکیم مهدی صاحب أمـامـيــه سـاكـن ترکه وان گامی باغبان پوره ضلع سنگین دروازه ۲۸ حبیب بیگ نمبردار میوه فروشان حبه کدل ۱۴ حکیم جعفر صاحب أماميه أيضا.سری نکر.۱۵ محمد عظيم صاحب أماميه أيضا.٢٩ أحمد جيو زينه كدل - كشمير.۵۱ مهر مجید شاه پیراندر واری مهر غلام محی الدین زرکر محله کچه بل قلعه خانیار ۵۲ مهر پیر مجید بابا أندرواری.
الهدى والتبصرة لمن يرى 194 فلسطین سے کشمیر تک ۳۱ عبدالله جیو تاجر میوه جات باغات سرکاری سرینگر ۵۳ استمعال جيودوبي أيضا.۳۲ محمد خضر ساکن عالی کدل.سرینگر.۵۴ سیف الله شاه خادم درگاه اندرواری.٣٣ عبد الغفار بن موسی جیوهندو نروره.۵۵ قادر دوبي أيضا.۳۴ مهر عبلی وانی ولد صديق وانى بوله کدل ۵۶ مهر مولوی غلام محی الدین کیموه تحصیل هری پور.۳۵ مهر غلام نبی شاه حسینی ۳۶ مهر تحصیل ترال.۵۷ محمد صدّیق پاپوش فروش محله شمس واری عبد الرحيم إمام مسجد کهنموه ۵۸ محمد اسكندر أيضا.۳۷ مهر أحمد شاه سری نگر.۳۸ یوسف شاه نروره.سرینگر.۵۹ محمد عمر أيضا.٦٠ لسه بث أيضا.۱ مولوى عبد الله شاه أيضا.۳۹ مهر امیر بابا گرگری- محله سرینگر ۶۲ حاجی محمد - کلال دوری ٢٠ عبد العلى واعظ چمر دوری سرینگر.محمد اسماعیل میر مسگر محله دری بل.۴۱ میرراج محمد کرناه وزارت پھاڑ.۶۴ عبد القادر كيموه - تحصیل هری پور ۴۲ لسه جيو حافظ ٹینکی پورہ سرینگر.۶۵ احمد جیو چیٹ گر - محله کلال دوری.۲۶ محمد جیو زرگر ولد رسول جيو - فتح كدل.۴۳ خضر جيوتار فروش.۴۴ مهر عبد الله جیو فرزند أكبر صاحب درویش ۶۷ عبد العزيز مسگر ولد عبد الغني محله اندرواری.۲۸ احمد جیو مسگر ولد رمضان جيو - دری بل.خواجه بازار.۴۵ محمد شاه ولد عمر شاہ محلہ ڈیڈی کدل.۶۹ محمد جیو میر محله دری بل.نبه شاه إمام مسجد گاؤ کدل.۷۰ اسد جيو مير- محله زينه كدل.۴۷ مهدی خالق شاه خادم درگاه حضرت شیخ اے پیرنور الدین قریشی محله بثه مالو صاحب نور الدین نورانی چرار شریف.إمام مسجد.۴۸ غلام محمد حکیم متصل دل حسن محله.۷۲ مهر غلام حسن بن نور الدین مرجان پوری ۴۹ عبد الغنی ناید کدل ۵۰ مهر قمر الدین دوکاندار زینه کدل صفا كدل.(الہدی.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 360 تا 374) قَدْرَئِينَا قَرِيبًا من الف مجلدات من الكتب الطبية فوجدنا فيها نسخة مباركةً يُسمى مرهم عيسى عند هذه الفرقة.وثبت بشهادات اطباء
الهدى والتبصرة لمن يرى 195 فلسطین سے کشمیر تک الرومييـن والـيــونــانـيـيـن واليهود والنصارى وغيرهم من الحاذقين ان هذه النسخة مـن تـركيـب الحواريين.وكتب كلهم في كتبهم انها صنعت لجراحات عيسى.وكذالك كتب في قانون الشيخ ابى على سينا.فانظروا یا اولى النهى.هذا هو الذى رفع الى السموات العلى منه (الہدی.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 361 حاشیہ ) اعلم ان لفظ الايواء باحدٍ من مشتقاته قدجاء في كثير من مواضع القرآن وكلها ذكر فى محل العصم من البلاء بطريق الامتنان كما قال الله تعالى.أَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيماً فَآوَى.وما اراد منه الا الاراحة بعد الاذى.وقال فى مقام آخر.إذ أنتُمُ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ فانظروا كيف صرح حقيقة الايواء و بها داواكم.وقال حكاية عن ابن نوح: سَاوِى إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ.فما كان قصده جبلا رفيعا الا بعد رؤية البلاء.فبينوا لنا اى بلاء نزل على ابن مريم ومعه على امه اشد من بلاء الصليب.ثم اى مكان أواهما الله اليه من دون ربوة كشمير بعد ذالك اليوم العصيب.أ تكفرون بما اظهره الله وان يوم الحساب قريب منه (الہدی.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 368 حاشیہ) كان من عادة اليهود انهم يسمون اطفالهم يسوع اعنى النجاة على سبيل التفاول وطلب العصمة.من امراض الجدري وخروج الاسنان والحصبة خوفًا من موت الاطفال بهذه الامراض المخوفة.فکذالک سمت مریم ابنه يسوع اعنى عيسى.وتمنت ان يعيش ولا يموت بالجدري و امراض أخرى.والذين يقولون ان معنى يسوع المنجى فهم كذابون دجالون يكتمون الحق ويفترون ويضلون الناس ويخدعون.فاسئل اهل اللسان ان كنت من الذين يرتابون منه (الہدی.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 371 حاشیہ ) الضحى : 7 الانفال: 27.ہود : 44
کشتی نوح 196 کشتی نوح (1902ء) فلسطین سے کشمیر تک وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہواگر چہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے.سوایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہو گا یعنی وہ میں ہی ہوں اور اس میں دورنگی نہیں آئی اور تم یقینا سمجھو کہ عیسی بن مریم فوت ہو گیا ہے اور کشمیر سرینگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے.(عیسائی محققوں نے اسی رائے کو ظاہر کیا ہے.دیکھو کتاب سو پر نیچرل ریلیچن صفحه ۵۲۲.اگر تفصیل چاہتے ہو تو ہماری کتاب تحفہ گولڑویہ کا صفحہ ۱۳۹ د یکھ لو.منہ ) کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16 ) قرآن شریف میں ایک آیت میں صریح کشمیر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسیح اور اس کی والدہ صلیب کے واقعہ کے بعد کشمیر کی طرف چلے گئے جیسا کہ فرماتا ہے.وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِيْنِ.* یعنی ہم نے عیسی اور اس کی والدہ کو ایک ایسے ٹیلے پر جگہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور پانی صاف یعنی چشموں کا پانی وہاں تھا سو اس میں خدا تعالیٰ نے کشمیر کا نقشہ کھینچ دیا ہے اور اولی کا لفظ لغت عرب میں کسی مصیبت یا تکلیف سے پناہ دینے کے لئے آتا ہے اور صلیب سے پہلے عیسی اور اُس کی والدہ پر کوئی زمانہ مصیبت کا نہیں گزرا جس سے پناہ دی جاتی پس متعین ہوا کہ خدا تعالیٰ نے عیسی اور اُس کی والدہ کو واقعہ صلیب کے بعد اُس ٹیلے پر پہنچایا تھا.منہ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 حاشیہ ) جب مولوی محمد حسین جو سردار کا ہن کی طرح مخالفانہ گواہی کے لئے آیا تھا مجھے کرسی پر بیٹھا المؤمنون:51
کشتی نوح 197 فلسطین سے کشمیر تک ہوا پایا اور جس ذلت کو دیکھنے کے لئے میری نسبت اُس کی آنکھ شوق رکھتی تھی اُس ذلت کو اُس نے نہ دیکھا تب مساوات کو غنیمت سمجھ کر وہ بھی اُس پیلاطوس سے کرسی کا خواہشمند ہوا مگر اُس پیلاطوس نے اُسے ڈانٹا اور زور سے کہا کہ تجھے اور تیرے باپ کو کبھی کرسی نہیں ملی ہمارے دفتر میں تمہاری کرسی کے لئے کوئی ہدایت نہیں.اب یہ فرق بھی غور کے لائق ہے کہ پہلے پیلاطوس نے یہودیوں سے ڈر کر ان کے بعض معز ز گواہوں کو کرسی دے دی اور حضرت مسیح کو جو مجرم کے طور پر پیش کئے گئے تھے کھڑارکھا حالانکہ وہ سچے دل سے مسیح کا خیر خواہ تھا بلکہ مریدوں کی طرح تھا اور اس کی بیوی مسیح کی خاص مرید تھی جو ولی اللہ کہلاتی ہے لیکن خوف نے اس سے یہاں تک حرکت صادر کرائی کہ ناحق بے گناہ مسیح کو یہودیوں کے حوالہ کر دیا میری طرح کوئی خون کا الزام نہ تھا صرف معمولی طور پر مذہبی اختلاف تھا لیکن وہ رومی پیلاطوس دل کا قومی نہ تھا اس بات کو سن کر ڈر گیا کہ قیصر کے پاس اُس کی شکایت کی جائے گی.اور پھر ایک اور مماثلت پہلے پیلاطوس اور اس پیلاطوس میں یادر کھنے کے لائق ہے کہ پہلے پیلاطوس نے اس وقت جو مسیح ابن مریم عدالت میں پیش کیا گیا یہودیوں کو کہا تھا کہ میں اس شخص میں کوئی گناہ نہیں دیکھتا ایسا ہی جب آخری مسیح اس آخری پیلاطوس کے روبرو پیش ہوا اور اس مسیح نے کہا کہ مجھے چند روز تک جواب کے لئے مہلت دینی چاہئے کہ مجھ پر خون کا الزام لگایا جاتا ہے تب اس آخری پیلاطوس نے کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا یہ دونوں قول دونوں پیلاطوسوں کے بالکل باہم مشابہ ہیں اگر فرق ہے تو صرف اس قدر ہے کہ پہلا پہلا طوس اپنے اس قول پر قائم نہ رہ سکا اور جب اس کو کہا گیا کہ قیصر کے پاس تیری شکایت کریں گے تو وہ ڈر گیا اور حضرت مسیح کو اس نے عمداً خونخوار یہودیوں کے حوالہ کر دیا گو وہ اس سپردگی سے غمگین تھا اور اس کی عورت بھی غمگین تھی.کیونکہ وہ دونوں مسیح کے سخت معتقد تھے لیکن یہودیوں کا سخت شور و غوغا دیکھ کر بزدلی اُس پر غالب آگئی ہاں البتہ پوشیدہ طور پر اس نے بہت سعی کی کہ مسیح کی جان کو صلیب سے بچایا جاوے اور اس سعی میں وہ کامیاب بھی ہو گیا مگر بعد اس کے کہ میسیج صلیب پر چڑھایا گیا اور شدت درد سے ایک ایسی سخت غشی میں آ گیا کہ گویا وہ موت ہی تھی.بہر حال
198 فلسطین سے کشمیر تک کشتی نوح پیلاطوس رومی کی کوشش سے مسیح ابن مریم کی جان بچ گئی اور جان بچنے کے لئے پہلے سے مسیح کی دعا منظور ہو چکی تھی.دیکھو عبرانیاں باب ۵ آیت ۷.بعد اس کے مسیح اُس زمین سے پوشیدہ طور پر بھاگ کر کشمیر کی طرف آ گیا اور وہیں فوت ہوا اور تم سن چکے ہو کہ سری نگر محلہ خان یار میں اُس کی قبر ہے یہ سب پیلاطوس کی سعی کا نتیجہ تھا لیکن تاہم اُس پہلے پیلاطوس کی کاروائی بزدلی کی رنگ آمیزی سے خالی نہ تھی اگر وہ اپنے اس قول کا پاس کر کے کہ میں اس شخص کا کوئی گناہ نہیں دیکھتا مسیح کو چھوڑ دیتا تو اس پر کچھ مشکل نہ تھا اور وہ چھوڑنے پر قادر تھا مگر وہ قیصر کی دوہائی سن کر ڈر گیا.لیکن یہ آخری پیلاطوس پادریوں کے ہجوم سے نہ ڈرا حالانکہ اس جگہ بھی قیصرہ کی بادشاہی تھی لیکن یہ قیصرہ اُس قیصر سے بدرجہ ہا بہتر تھی اس لئے کسی کے لئے ممکن نہ تھا کہ حاکم پر دباؤ ڈالنے کے لئے اور انصاف چھڑانے کے لئے قیصرہ سے ڈراوے بہر حال پہلے مسیح کی نسبت آخری مسیح پر بہت شور اور منصوبہ اُٹھایا گیا تھا اور میرے مخالف اور ساری قوموں کے سرگروہ جمع ہو گئے تھے مگر آخری پیلاطوس نے سچائی سے پیار کیا اور اپنے اس قول کو پورا کر کے دکھلایا کہ جو اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا تھا کہ میں تم پر خون کا الزام نہیں لگا تا سو اس نے مجھے بہت صفائی اور مردانگی سے بری کیا اور پہلے پیلاطوس نے مسیح کو بچانے کے لئے حیلوں سے کام لیا مگر اس پیلاطوس نے جو کچھ عدالت کا تقاضا تھا اُس طور سے اس تقاضا کو پورا کیا جس میں بزدلی کا رنگ نہ تھا.جس دن میں بری ہوا اُس دن اس عدالت میں مکتی فوج کا ایک چور بھی پیش ہوا یہ اس لئے وقوع میں آیا کہ پہلے مسیح کے ساتھ بھی ایک چور تھا لیکن اس آخری مسیح کے ساتھ کے چور کو جو پکڑا گیا اُس پہلے چور کی طرح جو پہلے مسیح کے ساتھ پکڑا گیا صلیب پر نہیں چڑھایا اور نہ اس کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ صرف تین ماہ کی قید ہوئی.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 56 تا 58) مسیح نے بطور پیشگوئی خود بھی کہا کہ بجز یونس کے نشان کے اور کوئی نشان دکھایا نہیں جائے گا پس مسیح نے اپنے اس قول میں یہ اشارہ کیا کہ جس طرح یونس زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا ایسا ہی میں بھی زندہ ہی قبر میں داخل ہوں گا اور زندہ ہی
کشتی نوح 199 فلسطین سے کشمیر تک نکلوں گا سو یہ نشان بجز اس کے کیونکر پورا ہوسکتا تھا کہ مسیح زندہ صلیب سے اُتارا جاتا اور زندہ قبر میں داخل ہوتا اور یہ جو حضرت مسیح نے کہا کہ کوئی اور نشان نہیں دکھایا جائے گا اس فقرہ میں گویا مسیح ان لوگوں کا رد کرتا ہے کہ جو کہتے ہیں کہ مسیح نے یہ نشان بھی دکھلایا کہ آسمان پر چڑھ گیا.منہ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 57 حاشیہ) جس وقت حضرت عیسی علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اُس وقت وہ پولوس بھی مکفرین کی جماعت میں داخل تھا جس نے بعد میں اپنے تئیں رسول مسیح کے لفظ سے مشہور کیا یہ شخص حضرت مسیح کی زندگی میں آپ کا سخت دشمن تھا جس قدر حضرت مسیح کے نام پر انجیلیں لکھی گئیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی یہ پیشگوئی نہیں ہے کہ میرے بعد پولوس تو بہ کر کے رسول بن جائے گا اس شخص کے گزشتہ چال چلن کی نسبت لکھنا ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ عیسائی خوب جانتے ہیں افسوس ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سو ر کو جو تربیت کے رو سے ابدی حرام تھا حلال کر دیا اور شراب کو بہت وسعت دے دی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان تمام بدعتوں سے یونانی بُت پرست خوش ہو جائیں.منہ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 65 حاشیہ) بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسی بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مرگیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا.کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو! اے نادانوں میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی
کشتی نوح 200 فلسطین سے کشمیر تک گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار میں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی اور ان کا شکر کرنا ہمیں اس لئے لازم ہے کہ ہم اپنا کام مکہ اور مدینہ میں بھی نہیں کر سکتے تھے مگر ان کے ملک میں.یہ خدا کی طرف سے حکمت تھی کہ مجھے اس ملک میں پیدا کیا پس کیا میں خدا کی حکمت کی کسرشان کروں اور جیسا که قرآن شریف کی آیت وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ * میں اللہ تعالیٰ یہ بات ہمیں سمجھاتا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد ہم نے عیسی مسیح کو صلیبی بلا سے رہائی دے کر اس کو اور اس کی ماں کو ایک ایسے اونچے ٹیلے پر جگہ دی تھی کہ وہ آرام کی جگہ تھی اور اس میں چشمے جاری تھے یعنی سری نگر کشمیر.اسی طرح خدا نے مجھے اس گورنمنٹ کے اونچے ٹیلے پر جہاں مفسدین کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا جگہ دی جو آرام کی جگہ ہے اور اس ملک میں بچے علوم کے چشمے جاری ہیں اور مفسدوں کے حملوں سے امن اور قرار ہے پھر کیا واجب نہ تھا کہ ہم اس گورنمنٹ کے احسانات کا شکر کرتے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 75 حاشیہ) ایک یہودی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ قبر واقعہ سری نگر یہودیوں کے انبیاء کی قبروں کی طرح بنی ہوئی ہے.دیکھو پر چہ علیحدہ حاشیہ.منہ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 76 حاشیہ ) کر بیئر ڈلاسیرا جنوبی اٹلی کے سب سے مشہور اخبار نے مندرجہ ذیل عجیب خبر شائع کی ہے.ار جولائی ۱۸۷۹ء کو یروشلم میں ایک بوڑھا راہب مسمی کور مرا جو اپنی زندگی میں ایک ولی مشہور تھا اس کے پیچھے اس کی کچھ جائیدادور ہی اور گورنر نے اس کے رشتہ داروں کو تلاش کر کے ان کے حوالہ دولاکھ فرینک ( ایک لاکھ پونے انہیں ہزار روپیہ ) کئے جو مختلف ملکوں کے سکوں میں تھے اور اس غار میں سے ملے جہاں وہ راہب بہت عرصے سے رہتا تھا.روپے کے ساتھ بعض کا غذات بھی ان رشتہ داروں کو ملے جن کو وہ پڑھ نہ سکتے تھے.چند المؤمنون: 51
201 کشتی نوح فلسطین سے کشمیر تک عبرانی زبان کے فاضلوں کو ان کا غذات کے دیکھنے کا موقعہ ملا تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ یہ کاغذات بہت ہی پرانی عبرانی زبان میں تھے جب ان کو پڑھا گیا تو ان میں یہ عبارت تھی.پطرس ماہی گیر یسوع مریم کے بیٹے کا خادم اس طرح پر لوگوں کو خدا تعالیٰ کے نام میں اور اس کی مرضی کے مطابق خطاب کرتا ہے اور یہ خط اس طرح ختم ہوتا ہے.میں پطرس ماہی گیر نے یسوع کے نام میں اور اپنی عمر کے نوے ۹۰ سال میں یہ محبت کے الفاظ اپنے آقا اور مولی یسوع مسیح مریم کے بیٹے کی موت کے تین عید فسح بعد ( یعنی تین سال بعد ) خداوند کے مقدس گھر کے نزدیک بولیر کے مکان میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے.ان فاضلوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نسخہ پطرس کے وقت کا چلا آتا ہے.لنڈن بائبل سوسائٹی کی بھی یہی رائے ہے اور ان کا اچھی طرح سے امتحان کرانے کے بعد بائبل سوسائٹی اب ان کے عوض چار لاکھ لیرا ( دولاکھ ساڑھے سینتیس ہزار روپیہ ) مالکوں کو دے کر کاغذات کو لینا چاہتی ہے.یسوع ابن مریم کی دعا ان دونو پر سلام ہو.اس نے کہا.”اے میرے خدا میں اس قابل نہیں کہ اس چیز پر غالب آ سکوں جس کو میں برا سمجھتا ہوں نہ میں نے اس نیکی کو حاصل کیا ہے جس کی مجھے خواہش تھی مگر دوسرے لوگ اپنے اجر کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور میں نہیں.لیکن میری بڑائی میرے کام میں ہے.مجھ سے زیادہ بری حالت میں کوئی شخص نہیں ہے.اے خدا جو سب سے بلند تر ہے میرے گناہ معاف کر.اے خدا ایسا نہ کر کہ میں اپنے دشمنوں کے لئے الزام کا سبب ہوں نہ مجھے اپنے دوستوں کی نظر میں حقیر ٹھہرا اور ایسا نہ ہو کہ میرا تقویٰ مجھے مصائب میں ڈالے ایسا نہ کر کہ یہی دنیا میری بڑی خوشی کی جگہ یا میرا بڑا مقصد ہو اور ایسے شخص کو مجھ پر مسلط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے اے خدا جو بڑے رحم والا ہے اپنے رحم کی خاطر ایسا ہی کر تو جو اُن سب پر رحم کرتا ہے جو تیرے رحم کے حاجت مند ہیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 77)
کشتی نوح 202 شهد شاهد من بنی اسرائیل ایک اسرائیلی عالم توریت کی شہادت درباره قبرسیح) که فلسطین سے کشمیر تک ور بود و در دید در بود در دور دور اور ہر میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا ایک نقشہ پاس مرزا غلام احمد در راه دوری و فرود و بدون دود وارد کرد در صاحب قادیانی اور تحقیق وہ صحیح ہے قبر بنی اسرائیل کی قبروں میں سے ر مردوں عدل برود دلا ر و ا ل اور وہ ہے نبی اسرائیل کے اکابر کی قبروں میں سے الوور در مردها اوزدم و مرو و را دلم دارم میں نے دیکھا یہ نقشہ آج کے دن جب لکھی و درد را نادرا زند نورد دردناك 12 ذال میں نے یہ شہادت بماہ انگریزی جون ۱۲ ١٨٩٩ء 1199 220 2.-12 مربای اهر از مودم دور بر سلمان یوسف سحاق تاجر ذرند مردی هک و ورد : ندا کردم 1977 و 170 سلمان یہودی نے میرے رو برو דיברו יה להרת לכי מפתי מהמד צדק شہادت لکھی لکھی.مفتی محمد صادق بھیروی R - ניו ללין דפתר אכותנת גנרל לחי کلرک دفتر اکوننٹ جنرل لاہور اشهد بالله ان هذا الكتاب كتبه سلمان ابن يوسف وانه رجل من اكابر بنی اسرائیل دستخط: سید عبد الله بغدادی کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 78)
تحفة الندوة 203 تحفة الندوة (1902ء) تمام مسلمانوں اور تمام سچائی کے بھوکوں اور پیاسوں کے لئے ایک بڑی خوشخبری فلسطین سے کشمیر تک حضرت عیسی علیہ السلام جن کی خارق عادت زندگی اور خلاف نصوص قرآنیہ مع جسم آسمان پر چلے جانا اور باوجو د وفات یافتہ نہ ہونے کے پھر وفات یافتہ نبیوں کی روحوں میں جو ایک رنگ سے بہشت میں داخل ہو چکے داخل ہو جانا یہ تمام ایسی باتیں تھیں کہ در حقیقت بچے مذہب کے لئے ایک داغ تھا اور نیز مدت دراز سے مغربی مخلوق پرستوں کا موحدین اہلِ اسلام کے ذمہ ایک قرضہ چلا آتا تھا اور نادان مسلمانوں نے بھی اس قرضہ کا اقرار کر کے اپنے ذمہ ایک بڑی سودی رقم عیسائیوں کی بڑھا دی تھی جس کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمان اس ملک ہند میں ارتداد کا جامہ پہن کر عیسائیوں کے ہاتھ میں گرو پڑ گئے تھے اور کوئی صورت ادائے قرضہ کی نظر نہ آتی تھی.جب عیسائی کہا کرتے تھے کہ ربنا یسوع مسیح آسمان پر زندہ مع جسم چڑھ گیا بڑی طاقت دکھلائی خدا جو تھا مگر تمہارا نبی تو ہجرت کرنے کے بعد مدینہ تک بھی پرواز کر کے نہ جا سکا غار ثور میں ہی تین دن تک چھپارہا آخر بڑی مشکل سے مدینہ تک پہنچا اور پھر بھی عمر نے وفا نہ کی دس برس کے بعد فوت ہو گیا اور اب وہ قبر میں اور زیر زمین ہے مگر یسوع مسیح زندہ آسمان پر ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہی دوبارہ آسمان سے اتر کر دنیا کا انصاف کرے گا.ہر ایک جو اس کو خدا نہیں جانتاوہ پکڑا جائے گا اور آگ میں ڈالا جائے گا.اس کا جواب مسلمانوں کو کچھ بھی نہیں آتا نہایت شرمندہ اور ذلیل ہوتے تھے اب یسوع مسیح کی خوب خدائی ظاہر ہوئی.آسمان پر چڑھنے کا سارا بھانڈا پھوٹ گیا.اوّل تو ہزار نسخہ سے زیادہ ایسی طبی کتابیں جن کو پُرانے زمانہ میں رومیوں یونانیوں مجوسیوں عیسائیوں اور سب سے بعد مسلمانوں نے بھی ان کا ترجمہ کیا تھا پیدا ہوگئیں جن میں ایک
تحفة الندوة 204 فلسطین سے کشمیر تک نسخہ مرہم عیسی کا لکھا ہے اور ان کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسی کے لئے یعنی اُن کے صلیبی زخموں کے لئے بنائی گئی تھی.ازاں بعد کشمیر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر بھی پیدا ہوگئی.پھر اس کے بعد عربی اور فارسی میں پرانی کتا میں پیدا ہوگئیں جو بعض ان میں سے ہزار برس کی تصنیف ہیں اور حضرت عیسی کی وفات کی گواہی دیتی اور قبر اُن کی کشمیر میں بتلاتی ہیں اور پھر سب کے بعد جو آج ہمیں خبر ملی یہ تو ایک ایسی خبر ہے کہ گویا آج اس نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن چڑھا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حال میں بمقام یروشلم پطرس حواری کا دستخطی ایک کاغذ پرانی عبرانی میں لکھا ہوا دستیاب ہوا ہے جس کو کتاب کشتی نوح کے ساتھ شامل کیا گیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے تخمیناً پچاس برس بعد اسی زمین پر فوت ہو گئے تھے اور وہ کاغذ ایک عیسائی کمپنی نے اڑھائی لاکھ روپیہ دے کر خرید لیا ہے کیونکہ یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ وہ پطرس کی تحریر ہے اور ظاہر ہے کہ اس قدر ثبوتوں کے جمع ہونے کے بعد جوز بردست شہادتیں ہیں پھر اس بیہودہ اعتقاد سے جو عیسی زندہ ہے باز نہ آنا ایک دیوانگی ہے امور محسوسہ مشہودہ سے انکار نہیں ہو سکتا سو مسلمانوں تمہیں مبارک ہو آج تمہارے لئے عید کا دن ہے اُن پہلے جھوٹے عقائد کو دفع کرو اور اب قرآن کے مطابق اپنا عقیدہ بنالو.مکرر یہ کہ یہ آخری شہادت حضرت عیسی کے سب سے بزرگ تر حواری کی شہادت ہے یہ وہ حواری ہے کہ اپنی تحریر میں جو برآمد ہوئی ہے خود اس شہادت کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ میں ابن مریم کا خادم ہوں اور اب میں نوے ۹۰ سال کی عمر میں یہ خط لکھتا ہوں جبکہ مریم کے بیٹے کو مرے ہوئے تین سال گزرچکے ہیں لیکن تاریخ سے یہ امر ثابت شدہ ہے اور بڑے بڑے مسیحی علماء اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ پطرس اور حضرت عیسی کی پیدائش قریب قریب وقت میں تھی اور واقعہ صلیب کے وقت حضرت عیسی کی عمر قریباً ۳۳ سال اور حضرت پطرس کی عمر اس وقت تمہیں چالیس سال کے درمیان تھی ( دیکھو کتاب منتھس ڈکشنری جلد ۳ صفحہ ۲۴۴۶ و موٹی ٹیولس نیوٹسٹیمنٹ ہسٹری و دیگر کتب تاریخ ) اور اس خط کے متعلق اکابر علماء منذ ہب عیسوی نے بہت تحقیقات کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ میچ ہے اور اس کیلئے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور جیسا
مواہب الرحمن 205 فلسطین سے کشمیر تک کہ ہم لکھ چکے ہیں ایسی عزت سے یہ تحریر دیکھی گئی ہے کہ ایک رقم کثیر اس کے عوض میں وارثان اُس مقدس راہب کو دی گئی ہے جس کے کتب خانہ سے بعد وفات یہ کاغذ برآمد ہوا اور ہمارے نزدیک اس کاغذ کی صحت پر ایک اور قوی دلیل ہے کہ ایسے شخص کے کتب خانہ سے یہ کاغذ نکلا ہے جو رومن کیتھولک عقیدہ رکھتا تھا اور نہ صرف حضرت عیسی کی خدائی کا قائل تھا بلکہ حضرت مریم کی خدائی کا بھی قائل تھا یہ کاغذات اُس نے محض ایک پُرانے تتبرکات میں رکھے ہوئے تھے اور چونکہ وہ پرانی عبرانی تھی اور طرز تحریر بھی پرانی تھی اس لئے وہ اس کے مضمون سے محض نا آشنا تھا.یہ ایک نشان ہے ماسوا اس نئی شہادت کے جو حضرت پطرس کے خط میں سے نکلی ہے.متقدمین میں بھی عیسائیوں کے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر سے ایک موت کی سی سخت بیہوشی میں اُتارے گئے تھے اور ایک غار کے اندر تین دن کے علاج معالجہ سے تندرست ہو کر کسی اور طرف چلے گئے جہاں مدت تک زندہ رہے ان عقائد کا ذکر انگریزی کتابوں میں مفصل درج ہے جن میں سے کتاب نیو لائف آف جیزس مصنفہ سٹراس اور کتاب ماڈرن ڈوٹ اینڈ کرسچن بیلیف اور کتاب سوپر نیچرل ریچن کی بعض عبارتیں ہم نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں درج کی ہیں.(تحفۃ الندوۃ.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 102 تا 104 ) مواہب الرحمن (1903ء) ثم من الدلائل الوقائع التاريخية والشواهد التي جمعتها باز منجمله دلائل برموت عیسی واقعات تاریخیه اند و نیز آن شواهد که در کتب الكتب الطبية.ومن تصفّح تلك الكتب التي زادت عدتها على الألف، طبیہ کہ زائد از ہزار خواهند بود جمع کرده شده اند و این کتب با از زمان پیشینیان تا این وقت مسلّم و وهي مشهورة مسلمة من السلف إلى الخلف، فلا بد له أن يشهد أن مرهم عيسى مشهوراند پس کسیکه این صدہا کتب را جستجو کرده مطالعه بکند بضرورت گواہی خواہد داد کہ برائے
206 مواہب الرحمن فلسطین سے کشمیر تک قد صُنع لجراحة إلهِ أهل الصلبان، وهذه واقعة لا يختلف فيها اثنان وهي من معالجہ زخم صلیبی خدائے ترسایان مرہم عیسی تیار کرده شده بود و در این امر کسے راختلافی نیست واین المراهم المشهورة المقبولة ، ويوجد ذكرها في كتب زهاء ألف من هذه الصناعة.مرہم عیسی که تخمیناً در ہزار کتب مذکور است از مرہم ہائے مقبولہ ومتداوله اطباء است وكذالك اطلعنا على قبره الذى قد وقع قريبًا من هذه الخطة، وثبت أن ذالك و علاوه براین این ست که ما اطلاع یافته ایم برقبر عیسی که قریب این خطه پنجاب در سرینگر کشمیر واقع است - واز القبر هو قبر عيسى من غير الشك والشبهة ولا يُضعف الحقائق الثابتة إنكار دلائل قاطعه مارا ثابت شده است که این قبر قبر عیسی است.و ثبوت حقائق ثابت شده را انکار سم العـلـمـاء الـحـاسـدين، فإنهم لا يتكلمون إلا مستكبرين، ولا يدخلون علينا إلا منكرين ملایان حاسد و متکبر که تکذیب پیشه ایشان است ضعیف نمی تواند کرد ونـجـدهـم مـتـكـبـريـن كبير الاحتقار، قليل الفهم كثير الإنكار ثم يقال لهم قدوة الأمة و سے بینم ایشان را کوتاه فهم که غیر خودرابسیار حقیر دانستن عادت شان است.معہذ اعوام ایشان را پیشوائے امت ونجوم الملة ! ماتت الروحانية، وغلبت الدنيا الفانية.مـا لهـم لا يفهمون وستارہ ہائے دین وملت میگویند و روحانیت در بیشان مرده شده است وحب دنیائے دون برایشان غالب است چه شدایشان را أن رفع عيسى كان لرفع تهمة اللعنة فمن رفع جسمه إلى السماء فقط فإنه کہ نمی فهمند کہ رفع عیسی برائے رفع کردن تہمت لعنت است لیکن برفع جسد عنصری براءت از تهمت ملعونیت لا يبرأ من هذه التهمة.ثم لما كان عيسى قد أُرسل إلى قبائل اليهود كلهم وكل من نمی تواند شد باز میگوئیم که عیسی برائے ہدایت کل قبائل یہود از بنی اسرائیل كان من بنى إسرائيل، وكانت القبائل منتشرة في الأرض كما روى وقيل، مبعوث شده بود و قبائل بنی اسرائیل بسبب آمدن ابتلاءات از بادشاه وقت دراطراف زمین كان من فرائضه أن يسير ويختار السياحة، ويستقرى قبائل أخرى منتشر شده بودند چنانچه در کتب تواریخ مذکور است پس فرض منصبی حضرت عیسی همین بود که قبائل منتشر را بسیر وسیاحت
تذكرة الشهادتين 207 فلسطین سے کشمیر تک فكيف صعد إلى السماء قبل تأدية فرضه وتكميل دعوته؟ هذا باطل عند جستجو نمودہ ہدایت بکند.پس قبل از ادائے این فرض منصبی و تکمیل دعوت خود بر آسمان چگونه صعود نمود که عند العقل النُّهى محض باطل است.(مواہب الرحمن - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 298 تا 300) تذکرۃ الشہادتین (1903ء) یہ وہ باتیں تھیں جو میں نے صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب سے کیں اور وہ امر جو آخر میں ان کو سمجھایا وہ یہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رُو سے سولہ ۱۹ خصوصیتیں ہیں (۱) اول یہ کہ وہ بنی اسرائیل کے لئے ایک موعود نبی تھا جیسا کہ اس پر اسرائیلی نبیوں کے صحیفے گواہ ہیں.(۲) دوسری یہ کہ مسیح ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ یہودی اپنی سلطنت کھو چکے تھے یعنی اس ملک میں یہودیوں کی کوئی سلطنت نہیں رہی تھی گوممکن تھا کہ کسی اور ملک میں جہاں بعض فرقے یہود کے چلے گئے تھے کوئی حکومت ان کی قائم ہوگئی ہو جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ افغان اور ایسا ہی کشمیری بھی یہود میں سے ہیں جن کا اسلام قبول کرنے کے بعد سلاطین میں داخل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے انکار نہیں ہوسکتا.بہر حال حضرت مسیح کے ظہور کے وقت اس حصہ ملک سے یہود کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت زندگی بسر کرتے تھے اور رومی سلطنت کو انگریزی سلطنت سے بہت مشابہت تھی (۳) تیسری یہ کہ وہ ایسے وقت میں آیا تھا کہ جبکہ یہودی بہت سے فرقوں پر منقسم ہو چکے تھے اور ہر ایک فرقہ دوسرے فرقہ کا مخالف تھا اور ان سب میں با ہم سخت عناد اور خصومتیں پیدا ہو گئی تھیں اور توریت کے اکثر احکام باعث ان کے کثرت اختلافات کے مشتبہ ہو گئے تھے صرف وحدانیت الہی میں وہ باہم اتفاق رکھتے تھے باقی اکثر مسائل جزئیہ میں وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے اور کوئی واعظ ان میں باہم صلح نہیں کرا سکتا تھا اور
تذكرة الشهادتين 208 فلسطین سے کشمیر تک نہ ان کا فیصلہ کر سکتا تھا.اس صورت میں وہ ایک آسمانی حکم یعنی فیصلہ کنندہ کے محتاج تھے جو خدا سے جدید وحی پا کر اہل حق کی حمایت کرے اور قضاء وقدر سے ایسی ضلالت کی ملونی ان کے کل فرقوں میں ہو گئی تھی جو خالص طور پر ان میں ایک بھی اہلِ حق نہیں کہلا سکتا تھا.ہر ایک فرقہ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور افراط و تفریط کی آمیزش تھی.پس یہی وجہ پیدا ہوگئی تھی کہ یہود کے تمام فرقوں نے حضرت مسیح کو دشمن پکڑ لیا تھا.اور ان کی جان لینے کی فکر میں ہو گئے تھے کیونکہ ہر یک فرقہ چاہتا تھا کہ حضرت مسیح پورے طور پر ان کا مصدق ہو اور ان کو راستباز اور نیک چلن خیال کرے اور ان کے مخالف کو جھوٹا کہے اور ایسامداہنہ خدا تعالیٰ کے نبی سے غیر ممکن تھا.(۴) چہارم یہ کہ مسیح ابن مریم کے لئے جہاد کا حکم نہ تھا اور حضرت موسی کا مذہب یونانیوں اور رومیوں کی نظر میں اس وجہ سے بہت بدنام ہو چکا تھا کہ وہ دین کی ترقی کے لئے تلوار سے کام لیتا رہا ہے گو کسی بہانہ سے.چنانچہ اب تک ان کی کتابوں میں موسق کے مذہب پر برابر یہ اعتراض ہیں کہ کئی لاکھ شیر خوار بچے اس کے حکم اور نیز اس کے خلیفہ یشوع کے حکم سے جو اس کا جانشین تھا قتل کئے گئے اور پھر دا ؤڈ اور دوسرے نبیوں کی لڑائیاں بھی اس اعتراض کو چمکاتی تھیں پس انسانی فطرتیں اس سخت حکم کو برداشت نہ کرسکیں اور جب یہ خیالات غیر مذہب والوں کے انتہا تک پہنچ گئے تو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ ایک ایسا نبی بھیج کر جو صرف صلح اور امن سے مذہب کو پھیلائے تو ریت پر سے وہ نکتہ چینی اُٹھا دے جو غیر قوموں نے کی تھی.سو وہ صلح کا نبی عیسی ابن مریم تھا (۵) پانچویں یہ کہ حضرت عیسی کے وقت میں یہودیوں کے علماء کا عموماً چال چلن بہت بگڑ چکا تھا اور اُن کا قول اور فعل باہم مطابق نہ تھا.ان کی نمازیں اور ان کے روزے محض ریا کاری سے پُر تھے اور وہ جاہ طلب علماء رومی سلطنت کے نیچے ایسے دنیا کے کیڑے ہو چکے تھے کہ تمام ہمتیں ان کی اسی میں مصروف ہوگئی تھیں کہ مکر سے یا خیانت سے یا دغا سے یا جھوٹی گواہی سے یا جھوٹے فتووں سے دنیا کماویں.ان میں بجز زاہدانہ لباس اور بڑے بڑے جنوں کے ایک ذره روحانیت باقی نہیں رہی تھی.وہ رومی سلطنت کے حکام سے بھی عزت پانے کے بہت خواہاں تھے اور طرح طرح کے جوڑ توڑ اور جھوٹی خوشامد سے سلطنت سے عزت اور کسی
تذكرة الشهادتين 209 فلسطین سے کشمیر تک قدر حکومت حاصل کر لی تھی اور چونکہ ان کی دنیا ہی دنیارہ گئی تھی اس لئے وہ اس عزت سے جو تو ریت پر عمل کرنے سے آسمان پر مل سکتی تھی بالکل لا پروا ہو کر دنیا پرستی کے کیڑے بن گئے تھے اور تمام فخر دنیا کی وجاہت میں ہی سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے گورنر پر جو رومی سلطنت کی طرف سے تھا کسی قدر ان کا دباؤ بھی تھا کیونکہ ان کے بڑے بڑے دنیا پرست مولوی دور دراز سفر کر کے قیصر کی ملاقات بھی کرتے تھے اور سلطنت سے تعلقات بنارکھے تھے اور کئی لوگ ان میں سے سلطنت کے وظیفہ خوار بھی تھے اسی بنا پر وہ لوگ اپنے تئیں سلطنت کے بڑے خیر خواہ جتلاتے تھے اس لئے وہ اگر چہ ایک نظر سے زیر نگرانی بھی تھے مگر خوشامدانہ طریقوں سے انہوں نے قیصر اور اس کے بڑے حکام کو اپنی نسبت بہت نیک ظن بنا رکھا تھا.انہیں چال بازیوں کی وجہ سے علماء ان میں سے سلطنت کے حکام کی نظر میں معزز سمجھے جاتے تھے اور کرسی نشین تھے.لہذا وہ غریب گلیل کا رہنے والا جس کا نام یسوع بن مریم تھا.ان شریر لوگوں کے لئے بہت کوفتہ خاطر کیا گیا.اس کے منہ پر نہ صرف تھوکا گیا بلکہ گورنر کے حکم سے اس کو تازیانے بھی مارے گئے.وہ چوروں اور بدمعاشوں کے ساتھ حوالات میں دیا گیا.حالانکہ اس کا ایک ذرہ قصور نہ تھا.صرف گورنمنٹ کی طرف سے یہودیوں کی ایک دل جوئی تھی کیونکہ سلطنت کی حکمت عملی کا یہ اصول ہے کہ گروہ کثیر کی رعایت رکھی جائے سو اس غریب کو کون پوچھتا تھا.یہ عدالت تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر وہ یہودیوں کے مولویوں کے سپرد ہوا اور انہوں نے اس کو صلیب پر چڑھا دیا ایسی عدالت پر خدا جو زمین و آسمان کا مالک ہے لعنت کرتا ہے مگر افسوس ان حکومتوں پر جن کی آسمان کے خدا پر نظر نہیں.یوں بگفتن پیلاطوس جو اس ملک کا گورنر تھا مع اپنی بیوی کے حضرت عیسی کا مرید تھا اور چاہتا تھا کہ اسے چھوڑ دے مگر جب زبر دست یہودیوں کے علماء نے جو قیصر کی طرف سے باعث اپنی دنیا داری کے کچھ عزت رکھتے تھے اس کو یہ کہہ کر دھمکایا کہ اگر تو اس شخص کو سز انہیں دے گا تو ہم قیصر کے حضور میں تیرے پر فریاد کریں گے تب وہ ڈر گیا کیونکہ بزدل تھا.اپنی ارادت پر قائم نہ رہ سکا.یہ خوف اس لئے اس کے دامن گیر ہوا کہ بعض معزز علماء یہود نے قیصر تک اپنی رسائی بنا رکھی
تذكرة الشهادتين 210 فلسطین سے کشمیر تک تھی اور پوشیدہ طور پر حضرت عیسی کی نسبت یہ مخبری کرتے تھے کہ یہ مفسد اور در پردہ گورنمنٹ کا دشمن ہے اور اپنی ایک جمعیت بنا کر قیصر پر حملہ کرنا چاہتا ہے بظاہر یہ مشکلات بھی پیش تھیں کہ اس سادہ اور غریب انسان کو قیصر اور اس کے حکام سے کچھ تعلق نہ تھا اور ریا کاروں اور دنیا طلبوں کی طرح ان سے کچھ تعارف نہ تھا اور خدا پر بھروسہ رکھتا تھا اور اکثر علمائے یہودا اپنی دنیا پرستی اور چالبازی اور خوشامدانہ وضع سے سلطنت میں جنس گئے تھے وہ سلطنت کے درحقیقت دوست نہ تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت اس دھو کے میں ضرور آگئی تھی کہ وہ دوست ہیں اس لئے ان کی خاطر سے ایک بے گناہ خدا کا نبی ہر ایک طرح سے ذلیل کیا گیا مگر وہ جو آسمان سے دیکھتا اور دلوں کا مالک ہے وہ تمام شرارت پیشہ اس کی نظر سے مجوب نہ تھے آخر انجام یہ ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیئے جانے کے بعد خدا نے مرنے سے بچالیا اور ان کی وہ دُعا منظور کر لی جو انہوں نے دردِ دل سے باغ میں کی تھی جیسا کہ لکھا ہے کہ جب مسیح کو یقین ہو گیا کہ یہ خبیث یہودی میری جان کے دشمن ہیں اور مجھے نہیں چھوڑتے تب وہ ایک باغ میں رات کے وقت جا کر زار زار رویا اور دُعا کی کہ یا الہی اگر تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے تو تجھ سے بعید نہیں تو جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس جگہ عربی انجیل میں یہ عبارت لکھی ہے.فبـکـی بـد موع جارية و عبرات متحدّرة فسُمع لتقواه یعنی یسوع مسیح اس قدر رویا کہ دُعا کرتے کرتے اس کے منہ پر آنسو رواں ہو گئے اور وہ آنسو پانی کی طرح اُس کے رخساروں پر بہنے لگے اور وہ سخت رویا اور سخت دردناک ہوا تب اُس کے تقویٰ کی وجہ سے اس کی دُعاسنی گئی اور خدا کے فضل نے کچھ اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اُتارا گیا اور پھر پوشیدہ طور پر باغبانوں کی شکل بنا کر اس باغ سے جہاں وہ قبر میں رکھا گیا تھا باہر نکل آیا اور خدا کے حکم سے دوسرے ملک کی طرف چلا گیا اور ساتھ ہی اس کی ماں گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آوَيُنَاهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِيْنِ.* یعنی اس مصیبت کے بعد جو صلیب کی مصیبت تھی ہم نے مسیح اور اس کی ماں کو ایسے ملک میں پہنچا دیا جس کی زمین بہت اونچی تھی اور صاف پانی تھا اور بڑے آرام کی جگہ تھی.اور احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ل المؤمنون : 51
تذكرة الشهادتين 211 فلسطین سے کشمیر تک عیسی ابن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جاملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر یحی" کا ہم نشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور یحییٰ نبی کے واقعہ کو باہم مشابہت تھی.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھا اور نبی تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے.لاکھوں انسان دنیا میں ایسے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے.خدا کسی کے برگزیدہ کرنے میں کبھی نہیں تھکا اور نہ تھکے گا (۶) چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیصر روم کی عملداری کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے.(۷) ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ رومی سلطنت کو مذہب عیسوی سے مخالفت تھی مگر اخیری نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب عیسائی قیصری قوم میں گھس گیا یہاں تک کہ کچھ مدت کے بعد خود قیصر روم عیسائی ہو گیا.(۸) آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کے وقت میں جس کو اہل اسلام عیسی کہتے ہیں ایک نیا ستارہ نکلا تھا (9) نویں خصوصیت یہ ہے کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا (۱۰) دسویں خصوصیت یہ ہے کہ اس کو دکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی (۱۱) گیارہویں خصوصیت یہ ہے کہ اس پر مذہبی تعصب سے مقدمہ بنایا گیا اور یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ سلطنت روم کا مخالف اور بغاوت پر آمادہ ہے (۱۲) بارہویں خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ صلیب پر چڑھایا گیا تو اس کے ساتھ ایک چور بھی صلیب پر لٹکایا گیا (۱۳) تیرھویں خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ پیلاطوس کے سامنے سزائے موت کے لئے پیش کیا گیا تو پیلاطوس نے کہا کہ میں اس کا کوئی گناہ نہیں پاتا.(۱۴) چودھویں خصوصیت یہ کہ اگر چہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا.مگران کے سلسلہ کا آخری پیغمبر تھا جو موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا.(۱۵) پندرھویں خصوصیت یہ کہ یسوع بن مریم کے وقت میں جو قیصر تھا اس کے عہد میں بہت سی نئی باتیں رعایا کے آرام اور ان کے سفر و حضر کی سہولت کے لئے نکل آئی تھیں.سڑکیں بنائی گئی تھیں اور سرائیں تیار کی گئی تھیں اور عدالت کے نئے طریقے وضع کئے گئے تھے جوانگریزی عدالت سے مشابہ تھے(۱۲) سولہویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ بن باپ پیدا ہونے میں آدم سے مشابہ تھے.یہ سولہ خصوصیتیں ہیں جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسی علیہ السلام
212 فلسطین سے کشمیر تک تذكرة الشهادتين میں رکھی گئی تھیں.پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ہلاک کر کے محمدی سلسلہ قائم کیا جیسا کہ نبیوں کے صحیفوں میں وعدہ دیا گیا تھا تو اس حکیم وعلیم نے چاہا کہ اس سلسلہ کے اوّل اور آخر دونوں میں مشابہت تامہ پیدا کرے تو پہلے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر مثیل موسى" قرار دیا جیسا کہ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا.* سے ظاہر ہے.حضرت موسی نے کافروں کے مقابل پر تلوار اٹھائی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت جبکہ مکہ سے نکالے گئے اور تعاقب کیا گیا مسلمانوں کی حفاظت کے لئے تلوار اُٹھائی.ایسا ہی حضرت موسی کی نظر کے سامنے سخت دشمن ان کا جو فرعون تھا غرق کیا گیا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سخت دشمن آپ کا جو ابو جہل تھا ہلاک کیا گیا.ایسا ہی اور بہت سی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر کرنا موجب طول ہے.یہ تو سلسلہ کے اول میں مشابہتیں ہیں مگر ضروری تھا کہ سلسلہ محمدی کے آخری خلیفہ میں بھی سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے مشابہت ہو.تا خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ سلسلہ محمد یہ باعتبار امام سلسلہ اور خلفاء سلسلہ کے سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے ٹھیک ہو اور ہمیشہ مشابہت اوّل اور آخر میں دیکھی جاتی ہے اور درمیانی زمانہ جو ایک طویل مدت ہوتی ہے گنجائش نہیں رکھتا کہ پوری پوری نظر سے اس کو جانچا جائے مگر اوّل اور آخر کی مشابہت سے یہ قیاس پیدا ہو جاتا ہے کہ درمیان میں بھی ضرور مشابہت ہوگی گونظر عقلی اس کی پوری پڑتال سے قاصر رہے اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رو سے سولہ خصوصیتیں تھیں جن کا اسلام کے آخری خلیفہ میں پایا جانا ضروری ہے تا اس میں اور حضرت عیسی میں مشابہت تامہ ثابت ہو.پس اوّل موعود ہونے کی خصوصیت ہے.اسلام میں اگر چہ ہزار ہا ولی اور اہل اللہ گزرے ہیں.مگر ان میں کوئی موعود نہ تھا.لیکن وہ جو سیح کے نام پر آنے والا تھا وہ موعود تھا.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے پہلے کوئی نبی موعود نہ تھا صرف مسیح موعود تھا.دوم.خصوصیت سلطنت کے برباد ہو چکنے کی ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسی بن مریم سے کچھ دن پہلے اس ملک سے اسرائیلی سلطنت جاتی رہی تھی ایسا ہی اس المزمل: 16
تذكرة الشهادتين 213 فلسطین سے کشمیر تک آخری مسیح کی پیدائش سے پہلے اسلامی سلطنت بباعث طرح طرح کی بدچلنیوں کے ملک ہندوستان سے اُٹھ گئی تھی اور انگریزی سلطنت اس کی جگہ قائم ہوگئی تھی.سوم.خصوصیت جو پہلے مسیح میں پائی گئی وہ یہ ہے کہ اس کے وقت میں یہودلوگ بہت سے فرقوں پر منقسم ہو گئے تھے اور بالطبع ایک حکم کے محتاج تھے تا ان میں فیصلہ کرے ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں مسلمانوں میں کثرت سے فرقے پھیل گئے تھے.چہارم م خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ وہ جہاد کے لئے مامور نہ تھا.ایسا ہی آخری مسیح جہاد کے لئے مامور نہیں ہے اور کیونکر مامور ہو زمانہ کی رفتار نے قوم کو متنبہ کر دیا ہے کہ تلوار سے کوئی دل تسلی نہیں پا سکتا اور اب مذہبی امور کے لئے کوئی مہذب تلوار نہیں اُٹھاتا.اور اب زمانہ جس صورت پر واقع ہے خود شہادت دے رہا ہے کہ مسلمانوں کے وہ فرقے جو مہدی خونی یا مسیح خونی کے منتظر ہیں وہ سب غلطی پر ہیں.اور ان کے خیالات خدا تعالیٰ کی منشاء کے برخلاف ہیں اور عقل بھی یہی گواہی دیتی ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا کہ مسلمان دین کے لئے جنگ کریں تو موجودہ وضع کی لڑائیوں کے لئے سب سے فائق مسلمان ہوتے وہی تو پوں کی ایجادکرتے وہی نئی نئی بندوقوں کے موجد ٹھہرتے اور انہیں کو فنون حرب میں ہریک پہلو سے کمال بخشا جاتا.یہاں تک کہ آئندہ زمانہ کے جنگوں کے لئے انہیں کو غبارہ بنانے کی سوجھتی اور وہی آب دوز کشتیاں جو پانی کے اندر چوٹیں کرتی ہیں بناتے اور دنیا کو حیران کرتے حالانکہ ایسا نہیں ہے.بلکہ دن بدن عیسائی ان باتوں میں ترقی کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ لڑائیوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلے ہاں عیسائی مذہب دلائل کے رُو سے دن بدن سست ہوتا جاتا ہے اور بڑے بڑے محقق تثلیث کے عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جرمن کے بادشاہ نے بھی اس عقیدہ کے ترک کی طرف اشارہ کر دیا ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالی...محض دلائل کے ہتھیار سے عیسائی تثلیث کے عقیدہ کو زمین پر سے نابود کرنا چاہتا ہے.یہ قاعدہ ہے کہ جو پہلو ہونہار ہوتا ہے پہلے سے اس کے علامات شروع ہو جاتے ہیں.سو مسلمانوں کے لئے آسمان سے حربی فتوحات کی کچھ علامات ظاہر نہیں ہوئیں.البتہ مذہبی دلائل کی علامات
214 فلسطین سے کشمیر تک تذكرة الشهادتين ظاہر ہوئی ہیں.اور عیسائی مذہب خود بخود پگلتا جاتا ہے.اور قریب ہے کہ جلد تر صفحہ دنیا سے نابود ہو جائے.(۵) پنجم خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں یہودیوں کا چال چلن بگڑ گیا تھا.بالخصوص اکثر ان کے جو علماء کہلاتے تھے وہ سخت مکار اور دنیا پرست اور دنیا کے لالچوں میں اور دنیوی عزتوں کی خواہشوں میں غرق ہو گئے تھے.ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں عام لوگوں اور اکثر علماء اسلام کی حالت ہورہی ہے مفصل لکھنے کی کچھ حاجت نہیں.(1) چھٹی خصوصیت یعنی یہ کہ حضرت مسیح قیصر روم کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے سو اس خصوصیت میں آخری مسیح کا بھی اشتراک ہے.کیونکہ میں بھی قیصر کی عملداری کے ماتحت مبعوث ہوا ہوں یہ قیصر اس قیصر سے بہتر ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھا.کیونکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب قیصر روم کو خبر ہوئی کہ اس کے گورنر پیلاطوس نے حیلہ جوئی سے مسیح کو اس سزا سے بچالیا ہے کہ وہ صلیب پر مارا جائے اور روپوش کر کے کسی طرف فراری کر دیا ہے تو وہ بہت ناراض ہوا اور یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ مخبری یہودیوں کے مولویوں نے ہی کی تھی کہ پیلاطوس نے ایک قیصر کے باغی کو مفرور کرا دیا ہے تو اس مخبری کے بعد فی الفور پیلاطوس قیصر کے حکم سے جیل خانہ میں ڈالا گیا اور آخری نتیجہ یہ ہوا کہ جیل خانہ میں ہی اس کا سر کاٹا گیا اور اس طرح پر پیلاطوس مسیح کی محبت میں شہید ہوا.اس سے معلوم ہوا کہ اہل حکم اور سلطنت اکثر دین سے محروم رہ جاتے ہیں.اس نادان قیصر نے یہودیوں کے علماء کو بہت معتبر سمجھا اور ان کی عزت افزائی کی اور اُن کی باتوں پر عمل کیا اور حضرت مسیح کے قتل کئے جانے کو مصلحت ملکی قرار دیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے اب زمانہ بہت بدل گیا ہے اس لئے ہمارا قیصر بمراتب اس قیصر سے بہتر ہے جو ایسا جاہل اور ظالم تھا.(۷) ساتویں خصوصیت یہ کہ مذہب عیسائی آخر قیصری قوم میں گھس گیا.سو اس خصوصیت میں بھی آخری مسیح کا اشتراک ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ یورپ اور امریکہ میں میرے دعوئی اور دلائل کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے اور ان لوگوں نے خود بخو دصد با اخبار میں میرے دعوئی اور دلائل کو شائع کیا ہے اور میری تائید اور تصدیق میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ ایک عیسائی کے قلم سے ایسے الفاظ کا نکلنا مشکل ہے یہاں تک کہ
تذكرة الشهادتين 215 فلسطین سے کشمیر تک بعض نے صاف لفظوں میں لکھ دیا ہے کہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے.اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ در حقیقت یسوع مسیح کو خدا بنانا ایک بھاری غلطی ہے.اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت مسیح موعود کا دعوی عین وقت پر ہے اور وقت خود ایک دلیل ہے.غرض اُن کے اِن تمام بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ میرے دعوے کے قبول کرنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں.اور ان ملکوں میں سے دن بدن عیسائی مذہب خود بخود برف کی طرح پگلتا جاتا ہے.(۸) آٹھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ اُس کے وقت میں ایک ستارہ نکلا تھا.اس خصوصیت میں بھی میں آخری مسیح بنے میں شریک کیا گیا ہوں کیونکہ وہی ستارہ جو مسیح کے وقت میں نکلا تھا دوبارہ میرے وقت میں نکلا ہے.اس بات کی انگریزی اخباروں نے بھی تصدیق کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مسیح کے ظہور کا وقت نزدیک ہے (9) نویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا سو اس واقعہ میں بھی خدا نے مجھے شریک کیا ہے کیونکہ جب میری تکذیب کی گئی تو اس کے بعد نہ صرف سورج بلکہ چاند کو بھی ایک ہی مہینہ میں جو رمضان کا مہینہ تھا گرہن لگا تھا اور نہ ایک دفعہ بلکہ حدیث کے مطابق دو دفعہ یہ واقعہ ہوا.ان دونوں گرہنوں کی انجیلوں میں بھی خبر دی گئی ہے اور قرآن شریف میں بھی یہ خبر ہے اور حدیثوں میں بھی جیسا کہ دار قطنی میں (۱۰) دسویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کو دُکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی سو میرے وقت میں بھی سخت طاعون پھیل گئی (۱۱) گیارہویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ یہودیوں کے علماء نے کوشش کی کہ وہ باغی قرار پاوے اور اس پر مقدمہ بنایا گیا اور زور لگایا گیا کہ اُس کو سزائے موت دی جائے سواس قسم کے مقدمہ میں بھی قضاء وقد رالہی نے مجھے شریک کر دیا کہ ایک خون کا مقدمہ مجھے پر بنایا گیا اور اسی کے ضمن میں مجھے باغی بنانے کی کوشش کی گئی.یہ وہی مقدمہ ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی گواہ بن کر آئے تھے (۱۲) بارھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب وہ صلیب پر چڑھایا گیا تو اُس کے ساتھ ایک چور بھی صلیب پر لٹکایا گیا تھا سو اس واقعہ میں بھی میں شریک کیا گیا ہوں کیونکہ
تذكرة الشهادتين 216 فلسطین سے کشمیر تک جس دن مجھ کو خون کے مقدمہ سے خدا تعالیٰ نے رہائی بخشی.اور اس پیشگوئی کے موافق جو میں خدا سے وحی یقینی پا کر صد ہا لوگوں میں شائع کر چکا تھا مجھ کو کبری فرمایا اس دن میرے ساتھ ایک عیسائی چور بھی عدالت میں پیش کیا گیا تھا.یہ چور عیسائیوں کی مقدس جماعت مکتی فوج میں سے تھا جس نے کچھ روپیہ چُرا لیا تھا.اس چور کو صرف تین مہینہ کی سزا ملی.پہلے مسیح کے رفیق چور کی طرح سزائے موت اس کو نہیں ہوئی (۱۳) تیرھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ جب وہ پیلاطوس گورنر کے سامنے پیش کیا گیا اور سزائے موت کی درخواست کی گئی تو پیلاطوس نے کہا کہ میں اس کا کوئی گناہ نہیں پاتا جس سے یہ سزا دوں.ایسا ہی کپتان ڈگلس صاحب ضلع مجسٹریٹ نے میرے ایک سوال کے جواب میں مجھ کو کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا.میرے خیال میں ہے کہ کپتان ڈگلس اپنی استقامت اور عادلانہ شجاعت میں پیلاطوس سے بہت بڑھ کر تھا کیونکہ پیلاطوس نے آخر کار بزدلی دکھائی اور یہودیوں کے شریر مولویوں سے ڈر گیا.مگر ڈگلس ہرگز نہ ڈرا.اس کو مولوی محمد حسین نے کرسی مانگ کر کہا کہ میرے پاس صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر کی چٹھیاں ہیں مگر کپتان ڈگلس نے اس کی کچھ پروا نہ کی.اور میں باوجودیکہ ملزم تھا مجھے گر سی دی اور اس کو گرسی کی درخواست پر جھڑک دیا اور گرسی نه دی اگر چه آسمان پر گرسی پانے والے زمین کی گرسی کے کچھ محتاج نہیں ہیں مگر یہ نیک اخلاق اس ہمارے وقت کے پیلاطوس کے ہمیشہ ہمیں اور ہماری جماعت کو یادر ہیں گے اور دنیا کے اخیر تک اس کا نام عزت سے لیا جائے گا.(۱۴) چودھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا.مگر با ایں ہمہ موسوی سلسلہ کا آخری پیغمبر تھا.جو موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوا.ایسا ہی میں بھی خاندان قریش میں سے نہیں ہوں اور چودھویں صدی میں مبعوث ہوا ہوں اور سب سے آخر ہوں.(۱۵) پندرھویں خصوصیت حضرت مسیح میں یہ تھی کہ اُن کے عہد میں دنیا کی وضع جدید ہوگئی تھی.سڑکیں ایجاد ہو گئی
لیکچر سیالکوٹ 217 فلسطین سے کشمیر تک تھیں.ڈاک کا عمدہ انتظام ہو گیا تھا.فوجی انتظام میں بہت صلاحیت پیدا ہوگئی تھی اور مسافروں کے آرام کے لئے بہت کچھ باتیں ایجاد ہوگئی تھیں اور پہلے کی نسبت قانون معدلت نہایت صاف ہو گیا تھا.ایسا ہی میرے وقت میں دنیا کے آرام کے اسباب بہت ترقی کر گئے ہیں.یہاں تک کہ ریل کی سواری پیدا ہوگئی جس کی خبر قرآن شریف میں پائی جاتی ہے.باقی امور کو پڑھنے والا خود سمجھ لے.(۱۶) سولہویں خصوصیت حضرت مسیح میں یہ تھی کہ بن باپ ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے وہ مشابہ تھے ایسا ہی میں بھی تو ام پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے مشابہ ہوں اور اس قول کے مطابق جو حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ خاتم الخلفاء صینی الاصل ہوگا یعنی مغلوں میں سے اور وہ جوڑہ یعنی توام پیدا ہوگا.پہلے لڑکی نکلے گی بعد اس کے وہ پیدا ہوگا.ایک ہی وقت میں اسی طرح میری پیدائش ہوئی کہ جمعہ کی صبح کو بطور توام میں پیدا ہوا.اول لڑکی اور بعدہ میں پیدا ہوا.نہ معلوم کہ یہ پیشگوئی کہاں سے ابن عربی صاحب نے لی تھی جو پوری ہوگئی.ان کی کتابوں میں اب تک یہ پیشگوئی موجود ہے.یہ سولہ مشابہتیں ہیں جو مجھ میں اور مسیح میں ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کا روبار انسان کا ہوتا تو مجھ میں اور مسیح ابن مریم میں اس قدر مشابہت ہرگز نہ ہوتی.( تذکرۃ الشہا دتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 25 تا 35 ) وإن مرهم عيسى آية بيّنة على موته، فما لهم لا يفكرون في هذه الآية ولا به ينتفعون؟ علامات المقربين، تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 124) لیکچر سیالکوٹ (1904ء) پھر ماسوائے اس کے اگر یہ بات صحیح ہے کہ آیت بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ * کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسی آسمان دوم کی طرف اُٹھائے گئے تو پھر پیش کرنا چاہئے کہ اصل متنازعہ فیہ امر کا فیصلہ کس آیت میں بتلایا گیا ہے.یہودی جواب تک زندہ اور موجود ہیں وہ تو حضرت مسیح النساء: 159
لیکچر سیالکوٹ 218 فلسطین سے کشمیر تک کے رفع کے انہیں معنوں سے منکر ہیں کہ وہ نعوذ باللہ مومن اور صادق نہ تھے اور ان کی روح کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا اور شک ہو تو یہودیوں کے علماء سے جا کر پوچھ لو کہ وہ صلیبی موت سے یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ اس موت سے روح معہ جسم آسمان پر نہیں جاتی.بلکہ وہ بالا تفاق یہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ ملعون ہے.اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت عیسی کی صلیبی موت سے انکار کیا اور فرمایا وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ با ے اور صَلَبُوهُ کے ساتھ آیت میں قَتَلُوهُ کا لفظ بڑھا دیا.تا اس بات پر دلالت کرے کہ ا صرف صلیب پر چڑھایا جانا موجب لعنت نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ صلیب پر چڑھایا بھی جائے اور بہ نیت قتل اس کی ٹانگیں بھی توڑی جائیں اور اس کو مارا بھی جائے تب وہ موت ملعون کی موت کہلائے گی مگر خدا نے حضرت عیسیٰ کو اس موت سے بچالیا.وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر صلیب کے ذریعہ سے ان کی موت نہیں ہوئی.ہاں یہود کے دلوں میں یہ محبہ ڈال دیا کہ گویا وہ صلیب پر مر گئے ہیں اور یہی دھوکا نصاریٰ کو بھی لگ گیا.ہاں انہوں نے خیال کیا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہو گئے ہیں لیکن اصل بات صرف اتنی تھی کہ اس صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے تھے اور یہی معنی شُبِّهَ لَهُمْ کے ہیں.اس واقعہ پر مرہم عیسی کا نسخہ ایک عجیب شہادت ہے جو صد ہا سال سے عبرانیوں اور رومیوں اور یونانیوں اور اہل اسلام کی قرابادینوں میں مندرج ہوتا چلا آیا ہے جس کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ حضرت عیسی کے واسطے یہ نسخہ بنایا گیا تھا.غرض یہ خیالات نہایت قابل شرم ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو معہ جسم آسمان پر اٹھا لے گیا تھا.گویا یہودیوں سے ڈرتا تھا کہ کہیں پکڑ نہ لیں.جن لوگوں کو اصل تنازعہ کی خبر نہ تھی انہوں نے ایسے خیالات پھیلائے ہیں اور ایسے خیالات میں آنحضرت صلعم کی ہجو ہے کیونکہ آپ سے کفار قریش نے بتمام تر اصرار یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ آپ ہمارے رُوبرو آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے کر آسمان سے اُتریں تو ہم سب ایمان لے آویں گے اور ان کو یہ جواب ملا تھا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَراً رَّسُولًا لے یعنی میں ایک بشر ہوں اور خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے ا.النساء: 158 ۲.بنی اسرائیل: 94
219 فلسطین سے کشمیر تک لیکچر لدھیانہ ، چشمه مسیحی کہ وعدہ کے برخلاف کسی بشر کو آسمان پر چڑھاوے.حالانکہ وہ وعدہ کر چکا ہے کہ تمام بشر زمین پر ہی اپنی زندگی بسر کریں گے.لیکن حضرت مسیح کو خدا نے آسمان پر معہ جسم چڑھا دیا اور اس وعدہ کا کچھ پاس نہ کیا.جیسا کہ فرمایا تھا فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تخرَجُونَ.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 219 تا 220) لیکچرلدھیانہ(1905ء) پھر دوسری احادیث میں حضرت عیسی کی عمر ۱۲۰ یا ۱۲۵ برس کی قرار دی ہے.ان سب امور پر ایک جائی نظر کرنے کے بعد یہ امر تقویٰ کے خلاف تھا کہ جھٹ پٹ یہ فیصلہ کر دیا جاتا کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور پھر اس کی کوئی نظیر بھی نہیں.عقل بھی یہی تجویز کرتی تھی مگر افسوس ان لوگوں نے ذرا بھی خیال نہ کیا.اور خدا ترسی سے کام نہ لے کر فوراً مجھے دجال کہہ دیا.خیال کرنے کی بات ہے کہ کیا یہ تھوڑی سی بات تھی ؟ افسوس ! لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 267) چشمه سیحی (1906ء) اور ان دنوں میں میں نے ایک ہندو کا رسالہ دیکھا ہے جس نے یہ کوشش کی ہے کہ انجیل بدھ کی تعلیم کا سرقہ ہے اور بدھ کی اخلاقی تعلیم کو پیش کر کے اس کا ثبوت دینا چاہا ہے.اور عجیب تریہ کہ بدھ لوگوں میں وہی قصہ شیطان کا مشہور ہے جو اس کو آزمانے کے لئے کئی جگہ لئے پھرا.پس ہر ایک کو یہ خیال دل میں لانے کا حق ہے کہ تھوڑے سے تغییر سے وہی قصہ انجیل میں بھی بطور سرقہ داخل کر دیا گیا ہے.یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام ہندوستان میں آئے تھے اور حضرت عیسی کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے جس کو ہم نے دلائل سے ثابت کیا ہے.اس صورت میں ایسے معترضین کو اور الاعراف : 26
220 فلسطین سے کشمیر تک بھی حق پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا خیال کریں کہ انا جیل موجودہ در حقیقت بدھ مذہب کا ایک خاکہ ہے.یہ شہادتیں اس قدر گزر چکی ہیں کہ اب مخفی نہیں ہوسکتیں.ایک اور امرتعجب انگیز ہے کہ یوز آسف کی قدیم کتاب (جس کی نسبت اکثر محقق انگریزوں کے بھی یہ خیالات ہیں کہ وہ حضرت عیسی کی پیدائش سے بھی پہلے شائع ہو چکی ہے) جس کے ترجمے تمام ممالک یورپ میں ہو چکے ہیں انجیل کو اس کے اکثر مقامات سے ایسا تو ارد ہے کہ بہت سی عبارتیں باہم ملتی ہیں اور جو انجیلوں میں بعض مثالیں موجود ہیں وہی مثالیں انہیں الفاظ کے ساتھ اس کتاب میں بھی موجود ہیں.اگر ایک شخص ایسا جاہل ہو که گویا اندھا ہو وہ بھی اس کتاب کو دیکھ کر یقین کرے گا کہ انجیل اُسی میں سے چورائی گئی ہے.بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ کتاب گوتم بدھ کی ہے اور اوّل سنسکرت میں تھی اور پھر دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے.چنانچہ بعض محقق انگریز بھی اس بات کے قائل ہیں.مگر اس بات کے ماننے سے انجیل کا کچھ باقی نہیں رہتا.اور نعوذ باللہ حضرت عیسی اپنی تمام تعلیم میں چور ثابت ہوتے ہیں.کتاب موجود ہے.جو چاہے دیکھ لے.مگر ہماری رائے تو یہ ہے کہ خود حضرت عیسی کی یہ انجیل ہے جو ہندوستان کے سفر میں لکھی گئی اور ہم نے بہت سے دلائل سے اس بات کو ثابت بھی کر دیا ہے کہ یہ در حقیقت حضرت عیسی کی انجیل ہے اور دوسری انجیلوں سے زیادہ پاک وصاف ہے.مگر وہ بعض محقق انگریز جو اس کتاب کو بدھ کی کتاب ٹھہراتے ہیں وہ اپنے پاؤں پر آپ تبر مارتے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو سارق قرار دیتے ہیں.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 339 تا 340) اور عیسائیوں پر تو نہایت ہی افسوس ہے جنہوں نے طبعی اور فلسفہ پڑھ کر ڈبو دیا ایک طرف تو آسمانوں کے منکر ہیں اور ایک طرف حضرت عیسی کو آسمان پر بٹھاتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ اگر یہود کی پہلی کتابیں سچی ہیں تو ان کی بنا پر حضرت عیسی کی نبوت ہی ثابت نہیں ہوتی.مثلاً بچے مسیح موعود کیلئے جس کا حضرت عیسی کو دعوئی ہے ملا کی نبی کی کتاب کے رُو سے یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آتا.مگر الیاس تو اب تک نہ
براہین احمدیہ حصہ پنجم 221 فلسطین سے کشمیر تک آیا.درحقیقت یہودیوں کی طرف سے یہ بڑی حجت ہے جس کا جواب حضرت عیسی صفائی سے نہیں دے سکے.یہ قرآن شریف کا حضرت عیسی پر احسان ہے جو ان کی نبوت کا اعلان فرمایا.اور کفارہ کا مسئلہ تو حضرت عیسی نے آپ رڈ کر دیا ہے جبکہ کہا کہ میری یونس نبی کی مثال ہے جو تین دن زندہ مچھلی کے پیٹ میں رہا.اب اگر حضرت عیسی در حقیقت صلیب پر مر گئے تھے تو اُن کو یونس سے کیا مشابہت اور یونس کو ان سے کیا نسبت ؟ اس تمثیل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی صلیب پر مرے نہیں صرف یونس کی طرح بے ہوش ہو گئے تھے اور نسخہ مرہم عیسی جو قریباً تمام طبی کتابوں میں پایا جاتا ہے اس کے عنوان میں لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسی کیلئے طیار کیا گیا تھا یعنی ان کی چوٹوں کے لئے جو صلیب پر آئی تھیں.اگر در خانه کس است ہمیں قدر بس است چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 358) بر الان احمد یہ حصہ پنجم ( 1905 ء ) ہم ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عیسی کا زندہ آسمان پر جانا محض گپ ہے بلکہ وہ صلیب سے بیچ کر پوشیدہ طور پر ایران اور افغانستان کا سیر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور ایک لمبی عمر وہاں بسر کی.آخر فوت ہو کر سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہوئے اور اب تک آپ کی و ہیں قبر ہے.يُزَارُ وَيُتَبَرَّكُ بِہ اور صلیب پر آپ فوت نہیں ہوئے.کچھ زخم بدن پر آئے تھے جن کا مرہم عیسی کے ساتھ علاج کیا گیا تھا.اور اس مرہم کا نام اسی وجہ سے مرہم عیسی رکھا گیا.منہ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 262 حاشیہ) مولوی سید محمد عبدالواحد صاحب کے بعض شبہات کا ازالہ یہ مولوی صاحب مقام برہمن بڑ یہ ضلع ٹپارہ ملک بنگالہ میں مدرس سکول و قاضی ہیں.منہ ) قولہ.آیت کریمہ میں یہ شبہ باقی ہے کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ * کے اگر یہ معنے ہیں کہ النساء: 158
براہین احمدیہ حصہ پنج 222 فلسطین سے کشمیر تک صلیب کے ذریعہ سے یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ہلاک نہیں کیا تھا تو اس تقدیر میں مَا قَتَلُوهُ کا لفظ جو اُس پر مقدم ہے محض بیکار ہو جاتا ہے.اور اگر یہ کہا جاوے کہ ما فَتَلُوہ کے لفظ کو اس لئے بڑھایا گیا ہے تا کہ دلالت کرے اس بات پر کہ بہ نیت قتل ٹانگیں ان کی نہیں توڑی گئیں تھیں تو بر تقدیر تسلیم اس بات کے بھی لفظ مَا قَتَلُوهُ کا بعد لفظ مَا صَلَبُوہ کے واقع ہونا چاہیئے تھا کیونکہ ٹانگیں بعد صلیب سے اتارے جانے کے توڑی جاتی ہیں.پس وجہ تقدیم مَا قَتَلُوہ کی اوپر مَا صَلَبُوہ کے کیا ہے؟ ارشاد فرماویں.اقول.یادر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیتیں ہیں جن میں مذکورہ بالا ذکر ہے وَقَوْلِهِمُ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا.بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَ كَانَ اللَّهُ عَزِيزاً حَكِيمًا الجزو نمبر 4 سورۃ النساء ترجمہ.اور ان کا (یعنی یہود کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ کوقتل کر دیا ہے حالانکہ نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ صلیب دیا بلکہ یہ امر اُن پر مشتبہ ہو گیا.اور جو لوگ عیسی کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ( یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ عیسی زندہ آسمان پر اٹھایا گیا اور یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کو ہلاک کر دیا ) یہ دونوں گروه محض شک میں پڑے ہوئے ہیں حقیقت حال کی اُن کو کچھ بھی خبر نہیں اور صحیح علم ان کو حاصل نہیں محض انکلوں کی پیروی کرتے ہیں.یعنی نہ عیسی آسمان پر گیا جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے اور نہ یہودیوں کے ہاتھوں سے ہلاک کیا گیا جیسا کہ یہودیوں کا گمان ہے بلکہ صحیح بات ایک تیسری بات ہے کہ وہ مخلصی پا کر ایک دوسرے ملک میں چلا گیا اور خود یہودی یقین نہیں رکھتے کہ انہوں نے اس کو قتل کر دیا بلکہ خدا نے اُس کو اپنی طرف اُٹھا لیا اور خدا غالب اور حکمتوں والا ہے.اب ظاہر ہے کہ ان آیات کے سر پر یہ قول یہودیوں کی طرف سے منقول ہے کہ انا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَم.لا یعنی ہم نے مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کیا.سو جس قول کو خدا تعالیٰ نے یہودیوں کی طرف سے بیان فرمایا ہے ضرور تھا کہ پہلے اسی کو رڈ کیا ا.النساء: 1158159 ۲.النساء: 158
223 فلسطین سے کشمیر تک براہین احمدیہ حصہ پنجم جاتا اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قتلوا کے لفظ کو صَلَبُوا کے لفظ پر مقدم بیان کیا.کیونکہ جو دعوئی اس مقام میں یہودیوں کی طرف سے بیان کیا گیا ہے وہ تو یہی ہے کہ انا ☆ قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ.پھر بعد اس کے یہ بھی معلوم ہو کہ حضرت عیسی کے ہلاک کرنے کے بارے میں کہ کس طرح ان کو ہلاک کیا یہودیوں کے مذہب قدیم سے دو ہیں.ایک فرقہ تو کہتا ہے کہ تلوار کے ساتھ پہلے ان کو قتل کیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو لوگوں کی عبرت کے لئے صلیب پر یا درخت پر لٹکایا گیا.اور دوسرا فرقہ یہ کہتا ہے کہ اُن کو صلیب دیا گیا تھا اور پھر بعد صلیب ان کو قتل کیا گیا.اور یہ دونوں فرقے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں.پس چونکہ ہلاک کرنے کے وسائل میں یہودیوں کو اختلاف تھا.بعض ان کی ہلاکت کا ذریعہ اول قتل قرار دے کر پھر صلیب کے قائل تھے اور بعض صلیب کو قتل پر مقدم سمجھتے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ دونوں فرقوں کا رد کر دے.مگر چونکہ جس فرقہ کی تحریک سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وہی ہیں جو قبل از صلیب قتل کا عقیدہ رکھتے تھے اس لئے قتل کے گمان کا ازالہ پہلے کر دیا گیا اور صلیب کے خیال کا ازالہ بعد میں.افسوس کہ یہ شبہات دلوں میں اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ عموماً اکثر مسلمانوں کو نہ یہودیوں کے فرقوں اور ان کے عقیدہ سے پوری واقفیت ہے اور نہ عیسائیوں کے عقیدوں کی پوری اطلاع ہے.لہذا میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس جگہ میں یہودیوں کی ایک پرانی کتاب میں سے جو قریباً انیس سو برس کی تالیف ہے اور اس جگہ ہمارے پاس موجود ہے ان کے اس عقیدہ کی نسبت جو حضرت مسیح کے قتل کرنے کے بارے میں ایک فرقہ ان کا رکھتا ہے بیان کر دوں.اور یادر ہے کہ اس کتاب کا نام تولیدوت یشوع ہے جو ایک قدیم زمانہ کی ایک عبرانی کتاب مصنفہ بعض علماء یہود ہے.چنانچہ اس کتاب کے صفحہ اس میں لکھا ہے.” پھر وہ ( یعنی یہودی لوگ ) یسوع کو باہر سزا کے میدان میں لے گئے اور اس کو سنگسار کر کے مارڈالا اور جب وہ مر گیا تب اس کو کاٹھ پر لٹکا دیا تا کہ اس کی لاش کو جانور کھائیں اور اس طرح مردہ کی ذلّت ہو.اس قول کی تائید انجیل کے اس قول سے بھی ہوتی وو النساء : 158
براہین احمدیہ حصہ پنجم 224 فلسطین سے کشمیر تک ہے جہاں لکھا ہے کہ یسوع جسے تم نے قتل کر کے کاٹھ پر لٹکا یا “.دیکھو اعمال باب ۵ آیت ۳۰.انجیل کے اس فقرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے قتل کیا پھر کاٹھ پر لٹکایا اور یادر ہے کہ جیسا کہ پادریوں کی عادت ہے انجیلوں کے بعض اردو تر جمہ میں اس فقرہ کو بدلا کر لکھ دیا گیا ہے مگر انگریزی انجیلوں میں اب تک وہی فقرہ ہے جوا بھی ہم نے نقل کیا ہے.بہر حال یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہودیوں کے حضرت عیسی کے ہلاک کرنے کے بارے میں دو مذہب ہیں.جن میں سے ایک یہ ہے کہ اول قتل کیا اور پھر صلیب دیا.پس اس مذہب کا بھی رد کرنا ضروری تھا اور ایسے خیال کے لوگوں کا پہلی آیت میں ذکر بھی ہے.یعنی اس آیت میں کہ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ * پس جب کہ دعوی یہ تھا کہ ہم نے عیسی کو قتل کیا.تو ضرور تھا کہ پہلے اسی دعویٰ کو رد کیا جاتا.لیکن خدا تعالیٰ نے روکو مکمل کرنے کے لئے دوسرے فرقہ کا بھی اس جگہ رد کر دیا جو کہتے تھے کہ ہم نے پہلے صلیب دیا ہے.پس اس کے رد کے لئے مَا صَلَبُوہ فرما دیا اور بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنًا * ترجمہ : یعنی عیسی نہ قتل کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا بلکہ ان لوگوں پر حقیقت حال مشتبہ کی گئی.اور یہود و نصاری جو مسیح کے قتل یا رفع روحانی میں اختلاف رکھتے ہیں محض شک میں مبتلا ہیں.اُن میں سے کسی کو بھی علم صحیح حاصل نہیں محض ظقوں اور شکوک میں گرفتار ہیں اور وہ خود یقین نہیں رکھتے کہ سچ مچ عیسی کو قتل کر دیا گیا تھا.اور یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں میں بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے یعنی یہ عقیدہ بالکل غلط ہے کہ مسیح زندہ آسمان پر بیٹھا ہے بلکہ درحقیقت وہ فوت ہو چکا ہے اور یہ جو وعدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح دوبارہ آئے گا اس آمد ثانی سے مراد ایک ایسے آدمی کا آنا ہے کہ جو عیسی مسیح کی خو اور خلق پر ہوگا نہ یہ کہ عیسی خود آ جائے گا.چنانچہ کتاب نیولائف آف جیزس جلد اوّل صفحہ ۴۱۰ مصنفہ ڈی ایف سٹر اس میں اس کے النساء: 158
براہین احمدیہ حصہ پنجم 225 فلسطین سے کشمیر تک متعلق ایک عبارت ہے جس کو میں اپنی کتاب ” تحفہ گولڑویہ کے صفحہ ۱۲۷ میں درج کر چکا ہوں اور اس جگہ اس کے ترجمہ پر کفایت کی جاتی ہے.اور وہ یہ ہے:.اگر چہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں پر میخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے اس واسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشیخ میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں.پس اگر فرض بھی کر لیا جاوے کہ قریب چھ گھنٹہ صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا.تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی.اور جب شفا دینے والی مر ہمیں اور نہایت خوشبودار دوائیاں مل کر اُسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اُس کی بیہوشی دور ہوئی.اس دعویٰ کی دلیل میں عموما یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں میں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں ان میں سے میں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے.پس ٹیٹس (حاکم وقت) سے اُن کے اتار لینے کی اجازت حاصل کی اور ان کو فوراً اتار کر اُن کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے.“ اور کتاب ”ماڈرن دوٹ اینڈ کرسچن بیلیف“ کے صفحہ ۴۵۵ و ۴۵۷ و ۳۴۷ میں انگریزی میں ایک عبارت ہے جس کو ہم اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحہ ۱۳۸ میں لکھ چکے ہیں.ترجمہ اس کا ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:.شلیر میجر اور نیز قدیم متقین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہراً موت کی سی حالت ہوگئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتا رہا اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا.اور یسعیا نبی کی کتاب باب ۵۳ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی دعا بھی جو انجیل میں موجود ہے یہی ظاہر کر رہی ہے جیسا کہ اُس میں لکھا ہے.دَعَا بِدُ مُوعٍ جَارِيَةٍ وعَبَرَاتٍ مُتَحَدِرَةٍ فَسُمِعَ لِتَقْوَاهُ.یعنی عیسی نے بہت
براہین احمدیہ حصہ پنجم 226 فلسطین سے کشمیر تک گریہ وزاری سے دُعا کی اور اُس کے آنسو اُس کے رخساروں پر پڑتے تھے پس بوجہ اُس کے تقویٰ کے وہ دُعا منظور ہوگئی.اور کرئیر ڈلا سیرا جنوبی اٹلی کے سب سے مشہور اخبار نے مندرجہ ذیل عجیب خبر شائع کی ہے ۱۳.جولائی ۱۸۷۹ء کو یروشلم میں ایک بوڑھا راہب مسمی کور مرا جو اپنی زندگی میں ایک ولی مشہور تھا.اُس کے پیچھے اس کی کچھ جائیداد رہی.اور گورنر نے اس کے رشتہ داروں کو تلاش کر کے اُن کے حوالے دولاکھ فرینک (ایک لاکھ پونے اُنیس ہزار روپیہ) کئے جو مختلف ملکوں کے سکوں میں تھے.اور اس غار میں سے ملے جہاں وہ راہب بہت عرصہ سے رہتا تھا.روپیہ کے ساتھ بعض کا غذات بھی ان رشتہ داروں کو ملے جن کو وہ پڑھ نہ سکتے تھے.چند عبرانی زبان کے فاضلوں کو ان کا غذات کے دیکھنے کا موقعہ ملا تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ یہ کا غذات بہت ہی پرانی عبرانی زبان میں تھے.جب ان کو پڑھا گیا تو اُن میں یہ عبارت تھی.پطرس ماہی گیر یسوع مریم کے بیٹے کا خادم اس طرح پر لوگوں کو خدا تعالیٰ کے نام میں اور اس کی مرضی کے مطابق خطاب کرتا ہے.اور یہ خط اس طرح ختم ہوتا ہے.دو میں پطرس ماہی گیر نے یسوع کے نام میں اور اپنی عمر کے نوے سال میں یہ محبت کے الفاظ اپنے آقا اور مولیٰ یسوع مسیح مریم کے بیٹے کی موت کے تین عید فسح بعد ( یعنی تین سال بعد ) خداوند کے مقدس گھر کے نزدیک بولیر کے مقام میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے.“ ان فاضلوں نے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نسخہ پطرس کے وقت کا چلا آتا ہے.لنڈن بائیبل سوسائٹی کی بھی یہی رائے ہے اور ان کا اچھی طرح امتحان کرانے کے بعد بائیبل سوسائٹی اب ان کے عوض چار لاکھ لیرا ( دولاکھ ساڑھے سینتیس ہزار روپیہ ) مالکوں کو دے کر کاغذات کو لینا چاہتی ہے.یسوع ابن مریم کی دعا.ان دونوں پر سلام ہو.اُس نے کہا.اے میرے خدا میں اس قابل نہیں کہ اس چیز پر غالب آ سکوں جس کو میں بُراسمجھتا ہوں.نہ میں نے اس نیکی کو حاصل کیا ہے جس کی مجھے خواہش تھی مگر دوسرے لوگ اپنے اجر کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور میں نہیں.لیکن میری بڑائی میرے کام میں ہے.مجھ سے زیادہ بُری حالت میں کوئی
براہین احمدیہ حصہ پنج 227 فلسطین سے کشمیر تک شخص نہیں ہے.اے خدا جو سب سے بلند تر ہے میرے گناہ معاف کر.اے خدا ایسا نہ کر کہ میں اپنے دشمنوں کے لئے الزام کا سبب ہوں.نہ مجھے اپنے دوستوں کی نظر میں حقیر ٹھہرا اور ایسا نہ ہو کہ میرا تقویٰیٰ مجھے مصائب میں ڈالے.ایسا نہ کر کہ یہی دنیا میری بڑی خوشی کی جگہ یا میرا بڑا مقصد ہو اور ایسے شخص کو مجھ پر مسلط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے.اے خدا جو بڑے رحم والا ہے اپنے رحم کی خاطر ایسا ہی کر.تو ان سب پر رحم کرتا ہے جو تیرے رحم کے حاجت مند ہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 336 تا345) یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسی کو قتل کر دیا اس قول سے یہودیوں کا مطلب یہ تھا کہ عیسیٰ کا مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا پیغمبر قتل کیا جاتا ہے.پس خدا نے اس کا جواب دیا کہ عیسی قتل نہیں ہوا بلکہ ایمانداروں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف اس کا رفع ہوا.منہ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 337 حاشیہ ) یہودی فاضل جواب تک موجود ہیں اور بمبئی اور کلکتہ میں بھی پائے جاتے ہیں عیسائیوں کے اس قول پر کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر چلے گئے بڑا ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں جنہوں نے اصل بات کو سمجھا نہیں.کیونکہ قدیم یہودیوں کا تو یہ دعوی تھا کہ جو شخص صلیب دیا جائے وہ بے دین ہوتا ہے اور اس کی رُوح آسمان پر اٹھائی نہیں جاتی.اس دعوی کے رد کرنے کے لئے عیسائیوں نے یہ بات بنائی کہ گویا حضرت عیسی مع جسم آسمان پر چلے گئے ہیں تا وہ داغ جو مصلوب ہونے سے حضرت عیسی پر لگتا تھا وہ دُور کر دیں مگر اس منصوبہ میں انہوں نے نہایت نادانی ظاہر کی کیونکہ یہودیوں کا یہ تو عقیدہ نہیں کہ جو شخص مع جسم آسمان پر نہ جاوے وہ بے دین اور کا فر ہوتا ہے اور اس کی نجات نہیں ہوتی.کیونکہ بموجب عقیدہ یہودیوں کے حضرت موسیٰ بھی مع جسم آسمان پر نہیں گئے.یہودیوں کی حجت تو یہ تھی کہ بموجب حکم تو ریت کے جو شخص کا ٹھ پر لڑکا یا جائے اس کی رُوح آسمان پر اُٹھائی نہیں جاتی کیونکہ صلیب جرائم پیشہ لوگوں کے
براہین احمدیہ حصہ پنجم 228 فلسطین سے کشمیر تک ہلاک کرنے کا آلہ ہے.پس خدا اس سے پاک تر ہے کہ ایک مطہر اور راستباز مومن کو صلیب کے ذریعہ ہلاک کرے سو توریت میں یہی حکم لکھ دیا گیا کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ مومن نہیں اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی نہیں جاتی یعنی رفع الی اللہ نہیں ہوتا اور جب کہ مسیح صلیب کے ذریعہ سے ہلاک ہو گیا تو اس سے نعوذ باللہ بقول یہود ثابت ہو گیا کہ وہ ایمان دار نہ تھا.اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی نہیں گئی.پس اس کے مقابل پر یہ کہنا کہ میسج مع جسم آسمان پر چلا گیا یہ حماقت ہے اور ایسے بیہودہ جواب سے یہودیوں کا اعتراض بدستور قائم رہتا ہے کیونکہ ان کا اعتراض رفع روحانی کے متعلق ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو نہ رفع جسمانی کے متعلق جو آسمان کی طرف ہو.اور قرآن شریف جو اختلاف نصاریٰ اور یہود کا فیصلہ کرنے والا ہے اس نے اپنے فیصلہ میں یہی فرمایا کہ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ یعنی خدا نے عیسی کو اپنی طرف اٹھالیا.اور ظاہر ہے کہ خدا کی طرف رُوح اٹھائی جاتی ہے نہ جسم.خدا نے یہ تو نہیں فرمایا کہ بل رفعه الله الى السماء بلکہ فرمایا کہ بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ' اور اس مقام میں خدا تعالیٰ کا صرف یہ کام تھا جو یہودیوں کا اعتراض دُور کرتا جو رفع رُوحانی کے انکار میں ہے اور نیز عیسائیوں کی غلطی کو دُور فرماتا.پس خدا تعالیٰ نے ایک ایسا جامع لفظ فرمایا جس سے دونوں فریق کی غلطی کو ثابت کر دیا.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ صرف یہی ثابت نہیں کرتا کہ میسیج کا رفع روحانی خدا تعالیٰ کی طرف ہو گیا اور وہ مومن ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ آسمان کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا کیونکہ خدا تعالیٰ جو جسم اور جہات اور احتیاج مکان سے پاک ہے اس کی طرف رفع ہونا صاف بتلا رہا ہے کہ وہ جسمانی رفع نہیں بلکہ جس طرح اور تمام مومنوں کی رُوحیں اُس کی طرف جاتی ہیں.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی روح بھی اُس کی طرف گئی.ہر ایک ذی علم جانتا ہے کہ قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہے کہ جب مومن فوت ہوتا ہے اس کی رُوح خدا کی طرف جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي یعنی اے رُوح اطمینان یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلی آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اُس سے راضی.اور ا.النساء: 159 الفجر : 829
229 فلسطین سے کشمیر تک براہین احمدیہ حصہ پنجم میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا.اور یہی یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ مومن کی رُوح کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے اور بے دین اور کافر کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کو کافر اور بے دین سمجھتے تھے کہ اس شخص نے خدا پر افتراء کیا ہے اور یہ سچا نبی نہیں ہے.اور اگر سچا ہوتا تو اُس کے آنے سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آتا.اسی لئے وہ لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے اور اب تک رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی کی رُوح مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں گئی بلکہ نعوذ باللہ شیطان کی طرف گئی.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہود کو جھوٹا ٹھہرایا اور ساتھ ہی عیسائیوں کو بھی دروغ گو قرار دیا.یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام پر بڑے بڑے افتراء کئے ہیں.ایک جگہ طالمود میں جو یہودیوں کی حدیثوں کی کتاب ہے لکھا ہے کہ یسوع کی لاش کو جب دفن کیا گیا تو ایک باغبان نے جس کا نام یہودا اسکر یوطی تھا لاش کو قبر سے نکال کر ایک جگہ پانی کے روکنے کے واسطے بطور بندھ کے رکھ دیا.یسوع کے شاگردوں نے جب قبر کو خالی پایا تو شور مچادیا کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا تب وہ لاش ملکہ ہمیلینیا کے روبروسب کو دکھائی گئی اور یسوع کے شاگر دسخت شرمندہ ہوۓ (لعنة الله على الكاذبين ) دیکھو جیوئش انسائیکلو پیڈ یا صفحہ ۱۷۲ جلد نمبرے.یہ انسائیکلو پیڈیا یہودیوں کی ہے.منہ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 338 تا 342 حاشیہ ) قولہ.آپ کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے.پس اول تو اُس زمانہ میں کشمیر تک پہنچنا کچھ آسان امر نہ تھا.خصوصاً خفیہ طور پر اور پھر یہ اعتراض ہے کہ حواری اُن کے پاس کیوں جمع نہ ہوئے اور حضرت عیسی زندہ درگور کی طرح مخفی رہے.اقول.جس خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کشمیر کی طرف جانے کی ہدایت کی تھی وہی ان کا رہنما ہو گیا تھا.پس نبی کے لئے یہ کیا تعجب کی بات ہے کہ کس طرح وہ کشمیر پہنچ گیا اور اگر ایسا ہی تعجب کرنا ہے تو ایک بے دین اس بات سے بھی تعجب کر سکتا ہے کہ کیونکر
براہین احمدیہ حصہ پنجم 230 فلسطین سے کشمیر تک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت باوجود اس کے کہ کفار عین غار ثور کے سر پر پہنچ گئے تھے پھر اُن کی آنکھوں سے پوشیدہ رہے.پس ایسے اعتراضات کا یہی جواب ہے کہ خدا کا خاص فضل جو خارق عادت طور پر نبیوں کے شامل حال ہوتا ہے ان کو بچاتا اور اُن کی رہنمائی کرتا ہے.رہی یہ بات کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کشمیر میں گئے تھے تو حواری اُن کے پاس کیوں نہ پہنچے تو اس کا یہ جواب ہے کہ عدم علم سے عدم کے لازم نہیں آتا.آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ نہیں پہنچے.ہاں چونکہ وہ سفر پوشیدہ طور پر تھا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت کے وقت پوشیدہ طور پر تھا.اس لئے وہ سفر ایک بڑے قافلہ کے ساتھ مناسب نہیں سمجھا گیا تھا جیسا کہ ظاہر ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی تو صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ساتھ تھے اور اُس وقت بھی دوسوکوس کا فاصلہ کر کے مدینہ میں جانا سہل امر نہ تھا.اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ساٹھ ستر آدمی اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے مگر آپ نے صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا رفیق بنایا.پس انبیاء کے اسرار میں دخل دینا ایک بیجا دخل ہے.اور یہ کس طرح معلوم ہوا کہ بعد میں بھی حواری حضرت عیسی علیہ السلام کے ملنے کے لئے ملک ہند میں نہیں آئے بلکہ عیسائی اس بات کے خود قائل ہیں کہ بعض حواری اُن دنوں میں ملک ہند میں ضرور آئے تھے اور دھو ما حواری کا مدراس میں آنا اور اب تک مدراس میں ہر سال اُس کی یادگار میں عیسائیوں کا ایک اجتماع میلہ کی طرح ہونا یہ ایسا امر ہے کہ کسی واقف کار پر پوشیدہ نہیں.بلکہ ہم لوگ جس قبر کو سری نگر کشمیر میں حضرت عیسی کی قبر کہتے ہیں عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی حواری کی قبر ہے.حالانکہ صاحب قبر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نبی ہوں اور شاہزادہ ہوں اور میرے پرانجیل نازل ہوئی تھی اور کشمیر کی پُرانی تاریخی کتابیں جو ہمارے ہاتھ آئیں اُن میں لکھا ہے کہ یہ ایک نبی بنی اسرائیل میں سے تھا جو شاہزادہ نبی کہلاتا تھا.اور اپنے ملک سے کشمیر میں ہجرت کر کے آیا تھا.اور ان کتابوں میں جو تاریخ آمد لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات پر اب ہمارے زمانہ میں اُنیس سو برس گزر گئے جب یہ نبی کشمیر میں آیا تھا.اور ہم عیسائیوں کو اس
براہین احمدیہ حصہ پنجم 231 فلسطین سے کشمیر تک طرح ملزم کرتے ہیں کہ جب کہ تمہیں اقرار ہے کہ صاحب اس قبر کا جوسری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہے حضرت عیسی علیہ السلام کا حواری تھا مگر اُس کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نبی تھا اور شاہزادہ تھا اور اس پر انجیل نازل ہوئی تھی تو اس صورت میں وہ حواری کیونکر ہو گیا.کیا کوئی حواری کہہ سکتا ہے کہ میں شاہزادہ ہوں اور نبی ہوں اور میرے پر انجیل نازل ہوئی ہے.پس کچھ شک نہیں کہ یہ قبر جو کشمیر میں ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.اور جو لوگ اُن کو آسمان میں بٹھاتے ہیں اُن کو واضح رہے کہ وہ کشمیر میں یعنی سری نگر محلہ خانیار میں سوئے ہوئے ہیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اصحاب کہف کو مدت تک چھپایا تھا ایسے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی چھپارکھا اور اخیر میں ہم پر حقیقت کھول دی.خدا تعالیٰ کے کاموں میں ایسے ہزار ہا نمونے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے کہ کسی کو مع جسم آسمان پر بٹھا وے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 349 تا 351) انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں.جیسا کہ یہ ذکر صحیح بخاری میں بھی موجود ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی تھی.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی.پس ضرور تھا کہ حضرت عیسی بھی اس سنت کو ادا کرتے.سو انہوں نے واقعہ صلیب کے بعد کشمیر کی طرف ہجرت کی.انجیل میں بھی اس ہجرت کی طرف اشارہ ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں.اس جگہ نبی سے مراد انہوں نے اپنے وجود کو لیا ہے.پس اس جگہ عیسائیوں کے لئے شرم کی جگہ ہے کہ وہ ان کو نبی نہیں بلکہ خدا قرار دیتے ہیں.حالانکہ نبی وہ ہوتا ہے جو خدا سے الہام پاتا ہے.پس خدا اور نبی کا الگ الگ ہونا ضروری ہے.منہ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 350 حاشیہ ) بعض نادان اس جگہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس حالت میں قرآن شریف کی یہ آیت که وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ * اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ المائده: 118
براہین احمدیہ حصہ پنجم 232 فلسطین سے کشمیر تک أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ * صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور میں یہ عذر پیش کریں گے کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑے ہیں نہ میری زندگی میں تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ عقیدہ صحیح ہے کہ حضرت عیسی صلیب سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور کشمیر میں ۸۷ برس عمر بسر کی تھی تو پھر یہ کہنا کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑ گئے صحیح نہیں ہوگا بلکہ یہ کہنا چاہیئے تھا کہ میرے کشمیر کے سفر کے بعد لوگ بگڑے ہیں کیونکہ وفات تو صلیب کے واقعہ سے ستاسی ۸۷ برس بعد ہوئی.پس یادر ہے کہ ایسا وسوسہ صرف قلت تدبّر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ کشمیر کا سفر اس فقرہ کی ضد نہیں کیونکہ ما دُمُتُ فِیهِمُ کے یہ معنے ہیں کہ جب تک میں اپنی امت میں تھا جو میرے پر ایمان لائے تھے یہ معنے نہیں کہ جب تک میں اُن کی زمین میں تھا کیونکہ ہم قبول کرتے ہیں کہ حضرت عیسی زمین شام میں سے ہجرت کر کے کشمیر کی طرف چلے گئے تھے.مگر ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ حضرت عیسی کی والدہ اور آپ کے حواری پیچھے رہ گئے تھے بلکہ تاریخ کی رو سے ثابت ہے کہ حواری بھی کچھ تو حضرت عیسی کے ساتھ اور کچھ بعد میں آپ کو آملے تھے جیسا کہ دھوما حواری حضرت عیسی کے ساتھ آیا تھا باقی حواری بعد میں آگئے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی رفاقت کے لئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا یعنی دھوما کو جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابوبکر کو اختیار کیا تھا.کیونکہ سلطنت رومی حضرت عیسی کو باغی قرار دے چکی تھی اور اس جرم سے پیلاطوس بھی قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ در پردہ حضرت عیسی کا حامی تھا اور اس کی عورت بھی حضرت عیسیٰ کی مرید تھی.پس ضرور تھا کہ حضرت عیسی اس ملک سے پوشیدہ طور پر نکلتے کوئی قافلہ ساتھ نہ لیتے اس لئے انہوں نے اس سفر میں صرف دھو ما حواری کو ساتھ لیا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے سفر میں صرف ابو بکر کو ساتھ لیا تھا اور جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی اصحاب مختلف راہوں سے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے تھے.ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں جا پہنچے تھے.اور جب تک حضرت عیسیٰ ان میں رہے جیسا کہ المائده: 118
براہین احمدیہ حصہ پنجم 233 فلسطین سے کشمیر تک آیت مَّا دُمْتُ فِيهِم م کا منشاء ہے وہ سب لوگ تو حید پر قائم رہے بعد وفات حضرت عیسی علیہ السلام کے ان لوگوں کی اولا د بگڑ گئی.یہ معلوم نہیں کہ کس پشت میں یہ خرابی پیدا ہوئی.مؤرخ لکھتے ہیں کہ تیسری صدی تک دین عیسائی اپنی اصلیت پر تھا بہر حال معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات کے بعد وہ تمام لوگ پھر اپنے وطن کی طرف چلے آئے کیونکہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ قیصر روم عیسائی ہو گیا پھر بے وطنی میں رہنا لا حاصل تھا.اور اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا کشمیر کی طرف سفر کرنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو بے دلیل ہو، بلکہ بڑے بڑے دلائل سے یہ امر ثابت کیا گیا ہے.یہاں تک کہ خود لفظ کشمیر بھی اس پر دلیل ہے کیونکہ لفظ کشمیر وہ لفظ ہے جس کو کشمیری زبان میں کشیر کہتے ہیں.ہر ایک کشمیری اس کو کشیر بولتا ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ لفظ عبرانی ہے کہ جو کاف اور اشیر کے لفظ سے مرکب ہے اورا شیر عبرانی زبان میں شام کے ملک کو کہتے ہیں اور کاف مماثلت کے لئے آتا ہے.پس صورت اس لفظ کی گائ شیر تھی یعنی کاف الگ اور اشیر الگ.جس کے معنے تھے مانند ملک شام یعنی شام کے ملک کی طرح اور چونکہ یہ ملک حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت گاہ تھا اور وہ سر د ملک کے رہنے والے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو تسلی دینے کے لئے اس ملک کا نام کا شیر رکھ دیا.جس کے معنے ہیں انشیر کے ملک کی طرح.پھر کثرت استعمال سے الف ساقط ہو گیا.اور کشیر رہ گیا.پھر بعد اس کے غیر قوموں نے جو کشیر کے باشندے نہ تھے اور نہ اس ملک کی زبان رکھتے تھے ایک میم اس میں زیادہ کر کے کشمیر بنادیا.مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ کشمیری زبان میں اب تک کشیر ہی بولا جاتا اور لکھا جاتا ہے.ما سوا اس کے کشمیر کے ملک میں اور بہت سی چیزوں کے اب تک عبرانی نام پائے جاتے ہیں بلکہ بعض پہاڑوں پر نبیوں کے نام استعمال پاگئے ہیں جن سے سمجھا جاتا ہے کہ عبرانی قوم کسی زمانہ میں ضرور اس جگہ آبادرہ چکی ہے جیسا کہ سلیمان نبی کے نام سے ایک پہاڑ کشمیر میں موجود ہے اور ہم اس مدعا کے ثابت کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست اپنی بعض کتابوں میں شائع کر چکے ہیں جو عبرانی الفاظ اور اسرائیلی نبیوں کے نام پر مشتمل ہے
براہین احمدیہ حصہ پنجم 234 فلسطین سے کشمیر تک جو کشمیر میں اب تک پائے جاتے ہیں.اور کشمیر کی تاریخی کتابیں جو ہم نے بڑی محنت سے جمع کی ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں ان سے بھی مفصلاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں جو اس وقت شمار کی رو سے دو ہزار برس کے قریب گذر گیا ہے ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور شاہزادہ نبی کہلاتا تھا.اس کی قبر محلہ خان یار میں ہے جو یوز آسف کی قبر کر کے مشہور ہے.اب ظاہر ہے کہ یہ کتابیں تو میری پیدائش سے بہت پہلے کشمیر میں شائع ہو چکی ہیں.پس کیونکر کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کشمیریوں نے افترا کے طور پر یہ کتابیں لکھی تھیں.ان لوگوں کو اس افترا کی کیا ضرورت تھی اور کس غرض کے لئے انہوں نے ایسا افترا کیا ؟ اور عجیب تریہ کہ وہ لوگ اب تک اپنی کمال سادہ لوحی سے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی آسمان پر مع جسم عنصری چلے گئے تھے اور پھر باوجود اس اعتقاد کے پورے یقین سے اس بات کو جانتے ہیں کہ ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا کہ جو اپنے تئیں شہزادہ نبی کر کے مشہور کرتا تھا.اور ان کی کتابیں بتلاتی ہیں کہ شمار کی رو سے اس زمانہ کو اب انیس سو برس سے کچھ زیادہ برس گزر گئے ہیں.اس جگہ کشمیریوں کی سادہ لوحی سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ اگر وہ اس بات کا علم رکھتے کہ شاہزادہ نبی بنی اسرائیل میں کون تھا اور وہ نبی کون ہے جس کو اب انیس سو برس گزر گئے تو وہ کبھی ہمیں یہ کتا بیں نہ دکھلاتے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہم نے ان کی سادہ لوحی سے بڑا فائدہ اٹھایا.ماسوا اس کے وہ لوگ شہزادہ نبی کا نام یوز آسف بیان کرتے ہیں یہ لفظ صریح معلوم ہوتا ہے، کہ یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے.آسف عبرانی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو قوم کو تلاش کر نیوالا ہو چونکہ حضرت عیسی اپنی اس قوم کو تلاش کرتے کرتے جو بعض فرقے یہودیوں میں سے گم تھے کشمیر میں پہنچے تھے اس لئے انہوں نے اپنا نام یسوع آسف رکھا تھا اور یوز آسف کی کتاب میں صریح لکھا ہے کہ یوز آسف پر خدا تعالیٰ کی طرف سے انجیل اتری تھی.پس با وجود اس قدر دلائل واضحہ کے کیونکر اس بات سے انکار کیا جائے کہ یوز آسف دراصل حضرت عیسی علیہ السلام ہے ورنہ یہ بارثبوت ہمارے مخالفوں کی گردن پر ہے کہ وہ کون شخص ہے جو اپنے تئیں شاہزادہ نبی ظاہر کرتا تھا جس کا
حقیقة الوحی 235 فلسطین سے کشمیر تک زمانہ حضرت عیسی کے زمانہ سے بالکل مطابق ہے اور یہ پتہ بھی ملا ہے کہ جب حضرت عیسی کشمیر میں آئے تو اس زمانہ کے بدھ مذہب والوں نے اپنی پستکوں میں ان کا کچھ ذکر کیا ہے.ایک اور قوی دلیل اس بات پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِین با یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو ایک ایسے ٹیلے پر پناہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور ہر ایک دشمن کی دست درازی سے دور تھی اور پانی اُس کا بہت خوشگوار تھا.یادر ہے کہ اوای کا لفظ عربی زبان میں اس جگہ بولا جاتا ہے جب ایک مصیبت کے بعد کسی شخص کو پناہ دیتے ہیں ایسی جگہ میں جو دارالامان ہوتا ہے پس وہ دارالامان ملک شام نہیں ہوسکتا کیونکہ ملک شام قیصر روم کی عملداری میں تھا.اور حضرت عیسی قیصر کے باغی قرار پاچکے تھے.پس وہ کشمیر ہی تھا جو شام کے ملک سے مشابہ تھا اور قرار کی جگہ تھی.یعنی امن کی جگہ تھی یعنی قیصر روم کو اس سے کچھ تعلق نہ تھا.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 401 تا405) حقیقۃ الوحی (1907ء) افسوس کس قدر قرآن شریف کی تعریف کی جاتی ہے.یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوْہ بے موجود ہے اس سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں.مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ کسی شخص کا نہ مقتول ہونا نہ مصلوب ہونا اس بات کو ستلزم نہیں کہ وہ مع جسم عصری آسمان پر اٹھایا گیا ہو.اگلی آیت میں صریح یہ لفظ موجود ہیں کہ لكِنْ شُبّه لَهُمْ ے یعنی یہودی قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر اُن کو شبہ میں ڈالا گیا کہ ہم نے قتل کر دیا ہے.پس محبہ میں ڈالنے کے لئے اس بات کی کیا ضرورت تھی کہ کسی اور مومن کو مصلوب کر کے لعنتی بنایا جائے.یا خود یہودیوں میں سے کسی کو حضرت عیسی کی شکل بنا کر صلیب پر چڑھا یا جاوے.کیونکہ اس صورت میں ایسا شخص اپنے تئیں حضرت عیسی کا دشمن ظاہر کر کے اپنے اہل وعیال کے پتے اور نشان ا.المؤمنون: 51 ۲.النساء: 158
چشمه معرفت 236 فلسطین سے کشمیر تک دے کر ایک دم میں مخلصی حاصل کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ عیسی نے جادو سے مجھے اپنی شکل پر بنا دیا ہے یہ کس قدر مجنونانہ تو ہمات ہیں.کیوں لكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ * کے معنی یہ نہیں کرتے کہ حضرت عیسی صلیب پر فوت نہیں ہوئے.مگر غشی کی حالت اُن پر طاری ہوگئی تھی بعد میں دو تین روز تک ہوش میں آگئے اور مرہم عیسی کے استعمال سے ( جو آجنگ صد با طبتی کتابوں میں موجود ہے جو حضرت عیسی کیلئے بنائی گئی تھی ) اُن کے زخم بھی اچھے ہو گئے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 38 تا 39) یہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے ائمہ تعبیر جہاں حضرت عیسی کی رویت کی تعبیر کرتے ہیں وہاں یہ لکھتے ہیں کہ جو شخص حضرت عیسی کو خواب میں دیکھے وہ کسی بلا سے نجات پا کر کسی اور ملک کی طرف چلا جائیگا اور ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف ہجرت کریگا.یہ نہیں لکھتے کہ وہ آسمان پر چڑھ جائیگا.دیکھو کتاب تعطیر الانام اور دوسرے ائمہ کی کتا ہیں.پس عظمند پر حقیقت ظاہر ہونے کے لئے یہ بھی ایک پہلو ہے.منہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 38 حاشیہ ) چشمہ معرفت (1908ء) میں نے یہ بھی ایک روایت میں دیکھا ہے کہ کفار قریش نے شاہ حبشہ کو فروختہ کرنے کے لئے یہ بھی اس کے آگے کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ حضرت عیسی کو گالیاں دیتے اور توہین کرتے ہیں اور ان کا وہ درجہ نہیں مانتے جو آپ کے نزدیک مسلّم ہے مگر نجاشی نے جس کو حق کی خوشبو آ رہی تھی ان لوگوں کی شکایت کی طرف کچھ توجہ نہ کی.مجھے تعجب ہے کہ وہی شکایتیں جو کفار قریش نے حضرت مسیح کا نام لے کر مسلمانوں کو گرفتار کرانے کے لئے نجاشی کے سامنے کی تھیں بعینہ وہ تہمتیں اس وقت کے مخالف مسلمان ہم پر کر رہے ہیں اگر ہم نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں تو اس میں ہمارا کیا گناہ ہے؟ ہمارے وجود سے صدہا برس پہلے خدا تعالیٰ ان کی موت قرآن شریف میں ظاہر کر چکا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں ان کو فوت شدہ نبیوں میں دیکھ چکے ہیں.عجیب تر تو یہ کہ النساء : 158
چشمه معرفت 237 فلسطین سے کشمیر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب ان کی موت کے قائل بھی ہو چکے ہیں اور کتاب تاریخ طبری کے صفحہ ۳۹ے میں ایک بزرگ کی روایت سے حضرت عیسی کی قبر کا بھی حوالہ دیا ہے جو ایک جگہ دیکھی گئی یعنی ایک قبر پر پتھر پایا جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ عیسی کی قبر ہے.یہ قصہ ابن جریر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے جو نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے مگر افسوس! کہ پھر بھی متعصب لوگ حق کو قبول نہیں کرتے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 261 حاشیہ )
ریویو آف ریلیجنز 238 فلسطین سے کشمیر تک ریویو آف ریلیجنز عیسائی مذہب پر ایک خاص ریویو از حضرت مسیح موعود (ستمبر 1903ء) مسیح صلیب پر نہیں مرا اول انجیل کے دو مقام پر غور کرنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح سولی پر ہرگز نہیں مرا چنا نچہ ایک جگہ مسیح خود اپنے قصہ کو یونس بن متی کے قصہ سے مشابہت دیتا ہے بلکہ اس قصہ کو بطور نشان کے قرار دیتا ہے اب ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ کے اندر نہیں مرا تھا اور نہ مردہ ہونے کی حالت میں شکم ماہی میں داخل ہوا تھا تو پھر اگر فرض کیا جائے کہ مسیح مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوا تھا تو یونس کے قصہ سے اس کے قصہ کو کسی طرح مشابہت نہیں رہتی.پس یہ مثال جو اپنے لئے مسیح نے پیش کی ہے ایک دانشمند کے لئے بشرطیکہ اس کی عقل کسی تعصب یا عادت کے نیچے دبی ہوئی نہ ہو.مسیح کی طرف سے ایک صاف گواہی ہے کہ وہ سولی پر نہیں مرا تھا اور قبر میں زندہ داخل ہوا تھا جیسا کہ یونس بھی مچھلی کے پیٹ میں زندہ ہی داخل ہوا تھا اور یونس نبی پر جو ابتلا آیا تھا اصل جڑھ اس کی وہ پیشگوئی تھی جو قوم کی نسبت اس نے کی تھی یعنی یہ کہ چالیس دن کے اندر ان پر عذاب نازل
ریویو آف ریلیجنز 239 فلسطین سے کشمیر تک ہوگا اور وہ عذاب ان پر نازل نہ ہوا اس لئے یونس کے دل پر اس سے بہت صدمہ پہنچا کہ اس کی پیشگوئی غلط نکلی اور وہ قوم سے ڈر کر کسی دوسرے ملک کی طرف بھاگ گیا.اسی طرح مسیح ابن مریم پر جو ابتلا آیا اس کی جڑھ بھی اسکی وہ پیشگوئی تھی جو قوم کی نسبت اس نے کی تھی یعنی یہ کہ وہ اس قوم پر حکمراں اور بادشاہ ہو جائے گا اور داؤد کا تخت اسے ملے گا مگر وہ پیشگوئی ان معنوں کے رو سے جو مسیح نے مجھی پوری نہ ہوئی اور غلط نکلی اس لئے مسیح کو اس کی وجہ سے بہت صدمہ پہنچا اور وہ جیسا کہ اس نے انجیل میں اشارہ کیا ہے ارادہ رکھتا تھا کہ یونس کی طرح کسی اور ملک کی طرف بھاگ جائے کیونکہ اس نے کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں پس اس کے دل میں تھا کہ کسی اور جگہ ہجرت کر کے عزت پاوے اور ہجرت انبیاء علیہم السلام کی سنت میں سے بھی ہے لیکن چونکہ کسی قدر قوم کے ہاتھ سے دکھ اٹھانا اس کی قسمت میں تھا اس لئے اس ارادہ کے پورا کرنے کے پہلے ہی پکڑا گیا اور سولی پر کھینچا گیا مگر جیسا کہ یونس کے قصہ کے خیال سے سمجھا جاتا ہے خدا نے اس کو اس موت سے بچالیا اور اس کی دعا کو جو باغ میں کی تھی اس کے تقویٰ کی وجہ سے قبول کیا.تب اس نے اپنے اس ارادہ کو پورا کیا جو اس کے دل میں تھا اور دوسری گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں وہ دور دراز ملکوں کی طرف نکل گیا اسی وجہ سے اس کا یسوع آسف نام ہوا یعنی گمشدہ قوم کو تلاش کرنے والا.پھر کثرتِ استعمال سے یہ لفظ یوز آسف کے نام سے مشہور ہو گیا.غرض یونس نبی سے مسح کی یہی مماثلت تھی کہ وہ زندگی کی حالت میں ہی یونس کی طرح قبر میں داخل ہوا اور نیز قوم کے ڈر سے دوسرے ملک کی طرف بھاگا.اگر اس مماثلت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر مسیح کا بیان خلاف واقع ٹھہرتا ہے اور نیز بجائے مماثلت کے منافات ثابت ہوتی ہے اور مماثلت کے قبول کرنے سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.پھر دوسری دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.اس کی وہ دعا ہے جو اس نے باغ میں نہایت تضرع اور عاجزی سے کی تھی جس کا مفصل ذکر انجیلوں میں موجود ہے اور میں ہرگز سمجھ نہیں سکتا کہ اس قسم کی دعا کہ مسیح جیسا ایک راستباز ساری رات کرے اور گریہ اور
ریویو آف ریلیجنز 240 فلسطین سے کشمیر تک زاری اور تضرع کو انتہا تک پہنچا دے تب بھی وہ عا قبول نہ ہو.دعا کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ سولی سے بچایا جاوے کیونکہ یہودیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسیح کو سولی دے کر یہ امر لوگوں کے ذہن نشین کریں کہ وہ نعوذ باللہ صادق نہیں ہے اور ان کا ذبوں میں سے ہے جن پر خدا کی لعنت ہے یہی غم تھا جس کی وجہ سے مسیح نے ساری رات دعا کی تھی ورنہ اس کو موت کا کوئی غم نہ تھا اور ایسی حالت میں ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ مسیح کی بریت کے لئے اس کی دعا منظور فرما تا سو وہ دعا منظور کی گئی.چنانچہ انجیل میں صریح الفاظ میں اس کا ذکر ہے کہ مسیح رات کو روتا رہا اور وہ جناب الہی میں چینیں مارتا رہا اور ساری رات اس کے آنسو جاری رہے پس اس کے تقویٰ کی وجہ سے وہ دعا قبول کی گئی دیکھو عبرانیوں 7:5 اس مقام میں عیسائیوں کی عقل اور سمجھ پر بہت سخت تعجب ہے کہ جس حالت میں انجیل خود گواہی دیتی ہے کہ باغ والی دعا قبول کی گئی تو پھر قبول ہونے کے بجز اس کے اور کیا معنے ہیں کہ وہ صلیب پر مرنے سے بچایا گیا.پھر تیسری دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اس کا زندہ دیکھا جانا ہے یعنی وہ بعد صلیب کے اپنے حواریوں کو ملا اور اپنے زخم دکھلائے اور ان کے ساتھ گلیل کی طرف گیا اس جگہ عقل کو اس فتویٰ کے لئے کوئی راہ نہیں کہ وہ مر کر پھر زندہ ہو گیا کیونکہ یہ امر غیر معقول اور سخت بعید از قیاس ہے جو بودی اور کمزور شہادتوں سے ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ عقل کے لئے سہل طریق یہی ہے کہ صلیب پر اس کی جان نہیں نکلی تھی جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایسے اتفاق کئی ہوئے تھے کہ بعض آدمی صلیب پر نہیں مرے تھے.پس طریق معقول کو چھوڑ کر طریق نامعقول کو اختیار کرنا سراسر سچائی سے دشمنی اور جہالت سے دوستی ہے اگر مسیح نئے سرے زندہ کیا جاتا تو اس کو قوم کا کچھ خوف نہ ہوتا کیونکہ جس خدا نے اس کو مار کر پھر زندہ کیا وہ خدا اس کو ضرور بچاتا اور اس کا یقین بڑھ جاتا پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ مسیح دوبارہ زندگی کے بعد بھی یہود سے ڈرتا رہا کہ مجھے پکڑ نہ لیں اور اپنے شاگردوں کو منع کرتا رہا کہ یہود کو میری اطلاع نہ ہوتا ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ پھر آ کر مجھے پکڑ لیں.پھر عجیب در عجیب یہ بات ہے کہ مسیح کو دوبارہ خدا نے زندہ تو کیا مگر اس کے زخموں کے اچھا کرنے پر وہ قادر نہ ہوسکا
ریویو آف ریلیجنز 241 فلسطین سے کشمیر تک اور آخر اچھا کرنے کے لئے اس مرہم کی حاجت پڑی جو آج تک مرہم عیسی کے نام سے مشہور چلی آتی ہے.پھر چوتھی دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا نسخہ مرہم عیسی ہے جو طب کی کتابوں میں جو ہزار کے قریب ہیں بلکہ غالبا اس سے زیادہ ہوں گی اب تک پایا جاتا ہے موجود ہے اور یہ کتابیں یونانی رومی عبرانی فارسی میں موجود ہیں اور اس زمانہ سے عیسوی تاریخ کی دوسری صدی تک ان کتابوں کا پتہ ملتا ہے.اس نسخہ مرہم عیسی کی نسبت طبیب لوگ یہ لکھتے چلے آئے ہیں کہ یہ مرہم حواریوں نے عیسی کے لئے تیار کی تھی اور چونکہ اس مرہم کے فوائد میں یہ لکھا ہے کہ وہ چوٹوں کے لئے بہت مفید ہے اور زخم کو اچھا کرتی ہے اور خون جاری کو بند کرتی ہے پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرہم حضرت مسیح کی ان چوٹوں کے لئے تیار کی گئی تھی جو صلیب سے اس کو پہنچی تھیں.یہ شہادت یعنی نسخہ مرہم عیسی بڑی توجہ کے لائق ہے کیونکہ علمی کتابوں میں یہ درج ہے اور ہزارہا طبیب اس کی تصدیق کرتے آئے ہیں.پھر پانچویں دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.نقودیموس کی انجیل ہے جو لنڈن میں بزبان انگریزی ۱۸۲۰ء میں چھپی تھی اس انجیل کے دسویں باب میں لکھا ہے کہ رومی سپاہیوں نے یہودیوں کو کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم نے یوسف کو جس نے یسوع کی نعش کو کفنایا تھا ایک کوٹھہ میں بند کیا ہے جس کی کلید مہر بند کر کے رکھی تھی اور جب تم نے اس کوٹھہ کو کھولا تو یوسف کو تم نے نہ پایا.ہم کو یوسف کو دو جس کو تم نے ایک کوٹھہ میں بند کیا تھا تو ہم تم کو یسوع کو ( یعنی عیسی علیہ السلام کو ) دے دیں گے جس کی ہم نے قبر میں حفاظت کی تھی یہودیوں نے جواب دیا کہ ہم تم کو یوسف دے دیں گے تم ہم کو یسوع کو دو.یوسف اپنے شہراری ماتھی میں ہے.سپاہیوں نے جواب دیا کہ اگر یوسف اری ماتھی میں ہے تو یسوع گلیل میں ہے.اس لفظ میں صریح اشارہ ہے کہ یسوع یعنی حضرت عیسی صلیب سے بچ کر اپنے شہر گلیل میں چلا گیا تھا.اور اس انجیل پر کچھ موقوف نہیں مروجہ چارا نجیلوں نے پر غور کر کے بھی اس قدرضرور ثابت ہوتا ہے کہ مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا تھا.پس ایک امر قریب القیاس کو چھوڑ کر جو صاف اور سید ھے طور پر معلوم ہو رہا ہے ایک انجو بہ وگل
ریویو آف ریلیجنز 242 فلسطین سے کشمیر تک بعید از قیاس بنانا اور مسیح کو مار کر پھر اس کو زندہ کرنا ایک ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی عقلمند اس کو قبول نہیں کرے گا.کیوں یہ بات نہ مان لی جائے کہ یسوع مسیح صلیب پر نہیں مرا.اور مرنے کے اسباب بھی پیدا نہیں ہوئے تھے نہ اس کی ٹانگیں توڑی گئیں اور نہ وہ بہت دیر تک صلیب پر رکھا گیا پھر کچھ تعجب کی بات نہیں تھی کہ وہ صلیب پر نہ مرتا بلکہ تب کی بات ی تھی کہ باوجود ٹانگیں نہ توڑنے کے وہ صرف تین چار گھنٹہ کی مدت میں صلیب پر مر جا تا.اس واقعہ کی نظیر کسی مصلوب میں نہ پاؤ گے کہ وہ باوجود ٹانگوں کے نہ توڑنے کے اس قدر جلد مر گیا.قیاس تو یہ چاہتا تھا کہ خدا کی جان بہ نسبت انسان کی جان کے بہت دیر کے بعد نکلتی.کیونکہ جس قد رخدا اور انسان میں فرق ہے اسی قدر ان کے مرنے میں بھی فرق ہونا چاہیے.پس یہ کیا بات ہے کہ انسانوں کی تو صلیب پر چھ چھ سات سات دن کے بعد جان نکلے اور وہ جو خدا کہلاتا تھا جس نے اپنی قوی طاقتوں سے دنیا کو نجات دینا تھا وہ تین چار گھنٹہ میں مر جائے.اور یہ جواب صحیح نہیں ہے کہ اگر چہ وہ خدا تھا لیکن تمام دنیا کے گناہ جو یک دفعہ اکٹھے ہو کر اس کی گردن پر پڑے اس لئے وہ کمزور ہو گیا اور ان گناہوں کے بوجھ کی برداشت نہ کر سکا.اس لئے وہ جلد تر مر گیا.کیونکہ اگر وہ گناہوں کے بوجھ کی برداشت نہیں کر سکتا تھا تو کیوں اس نے ایسی فضولی کی کہ میں برداشت کرلوں گا.اور کیوں اس نے کہا کہ میں تمام دنیا کے گناہ اپنے سر پر لے سکتا ہوں.جس حالت میں گناہ غالب رہے جنہوں نے بہت جلد اس کو ہلاک کر دیا اس لئے قومی طاقت کے لحاظ سے گناہ قابل تعریف ہیں نہ کہ یسوع مسیح کہ جو ایسا جلد ان کے نیچے دب کر مر گیا جیسا کہ ایک کمزور بچہ تھوڑے سے صدمہ سے مرجاتا ہے.بہر حال یہ عجیب بات ہے کہ خدا پر گناہ غالب آگئے یہانتک کہ ان گناہوں نے صرف تین گھنٹوں تک اس کا کام تمام کر دیا.ایسے کمزور خدا پر ایمان لانا جس کی موت کا باعث اس کی کمزوری ہے.اگر بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے.یہ تو پادری صاحبوں کا عجیب عقیدہ ہے مگر ان کی ان سکلو پیڈیا جلد ۳ صفحہ ۶۶۹ میں لکھا ہے کہ مسیح نے واقعہ صلیب کے بعد دس دفعہ لوگوں سے ملاقات کی اور وہ صرف تین گھنٹہ تک صلیب پر رہا تھا اب اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ضرور صلیب سے زندہ بچ گیا جیسا
ریویو آف ریلیجنز 243 فلسطین سے کشمیر تک کہ اس سے پہلے بھی وہ یہودیوں کے حملوں سے بچتا رہا.پھر چھٹی دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا یہ ہے کہ عیسائی فرقوں میں سے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی رنگ میں ہوگی نہ کہ حقیقی یعنی اس کی خوا اور صفت پر کوئی اور آ جائے گا کیونکہ وہ مر چکا ہے.چنانچہ نیولائف آف جیزس جلد اول صفحہ ۴۱۰ مصنفہ ڈی ایف سٹراس میں یہ عبارت ہے جس کا ترجمہ ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:.(جرمن کے بعض عیسائی محققوں کی رائے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا) جرمن کے محقق عیسائی یہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر چہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں پر میخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے اس ملیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشیخ میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ قریب چھ گھنٹے صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت ہی خوشبو دار دوائیاں مل کر اسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اس کی بیہوشی دور ہوئی.اس دعوی کی دلیل میں عموماً یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آ رہا تھا تو راستہ میں میں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں ان میں سے میں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے.پس میں نے ٹیٹس (حاکم وقت) سے ان کے اتار لینے کی اجازت حاصل کی اور ان کو فوراً اتار کر ان کی خبر گیری کی تو ایک بالآ خر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے.اور کتاب ماڈرن ڈوٹ اینڈ کرسچن بیلیف کے صفحہ ۴۵۵.۴۵۷ میں یہ عبارت ہے جس کا ذیل میں ترجمہ لکھا جاتا ہے:.شمیر میجر اور نیز قدیم متقین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہراً
ریویو آف ریلیجنز 244 فلسطین سے کشمیر تک موت کی سی حالت ہو گئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتا رہا اور پھر دوسری یعنی اصل موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا.ایسا ہی کتاب سو پر نیچرل ریچن کے صفحہ ۸۷۵ پر لکھا ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ پہلی تفسیر جو بعض لائق محققین نے کی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع دراصل صلیب پر نہیں مرا بلکہ صلیب سے زندہ اتار کر اس کا جسم اس کے دوستوں کے حوالہ کیا گیا اور وہ آخریچ نکلا.اس عقیدہ کی تائید میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ اناجیل کے بیان کے مطابق یسوع صلیب پر تین گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے رہ کر فوت ہوا.لیکن صلیب پر ایسی جلدی کی موت کبھی پہلے واقعہ نہیں ہوئی تھی.یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف اس کے ہاتھوں پر میخیں لگائی گئی تھیں اور پاؤں پر نہیں تھیں چونکہ یہ عام قاعدہ نہ تھا کہ ہر ایک مصلوب کی ٹانگ توڑی جاوے اس واسطے تین انجیل نویسوں نے تو اس کا کچھ ذکر بھی نہیں کیا اور چوتھے نے صرف اپنی کسی خاص غرض کی تکمیل کے لئے اس کا ذکر کیا ہے اور جہاں ٹانگ توڑنے کا ذکر نہیں ہے تو ساتھ ہی برچھی کا واقعہ بھی کالعدم ہو جاتا ہے.پس ظاہراً موت جو واقع ہوئی وہ ایک سخت بیہوشی تھی جو کہ چھ گھنٹے کے جسمانی اور دماغی صدموں کے بعد واقع ہوئی اور اس کے علاوہ گذشتہ شب بھی بیداری اور تکلیف میں گزری تھی.جب اسے کافی صحت پھر حاصل ہو گئی تو اپنے حواریوں کو پھر یقین دلانے کے واسطے کئی دفعہ ملا لیکن یہودیوں کے ڈر سے وہ بڑی احتیاط سے نکلتا تھا.حواریوں نے یہی سمجھا کہ وہ مر کر زندہ ہوا ہے اور چونکہ موت کی سی بیہوشی تک پہنچ کر وہ پھر بحال ہوا.یہ اس لئے ممکن ہے کہ اس نے خود بھی یہی خیال کیا ہو کہ میں مرکز پھر زندہ ہوا ہوں.اب جب استاد نے دیکھا کہ اس ظاہری موت نے میرے کام کی تکمیل کر دی ہے تو پھر وہ کسی نا معلوم تنہائی کی جگہ میں چلا گیا اور مفقودالخبر ہو گیا.کفر ور رجس نے شنٹوڈ کے اس مسئلہ کی نہایت قابلیت کے ساتھ تائید کی ہے لکھتا
ریویو آف ریلیجنز 245 فلسطین سے کشمیر تک ہے کہ یہود کے حکام کے درمیان یسوع کے مرید تھے جو کہ اس کو اگر چہ عوام کی مخالفت سے بچ نہ سکتے تھے تاہم ان کو امید تھی کہ ہم مرنے سے اس کو بچالیں گے.یوسف ایک دولت مند آدمی تھا اور اس کو مسیح کے بچانے کے وسائل مل گئے.نئی قبر میں بھی عین مقام صلیب کے قریب ہی اس نے تیار کرالی اور جسم بھی پیلاطوس سے مانگ لیا اور نقود یموس یہودیوں کی توجہ ہٹانے کے لئے بہت سارے مصالح خرید لایا اور یسوع کو جلدی سے قبر میں رکھا گیا اور ان لوگوں کی سعی سے وہ بچ گیا کفرورر نے یوحنا ۱۷:۲۰ کی عجیب تفسیر کی ہے اور اس فقرے سے کہ میں ابھی باپ پاس نہیں گیا صرف مرنا مرادلیا ہے کیونکہ آسمان پر جانے سے مراد دراصل مرنا ہوتا ہے اور اس کے جواب کا مطلب صرف یہ ہے کہ مجھے مت چھوڑ کیونکہ میں ابھی تک گوشت اور خون ہوں میں ابھی مرا نہیں ہوں.اس واقعہ کے بعد یسوع پوشیدہ طور پر چند دفعہ اپنے حواریوں سے ملا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ ظاہری موت نے اس کے کام کی صداقت پر آخری مہر لگا دی ہے تو وہ پھر کسی تنہائی کی جگہ میں چلا گیا.) ایسا ہی مشہور و معروف رینین اپنی کتاب میں لکھتا ہے (لائف آف جیزس صفحہ ۲۶۹) یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یسوع کی موت کی اصلیت کی نسبت بہت شکوک پیدا ہو گئے تھے جو لوگ صلیب پر موت کو دیکھنے کے عادی تھے وہ کبھی اس بات کو تسلیم کرہی نہ سکتے تھے کہ چند گھنٹے صلیب پر رہ کر جیسا کہ یسوع رہا موت واقع ہو سکتی ہے وہ بہت ساری مثالیں مصلوب آدمیوں کی پیش کرتے تھے جن کو وقت پر صلیب سے اتارا گیا تو آخر کار علاج کرنے سے وہ بالکل شفایاب ہو گئے.آری گن کا (ابتدائی زمانہ کا ایک مشہور عیسائی فاضل ) کچھ عرصہ بعد یہ خیال تھا کہ اس قدر جلدی موت کا واقع ہونا مسح کا معجزہ ہے.یہی حیرت مرقس کے بیان میں بھی پائی جاتی ہے.
ريويو اف ريليجنز 246 فلسطین سے کشمیر تک حضرت مسیح کی قبر بمقام سری نگر اب اس کے بعد ایک بھاری ثبوت اس بات کا کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے مخلصی پا کر آسمان کی طرف نہیں اٹھائے گئے بلکہ کسی اور ملک کی طرف چلے گئے.ایک اور ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں لیکن قبل تحریر اس وقعہ کے ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ قصہ کہ گویا حضرت مسیح مصلوب ہونے کے بعد یا مصلوب ہونے سے پہلے آسمان پر چلے گئے تھے ایسا ایک بیہودہ قصہ ہے کہ ایک غور کرنے والی طبیعت اس کو بدیہی طور پر جھوٹا قرار دے گی.خدا تعالیٰ کا یہ عام قانون قدرت ہے کہ کوئی شخص مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جا سکتا اور نہ نازل ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کی نظیر الیاس کا قصہ ہے کیونکہ الیاس کا قصہ جس کی دوبارہ آمد پر مسیح کی نبوت موقوف تھی.آخر مسیح کی زبان سے ہی قابل تاویل ٹھہرا اور دوبارہ آنا اس کا محض ایک مجاز کے طور پر تصور کیا گیا پھر کیونکر اعتبار کیا جائے کہ مسیح کے صعود اور نزول سے مراد حقیقی صعود اور نزول ہے جس امر کی دنیا کی ابتدا سے کوئی بھی نظیر نہیں.اس امر پر اصرار کرنا اپنے تئیں ہلاکت کے گڑھے میں ڈالنا ہے.ماسوا اس کے یہ امر سراسر غیر معقول ہے کہ ایک نبی اپنے فرض منصبی کو نا تمام چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھے مسیح کو اس بات کا اقرار ہے کہ اس کی اور بھی بھیڑیں ہیں جن کو پیغام پہنچانا ضروری ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ یہودی جو دوسرے ملکوں میں منتشر ہو گئے تھے ابھی ان کو ہدایت کرنا باقی ہے.پس صلیب سے مخلصی پا کر مسیح کا یہ فرض تھا کہ ان بدقسمت یہودیوں کو اپنے آنے سے مطلع کرتا جن کو اس کے آنے کی خبر بھی نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ ہندوستان کے بعد حصوں میں خاص کر کشمیر میں مدت سے سکونت پذیر ہو گئے تھے اور مسیح نے خود اس بات کو بیان کر دیا تھا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ منتشر شدہ بنی اسرائیل کو بھی ان سے ملاقات کر کے ان کو اپنی ہدایتوں سے فیضیاب کرے پس ایک راستباز کے بدن پر اس سے لرزہ پڑتا ہے کہ یہ گناہ عظیم مسیح کی طرف منسوب کر سکتے ہیں کہ وہ ایک زندہ شخص کو جس میں اچھے اچھے کام کرنے کی قوتیں موجود ہیں اور مخلوق کو اپنی ہدایتوں سے نفع پہنچا سکتا ہے تمام کاموں سے معطل کر
ریویو آف ریلیجنز 247 فلسطین سے کشمیر تک کے آسمان پر بٹھا وے اور اس قیدی کی طرح جو قید محض میں ایام گزارتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا چھوڑ دے.کیا مسیح کے لئے یہ بہتر تھا کہ وہ اپنی اس لمبی عمر کو بنی نوع انسان کی خدمت میں مصروف کرتا اور ہر ایک ملک میں سفر کر کے جیسا کہ خود اس کو ایک نبی سیاح سمجھا گیا ہے اپنی منتشر قوم کو فائدہ پہنچاتا یا یہ کہ اپنی تبلیغ کا کام نا تمام چھوڑ کر اور قوم کو طرح طرح کی گمراہیوں میں پا کر آسمان پر جا بیٹھتا.بالخصوص ان بدقسمت لوگوں کا کیا گناہ تھا جنہوں نے ابھی اس کو دیکھا بھی نہیں تھا.اور یہ کہ وہ مختلف ملکوں کی سیر کرتا ہوا آخر کشمیر میں چلا گیا اور تمام عمر وہاں سیر کر کے آخر سری نگر محله یارخاں میں بعد وفات مدفون ہوا.اس کا ثبوت اس طرح پر ملتا ہے کہ عیسائی اور مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یوز آسف نام ایک نبی جس کا زمانہ وہی زمانہ ہے جو مسیح کا زمانہ تھا دور دراز سفر کر کے کشمیر میں پہنچا اور وہ نہ صرف نبی بلکہ شاہزادہ بھی کہلاتا تھا اور جس ملک میں یسوع مسیح رہتا تھا اسی ملک کا وہ باشندہ تھا اور اس کی تعلیم بہت سی باتوں میں مسیح کی تعلیم سے ملتی تھی بلکہ بعض مثالیں اور بعض فقرے اس کی تعلیم کے بعینم مسیح کے ان تعلیمی فقرات سے ملتے ہیں جو اب تک انجیلوں میں پائے جاتے ہیں اور عیسائی نہایت مجبور اور حیرت زدہ ہو کر اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ یہ شخص جو یوز آسف اور شاہزادہ نبی کہلاتا ہے وہ مسیح کے شاگردوں میں سے ایک شاگر د تھا اسی بناء پر اس کو بڑا مقدس سمجھا گیا ہے یہاں تک کہ سسلی میں اس کے نام کا ایک گرجا بھی بنایا ہوا ہے جو پورانا اور قدیم زمانہ سے ہے اور اسی تعلق کے قبول کرنے کے بعد یوز آسف کا قصہ یورپ کی تمام زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے...جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس قدر پُر جوش محبت سے یورپ کی تمام زبانوں میں یوز آسف کی تعلیم کا ترجمہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ کم سے کم یوز آسف کو ایک مقدس حواری سمجھا گیا ہے.پس اس صورت میں تمام عیسائی صاحبان اس مطالبہ کے نیچے ہیں کہ انہوں نے بہر حال یوز آسف کا عیسائی مذہب سے ایک تعلق مان لیا ہے اور اس کے ظہور کا بھی وہی زمانہ قرار دیا ہے جو سیح کا زمانہ
ریویو آف ریلیجنز 248 فلسطین سے کشمیر تک تھا اور اس کی سوانح کا بڑی محبت اور دلچسپی سے ترجمہ بھی کیا اور اس کی یاد گار کا ایک گرجا بھی بنایا اور یہ بھی اقرار کیا کہ اس کی تعلیم کا اخلاقی حصہ انجیل کی تعلیم سے ملتا ہے اور اس نے بھی اپنی تعلیم کا نام انجیل ہی رکھا ہے.پس اس صورت میں اگر یوز آسف یسوع نہیں ہے تو یہ بار ثبوت عیسائی صاحبوں کی گردن پر ہے کہ وہ ثابت کر کے دکھلا دیں کہ کبھی مسیح کا کوئی شاگردشا ہزادہ نبی بھی کہلاتا تھا اور کبھی اس نے مسیح کی تعلیم کو اپنی تعلیم بھی قرار دیا اور اس کا نام انجیل رکھا اور میں بڑے دعوے اور ثبوت سے کہتا ہوں کہ یہ ثبوت ہرگز ان کے لئے ممکن نہیں کیونکہ ان کے نزدیک شاہزادہ نبی ایک ہی ہے یعنی یسوع ابن مریم.اور یوز آسف کے حالات کے بیان کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی کتابوں میں بعض ہزار برس سے زیادہ زمانہ کی تالیف میں جیسا کہ کتاب الکمال الدین جس میں یہ تمام باتیں درج ہیں اور اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ یوز آسف نے جو شاہزادہ نبی تھا اپنی کتاب کا نام انجیل رکھا تھا.ماسوا اس کتاب کے خاص سری نگر میں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے ایسے پرانے نوشتے اور تاریخی کتا ہیں پائی گئی ہیں جن میں لکھا ہے کہ یہ نبی جس کا نام یوز آسف ہے اور اسے عیسی نبی بھی کہتے ہیں اور شاہزادہ نبی کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں.یہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی ہے جو اس پرانے زمانہ میں کشمیر میں آیا تھا.جس کو ان کتابوں کی تالیف کے وقت تک قریباً سولہ سو برس گزر گئے تھے یعنی اس موجودہ زمانہ تک انیس سو برس گزرا ہے.اور اس قسم کی تحریریں کشمیر کے باشندوں کے پاس کچھ تھوڑی نہیں بلکہ بہت سی کتابیں پائی جاتی ہیں اور میں نے سنا ہے کہ اس جگہ کے ہندؤں کے پاس بھی اپنی زبان میں ایک کتاب ہے جس میں اس شاہزادہ نبی کا ذکر ہے پس ایک حق کے طالب کو یہ تمام ثبوت اس بات کے قبول کرنے کے لئے مجبور ہے ☆ کرتے ہیں کہ در حقیقت نہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.بالخصوص جبکہ ان تمام باتوں کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے کہ اول تو خود انجیل سے یہ پتہ لگتا ہے کہ یسوع صلیب پر نہیں مرابلکہ وہ صلیب پر غشی کی حالت میں ہو گیا تھا جیسا کہ اس نے خود کہا کہ یونس نبی کا معجزہ دکھایا جاوے گا.پس اگر صلیب پر مر گیا تھا اور مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوا تو اس ہندوؤں کی یہ کتاب بھوشیہ مہا پر ان ہے.جس میں کشمیر کے ایک راجہ کی حضرت مسیح سے ملاقات کا احوال درج ہے.
ریویو آف ریلیجنز 249 فلسطین سے کشمیر تک کے اس واقع کو یونس سے کیا مشابہت ہوئی.پھر یہ کہ انہیں انجیلوں میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے زندہ نکلا اور ابھی زخم اس کے اچھے نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنے حواریوں کو ملا اور منع کیا کہ میرا حال کسی سے مت کہو اور ان کے ساتھ اپنے وطن کی طرف چلا گیا اور ان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور پھر طب کی کتابوں سے متواتر طور پر ثابت ہوا ہے کہ یسوع کے زخموں کے لئے مرہم عیسی بنائی گئی تھی جس کے استعمال سے اس کے زخم اچھے ہوئے اور چونکہ وہ یہود کے دوبارہ حملے سے ڈرتا تھا اس لئے وہ اس ملک سے نکل گیا اور یہ رائے کچھ ہماری خاص رائے نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے محقق پادریوں نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے جیسا کہ جرمن کے پچاس پادریوں کی رائے ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں اور کئی پرانی تحریریں اور بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع واقعہ صلیب کے بعد مدت تک مختلف ملکوں میں سیاحت کرتا رہا.یہاں تک کہ اس کا نام نبی سیاح ہو گیا اور ان باتوں کو مسلمانوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح نبوت پانے کے بعد ایک مدت تک مختلف بلاد میں سیاحت کرتا رہا ہے پس ان تمام باتوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یسوع ہرگز آسمان پر نہیں چڑھا اور جیسا کہ یہ تمام واقعات ایسے قریب قیاس ہیں کہ بڑی سرعت سے عقل ان کو قبول کرتی ہے ایسا ہی آسمان پر چڑھنا ایسا بعید از قیاس ہے کہ عقل اس کو فی الفور رو کرتی ہے اور دھکے دیتی ہے پس کیا وجہ کہ جو واقعات ثابت شدہ اور قریب قیاس ہیں ان کو تو قبول نہ کیا جائے اور جو خیالات ثابت نہیں ہو سکے اور نہ وہ قریب قیاس ہیں ان کو قبول کیا جائے.......بالآخر ہم پر چہ الہلال کے ایڈیٹر کو جو عیسائی ہے جس نے اپنے پر چہ شائع کردہ ماہ اپریل ۱۹۰۳ء میں...جلد میں یہ اشارہ کیا ہے کہ یسوع کا کشمیر سری نگر میں مدفون ہونا صحیح نہیں ہے مخاطب کر کے تنبیہ کرتے ہیں کہ عقلمند اور منصف آدمی کا یہ کام نہیں ہے کہ صرف مذہبی تعصب کی وجہ سے ثابت شدہ حقائق اور واقعات کو رد کرے.بالخصوص جبکہ صاحب ہلال اپنے رسالہ میں اس بات کو مانتا ہے کہ یوز آسف شاہزادہ نبی تھا اور پورے وثوق سے قبول کرتا ہے کہ پرانی کتابیں اس کا نام شاہزادہ نبی رکھتی ہیں اور وہ کسی اور دور
ریویو آف ریلیجنز 250 فلسطین سے کشمیر تک دراز ملک سے کشمیر میں آیا تھا تو تعجب کہ وہ قریب ہو کر پھر کیوں دور چلا جاتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ اگر ان واقعات اور دلائل میں سے جو ہم نے ہمیشہ پیش کئے ہیں ایک بھی پیش نہ کیا جاتا تب بھی عقل سلیم کا یہی فتویٰ تھا کہ یسوع ابن مریم آسمان پر ہرگز نہیں گیا وہ ہمیشہ انسانوں کی طرح کمزوریاں دکھلاتا رہا اور بسا اوقات اس نے ماریں کھائیں اور جب شیطان نے اسے کہا کہ اوپر سے اپنے تئیں گرا دے تو وہ اپنے تئیں نیچے نہ گر اسکا اور کوئی امر اس میں ایسا نہ تھا جو انسان سے بڑھ کر شمار کیا جائے.بلکہ بعض نبیوں نے اس سے بڑھ کر معجزات دکھلائے پھر یہ امر بغیر عقلی دلائل اور یقینی براہین کے کیونکر مان لیا جائے کہ وہ در حقیقت آسمان پر چڑھ گیا تھا اور اب تک زندہ موجود ہے اور اگر آسمان پر چڑھنا ممکن بھی ہو تب بھی اس کے لئے ناجائز بلکہ ایک جرم کا ارتکاب تھا کیونکہ ابھی وہ اپنے فرض تبلیغ کو تمام نہیں کر چکا تھا اور یہود کے اور بہت سے فرقے ہنوز اور اور ملکوں میں ایسے تھے جنہوں نے مسیح کا نام بھی نہیں سنا تھا جن کو پیغام پہنچانا باقی تھا اور آسمان پر تو یہود کی کوئی قوم آباد نہیں تھی تا یہ کہا جائے کہ آسمان پر بھی ان کا جانا ضروری تھا پس جیسے کہ یہ امر نا معقول ہے کہ یسوع نے صلیب کو اپنے لئے پسند کیا اور خود کشی کو روا رکھا ایسا ہی یہ بھی نامعقول ہے کہ وہ اب تک ایک عمدہ زمانہ اپنی زندگی کا محض بریکاری سے گزار رہا ہے حالانکہ اس کو چاہئے تھا کہ اپنے اس وقت عزیز کو اپنی قوم کی ہمدردی میں خرچ کرتا نہ یہ کہ ایسی بیہودہ حرکتیں کہ دوسروں کے لئے خود کشی کرے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر جا بیٹھے.پس ایک عقلند بجز اس کے کہ کیا کرے کہ ان قصوں کو جھوٹے قرار دے.سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ صرف واقعات سے ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ دلائل عقلیہ بھی اس پر شہادت دیتے ہیں لیکن جو جھوٹ ہے نہ اس کے لئے واقعات صحیحہ ثابت شدہ ملتے ہیں اور نہ عقلی دلائل اس پر قائم ہو سکتے ہیں.افسوس کہ عیسائی کسی بات پر بھی غور نہیں کرتے انہیں کے ان سائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ تھو ما رسول جس کا ذکر انجیلوں میں درج ہے ہندوستان میں آیا تھا اور میلا پور میں شہید ہوا.اور یہ بھی اسی میں لکھا تھا کہ یسوع کا ایک بھائی بھی اس کے ساتھ تھا.اب جائے غور ہے کہ ایک طرف تو عیسائی صاحبان قبول کرتے ہیں کہ اسی بلاد شام سے
ریویو آف ریلیجنز 251 فلسطین سے کشمیر تک ہندوستان میں انہیں دنوں میں ایک شاہزادہ نبی آیا تھا جو آخرسری نگر کشمیر میں فوت ہوا اور پھر انہیں ایام میں تھو ما حواری اور ایک یسوع کا بھائی بھی ہندوستان میں آیا تھا اور پھر دوسری طرف اس بات کو نہیں مانتے کہ وہ جو شاہزادہ نبی کہلاتا تھا اور بیان کرتا تھا کہ میرے پر انجیل نازل ہوئی ہے وہی یسوع مسیح ہے یہ واقعات بہت ہی صاف تھے اور ان کا نتیجہ بھی بہت ہی صاف تھا مگر ہائے افسوس کہ پادری صاحبوں نے تاریکی سے پیار کیا اور نور سے دشمنی.دنیا اپنی انتہا تک پہنچ گئی اور ساری علامتیں پوری ہو گئیں مگر ان کا فرضی مسیح اب تک آسمان سے نازل نہ ہوا.آدم سے لے کر اس وقت تک چھٹا ہزار ختم ہو چکا جو الہی شریعتوں کی اصطلاح میں چھٹا دن کہلاتا ہے جس میں مسیح موعود نے آنا تھا مگر ان کا یسوع اب تک نہ آیا.شیطان کے رہا ہونے پر ایک ہزار برس بھی گزر گیا مگر ان کا یسوع اب تک نہ آیا جو شیطان کو دائمی قید کے زنداں میں روکتا جیسا کہ نبیوں نے پیشگوئی کی تھی ملک میں طاعون بھی پھیل گئی جیسا کہ انجیل میں آنے والے مسیح کا نشان لکھا تھا مگر اب تک ان کا مسیح نہ آیا.مدت ہوئی کہ آنے والے مسیح کا ستارہ بھی نکل چکا مگر اب تک مسیح نہ آیا.پس اے یورپ اور اے ایشیا کے رہنے والے عیسائیو.اور اے حق کے طالبو یقیناً سمجھو کہ مسیح جو آنے والا تھا وہ آپکا اور وہ وہی ہے جو اب تم سے باتیں کر رہا ہے.آسمان نے نشان ظاہر کئے اور زمین نے بھی اور خدا کے پاک نبیوں کی پیشگوئیاں نشان کے طور پر آج پوری ہو گئیں اور خدا نے میرے ہاتھ پر نشان دکھلانے کی کچھ کمی نہیں رکھی.ہزار ہانشان ظاہر کئے ہر ایک پہلو سے اپنی حجت کو پورا کیا اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ نشان جو میرے ہاتھ پر دکھلائے گئے اگر یسوع ابن مریم کے ہاتھ پر دکھلائے جاتے تو یہود ہلاکت سے بچائے جاتے مگر وہی جو ہلاکت کے فرزند تھے.یسوع کے نشانوں کا جو یہود پر اثر پڑا تھا کس کو اس کی خبر نہیں خود اس کا اپنا حواری یہودا اسکر یوطی جس کو بہشتی تخت کا وعدہ بھی دیا گیا تھا خود اس کے دیکھتے دیکھتے مرتد ہو گیا اور نہ خود وہ حواری تخت موعود سے محروم رہ گیا بلکہ یسوع کو بھی بڑی بلا میں ڈال گیا.سواے وہ لو گو جو دائمی سعادت اور ابدی نجات کو چاہتے ہو میری طرف دوڑا کہ اس جگہ وہ چشمہ ہے جو تمہیں پرانی میلوں سے پاک کر دے گا اور وہ
ریویو آف ریلیجنز 252 فلسطین سے کشمیر تک نجات جو یقین اور قوت ایمان اور پورے عرفان سے ملتی ہے وہ تمہیں دی جائے گی اور یقیناً سمجھو کہ یسوع ابن مریم کے خون پر تمہارا بھروسہ غلط ہے اگر وہ ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ بھی صلیب پر چڑھایا جاتا تب بھی وہ تمہیں نجات نہ دے سکتا.نجات ایمان اور محبت اور یقین سے پیدا ہوتی ہے نہ کسی کے خون سے.دیکھو زمانہ تمہیں بتلا رہا ہے کہ یہ تمام خیالات جھوٹے تھے.پس قبل اس کے جو تم خدا کی طرف بلائے جاؤ ان خیالات سے تو بہ کرو مجھے خدا نے اس گواہی کے لئے اس زمانہ میں کھڑا کیا ہے کہ سب دین بگڑ گئے اور باطل کا رنگ پکڑ لیا مگر اسلام اگر میری گواہی پر خدا کی مہر نہیں تو میں سچا نہیں لیکن اگر میری گواہی پر خدا کی مہر ہے تو تم سچ کو رد کر کے قابل مواخذہ نہ بنو.ایک عاجز انسان مریم کا بیٹا ہر گز خدا نہیں.مجھے وہ روح دی گئی ہے جس کے مقابل پر کسی کو تاب مقابلہ نہیں اگر تم میں کوئی اس لائق نہیں کہ روح سے علم پا کر اس روح القدس کا مقابلہ کرے جو مجھے عطا کیا گیا ہے تو تمہاری خاموشی تمہیں ملزم کرے گی.والسلام علیٰ من اتبع الهدى.(عیسائی مذہب پر ایک خاص ریویو از حضرت مسیح موعود.ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ تمبر 1903 جلد 2 نمبر 9 صفحہ 331 تا 343)
مجموعہ اشتہارات 253 فلسطین سے کشمیر تک مجموعه اشتهارات دوائے طاعون (23 جولائی 1898ء) ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایک دوا علاج طاعون کے لئے بصرف مبلغ دو ہزار پانسور و پیہ طیار ہوئی ہے.اور ساتھ اس کے ظاہر بدن پر مالش کرنے کے لئے مرہم عیسی بھی بنائی گئی ہے یعنی وہ مرہم جو حضرت عیسی علیہ السّلام کی اُن چوٹوں کے لئے بنائی گئی تھی جبکہ نا اہل یہودیوں نے آپ کو صلیب پر کھینچا تھا.یہی مبارک مرہم چالیس دن برابر جناب مسیح علیہ السلام کے صلیبی زخموں پر لگتی رہی اور اسی سے خدا تعالیٰ نے آپ کو شفا بخشی گویا دوبارہ زندگی ہوئی.یہ مرہم طاعون کے لئے بھی نہایت درجہ مفید ہے بلکہ طاعون کی تمام قسموں کے لئے فائدہ مند ہے.مناسب ہے کہ جب نعوذ باللہ بیماری طاعون نمودار ہو تو فی الفوراس مرہم کو لگا نا شروع کر دیں کہ یہ مادہ بھی کی مدافعت کرتی ہے اور پھنسی یا پھوڑے کو طیار کر کے ایسے طور سے پھوڑ دیتی ہے کہ اس کی سمیت دل کی طرف رجوع نہیں کرتی اور نہ بدن میں پھیلتی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 225)
مجموعہ اشتہارات 254 الاشتہارالانصار 4اکتوبر 1899ء) فلسطین سے کشمیر تک تیسری شاخ اخراجات کی جس کی ضرورت مجھے حال میں پیش آئی ہے جو نہایت ضروری بلکہ اشد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں.اس لیے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے میرے دل پر اس قد رصد مہ پہنچا تارہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو بلکہ اگر ہم وغم سے مرنا میرے لیے ممکن ہوتا تو یہ تم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو کچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں اور پھر اس کے ساتھ یہ دقت تھی کہ رسمی مباحثات ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرتے اور پرانے مشرکانہ خیالات اس قدر دل پر غالب آگئے ہیں کہ ہیت اور فلسفہ اور طبعی پڑھ کر ڈبو بیٹھے ہیں.اور ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اسی برس کا بڑھا ہندو ہر چند دل میں تو خوب جانتا ہے کہ گنگا صرف ایک پانی ہے جو کسی کو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ ضرر کر سکتا ہے تب بھی وہ اس بات کے کہنے سے باز نہیں آتا کہ گنگا مائی میں بڑی بڑی ست اور طاقتیں ہیں.اور اگر اس پر دلیل پوچھی جائے تو کوئی بھی دلیل بیان نہیں کر سکتا.تا ہم منہ سے یہ کہتا ہے کہ اس کی شکتی کی دلیل میرے دل میں ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے.مگر وہ کیا دلیل ہے.صرف پرانے خیالات جو دل میں جسے ہوئے ہیں.یہی حالات ان لوگوں کے ہیں کہ نہ ان کے پاس کوئی معقول دلیل حضرت عیسی کی خدائی پر ہے اور نہ کوئی تازہ آسمانی نشان ہے جس کو وہ دکھا سکیں * اور نہ توریت کی تعلیم افسوس کہ عیسائیوں کے ہاتھ میں صرف صدہا برس کے مشکوک اور مشتبہ قصے ہیں جن کا نام نشان اور معجزات رکھا ہوا ہے لیکن اگر حقیقت میں ان کے مذہب میں معجزہ نمائی کی طاقت ہے تو میرے مقابل پر کیوں نہیں دکھلاتے.یقیناً سمجھو کہ کچھ بھی طاقت نہیں کیونکہ خدا ان کے ساتھ نہیں.منہ
255 فلسطین سے کشمیر تک مجموعہ اشتہارات جس پر انہیں ایمان لانا ضروری ہے اور جس کو یہودی حفظ کرتے چلے آئے ہیں.اس مشرکانہ تعلیم کی مصدق ہے مگر تا ہم محض تحکم اور دھکے کی راہ سے یہ لوگ اس بات پر نہ حق اصرار کر رہے ہیں کہ یسوع مسیح خدا ہی ہے خدا نے قرآنِ کریم میں سچ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس افتراء سے آسمان پھٹ جائیں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا جاتا ہے.اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری رُوح ہر وقت دُعا کرتی ہے کہ اے خدا اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کر حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اُٹھادی جائے کہ گویا نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا.ایک زمانہ گذر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دُعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اس کے رسول کو شناخت کر لیں اور تثلیث کے اعتقاد سے تو بہ کریں چنانچہ ان دعاؤں کا یہ اثر ہوا ہے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے نجات پا کر اور پھر مرہم عیسی سے صلیبی زخموں سے شفاء حاصل کر کے نصبین کی راہ سے افغانستان میں آئے اور افغانستان سے کوہ لغمان میں گئے اور وہاں اس مقام میں ایک مدت تک رہے جہاں شہزادہ نبی کا ایک چبوترہ کہلاتا ہے جواب تک موجود ہے اور پھر وہاں سے پنجاب میں آئے اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے آخر کشمیر میں گئے اور ایک سو چھپیں برس کی عمر پا کر کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور سرینگر خانیار کے محلہ کے قریب دفن کئے گئے اور میں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں جس کا نام ہے.مسیح ہندوستان میں.چنانچہ میں نے اس تحقیق کے لئے مخلصی متھی خلیفہ نور دین صاحب کو جن کا ابھی ذکر کر آیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا * تا وہ موقعہ پر حضرت مسیح کی قبر کی پوری تحقیقات کریں چنانچہ وہ قریباً چار ماہ کشمیر میں رہ کر اور ہر ایک پہلو سے تحقیقات کر کے اور موقعہ پر قبر کا ایک نقشہ بنا کر اور پانسو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کرا کر کہ یہی حضرت عیسی علیہ السلام خلیفه نور دین صاحب کو خدا تعالیٰ اجر بخشے کہ اس تمام سفر اور رہائش کشمیر میں انہوں نے اپنا خرچ اٹھایا اپنی جان کو تکلیف میں ڈالا اور اپنے مال سے سفر کیا.منہ
256 فلسطین سے کشمیر تک مجموعہ اشتہارات کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسی صاحب کی قبر کہتے ہیں، ۲۷ ستمبر ۱۸۹۹ء کو واپس میرے پاس پہنچ گئے.سوکشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پا گیا اور پانسو چھپن شہادت سے ثابت ہو گیا کہ در حقیقت یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے کہ جو سری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے.لیکن اب ایک اور خیال باقی رہا ہے کہ اگر پورا ہو جائے تو نور علی نور ہوگا اور وہ دو باتیں ہیں.اول یہ کہ میں نے سُنا ہے کہ کوہ لغمان میں جو شہزادہ نبی کا چپوترہ ہے اس کے نام ریاست کا بل میں کچھ جاگیر مقرر ہے.لہذا اس غرض کے لیے بعض احباب کا کوہ لغمان میں جانا اور بعض احباب کا کابل میں جانا اور جاگیر کے کاغذات کی ریاست کے دفتر سے نقل لینا فائدہ سے خالی معلوم نہیں ہوتا.دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام افغانستان کی طرف نصیبین کی راہ سے آئے تھے اور کتاب روضتہ الصفا سے پایا جاتا ہے کہ اس فتنہ صلیب کے وقت نصیبین کے بادشاہ نے حضرت مسیح کو بلایا تھا اور ایک انگریز اس پر گواہی دیتا ہے کہ ضرور حضرت مسیح کو اس کا خط آیا تھا بلکہ وہ خط بھی اس انگریز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.اس صورت میں یہ یقینی امر ہے کہ نصیبین میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر کی اب تک کچھ یاد گار قائم ہوگی.اور کچھ تعجب نہیں کہ وہاں بعض کتبے بھی پائے جائیں یا آپ کے بعض حواریوں کی وہاں قبریں ہوں جو شہرت پا چکی ہوں لہذا میرے نزدیک یہ قرین مصلحت قرار پایا ہے کہ تین دانشمند اور الوالعزم آدمی اپنی جماعت میں سے نصیبین میں بھیجے جائیں.سو اُن کی آمدروفت کے اخراجات کا انتظام ضروری ہے.ایک اُن میں سے مرزا خدا بخش صاحب ہیں اور یہ ہمارے ایک نہایت مخلص اور جان نثار مرید ہیں جو اپنے شہر جھنگ سے ہجرت کر کے قادیان میں آ رہے ہیں اور دن رات خدمت دین میں سرگرم ہیں.اور ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مرزا صاحب موصوف کا تمام سفر خرچ ایک مخلص با ہمت نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کا نام ظاہر کیا جائے.مگر دو اور آدمی ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ہم سفر ہوں گے.اُن کے کابل اور کوہ پغمان میں بھیجنے کے لیے اسی نواح کے بعض آدمی تجویز کئے گئے ہیں کیونکہ وہ اس ملک اور ان پہاڑوں کے خوب واقف ہیں
مجموعہ اشتہارات 257 فلسطین سے کشمیر تک سفر خرچ کا بندوبست قابل انتظام ہے.سوامور متذکرہ بالا میں سے ایک یہ تیسرا امر ہے کہ ایسے نازک وقت میں جو پہلی دو شاخیں بھی امداد مالی کی سخت محتاج ہیں پیش آ گیا ہے.اور یہ سفر میرے نزدیک ایسا ضروری ہے کہ گویا کسی شاعر کا یہ شعر اسی موقع کے حق میں ہے گر جاں طلبہ مضائقہ نیست - زرمی طلبد سخن در میں ست.خدا تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.ممکن ہے کہ چند آدمی ہی ان تینوں شاخوں کا بندو بست کر سکیں.( میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آدمی کے جانے کا خرچ مگر می مولوی حکیم نورالدین صاحب نے اپنے ذمہ لے لیا.منہ ) غرض انہی تینوں شاخوں کے لئے نہایت ضروری سمجھ کر یہ اشتہار لکھا گیا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 311 تا 314) حضرت مفتی محمد صادق صاحب افغانستان (صوبہ لغمان ) میں لا مک نبی کی قبر کے بارے میں لکھتے ہیں: جن دنوں حضرت صاحب کتاب مسیح ہندوستان میں غالبا 1899ء) لکھ رہے تھے.ان ایام میں ایک دوست نے جن کا نام میاں محمد سلطان تھا اور لاہور میں درزی کا کام کرتے تھے.یہ ذکر کیا کہ ایک دفعہ میں افغانستان گیا تھا.اور وہاں مجھے قبر دکھائی گئی تھی.جو لا مک نبی کی قبر کہلاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بعض دفعہ کسی بزرگ یا نبی کے بیٹھنے کی جگہ کو بھی قبر کے طور پر لوگ بنا کر اوس سے تبرک حاصل کرتے ہیں.ممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصری فلسطین سے کشمیر آتے ہوئے افغانستان میں سے گزرے ہوں.اور وہاں کسی جگہ چندروز قیام کیا ہواور کسی تغیر کے ساتھ اس جگہ ان کا نام لامک مشہور ہو گیا ہو.تب حضور نے مجھے فرمایا کہ لغت عبرانی سے دیکھنا چاہیے کہ لفظ لا ملک کے کیا معنے ہیں.تب میں اپنی لغت کی کتاب لیکر حضرت صاحب کی خدمت میں اندرونِ خانہ حاضر ہوا اور لفظ لامک کے معنے اوس میں سے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیے کہ لا مک کے معنے ہیں جمع کرنے والا.چونکہ جمع کرنے والا مسیح ناصری کا نام ہے.اور اوس کا یہ نام موجودہ انا جیل میں درج ہے جہاں اوس نے کہا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے واسطے آیا ہوں.اس بات کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت خوشی ہوئی.آپ نے سجدہ کیا اور میں نے بھی حضرت صاحب کو دیکھ کر سجدہ کیا.حضور ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور تخت پر ہی حضور نے سجدہ کیا.میں نے فرش پر سجدہ کیا.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب.صفحہ 83 تا 84)
مجموعہ اشتہارات 258 (ضمیمہ اشتہار الانصار 4 اکتوبر 1899ء) فلسطین سے کشمیر تک ہم اس اشتہار میں لکھ چکے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے تین آدمی اس کام کے لئے منتخب کئے جائیں گے کہ وہ نصیبین اور اس کی نواح میں جاویں اور حضرت عیسی کے آثار اس ملک میں تلاش کریں.اب حال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سفر کے خرچ کا عمل قریباً انتظام پذیر ہو چکا ہے صرف ایک شخص کی زاد راہ کا انتظام باقی ہے یعنی اخویم مگر می مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ایک آدمی کے لئے ایک طرف کا خرچ دے دیا ہے اور اخویم منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن او جله ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس روپیہ دیئے ہیں.اور میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپورا اور اُن کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے پچاس روپیہ دیئے ہیں.ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابلِ رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں.گویا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی.ایسا ہی مرزا خدا بخش صاحب نے بھی اس سفر خرچ کے لیے پچاس روپے چندہ دیا ہے.خدا تعالیٰ سب کوا جر بخشے آج ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ سے وہ دو شخص تجویز کئے گئے ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ساتھ نصیبین کی طرف جائیں گے.اب یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عزیزوں کی روانگی کے لیے ایک مختصر سا جلسہ کیا جائے کیونکہ یہ عزیز دوست ایمانی صدق سے تمام اہل و عیال کو خدا تعالیٰ کے حوالے کر کے اور وطن کی محبت کو خیر باد کہہ کر دور دراز ملکوں میں جائیں گے اور سمندر کو چیرتے ہوئے اور جنگلوں پہاڑوں کو طے کرتے ہوئے نصیبین یا اس سے آگے بھی سیر کریں گے اور کر بلا معلی کی زیارت بھی کریں گے.اس لیے یہ تینوں عزیز قابل قدر اور تعظیم ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لیے ایک بڑا تحفہ لائیں گے.آسمان اُن کے اس سفر سے خوشی کرتا ہے کہ محض خدا کیلئے قوموں کو شرک سے چھوڑانے کے لئے یہ تین عزیز ایک نجی کی صورت پر اُٹھے ہیں.اس
مجموعہ اشتہارات 259 فلسطین سے کشمیر تک لیے لازم ہے کہ ان کی وداع کے لیے ایک مختصر سا جلسہ قادیان میں ہو اور ان کی خیر و عافیت اور ان کے متعلقین کی خیر و عافیت کے لیے دعائیں کی جائیں.لہذا میں نے اس جلسے کی تاریخ ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ مقرر کر کے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ ان تمام خالص دوستوں کو اطلاع دوں جن کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عید نہیں کہ جس کام کے لئے وہ اس سردی کے ایام میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اور عیال اور دوستوں سے علیحدہ ہو کر جاتے ہیں اُس مراد کو حاصل کر کے واپس آئیں اور فتح کے نقارے اُن کے ساتھ ہوں.میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادر خدا جس نے اس کام کیلئے مجھے بھیجا ہے ان عزیزوں کو فضل اور عافیت سے منزل مقصود تک پہنچا اور پھر بخیر وخوبی فائز المرام واپس آئیں.آمین ثم آمین.اور میں امید رکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست جو دین کے لئے اپنے تئیں وقف کر چکے ہیں حتی الوسع فرصت نکال کر اس جلسہ وداع پر حاضر ہوں گے اور اپنے ان مسافر عزیزوں کے لئے رو رو کر دعائیں کریں گے.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 316 تا 317) جناب بشپ صاحب کے لیکچر " زند و رسول پر کچھ ضروری بیان (*190025) تاریخ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر نہ جانے کے تین گواہ ایسے پیش کیے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے اس قول کے مطابق کہ ان کا قصہ یونس نبی کے قصے سے مشابہ ہے قبر میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوئے تھے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوا تھا اور نہ وہ قبر میں مرے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا بلکہ یونس نبی کی طرح زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے کیونکہ ممکن نہیں کہ مسیح نے اس مثال کے بیان کرنے میں جھوٹ بولا ہو :.اس واقعہ پر پہلا گواہ تو یہی مثال ہے کہ مسیح کے منہ سے نکلی کیونکہ اگر مسیح قبر میں مُردہ
مجموعہ اشتہارات 260 فلسطین سے کشمیر تک ہونے کی حالت میں داخل کیا گیا تھا تو اس صورت میں یونس سے اس کو کچھ مشابہت نہ تھی پھر دوسرا گواہ اس پر مرہم عیسی ہے.یہ ایک مرہم ہے جس کا ذکر عیسائیوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کی طب کی کتابوں میں اس طرح پر لکھا گیا ہے کہ یہ حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی اور یہ کتابیں ہزار نسخہ سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے بہت سی میرے پاس بھی موجود ہیں.پس اس مرہم سے جس کا نام مرہم عیسی ہے.یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر جانے کا قصہ غلط اور عوام کی خود تراشیدہ باتیں ہیں.سچ صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر وفات پانے سے تو بچ گئے تھے مگر آپ کے ہاتھوں اور پیروں پر زخم ضرور آئے تھے اور وہ زخم مرہم عیسی کے لگانے سے اچھے ہو گئے.آپ کے حواریوں میں سے ایک ڈاکٹر بھی تھا غالبا یہ مرہم اُس نے تیار کی ہوگی چونکہ مرہم عیسی کا ثبوت ایک علمی پیرایہ میں ہم کو ملا ہے جس پر تمام قوموں کے کتب خانے گواہ ہیں.اس لئے یہ ثبوت بڑے قدر کے لائق ہے.تیسرا تاریخی گواہ حضرت مسیح کے آسمان پر نہ جانے کا یوز آسف کا قصہ ہے جو آج سے گیارہ سو برس پہلے تمام ایشیا یورپ میں شہرت پاچکا ہے.یوز آسف حضرت مسیح ہی تھے جو صلیب سے نجات پا کر پنجاب کی طرف گئے اور پھر کشمیر میں پہنچے اور ایک سو برس کی عمر میں وفات پائی.اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ یوز آسف کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم ایک ہے اور دوسرے یہ قرینہ کہ یوز آسف اپنی کتاب کا نام انجیل بیان کرتا ہے تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اپنے تئیں شہزادہ نبی کہتا ہے چوتھا یہ قرنیہ کہ یوز آسف کا زمانہ اور مسیح کا زمانہ ایک ہی ہے.بعض انجیل کی مثالیں اس کتاب میں بعینہ موجود ہیں جیسا کہ ایک کسان کی مثال.چوتھا تاریخی گواہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر وہ قبر ہے جواب تک محلہ خانیار سری نگر کشمیر میں موجود ہے.بعض کہتے ہیں کہ یوز آسف شہزادہ نبی کی قبر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عیسی صاحب کی قبر ہے اور کہتے ہیں کہ کتبہ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ شہزادہ اسرائیل کے خاندان میں سے تھا کہ قریباً اٹھارہ سو برس اس بات کو گزر گئے جب یہ نبی اپنی قوم سے ظلم اُٹھا کر کشمیر میں آیا تھا اورکوہ سلیمان پر عبادت کرتا رہا.اور ایک شاگر د ساتھ تھا.اب بتلاؤ کہ اس تحقیق میں کونسی کسر باقی رہ گئی.سچائی کو
مجموعہ اشتہارات 261 فلسطین سے کشمیر تک قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے لیکن کچھ شک نہیں کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور یوز آسف کے نام پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ یہ نام یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے.آسف بھی حضرت مسیح کا عبرانی میں ایک نام ہے جس کا ذکر انجیل میں بھی ہے اور اس کے معنے ہیں متفرق قوموں کو اکٹھا کرنے والا.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 387 تا 388) ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب جو اس نے تمام مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے کی ہے (ستمبر 1902ء) یہ کس قدر قابل شرم جھوٹ ہے کہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا.مگر اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ وہ صلیب پر مرا نہیں.واقعات صاف گواہی دیتے ہیں کہ مرنے کی کوئی بھی صورت نہیں تھی.تین گھنٹہ کے اندر صلیب پر سے اتارا گیا.شدت درد سے بیہوش ہو گیا.خدا کو منظور تھا کہ اس کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے.اس لیے اس وقت بباعث کسوف خسوف سخت اندھیرا ہو گیا یہودی ڈر کر اس کو چھوڑ گئے اور یوسف نام ایک پوشیدہ مُرید کے وہ حوالہ کیا گیا اور دو تین روز ایک کوٹھہ میں جو قبر کے نام سے مشہور کیا گیا رکھ کر آخرافاقہ ہونے پر ملک سے نکل گیا.اور نہایت مضبوط دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ پھر وہ سیر کرتا ہوا کشمیر میں آیا.باقی حصہ عمر کا کشمیر میں بسر کیا.سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے.افسوس خوانخواہ افتراء کے طور پر آسمان پر چڑھایا گیا اور آخر قبر کشمیر میں ثابت ہوئی.اس بات کے ایک دو گواہ نہیں بلکہ بیس ہزار سے زیادہ گواہ ہیں.اس قبر کے بارے میں ہم نے بڑی تحقیق سے ایک کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع کی جائیگی مجھے اس قوم کے مشنریوں پر بڑا ہی افسوس آتا ہے جنہوں نے فلسفہ طبعی ، ہیت سب پڑھ کر ڈبودیا اور خواہ مخواہ ایک عاجز انسان کو پیش کرتے ہیں کہ اس کو خدا مان لو.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 568)
مکتوبات احمد 262 فلسطین سے کشمیر تک مكتوبات احمد مکتوبات بنام نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ ( 21 جولائی 1898ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالی ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ معہ مبلغ دوسو روپیہ مجھ کو ملا.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے.آمین ثم آمین.خط میں سو روپیہ لکھا ہوا تھا اور حامل خط نے دوسو روپیہ دیا.اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا.میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسی روانہ کرتا ہوں اور جس طور سے یہ دوائی استعمال ہو گی.آج اس کا اشتہار چھاپنے کی تجویز ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا.بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ والسلام خاکسار شروع کر دیں.۲۱ جولائی ۱۸۹۸ء مرزا غلام احمد عفی عنہ ( مکتوب نمبر 29 ، مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 227)
مکتوبات احمد 263 فلسطین سے کشمیر تک (29 اگست 1899 ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ، تعالی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته مرزا خدا بخش کونصیبین میں بھیجنے کی پختہ تجویز ہے.خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے ہوتے ہیں.جو ہر وقت ہاتھ نہیں آتے.کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جاوے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کو خدا تعالیٰ کا ملازم ٹھہرا کر اور بدستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اور سفر خرچ کا اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا د شام کریں.میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہوگا کہ شائد پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے.مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جانے سے پہلے دس ہیں دن میرے پاس رہیں تا وقتاً فوقتاً ضروری یادداشتیں لکھ لیں.کیونکہ جس جگہ جائیں گے وہاں ڈاک نہیں پہنچ سکتی.جو کچھ سمجھایا جائے گا پہلے ہی سمجھایا جائے گا.اور میرے لئے یہ مشکل ہے کہ سب کچھ مجھے ہی سمجھانا ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت کے آدمی اپنے دماغ سے کم پیدا کرتے ہیں.سوضروری ہے کہ دو تین ہفتہ میرے پاس رہیں اور میں ہر ایک مناسب امرجیسا کہ مجھے یاد آتا جائے ان کی یادداشت میں لکھا دوں.جس وقت آپ مناسب سمجھیں ان کو اس طرف روانہ فرما دیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ۲۲ ستمبر ۱۸۹۹ء تک آپ قادیان میں ضرور تشریف لاویں گے.زیادہ خیریت ہے.۲۹ / اگست ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکتوب نمبر 47، مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 250 تا 251)
مکتوبات احمد 264 (9 نومبر 1899ء) فلسطین سے کشمیر تک مجی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ پانچ سورو پیر کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی پچھتر روپے پہنچ گئے.جزاکم اللہ خیر الجزاء.دو آدمی جو نصیبین میں برفاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیں گے.ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہوگی.لہذا تحریر آں محبت اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سورو پید ان کی روانگی کے لئے چاہیئے.مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ء تک آں محب تشریف لائیں گے.باقی سب خیریت ہے.والسلام ۹ نومبر ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان نوٹ :.اس خط میں نواب صاحب کے آنے کی جو تاریخ لکھی ہے.وہ صاف پڑھی نہیں گئی.غالباً آخر نومبر کی کوئی تاریخ ہوگی.نصیبین کا مشن بعد میں بعض مشکلات کی وجہ سے بھیجا نہ جاسکا.گواس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا.مکتوب نمبر 48، مکتوبات احمد جلد دوم صفحه 252) مکتوبات بنام حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبد الرحمن مدراسی صاحب (11 جون 1899ء) مخدومی مکر می اخویم سیٹھ صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.میں باوجود علالت طبع کے اور باوجود ایسی حالتوں کے کہ میں نے خیال کیا کہ شاید زندگی میں سے چند دم باقی ہیں، آپ کو دعا کرنے میں فراموش نہیں کیا بلکہ انہیں حالات میں نہایت درد دل سے دعا کی ہے اور اب تک میرے جوش میں کمی نہیں ہے.میں نہیں جانتا کہ اس خط کے پہنچنے تک کتنی دفعہ مجھ کو دعا کا موقع ملے گا.میں ہرگز
مکتوبات احمد 265 فلسطین سے کشمیر تک باور نہیں کرتا کہ یہ دعائیں میری قبول نہ ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہو سکتا ہے آپ اس گھڑی کے یقین دل سے منتظر ر ہیں جبکہ دعاؤں کی قبولیت ظاہر ہو.ایک بڑے یقین کے ساتھ انتظار کرنا بڑا اثر رکھتا ہے.میں آپ کو نہیں بتلا سکتا کہ میں آپ کے لئے کس توجہ سے دعا کرتا ہوں.یہ حالت خدا تعالیٰ کو خوب معلوم ہے.ان دنوں میں میری طبیعت بہت بیمار ہو گئی تھی ایک دفعہ مرض کا خطرناک حملہ بھی ہوا تھا.مگر شکر باری ہے کہ اس وقت میں بھی میں نے بہت دعا کی ہے اور اب تک طبیعت بہت کمزور ہے اس لئے کتاب کی تالیف میں بھی حرج ہے.ایک نہایت ضروری امر کے لئے آپ کو لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ مدراس میں ایک میلہ یوز آسف کا سال بسال ہوا کرتا ہے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ میلہ کرتے ہیں وہ یوز آسف کس کو کہتے ہیں اور کس مرتبہ کا انسان اس کو سمجھتے ہیں اور نیز ان کا کیا اعتقاد ہے کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس قوم میں سے تھا.اور کیا مذہب رکھتا تھا اور نیز یہ کہ کیا اس جگہ کوئی یوز آسف کا کوئی مقام موجود ہے اور کیا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی تحریریں ہیں جن سے یوز آسف کے سوانح معلوم ہوسکیں اور ایسا ہی دوسرے حالات جہاں تک ممکن ہو سکے دریافت کر کے جلد تر مجھ کو اس سے اطلاع بخشیں کیونکہ اس وقت کہ جواب آوے یہ کتاب معرض التوا میں رہے گی.اور میں نے باوجود ضعف طبیعت کے نہایت ضروری سمجھ کر یہ خط لکھا ہے.اللہ تعالیٰ خیر وعافیت سے اس خط کو پہنچاوے.باقی خیریت ہے.والسلام اار جون ۱۸۹۹ء خاکسار مرزا غلام احمد مکتوب نمبر 66، مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 395) (2اکتوبر 1899ء) مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.مبلغ سور و پیہ مرسلہ آئمکرم پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزا بخشے اور آفات دینی اور
مکتوبات احمد 266 فلسطین سے کشمیر تک د نیوی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین.کشمیر سے خلیفہ نور دین صاحب تحقیقات کر کے آگئے ہیں.پانسو چھپین آدمی کی گواہی سے ثابت ہوا کہ وہ قبر جس کا ذکر رسالہ میں کیا گیا ہے مختلف ناموں سے مشہور ہے بعض یوز آسف نبی کی قبر کہتے اور بعض شہزادہ نبی کی قبر اور بعض عیسی صاحب کی قبر اور اب عنقریب تین آدمی سفر خرچ کے انتظام کے بعد نصیبین کی طرف روانہ ہوں گے اور اس سے پہلے جلسہ ہو گا جس کی تاریخ ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے.اس جلسہ سے چند روز بعد یہ تینوں روانہ ہو جائیں گے.باقی خیریت ہے.۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء والسلام خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان (مکتوب نمبر 78، مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 407) مکتوب بنام خواجہ کمال الدین صاحب بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مجی اخویم خواجہ کمال الدین آنمکرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ایک معتبر اور مخلص کا خط جس میں یوز آسف کا بیان ہے آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں مگر افسوس کہ یہ پتہ پشاور سے نہ مل سکا وجہ یہی ہے کہ آپ مسافر تھے اور پشاور کے باشندہ نہیں تھے اس لیے پوری توجہ نہیں دے سکے اب وقت بہت تنگ ہے یہ خط اس غرض سے بھیجتا ہوں کہ اس تحریر کو دیکھ کر آپ اور گواہ پشاور میں سے پیدا کریں اور نہ تجویز یہ ہے کہ اس جگہ سے کوئی عالی ہمت دوست شیطان گمل میں بھیج دوں.یہ واقعہ صحیح ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یوز آسف یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اس راہ
مکتوبات احمد 267 فلسطین سے کشمیر تک سے کشمیر کی طرف گئے تھے.ایک بڑا ضروری کام جس کے لیے مجھے اپنے ہاتھ سے یہ خط لکھنا پڑا یہ ہے کہ اس خط میں لکھا ہے کہ آسف نبی کے نام پر اب تک تخت کابل سے کچھ جا گیر چبوترہ کے نام مقرر ہے جس سے ظاہر ہے کہ دفتر کابل میں یوز آسف نبی کا ضرور ذکر ہوگا اور یہ بھی یقینی امر ہے کہ مجاوروں کے پاس جو سندات ہوں گے اس میں بھی اس کا ذکر ہو گا.خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے اس چبوترہ کی دوبارہ مرمت کی تھی کچھ تعجب نہیں کہ خواب آیا ہوتا ہمارے وقت تک یہ یاد گار باقی رہ جائے کیا مولوی غلام حسن صاحب آپ کو کچھ بھی مدد نہیں دے سکتے.نہایت جائے افسوس ہے یہ تو خدا نے ایک باطل طلسم کو توڑنے کے لیے ایک آسمانی حربہ نکالا ہے اس کی تائید سے برابر دنیا میں اور کوئی شے نہیں جس کے اثر سے چالیس کروڑ انسان کی اصلاح ہو سکے.بہت جلد جواب آنا چاہیے.آپ کے قادیان میں کس قدر دعوے تھے اب ان کی ایفاء کا وقت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد یہ تدبیر نکالنی چاہیے کہ کیونکر ہم کسی شاہی تحریر یا مجاوروں کی سند کی نقل لے سکیں.غیر مطبوعہ خط.ماخذ خلافت لائبریری ربوہ )
ملفوظات 268 ملفوظات فلسطین سے کشمیر تک ہفتہ مختتمہ 10 جولائی 1899 ایک دینی خوشخبری پر بے پایاں مسرت: اس ہفتہ میں جو سب سے عجیب اور دلچسپ جو بات واقع ہوئی اور جس نے ہمارے ایمانوں کو بڑی قوت بخشی وہ ایک چٹھی کا حضرت کے نام آنا تھا.اس میں پختہ ثبوت اور تفصیل سے لکھا تھا کہ جلال آباد ( علاقہ کا بل ) کے علاقہ میں یوز آسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو ہزار برس ہوئے کہ یہ نبی شام سے یہاں آیا تھا اور سر کار کابل کی طرف سے کچھ جاگیر بھی اس چبوترے کے نام ہے.زیادہ تفصیل کا محل نہیں.اس خط سے حضرت اقدس اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا: اللہ تعالی گواہ اور علیم ہے کہ اگر کوئی مجھے کروڑوں روپے لا دیتا تو میں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جیسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه (203)
ملفوظات 269 فلسطین سے کشمیر تک (12 ،14،13 نومبر 1899ء) جلسہ الوداع کی تقریب پر حضرت اقدس کی تقریر بعثت کی غرض: حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ صلیب سے اتر آنے اور اس حادثہ سے بچ جانے کا قرآن شریف میں صحیح اور یقینی علم دیا گیا ہے ،مگر افسوس ہے کہ پچھلے ہزار برس میں جہاں اسلام پر اور بہت سی آفتیں آئیں.وہاں یہ مسلہ بھی تاریکی میں پڑ گیا اور مسلمانوں میں بدقسمتی سے یہ خیال راسخ ہو گیا کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے ، مگر اس چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا تا کہ میں اندرونی طور پر جو غلطیاں مسلمانوں میں پیدا ہو گئیں ہیں، ان کو دور کروں اور اسلام کی حقیقت دنیا پر واضح کروں اور بیرونی طور پر جو اعتراضات اسلام پر کئے جاتے ہیں.ان کا جواب دوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کی حقیقت کھول کر دکھاؤں.خصیصیت کے ساتھ وہ مذہب جوصلیبی مذہب ہے یعنی عیسائی مذہب، اس کے غلط اعتقادات کا استیصال کروں جو انسان کے لئے خطر ناک طور پر مضر ہیں اور انسان کی روحانی قوتوں کی نشو و نما اور ترقیات کے لئے ایک روک ہیں.ے.جن دنوں حضرت مسیح موعود کتاب ” مسیح ہندوستان میں تالیف کر رہے تھے انہیں ایام میں معلوم ہوا کہ نصیبین ( ملک عراق عرب ) میں حضرت مسیح ناصرتی کے بعض آثار موجود ہیں.جن سے اُن کے اس سفر کا پتہ ملتا ہے اور تصدیق ہوتی ہے کہ وہ کشمیر میں آکر رہے.حضرت مسیح موعود نے قرین مصلحت سمجھا تھا کہ ایک کمیشن ( وفد ) بھیجا جائے جوان آثار و حالات کی خود تفتیش اور تحقیقات کرے اور پھر اُسی راستہ سے جو حضرت مسیح نے کشمیر آنے کے لئے تجویز کیا تھا.واپس ہوتے ہوئے قادیان پہنچ جائے.اس وفد کو رخصت اور وداع کرنے کے لئے ایک جلسہ تجویز ہوا تھا جس کا نام جلستہ الوداع رکھا گیا تھا؛ اگر چہ بعض پیش آمدہ امور ضروریہ کی وجہ سے اس کمیشن کا بھیجا جانا ملتوی ہو گیا.مگر یہ جلسہ 12 ، 13 ، 14 نومبر 1899ء کو خوب دھوم دھام سے ہوا.اس میں آپ نے یہ تقریر فرمائی.
ملفوظات 270 فلسطین سے کشمیر تک عیسی ابن مریم کے متعلق اصل حقائق بمنجملہ ان کے ایک یہی مسئلہ ہے جو مسیح کے آسمان پر جانے کے متعلق ہے اور جس میں بدقسمتی سے بعض مسلمان بھی ان کے شریک ہو گئے ہیں.اسی ایک مسئلے پر عیسائیت کا دارو مدار ہے کیونکہ عیسائیت کی نجات کا مدار اسی صلیب پر ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ مسیح ہمارے لئے مصلوب ہوا اور پھر وہ زندہ ہوکر آسمان پر چلا گیا، جوگو یا اس کی خدائی کی دلیل ہے.جن مسلمانوں نے اپنی غلطی سے ان لوگوں کا ساتھ دیا ہے.وہ یہ تو نہیں مانتے کہ مسیح صلیب پر مر گیا، مگر وہ اتنا ضرور مانتے ہیں کہ وہ زندہ (بجسد عصری ) آسمان پر اٹھایا گیا ہے.لیکن جو حقیقت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح ابن مریم اپنے ہمعصر یہودیوں کے ہاتھوں سخت ستایا گیا.جس طرح پر راستباز لوگ اپنے زمانہ میں نادان مخالفوں کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں اور آخران یہودیوں نے اپنی منصوبہ بازی اور شرارتوں سے یہ کوشش کی کہ کسی طرح پر آپ کا خاتمہ کر دیں اور آپ کو مصلوب کرا دیں.بظاہر وہ اپنی ان تجاویز میں کامیاب ہو گئے، کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم کو صلیب پر چڑھائے جانے کا حکم دیدیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے راستبازوں اور ماموروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.ان کو اس لعنت سے جو صلیب کی موت کے ساتھ وابستہ تھی بچالیا اور ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ اس صلیب پر سے زندہ اُتر آئے.اس امر کے ثبوت کے لیے بہت سے دلائل ہیں جو خاص انجیل سے ہی مل سکتے ہیں لیکن اس وقت ان کا بیان کرنا میری غرض نہیں ہے، جو شخص ان واقعات پر جو صلیب کے متعلق انجیل میں درج ہیں ،غور کرے گا.تو ان کے پڑھنے سے اُسے صاف معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح ابن مریم صلیب پر سے زندہ اُتر آئے تھے اور پھر یہ خیال کر کے کہ اس ملک میں اُن کے بہت سے دشمن تھے اور دشمن بھی وہ جو اُن کے جانی دشمن تھے اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا، مگر اپنے وطن میں جس سے ان کی ہجرت کا پتہ چلتا ہے کہ اُنھوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اس ملک کو چھوڑ دیں اور اپنے فرض رسالت کو پورا کرنے کے لیے وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلے اور نصیبین کی طرف سے ہوتے ہوئے
ملفوظات 271 فلسطین سے کشمیر تک افغانستان کے راستہ کشمیر میں آکر بنی اسرائیل کو جو کشمیر میں موجود تھے تبلیغ کرتے رہے اور اُن کی اصلاح کی اور آخر کار اُن میں ہی وفات پائی.یہ امر ہے جو مجھ پر کھولا گیا ہے.اس مسئلہ کی اہمیت : اس ایک مسئلہ سے ہی عیسائیت کا ستون ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ جب صلیب پر مسیح کی موت ہی نہیں ہوئی اور وہ تین دن کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر گئے ہی نہیں، تو الوہیت اور کفارہ کی عمارت توبیخ و بنیاد سے گر پڑی اور مسلمانوں کا غلط خیال (جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سخت تو ہین ہوتی تھی کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر دوبارہ نازل ہوں گے ؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا یا پرانا نبی نہیں آسکتا جس کی نبوت پر آپ کی مہر نہ ہو بھی دور ہو گیا.اور قرآن شریف کی اصل اور پاک تعلیم کچی ثابت ہوگئی.کیونکہ قرآن شریف میں تو مسیح کا صاف اقرار فلما تو فیتنی کا موجود ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا.وفات مسیح کے مسئلہ پر زور دینے کی وجہ: یہی وجہ ہے کہ ہم وفات مسیح کے مسئلہ پر زیادہ زور دیتے ہیں، کیونکہ اسی موت کے ساتھ عیسائی مذہب کی بھی موت ہے اور اسی غرض سے میں نے کتاب " مسیح ہندوستان میں لکھنی شروع کی ہے اور اس کتاب کے بعض مطالب کی تکمیل کے لیے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اپنی جماعت میں سے چند آدمیوں کو بھیجوں.جو اُن علاقہ جات میں جا کر ان آثار کا پتہ لگا ئیں، جن کا وہاں موجود ہونا بتایا جاتا ہے؛ چنانچہ اس غرض کو مد نظر رکھ کر ہم نے یہ جلسہ کیا ہے، تا کہ ان دوستوں کو رخصت کرنے کے لیے پہلے ہم سب مل کر اُن کے لیے دعائیں کریں کہ وہ خیر وعافیت کے ساتھ اس مبارک سفر کے لیے رخصت ہوں اور کامیاب ہو کر واپس آئیں.حضرت مسیح کا واقعہ صلیب کے بعد نصیبین جانا: اگر چہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سفر جو تجویز کیا گیا ہے.اگر نہ بھی کیا جاتا تو بھی خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اس قدر شواہد اور دلائل ہم کو اس امر کے لیے دیدیئے ہیں ، جن کو مخالف کا قلم اور زبان تو نہیں سکتی ، لیکن مومن ہمیشہ ترقیات کی خواہش کرتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ حقائق اور معارف کا بھوکا پیاسا ہوتا ہے.کبھی ان سے سیر نہیں ہوتا.اس لیے ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ جس
ملفوظات 272 فلسطین سے کشمیر تک قدر ثبوت اور دلائل اور مل سکیں.وہ اچھا ہے.اس مقصد کے لیے یہ تقریب پیش آئی ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو صیبین کی طرف بھیجتے ہیں.جس کے متعلق ہمیں پتہ ملا ہے کہ وہاں کے حاکم نے حضرت مسیح کو (جبکہ وہ اپنی ناشکر گزار قوم کے ہاتھ سے تکلیفیں اٹھا رہے تھے.لکھا تھا کہ آپ میرے پاس چلے آئیے اور واقعہ صلیب سے بچ جانے کے بعد اس مقام پر پہنچ کر انہوں نے بد قسمت قوم کے ہاتھ سے نجات پائی.وہاں کے حاکم نے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ میرے پاس آجائیں گے تو آپ کی خدمت کی سعادت حاصل کروں گا اور میں بیمارہوں میرے لیے دُعا بھی کریں) اگر چہ یہ امر ہمیں ایک انگریزی کتاب سے معلوم ہوا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ روضتہ الصفا جو ایک اسلامی تاریخ ہے.اس قسم کا مفہوم اس سے بھی پایا جاتا ہے.اس لیے یہ یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نصیبین میں ضرور آئے اور اسی راستے سے وہ ہندوستان کو چلے آئے.سارا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن ہمارا دل تو گواہی دیتا ہے کہ اس سفر سے انشاء اللہ حقیقت کھل جائے گی اور اصل معاملہ صاف ہو جائے گا.ممکن ہے کہ اس سفر میں ایسی تحریریں پیش ہو جاویں یا ایسے کتبے نکل آویں، جو حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر کے متعلق بعض امور پر روشنی ڈالنے والے ہوں یا حواریوں میں سے کسی کی قبر کا کوئی پتہ چل جائے یا اور اس قسم کے بعض امور نکل آویں، جو ہمارے مقصد میں موید ثابت ہوسکیں، اس لئے میں نے اپنی جماعت میں سے تین آدمیوں کو اس سفر کے لئے تیار کیا ہے.ان کے لئے ایک عربی تصنیف بھی میں کرنی چاہتا ہوں ، جو بطور تبلیغ کے ہو اور جہاں جہاں وہ جاویں.اس کو تقسیم کرتے رہیں اس طرح اس سفر سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ ہمارے سلسلے کی اشاعت بھی ہوتی جائے گی.ایک مخلص اور وفا دار جماعت: اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں.نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار.
ملفوظات 273 فلسطین سے کشمیر تک حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی.جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام کو جو مشکلات اور مصائب اٹھانے پڑے.اور ان کے عوارض اور اسباب میں سے جماعت کی کمزوری اور بیدلی بھی تھی ، چنانچہ جب ان کو گرفتار کیا گیا، تو پطرس جیسے اعظم الحوار بین نے اپنے آقا اور مرشد کے سامنے انکار کر دیا اور نہ صرف انکار کیا، بلکہ تین مرتبہ لعنت بھی بھیج دی.اور اکثر حواری ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے.اس کے برخلاف آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا، جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی ، انہوں نے آپ کی خاطر ہر قسم کا دکھ اٹھا نا سہل سمجھا.یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے اور بالآخر آپ کی خاطر جان تک دینے سے تامل اور افسوس نہیں کیا.یہی صدق اور وفا تھی جس نے ان کو آخر کار با مراد کیا.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کو بھی اس کی قدر اور مرتبہ کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفا دوری اور صدق کا نمونہ دکھاتے ہیں.جس دن سے میں نے نصیبین کی طرف ایک جماعت کے بھیجنے کا ارادہ کیا ہے.ہر ایک شخص کوشش کرتا ہے کہ اس خدمت پر مامور کیا جائے اور دوسرے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور آرزو کرتا ہے کہ اس کی جگہ اگر اس کو بھیجا جائے.تو اس کی بڑی ہی خوش قسمتی ہے.بہت سے احباب نے اس سفر پر جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا، لیکن میں ان درخواستوں سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کو اس سفر کے واسطے منتخب کر چکا تھا اور مولوی قطب الدین اور میاں جمال دین کو ان کے ساتھ جانے کے واسطے تجویز کر لیا تھا.اس واسطے مجھے ان احباب کی درخواستوں کو رد کرنا پڑا.تاہم میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جنھوں نے بصد مشکل اور سچے اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی پاک نیتوں کے ثواب کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اپنے اخلاص کے موافق اجر پائیں گے.خدا تعالیٰ کی خاطر سفر کی عظمت : دور دراز بلا داور ممالک غیر کا سفر آسان امر نہیں ہے؛ اگر چہ یہ سچ ہے کہ اس وقت سفر آسان ہو گئے ہیں.لیکن پھر بھی یہ کس کو علم ہو سکتا
ملفوظات 274 فلسطین سے کشمیر تک ہے، کہ اس سفر سے کون زندہ آئے گا.چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویوں اور دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر جانا کوئی سہل بات نہیں ہے.اپنے کاروبار اور اپنے معاملات کو ابتری اور پریشانی کی حالت میں چھوڑ کر ان لوگوں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے اور انشراح صدر سے اختیار کیا ہے.جس کے لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ بڑا ثواب ہے.ایک تو سفر کا ثواب ہے، کیونکہ یہ سفر محض خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید کے اظہار کے واسطے ہے.دوسرے اس سفر میں جو جو مشقتیں اور تکالیف ان لوگوں کو اٹھانی پڑیں گی ، ان کا بھی ثواب ہے.اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا، جبکہ مَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَّرَه (الزلزال: ۸) کے موافق وہ کسی کی ذرہ بھر نیکی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا، تو اتنا بڑا سفر جو اپنے اندر ہجرت کا نمونہ رکھتا ہے.اس کا اجر کبھی ضائع ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.ہاں یہ ضروری ہے کہ صدق اور اخلاص ہو.ریا اور دوسرے اغراض شہرت و نمود کے نہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ برو بحر کے شدائد و مصائب کو برداشت کرنا اور ایک موت کو قبول کر لینا بجز صدق کے نہیں ہو سکتا.بہت سے بھائی ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں گے اور میں بھی ان کے واسطے دعاوں میں مصروف رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقصد میں کامیاب کرے اور خیر و عافیت سے واپس لاوے اور سچ تو یہ ہے کہ ملائکہ بھی ان کے واسطے دعائیں کریں گے اور وہ ان کے ساتھ ہوں گے.جماعت کی مروت اور ہمت : اب میں یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر ہماری جماعت نے دو قسم کی مروت اور ہمت دکھائی ہے.ایک تو یہ گروہ ہے جنہوں نے سفر اختیار کیا اور اپنے آپ کو سفر کے خطرات میں ڈالا ہے اور ان مصائب اور شدائد کے برداشت کرنے کو تیار ہو گئے ہیں جو اس راہ میں انہیں پیش آئیں گی.دوسرا وہ گروہ ہے جنہوں نے میری دینی اغراض و مقاصد میں ہمیشہ دل کھول کر چندے دئے ہیں.میں کچھ ضرورت نہیں سمجھتا کہ تفصیل کروں، کیونکہ ہر شخص کم و بیش اپنی استطاعت اور مقدرت کے موافق حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس اخلاص اور وفاداری سے ان چندوں میں شریک ہوتے ہیں.میں یہ خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت نے وہ صدق اور وفا دکھایا
ملفوظات 275 فلسطین سے کشمیر تک ہے جو صحابہ شاعت العسر میں دکھاتے تھے ؛ اگر چہ اشتہار میں میں نے چند دوستوں کے نام لکھے ہیں، جنھوں نے اپنے صدق و ہمت کا نمونہ دکھایا ہے، لیکن اس سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ میں دوسروں سے بے خبر ہوں یا اُن کی خدمات کو قابلِ قدر نہیں سمجھتا.میں خوب جانتا ہوں کہ کون سرگرمی اور اخلاص کے ساتھ میری راہ میں دوڑتا ہے.میں چونکہ بیمار تھا اور ابھی تک طبیعت ناساز ہے، اس لئے میں پوری تفصیل نہ دے سکا اور نہ مختصر سے اشتہار میں اتنی تفصیل ہو سکتی تھی.پس جن لوگوں کے نام درج نہیں ہوئے.اُن کو افسوس نہیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ اُن کے صدق اور اخلاص کو خوب جانتا ہے.مالی قربانی محض اللہ ہو: اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے چندہ دیتا ہے یا ہماری دینی ضروریات میں شریک ہوتا ہے کہ اُس کا نام شائع کیا جائے ، تو یقینا سمجھو کہ وہ دُنیا کی شہرت اور نام و نمود کا خواہشمند ہے، لیکن جو شخص محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس راہ میں قدم رکھتا ہے اور خدمت دین کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے، اُس کو اس بات کی کچھ بھی پروانہیں ہوتی.دُنیا کے نام کچھ حقیقت اور اثر اپنے اندر نہیں رکھتے ہیں.نام وہی بہتر ہوتے ہیں، جو آسمان پر رکھے جائیں.کاغذات کا کیا اثر ہے.ایک دن ہوتے ہیں اور دوسرے دن ضائع ہو جاتے ہیں، لیکن جو کچھ آسمان پر لکھا جاتا ہے وہ کبھی محو نہیں ہوسکتا.اس کا اثر ابدالآباد کے لئے ہوتا ہے، میرے بہت سے مخلص احباب ایسے ہیں جن کو تم میں سے شاید بہت ہی کم جانتے ہوں لیکن انہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے.مثلاً میں نظیر کے طور پر کہتا ہوں کہ مرزا یوسف بیگ صاحب میرے بہت ہی مخلص اور صادق دوست ہیں.میں نے اُن کا ذکر اس واسطے کیا ہے کہ اس طرح پر بھائیوں میں باہم تعارف بڑھتا ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے.مرزا صاحب اس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا تھا.میں دیکھتا ہوں کہ اُن کا دل محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا ہے اور وہ ہر وقت سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے اندر ایک جوش رکھتے ہیں.ایسا ہی اور بہت سے عزیز دوست ہیں اور سب اپنے اپنے ایمان اور معرفت کے موافق اخلاص اور جوشِ محبت سے لبریز ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 221 تا 226)
ملفوظات 276 فلسطین سے کشمیر تک (19، اپریل 1901ء) 19، اپریل 1901 ء کولاہور سے فورمن کالج اور امریکی مشن کے دو پادری مع ایک دیسی عیسائی کے قادیان آئے تھے.وہ حضرت مسیح موعود سے بھی ملے اور انہوں نے کچھ سوالات حضور سے کئے جن کا جواب حضرت اقدس دیتے رہے.(ان میں سے ہجرت مسیح سے متعلقہ حصہ پیش ہے) مسیح کا واقعہ صلیب : سوال: آپ کا خیال مسیح کی صلیب کی نسبت کیا ہے؟ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 487 تا 488) جواب: میں اس کو نہیں مانتا کہ وہ صلیب پر مرے ہوں بلکہ میری تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور خود مسیح علیہ السلام بھی میری رائے سے متفق ہیں.حضرت مسیح کا بڑا معجزہ یہی تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مریں گے، کیونکہ یونس نبی کے نشان کا انہوں نے وعدہ کیا تھا.اب اگر یہ مان لیا جائے جیسا کہ عیسائیوں نے غلطی سے مان رکھا ہے کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے تو پھر یہ نشان کہاں گیا اور یونس نبی کے ساتھ مماثلت کیسی ہوئی ؟ یہ کہنا کہ وہ قبر میں داخل ہو کر تین دن کے بعد زندہ ہوئے.بہت بے ہودہ بات ہے.اس لئے کہ یونس تو مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے، نہ مرکر.یہ نبی کی بے ادبی ہے.اگر ہم اس کی تاویل کرنے لگیں.اصل بات یہی ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے.ہر ایک سلیم الفطرت انسان کو واجب ہے کہ جو کچھ مسیح نے صاف لفظوں میں کہا اس کو محکم طور پر پکڑیں.حضرت عیسی“ پر ایک غشی کی حالت تھی.انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اور اسباب اور واقعات بھی اس قسم کے پیش آگئے تھے کہ وہ صلیب کی موت سے بچ جائیں؛ چنانچہ سبت کے شروع ہونے کا خیال.حاکم کا مسیح کے خون سے ہاتھ دھونا.اس کی بیوی کا خواب دیکھنا وغیرہ.خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھا دیا ہے کہ ایک بہت بڑاذ خیرہ دلائل و براہین کا دیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہرگز ہرگز صلیب پر نہیں مرے.صلیب پر سے زندہ اتر آئے.غشی کی
ملفوظات 277 فلسطین سے کشمیر تک حالت بجائے خود موت ہوتی ہے.دیکھو سکتہ کی حالت میں نہ نبض رہتی ہے نہ دل کا مقام حرکت کرتا ہے.بالکل مُردہ ہی ہوتا ہے.مگر پھر وہ زندہ ہو جاتا ہے.مسیح کے نہ مرنے کے دو بڑے زبر دست گواہ ہیں.اول تو یہ ہے کہ یہ ایک نشان اور معجزہ تھا.ہم نہیں چاہتے کہ اس کی کسر شان کی جائے اور وہ آدمی سخت حقارت اور نفرت کے لائق ہے جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کو حقیر سمجھ لیتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ اس کی تصدیق نہیں کرتے کہ وہ صلیب پر مرے ہیں بلکہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور پھر اپنی طبعی موت سے مرنے کی تصدیق فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اگر انجیل کی ساری باتوں کو جو اس واقعہ صلیب کے متعلق ہیں یکجائی نظر سے دیکھیں ، تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر مرے ہوں.حواریوں کو ملنا، زخم دکھانا ، کباب کھانا، سفر کرنا.یہ سب امور ہیں جو اس بات کی نفی کرتے ہیں ؛ اگر چہ خوش اعتقادی سے ان واقعات کی کچھ بھی تاویل کیوں نہ کی جاوے، لیکن ایک منصف مزاج کہہ اٹھے گا کہ زخم لگے رہے اور کھانے کے محتاج رہے یہ زندہ آدمی کے واقعات ہیں.یہ واقعات اور صلیب کے بعد کے دوسرے واقعات گواہی دیتے ہیں اور تاریخ شہادت دیتی ہے کہ دو تین گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہیں رہے اور وہ صلیب اس قسم کی نہ تھی جیسے آج کل پھانسی ہوتی ہے جس پر لٹکاتے ہی دو تین منٹ کے اندر ہی کام تمام ہو جاتا ہے، بلکہ اس میں تو کیل وغیرہ ٹھونک دیا کرتے تھے.اور کئی دن زندہ رہ کر انسان بھوکا پیاسا مر جاتا تھا.مسیح کے لئے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا.وہ صرف دو تین گھنٹہ کے اندر ہی صلیب سے اتار لئے گئے.یہ تو وہ واقعات ہیں جو انجیل میں موجود ہیں.جو مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے لئے زبردست گواہ ہیں.پھر ایک اور بری شہادت ہے جو اس کی تائید میں ہے.وہ مرہم عیسی ہے.جو طب کی ہزاروں کتابوں میں برابر درج ہے اور اس کے متعلق لکھا گیا ہے کہ یہ مرہم عیسی کے زخموں کے واسطے حواریوں نے تیار کی تھی.یہودیوں، عیسائیوں کی طبی کتابوں میں اس مرہم کا ذکر موجود ہے.پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے.ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور امر پیدا ہو گیا ہے جس نے قطعی طور سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا صلیب
ملفوظات 278 فلسطین سے کشمیر تک پر مرنا بالکل غلط اور جھوٹ ہے.وہ ہرگز ہرگز صلیب پر نہیں مرے اور وہ ہے مسیح کی قبر.مسیح کی قبر : مسیح کی قبر سری نگر خانیار کے محلہ میں ثابت ہوگئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زلزلہ میں ڈال دے گی.کیونکہ اگر مسیح صلیب پر مرے تھے، تو یہ قبر کہاں سے آ گئی؟ سوال : آپ نے خود دیکھا ہے؟ جواب: میں خود وہاں نہیں گیا، لیکن میں نے اپنا ایک مخلص ثقہ مرید وہاں بھیجا تھا.وہ وہاں ایک عرصہ تک رہا اور اس کے متعلق پوری تحقیقات کر کے پانسو معتبر آدمیوں کے دستخط کرائے جنہوں نے اس قبر کی تصدیق کی.وہ لوگ اس کو شہزادہ نبی کہتے ہیں اور عیسی صاحب کی قبر کے نام سے بھی پکارتے ہیں.آج سے گیارہ سو سال پہلے اکمال الدین نام ایک کتاب چھپی ہے وہ بعینہ انجیل ہے.وہ کتاب یوز آسف کی طرف منسوب ہے.اس نے اس کا نام بشری یعنی انجیل رکھا ہے.یہی تمثیلیں ، یہی قصے، یہی اخلاقی باتیں جو انجیل میں پائی جاتی ہیں اور بسا اوقات عبارتوں کی عبارتیں انجیل سے ملتی ہیں.اب یہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہ یوز آسف کی قبر ہے.یوز آسف یوز آسف وہی ہے جس کو یسوع کہتے ہیں.اور آسف کے معنی ہیں پراگندہ جماعتوں کو جمع کرنے والا.چونکہ مسیح علیہ السلام کا کام بھی بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنا تھا اور اہل کشمیر بہ اتفاق اہلِ تحقیق بنی اسرائیل ہی ہیں.اس لئے ان کا یہاں آنا ضروری تھا.اس کے علاوہ خود یوز آسف کا قصہ یورپ میں مشہور ہے، بلکہ یہاں تک کہ اٹلی میں اس نام پر ایک گرجا بھی بنایا گیا ہے اور ہر سال وہاں ایک میلہ بھی ہوتا ہے.اب اس قدر صرف کثیر سے ایک مذہبی عمارت کا بنانا اور پھر ہر سال اس پر ایک میلہ کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سرسری نگاہ سے دیکھی جائے.وہ کہتے ہیں کہ یوز آسف مسیح “ کا حواری تھا.ہم کہتے ہیں کہ یہ بات سچی نہیں ہے.یوز آسف خود ہی مسیح تھا.اگر وہ حواری ہے تو یہ تمہارا فرض ہے کہ تم ثابت کرو کہ مسیح کے کسی حواری کا نام شہزادہ نبی تھا.
ملفوظات 279 فلسطین سے کشمیر تک یہ ایسی باتیں ہیں جو صلیب کے واقعہ کا سارا پر دہ ان سے کھل جاتا ہے.ہاں اگر مسیحی اس بات کے قائل نہ ہوتے تو البتہ بحث بند ہو جاتی لیکن جبکہ انہوں نے قبول کر لیا ہے کہ یوز آسف ایک شخص ہوا ہے اور اس کی تعلیم انجیل ہی کی تعلیم ہے اور اس نے بھی اپنی کتاب کا نام انجیل ہی رکھ لیا ہے اور جس طرح پر شہزادہ نبی مسیح کا نام ہے اس کو بھی شہزادہ نبی کہتے ہیں.اب غور کرنے کے قابل بات ہے کہ اگر یہ خود مسیح ہی نہیں تو اور کون ہے؟ خدا کے لئے سوچو.جو شخص دنیا سے دل نہیں لگا تا اور سچائی سے پیار کرتا ہے اس کو تو ماننے میں ذرا بھی عذر نہیں ہوسکتا، کیونکہ جب مان لیا کہ یوز آسف واقعی ایک شخص تھا جس کا مسیح سے تعلق تھا اور پھر اٹلی میں اس کا گرجا بھی بنا دیا اور ہر سال وہاں میلہ بھی ہوتا ہے اور پھر یہ بھی اقرار کر لیا کہ اس کی تعلیم انجیل ہی کی تعلیم ہے پھر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ خود مسیح نہیں ہے؟ یہ چار باتیں جب تسلیم کر لیں تو میں ایک جز لے کر آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ آپ جو کہتے ہیں کہ وہ حواری تھا.ثابت کر کے دکھاؤ کہ یوز آسف کسی حواری کا بھی نام تھا.اور یوز آسف تو یسوع سے بگڑا ہوا ہے.اب ایک ہی بات سے فیصلہ ہوتا ہے.اگر یہ ثابت کر کے دکھایا جاوے کہ مسیح کے کسی حواری کا نام یوز آسف ، شہزادہ نبی اور عیسی صاحب ہے تو بے شک یہ قبر کسی حواری کی قبر ہوگی.اگر یہ ثابت نہ ہو اور ہرگز ہرگز ثابت نہ ہوگا، تو پھر میری بات کو مان لو کہ اس قبر میں خود حضرت مسیح ہی سوتے ہیں.مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ بردباری کے ساتھ سنتے ہیں.جو بردباری سے سنتا ہے وہ تحقیق کر سکتا ہے.جس قدر باتیں آپ نے سنی ہیں دوسرے کم سنتے ہیں.آپ خدا کے لئے غور کریں کہ جس حالت میں یہ قصہ مشترک ہو گیا ہے کہ وہ حواریوں میں سے تھا.بہر حال تعلق تو مانا گیا اور پھر گر جا بنا دیا اور ہر سال میلہ ہونے لگا تو اب آپ بتائیں کہ یہ ثبوت کس کے ذمہ ہے؟ اگر مسیحی تعلق نہ مان لیتے تو بار ثبوت بیشک میرے ذمے ہوتا.لیکن جب آپ لوگوں نے خود اس کو مان لیا ہے.تو میں آپ سے ثبوت مانگتا ہوں کہ کسی ایسے حواری کا پتہ دیں جو شاہزادہ نبی کہلایا ہو.“ پادری صاحب: ہم آپ کی مہربانی اور خاطر داری کے لئے بہت مشکور ہیں.
ملفوظات 280 فلسطین سے کشمیر تک حضرت اقدس : ”یہ تو ہمارا فرض منصبی ہے جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو بھیجا ہے.اس کو کرنا ضروری ہے“ (حضرت اقدس حجتہ اللہ کی یہ تقریرین کر مسٹر فضل نے ( جو غالبا لا ہور کی بک سوسائٹی میں ملازم ہیں اپنی قابلیت کے اظہار کے لئے زبان کھولی لیکن اس سے بہتر ہوتا کہ وہ خاموش رہتے اور ان کی دانش اور غور طلب طبیعت کا راز نہ کھلتا.حضرت اقدس نے اس قدر طول طویل تقریر یوز آسف کے متعلق فرمائی اور اس کو تاریخی شہادتوں کے ساتھ موکد فر مایا.مگر مسٹر فضل کے سوال پر نگاہ کی جائے کہ آپ کیا فرماتے ہیں) مسر فضل : قبر کے متعلق کوئی تاریخی ثبوت ملا ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ گیارہ سو برس کی کتاب موجود ہے.خود عیسائیوں میں اس کا گر جا موجود ہے.وہاں میلہ ہوتا ہے اور ابھی آپ تاریخی ثبوت ہی پوچھتے ہیں.یہ کیا ہے؟ یہ تاریخی ثبوت نہیں تو کیا ہے؟ اور یہ بھی فرمایا کہ تم لوگ کچھ نہیں سمجھتے.صرف دھوکا دینا چاہتے ہو.میں ہر انسان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پاک دل بنے.ریا کاری اور تعصب سے اپنے دل کوصاف کرے اور جہاں سے صداقت اور حکمت کی بات ملے، اس کو نہایت فراخدلی کے ساتھ قبول کرے.میں ہر وقت سنے کو تیار ہوں.اگر آپ صفائی سے جواب دیں کہ مسیح کے اس حواری کو اس وجہ سے شہزادہ نبی کہتے ہیں.اور اگر آپ کوئی جواب نہ دیں اور جواب ہے بھی نہیں اور صرف اعتقادی طور پر بتائیں کہ ہم ایسا مانتے ہیں تو یہ ایسی بات ہے جیسے کسی ہندو سے پوچھیں کہ تم جو کہتے ہیں کہ گنگا مہادیو کی جنوں سے نکلتی ہے یا اس میں ست ہے اور اس کے جواب میں صرف یہی کہے کہ میں اس کے دلائل تو نہیں دے سکتا، مگر ضرور مانتا ہوں کہ اس میں ست ہے، تو یہ معقول بات نہ ہو گی.غرض میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے نہ اعتقاد کے طور پر بلکہ تحقیقات سے ثابت کر لیا ہے کہ یہ قبر واقعی حضرت مسیح ہی کی قبر ہے.واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں، تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے.جرمنی میں ایسے مسیحی بھی ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت مسیح" صلیب پر نہیں مرے.یہ
ملفوظات 281 فلسطین سے کشمیر تک بات بہت صاف ہے اور غور کرنے کے بعد اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا.“ انسان کا فرض: سوال: آپ کی سمجھ میں عیسائیوں کا کیا فرض ہے؟ جواب: ہر ایک انسان کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ حق کی تلاش کرے اور حق جہاں اسے ملے اس کو فورا لے لے ، عیسائیوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے.اس کے بعد پادریوں نے مکرر حضرت اقدس کا شکر یہ ادا کیا اور پھر کتب خانہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اور دفتر اخبار الحکم سے کچھ کتابیں لیں اور واپس چلے گئے.کسر صلیب: (22 دسمبر 1901ء) ( ملفوظات جلد اول صفحه 500 تا 505) عیسائی مذہب کے استیصال کے لئے ہمارے پاس تو ایک دریا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ یہ طلسم ٹوٹ جاوے اور وہ بت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گر پڑے اور اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اگر مجھے مبعوث نہ بھی فرما تا تب بھی زمانہ نے ایسے حالات اور اسباب پیدا کر دیئے تھے کہ عیسائیت کا پول کھل جاتا.کیونکہ خدا تعالی کی غیرت اور جلال کے یہ صریح خلاف ہے کہ ایک عورت کا بچہ خدا بنایا جا تا جوانسانی حوائج اور لوازم بشریہ سے کچھ بھی استثناءاپنے اندر نہیں رکھتا.میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ وہ صلیب سے زندہ اتارا گیا اور وہاں سے بیچ کر وہ کشمیر میں چلا آیا جہاں اس نے ۱۲۰ سال کی عمر میں وفات پائی.اور اب تک اس کی قبر خانیار کے محلہ میں یوز آسف یا شہزادہ نبی کے نام سے مشہور ہے.اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو محکم اور مستحکم دلائل کی بناء پر نہ ہو بلکہ صلیب کے جو واقعات انجیل میں لکھے ہیں خود انہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا سب سے
ملفوظات 282 فلسطین سے کشمیر تک اول یہ کہ خود مسیح نے اپنی مثال یونس سے دی ہے کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے یا مرکز اور پھر یہ کہ پیلاطوس کی بیوی نے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کی اطلاع پیلاطوس کو بھی اس نے کر دی اور وہ اس فکر میں ہو گیا کہ اس کو بچایا جاوے اور اسی لیے پیلاطوس نے مختلف پیرایوں میں مسیح کو چھوڑ دینے کی کوشش کی اور آخر کار اپنے ہاتھ دھوکر ثابت کیا کہ میں اس سے بری ہوں.اور پھر جب یہودی کسی طرح ماننے والے نظر نہ آئے تو یہ کوشش کی گئی کہ جمعہ کے دن بعد عصر آپ کو صلیب دی گئی اور چونکہ صلیب پر بھوک پیاس اور دھوپ وغیرہ کی شدت سے کئی دن رہ کر مصلوب انسان مر جایا کرتا تھا وہ موقعہ مسیح کو پیش نہ آیا کیونکہ یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ جمعہ کے دن غروب ہونے سے پہلے اسے صلیب پر سے نہ اتار لیا جاتا کیونکہ یہودیوں کی شریعت کی رو سے یہ سخت گناہ تھا کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہلے رات پر رہے.مسیح چونکہ جمعہ کی آخری گھڑی صلیب چڑھایا گیا تھا اس لئے بعض واقعات آندھی وغیرہ کے پیش آجانے سے فی الفورا تارلیا گیا پھر دو چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں مگر مسیح کی ہڈیاں نہیں تو ڑی گئیں.پھر مسیح کی لاش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جو مسیح کا شاگر د تھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس کی مرید تھی چنانچہ پلاطوس کو عیسائی شہیدوں میں لکھا ہے اور اس کی بیوی کو ولیہ قرار دیا گیا اور ان سب سے بڑھ کر مرہم عیسی کا نسخہ ہے جس کو مسلمان، یہودی، رومی اور عیسائی اور مجوسی طبیبوں نے بلا اتفاق لکھا ہے کہ مسیح کے زخموں کے لیے تیار ہوا تھا اور اس کا نام مرہم عیسی ، مرہم حوار بین اور مرہم رسل اور مرہم شلیہ وغیرہ بھی رکھا.کم از کم ہزار کتاب میں یہ نسخہ موجود ہے اور یہ کوئی عیسائی ثابت نہیں کرسکتا کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کوئی زخم مسیح کو لگے تھے.اور اس وقت حواری بھی موجود تھے.اب بتاؤ کہ کیا یہ تمام اسباب اگر ایک جا جمع کیے جاویں، تو صاف شہادت نہیں دیتے کہ صلیب پر زندہ بیچ کر اتر آیا تھا.اس پر اس وقت ہمیں کوئی لمبی بحث نہیں کرنی ہے یہودیوں کے جو فرقے متفرق ہو کر افغانستان یا کشمیر میں آگئے تھے وہ ان کی تلاش میں
ملفوظات 283 فلسطین سے کشمیر تک ادھر چلے آئے.اور پھر آخر کشمیر ہی میں انہوں نے وفات پائی.اور یہ بات انگریز محققوں نے بھی مان لی ہے کہ کشمیری در اصل بنی اسرائیل ہیں چنانچہ برٹئیر نے اپنے سفر نامہ میں یہی لکھا ہے اب جبکہ یہ ثابت ہوتا ہے اور واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اتر آئے ہیں تو کفارہ کا کیا باقی رہ جاتا ہے.پھر سب سے عجیب تر تو یہ بات ہے کہ عیسائی جس عورت کی شہادت سے مسیح کو آسمان پر چڑھاتے ہیں وہ خود ایک اچھے اور شریف چال چلن کی عورت نہ تھی.الوہیت مسیح : ( تقریر 27 دسمبر 1901ء) ( ملفوظات جلد دوم صفحه 76 تا 77) اب کسر صلیب کے سامان کثرت سے پیدا ہو گئے ہیں اور عیسائی مذہب کا باطل ہونا ایک بدیہی مسئلہ ہو گیا ہے.جس طرح پر چور پکڑا جاتا ہے تو اول اول وہ کوئی اقرار نہیں کرتا اور پتہ نہیں دیتا مگر جب پولیس کی تفتیش کامل ہو جاتی ہے تو پھر ساتھی بھی نکل آتے ہیں اور عورتوں بچوں کی شہادت بھی کافی ہو جاتی ہے.کچھ کچھ مال بھی برآمد ہو جاتا ہے.تو پھر اس کو بے حیائی سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے.اسی طرح پر عیسائی مذہب کا حال ہوا ہے.صلیب پر مرنا لیسوع کو کا ذب ٹھہراتا ہے.لعنت دل کو گندہ کرتی اور خدا سے قطع تعلق کرتی ہے.اور اپنا قول کہ یونس کے معجزہ کے سوا اور کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا.باقی معجزات کو رد کرتا اور صلیب پر مرنے سے بچنے کو معجزہ ٹھہراتا ہے.عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل میں کچھ حصہ الحاقی بھی ہے.یہ ساری باتیں مل ملا کر اس بات کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہیں جو یسوع کی خدائی کی دیوار کو جو ریت پر بنائی گئی تھی بالکل خاک سے ملا دیں اور سرینگر میں اس کی قبر نے صلیب کو بالکل تو ڑ ڈالا.مرہم عیسی اس کے لیے بطور شاہد ہو گئی.غرض یہ ساری باتیں جب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک دانشمند
ملفوظات 284 فلسطین سے کشمیر تک سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کی جاویں، تو اُسے صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.اس لیے کفارہ جو عیسائیت کا اصل الاصول ہے ، بالکل باطل ہے.(14 جون 1902ء) مسیح کی قبر کی اشاعت یورپ میں : ( ملفوظات جلد دوم صفحه 128) یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحے کا ہوتا کہ سب اُسے پڑھ لیں.اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے.جو واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئی ہے.اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کر لے.اس قسم کا اشتہار ہوجو بہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جاوے.(5اکتوبر 1902ء) ( ملفوظات جلد دوم صفحه 219) واقعہ صلیب کے بعد مسیح کی زندگی کے متعلق پطرس کی شہادت قبل نما ز مغرب جب حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو رڑکی سے آئے ہوئے احباب ملے جو برات میں گئے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے (جو حضرت اقدس کے سلسلہ میں ایک درخشندہ گوہر ہیں اور جو عیسائیوں کی کتابوں کو پڑھ کر ان میں سے سلسلہ عالیہ کے مفید مطلب مضامین کے اقتباس کرنے کا بے حد شوق اور جوش رکھتے ہیں ) پطرس کے متعلق سنایا کہ رڑکی میں پادریوں سے مل کر میں نے اس سوال کو حل کیا ہے.معلوم ہوا ہے کہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر ۳۰ یا ۴۰ سال کے درمیان تھی.ناظرین کو اس سوال ” عمر پطرس کی ضرورت کے لیے ہم الحکم کا وہ نوٹ یاد دلاتے
ملفوظات 285 فلسطین سے کشمیر تک ہیں جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ بعض کا غذات اس قسم کے ہیں.جن میں پطرس لکھتا ہے کہ میں نے مسیح کی وفات کے تین سال بعد ان کو لکھا ہے.اور اب میری عمر ۹۰ سال کی ہے.گویا مسیح نے جب وفات پائی ، تو پطرس کی عمر ۸۷ سال کی ہوئی اور واقعہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر تیں اور چالیس کے درمیان بتائی جاتی ہے.تو اب اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد کم از کم ۴۷ سال تک بموجب اس تحریر کے زندہ رہا.اور پطرس ان کے ساتھ رہا.اور یہ ثابت ہو گیا کہ صلیب پر مسح نہیں مراء، بلکہ طبعی موت سے مرا ہے اور نہ آسمان پر اس جسم کے ساتھ اٹھایا گیا، کیونکہ راس الحوار بین پطرس اس کی موت کا اعتراف کرتا ہے اور موت کا وقت دیتا ہے.مفتی صاحب نے یہ عظیم الشان خوشخبری حضرت کو سنائی.پھر نماز مغرب ادا ہوئی.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 312 تا 313) مبارک بشارت: اب بہتر ہے کہ اس کے پیچھے ایک مبارک بشارت لکھ دی جاوے کہ عیسائیوں کے محققین کی تحریروں سے ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت عیسی صلیب کے واقعہ کے بعد بھی زندہ رہے جیسا کہ پطرس کی اس تحریر سے جو ملی ہے معلوم ہوا.اس تحقیقات سے ہر ایک محقق کو خوش ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ان کا غذات سے ثابت ہوئی ہے جو مسیح کے خاص حواری پطرس کے لکھے ہوئے ہیں.دنیا میں اس وقت ایک عام تحریک ہورہی ہے اور آئے دن ایک نہ ایک بات ہماری تصدیق اور تائید میں نکلتی آتی ہے.یہ خدا کا کام ہے.اب دیکھ لو کہ یہ کا غذ نکل آئے ہیں جو پطرس کے لکھے ہوئے ہیں.ہماری جماعت ان کو پڑھ کر خوش ہو گی اور ان کا ایمان بڑھے گا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 314)
ملفوظات 286 فلسطین سے کشمیر تک (17 اکتوبر 1902ء) مردوں کے قبروں سے نکلنے کی تعبیر : پھر اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب ایک انگریزی کتاب حضرت اقدس کو سناتے رہے جس میں ایک موقعہ پر یہ بھی تھا کہ جب مسیح کو صلیب دی گئی تو اس وقت مردے قبروں سے نکلے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.عالم رویا میں مردہ کے قبر سے نکلنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ کوئی گرفتار آزاد ہوممکن ہے کہ کسی نے عالم کشفی میں یہ دیکھا ہو ورنہ یہ اپنے طاہری معنوں میں ہرگز نہیں ہوا.طاعون کا علاج: ( ملفوظات جلد دوم صفحه 405) ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ٹیکہ بھی علاج نہیں اور اللہ تعالیٰ کا حفاظت کا وعدہ ہے تو پھر مرہم عیسی اور جدوار کا استعمال کیوں بتلایا ہے حضرت صاحب نے فرمایا کہ:.جو علاج اللہ تعالیٰ بتلاوے وہ تو اسی حفاظت میں داخل ہے کہ اس نے خود ایک طریق حفاظت بھی ساتھ بتلا دیا اور انشراح صدر سے ہم اسے استعمال کر سکتے ہیں لیکن اگر ٹیکہ میں خیر ہوتی تو ہم کو اس کا حکم کیا جاتا اور پھر دیکھتے کہ سب سے اول ہم ہی کرواتے اگر خدا تعالیٰ آج ہی بتلا دے کہ فلاں علاج ہے یا فلاں دوا مفید ہے تو کیا ہم اسے استعمال نہ کریں گے؟ وہ تو نشان ہوگا.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم خود کس قدر متوکل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تے اگر ہم عوام الناس کی طرح ٹیکہ کروائیں تو خدا پر ایمان نہ ہوا پہلے یہ تو فیصلہ کیا جائے کہ آیا ہم نے ۲۲ برس پہلے طاعون کی اطلاع دی.کہ جس وقت طاعون کا نام ونشان تک نہ تھا اور پھر ہر ۵ برس بعد اس کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی خبر دی
ملفوظات 287 فلسطین سے کشمیر تک جاتی رہی ہے پھر پنجاب کے متعلق خبر دی حالانکہ اس وقت کوئی مقام اس میں مبتلا نہ تھا.پھر ایک دم پنجاب کے ۲۳ ضلعوں میں پھیل گئی وہ تمام کتابیں جن میں یہ بیان ہیں خود گورنمنٹ کے پاس موجود ہیں اگر ٹیکہ میں کوئی خیر ہوتی تو خدا خود ہمیں بتلا تا اور ہم اس وقت سب سے پہلے ٹیکہ لگوانے میں اول ہوتے مگر جب گورنمنٹ نے اختیار دیا ہے تو یہ اختیار ہے گویا خدا تعالیٰ ہی نے ہمیں دیا ہے کہ جبرا اٹھوا دیا ہے.( 8 نومبر 1902ء) کشمیر سے ایک پرانے صحیفہ کی برآمدگی : ( ملفوظات جلد دوم صفحه 406) اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے ایک خط سنایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر سے ایک پرانا صحیفہ ایک پادری نے حاصل کیا ہے کہ جو کہ دو ہزار سال کا ہے اس میں مسیح کی آمد اور اس کے نجی ہونے کی پیش گوئی ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ بعض وقت پادری لوگ عیسوی مذہب کی عظمت دل نشین کرانے کے واسطے ایسی مصنوعات سے کام لیتے ہیں.ہمارے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ اگر اس صحیفہ میں تثلیث کا ذکر ہو تو سمجھنا چاہئے کہ مصنوعی ہے کہ کیونکہ خود عیسویت کی ابتدا میں تثلیث کا عقیدہ نہ تھا بلکہ بعد میں وضع ہوا ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحه 504) (18 نومبر 1902ء) ایک عظیم الشان رویا : فجر کی نماز کے بعد فرمایا کہ نماز فجر سے کوئی ہیں یا چھپیس منٹ پیشتر میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خرید لی ہے کہ اپنی جماعت کی میتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام بہشتی مقبرہ ہے جو اس میں دفن ہوگا بہشتی ہوگا.
ملفوظات 288 فلسطین سے کشمیر تک پھر اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسر صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پرانی انجیلیں وہاں سے نکلی ہیں میں نے تجویز کی کہ کچھ آدمی وہاں جائیں اور وہ انجیلیں لائیں تو ایک کتاب ان پر لکھی جائے.یہ سن کر مولوی مبارک علی صاحب تیار ہوئے کہ میں جاتا ہوں.مگر اس مقبرہ بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جائے میں نے کہا کہ خلیفہ نورالدین کی بھی ساتھ بھیج دو.یہ خواب حضرت اقدس نے سنایا اور فرمایا کہ اس سے پیشتر میں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہو سو خدا تعالیٰ نے آج اس کی تائید کر دی اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کر کے لائے گاوہ قطعی بہشتی ہو گا.( ملفوظات جلد دوم - صفحہ 526 تا 527) کشمیر میں قبر مسیح " : مغرب کی نماز با جماعت ادا کر کے حضرت اقدس حسب معمول مسجد کے شمال مغربی کو نہ میں بیٹھ گئے اور فجر کی خواب پر حضرت اقدس اور اصحاب کبار تذکرہ کرتے رہے.حضور نے فرمایا کہ کشمیر میں مسیح کی قبر کا معلوم ہونے سے بہت قریب ہی فیصلہ ہو جاتا ہے اور سب جھگڑے طے ہو جاتے ہیں اگر فراست نہ بھی ہو تو بھی یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ آسان بات کون سی ہے.اب آسمان پر جانے کو کون سمجھے جو باتیں قرین قیاس ہوتی ہیں وہی صحیح نکلتی ہیں آج تک خدا کے الہام سے اس کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوا تھا.مگر اب خود ہی اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا اب تخم ریزی تو ہوئی ہے امید ہے کہ کچھ اور امور بھی ظاہر ہوں گے عادت اللہ اسی طرح ہے یہ خواب بالکل سچا ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح کی آمیزش نہیں ہے.مجھے اس وقت خواب میں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا عظیم الشان کام ہے جیسے کسی کو لڑائی پر جانا ہوتا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہماری فراست نے خطا نہیں کی.یہ عقدہ اللہ تعالیٰ حل کر دے تو صد ہا برسوں کا کام ایک ساعت میں ہو جائے اور عیسائیوں اور ان
ملفوظات 289 فلسطین سے کشمیر تک مولویوں کے گھروں میں ماتم پڑ جائے.ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور پھر تو سارے انگریز رجوع با سلام ہو جائیں فرمایا :.دنیا میں ایک حرکت ہے اس کی مثال تو یہ ہے کہ جیسے تسبیح کا ( دھاگہ ٹوٹ کر ) ایک دانہ نکل جائے تو باقی بھی نہیں ٹھہرتے خواہ پادری پٹتے ہی رہ جائیں تمام انگریز ٹوٹ پڑیں گے اللہ تعالیٰ کے داؤ ایسے ہی ہوتے ہیں مَكَرُهُ اوَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران : ۵۵) ( ملفوظات جلد دوم صفحه 527 تا 528) (3 اپریل 1903ء) توہین عیسی کے اعتراض کا جواب: پھر کہتے ہیں کہ سیدنا مسیح کی توہین کرتے ہیں.بھلاسوچو تو کہ ہم اگر اپنے پیغمبر سے ان جھوٹے اعتراضات جو نا نہی اور کور چشمی سے کر کے مسیح کو آسمان پر زندہ بٹھا کر آنحضرت علی پر کئے جاتے ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے مسیح کی اصلی حقیقت کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں؟ ہم اگر کہتے ہیں کہ وہ زندہ نہیں بلکہ مرگئے جیسے دوسرے انبیاء بھی مر گئے تو ان لوگوں کے نزدیک تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہوئی.ہم خدا تعالیٰ کے بلائے بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو فرشتے آسمان پر کہتے ہیں.افتراء کرنا تو ہمیں آتا نہیں اور نہ ہی افتراء خدا کو پیارا ہے.اب اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کی سرشان اور ہتک کی گئی.ضرور ہے کہ اس کا بدلہ لیا جاوے اور آنحضرت ﷺ کے نور اور جلال کو دوبارہ از سر نو تازہ وشاداب کر کے دکھایا جاوے اور یہ سیج کے بت کے ٹوٹنے اور اس کی موت کے ثابت ہونے میں ہے پس ہم خدا تعالیٰ کے منشاء اور ارادے کے مطابق کرتے ہیں اب ان کی لڑائی ہم سے نہیں خدا تعالیٰ سے ہے.ان لوگوں نے حضرت مسیح کو خاصہ خدا بنایا ہوا ہے اور موحد کہلاتے ہیں ان کا
ملفوظات 290 فلسطین سے کشمیر تک اعتقاد ہے کہ وہ زندہ ہے قائم علی السماء ہے.خالق.رازق.غیب دان محی.ممیت ہے.بھلا اب بتلاؤ کہ اگر یہ صفات خدا کی نہیں تو کس کی ہیں؟ بشریت تو ان صفات کی حامل ہو سکتی نہیں.پھر خدائی میں فرق ہی کیا رہا؟ یہ تو عیسائیوں کو مدد دے رہے ہیں.پورے نہیں نیم عیسائی تو ضرور ہیں اگر ہم ان کے عقائد ردیہ کی تردید نہ کریں تو کیا کریں؟ پھر ہمیں ماننا پڑیگا کہ نعود باللہ اسلام.آنحضرت ﷺ.خدا تعالیٰ کی طرف سے پاک نبی اور قرآن شریف خدا کا کلام برحق نہیں.حضرت مسیح زندہ نہیں بلکہ مرکز کشمیر سر نیگر محله خانیار میں مدفون ہیں.یہی سچا عقیدہ ہے.قبر مسیح علیہ السلام : ( 9 جولائی 1903ء) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 212) بعض عیسائی اخباروں نے مسیح کی قبر واقعہ کشمیر کے متعلق ظاہر کیا ہے کہ یہ قبر مسیح کی نہیں بلکہ ان کے کسی حواری کی ہے.اس تذکرہ پر آپ نے فرمایا کہ:.اب تو ان لوگوں نے خو دا قرار کر لیا ہے کہ اس قبر کے ساتھ مسیح کا تعلق ضرور ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے کسی حواری کی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ مسیح کی ہے.اب اس قبر کے متعلق یہ تاریخی صحیح شہادت ہے کہ وہ شخص جو اس میں مدفون ہے وہ شہزادہ نبی تھا اور قریباً انیس سو برس سے مدفون ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ یہ شخص مسیح “ کا حواری تھا اب ان پر ہی سوال ہوتا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ میسج کا کوئی حواری شہزادہ نبی کے نام سے بھی مشہور تھا.اور وہ اس طرف آیا تھا اور یہ یقیناً ثابت نہیں ہوسکتا.پس اس صورت میں بجز اس کے ماننے کے کہ یہ سیح علیہ السلام کی ہی قبر ہے اور کوئی چارہ نہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 366)
ملفوظات 291 فلسطین سے کشمیر تک (23 ستمبر 1905ء) کشمیر میں بنی اسرائیل اور مسیح علیہ السلام کی قبر : مسیح کی قبر واقع کشمیر کا ذکر تھا.اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ : بہت سے شواہد اور دلائل سے یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ یہ مسیح کی قبر ہے.اور یہاں نہ صرف ان کی قبر ہی ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے بعض دوستوں کی قبریں بھی اسی جگہ ہیں.اول یوسف آسف ہی کا نام ہی اس پر دلالت کرتا ہے.اس کے علاوہ چونکہ وہ جی اپنے وطن میں باغی ٹھہرائے گئے تھے.اس لیے اس گورنمنٹ کے تحت حکومت میں کسی جگہ رہ نہ سکتے تھے.پس اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کر کے پسند کیا کہ شام جیسا سرد ملک ہی ان کے لیے تجویز کیا جہاں وہ ہجرت کر کے آگئے اور یہودیوں کی دس تباہ شدہ قو میں جن کا پتہ نہیں ملتا تھا.وہ بھی چونکہ یہاں ہی آباد تھیں.اس لیے اس فرض تبلیغ کو ادا کرنے کے لیے بھی یہاں اُن کا آنا ضروری تھا.اور پھر یہاں کے دیہات اور دوسری چیزوں کے نام بھی بلادِ شام کے بعض دیہات وغیرہ سے ملتے جلتے ہیں.اس موقعہ پر مفتی محمد صادق صاحب نے عرض کی حضور کا شیر کا لفظ خود موجود ہے.یہ لفظ اصل میں کا شیر ہے.م تو ہم لوگ ملا لیتے ہیں.اصل کشمیری کا شیر بولتے ہیں اور کا شیر کہلاتے ہیں.اور آشیر عبرانی زبان میں ملک شام کا نام ہے اورک بمعنے مانند ہے.یعنی شام کی مانند.پھر اور بہت سے نام ہیں.) حضرت نے فرمایا کہ: وہ سب نام جمع کرو تا کہ ان کا حوالہ کسی جگہ دیا جاوے.اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ: اکمال الدین جو پرانی کتاب ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انیس سو برس کا ایک نبی ہے پھر کشمیریوں کے رسم و رواج وغیرہ یہودیوں سے ملتے ہیں.برنیئر فرانسیسی الالا یوسف آسف سہو کتابت ہے اصل میں یوز آسف“ ہونا چاہیے.
ملفوظات 292 فلسطین سے کشمیر تک سیاح نے بھی ان کو بنی اسرائیل ہی لکھا ہے.اس کے علاوہ تھو ما حواری کا ہندوستان میں آنا ثابت ہے.اس مقام پر مفتی صاحب نے عرض کی کہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جب حضرت مریم بیمار ہوئیں تو انہوں نے تھوما سے جو اس وقت ہندوستان میں تھا.ملنا چاہا.چنانچہ ان کے تابوت کو ہندوستان میں پہنچایا گیا اور وہ تھو ما سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور اس کو برکت دی اور پھر تھومانے اس کا جنازہ پڑھا.اس ذکر پر کہا گیا کہ کیا تعجب ہے اگر فی الحقیقت یہ ایک ذریعہ اختیار کیا گیا ہو بیٹے کے پاس آنے کا.اس کے متعلق مختلف باتیں ہوتی رہیں).فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی پر ایک اعتراض کا جواب: مندرجہ بالا سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ: ہم جب مسیح کی موت کے لیے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائدة : ۱۱۸) پیش کرتے ہیں تو اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ مسیح اگر واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے تھے تو پھر اُن کو بجائے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے یہ کہنا چاہیے تھا کہ جب تو نے مجھے کشمیر پہنچا دیا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض ایک سفسطہ ہے.یہ بیچ ہے کہ مسیح" صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور موقعہ پاکر وہ وہاں سے کشمیر کو چلے آئے.لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کا حال تو پوچھا نہیں.وہ تو ان کی اپنی امت کا حال پوچھتا ہے.مخالف تو بدستور کا فر کذاب تھے.دوسرے یہاں مسیح علیہ السلام نے اپنے جواب میں یہ بھی فرمایا ہے مَا دُمُتُ فِيهِمُ (المائدة : ۱۱۸) میں جب تک ان میں تھا.یہ نہیں کہا مَا دُمُتُ فِي اَرْضِهِمْ.مَا دُمُتُ فِيهِمُ کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ جہاں مسیح جائیں وہاں ان کے حواری بھی جائیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ کا ایک مامور ومرسل ایک سخت حادثہ موت سے بچایا جاوے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کرے اور اس کے پیرو اور حواری اسے بالکل تنہا چھوڑ دیں اور اس کا پیچھا نہ کریں.نہیں بلکہ وہ بھی اُن کے پاس یہاں آئے.ہاں یہ ہوسکتا ہے
ملفوظات 293 فلسطین سے کشمیر تک کہ وہ ایک دفعہ ہی سارے نہ آئے ہوں بلکہ متفرق طور پر آگئے ہوں؛ چنانچہ تھوما کا تو ہندوستان میں آنا ثابت ہی ہے اور خود عیسائیوں نے مان لیا ہے.اس قسم کی ہجرت کے لیے خود آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی نظیر موجود ہے؛ حالانکہ مکہ میں آپ کے وفادار اور جاں نثار خدام موجود تھے.لیکن جب آپ نے ہجرت کی تو صرف حضرت ابوبکر کو ساتھ لے لیا.مگر اس کے بعد جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو دوسرے اصحاب بھی یکے بعد دیگرے وہیں جا پہنچے.لکھا ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے نکلے اور غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے تو دشمن بھی تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے.اُن کی آہٹ پاکر حضرت ابوبکر گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے وحی کی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (التوبه : ۴۰) کہتے ہیں کہ وہ نیچے اتر کر اس کو دیکھنے بھی گئے.مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالاتن دیا تھا.اسے دیکھ کر ایک نے کہا کہ یہ جالا تو آنحضرت ﷺ کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے.اس لیے وہ واپس چلے آئے.یہی وجہ ہے کہ جوا کثرا کا بر عنکبوت سے محبت کرتے آئے ہیں.غرض جیسے آنحضرت ﷺ نے باوجود ایک گروہ کثیر کے اس وقت ابو بکر ہی کو ساتھ لینا پسند کیا اسی طرح پر حضرت عیسی نے صرف تھوما کو ساتھ لے لیا اور چلے آئے.پس جب حواری ان کے ساتھ تھے تو پھر کوئی اعتراض نہیں رہتا.دوسرا سوال اس پر یہ کرتے ہیں کہ جب کہ وہ ستاسی سال تک زندہ رہے تو ان کی قوم نے ترقی کیوں نہ کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ نہیں.ہم کہتے ہیں ترقی کی ہوگی لیکن حوادث روز گار نے ہلاک کر دیا ہو گا.کشمیر میں اکثر زلزلے اور سیلاب آتے رہتے ہیں.مدت دراز کے بعد قوم بگڑ گئی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک قوم تھی.اوَيْنَهُمَا إِلَى رَبِّوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِينٍ (المومنون: ۵۱) کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ وہ شام ہی میں تھا.میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط ہے.قرآن شریف خود اس کے
ملفوظات 294 فلسطین سے کشمیر تک مخالف ہے اس لے کہ اویٰ کا لفظ تو اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں ایک مصیبت کے بعد نجات ملے اور پناہ دی جاوے.یہ بات اس رومی سلطنت میں رہ کر انہیں کب حاصل ہوسکتی تھی.وہ تو وہاں رہ سکتے ہی نہ تھے.اس لیے لازمی طور پر انہوں نے ہجرت کی.(23 اکتوبر 1907ء) کشمیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر : ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 388 تا 390) ابوسعید عرب صاحب جو حال میں کشمیر کی سیاحت سے واپس آئے ہیں.انہوں نے حضرت اقدس (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی کہ کشمیر کے اندر عام لوگ تو اب تک حضرت عیسی کی قبر کو پہلے کی طرح نبی صاحب کی قبر یا عیسی کی قبر کہتے ہیں مگر وہاں کے علماء جو اس سلسلہ احمدیہ کے حالات سے آگاہ ہو گئے ہیں.انہوں نے بسبب عداوت اب ایسا کہنا چھوڑ دیا ہے تا کہ اس فرقہ کو مددنہ ملے.حضرت نے فرمایا:.اب ان لوگوں کی ایسی کاروائیوں سے کیا بنتا ہے جبکہ پرانی کتابیں جو کشمیر میں اور دوسری جگہوں میں موجود ہیں اور ایک عربی پرانی کتاب گیارہ سو برس کی جو کسی فاضل شیعہ کی تصنیف ہے.اس میں یوز آسف کو شاہزادہ نبی لکھا ہے اور اس کی قبر کشمیر میں بتلائی ہے اور اس کا وقت بھی وہی لکھا ہے جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا وقت تھا.عیسائی بھی تو یہاں تک قائل ہو گئے ہیں کہ وہ حضرت عیسی کا حواری تھا اور اس کے نام پر سسلی میں ایک گر جا بھی بنا ہوا ہے.لیکن اب سوال یہ ہے کہ وہ حواری کون تھا جو شہزادہ بھی کہلایا ہو اور نبی بھی کہلایا ہو؟ اس کا جواب عیسائی نہیں دے سکتے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 357)
اشاریہ آیات احادیث اسماء مقامات اشاریہ فلسطین سے کشمیر تک فلسطین سے کشمیر تک حضرت مسیح ناصری" کی ہجرت سے متعلق حضرت مسیح موعود" کے بعض تحقیقی پراجیکٹس کتابیات 1 2 3 8 11 12
اشاریہ فلسطین سے کشمیر تک آیات إِذْ قَالَتِ الْمَلَئِكَةُ يَمَرْيَمُ.....( آل عمران : 10646 مَلْعُونِينَ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا أُخِذُوا....( الاحزاب:62) 159 وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ.....( آل عمران : 55) 289 إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً....المزمل: 16) 212 إِذْ قَالَ اللهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْ.......(آل عمران : 56) أَلَمْ نَجْعَل الأَرْضَ كِفَاتًا.....المرسلات: 27-18626 107.23.10 يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ( الفجر 28 تا 29 )172 ، 228 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ.....(آل عمران : 145) 187:44 أَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأَوَى (الضحى:7) وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى.(النساء: 158) 222 221 218.182.105 104.30.23.11 236.235.224.223 بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء: 159) 228.222.217.185 12 وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: 68) مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بة.....(المائدة: 118) 292.231.191.11.3 فِيهَا تَحْيَوُنَ وَفِيهَا......(الاعراف:26)44، 219،187 195 مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ (الزلزال : 8) 274 إِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوا بِايَتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا.....(الاعراف: 17241 وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ....( الانفال: 27) لا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (التوب :40) سَاوِى إِلَى جَبَل....(هود: 44) 195 293 195 وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَأْسَفى......(يوسف: 85) 15 وَاذْكُرُ فِي الْكِتب مَرْيَمَ.....(مريم : 17) 15 أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ......(بنی اسرائیل : 94) 218.187 وَ جَعَلَنِي مُبَارَكًا.....(مریم: 32) 106 وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةٌ آيَةً وَّاوَيْنَهُمَا.....(المومنون: 51) 293.235.210.200.196.189
اشاریہ احادیث فلسطین سے کشمیر تک 187 حدیث صحیح سے جوطبرانی میں ہے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی اِمَامُكُمْ مِنْكُمُ ( صحیح بخاری ومسلم ) أوْحَى اللَّهُ تَعَالَى اَنْ يَّا عِيسَى انْتَقِلُ مِنْ مَّكَانٍ إلى اس واقعہ (صلیب) کے بعد ستاسی ۸۷ برس زندہ رہے.7 مَكَانٍ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُؤذى.....( كنز العمال) 108 احادیث میں معتبر روایتوں سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی ہے 108 قَالَ أَحَبُّ شَيْءٍ إِلَى اللَّهِ الْغُرَبَاءُ قِيْلَ أَيُّ شَيْءٍ الْغُرَبَاء نے فرمایا کہ مسیح کی عمر ۱۲۵ برس کی ہوئی ہے.قَالَ الَّذِينَ يَفِرُّونَ بِدِينِهِمْ وَيَجْتَمِعُونَ إِلَى عِیسَی ابْنِ ایسا ہی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام نے مَرْيَمَ.(کنز العمال) 109 ۱۲۰ برس عمر پائی ہے.كَانَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَسِيحُ فَإِذَا أَمْسَى أَكَلَ بَقْلَ الصَّحْرَاءِ وَ شَرِبَ الْمَاءَ الْقَرَاحَ ( كنز العمال ( 109 174 لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ ( بخاری ) 16 حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک میں 120 برس کی عمر ہوئی تھی.25 پھر دوسری حدیث میں حضرت عیسی کی عمر 120 یا 125 برس کی قرار دی ہے.219 اس حدیث سے ثابت ہے کہ جو کنز العمال میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے نجات پا کر ایک سرد ملک کی طرف بھاگ گئے تھے.166 آنحضرت ﷺ کی حدیث سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح نے اکثر حصہ دنیا کا سیر کیا ہے اور یہ حدیث کتاب کنز العمال العمال میں موجود ہے 171 حضرت مسیح خدا تعالیٰ کا حکم پا کر جیسا کہ کنز العمال کی حدیث میں ہے اس ملک سے نکل گئے.170
اشاریہ فلسطین سے کشمیر تک آری کن (Origen): 245 آصف: 148 آفریدی: 148 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) : دیکھئے محمد علا ) ابدال: 147 ابراہیم" (حضرت): 185،153 انگیری: 119 ابنِ ابی صادق: 111 این ذکریا: 111 ابن عباس ( حضرت ): 11 ابوابراہیم اسمعیل: 111 ابوالمنا ابن ابی نصر العطار الاسرائیلی: 111 ابوبکر ( حضرت ): 232،230 ،393 ابوریحان: 112 ابوسعید عرب: 294 اسماء أسرك: 145 اسماعیل ( حضرت ): 48 افغان: 8، 45، 46، 47، 106،53،50،48، 120،.148 147 146 145 144 143.142.121 207.153 152 151 150 149 اکنور : 145 السيد يد الكاذ رونی: 111 الگرہ نڈر برنس: 146 اللہ رکھا عبد الرحمان مدراسی ( حضرت ): 264 الیاس (حضرت): 174 ،230،224،220،175، 246.243 ریلیا: 169،92 اے.کے.جانسٹن : 151 باب: 148 بابور : 147 ابونصر فارابی: 112 ابو ہریرہ (حضرت): 108 بخت نصر ، بخت النصر : 145،144،143،45،27، 152.149.148.147 ابی بکر محمد بن محمد ابن الوليد الفبر ی الطرطوشی المالکی : 121 برچ: 148 احمد بن حسن الرشیدی: 111 احمد شاہ ابدالی 53 ارکش (گرگشت): 147 ارمیاه: 148،145 اسرائیل: 112 برخیاه: 148،88 برنباس 161،76،43،26 برنہارڈ ڈورن : 148 بر نیئر ا بر نیر: 36،16،14،13،12،8، 291.151.142.73.50.46.45
اشاریہ بگو امتیا: 132 ،133 ،134 بنكنيش: 148 بن يمين: 145،144 بوعلی سینا: 110،9 بہلول لودی: 53 پطرس 273،226،205،204،201، 285.284 چنگیز خان: 143 حسین شبر کاظمی: 111،9 حسنین بن اسحاق : 112،9 فلسطین سے کشمیر تک خالد بن ولید ( حضرت ) : 146،144،143،45، 149.147 خٹک : 148 خد ج: 147 پیلاطوس / پلاطس / پلاطوس: 7 ، 18 ،56،55،20 خوگیان: 148 102 100.84.83.82 79.78.57.خیر الدین (حضرت): 258 171.170.164.163.162.106.105 $211.209.198.197.181.282.245.216.214 بین: 147 تكان: 148 تھوما/دھو ما: 251،250،232،230، 293.292.291 تیمورشاه: 53 ٹیٹس (Titus): 176،175 ثابت بن قره: 112 جالوت: 146 جروم (سینٹ): 145 جمال دین کشمیری سیکھواں (حضرت): 258 جمورین: 147 داؤد الضریر انطاکی: 111،9 دوست محمد خان: 53 ڈبلیوڈ گلس: 216،87 رحمت اللہ صاحب تاجر (شیخ): 27 ،29 را حولنا: 137 138 روسی سیاح ( نکولس ناٹو وچ): 36 رمین: 245 زاز: 148 ساره بنت خالد بن ولید ( حضرت ): 45 ساؤل: 50 ستوریان: 147 سٹراس: 243،224،205 سرابند(سرابان): 147 سرجان ملکم : 150 جوزی فس ایوسفس: 145، 176 ،243،225 جہانگیر: 148 جی ٹکا کوسو: 134 جیزس: 36،35 سکندراعظم : 151 سلم: 145 سلیمان (حضرت): 233،150،146،138،37،31،14،13
اشاریہ سور : 148 شالمنذر اسلمنذر(شاہ اسور): 120،72 شاہ زمان: 53 شاہ محمود: 53 شجاع الملک: 53 شران: 148 شلیر میخز : 177 شہاب الدین غوری: 53 شیر شاہ سوری: 53 شیر علی خان: 53 طالوت : 145 ، 149،148،146 طور : 148 عبدالعزيز : 258 عبداللہ خان ہراتی : 146 قطب الدین: 273 قطب الدین شیرازی: 110 قيافا : 86 فلسطین سے کشمیر تک قیں، رکش ، عبدالرشید: 143،121،50،49،45 153.152.149.145.144.قیصر : 83،38، 209،198،197،170، 235-233-232-214-211.210| کشمیر کے بہتر (72) افراد کے اسماء جنہوں نے گواہی دی کہ یوز آسف کی قبر عیسی علیہ السلام کی ہے : 193، 194 کا کر: 147 کران (بطان): 147 کس: 148 کفرورر، گفر ورر: 182،181 ،245 کمال الدین صاحب (خواجہ ): 266 کور( راہب ): 200 ،226 گوتم بدھ ( حضرت ) : 129،126،125،123،47،27، عبداللہ کشمیری: 32،31 کونٹ جورن سٹرنا: 145 عبدالقادر ( حضرت شیخ ): 16 علی بن العباس المجوسى: 110 220 137 133 132 131 130 عمر فاروق (حضرت): 187 عنایت اللہ : 39 لنڈ یور: 148 لوہان: 147 عیسی ابن مریم (حضرت): 222،211،109 مامون رشید: 111،109،8 فارسٹر : 151،142 فرائز : 146،144 فرعون: 212،51،44،24 فرلائی: 145 فرید الدین احمد افغان: 149 ،150 فضل (مسٹر): 280 مبارک علی: 288 نتیا 130 ، 131 ،132 ، 133 ، 134 الله محمد ﷺ ( حضرت ): 18 ،91،53،45،44،25، 230-223.212.183.171.152.145.143 290-289-273-237 محمد اعظم خان: 111
اشاریہ فلسطین سے کشمیر تک محمد اکبر ارزانی: 111 محمد السعیدی طرابلسی: 5،4،3 محمد حسین بٹالوی: 196،7 ،215 216 محمد شریف خان: 111 محمد شمس الدین: 111 محمد شریف دہلوی: 111 محمد صادق صاحب ( حضرت مفتی): 291،286،284،257 محمد عبد الواحد: 221 *285-284.283-236-225-221-218.217 308-299-296-290-289-288-287-286 342.339.338.334.333.317.314 مرہم رسل امر ہم حوار بین امر ہم سلیخا ا مرہم شلیخا : 109 338-287-286.114.113.54.41.18.17 مسیح ابن مریم ( حضرت ) : 208،198،197،80،59،30،2، 239.217 معالب : 145 محمد علی خان صاحب ( حضرت نواب): 262 264 ملا کی نبی: 220 محمد علی (مولوی): 287 محمد نور کریم: 111 محمود محمد اسماعیل: 110 محمد مہدی: 64،63،62 محی الدین ابن عربی: 217 معصوم بن کریم الدین الشوستری: 111 مور (ڈاکٹر): 144 موسیٰ “ (حضرت): 52،51،45،44،24،14،13،12،3، 231-229-216-212-211.86-85-84.53 مہابت خان: 150 میکسمولر: 135.134.130 مرزا خدا بخش ( حضرت ): 273،264،258،256 نادرشاه: 146 مرزا صفدر علی: 39 نتھوشاه: 111 مرزا غلام احمد ( حضرت ): 265،264،263،262، نصر: 148 267.266 مرزا غلام مرتضی : 26 مرزا یوسف بیگ: 275 مریم علیہا السلام ( والدہ مسیح ): 49،15،5،4، 292.252.226.205.195 مریم مگدلینی: 138،80 مرہم عیسی : 10،9،8،7،6 ، 17 ،25،22،21،19، 110.109.59.55.54.44.41.38.29.26 نصیر الدین (سید): 39 نکو میڈس / نقود یموس: 245،241،181 نورالدین صاحب (حضرت حکیم ): 28،16،14، 258،257 نورالدین انور دین ( حضرت خلیفہ): 288،266،255،168 نورالدین محمد : 111 50 وزیر: 147 111 ،112 ،113 ،114 ،115 ، 116 ، 117 ،164 ، ہارون (حضرت): 8 166 ، 167 ، 171، 175، 176 ، 194، 195 ، 206، | ہوسیع نبی: 145
اشاریہ ہیروڈوٹس: 151 ہیلینیا (ملکہ): 229 بین مر: 119 یمی (حضرت): 211،169،96،88،62،3 یسوع 1 ، 7 ، 10 ، 15 ، 16 ، 19، 36،35،33،20، 39 ، 51 ، 7 96.90.89.82.81.79.62.58.57.56.55.52 177 176.168.163 162 135 134 103 102 211 210 209 203.201.195.191 182 181 $234.231.229.226.225.224.223.216.215 249.248 247 245 244 243 242 241.239 281.279.278.261.255.251.250 یعقوب (حضرت): 185،148،145،144،15 يوحنا: 90،89،88 یوز آسف: 16،15، 27،20، 35،33،32،31، 36 ، 183 168 167.164.43.42.39.38.37 248 247.239.234.220.192.191.184 $278.267 266 265.261.260.256.249 294.282 280.279 یوسف ( حضرت ): 99،15 یوسف ارتیا: 241،181،164،84،82، 261.245 یوسف زئی: 147،146،48،45 یوسف (نجار): 138،79،49 یو سی بیکس.اے: 119 یونس (علیہ السلام ) - حضرت €76.73.72.57.43.41.30-23.19.18.7 $239.238.221.198.166.160.154.77 282 281.276 260 259.249.248 یہودا اسکر یوطی: 251،229،72 یہودا: 145،144،46 یهوشن : 50 فلسطین سے کشمیر تک
اشاریہ مقامات فلسطین سے کشمیر تک آموں (دریا): 144 اٹلی: 279،278،226،200 ارسارة: 143 اری ہاتھی: 241 اسکردو: 184 اشیر، آشیر: 291،233 بيت لحم : 54 بیروت: 54 پشاور : 146، 266،170 پنجاب 106،86 ، 120 ، 121، 123، 141، 150، 287.260.255.206.170.165.164 پیرا کوئی (ضلع): 42 تا تار: 144 تبت: 14،8، 16، 28،27،24، 41،38،32،29، 72، 145.139.138.135.134.132.123.121.120 154 153.145.143.121.120.118.45 283.271.257.256.255.221.165.164 الائی کو ہستان : 142 امرت سر : 86 امریکی مشن: 276 املموس (اماؤس): 100،80 تخت سلیمان: 13 ٹولیڈو: 145 جلال آباد: 268 جموں: 121،14 جھنگ: 256 چترال: 120 ایشیا: 112،39 ،131،114،113 ،260،251،144 چلاس: 142 بابل: 152،147،146،46،27،24 چین 13 ،28، 144 ،145 حضرت عیسی کی قبر : 3 ،154،107،82،77،17،5،4، بامیان: 145،144 بحیرہ خزر: 120 بخارا : 144 برہمن بڑی ضلع ٹپارہ: 221 بنارس 121،29، 164،127 بولير : 226،201 بہشتی مقبره: 287 288 بيت فغفور ( بيت فغور ) : 13 237 231 230.219.206.204.164.38 ، 256.255.248 184: حمص: حورب: 13 حيفاء: 54 خار کو یونیورسٹی: 148 خانیار ( یار خان): 16 ، 25 ، 42،40،38،35،27، 196 192.178.174.166.164.154.71 $260.256.255.247.234.231.221.198
اشاریہ 290-282-278.261 خیوا 144 دره خیبر: 118 دریائے فرات: 119 ،145 مشق: 62 راولپنڈی: 121،26 رڑکی: 284 روضه بل: 34 روه: 151 سامریہ: 188،72 تین: 145 ستلیرنم ،شنترین: 112 سرحد ( ضلع): 42 | طرابلس: 6،5،4،3 عراق: 269 عكا: 5،4 فلسطین سے کشمیر تک عیسی صاحب کی قبر : 168،42،31 ،278،260 غار ثور : 18 ،203،182،59 غزنی: 149 غور: 143 ،146،145،144 ،149 فارس ایران (پرشیا) 145،143،120،118، 221.188.147 فلسطین : 135 134 سری نگر : 82،77،71،43،42،35،31،27،25، فورمن کالج : 276 قلعہ خیبر : 48 قندھار: 149،143،46 174.170.168.166.164.154.108.107 206 200 199.198.196.192.183.178 249-248-247-246.231.230.221.219 268.267.256.149.146.142.53.46 :: 284.281.278.261.260.256.255.251 کالا ڈاکہ: 142 کرمان: 147 کشمیر : 3 25.24 20.16 15 14 13 12 10.8 39.38.36.35.34.33.32.31.29.28.27 107.82.77.73 72 71.50 45.42.41.40 سلی: 294،247 سندھ: 147 سوات: 29 سور: 5،4 151 142 135 123 122 121 120-108 118.95.61.36.29.17 16 15 14.5<3: 167 166 165 164.157.155.154.153.188.184.183.174.173.171.170.168.198.196.195.192 191 190 189.227.221.219.207.206-204-200.199 $248.247.235.234.233.232.231.228 261 260.257.256.255.251.250.249 $287.284.283-282-278-269-267-266 294.293 292 291.290.288 کشیر | کاشیر: 291،233 كنعان: 231،14،13 232.168.165.149.148.145.133.126.121 293.291.268.263.250.235.233 شو(ضلع): 144 شہزادہ نبی کا چبوترہ: 267،257،256،255،165 شہزادہ نبی کی قبر مزار : شیطان گمل : 266 صيدا: 54 266 260.256.164.42.40.34
اشاریہ کوه لغمان: 257.256.255.165.164.154 کو و سلیمان 260.168 166.165.147.48.34 کوه فیروز: 148 10 میلاپور: 250 فلسطین سے کشمیر تک نصيبين (نسی بس): 118 ، 120 ، 154،121، 264.263.258.256.170.165.164 269.266.265 نیپال: 27 ،121،42،29 ،164،135 كيسمنوقسطمونية: 112 كتسمينی : 86 گلیل (جلیل): ہرات: 143،118، 145،144 ہزارہ: 143،142 گلگت / گلگتا / جلجات: 184،123،108،107 ہسپانیہ، اندلس: 112 ہمس: 123 ہندوستان 40،39،38،36،32،30،29،27،24، 110.103 102 100.81.80.77.75.3.2 241 240-209.190.171.164 280.254:6 125.121.120.73.72.60.53.46.41.154.153.151.150.147.129.128.126 گورداسپور / گورداسپورہ: 258،250،87،86 لاسه: 123،108 لاہور : 29 ، 280،276،257 $250.246.220.219.213.203.188.164 293.292.251 ہیکل یروشلم : 145 لندن: 27 ،119،76،51،36 ،148،146 يافا 6،5،4 ليه: 123 مالیر کوٹلہ : 262 مدراس 29، 265،230 $231.230.203.200.159.66.3 یروشلم: $118.110.100.91.90.89.80.54.1 226-204-200.168.150.149.145.144 یورپ 11 ، 31 ، 36، 39 ، 114،113،112،51، 293.232 مرو: 144 مزار حضرت عیسی : 32،28.251.247.220.214.168.167.135 284.278.260 لوز آسف نبی کا چبوترہ: 268 مسیح کی قبر : 278،255،246،108،18،8، یوز آسف کی قبر : 164 ، 234، 266،260 294 291.288.284 246.231.121.79.13.9 مکران: 147 $200.86.68.67.66.59.25.24: 293.231.212 ملتان: 147 موصل: 118 میدیا: 143،120 یہ چو: 144
فلسطین سے کشمیر تک 11 اشاریہ حضرت مسیح ناصری کی ہجرت سے متعلق حضرت مسیح موعود کے بعض تحقیق پراجیکٹس (1) حضرت مسیح کے ہندوستان اور بدھ علاقوں کی طرف جائیکے بیانات کی مزید تحقیق اور تفتیش کے لیے ایک تحقیقی وفد کشمیر ، تبت ، بنارس ، نیپال ، مدراس اور سوات کی طرف بھیجوانے کا ذکر : 29.28 (2) افغانستان میں کو د لغمان میں شہزادہ نبی کے چبوترہ کی تفتیش کے لیے ایک تحقیقی وفد بھجوانے کا ذکر : 268.257 256 6 (3) نصیبین کی طرف تین آدمیوں پر مشتمل ایک وفد ہجرت مسیح کی تحقیق کے لیے بھجوانے کا ذکر : 264.263.258.256 اس وفد کو وداع کرنے کے لیے قادیان میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفد پر جانے والے افراد اور دیگر احباب جماعت کو نصائح فرمائیں: 269 تا 275
اشاریہ کتب حضرت مسیح موعود ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 مطبوعہ ربوہ اتمام الحجہ.روحانی خزائن جلد 8 مطبوعہ ربوہ ست بچن.روحانی خزائن جلد 10 مطبوعہ ربوہ سراج منیر.روحانی خزائن جلد 12 مطبوعہ ربوہ کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 مطبوعہ ربوہ راز حقیقت.روحانی خزائن جلد 14 مطبوعہ ربوہ کشف الغطاء روحانی خزائن جلد 14 مطبوعہ ربوہ 12 کتابیات فلسطین سے کشمیر تک چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 مطبوعہ ربوہ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 مطبوعد ربوہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 مطبوعہ ربوہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 مطبوعہ ربوہ ریویو آف ریلیجنز ريويو آف ریلیجنز بابت ماہ ستمبر 1903 جلد 2 نمبر 9.مطبوعہ قادیان مجموعہ اشتہارات ایام اصلح.روحانی خزائن جلد 14 مطبوعہ ربوہ مجموعہ اشتہارات جلد دوم.ایڈیشن 2008 ء مطبوعہ ربوہ مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 مطبوعہ ربوہ مکتوبات احمد ستارہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد 15 مطبوعہ ربوہ مکتوبات احمد جلد دوم.ایڈیشن 2008 مطبوعہ ربوہ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 مطبوعہ ربوہ ملفوظات تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد 15 مطبوعہ ربوہ ملفوظات جلد اول مطبوعه ربوه تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 مطبوعہ ربوہ ملفوظات جلد دوم مطبوعه ر بوه الہدی.روحانی خزائن جلد 18 مطبوعہ ربوہ ملفوظات جلد سوم مطبوعه ربوه کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 مطبوعہ ربوہ ملفوظات جلد چہارم مطبوعه ربوہ تحفۃ الندوۃ.روحانی خزائن جلد 19 مطبوعہ ربوہ ملفوظات جلد پنجم مطبوعد ربوه مواہب الرحمن.روحانی خزائن جلد 19 مطبوعہ ربوہ تذکرۃ الشہا دتین.روحانی خزائن جلد 20 مطبوعہ ربوہ لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 مطبوعہ ربوہ لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 مطبوعہ ربوہ