Language: UR
سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطابات میں پردہ کی اسلامی تعلیمات کی نہایت مؤثر انداز میں وضاحت فرمائی ہے۔ اِس کتاب میں پردہ کے قرآنی حکم پر روز مرہ زندگی میں عمل کرتے ہوئے اور پردہ پر اعتراضات کے حوالے سے پُر حکمت ارشادات کو شامل کیا گیا ہے۔ ’’سب سے پہلے تو مَردوں کو حکم ہے کہ غَصِّ بصر سے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز کو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلاوجہ نا محرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجسّس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۰؍ جنوری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن)
پی کرده سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پر حکمت و پر معارف ارشادات سے انتخاب
Pardah (The Veil) Issues Related to the Veil and its Resolution Proposed by Hazrat Khalifatul-Masih V (may Allah be his Helper) First published in the UK in 2018 Quantity: 16000 O Islam International Publications Ltd.Published by Lajna Section Markazia 22 Deer Park Road, SW19 3TL London Printed in the UK at: Raqeem Press, Farnham Cover Design by: Lajna Canada Isha'at Team (Kishwer Chaudhry, Aniqa Chaudhry, Tehmina Mirza) Composed by: Mahmood Ahmad Malik No part of this book may be reproduced or used in any form or by any means graphic, electronic or mechanical, including photocopying, recording, copying or information storage and retrieval systems without permission of the publisher.ISBN: 978-1-84880-187-5
يُبَنِي آدَمَ قَد أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذلِكَ مِنْ أَيْتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَنَّ كَرُوْنَ.(سورة الاعراف: 27) اے بنی آدم ! یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں.
پیش لفظ پردے کے متعلق میں نے قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مختلف مواقع پر بہت کچھ کہا ہوا ہے.اس کتاب میں پردے کے متعلق جو امور ہیں ان کولجنہ اور ناصرات کو ہمیشہ اپنی زندگیوں میں پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس بارہ میں ہر موقع پر انہیں اپنے نیک نمونے پیش کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے.آمین مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس پرده
پرده ابتدائيه امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں لجنہ سیکشن مرکزیہ کو پردہ کے موضوع پر کتاب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس میں خلافتِ خامسہ کے آغاز سے لے کر 2017ء تک کے منتخب خطبات جمعہ، خطابات، پیغامات اور کلاسوں اور مجالس عاملہ کو دی گئیں زریں نصائح اور پر معارف ارشادات کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے.یہ کتاب بالخصوص احمدی خواتین کے لئے فائدہ مند ہے جس کو پڑھنے سے پردہ کے اسلامی حکم کی اہمیت و برکت کا بخوبی علم ہوتا ہے.مزید برآں اس کتاب کی افادیت صرف عورتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی پاکبازی اور غض بصر کی پر حکمت قرآنی تعلیم بیان فرمائی ہے.جس پر عمل کر کے مرد اور عورت دونوں عصر حاضر میں پھیلی ہوئی اخلاقی برائیوں سے بچ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان انمول نصائح وارشادات کو مشعلِ راہ بنانے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اس کتاب کی تیاری میں مکرمہ رضوانہ نثار صاحبہ (معاونه لجنہ سیکشن مرکزیہ) نے مسودہ کے انتخاب اور حوالہ جات کے سلسلہ میں بہت کام کیا اور ذمہ داری کو خوب نبھایا.نیز کتاب کی تیاری کے ابتدائی مدارج سے لے کر اشاعت تک کے ہر مرحلے پر مکرم محمود احمد ملک صاحب ( واقف زندگی.کارکن الفضل انٹرنیشنل لندن) کی راہنمائی و تعاون حاصل رہا.فجزاهم الله احسن الجزاء.خاکسار - ریحانہ احمد ( انچارج لجنه سیکشن مرکز یه )
يَا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَواتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيْطِيْنَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (سورۃ الاعراف:28) اے بنی آدم! شیطان ہرگز تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا.اس نے ان سے اُن کے لباس چھین لئے تھے تا کہ اُن کی برائیاں ان کو دکھائے یقیناً وہ اور اس کے غول تمہیں دیکھ رہے ہیں.جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے.یقیناً ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے.XXXXXX
عناوین فہرست مضامین پیش لفظ از سیدناحضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ابتدائیہ پردے کا شرعی حکم مردوں اور عورتوں کو غض بصر سے کام لینے کا حکم.مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں.عورت اور مرد کی پاکدامنی..فروج سے مراد اور اس کی حفاظت.چہرے کا کیوں ضروری ہے.حیا ایمان کا حصہ ہے.عورت کا تقدس زینت چھپانے میں ہے.پردے کی حدود.....محرم رشتہ داروں سے کی چھوٹ.گھروں میں داخل ہونے والوں کے لئے مشروط اجازت.عورتوں اور مردوں کی مجالس علیحدہ ہوں.عورتوں اور مردوں کا ہاتھ ملانا.ملازمین سے تقریبات میں لڑکوں کا کھاناServe کرنا.صفحہ نمبر 9 11 19 21 25.29 33 38.45 49 50 53 54 59 60 پرده 5
شه لا 62 65 69 71 72 77.82......95 99 88150 91 106 107 110 115 116 119.121 پرده ڈانس (Dance): بے حیائی و بیہودگی..دلہن اور شادی میں شریک خواتین بھی کریں..اسلامی پرده پر اعتراضات اور اُن کارڈ معززین کالباس باوقار ہوتا ہے..کی قرآنی تعلیم بمقابلہ انجیل کے احکامات نیز مشرقی اور مغربی معاشروں کا تقابلی جائزہ...اسلامی روایات پر پابندی کی کوششیں.....عورتوں اور مردوں کی علیحدہ نشستوں پر اعتراض کا جواب مسلمان عورتوں اور مردوں کے علیحدہ نماز ادا کرنے پر اعتراض کا پُر حکمت جواب..عورتوں کے حقوق کے نام پر پر تنقید.پردے کا تنشد دجائز نہیں.لِبَاسُ التَّقوى..لباس کے دو مقاصد...لفظریش کے معانی.حیادار لباس.عربوں اور ترکوں میں برقع کا رواج..برقعے حیادار ہونے چاہئیں.سوئمنگ کے لباس میں احتیاط.مغربی معاشرہ میں احمدی عورت کا لباس..6
پرده 125..127.....127....132 137.......137 144 148 153 155...156 161 165 173 189....190.....191 205 219 جلسہ سالانہ کے موقع پر کا خیال رکھیں.سوشل میڈیا اور.....سوشل میڈیا کا بے پردگی میں کردار..سوشل میڈیا کا مثبت استعمال.احمدی عورت کی ذمہ داریاں....احمدی مائیں اپنی بچیوں میں پردے کا احساس پیدا کریں..احمدی بچی کی آزادی کی حدود اور کا معیار.خواتین احساس کمتری کے بجائے جرات سے کام لیں..ہدایت پر قائم رہنے کے لئے دعا کی تلقین.نئی احمدی خواتین نمونے قائم کریں..تعلیمی اداروں میں کا معیار قائم رکھیں.ملازمت کی راہ میں روک نہیں ہے.پر دہ تبلیغ کے لئے عملی نمونہ واقفات کو کے لئے ارشادات.واقفات ٹو کی مائیں نمونہ بنیں..مربیان اور اُن کی بیویوں کے لئے کی ہدایت.لجنہ عہدیداران کو نصیحت.چند مثالی نمونے..............قرآنی حکم پر عمل سے جنت کی ضمانت.7
پرده ”سب سے پہلے تو مردوں کو حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں.یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز کو دیکھنے سے رو کے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے.یعنی بلا وجہ نا محرم عورتوں کو نہ دیکھیں.جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) 00 8
پردے کا شرعی حکم حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں کے قرآنی حکم کی تشریح، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں کرتے ہوئے، کے وسیع مفہوم کو بیان فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ النور کی درج ذیل آیات کی تلاوت کے بعد ان آیات کریمہ کا ترجمہ اور تشریح بیان فرمائی: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي اِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَتِ النِّسَاء وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 0 (النور : 32-31) پرده
پرده ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ : مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.یقینا اللہ ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو.اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی دار جگہوں سے بے خبر ہیں.اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر ) وہ ظاہر کر دیا جائے جو ( عورتیں عموما) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں.اور اے مومنو! 66 تم سب کے سب اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکوتا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.“ آج کی ان آیات سے جو میں نے تلاوت کی ہیں، سب کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ کس چیز کے بارہ میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں.اس مضمون کو خلاصہ دو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف اوقات میں بیان کر چکا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے.کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بہت ے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.کوئی کہہ دیتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کیا صرف ہی ضروری ہے؟.10
کیا اسلام کی ترقی کا انحصار صرف پر دہ پر ہی ہے؟ کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں.اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.ایسے لوگوں کو میرا ایک جواب یہ ہے کہ جس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آگئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرت علی ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے.چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں.اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی پراتاری ہے اس کی تعلیم کبھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی.اس لئے جن کے دلوں میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9 را پریل 2004ء) مردوں اور عورتوں کو غض بصر سے کام لینے کا حکم غَضِ بصر کا حکم مومن مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں ہے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”سب سے پہلے تو مردوں کو حکم ہے کہ تحصن بصر سے کام لیں.یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز کو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے.یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ پرده 11
پرده دیکھیں.جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو.اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو.یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے، راستوں پر پوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو.بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتا ہو کہ جس چیز پر ایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جانا ہے.نظر کس طرح ڈالنی چاہئے اس کی آگے حدیث سے وضاحت کروں گا.لیکن اس سے پہلے علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ : 66 غضِ بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکنا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے.“ ( تفسیر الطبری جلد 18 صفحہ 116.117) تو مردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.اور اگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے تو بہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہو جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی.“ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 102 - 103 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحہ 444) پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ محض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھا کریں.اگر عورت اونچی نظر کر کے چلے گی تو ایسے مرد جن کے دلوں پر شیطان نے 12
پرده قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے.تو ہر عورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے ، اللہ تعالی کا جو حکم ہے غض بصر کا ، اس پر عمل کریں تا کہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہوں.کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کجی ہو، شرارت ہو تو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں.اسی لئے آنحضرت علی نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنث آئے تو اس سے بھی کرو.ہوسکتا ہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کریں اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہو.تو دیکھیں آنحضرت صلیم نے کس حد تک پابندی لگائی ہے.کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یا دیکھا جائے.بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو ، ترشی ہوتا کہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیدا ہو.تو اس حد تک سختی کا حکم ہے.“ پھر حضور انور نے خطبہ جمعہ جاری رکھتے ہوئے چند احادیث مبارکہ بھی پیش فرمائیں.حضور انور نے مزید فرمایا : ابوریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ صلیم کے ساتھ تھے.ایک رات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے“.پھر اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی 13
پرده بجائے جھک جاتی ہے.اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عز وجل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو.(سنن دارمی، کتاب الجھاد، باب فی الذي يسهر في سبيل الله حارساً) تو دیکھیں تحقیق بصر کا کتنا بڑا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں ، شہید ہونے والوں یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی آنکھ کا رتبہ ایسے لوگوں کو حاصل ہورہا ہے.اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ، ہمیشہ عبادت بجالانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے.حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت علیم نے فرمایا: راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو.صحابہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر رستے کا حق ادا کرو.انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، تحص بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور نا پسندیدہ باتوں سے روکو.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 61 مطبوعہ بیروت) دیکھیں کس قدر تاکید ہے کہ اول اگر کام نہیں ہے تو کوئی بلا وجہ راستے میں نہ بیٹھے اور اگر مجبوری کی وجہ سے بیٹھنا ہی پڑے تو پھر راستے کا حق ادا کرو.بلا وجہ نظریں اٹھا کے نہ بیٹھے رہو بلکہ غض بصر سے کام لو، اپنی نظروں کو نیچا رکھو، کیونکہ یہ نہیں کہ ایک دفعہ نظر پڑ گئی تو پھر ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دیکھتے ہی چلے گئے.أم المؤمنین حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرت مسلم کے پاس تھی اور میمونہ بھی ساتھ تھیں.تو ابن ام مکتوم آئے یہ کے حکم کے نزول سے بعد 14
کی بات ہے.تو آنحضرت علی نے فرمایا کہ اس سے کرو.ہم نے عرض کی یارسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے تو آپ علیم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو.اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں.(ترمذى كتاب الأدب عن رسول الله باب ما جاء فى احتجاب النساء من الرجال) دیکھیں کس قدر پابندی ہے کی کہ غض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا.حضرت جریر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صل للعالم اچانک نظر پڑ جانے کے بارہ میں دریافت کیا.حضور عالم نے فرمایا اضرف بصَرَك، اپنی نگاہ ہٹا لو.(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ما یؤمر بہ من غض البصر) تو دیکھیں اسلامی کی خوبیاں.نظر پڑ جاتی ہے ٹھیک ہے، قدرتی بات ہے.ایک طرف تو یہ فرما دیا عورت کو کہ تمہیں باہر نکلنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ کر کے باہر نکلو.اور جو ظاہری نظر آنے والی چیزیں ہیں،خود ظاہر ہونے والی ہیں ان کے علاوہ زینت ظاہر نہ کرو.اور دوسری طرف مردوں کو یہ کہہ دیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، بازار میں بیٹھو تو نظر نیچی رکھو اور اگر پڑ جائے تو فوراً نظر ہٹا لو تا کہ نیک معاشرے کا قیام عمل میں آتا رہے.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فضل ( بن عباس ) رسول اللہ صل ال السلام کے پیچھے سوار تھے تو خَشُعَہ قبیلہ کی ایک عورت آئی.فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی.تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا.(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضله) حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ علیم نے فرمایا کہ جب کسی پرده 15
پرده مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ محض بصر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے.(مسند أحمد مسند باقی الانصار باب حديث أبي أمامة الباهلى الصدى بن عجلان تو دیکھیں نظریں اس لئے نیچی کرنا کہ شیطان اس پر کہیں قبضہ نہ کرلے،اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کی توفیق دیتا ہے اور عبادات کی توفیق دیتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسانی پھسلنے اور ٹھو کر کھانے کی حد سے بچا رہے.کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذراسی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے...یہ ہے سرہ اسلامی کا اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام 66 اور حقیقت کی خبر نہیں.“ ( البدر جلد 3 نمبر 33 مورخہ 8 ستمبر 1904، صفحہ 6 سے 7 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 443) پھر فرماتے ہیں: ”ایماندارعورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوت آواز میں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.یہ وہ تدبیر ہے کہ جس سے پابندی 16
ٹھوکر سے بچاسکتی ہے.“ 66 پرده رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحہ 100 سے 101 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 444) پھر فرمایا: مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِم - (النور: 31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه 533 مطبوعه ربوہ ) ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19اپریل 2004ء) شرائط بیعت کے حوالہ سے ارشاد فرمودہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسری شرط بیعت کے ضمن میں اخلاقی برائیوں سے بچنے کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاکیزہ ارشادات کی روشنی میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: دوسری شرط میں بہت ساری باتیں شامل ہیں.( فرمایا کہ ) زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دُور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو.اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو.جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.(آج کل جو ٹی وی پروگرام ہیں، بعض چینلز ہیں ، بعض انٹرنیٹ پر آتے ہیں یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ان برائیوں کی طرف لے جانے والی ہیں.نظر کا بھی ایک زنا ہے، اُس سے بھی بچنا چاہئے.ہرایسی چیز جو برائیوں کی طرف لے جانے والی ہے فرمایا کہ اُس سے بچو ) زنا کی راہ بہت بُری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لئے سخت خطرناک ہے.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 342) 17
پرده تمہاری منزل مقصود کیا ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور یہی آخری منزل ہے اور اس کے رستے میں یہ چیز روک بنتی ہے ).پھر اسی دوسری شرط کی جو دوسری باتیں ہیں، اُس میں مثلاً بد نظری ہے، اُس کے بارہ میں فرمایا: ” قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے، کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ از كى لَهُمُ (النور:31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا.فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے.پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 105.ایڈیشن 2003 ء.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ مزید فرماتے ہیں: اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں.کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے، مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غضِ بصر کا.نماز، روزہ ، زکوۃ، حج ، حلال و حرام کا امتیاز، خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات ، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہو سکتا.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 614.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) ( خطبہ جمعہ فرموده 23 / مارچ 2012ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13 اپریل 2012ء) 18
مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں حضور انور ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کے حوالہ سے مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے اجتماع میں پاکدامنی کے وصف کو اپنانے کے لئے جو اہم نصائح فرمائیں اُن میں فرمایا: سورۃ المومنون آیت 6 میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ.(المومنون :6) ترجمہ : اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں.اپنی عفت و حیا کو قائم رکھنا صرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہے بلکہ مردوں پر بھی فرض ہے.اپنی عفت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر نا جائز جنسی تعلقات سے بچتا رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اُس چیز سے پاک رکھے جو نامناسب ہے اور اخلاقی طور پر بُری ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہے وہ پورنو گرافی (pornography) ہے.اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی عفت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے.یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں.ہم احمدی عورتوں کو کہتے ہیں کہ انہیں کرنا چاہئے.اور میں بھی احمدی پرده 19
پرده عورتوں کو یہی کہتا ہوں کہ وہ کریں اور اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کریں لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کرنے کا حکم دینے سے پہلے مومن مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ شخص بصر سے کام لیتے ہوئے اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے دل و دماغ کو نا پاک خیالات اور برے ارادوں سے پاک رکھیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورۃ النور آیت 31 میں فرمایا ہے : (قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں،اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.جبکہ مردوں کو ظاہری طور پر اس طرح کا حکم نہیں ہے جس طرح عورتوں کو ہے قرآن مجید واضح طور پر اس بات کا حکم دیتا ہے کہ مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اپنے دماغوں کو صاف رکھیں اور ہر ایسی بات سے دور رکھیں جن سے انسان برائی کی طرف مائل ہوسکتا ہے.یہ وہ ہے جس کا مردوں کو حکم ہے اور جس سے معاشرہ برائی و بے حیائی اور خطرات سے محفوظ رہ سکتا ہے.اسلام کی بیان فرمودہ کوئی بھی تعلیم سطحی اور بغیر حکمت کے نہیں.بلکہ اسلام کا ہر اصول انتہائی پر حکمت اور مضبوط بنیادوں پر مشتمل ہے.چنانچہ مردوں کے غض بصر سے کام لینے کے حکم سے اسلام ہمیں دراصل اپنے نفس پر قابورکھنا سکھاتا ہے.کیونکہ عموما نظر سے ہی مردوں کے جذبات اور خواہشات ابھرتے ہیں.معاشرہ کو نامناسب باتوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے 20
اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو مخالف جنس کے سامنے جھکا کر رکھیں، یا ہر ایسی چیز سے اپنی نظروں کو بچا کر رکھیں جن سے ناجائز طور پر شہوانی خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو.یاد رکھیں! پاکبازی ایک خادم کالازمی اخلاقی وصف ہے اس لئے آپ کو ہر ایسی چیز سے دور رہنا ہے جو اسلام کی حیا سے متعلق تعلیمات کے منافی ہے.اگر آپ اس کام میں کامیاب ہوجائیں تو آپ حقیقت میں روحانی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں.“ ( خطاب بر موقع نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ یو کے 26 رستمبر 2016 کنگز لے.مطبوعہ بدر قادیان 7 ستمبر 2017ء) عورت اور مرد کی پاکدامنی اسلام کی پاکدامنی کی پاکیزہ تعلیم کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو تفصیلی نصائح کرتے ہوئے فرمایا: ”اب یہ جو غض بصر کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے اور تو بہ کرنے کا بھی حکم ہے، یہ سب احکام ہمارے فائدے کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا پیار، اپنا قرب عطا فرمائے گا کہ اس کے احکامات پر عمل کیا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس معاشرے میں، اس دنیا میں جہاں تم رہ رہے ہو، ان نیکیوں کی وجہ سے تمہاری پاکدامنی بھی ثابت ہورہی ہوگی اور کوئی انگلی تم پر یہ اشارہ کرتے ہوئے نہیں اٹھے گی کہ دیکھو یہ عورت یا مرد اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہے، ان سے بچ کر رہو.اور یہ کہتے پھر میں لوگ کہ خود بھی بچو اور اپنے بچوں کو بھی ان سے بچاؤ.نہیں بلکہ ہر جگہ اس نیکی کی وجہ سے ہمیں عزت کا مقام ملے گا.دیکھیں جب ھرقل بادشاہ نے ابوسفیان سے آنحضرت علیم کی تعلیم کے بارہ میں پوچھا کہ کیا ان کی تعلیم ہے اور کیا ان کے پرده 21
پرده عمل ہیں.تو باوجود دشمنی کے ابوسفیان نے اور بہت ساری باتوں کے علاوہ یہی جواب دیا کہ وہ پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہیں.تو ھرقل نے اس کو جواب دیا کہ یہی ایک نبی کی صفت ہے.پھر محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل امور کی وصیت کی پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک وصیت یہ ہے کہ عفت ( یعنی پاکدامنی ) اور سچائی ، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے.(سنن دار قطنی، کتاب الوصایا، باب ما یستحب بالوصية من التشهدو الكلام) تو پاکدامنی ایسی چیز ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں ہو، اس کا طرہ امتیاز ہوگی اور ہمیشہ ہر انگلی اس پر اس کی نیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹھے گی.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں.( اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو میں نہیں ہوتیں.اس کا مطلب نہیں کہ جو عورت پر دے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں ).اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے 66 سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.“ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 100 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 440) اب تو گانے وغیرہ سے بڑھ کر بیہودہ فلموں تک نوبت آگئی ہے.اس بارے میں عورتوں اور مردوں دونوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے، دونوں کو احتیاط کرنی 22
پرده چاہئے.دکانیں کھلی ہوتی ہیں ، جاکے ویڈیو کیسٹ لے آئیں یا سیڈیز لے آئیں ، اور پھر انتہائی بیہودہ اور پھر قسم کی فلمیں اور ڈرامے ان میں ہوتے ہیں.جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارہ میں نظر رکھنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو، بچوں کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے ،سمجھانا چاہئے.کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ چیزیں بالآخر غلط راستوں پر لے جاتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں.یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہوا اپنے تئیں بچانا.اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلی تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہوسکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زمینوں پر نظر ڈال لیں.اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ ی تعلیم ہمیں 23
پرده دی ہے کہ ہم ان بیگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہر گز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے.اور ان کی خوش الحانی کی آواز میں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے.بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے، تا ٹھوکر نہ کھاویں.کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.66 اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 343-344)...پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرات سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاک دامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذراسی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے.خدا کو راضی کرے پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے.ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الہی کے سوا نہیں ہوسکتا.صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا.24
فضل شامل حال نہ ہو.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء:29) انسان ناتواں ہے.غلطیوں سے پر ہے.مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے.“ (ملفوظات جلد پنجم طبع جدید صفحہ 543 ، ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.( خطبہ جمعہ فرموده 30 جنوری 2004 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19 اپریل 2004ء) فروج سے مراداوراس کی حفاظت قرآن کریم میں مومنوں کو اپنے فروج کی حفاظت کرنے کی خاص تعلیم دی گئی ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اس اسلامی تعلیم کی پُر لطف تشریح بیان کرتے ہوئے احمدی خواتین کو خصوصیت سے چند نصائح فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے.قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذُلِكَ أَزْكَى لَهُم (النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے 66 سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہو گا.“ فرمایا کہ: فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی پرده 25
پرده شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سُنا جاوے.پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے.......اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہر گز نہ دخل دیا جاوے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 104-106 جدید ایڈیشن ) خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 2 مارچ 2007ء) احمدی خواتین کے ایک اور اجتماع کے موقع پر بھی حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالے سے گرانقدر نصائح فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوا فُرُوجَهُمُ (النور: 31) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ کسی کے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج کی بھی حفاظت کریں.یعنی انسان پر لازم ہے که چشم خوابیدہ ہو یعنی کہ پوری آنکھ نہ کھولے.بلکہ جھکی ہوئی نظر ہو تا کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھ کرفتنہ میں نہ پڑے.کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص اور محش باتیں سن کر فتنہ میں پڑ جاتے ہیں، یعنی کہ کان جو ہیں یہ بھی فروج میں داخل ہیں.جو قصے سن کر باتیں سن کر پھر فتنے میں پڑ جاتے ہیں.کیونکہ جھگڑے کی باتیں جو ساری سنی جاتی ہیں جس طرح کہ پہلے میں نے کہا کہ کوئی بات اس سے سنی اور پھر جا کر لڑنے پہنچ گئے.تو یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود نے عام طور پر فرمایا کہ تمام موریوں ( سوراخوں) کو محفوظ رکھو اور فضولیات سے بالکل 26
بند رکھو.ذلِكَ از کی لَهُمُ (النور: 31) یہ مومنوں لئے بہت ہی بہتر ہے اور یہ طریق تعلیم ایسی اعلی درجہ کی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے جس کے ہوتے ہوئے بدکاروں میں نہ ہو گے.“ (ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 55.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ) ( خطاب بر موقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 19 اکتوبر 2003ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17 اپریل 2015ء) اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر حضور انور نے فرمایا: تو یہ جو فروج کی حفاظت کا حکم ہے اس کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے اس لئے اس خدائی حکم کو بھی کوئی معمولی حکم نہ مجھیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ پردے کے خلاف جولوگ بولتے ہیں وہ پہلے مردوں کی اصلاح تو کر لیں پھر اس بات کو چھیڑیں کہ آیا ضروری ہے یا نہیں.( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ 21 اگست 2004 ء بمقام منہائم ، جرمنی.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2015ء) پرده 27
پرده قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم عورت کی حیا اور اس کا کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زمینت نامحرموں پر ظاہر نہ ہو.یعنی ایسے لوگ جو تمہارے قریبی رشتہ دار نہیں ہیں ان کے سامنے بے حجاب نہ جاؤ.جب باہر نکلو تو تمہارا سر اور چہرہ ڈھکا ہونا چاہئے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہئے اس سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہونا چاہئے جو غیر کے لئے کشش کا باعث ہو.“ 66 ( خطاب از مستورات جلسه سالانہ ماریشس 3 دسمبر 2005ء) 28
پرده چہرے کا کیوں ضروری ہے؟ پر دے اور خصوصاً چہرے کے کے حوالہ سے ہمارے معاشرہ میں مختلف آراء ظاہر کی جاتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ”چہرے کا کیوں ضروری ہے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں: زبینت ظاہر نہ کرو.اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا کہ عورتوں کو حکم ہے میک آپ وغیرہ کر کے باہر نہ پھریں.باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا ، جب باہر نکلیں گے تو نظر آہی جائے گا.یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئے اس طرح کی قید نہیں رکھی.تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو اس کے علاوہ باقی چہرے کا ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حکم ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا ہو.پھر چادر سامنے گردن سے نیچے آر ہی ہو.اسی طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں.سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہو کہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں.الَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہوشریعت نے صرف اس کو جائز رکھا ہے.یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر رض 29
پرده کرنا اس کے لئے جائز ہو.میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال.لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پر دے میں داخل نہیں.چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے.پھر فرمایا کہ : اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا.اور ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پر دے کے حکم میں ہی شامل ہے...لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا.غرض اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جاسکتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 299-298) تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے.چہرہ چھپانے کا بہر حال حکم ہے.اس حد تک چہرہ چھپایا جائے کہ بے شک ناک نگا ہو اور آنکھیں ننگی ہوں تا کہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے.“ حضور انور ایدہ اللہ نے اس حوالہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث سے مثالیں دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ : اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت علیم نے ایک صحابی کو اس لڑکی کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا جس کا 30
رشتہ آیا تھا.اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا تا کہ دیکھ کر آئیں.اگر چہرہ کا نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی.پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرت علیم نے فرمایا کہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو تم نے اس کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ.کیونکہ پردے کا حکم تھا بہر حال دیکھا نہیں ہوگا.تو جب وہ اس کے گھر گیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور میں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا.پھر اس نے آنحضرت علیم کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا.بہر حال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے.اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ سختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرت مال اللہ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا.تولڑ کی جواندر بیٹھی یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرت صیام کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو.تو اگر چہرہ کے کا حکم نہیں تھا تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پھر آنحضرت علی نے یہ کیوں فرمایا.ہر ایک کو پتہ ہوتا کہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل.اسی طرح ایک موقع پر آنحضرت علی ایام اعتکاف میں تھے.رات کو حضرت صفیہ کو چھوڑنے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آرہے تھے.ان کو دیکھ کر آنحضرت معالم نے فرمایا گھونگھٹ اٹھاؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے.کوئی شیطان تم پر حملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانا نہ شروع کر دو.تو چہرے کا بہر حال ہے.پھر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : و لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے 31 پرده
پرده ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.بے شک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہرے کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنالیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے.مگر چہرے کو سے باہر نہیں رکھا جا سکتا.“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 301) پھر فرمایا کہ جو جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پر دہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلیں یعنی ایک عمر تک ہے اس کے بعد کے احکام ساقط ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک نے کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں چھوڑ رہی ہیں اور بوڑھی عورتوں کو جبراً گھروں میں بٹھایا جا رہا ہے.عورت کا چہرہ میں شامل ہے ورنہ آنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہو گیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 396-397) ہوتا یہی ہے کہ اگر کی خود تشریح کرنی شروع کر دیں اور ہر کوئی پردے کی اپنی پسند کی تشریح کرنی شروع کر دے تو پردے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہ سکتا.اس لئے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کے پردے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے.“ ( خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 9 اپریل 2004ء) 32 82
حیا ایمان کا حصہ ہے سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے جلسہ سالانہ ماریشس کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے ایک احمدی خاتون کی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں کو بیان فرمایا.اس ضمن میں اسلامی کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا: پرده قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم عورت کی حیا اور اس کا کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زینت نامحرموں پر ظاہر نہ ہو.یعنی ایسے لوگ جو تمہارے قریبی رشتہ دار نہیں ہیں ان کے سامنے بے حجاب نہ جاؤ.جب باہر نکلوتوتمہارا سر اور چہرہ ڈھکا ہونا چاہئے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہئے اس سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہونا چاہئے جو غیر کے لئے کشش کا باعث ہو.بعض لڑکیاں کام کا بہانہ کرتی ہیں کہ کام میں ایسالباس پہنا پڑتا ہے جو کہ اسلامی لباس نہیں ہے.تو ایسے کام ہی نہ کرو جس میں ایسا لباس پہننا پڑے جس سے ننگ ظاہر ہو.بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اپنی چال بھی ایسی نہ بناؤ جس سے لوگوں کو تمہاری طرف توجہ پیدا ہو.پس احمدی عورتوں کو قرآن کریم کے اس حکم پر چلتے ہوئے اپنے لباسوں کی اور اپنے پردے کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اب جیسا کہ میں نے کہا باہر سے لوگوں کا یہاں آنا پہلے سے بڑھ گیا ہے.پھر ٹیلی وژن وغیرہ کے ذریعہ سے بعض برائیاں اور ننگ اور بے حیائیاں گھروں کے اندر داخل ہوگئی ہیں.ایک احمدی ماں اور ایک احمدی بچی کا پہلے سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائے.33
پرده فیشن میں اتنا آگے نہ بڑھیں کہ اپنا مقام بھول جائیں ایسی حالت نہ بنائیں کہ دوسروں کی لالچی نظریں آپ پر پڑنے لگیں.یہاں کیونکہ مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگ آباد ہیں اور چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے آپس میں گھلنے ملنے کی وجہ سے بعض باتوں کا خیال نہیں رہتا.لیکن احمدی خواتین کو اور خاص طور پر احمدی بچیوں کو اور ان بچیوں کو جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں اپنی انفرادیت قائم رکھنی ہے.ان میں اور دوسروں میں فرق ہونا چاہئے ، ان کے لباس اور حالت ایسی ہونی چاہئے کہ غیر مردوں اور لڑکوں کو ان پر بری نظر ڈالنے کی جرات نہ ہو.روشن خیالی کے نام پر احمدی بچی کی حالت ایسی نہ ہو کہ ایک احمدی اور غیر احمدی میں فرق نظر ہی نہ آئے.“ خطاب از مستورات جلسه سالانه ماریشس 3 دسمبر 2005ء مطبوع الفضل انٹرنیشنل 29 مئی 2015 ء ) حیا کے ایمان کا حصہ ہونے سے متعلق اسلامی تعلیمات کے حوالے سے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو یہ واضح ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ نامناسب لباس میں کام کرنے کی مجبوری ہو تو دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے ایسے کام کورڈ کر دینا چاہئے.چنانچہ ایک موقع پر حضور انور نے فرمایا: اب بھی ایک اسلامی حکم ہے قرآنِ کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے.نیک عورتوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حیادار اور حیا پر قائم رہنے والی ہوتی ہیں ، حیا کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں.اگر کام کی وجہ سے آپ اپنی حیا کے لباس اُتارتی ہیں تو قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں.اگر کسی جگہ کسی ملازمت میں یہ مجبوری ہے کہ جینز اور بلاؤز پہن کر سکارف کے بغیر ٹوپی پہن کر کام کرنا ہے تو احمدی عورت کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے.جس لباس سے آپ کے ایمان پر زد آتی ہو اس کام کو آپ کو لعنت بھیجتے ہوئے رڈ کر دینا چاہئے کیونکہ حیا ایمان کا حصہ 34
ہے.اگر آپ پیسے کمانے کے لئے ایسا لباس پہن کر کام کریں جس سے آپ کے پردے پر حرف آتا ہوتو یہ کام اللہ تعالیٰ کو آپ کا متولی بننے سے روک رہا ہے.یہ کام جو ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کا دوست بننے سے، آپ کی ضروریات پوری کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایمان والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، تقویٰ پر چلنے والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے.کوئی بھی صالح عورت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کا ننگ ظاہر ہو یا جسم کے اُن حصوں کی نمائش ہو جن کو چھپانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.“ پرده ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 جون 2005 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 /مارچ 2007ء) اسی طرح سید نا حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے حیا کو ایمان کا جز و قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”پھر اپنے آپ کو باحیا بنانا ہے.کیونکہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے.حیا بھی ایمان کا حصہ ہے.اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چاہئے.زینت ظاہر نہ ہو.حیا کا تصور ہر قوم میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے.آج مغرب میں جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑکی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متاثر نہیں ہونا چاہئے.آزادی کے نام پر بے حیائیاں ہیں ، لباس ، فیشن کے نام پر بے حیائیاں ہیں.اسلام عورت کو باہر پھر نے اور کام کرنے سے نہیں روکتا اُس کو اجازت ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو.بے حجابی نہ ہو.مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہئے.دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ اُس جگہ پہنچے جہاں 35
پرده ایک کنویں میں تالاب کے کنارے بہت سے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دولڑ کیاں بھی اپنے جانور لے کے بیٹھی ہیں تو انہوں نے جب اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے تو لڑکیوں نے جواب دیا کیونکہ یہ سب مرد ہیں اس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ یہ فارغ ہوں تو پھر ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں.تو دیکھیں یہ حجاب اور حیا ہی تھی جس کی وجہ سے اُن لڑکیوں نے اُن مردوں میں جانا پسند نہیں کیا.اس لئے یہ کہنا کہ مردوں میں mix up ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اکٹھی gathering کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ علیحدگی فضول چیزیں ہیں.عورت اور مرد کا یہ ایک تصور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے.عورت کی فطرت میں جو اللہ تعالی نے حیا رکھی ہے ایک احمدی عورت کو اُسے اور چمکانا چاہیئے، اُسے اور نکھارنا چاہئے، پہلے سے بڑھ کر باحیا ہونا چاہئے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تعلیم بھی بڑی واضح دے دی ہے اس لئے بغیر کسی شرم کے اپنی حیا اور حجاب کی طرف ہر احمدی عورت کو ہر احمدی بچی کو ہر احمدی لڑکی کو توجہ دینی چاہئے.“ خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 20 نومبر 2005 _ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 مئی 2015ء) شرم و حیا کو ملحوظ رکھتے ہوئے پردے کے قرآنی حکم کو اختیار کرنا ہی ایک احمدی عورت کے شایانِ شان ہے.اس اہم ذمہ داری کی طرف حضور انور ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو بار ہا توجہ دلائی ہے.ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے ارشاد فرمایا: ”حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ حکم سات سو ہیں.پس ایک احمدی کو احمدیت قبول کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنی چاہئے کہ کہیں کسی حکم کی نافرمانی نہ ہو جائے.اب مثلاً ایک حکم ہے حیا کا، 36
عورت کو خاص طور پر پردے کا حکم ہے.مردوں کو بھی حکم ہے کہ عقیق بصر سے کام لیں، حیا دکھا ئیں.عورت کے لئے اس لئے بھی پردے کا حکم ہے کہ معاشرے کی نظروں سے بھی محفوظ رہے اور اس کی حیا بھی قائم رہے.آنحضرت علی نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہوگئی ہے.عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے.mix gatherings ہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں بدن پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بے ہودگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں.یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھر مکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے مسلمان کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر بڑے حکموں سے بھی دُوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دُوری بھی ہو جاتی ہے.اور پھر انسان اسی طرح آخر کار اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے.اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نوجوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے.ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرت لیم کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بن کر آیا تھا.پس اگر اُس سے منسوب ہونا ہے تو پھر اُس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن جائے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 7 اپریل 2006ء بمقام مسجد طہ.سنگا پور.مطبوعہ الفضل 28 اپریل 2006ء) پرده 37
پرده عورت کا تقدس زینت چھپانے میں ہے سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے احمدی مسلمان عورت کو اپنا تقدس قائم رکھنے کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: پھر ایک مومن عورت کو اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم حکم ہے اپنی زینت چھپانے کا اور پر دے کا.اس مغربی معاشرے میں بعض پڑھی لکھی بچیاں اور عورتیں معاشرے کے زیر اثر یا خوف کی وجہ سے کہ آج کل پر دے کے خلاف بڑی روچل رہی ہے، پردے کا خیال نہیں رکھتیں.ان کے لباس فیشن کی طرف زیادہ جار ہے ہیں.مسجد میں بھی اگر جانا ہو یا سینٹر میں آنا ہو تو اس کے لئے تو پردے کے ساتھ یا اچھے لباس کے ساتھ آجاتی ہیں لیکن بعض یہ شکایتیں ہوتی ہیں کہ بازاروں میں اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتیں.ایک بات یاد رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لئے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں.ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کا ایک تقدس ہے اس کو قائم رکھنا ہے آپ نے.ہمیشہ یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پردے کا حکم دیا ہے تو یقیناً اس کی کوئی اہمیت ہے.ان مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتے ہیں کہ پردے کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا.قرآن کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا.اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ ایک زمانہ میں ایسی سوچ پیدا ہوگی اس لئے یہ مستقل حکم اتارا ہے کہ منہ سے کہنے سے اللہ کی بندیاں نہیں بنو گی تم لوگ بلکہ جو نصائح کی جاتی ہیں، جو احکامات قرآن کریم میں دیئے گئے ہیں ان پر عمل کر کے حقیقی مومن کہلاؤ گی.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم ستمبر 2007، بمقام منہائم.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 2 دسمبر 2016ء) 38
سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں احمدی مسلمان عورتوں اور بچیوں کو حقیقی رنگ میں حیا اور عصمت کی حفاظت کرنے کے اہمیت کے بارہ میں نہایت احسن رنگ میں یوں توجہ دلائی: ہ بعض لڑکیاں کہہ دیتی ہیں کہ ہم نے سر ڈھانک لیا ہے اور یہ کافی ہے لیکن سر اس طرح نہیں ڈھانکا ہوتا جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے.بال صاف نظر آرہے ہوتے ہیں آدھا سر ڈھکا ہوتا ہے آدھا ننگا ہوتا ہے، گریبان تک نظر آرہا ہوتا ہے.کوٹ اگر پہنا ہوا ہے تو کہنیوں تک بازو ننگے ہوتے ہیں.گھٹنوں سے اوپر کوٹ ہوتے ہیں.یہ نہ ہی ایک احمدی لڑکی اور عورت کی حیا ہے اور نہ ہی یہ ایک احمدی عورت کی آزادی کی حد ہے بلکہ اس ذریعہ سے اس طرح کی حرکتیں کر کے وہ اپنی حیا پر الزام لا رہی ہوتی ہیں اور بحیثیت احمدی اپنی آزادی کی حدود کو بھی توڑ رہی ہوتی ہیں.پس ہمیشہ ایک احمدی عورت کو جس کا ایک تقدس ہے یا درکھنا چاہئے کہ آپ کی حدود کا ایک دائرہ ہے اس حدود کے دائرے سے تجاوز کرنا آپ کے تقدس کو مجروح کرتا ہے...پس ہمیشہ ایک احمدی لڑکی ایک احمدی عورت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا ایک تقدس ہے، اس کا ایک مقام ہے جس کو قائم رکھنا ہر دوسری خواہش سے زیادہ ضروری ہے.اپنی عزت کی حفاظت اور اپنے خاندان کی عزت کی حفاظت ایک احمدی عورت اور لڑکی کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز ہے اور ہونی چاہئے.ایک احمدی عورت اور بچی کی عصمت کی قیمت ہزاروں لاکھوں جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے.پس اس کی حفاظت کرنا اور اس کی حفاظت کے طریق جاننا ایک احمدی عورت اور لڑکی کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے بلکہ فرض ہے.پس پرده 39
پرده ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک احمدی لڑکی اور ایک احمدی عورت نے اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرنی ہے، اپنے تقدس کو قائم رکھنا ہے اور یہ پاکستانی کلچر نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیم ہے.اس لئے چاہے وہ جرمن قوم سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا کسی بھی دوسرے یورپین ملک سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا پاکستان اور ایشیا سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا افریقہ سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے، ایک بات ہر عورت میں قدر مشترک ہونی چاہئے کہ اس نے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی ہے اور اپنی حیا اور عصمت کی حفاظت کرنی ہے تبھی وہ حقیقی احمدی مسلمان کہلا سکتی ہے اور پاکستان سے آئی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کو خاص طور پر اپنے آپ کو نمونہ بنانا چاہئے.“ 66 مزید فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک عورت جو خدا تعالیٰ کا قرب چاہتی ہے جو اپنے ایمان کو کامل کرنا چاہتی ہے اسے اپنے تقدس کا بھی خاص طور سے خیال رکھنا چاہئے اور ایک احمدی عورت جس نے اس زمانے کے امام کو مانتے ہوئے یہ عہد کیا ہے کہ اپنے آپ کو تمام برائیوں سے بچائے رکھوں گی اُسے تو اپنی عزت ، عصمت اور تقدس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے.اس کا لباس اُسکی چال ڈھال، اسکی بات چیت کا انداز دوسروں سے مختلف ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ آزادی کے نام پر لڑکے لڑکیوں کی میکس (mix) پارٹیوں میں حصہ لے یا لباس ایسے ہوں جو ایک احمدی 66 عورت کے تقدس کی نفی کرتے ہوں ، پر دے اور حجاب کا بالکل خیال نہ ہو.“ مزید فرمایا: ” تو بہر حال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ جوانی میں جب لڑکیاں قدم رکھتی ہیں تو ان کے کوٹ گھٹنوں سے نیچے ہونے چاہئیں.ایسے کوٹ پہنے چاہئیں جو ان کا پورا جسم ڈھانکنے والے ہوں نہ کہ فیشن.اور بازو لمبے ہونے 40
چاہئیں.ایک احمدی عورت ایک احمدی لڑکی کی پہچان یہ ہونی چاہئے کہ اس کالباس حیادار ہو.پس اپنے لباسوں کا خاص طور پر خیال کریں کیونکہ یہ بھی ایک احمدی عورت کے تقدس کے لئے بہت ضروری ہے.یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی اگر نئی شامل ہونے والی تو اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے لباس میں حیا کا پہلو مد نظر رکھیں اور پرانی احمدی اس معاشرہ کے بداثرات کی وجہ سے اپنے حیادار لباس سے بے پرواہ ہو جائیں.پس ان باتوں کا ہمیشہ خیال رکھیں اور اپنے جائزے لیتی رہیں ورنہ شیطان کے حملے، جیسا کہ میں نے کہا، میڈیا کے ذریعہ سے اتنے شدت سے ہورہے ہیں کہ 66 ان سے بچنا محال ہے...( خطاب از مستورات جلسه سالانہ جرمنی 23 اگست 2008ء بمقام منہائم.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 4 نومبر 2011ء) روزمرہ زندگی میں نوجوان احمدی بچیوں کو کا خیال رکھنے کے ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے توجہ دلاتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں یوں فرمایا: اسکولوں اور کالجوں میں بھی لڑکیاں جاتی ہیں اگر کلاس روم میں ، سکارف لینے کی اجازت نہیں بھی ہے تو کلاس روم سے باہر نکل کر فورا لینا چاہئے.یہ دو عملی نہیں ہے اور نہ ہی یہ منافقت ہے.اس سے آپ کے ذہن میں یہ احساس رہے گا کہ میں نے کرنا ہے اور آئندہ زندگی میں پھر آپ کو یہ عادت ہو جائے گی.اور اگر چھوڑ دیا تو پھر چھوٹ بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی بھی وقت پابندی نہیں ہوگی.پھر وہ جو حیا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے.پھر اپنے عزیز رشتہ داروں کے درمیان بھی جب کسی فنکشن میں یا شادی بیاہ وغیرہ میں آئیں تو ایسا لباس نہ ہو جس میں جسم اٹریکٹ (attract) کرتا ہو یا اچھا لگتا ہو یا جسم نظر آتا ہو.آپ کا تقدس اسی میں ہے کہ اسلامی روایات کی پابندی کریں اور دنیا کی نظروں سے بچیں.پرده 41
پرده ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں.اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا.یعنی ادھر اُدھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا: اے اسماء ! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے.اور آپ مالی تعلیم نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا.“ (ابوداؤد کتاب اللباس باب فيما تبدى المرأة من زينتها) ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3 جولائی 2004، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 ستمبر 2005ء) عورتوں کے لئے اپنی زینت چھپانے کے قرآنی حکم کو بجالانے کی اہمیت تو ہر احمدی عورت پر عیاں ہے.اس ذمہ داری کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی عورتوں کو لباس کے ضمن میں مناسب رویے اپنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ اپنی زمینوں کو چھپاؤ.اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانکو.اپنے تقدس کو قائم رکھو.ہر عورت کا ایک تقدس ہے اور احمدی عورت کا تقدس تو بہت زیادہ ہے...بعض شکایتیں ایسی بھی بعضوں کی مل جاتی ہیں کہ مسجد میں آتی ہیں تو لباس صحیح نہیں ہوتے.جینز پہنی ہوئی ، اور قیص چھوٹی ہوتی ہے، جینز پہنے میں کوئی حرج نہیں ہے.میں نے اجازت دی تھی لیکن اس کے ساتھ لمبی قمیص ہونی چاہئے.اُن کو روکا گیا تو ماؤں نے عہد یداروں سے لڑنا شروع کر دیا کہ تم ہماری بچیوں کو روکنے ٹوکنے والی کون ہوتی ہو.ایک تو آپ مسجد کے تقدس کو خراب کر رہی ہیں کہ وہاں وہ لباس پہن کر نہیں آرہیں جو اُن کے لئے موزوں لباس ہے.دوسرے ایک نظام کی لڑی میں پروئے ہونے کے باوجود اُس 42
پرده کو توڑ رہی ہیں اور عہدیداروں سے لڑ رہی ہیں.تو ان حرکتوں سے باز آنے کی 66 ضرورت ہے.خطاب بر موقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2 نومبر 2008ء مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 10 جولائی 2015ء) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حیا اور غض بصر کی عادت اپنانے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اپنی خوبصورتی کو ظاہر نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ : اللہ تعالیٰ کے احکامات میں تو یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ نظریں نیچی رکھو ، بے محابا عورت اور مرد آپس میں ایک دوسرے سے نظریں نہ ٹکرائیں.ایک حیا ان میں ہونی چاہئے.دوسرے اپنی زینت چھپاؤ.ایسالباس ہو جس سے جسم کی نمائش نہ ہوتی ہو اور تیسرے یہ کہ اپنی زینت چھپانے کے لئے اپنے گریبانوں، سر، گردن اور سامنے کے حصوں کو ڈھانپ کر رکھو.جو برقع پہننا ہے وہ ڈھیلا ڈھالا ہو.جو میک آپ کر کے چہرہ نگا کر کے پھرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں.اسی طرح بالوں کی نمائش جو کرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ وہ خود اپنے بالوں کی نمائش اسی لئے کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ہماری زمینت ہے.خود سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ اس سے ہماری خوبصورتی ظاہر ہو رہی ہے.اس لئے سرڈھانکنا، چہرے کو کم از کم اس حد تک ڈھانکنا کہ چہرے کی نمائش نہ ہو رہی ہو اور لباس کو مناسب پہنا یہ کم از کم پر دہ ہے اور حضرت مسیح موعود 66 علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تلقین فرمائی ہے کہ کم از کم یہ معیار ہونا چاہئے.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 30 جولائی 2010ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11 / مارچ 2011ء) 43...*...*...
پرده اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں.یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سر ہے، بھائی ہے یا بھیجے ، بھانجے وغیرہ.ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی 66 نہیں ان سب سے ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) 44
پرده پردے کی حدود دین کا ہر حکم نہایت پر حکمت ہوتا ہے.پردے کے حکم کے پس حکمت کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں: بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دین اور مذہب ان کی آزادی کو سلب کرتا ہے اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَج (الحج (79) یعنی دین کی تعلیم میں تم پر کوئی بھی تنگی کا پہلو نہیں ڈالا گیا بلکہ شریعت کی غرض تو انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے ہر قسم کے مصائب اور خطرات سے بچانا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دین یعنی دین اسلام جو تمہارے لئے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو تمہیں مشکل میں ڈالے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر بڑے سے بڑے حکم تک ہر حکم رحمت اور برکت کا باعث ہے.پس انسان کی سوچ غلط ہے.اللہ تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہوسکتا.اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو کر ہم اس کے حکموں پر نہیں چلیں گے تو اپنا نقصان کریں گے.اگر انسان عقل نہیں کرے گا تو شیطان جس نے روز اول سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں انسانوں کو گمراہ کر کے نقصان پہنچاؤں گا وہ انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرائے گا.پس اگر اس کے حملے سے بچنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننا ضروری ہے.بعض باتیں بظاہر چھوٹی لگتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ان کے نتائج 45
پرده انتہائی بھیانک صورت اختیار کر لیتے ہیں.پس ایک مومن کو کبھی بھی کسی بھی حکم کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے.‘“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017ء بمقام بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) پردے کے اسلامی حکم کے پس ایک دلکش حکمت عورت کے وقار کو قائم رکھنا بھی ہے.اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ احمدی عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اب میں آپ کو اللہ تعالی کا حکم، جو اصل میں عورت کو عورت کا وقار اور مقام بلند کرنے کے لئے دیا گیا ہے اس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور پہلے بھی اس بارے میں توجہ دلا چکا ہوں.لیکن بعض باتوں اور خطوط سے اظہار ہوتا ہے کہ شاید میں زیادہ سختی سے اس طرف توجہ دلاتا ہوں یا میرا رجحان سختی کی طرف ہے.حالانکہ میں اتنی ہی بات کر رہا ہوں جتنا اللہ اور اس کے رسول اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پردے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو قید میں ڈال دیا جائے.لیکن ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہئے جو پر دے کی شرائط ہیں.تو جس طرح معاشرہ آہستہ آہستہ بہک رہا ہے اور بعض معاملات میں برے بھلے کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ احمدی عورتیں اپنے نمونے قائم کریں.اور معاشرے کو بتائیں کہ پردے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقام بلند کرنے کے لئے دیا ہے نہ کہ کسی تنگی میں ڈالنے کے لئے.اور پردے کا حکم جہاں عورتوں کو دیا گیا ہے وہاں مردوں کو بھی ہے.ان کو بھی نصیحت کی کہ تم بھی اس بات کا خیال رکھو.بے وجہ عورتوں کو دیکھتے نہ رہو.“ 66 حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے اسی خطاب میں مردوں اور عورتوں کو نصیحت 46
پرده کرتے ہوئے مزید فرمایا: تو مومن کو تو یہ حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور اس طرح عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھو.اور ویسے بھی بلا وجہ دیکھنے کا جس سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہو کوئی جواز نہیں ہے.لیکن عموماً معاشرے میں عورت کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اس کی طرف توجہ اس طرح پیدا ہو جو بعد میں دوستیوں تک پہنچ جائے.اگر پر دہ ہوگا تو وہ اس سلسلے میں کافی مددگار ہوگا.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 31 جولائی 2004ء بمقام للفورڈ.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2015ء) کس طرح اور کس کس سے کرنا چاہئے، اس بارہ میں قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے تعلیم بیان فرما دی گئی ہے.اسی حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا: ایک بنیادی اسلامی حکم ہے اور قرآن کریم میں بڑا کھول کر اس کے بارے میں بیان ہوا ہے.لوگ جو قرآن کریم غور سے نہیں پڑھتے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اتنی سختی نہیں کی.یہ تو ایسا واضح حکم ہے جو بڑا کھول کر بیان کیا گیا ہے.اور پہلے بھی میں دو تین دفعہ کہہ چکا ہوں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید میں ہی اس کو سختی سے زیادہ بیان کر رہا ہوں.حالانکہ میں وہ بیان کر رہا ہوں جو قرآن کریم کے مطابق ہے.میں وہ بات آپ کو کہہ رہا ہوں جو قرآن کریم کہتا ہے.قرآن کریم پردے کے بارہ میں کیا کہتا ہے.یہ لمبی آیت ہے اس میں حکم ہے وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِ مِن (النور:32) کہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو.اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں.وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ الَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ 47
پرده (النور:32) اور پھر لمبی فہرست ہے کہ باپوں کے سامنے، خاوندوں کے سامنے، بیٹوں کے سامنے جو زینت ظاہر ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ باقی جگہ آپ نے ظاہر نہیں کرنی.اب اس میں لکھا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لو.تو بعض کہتے ہیں کہ گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالنے کا حکم ہے اس لئے گلے میں دوپٹہ ڈال لیا یا سکارف ڈال لیا تو یہ کافی ہو گیا.تو ایک تو یہ حکم ہے کہ زینت ظاہر نہ کریں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر نکل تو اتنا چوڑا کپڑا ہو جو جسم کی زینت کو بھی چھپاتا ہو.دوسری جگہ سر پر چادر ڈالنے کا بھی حکم ہے.اسی لئے دیکھیں تمام اسلامی دنیا میں جہاں بھی تھوڑا بہت کا تصور ہے وہاں سرڈھانکنے کا تصور ضرور ہے.ہر جگہ حجاب یا نقاب اس طرح کی چیز لی جاتی ہے یا سکارف باندھا جاتا ہے یا چوڑی چادر لی جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ (النور :32) بڑی چادروں کو اپنے سروں سے گھسیٹ کر سینوں تک لے آیا کرو.بڑی چادر ہو سر بھی ڈھانکا ہو اور جسم بھی ڈھانکا ہو.باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں وغیرہ کے سامنے تو بغیر چادر کے آسکتی ہو.اب جب باپوں اور بھائیوں اور بیٹیوں کے سامنے ایک عورت آتی ہے تو شریفانہ لباس میں ہی آتی ہے.چہرہ وغیرہ نگا ہوتا ہے.تو فرمایا کہ یہ چہرہ وغیرہ نگا جو ہوتا ہے یہ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں اور ایسے رشتے جو محرم ہوں، ان کے سامنے تو ہو جاتا ہے لیکن جب باہر جاؤ تو اس طرح ننگا نہیں ہونا چاہئے.اب آج کل اس طرح چادر میں نہیں اوڑھی جاتیں.لیکن نقاب یا برقع یا کوٹ وغیرہ لئے جاتے ہیں.تو اس کی بھی اتنی سختی نہیں ہے کہ ایسا ناک بند کرلیں کہ سانس بھی نہ آئے.سانس لینے کے لئے ناک کو ننگا رکھا جاسکتا ہے لیکن ہونٹ وغیرہ 48
اور اتنا حصہ، دہانہ اور اتنا ڈھانکنا چاہئے.یا تو پھر بڑی چادر لیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سر پر اوڑھیں، خود بخود پر دہ ہو جاتا ہے، بڑی چادر سے گھونگھٹ نکل آتا ہے.یا اگر اپنی سہولت کے لئے برقع وغیرہ پہنتے ہیں تو ایسا ہو جس سے اس حکم کی پابندی ہوتی ہو.تنگ کوٹ پہن کر جو جسم کے ساتھ چمٹا ہو یا سارا چہرہ ننگا کر کے تو ، نہیں رہتا وہ توفیشن بن جاتا ہے.پس میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ اپنے جائزے خود لیں اور دیکھیں کہ کیا قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق ہر ایک کر رہا ہے.“ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17 ستمبر 2005, مطبوعه المفضل انٹرنیشنل 15 مئی 2015 ء ) محرم رشتہ داروں سے کی چھوٹ اللہ تعالیٰ ہمیں کن کن لوگوں سے نہ کرنے کی اجازت عطا فرماتا ہے.اس کا بیان مذکورہ بالا اقتباس میں بھی ہو چکا ہے.اسی بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ : پرده اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں.یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سر ہے، بھائی ہے یا بھتیجے بھانجے وغیرہ.ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی نہیں ان سب سے ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9 اپریل 2004ء) پھر ایک دوسرے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے اسی حوالہ سے حضور انور نے ارشاد فرمایا: 49
پرده خاوند، باپ، یا خاوندوں کے بیٹے اگر دوسری شادی ہے، پہلے خاوند کی اگر کوئی اولاد تھی تو ، بھائی ، بھتیجے ، بھانجے یا اپنی ماحول کی عورتیں جو پاک دامن عورتیں ہوں جن کے بارے میں تمہیں پتہ ہو.کیونکہ ایسی عورتیں جو برائیوں میں مشہور ہیں ان کو بھی گھروں میں گھسنے یا ان سے تعلقات بڑھانے کی اجازت نہیں ہے.ان کے علاوہ یہ جو چند رشتے بتائے گئے، اس کے علاوہ ہر ایک سے پردے کی ضرورت ہے.پھر یہ بھی فرما دیا کہ تمہاری چال بھی باوقار ہونی چاہئے.ایسی نہ ہو جو خواہ مخواہ بد کردار شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہو اور اس کو یوں موقع دو.اگر اس طرح عمل کرو گے، تو بہ کی طرف توجہ کرو گے تا کہ خیالات بھی پاکیزہ رہیں تو اسی میں تمہاری کامیابی ہوگی اور اسی میں تمہاری عزت ہوگی ، اور اسی میں تمہارا مقام بلند ہو گا.“ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 31 جولائی 2004ء بمقام ملفورڈ و.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2015ء) گھروں میں داخل ہونے والوں کیلئے مشروط اجازت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو اپنے گھروں کے تقدس کو قائم رکھنے اور اپنی اولاد کی تربیت واصلاح کی خاطر گھروں میں داخل ہونے والے متفرق افراد سے متعلق قرآن کریم کے بیان فرمودہ احکامات کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی نصائح کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا: حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اپنی عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورتیں جن سے بے تکلفانہ یا بے حجابانہ تمہیں سامنے نہیں آنا چاہئے.اب بازاری عورتیں ہیں ان سے بچنے کی تو ہر شریف 50
پرده عورت کوشش کرتی ہے.ان کی حرکات، ان کا کردار ظاہر وباہر ہوتا ہے، سامنے ہوتا ہے لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگوں کے لئے کام کر رہی ہوتی ہیں اور گھروں میں جا کر پہلے بڑوں سے دوستی کرتی ہیں.جب ماں سے اچھی طرح دوستی ہو جائے تو پھر بچیوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بعض دفعہ برائیوں کی طرف ان کو لے جاتی ہیں.تو ایسی عورتوں کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ ہر ایرے غیرے کو، ہر عورت کو اپنے گھروں میں نہ گھنے دو.ان کے بارہ میں تحقیق کرلیا کرو، اس کے بعد قدم آگے بڑھاؤ.حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ یہ طریق ہوا کرتا تھا لیکن اب کم ہے ( کسی زمانے میں کم تھا لیکن آج کل پھر بعض جگہوں سے ایسی اطلاعیں آتی ہیں کہ پھر بعض جگہوں پر ایسے گروہ بن رہے ہیں جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں).خاص طور پر احمدی بچوں کو پاکستان میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے بلکہ ماں باپ کو بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ بعض دفعہ گھر یلو کام کے لئے ایک عورت گھر میں داخل ہوتی ہے اور اصل میں وہ ایجنٹ ہوتی ہے کسی کی اور اس طرح پھر آہستہ آہستہ ورغلا کر پہلے دوستی کے ذریعہ اور پھر دوسرے ذریعوں سے بچیوں کو غلط قسم کی عادتیں ڈال دیتی ہیں.تو ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں، ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئیں.اسی طرح اب اس طرح کا کام، بری عورتوں والا انٹرنیٹ نے بھی شروع کر دیا ہے.جرمنی وغیرہ میں اور بعض دیگر ممالک میں ایسی شکایات پیدا ہوئی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ پہلے علمی باتیں کر کے یا دوسری باتیں کر کے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر غلط راستوں پرڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.66 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 9 اپریل 2004ء) 51
پرده اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناروے کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں پردے کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی کہ : گھروں میں مختلف فیملیوں کا آنا جانا ہوتا ہے.کہتے ہیں ہمارے تعلقات ہیں.ہم پرانے واقف ہیں، یہ درست نہیں.جب ایک دوسرے کے گھروں میں آئیں تو مردعلیحدہ پیٹھیں اور عورتیں علیحدہ میں بیٹھیں.“ 66 میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمد یہ ناروے 3 اکتوبر 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30 دسمبر 2011ء) اسی مضمون کو ایک دوسرے پہلو سے بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا: بعض دفعہ نیکی کے نام پر، انسانی ہمدردی کے نام پر، دوسرے کی مدد کے نام پر ، مرد اور عورت کی آپس میں واقفیت پیدا ہوتی ہے جو بعض دفعہ پھر برے نتائج کی حامل بن جاتی ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عورتوں کے گھروں میں جانے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے جن کے خاوند گھر پر نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے.(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات حدیث 1172) اسی حکم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی حکم ارشاد فرما دیا کہ نامحرم کبھی آپس میں آزادانہ جمع نہ ہوں کیونکہ اس سے شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے.پس اس معاشرے میں احمدیوں کو خاص طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے جہاں آزادی کے نام پر لڑکی لڑکے کا آزادانہ ملنا اور علیحدگی میں ملنا کوئی عار نہیں سمجھا جاتا.پھر صرف نادان لڑکے لڑکیوں کی وجہ سے برائیاں نہیں پیدا ہور ہی ہوتیں بلکہ 52
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی شدہ لوگوں میں بھی آزادی اور دوستی کے نام پر گھروں میں آنا جانا، بلا روک ٹوک آنا جانا مسائل پیدا کرتا ہے اور گھر اجڑتے ہیں.اس لئے ہمیں جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی ہے، اسلام کے ہر حکم کی حکمت ہمیں سمجھائی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بغیر کسی قسم کے سوال اور ترڈ د کے عمل کرنا چاہئے.“ ( خطبہ جمعہ فرموده 20 رمئی 2016ء بمقام مسجد گوٹن برگ، سویڈن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2016ء) عورتوں اور مردوں کی مجالس علیحدہ ہوں اسلامی تعلیم تو یہی ہے کہ مردوں اور عورتوں کی آزادانہ اور بے حجابانہ ملا قاتیں نہ ہوں یا مخلوط مجالس نہ لگائی جائیں.اس سلسلہ میں احمدی عورتوں کی رہنمائی کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے نہایت پر حکمت نصیحت یوں فرمائی: اگر آپ برقع پہن کر مرودوں کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کردیں، مردوں سے مصافحے کرنا شروع کر دیں تو کا تو مقصد فوت ہو جاتا ہے.اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے.کا مقصد تو یہ ہے کہ نامحرم مرد اور عورت آپس میں کھلے طور پر میل جول نہ کریں، آپس میں نہ ملیں، دونوں کی جگہیں علیحدہ علیحدہ ہوں.اگر آپ اپنی سہیلی کے گھر جا کر اس کے خاوند یا بھائیوں یا رشتہ داروں سے آزادانہ ماحول میں بیٹھی ہیں.چاہے منہ کو ڈھانک کے بیٹھی ہوتی ہیں یا منہ ڈھانک کر کسی سے ہاتھ ملارہی ہیں تو یہ تو نہیں ہے.جو پردے کی غرض ہے وہ تو یہی ہے کہ نامحرم مرد عورتوں میں نہ آئے اور عورتیں نامحرم مردوں کے سامنے نہ جائیں.ہر ایک کی مجلسیں پرده 53
پرده علیحدہ ہوں.بلکہ قرآن کریم میں تو یہ بھی حکم ہے کہ بعض ایسی عورتوں سے جو بازاری قسم کی ہوں یا خیالات کو گندہ کرنے والی ہوں ان سے بھی کرو.ان سے بھی بچنے کا حکم ہے.اس لئے احتیاط کریں اور ایسی مجلسوں سے بچیں.66 ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3 / جولائی 2004ء - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 23 ستمبر 2005ء) عورتوں اور مردوں کا ہاتھ ملانا عورتوں اور مردوں کا آپس میں ہاتھ ملانا بھی پر وہ کی تعلیم کی نفی کرنے کے زمرہ میں آتا ہے.اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ: مردوں سے غیر ضروری باتیں کرنے اور بے جابے تکلفی سے بھی مردوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ ہاتھ ملائیں.احمدی عورتوں کو اپنا مقام پہنچاننا چاہئے اور اگلے کو ایسا موقع نہیں دینا چاہئے اور ان کو بتا دینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں عورت مرد سے سلام نہیں کرتی ، یعنی ہاتھ نہیں ملاتی.میٹنگ نیشنل مجلس عام لجنہ اماءاللہ آئرلین 18 ستمبر 2010, مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 اکتوبر 2010ء) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ امریکہ کے دوران مسجد بیت الرحمن، واشنگٹن میں احمدی طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی.جس میں طالبات نے حضور انور کی اجازت سے بعض سوالات بھی کئے.ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طالبات کو بلکہ تمام لجنہ کو گھر سے اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں پردے کو ملحوظ رکھنے کے بارے میں توجہ دلائی.ان کو احمدی خواتین ہونے کی ذمہ داری کا احساس دلایا.54
پرده کام پر ، job پر مردوں سے ہاتھ ملانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو logic حجاب کے متعلق ہے وہی logic مردوں سے ہاتھ نہ ملانے میں بھی ہے.یعنی اگر آپ کسی غیر محرم کی آنکھوں سے بچتی ہیں تو اس کے ہاتھوں سے کیوں نہیں!“.( طالبات کے ساتھ نشست 26 جون 2012ء بمقام واشنگٹن، امریکہ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17/اگست 2012ء) واقفات کو جرمنی کے ساتھ ہونے والی ایک سوال و جواب کی مجلس میں مردوں سے ہاتھ ملانے کے بارہ میں ایک واقعہ نو نے سوال کیا کہ میں یہاں ایک ادارے میں گئی تھی جہاں ایک مرد بیٹھا ہوا تھا اور جس نے سلام کے لئے آگے ہاتھ کر دیا.ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ”میرے ساتھ بھی ایک آدھ مرتبہ ایسا ہوا ہے اور میں تو یہی کرتا ہوں کہ آگے تھوڑا جھک جاتا ہوں جس سے اگلے بندے کو سمجھ آجاتی ہے.یہ تو آپ نے اپنے آپ کو خود بچانا ہے.اگر معاشرہ سے ڈرتی ہیں تو پھر کچھ نہیں ہوگا.دو چار مرتبہ ایسا کریں گی اور اگلے کو بتا دیں گی کہ میرا مذہب مجھے یہ کہتا ہے کہ مردوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملانا تو وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”آپ نے اگر اپنی مذہبی تعلیم کو پھیلانا ہے، لوگوں کو اس بارے میں بتانا ہے اور اس پر قائم رہنا ہے تو پھر بعض دفعہ لوگوں کے دلوں میں چھوٹی موٹی بے چینیاں پیدا ہوں گی اور وہ تو برداشت کرنی پڑتی ہیں.یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے.اس 55
پرده دور کی بات ہے جب Indo-Pak ایک continent تھا اور انگریزوں کے زیر اثر تھا اور ان کے وائسرائے اور لارڈ ز اور گورنر وغیرہ ہوتے تھے.ان میں سے بعضوں کے حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ میں دہلی گیا ہوا تھا تو وہاں ایک لارڈ نے میری دعوت کی تو میں نے اُسے کہا کہ مجھے نہ بلاؤ کیونکہ وہاں اور کبھی بہت سارے لوگ ہوں گے اور عورتیں بھی ہوں گی اور میں نے عورتوں سے سلام نہیں کرنا تو اس سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گی.اس پر اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں ، آپ آجائیں.تو میں نے کہا ٹھیک ہے، میں پھر ایک کونے میں بیٹھوں گا.تو وہاں ایک کونے میں بیٹھ گئے لیکن وہاں بھی ایک پرانا واقف انگریز ملنے کے لئے آ گیا اور اس کی بیوی نے ہاتھ بڑھا دیا.اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری طرف سے معذرت ہے میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا.اس پر وہ عورت بڑی ناراض ہوئی اور وہ انگریز خود بھی بڑا شرمندہ ہوا اور بعد میں لکھا کہ میں ساری رات بے چین رہا کہ آپ بھی کہتے ہوں گے کہ میرے آپ کے ساتھ اتنے پرانے تعلقات ہیں اور مجھے اسلام کی تعلیم کا بھی پتہ ہے اس کے باوجود میں نے اپنی بیوی کو نہیں بتایا کہ سلام کے لئے آگے ہاتھ مت بڑھانا اور بیوی کے لئے بھی میں علیحدہ پریشان رہا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بعد میں اس کو خط بھی لکھا اور اس کی دعوت بھی کی اور اس کی بیوی کو بھی بلایا.انہیں کھانا وغیرہ کھلایا اور ان کی اچھی دعوت ہو گئی اور ان کی تسلی ہو گئی.“ 66 ایک واقعہ نو نے عرض کیا کہ ہمارے حلقہ کی ایک لجنہ نے بتایا کہ وہ کسی ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں اور ڈاکٹر نے آگے ہاتھ بڑھا دیا تھا جس پر انہوں نے ڈاکٹر 56
سے ہاتھ ملا دیا تھا.اس پر میں نے اُن سے کہا کہ ہاتھ ملانا تو منع ہے.اس پر اُس آنٹی نے جواب دیا کہ نہ تو اُس کے دل میں کوئی برائی تھی اور نہ میرے دل میں.اس لئے ہاتھ ملانے سے کچھ نہیں ہوتا.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جواباً فرمایا: 15% پرده وہ غلط کہتی ہیں.یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ دل میں برائی نہ ہو تو ایسا کر سکتے ہیں؟ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ اسلام کے جو احکامات ہیں وہ ہر ممکنہ چیز کو cover کرتے ہیں.سو میں سے اسی نوے فیصد جو مرد عورتیں ہاتھ ملاتے ہیں تو ان کے دل میں برائی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.نعوذ باللہ کیا آنحضرت عالم کے دل میں عورتوں کے لئے کوئی برائی تھی؟ یا عورتوں کے دل میں آنحضرت صل تعلیم کے لئے کوئی برائی تھی؟ کئی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ عورتوں نے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا کہ ہماری بیعت لے لیں لیکن آپ امام نے فرمایا کہ ہم عورتوں سے ہاتھ ملا کر بیعت نہیں لیتے.آنحضرت علیم کے کئی واقعات حدیثوں سے ثابت ہیں.بیعت جو کہ ایک پاکیزہ طریق کار ہے اور پھر آنحضرت علی ایم کا مقام دیکھیں.اس کے باوجود آنحضرت علی نے فرمایا کہ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا.پھر اس کے بعد باقی برائی کیا رہ گئی؟ یہ سب بہانے ہیں.لوگ اس معاشرے میں آکر ڈر جاتے ہیں.بجائے اس کے کہ اپنی تعلیم بتائیں اور اپنا ایمان مضبوط ہو اُن کے ماحول میں ڈھل جانا ویسے ہی بزدلی ہے.تو جس عورت نے بھی ایسا کیا ہے وہ نہایت بز دل عورت تھی.“ اسی واقعہ تو نے عرض کیا کہ میرا دوسرا سوال پر دہ کے حوالہ سے ہے کہ بعض عورتوں سے جب کہا جائے کہ کریں تو کہتی ہیں کہ یہاں کوئی احمدی نہیں ہے 57
پرده اس لئے کی ضرورت نہیں ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جواب میں فرمایا: کیا صرف احمدیوں سے ہی کرنا ہے؟ اُن سے کہیں کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ صرف احمدیوں سے ہی کرو.بلکہ جب کا حکم آیا ہے اس سے پہلے ایک یہودی نے ایک مسلمان عورت کے ساتھ بڑی غلط حرکت کی تھی کہ اُس کی چادر وغیرہ پھینچنے کی کوشش کی.ویسے تو اللہ تعالیٰ نے کا حکم دینا ہی تھا لیکن یہ بھی ایک وجہ بن گئی.تو یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ تم نے صرف احمدیوں سے ہی کرنا ہے.کیا خطرہ صرف احمدیوں سے ہی ہے؟ غیر احمدیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے؟ قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ تم نے صرف مسلمانوں سے ہی کرنا ہے.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ اپنی چادر کو اپنے سر پر ڈالو اور اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینے ڈھانپو.اس لئے اگر وہ ایسا کہتی ہیں تو غلط کہتی ہیں.وہ اپنی نئی شریعتیں پھیلا رہی ہیں.آپ لوگ واقفات تو اسی لئے ہیں کہ ایسی عورتوں سے کہیں کہ اپنی بدعات نہ پیدا کرو اور اپنی اپنی شریعتیں نہ پھیلاؤ.آپ نے ان لوگوں کی اصلاح کرنی ہے.اس وقت میرے سامنے 230 واقفات کو جو بیٹھی ہیں اگر یہ ساری اصلاح کے لئے کھڑی ہو جائیں تو خود ہی لوگوں کے دماغ ٹھیک ہو جائیں گے.“ کلاس واقفات نو 23 اپریل 2017ء جرمنی.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9 جون 2017ء) یورپ میں رہنے والی بعض احمدی بچیوں کے مردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت کو بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناروے میں لجنہ اماءاللہ کی نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں نصیحتاً ارشاد فرمایا:...پھر اسی طرح مردوں سے میل جول ہے، سلام ہے، مصافحہ کرنے کی یہاں بہت عادت ہے.یورپ میں تو ہر جگہ ہی ہے.ویسے میں نے دیکھا ہے کہ 58
پرده بعض لڑکیاں لاشعوری طور پر جب میری طرف ہاتھ بڑھاتی ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو سلام کرنے کی عادت ہے.ایک بچی ،لڑکی کو جو دیا ہے اس کا شروع میں ہی اس کا احساس ہو جانا چاہئے.دس سال کی عمر جو ہے میں نے واقفات نو کو بھی کہا ہے کہ اس عمر میں نماز فرض ہوتی ہے.اس وقت ساری پابندیاں فرض ہونی چاہئیں.جو سارے فرائض ہیں ان پر عمل ہو جانا چاہئے.تو اس سے پہلے پہلے عادت ڈال دینی چاہئے.“ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ ناروے 2 /اکتوبر 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 دسمبر 2011ء) ملازمین سے بہت سے گھروں میں گھریلو مرد ملازمین سے کرنے کا رواج نہیں ہے حالا نکہ اس بارہ میں بھی قرآن کریم کی پردے کی تعلیم کوملحوظ رکھناضروری ہے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں گھروں میں رکھے جانے والے مرد ملازمین کے حوالے سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: پھر بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ ہر قسم کے ملازمین کے سامنے بے حجابانہ آجاتے ہیں.تو سوائے گھروں کے وہ ملازمین یاوہ بچے جو بچوں میں پلے بڑھے ہیں یا پھر بہت ہی ادھیڑ عمر کے ہیں جو اس عمر سے گزر چکے ہیں کہ کسی قسم کی بدنظری کا خیال پیدا ہو یا گھر کی باتیں باہر نکالنے کا ان کو کوئی خیال ہو.اس کے علاوہ ہر قسم کے لوگوں سے، ملازمین سے، کرنا چاہئے.بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملازمین جن کو ملازمت میں آئے چند ماہ ہی ہوئے ہوتے ہیں، بے دھڑک بیڈ روم میں بھی آجا ر ہے ہوتے ہیں اور عورتیں اور بچیاں بعض دفعہ وہاں بغیر دو پیٹوں کے بھی بیٹھی 59
پرده ہوئی ہوتی ہیں اور اس کو روشن دماغی کا نام دیا جاتا ہے.یہ روشن دماغی نہیں ہے.جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پچھتاتے ہیں.پھر جو چھوٹ ہے اس آیت میں ، وہ چھوٹے بچوں سے کی ہے.فرمایا کہ چال بھی تمہاری اچھی ہونی چاہئے، باوقار ہونی چاہئے، یونہی پاؤں زمین پر مار کے نہ چلو.اور ایسی باوقار چال ہو کہ کسی کو جرات نہ ہو کہ تمہاری طرف غلط نظر سے دیکھ بھی سکے.جب تم پردوں میں ہوگی اور مکمل طور پر صاحب وقار ہوگی تو کسی کو جرات نہیں ہو سکتی کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر ڈالے“.خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه المفضل انٹرنیشنل 19 اپریل 2004 ء تقریبات میں لڑکوں کا کھانا Serve کرنا آجکل شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر خواتین کی طرف بھی مردکھانا serve کرتے ہیں جو واضح طور پر بے پردگی میں داخل ہے.چنانچہ اس قبیح حرکت سے اجتناب کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہ بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پرلڑکوں کوکھاناserve کرنے کے لئے بلا لیا جاتا ہے.دیکھیں کہ سختی کس حد تک ہے اور کجا یہ ہے کہ لڑکے بلا لئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر والے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے بھی جن کو کہا جاتا ہے وہ بھی کم از کم سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے ہوتے ہیں، بہر حال بلوغت کی عمر کو ضرور پہنچ گئے ہوتے ہیں.وہاں شادیوں پر جوان بچیاں بھی پھر رہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بیرے بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں.تو جیسا کہ میں نے کہا ہے بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور ان سے پردے کا حکم ہے.اگر 60
چھوٹی عمر کے بھی ہیں تو جس ماحول میں وہ بیٹھتے ہیں، کام کر رہے ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بیٹھ کر ان کے ذہن بہر حال گندے ہو چکے ہوتے ہیں اور سوائے کسی استثناء کے الا ماشاء اللہ ، اچھی زبان ان کی نہیں ہوتی اور نہ خیالات اچھے ہوتے ہیں.پاکستان میں تو میں نے دیکھا ہے کہ عموماً یہ لڑ کے تسلی بخش نہیں ہوتے.تو ماؤں کو بھی کچھ ہوش کرنی چاہئے کہ اگر ان کی عمر پر دے کی عمر سے گزر چکی ہے تو کم از کم اپنی بچیوں کا تو خیال رکھیں.کیونکہ ان کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں تو آپ نیچی نہیں کر سکتے.یہ لوگ باہر جا کر تبصرے بھی کر سکتے ہیں اور پھر بچیوں کی ، خاندان کی بدنامی کا باعث بھی ہو سکتے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ احمدی لڑکے، خدام، اطفال کی ٹیم بنائی جائے جو اس طرح شادیوں وغیرہ پر کام کریں.خدمت خلق کا کام بھی ہو جائے گا اور اخراجات میں بھی کمی ہو جائے گی.بہت سے گھر ہیں جو ایسے بیروں وغیرہ کو رکھنا afford ہی نہیں کر سکتے لیکن دکھاوے کے طور پر بعض لوگ بلا بھی لیتے ہیں تو اس طرح احمدی معاشرے میں باہر سے لڑکے بلانے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ.یا اگر لڑکیوں کے فنکشن ہیں تولجنہ اماءاللہ کی لڑکیاں کام کریں.اور اگر زیادہ ہی شوق ہے کہ ضرور ہی خرچ کرنا ہے، serve کرنے والے لڑکے بلانے ہیں یا لوگ بلانے ہیں تو پھر مردوں کے حصے میں مرد آئیں.یہاں میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں بھی serve کرتی ہیں عورتوں کے حصے میں.تو وہاں پھر عورتوں کا انتظام ہونا چاہئے اور اس بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک طرح کا احساس کمتری ہے.کسی قسم کا پرده 61
پرده احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.اگر یہ ارادہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور پاکیزگی کو بھی قائم رکھنا ہے تو کام تو ہو ہی جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو ثواب بھی مل رہا ہوگا.خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 19 اپریل 2004ء) ڈانس (Dance) : بے حیائی و بیہودگی کے قرآنی حکم کے متعلق آیات کریمہ کی حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ پُر لطف تشریح کی روشنی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں کو ڈانس کرنے سے منع کرتے ہوئے نصیحت فرمایا: رض پھر حضرت مصلح موعودؓ نے پاؤں زمین پر مارنے سے ایک یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے ناچ یا ڈانس کو بھی مکمل طور پر منع کر دیا ہے کیونکہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور بعض عورتیں کہتی ہیں کہ عورتیں عورتوں میں ناچ لیں تو کیا حرج ہے؟ عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے.قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے تو بہر حال ہر احمدی عورت نے اس حکم کی پابندی کرنی ہے.اگر کہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہوا ہے تو وہاں بہر حال نظام کو حرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی تربیت میں کمی ہے کہہ دیتی ہیں کہ ربوہ جاؤ تو وہاں تو لگتا ہے کہ شادی اور مرگ میں کوئی فرق نہیں ہے.کوئی ناچ نہیں، کوئی گانا 62
نہیں، کچھ نہیں.تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شرفاء کا ناچ اور ڈانس سے کوئی تعلق نہیں.اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ایسی شادیوں میں نہ شامل ہو.جہاں تک گانے کا تعلق ہے تو شریفانہ قسم کے، شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں.پھر دعائیہ نظمیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں.تو یہ کس طرح کہ سکتی ہیں کہ شادی میں اور موت میں کوئی فرق نہیں، یہ سوچوں کی کمی ہے.ایسے لوگوں کو اپنی حالت درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم تو دعاؤں سے ہی نئے شادی شدہ جوڑوں کو رخصت کرتے ہیں تا کہ وہ اپنی نئی زندگی کا ہر لحاظ سے بابرکت آغاز کریں اور ان کو اس خوشی کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا گھر آباد رکھے، نیک اور صالح اولا د بھی عطا فرمائے.پھر یہ کہ وہ دونوں دین کے خادم ہوں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم ہوں.پھر یہ ہے کہ دونوں فریق جو شادی کے رشتے میں منسلک ہوئے ہیں، ان کے لئے یہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے والدین کے اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں.تو احمدی تو اسی طرح شادی کرتے ہیں اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو ہوتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے کہ خوشیاں بھی مناؤ تو سادگی سے مناؤ اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ پیش نظر رکھو.کیونکہ ہماری کامیابی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی طرف جھکنے میں ہی ہے.اس لئے ہم تو اسی طرح شادیاں مناتے ہیں اور جو غیر بھی ہماری شادیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ اچھا اثر لے کر جاتے ہیں.“ پرده ( خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 2004 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 9 اپریل 2004 ) شادیوں پر ڈانس کرنے کو انتہائی بیہودگی سے تشبیہ دیتے ہوئے حضورانور 63
پرده نے براہ راست احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے اس قبیح حرکت کے کرنے سے سختی سے منع فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: اس ضمن میں ایک اور بات بھی میں کہہ دوں کہ بعض شکایات ملتی ہیں کہ شادیوں پر ڈانس ہوتا ہے اور ڈانس میں انتہائی بے حیائی سے جسم کی نمائش ہوتی ہے.یہ انتہائی بیہودگی ہے.یادرکھیں کہ لڑکیوں کو لڑکیوں کے سامنے بھی ڈانس کی اجازت نہیں ہے.بہانے یہ بنائے جاتے ہیں کہ ورزش میں بھی تو جسم کے مختلف حصوں کو حرکت دی جاتی ہے.پہلی بات تو یہ کہ ورزش ہر عورت یا بچی علیحدگی میں کرتی ہے یا ایک آدھ کسی کے سامنے کر لی.اگر ننگے لباس میں لڑکیوں کے سامنے بھی اس طرح کی ورزش کی جارہی ہے یا کلب میں جا کر کی جارہی ہے تو یہ بھی بیہودگی ہے.ایسی ورزش کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.دوسرے ڈانس کرتے وقت آپ کے جذبات بالکل اور ہوتے ہیں.ورزش کرتے وقت تو تمام توجہ ورزش پر ہوتی ہے اور کوئی لغو اور بیہودہ خیال ذہن میں نہیں آرہا ہوتا لیکن ڈانس کے وقت یہ کیفیت نہیں ہورہی ہوتی.جوڈانس کرنے والیاں ہیں وہ خود اگر انصاف سے دیکھیں تو ان کو پتہ لگ جائے گا کہ اُن پر اُس وقت کیا کیفیت طاری ہو رہی ہوتی ہے.پھر ورزش جو ہے کسی میوزک پر یا تال کی تھاپ پر نہیں کر رہے ہوتے جبکہ ڈانس کے لئے میوزک بھی لگایا جاتا ہے اور بڑے بیہودہ گانے بھی شادیوں پر بجتے ہیں حالانکہ شادیوں کے لئے بڑے پاکیزہ گانے بھی ہیں اور جور خصتی ہو رہی ہو تو لڑکی کو رخصت کرتے وقت ہماری بڑی اچھی دعائیہ نظمیں بھی ہیں ، وہ استعمال ہونی چاہئیں.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم رستمبر 2007ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 دسمبر 2016ء) 64
دلہن اور شادی میں شریک خواتین بھی کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کے علاوہ تقریب میں شامل دیگر خواتین کو بھی کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے واقفات ٹو کی ایک کلاس کے دوران ارشاد فرمایا: بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ جو دلہن نہیں ہے وہ کرلے اور جو دلہن ہے وہ نہ کرے، دلہن جو ہے وہ بڑی سچ کر دلہن بنے.آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دلہنیں بنتی تھیں.اچھے کپڑے پہنتی تھیں.دلہن بن کر عورتوں میں جب بیٹھی ہوں تو جس طرح بیٹھنا ہے بیٹھے، یہاں کی عیسائی دلہنیں بھی دیکھ لو وہ بھی جب اپنی شادیاں کرتی ہیں، چرچ میں جاتی ہیں تو انہوں نے بھی ایک سفید ویل (veil ) سالیا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ڈھانکتی ہیں.تو جب وہ لوگ جن کا نہیں ہے وہ بھی شادی پر اپنے آپ کو cover کرلیتی ہیں تو ہماری دلہنوں کو تو اور زیادہ کرنا چاہئے.لیکن اگر دو پٹہ لے کر بیٹھی ہوئی ہیں، منہ ننگا ہے تو عورتوں میں تو ٹھیک ہے.لیکن اس لئے کہ میک آپ کروا کر بیوٹی پارلر سے آئی ہے اور پھر جہاں میرج ہال (marriage hall) - اندر جانا ہے تو جاتے ہوئے ہمارا میک اپ خراب نہ ہو جائے ، ہمارا زیور یا جھومر لٹکے ہوئے ہیں وہ خراب نہ ہو جائیں تو یہ غلط چیز ہے.اس لئے پوری طرح دو پٹہ ڈھانکو اور کے ساتھ مردوں میں سے گزرتے ہوئے ہال میں آجاؤ.جب پارلر سے دلہن بن کر آتی ہے تو میک آپ کرنے کے بعد جو بھی غرارے یا جس لباس کے ساتھ بھی تیار ہوتی ہے اس کے بعد ایک چادر اوپر پرده 65
پرده ڈالے، کار سے اترنے سے لے کر اس حصہ تک جہاں سے مردوں میں سے گزرنا ہے یا جہاں تک لمبا راستہ ہے اور جب ہال کے اندر آ جائے جہاں صرف عورتیں ہوں تو وہاں بیشک اتار دے اور پھر جب اپنے دلہا کے ساتھ جاتی ہے اس وقت بھی چادر اوڑھ کے کار میں جا کر بیٹھے.یہ نہیں کہ مرد کھڑے ہیں اور سارے دیکھ رہے ہیں اور بیچ میں سے گزر رہی ہے اور بڑی واہ واہ ہورہی ہے، بڑی خوبصورت دلہن بنی ہوئی ہے.احمدی دلہن کی خوبصورتی تو یہ ہے کہ اس کا بھی ہو.“ ( کلاس واقفات نو 11 جولائی 2012ء مسجد بیت الاسلام، کینیڈا.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 28 رستمبر 2012ء) مختلف تقاریب کے دوران پردے سے اجتناب کرنے کے لئے عورتیں مختلف بہانے تراشتی ہیں.عورتوں کے ایسے بہانوں کورڈ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: یہاں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ بعض عورتیں یہ بھی سوال اٹھا دیتی ہیں کہ ہم نے میک آپ کیا ہوتا ہے اگر چہرے کو نقاب سے ڈھانک لیں تو ہمارا میک آپ خراب ہو جاتا ہے.تو کس طرح کریں.اول تو میک آپ نہ کریں تو پھر یہ ، کم از کم ہے جس کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ چہرہ، ہونٹ ننگے ہو سکتے ہیں.باقی چہرہ ڈھانکا ہو.(ماخوذ از ریویو آف ریلیجز، جلد 4 نمبر 1 صفحہ 17 ماہ جنوری 1905ء) اور اگر میک آپ کرنا ہے تو (چہرہ) بہر حال ڈھانکنا ہوگا.ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر چلتے ہوئے اپنی زینت کو چھپانا ہے یا دنیا کو اپنی خوبصورتی اور اپنا میک آپ دکھانا ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / جنوری 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) 66
پرده اگر دیکھا جائے تو نہ کرنے کی وجہ سے عورتوں کے زیورات کی بھی نمائش ہورہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک نامناسب حرکت ہے.چنانچہ حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس حوالہ سے بھی احباب جماعت کو نصیحت فرمائی ہے.آپ نے فرمایا: پھر ہمارے معاشرے میں زیور وغیرہ کی نمائش کا بھی بہت شوق ہے.گو چوروں ڈاکوؤں کے خوف سے اب اس طرح تو نہیں پہنا جا تا لیکن پھر بھی شادی بیاہ پر اس طرح بعض دفعہ ہو جاتا ہے کہ راستوں سے عورتیں گزر کر جارہی ہوتی ہیں جہاں مرد بھی کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں ڈگرڈ گرزیور کی نمائش بھی ہورہی ہوتی ہے.تو اس 66 سے بھی احتیاط کرنی چاہئے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 9 اپریل 2004ء) 67
پرده اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے اب خود ہی اس بات کا اقرار کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر عورت اور مرد کی علیحدگی ہی بہتر ہے.اب بعض جگہ عورتوں اور مردوں کی علیحدہ تنظیم کی باتیں ہونے لگ گئی ہیں.دنیاوی معاشرے میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ عورت اور مرد کی علیحدہ شناخت اور علیحدہ رہنا ہی ٹھیک ہے.جو ہم پر سیگریگیشن (segregation) کا الزام لگاتے تھے ، اعتراض کرتے تھے اب خود یہ تسلیم کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر.علیحدگی ہونی چاہئے." ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 29 جولائی 2017 ء بمقام حدیقہ المہدی) 68
اسلامی پر اعتراضات اور اُن کا رڈ پردے کی اسلامی تعلیم پر اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضورانور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات پیش فرمائے اور ان کی ضروری تشریح بھی فرمائی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کی روح کو نہ پہچاننے اور اسلام کے اس حکم پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں اگر چہ نام نہاد آزادی نصیب ہو جاتی ہے لیکن اُس کی وجہ سے ذاتی اور معاشرتی طور پر بے شمار مسائل کا اضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے.حضور انور نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : آج کل پر حملے کئے جاتے ہیں.لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی سے مرادزندان نہیں.“ یعنی قید خانہ نہیں.بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مردو عورت اکھٹے بلا تامل اور بے محابہ مل سکیں ، سیریں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطرار آ ٹھو کر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے.انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر 69 پرده
پرده غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے“.یعنی کہ اتنی آزادی والی تعلیم سے بھگت رہا ہے.جہاں کوئی شرم و حیا ہی نہیں رہی اور ” بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفا نہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ مجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یا درکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگئی.اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہو کہ معاشرہ ٹھیک ہے ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا، یہاں کے ماحول میں پردے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگوں کو دیکھنے کی عادت نہیں.فرمایا کہ اگر یہ مجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں یا درکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مردوعورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس سے یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں“.یہ بھی خود کشیوں کا یہاں جو اتنا بائی ریٹ (high rate) ہے اس کی بھی ایک یہی وجہ ہے ” بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی.‘( ملفوظات جلد اول صفحہ 29، 30 جدید ایڈیشن) تو آج بھی دیکھ لیں کہ جس بات کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نشاندہی فرما رہے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی کہ آیا ہوں اسی کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہوئی اور اس بے اعتمادی کی وجہ سے گھر اجڑتے ہیں اور طلاقیں ہوتی ہیں.یہاں جو ان مغربی ممالک میں ستر ، اسی فیصد طلاقوں کی شرح ہے یہ آزاد معاشرے کی وجہ ہی ہے.یہ چیزیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر گھر اجڑنے شروع ہو جاتے ہیں.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 31 جولائی 2004ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2015ء) 70
معززین کالباس باوقار ہوتا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیادار اور باوقار لباس زیب تن کرنے کو اعلی تہذیب اور اقدار سے ملاتے ہوئے یورپ کے اعلیٰ خاندانوں کی مثال بھی پیش پرده فرمائی.حضور انور نے فرمایا: پھر گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کرلیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں.کیونکہ یہی چیزیں ہیں جوان پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے.یہاں اس معاشرے میں آج کل اس کو تہذیب یافتہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں کی ہر چیز تہذیب یافتہ نہیں ہے ) یہ لوگ جو لہو و لعب میں پڑے ہوئے ہیں بڑے مہذب اور تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں.آزادی ضمیر کے نام پر سڑکوں گلیوں بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہو رہی ہیں.لباس کی یہ حالت ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے.اس ننگے لباس کو جس کو یہ لوگ تہذیب کہتے ہیں چند سال پہلے تک بھی بلکہ بعض ملکوں میں آج بھی جب وہاں کے مقامی لوگ، جنگلوں میں رہنے والے، تیسری دنیا کہ غریب ملکوں کے لوگ یہ کپڑے استعمال نہیں کرتے تو ان کو یہ بدتہذیب اور جنگلی کہتے ہیں اور اقدار سے عاری لوگ کہتے ہیں اور جب یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کر رہے ہوں تو یہ حرکتیں تہذیب بن جاتی ہیں.پس آپ لوگوں کو اس معاشرے سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے.ان کے اپنے ملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے، چند سال پہلے بلکہ آج بھی جو رائل (royal) فیملیاں ہیں، جو اونچے بڑے خاندان ہیں 71
پرده ان کے لباس شریفانہ ہیں.بازو لمبے ہیں تو پوری سلیوز ( sleeves) ہیں.فراک ہیں تو لمبی ہیں یا میکسیاں ہیں یا گاؤن استعمال کئے جاتے ہیں.پہلے کئے جاتے تھے اور اب بھی بعض کرتی ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا رائل فیملیر میں آج بھی استعمال کی جاتی ہیں.اچھے خاندان ، شریف لوگ خواہ وہ کسی بھی ملک کے ہوں شراب میں دھت ہونے اور اودھم مچانے اور ننگے لباس کو دنیا میں ہر جگہ بُرا سمجھتے ہیں.کسی مذہب کے زیر اثر تو وہ نہیں ہوتے.یہ یا تو ان کی خاندانی روایات ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے لباس شریفانہ رکھے ہوتے ہیں یا فطرت ان کو کہتی ہے کہ ننگے لباس پہننا غلط ہے، تمہارا اپنا ایک خاص مقام ہے اس کی خاطر تم نے اچھے لباس پہنتے ہیں جو سلجھے ہوئے نظر آئیں.“ وو ( خطاب بر موقع نیشنل اجتماع لجنہ اماء الله جرمنی 11 جون 2006ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19 جون 2015ء) کی قرآنی تعلیم بمقابلہ انجیل کے احکامات نیز مشرقی اور مغربی معاشروں کا تقابلی جائزہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض مواقع پر کے بارے میں قرآن کریم اور انجیل کی تعلیمات کا باہم موازنہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے حوالہ سے اسلامی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ نے سویڈن میں مستورات سے اپنے خطاب میں فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو.اسلام شہوات کی بنا کو کاٹتا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے.72
پرده یورپ میں اب یہ پردے کا بڑا شور اٹھتا ہے.فرمایا کہ یورپ کو دیکھو کہ کیا ہوتا ہے.اب آپ دیکھ لیں، یہاں غیر ضروری آزادی کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ہی طلاقیں بھی ہوتی ہیں اور گھر بھی برباد ہوتے ہیں اور یہ نسبت مشرق کے مقابلے میں مغرب میں بہت بڑھی ہوئی ہے.یہاں جو طلاقیں ہیں یا ایک عرصہ کے بعد گھر برباد ہوتے ہیں، مشرقی معاشرہ میں اتنے نہیں ہوتے یا ایسے معاشرے میں جہاں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جاتی ہے“.( خطاب از مستورات جلسه سالانه سویڈن 17 ستمبر 2005ء - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 15 مئی 2015 ء ) اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اس مضمون کو تفصیل سے یوں بیان فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے اگر کسی زمانے میں پردے کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانے میں ضرور ہونی چاہیئے.فرمایا کہ اگر کسی زمانے میں پردے کی ضرورت نہ بھی ہوتی تو اس زمانے میں ضرور ہونی چاہئے.کیونکہ یہ کل جگ ہے.یعنی آخری زمانہ ہے.اور زمین پر بدی اور فسق و فجور اور شراب خوری کا زور ہے اور دلوں میں دہر یہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے احکام کی عظمت دلوں سے اُٹھ گئی ہے.زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں.ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیڑیوں کے بنوں میں چھوڑ دیا جائے.“.مذکورہ بالا ارشاد پڑھنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہاں عورت کو بکریوں سے اور بھیڑیے کو گندہ معاشرے سے تشبیہ د 73
پرده ہے.دیکھ لیں اب ہم حضرت اقدس مسیح موعود کی زندگی کے زمانے سے مزید سو سال آگے چلے گئے ہیں تو اب اس کی کس قدر ضرورت ہے.نہ مغرب محفوظ ہے اور نہ مشرق محفوظ ہے.ذرا گھر سے باہر نکل کر دیکھیں تو جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا ہے آپ کو نظر آجائے گا.پھر بے احتیاطی کیسی ہے.لا پرواہی کیسی ہے.سوچیں غور کریں اور اپنے آپ کو سنبھالیں.لیکن بعض مردزیادہ سخت ہو جاتے میں ان کو بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ قید کرنا مقصد نہیں ہے، کرانا مقصد ہے.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ شخص بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ.افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے.نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے.اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کئے جاتے ہیں.اسلامی سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے.وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا ضروری ہے.مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں.اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو.اسلام شہوات کی بنا کو کاٹتا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہورہا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ 74
کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں.یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا داری یا 66 دری کا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 298-297)‘ پرده ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 23 اگست 2003 ء - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 18 نومبر 2005ء) کے اسلامی حکم کا دفاع کرتے ہوئے اور اُس کی بنیادی روح کو قائم رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا: " آج کل یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے کا ایک ایشو پر دہ کا بھی اٹھا ہوا ہے.ہماری بچیاں جو ہیں اور عورتیں جو ہیں ان کا کام ہے کہ اس بارے میں ایک مہم کی صورت میں اخباروں میں مضامین اور خطوط لکھیں.انگلستان میں یا جرمنی وغیرہ میں بچیوں نے اس بارے میں بڑا اچھا کام کیا ہے کہ عورت کی عزت کے لئے ہے اور یہ تصور ہے جو مذہب دیتا ہے، ہر مذہب نے دیا ہے کہ عورت کی عزت قائم کی جائے.بعضوں نے تو پھر بعد میں اس کی صورت بگاڑ لی.عیسائیت میں تو ماضی میں زیادہ دور کا عرصہ بھی نہیں ہوا جب عورت کے حقوق نہیں ملتے تھے اور اس کو پابند کیا جاتا تھا، بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا.تو بہر حال یہ عورت کی عزت کے لئے ہے.عورت کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے لیکن عورت کا ایک اپنا وقار ہے جس وقار کو وہ قائم رکھنا چاہتی ہے اور رکھنا چاہئے.اور اسلام عورت کی عزت اور احترام اور حقوق کا سب سے بڑا اعلمبر دار ہے.پس یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پہنایا جاتا ہے یا حجاب کا کہا جاتا ہے.بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لئے یہ وو کوشش ہے.( خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اپریل 2010ء بمقام سوئٹزر لینڈ.مطبوعہ المفضل انٹر نیشنل 14 مئی 2010ء ) 75
پرده حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر قرآن کریم کے احکامات کی حفاظت کرنے کی اہم ذمہ داری کے حوالہ سے بھی کی اہمیت بیان فرمائی.چنانچہ لجنہ اماءاللہ ناروے کی نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں اس ضمن میں ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ”حیا اور کا تصور صرف اسلام کا تصور نہیں ہے بلکہ بہت پرانا تصور ہے.عیسائی نہیں ( nuns ) جو حجاب اپنے سروں پر ڈالتی ہیں جس کو وہ سکارف کہہ لیں اور بازو لمبے پہنتی ہیں.پرانے زمانہ میں بھی اور اب بھی پہنتی ہیں اور یہ اس لئے پہنتی ہیں اور سکارف لیتی ہیں کہ یہ کی حد ہے.تو یہ کہنا کہ ماڈرن زمانہ ہو گیا ہے.باقی مذاہب بگڑ گئے ہیں، بدل گئے ہیں.ان کی روحانی کتابوں میں لوگوں کی دخل اندازی شروع ہو چکی ہے اور ہمیشہ سے ہو رہی ہے.جب کہ قرآن کریم کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں گا تو ہمیں بھی اس کے احکامات کی حفاظت کی ضرورت ہے.لڑکیوں میں یہ احساس پیدا کر دیں کہ ہم نے حفاظت کرنی ہے اور ان احکامات کی بھی حفاظت کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیتے ہیں.میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ ناروے 2 اکتوبر 2011, مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 23 دسمبر 2011ء) ایک اور موقع پر احمدی مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انجیل کے مقابلہ میں قرآن کریم کی تعلیم کو ارفع قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اسلامی پر اعتراض کرنا ان کی جہالت ہے.( یعنی یورپین لوگوں کی یا جولوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ نہیں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے کا ایسا حکم دیا ہی نہیں جس پر اعتراض وارد ہو.76
قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ شخص بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا ہے کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھو‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 405 جدید ایڈیشن ) ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 31 / جولائی 2004 ء.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2015ء) اسلامی روایات پر پابندی کی کوششیں اسلام مخالف قوتوں کے مختلف حربوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احمدیوں پر زور دیا کہ وہ اسلام کی حقیقی روح کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ کی خاطر پاکدامنی کی راہ میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کریں.حضور انور نے فرمایا: پرده اسلام مخالف قوتیں بڑی شدت سے زور لگا رہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو مسلمانوں کے اندر سے ختم کیا جائے.یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو آزادی اظہار اور آزادی ضمیر کے نام پر ایسے طریقے سے ختم کیا جائے کہ ان پر کوئی الزام نہ آئے کہ دیکھو ہم زبر دستی مذہب کو ختم کر رہے ہیں اور یہ ہمدرد سمجھے جائیں.شیطان کی طرح میٹھے انداز میں مذہب پر حملے ہوں.لیکن ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد ہے اور اس کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنی پڑے گی اور تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی.ہم نے لڑائی نہیں کرنی لیکن حکمت سے ان لوگوں سے معاملہ بھی کرنا ہے.اگر آج ہم ان کی ایک بات مانیں گے جس کا تعلق ہماری مذہبی تعلیم سے ہے تو پھر آہستہ آہستہ ہماری بہت سی باتوں پر، بہت ساری تعلیمات پر 77
پرده پابندیاں لگتی چلی جائیں گی.ہمیں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی چالوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دے اور ہماری مدد بھی فرمائے.اگر ہم سچائی پر قائم ہیں اور یقینا ہیں تو پھر ایک دن ہماری کامیابی بھی یقینی ہے.اسلام کی تعلیمات نے ہی دنیا پر غالب آنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : سچ میں ایک جرآت اور دلیری ہوتی ہے.جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے.وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گند گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرات سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذراسی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے.خدا کو راضی کرے پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور نہ کسی کی پرواہ کرے.ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے.مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الہی کے سوا نہیں ہوسکتا.صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شامل حال نہ ہو.خُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 29) - انسان ناتواں ہے.غلطیوں سے پُر ہے.مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنا دے.( ملفوظات جلد 10 صفحہ 252.ایڈیشن 1985 ، مطبوعہ انگلستان ) 78
پرده پس دعاؤں کے ساتھ ہم نے دنیا کو قائل کرنا ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ ے پختہ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دوسرے مذاہب ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں.اپنے اپنے وقت پر آئے اور اپنے زمانے کی تربیتی ضروریات پوری کیں اور ختم ہو گئے.تبھی تو ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بے شمار کانٹ چھانٹ ہو چکی ہے اور تبدیلیاں ہو چکی ہیں.لیکن ان میں اسلام ہے جو اب تک محفوظ ہے اور اسلام ہمیشہ رہنے کے لئے ہے.قرآن کریم کی تعلیمات قیامت تک کے لئے ہیں.اس لئے ہمیں بغیر کسی احساس کمتری کے اپنی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس پر قائم رہنا چاہئے اور دوسروں کو بھی بتانا چاہئے کہ تم جو باتیں کرتے ہو یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہیں اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں.اسلام کوئی ایسا مذہب نہیں جو انسان کو غلط قسم کی پابندیوں میں جکڑ دیتا ہے بلکہ حسب ضرورت اس میں اپنی تعلیمات میں نرمی کے پہلو بھی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض مریض ایسے ہیں کہ مرد ڈاکٹر کو دکھانا ہوتا ہے تو ڈاکٹر وغیرہ کے لئے ، مریض کے لئے ، کی کوئی سختی نہیں ہے.انسانی جان کو بچانا اور انسانی جان کو تکلیف سے نکالنا اصل مقصد ہے، پہلا مقصد ہے تبھی تو اضطرار اور مجبوری کی حالت میں مُردار اور سور کے گوشت کھانے کی بھی اجازت ہے لیکن صرف زندگی بچانے کی خاطر.اسی طرح دوائیوں میں الکحل(Alcohol) بھی استعمال ہو جاتا ہے.لیکن بہر حال جس طریق پر شیطانی قوتیں ہمیں چلانا چاہتی ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ دین کی حدود ختم کر دی جائیں اور مذہب کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس بات کے خلاف ہم احمدیوں نے ہی جہاد کرنا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب 79
پرده اسلامی تعلیمات کو ہم ہر چیز پر اہمیت دیں گے اور خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں گے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہماری کامیابیاں ہوں.مسیح موعود کے زمانے میں تلوار کا جہاد نہیں ہے بلکہ نفس کی اصلاح کا جہاد ہے.ان ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے مسلمان اور خاص طور پر دنیا میں رہنے والے احمدی مسلمان ہی اس کے لئے میرے مخاطب ہیں.ان کو ملک سے وفا اور ملک کی خاطر قربانی اور ملک کی کسی بھی شکل میں ترقی کے لئے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور جب یہ ہوگا تو شیطانی قوتوں کے منہ بند ہو جائیں گے کہ یہ مسلمان وہ ہیں جو ملک وقوم کی بہتری کے حقیقی معیاروں کی طرف لے جانے والے ہیں نہ کہ ملک کے خلاف کچھ کرنے والے.ہم نے ان لوگوں کو اور حکومتوں کو باور کرانا ہے کہ اگر ہم اپنی مذہبی تعلیم کی وجہ سے اپنے آپ کو کسی چیز کے پابند کرتے ہیں یا کسی چیز سے پابند کرتے ہیں اور اپنے اوپر پابندی لگاتے ہیں تو حکومتوں یا عدالتوں کا کوئی کام نہیں کہ دخل اندازی کریں.اس سے بے چینیاں پیدا ہوں گی.مقامی لوگوں ا میں اور مہاجرین میں ڈوریاں پیدا ہوں گی.گو کہ جن کو یہ مہاجر کہتے ہیں ان کو بھی ان ملکوں میں آئے بعضوں کو تو دوسری تیسری نسل ہے.ہاں اگر ملک کو کوئی نقصان پہنچارہا ہے، ملک سے کوئی بے وفائی کر رہا ہے، ملک میں جھوٹ اور نفرتیں پھیلا رہا ہے تو پھر حکومتوں کو بھی حق ہے کہ پکڑیں اور سزائیں بھی دیں.لیکن یہ کوئی حق نہیں کہ کسی مذہبی تعلیم پر عمل کرنے سے روک کر کہیں کہ اگر تم یہ کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کے ماحول میں تم جذب نہیں ہورہے.ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ زمانہ بہت خطرناک زمانہ ہے.شیطان ہر طرف سے پرزور حملے کر رہا ہے.اگر مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی 80
مسلمانوں، مردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے.ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا.پس اگر ہم نے اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہر اسلامی تعلیم کے ساتھ پر اعتماد ہو کر دنیا میں رہنے کی ضرورت ہے.یہ نہ سمجھیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کی یہ ترقی ہماری ترقی اور زندگی کی ضمانت ہے اور اس کے ساتھ چلنے میں ہی ہماری بقا ہے.ان ترقی یافتہ قوموں کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اب جو ان کی اخلاقی حالت ہے اخلاق باختہ حرکتیں ہیں.یہ چیزیں انہیں زوال کی طرف لے جارہی ہیں اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو یہ آوازیں دے رہے ہیں اور اپنی تباہی کو بلا رہے ہیں.پس ایسے میں انسانی ہمدردی کے تحت ہم نے ہی ان کو صحیح راستہ دکھا کر بچانے کی کوشش کرنی ہے بجائے اس کے کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں.اگر ان لوگوں کی اصلاح نہ ہوئی جوان کے تکبر اور دین سے دوری کی وجہ سے بظاہر بہت مشکل نظر آتی ہے تو پھر آئندہ دنیا کی ترقی میں وہ قومیں اپنا کردار ادا کریں گی جو اخلاقی اور مذہبی قدروں کو قائم رکھنے والی ہوں گی.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر نو جوانوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے.دنیا سے متأثر ہو کر اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے.جیسا کہ اور لباس کے حوالے سے میں نے بات شروع کی تھی اس حوالے سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں اور افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیا اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے صرف پرده 81
پرده ہی ضروری چیز ہے.کوئی کہتا ہے کہ یہ تعلیم اب فرسودہ ہو چکی ہے اور اگر ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ان باتوں کو چھوڑنا ہو گا ( نعوذ باللہ ) لیکن ایسے لوگوں پر واضح ہو کہ اگر دنیا داروں کے پیچھے چلتے رہے اور ان کی طرح زندگی گزارتے رہے تو پھر دنیا کے مقابلے کی بجائے خود دنیا میں ڈوب جائیں گے.نمازیں بھی آہستہ آہستہ ظاہری حالت میں ہی رہ جائیں گی یا اور کوئی نیکیاں ہیں یا دین پر عمل ہیں تو وہ بھی ظاہری شکل میں رہ جائے گا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہو جائے گی.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / جنوری 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) عورتوں اور مردوں کی علیحدہ نشستوں پر اعتراض کا جواب اسلامی تعلیم نے معاشرہ میں پاکدامنی کو رواج دینے کے لئے عورتوں اور مردوں کی آزادانہ مخلوط نشستوں کا اہتمام کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن مغربی معاشرے میں مسلمان عورتوں کی ( مردوں سے ) الگ کی جانے والی نشستوں پر بہت سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں.اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کے دوران نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: کل جمعہ کے وقت بہت سا پریس آیا ہوا تھا.پہلا دن تھا.ہمارے پریس سیکرٹری جمعہ کے بعد مجھے کہنے لگے کہ پریس تو آیا ہوا ہے لیکن چینل فور (4 Channel) کی وجہ سے ہم بڑے پریشان ہیں.شاید وہ خاتون تھیں.کہتی 82
ہیں کہ باقی تو تمہاری باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ عورتوں مردوں کی سیگر یکیشن (segregation) جو ہے، یہ علیحدہ علیحدہ جوعورتوں اور مردوں کو بٹھایا ہوا ہے.تو تمہیں بھی شدت پسند دکھاتا ہے.یتیم عورتوں کے حقوق غصب کر رہے ہو.میں نے اُسے کہا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.پہلی بات تو یہ کہ انہیں کہو کہ اس بات کا جواب ہم مرد نہیں دیں گے.تم عورتوں سے جا کر پوچھو.اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ لجنہ کی طرف سے ہماری ایک نمائندہ لڑکی جو پریس کو بھی بڑے انٹرویو دیتی ہیں.انہوں نے بڑا اچھا جواب اسے دیا.یہ اور بات ہے کہ اس کو مانیں نہ مانیں لیکن اس کو رڈ کرنے کی دلیل ان کے پاس کوئی نہیں.دوسرے میں نے یہ کہا کہ اگر وہ اس بات سے ہمارے متعلق کوئی منفی خبر دیتی ہیں یا تبصرہ کرتی ہیں تو کریں.ہم نے دنیا داروں کو اور پریس کو یا کسی چینل کو خوش نہیں کرنا.ہم نے تو خدا تعالیٰ کو خوش کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے.اس کے احکامات پر چلنا ہے.میں یہی جواب عموماً دیا کرتا ہوں کہ مذہب ہمیں اپنے پیچھے چلانے آتا ہے.مذہب ہمیں اپنے پیچھے چلا کر ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے خدا سے ملانے کے لئے آتا ہے.مذہب بندوں کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں آتا.مذہب اس لئے نہیں آتا کہ ہم لوگوں کو خوش کریں....یہ دنیا والے جو مذہب سے دور ہٹ کر مذہب پر اعتراض کر کے فساد بریا کر رہے ہیں یہی بات ان کو ایک دن اس کے نتائج بھی دکھائے گی.اسی طرح جو مذہب کے نام پر فساد کر رہے ہیں یہی ان کی پکڑ کی وجہ بھی بنے گی چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہوں.یہ دنیا دار اپنے زعم میں عورتوں اور مردوں کے علیحدہ بیٹھنے پر اعتراض کرتے پرده 83
پرده ہیں.سب سے بڑا اعتراض ان کو ہمارے پر یہی ہوتا ہے.یہی لوگ چند دہائیاں پہلے عورتوں کو ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے تھے اور جب وقت کے ساتھ عورت نے اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی تو کیونکہ عورت کو حق دلانے کی یہ انسانی کوشش تھی اس لئے اس نے دوسری انتہا اختیار کر لی.عورت کو حق دینے کے نام پر اسے ہمدردی کے جذبے کے تحت اتنا زیادہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا کہ اس کا تقدس ہی ختم کر دیا.ہمدردی کے جذبے کی آڑ میں آزادی کے نام پر عورت کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے.یورپ کی عورت کو اس بات کا تجربہ نہیں کہ عورت کی اپنی شناخت اس وقت زیادہ اُبھرتی ہے اور اس کو اپنے تحفظ کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ عورتوں میں ہو اور عورتوں کی تنظیم کے ساتھ کام کر رہی ہو اور آزادی سے اس کی ہر حرکت ہو.قریباً دو سال پہلے ایک انگریز مہمان یہاں آئی تھیں.اچھی لکھنے والی ہیں.سارا دن انہوں نے عورتوں کے ساتھ گزارا اور شام کو کہنے لگیں کہ پہلے مجھے بڑا عجیب لگا تھا کہ صرف عورتوں میں ہوں لیکن سارا دن یہاں گزار کر مجھے احساس ہوا کہ میں زیادہ آزاد ہوں اور مجھے زیادہ تحفظ مل رہا ہے.پس جب عورت کو اس کا تقدس قائم رکھتے ہوئے اس کے حقوق کا بتایا جائے تو چاہے مغرب میں پلی بڑھی غیر مسلم عورت ہو وہ اس بات کا اظہار کرے گی کہ اسلام عورت کے حقوق قائم کرتا ہے اور عورت کا علیحدہ بیٹھنا کوئی اس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا.اس چینل فور (4) Channel) کی جو کل نمائندہ آئی تھی انہی خاتون نے جب اپنے ٹویٹر (twitter) پر نمائش کا یا کسی کا حوالہ دے کر ٹویٹ (tweet) کیا کہ وہاں اس طرح ہو رہا ہے ، عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں.تو اسی عورت نے پھر ان کا جواب بھی دیا اور یہ بھی مجھے خوشی ہے کہ بہت ساری احمدی لڑکیوں نے بھی 84
پرده اس کا جواب دیا کہ تم غلط کہتی ہو.تو بہر حال یہ تو انسانی قانون کے خلاف ایک رد عمل ہے جو آجکل کی عورت آزادی کے نام پر مغرب اور ان ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں جس کا اظہار ہور ہا ہے اور عورت کو کیونکہ پتا ہے یا اس کو احساس ہے کہ ہمیں آزادی لینے کے لئے بھی مرد کی ضرورت ہے اور لاشعوری طور پر عورت کی فطری کمزوری ظاہر ہو رہی ہے اس لئے عورت نے اپنی آزادی کے لئے مرد کی مدد حاصل کی اور مرد نے عورت کی اس فطرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب عورت کو آزادی دلانے کے لئے مددگار بننے کی کوشش کی تو ساتھ ہی اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے آزادی کے نام پر اسے ننگا کرنے کی بھی کوشش کی.اسی لئے یہاں کی ایک انگریز عورت لکھنے والی ہیں انہوں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ عورت کی آزادی کے نام پر جو حجاب اتارنے اور عورتوں کے لئے برائے نام لباس پہنے کی مہم میں مرد بہت کوشش کرتے ہیں اور اس معاملے میں بڑے ایکٹو (active) ہیں.یہ عورتوں کی آزادی سے زیادہ اپنی خواہش کی تسکین کے لئے یہ کر رہے ہیں تا کہ عورت کونگا دیکھیں.تو یہ یہاں کی جو عقلمند عورتیں ہیں خود ہی یہ کہتی ہیں.ان نام نہاد ترقی یافتہ کہلانے والوں نے مذہب کے نام پر اور روایات کے نام پر عورت پر جو ظلم ہوا، اس کا صرف ایک پہلو دیکھا ہے.عورت نے عیسائیت اور مذہب اور روایات کے نام پر اپنی غلامی کا ایک پہلو دیکھا ہے.یہ صرف تیسری دنیا کی بات نہیں ہے بلکہ ان ملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے یہی کچھ ہوتا تھا اور پھر اس کو ختم کرنے کے لئے ، اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے ہر حیلہ اور حربہ استعمال کیا گیا.اور پھر دوسرا المیہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ مسلمانوں نے 85
پرده اپنی روایات جو مختلف قوموں کی تھیں، اسلامی مذہب کی نہیں قوموں کی روایات تھیں ، ان پر مذہب کا لبادہ پہنا کر عورت کو بالکل ہی بے وقعت بنا دیا.اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لوگ مذہب کے نام پر ظلم کرتے ہوئے عورت کو نہایت حقیر ، ذلیل چیز سمجھتے ہیں اور پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام تو عورت کے حقوق قائم کرتا ہے.“ (ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 418-417.ایڈیشن 1985 ، مطبوعہ انگلستان ) خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 13 را گست 2016ء مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 16 دسمبر 2016ء) مذکورہ بالا خطاب حضور انور نے 2016ء میں ارشاد فرمایا تھا.اس سے اگلے سال جلسہ سالانہ یو کے میں خواتین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”دنیا والوں کے بنائے ہوئے قواعد اور قانون کبھی غلطیوں اور خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتے.ابھی گزشتہ دنوں میں ایک خبر آئی تھی کہ سویڈن میں ایک عورت جو میوزک کے بڑے بڑے کنسرٹ کرتی ہے.اس نے اعلان کیا ہے کہ ہر سال جو اُن کا بہت بڑا کنسرٹ (concert) ہوتا ہے اس میں اس دفعہ صرف عورتیں آئیں گی اور مرد نہیں بلائے جائیں گے اور وجہ یہ بیان کی کہ کیونکہ گزشتہ سالوں کے تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مرد آ کر عورتوں کے ساتھ بڑی بیہودگی کرتے ہیں بلکہ ریپ (rape) تک نوبت آجاتی ہے.اب یہ نتیجہ ہے جومر دعورت کو اکٹھا رکھنے کا سامنے آیا ہے.اس لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر معمولی سا بھی امکان ہو کہ کوئی غلط کام ہوسکتا ہے تو اس غلط کام سے بچو ، اس امکان سے بچو.اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے اب خود ہی اس بات کا اقرار کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر عورت اور مرد کی علیحدگی ہی بہتر ہے.اب بعض جگہ 86
عورتوں اور مردوں کی علیحدہ تنظیم کی باتیں ہونے لگ گئی ہیں.دنیاوی معاشرے میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ عورت اور مرد کی علیحدہ شناخت اور علیحدہ رہنا ہی ٹھیک ہے.جو ہم پر سیگر یکیشن (segregation) کا الزام لگاتے تھے ، اعتراض کرتے تھے اب خود یہ تسلیم کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر یہ علیحدگی ہونی چاہئے.“ (www.bbc.com/news/entertainment-arts-40504452) پس ایک احمدی مسلمان عورت کو اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ آخر کار ہماری تعلیم ہی کامیاب ہونے والی ہے اور عورت کی آزادی کے نام پر ان کی کوششیں ناکام و نامراد ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہماری اس بارے میں رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ...مردوں کی حالت کا اندازہ کرو.مردوں کو بھی نصیحت کی اور ان کی حالت کا بھی بیان فرمایا کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں ، نہ خدا کا خوف رہا ہے، نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 134 - 135.ایڈیشن 1985 مطبوعہ انگلستان )...یہ بات جو آپ نے فرمائی یہی بات اس عورت نے بھی کہی جو کنسرٹ آرگنائز کرتی ہے جس کے بارے میں ابھی میں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ ہم اس وقت تک مردوں اور عورتوں کو اکٹھے نہیں رکھ سکتے جب تک مردوں کو یہ سمجھ نہ آ جائے اور ہمیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ عورت کی کس طرح عزت کرنی ہے اور اپنے جذبات کو کس طرح قابو کرنا ہے.آج ایک جگہ سے یہ آواز اٹھی ہے چاہے وہ ناچ گانے کی مجلس کی آواز ہی ہو، اس کے حوالے سے ہی ہو، کم از کم خیال تو آیا ان کو کہ مرد عورت کے ایک جگہ ہونے میں کس طرح کی برائیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور پرده 87
پرده ہورہی ہیں.وہ باتیں جو دین نے ہمیں سینکڑوں سال پہلے بتا دیں اور وہ باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں کھول کر سوا سو سال پہلے بیان فرما دیں وہ اب تجربے کے بعد آزادی کے نام پر بے حیائیوں کے پھیلنے کے بعد ان کو سمجھ آ رہی ہیں.آخر ایک دن ان کو مکمل طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام کی تعلیم ہی قائم رہنے والی تعلیم ہے.یہی تعلیم ہے جو انسان کو انسانوں کے دائرے میں رکھنے کے 66 لئے مکمل ہدایت دیتی ہے.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 29 جولائی 2017ء.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 20 را کتوبر 2017ء) مسلمان عورتوں اور مردوں کے علیحدہ نماز ادا کرنے پر اعتراض کا پُر حکمت جواب اسلامی احکامات کے مطابق نماز کی ادائیگی کی بہت سی شرائط ہیں جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے ہی اس اسلام کے اس اہم رکن کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے.لیکن مغرب کے بعض متعصب لوگوں اور بعض نادان مسلمانوں نے اس اہم اسلامی عبادت کی شرائط پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کی کوششیں کی ہیں.ایسی ہی چند خطرناک بدعملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ دنوں اس خبر کو بڑا اچھالا گیا کہ جرمنی میں ایک عورت نے ایک مسجد بنائی ہے جس میں عورت امام ہوگی اور عورت اور مردا کٹھے نماز پڑھیں گے.نیز یہ بھی کہ سر کو ڈھانکنے کی، سکارف لینے کی اور پر دے وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں 88
پرده ہے.اب یہ عورت یہ بھی کہتی ہے کہ میں یوکے(UK) میں بھی جارہی ہوں اور یہاں آ کر بھی اسی طرح کی ایک مسجد بناؤں گی جیسی میں نے جرمنی میں بنائی تھی.تو یہ سب باتیں دین کو نہ سمجھنے کی وجہ ہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی وجہ ہے.جو چیز خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے وہ بدعت ہے جو دین میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یا جہالت کی وجہ سے اس کو دین میں شامل کیا جا رہا ہے یا اسلام کے خلاف جو قوتیں ہیں وہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت، ایک سازش کے تحت ایسی باتوں کو شامل کر رہی ہیں تا کہ اسلام میں ہی بگاڑ پیدا کیا جائے.دوسرے دینوں میں تو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے.اسلام اگر اپنی اصلی حالت میں ہے تو یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے اس لئے یہ کہتے ہیں اس میں بھی بگاڑ پیدا کیا جائے.قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے محفوظ ہے اور اس کے احکامات ہمیشہ کے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت کرتا رہے گا.یہ بات اسلام مخالف قوتوں کو برداشت نہیں اس لئے وہ اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کریں گے.جب قرآن کریم نے واضح طور پر عورت کو حیا دار لباس اور پردے کا حکم دے دیا تو پھر اس قسم کی حرکتیں جو ان حکموں کے خلاف ہیں کہ سکارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لمبے ڈھیلے لباس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، زینت چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ دین میں بگاڑ پیدا کرنے والی باتیں ہیں.اور یہ بھی غلط ہے کہ مرد عورتیں اکٹھے کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیں.جب خدا تعالیٰ نے کہہ دیا کہ علیحدہ علیحدہ رہو تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسلام مخالف طاقتوں کے اعتراضوں سے متأثر ہو کر اس کی خلاف ورزی کریں.دنیا دار جس کی دین کی آنکھ اندھی ہے اس کو یہ احساس ہو ہی نہیں سکتا کہ دین کے احکامات کی اہمیت کیا ہے.ایک دفعہ یہاں ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر 89
پرده مجھے ملنے آئے.کہنے لگے کہ کبھی ایسا وقت آئے گا کہ عورت اور مر دمسجد میں ایک ہی جگہ اکٹھے نماز پڑھیں؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ آئے گا نہیں بلکہ آچکا ہے اور ایک زمانہ ہوا گزر بھی چکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ہی جگہ نماز ہوا کرتی تھی.مرد آگے ہوتے تھے اور عورتیں پیچھے ہوتی تھیں.اب بھی ضرورت ہو تو اس طرح ہو سکتا ہے.اب تو یہ عورتوں نے اپنی سہولت کے لئے علیحدہ جگہ کر لی ہے تا کہ آزادی سے نمازیں پڑھ سکیں اور آزادی سے اگر کبھی ضرورت ہو تو اپنے سر کے دوپٹے اور چادریں بھی اتار سکیں، گونماز پڑھتے ہوئے نہیں لیکن باقی فنکشنز میں.اس کو میں نے بتایا کہ مختلف سوچوں کے مرد ہوتے ہیں.نما ز ایک عبادت ہے.اگر عورتیں آگے ہوں یا میکس (mix) ہوں تو عبادت کے بجائے بہت سے مرد ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو عبادت کرنے کے بجائے عورتوں کو ہی دیکھتے رہیں گے، نماز کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوگی.ہنس کے کہنے لگا کہ تم بالکل ٹھیک کہتے ہو.بلکہ بعد میں مجھے دوسرے ذرائع سے پتا لگا کہ بعد میں وہ سیاستدان اپنی مجلسوں میں ذکر کرتا رہا ہے کہ میرے اس سوال کا مجھے یہ جواب ملا ہے جو بڑا منطقی اور حقیقت پر مبنی جواب ہے.پس یہ لوگ جو بگڑ کر دین میں بدعات پیدا کر رہے ہیں یہ غلط ہے بلکہ دین سے مذاق کرنے والے ہیں.اسلام کے نام پر خود مسلمان ہو کر ایسی باتیں کر رہے ہیں تو دین سے مذاق کر رہے ہیں اور یہ دین کے علم کو نہ سمجھنے اور جہالت کی وجہ سے ہے.مسلمانوں کا یہ حال ہونا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایسی جہالت مسلمانوں میں پیدا ہو جائے گی جب وہ اس قسم کی 66 حرکتیں کریں گے.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 29 جولائی 2017ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20 /اکتوبر 2017ء) 90
عورتوں کے حقوق کے نام پر پر تنقید اسلام مخالف قوتیں جب پر دے جیسی اسلامی روایت اور دینی حکم پر اعتراض کرنا چاہتی ہیں تو اس مذموم مقصد کو عورت کی آزادی کا نام دیتی ہیں اور گویا اسلام میں عورت کے حقوق کے سلب کئے جانے کے الزامات لگا کر اعتراض کرتی ہیں.اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا : پرده رض پردے کا مسئلہ آجکل یہاں مغربی ممالک میں عورت کے حقوق کے نام پر یا دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر یا بلا وجہ اسلام پر اعتراض کرنے کی وجہ سے بڑے زور وشور سے اٹھایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے کہ کس طرح کا کرنا چاہئے.کن حالات میں کرنا چاہئے.اس میں عورت کی زینت کے ظاہر ہونے کے بارے میں بھی یہ فرمایا ہے کہ : إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (النور:32) اس کی وضاحت کرتے ہوئے اور اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو ارشاد ہے وہ پیش کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ الَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے معنی ہیں کہ وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اور جسے کسی مجبوری کی وجہ سے چھپایا نہ جا سکے خواہ یہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو.( یعنی بناوٹ یہ نہیں کہ ظاہری بناوٹ بلکہ جسم کی بناوٹ ) جیسے قد ہے کہ یہ بھی ایک زینت ہے مگر اس کو چھپانا ناممکن ہے.اس لئے اس کو ظاہر کرنے سے شریعت نہیں روکتی.یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے ( تو قرآن کریم کے مطابق وہ بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے ) بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ ہوسکتا ہے ڈاکٹر کسی عورت کے 91
پرده متعلق تجویز کرے کہ وہ منہ نہ ڈھانچے.اپنے چہرے کو کور (cover) نہ کرے.اگر ڈھانپے گی تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور ادھر ادھر چلنے پھرنے کے لئے کہے.( یعنی اگر ڈاکٹر عورت کو کہے کہ منہ نہ ڈھانپے اور پھر باہر جاکے پھرے نہیں تو تمہاری صحت خراب ہو جائے گی ) تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت منہ ننگا کر کے چلتی ہے تو بھی جائز ہے.بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اگر عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ ہو اور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائے گی تو اس کی جان خطرے میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ جنوائے تو یہ بھی جائز ہوگا.بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مرجائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی گناہگار سمجھی جائے گی جیسے اس نے خودکشی کی ہے.پھر یہ مجبوری کام کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے جیسے زمیندار گھرانوں کی عورتوں کی میں نے مثال دی ہے.( پہلے مصلح موعود مثال دے چکے ہیں ) کہ ان کے گزارے ہی نہیں ہو سکتے (اگر وہ کام نہ کریں.) جب تک کہ وہ کاروبار میں اپنے مردوں کی امداد نہ کریں.یہ تمام چیزیں الّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا میں ہی شامل ہیں.رض (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 299) پس اسلام نے آزادی بھی قائم کی ہے اور حدود بھی قائم کی ہیں کھلی چھٹی نہیں دے دی.بعض مجبوریوں کی وجہ سے اجازت ہے کہ پردے کو کم کیا جا سکتا ہے.معیار کا کیا جا سکتا ہے.لیکن ساتھ ہی بلاوجہ ناجائز طور پر اسلامی حکموں کو چھوڑ نا اس سے بھی منع فرمایا ہے.اسلام نے آزادی کے نام پر بے حیائی نہیں رکھی.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مارچ 2016ء مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8 اپریل 2016ء) مغربی معاشرے میں مسلمان عورتوں کو اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کرنے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا 92
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے پُر حکمت نصائح فرمائی ہیں.ایک موقع پر حضور انور نے مغربی معاشرہ میں رہنے والی احمدی خواتین سے مخاطب ہوئے ہوئے ارشاد فرمایا: پس آپ کو اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے اور بھی بہت سے مجاہدے کرنے ہیں وہاں پر دے کا مجاہدہ بھی کریں کیونکہ آج جب آپ پر دے سے آزاد ہوں گی تو اگلی نسلیں اُس سے بھی آگے قدم بڑھائیں گی.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : "یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں.لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو“.آپ ان ملکوں میں رہتے ہیں، دیکھ لیں اس آزادی کی وجہ سے کیا اُن کے اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم ہیں؟ پھر فرمایا: ” اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.آپ یہاں رہ رہے ہیں ، حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اگر اس آزادی سے اور بے پردگی سے تمہارے خیال میں یہاں مغربی ملکوں کی عورتیں بہت زیادہ پاک ہوگئی ہیں، اللہ والی ہوگئی ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ ہم غلطی پر ہیں.“ پرده فرمایا کہ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں 93
پرده تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.“ فرمایا کہ : ”جب ہوتا ہے تو وہاں بھی بعض دفعہ ایسی باتیں ہو جاتی ہیں لیکن جب آزادی ملے گی تو پھر تو کھلی چھٹی مل جائے گی“.پھر فرماتے ہیں کہ : ”مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو.اگر تمہارے خیال میں تم پاک دامن ہو بھی تو یہ ضمانت تم کہاں سے دے سکتی ہو کہ مردوں کی اخلاقی حالت بھی درست ہے.اپنے پر دے اتارنے سے پہلے مردوں کے اخلاق کو درست کرلو، گارنٹی لے لو کہ ان کے اخلاق درست ہو گئے ہیں پھر ٹھیک ہے پردے اتار دو.مگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا ضروری ہے کہ نہیں.ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گو یا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے.“.ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ بے ہو کر مردوں کے سامنے جانا اسی طرح ہے جس طرح کسی بھوکے گتے کے سامنے نرم نرم روٹیاں رکھ دی جائیں.تو یہاں تک آپ نے الفاظ فرمائے ہوئے ہیں.فرمایا کہ : ” کم از کم اپنے کانشنس (conscience) سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے اُن کے سامنے رکھا 66 جاوے.‘ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 106-104.جدید ایڈیشن ) خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 جون 2005 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 مارچ 2007ء ) 94
اسلامی تعلیم پر اعتراض کے حوالہ سے ہی اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ عورت کو حجاب اوڑھا کر، کا کہہ کر اس کے حقوق سلب کئے گئے ہیں اور اس سے کچے ذہن کی لڑکیاں جو ہیں بعض دفعہ متأثر ہو جاتی ہیں.اسلام سے مراد جیل میں ڈالنا نہیں لیتا.گھر کی چار دیواری میں عورت کو بند کرنا اس سے مراد نہیں ہے.ہاں حیا کو قائم کرنا ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) 66 پردے کا تشد د جائز نہیں اسلام میں پردے کا حکم نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس اسلامی حکم کی تعمیل کرنے اور کروانے کے سلسلہ میں کسی قسم کا تشد دجائز نہیں ہے.کیونکہ پردے کا مقصد عورت کی غلامی نہیں بلکہ اُس کے وقار کو قائم رکھنا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پردے میں عدم تشدد کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بار با پیش فرمائے ہیں.ایک موقع پر فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: پردے کا اتنا تشد د جائز نہیں ہے....حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے.دین اسلام میں تنگی وحرج نہیں.جو شخص خوامخواہ تنگی وحرج کرتا ہے وہ اپنی نئی شریعت بنا تا ہے.گورنمنٹ نے بھی میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دیتے ہیں.جو جو تجاویز و اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ انہیں توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے مطابق عمل کرتی ہے.ر پرده 95
پرده 66 کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 171 پرانا ایڈیشن صفحہ 239 جدید ایڈیشن) ایک تو یہ فرمایا کہ بعض عورتوں کی پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹروں کو بھی دکھانا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے.وہاں جو بعض مرد غیرت کھا جاتے ہیں کہ مردوں کو نہیں دکھانا وہ بھی منع ہے.ضرورت کے وقت مرد ڈاکٹروں کے سامنے پیش ہونا کوئی ایسی بات نہیں.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 31 جولائی 2004 ء.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2015ء) دراصل اسلام کسی بھی معاملہ میں افراط اور تفریط دونوں کو مسترد کرتا ہے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ : یہ بھی دوطرح کے گروپ بن گئے ہیں ایک تو یہ کہتا ہے کہ اس سختی سے کرو کہ عورت کو گھر سے باہر نہ نکلنے دو اور دوسرا یہ ہے کہ اتنی چھوٹ دے دو کہ سب کچھ ہی غلط ملط ہو جائے.“ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3 جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 ستمبر 2005ء) پھر ایک دوسرے موقع پر اسی حوالہ سے حضور انور نے ارشاد فرمایا: بہر حال اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن میں نہ ہی افراط کا حکم ہے نہ ہی 66 تفریط کا حکم ہے.نہ اس طرف جھکو نہ اُس طرف جھکو.اور یہی اصل چیز ہے.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 30 جولائی 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11 / مارچ 2011ء) اسی حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ بیان کرنے کے بعد پردے کی اصل روح پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، حضرت ام المومنین کو کس حد تک 96
کرواتے تھے یا کیا طریق تھا.اس بارہ میں روایت ہے کہ حضرت ام المومنین کی طبیعت کسی قدرنا سا ز رہا کرتی تھی.آپ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں.انہوں نے کہا کہ نہیں.اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا: پرده دراصل میں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں رعایت کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا.حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ بہار کی ہوا کھاؤ.گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں.علاوہ اس کے رض رض آنحضرت علیم حضرت عائشہ کو لے جایا کرتے تھے.جنگوں میں حضرت عائشہ ساتھ ہوتی تھیں.کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوتی ہے.یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں.حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہادیا ہے.اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے.غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 558-557) ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 23 اگست 2003ء - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 18 نومبر 2005ء) 97
پرده پس ہر احمدی عورت اور مرد سے میں یہ کہتا ہوں کہ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے.اُسے پہننے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی ستاری ہمیشہ ہمیش ڈھانکے رکھے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن) 98
پرده لِبَاسُ التَّقْوى سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشادِر بانی لِبَاسُ التَّقوی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباس تقوی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ اعراف میں کہ : يُبَنِي آدَمَ قَد أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ أَيْتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذْكُرُونَ (الاعراف: 27) اے بنی آدم ! یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تا کہ وہ نصیحت پکڑیں.یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے.تمہارا ننگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے.یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا.انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہو اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس ، لباس تقویٰ ہے.یہاں میں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک 99
پرده غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا ، جوزینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے.آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل (fashionable) اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو.مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا لباس زینت ہے.لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے.وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں.ایک طبقہ جو ہے مردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تا کہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے.چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یا نہ ڈھک رہا ہو.لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خدا کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہوگا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہوگی.جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جارہا ہوگا.66 حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا:...پس یہ تقویٰ کا لباس ہے جو ظاہری لباس کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور ایک دوسرے کی پوشی کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور اس کا حصول اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر نہیں ہوسکتا.کیونکہ شیطان ہر وقت تاک میں ہوتا ہے کہ کس طرح موقع ملے اور میں بندوں سے اس تقویٰ کے لباس کو اتار دوں.100
میں کہ: اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے بلکہ جو میں نے آیت پڑھی اس کی اگلی آیت يَا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيْطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (الاعراف: 28) کہ اے بنی آدم ! شیطان ہرگز تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا.اس نے ان سے اُن کے لباس چھین لئے تھے تا کہ اُن کی برائیاں ان کو دکھائے یقیناً وہ اور اس کے غول تمہیں دیکھ رہے ہیں.جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے.یقیناً ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے.پس جو ظاہری لباس کے ننگ کی میں نے بات کی ہے.ایک مومن کبھی ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو خو د زینت بننے کی بجائے جسم کی نمائش کر رہا ہو.یہاں بھی اور پاکستان میں بھی بعض رپورٹس آتی ہیں کہ دنیا کی دیکھا دیکھی بعض احمدی بچیاں بھی نہ صرف اتارتی ہیں بلکہ لباس بھی نامناسب ہوتے ہیں اور یہ حرکت صرف وہی کر سکتا ہے جو تقویٰ کے لباس سے عاری ہو.پس ہر احمدی عورت اور مرد سے میں یہ کہتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے.اُسے پہنے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی ستاری ہمیشہ ہمیش ڈھانکے رکھے اور شیطان جو پردے اُتارنے کی کوشش کر رہا ہے جو انسان کو ننگا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے 101 پرده
پرده فرمایا کہ جو مومن نہیں ہے شیطان ان کا دوست ہے.اگر تو ایمان ہے اور زمانہ کے امام کو بھی مانا ہے تو پھر ہمیں ایک خاص کوشش سے شیطان سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی اور اپنے آپ کو ہمیشہ اس لباس سے ڈھانکنا ہو گا جو تقویٰ کا لباس ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی حالتوں کے بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور زمانے کے بہاؤ میں بہنے والے نہ بنیں.بلکہ ہر روز ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے اور ہمیشہ لباس تقویٰ کی حقیقت کو ہم سمجھنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو.( یعنی کوئی بھی انسان چھوٹے بڑے گناہ کرتا ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ گل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا.نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگزر کرتا اور عفو فرماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا.اس کی پوشی فرماتا ہے.پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بد قسمتی اور شامت ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 596.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا: اس بارے میں خدا تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتا ہے کہ إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَنُدْخِلُكُمْ مُدْخَلاً كَرِيماً (النساء :32) 102
اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تم سے تمہاری بدیاں دُور کر دیں گے اور تمہیں ایک بڑی عزت کے مقام میں داخل کریں گے.اب یہاں فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچتے رہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑے گناہوں کی تلاش کی جائے ، یا یہ دیکھا جائے کہ کون کون سے بڑے گناہ ہیں جن سے بچنا ہے.ایک حقیقی مومن وہ ہے جو ہر قسم کے گناہوں سے بچتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ستاری تو ہر قسم کے گناہوں کے لئے ہے.اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بڑے گناہوں سے بچا جائے اور چھوٹے چھوٹے گناہ اگر کر بھی لئے تو کوئی حرج نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہوں سے بچو کیونکہ قرآن کریم میں بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کی کوئی فہرست نہیں ہے، کوئی تخصیص نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ چیز جس کے نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سختی سے پابند کیا ہے کہ ایک مومن نہ کرے، اس کو کرنا گناہ ہے.پس ہر وہ غلط کام جس کے نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو چھوڑنے میں اگر کسی کو کوئی دقت پیش آ رہی ہے چاہے وہ چھوٹی سی بات ہے یا بڑی بات ہے تو وہ اس شخص کے لئے بڑا گناہ ہے.پس جب ایک مشکل چیز کو کرلو گے، اس پر قابو پالو گے تو ایسی برائیاں جن کو چھوڑنا نسبتا آسان ہے وہ بھی خود بخود چھٹ جائیں گی.بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی بھی گناہ کی انتہا جو ہے وہ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے.پس اگر اس انتہاء پر پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ نے جو اب تک پوشی فرمائی ہے وہ پوشی فرمائے گا.اس کی پرده 103
پرده شکر گزاری کرتے ہوئے نیکیوں کی طرف توجہ کر لو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ہے.پھر وہ برائیاں ظاہر نہیں ہوں گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے پھر جو صغائر یا کبائر ہیں ان کا ذکر بھی نہیں فرماتا.ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کبائر کو بعض دوسرے گناہوں سے ملا کر یہ بھی کھول دیا کہ ہر گناہ جو ہے وہ کبیرہ بن سکتا ہے جیسا کہ سورۃ شوری میں فرماتا ہے : وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُون - (الشورى: 38) اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں.یعنی مومنوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے.تو یہاں مومنوں کے ذکر میں فرمایا کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں.اب یہاں دونوں چیزیں اکٹھی ہیں.اور غصے سے بچتے ہیں، بلکہ تینوں چیزیں اکٹھی ہیں.یہاں ایک بات غور کرنے والی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.حیا بھی ایمان کا حصہ ہے.ان لوگوں کے لئے بڑے غور اور فکر کا مقام ہے جو فیشن اور دنیا داری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اپنے لباسوں کو اتنا بے حیا کرلیا ہے کہ تنگ نظر آتا ہے اور حیا کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ تو ستاری اور بخشش کرنا چاہتا ہے اور جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پڑھا ، وہ تو بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے اگر بندہ اس کی طرف جائے لیکن بندہ اس سے پھر بھی فائدہ نہ اٹھائے تو کتنی بدقسمتی ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2009ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2009 ء 104
پرده اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بھی مستورات سے اپنے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لباس التقوی کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اصل زینت کپڑوں اور زیورات سے نہیں ملتی بلکہ لِبَاسُ التَّقوی ہی وہ اصل لباس ہے جو مردوں اور خواتین، دونوں کے لئے حقیقی زینت مہیا کر سکتا ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے اس ضمن میں فرمایا: کپڑے یا ظاہری حسن کوئی چیز نہیں ہے.اصل حسن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ عطافرماتا ہے.عورت کو اپنے حسن اور زینت کا بڑا خیال رہتا ہے لیکن بہت سی ایسی ہیں جو اپنی اصل زینت سے بے خبر رہتی ہیں.میک آپ کرنے سے، کپڑے پہنے سے، زیور پہننے سے زینت نہیں ملتی.اصل زمینت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے.اُس حسن سے بے خبر رہتی ہیں جس سے اُن کا حسن وزمینت کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جو آزادی حاصل کر کے نہیں ملتی.اس معاشرے کی فضولیات میں گم ہو کر نہیں ملتی.جو حجاب ختم کر کے نہیں ملتی.جو سر ننگے کرنے سے نہیں ملتی.جو اپنے خاوندوں کے سامنے دنیاوی خواہشات پیش کرنے سے نہیں ملتی.یا مردوں کے لئے بھی ایک زینت ہے، مردوں کو وہ زینت ، فیشن ایبل عورت سے رشتہ کرنے سے نہیں ملتی ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہے.آجکل مغرب کے زیر اثر ہو کر ہماری بعض عورتیں بھی اس قسم کا اظہار کر دیتی ہیں کہ شاید یہی زینت ہے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زینت تقویٰ کا لباس پہننے سے ملتی ہے.اور لباس تقویٰ اُن کو میسر آتا ہے جو اپنے ایمانی عہدوں اور امانتوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 23 جولائی 2011ء - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 4 مئی 2012 105
پرده لباس کے دو مقاصد سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی ارشاد لِبَاسُ التَّقْوَى کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ الاعراف کی آیت 27 کی تلاوت فرمائی اور اس کے حوالہ سے لباس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس ( آیت 27.الاعراف) میں خدا تعالیٰ نے اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں.پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے.دوسری بات یہ کہ زینت کے طور پر ہے.کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں ، بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے ان کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں.موسموں کی شدت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اجا گر کرتا ہے.لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی ہے لباس کے فیشن کو ان لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپنا ننگ لوگوں پر ظاہر کرنا زینت سمجھا جاتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی ننگا ہو جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لباس کے یہ دو مقاصد ہیں ان کو پورا کرو.اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس تو ان دو مقاصد کے لئے ہیں.لیکن تقویٰ سے دور چلے جانے کی وجہ سے 106
یہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے.66 ( خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 2008 بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 31 اکتوبر 2008ء) لفظ ریش کے معانی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ الاعراف کی آیت 27 کی تلاوت فرمائی اور پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لباس کی زینت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: یہاں لفظ ریش استعمال ہوا ہے اس کے معنی ہیں پرندوں کے پر جنہوں نے انہیں ڈھانک کر خوبصورت بنایا ہوتا ہے.وہی پرندہ جو اپنے اوپر پروں کے ساتھ خوبصورت لگ رہا ہوتا ہے اس کے پر نوچ دیں یا کسی بیماری کی وجہ سے وہ پر جھڑ جائیں تو وہ پرندہ انتہائی کراہت انگیز لگتا ہے.پرده پھر اس کا مطلب لباس بھی ہے اور خوبصورت لباس ہے.لیکن بدقسمتی سے آج کل خوبصورت لباس کی تعریف ننگا لباس کی جانے لگ گئی ہے اور اس میں مردوں کا زیادہ قصور ہے کہ انہوں نے عورت کو اس کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے اور عورتیں بھی اپنی حیا اور تقدس کو بھول گئی ہیں اور ہماری بعض مسلمان عورتیں بھی اور احمدی بھی اِکا دُکا متاثر ہو جاتی ہیں.پردے اور حجاب جب اترتے ہیں تو اس کے بعد پھر اگلے قدم ننگے لباسوں میں آ جاتے ہیں.پس اپنے تقدس کو ہر عورت کو قائم رکھنا چاہئے.کل ہی مجھ سے ایک نئے احمدی دوست نے سوال کیا کہ اس 107
پرده معاشرے میں جہاں ہم رہ رہے ہیں بہت ساری برائیاں بھی ہیں ننگے لباس بھی ہیں تو ہم کس طرح اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ تو میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ بچپن سے ہی بچوں میں اپنی ذات کا تقدس پیدا کریں انہیں احساس ہو کہ وہ کون ہیں؟ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟ اور پھر بڑی عمر سے ہی نہیں بلکہ پانچ چھ سال کی عمر سے ہی انہیں لباس کے بارے میں بتائیں کہ تمہارے ارد گرد معاشرے میں جو چاہے لباس ہو لیکن تمہارے لباس اس لئے دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں کہ تم احمدی ہو اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو وہی لباس پسند ہے جن سے ننگ ڈھکا ہو.ان کے اندر کی نیک فطرت کو ابھاریں کہ انہوں نے ہر کام خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے.تو آہستہ آہستہ بڑے ہونے تک ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ اور راسخ ہو جائے گی.اسی طرح ریش کا مطلب دولت بھی ہے اور زندگی گزارنے کے وسائل بھی ہیں.یہاں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے بھی تقوی ضروری ہے، زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کے لئے کوئی غلط کام نہیں کرنا ، غلط ذریعہ سے دولت نہیں کمانی.ناجائز کاروبار نہیں کرنا ، حکومت کا ٹیکس چوری نہیں کرنا.اس طرح کی دولت سے تم اگر چوری کرتے ہو تو ظاہراً تو شاید عارضی طور پر خوبصورت گھر بنا لولیکن تقویٰ سے دور چلے جاؤ گے.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکنے کے لئے اور تمہاری زینت کے لئے جو جائز اسباب تمہارے لئے میسر کئے ہیں ان کو استعمال میں لانا ضروری ہے.لیکن ہمیشہ یا درکھو کہ لباس تقوی ہی اصل چیز ہے.اس کی طرف اگر تمہاری نظر رہے گی تو ظاہری لباس، رکھ رکھاؤ اور زینت کے لئے بھی تم اس طرح عمل کرو گے جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور جس طرح تمہارے 108
پرده باپ آدم نے اپنے آپ کو ڈھانکنے کی کوشش کی تھی جب شیطان نے اسے بہکایا تھا.پس آدم کی اولاد کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ، اس کی خشیت اور تقویٰ ہر وقت پیش نظر رہے گا اور استغفار اور تو بہ اور دعاؤں سے اس کی حفاظت کی کوشش کرتے رہو گے تو دنیا میں جو بے انتہا لغویات ہیں ان سے بھی بچ کر رہو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے، چنانچر لبَاسُ التَّقْوى قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جاتے.‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210) یعنی گہرے سے گہرے مطلب، بار یک مطلب کو تلاش کرے اور پھر عمل کرنے کی کوشش کرے.“ (خطبہ جمعہ فرموده 10 اکتوبر 2008 بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31 اکتوبر 2008ء) اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احمدی خواتین کو لِباسُ التَّقوی کے بارے میں توجہ مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں: بہر حال عورت کی زینت کی بات ہو رہی ہے اور لباسُ التَّقوی کی بات ہو رہی تھی کہ زینت جو ہے وہ تقویٰ کے لباس میں ہی ہے.یعنی اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کے خوف اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہو.یہ نہ ہو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو ترجیح دیتے ہوئے عمل ہور ہے ہوں.پس اگر ہر احمدی عورت اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہوگی اور لباسُ التَّقْوی کے لئے 109
پرده اس سے بڑھ کر ترڈ د کر رہی ہوگی جتنا کہ آپ اپنے ظاہری لباس کے لئے کرتی ہیں تو یہ لباس تقویٰ آپ کی چھوٹی موٹی روحانی اور اخلاقی برائیوں کو چھپانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی نظر آپ پر ہوگی.اس وجہ سے کہ اللہ کا خوف ہے تقویٰ کو اپنا لباس بنانے کی کوشش کرتی ہیں خدا تعالی کمزوریوں کو دُور کرنے کی بھی توفیق دیتا ہے اور دے گا اور ایمان میں ترقی کرنے کی بھی توفیق دے گا.کیونکہ اس توجہ کی وجہ سے جو آپ اپنے آپ کو لِبَاسُ التَّقوی میں سمیٹنے کے لئے کریں گی آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کے بھی مواقع ملیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے آگے نیک نیتی سے جھکنے والوں کی دعاؤں کو قبول بھی کرتا ہے، ان کو ضائع نہیں کرتا.پھر اس سے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی چلی جائے گی.وہ ایسے جھکنے والوں کی طرف اپنی مغفرت کی چادر پھیلاتا ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر تلے آجائے تو پھر انہیں راستوں پر چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے ہیں.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 30 جولائی 2005 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11 مئی 2007ء) حیادار لباس لجنہ اماءاللہ پاکستان کی مجلس شوری کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں احمدی بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد اپنی جماعت کو اسلامی تعلیمات پر قائم کرنا اور ایک مثالی معاشرے کا قیام ہے.ہماری بچیاں باقی بچیوں سے منفر دنظر آنی چاہئیں.ان کی گفتگو سلجھی ہوئی اور پاکیزہ ہونی چاہئے.ان کی چال 110
ڈھال ، لباس اور حرکات اور سکنات سے اسلامی تعلیمات جھلکتی نظر آنی چاہئیں.دس گیارہ سال کی عمر سے ہی انہیں سر ڈھانپنے اور پورا اور مناسب لباس پہننے کی عادت ڈالیں.جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہیں ان کے پردے کا خیال رکھیں.گھروں میں بار بار کی نیک نصائح اور اپنے سے چھوٹی بچیوں کے لئے آپ کا نیک نمونہ آئندہ نسلوں کو دینی تعلیمات پر قائم کرتا چلا جائے گا.میں کئی بارلجنہ کے اجتماعات اور جلسوں کی تقاریر میں بچیوں کی نیک تربیت کرنے اور پردے کی اہمیت کی طرف توجہ دلا چکا ہوں.میری یہ نصائح بار بارسنیں اور اپنی بچیوں کو بھی سنائیں تا کہ کوئی دنیوی آلائشیں آپ کو دینی تعلیمات سے دور نہ لے جاسکیں.“ پیغام برائے مجلس شوری لجنہ اماءاللہ پاکستان 2009 ء مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 22 جنوری 2010ء) احساس کمتری کے نتیجہ میں بے پردگی کا رحجان بڑھتا ہے اور اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے سے ایمان کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے.اس حوالہ سے متنبہ کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا : ابتدا میں ایک برائی بظاہر بہت چھوٹی سی لگتی ہے یا انسان سمجھتا ہے کہ اس برائی نے اسے یا معاشرے کو کیا نقصان پہنچانا ہے.لیکن جب یہ وسیع علاقے میں پھیل جاتی ہے یا بڑی تعداد میں لوگ اسے کرنے لگ جاتے ہیں یا اس برائی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا معاشرے کے ڈر سے اس کو برائی کہنے سے ڈرتے ہیں یا احساس کمتری میں آکر کہ شاید اس کے خلاف اظہار ہمیں معاشرے کی نظر میں گرانہ دے، وہ خاموش ہو جاتے ہیں یا عمل نہیں کرتے.اس معاشرے کی بہت ساری باتیں ہیں جو معاشرے میں آزادی کے نام پر ہوتی ہیں اور حکومتیں بھی اس کو تسلیم کرلیتی ہیں لیکن وہ برائیاں ہیں.پرده 111
پرده مثلاً اس معاشرے میں ان لوگوں کی نظر میں بظاہر یہ ایک چھوٹی سی برائی ہے کہ سے عورت کے حقوق غضب ہوتے ہیں.اس معاشرے میں اس پر دہ کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے اور ان کی نظر میں یہ کوئی برائی نہیں.اس لئے اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شریعت کے حکم کی ضرورت نہیں تھی.بعض لڑکیاں احساس کمتری کا شکار ہو کر کہ لوگ کیا کہیں گے یا ان کے دوست اسے پسند نہیں کرتے یا سکول یا کالج میں اسٹوڈنٹ یا ٹیچر بعض دفعہ کا مذاق اڑا دیتے ہیں تو کرنے میں ڈھیلی ہو جاتی ہیں.شیطان کہتا ہے یہ تو معمولی سی چیز ہے.تم کون سا اس حکم کو چھوڑ کر اپنے تقدس کو ختم کر رہی ہو.معاشرے کی باتوں سے بچنے کے لئے اپنے دوپٹے، سکارف، نقاب اتار دو.کچھ نہیں ہوگا.باقی کام تو تم اسلام کی تعلیم کے مطابق کر ہی رہی ہو لیکن اس وقت پر دہ اتارنے والی لڑکی اور عورت کو یہ خیال نہیں رہتا کہ یہ تو ایسا حکم ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.عورت کی حیا اس کا حیادار لباس ہے.عورت کا تقدس اس کے مردوں سے بلا وجہ کے میل ملاقات سے بچنے میں ہے.اس معاشرہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی احمدی لڑکیاں بھی ہیں جو اُن کے پر مردوں کی طرف سے اعتراض پر انہیں منہ توڑ کر جواب دیتی ہیں کہ ہمارا فعل ہے.ہم جو پسند کرتی ہیں ہم کر رہی ہیں.تم ہمیں پردے اتارنے پر مجبور کر کے ہماری آزادی کیوں چھین رہے ہو؟ ہمیں بھی حق ہے کہ اپنے لباس کو اپنے مطابق پہنیں اور اختیار کریں.لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو باوجود احمدی ہونے کے یہ کہتی ہیں کہ اس معاشرے میں کرنا اور سکارف لینا بہت مشکل ہے، ہمیں شرم آتی ہے.ماں باپ کو بھی بچپن سے لڑکیوں میں یہ باتیں پیدا کرنی چاہئیں کہ شرم تمہیں اسلامی تعلیم پر عمل نہ کر کے آنی چاہئے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان کر “ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 2016ء بمقام مسجد ناصر، گوٹن برگ، سویڈن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2016ء) 112
پھر ایک اور خطبہ جمعہ میں حضور انور نے اسی حوالہ سے ارشاد فرمایا: پس حیا دار لباس اور ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے.اگر ترقی یافتہ ملک آزادی اور ترقی کے نام پر اپنی حیا کو ختم کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین سے بھی دور ہٹ چکے ہیں.پس ایک احمدی بچی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے اس نے یہ عہد کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی.ایک احمدی بچے نے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے، ایک احمدی شخص نے ، مرد نے عورت نے مانا ہے، اس نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے اور یہ مقدم رکھنا اُسی وقت ہوگا جب دین کی تعلیم کے مطابق 66 عمل کریں گے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاص طور پر احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی پُر در دنصالح کرتے ہوئے فرمایا: پس ایک احمدی عورت جس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت اس لئے کی ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کی ناپاکیوں سے بچائے اور انجام بخیر ہو اور انجام بخیر کی طرف قدم بڑھائے ، اس کو اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہوگا.اپنے لباس کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور اپنے پردے کا بھی خیال رکھنا ہوگا ، اپنی حرکات کا بھی خیال رکھنا ہوگا ، اپنی گفتگو کا بھی خیال رکھنا ہو گا.ایک بچی نے مجھے پاکستان سے لکھا کہ اگر میں جینز کے ساتھ لمبی قمیص پہن لوں تو کیا حرج ہے.اثر ہو رہا ہے نا.تو میں تو یہ کہتا ہوں کہ جینز کے ساتھ قمیص لمبی پہنے پرده 113
پرده میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی برائی نہیں ہے بشرطیکہ پردے کی تمام شرائط پوری ہوتی ہوں لیکن مجھے یہ ڈر ہے، اس کو بھی میں نے یہی کہا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ لمبی قمیص پھر چھوٹی قمیص میں اور پھر بلاؤ ز کی شکل میں نہ آ جائے کہیں.تو جو کام فیشن کے طور پر، یا دیکھا دیکھی کیا جاتا ہے ان میں پھر مزید زمانے کے مطابق ڈھلنے کی کوشش بھی شروع ہو جاتی ہے.اور پھر اور بھی قباحتیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.پھر جب وقت آتا ہے محسوس ہوتی ہیں.اس لئے ان راستوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جہاں شیطان کے حملوں کا خطرہ ہو.آپ نے اور آپ کی نسلوں نے ایمان میں ترقی کرنی ہے اس لئے وہی راستے اختیار کریں جو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہوں.اور ذاکرات بننے کی کوشش کریں، عابدات بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی 66 کوشش کریں.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 4 /ستمبر 2004ء - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 7 جنوری 2005ء) اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حقیقی نیکی کی پہچان بیان کرتے ہوئے احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے لباس کو حیا دار نہیں رکھتی.باہر نکلتے ہوئے پر دے کا خیال نہیں رکھتی.باوجود احمدی مسلمان ہونے کے اور کہلانے کے ننگے سر ، بغیر حجاب کے بغیر سکارف کے یا چادر کے پھرتی ہے.لباس پچست اور جسم کی نمائش کرنے والا ہے.لیکن مالی قربانی کے لئے کہو، کسی چیریٹی میں چندے کے لئے کہو تو کھلا دل ہے، یا جھوٹ سے اُسے نفرت ہے اور برداشت نہیں کرتی کہ اُس کے سامنے کوئی جھوٹ بولے.تو اس کے لئے بڑی نیکی چندوں میں بڑھنا یا بڑی نیکی جھوٹ سے نفرت نہیں بلکہ بڑی نیکی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرنا ہے 114
کہ اپنے لباس کو حیا دار بناؤ اور پر دے کا خیال رکھو.جس کو وہ چھوٹی نیکی سمجھ کر توجہ نہیں کر رہی یہی ایک وقت میں پھر اس کو بڑی برائی کی طرف بھی دھکیل دے گی.غرض کہ ہر نیکی اور گناہ کا معیار ہر شخص کی حالت کے مطابق ہے اور مختلف حالتوں میں مختلف لوگوں کے عمل نیکی اور بدی کی تعریف اُس کے لئے بتلا دیتے ہیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / دسمبر 2013 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 جنوری 2014ء) عربوں اور ترکوں میں برقع کا رواج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر احمدی خواتین اور بچیوں کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے پر دے کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے ارشاد فرمایا: رض حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف صورتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ آج کل عربوں یا ترکوں میں جو رواج ہے برقع کا یہ بڑا اچھا ہے.لیکن وہی کہ کوٹ کھلا ہونا چاہئے.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو بعض قسم کے کوٹوں کو پسند نہیں کرتیں اور اگر کسی کا دیکھ لیں تو خط لکھتی رہتی ہیں اور بہت سوں نے ایک دفعہ سمجھانے کے بعد اپنی تبدیلیاں بھی کی ہیں.لیکن فکر اس لئے پیدا ہوتی ہے جب بعض بچیاں اسکولوں کالجوں میں جھینپ کر یا شرما کر اپنے برقعے اتار دیتی ہیں.وہ یا درکھیں کہ کسی قسم کے کمپلیکس میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے میں برکت ہے.تیسری دنیا کے ایسے ممالک افریقہ وغیرہ جو بہت پسماندہ ہیں وہاں تو جوں جوں تعلیم اور تربیت ہو رہی ہے اور لوگ جماعت میں شامل ہورہے ہیں اپنے لباسوں کو ڈھکا ہوا بنا کر پرده 115
پرده پر دے کی طرف آرہے ہیں اور ان خاندانوں کی بعض بچیاں جہاں برقع کا رواج تھا برقع اتار کر اگر جینز، بلاؤز پہنا شروع کر دیں تو انتہائی قابل فکر بات ہے.ہم تو دنیا کی تربیت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں.اپنوں میں اسلامی روایات اور احکامات کی پابندی نہ کرنے والوں کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے......اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی معنوں میں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کبھی ایسی خواہشات کی تکمیل کے لئے جو صرف ذاتی خواہشات ہوں دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے نہ ہوں.ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک احمدی عورت اور احمدی بچی کا ایک مقام ہے.آپ کو اللہ اور اس کے رسول نے نیکیوں پر قائم رہنے کے طریق بتائے ہیں.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفصیل سے وہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دئیے ہیں.کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہوئے بغیر ان راستوں پر چلیں اور ان حکموں پر عمل کریں.دنیا کو بتائیں اور کھول کر بتائیں کہ اگر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کسی نے کی ہے تو اسلام نے کی ہے.معاشرے میں اگر عورت کی عزت قائم کی ہے تو اسلام نے کی ہے.تم اے دنیا کی چکا چوند میں پڑے رہنے والو! آج اگر معاشرے کو امن پسند بنانا چاہتے ہو تو اسلام کی تعلیم کو اپنا ؤ.آپ کو یہ سبق ان کو دینا چاہئے نہ کہ ان کی باتوں اور کمپلیکس میں آئیں.ان کو بتائیں کہ آج اگر اپنی عزتوں کو قائم کرنا ہے تو اسلام کی طرف آؤ.آج اگر اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانا ہے تو ہمارے پیچھے چلو.“ 66 خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 31 جولائی 2004 مطبوع الفضل انٹرنیشنل 24 / اپریل 2015ء) برقعے حیادار ہونے چاہئیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مشرق و مغرب کی مسلمان عورتوں 116
پرده رض کے مختلف النوع رائج برقعوں کے حوالے سے حضرت مصلح موعود کے ارشاد کی روشنی میں فرمایا: جکل برقعوں کے بھی عجیب عجیب رواج ہو گئے ہیں.بعض لوگ پیٹ تک بٹن بند کرتے ہیں اس کے بعد عجیب کاٹ سے برقعے کھلے ہو جاتے ہیں جس سے لباس کی زینت نظر آ رہی ہوتی ہے.ٹیڑھی کاٹ کے برقعے ہوتے ہیں.کپڑوں کی نمائش کروا رہی ہوتی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی برقعوں پہ اعتراض ہوتا تھا.آپ نے اس وقت بھی فرمایا کہ بعض برقعے ایسے ہیں جو سامنے سے کپڑوں کی نمائش کرتے ہیں نظر آتے ہیں.لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ بعض برقعے پیچھے سے تنگ ہیں.اُس زمانے میں بھی یہی باتیں تھیں.آپ نے فرمایا کہ یہ اعتراض مجھے لوگوں کی طرف سے پہنچ رہے ہیں کہ یا سامنے سے کھلے ہوتے ہیں یا پیچھے سے صحیح نہیں ہوتے تو اس وقت آپ نے لجنہ کو کہا تھا کہ تم لوگ خود اپنے ایسے حیادار برقعے ڈیزائن کرو.تم لوگ جانتی ہو کس طرح کرنا ہے کہ جس سے بھی ہو جائے اور تمہاری سہولت بھی قائم رہے.ہو (ماخوذ از مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 560-561) پس آج بھی اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ایسے برقعے پہنیں جو پردے کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور آپ کو سہولت سے کام کرنے میں روک بھی نہ پڑے.اگر اپنے لباس کی زینتوں کو اسی طرح کھلے لباس کر کے دکھائیں گی تو پھر یہ امید نہ رکھیں کہ مردوں کی نظریں نہیں پڑیں گی.مردوں کی نظریں بھی پھر نیچے سے اوپر تک مکمل جائزہ لیں گی اور اس حوالے سے بعض مسائل بعض جوڑوں میں ، بعض گھروں میں ، بعض شادی شدہ لوگوں میں ، میاں بیوی میں پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.اس لئے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی نمائش کر کے دنیا کی دوڑ میں شامل ہونے کی 117
پرده بجائے دین کی دوڑ میں شامل ہوں.اپنے اور اپنے بچوں کی کل کوسنواریں.اس دنیا کو بھی جنت بنائیں اور اگلی دنیا کو بھی جنت بنائیں.اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب 66 اللہ تعالیٰ ہر کام میں مقدم ہو.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 29 جولائی 2017ء بمقام آلٹن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 20 /اکتوبر 2017ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے ایک حدیث مبارکہ کی روشنی میں حیادار لباس کے حوالہ سے ارشاد فرمایا: م نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.( صحیح البخاری کتاب الایمان باب امور الایمان حدیث 9) پس ایک احمدی عورت کا لباس حیادار ہونا چاہئے.اسے اپنے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے.آہستہ آہستہ میں نے دیکھا ہے یہاں بھی ، باقی ملکوں میں بھی اور پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے کہ برقع کی جگہ گھٹنے کے اوپر یا زیادہ سے زیادہ گھٹنے تک کوٹ پہنے جاتے ہیں.اگر اس کی طرف ابھی توجہ نہ دی تو یہ اور بھی او پر ہو جائیں گے اور پر دے بھی ختم ہو جائیں گے.میں نے یوکے(UK) کے جلسے میں بھی کہا تھا کہ برقعوں کا ایسا ہونا چاہئے جو آگے اور پیچھے دونوں طرف سے عورت کے اعضاء کو ظاہر نہ کرے اور نہ اس کے لباس کی زینت کو ظاہر کرے.دونوں طرف سے ڈھکا ہونا چاہئے اور اس کے لئے اگر کوئی پسندیدہ برقع بنانا بھی ہے تو عورتیں سوچیں.شعبہ نمائش و دستکاری جو ہے وہ بھی ڈیزائن کر سکتے ہیں.لیکن اصل چیز پر دہ اور حیا ہے، اس کو قائم رکھنا ہے.یہ نہ ہو کہ فیشن شروع ہو جائیں.عجیب عجیب کاٹ کی قسم کے برقعے آنے شروع ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے کہا.حیرت ہوتی ہے کہ یہ برقعے ہیں یا فیشن کا کوئی شو (show) ہے.اس سے ایک احمدی 118
عورت کو بچنا چاہئے.بلکہ اب تو میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں جو غیر از جماعت عورتیں ہیں ان کے پر دے احمدی لڑکیوں اور عورتوں سے زیادہ بہتر ہو گئے ہیں.یہ ہمارے لئے قابل شرم ہے.بلکہ اب تو یہ بھی ہے کہ بعض اپنے لباس میں بھی حیا کا خیال نہیں رکھتیں.پردے تو ایک طرف رہے.پس کم از کم لباسوں میں حیا کا خیال رکھ لیں.اس طرف ہر احمدی عورت کو توجہ دینی چاہئے.جب آپ عہد کرتی ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی تو پھر اس عہد کو پورا کرنے کے لئے معاشرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کوشش بھی کرنی ہوگی.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ 26 اگست 2017 بمقام کا لسروے، جرمنی مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 17 نومبر 2017ء) سوئمنگ کے لباس میں احتیاط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حیا دار لباس کے ضمن میں نصائح فرماتے ہوئے تیرا کی ( سوئمنگ) کے لباس کے حوالہ سے بھی رہنمائی پرده فرمائی.حضور انور نے فرمایا: سوئٹزرلینڈ میں ایک لڑکی نے مقدمہ کیا کہ میں لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہوں مجھے اسکول پابند کرتا ہے کہ میکس سوئمنگ ہوگی.مجھے اس کی اجازت دی جائے کہ علیحدہ لڑکیوں کے ساتھ میں سوئمنگ کروں.ہیومن رائٹس والے جو انسانی حقوق کے بڑے علمبر دار بنے پھرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم یہ چاہتی ہو کہ علیحدہ کرو، یہ تمہارا ذاتی حق تو ہے لیکن یہ کوئی ایسا بڑا ایشو (issue) نہیں ہے جس کے لئے تمہارے حق میں فیصلہ دیا جائے.جہاں اسلام کی تعلیم اور عورت کی حیا کا معاملہ آیا تو وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی 119
پرده بہانے بنانے لگ جاتی ہیں.پس ایسے حالات میں احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر زیادہ محتاط ہونا چاہئے.اگر اسکولوں میں چھوٹے بچوں کے لئے بعض ملکوں میں سوئمنگ لازمی ہے تو پھر چھوٹے بچے بچیاں پورا لباس پہن کر یعنی جو سوئمنگ کالباس پورا ہوتا ہے جسے آجکل برقینی (burkini) کہتے ہیں وہ پہن کر سوئمنگ کریں.تا کہ ان کو احساس پیدا ہو کہ ہم نے بھی حیادار لباس رکھنا ہے.ماں باپ بھی بچوں کو سمجھائیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدہ سوئمنگ ہونی چاہئے.اس کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: پس یہ ہے اسلام کی تعلیم مردوں کے لئے کہ انہیں پہلے ہر طرح پابند کیا گیا ہے.پھر عورتوں کو حکم دیا ہے کہ ان احتیاطوں کے بعد بھی تم نے بھی اپنے کا خیال رکھنا ہے.اور ان ملکوں میں جہاں بالکل ہی بے حیائی ہے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پردے کی ضرورت نہیں ہے.بے حجابی اور دوستیاں بہت سی قباحتیں پیدا کر رہی ہیں ان سے بچنے کی ہمیں بہت کوشش کرنی چاہئے.اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر عورتوں کو مردوں کے ساتھ سوئمنگ کی اجازت نہیں ہے تو مردوں کو بھی نہیں ہے کہ عورتوں میں جا کر سوئمنگ کریں.پس یہ پابندیاں صرف عورت کے لئے نہیں بلکہ مرد کے لئے بھی ہیں.مردوں کو اپنی نظریں عورتوں کو دیکھ کر نیچے کرنے کا حکم دے کر عورت کی عزت قائم کی گئی ہے.پس اسلام کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے اور برائیوں کے امکانات کو دور کرتا ہے.( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 3 رفروری 2017ء) لڑکیوں کی سوئمنگ ( تیرا کی) کرنے کے بارہ میں نیشنل مجلس عاملہ لجنہ کی 120
میٹنگ میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ نے یوں بھی رہنمائی فرمائی: صرف مخصوص اوقات میں جب صرف عورتوں کا ٹائم ہو تو ایسے سوئمنگ لباس (swimming suit) میں جو پورا جسم cover کرتا ہو تو سوئمنگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں.“ ( 18 ستمبر 2010 میٹنگ مجلس عاملہ لجنہ آئر لینڈ.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 22 اکتوبر 2010ء) مغربی معاشرہ میں احمدی عورت کا لباس حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہر معاشرہ میں اور خصوصاً مغربی ممالک میں رہنے والی احمدی عورتوں کو اُن کے لباس میں حیا کے بنیادی پہلوؤں کو پیش نظر رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے ایک تفصیلی خطاب میں ارشاد فرمایا: کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف دنیا کو مرعوب کرنا اور فیشن کرنا ہوتا ہے وہ اس بنیادی مقصد کی طرف کم توجہ دیتے ہیں.اس لئے یورپ میں دیکھ لیں کہ اس مقصد کو بھلانے کی وجہ سے کہ ننگ کو ڈھانپنا ہے اس کی بجائے یہاں آپ کو عجیب عجیب قسم کے بے ڈھنگے اور ننگے لباس نظر آتے ہیں.اور پھر ان ننگے لباس کے اشتہاروں وغیرہ کی فلم بھی اخباروں میں ٹی وی وغیرہ پر آتی ہے.تو بہر حال جن لوگوں میں کچھ شرافت ہے ان کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے ننگ کو چھپایا جائے اور پھر ٹھیک ہے ظاہری طور پر فیشن بھی تھوڑا بہت کر لیا جائے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ایک احمدی عورت کا بنیادی مقصد یہی ہے اور یہی ہونا چاہئے کہ ننگ کو ڈھانپا جائے.عورت کی یہ فطرت ہے،جس طبقہ میں اور جس سوچ کی بھی ہو، ایک بات یہ ہے کہ اپنے ماحول میں دوسروں سے نمایاں نظر آنے کی خواہش ہوتی پرده 121
پرده ہے.احمدی معاشرے میں اس نمایاں ہونے کے اظہار کا اپنا طریق ہے.شاید یہاں ایک آدھ مثال کہیں ملتی ہو جہاں حیا کو زینت نہ سمجھا جاتا ہو لیکن عموماً احمدی لڑکی اور احمدی عورت اپنے لباس میں حیا کے پہلو کو مد نظر رکھتی ہے.جبکہ مغرب میں جیسا کہ میں نے کہا یہاں معاشرے میں حیا کا تصور ہی اٹھ گیا ہے اس لئے یہاں ان قوموں میں جو لباس ہے یہ یا تو موسم کی سختی سے بچنے کے لئے پہنتے ہیں یا فیشن کے لئے.اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے اور خدا کا خوف ان میں پیدا ہو.بہر حال ہم جب بات کرتے ہیں احمدی معاشرہ کی عورت کی کرتے ہیں.لیکن اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کہیں ا گاڈ کا کوئی احمدی لڑکی ان سے متاثر نہ ہو جائے.بہر حال میں ذکر کر رہا تھا کہ یہ خطرہ ہے کہ اس معاشرے کا اثر کہیں احمدیوں پر بھی نہ پڑ جائے.عموماً اب تک تو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہوا ہے شاید اکا دُکا کوئی مثال ہو اس کے علاوہ لیکن یہ جوفکر ہے یہ مجھے اس لئے پیدا ہورہی ہے کہ اس کی طرف پہلا قدم ہمیں اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے.کیونکہ اس معاشرے میں آتے ہی جو پردے کی اہمیت ہے وہ نہیں رہی.وہ اہمیت پر دے کو نہیں دی جاتی جس کا اسلام ہمیں حکم دیتا ہے.میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ احمدی عورت کو پردے کا خیال از خودرکھنا چاہئے.خود اس کے دل میں احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے کرنا ہے، نہ یہ کہ اسے یاد کروایا جائے.احمدی عورت کو تو پردے کے معیار پرایسا قائم ہونا چاہئے کہ اس کا ایک نشان نظر آئے اور یہ پردے کے معیار جو ہیں ہر جگہ ایک ہونے چاہئیں.یہ نہیں کہ جلسہ پر یا اجلاسوں پر یا مسجد میں آئیں تو حجاب اور پردے میں ہوں، بازاروں میں پھر رہی ہوں تو بالکل اور شکل نظر آتی ہو.احمدی عورت نے اگر کرنا ہے تو اس لئے کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور معاشرے 122
پرده کی بدنظر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اس لئے اپنے معیاروں کو بالکل ایک رکھیں، دوہرے معیار نہ بنائیں یہاں کی پڑھی لکھی لڑکیاں یہاں کی پرورش پانے والی لڑکیاں ان میں ایک خوبی بہر حال ہے کہ ان میں ایک سچائی ہے، صداقت ہے، ان کو اپنا سچائی کا معیار بہر حال قائم رکھنا چاہئے.یہاں نوجوان نسل میں ایک خوبی ہے کہ انہیں برداشت نہیں کہ دوہرے معیار ہوں اس لئے اس معاملے میں بھی اپنے اندر یہ خوبی قائم رکھیں کہ دوہرے معیار نہ ہوں.اپنے لباس کو ایسا رکھیں جو ایک حیا والا لباس ہو.دوسرے جو پردے کی عمر کو پہنچ گئی ہیں وہ اپنے لباس کی خاص طور پر احتیاط کریں اور کوٹ اور حجاب وغیرہ کے ساتھ اور پردے کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں.غیروں سے پردے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ دیا ہوا ہے.یہ کہیں نہیں لکھا کہ خاوندوں کے دوستوں یا بھائیوں کے دوستوں سے اگر وہ گھر میں آجائیں تو چھوڑنے کی اجازت ہے.یا بازار میں جانا ہے تو چھوڑنے کی اجازت ہے یا تفریح کے لئے پھرنا ہے تو چھوڑنے کی اجازت ہے.حیادار لباس بہر حال ہونا چاہئے اور جو پردے کی عمر میں ہے ان کو ایسالباس پہننا چاہئے جس سے احمدی عورت پر یہ انگلی نہ اٹھے کہ یہ بے عورت ہے.کام پر اگر مجبوری ہے تو تب بھی پورا ڈھکا ہوا لباس ہونا چاہئے اور حجاب ہونا چاہئے.تو جس طرح جماعتی فنکشن پر ہونا ضروری ہے عام زندگی میں بھی اتنا ہی ضروری ہے.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 30 جولائی 2005 ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11 مئی 2007ء) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے اسلامی تاریخ کی روشنی میں باحیا اور با مسلمان خواتین کے حوالہ سے احمدی خواتین کو با زندگی گزارنے کی پُرحکمت نصائح کرتے ہوئے فرمایا: 123
پرده دو پر دے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ عورت بند ہو جائے.آنحضرت علایم کے زمانے میں عورتیں جنگوں میں بھی جایا کرتی تھیں.پانی وغیرہ پلایا کرتی تھیں.دوسرے کاموں میں بھی شامل ہوتی تھیں.پھر آنحضرت عالم کی سیرت اور اسلام کے بہت سے احکام کی وضاحت اور تشریح ہمیں حضرت عائشہؓ کے ذریعہ سے ملی ہے.کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ نے آدھا دین سکھایا ہے.اس لئے روشن خیالی، تعلیم حاصل کرنا ، علم حاصل کرنا بھی بچیوں کے لئے ضروری ہے.اور ضرور کرنا چاہئے.نہ صرف اپنے لئے ضروری ہے بلکہ آئندہ ان بچوں کے لئے اور ان نسلوں کے لئے بھی ضروری ہے جو آپ کی گودوں میں پلنے اور بڑھنے اور جوان ہونے ہیں اور جنہوں نے احمدیت کی خدمت کرنی ہے.اگر مجبوری سے کسی کو کام کرنا پڑتا ہے، کسی جگہ ملازمت کرنی پڑتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.لیکن ان باتوں کا بہانہ بنا کر ، ان ملازمتوں کا، نوکریوں کا یا تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر پردے نہیں اترنے چاہئیں.اور یہاں مقامی جیسے کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ڈینش یا سویڈش شاید چند نارویجن بھی ہوں.مجھے ابھی کوئی ملی نہیں ، وہ تو کم ہیں.اس طرح پاکستانی خواتین بھی ہیں جو پڑھتی بھی ہیں، کام بھی کرتی ہیں، لیکن پردے میں.تو جو پردے کی وجہ سے کام یا پڑھائی میں روک کا بہانہ کرتی ہیں ان کے صرف بہانے ہیں.نیک نیت ہو کر اگر کہیں اس وجہ سے روک بھی ہے تو اس کو دُور کرنے کی کوشش کریں.آپ جہاں ملازمت کرتی ہیں ان کو بتائیں تو کوئی پابندی نہیں لگا تا کہ حجاب اتارو یا سکارف اتار و یا برقع اتارو.اور پھر نیک نیتی سے کی گئی کوششوں میں اللہ تعالیٰ 66 بھی مددفرماتا ہے.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17 ستمبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15 مئی 2015ء) 124
جلسہ سالانہ کے موقع پر کا خیال رکھیں پرده حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حدیقہ المہدی یو کے میں ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر پردے کا خصوصی اہتمام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: پھر خواتین گھومنے پھرنے کی بھی زیادہ شوقین ہوتی ہیں اس لیے وہ زیادہ احتیاط کریں.نہ اپنے علاقہ میں، نہ باہر پھریں.اگر اس علاقہ کو دیکھنے کی خواہش ہے، نیا علاقہ ہے، نئی جگہ ہے، بڑا وسیع رقبہ ہے، سیر کرنے اور پھرنے کو دل چاہتا ہے تو جلسہ کی کارروائی کے بعد جو وقت ہے اس میں بیشک پھریں ، جلسے کے دوران نہیں لیکن یا درکھیں کہ اس دوران بھی جب باہر نکلیں تو پردے کا ضرور خیال رکھیں.سوائے اس کے جو احمدی نہیں ، جو کسی احمدی کے ساتھ آئی غیر احمدی خواتین ہیں، ان کا تو نہیں ہوتا.احمدی خواتین بہر حال پر دے کا خیال رکھیں.ان لوگوں کو میں نے بھی دیکھا ہے، غیروں کو بھی اگر اپنے ساتھ لانے والیاں اپنی روایت کے متعلق بتائیں تو وہ ضرور لحاظ رکھتی ہیں.اکثر میں نے دیکھا ہے ہمارے فنکشنز میں سکارف، دوپٹہ یا شال وغیرہ اوڑھ کر آتی ہیں.تو یہ ان غیروں کی بھی بڑی خوبی ہے.صرف ان کو تھوڑ اسابتانے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدی خواتین بہر حال جب باہر نکلتی ہیں تو پر دے میں ہونی چاہئیں اور اگر کسی وجہ سے نہیں کرسکتیں تو پھر ایسی خواتین میک آپ وغیرہ بھی نہ کریں.سر بہر حال ڈھانپا ہونا چاہئے کیونکہ یہ خالص دینی ماحول ہے، اس میں حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان تمام باتوں پر عمل کریں جس کا ہم سے دین تقاضا کرتا ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جولائی 2006 بمقام حدیقہ المہدی مطبوع الفضل انٹرنیشنل 18 اگست 2006ء) 125
پرده " آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.لڑکے تعلق بناتے ہیں.بعض جگہ لڑکیاں trap ہو جاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے تصاویر ڈال دیتی ہیں.گھر میں ، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اس نے آگے اپنی فیس بک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیو یارک (امریکہ ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہو جاتے ہیں.“ کلاس واقفات نو 8 را کتوبر 2011ء جرمنی) 126
پرده سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا کا بے پردگی میں کردار آجکل موبائل فون اور دیگر ذرائع سے پیغامات کا تبادلہ اتنی تیز رفتاری سے ہورہا ہوتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا کوئی پیغام یا تصویر اسلامی اور اخلاقی قدروں کے بھی منافی ہو سکتی ہے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ اس حوالہ سے لجنہ اماءاللہ کے نام اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں: پھر آجکل سوشل میڈیا پر بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں.نوجوان لڑکے لڑکیاں ماں باپ کے سامنے خاموشی سے پچیٹنگ کر رہے ہوتے ہیں.پیغامات کا اور تصاویر کا تبادلہ ہور ہا ہوتا ہے.نئے نئے پروگراموں میں اکاؤنٹ بنالئے جاتے ہیں اور سارا سارا دن فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے.اس سے اخلاق بگڑتے ہیں، مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہونے لگتا ہے اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں.ان ساری باتوں پر نظر رکھنے اور انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے.اس کے لئے آپ کو ان کے لئے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی.انہیں گھر یلو کاموں میں مصروف کریں.جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لئے اور معاشرہ کے لئے مثبت اور مفید ہوں.یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجالانا ہے.“ 66 ( پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله جرمنی 10 جولائی 2016ء) 127
پرده حضور انور ایدہ اللہ نے احمدیوں کو سوشل میڈیا پر تصاویر ڈالنے اور پھر تصاویر پر اپنی آراء اور تبصروں کا بر ملا اظہار کرنے سے بھی منع فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا: آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا ایک نیا ذریعہ نکلا ہے جسے facebook کہتے ہیں.گو اتنا نیا بھی نہیں لیکن بہر حال یہ بعد کی چند سالوں کی پیداوار ہے.اس طریقے سے میں نے ایک دفعہ منع بھی کیا ہے، خطبہ میں بھی کہا کہ یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہے جو آپس کے حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں بندے کے.وہ اُن حجابوں کو توڑتا ہے، ان رازوں کو فاش کرتا ہے اور بے حیائیوں کی دعوت دیتا ہے.اس سائٹ کو بنانے والا جو ہے اُس نے خود یہ کہا ہے کہ میں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہو کر دوسرے کے سامنے آجائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہو جانا یہ ہے کہ اگرننگی تصویر بھی کوئی اپنی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے.انا للہ.اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ دیکھیں کسی کے بارے میں اس میں ڈال دیں.یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں.“ اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 26 جون 2011ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 جولائی 2015ء) ایک بچی نے سوال و جواب کی ایک نشست میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ facebook کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ یہ اچھی نہیں ہے.اس سے منع کیا تھا.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑو گے تو گنہگار بن جاؤ گے.بلکہ میں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے.آجکل جن کے پاس 128
facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.لڑکے تعلق بناتے ہیں.بعض جگہ لڑکیاں trap ہو جاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے تصاویر ڈال دیتی ہیں.گھر میں ، عام ماحول میں ، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی ، اس نے آگے اپنی فیس بک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیو یارک (امریکہ ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر گروپس بنتے ہیں مردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں.اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں.اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے.“ پرده کلاس واقفات نو 8 اکتوبر 2011ء جرمنی مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6 جنوری 2012ء) اسی طرح ایک موقع پر حضور انور ایدہ اللہ نے لڑکیوں اور لڑکوں کے سوشل میڈیا پر بے حجابانہ روابط اور بے جا آزادی کے بدنتائج سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ.یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو.اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آئے ہیں.اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں.ویب سائٹس پر ، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں.بیہودہ اور لغوقسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارہ میں جو پورنوگرافی (pornography) وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے.ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآن کریم نے چودہ سوسال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو.یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی.تمہیں خدا سے دور کر دیں گی، دین سے دُور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی..129
پرده.اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے.اور پر دے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پر دے اور حیا دار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جولڑ کے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہوگی.اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہوگی.اچھے برے کی تمیز ختم ہوگی.اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی ، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول ملالیم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا.(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات حدیث نمبر 117 ) یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بک (facebook) اور سکائپ (skype) وغیرہ سے جو پچیٹ (chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے.کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں.بڑے افسوس سے میں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کرلے گا.پس یہ قرآن کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی.پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور مخش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہوگی.پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی 130
پرده کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں.نہ ہی سکائپ (skype) اور فیس بک (facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اپنے جذبات کی رو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالی کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا 66 موجب بن جاؤ گے.“ ( خطبہ جمعہ فرموده 2 /اگست 2013ء مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 23 اگست 2013ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعد د خطابات میں معاشرہ میں بے حیائی کی بڑھتی ہوئی روش کو انسانی اخلاقیات کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے نیز اس سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے محض بصر یعنی نظروں کے نیچا کر لینے کی اسلامی تعلیم کی روشنی میں نصائح بھی فرمائی ہیں.چنانچہ اپنے ایک خطاب میں فرمایا: جیسا کہ میں نے کہا لباس بے حیائی والا لباس ہوتا چلا جارہا ہے.پھر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دیے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی نظر اس پر پڑ جاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے.یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی زینت کے نام پر بے حیائی کی اشتہار بازی ہے.“ (خطاب از مستورات جلسه سالانہ جرمنی 29 جون 2013ء بمقام کا لسروئے.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 18 اکتوبر 2013ء) 66 131
پرده سوشل میڈیا کا مثبت استعمال نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ آئرلینڈ کے اجلاس میں بچوں کی تربیت میں والدین کی فرمہ داری کے حوالے سے کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں تعلیم کے حصول میں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لڑکے لڑکیوں سے دوستی نہ کریں اور ایک دوسرے سے صرف ضرورت کے تحت ہی بات کریں chat،facebook،sms اور فون کالز (phone calls) سے اجتناب کریں.ماں باپ کو ہدایت کریں کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں.ہر وقت کمپیوٹر اور موبائل فون ہاتھ میں رکھنا مناسب نہیں.جو مائیں کمپیوٹر نہیں جانتیں وہ سیکھ لیں تا کہ بچوں پر نظر رہے“.66 میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ آئر لینڈ 18 ستمبر 2010 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 22 اکتوبر 2010ء) سوشل میڈیا کی بے حیائیوں سے بچاتے ہوئے اپنے بچوں کی عمدہ تربیت کرنے کے حوالہ سے احمدی ماؤں اور احمدی بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”پھر لغو باتیں ہیں.ان لغو باتوں کے لئے میں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں.وہ تو کرتی ہیں اُن کو اس سے روکنا ہی ہے لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کے لئے جو ٹی وی اور انٹر نیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہو چکا ہے.اگر آپ لوگ سارا دن ایسے پروگرام دیکھ رہی ہیں جس میں کوئی تربیت نہیں ہے تو یہ لغویات ہے.انٹرنیٹ جو ہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں 132
پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آسکتیں اور بے حیائی پھیلتی چلی جاتی ہے.بعض دفعہ ایسے معاملات آجاتے ہیں کہ غلط قسم کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی جال میں پھنسا لیا اور پھر اُن کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں.اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بیچنے کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں.ٹی وی پر بے حیائی کے بہت سارے پروگرام ہیں.ایسے چینل والدین کو بھی بلاک (block) کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں.ایسے مستقل لاک (lock) ہونے چاہئیں اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں تو بیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون.اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ واری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں.آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو.پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے.6 ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17 ستمبر 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 نومبر 2012ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کی ممبرات کو تبلیغ کے حوالے سے جو نصائح فرمائیں اُن میں بھی پردے کی روح کو قائم رکھنے کی تلقین فرمائی.چنانچہ حضور انور نے ایک موقع پر فرمایا: لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں.لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے پرده 133
پرده چاہئیں.بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں.مردوں کا جو تبلیغ کا ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.کہا تو یہی جارہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح حصہ.بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے.پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے ، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں.اپنے بارے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا.( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا 15 / اپریل 2006 ء.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 12 جون 2015ء) احمدی والدین اور بچوں کو چاہئے کہ میڈیا کے بداثرات کو قبول کرنے کی بجائے اس کے مثبت اور نیک اثرات سے فائدہ اٹھا کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں.اس حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: پس جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں اور کسی ایک ملک کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کا یہ حال ہے.میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور بد قسمتی سے نیکیوں میں قریب کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے چلنے میں زیادہ قریب کر دیا ہے.ایسے حالات میں ایک احمدی کو بہت زیادہ بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے عطا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے روحانی علمی پروگراموں کے لئے ویب سائٹ بھی عطا فرمائی ہے.اگر ہم اپنی زیادہ توجہ اس طرف کریں تو پھر ہی ہماری توجہ اس طرف رہے گی جس سے ہم 134
اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے والے ہوں گے اور شیطان سے بچنے والے ہوں گے.“ ( خطبه جمعه فرموده 20 رمئی 2016ء مسجد ناصر، گوٹن برگ، سویڈن مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 10 جون 2016ء ) اسی طرح جماعت احمد یہ برطانیہ کی ایک مجلس شوری کے اختتامی خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اراکین شوریٰ کو ایم ٹی اے سے زیادہ سے زیادہ مستفیذ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایک اور بات جس کی طرف میں عہد یداران اور نمائندگان مجلس شوری کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انہیں اور ان کے افراد خانہ کو، جتنا زیادہ سے زیادہ ممکن ہو سکے، ایم ٹی اے سے استفادہ کرنا چاہئے.بلکہ آپ لوگ دیگر دوستوں کو بھی ایم ٹی اے سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کریں.ابتدائی طور پر آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ایم ٹی اے پر اپنی دلچسپی کے پروگرامز دیکھنے کے لئے مخصوص کرلیں.مثلاً ایسے دوست جو انگریزی پروگرام سننا پسند کرتے ہیں ان کے لئے بعض بہت عمدہ انگریزی پروگرامز ہیں جو روزانہ کی بنیادوں پر ایم ٹی اے سے نشر کئے جاتے ہیں.انہیں وہ پروگرامز با قاعدگی سے دیکھنے چاہئیں.سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہونے والا خطبہ جمعہ با قاعدگی سے سنیں.اور دیگر ایسے پروگرامز بھی دیکھیں جن میں میری شمولیت ہوتی ہے جیسا کہ غیر مسلموں سے خطابات ہیں، جلسہ پر کی جانے والی میری تقریریں ہیں یا دیگر مجالس وغیرہ.ان پروگرامز کو دیکھنا انشاء اللہ آپ لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا اور اسی مقصد سے آپ لوگوں کو یہ پروگرامز دیکھنے چاہئیں.“ اردو ترجمه اختتامی خطاب مجلس شوری یو کے 2013ء بمقام لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 25 /اکتوبر 2013ء) پرده 135
پرده پس اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر یہودہ بات کو سکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہوگا.حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا.پانچ چھ سات سال کی عمر 66 سے کیا پیدا کرنا شروع کرنا چاہیئے.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 8 اکتوبر 2016, 136
پرده احمدی عورت کی ذمہ داریاں احمدی مائیں اپنی بچیوں میں کا احساس پیدا کریں احمدی بچیوں کی تربیت میں ماؤں کے کردار کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو بچیوں میں چھوٹی عمر سے ہی حیا کا احساس دلانے کی طرف تو جہ دلائی ہے تا کہ اس کے نتیجہ میں بڑے ہو کر وہ حیادارلباس کی طرف مائل رہیں.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پر دے اور حیا کا تصور پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے.حیا دار حجاب کی جھجک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دُور کرنا چاہئے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دُور کرنا چاہیئے اگر اس کی عمر ایسی ہے.مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہوگا.پس اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہوگا.حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا.پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے.پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں.اسی عمر میں 137
پرده حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے.بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئے کہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں.کیا اسی سے اسلام پر عمل ہوگا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے.یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 8 اکتوبر 2016ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17 مارچ 2017ء) اپنے دورہ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے لجنہ اماءاللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں تربیت اور کے حوالے سے نہایت اہم ہدایات ارشاد فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: امریکہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ کس طرح 12 سال کی لڑکیوں کو حجاب کی طرف مائل کریں.میں نے انہیں بتایا تھا کہ بچے کی تربیت تو اس کی پیدائش سے شروع ہو جاتی ہے.پیدائش کے بعد کانوں میں اذان دی جاتی ہے.پھر تین سال کی عمر سے بچے کو ایسا لباس پہنائیں کہ احساس ہو کہ ڈھکا ہوالباس ہے.تو پھر یہی لباس عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آگے چلے گا اور بچیاں بڑی عمر میں جا کر بھی ایسا ہی لباس پہنیں گی جو سارے جسم کو ڈھانپ رہا ہوگا.کیونکہ بچپن سے اس کی عادت آپ نے ڈالی ہوگی.لیکن اگر چھوٹی عمر میں ایسالباس پہنایا ہے جس سے جسم ڈھکا ہوا نہیں ہے اور پھر بعد میں بھی بچی اسی طرح کا لباس پہنتی رہے گی جس سے جسم پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوگا تو پھر 11-12 سال کی عمر میں کہے گی کہ یہی میرا لباس ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "جینز کے بارہ میں مجھ سے سوال کیا جاتا ہے.میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ جین پہننا منع نہیں ہے بشرطیکہ قمیص اتنی لمبی ہو کہ تنگ ڈھانپا ہوا ہو.جین کے ساتھ چھوٹی قمیص پہننے کی اجازت نہیں ہے.“ 138
پھر فرمایا: اتنی شرم و حیا ہونی چاہئے کہ لباس مکمل ہوا اور ننگ نہ ہو.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کا ذکر فرمایا جس کا بیان قرآن کریم کی سورۃ القصص میں ہوا ہے کہ جب آپ مدین کے پانی کے گھاٹ پر پہنچے اور دو عورتوں کے جانوروں کو پانی پلایا تو بعد میں ان میں سے ایک تمشی عَلَی اِسْتَحْيَاءِ ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حیا سے بجاتی ہوئی آئی.حضور انور نے فرمایا : ”اصل حیاہی ہے.یہ ماؤں کا فرض ہے کہ بچیوں کی تربیت کریں اور ان کے ذہنوں میں ڈالیں اور ان کو بتائیں کہ یہ نقصانات ہیں اور پرده یہ فوائد ہیں.“ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ مجنہ اماءاللہ جرمنی 18 دسمبر 2009, مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29 جنوری 2010ء) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی ماؤں کو تربیت اولاد کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کرنے کی تربیت دیں.حضور انور نے ارشاد فرمایا: ”جو مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لباس کا خیال نہیں رکھیں گی وہ بڑے ہو کر بھی ان کو سنبھال نہیں سکیں گی.بعض بچیوں کی اُٹھان ایسی ہوتی ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر کی بچی بھی چودہ پندرہ سال کی لگ رہی ہوتی ہے.ان کو اگر حیا اور لباس کا تقدس نہیں سکھائیں گی تو پھر بڑے ہو کر بھی ان میں یہ تقدس کبھی پیدا نہیں ہوگا.بلکہ چاہے بچی بڑی نہ بھی نظر آرہی ہو، چھوٹی عمر سے ہی اگر بچیوں میں حیا کا یہ مادہ پیدا نہیں کریں گی اور اس طرح نہیں سمجھائیں گی کہ دیکھو تم احمدی ہو، تم یہاں کے لوگوں کے ننگے لباس کی طرف نہ جاؤ تم نے دنیا کی رہنمائی کرنی ہے ہم نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس لئے تنگ جینز اور اس کے اوپر 139
پرده چھوٹے بلاؤز جو ہیں ایک احمدی بچی کو زیب نہیں دیتے.تو آہستہ آہستہ بچپن سے ذہنوں میں ڈالی ہوئی بات اثر کرتی جائے گی اور بلوغت کو پہنچ کر حجاب یا سکارف اور لمبا کوٹ پہنے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہو جائے گی.ورنہ پھر ان کی یہی حالت ہوگی جس طرح بعض بچیوں کی ہوتی ہے.مجھے شکایتیں ملتی رہتی ہیں دنیا سے اور یہاں سے بھی کہ مسجد میں آتے ہوئے ، جماعتی فنکشن پر آتے ہوئے تو سر ڈھکا ہوا ہوتا ہے، لباس بڑا اچھا پہنا ہوا ہوتا ہے اور باہر پھرتے ہوئے سر پر دوپٹہ بھی نہیں ہوتا بلکہ دو پٹہ سرے سے غائب ہوتا ہے، سکارف کا تو سوال ہی نہیں.پس مائیں اگر اپنے عمل سے بھی اور نصائح سے بھی بچیوں کو توجہ دلاتی رہیں گی ، یہ احساس دلاتی رہیں گی کہ ہمارے لباس حیادار ہونے چاہئیں اور ہمارا ایک تقدس ہے تو بہت سی قباحتوں سے وہ خود بھی بچ جائیں گی اور ان کی بچیاں بھی بچ جائیں گی.اگر ہم اپنے جذبات کی چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو بڑی بڑی قربانیاں کس طرح دے سکتے ہیں.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 28 جون 2008ء.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 15 جولائی 2011ء) حدیث مبارکہ میں ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دیئے جانے کے انعام کا ذکر ہے لیکن اس حوالہ سے ماؤں پر بچوں کی عمدہ تربیت کی ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: احمدی ماؤں کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ اللہ تعالی پر کامل ایمان اور اُس کو راضی کرنے کے لئے ہر کوشش اُس کی اولین ترجیح ہو اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک احمدی مائیں بھی اپنے آپ کو ایمان کے اعلیٰ معیار تک لے جانے کی کوشش نہیں کریں گی.ماؤں کے قدموں میں جو جنت رکھی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ جہاں اُن کا اپنا ایمان اور 140
خشیت اللہ بلندیوں پر ہو وہاں اُن کی نیک تربیت سے ان کے بچوں کے ایمان بھی ترقی پذیر ہوں ورنہ ہر ماں تو جنت کی خوشخبریاں دینے والی نہیں ہے.پس ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو یاد کریں کہ میں ایمانوں کو مضبوط کرنے آیا ہوں.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 25 جولائی 2009ء - مطبوعہ المفضل انٹرنیشنل 21 جون 2013ء) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں فیشن اور بے حیائی کے باہمی تعلق کے منفی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے والدین کو بچیوں میں حیا پیدا کرنے اور کروانے کے حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: لباس کے ننگ کے ساتھ ہی ہر قسم کی بے ہودگی اور ننگ کا احساس ختم ہوجاتا ہے.ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بچیاں ہیں.فیشن کرنے کا شوق ہے، کرلیں کیا حرج ہے.ٹھیک ہے فیشن کریں لیکن فیشن میں جب لباس ننگے پن کی طرف جارہا ہو تو وہاں بہر حال روکنا چاہئے.فیشن میں برقع کے طور پر جو کوٹ پہنا جاتا ہے وہ بھی اس قدر تنگ ہو کہ مردوں کے سامنے جانے کے قابل نہ ہو تو وہ فیشن بھی منع ہے.یہ فیشن نہیں ہوگا پھر وہ بے حیائی بن جائے گی.پھر آہستہ آہستہ سارے حجاب اُٹھ جائیں گے اور اسلام حیا کا حکم دیتا ہے.پس اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں.فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں ان کا بھی خیال رکھیں.فیشن کا اظہار اپنے گھر والوں اور عورتوں کی مجلسوں میں کریں.بازار میں اور باہر اور ایسی جگہوں پر جہاں مردوں کا سامنا ہو وہاں فیشن کے یہ اظہار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس سے بلاوجہ کی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہو سکے.“ 66 ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ جرمنی 11 جون 2006ء - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 19 جون 2015ء) پرده 141
پرده حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ احکامات پر عمل کرنا ہی اپنی آئندہ نسلوں کو دنیا کی لغویات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت قرار دیتے ہوئے فرمایا: دوا پس یہ احمدی ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، انہیں پیار سے سمجھاتی رہیں اور بچپن سے ہی ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم احمدی بچی یا بچہ ہو جس کا کام اس زمانے میں ہر برائی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور احمدی بچیاں بھی جو اپنی ہوش کی عمر کو پہنچ گئی ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ حضرت مسیح موعود کی جماعت سے منسوب ہوتی ہیں جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرنا ہے.اگر آپ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چل رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہے.ورنہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل رہنے کا کیا فائدہ.آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں.اگر ان بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ ماریشس 3 دسمبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29 مئی 2015ء) لڑکیوں اور لڑکوں کے بے حجابانہ میل جول کے نتیجہ میں کئی قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں.اس حوالہ سے ماؤں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک عمر کے بعد بچیاں اپنے کلاس فیلو اور اسکول فیلولڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں.جب بھی ضرورت ہو ایک حجاب کے اندر رہتے ہوئے بات ہونی چاہئے.لڑکیاں خود بھی اس بات کا خیال رکھیں اور ماں باپ بھی خاص طور پر مائیں اس بات کی نگرانی کریں کہ ایک عمر کے بعد لڑ کی اگر دوسرے گھر میں جاتی ہے تو محرم رشتوں کے ساتھ جائے اور خاص طور پر جس گھر میں کسی سہیلی کے بھائی موجود ہوں 142
کسی وقت ، تو خاص طور پر ان اوقات میں ان گھروں میں نہیں جانا چاہئے.پھر بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی احساس نہیں دلایا جاتا تو جو کلاس فیلولر کے ہوتے ہیں گھروں میں بڑی عمر تک آتے چلے جاتے ہیں.اللہ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرے میں ایسی برائیاں بہت اکا دُکا شاذ ہی کہیں ہوتی ہیں.اکثر بچ رہے ہیں لیکن اگر اس کو کھلی چھٹی دیتے چلے گئے تو یہ برائیاں بڑھنے کے امکانات ہیں.رشتے برباد ہونے کے امکانات ہیں.لڑکیوں نے اگر اس معاشرے میں تفریح کرنی ہے تو ہر جگہ پر اس کا سامان کرنالجنہ کا کام ہے.پھر مسجد کے ساتھ یا نماز سینٹرز کے ساتھ کوئی انتظام کریں جہاں احمدی بچیاں جمع ہوں اور اپنے پروگرام کریں.اگر بچپن سے ہی بچیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنی شروع کر دیں گی کہ تمہارا ایک تقدس ہے اور اس معاشرے میں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ ہے تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو تو اس لئے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو جو تمہارے اور تمہارے خاندان کے اور جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث بنے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے الا ما شاء اللہ تمام بچیاں اس بات کو سمجھتے ہوئے نیکی کی راہ پر قدم مارنے والی ہوں گی.“ ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جر منی 11 / جون 2006 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19 جون 2015ء) اسی طرح موجودہ زمانے میں حیا کے گرتے ہوئے معیار کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے احمدی بچوں اور بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : آجکل کے معاشرے میں جو برائیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کرتی ہیں.پس ہر احمدی لڑکی، لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پرده 143
پرده کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ جینز اور بلاؤ زنہیں پہن سکتیں؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی.ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے.اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 / فروری 2017 ء ) احمدی بچی کی آزادی کی حدود اور کا معیار اسلام نے عورت کو دین و دنیا میں ترقیات کے لئے اُن کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یکساں مواقع فراہم کئے ہیں.چنانچہ کی پابندی اور حیادار لباس کے استعمال کے ساتھ ایک احمدی بچی کو ملنے والی آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اسی طرح جو جوان بچیاں ہیں ان سے بھی میں کہوں گا کہ اگر بعض بچیوں کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم کیوں بعض معاملات میں آزاد نہیں ہیں ؟ تو وہ ہمیشہ یہ یا درکھیں کہ آپ آزاد ہیں لیکن اپنی آزادی کو اُن حدود کے اندر رکھیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے مقرر کی ہیں.اگر آزادی یہاں کے معاشرے کی بے حجابی کا نام ہے تو یقیناً ایک احمدی بچی آزاد نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی آزادی کے پیچھے جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اُن کے اندر رہتے ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ 144
پرده کے کلام سے ظاہر ہے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتا ہے.حدیث شریف میں آتا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب الحياء من الايمان حدیث نمبر 24) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پاتا ہے بشرطیکہ تم مومن ہو ، تمہارے میں ایمان ہو.پس ہر احمدی بچی کو اگر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے عملوں کی نیک جزا چاہتی ہے تو اپنی حیا کی بھی حفاظت کرنی ہوگی.ایک احمدی بچی کا لباس بھی حیا دار ہونا چاہیئے نہ کہ ایسا کہ لوگوں کی آپ کی طرف توجہ ہو.ایسے فیشن نہ ہوں جو غیروں کو غیر مردوں کو آپ کی طرف متوجہ کریں.مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض عورتوں نے ایسے برقعے بھی پہنے ہوتے ہیں، بعضوں نے شروع کر دیتے ہیں جس پر بڑی خوبصورت کڑھائی ہوئی ہوتی ہے اور پھر پیٹھ پر ،back میں کچھ الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں.اب بتائیں یہ کونسی قسم کا ہے.پردے کا مقصد دوسروں کی توجہ اپنے سے ہٹانا ہے.یہ احساس دلانا ہے کہ ہم حیادار ہیں لیکن اگر برقعوں پر گوٹے کناری لگے ہوئے ہوں اور توجہ دلانے والے الفاظ لکھے ہوئے ہوں تو یہ نہیں ہے، نہ ایسے برقعوں کا کوئی فائدہ ہے.پھر جہاں تک میک آپ کا سوال ہے اگر میک آپ کرنا ہے تو پھر جب باہر نکلیں چہرہ کو بھی مکمل طور پر پھر ڈھانکیں.پھر یہ صرف ماتھے کا اور ٹھوڑی کا حجاب نہیں.پھر پورا نقاب ہونا چاہئے.کوٹ گھٹنوں سے نیچے ہونے چاہئیں.یہ بھی دیا کا حصہ ہے.اگر آپ نے ٹراؤزر (trouser) یا جین (jean) پہننی ہے تو قمیص لمبی ہونی چاہیئے.بعض لڑکیاں سمجھ لیتی ہیں کہ گھر میں چین کے اوپر ٹی شرٹ پہن لیا یا چھوٹا بلاؤز پہن لیا تو ایسا کوئی فرق نہیں پڑتا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے.گھر سے باہر نکلتے ہوئے لمبا کوٹ پہن لیا.جبکہ گھر میں اپنے باپ بھائیوں کے سامنے 145
پرده بھی ایسالباس پہننا چاہئے جو حیادار ہو، مناسب ہو.بیشک اللہ تعالیٰ نے اُن سے نہ کرنے کا کہا ہے لیکن حیا کو بہر حال ایمان کا حصہ قرار دیا ہے.پھر گھر میں کسی وقت بھی کوئی عزیز رشتے دار بھی بعض دفعہ آ جاتا ہے، اپنے باپ بھائیوں کے سامنے بھی اچانک کوئی آ جاتا ہے تو سامنے ہونا پڑتا ہے اور ایسالباس پھر اُن کے سامنے مناسب نہیں ہوتا.اس لئے گھر میں بھی اپنا لباس جو ہے حیادار رکھنا چاہیئے.بیشک حجاب کی ضرورت نہیں ہے، سر ننگا پھر سکتی ہیں.لیکن تب بھی لباس ایسا ہونا چاہئے جو بہر حال حیادار ہو.اس لئے ہمیشہ یادرکھیں کہ آپ نے اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے تا کہ ایمان کی حفاظت ہو اور پھر اس دعویٰ کی سچائی بھی ثابت ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومن کی نشانی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اُس کے احکام پر عمل ہو اور حیا دار لباس گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی پہنیں.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.حیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد آپ کو کوئی نہیں روکتا کہ آپ ڈاکٹر بنیں، یا انجینئر بنیں یا ٹیچر بنیں یا کسی بھی ایسے پیٹے میں جائیں جو انسانیت کے لئے فائدہ مند پیشہ ہے.آپ اس کے ساتھ بالکل آزاد ہیں.پس ہر احمدی بچی کا ایک تقدس ہے، اُس کا خیال رکھنا ضروری ہے.یہ اپنے تقدس کا خیال اور حیا کا اظہار ہی ہے جو آپ کو نیکیوں کی تلقین کرنے والا اور برائیوں سے روکنے والا بنائے گا.آپ کے اپنے نمونے آپ کو دوسروں کے لئے ، اپنی سہیلیوں کے لئے توجہ کا باعث بنا ئیں گے.جس سے آپ کے لئے تبلیغ کے راستے کھلیں گے ، خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 2 جون 2012ء مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 26 اکتوبر 2012ء) 146
اسی ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو معاشرتی خوف کے نتیجہ میں ایمانی کمزوری کے اظہار اور قرآنی احکامات پر عمل نہ کرنے پر اجر اور ثواب سے محروم رہ جانے والے پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: پس ان لوگوں ( اس معاشرہ) کی باتوں سے کبھی کوئی نوجوان بچی خوفزدہ نہ ہو.نہ ہی کسی قسم کی شرم کی ضرورت ہے.قرآن کریم ایک کامیل کتاب ہے اور اس کا ہر حکم فطرت کے عین مطابق ہے.اور اس کا اب تک اصلی حالت میں رہنا اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا ایک ثبوت ہے...لیکن اگر اللہ تعالی کے احکامات کو اس لئے نہیں بجالا رہی کہ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، پر دے اس لئے اتر رہے ہیں کہ لوگ ہمیں گھورتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں تو پھر یہ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے اور نہ ہی اس کا خوف ہے ، نہ اللہ تعالیٰ سے محبت ہے.اگر بعض فیشن آپ اس لئے کر رہی ہیں کہ یہاں کا معاشرہ یہ پسند کرتا ہے کہ گھٹنوں سے اونچے اونچے او ٹنگے کوٹ جو ہیں وہ پہن لئے یا تنگ کوٹ پہن لئے جس کا کوئی فائدہ نہیں.اُس سے بے پردگی ہوتی ہے اور اس سے آپ کے جسموں کی نمائش ہورہی ہے تو یہ ایمان کی کمزوری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے محبت میں کمی ہے.اللہ تعالی تو اپنے بندے کو ہر نیکی کے بدلے میں دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب پہنچانا چاہتا ہے.اور ہم دنیا کے خوف یا دنیا کی محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکامات نہ بجالا کر اس ثواب سے محروم ہو رہے ہیں اور اب یہ صورتحال ہے تو پھر دیکھیں یہ کس قدر گھاٹے کا سودا ہے.پس اگر جائزہ لیں تو انسان ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کر کے ان اجروں سے محروم ہو رہا ہے جو خدا تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے اور مغربی سوچ کے زیر اثر یہ سب کچھ ہورہا ہے.“ خطاب از مستورات جلسه سالانہ جرمنی 15 / اگست 2009، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 رمئی 2014 ء ) پرده 147
پرده خواتین احساس کمتری کے بجائے جرات سے کام لیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں احساس کمتری کو ترک کرتے ہوئے جرات کے ساتھ جیسے اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اب یہاں یہ بہانے بنائے جاتے ہیں کہ یورپ میں کرنا بہت مشکل ہے.یہ بالکل غلط بات ہے.میں سمجھتا ہوں یہ ایک طرح کاcomplex ہے اور عورتوں کے ساتھ مردوں کو بھی ہے.تم اپنی تعلیم چھوڑ کر خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی بجائے معاشرے کو خوش کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہو.بلکہ اس معاشرے میں بھی سینکڑوں، ہزاروں عورتیں ہیں جو کرتی ہیں، ان کو زیادہ عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے بہ نسبت نہ کرنے والیوں کے.اور معاشرتی برائیاں بھی ان میں اور ان کی اولادوں میں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں جو نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے.بعض دفعہ بہت ہی بھیانک صورت حال سامنے آجاتی ہے.“ (خطاب برموقع سالن اجتماع لجنہ اماءاله یو کے 19 اکتوبر 2003, مطبوعہ الفض انٹرنیشنل 17 اپریل 2015ء) اسی ضمن میں حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خصوصاً پاکستان اور بھارت سے حال ہی میں مغربی ممالک میں آنے والی احمدی مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کے احساس کمتری سے نجات حاصل کر کے اپنے پردوں کی حفاظت کریں.چنانچہ فرمایا: ”آج کل میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان سے جو سائلم حاصل کر کے یہاں آنے والی بعض جلسے پر آنے والی عورتیں بھی میں نے دیکھا ہے پتہ نہیں کس احساس کمتری کے تحت ائر پورٹ سے نکلتے ہی نقاب اتار دیتی ہیں اور جو دوپٹے اور 148
سکارف لیتی ہیں وہ بہر حال اس قابل نہیں ہوتے اس سے صحیح طور پر ہو سکے.تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ سر سے ڈھلک رہا ہوتا ہے.پھر میک آپ بھی کیا ہوتا ہے اگر ایک عورت مثلاً ڈاکٹر یا کسی اور پیشے میں ہے اور اپنے پیشے کے لحاظ سے ہر وقت نقاب سامنے رکھنا مشکل ہے تو وہ تو ایسا سکارف لے سکتی ہے جس سے چہرے کا زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور اس کے کام میں بھی روک نہ پڑے لیکن ایسی صورت میں پھر بھر پور میک اپ بھی چہرے کا نہیں ہونا چاہئے.لیکن ایک عورت جو خانہ دار خاتون ہے پاکستان سے کرتی یہاں آتی ہے یہاں آ کر نقاب اتار دیں اور میک اپ بھی کریں تو یہ عمل کسی طرح بھی صالح عمل نہیں کہلا سکتا.ایسی عورت کے بارے میں یہی سوچا جاسکتا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بجائے دنیا کو دین پر مقدم کر رہی ہے.ماحول سے متاثر زیادہ ہو رہی ہے بلکہ بعض دفعہ شرم آتی ہے یہ دیکھ کر کہ یہاں یورپ کے ماحول میں پلی بچیاں جو ہیں عورتیں جو ہیں وہ ان پاکستان سے آنے والی عورتوں سے زیادہ بہتر کر رہی ہوتی ہیں.ان لوگوں سے جو پاکستان سے یا ہندوستان سے آئی ہیں ان کے لباس اکثر کے بہتر ہوتے ہیں وہاں جو برقع پہن رہی ہوتی ہیں اگر تو وہ مردوں کے حکم پر اتار رہی ہوتی ہیں تب بھی غلط کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کے خلاف مردوں کے کسی حکم کو ماننے کی ضرورت نہیں.اور اگر یہ عورتیں خود ایسا کر رہی ہیں تو مردوں کے لئے بھی قابل شرم بات ہے ان کو تو انہیں کہنا چاہئے تھا کہ تمہارا ایک احمدی عورت کا تقدس ہے اس کی حفاظت کرو نہ کہ اس کے پردے اتر واؤ.پس ہر قسم کے کمپلیکس سے آزاد ہو کر مر دوں اور عورتوں دونوں کو پاک ہو کر یہ عمل کرنا چاہئے اور اپنے پردوں کی حفاظت کریں.ایسی عورتیں اور ایسے مردوں کو پرده 149
پرده اس بات سے ہی نمونہ پکڑنا چاہئے کہ غیر مذاہب سے احمدیت میں داخل ہونے والی عورتیں تو اپنے لباس کو حیادار بنارہی ہیں.جن کے لباس اترے ہوئے ہیں وہ اپنے ڈھکے ہوئے لباس پہن رہی ہیں اور احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور آپ اس حیادار لباس کو اتار کر ہلکے لباس کی طرف آرہی ہیں.جو آہستہ آہستہ بالکل بے کر دے گا.بجائے اس کے دین کے علم کے آنے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں ترقی ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے بڑھ کر پابندی ہو اس سے دور ہٹنا سوائے اس کے دوبارہ جہالت کے گڑھے میں گرادے اور کچھ نہیں ہوگا.پھر ایک حکم کے بعد دوسرے حکم پر عمل کرنے میں سستی پیدا ہوگی پھر نسلوں میں دین سے دوری پیدا ہوگی جیسا کہ پہلے ہی میں بتا آیا ہوں اور پھر اس طرح آہستہ آہستہ نسلیں بالکل دین سے دور ہٹ جاتی ہیں اور برباد ہورہی ہوتی ہیں.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 29 جولائی 2006 ء.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 26 جون 2015ء) اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یہ جو چھوڑنے والی ہیں ان میں ایک طرح کا احساس کمتری ہے.احمدی عورت کو تو ہر طرح کے احساس کمتری سے پاک ہونا چاہیئے.کسی قسم کا complex نہیں ہونا چاہئے.اگر کوئی پوچھتا بھی ہے تو کھل کر کہیں کہ ہمارے لئے اور حیا کا اظہار ایک بنیادی شرعی حکم ہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ جن عورتوں کو کوئی complex نہیں ہوتا، جو کرنے والی عورتیں ہیں اس مغربی ماحول میں بھی اسی پردے کی وجہ سے اُن کا نیک اثر پڑ رہا ہوتا ہے، ان کو اچھا سمجھا جارہا ہوتا ہے.اس لئے یہ احساس کمتری اپنے دل سے نکال دیں کہ پردے کی وجہ سے کوئی آپ پر انگلی اُٹھا رہا ہے.اپنی ایک پہچان رکھیں.افریقہ میں میں نے دیکھا ہے جہاں لباس نہیں تھا اُنہوں نے لباس پہنا اور پورا ڈھکا ہوا لباس پہنا اور 150
بعض کرنے والی بھی ہیں ، نقاب کا پر وہ بھی بعضوں نے شروع کر دیا ہے.یہاں بھی ہماری ایفرو امریکن بہنیں جو بہت ساری امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کا ایسا اعلیٰ پر دہ تھا کہ قابل تقلید تھا، ایک نمونہ تھا بلکہ کل ملاقات میں میں نے اُن کو کہا بھی کہ لگتا ہے کہ اب تم لوگ جو ہو تم پاکستانیوں کے لئے پر دے کی مثالیں قائم کرو گے یا جو انڈیا سے آنے والے ہیں اُن کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے.اس پر جس طرح انہوں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ یقیناً ایسا ہی ہوگا تو اس پر مجھے اور فکر پیدا ہوئی کہ پرانے احمدیوں کے بے پردگی کے جو یہ نمونے ہیں یقیناً نئی آنے والیاں وہ دیکھ رہی ہیں جبھی تو یہ جواب تھا....اور یہ بھی بتا دوں کہ بچیاں اس وقت تک پردے نہیں کریں گی جب تک آپ اپنے نمونے اُن کے سامنے قائم نہیں کریں گی ، مائیں ان کے سامنے اپنے نمونے قائم نہیں کریں گی.پس اگر آپ نے جماعت کا بہترین مال بننا ہے خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اُس کی پناہ میں لانا ہے، اُس کو اپنا ولی اور دوست بنانا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھنا ہے، اپنے بچوں اور بچیوں کو اس معاشرے کے گند سے بچانا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی تعمیل کرنی ہوگی اس پر بھی عمل کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے اور آپ لوگ ہر معاملے میں وہ نمونے قائم کرنے والی بن جائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 مارچ 2007ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیا کے احساس کو قائم رکھنے کے اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: عورتوں کے لئے بھی میں ایک مثال دوں گا.اور حیا کی حالت ہے.پرده 151
پرده اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے.آسٹریلیا میں مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض بڑی عمر کی عورتوں نے جو پاکستان سے وہاں آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے پاس نئی نئی گئی تھیں، اپنی بچیوں کو یہ دیکھ کر کہ نہیں کرتیں انہیں پردے کا کہا کہ کم از کم حیا دار لباس پہنو، سکارف لو تو ان کی لڑکیوں میں سے بعض جوایسی ہیں کہ نہ کرنے والی ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ یہاں کرنا بہت بڑا جرم ہے اور آپ بھی چھوڑ دیں تو مجبوراً ان عورتوں نے بھی جو کا کہنے والی تھیں، جن کو ساری عمر پر دے کی عادت تھی اس خوف کی وجہ سے کہ جرم ہے، خود بھی چھوڑ دیا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے، نہ جرم ہے.کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ دیتا ہے.صرف فیشن کی خاطر چند نوجوان عورتوں اور بچیوں نے پر دے چھوڑ دیتے ہیں.پاکستان سے شادی ہو کر وہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبر دستی پر دہ چھڑوا دیا گیا تھا.یا ماحول کی وجہ سے میں بھی کچھ اس دام میں آگئی اور چھوڑ دیا.اب میں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت میں نے برقع پہنا ہوا تھا، تو اس وقت سے میں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب میں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں.اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا.تو پر دے اس لئے چھٹ رہے ہیں کہ اس حکم کی جو قرآنی حکم ہے، بار بار ذہن میں جگالی نہیں کی جاتی.نہ ہی گھروں میں اس کے ذکر ہوتے ہیں.پس عملی اصلاح کے لئے بار بار برائی کا ذکر ہونا اور نیکی کا ذکر ہونا ضروری (خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 2013ء مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10 جنوری 2014ء) 152
اپنے خطابات اور خطبات کے علاوہ اپنے پیغامات میں بھی حضور انور ایدہ اللہ نے پردے کی روح کو قائم کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کی جانب خواتین کو توجہ دلائی ہے.چنانچہ ایک موقع پر تحریر فرمایا: م اگر کوئی عورت پردے کی پرواہ نہیں کرتی اور یورپ کی نقالی میں ان سے مشابہت والا لباس پہن کر اور ان جیسا فیشن اختیار کر کے خود کو روشن خیال اور ترقی پسند ظاہر کرتی ہے تو یہ غلط سوچ ہے.یادرکھیں اسلام آپ کی خیر خواہی اور تحفظ کا حقیقی ضامن ہے.اس نے کی تعلیم عورتوں کو کسی مشکل میں ڈالنے یا احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لئے نہیں دی.وہ اس کے ذریعہ عورت کی عفت اور عزت قائم کرنا چاہتا ہے.پس اسے اپنے لئے بوجھ نہ سمجھیں.یہ نہ سوچیں کہ اس لوگ آپ کو جاہل سمجھیں گے.آپ نے اللہ کو خوش کرنا ہے.دنیا کے فیشن کو نہ دیکھیں اور پردے کا اس کی شرائط کے مطابق خیال رکھیں.“ 66 ( پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله جرمنی 2017ء.مطبوعہ سالانہ رپورٹ 2017-2016 لجنہ اماءاللہ جرمنی ) ہدایت پر قائم رہنے کے لئے دعا کی تلقین ہر قسم کے شیطانی اثرات سے بچنے اور نیکی کی راہ پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزارنے کے لئے دعا بہت اہمیت رکھتی ہے.چنانچہ احمدی خواتین سے ایک موقع پر خطاب فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے دعا کی مدد سے خدا تعالیٰ کے احکامات کی پابندی اختیار کرنے کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور دلوں کا حال بھی جانتا ہے.اس لئے نیک نیتی کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر احمدی کو، عورت مرد کو یہ حکم ہے کہ دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اس پرده 153
پرده پر قائم بھی رکھے اور شیطانی خیالات کو اللہ تعالیٰ مجھ پر حاوی نہ ہونے دے.اگر یہ سب کچھ ہو گا تو دنیا کی جو لذات ہیں، دنیا کے فیشن ہیں یا یہ احساس کمتری کہ اگر ہم دنیا کے مطابق نہ چلے تو ہمیں دنیا کیا کہے گی، یہ سب چیزیں بے حیثیت ہو جائیں گی.دین اور جماعت مقدم ہو جائے گی.ایک احمدی لڑکی اپنی حیا کی حفاظت کرنے والی ہو جائے گی.اس کو یہ خیال نہیں آئیں گے کہ کیا حرج ہے اگر میری تصویر رسالوں میں چھپ جائے.بلکہ اللہ تعالیٰ کا جو کا حکم ہے اسے اس بات سے روکے رکھے گا کہ یہ حرکت نہیں کرنی.یہ خیال پیدا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور یہ حکم بھی کا اور اپنی حیا کا قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم ہے.اس لئے میں نے بہر حال اپنی حیا اور اپنے پر دہ کی حفاظت کرنی ہے.تمام ان باتوں پر عمل کرنا ہے یا کرنے کی کوشش کرنی ہے جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ سے اُن راستوں پر چلنے کی دعا مانگنی ہے جو اس کی پسند کے راستے ہوں.خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کی تعمیل کر کے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے کہ جو بھی معروف فیصلہ وہ کریں گے اُس کی پابندی ضروری سمجھوں گا اور یہ پابندی قرآن کریم میں ہے.جب اس سوچ کے ساتھ ہر عورت زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گی ، ہر مرد زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر یہ کڑا جس پر اُس نے ہاتھ ڈالا ہے اُسے شیطانی اور دنیاوی خیالات سے بچانے کی ضمانت بن جائے گا.اس کی وضاحت بھی جو پہلے میں نے آیت تلاوت کی اُن میں سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے کہ : اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا (البقرة:258) کہ اللہ تعالیٰ اُن کا دوست ہے جو ایمان لائے.پس اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ جس کا دوست ہو جائے ، شیطان وہاں آ سکے.“ 66 خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 8 ستمبر 2012، بمقام حدیقۃ المہدی مطبوع الفضل انٹرنیشنل 30 نومبر 2012ء) 154
نئی احمدی خواتین نمونے قائم کریں پرده حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے ایک موقع پر جماعت احمد یہ میں نئی شامل ہونے والی خواتین کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے انہیں دوسروں کے لئے نیک نمونے پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: نئی آنے والی احمدی بہنوں سے میں کہتا ہوں کہ آپ نے احمدیت اور اسلام کی تعلیم کو سمجھ کر قبول کیا ہے.آپ یہ نہ دیکھیں کہ آپ کے خاوند کیسے احمدی ہیں یا دوسری خواتین کیسی احمدی ہیں.آپ اپنے نمونے بنائیں.اسلامی تعلیمات کی خالص مثال قائم کریں.اپنے خاوندوں کو بھی دین پر عمل کرنے والا بنائیں.اپنے بچوں کو بھی اسلام کی تعلیم کے مطابق تربیت دیں اور دوسری پرانی پیدائشی احمدی بہنوں کو بھی، اپنے نمونے قائم کر کے ان کے لئے بھی تربیت کے نمونے قائم کریں.ان کے لئے بھی آپ مثال بنیں.بعض دفعہ بعد میں آنے والی نیکی اور تقویٰ میں پہلوں سے آگے نکل جاتی ہیں.افریقہ میں بھی میں نے دیکھا ہے کی پابندی اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی کئی خواتین ہیں جو مثال بن سکتی ہیں.امریکہ میں بھی وہاں کی مقامی کئی ایسی خواتین ہیں جو احمدی ہوئیں اور مثال بن گئیں.جرمنی میں بھی کئی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے بیعت کی اور مثال بن گئیں.یہاں آپ کے ملکوں میں بھی ایسی خواتین ہیں.ان ملکوں میں بھی کئیوں کی پردے کی بڑی اچھی مثالیں ہیں اور دوسرے احکامات پر عمل کرنے کی بھی مثالیں ہیں.تو نئی بیعت کرنے والیاں ہمیشہ یا درکھیں کہ اگر کسی پاکستانی عورت میں کوئی برائی دیکھیں تو ٹھو کر نہ کھائیں.چندا گر بُری ہیں تو بہت بڑی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی بھی ہیں.پھر آپ نے 155
پرده کسی مرد یا عورت کی بیعت نہیں کی بلکہ حضرت مسیح موعود کو مانا ہے.اپنے نمونے قائم کر کے جیسا کہ میں نے کہا پرانی احمدیوں کے لئے بھی تربیت کے سامان پیدا 66 کریں.اس سے آپ کو دوہرا ثواب ہوگا آپ دوہرے ثواب کمار ہی ہوں گی.“ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17 ستمبر 2005, مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15 مئی 2015 ء ) تعلیمی اداروں میں کا معیار قائم رکھیں دورہ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی طالبات کے ساتھ ایک نشست میں اُن کے سوالات کے جواب بھی عطا فرمائے.ایک طالبہ نے سوال کیا کہ بعض اوقات انگلینڈ وغیرہ سیر کے لئے جانے کا پروگرام بنتا ہے.اگر ہم اپنی بچیوں کو نہ بھیجیں تو کہا جاتا ہے کہ پھر اسکول بدل لیں.ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ حضور انور نے فرمایا کہ : اگر اضطراری حالت ہے تو انہیں کہیں کہ بچیوں کے ساتھ parents کو بھی جانے دیں.وہ نہ مانیں تو اسکول بدل لیں.فرمایا: اصل میں بچیوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ انہیں خود کہیں کہ ہم ماں باپ کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارا اپنا ماحول ایسا ہے کہ ہم اس طرح جانا اچھا نہیں سمجھتیں.جب بچی جوان ہو جاتی ہے تو پھر اس کا خیال رکھنا ماحول کا کام ہے.اسلام کا تو حج کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ عورت اکیلی نہ جائے بلکہ اپنے محرم کو ساتھ لے کر جائے...عموماً پرائیویٹ اسکول زیادہ زور نہیں دیتے لیکن وہ مہنگے ہوتے ہیں.بہر حال بچیوں کو realise کرائیں کہ فلاں فلاں باتیں برائیاں ہیں اور ان سے آپ نے بچنا ہے.“ 66 کلاس طالبات جرمنی 10 جون 2006, مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 7 جولائی 2006ء) 156
اسی طرح لڑکیوں کے دوسرے شہروں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر ماں باپ اجازت دیں تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ جہاں جانا ہے وہاں کس کے پاس رہنا ہے.لڑکیوں کا علیحدہ ہوسٹل ہونا چاہئے.اگر علیحدہ ہے تو ٹھیک ہے.پھر وہاں پڑھتے ہوئے اپنے تقدس کا، پاکیزگی کا خیال رکھناضروری ہے.پرده حضور انور نے مزید فرمایا کہ ربوہ کی لڑکیاں جب باہر پڑھنے جاتی تھیں تو ہر لڑ کی نظارت تعلیم کے ذریعہ مجھ سے اجازت لیتی تھی.co-education کی صورت میں بھی مجھ سے اجازت حاصل کرتی ہیں.پھر لکھ کر دیتی ہیں کہ پردے میں رہ کر پڑھائی کریں گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں سے فرمایا کہ اگر والدین کو تسلی نہیں ہے تو پھر بہتر ہے کہ اپنے علاقہ میں رہو اور یہیں پڑھائی کرو.“ کلاس واقفات نو جرمنی 8اکتوبر 2011ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6 جنوری 2012ء) ایک دوسری مجلس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ کیا اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی اور ملک میں جا کر تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے؟ اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : اگر آپ higher ایجوکیشن کے لئے باہر جانا چاہتی ہیں اور اپنے ملک میں اس کا انتظام نہیں ہے تو والدین کی اجازت لے کر جائیں لیکن اپنے تقدس او حرمت کا بھی خیال رکھنا چاہئے.اپنی پاکیزگی کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور پھر وہاں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں.اسی طرح وہاں آپ نے دوستیاں بنانے سے پر ہیز کرنا ہے اور اپنی پڑھائی سے تعلق رکھنا ہے.“ کلاس طالبات جرمنی 10 جون 2006 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 / جولائی 2006ء) 157
پرده سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ کینیڈا کے دوران منعقد ہونے والی ایک نشست میں طالبات نے حضور انور ایدہ اللہ کی اجازت سے سوالات دریافت کئے.ایک طالبہ نے سوال کیا کہ ہم اپنے غیر مذہب والے دوستوں کو کس طرح سمجھائیں کہ کیوں ضروری ہے؟ 66 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایک تو یہ بتاؤ کہ ہم نے ایک عہد کیا ہے کہ ہم اس دین پر عمل کرنے والے ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ تم کرو تا کہ تمہاری جو ایک sanctity ہے وہ قائم رہے اور تمہیں یہ احساس رہے کہ میں نے سوسائٹی میں لڑکوں میں زیادہ mixup نہیں ہونا اور اپنے درمیان اور لڑکوں کے درمیان ایک barrier رکھنا ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا کہ : یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیاں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اس میں بعض دفعہ interaction ہو جاتا ہے لیکن اس میں صرف جہاں تک تمہاری پڑھائی کا تعلق ہے کوئی بات سمجھنی ہے، کرنی ہے صرف اس حد تک ہونا چاہئے.اس کے علاوہ کوئی free relationship قائم نہیں ہوتا چاہئے.دوستی نہیں ہونی چاہئے.لڑکیاں دوستی صرف لڑکیوں کے ساتھ کریں“.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کے احکامات کے حوالہ سے فرمایا کہ : کے جو احکامات ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بارہ میں جو ارشادات ہیں.اس کی background ہے.پرانے زمانے میں جب اتنا زیادہ نہیں تھا تو اس وقت ایک مسلمان عورت کسی یہودی کی دکان پر کام کروانے گئی.اس وقت باقاعدہ ایسے لباس نہیں ہوتے تھے کہ undergarments بھی پہنے ہوں.اس یہودی نے شرارت سے اس کا کپڑا باندھ دیا تو جب وہ کھڑی 158
ہوئی تو وہ کپڑا اتر گیا.اس کے بعد وہاں لڑائی شروع ہوگئی.بلکہ قتل بھی ہو گیا.تو پھر پر دے کے بارہ میں حکم ہوا کہ مسلمان عورت اپنی sanctity اور chastity کی حفاظت کرے پس سب سے بہتر یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے لڑکوں کے درمیان ایک فاصلہ ہونا چاہئے.دوسرے قرآن کریم میں جہاں حکم آیا ہے کہ کرو، وہاں پہلے مردوں کو حکم ہے کہ تم اپنی نظریں نیچی رکھو اور عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھا کرو.اس کے بعد عورتوں کو حکم آیا کہ تم بھی اپنی نظریں نیچی رکھو اور نہ دیکھو لیکن مردوں کا پھر بھی اعتبار نہیں اس لئے اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اگر تم مجھے یہ گارنٹی دلوا دو کہ مرد جو ہیں اُن کے دماغ اور ذہن بالکل پاک ہو گئے ہیں تو میں کہوں گا کہ اتنی سختی پر دے میں نہ کرو لیکن نہیں ہوا.گوہر مرد ایسا نہیں ہوتا لیکن بہت سے لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ جب سوسائٹی میں majority یا ایک خاص تعداد ایسی ہوجس سے نقص پیدا ہوتے ہوں تو بہتر ہے کہ اس سے بچنے کے سامان کئے جائیں تو اس لئے ہونا ضروری ہے تا کہ آزادانہ تعلقات قائم نہ ہوں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: ہر مذہب میں پردے کا کہا گیا ہے.پرانے زمانے میں عیسائیوں میں جو اچھے خاندان تھے ان میں پردے ہوتے تھے.ان کے پرانے لباس دیکھ لو، لمبی maxi ہوتی تھیں اور بازو کلائیوں تک ہوتے تھے اور سر کے اوپر سکارف ہوتا تھا.بائبل میں تو یہ ہے کہ کسی عورت کا سر نظر آجائے تو اس کے بال ہی کاٹ دو، منڈوا دو، اس طرح کی سختیاں ہیں جبکہ اسلام نے تو اس طرح کی سختیاں نہیں کیں.لیکن اسلام نے عورت کی حیا کو بہر حال قائم رکھا ہوا ہے اور حیا کا تصور ہر جگہ ہے اور پرده 159
پرده ہر قوم میں ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قرآن کریم میں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ قصہ پڑھتی ہو کہ جب مدین میں دولڑ کیاں اپنے جانوروں کو پانی پلانا چاہتی تھیں.وہاں مرد پانی پلا رہے تھے تو وہ پیچھے ہٹ گئیں.وہ نہیں چاہتی تھیں کہ direct interaction مَردوں کے ساتھ ہو.تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ کیا قصہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح ہے.انہوں نے ساری بات بیان کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے جانوروں کو پانی پلایا.اس کے بعد قرآن کریم یہ ذکر کرتا ہے کہ جب وہ چلی گئیں تو پھر ان میں سے ایک واپس آئی اور بڑی حیا سے اپنے آپ کو سنبھالتی ہوئی آئی کھلی open ہو کے نہیں آگئی تھی کہ میرا باپ تمہیں بلاتا ہے.قرآن کریم میں یہ سارا قصہ لکھا ہوا ہے تم اسے پڑھو.چنانچہ حضرت موسیٰ جب گئے تو باپ بھی بڑا ہوشیار تھا.اس نے یہ نہیں کہا کہ میری جوان بچیاں بھی گھر میں ہیں تو میں ایک لڑکا گھر میں رکھ لوں کیونکہ یہاں پھر عورت کی sanctity کا سوال آجاتا ہے.اس لئے اس نے کہا کہ تمہیں گھر میں رکھ تو لیتا ہوں اور تمہارے پاس گھر میں رہنے کی جگہ بھی نہیں ہے.اس لئے تم میری دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی سے شادی کرلو تا کہ تمہارے رہنے کا کوئی جواز بن جائے.پس اصل چیز یہ ہے کہ پر دے میں عورت کی حفاظت کی گئی ہے اور اس کے لئے مرد کو بھی روکا گیا ہے لیکن پھر بھی مرد کی بے اعتباری کی وجہ سے عورت کو کہا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو زیادہ سنبھالو.“ کلاس طالبات کینیڈ 141 جولائی 2012ء مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 12 اکتوبر 2012ء) 160
ملازمت کی راہ میں روک نہیں ہے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ ہالینڈ کے دوران طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں بچیوں نے حضور انور سے بعض سوالات بھی کئے.ایک طالبہ نے سوال کیا کہ عورت کو اپنا کیرئیر بنانے کی کس حد تک اجازت ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہر وہ کیرئیر بنانے کی اجازت ہے جس میں عورت کی حیا پر حرف نہ آئے.الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيْمَانِ.ہمیشہ مد نظر رہنا چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ اگر KLM میں ائر ہوسٹس بننا ہے،اسکرٹ پہنتی ہے اور سر پر چھوٹی سی ٹوپی رکھنی ہے تو اس کی تو اسلام اجازت نہیں دیتا اور نہ کسی احمدی بچی کو اس کی اجازت دی جاسکتی ہے.آپ ڈاکٹر، ٹیچر ، انجینئر،سائنٹسٹ، پروفیسر ، وکیل وغیرہ تو بن سکتی ہیں بشرطیکہ آپ کالباس ٹھیک ہو اور آپ کا حجاب نہیں اترنا چاہئے.آپ کا لباس حیا والا ہو تو ٹھیک ہے.وکالت کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ جو کریمینل کیسر ہیں ان میں نہیں جانا.( کلاس طالبات ہالینڈ 16 مئی 2012ء بمقام بیت النور بن سپیسٹ.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 15 جون 2012ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں لڑکیوں کے ملازمت کرنے اور پردے کے حوالے سے رہنمائی کرتے ہوئے تفصیلاً فرمایا: ایک بچی نے پچھلے دنوں مجھے خط لکھا کہ میں بہت پڑھ لکھ گئی ہوں اور مجھے بینک میں اچھا کام ملنے کی امید ہے.میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر وہاں حجاب لینے اور کرنے پر پابندی ہو، کوٹ بھی نہ پہن سکتی ہوں تو کیا میں یہ کام کرسکتی ہوں ؟ پرده 161
پرده کام سے باہر نکلوں گی تو حجاب لے لوں گی.کہتی ہے کہ میں نے سنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ کام والی لڑکیاں اپنے کام کی جگہ پر اپنا برقع ، حجاب اتار کر کام کرسکتی ہیں.اس بچی میں کم از کم اتنی سعادت ہے کہ اس نے پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ آپ منع کریں گے تو کام نہیں کروں گی.یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ ایک نہیں کئی لڑکیوں کے سوال ہیں، تو پہلی بات یہ ہے کہ میں نے اگر کہا تھا تو ڈاکٹرز کو بعض حالات میں مجبوری ہوتی ہے.وہاں روایتی برقع یا حجاب پہن کر کام نہیں ہوسکتا.مثلاً آپریشن کرتے ہوئے.ان کا لباس وہاں ایسا ہوتا ہے کہ سر پر بھی ٹوپی ہوتی ہے، ماسک بھی ہوتا ہے، ڈھیلا ڈھالا لباس ہوتا ہے.اس کے علاوہ تو ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں.ربوہ میں ہماری ڈاکٹر ز تھیں.ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے میں دیکھا ہے.ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکا کرتی تھیں.یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کونئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے ، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ میں رہیں بلکہ وہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں.ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا ، نہ کام پر اعتراض ہوا ، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا.آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے تو اگر نیت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں.اسی طرح میں نے ریسرچ کرنے والیوں کو کہا تھا کہ کوئی بچی اگر اتنی لائق ہے کہ ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں لیبارٹری میں ان کا خاص لباس پہنا پڑتا ہے تو وہ وہاں اس ماحول کا لباس پہن سکتی ہیں بیشک حجاب نہ لیں.وہاں بھی انہوں نے ٹوپی وغیرہ پہنی ہوتی ہے لیکن باہر نکلتے ہی وہ ہونا چاہئے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے.بینک کی نوکری کوئی ایسی نوکری نہیں ہے کہ جس سے انسانیت کی خدمت 162
ہورہی ہو.اس لئے عام نوکریوں کے لئے حجاب اتارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جبکہ نوکری بھی ایسی جس میں لڑکی روز مرہ کے لباس اور میک آپ میں ہو، کوئی پرده خاص لباس وہاں نہیں پہنا جانا.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے اور کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے.اگر میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیا دار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کرلیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بے حیائی بڑھتی چلی جارہی ہے.دنیا تو پہلے ہی اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں اور خاص طور پر مسلمان ہیں انہیں کس طرح مذہب سے دور کیا جائے.( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) ایک لجنہ ممبر کے سوال پر کہ آیا عورتیں بھی پولیس کی نوکری کر سکتی ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ”میرے نزدیک کچھ ایسے پروفیشن ہیں جو ایک مذہبی خاتون کو جو ، حجاب پہنتی ہو، اس کو نہیں اختیار کرنے چاہئیں.کیونکہ وہاں آپ کو پولیس کی وردی پہنی پڑے گی اور پولیس کی وردی میں حجاب نہیں پہنا جا سکتا ہے.بلکہ آپ کو ٹراؤزر اور ٹی شرٹس اور جیکٹ پہنی پڑتی ہیں.بعض دفعہ صرف پی کیپ کا استعمال کرتے ہیں.سواحمدی خواتین کو پولیس سروس میں نہیں جانا چاہئے.اس کو مردوں کے لئے ہی رہنے دینا چاہئے.میرے نزدیک کئی اور پروفیشن ہیں جو ایک احمدی 66 خاتون اختیار کر سکتی ہے.“ اسی لجنہ ممبر کے ایک سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 163
پرده آپ سوشل ورکر بن سکتی ہیں.کیونکہ اس میں آپ محروم اور ضرورتمند لوگوں کی خدمت کرتی ہیں.آپ ہیومینیٹی فرسٹ میں شامل ہو سکتی ہیں.ہمیں ایسی لڑکیوں کی ضرورت ہے جو افریقہ کے کچھ علاقوں میں بسنے والے غرباء کی مدد کریں.“ کلاس طالبات جرمنی 2 جون 2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اگست 2012ء) ایک لڑکی نے سوال کیا کہ اگر یہاں قانون نکل آئے کہ عورتیں صرف بغیر پردے کے ہی کام کر سکتی ہیں تو اس سلسلہ میں بھی حضور کچھ ارشاد فرمائیں.حضور انور نے فرمایا : ” اول تو دعا کریں.انشاء اللہ ایسا قانون نہیں نکلے گا اور اگر نکل آیا تو دین پہلے اور دنیا بعد میں.“ کلاس طالبات جرمنی 10 جون 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 جولائی 2006ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک طرف احمدی خواتین میں اسلامی کی ترویج کے لئے سعی فرمائی اور دوسری طرف غیر مسلموں کی طرف سے پر ہونے والے حملوں کا بھی کامیاب دفاع فرمایا.چنانچہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے اس حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اس کے ساتھ ہی میں ان احمدی لڑکیوں کو بھی کہتا ہوں جو کسی قسم کے complex میں مبتلا ہیں کہ اگر دنیا کی باتوں سے گھبرا کر یا فیشن کی رو میں بہہ کر انہوں نے اپنے حجاب اور پر دے اتار دئیے تو پھر آپ کی عزتوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوگی.آپ کی عزت دین کی عزت کے ساتھ ہے.میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں.اس طرح کے کئی واقعات ہیں.ایک احمدی بچی کو اس کے باس (boss) نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے.اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں 164
اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ کر رہی ہوں.کوئی صورت نکال.اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے.تو بہر حال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کرتا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا اور یہ بچی دعا کرتی رہی.آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنے کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھیجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی.اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خدا تعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں.“ 66 (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اپریل 2010ء بمقام سوئٹزرلینڈ.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14 مئی 2010ء) پر دہ تبلیغ کے لئے عملی نمونہ تبلیغ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی بچیوں کو اپنے عملی نمونے پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ : د تبلیغ کے لئے راستے آپ کو تلاش کرنے پڑیں گے تبلیغ کے لئے خود مواقع پیدا کرو.اگر آپ پڑھائی میں ہوشیار ہیں.آپ کا حلیہ رویہ، کردار اچھا ہے.سکارف ٹھیک ہے اور ہے.دوستیاں بڑھانے کی طرف توجہ نہیں ہے تو دوسری لڑکیاں آپ کی طرف متوجہ ہوں گی اور پوچھیں گی کہ کون ہو؟ تو تم بتاؤ کہ میں احمدی ہوں.پھر بتاؤ کہ امام مہدی کو مانا ہے.اس طرح بات آگے بڑھے گی اور تبلیغ کا راستہ کھلے گا.“ 66 ( کلاس واقفات نو 8 را کتوبر 2011 ء بمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 6 جنوری 2012ء) پرده 165
پرده اپنے دورہ جرمنی کے دوران نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغی سرگرمیوں کے حوالہ سے جو نصائح فرمائیں ان میں سے بعض سے متعلق تھیں.رپورٹ کے مطابق : حضور انور نے تبلیغی نشستوں کے انعقاد کے حوالہ سے فرمایا کہ ضرور منعقد کریں اور بہتر تو یہ ہے کہ ایسی مجالس منعقد ہوں جن میں مرد مردوں کو بلائیں اور عورتیں عورتوں کو.اگر کسی جگہ کوئی لجنہ اپنے ساتھ مہمان لائی ہوں اور مردوں والے حصہ میں بیٹھنا ناگزیر ہو تو صرف وہی مہمان لانے والی خاتون ہی بیٹھ سکتی ہے باقی عورتیں نہیں اور مہمان لانے والی خواتین بھی کھانا مردوں کے ساتھ بہر حال نہیں کھائیں گی.خواتین پردے میں رہیں.حضور نے اس ضمن میں ہالینڈ کی ملکہ کے مسجد مبارک، ہیگ ہالینڈ کا دورہ کرنے کا ذکر فرمایا جنہوں نے گذشتہ دنوں جب جماعت کی مسجد کا دورہ کیا تو اسلامی روایات کا لحاظ رکھا.فرمایا آپ اپنی روایات پر قائم رہیں اور پردے کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہ کیا کریں.حضور انور نے فرمایا کہ اس موقعہ پر انہیں ایک ایڈریس پیش کرنا تھا اس کے لیے میں نے خصوصی اجازت دی تھی کہ بے شک کوئی لجنہ یہ پیش کر دے لیکن اس میں بھی انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ یہ اجازت ہر مجلس کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اسی ایک تقریب کے لئے ہے.“ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ جرمنی 7 / جون 2006ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 / جولائی 2006ء) اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی طالبات کو تبلیغ کے میدان میں اسلامی حکم پر دہ کوملحوظ رکھتے ہوئے کام کرنے کا ارشادیوں فرمایا: یونیورسٹی کی احمدی طالبات سے کہیں کہ اگر انہیں ان کی زبانیں نہیں آتیں تو ان زبانوں میں لٹریچر حاصل کرلیں.فرمایا : انٹرنیٹ پر اگر تبلیغی رابطے کرنے ہوں تو عورتوں کا تبلیغی رابطہ صرف عورتوں سے ہونا چاہئے.حضور انور نے پردے کی اہمیت 166
بھی واضح فرمائی.فرمایا اگر کہیں مردوں سے رابطہ ہو جائے تو انہیں پھر مردوں کے پتے دے دیں.اپنے فورم میں صرف عورتوں کو لے کر آئیں.اور اگر کسی جگہ عورتیں پوری طرح جواب نہ دے سکتی ہوں اور کوئی مکس گیدرنگ (mix gathering) ہو تو اپنے ساتھ لائی ہوئی مہمان خاتون کو لے کر ایک سائیڈ میں بیٹھیں اور پردے کا خیال رکھیں لیکن جب کھانے پینے کا وقت آئے تو اس وقت مکس گیدرنگ میں نہیں بیٹھنا بلکہ علیحدہ انکلوژر (en-closure) میں چلی جائیں اور جو عورتیں اکٹھی مجالس میں ملیں ان کے پتے حاصل کر کے ان کو صرف عورتوں کی مجالس میں بلائیں.اس صورت میں ان کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھیں گے کہ آپ مکس مجالس میں کیوں نہیں آتیں ؟ اس پر آپ اسلامی کے متعلق وہاں ان کی غلط فہمیاں بھی دور کر سکتی ہیں.( یہاں پر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ سیکس گیدرنگ وہی ہیں نا جن کو آپ open day کہتی ہیں؟ حضور کو بتایا گیا.جی ) حضور نے فرمایا کہ یونیورسٹی کی طالبات کے جن سے روابط ہوں ان کی علیحدہ gathering ہو سکتی ہیں.“ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 9 رجون 2006ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 جولائی 2006ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء الله جرمنی کے ساتھ میٹنگ میں کئی اہم ہدایات سے نوازا جن میں سے بعض کا تعلق سے بھی ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:.پڑھی لکھی لڑکیوں کو شامل کر کے کے موضوع پر ایم ٹی اے کے لئے پر گفتگو کا پروگرام بنائیں، جس میں اس اسلامی حکم کا مقصد بیان کریں.اس موضوع پر بائبل کے حوالہ جات سے بات کریں اور بتائیں کہ عیسائیت نے عورت کو کمتر سمجھتے ہوئے کا حکم دیا ہے جبکہ اسلام نے عورت کے تقدس اور اس کے مقام کو بلند کرنے کے لئے یہ حکم دیا ہے.پھر کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو بتائیں کہ پرده 167
پرده تم نے اپنے مذہب کو اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ پریکٹیکل مذہب نہیں تھا اور آجکل کے حالات میں چل نہیں سکتا تھا لیکن اسلام ایک پریکٹیکل مذہب ہے اور ہم حجاب اور کے ساتھ ہر کام کرسکتی ہیں.ایسے پروگرام بنا کر ایم ٹی اے کے لئے بھجوائیں.ایم ٹی اے پر لجنہ اماءاللہ کے جو پروگرام آتے ہیں وہ میری ہدایات اور نگرانی میں بنتے ہیں، اگر چہ وہ ساری دنیا کے لئے ہوتے ہیں لیکن یہاں کے ماحول کے لحاظ سے خاص طور پر یورپ کے ممالک کے لئے ہوتے ہیں.حضور انور نے مزید فرمایا کہ جو احمدی بچیاں پر دہ وغیرہ پر اعتراض کرتی ہیں، جیسا کہ میں نے لجنہ اماءاللہ یو کے کے اجتماع میں کہا تھا، انہیں بتائیں کہ آپ جب کوئی کلب جوائن کرتی ہیں تو اس کے کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں، اگر ان اصول وضوابط کی پابندی نہ کی جائے تو اس کلب کی ممبر شپ منسوخ ہو جاتی ہے.پس اسلام نے بھی کچھ اصول بنائے ہیں اس میں نماز پڑھنی ، قرآن پڑھنا اور اس کے تمام حکموں پر عمل کرنا شامل ہے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ آپ جو کہیں گے وہ کروں گی.ان باتوں کے پیش نظر خود دیکھ لو کہ تم کس مقام پر ہو.پھر ان سے پوچھیں کہ کیا تم خود کو احمدی سمجھتی ہو؟ اگر مجھتی ہو تو کیا اسلام کے بنیادی حکموں پر یقین رکھتی ہو؟ اگر رکھتی ہو تو کیا اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہو؟ اگر کرتی ہو تو اس میں ایک حکم کا بھی ہے.اس طریق پر سمجھاتے ہوئے ان سے پوچھیں کہ اب بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتی ہو، منافقت کے ساتھ جماعت میں دکھاوے کے لئے رہنا چاہتی ہو یا اپنے آپ کو بدل کر نیک ارادہ کے ساتھ خود کو ٹھیک کرنا چاہتی ہو؟ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 25 دسمبر 2006ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19 جنوری 2007ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء الله جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ 168
پرده میٹنگ میں کے حوالے سے جو ہدایات بیان فرمائیں اُن میں فرمایا: جرمنی کی خواتین نے اور افریقن خواتین نے میں ترقی کی ہے اور آپ پیچھے جارہی ہیں.ابھی چند دن پہلے ایک جرمن لڑکی ملاقات میں آئی تھی.اس کا بڑا اچھا پر دہ تھا.ایک انگریز لڑکی یو کے میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں.Ph.D کر رہی ہے، اس کا اتنا اچھا پر دہ ہے، اس کو تو شرم نہیں آتی.حضور انور نے فرمایا: یونیورسٹیوں میں احمدی لڑکیاں یہ خیال رکھیں کہ لڑکوں کے ساتھ علیحدہ بیٹھ کر گپ شپ نہ لگائیں.اس سے دوستیاں بڑھتی ہیں اور پھر ادھر اُھر بازاروں میں جانا شروع ہو جاتا ہے.یونیورسٹی میں اپنی پڑھائی کے سلسلہ میں اگر کسی طالبعلم سے کوئی مدد لینی ہے تو اس میں روک نہیں.جہاں تک یونیورسٹی میں انفرادی تبلیغ کا تعلق ہے اس بارہ میں پہلے ہی ہدایت دی ہوئی ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کو تبلیغ کریں اور لڑکے لڑکوں کو تبلیغ کریں.“ وو میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء الله جر منی 18 / دسمبر 2009ء - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 29 جنوری 2010ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں احمدی عورتوں کو اپنے پر دے ٹھیک کرنے اور دعوت الی اللہ کے حوالہ سے دوسروں کے لئے نمونہ بننے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: یہ تو قرآن کا بنیادی حکم ہے.مختلف قوموں نے یعنی مسلمان ملکوں کی قومیں جو ہیں انہوں نے اس کے مختلف طریقے اپنی سہولت کے لئے بنائے ہوئے ہیں.حضرت مصلح موعود کہا کرتے تھے کہ ترکی عورت کا سب سے اچھا ہے.برقعہ اور نقاب.اس میں عورت محفوظ بھی رہتی ہے کام بھی کر سکتی ہے.آزادی سے پھر بھی سکتی ہے اور پر دے کا ہوتا ہے.ایک مبلغ نے مجھے بتا یا وہ ترکوں میں تبلیغ 169
پرده کرتے ہیں.کہتے ہیں جب میں تبلیغ کرتا ہوں تو ترک کہتے ہیں کہ ہم کونسا اسلام قبول کریں.تم ہمیں صحیح اسلام کی دعوت دے رہے ہو وہ اسلام قبول کریں یا جو تمہاری عورتیں ظاہر کرتی ہیں.اسلام میں تو حکم ہے کہ کرو اور نہیں کر رہی ہوتیں.کئی عورتیں ہماری واقف ہیں جو نہیں کرتیں.ایک دفعہ میں نے کہا تھا کہ دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے اور یہ اپنا نمونہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے.تو دیکھیں آپ کے نمونہ کی وجہ سے یہ جو مثال سامنے آئی ہے دوسروں کو اعتراض کرنے کا موقعہ مل گیا ہے.اس سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل نہ کر کے ایسی عورتیں اس حکم عدولی کی وجہ سے گناہگار ہورہی ہیں بلکہ اس نمونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بھی بن رہی ہیں.اور اس طرح دوہرا گناہ سہیڑ رہی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت ( سورۃ الاحزاب : 38 ) میں فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کر کے تم گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گی." ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 4 ستمبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 جنوری 2005ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی عورتوں کو نصیحت فرمائی: بعض عرب عورتیں مجھے یہ کہتی ہیں کہ ہم مسجد میں گئے یو کے میں بھی ، اور جگہوں میں بھی، وہاں احمدی عورتوں کے پردے ٹھیک نہیں تھے.عرب جو ہیں وہ خاص طور پر اپنے بالوں کے پردے کی طرف بہت توجہ دیتی ہیں.انہوں نے سر ڈھانکا ہوتا ہے.اس لئے اُن کو بڑا عجیب لگتا ہے کہ احمدی عورتیں نہیں کر رہی ہوتیں.ہلکا سا ایک دوپٹہ، پھٹی سر پر ڈالی ہوتی ہے.اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپ کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے.“ 66 ( خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله جر منی 17 ستمبر 2011 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 / نومبر 2012ء) 170
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء الله جرمنی کی نیشنل عاملہ کی میٹنگ میں اُن کے رسالہ خدیجہ کے حوالہ سے فرمایا : آپ کے رسالہ میں ایک تصویر چھپی تھی جس میں عورتیں اور مرد کٹھے بیٹی ہیں.یہ مناسب نہیں.حضور نے رسالے کے لیے ایڈیٹوریل بورڈ بنانے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ وہ بورڈ پالیسی بنائے کہ رسالہ کا معیار کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر پردے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالیں کہ آپ نے اس لئے کرنا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے.اگر جماعتی روایات پر قائم رہیں گی تو کوئی کمپلیکس نہیں ہوگا اور اسی سے پھر تبلیغ کے راستے کھلیں گے.بعض بچیاں پاکستان سے شادی کروا کر یہاں آتی ہیں.وہاں وہ برقع پہنتی ہیں لیکن یہاں آتے ہی اتر جاتے ہیں.یہ بے حیائی ہے.یہ ذاتی کمپلیکس کی بنا پر بھی ہوسکتا ہے اور خاوند کے کہنے پر بھی.اگر جرمن عورت احمدی ہونے کے بعد اچھے لباس میں آسکتی ہے تو انہیں پورا کرنے میں کیا حرج ہے؟ فرمایا آج کل ٹیکسٹ میسیجز (text messages) کا رواج چل نکلا ہے.یہ بھی سوائے جاننے والوں کے کہیں نہیں ہونا چاہئے.بعض اوقات سہیلیاں آگے نمبر دے دیتی ہیں.اس لیے اس امر کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.“ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء الله جرمنی 9 رجون 2006 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 / جولائی 2006ء) 171 پرده
پرده دو تمہارا نمونہ جو ہے وہ باقیوں کے کام آئے گا.تم لوگ ایک کریم cream ہو جماعت کی بچیوں کی اس لئے اپنا وہ مقام بھی یادرکھو، تمہارا ایک اپنا سٹیٹس status ہے اس کو یاد رکھو اور ہمیشہ اس کی حفاظت کرو.ہر احمدی بچی کا اپنا ایک تقدس ہے.ایک sanctity ہے اس کا خیال رکھنا 66 چاہئے." کلاس واقفات نو جرمنی 20 را گست 2008ء) 172
پرده واقفات نو کے لئے ارشادات حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کینیڈا کے دوران مسجد بیت الاسلام میں واقفاتِ نو کے ساتھ منعقد ہونے والی ایک کلاس میں متعد دامور سے متعلق نصائح سے نوازا.اس ضمن میں سے متعلق بھی نہایت اہم نصائح فرمائیں.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دو تین جگہ بڑا واضح طور پر کہا ہے کہ ایک عورت کی جو sanctity اور chastity ہے اس کو قائم رکھو.اس کے لئے سر ڈھانکنا، حجاب اور سکارف لینا بتایا ہے.تم جو واقفات نو ہو اپنی مثالیں قائم کرو.بغیر شرمائے ،سکولوں میں کالجوں میں bullying وغیرہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں.سڑکوں پر جاتے ہوئے شرمانے کی ضرورت نہیں.اپنی مثالیں قائم کرو تا کہ دوسرے بھی انہیں دیکھ کر نمونہ پکڑیں.جس طرح آج سر ڈھانپے ہوئے ہیں، کسی کو کوئی complex ہے کہ ہم نے کیوں سر ڈھانکا ہوا ہے؟ اور پیچھے جو کیمرے پر کھڑی ہیں.سیکیورٹی پر کھڑی رہتی ہیں انہوں نے بھی بڑے اچھے پردے کئے ہوئے ہیں.مجھے امید ہے کہ ان کو بھی کوئی complex نہیں ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.اللہ کا حکم مانو گی تو محفوظ رہو گی.اور آپ نے وقف کیا ہے.تو وقف کا مطلب یہ ہے کہ تم کو دوسروں کی نسبت زیادہ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا چاہئے اس لئے تمہارے نقاب اور سکارف اترنے نہیں چاہئیں.یہ بڑا ضروری ہے تا کہ دوسرے بھی تمہارے سے نمونہ پکڑیں.173
پرده حضور انور نے فرمایا جب تک تم بارہ تیرہ سال کی ہو ماں باپ کے under ہو.یہاں کلاس میں آتی ہیں تو بڑے اچھے سکارف لیٹے ہوئے بڑی خوبصورت لگ رہی ہوتی ہیں.اس کے بعد عمر زیادہ ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ پریشان ہو جاتی ہیں.تو جو بڑی لڑکیاں ہیں ان کی فہرست مجھے صدرلجنہ یا سیکرٹری تربیت بھجوائے کہ کون سی لڑکیاں با قاعدہ سکارف لیتی ہیں اور جو نہیں لیتیں ان کو کہیں کہ لیا کریں.ان کو سمجھائیں اور اگر دو مہینہ کے اندران میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو مجھے نام بھیجیں تا کہ ان کو وقف ٹو سے خارج کیا جائے.بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے بچیوں نے سوالات بھی کئے.ایک واقفہ ٹو نے سوال کیا کہ جماعت میں ایسی لڑکیاں ہیں کئی دفعہ جب باہر جاتی ہیں جیسے شاپنگ سنٹر وغیرہ میں پھرتی ہیں یا کہیں جاتی ہیں تو دوپٹے اتار دیتی ہیں صحیح طرح حجاب نہیں لیا ہوتا اور جب مسجد میں آتی ہیں تو صحیح طرح حجاب لے کے آتی ہیں تو کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میرا تو خیال ہے یہاں پر بھی نہیں لے کر آتیں.میں نے جلسہ پر اپنی تقریر میں کہا کہ سر پر دوپٹہ لوحجاب لو.اس کے بعد میں پوڈیم سے اپنی کرسی پر جب بیٹھا ہوں تو کم از کم چار عورتوں کو تو میں نے دیکھا ہے جو اٹھ کے گئی ہیں ان کے بال پیچھے سے کھلے ہوئے تھے اور سر پر دوپٹہ کوئی نہیں تھا.یہ تو لجنہ کے شعبہ تربیت کا کام ہے.صدر صاحبہ اور تربیت والے صرف تقریریں نہ کیا کریں بلکہ دیکھا کریں کہ عملاً کیا ہورہا ہے.اس لئے میں نے کہا ہے کہ تم جو واقفات نو ہو تم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے اپنی ایسی مثال بناؤ کہ تمہیں دیکھ کر دوسروں کو شرم آجائے.اب 174
دیکھتے ہیں کہ تم میں سے کتنی ایسی ہیں جو دوسروں کو شرم دلاتی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : منافقت نہیں ہونی چاہئے اس لئے میں نے صدر لجنہ کو بھی کہا ہوا ہے کہ بیشک جو بہت پڑھی لکھی ہیں، بہت محنت کرنے والی ہیں بہت کام کئے ہیں لیکن اگر ان کاproper حجاب وغیرہ نہیں ہوتا تو پھر ان کو کسی بھی جگہ لجنہ کی خدمت نہیں دینی اور مجھے لگتا ہے کہ اپنی ایک ٹیم علیحدہ بنانی پڑے گی جو چیک کرے گی.میرا خیال ہے کہ واقفات نو میں سے کچھ لڑکیوں کو منتخب کروں اور اپنی ٹیم بناؤں.تم آکر مجھے بتاؤ کہ کون کیا کرتا ہے تم لوگوں کا اصل کام یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی بازو بن جاؤ، ہاتھ بن جاؤ، اس لئے تم لوگوں کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اگر تم ایسی بن جاؤ تو میں سمجھوں گا کہ کم از کم کینیڈا ہم نے فتح کر لیا ہے.پرده ایک اور سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: میں یہ نہیں کہتا کہ گھٹ کر بیٹھ جاؤ اور کہیں ایسی frustration پیدا : ہو جائے کہ کہیں اپنے جذبات کو نکال نہ سکو لیکن ان کی ایک limit ہونی چاہئے.اس limit کے اندر ہوا اور جو مرضی کرو.حیا کی حفاظت کرو.حیا ہمیشہ عورت کی عزت بڑھاتی ہے.عیسائی عورتیں بھی پہلے حیادار ہوتی تھیں لباس بھی ان کے لمبے ہوتے تھے جو ان میں خاندانی ہوتی تھیں ان کے لباس اور بھی اچھے ہوتے تھے، بازو لگے ہوئے ، سکارف پہنے ہوئے.یہ تو آہستہ آہستہ عورت کی آزادی ہوتی ہے، بلکہ انگلینڈ میں ایک عیسائی عورت نے ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ یہ مرد جو کہتے ہیں کہ عورت کو آزادی دو اور ان کے جو چاہیں پر دے اتار دو، ان کے لباس ننگے کر دو، اصل میں یہ مرد عورت کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ ان کی اپنی جو خواہشات ہیں ان کو پورا کرنا 175
پرده چاہتے ہیں اور اسی عورت نے لکھا ہے کہ عورت ان مردوں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتی ہے.اس لئے عورت کی اپنی ایک sanctity ہے بہر حال ایک احمدی عورت کو بڑا chaste ہونا چاہئے.اس کا خیال رکھو.“ 66 کلاس واقفات نوکینیڈا 11 جولائی 2012 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28 ستمبر 2012ء) دورہ جرمنی کے دوران واقفات نو بچیوں کی کلاس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں کے سوالات کے جواب ارشاد فرمائے.ایک بچی نے سوال کیا کہ facebook کے بارہ میں حضور نے فرمایا تھا کہ یہ اچھی نہیں ہے.اس سے منع کیا تھا.اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: دو ” میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑو گے تو گنہگار بن جاؤ گے.بلکہ میں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے.آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.لڑکے تعلق بناتے ہیں.بعض جگہ لڑکیاں trap ہو جاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے تصاویر ڈال دیتی ہیں.گھر میں، عام ماحول میں ، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی ، اُس نے آگے اپنی فیس بک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیو یارک (امریکہ ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر گروپس بنتے ہیں مردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں.اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں.اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے.میرا کام نصیحت کرنا ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ.جو نہیں مانتے ان کا گناہ اُن کے سر ہے.اگر facebook پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور تبلیغ کریں.alislam ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں تبلیغ کے لئے 176
پرده استعمال ہوتی ہے.لڑکیاں جلد بے وقوف بن جاتی ہیں.جو کوئی تمہاری تعریف کر دے تو تم کہوگی کہ تم سے اچھا کوئی نہیں.اگر ماں باپ نصیحت کریں تو تم کہوگی کہ ہم تو جرمنی میں پڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگ کسی گاؤں سے اٹھ کر آگئے ہو.الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، یعنی ہر اچھی بات جہاں سے بھی اور جس جگہ سے بھی ملے، لے لیں.ان لوگوں کی سب ایجادیں اچھی نہیں ہیں“.جو بات نہیں مانتیں وہ پھر روتے روتے مجھے خط لکھتی ہیں کہ غلطی ہوگئی ہے کہ ہمیں فلاں جگہ trap کرلیا گیا ہے.جس شخص نے یہ facebook بنائی ہے اُس نے خود کہا کہ میں نے اس لئے بنائی ہے کہ ہر شخص کو ننگا کر کے دنیا کے سامنے پیش کروں.کیا احمدی لڑ کی نگا ہونا چاہے گی.جو نہیں مانتے نہ مانیں.“ ( کلاس واقفات نو 8 اکتوبر 2011ء بمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6 جنوری 2012ء) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ ناروے کے دوران مسجد بیت النور بن سپیٹ میں واقفاتِ نو کے ساتھ ایک کلاس ہوئی.اس کلاس میں ایک بچی نے مضمون پڑھ کر سنایا جس کا موضوع تھا : ”حیا اور پاکدامنی 66 احمدی لڑکی کی شان اور پہچان ہے.اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: دو پردے کے اوپر آپ نے بڑا اچھا مضمون پیش کیا ہے.لیکن صرف اچھا مضمون پیش کرنے سے نہیں ہوجاتا.پردے کا معاملہ تو ساری دنیا میں ہے لیکن یورپ میں خاص طور پر ہے.ایک وقت میں نارمرے کے بارہ میں کے حوالہ سے زیادہ شکایتیں آتی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ناروے میں ایک بڑا سخت خطبہ دیا تھا.میں نے بھی اپنے خطبہ میں اس کی مثال دی تھی اور اس کا ذکر کیا تھا.کیونکہ مجھے ذاتی تجربہ تو نہیں ہے لیکن ان دنوں کی باتوں 177
پرده سے اندازہ لگایا تھا کہ کے بارہ میں احتیاط نہیں کی جاتی.لندن میں مجھے ایک دفعہ وقف کو بچی ملنے آئی.اس نے جو کیا ہوا تھا اُس کے کوٹ کے بازو یہاں کہنیوں تک تھے.ایسے کا تو کوئی فائدہ نہیں.واقفات ٹو کا جو ہے اور جب وہ بڑی ہو جاتی ہیں تو اُن کا جو لباس ہے وہ ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ مضمون میں بتایا گیا ہے.حیا ہونی چاہئے اور جب حیا ہوگی تو آئندہ پر دے کا احساس بھی ہوگا.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر اس بچی سے جو ملاقات کے لئے آئی تھی، میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ تم سر پر دوپٹہ یا چادر لیتی ہو یا نہیں.سکارف باندھتی ہو یا نہیں.وہ ایک بار یک سی چھٹی یا سکارف جسے کہتے ہیں، وہی اُس کے سر پر ہوتا تھا، اس کے علاوہ کچھ نہیں.لیکن بہر حال اُس نے وعدہ کیا کہ آئندہ میں کروں گی اور اس کے بعد سنا ہے کہ وہ کرتی ہے.تو یہ کرنے کا احساس جب تک واقفات کو میں پیدا نہیں ہوگا، بڑے بڑے دعوے اور نظمیں پڑھنا کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے، اس کا 66 کوئی فائدہ نہیں ہو گا.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : بھی یہاں ناروے میں ملاقاتیں ہورہی ہیں.ان میں میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض عورتیں ملنے آتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد نقاب ان کا باہر نکلا ہے.چھ سال قبل 2005 ء میں یہاں ملاقاتیں ہوئی تھیں تو ملاقات کے لئے چھ سال کے بعد یہ نقاب باہر نہیں نکلنا چاہئے بلکہ روز نکلنا چاہئے اور اس کے نمونے واقفات تو نے ہی قائم کرنے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: 178
جیسا کہ میں نے کہا کہ نمونے واقفاتِ تو نے ہی قائم کرنے ہیں تو آپ نہ سمجھیں کہ آپ لوگ چھوٹی ہیں.میں نے ابھی جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر ان کو یہی کہا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے اپنا حق ، اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے اور جو اسلامی تعلیم ہے اس پر عمل نہیں کر رہے اور جس طرح جماعت کی خدمت کرنی چاہئے ویسے نہیں کر رہے تو پھر نو جوان آگے آجائیں“.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: لجنہ کی اور ناصرات کی تنظیم بھی اسی لئے بنائی گئی تھی اور اسی لئے واقفات کو کو بھی قبول کیا جارہا ہے.واقفات تو اُس طرح تو active role ادا نہیں کرسکتیں جس طرح ہمارے وہ مبلغ ادا کر سکتے ہیں جن کو باقاعدہ ٹرینگ دے کر اور ملازمت میں لے کر بطور مبلغ بھجوایا جاتا ہے.اور جہاں اکیلی عورت تو جا نہیں سکتی ، صرف مرد ہی جاسکتے ہیں“.حضور انور نے فرمایا : پس جو واقفات تو بچیاں ہیں انہوں نے عورتوں میں ،لڑکیوں اور بچیوں میں اپنے نمونے قائم کرنے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ یہاں ایک دو 66 کے سوا باقی بچیاں دس سال سے اوپر کی ہیں.“ حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا: اب دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے.جو اسلام کی تعلیم کے مطابق mature( ایک سمجھ بوجھ رکھنے کی ) عمر ہے جس میں نماز ادا کرنا فرض کیا گیا ہے.اب نما ز ایک ایسی عبادت ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پانچ وقت ادا کرنی ہے اور اس عبادت کو اللہ اور اس کے رسول نے دس سال کی عمر میں فرض کر دیا ہے.تو اس کا پرده 179
پرده مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں تمہارے ہر عمل میں ایک تبدیلی ہو جانی ہے.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: 66 بچیاں کہتی ہیں کہ ہم تو ابھی چھوٹی ہیں.گیارہ بارہ سال کی ہیں.بڑی ہوں گی تو ہم سکارف پہن لیں گی یا کوٹ پہن لیں گی.تو اگر دس سال تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا تو پھر بڑے ہو کر بھی یہ احساس کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا.اس لئے یہ یادرکھو کہ ہمیشہ واقفات ٹو نے دوسروں کے لئے نمونہ بننا ہے.اپنے لوگوں کے لئے بھی اور اپنی قوم کے لئے بھی نمونہ بننا ہے.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اپنے لوگوں کے لئے بھی اور اس قوم کے لوگوں کے لئے بھی تبلیغ کریں گے اور ناروے کے نارتھ میں وہاں تک جائیں گے جہاں 2008ء میں جھنڈا لہرا دیا تھا.اس ایک جھنڈا لہرانے سے، ایک نمائش لگانے سے یا ایک آدمی کو قرآن کریم دینے سے انقلاب نہیں آجایا کرتے.اس کا پھر follow up بھی ہونا چاہئے.باقاعدہ پیچھے پڑ کے دیکھنا ہوگا کہ ہم نے جو کام کئے ہیں، ان کو آگے کہاں تک پہنچایا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پس ایک لیکچر سے، ایک تقریر سے نہ تو پر دے قائم ہو سکتے ہیں اور نہ ہوں گے جب تک کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم نے جو باتیں سنی ہیں ان پر عمل کرنا ہے.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: رات کو سونے سے قبل بجائے TV ڈرامہ دیکھنے کے یا TV ڈرامہ کوئی اچھا ہے تو بے شک دیکھ لولیکن اس میں کسی قسم کا ننگ نہیں ہونا چاہئے.یا انٹرنیٹ 180
پر لمبا وقت گزارنے کی بجائے وقت پر سونے کی عادت ڈالیں تا کہ نماز پر اٹھ سکیں اور پھر سونے سے قبل یہ جائزہ بھی لیں کہ ہم نے آج کیا کیا کام کئے ہیں جو ایک واقفہ کو کے لئے ضروری ہیں.جب نمازیں فرض ہیں تو کیا ہم نے ادا کی ہیں.قرآن شریف پڑھنے کا حکم ہے تو کیا ہم نے پڑھا ہے.اور یہ بھی کہ قرآن شریف کے کسی حکم پر ہم نے غور کیا ہے اور اس میں بیان شدہ تعلیم اور معانی نکالے ہیں.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ لوگوں نے آگے جا کر پڑھانا ہے.دوسروں کی تربیت کرنی ہے.صرف یہ نہیں کہ ایک واقعہ تو ڈاکٹر بن جائے گی، ایک ٹیچر بن جائے گی یا اور کچھ نہیں تو تھوڑی سی پڑھائی کر کے اتنا ہی کافی ہے کہ شادی ہو جائے اور اپنے گھر چلی جائے.بلکہ آپ لوگوں نے ہر جگہ اپنے نمونے قائم کرنے ہیں.پس ان نمونوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک رات سونے سے پہلے آپ خود اپنا جائزہ نہ لیں.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کوئی دوسرا آپ کا جائزہ لے گا تو جھوٹ بولا جا سکتا ہے.لیکن جب آپ خود اپنا جائزہ لیں گی تو جھوٹ نہیں بول سکتیں.جب اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں گی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تم کو دیکھ رہا ہوں تو پھر آپ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سچائی کے ساتھ اپنا جائزہ لیں گی.کیونکہ نہ اپنے آپ کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے.“ پرده ( کلاس واقفات کو ناروے 28 رستمبر 2011, مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 2 دسمبر 2011ء) دورہ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ 15 سال سے زائد عمر کی واقفات تو بچیوں کی کلاس منعقد ہوئی جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 181
پرده واقفات کو بچیوں کو قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاص طور پر پردے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے.یہ صرف عورتوں کو لڑکیوں کو، بچوں کو بعض دفعہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ صرف کا حکم ہمیں کیوں دیا گیا ہے.مردوں کو بھی کوئی حکم ہونا چاہئے پردے کا.حالا نکہ جہاں اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم دیا ہے وہاں نظریں نیچی رکھنے کا پہلے حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو تا کہ تمہاری حیا ٹپکے.اس سے پہلی آیت میں مردوں کے لئے حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.بلاوجہ یونہی دائیں بائیں دیکھتے نہ جاؤ.ہر ایک عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو.پہلے مرد کو حکم ہے پھر عورت کو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھے اور اپنی زینت ظاہر نہ کرے.پھر آگے اس کی تفصیل ہے کہ اپنے سروں کو ڈھانکو.اپنے جو جسم کے اعضاء ہیں ایسے جنہیں پردے کی ضرورت ہے، جن کو مردوں سے چھپانے کی ضرورت ہے ان کو چھپاؤ.باہر ایسی زینت ظاہر نہ کرو جو تم اپنے ماں باپ، بھائی اور سگے رشتہ داروں کو دکھاتی ہو.تو باپ اور بھائی اور سگے رشتہ داروں میں چہرہ ہی ننگا ہوتا ہے ناں باقی ننگ تو ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا.ہاتھ نظر آرہے ہوتے ہیں.یا سر پر دوپٹہ نہ ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے.چہرہ بھی نظر آرہا ہوتا ہے لیکن انسان باقی جسم مکمل طور پر باپ بھائی وغیرہ کے سامنے نہیں کرتا.ہر عقلمند انسان ایسا کرتا ہے.لیکن اس کے علاوہ جب باہر نکلو تو اس سے بڑھ کر تمہارا پر دہ ہونا چاہیئے.یہ حکم ہے“ واقفات کو کونصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : واقفات تو جو ہیں ان کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اپنے ہر معاملے میں رول ماڈل بنیں.ایک نمونہ بننا ہے.اس لئے اس معاشرے میں جہاں پر دے کا بڑا شور 182
ہوتا ہے پر دے کو بھی جاری رکھنا ہے.اس کے ساتھ حیا کا پہلو بھی ہو.صرف حجاب لینے سے نہیں ہو جاتا.جب تک حیا نہیں ہوگی عورت ، مردلڑکے لڑکی کے آپس کے میل جول میں علیحدگی نہیں ہوگی.ایک بیرئیر (barrier) ہونا چاہئے.کسی کو جرأت نہ ہو کہ غلط نظر ڈالے کسی لڑکی پر اور واقفاتِ نو کے نمونے جو ہوں گے تو آئندہ دوسروں کی اصلاح کا باعث بننے والے ہوں گے.پس ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ کا قرآنی حکم کے مطابق ہونا چاہئے کہ جب وہ باہر نکلے تو کسی قسم کی زینت اور حسن عورت کا لڑکی کا دوسروں کو نظر نہ آتا ہو.سر ڈھکا ہو، بالوں کا ہے، چہرے کا ہے.ضروری نہیں ہے کہ ناک بند کر کے ہی چلنا ہے.اگر میک اپ نہیں کیا ہوا، ٹھوڑی ، ماتھا ، اور بالوں کا جو ہے وہ ٹھیک ہے لیکن اگر میک آپ کیا ہوا ہے تو بہر حال چہرہ چھپانا ہوگا.پھر اگلے معیار بڑھتے ہیں جو بعض لڑکیاں پاکستان سے آتی ہیں وہاں نقاب اور برقع پہن کر آتی ہیں یہاں آکر سکارف لینے لگ جاتی ہیں.تو وہ غلط ہے.ایک اچھا معیار جو پردے کا اختیار کیا ہے تو اس کو قائم رکھنا چاہئے.اچھائی سے برائی کی طرف، نیچے نہیں آنا چاہئے، معیار او پر جانا چاہیئے.افریقہ کا ابھی پروگرام ہورہا تھا لڑکوں میں.وہاں اگر مسلمان ہوتی ہیں Pagans میں سے، لامذہبوں میں سے، عیسائیوں میں سے، تو ان کے پردے کا معیار بالکل نہیں ہے لیکن جب کرتی ہیں تو ان کے لئے لباس پہن لینا اور اپنے آپ کو ڈھانک لینا ہی بہت بڑا پر دہ ہے.ان میں سے بعض جب ترقی کرتی ہیں روحانی لحاظ سے تو برقع بھی پہنتی ہیں.تو ایک اچھی مومنہ کا جو لیول ہے اوپر جانا چاہئے.واقفات نو کو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ نمونہ ہیں دوسروں کے لئے.آپ لوگوں کو دوسری بچیاں دوسری عورتیں دیکھتی ہیں.اگر آپ کے نمونے قائم نہیں ہوں گے تو کوئی فائدہ نہیں پرده 183
پرده ہوگا.اب یہ جو کہتے ہیں جینز پہن لیتی ہیں عہدیدار یا عہد یداروں کی بچیاں اور یہ اور وہ.اگر آپ میں سے کوئی جینز skiny جینز پہن لیتا ہے.سوال یہ ہے کہ ایسالباس یعنی جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں.لیکن کوئی بھی ایسا لباس جس سے جسم کے حصے یا اعضاء ظاہر ہوتے ہوں ، تنگ لباس ہو وہ منع ہے.ہندوستان میں رواج ہے تنگ پاجامہ پہنے کا لیکن جب باہر نکلتے ہیں تو برقع ہوتا ہے، لمبا کوٹ ہوتا ہے یا چادر ایسی ہونی چاہئے جس نے کم از کم گھٹنوں تک لپیٹا ہو.جینز اگر پہن لی ، اگر لبی قمیص ہے تو کوئی حرج نہیں.لیکن اگر جینز پہن کے چھوٹا بلاؤ ز ہے صرف سر پر حجاب لے کر باہر نکل آئی ہیں تو وہ بے فائدہ چیز ہے.کیونکہ سر کا تو آپ نے کرلیا جسم کا نہیں کیا اور حیا جو ہے وہ قائم رکھنا اصل مقصد ہے.حیا کے معیار بڑھنے چاہئیں.اصل چیز یہ ہے.عورت کا تقدس اسی میں ہے..بلکہ اب تو پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام غیروں کا آرہا تھا مسلمانوں کا.کوئی عورتیں جو اب مسلمان ہوئیں ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ڈھانک کے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں.بلکہ ایک عیسائی انگریز عورت کا بھی اس میں بیان تھا کہ مرد جو پر دے پردے کا شور مچاتے ہیں کہ ہم نے عورت کو آزادی دلوادی.حالانکہ مسلمان نہیں تھی وہ عیسائی جرنلسٹ ہے اس نے کہا کہ دیکھ کے اور یہ ساری باتیں سن کے میں سمجھتی ہوں کہ مغرب میں چھڑایا جارہا ہے.مردوں نے اپنی عیاشی کے لئے ، اپنی نظروں کی تسکین کے لئے چھڑایا ہے عورتوں کی آزادی کے لئے نہیں چھڑایا.اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ عورت کا ایک تقدّس ہے، اس تقدس کو قائم رکھنا ہے.اس تقدس کو قائم رکھنے کی مثال واقفات تو نے بنتا ہے ہر بارہ میں ہر معاملے میں.184
پرده کیونکہ آج کل ایشو ہے اس لئے میں نے اس کو چھیڑ دیا ہے.ہر چیز میں ، عبادتوں میں آپ کا معیار اچھا ہونا چاہئے.دوسرے احکامات میں معیار اچھا ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جو سات سوحکم کی پابندی نہیں کرتا ، یہاں تک لکھا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے نہیں.تو یہ تلاش کرنا آپ لوگوں کا کام ہے.تا کہ جس جس ماحول میں رہ رہی ہیں مختلف جگہوں پر، اس جگہ پر باقی احمدی لڑکیوں کے لئے بھی ، باقی احمدی عورتوں کے لئے بھی آپ کے نمونے قائم ہوں.یہ سوچیں اور اگر یہ ہو جائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ پھر انقلاب لانے والی بنیں گی.“ ( کلاس واقفات کو جرمنی 19 جون 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12 / اگست 2011ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ واقفاتِ نو کی ایک کلاس مسجد بیت الرشید ہمبرگ، جرمنی میں منعقد ہوئی.اس کلاس میں حضور انور ایدہ اللہ نے واقفات نو بچیوں کو قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا: ہر احمدی واقفہ کا ایک خاص وقار ہے.اس کو اپنے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا فیشن کرنا چاہئے جو پردے کی شرائط کو پورا کرتا ہو.آج کل جس طرح ٹخنوں سے اوپر شلوار پہنے کا فیشن ہے وہ بھی نامناسب ہے“.66 حضور انور نے کلاس فیلو لڑکوں کے بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ : اگر کبھی پڑھائی کے سلسلہ میں کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ سکتی ہیں.کلاس میں ڈسکشن وغیرہ میں حصہ لے سکتی ہیں.مگر اس کے علاوہ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا.یہ ہو کہ پہلے پڑھائی کے سلسلہ میں بات کریں پھر ان کے ساتھ مختلف مواقعوں مثلاً پکنک وغیرہ پر جانا شروع کر دیں.یہ بالکل منع ہے.“ ( کلاس واقفات نو جرمنی 14 اگست 2008ء بمقام مسجد بیت الرشید ہمبرگ مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 12 ستمبر 2008ء) 185
پرده جرمنی کی واقفات نو بچیوں کی کلاس بیت السبوح فرینکفرٹ میں منعقد ہوئی.اس کلاس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں کو بہت سی اہم نصائح سے نوازا.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ایک وقف کو بچی جو ہے اس کا ایک علیحدہ بڑا مقام ہے دوسری بچیوں سے.اس کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اس نے اپنے آپ کو ان ساری برائیوں سے لغویات سے بچا کے رکھنا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم ہیں ان پر عمل کرنا ہے.آج جس طرح تم لوگ سر ڈھانک کے بیٹھی ہوئی ہو یہ دوغلی نہیں ہونی چاہئے، منافقت نہیں ہونی چاہئے.باہر جاؤ، بازار میں جاؤ ، شاپنگ کرنے جاؤ ، سیر کرنے جاؤ جو بڑی لڑکیاں ہو گئی ہیں تب بھی ان کے سر پہ سکارف، حجاب یا دوپٹہ ہونا چاہئے.کیونکہ تمہارا نمونہ جو ہے وہ باقیوں کے کام آئے گا.تم لوگ ایک کریم (cream) ہو جماعت کی بچیوں کی اس لئے اپنا وہ مقام بھی یادرکھو، تمہارا ایک اپنا سٹیٹس (status) ہے اس کو یا درکھو اور ہمیشہ اس کی حفاظت کرو.ہر احمدی بچی کا اپنا ایک تقدس ہے.ایک sanctity ہے اس کا خیال رکھنا چاہیئے.لیکن وقف کو بچی جو ہے اس کو سب سے زیادہ اپنا خیال رکھنا چاہئے...نمازوں کی پابندی، قرآن کریم پڑھنے کی پابندی، اس پر عمل کرنے کی پابندی اور ہر قسم کے جولغویات ہیں اس سے بچنے کی ضرورت اور لغویات میں غلط قسم کے فیشن بھی آجاتے ہیں.ہمبرگ میں بھی کہا تھا یہاں بھی مثلاً بچیاں کوٹ پہنتی ہیں ( جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئیں) پر دے کے لئے ، کوٹ ایسا ہو جو ساتھ چپکا ہوا نہ ہوجسم کے.بلکہ تھوڑا سا ڈھیلا ہونا چاہئے.بازو ا سکے یہاں تک ( کلائی تک) ہوں.پھر پتہ لگے گا کہ تم لوگ مختلف 66 ہو دوسروں سے.ان سب باتوں کا ہمیشہ خیال رکھو اور پڑھائی کی طرف توجہ دو.“ کلاس واقفات نو جرمنی 20 را گست 2008ء مطبوعه افضل انٹرنیشنل 10 اکتوبر 2008ء) 186
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ فرانس کے دوران واقفات کو بچیوں کی ایک کلاس میں تعلیمی اداروں میں کا خیال رکھنے سے متعلق قیمتی نصائح سے پرده نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جو بچیاں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں وہ ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک تو ہر احمدی لڑکی کو ویسے ہی اپنا تقدس قائم رکھنا چاہئے اور یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں اور دوسروں سے فرق ہے لیکن جو وقف کو بچیاں ہیں وہ ان سے بھی زیادہ اپنا تقدس قائم رکھنے والی اور اپنا خیال رکھنے والی ہونی چاہئیں کیونکہ انہوں نے آئندہ جماعت کی خدمت بھی کرنی ہے اور تربیت بھی کرنی ہے.اس لئے ہمیشہ اس ماحول میں دیکھ کے بازار میں جاؤ تو سر پر سکارف ، حجاب لے کر جاؤ.چاہے یہاں برا سمجھیں یانہ سمجھیں.فرمایا: پرائیویٹ اسکول بھی ہیں جہاں ایسی پابندی نہیں ہے جو پرائیویٹ اسکول کے خرچ برداشت کر سکتے ہیں وہ وہاں جاسکتے ہیں.اگر اسکول میں مشکل ہے تو پھر سکول کی حد تک تو سکارف اتر سکتا ہے اس کے بعد نہیں.اسکول سے نکلیں تو حجاب، سکارف لیں.“ کلاس واقفات نو فرانس 10 اکتوبر 2008ء - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14 نومبر 2008ء) اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر واقفات کو سے فرمایا: نمونہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو دین کا علم ہو، نمازوں کی طرف توجہ ہو اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی ہوں، حجاب اور سکارف اور با قاعدہ با ہوں.اگر حجاب لیا ہے اور منہ ننگا ہے تو پھر میک آپ نہیں ہونا چاہئے.اگر میک آپ کیا ہوا ہے تو پھر منہ ڈھانکنا پڑے گا.تو یہ ساری باتیں ہمیشہ یا درکھیں.“ ( کلاس واقفات کو 8 اکتوبر 2011 مسجد بیت الرشید، جرمنی مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 6 جنوری 2012ء) 187
پرده حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یورپین ممالک کے اپنے کامیاب دورہ کے حوالہ سے خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے افراد جماعت کو ” تربیتی معاملات میں بہت سی اہم نصائح فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: ناروے بھی یورپ کے اُن ممالک میں سے ہے جہاں عموماً تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت پڑتی ہے.دنیاداری کی طرف رجحان بھی ہے لیکن اس مرتبہ مجھے وہاں مردوں اور عورتوں کو ، بچوں کو ، بچیوں کو سمجھانے پر اُن کی نظروں میں شرم و حیا اور افسوس بھی نظر آیا.یہ عزم اور ارادہ نظر آیا کہ ہم اپنی کمزوریاں بھی ڈور کریں گے.خاص طور پر واقفین کو اور واقفات نو نے اس بات کا اظہار کیا جب میں نے انہیں اُن کی کلاس کے دوران سمجھایا کہ اُن کی کیا ذمہ داریاں ہیں.واقفات تو نے تو بہت زیادہ عزم کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلیں گی بلکہ اپنے ماحول کی حالتوں کو بدلیں گی اور اس بات پر شرمندگی کا اظہار کیا کہ اُن سے پردے اور لباس اور احمدی لڑکی کے وقار کے اظہار میں جو کمیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں وہ نہ صرف اُن کو دُور کریں گی بلکہ اپنے ماحول میں، جماعتی ماحول میں بھی اور باہر کے ماحول میں بھی ایک نمونہ بن کے دکھائیں گی.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کے ہر احمدی بچے کو اور بچی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ احمدیت کا صحیح نمونہ ہو.کیونکہ اگر ہماری لڑکیوں اور عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو آئندہ نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈالتا ہے.بہر حال ناروے کی جماعت میں مجھے پانچ سال میں بعض لحاظ سے بہت زیادہ بہتری نظر آتی ہے.“ خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 2011ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 11 نومبر 2011ء) 188
واقفات تو کی مائیں نمونہ بنیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفات کو کے اجتماعات کے مواقع پر اپنے متعد دخطابات میں بچیوں کے علاوہ ان کی ماؤں کو بھی ان کی تربیتی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے.چنانچہ ایک موقع پر انمول نصائح سے نوازتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ”یہاں پر بعض بہت چھوٹی بچیاں بھی میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو غالباً بارہ سال سے چھوٹی ہیں.انہیں بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی بچی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حیا کی حفاظت کرے.چاہے کوئی بچی آٹھ سال کی یا نو سال کی یا دس سال کی ہے، اسے اپنے لباس میں حیا کا خاص خیال رکھنا چاہئے.ان کی ماؤں نے عہد کیا ہوا ہے کہ یہ وقف کو تحریک کا حصہ ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ ان بچیوں کے دل میں یہ اہم چیز راسخ کر دیں کہ انہوں نے ہمیشہ شرم و حیا کے تقاضوں کے مطابق کپڑے پہنتے ہیں.ویسے تو تمام احمدی لڑکیوں کے لباس میں شرم وحیا کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے مگر واقفات کو کے لئے تو یہ اور بھی زیادہ اہم ہے کہ انہیں اس کا مکمل احساس ہو.اگر بالکل چھوٹی عمر سے ان کو یہ احساس دلا دیا جائے تو پھر بڑے ہو کر انہیں با پر وہ رہنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا احساس کمتری نہیں ہوتا.جو بچیاں آٹھ ، نو یا دس سال کی بھی ہیں انہیں مناسب قسم کے فیشن اپنا نے چاہئیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے چھوٹی احمدی بچیاں بھی بہت ذہین ہیں.اس لئے انہیں دین کا علم حاصل کرنا چاہئے اور اپنی ذہانت کو اچھے اور مثبت طور پر استعمال میں لانا چاہئے.ایک چھوٹی بچی کے لئے یہ اہم ہوگا کہ اُس کو جو اچھی باتیں اُس کے والدین بتائیں وہ انہیں غور سے سنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے.“ 189 پرده
پرده حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے ماؤں سے مخاطب ہو کر فرمایا: یہاں کچھ مائیں بھی موجود ہیں.میں انہیں بھی ان کی ذمہ داریاں یاد کروانا چاہتا ہوں.آپ کے بچے صرف تب ہی اچھی چیزیں سیکھیں گے اگر آپ خود ان کے سامنے اچھا نمونہ قائم کر کے دکھائیں گی.اس وجہ سے آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ نیکیوں کو اپنائیں اور اپنے گھروں کو اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے ساتھ سجائیں.آخر میں میری دعا ہے کہ تحریک وقف نو کی تمام ممبرات اُن امیدوں کو پورا کرنے والی ہوں جو اُن کے والدین نے اُن سے وابستہ کی تھیں جب انہوں نے ان کی زندگیوں کو اسلام اور جماعت کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا.میں دعا کرتا ہوں کہ آپ سب اُن اعلیٰ اقدار کو حاصل کرنے والی ہوں جن کی امید آپ سے جماعت رکھتی ہے اور خلیفہ وقت آپ سے وہ امید رکھتا ہے.خدا کرے کہ اس بابرکت تحریک سے تعلق رکھنے والی تمام ممبرات اُن اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے والی ہوں جن کیلئے اُن کے والدین نے انہیں وقف کیا تھا.خدا کرے کہ ایسا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگیاں رسول کریم حضرت محمد مصطفی صیام کی خوبصورت تعلیمات کی روشنی میں گزاریں.اللہ تعالیٰ ممبرات تحریک وقف نو کو ہر برکت اور بھلائی سے نوازے.آمین.“ (خطاب بر موقع نیشنل اجتماع واقفات کو یو کے 27 فروری 2016ء.مطبوعہ رسالہ مریم واقفات ئو ، اپریل تا جون 2016ء) مربیان اور اُن کی بیویوں کے لئے کی ہدایت حضور انور ایدہ اللہ نے مربیانِ کرام اور ان کی بیویوں کو افراد جماعت کے لئے نیک نمونے اور اعلیٰ مثالیں پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اسی طرح ایک اور بات میں مربیان اور ان کی بیویوں سے بھی کہوں گا کہ وہ 190
بھی اپنے لباس اور اپنی نظروں میں بہت زیادہ احتیاط کریں.ان کے نمونے جماعت دیکھتی ہے.مربی اور مبلغ کی بیوی بھی مربی ہوتی ہے اور اس کو اپنی ہر معاملے میں اعلیٰ مثال قائم کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے مرد بھی اور ہماری عورتیں بھی حیا کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کرنے والے ہوں اور اسلامی احکامات کی ہر طرح ہم سب پابندی کرنے والے ہوں.“ ( خطبہ جمعہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 فروری 2017ء) لجنہ عہدیداران کو نصیحت لجنہ عہدیداران کو بھی کے حوالہ سے نیک نمونہ بننا چاہئے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: لجنہ کی عہدیدار ہیں تو انہیں مثلاً قرآنی حکم میں ایک ہے اس کا خیال رکھنا ہو گاور نہ وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہی ہوں گی.باقی احکام تو ہیں ہی لیکن مردوں سے زیادہ عورتوں کو ایک زائد حکم پر دے کا بھی ہے.ناروے کے بارہ میں پردے کی شکایات وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک وقت میں بڑی سخت تنبیہ کی تھی.اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الرابع بھی سمجھاتے رہے.لیکن آپ جو عہدیداران ہیں اگر اب بھی آپ کے پردے کے معیار نہیں ہیں، عورتوں مردوں میں میل جول آزادانہ ہے، ایک دوسرے کے گھروں میں بغیر پردے کے آزادانہ آنا جانا ہے اور مجلسیں جمانا ہے جبکہ کوئی رشتے داری وغیرہ بھی نہیں ہے، صرف یہ کہہ دیا کہ فلاں میرا بھائی ہے اور فلاں میرا منہ بولا چچایا ماموں ہے اور اس لئے حجاب کی ضرورت نہیں یا اور اسی طرح کے رشتے جوڑ لئے تو پرده 191
پرده قرآن اس کی نفی کرتا ہے اور ایک مومنہ کو تا کیدی حکم دیتا ہے کہ تمہارے پر اور حجاب فرض ہے.حیا کا اظہار تمہاری شان ہے.اگر لجنہ کی ہر سطح کی عہد یدار خواہ وہ حلقہ کی ہوں، شہر کی ہوں یا ملک کی ہوں، اگر عہدیدار اپنے پردے ٹھیک کرلیں اور اپنے رویے اسلامی تعلیم کے مطابق کرلیں تو ایک اچھا خاصہ طبقہ باقیوں کے لئے بھی ، اپنے بچوں کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی نمونہ بن جائے گا.ایک لجنہ کی عہدیدار کا امانت کا حق تبھی ادا ہو گا جب وہ اور باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے کا حق بھی ادا کر رہی ہوگی.مجھے بعض کے کا حال تو ملاقات کے دوران پتہ چل جاتا ہے جب اُن کی نقابیں دیکھ کر یہ ظاہر ہورہا ہوتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد یہ نقاب باہر آئی ہے جس کو پہننے میں دقت پیدا ہورہی ہے.پس عہدے دار بھی اور ایک عام احمدی عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کریں.آج کل اپنے زعم میں بعض ماڈرن سوچ رکھنے والے کہہ دیتے ہیں کہ پردے کی اب ضرورت نہیں ہے یا حجاب کی اب ضرورت نہیں ہے اور یہ پرانا حکم ہے.لیکن میں واضح کر دوں کہ قرآن کریم کا کوئی حکم بھی پرانا نہیں ہے اور نہ کسی مخصوص زمانے اور مخصوص لوگوں کے لئے تھا.احمدی مرد اور عورتیں خلافت سے وابستگی کا اظہار بڑے شوق سے کرتے ہیں ، جہاں اللہ تعالیٰ نے خلافت جاری رہنے کا قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے وہاں عبادتوں اور اعمالِ صالحہ سے اس کو مشروط بھی کیا ہے.سورۃ نور میں جہاں یہ آیت ہے اس سے دو آیات پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ دعویٰ نہ کرو کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بلکہ فرمایا طاعة مَعْرُوفَةٌ کا اظہار کرو.ایسی اطاعت کرو جو عام اطاعت ہے.ہر اُس معاملے میں اطاعت کرو جو قرآن اور رسول کے حکم کے مطابق تمہیں کہا جائے.اس پر عمل کرو 192
اور اس کے مطابق اطاعت کرو.قرآن اور رسول کا حکم جب پیش کیا جائے تو فوراً مانو.اس بارے میں میں بہت مرتبہ کھل کر بتا بھی چکا ہوں.پس جہاں مردوں کے ساتھ عورتیں اپنے عبادتوں کے معیار بلند کریں ، اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کریں وہاں وہ خاص حکم جوعورتوں کو ہیں ان پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں.یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ پردے کے بارہ میں اپنے آپ کو ڈھانکنے کا حکم گوعورت کو ہے لیکن اپنی نظریں نیچی رکھنے کا اور زیادہ بے تکلفی سے بچنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے.بلکہ اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم پہلے مردوں کو ہے پھر عورتوں کو ہے تا کہ مرد بے حجابی سے نظریں نہ ڈالتے پھریں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 2011 بمقام مسجد اوسلو ناروے.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21 اکتوبر 2011ء) اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حیا ہی دراصل ایک عورت کا سنگھار ہوتا ہے.اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں فرمایا: ایک ایسا اسلامی حکم ہے جس کی وضاحت قرآن کریم میں موجود ہے.اس لئے یہاں کے ماحول کے زیر اثر اپنے حجاب اور کوٹ نہ اتار دیں.میں نے دیکھا ہے بعض خواتین صرف پتلا دو پٹہ لے کر سڑکوں پر آ جاتی ہیں.یہ پردے کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے.بعضوں کے بازو ننگے ہوتے ہیں.اکثر کے کوٹ جو ہیں گھٹنوں سے اوپر ہوتے ہیں.فیشن کی طرف رجحان زیادہ ہے اور کی طرف کم.کریں تو اس سوچ کے ساتھ کریں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے.(صحیح بخاری کتاب الایمان باب الحياء من الايمان حدیث (24) عورت کی حیا، اُس کا وقار، اُس کا تقدس، اُس کا رکھ رکھاؤ ہے.اس چیز کو پرده 193
پرده ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.اور یہ کی طرف بے اعتنائی یا توجہ نہ دینا ہی ہے کہ اس وقت بھی میں نے دیکھا ہے کہ بال میں بہت ساری خواتین داخل ہوئی ہیں جن کے سر ننگے تھے.جلسے کے لئے آ رہی ہیں.جلسے کے ماحول کے لئے آ رہی ہیں.جلسہ سننے کے لئے آ رہی ہیں.ذہنوں میں یہ رکھ کر آ رہی ہیں کہ ایک پاکیزہ ماحول میں ہم جارہی ہیں اور وہاں بھی بال کھلے ہیں اور بالوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک طریقہ ہے کہ سر پر دوپٹہ نہ لیا جائے ، چادر نہ لی جائے اور ننگے سر رہیں.اگر یہ ننگے سر رکھنے ہیں تو پھر جلسے پر آنے کا مقصد کیا ہے.اس سے بہتر ہے کہ گھر بیٹھی رہیں اور اپنے گرد جو دوسری اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کے سر ڈھکے ہوئے ہیں اُن کو بھی بے حجاب نہ کریں.پس اس طرف ضرور توجہ دیں کہ اپنی حیا کی آپ نے حفاظت کرنی ہے.حیا ہی ایک عورت کا زیور اور سنگھار ہے.آپ کے میک آپ سے زیادہ آپ کی حیا آپ کا زیور ہے، آپ کا سنگھار ہے.یہ نہ سمجھیں کہ اگر ہم میں رہیں گی تو اس معاشرہ میں ہم گھل مل نہیں سکتیں.یہ بالکل غلط چیز ہے.بہت ساری ایسی ہیں بلکہ اچھے پروفیشن میں ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے کاموں کے دوران بھی لمبے کوٹ پہن کے اور حجاب پہن کے جاتی ہیں.کم از کم کوٹ کے ساتھ حجاب کے ذریعہ اپنا سر، اپنے سر کے بال اور ٹھوڑی ڈھانکنا ضروری ہے بشرطیکہ میک آپ نہ ہو.اور اگر میک آپ کے ساتھ باہر نکلنا چاہتی ہیں تو پھر منہ ڈھانکا ہونا چاہئے.اسی طرح بلا وجہ مردوں کے ساتھ میل جول، غیر ضروری باتیں کرنا یہ بھی اسلام نے منع کیا ہے.اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف ابھی توجہ نہ رہی تو پھر یہ بڑھتی چلی جائیں گی اور پھر وہی معاشرہ قائم ہو جائے گا جو مغرب میں اس وقت بے حیائی کا معاشرہ قائم ہے.194
پس قرآن کریم کے کسی بھی حکم کو کم نظر سے نہ دیکھیں.یہ نہ سمجھیں کہ یہ پرانے وقتوں کا حکم ہے یا صرف پاکستان اور ایشیاء کے ممالک کے لئے حکم ہے.یہ اسلام کا حکم ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے، ہر ملک کے لئے ہے، ہر ملک کی احمدی مسلمان عورت کے لئے ہے.میں بار بار مختلف جگہوں پر اس کی طرف تو جہ اس لئے دلاتا ہوں کہ یہ کمزوری بڑھتی جارہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو پھر آئندہ جو ہماری نسلیں ہیں ان کی حیا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.وہ پھر اسی طرح کھلے بال اور جین بلاؤز پہن کے منی سکرٹیں پہن کر باہر جائیں گی اور پھر وہ احمدی نہیں کہلاسکتیں.پھر وہ احمدیت سے بھی باہر جائیں گی.پس اس بات کا احساس کریں اور بے حجابیوں میں اور ہوا و ہوس میں ڈوبنے سے بچیں ورنہ آئندہ نسلوں کی، حیا کے تقدس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خیر چاہتی ہیں تو حیا کی بہت حفاظت کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ : حیا سب کی سب خیر ہے.“ پرده (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الايمان....حدیث 157 ) ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 7 جولائی 2012 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 نومبر 2012ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بار با احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے نہایت فکر سے تربیتی نصائح ارشاد فرمائی ہیں.ایک ایسے ہی خطاب میں سے ایک حصہ ہدیہ قارئین ہے جس میں بیان فرمودہ نصائح کو ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا: ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ للہ تعالیٰ پر ایمان تبھی مضبوط ہوتا ہے جب یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے.بعض بُرائیاں اس لئے پیدا ہو جاتی ہیں کہ برائی کرنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا اور اُس وقت انسان یہ 195
پرده بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (آل عمران: 157) کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ تم عمل کرتے ہوا سے دیکھ رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ پر ایمان یہی ہے کہ انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ہو.مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اگر پردے کا حکم دیا ہے تو پردے کا ی حکم صرف جلسہ پر آنے کے لئے نہیں دیا.یا جماعتی فنکشنز پر مسجد آنے کے لئے نہیں دیا.یا میرے سے ملاقات کے وقت کے لئے صرف یہ حکم نہیں دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مومنوں کی بیویوں کو یہ حکم دیا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے: وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُنذِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ (الاحزاب:60) اور مومنوں کی بیویاں جب گھر سے باہر نکلیں تو اپنی بڑی چادروں کو اپنے اوپر ڈال لیا کریں.یہ مومنوں کی بیویوں کی پہچان ہے.اور مومنوں کی بیویاں بھی مومن ہی ہوتی ہیں.شادی کے احکام میں بھی یہی حکم ہے کہ تم مومن عورتوں سے شادی کرو یا مومن عورتوں کو یہ حکم ہے کہ تم مومن مردوں سے شادی کرو.پس یہ کسی خاص موقع کے لئے نہیں ہے بلکہ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ہر اس عورت کے لئے فرض ہے جو اپنے آپ کو مومن کہتی ہے اور بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں اپنے آپ کو شامل سمجھتی ہے.اور اس میں ان مردوں کے لئے بھی حکم ہے جو اپنی بیویوں کے پر دے اِس لئے اُتروا دیتے ہیں کہ ہمیں باہر سوسائٹی میں جاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا backward ہے، اپنی بیویوں کو پکا کرواتا ہے.یہاں یورپ میں پردے کے خلاف وقتاً فوقتاً اُبال اُٹھتا رہتا ہے اور فرانس اس میں پیش پیش ہوتا ہے.وہیں سے عام طور پر یہ تحریکیں شروع ہوتی ہیں.اور پھر رد عمل کے طور پر مسلمانوں کی طرف سے برداروں کا 196
پرده ایک جلوس نکلنا شروع ہو جاتا ہے.اور کے ان جلوسوں میں اکثر منہ لیٹے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں اور کرنے والوں کی اُن میں ایسی تعداد ہوتی ہے جو آپ کو بازار میں اکثر ننگے مُنہ پھرتی نظر آئیں گی بلکہ لباس بھی قابل شرم ہوں گے.یہ اس لئے ہے کہ اُن کی کوئی رہنمائی نہیں ہے.ایک وقتی جوش اور اُبال ہے جو رد عمل کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور جو پردے پر پابندی کا رد عمل ہے.لیکن ایک احمدی عورت اور ایک احمدی نوجوان لڑکی جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہے، اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کے ایمان کا حصہ ہے.ان احکامات میں سے ہے جن کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی احمدی بچیاں اس حقیقت کو مجھتی ہیں.گزشتہ دنوں پر دے کے خلاف فرانس میں جو رو چلی تھی اُس پر ایک احمدی نوجوان بچی جو وقف کو بھی ہے اور جرنلزم میں ماسٹرز کر رہی ہے، اُس نے اخبار کو خط لکھا کہ ایک طرف تو یورپ فرد کی آزادی اور مذہبی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے اور دوسری طرف جو ہمارے مذہب کے احکامات میں سے ایک حکم ہے اس پر تم پابندی لگاتے ہو جبکہ ہم جو کرنے والی خواتین ہیں اسے خوشی سے قبول کرتے ہوئے اپنے خدا کے حکم کے مطابق اس پر عمل کرنا ضروری سمجھتی ہیں.پس ثابت ہوا کہ تمہارا جو مذہبی آزادی دینے کا دعویٰ ہے صرف ایک اعلان ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.آج کل مسلمانوں میں سے اکثریت ایسی ہے جو نہیں کرتی اور اب تو ان کے لباس بھی اتنے ننگے ہو گئے ہیں کہ ٹی وی وغیرہ پر بعض دفعہ جو پروگرام آرہے ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے اور پھر یہ مسلمان کہلانے والی ہیں.اور خشکی اور تری میں فساد سے یہی مراد ہے کہ نہ دین باقی رہا نہ اسلام باقی رہا لیکن پھر بھی مسلمان کہلانے والی ہیں.197
پرده لیکن ایک احمدی عورت جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اسے ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ اُس نے احمدیت صرف اپنے ماں باپ کی عزت کی وجہ سے قبول نہیں کرنی یا صرف اس لئے اپنے آپ پر احمدیت کا لیبل چسپاں نہیں کرنا کہ ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہونے کی مجھے سعادت ملی ہے اور اس کے علاوہ میرا کوئی اور راستہ نہیں کہ میں اپنے احمدی ہونے کا اعلان کروں کیونکہ میرے گھر والے احمدی ہیں.میرا خاندان احمدی ہے.اس لئے ہمیشہ یہ خیال رکھیں کہ ایک احمدی عورت کو احمدیت کی تعلیم کا پتہ ہونا چاہئے.ایمان کی مضبوطی کا پتہ ہونا چاہئے.ایک احمدی کی عزت اس بات میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے ایمان میں اتنی مضبوطی پیدا کریں کہ دنیا کی کوئی خواہش اُسے اُس کے ایمان سے ہٹا نہ سکے.اُس کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکے 66 ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 25 جولائی 2009 ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21 جون 2013ء) دورہ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں تربیت، اور facebook کے استعمال کے حوالے سے بعض اہم ہدایات بیان فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: ہر وہ عورت یا لڑکی جو عام زندگی میں بازار میں پھرتی ہو، کوٹ گھٹنے تک نہیں ہے اور جس کے سر پہ سکارف نہیں اور بال ڈھکے بھی نہیں اور کندھوں پہ اور سینے پر دوپٹہ نہیں ، وہ نہیں کر ر ہیں اور وہ عہد یدار نہیں بن سکتیں.صدر صاحبہ نے کہا کہ ایک صدر بتا رہی تھیں کہ ان کے حلقہ میں کی پابندی کرنے والیوں کی پر سٹیج بہت کم ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: اگر پر سٹیج کم ہے تو ایک صدر کو بنادیں اور وہ سارے عہدے سنبھالے.جو پانچ چھ کی پابند ہیں تو انہی کو عہد یدار بنائیں.باقیوں کو چھوڑ دیں.ایک صدر 198
ہی رہ جائے تو وہ سب کچھ ہو.اگر کوئی اپنے آپ کو improve کرتی ہے.اگر کوئی یہ عہد کرتی ہے کہ ایک مہینے کے اندر اپنے اندر ساری تبدیلیاں پیدا کریں گی، اول تبدیلی تو overnight پیدا ہونی چاہئے.لیکن ایک مہینے میں جائزہ لیں اگر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتی تو اس کو عہدہ سے ہٹا دیں...پرده میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 17 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2011ء) ناروے میں لجنہ اماء اللہ کی نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں حضور انور ایدہ اللہ نے مختلف تربیتی امور کا جائزہ لیا اور احمدی خواتین اور بچیوں کی تربیت کے لئے گرانقدر راہنمائی فرمائی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: امریکہ میں مجھ سے کسی نے پوچھا کہ لڑکیاں نہیں کرتیں.توجہ نہیں دیتیں.جینز پہنتی ہیں اور چھوٹی قمیص ساتھ پہنتی ہیں تو کیا کیا جائے ؟ میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ آپ لوگ بچپن سے، پانچ چھ سال کی عمر سے عادت ڈالنی شروع کریں گی.سات سال کی عمر میں اس کو پتہ ہو کہ میں نے چھوٹی قمیص نہیں پہنی.فراک بھی لمبی پہنی ہے.جینز کے ساتھ بلاؤ زنہیں پہننا.سکارف لینے کی عادت کبھی کبھی ڈالنی ہے.تو جب دس سال کی ہوگی تو اس میں جھجک نہیں رہے گی.اگر آپ اس طرح عادت نہیں ڈالیں گی تو وہ کہے کہ میں تو ابھی دس سال کی ہوں، گیارہ سال کی ہوں، بارہ سال کی ہوں.اسی طرح sleeveless فراکیں جو ہیں وہ پہن لیتی ہیں.اور وہ بھی جب حیا نہیں آئے گی تو سب ختم ہو جائے گا.پھر کی عادت کبھی نہیں پڑے گی.اس لئے شروع سے ہی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے.ناصرات کی تربیت کی بہت ضرورت ہے.تبھی آپ اس ماحول سے اپنی اولاد کو بچا کر رکھ سکتی ہیں.ناصرات کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے.“ سیکرٹری تبلیغ کی رپورٹ پیش ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 66 199
پرده پھر ایک عام تبلیغ ہے.لیف لیٹنگ (leafleting) کی جو سکیم ہے اس میں عورتوں کو حصہ لینا چاہیئے.لیکن مردوں کے ساتھ نہیں.یو کے والوں نے اس طرح تقسیم کیا ہے کہ چھوٹے پرائمری اسکولوں میں اور گھروں میں عورتوں کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ جا کے کرتی ہیں اور اگر بڑی جگہوں پر جانا ہو تو فیملی کی ذمہ داری ہوگی.ایک پوری فیملی مرد ، عورت اکٹھے ہو کر جائیں.غیر رشتہ دار مردا کٹھے نہ ہوں بلکہ رشتہ دارا کٹھے ہوں.یا صرف عورتوں کی ذمہ داری ہو کہ ان کے سپر دصرف پرائمری اسکول ہوں ، چرچ ہوں یا ایسا حصہ چرچ کا جس میں عورتیں جاتی ہیں یا جب ان کے فنکشن ہورہے ہوتے ہیں، یا گھروں میں واقفیت پیدا کر کے، یا میل بکس میں ڈالنے کے لئے ، تو بہر حال یہ خیال رکھیں کہ عورتوں نے تبلیغ کے لئے اپنا علیحدہ انتظام کرنا ہے مردوں کے ساتھ مل کر نہیں کرنا.گو کام وہی کرنا ہے لیکن علیحدہ ہونا چاہئے.“ سیکرٹری تبلیغ نے مختلف اخبارات و رسائل میں articles لکھوانے کے متعلق بتایا تو حضور انور نے فرمایا: ”جو طالبات کی اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہے اس کو active کریں“.صدر صاحبہ لجنہ نے عرض کیا کہ یہاں مخلوط تعلیم اتنی ہے کہ یونیورسٹی میں اگر ہماری بچیاں کوئی پروگرام منعقد کرتی ہیں تو وہاں ہر حالت میں لڑکے بھی آتے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ٹھیک ہے لڑکے آتے ہیں تو اگر حجاب کے اندر رہ کر اسلام کے اوپر لیکچر دینا پڑے تو دیں.کوئی حرج نہیں.لڑکیاں اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ ہی آئیں گی اور وہ ان کے ساتھ ویسے بھی پڑھ رہی ہیں.اگر میں رہ کر اسلام پر لیکچر دیں تو اپنی حالتوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی.لیکن یہ نہ ہو کہ کھلی چھٹی مل جائے.مرکز کی طرف سے کنٹرول ہونا چاہئے.یہ نہ ہو کہ اونٹ کی طرح سر رکھنے کا موقع دیں 200
تو پورے کا پورا اونٹ داخل ہو جائے“.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا : ” خاص طور پر جو پڑھنے والی لڑکیاں ہیں، یونیورسٹی میں جانے والی لڑکیاں ہیں 16, 17, 18 سال کی ہیں کچھ آزادی چاہتی ہیں ان کے ساتھ بھی ان موضوعات پر ڈسکشن ہونی چاہئے کہ لباس ہمارا کیوں اچھا ہونا چاہئے؟“ ” کیوں ڈھکا ہوا ہونا چاہئے؟.حجاب کیوں ضروری ہے؟“.حجاب کے خلاف یورپ میں جو مہم ہے اس میں ایک احمدی لڑکی کیا کردار ادا کر سکتی ہے.پھر قرآن کریم پڑھنے کی عادت ہے.قرآن کریم کے احکامات جو عورتوں کے بارہ میں ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے.یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ کیوں عورتوں کے لئے کا حکم ہے.مردوں کے لئے کیوں نہیں ؟ حالانکہ مردوں کو تو پہلے ہی غض بصر کا حکم ہے.اسی طرح بعض وراثت پر سوال اٹھتے ہیں کہ مرد کا حصہ زیادہ ہے اور عورت کا کم ہے.تو ایسے سوالات آپ کو سوچ سمجھ کر ا کٹھے کرنے پڑیں گے.پھر ان سوالات پرلڑکیوں کی ڈسکشن کروایا کریں.“ سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ آپا جان جب لجنہ میں آئی تھیں تو آپا جان چند مثالیں دے رہی تھیں کہ جونئی بچیاں احمدی ہوتی ہیں ان پر کلچر کو تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آپ حیادار لباس کو اپنا ئیں اور بعض دفعہ ہمارے چوڑی دار پاجامہ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ دور ایسا ہوتا تھا کہ پورا برقع اس کے اوپر ہوتا تھا تو آپ کا ڈھکا ہوالباس ہونا چاہئے اور گھٹنے تک ہونا چاہئے.سیکرٹری تربیت نے بتایا کہ آج کل جو ٹائٹس ہیں اور لڑکیاں پہنتی ہیں اس پر ہم بہت زیادہ کام کر رہے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر ٹائٹس پر وہ لمبی قمیص پہن لیتی ہیں جوگھٹنوں سے نیچے لٹکی ہوئی ہے تو پھر 201 پرده
پرده ٹائنٹس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے.اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ قمیص لمبی ہونی چاہئے.میں نے تو کہا تھا کہ لڑکیاں جینز بھی استعمال کرتی ہیں.سکنی جینز بھی استعمال کرتی ہیں تو بے شک کریں لیکن پھر اس کے اوپر لمبی قمیص پہنی ضروری ہے.لمبی قمیص پہنیں یا پھر باہر آتے ہوئے لمبا کوٹ پہنیں.اصل میں یہ دیکھیں کہ کی روح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا یہ ہے کہ تم غیروں کے سامنے اس زینت کو چھپاؤ جو تم اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے سامنے ظاہر کر سکتے ہو.“ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر بیہودہ لباس گھروں میں پہنا جا رہا ہے تو اس میں گھروں کے لباسوں کو بھی تو چیک کرنے کی ضرورت ہے.اگر ایک جوان لڑکی گھر میں اپنے باپ اور جوان بھائی کے سامنے جینز یا ٹائٹ کے اوپر بلاؤز پہن کر بغیر کسی حجاب کے پھر رہی ہے تو اس کو حیا نہیں رہے گی.اصل چیز حیا ہے اور حیا کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں.باقی اگر تنگ پاجامہ پہنا جاتا ہے تو پہلے بھی پہنا جاتا تھا.اور اس میں کوئی حرج نہیں.تنگ چوڑی دار پاجامہ اور آج کل کی ٹائٹس میں فرق ہے.چوڑی دار پاجامہ میں تو ٹانگ کی shape نظر نہیں آتی.ٹخنے سے لے کر پنڈلی تک اورا و پر گھٹنے تک اس کی ایک ہی گولائی اور shape ہوتی ہے.جس کی وجہ سے پنڈلی کی shape نظر نہیں آتی.جب کہ ٹائٹس میں ایسا نہیں ہے.اس میں پنڈلی سے ٹخنے تک پوری ٹانگ کی پوری shape نظر آرہی ہوتی ہے.اس لئے بتانا پڑے گا کہ ان دونوں میں فرق ہے.پس آپ بچیوں کو اس طرف لانے کی کوشش کریں کہ اصل چیز دیا ہے : " الْحَيَاء مِنَ الایمان “حیا ایمان کا حصہ ہے.پس اگر آپ حیا کو رواج دے دیں تو آپ کے لباس اور پردے خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے.202
پرده اس سوال کے جواب میں کہ بعض مائیں بچیوں کا ساتھ دے رہی ہوتی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جن کی مائیں ساتھ دے رہی ہیں ان کو سمجھائیں.قرآن کریم میں یہ تو نہیں لکھا کہ ڈنڈا مارو.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ فذ کر ، پس نصیحت کرتے چلے جانا تمہارا کام ہے.تمہیں نصیحت کرنے والا بنایا گیا ہے.داروغہ نہیں بنایا گیا.پس عہدیداران کا کام ہے کہ جو چیز بھی غلط دیکھیں تو اس بارہ میں نصیحت کرتی چلی جائیں.اور یہ دیکھا کریں کہ اس بارہ میں قرآن کریم کیا کہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں کیا فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارہ میں کیا تعلیم دی ہے.کے بھی کئی معیار ہیں.جیسا کہ میں پہلے بھی مثال دے چکا ہوں.لندن میں ایک مصر کا باشندہ احمدی ہوا.اس نے کہا کہ میری ماں کے لئے دعا کریں کہ وہ احمدی ہو جائے.میں نے اسے کہا کہ اپنی والدہ کو مسجد لایا کرو.کچھ عرصہ بعد وہ شخص آیا اور بتانے لگا کہ اس کی والدہ مسجد گئی تھی اور وہاں خواتین کا دیکھ کر کہنے لگی کہ تعلیم کی حد تک تو ٹھیک ہے میں سب کچھ مانتی ہوں لیکن تمہاری عورتیں نہیں کر رہیں.اور کا معیار اس کا وہ حجاب تھا جو عرب خواتین لیتی ہیں اور ماتھا ڈھانپ لیتی ہیں.بال نظر نہیں آتے.نہ آگے نہ پیچھے سے.اب بالوں کا بھی تو ایک حد تک ہے.اس لئے اگر فیشن کے لئے آپ چھوٹا سا حجاب لے لیں اور پچھلے بالوں کو دکھانے کے لئے لہراتی پھر میں تو وہ غلط چیز ہے.“ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ ناروے 2 /اکتوبر 2011ء مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 23 دسمبر 2011ء) 203
پرده ہم پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہوں کو پانے کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں.“ خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 30 جولائی 2005ء) 204
چند مثالی نمونے سیدنا حضرت خلیفۃ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعد دمواقع المسیح پر احمدی خواتین کے کے حوالہ سے قابل تقلید نمونوں کا ذکر فرمایا ہے.بعض مواقع پر نام لئے بغیر مختلف ممالک میں آباد احمدی عورتوں اور بچیوں کی طرف سے پردے کی پابندی کرنے اور اس اسلامی حکم پر جرات کے ساتھ لٹیک کہنے کا بھی اظہار فرمایا ہے.نیز حضور انور ایدہ اللہ نے ایسی غیر از جماعت خواتین کے تاثرات بھی بیان فرمائے ہیں جنہوں نے احمدی عورتوں کے پردے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے متعلق کلمات تحسین پیش کئے ہیں.اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ کے چند منتخب ارشادات اختصار سے پیش ہیں تا کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کے اس نہایت اہم حکم کی اطاعت کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی رضا اور پیار حاصل کریں اور دنیاوی احترام کی بھی حقدار ٹھہریں....حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی والدہ محترمہ حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ (اہلیہ محترمہ حضرت صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب) کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ میں اُن کا تفصیلی ذکرخیر فرمایا.نیز حضرت سیدہ موصوفہ کی نظر میں کی اہمیت اور پر دہ کوملحوظ رکھنے کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: اُن کے ساتھ ایک کام کرنے والی پرانی صدر نے لکھا کہ لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا.اس کے لئے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں.نئی تدابیر اختیار 205 پرده
پرده کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں.یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی ہو.کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اگر کے معیار کو گرا ہوا دیکھا تو سڑک پر چلنے والی کو، عورت ہو یا لڑکی یا لڑکیوں کو اس طرح چلتے دیکھا جو کہ احمدی لڑکی کے وقار کے خلاف ہے تو وہیں پیار سے اُس کے پاس جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کرتیں.بتاتیں کہ ایک احمدی بچی کے وقار کا معیار کیا ہونا چاہئے.پردے کے ضمن میں ہی حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک تقریر کا ایک حصہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا.1982ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خلافت کا جو پہلا جلسہ تھا اس پر لجنہ کے جلسہ گاہ میں آپ نے جو تقریر فرمائی ، اس میں پردے کا بھی ذکر فرمایا.اس ضمن میں ہماری والدہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہماری ایک باجی جان ہیں ، اُن کا شروع سے ہی میں سختی کی طرف رجحان رہا ہے کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربیت میں جو پہلی نسل ہے اُن میں سے وہ ہیں.جو گھر میں مصلح موعود کو انہوں نے کرتے دیکھا جس طرح بچیوں کو باہر نکالتے دیکھا ایسا اُن کی فطرت میں رچ چکا ہے کہ وہ اس عادت سے ہٹ ہی نہیں سکتیں.ان کے متعلق بعض ہماری بچیوں کا خیال ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو.پاگل ہو گئے ہیں، پرانے وقتوں کے لوگ ہیں.ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں.لیکن اگلے وقت کو نسے؟ میں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں، (فرماتے ہیں کہ ) میں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے وقت ہیں.اس لئے ان کو اگر اگلے وقتوں کا کہہ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو اس کی مرضی ہے وہ جانے اور خدا کا معاملہ جانے، 66 لیکن یہ جو میری بہن ہیں واقعتاً تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس بات پر سختی کرتی ہیں.“ ( خطبه جمعه فرموده 5 را گست 2011 بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوع الفضل انٹرنیشنل 26 اگست 2011 ء 206
...حضرت صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اہلیہ محترمہ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ) کی وفات پر حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں تفصیل سے مرحومہ کا ذکرخیر فرمایا.اس ضمن میں حضور انور نے اُن کے کرنے کی صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ان کو جماعت اور خلافت کی بڑی غیرت تھی.کی بھی بڑی پابند تھیں.میں تو بعض دفعہ اس حد تک چلی جاتی تھیں کہ اگر کسی کو جو چھوٹا عزیز ہے جس سے نہیں بھی ہے اگر اسے پہچان نہیں رہیں اور وہ گھر میں آ گیا تو جب تک پہچان نہ ہو جائے اس سے بھی کر لیتی تھیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 2009ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 17 جولائی 2009ء) محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ نے لمبا عرصہ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بطور واقف زندگی، خدمت کی توفیق پائی.اُن کی وفات پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مرحومہ کے مختلف محاسن کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کے کی پابندی کا بھی ذکر فرمایا.حضور انور نے فرمایا: 1964 ء میں وہ ربوہ آگئیں اور 1984 ء تک فضل عمر ہسپتال میں بطور 1ء لیڈی ڈاکٹر کے خدمت کی توفیق پائی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک دفعہ مجلس شوری میں اُن کے کی بھی مثال دی تھی کہ کسی نے میں رہ کر کام کرنا سیکھنا ہے تو ڈاکٹر فہمیدہ سے سیکھیں.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 2012ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 نومبر 2012ء)..بکرمہ ناصرہ سلیمہ رضا صاحبہ ایک افریقن امریکن احمدی تھیں جو 18 فروری 2013ء کو زائن (امریکہ ) میں وفات پاگئیں.حضور انور نے اُن کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: پرده 207
پرده 1927ء میں سینٹ لوئس، امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں.ان کے والد بیپٹسٹ (Baptist) پادری تھے....ان کو 1949ء میں ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر مرحوم کے ذریعہ احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.1951ء میں ان کی شادی محترم ناصر علی رضا صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی....( سالہا سال بطور مقامی صدر لجنہ اور ریجنل صدر لجنہ ) کام کرتی رہیں.....آپ کے دل میں اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اچھی استاد مانی جاتی تھیں.وہاں بھی احمدی خواتین ان کو ماں کی طرح سمجھتی تھیں.بڑے پیار سے لوگوں کو سمجھاتیں اور غلطیاں درست کیا کرتی تھیں.بچیوں کو ہمیشہ پردے کی تعلیم دیتی رہیں اور اس طرح اسلامی اخلاق سکھلاتیں.نیز بتاتیں کہ مغربی معاشرے کی بدرسوم کا کیسے مقابلہ کرنا ہے.وہیں پلی بڑھی تھیں ان کو سب کچھ پتہ تھا.“ خطبه جمعه فرموده یکم مارچ 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 22 مارچ 2013ء) بکرمہ تانیہ خان صاحبہ ایک مخلص نو احمدی تھیں جنہوں نے کینیڈا میں وفات پائی تو ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے اُن کی کی پابندی کا بھی ذکر فرمایا.حضور انور نے فرمایا: یہ لبنانی نژاد کینیڈین خاتون تھیں.1998ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی.بڑی فعال داعی الی اللہ تھیں.تبلیغ کا بڑا شوق تھا.نیشنل سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے علاوہ مختلف حیثیتوں سے لوکل اور نیشنل لیول پر جماعتی خدمت کی ان کو تو فیق ملی....خلافت کے ساتھ ان کا بڑا محبت اور وفا کا تعلق تھا.ہر تحریک پر لبیک کہنے والی تھیں.کی پابند اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار.اپنے اعضاء بھی انہوں نے وفات کے بعد donate کرنے کی وصیت کی ہوئی تھی.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوع افضل انٹرنیشنل 30 اگست 2013ء) 208
...احمدیت کی سچائی کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ بیعت کرنے کے ساتھ ہی بیعت کرنے والے کی اخلاقی حالت میں بھی تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے.اس ضمن میں ج ہونے لگتی ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مراکش کی ایک خاتون فاہمی صاحبہ ہیں، وہ کہتی ہیں لقاء مع العرب کے ذریعہ سے تعارف ہوا....چنانچہ میں نے استخارہ شروع کیا اور (ایک) رؤیا کے بعد میں نے کہا: اب جو ہونا ہے ہو جائے.اب مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے.چنانچہ میں نے فوراً بیعت کرلی اور بیعت کے ساتھ ہی کرنا بھی شروع کر دیا.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 2014 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18 / اپریل 2014ء) محترمه الحاجہ سٹر نعیمہ لطیف صاحبہ (اہلیہ مکرم الحاج جلال الدین لطیف صاحب صدر جماعت زائن.امریکہ کی وفات پر اُن کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: سسٹر نعیمہ لطیف 21 رمئی 1939ء کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں.آپ نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے امریکن آرمی کے شعبہ میڈیکل میں رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا....1974ء میں احمدیت قبول کی اور خود مطالعہ کر کے بڑی تیزی سے ایمان و اخلاص میں ترقی کی....اپنی زندگی میں کبھی نماز جمعہ نہیں چھوڑی.جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہونے والی تھیں.رمضان کے روزے کبھی نہیں چھوڑے.اس کے علاوہ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے باقاعدگی سے ہفتہ وار نفلی روزے بھی رکھتی تھیں.اعتکاف میں بیٹھنے کا بھی انہیں موقع ملتا رہا.خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش تھیں....حج بیت اللہ کی سعادت پائی....مالی قربانی میں پیش پیش رہتیں.جب بھی کوئی زیور آپ کے میاں کی طرف سے تحفہ ملتا تو مساجد کے لئے چندہ میں دے دیتیں....خلافت پرده 209
پرده اور خلیفہ وقت سے عشق کی حد تک پیار تھا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کو اولین ترجیح دیتیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے امریکہ کے دورے کے دوران ایک یونیورسٹی میں کی اہمیت پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب سن کر اسی وقت حجاب لے لیا 66 اور اس زمانہ میں اپنے علاقہ میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پر دہ میں نظر آتی تھیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 3 را کتوبر 2014 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 /اکتوبر 2014ء) قبول احمدیت اور خلافت کی اطاعت کرنے کے نتیجہ میں احمدی خواتین کس طرح اسلامی آداب کی پابند بن رہی ہیں، اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں: احمدیت میں شامل ہونے سے تبدیلیاں بھی کس طرح پیدا ہوتی ہیں.ایک تو نمازوں کی طرف توجہ ہے کہ موسم کی شدت کا بھی احساس نہیں کرنا مسجدوں کو آباد کرنا ہے.دوسرے ایک اور مثال دیتا ہوں.میسیڈونیا سے احمدی دوست کہتے ہیں کہ میری اہلیہ کا نام رضا ہے.جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئیں اس سے پہلے وہ نہیں کرتی تھیں تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں آپ کا بڑامشکور ہوں کہ جب لجنہ میں خطاب سنا تو انہوں نے حجاب لینا شروع کر دیا اور اب با قاعدہ کرتی ہیں اور احمدیت پر ثابت قدم ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں بھی ترقی کر رہی ہیں.تو ایسی نئی آنے والیاں جو اسلام کی تعلیم سے پیچھے ہٹ گئی تھیں وہ عور تیں بھی جب احمدیت قبول کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح اسلامی تعلیم کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں.اس لئے ہماری بچیوں کو ، نو جوان بچیوں کو بھی ، عورتوں کو بھی اس طرف دھیان دینا چاہئے کہ جو اسلامی شعار ہیں ان کی پابندی کریں.جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو کرنا ضروری ہے اور بھی ان میں سے ایک اہم حکم.(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اپریل 2015ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن - مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2015ء) 210
محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ بھی کے حوالہ سے ایک مثالی نمونہ تھیں.آپ نے پاکستان سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انگلستان سے گائنی سپیشلسٹ کا کورس کیا اور 1985ء میں فضل عمر ہسپتال میں اپنی خدمات کا آغاز کیا.اُن کی وفات پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے کے حوالہ سے فرمایا : ( آپ کے داماد ) کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی جب بارہ سال کی ہوئی تو اس کو سر ڈھانپنے اور پردے کا خیال رکھنے کی تلقین کرتیں اور حضرت اماں جان اور دیگر بزرگوں کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتیں بچوں کو مثال یا واقعہ کی صورت میں سناتیں.خود بھی پردے کی بہت پابند تھیں.پس اگر والدین اور ان کے بڑے بچوں کو یہ نصیحت کرتے رہیں تو پھر لڑکیوں میں جو حجاب نہ لینے کا حجاب ہے وہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ جرات پیدا ہوتی ہے....ڈاکٹر نوری صاحب جور بوہ میں طاہر ہارٹ کے انچارج ہیں وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ نو سال سے زائد عرصہ سے محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کے ساتھ فضل عمر ہسپتال کے زبیدہ بانی ونگ اور طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے کا موقع ملا.ان میں بعض ایسی صفات تھیں جو آ جکل بہت کم ڈاکٹروں میں پائی جاتی ہیں.بہت ہی نیک، دعا گو ، اعلیٰ اخلاق کی حامل، خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والی، اپنے مریضوں کے لئے دعائیں کرنے والی، کی باریکی سے پابندی کرنے والی، قرآن کریم کا وسیع علم رکھنے والی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُسوہ پر عمل کرنے والی خاتون تھیں.اور انہوں نے یہاں یوکے(UK) میں بھی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد یہاں مختلف ہسپتالوں میں اپنے علم میں اضافے کے لئے بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ انہوں نے نقاب کا کیا ہے اور پورا برقع پہنا ہے اور کبھی کوئی کمپلیکس نہیں تھا اور پر دے کے اندر رہتے ہوئے پرده 211
پرده سارے کام بھی کئے.اس لئے وہ لڑکیاں جن کو یہ بہانہ ہوتا ہے کہ ہم پر دے میں کام نہیں کر سکتیں ان کے لئے یہ ایک نمونہ تھیں.“ ( خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام، ٹورانٹو، کینیڈا مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 11 نومبر 2016ء) فضل عمر ہسپتال ربوہ کی دونوں سینئر لیڈی ڈاکٹرز کی کی پابندی کے حوالہ سے نمایاں خوبی کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں.ربوہ میں ہماری ڈاکٹر تھیں.ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے میں دیکھا ہے.ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکا کرتی تھیں.یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کونئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے ، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ میں رہیں بلکہ وہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں.ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا.آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے.تو اگر نثیت ہوتو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 / فروری 2017ء) حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں الجزائر کے نو احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے اُن کی قربانیوں اور اسلام سے اُن کی محبت کے حوالہ سے فرمایا: الجزائر کے احمدیوں کے لئے آخر میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں.یہ نئی جماعت ہے.اکثریت ان میں سے نومباتعین کی ہے لیکن بڑے مضبوط ایمان والے ہیں.آجکل حکومت کی طرف سے بڑی سختی ہو رہی ہے.بلا وجہ 212
مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں.بعض کو جیل میں بھیج دیا گیا ہے....پولیس نے بعض دفعہ بعض گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے پردگی کرنے کی کوشش کی.مثلاً چند دن ہوئے ایک عورت سے کہا کہ اپنا دوپٹہ اتارو.اس نے کہا مجھے جان سے مار دو میں دوپٹہ نہیں اتاروں گی اور نہ میں احمدیت چھوڑوں گی.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن - مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 17 فروری 2017ء) لجنہ اماءاللہ کراچی کی سابق صدر مکرمہ سلیمہ میر صاحبہ کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے دو ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ : پر دے کا انتہائی اہتمام کرنے والی تھیں.جہاں بھی پردے میں کمزوری دیکھتیں بڑے اچھے انداز میں سمجھا دیتیں تا کہ دوسروں کو بُرا بھی نہ لگے.ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ میری چھوٹی بہن کے لئے رشتہ آیا تو لڑکے نے کہا کہ پہلے میں لڑکی کو دیکھوں گا پھر بات آگے بڑھے گی.کہتی ہیں کہ ہم نے امی سے کہا کہ بہن کو نقاب کی بجائے سکارف میں سامنے کر دیتے ہیں.اپنی بیٹی کا رشتہ تھا.کہتی ہیں اس پراٹی نے فوراً جواب دیا کہ رشتہ ہوتا ہے تو ہو لیکن نقاب کے بغیر یہ نہیں جائے گی.ایک بچی کا لندن میں ڈرائیونگ ٹیسٹ تھا اور انسٹرکٹر مرد تھا تو بیٹی کے ساتھ چل پڑیں کہ مرد کے ساتھ تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گی.لوگوں نے مذاق بھی اڑایا.لیکن انہوں نے دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کی.سر پر سکارف لینے کے لئے یا نقاب لینے کے لئے ہمیشہ کہا کرتی تھیں.لجنہ کی جو کتاب ہے جس میں سارے خلفاء کے ارشادات ہیں اس کا نام ہے اوڑھنی والیوں کے لئے پھول.تو یہ کہا کرتی تھیں کہ اگر پھول لینا چاہتی ہو تو اوڑھنی لینی پڑے گی.پھول تو اسی کے لئے ہیں جو کرنے والی ہیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 2018ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن - مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20 را پریل 2018ء)...خلفائے عظام کی نصائح کے نتیجہ میں معاشرہ میں جو غیر معمولی اخلاقی تبدیلی پرده 213
پرده واقع ہوتی ہے اُس کا اظہار کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے ایک احمدی لڑکی کے حوالہ سے ایک موقع پر فرمایا: عورتوں کے لئے بھی میں ایک مثال دوں گا.اور حیا کی حالت ہے.اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے.آسٹریلیا میں...پاکستان سے شادی ہو کر وہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبر دستی پر دہ چھڑوا دیا گیا تھا.یا ماحول کی وجہ سے میں بھی کچھ اس دام میں آگئی اور چھوڑ دیا.اب میں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت میں نے برقع پہنا ہوا تھا تو اس وقت سے میں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب میں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں.اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 20 دسمبر 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10 جنوری 2014ء) خلیفہ وقت کی بابرکت زبان سے نکلنے والی نصائح نے دنیا کے ہر ملک میں آبا داحمدیوں کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کئے ہیں.چنانچہ امریکہ میں پیدا ہونے والی پاکیزہ تبدیلی کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دورے کے مثبت نتائج بھی یہاں نکلے ہیں.امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اور نکل رہے ہیں.بعض بچیوں نے امریکہ میں مجھے لکھا جو وہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں اور یہاں کی بچیوں نے بھی لکھا اور خطوط اب بھی آ رہے ہیں کہ آپ کی باتیں سن کر ہمیں عورت کے تقدس کا لڑکی کے تقدس کا، اُس کی حیا کا احساس ہوا ہے.اب ہمیں اپنی اہمیت پتہ لگی ہے.کی اہمیت پتہ لگی 214
ہے.ایک احمدی لڑکی کے مقام کا پتہ لگا ہے.اسی طرح نو جوانوں نے یہ بھی لکھا کہ نماز کی اہمیت کا پتہ چلا ہے.بعض لڑکیوں نے لکھا کہ ہم سمجھتی تھیں کہ اس ماحول میں رہتے ہوئے برقع اور حجاب کی ہمت ہم میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتی.لیکن آپ کی باتیں سننے کے بعد جب ہم آپ کے سامنے حجاب اور برقعہ اور کوٹ پہن کر آئی ہیں تو اب یہ عہد کرتی ہیں کہ کبھی اپنے برقعے نہیں اتاریں گی.پس یہ سوچ ہے.اللہ تعالیٰ اس سوچ کو عملی رنگ میں ہمیشہ قائم رکھے اور وہ اپنے تقدس کی حفاظت کرنے والی ہوں جیسا کہ انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے تقدس کی حفاظت کریں گی.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / جولائی 2012ء بمقام مسجد بیت الاسلام.ٹورانٹو، کینیڈا.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 3 اگست 2012ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب مغربی افریقہ کا پہلا دورہ فرمایا تو واپس تشریف لانے کے بعد ایک خطبہ جمعہ میں بینن کی با احمدی کارکنات کی ڈیوٹیوں پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: میں نے بینن میں ایک اور بہت اچھی چیز دیکھی ہے.وہاں لجنہ نے اپنی ایک خاص ٹیم تیار کی ہے جو ہر موقعے پر ڈیوٹیاں دیتی ہے.بڑی با ، نقاب لے کے اور مستقل ڈیوٹیاں دیتی رہی ہیں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 16 / اپریل 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 30 را پریل 2004ء) بعد ازاں کینیڈا میں جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے افریقہ کے دورے کے حوالہ سے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے فرمایا: افریقہ میں میں نے دیکھا ہے جہاں لباس نہیں تھا اُنہوں نے لباس پہنا اور پورا ڈھکا ہوا لباس پہنا اور بعض کرنے والی بھی ہیں.نقاب کا بھی بعضوں نے شروع کر دیا ہے.یہاں بھی ہماری ایفرو امریکن بہنیں جو بہت ساری پرده 215
پرده امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کا ایسا اعلیٰ پر دہ تھا کہ قابل تقلید تھا، ایک نمونہ تھا بلکہ کل ملاقات میں میں نے اُن کو کہا بھی کہ لگتا ہے کہ اب تم لوگ جو ہو تم پاکستانیوں کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے یا جو انڈیا سے آنے والے ہیں اُن کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے..66 ( خطاب از مستورات بر موقع جلسہ سالانہ کینیڈا.25 جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2 / مارچ 2007ء) جلسہ سالانہ کے مواقع پر بھی مہمان خواتین کی ایک بڑی تعداد تشریف لاتی ہے جن میں سے بعض اپنے تاثرات کا اظہار بھی کرتی ہیں.چنانچہ احمدی خواتین کے مثالی پر تحسین کا بر ملا اظہار کئی غیر از جماعت مہمان خواتین نے بھی کیا ہے.مثلاً حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں : دامیبا بیا تریس صاحبہ (Damiba Beatrice) ہیں جو بورکینا فاسو سے جلسہ میں شامل ہوئیں اور بورکینا فاسو پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے لئے ہائر اتھارٹی کمیشن کی صدر ہیں.دو دفعہ ملک کی فیڈرل منسٹر رہ چکی ہیں.اس کے علاوہ اٹلی اور آسٹریا میں چودہ سال تک بورکینا فاسو کی سفیر بھی رہ چکی ہیں.نیز یو این او میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں.یہ کہتی ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت میرے لئے زندگی میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے....مجھے کوئی شخص کالا، گورا یا انگلش یا فرنچ نظر نہ آیا بلکہ ہر احمدی مسلمان بغیر رنگ ونسل کے امتیاز کے اپنے خلیفہ کا عاشق ہی نظر آیا.پھر کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ جس بات سے میں متاثر ہوئی وہ یہ تھی کہ ہر شخص خدا کی خاطر ایک commitment کے ساتھ اس جلسہ میں شامل ہوا تھا....عورتوں کو مردوں سے الگ تھلگ ایک جگہ دیکھنا میرے لئے باعث حیرت تھا اور مجھے یوں لگا کہ شاید یہاں بھی عورتوں سے دوسرے مسلمانوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے.لیکن جب میں ان عورتوں کے ساتھ رہی تو کچھ ہی دیر میں میرا یہ 216
تأثر بدل گیا.میں نے دیکھا کہ فوٹو اتارنے والی بھی عورت تھی، کیمرے پر بھی عورت تھی، استقبال پر بھی عورتیں تھیں ، کھانا تقسیم کرنے والی بھی عورتیں تھیں ، غرضیکہ ہر کام عورتیں ہی کر رہی تھیں اور یہ سچ ہے کہ عورت کا ہر گز اس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا.اگر کسی کو اس کا یقین نہ آئے تو احمدیوں کے ہاں آکر دیکھ لے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 06 ستمبر 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ افضل انٹرنیشنل 27 رستمبر 2013ء) جلسہ سالانہ برطانیہ میں پہلی بار تشریف لانے والی ایک غیر از جماعت مہمان خاتون نے احمدی عورتوں کے میں رہ کر جلسہ سالانہ میں شمولیت پر جس طرح مثبت اظہار خیال کیا، اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں: جمیکا سے ایک غیر از جماعت خاتون اوئیڈ انیس بیتھ (OuidaNesbeth) صاحبہ شامل ہوئیں.اکاؤنٹنٹ ہیں پڑھی لکھی عورت ہیں.کہتی ہیں کہ میں گزشتہ پانچ سال سے جماعت احمدیہ سے رابطہ میں ہوں.اس عرصہ کے دوران میرا جماعت کے ساتھ تعلق اور تعارف تو کافی تھا لیکن اس جلسہ میں شامل ہونے کے بعد اس میں بہت وسعت پیدا ہوئی ہے اور اسلام کے متعلق ذہن میں جو بھی شکوک تھے ان کا ازالہ ہو گیا ہے.مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ عورتیں اور مردعلیحدہ علیحدہ تھے.ایک طرف سے اعتراض ہوتا ہے، لیکن عورتوں کو یہ بات اچھی لگی ).اس وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹتی نہیں ہے.خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو مردوں کی نظریں ٹھیک نہیں ہوتیں.کہتی ہیں کہ عورتیں اور مردعلیحدہ علیحدہ تھے اس وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹتی نہیں ہے اور لوگ اسلام اور عبادت پر زیادہ توجہ دے پاتے ہیں.پس احمدی عورتیں بھی جو کسی وقت کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہیں ان کو بھی اس کے comment پر سوچنا چاہئے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 10 را گست 2018ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن - مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 31 اگست 2018ء) پرده 217
پرده کے بارہ میں ایک خوبصورت اظہار ایک غیر از جماعت مسلمان خاتون جرنلسٹ نے بھی کیا جو باغیانہ ردعمل کے طور پر کرنا ترک کر چکی تھیں.اُن کے تأثرات بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: Belize میں اس دفعہ جماعت قائم ہوئی ہے.وہاں کی ایک جرنلسٹ مریم عبدل صاحبہ آئی ہوئی تھیں.یہ بلیز کے کریم (Krem) ٹی وی کی معروف اینکر بھی ہیں....انہوں نے بتایا کہ وہ کٹرسٹی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں.کہتی ہیں میرا باپ بڑا سخت مسلمان تھا جس کی وجہ سے مجھے رد عمل ہوا اور میں نے بڑے ہو کر اسلامی احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا کیونکہ ، سکارف اور بہت ساری ایسی باتیں جن کا غلط رنگ میں یا صحیح رنگ میں دوسرے مسلمانوں میں رواج ہے.ان میں اتنی سختی تھی کہ میں اسلام کی تعلیم سے دُور ہو گئی.بڑی ہوئی تو سکارف حجاب سب کچھ اُتار کے پھینک دیا.لیکن کہتی ہیں خدا تعالیٰ پر مجھے بہر حال یقین ہے.لیکن جلسہ سالانہ میں یہاں آ کر مجھے ایک انوکھا تجربہ ہوا ہے.یہاں میں نے کسی عورت کو پابند اور جکڑا ہوا نہیں دیکھا.ہر لڑکی ، ہر عورت آزاد تھی.میں نے عورتوں اور بچیوں کو دیکھا.وہ آزادانہ طور پر پھر رہی تھیں.نظمیں پڑھ رہی تھیں.بازار میں جارہی تھیں.ایک دوسرے کو محبت سے مل رہی تھیں.اس نے میرے اندر یہ سوچ پیدا کر دی ہے کہ اگر میں احمدی مسلمان گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو میری روش باغیانہ نہ ہوتی.پس احمدی خوش قسمت ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو احمدی گھروں میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور کچھ کو احمدی ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ان باتوں سے بچا کے رکھا جو باغیانہ روش پیدا کرتی ہیں.بعض احمدی بچیوں میں بھی رد عمل ہوتا ہے، ان کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ غیر آ کر ہمارے سے متأثر ہوتے ہیں اس 218
لئے کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں.اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے یہ ہر ایک کے لئے ایسی تعلیم ہے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے اور اس پر 66 عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 5 رستمبر 2014ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26 رستمبر 2014ء) قرآنی حکم پر عمل سے جنت کی ضمانت برطانیہ کے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَزِينَةً وَتَفَاخُرُ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرُ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرَ أَ ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيمِ - (الحديد: 22-21) اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں مختلف طریقوں سے مختلف پیرایوں سے توجہ دلائی ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھو اور میری طرف آؤ.اور اس زمانے میں اس مقصد کی طرف ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پرده 219
پرده توجہ دلائی ہے.پس ہم پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہوں کو پانے کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں.یہ جو آیات تلاوت کی گئی ہیں...( ان کا ترجمہ پیش کرتا ہوں ).فرمایا: جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے اور سج دصبح اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے.( یہ زندگی ) اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں ) کولبھاتی ہے.پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے.پھر تو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے، پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے.اور آخرت میں سخت عذاب ( مقدر) ہے.نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی.جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھو کے کا ایک عارضی سامان ہے.اور اگلی آیت میں فرمایا کہ : اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے وہ 66 جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے.“ ہے.“ ( خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یو کے 30 جولائی 2005ء.مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11 مئی 2007ء) 220