Language: UR
نومبر 1971ء میں نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے اس کتاب کی طباعت کا انتظام کیا تھا، اس کتاب میں پاکستان کے قیام کے روحانی پس منظر کے بیان میں کئی حوالہ جات سے بات کی گئی ہے اور مستند اور معین امور ذکر کرکے پاکستان کے قیام اور استحکام کے لئے جماعت احمدیہ کی کوششوں اور رہنمائی کا بتایا گیا ہے۔
پاکستان کا روحانی پس منظر مولوی دوست محمد صاحب شاہد موسرخ احمدیت
بي الله الرحمن الرحيم قیام پاکستان کاروانی پیش تر مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاهد) اسلام کے عہد اول کی تاریخ اور دعا کے انقلابات گو اسلام کے عہد اول کی تاریخ پر قلم اُٹھانے والے اکثر محققین نے اس روحانی نکتہ کو چنداں کوئی خاص اہمیت نہیں دی یا اسے بالکل نظر انداز کو دیا ہے مگر حق یہی ہے کہ اس دور کی سب اسلامی فتوحات آنحضرت صلے A
اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی و روحی) کی دعاؤں کے طفیل تھیں.چنانچہ سید نا حضرت المسیح الموعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں جس قدر عظیم الشان فتوحات ہو ئیں کہ تمام دنیا کے رنگ کو بدل دیا وہ سب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ کے پاس صرف تین تلواریں تھیں یا ( ملفوظات جلد نہم جنت ) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس حقیقت کو ایک نہایت لطیف مثال سے واضح کیا ہے.فرماتے ہیں :.تلوار اور سانان جنگ کے بغیر لڑائی نہیں جیتی جا سکتی میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے.محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی ایسی تیز تلوار تھی جوذ کر الہی کے کارخانے سے تازہ ہی بن کر نکلی تھی ؟ (الفصل 4 اخاء / اكتوبر الله ) ۶۱۹۴۲ بر صغیر کی مسلم حکومت کی بنیاد اور دعا ساقی کوثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر دعائوں کا جو بھاری
اور لازوائی خزانہ چھوڑا ہے وہ اولین ہی کے لئے نہیں آخرین کے لئے بھی ہے جو قیامت تک آپ کے بچے خادموں ، غلاموں اور چاکروں کو ملتا رہے گا بشرطیکہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ سے اس کے حصول کی مخلصانہ اور عاجزانہ کوششیں جاری رکھیں گے.اس راز کو پہلی صدی ہجری کے ان مسلمانوں نے بھی خوب سمجھا جو تا حسین یا تبع تابعین میں شمار ہوتے تھے.مثلاً بر صغیر پاک و ہند کی پہلی اسلامی حکومت کی بنیا د فاتح سندھ ابو الفداء محمد بن قاسم نے اموی حکمران ولید بن عبد المالک کے عہد حکومت دسر میں در اصل ذکر الہی ، تلاوت قرآن ، تو کل اور دعا کے طاقت ور اور ناقابل شکست مہتھیاروں ہی سے رکھی تھی چنانچہ حضرت علی بن حامد ابو بکر کوفی کی کتاب " فتح نامہ سندھ ( المعروف پنچ نامہ) سے ثابت ہے کہ محمد بن قاسم کو ارما بیل دارین بیلہ) میں یہ شاہی فرمان پہنچا کہ سوادِ وسیبل کی منازل و مراحل میں اکثر جاگتے رہا کرو، ہمیشہ تلاوت قرآن میں مصروف ار ہو، خدائے عز وجل کا ذکر ہر وقت زبان پر ہو، توفیق الہی سے نصرت کے طلب گار ہو اور لا حول ولا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ کے ا بکثرت ورد کو اپنا مدد گار بناؤ.دفتحنا مر حنا ناشر مجلس مخطوطات فارسیه حیدر آباد دکن طبع لطیفی دیل ها اہل اللہ اور روحانی اور تبلیغی سرحدوں کی توسیع حضرت محمد بن قاسم اور ان کے اولوالعزم اور خدائی لشکر اسلام نے
بسی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اس کی روحانی اور باطنی اور تبلیغی سرحدوں کو بے شمار صوفیاء ، اولیاء اور علماء ربانی نے اپنی نیم شبی دعاؤں، تبلیغی جہاد او پاک اور پرکشش اخلاق و اطوار سے اور اس کی مادی حدود کو غزنی ، غوری خلیجی، تخلقی، لودھی ، افغانی اور مغلیہ خاندان کے مسلمان بادشاہوں نے وسیع تر کر دیا جو در اصل اہل اللہ کی تو جہات رُوحانی ہی کا فیض تھا.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں :.پہلے بادشاہوں کے زمانہ میں یہ قاعدہ ہوتا تھا کہ ان کے رہا ہوں میں کوئی نہ کوئی اہل اللہ بھی موجود ہوا کرتے تھے جن کے صلاح مشوروں سے بادشاہ کام کیا کرتے تھے اور ان کی دعاؤں سے فائدہ اُٹھایا کرتے تھے یہ ( ملفوظات جلد دہم صلا) پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ : پہلے اسلامی بادشاہوں کے متعلق سنا جاتا ہے کہ وہ پیصائب کے وقت راتوں کو رو رو کر دعائیں کرتے تھے ! ملفوظات جلد نهم مثه نیز اسلامی ہند کی حقیقی شان و شوکت اور مروج و اقبال کو بزرگان دین کے فیض و برکت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- اسلام ہند میں ان مشائخ اور بزرگان دین کی توقیہ، دعا اور تصرفات کا نتیجہ ہے جو اس ملک میں گزرے تھے.بادشاہوں کو یہ توفیق کہاں ہوتی ہے کہ دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دیں.!
جب تک کوئی آدمی اسلام کا نمونہ خود اپنے وجود سے نہ ظاہر کرے تب تک دوسرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں فنا ہو کر خود محبتم قرآن اور محبتیم اسلام اور منظر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بن جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ایک جذب عطا کیا جاتا ہے اور سعید فطر توں میں اُن کا اثر ہوتا چلا جاتا ہے.نوے کہ وڑ مسلمان ایسے لوگوں کی توقیہ اور جذب سے بن گیا " ( ملفوظات جلد شتم م ) ہندوستان اور سپین میں اسلامی سپاہ کی متوازی بلغار تاریخ اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجاہدین اسلام کے قدم اس پر صغیر میں عین اُس وقت پڑے جبکہ مشہور اور نامور مسلمان جنرل طارق احمدلس (سپین) کے بادشاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو بارہ ہزار فوج سے شکست دے کر نہایت تیزی سے فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑ رہے تھے.یہ گویا اسلامی سپاہ کی ایک متوازی یلغار اور پیش قدمی کا شاندار مسلسلہ تھا جو نیک وقت وسطی ایشیا اور جنوب مغربی یورپ دونوں میں ایک بحر بیکراں کی شکل میں ایک ساتھ چل رہا تھا.فرق صرف یہ ہوا کہ اندلس کی مسلم مملکت ۱۳۹۲ کے بعد صفحہ ہستی سے معدوم ہو گئی مگر ہندوستان میں اہل اسلام کا پریم کسی نہ کسی صورت میں عشائر تک ہوا ہو اہراتا رہا.
مسلمانوں نے اپنے ہزار سالہ عہد حکومت میں ہندوستان کو اپنے فہم و تدبر، فوجی قابلیت علمی استعداد اور سب سے بڑھ کر روحانی مجاہدات سے ہمدوش ثریا بنا دیا.چنانچہ یہ حقیقت ہو کے مسلمانوں نے دس صدیوں تک بر صغیر کی عظمت کو چار چاند لگانے کے لئے قابل فخر مسلسل اور منظم جد و جہد کی ہے اور پشاور سے منی پور تک اور ہمالیہ سے مدر اس تک اُن اہل اللہ کی بے شمار قبریں موجود ہیں جنہوں نے اپنی نیم شبی دعاؤں سے اس خطہ ارض کو برکت بخشی ہے اور مسلم ہند میں پیدا ہونے والے ہزاروں لاکھوں ولی امجد د صوفی ابدال و اقطاب جن کی خاک پانے اپنے باطنی فیض سے اس ملک کو رشک جناں اور جنت ارض بنا یا سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان اور بنگال ہی میں نہیں ہر علاقہ میں زیر خاک آسودہ ہیں اور عظمت اسلام کا خزانہ گویا گھنا پڑا ہے.ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کے ان بے شمار روحانی بادشاہوں باطنی تاجداروں کی رہین منت ہے جب تک مسلم حکومت کا دعاؤں کے آسمانی اور محمدی پاور اسٹیشن سے رابطہ قائم رہا وہ عروج و ترقی کے میدان میں پوری تیز رفتاری سے رواں دواں رہی مگر جب مسلمان حفاظت و سالمیت اور عظمت و شوکت کے اس سب سے طاقت ور سریشمہ اور منبع کو فراموش کر کے محض دنیوی وسائل کا سہارا تلاش کرنے لگے تو ان پر یکا یک زوال آگیا اور یہ سر زمین جو اولیاء واصفیاء سے بھری ہوئی تھی اپنی دعاؤں سے عرش کو ہلا دینے والوں سے دیکھتے دیکھتے خالی ہو گئی.
وا أَسْفَا عَلَى فِرَاقَ قَوْمٍ هُمُ الْمَصَابِيحُ وَالْحُصُونَ والْمُدُنُ وَالْمُزْن والرواسي وَالْخَيرُ والامن والسكون یعنی ہائے افسوس ! اُن لوگوں کی جدائی پر جو دنیا کے لئے سورج کا کام دے رہے تھے اور جودنیا کے لئے قلعوں کا رنگ رکھتے تھے لوگ ان سے نور حاصل کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذابوں اور مصیبتوں سے دنیا کو نجات ملتی تھی حقیقت میں وہی شہر تھے جن سے تمام دنیا آباد تھی.وہی بادل تھے جو سو کھی ہوئی کھیتیوں کو ہرا کر دیتے تھے.وہی پہاڑ تھے جس سے دنیا کو اتمام تھا.اسی طرح وہ تمام بھلائیوں کے جامع تھے اور دنیا ان سے امن اور سکون حاصل کر تی تھی.عرش پر دُعاؤں کا عظیم الشان خزانہ نکہت و ادبار اور ہر میت و پسپائی کے اس تاریک دور میں جبکہ ہندوستان سے لے کر الجیریا تک کی دنیائے اسلام پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے اور مسلمان کہلانے والی حکومتیں استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر مردہ بیمار کی طرح سیسک رہی تھیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بے مثال قوت قدسی اور عدیم النظیر فیضان نے شاہراہ غلبہ اسلام کی تیاری کے لئے دوبارہ اس برصغیر پر نگاہ رحمت فرمائی اور اسے
دنیا بھر میں اسلامی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے منتخب کر کے حضرت بانی جماعتِ احمدیہ کو کھڑا کیا تا اقلیم نبوت کے شہنشاہ مخاتم الانبیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے اس عظیم الشان خزانہ سے جو عرش پر محفوظ ہے امت محمدیہ کو دوبارہ فیضیاب کیا جائے اور فتوحات اسلامی کا آفتاب ایک مرتبہ پھر پوری آب و تاب سے طلوع ہو.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- فَاعْلَمُوا آنَ الدُّعَاء حَرْبَةُ أَعْطِيتُ مِنَ السَّمَاءِ لِفَتْحِ هَذَا الزَّمَانِ وَلَنْ تَغْلِبُوا إِلَّا بِهَذِهِ الْحَرْبَةِ يَا مَعْشَرَ الْخَلانِ : تذكرة الشهادتين منش) یعنی خوب یاد رکھیں کہ دعاہی وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ کی فتح کے لئے مجھے آسمان سے دیا گیا ہے.اور اسے میرے دوستوں کی جماعت تم اسی حربہ سے غالب آسکتے ہو.اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ منادی بھی فرمائی کہ :.یہ عربی نہیں میں کا نام محمدہ ہے ہزار ہزار ورود اور سلام اس پر...وہی ہے جو سر شیعہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوئے کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت
q کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے یہ (حقیقۃ الوحی ص ) اسکو عطا کیا گیا ہے آنحضرت کے فرزند جلیل کی پرسوز دعائیں شوکر اسلام کیلئے ہمارے سپید و موالی سید الانبیاء سيد الاحياء ختم المرسلين، فخر النبيين حضر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرزند جلیل کو بار بار حضرت رب العزت کی طرف سے خبر دی گئی کہ جو کچھ ہو گا دعاہی کے ذریعہ سے ہوگا.ملفوظات جلد نم منم اس انکشاف نے آپ کو یقین کی اس مضبوط چٹان پر کھڑا کر دیا کہ : اول بھی دعا اور آخر بھی دعا ہی دعا ہے.حالت موجودہ بھی میں چاہتی ہے.تمام اسلامی طاقتیں کمزور ہیں اور ان موجودہ اسلحہ سے وہ کیا کام کر سکتی ہیں.اب اس کفر وغیرہ پر غالب آنے کے واسطے...آسمانی حربہ کی ضرورت ہے " (ملفوظات جلد نجیم م۳۳) من آپ کی بعثت کا مقصد وحید ہی چونکہ اسلام کی عالمگیر حکومت کا قیام تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و عروج کے لئے آپ کے قلب صافی میں دعاؤں کا زبردست جوش پیدا کر دیا چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں:.جس حالت میں اب اسلام ہے اس کا علاج اب سوائے دعا کے اور کیا ہو سکتا ہے.خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا
1.جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے ؟ ایک بار فرمایا :- المحفوظات جلد پنجم ۳۳۵) جلد یسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں دعا کی تھی کہ اے اللہ اگر تو نے آج اس گروہ کو ہلاک کر دیا تو پھر تیری کبھی عبادت نہ ہو گی.یہی دعا آج ہمارے دل سے نکلتی ہے." الملفوظات جلد ہفتم ملا حضور علیہ السلام نے ملت بیضا کی شوکت رفتہ کی بازیابی کے لئے نہایت کثرت سے گریہ وزاری کی اور اپنی سجدہ گاہ کو ہمیشہ اپنے آنسوؤں سے تر رکھا اور بارگاہ الوہیت میں نہایت سوز، درد اور الحاج سے عرض کیا اے خدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا خدا مجھے کو دکھلا دے بہار وہیں کہ میں ہوں شاکیا میرے آنسو اس غم دل سوز سے تھتے نہیں دیں کا گھر ویران ہے دنیا کے ہیں عالی منار فضل کے ہاتھوں سے اب اس وقت کو میری مد کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفان سے پار میرے زخموں پر لگا مریم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کوشن میں ہو گیا زار و نزار
11 دیکھ سکتا ہی نہیں میں شعف دین مصطفے مجھ کو کر اسے میرے سلطاں کا میاب کامگار یا الہی فضل کو اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب بن کے پکار اب نہیں ہیں ہوش اپنے ان مصائب میں بجا رحم کو بندوں پہ اپنے تا وہ ہو وہیں رستگار اے خدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا ندا مجھ کو دکھلا دے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبا کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار اسے خدا شیطان پر مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار ول نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر اے مری جاں کی پسنہ فورج ملائک کو اتار (در نہیں اسلام اور مسلمانوں کی نسبت آسمانی بشارتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیم شبی تفرعات اور نالہ ہائے آہ و پکانے آسمانوں پر دھوم مچادی اور خدائے ذوالجلال آفریدہ زمین و آسماں کی طرف سے یہ خوشخبری دی گئی کہ
: بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یا بر منا بلند تر حکم افتاده دبیر امین احمدیہ حصہ چهارم ماه حاشیه در حاشیه ی مطبوعه ادم یعنی آب ظهور کر اور شکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے بھاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا یہ ( نزول اسیح ۱۳۳۰ ) پھر رویا میں دکھایا گیا کہ :.عنایات الہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اس قوت ایمان اور اخلاص اور تو نحل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خدا وند کریم یاد دلائے گا اور نہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر ایک برکت ظاہری و باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے." (مکتوباتِ احمدیہ جلد اول من) قیام پاکستان کی واضح پیش گوئیاں الہامات میں مسید نا حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ السلام کو ایک پاک زمین کی بھی بشارت دی گئی جو ہجرت کے ساتھ وابستہ تھی.چنانچہ حضور نے اپریل میں رسالہ واقع البلاء کے صفحہ ۲۱ پر اپنے ایک الہام کا ترجمہ درج ذیل الفاظ میں شائع فرمایا :
عیسائی لوگ ایذاء رسانی کے لئے مکر کریں گے ریڈ کلف کی ناپاک سازش کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے.ناقل ) اور خدا بھی مکر کر ے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور نه که خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے یہ خدائے علیم و خبیر نے اس موجودہ پاک زمین کی نسبت بعض حیرت انگیز مغیبات سے بھی مطلع فرمایا مثلاً :- اول ستمبر 11ء میں الہام ہوا :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ مہند میں (الحجم ۲۴۰۱۷ دسمبر ما سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ م ہی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- ۶۱۹۶۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی رو سے پاکستان وہ قلعہ بند ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے ہیں چنانچہ جب 4 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُترے اور انہوں نے پاکستانی فوجوں کی مدد کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حملہ آور فوجوں کو ذلت آمیز شکست اُٹھانا پڑی " الفضل ۱۸ صلح ه م ) 41940
۱۴ اس قلعہ پاکستان کو یہ عجیب خصوصیت حاصل ہے کہ اس عظیم ترین مسلمان حکومت کے باشندے اپنی تعداد میں مراکش، الجزائر ، تونس، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان ، شام ، مشرقی اردن، فلسطین، سعودی عرب، یمن، کویت، بحرین، قطر، عراق، مسقط، عمان، عدن ، حضرموت ، بجزائر مالدیپ، افغانستان، صومالیہ اور قبرص کی مجموعی آبادی سے بھی بہت زیادہ ہیں.دود : بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی زندگی کا آغا آپ کے سوانح نگار مولانا سید رئیس احمد جعفری کی تحقیق کے مطابق ٹھیک 192 ئہ میں ہوا (ملاحظہ ہو " قائد اعظم اور ان کا عہد" ص ۳) خدا کی قدرت! ٹھیک اسی سال حضور نے خواب دیکھا کہ :.زور سے اللہ اکبر اللہ اکبر (ساری اذان) کہ رہا ہوں.ایک اُونچے درخت پر ایک آدمی بیٹھا ہے وہ بھی یہی کلمات بول رہا ہے.اس کے بعد میں نے بآواز بلند درود شریف پڑھنا شروع کیا اور اس کے بعد وہ آدمی نیچے انتہ آیا اور اس نے کہا سید محمد علی شاہ آگئے ہیں.اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے زور سے زلزلہ آیا اور زمین اس طرح اُڑ رہی ہے جیسے روٹی ڈھنی جاتی ہے.اس کے بعد یہ وحی نازل ہوئی سے ہے سر راہ پر تمہارے وہ جو ہے مولا کریم ہے ب کار ۲۰ اپریل ۱۹۱۵ نه صدا)
۱۵ اس نہایت عجیب اور پُر اسرار خواب میں (جو بہت سی غیبی خبروں پر مشتمل تھا، نہ صرف قیام پاکستان کے روحانی پس منظر اور اس کے معرض وجود میں آنے کے وقت کی سیاسی فضا کا نہایت بلیغ نقشہ کھینچا گیا تھا.بلکہ اس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کا نام نامی تک بتا دیا گیا تھا نیز ایک نہایت عظیم روحانی انسان کا پتہ بھی دیا گیا تھا جو اپنے رومانی منصب کے اعتبار سے ایک اُونچے درخت پر بیٹھے اذان کی پر شوکت الفاظ سے آسمانی نوبت خانہ کو پورے زور سے بجاتا اور خدائی بادشاہت کی منادی کر رہا تھا.عالم رؤیا کے اس نظارہ میں بالواسطہ طور پر یہ ھی پیش گوئی موجود تھی کہ قیام پاکستان کے دشمن اس کے نقش عالم پر ابھرتے ہی یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ نوزائیدہ مملکت بہت جلد تباہ ہو جائے گی مگر دنیا پر مختلف واقعات ہمیشہ آشکارا ہوتا رہے گا کہ اس کے پیچھے مولا کریم کی زبر دست قدرت اور نصرت کام کر رہی ہے.پاک زمین کیلئے ابتدائی اسباب سیاسیات ہندیں تختی کیم حضرت مسیح موعود علی السلام تحریر فرماتے ہیں.، جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا
14 ہے.پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں تب اس کی روح اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں : د بركات الدعاء طبع اول من اشاعت رمضان المبارک ۱۳۰ هم اس خدائی سنت کے عین مطابق حضرت احدیت جبل اسمہ کی طرف سے پاک زمین کے لئے بھی (جو اپنی اہمیت و حقیقت کے اعتبار سے بالکل پرو غیب میں تھی ، زمین پر بے شمار خارجی اور مادی اسباب پیدا کئے گئے جن کے نتیجہ میں ایسے ایسے تغیرات و انقلابات واقع ہوئے کہ بالآخر خود برطانوی حکومت اور آل انڈیا نیشنل کانگریس مطالبہ پاکستان اور پاک زمین توسلی کرنے پر مجبور ہو گئی.اس سلسلہ میں ایک خاص تصرف الہی نہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کو انتقالِ اقتدار محض دستوری اور آئینی ذرائع سے ہوا.بے چاری مسلمان قوم ہندوستان میں اقتصادی طور پر از حد ایماندہ نظم ونسق کے لحاظ سے منتشر اور عددی حیثیت سے اقلیت میں تھی مگر مسلمانوں نے من حیث الجماعة نہ قانون شکنی کی نہ بغاوت کا کوئی طریق اختیار کیا اور نہ انہیں ان ناجائز
16 سیاسی حربوں کو زیرہ استعمال لانے کی ضرورت پیش آئی جو آزادی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کے لئے لازمی اور ناگزیر سمجھے جاتے ہیں.پاکستان اگر چه مسلمانان ہند کا قومی نعرہ تھا جو مختلف ارتقائی منازل و مراحل طے کرنے کے بعد معین صورت اور معین الفاظ میں ۲۳ تاریخ نشہ کو بلند ہوا اور بہت جلد کامیابی سے ہمکنار ہوا.مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کی جد و جہدیں انگریز اور بہندو نے منفی اور سلمان نے مثبت رنگ میں اپنا کردار ادا کیا ہے.انگریزوں نے اپنے مفاد اور اپنی مستقل سیاسی پالیسی کے مطابق ہر ہندوستانی کو ذہبی آزادی دی اور مسلمانوں کو مستقل قوم تسلیم کر کے کما لیگ کو بالآخر اس کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا اس طرح خدا تعالیٰ نے خود انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی جدا گانہ ہستی کے سیاسی تحفظ کی آئینی بنیاد مہیا فرما دی.ہندوؤں نے انگریز کا بلا شرکت غیرے واحد سیاسی جانشین بننے کی ہوس میں جہاں پورے ملک کی معیشت و تجارت پر قبضہ جما کر مسلمان قوم کے ساتھ محض اختلاف مذہب کی بناء پر شودروں اور اچھوتوں اور میچھوں کا برتاؤ روا رکھا وہاں بعض لوگوں کو اپنا آلہ کار بناکر مسلمانوں کی صفوں میں تفریق و انتشار پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش کی.ان کے اس ذلت آمیز سلوک سے مسلمانوں کا احساس خود داری زندہ اور اُن کی خوابیدہ قوتیں بیدار ہو گئیں اور ان کی مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑانے کی پالیسی کار و جمیل یہ ہوا کہ زخم رسیدہ مسلمانوں پر جب اصل حقیقت نمایاں ہوگئی تو وہ بہت نے تقرت الہی ملاحظہ ہو جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی ۲۳ مارچ (ستائر) کو کبھی گئی ہے
جلد ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہونے میں کامیاب ہو گئے.اس طرح پاکستان کا وہ تخیل جس کا نظارہ حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کی کشفی آنکھ نے دیکھا تھا بالآخر خلافت ثانیہ میں عملی شکل میں قائم ہوگیا اور غریب اور کمزور مسلمانوں کے طفیل خود ہندو اکثریت کو بھی آزادی مل گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لطیف ارشاد ہے.فَإِنَّمَا تُنصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ بِضُعَفَاءِ كُمْ (بخاری کتاب الجہاد جلدی من ) کہ تم کو غریبوں اور کمزوروں کی وجہ سے ہی مدد ملتی اور رزق عطا ہوتا ہے.مندرجہ بالا تفصیل سے ضمناً اس حقیقت پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی خواب میں جو بزرگ درخت پر بیٹھے ہوئے دکھائی دیئے وہ حضرت سیدنا المصلح الموعود تھے جن کے مبارک عہد خلافت میں آسمانی افواج کے ذریعہ پاکستان کا قیام نہایت مخالف و نامساعد حالات میں ۱۴.اگست ۹۴۷ مہ کو عمل میں آیا.ایک نہایت ایمان افروز واقعہ اس تعلق میں ایک ایمان افروز واقعہ بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ۱۲۸ اپریل شر کی شب کو الہام نازل ہوا إِنِّي مَعَ الْأَزْوَاجِ أَتِيكَ بَغْتَة دیں تیرے پاس اچانک فوجوں کے ساتھ آؤں گا ، غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ الہام پاکستان کی سیاسی اور قومی تاریخ میں آج تک ایک نمایاں عنوان رہا ہے عجیب بات یہ ہے کہ
: 14 جس رات یہ الہام ہوا اُسی شب حضرت صاجزادہ مرزہ البشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کو بھی بتایا گیا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود پر نازل کیا گیا ہے چنانچہ سیدنا المصلح الموعود کی روایت ہے کہ :- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا إلى مَعَ الأفواج اتِيكَ بَغْتَةً میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لئے آؤں گا.جس رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا اس رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوں ه الي مع الأفواج اتِيكَ بَغْتَةً - جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھو الاؤ مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لا کر دے دیا کرتا تھا تا کہ وہ انہیں اخبار میں شائع کر دیں.اس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب الہامات لکھ کر دیئے تو جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ اِنِّي مَعَ الْأَزْوَاجِ اتيك بغتة میں نے جب ان الہامات کو پڑھا تو یکیں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کر سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں کچھ عرض کروں.اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے
بتایا گیا تھا اُسے غلط سمجھ لوں.اسی حالت میں کئی واقعہ میں وقعہ میں آپ سے عرض کرنے کے لئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر کوٹ آتا ، پھر جاتا اور پھر کوٹ آتا.آخر میں نے جرات سے کام لے کہ کہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے إنِّي مَعَ الأفواج اتِيكَ بَغْتَةٌ مگر ان الهامات میں اس کا ذکر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں یہ الهام درج تھا.چنا نچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اس الہام کو بھی اخبار کی اشاعت کے لئے درج فرمایا " 14.تفسیر کبیر الزلزال صفحه ۴۴۷ - ۲۴۸ و بدر کے ۱۲ اپریل شاه مت) - نه هست اس تعرف الہی میں واضح حکمت یہی تھی کہ چونکہ پاکستان کا قیام اور اس میں فوجوں کی آمد کے متعدد واقعات کا ظہور حضرت مصلح الموعود کے دورِ خلافت میں مقدر تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں إِنِّي مَعَ الْاَزْوَاج اتيك بغتة كا الهام اپنے پیارے مسیح موعود پر کیا ، ہاں اس کے ساتھ ہی اس کی فوری اطلاع اپنے فرشتہ کے ذریعہ سید نا محمود کو بھی کر دی.خلافت ثانیہیں پاکستان کی تشکیل تعمیر کا باطنی ترک حضرت مصلح موعود کے زمانہ مخلافت میں پاکستان کی تشکیل و تعمیر کیوں ہوئی ؟ اس کی مادی اور ظاہری وجہ تو ظاہر ہی ہے کہ حضور نے اور حضور کی
قیادت و راہ نمائی میں جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان کے جہاد میں پرجوش اور نا قابل فراموش حصہ لیا مگر اس کا اصل اور روحانی باعث یہ ہے کہ حضور نہایت درد سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اٹلی کوئی علاقہ ہمیں ایسادے جس میں ہم قرآنی تعلیم کے مطابق عمل کر سکیں جس پر خدا تعالٰی نے امت مسلمہ کو پاکستان جیسی عظیم مملکت عطا فرمائی.(الفصل ۱۶۲ اپریل مشه که م) حضرت سیدنا محمد نو کا دعاؤں ستفارق عادت شعف اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اور سر بلندی کا بے پناہ ذوق و شوق حق تعالی نے آپ کی پاک اور مطہر فطرت میں رکھ دیا تھا اور آپ بچپن ہی سے غیم ملت کے لئے اشکبار اور بیقرار رہتے تھے.دعاؤں میں آپ کا یہ شخت ایسا غیر معمولی اور خارق عادت اور والہانہ رنگ رکھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی اور قدیم صحابہ کبھی آپ پر رشک آتا تھا.چنانچہ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ فرمایا کرتے تھے کہ :.ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا.مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاج سے دعا کر رہا ہے اور یکں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اُٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے پئیں نہیں کر سکتا کہ وہ مجھ سے پہلے کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے.مگر لے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد عرب
۲۲ جب آپ نے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں.میں نے السلام علیکم کی اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا تو آپ نے فرمایا میں نے تو یہی مانگا ہے کہ امی مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا " دالحکیم جوہی نہر بارویں نمبر ۱۹۳۹ در منہ کالم عام مات احمد کاظم اور سید نا نمود حضرت سید نا محمد مصلح موعود اپنے پہلو میں ملتِ احمد کا جونم چھپائے رکھتے تھے اس کی جھلک آپ کے ابتدائی شعری کلام سے بھی نمایاں ہوتی ہے بطور نمونہ تشہید الا زبان ماہ فروری شاہ میں شائع شدہ آپ کی ایک نظم کے چند دردناک اشعار ملاحظہ ہوں مدت سے پارہ ہائے جگر کھا رہا ہوں یکس سه رنج و محسن کے قبضہ میں آیا ہوا ہوں میں میری کمر کو قوم کے غم نے دیا ہے موڑ کسی ابتداء میں ہائے ہوا مبتلا ہوں میں کچھ اپنے تن کا فکر ہے مجھ کو نہ جان کا دین محمدی کے لئے کر رہا ہوں میں
۲۳ میں رو رہا ہوں قوم کے مُرجھائے پھول پر ر میں فرمایا : تکلیبل تو کیا ہے اس سے کہیں خوشنوا ہوں میں فکر دیں میں گھل گیا ہے میرا جسم دل میرا اک کوه آتشبار ہے مکہ معظمہ میں سیدنا محمود کی اسلام کیلئے پر سود کھائیں حضرت سید نا محمود أصلح الموعود کی سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کے اندر آخر ائر ہیں ایک نیا جوش اس وقت پیدا ہوا جبکہ آپ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور سید عبد المحی صاحب عرب کے ساتھ سفر مصر و عرب پر تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے چنانچہ آپ نے پورٹ سعید سے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا: اگرچہ میری جسمانی صحت اس سفر میں بہت کمزور ہے لیکن یہ ھانی طور سے بہت کچھ فائدہ ہوا ہے اور اس قدر دعاؤں کا موقعہ ملا ہے کہ پہلے کم اتفاق ہوا تھا اور مجھ سے جس قدر ہو سکا..اسلام کے لئے بہت دعائیں کیں..یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا تمام زمین و آسمان نور سے بھر گیا ہے اور دل میں اس قدر دعا کا جوش تھا کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا اور پھر ساتھ دل میں یقین
۲۴ ہوتا تھا اور اطمینان تھا کہ سب دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور دعا سے طبیعت گھبراتی نہ تھی یہ جہاز پر سینکڑوں زبانیں بولنے والے لوگوں کو حج کے لئے بجاتے دیکھے کہ آپ کے دل میں ایک عجیب رقت طاری ہو گئی اور نیم شبی دعاؤں کا رنگ ہی اور ہو گیا چنانچہ آپ نے انہیں دنوں اپنے ایک مرے مکتوب میں رقم فرمایا.واقعی جو دعا اور توجہ الی اللہ اس سفر میں دیکھی ہے دیکھی نہ دیکھی تھی.رائے کے قریب اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ کو دعاؤں کے لئے کھول دیا اور بہت دعا کی توفیق ملی.قدرت الہیہ اور اس کے فضل کے قربان جاؤں کہ وہ ترک جوتر کی تو الگ عربی بھی نہیں بھانتے تھے ایک میرے دائیں اور ایک میرے بائیں کھڑے ہو گئے اور نہایت درد دل سے آمین آمین پکارنے لگے.فورہ آمیرے دل میں آیا کہ یہ قبولیت کا وقت ہے کہ خدا نے یہ لوگ میرے لئے آمین آمین کہنے کے لئے بھیج دیتے ہیں اور حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ ہمیں کیا کہ رہا ہوں.اس وقت میں نے....حانیت اسلام کے لئے بہت دیر تک دعا کی اور وہ دونوں ترک برابر آمین کہتے رہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ دیگر ۱۲ دسمبر ا مرا کام نمرات ) من اس کے بعد جب آپ مکہ معظمہ کی مبارک و مقدس اور مرکز انوارو بر سکتا لے پورٹ سعید اور جدہ کے درمیان ایک مقام ؟
۲۵ اور مہبط تجلیات سرزمین میں پہنچے تو آپ کے جذبات میں ایک زبر دست تلاطم پیدا ہو گیا اور قلبی واردات و مشاہدات نے ایک جدید صورت اختیار کرلی اور جو پہنی آپ کی نظر خدا کے آخری گھر پر پڑی آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لئے خصوصی دعائیں شروع کر دیں.لحکم و بر ادامه تفسیر کبیر سورة البقره جز دوم مشاه) زیارت بیت اللہ کے بعد آپ نے عمرہ کیا اور اس موقعہ پر بھی اسلام کی سربلندی کے لئے نہایت عجز سے بکثرت دعائیں اور التجائیں نہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.نہیں نے حتی المقدور...اسلام و مسلمانوں کے لئے دعائیں کیں زیارت و بیت اللہ کے وقت بھی اور صفا و مروہ کی سعی کے وقت ۶۱۹۱۲ بھی یہ (الحکم کے دسمبر سے مٹ) مکہ کی مقدس، بابرکت اور روح پرور اور روحانیت و نورانیست سے معمور فضاؤں نے آپ کے دل و دماغ میں دعاؤں کے لئے نہایت زبر دست تحریک پیدا کی چنا نچہ خود ہی فرماتے ہیں :.ہزاروں اثرات ہیں جو دل پر ہوتے ہیں اور نیکی اور تقویٰ کی تحریک کرتے اور محمد ہوتے ہیں.دعاؤں کی تحریک بھی ہوتی ہے.ہے." و الحکم ۱۲۰۰ جنوری شاه حت کالم لات بائی نیز لکھا :-
" دعاؤں سے رغبت اور دعاؤں کا الفاء اور رحمت الی کے آثار جوئیں نے اس سفر میں خصوصا مکہ معظمہ اور ایام رنج میں دیکھے وہ میرے لئے بالکل ایک نیا تجربہ ہے.(ایضا) حضور نے حج کے دوران میدان عرفات میں بچار گھنٹے سے زیادہ دعائیں کیں.ان بابرکت لمحات میں رحمت الہی کے آثار ایسے نظر آتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ تمام دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور خود اللہ جل شانہ و عزاسمہ کی طرف سے ایسی دعائیں القاء ہوئیں جو اس سے پہلے آپ کے خیال تصور میں بھی نہ آئی تھیں.دعاؤں کا فوری اور اعجازی اثر ان تفرعات اور گریہ وزاری نے خدائی تقدیر کے تاروں میں ایسی زیر دست جنبش پیدا کردی که حضور کو مکہ معظمہ کے قیام کے دوران ہی بندری رویا اسلام کے شاندار اور عالمگیر مستقبل کی نسبیت ایک نہایت خوش کن اور عظیم الشان نظارہ دکھا یا گیا جس میں میرے ذوق کے مطابق خدائی حکومت کے فیصلہ کی طرف اشارہ تھا کہ آسمان پر اس پاک زمین کی سنگ بنیاد رکھ دی گئی ہے جو آئندہ چل کر پوری دنیا میں محمد رسول اللہ صلعم کا قلعہ اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بنے والی ہے اور جس کے ذریعہ سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله کا پُر شوکت نعرہ
۲۷ دنیا کے چپہ چپہ پر گونجنے والا ہے.اسلام کے شاندار مستقبل کا نظارہ حضرت مصلح موعود نے قیام مکہ کے دوران عالم رویا میں دیکھا کہ : ایک جگہ ہوں اور میر صاحب اور والدہ ساتھ ہیں آسمان سے سخت گرج کی آواز آرہی ہے اور ایسا شور ہے جیسے توپوں کے متواتر چلنے سے پیدا ہوتا ہے اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے.ہاں کچھ کچھ دیر کے بعد آسمان پر روشنی پیدا ہوتی ہے اتنے میں ایک دہشت ناک حالت کے بعد آسمان پر ایک روشنی پیدا ہوئی اور نہایت موٹے اور نورانی" الفاظ میں لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ لکھا گیا.میں نے میر صاحب کو پوچھا آپ نے یہ عبارت نہیں دیکھی انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.میں نے کہا کہ ابھی آسمان پر چہ یہ عبارت لکھی گئی ہے.اس کے بعد بآواز بلند کسی نے کچھ کھا جس کا مطلب یا د رہا کہ آسمان پر بڑے بڑے تغیرات ہو رہے ہیں جن کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا ہوگا.اس کے بعد اس نظارہ اور تاریکی اور شور کی دہشت سے آنکھ کھل گئی " دالحکم کے جنوری شاکر مثہ کالم )
۲۸ پاکستان سے متعلق ایک حیرت انگیز خبر پاکستان کی اس عظمت و اہمیت کو کہ وہ اسلام کی عالمی فتوحات و ترقیات کا پہلا زینہ ہے حضرت مصلح موعود نے اپنی زندگی میں بڑی و قضات سے بیان کیا.چنانچہ آپ نے ۱۹۴۷ء کے جلسہ لاہور کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- پاکستان کا مسلمانوں کو مل جانا اس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقعہ میسر آ گیا ہے اور وہ آزادی کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں.اب ان کے سامنے ترقی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگر وہ ان کو اختیار کریں تو دنیا کی کوئی قوم ان کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار ہو سکتا ہے.مگر پھر بھی پاکستان ایک چھوٹی چیز ہے ہمیں اپنا قدم اس سے آگے بڑھانا چاہیئے اور پاکستان کو اسلامستان کی بنیاد بنا نا چاہئیے.بے شک پاکستان بھی ایک اہم چیز ہے.بے شک عرب بھی ایک اہم چیز ہے.بے شک حجاز بھی ایک اہم چیز ہے.بے شک مصر بھی ایک اہم چیز ہے.بے شک ایران بھی ایک اہم چیز ہے مگر پاکستان اور عرب اور مجاز اور دوسرے اسلامی ممالک کی ترقیات صرف i
۲۹ پہلا قدم ہے اصل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے.ہم نے پھر سارے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے ہم نے پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں لہرانا ہے.نے پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت اور آبرو کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچاتا ہے.ہمیں پاکستان کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں مصر کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں عرب کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں ایران کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.مگر ہمیں حقیقی خوشی تب ہوگی جب سارے ملک آپس میں اتحاد کرتے ہوئے اسلامستان کی بنیا د رکھیں.ہم نے اسلام کو اس کی پرانی شوکت پر قائم کرنا ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرتی ہے.ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرتا ہے اور ہم نے عدل اور انصاف پر مینی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بناتا ہے.یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کرے گا اور ہر ایک کو اس کا حق دلائے گا جہاں روس
اور امریکہ فیل ہوا صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کامیاب ہوں گے.یہ چیزیں اِس وقت ایک پاگل کی بڑ معلوم ہوتی ہیں مگر دُنیا میں بہت سے لوگ جو عظیم انسان تغیر کرتے رہے ہیں وہ پاگل ہی کہلاتے رہے ہیں اگر مجھے بھی لوگ پاگل کہہ دیں تو میرے لئے اِس میں شرم کی کوئی بات نہیں.میرے دل میں ایک آگ ہے.ایک جلن ہے.ایک تپش ہے جو مجھے آٹھوں پر بیقرار رکھتی ہے.یکیں مسلمانوں کو ان کی ذوقت کے مقام سے اُٹھا کر عورت کے مقام پر پہنچانا چاہتا ہوں.لیکن پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا چاہتا ہوں.لیکن پھر قرآن کریم کی حکومت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہوں.کہیں نہیں جانتا کہ یہ بات میری زندگی میں ہوگی یا میرے بعد لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں اسلام کی بلند ترین عمارت میں اپنے ہاتھ سے ایک اینٹ لگانا چاہتا ہوں یا اتنی اینٹیں لگانا چاہتا ہوں مبتنی اینٹیں لگانے کی خدا مجھے توفیق دے دے اور میرے جسم کا ہر ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت اِس کام میں خدا تعالے
۳۱ کے فضل سے خرچ ہو گی اور دُنیا میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت میرے اس ارادہ میں حائل نہیں ہوگی.یکی جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنے نقطہ نگاہ کو بدلیں.وہ زمانہ گیا جب ایک غیر قوم ان پر حکمران تھی اور وہ محکوم سمجھے جاتے تھے ہیں تو اس زمانہ میں بھی اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتا تھا لیکن چونکہ ایک غیر قوم ہم پر حکمران تھی.کبھی کبھی پیدا اور کیسی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہندوستان کو چھوڑیں اور کیسی اسلامی ملک میں جا کر رہنا شروع کر دیں.لیکن اب اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا احسان ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم دور کسی اسلامی ملک مثلاً عرب یا حجاز میں جاتے اس نے ہمیں وہ ملک دیدیا جو عمل کرے نہ کرے کہلاتا خدا کا ہے ، کہلاتا محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے لئے بہت خوشی کا مقام ہے کہ چاہے اس نے چھوٹی چیز دی مگر اپنی تو دی.یہاں کوئی میری مانے یا نہ مانے ، سننے یا نہ کتے، جب میں یہ کہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہیں تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے نام پر ایک حکومت قائم ہوگی ہیں اس تصور سے میری خوشی کی کوئی انتہاء نہیں رہتی.
۳۲ میں ان نظموں کو بھول جاتا ہوں جو ہندوستان میں ہمیں میں آئے ، اس لئے کہ میرا مکان گو میرے ہاتھ سے جاتا رہا مگر میرے آقا کو ایک مکان مل گیا - یہ درست ہے کہ چوالیس لاکھ مسلمانوں کے مکان اُن کے ہاتھ سے جاتے رہے ، وہ گھر سے بے گھر ہو گئے ، وہ جائدادوں سے بے دخل ہو گئے مگر ایک جگہ ضرور ایسی پیدا ہو گئی ہے جس کے متعلق محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میری بیگہ ہے اور یہ خوشی ہماری جائدادوں کے کھوئے جانے سے بہت زیادہ ہے ؟" الفصل ۲۳- امان / مارچ م) ۶۱۹۵۶ نوجوانان پاکستان کو بیش قیمت نصائح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے پاکستان کے سب نوجوانوں کو خدمت پاکستان میں بھر پور حصہ لینے کی بھی ہمیشہ تلقین فرمائی چنانچہ حضور نے پاکستان کے نونہالوں اور جگر گوشوں (جسے " ینگ "پاکستان" کا نامہ دیا جائے تو مناسب ہوگا ، کو خاص طور پر مخاطب کیا اور فرمایا :- تم ایک نئے ملک کے شہری ہو.دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظا ہر ایک چھوٹی سی مملکت کے شہری ہو.تمہارا ملک
۳۳ مالدار ملک نہیں ہے ایک غریب ملک ہے.دیہ تک ایک غیر حکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہو چکے ہو.سو تمہیں اپنے اخلاق اور کردار بدلنے ہوں گے.تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہو گی.تمہیں اپنے ملک کو دنیا سے روشناس کرانا ہوگا.ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑاؤ شوار کام ہے لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے اور یہی دشوا کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے.تم ایک نئے ملک کی بود ہو تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں.انہیں ایک بنی ہوئی چیز ملتی ہے ، انہیں آباء کی سنتیں یا روائتیں وراثت میں ملتی ہیں مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے تم نے ملک بھی بناتا ہے اور تم نے نئی روائتیں بھی قائم کرنی ہیں، ایسی روائتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روائتوں کی رہنمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں.پس دوسرے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلے پر ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہو.وہ اپنے کامون میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں تم نے اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مد نظر رکھنا ہوگا.جو بنیاد تم قائم کرو گے
آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہوں.اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہوگی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی.اسلام کا مشہور فلسفی شاکر کہتا ہے کہ ہے خشت اول چون بند معمار کچھ تا ثریا می رود دیوار کچھ یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت اگر ثریا تک بھی جاتی ہے تو ٹیڑھی ہو جائیگی پس بوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خشت اول ہو تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہئیے کہ تمہارے طریق او عمل میں کوئی کمی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کبھی ہوگی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی چلتی بجائے گی.بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا ہی شاندار بھی ہے.اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کر کے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دو گے تو تمہارا نام اس عزت اور اس محبت سے لیا جائے گا نہیں کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی.پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم ،
استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو.قدم مارتے پہلے جاؤ اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاؤ کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزلِ اول بھی ہوتی ہے اور منزل دوم بھی ہوتی ہے منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی.ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وہ اختیا کرتے چلے جاتے ہیں.وہ اپنے سفر کو ختم نہیں کرنا چاہے وہ اپنے رختِ سفر کو کندھے سے اُتارنے میں اپنی جنتک محسوس کرتے ہیں.اُن کی منزل کا پہلا دور اسی وقت ختم ہوتا ہے جب کہ وہ کامیاب اور کامران ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی صحیح خدمت کی داد دے سکتی ہے.پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو! اسلام کے بہادر سپا ہیں ! ملک کی امید کے مرکز و با قوم کے
سیلو تو ! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا ، تمہارا دین تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں.ا بفضل ۱۳ر شهادت / اپریل ۱۳۳۹ ) 7144 ای انسان کالاهای تحریک استحکام پالمیت پاکتان کے بارے میں.مندرجہ بالاروحانی پس منظر اور اس کی اہمیت و عظمت کی روشنی میں یہ اندازہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی حفاظت انسانیت اور استحکام کے لئے دعا کرنا در اصل عالمگیر اسلامستان کے قیام اور شاہراہ علیہ اسلام کی تیاری کی دعا ہے مسلمانان عالم کی ترقی و بہبود اور خیر و برکت کی دعا ہے بلکہ پوری دُکھی انسانیت کے اس بد قسمت اور گم گشتہ قافلہ کی بچاؤ کی دعا ہے جو تباہی کے کنارے تک آن پہنچا ہے اور جس کے لئے ہمارے امام ہمام حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ یورپ اور افریقہ میں بھی اپنی زبان مبارک سے انتباہ فرما چکے ہیں.حضرت خلیفة المسیح الثالث نے اگر چہ اپنے زمانہ خلافت کے آغاز ہی سے جماعت احمدیہ کو یہ ارشاد فرما رکھا ہے کہ پاکستان کے اسلامی قلعہ کی روحانی حفاظت یعنی اس کے لئے دعائیں کرنے کی اصل
۳۷ تہ دار احمدیوں عائد ہوتی مگر اس سبات ذمہ داری احمدیوں پر عائد ہوتی ہے مگر اس سلسلہ میں حضور نے مجلس مشاورت اتحاد کے اجلاس اوّل میں سالمیت و استحکام پاکستانی کے لئے خاص دعاؤں کی ایک پر زور تحریک فرمائی چنانچہ حضور نے فرمایا :- دنیا میں تین قسم کے انسان پائے جاتے ہیں، ایک وہ گروہ ہے جو سرے سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ہی قائل نہیں ہے.دوسرا وہ گروہ ہے جو کہتا ہے کہ خدا اس کائنات کو پیدا کرنے والا تو ہے لیکن پیدا کرنے کے بعد وہ اس سے بے تعلق ہو گیا ہے.تیسرا وہ گروہ ہے جو خدا تعالے کے حقیقی بندوں کا گروہ ہے.وہ پوری بصیرت کے ساتھ الامر الله اور القدرة لِلہ پر ایمان رکھتے ہیں.پہلے دو گر وہ دعا کے قائل ہو ہی نہیں سکتے البتہ تیسرا گروہ جو بچے احمدیوں کا گروہ ہے جو ہر آن الله تعالے کے حسن و احسان کے جلوے دیکھتے اور اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اُن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دعائیں کریں.پس علی وجہ البصیرت ہم ہی دعا کر سکتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ جہاں ہم تمام بنی نوع انسان کے لئے دعائیں کریں وہاں ہمیں اپنے ملک کی سالمیت ، استحکام اور حفاظت کے لئے بھی پوری عاجزی اور در دو الحاج کے
قر ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں اور بہت دعائیں کرنی چاہئیں.ملخص الفصل ۲۸ ۱ مالی / مارچ مه دو مندر الهامات یہ اہم تحریک جو وقت کا عظیم ترین تقاضا ہے حضور نے اپنے مندرجہ ذیل دو تازہ الہامات کی بناء پر بھاری فرمائی :- (1) وَاعْلَمُوا اَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَا د اور سمجھ لو کہ اللہ کی سزا یقینا سخت ہوتی ہے) ب (۲) قُل مَا يَعْبَرُ بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاءكُمْ دتو ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا اور استغفار نہ ہو، قیام و استحکام پاکستان کے لئے دوباره تحریک دعا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مشاورت کے بعد ۲۵ ماه ہجرت هر ۱۳ مطابق ۲۵ مئی الکان کو دوبارہ نہایت موثر اور درد انگیز لہجہ میں اول نمبر پر ترقی و استحکام پاکستان کے لئے دعاؤں کی زیر دست تحریک فرمائی ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں:.
ہمارا ملک اس وقت پریشانی کے دور میں سے گزر رہا ہے.گزشتہ فروری کے آخری ایام میں میں نے اپنے یک کے لئے بہت دعائیں کیں تو مجھے یہی بتایا گیا کہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہی خدا تعالے کی رحمت کو حاصل کیا جا سکتا ہے.چنانچہ ملک دشمن عناصر نے ملک کو تباہ کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس میں انہیں نا کام کر دیا مگر اس کے نتیجہ میں اور اسکے باقی ماندہ اثرات کے طور پر اس وقت ہمارا ملک کئی ایک اقتصادی اور معاشرتی پریشانیوں میں سے گزر رہا ہے.ہمیں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہئیے کہ خدا تعالے جو تمام خزانوں کا مالک ہے اپنی رحمت سے ان پریشانیوں کو دور کردے.اور وہ خدا جو تمام محبتوں اور حسن سلوک کا سرچشمہ ہے ایسے سامان مہیا فرما دے کہ ہم بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور حسن سلوک کی توفیق پائیں اور ہمارے ملک میں معاشرہ کی موجودہ اُلجھنیں دور ہو جائیں.د منها الفضل ۲۹ بهجرت من ۱۳۳۵ مطابق ۲۵ مئی ۱۹۷۱
دعاؤں کے ساتھ مثالی قربانی کا مطالبہ تحریک دعائے خاص کے سلسلہ میں حضور نے خدام الاحمدیہ کے حالیہ سالانہ اجتماع مزہ ہیں پر یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کرد تمہاری مادر وطن آج تمہیں بلا رہی ہے.وہ تم سے قربانی چاہتی ہے تم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے لئے ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ وطن کی سالمیت اور حفاظت کے لئے تمہاری طاقتوں کا آخری جزو بھی غریب ہو جانا چاہیے.تمہارے ذہن ہر قربانی کے لئے تیار اور تمہارے عمل تمہارے ذہنی فیصلوں کی ہروقت تائید کرنے والے ہوں.خدا کرے کہ سارے پاکستانی ہی مادر وطن کی سالمیت پر بہر قربانی کے
ام لئے تیار رہیں لیکن ایک احمدی کو تو ہر حال کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے.صرف یہ نہیں کہ ویکسی سے پیچھے نہ رہیں بلکہ انہیں دوسروں کی طرف دیکھے بغیر آگے ہی آگے بڑھتے پہلے جانا چاہیے یہ الفضل ۱۲- اتحاد اکتوبر نه ما پاکستان کے پیچھے خدائی طاقت کار فرما ہے بین سال قبل سید نا المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے بھی جماعت احمدیہ پاکستان کے لئے اجتماعی دعاؤں کی طرف خاص توجہ دلائی تھی چنانچہ حضور نے فرمایا :- حکومت کا ان حالات میں بیچے جانا جن سے پاکستان گزرا ہے پھر اس کا ترقی کرنا اور عربات محاصل کر لینا کوئی معمولی بات نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس میں کتنا ہاتھ ہے.اگر پاکستان طاقت کے زور سے ہنتا تو یہ نا ممکن تھا.لاکھوں آدمی مارا جا رہا تھا.گولہ بارود ہندوستان میں رہ گیا تھا.فوجیں باہر تھیں.ان حالات میں وہ کونسی
۴۲ طاقت تھی جس کے زور سے پاکستان بنا.روپیہ اُدھر تھا، سامان جنگ اُدھر تھے ، کام کرنے والے اُدھر چلے گئے.دس نہیں لاکھ کے قریب آدمی مارے گئے.یہ صرف خدائی طاقت تھی جس کی وجہ سے پاکستان کا رعب پڑ گیا...پاکستان کا قائم رہنا اور بیرونی دنیا میں اس کا مشہور ہو جانا اس میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی یا اسی تسلسل میں حضور رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا.پس راتوں کو اُٹھو، خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو.پھر یہی نہیں کہ خود دُعا کرو بلکہ یہ بھی دعا کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے.ایک سپاہی جیت نہیں سکتا جیتی فوج ہی
ہے.اسی طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اس کا اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا ایک جماعت کی دعا سے فائدہ ہوگا.تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعت کے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالی انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے جماعت کے سب افراد میں ایک آگ سی لگ جائے، ہر احمدی اپنے گھر پر ڈھا کر رہا ہو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے.د الفضل ۷ در ماه نبوت / نومبرهـ م) الحمدللہ جماعت احمدیہ حضرت سید نا المصلح الموعود اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰی کے اپنی ارشادات کی تعمیل میں پاکستان
کے لئے مجسم دعا و گریہ بنی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایمان کی زندہ چٹان پر قائم ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ دور پاکستان کے لئے خصوصاً نہایت درجہ نازک ہے جس نہیں ان کے لئے سوائے دعا کے اور کوئی چارہ کار نہیں ہے اندریں وقت مصیبت پھارہ ماہیکساں جز دعائے بامراد و گریہ اسمار نیست سید نا حضرت مسیح موعود کا فرمان مبارک بالآخر سید نا حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود عليه الصلوة والسلام کے دو اہم ارشادات پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.حضور فرماتے ہیں:.دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا یہ پھر فرماتے ہیں :.( ملفوظات جلد نہم جن اس دعا بڑی دولت ہے جو شخص دُعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا میں آفت نہ آئے گی.وہ ایک 1 1
ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگر دوستم سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں...یہ بھی یقیناً سمجھو کہ یہ ہتھیار اور رحمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محروم ہو جاویں اور خود ہی اس کا دروازہ بند کر دیں تو پھر کس کا گناہ ہے جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے اور ہر وقت اس میں سے پانی پی سکتا ہے پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے تو خو د طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے.اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیسوے میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا
مغر سمجھتا ہوں.قرآن شریف کے سو سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں لیکن شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے میں پید اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عمل در آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دُعا ہے.دُعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالی ساری مشکلات کو آسان کر دے گا یہ المحفوظات میلاد مفتم مه ۱۹-۱۹۳ }}
واخِرُ دَعُونَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے حالیہ سالانہ اجتماع انصار الله مرکز یہ منہ کے تیسرے روز اپنے اختتامی خطاب میں حاضرین سے حسب ذیل الفاظ میں عہد لیا :- میں اپنے وطن اور قوم کی حفاظت وسالمیت کی خاطر ہر قربانی پیش کروں گا اور این حقیر قربانیوں کے بدلے میں اپنے رب سے اس کے انتہائی فضلوں اور رحمتوں کی امید رکھوں گا، انشاء الله ؟
ضیاء الاسلام پرنسس ربوة طبع اول.194 تعداد دو ہزار نظارت اشاعت بریکر و تصنیف صدر انجمن احمدید کی مینی در به پاکستان ریوده کتابت : - حمید کتابت سنٹر کہ بوه