PaanchMaqaale

PaanchMaqaale

بہائیت کے متعلق پانچ مقالے

Author: Other Authors

Language: UR

UR
دنیائے مذہب

Book Content

Page 1

بہائیت کے متعلق پانچ مقالے مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل

Page 2

بہائیت کے متعلق پانچ مقالے مُصَنِّفة مولانا ابو العطار ضا فاضل مرحوم ضافا

Page 3

عرض حال احاطہ میں پڑھے جائیں.چنانچہ بندری تحریری اعلان میر املا نا گئی اور پورا پروگرام کر بھیج دیا گیا.یہ پانچ مقالے ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ اگست کو پڑھے گئے اس میں احمدی احباب کے علاو مشتی اور دو سر مسلمان اصحاب نے بھی شرکت فرمائی مینوں کیلئے پورے امسال موسم گرما میں مجھے تین بجتے کے لئے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا.کونٹ میں کا انتظام تھا.چند بھائی صاحبان بھی آتے ہے.یہ مقالہ کے بعد نہیں سوال کا موقع دیا جاتا رہا اور اچھے بھول میں سلسلہ سوال و جواب جاری رہا اور مزین پر حق واضح ہو گیا بہائیوں بھائیوں کی ایک مختصر سی جمعیت ہے.مگر یہ لوگ اپنے پروپیگنڈے ! وسوسہ اندازی میں بہت ہوشیار ہیں.مجھے بتایا گیا کہ بھائی صاحبان نے مشہور کر رکھا کی طرف سے بعض اوقات تین تین اصحاب کے بعد دیگرے سوالات کرتے رہے رہکے تفصیلی جراب ہے کہ کوئی عالم ہمارا جواب نہیں دے سکتا میں نے ارادہ کیا کہ ال عالی توفیق سے تو حاضرین کے گوش گزار کئے گئے ان پبلک اجتماعی کے علاوہ جناب شیخ کو اقبال منا تاج کی نظر اس عرصہ قیلم میں جاب کو بہائیت کے متعلق معقول واقعیت بہم پنچائی جائے.سے بھائی سیکرٹری صاحب کو محدد اصحاب کی موجودگی میں جائے پر بھی بلایا گیا.اس تقدیر اور بہائیوں کے تمام اعتراضات کا قلع قمع کیا جائے.ان پر ا تمام محبت کی گئی.انہوں نے پوچنے کا وعدہ کیا.جن احباب جماعت کی معیت میں میں بھائی ہال اور بہائی لائبریری میں گیا اب یہ پانچ تولے طبع ہو کر آپکے سامنے پیش ہیں ان پانچ مقالات کے بعد ہم ایک ہم نے اس حال میں جو ایک غیر معمولی کرد ہے تین چار سرکردہ بہائیوں سے گفتگوکی اور ریکی اب یو م میر بھی شام کر دیا ہے جسمیں ان تمام رات قرآنیہ کی دعا کی گئی ہے جبیں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم بہائیت کے متعلق چند تحریری مقالے یہاں پڑھیں گئے بہائی بھائی صاحبان غلط طور پراپنے خیال کی تائید میں پیش کرتے ہیں.اس پیل سے جھوٹ اپنی نادات اور دوسرے جاب نہیں اور مقالہ ختم ہونے پر مناسب وقت سوال و جواب کے لئے میں بہت بڑھ گیا ہے.وللہ الحمد.رکھ لیا جائے اس طرح سے فریقین کے دلائل سامنے آجائیں گے اور اختراضات اد رہے کہ ہائی لوگ ا ا ا اس سے اپنی ریت کو کھلا رکھنے میں اینا ایک بائیں نے اسے چھپوا کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا کیونکہ بہائی رقیم جناب عبد الہاد افندی نے جواب ہو جائیں گئے بھائی سیکر ٹری صاحب نے کہا کہ تحریری طور پر یہ تجویز آجائے تو ہم اپنی محفل ہیں.کی اشاعت ممنوع قرار سے لکھی ہے.ہم نے عراق سے انکی یہ کتاب حاصل کی اور 19ء پیش کر کے جواب دے سکیں گے.چنانچہ ہماری جماعت کی طرف سے یہ تجویز کھکر میں اپنی کتاب بہائی تحریک پر تبصرہ میں اسے مون من شائع کر رہا جگر کے سی سی اردو بھیجی گئی مگر بھائیوں کی طرف سے انکار میں جواب آ گیا.ریہ بھی چھاپ دیا یہ کتاب جلد ہی نایاب ہوگئی تھی اب تم منیر الفرقانی رہوہ سے ہیں اور ہم نے فیصلہ کیا کہ بھائیوں کو عام دعوت دیکر یہ تقال احمدیہ مسجد کو کٹھ کے کتاب کو دوبارہ ہائی شرعی اوراس پر نیند کے عنوان کے تحت علمی شائع کر رہے ہیں

Page 4

ان پانچ مقالات کی وجہ اس کتاب میں بند را امان اتار کر دیاگیاہے تاہم بائی پہلا مقالہ شرارت اور اس پر تبصرہ کا مطالعہ میں پائی تحریک سمجھنے کے لئے از بس لازمی ہے.یہ ایک تحقیقی اور ٹھوس کتا ہے، اسکے پڑھنے سے آپ پر کھل جائیگا کہ ہائی لوگ اپنی مرحومہ شریعت کو کیوں تھیائے پھرتے ہیں، اس استفاد کا رانہ کیا ہے ؟ میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرونگا اگر اسی جگہ جماعت احمدیہ کورٹ کا موٹا بالاخر بسم الله الرحمن الرحيم بانی اور تہائی تحریک کی تاریخ رانی مکارم شی ایرانی به احب اراده موی تیم بین صاحب محرم بیا بشیر حموات معزز حاضرین ! بابی اور بہائی تحریک کی تاریخ کے سلسلہ میں سب سے ای خانصاحب اور اے خاصی حاجی فیض الحق خان صاحب اور جناب شیخ کریم بھی صاحب کے تعاون خلوص اور اسی محبت کا شکر ہے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بانی تحریک علیحدہ ہے اور بہائی تحریک علیحدہ و لاوان و یاری اور تمام کاری کار رانی کی کمی دل سے تمام اجاب کا فرود با بیہ کے بانی سید علی محمد صاحب باب ہیں اور بہائی تحریک کے بانی کر گزار ہوں اور کے لئے دل سے دو گو میں جزاهم الله احسن الجزاء مرزا حسین علی صاحب نوری ہیں.باہیوں اور بہائیوں کے عقائد اور اصول ار رائے وکیل سے دردمندانہ التجا ہے کہ وہ ان صفحات میں برکت ڈالے پیش کرنے سے پیشتان کی تاریخ کا جانا ضروری ہے کسی شخص یا کی تو یک اوران مقالات کو منوں کی ہدایت کا موجب بنائے اور اپنے فضل سے اسلام کے کی تاریخ سے اس شخص یا اس تحریک کے بہت سے عقائد اور مبادی کا صحیح نقش زندہ اور ندہ اور کامل مذہب ہونے قرآن کریم کے زندہ اور کان کتاب ہونے ، اور سید معلوم ہو جاتا ہے.آپ کسی تحریک پر صحیح طور پر تبصرہ نہیں کرسکتے جتنا آپکو الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفے سے اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ اور اس کی سرگزشت معلوم نہ ہو.اور آپ کسی شخص کے خیالات کا حقیقی جائزہ نہیں کامل رسول ہونے کو تمام انسانوں پر پوری طرح واضح فرمائے.ساری دنیا لے سکتے جب تک اس شخص کے اعمال اور افعال آپ کے سامنے نہ ہوں پس اس شجرہ علیہ کے انبار شیریں سے لذت اندوز ہو اور سب اس چشمه آب حیات در حقیقت عقائد خیالات اور اصول کا جائزہ لینے کے لئے بھی تاریخ کا بانت سے پیر این ہوں.اللهم أمين يارب العلمين لازمی ہے.علاوہ ازیں کسی شخص یا فرقہ کی تاریخ کا علم في حد ذاتہ ایک تنقل ریوه - پاکستان اکتوبر 1900ء خاکسار ہو علم ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.البو العطاء جالندھری بابی اور بہائی تحریک مذہب کے نام پر قائم ہوئی ہے اور ظاہر ہے

Page 5

Y وہ کہ ایسی تحریکات کے مخالف بھی ہوتے ہیں اور ماننے والے بھی.عام طور پر مخالف ظاہر ہے کہ ان حالات میں بابی اور بہائی تحریک کی صحیح تاریخ مرتب کرنا اپنے بیانات میں عائدانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور موافقین کی ایک بڑی کثرت مہمان کام نہیں ہے.مگر چونکہ کسی تحریک کی تاریخ معلوم کئے بغیر اس تحریک کا بغیراس مبالغہ او رخوش اعتقادی سے کام لیتی ہے اسلئے بالعموم مذہبی تحریکات کی صحیح نقشہ سامنے نہیں آسکتا اس لئے ہر حال اس تاریخ کا بیان کرنا تو ناگزیر تاریخ میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے.اور ایک محق کے لئے صحیح بات معلوم کرنا ہے.ہاں ہم نے ایسی احتیاط کر لی ہے کہ بانی اور بھائی صاحبان یہ نہ کر سکیں قدرے دشوار ہوتا ہے.بالخصوص جبکہ دو تحریک ایسی ہو جس میں اختفاء اور کہ ہماری یہ تاریخ ہمارے دشمنوں نے لکھی ہے اس لئے ہم پر حجت نہیں ہے.کتمان کا پہلو غالب ہو اور اس کے مانے والے عقیقاً مبالغہ آمیزی کو ترجیح ہم نے اقوام کیا ہے کہ آج شام کے لیکچر میں خود با بی اور بہابی مصادر سے یا کم از کم ان کے مسلمہ مصادر سے تاریخی حقیقت کو اخذ کر کے بیان کیا جائے دیتے ہوں اور اس تحریک کا لٹریچر عام طور پر دستیاب نہ ہوتا ہو.بانی اور بہائی تحریک کی تاریخ لکھنے میں ایک بڑی دشواری ان لوگوں اور کوئی ایسا حوالہ نہ دیا جائے جسے بابی اور بھائی صاحبان اپنے دشمنوں کی کتابوں کی کمیابی ہے.چنانچہ قریشی علم اللہ صاحب بہائی کو خود یہ شکایت کی تریہ کہ کر رد کر سکیں.ہم آج کے لیکھر ہی کوئی ایسا جہادی تاریخی واقعہ بیان نہیں کریں گے جس کے لئے ہمارے پاس بھائیوں اور بائیوں کا اپنا حوالہ موجود نہ ہو.امید ہے کہ اس صورت حالی سے جہاں بھائی حاضرین کے لئے وجیہ اعتراض نہ رہے گی.وہاں ہمارے دوستوں کو بھی بابی اور بہائی مصادر سے ان کی تاریخ کا علم ہو جائے گا.ہے.وہ لکھتے ہیں :- عام طور پر حضرت باب حضرت بہاء اللہ اور حضرت عبد البهاء کی کتابوں کے کمیاب ہونے کی وجہ سے بعض تاریخی اور تعلیمی غلط فہمیاں پھیلی گئی ہیں.رسالہ حضرت بہاء اللہ کی تعلیمات بابی فرقہ باب سے منسوب ہے.باب کے معنے دروازہ کے ہیں.کتابوں کی نایابی یا کمیابی کے علاوہ باہیوں اور بہائیوں کی تاریخ کے اثنا عشری اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ ان کے بارھویں امام حضرت محمد بن حسن مطبوعہ عزیزی پولیس آگره صت ) سلہ میں ایک اور وقت یہ ہے کہ خود جناب بہار الہ نے بہائیوں کو حکم عسکری غائب ہیں.امام غائب تک پہنچنے کے لئے ان کے نزدیک زندہ دے رکھا ہے، اُستر ذهبك وذهابك و مذهب کو تم اپنے انسانوں میں سے ایک دروازہ یعنی باب ہوتا ہے.حشمت اللہ صاحب بھائی لکھتے ہیں :.سونے اور آمد ورفت اور مذہب کو مخفی رکھو.راجر الصد و مطبوعہ مصنفہ میرزا حیدر علی صاحب اصفهانی بہائی مبلغ ) بہت پرانے وقتوں سے ایران میں یہ ڈایت چلی آرہی تھی.کہ

Page 6

یارخوین امام جو غائب ہو گئے ہیں تو اپنے فصل کی روسے اپنے ذکر ہیں.بابیت اور بہائیت در اصل اشیخ الاحسائی کی تحریک کا ہی ایک غلط بچے اور طالب معتقدوں کو اپنا دیدار دکھانے کے واسطے دنیا نتیجہ ہے.شیخ الاحسائی نے فرقوہ شیخیہ کی بنیاد رکھی.بہائی عالم اول فصل میں اس خدمت کے لئے کسی بزرگ اور پرہیز گار آدمی کو اور کھتے لکھتے ہیں:.ہیں.اس آدمی کو وہ اپنی اصطلاح میں باپ کا لقب دیتے ہیں.در ساله بیاد اللہ کی تعلیمات مطبوعہ آگرہ مث) مشہور شیعہ مصنفہ ابن بابویہ القمی تحریر کرتے ہیں :- وله الى هذا الوقت من يدعي من شيعته الثقات المستورين انه باب اليه وسبب يؤدى عنه الى شیعته امره و تهیه ی را کمال الدین منت کہ اس وقت تک امام غائب کے معتیر اتباع میں سے ایسے و خریدار پیدا ہوتے رہے جو کہتے ہیں کہ وہ اس کے لئے باب یعنی دروازہ ہیں اور اس کا امر و نہی اسکے مریدی کو پینچاتے ہیں.ان السيد الاحسائي ولد في القرن الثاني عشر الهجري واشتهر بالعلم والفضل واوجد مذهباً خاصا في المعارف الروحانية وتفسير القرآن والاحاديث النبوية ولذلك اشتهر تلامذته في حياته وحزبه بعد وفاته بالفرقة الشيخية.....والفرقة الشيخية معروفة في بلاد العراق ومنها انتشر مذهبهم الى فارس و خراسان وسائر ممالک ایران : مجموعه رسال مطبوعہ مصرمت ترجمہ : الشیخ احمدان حمائی بارھویں صدی ہجری میں پیدا ہو شیعہ صاحبان کے اس عقید کے رو سے دار شعبان سنہ ہجری کو ان کے علم و فضل میں مشہور تھے.انہوں نے روحانی معارف اور قرآن و حدی چوتھے باب جناب ابوالحسن السمری فوت ہوئے تھے.اس کے بعد یہ خیال کمزور کی تفسیر میں خاص مذہب ایجاد کیا تھا.اسلئے ان کی زندگی میں انکے ہونا پہلا گیا اور بارھویں صدی ہجری کے آخر میں ایران میں جہاں سیاسی انقلاب ہے شاگرد اور انکی وفات کے بعد ان کا گروہ فرقہ شیخیہ کے نام سے کار کر دورہ تھاواں پر امام غائب کے بارے میں وہ یہ خیال کمزور ہوتا نظر مشہور ہوا.فرقہ شیخیہ عراق میں معروف ہے اور مال سے فارس آتا تھا اور عام طور پر لوگوں میں مایوسی پائی جاتی تھی جس پر چھے نو بی خیالی کے اور خراسان وغیرہ ایرانی علاقوں میں پھیلا ہے : لوگوں نے عوام کے اس عقیدہ کو سختور رکھنے کے لئے سعی کی.ان لوگوں میں جناب الشیخ الاحسانی شیعہ عقائد کی ہی تائید کرتے تھے.بہائی مورخ مرزا عبر مکین الشیخ احمدالا حائی اور جناب استید کانظم الدیشتی کے نام خاص طور پر قابل لکھتے ہیں :

Page 7

إن الفيح لم يخالف الشيعة في اساس مستقدام وكان يطرى أئمة الهدى......ويعتقد بخلافة على المتصلة وامامة ائمة الهدى من ذريته (الكواكب ) کے راستے میں انتقال کر گئے.(الکواکب الدریہ م ) شیخ موصوف نے چیت کی تھی کہ میرے بعد میرے جانشین اور میری جماعت کے زعیم اسید کاظم رشتی ہوں گے.استید کاظم 1 ہجری کو شت کے مقام پر پیدا ہوئے تھے.الہ میں اپنے استناد کی وفات کہ شیخ نے شیعہ کے اصول معتقدات کی ذرہ مخالفت نہیں کی.پر فرقہ مشیخیتہ کے رئیس مقرر ہوئے.وہ عام طور پر شیخ الا سالی کے خیالات وہ اماموں کی بے حد تعریف کرتا تھا.حضرت علی کو خلیفہ بلا فصل مانتا تھا اور آپ کی غسل میں امامت کا قائل تھا.استید کا ظم الدشتی بھی شیخ الاحسانی کے شاگرد تھے.اور شیخ ند کو اپنے کی ترویج کرتے رہے.جناب ابو الفضل بھائی لکھتے ہیں :- قام بعده تلميذه الاجل السيد كاظم الرشي وسعى في نشر تعليمات الشيخ واقتفى اثره و شاگردوں کو امام المہدی کے ظہور کے قریب ہونے کی بشارت دیا کرتے تھے.روج مشربه ومذهبه الى ان توقى الى رحمة لکھا ہے:.وكان يبشر تابعية و مرید به وتلاميذه باقتراب ظهور المهدى ودنو قيام القائم المنتظر (الكواكب شه کہ احسائی اپنے اتباع ، مریدوں اور شاگردوں کو خوشخبری دیتا الله تعالى " مجموعہ رسائل عنك کہ احسائی کے بعد اس کا شاگر دانستید کا ظم اس کا قائم مقام ہوا.اس نے شیخ کی تعالیم کو شائع کرنے میں جد و جہد کی.اسکے مذہب کو رواج دیا اور اس کے نقش قدم پر چلا.یہانتک کے دونت ہو گیا.تھا کہ امام مہدی کے ظہور کا وقت بالکل قریب ہے اور قائم منتظر اسید کاظم نے فرقہ شیخیہ کے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا ہے اہم گروہ وہ تھا جسے الطبقة الثالثة کہتے تھے.بھائی تاریخ الکواکب الدریہ کے آنے کا زمانہ آپہنچا ہے.جناب الشیخ احمد الاحسانی بحرین کے علاقہ میں بنی صفر قبیلہ میں عشان مجری مطابق عربی میں لکھا ہے.لیے پیدا ہوئے.ان کے والد کا نام زین الدین الاحسائی تھا بچائتی برس واما الطبقة الثالثة فهم التلاميذ الذين کی عمر میں اور ذو القعدہ سنہ ہجری مطابق شاہ کو مدینہ منورہ لا زمرة القيل والنهار و صحبوه بالعشق والابكار

Page 8

۱۳ ۱۲ و كانوا مستود ۶ اسراره وامناء جواهر افكاره.والكواكب الدرية 12 ) که اسید کاظم نے اپنے شاگردوں میں تیسرا درجہ ان لوگوں کو دیا تھا جو دن رات صبح و شام اس کے ساتھ رہتے تھے.وہ ان کو اپنے خاص را از بنایا کرتا تھا اور اپنے خیالات کو ان کے سامنے حقیقی شکل میں ظاہر کیا کرتا تھا.سید علی محمد جنہوں نے بعد میں اپنے آپ کو باب قرار دیا سید کاظم کے شاگرد در ان وقت جمیع شاگر دہا ئے شیخ احمد و سید کاظم در نهایت اشتیاق و ذوق منتظر ظهور موعود بودند و کمال وجد و ولوله داشتند (رسالة التسع عشریہ عنا ) کہ ان دنوں شیخ احمد اور سید کاظم کے سب شاگرد بے حد شوق و ذوق سے موعود کے ظہور کے منتظر تھے اور نہایت ہے تابی اور جوش رکھتے تھے " بھائی موریع لکھتا ہے..اور اسی ہونہار طبقہ ، الطبقة الثالثہ کے ایک فرد تھے.السید کاظم کے شاگردوں میں ایک نہایت زیرک خاتون بھی تھیں جن کا نام جنا یہ ام سلمی اما تلاميذ السيد بعد وفاته قصاروا فریقین فریق استمر القراءة والدرس وفريق تھا گر با بی تاریخ میں انہیں قرۃ العین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جناب اخذ يحبوب الفيافي والاقطار و برود الاقاليم ہیں.عبدالبهاء لکھتے ہیں :- سيد مرحوم لقب قرة العین را با و دادند و فرمودند بحقیقت مسائل شیخ مرحوم قرۃ العین پے برده کا درسالة تذكرة الوفاء صفت) سید کا ظلم سترہ برس تک فرقہ کے پیشوا رہے اور ش انجری مطابق سایہ میں پچپن برس کی عمر میں کو بلا میں ان کا انتقال ہو گیا.ظاہر ہے کہ والامصار والبرادي والقفار بحثا عن المنتظرة ر الكواكب فن کہ سید کاظم کی وفات پر اس کے شاگردوں کا ایک حصہ تو درس و تدریس میں مشغول رہا اور دوسرا حصہ انام موجود کی جستجو میں جنگلوں ، صحراؤں، ملکوں، شہروں اور ویرانوں میں مارا مارا پھر نے لگا.یہ الشیخ الاحسانی کی پیدا کرده امید قریب طور امام مهدی علیات کام کی آن اش ہم بیان کر چکے ہیں کہ جناب سید علی محمد جناب السید کاظم کے معتمد علیہ کا یہ آخری موقع تھا.السید کاظم کی وفات پران کے شاگردوں میں اس بارے میں بہت ہے ہے:.شاگرد تھے.سید علی محمد حکیم محرم ۱۳۳ هجری مطابق ۱۲۰ اکتو بر شاه کو شیراز میں پیدا ہوتے تھے.ان کے والد کا نام سید محمد زرنا ہے.الیہ کا

Page 9

۱۵ ۱۴ خاندان تجارت پیشہ تھا.وہ پندرہ برس کی عمر میں اپنے ماموں صاحب کے ہابی اور بہائی روایات سے ظاہر ہے کہ باب کا دل تجارت میں نہیں ہمراہ تجارت میں مشغول ہوئے.ان کی تعلیمی حالت کے تعلق بہائی ہوا کھا رہا تھا.وہ عام طور پر اوراد میں مشغول رہتے تھے.چنانچہ لکھا ہے.لگ میں لکھا ہے :- وہ (علی محمد باب) تجارت پیشیہ خاندان میں پیدا ہوئے تھے.اس واسطے صرف اتنی ہی تعلیم پائی تھی یقینی کہ حساب کتاب کے واسطے ضروری تھی جیسی کہ ہمارے ہندوستان میں کچھ زمانہ تک دی جاتی تھی.اور ایران میں آجتک دی جاتی ہے غالباً اس میں قرآن شریف حفظ کرنا بھی شامل تھا جیسا کہ پرانے طریقہ کے مسلمان خاندانوں کا طریقہ تھا یہ ربہاء اللہ کی تعلیمات صت حضرة الباب كان يبدي الملل من ذلك و ن يؤثر الاعتكاف والانزواء ورغما عن هذا الشغل الشاغل كان كثيرا ما يدع المتجر ويرقى على سطح المنزل مشتغلا بالدعاء والابتهال وتلادة الاوراد والاذكار الكواكب ملك ) ترجمہ :.کہ باب اس تجارتی کا رویارہ سے ملال کا اظہار کرتا تھا اور گوشہ نشینی کو ترجیح دیتا تھا.چنانچہ مشاغل کے باوجود جناب سید علی محمد صاحب کے اپنے بیان سے ظاہر ہے کہ ان کے وہ دکان چھوڑ کر اس کی چھت پر چڑھ جاتا تھا.دعا کرنے استاد کا نام محمد تھا.چنانچہ بہائی مورخ عبدالحسین لکھتا ہے :.رونے اور اور اد پڑھنے میں منہمک ہو جاتا تھا.جاء بالبيان من بیانات حضرت الباب ما بائیس برس کی عمر میں جناب سید علی محمد کی شادی ہوئی.دوسرے سال يدل على ان معلمة يسمى بمحمد وفي ان کے ہاں ایک سمجھ پیدا ہوا.بچہ کا نام احمد رکھا گیا.جو جلد ہی فوت قوله يا محمد يا معلمى لا تضر منی فوق حد ہو گیا.جناب علی محمد اس سے اس قدر متاثر ہوتے کہ گھر چھوڑ کر کربلا چلے گئے اس وقت ان کی عمر چوبیس سال کے لگ بھگ تھی.چنانچہ محين (الكواكب من ؟ کہ بیان میں خود باب کے بیانات سے ظاہر ہے کہ اس کے استاد کا نام محمد تھا.چنانچہ باب کہتا ہے کہ اے میرے استاد مجھے مقررہ تعداد سے زیادہ نہ مارت لکھا ہے :- وفى اثر ذلك رحل حضرته الى كربلاء وكان عمره اذذاك يناهز الرابعة و

Page 10

19 العشرين : والكواكب مثلا وارح الجنان تيراعه في وصفه وكيجه على النقيه کہ بات اس حادثے کے مطا بعد قریبا چو نہیں برس کی تقریب والتعرض العقائد الشيعة بل كان يثني عليها و يقرر محتها ومتانتها حتى وجود المنتظر الغائب ر الکواکب ملا) کربلا پہنچے.اسی موقع پر جناب سید علی محمد اسید کاظم رشتی کے دروس میش شانل ہوئے چنا نچہ مرقوم ہے:.کر باپ نے امام مہدی اور اس کی صفات کے متعلق نہایت یک سال بعد از تقابل بکر بلا تشریعت پر وہ روتا ہے تفصیل سے بیان کیا ہے اور اپنے قلم کو شیعہ عقائد کی تنقید سے در آنجا توقفت فرمودند گا ہے در مجلس در سیس حاجی سید همیشه رو کا بلکہ شیعہ عقائد کی باپ نے تعریف کی اور انہیں عقیدہ کا ظلم رشتی حاضر می شدند و بدرس و مباحثه طلاب گوش امام غائب سمیت صحیح و درست قرار دیا.بہائی تاریخ کے مطابق موقع مناسب آنے پر سید علی محمد دا دینے ۱۲ می دادند والرسالة التسع عشریه ملا ) ہجری میں جب اسید کاظم رشتی فوت ہوئے اور ان کے مریدڈرا میں ایک رنگ میں باب ہونے کا دعوی کر دیا جس کی نوعیت بہائی تاریخ کی کا بیشتر حصہ امام صدی کی تلاش میں سرگرداں تھا تو سید علی محمدون بودم رو سے یوں ہے :- کی دکان بند کر دی اور شیراز پہنچ گئے.لکھا ہے:.اسی فرقہ شیخیہ کے ایک نہایت مشہور عالم ملا حسین شہیروئی وعلى اثر هذا الحادث طوى الباب بساط کے بنانے رہے پہلے حضرت باب نے اپنے مشن کا اعلان کیا.تجارته عائدًا إلى شيراز (الكواكب منه ، اِس اعلان کا ٹھیک وقت حضرت باب کی کتاب بیانی میں نامہ کہ اس نے فورا دکان بند کر دی اور شیراز کی طرف کے ماہ جمادی الاولی کی پانچویں تاریخ کو غروب آفتاب کے دو گھنٹے اور پندرہ منٹ بعد دیا گیا.مطابق ۳ورسٹی زیر: چل پڑے.وہ ان دنوں امام مہدی کی آمد کے بارے میں نیز دیگر عقائد شیعہ کیتا پورے نور سے کر رہے تھے.بہائی مورخ لکھتا ہے :- نیز لکھا ہے :- ر عصر جدید اردو شاه افاض في البيان عن المهدي المنتظر ایک روز جمعہ کے دن انہوں نے بوشہر کی کسی مسجد میں بیان کیا

Page 11

14 کہ میں ایک غائب اور بزرگ شخص تک پہنچنے کا در دازہ ہوں اور هبوطا لملك عليه " و مقاله سيات ) محمد اس تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ باب کا یہ دکوئی نہ تھا.کہ شخص بہت جلد ظاہر ہونے والا ہے یہ رہیاء اللہ کی تعلیمات مطبوعہ اگره میشم اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور فرشتہ اترتا ہے.انکواکب منه ) ترجمہ.باپ کے دھونی کی ابتداء میں عوام نے لفظ باسب ر دروازہ سے یہ کھا کہ وہ امام ملکی اور مخلوق کے درمیان مذکورہ بالا حالات میں باپ کا یہ دعوئی فرقہ شیخیہ کے سر گردان اصحاب ما كان المفهوم لدى العموم من لفظة (الباب) في کے لئے گونہ وجہ تمشکی تھا اسلئے ان کا کثرت سے ان کو قبول کر لیا طبیعی بات او اصل قیام حضرته انه الواسطة بين حجة تھی.جناب بہاء اللہ تحریر کرتے ہیں کہ بار کے دھونی پر فرقہ شیخفیہ کے لوگوں نے الله الموعود المنتنظور بين الخلق ان کو قبول کر لیا مگر دوسرے شیعہ ماننے سے محروم رہے.چنانچہ جناب بیاء اللہ لکھتے ہیں :- مطیع اگر وہ شیعہ پر غور کر کہ انہوں نے فنون اور اور ام کے ہا تھوں کس قدر عمارتیں اور کتنے شہر بناڈالے بالآخر وہ اوہام گولی کی شکل میں تبدیل ہوئے اور سید عالم دیا ہے) پر جا پر شکست اور اس جماعت کے سرداروں میں سے ایک بھی یوم ظہور میں ایمان نولا یا شیخ احسائی کی جماعت والے خدائی مدد سے ان حقائق کے عارف ہو گئے کہ ان کے علاوہ ار انگ ان سے محروم و مجوب نظر آرہے ہیں.د نوع این ذئب اردو مطبوعہ و علی منش واسطہ ہے.(۳) وفهم من كلامه انه يدعى وساطة الفيض من ولة صاحب الزمان اى المهدي عليه الكلام قسم ظهران مقصوده من لفظ الباب كونه باب مدينة اخرى مقابل سیاح صلا ترجمہ: کہ باب کے لفظ سے یہ سمجھا گیا تھا کہ وہ قمری کیلئے والہ ہے.پھر ظاہر ہوا کہ اس کی مراد باب سے کسی اور شہر کا ان بیانات سے ثابت ہے کہ باپ کو اس بات کا ہر گز دعوی نہ تھا کہ ان پر دروازہ ہونے سے ہے.باب کے زاوئی کی نوعیت بہت عجیب ہے بحیثیت مورخ ہم بھائی صاحبات کی تین روایات اس جگہ درج کرتے ہیں : (1) وادي التحقيق علم انه يس يدعى نزول الوحي و وحی نازل ہوتی ہے یا اُن پر جبرائیلی یا کوئی اور فرشتہ نازل ہوتا ہے.

Page 12

در حقیقت باجیوں اور بہائیوں کے ہاں بچی کا تصور اس سے مختلف ہے جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے ، مگر یہ قصائد کی بحث سے متعلق ہے اسلئے آج اسے نظر انداز کیا جاتا ہے.جناب سید علی محمود کا دعوی باب ہونے کا ہو یا واسطہ ہونے کا ہو ہر حال وہ اس وحی کے مالی نہیں جو مسلمانوں کے بانی معروف ہے.گهر بہائی صاحبان کہتے ہیں کہ اسکے پر کوئی کہ سنتے ہی جناب مرزا حسین علی قرة العین اکٹھے ہوتے تھے.وہ بھی تاک سید علی محمد باپ کے القائم ہوں کا اعلان نہ ہوا تھا.بہاء اللہ اور ملا بار فروشی نے کھلے اظہار اور شریعتوں کے نسخ و فسخ کی قرانہ داد پاس کی ہے.ہماری حقیق میں صفر ۲۶ میں قلعہ چھری سے واپسی پر پہلی دفعہ باب نے کہا تھا.انه المهدي المنتظرة الكواكب علي موس حکومت ایران باب کے دعوئی کو حزم واحتیاط سے دیکھ رہی تھی مگر چونکہ المعروف بہاء اللہ نے قبول کر لیا تھا.رسالہ عصر جدید میں لکھا ہے :- دشاہ ایران کا فیصلہ تھا کہ جب تک یہ تحریک ملکی امن و امان کو خطرہ میں نہ ڈال دیگی اور محق عقائد کی تحر یکی تک محدود رہے گی حکومت اس سے تعرض نہ کہ چھی جناب عبد البہاء لکھتے ہیں کہ حکومت کا یہ فیصلہ تھا :- له بین جب حضرت باپ نے اعلان امر فرمایا تو اس رقعہ حضرت بہاء اللہ کی عمر ستائیس سال کی تھی اعلان حضرت ب کی آواز سنتے ہی حضرت بہاء اللہ نے اس نئے امر کو لبیک کہا: (عمر جہد ہے (اے) بہائی صاحبان کہتے ہیں کہ اوائل میں باپ نے قائم آل محمد ہونے کا شو کی نہ کیا تھا.چنانچہ کہ اللہ ہجری میں بدشت میں ہا بیان کی جو کا نفرنس ہوئی تھی ہی سلسلہ میں جناب عبد البہاء لکھتے ہیں:.در شبها جمال مبارک وخاب قدوس و طاهره ملاقات می نمودند هنوز قائمیت حضرت اعلیٰ اعلان نشده بود جمال مبارک با جناب قصدس قرار بر اعلان ظهور کلی و فسخ و فسخ شرائع دادند يتذكرة الوفاء من تر جمہ.ساتوں کو مرزا حسین علی، با محمد علی یار فروشی اور ام سلمی مادام امره متفقاً من الامن العام والراحة العمومية فلا تتصد اله الحكومة بشيء".(مقاله سیاح عربی فلا) گر جب تک باپ کا مخاطر این حمام میں مخل نہ ہوگا حکومت اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرے گی.چنانچہ کچھ عرصہ تک یہ حالت رہی کہ فرد پیشینیہ وغیرہا کے لوگ با نیت میں اخل ہوتے رہے مگر حکومت اس میں مداخلت نہ کرتی تعلقی.نیز ایک وقت تک کے بانی لوگ بھی اسلامی شریعیت پر عمل کرتے رہے.جناب عبد البہاء کا قول ہے : نا نظر کیت کا نموا يحترمون المؤائة و التقاليد وايظنون انهم يقدرون بها الحقائق فلقد كانت

Page 13

۲۳ ۲۲ الشريعة هي المعول عليها إلى ذلك التاريخ لم چنانچہ بھائی تاریخ کی مندرجہ ذیل میں شہادتیں اس بارے میں کانی ہیں : ری مرز اسید علی محمد کے دعونی کو جن لوگوں نے تجا تسلیم کیا تھا ان کا يتغير منها شئ تاریخ بہاء الله من حادثات عبد البهاء ضا) کہ دیکھو اس وقت یا بی لوگ عادات در سوم کا کس قدر خیال رکھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح دو حقائق کو قائم کر رہے ہیں.اس دن تکیہ اسلامی شریعت پر یہی سب کا دار وسط رتھا اس میں سے کوئی حکم تبدیل نہ ہوا تھا یا علم با بی مشہور ہو گیا.ان باہیوں کی تاریخ نہایت قابل رحم اور درد ناک ہے کیوں کہ اکثران میں سے ان پڑھ خوش عقیدت سادہ اور پاک باطن آدمی تھے جنہوں نے بچپن سے مسجدوں اور امام بار دی میں امام معصوم قائم آل محمد حضرت محمدی علیہ الصلاة والسلام کا ذکر دل کو بے تاب کر نیو الے فقروں یہ حالت دیر پا ثابت نہ ہوئی پانچ اپنے اتباع کو خاص احکام کی تلقین میں سنا تھا.اب اگر حضرت باب قید نہ ہوتے تو یہ لوگ ان کرنی شروع کر دی.یعنی یہ کہ تمام دوسری کتابوں کو جلا دو.دوسری قوموں کے پاس جا کر خود اُن سے باتیں دریافت کرتے لیکن اُن کے کے مقامات مقدسہ کو گرا دو.اور جو لوگ باپ کے مومن نہیں ان کا قتل عام پاس جانے کی تو سخت ممانعت تھی.پس وہ اپنے محبوب کی کرده جناب عبد البہار تحر یہ کرتے ہیں : تعلیمات سے اکثرنا واقف تھے جن کا فی ثبوت ان کی حرکات در یوم ظهور حضرت اعلی منطوق بیان ضرب اعناق و توق کتب و اوراق و بدم بفارغ وقتل عام الا من آمن و اور سکنات سے لتا ہے.(بہاء اللہ کی تعلیمات ص۱۳۱) (۳) چون نیز اعظم از مطلع بهاء الله در نهایت حرارت و اشراقی پر تو بر آفاق انداخت نفوس جاہلہ اہل بیان که محمود ترین طوائف اند در نقطه نقطه اولی ماندند و از فیض ابدی بهاء الله محروم گشتند.....این قوم منتجب ترین طوائف عالمند.....و در ظلمت ادام مستغرق انده تبا لهم وسحقاً لهم واحسرنا عليهم وخطابات عبد البهاء جلد اول عدت بود (مکاتیب عبد البهاء جلد ۲ ص۳۶) ترجمہ: کہ حضرت اعلیٰ یعنی باب کے ظہور کے وقت بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ گردنیں اڑائی جائیں کتابیں اور اوراقی جدا دیئے جائیں.مقامات منہدم کر دیئے جائیں اور پھر ایمان لانے اور تصدیق کرنے والے کے قتل عام کیا جائے " تاریخ سے ثابت ہے کہ جناب باب پر ایمان لانے والے ان پڑھا اور شت از برائے او خون خود را نثار نمائیندہ کا عقیدہ رکھنے والے لوگ تھے.

Page 14

۲۵ ۲۴ ہیں : (۳) باستثنائی عده بسیار تحلیل هیچ کدام آنها باب را نشناخته بود.باہیوں نے دو اہم فیصلے کئے.(1) قرآنی شریعت کو منسوخ کر دیا جائے و فقط چند نفر آن با تعالیم پاپ را ادراک کرده بود.این نفوس (۲) باب کو رہا کرانے کے لئے مختلف دیہات و قصبات سے بابی مسلح بواسطه آن حرارته فطری که عامه خلق را به پیروی منجی دلالت گروہوں کی شکل میں قلعہ کو پہنچیں.قریشی حشمت اللہ صاحب بھائی لکھتے میکند مجذوب باب شده بودند - باین عقیده که امر ضروری برائے ہم این بود که در تخت نوار او در آیند و از برائے اد خون خود را انتشار نمایند تا آنکه عالمی تجدید شود و جمیع بلایا فوری رفع شود یعقیده او را نمی دانستند سینے انزال ہا گمان میکردند که آنچه قبل از ظهور باب احرام بود اینک سال شده است زیرا باب دیانت محمد علیه السلام را تجدید نموده بودید و تاریخ اور نہتائی من) اس مصیبت کے وقت میں جو کہ سر یہ آوردہ تھے انہوں نے مشورہ کر کے ایک عام مجلس شور می منعقد کی تا کہ کوئی فیصہ کریں.اور اس موقع پر ایک با بی مرزا حسین علی نوری جنگو حضرت باپ نے بہاء اللہ کا لقب دیا تھا خاص طور پر کا میده ثابت ہوتے اور اُن کی اور قرة العین کی کوششوں سے یہ قریب قریب فیصلہ ہو گیا کہ نئے اصولوں پر چلا جائے لکھا ہے: ان حالات میں حکومت ایران نے مناسب سمجھا کہ باب کو نظر بند کر دیا ہے ہے لیکن بعض پرانی رائے پر مجھے رہے.رہیاء اللہ کی تعلیمات قلم تا اس کی تعلیمات اور اس کے پیروؤں کی حرکات سے ملکی امن خطرہ دوسری قرار داد کی تعمیل بھی شروع ہو گئی.مرزا عبدالحسین بہائی مورخ نے ہوگئی.میں نہ پڑ جائے چنانچہ قلعہ ماکو میں انا کو نظر بند کر دیا گیا.معرا ز حاضرین ! آپ سن چکے ہیں کہ باب کی تعلیم خونریزی کے لئے مارا گارهم يحملون السلاح ونیسا فروتن کھلی دعوت تھی اور دوسری طرف باپ کے پیرو بہت جلد مشتعل ہو جانیوالی الجامعات لا يقل عددها عن عشرين نفسا گردہ تھا اور تیسری طرف ان کا امام مہدی کا دعوی علما شیعہ کے نزدیک (الكوالكتب (۲۲۵) ان کی تکفیر کے لئے کافی تھا.حکومت نے جب باب کو نظر بند کیا.تو تیں ان میں سے اکثر کہتھیار بند ہوتے تھے اور میں یا اس سے یابیوں پر ایک جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی انہوی نے علاقہ خراسان ریدہ افراد کی صورت میں سفر کرتے تھے.میں بہشت کے مقام پرست کہ ہجری کو ایک کانفرنس کی.اس موقع پر ماہر ہے ہو اس طرح بھنے والی مسلم جماعتوں اور خوام کا تصادم ناگزیر تھا.

Page 15

اہل دیمات اور حکومت کی پولیس سے تصادم ہوا اور تک میں لاقانونی کی ایک قرة العین کا اصل نام جناب ام کلی ہے.یہ جناب ملا صالح القزوینی کی اجباری صورت پیدا ہو گئی.دوسری طرف باب نے شیخ شریعت اسلامیہ کی قراردار ہیں.سن ولادت مسلہ یا سلسلہ بری ہے.بن رشد کو پہنے پر فرقہ شیخیه کو عملی جامہ پہنانے کے لئے البیان نامی کتاب قلعہ ما کو میں کھنی شروع میں شامل ہو گئیں.نہایت زمین اور خوبصورت خاتون تھیں سید کاظم رشتی نے انين قرة العين لا شهور عام خطاب دیا تھا.ان کی شادی اپنے چچا کے کر دی.لکھا ہے :- (۱) وكان الباب كتب كتاب البيان اثناء مجسه بیٹے ملا محمد سے ہوئی تھی مگر یہ اپنے خاوند کے گھر آباد نہ ہوتی تھیں.برشت کا نفرنس سے پہلے جب لوگ میاں ہوتی میں مصالحت کرانے کی کوشش کر رہے کہ باپ نے ماکو کے قلعہ میں قید کے عرصہ میں کتاب بنانی بھی ہے یہ في قلعة ماکو و تاریخ بہاء اللہ مت) تھے تو وہ اپنے خاوند کے متعلق کہنے لگی : لم يكن الخبيث لیقہ کفوا (۲) رتب كتاب البيان على تسعة عشر و احدا و قسم للطبيب قط" را کواکب مت کہ وہ خبیث میرا کنو نہیں ہے کیونکہ میں کیونکہ میں كل واحد الى تسعة عشر بابات (الكواكب ملك طیب ہوں.بہر حال اُن کی خانہ آبادی نہ ہو سکی.وہ البیان کو 19 حصوں تقسیم کرے گا اور ہر حصہ میں 19 باب ہائیوں میں قرة العین کا خاص درجہ ہے ان کا عملی دستور یہ تھا: لکھے گا لیکن وہ اس تجویز کو عملی جامہ نہ پہنا سکا.لکھا ہے." ولكن حضرته لم يكمل بقلمة كتابة جميع وكانت في مجلس الاحباء مكشوفة الرجه ولكن في مجلس الاغيار تكلمهم من خلف حجاب در سال التسع عشريه ملا هذه الابواب وانما تتم كتابة آحاد ثمانية و کہ قرۃ العیں احباب کی مجلس میں ہے پر دہ ہوتی تھی اور غیروں تعة ابواب من الواحد التاسع فقط والكلاب ف) اکی سے بات کرنی ہو تو پس پردہ کرتی تھی یہ کہ باپ اپنے قلم سے البیان مکمل نہ کر سکا.اس نے صرف آٹھ وشت کا نفرنس میں جب وہ مقرہ سکیم کے مطابق رکے سامنے کھلے منہ حقے مکمل طور پر لکھے ہیں اور نویں حصے کے صرف نو باب لکھ سکا ہے؟ آگئیں اس پر سب با بی دنگ رہ گئے.لکھا ہے :- اس جگہ قرۃ العین کے مخضر حالات ذکر کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ شیخ قرآن بادی جمیع حاضرین پریشان شدند که چه گونه نسخ شرائع شده این کی سیکیم میں بہشت کا نفرنس میں انہوں نے رہے زیادہ پارٹ ادا کیا ہے جناب ایدہ اللہ کے نہ ہے پرده برون آمد (تذکرة الوفاء مل )

Page 16

۲۹ ۲۴ سب حاضرین حیران ہو گئے کہ شریعیت کسی طرح منسوٹ ہو گئی تعتمد عليه وتركن اليه في يث اسرارها و مكنونات اور یہ عورت کس طرح ننگے منہ اور ہے پر دہ باہر آگئی ہے یہ اطلاعاتها ولم يتحاش مؤرخو البابية ذكر هذه بدست کا نفری کی کارروائیوں کا اجمالی نقشہ پر تھیسر براؤن کی الرحلة الاتفاديا عن وهم المواهمين وقطعا شائع کردہ تاریخ میں یوں درج ہے: لدابر اقوال المغترين وأفكارهم السابعة در صحرا کے خوش قضائے بدشت جمعے ہے خود وگرو ہے المنحطة " (الكواكب منا ومنا) با خود و طائفه تحیر و قوت مجنون و فرقه فراری شدند ترکیه ا جیب پر ثابت ہو گیا کہ قرۃ العین سے بچے برا مان گئی رفنقطة الكاف نكا ہے تو یہ ضروری ہے کہ یہ سفر قد دس او ملا بلکہ فروشوں کی معیت میں کہتے ہیں کہ قرۃ العین کو طاہر کا لقب اسی موقع پر دیا گیا تھا لکھا ہے.بڑا ہو کیونکہ وہی اکیلا شخص تھا جس پر قرۃ العین کو جو تھا تھا لکھا واتا لقب طاہرہ اول در بهداشت واقع گشت و حضرت اور جیسے وہ اطمینان سے اپنے راز اور پوشیدہ بھید تیلا یا کرتی تھی اعلی این لقب را تصویب و تصدیق نمودند و در انواع مرقوم دو سر با بی مورخوں نے اسی سفر کا ذکر محض کی ڈو کی خاطر نہیں کیا.تا کہ وہم کرنے والوں کا دہم اور مفتر یہیں کے اقوال کا ازالہ ہو گشت تحفہ طاہرہ عہ) کہ قرة العین کے طاہرہ دیا کہ امن کا لقب پہلی مرتبہ بدشت جائے اور ان کے بانی اور ناکارہ خیالات رک جائیں.کے صحرا میں ہی کلا تھا.بعد ازاں پا سب نے اسکی تصدیق کردی قرۃ العین بابت کی تبلیغ میں سرگرم تھیں.باپ کے قتل کئے جانیکے بعد اور الواج میں استعمال ہونے لگ گیا ہے.قرہ العین نے بھی حکومت کے خلاف ایک کوشش کی تھی کر کے تیار ہوئیں اور بہائی تاریخ سے ثابت ہے کہ قرۃ العین کا زیادہ تعلق ایک مخلص بابی حاجی بھائی روایت کے مطابق باپ کے دو سال بعد ا نہیں گلا گھونٹ کہ جا کہ محمد علی یار فروشی فرومی کے ساتھ تھا.انکو ا کتب میں لکھا ہے کر دیا گیا.(تذکرۃ الوفاء منس) واذا ثبت أن السيدة ساخرت حقيقة إلى اب ہم پھر باپ کے معاملہ کی طرف خود کرتے ہیں.حکومت یا ہیوں کی خراسان فلابد وان يكون ذلك مع حضرة القدوس مسلمان سرگرمیوں سے تنگ تھی.ادھر علماء نے باب کو واجب القتل فاته الوحيد الفريد الذى كانت تلك الترهواء قرار دیدیا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ باب کے قتل کئے جانے کا فیصلہ ہوا.

Page 17

۳۱ بما ان حضرة السيد الباب ادعی مقام المهدوية وعمل تغيرات عظيمة في الفروع الإسلامية لذلك وجب ولزم قتلة : والكراكب ) آخر کار باب اللہ کے درمیان آذربائیجان کے دارالخلافہ میں قتل کئے گئے :- ۱۸۵۰ وہ اور تشنہ کے درمیان آذربائیجان کے دارالخلافہ کہ چونکہ باپ نے مہدویت کا دعوی کیا ہے اور اسلامی شریعت ہیں میں شہید ہوئے.رہاء اللہ کی تعلیمات منال ) بہت تبدیلی کی ہے اس لئے اس کا قتل واجب ہے " بھائی مورخ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک بابی نے سازش کر کے شاہ ایران پر گولی اس کی صلہ سے باب بہت فکرمند ہوئے.چنانچہ لکھا ہے :.چلائی جس سے بانیوں کا ایران میں قتل عام ہوا :- كان حضرته متغير الحال على خلاف المعتاد حضرت باب شہید کئے گئے اور ان کے ایک خادم نے کچھ دیں غائماً في بحر عميق من الافكارية (الكواكب مل ۴۳) سے سازش کر کے بادشاہ پر گولی چلائی اور اس کے بعد یا ہوں کہ اس شب اس کی حالت غیر معمولی طور پر بدلی ہوئی تھی.کا تمام ایران میں قتل عام جوا " (بہاء اللہ کی تعلیمات مث) وه تفکرات کے عمیق سمندر میں غرق تھا.اس سلسلہ میں عصر جدید میں لکھا ہے :- اگست منشاء میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے باہیوں پر اس موقع پر ان کی زبان پر یہ شعر تھا ہے الى المديان يوم الدين تمضى ، وعند الله تجتمع الخصوص بلاؤں کا ایک ایسا طوفان برپا کیا کہ ہر ایک بابی کی جان خطرے انہوں نے اپنے مریدوں سے خواہش کی کہ کوئی مجھے سب سے پہلے ہی قتل کر دے.میں پڑگئی.صادق نامی ایک نوجوان جو خود بھی بابی تھا اور حسن کا آقا بھی بابی تھا.اپنے آقا کے عذاب شہادت کو دیکھے کہ ایسا تاثر ہی چنانچہ الکواکب میں لکھا ہے :- فيا حبذا لو وجد من يقتلني هذه الليلة ہوا کہ بدلے کے جوش میں بھر کر اس نے شاہ ایران پر حملہ کر دیا ہے في هذا السجن والكواكب منم) ر عصر جدید اردو صدا نیز انہوں نے اپنے مریدوں کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا :- پھر شاہ ایران محمد شاہ فوت ہو گئے تو بابیوں نے عام مقابلہ شروع اے اصحاب ! فردا که از شما سوال نمائیندا نہ حقیقت میں تقسیم کر دیا جس میں طرفین کا کافی کشت و خون ہوا :- نمائید ولعن کنید زیرا که حکم الله بر شما این است یا نقطه اللافت ان البابيين احتسبوا وفاة المغفور له محمد شاه

Page 18

۳۳ ۳۲ فوزا عظيما لهم وشرعوا في المقاتلة والنزال وخرجوا على الدولة والملة (الكواكب من ) باب نے رمضان شاہ ہجری میں اپنی زندگی کو خطرہ میں پا کر فراحسین علی الملقب بماء اللہ کے سوتیلے بھائی مرزا یکی صبح ازل کے بارے میں وصیت مقالہ سیاح کا مصنفت پاہیوں کا دفاع کرتا ہوا لکھتا ہے.کردی تھی.وصیت یہ تھی :- کیونکہ اس مذہب کی بنیاد پڑتے ہی حضرت ہاس تیل کے دیئے گئے تھے اس لئے یہ گروہ اپنی روش و رفتارها در شریعت و طریقت کے احکام سے محض بے خبری ہے.ان کے عقائد کی بنیاد صرف حضرت الله اكبر تكبيرًا كبيرًا هذا كتابد من عند الله المهين القيوم الى الله المهيمن القيوم قل كل من عند الله باب کی بھی محبت تھی اور یہی بے خبری بعض مقاموں میں کر بابری کا میدوون قل كل الى الله يعودون هذا كتاب سبیت ہوئی.اور جب ان لوگوں نے اپنے اوپر سخت دباؤ پڑتا دیکھا.من على قبل جليل ذكر الله للعالمين الى تو اپنے بچاؤ کے لیئے جھوٹے ا ہاتھ اٹھایات (مقالہ سیاسی اردو عدد من يعدل اسمد اسم الوحيد ذكر الله للعالمين باہیوں کی باغیانہ حرکت سے ان کے مشاہیر گرفتار کر لئے گئے جن میں میاء اللہ قل كل من نقطة البيان ليبدون ان يا اسم بھی تھے جن کو روسی اور انگریزی سفیر نے چھڑوایا.چنانچہ لکھا ہے.اس باغیانہ حرکت کے ارتکاب سے یہ فرقہ بدنام ہو گیا.ابتداء میں کچھ پوچھ چھے ہی نہیں تھی مگر اس کے بعد حکومت کی طرف سے تحقیقات شروع ہوئی اور اس فرقہ کے تمام مثلا بغیر تہمت کے جال میں پھنس گئے : (مقالہ سیاح (۲۵) اسی زمانہ میں مرنا حسین علی بہاء اللہ بھی قید کئے گئے.اور الوحيد فاحفظ ما نزل في البيان وأمر به فانك لصواط حق عظيم (مقدم نقطة الكاف م) ترجمہ : اللہ سے بڑا ہے.یہ خط خدائے ضمن وقیوم کی طرف سے خدائے سیمین دقیقوم کی طرف لکھا گیا ہے.کہا ہے کہ سید اللہ سے شروع ہوتے ہیں.اور اللہ کی طرف لوٹتے ہیں یہ خط محمد علی کی طرف سے جو ذکر العالمین ہے یعنی کی طرف صرف ایک ضلع میں ان کے چار سو تقصیر منبسط ہوئے اور اگر انگریزی - جو ذکر للعالمین ہے.کہا ہے کہ سب نقطہ بیان سے شروع ہوتے اور روسی سفیر سفارش نہ کرتے تو شاید دنیا کی تاریخ ایک عظیم الشان ہے ہیں.اسے یحیی البیان میں نازل شدہ کی حفاظت کے اور اسکے شخص کی زندگی کے حالات سے خالی رہ جاتی " ربعاء اللہ کی تعلیمی مطبوعہ کا مطابق حکم دے تو بیچا اور عظیم صراط ہے یہ

Page 19

بھی نہایت پسند کی یہ رباب الحياة ترجمہ مقالہ سیاح میشه باپ نے اسے صبح ازل کا لقب دیا تھا.چنانچہ لکھا ہے :- وقد سماه حضرة الباب بهذا اللقب گویا بہائیوں کے نزدیک صبح ازل باب کا اصل جانشین نہ تھا بلکہ اسے بہا اللہ کے لئے بطور پر دہ استعمال کیا گیا تھا.ازل مینی مرزا کمیٹی کے پیر بھائیوں کو ر صبح ازل الحكمة ما والبهائية مشا اور اس نے چاہا کہ عام یا یوں وغیرہم کی نگاہیں ہی ان پر مرکوز ہوجائیں.اس بیان میں غلط کار قراردیتے ہیں.طرفین نے ایک دوسرے کو قبال وغیرہ اس بارے میں یہ تجویز کی کہ : کے خطرناک القلب سے موسوم کہ رکھا ہے.مگر اس جگہ بطور را یک مورخ کے ثم امر بعض الاصحاب بان يشهر را اسمه بين عامة ہم اس قسم کے امور کی طرف صرف اشارہ ہی کر سکتے ہیں.تاریخی طور پر ثابت الصحب لتتحول الانظار نوعا اليه والكواكب منه ہے کہ یہ کیم بعد میں سانپ کے مد میں چھپکلی کی حیثیت اختیار کر گئی تھی.بعض اصحاب کو حکم دیا کہ عام باہیوں میں مرزا یحی کا نام مشہور باپ کے قتل کے بعد بہاء اللہ بھی قید کئے گئے.قید خانہ تاریک ونگ تھا.چنانچہ بہاء اللہ کہتے ہیں: کردین تا ایک حد تک اس کی طرف نظریں متوجہ ہو جائیں.وہ قید خانہ جو اس مظلوم اور دوسرے مظلوموں کی جنگ تھی.فی الحقیقت ایک تنگ و تار یک مردہ خانہ بھی اس سے اچھا ہوتا بھائی مورخ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ مشہور ہوا کہ :- کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہیئے کہ سب کی توجہ حضرت بہاء اللہ کی طرف سے ہٹ کر کسی غائب شخص کی طرف ہو جائے.اور اس تدبیر ہے یہ لوح ابن ذئب مت) ہے بہاما اللہ لوگوں کی مزاحمت اور ایذاء محفوظ رہیں لیکن اسی قید خانہ میں سوچتے سوچتے بہاء اللہ نے بانیوں کی تعلیم و تربیت کیلئے چونکہ اس امر کے لئے کسی اجنبی آدمی کو منتخب کرنا حلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا.لکھا ہے:.مصلحت تھا اسلئے بہاد اللہ کے بھائی مرزا کینی کو اس کام کیلئے اس قید خانہ میں دن رات ہم بابچوں کے اعمال و احوال کو منتخب کیا.غرضیکہ بہاء اللہ کی تاثیر اور ہدایت سے اس کو سوچتے تھے کہ اس قدر مہندی و برتری اور فہم و ادراک رکھتے قبل آل مشہور کیا اور اپنوں اور بیگانوں میں اس کو شہرت دی ہوئے ان سے ایسا کام ظاہر ہوا.یعنی ذات شاہانہ پر جو اسی سے اور اسی کی طرف سے چند خطوط حضرت نا کے نام لکھے.چونکہ در پردہ حملہ کرنا.پھر اس مظلوم نے ارادہ کر لیا.کہ قید خانہ سے نکل کر پہلے اس امر کاز کو حضرت یا پہنے ہو چکا تھا اس لئے یہ وائے انہوں نے پوری ہمیں کے ساتھ ان لوگوں کو تہذیب و شائستگی

Page 20

۳۶ خرجنا من الوطن ومعنا فرسان من جانب سکھانے کھڑا ہو گا.راتوں میں سے ایک رات عالم رویا نہیں الدولة العلية الايرانية ودولة الروس الى ان ہرست سے یہ بلند کلمہ سنائی دیا.انا ننصرك بك و بقدمك لا تحزن عما ورد عليك ولا تخف أنك من الأمنين - سوف يبعث الله كنوز الارض وهم رجال ينصرونك بك وباسمك الذى به احيا الله افئدة العارفين (لوح ابن ذئب مت) وردنا العراق بالعزة والاقتداري رنبالة من تعاليم البهاء مطبوعة مصرمك ترجمہ :.کہ جب ہم ایمان سے روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ حکومت ایران اور حکومت روس کے سوار تھے یہاں تک کہ ہم عراق میں عزت و تکریم کے ساتھ پہنچ گئے " جب تین ماہ کے بعد رہا ہوئے تو حیاء اللہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے اب بہائی تحریک کا آغاز ہوتا ہے.بہاء اللہ یعنی مرزا حسین علی صاحب نام سے عراق کے لیئے روانہ ہوئے اور اس وقت ایرانی اور روسی حکومت طران میں ہار نومبر کا ماله مطابق ۲ محرم له بمجری کو مزا لباس نوری کے سیاسی ان کی نگرانی کرتے تھے مقالہ سیاح کا مصنف لکھتا ہے : کے گھر پیدا ہوئے تھے لکھا ہے کہ :.حضرت بہاء اللہ نے درخواست کی کہ ان کو مقدس مقامات حضرت بہاء اللہ نے کسی کالج یا سکول میں تعلیم نہ پائی تھی.ملہ میں بہاء اللہ ستائیس برس کی عمر میں باب پر ایمان لائے تھے نیش دارد مذہبی کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دی جائے چند مہینے جو کچھ آپنے پڑھا تھا وہ گھر میں ہی سیکھا تھا.عصر جدید اردو ) کے بعد پادشاہ اور وزیر اعظم سے اہمہارت حاصل کر کے شاہی غلاموں کے ساتھ ان مقامات مقدمہ کی طرف روانہ ہوئے یہ میں باپ اپنی نئی شریعت البیان کو نا تمام چھوڑ کر قتل ہو گئے.تب رباب الحياة مسلم بہاء اللہ کے سامنے بدشت کا نفرنس کی تجویز کے مطابق قرآنی شریعیت کے نسخ کا سوال ہے اہم تھا.ایران سے جناب بہاء اللہ محرم مال مہجوری بہاء اللہ صاحب خود لکھتے ہیں.حب الاذن و اجازه سلطان زمان این عمد از صفر میں قافلہ سمیت بغداد پہنچ گئے.صبح ازل کی مخالفت کا سلسلہ نیاں بھی بیاری سریر شیطانی بحراق عرب توقیه نمود دوازده است دوراں تھا اس سے لگ کر آپ کے کو اطلاع دیے نیا سال کے لئے سلیمانیہ تنگ بغیر بار من ساکن - رباب الحياة مثلا کے پہاڑوں میں چلے گئے.لوح ابن ذئب میں لکھتے ہیں :- جناب بہاء اللہ لکھتے ہیں:.آن

Page 21

۳۹ ٣٨ یر مظلوم ہجرت دو سالہ حسین میں پہاڑوں اور بیابانوں دشمن شیعوں سے جاملے.یہ قضیہ روز بروز شدید ہوتا گیا.آخر کا ہیں رہا اور بعض لوگوں کے سبب جو مدت تک بیابانوں میں حکومت عثمانی نے آپ کو مع آپ کے اصحار کے نکا بھیجدیا اور مرزا تلاش کرتے ہے دار السلام واپس آیا " (لوح ابن ذئب مثلا ) یمنی کو جزیرہ قبرص میں روانہ کر دیا گیا.یہ واقعہ ۳۱ اگست نداء ایک بہائی مورخ لکھتا ہے : کا ہے یا دنباء الله و عصر ور یہ ص ۳) شاید مراد از این غیبت این بود که در تنهائی و محل خالی صبح ازل نے البیان کو محو کیا اور اپنی نئی شریعت المستيقظ مرتب کی.از جدال و نزاع از برائے تاسیس و بناء کا رالهی خود قوت چنانچہ جناب بہاء اللہ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے لکھا :- معنوی ذخیره فرماید و تاریخ امر بہائی مت ان ان دنوں ہم نے سنا ہے کہ تو نہایت ہمت سے بیان کے واپسی پر آپ کے مخفی طور پر من نظیرہ اللہ کا دھوئی کیا.اسی طرح اور بھی جمع کرنے اور اسے محو کر دینے میں لگا ہوا ہے.چار پانچ بابیوں نے یہ دھونی کیا تھا.مقدمہ نقطہ الکلاف ملے تو از کلیوں توح ابن ذئب منك نے شدید مخالفت کی.بغداد میں گیارہ بارہ سال انہی اختلافات میں گزارتے ہوئے جناب آقا ابو القاسم کاشی اور کچھ دوسروں کو میرزایی کے نقوئی سے شہید کیا.اسے ہادی اس کی کتاب جس کا نام اس نے جناب بہاء اللہ لکھتے ہیں:.به مظلوم دن رات قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ پکار رہا مستیقظ رکھا ہے تیرے پاس موجود ہے پڑھ.ہے کہ شاید شبیہ کا سبب ہو" (لوح ابن ذئب ما) آخر عثمانی حکومت نے اس راگست ۱۹۶ء کو صبح ازل کو قبرص اور بہاء اللہ کو بہاء اللہ کی ایک بہن بھی صبح ازل سے مل گئی خود بہاء اللہ لکھتے ہیں :.بعد کو میرا ایجینی سے جاہلی اور اب طرح طرح کی باتیں سنتے نکہ بھیج دیا.چنانچہ لکھا ہے :- الوح ابن ذئب مثلا لوح این ذهب ما ، یہاں آپ نے عام طور سے اپنے ظہور کا اعلان فرمایا جسے میں آتی ہیں.معلوم نہیں کیا کہتی ہے اور کیا کرتی ہے.ہابیوں کی کثیر جماعت نے قبول کیا اور بھائی کہلانے لگے.ایک چھوٹی سی جماعت نے مرزائی کی سرکردگی میں نہایت شدت سے بھائیوں کے نزدیک البیان منسوخ ہے.اس کی حیثیت بہار اللہ کی اس کی مخالفت کی اور آپ کے مٹا دینے کی سازشوں میں آپ کے پرانے وحی کردہ کتاب کی ہے ، اسے اس کے نسخ کا اختیار ہے.اس بارے میں

Page 22

وہ میں ہی ہوں نہ من نظیرہ اللہ " میرا ہی لقب ہے.اول تو لکھا ہے:.دا حضرت باپ نے بعض موقعوں پر یہ بھی لکھ دیا تھا.کہ سب کو سکتہ سا ہو گیا لیکن رفتہ رفتہ قریب قریب سینٹا ئیوں نے میں نے جو شریعت لکھی ہے اس پر عمل کرنے کا حکم اس وقت حضرت بہاء اللہ کو من منظره الله تسلیم کیا.اور اُس دن سے جنہوں نے حضرت بہاء اللہ کا دعوئی قبول کیا اُن کا نام تم کو ملے گا جبکہ من يظهره اللہ ظاہر ہوگا اور اس شریعت میں سے وہ جس بات کو پسند کریگا اس پر عمل کرنیکا حکم دیگا تے بہائی ہو گیا.ربہاء اللہ کی تعلیمات ملت) عثمانی حکومت نے ان لوگوں سے نہایت اچھا سلوک کیا.بہاء اللہ لکھتے ہیں:.رو ان البيان قد اوحى اليه ممن يظهره الله ( حصر جدید عربی مت) ور حقیقت سلطنت کی طرف سے کمال محبت و عنایت ان مظلوموں کی نسبت ظاہر مشہور ہوئی.رکوع ابن ذئب مثہ) کا میں جو حالت تھی اس کا نقشہ عبدالہا، آفندی کی مندرجہ ذیل چار عبارتوں کہ باپ پر البیان بہاء اللہ نے وحی کی تھی.(۳) حضرت مبشر روح ما سواه فداه احکام نازل فرموده اند سے ظاہر ہے :- ولكن عالم امر معلق بود بقبول لهذا این مظلوم بینی را اجرا نمود ا حضرت ہارا اللہ برائے نام قیدی تھے.کیونکہ سلطان عبد العزیز و در کتاب اقدس بعبارات اخری نازل و در بعضے توقف کے فرمان کبھی منسوخ نہ ہوئے تھے.مگر حقیقت میں آپ نے اپنی نمودیم (نبذة من تعاليم البهاء من زندگی و سلوک میں ایسی شرافت اور ایساد بہ یہ دکھایا کہ سب آپنکی سایہ کے قریب اور نہ میں بہاء اللہ نے صاف طور پر دھونی کیا تھا.عزت کرتے اور آپ سے عقیدت رکھتے تھے.فلسطین کے گورنہ جس سے لوگ بہائی کہلانے لگے.جیسا کہ حشمت اللہ صاحب بھائی لکھتے آپ کے اثرا اور قوت پر رشک کرتے تھے.گورنر، متعرف ال جو نیل اور بڑے بڑے افسر نہایت عاجزی سے آپ کی ملاقات کا ہیں :- جب ہابیوں کی حالت ہے سردار کے بہت نازک ہونے لگی.شرف حاصل کرنے کی درخواست کرتے جو شاذ و نادر ہی آپ منظور تو ایڈریا نویل میں بہاد اللہ نے کہا کہ میں شخص کی بشارت تم کو حضرت فرماتے " ( عصر جدید اردو م ) باب نے دی ہے اور جس کی راہ میں انہوں نے اپنی جان فدا کی ہے ۲.سلطان عبد العزیز کے سخت فرمان کے باوجود جس میں مجھے

Page 23

۴۲ سرم جمال مبارک سے ملنے کی سخت ممانعت تھی.میں گاڑی لیکر دوسر مکہ سے قریب ایک میل کے فاصلہ پر ایک باغ پنجی میں رحلت کی وفات) دن در مبارک پر حاضر ہوا اور آپ کو ساتھ لیکر محل درمحمد پاشا کا مصنف بہاء اللہ کی تعلیمات نے چالیس سال قید کی مدت بتانے میں بھی مبالغہ باغیچہ کو بھٹی کی طرف لے گیا.اور کوئی ہمارا مزاحم نہ ہوا.میں سے کام لیا ہے.شاہ سے شہ تک چوبیس سال بیتے ہیں نہ چالیس سال.آپ کو وہاں چھوڑ کر خود شہر کو آ گیا.آپ دو سال تک اس جناب بہاء اللہ کی تین بیویاں تھیں (۱) محترمہ نوابه صاحبه دختر خوبصورت اور پیاری جگہ رہے.تب یہ فیصلہ ہوا کہ آپ بھیجی میں تشریف لے جائیں" (عصر تجدید اردو م) نواب قرآن.ان سے بہاء اللہ کا نکاح شاہ ہجری میں بٹوار تو یہ صاحبہ کا لقب ام الکائنات ہے.ان کے بطن سے دولڑ کے عبائی نقدی اور وہاں اصلی حشمت و جلال کے دروازے کھول دیئے گئے ہے میرزا مهدی نیز ایک لڑکی بھائیہ پیدا ہوئے.میرا احمدی بہاء اللہ کی راليضا ملا زندگی میں ہی چھت سے گر کر فوت ہو گیا تھا.(۲) محترمہ حمد علیا.یہ جناب بہاء اللہ کی دوسری بیوی ہیں.ان کے م وكانت هبات مئات الالون من الاتباع المخلصين قد جعلت تحت يديه اموالا بطن سے چار بچے یعنی تین لڑکے میرزا محمد علی، میرزا بدیع اللہ میرزا طائلة كان يدبرها بنفسه : (عصر جديد عربي من ضیاء اللہ پیدا ہوئے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی.اس فارغ البالی میں آپ کیا کرتے تھے اور آپ کا کیا شغل تھا.لکھا ہے :.(۳) محترمہ گوہر خانم.ان سے جناب بہاء اللہ نے قیام پف دار کے آپ کا وقت زیادہ تر عبادت و ذکر و شغل، دعا و مناجات زمانہ میں شادی کی.ان کے بطن سے صرف ایک لڑکی فروخفیہ خانم زندہ رہی کتب مقدسہ اور الواح کے نزول اور احباب کی اخلاقی باقی بچے فوت ہو جاتے رہے.(تفصیل کے لئے دیکھو الکواکب الدریہ فارسی اور روحانی تربیت میں گزرتا رہا، اللہ اور عصر جدید فت جلد ۲ عث تاحث ۲۸ مٹی شاہ کو آپ فوت ہوئے.حشمت اللہ صاحب بہائی لکھتے بہاء اللہ کی وفات پر ان کے بیٹے عبد البہاء جانشین ہوئے.ان کی لمبی داستان ہے ان کے محادثات اور خطابات نے بہائیت کی شکل ہیں :- سے لیکر تہ تک حضرت بہاء اللہ مکہ ہی بدل دی ہے.میں قید رہے اور پچھتر سال کی عمر میں چالیس سال کی قید کے بعد بہاء اللہ کی وصیت کے مطابق ان کے بعد ان کے بھائی مرزا محمد علی کو

Page 24

۲۵ دوسرا خلیفہ ہونا چاہیے تھا.مگر عبد البہاء نے اپنے نواسے شوقی آفندی کو دوسرا مقالہ بہائیوں کا زعیم مقرر کر دیا.ابھی تک شوقی افندی ہی زمیم ہیں.یہ بابی اور بہائی تحریک کی مختصر تاریخ ہے.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين بہائیوں کے عقائد اور تحریک احمدیت معزز حضرات اکل شام ہم نے بالی اور بہائی تحریک کی تاریخ پر ایک مقالہ آپ کے سامنے پڑھا تھا.آج کے مقالہ کا عنوان بہائیوں کے عقائد اور تحریک احمدیت ہے.بابی اور بھائی تحریک کی تاریخ کے سلسلہ میں ہم نے بعض مشکلات کا ذکر کیا تھا جنہیں اپنے اور بن گیا نے سب محسوس کرتے ہیں.ایک بڑی مشکل یا جیوں یا بہائیوں کی کتابوں کی نایابی اور کیا ہی ذکر ہوئی تھی.اسی طرح یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چونکہ بہائی تحریک کے بانی نے مرزا حیدر علی صاحب اصفہانی بہائی مبلغ کو تاکید فرمائی تقى استر ذهبك وذهابك و مذهبك ربيجة الصدور م یعنی اپنے سونے، اپنی آمدورفت اور اپنے ندسی عقائد کو چھپا کر رکھو.اسلئے بہائی تحریک میں بہت سے امور مخفی رکھے جاتے ہیں اور ایک مورخ اور محقق عقائدہ کے لئے بہت سی وقتیں پیش آتی ہیں.جناب بہار اللہ نے اپنے اس قول میں نذیر کے مخفی رکھنے کا حکم دیا ہے اسلئے آپ حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ بہائیوں کے عقائد کو صحیح طور پر جانتا کچھ آسان نہیں ہے.جناب عبد البہاء نے اپنے ایک پیر و شیخ فریح اللہ کر دی مصری کے نام ایک خط میں تلقین فرمائی ہے عليكم بالتقية " ومکاتیب

Page 25

عبد البہاء جزء سرعت ۱۲) کہ لوگوں کے پردوں، ان کی نیند اور ان کی عقلوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے تمہارا فرض ہے کہ تقیہ کو اختیار کر وہ جس کے صاف نے سنتے ہیں کہ بہائی میکنین را دور جا گرا تقیہ اختیار کریں گے.اس تقیہ اور اخفاء مذہب کی مشکل کے ساتھ ساتھ ایک دوسری مشکل یہ بھی ہے کہ جناب عبد البہاء نے بہائیت کے میدان کو بہت وسیع کر دیا ہے.کیونکہ وہ فرماتے ہیں :- اذا كنت في جمعية الهيئة فلا تفارق اخوانك فانك يمكنك الاتكون بهائيا مسيحيا وبهائيا ماسونيا وبهائيا يهوديا "In one of his Eonden talks he said that a man may be a Bahai even if he has never the name of Bahaullah” heard (Bahaullah and the New Era P.98) افسوس ہے کہ بہائیوں نے عصر جدید کے اُردو ترجمہ سے یہ حوالہ حذف کر دیا ہے.قصر تجدید عربی میں اس کا ترجمہ یوی لکھا گیا ہے :- يصح ان يكون الانسان بهائيًا ولولم ليمـ بسم بهاء الله " (عصر جدید غربی منک پس ان حالات میں ایک جویائے حق کے لئے بہائیوں کے عقائد کا صحیح طور پر جانتا کچھ آسان بات نہیں ہے.بہائیوں کے عقائد پر تفصیلی نظر ڈالنے سے پہلے یہ ذکر کرنا بھی ضروری وبهائيا مسلمات (مفاوضات عبد البهاء فت) کہ تو جس جمعیت یا ایلمین میں ہو تجھے بہائی ہونے کی وجہ سے اس سے علیحدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ تو عیسائی ہوتے ہوئے ہے کہ بھائی عقیدہ کی رو سے جناب باب، جناب بہاء اللہ، جناب عبد البهاء بھی بہائی رہ سکتا ہے.مو سوتی ہوتے ہوتے بھی بہائی رہ سکتا ہے.بلکہ جناب شوقی افندی تک ایسے مقام پر ہیں کہ ان کے بیان اور قول کو اور تو یہودی بھائی اور مسلم بھائی بھی بن سکتا ہے.یہ العام اور وحی کا درجہ دیا جاتا ہے.جناب بہاء اللہ اور عبد البہاء کو تب اس سے بھی بڑھ کر جناب بہاء اللہ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ انہتائی ہونے حضرت گہرنی کے مقام پر مانا جائے گا تو ان کے ہر قول کو بہائی عقائد کیلئے کے لئے بہار اللہ کا نام تک سننا ضروری نہیں اپنی کو خر قدید اور بہاء اللہ اساس اور بنیاد بھنا ضروری ہوگا.بہائیوں کے نزدیک انہیں عصمت کبری نچہ عمر حاصل ہے اور عصمت کیرٹی والے شخص کے متعلق جناب بہاء اللہ تحریر کرتے ہیں :.میں لکھا ہے :- اور

Page 26

۴۹ ۴۸ لو يحكم على الماء حكم الخمر و على السماء بہاء اللہ نے ایک عمل کو شریعت کے مطابق ظہرایا ہے مگر جناب عبد البہاء نے حكم الأرض وعلى النور حكم النار من لاديب اُسے نا درست ٹھہراتے ہوئے اس کے مخالف عمل کو اختیار کرنے کی تاکید کی فيه وليس لأحد ان يعترض عليه او يقول ہے.عقائد کی بحث میں آپ اس کی مثالیں مشاہدہ کریں گے.مگر محض مثال يقويم.......الكل أن يتبعوه فيما حكم کے طور پر اعمال کی ایک مثالی اس جگہ ذکر کی جاتی ہے تا کوئی یہ سمجھے کہ ہم نے به الله والذی انگره كفر بالله واياته ورسله یہ دعوئی نادرست طور پر ذکر کر دیا ہے.وہ مثال یہ ہے کہ جناب بہاء اللہ نے اپنی شریعت اقدس میں حکم دیا ہے.کتب علیکم الصلوة فرادى قد كتبه انه لونكم على الصواب محكم الخطاء و رفع حكم الجماعة كه ناز با جماعت کا حکم منسوخ کیا جاتا ہے اور تم میں على الكفر حكم الايمان من من عمده ؟ ريدة من تعاليم بماء الله محت؟ الگ الگ نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے.بہائیوں کی نذہبی دروس کی کتاب گویا ایسا شخص اگر پانی پر شراب کا حکم لگائے تو نہیں روا ہے اور اگر دروس الديانة " نامی کے درس ملا میں لکھا ہے کہ :.آسمان کو زمین قرار دیدے تب بھی درست ہے اور اگر نام کو نور تدار اور شریعت ما حکم جماعت نیست - ہر کسی باید بہ تنہائی نماز بخواند دیدے تب بھی اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا.ایسے اشخاص کے احکام کہ ہماری شریعت میں باجماعت نماز پڑھنے کا کوئی حکم نہیں ہے.کی سرتابی اللہ اور اس کے سارے رسولوں اور اس کی ساری کتابوں کے پر شخص کو چاہیئے کہ اکیلا نماز پڑھے.انکار کے مترادف ہے.وہ اگر نا درست کو درست قرار دے اور کفر کو لیکن اس کے بر خلاف جناب عبد البہاء فرماتے ہیں :.اس قسم کے خیال کرنا بیہودگی ہے.کیونکہ جہاں بہت سے ایمان ٹھہرائے تو ایک بھائی اس کے ماننے پر مجبور ہے.یاد رہے کہ ہم نے یہ بیان غیر متعلق طور پر ذکر نہیں کیا کیوں کی جیسا کہ لوگ جمع ہوتے ہیں.وہاں اثر زیادہ ہوتا ہے.علیحدہ علیحد سپاہی آپ ابھی نہیں گئے اور خود بہائی کتابوں میں مشاہدہ فرمائیں گے بسا اوقات اکیلے لیتے ہوتے ایک متحدہ فوج کی سی قوت نہیں رکھتے ہیں.ایسا ہوا ہے کہ جناب بہاء اللہ نے ایک عقیدہ کا اعلان کیا ہے اور اسے ی دخانی جنگ میں اگر سب سپاہی اکٹھے ہو کر لڑیں تو انکے متحدہ درست ٹھہرایا ہے لیکن جناب عبد النبہا ء نے اسے غلط سمجھتے ہوئے اس یا جانی خیالات ایک دوسرے کی مد کرتے ہیں اور ان کی دعائیں کے مخالف دوسرا عقیدہ اختیار کر لیا اور اس کا اعلان کر دیا ہے، یا جناب قبول ہوتی ہیں.(بہاء اللہ عصر جدید مننا

Page 27

۵۱ ۵۰ اس مثال سے ظاہر ہے کہ تندیسی اعمال میں جناب بہاء اللہ اور عبد البہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے.ہمارے اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بھائیوں عقیدہ ہم اُن کے کسی لیڈر کی طرف منسوب کریں گے اس کے لئے ان کی تحریر کا حوالہ دینے کے ہم ذمہ دار ہوں گے.کے عقائد معلوم کرنے کے لئے خاصی جد و جہد آنے کی ضرورت ہے.اور آج کے لیکچر کا عنوان صرف بہائیوں کے عقائد نہیں بلکہ اس سلسلہ میں ان عقائد کے متعلق تخریب احمدیت کے موقف کا ذکر کرنا بھی مضمون کا حصہ ہے.کوئی شخص آسانی سے ان کے حقیقی عقائد کو معلوم نہیں کر سکتا.ان مشکلات کے باوجود ہم آپ کے سامنے بہائیوں کے خصوصی حقائد اس لئے ہم ذیل میں بہائیوں کے عقائد کے ساتھ ساتھ احمدی جماعت توقف کو خود ان کی اپنی تحریروں سے پیش کر رہے ہیں.عقائد کا معاملہ انسان کو بھی ذکر کرتے جائیں گے.کے دل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.کوئی شخص دوسرے کے دل کے خیالات سے آگاہ نہیں.دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اس لئے جس عقیدہ کو انسان اپنے قول یا اپنی تحریر سے ظاہر کرے وہی اس کا عقیدہ سمجھا جاتا ضروری ہے.اور کسی شخص کا یہ حق نہیں کہ دوسرے کی طرف ایسی بات منسوب بانی بہائیت جناب بہاء اللہ کے دھونے کی را، بہائی توحید از قیمت کل شام کے مقالہ کا مضمون ہے.اور اس پر ہم اسی وقت پوری بحث کریں لئے انشاء اللہ.اس جگہ صرف استاد کر کرے یا ایسی بات کو اس کا عقیدہ قرار دے جسے وہ شخص نہیں مانتا.اہل کیا جاتا ہے کہ بہائی لوگ جناب بہاء اللہ کے اندر اسی طرح سے لاہوتی اور نا سوتی طبیعتوں کے معتقد ہیں جس طرح عیسائی لوگ حضرت مسیح مذاہب اپنے مخالفین کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کر دیتے ہیں جو اُن کی علیہ السلام کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں.عیسائیوں کا اس پانے میں جو عقیدہ مسلمہ نہیں ہوتیں.ہم نے اس امر کی پوری احتیاط کی ہے کہ نہار ہے مقال میں اہر رات کوئی ایسا عقیدہ یا ایسا مسئلہ منسوب نہ ہو جیسے وہ نہ یہ حق ہے کہ اگر وہ ہمارے ایسا عقیدہ دیکھیں تو اس کے متعلق صراحت کردیں کہ یہ ہمارے مسلمات میں سے نہیں ہے.ہاں ہم اس جگہ یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں.کہ نیوں کے اپنے لیڈروں کے بیانات اور عقائد ہیں جو اختلاف اور تضاد ا تاب کو اس کے متعلق کوئی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں البتہ جو باتے ہوں.بہائی صاحبان است ہے اس کے متعلق ابوالفضل صاحب بھائی لکھتے ہیں :- علماء سورہ سے وسائر بلاد شرق حضرت عیسی را دارا ئے د و طبیعت و مشقت دانستند و آن عبارت است از شیست لاہوت و مشیت ناسوت یعنی الوہیت و بشریت یا الفرائد مصنفہ ابو الفضل بہائی 1) ہی کے بین بہاء اللہ کے متعلق بہائیوں کی مار کتاب درس الدیانہ میں بہاء اللہ کی نا ہوتی اور نا سوئی طبیعت کا ذکر

Page 28

۵۳ ۵۲ الفاظ ذیل موجود ہے.ملكوت السماوات والارضین : الحاج مبار که حت یاد رہے کہ بہائی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بھی ذہبی عقیدہ مقصود از ایسی قدیم و یا اصل قویم دیا بر محیط با توان متفقیت رکھتے ہیں جو عیسائیوں کا ان کے متعلق ہے.جناب عبد البہاء فرماتے ہیں :- نوری انیه البیه است که موثر در وجود و محیط بر خواهم غیب و شهود است حضرت من اراده الله، روح ما سواه خداہ ازاں روئید و ازان بحر منشعب شده اند - ددیگران از اصیلی حادث که مقام ظاہری جم است روئیده و از جنبه نا سوتی خلق شده اند یا دی روس الدياثة مطبوعہ مصرف درس پنجاه و نهم) خود جناب بہاء اللہ نے اہل بیان کو خطاب کر کے کہا ہے :- قل يا ملأ البيان قد اتى مولى العباد في يوم الميعاد : (مجموعه اقدس منه) ترجمہ :.اسے اہل جاہی تمام ہندوں کا خدا مقررہ دن ہیں آگیا ہے " انہوں نے اپنے آپ کو تمام انبیاء کا مقصود اور آسمان و زمین کا اللہ قرار دیتے ہوئے کھا ہے :- هذا يوم لواد رائے محمد رسول الله تقال قد مرفناك يا مقصود المرسلين ولو ادركه النايل ليضع وجهه على التراب خاضعا الله ربك ويقول قد اطمان تدبی یا الله من في حقیقت سیحیه که کلمة الله است البته من حيث الذات والصفات والشرف مقدم بر کائنات است.ر مفاوضات منه پھر رسالہ بہاء اللہ اور عصر جدید میں لکھا ہے:.حضرت عیسی ایک وسیلہ تھے اور نیسائیوں نے آپکے ظہور کو خدا کی آمد یقین کرتے میں بالکل صحیح رویہ اختیار کیا آپ کے چہرہ میں انہوں نے خدا کے چہرہ کو دیکھا.اور آپ کے لبوں سے انہوں نے خدا کی آواز کوسنا.حضرت بیل اللہ فرماتے ہیں......کہ ربّ الافواج ابدی باپ دنیا کے بنانے اور بچانے والے کی آمد جو تمام انبیاء کے بیانات کے مطابق آخری ایام میں واقع ہونے والی ہے اس سے سوائے اس کے اور کچھ مراد نہیں کہ خدا انسانی شکل میں منصہ شہود پر ظاہر ہوگا.جس طرح اس نے اپنے آپ کو پوچ ناصری کی ہیکل رحیم کے ذریعہ ظاہر کیا تھا.اب وہ اس مکمل تر اور روشن تر ظہور کے ساتھ آیا ہے جس کیلئے سوچ اور تمام پہلے انبیاء لوگوں کے قلوب تیار کرنے

Page 29

۵۵ ۵۴ آئے تھے.دنیاء الله وقصر جدید ص۲) گویا قرآن مجید نے سخت کئے میں عقیدہ کو کفر قرار دیا تھا.اہل بہار نے اسے صاف طور پر حق اور درست ٹھرایا ہے.قرآن مجید تو عیسائیوں کے عقیدہ انیت پر اظہا زنان اختگی کرتے ہوئے اسے کفر قرار دیتا ہے مگر بہائی صاحبان اس بارہ میں عیسائیوں کے موقف کو بالکل صحیح رویہ قرار دیتے ہیں.اور بہاء اللہ کی آمد کو اسی طرح انسانی شکل لاينا في اذعانهم بوحدانية الله تعالى وفرد انيته رامج البيتة مصنف ابو الفضائل صلا پس بہائیوں اور عیسائیوں کی توحید ایک ہی رنگ کی ہے بہاء اللہ کے متعلق بہائی عقیدہ الفاظ ذیل سے ظاہر ہے : حضرت بہاء اللہ کی کتابوں میں یہ کلام و عیشا ایک مقام سے دوسرے مقام میں تبدیل ہو جاتا ہے.ابھی تو ایک انسان کلام میں خدا کی آمد مانتے ہیں.جس طرح عیسائی مانتے چلے آئے میں یہی وجہ ہے کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ابھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کہ جناب عبر البہاء نے صاف طور پر فرما دیا ہے : واقع ہو کہ مسیحیت کے اصول اور حضرت بہاء اللہ کے احکام بالکل ایک سے نہیں اور ان کے طریقے بھی ایک سے ہیں : ریاد اللہ اور عصر جدید ملا ) خود کلام کر رہا ہے.مقام بشریت سے کلام فرماتے ہوئے بھی بہاء اللہ اس طرح کلام فرماتے ہیں جس طرح خدا کا فرستادہ کلام کر ہے.اور لوگوں کو رضائے الہی کے سامنے کامل تسلیم کا زندہ نمونہ بن کر گویا بہائیت اسی قسم کی توحید کو پیش کرتی ہے اور اسی طرح اپنے دکھائے.آپ کی تمام زندگی روح القدس سے بھر پور تھی.بانی کو انسانی جامہ میں اللہ ٹھراتی ہے جس طرح نصاری حضرت سیح اس لئے آپ کی زندگی اور تعلیمات میں بشری والی عناصر علیہ السلام کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں.گویا بہائیت کی پیش کردہ توحید کے درمیان کوئی صاف خط نہیں کھینچا جا سکتا ہے بعینہ عیسائیت کی پیش کردہ تو خیر ہے اسی لئے ابو الفضل بھائی لکھتے ہیں :- خلاصة القول ان تعدد الألهة عند ربہاء اللہ اور عصر جدید من جب تسلیم کر لیا گیا کہ بہاء اللہ کی زندگی اور تعلیمات میں بشری اور الٹی خناصر میں کوئی درمیانی خطا نہیں کھینچا جا سکتا تویقینا یہی وہ عقیدہ ہے مجھے الوثنيين لا ينا في العانهم بوحدة ذات عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اختیار کئے ہوئے ہیں.یہی وجہ ہے الله تعالى كما ان تعدد الاقانيم عند النصارى کہ بہائی مبلغ مرزا حیدر علی صاحب صاف طور پر لکھتے ہیں :.

Page 30

۵۷ ۵۶ بالوہیت تھی کا پی ال بے مثال جمال قدم مومن و مسلمان کے ريجة الصدور من امش ان تمام حوالہ جات سے صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ بہائی لوگ اس دا، چنان در صدد ایزا و قتل آنحضرت افتادند که بغلک چهارم فرار نموده رایقان میلا (۲) شتمین نمالی عینی از میان قوم غائب شد و بفلک چهارم توحید کے ہرگز قائل نہیں جسے اسلام نے پیش کیا ہے.وہ مسیح علیہ اسلام ارتقاء فرمود: ایقان مشک کو بھی ایک رنگ میں الوحدت کے تحت پر مانتے ہیں اور بہاء اللہ کو بھی (۳) وارد شد بر آن جمال اقدس آنچه که اہل فردوس نوجه نمودند معبود حقیقی سمجھتے ہیں.معزز حاضرین ! بہائیت کی اس مشرکانہ تعلیم کے یقے پر آنحضرت امر صعب شد که حق جل جلاله با راده عالیه کے مقابل پر تحریک احمدیت حسب ذیل عقیدہ توحید کی تلقین کرتی ہے.رالف ، وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا.وہ دیکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے.یہ دکشتی نوح منا، (ب) ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالے کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں " ایام صلح منه) بماء چهارم صعودش داد الواح مش۲۷) (م) وانظر الى عيسى ابن مريم الشارق قبل خاتم الانبياء.....كالواله الاضطهاد جزافاً متى ضاقت عليه الارض بوسعتها الى ان عرجه 46-94 الله الى السماء ومقاله سیاح عربی مشه) ان بیانات سے ظاہر ہے کہ بہاء اللہ کے نزدیک حضرت مسیح علیہ اسلام سے بچ کر زندہ آسمان پر اٹھائے گئے.ظاہر ہے کہ یہی عقیدہ ایران کے عام مسلمانوں کا تھا.بعد ازاں جناب عبد البہاء چپ بلا و تربیہ میں گئے اور (۲) عقید تصلب شیخ ابہائی صاحبان قرآن مجید کے خلاف حضرت انہوں نے عیسائیوں کے ساتھ اختلاط اختیار کیا.تو انہوں نے یہ عقیدہ مسیح علیہ السلام کے متعلق دو متضاد حقیرے اختیار کر لیا.کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب و مقتول ہو گئے تھے اور ان کی رکھتے ہیں.جناب بہاء اللہ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو چوستے آسمان پر یہ صلیبی موت بطور فدیہ اور کفارہ کے تھی.اس بارے میں جناب عبد البہار کے بہاء علیہ زندہ قرار دیا ہے جس طرح کہ عامتہ الناس مسلمان خیالی کرتے ہیں اس کیلئے حسب ذیل تین بیان آپ کے سامنے پیش ہیں.عبد البہاء فرماتے ہیں:.جناب بہاء اللہ کی تحریرات کے چارا اقتباس بیان کرتا ہوں :- ا دروست بود افتاد و اسیر بر دو ظلوم و جهول گردید و عاقبت

Page 31

۵۹ An مصلوب شده ( مفاوضات مه - البته مقتول و مصلوب ،گردد، اهدا حضرت مسیح در وقتی که طبعی موت سے فوت ہوئے.اس جگہ بھائی صاحبان کے لئے عجیب شکل در پیش ہے.اگر وہ میچ کو اظهار امر فرموده ند جان را فدا کردند و صلیب را سر ید دانستند و آسمانوں پر زندہ مانیں جیسا کہ جناب بہاء اللہ کے بیان کا مفاد ہے تو جناب زخم را مریم و زیر را شهید و شکر شمردند ومفاوضات ملت - حضرت مسیح خود را خدا کرد تا خلق از نقائص طبیعت جسمانی خلاص شوند و بفضائل طبیعت رو حانیه منتصف گردنده (مفاوضات مکش گویا عبد البہاء کے نزدیک حضرت مسیح مقتول و مصلوب ہوئے اور عبد البہاء کا عقیدہ باطل ہرتا ہے.اور اگر وہ جناب عبد البہار کے عقیدہ کو درست قرار دیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ بہاء اللہ کا عقیدہ دربارہ حیات مسیح سراسر نا درست ہے ہے من نه گویم که این مکن آن کن : مصلحت ہیں و کار آسان کی تحریک احمدیت حضرت مسیح علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتی ہے اور ہر جناب بہاء اللہ کے نزدیک حضرت مسیح مصلوب و مقتول ہونے سے بچ کر احمدی قرآن مجید کی رو سے یقین رکھتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیبی زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے.حضرت مسیح علیہ اسلام کو مصلوب مقتول مانتا موت سے بچ کر طبعی موت سے فوت ہو چکے ہیں.قرآن مجید کی تمیس نص قرآنى وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوہ کے صریح خلاف ہے اور حضرت آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا ذکر کیا گیا ہے.حضرت مسیح مسیح علیہ السلام کو زنده بجده العنصری آسمانوں پر بٹھانا آیات قرآنیہ موعود علیہ الصلوة والسلام تحریر فرماتے ہیں:- دا) يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَلِيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى (٣) وَمَا تم یقین سمجھو کہ عیسی ابن مریم فوت ہو گیا ہے.اور کشمیر مُحَمَّد إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (۳) فلما سرینگر محلہ خانیاز میں اس کی قبر ہے.خدا تعالے نے اپنی کتاب لويْتَنِي كُنتَ أنتَ الرقیب علیکم کے صریح خلاف ہے.عزیز میں اس کے مرجانے کی خبردی ہے.رکشتی نوح مثا) بھائیوں کا عقیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وکم (۳) مقام محمدیت کے بارے میں بہاء اللہ کے اس قول سے گویا بہائیوں کے ہر دو عقیدے قرآن مجید کے دو سے غلط ہیں.واقعہ بھی یہی ہے کہ نہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر جیم سمیت زندہ بیٹھے ہیں.اور نہ ہی وہ یہودیوں کے ہاتھوں مصلوب و مقتول ہوئے تھے.بلکہ وہ ظاہر ہے.ھذا یوم لوا درکه محمد رسول الله تعال صلیبی موت سے بچ کر کافی عرصہ تک اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کے بعد لقد عرفناك يا مقصود المرسلین، که اگر آن محمد رسول الله

Page 32

۶۰ ہوتے تو مجھے مقصود المرسلین کے خطاب سے مخاطب کرتے.بہائیوں کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کا زمانہ ختم ہوچکا 47 پیدائش اتنی کے خط ممتد کی اصلی طرف کا آخری نقطہ ہے جو ارتفاع ہے.اور آپ کی پیڑی کے ثمرات کا دور آگے نہیں پیچھے رہ گیا ہے.کے تمام مراتب کا انتہا ہے.حکمت الہی کے ہاتھ نے ادنی سے اہل بہاء کے خیال میں باب اور بہاء اللہ کا مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں بلند ہے.اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم تمام اولین و آخرین سے فاضل ہیں اور آپ کا لایا ہوا دین ہمیشہ اپنی برکات کے ساتھ زندہ ہے.اور آپ کا مرتبہ تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین سے بلند تر ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- اس راآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی زر پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے رانہ کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین آخرین پر فضیلت کلیشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں " (حقیقۃ الوحی من پھر فرماتے ہیں :- یہ کیفیت صرفت دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسان کامل ہے.جس پر تمام سلسلہ انسانیت کا ختم ہو گیا ہے اور دائرہ استعداد بشریے کا کمال کو پہنچا ہے اور وہ در حقیقت اولی خلقت سے اور اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کہ کے اس اعلی درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے.صلی اللہ علیہ وسلم " ر توضیح مرام ) نیز کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں :.اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو جور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر نزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پہ قرآن کو مقدم دیکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدمزا دوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی منت دو.تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات دہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دیکھاتی ہے.پنجات یافتہ کون ہے ؟ رو جو یقین رکھتا ہے جو خدا پیچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں

Page 33

۶۳ ۶۲ اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ ہو گزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.دکشتی نورج منت پھر حضور فرماتے ہیں:.اب وہ زمانہ آگیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی جس کو گالیاں دی گئیں، جس کے نام کی بے قوتی کی گئی، جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لیا کہ کتابیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں.وہی سچا اور میچوں کا سردار ہے اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا.مگر آخر اسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا.اس کے غلاموں میں سے ایک میں ہوں جس سے خدا مکاملہ مخاطبہ کرتا ہے.یہ ر حقیقة الوحی مت ہیں ان کے بعد اب کوئی نبی نہیں آسکتا.البتہ نئی شریعت آسکتی ہے جو قرآنی شریعیت کو منسوج کر دے.نیز خدا تعالے کے مستقل طور جو سکتے ہیں.علامہ ابوالفضل بہائی لکھتے ہیں:.نه لفظ خاتم النبیین دلالت دارد که شریعتی دیگر بعد از شریعت نبویہ ظاہر نگردد و نه کلمه لانبی بعدی سعی بر اینکه صاحب امری بعد از حضرت رسول ظاہر نشود: (الفرائد ۳۳) کہ ہمارے نزدیک نہ لفظ خاتم النبیین اور نہ ہی کلمہ لا نبی بعدی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آئندہ کوئی شریعت نہ آئے گی یا کوئی شارع بعد آنحضرت صلعم ظاہر نہ ہو گا یہ ہندوستانی بھائیوں نے صاف طور پر اعلان کیا ہے کہ :.ایل بهار دور نبوت کو ختم جانتے ہیں.امت محمدیہ میں بھی نبوت جاری نہیں سمجھتے.ہاں خدا کی قدرت کو ختم نہیں جانتے.اسلئے خدا کی قدرت کے نئے ظہور کو تسلیم کرتے ہیں جو ہور سے آگے ایک نئی شان رکھتا ہے اور یہ دور نبوت کے ختم ہوتے اللہ تعالے نے قرآن مجید میں ہمارے شید و مولی کا کھلا اعلان ہے.اسی لئے اہل بہار نے کبھی نہیں کہا کہ نبوت رم خاتم النبیین حضرت تحریری صل الش علیہ سلم کو ا ام البیان ختم نہیں ہوئی اور موجود کل ادیان نبی یا رسول ہے بلکہ اس کا قرار دیا ہے.یہائی لوگ ہنحضرت کے خاتم النبی تین ہونے کے قائل ہیں.مگر ختم نبوت کی وہ یہ تشریح کرتے ہیں کہ آئندہ کے لئے نبیوں کا دور ختم کر دیا گیا ہے.نبیوں کے دورے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ظهور مستقل خدائی ظہور ہے یہ رسالہ کو کب ہند وپہلی جلد و امیری مورخه ۲۳ جون شاه ما بہائیوں کے اس عقیدہ کا واضح مطلب یہ ہے کہ دین اسلام روحانی

Page 34

-40 ۶۴ برکات سے محروم ہو گیا ہے اور اسلامی شریعت کے تابع اور حضرت نبی کریم پھر حضور تخت یہ فرماتے ہیں:.صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں کوئی نبی نہیں آسکتا.اسکے بالمقابل جماعت اب بجر محمدی نبوت کے سب ہوتیں بند ہیں.شریعیت والا احمدیہ کا اس بارے ہیں حسب ذیل عقیدہ ہے.حضرت ہائی سلسل احمد علی السلام نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے بنی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُگتی ہوتے تجلیات الله مث ) تحریر فرماتے ہیں : اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ک صاحب قاتم نیز بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوة والسلام تحریر فرماتے ہیں : بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا مجھے دکھلایا گیا اور بتلایا گیا اور کھایا گیا ہے کہ دنیا می فقط اسلام ہی حق ہے، کا آئینہ کمالات اسلام م بمرالہ تذکرہ مشام یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ پس احمدیت کے نزدیک اسلام ہندہ مذہب ہے اور حضرت خاتم النبین روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی (حقیقۃ الوحی منه حاشیہ) پھر تحریر فرماتے ہیں:.عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے.وہ یہی ہے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رسولی ہیں.اسلام کی اتباع اور حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے آج بھی وہ تمام روحانی برکات انسان کو مل سکتی ہیں جو ابتداء سے نسل انسانی کو ملتی رہی ہیں.بھائیوں کے نزدیک اسلام اب مفسریع شدہ دین ہے اور حضرت کہ خدا ایک اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات کا دروازہ بند ہو چکا ہے.ظاہر ہے خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے ، اب بعد اسکے کہ یہ دونوں عقید سے کسی طرح اکھٹے نہیں ہو سکتے.کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چار مینائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی سوق آبی با بیت اور بہائیت کی بنیاد اس فقید پر ہے کہ قرآن مجید راست اور بیاد اس ہے ره، شیخ قرآن مجید کی شرعیت منسوخ ہو گئی ہے.اور قرآن مجید اب بیج سے جدا ہے.پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا ہے نسل انسانی کیلئے موجب نجات نہیں ہے.بھائی کہتے ہیں کہ علی محمد باپ کے آنے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں.دکشتی نوح مشا) سے اور اس کی نا تمام کتاب البیان کے ذریعہ سے قرآنی شریعت مفشوخ ہو چکی ہے چنا نچہ لکھا ہے.

Page 35

۲۶ شریعت فرقان بظهور مهارکش منسوخ شده و دروس الديانه هنگام باب کی شریعت کو با بی تو آج تک قائم مانتے ہیں.مگر بہائیوں کا عقیدہ یہ ہے.کہ البیان بہاء اللہ کی کتاب الاقدس کے ذریعہ سے منسوخ کردی گئی ہے.اس بارے میں دروس الدیانہ میں لکھا ہے وہ وز این ظهور نسخ نے شدید (اقتدار ) ریہ.اگر اہل اسلام باب و بہار کے ماننے سے اعراض نہ کرتے اور اُن پر اعتراض نہ کرتے تو اس دور میں قرآنی شریعت ہرگز مفشوخ نہ کی جاتی.وما بهائیاں رجوعی با حکام بیان باطره نداریم - کتاب دانه بن اس قول سے ظاہر ہے کہ بابیت اور بہائیت کے طور پر مسلمانوں کے اعراض کتاب مبارک اقدس است و دروس الديانة مسار کہ ہمارا کوئی تعلق البیان کے احکام سے نہیں.ہماری کتاب اقد ہے.د اعتراض کے پرو کر محض انتقامی رنگ میں نسخ قرآن کا عقیدہ ایجاد کیا گیا تھا اور نہ قرآن مجید وہ شریعت نزاء ہے کہ اس پر عمل کرنے سئے نیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے اور روحانی قصر کی عمارت مستحکم ہوسکتی ہے خود بہاء اللہ بہائیوں کا یہ عقیدہ ہمارے نزدیک سراسر غلط ہے مگر چونکہ ہم نے قرآنی اپنی آخری عمر میں ایک خط میں لکھتے ہیں :.شریعت کے دائمی ہونے کے موضوع پر اسی سلسلۂ محاضرات میں ایک علیحدہ لیکچر مقرر ہوا ہے اسلئے فی الحال ہم تفصیل سے بہائیوں کے اس عقیدہ کی تردید میں نہیں لکھنا چاہتے.وقت آنے پر اس کی تفصیلی بحث کی جائے گی مگر اتنا ذکرہ کرنا بہر حالی لازمی ہے کہ بہائیوں کا یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی وحی یا اس کے کام پر مبنی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم کل کے لیکچرمیں ثابت کر چکے ہیں.حصہ ہیں یا ہیوں نے بدشت علاقہ خو انسان میں ایک کانفرنس منعقد کر کے یا ہمیں نمازش سے قرآن شہید کو منسوخ کرنے کی حکیم تیار کی تھی.ورنہ در حقیقت جنابت بہاء اللہ کے نزدیک قرآن شریعت اپنی ذات میں ہرگز ہرگز قابل صبیح نہیں ہے.یاد رکھتے ہیں ایسا ہے اگر اعتراض اعراض اہل فرقان نه بود ہوگا یہ شریعت فرقان.ان لو استضاء أهل التوحيد في هذه الاعصار الأخيرة بشبراس الشريعة الغراء التي تألقت من خاتم الانبياء دوخ ما سواه له الغداء وتشتتوا با ذيا لها لما تضمطع اركان حضن الأمر وما خربت مدة المعمورة والتطررت المدائن والبلدان والقرى بعدا والأمن والأمان وفقا لسيد علي من اران آفرینی ہو یانہ میں اہل توحید حضرت خاتم النبيين دودی عالم شمار ہوگان پونا کی وفات کے بعد ان کی روشن شریعت پر عمل کرتے اور ان کے وام شریعت کو مضمون

Page 36

۶۹ ۲۸ پکڑے رہتے.تو قلعہ دین کی مستحکم بنیاد ہرگز نہ ڈالی کاتی.اور ہے بسائے شہر کبھی ویران نہ ہوتے.بلکہ شہر اور کامل امن و امان کی زینت سے مزین اور کامیاب رہتے.رہاب الحیات مت) -۳- مقالہ ستیاح میں بھی قرآن مجید کو الذكور المحفوظ اور الحيقه الباقيه بين ملاء الاکسون قرار دیا گیا ہے.لکھا ہے :.يقول المليك الرحمان في الفرقان وهو الذكر المحفوظ والحجة الباقية بين الاكوان، فتهينوا الموت ان كنتم صادقين فجعل تمنى الالموت برهانا صادقات ر مقاله سیاح ملت.بہائیوں کی مسلمہ حدیث ہے کہ قرآنی معارف و حقائق کبھی ختم نہیں ہو سکتے.چنانچہ لکھا ہے:.ونقلنا في كتاب الدرر البهية عبارة عن كتاب العقد الفريد جاء فيه ان سيدنا الوصول صلى الله عليه وسلم قال في حق القرآن انه لا تفنى عجائب یہ مجموعہ رسائل مؤلفہ ابو الفضائل من ام اس دیگر ضمنا علامہ ابو الفصل بہائی کا یہ قول بھی ذکرہ کرنا مناسب ہے :- این نکته بر ایل دانش پوشیده نماند که محمود کتاب و جال رکت سے حضرت ذي الجلال در یوم قیام قائم موجود از وجود حمید البيده است ( مجموعه رسائل من ترجمہ : اہل قسم پر یہ نکتہ مخفی نہ رہے کہ اقبال کی کتاب کا ظاہر ہونا اور حضرت ذو الجلال کی کتاب کا ظاہر ہوتا قائم موجود کے وقت میں اللہ تعالیٰ کے حتمی وعدوں میں سے ایک وعدہ ہے.ان بیانات سے اہل بہار کا یہ عقیدہ ثابت ہے کہ وہ قرآنی شریعیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں.بھائیوں کے مقابلہ پر تحریک احمد آیت میں عقیدہ کو پیش کرتی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل چار بیانات سے ظاہر ہے :- الف ، اب کوئی ایسی وحی یا ایسا العام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی شیخ یا کسی ایک حکم کا تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور محمد اور کافر ہے یہ (ازالہ اوہام فتان) رب تمہاری تام فلاح اور نجات کا سر تیمیہ قرآن میں ہے.کوئی بھی اب تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکتب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے یہ دکشتی نوح (م۲۳) رج قرآن شریعت کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں

Page 37

41 کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب قرآن شریف بیان کر چکا " رشمہ معرفت ص (۵) خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرآ دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے.خیمه معرفت ۳۲) اقدس کا نسخہ آگیا تھا.اور شائع ہو گیا.مگر چونکہ اس صورت میں اقدس ملحدین کے سالہ جات میں شائع ہوئی ہے.عوام کو ان کی عداوت و شمنی کا حال معلوم ہے اسلئے ان کی روایت اور بیان مجھبول اور سہیم ثابت ہو گا لیکن اگر بہائی لوگ خود کتاب قدیس کو شائع کریں تو اس کا اور حکم ہوگایا پس بھائی لوگ قرآن کو منسوخ قرار دینے کے باوجود اپنی مرحوم شریعیت کی اشاعت کی توفیق نہیں پاسکے.اور اگر کوئی سوچنے والا دل ہے تو وہ اس یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ باپ اور بہاء اللہ اپنی میں شریعت کو محمدی شریعت کے خلاف چلانا چاہتے تھے وہ آج تک دنیا میں عمل میں آنا تو کیا متعارف بھی نہیں ہو سکتی.جب جناب فرج اللہ ذکی بھائی نے ش جید سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس بارے میں مشیت ایزدی کیا چاہتی ہے ؟ پھر میں جناب عبد البہاء افندی سے اقدس یعنی ہائی شریعت کے طبعی کرنی کی کیا یہ ایک نجیب واقعہ نہیں ہے کہ جونہی باہیوں اور بہائیوں نے ذرا سرگرمی اجازت چاہی تو انہوں نے جواب دیا ؟.کتاب اقدس اگر طبع شو در نشر خواهد شده در دست ارا نیل متعصبین خواهد افتاد لهذا جائز نہ بلے بعنے از محدثین مثل میرزا مهدی بیگ از مترز از این بدست آوردند و نشر دادند ولی این در رسائل ملحدین مندرج چون بغض و عداوت شان مسلم و نزد عموم قول و روایت شای محمبول و مبهم است ولے اگر بہائیاں تشرد مند حکم دیگر دارد جواب نامی جمعیت لابادی قدر مطبوعہ مصر ) ترجمہ : کتاب اقدس اگر چھپ گئی تو پھیل جائے گی اورکھیئے حقیب لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائیگی.اس لئے اس کا پھپو انا جائز نہیں بعض بے دین اور متزلزل لوگوں مثلاً میرزامحمدی بیگ کے ہاتھوں میں سے قرآنی شریعیت کے نسخ کے خیال کو پھیلانا چاہا خداوند تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما دیا.اور آپ نے بڑے جلال سے یہ اعلان فرمایا کہ قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا اور اس کا کوئی شوشہ رہتی دنیا تک بدل نہیں سکتا.بھائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ باب اور بہار اور عبد البہار کا لفظی و جی ہرقل اور ان کی ہر تقریری ال ای اور دی ہے جس طرح عیسائی لوگ حضرت سیح علیہ اسلام کو اب اللہ بنانے کی وجہ سے ان کے ہر قول کو کلام خدا ہیں.اسی طرح بہائی لوگ اپنے اِن زعماء کے ہر قول اور ہر تحریر کو الہام اور وحی قرابہ دیتے ہیں.بہائیوں کے نزدیک اب اس قسم کی وحی جو پہلے انبیاء پر آتی تھی منقطع ہو چکی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق

Page 38

۷۲ بہاء اللہ کہتے ہیں.وزین بطراز الختم وانقطعت به نفحات الوحی الواح مبارکه هشتی، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا خاتمہ ہو چکا ہے.اس بناء پر بہائیوں کے نزدیک آئندہ لفظی وھی بند ہے اور ان کے پانی فرشتوں کے نزول کا تصور بھی موجود نہیں.چنانچہ پانی کے متعلق لکھا ہے:.و دعا هذه الكتب صحفا الهامية وكلنا فطرية ولدي التحقيق علم انه ليس یدھی نزول الوحی و هبوط الملك عليه" (مقاله سیاح عربی مث ) ترجمہ.باپ نے اپنی تصنیفات کو الہامی صحیفے اور فطری کلمات قرار دیا ہے تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ باب نزول وحی کے خریدار نہ تھے اور نہ ہی وہ اپنے اوپر فرشتہ کے اُترنے کے مدعی تھے یہ باہیوں اور بہائیوں کا یہ عقیدہ اس طرح بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اُن کے ہاں باپ اور بہاء اللہ اور عبد البہاء کی ساری تحریروں کو العام سمجھا جاتا ہے بطور وضاحت حوض ہے کہ جس طرح مسلمانوں کے ہاں قرآن مجید خدا کا کلام ہے اور احادیث حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں اور دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں، بہائیوں کے ہاں ایسا نہیں ہے.ان کے ہاں عیسائیوں کے مجموعہ ان جیل کی طرح خطوط الواح اور تمام اتوائی الہام اور وحی سمجھے جاتے وہ گویا ایک رنگ میں بہو جو سماجیوں کی طرح وحی ملکہ قطری کو سمجھتے ہیں.ان کا یہ عقیدہ احمدیوں کے نزدیک غلط عقیدہ ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک لفظی وجی بھی ہوتی ہے.پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوگی.حضرت بانی سلسلہ احمد میر جناب سرسید احمد خان کو خطاب کرتے ہو نے تحریر فرماتے ہیں:.سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی وحی کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ بھی دو حقیقت ایک ملکی فطرت ہے جو اس قسم کے القاء سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے جس کی تفصیل ابھی بیان ہوئی ہے.اگر صرف اتنی بھی بات ہے تو حقیقت معلوم شد کیونکہ انبیاء کی وحی کو صرف ایک ملکہ فطرت قرار دیکر پھر انبیاء اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں میں مایہ الامتیاز قائم کرنا نہایت مشکل ہے.پھر خود قرآن اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی فرق ہے.اور اسی فرق کی بناء پر حدیث کے الفاظ کو اسی چشمہ سے نکلا ہوا قرار نہیں دیتے جس سے قرآن کے الفاظ نکلے ہیں.وبركات الدعامل باہیوں اور بہائیوں کے عقیدہ کی رو سے خلافت راشدہ خلفا کے بھی شہ حضرت ابو بگو ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم بر حق خلفاء نہ تھے.یہ عقیدہ باہیوں اور بہائیوں میں شیعوں سے آیا ہے.اس ضمن میں البیان میں پانچ و جو دوں کو حروف اثبات قرار دیا گیا ہے اور پانچ وجودوں کو حروف نفی قرار

Page 39

دیا گیا ہے.اس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ آنحضرت حضرت علی ہے ، حضرت فاطمه حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ، تو حروف اشاعت ہیں ، جو اعلیٰ علیین میں ہیں اور حروف نقی کو جنہیں مرزا جانی کاشانی بابی نے غاصب خلافت قرار دیا ہے تحت الثرکی میں ٹھہرایا گیا ہے نیا ہو البیان قلمی میں لکھا ہے :- اگر امروز کسے نظر در بدر شجره قرآن کند یقین شاید میکند که پینی حروف تفی چگونه در آینده تحت الثری مضمحل شده که اول د ثانی و ثالث درابع وخامس باشد و پنچ حروف که دلالت بر اثبات میکنند چه گونه در اعلی خیلی تین مرتفع شده که محمد علی و فاطمه و حسن و حسین باشد و البیان قلمی باب واحد مت ) یعنی باب نے پانچ حروف اثبات قرار دیئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین و حروف اثبات ہیں.ان کو باپ نے جنت ہیں قرار دیا ہے اسکے مقابل پانچ حروف نفی قرار دیتے ہیں اور انہیں میتھی اور اسفل السافلین میں رہنے والا بتایا ہے اس مقام پر پاپ اپنے حروفی نفی کو دو زخمی قرار دیا ہے مگر خود اس جگہ ان کی تعین نہیں تھے.علی محمد پاپ نے لکھا ہے.دید اسلام تا بافت سال غیر از امیرالمومنین کسے ماری رسول الله نه شد و اقتها خالصا و آنچه بعد شد اگر مصادق بود.در یوم عروج رسول اللہ نے گشت که سه نفر زیاده نماند از صفحات سه نداز گویا حضرت ابو بکر اور حضرت بار تعوذ باللہ مومن نہ تھے منافق تھے اور پھر مرید ہو گئے تھے.البیان علمی بات واحد (4) دوسرے موقع پر پانی مورخ مرزا جانی کا شانی نے اس کی تصریح یوں کی ہے.روزے رسول خدا بادشاه ولایت خلوت فرموده و خبر از امور آینده میدادند که اسے علی جبرائیل امین مرا خبر دادند که بعد از تو حرف اول از حروف نفی عصب خلافت نماند حرف دوم نصرت او را نماید و نقطه الكان من ترجمہ: ایک دن حضرت رسول اکرم ملنے للہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دیں اور اور فرمایا کہ اسے علی کا جبرائیل رد کن سے گایا پر ہے بھی حروف انفی میں سے حرف اول ب کرے گا اور اس پلدے ہیں حرف دوم اسکی یہ تحریرات اس بات کو واضح طور پر اپنی کرتی ہی کہ خا است و راشدہ کے متعلق بابت اور بہائیت اسی مسلک کو اختیار کئے ہوئے ہے جو المنت والجماعت کے مقابل پر شود با اعوان کا ہے.حضرت سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں: انی جبکہ آنحضرت مسلمی پیتا ایک کے وقت موت

Page 40

66 24 سمجھی گئی اور بہت سے بادی پیشین نادان فرزند ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس ونڈ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وليمكن لهم دينهم الذى ارتضى لهم وليبة لنهم من بعد خوفهم امناء (الوصیت من) بہائیوں کے ہاں خلافت کے لئے بیٹوں اور نواسوں کو نامزد کیا جاتا ہے.مگر ان کے ہاں آج تک کسی بیٹی یا تو اسی کو اس منصب کے لئے نامزد نہیں کیا گیا ہے نا اس طرح بہائیوں کی مرحومہ مساوات مرد و خورت کا عملی مظاہرہ ہو سکتا اور ن یہی ان کے ہاں خلفاء کا انتخاب اسلام کے طریق انتخاب کے مطابق ہوتا ہے جو اسلامی جمہوریت کا طغرائے امتیاز ہے.سلسلہ احمدیہ میں خلافت انتخابی منصب ہے بیٹے اور نواسے کے لئے مخصوص نہیں ہے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر منشاء میں ان کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقرر ہوئے تھے.جو آپ کے اولین مرید تھے.لیکن اس وقت کوئی رشتہ نہ رکھتے تھے.قیامت کا قید و قیامت کا عقید قیامت کا عقیدہ اسلام کا ایک امتیازی عقیدہ ہے.قیامت کبری مسلمانوں کی اصطلاح میں اس حشر اکبر کو کہتے ہیں.جب دنیا کے خاتمہ کے بعد سب لوگ اپنے اعمال کی پوری جزاء کے لئے اللہ تعالے کے سامنے پیش ہوں گئے.اسلامی عقیدہ کی رو سے لطیف رنگ میں مجموعی حشر اجساد کا نام قیامت کرنی ہے.بہائی لوگ جناب عبد البہاء کی تعلیمات کے زیر اثر مشر اجساد کے منکر ہیں لکھا ہے.بھائی تعلیمات کے مطابق بہشت جموں کی نہیں ہوگی جسم جب ایک دفعہ مر جاتا ہے تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے.اس کا تجزیہ ہو جاتا ہے.اور اس کے ذرات پھر کبھی بھی اس جسم میں جمع نہیں ہوتے رہاد اللہ اور عصر جدید ص ۲۶) ہم اس جگہ قیامت کبری کے متعلق امکانی اور عقلی بحث کو تنگی وقت کے ا تحت نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہ ذکر کرنے سے رک نہیں سکتے کہ اہل بہا نے اس بارے میں جناب عبد البہاء کی تحریرات کے زیراثر جو غلط عقیدہ اختیار کر رکھا ہے وہ خود جناب بہاء اللہ کی صریح تخریبات کے خلاف ہے.ہم اس جگہ ان کی تقریرات میں سے آٹھ نہایت واضح والے پیش کر نا ضروری مجھتے ہیں.وہ لکھتے ہیں:- اتم اذكر الدنيا وما ترى فيها من شئوناتها و تغييرها و اختلانها، تالله الها تدعو فى كل الاحيان اهلها و تقول فاعتبروا یا اولی الابصار انها تذكر الناس وتخبرهم بقع الها وفنائها ولكن القوم في سكر عجاب - مجموعه اقدس ) ا ستفنى الأرض وما فيها وعليها ويبقى ما

Page 41

<9 (ለ قدر لاحبائي في لوح المحفوظة ومجموعه اقدس من ٣ اياكم ان تنمو فكم ضوضاء الاحزاب، ستفتحى الدنيا وما ترونه اليوهر ويبقى الملوك والملكوت لله العليم الخبيرة وايضام -٣- سوف تفنى الدنيا وما فيها ويبقى لك ما نزل من لدى الله رب العرش والثرى " (ايضام ه ان الذي تمسك بما عنده ليس له ان يتوجة الى وجه الله الباقي بعد فناء الاشياء وايضام ا لو كان الانسان مسئولاً عن وجدانه الذى هو خاصة روحه وجنانه في هذا العالم، فات عقاب يبقى للبشر يوم المحشر الاكبر تريم ؟ في ديوان العدل الانمى : رمقاله سیاح عربی منا از کلمات بجناب بہاء الله ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ جناب بہاء اللہ ایک دن ساری یا کے فن اور زوال کے قائل تھے.وہ لوگوں کے قبروں سے اٹھنے کا بھی نقاد رکھتے تھے اور اس کے خدا کے سامنے پیش کئے جانے کا عقیدہ بھی و استفنى الدنيا وما فيها من العزة والذلة متے تھے ، وہ اس حشر اکبر کے دن کے بھی قائل تھے.جب انسانوں کو اس ويبقى الملك الله الملك العلى العظيمة.ومقالار سیاح عربی نت.نیا کے بعد ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا.بہائی لوگ ہزار ویلیں کریں مگر جناب بہادہ اللہ کے واضح بیانات کے بعد ان کا ہر گز حق ہیں ہے کہ وہ قیامت کبری یا حشر کیر کا انکار کو یہ کہیں.حضرت بانی سلسلہ يريدون الاقامة ورجلهم في الركاب وهل الیہ احمد میں نے جن عقائد کا اعلان فرمایا ہے ان میں حشر اجتہاد کے حق ہوتے يرون لذهابهم من آياب، لادرب الارباب ال في الباب، يومئذ يقوم الناس من الاحداث و يسالون عن التراث، لوبي المن لانشونه الانقال في ذلك اليوم، الذي فيه نهر الجمال ويحضر الكل المسئوال في عصر الله العمال انه شدید اتصال ومقاله سياح وفي تلك اللحية تاب الا الله ہمیں تصریح ہے.آپ فرماتے ہیں.اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ تھا تعالیٰ کے ہونا، کوئی.مجبور نہیں.اور اساتید تا حضرت کیر مصلے صل اللہ علیہ وسلم اسکے سوال اور خاتم الانبیاد میں.اور ہم میان اللہ نے نہیں کیا نکشتی اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت اور جہنم حق.ہے.اور ہم لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام

Page 42

AI جناب شوقی آفندی و کفر و ایمان بابانی تحریک کی اختیاری این انسان به بارانی میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک زرہ زیادہ کیے یا ترک فرائی اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ ہے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلهَ إِلا الله محمد رسول لله اور اسی پر مریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جنکی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے.ان سب پر ایمان لاویں.اور میوم و صلوۃ اور زکوۃ اور وحج اور خدا تعالئے اور اس کے بھول کے مقرر کرده تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھے کہ ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں الغرض وہ تمام امور جن کے سلف صالح کا اعتقادی اور عملی طور پرا جماع تھا اور وہ امور تو اہل سنت کی اجتماعی رائے سے اسلام کھاتے تھے ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ ہی ہمارا مذہب ہے.اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگا تا ہے وہ تقوی اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر اترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اس پر یہ دھونی ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم پانچویں پارے سے اس قول کے دل سے ان اتوالی کے مخالف ہیں.الا ان لعنة اللہ علی الکاذبین والمفترين.ر ایام السطح نشته یوم جریج میں تحریر فرماتے ہیں :.پلے ادیان میں دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا ہی ہوں کا فریکن آج کوئی فرق نہیں ہے.کسی کو ایک دوسرے کو کافر سمجھنے کا حتی حاصل نہیں ہے.آج اس منا نے سب کو اپنی رحمت کے سمندر میں غوطہ دے دیا ہے.(رسالہ اشراق یوم بدیع مث) اس عبادت میں بہائیوں کے موجودہ زعیم نے بہائیت کا جو امتیازی عقیدہ پیش کیا ہے وہ معنی ظاہر داری کی حیثیت رکھتا ہے.بعض دفعہ بہائی اس قسم کی تحریرات کو پیشیں کر کے عامتہ الناس کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ اس بارے میں جناب بہاء اللہ، جو اصل بانی سلسلہ ہیں.کی چند تحریرات احباب کے گوش گزار کی جائیں سو وہ یہ ہیں ان وهذا يوم قد ربح فيه المقربون و المشركون في خسران مبین (مجموعه اقدس ملك یہ دور ایسا ہے کہ اس میں مغرب ماننے والے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اور مشرک کھلے خسارہ میں ہیں - قل يا ملعون انك لو امنت بالله لم كفرت بعده وبهائه ونورة رضيائه و سلطنته وكبريائه و قدرته واقتداره

Page 43

۸۳ AP وكنت من المعرضين عن الله الذي خلقك من تراب ثم من نطفة ثم من كف من الطيبين.....واته لوياً مركم بالمعروف يأمركم بالمتكر لوانتم من العارفين، اياكم ان لا تطمنوا به ولا بما عنده ولا تقصد وا معه في مجالس المحبين المراح مبارکہ سس به مظلوم دن رات قل يا ايها الكافرون بکار رہا ہے کہ شاید تنبیہہ کا ہی ہوا ور لوگوں کو انصاف کے زیور سے آنا ستہ کرے - البوح ابن ذئب مثل ۱۸) والذى اعرض عن هذا الامراته من اصحاب السعيرة (مجموعه اقدس منتد) لا تتبعوا كل ناعتی رجيم " (مجموعه قدیس صلاه ترجمہ.اے لوگو ! ہمارے کسی مخالفہ کی پیروی نہ کرو جو کائیں کائیں کر کے شور کرنے والا اور دھتکارا ہوا شیطان ہے.طوبى لمن رأى دا قبل ووسبيل لكل معرض کفار مجموعه اقدس ملك ) - طوبى لمن سمع ورأی، دبیل نیل منکر کفار ا مجموعہ اقدس مثلام طوبى لمن شهد بما شهد به الله ، ويل لكل منگر مکاری مجموعه اقدس منا) و ایم الله لا اقدر ان اذكر ما ورد على نفسى يما كسبت ايدى الفجار المجموعه اقدس منا) ١٠ قل ويل لك يا ايها الغافل الكذاب مجموعه اقدس من ۱۳) ا - يا عبد الرحيم قد احاطت المظلوم ذئاب الأرض واشرار های مجموعه اقدس ملا ۱۲ اتقوا الله يا قوم ولا تتبعوا كل جاهل مردود " مجموعه اقدس ملا) ابو الفضل بھائی مرز بیٹی کو دقبال قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :.فلما غابت النقطة وظهر الراب الابھی جل اسمه الاعر الأعلى، واشكره وعارضه ذاك المحتال المعبر عنه في الاحاديث الاسلاميه بالدجال عين هذا الضال تسعة عشر انسانا لاضلال العمل الايمان ومعارضة جمال الرحمان و مجموعہ رسائل مؤلفه ابي الفضائل شنا اس جگہ یہ امر بھی نہایت حیرت انگیز ہے کہ جناب شوقی افندی کے نزدیک تو آپ کا فراور مومن کا کوئی امتیاز نہیں رہا.سب کو رحمتہ کے سمندر میں غوطہ دے دیا ہے لیکن جناب بہاء اللہ مسلمانوں کے پاس

Page 44

بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے سے بھی بہائیوں کو بند کر رہے ہیں لکھتے ہیں :- قل اياك الاتجتمع مع اعداء الله في مقعد ولا تسمع منه شيئًا ولويتلى عليك من آيات الله العزيز الكريم ، لان الشيطان قدضل اكثر العباديما وافقهم في ذكر بارثهم با على ما عندهم، كما تجدون ذلك في ملأ المسلمين بحيث يذكرون الله بقدو بهم والسنتهم ويعملون كل ما أمروا به، وبذلك ضلوا وصلوا الناس ان انتم من العالمين : الواح بلکہ ملا - ۳۶۱) آخر میں میں اس مختصر مقالہ کو پیش کرتے ہوئے بہائی صاحبان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے ان عقائدہ پر نظر ثانی فرمائیں.اور کلمانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ برائیوں کی محض اُلجھی ہوئی تاویل کے اور ان کے مہم بیانات پر اعتماد کرنے کی بجائے اُن کے اصل بانیوں کی تحریرات کا مطالعہ کریں.ان کی روشنی میں انہیں فور اسمجھے آجائے گا کہ بہائی تحریک اسلام کے لئے کس قدر خطرناک تحریک ہے اور ایسا ہی وہ جماعت احمدیہ کے عقائد پر چھلتی ہوئی نظر ڈالنے سے ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ بہائیت کے نہر کا تو باق صرف احمدیت میں ہے.جب بہائیت کی طرف سے قرآن کو منسوخ کرنے اور اسلام کیلئے ایک تاریخ میسج کو پیش کیا گیا تو اللہ تعالے نے اپنے بندے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مین چودھویں صدی کے سر پر سی الاسلام بنا کر مبعوث کیا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :- آخر جب کہ بڑے بڑے صدمات السلام پر وارد ہو کر تیرھویں صدی پوری ہوئی اور اس منحوس صدی ہیں ہزار ہا قسم کے اسلام کو زخم پہنچے اور چودھویں صدی کا آغاز شروع ہوا تو مترو تھا.کہ خدا تعالے کی قدیم سنت کے موافق موجودہ مفاسد کی اصلاح اور دین کی تجدید کے لئے کوئی پیدا ہوتا ہوا گر چہ اس ماجد کو کیسا ہی تحقیر کی نظر سے دیکھا جائے مگر خدا نے خاتم الخلفاء اسی اپنے بندے کو ٹھہرایا.دشمہ معرفت مراس) پھر تحریر فرماتے ہیں :- مجھے بین چودھویں صدی کے سر پر جیسا کہ مسیح ابن مریم چودھویں صدی کے سر پر آیا تھا مسیح الاسلام کر کے بھیجا اور میرے لئے اپنے زیر دست نشان دکھلا رہا ہے.اور آسمان کے نیچے کسی مخالف مسلمان یا یہودی یا عیسائی وغیرہ کو طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکتے.اور خدا کا میا بلکہ عاجز اور ذلیل انسان کیسے کر سکے.یہ تو وہ بنیادی اینٹ ہے جو خدا کی طرف سے ہے.ہر ایک جو اس اینٹ کو توڑنا چاہے گا وہ توڑ نہیں سکیگا.مگر یہ اینٹ جب اس پر پڑے گی.تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے

Page 45

AL AY کر دست گی.لیونڈ انیٹ خدا کی اور ہا تھ خدا کا ہے" درکشتی نوح منت حضرات ! جب بہاء اللہ اور بہائیوں نے اپنے مخالفوں کو ملعون ، کافر، اتمی، دھتکارا ہوا شیطان، مکار ، فاجر، کتاب، شریں بھیڑ ہے، تیسرا مقاله جناب یا اللہ کے دعوی کی نوعیت قبایل ، مردود اور دجالی تک لکھا ہے تو اب جناب شوقی افندی کا بہاء اللہ کے مدعی الوہیت ہونے کے واضح ثبوت یہ کہنا کیونکہ درست ہو سکتا ہے.کہ اب کسی کو کا فرکنار وانہیں ہے یہ محض مغالطہ ہے.معوز هانترین ! آج رات کے لیکچر کا عنوان جناب بہاء اللہ کے دعوئی برھائی بھائیت کے عقائد اور تحریک احمدیت کا موقف آپکے سامنے کی نوعیت مقرر کیا گیا ہے.مضمون اپنی ذات میں نہایت اہمیت رکھتا ہے خود انصاف کر کے فیصلہ فرمائیں.واخر دعوننا ان الحمد لله ربّ العلمين : ہے اس کی اہمیت بھائیت کے فقط نگاہ سے بھی اور منہ ہے.کیونکہ ان کے نزدیک بسام اللہ ہی وہ وجود ہے جوسب کچھ ہے.سب انبیاء کا وہی مقصود ما ہے اور ساری کائنات کا دہی مسجود ہے.اس کے انکار سے انسان مشترک محروم از لی اور تین جہتم قرار پاتا ہے.بہائیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے نقطہ نظر سے بھی یہ مضمون غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.کیونکہ بہاء اللہ کا دعوی ہی تہائی تحریک کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے.اپنی ہم نے اور ہم نے بالی اور بہائی تحریک کی تاریخ کے مضمون کے سلسلہ میں اپنی اس مشکل کا ذکر کیا تھا کہ باہیوں اور بہائیوں کی کتابیں کم یاب بلکہ نایاب ہیں.اور غیر بانیوں کے نشان کتب کا حصول کوئی آسان کام نہیں اس لئے بھائی تحریک کی تاریخ مرتب کرنا ہی خاصہ مشکل کام ہے.تاہم تم نے سارے واقعات

Page 46

19 بہائیوں کی مسلمہ کتب سے ذکر کئے تھے.دوسرے مضمون بہائیوں کے عقائد کے بیان کے موقع پر بھی ہم نے باقاعدہ حوالہ دیکر عرض کیا تھا کہ چونکہ بہائیوں اپنے عقائد چھپانے کی ہدایت ہے اس لئے ان کے عقائد کی چھان بین بھی کافی حد تک محنت طلب ہے بالخصوص اسلئے کہ ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ کسی شخص یا فرقہ کی طرف وہ عقیدہ منسوب کر دیں جسے وہ تسلیم نہ کرتا ہوں.ایسا کرنا ہمارے نزدیک سراسر ظلم اور ناروا ہے.معزز سامعین سن چکے ہیں کہ ہم نے بھائیوں کے عقائد میں سے ہر ایک عقیدہ کے لئے ان کی مسلمہ اور مقبولہ کتابوں کے حوالے پیش کئے ہیں.اور کوئی بات اپنی طرف سے پیش نہیں کی.لیکن چونکہ یہائی صاحبان اپنے اصل عقا ئد کو چھپاتے ہیں اور عوام میں اور نئے نئے بہائی ہونے والوں میں صرف عمومی صلح کلی کی باتیں اور حکمت کے کلمات ذکر کرتے رہتے ہیں اسلئے ہمارے گزشتہ مقالہ میں واضح حوالہ جات اور بہائی عبارتوں کو شنکر بہت سے احباب کو تعجب ہوا ہے.بلکہ ایک نئے ہائی صاحب کے منہ سے یہ فقرہ بھی مجلس میں نکل گیا کہ آپ نے تو بہائیوں کے عجیب و غریب عقائد پیش کر دیئے ہیں.میں گنتا ہوں کہ بلاشبہ بہائیوں کے یہ عقائد عجیب و غریب ہیں مگر حتی یہی ہے.کہ بہائی یہی عقائد رکھتے ہیں اور ہمارے ذکر کردہ تمام حوالہ جات اور اقتباسات ان کی کتابوں کے ہیں اور وہ اُن کے مسلمہ ہیں.مگر چونکہ وہ کتمان حقیقت اور اخفاء سے کام لیتے ہیں اسلئے غیر بہائی تو کجا خود مبتدی بھائیوں کی نظر میں بھی یہ باتیں عجیب و غریب ہیں.آج کا مضمون اس پہلو سے بہت خصوصیت رکھتا ہے.کیونکہ یہ بہائی عقائد میں مرکزی عقیدہ ہے اور جناب عبد البہاء کی ہدایت ہے کہ بھائیوں کو چاہیئے کہ غیر بہائیوں سے مذاکرہ میں عمومی مسائل پرگفتگو کرتے یہ ہیں.مگر عقائد کو زیر بحث نہ لایا کریں.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے:.مسائل حکمیه را اساسین مذاکره قرار دهید نه عقائد ر مکاتیب عبد البهاء جلد ۳ (۲۹) کہ لوگوں سے گفتگو اور تبا در خیالات علوم و فنون اور حکمت کی دوسری باتوں پر کرنا چاہیے نہ کہ بہائی مذہب کے عقائد پر " پھر جناب عبد البهاء افندی میرنا یو شنا داؤد کے نام اپنے خط و و و اکتوبر انہ میں تحریر کرتے ہیں :- جنا بيلو منا حکمت شرط است پر احتیاط لازم - پرده دری نمائید بحکمت صحبت کنید و با هر کسی صحبت ندارید منفوش منتقده مکا مارکنید از عقائد محبت ندارید - از تعالیم جمال مبارک روحی کی جبائر الفداء، بیان کنید و از وصایا و نصائح اور نم نمیده ر مکاتیب عبد البهاء جلد۳ ۲۳۲) کہ جناب میرزا یوحنا ، لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کرنے کیلئے احتیاط اور حکمت دو چیزیں بڑی ضروری ہیں.لوگوں سے شکست کے ساتھ گفتگو کرو لیکن بہائی مذہب کے عقائد کا ذکر نہ آئے

Page 47

91 بلکہ بہار اللہ کی عام تعلیمات اور نصایح کا بیان ہونا چاہیئے " انہیں بلا چون مرجب مسلم ہیں.ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مسلک تقیہ کے ماتخت ان عقائد کے اظہار کو نا پسند کریں.لیکن ہمارا یقین ہے کہ وہ ظاہر ہے کہ ان ہدایات کی موجودگی میں اہل بہار شتی وا مکان اپنے عقائد کو چھپائیں گے اور عامتہ الناس میں انہیں غلط میں پیش کریں گے.بلکہ الیسا ان کی صحت کا انکار نہیں کر سکتے.اس لئے بھر اظہار حقیقت کے فرض کو کرنے کو تعمیل حکم کی وجہ سے ثواب سمجھیں گے.اور یہ امر واضح ہے کہ ان عقائد مکتومہ میں سے جناب بہاء اللہ کے اصل دعوئی کا عقیدہ سر فہرست ہو گا.میں پُر زور الفاظ میں کہتا ہوئی کہ بہائیوں کے اس رویہ کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑے بڑے غیر بھائی عالم آج تک اس مغالطہ میں مبتلا ہیں کہ جناب بہاء اللہ نے نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے اور وہ اسی طرح ملی وحی و المسام ہیں جس طرح دیگر انبیاء ہوتے تھے آپ حیران ہوے کہ جماعت احمدیہ کے محقق علماء کو دیگر اہل علم کی اس غلط فہمی کے ازالہ کیلئے بہت جد وجہد کرنی پڑی ہے اور منو زبہت سے لوگ اس طلسم بامری کا شکار نظر آتے ہیں.حضرات ! آئیے اس تمہید کے بعد اور اس مشکل کے ذکر کے بعد ہم آپ کے سامنے پانی بہائیت جناب بہارا اللہ کے وقوفی کی حقیقت پیش کریں ہم آج بھی یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس ذیل میں بھائیوں پر محبت ہے طور پر صرف برائیوں کی مسلمہ کتابوں اور ان کے مسلمہ عقائد کو ہی پیش کیا ہے اور ہم خوشی ہونگے کہ اگر بہائی ان حوالہ جات میں سے جو ہم ان کی کتابوں سے پیش کر رہے ہیں کسی حوالہ کو اپنا غیر مسلم یا غلط قرار دیں ہم نےظاہر کام کیا ہے کہ بہائی صاحبان کی طرف وہی عقائد اور وہی باتیں منسوب کی جائیں جو ادا کرتے ہوئے ان کے ان عقائد و مسائلی کو پیش کرنے میں معذور ہیں.جناب بہاء الله در نومبر ۱۹۱۶ء کو ایران کے دارالسلطنت طہران میں پیدا ہوئے تھے.بہائیوں کا بیان ہے کہ :- آپ کے والد ماجد کا نام میر نا عباس نرمی تھا جو گو نشست طہران کے ایک وزیر تھے.آپ کا خاندان بہت دولتی از آپکے متعد د رشتہ دار حکومت کے مختلف میشہ ہائے سول اور ملڑی میں معزز شہروں پر ممتاز تھے رعد تجدید اردو من آپ کی پائیں برس کی عمر میں آپ کے والد کا انتقال ہوا ایک کان میں ستائیس برس کی عمر میں جناب بہاء اللہ نے جناب علی محمد باب کے دوئی بابیت پر ان کو مان لیا اور باتی بن گئے.باپ کی زندگی میں بھی اور ان کے قتل کئے جانے کے بعد بھی جناب بہاء اللہ کو باہیوں میں ضائی نظامت حامل تھی.بہائی تاریخ کہتی ہے کہ باب کے قتل کے گیارہ بارہ سال بعد آپ نے پہلے تو بغداد میں اپنے چیدہ احباب کو اپنے خونی کی خوش خبری" شنائی اور پھر کچھ عرصہ بعد ایڈریا نوپل میں عام طور سے اپنے ظہور کا اعلان فرمایا جسے بانیوں کی کثیر جماعت نے قبول کیا اور بھائی کہنے لگے

Page 48

۹۲ ایک چھوٹی سی جماعت نے میر زاینی کی سرکردگی میں نہایت شدت سے اس کی مخالفت کی اور آپ کے مابینے کی سازشوں میں آپ کے پرانے دشمن شیعوں سے جاملے : (عصر جدید ارد و ص۳) اس وقت ہم صرف جناب مہارا اللہ کے خونی کی چھان بین کرنا چاہتے ہیں.آج کے اس مقالہ کا مدعا صرف یہ ہے کہ جناب بہاء اللہ کے دعوئی کا تعین کیا جائے.اسلئے اس وقت ہم اس دعونی کے دیگر نتائج واثرات کو نظر انداز کر رہے ہیں.سو عرض ہے کہ جہاں تک ہم نے بھائی لڑ پچر کا مطالعہ کیا ہے.جناب بہاء اللہ کے دعونی کی نوعیت خواہ کچھ متعین ہورہ بہر حال نبوت کا دعویٰ نہیں ہے.بہائی صاحبان بھی اس کو نبوت کا دھوئی قرار نہیں دیتے بلکہ نبوت سے بالا کوئی اور چیز ٹھراتے ہیں.چنانچہ بھائی مبلغ ابو الفضل صاحب لکھتے ہیں :- اینکه جناب شیخ گمان فرموده اند که شاید دعائے ایشان ادعائے نبوت باشد محض وہم و گمان خود جناب شیخ است و ہر کسی با این مساء معاشر و یا از کتب این طائفه مطلع باشد میداند که نه در امواج مقد سر ادعائے نبوت دارد شد و نه براسنده ابل بها و لفظ نبی برآن وجود اقدس اطلاق گشته " (الفرائد مثل) ترجمه در شیخ عبد السلام کا یہ خیال کہ باپ اور بہاتے دعوی نبوت کیا ہے سراسر وہم و گمان ہے ہر شخص جو بہائیوں ۹۳ سے واقف ہے یا ان کی کتابوں پر اطلاع رکھتا ہے خوب جانتا ہے کہ نہ الواج میں دھوٹی نبوت پایا جاتا ہے اور نہ اہل بہار نے کبھی باب یا بہاء اللہ کے لئے لفظ نبی کا استعمال کیا ہے " بہائی رسالہ کو کب مہندمیں لکھا ہے:.نہ تو آیہ مبارکہ میں نبی کا لفظ ہے نہ فرقان کے موجود کو نبی کہا گیا.نہ اہل بہاء حضرت بہاء اللہ حیل ذکر ولا اعظم کو نبی مانتے ہیں.اور کو کب مہند میں بارہا اس کا اعلان کیا جا چکا ہے.در سالہ کو کب مہند دہلی جلد ۳۶ ، ارمٹی للہ) بھائیوں کی کتاب البهائية مطبوعہ مصر میں لکھا ہے :- ان حضرة البهاء وحضرة عبد البهاء و حضرة الباب لم يدع احد منهم النبوة ( البهائية منت) اہلحدیوں کے بہت بڑے عالم مولوی ثناءاللہ صاحب امرتسری نے پہلے لکھا تھا کہ بہاء اللہ مدعی نبوت تھے.اس پر جب انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے توجہ دلائی گئی اور ان کے سامنے اہل بہاء کے حوالہ جات رکھے گئے اور ادھر سے بہائیوں کے وصالہ کو کتب ہند نے بھی اعلان کر دیا کہ ہم بہاء اللہ کو بی نہیں مانتے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے اخبار میں لکھا کہ : ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ کسی انسان کے لئے رہے بڑا عرفی نبوت اور

Page 49

۹۵ ۹۴ رسالت ہے اسلئے ہم آج تک کہتے رہے کہ شیخ بہاء اللہ نبوت کے مدعی تھے.مگر آج ان کی جماعت کے ارکن کو کب ہند نے ہمارے اس خیال کی بڑی سختی سے تردید کی.را اخبار اہلحدیث جلد ۲۵ ۳۵ در جولائی شع فله اسلئے خدا کی قدرت کے نئے ظہور کو تسلیم کرتے ہیں جو نبوت سے آگے ایک نئی شان رکھتا ہے.اور یہ دورہ نبوت کے تم ہونے کا کھلا اعلان ہے اسی لئے اہلِ بہار نے کبھی نہیں کہا کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور موجود گل ادیان نبی یا رسول ہے بلکہ اس کا طور مستقبل خدائی طور ہے " د کو کب ہند جلد ۶۶ ۲۹ - ۲۴ جون ۱۹۲۰ ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ بہائیوں کے نزدیک بہاء اللہ نے ثبوت کا دخوئی نہیں کیا.بہائی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں سنی خاتم النبیین مانتے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی کسی قسم کا بہی نہیں آسکتا.ان کے نزدیک اب انبیاء کا دور ہی ختم ہو چکا ہے.نبیوں کی کسی قسم کی بہشت کے بہائی لوگ قائل نہیں.اسی سلسلہ میں مولوی صاحب نے پھر لکھا :- ہمیں کیا ضرورت کہ ہم ان کی نبوت پر اصرار کریں اور بیمار فاضل نامه نگار مولوی محمد حسین صابری بریلوی کو گیا مطلب کرده قادیانیوں کے حملے سے ان کی مدافعت کریں کہ شیخ بہاء اللہ نے خدائی کا دعوی نہیں کیا تھا.پس صابری صاحب ان دونوں (قادیانیوں اور بہائیوں کو چھوڑ دیں کہ یا سمی نمنٹ ہیں.ہم کا ہے کو کسی کا مسلم عقیدہ تبدیل کریں یا تبدیل کرنے پر زور دیں بلکہ ہم وہی کہ اس کے جو خود بنائی اپنا عقیدہ ظاہر کریں گے" ر اخبار اہلحدیث جلد ۲۵ ۳۵۰ مور خود در جولائی سوائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ مولوی محفوظ الحق صاحب علمی بھائی مبلغ کے وہ الفاظ بھی پیش کر دیں جو انھوں نے کو کب مہند دہلی میں شائع خدائی ظہور ہے.کرتے ہوئے جناب بہاء اللہ کے دھوٹی نبوت کا انکار کیا تھا اور ان کے ظهور کو مستقل خدائی ظور تسلیم کیا تھا وہ لکھتے ہیں :- اہل بناء دور نبوت کو ختم جانتے ہیں امت محمدیہ میں بھی نبوت جاری نہیں سمجھتے.ہاں خدا کی قدرت کو ختم نہیں جانتے.پس ماننا پڑے گا کہ جناب بہار بند کا دری اور وہ کچھ ہو وہ بوت ا کا ہر خوشی بہر حال نہیں.ہاں مندرجہ بالا حوالہ تو کب ہند سے عیاں ہے.کہ بھائیوں کے نزدیک وہ دھوئی نبوت سے بالا تر و خو ملی ہے اور دو مستقل آئیے اب ہم جناب بہاء اللہ کے دعوی کی مثبت تعیین کریں.ہمارے نزدیک ہر قسم کی جنبہ داری سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے وہ ما حول مد نظر رکھیں میں میں جناب بہاء اللہ نے دعوی کیا ہے اور پھر انکے ان عقائد کو بھی مدنظر رکھیں جو دعوئی کے وقت ان کے دل ودماغ پر ھاوی

Page 50

95 44 تھے ان دونوں امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے جناب بہلدا اللہ کے ادعا کے الفاظ کو سامنے رکھ کہ ہم صحیح نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں.میرا یقین ہے کہ تحقیق کا یہ طریق درست طریقی ہے اور کوئی منصف مزاج بھائی بھی اس پر معترض نہیں ہو سکتا.یاد رہے کہ جناب بہاد اللہ شیعہ گھرانہ میں پیدا ہوئے تھے.وہ امام غائب کے منتظر تھے.فرقہ شیخنیہ کی جس شاخ میں بہار اللہ کے و دعی (الباب، هذه الكتب صحفا الهامية وكلما فطرية ولدى التحقيق علم انه ليس يدعى نزول الوحي وهبوط الملك عليه د مقاله سیاح خوبی منگ کہ باپ اپنی کتابوں کو الہامی صحیفے کہتے تھے مگر وہ وحی کے نزول اور فرشتہ کے اُترنے کے قائل نہ تھے.گویا وہ اپنے الفاظ کو سہی وحی ٹھہراتے پیشوا باب نے تعلیم و تربیت پائی تھی وہ سب اعتقاد رکھتے تھے.کہ تھے.جناب بہاء اللہ باب کے مرید تھے.بہائیوں کا عقیدہ تو یہاں تک ہے کہ باپ نے جو البیان لکھی ہے وہ حقیقت بہاء اللہ نے وحی کی تھی.ا المنتظر فوری طور پر ظاہر ہونے والا ہے.شیعہ صاحبان کا یہ بھی ہے کہ امام معصوم ہوتا ہے.اس سے کسی قسم کی اجتہادی یا تعبیری غلطی نہیں ہو سکتی.باب کی زندگی میں بہاء اللہ کو باریے خاص مرید ہونے.درجہ حاصل ہو چکا تھا.ہم جانتے ہیں اور بھائیوں کو مسلم ہے کہ بابی تحریک میں بدشت کا نفرنس میں قرآنی تعلیم اور اسلامی شریعت کو منسوخ کر کے نئی شریعت قائم کرنے کا خیال در حقیقت جناب بہاء اللہ اور قرۃ العین کا ایجاد کردہ ہے ان حالات میں باب کے نئی شریعت 201 چنانچہ لکھا ہے: وقد قرر الباب كما ذكرنا ان البيان قد اوحى اليه من يظهره الله " القصر جديد عربي م کہ باب نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اس پر البیان کی وحی من يظهره الله کی طرف سے ہوئی ہے : اس جگہ قیمتی لطیفہ بھی ذکر کرنا مناسب ہے کہ بھائی لوگ نہ صرف اپنے کو پیش کرنے کی سکیم میں نا کام قتل ہو جانے سے جناب بہاء اللہ کو عقائد کو چھپاتے ہیں، اپنی کتابوں کو چھپوانے سے پہلوتہی کرتے ہیں.بلکہ وہ بے انتہا صدمہ پہنچنا ضروری تھا.اس جگہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ ابی اور بہائی عقیدہ کے مطابق لفظی الہام دوجی اور فرشتہ کے نزدل آئے دن اپنی کتابوں میں کتر و بیونت بھی کرتے رہتے ہیں.ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارے اس بیان سے بہائی صاحبان کو تکلیف ہوگی مگر افسوس ہے کہ ہم بھی نہایت رنج کے ساتھ یہ حقیقت ذکر کرتے ہیں ہم اس اعلان کی ذمہ داری کا کوئی سوال نہیں بلکہ اپنے امام کے ہر قوم دو تحریر کو وہ لوگ وہی خیال کرتے تھے اور کرتے ہیں.چنانچہ باپ کے متعلق لکھا ہے :- کو بخوبی سمجھتے ہوئے اس جگہ اسی زیر نظر حوالہ کو بطور مثال پیش کرتے ہیں.

Page 51

44 90 بھائیوں نے غیر جدید اور بہاء اللہ کتاب کو پہلے انگریزی میں شائع کیا ہے.اس کا اُردو اور عربی میں ترجمہ محافل بنائیہ نے شائع کرایا ہے.زیر نظر اقتباس انگریزی میں بایں الفاظ موجود ہے :- The Bab as we have seen, declared that his Revelation, the Bayan, was inspired by and emanated from Him whom God shall mak manifest" (Banallah and the new era P.55 عربی ترجیہ میں بھی یہ مضمون موجود ہے لیکن اس کتا بہہ کا اردو ترجمہ جیسے محفل ملی بہائیاں ہندو بر یما نے شائع کیا ہے اس میں یہ حوالہ سالے کا سارا حرف کر دیا گیا ہے.( ملاحظه موارد و عصر جدید منه اس ضمنی افسوسناک لطیفہ کے ذکر کے بعد ہم پھر اصل مضمون کی طرف خود کر کے کہتے ہیں کہ بہائیوں کے نزدیک باب پر البیان بہاء اللہ نے نازل کی تھی.بابی ان کا دھوئی جھوٹا قرار دیتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ جناب بہادر اللہ اور بہائی تو یہ ادعا رکھتے ہیں اسلئے ان کے اس خیال سے انکا عقیدہ دربارہ وحی ظاہر ہے.اسی سلسلہ میں بھی یادر ہے کہ بہاء اللہ اپنی تحریرات کو شروع سے دھی اور الہام قرار دیتے رہے ہیں.انہوں نے بغداد کے قیام کے عرصہ میں باب کے ایک شاگرد کی حیثیت سے کتاب ایقان لکھی تھی.جیس کے متعلق مسلم ہے کہ : در این کتاب (القان، بہاء اللہ مینوز از مقام خود سمجھتے نمیدارد، بلکه خود را نچوں تلمیذ از باب جلوہ سے دید" د تاریخ امر بہائی ماس لیکن اس کتا کے آخر پر بہاءاللہ خود سکھتے ہیں :.المنزول من الباء والهار کہ یہ کتاب الباء والمار یعنی بہاء اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے گویا بہاء اللہ خود وحی نازل کرنے کے دعویدار تھے.بہائی تاریخ میں لکھا ہے کہ مسکا میں جب جناب بہاء اللہ کو ہر طرح کی سہولت اور فراخی بھی توہ الواح اتارنے اور کتب مقدمہ لکھتے ہیں وقت صرف کیا کرتے تھے مصنف خصر جدید لکھتے ہیں : کے عربی زبان میں تقول فعل لازم ہے.اس سے اسم مفعول منزول کے وزی پر نہیں آتا.اس لئے عربی دان اصحاب سے معذرت کے ساتھ اسے درج کیا جار ہا ہے گر یادر ہے کہ اہل بہار کے ہاں اس قسم کی صد با غلطیاں موجود ہیں.مزید بر آنی قابیل تعجب امر یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان غلطیوں کے صحیح ہونے پر اصرار ہے.منہ

Page 52

"The time of Bahaullah was spent for the most part in prayer and meditation, in writing the sacred books, revealing tablets, and in the spiritual education of the friends." (P.55) ترجمہ :.آپ کا وقت زیادہ تر عبادت و ذکر و شغل، دهاد فه ای با کتب مقدسہ اور الواح کے نزول اور احباب کی اخلاقی اور روحانی تربیت میں گذرتان دنیا مالله و عصر جدید ارد و منه خود جناب بہاء اللہ نے شریعت اقدس میں اپنے آپ کو ربت ما برای و مالا یدی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :- قد حضرت لدى العرش عرائض شتى من الذين امنوا و مسئلوا فيها الله ربّ ما يرى وما لا يرى رب العالمين لذا انزلنا اللوح وزيناه بطران الأمر الحل الناس باحكام تهم يعملون وكذلك مثلنا من قبل في منين متواليات وأمسكنا القلم حكمة من لدنا الى ان حضرت كتب من انفس محدود في تلك الأيام لها جبناهم بالحق بما تحي ب القلوب ) نمبر ۲۰۶ و نمبر ۲۱۷) اس تیم عربی کا خلا مطلب یہ ہے کہ چونکہ بہت سے لوگوں نے خطوط کے ذریعہ بارگاہ رب العالمین رباء اللہ میں درخواستیں کیں اور سوالات پوچھے تھے اسلئے اب سالہا سال کے بعد ہم نے یہ کتاب را قدس تصنیف کر دی ہے تاکہ لوگ اس پر عمل کریں.اس سے ظاہر ہے کہ جناب بہاء اللہ کا عقیدہ یہی تھا کہ وہ وحی نازل کرتے ہیں اور ان کا ہر قول اور ہر تحریر وحی و الہام ہے.جناب بہاء اللہ کے اس عقیدہ کے ساتھ ساتھ ہمیں اس ماحول کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے جس میں آپ نے دعوی کیا تھا.جناب باب کے قتل کے بعد شاہ ایران پر بانیوں کے حملہ کے سلسلہ میں بہار اللہ کو قید کیا گیا.اس قید سے ان کی ذہنی اور دماغی قوتوں پر بہت برا اثر پڑا تھا وہ لکھتے ہیں:.والف ارضي طار طران کے قید خانہ میں ٹھہرنے کے ایام میں بیڑیوں کی تکلیف اور بدبودار ہواموں کے باعث نیند بہت ہی کم آتی تھی لیکن بعض اوقات جب نیند آتی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سر کے اوپر سے کوئی چیز سینہ پر گر رہی ہے.جیسے کوئی بڑی نر بلند پہاڑ کی اونچی چوٹی سے زمین پر گر رہی ہو.اور اس سیب سے تمام اعضاء میں سے آگ کے آثار ظاہر ہوتے تھے اور اس وقت زبان وہ کچھ پڑھتی تھی جسے سننے کی کسی کو تاب طاقت نہیں دلوح این ذئب اردو منا) اب اس قید خانہ میں دن رات ہم ہابیوں کے اعمال احوال کو

Page 53

۱۳ ١٠٢ سوچتے تھے کہ اس قدر بلندی د برتری اور فہم و ادراک رکھتے ہوئے ان سے ایسا کام ظاہر ہوا یعنی ذات شاہانہ پر جرات سے حملہ کرنا.پھر اس مظلوم نے ارادہ کر لیا کہ قید خانہ سے نکل کر یا پوری تبت کے ساتھ ان لوگوں کو تہذیب و شائستگی سکھانے کھڑا ہوگا." (لوح این ذئب ملا گویا بہاء اللہ نے طہران کے قید خانہ میں ہی بابیوں کی سرداری کے لئے کھڑا ہونے کا قدیم کر لیا تھا.لیکن بغداد میں جا کر نا سازگار حالات کی وجہ سے وہ اپنے خیال کو دبائے رہے اسی دوران میں وہ سلیمانیہ کے پہاڑوں میں اچانک چلے گئے اور دو سال تک نہایت خستہ حالت میں پھرتے رہے خود لکھتے ہیں :- ایه مظلوم ہجرت دو سالہ سے جس میں پہاڑوں اور بیابانوں میں رہا اور بعض لوگوں کے سبب جو مدت تک بیابانوں میں تلاش کرتے رہے دارالسلام انتعداد ، واپس آیا ہے د اوج این ذئب اردو اب معزز سامعین خود غور فرمائیں کہ وحی کے متعلق مندرجہ بالا عقیدہ رکھنے والا انسان جب ان حالات سے دو چار ہو گا اور وہ دعوی کرنا چاہیگا تو کیا دھوئی کرے گا ؟ یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ ہابیوں میں سے کم از کم پانچ آدمی بہاء اللہ سے پہلے من يظهره الله کا دعوی کر چکے ہیں.پروفیسر براؤن نے اُن کے نام و حالات لکھتے ہیں.وہ نام یہ ہیں.ران مرزا اسد الله تبریزی (۲) مرزا عبدالله غوشفاء (۳) حسین میلانی (۴) سید حسین بندیانی (۵) مرزا محمد زرندی : مقدمه نقطة الكاف مب) جناب بہلہ اللہ کے دخوئی کی نوعیت کے سلسلہ میں ان کی کتاب القان" کا یہ حوالہ کسی مد نظر رکھنا ضروری ہے.جناب بہاء اللہ ایقان میں لکھتے ہیں :- وفقنا الله واياكم يا معشر الروح لعلكم بذلك في زمن المستقات توفقون ومن لقاء الله في آيا مه لا تحتحبون لایقان ما ترجمہ :.اسے روحانی جماعت ار یعنی با بی صاحبان الله ہم کو اور تم کو زمانہ مستفات میں توفیق بخشے کہ ہم اللہ کے ظہور کے ایام میں اس کی ملاقات سے حجاب میں نہ رہیں.لفظ المستغاث کے عدد ۲۰۰۱ ہیں.اسلئے پانی لوگ بہاء اللہ کو اس کا مستحق نہیں مانتے.مگر ہمارا مدعا یہ ہے کہ جناب بہاء اللہ اپنے مخصوص عقائد کے ساتھ ساتھ اپنے دیوی کے لئے میدان تیار کر رہے تھے.لیکن بغداد او المستفات کے خرد ۲۰۰۱ میں منہ نے

Page 54

۱۰۵ ۱۰۴ کے ایام میں اعلان دعوئی کو ذرا مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے.لکھا ہے:.کے کہ باب بظورش چون منظر کلی اللی بشارت داده خود او میباشد و این را خدا مقرر فرموده که نادی و قائد آنها گرد در ولکن تا اکنون تشهیر این مسئله مصلحت نه دیده زیرا احیاء مہنوز استعداد ادراک آنرا نداشته اند، و بعلاوه وقت تعدیل و تجدید این نعضه نه رسیده بوده : ر تاریخ امر بہائی مثل ) ترجمہ :.باب نے جس شخص کے ظہور کی نظر اپنی کلی کے نام سے بشارت دی تھی بہاء اللہ اپنے آپ کو اس کا مصداق جانتے تھے لیکن ابھی تک اس مسئلہ کی تشہیر کو خلاف مصلحت سمجھتے تھے کیونکہ دوستوں میں ابھی تک اس کے ادراک کی قابلیت نہ تھی.علاوہ ازیں اس تحریک رہا ہیت) کی درستگی اور تجدید کا ابھی وقت نہ آیا تھا.پر حال ان مشکلات کے باوجود اور اس ماحول میں جناب بہاء اللہ نے دعوی کر دیا.ان کے اس دھونی کی نوعیت کو جاننے کے لئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اہل بیاد خدا کے انسانی جامعہ میں آنے کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ جس طرح عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح میں ناسوتی اور لاہوتی طبیعت تھی اسی طرح بہاء اللہ کے اندر ہے مسیح کی دو طبیعتوں کا ذکر بہائیوں نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ :.علماء سوریه و مساثر بلاد شرق حضرت عیسی را دارائے دو طبیعت و شیت دانستند و آن عبارت است از شیت کا ہوت دشیت کا سوت یعنی الوبیت و بشریت را الفرائد مصنفہ ابو الفضل بھائی مشکا بہائیوں کے نزدیک بہاء اللہ میں ان طبیعتوں کے پائے جانے کے متعلق ذیل کی عبارت گواہ ہے:- مقصود از اصل قدیم دیا اصل قدیم د یا بحر محیط با قوام حقیقت نورانیہ البیه است که موثر در وجود و محیط بر عوالم غیب و شهود است.حضرت من اراده الله روح ما سواه خداه، از آن روئید و از آن بحر منشعب شده اند و دیگران از اصل حادث که تمام ظاہری جسما نیست روئیده و از جنبه نا سوتی خلق شده اند اوروس الديانة مطبوعه مصرف درس پنجاه و نهم بھائی صاف مانتے ہیں کہ عیسائیوں کا عقیدہ کہحضرت مسیح انسانی سیکل میں خدا کی آمد تھے بالکل صحیح ہے.لکھا ہے کہ :- حضرت عیسی ایک وسیلہ تھے اور عیسائیوں نے آپ کے ظہور کو خدا کی آمد یقین کرنے میں بالکل صحیح رویہ اختیار کیا.آپ کے چہرہ میں انہوں نے خدا کے چہرہ کو دیکھ

Page 55

164 اور آپ کے لبوں سے انہوں نے خدا کی آواز گوٹنا حضرت بہاد اللہ فرماتے ہیں.....کہ رب الاخراج دنیا کے بنانے اور بچانے والے کی آمد جو تمام انبیاء کے بیانات کے مطابق آخری ایام میں واقع ہونے والی ہے اس سے سوائے اس کے اور کچھ مراد نہیں کہ خدا انسانی شکل میں منصہ شہود پر ظاہر ہوگا.جس طرح اس نے اپنے آپ کو میسوع ناصری کی ہیکل رحم کے ذریعہ ظاہر کیا تھا.اب اس مکمل پر اور روشن تر ظہور کے ساتھ آیا ہے جس کے لئے یسوع اور نام پہلے انبیا، لوگوں کے قلوب تیار کرنے آئے تھے.و بہاء الله و عصر جدید مک ۲) پھر ان کے نزدیک بہاء اللہ کی زندگی میں بشری اور الہی عناصر کے درمیان کوئی صاف خطا نہیں کھینچی جا سکتا یہ لکھا ہے..حضرت بہاء اللہ کی کتابوں میں یہ کلام وفتنا ایک مقام سے دوسرے مقام میں تبدیل ہو جاتا ہے ابھی تو ایک انسان کلام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.اور ابھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ یا خود کلام کر رہا ہے.مقام بشریت سے کلام فرماتے ہوئے بھی بہاء اللہ اسی طرح کلام فرماتے ہیں جس طرح خدا کا فرستادہ کلام کرے اور لوگوں کو رضائے الہی کے سامنے کامل تسلیم کا زندہ نمونہ بن کر دکھائے.آپ کی تمام زندگی روح القدس سے بھر توپر تھی.اسلئے آپ کی زندگی اور تعلیمات میں بشری و الی عناصر کے درمیان کوئی صاف خط نہیں کھینچا ۵۳ جا سکتا رہاد الله و عصر جدید مرد بھائی لوگ بہاء اللہ کو جمال غیب در سیکل ظھور مانتے ہیں.لکھا ہے :- جمال غیب در تشکیل ظهور میفرماید- اسے احمد نفحه از عرف گلستان قدس روحانیم بر عالم هستی و زید جمیع موجودات را بطراز قدس ہمدانی مزین فرموده ی الواح مشا۳) اس سلسلہ میں جناب عبد البہاء کا قول بالکل فیصلہ کن ہے.آپ فرماتے ہیں کہ :.واضح ہو کہ مسیحیت کے اصول اور حضرت بہاء اللہ کے استحکام بالکل ایک سے ہیں اور ان کے طریقے بھی ایک سے ہیں وہ اللہ و ری ہی ہیں، حضرات ! آپ نے اس ماحول کا بھی اندازہ لگا لیا جس میں جناب بہاء اللہ نے دعوی کیا تھا.اور پھر آپ نے ان عقائد کا بھی ایک مر تک جائزہ لے لیا ہے جو اس وقت جناب بہاء اللہ کے دل و دماغ پر ستولی تھے.آئیے اب ہم آپ کو جناب بہاء اللہ کا دعویٰ ان کے اپنے الفاظ میں سنائیں.یاد رہے کہ یہ چند اقتباسات اُن صد تا اقتباسات میں سے بطور نمونہ ہیں جو بہاء اللہ کی تحریرات میں اس قسم کے پائے جاتے ہیں :- (ا) اپنی کتاب متین ماہ پر لکھتے ہیں :-

Page 56

1.9 1.^ ا قد ظهرت الكلمة التي سترها الابن انها قد نزلت على هيكل الانسان في هذا الزمان تبارك الرب الذى قداتي بمجده الاعظم بين الأمم کہ وہ کلمہ جسے بیٹے نے پردے میں رکھا تھا وہ ظاہر ہو گیا ہے اور وہ اس زمانہ میں ہیکل انسانی پر اُترا ہے.مبارک ہے وہ رب جو اپنی عظمت کے ساتھ اچھتوں کے درمیان آیا ہے.(۲) مجموعہ اقدس منٹ پر لکھتے ہیں :- ذكرى الاعظم ينادي من في الامكان الى الله - مالك الاديان انا بعثناه على هيكل الانسان میرا ذکر سب ممکن الوجود کائنات کو خدا مالک الادیان کی طرف بلا رہا ہے.ہم نے اسے انسانی ہیکل میں مبعوث کیا ہے بہاء اللہ صاف طور پر لکھتے ہیں :- یا قوم طهر وا قلوبكم ثم ابصاركم لعلكم تعرفون بارتكم في هذا القبيص المقدس (۳) رہا اللميح : کہ اے لوگو! اپنے دلوں کو پاک کرو.پھر اپنی انکھوں کو پاک کرو تا کہ تم اپنے خالق وباری کو اس پاک اور چمکدار تھیں میں پہچان سکوت (مبین منس) (۳) الواح میں بہاء اللہ رکھتے ہیں :.انا لو نخرج من القميص الذى لبسناه لضعفكم ليفه يننى من في السماوات والأرض بانفسهم وريك يشهد بذلك ولا يسمعه الا الذين انقطعوا عن كل الوجود حبا الله العزيز القدير ترجمہ :.اگر ہم اس قمیص کو اتار دیں جو ہم نے محض تمہاری کمزوری کے خیال سے اوڑھ رکھی ہے.تو مجھ پر سب امین و اسمان والے اپنے آپ کو قربان کر دیں.تیرا رب یہ شہادت دیتا ہے لیکن اس شہادت کو صرف وہی لوگ سنتے ہیں جو خدائے تو یہ واقعہ یہ کی محبت میں سب موجودات سے منقطع ہو گئے ہیں.(الواح شت) وہ اپنے ایک شاگرد کو اپنے سے یوں دنیا کہنے کی تلقین کرتے ہیں :.اسألك بجمالك الاعلى في هذا القميص الدرى المبارك الاعمى بأن تقطعنى عن كل ذكر دون ذكرك یکن تیرے اس جمال اعلی کا جو اس روشن اور بار کی کردار میں میں روشن ہے واسطہ دیکر درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے اپنے ذکر کے علاوہ ہر ذکر سے منقطع کرلے.(الواح مننا) اپنی کتاب اقتدار میں اپنا مقام بایں الفاظ ذکر کرتے ہیں اسے

Page 57

١١٠ اذا يراه احد في الظاهر يجناء على هيكل الانسان بین ایدی اهل الطغيان واذا تفكر في الباطن يراها مهيمنا على من في السماوات و الارضين" کہ جب کوئی اسکے ظاہر کو دیکھتا ہے تو اسے ظالموں کے کنائے انسانی میکل نظر آتی ہے مگر جب وہ باطن میں سوچتا ہے تو اسے وہ آسمانوں اور زمینوں کا کار ساز اور سیمین نظر آتا ہے.راقتدار جنگلا بتایا جائے کہ کیا کبھی کسی انسان نے ان الفاظ سے زیادہ واضح الفاظ میں الوہیت کا دعوی کیا ہے ؟ (6) لوح ملک روس میں بہاد اللہ نے لکھا ہے :- قد اتى الاب والابن في الوادي المقدس" کہ باپ اور بیٹیا دونوں اس وادی مقدس میں آگئے ہیں.ر متین ست ، گویا جن معنوں میں نصاری حضرت بیٹے کو ابن اللہ کہتے ہیں انہی معنوں میں بہاد اللہ کو باپ ہونے کا دھوئی ہے.(۸) مجموعه اقدس میں بہاء اللہ کا قول ہے کہ :- قد كان المظلوم معكم يسمح وياي و هو السميع البصيرت مجموعه اقدس عشا ترجمہ : یہ مظلوم بہاء اللہ) تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہاری باتوں کو سنتا ہے اور تمہارے حالات کو دیکھتا ہے اور وہ سمیع و بصیر ہے.(9) اپنے حاضر ناظر ہونے کا دخوشی کرتے ہوئے بہاء اللہ لکھتے ہیں:.یا اهل الارض اذا غربت شمس جمالی و سيرت سماء هيكلى لا تضطر بواقوموا على تصرة امرى دارتفاع كلمتى بين العالمين انا معكم في كل الاحوال وتنصركم AC-AY بالحق انا كنا قادرين را قرین مشته ترجمہ : اے اہل زمین ! جب میرے جمال کا سورج غروب ہو جائے اور جب میری مہنگی کا آسمان چھپ جائے تو تم مضطرب نہ ہوتا بلکہ میرے امر کے پھیلائے اور اس کی تائید کیلئے کمربستہ کھڑے ہو جاتا.ہم ہر حال میں تمہارے ہوں گے اور تمہاری نصرت کریں گے.ہم قادر ہیں.(1) جناب عبد البهاء بہاء اللہ کے حاضر ناظر جینے کے دھونی کی تائید کرتے ہیں چنا نچہ بدائع الآثار عید ملک کا بھی لکھا ہے کہ جناب عبد الہداء نے کیا کہ : جمال مبارک پیش تر تیج در کتاب دنده فرمودند و نواکم من افقی الا بھی ونتصر من قام على نصرة امرى

Page 58

بجنود من الملأ الأعلى وقبيل من الملائكة المقربين نوید فرمودند یعنی بہاء اللہ نے اپنی کتاب میں یہ بشارت دی ہے کہ میں تم کو اپنی افق اعلی سے دیکھتا ہوں.جو شخص میرے دین کی تائید کیلئے کھڑا ہوگا.میں اس کی مدد طلا اعلیٰ کے لشکروں اور مقرب فرشتوں کی جماعت سے کروں گا" 11) بہائی لوگ بہاء اللہ سے ہی دعائیں کرتے ہیں اسی کو مجیب الدعوات مانتے ہیں.اس کے لئے چند حوالہ جات پیشیں ہیں :.(الف)، بہائیوں کی کتاب دروس الدیانہ کے درس نمیرہ میں لکھا ہے :.ما چنانچه ذکر شد در قلب باید متوجه جمال قدم واسم اعظم باشیم زیرا مناجات و راز و نیاز ما با اوست و شنونده جز او نیست و اجابت کننده غیر اونه کہ دعانا نگتے وقت ہمارا دل بہاء اللہ کی طرف توجہ رہنا چاہیئے.کیونکہ ہماری دعائیں اور بہار تمام رازو نیاز اسی سے ہیں.اس کے سوا ہماری دعاؤں کو شکنے وال اور قبول کرنے والا اور کوئی نہیں ہے.(ب) مکاتیب عبد البهاء جلد امت سوال میں عبد البہاء ایک بھائی کو سکھتے ہیں.نظر بالطاف جمالی ایسی نمائی زیرا فیوضات بے پایاں است و فصل دی سینش ہے حضرو کران.....پس جمیع توقیه را باید بالطاف دو نمانیم آنچه می طلبیم از و طلبیم و آنچه آرزو داریم از و جوشیم کہ اپنی نظر جمال انہی رہا.اللہ کی قربانیوں پر رکھو کیونکہ ان کے فیوض بے حد ہیں اور ان کے فضل ان وشیشیں بے حساب ہیں ہمیں چاہیئے کہ اپنی ساری تو بیان کی دریا نوں پہ رکھیں.ہم جو چاہتے ہیں جن سے مانگیں اور ہماری ہو آرزو ہے ان کے بھنور سے ان کے پاور ہم نہیں انیس کریں (ج) بدائع الآثار جلد ما امسی عبد البعد کا ایک بار شائع ہوا ہے.پرشنگی کی دو عورتوں کے نام اس دو کے بھیجا تھا.اس کیا اسرو رہ لکھتے ہیں...من عبید الینا د ی تیم می فرستہ بہار اللہ ہے مثل و تنظیر است کل باید توجه مساء الشد نمایند در دیا.این است ما نیب خیر البہاء کہ میں بہاء اللہ کا بندہ ہوں حضرت بیاء اللہ کی ذات بے مثل و بے نظیر ہے.سب کو چا ہیئے کہ دعائیں اپنی تویہ بہاء اللہ کی طرف رکھیں مجھے عبد البہاء کا ہی مذہب ہے.(د) مکاتیب خطرہ ۲۳ میں بہانا اللہ کی تائیدات آسمانی کی نسبت عبد البہاء لکھتے ہیں :-

Page 59

االم ۱۱۵ ملاحظه خوردید که تائیدات جمال مبارک چگونه اها یا نموده به کہ اسے اہل بہاء اتم نے دیکھا کہ جمال مبارک رہا اللہ کی تائیدات آسمانی نے کسی طرح احاطہ کر لیا ہے.انی مکاتیب جلد ۲ ملا میں عبدا لہرا ء نے تعلیم دی ہے :- یقین بدانید که در بر محفلی داخل شوید در اوج آن محفل روح القدس موج می زدند و تائیدات آسمانی ت آسمانی جمال مبارک احاطه می کنند کہ اسے اہل بداء جو پیش میں تم داخل ہو یقین رکھو کہ اس کفن میں روت المقدس مرج مار رہا ہے.اور جمال مبارک رمیاء اللہ) کی آسمانی تائیدات اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.(س) مکاتیب جلد ۲ منہ میں عہد البراد بیان کرتے ہیں :.مواره بر رگاه جمال مبارک التجاء نمائیم و آن یا راین رحمانی را موحیت آسمانی خواهم کہ میں ہمیشہ جمال مبارک دنیاء اللہ کی درگاہ میں دعا مانگتا ہوں اور ان رحمانی دوستوں کے لئے آسمانی بخشش کا طالب ہوں " (3) بائع الآثار مت سے جلد اول میں لکھا ہے.یقین است که حضرت بہاء الله شما را تائید کہ میں عبدالہا یقین رکھتا ہوں کہ بہار الہ تم سب کی شرمائینگے پھر اسی جلوہ دیگ بدائع الآثار میں لکھا ہے:.از حکومت بہاء الله کمیت شما تائید و توفیق می علیم " تا روز بروز مؤید تر شود کہ لیکن عبد البہار بہاء اللہ کی جناب سے تمہارے لئے تائید چاہتا ہوں تا کہ دن بدن تم کو زیادہ سے زیادہ اس کی جناب سے مدد پہنچے.(س) بدائع الآثار فیلد اول میلے میں لکھا ہے :- ان اکستران حضرت بهاء الله می طلبم که جمیع شما ها را مرور ابدی بخشید و در حکورتیش عزیز فرمائید کہ میں عبد البہاء تم سب کے لئے ہمار اللہ کی درگاہ سے ایدی خوشی کا طالب ہوں اور ہیکہ وہ دہیاء اللہ ) تم کو اپنی یاد شما بہت میں نوبت عطا فرمائے.رش مکاتیب جلدا اے میں عبد البہاء ایک اور شخص کو لکھتے ہیں :- جمال ایسی از ملکوت غیب و جبروت لا ریب تائید میفرماید و انواع عون وصون اوچوں تتابع افواج میرسد اگر چه ضعیف و ذلیل و حقیر یکم لکن ملجاؤ پناه استان آن می توان است کہ جمال ابھی امین اللہ ، اپنی تمہیں نعت اور طاقت

Page 60

116 114 سے تائید فرماتے ہیں اور اپنی مدد اور حفاظت کی فوجیں مسلسل فوجوں کی طرح بھیج رہے ہیں.اگر چہ ہمہ کڑور اور ذلیل اور حقیر ہیں لیکن ہماری پشت پناہ رہی زندہ اور طاقت در جبال الہی ادبیاء اللہ ہیں.(ص) بدائع الآثار علیدا مری میں لکھا ہے کہ : قدر این جنایات جمال مبارک را بدانیم و بیش گراز قیام به خود بیت نمائیم که در ملاک و ملکوت نصرت و حمایت فرود و هدایت و اعانت نمودی که عبد البہاء نے فرمایا کہ جمال مبارک بہاء اللہ کی ان جو پانیوں کی ہم کو قدر کرنی چاہیئے اور اس کے شکریہ میں کہ جمال مبارک دنیاء اللہ نے ہماری ہر طرح تائید اور حمایت کی اور ہمیں ہدایت دیگر ہماری مدد فرمائی.ہم کو ان کی اطاعت کے لئے کھڑا ہو جانا چاہیئے..وفق بدائع الآثار جلد ام لا میں لکھا ہے کہ :.خدام حضور را احضار فرموده.......يذكر تائیدات و موا سبب جمال قدم اسم اعظم مشغولی و ناطق که این خون و عنایت از قدرت او، و این تائیدات بصرف خود و فضیل اوست ، در نه ما برگه بنده تنصیف نیستم بین نباید و الم بش کرتا یا نقش پرداخت : کہ عبد البہاء نے اپنے اقدام کو اپنے حضور میں بلوایا اور جمال قدم کی تاثیرات اور نتیش کا ذکر شروع کیا اور سرمایا کہ یہ مدد اور عنایت بہاد اللہ کی قدرت سے ہے اور یہ تائیدات محض اس کے فضل اور ریشش سے ہیں.اور نہ ہم مگر دور اور عاجز بندے ہیں ہمیں چاہیئے کہ ہمیشہ بہاء اللہ کی عنایات کا شکر ادا کرتے رہیں.(ط) بدائع الآثار جلد ۲ صے میں لکھا ہے :- پس از جلوس در شکر تائیدات جمال قدم و نصرت و حمایت اسم اعظم نطقے مختصر فرموده = که عبد البهاء جب سفر یورپ سے واپس آئے اور اپنے گھر پہنچے تو انہوں نے میٹھنے کے بعد جمال قدم ربہاء اللہ کی تائیدات فرمانے اور اہیم اعظم ربہاء اللہ) کی مدد اور حمایت کے شکر میں مختصر سی تقریر فرمائی.ان بارہ حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ جناب بہاء اللہ نے اپنی قوم کے سامنے یہ دھونی پیش کیا تھا کہ میں موت کے بعد بھی حاضر ناظر ہوں گا اور تمہاری مدد کروں گا.تمہاری دعاؤں کو سٹونگا.بہائیوں نے اسے درست قرار دیکر اسی کو اپنا معبود اور سمیع الدعوات بان رکھا ہے وہ اسی سے دعائیں کرتے ہیں اور اسی کو اپنا ھائی ناصر مانتے ہیں.(۱۲) بناب ہے واللہ لکھتے ہیں کہ میں ہی سب اشیاء کا خالق ہوں :-

Page 61

114 A والذي ينطق في السجن الاعظم الله لخالق الاشياء و موجد الاسماء قد حمل البلايا لاحياء العالم" مجموعه اقدس م ترجمہ : جو اس عظیم قید خانہ سے بول رہا ہے وہی اسب چیزوں کا خالق ہے اور سب کو وجود شیشے واللہ اس نے دنیا کو زندہ کرنے کی خاطر یہ بلائیں برداشت کی ہیں یہ (۱۳) بہاء اللہ اپنے آپ کو نبیوں اور رسولوں کا خالق قرار دیتے ہیں.اپنے صاحب استقامت مریدوں کو اس قول کی تلقین کرتے ہیں:.قال وصاحب الاستقامة الكبرى المؤمن بالبهاء ناقل، وقوله الحق لا يمنعه ذكر النبي عن الذي بقوله يخلق النبيين والمرسلين - مجموعه ص ۲۳) ترجمہ : میرے یعنی بہاء اللہ کے صاحب استقامت مومن نے کیا اور اس کا گھنا درست ہے کہ آنحضرت کا ذکر ہے اس جود زیادہ اللہ سے نہیں روک سکتا.جس نے اپنے قول ملے کیوں اور رسولوں کو پیدا کیا ہے.(۱۴) بہاء اللہ اپنے آپ کو ایفعل ما یشاء اور عصمت کیرئی کے مقام پر قرار دیتے ہیں جس میں کوئی شریک نہیں ذہنی ور رسول با تو خاتم النبیین اور نہ ملائکہ.بہاء اللہ لکھتے ہیں: ليس لمطلع الامر شويك في العصمة الكبيرني انه لمظهر يفعل ما يشاء في ملكوت الانشاء قد خص الله هذا المقام لنفسه وما قدر لاحد نصيب من هذا الشان العظيم المنيع ترجمہ و محنت کرنی میں مطلع الا مریعنی بہاء اللہ کا کوئی شریک نہیں.ہے، یہ کائنات میں یفعل ما یشاء کا منظر ہے.اللہ تعالے نے یہ مقام صرف اپنے لئے مخصوص رکھا ہے اس بند اور ناقابل ارتقاء شان میں سے کسی کو کوئی حصہ نہیں ملاک و مجمو عہ اقدس منت (۱۵) جناب بہاء الله علم ماکان ومایکون کے مدعی تھے.اقتدار میں میں جناب بہاء اللہ لکھتے ہیں: و نفسی هندی علم ما كان وما يكون کہ مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ مجھے گزشتہ اور آئندہ سب کا علم ہے.(14) قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَتِكَ مِنْ ثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ - سورة يونس : 41) کہ تیرے رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے.اسی سلسلہ میں بہاء اللہ لکھتے ہیں.قد ظهر من لا يحزب عن علمه شي : ( اشراقات مثل) کہ وہ شخص ظاہر ہو گیا ہے کہ چین کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے.

Page 62

١٢١ گویا بہاء اللہ فضائی علم غیب کے مدعی تھے.(۱۷) بہاء اللہ زندگی میں اپنے آپ کو قبیلہ نماز قرار دیتے ہیں اور مرنے کے بعد اپنی قبر کو قبلہ اور مسجود ٹھراتے ہیں.لکھتے ہیں :- اذا اردتم الصلوة وتوا وجوهكم شطري الاقدس المقام المقدس و عند غروب شمس الحقيقة والتبيات المقر الذي قدرناه لكم الاقدس کہ میری زندگی میں مجھے اور میرے مرنے کے بعد میری قبر کو قبلہ بنانا یہ بھائی بھی عملاً اس قبر کو قبلہ ٹھہراتے ہیں.لکھا ہے: قبل ما اهل بهادر و خنده میاد که است در مدینه نگاه که در وقت نماز خواندن باید رو بروند بمبار که بایستیم و قلباً متوجه بال قدم جل جلاله و ملکوت اینی باشیم دانست آن مقام کہ بہاء اللہ نے جن دو گھروں کے حج اور طواف کرنے کا کتاب اقدس میں بہائیوں کو حکم دیا ہوا ہے.ان میں سے ایک تو وہ گھر ہے جو شیرانہ (ملکہ ایران میں علی محمد باب کا گھر ہے اور دوسرا یہ گھر جس میں ہارا اللہ بغداد میں رہتے تھے یہ پھر علاوہ ازیں یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ بھائی لوگ قبر بہار کو سجدہ کرتے ہیں.بہجہ الحمد ورفت ۲ میں بیان ہوا ہے کہ : زائرین زیارت و طواف و تقبیل و سجده علیه تقدیرهاش نموده و نماینده اندی کہ بہاء اللہ کے مقدس آستانہ پر زیارت کرنے والے لوگ سجدہ کرتے اور بوسہ دیتے اور طواف کرتے تھے اور اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں.میں خود اپنی آنکھوں سے نتیجہ میں دیکھ آیا ہوں کہ بھائی لوگ بہاء اللہ مقدری که در کتاب اقدس از قلم اعلی نازل شده به رموس الديانة - درس عشا کی قبر کو سجدہ کرتے ہیں.جناب عبد البہاء نئے روضہ مبارکہ کو ہی مسجود قرار دیا ہے.چنانچہ مطلب یہ کہ بہائیوں کا قبل یہ والد کی قبر ہے جو نگاہ میں قرار دی گئی ہے.جناب عبد البہاء نے سفیر اور پ سے واپس اگر در محرم کی صبح کو جو کام کیا تھا، پھر یہ بھی یاد رہے کہ بہائیوں کے تو طواف کی جگہ بات اور بہار کے گھر ہیں کتاب الکواکب الدریہ فی مآثر الہیما ئیہ کے منہ میں لکھا ہے :.محلی طلاق و روچ اہل بہاری کے بہت نقطه اولی در شیراز است و ثانی این بیت جمال ایسی که در بغداد است وہ یہ تھا:.چنین مبین را بر تراب آستان مقدس سود نده با بیمار کابل پہاڑ پر گئے اور انہوں نے علی محمد باپ کی قبر پر جا کہ اپنا ماتھا رگڑاتے

Page 63

١٣٣ پھر بیان کیا کہ :- مسجود نقش کتاب الله مخصوص مقام اعلمی در وضته عبار که علیا وبیت مبارک است دیگر سجود بھتے جائز نہ.کہ خدا کی کتاب میں رجس سے مراد بہاء اللہ کی کتاب ہے، سجدہ کرنا تین جگہوں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے.ایک مقام اعلیٰ کا معدہ رجو علی محمد باب کی قیر کی جگہ ہے ، دوسرے بیاء اللہ کے روضہ کا سجدہ تیرے بہاء اللہ کے گھر کا سجدہ.اور یہ کہ ان تینوں جنگوں کے سوا کسی اور طرف سجدہ کرنا ہر گز جائز نہیں ہے.بھائی دیوان نوش میں بہاء اللہ کی قبر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے ؟ جو خاک آستان تو مسجود خلق نیست اسے سجدہ گاه جان دروان روضته بهار کہ اسے روضہ بہار جو میری سجدہ گاہ ہے.تیرے آستانہ کی خاک کے سوا اور کوئی آستانہ نہیں ہے جس کو مخلوق سجدہ کرے.پھر لکھا ہے گردید انبیاد همه ساخبار بر این تراب اے قبلہ گاہ کر و بیاں روضہ بہاء کہ اسے روضہ بہا، جو تمام مقرب فرشتوں کا قبلہ گاہ ہے تمام انبیاء نے بھی تیرے اس آستانہ کی سٹی پر سجدہ کیا ہے.پھر اسی دیوان نوش کے مال میں لکھا ہے ہے اے مقصد و مقصود زمان روضه ایی اے معبد و معبود کہاں روضہ ابھی اسے معنی اسرارِ نہاں روضہ ایسی اسے سجدہ گر عالمیاں روضہ ایسی کہ اسے بہاء اللہ کے روضہ جو زمانہ کا مقصود اور مراد ہے.اور جہان کی عبادت گاہ اور لوگوں کا معبود ہے اور اسے روضہ جو تمام پوشیدہ اسرار کی مراد اور مطلب اور دنیا کا سجدہ گاہ ہے.پھر ایک اور بات دیکھنے والی ہے کہ اس بارے میں بہائی کیا تعلیم دیتے ہیں.بالٹی مور اور کلو لینڈ کے بہائیوں سے عبدالہا نے کہا تھا :.دالف، چون بارض مقدسه رسم سر بر آستان رومنه مبارکه نهم و هویه کنان از برائے شما با طلب تائید کنم کہ جب میں واپس مکہ جاؤں گا تو میں بیاء اللہ کی یر کی چوکھٹ پر سر رکھ کر اپنے بال نوچتے ہوئے تم سب کے لئے مدد مانگو نگا یہ وبدائع الآثار جلدا من (ب) چون بر وضنه مبارک رسم سربی استان گذارم و بیت هر یک از دوستان رجائے تائید کنم کہ جب میں بہاء اللہ کے روضہ پر پہنچوں گا تو اپنا سر اس کے دروازہ پر رکھ کر تم سب دوستوں رسائیان کلولینڈ کے لئے مدد کا خواستگار ہوں گا یہ

Page 64

۱۲۵ ۱۲۴ یہ بھی یادر ہے کہ مسجد کی یہ قبر بہار اللہ کی قبر ہونے کی وجہ سے مسجود بن ہی ہے.مرزا عبدالحسین بھائی اپنی کتاب الكواكب الدريه في تأثر البهائية ہ میں لکھتے ہیں :- اولین زیاد نگاه مهم ایلی بهار که بسیار نزدیشان محترم است ہاں مضیح مظہر حضرت بہاء الله در بیلی عنقا است و این مصحیح مقدس محل توجیہ اہل بماء شد از پیمان وقعیت که حضرتش در آنجا مد خون گشت کہ سب سے مقدم اور ضروری زیارتگاہ جو اہل بہاء کے نزدیک بہت بڑا احترام اور اعزاز رکھتی ہے وہ زیارت گاہ ہے جو بہیجہ واقع عکا میں بہاء اللہ کا مدفن ہے جو بہاء اللہ کے وہاں دفن ہونے کے وقت سے اہلِ بہاء کا قبلہ نماز ہے.حضرات ! آپ خود ان تمام حوالہ جات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل بہا دینا بے بہاء اللہ کی تعلیمات کے مطابق ان کو مجود حقیقی سمجھتے ہیں اور ان کی قبر کو سجدہ کرتے ہیں.ایک طرف تو یہ صورت حال ہے ، دوسری طرف ہمارے سید مولی حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے لعن الله الیهود والنصارى اتخذوا قبور انبیاء هم مساجد که الله تعالی یہود و نصاری پرلعنت کرے کیونکہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا.حضرت سرویہ کو نین محمد مصطفے صل للہ علیہ آلہ وسلم نے وفات کے وقت دعا فرماتی ہے.اللهم لا تجعل تبرى وثنا یعبد - خدایا ! میری قبربیت نہ بن جائے کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگ جائیں.یہ ہے اسلامی توحید کا مقام اور وہ ہے بہائیت کی مشر کا نہ تعلیم آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بہاء اللہ کا کیا دعوئی ہے اور ان کے دعونی کا کیا اثر پیدا ہوا ہے مصاف ظاہر ہے کہ وہ بہائیوں کو پھر اسلام ہے پہلے کی بت پرستی اور انسان پرستی کے گڑھے میں گرا رہے ہیں.انا لله وانا اليه راجعون - بہائیوں کو بچپن سے تعلیم دی جاتی ہے کہ :.در آن یوم جمال اقدس الهی بر عرش ربوبیت کبری مستوی و بكل اسماء حسنی و صفات علیا بر اہل ارض وسماء تخیلی فرمود و دروس الديانة منشا گویا بہاء اللہ کو برش الوہیت و ربوبیت پر ماننا تمام بھائیوں کے لئے لازمی ہے.خود عبد البہاء پہلے نبیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- جمیع آیا مه که آمده درفت است ایام مونی بوده، ایام میسیج بوده، ایام ابراهیم بوده وهمچنین ایام سائز ان یا ربوده ود اما آبی ینام یوم الله است : رمضاضات فارسی من گویا انبیاء سابقین کے عہد اولہ دکور تو ان کے دور تھے مگر بہاء اللہ کا

Page 65

۱۲ زمانہ ، یہ ایام اللہ کہلائے گا.پس بہائیت کا ہر عمل اور ہر قول بہاء اللہ کو مدعی اولویت قرار دیتا ہے.در بھائیوں کا تو باہمی سلام بھی بہاء اللہ کی الوہیت کا اعلان ہے.باب نے سلام کے لئے چار لفظ مقرر کئے تھے.عبد البہاء کہتے ہیں کہ ان الفاظ سے مقصود جمال قدم بہاء اللہ ہے.مرزا حیدر علی اصفہانی نے بھی نتج المصد ورطہ میں یہی بات لکھی ہے.لکھتے ہیں: تحیات در کتاب مستطاب بیان اللہ اکبر الله امیر والله اعظم ، و الله اجمل بود.دویر ایتام اشراق مالک ایام وا نام حضر یہ اللہ البی شد، محبا لهذا الاسم المبارك المهيمن على العالمين و از حق منيع ہم تصدیق و امضا ئے فعلی ظاہر شد " کہ علی محمد باب کی کتاب البیان میں سلام کے چار کھلے مقرر تھے.جو اللہ اکبر اللہ ایسی، اللہ العظم اور اللہ جمیل تھے لیکن بعد میں جب تمام مخلوق اور زمانہ کے مالک رہیاء اللہ نے اپنی روشنی اس عالم پر ڈالی تو سلام و جواب کے ان چاروں کلموں مجوزہ علی محمد باب میں سے صرف اللہ اسی پر حصر ہو گیا اور سلام میں اللہ انہی پر عصر کرنے کی نعلی تصدیق محمد بہار اللہ نے بھی کر دی تھی ؟ ۲۲۵ مکاتیب عبد البہاء جلد ۲۳ پر لکھا ہے : این چهار تحیت از حضرت اعلیٰ ، روحی له الفدا است و مقصد از بیر چهار جمال قدم روحی لاختبائه الفدا است نه دون حضرتش.......دلے الیوم بانگ ملا علی الله ایی است و روح این عید ازیں ندامت یعنی حضرت اعلیٰ و علی محمد باب نے جو یہ چار کھلے سلام کی شرض سے مقرر کئے ہیں ان چاروں کلموں سے مقصود صرف جمال قدم کی ذات ہے نہ کوئی اور وہی اللہ اکبر ہے، وہی اللہ اعظم ہے، وہی اللہ ایسی ہے ، وہی اللہ اجمل ہے.اور اس وقت میں رہو بہاء اللہ کا وقت ہے، چونکہ ملا اصلی یعنی فرشتوں کی خاص جماعت کی جو آواز ہے وہ اللہ ابھی ہے اور میری روح بھی اس سے خوش ہے اسلئے سلام میں کہیں اسی کلمہ اللہ انہی" کو زیادہ تر جیح دیتا ہوں " امریکہ میں بھائی ہونے والے لڑکوں سے جو فارم بعیت پر کرایا جاتا ہے.اس کا مشن یہ ہے :.

Page 66

۱۲۹ فارم پر شیر براتون کی کتاب Material for study pf the Babi religion مال پر درج ہے.اس فارم کا مکمل اردو ترجمہ ہی ہے.اه حصین اعظم وجود الماء) میں عاجزی سے حلفیہ اقرار کرتا ہوں.خدائے قادر مطلق کے ایک اور یگانہ ہونے کا جو میرا پیدا کرنے والا ہے میں ایمان لاتا ہوں کہ وہ انسانی شکل کی ظاہر ہوا.اور میں یقین ہوں کہ اس نے اپنا ایک کفیہ قائم کیا.اور پھر یقین رکھتا ہوں اس دنیا سے رخصت ہو جانے پیر اور ایمان لاتا ہوں اسکا باشتر یہ کہ اس نے اپنی بادشاہت تجھ کو دیدی ہے.اپنے خصیص اعظم اچھا اس کا سب سے پیارا بیٹے اور بہانہ ہے ہیں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس روحانی اد شما بہت میں قبول کیا جائے اور میرا نام بھی ایمانداروں کے چیٹ میں درج کیا جائے.اگلے جو ان اور اس دنیا کی برکات کے لئے درخواست کرتا ہوں، اپنے لئے اور اپنے قریبی وں کے لئے.آپ مجھے ان درجاتی تھنوں اور دیگر طاقتوں سے نمائی کر کے کہے اہل تھیں.آپ کیا ماجر بیعت سلام میں....فر ہے کہ اس سے پڑھ کر پھر اللہ کے ملکی الوہیت ہونے کا کیا ثبوت ہو گا ۱۲۸ "To The Greatest Branch, In God's name, the Greatest Branch, I humbly confess the Oneness and singleness of the Almighty God, my creator, and I believe in his appearance in the human form; I be- lieve in His establishing His holy household, in his departure, and that He has delivered His kingdom to thee, O greatest Branch His dearest son and mystery I beg that I may be accepted in this glorious Kingdom and that my name may be registered in the, 'Fook of Believers; I also beg the blessings of worlds to come and of the present one for myself and for those who are near and dear to me (the individual may ask for anything he like) for the spiritual gifts which Thou seest I may be best fitted, for any gift or power for which theu seest me to be best fitted.-Most hum- bly thy servent,

Page 67

I ۱۳۱ پھر خود بنائی سے کہتے ہیں کہ ہم بہاء اللہ کی الو بیت پر ایمان لاتے ہیں.مرزا حیدر علی بہائی مبلغ رکھتے ہیں:.با لوبیت حتی لایزال بے مثال جمال قدم مدمن پخش گشتیم رجة الصدور من کہ ہم جمالی قدم یعنی بہار ان کی الوہیت پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر معلمش.عبد البہاء پر جگہ بہاء اللہ سے دعائیں مانگنے کی تلقین کرتے تھے.چنانچہ بدائع الآثار جلد ۳۹ ۳۷ میں لکھا ہے کہ ایک زنانہ انجمن (امریکہ) میں تقریر کرتے ہوئے عبد البہار نے فرمایا : این انجمن دختران من است و خانه دختر این مسیس کرد.لہذا انہیں اجتماع بسیار مرد در خوب مجھے اسمت جیسے نورانی است محفل روحانی است و انجمن آسمانی نظر عنایت شامل این محفل است و ملی او علی با فرایس مجلس مناجاتے کہ خواندید شنیدند و از استماع مناجات شما مرد راند شکر حضرت بلاد الله نمایند و گوئیندا اے بہاء اللہ لیکر تیرا که این کنیزان منجنب تواند و توجیه با ملکوت تو مقصد جز رضائے تو ندارند و مقامے بجز خدمت امر تو بخویند.اسے بہاء اللہ این کنیزان عزیز را نائبه فر مادر این دختران ناسوت را ملکوتی نما این قلوب را بیمه کن و این ارواح راستبشر فردا د بهاء الله تن با را تو شمع روشن نماد این جای با ارز شکیب گلزار - نفوس را با آهنگی مشغول کن و ملا اعلی را به جد طرب آره هر یک را ستاره درخشنده نما تا عالم وجود به نورانی منور شود - اسے بہار اللہ قوت آسمانی دوم العام ملکوتی فرما.ائید ربانی نما تا تمام بخدمت تو پردازنده تونی روف و مہربان و صاحب فضل و احسان - یعنی عبد الہاد کہتے ہیں.کہ یہ میری لڑکیوں کی نہیں بنے ہیں کودک کے گھر ہیں.اسکلتے ہیں اس اجتماع سے بہت خوش ہوں یہ خوب مجلس ہے.ایرانی ہے ، روھانی ہے ، انجین آسمانی ہے.مہربانی کی نظر اس جنس کے ساتھ ہے میر علی زفر شقوں کی خاص جماعت اس مجلس کو دیکھتی ہے اور جو مناجات (دعائے خاص) اس امین نے پڑھتی ہے اس کو اس نے سنا ہے اس مناجات کے کفن سے وہ خوش ہے اور بہاء اللہ کا شکر کرتی اور ہتی ہے کی کے پہلے اللہ تیرا شکر ہے کہ یہ لونڈیاں تیری طرف مینی کی کیا اور تیری بادشاہت کی طرف متوجہ ہیں تیری رضاء کے سوارن کا کوئی مقصد نہیں ہے.تیری خدمت کے سوا اپنے لئے کوئی رن نہیں چاہتیں.اسے پہلدا ال ان پیاری فونڈیوں کی عد فرما.ان کو زمینی سے آسمانی بنا.ان کے دلوں میں انعام کہ ان کی موجوں کو مہارت ہے.اسے بہاما شر ان کو شیش روشن کر اسکور شب گلزار

Page 68

۱۳۳ ۱۳۲ بنا.رب کو ایک راہ پر نگاہ سے ہم کو بھی وجہ اور خوشی میں ا پر ایک کر چمکنے والا ستارہ بنا دے تاکہ ان کے نور سے یہ سارا عالم منور ہوا ہے بیا، اللہ آسمان سے قوت نے نے اور آسمانی العالم فریا ! خدائی تائید دکھاتا کہ کے سب تیری خدمت میں مشغول ہوجائیں تو نرمی زبانے والا اور مہربان او فضیل والا اور احسان والا ہے." ان تمام بیانات سے انظر من الشمس ہے کہ بہاء اللہ نے الوہیت کا دعوی کیا ہے اور بہائیوں نے ان کو بطور الہ معبود تسلیم کیا ہے.یہاں پر کسی مجازی اور استعارا اطلاق کا سوال ہی نہیں ہے.یہ تو صاف اور واضح طور پر انا اور معبود ماننے کی صورت ہے.علم کو شیخ رشید رضا ایڈیٹر رسالہ المنار مصر نے بھی اثر مقام حوالہ جات کا ملا حظہ کرنے کے بعد اقرار کیا ہے کہ در البهائية هم أخر طوائف الباطنية يعدون البهاء عبادة حقيقية ويزيتون بالوقية.پوسته ، ولهم شريعة خاصة بهم: المنار جبل ٣٠ تم ١ - ٢٠ شوال ١٣٣ جس طر یہ یسائی حضرت سچ کو ان اللہ مانتے ہیں حضرت شیخ کی عبادت کرتے ہیں ، اُن سے دعائیں مانگتے ہیں بعینہ اسی طرح بہائی بہاء اللہ کو رب مانتے ہیں.اس سے دعائیں مانگتے ہیں ، اس کی عبادت کرتے ہیں، اس کی قبر کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کو حاضر ناظر یقین کرتے ہیں.اگر یہ اتو میت کا دسونی ہیں اور اگر یہ حمود ماننے کی صورت نہیں تو ہمیں بتایا جائے.کر رہا ہوں اور عیسائیوں کے عقیدہ اور عمل میں کیا فرق ہے؟ نیز بتایا جائے کہ اگر یہ نوٹی الوہیت نہیں ہے تو اگر کوئی انسان ہو کر رب ہونے کا دھونی کرنا چاہئے وہ کس طرح کرے گا ؟ بعض وفعہ ہائی لوگ بہاء اللہ کی ایسی عبارتیں پیش کرتے ہیں جن میں اس نے اپنے انسان ہونے کا اعتراف کیا ہے.مگر ظاہر ہے کہ آج تک کسی نے بھی اپنے انسان ہونے کا انکار کر کے الوہیت کا دعوئی نہیں کیا.فرعون مصر نے بھی ایسا نہ کیا تھا اور حضرت شیخ کے متعلق بھی عیسائی ایسا نہیں کرتے جبکہ وہ ان کو کامل انسان اور کامل خدا مانتے ہیں.بعینہ اسی طرح بھائی لوگ بھی بہاء اللہ کو ایک طرف کامل انسان کہتے ہیں اور دوسری طرف اسے کامل خدا مان کر اس کی عبادت کرتے ہیں.پس بہار اللہ کا دعونی الویت ثابت ہے اور قرآن مجید کے دو سے کسی شخص کا مدعی الوہیت ہونا ہی اس کے گھوٹا اور کذاب ہونے کی روشن ترین دلیل ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے :- ما كان البَشَرِ أَن تُؤْتِيهُ اللهُ الْكِتَب وَالْحُكوو النبوة ثمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادَاتِي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَكِن كُونُوا تَبَاتِ مَنَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلَّمُونَ الكتب وبِمَا كُنتُمْ تَدْرُمُونَهُ وَلَا يَا مُرَكُمْ ان تَتَّخِذُوا الْمَلَئِكَةَ وَالشَّهِينَ أَرْبَابًا، أَيَا مُرُكُمْ بالكفر بعد إذ انتُم مُّسْلِمُونَ (آل عمران : ۷۹-)

Page 69

۱۳۵ ترجمہ دیسی ایسے انسان کے لئے بھی روا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب حکمت اور ثبوت دی ہو کہ وہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ تمھیں چاہئیے کہ کتاب انہی کے علم اور درس کے ذریعہ سے تم ربانی بن جاؤ کوئی یہ بھی حکم نہیں دے سکتا کہ فرشتوں اور نبیوں کو خدا مانونہ کیا بنی تمہارے مسلمان ہو جانے کے بعد تمہیں گھر کا حکم دے سکتا ہے ؟ یعنی ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ انبیاء علیہم اسلام تو خدا تعالی کی توحید تم کرنے کے لئے آتے ہیں.حضرات! آپ قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں بہائیوں کے مندرجہ بالا حوالہ جات پر ایک نظر ڈالیں گے تو آپ پر کھیل جائے گا کہ بہاء اللہ کا دعوائے الومیت صریح کفر ہے پس میں کھتا ہوں آیا مُرُكُمْ بِالكُفْرِ بَعْدَ إذا لم مُّسْلِمُونَ اے مسلمانو! کیا تم مسلمان ہونے کے بعد اس کفر کو اختیار کر سکتے ہو کہ ایک انسان کو خدا مان لو.حاشا و کلام اللہ تعالے واحد لاشریک ہے اور اسلام کی بنیاد توحید پر ہے انسان پرستی یا قبر پرستی پر نہیں ہے.واخود مولنا ان الحمد لله رب العلمين : چوتھا مقالہ قرآنی شریعیت دائمی ہے قرآنی شریت کو خفق الزمان قرار دیا غلط ہیا الم تركييْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرَعُهَا فِي السَّمَاء : توتي أكَلَهَا كُلَّ حِينَ بِاذْنِ رتها و يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يتذكرون ، وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَيْتَةٍ كَشَجَرَةٍ جينة اجْتَنَتَ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قراره يُثَتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ، وَ يُضِلُّ اللهُ الظَّلِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُه المْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُو انِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَ ا حلوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِهِ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَاء وَبِئْسَ القراره (سوره ابراهیم آیت ۲۴ تا ۱۲۹

Page 70

۱۳۷ بہت فرستان طیب و طاہر شجر از نشانها می دهد مردم شهر سر نشان در استانی در سه پدید نے چودین تو بنایش برشنید رور مین فارسی معزز حاضرین کرام ! السلام علیکم در حمته اله و برکاته آج کے مقالہ کا عنوان یہ ہے کہ قرآنی شریعیت دائمی ہے.قرآنی شریعت کو مختص الزمان قرار دنیا غلط ہے.ہمارے بلکہ مضامین میں یہ اس واضح حقیرہ کے برعکس بہائی صاحبان کا خیال ہے کہ قرآنی شریعت بے شک خدا کا کلام تھی مگر اب یہ شریعیت رمعاذ الله ناکارہ اور بے اثر ہو چکی ہے، اب یہ شریعت منسوخ ہو چکی ہے، اب اس کی پیروی سے روحانی فیوض اور آسمانی برکات حاصل نہیں ہو سکتے.ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کا مذکورہ بالا عقیدہ اور بہائیوں کا مؤخر الذکر خیال بالکل متضاد اور ایک دوسرے کے نقیض ہیں.قرآن مجید کے منسوخ قرار پانے سے تحریک احمدیت صحیح نہیں ٹھہر سکتی.اور اگر قرآن مجید منسوخ نہیں ہوا اور ہمیں یقین ہے کہ ہرگز منسوخ نہیں ہوا.تو اس صورت میں بہائی تحریک چو تھا لیکچر ہیں.تین مقالے اس سے پہلے آپ کے سامنے پڑھے جاچکے ہیں کے لئے کوئی بنیاد موجود نہیں.مالها من قرار - کیونکہ بہائیت کی اساس اور ایک پانچواں مقالہ حسب اعلان کل پڑھا جائے گا.انشاء اللہ.اس خیال پر ہے کہ قرآن مجید منسوخ ہو چکا ہے.اور اب نئی شریعت حضرات ایہ مضمون بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.ہمارا یقین ہے کہ آپ کی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کو تلقین قرآن مجید کامل شریعیت ہے ، محفوظ شریعت ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی شریعت ہے.جب تک یہ زمین اور یہ آسمان قائم ہیں تب تک یہ شریعت قائم و دائم ہے.رہتی دنیا تک قرآنی شریعت کا سکہ تمھاری رہے گا.اور آدم زاد اپنی روحانی نجات کے لئے اسی ترشیہ سے آبجیات پینے کے محتاج رہیں گے.اپنی سیاسی، اخلاقی اور تمدنی مشکلات کا حل اور اپنی تمام بیماریوں کے علاج کے لئے انہیں قرآنی شریعت کی طرف رجوع کرتا پڑے گا.ہمارے نزدیک قرآن پاک ایک زندہ کتاب ہے اور جب تک انسان باقی ہیں اس شریعیت کا بقاء اور اس کا نفاذ مقدر ہے.ہمارے فرمائی ہے: تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے ہو لوگ قرآن کو عزت دیں گے.وہ آسمان پر یورات پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر

Page 71

۱۳۹ ۱۳۸ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کر دو کہ سچی محبت اس خیاہ جلال کے نہی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی فوع کی بڑائی ست دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.دکشتی نوح متا) پس احمدیت کے عقائد کی چٹان ، قرآن مجید کا دائی شریعیت ہوتا ہے.اور بہائیت کی بنیاد یہ ہے کہ نعوذ باللہ قرآن نبید ایک محدود و زمانہ هزار بارہ سو سال کے لئے ، تھا اور اب قرآن تبید منسوخ ہو چکا ہے.معزز حاضرین ! ہمارے اس بیان سے آپ آج کے مضمون کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں.ممکن کہ مسلمانوں کے کسی دوسرے فرقے کے علماء اپنی کم نظری کے باعث قرآن مجید کی کچھ آیات کو منسوخ ٹھہراتے ہوں اگرچہ آجکل احمد یہ تحریک کے زیر اثر قریباً سبھی سمجھدار مسلمان ہی عقیدہ اختیار کر رہے ہیں کہ فرقان مجید میں کوئی منسوخ آیت نہیں ہے تاہم جماعت احمدیہ تو ہر حال یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ : خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے.چشمہ معرفت ۳۳۲) اندرین صورت یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ بہائیت اور احمدیت دو متضاد تحریکیں ہیں.ان میں آگ اور پانی یا زھر اور تریاق کی نسبت ہے.اب ہم بفضلہ اپنے اس دعوئی کو ثابت کرتے ہیں کہ قرآن مجید دائمی شریعت ہے.سو یا د رکھنا چاہیئے کہ قرآن مجید دنیا میں پہلی کتاب یا پہلی شریعت نہیں ہے.اور نہ ہی ہمارے سید و مولے حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم دنیا میں پہلے رسول ظاہر ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قریب ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گزر چکے ہیں اور عشر ان سے پہلے متعدد کتابیں اور صحیفے اُتر چکے ہیں.نسل انسانی اپنے آغاز سے ہی الہی ہدایت اور آسمانی شریعت کی محتاج رہی ہے قل انسانی نے بھی ارتقائی منازل طے کی ہیں اور انہی شریعت بھی مختلف ادوار اور طبقات میں سے گزر کر اپنے کمال کو پہنچی ہے.جس طرح انبیاء سلف حضرت خاتم النبيين مصلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان اور آپ کے بلند ترین مرتبہ کے پیش نظر اپنی اپنی امتوں کو آپ کی آمد کی بشارت

Page 72

۱۴۱ دیتے آئے ہیں.اسی طرح تمام صحیفے اور تمام کتابیں اس بشارت عظمی پر مشتمل ہوتی رہی ہیں کہ ایک کامل کتاب، ایک کامل شریعیت فقراء اور تمام آسمانی احکام و اسرار پرمشتمل آئین خداوندی آنے والا ہے.پیش گوئیاں اگر ان پر ذرا بھی تدبیر کیا جائے صاف صاف بتلا رہی ہیں کہ قرآن مجید کو تمام الہی نوشتوں میں کامل اور دائمی شریعت قرار دیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: الذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِي الاقى الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَ هُم فِي التَّوْرية و الانْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُم عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّبِيتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ، فَالَّذِينَ امَنوا بِهِ وَعَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النور الذي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ المُفْلِحُونَ.(اعراف (۱۵۷) کہ میری رحمت ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو اس عظیم الشان اقی پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں جس کی پیشگوئی وہ تورات و انجیل میں پڑھتے ہیں.یہ پغمبر انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے.ناپسندید امور سے منع کرتا ہے، پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال قرار دیا ہے اور گندی اشیاء کو حرام ٹھہراتا ہے.ان کے ناروا بوتھوں اور پابندیوں کو دور کرتا ہے.پس جو اس نمبر پر ایمان لاتے ہیں، اس کی تائید و نصرت کرتے ہیں اور اس نور (قرآن مجید) کی پیروی کرتے ہیں.جو اس پر نازل ہوا ہے وہ ضرور کامیاب ہونے والے ہیں ؟ اس قرآنی دھونی کی تصدیق وتحقیق کے لئے جب ہم تورات و انجیل پر نظر ڈالتے ہیں.تو ہمیں ان آسمانی صحیفوں میں بہت سی صاف اور واضح پیش گوشیائی ملتی ہیں.جن میں قرآن مجید کی خبر دی گئی ہے.بلکہ انبیاء سابقین نے اس پاک کتاب کے کامل آئین ہونے کا بھی اعلان فرما دیا ہے ان پیش گوئیوں میں سے صرف دستش پیش گوئیاں ذکر کی جاتی ہیں : ذا اللہ تعالے نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا.میں ان بنی اسرائیل کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی پر پاکروں گا اور اپنا کلام اسکے منہ میں ڈالوں گا.اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب اُن سے کھے گا.راستشناء : اس پیشگوئی میں ایک مثیل موشی نبی کی پیش گوئی کی گئی جسے کام خداوندی یعنی شریعت دیکر بھیجا جائے گا نا اور وہ ساری شریعیت لوگوں تک پہنچائے گا.ہی پیش گوئی کو ایک دوسرے انداز میں بایں الفاظ ذکر کیا گیا ہے :

Page 73

۱۴۲ خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت شریعیت غراء ان کے لئے تھی " واستثناء ) ان الفاظ میں صاف طور پر موجود کے مقام اور اس کی حالت اور اس کی شریعیت کا ذکر موجود ہے.سیدنا حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم سجادہ پیغمبر ہیں.جو خاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوئے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے.اور پھر آپ کے پاس ایک روشن شریعت تھی.یا د ر کھنا چاہیئے کہ بعض دفعہ پادری صاحبان کہ دیا کرتے ہیں کہ مثیل موسی کی اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح ہیں.مگر ان کا یہ زخم خود بائیبل سے سراسر باطل ثابت ہوتا ہے.چنانچہ جناب پولوس لکھتے ہي :- وہ (خدا، اس سیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے.ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اُس وقت تک رہے جب تک وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں.چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خدا وند خدا تمہا رے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک بنی پیدا کریگا و اعمال ) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ عیسائیوں کے مسلمہ الہامی کام کے رو سے حضرت مسیح مثیل موسنی والی پیش گوئی کے مصداق نہیں ہیں.بلکہ مسیح کی آمد اقول اور آمدثانی کے درمیانی زمانے میں آنے والا نبی اس پیشگوئی کا مصداق ہے.اور اُسی کی پیش کردہ شریعت (قرآن مجید وہ نورانی شریعت ہے جس کا تورات میں ذکر ہے ، قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت میں قرآنی شریعیت کو نور کا گیا ہے.(۲) بیسعیاہ نبی نے خدا کا کلام شما یا کہ.رب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے.اسے دوانیوں کے قبل یا پانی لیکے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اسے تیما کی سرزمین کے باشند؟ روٹی لیکے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وہ تلواروں کے سامنے سے خنکی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شر سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا مینوز ایک برس ہاں مزدی کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری قیمت جاتی ریگی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر گھٹ جائیں گے.دیسیاه ) اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا صاف ذکر ہے اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی جنگ بدر کے لئے واضح اشارہ ہے جس میں قیدار یعنی بنو قیدار قریش رقیدار حضرت آجیل کے ایک بیٹے کا نام ہے، اعرب حضرت آنٹیل ہی کی نسل ہیں، کی حشمت خاک میں مل گئی.

Page 74

۱۳۵ (۳) نیسعیاہ نبی کی معرفت اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم انگلی چیزوں کو یاد نہ کرو اور قدیم باتوں کو سوچتے نہ رہوں دیکھو میں ایک نئی چیز کروں گا.اب وہ ظاہر ہوگی.کیا تم اس ہے ملاحظہ نہ کرو گے.ہاں میں بیابان میں ایک راہ اور مسحرا میں بناؤں گا.ہداشت کے بھائم ، گیوڈ اور شتر مرغ میری تنظیم کہ میں بیابان میں پانی اور صحرا میں ندیاں موجود کروں گا کہ وہ میجہ لوگوں کے، میرے برگزیدوں کے پینے کے لئے ہو ئیں میں نے ان لوگوں کو اپنے لئے بنایا.وہ میری ستائش کریں گے یہ المياه (۴) پھر فرمایا :- اوند کے لئے ایک نیا گیت گاڈ اسے تم جو سمندر پرگہ رائے ہواور تم جو اس میں بہتے ہو.اسے بھری ممالک اور ان کے باشند و امیر مین پر ھرتا میراسی کی ستائش کرده بیابان اور نا کیا کیا بستیاں قیدار کے آباد و رعایت اپنی آواز بلند کریں گے.صلح کے بہنے والے ایک گیت گائیں گے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں گئے وہ خدا وند کا جلال ظاہر کر یں گے اور بجری ممالک میں اسکی شنا خوانی کرینگے.خداوند ایک بہادر کی مانند نکلے گا.وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت کو اسکا ہے گا.وہ چلا اٹھے گا.ہاں وہ جنگ کے لئے بلا ئیگا.وہ اپنے دشمنوں پر بہادری کو نیگیا ہے.(۵) اسی ضمن میں خبر دی کہ : وہ کسی کو بانٹ سکھائے گا کسی کو وعظ کر کے سمجھائے گا ؟ ان کو جن کا دور ہ چھڑایا گیا.جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے کیونکہ حکم پر حکم حکم پر حکم، قانون پر قانون قانون پر قانون ہوتا جاتا تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں.ہاں وہ دشی کے سے ہونٹوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کہ سے لگا ہے ریعیاه VA ان تینوں عمارتوں پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی کھل جاتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ نے ایک نئی شریعت، ایک نام کیست اور نئے قانونوں والی کتاب کی خبر دی ہے یہ نئی شریعت عالمگیر ہے.تمام دنیا کے لئے ہو گی.مسلح (مدینہ کی پہاڑی) کے باشندے پہلے یہ گیت گائیں گے.اذانیں دینگے، لکھنے پرندوں تبلیغ کریں گے ، جنگوں تک نوبت آئے گی، آخر ما مور اپنے دشمنوں پر غالب آئے گا.قرآن مجید کا نزول تدریجا ہوگا.غیر عبرانی زبان میں ہو گا.اور اس کا نزول ہے تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں سے مکی اور ہوئی ہو گا.قرآن مجید کے آنے سے صحرا میں آپ حیات کی ندیاں بہہ پڑیں گی اور پیار کیا دنیا میں خدا کی ستائش قائم ہو جائے گی.(4) حضرت مسیح فرماتے ہیں: مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کتنی ہیں مگراب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی سچائی کار و ج آئے گا

Page 75

۱۴۷ ۱۴۶ تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اسلئے کہ وہ اپنی طرف سے نکلے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی قریب دیگا.(یوحنا ) اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالے نے اعلان فرما دیا.الیوم اکملت لکم دینکم (المائد) کہ آج اس قرآن مجیب کے ذریعہ میں نے تمہارے سامنے تمام سچائی کی راہ پیش کر دی ہے.(۷) حضرت مسیح نے انگوری باغ کی مشہور میل کا ذکر کرتے ہوئے پیشنگوئی کی ہے کہ :.جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ انہوں نے اس سے کہا ان برے آدمیوں کو تیری تشریح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دیگا جو موسم پر اس کو پھل دیں یسوع نے ان سے کہا.کیا تم نے کتاب مقدس ہیں کبھی نہیں پڑھا کہ میں تھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے کرنے کا پتھر ہو گیا.یہ خدا وند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں طبیب ہے اسلئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت ت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھلی لائے دے ولی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا اسکے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیے گے مگر تیں پردہ گرے گا اُسے میں ڈانے لگانا رمتی و اسم ) اس پیش گوئی میں بنی اسرائیل سے آسمانی حکومت چھین کریتی اسمعیل کو دیے جانے کا ذکر ہے اس میں آنے والے نبی اور اس کی لائی ہوئی شریعیت کو کونے کا پتھر قرار دیا ہے.میله مند یوحنا میں آئندہ ہونے والے واقعات کے سلسم میں خیر دی گئی ہے کہ :.تخت پر بیٹھا تھا میں نے اس کے دینے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی جو اندر سے اور باہر سے لکھی ہوئی تھی اور آسے سات فری لگا کر بند کیا گیا تھا.پھر میں نے ایک زورا در فرشتے کو بند آواز سے یہ منادی کرتے دیکھا کہ کون اس کتاب کے کھولنے اور اس کی ترین توڑنے کے لائق ہے یہ ا شفر یومنا پر پیش گوئی بھی نہایت واضح ہے.اس پر نظر کرنے سے عیاں ہے کہ اس کا مصداق صرف قرآن کریم ہے.اور سات کریں سورۂ فاتحہ کی سات آیات ہیں.جو ام الکتاب کی حیثیت رکھتی ہے.ہیں میں قرآن مجید کے سارے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں.پھر قرآن مجید ہمارہ کتاب ہے جس کے با رستے ہیں فرشتوں نے منادی کی ہے.قل لئن اجتمعت الانس والبر على ان يأتوا بمثل هذا القرأن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيراه ربنی اسرائیل : ۱۸) کہ یہ وہ بے نظیر و بے مثال کتاب ہے جوں کی مانند کوئی شخص نہیں بنا سکتا (9) پوھنا ہوتی اسی مکاشفہ میں فرماتے ہیں : -

Page 76

۱۴۹ ۱۴۸ پر میں نے ایک اور زور آور فر کو بادل اوڑھے آسمان سے اترتے دیکھا اس کے سر پر دھنک تھی اور اس کا چہرہ آفتاب کی مانند تھا او راس کے پاؤں آگ کے ستونوں کی تہد اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کھٹکی ہوئی کتاب تھی.آپ نے اپنا اپنا پاؤں سمندر پر رکھا اور بایاں خشکی پوے (مکاشفہ یوحنا نیں دیکھئے کتنی واضح پیش گوئی ہے چھوٹی سی کھلی ہوئی کتاب یہ سورۃ فاتحہ بات آئیتوں پر مشتمل ہے.او راس کا نام ہی فاتحہ ہے.جو نی کتاب کے مصوم پر صاف دلالت کر رہا ہے.اس کا نزول بھی لفظی اور معنوی طور پر دو بار ہوتا ہے.پھر یہ قرآنی پیغام یہ جگر کے لئے ہے.سفید و سرخ پنسلیں اس کی مخاطبہ ہیں.اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب نے لئے عام کتاب ہے.(۱۰) قرآن مجید یعنی کلام خدا اور ہمارے نبی حضرت نظام النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مکاشفہ یوحنا کی واضح پیش گوئی الفاظ ذیل میں ہے.پھر میں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اس پر ایک سوار ہے جو سچا اور برحق کھلاتا ہے.اور وہ رہتی کے ساتھ انصاف اور لڑائی کرتا اس کی آنکھیں آگ کے شخکلے ہیں اور اس کے سرپر بہت سے تاج ہیں.اور اس کا ایک نام لکھا ہوا ہے.اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا.اور وہ جون کی چھڑ کی ہوئی پونیاں پہنے ہوئے ہے اور اس کا نام کلام خدا کہلاتا ہے.اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید اور صاف همین کتانی کپڑے پہنے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہیں اور قوموں کو مار : کے لئے اس کے منہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے.اور وہ رہے کے عصا سے ان پر حکومت کرے گا اور قادر مطلق خدا کے سخت غضب کی کے کے جوان میں انگور روندے گا اور اسکی پوشاک اور ان پر یہ نام لکھا ہوا ہے.بادشاہوں کا باد باد اور خداوندوں کا خداوند (مکاشفہ بوجھنا ) 14-15 یہ پیشنگوئی بھی صرف سید الانبیاء حضرت خاتم النبیین صلی الہ علیہ کو تم پر چان ہوتی ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید انیسی بینات پرشت کتاب عطا فرمائی جو باطل کے لیئے تیز خوار کا حکم رکھتی ہے.این روش پیشگوئیوں سے ثابت ہے کہ تورات و انجیل مر قر آن مجمد کی پیش گوئی موجود ہے اور اسے کامل شریعت اور مکمل آئین قرار دیا گیا ہے.یہ نوشتہ انہی پورا ہوا اور قرآن مجید اپنی پوری شان نہیں ظاہر ہوا.رتمت كلمة ربك صدقا د عدلا لا دل لكلمته.پس تمہارا اپنے دعوئی کے ثبوت میں ایک واضح برہان یہ ہے.کہ

Page 77

(۵) ۱۵۰ کا سا بقدری اللہ تعالی نے آنے والے تمثیل موشی کو جس شریعت کے دیئے جانے کہ نبرد کیا ہے اُسے مکمل ، دائمی اور لازوال قرار دیا ہے.قرار کا جس نے آیت انا ارسلنا اليكم رسُولاً شاهدًا علم كم كما ارسلنا الى فرعون رسُولاً میں صاف طور یا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور یں دنیا بھیجا ہے.پھر فرماتا ہے:.قال عَذَابِي أُمِيهُ بِهِ مَنْ رَشَاءُ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُ مَا الَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمْ اتنا يؤْمِنُونَ الَّذِينَ يَرِهُونَ الرَّسُول النبي الأم الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عن المنة تَكْرِ وَيُجِد لهم الدايت عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالأَعْلَلَ الَّتِي كَانَتْ دارم دا بحور الأول الذي أُنْزِلَ مَعَه، أوليك دم اقل ونه (الاعراف ( ۱۵-۱۵۸) کریہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا.میں اپنے غذا کا موڈ جیسے چاہوں گا بناؤں گا اور میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے.ہیں حمیت ان لوگوں کے لئے مخصوص کر دوں گا جو تقوی شعار ہیں زکوۃ دیتے ہیں اور ہمارہ کا آیات پر ایمان رکھتے ہیں جو کہ اس عظیم الشان بنی اور امتی رسول اعظم کی پیروی کرتے ہیںمیں کا ذکر انہیں تورات و انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے.وہ ان کو معررت کا حکم دیتا ہے اور منکر سے روکتا ہے اور ان کے لئے سب طیبات کو حلال ٹھہرتا ہے اور تمام خبیث چیزوں کوحرام قرار دیتا ہے.ان کے بوجھبوں کو دور کرتا ہے اور ان کے دیرینہ بندھنوں کو کاٹنا ہے یعنی ان کے سامنے کامل شریعت پیش کرتا ہے.پس جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی مدد ونصرت کرتے ہیں اور اس نورد شریعت پر ایمان لاتے ہیں.جو اس کے ساتھہ اترا ہے دنیا کا میاب ہونے والے ہیں.حضرات ! اقرآن مجید کے اعلان سے ظاہر ہے کہ وہ ان تمام پیشگوئیوں کا مصداق ہونے کا دعویدار ہے جو آنے والی کامل اور دائمی شریعت کے متعلق تورات و انجیل میں موجود تھیں وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو میل موسی ٹھہرا کر اپنے شریعت غراء اور دائمی قانون ہونے کا بھی) یان کرتا ہے.مبارک سے جو ہر قسم کے بغض و کینہ سے صاف دل لے کر خداوند تعالیٰ کے کلام پر غور کریں.تمیز حاضرین چونکا بھائی صاحبان یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ قرآن مجید

Page 78

۱۵۳ ۱۵۲ کو کلام اللہ مانتے ہیں اور اسے برحق جانتے ہیں اسلئے وہ آیات قر آنیہ کو اپنے اوپر محبت گردانتے ہیں اسلئے ہم اس جگہ قرآن مجید کی آیات سے بھی ثابت کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے کامل اور دائمی شریعت ہونے کا دعونی فرمایا ہے.آیات ذیل پر تدبر کرنے سے یہ چھوٹی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- (1) قُل لمن اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُوا بمثل هذا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ مِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بعضهم لبعض ظهيراهُ وَلَقَدْ صَرَّقْنَا لِلنَّاسِ في هذا القُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَل فَالَى اكْتُرُ النَّاسِ الاكفُوراه ربنی اسرائیل: ۸۸-۸۹) کہ اے پیغمبر ا تو اعلان کر دے کہ اگر تمام انسان چھوٹے اور بڑے اتفاق کر کے بھی اس قرآن مجید کی مثل لانا چاہیں تو ایک دوسرے کے مدد گار ہونے کے باوجود وہ قرآن مجید کی مثل نہیں لا سکتے.یقینا ہم نے اس قرآن میں تمام عمدہ تعلیما اور قطعی دلائل بیان کر دیئے ہیں مگر اکثر لوگ از راه ناشکری انکار کر رہے ہیں : اس آیت میں قرآن پاک کو بے مثل قرار دیا گیا.اسے تمام عمدہ تعلیمات پر مشتمل ٹھہرایا گیا اور اس کے بے نظیر دلائل و بیانات کی وجہ سے اسے بے مثل قرار دیا گیا ہے لفظ مشل کے معنے نعت کے رو سے عمدہ تعلیم اچھی صفت اور زیر دست دلیل کے ہوتے ہیں.چہ نکہ جملہ ولقادر صرفنا للنَّاسِ في هذا القرآن من كل مثل قرآن مجيد کی بے نظیری کے اثبات میں چلینج کے بعد ذکر ہوا ہے اسلئے اس جگہ من كل مثل کے یہی سنتے ہیں کہ چونکہ قرآن مجید ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم پر مشتمل ہے اس لئے سب لوگ مل کر بھی قرآن کی مثل بنانے سے عاجز ہیں.آج تک دنیا کے فرزند قرآن مجید کی مثل بنانے سے عاجز ہیں.جو اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ قرآن مجید اپنی تعلیمات و ہدایات میں کامل ہے، چونکہ یہ تسلیخ ساری نسل انسانی کو ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے کسی مخصوص زمانے کے لئے نہیں ہے اس لئے اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قرآن مجید بطور ایک کامل اور بے نظیر شریعت کے دائی ہے.(۲) آفريقولونَ اخْتَرَهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرٍ سُورٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيْتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ من دُونِ اللهِ إِن كُتُم صَدِقِينَ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ الله وان لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنتُم مسْلِمُونَ.(نبود : ۱۳:۱۳) کیا یہ کا فراس قرآن کریم کو آنحضرت کا اقراء قرار دیتے ہیں ؟ قران سے کہدے کہ تم قرآن کی مانند خود ساختہ سورتیں

Page 79

۱۵۵ ۱۵۴ بنا کر دکھ او خواہ اس کے لئے اپنے سارے معبودان باطلہ سے بھی دعائیں کر لو اور ان سے مدد حاصل کر لو اگر تم سچے جو فرایا کہ اگر یہ منکرین اس چیلنج کو منظور نہ کرسکیں تویقین جانو کہ قرآن کریم کا نزول عظیم الہی کے مطابق ہے اور وہ خدا واحمد لا شریک ہے تم کو مسلمان ہونا چاہیئے " اس آیت میں بھی قرآن کریم کی بے نظیری کے چینی کو ہرا کر قرآن کریم کو علم الی مشتمل قرار دیا گیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق کامل شریعت ہے.چونکہ قرآن مجید ہمیشہ کے لئے بے نظیر و بے مثل کتاب ہے اسی لئے اللہ والے نے آخر آیت میں فصل انتم مسلمون فرمایا یعنی اب سب کا فرض ہے ک سلام کو قبول کر کے سلمان بن جائیں.پس قرآن مجید کا بے مثل اور کامل کتاب ہونا جو تمام ضروریات انسانی پر تعلم الہی کے مطابق مشتمل ہے ظاہر دیا ہر ہے.ولقد اتهنا بني إسرائيل الكتب والحكم والنبوة ورزقتهم مِنَ الطَّبَاتِ وَفَضَّلَتُهُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ داتهم بنتِ مِنَ الْأَمْرِ فَمَا اخْتَلَفرا إِلَّا مِنْ بعْدِ مَا جَاء هُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ إِنَّ رَبَّكَ يقضى بينهم يَوْمَ الْقِيمَة فِيهَا كَانُوا فِيهِ خَتَلِفُونَ.تم جنت على شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ نَا تَبِعَهَا وَلَا تليم أهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ، إِنَّهُمْ لَن يَفْتُوا عَنْكَ مِنَ اللهِ شَيْئًا وَإِنَّ الظَّلِمِينَ بَعْضُهُم اولیاء بعض 7 وَ اللهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ هَذَا بَصَارُ النَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَذ مريوقِنُونَ.ر الجائیه : ۱۲-۲۰۰) ترجمہ :.یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور انہیں طیبات بخشے اور انہیں لوگوں پر فضیلت دی ہم نے انکو بنات شریعیت دیئے.مگر علم آنے کے باوجود باہمی عزادہ کے باعث انہوں نے اختلاف کیا.تیرا ر ہے ان کے تمام اختلافات کا قیامت کے دن فیصلہ کرے گا.بعد ازاں ہم نے تجھ کو اسے عمیر العظیم الشان شریعیت پر قائم کیا ہے.پس تو اس قرآنی شریعیت کی پڑی کرتارہ اور بے علم لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کر.وہ لوگ اللہ کے مقابلہ میں تجھے کچھ فائدہ نہ دے سکیں گے.یہ ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں اللہ تعالیٰ متقیوں کا دوست ومددگار ہے.یہ تعلیمات سب لوگوں کے لئے ساران بصیرت ہیں، اور اہل یقین کے لئے ہدایت و رحمت ہیں " اس آیت کریمیہ ہیں اللہ تعالیٰ نے سلسلہ اسرائیلیہ کے بعد قرآنی شریعیت کے قائم کرنے کا ذکر فرمایا ہے.پھرنا کید فرمائی ہے کہ مومن کا فرق ہے.کہ ہمیشہ اس کامل شریعیت پر عمل کرتا ہے ، شریعة من الامر میں تفکر تنظیم شان کے لئے ہے.پھر فرمایا.کہ کچھ ظالم لوگ دوسروں کو قرآنی شریعیت سے

Page 80

106 ود برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ارشاد خداوندی کے مطابق مومنوں کا فرض ہے کہ ان جاہل اور بے علم لوگوں کے ہوا ء نفس کی پیروی نہ کریں.اور پاستور قرآن مجید سے بغیر کت ، رحمت اور ہدایت حاصل کرتے رہیں.(3) وَيَوْمَيعَ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يُوَيْلَتَى لَيْتَنِي لم اتَّخِذ فلانا خَلِيلًا لَقَدْ أَضَلَّنِي عَن الذكر بعدَ إِذْ حَيَاءَ فِي وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِلْإِنْسَانِ حد ولاه وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذا القرآن مهجورًا، وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِ نَبِي عَدُوا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ، وَكَفَى بِرَبِّكَ ما ديا وَنَصِيرًا وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةٌ وَاحِدَةً كَذلِك لامت به توادَكَ وَرَثَلْنَهُ تَرْتِيلًا، وَلَا يا تونك بمثلِ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَاحْسَنَ تفسيراء (الفرقان: ۲۸-۳۲) تو جمہ :.اس دن روزہ قیامت کو یاد کرو جب ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے چلائے گا.کہ کاش میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وکم کے ساتھ ہی مر او استقیم پر گا مری رہتا.افسوس کاش که یکی خلان درگیری این کو اپنا دوست نہ بناتا.اس نے تو مج الذکر قرآن کریم سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ مجھ تک پہنچ چکا تھا.شیطان انسان کو بھنور میں چھوڑ دینے والا ہے.اس وقت پیغمبر علیہ السلام عرض کرنیگے کہ اسے خدا ! میری اس قوم نے اس قرآن کو مجبور و متروک کر دیا تھا.اسی طرح ہم نے مجرموں میں سے ہرنی کے دشمن کھڑے کئے ہیں اور تیرا رب ہادی اور نصیر ہونے کے لحاظ سے بہت کافی ہے.کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس پیغمبر پر اکٹھا کیوں نازل نہیں ہوا.ہر روز اس میں سے نئے نئے معارف کیوں نکالے جاتے ہیں؟ فرمایا.یہ اس لئے ہوا ہے.تاہم تیرے دل کو مضبوطی مطلو کریں اور ہم نے اس کتاب کو بڑی ترتیب سے نازل کیا ہے چنانچھ جب کبھی بھی لوگ کوئی عہدہ تعلیم پشیں کریں گے پھر اس سے بہتر قرآن مجید سے پیش کر دیں گے.ہر حق اور قرآن کی تفسیر ہوگی.اس آیت میں ان لوگوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے جومحمدی راستہ سے برگشتہ ہو رہے ہیں.اور دوسروں کو گمراہ کر رہے ہیں.پھر بتلایا ہے کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم با نگاه ایزدی میں شکایت کریں گے کہ کچھ لوگوں نے قرآن مجیر کہ مرد کی ہجور یا منسوخ قرار دیا تھا.فرمایا کہ یہ لوگ در حقیقت انبیاء سابقین کے ان دشمنوں کی ڈگر پر چل رہے ہیں جو اُن لوگوں نے پہلے اختیار کی تھی.اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی شریعیت دائمی ہے اسے مجبور قرار دینے والے ظالم اور اعداد حق ہیں.

Page 81

109 ۱۵۸ (ه) اليوم المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا المانك ) که آج یعنی قرآنی شریعیت کے نزول کے ساتھ میں نے تم تمام انسانوں کے لئے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت کو تم پر مکمل کر دیا ہے.اور میں نے تمہارے لئے دین السلام کو بطور دائمی دین انتخاب کر لیا ہے.یہ آیت واضح طور پر سہلا رہی ہے کہ پہلی کتابوں کے نزول کے وقت دین اپنی ساری جزئیات کے لحاظ سے مکمل نہ ہوتا تھا.خود تورات و انجیل کے بیانات اس پر شاہد ہیں.اب قرآنی شریعیت کے نزول کے وقت دین کی تکمیل کی گئی اور اب ابدالآباد تک نسل انسانی کے لئے دین اسلام کو منتخب کیا گیا ہے.اسی کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَدَتَ تُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ.(آل عمران : ۸۵) کہ اب جو شخص بھی الاسلام کے علاوہ کسی مذہب کو بطور دین اختیار کرے گا.تو اس کا یہ عمل مقبول نہ ہو گا.اُسے آخرت میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہونا پڑے گا یہ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران آیت 19 یہی اس کی وجہ یہ قرار دی ہے.انَ الدِّينَ عِندَ الله الاسلام کہ اب خدا کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے.ظاہر ہے کہ اس صورت میں دوسرے ادیان کو اختیار کرنے والا مقبول بارگاہ ایزدی نہیں ہو سکتا.ان آیات سے بھی ظاہر ہے کہ اب دین اسلام ہی ہمیشہ کا دین ہے.اسے اور اس کی شریعت کو دوام حاصل ہے.اس شریعت قرآنی دائمی شریعت ہے.(4) أَفَضَرَ اللَّهِ ابْتَنِي حَكَمَا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ اليم الكتب مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الكتب يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزِّلُ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُهْتَرِينَ، وَتَمَّتْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الانعام: ۱۱۳ (۱۱۵) ترجمہ : کیا اللہ کے سوائیں کسی اور کو حکم مان لوں حالانکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف یہ کتاب تمام تفصیلات پر شمل بنا کر نازل کی ہے جن کو ہم نے اس کتاب کا فہم عطا کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے اٹل قانون کے ساتھ اُتری ہے تو شک کرنے والوں میں سے مت ہیں.اس کتاب پر صدق نول کے لحاظ سے تیرے رب کی شریعت مکمل ہو گئی اس کے کلمات کو کوئی تبدیاں کرنے والا نہیں.وہ سنتے اور جاننے والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو انسانی ضروریات کے لئے مفصل کتاب قرار دیا ہے.اور اسے منزل بالحق کی کہ اٹل ٹھہرایا ہے.

Page 82

141 ۱۶۰ پھر اسے ہر پہلو سے کامل قرار دیا ہے اور اس میں تبدیل و ترمیم کی تردید فرما دی ہے ہیں ظاہر ہے کہ اس آیت کے رو سے بھی قرآن مجید ایک دائمی شریعت ثابت ہوتا ہے.(٢) إِنْ هُوَ إِلا ذكر لِلْعَلَمِينَ، وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاءُ بعْدَ حِينٍ (ص: ۸۷-۸۸) یہ قرآن مجید مال سے جھانوں کے لئے اور تمام زبانوں کے لئے نصیحت نامہ ہے اور تم اس کی اس عظیم الشان خبر کو عنقریب جان لو گے ہی.مکہ کی زندگی میں کفار یہ بھی مانتے کے لئے تیار نہ تھے کہ قرآن مجید نگہ دالوں میں بھی مقبول ہو گا.مگراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن ساری دنیا اور ساری قوموں کے لئے اور رہتی دنیا تک ذکر ثابت ہوگا.فرمایا.تم ابھی اس صداقت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہ ہو گئے مگر جب ہر زمانہ میں توتی أكلها كل حين بإذن ربھا کے مطابق قرآن مجید کے پھل دیکھو گے تو تمہیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ واقعی قرآن کریم ذکر للعلمین ہے صدق الله العظيم ترجمہ اہم نے ہی اس الذکر سینی قرآن مجید کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں یہ اس آیت میں قرآن کریم کو الذکر یعنی انسانوں کے لئے موجب عورات و شرف اور نصیحت نامه قرار دیگر اللہ تعالے نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے.ظاہر ہے کہ اگر قرآن مجید دائمی شریعیت نہ ہوتا تو اللہ تعالے إنا له لحفظون نہ فرمانا.یہ جملہ اسمیہ دوام اور ثبات پر واضح طور پر دال ہے.عملاً بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو واقعات زمانہ مقبلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی غیر معمولی حفاظت فرمائی ہے.دنیا میں کوئی اور الہامی کتاب نہیں ہے اس دارج محفوظ رکھا گیا ہو.جس طرح قرآن مجید کی حفاظت کی گئی ہے.قرآن پاک دوست و دشمن کی شہادت کے مطابق ہر قسم کی تبدیلی اور تعریف سے محفوظ ہے اور یہ اتنی واضح بات ہے کہ سرولیم میور کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا."There is otherwist every security internal and external that we possoss that text which Mhhammad Himsalf gave forth and used." (Life of Mohammad) کہ ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی شہادت سے ثابت ہے کہ جو قرآن مجید ہمارے ہاتھوں میں ہے یہ بعینہ وہی قرآن کریم ہے جو آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور جسے آپ استعمال فرماتے تھے:

Page 83

147 ۱۶۲ اب غور کرنے والے دل غور کریں کہ یہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی غیر معمولی حفاظت کی ہے.اس نے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں اس کتاب کو محفوظ کر دیا.اور اس کے معانی کی حفاظت کے لئے اس نے امت محمدیہ میں مجددین کا مستقبل مسلسلہ جاری کر دیا.کیا خدا تعالٰی کی یہ قولی اور فعلی شہادت اس بات کو کھلے طور پر ثابت نہیں کر رہی کہ فی الواقع قرآن کریم مکمل اور دائمی شریعت ہے اسی لئے فرمایا گیا.انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ المحفظون اور اسی لئے اس کی غیر معمولی حفاظت کی گئی.(9) ما كان حديثا يُفتَرَى وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بين يديهِ وَنَفَصِيلُ كُلَّ شَيْ ءٍ وَهُدًى وَ رحمة لقوم يؤْمِنُونَ (یوسف: 111) ترجمہ : یہ قرآن مجید کوئی خود ساختہ کتاب نہیں بلکہ یہ پل تمام کتابوں کے مصدقہ ہے اور اس میں ہر قسم کی تفصیل موجود ہے.اس میں اہل ایمان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے.اس آیت میں قرآن مجید کو جامع، کامل اور انسانوں کی سب ضرورتوں کو پورا کرنے والی شریعت قرار دیا گیا ہے.جو اس کے دائمی شریعت ہونے پر والے شہادت ہے.ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس جگہ اس آیت کی تفسیریں بھائی مبلغ ابو الفضل صاحب کا اعتراف بھی درج کر دیں.تا اگر بھائی صاحبان ہماری بات نہ پائیں تو کم از کم اپنے مبلغ کی تفسیر کو ہی مائیں.0 ز سعدی شنو گر زمین نشنوی! جناب ابوالفضل صاحب لکھتے ہیں:.وقد نزل في وصف القرأن الشريعت كما ذكرناه سابقاً ان فيه تبيان كل شي پد قال جل شانه اما فرطنا في الكتبِ مِنْ شَيْءٍ ) وقال جل وعلا في سورة يوسف ما كانَ حَدِينا يُفْتَرى وَلكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَنْمِيل كُلَّ شَيْ ءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ تُؤْمِنُونَ) وهذه الأيات مريحة في ان الله تعالى ما ترك شيئا تعلق بالديانة الالهية والشريعة النبوية اصول و فروعا وحجّةً وبرهانا ومصدر ومالا الاوفصله دبينه واظهره وأعلنه في هذا السفر المجيد والكتاب العزيز الحميد حتى قيل في وصفه انه لا تزيغ به الاهواء ولا يشبع منه العلماء ومن تركه قصمه الله ومن ابتغى المهدى في غيره أضله الله : والدرر البهيه نت ترجمہ قرآن کریم کی تعریف میں میں کہ ہم سے بیان کرچکے ہیں تعلیان

Page 84

۱۶۵ ۱۲۴ كل شي پر نازل ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما فرطنا في الكتب من شیء کہ ہم نے اس قرآن میں ہر چیز بیان کردی ہے.پھر اللہ تعالٰی نے سورۂ یوسف میں ما كان حديثاً يفترى.....الخ فرمایا.ان آیات سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ دیانت اللہ اور شریعت نبویہ کے تمام اصول، تمام فروع، ہر قسم کے محبت و بربان، ہر چیز کے مقصد را در انجام کو قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے پوری تفصیل سے بیان کر دیا ہے اور اس کا کھلے بندوں اس قرآن مجید اور کتاب عزیز و حمید میں اعلان کر دیا ہے.یہاں تک کہ قرآن مجید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اہوا ء نفس اس میں کبھی پیدا نہیں کر سکتی اور علماء اس سے کبھی میر نہیں ہوتے.جو شخص اس قرآن کو چھوڑتا ہے خدا اُسے ہلاک کرے گا اور جو قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہدایت طلب کرتا ہے خدا اسے گمراہ ٹھر آئیگا یہ حاضرین کرام ! خدا را فرمائیے کہ ایسی پاک کتاب کو جس کے متعلق بہائی مبلغ کے یہ عقائد نہیں اگر دائمی شریعت نہ مانا جائے تو اور کیسے مانا جائیگا کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی اتمام حجت ہو سکتی ہے ؟ (11) وَانزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبُ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا يمابين يَدَيْهِ مِنَ الكِتُبِ وَمُهيمنا عَلَيْهِ - رمانده ۳۰۲ ترجمہ :.ہم نے قائم رہنے والی تعلیم پرمشتمل کتاب تجھے پر نازل کی ہے.اس حال میں کہ وہ کتاب کتب سابقہ کی مصدق ہے اور ان پر نگران ہے.این آیت میں اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کو باقی کتابوں کے لئے مھیمن قرار دیا ہے.جیمین اللہ تعالٰی کی بھی صفت ہے.جس کے معنے نگران اور محافظ کے ہیں.قرآن کے سوا اور کسی کتاب کا نام مہین نہیں رکھا گیا.جب قرآن مجید باقی جملہ کتابوں کا مہین قرار پایا.تو اس کے محفوظ ور دائمی شریعت ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے ؟ ا وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانَا لِكُلِّ شَى وَهُدًى وَرَحْمَةٌ وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ.(النحل : ٨٩ ترجمہ : ہم نے تجھ پر دی شریعت پر ضروری حکم کو بیان کرنے کے لئے اور ہدایت و رحمت نیز مسلمانوں کے لئے بشارت بنا کر نازل کی ہے.جب قرآن کریم تمام انسانی ضروریات کو بیان کو نیوالا ہے.تو وہ جامع قانون اور مکمل شریعت قرار پائے گا.اور یہی اس کے دائمی تربیت چونے پر ایک واضح دلیل ہے کہ اس نے کوئی قابل ذکر چیز ترک نہیں کی.اب اگر نئی شریعت آئے گی تو تبا یا جائے کہ وہ کیا بیان کرے گی ؟

Page 85

142 144 (۱۲) ولقد صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وكان الإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَعَلاه الكهف : ۵۴) ترجمہ :.ہم نے اس قرآن میں تمام لوگوں کے لئے ہرضروری تعلیم بوضاحت بیان کر دی ہے.لیکن بعض انسان بہت جھگڑتے ہیں.یہ آیت بتا رہی ہے کہ قرآن کریم کی جامعیت اور اس کی تعلیم پر محض کم فہم انسان ہی جدل اختیار کریں گے.ورنہ خدا ترس لوگ تو اس کی بہترین تعلیم کی وجہ سے اس پر فدا ہوں گے اور کہیں گے ہے جمال و حسن قرآن نور جان ہر مسلمان ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے (۱۳) وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُل مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ تُوْانَا عربيا غَيْرَ ذِي عِوَمٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ.(الزمر: ۲۴-۲۵) ترجمہ :.ہم نے اس قرآن میں ہر قسم کی عمدہ تعلیم اور سب دلائل بیان کر دیئے ہیں تا لوگ نصیحت حاصل کریں.ہم نے ر این قرآن کو فصیح زبان والا اور ایسا بنایا ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی کبھی نہیں ہے تا کہ لوگ تقوی حاصل کریں.اس آیت کر عید میں چلینج کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی کبھی اور پڑھا پن نہیں.وہ کامل تعلیم پوشتمل اور ہر قسم کی لفظی و معنوی خوبی پر حاوی ہے.اس لئے تقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ قرآن مجید کو کامل اور دائی شریعت تسلیم کیا جائے.(۱۳) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِكرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَ إِنَّهُ لَكِتَابَ عَزِيزُهُ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حمیده وفصلت :۴۱-۲۲) ترجمہ.جن لوگوں نے اس ذکر کا انکار کر دیا، جب وہ انکے پاس آیا د و سخت گراہی میں ہیں، یقینا قرآن وہ غالب کتاب ہے کہ باطل اس میں نہ آگے سے اور نپیچھے سے راہ پاسکتا ہے.وہ حکیم وحید (خدا) کا نازل کردہ کلام ہے.عربی زبان میں عزیز غالب کو کہتے ہیں، جسے کوئی مغلوب نہ کر سکے.العزة : حالة مانعة للانسان من ان يغلب (المفردات) پس قرآن کریم کو جب عزیز کیا گیا اور دوسری کسی کتاب کے لئے یہ لفظ نہیں آیا.تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کسی باطل کے سامنے مغلوب نہیں ہو سکتا.اور نہ ہی اسے منسوخ ٹھرایا جا سکتا ہے.(ها) إِنَّهُ لَقَولُ فَضْلُ : وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ.الطارق : ۱۳ - ۱۴)

Page 86

١٧٩ ترجمہ :.یہ نہ منسوخ ہونے والا کلام ہے اس میں کسی قسم کی غیر سنجیدگی یا ہے اصولی نہیں.عربی لغت میں لکھا ہے : آمره با موفصل: اى لأربعة فيه ولا مرد کو جو قطعی اور اٹل بات ہوتی ہے اُسے فصل کہتے ہیں.قرآن مجید کو فصل کہنے کے معنے یہ ہیں کہ یہ قائم رہنے والی کتاب ہے.(14) إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وير المُؤْمِنِينَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُونَ الطَّلِعَتِ ان لَهُم اجرا كبيرا دبنی اسرائیل : 9) ترجمہ : یقینا یہ قرآن ان طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور و تعلیمات پیش کرتا ہے، جو ہر زمانہ میں صحیح اور قائم رہنے والی ہیں.اور وہ نیک اعمال بجالانے والوں کو بشارت دیتا ہے کہ ان کو بڑا اجر ملے گا " اس آیت میں لفظ اقوم، قائید سے اہم تفصیل ہے جسکے معنے دائمی اور ثابت رہنے والے کے ہوتے ہیں.قام على الامر : دام وثبت را قرب الموارد) قام عندهم الحق : ثبت ولم يبرح ومنه قولهم اقامر بالمكان هو بمعنى الثبات (لسان العرب) زمحشری کہتے ہیں.قام علی الامر دا مرد ثبت مالفلان قيمة ، ثبات ود و امر على الاصرا اساس البلاغۃ، پس قرآن مجید کی تعلیمات کو اقوم کنے سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے.(16) وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتب رَبِّكَ لَامُبَدِّلَ لِكَلِمَتِهِ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَعَدَّاه الكف : ٢٤) رجمہ تو اپنے رب کی اس کتاب کی تلاوت کیا کر جو تجھے پر وجی ہوتی ہے.اس کے کلمات و احکام کو کوئی تبدیل کر نیوان نہیں اور تجھے اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہ ملے گی یہ اللہ تعالے نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی عادت کریں، اس پر عمل پیرا ہوں اور یہ یقین رکھیں کہ یہ کتاب ناقابل تنسیخ ہے.یہ دائمی شریعت ہے اور آخر کار نسل انسانی کو دنیا کے امن و امان اور روحانیت کی تلاش کے لئے اسی کتاب کی آغوش میں پناہ لینی پڑے گی.اور خدائے قرآن ہی ان کا عمجا و ماوئی ہو گا.(۱۸) جَعَلَ اللهُ الكَعْبَةَ البَيْتَ الحَرَامَ قِيَامًا لنَّاسِ وَالشَّهْرَ الحَرَامَ وَالْهَدَى وَالْقَلَائِد لك لتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمُهُ (المائدة : 96) تر جمہ.اللہ تعالے نے کعبہ کو لوگوں کے لئے قوت والا گھر اور ہمیشہ قائم رہنے والا قبلہ بنایا ہے.ایسا ہی اس نے قوت والے

Page 87

16 16.مہینے، قربانیاں اور ان کے گلے کے پار کمیشہ کے لئے جاری کر دیئے ہیں تا تم کو معلوم ہوتا ہے کہ الہ تعالیٰ زمین و آسمان کی سب باتوں کو خوب جانتا ہے اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں.امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں : وقوله جَعَلَ الله الكعبة البيت الحرام قياما للناس : اى قواماً لهم يقوم به معاشهم د معاد هم قال الاصم قائما لا ينسخ المفردات راغب) پس جب کعبتہ اللہ کا قبلہ ہونا نا قابل شیخ ہے تو قرآن مجید کا غیر منسوخ اور دائمی شریعت ہونا بھی اظہر من الشمس ہے.روا، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا کتبِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ منها اربعة حرمه ذلِكَ الدِّينُ القَيمة (توبہ : ۳۶) ترجمہ : اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت میں تینوں کا شما بارہ مہینے مقرر ہے، جب سے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرکت والے مہینے ہیں.یہ ہمیشہ قائم رہنے والا قانون ہے یہ لسان العرب میں لکھا ہے.القيم: المستقيم الذي لا زيغ فيه ولا ميل عن الحق.کہ قسیم کے معنے درست اور ہر کبھی سے پاک کے ہیں.کلیات الی البقاء میں ہے وقتما ابلغ من القائم والمستقيم باعتبار الزنة س بارہ مہینوں کے متعلق قرانی قانونی دائمی ہے اور ہرقسم کی کھی اور ٹیٹر نے ان سے پاک ہے.(٣٠) رَسُولُ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو اصْحَفًا مُطَهَّرَةٌ فِيهَا كتب قيمة البينه: ۲-۳) ترجمہ :.یہ اس کا رسول ہے جو پاکیزہ صحیفے (قرآن مجید) پڑھ کر سنا رہا ہے.ان صحیفوں میں تمام وہ کتابیں اور احکام موجود ہیں جو ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں " امام راغب اپنی لغت میں لکھتے ہیں : يَتْلُوا صحفا مُطَهَّرَةً فِيهَا كتب قيمة نقد اشار بقوله صحفا مطهرة إلى القرآن ويقوله كتب قيمة إلى مانيه من معانى كتب الله فان القرآن مجمع ثمرة كتب الله تعالى المتقدمة (المفردات) گویا قرآن مجید کتب سابقہ کی تمام صداقتوں پر مشتمل ہے.جو باتی رہنے والی ہیں.قرآن مجید کی یہ شان اس کے دائمی شریعت ہونے پر دلیل قاطع ہے.(۲) الف : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الكتب وَلَمْ يَجْعَل لَهُ عِوَجًا، فيما ليدِ رَبَا مَا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَ يبشر الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ

Page 88

KP ۱۷۲ الصَّلاتِ أَن لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا: ب: فَاقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيمِ مِن قبْلِ أَن يَأْتِي يَوْمَ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ الله يَوْمَئِن تَقَدَّعُونَ (الروم:۳۳) ترجمہ: (الف) سب تعریف اللہ کا حق ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب (قرآن مبید) نازل کی ہے.اور اس کتاب ہیں کہ وہ قسم کی کچی نہیں رہنے دی.اس کتاب کو ہمیشہ رہنے والی اور کبھی منسوخ نہ ہونے والی کتاب بنایا.تادہ اس شدید جنگ اور عذاب سے ڈرائے جو اللہ کی طرف سے آنیوالا ہے اور ان مومنوں کو بشارت دے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہترین اجر مقدر ہے.(ب) تو اپنی ساری توجہ اس زہ منسوخ ہونے والے دین کے لئے صرف کرے.اس سے پیشتر کہ اللہ کی طرف سے وہ عذاب کا دن آجائے.جو رو نہ کیا جاسکے گا.اور لوگ اس روز پراگندہ ہوں گے.معزز سامعین ! قرآن کریم کی ان میں سے زیادہ آیات سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ قرآن مجید کا دعوی ہے کہ وہ کامل کتاب ہے، وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کتاب ہے، اس میں تمام انسانی ضروریات کا علاج بیان کر دیا گیا ہے.وہ رہتی دنیا تک انسانوں کے روحانی، تمدنی، اخلاقی اور اقتصادی مطالبات کو پورا کرنے والا ہے.پس ثابت ہے کہ قرآن کریم ایک دائمی شریعیت ہے ، اب قرآن کریم کے دائمی شریعت ہونے پر منکر اسلام تو اعتراض کر سکتا ہے.کیونکہ وہ قرآن کریم کو نہیں مانتا.مگر تعجب ہے کہ بھائی قرآن پاک کو کلام خداوندی انے کے بعد اس کے دعوئی پر اعتراض کر رہے ہیں.معزز حضرات! آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ قرآن مجید کے بارے میں کتب سابقہ تورات و انجیل میں جو پیش گوئیاں ہیں.ان میں بھی اسے دائمی شریعیت قرار دیا گیا ہے پھر آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ قرآن مجید کی آیات مریکہ میں اس کے کامل محفوظ ، جامع اور دائمی شریعت ہونے کا واضح اور کھلے طور پر اعلان کیا گیا ہے.قرآن مجید چونکہ ساری دنیا کے لئے ہے اور اس کارخانہ عالم کے آخری در تک کے لئے شریعت ہے.جس طرح اللہ تعالے کی زمین اور اس کے آسمانی اجرام کے ذریعہ ساری فسیل انتصافی کی خوراک کیا ہو رہی ہے.انسانی نسل کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذرائع پیداوار میں بھی اضافہ اور ترقی ہو رہی ہے.نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں، اسی طرح اللہ تعالے کی کامل کتاب میں سے بھی اس کے فضل.

Page 89

140 ۱۷۴ زمانہ کی ضروریات کے مطابق احکام و ہدایات نکل رہے ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ذاتِ باری نے اس کتاب کی آیات کو محکمات و متشابہات بنایا ہے اور ان میں ایک روحانی لچک رکھی ہے مگر اہل زیغ متشابہ آیات سے غلط استدلال اور فرضی تاویلات کر کے خود بھی راہ حق سے بھٹک جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.بہائی صاحبان کا عام طور پر یہی شیوہ ہے کہ وہ نصوص صریحہ کو نظر انداز کر کے بعض پیش گوئیوں کی حسب مرضی خود تاویل کر لیتے ہیں.اور پھر کتے ہیں کہ دیکھو ان آیات سے ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم مخنق الزمان کتاب ہے.ان کے اس غلط طریق کا ایک مداوا تو یہ ہے کہ ان کی كتاب العقد الفريد جاء فيه أن سيدنا الرسول صلی اللہ علیہ وسلم قال في حق القرآن انّه لا تعني عجائبه ا ر مجموعہ رسائل مؤلفہ ابو الفضائل منت ترجمہ : ہم نے العقد الفرید کے حوالہ سے اپنی کتاب : الدور را یبقیہ ہیں یہ حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ یکم نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا کہ اسکے بجائی کبھی تم نہ ہوں گے.گویا بہائیوں کو مسلم ہے کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کبھی ختم نہ ہونگے.کیا اس سے یہ ظاہر نہیں کہ یہ امی شرعیت ہے؟ پیش کر دہ آیات کی صحیح تفسیر بیان کردی جائے لیے مگر تجربہ شاہد دوم سید علی محمد باب لکھتے ہیں :- ہے کہ یہ طریق ان کے عناد کی وجہ سے زیادہ کا رہ گر نہیں ہوتا.خدا وند تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَامَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْعُ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَةَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِحْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ اسلئے اس طریق کے علاوہ ہم برائے اتمام محبت بہائی صاحبان پر ان کے مسلمات میں سے چند حوالہ جات اور اقتباسات پیش کرتے ہیں.اول - ابو الفضل صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن مجید کے متعلق تسلیم کی ہے کہ لا تعنی عجائبہ وہ لکھتے ہیں:.ونقلنا في كتاب الدرر البهية عبارة عن ے اس کے لئے رسالہ ہذا کا ضمیمہ ملاحظہ فرمایا جائے: در زمان نزول قرآن افتخاره کل بفصاحت کلام بود انیں بہت خدا وند قرآن را با علی علو فصاحت نازل فرمود و او را معجزه رسول الله قرار داد و در قرآن خداوند اثبات حقیقت رسول الله و دین اسلام نظر موده بالا بآیات که اعظم بینات است " رالبیان قلمی صلا) ترجمہ :- نزول قرآن کے زمانہ میں سب لوگوں کو اپنی فصاحت کلام پر فخر تھا.اسی وجہ سے اللہ تعالے نے قرآن مجید کو فصاحت کے انتہائی معراج پر نازل کیا اور

Page 90

166.124 اس عبارت میں عقل انسانی کو قرآن مجید کے بے بایاں خزانوں تک پہنچنے سے قاصر قرار دیا گیا ہے جس طرح مکر ہی سیمرغ کا شکار نہیں کر سکتی اسی طرح عام انسانی عقل قرآن مجید پرچی نہیں چوکتی قرآن کریم کی اس بے کرانی اور ہے پاپانی کے باوجود اگر معمولی بھائی پر اس پر حرف گیر کی گریں تو وہ اپنے ہی حبیب کا اظہا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت اور اسلام کی حقانیت کو ایسی آیات سے ثابت فرمایا ہے جو اعظم ترین بنیات ہیں " جب قرآن مجید اعظم بینات پر مشتمل ہے تو اس کے دائمی کتاب ہوتے ہیں کیا شبہ ہے.جناب باب کے اس بیان سے ان کم علم لوگوں کی بھی تردید ہو جاتی ہے.جو قرآن کریم میں غلطیاں نکالنے کے تدخی بنتے ہیں.جیسا کہ بعض متنصب پادریوں کی کاسٹ میں چھا رھر جناب بہاء اللہ سکھتے ہیں:.میں بعض بہائی بھی یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں.کہ قرآن مجید میں زبان کی غلطیاں ہیں.سومر- جناب بہاء اللہ کہتے ہیں: مثل اینکہ بعضے تمسک بعقل بسته و آنچه بعقل نیاید انکار نمانند و حالی آنکہ ہرگز فقولی ضعیفہ ہمیں مراتب مذکور را اور اک نکند مگر عقل کی زبانی ہے عقل جوئی کے تواند گشت بر قرآن محیط عنکبوتے کے تواند کر دسیمر نے شکار واہیں عوالم کل و د وادی حیرت دست دید و مشاهده گردد د مالک در بهر آن زیادتی طلب نماید و کسل نشود این است که سید اولین و آخرین در مراتب فکرت و اظهار حیرت و در روب زد تي فيك تحيراً، فرموده " ریفت دادی م۳۲-۲۳ - تصنیف بهاء الله کرنے والے ہوں گے.اگر اعتراض و اعراض اہل فرقان نبوده بر اینه شریعت فرقان در این ظهور نسخ نشده و اقتدار نام تو جمہ : اگر اہل السلام باب اور بہار کے ماننے تے اعتراض نہ کرتے اور ان پر اعترانس نہ کرتے تو اس دور میں قرآنی شریعت ہر گز منسوخ نہ کی جاتی.اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم حقیقتا کامل اور دائی شریعت ہے اس کو منسوخ قرار دینے کی کوئی وجہ نہ تھی.صرف مسلمانوں کے اعتراضات سے چڑ کر باہیوں اور بھائیوں نے اسے منسوخ قرار دینے کا دعوی کر دیا ہے.پنجم (الف) بجناب ہا.اللہ نے آخری عمرمیں ایک خط میں کیا ہے.اگیا اہل توحید در اعصایه اخیره بشریعت ١ گرام بعد از حضرت خاتم روح با راه خداه

Page 91

189 عمل سے نمودند و بدیش تشبت، بنیان حصین امر متضعضع نمی شد و مدائن معمورہ خراب نے گشت بلکه مدن و قرمی بطر از امن و امان مزین و فائزه ر مقالہ سیاح مع اردو ترجمہ مثل (ب) اگر اس آخری زمانہ میں اہل تو جب حضرت خاتم انہیں روح عالم نثار ہو اُن پر) کی وفات کے بعد اُن کی روشن شریعت پر عمل کرتے اور اُن کے دامن شریعت کو مضبوط پکڑے رہتے تو قلعہ دین کی مستحکم بنیاد ہر گز نہ ڈلگاتی اور ہے بسائے شہر کی ویران نہ ہوئے.بلکہ شہر اور گاؤں امن و امان سے مرتن اور کامیاب رہتے یہ رباب الحياة ملا اس میں جناب بہاء اللہ نے قرآن مجید کو شریعیت غیر تسلیم کیا ہے.صرف مسلمانوں کی بے عملی کا شکوہ کیا ہے.جناب بہاء کی طرف سے یہ واضح اعتراف ہے کہ ان کے نزدیک بھی قرآنی شریعت دائمی شریعت ہے.شدم - جناب عبد البہاء کہتے ہیں.از جمله بران حضرت محمد قرآن است.که شخص امتی و حی شده، دیک معجزه از معجزات قرآن اینست که قرآن حکمت بالغه است شریعتی در نهایت اتقان که روح آن عصر بود تاسیس میفرماید و از این گذشته مسائل تاریخیه و مسائل ریاضیه بیان مینماید که مخالف قواعد فلکیه آن زمان بود بعد ثابت شد که منطوق قرآن حق بود.در آن زمان قوامی فلکیه بطلیموس مسلم آفاق بود و کتاب مجمعی اساس قواعد در بیاید بین جمیع فلاسفہ، ولے منطوقات قرآن مخالفت آن قواعد مسلم ریاضیه- لهذا تجمیع اعتراض کردند که این آیات قران دلیل پر عدم اطلاع است اما بعد از هزار سالی تحقیق و تدقیق ریاضییون اخیر واضح و شهود شد که صریح قرآن مطابق واقع و تواعد بطلیموس که نتیجه افکار هزاران ریاستی در فلاسفه بوزنان در زمان و ایران بود باطل مثلاً یک مسئله از مسائل ریا نیه قرآن اییست که تصریح حرکت ارض نمود عدوالے دور قوالی تعلیم ہیں دارین ساکن است دریا مینیون قدیم آفتاب را ترکت شیک قائل، دلے قرآن حرکت بخش را محمودیه بیان فرموده، وکیل اجسام کیه و ارضیه را متحرک دانسته اندا چولی یا قیون اخیر نهایت تحقیق و تدقیق در مسائل فلکیه نمودند ثابت و حتی شد که منطوق صریح قرآن صحیح است و تجمیع فی اسفه ریا ضنون

Page 92

IAI سلف پر خطا رفته بودند - حال باید انصافت داد که هزاران حکماء و فلاسفه در یا میون از اهم متحد نه با وجود تدریس و تدریس در مسائل فلکیه خطا نمایند و شخص آتی از قبائل جاهله بادیۃ العرب که اسم فن ریاضی نشنیده بود، با وجود آنکه در صحراء در وادی غیر ذی زرع نشو و نما نموده بحقیقت مسائل غامضه فلکیہ ہے برد و چنین مشاکل ریاضیه را حل فرماید میں پہنچ شہر نیست که این قضیه خارق العادة ويقوت وحی حاصل گشته برہانے از این شانی تر و کافی ترممکن نیست و این قابل انکار نه یه و خطابات حضرت عبد البهاء جلدا من ٨٦-٢٨٤ اس عبارت میں بتایا گیا ہے کہ قرآنی بیانات اور اصولی ہر حال درست ثابت ہوتے ہیں.بعض امور میں دنیا اور دنیا کے عالموں نے ہزار سال تک قرآن کریم کے بیان فرمودہ اصولوں پر اعتراض کیئے مگر آخر وہی حق ثابت ہوا جسے قرآن مجید نے بیان کیا تھا.پس جب ہزار سال کے بعد بھی بیانات قرآنیہ کی حقانیت ! اور صداقت پر واقعات پر کر رہے ہیں تو کیا اس سے بڑھ کر کسی اور دلیل کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم منسوخ نہیں بلکہ خدا کی زندہ کتاب ہے؟ هفتم بہائی موسع مرزا عبد حسین لکھتے ہیں : در میان سائر مل چنین شهرت دادند که پدر یا داعیه الاستقلال اظهار نظر موده و تشریع شریعت نموده بلکہ یکے از اولیاء و اقطاب بوده و متابعت شرع اسلام نموده با برادر با عباس افندی فنے تازہ پیش گرفته و شرع جدید تاسیس نموده" (الکواکب الدریہ جلد ۲ مناس) ترجمه : فرزندانِ بہاء اللہ محمد علی وغیرہ نے سب انہیں مذاہب کے اندر مشہور کر دیا ہے کہ ہمارے باپ دیما داشتہ نے مستقل مدعی ہونے کا دعوئی نہیں کیا اور نہ ہی اس نے نئی شریعیت بنائی ہے.بلکہ وہ تو اولیاء اور اقطاب میں سے تھا اور ہمیشہ اسلامی شریعت کی پیروی کرتا رہا ہے.ہمارے بھائی عباس افندی نے نیا ڈھونگ رچا دیا ہے اور شریعیت جدیدہ کی بنیا د رکھ دی ہے.ان حالات میں اور جناب بھاء اللہ کے اوپر والے حوالہ جات کی موجودگی میں ان کے بیٹوں کی یہ شہادت ضرور قابل توجہ ہے.کیا یہ ممکن نہیں کہ آخر کار جناب بہاء اللہ کے دل میں ندامت اور تو بہ پیدا ہوئی ہو.اور انہوں نے قرآن مجید کی منسوخی کے دخوشی سے رجوع کر لیا ہو؟ تاہم یہ بہاء اللہ کے بیٹوں اور بہائیوں کا اندرونی معاملہ ہے & تحتسب را درون خانه چه کا به

Page 93

IAM هشتم : جناب عبد البہاء کی وفات ۲۰ نومبر سنہ کو ہوئی ہے وفات سے تین دن پہلے انہوں نے حیفا ، فلسطین کی مسجد میں جا کر جمعہ کی نماز ادا کی ہے.حالانکہ بھائیوں کے ہاں جمعہ کی نماز موجود نہیں ہے بلکہ بہاء اللہ نے نماز با جماعت سے منع کیا ہے لیکن بایں ہمہ اُن کا آخری ایام میں نماز جمعہ کے لئے مسجد میں جانا ظاہر کرتا ہے کہ شاید انہوں نے بھی دل میں رجوع کیا ہو.نماز جمعہ کی ادائیگی معمولی بات نہیں ہے.جس کی دلیل یہ ہے کہ عصر جدید کے اُردو ترجمہ میں تحریف کر کے اسے چھپانے کی کوشش کی گئی ہے.چنانچہ انگریزی، عربی اور اردو حوالے آپ کے سامنے ہیں:.(1) انگریزی الفاظ یہ ہیں :- "On friday, November 25, 1921, he attend- ed the moonday paryer at the Mosque i Haifa." د عصر جدید اور بہاء اللہ انگریزی فلش (۲) عربی ترجمہ میں لکھا ہے:.ففي يوم الجمعة ۲۵ نومبر لانه شهد صلوة الجمعة في مسجد حيفا و عربی مصر جديد ملك (۳) اردو ترجمہ میں لکھا ہے :- ۲۵ نومبر ۹ہ کو جمعہ کے دن دو پر کو آپ مسجد حیفا کو گئے.(مقر جدید اُردو مشک) نماز جمعہ کی ادائیگی کا حکم قرآنی شریعت کا حکم ہے جناب عبد البہار کا مرنے سے پہلے اس حکم پر عمل پیرا ہونا صاحت بتلاتا ہے کہ بہائیوں کے سربراہوں کے دل بھی مانتے ہیں کہ قرآنی شریعیت دائمی اور زندہ شریعیت ہے نجات پانے کے لئے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے.پہچ ہے، رُبمَا يَوَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ بالآخر میں آخری اتمام محبت کے طور پر اہل بہاء کے سامنے قرآن مجید کے دائمی اور غیر مفشوخ شریعت ہونے کے لئے ایک اور معیار پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اہل بہار کو مسلم ہے ویہ يقول المليك الرحمان في الفرقان وهو الذكر المحفوظ والحجة الباقية بين ملأ الأكوان موا الْمَوْتَ إِن كُشتم صدِقِينَ فجعل تمتى الموت برهانا صادقا (مقاله سیاح مشهد ترجمہ : خدائے ملیک درحمان نے قرآن مجید میں جو نسل انسانی کے درمیان ہمیشہ الذكر المحفوظ اور الحجة الباقیہ ہے فرمایا اگر تم بہت ہو توموت کی تمناکر یہ ہیں قرآن کریم نے مقابلہ موت کی تمنا یعنی دعوت مباہلہ کو صفات

Page 94

ino ۱۸۴ کا برہان قرار دیا ہے.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید محفوظ کتاب ہے اور ہمیشہ کے لئے ) جیب تک یہ دنیا اور یہ کون و مکان موجود ہے محبت باقیہ ہے.اس قرآن کریم نے شوال میں شملہ کی بلند چوٹیوں سے اعلان فرمایا تھا کہ جب.میں حضرت مسیح موعود کے بعد تمام دنیا کو چلینج دیتا ہوں اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے انتہا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور کریم سے مقابلہ کر لے.مجھے یکن اہل بہاء کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس معیار کے ذریعہ بھی اس عقیدہ چنجر بہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے نے صداقت کے پرکھنے کے لئے مباہلہ اور موت کی تمنا کا معیار مقرر فرمایا ہے.کا فیصلہ کر لیں کہ آیا قرآن مجید منسوخ ہو گیا ہے یا وہ دائمی شریعت ہے ؟ جماعت احمدیہ اپنے عقیدہ پر پورے یقین اور کامل بصیرت کے ساتھ قائم ہے ہمارے بانی سلسلہ علیہ اسلام نے تحریر فرمایا ہے :- اب کوئی ایسی جی یا ایسا العام منجانب اللہ نہیں ہو گیا.جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ پاکسی ایک حکم کا تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے " (ازالہ او لام فت") اب آسان راہ ہے کہ اگر اہل بہار بچے ہیں اور اگر فی الواقع قرآن کریم منسوخ ہو چکا ہے تو اس کو شیریں پھل نہیں لگ سکتے.قرآن مجید کا دعوى تُؤتي أكلها كل حين باذن ربها وابراہیم دوست نہیں ہو سکتا.اسلئے اہل بہاء کو چاہیے کہ وہ اپنے زخیم اور پیشوا کے ذریعہ اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا یہ گے چل کر فرمایا.ان کو مقابلہ پر آنا چاہیئے جوکسی مذہب یا فرقہ کے قائم مقام ہوں.اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے.میں دعونی سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دعا قبول ہوگی.افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ ہمیں آنے سے ڈرتے ہیں ورنہ حق نہایت روشن طور پر کھل جاتا اگر اس مقابلہ کے لئے مختلف مذاہب کے لوگ نکلیں تو انکو ایسی است نصیب ہوگی کہ پھر مقابلہ کی جرات ہی نہ رہے گی.الفضل ۲۳ اکتوبر شد ناظرین کرام یا اس چیلینج پر قریب ربع صدی گزرچکی ہے مگر کسی مخالفت حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تبصرہ کی اس روحانی مقابلہ کی دعوت اسلام لیڈر کو اس کی جرات نہیں ہوئی کہ دعا کے مقابلہ کے میدان میں کو منظور کریں جسے میں ۱۹۴۰ء سے تعین طور پر جناب شوقی افندی کے کھے ہیں اب یہ خلیج حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ کی اجازت نام شائع کر چکا ہوں.حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرم سے خاص طور پر بہائیوں کے موجودہ زعیم جناب شوقی آفت دی کے نام

Page 95

IAC ۱۸۶ شائع کرتا ہوں.اور یہ کتاب ان کو حیفا بھجوا رہا ہوں کیا وہ اس روحانی انچواں مقالہ مقابلہ کی جرأت کہیں گے؟ اہل بہاء کو چاہیے کہ وہ جناب شوقی استری کو اس کے لئے آمادہ کریں.درسالہ بہائی تحریک پر تبصرہ ۲۵ " قرآنی شریعیت آج میں جناب شوقی آفندی کے نام اس معین خیلیج کی اشاعت (د) کے چودہ برس بعد دوبارہ بہائی صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے مسلمہ معیار کے مطابق قرآن مجید کے عالمگیر اور دائمی شریعیت ہونے کا فیصلہ کرلیں.بہائیوں کی مزعوم شریعت کا موازنہ کیا بھائی صاحبان اس دعوت کو سیدھے طور پر قبول کرینگے ؟ ویڈ بائیک وأخرد عوننا ان الحمد لله رب العلمین البو العطاء الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الكِتب وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَاهِ بَيِّمَا لِيُنْدِ رَبَارًا شديدا من لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًاه ماكِثِينَ نِيهِ ابداه (الكيف: ۱-۳) اگر نامدے در جهان این کلام نہ ماندے بدنی از توحید نام جہاں بود افتاده تاریک و تار : از وشد منتور رخ پر دیار در همین فارسی برادران اسلام علیکم ورحمته لله و برکاته آج رات کے مقالہ کا عنوان قرآنی شریعت اور بھائیوں کی

Page 96

(19 مقالہ ہے اور آخری ہے.مزعومہ شریعت کا موازنہ ہے.یہ مقالہ ہمارے سلسلہ مقالات کا پانچے انھیں عمانیہ کی سرزمین میں ربع صدی سے کم عرصہ کے اندر عظیم الشان اور بے نظیر انت اب کے پیدا ہو جانے کا علم نہیں.یہ ایک تاریخی صداقت حضرات با قرآن مجید ایک تیرہ و تاریک دور میں نازل ہوا.ایک تے ہے ایک مشہود و محسوس ماجرا ہے.یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے وشی اور درندہ صفت قوم کی اصلاح کے لئے اُترا.ہمارے سید جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا.بائیبل میں اسی انقلاب وحانی کی ان الفاظ مولی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کلام خداوندی تدریجا نازل میں خبر دی گئی تھی :- تم اگلی چیزوں کو یاد نہ کرو اور قدیم باتوں کو سوچتے نہ رہو.دیکھو میں ایک نئی چیز کروں گا.اب دو نمود ہوگی.کیا تم اس پر ملاحظہ نہ کرو گے ؟ ہاں میں بیابان میں ایک راہ اور صحرا میں ندیاں بناؤں گا.دشت کے بہائم ، گیدڑ اور شتر مرغ میری تعظیم کریں گے کہ میں بیابان میں پانی اورصحرا میں ندیاں موجود کروں گا.کہ وہ میرے لوگوں کے ، میرے برگزیدوں کے پینے کے لئے ہوئیں.میں نے ان لوگوں کو اپنے لئے بنایا.وہ میری ستائش کریں گے.ریسعیاہ ) یہ عظیم الشان اور بے نظیر تاریخی انقلاب کیا ہے؟ عالی مرحوم ہوا.اس کی برکات اور اس کے انوار نے تاریک دلوں کو منور کرنا شروع کیا.اور اس کی تاثیرات سے عرب کی سرزمین آما جگاؤ وحانیت بننے لگی.یہاں اور وہاں اس مقدس کتاب کی روشنی پھیلنے لگی.قرآن مجید کی روحانی شعاعوں، اور حضرت سید الاولین والآخرين خير البشر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی درد بھری دعاؤں اور پاک تاثیروں کا یہ اثر ہوا کہ عرب کے وحشی انسانیت کی تعلیمات سے آہ استہ ہوتے لگے.وہ جو وحشی تھے انسان ہے.با اخلاق انسان ہے.باخدا انسان ہے.بلکہ باقی دنیا کے لئے خدا نما انسان بنے.وہ رب دن شراب کے نشے میں مخمور رہتے تھے ذکر خدا میں مشغول ہو گئے.وہ جو پتھروں اور درختوں کے پجاری تھے خدائے واحد کے پرستار بن گئے.یہ نے خوب فرمایا ہے ہے قرآن پاک کا ایک لاثانی معجزہ ہے جس کا ہر دوست و دشمن کو اختران ہے.بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کے پیش کردہ عقائد سے اتفاق نہیں، ہمیں اس کی پیش کردہ الہیات داخلاق کا وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی عرب کی زمیں جس نے یکسر ہلا دی M-IA خدا میں قرآن مجید کی قوت قدسیہ ایک آزمودہ حقیقت ہے ادراک نہیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے.کہ انہیں قرآن کریم کے ذریعہ سے تھی ایک کا نجیبہ کی روحانی شعاعیں دنیا کو منور کر چکی ہیں اور آج بھی کر رہی

Page 97

۱۹۱ 19- ہیں.قرآنی علوم و معارف کے اس بحر ذخار کا تجربہ ہو چکا ہے.قرآنی نے لگا نہیں کھا سکتی.اور کسی پہلو سے اُسے قرآن مجید سے کوئی نسبت شریعت کی جامعیت اور پاکیزہ تاثیرات ساری قوموں میں اور صدیوں حاصل نہیں ہے.نہ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت میں، نہ علوم و تک مشاہدہ کی جا چکی ہیں اور آج بھی اسی کی برکات اور اسی کے انجیات سے ایک عالم زندہ ہو رہا ہے.معزز حضرات ایک طرف یہ مقدس کتاب ہے جسے قرآن کتنے ین گوئیوں کے بیان میں، نہ اخلاقی تعلیمات کے ذکر میں یہ اصول جہانبانی د قوانین حکمرانی کے سلسلہ میں، نہ تمدنی و معاشرتی ہدایات تعلیمات کے ذکر میں، اور نہ اقتصادی قواعد و ضوابط کے بیان میں.غرض شریعت کا ہیں جس کے متعلق اسلام کے بدترین دشمنوں کو بھی اعتراف ہے کہ دنیا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس میں بہائیوں کی اقدس کو قرآن مجید میں ساری کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی یہ کتاب ہے.سے کوئی مناسبت حاصل ہو.ہر مسلمان گھرانہ میں اس کی تلاوت ہوتی ہے ہر نمازی ہر مسجد میں اسکی آیات آپ اگر ان سارے پہلوؤں کو نظر انداز بھی فرما دیں تب بھی بھائیوں پڑھتا ہے مسلمانوں کی ہر عدالت اور ہر مجلس میں قرآن مجید کا مطالعہ کیا کی اقدس تو اپنی اشاعت کے لحاظ سے بھی قابل ذکر نہیں ہے کہتے ہیں جاتا ہے.ایک طرف تو یہ عالی شان اور جامع شریعت ہے اور دوسری کہ وہ قریباً اسی برس سے مدون ہے.مگر ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ آج طرف ایران کے ایک شخص نے اپنا وقت گزارنے کے لئے بطور مشغلہ تک اسے اس کے ماننے والوں نے ایک دفعہ بھی زیور طباعت سے آراستہ نہیں کیا.بھائی صاحبان ادھر اُدھر کی بیسیوں کتابیں اور رسالے شائع کرتے رہتے ہیں.سفرنامے چھپواتے رہتے ہیں.مگر آج تک انہوں نے طبع نہیں کیا تو انہیں کو.اس کو آج تک صرف اس کے نہ ماننے والوں نے ہی ایک آدھ مرتبہ چھایا ہے.تا کہ لوگوں کو خفیہ بہائی مذہب کی حقیقت معلوم ہو سکے.ورنہ اس کتاب کو تریاق اکبر" کہنے والے نہائیوں کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اسے طبع کر کے دنیا کے سامنے اپنی جبکہ وہ عثمانی حکومت کی مہیا کردہ سہولتوں میں کامل فارغ البالی اور بے فکری سے دن گزار تھے تھے اور انہیں اور کوئی کام نہ تھا الواح انا نے " کا خیال کیا اور اپنے منتشر خیالات پر مشتمل چند اوراق لکھ کر کہنا شروع کر دیا کہ یہ اقدس ہے اور یہ قرآن پاک کے مقابلہ پر اس کی ناسخ شریعیت ہے.انعوذ بالله من هذه الخرافات ہم آج بادل ناخواستہ جناب بہاء اللہ کی لکھی ہوئی شریعت اندی" کا قرآن پاک سے سرسری موازنہ کرنے لگے ہیں.وجدانی طور پر اس موازنہ شریعیت کے ماور پریشں کر سکیں.میں جن دنوں (۹۳ نہ ۱۹۳۷ئ) کی کوئی وجہ جواز نہیں ہے.کیونکہ اقدس کی کوئی ایک بات بھی تو قرآن مجید لسطین میں تھا تو میں نے بڑی کوشش سے عراق سے اقدس کا ایک نسخہ

Page 98

۱۹۳ ۱۹۲ حاصل کیا.اور پھر ان میں اپنی کتاب بہائی تحریک پر تبصرہ میں شریعیت تیار کرنا شروع کر دی جس کا نام انہوں نے البیان تجویز کیا.وہ من وعن شائع کر دیا.ورنہ کسی بزعم خود محفل ملی ہائی" کو توفیق نہیں اپنے اعلان کے مطابق اس کتاب کے انمیشی حصے مرتب نہ کر سکے.امین ملی کہ وہ اقدس کو اپنی طرف سے شائع کرتی.بہائیوں کے زعیم جناب قریبا ساڑھے آٹھ حصے یعنی نصف کتاب سے بھی کم لکھ سکے تھے.ہر قیق عبد البہاء نے بہائیوں کو اقدس کے شائع کرنے سے منع کر رکھا ہے.کر دیئے گئے.ہم ابھی آپ کے سامنے باب کی نوشتہ شریعت البیان کے چند احکام ذکر کریں گے.باب کے قتل کئے جانے کے بعد اس تحر یاب رجواب نامه جمعیت لاہائی مطبوعہ مصر، 6 آخر کچھ تو ہے جس کی رازداری ہے! کے افراد دو معنوں میں بٹ گئے.کچھ تو میرزا یحی الملقب صبح ازل حضرات! ایک طرف یہ بہائیوں کی اقدس ہے.اور دوسری طرف کے تابع ہو گئے اور ان کی کہلائے.اور کچھ مرزا حسین علی نوری المذہب خدا کا کام عظیم ہے.درحقیقت تو ان میں موازہ نہ کا سوال ہی بہاء اللہ کے ساتھ ہو گئے اور بھائی کہلائے.ہاں کچھ ایسے بھی پیدا نہیں ہوتا.مگر آج ہم اس موازنہ کو محض بہائیوں پر اتمام محبت اور آج تک نہیں جو بابی کے بانی ہی رہے.صبح ازل اور بہاء اللہ کی خاطر بطور ایک مقالہ پیش کرتے ہیں.ایک شاعر عمومی رنگ میں اپنے اپنے مریدوں کی درخواستوں پر اپنی اپنی جگہ پر یعنی قبرص میں اور کہتا ہے ہے تا نباشد در مقابل روئے مکر وہ وسیاه کی چه دانستے جمال شاہد گلفام را میں مجھے بیٹھے البیان کی بجائے ایک ایک نئی شریعت ایجاد کرنے کی کوشش کی.صبح ازل نے المستيقط نامی کتاب لکھی اور است البیان کا ناسخ ٹھہرایا.اور بہاء اللہ نے الاقدس" نامی کتاب اس موازنہ کے ذکر سے قبل یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے.کہ بابی مرتب کی اور ایسے البیان کا ناسخ قرار دیا.بہاء اللہ کے بھائی : در بر تحریک کے بانی جناب علی محمد باب کے گرفتار ہونے پر باہیوں نے اپنی ان سے علیحدہ رہے اور وہ ان کی تحریک میں شامل نہ ہوئے، بلکہ ان میں بدشت کا نفرنس میں قرآنی شریعیت کو منسوخ قرار دیکر نئی شریعت یا ہم مقدمہ بازی ہوتی رہی.اور باہمی شدید عدادت رہی.پس با تیون بنانے کی تجویز پاس کی تھی.اس تجویز کے بانی مبانی مرزا حسین علی نوری یعنی از لیوں ، اور جھائیوں نے اس اندی میں قرآن کو منسون کرنے کے لئے جناب بہاء اللہ اور جناب قرة العین وغیرہ چند اشخاص تھے.اس تجویز یکے بعد دیگر تے بان شریعتیں تجویز کی ہیں جو خلل دی ثلاث شعب پر جنابہ، باپ نے قلعہ ماکو میں بیٹھے ہوئے قرآن مجید کے مقابلہ پر ایک لاظليل ولا يعنى من اللعب کا مصداق ہیں.

Page 99

۱۹۵ ۱۹۴ بہائیوں کے نزدیک اب صرف کتاب اقدس ہی شریعت ہے.اور اس کے سوا دنیا میں کوئی شریعت نافذ اور مثمر ثمرات نہیں ہے ہم چاہتے ہیں کہ بھائی شریعت کے موازنہ سے پیشتر البیان کے چند احکام بطور نمونه درج کر دیں کیونکہ در اصل البیان ہی وہ بیج ہے جس سے الاقدم کا شجره غیر طبیه پیدا شدہ قرار دیا جارہا ہے.وہ احکام بطور نمونہ یہ میں:- (1) باپ نے لکھا ہے:.لا يجوز التدريس في كتب غير البيان الأفا أنثى فيه مما يتعلق بعلم الكلام وان منا اخترع من المنطق والاصول وغيرها لم يوزن لاحد من المؤسسين (واحد باست) کہ البیان کے سوا کسی کتاب کے پڑھنے پڑھانے کی اجازت نہیں.سوائے اس کے کہ علم کلام کی کوئی کتاب ہو.منطق اور اصول وغیرہ کی کتابوں کے پڑھنے کی کسی مومن کو اجازت نہیں ہے؟ (۲) اپ نے کہا ہے:.الباب السادس من الواحد المسادس في حكم هو الكتب كلها الا ما أنشئت او تنشأ في ذلك الامر کہ یہ چھٹا باپ اس بارے میں ہے کہ سوائے بابی کتابوں کے سب کتابوں کے شاد ینے کا حکم دیا جاتا ہے؟ (۳) بانی شریعت میں ان تمام لوگوں کو قتل کر دینے کا حکم دیا گیا تھا جو باب پر ایمان نہیں لائے تھے.جناب عبد البہاء لکھتے ہیں:.در یوم ظهور حضرت اعلی منطوق بیان ضرب اعناق و حریق کتب و اوراق دیدم بقاع و قتل عام الا من آمن و صدق بود امکاتیب عبد البهاء جلد ۲ ۲۶) کہ باب کے طور کے وقت یہ حکم تھا کہ کتابیں اور اور راقی جلا دیئے جائیں اور مخالفین کے مقامات گرا دیئے جائیں اور باپ پر ایمان لانے والوں کے علاوہ باقی سب لوگوں کا قتل عام کیا جائے.(۲) باپ نے البیان میں لکھا ہے.كل من يدخل في ذلك الدين فاذا يطهى وكل ما نسب اليه ثم ما نزل من ایدی غیر اهل ذلك الدين الى اهل الدين فان قطع النسبة عنهم واثبات النسبة اليهم يظهر: آگے چل کہ ایسی حکم کی تشریح میں کہتے ہیں :.اگر یوے ہزار مرتبه در بهر د اخلی شوید و خارج شوید حکیم طارت جسدی نے شود رباب - واحد ۲ گویا بابی با بیت میں داخل ہوتے ہی پاک ہو جاتا ہے اسکی طرف منسوب ہونے والی ہر چیز خوڑا پاک ہو جاتی ہے.

Page 100

194 197 لیکن غیر بانی کا یہ حال ہے کہ وہ اگر ہزار مرتبہ بھی سمندر میں وزانہ غسل کرے تب بھی اسے جسمانی طہارت حاصل نہیں ہو سکتی.(۵) باب نے اپنی کتاب البیان کے پانچویں واحد کا پانچواں باب بائیں عنوان شروع کیا ہے :- الباب الخامس من الواحد الخامس في بيان حكم اخذ ا موال الذين لا يدينون بالبيان ر حکم رده ان دخلوا في الدين الا في البلاد التي لا يمكن الأخذ کہ اس باب میں یہ حکم بیان کیا جائے گا.کہ جو لوگ البیان کو نہیں مانتے ان کے اموال چھین لئے جائیں.سوائے ایسے علاقوں کے جہاں یہ چھیڑنا ممکن نہ ہو.ہاں اگر بعد ازاں ره با بیت میں داخل ہو جائیں، تو ان کے مال واپس دیئے جا سکتے ہیں.(4) بابی شریعیت کا ایک حکم یہ ہے کہ جو شخص ایک سو شتقال سونے کی قیمت کا مالک ہو اس پر فرض ہے کہ انیس مثقال سونا باپ اور اس کے اٹھارہ مریدوں (حروف الھی کو دے.اگر یہ مر چکے ہوں تو وہ سونا اُن کی اولاد کو دیا جائے.او آمد بات ) نیز با بی قانون ہے کہ ہر چیز کا اعلیٰ کے باپ کے لئے، اور در مبانی اس کے خاص اصحاب کے لئے اور ادنی درجہ عام مخلوق کے لئے ہوگا.رواہ بات) (6) باب نے لکھا ہے :- قد فرض على كل مالك يبعث في دين البيان ان لا يجعل الحمد على ارض متن لم يدن بذلك الدين وكذلك فرض على الراس كلهم اجمعون الأمن يتجر تجارة كلية ينتفع به الناس : (واحد - باب کہ ہر بابی بادشاہ کا فرض ہے کہ اپنے ملک میں کسی مہربانی کو نہ رہنے دے.یہ امر تمام بابیوں پر بھی فرض ہے.ہاں.ایسے شخص کو اجازت ہوسکتی ہے جو عام نفع کی تجدید کرتا ہے (۸) بابی شریعیت کا ایک حکم یہ ہے کہ جو شخص باب یا اسکے بعد بالی موعود کو رنج پہنچائے اس کو قتل کر دنیا عین فرض ہے.اس کے قتل کے لئے ہر ممکن حیلہ اختیار کرنا چاہیے.دالبیان واحد بائی) (9) باب نے حکم دیا تھا کہ بابی لوگ ہمیشہ کرسی یا چھار پائی پر بیٹھا کریں.اس حکم کی حکمت باب نے یہ بتائی ہے کہ اس طرح یار انکی عمریں دراز ہونگی.کیونکہ کرسی وغیرہ پر بیٹھنے کا زمانہ میں شمار نے ہم صحیح نقل کے ذمہ دار ہیں.اصل کتاب میں الفاظ کے غلط ہونے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے.(ابو العطاء)

Page 101

194 190 نہ ہو گا.باب کے اصل الفاظ حسب ذیل ہیں:.دوست میدارد خداوند که در حال ایل بیایی را بر فوق سریه یا عرش یا کریسی نشیند که آن وقت از عمیرا و سوب نے گردد روانہ بات (۱۰) جناب باب لکھتے ہیں:.الباب الثامن من الواحد التاسع في حرمة الترياق والمسكرات والدواء مطلق یعنی ہابی مذہب میں جس طرح نشہ آور اشیاء حرام ہیں اسی طرح تریاق اور ادویہ کا استعمال بھی حرام ہے.معزز حاضرین ! ہم نے یہ ونس احتکام با بی شریعت میں سے بطور نمونہ ذکر کئے ہیں ورنہ یہ شریعت ساری کی ساری اسی نبی اور اسلوب پر مرتب ن ماء اللہ نے علیحدہ علیحدہ شریعت مرتب کی ہے.آپنے اب بھائیوں کی مرقوم شریعیت کا جائزہ لیں اور قرآن مجید کے مقابلہ میں اسے رکھیں.یادر ہے کہ تیرہ صدیاں گذریں کہ جب خدائے ذوالجلال نے قرآن مجید کو مکمل شریعت، افصح کتاب اور ساری نسل انسانی کے لئے بہترین ودستور العمل کے طور پہ نازل فرمایا تھا.ساتھ ہی اپنے اس زندہ جاوید کام کے متعلق اس قادر مطلق نے اعلان کر دیا کہ :.قُل لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْأَنَسُ وَالْجِنِّ عَلَى أَنْ يأتوا بمثلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَا تَونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُم لِبَعْضٍ ظهيراه (الاسراء : ٨٨) اگر سب انسان خورد و کلان مشرقی و مغربی ملی کڑھی اس کی نظیر بنانا چاہیں تو ہر گز نہ بنا سکیں گے؟ کی گئی تھی.ظاہر ہے کہ باب کی یہ تعلیم ملک و قوم کے لئے تباہی کا پیغام اس تحری اور تیسیلینج کی درجہ اگلی آیت میں یوں بیان فرمائی : ہے.بابی اور بہانی کہنے کو کہتے ہیں کہ باب کو حکومت ایران نے قتل کر کے بے انصافی کی ہے.مگر وہ اتنا تو سوچیں کہ جو شخص اپنے جاہل اور ان پڑھ عام مریدوں کو اس قسم کے احکام دیگا وہ ملک کے امن کے لئے شدید ترین خطرہ نہیں؟ بالخصوص جبکہ اس کی تعلیم کے نتیجہ میں ملک عملی طور پر فساد کا گہوارہ بن گیا ہوا اور چاروں طرف خونریزی شروع ہو.اندرین حالات حکومت ایران اپنے اقدام میں معذور نظر آتی ہے.ولقد صرفنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَا فِي الرُ النَّاسِ الأَلفُوراه کہ ہم نے اس قرآن میں سب انسانوں کی تمام ضروریات کے لئے اعلی تعلیمات بوضاحت ذکرہ کر دی ہیں.اب اس شریعت سے اعراض یا انکار محض کفران نعمت ہے جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں یہ حضرات ! ہم عرض کر چکے ہیں.کہ باپ کے قتل کے بعد صبح ازل اور قرآن مجید کا چیلنج اس کی بے نظیر فصاحت در اخت، اسکے عدیم المثال

Page 102

۲۰۰ معارف حقائق اس کی لاثانی روحانی اخلاقی.عمدگی اور سیما تھی لیات کے قول کے مطابق اراد ان يجعل كتابة سجعا منافسًـ للقرآن الشريف " بہاء اللہ کی نیت یہ تھی کہ قرآن مجید کے اس کے فوق العادت اثرات و ثمرات ، خرص ہر پہلو سے ہر زمانہ میں لاجواب رہا ہے اور رہتی دنیا تک کا جو اب رہے گا.وہ ایک مقابلہ پر اس کتاب کو لکھے.اس اقدس" کی عربی عبارت نہایت پھپھی ہے.اور متعدد مقامات پر بالکل غلط ہے.اگر چہ جناب بہاء اللہ نے زندہ قانون اور ہمہ گیر شریعت ہے.قرآن مجید کے چیلنج کو باطل ثابت کرنے کے لئے ہر زمانہ میں ناکام قرآن مجید کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ نقل اتارنے میں بھی سراسر کوششیں ہوتی رہی ہیں.مسیلمہ کذاب سے لے کر بہاء اللہ تک لوگ ناکام رہے ہیں.جہاں بھی انہوں نے الفاظ میں تبدیلی کی ہے وہاں ہی انکی اپنے اپنے وقت میں خدا کے چاند پر تھوکنے کا ارادہ کرتے رہے ہیں.تولید گی عریاں ہو گئی ہے.بطور نمونہ چند عبارتیں درج ذیل ہیں:.(1) انه كان على كل شي حكيمًا ( ) اور آفتاب قرآنی کے نور کو اپنی پھونکوں سے سمجھانے کی سعی کرنا اپنے کا طریق رہا ہے.مگر خدا کا یہ آفتاب ہمیشہ روشن رہا اور روشن ر قل يا قومان لن تؤمنوا به لا تعترضوا عليه (٣) رہے گا.اور اس کے دشمن ناکام و نامراد مرتے رہے اور مرتے رہیں گے م كذلك سمى لدى العرش ان انتقم من العارفين (٣٣٤) يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نور اللهِ بِأَفْوَاهِهِم والله متم رم ان في ذلك لحكم ومصالح (ع) ورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.جناب بہار اللہ کی خود ساختہ شریعت جیسے انہوں نے اور ان کے (۵) انه كان على ما اقول عليها را اس قسم کی سقیم تراکیب اقدس میں بکثرت میں مسیلمہ کذاب نے جو اتباع نے بھیجا طور پر اقدس کا نام دے رکھا ہے.ہم نے پوری کی عربی قرآن مجید کے مقابل لکھی تھی.جناب بہار اللہ کی عربی سے تو وہ بھی یہ کیا پوری اپنی کتاب بہائی تحریک پر تبصرہ کی فصل چہارم میں شائع کردی اچھی تھی.ضیاء عرب کی عربی سے تو جناب بہاد اللہ کی غربی کو کچھ نیت ہی نہیں ہے.ساتھ ہی اس کا سلیس اردو ترجمہ بھی کر دیا ہے.احباب ساری زبان کے علاوہ حقائق و معارف اور اخلاقی دروحانی تعلیمات و خیره کے لحاظ سے بھی اس مجموعہ کو قرآن پاک کے سامنے رکھنا انسانی عقل و فہم کی بھائی شریعت وہاں مطالعہ فرما سکتے ہیں.ہم نے سہولت کے لئے اس ن است ولی جناب بہاء اللہ اقدس کی آیات کو نمبروں کے کر دیا دی میں مرتب کیا تھے اور عیسائی مختلف مواد کی الیاس ا اب نئے انداز میں کھائی شریعت اور اس پر شہر کے نام سے دوبارہ شائع اسے اور مکتبہ الفرقان ربوہ سے دو رد ہے میں ملا توہین ہے.معزز سامعین با نم اور یہ ذکر کر چکے ہیں کہ اقدس کو قرآن مجید سے

Page 103

٢٠٣ ۲۰۲ کوئی نسبت ہی نہیں.ہماری یہ رائے مبالغہ یا خوش اعتقادی پرمبنی نہیں.بلکہ فلسطين من الحريم السید محی الدین احصنی اور السید رشدی افندی کی معیت ٹھوس تحقیقات کا نتیجہ ہے.ہمارا دھوئی ہے کہ بہاء اللہ کے بیٹے بھی اس ہیں نتیجہ میں جناب مرزا محمد علی صاحب سے ماتھا تو انہوں نے کہا تھا کہ میں تو حقیقت سے آگاہ تھے اور وہ اپنے عمل سے اس کا اظہار کرتے رہے ہیں.الاسلام کے مطابق پانچ ہی نمازیں پڑھا کرتا ہوں.چنانچہ مرزا محمد علی و غیرہ کے متعلق بہائی تاریخ میں لکھا ہے :- درمیان سے ائر مل چنین شهرت دادند که پدر با داعیه بالاستقلال اظهار نفر بوده و تشریع شریعتے ننموده بلکہ یکے از اولیا، واقطاب بوده و متابعت شرع اسلام بوده اما برادر یا عباس انندی فن تازه پیش گرفته و شرعی جدید تأسیس نمود : والكواكب فارسی جلد ۲ ماس ) ترجمہ - فرزندانِ بہاء اللہ مرزا محمد علی وغیرہ نے سب اہل ذاہب کے اندر شہور کر دیا ہے کہ ہمارے باپ نے مستقل مدعی ہونے کا دخونی نہیں کیا اور نہ ہی اس نے نئی شریعت بنائی ہے ییکه وه تو دلیا را در اقطاب میں سے تھا.وہ ہمیشہ اسلامی شریعیت کی پیروی کرتا رہا.مگر ہمارے بھائی عباس افندی نے نیا ڈھونگ رچا دیا ہے اور شریعیت جدیدہ کی بنیاد رکھدی ہے.اس سے ثابت ہے کہ عباس افندی کے علاوہ باقی سب بیٹے بہاء اللہ کو شریعت اسلامی کا تابع ظاہر کرتے تھے اور کتنے تھے کہ انہوں نے کوئی نئی شریعیت نہیں بنائی جس کا مطلب اضح ہے کہ ان کے نزدیک اقدس" اس قابل نہ تھی کہ اسے قرآن مجید کے مقابل پر رکھا جا سکے.مجھے یاد ہے کہ جب میں اپنے دوران قیام باقی رہے جناب عبد البهاء عباس افندی سو انہوں نے شملہ میری ہیں رای حکم و یکرہ کہ القدس کی اشاعت جائز نہیں رجواب نامر جمعیت لاهای مشب بتا دیا کہ ان کا دل بھی مانتا ہے کہ یہ مجموعہ اس قابل نہیں کہ اسے قرآن پاک کے مقابل رکھا جا سکے.حضرات بہائی شریعیت میں حصوں پرمنقسم ہے.اول وہ امور جین کا تعلق ابتدائی تہذیب سے ہے اور جن پر دنیا کا ہر جھدار انسان پیشتر ازیں ہی عمل کر رہا ہے.مثلاً یہ کہ ناخن آثار نے چاہئیں یا کرسی دچار پائی پر بیٹھے سے آرام حاصل ہوتا ہے.نہانا چاہیئے.کپڑے صاف ہونے چاہئیں خیرہ اس قسم کے امور کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں.ہاں اتنا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس پہلو سے بھی بھائی شریعت ناقص ہے.اور جو جدت بھی اس لحاظ سے اختیار کی گئی ہے ناپسندیدہ اور بھونڈی ہے.اس مجموعہ شریعت اقدس پر مجموعی نظر ڈالنے والا ہر انسان اس کا اندازہ کرسکتا ہے دوم.وہ باتیں جو جناب بہاء اللہ نے لفظ اور معناً قرآن مجید سے نقل کی ہیں.ان میں بہاء اللہ نے اپنی عقل سے جو ترمیم یا تبدیلی کی ہے اس نے ان باتوں کی مشکل منع کر دی ہے ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ

Page 104

۲۰۵ て بہاء اللہ نے صفات باری تعالیٰ کو بے موقع اور بے محل استعمال کیا ہے.مضمون کلام اور مذکورہ صفت الہی میں بسا اوقات کوئی تناسب موجود نہیں جس کا اندازہ ہر صاحب ذوق انسان خود کر سکتا ہے.عبارہ میں صاف تقبلا رہی ہیں کہ محض قرآن مجید سے اختلاف کی خاطر ان میں تبدیلی کی گئی ہے.سوم.تیسرا حصہ وہ ہے جو خالص طور پر بہائی شریعیت کا امتیازی حصہ ہے اس میں صرف چند احکام شامل ہیں :.ہر شہ حصص میں پھر ایک رنگ بہائیت کا موجود ہے اس لئے میرے نزدیک بھائی شریعت کے موازنہ کا بہترین طریق یہ ہے کہ ذیل میں ہم بہائی عبد البہاء اس کی تشریح میں بیان کرتے ہیں :- دین ابدا در امور سیاسی علاقه و مدخلی ندارد زیرا دین تعلق بارواح و و بعدان دارد که خطابات جلد امکا که دین کا سیاسی امور میں قطعا دخل نہیں دین کا صرف روح اور وجدان سے واسطہ ہے کہ گویا بہائی شریعت اصول حکمرانی اور قانون سیاست و تدبیر مملکت کے قواعد سے سراسر عاری ہے.کیا کامل دین کی یہی شان ہوا کرتی ہے ؟ اس کے مقابل پر قرآن مجید ملکی سیاست اور قانون حکمرانی کے واضح شریعت کی ان خصوصیات کو ذکر کر دیں جو ان تینوں اقسام سے تعلق ہیں.اصول بیان کرتا ہے.ان پر سرسری نظر سے ہی اس خود ساختہ شریعت کا حسن و قبح پرکھا جا سکتا ہے.(۲) دوسری خصوصیت بھائی شریعت میں سب چیزوں کو پاک قرار اس جگہ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ ابھی کے بہائیوں کی شرعیت دیدیا گیا ہے (ملاحظہ ہو انڈس ۱۶-۱۶۲) جاری نہیں، ان کا بیت العدل قائم نہیں ہے.سو سال کے قریب گذر چکا اسلئے بھائی شریعت میں سور کی حرمت کی تصریح نہیں ہے.علی محمد باب نے ہے.ابھی نا معلوم کب تک یہ شریعت بہائیوں کی طرف سے شائع نہ ہوگی.تمہا کو نوشی کو حرام قرار دیا تھار الرسالة التسع عشریہ ملنا مگر بہاء اللہ بتایا جائے کہ اس عرصہ میں کونسی شریعت پر عمل ہے ؟ نے خود میرا کو نوشی کی ہے.غرض بہاء اللہ نے متذکرہ الصدر اصل کی بناء بھائی شریعت کے مطابق امور سیاسیہ سے مذہب پر بہائی شریعت کا حلت و حرمت ماکولات میں بھی کوئی دخل نہیں ہے.را پہلی خصوصیات امام کی تعلیق نہیں.لہندا سیاست یا تدبیر ملکی چنانچہ جناب عبدالہاد کے بیان سے اس کی تشریح ہو گئی ہے.لکھا ہے.کے متعلق بہائی شریعت کوئی قانون بیان نہیں کرتی.بہاء اللہ لکھتے ہیں :.تالله لا نريد ان نتصرف في ممالككم بل جئنا التصرف المقلوب (اقدس ) دوستان شرب عرض کردند درخته این غذا با حبار امریکه و دستور العمل عنایت شود.فرمودند ما بداخله در طاهر جسمانی ره آینا نے کنیم، مداخله با در طعام در نانو است کا

Page 105

۲۰۷ ترجمہ :.مغربی دوستوں نے عرض کیا کہ امریکہ کے بھائیوں کو غذا کے بارے میں دستور العمل عنایت فرمایا جائے، عبد البهاء نے کہا کہ جسمانی کھانے میں مہارا کوئی دخل نہیں جو چاہو کھا تو ہم صرف روحانی غذا میں مداخلت کرتے ہیں.قرآن پاک فرماتا ہے : آیا يُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَ اعْمَلُوا صَالِحًا (المؤمنون ، اسے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال بجا لاؤ.اس سے صاف ظاہر ہے کہ غذا کا اثر انسان کے اعمال پر پڑتا ہے اور طبی طور پر بھی یہی ثابت ہے مگر بسائی شریعت کہتی ہے کہ طعام جسمانی پر کوئی پابندی نہیں.یاللعجب ! بھائی شریعت میں منی کے پانی کو پاک قرار ر تیسری خصوصیت اور یا گیا ہے راقدس ہے ، گویا اب نہ میاں بیوی پر غسل فرض ہے اور نہ اس سے وضوء ٹوٹے گا.اور نہ کپڑوں کو منی کے قطرات سے پاک کرنا ضروری ہے.بھائی شریعت کا یہ عجیب غریب حکم انسانی عقل کے سراسر مخالف ہے.(۴) چوتھی خصوصیت ازیب و زینت کے متعلق بہائی شریعت میں م، کیونکہ سر کے بال زینت ہیں ر) ہونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی اجازت ہے (ہا) لیکن یہ اجازت نہیں ہے کہ گھر کی زینت کے لئے دکاری میں فوٹور کچھ لئے جائیں.(4) پیشیم و سونے کے استعمال کی مردوں کو تلقین، اور فوٹووں کے محض بطور زینت رکھنے سے اجتناب کا حکم کس حکمت کی بناء پر ہے ؟ سر کے لیے بانوں کو موجب زینت قرار دینا اور داڑھی کے متعلق کچھ تصریح نہ کرنا کیوں ہے ؟ اس سے ظاہر ہے کہ جناب بہاء اللہ انسانی فطرت کا لحاظ کئے بغیر جو ان کے دل میں آتا تھا اُسے شریعت کے نام سے اپنی کتاب میں درج کر دیا کرتے تھے.انظارت اور صفائی کے لحاظ سے ایک طرف (ه) پانچویں خصوصیت تو یہ حکم دیا کہ عطر خالص اور عرق گلاب چھٹر کا کرو اور دوسری طرف یہ کہا ہے کہ مہفتہ میں ایک مرتبہ سارے بدن کا غسل کیا کرو.(۲۲) اور موسم سرما میں تین دنوں میں صرف ایک دفعہ اور موسم گرما میں ہر روز صرف ایک مرتبہ پاؤں دھونے کا حکم ہے (۳۳) کجا اسلام کا روزانہ ہرنماز کے لئے وضو کا حکم اور کھا بائی شریعیت کا کا مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ رشیم نہیں سکتے ہیں.یہ عجیب قاعدہ جنبی انسان کو غسل کے مستقلی کر کے یہ احکام دینا اور ان راقدس ، لہ اس کے بارے میں ان پر کوئی پابندی نہیں.(۳۴۲) میں کوئی تو ازین ملحوظ نہ رکھنا کسی قصد بعید از عقل ہے.بھلا اتنا تو سوچئے داڑھی رکھنے ، تو شوانے یا کٹوانے کے متعلق سب قیود سے آزاد کیا کہ ایک دفعہ ہفتہ میں نہانے یا نہ انسانے کی پابندی کی ضرورت گیا ہے (ہ) البتہ سرمنڈوانے کی کسی حالت میں بھی اجازت نہیں.کیا تھی ؟

Page 106

بہائی شریعت میں صرف باپ کی بیو یوں ہے ؟ کی تعلیم یوں بیان کی ہے کہ صرف ایک بیوی کی اجازت ہے.اسی بناء (4) چھٹی خصوصیت ا نکاح کرنا حرام لکھا ہے باقی کسی عورت سے ہر عصر جدید عربی میں لکھا ہے.نکاح کی حرمت کا ذکر موجود نہیں.اقدس" میں لکھا ہے:.قد حرم عليكم ازواج أيا لكم انا نستحي ان نذكر حكم الخلمان (۲۳) کہ تم پر اپنے باپوں کی بیویاں حرام کی گئی ہیں.ہمیں شرم آتی ہے کہ لڑکوں کے بارے میں حکم کا ذکر کریں.بھائی شریعت محرمات وغیرہ کے ذکر کے اعتبار سے انسانی دماغ کی ہے لیبی کی منہ بولتی تصویر ہے.کیا اس طریق سے بہاء اللہ نے ایران کے بعض ان پرانے فرقوں کی تعلیم کا احیاء تو نہیں کیا جو لڑ کی اور بہن تک سے تعلقات زوجیت کے قائل تھے ، حکم الغلمان کے عدم ذکر کا بھی عجیب عذر بیان کیا ہے.قرآن مجید اپنی دیگر تعلیمات کی طرح محرمات نکاح کے بیان کرتے؟ میں بھی ہر طرح سے جامع اور مکمل ہے.ے، ساتویں خصوصیت جناب بہاء اللہ نے حکم دیا ہے.آیا کم ان تجاوزوا عن الاثنتين (۳) کہ دو بیویوں سے زیادہ نکاح میں مت لاؤ.اس میں جناب بہاء اللہ نے دو بیویوں تک بغیر کسی قید و شرط کے اجازت دی ہے ؟ (خود جناب بہاء اللہ کی تین بیویاں تھیں جیسا کہ ہم تحریک بہائیت کی تاریخ والے مقالہ میں بتا چکے ہیں ، جناب عبد البہاء نے مغربی ممالک میں جا کہ بہائیت ان البهائية تنهى عن تعدد الزوجات که بهائیت تعدد ازواج کو منع قرار دیتی ہے.بھائی مورخ لکھتا ہے :- نبایده دانست که تعدد زوجات در امر بانی مطلوب نیستند و اگر چه تاد و از داج برائے ہر مرد در کتاب اقدس تجویز شده ولی مقید بعدالت است و حضرت علیه مسلم که بین کتاب است فرموده که چون عدالت مرد نسبت بدو توجه امر محال است لهذا ا ولی قناعت بواحده است ترجمہ :.جاننا چاہیے کہ بھائی ازم میں تعدد زوجات مطرب نہیں.اگر چہ کتاب اقدس میں ہر مرد کے لئے دو جو بھیل تک کی اجازت ہے مگر وہ عدل کے ساتھ تعقید ہے اور عبد الہند نے جو کتاب کی تفسیر کے حوالے ہیں.کہا ہے کہ چونکہ مرد کا دو بیویوں میں عدل کر سکتا محال ہے اسلئے ایک پر ہی قناعت کرنا درست ہے.اس بیان میں مرزا حب الحسین صاحب نے یہ تشریح کل کا بیانی کی ہے کہ القدس میں تو بیویوں کی اجاز تے عمال کی شرفات مشروط ہے، انہیں کی عبارت آپ کے سامنے ہے اس میں نہیں یہ نشتر فر مو نبود نہیں جناب عبد البهاء الترکی نے یہ کیکر که نداشت مرد نیست بود زوجه

Page 107

۲۱۰ امر محال است ثابت کردیا کہ اگر جتنا بے بہاء اللہ نے عدل کی قید لگائی سبد تو عقول عبد البناء انھوں نے بے معنی بات کی ہے.کیونکہ عدل کا تو امکان ہی نہیں تھا اور نہ ہے.اندریں حالات ہمارا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بہائی شریعیت مردم کی ناک سے ہے جناب عبدالہاد اور ان کے ساتھی زمانہ کی روش کے مطابق جانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں.یہ بات بہائی انزم کی خصوصیت ہے.کہ جناب بہاء اللہ کے تو انین کو توڑنے کے لئے ان کا بیٹا کھڑا ہوا ہے.اور اس نے برملا ان کے بناتے ہوئے قاعدوں کو رد کیا بنے.قرآن مجید نے عدل کی شرط اور پابندی کے ساتھ تعدد زوجات رچا کہ کہ کی اجازت دی ہے اور اس کی حکمت یوں بیان فرمائی ہے.جناب بہار اللہ نے محض قرآن بید سے اختلاف کی خاطر فَانكِحُوا مَا لَهَاب ركُم مِّنَ القِسَاء مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبع کے خلات اتیا کہ ان تجار ز دا عن الأنتين کر دیا تھا جسے ان کے بیٹے نے تبدیل کر دیا.بہائی شریعیت میں عفت و سمت کی حفاظت قائل نہیں.عصر جدید عربی مشا، قرۃ العین نے خراسان میں جس بے پردگی کا آغاز کیا تھا وہ پانی انتہ بھائی عورتوں کا طغرائے امتیاز ہے.جس طرح قرآن حکیم نے مومنوں اور مومنات کو حکم دیا ہے کہ وہ غیر محرموں کے دیکھنے سے انکھیں بھی رکھیں ایسا کوئی حکم بہائی شریعت میں پایا نہیں جاتا جناب آپ نے حکم دیا تھا کہ صرف نوجوان لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی سے نکاح ہو جانا چاہیئے.جناب بہاء اللہ نے اس میں اتنی ترمیم کی ہے کہ جب پہلے لڑکا اور لڑائی آزاد از محمد پر رضا مند ہو جائیں.تو پھر بعد ازاں نکاج ماں باپ کی اجازت پر موقوف ہے.ظاہر ہے کہ اس توسیم سے بلحاظ آزادی تو بات وہی ہیں.صرف مانی باپ کی پوزیشن کو نازک بنا دیا گیا ہے کیونکہ اگر لڑکے اور لڑکی کی مادہ ہیں کے بعد وہ اجازت نہ دینا چاہیں تو اور مصیبت پڑھے گی.علاوہ ازیں جناب بہاد اللہ نے اس جگہ ایک اور حکم دیا ہے.نکات کے بیان پر کھتے ہیں." ومن اتخذ بكر الخدمته لا باس عليه : (ف ) کہ جو کوئی کنواری لڑکی کو اپنی خدمت کے لئے رکھ لئے ہیں پر کوئی گناہ نہیں ہے یہ اس حکم کے اپنے موقع کے لحاظ سے تو معنے بالکل واضح نہیں بھی.کہ ان سے آٹھویں خصوصیت سے لے کوئی معقول قواعد موجود نہیں ہیں.بہائیت کی تعلیم خطر ناک طور پر کیل از اسم مرتی ہے.اگر اس کی یہ اقرب دیر عکس ایسی باتیں پائی جاتی ہیں.جن.ظاہر ہے کہ جناب بہاء اللہ نے انسانیت اور شرافت کے اس سب سے ایستی موتی کے ساتھ ملا عب اختیار کیا ہے باہمیت اور بہائیت خود قراں کے غیر محرم مردوں سے پردہ کی تسلیم کرلی جائے کہ یہ صرف خاص طور پر کنجاری لڑکیوں کو تر کر رہے.ہے تب بھی بہائی شریعت کا بار عفت موہانی ہے اور حکم سخت اور اسی ہے.

Page 108

۲۱۳ اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہئیے کہ جناب بہاء اللہ نے زنا ایسے سنگین جرم کی سزا صرف یہ تجویز کی ہے کہ نانی تو مشتقال سونا بیت العوال کو دیت کے طور پر ادا کر ہے.لطیفہ یہ کہ آج تک بہائیوں کا رہ بیت الحال قائم ہی نہیں ہوا جہاں نہ نا کے بدلے روپیہ جمع کرانا لازم قرار دیا گیا ہے.گویا ملی طور پر آج تک ایک دن بھی رہائی شریعت نے زنا کی سزا نہیں دی.خواہ دو روپولی کی صورت میں ہی ہو.کسی قدر حیرت کا مقام ہے کہ بہاء اللہ نے قتل خطاء کیلئے تو پورے صرف یہی سزا ہے کہ نو شتقال سونا بیت العدل کو ادا کر ہے.اور طرفہ یہ ہے کہ موسوم بیت العدل ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا.اس موازنہ سے عیاں ہے کہ قرآن کریم اور اسلام نے انسان کے گو شہریت کی بے نظیر حفاظت کی ہے.اس کے بالمقابل ہائی شریعیت میں نہ صرف عوت و عصمت کی حفاظت کا انتظام نہیں بلکہ اس کے برعکس اسے قواعد موجود ہیں جن سے بے حیائی پھیلتی ہے.کیا یہ کتاب اسلام کی منظر شرعیت کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے ؟ جناب بہاء اللہ نے جناب باب کی تقلید میں ایک سو مشتقال ہو نا دیت مقرر کی ہے.رشتہ ، مگر زنا کے لئے صرف (۹) نویں خصوصیت یہ قانون بنایا کہ سال کے ایشی مہینے ہونے ا متقال.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ باب نے لکھا تھا.، ومن يحزن / حدا فله ان ينفق تسعة عشر مثقالاً من الذهب (اقدس (۳۱) جو شخص کسی دوسرے کو کسی قسم کا ہنی پہنچائے تو اس پر فرض ہے کہ انمیں مثقال سونا خرچ کرے.افسرین اجناب بہاء اللہ کے نزدیک لنا ایسی بے حیائی کی اتنی سزا بھی نہیں نینی جنتا سد باب کے نزدیک کسی کو معمولی رفع پہنچانے کی ہے.خود تنہا بے بہاد اللہ نے کسی کا گھر جلانے والے کی یہ سزا تجویز کی ہے کہ اس شخص کو عملا دیا ہما محمد اقدس ، حالانکہ پرانے دریائی گھر ایک سو روپے اور ہر مہینے کے انہیں دن.قرآن مجید میں اللہ تعالے نے سال کے بارے مہینے قرار دیتے ہوئے فرمایا :- إن عدةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا في كتابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ.(سورۂ توبہ : ۳۶) جناب بہاء اللہ نے محض اس کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے :- ان عدة الشهور تسعة عشر شهرا في كتاب الله را قدس عل۲۶ الفاظ میں نقل کے باوجود بارہ مینوں کے بجائے انیس مہینے محض کے لگ بھنگ بن جاتے ہیں.تو گویا جناب بہاء اللہ کے نزدیک اس گھر کو جلانے والا تو اس بات کا مستحق ہے کہ اسے جلا دیا جائے لیکن نے نا کا ر کو صاویت اسلام کے باعث تجویز کئے گئے ہیں.ورنہ اس کی کوئی معقول

Page 109

۲۱۵ وجہ نہیں ہے.امی کی تقسیم غیر طبعی ہے شمسی حسابکے مطابق ہے نہ قمری حسا کے مطابق بچنا نچہ انہیں دن کا مہینہ بنا کر جو پانچ دن بچ گئے تمہیں جناب بہا راشد نے سال اور مہینوں کے حساب سے ہی خارج کرنا ہے لکھا ہے:.ما تحددت بحدود السنة والشهور دا قدس علی که به دن سال اور مہینوں میں شمار نہیں ہوں گے.قرآن مجید نے بارہ مہینوں کے قانون الدین القیم قرار دیا ہے.اسے فطرت کے مطابق ٹھہرایا ہے مگر جناب بہار نے محض قرآن کریم کی مخالفت میں بارہ کی بجائے امیش مینے تجویز کر دیئے ہیں.جناب بہاء اللہ نے اپنی شریعت میں ان (۱۰) دسویں خصوصیت اس غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے جو الان باجو ما نزل في البيان من محو الكتب القدس لا ) که خدا نے بیان کے حوالعتیب والے حکم سے درگزر فرما دیا ہے.(۲) جناب باپ نے لکھا تھا کہ اگر کوئی کسی کو نہ ہی پہنچائے تو اب پان کے کہ انہیں متقال سونا خرچ کر دے جناب بہاء اللہ نے لکھا ہے :.انه قد عفا ذلك عنكم في هذا الظهور : راقدس ۳۱۶ کہ میرے وقت میں منانے اپنے اس حکم کو معاف کر دیا ہے.رس جناب بہاء اللہ لکھتے ہیں :- حرة عليكم السؤال في البيان عفا الله عن ذلك : ( اقدس ۳۲) کہ بیان میں کوئی بات دریافت کرنا حرام قرار دیا گیا ہے.مگر اب اللہ تعالے نے اس حکم کو بدل دیا ہے یہ ان کے زعم میں جناب باپ سے سرزد ہوگئی تھیں.حالانکہ دوسری جگہ وہ (۴) اس سلسلے میں ایک اور ر کی مثال جنابہ بار اللہ کے الفاظ ہی (1) خود اپنے آپ کو منزل البیان معنی بیان کو نازل کرنے والا قرار دیتے ہیں مجموعه اقدس منه، ان غلطیوں میں سے چار بطور مثال ذکر کی جاتی ہیں.باب نے بیان میں یہ حکم دیا تھا کہ البیان کے علاوہ باقی سب کتب کو مٹا دیا جائے.بہائیوں کے نزدیک باب کا یہ حکم دنیا میں اختلاف خصومت کی پہلی بنیاد ہے.(المناظرات بو ، چنانچہ جناب بہار اللہ نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور کھا قد عفا الله عنكم ی ہے سکھتے ہیں :- قد كتب الله على كُلِّ نفس ان يحضر لدى الفرش بها عنده مما لا عدل لقانا عنونا عن ذلك نقلاً من لدقاء راقدس ) کہ اللہ نے تو یہ فرض کیا ہے کہ ہر جان بانگاہ میں اپنی بہترین یز لے کر حاضر ہو مگر ہم نے بطور فصول اس حکم سے غور کردیا ہے.

Page 110

گویا خدا فرض کرتا ہے اور جناب بہار اللہ عضو کرتے ہیں.ہیں.خدا کے حاکم بر بلا بود و میسیج نے ہر زخم کے لئے علیحدہ دیت مقرر کی ہے.یہ چار نمونے بہائی شریعت کی ایک خاص خصوصیت ہیں جن میں جناب لو نشاء النفصلها بالحق.اگر ہم چاہیں گے تو ان کی تفصیل بیان کر دیں گے: (اقدس ۱۲ جناب بہاء اللہ کا یہ وعدہ کبھی شرمندہ بہارہ اللہ نے بزعم خود اپنی چند سال قبل نازل کردہ شریعیت مینی البیان کے احکام کو غلط قرار دے کر بدل دیا ہے.اہل علم اس قسم کی امثلہ سے خدائی قانون کے مقابل انسانی دماغ کی بے بضاعتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں.جناب بہاء اللہ نے جو تعزیرات بیستی را داد گیار همین خصوصیت ایفاء نہیں ہوگا.انہوں نے کبھی یہ تفصیل بیان نہیں کی.اس سے ظاہر ہے کہ بہائی تعزیرات ناتمام ہیں.ان کی تھیلی کے وحدت سے ابھی پورے نہیں ہوئے.یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت نازل کرتے وقت لو نشاء لنفقتلها بالحق " کہنے کا کیا موقع تھا اسرائیں ایجاد کی ہیں.ان میں سے زنا کی ن زانو مشتقال سونے کا ذکر ہو چکا ہے.کسی کا گھر جانے والے کی دو کیا یہ معلوم نہ تھا کہ جب ضرب وزخموں کی سزائیں ضروری ہیں تو ان کو سزا میں آپ نے تجویز کی ہیں.یعنی یا تو اسے زندہ جلا دیا جائے.یا بیان کرنا لازمی ہے بین دولام کی نزا دی جائے اقدس مکان چور کی سزا جناب بہاو اللہ نے ان الفاظ میں ذکر کی ہے:.قد كتب على التفارق النسفي والحبس و في الثالث فاجعا و ا في جبينه علامة يعرف بها راقدس ما چیانہ مہار ائیر نے اس کام کے بیشتر یکے (۱۲) بارھویں خصوصیت از بیت العدل سے وابستہ رکھنا ہے.انہوں نے کیا ہے کہ نادرا مر ثوں وغیرہ کے اموال بیت العدل میں آئیں.را قدس م و ، بیت العدلی کو جناب بہاء اللہ نے فریاد و جمساکین کی تربیت کا ذمہ دار قرار دیا ہے (ت) دیوں کا میں ادا کرنا فرض قرار دیا ہے.اعلام نظر بیت العدل کا حق نہایا ہے.(مثلا ، زنا کی دیت بیت العدل کہ اسے پہلی چوری پر جلاوطن کیا جائے دوسری مرتبہ چوری کرنے پر جیل بھیجا جائے.تیسرے موقع پر اس کے ماتھے پر دانی دیا جائے جس سے وہ ہر جگہ شناخت کیا جا سکے.واقعہ یہ ہے کہ آج تک بہائیوں کا بیت العدل قائم نہیں ہوا.زموں اور ضرب کے متعلق تو اور بھی چپ تعزیر کا ذکر کیا گیا ہے.اسی مجلس میں کوئٹہ کے بھائیوں کے سیکرٹری صاحب اگلے دن اقرار لکھتا ہے گر زخموں اور بار کی مقدار کے مطابق ان کے مختلفت احکام کر چکے ہیں کہ ابھی تک بیت العدل قائم نہیں ہوا.

Page 111

۲۱۹ جناب عبدالہاد اندی لکھتے ہیں:.حال چون تشکیل بیت عدل عمومی میتر نه قرار شد که ما قبل می روحانی امریکا را در مدت هر پنج سال تجدید انتخاب نمایند کہ چونکہ ابھی تک بیت العدل کا قیام میسر نہیں اسلئے امریکہ کی انجمنیں ہر پانچ سال میں اپنا انتخاب کر لیا کریں.جو لوگ تقویذ شریعت کو دلیل صداقت کہا کرتے ہیں وہ اس پر غور کریں کہ جناب تمہارا اللہ کی اساسی ایجاد بھی معرض وجود میں نہیں آئی.حالانکہ یہ کوئی مشکل امر نہ تھا.بہائیوں کی تازہ کتاب بھائی کمیونٹی میں لکھا ہے :- بت العمل کو نہایت ہی لازمی ادارہ اگر نکال پاچای تو حضرت عبدالہاد کی وصایا مبارکہ کا یہ نظام اپنے عمل میں مفلوج ہو جائے گا.اور ان جنگوں کو پر نہ کر سکے گا جو کتاب اقدس کے نازل کرنے والے نے جان بوجھ کر آئینی و انتظامی احکام کے مجموعہ میں چھوڑی ہیں.رہائی کمیونٹی مطبوعہ دہلی ند (۱۳) تیرھویں خصوصیت مذاہب عالم توحید کے قائم کرنے کیلئے آتے رہے ہیں، مگر بہائیت انسان پرستی اور قبر پرستی کی بنیاد پر شروع ہوئی ہے.جناب بہاء اللہ مدعی الوہیتے تھے جیسا کہ ہم اپنے سابقہ مقالہ میں ثابت کر چکے ہیں.جناب بہاء اللہ نے بھائیوں کے قبل کے متعلق یہ حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ جون میری طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو.جہاں میں مر جاؤں اُدھر ہی قبلہ ہوگا.اور جب میں مر جاؤں تو میری قرار گاہ یعنی قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو.را قدس ۳-۱۵ و ۲۹۴ اس قانون سے ظاہر ہے کہ جناب بہاء اللہ خود نماز نہیں پڑھا کرتے تھے.کیونکہ وہ تو خو د قبیلہ تھے ، خواہ زندہ ہوں خواہ فوت شدہ.اگر وہ - نماز پڑھیں تو کس طرف منہ کر کے پڑھیں گے ؟ بہانی جناب بہاء اللہ کی زندگی میں ان کی طرف اور اب ان کی قیر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں.لکھا ہے:- قبله ما اپیل نهاد روضه مبارکه است در مدینه ششگانه کہ ہم بہائیوں کا قبیلہ نکا میں بہاء اللہ کی قبر ہے.(دروس الديانة ص۲۳) بھائی لوگ جناب بہاء اللہ کی تب کو جو نتجہ میں حکم سے کچھ فاصلہ پر ہے) سجدہ کرتے ہیں.میں نے خود بہائیوں کو اس جیگر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے.مرزا حیدر علی صاحب بہائی سھتے ہیں :- زائرین زیارت و طواف تقبیل و سجده علیه مقدسه اش نموده و نمائندہ اندیا رینجر الصدور مش ۲ پس بہائی شریعت قریتی اور مردم پوستی کی تلقین کرتی ہے.اور بہائیت انسان کو ترقی کی بجائے پرانے شرک کے گروتھے میں

Page 112

۲۲۱ جناب بہاء اللہ نے عبادات میں سے (۱۴) چودھویں خصوصیت از کو منسوج کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی.دشمنی انسان کو اندھا کر دیتی ہے.وہ بھی بہائی تحریک کے مقصد پر روشنی ڈالتا ہے.جناب بہاء اللہ بھائی کہتے ہیں کہ بہاء اللہ الفت و محبت پیدا کرنے آئے تھے.مگر وہ نے زوال، صبح اور شام کے وقت نور کتوں کا پڑھنا فرض کیا ہے (ع) مساوات کے سب سے بڑے منظر یعنی نماز با جماعت کو منسوخ قرار ت نماز کے متعلق جو تبدیلی کا حکم دیا ہے.کو پورا نہ کر دیا تھا ؟ جگر عداوت اسلام بہاء اللہ کے نماز با جماعت پھر کیا ہے.قد فصلنا الصلوة في ورقة اخرى - اقدس ملا کہ ہم نے نمازہ کی تفصیل دوسرے کا غذ میں کی ہے.ابھی تک نماز کی تعیین یعنی اس کے نو رکعات ہونے یا نہ ہونے میں بھی بہائیوں میں اختلاف ہے.جناب بہاء اللہ نے محض اسلام کی مخالفت کیلئے مصلوۃ کسون خسوف کو منع کیا ہے (اقدس عش ۲ ، اور نمازہ جنازہ میں چھ تکبیریں مقرر کی ہیں.(ت) اسی سلسلہ میں جناب بہار اللہ نے لکھا ہے:.كتب عليكم الصلوة فرادى قد رقم حكم الجماعة الا في صلوة البيت " را قدس (۲۹) کہ نماز ہمیشہ الگ الگ پڑھو یہ با جماعت نماز منسوخ کر دی گئی ہے بجزہ نماز جنازہ کے یہ بیاء اللہ کا یہ حکم اس ذہنیت کا آئینہ دار ہے جو اس کی وضع کردہ شریعیت کی محرک ہوئی ہے.کیا نماز با جماعت مضر ہے؟ اس کو منسوخ کرنے کی دے رہے ہیں.جناب بہاء اللہ نے نماز با جماعت کو منسوخ کر کے انسانی وحدت اور روحانی استحاد کو تفریح سے بدل دیا ہے.نماز با جماعت کی منسوخی کا حکم بہاء اللہ نے دانستہ دیا ہے.یا نادانستہ بہر حال اس سے ان کی ذہنیت عریاں ہو جاتی ہے.جناب عبد البہاء نے جناب بہاء اللہ کے اس حکم کی غلطی ہو محسوس کرتے ہوئے باجماعت نماز کو ترجیح دی ہے بلکہ اس کا حکم دیا ہے.روزوں کے متعلق جناب بہاء اللہ (۱۵) پندرھویں خصوصیت سے یہ جدت اختیار کی ہے کہ قمری حساب کے بجائے جس سے رمضان ہر موسم میں آجاتا ہے شمسی حساب کے مطابق صرف امیں دن کے روزے مقرر کئے ہیں.جو ہمیشہ ایک ہی موسم میں آئیں گے.پھر دوسرا پہلو یہ اختیار کیا ہے.کہ کہ مسافر اور مریض سے روزے ایسے معاف کر دیتے کہ انہیں تندرست کیا وجہ ہے ؟ اگر کہو کہ خلوت کی نماز زیادہ سوز والی ہوتی ہے تو کیا اسلام نے تجد ، شکن اور نوافل کے علیحدہ علیحدہ ادا کرنے کا طریق بنا کر اس ضرورت اور مقیم ہو جانے پر بھی رکھنے کی ضرورت ہی نہیں (اقدس (۲) اور پھر روزہ کی نوعیت میں یہ قدمت بیان کی کو صرف کھانے اور پہنتے ہے

Page 113

۲۲۳ ۲۲۲ طلوع آفتاب سے لے کہ غروب آفتاب تک رکتے رہو، ( مشت ) گویا سحر کے وقت اٹھنے کی ضرورت نہیں.میرا میاں بیوی کے تعلقات سے پر ہیز بہائی روزہ کی شرط نہیں.شاید یہ اس لئے ہو کہ بھائی شرعیت اس حکم میں جناب بہار اللہ نے قرآن مجیدہ کے الفاظ کی نقل کی ہے مگر ان کے فقرہ میں حج البیت سے اس گھر کا حج مراد نہیں جس کے بیج کا یران جیب میں حکم دیا گیا ہے.ہائیوں کے ان دوگھروں کا م کیا جاتا ہے کی خصوصیات میں سے ہے کہ اس میں نطفہ کے پانی کو پاک و مطر قرار دیا لکھا ہے :- گیا ہے اس لئے مرد و عورت کے تعلقات بہائی شریعت میں نا قص صوم نہیں نہیں.ایک اسلامی عادت ہے قرآن مجید محل طواف و حج اہل جہاد یکے بہت نقطه ولی در شیراز است و ثانی این بیت جمال ایمنی است که در بغداد است و یا محمد طوافیه این دو بیت منصوص کتاب است" (1) سولھویں خصوصیت ) من الشر تعالے نے فرمایا ہے وکیله یعنی بہائیوں کے بیج اور طواف کے لئے دو گھر مقر رہیں.ایک باب کا عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا گھر ہو شیرازہ میں ہے اور دوسرا بہاء اللہ کا گھر جو بغداد میں ہے.گویا (آل عمران : (۹) که البیت الحرام کا حج کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جنہیں جس گھر کے حج کا حکم بہاء اللہ نے دیا ہے وہ بغداد میں اس کی رہائش گاہ وہاں پہنچنے کی استطاعت ہو.بہاء اللہ نے جب قرآن مجید کی نقل اتارتی چاہی تو اس نے حج کے متعلق لکھا.قد دیکھ اللہ لمن استطاع منكم حج البيت دون النساء على الله عنهن.را قدس ، کہ اُسے جو طاقت رکھتا ہے.تم مگردوں میں سے عورتوں تھا.اور شیراز میں باہ کے رہنے کی جگہ تھی.اس سے ظاہر ہے کہ بھائی شریعت کے لکھنے والے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے گھروں اور اپنی قبروں کی پرستش کرائے.گہاں یہ مشرکانہ خیالات اور کہاں سرور کائنات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا توحید کے قیام کے لئے والہانہ جذبہ کے بغیر اللہ نے حکم دیا حج البیت کا.اللہ نے عورتوں کو معاف فرما ہے.کہ مرض الموت میں بھی حضور فداہ ابی داتی دعا فرماتے ہیں ، اللهم لا معلوم نہیں کہ جب استطاعت کی شرط موجود تھی تو عور توں کا انگشتاء کیوں کیا گیا.اور انہیں مطلقاً جی سے کیوں محروم رکھا گیا.کیا یہ مردوں اور عورتوں کی اپنی مساوات کا نمونہ ہے میں پر ہوائی لینگ فخر کیا کرتے ہیں ؟ تجمل تبرى وثنا يعبد : کرے اللہ میری قبر کو بہت نہ لینے دینا جن کی لوگ عیادت کریں.از کفر کے بارے میں بھی بہ بی بی نے (۱۷) مستر هوین خصوصیت حسب عادت نا موزون جدت

Page 114

۲۲۵ ۲۲۴ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے.جناب بہاء اللہ نے حکم دیا ہے کہ جو سومثقال سونے کا مالک ہو وہ انسیس مشتقال آسمان وزمین کے گویا انہوں نے ان اموالی کو خاندانی جائیداد کے طور پر بنایا ہے.زکوۃ ایک قومی نال ہوتا ہے.اس کے علاوہ انسداد اپنے طور پر بھی نیک جذبات کے ہمت غرباء کی امداد کیا کرتے ہیں.اسلام نے خالق خدا کو دے.اس جگہ الله فاطر السموات والأرض سے مراد خود بہاء اللہ ہی ہے.اس لئے اس حکم کا اسلامی شرعی داری سے کوئی تعلق نہیں.ہاں ایک دوسرے موقع پر بہاء اللہ نے لکھا ہے.مد كتب عليكم تزكية الا توات وما دونها بالذكرة - هذا ما حكم به منزل الأيات في هذا الرق التنيح سوت نفصل لكم نصابها اذا شاء الله و اراد اقدس ) ترجمہ :.تم پر غلوں اور باقی سب چیزوں کی زکوۃ فرض ہے یہ اس نے حکم دیا ہے جس نے اس مضبوط چڑے میں آیات نازل کی ہیں.عنقریب اگر خدا نے چاہا اور ارادہ کیا تو ہم زکوۃ کا نصاب بالتفصیل ذکر کریں گے.جناب بہاء اللہ کا انتقال ہو گیا مگر انہوں نے زکوۃ الاقوات وغیر ہے کے متعلق کوئی تفصیل بیان نہ کی.اس جگہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جناب بہاء اللہ نے اوقاف میں تصرف کا حق اپنی زندگی میں صرف اپنے لئے مخصوص کیا ہے اور اپنے بعد اپنے بیٹوں کے لئے قرار دیا ہے.اس کے بعد اسے بیت العدل کافی بتایا ہے.(دیکھو اقدس ) مانگنے کو تو ناپسند کیا ہے.لیکن اگر کوئی محتاج مانگ نے تو اس وجہ سے اس کو دنیا حرام قرار نہیں دیا.بلکہ فرمایا ہے وفي أموالهم من السائل والتحدد مرد الذاریات، کہ مسلمانوں کے مانوں میں سائل اور نہ انگنے والے سب کا حق ہے.مگر جناب بھلا اللہ نے جہاں اوقات پر اپنا اور اپنے خاندان کا تصرف جمایا ہے.وہاں محتاج کو دنیا اس لئے حرام کر دیا ہے کہ اس نے مانگا کیوں تھا.لکھا ہے.ر من سيل حريم عليه العطاء : راقدس نت کہ جس سے کوئی حزیر است منہ مانگے اس پر دینا حرام ہے.محتا جنابکی محرومی کا حکم دینے والا بداء الہ اپنے مریدوں کو یکم دیتا ہے کہ مردوں کو باور اور قیمتی کرایوں میں نیز ریشمی کپروں میں دفن کرو.( اقدس ٢٤ و ٣٤ ) و ملك ان احکام پر یکجائی نظر ڈا نے سے بھائی شریعت کی خصوصی در کا پتہ لگ جاتا ہے.(۱۸) اٹھارھویں خصو نقیبت بناء اللہ نے شراب کی حرمت کا

Page 115

۲۲۷ ۲۲۶ ذکر نہیں کیا.سور کی حرمت کی تصریح نہیں کی.لیکن دو جگہ لکھا ہے کہ شہر والوں کے لئے ایسی شقال خالص سونا اور دیہات والوں کے انیون کا پینا حرام ہے.(اقدس ۳۳۳ و ۲ نہایت اہم امور کے متعلق خاموشی اختیار کر کے ادنی سی بات مثلاً یہ کہ منبر پر چڑھ کر آیات نہ پڑھا کرو بلکہ چار پائی وغیرہ پر کرسی رکھ کر پڑھا کرو.ر ۳۳ ) کا ذکر کرنا بہائی شریعیت کی خصوصیت ہے.ہاتھی کو نگل جانا اور مچھر کو چھاننا اسی کا نام ہے.بہاء اللہ نے حکم دیا ہے کہ ہر بھائی کا (۱۹) انیسویں خصوصیت انت من ہے کہ اپنے مکان کو طوب آراستہ و پیراستہ کرے.(ہ) اور پھر دوسرا حکم یہ ہے.کہ انیس سال پورے ہو جانے پر گھر کا سب سامان تبدیل کرے.(۳۲) کیا بہائی اس پر غسل کرتے ہیں یا کریں گے ؟ بہاء اللہ نے اس جگہ یہ نہیں بتایا کہ پرانے سامان کو کیا کیا جائے.ہاں انہوں نے یہ محسوس کیا تھا کہ غالبا بھائی بھی اس کو معقول حکم قرار نہ دیں گے.اس لئے بھٹ کہ دیا کہ اگر کوئی اپنا سامان تبدیل نہ کر سکے تو لئے ایشن مشتقال خالص چاندی مقرر ہے.اگر کوئی زیادہ کرنا چاہے تو پچانو سے مثقال سے زیادہ نہیں کر سکتا.(اقدس ۱۳۵) شہر اور دیہات کی تقسیم غیر معقول ہے.نیز یہ طریق باہمی اتحاد واتفاق کے لئے سخت مضر ہے.اول تو دیہات ہیں بہت سے امراء اور صاحب املاک کہی ہوتے ہیں.اور شہروں میں بہت سے غریب ہوتے ہیں.محض شہر اور گالوں کا معیار بالکل غیر موزون ہے.دوسم یہ طریق دیہاتیوں اور شہریوں میں تفریق کو اور بھی مضبوط کر دے گا.اب گویا دیہاتیوں اور شہریوں میں آپس میں رشتے کرتے اور زیادہ مشکل کر دیئے گئے.قمر کی حد بندی کا یہ طریق ہرگز معقول نہیں انہیں کے مثقال سونے سے کم کی اجازت نہ دینا بہت سے شہریوں پر ظلم ہے.بہار اللہ نے سمجھا کہ اگر میں نے میرات د (۲) اکیسویں خصوصیت کے متعلق قواعد مرتب کئے تو میری ہی یاد کرده شریعیت ناتمام رہے گی.اس لئے اس نے اقدس کے و عش میں ورثاء کے نام لے کر حساب جمیل کے مطابق ان کے حصوں کا ذکر کیا ہے.اس موقعہ پر حساب جمیل کے طریق کو اختیار کرنے کی حکمت بھی جناب بہاء اللہ ہی جانتے تھے.بہائی شریعیت شادی کے لئے بہار الہ نے سر کی میں علی الترتیب سات قسم کے ورثاء تجویز کئے گئے ہیں.(1) اولاد اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے.(۳۲۴) مطلق حکم دے کر دوسرے ہی سانس میں اس پر خط تنسیخ کھینچنا بناء اللہ کا ہی طریق عمل ہے.(۲۰) بیسویں خصوصیت حد بندی کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ (۲) ازواج (۳) آباء - (۴) اقمات (۵) اخوان

Page 116

۲۲۹ ۲۲۸ (4) اخوات.اے معلمین.ان میں سے ہر قسم کے لئے دعا المقت یعنی ۵۲۰ میں سے ۶۰، ۶۰ دیئے جائیں گے.بہارہ اللہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم نے اولاد کا باپوں کی میٹھیوں میں ہی شور سن لیا ہے اسلئے ہم نے ان کا حصہ بڑھا کہ دو سپند کر دیا ہے راقدس نشہ.گویا اولاد کے لئے پہلے ۵۴۰ میں سے ۶۰ مقرر تھے اب ۱۲۰ اور دیئے جائیں گے یعنی چھ اقسام کو ساتھ ساتھ گئے حساب سے ۳۶۰ ملیں گے اور ۵۴۰ میں سے باقی ۱۸۰ سارے کے سارے اولاد کو دیئے جناب ابو الفضل بھائی نے تقسیم میراث بہائی کی گتھی کو ان الفاظ میں سلجھانے کی کوشش کی ہے.لکھتے ہیں :- ما تقسیم ارث را اقل عدد سے که جامع کسور تسعه برجه صحیح است یعنی عدد (۲۵۲۰) مقرر کرده و طبقات میم وراث را که عبارتند از دریات و ازواج و آباد واقعات د اخوان داخوات ومعلمين الاقرب فالا قرب مترتب و فریضه بر طبقه ای از طبقات مذکوره را بعد د (۲۰) على القسادی متنازل داشته است : (برمان لامع ) آپ ابھی پڑھ چکے ہیں کہ بہاء اللہ نے سات قسم کے ورثاء تجویز کئے نے صرف ذریت کے شور کو بے بہا باشد حیرت ہے کہ اس حسابی رقم کو پورا کرنے کے.ہے.بیویوں، ماؤں اور بہنوں ہیں لیکن یا درکھنا چاہیئے کہ ان درثاء کو حصہ نقد یا زرعی زمینوں کے شور کو بالکل نہیں سنا.بہاء اللہ نے ورثاء میں تعلمین کا نام کی صورت میں ملے گا.اگر متوفی کا ترکہ صرف اس کی پچاس ساٹھ ہزار رکھ کر بھی اپنی جدت پسند طبیعت کا ثبوت دیا ہے مگر یہ نہیں روپیہ کی کو بھٹی اور کپڑے ہی ہوں تو ماں باپ بیوی ، بھائیوں، بہنوں بتا یا کہ کونسے معلم وارث ہوں گے اور کوٹنے نہیں.کیونکہ موجودہ اور معلموں کو کچھ نہ ملے گا بلکہ متوفی کی لڑکیوں کو بھی محروم کر دیا جائیگا.طریقہ تعلیم میں تو سینکڑوں استاد ہو بھاتے ہیں اور یہ بھی نہیں ایسی صورت میں بہائی شریعت کا یہ حکم ہے کہ رہائشی مکانات بتایا کہ کسی زبانہ تک کے معلم ہوں گے.کیونکہ در حقیقت انسان اور کپڑے صرف لڑکوں کو ملیں گے.متوفی کی لڑکیوں کو بھی ساری عمر یا سیکھتا رہتا ہے.پھر یہ بھی ذکر نہیں کہ علم سے کچھ نہ ملے گا.راقدس 22 ) اس حکم کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عورت کبھی بھی راد ہائی کتابیں پڑھانے والے ہیں یا ہر علم کا معلم مراد ہے.اور خواہ اُسے بیٹی کی حیثیت سے دیکھا جائے یا بیوی یا ماں کی مشیہ سے صنعت و حرفت سکھانے والے بھی ان میں شامل ہیں یا نہیں.برمن دیکھا جائے.اپنے باپ یا خاوند یا بیٹے کے مکانات کی دارش نہیں بن سکتی.رہائشی مکانات خواہ کتنے ہوں عورت پر حال ان سے محروم یہ گھر بھی نہا میں مہم ہے.

Page 117

۲۲۱ ہوگی.کیا یہ ایک ہی مسئلہ اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ خداوندی قانون کے مقابلہ پر قانون تجویز کرتے وقت بہاء اللہ نے کسی قدر ٹھوکریں کھائی ہیں.اور (۲۲) بائیسویں خصوصیت ان کے حصوں کی تقسیم کی ہے.(۲۳) تیئیسویں خصوصیت جناب بہاء اللہ نے ایک حیکم دیا ہے :- قد حرم عليكم بيع الاماء والغلمان ليس لعبد ان يشترى عبدا را قدس نشا) کہ لونڈیوں اور غلاموں کا بیچنا حرام ہے کیسی معلم کا حق نہیں کہ غلام کو خرید سے " اسلام نے غلامی کے انسداد کے لئے جو اصول و قواعد مقرر گئے ہیں.ان کے سامنے بہائیت کا یہ حکم کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اسلام بہائی مذہب کے مطابق وہ اس صورت میں نافذ ہو گی جبکہ متولی نے خود وصیت کے ذریعہ اس کو منسوخ نہ کر دیا ہو.ورنہ ہر بہائی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وصیت کر کے ان حصوں کو باطل کر دے اور نے صرف جنگ کی صورت میں مذہب کو مٹانے اور مسلمانوں کی حریت جس طرح چاہے اپنی جائیداد کی تقسیم کے متعلق ہدایت دے جائے.کو تباہ کرنے والوں کو قیدی بنانے کا حکم دیا ہے (سورہ تو یہ 41) جناب عبد البہاء افندی لکھتے ہے اور ان تیدیوں کے اقسام کے لحاظ سے فرمایا ہے :- فاما منا تجد وَإِمَّا نداء سوره محمد ؟ (۴) کہ پھر ان میں سے بعض کو بطور احسان چھوڑ دو اور بعض سے ضرور فدیہ وصول کرو موخر ا تا مسئله میراث این تقسیم در صورت است که شخص متوفی وصیت نماید آن وقت این تقسیم جاری گردد یہ بھی ایک ایسی خصوصیت ہے جو صرف بہائی ازم میں پائی جاتی ہے الذکریم کے تیری ہی تا ادائیگی در فدیہ غلام ہوتے ہیں.ایسے کہ مرنے والا اپنی وصیت کے ذریعہ اپنے اصحاب الفرائض کو اللہ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا اسلام کے احکام میں سے ہے.کے مقرر کہ وہ حقوق سے محروم کر سکتا ہے جب یہ صورت تھی یہ تھے حصے مقرر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.صرف یہ حکم دے دیا جاتا غلاموں کی غلامی کو پختہ کر دیا جو اس وقت غلام ہیں کیونکہ اب ان کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق ورثہ کی تقسیم کا حکم دے کو خرید کر آزاد نہیں کرایا جا سکتا.ایسا ہی اس نے صرف یہ کہا ہے کہ کسی غلام کو خریدنا جائز نہیں.یہ نہیں کہا کہ ہر صورت کلام جاوے.جناب بہاء اللہ نے یہ کہ شکر کہ غلاموں کو بینا حرام ہے ، ان

Page 118

۲۳۲ بنانا منع ہے.بہت سے لوگ دوسروں کو زبر دستی پکڑ کو غلام بنا لیا کرتے تھے.اس کے خلاف بہاء اللہ نے کوئی حکم نہیں دیا.بھائی سمجھتے ہوں گے کہ بہاء اللہ نے دنیا کی کرو کو دیکھ کر غلامی کے انسداد کا معقول انتظام کر دیا ہے.مگر یہ درست نہیں کیونکہ یہ ٹھوس قانون نہیں.اس سے زیادہ سے زیادہ غلاموں کی فروخت منع ثابت ہو گی.نیز بہاء اللہ نے دوسری طرف سود خواری کو حلال، طیب اور ظاہر ہے تاکہ زمین والے پوری خوشی و مسرت سے محبوب عالمیاں کے ذکر میں مشغول رہیں وہ جیسا چاہتا ہے حکم کرتا ہے.اب اس نے شور کو حلال ٹھہرا دیا ہے جیسا کہ اس نے پہلے اسے حرام ٹھہرایا تھا.راشراقات مس شود کے جواز کی صورت میں غلامی کے انسداد کا خونی فریب جائز قرار دے کر لاکھوں غرباء کے لئے غلاموں سے بد تر نہ ندگی نفس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.اب گویا بہائیوں میں قرضہ حسنہ بسر کرنے کا قاعدہ بھی مقرر کہ دیا ہے.بہاء اللہ لکھتے ہیں :.میدادن قرض الحسن کمیاب است.فضلاً على العباد یر با را مثل معاملات دیگر که ما بین ناس متداول است قرار فرمودیم یعنی ربح نقود ازین عین که این حکم بین است از سماه مشیت نازل شد حلال و طیب و طاہر است و تا اہل ارض بکمال روح و ریحان و فرح وانبساط یاد کر مجبوب عالمیان مشغول باشند.انه يحكم كيف يشاء واحل الرباكما حرمه من قبل ترجمہ :.چونکہ قرضہ حسنہ دینے کا طریق بہت کمیاب ہے.اس لئے بندوں پر احسان کرتے ہوئے ہم نے سود کو دیگر معاملات جاریہ کی طرح قرار دے دیا ہے.گویا اس حکم کے نازل ہونے کے وقت سے روپوں پر سود لینا کا طریق بالکل معدوم ہو جائے گا اور سود کا نام رواج ہو جائے گا.ظاہر ہے کہ سود دینے والے مقروض غلاموں سے بدتر ہوتے ہیں.پھر سُود خوری جنگوں کے پیدا کرنے اور لمبا کرنے کا باعث ہے.پس شود نہ صرف افراد کی غلامی کا موجب ہے بلکہ قوموں کی غلامی اور تباہی کا موجب ہے ، اسے عجائز کر کے غلاموں کے بیچنے کو حرام کہنا کیا اثر پیدا کر سکتا ہے.بہاء اللہ کی خود ساختہ شریعت (۲۴) چھ عیسوی خصوصیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ و عملی نہیں.اس لئے بہائی اسے پردہ اخفا میں رکھتے ہیں.بہاء اللہ نے حکم دیا ہے کہ اہل مجالس کو چاہیے کہ مختلف زبانوں میں سے ایک زبان اور ایک رسم الخط انتخاب کر لیں را قدس ) اس جگہ اول تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ زبان جناب بہاء اللہ

Page 119

۲۳۵ ۲۳۴ نے خود ہی کیوں نہ تجویز کردی؟ دوسرے اگر بالمغرض لوگ انگریزی بیان کر دیا ہے.اس پر نظر تدیر ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے.کہ یہ زبان کو انتخاب کر لیں تو کیا اقدس کی عربی کو مٹا دیا جائے گا اور حرف سطحی اور ناقابل عمل باتوں کا مجموعہ ہے.قر آن مجید اور اسلام کوئی بھائی اقدس کو اصل زبان میں لکھ اور پڑھ نہ سکے گا ؟ کی محکم شریعت سے بہائیوں کے ان احکام کو کوئی نسبت نہیں تیرے عجیب بات ہے کہ بہاء اللہ نے خود ایک زبان اختیار ہے.ہر حال اقدس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ انسان خلد میں آکر نہیں کی کبھی فارسی میں لکھتے ہیں اور کبھی عربی میں خواہ وہ کہاں سے کہاں تک ٹھوکریں کھاتا ہوا جا پہنچتا ہے.غربی کس درجہ کی ہو.اور کبھی غربی اور فارسی سے مخلوط زبان میں.کیا اس عمل والے انسان کا یہ حق ہے کہ لوگوں کو ایک زبان کے بولنے میرے نزدیک بہائی شریعیت کا ایک حکم بھی ایسا نہیں ہے جو روحانی، اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اسلامی تعلیم یہ بہتر ہو.اور لکھنے کے لئے انتخاب کا حکم دے؟ اگر یہ حکم استحاد کا ایسا ہی ذریعہ تھا مجھے آج تک کسی بھائی نے اپنی کتاب سے ایک بھی ایسی تعلیم نہیں دکھائی جو اپنی ذات میں اچھی ہو اور اسلام میں موجود نہ ہو.یا تو بہاء اللہ کو عملاً اسے اختیار کرنا چاہیئے تھا.اس نے تو خود مختلف نہ بانوں کے سیکھنے کی اجازت دی ہے (اقدس ۲۵ ) اندریں حالات کم از کم اُسے بہائی شریعت میں قرآن مجید کی نسبت بہتر اسلوب یہ حکم بھی محض زمانہ کی رو کا تبلیغ ہے.السلام کہتا ہے کہ زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف خدا کا ایک اور احسن پیرایہ میں بیان کیا گیا ہو.اب بھی تمہیں اہلِ بہار کو اس بارے میں کھلا چیلنج کرتا ہوں.کیا کوئی بسائی اقدس میں سے نشان ہے (الروم : ۲۲) اس لیئے اپنے دائرہ کے اندر مضر نہیں.ایک بھی ایسی تعلیم دکھا سکتا ہے جوردانی یا اخلاقی پہلو ہاں قرآن مجید نے عربی زبان کو اُم الالسنہ قرار دیا ہے نہیں کے منے یہ ہیں کہ عربی زبان مذہبی طور پر سب قوموں اور ملکوں کی زبان ہونی چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ نے عربی کے اختر الاستہ ہونے پر اپنی کتاب من الرحمن میں مبسوط بحث فرمائی ہے.سے مفید ہو اور وہ قرآن کریم میں احسن ترین انداز میں موجود نہ ہو ؟ جب ایسا نہیں ہے تو بہاء اللہ کے اس مجموعے سے قرآن حکیم کو منسوخ کہنا سراسر غلط اور گناہ ہے فماذا بعد الحق الا الضلال حضرات ! قرآن مجید نے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے یہ علان فرمایا ہم نے ان جو میں خصوصیات کے من میں بہائی شریعت کا لب لباب ه وَلَا يَا تُونَكَ يَمَقَل الاجتنَاكَ بِالْحَقِّ وَ

Page 120

احْسَنَ تَفسِيرًا (الفرقان : ۲۳) آج بھی قرآن پاک کا یہ اعلان قائم ہے.قرآن مجید ہر زمانہ میں ایک زندہ کتاب اور کامل شریعت کی صورت میں موجود ہے اور موجود رہے گا.قرآنی آیات اور رہبانی تحریک وأخر دعونَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَلَمينَ بھائی لوگ بعض آیات قرآنیہ کو پیش کر کے عام مسلمانوں کو مغالطہ دیتے ہیں کہ دیکھئے ہماری تحریک کے متعلق اور قرآن مجید کے منسوخ ہونے کے متعلق قرآن مجید میں پیش گوئی موجود ہے.بہائی لوگ اس سلسلہ میں ہر موقع پر حسب مرضی آیات پیش کر دیا کرتے ہیں.ہم ذیل میں ان کی پیش کردہ آیات کے مختصر جوابات بصورت مکالمہ درج کرتے پہلی آیت ہیں:.بہائی :.قرآن مجید نے سورۃ : اسم میں وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قریب میں جو پیش گوئی کی ہے اس میں مکان قریب سے مراد فلسطین کا جبل الكرمل ہے.جس سے ہماری تحریک کا تعلق ہے.احمدی ) اول تو یہ آیت مکتی ہے.اس میں اللہ تعالے نے خبر دی ہے کہ عنقریب کفار بینگ کے لئے نکلیں گے.اس جگہ یومر الخروج سے مراد غزوہ بدر ہے جس موقع پر اللہ تعالے نے اپنی قدرت

Page 121

۲۳۹ ۲۳۸ دکھائی اور مسلمانوں کی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی.یہ جنگ کفار کے لئے ایک حشر کی حیثیت رکھتی تھی.(۲) اگر مکان قریب سے مراد فلسطین اور جبل الكرمل ہو تب بھی بہائیت کا اس پیشگوئی سے تعلق نہیں کیونکہ آیت میں مفادی کا ذکر ہے جو بآواز بلند اپنی تبلیغ کرتا ہے لیکن بہائی تو آ جنگ فلسطین میں بھی اپنی شریعت پیش نہیں کرتے.جمال مبارک تبلیغ را در این دیار حرام فرموده اند امکاتیب عبد البهاء جلد ۳ ص ۳۲) جب بہائیوں کے نزدیک وہاں تبلیغ ہی حرام ہے تو نداء المنادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہاں جبل الکریمل پر جماعت احمدیہ کا تبلیغی مرکز ہے.وہاں سے ماہوار رسالہ البشری شائع ہوتا ہے اور مسجد قائم ہے، مدرسہ بھاری ہے پس نداء المنادی کے لحاظ سے یہ آیت بہائیت پر نہیں تحریک احمد نیت پر منطبق ہوتی ہے.(۳) سورۂ ق کی اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيْد (۲۵) که اے مخاطب تو ہمیشہ اس قرآن مجید کے ذریعہ تبلیغ و تذکیر کرتا رہ.اس سے صاف ظاہر ہے کہ میں المنادی کا ذکر آیت و استفع يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مان ترتیب میں آیا ہے اس سے وہی شادی مراد ہے جو قرآن مجید کو زندہ کتاب کی صورت میں پیش کرتا ہے اور انسانوں کو اس کے ذریعہ سے تبلیغ کرتا ہے.جب بہائیت قرآن مجید کو منسوخ قرار دیتی ہے تو وہ اس جگہ مراد کی طرح ہو سکتی ہے ؟ پس ثابت ہے کہ آیت وَاسْتَبِعْ سَيَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ سے بہائیوں کا استدلال سراسر غلط ہے.دوسری آیت بھائی :- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دبر الامر من السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كان مقدارة الفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (السجدہ : (۵) کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو آسمان سے زمین پر نازل کیا ہے.پھر یہ دین اسی کی طرف ایک ہزار سال کے عرصہ میں اُٹھ جائے گا.اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایکزار سالی کے بعد قرآن مجید کا منسوخ ہونا مقدمہ تھا.احمدی - (ا) سورہ سجدہ کا سیاق وسباق اس استدلال کی تردید کرتا ہے.عربی زبان کے لحاظ سے تقوم الیہ کے معنے منسوخ ہونے کے نہیں ہو سکتے.ہاں اس سے یہ مراد ہوسکتی ہے کہ قرآنی شریعت کے نفاذ اور تدبیر کے بعد ایک ہزار سال کے عرصہ میں آہستہ آہستہ قرآن مجید پر سے عمل آٹھ جائیں کا

Page 122

۲۳۰ یعنی اس زمانہ میں مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی لا يبقى من الاسلام الا اسمه ولا من القران الا رسمہ کے مصداق ہو جائیں گے.اسی لئے سورہ سجدہ میں آیت زیر نظر کے بعد تجدید دین اسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعا لئے فرماتا ہے.وَقَالُوا ءَ إِذَا ضَلَلْنَا فِي الأَرْضِ وَ إِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيد.کہ کیا ہم پھر نکے طور پر پیدا ہوں گے ؟ پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو شمیل موسی قرار دیکر فوایا ہے.وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةُ يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِايْتِنَا قنون - که بنی اسرائیل کے انبیاء موسوی امر کو بحکم الہی قائم کیا کرتے تھے.اس میں صاف اشارہ ہے کہ آئندہ زمانہ میں اسلام کی تائید کے لئے بھی مامور ربانی مبعوث ہوں گے اور اسلام کو منعت کے بعد معنوی اور بادی غلیہ دیا جائے گا.اس پر کفار نے فورا کہا.منی هذا لفتح إن كنتم صدقین (۲۸) که منتج کب آئے گی؟ اسی سیاق سے ظاہر ہے کہ سورہ سجدہ کی آیت شعر يخرج اليه میں مسلمانوں کی بے تسلی کے وقت قرآنی شریعیت کے منسوخ کرنے کا ذکر نہیں بلکہ یہ ذکر ہے کہ الہ تعالی اپنے فضل سے اس شریعیت کو استحکام بخشے گا اور اس شجرہ طبیقیہ کو تازہ بہ تازہ شہری پھیلی لگیں گے.(۲) اس آیت میں تقرب الیہ سے مراد مسلمانوں کی لے عملی ہے.قرآن مجید کا منشور ہو نا مراد نہیں اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ یفسر فعل کا ظرف في يوم كان مقداره الف سَنَةٍ مِمَّا تَعد ون کو قرار دیا گیا بنے والا کہ نسخ تو ایک منٹ کا کام ہے.اس کے لئے ہزارہ سال کی کیا ضرورت ہے.در حقیقت یہ شروع شریعت قرآنی به تدری با ایک ہزار سال میں ہونے والا تھا.اس سے صرف یہی مراد ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ قرآن پاک پر عمل ترکی کر دیں گئے يحدد المشه میں مسلمانوں کی ہے اصلی مراد ہے.تو کسی کا مان یہی ہے کہ مسلمانوں میں قوت نسل پیدا کی جائے.اور انہیں تزکیہ نفس اور قوت یقین سے صلح کیا جائے تاکہ پر عمرانی شریعت پر عمل پھیرا ہوں.چنانچہ ایسا ہی ہورہا ہے.حضرت بانی سلسل احد علیه السلام اسمی از این سد الله تنالے کی طریف سے مبعوث ہوتے ہیں.اور آپ کی قائم کردہ جماعت پر کام کو ہی میرا کام دست رہی ہے اور ات واخونة مقام کا ظہور پور است (۳) آیت زیر نظر می فرخ ال امید

Page 123

۲۴۳ مشورہ ہونا مراد نہیں ہو سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَئِن شَعْنَا لَتَهُ حَينَ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا اليك ثمَّ لَا تَجِدُ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلاه الأمَعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عليك كبیراه رینی اسرائیل : ۸۶-۱۸۷ ترجمہ : اگر ہم چاہتے تو اس وحی کو جو تجھ پر نازل کی ہے لے جاتے پھر تجھے ہمارے خلاف کوئی مدد گار نہ ملتان ہاں ہم اپنی رحمت کی وجہ سے اس قرآن کو ہمیشہ قائم رکھیں گے گے اور یہ کچھ پر خدا کا بہت بڑا فضل ہے.بھی قرآن مجید کے منسوب ہونے کا خیالی قرآن مجید کی خصوص کے خلاف ہے.لہذا ہر جو البیب کے صرف یہی معنے ہیں کہ ایک ، وقت آنے والا ہے جب مسلمان قرآن سید پر عمل ترک کر دینگے یه مینه دیگه آیات و احادیث خویہ کے بھی مطابق ہیں.الغرض سورہ سجدہ کی آیت سے نسخ قرآن کا ادعاء ثابت نہیں ہو سکتا واقعہ یہ ہے کہ بہائیوں نے حسین شریعت کے ذریعہ قرآن مجید کو شیوخ عمر ا نا چاہا تھا وہ اب شائع نہ کر سکتے.ادھر اللہ تعالٰی سے ان کے دھونی کے فورا بعد تضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ه درست فرما دیا تا آپ ترونی مجید کے نزدہ اور عالمگیر شریعت ہونے پر زندہ گواہ ہوں.تیسری آیت بہائی.قرآن مجید فرماتا ہے.مَا نَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ ارْ نَفْسِهَا نات بخير مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا وَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللهَ عَلَى كُل شَيءٍ قديره ربقرہ : ۱۰۶) اس آیت سے ثابت ہے کہ آئندہ زمانہ میں قرآن مجید کے منسوخ ہونی کی پیشگوئی موجود ہے.احمدی.اگر آپ آیت پر تدبر کریں تو یہ بیش یہ خود بخود زائل ہو جاتا ہے اول تو آیت میں لفظ کا شرطیہ ہے جس کے رو سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر ہم کوئی آیت منسوخ قرار دیدین یا اُسے ذہنوں سے اتار دیں تو اس سے بہتر یا اس کی مانند لاتے ہیں.اس نے یہ برگر لازم نہیں آتا.کہ واقعی طور پر قرآن مجید کی کوئی آیت کبھی منسوخ ہو جائے گی.قدم - آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جوس نسخ کا ذکر ہے اس کا قرآن مجید یا اس کی آیات سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس آیت سے قبل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا يَرةُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ ولا المشركين أن تُنَزَّلُ منكم من خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ

Page 124

۲۴۵ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ العظيمه (تقره: ۱۰۵) کہ اہل کتاب کا فراور مشرک یہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر رائے مسلمانو ! ، تمہارے رب کی طرف سے کوئی خیرد آیات قرآنیہ) نازل ہو.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کرنے اللہ تعالے بڑے فضلوں کا مالک ہے.گویا اہل کتاب کو نزول قرآن مجید پر اعتراض تھا کیونکہ قرآن مجید کے نازل ہونے سے ان کی کتاب تورات و انجیل کا منسوخ قرار پا جانا لازم آتا تھا.اللہ تعالے نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا ما نفسح من أية اوننسها نات بخير منها او مثلها، کہ ہمارا طریق تو یہ ہے کہ اگر یم کسی حکم کومنسوخ بھرائیں یا د مینوں سے بھگو دیں تو ہم اس سے بہتر یہ اس کی مامت و حکم نازل کرتے ہیں.گویا فرمایا کہ تمہارے لئے دیکھنے والی بات تو ضرت یہ ہے کہ آیا قرآنی تعلیمات تورات کی تعلیمات سے بہتر میں یا نہیں ، یا کم از کم تمہارے خیال کے مطابق ان کی مانند ہیں یا نہیں ؟ اگر یہ شریعت اپنے احکام میں پہلی شریعت سے بہتر ہے یا اس کے گم شدہ احکام کا اعادہ اس میں ہے تو اس کے ناسخ قرار پانے پر تمہارے لئے کاروائی ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے.اس بیان سے ظاہر ہے کہ آیت ما ننسخ من أية میں آیت سے قرآن مجید سے پہلے کی شرائع کی آیات و احکام مراد ہیں نہ کہ خود قرآن مجید کی آیات.سوم - قرآن مجید کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا نحن نَزَّلْنَا الذِكرَ وَانَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الجر، کہ ہم نے اس ذکر قرآن مجید کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں.جب قرآن مجید ایک محفوظ شریعت ہے تو اس میں نسخ یا اتحاد کا سوال پیدا نہیں ہوتا.یا د رہے کہ قرآن مجید کے سوا اور کسی شریعیت کے متعلق اللہ تعالے نئے یہ وعدہ نہیں فرمایا.کہ میں اس کی حفاظت کرونگا.اس سے عیاں ہے کہ آیت ما ننسخ من آية میں قرآنی شریعت اور اس کی آیات کے منسوخ ہونے کا ذکر نہیں ہے.چہارم کسی شریعت کا نسخ دو وجہ سے ہو سکتا ہے.(1) وہ شریعت محرف و مبدل ہو چکی ہو.اس میں انسانی دست پر نے راہ پالی ہو.اس کے احکام میں کمی بیشی کر دی گئی ہو (ہ) وہ شریعت محدود زمانے کے لئے ہو اور آئندہ زمانہ کی ضرورت یا کے لئے اس میں علاج موجود نہ ہو.قرآن مجید نے ہر دور مکان کی تردید کر دی ہے.اسکی حفاظت کے لئے فرمایا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِي كَرَوَ إِنَّا لَهُ

Page 125

۲۴۷ ۲۴۶ لحفظون.اور آئندہ کی جملہ ضروریات کے لئے مکتفی ہونے کا اعلان اس آیت میں فرما دیا.وَلَا يَا تُونَكَ بِمَثَلٍ الاحسنَكَ بِالْحَقِّ وَاحْسَنَ تَفْسِيرًا (الفرقان) کہ مخالفین کوئی عمدہ تعلیم پشیش نہیں کریں گے مگر ہم اسی قرآن سے اس سے بہتر اور زیادہ مفید تعلیم پیش کر دیں گے.پس ان چار جوابات کی روشنی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیت ما ننسخ........میں قرآنی آیات کے منسوخ قرار دیئے جانے کا ذکر ہے.چوتھی آیت بہائی.اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلُ کہ ہر امت کی اجلی مقرر ہے.پس ضروری ہے کہ امت محمدیہ کی بھی اجل مقرر ہوا اور قرآن مجید منسوخ ہو جائے اور اسکی جگہ نئی شریعت آئے.احمدی (1) جب قرآن مجید کی صریح آیات سے ثابت ہے کہ یہ شریعیت دائمی ہے اور اللہ تعالے نے خود اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے انا نحن نزَلْنَا الَّذِكَرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ.تو اس صورت میں آیت لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلَّ سے یہ استدلال کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید مفشوخ ہو جائے گا بلکہ بری ہے استہ حال ہونا چاہیے کہ قرآن مجید پر عمل کرنے والی اقت محمدیہ کی اجل دائمی ہے.زمین و آسمان کے باقی رہنے تک یہ اقت باقی رہے گی.(۲) احیائی کے لفظی نے مقررہ گھڑی کے جوتے میں اس مقررہ گھڑی سے ہلاکت اور تباہی کی گھڑی مراد ہوتی ہے.ظاہر ہے کہ اس صورت میں آیت کا انطباق آنحضرت صلی اللہ علیہ کام کے مگر تین پر ہو گا.اور عمومی طور پر تبرا مک مکین پر ہو گا.آیت کا محل و توخ بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے.اللہ تعالے فرماتا ہے ، وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أو نَتَوَفَّيَتَكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهِ شَفِيدُ عَلى ما عَنُونَ، وَلِكُلِ اُمَّةٍ رَّسُولُ فَإِذَا جَاءَ رَسُول قضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ، وَلَيَقُولُونَ متى هذا الوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ، قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَ لَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ احل إذا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَ لا يستقدمون ، ریونس : ۴۶-۲۹) ترجمہ : اے پیغمبر! ر صلی اللہ علیہ وسلم ، خواہ ہم تیرے سامنے وہ بعض وحید پورے کردیں جو تیرے ان منکروں سے کئے گئے ہیں خواہ تجھے وفات دیدیں.بہر حال ان کا ٹوٹنا ہماری طرف ہی ہو گا پھر یہ بھی ہے

Page 126

۲۴۹ کہ اللہ تعالی ان کے کاموں کو خوب جاننے والا ہے ، ہر است کے نئے رسول ہوتا ہے جب بھی ان کا سول آیا تو ان لوگوں کے در میان از روس نے اعصات فیصلہ کر دیا گیا اور ان پر ظلم نہ کیا گیا.یہ منکرین کہتے ہیں کہ پھر یہ وعدہ ہمارے متعلق کب پورا ہو گا اگر تم بچتے ہو.کہدے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی مرد یا نفع کا مالک نہیں ہوں بجز اس کے کہ جو اللہ تعالئے چاہیے.ہر انت کی ہلاکت کے لئے ایک مقررہ مدت ہے.جب وہ وقت آجاتا ہے تو وہ لوگ ایک پل بخبر بھی اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتے" ان آیات سے ظاہر ہے کہ (الف) لكل الة اجل کا تعلق مکذبین انبیاء کے ساتھ ہے (بک) اس جگہ اس عام قاعدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکر تین سے متعلق قرار دیا گیا ہے یعنی ان کی ہلاکت کی گھڑی آن میجی ہے.کیونکہ ان کے بد اعمال انتہا کو پہنچ چکے ہیں.اور آیت قرآنی وَمَا كُنَّا مُعد مدن حتى نبعت رسولا کے مطابق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں.کفار نے آپ کی تکذیب کر دی ہے.اسلئے اب ان کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے؟ ان آباد میں) اس مفہوم کی تصریح موجو د ہے.حتی کہ کفار نے بھی انھیں اپنی تباہی کی شیر پر مشتمل سمجھ کر کہ دیا تھا مَتى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صدقین.پس ثابت ہے کہ آیت وَلِكُلِّ أُمَّة اجرك میں مکذبین انبیاء بالخصوص مکذبین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلاکت کا ذکر ہے اس کا قرآن مجید سے منسوخ قرار دیئے جانے سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہے.(۳) اگر بہائی استدلال کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانوں کی ایک مدت مقرر ہے یعنی جب کسی وقت کے مسلمان عملاً قرآن مجید سے مغرف ہو جائیں گے تو اللہ تعالے اور قوم کھڑی کر دیگا تب بھی یہ سوال پیدا ہو گا.کہ آیا آنے والی وہ قوم قرآن مجید کو ماننے والی اور اس پر عمل پیرا ہو گی یا اسے کتاب مہجور قرار دینے والی ہوگی ؟ ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے لئے در سول قرار دیا ہے.فرمایا :- قبل ياَيُّهَا النَّاسُ انّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (اعراف: ۱۵۸) اور پھر قرآن مجید نے خبر دی ہے.شلة من الأولِينَ وَثُلَة مِّنَ الأخرين والواقع لا انت محمدیہ کے دو بڑے خاص حصے ہیں (ا) اولین کی جماعت رہو، آخرین کی تیماعت.پھر سورہ جمعہ کے لے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث مقررہ فرمائے ہیں.ایک الامین میں اور دوسرا آخرین منہم ہیں.اسلئے اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کسی وقت مسلمانوں کی حالت خراب ہو جائیگی.اور وہ قرآنی شریعت پر عمل ترک کر دیں گے تو قرآنی آیات اور احادیث

Page 127

۲۵۱ ۲۵۰ کی روشنی میں یہ مانا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے شجرہ طیبہ میں سے کسی اعلی شیریں پھیل کو پیدا کر یگا اور پھر نئے مسلمانوں میں قرآن مجید سے عشق و محبت پیدا ہو گی اور وہ پھر اس پاک کتاب پر عمل پیرا ہوں گے.جیسا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بعثت سے ہوا ہے.بہر حال آیت دلكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلُ سے نسخ قرآن مجید پر استدلال کرنا سراسر باطل ہے.پانچویں آیت بہائی.آیت میثاق النبیستین (سورۃ آل عمران : ۸۱) سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک رسول آنے وال ہے اور سورہ احزاب کی ۷ ۸ سے ثابت ہے کہ میثاق جس طرح اور انبیاء سے لیا گیا تھا اسی طرح آنحضرت مسلے اللہ علیہ وسلم سے بھی لیا گیا تھا.پس یہ موجود رسول ناسخ قرآن مجید ہوا ہو سکتا ہے.احمدی - جواب اوّل.سورۃ احزاب میں انبیاء سے جو میثاق لیا گیا تھا وہ اور ہے اور سورۂ آل عمرانی میں ہی معشاق کا ذکر ہے وہ اور ہے.سورۃ احزاب کئے میثاق غلیظ کے بعد فرمایا ہے.ليَسلَ الصَّدِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمْ وَ اعد للكفِرِينَ عَذَابًا اليماه یعنی اس اقامت شریعت کے میثاق کے بارے میں ان انبیاء کی امتوں سے پورا پورا نتوانی ہوگا اور جواپنے وعدہ میں صادق اور راستبازہ ثابت ہوں گے ان کو اجر عظیم علیہ گا اور جو کا فر قرار پائیں گے وہ دو دناک عذاب میں مبتلا ہوں گے.پس یہ میثاق تو اقامت شریعت کا میثاق ہے اسلئے اللہ تعالے نے البین کے لفظ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت نوح، حضرت ابراہیم اور حضرت دولتی و حضرت یلے پانچ انبیاء کا مخصوص ذکر کیا ہے.کیونکہ یہ انبیاء تشریعی سلسلوں کے باقی یا ان کے اہم آخری نبی تھے..سورہ آل عمران میں آیت کے الفاظ یہ ہیں.وَإِذْ أَخَذ الله ميثاق النبيِّنَ لَمَا التَكُم مِنْ كِتاو حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولُ مُصَدِّقَ لِمَا مَعَكُمْ لِ مِن بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ وَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُم عَلى ذلِكة اخرى ، قَالُوا أَقْوَرْنَاء قَالَ فَاشْهَدُوا وأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّهِدِينَ - ترجمہ : یاد کرو جب اللہ تعالٰی نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ میں نے تم کو کتاب و حکمت دی ہے سو اگر بعد ازاں تمہارے پاس ایسا رسول آجائے جو تمہاری تعلیم اور پیشگوئیوں کا معتوق ہو اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی نصرت کرو گے.فرمایا

Page 128

۲۵۲ کیا تم نے اقرار کیا اور اس ذمہ داری کو اُٹھالیا ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں کا ہما را دعوی ہے کہ اس آیت کریمہ میں جس رسول مصدق کی آمنہ کی خبر ہے اور جس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کر نی کا سب نبیوں سے اقرار کیا گیا تھا وہ ہمارے بعید و مولی حضرت خاتم النبیین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے.وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الرَّسُول يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ تا تو ان گنتم مومنین را تجدید : ، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ تعالی پر پورے طور پر ایمان نہیں لا رہے، حالانکہ یہ موجود الرسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کے لئے پیکار رہا ہے اور اس نے تم سے ایمان لانے کا میثاق لے رکھا ہے اگر تم مومن ہو.پھر فرمایا.الذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الأتى الذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُو با عِنْدَهُمْ فِي التَّوراة والانجيل (الاعراف: ۱۵۷) کہ اب رحمت انہی کے دارت وہی لوگ ہوں گے جو اس عظیم الشان رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جس کی پیشگوئی ان کے ہاں قورات ۲۵۳ اور انجیل میں درج شدہ موجود ہے.پھر سورہ بقرہ میں فرمایا ہے وَلَمَّا جَاءَ هُم رَسُولُ مِنْ عند الله مُصَدَقَ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أوتوا الكتب كتب اللَّهِ وَرَاءَ ظَهُورِهِمْ كَانَّهُم لا يعلمون - کہ جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم جواللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل کتاب کی پیشگوئیوں کے رسول مصدق نہیں ظاہر ہوئے تو اہل کتاب نے کتاب الہی کو یوں نظر انداز کر دیا انہیں اس کا کچھ علم ہی نہیں.ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآن مجید کے رو سے آیت میثاق النبیین میں جس رسول مصدق کا ذکر ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اس لئے کسی ناسخ قرآن رسول کے آئنے کا سوالی پیدا نہیں ہوتا.جواب دوه اگر یہ مان لیا ہجائے کہ آیت میثاق النبيين میں رسول مصدق لما محکم سے مراد آئنڈ آنے والے رسول ہیں.تو ظاہر ہے کہ وہ رسول قرآن مجید کی دیگر آیات کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے متبع اور مطیع رسول ہی ہو سکتے ہیں، نئے شارخ رسول نہیں ہو سکتے.بھائیوں کے ہاں نہیں دو قسم کے ہیں لکھا ہے : کلیہ انبیاء بر دو قسم اند یعے بنی بالاستفاد این اند و منبوع ، وقصے دیگر

Page 129

۲۵۵ ۳۵۴ غیر مستقل و تابع ، انبیائے مستقبل اصحاب شریعت اندو موتیں دور جدیدت ومفاوضات عبد البهار ملا اور وہ آیت خاتم النبیین کے مطابق ہرقسم کے نبیوں کو بند قرار دیتے ہیں.پس بیائیوں کے نز دیک کسی قسم کا نبی یا رسول نہیں آسکتا.انڈا آیت میثاق النبیین سے اپنی کا استدلال غلط ہے.چھٹی آیت بہائی.قرآن مجید میں صاف لکھا ہے کہ آئیندہ شریت میمی رسول پر نازل ہو گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْنَ لَتَهُ عَلَى بَعْضٍ الْأَعْمِينَ، فَقَرَاهُ عَلَيْهِمْ مَا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ ا الشعراء : ۱۹۸-۱۹۹) احمدی.یا آپ سخت دوسو کہ خوردہ ہیں یا مغالطہ دینا چاہتے ہیں.سورۃ الشعراء کی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر ہم قرآن مجید کو کسی بھی انسان پر نازل کرتے اور وہ اس کو ان پر پڑھتا تو وہ اس پرایمان نہ لاتے.اس آیت میں حرف کو ہے جو شرطیہ ہے اور اگر کے معنے دیتا ہے.اس کشو سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسا واقعہ نہیں ہوا.اور اگر ایسا واقع ہوتا تو یہ نتیجہ پیدا ہوتا.پس یہ آیت تو کیسی تجمی پر اس قرآن مجید کے نازل ہونے کی نفی کرتی ہے.کتنا عجیب ماجرا ہے کہ کہانی لوگ اسی آیت سے بھی شخص پر ناسخ قرآن شریعت کے نزول کا اثبات کرنا چاہتے ہیں.سچ مچ قرآن مجید نہایت مظلوم ہے.سورۃ الشعراء میں آتا ہے.فلوانَ لَنَا كَرَّةً فَنَدُونَ مِنَ المومنین (۱۲۱) که مجرم جیمی کہیں گے کہ اگر ہمیں واپس دونیا میں جانے کا موقع ملے تو ہم مومن بن جائیں گے.کیا اس آیت سے یہ استدلال درست ہے کہ کافر مُردہ واپس دنیا میں آئیں گئے ؟ تم بہائیوں کے غور کے لئے بطور مثال مندرجہ ذیل پان او د آیا تو پیش کرتے ہیں.اللہ تعا لئے فرماتا ہے :- (1) ولو اتبَعَ الْحَقِّ أَهْوَاءهُمْ لَفَسَدَاتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ بَل أَتَيْتُهُمْ بِذِكرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكرِهُمْ مَعْرِ مكون من والمؤمنون: (۷۱) کہ اگر میں ان لوگوں کی تحہ اہشات کے تابع ہو جاتا.تو آسمان و زمین اور تمام لوگ تباہ ہو جاتے اور بالی ان کے پاس ذکر لائے ہیں.دینگے.وہ اپنے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں.(۲) وَلَو كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ.ر آل عمران : ۱۵۹) اگر تو سخت زبان اور سخت دل ہوتا تو یہ تیرے پاس سے بھاگ جاتے.رس ولو اشركوا لحية عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: من.اگر یہ انبیاء شرک کرتے تو ان کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے.(ب) لَوْ كَانَ هَؤُلاء الِهَةً مَّا وَرَدُوهَار الانبياء: ۹۹) اگریه ثبت ضا ہوتے تو جہنم میں نہ گرتے.

Page 130

۲۵۶ ده، لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَةَ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَ نَا الانبياء ۲۲) اگر آسمان و زمین میں اللہ تعالے کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو آسمان و زمین تباہ ہو جاتے.ظاہر ہے کہ ان آیات میں کسی جگہ بھی تو کے معنے آئندہ کی خبر کے نہیں بلکہ ہر جگہ شرطی مضمون کا ذکر ہے.پس آیت وَ لَوْنَ لنة عَلَى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ سے بہائیوں کا استدلال غلط ہے.ہم نے بھائیوں کی پیش کر دہ چھ آیات کے متعلق مختصر ذکر کردیا ہے.قرآن مجید کا یہ معجزہ ہے کہ جہاں پر دشمن اعتراض کرتے ہیں وہاں ہی اس کا جواب موجود ہوتا ہے.اس لئے احباب بہائیوں کے پیش کردہ اعتراض پر تصویر کیا کریں.اور سیاق سباق پر غور کیا کریں.تو اللہ تعالئے انہیں خود جواب سمجھا دے گا.انشاء اللہ.واخر د عَوَمِنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Page 130