Language: UR
الا زُهَارُ لِذَوَاتِ الْحِمَارِ یعنی اوڑھنی والیوں کیلئے پھول جلد سوم حصہ دوم احمدی مستورات سے خطابات فرموده سیدنا حضرت خلیفة المسح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصر والعزيز
جملہ حقوق محفوظ ہیں نام کتاب تصنیف الا زہارلذوات الخمار جلد سوم (حصہ دوم) مجموعه خطابات از مستورات حضرت خلیفہ امسیح الخامس سن اشاعت ۲۰۰۹ء
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان اور بے پایان رحمت ہے کہ اس صادق الوعد نے اپنے وعدوں اور بشارتوں کے عین موافق جماعت احمدیہ کو خلافت جیسی نعمت عظمی عطا فرمائی.خلافت ایک ایسا حصار ہے جو ہمیں دنیا و مافیہا کے ہر خوف وخطر سے محفوظ رکھتی ہے، خلافت ایک ایسا حصن حصین ہے کہ جو طاغوتی طاقتوں کے ہر حملے اور حربے سے ہمیں محفوظ رکھتی ہے، یہ ایک ایسی لازوال نعمت ہے جو ہمیں ہر دوسری نعمت سے بے نیاز کر دیتی ہے.خلافت میں ہماری جان ہے ، تمام برکتیں، تمام عظمتیں اور تمام رفعتیں اس کی بچی وفاداری اور اطاعت میں مضمر ہیں.جو بھی خلافت کے عروہ تھی کو مضبوطی سے تھام لے گا وہ با برگ و بار ہوگا اور ایسی فتح پائے گا جس میں خدا کی رضا اور فضل شامل ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں :- امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کیلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.(الفضل ۴ ستمبر ۱۹۳۷ء) خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت جماعت احمد یہ حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ احمدیہ جیسے عظیم رہنما کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف گامزن ہے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے انی معک یا مسرور کی نوید عطا فرمائی ہے.اس مسیحا نفس کے خطبات اور تقاریر نے ہم میں
ایک نئی جان اور ایک ولولہ انگیز روح پھونک دی ہے.آج ایم ٹی اے کی بدولت ہم اپنے پیارے آقا کے تمام خطبات اور نصائح سے براہ راست روحانی حظ حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے لو حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے سن 07-2006 کے خطبات جمعہ، جلسہ ہائے سالانہ اور اجتماعات لجنہ اماءاللہ کی تقاریر سے وہ زریں نصائح اکٹھی کر کے شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ کے متعلق یا لجنہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی ہیں.یہ کتاب الازهار لذوات الخمار یعنی اوڑھنی والیوں کے لئے پھول کی جلد سوم کا حصہ دوم ہے.اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور کتاب پڑھنے والوں کے لئے ہر لحاظ سے بابرکت ثابت ہو.آمین اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جنہوں نے اس کتاب کی تیاری میں معاونت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے.آمین
صفح فهرست نمبر شمار مستورات سے خطاب عنوان -1 -2 -3 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006ء اعمال صالحہ، پردہ عورت کا تقدس 1-15 اجتماع لجنہ اماءاللہ جر منی 2006 ء ایجادات، لغویات، بدعات جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء دعوت الی اللہ خطبہ جمعہ 06/جنوری 2006ء مالی قربانی 26-16 37-27 40-38 43-4 46-44 50-47 55-51 4 5 6 -6 7.خطبہ جمعہ 07/اپریل2006ء پردے کا حکم خطبہ جمعہ 21 اپریل 2006 ء (اقتباس) خواتین اور دعوت الی اللہ خطبه جمعه 05 مئی 2006ء (اقتباس) حضرت مسیح موعود کا دعویٰ خطبہ جمعہ 09 جون 2006ء (اقتباس) نظام جماعت کی اہمیت خطبہ جمعہ 28 جولائی 2006ء (اقتباس) پردے کی روح 10 - خطبہ جمعہ 13 اکتوبر 2006ء (اقتباس) والدین بچوں کے لئے دعا کریں 59-61 -8 -9 11 - خطبہ جمعہ 10 نومبر 2006 ء (اقتباس) باہمی رشتوں کو مضبوط کریں 12 - خطبہ جمعہ 29 دسمبر 2006ء (اقتباس) مسجد برلن کا سنگ بنیاد 13 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء تربیت اولاد -14.جلسہ سالانہ جرمنی 2007 ء عورت کا کردار اور پردے کا حکم 58-56 64-62 67-65 92-68 108-93 15 - اجتماع لجنہ برطانیہ 04 / نومبر 2007 ء خلافت سے محبت لغویات سے پر ہیز 109-119
16 - خطبہ جمعہ 05 / جنوری 2007 ء (اقتباس) اسلام کی خوبصورت تعلیم پر اعتراض 17 - خطبہ جمعہ 12 / جنوری 2007ء (اقتباس) مالی قربانی کا اعلیٰ معیار 18 - خطبہ جمعہ 19 / جنوری 2007ء (اقتباس) چندے کی ادائیگی 19 - خطبہ جمعہ 06 اپریل 2007ء (اقتباس) عورت اپنے گھر کی نگران 20 - خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007ء (اقتباس) مسجد کے آداب 21 - خطبہ جمعہ 27 جولائی 2007ء (اقتباس) اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھیں 22 خطبه جمعه 03 اگست 2007 ء (اقتباس) عورتیں نمود و نمائش نہ کریں 121-120 123-122 125-124 128-126 131-129 134-132 136-135 23 جلسہ سالانہ جرمنی تمبر 2007ء (اقتباس) عورتیں جماعتی پروگرام میں خاموشی اختیار کریں 137-143 24 - خطبہ جمعہ 16 نومبر 2007ء (اقتباس) عورت کے حقوق 150-144
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 1 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 ء ایک احمدی مسلمان عورت اللہ تعالیٰ کے احسان پر جتنا بھی شکر کرے کم ہے.نیکی کے راستے پر لے جانے والے عمل.شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعا ئیں کرنی چاہئیں.لڑکا احمدی نہ ہو تو پھر آئندہ کی نسل احمدی نہیں رہتی.عورتوں کے تقدس کی حفاظت ، پردے کا حکم.دنیا کی نجات اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 2 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب ایک احمدی عورت اللہ تعالیٰ کے احسان کا جتنا شکر کرے کم ہے اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوا جْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ أَوْ أنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ.(النحل: 97-98) ایک احمدی مسلمان عورت اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر جتنا بھی شکر کرے کم ہے کہ اُس نے اسے احمدی گھروں میں پیدا کیا یا احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی.جہاں اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کا علم اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے ہوا.اور نہ صرف علم ہوا بلکہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق آپ نے اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند رہنے کی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 3 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب تلقین فرمائی.کہ عورت کا حق اسے دو.اس کی عزت کرو اس سے نرمی اور پیار اور محبت سے پیش آؤ.ایک موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے ماننے والے اُس خاص صحابی جو نیکی و تقویٰ میں خاص مقام رکھتے تھے بیوی پر سختی کرنے سے منع کریں دیکھیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص مددگاروں میں سے تھے اور بڑا مقام تھا لیکن بیوی پر سختی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی.اللہ تعالیٰ کو یہ برداشت نہیں اس بات کو اللہ تعالیٰ برداشت نہیں کر سکتا کہ بلاوجہ اُس ذات سے سختی کی جائے جسے نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اُس عورت کو ایک ادنی چیز سمجھا جائے وہ عورت جو مومنہ ہے اور اعمال صالحہ بجالانے والی ہے کیوں بلا وجہ اسے سختی کا نشانہ بنایا جائے اس لئے اس کام سے اسے روکو انہیں سمجھاؤ کہ ایسی عورتوں سے عزت و احترام کا سلوک کرو چنانچہ الہام ہوا کہ یہ طریق اچھا نہیں اُس سے روک دیا جائے.مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ رافت اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں.پھر آپ بعض لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایسی سختی اور پابندی کی ہے یعنی عورتوں پر کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا اور کنیزوں اور بہائم سے بھی بدتر اُن سے سلوک کرتا ہے.یعنی نوکروں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بُری طرح سلوک کرتے ہیں.فرمایا یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.پھر آپ فرماتے ہیں مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہ یہ مت سمجھو کہ عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جائے نہیں نہیں ہمارے ہادی کامل رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ تم میں بہتر شخص وہ ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن ہے اور جس کی بیوی کے ساتھ معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کے ساتھ وہ نیکی اور بھلائی کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہوا اور معاشرت رکھتا ہو.تو یہ ہے اُس تعلیم کی ایک جھلک جو اسلام نے ہمیں دی.اور جس کی اس زمانے میں پھر نئے سرے سے تعلیم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھائی.تو اس خوبصورت تعلیم کی مثالیں آج سے چودہ سوسال
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 4 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے قائم کروا ئیں تھیں.اور اس کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ میں تم سے سب سے زیادہ بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں.لیکن جیسا کہ اسلام کے دوسرے احکامات اور زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ عمل میں کمی آگئی.یہی حال اس حکم کا بھی ہوا کہ عورت کا خیال رکھو اس کی عزت کرواس کا احترام کرو اس کی کوئی وقعت نہیں رہی اس کے حقوق ادا کرو کیونکہ ایک نیک اور عملِ صالح کرنے والی عورت کا مقام ایسا ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا عورت کے متعلقہ حکموں پر عمل کرنے میں کمی آگئی ہے اس لئے اس اصول کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور زمانے کے امام کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف متوجہ فرمایا کہ اپنی جماعت میں عورتوں کے حقوق قائم کرواؤ اس صنف نازک کو جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشے سے تشبیہہ دی ہے جس کے ساتھ سختی اُسے کرچی کرچی کر سکتی ہے ٹکرے ٹکرے کر سکتی ہے جس کے جسم کی بناوٹ نازک ہے جس کے جذبات کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نرمی اور رافت سے پیش آنا چاہیے یہ پہلی کی ہڈی سے مشابہ ہے اس کی اصل شکل سے ہی فائدہ اٹھاؤ پس آپ کو جب ایسے امام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے جس کو اس زمانے میں پھر براہ راست آپ کے حقوق قائم کروانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا پھر آپ کو کس قدر اس خدا کا شکر گذار ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار احکامات دیئے ہیں بعض جگہ صرف ” مومنو! یہ کام کرو کہہ کر مخاطب کیا ہے.بعض جگہ عورت مرد دونوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کر کے احکامات عطا فرمائے ہیں جہاں بھی یہ حکم ہے کہ اے مومنو یہ کام کرو اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی فرما دی کہ جو احکامات قرآن کریم میں ہیں وہ تم سب مومن مردوں اور مومن عورتوں پر عائد ہوتے ہیں اس لئے اُن کی بجا آوری کی کوشش کرو اور اگر تم یہ اعمال صالحہ بجالا ؤ گے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے زندگی بخش انعامات سے نوازے گا جو اس زندگی میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھر دیں گے اور آخرت میں بھی جیسا کہ فرماتا ہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 5 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُوْنَ.(حم سجده: ۳۲) یعنی ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی.اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو لیکن اس انعام کو مشروط کیا ہے پہلے ایمان لانے اور ثابت قدم رہنے کے ساتھ.اور ثابت قدم رہنے کا یہ مطلب ہے کہ جس کی بیعت میں تم شامل ہو گئے ہو جس اللہ پر تم نے اپنے ایمان کا دعوی کر دیا ہے اس کے حکموں پر عمل کرو اور ایسے عمل کرو جو حقیقی مومنوں کے عمل ہوتے ہیں نیکی کے راستے پر لے جانے والے عمل صالح عمل وہ ہوتے ہیں جو نیک عمل ہوں، نیکی کے راستے پر لے جانے والے عمل ہوں، جو ہر لحاظ سے درست ہوں، ایسے عمل جو ایک دوسرے کے حقوق اور واجبات ادا کرنے والے عمل ہوں ، وہ عمل ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے.ایسے عمل جو موقع محل کی مناسبت سے کئے جائیں وہ صالح عمل ہیں.ایک بات ایک جگہ جائز ہو سکتی ہے مگر موقعہ کے مناسب نہیں ہے تو وہ صالح عمل نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی بھی ہے اور دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی پابندی بھی.ایسے پاک عمل اگر ہوں گے تو تبھی وہ مومن کے صالح عمل کہلا سکتے ہیں اور ایسے عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ خوشخبری دیتا ہے کہ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَواةٌ طَيِّبَةً کہ یعنی ہم یقیناً اسے ایک حیات طیبہ کی صورت میں زندہ کر دیں گے ایک ایسی زندگی ان کو ملے گی جو انتہائی پاکیزہ ہوگی وہ پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو سمیٹتی چلی جائے گی اور اعمال کا بدلہ ان اعمال کے مطابق ملے گا جو اس دنیا میں انسان کرتا ہے اور جیسا میں پہلے بتا آیا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے مضبوط ایمان والوں اور صالح عمل کرنے والوں کو ان کی خواہش کے مطابق دیتا ہوں پس نیک اور صالح عمل کرو اگر نہیں کرو گے تو یہ دنیا کی چیزیں عارضی ہیں ان چیزوں کو جنہیں اپنی زندگی کی اسباب سمجھتی ہو مقصد بجھتی ہو یہ سب ختم ہونے والی چیزیں ہیں.جو میں نے تلاوت کی ہیں آیات ، اس میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ جو تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہو جائے گا.فرمایا کہ مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقِ
الا ز حار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 6 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والی چیز ہے.وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْا أَجْرَهُمُ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.اور ضرور ہم اُن لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کہ مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجالائے بشرطیکہ کہ وہ مومن ہوا سے ہم یقیناً ایک حیات طیبہ کی صورت میں زندہ کر دیں گے اور انہیں ضرور ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے.پس دیکھیں سوچیں کون بیوقوف ہو گا جو ختم ہونے والے سودے تو لے لے اور ہمیشہ رہنے والے سودے کو چھوڑ دے بعض دفعہ دنیا میں نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے تنگیوں اور تکلیفوں سے بھی گذرنا پڑتا ہے احکامات پر عمل کرنے کے لئے بظاہر تکالیف بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صبر سے یہ سب چیزیں برداشت کرلو گے تو پھر ہمیشہ کی نعمتوں کے وارث بن جاؤ گے یہ دنیاوی تکلیفیں عارضی ہیں یہ ختم ہو جائیں گی تمہارے ایمان میں مضبوطی اور عہدِ بیعت کو نبھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہتری کے حالات پیدا کر دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ تم بھی بے صبری نہ دکھاؤ ورنہ یاد رکھو یہ بے صبری اللہ تعالیٰ کا یا مومنوں کا تو کچھ نہیں بگاڑسکتی تمہیں ہی نقصان پہنچائے گی احکامات پر عمل نہ کر کے جو تم حاصل کرو گے وہ دائمی فائدے کی چیز نہیں ہے اس دنیا میں ہی تم دیکھو گی کہ اس کے بداثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے نیک اور صالح اعمال بجالاؤ تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مصداق بنو کہ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.یعنی اور انہیں ضرور ان کا اجران کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے.پس ہر احمدی عورت ہمیشہ اپنے سامنے اس بات کو رکھے کہ اُس نے اس زمانے کے لغو ولعب اور چکا چوند اور فیشن اور دنیا داری کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ اپنی بقا کے لئے اپنے آپ کو اس دنیا کی جنتوں سے حصہ لینے کے لئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی دائمی جنتوں کا وارث بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے اللہ کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا ہے زمانے کے جس امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئی ہیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے اور یہی چیزیں ہیں جو آپ کے ساتھ ساتھ آپ کی نسلوں کو بھی ان انعاموں کا وارث بنائیں گی جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ملنے والے ہیں اور آخر میں بھی ملنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کبھی غلط نہیں ہو سکتے.شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں یا درکھیں یہ شیطان ہے جس نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں انسان کو ورغلانے کے لئے ان کی ہر راہ میں بیٹھوں گا اور یہ کام پہلے دن سے ہی کر رہا ہے شیطان مختلف راستوں سے آکر وسوسے ڈالتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لئے دعا سکھائی ہے اور اس زمانے میں جو آخرین کا زمانہ ہے جس میں شیطان نے مختلف صورتوں میں اپنے طرز سے دلوں میں وسوسے ڈال کر حملہ کرنا تھا ایک احمدی اور خاص طور پر احمدی عورت کو اور احمدی بچی کو جس نے احمدیت کی نسلوں کی بھی حفاظت کرنی ہے جس پر احمدی نسلوں کی نگرانی کی بھی ذمہ داری ہے اللہ کے رسول ﷺ نے ڈالی ہے اسے شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں اسے من شر الوسواس الخناس کی دعا بہت کرنی چاہئے کیونکہ فی زمانہ دجالی اور طاغوتی طاقتیں شیطانی طاقتیں بڑے زور سے ایسے حملے کر رہی ہیں اور اپنی شرارت کر کے مقصد پورا کر کے دلوں میں وسوسے ڈال کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں آج کل کی تعلیم کے حوالے سے یہ بعض نوجوان ذہنوں میں بے چینی شروع ہو جاتی ہے یا درکھیں کہ آدم اور حوا کو بھی اسی طرح یہی شیطان نے غلط راستے پر ڈالا تھا اللہ تعالیٰ نے ایک چیز سے منع کیا تو شیطان نے کہا کہ نہیں یہ کام کر کے تم کیونکر دوسروں سے ممتاز ہوجاؤ گے فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے اس لئے تمہیں منع کیا گیا ہے آخر انسان اُس کے دام میں آ گیا اور نقصان اٹھایا آج بھی شیطان مختلف شکلوں میں آپ کو ورغلا رہا ہے دنیا کی آسائشوں سہولتوں اور دنیا داری کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے دنیا کی پرتعیش زندگی کی طرف توجہ دلا رہا ہے، توجہ دلا کر ورغلارہا ہے.کبھی علم کے بہانے سے ترغیب دلا رہا ہے کہ یہ علم ضرور حاصل کرو کبھی معاشی حالات کے حوالے سے غلط نوکریوں کی طرف مائل کر رہا ہے اور پھر انہی نوکریوں کی وجہ سے بعض عورتیں اپنے خاوند اور اولاد کے حقوق کو نظر انداز کردیتی ہیں.آدم اور حوا نے تو جب وہ کام کر لیا جس کی طرف شیطان نے اسے مائل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 8 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب ج کیا تھا تو پھر انہیں احساس ہوا کہ او ہو یہ تو بہت بُرا ہوا ہے ہم تو شیطان کے بہکاوے میں آگئے اللہ کے حکم سے نافرمانی ان پر ظاہر ہوئی تو ان کو اس نافرمانی کے بدنتائج سامنے نظر آنے لگے تو پھر آدم اور توا نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ فَدَلْهُمَا بِغُرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْا تُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفْنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَا دَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاقُلْ لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْن.(الاعراف: ۲۳).یعنی پس اس نے انہیں ایک بڑے دھوکے سے بہکا دیا پس جب ان دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی کمزوریاں ان پر ظاہر ہوگئیں اور جنت کے پتوں میں سے کچھ اپنے اوپر اوڑھنے لگے استغفار کرنے لگے اور ان کے رب نے ان کو آواز دی کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ یقیناً شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.اگر لڑ کا احمدی نہ ہو تو پھر آئندہ کی نسل احمدی نہیں رہتی یا درکھیں بظاہر اچھی نظر آنے والی چیز ضروری نہیں کہ اچھے نتائج پیدا کرے بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو بظاہر ا چھی لگتی ہیں لیکن بھیانک نتائج ہی ظاہر کر رہی ہوتی ہیں اس لئے اس زندگی میں بڑا پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے اپنے تقدس کا احساس کرنے کی ضرورت ہے اللہ سے دعا مانگ کر ہر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اگر بہتر ہے تو اس میں اللہ تعالی مددگار ہو کسی بھی ایسے کام کو جسے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے شیطان ضرور انسان کو بہکاوے میں لا کر اس سے کروانے کی کوشش کرتا ہے شیطان کے بہکانے کے انداز مختلف ہیں مثلاً نوجوان لڑکیوں کے لئے جو پڑھنے والی لڑکیاں ہیں ان کو کہتا ہے فلاں علم حاصل کر و علم حاصل کرنا بڑا اچھا کام ہے بڑا ضروری حکم ہے ہر مرد و عورت علم حاصل کرے لیکن کسی خاص قسم کے علم کے لئے حالات ایسے ہیں جو لڑکیوں کے لئے مناسب نہیں ایسا انتظام نہیں جہاں ایک احمدی لڑکی کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا رہائش کا انتظام ہو سکے ایک مکس سوسائٹی ہے اس میں جب احمدی بچی گھلے ملے گی تو بہر حال اس ماحول کا اثر ہوگا اپنے والدین قریب نہیں ہوں گے دور دراز کے ملکوں میں ہوگی اس ماحول کے زیر اثر اس کا حجاب اترے گا بے تکلفیاں بڑھیں گی جو کمزور ہوتی ہیں اور بعض دفعہ اس ماحول کے زیر اثر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 9 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب ایسے خوفناک نتائج بھی سامنے آئے ہیں کہ لڑکی لڑکے کے تعلقات قائم ہو گئے.جو اگر عارضی ہیں تو ساری عمر کے لئے بدنامی کا داغ زندگی پر لگ گیا.اور وہ خاندان کے لئے بدنامی کا باعث بنتا ہے ان کے لئے بھی شرم کا باعث بنتا ہے کہ شرمندگی کی وجہ سے اس بچی کے ماں باپ جو ہیں وہ بھی جماعت سے تعلق کم کرتے جاتے ہیں احمدی ماحول سے تعلق کم ہو جاتا ہے جس میں دین کا رحجان ہے اور ایسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہو جاتا ہے جہاں پر مکمل طور پر دنیا داری میں پڑ جاتے ہیں.دوسرے بچے بھی اسی دنیا داری میں ڈوب جاتے ہیں.اگر یہ تعلق ایک لڑکے اور لڑکی کا ہے شادی کی صورت میں ہے تو ایسے نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر لڑکا احمدی نہ ہو تو پھر آئندہ کی نسل احمدی نہیں رہتی اور یہ احساس کہ ہم نے اپنی جوانی کے جوش میں غلط فیصلہ کیا تھا شیطان کے بہکاوے میں آگئے تھے وہ پھر بڑھتا چلا جاتا ہے بعض دفعہ جوش میں ماں باپ کا یا جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ماں باپ یہ اظہار کرتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا غیر مسلم لڑکے سے لڑکی بیاہ دو.ایک عرصہ گذرنے کے بعد جب یہ لوگ دین سے بہت دور ہٹ جاتے ہیں پھر یہ احساس دلاتا ہے کہ او ہو ہم نے تو بہت بُرا کیا یہ تو احمدیت کی نسل ہی خراب ہوگئی.ایک تو وہ صورت ہے جو میں نے بیان کی کہ ایک عمل کی وجہ سے پورا خاندان ہی شیطان کی گود میں چلا گیا اور دین سے کٹ گیا اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک مدت گذر جانے کے بعد بھی جو نتائج سامنے آتے ہیں تو لڑکی کو خود یا اس کے ماں باپ کو احساس ہوتا ہے کہ جوانی کے جوش میں بچوں کے جذبات کا خیال رکھنے کی وجہ سے جو ہم نے یہ کام کیا تھا اس نے تو ہماری نسلوں کو دین اور خدا سے دور پھینک دیا ہے.تو ایک جائز کام ہے.تعلیم حاصل کرنا حکم ہے کہ تعلیم حاصل کرو لیکن اس تعلیم کی وجہ سے جو روشن دماغی بعض دفعہ نام دے دیا جاتا ہے ان شرائط پر عمل نہ کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے عورت کے تقدس کے لئے مقرر فرمائی ہیں.شیطان کے وساوس کی وجہ سے جو خودساختہ اپنے آپ کو ڈھیل دی تھی دینی تعلیم سے ہٹ کر ایک صحیح کام کو ان کے غلط نتائج سامنے آگئے اور ان غلط نتائج کی وجہ سے یہ جو ایک صحیح عمل ہے ایک غیر صالح عمل ثابت ہو گیا.شادی کرنا بھی ایک حکم ہے لیکن شادی دین سے دور لے جانے والی ثابت ہو تو یہ صالح عمل نہیں ہے.اسی طرح احمدی لڑکے بھی جو اپنی شادیوں میں اپنی پسند دیکھ کر غیر مسلموں یا غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں.ان کے بھی یہی عمل ہیں اگر انہوں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 10 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب نے شادی کے بعد اپنی بیویوں کو احمدیت و دین پر قائم نہیں کیا تو غیر صالح عمل بن جاتے ہیں.پس ہر جائز کام ہر ایک کے لئے صالح عمل نہیں بن جاتا.پس ان باتوں پر ماں باپ کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور نوجوان بچیوں و بچوں کو بھی.یہ ایک مثال میں نے دی ہے بعض ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو اس قسم کی صورت حال سامنے آجاتی ہے ایک انتہا ہے جو ایک اکا دکا کہیں نظر آتی ہے جیسا کہ میں نے کہا، مثال دی ہے، لیکن فکر پیدا کرتی ہے اور صرف تعلیمی اداروں میں جا کر ہی نہیں.ویسے بھی بعض جگہوں پر کام کرنے کی وجہ سے یا ماحول کی وجہ سے یا دوستیاں پیدا ہونے کی صورت میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو احمدی لڑکے اور احمدی لڑکی کو اپنا ماحول چھوڑ کر غیروں میں شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا خود اپنے آپ کو مجبور سمجھ رہے ہوتے ہیں.بعض احمدی لڑکیاں اپنی آزادی کے حق کے اظہار کے طور پر غیروں سے شادی کر لیتی ہیں.دلیل دی جاتی ہے کہ اہل کتاب سے شادی کرنے کی اجازت ہے.ٹھیک ہے اجازت تو ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ساتھ ملا کر کافر بھی قرار دیا ہے اور یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں سے تعلق قائم کر کے تم اپنی نسلوں کو خراب کر لو گے پس! یہ بڑے سوچنے والی باتیں ہیں بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بعد میں ایسے لوگ خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور خط لکھ کر مجھے بھی پریشان کرتے ہیں اس لئے ہمیشہ ایسے فیصلے جذبات کے بجائے دعا سے کرنے چاہیں اور یہ ازدواجی رشتہ قائم کرنا تو ایسا معاملہ ہے جو بہت سوچ سمجھ کر اور دعا کر کے کرنا چاہیے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جب شادی کرنے لگو تو نہ دولت دیکھو نہ صورت دیکھو نہ خاندان دیکھو جو د یکھنے کی چیز ہے اور جس پر تمہیں غور کرنا چاہیے وہ دینداری ہے اسے دیکھو.پس اگر یہ معیار بن جائیں تو پھر دیکھیں کس طرح ہمارا معاشرہ مکمل طور پر پاک لوگوں کا معاشرہ بن جاتا ہے.پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی بچی اور ایک احمدی عورت کا ایک تقدس ہے اس کی حفاظت اس کا کام ہے کوئی ایسا کام نہ کریں جو دین سے دور لے جانے والا ہو.کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو عورتوں کو کام کرنا ہے یہ منع نہیں مثلاً نوکریاں کرنا.تعلیم حاصل کرنا منع نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا اگر ایسے کام کریں گی جس سے بدنتائج نکلتے ہوں تو وہ منع ہیں اس لئے ایسے کام کریں پڑھائی میں ایسی لائن احمدی بچیاں چنیں جو ان کو فائدہ دینے والی ہوں اور انسانیت کو بھی فائدہ دینے والی ہو.اب مثلاً بعض
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 11 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب علم ہیں زیالوجی ہے جن کے ساتھ بڑے مفید علم ہیں یہ.لیکن ان کے لئے باہر نکلنا پڑتا ہے ریسرچ کے لئے کئی کئی دن بیابانوں میں پھرنا پڑتا ہے اور ایسے علم کی بجائے جس میں tour پر جانے کی وجہ سے ہر وقت ماں باپ کو دھڑکا لگا رہے بہتر ہے وہ علم حاصل کیا جائے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا یعنی علم الايدان وعلم الادیان احمدی بچیاں پڑھائی میں عموماً ہوشیار ہوتی ہیں انہیں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے.اور دین کی تعلیم تو ہر احمدی مردو عورت کے لئے لازمی ہے اس سے دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی.بچیوں کے لئے ان کے لئے زبانیں سیکھنا بڑی اچھی بات ہے اس سے بہت فائدہ ہوگا جماعت کو بھی فائدہ ہوگا ترجمہ کرنے والی میسر آجائیں گی دنیا کو بھی فائدہ ہوگا.آپ کی نسلوں کو بھی فائدہ ہوگا.تو بچیوں کو ایسے مضامین لینے چاہیے جو ان کے لئے انسانیت کے لئے آئندہ نسلوں کے لئے فائدہ مند ہوں اور سب سے بڑھ کر دین سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے.اس سے جو فضول قسم کی باتیں دوسروں کا استہزاء اور تمسخر مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنا اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی.دنیا داری کی باتوں اور اپنے پیسے دکھانے یا دوسرے کے بہتر حالات دیکھ کر کڑھنے اور پھر نقصان پہنچانے کی عادتیں بھی ختم ہو جائیں گی.اگر ہر احمدی عورت اپنے اندر یہ انقلاب پیدا کر لے کہ اس نے ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے اور اپنے اندر نیک اعمال کو جاری کرنا ہے صالح اعمال کو جاری کرنا ہے تو آپ دیکھیں گی کہ دینا میں احمدیت کس تیزی سے پھیلتی ہے انشاء اللہ اس وقت دنیا کو ایک خدا کی پہچان کروانے کی ضرورت ہے اور اس میں دنیا کی بقا ہے اس لئے پہلے اپنے آپ کو اس طرح ڈھالیں کہ آپ کا ہر عمل خالصتا اللہ ہو جائے آپ دنیا کو یہ بتانے والی بن جائیں کہ دیکھو یہ تبدیلی ہمارے اندر اس وجہ سے آئی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اُس آخری کتاب پر عمل کرنے والی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی اس لئے اگر تم بھی اپنے خدا سے ملنا چاہتی ہو اور اپنے دلوں کی بے چینی دور کرنا چاہتی ہو تو اس طرف آؤ.اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو.وہ تمہیں ورغلا رہا ہے تمہیں دنیا کی آسائشیں اور سہولتیں دکھا کر دھوکے میں ڈال رہا ہے تم سمجھتی ہو کہ دنیا تمہارے کسی کام آئے گی یہ دنیا داری کے اعمال تو صرف جہنم کا راستہ دکھانے والے ہیں.جنت میں جانے اور اس دنیا میں بھی سکون قلب
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 12 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب حاصل کرنے کے لئے نیک اور صالح اعمال کام آئیں گے.تو اس طرح جب آپ دنیا کو پیغام پہنچانے والی ہوں گی تو جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر رہی ہوں گی وہاں اپنی نسلوں کی بھی ضمانت حاصل کر رہی ہوں گی.کہ وہ نیکیوں پر قائم رہنے والی ہیں اور ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہنے والی رہیں گی لیکن اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اور ہمیشہ کہا کرتا ہوں اپنے اندر اعمال صالح بجالانے کی روح پیدا کرنی بہت ضروری ہے اس لئے اپنی عبادتوں کے بھی معیار قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام کے بھی معیار قائم کریں.عورت کے تقدس کی حفاظت، پردے کا حکم اب ایک پردے کا حکم ہے اللہ تعالیٰ نے عورت کے تقدس کی حفاظت کے لئے اس کا حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (النور: ۳۲).اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو اس میں ایک تو یہ بتا دیا کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے جسم کا نگ ظاہر نہ ہوتا ہو جین بلاؤز پہن کر جو باہر نکلتی ہیں تو غلط ہے بعض مائیں اپنی بچیوں پر توجہ نہیں دیتیں اور کہتی ہیں ابھی چھوٹی ہے حالانکہ بارہ تیرہ سال کی عمر کے بعد لباس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینوں سے گزار کر ڈھانک کر پہنا کرو تو پردہ کا ایسا حکم ہے جس کا قرآن کریم نے مختلف زاویوں سے مختلف جگہوں پر ذکر آیا ہے تو اس طرح احمدی بچیوں اور عورتوں کو توجہ دینی چاہیے اس طرف.جن باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کھول کر احکام دے دیئے ہیں اُن کے عمل صالح ہونے کے بارے میں تو ایک مومن عورت کے دل میں ذرا بھر شبہ نہیں ہونا چاہیے اور اس کو بجالانے اور اس پر عمل کرنے پر ذرا بھر بھی تر در نہیں ہونا چاہیے آج کل میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان سے جو اسائکم حاصل کر کے یہاں آنے والی بعض جلسے پر آنے والی عورتیں بھی میں نے دیکھا ہے پتہ نہیں کس احساس کمتری کے تحت ائر پورٹ سے نکلتے ہی نقاب اتار دیتی ہیں اور جو دوپٹے واسکارف لیتی ہیں وہ بہر حال اس قابل نہیں ہوتے اس سے صحیح طور پر پردہ ہو سکے.تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ سر سے ڈھلک رہا ہوتا ہے.پھر میک اپ بھی کیا ہوتا ہے اگر ایک عورت مثلاً ڈاکٹر یا کسی اور پیشے میں ہے اور اپنے پیشے کے لحاظ سے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 13 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب ہر وقت اسے نقاب سامنے رکھنا مشکل ہے تو وہ تو ایسا سکارف لے سکتی ہے جس سے چہرے کا زیادہ سے زیادہ پردہ ہو سکے اور اس کے کام میں بھی روک نہ پڑے لیکن ایسی صورت میں پھر بھر پورمیک آپ بھی چہرے کا نہیں ہونا چاہیے لیکن ایک عورت جو خانہ دار خاتون ہے پاکستان سے پردہ کرتی یہاں آئی ہے یہاں آکر نقاب اتار دیں اور میک اپ بھی کریں تو یہ عمل کسی طرح بھی صالح عمل نہیں کہلا سکتا.ایسی عورت کے بارے میں یہی سوچا جا سکتا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بجائے دنیا کو دین پر مقدم کر رہی ہے.ماحول سے متاثر زیادہ ہو رہی ہے بلکہ بعض دفعہ شرم آتی ہے یہ دیکھ کر کہ یہاں یورپ کے ماحول میں پلی بچیاں جو ہیں، عورتیں جو ہیں ، وہ ان پاکستان سے آنے والی عورتوں سے زیادہ بہتر پردہ کر رہی ہوتی ہیں.ان لوگوں سے جو پاکستان سے یا ہندوستان سے آئی ہیں ان کے لباس اکثر کے بہتر ہوتے ہیں وہاں جو برقعہ پہن رہی ہوتی ہیں اگر تو وہ مردوں کے حکم پر اتار رہی ہوتی ہیں تب بھی غلط کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کے خلاف مردوں کے کسی حکم کو ماننے کی ضرورت نہیں.اور اگر یہ عورتیں خود ایسا کر رہی ہیں تو مردوں کے لئے بھی قابل شرم بات ہے ان کو تو انہیں کہنا چاہیے تھا کہ تمہارا ایک احمدی عورت کا تقدس ہے اس کی حفاظت کرو، نہ کہ اس کے پردے اتر واؤ.پس ہر قسم کے کمپلیکس سے آزاد ہو کر مردوں اور عورتوں دونوں کو پاک ہو کر یہ عمل کرنا چاہیے.اور اپنے پردوں کی حفاظت کریں.ایسی عورتیں اور ایسے مردوں کو اس بات سے ہی نمونہ پکڑنا چاہیے کہ غیر مذاہب سے احمدیت میں داخل ہونے والی عورتیں تو اپنے لباس کو حیا دار بنارہی ہیں.جن کے لباس اترے ہوئے ہیں وہ اپنے ڈھکے ہوئے لباس پہن رہی ہیں.اور احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں.اور آپ اس حیادار لباس کو اتار کر ہلکے لباس کی طرف آرہی ہیں.جو آہستہ آہستہ بالکل بے پردہ کر دے گا.بجائے اس کے دین کے علم کے آنے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں ترقی ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے بڑھ کر پابندی ہو اس سے دور ہٹنا سوائے اس کے دوبارہ جہالت کے گڑھے میں گرادے اور کچھ نہیں ہوگا.پھر ایک حکم کے بعد دوسرے حکم پر عمل کرنے میں سستی پیدا ہوگی پھر نسلوں میں دین سے دوری پیدا ہوگی جیسا کہ پہلے ہی میں بتا آیا ہوں اور پھر اس طرح آہستہ آہستہ نسلیں بالکل دین سے دور ہٹ جاتی ہیں.اور برباد ہورہی ہوتی ہیں.
الا ز حارلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 14 جلسہ سالانہ برطانیہ 2006 مستورات سے خطاب دنیا کی نجات اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہے پس کسی بھی حکم کو کم اہمیت کا حکم نہ سمجھیں استغفار کرتے ہوئے اللہ کے آگے جھکیں تا کہ جہاں اپنی دنیا اور عاقبت سنوار رہی ہوں وہاں نئی آنے والی نسلوں کو بھی ہر قسم کی ٹھوکر سے بچائیں.نئے آنے والی جماعت میں شامل ہونے والیوں کو بھی ٹھوکر سے بچائیں.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کے یہ عمل صالح ہی ہوں گے جو تبلیغ کے لحاظ سے بھی اور نئے آنے والیوں اور آپ کی نسلوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی آپ کو احمدیت کے لئے مفید وجود بنائیں گی.پس آپ سب نوجوان بچیاں بھی اور عورتیں بھی اپنے جائزے لیں اپنے اندر جھانکیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کسی تعلیم کا پابند کیا ہے خدا تعالیٰ ہمیں کس تعلیم کا پابند کرنا چاہتا ہے.ہمارے اندر کیا روح پیدا کرنا چاہتا ہے.اور ہم کس حد تک اس پر عمل کر رہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں آکر عہد بیعت کرنے کے بعد کس حد تک اس کو نبھانے کی کوشش کر رہی ہیں.اپنی نسلوں میں یہ روح کس حد تک پھونک رہی ہیں.کہ آج دنیا کی نجات اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے سے ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اس طرف لانا ہے ہم نے تاکہ نیک اعمال کی وجہ سے دنیا کے فساد ختم ہوں.قرآن کریم ایک مکمل تعلیم ہے اس کو سیکھیں اور اس پر عمل کریں کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اس طرف بلائیں ایسے عمل دکھا ئیں تا کہ آپ کے اعلیٰ معیار دیکھ کر غیر عورتیں آپ سے راہنمائی حاصل کریں.دنیا کی عورتیں آپ کے پاس یہ سوال لے کر آئیں کہ گو ہم بعض دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہیں بظاہر ہم آزاد ماحول میں اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دل کا سکون اور چین حاصل نہیں کر سکیں.ہمارے اندر ایک بے چینی ہے ہمارے خاندانوں میں بٹوارہ ہے ایک وقت کے بعد خاوند بیویوں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے.جس سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں اور سکون اور یکسوئی سے نہیں رہ سکتے جب کہ تمہارے گھروں کے نقشے ہمارے گھروں سے مختلف نظر آتے ہیں.تمہارے گھر ہمیں پر سکون نظر آتے ہیں ہم تمہیں ماڈل سمجھتے ہیں.ہمیں بتاؤ کہ ہم یہ سکون کس طرح حاصل کریں.یہ غیروں کو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 15 بر موقع اجتماع جر منی 2006 مستورات سے خطاب آپ کے پاس آکر سوال پوچھنا چاہیے.پھر آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اُسے تم بھول رہی ہو.نہ مرد اس پر عمل کر رہے ہیں نہ عورتیں اُس پر عمل کر رہی ہیں.اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا.اور نیک اور صالح اعمال بجالانا اور یہ تمہیں حقیقی اسلام میں ہی نظر آئے گا.عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے.جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانو گی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھوگی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہوسکتا.اور یہ تم لوگ جو اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ سمجھتے ہو بھول گئے ہو کہ خدا بھی ہے پس آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس برتری کی سوچ پیدا کر یں.اپنی تعلیم کو کامل اور مکمل سمجھیں.قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں اس پر کار بند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی راہنما کا کردار ادا کریں گی.ورنہ اگر صرف اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتی رہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسی قومیں عطا فرمائے گا جو اس کام کو آگے بڑھا ئیں گی.لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ان پرانی نسلوں اور پرانے خاندانوں ان احمدی عورتوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا جو مشکل وقت میں جن کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی.پس آپ لوگ اپنے اندر یہ احساس ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہونے دیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ آپ کو توفیق دے.پس اس نعمت عظمی کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تا کہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اب دعا کرلیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 16 بر موقع اجتماع جرمنی 2006 مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب بر موقع اجتماع جرمنی 2006 ء جماعت پر خلیفہ اسیح الثانی الصلح موعود کا احسان.لجنہ اماءاللہ کا قیام.نماز ، ذکر اور عبادت کا بہترین ذریعہ.خدا سے زندہ تعلق بچوں کے دلوں میں اللہ تعالی کی محبت پیدا کریں.زمانے کی اغویات فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں.ایجادات کا غلط استعمال لغویات میں شامل ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 17 بر موقع اجتماع جر منی 2006 مستورات سے خطاب جماعت پر حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح موعودؓ کا احسان أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.آج لجنہ اما اللہ جرمنی کے اس اجتماع سے میں پہلی بار مخاطب ہو رہا ہوں.جیسا کہ جمعہ کو میں نے ذکر کیا تھا کہ جماعت پر خلیفہ اسیح الثانی الصلح موعودؓ کا یہ احسان ہے یا اس وقت کیونکہ لجنہ کی بات ہو رہی ہے لجنہ کے حوالے سے یوں کہنا چاہئے کہ جماعت کی عورتوں پر یہ احسان ہے کہ احمدی عورت کے لئے ایک ایسی تنظیم قائم فرما دی جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو اُجا گر کر سکتی ہے.اور اُن صلاحیتوں سے اُن استعدادوں سے خود بھی فائدہ اٹھاسکتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے احمدی عورت میں رکھی ہیں.مردوں کی ذیلی تنظیمیں نہ بھی ہوتیں تو تب بھی اُن کے پاس تو جماعتی سطح پر ایک ذریعہ میسر تھا جہاں وہ جمع ہو کر اپنے جلسے اور اجلاسات کر لیتے تھے اور اپنی عقل اور علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے تھے گو کہ یہ بھی ایک خاص عمر اور تجربے اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 18 بر موقع اجتماع جرمنی 2006 مستورات سے خطاب مقام کے لوگوں کو ہی موقع ملتا اس صورت میں کہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے.تو بہر حال ذکر میں کر رہا تھا عورتوں کا کہ عورتوں کے لئے بھی کسی بھی سطح پر علمی، روحانی یا جسمانی صحت کے بہتر کرنے کے مواقع میسر نہ تھے یا احمدی عورت کے لئے احمدی معاشرے میں اس طرح کے مواقع میسر نہ تھے.لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو ! احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرما دیئے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاسکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چپکا سکتی ہیں.پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ موقع آپ کو مہیا فرمانے پر شکر گزار بندی بن جائیں اور اس اولوالعزم موعود بیٹے کے لئے بھی دعا کریں جس کی دور رس نگاہ نے جماعت کے ہر طبقے پر نظر رکھتے ہوئے اُسے جماعت کا مفید وجود بنانے کی کوشش کی.اس شکر گزاری کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے یا بندی کو اس کے احسانوں پر اُس کی کرنی چاہئے.نماز ذکر اور عبادت کا بہترین ذریعہ بہترین ذریعہ اُس کی یاد اور اُس کا ذکر ہے.اور اُس کے ذکر اور عبادت کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نمازوں کی ادائیگی ہے.اس میں پانچ وقت کی نمازیں بھی ہیں اور نوافل کی ادائیگی بھی ہے.یہ حکم مردوں اور عورتوں سب کے لئے یکساں ہے.اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ صحابیات اور نیک عورتیں جو اسلام میں گزری ہیں پہلے وہ نمازوں کی بڑی پابندی کیا کرتی تھیں بلکہ روایات میں آتا ہے کہ ان عبادات میں مردوں سے آگے بڑھ جاتی تھیں یا اُن سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تھیں.ساری ساری رات نوافل کی ادائیگی میں گزارتی تھیں اور دن کو روزے رکھا کرتی تھیں یہاں تک کہ اُن کے خاوندوں کو آنحضرت کے پاس آکر یہ عرض کرنی پڑی کہ ان کو اتنی عبادت کرنے سے روکیں کیونکہ خاوندوں کے اور بچوں کے اور گھروں کے بھی کچھ حقوق ہیں جوان کو ادا کرنے چاہئیں.اس زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ عبادت کرنے والی خواتین ایسی ہیں جن کے خاص معیار تھے عبادتوں کے ، نمازوں کو کبھی ضائع کرنے والی نہیں، نوافل کی ادائیگی کرنے والی تھیں اور اتنی پابندی سے پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتی تھیں کہ ان کو دیکھ کر گھڑی کے وقت بھی درست کئے جاسکتے تھے.اس وقت میں یہاں حضرت اماں جان حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 19 بر موقع اجتماع جرمنی 2006 مستورات سے خطاب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری زوجہ محترمہ تھیں.آپ کے ساتھ شادی بھی حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی تھی اور آپ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مبشر اولا د سے نوازا تھا.اُن کی ایک مثال پیش کرتا ہوں.ایک تو یہ تھا کہ آپ عمومی طور پر خواتین کی تربیت کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں.کبھی قادیان میں احمدی گھروں میں تربیت اور خدمت خلق کی غرض سے جاتی تھیں اور اکثر یہ ہوتا کہ عورتیں آپ کو ملنے کے لئے آپ کے پاس آتیں اور اس روحانی اور علمی مائدے سے فائدہ اٹھانے کے لئے جمع ہوتیں جو حضرت اقدس مسیح موعود کی صحبت کی وجہ سے، حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ کی وجہ سے حضرت اماں جان کو بھی ملتا تھا.تو بہر حال اس وقت میں نمازوں اور عبادت کی بات کر رہا تھا کہ ان کے پاس جانے والی خواتین بیان کرتی ہیں کہ جب ہم بیٹھے ہوتے مختلف موضوعات پر باتیں ہو رہی ہوتیں آپ ہمیں نصائح فرما رہی ہوتیں ہم اُن نصائح سے فیضیاب ہو رہے ہوتے اور اس دوران اگر اذان ہو جاتی تو آپ فوراًبا تیں چھوڑ کر کھڑی ہو جاتیں کہ اب نماز کا وقت ہو گیا ہے کہ میں بھی اندر جا کر نماز پڑھ آؤں تم لوگ بھی نماز پڑھ لو.اور پھر نماز سے فارغ ہو کر جب آپ واپس آتیں باہر، تو پوچھتیں کہ نماز پڑھ لی ہے؟ ایک خاتون ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ حضرت اماں جان کو ملنے گئی حسب معمول آپ نے حال دریافت کیا اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ تم آئی ، باتیں ہوتی رہیں جس دوران میں اذان ہوگئی آپ اُٹھ کر اندر چلی گئیں کہ میں نماز پڑھ کر آتی ہوں.بچیو! تم بھی نماز پڑھ لو.وہ خاتون کہتی ہیں کہ میں نے چھوٹے بچے کی وجہ سے کہ بعض دفعہ بچوں کے پیشاب وغیرہ کرنے سے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں چھوٹے بچوں کی وجہ سے تو سوچا کہ گھر جا کر نماز پڑھ لوں گی.جب نماز سے فارغ ہو کر حضرت اماں جان واپس آئیں تو پوچھا نماز پڑھ لی؟ تو میں نے عرض کی کہ بچے کی وجہ سے کپڑے گندے ہونے کا شبہ تھا اس لئے گھر جا کر پڑھ لوں گی.اس پر آپ نے بڑی ناراضگی سے فرمایا کہ اپنے نفس کے جو بہانے ہیں ان کو بچوں پر نہ ڈالا کرو.بچے اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتے ہیں.ان کو انعام سمجھو اور اپنے اللہ کی عبادت میں روک نہ بناؤ.اللہ تعالیٰ اِس سے ناراض ہوتا ہے.تو ایسی مائیں جو بچوں کی مصروفیت کی وجہ سے یا بچوں کی وجہ سے مصروفیت کا اظہار کرتی ہیں اپنی نماز میں وقت پر نہ پڑھنے یا بالکل ہی ادا نہ کرنے کے بہانہ بناتی ہیں.
الا ز حارلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 20 بر موقع اجتماع جر منی 2006 مستورات سے خطاب ان کے لئے ایک نصیحت ہے کہ ان بچوں کو تو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اور زیادہ اُس کا شکر گزار ہونا چاہئے اور شکر گزاری کا یہ تقاضا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اسکی عبادت کرو نہ کہ عبادتوں کو بھول جاؤ.ورنہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے کہ یہ انعام واپس لے لے.اگر یہ میرے اور میری بندی کے درمیان میں حائل ہے، روک بنا ہوا ہے.اگر میرے اس انعام کی وجہ سے ایک احمدی ماں اس کو میرے مقابلے میں شریک بنا کر کھڑا کر رہی ہے تو اُس کو اِس انعام سے محروم کر دوں.پھر جس کو بہانہ بنایا جارہا ہے وہی بچہ بڑے ہو کر آپ کے لئے تکلیف اور دکھ کا باعث بھی بن سکتا ہے.معاشرے میں آپ کو بدنام کرنے والا بھی بن سکتا ہے.تو اگر عبادت کر رہی ہیں اور نمازوں کی ادائیگی کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان عبادتوں کے طفیل آپ کے بچوں کے مستقبل بھی روشن کر دے گا اور آپ پر بے شمار فضل فرمائے گا.بہت سی کامیابیوں سے نوازے گا یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے مومنوں سے کہ وہ عاجزی سے نمازیں پڑھنے والے اُس کے آگے جھکنے والے کسی کو اُس کا شریک نہ بنانے والے اُس کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے ہیں.پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں یہ ایک بنیادی حکم ہے.ایک مومنہ مسلمان احمدی عورت کے لئے ورنہ اس زمانے کے امام کو ماننے کے دعوے بالکل کھو کھلے ہیں کیونکہ بیعت آپ نے اس لئے کی ہے کہ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنی ہے.خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق، بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں جماعت میں آپ اس لئے شامل ہوئی ہیں کہ اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے خدا اسے زندہ تعلق جوڑنا ہے اور پھر صرف یہی نہیں کہ آپ نے صرف اپنا تعلق خدا سے جوڑنا ہے بلکہ بطور اپنے خاوند کے بچوں کے اپنے بچوں کے نگران کے طور پر اس بات کی بھی نگرانی کرنی ہے کہ آپ کی اولا دلڑ کے ہوں یا لڑکیاں ہوں اُن کو بھی خدا تعالیٰ کے قریب لانے والا بننا ہے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بنا ہے اُس کی محبت اور پیار دل میں پیدا کرنے والا بننا ہے.ان کے دل میں بھی یہ بات میخ کی طرح گاڑھنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بغیر ہماری زندگی بے فائدہ ہے اور جب یہ روح آپ اپنی اولادوں میں پیدا کر دیں گی تو پھر دیکھیں کہ آپ کی نسلوں کی خود بخود اصلاح ہو جائے گی.آپ کو یہ فکر نہیں رہے گی کہ ہماری اولادیں اس معاشرے کے زیر اثر برباد
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 21 بر موقع اجتماع جرمنی 2006 مستورات سے خطاب ہورہی ہیں.آپ اس فکر سے آزاد ہو جائیں گی کہ ہمارے بچے جب سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں.تو وہاں کے ماحول کے زیر اثر خدا کو نہ بھول جائیں.کیونکہ آجکل کی اس نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں نئی نسل میں مادیت کی طرف رجحان کی وجہ سے اور مذہب میں بگاڑ پیدا ہو کر سچائی کے ختم ہو جانے کی وجہ سے عملاً ایک بڑی تعداد ان ملکوں میں مذہب سے دور ہٹ گئی ہے.یعنی وہ لوگ جو احمدی بچے نہیں ہیں.نو جوان نہیں ہیں عیسائی ہیں یا دوسرے مسلمان بھی مذہب سے دور ہٹتے چلے جارہے ہیں اُن کا صرف نام کا مذہب ہے.تو اس معاشرے میں گھلنے ملنے کے باوجود اگر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کی ہے کہ ان کا تعلق خدا سے جوڑ دیا ہے تو پھر یہ ساری فکریں جیسا کہ میں نے کہا آپ کی ختم ہو جائیں گی یہ نماز میں اور خدا سے تعلق آپ کے بچوں کو شراب، نشہ، جوا، زنا، جھوٹ ، چوری یا ہرقسم کی برائیوں سے محفوظ رکھیں گی کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا اعلان ہے کہ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (العنکبوت : ۴۶) یعنی یقیناً نماز تمام بُری اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی جائے نہ دنیا دکھاوے کے لئے اور نہ ہی گلے پڑا ایک فرض سمجھ کر کہ اس بوجھ کو اتار وجلدی جلدی ٹکریں مارو اور ختم کرو نماز کو.ایسی نمازیں پھر کچھ فائدہ نہیں دیتیں.بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی کا ہلی اور سستی سے ادا کی گئی جو نمازیں ہیں ان پڑھنے والوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.یہ عبادتیں اللہ تعالیٰ کے مقام کو بلند نہیں کرتیں بلکہ عبادت کرنے والے کی خود اُس کی دنیا و عاقبت کو سنوارتی ہیں.پس آپ جن کے ہاتھ میں مستقبل کی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے آپ کا کام ہے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کریں.اپنے آپ کو بھی ایک خدا کی عبادت کرنے والا بنائیں اور اپنے بچوں کے لئے بھی یہ نیک نمونے قائم کرتے ہوئے انکی بھی نگرانی کریں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہورہا ہے بعض لوگ کہتے ہیں خاص طور پر مائیں یہ اظہار کرتی ہیں کیونکہ ان کو زیادہ احساس بھی ہوتا ہے اور اکثر ایک عمر کے بعد زیادہ احساس ہو جاتا ہے تو وہ یہ اظہار کر رہی ہوتی ہیں کہ اس عمر تک 12, 13, 14 سال کی عمر تک تو ہمارے بچے لڑکی یا لڑ کا ٹھیک تھے.جوانی کی عمر کو پہنچ کر ایک دم پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ جماعت سے بھی دور ہٹ گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی دور ہٹ گئے ہیں اور اس معاشرے کے گند میں پڑر ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 22 بر موقع اجتماع جر منی 2006 مستورات سے خطاب ہیں.بعض بچے بچیاں بلوغت کی عمر کو پہنچ کر جب اُن کو یہاں کا قانون آزادی دے دیتا ہے، گھروں سے نکل گئی ہیں اور علیحدہ رہ رہے ہیں ایسے بچے اور بچیاں یہ جو پتہ نہیں کیوں کی بات کی جاتی ہے ماں باپ کی طرف سے یہ غلط ہے اُن کو پتہ ہے کہ کیوں اس طرح ہو رہا ہے اس لئے کہ ماں باپ نے اپنی عبادتوں کے نمونے بچوں کے سامنے نہیں دکھائے نہ بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں.یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہے لیکن اُس کے لئے بھی دُعا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اُس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے.اگر ماں یا باپ ان میں سے کوئی بھی ، ایک بھی اپنے نمونے قائم کر کے تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہا اور بچوں کے لئے دعا نہیں کر رہا تو پھر بچوں کے بگڑنے کے امکانات ہوتے ہیں.پس گاڑی کے پہیوں کی طرح اپنے آپ کو بیلنس رکھنا ہوگا.دونوں کو ایک ساتھ چلنا ہوگا.تب ہی آپ کے بچے اپنی زندگی کا سفر بغیر کسی حادثے کے گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو معاشرے کا مفید وجود بنانے کے قابل ہو سکیں گے.پس اس بنیادی اور انتہائی اہم بات کی طرف ابتدا سے ہی توجہ دیں.پھر گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کر لیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں.کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ان پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں.جس طرح لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے.یہاں اس معاشرے میں آج کل اس کو تہذیب یافتہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز تہذیب یافتہ نہیں ہے یہاں کی، یہ لوگ بڑے مہذب اور تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں جو لغوولعب میں پڑے ہوئے ہیں.آزادی ضمیر کے نام پر سڑکوں گلیوں بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہورہی ہیں.لباس کی یہ حالت ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے.اس ننگے لباس کو جس کو یہ لوگ تہذیب کہتے ہیں چند سو سال پہلے بلکہ بعض ملکوں میں چند سال پہلے تک بھی اور بعض ملکوں میں آج بھی وہاں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 23 بر موقع اجتماع جرمنی 2006 مستورات سے خطاب کے مقامی لوگ جب جنگلوں میں رہنے والے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے لوگ یہ کپڑے استعمال نہیں کرتے تو ان کو یہ بد تہذیب اور جنگلی کہتے ہیں اور اقدار سے عاری لوگ کہتے ہیں اور جب یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کر رہے ہوں تو یہ حرکتیں تہذیب بن جاتی ہیں.پس اس معاشرے سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ لوگوں کو.ان کے اپنے ملکوں میں بھی آج سے چند دھائیاں پہلے چند سال پہلے بلکہ آج بھی جو رائل فیملیاں ہیں جو اونچے بڑے خاندان ہیں ان کے لباس شریفانہ ہیں.باز و لمبے ہیں تو پوری سلیوز ہیں.فراک ہیں تو لمبی ہیں یا میکسیاں ہیں یا گاؤن استعمال کئے جاتے ہیں.پہلے کئے جاتے تھے اور اب بھی بعض کرتی ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا رائل فیملیز میں آج بھی استعمال کی جاتی ہیں.اچھے خاندان شراب میں دھت ہونے اور اودھم مچانے اور ننگے لباس کو دنیا میں ہر جگہ بُراسمجھتے ہیں.خواہ کسی بھی ملک کے ہوں.شریف لوگ ہوں.کسی مذہب کے زیر اثر تو وہ نہیں ہوتے.یہ یا تو خاندانی روایات ہیں ان کی جس کی وجہ سے اپنا لباس انہوں نے شریفانہ رکھے ہوتے ہیں.یا فطرت ان کو کہتی ہے کہ ننگے لباس پہنا غلط ہے.تمہارا اپنا ایک خاص مقام ہے اسکی خاطر تم نے اچھے لباس پہنے ہیں جو سلجھے ہوئے نظر آئیں.اسی طرح لغویات میں گندی اور نگی فلمیں ہیں.گندی اور رنگی کتا بیں ہیں.رسالے ہیں یہ سب اس بہانے سے مارکیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں کہ اس زمانے میں جنسی تعلقات کا پتہ لگنا چاہیے تاکہ ان بُرائیوں سے بچا جاسکے.بچتے تو پتہ نہیں یہ ہیں کہ نہیں لیکن ہر سڑک پر ہر گلی کے نکڑ پر ایسے جو اشتہارات ہیں اخلاق سوز قسم کے وہ بُرائیوں میں ضرور معاشرے کو گرفتار کر دیتے ہیں.جو چیز فطری ہے اس کا جب وقت آئے گا تو خود بخود پتہ چل جائے گا.جب اس کا پتہ لگنے کی ضرورت ہے.علم کے نام پر اس ذہنی عیاشی سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے.اس لئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اپنے تمام اعضاء کو زنا سے بچاؤ.پس ہر عورت کو ایک فکر کے ساتھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے اور ہر بچی کو جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے جس کا دماغ میچور ہو چکا ہے.یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ بُرائیاں ہیں جو مزید گندگیوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی.اس لئے ان سے بچنا ہے.ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ بھی لغویات میں ہے مثلاً انٹرنیٹ کے بارے میں میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں.یہ اس زمانے کی ایجاد ہے اور یہ ایجادات اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانے میں مقدر کی ہوئی تھیں.قرآنِ کریم میں مختلف ایجادات کا اعلان
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 24 بر موقع اجتماع جرمنی 2006 مستورات سے خطاب بھی فرما دیا.انٹرنیٹ بھی ان میں سے ایک ہے اور ٹیلی فون کا نظام جو ہے وہ بھی ان میں سے ایک ہے.ٹیلی وژن کا نظام ہے یہ بھی ان میں سے ایک ہے.جنہوں نے اشاعت کے لئے کام آنا تھا اس زمانے میں لیکن اگر ان ایجادات کا غلط استعمال کریں گی تو یہ لغویات میں شمار ہونگی اور ایسی لغویات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور ان سے بچنے کا بھی حکم ہے.جیسا کہ فرمایا ہے مومن کی تعریف یہ ہے کہ عَنِ الغْوِ مُعْرِضُونَ جولغو سے اعراض کرنے والے ہوں.لغویات سے بچنے والے ہوں.جب انٹرنیٹ پر دوستوں سے چیٹ کرنے اور اس میں دوسروں کا مذاق اڑانے اور پھکڑ توڑنے ایک دوسرے کے خلاف کام میں لائیں گی یا لوگوں کے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کے کام میں لائیں گی.کسی دوسری عورت کی زندگی اس کے خاوند سے انٹرنیٹ پر گفتگو کر کے برباد کریں گی.ایک دوسرے کی چغلیاں ہو رہی ہونگی تو یہی کارآمد چیز جو ہے یہ لغویات میں بھی شمار ہوگی اور گناہ بھی بن رہی ہوگی.پھر آج کل موبائل فون پر ٹیکسٹ میں پیغامات دیئے جاتے ہیں.یہ بھی ایک سلسلہ شروع ہوا ہے نیا، آج کل بڑا سستا طریقہ ہے گیئیں مار کر وقت ضائع کرنے کا اور نامحرموں سے بات کرنے کا.بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ٹیکسٹ میسج ہی تھا کونسی بات کر لی ہے.ایک دوسرے سے رابطے اس طرح بڑھتے ہیں کہ سہیلی نے اپنے دوستوں میں سے کسی کا فون دے دیا یا اپنے دوستوں کو اپنی سہیلی کا فون دے دیا.موبائل نمبر دے دیا یا کسی بھی ذریعہ سے ایک دوسرے کے نمبر ہاتھ آگئے تو ٹیکسٹ میسج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر ٹیلی فون پر 14,13,12 سال کے بچیاں بچے لے کر پھر رہے ہوتے ہیں.پیغامات دے رہے ہوتے ہیں.اور یہی عمر ہے جو خراب ہونے کی عمر ہے اور پھر انجام ایسی حد تک چلا جاتا ہے آخر کار جہاں وہ لغو جو ہے وہ گناہ بن جاتا ہے.اس لئے احمدی بچیاں اپنی عصمت کی خاطر اپنی عزت کی خاطر اپنے خاندان کے وقار کی خاطر اپنی جماعت کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کی طرف وہ منسوب ہورہی ہیں جس سے وہ منسلک ہیں ان چیزوں سے بچیں اور اسی طرح احمدی مرد بھی سن رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو اس سے بچائیں.پھر پہلے میں لباس کی باتیں کر رہا تھا.لباس کے نگ کے ساتھ ہی ہر قسم کی بیہودگی اور نگ کا احساس ختم ہو جاتا ہے.ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بچیاں ہیں.فیشن کرنے کا شوق ہے، کر لیں کیا حرج ہے.ٹھیک ہے فیشن کریں لیکن فیشن میں لباس ننگے پن کی طرف جب جارہا ہو تو وہاں بہر حال روکنا چاہئے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 25 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب فیشن میں برقعہ کے طور پر جو کوٹ پہنا جاتا ہے وہ بھی اس قدر تنگ ہو کہ مردوں کے سامنے جانے کے قابل نہ ہو تو وہ فیشن بھی منع ہے.یہ فیشن نہیں ہو گا پھر وہ بے حیائی بن جائے گی.پھر آہستہ آہستہ سارے حجاب اُٹھ جائیں گے اور اسلام حیا کا حکم دیتا ہے.پس اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں.فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں ان کا بھی خیال رکھیں.فیشن کا اظہار اپنے گھر والوں اور عورتوں کی مجلسوں میں کریں.بازار میں اور باہر اور ایسی جگہوں پر جہاں مردوں کا سامنا ہو وہاں یہ فیشن کے اظہار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس سے بلاوجہ کی بُرائیاں پیدا ہونے کا امکان ہو سکے.اسلامی پردے کی تعریف قرآن کریم نے بڑی کھول کر بیان کر دی ہے.اس کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں.اس بارے میں میں بھی اور پہلے خلفاء بھی بڑی تفصیل سے کئی دفعہ سمجھا چکے ہیں.اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اس کو سمجھنے کی کوشش کریں.حکم تو یہ ہے کہ مردوں سے عورت بات بھی ایسے رنگ میں کرے ایسے لہجے میں کرے جس سے کسی قسم کی نرم آواز کا اظہار نہ ہوتا ہو ، تا کہ مردوں کے دل میں کبھی کوئی غلط خیال پیدا نہ ہو.پھر مردوں کے میل جول سے بھی بچنا چاہئے.اس سے بھی اعراض کریں.ایک عمر کے بعد بچیاں اپنے کلاس فیلو اور سکول فیلولڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں.ایک حجاب کے اندر رہتے ہوئے بات ہونی چاہئے جب بھی ضرورت ہو.لڑکیاں خود بھی اس بات کا خیال رکھیں اور ماں باپ بھی اس بات کی نگرانی کریں.خاص طور پر مائیں کہ ایک عمر کے بعد لڑ کی اگر دوسرے گھر میں جاتی ہے تو محرم رشتوں کے ساتھ جائے اور خاص طور پر جس گھر میں کسی سہیلی کے بھائی موجود ہوں کسی وقت میں ، ان اوقات میں ان گھروں میں نہیں جانا چاہئے.پھر بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی احساس نہیں دلایا جاتا تو گھروں میں جو کلاس فیلولر کے ہوتے ہیں بڑی عمر تک آتے چلے جاتے ہیں.اللہ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرے میں ایسی بُرائیاں بہت اکا دکا شاذ ہی ہوتی ہیں کہیں.بیچ رہے ہیں لیکن اگر اس کو کھلی چھٹی دیتے چلے گئے تو یہ بُرائیاں بڑھنے کے امکانات ہیں.رشتے برباد ہونے کے امکانات ہیں.لڑکیوں نے اگر اس معاشرے میں تفریح کرنی ہے تو اس کا سامان کرنا لجنہ کا کام ہے.ہر جگہ پر پھر مساجد کے ساتھ یا نما ز سنٹرز کے ساتھ کوئی انتظام کریں جہاں احمدی بچیاں جمع ہوں اور اپنے پروگرام کریں.اگر بچپن سے ہی بچیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنی شروع کر دیں گی کہ تمہارا ایک تقدس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 26 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب ہے اور اس معاشرے میں جنسی بے راہروی بہت زیادہ ہے تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو تو اس لئے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو جو تمہارے اور تمہارے خاندان کے اور جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث بنے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے الا ماشاء اللہ تمام بچیاں اس بات کو سمجھتے ہوئے نیکی کی راہ پر قدم مارنے والی ہونگی.ہر بچی اور ہر عورت یا در کھے کہ اُس نے اِس زمانے میں حضرت مسیح موعود کو مان کر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی تجدید کی ہے.یہ عہد کیا ہے کہ میں اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کروں گی.میرے میں اور دوسروں میں ایک فرق نظر آئے گا.کوئی انگلی ہماری طرف اس اشارے کے ساتھ نہیں اُٹھ سکتی کہ یہ لڑکی بڑی دنیا دار ہے.دین سے ہٹی ہوئی اور لغوحر کات کرنے والی ہے اور ہر عورت بھی اگر اس بات کا خیال رکھے گی کہ میں نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد کیا ہے کہ میں نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اپنی اولاد کے اندر بھی پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اس کے لئے اپنی پوری کوشش صرف کر دینی ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ ایسی عورتیں اور ایسی بچیاں معاشرے میں ایک مقام حاصل کرنے والی ہونگی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ان کوششوں کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس کی عبادت کرنے والی ہوگی تو پھر ( انشاء اللہ تعالیٰ ) اللہ تعالیٰ آپ میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کر دیگا.آپ کی اولادوں میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کر دیگا جس سے آپ کا معاشرے میں ایک ایسا مقام ہوگا جہاں آپ کا اور آپ کے بچوں کا نام بڑے احترام سے لیا جائے گا.خدا تعالیٰ آپ سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہماری آئندہ نسلوں کی پاکیزگی کی ضمانت ہو اور ہم اس زمانے کے امام سے کئے ہوئے عہد کو ہمیشہ پورا کرنے والے ہوں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 27 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 ء تبلیغ سے جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گناہ بڑھ سکتی ہے.حقیقی طور پر عبادت گزار بن جائیں آپ کی زندگیاں سنور جائیں گی.خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو.باپ اپنے عملی نمونے پیش کریں.دشمن کے لئے بھی دعا کریں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 28 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب تبلیغ سے جماعت کی ترقی کی رفتار بڑھ سکتی ہے أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ.پہلے میرا خیال تھا کہ عورتوں سے لجنات سے یہاں علیحدہ جلسے پر خطاب نہیں ہوگا کیونکہ بہت تھوڑی تعداد ہے لیکن پھر امیر صاحب نے جو مجھے پروگرام لکھ کر بھیجا اور اس میں یہ بھی تھا کہ عورتوں سے علیحدہ خطاب بھی کیا جائے تو ان کی بات مانتے ہوئے کہ یہاں میرا پہلا دورہ ہے یہ پھر ملک بھی نہیں بلکہ براعظم بھی ہے اس لئے چند باتیں چند منٹ کروں گا لیکن میرا جواندازہ تھا جو حاضری کا اللہ کے فضل سے اس سے کافی زیادہ حاضری ہے لیکن اس کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بس اتنی ہوگئی ہے کہ اب بہت تسلی ہو گئی ابھی بھی آپ مسجد کے ہال میں، آپ کو تو چاہئے بہت بڑی مارکی لگانی باہر.اس لئے حاضری بہر حال بڑھانی پڑے گی اور اسی ضمن میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ اگر آپ کی اتنی ہی تعدا د ر ہی تو شاید علیحدہ خطاب نہ ہو.اس لئے تعداد بڑھانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے مختلف ذرائع ہیں اور تبلیغ جو ہر احمدی کا کام ہے اُس میں آپ کو بھی اپنے آپ کو involve کرنا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 29 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب چاہئے ،شامل ہونا چاہئے.اس کے پروگرام بنا ئیں.لوگوں کو اسلام کے محاسن اور خوبیاں بتائیں.اپنی حالتوں میں عملی تبدیلیاں پیدا کریں جب یہ عملی تبدیلی پیدا کریں گی تو ایک طبقہ جس سے آپ کا واسطہ ہے خودبخود آپ کی طرف کھنچا چلا آئے گا انشاء اللہ.یہاں مردوں کی طرح یہاں عورتوں میں بھی دو قسم کے طبقات ہیں مردوں میں تو شاید ایسے طبقے کی تعداد بہت تھوڑی ہو جو باہر نہ نکلتے ہوں اور اپنے ماحول میں کسی قسم کی واقفیت نہ رکھتے ہوں یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے اپنا مد عا صحیح طور بیان نہ کر سکتے ہوں لیکن عورتوں میں جو خاص طور پر بڑی عمر کی عورتیں ہیں ان کی تعداد میرے خیال میں کافی زیادہ ہے جو اس ملکم وغیرہ کے لئے یہاں آئیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کو یہاں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا.اور اس وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا اسائکم وغیرہ کے لئے آئیں ان کو زبان کے اختلاف کی وجہ سے اپنا مدعا دوسروں تک پہنچانے میں دقت ہے.کچھ علم بھی ہے اگر تو صحیح طرح اپنا مؤقف پیش نہیں کر سکتیں.تو بہر حال ایک تو ایسی عورتیں یہاں کی جن کا میں نے ذکر کیا کہ صحیح طرح اپنا موقف بیان نہیں کر سکتیں یہاں کی بڑی بوڑھی عورتوں سے تعلق پیدا کریں رابطے پیدا کریں اس سے گو کچھ عرصے تک وقت تو ہوگی لیکن آہستہ آہستہ یہ اعتماد پیدا ہو جائے گا کہ کس طرح بات کرنی ہے پھر کوئی لٹریچر دے کر یا کوئی کیسٹ لے کر اپنے فنکشنز میں بلا کر ان سے رابطے بڑھاتی چلی جائیں.اور یہ دوستیاں جو ہیں پھر بڑھیں گی پھر آگے مزید راستے پیدا کریں گی.مزید راستے بھی کھلیں گے.دنیا میں کئی جگہ لوگوں نے زبان نہ جاننے کے باوجو لٹریچر سے کیسٹ سے ایسے رابطے پیدا کئے جو بعضوں کے لئے قبول احمدیت کا باعث بنے.تو اس طرح سے کم از کم آپ کی طرف سے احمدیت کا پیغام تو ہر جگہ پہنچ جائے گا.کیسٹ سے اور لٹریچر سے چاہے زبان نہ بھی آتی ہو.دوسرا طبقہ یہاں کا یہاں کی پلی بڑھی بچیاں ہیں یا پڑھی لکھی عورتیں ہیں ان کو تو زبان کی آسانی ہے لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں.بعض لوگوں کے رابطے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں.مردوں کا جو حصہ ہے تبلیغ کا وہ مردوں کے حصے رہنے دیں.کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.کہا تو یہی جا رہا ہوتا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 30 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر اس کے عموماً دیکھنے میں آیا ہے تجر بہ میں آیا ہے انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے.پھر جو بچیاں کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے اپنے بارے میں اپنی طالبات سے اسلام کے بارے میں بات چیت کریں.اپنے بارے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا.اگر آپ لوگوں کا رکھ رکھاؤ اور طور طریق دوسروں سے مختلف نظر آتے ہونگے تو خود بخود کبھی ہوئی طالبات جو ہیں آپ کی کالجوں اور یو نیورسٹیوں کی آپ کی طرف توجہ کریں گی.اور یوں بات کا سلسلہ چل جائے گا.اگر آپ کے بیگوں میں ہر لڑکی نے بیگ اٹھایا ہوتا ہے اور کافی بڑے بڑے بیگ ہوتے ہیں جماعتی لٹریچر ہو چھوٹی سی کتاب ہو اور جہاں آپ فارغ ہوں گی اس کو نکال کر اپنے سامنے رکھ لیں جو بعض سنجیدہ طالبات ہیں ان کے لئے یہ بات توجہ طلب ہوگی اور وہ آپ کو کتاب پڑھتے دیکھیں گی بات آگے بڑھانے والی ہوگی ذراسی کتاب میز پر پڑی ہوگی اسے دیکھنے کی کوشش کریں گی.گو کہ عموماً توجہ کم دی جاتی ہے یہاں کہ رواج کے مطابق لیکن پھر بھی جو قریبی سہلیاں ہوں ان کی نظر تو بہر حال پڑ جاتی ہے.غرض کہ بہت سے ذرائع ہیں جو اگر آپ اپنے حالات کے مطابق سنجیدگی سے سوچتے ہوئے نکالنے کی کوشش کریں تو نکل آئیں گے تبلیغ کے.اور ایک ذریعہ تعداد بڑھانے کا نسل بڑھانے سے ہے جو اللہ کے فضل سے جماعت میں چل ہی رہا ہے.اللہ کرے سب بچیوں کی شادیاں ہو جا ئیں اور ان کو نیک سلجھے ہوئے خاوند بھی مل جائیں جو احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں تو دونوں مل کر جہاں پر سکون زندگی بسر کرنے والے ہوں وہاں دین کی خدمت کے مواقع بھی ان کو ملتے رہیں اور تبلیغ کے کام کو بھی آگے بڑھانے والے ہوں.اور آئندہ نسلوں میں بھی احمدیت کی جاگ لگتی چلی جائے ایک درد ہوا ایک لگن ہو ہر احمدی کے دل میں ہر مرد اور ہر عورت کے دل میں کہ ہم نے اس چھوٹے سے براعظم کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں لانا ہے.اور اگر ہماری عورتیں اور بچیاں یہ پختہ ارادہ کر لیں تو انشاء اللہ تھوڑے عرصہ میں آپ دیکھیں گی کہ کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی.اور آپ لوگوں کے active ہونے کی وجہ سے یعنی عورتوں کے active ہونے کی وجہ آپ دیکھیں گی کہ مرد بھی میدان عمل میں اتر آئیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ذیلی تنظیموں اور خاص طور پر لجنہ کی تنظیم کو جاری اس
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 31 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب لئے فرمایا تھا کہ اگر جماعت کا ایک طبقہ مست ہے تو دوسرا طبقہ اپنے کام میں فعال اور تیز ہو جائے اور جماعتی ترقی کے کام کبھی رکنے نہ پائیں اور جب جماعت کے تمام طبقات فعال ہو جاتے ہیں کام کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے.حقیقی طور پر عبادت گزار بن جائیں آپ کی زندگیاں سنور جائیں گی پس اب وقت ہے کہ آپ عورتیں ایک نئے عزم کے ساتھ جماعتی خدمات میں جت جائیں لیکن یہ سب کچھ جیسے کہ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم ہے بغیر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہو نہیں سکتا اس لئے اس کے فضل کو سمیٹنے کے لئے آپ کو اپنا شمار عابدات میں بھی کروانا ہوگا اور عاہدات ہونے کے لئے جیسا کہ میں نے کل کے خطبے میں بھی کہا تھا اپنی نمازوں کی حفاظت اور ان کو سنوار کر ادا کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی.گو کہ میں یہاں عبادت کی بات دوسرے نمبر پر کر رہا ہوں لیکن اصل میں سب سے اول عبادت ہی ہے اور ہمارا تو اصل سہارا اللہ ہی ہے اور اُسی سے ہم نے مدد لینی ہے ہمیشہ.پس آپ کا شمار عابدات میں ہو جائے گا تو آپ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو اپنے او پر اتر تا دیکھیں گی آپ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کی وارث بنیں گی.جب کہ اس کے بغیر آپ کی تمام کوششیں بے فیض ہوں گی کسی پھل کے بغیر ہوں گی پس اپنے دلوں کو ٹولتے ہوئے تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اپنے آپ کا شمار عابدات میں کروائیں ایسی عورتوں میں کروائیں جو عبادت کرنے والی عورتیں ہوں.کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ عبادات کے بغیر ایک احمدی کی زندگی نامکمل ہے آپ میں سے بہت سے یہاں اپنے ملک کے نامساعد حالات کی وجہ سے، تکلیف دہ حالات کی وجہ سے تنگی کی وجہ سے آئی ہیں اور یہ نا مساعد اور تکلیف دہ حالات جیسا کہ میں کل خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں یہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو ماننے کی وجہ سے پیش آئے ہیں اس لئے ہر روز جو آپ پر طلوع ہو اور ہر دن جو کل چڑھے آپ کے ذہن میں یہ بات بٹھاتے ہوئے طلوع ہواس ملک میں امن سے زندگی گزارنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے ہر دن کا آغاز خدا کی عبادت سے کریں اور اُس کے نام سے کریں اور حقیقی طور پر عبادت گزار بن جائیں.اور پھر سارا دن اس کا احساس اگر آپ کے ذہنوں میں رہے تو اس سے آپ کی زندگیاں سنور جائیں گی.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 32 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب اپنے بچوں کو بھی یہ باور کروادیں اور اُن کے ذہنوں میں بھی یہ ڈال دیں کہ آج جو تم پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہورہے ہیں آج جو تم اعتماد کی زندگی گزار رہے ہو یہ سب اس خدا کے فضلوں کی وجہ سے ہے.ہماری اپنی کوشش اپنی کاوش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور اب ان فضلوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس خدا کے سامنے جھکنے والے اس کا شکر ادا کرنے والے بن جائیں اور اس کی عبادت کرنے والے بن جائیں اور ایک عورت ماں کے ناطہ بچوں کیساتھ زیادہ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ماں سے بچے باپ کی نسبت زیادہ attach ہوتے ہیں بچپن میں، تو اگر ابتداء سے ہی اپنے عمل سے اور اپنی باتوں سے بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دیں بٹھا دیں تو نسلاً بعد نسلاً عبادت گذار پیدا ہوتے چلے جائیں گے.اور نتیجتا احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والوں کی ایک کے بعد دوسری فوج تیار ہوتی چلی جائے گی لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ جلدی اچھے حالات کی وجہ سے پہلے کے گزارے ہوئے تنگی کے دنوں کو بھول جاتی ہیں اور یہ عورت کی فطرت ہے اور اس کی مختلف ترجیہات ہوتی ہیں لیکن ایک احمدی عورت کو چاہئے کہ اپنی ترجیہات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ مد نظر رکھیں آپ نے فرمایا ' وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے.پس اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الہی سے سجائے رکھیں تا کہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں.بجائے اس کے آپ کے خاوند آپ کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوں کے لئے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر خاوند صبح اٹھے نماز کے لئے جاگے تو بیوی کو جگائے.نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے اور اگر بیوی پہلے جاگنے والی ہوتو خاوند کو جگائے.اگر وہ نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے تا کہ وہ نماز کے لئے جاگ جائے، پس یہ اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے اور اپنے گھر والوں کو نماز کی طرف توجہ دلانے کی ذمہ داری صرف مرد کی نہیں ہے بلکہ عورت کی بھی ہے اور عورت کو اپنے بچوں کے نگران ہونے کی وجہ سے ان کے جگانے کی ذمہ داری بھی ہے نمازوں کے لئے ان کو توجہ دلانے کی ذمہ داری بھی ہے پس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 33 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب جس گھر میں عورتیں اپنی راتوں کو زندہ کریں گی عبادت کے لئے اپنی راتوں کو زندہ کرنے والی ہوں گی اور اپنے مردوں اور بچوں کو عبادت کی توجہ دلانے والی ہوں گی اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں سے وہ گھر اللہ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے.خدا تعالی کی نظر میں نیک بنو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک بن جائے گا پس یہ آپ کی نیکیاں ایسی نیکیاں ہوں جو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہونے والی نیکیاں ہوں.اور آپ کو جہاں ان نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب مہیا ہو میسر ہو جہاں یہ نیکیاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنارہی ہوں گی اور قرب میسر کر رہی ہوں گی وہاں آپ کے گھریلو ماحول کو بھی آپ کے لئے جنت نظیر بنا رہی ہوں گی.بعض عورتوں کے یہ شکوے بھی دور ہورہے ہوں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے، کہ خاوند جو ہیں وہ ہم پر توجہ نہیں دیتے کافی عورتوں کوشکوے ہوتے ہیں.ایک احمدی مرد کچھ نہ کچھ خدا تعالیٰ کا خوف بہر حال اپنے دل میں رکھتا ہے.وہ آپ کی عبادتوں کو دیکھتے ہوئے دل میں خدا کا خوف رکھتے ہوئے حسن سلوک کی طرف متوجہ ہوگا.ایک تو جو اللہ تعالیٰ نے دعا کو سن کر اس کا دل پھیرنا ہے وہ تو پھیرنا ہے آپ کے عمل بھی اس دل کو پھیر نے والے ہوں گے.ایک نیک اور دین دار خاتون کی یہی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ سب سے پہلے اس کا خدا اس سے راضی ہو اور پھر یہ کہ اپنے خاوند کی ذمہ داریاں نبھا کر اسے خوش کرے اور پھر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دے.اور ان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور جماعت اور خلافت سے اخلاص و وفا کا رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کرے.اور تلقین کرتی رہے ان کو.کیونکہ جس گھر میں یہ چیز پیدا ہو جائے وہ گھر کبھی ضائع نہیں ہوتا پس یا درکھیں کہ احمدی معاشرے کا ہر گھر اور ہر گھر کا ہر فر د جماعت کا ایک اثاثہ ہے ایک asset ہے اور کوئی عقلمند شخص یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کا اثاثہ کبھی ضائع ہو اس کا مال کبھی ضائع ہو اس کے گھر کا سامان کٹ جائے اور جس قدر زیادہ قیمتی جائیداد ہو گی اسی قدر زیادہ اس کی حفاظت کا سامان کیا جاتا ہے اور جماعت احمد یہ میں اسی اصول کے تحت کہ جماعت کا اثاثہ اور نہایت قیمتی asset جماعت کا ہر فرد ہے ہر عورت ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 34 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب ہر بوڑھا ہے ہر بچہ ہے اس کی تربیت کا سامان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ یہ قیمتی سرمایہ ضائع نہ ہو جائے اور اسی لئے ہر طبقے کی علیحدہ تنظیم قائم ہے تا کہ ہر سطح پر تربیت کا انتظام ہو ہرعمر اور ہر طبقے کا احمدی اپنے آپ کو جماعت کا فعال حصہ سمجھے اور قیمتی سرمایہ خیال کرے.ہر سطح پر جماعتی نظام کو سنبھالنے کو ہر ایک میں اہلیت و قابلیت پیدا ہولیکن سب سے اہم ذمہ داری انتہائی بنیادی اکائی ہونے کی وجہ سے انتہائی بنیادی یونٹ ہونے کی وجہ سے عورت کی ہے.جس کے ہاتھ سے بچے پل کر جوان ہوتے ہیں ایک نسل پل کر نکلتی ہے.اس لئے گھر کی سطح پر اگر ایک نیک عورت ایک پکی احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے فرائض کی بجا آواری کرے تو وہ بچے جو ایسی ماؤں کے ہاتھوں سے پل کر عملی زندگی میں آتے ہیں ہمیشہ عبادت گزار اور جماعت سے اخلاص و وفا ر کھنے والے بچے ہوتے ہیں.اور جن گھروں میں بے شک نمازیں بھی پڑھ رہے ہوں جماعتی عہد یداروں پر اعتراض ہوں جماعت کے بعض معاملات discuss ہوتے ہوں بلاوجہ کی باتیں کی جاتی ہوں وہاں پھر آہستہ آہستہ جماعت سے بھی دوری پیدا ہو جاتی ہے اور خلافت سے بھی دوری پیدا ہو جاتی ہے.اس وجہ سے عورت کے اس اہم مقام کا احساس دلانے کے لئے کہ کیا اہم مقام ہے عورت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے.جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو.کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہو اور روحانی نقصان بھی نہ ہو.اس کے پیسے کا بے جا اسراف نہ ہو کیونکہ بے جا اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کر دیتا ہے عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہے.اور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے اس قرضے کی وجہ سے جب بے سکونی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے فکروں میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر صبر کرنے والی بھی اس کی طبیعت ہے تو مریض بن جاتا ہے.کوئی شوگر کا مریض بن گیا کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا اگر نہیں خاوند مانتا تو بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے رویہ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں.اگر یہ جو بے چینیاں پیدا ہو رہی ہیں اگر نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ آپ کسی قسم کا مریض بن رہی ہوں گی نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 35 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکے اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت تو تکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنا رہی ہوتی ہیں تو دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے جنت نظیر ہونا چاہئے جہنم کا نمونہ پیش کر رہا ہوتا ہے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے.پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے.ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہو رہی ہوتی ہے.بعض بچے اس معاشرے میں کیونکہ بالکل آزاد معاشرہ ہے سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں.تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کے اس کے مال اور بچوں کی نگران بنائی گئی ہے اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کولٹوانے کا سامان کر رہی ہوتی ہے.پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے.ان باتوں سے عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ تمام ذمہ داریاں صرف عورتوں پر ہیں اور مرد آزاد ہو گئے ہیں.مردوں کے بھی یہی احکام ہیں.اس وقت میں کیونکہ آپ عورتوں سے مخاطب ہوں اس لئے خاص طور پر آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.ورنہ آنحضرت ﷺ نے مردوں کو مخاطب کر کے بھی فرمایا ہے اچھی بچوں کی تربیت کے وہ بھی ذمہ وار ہیں.کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولادکو دے سکے.پس یہ تربیت کرنا باپوں کی بھی ذمہ داری ہے اور ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے.اور جب تک باپ اپنے عملی نمونے قائم نہیں کریں گے اس وقت تک وہ تربیت نہیں کر سکتے.پس آپ دونوں اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.اور مرد ہو یا عورت وہ سب ذمہ دار ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کیونکہ بچپن سے بچے زیادہ وقت عورت کے پاس رہتے ہیں ماں کے پاس رہتے ہیں اس لئے اس کو اچھی تربیت کی وجہ سے جو تربیت ایک ماں اپنے بچوں کی اچھی کرتی ہے آنحضرت ﷺ نے اسی تربیت کی وجہ سے عورت کو یہ خاص مقام عطا فرمایا ہے.جو فر مایا کہ ” جنت ماں کے قدموں تلے ہے.یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کے بچوں کو اس 66
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 36 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب دنیا میں بھی جنت کا وارث بناسکتی ہے اور اگلے جہاں میں بھی.اور یہ آپ کے بچوں کی اعلیٰ تربیت ہی ہے جو ہر وقت بچوں کو خدا سے جوڑے رکھے گی.اور بچوں کے یہ عمل اور آپ کے لئے دعائیں بچوں کو بھی دعائیں کرنے کی عادت پڑے گی.تو بچوں کی جو آپ کے لئے دعائیں ہیں وہ آپ کو بھی اگلے جہاں میں جنت کے اعلیٰ درجوں تک لے جانے کا باعث بن رہی ہوں گی.پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں آج اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.آپ کی ہر بات بیچ اور صرف بیچ پر بنیا درکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی.پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں.اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں.قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں.تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہمیشہ نیکیاں بجالانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں.اپنے ماحول میں بھی اپنے بچوں کو سب سے پہلے پھر اپنے ماحول میں.اور بُرائیوں کو ترک کرنے والی بہنیں اور بُرائیوں کو روکنے والی بنیں.معاشرے میں بھی بُرائیاں پھیلنے نہ دیں.آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں.اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں.عام طور پر دیکھا گیا کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں.اگر آپ کے دل میں بغض و کینہ پلتے رہے خدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اتر تا پھر ایسے دلوں کی عبادت کے معیار نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.دشمن کے لئے بھی دعا کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ تمہاری دعا اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک کہ دشمن کے لئے بھی دعا نہ کرو.اس کے لئے بھی تمہارا سینہ صاف نہ ہو.پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنی رنجشوں کو دور کرنا اور صلح اور صفائی کی فضا پیدا کرنا بھی ضروری ہے.ہمیشہ عاجزی دکھانے والی بنی رہیں کبھی ایک دوسرے پر کسی قسم کی بڑائی جتانے کی کوشش نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں گی تو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 37 بر موقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006 مستورات سے خطاب اللہ تعالیٰ کی محبوب بنیں گی.ہمیشہ اپنے اندر قناعت پیدا کریں کسی دوسرے کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھ کر کبھی بے صبری پیدا نہ ہو.ہاں دوسرے کی نیکیوں پر ضرور رشک کریں.خود بھی نیکیوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں.لیکن ناشکری اور بے صبری کبھی نہ دکھا ئیں.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی شکر گذار بندیاں بنی رہیں.اور یہ شکر گذاری (اگر بنی رہے گی تو ) آپ کو اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنائے گی.پس ہمیشہ اپنے اندر قناعت پیدا کئے رکھیں اور حسد اور ناشکر گذاری سے بچیں.جب آپ کے عملی نمونے اور عبادتوں کے معیار قائم ہوں گے تو پھر آپ دیکھیں گی کہ جہاں آپ دنیا کے لئے توجہ کا باعث بن رہی ہوں گی اور اس ذریعے سے تبلیغ کے مواقع حاصل ہورہے ہوں گے وہاں آپ اپنی اس دنیا کو بھی جنت نظیر بنارہی ہوں گی.اپنی نسلوں کو بھی احمدیت پر قائم رکھنے والی بنارہی ہوں گی.اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا رہی ہوں گی.بعض خواتین ملاقات کے دوران اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ اولاد کی طرف سے بڑی فکر ہے خاص طور پر بچیوں کی طرف سے لڑکوں کی طرف سے بھی بعض حالات میں کہ یہاں کا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہو تو یا درکھیں کہ جیسا کہ میں نے کہا اگر آپ اپنے عملی نمونے دکھائیں گی خود بھی نظام سے خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں گی اور اپنے بچوں میں اس تعلق کو قائم کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی اور سب سے بڑھ کر خود بھی عبادت گذار رہیں گی اور اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی بھی کرتی رہیں گی تو انشاء اللہ اللہ تعالی ہمیشہ آپ سے آپ کی ان فکروں کو دور کر دے گا اور آپ کی اپنی اولاد کی طرف سے ہمیشہ آنکھیں ٹھنڈی رکھے گا.انشاءاللہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو حقیقی معنوں میں اپنی بندیاں بنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اور آپ کی اولاد جماعت احمدیہ کا ایک قیمتی سرمایہ بن کر رہیں ہمیشہ.اب دعا کر لیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 38 فرموده 6 جنوری 2006 بمقام جلسہ گاہ قادیان خطبہ جمعہ فرمودہ 06 / جنوری 2006ء بمقام جلسه گاه ، قادیان دارالامان (بھارت ) (اقتباس) جب تک عورتوں میں مالی قربانی کا احساس برقرار رہے گا تو قربانی کرنے والی نسلیں بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتی رہیں گی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 39 فرموده 6 جنوری 2006 بمقام جلسہ گاہ قادیان عورتوں کی قربانیوں کی مثالیں حضرت خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :.خلیفہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے اور نماز کا آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا.جب فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اُترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی.آپ اس وقت حضرت بلال کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں.(بخاری کتاب العيدين باب موعظة الامام النساء يوم العيد) تو یہ تھیں اس زمانے کی عورتوں کی مثالیں.اس زمانے میں بھی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی ایسی عورتیں ہیں جو بے دریغ خرچ کرتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی کئی مثالیں دی ہیں.خلافت ثالثہ میں بھی کئی مثالیں ہیں.خلافت رابعہ میں بھی کئی مثالیں ملتی ہیں.اب بھی کئی عورتیں ہیں جو قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، اپنے زیور اتار کر دے دیتی ہیں.تو جب تک عورتوں میں مالی قربانی کا احساس برقرار رہے گا اس وقت تک انشاء اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والی نسلیں بھی جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتی رہیں گی.یہ جو میں بار بار زور دیتا ہوں کہ نو مبائعین کو بھی مالی نظام کا حصہ بنائیں یہ اگلی نسلوں کو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 40 فرموده 6 جنوری 2006 بمقام جلسہ گاہ قادیان سنبھالنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ جب اس طرح بڑی تعداد میں نو مبائعین آئیں گے تو موجودہ قربانیاں کرنے والے کہیں اس تعداد میں گم ہی نہ ہو جا ئیں اور بجائے ان کی تربیت کرنے کے ان کے زیر اثر نہ آجائیں.اس لئے نو مبائعین کو بہر حال قربانیوں کی عادت ڈالنی پڑے گی اور نومبائع صرف تین سال کے لئے ہے.تین سال کے بعد بہر حال اسے جماعت کا ایک حصہ بننا چاہئے.خاص طور پر نئی آنے والی عورتوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 41 فرمودہ 107 اپریل 2006 بمقام مسجد طه، سنگا پور خطبہ جمعہ فرمودہ 107 اپریل 2006 ء بمقام مسجد طه، سنگاپور (اقتباس) پردے کا حکم
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 42 فرمودہ 07 اپریل 2006 بمقام مسجد طه، سنگا پور پردے کا حکم حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ حکم سات سو ہیں.پس ایک احمدی کو احمدیت قبول کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنی چاہئے کہ کہیں کسی حکم کی نافرمانی نہ ہو جائے.اب مثلاً ایک حکم ہے حیا کا عورت کو خاص طور پر پردے کا حکم ہے.مردوں کو بھی حکم ہے کہ غضِ بصر سے کام لیں ، حیاد کھائیں.عورت کے لئے اس لئے بھی پردے کا حکم ہے کہ معاشرے کی نظروں سے بھی محفوظ رہے اور اس کی حیا بھی قائم رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہو گئی ہے.عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے.mix gatherings ہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں بدن پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بیہودگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں.یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھر مکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے مسلمان کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر بڑے حکموں سے بھی دُوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 43 فرمودہ 07 اپریل 2006 بمقام مسجد طه، سنگا پور عبادت سے بھی دُوری ہو جاتی ہے.اور پھر انسان اسی طرح آخر کار اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے.اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نو جوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے.ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بن کر آیا تھا.پس اگر اُس سے منسوب ہونا ہے تو پھر اُس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہوگا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن جائے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 44 فرمودہ 21 اپریل 2006 بمقام بیت الھد کی.سڈنی (آسٹریلیا ) خطبہ جمعہ فرمودہ 21 / اپریل 2006 ء بمقام بیت اللد کی.سڈنی (آسٹریلیا) (اقتباس) عور تیں تبلیغ کے دائرے میں آگے آئیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 45 فرمودہ 21 اپریل 2006 بمقام بیت الھد کی.سڈنی (آسٹریلیا ) عور تیں تبلیغ کے دائرے میں آگے آئیں حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.غیر پاکستانی احمدیوں کے یہ شکوے دور ہونے چاہئیں کہ ہم یہاں آ کر یوں محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم جماعت کا حصہ نہیں ہیں یہ بہت خطرناک صورت ہو سکتی ہے.ان نئے آنے والوں سے کام بھی لیں ، ان کے شکوے دور کریں.میں نے جائزہ لیا ہے، ان نئے آنے والوں کے لئے بعض سے میں نے یہ پوچھا ہے یہ کس حد تک صحیح ہے، بہر حال مجھے ان سے جو معلومات ملی ہیں یہی ہیں کہ یہاں ان کو باقاعدہ کوئی سکھانے کا انتظام نہیں ہے.عورتوں کے لئے دینی تربیت کا، تعلیم کا انتظام لجنہ کرے.مردوں کے لئے ذیلی تنظیمیں انتظام کریں، مجموعی طور پر جماعت جائزہ لے.اگر اس سلسلے میں ذیلی تنظیمیں پوری طرح فعال نہیں تو جماعتی نظام کے تحت انتظام ہواور نگرانی ہو.اور جو ذیلی تنظیمیں ست ہیں ان کے بارے میں مجھے اطلاع بھی دیں.تو جب اس طرح کام کریں گے تبھی ہر احمدی کو جماعت کا فعال حصہ بنائیں گے.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں بعض محسین احمدیوں کو بھی شکوہ ہے کہ بعض دفعہ یہاں آکر وہ اپنے آپ کو اوپرا محسوس کرتے ہیں.تو ان سے میں کہتا ہوں اس کا ایک یہ بھی علاج ہے.وہ احمدی ہوئے ہیں انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور سمجھا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ جماعتی کاموں میں لگائیں کہ انتظامیہ ان سے کام لینے پر مجبور ہو.تبلیغ کا بہت بڑا میدان خالی پڑا ہے.ہر احمدی کے لئے کھلا ہے.اس میں آگے بڑھیں ذاتی رابطے کر کے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 46 فرمودہ 21 اپریل 2006 بمقام بیت الھد کی.سڈنی (آسٹریلیا ) اور طریقے اپنا کر تبلیغ کا کام کریں.اس کام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں.مردوں میں تو میں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے نو جوانوں میں دوسری قوموں کے بھی کافی لڑکے کام کرنے والے ہیں.بعض عورتوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو اور عورتوں کو خاص طور پر چاہئے اپنی استعدادوں کے مطابق اور اپنے دائرے کے مطابق تبلیغ کے میدان میں آگے آئیں.بہر حال انصار اللہ کی تنظیم اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم ان سب کو جائزے لینے چاہئیں کہ کیوں یہ شکوے پیدا ہوتے ہیں.چاہے وہ دو چار کی طرف سے ہی ہوں.لیکن شکوے رکھنے والے بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.انصار اللہ کے صدر بھی شاید نبی کے رہنے والے ہیں.وہ آسانی سے اپنے لوگوں کی نفسیات دیکھ کر پروگرام بنا سکتے ہیں.لجنہ کو بھی جائزے لینے کی ضرورت ہے.غیر پاکستانی احمدیوں کی یا ایسے نوجوان پاکستانیوں کی جو لمبے عرصہ سے ملک سے باہر ہیں اور ان کا معاشرہ بالکل بدل چکا ہے ان کی فہرست بنائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کو کس طرح جماعت کا فعال حصہ بنایا جا سکتا ہے.اپنی کوشش کریں تا کہ ان کے شکوے دُور ہو جائیں.بہر حال اس کے لئے جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں دونوں طرف سے دلوں کو کھولنے اور بلند حوصلے دکھانے کی ضرورت ہے.ہر طبقے کو اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.ہر ایک کو یا درکھنا چاہئے کہ جماعت کا ایک نظام ہے اور یہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اس لئے نظام کی اطاعت بھی فرض ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 47 فرمودہ 5 مئی 2006 بمقام بیت المقیت ، آک لینڈ ( نیوزی لینڈ) خطبہ جمعہ فرموده / 05 مئی 2006 ء بمقام بیت المقیت ، آک لینڈ ( نیوزی لینڈ ) (اقتباس) دعوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 48 فرمودہ 5 مئی 2006 بمقام بیت المقیت ، آک لینڈ ( نیوزی لینڈ) دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیل السی الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.پھر بعض بنیادی چیز میں ہیں جو میں نے نوٹ کی ہیں.یہاں تو ابھی جائزہ نہیں لیا لیکن پیچھے لیتا آیا ہوں.جماعت کے متعلق ، اسلام کے متعلق جن کو بنیادی چیزیں پتہ نہیں ہیں ان کو سیکھنی چاہئیں.عورتوں اور نو جوانوں کو بھی اس میں ہمیں شامل کرنا ہو گا.بعض احمدی ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ احمدیت کیا چیز ہے.کیوں احمدی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کیا پیشگوئیاں فرمائی تھیں.کیا کیا پوری ہو گئیں اور اس طرح کے مختلف سوال ہیں.اور جب تک ہمارے سارے طبقے بشمول عورتیں ، کیونکہ عورتوں کو ساتھ لے کے چلنا بھی ضروری ہے ان کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو مکمل کامیابیاں نہیں ہو سکتیں.گاؤں کی رہنے والی عورتوں کو عموماً اس بارے میں علم نہیں ہوتا کہ ہم احمدی کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور اس وجہ سے پھر وہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی نہیں سنبھال سکتیں.نہ تبلیغ کر سکتی ہیں.گاؤں میں رہنے والوں کی مثال تو میں نے نجی کی دی ہے یہ میرا وہاں کا جائزہ تھا.یہاں نسبتا پڑھی لکھی عورتیں آئی ہیں لیکن یہاں آ کر حالات بہتر ہونے کی وجہ سے ان عورتوں کی دلچسپیاں نہ بدل جائیں.ایمان میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو.اور پھر یہ ہے کہ اپنے دینی علم میں اضافہ کرنے کی کوشش ہو.پس عورتوں کو بھی دینی علم سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.خاص طور پر ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے میں دینی علم سکھانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اور پھر ایک مہم کی صورت میں ہر مرد، عورت، جوان، بوڑھا احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں لگ جائے اس سے جہاں آپ کی اپنی حالت بہتر ہوگی ، اپنی تربیت کی طرف توجہ پیدا ہوگی وہاں تبلیغ کے لئے بھی نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے.وہاں بعض خاندانوں کے یہ مسائل بھی حل ہوں گے جو
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 49 فرمودہ 5 مئی 2006 بمقام بیت المقیت، آک لینڈ ( نیوزی لینڈ) احمدی بچوں کے دوسرے مذاہب میں رشتے کی وجہ سے، شادیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ پھر علم ہونے کی وجہ سے اور اس علم کو پھیلانے کی وجہ سے خلاف تعلیم رشتوں کی طرف زیادہ رجحان نہیں رہے گا.اور پھر اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے معیار بھی بڑھ رہے ہوں گے.نیوزی لینڈ میں جماعت زیادہ پرانی نہیں ہے.تقریباً تمام لوگ ہی ابتدائی احمدیوں میں شامل ہوتے ہیں.آپ لوگوں کو خاص طور پر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے، اپنی اصلاح کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اور پھر تبلیغ کے میدان میں بھی آنا چاہئے.اپنے دینی علم کو بھی بڑھانا چاہئے.اگر آپ یہ کوشش کریں اور اگر پلاننگ کی جائے تو جس طرح آپ کے بڑوں نے کیا جیسا کہ میں نے کہا تھا تو آپ یہ پیغام بڑی جلدی بعض جگہوں پر پہنچا سکتے ہیں.میں پہلے رشتوں کی بات کر رہا تھا.ضمناً یہاں یہ بھی بتادوں کہ مجھے پتہ ہے رشتوں کے بڑے مسائل ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے کیونکہ میں نے عموماً دیکھا ہے شاید چھوٹی جگہوں پر بھی ہوں.نجی وغیرہ میں ماشاء اللہ لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں.یہاں بھی رشتے ہیں.آسٹریلیا میں بھی اور جگہوں پر بھی ہیں.تو اس کے لئے ایک تو جماعت کا رشتہ ناطہ کا نظام ہے اس کو فعال ہونا چاہئے.اور ویسے اگر پتہ لگے تو باہر بھی کوشش ہو سکتی ہے.اس لئے یہ جو آپ کے یہاں چار پانچ ملک ہیں ان میں با قاعدہ اس کا ہر جگہ ریکارڈ رکھا جانا چاہئے.بہر حال یہ توضمنا بات تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں اللہ کا قرب پانے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور اس ضمن میں اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ کی نصرت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں.ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے.بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ان میں بڑا شوق ذوق اور شدت رقت ہوتی ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہیں.ایک وقت میں تو دین کی طرف بڑی توجہ ہو رہی ہوتی ہے لیکن پھر جا کے ٹھہر جاتے ہیں کیونکہ ترقی کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی.” اور آخر ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 50 50 فرمودہ 5 مئی 2006 بمقام بیت المقیت، آک لینڈ ( نیوزی لینڈ) میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ : اَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (الاحقاف: ۱۲) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما.اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا د اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں.اور اکثر بیوی کی وجہ سے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 456.جدید ایڈیشن) تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، جائزہ لیں تو یہ 100 فیصد حقیقت نظر آئے گی کہ ان ملکوں میں بعض خاندان اس لئے بھی ابتلا میں پڑ گئے کہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ غیروں میں شادیاں کرنے سے نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور دین سے دور چلی جاتی ہیں.کئی ایسے دور ہٹے ہوئے ہیں جن کو اب ہٹنے کا احساس ہو رہا ہے.یہاں جو خاندان آئے ہیں ان کے حالات اپنے پہلے ملک کی نسبت بہر حال بہتر ہیں.یہ بہتری آپ کو دین سے دور لے جانے والی اور اپنی قدروں اور اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھلانے والی نہیں ہونی چاہئے.بعض دفعہ وہ جو غلطی کرتے ہیں پھر نظام جماعت کی طرف سے بعض دفعہ کوئی سختی ہو تو پھر نظام کو الزام دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی یا جماعت سے نکال دیا گیا یا ہماری بدنامی کی گئی.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوگا اور دین کا علم ہوگا تو یہ صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوگی.پس خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی جماعت سے اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہمیشہ یادرکھیں.ایک روایت میں آتا ہے شھر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ سے کہا اے ام المومنین ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کے پاس ہوتے تھے تو کونسی دعا بکثرت کیا کرتے تھے.انہوں نے فرمایا آپ اکثر یہ دعا کرتے کہ اے دلوں کے الٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثبات بخش ، ثابت قدم رکھ.آپ نے فرمایا اے ام سلمہ! ہر آدمی کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس کے لئے چاہے اس کو قائم کر دے اور جس کے متعلق چاہے اس کو ٹیڑھا کر دے.(ترمذی.کتاب الدعوات.باب ما جاء في عقد التسبيح باليد )
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 51 فرمودہ 9 جون 2006 بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) خطبہ جمعہ فرمودہ 09 / جون 2006ء ہم مقام مئی مارکیٹ.منھائیم (جرمنی) (اقتباس) جماعتی نظام کی اہمیت بعض عہد یداران اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 52 فرمودہ 9 جون 2006 بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) جماعتی نظام کی اہمیت حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلاتارہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ کی سنت کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود کو اپنے وعدے کے مطابق علوم ظاہری و باطنی سے پُر ، ذہین اور فہیم، ایسا موعود بیٹا عطا فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ہم میں چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ملکی اور پھر مرکزی سطح پر ایک ایسا جماعتی ڈھانچہ بنا کر دے دیا جس میں نہ صرف جماعت کے انتظامی معاملات بلکہ تربیتی تبلیغی، تعلیمی ، تمام قسم کے معاملات جو ہیں ، سب کا ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے.پھر جماعت کے ہر طبقے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے ، ہر طبقے کے ہر شخص کو جماعتی معاملات میں شامل کرنے اور اس کواس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ذیلی تنظیموں، خدام ، اطفال، لجنہ ، ناصرات، انصار کا قیام فرمایا.آج یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر وہ شخص، ہر وہ بچہ اور جوان اور عورت جس کا اپنی تنظیموں سے ابتدائی عمر سے رابطہ ہے وہ ان تنظیموں میں شمولیت کی وجہ سے جماعتی ڈھانچے اور اطاعت کے مضمون کو سمجھتے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 53 فرمودہ 9 جون 2006 بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) ہیں.ان تنظیموں میں ابتداء سے حصہ لینے والے کو علم ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں، اس کی ذیلی تنظیموں کی حدود کیا ہیں ، جماعتی نظام کی اہمیت کیا ہے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کس طرح کرنی ہے.لیکن بعض دفعہ دنیا داری کی وجہ سے اپنی اہمیت اور انا کی وجہ سے بعض لوگوں کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور باوجود اس اہمیت کا علم ہونے کے کہ اطاعت میں کتنی برکت ہے بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے اگر جماعتی نظام متاثر نہ بھی ہوتو پھر بھی بعض کمزور ایمان والوں یا نئے آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتے ہیں.مثلاً اگر کوئی کمیشن کسی بارے میں قائم ہوا ہے کہ تحقیق کر کے بتائیں ، بعض لوگوں کے بعض معاملات کی رپورٹ دیں یا بعض دفعہ کوئی معاملہ خلیفہ وقت کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے کہ اس بارے میں جائزہ اور رپورٹ دیں تو تحقیق کرنے کے بعد یا جائزہ لینے کے بعد جور پورٹ بھجوائی جاتی ہے اگر خلیفہ وقت اس کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کرے تو اور کچھ نہیں کہہ سکتے تو جماعت میں یا کم از کم اس طبقے میں یہ بات کہہ کر بے چینی پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو یوں لکھا تھا پتہ نہیں نیشنل امیر نے یا مرکزی عاملہ نے رپورٹ بدل کر بھیج دی ہے یا خلیفہ وقت نے اس کے الٹ فیصلہ دیا ہے.بہر حال ہم نے تو یہ رپورٹ نہیں دی تھی.تو یہ ایسی بات ہے جو یقیناً جماعت میں فتنے کا باعث بن سکتی ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسی باتوں سے احتراز کرنا چاہئے.اگر کسی سطح پر آپ لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا ہے تو اس کو فضل الہی سمجھیں اور اُن حدود کے اندر ہی رہیں جو مقرر کی گئی ہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں.بعض لوگ بیوقوفی اور کم علمی کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں، بعض اپنی انا کی وجہ سے.اور مختلف ملکوں میں ایسے معاملات اکا دکا اٹھتے رہتے ہیں اور توجہ دلانے پر پھر احساس بھی ہو جاتا ہے اور معافی بھی مانگتے ہیں.بعض عہدیدارا اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں لیکن آج میں خطبے میں اس بات کا ذکر اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ یہ سب کو بتادوں کہ جو فتنے کیلئے یہ باتیں کرتے ہیں ان کے علم میں آجائے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کافی mature ہو چکی ہے.اپنی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ایسے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کا موقع دے دیا ہے وہ بھی اپنی نظر اور سوچ کو اپنی ذات کے محور سے نکالیں.پھر بعض لوگ اپنی رائے اور عقل
الا ز حارلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 54 فرمودہ 9 جون 2006 بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) کوسب سے بالا سمجھتے ہیں وہ بھی اس خول سے نکلیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود کی جماعت میں عقل رکھنے والے بھی بہت ہیں.علم رکھنے والے بھی بہت ہیں، تقویٰ پر چلنے والے بھی بہت ہیں ،تعلق باللہ والے بھی ہیں، اس لئے ہر خدمت گزار جس کو کسی بھی سطح پر خدمت کا موقع ملتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اس خدمت کی برکات سے فیض اٹھا ئیں ورنہ اگر کوئی بھی عہدیدار کسی بھی سطح پر کھلے دل سے اور بغیر کوئی خیال دل میں لائے خلیفہ وقت کی اطاعت نہیں کرے گا تو اس کے عہدے کی حدود میں اس سے نیچے کام کرنے والے بھی اس کی اطاعت نہیں کریں گے.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک وقت تک ایسے لوگوں کو موقع دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا خدمت کو اللہ کا فضل سمجھیں ، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی وہاں تک پردہ پوشی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے جب تک کہ ان کی خدمت جماعت کے مفاد میں رہے.یہاں میں خطبہ دے رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ صرف یہاں نہیں بلکہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض عہدیدارا اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے تکبر اور انانیت میں پڑے ہوئے ہیں.ان کو بھی اپنے خول سے باہر آنا چاہئے.کیونکہ یہی عادت بن چکی ہے کہ جہاں خطبہ دیا جارہا ہو ، لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی مخاطب ہیں.بلکہ جہاں جہاں بھی یہ بیماریاں یا بُرائیاں ہیں اور ہر جگہ کے وہ لوگ لوگوں کے خطوط کے ذریعہ سے میرے علم میں آتے رہتے ہیں، ہر اس جگہ پر جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے ذہنوں میں خناس سمایا ہوا ہے ان کو اس سے باہر نکلنا چاہئے اور استغفار کرنی چاہئے.دوسرے نیشنل امراء سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی بھی قسم کی تحقیق کے لئے کمیشن بناتے ہیں تو تلاش کر کے تقوی شعار لوگوں کے سپرد یہ کام کیا کریں.یا اگر میرے پاس کسی کمیشن کے بنانے کی تجویز دی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے نام آیا کریں جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں.کسی بھی فریق سے ان کا کسی بھی قسم کا تعلق نہ ہو.اسی طرح امراء اور مرکزی عہدیداران کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ جماعت کے تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خود خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 55 فرمودہ 9 جون 2006 بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن کے ساتھ نبض چلتی ہے.یہ معیار حاصل کریں گے تو پھر دیکھیں کہ ایک عام احمدی کس طرح اطاعت کرتا ہے کیونکہ ایک احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود کو مانا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ اب یہ سلسلۂ خلافت چلنا ہے.انشاء اللہ اور جیسا کہ آپ نے فرمایا یہ دائگی اور ہمیشہ رہنے والا سلسلہ ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان میں ترقی کرنے والے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں گے، تو احمدی کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ اطاعت اولوالامر کے طور پر خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.پھر مرتبے کے لحاظ سے ہر سطح پر جماعتی نظام کا ہر عہد یدار قابل اطاعت ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 56 فرمودہ 28 جولائی 2006 بمقام حدیقۃ المہدی، ہمپشائر.برطانیہ خطبہ جمعہ فرمودہ 28 / جولائی 2006ء بمقام حديقة المحمدی همپشائر - برطانیہ (اقتباس) احمدی خواتین پر دے کا خاص خیال رکھیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 57 فرمودہ 28 جولائی 2006 بمقام حدیقۃ المہدی، ہمپشائر.برطانیہ احمدی خواتین پر دے کا خاص خیال رکھیں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.پھر خواتین گھومنے پھرنے کی بھی زیادہ شوقین ہوتی ہیں اس لئے وہ زیادہ احتیاط کریں.نہ اپنے علاقے میں، نہ باہر پھریں.اگر اس علاقے کو دیکھنے کی خواہش ہے، نیا علاقہ ہے، نئی جگہ ہے، بڑا وسیع رقبہ ہے، سیر کرنے اور پھرنے کو دل چاہتا ہے تو جلسہ کی کاروائی کے بعد جو وقت ہے اس میں بیشک پھریں، جلسے کے دوران نہیں.لیکن یہ یاد رکھیں کہ اس دوران بھی جب باہر نکلیں تو پردے کا ضرور خیال رکھیں.سوائے اس کے جو احمدی نہیں ہیں، جو کسی احمدی کے ساتھ آئی خواتین ہیں ، ان کا تو پر دہ نہیں ہوتا.احمدی خواتین بہر حال پر دے کا خیال رکھیں.ان لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے، غیروں کو بھی اگر اپنے ساتھ لانے والیاں اپنی روایت کے متعلق بتا ئیں تو وہ ضرور لحاظ رکھتی ہیں.اکثر میں نے دیکھا ہے ہمارے فنکشنز میں سکارف، دو پٹہ یا شال وغیرہ اوڑھ کر آتی ہیں.تو یہ ان غیروں کی بھی بڑی خوبی ہے.صرف ان کو تھوڑا سا بتانے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدی خواتین بہر حال جب باہر نکلتی ہیں تو پردے میں ہونی چاہئیں اور اگر کسی وجہ سے پردہ نہیں کر سکتیں تو پھر ایسی خواتین میک اپ وغیرہ بھی نہ کریں.سر بہر حال ڈھانپا ہونا چاہئے کیونکہ یہ خالص دینی ماحول ہے، اس میں حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان تمام باتوں پر عمل کریں جس کا ہم سے دین تقاضا کرتا ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 58 فرمودہ 28 جولائی 2006 بمقام حدیقۃ المہدی، ہمپشائر.برطانیہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جماعتی جلسوں میں شرکت انہیں میلہ سمجھ کر نہیں کرنی چاہئے کہ میل ملاقات اور خرید و فروخت یا فیشن کا اظہار مقصود ہو.اور عورتوں کے لئے خاص طور پر ، اکٹھی ہوئیں، باتیں کیں اور بس قصہ ختم ہو گیا.تو اس بات کا خیال رکھیں اور انتظامیہ بھی خیال رکھے کہ اس جلسے کو کبھی میلے کی صورت نہ اختیار کرنے دیں.یہ وہ بات ہے جسے حضرت مسیح موعود نے جلسے کا ایک خاص مقصد قرار دیتے ہوئے خاص طور پر اس سے روکا ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 59 فرمودہ 13اکتوبر 2006 بمقام بیت الفتوح بلندن.برطانیہ خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / اکتوبر 2006ء بمقام بیت الفتوح ، لندن (برطانیہ) (اقتباس) والدین خود اپنے بچوں کے لئے دعا کریں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 60 60 فرمودہ 13اکتوبر 2006 بمقام بیت الفتوح بلندن.برطانیہ والدین خود بچوں کے لئے دعا کریں حضرت خلیق اصبح الخامس اید واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.ہر مرد عورت کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اولا د ہو.اگر شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اور اولاد نہ ہو تو بڑی پریشانی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.مجھے بھی احمدیوں کے کئی خط روزانہ آتے ہیں جن میں اس پریشانی کا اظہار ہوتا ہے، دعا کے لئے کہتے ہیں.لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اولاد کی خواہش ہمیشہ اس دعا کے ساتھ کرنی چاہئے کہ نیک صالح اولا د ہو جو دین کی خدمت کرنے والی ہو اور اعمال صالحہ بجالانے والی ہو.اس کے لئے سب سے ضروری بات والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ خود بھی اولاد کے لئے دعا کریں اور اپنی حالت پر بھی غور کریں.بعض ایسے ہیں جب دعا کے لئے کہیں اور ان سے سوال کرو کہ کیا نمازوں کی طرف تمہاری توجہ ہوئی ہے، دعائیں کرتے ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح توجہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہے.میں اس طرف بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ اولاد کی خواہش سے پہلے اور اگر اولاد ہے تو اس کی تربیت کے لئے اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے یا جو اولاد موجود ہے وہ نیکیوں پر قدم مارنے والی ہو اور قرۃ العین ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا حضرت زکریا کے حوالے سے ہمیں سکھائی ہے کہ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةٌ طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاءِ.(سورۃ آل عمران:۳۹) کہ اے میرے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 61 فرمودہ 13اکتوبر 2006 بمقام بیت الفتوح بلندن.برطانیہ رب مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا کر یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے.ایسی پاک نسل عطا کر جو تیری رضا کی راہوں پر چلنے والی ہو.اور جب انسان یہ دعا کر رہا ہو تو خود اپنی حالت پر بھی غور کر رہا ہوتا ہے کہ کیا میں ان سارے حکموں پر عمل کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیئے ہیں؟ پھر ایک جگہ حضرت ابراہیم کی اس دعا کا ذکر ہے، فرمایا رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِيْنَ (سورۃ النفقت: 101)اے میرے رب مجھے صالحین میں سے وارث عطا کر، مجھے نیک صالح اولا دعطا فرما.پس جو والدین اولاد کے خواہش مند ہوں انہیں نیک اولاد کی خواہش کرنی چاہئے اور پھر اولاد کی تربیت بھی اس کے مطابق ہو اور جیسا کہ میں نے کہا اولاد کی تربیت کے لئے سب سے پہلے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں.واقفین نو بچوں کے جو والدین ہیں انہیں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے.حضرت ابراہیم نے جو دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے جس انعام سے نوازا تھا اس نے تو قربانی کا بھی اعلیٰ معیار قائم کر دیا.پس جو والدین اپنے بچوں کو وقف نو میں شامل کرتے ہیں انہیں خصوصاً اور دوسروں کو بھی، عام طور پر ہر احمدی کو دعا کرتے رہنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں ایسی اولاد سے نوازے جو حقیقت میں دین کی خادم بننے والی ہو، جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی را ہوں کو تلاش کرنے والی ہواور صالحین میں شمار ہو.اولاد کی اصلاح کے ضمن میں ایک اور قرآنی دعا اَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (سورة لا تقاف 18) کم الاحقاف میرے بچوں کی بھی اصلاح فرما، کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب و شدائد آ جایا کرتے ہیں بڑی سخت مصیبتیں آ جایا کرتی ہیں تو اولاد کے لئے بہت دعا کرنی چاہئے.فرمایا ” تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.“ (الحکم جلد 12نمبر16مورخه 2/ مارچ1908ء صفحه6،ملفوظات جلد پنجم صفحه456جدید ایڈیشن)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 62 فرمودہ 10 نومبر 2006 بمقام بیت الفتوح لندن.برطانیہ خطبہ جمعہ فرمودہ 10 / نومبر 2006 ء بمقام بیت الفتوح لندن ( برطانیہ ) (اقتباس) رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا ئیں کریں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 63 فرمودہ 10 نومبر 2006 بمقام بیت الفتوح لندن.برطانیہ رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعائیں کریں حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز نے فرمایا.شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اسلام نے ہمیں اپنے گھر یلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے.ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں ، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں.اللہ رحم کرے.اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد وعورت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جارہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں.ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تا کہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو.تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے.کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا ، اس پیارے رب کا پیارا اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 64 فرمودہ 10 نومبر 2006 بمقام بیت الفتوح لندن.برطانیہ ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے.میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں.یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے.آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہوگی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خدا تعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے.جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہوگا تو پھر بھڑ کانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہواس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط نہی ہوئی ہے، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں.اور ایسا شخص جو کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے.اگر وہ سچ ہے تو یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ.بات کر کے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے، اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے.اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو.پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا احترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے ، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تا کہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے.اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دُوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 65 فرموده 29 دسمبر 2006 بمقام بیت السبوح، فرینکفورٹ جرمنی خطبہ جمعہ فرموده 29 / دسمبر 2006 ء بمقام بیت السبوح - فرینکفورٹ (جرمنی) (اقتباس) سنگ بنیاد برلن مسجد جرمنی.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 66 فرموده 29 دسمبر 2006 بمقام بیت السبوح، فرینکفورٹ جرمنی سنگ بنیاد برلن مسجد جرمنی حضرت خلیة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.میرا زیادہ مقصد اور خواہش جو مجھے یہاں لائی ہے وہ برلن کی مسجد کا سنگ بنیاد ہے.کیونکہ یہاں مسجد تعمیر کرنا بھی جماعت کیلئے ایک چیلنج ہے.آج کل کے حالات کے لحاظ سے بھی اور تاریخی اعتبار سے بھی اس جگہ کی خاص اہمیت ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو برلن میں مسجد بنانے کی بڑی خواہش تھی اس کے لئے چندہ بھی جمع کیا گیا جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں لیکن حالات کی وجہ سے پھر وہ رقم لندن، بیت الفضل کی تعمیر میں خرچ کر دی گئی.برلن کی مسجد کیلئے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں عورتوں نے چندہ جمع کیا تھا اور بڑی قربانی کر کے انہوں نے چندہ جمع کیا تھا.لجنہ نے اس زمانہ میں ہندوستان میں یا صرف قادیان میں، زیادہ تو قادیان میں کہنا چاہئے ہوتی تھیں، تقریباً ایک لاکھ روپیہ جمع کیا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کیا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی ، بڑی خطیر رقم تھی اور زیادہ تر قادیان کی غریب عورتوں کی قربانی تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.کسی نے مرغی پالی ہوئی ہے تو بعض مرغی لے کے آجاتی تھیں.کوئی انڈے بیچنے والی ہے تو انڈے لے کر آ گئی.کسی کے گھر میں بکری ہے تو وہ بکری لے کر آ گئی.کسی کے گھر میں کچھ نہیں ہے تو گھر کے جو برتن تھے تو وہی لے کر آگئی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایک دفعہ تحریک جو کی تھی میرا خیال ہے کہ یہی تحریک تھی.فرماتے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 67 فرمودہ 29 دسمبر 2006 بمقام بیت السبوح، فرینکفورٹ جرمنی ہیں کہ میں نے جو تحریک کی تو عورتوں میں اس قدر جوش تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ سب کچھ گھر کا سامان جو ہے وہ دے دیں.ایک عورت نے اپنا سارا زیور جو تھا سارا چندے میں دے دیا.اور گھر آئی اور کہنے لگی کہ اب میرا دل چاہتا ہے ( غریب سی عورت تھی معمولی زیور تھا ) کہ اب میں گھر کے برتن بھی دے آؤں.اس کے خاوند نے کہا کہ تمہارا جو زیور تم نے دے دیا ہے کافی ہے.تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس وقت میرا اتنا جوش ہے کہ میرا اگر بس چلے تو تمہیں بھی بیچ کے دے آؤں.تو گو کہ جواب صحیح نہیں ہے لیکن یہ اس جوش کو ظاہر کرتا ہے جو قربانی کیلئے عورتوں میں تھا.حیرت ہوتی تھی اس وقت کی عورتوں کی قربانی دیکھ کر اور آج کل جو آپ اس وقت کے حالات کے مقابلے میں بہت بہتر حالات میں ہیں تو کہنا چاہئے انتہائی امیرانہ حالت میں رہ رہے ہیں.فرق بڑا واضح نظر آتا ہے.آپ لوگ آج شاید وہ معیار پیش نہ کر سکیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جو ان لوگوں نے کئے تھے.کچھ عرصہ ہوا آپ کے صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے لکھا کہ انصار اللہ نے 100 مساجد کیلئے وعدہ کیا ہوا ہے.پانچ لاکھ یا جتنا بھی تھا.جو میں نے ٹارگٹ دیا تھا ساروں کو اور فلاں فلاں اخراجات ہو گئے ہیں اس لئے مرکز ہمیں اتنے عرصہ کے لئے کچھ قرض دے دے تا کہ انصار اللہ اپنا وعدہ پورا کر سکے.تو میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ بالکل اس کی امید نہ رکھیں.یہ گندی عادت جو آپ ڈالنا چاہتے ہیں اپنے آپ کو اور پھر ایک آپ کو جو یہ گندی عادت پڑے گی تو باقی تنظیموں کو بھی پڑے گی.اس کو میں نہیں ہونے دوں گا خود ہمت کریں، خود در قم جمع کریں.انہوں نے وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا مجھے نہیں پتہ لیکن بہر حال انکار ہو گیا تھا.تو میں نے سوچا تھا کہ اگر انہوں نے زیادہ زور دیا یا کسی اور تنظیم نے لکھا تو پھر میں ان کو یہی جواب دوں گا کہ اب میں پاکستانی احمدیوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے ان امیر بھائی بہنوں کی مدد کریں کیونکہ یہ ہمت ہار رہے ہیں.اور کچھ تھوڑا بہت جوڑ کر آنہ دو آ نے چندہ جمع کریں اور ان لوگوں کو بھجوا د ہیں.لیکن میرا خیال ہے کہ میرا انصار اللہ کو جو جواب تھا وہ کافی اثر کر گیا اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب آپ لوگ خود اپنے پاؤں پہ ساری تنظیمیں کھڑی ہوں گی.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 68 88 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء اصل چیز ہے کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں.خاوندوں سے ناجائز مطالبات.ماں کے لئے سب سے بڑی قربانی بچے کی ہوتی ہے.مالی قربانیوں میں عورتوں کا ایک خاص مقام.شہداء کی بیویوں نے بڑے صبر کے نمونے دکھائے ہیں.احمدی عورت کی غیرت ایمانی کے بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 69 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب اصل چیز سے کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.ما بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ- بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.(الفاتحة) وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاء وَ إِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ.(العنكبوت: ۷۰) الذِيْنَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَالصَّبِرِيْنَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيْمِي الصَّلوةِ * وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُوْنَ (الحج: ٣٦) وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ“ (البقرة: ۱۵۵) اللہ تعالیٰ کا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر احسان ہے کہ جہاں مردوں کو نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دی وہاں احمدی عورت بھی نیکیوں پر قدم مارنے اور تقویٰ میں بڑھتے چلے جانے والی بلکہ بعض دفعہ بعض عورتوں نے نیکی ، قومی اور قربانیوں میں چلتے ہوئے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 70 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب ایسی مثالیں قائم کیں جو سنہری حروف میں لکھی جانے والی ہیں جیسا کہ قرون اولیٰ کی عورتوں نے ایسی مثالیں قائم کی تھیں جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں.یہ جو آیت میں نے پہلے تلاوت کی ہے.پہلے اس میں پہلی آیت سورۃ العنکبوت کی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے اور یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے.تو یہ ہے خلاصہ اُن لوگوں کا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں کہ جہاد کا صرف تعلق تلوار سے نہیں ہے بلکہ اصل چیز ہے کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا، اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جانا.پھر اللہ تعالیٰ بھی راہنمائی فرماتا ہے، ان کی خواہشات پوری کرتا ہے.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کے راستے میں قربانیاں دینے سے اس کے اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کر کے اس کی راہیں اختیار کی جاسکتی ہیں.پس یہ آج جو جہاد ہے جو ہر احمدی کر رہا ہے، یہی جہاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی احمدی عورت کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں پیچھے نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں:.پھر سورہ حج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جو میں نے دوسری آیت تلاوت کی کہ ان لوگوں کو کہ جب اللہ کا ذکر بلند کیا جاتا ہے تو ان کے دل مرعوب ہو جاتے ہیں اور جو اس تکلیف پر جو انہیں پہنچی ہو،صبر کرنے والے ہیں اور نماز کو قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.یہ جو آیت میں نے پڑھی اس سے پہلی آیت جو ہے اس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے عاجزی کرنے والوں کو اور پھر یہ جیسا کہ اس آیت کا ترجمہ ہے ان لوگوں کو جو اللہ کا ذکر بلند کرنے والے ہیں، یہ بشارت دی گئی ہے.تو فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کے خوف سے پر ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی سختیاں جھیلتے ہیں اور اس پر انتہائی بشاشت سے صبر کرتے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 71 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب ہیں.اور یہ بشارت والے وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازیں وقت پر پڑھتے ہیں، اللہ کے عبادت گزار ہیں اور چوتھی بات یہ کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں، دین کی ضروریات کے لئے اگر ضرورت پڑے تو بے دریغ خرچ کرتے ہیں.لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اگر کہا جائے تو وہاں بھی خرچ کرتے ہیں یعنی اللہ کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں، اللہ کے دین کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں.پس یہ لوگ ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی بشارت پانے والے ہیں.اور پھر تیسری آیت جو میں نے پڑھی سورہ بقرہ کی اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جولوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کے متعلق یہ مت کہو کہ وہ مُردہ ہیں وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر تم نہیں سمجھتے.یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے ،ثبات قدم دکھاتے ہوئے اگر قتل بھی ہو جائیں تو اس کی پرواہ نہیں کرتے ، اللہ کے نزدیک یہ لوگ جنہوں نے اپنی جان دی ہے وہ مُردہ نہیں ہیں، مر نہیں گئے بلکہ ایک اُخروی زندگی پانے والے ہیں.جہاں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق وہ جنتوں کے وارث بنیں گے.یہ احساس جس قوم میں پیدا ہو جائے کہ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے، وہ قوم مرا نہیں کرتی بلکہ اس کے ہر فرد کی قربانی ہزاروں قربانیوں کے بیج بوتی ہے.یہ نظارے ہم نے قرونِ اولیٰ میں صحابیات میں دیکھے اور یہ نظارے ہم نے اس زمانے میں مسیح و مہدی کے ماننے والوں میں بھی دیکھے اور دیکھتے ہیں.آج میں نے تاریخ سے کچھ واقعات لئے ہیں جو اسلامی تاریخ سے بھی ہیں اور آخرین کی جماعت میں جنہوں نے یہ قربانیاں دیں، ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ آج بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دینی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا قربانیوں سے ہی حاصل ہوگی.پہلی مثال جومیں نے لی ہے ، وہ دعاؤں کی طرف کس طرح شغف ہوتا تھا.حضرت جویریہ کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں.ایک دن صبح کو مسجد میں جا کر دعا کر رہی تھی تو آنحضرت سے گزرے اور دیکھتے ہوئے چلے گئے.دوپہر کے وقت آئے تب بھی ان کو اسی حالت میں پایا.تو یہ تھی وہ عابدات جو عبادتوں میں اس طرح مشغول ہوتی تھیں کہ صبح سے دوپہر ہو جاتی تھی.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 72 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب پھر ایک مثال ہے اوائل اسلام میں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا مسلمان ہوئیں.ان کی اسلام سے محبت اس قدر شدید تھی کہ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے خاوند مالک چونکہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا تبدیلی مذہب پر اصرار کرتی تھیں اس لئے دونوں میں کشیدگی پیدا ہوگئی اور مالک ناراض ہو کر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا.ابوطلحہ نے جواسی قبیلے کے تھے ام سلیم سے نکاح کا پیغام دیا.تو ام سلیم نے اسی عذر کی وجہ سے کہ ابوطلحہ بھی مسلمان نہیں تھے رشتے سے انکار کر دیا.یعنی ابوطلحہ چونکہ مشرک تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ میں تو رشتہ نہیں کر سکتی کیونکہ پہلی یہی وجہ میری پہلے خاوند سے جھگڑے کی تھی.تو انہوں نے کہا اگر تم اسلام قبول کر لو تو یہی میرا حق مہر ہو گا اس کے علاوہ کوئی مہر نہیں مانگوں گی.تو یہ تھے ان لوگوں کے نمونے جو آج بھی ہمارے سامنے مشعل راہ ہیں.بعض اس بات کو محسوس نہیں کرتیں کہ کیا فرق پڑتا ہے مذہب سے.مذہب کا ہمیشہ ایک احمدی لڑکی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ میں احمدی ہوں اور اگر میں کہیں باہر رشتہ کرتی ہوں تو میری آنے والی نسل جو ہے اس میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے.اور میرے مذہب میں بھی بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ دوسرے گھر میں جاکر، ایک غیر مذہب میں جا کر ان کے زیر اثر میں آسکتی ہوں.تو یہ ایسی چیزیں ہیں جو آج بھی ہمارے لئے مثال ہیں.پھر ایک غیرت ایمانی کا واقعہ ہے اُم المومنین حضرت ام حبیبہ کا.امام زہری روایت کرتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ابوسفیان مدینہ آئے.وہ صلح حدیبیہ کی مدت بڑھانا چاہتے تھے.وہ اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے.جب وہ رسول اللہ ﷺ کے بستر پر جا کر بیٹھنے لگے ، گھر گئے اور وہ بستر تھا جہاں آنحضرت ﷺ بھی بیٹھا کرتے تھے، بیٹھنے لگے تو حضرت ام حبیبہ نے بستر لپیٹ دیا کہ ابوسفیان اس پر نہ بیٹھیں.اس پر ابوسفیان نے کہا کہ بیٹی تم نے اس بستر کو مجھ پر ترجیح دی ہے، تم سمجھتی ہو کہ بستر ایسا پاک ہے کہ میں اس پر بیٹھنے کے لائق نہیں.اس پر حضرت ام حبیبہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بستر رسول اللہ ﷺ کا ہے، مقدس بستر ہے اور تم ایک نا پاک مشرک شخص ہو گو میرے باپ ہو لیکن تمہارا وہ مقام نہیں کہ اس بستر پر بیٹھ سکو.پھر تکالیف کس طرح برداشت کرتی تھیں.حضرت اسماء بنت ابوبکر بیان کرتی ہیں کہ جب رسول کریم علیہ اور حضرت ابوبکر کے ہجرت کے لئے روانہ ہونے کے بعد قریش کا ایک وفد ہماری
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 73 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب طرف آیا جن میں ابو جہل بھی شامل تھا.تو جب وہ دروازے پر آئے تو میں ان کی طرف نکلی.انہوں نے پوچھا کہ تیرا باپ ابو بکر کہاں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتی.حضرت اسماء کہتی ہیں کہ ابو جہل جو کہ بدگو اور خبیث تھا، اس نے میرے گال پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ میرے کان کی بالی بھی اس میں سے نکل کر دور جا پڑی.تو یہ تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں شروع میں.یہ تو ہلکی سی تکلیف ہے ، آگے واقعات آئیں گے کہ کس طرح تکلیفیں برداشت کرتی تھیں.پھر قریش کے خاندان بنو عدی کی ایک شاخ بنی موکمل کی لونڈی تھیں لبین" بعد بعثت کے ابتدائی سالوں میں ان کو اسلام میں شامل ہونے کی سعادت ملی.اس پر حضرت عمر بن خطاب اپنے اسلام لانے سے پہلے اتنے برافروختہ ہوئے کہ ان کو روزانہ زدوکوب کیا کرتے تھے.جب مارتے تھک جاتے تھے تو کہتے تھے کہ اب میں تھک گیا ہوں اس لئے تجھے چھوڑا ہے اور اب بھی اس نئے دین کو یعنی اسلام کو ترک کر دے، نہیں تو جب دوبارہ میری طاقت بحال ہو گی پھر ماروں گا، وہ جواب میں کہتیں کہ ہر گز نہیں ، جتنا ظلم ڈھا سکتا ہے ڈھالے.میں یہی کہوں گی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے.بالآخر حضرت ابوبکر صدیق نے انہیں خرید کر آزاد کروایا.حضرت صفیہ نے حضرت زبیر کی تربیت بڑے عمدہ طریق پر کی.ان کی خواہش تھی کہ ان کا یہ بیٹا بڑا ہو کر ایک نڈر اور بہادر سپاہی بنے.چنانچہ وہ حضرت زبیر سے سخت محنت اور مشقت سے کام لیتی تھیں.آج واقفینِ نو کی مائیں جو ہیں ان کے لئے بھی مشعل راہ ہے.بجائے اس کے کہ ناجائز ضروریات پوری کر کے اپنے بچوں کے نخرے برداشت کر کے ان کو ایسی عادت ڈالیں جو ان کو سہل پسندی کی عادت پڑ جائے ، ان کو سختی کی عادت ڈالیں یہ تربیت ہے جو واقفین نو کی آپ نے کرنی ہے تا کہ جب وہ میدانِ عمل میں آئیں تو ہر آزمائش پر، ہر مشکل پر وہ ایک چٹان بن کر کھڑے ہو جائیں اور کبھی ان کا دل کسی مشکل کو دیکھ کر اور کسی مصیبت کو دیکھ کر ان کو کمزوری کی طرف لے جانے والا نہ ہو.رض پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارہ میں آتا ہے کہ جب انہوں نے حضرت زبیر کے ساتھ ہجرت کی جن کا میں نے پہلے واقعہ سنایا تو غزوہ احد میں جب مسلمانوں نے شکست کھائی تو وہ مدینہ سے نکلیں، صحابہ سے عتاب آمیز لہجے میں کہتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر چل دیئے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 74 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب آنحضرت عمے نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو حضرت زبیر کو بلا کر ارشاد کیا کہ حمزہ کی لاش نہ دیکھنے پائیں.حضرت زبیر نے آنحضرت ﷺ کا پیغام سنایا تو بولیں کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کی لاش کے ساتھ جو ماجرہ ہوا وہ تو میں سن چکی ہوں لیکن خدا کی راہ میں یہ تو کوئی بڑی قربانی نہیں ہے یہ نہ فکر کرو کہ میرا دل دکھے گا اس کو دیکھ کر اور میں برداشت نہیں کر سکوں گی.آنحضرت ﷺ نے پھر ان کو لاش دیکھنے کی اجازت دیدی اور لاش کے پاس گئیں بھائی کے ٹکڑے الله بکھرے ہوئے دیکھے لیکن انا لله و انا اليه رَاجِعُونَ کہ کر چپ ہوگئیں اور مغفرت کی دعا کی.پھر بنی دینار کی انصاری خاتون کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کا اظہار ہے.صلى الله اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ یہ احد سے واپسی پر بنو دینار کی الله ایسی عورت کے پاس سے گزرے جس کا خاوند، بھائی اور والد جنگ احد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے تھے اور شہید ہو گئے تھے.جب صحابہ نے ان کی وفات کی اطلاع دی تو کہنے لگیں کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رسول اللہ علیہ کا کیا حال ہے.انہوں نے کہا: اے ام فلاں وہ خیر و عافیت سے ہیں.الحمد للہ وہ اس حال میں ہیں جو تو سننا پسند کرتی ہے.وہ کہنے لگی مجھے انہیں دکھا دو تا کہ میں خود دیکھ لوں.راوی کہتا ہے کہ اس پر اس نے اشارہ کیا آنحضرت ملی کہ فلاں جگہ ہیں.چنانچہ جب آنحضرت ﷺ کو اس نے دیکھ لیا تو کہنے لگی کل مصيبة بعد...کہ اگر آپ بخیریت ہیں تو پھر ہر مصیبت معمولی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس تاریخ کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے آئے.رسول کریم ﷺ کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعد بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے چل رہے تھے.شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں نظر آئی جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی اور احد کی جنگ میں اُن کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا تو وہ بھی عورتوں کے آگے کھڑی تھیں اور دیکھ رہی تھی یہ معلوم کرنے کے لئے کہ رسول کریم ﷺ کہاں ہیں.تو ان کے بیٹے سعد بن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کا بھی غم ہوگا تو آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ان کی تسلی کے لئے کچھ الفاظ کہہ دیں، ان کو حوصلہ دلائیں اور تسلی دیں.آپ نے فرمایا کہ بی بی بڑا افسوس ہے کہ تیرا لڑکا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے.بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 75 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب لئے وہ آپ کے چہرے کو نہ دیکھ سکی، وہ ادھر اُدھر دیکھتی رہی.آخر کار اس کی نظر آپ ﷺ کے چہرہ پر ٹک گئی.وہ آپ کے قریب آئی اور کہنے لگی :یارسو اللہ ﷺ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو آپ سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا.پھر صبر کی ایک اور مثال.ایک دفعہ رسول کریم علیہ حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے.دیکھا کہ سیدۃ النساء اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں.بڑا موٹا سا لباس ہے کھال کا.اور اس میں تیرہ پیوند لگے ہوئے ہیں.آج ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات کیسے ہوئے ہیں کہ جب اعلیٰ سے اعلیٰ لباس ہم پہن سکتے ہیں اور آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام اللہ کا ورد جاری ہے.حضور یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے ، آنسو نکل آئے آنکھوں سے.اور فرمایا: فاطمہ! دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کر اور آخرت کی دائمی لذت کا انتظار کر، اللہ تمہیں نیک اجر دے گا.خاوندوں سے ناجائز مطالبات اس کے بعد ایک اور مثال ہے.کس طرح یہ مشعلِ راہ ہے آجکل کی ان عورتوں کیلئے بھی ، ان بیویوں کے لئے بھی، جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں.ایک دفعہ حضرت علی مرتضی گھر تشریف لائے.کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو حضرت فاطمہ سے.تو آپ نے بتایا کہ آج تیسرا دن ہے گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ میں کوئی انتظام کرتا.انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپ ﷺ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں.یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور میں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا.تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعلِ راہ ہے.ہر اس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں.پھر صبر کی ایک اور مثال ہے علامہ ابن سعد نے طبقات میں بیان کیا ہے کہ حضرت ام شریک نے اسلام قبول کیا تو ان کے مشرک عزیز واقارب جو تھے اُن کو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 76 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب دھوپ میں کھڑا کر دیا کرتے تھے اور ان کو اس حالت میں روٹی کے ساتھ شہد کھلاتے تھے تاکہ زیادہ گرمی لگے،حلق خشک ہو اور پھر پانی نہیں دیتے تھے.جب اس طرح تین دن گزر گئے تو مشرکین نے کہا کہ جو دین تم نے اختیار کیا ہے اس کو چھوڑ دو.وہ تین دن رات کی جو فاقہ کشی تھی اس سے بالکل بدحواس ہو گئیں تھیں.مشرکین کی بات کا مطلب نہیں سمجھیں.جب ان لوگوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو وہ سمجھ گئیں کہ یہ لوگ مجھ سے توحید کا انکار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں.فور بولیں خدا کی قسم! میں تو اسی عقیدے پر قائم ہوں.یہ نہیں کہ خود ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا بلکہ ان کے متعلق آتا ہے کہ نہایت سرگرمی سے قریش کی عورتوں کو بھی اسلام کی دعوت دیا کرتی تھی اور کوئی کسی قسم کی سختی ان کو اس کام سے نہیں روک سکی کہ اللہ تعالیٰ نے جوان کے سپر د کیا تھا اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے پھر حضرت ام عبیس کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھیں اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور ان کو اسلام لانے کی وجہ سے مکہ کے مشرک رئیس الاسود بن عبد یغوث ان پر بے پناہ ظلم کیا کرتا تھا لیکن وہ کسی صورت میں اسلام سے منحرف نہیں ہوتی تھیں.حضرت ابو بکر صدیق نے انہیں خرید کر آزاد کیا.پھر حضر تحیہ ام عمار بن یاسر کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ہے.کہتے ہیں کہ آپ کا نمبر اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں تھا.اسلام قبول کرنے کے بعد کچھ دن اطمینان سے گزرے تھے کہ قریش کا ظلم و ستم شروع ہو گیا اور بتدریج بڑھتا چلا گیا.چنانچہ جو شخص جس مسلمان پر قابو پا تا تھا، طرح طرح کی دردناک تکلیفیں اسے دیتا تھا.حضر ہیمی کو بھی ان کے خاندان نے ان کو شرک پر مجبور کیا لیکن وہ اپنے عقیدے پر نہایت شدت سے قائم رہیں.جس کا صلہ یہ ملا کہ مشرکین ان کو مکۃ کی جلتی اور تپتی ریت پر لوہے کے زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کرتے تھے.آنحضرت علے ادھر سے گزرتے تو یہ حالت دیکھ کر فرماتے : آل یا سر صبر کرو، اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے.اور ابو جہل نے ایک دن ان کو ایک نیزہ مار کر شہید کر دیا.حضرت فاطمہ بن خطاب کے بارہ میں آتا ہے کہ آپ اپنے خاوند سعید بن زید کے ساتھ مسلمان ہوئیں.یہ اوائل اسلام کا واقعہ ہے.ان کے کچھ دنوں کے بعد ان کے بھائی یعنی حضرت عمر
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 77 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب مسلمان ہوئے جو کہ دراصل انہی کی وجہ سے مسلمان ہوئے تھے.بڑا مشہور واقعہ ہے.حضرت عمرؓ حضرت حمزہ کے مسلمان ہونے کے بعد آنحضرت عیل کے پاس قتل کے ارادے سے جار ہے تھے کہ راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس سے پوچھا کہ کیا تم نے آبائی مذہب چھوڑ کر محمد نے کا مذہب اختیار کر لیا ہے اس نے کہا کہ ہاں لیکن پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہارے بہن اور بہنوئی نے بھی صلى الله حضرت محمد ﷺ کا مذہب قبول کر لیا ہے.حضرت عمر سید ھے بہن کے گھر پہنچے.دروازہ بند تھا اور وہ قرآن پڑھ رہی تھیں.ان کی آہٹ پا کر چھپ گئیں اور قرآن کے جو اجزاء تھے، صفحے تھے اور کتاب کی صورت میں تو ہوتا نہیں تھا، مختلف جگہوں پر لکھا ہوتا تھا ، ان کو چھپا دیا.لیکن آواز حضرت عمر کے کان میں پڑ چکی تھی.پوچھا یہ کیا آواز تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ کچھ نہیں.انہوں نے کہا کہ میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو.یہ کہہ کر بہنوئی سے لڑنے لگے.اُس کا گریبان پکڑا.حضرت فاطمہ بچانے کے لئے آگے آئیں تو اُن کو بھی مارا اور بال پکڑ کر گھسیٹے.اور اس قدر مارا کہ ان کا بدن لہولہان ہو گیا.اسی حالت میں اس کی مختلف روایتیں ہیں کہ ناک سے خون بہہ گیا، جب مکا مارا.تو بہر حال اس روایت میں یہ ہے کہ اس حالت میں ان کے منہ سے نکلا ،حضرت عمر کی بہن سے، کہ عمر ! جو ہوسکتا ہے کر لو لیکن اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا.ان الفاظ نے حضرت عمر کے دل پر ایک خاص اثر کیا.بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا.زخمی بہن پہلے ہی تھیں ، دل نرم ہورہا تھا.اُن کے بدن سے خون جاری تھا ، یہ دیکھ کر اور بھی رقت پیدا ہوئی.فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ.حضرت فاطمہ نے قرآن کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیئے.حضرت عمر اُن کو پڑھتے جاتے تھے اور ان پر رعب طاری ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ ایک آیت پر پہنچ کر پکارا اٹھے کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ الله.پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب کے بارے میں آتا ہے کہ غزوہ احد کی طرح غزوہ خندق میں بھی انہوں نے نہایت ہمت اور استقلال کا ثبوت دیا.اور انصار کے قلعوں میں سب سے زیادہ مستحکم قلعہ جو تھا یہ بنو برازہ کی آبادی سے ملا ہوا تھا.اُس کی حفاظت کے لئے حضرت حسان کو متعین کیا گیا.یہ ایک شاعر تھے.یہود نے یہ دیکھ کر کہ تمام جمعیت یعنی کہ مسلمانوں کی تمام جو طاقت ہے اور لوگ ہیں ، وہ تمام مسلمان ، وہ آنحضرت مے کے ساتھ ہیں خندق کی طرف.تو قلعے پر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 78 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب حملہ کر دیا اُس طرف سے جو محفوظ جگہ تھی اور قلعے کے پھاٹک تک پہنچنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا.تو حضرت صفیہ نے دیکھ لیا اور حضرت حسان سے کہا کہ اتر کر قتل کر دو ورنہ یہ دشمنوں کو جا کر پستہ دیدے گا.اور مدینہ کا وہ حصہ کمزور تھا.حضرت حسان نے معذوری ظاہر کی.حضرت صفیہ نے خیمے کی ایک چوب اکھاڑ لی اور اُتر کر یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا.حضرت صفیہ چلی آئیں اور حسان سے کہا کہ اب میں نے اس کو مارا ہے، سر پھٹ گیا، بیہوش پڑا ہے تم جا کر اس کو باندھ دویا کپڑے اتار لو اور اُس کا سرکاٹ کے قلعے کے نیچے پھینک دو تا کہ یہودی مرعوب ہو جائیں.لیکن یہ کام بھی حضرت صفیہ کو ہی کرنا پڑا، انہوں نے انکار کر دیا.اور پھر اس طرح یہودیوں کو اس طرف سے حملے کی جرات نہیں ہوئی.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جب لوگ رسول کریم مے سے کچھ دور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ اور حضرت ام سلیم کو دیکھا کہ یہ دونوں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے کپڑے سمیٹے ہوئے تھیں اور میں ان کے پاؤں دیکھ رہا تھا کہ پانی کی مشقیں اٹھائے ہوئے لا رہی تھیں اور ان لوگوں کو یعنی زخمیوں کو پلا رہی تھیں اور پھر کوٹ جاتیں اور پھر اور مشقیں بھر کر لاتیں اور پلانے لگتیں اُن کو.تو اس طرح خدمات کیا کرتیں تھیں یہ خواتین بھی جنگوں کے دنوں میں.ماں کے لئے سب سے بڑی قربانی بچے کی ہوتی ہے ایک روایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ماں کے لئے سب سے بڑی قربانی بچے کی ہوتی ہے مگر میں اس کے لئے بھی ایک عورت کی مثال پیش کرتا ہوں جو پہلے شدید کا فر تھی.ایرانیوں کے ساتھ ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت شکست ہوئی.وہ اس کا ازالہ کرنے کے لئے پھر جمع ہوئے ، شکست کا بدلہ لینے کے لئے.مگر پھر ایرانی کثرت تعداد اور جو ساز و سامان تھا جنگ کا اُس کی وجہ سے غالب ہوتے نظر آ رہے تھے.تو ہاتھیوں کے ریلے کا مقابلہ بھی ان سے مشکل ہوتا تھا چنانچہ آخری دن کی جنگ میں بہت سے صحابہ مارے گئے.آخر مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اگلے روز آخری فیصلہ کن جنگ کی جائے تو خنساء نامی ایک عورت جو بڑی شاعرہ اور ادیب گزری ہے، اس کے چار بیٹے تھے.انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور کہا: میرے بچو! میرے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 79 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب تم پر بہت سے حقوق ہیں.تمہارا باپ جواری تھا.میں نے چار دفعہ اپنے بھائی کی جائیدا تقسیم کرا کر اُسے دی مگر اس نے چاروں دفعہ جوئے میں برباد کر دی.گویا نہ صرف یہ کہ اپنی جائیداد دی بلکہ میرے بھائی کی جائیداد بھی لٹا گیا مگر اس کے باوجود اس کی موت کے بعد میں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور اس کے خاندان کو بطہ نہیں لگایا اور بڑی محنت سے تم لوگوں کی پرورش کی.آج اس حق کو یاد کرا کر میں تم سے مطالبہ کرتی ہوں یا تو تم جنگ میں فتح حاصل کر کے آنا یا مارے جانا، ناکامی کی حالت میں مجھے واپس آکر منہ نہ دکھانا ورنہ میں تمہیں اپنا یہ حق نہ بخشوں گی.اس جنگ کی تفصیل ایسی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے، گویا ہر مسلمان اپنی جان کو میدانِ جنگ میں اس طرح پھینک رہا تھا جس طرح کھیل کے میدان میں فٹبال پھینکا جاتا ہے.عین دوپہر کے وقت جب معرکہ جنگ نہایت شدت سے ہو رہا تھا تو خنساء آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ اس معرکے سے بہادروں کا واپس آنا مشکل ہے.انہوں نے اس وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے خدا میں نے اپنے بچے دین کے لئے قربان کر دیئے ہیں، اب تو ہی ان کی حفاظت کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جنگ فتح ہوگئی اور ان کے بچے بھی زندہ واپس آگئے.پھر ایک واقعہ کا ذکر اس طرح ہے.ہندہ کی مثال.اُن کے خاوند ابوسفیان نے ہمیں سال تک رسول کریم ﷺ سے جنگ کی اور فتح مکہ پر مسلمان ہوئے تو ہندہ بھی رسول کریم ﷺ سے پہلے شدید بغض رکھتی تھیں.جنگ احد میں حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد اس نے ہی ان کے ناک اور کان کٹوائے تھے.اور بعض روایات میں ہے کہ ان کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا.تو اُحد کی جنگ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے.اس جنگ میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اس طرح مسلمان شہداء کی لاشیں کفار کے رحم و کرم پر تھیں.تو اُس وقت ہندہ نے ، جیسا کہ کہا، حضرت حمزہ نے ایک خاص آدمی کو مارا تھا ، اس کی لاش کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا اس کا مثلہ کروایا تھا.وہ ایسی خطرناک دشمن تھیں اسلام کی اور آنحضرت ﷺ کی کہ فتح مکہ کے بعد وہ اور ان کے خاوند ابوسفیان بھی جب ایمان لائے اور ان کے لڑکے حضرت معاویہ بھی ایمان لائے تو پھر وہ لوگ اسلام کے لئے لڑے اور اسلام کی بڑی خدمت کی کہ کایا پلٹ دی آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی نے اُن کی.تو کہتے ہیں کہ ایک جنگ کے موقعہ پر ھر قل کی فوجوں کے سامنے سخت معرکہ درپیش تھا.مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 80 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب زیادہ ساٹھ ہزار تھی اور دشمن کی دس لاکھ بعض نے لکھی ہے اور بعض نے تین چار لاکھ عیسائی مؤرخین نے بھی لکھی ہے.تو بہر حال مسلمانوں سے کم از کم پانچ چھ گناہ زیادہ تعداد تھی.تو ایک دفعہ دشمن کی طرف سے ایسا سخت حملہ ہوا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا.ہندہ نے جو اپنے خیمے میں تھیں، جب غبار اٹھتا دیکھا جب پیچھے ہٹ رہے تھے مٹی اٹھتی دیکھی تو کسی سے پوچھا کہ یہ کیسا غبار ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے، وہ پسپا ہورہے ہیں.ہندہ نے عورتوں سے کہا کہ اگر مردوں نے شکست کھائی ہے اور اسلام کے نام کو بٹہ لگایا ہے تو آؤ ہم مقابلہ کریں.عورتوں نے اُن سے دریافت کیا کہ ہم کس طرح مقابلہ کر سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا ہم مسلمانوں کے گھوڑوں کو ڈنڈے ماریں گے اور کہیں گے تم نے پیٹھ دکھائی ہے تو اب ہم آگے جاتی ہیں.اُس وقت ابوسفیان اور دوسرے صحابہ واپس آرہے تھے کیونکہ ریلا بہت سخت تھا.انہوں نے دیکھا کہ ہندہ آگے آئیں اور اُن کے گھوڑوں کو ڈنڈے مارنے شروع کر دیے.ہندہ نے ابوسفیان سے کہا تم تو کفر کی حالت میں بھی اپنی بہادری کی بہت شیخیاں مارا کرتے تھے.مگر اب مسلمان ہو کر اس قدر بز دلی دکھا رہے ہو حالانکہ اسلام میں تو شہادت کی موت زندگی ہے.اس پر ابوسفیان نے مسلمانوں سے کہا کہ واپس چلو، ہندہ کے ڈنڈے دشمن کی تلوار سے زیادہ سخت ہیں.چنانچہ مسلمانوں نے پھر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو فتح عطا فرمائی.تو یہ ایک عورت تھی جس نے اس جنگ کی کایا پلٹوائی.حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں سرموک کی ہولناک لڑائی پیش آئی تو شوق جہاد نے حضرت اسماء کو گھر نہ بیٹھنے دیا.وہ اپنے اہلِ خاندان کے ہمراہ اس لڑائی میں شریک ہوئیں اور بڑی ثابت قدمی سے داد شجاعت دی.ایک موقعہ پر عیسائی مسلمانوں کو دباتے دباتے عورتوں کے خیموں تک آپہنچے.جنگ ہو رہی تھی، عیسائی فوج زیادہ تھی انہوں نے اتنا سخت حملہ کیا کہ مسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے عورتوں کے خیموں تک آگئے.حضرت اسماء اور دوسری دختران اسلام جو وہاں بیٹھی تھیں، انھوں نے خیموں کی چوبیں اتارلیں ، لکڑیاں جو تھیں بانس لگے ہوئے تھے وہ اتار لیے، اور دشمنوں پر پل پڑیں اور ان کو پیچھے دھکیل دیا.ایک روایت میں ہے کہ اس لڑائی میں حضرت اسماء نے تنہا اپنی لکڑی سے نو رومیوں کو قتل کیا.پھر حضرت عز ہ بنت حارث کے متعلق آتا ہے جو ایک صحابی سیدنا حضرت عقبہ بن رضوان
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 81 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب کی اہلیہ تھیں کہ انہوں نے عراق اور عرب کے کئی معرکوں میں اپنے شوہر کے ساتھ مجاہدانہ شرکت کی.روایت میں لکھا ہے کہ دریائے دجلہ کے قریب اہلِ نسان اور مسلمانوں کے درمیان خونریز لڑائی ہوئی.اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت مغیرہ عورتوں کو میدانِ جنگ سے بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے.جس وقت دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ جاری تھی.عزہ نے عورتوں سے کہا: اس وقت اگر ہم مسلمانوں کی مدد کرتے تو نہایت مناسب تھا.یہ کہ کر انہوں نے اپنے دوپٹے کا ایک بڑا حکم بنایا، جھنڈا بنایا دوپٹے سے.اور دوسری خواتین نے بھی اپنے اپنے دوپٹوں سے چھوٹے چھوٹے جھنڈے بنالئے اور پھر یہ سب اپنے جھنڈے لہراتی ہوئیں، جنگ کا جو موقعہ تھا اس کے قریب پہنچ گئیں اور اہلِ نسان نے ، مسلمانوں کے جو مخالفین تھے دشمن، انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کے لئے نئی مدد کوئی آگئی ہے اور تازہ دم فوج آگئی ہے.اُن کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے.تو یہ تھی عورتوں کی حاضر دماغی اس وقت ، اور بہادری اور جرات کہ کس طرح انہوں نے مردوں کی مدد کی اور جنگ کی کایا پلٹ دی.مالی قربانیوں میں عورتوں کا ایک خاص مقام پھر مالی قربانیوں میں عورتوں کا ایک خاص مقام ہے.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کی بعض ازواج نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہم میں سے کونسی جلدی آپ سے ملے گی ؟ آپ نے فرمایا: جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں.تو وہ سمجھیں کہ ہاتھ لمبے ہوں گے.اور انہوں نے ناپنے شروع کر دیئے ہاتھ.حضرت سودہ کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا تھا.تو کہتی ہیں ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے کیا مراد ہے.اس کا مطلب تھا صدقہ و خیرات اور ہم میں سے وہ زوجہ جو تھیں آنحضرت علے کی وہ سب سے پہلے آنحضرت ﷺ سے ملیں جو صدقہ و خیرات کو بہت پسند کرتی تھیں.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو انقلاب پیدا کیا عورتوں میں، اُن میں بھی مالی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے اور بڑی کثرت سے ملتا ہے.بلقیس صاحبہ جو اہلیہ عمر شریف صاحب تھیں ریٹائر ڈ ٹیلی فون سپر وائزر تھے یہ.1989ء میں ان کی وفات ہوئی تو صاحب روبیاء وکشوف تھیں.بڑی نیک عورت تھیں، عبادت گزار تھیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 82 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب موعیہ تھیں 115 کی.بڑے کھلے ہاتھ سے مالی قربانی کیا کرتی تھیں.زیورک کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اپنا سارے کا سارا زیور اُس تحریک میں دیدیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں.ایک دفعہ واقعہ بیان کیا کہ ایک نہایت غریب وضعیف بیوہ جو پٹھان مہاجر تھیں اور سوٹی سے بمشکل چل سکتی تھیں ، خود چل کر آئیں اور حضور کی خدمت میں دوسو روپے پیش کر دیے.یہ عورت بہت غریب تھی.اس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں، باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا.اسی طرح ایک پنجابی بیوہ جس کی واحد پونجی صرف ایک زیور تھا وہی اُس نے مسجد کے لئے بھی دیدیا.ایک بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی اُس کے پاس نہ تھا، اس نے استعمال کے برتن چندے میں دیدئیے.ایک جوش تھا ایک جذبہ تھا قربانی کا جس کے تحت انہوں نے یہ مالی قربانی کی.ایک بہاولپور کے دوست تھے.اُن کی بیوی کے پاس دو بکریاں تھیں وہ بکریاں لے کر چندے کے لئے آگئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی تو ایک عورت نے پچیس تیس ہزار پاؤنڈ پیش کئے.اسی طرح نائیجیریا کی ایک خاتون نے دس ہزار پاؤنڈ پیش کر دیئے.اُس زمانے میں ان کی بڑی ویلیو تھی ، آج سے بہت زیادہ تھے.تو یہ نائیجیرین عورت دور دراز علاقے میں رہنے والی ، اُن کی بھی یہ قربانیاں تھیں.باقی تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ خلافت سے قرب تھا.صحابہ کی اولاد میں سے تھے.قربانیوں کا پتہ تھا لیکن یہ لوگ جو خود احمدی ہوئے ہیں اور دُور دراز علاقوں میں رہنے والے ہیں ، ان کی بھی قربانیوں کی مثال دیکھیں کہ دس ہزار پاؤنڈ رہجا لا رگہ نام تھا اُن کا ، پیش کر دئیے.یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ انقلاب ان میں زمانے کے امام کی قوت قدسی سے آیا جس کا ایک اظہار ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کی مدد کا یہ نظارہ دکھاتے ہوئے ، تائید کا نظارہ دکھاتے ہوئے ، ہمیں دکھایا گیا یہ اظہار کیا ہے.وہ لوگ جو دور دراز علاقوں میں رہنے والے تھے ، ان کے دلوں میں جماعت کی اور خلافت کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی اور عشق و محبت کی ایسی آگ لگائی جس نے دنیا کی تمام محبت کو ٹھنڈا کر دیا.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 83 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرائع ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک ماں نے میرے پاس دس ہزار روپے بھیجے.وہ لکھتی ہیں کہ میرے پاس بیٹی کے زیور کے لئے دس ہزار روپے جمع تھے جو سنار کو دیئے ہوئے تھے لیکن یہ خطبہ سناجب تحریک کی انہوں نے ، ایک مالی تحریک کی ، تو دل نے فیصلہ کیا کہ جب میرا خدا میری بیٹی کے لئے ساتھی دے گا تو زندہ خدا اُس کو زیور بھی دیدے گا.آج میرے حضور کو ضرورت ہے.چنانچہ سنار کو دیے ہوئے پیسے واپس لئے اور یورپین مشن کے چندے میں دیدئیے.ایک واقف زندگی کی بیوی کے بارہ میں لکھا ہے کہ لکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں اس قربانی کے موقعہ پر حاضر ہوں اور قرآن مجید کے حکم ” لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْ مِمَّا تُحِبُّون یعنی تم ہرگز نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک اس میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں محبوب ہے جو تمہیں عزیز ہے جو تمہیں پسندیدہ ہے.کہتی ہیں کہ اس آیت کے تابع میں نے سوچا کہ مجھے اپنی ملکیتی چیزوں میں سے، جو میری ملکیت ہیں چیزیں، اُن میں سب سے زیادہ پیاری کونسی چیز ہے جو میں پیش کروں تو گلے کا ایک ہار جو میرے زیوروں میں سب سے زیادہ بھاری اور سب سے زیادہ پسندیدہ تھا، وہ میں نے اس تحریک میں پیش کر دیا.تو یہ مثالیں ہیں اور آج بھی یہ مثالیں قائم ہیں.ابھی کچھ ہی دن ہوئے گذشتہ دنوں میں.ایک خاتون زیور کے کئی ڈبے اٹھا کر میرے پاس لے آئیں.تو میں نے کہا اتنا بڑ از یورکس لئے کس تحریک کے لئے دینا ہے آپ نے اور گھر میں کیا رکھ کے آئی ہیں.انہوں نے کہا میرا گل زیور ہے جو میں یہاں لے آئی ہوں آپ کے پاس.آواز اُن کی کانپ رہی تھی، کچھ خوفزدہ بھی لگیں.تو میں نے کہا خوف زدہ کس بات پہ ہیں آپ؟ انہوں نے کہا کہ خوف مجھے یہ آرہا ہے جس کی وجہ سے میں ڈر رہی ہوں کہ کہیں آپ یہ زیور لینے سے انکار نہ کر دیں.اور کئی لاکھ روپے کا وہ زیور تھا جو انہوں نے آرام سے دیدیا.تو یہ عورتوں کی مثالیں اور قربانیاں آج بھی اسی طرح قائم ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب تقسیم ملک ہوئی اور ہم ہجرت کر کے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی.رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپناز یور نکال کر کہنے لگی کہ حضور میرا یہ زیور چندے میں دیدیں.میں نے کہا: بی بی ! عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے.تمہارے سارے زیور سکھوں نے لوٹ لئے ہیں، پارٹیشن کے وقت سکھوں نے سارا سامان لوٹ لیا تھا مسلمانوں کا.تو یہی ایک زیور تمہارے پاس ہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 84 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب تم اسے اپنے پاس رکھو.اس پر اس نے کہا حضور جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنایہ زیور چندہ میں دیدوں گی.اگر سکھ باقی سب زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کر سکتی تھی.جس کی نیت کی تھی چندہ میں دیدوں گی وہ بچ گیا اور باقی ساراز یورلوٹا گیا اور سارا سامان لوٹا گیا، اس لئے میں مجبور ہوں ، آپ میری اس بات کورڈ نہ کریں اور اس کو وصول کر لیں.ایک واقعہ حضرت خلیفتہ مسیح الرابع نے سنایا کہ کو پن جیگن کی جب تحریک ہو رہی تھی مسجد کی.تو عورتیں جس طرح والہانہ طور پر مالی قربانیاں کر رہی تھیں.اتفاق سے ایک غیر احمدی عورت بھی وہاں بیٹھی تھی ، یہ نظارہ دیکھ رہی تھی تو اس نے یہ تبصرہ کیا کہ ہم نے دیوانہ وارلوگوں کو پیسے لیتے تو دیکھا ہے لیکن دیوانہ وار لوگوں کو پیسے دیتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا.یہ آج احمدی عورتوں نے ہمیں بتایا ہے کہ پیسے لیتے ہوئے جوش نہیں ہوا کرتا ، اصل جوش وہ ہے جو پیسے دیتے وقت دکھایا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زندگی کی وہ علامت ہے جو احمدی خواتین کو سب سے زیادہ ممتاز کرتی ہے.پھر مبلغین کی بیویوں نے شروع میں جب حالات اچھے نہیں تھے، بڑی بڑی قربانیاں دیں اور بغیر خاوندوں کے رہیں اور بچے اس طرح پالے جیسے یتیمی میں پالے جاتے ہیں.اسی طرح کا ایک واقعہ ہے حضرت مولوی رحمت علی صاحب انڈونیشا کے مبلغ کا.بڑا لمبا عرصہ باہر رہے.آخر جب ایک وقت آیا.جب ان کے بچے بچپن میں تو پوچھا کرتے تھے کہ ہمارے ابا کہاں ہیں.جب بچے جوان ہو گئے بڑے ہو گئے ، شادیاں ہوگئیں تو مرکز نے فیصلہ کیا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فیصلہ کیا کہ اُن کو واپس بلا لیا جائے تو اس وقت ان کی بیوی آئیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے پاس اور بڑے درد سے یہ بات کہی کہ دیکھیں جب میں جوان تھی تو اللہ کی خاطر صبر کیا تھا میں نے اور اپنے خاوند کی جُدائی پر اُف تک نہ کی.اپنے بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا.اب جبکہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہو چکے ہیں، اب ان کو واپس بلانے سے کیا فائدہ.اب تو میری تمنا پوری کر دیجئے ، میری یہ خواہش پوری کریں کہ میرا خاوند مجھ سے دور خدمت دین کی مہم میں دوسرے ملک میں مر جائے اور میں فخر سے کہہ سکوں کہ میں نے اپنی شادی شدہ زندگی دین کی خاطر قربان کر دی.تو یہ تھے قربانیوں کے میعار اور آج بھی ہیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 85 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب امریکہ میں پرانے زمانے میں بڑی غربت تھی.جو احمدی ہوئے اکثر پیدائشی امریکن جو تھے، وہ بڑے غریب تھے.ایک احمدی خاتون تھیں وہ جماعت کی خدمت کس طرح کر کے اپنی تسکین کیا کرتی تھیں، انہوں نے ایک نیا طریقہ نکالا تھا.کلیولینڈ اوہایو سے تعلق رکھتی تھیں.انہوں نے بتایا کہ ہم اتنے غریب تھے اور میرا سارا خاندان اتنا شکستہ حال تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بیان کیا تھا واقعہ کہ کچھ بھی ہم خدمت کرنے کے لائق نہ تھے.میں اپنے جذبے کو تسکین دینے کے لئے یہ کیا کرتی تھی کہ جمعہ کے روز علی الصبح مشن ہاؤس جاتی، اپنے ساتھ پانی کی بالٹی اور گھر میں بنائے ہوئے صابن کا ٹکڑا لے جاتی تھی.یعنی اس زمانے میں امریکہ جیسے ملک میں صابن بھی میسر نہیں تھا.صابن بھی گھر میں خود بناتی تھیں.افریقہ کے بہت سے غریب ممالک اور بہت سارے دوسری جگہوں کے بھی.ہمارے ملکوں میں بھی ، دیہاتوں میں صابن خود بنایا جاتا ہے کپڑے دھونے کے لئے.بہر حال کہتی ہیں کہ میں صابن خود بناتی تھی اور وہ لے کر جاتی تھی مسجد میں اور پھر مسجد کو دھوتی تھی ، اس سے پالش کرتی تھی اور جمعے سے پہلے واپس آجایا کرتی تھی کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ یہ کام کس نے کیا ہے یعنی که ایسی قربانی تھی ساتھ یہ بھی تھا کہ اظہار بھی نہ ہو کہ کون مسجد کی صفائی کر کے جاتا ہے.حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت اماں جان جنہیں کہتے ہیں ، ان کی ایک صبر کی اعلیٰ مثال، ایک عجیب مثال ہے جب ان کے بیٹے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو بڑے لاڈلے تھے اُن کے.وہ بیمار ہوئے.بہت علاج کروایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہر وقت ان کی فکر میں رہتے تھے، حضرت اماں جان بھی دعاؤں اور علاج میں مشغول رہتی تھیں.بہر حال تقدیر الہی سے جب وہ فوت ہو گئے تو حضرت اماں جان نے کہا کہ انــالـلـه وانا اليه راجعون اور پھر کہا کہ میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں.جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے اس عظیم الشان صبر کو دیکھا تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ اطلاع دی کہ خدا خوش ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ الہام حضرت ام المومنین کو سنایا کہ تمہارے اس فعل پر ، راضی بر رضا ہونے پر ، اللہ تعالیٰ نے یہ الہام کیا ہے کہ میں خوش ہو گیا تو حضرت اماں جان نے کہا کہ مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مرجاتا تو میں پرواہ نہ کرتی.مالی قربانیوں میں بہت بڑھی ہوئی تھیں.ہر تحریک میں حصہ لیتی تھیں.حضرت مسیح موعود
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 86 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب کے زمانے میں جب جلسے ہوتے تھے تو چندہ جلسہ سالانہ کا با قاعدہ انتظام نہیں تھا.تو بعض موقعوں پہ آپ اپنے ذاتی خرچ کیا کرتی تھیں.ایک دفعہ اسی طرح پیسوں کی ضرورت پڑی.مہمانوں کے لئے کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی اور پیسے بھی ختم ہو گئے تھے.ان کے والد جو تھے حضرت میر ناصر نواب صاحب ، وہ (انتظام) کیا کرتے تھے.تو انہوں نے آکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا.تو انہوں نے کہا جاؤ بی بی صاحبہ کے پاس جاؤ ، حضرت اماں جان کے پاس جاؤ ، اُن سے کہو کہ اپنے کڑے دیدیں، مہمانوں کے لئے ضرورت ہے.انہوں نے اپنے سونے کے کڑے فوراً اُتارے اور مہمانوں کے جلسے کے انتظام کے لئے دیدیئے.شہداء کی بیویوں نے بڑے صبر کے نمونے دکھائے ہیں:.پھر جو ہمارے شہید ہوئے احمدیوں میں اُن میں شہداء کی بیویوں نے بڑے صبر کے نمونے دکھائے.ڈاکٹر نیم بابر صاحب جو اسلام آباد میں شہید ہوئے ، اُن کی بیوی نے بتایا کہ میں ساری رات بچوں کے کمرے میں اُن کے سرہانے بیٹھی رہی.اس وقت مجھے یہ احساس تھا کہ گھر میں غیر معمولی کیفیت دیکھ کر ، روتی آنکھوں اور چیخوں سے وہ خوفزدہ نہ ہو جائیں.صبح معمول کے مطابق ، رات کو اُن کو کسی نے آکے شہید کر دیا تھا خاوند کو.تو خاوند کی لاش پڑی ہے خاموشی سے بیٹھی رہیں، دوسرے لوگ آگئے.بہر حال اطلاع مل گئی تھی.شور شرابا تو گھر میں ہوا ہوگا کہ بچوں کو یہ شور شرابا سن کہ کہیں پریشان نہ ہو جائیں.ان کے سرہانے بیٹھی رہیں ساری رات.صبح اپنے وقت کے مطابق بچے اٹھے تو بیٹے نے خلاف معمول جب مجھے سرہانے بیٹھے دیکھا تو پوچھا می پاپا کہاں ہیں تو میں نے بہت آہستہ سے کہا، بچوں کو سمجھایا کہ رات کو آپ کے ابا کو اللہ میاں نے اپنے پاس بلا لیا ہے کیونکہ ان کی عمر ختم ہو گئی تھی.اور سب نے اللہ میاں کے پاس جانا ہے.پھر میں نے انہیں بتایا کہ تمہارے اباً اللہ میاں کی راہ میں قربان ہو گئے ہیں، شہید ہو گئے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے ہیں اس شہادت کی وجہ سے.تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہے، گھبرانے والی بات نہیں ہے.دونوں بچے پہلے تو رو پڑے پھر آنسو پونچھ کر مسکرانے لگے اور گھر میں آئے ہوئے لوگوں سے ملنے گئے.اسی طرح شمیم اختر صاحبہ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ اُن کے شوہر مقبول احمد صاحب کو 1967ء
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 87 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب میں انہوں نے بیعت کی تھی اور احمدیت قبول کرنے کے بعد مولوی آپ کو بہت تنگ کرتے تھے، دھمکیاں دیتے تھے.ان کا ایک لکڑی کا آرا تھا.ایک دن ایک نقاب پوش آیا اور خنجر نکال کر آپ پر وار کئے اور شہید کر دیا.شوہر کی شہادت پر سسرال والوں نے اُسے کہا کہ تم احمدیت چھوڑ دو.سسرال غیر احمدی تھا.تو ہم تمہیں پناہ دیدیں گے.دشمن بھی دھمکیاں دیتے تھے کہ احمدیت چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ ، ہم تمہیں سینے سے لگائیں گے.لیکن اس با حوصلہ عورت نے ہر بات کو ر ڈ کر دیا اور کسی قیمت پر احمدیت کو چھوڑ نا گوارا نہ کیا.یہ واقعات تو بہت ہیں دیر ہو رہی ہے.رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاری عاشق حسین صاحب،انہوں نے 1976ء میں احمدیت قبول کی اور سانگلہ ہل شہر کی رہنے والی تھیں اور احمدیت کے رستے میں ہر دکھ اور قربانی کو بڑی خوشی سے قبول کیا.آپ کی وفات کا نہایت ہی دردناک واقعہ ہے.آپ کے پالے ہوئے بیٹے نے، جسے لے پالک بنایا تھا آپ نے ، آپ کو احمدی ہونے کی وجہ سے چھری سے حملہ کر کے قتل کر دیا ، شہید کر دیا.پھر مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مبارک سلیم بٹ صاحب چونڈہ کے بارے میں لکھا ہے.2 مئی کو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں قریبی گاؤں ڈوگرہ گئی تھیں.ایک نو مبائع عابد صاحب کے گھر میں بیٹھی تھیں کہ ایک مخالف نے چھری سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا، ہسپتال میں گئیں علاج ہوا اور بڑی خون کی بوتلیں لگیں لیکن زندگی نہ بچ سکی.احمدی عورت کی غیرت ایمانی کے بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں پھر احمدی عورتوں کی غیرت ایمانی کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ ایک واقعہ سناتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ سن 17ء میں ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ امرتسری قادیان آئے اور وہاں ایک جلسہ ہوا.پانچ چھ ہزار غیر احمدی وہاں جمع ہوئے.اس وقت قادیان میں احمدی بہت تھوڑے تھے اور شہر کی آبادی بھی بہت کم تھی.اور جب قادیان سن 47ء میں نکلے ہیں اُس وقت سترہ اٹھارہ ہزار احمدی تھے لیکن اُس سے پہلے بہت تھوڑے تھے، تقریباً دس بارہ سو آدمی تھا اُس زمانے میں.اور چھ سات ہزار غیر احمدیوں کا مجمع بہت بڑا مجمع تھا.تو کہتے ہیں مولوی ثناء اللہ صاحب نے خیال کیا کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا.انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف سخت بد زبانی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 88 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب کی.قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے بھینی.وہاں کی ایک احمدی عورت نے ، جو اس جلسہ گاہ کے قریب کھڑی تھی ، مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیں اور تمام احمدی مرد بیٹھے رہے.تو اس نے مولوی صاحب کو پنجابی میں گالی دے کر بڑا بُرا بھلا کہا کہ تم حضرت مسیح موعود کے خلاف بولتے ہو.اس پر غیر احمدی جوش میں آگئے اور اس عورت کو مارنے کے لئے اٹھے.بعض احمدی اسے بچانے لگے تو دوسرے احمدیوں نے کہا کہ ایسا نہ کرو، حضرت صاحب نے احمدیوں کو فساد کرنے سے منع کیا ہوا ہے.اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ میں ان احمدیوں پر بھی بڑا خفا ہوا کہ اس احمدی عورت نے غیرت کا مظاہرہ کیا جبکہ مردوں کو کرنا چاہیے تھا اور پھر تم اس احمدی عورت پر جب غیر احمدیوں نے حملہ کر دیا تو اس عورت کی عزت کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوئے ، تم لوگ بے شرم ہو، میرے حکم کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا.پھر تبلیغ کا میدان ہے اس میں ہماری عورتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا حصہ لیتی ہیں.انڈونیشا کی لجنہ نے ایک عجیب طریقہ تبلیغ کا نکالا کہ ایک گاؤں میں تبلیغ کے لئے انہوں نے جانا تھا، وہاں لجنہ نے وقار عمل کر کے تین کلومیٹر لمبی سڑک بنادی.اس سڑک کا گاؤں والوں کو بہت فائدہ ہورہا ہے اب اور ان کو احساس تشکر بیدار ہو رہا ہے جس کے نتیجہ میں احمدیت کی طرف ان کی توجہ مبذول ہوئی.اور جب یہ واقعہ لکھا گیا ہے 1998ء کا اب تو شاید زیادہ ہو تو اس وقت تک اس سڑک کی وجہ ا سے اس گاؤں میں تبلیغ کے موقعے پیدا ہوئے اور پانچ سواحمدی وہاں ہو گئے.پھر تبلیغ کا اور غیرت ایمانی کا ایک واقعہ سنیں.چک منگلا اور جھنڈ بھروانا.یہ علاقے ربوہ کے قریب ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یہاں بھی جماعت ترقی کر رہی ہے اور یہی وہ بہادر لوگ ہیں جن کی ایک عورت کی مثال حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے جلسے میں دی تھی.تقریر میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ بیعت کرنے یہاں آئی تھی کہ شام کو اس کی بیٹی بھی آگئی.اُس نے کہا اماں تو نے مجھے کہاں بیاہ دیا ہے؟ بیٹی نے کہا آئے، وہ لوگ تو میری باتیں سنتے نہیں، تو نے مجھے کتا بیں دی تھیں، احمدیت کا لٹر پچر دیا تھا کہ جا کے تبلیغ کرو.میں انہیں پڑھ کر سناتی ہوں تو سنتے نہیں ہیں.میں احمدیت پیش کرتی ہوں تو ہنسی مذاق کرتے ہیں اور مجھے پاگل قرار دیتے ہیں.وہ عورت کہنے لگی بیٹی میری جگہ آکر اپنے باپ اور بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کی روٹی پکا میں تیرے سسرال
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 89 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کون میری بات نہیں سنتا.میں ان سب کو احمدی بنا کر ہی دم لوں گی.شاید یہی عورت، حضور نے لکھا ہے کہ جلسے سے پہلے، چند ماہ قبل یہاں آئی تھی.اُس کے پاس ایک بچہ تھا.اس نے مجھے بتایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے وہ ربوہ نہیں آتا تھا.میں اس کا بچہ اُٹھا لائی ہوں کہ وہ اس بچے کی وجہ سے ربوہ تو آئے گا.مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس کا وہ بھائی احمدیت کے قریب ہے.لیکن بعد میں پتہ لگا کہ اسی طرح وہ ربوہ آیا اور پھر وہ اللہ کے فضل سے احمدی ہو گیا.حضور یہ واقعہ لکھ کر کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے یہاں کا ماحول دیکھ کر اور یہاں کی ہماری تنظیم دیکھ کر ایک نظام دیکھ کر، رویے دیکھ کر اور احمدیوں کے آپس کے تعلقات دیکھ کر وہ مجبور ہوتے ہیں کہ پھر وہ دلچسپی لیں اور پھر احمدیت قبول کریں.اسلام کی تاریخ میں ایک بہادر خاتون کا ذکر آتا ہے جن کا نام حضرت ام عمارہا تھا.حضرت ام عمارہ نے احد کے بعد بیت الرضوان، خیبر اور فتح مکہ میں شرکت کی.حضرت ابو بکر کے عہد میں یمامہ کی جنگ پیش آئی اس میں بھی بڑی جرات سے لڑیں اور بارہ زخم آئے ان کو ، اور ایک ہاتھ کٹ گیا اُن کا.ان کے بارہ میں آتا کہ ہجرت نبوی کے تیسرے سال مسلمانوں کو احد کا معرکہ پیش آیا تھا.حضرت ام عمارہ بھی اس میں شریک ہوئیں اور ایسی شجاعت اور جانبازی اور عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں خاتونِ اُحد کے لقب سے مشہور ہوئیں.طبقات ابن سعد کی روایت ہے کہ ان کے شوہر اور ان کے دونوں بڑے فرزند عبداللہ اور حبیب بھی غزوہ احد میں ان کے ساتھ شریک تھے.جب تک مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا ، ام عمارہ دوسری عورتوں کے ساتھ پانی پلاتی رہیں مجاہدین کو اور زخمیوں کی خبر گیری کرتی رہیں.جب ایک اتفاقی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسا پلٹ گیا اور مجاہدین انتشار کا شکار ہو گئے ، اس وقت رسول اکرم ﷺ کے پاس صرف چند جان نثار صحابی رہ گئے تھے.حضرت ام عمارہ نے یہ کیفیت دیکھی تو انہوں نے مشکیزہ پھینک کر ، جو مشک پانی کی اٹھائی ہوئی تھی ، وہ پھینک دی اور تلوار اور ڈھال سنبھال لی.اور حضور کے قریب پہنچ کر کفار کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں.کفار بار بار یورش کرتے تھے، حملہ کرتے تھے اور حضور کی طرف بڑھتے تھے اور حضرت اُم عمارہ انہیں دوسرے ثابت قدم مجاہدین کے ساتھ مل کر تیرا اور تلوار سے روکتی تھیں.یہ بڑا نازک وقت تھا.بڑے بڑے بہادروں کے قدم لڑکھڑا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 90 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب گئے تھے لیکن یہ شیر دل خاتون کو استقامت بن کر میدان جنگ میں ڈٹی ہوئی تھیں.اتنے میں ایک مشرک نے ان کے سر پر پہنچ کر اپنی تلوار کا وار کیا.ام عمارہ نے اسے اپنی ڈھال پر روکا اور پھر اس کے گھوڑے کے پاؤں پر تلوار کا ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ گھوڑا اور سوار دونوں زمین پر آگئے.پھر لکھا ہے کہ یہ ماجرا دیکھ کر آنحضرت علی نے ، آپ یہ ماجرا دیکھ رہے تھے یہ سارا حال تو آپ نے اُمِ عمارہ کے بیٹے عبداللہ کو آواز دی اور فرمایا: عبد اللہ اپنی ماں کی مدد کر.وہ فوراً اُدھر لیکے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس مشرک کو قتل کر دیا.تو عین اسی وقت ایک دوسرا مشرک تیزی سے اُدھر آیا اور حضرت عبداللہ کا بایاں بازو زخمی کرتا ہوا نکل گیا.حضرت اُم عمارہ نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ کا زخم باندھا اور پھر فرمایا: بیٹے جاؤ ، اور جب تک دم میں دم ہے لڑو.حضور نے حضرت ام عمارہ کے اس جذ بہ جان شاری کو دیکھ کرفرمایا کہ اے ام عمارہ! جتنی طاقت تجھ میں ہے اور کسی میں کہاں ہوگی ؟ اسی اثناء میں وہی مشرک جس نے عبداللہ کو زخمی کیا تھا، پلٹ کر پھر حملہ آور ہوا.حضور ﷺ نے ام عمارہ سے فرمایا: ام عمارہ سنبھلنا، یہ وہی بد بخت ہے جس نے عبداللہ کو زخمی کیا تھا.حضرت اُم عمارہ جوشِ غضب میں اس کی طرف جھپٹیں اور تلوار کا ایک کاری وار کیا کہ وہ دوٹکڑے ہو کر نیچے گر گیا.اس پر حضور ﷺ نے تبسم فرمایا اور فرمایا: ام عمارہ نے تو اپنے بیٹے کا خوب بدلہ لیا.صلى الله اسی جنگ کے دوران ایک بد بخت نے دُور سے حضور پر پتھر پھینکا جس سے آپ عملے کے دو دانت شہید ہو گئے.اور پھر اس وقت جو صحابہ تھے جو شمع رسالت کے پروانے تھے، وہ بڑے اضطراب میں ادھر متوجہ ہوئے اور ابن قمیہ نامی ایک کا فر بھی بڑا جوش سے حضور کے قریب پہنچ گیا اور تلوار کا ایک بھر پور وار کیا اور حضور نے جو خود پہنا ہوا تھا، وہ اُس کی تلوار سے، جب پڑی اُس پر تو اس کے خود کی دو کڑیاں حضور میلے کے چہرے پر یہاں اندر کھب گئیں اور خون بہہ پڑا وہاں سے.یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ کسی کو کچھ پتہ نہ لگا.ام عمارہ بیتاب ہو گئیں اور آگے بڑھ کر ابن قمیہ کو روکا.یہ شخص قریش کا بڑا مشہور شہ سوار تھا لیکن اس شیر دل خاتون نے اس کی پروا نہیں کی کہ کتنا بہادر ہے اور نہایت جرات کے ساتھ اس پر حملہ کیا.دوہری زرہ پہنی ہوئی تھی اس نے.ام عمارہ کی تلوار اس پر صیح طرح نہ لگ سکی ، اُچٹ گئی.اور لیکن اس بہادر کو بھی جو کافر تھا یہ جرأت نہ پیدا ہوئی کہ اس عورت سے مقابلہ کر سکے.وہ پہلے حملہ کھا کے ہی دوڑ گیا وہاں سے.ام عمارہ کو بھی زخم آئے ، حضور نے خود
الا ز حارلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 91 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب پھر زخم کی پٹی کروائی حضرت ام عمارہ کی.اور کئی بہادر صحابہ کا نام لے کر فرمایا کہ واللہ آج ام عمارہ نے ان سب سے زیادہ بڑھ کر بہادری دکھائی.ام عمارہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، میرے لئے دعا کریں کہ مجھے بھی جنت میں آپ کی معیت نصیب ہو.حضور نے نہایت خشوع سے اس کے لئے دعا مانگی اور با آواز بلند فرمایا " اللَّهُمَّ اجْعَلُهُمْ رُفَقَاءِ فِي الْجَنَّةِ “.” حضرت اُم عمارہ کو بڑی مسرت ہوئی اور ان کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی کوئی پروا نہیں.صلى الله لڑائی ختم ہوئی تو حضور ہے اس وقت تک گھر تشریف نہیں لے گئے جب تک آپ نے حضرت عبداللہ بن کعب زمانی کو بھیج کر حضرت اُم عمارہ کی خیریت دریافت نہ کر لی.حضور فرمایا کرتے تھے : اُحد کے دن میں دائیں بائیں میں جدھر نظر ڈالتا تھا ام عمارہ ہی ام عمارہ لڑتی نظر آتی تھیں.ایک روایت میں ہے کہ غزوہ احد میں حضرت ام عمارہ کے جسم پر بارہ زخم لگے تھے اور علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ غزوہ احد کے بعد انہوں نے بیعت رضوان میں ، جنگ خیبر اور دوسری جنگوں میں شرکت کی اور ایک روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھیں.حضرت ام عمارہ کا یہ جراتمندانہ فعل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا ، رسول اللہ علیہ کی حفاظت کے لئے تھا، اسلام کی خاطر قربانی کرنے کے لئے تھا.آج بھی احمدی عورتوں نے اس زمانے کی مناسبت سے اس مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں دی ہیں.چند ایک کی میں نے مثالیں دیں اور دے رہی ہیں.اور صبر کے نمونے دکھائے ہیں اور دکھا رہی ہیں.اس زمانے میں اگر جنگ کے حالات ہوں تو احمدی عورت کو وہ نمونے دکھانے پڑے تو وہ بھی دکھائے گی انشاء اللہ تعالیٰ اور پیچھے نہیں رہے گی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ ضرورت پڑے تو یہ نمونے احمدی عورتیں دکھا سکتی ہیں.قادیان میں پارٹیشن کے وقت جب شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے اور وہاں بہت ساری عورتیں جمع تھیں، اُن کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے ایک انتظام تھا.تو ایک انتظام کے تحت عورتوں کو عورتوں کی ہی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی تھی.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر سے باہر کے ایک
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 92 جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب محلے میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرے کی رہنے والی تھی.اُس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ اور ہندو جو ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے ، جب حملہ کرتے تھے تو یہ عورتیں بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرے کی رہنے والی تھی اور وہ اُن کی سردار بنائی گئی تھی.یہ نہیں کہ سردار بن کے پیچھے رہ رہی ہے، سب سے آگے سردار تھی.اور اب بھی وہ عورت اس زمانے میں جب بیان کیا، زندہ تھی، عورتوں کو سکھاتی تھی کس طرح لڑنا ہے.وہ جو عورت تھی جس نے یہ جرات دکھائی اس عورت کے دل میں یہ جوش یقیناً اس کے جوش ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہے.پس یہ نمونے ہمیں اس یقین پر مزید قائم کرتے چلے جانے والے ہونے چاہئیں کہ اصل زندگی خدا تعالیٰ کی رضا ہے.آج ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان نمونوں پر قائم رہنا ہے اور اپنی نسلوں میں قائم رکھنا ہے تا کہ اس فیض سے محروم نہ رہیں جو اپنے ایمان کی اعلی مثالیں قائم کر کے اولین نے حاصل کیا تھا اور جو آج بھی مسیح محمدی کے ماننے والے حاصل کر رہے ہیں.پس پاک دل اور صاف روح ہو کر قربانیوں میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جائیں اور اپنی روایات کو کبھی نہ چھوڑیں اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ احساس بٹھاتی چلی جائیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا ہونا چاہیے.اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہو.میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ اے احمدی عور تو اور اے بچیو اور خاص طور پر وہ بچیو جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے اور وقف نو میں شامل ہو! تمہیں اللہ تعالیٰ نے امام وقت کے دور کی ام عمارہ بنے کا موقع دیا ہے، سب کچھ بھول جاؤ اور اسلام کے خلاف جنگ میں، جو براہین اور دلائل کی جنگ ہے، اپنے آپ کو تیار کر کے دشمن پر جھپٹ پڑو.دنیا کی چھوٹی چھوٹی لالچوں کو بھول جاؤ اور صرف اور صرف ایک خیال رکھو کہ آج ہم نے دنیا کو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے کے نیچے لا کر کھڑا کرنا ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 93 93 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی 2007 ء اپنی عبادتوں کے معیار اور عمل صالحہ کے معیار کو بہتر بنا ئیں.اگر مسیح موعود کی فوج میں شامل ہونا ہے تو اپنے اعمال پر بھی نظر رکھیں.عاجزی اختیار کر و عاجزی بہت سے جھگڑوں سے بچاتی ہے.عورت کو اپنی زینت چھپانے اور پردے کا حکم.اپنے تمام جذبات اور خیالات کو اس شخص کے تابع کریں جس نے آپ کو خریدا ہے کسی بھی قوم میں عورت کا کردار قوم کو بنانے میں انتہائی اہم ہے.حقیقی مومن کی مدد کرنا اللہ تعالی نے اپنے پر فرض کیا ہے.ان نمونوں پر چلیں جو صحابہ اور صحابیات نے دکھائے ہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 94 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب اپنی عبادتوں کے معیار اور عملِ صالحہ کے معیار کو بہتر بنائیں اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.وَالَّذِيْنَ إِذَا ذُكِّرُوْا بِايَتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمَّا وَّ عُمْيَانًا.(الفرقان: ۷۴) یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں ایمان والوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ جب انہیں کوئی نصیحت کی جائے تو وہ کان اور آنکھ کھلی رکھ کر ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور روحانی لحاظ سے ان اندھوں اور بہروں کی طرح نہیں ہوتے جو نیک باتیں سن کر اور دیکھ کر گزرجاتے ہیں اور کوئی توجہ نہیں دیتے گویا جیسا کہ ایسے لوگ جیسے انہوں نے کوئی بات سنی نہیں اور کوئی اچھی بات دیکھی نہیں.پس یہ فرق ہمیشہ ایک اللہ کی بندی اور بندے، وہ جو اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں اور عبادت کی خواہش رکھتی ہے وہ جو نیک اعمال بجالانے والی ہے اور نیک اعمال بجالانے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 95 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب کی خواہش رکھتی ہے، اور ان میں جو اللہ کے حکموں کے منکر ہیں کے درمیان ایک بڑا واضح ہوکر یہ فرق ظاہر ہوتا ہے.یہ ایک ایسا معیار ہے جس سے ہر ایک اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکموں پر چلنے کا جائزہ لے سکتا ہے یہ ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ایک احمدی مرد اور عورت اپنے عہد بیعت کو پر کھ سکتا ہے.قرآن کریم میں بے شمار احکامات ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے کی شرط ان احکامات کو رکھا ہے جیسا کہ فرمایا کہ جو قرآن کریم کے پانچ سو حکموں کی یا دوسری جگہ سات سو حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.پس ہر احمدی کو اس لحاظ سے ایک فکر کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے اور ایک احمدی عورت جو نہ صرف اپنی عبادت کے میعاروں اور اعمالِ صالحہ کے معیاروں کو بہتر کر کے یا کرنے کی کوشش کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوار رہی ہوتی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کی منزلیں بھی متعین کر رہی ہوتی ہے.اس لئے ایک احمدی عورت کی ذمہ داری کئی چند ہو جاتی ہے کئی گناہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت سے جو توقعات ہیں ان پر پورا اتر نے کی کوشش کرے.خلیفہ وقت کی طرف سے جو نصائح کی جاتی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے.ہمیشہ یا درکھیں کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا اگر کسی کے مقدر میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کی جماعت کے ذریعے سے یہ مقدر کیا ہوا ہے.پس اگر مسیح موعود کی فوج میں شامل ہونا ہے تو اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھیں.اگر مسیح موعود کی فوج میں شامل ہونا ہے تو اپنے اعمال پر بھی نظر رکھیں بعض باتوں کی طرف میں اس وقت مختصر اً توجہ دلاتا ہوں.سب سے پہلی بات تو یہ یا درکھیں کہ آپ جلسے پر آئی ہیں اپنی دینی علمی اور روحانی ترقی کے لئے.اور یہی مقصد لے کر آپ یہاں بیٹھی ہیں اور بیٹھنا چاہیے.جیسا کہ میں نے کل خطبے میں بھی کہا تھا.اس لئے یہاں جلسے کے پروگراموں کو پوری توجہ سے سنیں.یہ نہ ہو کہ ٹولیاں بنا کر بیٹھی کیں مارتی رہیں، اپنے کپڑوں اور زیوروں کا ذکر کر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 96 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب رہی ہوں.وہی ذکر زیادہ چلتا رہے.سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں.اگر دین سیکھنے کی خاطر اجتماع اور جلسے کے دن ملا کر گل پانچ دن یا چھ دن بھی آپ دین سیکھنے کے لئے نہیں دے سکتیں، اپنے آپ کو دنیا کے کاموں سے کلیہ علیحدہ نہیں کر سکتیں تو اپنے روحانی معیار اونچے کرنے کی کوشش کرنے والی کس طرح کہلا سکتی ہیں.اور جب آپ لوگ پوری توجہ سے جلسے کے پروگرام نہیں سنیں گے تو لاشعوری طور پر بچوں پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہو گا کہ جلسہ بھی ایک طرح کا میلہ ہے.حضرت مسیح موعود نے اس سوچ کو بڑی سختی سے رد فرمایا ہے.پس پہلی بات تو یہ کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ان دنوں میں دین سیکھنے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے وقف کریں.تقریباً ڈیڑھ دن گزر گیا ہے اور ڈیڑھ دن ہی باقی رہ گیا ہے.اس میں اب خاص اہتمام کریں.بجائے اس کے کہ ڈیوٹی والیاں آپ کو توجہ دلائیں کہ جلسہ سنو، باتیں کر رہی ہوں تو آپ کو خاموش کروائیں کہ تقریر میں سنو.آپ خود اس طرف توجہ کریں.عاجزی اختیار کرو، عاجزی بہت سے جھگڑوں سے بچاتی ہے پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ایک نصیحت فرماتا ہے اس سورۃ الفرقان میں جس کی ایک آیت کی میں نے تلاوت کی ہے، جیسا کہ میں نے بتایا اور جس کی بعض آیات آپ نے سنی ہیں کہ رحمان کے نیک بندوں میں عاجزی ہوتی ہے، تکبر سے وہ دُور ہوتے ہیں.یہ ایک ایسی بات ہے جس کی بہت اہمیت ہے تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ یہ عاجزی ہے جو بہت سے جھگڑوں سے بچاتی ہے اور یہ تکبر ہے جو بہت سے فسادوں کا ذریعہ بنتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم حقیقت میں میری بندی بننا چاہتی ہو تو عاجزی اختیار کرو.اگر کوئی تمہارے سامنے جہالت کا اظہار کرتے ہوئے ہتکبر سے کام لیتے ہوئے ایسی باتیں کر بھی جائے جو نا مناسب ہوں تو تمہارار د عمل ویسا ہی نہ ہو جیسا دوسرے کا ہے بلکہ تمہارے اندر سے ہر ایک کے لئے سلامتی کی خوشبو پھوٹے.عورتوں میں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹی اناؤں اور غیرت کی وجہ سے ایسی لڑائیاں ہوتی ہیں جو مردوں کو بھی ، بچوں کو بھی اور دونوں طرف کے خاندانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت یہ ہے کہ اگر اللہ کا پیار حاصل کرنا ہے تو ان جھوٹی اناؤں کو ختم کرو اور عاجزی دکھاتے ہوئے ہر ایک کے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 97 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب لئے سلامتی کے پھول بکھیر و.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ایک جگہ یہ حکم دیا کہ اللہ کے حقیقی عبادت گزاروں کی خصوصیت کیا ہونی چاہیے.فرمایا کہ ان کے خرچ میں نہ اسراف ہوتا ہے نہ وہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں.بعض عورتوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ دیکھا دیکھی کہ فلاں نے اپنا زیور بنایا ہے تو میں بھی بناؤں یا فلاں نے ایسے کپڑے بنائے ہیں تو میں بھی بناؤں.بلکہ ایک جگہ کسی نے مجھے بتایا، یہاں نہیں کسی اور ملک کا ذکر ہے کہ ایک عورت نے کسی کا دیا ہوا تحفہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہ میں نہیں پہنوں گی ، حالانکہ بالکل نیا قسم کا کپڑا آیا تھا، کہ اس کو پہنے ہوئے میں نے فلاں عورت کو بھی دیکھ لیا ہے.اتنی زیادہ آپس میں مقابلہ بازی ہو جاتی ہے کہ وہ کپڑا بھی نہیں پہننا جو کسی اور نے پہنا ہوا ہو، میری انفرادیت قائم رہے.تو یہ چیزیں جو ہیں انتہائی فضول اور لغو چیزیں ہیں.پھر خاوندوں کو بھی مجبور کرتی ہیں کہ ان کی خواہشات کو پورا کیا جائے.بچوں کی شادیوں پر خاص طور پر جب پاکستان جا کر شادیاں ہوتی ہیں تو بعض فضول خرچیاں ہو رہی ہوتی ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ مرد بھی اس میں شامل ہوتے ہیں بلکہ شاید قصور وار زیادہ ہوں.اور تو بہت ساری باتیں عورتوں کی نہیں مانتے لیکن جہاں جھوٹے اظہار اور دکھاوے کا سوال آئے تو فوراہاں میں ہاں ملاتے ہیں ایسے مرد، اس لئے مرد بہر حال اس معاملے میں زیادہ جاہل ہیں کیونکہ بعض دفعہ قرض بھی لے لیتے ہیں لیکن عورت اگر چاہے بہت سے غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کر کے اپنے خاوند کے گھر کی نگران کا کردار ادا کر سکتی ہے اور بہترین طور پر کردار ادا کر سکتی ہے.جن خاندانوں میں یہ دکھاوے اور فضول خرچیاں ہوں پھر ان کی اولا د بھی اسی ڈگر پر چل پڑتی ہے تو بہر حال فضول خرچی سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر حکم فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بالکل کنجوس نہ ہو جاؤ بالکل اپنے پیسے پر سانپ کی طرح نہ بیٹھ جاؤ کنڈلی مار کے، پیسے جوڑتے جوڑتے ساری زندگی نہ گزار جاؤ کہ اس کا اظہار بھی نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا اظہار بھی ہونا چاہیے.یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر بڑا احسان ہے کہ اکثریت اگر اپنے خرچ کم کر کے پیسے جوڑتی ہے تو پھر وہ بچت چندوں کی صورت میں ادا کر کے اللہ کے دین کی خدمت کرتی ہیں.اب برلن کی مسجد میں عورتوں نے ذمہ واری لی ہے، یہ حامی بھری ہے کہ ہم یہ مسجد
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 98 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب بنائیں گی.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی کمائی سے یا اپنے گھر کی بچت سے دل کھول کر چندے دے رہی ہیں جرمنی کی لجنہ اماءاللہ.بے شمار ہیں جنہوں نے اپنے پر تنگی کر کے بھی بڑی بڑی رقمیں مسجد کے لئے دی ہیں.پانچ سو، ہزار یورویا اس زیادہ دے رہی ہیں حالانکہ معمولی آمد ہے.کئی ہیں جنہوں نے زیور دیئے ہیں اور بڑی خوشی اور بشاشت سے دیئے ہیں.میرے ذریعے سے بھی بہت ساروں نے پیش کئے.تو یہ احمدی عورت کا طرہ امتیاز ہے.لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو صرف دنیا داری میں پڑی ہوئی ہیں.ان سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نصیحت فرمائی ہے اس پر غور کرو اس سے تم اپنے ایمان مضبوط کر رہی ہوگی.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو.تو جو اپنی بچتیں کرتی ہو، کنجوسی کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ ہم نے اللہ کی راہ میں دینا ہے اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے.ان بچتوں کو پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرو.اسی سے پھر آپ اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کریں گی اور اسی سے اپنی نسلوں کا تعلق بھی خدا تعالیٰ سے جوڑیں گی.اگر پیسے بچائیں تو اس نیت سے بچائیں جیسا کہ میں نے کہا کہ دین کی خاطر خرچ کرنا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم حکم ہے.عورت کو اپنی زینت چھپانے اور پردے کا حکم ایک مومن عورت کو، اپنی زینت چھپانے کا اور پردے کا.اس مغربی معاشرے میں بعض پڑھی لکھی بچیاں اور عورتیں معاشرے کے زیر اثر یا خوف کی وجہ سے کہ آج کل پر دے کے خلاف بڑی روچل رہی ہے، پردے کا خیال نہیں رکھتیں.ان کے لباس فیشن کی طرف زیادہ جارہے ہیں.مسجد میں بھی اگر جانا ہو یا سینٹر میں آنا ہو تو اس کے لئے تو پردے کے ساتھ یا اچھے لباس کے ساتھ آجاتی ہیں لیکن بعض یہ شکایتیں ہوتی ہیں کہ بازاروں میں اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتیں.ایک بات یادرکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لئے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں.ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کا ایک تقدس ہے اس کو قائم رکھنا ہے آپ نے.ہمیشہ یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں پردے کا حکم دیا ہے تو یقیناً اس کی کوئی اہمیت ہے.اُن مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتی ہیں کہ پردے کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا.قرآنِ کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا.اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ ایک زمانہ میں ایسی سوچ پیدا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 99 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب ہوگی اس لئے یہ مستقل حکم اتارا ہے کہ منہ سے کہنے سے اللہ کی بندیاں نہیں بنو گی تم لوگ بلکہ جو نصائح کی جاتی ہیں ، جو احکامات قرآنِ کریم میں دیئے گئے ہیں ان پر عمل کر کے حقیقی مومن کہلاؤ گی.پس اپنے جائزے لیں.خود دیکھیں کہ کیا ہیں اور اپنے نفس کو دھوکا نہ دیں.مردوں سے میل جول میں بھی بے حجابی نہ دکھا ئیں کہ حیا بھی ختم ہو جاتی ہے اس سے.حدیث میں تو حکم ہے کہ مردوں سے اگر باتیں بھی کر رہے ہو تو لہجہ بھی تمہارا ذرا سخت ہونا چاہیے.تو عورت کی ایک بہت بڑی زینت اس کی حیا ہے.ایک مومن کی نشانی حیا ہے.اس ضمن میں ایک اور بات بھی میں کہہ دوں کہ بعض شکایات ملتی ہیں کہ شادیوں پر ڈانس ہوتا ہے اور ڈانس میں انتہائی بے حیائی سے جسم کی نمائش ہوتی ہے.یہ انتہائی بیہودگی ہے.یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو لڑکیوں کے سامنے بھی ڈانس کی اجازت نہیں ہے.بہانے یہ بنائے جاتے ہیں کہ ورزش میں بھی تو جسم کے مختلف حصوں کو حرکت دی جاتی ہے.پہلی بات تو یہ کہ ورزش ہر عورت یا بچی علیحدگی میں کرتی ہے یا ایک آدھ کسی کے سامنے کر لی.اگر ننگے لباس میں لڑکیوں کے سامنے بھی اس طرح کی ورزش کی جارہی ہے یا کلب میں جا کر کی جا رہی ہے تو یہ بھی بیہودگی ہے.ایسی ورزش کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.دوسرے ڈانس کرتے وقت آپ کے جذ بات بالکل اور ہوتے ہیں.ورزش کرتے وقت تو تمام توجہ ورزش پر ہوتی ہے اور کوئی لغو اور بیہودہ خیال ذہن میں نہیں آرہا ہوتا لیکن ڈانس کے وقت یہ کیفیت نہیں ہو رہی ہوتی.جو ڈانس کر نے والیاں ہیں وہ خوداگر انصاف سے دیکھیں تو خودان کو پتہ لگ جائے گا کہ کیا کیفیت طاری ہورہی ہوتی ہے ان پر اس وقت.پھر ورزش جو ہے کسی میوزک پر یا تال کی تھاپ پر نہیں کر رہے ہوتے جبکہ ڈانس کے لئے میوزک بھی لگایا جاتا ہے اور بڑے بیہودہ گانے بھی شادیوں پر بجتے ہیں حالانکہ شادیوں کے لئے بڑے پاکیزہ گانے بھی ہیں اور جو رخصتی ہو رہی ہو تو لڑکی کو رخصت کرتے وقت ہماری بڑی اچھی دعائیہ نظمیں بھی ہیں، وہ استعمال ہونی چاہئیں.اور اسی لئے جب اس قسم کی بیہودگی ہو رہی ہوتی ہے تو بعض اوقات جذبات اور رنگ اختیار کر لیتے ہیں.پس یہ سب بہانے ہیں کہ فلاں چیز ویسی ہے اور فلاں چیز ویسی ہے.یہ سب ایمان کو خراب کرنے والی چیزیں ہیں.یہ سب شیطان کے بہکاوے ہیں جن سے بچنے کی کوشش کریں ورنہ لاشعوری طور پر جہاں اپنے آپ کو خراب کر رہی ہوں گی وہاں اپنی اگلی نسلوں کو بھی برباد کر رہی ہوں گی.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 100 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب اپنے تمام جذبات اور خیالات کو اس شخص کے تابع کریں جس نے آپ کو خریدا ہے جب آپ نے بیعت کی ہے تو یا درکھیں کہ بیعت کا مطلب بیچ دینا ہے.بیعت کا لفظ جو نکلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا.جب آپ نے اپنے آپ کو اس زمانے کے امام کے ہاتھ بیچ دیا ہے تو پھر اپنے تمام جذبات اور خیالات کو اس شخص کے تابع کریں جس نے آپ کو خریدا ہے اور جس نے خریدا ہے، اس نے آپ کو خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے خریدا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر وہ تحفہ بنیں جو خدا تعالیٰ کو پیش کرنے کے لائق ہو.ورنہ ، جیسا کہ میں نے کل خطبے میں بھی کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس سنایا تھا، جو خدا تعالیٰ کو پیش کرنے کے لائق چیز نہیں ہوگی وہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی، وہ رڈ کر دی جائے گی.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ اگر اپنے آپ کو کارآمد تحفہ بنانا ہے، اپنی نسلوں کو کارآمد تحفہ بنانا ہے، بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو اپنے نفس کی قربانیاں دینی ہوں گی، اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے.تمام وہ اعمال بجالانے ہوں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.کسی بھی قوم میں عورت کا کردار قوم کو بنانے میں انتہائی اہم ہے ہر احمدی عورت اور بچی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اعمال صرف اس پر ہی اثر انداز نہیں ہور ہے ہوتے بلکہ آئندہ نسلوں کی اُٹھان بھی ان کے عمل کے زیر اثر ہورہی ہوتی ہے.پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بھی قوم میں عورت کا کردار قوم کو بنانے میں انتہائی اہم ہے.اگر عورتیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے والیاں ہوں گی تو اپنی اولادوں کی صحیح نگرانی کریں گی.اگر عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گی تو اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینے والی ہوں گی.لیکن ایک احمدی عورت کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں اپنے گھروں کی یا اپنے بچوں کی نگرانی کرنا اور تعلیم کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے.احمدی عورت نے اسلام کے بتائے ہوئے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 101 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب یق کے مطابق اپنے گھر اور خاوند کے گھر کی نگرانی کرنی ہے.اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم و تربیت کا خیال بھی رکھنا ہے.اپنی اولاد کی اسلامی اخلاق کے مطابق تربیت بھی کرنی ہے اپنی اولاد کی روحانی تربیت بھی کرنی ہے.اور ان تمام تربیتی امور کو اپنی اولاد میں رائج کرنے کے لئے ، ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ، اپنے پاک نمونے قائم کرنے ہیں.اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمال صالحہ بجالانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں.تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے.تبھی ایک احمدی ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی.ایک عمر تک تو اپنے ماں باپ کے زیر اثر اولا د ر ہے گی.ماں باپ کی زندگیوں میں دو عملی کی حالت دیکھ کر صرف چڑ چڑاہٹ کا اظہار کرتی رہے گی.اس سے آگے بڑھنے کی عموماً کوشش نہیں ہوتی.لیکن جب اپنے ماں باپ کی حالت دیکھتے ہیں کہ کہہ کچھ رہے ہیں، کر کچھ رہے ہیں.اپنے لئے اور اصول ہیں اور ہمارے لئے اور اصول ہیں تو یہیں بعض بچے تھے، یہاں بچوں کے حقوق کے اداروں میں یا پولیس کو کہہ کر بچوں کے ہوٹل میں چلے جاتے ہیں ان مغربی ممالک میں.لیکن اکثریت ایک عمر تک برداشت کرتی ہے، جیسا کہ میں نے کہا، اور جب بلوغت کو پہنچتے ہیں تو بعض لڑکے اور لڑکیاں آزادزندگی گزارنے کے لئے گھر چھوڑ دیتے ہیں اور اس معاشرے کے زیر اثر جب اس قسم کے اکا دکا واقعات احمدی گھرانوں میں بھی ہوتے ہیں تو پھر ماں باپ پر یشان ہوتے ہیں.بعض پھر اپنی عزت بچانے کے لئے بچوں سے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے تم جو چاہے کر ولیکن گھر میں آکر رہو، جو بیہودگیاں کرنی ہیں گھر میں رہ کر کرو.ہماری عزت کا خیال رکھو گھر سے باہر نہ جاؤ.ہمارے عزیزوں کے سامنے ہمیں رسوا نہ کرو.ہمارے ملنے جلنے والوں کے سامنے ہمیں رسوا نہ کرو.جماعت کے سامنے ہمیں ذلیل و رسوا نہ کرو.گویا کہ ایک قسم کاcompromise ہو رہا ہوتا ہے کہ وہی بیہودگیاں گھروں میں رہ کر بھی جاری رکھ سکتے ہو یا گھر میں رہو اور جتنی مرضی باہر جا کے بیہودگیاں کر کے پھر واپس آجاؤ.تو ان بگڑے ہوئے بچوں کا اثر پھر گھر کے دوسرے بچوں پر بھی پڑ رہا ہوتا ہے.اور عموماً اس کی بنیادی وجہ ماں یا باپ کی اپنے عملی نمونوں اور اپنے قول میں فرق کی وجہ ہوتی ہے.بعض ماں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 102 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب باپ اس بات کو معمولی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نمازیں نہ پڑھیں تو کیا فرق پڑتا ہے.قرآن نہ پڑھا تو کیا فرق پڑتا ہے.جماعتی کارکنان اور عہدیداران کے متعلق گھر میں بیٹھ کر بچوں کے سامنے باتیں کرلیں تو کیا فرق پڑتا ہے.رشتوں کے تقدس کا خیال نہ رکھا اور بچوں کے سامنے چچا، پھوپھی ، ماموں، خالہ، نانا، نانی، دادا، دادی کے متعلق باتیں کر دیں تو کیا فرق پڑتا ہے.جب گھروں کے جھگڑے چل رہے ہوتے ہیں تو اس طرح کی باتیں بھی ہورہی ہوتی ہیں.حالانکہ یہی باتیں ہیں جور شتے داروں کے متعلق کی جائیں ، جماعتی خدمتگاروں کے متعلق کی جائیں بچوں کے ذہنوں سے پھر احترام ختم کر دیتی ہیں.یہی باتیں ہیں جو نمازوں اور قرآن پر توجہ میں کمی پیدا کرتی ہیں اور پھر بچوں کو بے دین بنادیتی ہیں.مجھے ملنے بھی جو بعض خاندان آتے ہیں تو جن کے ماں باپ کا جماعتی تعلق مضبوط ہوتا ہے، ان کے بچوں کے چہروں سے تأثر مل رہا ہوتا ہے، تا ثر ہی مختلف ہو رہا ہوتا ہے.ایک پیار اور محبت ٹپک رہی ہوتی ہے ان بچوں سے بھی اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ بچوں کے حلیے سے، ان کے روئیے سے پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ یہ لڑکا یا لڑکی جواب جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں، اس بیچارے کو زبر دستی واسطے دے کر ملوانے لایا گیا ہے.ورنہ اُسے ملاقات کا کوئی شوق نہیں تھا، کوئی دلچسپی نہیں ہے.بعض مائیں تو کوشش کرتی ہیں لیکن باپ گھر کے فرائض اور حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتے.اس لئے بچے بگڑ جاتے ہیں.مائیں رو رو کر بتاتی ہیں کہ اور لڑکے اور لڑکی بھی ہیں جو ملاقات کے لئے آئیں لیکن آنے سے انکاری ہیں.ماحول کے زیر اثر ہو گئے ہیں تو تربیت کے لئے بچوں کی ابتدائی زندگی میں ماؤں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر شروع سے ہی تعلق ماں نے بچے کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور دعاؤں کے ساتھ اور اپنے نیک عمل کے ساتھ تربیت کر رہی ہے تو اگر باپ بگڑا بھی ہوا ہے تو کچھ نہ کچھ بچت ہو جاتی ہے.بچے کو بچپن سے لاڈ پیار میں بگاڑ نا نہیں چاہیے.اس وقت اس کے دل میں نظام جماعت کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت ڈالنی چاہیے.اس وقت اپنے عمل سے اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے بچے کی تربیت پر بہت زور دینا چاہیے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اپنی زندگی کو ایک احمدی عورت کو صرف اپنی زندگی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جہاں میں نے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 103 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے ، اپنے اعمال درست کرنے ہیں وہاں اپنی نسلوں کو جو ملک اور جماعت کی امانت ہیں، ایسے رنگ میں پروان چڑھانا ہے جہاں اس کا خدا سے تعلق پیدا ہو جائے.اور دنیا کی لغویات سے نفرت پیدا ہو جائے.ہر احمدی عورت کو ہر احمدی مردکو، ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم کیوں احمدی ہیں اور ہمیں کیوں اپنی نسلوں میں احمدیت اور حقیقی اسلام کی تعلیم کو جاری رکھنا ہے.ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ اس فساد کے زمانے میں، جب دنیا دین سے دُور ہٹ رہی ہے، ہم کس طرح اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو دین کے قریب لا سکتے ہیں.پس جب یہ سوچ پیدا ہوگی تو پھر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والوں میں شمار ہوں گی.پس ہر احمدی عورت جو اپنا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے رکھنا چاہتی ہے صرف سرسری تعلق نہیں بلکہ وہ تعلق جو اللہ تعالیٰ کے دفتر میں بھی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمار کرے تو پھر بہت توجہ سے پہلے اپنی حالتوں پر نظر ڈالتے ہوئے اُس میعار کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کا دیکھنا چاہتے ہیں.اپنی مرضی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مرضی کے تابع کریں تا کہ اُن انعاموں کی وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کی جماعت کے لئے کیا ہے.آپ اپنی مرضی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مرضی کے تابع کس طرح کر سکتی ہیں، اُس کی ایک ہی صورت ہے.اور وہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو تعلیم اتاری ہے اور جو احکامات دیئے ہیں ان پر عمل کر کے.جیسا کہ پہلے بتایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.پس آج اگر اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو دنیا کے فتنہ وفساد سے بچانا ہے اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کیا جائے.جو احکامات اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ کریم میں بتائے ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والی ہوں.تا کہ اپنی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے سپر د جماعت کی امانتوں کی بھی صحیح رنگ میں حفاظت کرتے ہوئے ، ان کو بھی خدا تعالیٰ کے احکامات کا فہم حاصل کرنے اور ان کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کا ذریعہ نہیں.
الا ز حارلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 104 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب حقیقی مومن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے پر فرض کیا ہے:.پس اس سوچ کے ساتھ قرآن کے احکامات کی تلاش کریں.جب ایک جستجو کے ساتھ ، ایک لگن کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہوں گی کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ کر کے، ان پر عمل کرنے والی بنوں تو پھر ہی آپ حقیقی مومنات کہلائیں گی.اور حقیقی مومن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے پر فرض کیا ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ مومن کی میں مدد کرتا ہوں اور یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہی ہے جو آپ کی اولا دوں کو نیکیوں پر قائم رکھے گی.یہ خدا تعالیٰ کی مدد ہی ہے جس سے آپ کی اولادیں آپ کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں گی.یہ خدا تعالیٰ کی مدد اور فضل ہی ہے جس سے آپ کی اولاد جماعت سے مضبوط تعلق جوڑنے والی ہوگی اور آپ کے لئے آپ کے خاندان کے لئے اور جماعت کے لئے مفید وجود بنے گی.پس ایمان کے یہ میعار حاصل کرنے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مدد اپنے پر فرض کی ہے تو اس کے لئے ایک مجاہدے کی ضرورت ہے.اپنی عبادتوں کے میعار اونچے کرنے کی ضرورت ہے.سب محبوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوبنے کی ضرورت ہے.پس جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اس کی عبادت میں بڑھنے کی کوشش کریں گی.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے کی کوشش کریں گی تو پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ضرور مدد فرماتا ہے اور آپ کی اولا د کو آپ کے لئے قرۃ العین بنائے گا.اور آپ کی دعا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( الفرقان : ۷۵) کو قبول فرماتے ہوئے نیک صالح اولاد عطا فرمائے گا جو قرۃ العین ہو.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ شرط یہی ہے کہ آپ کی عبادتوں کے میعار بھی بلند ہوں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی اور اعمالِ صالحہ بجالانے والی ہوں، تو پھر آپ کی نیک تربیت کو پھل لگیں گے.آپ کی زندگی میں بھی آپ کی اولا دآپ کی نیک نامی کا باعث بن رہی ہوگی اور مرنے کے بعد بھی اولاد کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرما رہا ہو گا.ہر وہ نیک عمل جو آپ کی اولا د کرے گی، آپ کے کھاتے میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق شمار کرے گا.بچوں کو دعائیں جو اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہیں وہ اسی لئے ہیں.ایک دعا ہے:
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 105 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب کی تھی.رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا.(بنی اسرائیل: ۲۵) کہ اے میرے رب ! اُن پر مہربانی فرما کیونکہ اُنہوں نے بچپن کی حالت میں میری پروش یقیناً یہ دعا انہی بچوں کے منہ سے نکلے گی جن کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ہوگا، جو عبادتوں کی اہمیت سمجھتے ہوں گے، جو نیک اعمال کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے.نیک اعمال کر کے ہی انہیں خیال آئے گا کہ میرے رب کے بعد میرے والدین کا مجھ پر احسان ہے، میری ماں کا مجھ پر احسان ہے، میرے باپ کا مجھ پر احسان ہے جنہوں نے میری نیک تربیت کی.میری ایسے رنگ میں پرورش کی کہ مجھے میرے خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا کروا دیا.میری اس رنگ میں پرورش کی مجھے جماعت کے لئے خدمت کا موقع عطا فرمایا.سوچیں ذرا جو واقفین نو بچے اور بچیاں خدمت دین پر کمر بستہ ہوں گے، ایک قربانی کے جذبے سے دین کی خدمت کر رہے ہوں گے.اس وقت ان کے دل میں جہاں اپنے رب کے لئے شکر کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہوگا، وہاں اپنے والدین کے لئے بھی دل سے دعائیں نکل رہی ہوں گی کہ اے خدا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے ایسے والدین عطا فرمائے جنہوں نے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہمیں خدمت دین کے لئے وقف کیا.پس اے خدا میرے ایسے والدین پر اس دنیا میں بھی رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسا دے اور اگلے جہان میں بھی ان سے وہ پیار کا سلوک کر جو تو اپنے پیاروں سے کرتا ہے.پس یہ دعا جو ہمارے پیارے خدا نے ہمیں اپنے والدین کے لئے سکھائی ہے تو یقینا اس کی بہت اہمیت ہے.یقیناً قبولیت کا درجہ دینے کے لئے دعا سکھائی ہے.یقیناً ماں باپ کو ان کے بچوں کی تربیت پر ان کو ایک اعلیٰ سرٹیفیکیٹ دینے کے لئے دعا سکھائی ہے کہ اے بچو! تم اپنے ایسے نیک ماں باپ کا احسان نہیں اتار سکتے ہو، ان کا شکر ادا کر سکتے ہو اور اس کا بہترین ذریعہ یہ کہ ہمیشہ جب بھی کوئی نیک کام کرو، اپنے ماں باپ کو یاد رکھتے ہوئے ، میرے سے ان کے لئے رحم کی دعا مانگو.میں اُن کے درجات کو بڑھاتا چلا جاؤں گا.ایک حدیث میں ہے کہ ماں گھر کی نگران ہونے کی وجہ سے، جو پہلے بھی میں نے ذکر کیا، اپنے اور اپنے خاوند کے بچوں کی نگران ہوتی ہے اور اس کی وجہ وہ پوچھی جائے گی اگر صحیح نگرانی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 106 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب نہیں کر رہی.تو جن ماؤں نے نیک اولاد پیدا کی ہے وہ ہر وقت اللہ کے پیار کی نظر کے نیچے بھی رہیں گی.اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ نہ کرنے پر تو سزا دے اور پوچھے اور اگر اچھا کام کوئی کرے تو خاموش بیٹھا رہے.اللہ تعالی تو ایسا دیا لو ہے جو کئی گنا کسی عمل کی جزا دیتا ہے.پس اس خدا سے جہاں خود بھی تعلق جوڑیں، وہاں اپنے بچوں کا بھی تعلق جڑوائیں.یادرکھیں مائیں ہی ہیں جو بچوں کی قسمت بدلا کرتی ہیں بلکہ بچوں کے زیر اثر دوسروں کی قسمت بھی بدل جاتی ہے.عورت ہی ہے جو ولی اللہ بھی پیدا کرتی ہے اور ڈا کو بھی پیدا کرتی ہے.دیکھیں وہ ماں ہی تھی جس نے اپنے معصوم بچے کو سفر پر بھیجتے ہوئے یہ نصیحت کی تھی کہ بچے جو چاہے حالات گزر جائیں جھوٹ نہ بولنا.جب ڈاکو نے بچے کو گھیرا اور اس سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے تو اس نے صاف صاف بتادیا کہ اسی اشرفیاں میری قمیض کے اندر سلی ہوئی ہیں.ڈاکوؤں کے سردار نے کہا تم ہم سے چھپا سکتے تھے کیونکہ ہم تمہیں بچہ سمجھ کر یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہوگا.لیکن بچے نے اُس نیک ماں کی تربیت کی وجہ سے کیا خوبصورت جواب دیا کہ میری ماں نے کہا تھا کہ بچے کبھی جھوٹ نہ بولنا، اگر آج پہلے امتحان پر ہی میں جھوٹ بولنے والا بن گیا تو میری ماں نے جو مجھ پر محنت کی ہے اُسے ضائع کرنے والا بنوں گا.یہ سن کر ڈاکوؤں کا سردار دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور تو بہ کر کے اللہ کے عبادت گزاروں میں بن گیا.اور پھر وہ بھی ماں تھی جس نے اپنے بچے کی ہر برائی نہ صرف چھپائی بلکہ ہر بُرائی کے بعد کہہ دیا کرتی تھی کہ بچے کوئی بات نہیں لیکن لوگوں سے ذرا بچ کے رہنا کہیں تمہیں پکڑوا نہ دیں.اور یہی بُرائیاں کرنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ بچہ ڈاکو اور قاتل بن گیا.آخر پکڑا گیا اور پھانسی کی سزا ہوئی اور جب اس سے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اُس نے کہا کہ میری ماں کو مجھ سے علیحدگی میں ملوا دو.اور جب ماں قریب آئی تو اس نے کہا کہ ماں میری آخری خواہش یہ ہے کہ میں تیری زبان پہ پیار کرنا چاہتا ہوں.ماں نے جب زبان نکالی تو بچے نے زبان کاٹ لی ، دوٹکڑے کر دیئے، اتنی زور سے کاٹا.ماں نے شور مچادیا تو اس ڈاکو نے کہا کہ اگر تو بچپن میں میری نیک تربیت کرتی تو آج میں اس حال کو نہ پہنچتا اور پھانسی پر نہ چڑھتا.تو نیک تربیت نہ کرنے سے اس ماں نے اپنی زبان بھی کٹوائی اور بچہ بھی اپنے سامنے مرتے دیکھا.اپنے لئے رحم کی دعا کرنے والا بھی پیچھے نہ چھوڑ سکی.اور وہ بچہ جس نے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 107 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب ڈاکوؤں کی بھی کایا پلٹ دی تھی وہ یقیناً ان لوگوں کی دعاؤں سے بھی حصہ لینے والی بنی ہوگی جن کی زندگی میں ایک انقلاب اُس بچے نے پیدا کر دیا تھا.پس ماں ہی ہے چاہے تو ولی اللہ بنادے، چاہے تو قاتل.پس اپنی اہمیت کو سمجھیں کہ عورت کی عبادت گزاری اور نیک اعمال جو ہیں یہی نئی نسلوں کے نیکیوں پر قائم رہنے اور دین و دنیا میں سرخرو ہونے کی ضمانت ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ اللہ کے فضلوں کی وارث بنتی چلی جائیں گی.اور اس اہمیت کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ عورت کے نیک اعمال اور ترقی سے دین کی ترقی ہے.ان نمونوں پر چلیں جو صحابہ اور صحابیات نے دکھائے تھے:.ایک حصہ جماعت کا بلکہ بڑا حصہ جماعت کا عورتوں پر مشتمل ہے.پس اپنی عبادتوں، نیک اعمال اور اولاد کی نیک تربیت کے ذریعے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے باندھے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہوئے جماعت کی ترقی اور نیک نامی کا باعث بنی رہیں.جب نصیحت کی جائے ، جب اللہ تعالیٰ کی احکام کے حوالے سے بات کی جائے تو اس پر ہمیشہ کان دھریں.آخرین کی پہلوں سے ملانے کی جو خوشخبری دی گئی تھی اس سے فیض صرف وہی پائیں گے جو اپنے اعمال بھی اُن کی طرح ڈھالنے کی کوشش کریں گے.اُن نمونوں پر چلیں گے جو صحابہ اور صحابیات نے دکھائے تھے.جن کو اگر یہ آواز پہنچی کہ بیٹھ جاؤ تو مسجد سے باہر ہی بیٹھ کرگھٹنا شروع کر دیا کہ کہیں کہ یہ حکم سب کے لئے نہ ہو اور زندگی کا بھروسہ نہیں.اگر میں اس دوران مرگیا تو نا فرمان ہو کر نہ مروں.عبادتوں کی بات ہوتی تھی تو عورتیں مردوں سے پیچھے نہ رہی تھیں.جان کی قربانی کی بات ہوئی تو اپنے بچوں کو جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے عورتوں نے پیش کر دیا.اس زمانہ میں بھی ایسی عورتیں ہیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں بھی ایسی عورتیں تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کو قربان کرنے لئے جماعت کے سامنے رکھ دیا.پس آپ لوگ بھی جب کوئی حکم ہو، جب کوئی نصیحت ہو، جب کوئی توجہ دلائی جائے تو تاویلیں پیش نہ کریں، بہانے تلاش نہ کریں بلکہ جو حکم ملا ہے اُس پر عمل کریں.تب ہی کامل اطاعت گزار کہلائیں گی ،تب ہی یہ فکر رکھنے والی کہلا ئیں گی کہ کہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 108 جلسہ سالانہ جرمنی 2007 مستورات سے خطاب کسی حکم پر عمل نہ کر کے میں نافرمان نہ بن جاؤں.پس ان ملکوں میں رہ کر جہاں آپ کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں، اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں کہ اللہ کی شکر گزار بندی بنتے ہوئے میں نے اپنی زندگی نفرت سے پاک اور عاجزی سے گزارنی ہے، میں نے اپنی زندگی دکھاوے اور تصنع سے پاک اور سادگی سے گزارنی ہے، میں نے اپنی زندگی چالاکیوں سے پاک اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے گزارنی ہے.جب یہ ارادہ کریں گی تو تبھی آپ کی نسلوں کی نیکیوں پر قائم رہنے کی ضمانت بھی ملے گی.پس اے احمدی عورتو اور بچیو! اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سنوا ور مانو اور ان لوگوں کی طرح کبھی نہ بنو جو اللہ کی نصائح سن کر پھر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں.اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے مقصد کو پورا کرنے والی بنے ، خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنے والی بنے اور اپنی اولاد کو بھی اپنی انتہائی کوشش اور دعا سے جماعت اور خلافت سے ہمیشہ چھٹے رہنے والا بنائے رکھے.آمین.اب دعا کر لیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 109 سالا نہ نیشنل اجتماع برطانیہ 2007 سالا نہ نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ 04 / نومبر 2007 ء خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی مضبوطی تمکنت اور رعب دنیا میں قائم ہے.احمدی عورتوں کا فسادوں کو دور کرنے میں اہم کردار.دعا بہت بڑی طاقت ہے.مومن لغویات سے پر ہیز کرتا ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 110 سالا نہ نیشنل اجتماع برطانیہ 2007 خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی مضبوطی ہمکنت اور رعب دنیا میں قائم ہے أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ.أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ.اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ.مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور ہمیں آپ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.یہ زمانہ جس میں مادیت کا زور ہے.یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے.یہ زمانہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کو تمام قدرتوں کا مالک سمجھنے والوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے.مذہب اور خدا کا تصور ایک ایسی چیز بھی جاتی ہے جو جہالت کی نشانی ہو.بظاہر بعض ایسے لوگ جو مذہب کو صحیح سمجھنے والے بھی ہیں عملاً خدا سے زیادہ ماڈیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نور سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے.پس ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو روحانی پانی اتارا اور ہمارے دلوں کو روشن کرنے کے لئے جس شخص کو اپنے نور سے منور کر کے بھیجا ہم اُس کی جماعت میں شامل ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی شکر واحسان ہے کہ ہم سے اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو میرے بھیجے ہوؤں کو مان لیتے ہیں، میں اُنکی تمکنت ، عزت اور رعب کے سامان بھی پیدا کروں گا.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 111 سالانه نیشنل اجتماع بر طانیہ 2007 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں اپنے بھیجے ہوؤں کو اپنے پاس بلا لیتا ہوں تو پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ خلافت کے ذریعہ سے جماعت کی مضبوطی، تمکنت اور رعب دنیا میں قائم کرتا ہوں.جب بھی میرے پیارے کی جماعت میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جس سے بے چینی اور گھبراہٹ کی صورت پیدا ہو، جب بھی کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جس سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے جو ماننے والے ہیں اُن میں کوئی خوف کی صورت پیدا ہو تو فوراً اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کے ماننے والوں کو اپنے پیار اور محبت کی آغوش میں لے کر جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو اُس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چھینے چلانے پر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی اپنے پیارے کی جماعت کو سینے سے لگا لیتا ہوں.بلکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے اُس سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے.پس ہمارے پیارے خدا کا ہم پر یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اس زمانے میں اپنے اُس پیارے کی جماعت میں شامل فرمایا جس کی ہر تکلیف دور کرنے کا ، ہر خوف دور کرنے کا، ہر خوف اور تکلیف کی حالت کو امن اور خوشیوں میں بدلنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو ہمارے اعمال کے ساتھ مشروط کیا ہے.یہ نہیں کہ جو چاہے کرتے پھرو.کسی قانون قاعدے کی پابندی نہ کرو.اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں سینے سے لگائے رکھے گا.اللہ تعالیٰ کا وعدہ مومنین کی جماعت سے ہے.یہ وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے آپ کی جماعت کے بارہ میں ہے اور قیامت تک کے لئے ہے.لیکن ہم میں سے ہر شخص کے ساتھ مشروط ہے.ہر فرد کے ساتھ اس شرط کے ساتھ یہ وعدہ ہے اور ہر اس شخص کے ساتھ جو ایمان پر مضبوط ہو اور اعمال صالحہ بجالانے والا ہو، اس کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ وہ ان انعاموں سے تب ہی فیض پائے گا جب نیک اعمال کرنے کی کوشش کرے گا.ان نیک اعمال کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ یہ سات سو احکامات ہیں اور ان کا ماننا ضروری ہے اگر آپ کی جماعت میں شامل ہونا ہے.ایک جگہ قرآنِ کریم میں مومن کی یہ نشانی بتائی گئی ہے، رحمان خدا کے بندوں کی یہ نشانی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 112 سالانہ نیشنل اجتماع برطانیہ 2007 بتائی گئی ہے.چند مثالیں میں دیتا ہوں.يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا (الفرقان: ۶۴) یعنی جوز مین پر فروتنی اور عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ عاجزی دکھائی جائے.بعض دفعہ ذرا ذرا سی بات پر بعض لوگوں کے جذبات بھڑک جاتے ہیں مثلاً بعض بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.کسی کے بچے کو دوسرے نے کچھ کہ دیا تو فوراً غصہ آ گیا، ڈیوٹی والوں نے کچھ کہ دیا تو غصہ آ گیا، چلتے چلتے کسی کے کام کئے ہوئے قیمتی دوپٹے پر پاؤں آ گیا تو غصہ آ گیا.اوّل تو ایسے اجتماعوں میں جلسوں میں دوپٹے ایسے قیمتی پہن کر نہیں آنے چاہئیں.شادیوں میں میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ شکائتیں آتی ہیں.تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.کسی سے کسی بات میں اختلاف رائے ہو گیا تو غصہ آ گیا.یہ باتیں ایسی ہیں جو پھر انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ نیکیوں کو کھا جاتی ہیں.اور تکبر اور غرور پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رحمان کے بندے بن کر رہنا ہے.اگر یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان کر اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھانے کا عہد کیا ہے تو یہ بھی یاد رکھو کہ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوْا سَلَمًا.(الفرقان : ۶۴) کہ جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں سلام.کتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر تم سے کوئی سختی سے بھی بات کرے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر تم سے تو شکار کرنے کی اگر کوئی کوشش کرے تو تم اس کا جواب سختی سے نہ دو بلکہ سلام کہہ کر علیحدہ ہو جاؤ.اپنی زبان گندی کرنے کی بجائے ، اپنے دل میں نفرتوں کے بیج بونے کی بجائے ، ایسی فتنوں کی جگہ سے سلام کہہ کر اُٹھ جاؤ.تمہارے دل تب ہی سب سے حقیقی محبت کا اظہار کرنے والے ہونگے جب جاہلوں کی طرف سے پہنچنے والی جو تکلیف ہے اسے بھی تم نظر انداز کرنے والی ہوگی.جب تمہارے بچوں یا تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو الٹا کر جواب دینے کی بجائے ایک طرف ہو جاؤ.تمہارے دل میں ان کے لئے سختی یا ظلم کے خیالات نہ آئیں اور انسانیت کی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 113 سالانہ نیشنل اجتماع بر طانیہ 2007 لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں.براهين احمدیه چهارم ،حصص روحانی خزائن جلد نمبر 1، صفحه 449.حاشیه) احمدی عورتوں کا فسادوں کو دور کرنے میں اہم کردار پس یہ ایک احمدی کا فسادوں کو دور کرنے کا کردار ہے.اگر ہر عورت اس کو سمجھ لے تو گھروں کی لڑائیاں بھی ختم ہو جائیں.ساس بہو کی لڑائیاں بھی ختم ہو جائیں.رنجشیں اور بدمزگیاں بھی ختم ہو جائیں.آپس میں عزیزوں کی رنجشیں بھی دور ہو جائیں.عہد یداران کے لئے دلوں میں پلنے والی بعض لوگوں کے دلوں میں رنجشیں ہوتی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں.عہد یداران کے دلوں میں بعض ممبرات کے لئے رنجشیں ہوتی ہیں وہ ختم ہو جائیں.اور جب آپس میں صلح صفائی اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کے جذبات پیدا ہوں گے تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا باعث بنے گی.اس سے پھر جماعتی مضبوطی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا.پھر سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ رحمن خدا کے بندوں اور ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے والوں کی یہ نشانی بتاتا ہے کہ وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے ہیں ، عبادت کرتے ہیں.اب جو رات کو اٹھ کر دعا کرے گا اور عبادت کرے گا وہ یقینا فرض نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والا ہوگا ان کی بھی حفاظت کرنے والا ہوگا.پس ہم میں سے ہر ایک بچے، جوان، بوڑھے کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے اور آپ جو احمدی عورتیں اور لڑکیاں ہیں جن کے ذمہ انگلی نسلوں کی تربیت اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا کام ہے.آپ کو اپنی نمازوں کی حفاظت، اپنی عبادتوں کی حفاظت کی طرف بھی ہر لمحہ نظر رکھتے ہوئے توجہ دینی چاہئے اور اپنے بچوں کی عبادتوں کی حفاظت کی طرف بھی.اس مادی معاشرہ میں اس چیز کے لئے بہت گڑ گڑا کر دعا کرنی چاہئے ، بہت گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر شیطان کے حملوں سے بچنا بہت مشکل ہے.ہمیشہ یہ دعا کرتی رہیں کہ رَبَّنَاصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ (الفرقان : ۶۷) کہ اے ہمارے رب ! ہمارے سے جہنم کا عذاب ٹال دے.
الا ز حارلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 114 سالانہ نیشنل اجتماع بر طانیہ 2007 دعا بہت بڑی طاقت ہے.جہنم کا عذاب صرف مرنے کے بعد کا عذاب نہیں ہے.اُس سے بچنے کی دعا تو ہر مومن کو مانگتی ہی چاہئے لیکن بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں، اپنے قریبیوں سے تکلیفیں پہنچتی ہیں، اپنے بچوں کی طرف سے بعض ایسی باتیں دیکھنے اور سنے کوملتی ہیں جس سے زندگی جہنم بنی ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی عبادت کرتے ہوئے صرف ہر وقت اپنی دنیاوی ضروریات ہی سامنے نہ رکھیں بلکہ بہت بڑی دعا قناعت سکونِ قلب اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے ہر قسم کے انعاموں کے بڑھنے کی دعا ہے.بعض لوگوں کے پاس دنیا کی مادی نعمتوں میں سے سب کچھ ہوتا ہے مگر زندگی بے چین ہوتی ہے اور تکلیف دہ ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اس کا فضل مانگنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور نیک اعمال کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتائی ہے کہ إِذَا أَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوا (الفرقان: ۶۸) جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور وَلَمْ يَقْتُرُوا (الفرقان: ۶۸) بخل سے کام لیتے ہیں.یعنی فضول خرچی بھی نہیں کرتے اور کنجوس بھی نہیں ہوتے.پس عورتوں میں بعض دفعہ دیکھا دیکھی ضرورت سے زیادہ اپنے پر یا اپنے کپڑوں پر یا زیور پر خرچ کرنے کا رجحان ہو جاتا ہے.زینت بڑی اچھی چیز ہے.صاف ستھرا لباس پہننا اور ایک حد تک سنگھار کرنا بڑا اچھا ہے.عورت کے لیے جائز ہے اور کرنا بھی چاہئے.لیکن فیشن میں اس قدر ڈوب جانا اور اس کے لیے بے انتہا خرچ کرنا اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور فرمایا نہ پھر ایسے بنو کہ بالکل ہی کنجوس بن جاؤ اور پیسے جوڑنے لگ جاؤ.نہ اپنے پر خرچ کرنے والی ہو، نہ دین پر خرچ کرنے والی ہو.چندہ دینے کا وقت آئے تو ایک مشکل پڑی ہو.بعض لوگوں کو پیسے جوڑنے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور پیسے جوڑ جوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.ان کا پیسہ نہ ان کے کسی کام آتا ہے اور نہ دین کے کام آتا ہے.اگر اولاد نیک ہے تو پھر کوئی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیسے میں سے اولا د کو ہی توفیق دیدے کہ وہ دین پر خرچ کر دے.اگر اولا د دنیا دار ہے تو وہ پیسے کو اس طرح اُڑاتی ہے کہ پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گیا.اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا کہ تمہیں میں خلافت کے ذریعے تمکنت اور رعب عطا کروں گا تو یہ بھی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 115 سالانہ نیشنل اجتماع برطانیہ 2007 فرمایا کہ میرے راستے میں خرچ کرو.کنجوس بن کر اپنے پیسے پر بیٹھے نہ رہو یا صرف یہی سوچ نہ ہو کہ اپنے اوپر ہی خرچ کرنا ہے.یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ مجھے آپ سے کوئی شکوہ ہے کہ خرچ نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عورتیں اور بچیاں اس اصول کو بڑی اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اس پر عمل بھی کرتی ہیں.بڑی قربانی کرنے والی عورتیں ہیں.UK کی لجنہ میں بھی انتہائی قربانی کرنے والی عورتیں ہیں.لیکن میں یاد دہانی اس لئے کروا رہا ہوں کہ نیک باتوں کو دہراتے رہنا چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے اور آئندہ نسلوں میں نیکیوں کو جاری کرنے کے لئے ضروری بھی ہے.پھر نیک لوگ جن کا رُعب ہمیشہ قائم رہتا ہے، جو رحمن خدا کے بندے ہوتے ہیں اُسکے انعامات سے فیض پانے والے ہیں اور فیض پاتے رہیں گے، اُن کے لئے یہ بھی حکم ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے.پس اس بات کو بھی یادرکھیں کہ جھوٹی گواہی دینا بہت بڑا گناہ ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرک کے برابر قرار دیا ہے.ایک طرف تو ہم یہ دعوی کریں کہ ہم نے مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر کے شرک سے توبہ کرلی ہے اور عبادالرحمن بن گئے ہیں.دوسری طرف بعض معاملات میں سچائی سے کام نہ لیں.چھوٹی چھوٹی روز مرہ کی باتوں میں غلط بیانیاں کریں.بعض باتوں پر، بعض احکامات پر جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہیں، ان پر عمل نہیں ہورہا ہوتا.اور کہہ دیتی ہیں کہ ہم کرتے ہیں مثلاً بعض لڑکیوں کے بارہ میں شکایت آتی ہے اور عورتوں کے بارہ میں بھی کہ بازار میں اپنے سرکو ڈھانک کر نہیں رکھتیں یا لباس ایسا پہنا ہوتا ہے جس سے بے پردگی ہورہی ہوتی ہے.لیکن پوچھ تو یہی کہتی ہیں کہ ہم تو پردہ کرتی ہیں، ہمارے سر تو کبھی نگے نہیں ہوئے.تو یہ جو چیزیں ہیں یہ جھوٹ میں شامل ہوتی ہیں.بعض عہدیدار، لجنہ کی جو کام کرنے والی عہد یدار ہیں، وہ بھی دوسروں کے بارہ میں پوچھنے پر صحیح رپورٹ نہیں دیتیں.ایک دوسری قسم کی عہدیدار بھی ہیں جو ایک دوسرے سے رنجشوں کی بناء پر غلط رپورٹ بھی کر دیتی ہیں.کسی حالت میں بھی غلط بیانی اور جھوٹ کی ایک مومن سے توقع نہیں کی جاسکتی.ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اصلاح کا پہلو غالب رہے.اگر کسی کو دیکھیں کہ اس نے غلط انداز میں لباس پہنا ہوا ہے جس سے جماعتی روایات پر حرف آتا ہے تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں.پیار سے سمجھا ئیں.نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے نہ کہ دوسروں کو ڈرانے کی.لیکن جب حد سے معاملہ بڑھ رہا ہو تو پھر صحیح ر پورٹ بھی دینی چاہیئے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 116 سالانہ نیشنل اجتماع بر طانیہ 2007 مومن اغویات سے پر ہیز کرتا ہے.جھوٹ بولنا، جیسا کہ میں نے کہا، مومن نہ ہونے اور عبادالرحمن نہ ہونے کی نشانی ہے اس لئے ہمیشہ اس سے بچنا چاہئے.آگے اللہ تعالیٰ ایک جگہ پھر فرماتا ہے کہ لغویات سے مومن پر ہیز کرتا ہے.ایک اور نشانی یہ ہے.لغویات کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنا وقار رکھتے ہوئے ، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم احمدی ہیں، ہمارا کام نہیں کہ دنیا کی لغویات اور فضولیات میں پڑیں.اُن سے بچتے ہوئے گزر جاتے ہیں.مثلاً آج کل مختلف ٹیلی وژن چینل ہیں جن میں انتہائی لغو اور بیہودہ پروگرام دکھائے جاتے ہیں.پھر بعض دفعہ بعض اچھے پروگرام بھی آرہے ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان میں انتہائی بیہودہ اور لغو اشتہارات شروع ہو جاتے ہیں.تو ہر احمدی کو چاہئے ، چاہے وہ بچی ہے، لڑکی ہے یا عورت ہے یا مرد ہے، اُس کا یہ کام ہے کہ اگر ایسے پروگرام آرہے ہوں یا کسی بھی قسم کی ایسی تصویر نظر آئے تو فوراً اسے بند کر دیں.اور جیسے میں بات کر رہا ہوں کہ اشتہار بیچ میں آجاتے ہیں تو اُن کو بھی نہیں دیکھنا چاہئے.اور جو بیہودہ پروگرام ہیں اُن کے تو قریب بھی ایک احمدی بچی کو ، ایک احمدی لڑکی کو ، ایک احمدی عورت کو نہیں جانا چاہئے.انٹرنیٹ پر بعض سائٹس ہیں.بڑے گندے پروگرام اُن میں آتے ہیں.ان سب سے بچنا ہی حقیقی مومن کی نشانی ہے اور یہی ایک حقیقی احمدی کی نشانی ہے کہ ان سب لغویات سے، فضولیات سے بچیں.کیونکہ اللہ کے اس انعام سے جڑے رہنے کے لئے اور فیض پانے کے لئے یہ ضروری ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دعا بھی کیا کرو.اور ایسے لوگوں کی یہ نشانی ہے جو یہ دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَاقُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے.پس یہ دعا جہاں خود آپ کو تقویٰ پر قائم رکھے گی ، آپ کی اولا د کو بھی دنیا کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے تقویٰ پر چلائے گی.اور جو عورتیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے خاوند دین سے رغبت نہیں رکھتے ، نمازوں میں بے قاعدہ ہیں، ان کے حق میں بھی یہ دعا ہو گی.ہمارے دل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 117 سالانه نیشنل اجتماع بر طانیہ 2007 سے نکلی ہوئی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے.یہ نہ سمجھیں کہ متقیوں کا امام صرف مرد ہے.ہر عورت جو اپنے بچے کے لئے دعا کرتی ہے اور آئندہ نسلوں میں اس روح کو پھونکنے کی کوشش کرتی ہے کہ اللہ سے دل لگاؤ، اس کے آگے جھکو، نیکیوں پر قائم ہو وہ متقیوں کا امام بننے کی کوشش کرتی ہے اور بنتی ہے.اپنے گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ امام ہے.پس مختصر آمیں نے یہ باتیں کی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بھرا پڑا ہے.اُسے پڑھیں اور سمجھیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو یہی چیز ہے جو آپ کی نسلوں کو ہر شر سے بچنے کی ضمانت بنے گی.اور یہی چیز ہے جو آپ کو اس نظام سے جوڑے رکھنے کا باعث بنے گی جس کے ساتھ تمکنت کا وعدہ ہے.بعض دفعہ ایک عمر کو پہنچ کر بعض نوجوان بچیاں جو ہیں اُن کو یہ خیال آتا ہے کہ شاید دین ہم پر بعض پابندیاں عائد کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض ٹی وی چینلز ہیں، ویب سائٹس ہیں جو فضول اور لغو ہیں ان کو نہ دیکھیں.لیکن غیروں کے زیر اثر یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ انہیں دیکھنے میں کیا حرج ہے.ہم کون سا وہ حرکتیں کر رہی ہیں جوٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ دو چار چھ دفعہ دیکھنے کے بعد یہی حرکتیں پھر شروع بھی ہو جاتی ہیں.بعض گھر اس لئے تباہ ہوئے کہ وہ یہی کہتے رہے کہ کیا فرق پڑتا ہے.وہ دین سے بھی گئے ، دنیا سے بھی گئے ، اپنے بچوں سے بھی گئے.تو یہ جو ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے، کچھ آزادی ہونی چاہئے.یہ بڑی نقصان دہ چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لغو سے بچو تو اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی فطرت کو جانتا ہے.اُسے پتہ ہے کہ آزادی کے نام پر کیا کچھ ہونا ہے اور ہوتا ہے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو یہی کہا تھا کہ میں ہر راستے سے ان بندوں کے پاس جو آدم کی یہ اولاد ہے انہیں ورغلانے آؤں گا اور سوائے عبادالرحمن کے سب کو میں قابو کرلوں گا.اُس نے بڑا کھل کے چیلنج دیا تھا.پس آج کل کی بعض ایجادوں کا جو غلط استعمال ہے یہ بھی شیطان کے حملوں میں سے ہی ہے.اس لئے ہر احمدی بچی کو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہمیشہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور اگر ہم نے احمدی رہنا ہے تو پھر ان لغویات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہمیشہ یہ سوچیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور آپ کو سچا سمجھتے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 118 سالانہ نیشنل اجتماع بر طانیہ 2007 ہوئے آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ہمیں تمام ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تبھی ہم اُن انعاموں سے فیض اٹھا سکیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو وہ مقام عطا فرمائے جہاں کھڑی ہو کر آپ دین کی مضبوطی اور اشاعت میں اہم کردار ادا کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ایمانوں کو وہ مضبوطی اور استقامت عطا فرمائے جو ہمیشہ تمکنت دین کا باعث بنے والی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی نسلوں کو خلافت سے مضبوط تعلق نبھانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.اب دعا سے پہلے میں یہ بھی اعلان کر دوں کہ کل جو انتخاب ہوا تھا، اس میں سب سے زیادہ جن کے حق میں رائے تھی وہ آپ کی موجودہ صدر شمائلہ نا گی صاحبہ تھیں.تو وہی آئندہ دو سال کے لئے بھی صدر ہونگی لیکن یاد رکھیں کہ صدرا کیلی کچھ نہیں کر سکتی جب تک نچلی سے نچلی سطح پر جو چھوٹی سے چھوٹی مجلس ہے اس میں بھی صحیح طرح کام نہ ہورہا ہو.اس لئے ہر مقامی مجلس کی صدر اور اس کی عاملہ کی ممبرات کو اپنے آپ کو جماعتی کام کے سلسلہ میں اتنا ہی اہم سمجھنا چاہئے ، اتنا ہی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے جتنا کہ نیشنل صدر کو ہونا چاہئے اور نیشنل صدر کی عاملہ کو ہونا چاہئے.اگر یہ احساس ہر مجلس میں پیدا ہو جائے تو آج ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے.تبھی آپ اپنی نسلوں کی بھی صحیح تربیت کر سکتی ہیں، اپنی بھی صحیح تربیت کر سکتی ہیں.بچیاں بھی اپنے آپ کو سنبھال کر احمدیت کے لئے پوری وفا اور اخلاص کے ساتھ ہر قربانی کے لئے تیار کر سکتی ہیں اور پیش کرسکتی ہیں.آپ کے بچے بھی اسی وقت اخلاص و وفا کے ساتھ ہر قربانی کے لئے پیش کرنے والے ہونگے جب ہر سطح پر آپ لوگوں میں احساس پیدا ہو جائے گا.آپ جو یہاں میرے سامنے ناصرات سمیت اڑھائی ہزار میٹھی ہیں، یہ لجنہ یو کے کی ٹوٹل تعداد تو نہیں.لندن کے قریبی علاقے سے زیادہ لجنات ہیں باقی کافی مجالس کی قریباً نمائندگی ہے.اس کا مطلب ہے آپ میں سے اکثریت اُن کی ہے جن کو دین سے لگاؤ ہے.جن کو اس بات کی ہر وقت تڑپ رہتی ہے کہ ہم جمع ہوں اور دین کی باتیں سنیں.اجتماعات پر جائیں.جلسوں پر جائیں آپ سب لوگوں کا کردار بہت اہم ہے.آپ جو یہاں بیٹھی ہیں یہ سب اپنی اپنی مجالس کے عہد یداران سے بھی اور مرکزی عہدیداران
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 119 سالانہ نیشنل اجتماع برطانیہ 2007 سے بھی اپنے تعاون میں مثالی بن جائیں تبھی ہر مجلس مثالی بنتی چلی جائے گی اور آپ کا کام آگے بڑھتا چلا جائے گا.اور استحکام دین کی جو کوشش، جو کام ہمارے سپرد ہوا ہے وہ آگے بڑھتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اور پہلے سے بڑھ کر آپ قربانی کے ساتھ کام کرنے والی ہوں، اپنی تربیت کی طرف توجہ دینے والی ہوں ، اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والی ہوں، اپنی نسلوں کو سنبھالنے والی ہوں.اب دعا کر لیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 120 خطبہ جمعہ فرمودہ 05 / جنوری 2007ء بمقام منسپیٹ ، ہالینڈ (اقتباس) خوبصورت تعلیم پر اعتراض خطبہ جمعہ فرموده 5 جنوری 2007
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 121 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 جنوری 2007 خوبصورت تعلیم پر اعتراض ہالینڈ میں اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے جماعت کے مردوں اور عورتوں کو مجموعی طور پر تفصیلی نصائح فرمائیں.ایک اقتباس حسب ذیل ہے جس میں پردہ کا خاص طور پر ذکر فرمایا: ڈچ قوم میں احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف آپ لوگوں کو خود مزید توجہ پیدا ہوگی تاکہ یہ لوگ بھی ہدایت پانے والے بن جائیں.ان لوگوں کو علم ہی نہیں ہے کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے.اسی لئے اس نا واقفیت کی وجہ سے یہ لوگ اسلام پر حملے کرتے ہیں ، اسلام کی تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں، استہزاء کرتے ہیں، اس کی خوبصورت تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں.بعض بڑے شدید رد عمل ہیں مثلاً پردے پر یہاں بہت شور اٹھتا ہے اور اس کے ban کرنے کے لئے قانون سازی کا بھی سوچا جا رہا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کی بھیا نک تصویران کو دکھائی گئی ہے.اسلام کی خوبصورت تعلیم ان لوگوں کے سامنے اس طرح پیش ہی نہیں کی گئی جو اس کے پیش کرنے کا حق ہے.اگر احمدی مرد عورت، جو یہاں آکر آباد ہوئے ہیں، بڑے چھوٹے سب، شروع میں ہی اس طرف توجہ دیتے ، بہت پہلے سے اس طرف توجہ ہوتی ، اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور احمدیت اور حقیقی اسلام سے لوگوں کو متعارف کرواتے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ صورتحال پیدا ہوتی.بہر حال اب بھی وقت ہے ہر احمدی کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے.اسلام کی صحیح تعلیم لوگوں کو بتانے کے لئے ایک مہم کی صورت میں کوشش کرنی چاہئے.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 122 خطبہ جمعہ فرمود 120 جنوری 2007 خطبہ جمعہ فرمودہ 12 / جنوری 2007 ء بمقام بیت الفتوح ، لندن، برطانیہ (اقتباس) مسجد احمدی عورت کو قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 123 خطبہ جمعہ فرمود 120 جنوری 2007 مسجد احمدی عورت کو قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے برلن میں مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیادرکھنے کے موقع پر خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: 1923ء میں جب تحریک ہوئی تھی تو لجنہ اماء اللہ نے تعمیر کے لئے رقم جمع کی تھی.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا کہ کیونکہ یورپ میں عورتوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس وقت اس شہر میں جو دین کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسلمان عورتوں نے جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کروائی ہے تو کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے.تو جرمنی کی لجنہ کو جب یہ علم ہوا کہ پہلی کوشش مسجد کی تعمیر کی تھی اور عورتوں کی قربانیوں سے بنی تھی تو لجنہ جرمنی نے کہا کہ ہم اس مسجد کا خرچ برداشت کریں گی جو تقریباً ڈیڑھ ملین سے 2 ملین یورو کے قریب ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے اور ان کے مال ونفوس میں برکت ڈالے اور جلد سے جلد اپنا یہ وعدہ پورا کرسکیں تا کہ اپنا وعدہ پورا کر کے دوسرے منصوبوں اور قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.اس مسجد کا نام خدیجہ مسجد رکھا گیا ہے.پس لجنہ ہمیشہ یادر کھے کہ یہ مبارک نام اس پاک خاتون کا ہے جو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ پر اپنا سارا مال قربان کر دیا.پس جہاں یہ مسجد احمدی عورت کو قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے وہاں دنیا سے بے رغبتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دلانے والی بنی رہے تا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی بنی رہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو ہمیشہ آگے سے آگے بڑھانے والی ہوں.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 124 خطبہ جمعہ فرموده 19 جنوری 2007 خطبہ جمعہ فرموده 19 / جنوری 2007ء بمقام بیت الفتوح ، لندن، برطانیہ (اقتباس) ہر احمدی عورت یا بچی اپنی مرضی سے چندہ دے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 125 خطبہ جمعہ فرموده 19 جنوری 2007 ہر احمدی عورت یا بچی اپنی مرضی سے چندہ دے گزشتہ جمعہ میں نے مسجد برلن کا ذکر کیا تھا کہ لجنہ اماءاللہ جرمنی نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہے.اس پہ جو جرمنی سے باہر کی عورتیں ہیں ان کا بھی خیال ہے کہ اُس زمانے میں کیونکہ حضرت مصلح موعود نے یہ کام قادیان اور ہندوستان کے ذمہ کیا تھا جن میں سے بیشتر کی اولادیں پاکستان میں اور باہر کے دوسرے ممالک میں ہیں، اس لئے ان کو ثواب پہنچانے اور ہمیں بھی ثواب حاصل کرنے کے لئے اس کی اجازت دی جائے کہ ہم بھی اس میں حصہ لے سکیں.تو بہر حال عام تحریک تو میں نہیں کرتا لیکن یہ اجازت ہے کہ اگر کوئی احمدی عورت یا بچی اس مد میں اپنی خوشی سے چندہ دینا چاہیں تو بے شک دیدیں، کوئی روک نہیں ہے.اور مجھے امید ہے کہ لجنہ اماءاللہ جرمنی بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گی.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خیریت سے اس مسجد کی تعمیر مکمل کروا دے کیونکہ مخالفت ابھی بھی زوروں پر ہے.66
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 126 خطبہ جمعہ فرمودہ 06 اپریل 2007 خطبہ جمعہ فرمودہ 06 / اپریل 2007ء عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 127 خطبہ جمعہ فرموده 106 اپریل 2007 عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران " آج میں بعض احادیث کا صفت مالکیت کے لحاظ سے ذکر کروں گا.ایک روایت میں آتا ہے:.حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علی کو یہ کہتے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے.امام نگران ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے.آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.خادم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.(بخارى كتاب الأسقراض و اداء الديوان باب العبد راع في مال سيده ولا يعمل الا باذنه.حديث نمبر 2409) اس حدیث میں چار لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے.ایک امام کو کہ وہ اپنی رعیت کا خیال رکھے.ایک گھر کے سربراہ کو کہ وہ اپنے بیوی بچوں یا اگر اپنے خاندان کا سر براہ ہے تو اس کا خیال رکھے.ایک عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے ان کا خیال رکھے.ایک خادم جو اپنے مالک کے مال کا نگران ہے.پھر آخر میں فرمایا کہ یہ سب لوگ جن کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے، یہ سب یا درکھیں کہ جو مالک کل ہے، جوزمین و آسمان کا مالک ہے جس نے یہ ذمہ داریاں تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا کہ مسیح طرح ادا کی گئی ہیں یا نہیں کی گئیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 128 خطبہ جمعہ فرمود : 06 اپریل 2007 جس دن وہ مالک یوم الدین جزا اور سزا کے فیصلے کرے گا اس دن یہ سب لوگ جوابدہ ہوں گے.اس لئے کوئی معمولی بات نہیں ہے.دل دہل جاتا ہے ہر اس شخص کا جو جزا سزا پر یقین رکھتا ہے.پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی ، اس کی عزت کی ، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے.اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو.خاوند کا مال صحیح خرچ ہو.بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لوٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پر ہیز کریں.بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو.اپنی ذمہ داری کا احساس ہو.پڑھائی کا احساس ہو.اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہوتا کہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں ( کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں ) اپنی ذمہ داریاں صحیح ادا نہیں کر رہی.اور پھر یہی نہیں ، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گا تو یہ تو معمولی بات ہے.یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی.اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے.اللہ ہر ایک پر رحم فرمائے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 129 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اپریل 2007 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 / اپریل 2007 ء (اقتباس) مسجد کے آداب ، عورتیں صفیں سیدھی نہیں رکھتیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 130 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اپریل 2007 مسجد کے آداب عورتیں صفیں سیدھی نہیں رکھتیں مسجد کے آداب کے حوالے سے ارشاد فرمایا: صفیں سیدھی کرنے کے ضمن میں یہاں میں آج عورتوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، یہ عمومی شکایت عورتوں کی طرف سے آتی ہے، یہاں بھی اور مختلف ممالک میں جب بھی میں دورے پر جاؤں عموماً عورتیں جمعہ پر اور جمعہ کے علاوہ بھی مسجد میں بعض دفعہ نماز پڑھنے آ جاتی ہیں.لیکن شکایت یہ ہوتی ہے کہ عورتیں صفیں سیدھی نہیں رکھتیں اور لجنہ کی انتظامیہ بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتی.بلکہ بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عہدیداران خود بھی ٹیڑھی میڑھی صفوں میں کھڑی ہوتی ہیں، بیچ میں فاصلہ ہوتا ہے، خاص طور پر جلسے کے دنوں میں یا کسی مار کی وغیرہ میں اگر صفیں بن رہی ہوں.بلکہ بعض دفعہ جب یہاں ہال میں عورتیں نمازیں پڑھتی ہیں تو یہاں بھی اب عموماً یہ شکایت ہوتی ہے کہ بعض بیمار اور بڑی عمر کی عورتیں کرسیاں صفوں کے بیچ میں رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں.کرسی پر بیٹھنے والیاں جن کو مجبوری ہے وہ یا تو ایک طرف کرسی رکھا کریں یا جس طرح یہاں انتظام ہے کہ پیچھے کرسیاں رکھی جاتی ہیں.کیونکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ نماز کے آداب میں سے صفوں کو سیدھا رکھنا انتہائی ضروری چیز ہے اور آنحضرت اُس بات کا بڑا اہتمام فرماتے تھے.پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ خطبہ جمعہ بھی نماز کا حصہ ہے.بعض عورتیں اور بچیاں جو شاید سکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے آجکل مسجد میں آ جاتی ہیں لگتا ہے کہ وہ نماز کی بجائے اس نیت سے اس میں آتی ہیں کہ سہیلیوں اور دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی اور یہ جومیں نے کہا ہے کہ ملاقات ہو جائے گی تو وہ اس غرض سے اس میں آتی ہیں.یہ میں بدظنی نہیں کر رہا بلکہ بعضوں کے عمل اس بات کا ثبوت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 131 خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اپریل 2007 ہیں.مثلاً گزشتہ جمعہ کی یہاں کی رپورٹ مجھے ملی کہ بعض بچیاں خطبے کے دوران اپنے اپنے موبائل پر یا تو text messages بھیج رہی تھیں اور یا با تیں کر رہی تھیں اور اس طرح دوسروں کا خطبہ جمعہ بھی خراب کر رہی تھیں جو وہ سن نہیں سکیں.یہی شکایت بعض چھوٹے بچوں کے بارے میں آتی ہے.آجکل ہر ایک کو ماں باپ نے موبائل پکڑا دیئے ہیں.حکم تو یہ ہے کہ اگر خطبہ کے دوران کوئی بات کرے اور اسے روکنا ہو تو ہاتھ کے اشارے سے روکو کیونکہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے.یہ بظاہر چھوٹی باتیں ہیں لیکن بڑی اہمیت کی حامل ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا چاہئے.اگر کسی نے اتنی ضروری پیغام رسانی کرنی ہے یا فون کرنا ہے کہ جمعہ کے تقدس کا بھی احساس نہیں اور مسجد کے تقدس کا بھی احساس نہیں تو پھر گھر بیٹھنا چاہئے ، دوسروں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہئے.عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ مسجد آ کر دوسروں کی نمازیں خراب کی جائیں.نماز با جماعت کا اصل مقصد دلوں کی کبھی دور کرنا اور آپس میں محبت پیدا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ہو کر جھکنا ہے تا کہ ایک ہو کر واحد خدا کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں، نہ کہ دلوں میں نفرتیں بڑھیں اور دوسروں کی تکلیف کا باعث بنیں.پس یادرکھیں جہاں ایک مومن کے لئے نماز کا قیام انتہائی اہم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ہے وہاں مسجد کا تقدس بھی بڑا اہم ہے.“ طور پر فرمایا: اسی خطبہ جمعہ میں مالی قربانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور نے خواتین سے خاص وو زکوۃ کی اہمیت اور فرضیت سے کسی کو انکار نہیں.اس لئے جن پر زکوۃ فرض ہے، ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ زکوۃ دینی لازمی ہے وہ ضرور دیا کریں اور خاص طور پر عورتوں پر تو یہ فرض ہے جوز یور بنا کر رکھتی ہیں.سونے پر زکوۃ فرض ہے.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 132 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 2007 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 / جولائی 2007 ء بمقام حدیقۃ المہدی الٹن.برطانیہ (اقتباس) اپنے ارد گرد ماحول پر نظر رکھیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 133 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 2007 اپنے ارد گرد ماحول پر نظر رکھیں جلسہ سالانہ برطانیہ کے پہلے روز خطبہ جمعہ میں موسم کی وجہ سے جلسہ گاہ کی مشکل صورتحال کے پیش نظر فرمایا: پھر دو سال پہلے جب میں نے تنزانیہ کا دورہ کیا ہے تو لجنہ کے خطاب کے دوران شدید بارش ہوگئی.وہاں مارکیاں بھی اتنی مضبوط نہیں ہوتیں اور نیچے پولز (poles) کی سپورٹ بھی اتنی زیادہ نہیں تھی.بارش اتنی شدید تھی کہ مار کی کی چھت جو کہ پوری طرح تکون نہیں تھی اس کے تکون نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا صحیح طرح نکاس نہیں ہو رہا تھا اور پانی او پر جمع ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ مار کی پانی کے وزن سے پھٹ گئی اور پانی ایک شدید شرائے سے نیچے آیا لیکن عورتیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے رہے.کہا جاتا ہے کہ عورتوں میں صبر نہیں ہوتا، ادھر اُدھر ہو جاتی ہیں.افریقہ کے دور دراز ملک کے لوگ جن میں نو مبائعین بھی تھے جو پہلی دفعہ جلسہ سننے کے لئے آئے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے.مجال ہے جو کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو.کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر انہوں نے ساری تقریر سنی اور مجھے احساس نہیں ہوا کہ اتنی شدت سے پانی ان کے اوپر آرہا ہے.جب بھی پانی آتا تھا ایک طرف ہو جاتی تھیں.کچھ بھیگ بھی گئیں اور اس کے پھٹنے کے بعد بھی جیسا کہ میں نے کہا مسلسل بارش ہوتی رہی اور مختلف جگہوں سے مار کی پھٹتی رہی اور پانی ان کے اوپر گر تار ہا اور تھوڑا بہت بھی نہیں بلکہ شرائے سے نیچے گرتا رہا لیکن عورتیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے رہے.تو موسم ایک احمدی کے جوش ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈالتا، چاہے وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا ایشیا کا رہنے والا ہو یا یورپ کا رہنے والا ہو.66
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 134 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 2007 ایک اور اہم بات سیکیورٹی کے حوالے سے ہے.سب شامل ہونے والوں سے میں کہنا چاہتا ہوں اور تمام شعبہ جات کے کارکنان سے بھی اور جلسہ میں شامل ہونے والوں سے بھی کہ اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھیں.دنیا کے حالات اس قسم کے ہیں کہ کسی بھی قسم کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس ضمن میں ، میں خواتین سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ چیکنگ سے وہ بُرامان جاتی ہیں، اس لئے مکمل تعاون کریں.اگر آپ کو کوئی چیک کر لے تو اس میں کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے.میں نے سنا ہے کہ بعض شکوہ کرتے ہیں کہ ہم فلاں عہد یدار کی عزیز یا خود عہد یدار ہیں اور اس کے باوجود انہیں چیک کیا گیا.ہر عہد یدار یا کسی عزیز کو ہر ڈیوٹی والا تو جانتا نہیں ہے.بعض دفعہ عورتوں کو بیگوں کی وجہ سے زیادہ چیک کرنا پڑتا ہے یہ مجبوری ہے.میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مردوں کو بھی چیک کیا جائے تو انہیں بُرا نہیں منانا چاہئے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 135 خطبه جمعه فرموده 03 اگست 2007 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 / اگست 2007 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (اقتباس) عورتیں نمود و نمائش نہ کریں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 136 خطبه جمعه فرموده 03 اگست 2007 عورتیں نمود و نمائش نہ کریں جلسہ سالانہ برطانیہ میں موسم کی خرابی کے باوجو دشامل ہونے والی خواتین کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا: ”امیر صاحب کینیڈا نے بھی ( مجھے ) لکھا کہ موسم کی شدت کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ لوگ کم آئیں گے لیکن میں نے دیکھا کہ اس طرح ہی حاضری ہے.عورتیں بھی جو اپنے چھوٹے بچوں کو بچوں کی گاڑی میں بٹھا کے جارہی تھیں، پاس سے کارمیں گزرتی تھیں کیچڑ اور پانی کے چھینٹے اچھل کر ان پر پڑتے تھے لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی اور اللہ کے فضل سے جلسے کے پروگرام کے لئے شامل ہوئیں.مجھے بھی کسی نے کہا کہ خواتین نہیں آئیں گی، بہت کم آئیں گی.تو میرا یہی جواب تھا کہ صرف وہ جو اپنا زیور اور کپڑے دکھانے کے لئے شامل ہوتی ہیں وہ نہیں آئیں گی باقی اللہ کے فضل 66 سے تمام عورتیں شامل ہوں گی.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 137 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 جلسہ سالانہ جرمنی فرموده 7 /ستمبر 2007 ء بمقام گروس گیراؤ ، جرمنی (اقتباس) عورتیں جماعتی پروگرام میں خاموشی اختیار کریں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 138 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 عورتیں جماعتی پروگرام میں خاموشی اختیار کریں جلسہ سالانہ جرمنی کے بعد جلسہ میں احمدی مستورات کے حوالے سے جو ارشادات فرمائے ، اُن کو ذیل میں پیش کیا جاتا ہے: جر من نواحمدی ماشاء اللہ نظام جماعت کو سمجھنے میں بھی بہت ترقی کر رہے ہیں.ایک جرمن نوجوان نے سوال کیا کہ ایک طرف جماعت کا کام ہے، یعنی جماعتی نظام کا جو جماعت کے کسی عہدیدار کی طرف سے ان کے سپرد کیا جاتا ہے.دوسری طرف ذیلی تنظیموں ، خدام، انصار اور لجنہ کے کام ہیں جو ان کے عہدیداروں کی طرف سے سپرد کئے جاتے ہیں.مثلاً ایک ہی وقت میں مجھے جماعتی عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور خدام الاحمدیہ کا عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور میر ادل بھی نوجوان ہونے کی وجہ سے یہی چاہتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا کام کروں تو اُس وقت کس کام کو پہلے سرانجام دوں؟ مجھے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے.اس کو تو میں نے اس کا تفصیلی جواب دیا تھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ جماعتی نظام ایک مرکزی نظام ہے اور خدام، لجنہ اور انصار ذیلی تنظیمیں ہیں اور گویا ذیلی تنظیمیں بھی براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں، ان سے ہدایات لیتی اور اپنے پروگرام بناتی ہیں لیکن جماعتی نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور خلیفہ وقت کے قائم کردہ نظاموں میں سے سب سے بالا نظام ہے.ہر ذیلی تنظیم کا نمبر جماعت کا بھی ممبر ہے اور جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے وہ جماعتی نظام کا پابند ہے.اگر کوئی جماعتی عہد یدار کسی نو جوان کو کسی خادم کو بحیثیت فرد جماعت کوئی کام سپرد کرتا ہے اور اس دوران خدام الاحمدیہ کے عہدیدار کی طرف سے بھی کوئی کام سپر د ہوا ہے تو وہ خادم جس کے سپر د جماعتی عہدیدار نے کام سپرد کیا ہے، بحیثیت خادم نہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 139 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 بلکہ بحیثیت فرد جماعت خدام الاحمدیہ کے متعلقہ افسر کو اطلاع کر کے کہ جماعت کے عہدیدار نے میرے سپر دفلاں فوری کام کیا ہے، اس لئے میں اس کو پہلے کرنے کے لئے جا رہا ہوں، اس کام کو پہلے کرے اور خدام الاحمدیہ یا کسی بھی ذیلی تنظیم کا کام بعد میں.یہ تو ہے ہنگامی موقع پر لیکن عام طور پر روٹین (routine) کے جو کام ہوتے ہیں، اس کا سالانہ کیلنڈر جماعت کا بھی بن جاتا ہے اور ذیلی تنظیموں کا بھی اور جماعت کا کیلنڈر کیونکہ پہلے بن جاتا ہے اس لئے ذیلی تنظیمیں اپنے پروگرامز اس کے مطابق ایڈ جسٹ کریں مثلاً اجتماع ہے، ٹورنامنٹس ہیں اور مختلف جلسے ہیں.اگر ہنگامی طور پر کوئی جماعتی پروگرام کسی جگہ بن جاتا ہے تو جماعتی پروگرام بہر حال ذیلی پروگراموں پر مقدم ہے.ذیلی تنظیموں کے جو پروگرام ہیں ان میں براہ راست جماعتی انتظامیہ کو دخل دینے کا حق نہیں ہے، یہ بھی واضح ہونا چاہئے.خدام الاحمدیہ کے کام میں مقامی صدران یا امیر وغیرہ کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتے.نہ لجنہ کے کام میں نہ انصار اللہ کے کام میں، باوجود اس کے کہ ان کا نظام بالا ہے.اگر امراء خلاف تعلیم سلسلہ اور خلاف روایت ذیلی تنظیموں سے کوئی کام ہوتا ہوا دیکھیں تو فوری طور پر متعلقہ ذیلی تنظیم کے صدر کو بلا کر سمجھائیں، اگر مقامی طور پر ہو رہا ہے تو امیر کو اطلاع دی جائے اور قائد کو سمجھایا جائے اور پھر فوری طور پر خلیفہ وقت کو اطلاع دینی ضروری ہے.کیونکہ جماعتی روایات کا تقدس بہر حال قائم کرنا ضروری ہے.لیکن یہ فرق یا درکھنا چاہئے کہ پروگراموں میں براہ راست دخل اندازی نہیں کی جا سکتی.بعض اور جگہوں سے بھی یہ سوال اٹھتے ہیں اس لئے میں ان کو مختصر بیان کر رہا ہوں.لجنہ کے اجلاسوں کے بارے میں بھی واضح کر دوں کہ بعض لجنہ کی تنظیموں سے یہ سوال اٹھتے رہتے ہیں کہ مردوں کے جو ماہانہ اجلاسات ہوتے ہیں اس میں لجنہ کو بھی لازماً شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے.اس بارہ میں واضح ہو کہ لجنہ کے کیونکہ اپنے ماہانہ اجلاس ہوتے ہیں اس لئے جماعتی ماہانہ اجلاسوں میں لجنہ کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ان کا شامل ہونا ضروری ہے.ہاں جو بڑے جلسے ہیں، جیسے سیرت النبی کا جلسہ ہے، یوم مسیح موعود ، یوم مصلح موعود، یوم خلافت وغیرہ یا اور کوئی پروگرام جو مرکزی طور پر یا ریجن کے طور پر بنتے ہوں ان میں لجنہ ضرور شامل ہو.اس کے علاوہ لجنہ خود بھی اپنے یہ اجلاسات اور جلسے کر سکتی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذیلی تنظیمیں بنانے کا یہ مقصد تھا کہ جماعت کے ہر طبقے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 140 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 کو جماعتی activities میں شامل کیا جائے تا کہ ترقی کی رفتار میں تیزی پیدا ہو.ہر ایک کا اپنا اپنا ایک لائحہ عمل ہوتا کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسابقت کی روح پیدا ہو.گاڑی کی پڑی کی طرح، لائن کی طرح دونوں برابر چل رہے ہوں، کہیں ٹکراؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے.اس کی قدر کریں تا کہ اسلام اور احمدیت کی گاڑی اس پڑی پر منزلوں پر منزلیں طے کرتی چلی جائے اور ہم اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں.جلسہ کے حوالے سے ایک بات میں عورتوں کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں.عموماً عورتوں کی یہ شکایت ہوتی تھی کہ ان کی مارکی میں پروگراموں کے دوران شور بہت ہوتا ہے.میری تقریر کے دوران بھی بچوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ حد تک شور رہتا تھا.تو میں نے انتظامیہ کو کہا تھا کہ یوکے میں بھی اس طرح ہوتا ہے یہاں بھی یہی کریں کہ بچوں والی عورتوں کی علیحدہ مار کی ہوتا کہ جو مین مار کی ہے اس میں شور کم سے کم ہو.عورتیں بے شک خود شور مچا رہی ہوں، باتیں کر رہی ہوں لیکن بچوں کی موجودگی کی وجہ سے ان کو بہانہ مل جاتا ہے کہ بچے شور کر رہے ہیں.بہر حال اس دفعہ غیر معمولی طور پر عورتوں نے میری تقریر کے دوران خاموشی کا مظاہرہ کیا اور اس خاموشی کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.میں اس بات پر خوش بھی تھا اور اس بات کا افسوس بھی کر رہا تھا کہ یہ میری بدظنی تھی کہ عورتیں بچوں کی آڑ میں خود باتیں کرتی رہتی ہیں.لیکن میری یہ خوش فہمی تھوڑی دیر کے بعد ہی دور ہوگئی اور پتہ لگ گیا کہ یہ میری بدظنی نہیں تھی کیونکہ میری تقریر کے علاوہ عورتوں نے خاموشی اختیار نہیں کی اور ایک بڑا طبقہ مسلسل باتیں کرتا رہا اور ڈیوٹی والیوں کے کہنے پر بھی خاموش نہیں ہوتی تھیں.کسی کا جواب تھا کہ پہلے فلاں کو چپ کر اؤ پھر میں چپ کروں گی.کسی نے یہ جواب دیا کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد تو ہم ملے ہیں.ہمارے خاوند تو ملنے بھی نہیں دیتے تو ہم اب بیٹھ کر باتیں بھی نہ کریں.اور جو بیچاری نیک نیتی سے جلسہ سننے کے لئے آئی تھیں ، وہ جو بیچاری اس نیت سے آئی تھیں اور اس شور کی وجہ سے ان پروگراموں سے استفادہ نہیں کر سکیں ان میں سے بہت ساری ایسی تھیں جنہوں نے رونا شروع کر دیا کہ ہمیں پروگرام بھی سنے نہیں دے رہیں.سنا ہے ایک دفعہ تو اتنا شور تھا کہ مائیکر وفون سے بھی آواز نہیں آ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سال جلسہ ہی اس لئے منعقد نہیں کیا تھا کہ جو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 141 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 جلسے کا مقصد ہے اسے پورا نہیں کیا جاتا.میں بھی یہ سوچ رہا ہوں کہ لجنہ کا وسیع پیمانے پر جلسہ ہی بند کر دیا جائے اور چھوٹے چھوٹے ریجنل جلسے کئے جائیں اور پھر اگر تربیت ہو جائے تسلی ہو جائے تو پھر مرکزی جلسہ کریں.یا پھر دوسری صورت یہی ہے کہ تھوڑا سا ان کو توجہ دلانے کے لئے میں لجنہ میں براہ راست خطاب بند کر دوں اور جب تک یہ اطلاع نہیں مل جاتی کہ اس سال تمام پروگرام لجنہ نے خاموشی سے سنے ہیں اس وقت تک وہاں خطاب نہ کیا جائے.مجھے پتہ ہے، احساس ہے کہ عورتوں کی کافی تعداد جو خالصتاً جلسہ کی نیت سے آتی ہیں ان کے لئے بہت تکلیف دہ ہوگا.لیکن علاج کے لئے بعض دفعہ کڑوی گولیاں دینی پڑتی ہیں.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک سال جلسہ نہیں کیا تھا، حالانکہ بڑے اخلاص سے بڑی تعدا د جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئی تھی تو یہاں بھی ایک صورت کی جائے تاکہ شاید اصلاح ہو جائے.یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف نو مبائعات جو بڑے آرام سے اور شوق سے جلسہ سنتی ہیں اور ہیں پچیس سال تک کی لڑکیاں، عورتیں جن میں فی الحال کم باتیں کرنے کا شوق ہے، ان کو جلسہ پر یا مرکزی اجتماع پر آنے کی اجازت ہو اور باقیوں پر پابندی لگا دی جائے اور صرف یہاں نہیں بلکہ میں اب سوچ رہا ہوں کہ اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے مختلف ملکوں میں اس طرح کے جائزے لوں جہاں بڑی جماعتیں ہیں.عورتوں کو اتنی مرتبہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنے مقام کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کریں لیکن بہت کم اثر ہوتا ہے.میری تقریر کے دوران لجنہ کی مارکی میں اس قدر خاموشی تھی کہ میں سمجھا تھا کہ ضرور میری باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن میرے مارکی سے باہر نکلنے کے بعد ہی وہاں شور شروع ہو گیا.وہی ہنگامہ، وہی باتیں اور سارے پروگراموں کے دوران اسی طرح ہوتا رہا.یا درکھیں اگر اسی طرح کی حرکتیں ہوتی رہیں تو یہ پرانے احمدیوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ نئے آنے والے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں اور پرانوں کو جلسے کا صرف ایک مقصد یا درہ گیا ہے کہ آپس کے تعلقات بڑھاؤ.یاد رکھیں کہ ہر عمل جو موقع محل کے لحاظ سے نہ کیا جائے ، بے شک صحیح اور اچھا ہو ، وہ عمل صالح نہیں کہلاتا.میں سمجھتا ہوں کہ لجنہ کی تنظیم بھی نچلی سطح سے لے کر، اپنے شہر کی تنظیم سے لے کر مرکزی سطح تک تربیت میں اس کمی کی ذمہ دار ہے.بڑے بڑے مسائل یاد کرنے سے بہتر ہے پہلے اپنی تربیت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 142 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 کریں.جیسا کہ میں نے کہا جماعت میں نئے شامل ہونے والے اپنے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں اور دنیا کے ہر ملک میں بڑھ رہے ہیں اُن کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوتی ہے کہ نئے آنے والے اخلاص میں بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نیکی اور اخلاص میں بڑھنے والے ملک ملک میں عطا کئے ہیں اور عطا فرما رہا ہے اور دل سے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات نکلتے ہیں، وہاں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ پرانے احمدیوں کی قربانیوں کو کہیں ان کی اولادیں ضائع نہ کر دیں.جرمنوں میں میں نے دیکھا ہے خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جو احمدی ہور ہے ہیں اسلام کی پیاری تعلیم کا بہت اثر ہے.کوشش کرتے ہیں کہ حتی الوسع ہر حکم کو مانیں اور ہر حکم کی پابندی کریں.وقتی اطاعت نہیں بلکہ مستقل اطاعت کا جوڑا اپنی گردن پر ڈالیں.اس وقت یہاں نو مبائعین کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور اس تھوڑی سی تعداد میں بھی اطاعت اور خدمت کا جذ بہ نمایاں نظر آتا ہے.یہ لوگ نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں.لیکن انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی دور نہیں ہے جب یہ تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہونے والی ہے.اس لئے میں جرمن احمدیوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اسلام کی تعلیم جہاں اپنی زندگیوں پر لاگو کریں وہاں شمع ہدایت بنتے ہوئے اپنے ہم وطنوں میں بھی یہ تعلیم پھیلائیں.اسلام کی جو روشنی آپ کو ملی ہے اس شمع سے دوسروں کے دل بھی روشن کریں.اسلام کے خوبصورت پیغام سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں.اس تاثر کو دھوئیں کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے.گزشتہ دنوں یہاں جرمنی میں کچھ لڑ کے گرفتار ہوئے ، کچھ جرمن اور کچھ ترک لڑکے تھے جو دہشت گردی کرنے والے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے ٹرینینگ لے کر آئے تھے.ایک بڑے نقصان سے اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو بچالیا ہے.ان بھٹکے ہوؤں تک بھی اسلام کی صحیح تعلیم پہنچائیں اور اپنے ہم قوموں کو بتائیں کہ اس اسلام کو اسلام نہ سمجھو جس کا اظہار ان لوگوں سے ہو رہا ہے بلکہ حقیقی اسلام کے لئے ہمارے پاس آؤ، ہماری بات سنو.پس یہ پیغام پہنچانے کے لئے جامع پروگرام بنا ئیں اور یہی شکر گزاری اور اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کا طریق ہے.پاکستانی احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ اپنی حالتوں میں پہلے سے بڑھ کر تیزی کے ساتھ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اپنی حالتوں میں انقلاب لانے کی کوشش کریں.یہی صحیح شکر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 143 خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 2007 گزاری کا طریق ہے.یہی اپنے بزرگوں کے نام کو زندہ رکھنے کا طریق ہے جنہوں نے احمدیت کی خاطر قربانیاں دی تھیں.یہی آپ کا جماعت میں شامل ہو کر صحیح حق ادا کرنے کا طریق ہے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.جلسہ کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں گیارہ سعید فطرت مردوں عورتوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.مردوں میں بھی دستی بیعت ہوئی ، بہت ساروں نے دیکھا ہو گا، جس میں دوران سال بعض نئے شامل ہونے والوں اور جلسہ کے دوران بھی پانچ یا چھ مردوں نے بیعت کی جو احمدی ہوئے تھے.اس وقت بھی میں نے ان مردنو مبائعین کی عجیب جذباتی کیفیت دیکھی تھی.لیکن اس دفعہ بہت سوں کو علم نہیں، ہمیں بتا دوں کہ میں نے براہ راست جرمن عورتوں میں بھی بیعت لی ہے اور اس طرح لی تھی کہ اپنی بیوی کا ( محرم کا ہاتھ پکڑا جاسکتا ہے ) ہاتھ پکڑ کے اور باقی عورتوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اور پھر چین (chain) بن کے 60-70 عورتوں نے اس طرح بیعت کی اور بیعت کرنے والیوں میں بعض بالکل نئی تھیں، ان کو احمدیت قبول کئے کچھ عرصہ ہوا تھا.عموماً تو تمام عورتیں ہی اس وقت جذباتی کیفیت میں تھیں لیکن خاص طور پر ان نئی شامل ہونے والیوں کی حالت عجیب تھی، جن کی احمدیت کی زندگی صرف چند دن یا چند مہینے تھی.اس قدرا خلاص اور جذبات کا اظہار کر رہی تھیں کہ صاف نظر آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ کی پناہ میں آ کر ان میں ایک انقلاب آ گیا ہے.بیعت کے الفاظ شروع ہوتے ہی انہوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا.بیعت کے بعد جو دعا ہوئی اس میں بھی ان کی تڑپ بیان سے باہر ہے اور جب میں وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا ہوں تو مجھے بتایا گیا کہ پھر وہ سجدہ شکر بجالانے کے لئے سجدہ میں پڑ گئیں.یہ اس معاشرے کی وہ نوجوان تھیں جس نے خدا کو بھلا دیا ہوا ہے.لیکن خدا کے مسیح اور آنحضرت کے عاشق صادق سے تعلق جوڑ کر انہوں نے اس دنیا اور اپنے معاشرے کوٹھکرا کر واحد و یگانہ خدا سے پیار اور صدق و وفا کا زندہ تعلق قائم کر لیا ہے.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 144 خطبہ جمعہ فرموده 16 نومبر 2007 خطبہ جمعہ فرمود 160 / نومبر 2007 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن، برطانیہ (اقتباس) معاشرے کے ایک اور کمزور طبقہ عورت کے حقوق.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 45 145 خطبه جمعه فرموده 16 نومبر 2007 معاشرے کے ایک اور کمزور طبقہ عورت کے حقوق قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عورت بیوہ اور مطلقہ ) کے حقوق سے متعلق ایک تفصیلی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس سے ایک طویل اقتباس پیش ہے: پھر دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں معاشرے کے ایک اور کمزور طبقہ یعنی بیوہ کا ذکر ہے.ایک تو عورت ویسے ہی عموماً معاشرے میں کمزور کبھی جاتی ہے.اس پر اگر وہ بیوہ ہو جائے تو اکثر معاشرے اس کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے.خاص طور پر کم ترقی یافتہ معاشروں میں اور ایسے معاشروں میں بعض پڑھے لکھے جو لوگ ہیں وہ بھی پھر ماحول کے زیر اثر زیادتی کر جاتے ہیں.مسلمانوں کو تو خاص طور پر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے.ترقی یافتہ ممالک تو آج عورت کے حقوق کا نعرہ لگارہے ہیں لیکن ہمیں تو قرآن کریم نے چودہ صدیاں پہلے ہی ان حقوق کی طرف توجہ دلا دی اور اگر اُس زمانے کی معاشرتی روایات کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے لیکن نہ صرف اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق قائم کئے بلکہ اُس معاشرے میں جہاں بالکل حقوق ادا نہیں کئے جاتے تھے صحابہ کی کایا پلٹ گئی اور ان پر عمل کر کے دکھایا.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے، اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں ان کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اس بارہ میں وہ خود جو معروف فیصلہ کریں اور اللہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 146 خطبہ جمعہ فرمود 160 نومبر 2007 تو یہاں اللہ تعالیٰ نے بیوہ کا ایک مدت تک اپنے خاوند کے گھر میں رہنے کا حق قائم کر دیا.عورت کے بارے میں یہ تو حکم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں بیوگی کی صورت میں اپنی عدت پوری کرے جو 4 ماہ 10 دن تک ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک سال تک رہ سکتی ہے اگر وہ چاہے.حضرت خلیفتہ لمسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ اس بات کارجحان رکھتے تھے اور اس سے یہ استنباط کرتے تھے کہ عدت کی مدت کے علاوہ جو چار ماہ دس دن ہے، ایک سال کی اجازت ہے.آپ کا یہ رجحان تھا کہ عورت کو جتنی زیادہ سے زیادہ سہولت دی جا سکتی ہے اس آیت کی رُو سے دینی چاہئے.بعض دفعہ جب جائیداد کی تقسیم ہو تو اگر مرنے والے کا مکان ہو تو جو مکان ورثے میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ اگر کسی اور کے حصے میں آ گیا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تب بھی وہ صبر کرے اور ایک سال تک عورت کو تنگ نہ کرے، بیوہ کو تنگ نہ کرے.کیونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی یہ لکھا ہے اور آج بھی یہ اسی طرح ہو رہا ہے کہ اگر مثلاً عورت کے اولاد نہیں ہے یا کسی کے دو بیویاں ہیں یا تھیں تو پہلی بیوی کی اولا دیا اگر عورت کے اولاد نہیں تو مرد کے والدین یا اور دوسرے رشتہ دار، بیوہ، جس کے حصے میں مکان کی جائیداد نہ آئی ہو، اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک سال تک اس کا حق ہے اور کسی وارث کا حق نہیں بنتا کہ اس معاملے میں بیوہ پر دباؤ ڈالا جائے اور اسے تنگ کیا جائے ہاں اگر وہ خود جانا چاہیں تو بیوگی کی عدت پوری کر کے جاسکتی ہیں.یہ فیصلہ عورت کے اختیار میں دیا گیا ہے.عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ معروف فیصلہ کرے یعنی ایسا فیصلہ جو قانون اور شریعت کے مطابق ہو.پس ہمیشہ یادرکھو کہ یہ عزیز اور حکیم خدا کا حکم ہے.آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عورتوں کو ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور کرو گے اور اس کے رشتہ داروں اور قریبیوں میں بھی اگر اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا تو اس کی مجبوری سے کوئی دوسرا نا جائز فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور دُور کے امکان کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی پر حکمت حکم فرمایا ہے.عورت کے خاوند کے قریبیوں کو بھی تنبیہ کی ہے کہ ہمیشہ یادرکھو کہ خدا کی ذات عزیز اور غالب ہے.اگر اس کے حکموں پر عمل نہیں کرو گے تو اس کی پکڑ کے نیچے آؤ گے.اس میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے.ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ عورت کو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 147 خطبہ جمعہ فرموده 16 نومبر 2007 ایک سال تک گھر میں رہنے دو، دوسرے بیوہ کو حق دیا ہے کہ اگر وہ شادی کر کے یا کسی وجہ سے ایک سال سے پہلے بھی گھر چھوڑ دیتی ہے تو یہ اس کا معروف فیصلہ ہے.پھر عزیزوں رشتہ داروں کو اس میں روک نہیں بننا چاہئے کہ اب یہاں ضرور ایک سال رہو.بعض تنگ کرنے کے لئے بھی کہہ دیتے ہیں.بعض دفعہ رشتہ دار چاہتے ہیں کہ بیوہ شادی نہ کرے حالانکہ بیوہ کی شادی بھی ایک مستحسن عمل ہے.تو ایسے روک ڈالنے والوں کے جواب میں حضرت خلیفہ المسح الاول نے وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيْم کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے.فرمایا کہ بعض لوگ بیوہ کی شادی کے بارہ میں کہتے ہیں کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے.خاص طور پر ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں، بعض خاندانوں میں بہت زیادہ شدت پسندی ہے کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے کہ بیوہ شادی کرے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا نام عزیز ہے اور میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں.میں حکم دیتا ہوں کہ شادی کرے کیونکہ حکمت کے تقاضے کے تحت یہ حکم ہے اس لئے وہ سب جو میرے حکم سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو یا درکھنا چاہئے کہ میں عزیز اور غالب ہوں ،سب عزتیں میری طرف منسوب ہیں اس لئے میرے حکموں کی پابندی کرو اور جھوٹی عزتیں تلاش نہ کرو تا کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات سے فیض پانے والے ہو.پھر تیسری آیت عورتوں کے حقوق کے بارہ میں ہے.اور جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارہ میں ہے کہ اگر طلاق ہو جاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کردہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے.دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک نہ بنو.بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے.لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوند کو بتا دو، چھپانانہیں چاہئے.اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پیدا ہونے والا ہے.اللہ فرماتا ہے کہ تمہارے بتانے سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے.فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں.دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں.بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 148 خطبہ جمعہ فرمودہ 16 نومبر 2007 ہیں.وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضا مند بھی ہے تو قریبی شور مچا دیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہو گئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے.انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں.کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں.حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں.بعض بچیاں پھر خط لھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اناؤں نے یہ مسئلہ بنالیا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که رشتہ داروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے.اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو پھر جھوٹی غیرتوں کے نام پر لڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا عورتوں پر.یہ آیت تو میں نے پڑھی تھی.اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتا ہوں.فرمایا کہ اور مطلقہ عورتوں کو تین حیض تک اپنے آپ کو روکنا ہوگا اور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کر دی ہے.اور اس صورت میں ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں.اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر ہے حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اور حکمت والا ہے.پس انسان ہونے کے ناطے اور ایک ایسے رشتے کے لئے جو ایک عہد پر قائم ہوا ہے مردوں کو بھی حکم ہے کہ عورت کے حقوق ادا کر و.عورت کو بھی حکم ہے کہ مردوں کے حقوق ادا کرو.اور جب دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو گے تو رشتہ پائیدار ہوگا.پس یہ حکم عورت کے حق قائم کرنے والا ہے.اسلام کے یہی خوبصورت احکامات تھے جنہوں نے معاشرے کی کایا پلٹ دی.اسلام سے پہلے عربوں نے عورتوں کو ہر قسم کے حق سے محروم کیا ہوا تھا بلکہ کسی مذہب نے بھی اس طرح حقوق قائم نہیں کئے جس طرح اسلام نے کئے ہیں.آنحضرت ﷺ نے بے شمار جگہ عورتوں کے حق قائم فرمائے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لا تَهْلِهِ وَ أَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِيْ سنن ترمذی باب فضل ازواج النبی ﷺ ) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 149 خطبہ جمعہ فرمود 160 نومبر 2007 اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں بہترین ہے اور میں تم سب میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ، فَإِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء :20) کہ اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کرو.اگر تم میں کوئی شخص اپنی بیوی کو نا پسند بھی کرتا ہوتو پھر بھی یاد رکھو کہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو مگر خدا تعالیٰ نے اس میں تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے بڑی خیر مقدر کر رکھی ہو.پس مرد کو بھی اپنے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے.بلکہ اس کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس چیز پر قدرت رکھتا ہے کہ انجام بہتر فرمائے.آئے دن طلاقیں ہو جاتی ہیں اس لئے مردوں کو بھی غور کر کے سوچ سمجھ کے پھر فیصلے کرنے چاہئیں اور اس امر کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم اس بات کو نا پسند کرو لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس میں بہتری رکھی ہو.اگر خدا کی رضا کے لئے اور دعا کرتے ہوئے یہ سلوک اپنی بیوی سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.جو گھر تباہی کے کنارے پر ہوتے ہیں ٹوٹنے والے ہوتے ہیں اگر ان کے بچے ہیں تو بچے گھروں میں سہمے ہوئے ہوتے ہیں ، وہی گھر پھر اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں کے لئے پر امن اور پیار اور محبت قائم رکھنے والے بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مرد اور عورت دونوں کو ایک نصیحت یہ بھی فرما دی کہ حقوق کے لحاظ سے گوتم دونوں برابر ہو لیکن مرد کو انتظامی لحاظ سے اور بعض طاقتوں کے لحاظ سے ، بعض ذمہ داریوں کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہے.اس لئے عورت کو اس بات کا بھی مرد کو مارجن (margin) دینا چاہئے.مردوں کو بھی فرمایا کہ تمہیں اگر قوام ہونے کے لحاظ سے فضیلت دی ہے تو ان ذمہ داریوں کو سمجھنا اور سنبھالنا بھی تمہارا کام ہے.گھر کے انتظامات اور اخراجات کے لئے رقم مہیا کرنا بھی تمہارا کام ہے.یہ نہیں کہ گھر میں پڑے رہو اور بیوی کو کہو کہ جاؤ جا کر باہر کماؤ اور کام کرو.یہاں مغربی معاشرہ میں بعض گھروں میں یہ بھی ہو رہا ہے.بیوی بچوں کی تمام ذمہ داری اٹھانا تمہارا کام ہے.پس اللہ تعالیٰ نے جو عزیز اور حکیم ہے عورتوں اور مردوں کے حقوق قائم فرما دئے.اور مردوں کو آخر
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم 150 خطبہ جمعہ فرموده 16 نومبر 2007 پر عزیز اور حکیم کے الفاظ استعمال کر کے اس طرف توجہ دلا دی کہ یا درکھو عورتوں پر جو فوقیت تمہیں ہے اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا کیونکہ وہ عزیز خدا تمہارے اوپر ہے.تمہارے سارے عمل دیکھ رہا ہے.اس کی حکومت ہے.اس کی تم پر نظر ہے.تم اپنے اہل سے غلط سلوک کر کے پھر اس کی پکڑ میں آؤ گے.پس اپنی حاکمیت کو ، اپنی فوقیت کو عورتوں پر اس حد تک جتاؤ جہاں تک تمہیں اجازت ہے اور اپنے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رکھو.اور اگر ان باتوں کو مد نظر رکھو گے تو پھر اس حکیم خدا کی حکمت سے بھی فائدہ اٹھاؤ گے جس نے تمہیں فوقیت دی ہے.پس یہ کامل غلبہ والے اور حکمت والے خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں جن سے معاشرہ کا امن قائم ہوتا ہے.گھروں کا سکون قائم ہوتا ہے.نیکیاں پھیلتی ہیں.اس پر حکمت تعلیم کا حسن دوبالا ہو کر پھیلتا چلا جاتا ہے.لیکن اگر ان باتوں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو جہاں معاشرے کا امن برباد ہوگا وہاں ایسا شخص پھر اس عزیز اور غالب خدا کی پکڑ میں بھی آئے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر حکمت تعلیم کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.“