Language: UR
الْاَزْهَارُ لِذَوَاتِ الْحِمَارِ یعنی اوڑھنی والیوں کیلئے پھول جلد سوم حصہ اوّل احمدی مستورات سے خطابات 2005 2003 فرموده ید نا حضرت مرز امر و احمد خلیفه مسیح الامس ايده الله تعالى بنصره العزيز
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے حد احسان اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود و مہدی معہود سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو پہچاننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكُ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے گر بتائے.آپ فرماتے ہیں:.اسلام تو یہ ہے کہ قولاً اور فعلاً خدا تعالیٰ کو اپنی ساری طاقتیں سپر د کر دی جاویں اور اس کے احکام کے آگے گردن رکھی جاوے.اور ہر قسم کی بد راہی سے دُور رہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم ص:302) دد پھر فرماتے ہیں کہ :.صل اسلام اسی کا نام ہے جو ابراہیم کو بھی کہا کہ اسلم جب ایسے رنگ میں ہو جاوے تو وہ شیطان اور جذبات نفس سے الگ ہو جاتا ہے یہانتک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دینے میں بھی دریغ نہ کرے.اگر جاں شاری سے دریغ کرتا ہے تو خوب جان لے کہ وہ سچا مسلم نہیں ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بے حد اطاعت ہو اور پوری عبودیت کا نمونہ دکھاوے یہانتک کہ آخری امانت جان بھی دیدے (ملفوظات جلد سوم ص: 601) خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا اور ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے ہمارا در درکھتا ہے اور ہمارے لیے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے، اس کے شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، آپ کی ہدایات کو سنیں اور ان پر عمل کریں.
حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں:.خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہواس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ (خطبه جمعه 24 جنوری 1936ء مندرجه الفضل 31 جنوری 1936ء) خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ پاکستان کو حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لجنہ سے خطاب کتابی صورت میں شائع کرنے کی توفیق ملی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ یہ کوشش قبول فرمائے اور یہ کتاب پڑھنے والوں کے لئے ہر لحاظ سے با برکت کرے.آمین اور جنہوں نے اس کام کی تکمیل کے لئے معاونت فرمائی ہے اُن کو بہترین جزا سے نوازے.آمین
نمبر شمار _1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 فهرست مندرجات جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 ء مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 2003 مستورات سے خطاب اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ 2003ء سے خطاب خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004ء افریقہ سے واپسی پر استقبالیہ لجنہ برطانیہ سے خطاب 2004ء خطبہ جمعہ فرمودہ 28 رمئی 2004ء (اقتباس) جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 ء مستورات سے خطاب خطبہ جمعہ فرموده 18/جون 2004ء(اقتباس) جلسہ سالانہ کینیڈا 2004 ء مستورات سے خطاب 10.جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 ء مستورات سے خطاب 11.جلسہ سالانہ جرمنی 2004 ء مستورات سے خطاب 12 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004 ء لجنہ سے خطاب 13.اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ 2004ء سے خطاب 14 - خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 2004ء (اقتباس) 15.جلسہ سالانہ فرانس 2004ء خواتین سے مختصر خطاب 16.جلسہ سالانہ گھانا 2004 ء مستورات سے خطاب (اقتباس) صفحہ 26-1 51-28 69-53 88-71 93-90 101-96 109-103 113-111 128-115 153-130 169-155 186-172 196-188 214-198 216-215 220-218
223-222 226-224 229-227 231-230 233-232 236-234 245-238 247-246 249-248 258-251 272-260 277-274 281-279 300-284 312-302 316-313 330-318 332-331 334-333 348-336 356-350 358-357 372-360 17.جلسہ سالانہ نائیجیر یا 2004 ء مستورات سے خطاب (اقتباس) -18 -19 خطبه جمعه فرموده 07 جنوری 2005ء(اقتباس) خطبه جمعه فرمودہ 28 جنوری 2005ء (اقتباس) 20 - خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2005ء (اقتباس) 21 - خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 2005ء (اقتباس) 22.جلسہ سالانہ کینیا 2005 ء مستورات سے خطاب (اقتباس) -23 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 ء مستورات سے خطاب 24 - خطبہ جمعہ فرموده 27 رمئی 2005ء (اقتباس) 25.خطبہ جمعہ فرموده 17 / جون 2005ء (اقتباس) 26 - خطبہ جمعہ فرموده 24 / جون 2005ء (اقتباس) 27 جلسہ سالانہ کینیڈا 2005ء مستورات سے خطاب 28 - خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2005ء (اقتباس) 29.خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جولائی 2005ء (اقتباس) -30 -31 جلسہ سالانہ یو کے 2005 ءلجنہ سے خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 2005 ء مستورات سے خطاب 32 خطبہ جمعہ فرمودہ 02 ستمبر 2005ء(اقتباس) 33.جلسہ سالانہ سویڈن 2005 ء مستورات سے خطاب 34 - خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 2005ء(اقتباس) 35.خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 2005ء(اقتباس) 36.نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ 2005ء سے خطاب 37 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 ء مستورات سے خطاب 38.خطبہ جمعہ فرموده 09/دسمبر 2005ء(اقتباس) -39 جلسہ سالانہ قادیان 2005 ء مستورات سے خطاب
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 1 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 26 جولائی 2003ء) اولاد کی خواہش ایک طبعی امر ہے جن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں ، نمازیں پڑھنے میں با قاعدہ ہوں ، تو ایسے گھروں کے بچے دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ خود اپنی زندگی منتقیا نہ ہو اولاد کی حصول کی خواہش کا مقصد بچوں سے بے جالاڈ پیار سے احتراز کریں کوئی احمدی عورت معاشرہ کی تمام عورتوں کی طرح نہیں ہے ایک نئے عزم کے ساتھ ہمت اور دعا سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں حضرت اماں جان کا انداز تربیت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 2 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب اولاد کی صحیح نہج پر تر بیت کرنے کے تقاضے تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیت کی تلاوت فرمائی: قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ، إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ) (سورة الاحقاف: 16) دنیا میں ہر شخص چاہے مرد ہو یا عورت جب وہ شادی شدہ ہو جاتا ہے تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اولا د ہو اور صحتمند اولا د ہو جو ان کا نام روشن کرے، بڑے ہوکر ان کے کام آئے ، اگر امیر ہے تو چاہے گا کہ بچہ بڑا ہو کر اس کے کاروبار کو سنبھالے، اس کی جائیداد کی نگرانی کرے، اس کو مزید وسیع کرے، وسعت دے.اور اگر غریب ہے تو خواہش ہو گی ، خاص طور پر غرباء کو بیٹوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا ہو اور بڑا ہو کر اس کا سہارا بنے.لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جس میں غریب بھی شامل ہیں، امیر بھی شامل ہیں (جو ایسے لوگوں کا گروہ ہے) جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں.اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا دین ہمیشہ دنیا پر مقدم رہے، اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں.اور ان کا ہی گروہ کامیاب ہونے والوں کا گروہ ہے جنہوں نے خود بھی کوشش کی کہ وہ نیکیوں کا راستہ اپنا ئیں وہ راستہ اپنائیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کا راستہ ہے اور وہ دعاؤں سے اس کی مدد چاہتے ہوئے اپنی اولاد کی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل تربیت کرتے ہیں.3 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے یہ ایسے لوگوں ہی کے بارہ میں ہے.اس کا ترجمہ ہے: اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے تو فیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کرسکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی.اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تو راضی ہو.اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے.یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.جن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں نمازیں پڑھنے میں با قاعدہ ہوں ، نظام جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں، اجلاسوں اجتماعوں وغیرہ میں با قاعدہ شامل ہونے والی ہوں، ہر قسم کے تربیتی پروگراموں میں اپنے کاموں کا حرج کر کے حصہ لینے والی ہوں، نظام جماعت کی پوری طرح اطاعت گزار ہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں تو ایسے گھروں کے بچے عموماً دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بھی اطاعت گزار ہوتے ہیں اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیز ہے کہ ماں باپ خود اپنے بچوں کے لئے نمونہ بنیں.پھر اس کی کچھ تفصیل ہے کہ کس طرح اس تربیت کے طریقہ کو آگے بڑھایا جائے، وہ میں آگے بیان کروں گا.لیکن ہر کام سے پہلے جو ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے، یقیناً میں تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں اور یقینا میں فرمانبرداروں میں سے ہوں کو ہر وقت پیش نظر رکھیں.اولاد کی خواہش کس غرض سے ہو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے درد کے ساتھ بچوں کی تربیت کے لئے ارشادات فرمائے ہیں ان میں سے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس زمانے میں دنیا سے ٹکر لے کر جب ہم نے وقت کے امام کو مانا ہے تو اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور اپنی اولادوں کی اصلاح کے لئے اس کے درد میں شامل ہوں.آپ فرماتے ہیں :
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 4 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے، لیکن جب یہ ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا كه فرما يا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاريات: 57) اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کیلئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی ؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑ نا چاہتا ہے.خود کون سی کمی کی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے.پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہوکر اس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سَيِّئَات رکھنا جائز ہوگا.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ خود اپنی اصلاح کرے:.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعوی ہی دعویٰ ہو گا جب تک کہ خود وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوئی میں کذاب ہے.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنادے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں.لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو ، اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 560-561 جدید ایڈیشن)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 5 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہیے:.تو غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہئے.اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی، حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولا د دے دی تھی.یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہو گئے تھے.اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں.غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت تو سعدی کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے: که پیش از پدر مُرده به ناخلف.اولاد کی صحیح طور پر تربیت کریں:.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ( ملفوظات جلد اول ، جدید ایڈیشن ، صفحہ 562) پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں.نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ، صفحہ 562) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ولا دتو نیکو کاروں اور ماموروں کی بھی ہوتی ہے.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولا د بھی دیکھو کس قدر کثرت سے ہوئی کہ کوئی رگن نہیں سکتا.مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اُن کا خیال اور طرف تھا ؟ بلکہ ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع تھا.اصل اسلام اسی کا نام ہے جو ابراہیم کو بھی کہا کہ اسلم.جب ایسے رنگ میں ہو جاوے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 6 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب تو وہ شیطان اور جذبات نفس سے الگ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دینے میں بھی دریغ نہ کرے.اگر جاں شاری سے دریغ کرتا ہے تو خوب جان لے کہ وہ سچا مسلم نہیں ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بے حد اطاعت ہو اور پوری عبودیت کا نمونہ دکھاوے یہاں تک کہ آخری امانت جان بھی دیدے.اگر بخل کرتا ہے تو پھر سچا مومن اور مسلم کیسے ٹھہر سکتا ہے؟“ حضور فرماتے ہیں: ( ملفوظات جلد سوم، جدید ایڈیشن ، صفحہ 601) ” میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں...یا درکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اُس سے کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے : رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان:75) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے.اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا.اولا داگر نیک اور متقی ہو تو ان کا امام ہی ہو گا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 562-563 جدید ایڈیشن)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 7 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عبادالرحمن بنا ئیں.بچپن سے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کر یں.جب ذرا بات سمجھنے لگ جائیں تو جب بھی کوئی چیز دیں ابھی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تو یہ کہہ کر دیں کہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے دی ہے، اللہ میاں نے دی ہے.شکر کی عادت ڈالیں.پھر آہستہ آہستہ سمجھائیں کہ جو چیز مانگنی ہے اللہ میاں سے مانگو.پھر نمازوں کی عادت بچپن سے ہی ڈالنی ضروری ہے.آج کل بعض محنتی مائیں اپنے بچوں کو پانچ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کروا لیتی ہیں.اکثریت ایسی ماؤں کی ہے کہ سکول تو بچے کو ساڑھے تین چار سال کی عمر میں بھیجنے کی خواہش کرتی ہیں اور بھیج بھی دیتی ہیں اور بچے اس عمر میں فقرے بنا بھی لیتے ہیں اور لکھ بھی لیتے ہیں لیکن نماز اور قرآن سکھانے اور پڑھانے کے متعلق کہو تو کہتے ہیں کہ ابھی چھوٹا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ کس عمر میں آپ بچے کونماز پڑھنے کے لئے کہیں اور سکھائیں.ہشام بن سعد سے روایت ہے کہ حماد بن عبد اللہ بن خبیر جہنی کے گھر گئے.انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ بچہ کب نماز پڑھنی شروع کرے.انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک آدمی نے بتایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ امر دریافت کیا گیا تو حضور نے فرمایا کہ بچہ جب اپنے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنا جان لے تو اسے نماز کا حکم دو.(سنن ابوداؤد كتاب الصلواة باب متى يؤمر الغلام بالصلوة) آج کل تو بچہ چار پانچ سال کی عمر میں تمیز اور فرق کر لیتا ہے.پھر ایک حدیث ہے.حضرت عمر و بن شعیب سے مروی ہے کہ اپنی اولا د کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو.پھر دس سال کی عمر تک انہیں اس پر سختی سے کار بند کرو.نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ.(سنن ابی داؤد کتاب الصلواة باب متى يؤمر الغلام بالصلوة) اب یہاں اس حدیث میں تربیت کا ایک اور اہم نکتہ بھی بتا دیا کہ نماز کی ادائیگی کا حکم دو تو بچے اب ایسی عمر میں پہنچ رہے ہیں جہاں بچپن سے نکل کر آگے جوانی میں قدم رکھنے والے ہیں تو ان کے بستر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 8 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب بھی علیحدہ کر دو.چاہے جو مرضی مجبوری ہو بہر حال بچوں کو اس عمر میں علیحدہ سونا چاہیئے.اب ان کو علیحدہ سلاؤ بہت ساری بیماریوں سے، بہت سی قباحتوں سے بچوں کو محفوظ کرلو گے.ایک حیا، ایک حجاب کا شعوران میں پیدا ہوگا.اور یہ بات پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے.تو نماز کی اہمیت کے بارہ میں ذکر ہورہا ہے کہ کب بچوں کو عادت ڈالنی چاہئے اب اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک اقتباس سناتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ایک خرابی تو یہ ہے کہ اور تو ساری باتیں بچپن میں سکھانے کی خواہش کی جاتی ہے مگر دین کے متعلق کہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہوکر سیکھ لے گا ، ابھی کیا ضرورت ہے.بچے نے ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالی ہوتی اور ڈاکٹر منع کرتا ہے کہ ابھی اسے پڑھنے نہ بھیجو گر ماں باپ اسے سکول بھیج دیتے ہیں.ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ سال جو اس کے ہوش میں آنے کے ہیں اُن میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے.مگر نماز کے لئے جب وہ بلوغت کے قریب پہنچ جاتا ہے ، تب بھی یہی کہتے ہیں ابھی بچہ ہے بڑا ہو کر سیکھ لے گا.اگر یہ کہا جائے کہ بچے کو نماز کے لئے جگاؤ تو کہتے ہیں نہ جگاؤ ، اس کی نیند خراب ہوگی.لیکن اگر صبح امتحان کے لئے انسپکٹر نے آنا ہو تو ساری رات جگائے رکھیں گے.گویا انسپکٹر کے سامنے جانے کا تو اتنا فکر ہوتا ہے مگر یہ فکر نہیں ہوتا کہ خدا کے حضور جانے کے لئے بھی جگا دیں.تو بچے کو بچپن میں ہی دین سکھانا چاہئے.جولوگ بچوں کو بچپن میں دین نہیں سکھاتے تو ان کے بچے بڑے ہو کر بھی دین نہیں سیکھتے.مگر مصیبت یہ ہے کہ دنیا کے کاموں کے لئے جو عمر بلوغت کی سمجھی جاتی ہے، دین کے متعلق نہیں سمجھی جاتی.بچپن میں بچہ اگر چیزیں خراب کرے تو اسے ڈانٹا جاتا ہے لیکن اگر خدا کے دین کو خراب کرے تو کچھ نہیں کہا جاتا.پس جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں گے کہ دین سیکھنے کا زمانہ بچپن ہے.اور جب تک والدین نہ سمجھیں کہ ہمارا اثر بچپن ہی میں بچوں پر پڑسکتا ہے، تب تک بچے دیندار نہیں بن سکیں گے.اور پھر جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی،
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 9 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب بچے دیندار نہیں ہوسکیں گے.کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے ساتھ نہیں ہوتے.بچے زیادہ تر ماؤں کے ہی پاس ہوتے ہیں.اور دیکھا گیا ہے کہ دین دار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کر جاتی ہیں.نماز کا وقت ہو جائے اور بچہ سو رہا ہو تو کہتی ہیں ابھی اور سولے.پس جب تک ماؤں کے ذہن نشین نہ کریں کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کی جاسکتی ہے، اس وقت تک ہرگز کامیابی نہیں ہو سکتی.پس پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کرو اور بچپن میں ہی ان کو دین سکھاؤ تا کہ وہ حقیقی دیندار بنیں.“ الأزهار لذوات الخمار صفحه 127-128) انتہائی بچپن میں نماز کے طریق سکھانے کے بارہ میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں.حضرت ابن عباس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ کے گھر رات گزاری.رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے.میں بھی حضور کے ساتھ حضور کی بائیں جانب کھڑا ہوا.حضور نے مجھے سر سے پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا.(صحیح بخارى كتاب الأذان) اب یہ نہیں کہا کہ کیوں میرے ساتھ کھڑے ہوئے.ساتھ یہ بھی تاکید کر دی کہ اگر دو آدمی ہوں تو امام کے ساتھ دوسرا دائیں طرف کھڑا ہو.پھر ایک اور روایت ہے.ابو یعقوب روایت کرتے ہیں کہ میں نے مصعب بن سعد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے باپ کے پہلو میں نماز پڑھی تو رکوع میں جاتے ہوئے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اپنے رانوں کے درمیان رکھ لیا.اس پر میرے والد نے ایسا کرنے سے منع کیا اور انہوں نے بتایا کہ ہم ایسا کرتے تھے تو ہمیں ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھیں.(صحیح بخارى كتاب الأذان باب وضع الكف على الركب في الركوع) اب یہ بھی انتہائی بچپن میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں سکھانے والی جو بچوں کو سکھانی چاہئیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 10 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب پھر بچوں کی تربیت کے لئے ، ان کی دنیاوی تعلیم ہے جس میں آج کل بہت کوشش کی جاتی ہے اور ہونی بھی چاہئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے ہوں کہ ”میرے ماننے والے علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گئے.اس میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں.لیکن یہاں بھی بعض مائیں یہ ساری باتیں میں وہ بیان کر رہا ہوں جو تجربے میں آتی ہیں، سامنے آتی ہیں ، اکلوتے بچے یا اکلوتے بیٹے کو جو اچھا بھلا ذہین بھی ہوتا ہے شروع میں پڑھائی میں ٹھیک بھی ہوتا ہے بے جالاڈ پیار کی وجہ سے کہ اکیلا بیٹا ہے، اس کے ناز نخرے اٹھائے جائیں، بگاڑ دیتی ہیں.اور وہ پڑھائی اور ہر کام سے بالکل بیزار ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ گھر والوں پر اور معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے.پھر فکر ہوتی ہے ماں باپ کو کہ ایک ہی ہمارا بچہ ہے وہ بھی بگڑ گیا ہے، دعا کریں ٹھیک ہو جائے ، اس کی اصلاح ہو جائے.تو اگر شروع میں اس طرف توجہ ہوتی تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی.بہر حال خدا تعالیٰ ایسے بچوں کی بھی اصلاح کرے، انہیں سیدھے راستے پر چلائے اور ماں باپ کو بھی ان کی طرف سے سکون حاصل ہو.لیکن جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور خاص طور پر آج کل جبکہ ساری دنیا میں ہر ملک کا معاشرہ مادیت میں گھرا ہوا ہے تو بچے کو اپنے گھر کے ماحول میں زیادہ قریب لانے کی کوشش ہونی چاہئے.ماں باپ کا اپنے بچے کے ساتھ سلوک ایسا ہو کہ بچہ ایک ذاتی تعلق سمجھے ماں باپ کے ساتھ اور ماں باپ کو خود بھی ایک ذاتی تعلق ہو بچے کے ساتھ جو دوستی والا تعلق ہوتا ہے.بچہ زیادہ سے زیادہ ان کی تربیت کے زیر اثر رہے.بچوں کو جماعتی نظام سے وابستہ کریں پھر اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسان ہے کہ جماعت کی برکت سے، ایک نظام کی برکت سے ہمیں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کا نظام میتر ہے.تربیتی کلاسیں ہیں ، اجتماع ہیں، جلسے وغیرہ ہوتے ہیں جہاں بچوں کی تربیت کا انتظام بھی ہے.لیکن یہاں بھی وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو بچوں کو اجلاسوں وغیرہ میں بھیجیں اور جن کا نظام کے ساتھ مکمل تعاون ہو اور جو اپنے بچوں کو نظام کے ساتھ ، مسجد کے ساتھ ، مشن کے ساتھ مکمل طور پر جوڑ کے رکھتے ہیں.بعض مائیں اپنے بچوں کو اجلاسوں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 11 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب وغیرہ میں اس لئے نہیں بھیجتیں کہ وہاں جا کر دوسرے بچوں سے غلط باتیں اور بدتمیزیاں سیکھتے ہیں.یہ تو پتہ نہیں کہ وہ بد تمیزیاں یا غلط باتیں سیکھتے ہیں کہ نہیں لیکن تجربے کی بات ہے کہ ایسے بچے بڑے ہو کر دین سے بھی پرے ہٹتے دیکھے گئے ہیں اور پھر وہ ماں باپ کے بھی کسی کام کے نہیں رہتے.اس لئے غلط ماحول سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو جماعتی نظام کے ماحول سے باندھ کر رکھیں.یہ حدیث سامنے رکھیں.مسلم کی حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی نے فرمایا: ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے.پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں.(یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے).جیسے جانور کا بچہ صحیح و سالم پیدا ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے؟ “ ( کیونکہ بعد میں پھر جانور کے بچوں کو عیب دار بناتے ہیں ).(صحیح مسلم كتاب القدر باب معنى كل مولود يولد على الفطرة) حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں: ,, یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان پاکیزہ فطرت لے کر آتا ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ماں باپ کے اثر کے ماتحت بعض بدیوں کے میلان کو بھی لے کر آتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ فطرت اور میلان میں فرق ہے.فطرت تو وہ مادہ ہے جسے ضمیر کہتے ہیں.یہ ہمیشہ پاک ہوتی ہے.کبھی بد نہیں ہوتی.خواہ ڈا کو یا قاتل کے ہاں بھی کوئی بچہ کیوں پیدا نہ ہو، اس کی فطرت صحیح ہوگی مگر یہ کمزوری اس کے اندر رہے گی کہ اگر اس کے والدین کے خیالات گندے تھے تو ان خیالات کا اثر اگر کسی وقت اس پر پڑے تو یہ ان کو جلد قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.جیسا کہ مرضوں کا حال ہے کہ جو بیماریاں پختہ ہوتی ہیں اور جزو بدن ہو جاتی ہیں، ان کا اثر بچوں پر اس رنگ میں آجاتا ہے کہ ان بیماریوں کے بڑھانے والے سامان اگر پیدا ہو جائیں تو وہ اس اثر کو نسبتاً جلدی قبول کر لیتے ہیں.یہ اثر جو ایک بچہ اپنے ماں باپ سے قبول کر لیتا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 12 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب ہے، ان خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے جو ماں باپ کے ذہنوں میں اس وقت جوش مار رہے ہوتے ہیں جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، گو یہ اثر نہایت ہی خفیف ہوتا ہے اور بیرونی اثرات بھی اس کو بالکل مٹادیتے ہیں مگر اسلام نے اس بار یک اثر کو نیک بنانے کا بھی انتظام کیا ہے.اور وہ یہ کہ ماں باپ کو نصیحت کی ہے کہ جس وقت وہ علیحدگی میں آپس میں ملیں تو یہ دعا کر لیا کریں.اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَيْبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ( مشکوۃ مجتبائی صفحہ 214) اے خدا! ہمیں بد وساوس اور گندے ارادوں سے اور ان کے محرک لوگوں.محفوظ رکھ اور جو ہماری اولا د ہو اس کو بھی ان سے محفوظ رکھ.“ دینی تعلیم ابتدا سے ہی ہو:.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: فرمایا: احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوار العلوم جلد 8 ، صفحہ 256) یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے ( یعنی بچپن کا زمانہ بہت مناسب ہے اور موزوں ہے.'' جب ڈاڑھی نکل آئی تب ضَرَبَ يَضْرِبُ یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہوگا.طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے.انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا“ مجھے خوب یاد ہے کہ طفولیت کی بعض باتیں تو اب تک یاد ہیں لیکن پندرہ برس پہلے کی اکثر باتیں یاد نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ کر لیتے ہیں اور قومی کے نشو ونما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دلنشین ہو جاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہو سکتے.غرض یہ ایک طویل امر ہے.مختصر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 13 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب یہ کہ تعلیمی طریق میں اس امر کالحاظ اور خاص توجہ چاہئے کہ دینی تعلیم ابتدا سے ہی ہو.اور میری ابتدا سے یہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے.دیکھو تمہاری ہمسایہ قوموں یعنی آریوں نے کس قدر حیثیت تعلیم کے لئے بنائی.کئی لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر لیا.کالج کی عالیشان عمارت اور سامان بھی پیدا کیا.اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں گے تو میری بات سن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے“.بچوں کو نیک ماحول دیں:.( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن، صفحہ 44-45) تو جیسے کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ بچوں کا علاوہ دنیاوی تعلیم کے مسجد کے ساتھ ، نظام کے ساتھ بھی تعلق پیدا کریں تا کہ ان کو اچھا ماحول میسر ہو.ایسا ماحول جو خدا اور خدا کے رسول علی کی محبت دلوں میں پیدا کرنے والا ماحول ہو.اعلیٰ اخلاق مہیا کرنے والا ماحول ہو.اب آپ یہ تو تجربہ کر چکے ہیں جو یہاں انگلستان میں رہنے والے ہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد جو بچے مسجد میں آنا شروع ہوئے ، نظام سے، حضور کی صحبت سے فائدہ اٹھایا، ان کی کایا پلٹ گئی.اور دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے وہ کامیاب ہوئے.اور تمام والدین کو اس کا تجربہ ہے اور برملا اس کا اظہار کرتے ہیں.تو جو بچے باہر کے ماحول میں جائیں، آپ کے علم میں ہو کہ کہاں گئے ہیں.کھیل کی گراؤنڈ میں گئے ہیں تو اس کے بعد سید ھے گھر واپس آئیں.سکول گئے ہیں تو مغرب کے ماحول کا ان پر اثر تو نہیں ہو رہا.اب تو خیر مشرق کا بھی یہی حال ہے مغرب والا.بہر حال جوں جوں یہ نام نہاد نئی روشنی آرہی ہے ماں باپ کے لئے زیادہ لمحہ فکریہ ہے.بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.حضرت مصلح موعود احمدی ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں احمدی ماؤں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 14 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب رہیں.ان کے سامنے ہر گز کوئی ایسی بات چیت نہ کریں جس سے کسی بدخلق کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو.بچہ اگر نادانی سے کوئی بات خلاف مذہب اسلام کہتا ہے یا کرتا ہے، اسے فوراً روکا جائے.اور ہر وقت اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے قلب میں جاگزیں ہو.اپنے بچوں کو کبھی آوارہ نہ پھرنے دو.ان کو آزاد نہ ہونے دو کہ حدود اللہ کو توڑنے لگیں.ان کے کاموں کو انضباط کے اندر رکھو اور ہر وقت نگرانی رکھو.اپنے ننھے بچوں کو اپنی نوکرانیوں کے سپر دکر کے بالکل بے پروا نہ ہو جاؤ“.اب بعض دفعہ بعض ملکوں میں گھروں میں مسلمان کام کرنے والے نہیں ہوتے ، ان کے سپرد کر دیتے ہیں لڑکیوں کو جو بگاڑ پیدا کر رہے ہوتے ہیں، یا ایسے ملازمین ہوتے ہیں جن کو دین کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا.تو فرمایا کہ ملازموں کے سپر د کر کے بالکل بے پرواہ نہ ہو جاؤ.کہ بہت سی خرابیاں صرف اسی ابتدائی غفلت سے پیدا ہوتی ہیں.ماں اپنے بچے کو باہر بھیج کر خوش ہوتی ہے کہ مجھے کچھ فرصت مل گئی ہے لیکن اسے کیا معلوم ہے کہ میرا بچہ کن کن صحبتوں میں گیا اور مختلف نظاروں سے اس نے اپنے اندر کیا کیا بُرے نقش لئے جو اس کی آئندہ زندگی کے لئے نہایت ضرررساں ہو سکتے ہیں.پس احتیاط کرو کہ اس وقت کی تھوڑی سی احتیاط بہت سے آنے والے خطروں سے بچانے والی ہے.خود نیک بنو اور خدا پرست بنو کہ تمہارے بچے بھی بڑے ہوکر نیک اور خدا پرست ہوں.“ ( الازهار لذوات الخمار صفحه 2) پھر بچوں کی تربیت کا ایک اہم پہلو جیسا کہ کہا گیا ہے ان کے ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اس بارہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ بچوں کو گھر میں ایسا ماحول دیں کہ وہ زیادہ تر ماں باپ کی صحبت میں وقت گزاریں.لیکن بہر حال بچوں نے سکول بھی جانا ہے، کھیلنا بھی ہے، دوستوں میں بھی اٹھنا بیٹھنا ہے.تو دوست اور ماحول بھی بچے کے کردار پر بہت زیادہ اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں.اب یہ واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے.اکثر ہمارے لٹریچر میں ہے، آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ایک کالج کے لڑکے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 15 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب نے حضرت خلیفتہ امسیح الا ول رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے خیالات میں دہریت کا اثر پیدا ہوتا جا رہا ہے تو حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ وہ اپنے کالج میں جس جگہ بیٹھتا ہے، جس سیٹ پر، وہ جگہ بدل لے.تو جگہ بدلنے سے خیالات میں بھی تبدیلی آگئی.بعد میں پتہ چلا کہ جس لڑکے کے ساتھ اس کی سیٹ تھی کالج میں ، وہ دہر یہ خیالات کا لڑکا تھا.اور بغیر بات چیت کے بھی اس کے دہر یہ خیالات کا اثر اس مسلمان لڑکے پر ہو رہا تھا.تو ماحول جو اثر ظاہر ڈال رہا ہوتا ہے وہ خاموشی سے ذہن پر بھی اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے.ایک حدیث ہے، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے زیر اثر ہوتا ہے.پس تم میں سے ہر ایک خیال رکھے کہ کسے دوست بنا رہا ہے.(جامع ترمذی ابواب الزهد باب ما جاء في أخذ المال بحقه) بچوں سے بے جالاڈ پیار سے احتراز کریں:.پھر ایک ضروری بات یہ ہے جو بچوں کی تربیت میں مد نظر رہنی چاہئے ، خاص طور پر لڑکوں کی تربیت میں.اکثر والدین لڑکوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں.بعض تو لباس اور کھانے پینے وغیرہ میں بھی لڑکوں کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں اور لڑکے لڑکی کے درمیان امتیازی سلوک ہو رہا ہوتا ہے.لڑکا اگر اپنی بہن پر ہاتھ اٹھاتا ہے اس صورت میں یا تو اس کو کچھ نہیں کہا جاتا، کوئی بات نہیں لڑلیا، پرواہ نہ کی.اگر بہن نے لڑکے کو مارا تو اس کو سزامل جاتی ہے.یا پھر ایسے والدین اگر بچے کو روکتے بھی ہیں تو اس طریق پر روکتے ہیں کہ کہنا، نہ کہنا یا روکنا نہ روکنا برابر ہوتا ہے.پھر ایسے لڑکے لاڈ پیار میں بگڑتے چلے جاتے ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے لڑکے پھر نکھٹو، نکمے بن کر بیٹھے رہتے ہیں یا باہر پھر آئے.پانی کا گلاس بھی اگر پینا ہے تو دوفٹ چل کر پی نہیں سکتے.بہن سے کہیں گے ، ماں سے کہیں گے کہ پانی پلا دو.اور ماں باپ آرام سے بیٹھے دیکھ رہے ہوتے ہیں، کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہوتا.اور یہ کوئی چھوٹی برائی نہیں ہے، بڑے ہو کر اس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں.ایسا بچہ ماں باپ کے لئے دردسر
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 16 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب بن جاتا ہے.ان کو فکر ہوتی ہے کہ ہمارے بعد اس کا کیا ہوگا.اگر صاحب جائیداد والدین ہیں تو پھر یہ فکر کہ ہمارے بعد یہ ساری جائیداد اڑادے گا.معاشرے پر بھی بوجھ ہے، نظام کے لئے بھی ہر وقت مشکل کھڑی کرنے والا ہوتا ہے.اور پھر کیونکہ بچپن سے ہی بہنوں کو دبا کر رکھنے اور ان کے حقوق کا خیال نہ رکھنے کی عادت ہوتی ہے تو پھر بہنوں کے جائیداد کے حصے بھی کھا جاتے ہیں.اور پھر علاوہ معاشی تنگی کے بعض لڑکیاں سسرال سے اور خاوندوں سے کچھ نہ لانے کے طعنے سنتی ہیں.تو یہ ایک ایسا خوفناک شیطانی چکر ہے جو ماں باپ کی ذراسی غلطی سے دُور تک بدنتائج کا حامل ہوتا ہے.اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ مائیں ہی ایسے لاٹر پیار کر کے بچوں کو بگاڑ رہی ہوتی ہیں اور الا ماشاء اللہ باپ بھی شامل ہو جاتے ہیں.حضرت خلیفہ ایسی اول کی ایک بہت ہی پیارے انداز میں نصیحت ہے.آپ فرماتے ہیں: اولاد کے لئے ایسی تربیت کی کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت، اتحاد، جرأت، شجاعت، خودداری، شریفانه آزادی پیدا ہو.ایک طرف انسان بناؤ، دوسری طرف مسلمان“.بچوں سے عزت سے پیش آئیں:.( خطبات نور صفحہ 75) ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.(سنن ابن ماجه أبواب الأدب باب بر الوالد) حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے فرمایا تھا کہ جو اپنے بچوں کے ساتھ شروع سے ہی عزت سے پیش آتے ہیں ان کے بچے بھی بڑے ہو کر ان کی عزت کرتے ہیں اور باہر دوسروں کی بھی عزت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے نسلاً بعد نسل چلتا رہتا ہے.اس لئے بچوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر بے وجہ جھڑ کنا نہیں چاہئے.اور جہاں تک ممکن ہو ان سے عزت کا سلوک کیا کرو.لیکن اس کے بھی غلط معنے لے لئے جاتے ہیں.عزت سے پیش آنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں جو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 17 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب بعض لوگ غلط طور پر سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ کچھ نہیں کہنا.تو جہاں عزت سے پیش آؤ کا ارشاد ہے وہاں اچھی تربیت کا ارشاد بھی ساتھ ہی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات میں سختی نہ کر ولیکن غلط کام پر بچوں کو سمجھاؤ بھی کیونکہ یہ تربیت کا حصہ ہے.اگر کسی بات پر لوگوں کے سامنے ڈانٹنا بچے کی نفسیات پر بُرا اثر ڈالتا ہے تو وہاں اس کو پیار سے سمجھا دینا، کسی غلط کام سے روکنا اس کی اصلاح کا باعث بنتا ہے.تو بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کی طرف مائیں نظر ہی نہیں کرتیں ، توجہ ہی نہیں دیتیں اور یوں نظر انداز کر دیتی ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو.مثلاً کسی کے گھر گئے ہیں، بچہ چیزیں چھیٹر رہا ہے یا چاکلیٹ یا اور کوئی کھانے کی چیز کھا کر پر دوں یا صوفوں پر مل رہا ہے، کرسیوں سے ہاتھ پونچھ رہا ہے.ایسی صورت میں گھر والے دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے ہوتے ہیں کہ ماں کسی طرح اپنے بچے کو اس حرکت سے روکے.لیکن ماں اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہی ، دیکھنے کی روادار ہی نہیں ہوتی ، یا دیکھ کر نظریں پھیر لیتی ہے کہ اس وقت اگر میں نے اس کو کچھ کہا تو بچے کی عزت نفس کچلی جائے گی اور شرمندہ ہوگا.یہ طریق بالکل غلط ہے.پھر بعض دفعہ یوں ہوتا ہے کہ بچے نے کوئی شرارت کی ، بلاوجہ کسی دوسرے بچے کو مارا، یا کسی کی کوئی چیز تو ڑ دی تو ماں باپ بچے کو کہہ تو رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیوں کیا لیکن ان کے چہرے پر جو تاثرات ہوتے ہیں اور ماں باپ کے ہونٹوں پر جو دبی دبی مسکراہٹ ہوتی ہے وہ بتا رہی ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں.یہ یاد رکھیں بچہ بڑا ہوشیار ہوتا ہے، وہ سب تأثرات دیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے ماں باپ کی ہر ادا سے واقف ہوتا ہے.تو اس طرح اس کی تربیت ہونے کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے.ٹھیک ہے ایسی باتوں پر مار دھاڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن چہرے پر ذرا سنجیدگی سی پیدا کر لینی چاہئے تا کہ بچے کو یہ احساس ہو کہ میں نے غلط کام کیا ہے.پھر دین کے معاملے میں بچپن سے ہی بچے کے دل میں اس کی اہمیت اور پیار اور عزت پیدا کریں.بعض دفعہ بچے ضد میں آکر بڑی نا گوار بات کر جاتے ہیں.جہاں بہر حال بچے کو سمجھانے کے لئے ماں باپ کو خشتی بھی کرنی پڑتی ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں ہر وقت یہ نصیحت فرما رہے ہیں کہ بچے سے نرمی کا سلوک کرو وہاں یہ مثال بھی ہے.حضرت اماں جان کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ قرآن شریف رحل پر رکھ کر پڑھ رہی تھیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 18 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب میاں مبارک صاحب، جو چھوٹے بچے تھے، ان سے کسی کام کے لئے کہہ رہے تھے اور ضد کر کے ہاتھ سے رحل کو دھکا دیا کہ پہلے میرا کام کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بے ادبی دیکھی تو انہیں تھپڑ دے مارا.اب یہاں دین کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے بچے کو عادتا مارا تو آپ نے اسے بلا کر بڑے درد سے فرمایا: ”میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے.گویا بدمزاج مار نے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا تحمل اور بردباراور با سکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچے کو سزا دے یا چشم نمائی کرے جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب ٹھہرا لیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن، صفحہ 308-309) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے.سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اورٹو کنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اُس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے.یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے.اس سے ہماری جماعت کو پر ہیز کرنا چاہئے.ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں.بس اس سے زیادہ نہیں.اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں.جیسا کسی میں سعادت کا ختم ہو گا وقت پر سرسبز ہو ( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ،صفحہ 309) جائے گا“.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل اخلاقی تعلیم و تربیت کا طریق:.19 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب اعلیٰ اخلاق کس طرح سکھائے جائیں اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک بڑی دلچسپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” بعض لوگ بچوں کو چڑانے کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ ماروں؟.میں نے دیکھا ہے کہ ایک دو دفعہ کے بعد بچہ وہی شکل بنا کر اسی طرح ہاتھ اٹھا کر کہنے لگ جاتا ہے: ماروں؟.اسی طرح بعض احمق اپنے بچوں کو گالیاں دیتے ہیں، اسی طرح بچے آگے سے گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.بعض عورتیں اپنے بچوں سے ہمیشہ منہ بنا کر اور تیوری چڑھا کر بات کرتی ہیں تو ان کے بچے بھی ہمیشہ منہ پھلا کر بات کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں.اس کے برخلاف جو عورتیں ہنس مکھ ہوں، بچوں سے نیک سلوک کی عادی ہوں ، ان کی اولا د بھی ویسی ہی ہنس مکھ ہوتی ہے.ماؤں کو چاہئے کہ وہ بچوں سے ایسا سلوک کریں جس کو نقل کرنے پر وہ ساری عمر ذلیل و خوار نہ ہوں اور ہمیشہ کے لئے ان کے اخلاق درست ہو جائیں.تو بچوں کو خوش اخلاق بنانا چاہئے ، خوش مزاج بنانا چاہئے.پھر اچھے اخلاق میں تحمل مزاجی بھی ہے، تو بچپن سے ہی ماں باپ کو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کو اگر نہ کیا جائے تو بچوں کو رونے کی اور ہر وقت بلا وجہ ریں ریں کرنے کی جو عادت پڑ جاتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے.مثلاً بچے کے دودھ یا کھانے کا وقت ہے، ماں کام کر رہی ہے، بچہ دودھ یا کھانا مانگتا ہے ماں کہتی ہے ٹھہرو میں یہ کام ختم کرلوں تمہیں دیتی ہوں.اب بچہ شاید دومنٹ تو صبر کر لے پھر وہ رونا شروع ہو جائے گا.بعض دفعہ اتنی چیخم دہاڑ ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ آفت آگئی ہے.تو پھر جب دو تین دفعہ اس طرح ہو تو بچہ سمجھ جاتا ہے کہ اب میں نے جو چیز بھی مانگنی ہے، جو کام بھی کرنا ہے اور جو کام کروانا ہے بغیر روئے کے نہیں ہو سکتا.اس طرح بچے کے اخلاق پر آہستہ آہستہ اثر ہو رہا ہوتا ہے اور وہ غیر محسوس طریقہ سے غصہ اور ضد کے اثر میں پروان چڑھ رہا ہوتا ہے.پھر بعض ماں باپ کسی بچے کو زیادہ لاڈ کر رہے ہوتے ہیں اور بعض کو کم.اور یہ فرق بعض دفعہ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اردگرد کے ماحول کو بھی پتہ چل رہا ہوتا ہے.اس سے بھی بچے میں ضد اور اپنے بھائی یا بہن کے خلاف اندر ہی اندر ایک اُبال پیدا ہوتا رہتا ہے جو بعض اوقات بڑے ہو کر نفرت پر منتج
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 20 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب ہو جاتا ہے.اگر یہ احساس کمتری لڑکی میں پیدا ہو جائے تو پھر سرال میں جا کر اپنی زندگی اجیرن کرنے کے علاوہ بچوں کی تربیت پر بھی بعض اوقات اثر انداز ہوتا ہے.آگے اس سے نسل چلنی ہے.یہ احساس کمتری اس کی اولاد پر بھی اثر انداز ہوگا.اور یہ یادرکھیں کہ احمدی ماں کا بچہ صرف اس کا بچہ نہیں بلکہ جماعت کا بچہ ہے اور صرف جماعت کا بچہ ہی نہیں بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا بچہ بھی ہے.جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو، اعلیٰ اخلاق کو دنیا کے سامنے پیش کر کے ان کے دل جیتنے ہیں ، ان کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.پس ذراسی غلطی سے نسل کو بر باد نہ کریں.ایک حدیث ہے.حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے غلام ہبہ کیا اور چاہا کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہو.انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خواہش کا اظہار کیا.آپ نے فرمایا: کیا تمہارا کوئی اور بھی بیٹا ہے؟.انہوں نے کہا : ہاں.فرمایا : کیا تو نے اسے بھی غلام ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے ظالمانہ عطیہ پر گواہ نہ بنوں گا.(سنن ابو داؤد کتاب البیوع) پھر ایک اور چھوٹی سی عادت ہے.کھانے کے آداب ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ بچے کھانا کھاتے ہوئے اتنا گند کر رہے ہوتے ہیں کہ جہاں وہ مہمان جائیں وہاں فرنیچر اور پر دوں وغیرہ کا ایسا حال ہورہا ہوتا ہے کہ گھر والا کا نوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے کہ میری تو بہ جو آئندہ اس خاندان کو اپنے گھر دعوت پر بلاؤں، بلکہ شاید باقی دعوتوں سے بھی تو بہ کر لے.اور پھر اگر گھر والے کے اپنے بچے سلجھے ہوئے ہوں تو دوسرے بچوں کو دیکھ کر وہ بھی دھما چوکڑی شروع کر دیتے ہیں ، اس میں شامل ہو جاتے ہیں جو میزبان کی تلملاہٹ کا اور بھی زیادہ باعث بن جاتا ہے.تو یہ کوئی چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے متعلق کہا جائے کہ کوئی بات نہیں، بڑے ہو کر خود ہی آداب آجائیں گے.بڑے ہو کر یہ آداب نہیں آیا کرتے.میں نے تو ایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ بڑے ہو کر کھانے کی عادتیں ایسی پختہ ہو جاتی ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.تو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 21 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چھوٹی بات نہیں سمجھا اور ہمیں اپنے عمل سے یہ آداب سکھائے ہیں.حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے.مسلم.كتاب الأشربة باب آداب الطعام والشراب) پھر حضرت عمرو بن ابی سلمہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے، بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہتا تھا، کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ تھالی میں پھر تی سے ادھر ادھر گھومتا تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس حرکت کود یکھ کر فرمایا: ”اے بچے! کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.اس وقت سے لے کر میں ہمیشہ حضور ﷺ کی اس نصیحت کے مطابق کھانا کھاتا ہوں.“ (صحیح بخاری كتاب الأطعمه باب التسمية على الطعام والأكل باليمين) حضرت عکراش بیان کرتے ہیں کہ بنو مُرہ نے اپنے اموال صدقہ دے کر مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا.جب میں مدینہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت حضور مہاجرین اور انصار کے درمیان رونق افروز تھے.حضور نے میرا ہاتھ پکڑا اور ام سلمہ کے گھر لے گئے اور ان سے دریافت کیا: کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے شرید کا پیالہ پیش کیا جس میں ثرید اور بوٹیاں کافی تھیں.ہم اس میں سے کھانے لگے.میں کبھی ادھر سے اور کبھی ادھر سے کھا تا اور حضور اپنے سامنے سے کھا رہے تھے.حضور نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے عکراش! کھانا ایک جگہ سے کھاؤ، تمام کھانا ایک ہی طرح کا ہے.پھر ہمارے سامنے ایک طشت لایا گیا جس میں مختلف قسم کے کھجور یا ڈو کے تھے.میں تو سامنے سے کھانے لگا اور حضور اپنی پسند کے مطابق کبھی ادھر سے اور کبھی اُدھر سے چن چن کر کھاتے اور فرمایا: اے عکراش! اپنی پسند کی پچن چن کر کھاؤ کہ مختلف اقسام کی ہیں.پھر پانی لایا گیا.حضور نے اپنا ہاتھ دھویا اور اپنا گیلا ہاتھ اپنے چہرے، سر اور بازوؤں پر پھیرا اور فرمایا: اے عکراش! یہ آگ پر پکی ہوئی چیز کا وضو ہے یعنی کھانے کے بعد ہاتھ صاف کر لئے جائیں.(ترمذی ابواب الأطعمة.باب ما جاء في التسمية على الطعام)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 22 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب اب دیکھیں یہاں صرف کھانے کے آداب ہی نہیں سکھائے بلکہ یہ بھی سکھایا ہے کہ کھانا کھا کر ہاتھ دھولیا کرو.خاص طور پر سالن وغیرہ قسم کا کھانا یا ایسا کھانا جس سے تمہارے ہاتھوں میں چکنائی، چچپاہٹ یا بو آ جائے.بعض لوگ جو ہاتھ نہیں دھوتے ان کے ہاتھوں سے ایسی بو آ رہی ہوتی ہے کہ کھانا خواہ وہ خوشبو دار ہی کہلائے اور کھانا کھاتے ہوئے چاہے وہ خوشبو اچھی لگ رہی ہو لیکن ان کے ہاتھوں سے اٹھتی ہوئی بہر حال اچھی نہیں لگ رہی ہوتی.تو یہ ہیں وہ آداب جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے ہیں.اور یہ بچے کا حق ہے ماں باپ پر کہ وہ یہ تمام باتیں اپنے ماں باپ سے سیکھے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علیؓ کے بیٹے حسن نے صدقہ کی ایک کھجور منہ میں ڈال لی تو حضور نے فرمایا کہ: چھی چھی تم جانتے نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے.(صحیح بخارى كتاب الجهاد باب من تكلم بالفارسة والرطانة).اب اس کا عام طور پر یہ مطلب لیا جاتا ہے اور وہ ٹھیک ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اور میری اولاد پر صدقہ حرام ہے.اور برصغیر میں ظاہر اسید اس کی بڑی پابندی کرتے ہیں.لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک اور تشریح بھی فرمائی ہے.فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا کام خود کام کر کے کھانا ہے نہ کہ دوسروں کے لئے بوجھ بننا.اب دیکھیں بچپن سے ہی کتنے سبق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے کو دے دئے.اگر بچپن سے ہی یہ سوچ مائیں اپنے بچوں میں پیدا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ احمدی معاشرے میں کچھ عرصہ بعد کوئی بھی ہاتھ مانگ کر کھانے والا نہیں ہوگا بلکہ کچھ کر کے کھانے والا اور کھلانے والا بن جائے گا.بچوں سے شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے شفقت اور کس طرح آپ سبق دیتے تھے، نصیحت کرتے تھے، اس بارہ میں ایک حدیث ہے کہ خالد بن سعید کی بیٹی اُتم خالد روایت کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے باپ کے ساتھ زردرنگ کی قمیص پہنے ہوئے گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 23 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب نے فرمایا کہ سَنَة سَنَنواہ واہ کیا کہنے.(سَنَة حبشی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی کسی کے ہیں ) یعنی یہ کپڑے تمہیں بہت اچھے لگ رہے ہیں.راو یہ کہتی ہیں میں آگے بڑھی اور خاتم نبوت سے کھیلنے لگی.اس پر میرے والد نے مجھے ڈانٹا.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھیلنے دو.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا ان کپڑوں کو خوب پہن کر پرانے کر کے پھاڑنا.(صحیح بخارى كتاب الأدب، باب من ترك صبية غيره حتى تعلب به أوقبلها أومازحها) اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بچے بلکہ ایسی چھوٹی عمر کے بچے جن کو ابھی بولنا بھی نہیں آتا جب کوئی نئے کپڑے پہنتے ہیں تو جن سے بے تکلف ہوں ضرور ان کو اشارے سے دکھاتے ہیں.اور اگر بڑا خود دیکھ کر بچے کے کپڑوں کی تعریف کرے، اس کی چیز کی تعریف کر دے تو بچے خوشی سے پھولے نہیں سماتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سرا پا شفقت تھے، ہر ایک کے جذبات کا خیال رکھنے والے تھے، دنیا میں سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے تھے، جب آپ کے سامنے بچی جاتی ہے تو کمال شفقت سے اس کے کپڑوں کی تعریف کرتے ہیں تا کہ بچہ خوش ہو جائے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب آپ بچے کی تعریف کریں، اس سے محبت و شفقت کا سلوک کریں تو بچہ بے تکلف ہو کر کھیلتا ہے اور مختلف حرکات کرتا ہے اور راویہ کہتی ہیں کہ میں نے بھی بے تکلفی کا مظاہرہ کیا تو میرا باپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھتا تھا اس کو بُر الگا.باپ نے ڈانٹا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ادب سے رہو اور یہ وہ مقام نہیں ہے جہاں تم بے تکلف ہو کر کھیلنے کی کوشش کر و.لیکن سراپا شفقت و محبت نے کمال شفقت سے فرمایا : نہیں کھیلنے دو.اور پھر اس کھیل ہی کھیل میں یہ نصیحت بھی فرما دی کہ اپنے ماں باپ سے روز روز نئے کپڑوں کا مطالبہ نہ کرنا.بلکہ ان کو خوب پہنو اور پرانے کرو.پیار ہی پیار میں یہ نصیحت بھی فرما دی کہ دنیاوی چیزوں کے بارہ میں حرص کو اپنے قریب نہ آنے دینا.تو یہ ہے وہ اُسوہ جو ہر ماں باپ کو اپنے بچوں کی تربیت میں اپنانا چاہئے.اپنا دوست بھی بناؤ ، اپنے قریب بھی کرو، اس قربت میں پیار سے بچوں کو نصیحت بھی کرو.یہ نہیں کہ ذرا بچے نے ضد کی تو نئے کپڑے لینے بازار دوڑے گئے یا کسی چیز کا مطالبہ کیا تو فورا پورا کرنے کی کوشش کی.اپنے پر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 24 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب بوجھ لا دلیا.مقروض ہو گئے کہ بچوں کے جذبات ہیں ان کا خیال رکھنا ہے.بچوں کی تو بچپن سے جس رنگ میں تربیت کریں گے ان کو ویسی ہی عادت پڑ جائے گی.اسی طرح پیار سے نصیحت کرنے کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں ایک نصیحت کی تھی.فرماتے ہیں کہ بچپن میں میں ایک طوطا شکار کر کے لایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے دیکھ کر فرمایا مجمود اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا.بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں.بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذت حاصل کریں.حضرت اماں جان کا انداز تربیت تاریخ احمدیت جلد چہارم ، جدید ایڈیشن ،صفحہ 15) حضرت اُم المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اپنے بچوں کی کس طرح تربیت کیا کرتی تھیں.اس بارہ میں ان کی بیٹی سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ اصولی تربیت میں میں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا.آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی بحجر معمولی اردو خواندگی کے.مگر آپ کے جو اصول اخلاق و تربیت ہیں ان کو دیکھ کر میں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیح کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا.فرماتی ہیں کہ بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بہت بڑا اصول تربیت ہے.پھر جھوٹ سے نفرت اور غیرت وغناء آپ کا اول سبق ہوتا تھا.ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچے کو عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے.پھر بے شک بچوں کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں.جس وقت بھی روکا جائے گا باز آ جائے گا اور اصلاح ہو جائے گی.فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے.یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 25 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب ہیں.حضرت ام المومنین ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچا تا بلکہ زیادہ منتظر کرتا تھا.کہتی ہیں کہ مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں.پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے.یعنی ماں کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ بے تکلفی تھی.فرماتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کرنے کی وجہ سے آپ کی محبت میرے دل میں اور بھی بڑھ جایا کرتی تھی.بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ ، دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے.تو یہ کیسے زریں اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے واقعی بچوں کی کایا پلٹ سکتی ہے.چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار اوکاڑہ 1909ء میں دہلی میں سیکنڈ کلرک تھے اور حضرت میر قاسم علی صاحب مرحوم بھی نائب ناظر تھے اور یہ دونوں صاحب دریا گنج کے مکان میں اکٹھے رہا کرتے تھے.یہیں خاندان مسیح موعود علیہ السلام ان ایام میں قیام پذیر ہوا تو حضرت میر صاحب کی زبانی یہ امر معلوم ہوا کہ حضرت ام المومنین اپنے بچوں، بہو، بیٹیوں کی عبادات کے متعلق پوری توجہ سے نگرانی فرما تیں اور نماز تہجد کا خاص اہتمام فرماتی ہیں اور ہمیشہ خاندان کے افراد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید فرماتی رہتی تھیں.(سیرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 393-396) تو اب یہ پوری جماعت جو ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ہی ہے.ہر ماں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کرے.پس اے احمدی ماؤں، وہ خوش نصیب ماؤں ! جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم - لبیک کہتے ہوئے اس زمانے کے امام کو پہچانا ، اس کی اطاعت کا جو آ اپنی گردنوں پر رکھا، دنیا کی مخالفت مول لی اور یہ عہد کیا کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اپنا اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہیں ہم اس عہد سے دُور تو نہیں جا رہے.ہمارا دین کو دنیا پر مقدم رکھنا صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہو کر تو نہیں رہ گیا.کیا ہم اس کو آگے بھی بڑھا رہے ہیں، کیا ہم نے اس عہد کو آگے اپنی نسلوں میں منتقل کر دیا ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 26 جلسہ سالانہ برطانیہ 2003 مستورات سے خطاب کیا ہماری گودوں میں پلنے والے عباد الرحمن اور صالحین کے گروہ میں شامل ہونے والے کہلانے کے حقدار ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے جو امانت ہمارے سپرد کی تھی ، وہ امانت جو اللہ تعالیٰ نے ہماری کوکھوں سے اس لئے جنم دلوائی تھی کہ ہم انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر سکیں ، ان کی تربیت کی ہے.کیا ہم اور ہمارے بچے خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں؟ اگر ہاں میں جواب ہے تو مبارک ہو.اگر نہیں تو یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنی بھی اصلاح کرنی ہوگی.جہاں ضرورت ہو وہاں اپنے خاوندوں کو بھی دین کی طرف مائل کرنے کے لئے کوشش کرنی ہوگی.اپنے گھروں کے ماحول کو بھی ایسا پاکیزہ بنانا ہوگا جہاں میاں بیوی کا ماحول ایک نیک اور پاکیزہ ماحول کو جنم دے.اور یوں ہر احمدی گھرانہ ایک نیک اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے والا بن جائے جس سے جو بچہ پیدا ہو، جو بچہ پروان چڑھے، وہ صالحین میں سے ہو.پس اپنی قدر و منزلت پہچانیں.کوئی احمدی عورت معاشرہ کی عام عورت کی طرح نہیں ہے.آپ تو وہ مائیں ہیں جن کے بارہ میں خدا کے رسول نے یہ بشارت دی ہے کہ جنت تمہارے پاؤں کے نیچے ہے.اور کون ماں چاہتی ہے کہ اس کی اولا د دنیا و آخرت کی جنتوں کی وارث نہ بنے.پس ایک نئے عزم کے ساتھ ہمت اور دعا سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں.آپ تو خوش قسمت ہیں کہ خدا کے مقدس رسول اور مسیح پاک علیہ السلام کی دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں.اے اللہ تو ہماری مدد کر اور ہماری نسلوں کو بھی اسلام پر قائم رکھ.اللہ کرے کہ آپ سب اپنی اولادوں کی صحیح تربیت کرنے والی اور ان کے حقوق ادا کرنے والی ہوں.اب دعا کر لیں.ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن ، 29 راگست تا 4 ستمبر 2003 )
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 27 جلسہ سالانہ جرمنی 2003ء کے موقع پر لجنہ اماءاللہ سے خطاب (فرمودہ 23 /اگست 2003) عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے اور اس سے عظیم تو قعات وابستہ کی ہیں اسلام عورتوں کی عزت ، احترام اور تکریم پیدا کرنا چاہتا ہے اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلمہ کے طور پر پیش کیا ہے اسلام معاشرہ کو پاک اور جنت نظیر بنانا چاہتا ہے ہر عورت کو اپنے گھر کی طرف توجہ دینی چاہئے اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت میں آزادی کا احساس پیدا کر دیا صدقہ کرنے اور کثرت استغفار کے فوائد عورتوں کی بیوت الذکر میں نمود و نمائش کر کے آنے کی ممانعت عاجزی کا نمونہ دکھائیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 28 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب احمدی مسلم خواتین کو زریں نصائح (النساء:2) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیت کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے: اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو تمہیں اللہ نے نفس واحدہ سے پیدا فرمایا ہے.اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا.اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو.اور رحموں کے تقاضوں کا بھی خیال رکھا کرو.یقیناً اللہ تم پر نگران ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مختصر تفسیر یہ فرمائی ہے کہ: د نفس واحدہ کے بہت سے مفاہیم ہیں.ایک ان میں سے یہ ہے کہ ہم نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا یعنی تمہاری عزت مرد اور عورت کے لحاظ سے برابر ہے.تمہارے حقوق مرد اور عورت کے لحاظ سے برابر ہیں.تم نفس واحدہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 29 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب کی پیداوار ہو.اور تمہیں ایک دوسرے پر برتری حاصل نہیں.نفس واحدہ سے پیدا ہونے کا ایک دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز ایک ایسے جاندار سے ہوا ہے جو اپنی ذات میں نہ نر تھا نہ مادہ.افزائشِ نسل کے لئے زندگی کی ایک ہی ابتدائی قسم استعمال ہوتی تھی جسے نفس واحدہ فرمایا گیا ہے.یعنی وہ قسم نہ تھی نہ مادہ.پس اس پہلو سے نہ نر کو مادہ پر کوئی فوقیت حاصل ہے اور نہ مادہ کو نر ( خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان 26 جولائی 1986ء) اسلام کی خوب صورت تعلیم پر مغرب میں جہاں اور بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے کہ عورت کو اس کا صحیح مقام نہیں دیا جاتا.یہ ایک انتہائی جھوٹا اور گھناؤنا الزام ہے جو عورت کے دل سے اسلام کی حسین تعلیم کو نکالنے کے لئے دجالی قوتوں نے لگایا ہے.حالانکہ مغرب جو آج عورت کی آزادی کا دعویدار ہے خود یہاں بھی ماضی میں چند دہائیاں پہلے تک عورت کو بہت سے حقوق سے محروم کیا جاتا تھا.تفصیلات میں اگر جاؤں تو سارا وقت انہی تفصیلات پر ختم ہو سکتا ہے کہ عورت پر یورپ میں، مغرب میں کیا کیا پابندیاں لگائی جاتی تھیں.مختصر امثال دیتا ہوں کہ عورتوں سے مردوں کی نسبت زیادہ کام لیا جاتا تھا.عورتوں کو مرد کی جائیداد سمجھا جاتا تھا.عورت کو گواہی کا حق حاصل نہیں تھا.اور 1891 ء تک، تقریباً سو سال پہلے تک، بہت سے مغربی ممالک میں عورت کو مرد کی طرف سے وراثت میں جائیداد ملنے کا جو حق ہے اس سے محروم رکھا گیا تھا.ووٹ کا بھی حق نہیں تھا.بعض ملکوں میں طلاق کی صورت میں عورت بچوں کے حق سے بھی محروم کر دی جاتی تھی.بیسویں صدی میں بھی بہت سے ایسے حقوق تھے جن سے عورتیں صرف اس لئے محروم تھیں کہ وہ عورت ہے.تو ان لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اسلام پر اعتراض کریں کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں ہیں.پس کوئی عورت، کوئی بچی مغرب کے اس دجل سے متاثر نہ ہو.اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اگر پہلے مغرب میں عورت کے حقوق نہیں تھے تو اب تو ہم نے قائم کر دئے ہیں.تو یہ غلط کہتے ہیں.یہ اب انہوں نے قائم نہیں کئے بلکہ یہ عورت نے خود لڑ بھڑ کر شور مچا کر ایک رد عمل کے طور پر لئے ہیں.اگر آپ ان لوگوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھیں تو ان
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 30 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب حقوق کے حصول کے بعد مرد جو ظاہراً یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آزادی ہونی چاہئے ، عورت کو بھی آزادی ملنی چاہئے ، حقوق ٹھیک ہیں، لیکن اس پر عموما مرد خوش نہیں ہیں.کیونکہ یہ تمام ایک رد عمل کے طور پر ہے اور اس طرح جو حقوق لئے جاتے ہیں وہ یقیناً غیر فطری ہوں گے اور جو چیز فطرت سے ٹکراؤ کے بعد ملے وہ کبھی سکون کا باعث نہیں بنتی.آپ مشاہدہ کر لیں مغرب کی زندگی اس نام نہاد آزادی اور غیر فطری حقوق کے بعد بے سکونی اور بے چینی کی زندگی ہے اور جو کوئی بھی اس غیر فطری طرز عمل کو اختیار کرے گا وہ بے سکون ہی ہوگا.اس لئے ان کی اس چکا چوند سے اتنی متاثر نہ ہوں کہ یہ بہت آزادی کے علمبر دار ہیں اور پتہ نہیں ان کی کتنی خوبیاں ہیں.اب اس کے مقابل پر دیکھیں کہ فطرت کے عین مطابق چودہ سو سال پہلے اسلام عورت کو کس طرح حقوق دے رہا ہے.اس کے مقام کا کس طرح تعین کر رہا ہے اور پھر کس طرح نشاندہی کر رہا ہے.یہ آیت جوئیں نے تلاوت کی ہے یہ نکاح کے وقت تلاوت کی جاتی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے لوگو! مردو! اور عورتو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اس سے ڈرو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرو.اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو.حقوق اللہ ادا کرنے سے تمہارے دل میں اُس کی خشیت قائم رہے گی تمہارا ذہن اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے گا تم دین پر قائم رہوگی ، شیطان تم پر غالب نہیں آسکے گا، حقوق العباد ادا کرو گے.تم دونوں مردوں اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے.سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں.ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں.ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھیں.اپنے گھروں کو محبت اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اولاد کے حق ادا کریں.ان کو وقت دیں ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کریں.بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو ماں باپ دونوں کو بچوں کو سکھانی پڑتی ہیں ، بجائے اس کے کہ بچہ باہر سے سیکھ کر آئے.ایک دوسرے کے ماں باپ بہن بھائی سے پیار و محبت کا تعلق رکھیں.ان کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہے.اور اس طرح جو معاشرہ قائم ہوگا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہوگا.اس میں لڑ بھڑ کر حقوق لینے کا سوال ہی نہیں ہے.تو اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہوگی.ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کر رہا ہوگا.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 31 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری تعلیم ہے.یہ ایک دوسرے کے حقوق ہیں.یہ عورت اور مرد کی ذمہ واریاں ہیں.یہی ہیں جو فطرت کے عین مطابق ہیں.میں نے تمہیں چھوڑا نہیں بلکہ میں تم پر نگران بھی ہوں.میں دیکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کس حد تک تم اس پر عمل کرتے ہو.اگر صحیح رنگ میں عمل کرو گے تو میرے فضلوں کے وارث بنو گے.تمہیں قطعا مغربی معاشرے سے متاثر ہونے کی، ان کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی.بلکہ وہ تمہارے سے متاثر ہوں گے اور کچھ سیکھیں گے، اسلام کی خوبیاں اپنا ئیں گے.اور پھر یہ ہے کہ یہ حقوق ادا کرنے کے طریق کیا ہوں گے، کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی.؟ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتا ہے کہ: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجَرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ (النحل: 98) جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں مناسب حال عمل کرے، مرد ہو یا عورت، ہم ان کو یقیناً ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمالِ صالحہ کا بدلہ دیں گے.تو اس آیت سے مزید وضاحت ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو بلا تخصیص اس کے کہ وہ مرد ہیں یا عورت، یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر تم نیک اعمال بجالا رہے ہو، میرے حکموں کے مطابق چل رہے ہو، تمہارے اعمال ایسے ہیں جو ایک مومن کے ہونے چاہئیں تو خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا، تمہاری زندگیاں خوشیوں سے بھر دے گا.ظاہر ہے جب تم نیک اور صالح اعمال بجالا رہے ہو گے تو تمہاری اولا دیں بھی نیکی کی طرف قدم مارنے والی ہوں گی اور تمہارے لئے خوشی کا باعث بنیں گی ، تمہارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گی.اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلمہ کے طور پر پیش کیا ہے:.پس ہمارا خدا ایسا خدا نہیں جو ہر وقت اپنی مٹھی بند رکھے.دینے میں بخل سے کام نہیں لیتا، بڑا دیا لو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 32 32 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب ہے.لیکن تمہارے بھی کوئی فرائض ہیں، کچھ ذمہ داریاں ہیں ، ان کو ادا کرو تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بے انتہا باش تم پر ہوگی.اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے؟ اس سے کیا توقعات وابستہ رکھی ہیں؟ اس سلسلے میں ایک اقتباس حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا پیش کرتا ہوں فرماتے ہیں: اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلمہ کے طور پر پیش کیا ہے.صرف گھر کی معلمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہر کی معلمہ کے طور پر بھی.ایک حدیث میں حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو.اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ کی روایات کا تعلق ہے وہ تقریباًا آدھے دین کے علم پر حاوی ہیں.بعض اوقات آپ نے علوم دین کے تعلق میں اجتماعات کو خطاب فرمایا اور صحابہ بکثرت آپ کے پاس دین سیکھنے کے لئے آپ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے.پردہ کی پابندی کے ساتھ آپ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں“.( خطاب حضرت خلیفة المسیح الرابع بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان 26 جولائی 1986ء) تو یہ ہے عورت کے مقام کا وہ حسین تصور جو اسلام نے پیش کیا ہے جس سے ایک سمجھی ہوئی قابلِ احترام شخصیت کا تصور ابھرتا ہے.وہ جب بیوی ہے تو اپنے خاوند کے گھر کی حفاظت کرنے والی ہے، جہاں خاوند جب واپس گھر آئے تو دونوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی جنت کا لطف اُٹھا ر ہے ہوں.جب ماں ہے تو ایک ایسی ہستی ہے کہ جس کی آغوش میں بچہ اپنے آپ کو محفوظ ترین سمجھ رہا ہے.جب بچے کی تربیت کر رہی ہے تو بچے کے ذہن میں ایک ایسی فرشتہ صفت ہستی کا تصور ابھر رہا ہے جو کبھی غلطی نہیں کر سکتی ، جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.اس لئے جو بات کہہ رہی ہے وہ یقیناً صحیح ہے ، بیچ ہے.اور پھر بچے کے ذہن میں یہی تصوراً بھرتا ہے کہ میں نے اس کی تعمیل کرنی ہے.اسی طرح جب وہ بہو ہے تو بیٹیوں سے زیادہ ساس سسر کی خدمت گزار اور جب ساس ہے تو بیٹیوں سے زیادہ بہوؤں سے محبت کرنے والی ہے.اس طرح مختلف رشتوں کو گنتے چلے جائیں اور ایک حسین تصور پیدا کرتے چلے جائیں جو اسلام کی تعلیم کے بعد عورت اختیار کرتی ہے.تو پھر ایسی عورتوں کی باتیں اثر بھی کرتی ہیں اور ماحول میں ان کی چمک بھی نظر آ رہی ہوتی ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 33 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب حدیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک کی جواب دہی ہوگی.امام نگران ہے اس کی جواب دہی ہوگی.آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اُس سے جواب طلبی ہوگی.اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اُس سے اُس بارے میں بھی جواب طلبی ہوگی.اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے بھی جواب دہی ہوگی.سنو! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کی نگرانی کے متعلق جواب طلب کیا جانے والا ہے.“ (صحیح بخارى كتاب الجمعة.صحيح مسلم كتاب الامارة.) عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے:.یہاں کیونکہ میں عورتوں کے متعلق باتیں کر رہا ہوں اس لیے اُن کے بارے میں عرض کرتا ہوں جیسا کہ اس حدیث میں آیا اور میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے.اُس کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی ، ٹکاؤ، گھر کا حساب کتاب چلانا، خاوند جتنی رقم گھر کے خرچ کے لئے دیتا ہے اُسی میں گھر چلانے کی کوشش کرنا ، پھر بعض سگھڑ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو تھوڑی رقم میں بھی ایسی عمدگی سے گھر چلا رہی ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی تھوڑی رقم میں اس عمدگی سے گھر چلا رہی ہیں.اور اگر معمول سے بڑھ کر رقم ملے تو پس انداز بھی کر لیتی ہیں، بچا بھی لیتی ہیں اور اس سے گھر کے لئے کوئی خوبصورت چیز بھی خرید لیتی ہیں یا پھر بچیوں کے جہیز کے لئے کوئی چیز بنالی.تو ایسی مائیں جب بچوں کی شادی کرتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تھوڑی آمدنی والی نے ایسا اچھا جہیز کس طرح اپنی بچیوں کو دے دیا.اس کے مقابل پر بعض ایسی ہیں جن کے ہاتھوں میں لگتا ہے کہ سوراخ ہیں.جتنی مرضی رقم ان کے ہاتھوں میں رکھتے چلے جاؤ، پتہ ہی نہیں چلتا کہ پیسے کہاں گئے.اچھی بھلی آمدنی ہوتی ہے اور گھروں میں ویرانی کی حالت نظر آرہی ہوتی ہے.بچوں کے حلیے ، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے لگتا ہے کہ جیسے کسی فقیر کے بچے ہیں.ایسی ماؤں کے بچے پھر احساس کمتری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور پھر بڑھتے بڑھتے ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جب وہ بالکل ہی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 34 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب ہاتھوں سے نکل جائیں.اور اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.پس اللہ کے رسول ﷺ نے آپ کو متنبہ کر دیا ہے، وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم اپنے خاوندوں کے گھروں کی صحیح رنگ میں نگرانی نہیں کروگی تو تمہیں پوچھا جائے گا تمہاری جواب طلبی ہوگی.اور جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے اس کے نتائج پھر اس دنیا میں بھی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں.اس لئے اب تمہارے لئے خوف کا مقام ہے.ہر عورت کو اپنے گھر کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور جب آپ اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگرانی کے اعلیٰ معیار قائم کریں گی ، بچوں کا خیال رکھیں گی ، خاوند کی ضروریات کا خیال رکھیں گی اور ان کا کہنا ماننے والی ہوں گی تو ایسی عورتوں کو اللہ کا رسول اتنا ہی ثواب کا حق دار قرار دے رہا ہے جتنا کہ عبادت گزار مرد اور اس کی راہ میں قربانی کرنے والے مرد کو ثواب ملے گا اور پھر ساتھ ہی جنت کی بھی بشارت ہے جیسا کہ یہ حدیث ہے.میں بیان کرتا ہوں: ایک دفعہ اسماء بنت یزید انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آئیں اور عرض کیا حضور! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، میں عورتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں سب کی طرف مبعوث فرمایا ہے.ہم عورتیں گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں اور مردوں کو یہ فضیلت اور موقع حاصل ہے کہ وہ نماز با جماعت، جمعہ اور دوسرے مواقع میں شامل ہوتے ہیں.نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حج کے بعد حج کرتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں.اور جب آپ میں سے کوئی حج ، عمرہ یا جہاد کی غرض سے جاتا ہے تو ہم عورتیں آپ کی اولا د اور آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں.اور سوت کات کر آپ کے کپڑے بنتی ہیں.آپ کے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں.کیا ہم مردوں کے ساتھ ثواب میں برابر کی شریک ہوسکتی ہیں.جب کہ مردا اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں.اسماء کی یہ بات سُن کر حضور صحابہ کی طرف مڑے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اس عورت سے زیادہ عمدگی کے ساتھ کوئی عورت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 35 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب اپنے مسئلہ اور کیس کو پیش کر سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا حضور ! ہمیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی عمدگی کے ساتھ اور اتنے اچھے پیرایہ میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتی ہے.پھر آپ ﷺ اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے خاتون ! اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو ان کو جا کر بتادو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اُسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اُس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے.(تفسير الدر المنثور.تفسير سورة النساء.زير آيت الرّجال قَوَّامُونَ عَلَى النِّساء) پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ:.جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہنا مانا ، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے.“ (مجمع الزوائد كتاب النكاح باب فى حق الزوك على المرأة) پھر ایک حدیث ہے موسیٰ بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ :.اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سے بہترین عورتیں قریش کی عورتیں ہیں جو چھوٹے بچوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ شفیق اور مہربان ہیں اور تنگی اور ترشی میں خاوندوں سے نرمی اور لطف کا سلوک کرنے والی ہیں.“ (صحیح مسلم كتاب فضائل الصحابة) بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ حالات خراب ہو جاتے ہیں ، مرد کی ملازمت نہیں رہی یا کاروبار میں نقصان ہوا ، وہ حالات نہیں رہے، کشائش نہیں رہی تو ایک شور برپا کر دیتی ہیں کہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 36 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب حالات کا رونا، خاوندوں سے لڑائی جھگڑے، انہیں برا بھلا کہنا، مطالبے کرنا.تو اس قسم کی حرکتوں کا نتیجہ پھر اچھا نہیں نکلتا.خاوند اگر ذرا سا بھی کمزور طبیعت کا مالک ہے تو فوراً قرض لے لیتا ہے کہ بیوی کے شوق کسی طرح پورے ہو جائیں اور پھر قرض کی دلدل ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں پھر انسان دھنستا چلا جاتا ہے.ایسے حالات میں کامل وفا کے ساتھ خاوند کا مددگار ہونا چاہئے ،گزارا کرنا چاہئے.پھر چھوٹے بچوں سے شفقت کا سلوک کرنا چاہئے.جیسا کہ ایک حدیث میں عورت کی جو خصوصیات بیان کی گئیں ہیں ان میں آیا ہے کہ بچوں سے شفقت کرتی ہیں اور خاوندوں کی فرمانبردار ہیں تا کہ اُن کی تربیت بھی اچھی ہو، اُن کی اُٹھان اچھی ہو اور وہ معاشرے کا مفید وجود بن سکیں.تو اسلام صرف تمہارے حقوق نہیں قائم کرتا، جس طرح یورپ میں ہے کہ عورت کے حقوق ، فلاں کے حقوق، بلکہ تمہاری نسلوں کے حقوق بھی قائم کرتا چلا جاتا ہے.ذرا سی بات پر شور شرابہ کرنے والی عورتوں کو یہ حدیث بھی ذہن میں رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہئے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے آگ دکھائی گئی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کرتی ہیں.عرض کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا انکار کرتی ہیں؟.آپ نے فرمایا: نہیں وہ احسان فراموشی کی مرتکب ہوتی ہیں.اگر تو اُن میں سے کسی سے ساری عمر احسان کرے اور پھر وہ تیری طرف سے کوئی بات خلاف طبیعت دیکھے تو کہتی ہے میں نے تیری طرف سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی.“ (صحیح بخاری کتاب الايمان باب كفران العشيروكفر دون كفر فيه) پس ہر عورت کیلئے مقام خوف ہے، بہت استغفار کرے.پھر اسلام تمہارے حقوق قائم کرنے کیلئے کس طرح مردوں کو ارشاد فرما رہا ہے.مردوں کو تم پر سختی کرنے سے کس طرح روک رہا ہے.تھوڑی بہت کمیوں کمزوریوں کو نظر انداز کرنے کے بارے میں مردوں کو کس طرح سمجھایا جا رہا ہے.ایسی مثال دی ہے کہ مغربی معاشرے کے ذہن میں بھی کبھی ایسی مثال نہیں آسکتی جیسا کہ اس حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 37 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پہلی کا سب سے زیادہ سمج حصہ اُس کا سب سے اعلیٰ حصہ ہوتا ہے.اگر تم اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اُسے توڑ ڈالو گے اگر تم اُس کو اُسکے حال پر ہی رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھا ہی رہے گا.پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: (صحیح بخاری کتاب الانبياء) عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے (البقرة: 229) وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِن کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں کا حال سُنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریقے پر برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.چاہئے کہ بیویوں سے خاوندوں کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: خَيْرُكُـ رُكُمْ لِاهْلِه تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ( ملفوظات جلد سوم، جدید ایڈیشن ، 300-301) تو یہ حسین تعلیم ہے جو اسلام نے عورتوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے دی ہے.تنبیہ کی بھی صرف اس حد تک اجازت ہے کہ تنبیہ کی حد تک ہی ہو.یہ نہیں کہ ماردھاڑ اور ظلم زیادتی شروع
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 38 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب ہو جائے.اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعودؓ فرماتے ہیں.آپ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں کہ: ”یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں نہیں.ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: خَيْرُ كُم خَيْرُ كُمْ لا فلہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں ! دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدو کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اُس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے.اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ“.(النساء:20) اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن سے اچھی طرح حسن سلوک سے پیش آؤ.”ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا.اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اُس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کرسکتا.خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونوں موجود ہونے چاہئیں“.( ملفوظات جلداول، جدید ایڈیشن ، صفحہ 403-404)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 39 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب صرف یہ نہیں کہ ہر وقت جلال ہی دکھاتا رہے.عورت کے یہ حقوق ہیں جو اسلام قائم کر رہا ہے.اور آج مغرب کے آزادی کے علمبر دار عورت کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں جس میں آزادی کم اور بے حیائی زیادہ ہے.اور بعض لوگ ان کے ان کھو کھلے نعروں کے جھانسے میں آکر آزادی کی باتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں.آزادی تو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی تھی جس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے.بخاری کی روایت ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ : ”ہمارا حال یہ ہو گیا تھا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈرنے لگے تھے کہ کہیں یہ شکایت نہ کر دیں.(صحیح بخاری کتاب النكاح باب الوصاة بالنساء) یعنی اگر زیادتی ہو جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ہماری شکایت نہ کر دیں.اب بتائیں ! لا کھ قانون بنانے کے باوجود، کیا اس معاشرے میں مرد، عورت پر ظلم اور زیادتی نہیں کر رہا؟.اس مغربی معاشرے کو دیکھ لیں.کیا اب یہ مرد عورتوں پر ظلم و زیادتی کرنے سے باز آگئے ہیں؟.آپ کا جواب یقینا نفی میں ہوگا.تو مغرب کی اندھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے.پھر اسلام نے بعض حالات میں عورتوں کو حکم دیا ہے کہ بعض نفلی عبادتیں یا ایسی عبادتیں جو تمہارے پر اس طرح فرض نہیں جس طرح مردوں پر جیسا کہ پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنا وغیرہ.تو جب بھی ایسی صورت ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی ارشاد فرماتے تھے کہ وہ اپنے خاوندوں کے حکم کی پابندی کریں.لیکن بعض دفعہ بعض صحابہ اللہ کے خوف کی وجہ سے اس طرح سختی سے حکم نہیں دیتے تھے لیکن ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے اور بعض دفعہ بعض صحابیات اپنی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ اگر حکم ہے تو مانوں گی ، ورنہ نہیں.اس بارہ میں ایک حدیث ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمررؓ کا اپنی بیوی سے ایک معاملہ میں اختلاف رائے ہو گیا.اُن کی بیگم حضرت عاتکہ نماز کی بہت دلدادہ تھیں اور نماز با جماعت کی تو ان کو عادت پڑ چکی تھی.وہ نماز با جماعت کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھیں.پس جب پانچ وقت عورت گھر سے نکلے حالانکہ اس پر نماز اس طرح فرض بھی نہ ہو اور پانچ وقت مسجد میں پہنچے تو پیچھے گھر کی ضروریات کا کیا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 40 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب حال ہوتا ہوگا.چنانچہ حضرت عمر نے کچھ عرصہ تو حوصلہ دکھایا پھر آپ نے کہا کہ اچھا بی بی اب کافی ہوگئی ہے، تمہارے پر تو مسجد میں جا کر نمازیں پڑھنا فرض بھی نہیں ہے، گھر میں نمازیں پڑھنے کی اجازت ہے تم کیوں مسجد جاتی ہو.اور پھر یہ کہا کہ خدا کی قسم ! تم جانتی ہو کہ تمہارا یہ فعل مجھے پسند نہیں ہے.تو اُن کی بیوی نے جواب دیا کہ واللہ ! جب تک آپ مجھے مسجد جانے سے حکما نہیں روکیں گے میں نہیں رکوں گی.اور حضرت عمر کو یہ حجرات نہیں ہوئی کہ بیوی کو حکماً مسجد جانے سے روک سکیں.چنانچہ آخر وقت تک انہوں نے یہ سلسلہ نہیں چھوڑا اور با قاعدہ مسجد میں جا کر نمازیں پڑھتی رہیں.(صحيح بخارى كتاب الجمعة باب هل على من لا يشهد الجمعة غسل ) ایک بات تو اس سے یہ پتہ چلی کہ اُس زمانے میں عورتوں میں کس قدر عبادتوں کا شوق تھا.دوسرے یہ کہ فرض سے زیادہ کی عبادت ہم نے خاوند کی مرضی کے بغیر نہیں کرنی.اگر وہ حکم دے تو رُک جانا ہے.کجا یہ کہ دنیاوی معاملات میں بھی خاوند کا کہنا نہ مانا جائے.تو دیکھیں یہ کیسی پیاری سموئی ہوئی، اعتدال والی تعلیم ہے جو اسلام کی تعلیم ہے.جو عورتیں اپنے خاوندوں کا کہنا ماننے والی ہیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنے والی ہیں ، اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت اُم سلمہ روایت کرتی ہیں کہ جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اُس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی.(سنن الترمذى باب ما جاء في حق الزوج على المرأة) تو دیکھیں عورت کو اس قربانی کا خدا تعالیٰ کتنا بڑا اجر دے رہا ہے.ضمانت دے رہا ہے کہ تم اس دنیا میں اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کی کوشش کرو اور اگلے جہان میں میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں.پھر بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہو جاتے ہیں.بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ رد عمل بھی اس قدر ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی شکوے پیدا ہو جاتے ہیں.تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہو جاتی ہیں کہ نا قابل برداشت ہو جاتی ہیں.تو ایسی صورت میں نظام سے، قانون
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 41 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب سے رجوع کرنا پڑتا ہے.لیکن اکثر دعاء صدقات اور رویوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لئے اُس کی طرف مزید جھکنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا: ”اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو“.(صحیح مسلم کتاب الایمان، باب بیان نقصان الايمان بنقص الطاعات ) ی نسخہ بھی آزما کر دیکھیں.جہاں آپ کی روحانی ترقی ہوگی وہاں بہت کی بلاؤں سے بھی محفوظ رہیں گی.پھر جوان لڑکیوں کے حقوق ہیں.اس میں بچیوں کے رشتوں کے معاملے ہوتے ہیں.گوماں باپ اچھا ہی سوچتے ہیں سوائے شاذ کے جو بیٹی کو بوجھ سمجھ کر گلے سے اُتارنا چاہتے ہیں.بچیوں کو اُن کے رشتوں کے معاملے میں اسلام یہ اجازت دیتا ہے اگر تم پر زبردستی کی جارہی ہے تو تم نظام جماعت سے، خلیفہ وقت سے مدد لے کر ایسے نا پسندیدہ رشتے سے انکار کر دو.لیکن یہ اجازت پھر بھی نہیں ہے کہ اپنے رشتے خود ڈھونڈتی پھرو.بلکہ رشتوں کی تلاش تمہارے بڑوں کا کام ہے یا نظامِ جماعت کا.ہاں پسند نا پسند کا تمہیں حق ہے.جس لڑکے کا رشتہ آیا ہے اس کے حالات اگر جاننا چا ہو تو جان سکتی ہو.سب سے بڑھ کر یہ کہ دعا کر کے شرح صدر ہونے پر رشتے طے کرنے چاہئیں.رشتوں کے بارے میں آزادی کے نام نہاد دعویدار تو یہ آزادی عورت کو آج دے رہے ہیں، اسلام نے آج سے چودہ سوسال پہلے عورت کی یہ آزادی قائم کر دی.جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مال دار شخص سے کر دیا جس کو لڑ کی نا پسند کرتی تھی.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت لے کر حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ! ایک تو مجھے آدمی پسند نہیں.دوسرے میرے باپ کو دیکھیں کہ مال کی خاطر نکاح کر رہا ہے.میں بالکل پسند نہیں کرتی.اب یہ دیکھیں کہ وہاں وہ لڑکی بجائے اس کے کہ شور شرابہ کرتی ، ادھر ادھر باتیں کرتی یا گھر سے چلی جاتی وہ سیدھی حضور ﷺ کے پاس گئی ہے.پتہ تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں میرے حقوق کی حفاظت ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو آزاد ہے.کوئی تجھ پر جبر نہیں ہوسکتا.جو چاہے کر.صلى عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اپنے باپ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اس سے بھی میراتعلق ہے.میں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 42 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب تو اس لئے حاضر ہوئی تھی کہ ہمیشہ کے لئے عورت کا حق قائم کر کے دکھاؤں تا کہ دنیا پر یہ ثابت ہو کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو اُس کی مرضی کے خلاف رخصت نہیں کر سکتا.صحابیہ کہتی ہیں کہ اب جب آس نے حق قائم کر دیا ہے تو خواہ مجھے تکلیف پہنچے، میں باپ کی خاطر اس قربانی کے لئے تیار ہوں.(سنن ابن ماجه ابواب النكاح باب من زواج ابنته وهي كارهة، مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 163 ) دیکھیں اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت میں ایسی آزادی کا احساس پیدا کر دیا تھا جو مادر پدر آزاد ہونے والی آزادی نہیں تھی بلکہ اُن کے حقوق کا تحفظ تھا کہ اپنے حقوق اپنی ذات کے لئے نہیں لینا چاہتی ہوں بلکہ معاشرے کے کمزور ترین وجود کے حقوق محفوظ کروانا چاہتی ہوں.اور اپنی ذات کے متعلق بتا دیا کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے کیونکہ مجھے اپنے باپ سے ایک لگاؤ ہے، ایک تعلق ہے، پیار ہے، محبت ہے.اس کی بات باوجود یکہ میری مرضی نہیں پھر بھی میں رد نہیں کروں گی اور اس رشتے کو قبول کرتی ہوں.تو یہ صحابیہ آپ کے لئے ماڈل ہونی چاہئے نہ کہ مغرب کی مصنوعی آزادی کی دعویدار.اس طرز پر چلنے والی بچیاں اپنے خاندانوں کی عزت قائم کرتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک مجلس میں مستورات کا ذکر چل پڑا.کسی نے ایک سر بر آوردہ ممبر کا ذکر سنایا کہ اُن کے مزاج میں اول سختی تھی.عورتوں کو ایسا رکھا کرتے تھے جیسے زندان میں رکھا کرتے ہیں.( یعنی قید میں رکھا ہوتا ہے) اور ذرادہ نیچے اُترتی تو اُن کو مارا کرتے لیکن شریعت میں حکم ہے عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوف النساء: 20) نمازوں میں عورتوں کی اصلاح اور تقویٰ کے لئے دُعا کرنی چاہیے.قصاب کی طرح برتاؤ نہ کرے کیونکہ جب تک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہوسکتا.“ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ”مجھ پر بھی بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ عورتوں کو پھراتے ہیں.اصل میں بات یہ ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسی بیماری ہے ( یعنی حضرت ام المومنین کوایسی بیماری ہے ) کہ جس کا علاج پھرانا ہے.(سیر کروانا ہے.) جب اُن کی طبیعت زیادہ پریشان ہوتی ہے تو بدیں خیال کہ گناہ نہ ہو.کہا کرتا ہوں کہ چلو پھر الاؤں اور بھی عورتیں ہمراہ ہوتی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل ہیں.43 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب ( ملفوظات جلد سوم ، جدید ایڈیشن ، حاشیہ صفحہ 118) پھر بعض مرد بعض دفعہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ اسلام نے ہمیں عورتوں پر بعض لحاظ سے فوقیت دی ہے اس لئے ہمیشہ اس کو جوتی کی نوک پر سمجھیں.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں: یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر چیز قرار دیا جاوے.نہیں نہیں ہمارے ہادی کامل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَيْرُ محم خَيْرُكُمْ لَاهْلِه یعنی تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک 66 ہو.( ملفوظات جلد اوّل، جدید ایڈیشن ، صفحہ 403) تو ان باتوں سے واضح ہو گیا کہ عورتوں کا اسلام میں کیا مقام ہے.اب میں آپ کے سامنے بعض باتیں رکھنا چاہتا ہوں جو اکثر عورتوں میں پائی جاتی ہیں.کسی میں کم کسی میں زیادہ.آزادی کی باتیں تو ہو گئیں لیکن اگر یہ ایک حد سے بڑھ جائیں تو معاشرے پر بھی بُرا اثر ڈالتی ہیں.یہ ایسی باتیں ہیں جہاں آپ کو اپنی آزادی پر کچھ پابندیاں لگانی پڑیں گی.ہر احمدی عورت کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہمیں ان بیماریوں سے جو میں ذکر کروں گا، بچنا ہے.تا کہ اس حسین معاشرے کو قائم کرنے والی ہوں جس کے قائم کرنے سے اسلام کی خوبیاں دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مدد ملے.بعض ذاتی اور گھر یلو قسم کی بُرائیاں ایسی ہیں جو ذاتی ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی بُرا اثر ڈالتی ہیں اور جن سے بجائے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے برائیوں میں آگے بڑھنے کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے.مثلا فخر و مباہات وغیرہ، دکھاوا وغیرہ.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے اور ایسے ہیں پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے.پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہو تو اُس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں.زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں.تو یہ بُرائی ایسی ہے جو ذاتی بُرائی تو ہے ہی معاشرے میں بھی بُرائی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے.قوم پر فخر ہے کہ ہم سید ہیں یا مغل ہیں یا پٹھان ہیں وغیرہ.تو حضرت اقدس مسیح موعود نے ایک جگہ فرمایا ہے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 44 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب کہ اول تو تین چار پشتوں کے بعد ا کثر یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل ذات کیا ہے.سید ہے بھی کہ نہیں.تو اگر اللہ تعالیٰ تمہاری پردہ پوشی کر رہا ہے اور حالات کی وجہ سے ماحول بدلنے سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ اصل میں تم کون ہو تو پردہ رہنے دو.بلا وجہ فخر نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کو یہ دکھاوے پسند نہیں ہیں.ایک غلطی کر کے پھر غلطیوں پر غلطیاں نہ کرتے چلے جاؤ.“ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک سید صاحب کو یہ ضد تھی کہ بچیوں کا رشتہ اگر کروں گا تو سیدوں میں کروں گا.خیر خدا خدا کر کے ایک رشتہ سیدوں میں ملا.جب بارات آئی تو دولہا کے باپ کو دیکھ کر دلہن کے والد صاحب بے ہوش ہو گئے.کیونکہ وہ پارٹیشن سے پہلے اُن کے گاؤں کا میراثی تھا جو پاکستان بننے کے بعد سید بن گیا تھا.تو کسی قسم کی شیخی اور فخر نہیں کرنا چاہئے.کوئی پتہ نہیں کون کیا ہے.اور ہو سکتا ہے کہ سید صاحب جن کی بیٹی تھی یہ خود بھی چار پشتوں پہلے سید نہ ہوں تو شاید اللہ تعالیٰ نے اُن کا غرور توڑنے کے لئے یہ رشتہ کروایا ہو.اس لئے ہر وقت ہرلمحہ استغفار اور خوف کا مقام ہے.پھر کپڑوں پر بڑا فخر ہورہا ہوتا ہے.اپنے گزشتہ حالات بھول جاتے ہیں.حال یا درہ جاتا ہے اور مجلسوں میں بیٹھ کر بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ دیکھو میں نے یہ جوڑا اتنے میں بنایا.پھر شادی بیاہ پر لاکھوں روپے کا ایک ایک جوڑا بنا لیتے ہیں جو ایک یا دو دفعہ پہن کر کسی کام کا نہیں ہوتا.اُس کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا.چلیں آپ نے یہ فضول خرچی تو کر لی اب اس کو اپنے تک رکھیں.پھر اپنے جیسی فضول خرچ عورتوں میں بیٹھ کر دوسروں کا ٹھٹھا اُڑایا جاتا ہے کہ اُس نے کس قسم کے سستے کپڑے پہنے ہوئے ہیں.اور پھر مالی لحاظ سے بھی اپنے سے کم حتی کہ رشتے دار کو بھی نہیں بخشتے.تو یہ فخر ، یہ شیخی احمدی عورت میں نہیں ہونی چاہئے.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود قرآن کریم کی تعلیم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : چوتھی قسم ترک شر کے اخلاق میں سے رفق اور قولِ حسن ہے اور یہ خُلق جس حالت طبعی سے پیدا ہوتا ہے اُس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روئی ہے.بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رفق اور قول حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے.یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے.طلاقت ایک قوت ہے اور رفق ایک خلق ہے جو اس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 45 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب قوت کو ٹل پر استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتا ہے.اس میں خدائے تعالیٰ کی تعلیم 66 یہ ہے.اس کا ترجمہ میں پڑھ دیتا ہوں کہ یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں.ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے.ہوسکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھی ہوں.بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھا نہ کریں.ہوسکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا وہی اچھی ہوں.اور عیب مت لگاؤ.اپنے لوگوں کے بُرے بُرے نام مت رکھو.بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو.ایک دوسرے کا گلہ مت کرو.کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں.اور یاد رکھو کہ ہر ایک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان، آنکھ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا.یہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات کا ترجمہ ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 350) پس یہ بڑے استغفار کا مقام ہے کہ اگر پوچھا جانے لگاتو پتہ نہیں اعمال اس قابل ہیں بھی نہیں کہ اقابل یں بھی ہیں بخشش ہو.اس لئے ہمیشہ استغفار کرتے رہنا چاہئے.اُس کا فضل مانگنا چاہئے.نمود و نمائش کر کے بیوت الذکر میں آنے کی ممانعت پھر عورتوں میں ایک بیماری زیور کی نمائش کی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ زیور عورت کی زینت ہے اور زینت کی خاطر وہ پہنتی ہے اور اس کی اجازت بھی ہے لیکن اس زینت کی نمائش ہر جگہ کرنے کی اجازت نہیں ہے.اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی حدود متعین کی ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت حذیفہ کی ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا ! اے عورتو ! تم چاندی کے زیور کیوں نہیں بنواتیں؟ سنو! کوئی بھی ایسی عورت جس نے سونے کے زیور بنائے اور وہ انہیں فخر کی خاطر عورتوں کو یا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 46 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب اجنبی مردوں کو دکھاتی پھرتی ہو تو اس عورت کو اُس کے فعل کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا.(سنن النسائى كتاب الزينة من السنن الكراهية للنساء في اظهار الحلي والذهب) أم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے.مزینہ قبیلہ کی ایک عورت بڑے ناز و ادا سے زیب وزینت کئے ہوئے مسجد میں داخل ہوئی.اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اے لوگو! اپنی عورتوں کو زیب وزینت اختیار کرنے اور مسجد میں ناز و ادا سے مٹک مٹک کر چلنے سے منع کرو.بنی اسرائیل پر صرف اس وجہ سے لعنت کی گئی کہ ان کی عورتوں نے زیب و زینت اختیار کر کے ناز نخرے کے ساتھ مسجدوں میں اترا کر آنا شروع کر دیا تھا.(سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب فتنة النساء) اس حدیث سے یہ پتہ چلا کہ نمائش کی خاطر اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے تمہیں عورتوں میں بھی زیور اس طرح اظہار کے ساتھ دکھانے کی ضرورت نہیں جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہو جائے.ٹھیک ہے تم نے زیور پہن لیا.جب فنکشن ہو رہے ہوں تو عورت کی عورت پر نظر پڑ جاتی ہے.اس کے زیور کی ، اُس کے کپڑوں کی تعریف بھی کر دیتی ہیں.یہاں تک تو ٹھیک ہے.لیکن جس نے نیا زیور بنایا ہو وہ دوسری عورتوں کو بلا بلا کر دکھائے کہ دیکھو یہ زیور میں نے اتنے میں بنایا ہے تمہیں بھی پسند آیا تم بھی بناؤ ، اپنے خاوند سے کہو کہ بنوا کر دے.تو بہت سی کمز ور طبع عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایسی عورتوں کی باتوں میں آجاتی ہیں اور اپنے خاوندوں پر زور دیتی ہیں کہ مجھے بھی بنا کر دو.اگر اُن کے خاوند میں اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ زیور بنا سکے تو پھر دوہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو گھروں میں فساد پڑ جاتے ہیں ، میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خاوند قرض لے کر بیوی کی خواہش کو پورا کرتا ہے.لیکن پھر ان قرضوں کی وجہ سے اعصاب زدہ ہو جاتا ہے کیونکہ آج کل کے اس دور میں جب ہر جگہ مہنگائی کا دور ہے ہر قسم کی خواہش پوری کرنا ہر خاوند کے بس کی بات نہیں ہوتی.تو نمود و نمائش کرنے والیوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے.لوگوں کے گھر نہ اُجاڑیں اور کم طاقت والی عورتیں بھی صرف دنیا داری کی خاطر اپنے گھروں کو جہنم نہ بنائیں.پھر اس حدیث میں آگے یہ فرمایا کہ مسجد تو عبادت کی جگہ ہے.یہاں ایسی عورتوں کو نہیں آنا چاہئے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 47 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب جن کا مقصد صرف نمود و نمائش ہو.مسجد ہے، کوئی فیشن ہال نہیں ہے.یہاں عبادت کی غرض سے جاتے ہیں.اس لئے یہاں جب آؤ تو خالصتا اللہ کی خاطر اُس کی عبادت کرنے کی خاطر یا اُس کا دین سیکھنے کی خاطر آؤ.یہی رویہ، یہی طریق جماعتی فنکشن میں ، اجلاسوں میں اجتماعوں وغیرہ پر بھی ہونا چاہئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا جماعت پر احسان ہے کہ بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو الحمد للہ جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں اور قربانی کی ایسی اعلیٰ مثالیں قائم کرتی ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی اور اپنے زیور اتارا تار کر جماعت کے لئے پیش کرتی ہیں.مختلف چندوں میں تحریکوں میں دیتی ہیں.لیکن وہ جو نمودونمائش کی طرف چل پڑی ہیں، دنیا داری میں پڑ گئی ہیں وہ خود اپنے آپ کو دیکھیں اور اپنا محاسبہ کریں.پھر یہ ہے کہ بعض عورتوں کو دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کی عادت ہوتی ہے.باتیں سننے کے لئے تجس ہوتا ہے.اس کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ کسی طرح کوئی بات پتہ لگ جائے.لیکن پوری طرح اس بات کا علم تو نہیں پاسکتیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بدظنی پیدا ہوتی ہے.پھر ایک نیا فساد شروع ہو جاتا ہے.پھر اس بدظنی کے نتیجے میں بغض ، کینے ، حسد شروع ہو جاتے ہیں.پھر اپنے دلوں سے نکل کر اپنے گھر والوں کے دلوں میں یہ حسد اور کینے چلے جاتے ہیں.پھر ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا نہ ختم ہونے والا ایک فساد شروع ہو جاتا ہے.اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ بدظنی سے بچو.حضرت ابو ہر یہ کاروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظن سے بچو کیونکہ طن سب سے جھوٹی بات ہے.اور تجسس نہ کرو اور کسی بات کی ٹوہ میں نہ لگے رہو اور دنیا طلبی میں نہ پڑو اور تم حسد نہ کرو اور تم بغض نہ رکھو اور باہمی اختلاف میں مبتلا نہ ہو جاؤ اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ.(مسلم.باب تحریم الظن، بخاری کتاب الادب ) حضرت اقدس مسیح موعود اس سلسلہ میں عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے“.فرمایا کہ عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے.آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 48 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب اُٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں.لیکن اس سے بچنا چاہئے.عورتوں کی خاص سورۃ قرآن شریف میں ہے.حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں.( ملفوظات جلد پنجم ، جدید ایڈیشن ، صفحہ 29) اللہ تعالیٰ احمدی عورت کو اس سے محفوظ رکھے.حقیقی پر دہ کی روح ایک اور اہم بات جس کی اس زمانے میں خاص طور پر بہت ضرورت ہے ، وہ پردہ ہے.اور یہ پردہ عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے اور مردوں کے لئے بھی.اس لئے غض بصر کا حکم ہے.غض بصر ہے کیا ؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ” خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مُراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے.یہ اُن نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں.بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زمینوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں.( یعنی نیم آنکھ سے دیکھنا.) (اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 344) پھر حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں: یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے اگر کسی زمانے میں پردے کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانے میں رسم ضرور ہونی چاہئے.( فرمایا کہ اگر کسی زمانے میں پردے کی ضرورت نہ بھی ہوتی تو اس زمانے میں ضرور ہونی چاہئے.) ” کیونکہ یہ کل جنگ ہے“.(یعنی آخری زمانہ ہے.) اور زمین پر بدی اور فسق و فجور اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 49 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب شراب خوری کا زور ہے اور دلوں میں دہر یہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے احکام کی عظمت دلوں سے اُٹھ گئی ہے.زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں.ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیڑیوں کے بنوں میں چھوڑ دیا جائے.یہاں عورت کو بکریوں سے اور بھیڑیے کو گندہ معاشرے سے تشبیہ دی ہے.دیکھ لیں اب ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے زمانے سے مزید سو سال آگے چلے گئے ہیں تو اب اس کی کس قدر ضرورت ہے.نہ مغرب محفوظ ہے اور نہ مشرق محفوظ ہے.ذرا گھر سے باہر نکل کر دیکھیں تو جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آپ کو نظر آجائے گا.پھر بے احتیاطی کیسی ہے.لا پرواہی کیسی ہے.سوچیں غور کریں اور اپنے آپ کو سنبھالیں.لیکن بعض مرد زیادہ سخت ہو جاتے ہیں ان کو بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ قید کرنا مقصد نہیں ہے، پردہ کرانا مقصد ہے.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ.افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے.نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے.اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں.اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کئے جاتے ہیں.اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے.وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.مساوات کے لئے عورتوں
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 50 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں.اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو.اسلام شہوات کی پنا کو کاٹتا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں.یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری یا پردہ دری کا.“ ( ملفوظات جلد اوّل، جدید ایڈیشن ، صفحہ 297-298 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، حضرت ام المومنین کو کس حد تک پردہ کرواتے تھے یا کیا طریق تھا.اس بارہ میں روایت ہے کہ حضرت ام المومنین کی طبیعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی.آپ علیہ السلام نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج وو رض تو نہیں.انہوں نے کہا کہ نہیں.اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا: دراصل میں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا.حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ بہار کی ہوا کھاؤ.گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں.علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ” کو لے جایا کرتے تھے.جنگوں میں حضرت عائشہ ساتھ ہوتی تھیں.پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے.یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں.حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے.اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے.غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں“.( ملفوظات جلد سوم، جدید ایڈیشن ، صفحہ 557-558)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 51 جلسہ سالانہ جرمنی 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب پس خلاصہ بعض اہم امور میں نے بیان کر دئے اور وقت کی رعایت کے ساتھ اتنا ہی بیان ہوسکتا تھا.بہت سی باتیں میں نے چھوڑ بھی دی ہیں یا مختصر بیان کی ہیں.ان سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اسلام جو پابندیاں عورتوں پر لگاتا ہے یا بعض احکام کا پابند کرتا ہے وہ ایک تو آپ کی عزت، احترام اور تکریم پیدا کرنا چاہتا ہے.دوسرے معاشرہ کو پاک اور جنت نظیر بنانا چاہتا ہے.فسادوں کو مٹانا چاہتا ہے.آپ جائزہ لے لیں جہاں بھی مردوں اور عورتوں کی ، چاہے وہ عزیز رشتہ دار ہی ہوں ، بے حیا مجالس ہیں وہاں سوائے فساد کے اور کچھ نہیں.اور اگر مغرب اس کو عورت کی آزادی کے سلب کرنے کا نام دیتا ہے تو دیتا ر ہے.آپ یک زبان ہو کر کہیں کہ اگر یہ بے حیائی ہی تمہاری آزادی ہے تو اس آزادی پر ہزار لعنت ہے.ہم تو صالحات میں سے ہیں اور صالحات ہی رہنا چاہتی ہیں.تم نے بھی اگر اپنی عزتوں کی حفاظت کرنی ہے، اپنا احترام معاشرے میں قائم کرنا ہے تو آؤ اور اس حسین تعلیم کو اپناؤ.خدا کرے کہ یہ نام نہاد آزادی کی چکا چوند چاہے وہ مغرب میں ہو یا مشرق میں کبھی آپ کو متاثر کرنے والی نہ ہو اور جماعت میں صالحات اور عابدات پیدا ہوتی چلی جائیں.اے اللہ تو ہمیشہ ہماری مددفرما.آمین.روزنامه الفضل ربوه 26/جنوری 2006)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 52 سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ و ناصرات الاحمدیہ یو کے 2003 (فرموده 19 اکتوبر 2003 بمقام بیت الفتوح.مورڈن ،لندن) ہر احمدی عمومی طور پر اور عہدہ داران خصوصی طور پر اپنے اندر عاجزی دکھائیں چاہے مرد ہوں یا عورتیں، عاجزی پیدا کرنے کی خاص مہم چلائیں تربیت اولاد کے تقاضے اگر چی پیدا ہو جائے تو تمام بڑی بڑی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں پردہ کی اصل روح اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل انٹرنیٹ اور Chatting کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت یورپ میں پردہ کی اہمیت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 53 53 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب خلافت اور نظام جماعت کے احترام کے تقاضے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَالْقِنِتِينَ وَالْقَنِتَاتِ وَالصَّدِقِينَ وَالصَّدِقَاتِ وَالصَّبِرِينَ وَالصَّبِرَاتِ وَالْخَشِعِينَ وَالْخَشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّئِمَاتِ وَالْحَفِظِينَ فُرُوجَهُمُ وَالْحَفِظَاتِ وَالذَّكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّكِرَاتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيمًا ) (سورۃ الاحزاب : 36) یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں مسلمان اور مومن مردوں اور عورتوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ چند خصوصیات ہیں جو مسلمان اور مومن میں ہونی چاہیں.اگر یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو خدا تعالیٰ تمہیں خوشخبری دیتا ہے کہ تم سے نہ صرف مغفرت کا سلوک کرے گا بلکہ اجر عظیم سے بھی نوازے گا.اور وہ کیا باتیں ہیں.وہ باتیں یہ ہیں کہ فرمانبرداری کرنے والی ہوں، سچ کو اختیار کرنے والی ہوں ، سچ بولنے والی ہوں، صبر کرنے والی ہوں ، عاجزی اختیار کرنے والی ہوں، صدقہ کرنے والی ہوں، روزہ دار ہوں.آنکھ کان منہ اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والی ہوں.اور اللہ کا ذکر کر نے والی ہوں.یہ دیکھیں یہ ایسی باتیں ہیں اگر کسی میں پیدا ہو جائیں اور کسی معاشرہ کی اکثریت میں پیدا ہو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 54 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب جائیں تو ایسا خوبصورت معاشرہ جنم لے گا جس کی کوئی مثال نہیں ہوگی.اس بارہ میں اب میں کچھ مزید وضاحت کرتا ہوں.لیکن اس سے پہلے یہ بتاؤں گا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ مسلمان اور مومن، یہ الگ الگ کیوں کہا گیا ہے؟ اس بارہ میں خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: قَالَتِ الاَعْرَابُ امَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا ط يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ طَ وَ إِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْئًا.طَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات:15) یعنی بادیه نشین، وہ لوگ جو گاؤں میں دیہاتوں میں رہتے تھے ، کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں.جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کرے گا.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو یہ بتا دیا کہ مسلمان ہونے میں اور مضبوط ایمان دلوں میں قائم ہونے میں بہت فرق ہے.مضبوط ایمان تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تمہارا ہر عمل، ہر فعل، ہر کام جو تم کرتی ہو خدا کی رضا کی خاطر کرو.اللہ کا خوف اور خشیت ہر وقت تمہارے ذہن میں رہے.تقویٰ کی باریک سے باریک راہیں ہمیشہ تمہارے مد نظر رہیں.اور تم ان پہ قدم مارنے والی ہو.اپنے بچوں کے دلوں میں بھی ایمان اس حد تک بھر دو کہ اُن کا اوڑھنا بچھونا بھی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہو.ہاں جو بڑے بڑے احکامات ہیں، فرائض ہیں، ان کو مان کر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہو چکے ہو.یہ اطاعت تم کرتے رہو اس کا بھی اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: أَسْلَمْنَا ہمیشہ لاٹھی سے ہوتا ہے.“ ( یعنی طاقت سے.جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کثرت سے لوگ قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قبول کر لیا جاتا ہے.) اور امن اس وقت ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ دل میں ڈال دے.ایمان کے لوازم اور ہوتے ہیں اور اسلام کے اور.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس وقت ایسے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 55 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب لوازم پیدا کئے کہ جن سے ایمان حاصل ہو“.(البدر جلد 2 نمبر 19.29 رمئی (1471903 پھر فرماتے ہیں: ” مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے.اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسدا نہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دُور تر لے جاتے ہیں.“ 66 ( تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 103) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس اقتباس سے اس بات کی مزید وضاحت ہوگئی کہ تقوی کی باریک راہوں پر جب چلنے لگو تو تب سمجھا جائے گا کہ تم مومن ہو.اس میں سب سے پہلی چیز آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے زیادہ ہو اور اس کے مقابلہ میں کوئی دنیاوی رشتہ، کوئی محبت روک نہ بنے.پھر اخلاقی برائیاں ہیں ان میں علاوہ بڑی بڑی اخلاقی برائیوں کے چھوٹی چھوٹی بھی ہیں.مثلاً ہمسایوں سے اچھا سلوک نہ رکھنا، آپس میں مل کر کسی کا مذاق اڑانا، استہزاء کرنا ہنسی ٹھٹھا کرنا، اپنے بچوں سے بہت پیار کرنا اور دوسرے کے بچوں کو پرے دھکیلنا.اللہ تعالیٰ کے احکامات جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں کہ وقت پر نماز پڑھو، بڑوں سے ادب سے پیش آؤ، چھوٹوں سے شفقت کرو.یہ برائیاں ہیں یہ نہ کرنا.پھر یہ ہے کہ اپنے عہدیداروں کی ہر بات کو غور سے سننا اور ماننا.نظام جماعت کی پابندی کرنا.یہ اخلاقی اچھائیاں اگر پیدا ہو جائیں، تو پھر نظام ترقی کرتا ہے.تو فرمایا کہ اگر یہ سب کام خدا کی خاطر کرو گی تو مومن کہلا ؤ گی اور دن بدن ایمان مضبوط تر ہوتا جائے گا.اب یہ مومنانہ حالت پیدا کر لی ہے تو اس میں ایک اہم بات فرمانبرداری کی بھی ہے.اسی تعلق میں فرمایا گیا ہے کامل اطاعت اور فرمانبرداری دکھاؤ.اب یہ نہیں کہ فلاں عہدہ دار سے، فلاں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 56 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب صدر سے یا فلاں عورت سے جو اس وقت سیکرٹری تربیت ہے، کیونکہ میری بنتی نہیں اس نے ایک موقع پر آج سے اتنے سال پہلے مجھے لوگوں کے سامنے ٹو کا تھایا میری بات نہیں مانی تھی یا میرے بچوں کو نماز کے وقت شرارتیں کرنے پر خاموش کیا تھا، تو اس لئے اب میں اس کی بات نہیں مانوں گی.یہ فرمانبرداری نہیں ہے.اور پھر جبکہ اتنی ضد آ جاتی ہے، یہاں تک کہ اب چاہے جو مرضی وہ کہے میں اس کی بات نہیں مانوں گی.ایسی عورتیں جب نظام کی اطاعت چھوڑ دیتی ہیں تو پھر چاہے عہدیدار بھی نماز میں ٹیڑھی صفوں میں کھڑی عورتوں کو تلقین کرے کہ صفیں سیدھی کر لو آپس کے فاصلے کم کر لو، خلا کم کرو، تو اس کی بات نہیں مانتیں اور پھر ہنسی ٹھٹھے میں اس بات کو اڑا دیتی ہیں.تو اس کی بات نہ مان کر تم اس کی فرمانبرداری سے باہر نہیں جا رہی بلکہ نظام جماعت کے ایک کارکن کی بات نہیں مان رہی.اور صرف نظام جماعت کو لا پرواہی کی نظر سے نہیں دیکھ رہی بلکہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واضح حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہو ، اس کو کم نظر سے دیکھ رہی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز پڑھتے وقت اپنی صفوں کو سیدھا رکھو، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے درمیان شیطان آکر کھڑا ہو جائے گا.تو اس طرح اس عہدہ دار کی بات نہ مان کر اس کا تو کچھ ضائع نہیں ہو رہا آپ اپنے درمیان شیطان کو جگہ دے رہی ہیں.اس طرح سے ایک تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہیں.جبکہ دعویٰ یہ ہے کہ انسانوں میں سب سے زیادہ محبت ہمیں اپنے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.محبت کے تقاضے تو اس طرح پورے نہیں ہوتے.محبت کرنے والے تو اپنے محبوب کی آنکھ کے اشارے کو بھی سمجھتے ہیں.وہ تو اس کے ایک ارشاد پر اپنی جانیں قربان کرنے والے ہوتے ہیں.کجا یہ کہ اللہ کے گھر میں ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم کی پابندی نہ کر رہے ہوں اور یہ سمجھو کہ یہ بات یہیں ختم ہو گئی ؟ نہیں، جب تمہارے بچے تمہارا یہ عمل دیکھیں گے وہ بھی یہی سمجھیں گے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں سے نہ صرف کسی بھی اچھی بات کہنے والے کا احترام اٹھ جائے گا، بلکہ نظام کے کارکنوں کی اور عہدہ داروں کی عزت بھی ختم ہو جائے گی اور یہ سلسلہ صرف یہ نہیں کہ یہیں رک جائے گا بلکہ اور آگے بڑھے گا اور یہ اولادیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے بھی پرے ہٹنے والی ہو جائیں گی.نام کے تو احمدی رہیں گے، ایک احمدی گھرانہ میں جو پیدا ہوئے اس لئے احمدی ہیں.لیکن
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 57 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب خلافت اور نظام جماعت کا احترام کچھ نہیں رہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھی سرسری نظر سے دیکھنے والے ہوں گے.اور جب بھی ان کو شریعت کے بارے میں یا مذہب کے بارے میں یا جماعت کے بارے میں بتایا جائے گا، کوئی ایسی بات ہوگی ، کوئی حکم دیا جائے گا، تو ایسے بچے پھر منہ پرے کر کے گزر جانے والے ہوتے ہیں، کوئی توجہ نہیں دے رہے ہوتے.یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ ایسی ماؤں کے بچے پھر ایک وقت میں ان کے ہاتھ سے بھی نکل جاتے ہیں.ان کے کنٹرول میں بھی نہیں رہتے.اور پھر ماؤں کو فکر ہوتی ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے.تو ان کے بگڑنے کی ذمہ دار تو تم خود ہو.اگر تم چاہتی ہو تو اپنے عمل سے اپنی اولا دکو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتی ہو.کل مجھے امیر صاحب کہنے لگے کہ یہاں بچوں کی تربیت کے بڑے مسائل ہیں.بچے اسکول میں جاتے ہیں اور وہاں سکھایا جاتا ہے کہ یہ سوال کرو.اور جب ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ یہ کام کرو اور اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے تو سوال کرتے ہیں کہ پہلے ہمیں سمجھاؤ کہ کیوں؟ تو میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ یہ بچوں کی تربیت کے مسائل نہیں ہیں.یہ اچھی بات ہے انہیں سوال کرنے چاہئیں.یہ ماں اور باپ کی تربیت کے مسائل ہیں.بچے سوال کرتے ہیں تو ماں باپ ان کے سوالوں کے جوابات دیں.اس بارہ میں میں پہلے بھی جلسہ پر توجہ دلا چکا ہوں کہ بچوں سے دوستی کا ماحول پیدا کریں.ان کو احساس ہو کہ ہمارے ماں باپ ہمارے ہمدرد بھی ہیں، ہمارے دوست بھی ہیں.اور جب خود آپ میں دین کوٹ کوٹ کر بھرا ہو گا تو آپ ایک مضبوط ایمان والے ہوں گے.اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں گے، نظام کا احترام سکھانے والے ہوں گے ، تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بچے آپ کا کہا ماننے والے نہ ہوں.جو سوال و جواب ہو گا اس سے بہر حال ان کی تسلی ہو گی ، ان کی Satisfaction ہوگی.اور جب تک یہ بچے اس شعور کی عمر کو پہنچیں کہ ان کے دل میں مذہب کے بارے میں سوال پیدا ہونے شروع ہوں تو قرآن، حدیث پڑھ کر ، خلفاء کے خطبات سن کر ، علماء سے پوچھ کر، کتابیں پڑھ کر وہ خود اپنے سوالوں کا جواب تلاش کر لیں گے.یہ بات کئی دفعہ تجربہ میں آئی ہے کہ ماں بچوں کے سامنے کہہ دیتی ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 58 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب اب کوئی بچہ اس طرح بڑوں کا احترام نہیں کرتا ، بڑا مشکل کام ہے، یہ غلط ہے.بچوں پر الزام ہے.جب بچے کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے تو بچے وہیں ماں کے سامنے اعتراف کرتے ہیں کہ ٹھیک ہے، یہ بات مجھے یوں نہیں بلکہ اس طرح کرنی چاہئے تھی جس طرح آپ نے سمجھایا.تو بچوں سے یہاں میری مراد سولہ سترہ سال کی عمر کے بچے ہیں لڑکے، لڑکیاں.اور یہ نہیں ہے کہ بچوں نے یہ اعتراف میرے سامنے کیا ہے، جب ان کو سمجھایا گیا بلکہ جس نے بھی کسی عہدہ دار نے یا کسی بھی شخص نے جب بچوں کو سمجھایا اس کا فائدہ ہی ہوا ہے.سیچ اگر پیدا ہو جائے تو تمام بڑی بڑی برائیاں ختم ہو جاتی ہیں پھر اس آیت میں فرمایا ہے کہ سچ بولو اور سچ بولنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.سچ ایک ایسی بنیادی چیز ہے کہ اگر یہ پیدا ہو جائے تو تقریباً تمام بڑی بڑی برائیاں ختم ہو جاتی ہیں اور نیکیاں ادا کرنے کی توفیق ملنا شروع ہو جاتی ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب ایک شخص حاضر ہوا تھا اور اس نے عرض کی کہ میرے اندر اتنی برائیاں ہیں کہ میں تمام کو تو چھوڑ نہیں سکتا مجھے صرف ایک ایسی بیماری یا کمزوری یا برائی کے بارے میں بتائیں جس کو میں آسانی سے چھوڑ سکوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے زیادہ انسان کی نفسیات اور فطرت کو سمجھنے والے تھے آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے تم یوں کرو کہ صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دو.وہ شخص بڑا خوش ہوا کہ چلو یہ تو بڑا آسان کام ہے.اٹھ کر چلا گیا اور اس وعدے کے ساتھ اٹھا کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا.رات کو جب اس کو چوری کا خیال آیا، کیونکہ وہ بڑا چور تھا اس کو خیال آیا کہ اگر چوری کرتے پکڑا گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوں گا اور اقرار کرتا ہوں تو سزا ملے گی، شرمندگی ہوگی.اگر انکار کیا تو یہ جھوٹ ہے.تو جھوٹ میں نے بولنا نہیں کیونکہ وعدہ کیا ہوا ہے.تو آخر اسی شش و پنج میں ساری رات گزرگئی اور وہ چوری پر نہ جاسکا.پھر زنا کا خیال آیا تو پھر یہی بات سامنے آگئی.شراب نوشی اور دوسری برائیوں کا خیال آیا تو پھر یہی پکڑے جانے کا خوف اور جھوٹ نہ بولنے کا عہد یا د آتا رہا.آخر ایک دن وہ بالکل پاک صاف ہو کر حاضر ہوا اور کہا کہ اس جھوٹ نہ بولنے کے عہد نے میری تمام برائیاں دور کر دی ہیں.تو یہ ہے بیچ کی برکت کہ صرف عہد کرنے سے ہی کہ میں سچ بولوں گا
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل برائیاں دور ہو گئیں.59 سالانہ اجتماع یو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب تو جب کسی موقع پر آپ سچ بول رہی ہوں گی اور بیچ کا پرچار کر رہی ہوں گی تو پھر اس میں کس قدر برکتیں ہوں گی.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں، ذاتی گھر یلور رنجشیں ، عہدہ داروں کے خلاف جھوٹی شکایتوں کی وجہ بن رہی ہوتی ہیں.اور جب تحقیق کرو تو پتہ لگتا ہے کہ اصل معاملہ تو دیورانی جٹھانی کا یا نند بھابھی کا یا ساس بہو کا ہے نہ کہ جماعتی مسئلہ ہے.اس لئے ہمیشہ سچ کو مقدم رکھیں.سچ کو سب چیزوں سے زیادہ آپ کی نظر میں اہمیت ہونی چاہئے.کچی گواہی دیں.اپنے بچوں کو سچ بولنا سکھائیں.یہاں پر پھر میں وہی بات کہوں گا کہ اس معاشرہ میں بچوں کو سکولوں میں سچ بولنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے.اور اس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے سکولوں میں بتایا جاتا ہے کہ سچ بولنا ہے.تو جب بچہ گھر آتا ہے تو ایسی مائیں یا باپ جن کو نہ صرف سچ بولنے کی خود عادت نہیں ہوتی بلکہ بچوں کو بھی بعض دفعہ ارادةُ یا غیر ارادی طور پر جھوٹ سکھا دیتے ہیں.مثلاً اس طرح کہ گھر میں آرام کر رہے ہیں.کوئی عہدہ دار سیکرٹری مال یا صدر یا کوئی مرد یا یا لجنہ کی کوئی عورت کسی کام کے لئے آگئی تو بچہ کو کہہ دیا چلو کہہ دو جاکے کہ گھر میں نہیں ہے.یہ تو ایک مثال ہے.اس طرح کی اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں.چاہے یہ بہت تھوڑی ہی تعداد میں ہوں مگر ہمیں یہ تھوڑی تعداد بھی برداشت نہیں کہ سچ پر قائم نہ ہوں.کیونکہ اس تھوڑی تعداد کے بچے جب اپنے گھر سے غلط بات سیکھ رہے ہوتے ہیں.ایک تو وہ خود مذہب سے دور جارہے ہوتے ہیں کہ سکول میں تو ہم کو سچ بولنا سکھایا جا رہا ہے اور گھر میں جہاں ہمارے ماں باپ ہمیں کہتے ہیں کہ مذہب اصل چیز ہے، نماز میں پڑھنی چاہئیں، نیک کام کرنے چاہئیں ان کا اپنا عمل یہ ہے کہ ایک چھوٹی سے بات پر، کسی کو نہ ملنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہیں.سیدھی طرح صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ میں اس وقت نہیں مل سکتی.پھر ایسا بچہ اپنے ماحول میں بچوں کو بھی خراب کر رہا ہوتا ہے.کہ دیکھو یہ کیسی تعلیم ہے کہ ایک ذراسی بات پر میری ماں نے جھوٹ بولا ، یا میرے باپ نے جھوٹ بولا.تو جب اپنے ماں باپ کے یہ عمل بچہ دیکھتا ہے تو دور ہٹتا چلا جاتا ہے.اس لئے اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھیں اور خدا تعالیٰ کا خوف کریں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 60 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب پھر فرمایا صبر کرنے والے بنو.تمہارے اندر وسعت حوصلہ بھی ہونا چاہئے.صبر بھی ہونا چاہئے.برداشت کا مادہ بھی ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ ذراسی بات کسی سے سن لی اور صبر کا دامن ہی ہاتھ سے چھوٹ گیا.فون اٹھایا اور لڑائی شروع ہوگئی.یا اجلاس میں یا اجتماع کے موقع پر ملیں تو لڑ نا شروع کر دیا کہ تم نے میرے بارے میں یہ باتیں کی ہیں.یا میری بہن کے بارے میں یہ باتیں کی ہیں یا میرے بھائی کے بارے میں یہ باتیں کی ہیں.یا بچوں کے بارے میں فلاں بات کی ہے.تم ہوتی کون ہو، ایسی باتیں کرنے والی ، جب بھی مجھے موقع ملا میں تمہاری ایسی تیسی کر دوں گی! تو یہ جو چیزیں ہیں اب یہاں یورپ کے ملکوں میں بھی آ رہی ہیں مختلف طبقوں سے شہروں سے دیہاتوں سے ایشیا سے لوگ آئے ہیں، مختلف مزاجوں کے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں.بعض دفعہ تو پہلوں میں سے بھی بعض مثالیں ہیں.صرف یہ نہیں کہ نئے آنے والوں میں سے ہیں.بہر حال بعض دفعہ چاہے یہ تھوڑی تعداد میں ہی ہوں ، چند ایک ہی ہوں، ایسے لوگوں کو یہ یادرکھنا چاہے کہ اپنے ملک میں تو شاید آپ کی یہ برائیاں چھپ جائیں لیکن یہاں آکر نہیں چھپ سکتیں.تو ان برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں.ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ آپ اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے منسوب ہوچکی ہیں.آپ کے اخلاقی معیا ر اب بہت بلند ہونے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ اگر جماعت میں رہنا ہے تو اعلیٰ اخلاق بھی دکھانے ہوں گے ورنہ تو کوئی فائدہ نہیں.حضرت مسیح موعود نے اس کی مثال دی ہے کہ اس کی ایسی مثال ہے جس طرح درخت کی سوکھی شاخ جس کو کوئی اچھا مالی یا مالک برداشت نہیں کرتا بلکہ اس سوکھی شاخ کو کاٹ دیتا ہے.بے صبری کا مظاہرہ کرنا بھی سخت منع ہے پھر اسی لئے بے صبری کا مظاہرہ ہوتا ہے بعض دفعہ کوئی نقصان ہو جائے تو رونا دھونا اور پیٹنا شروع ہو جاتا ہے، یہ بھی سخت منع ہے.چاہے مالی نقصان ہو، جانی نقصان ہو.الحمد للہ جماعت احمدیہ میں اکثر مائیں اپنے بچوں کے ضائع ہونے پر بڑے صبر کا مظاہرہ کرتی ہیں.جان جانے پر بھی بڑے صبر کا مظاہرہ کرتی ہیں.لیکن کچھ شور مچانے والی ، رونے پیٹنے والی بھی ہوتی ہیں تو ان کو بھی بہر حال صبر کا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 61 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب مظاہرہ کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور یہ خوشخبری دیتا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کو بہت بڑا اجر دیتا ہوں.عاجزی کا نمونہ دکھائیں پھر اس آیت میں عاجزی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ عاجزی دکھاؤ.اب کہنے کو تو زبانی کہہ دیتے ہیں کہ میں تو بڑی عاجز ہوں.مالی لحاظ سے اپنے سے بہتر یا برابر سے تو بڑی جھک جھک کر یا اس level پر باتیں کر رہی ہوتی ہیں کہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی تکبر یا غرور ہے.لیکن پنت تب چلتا ہے جب اپنے سے مالی لحاظ سے یا مرتبہ کے لحاظ سے کم تر کسی عورت سے باتیں کر رہی ہوں.اس وقت پھر بعض دفعہ ایسی عورتوں سے جن میں عاجزی نہیں ہوتی رعونت اور تکبر کا اظہار ہورہا ہوتا ہے.یہ عاجزی نہیں ہے کہ امیروں سے تو عاجزی دکھادی اور غریبوں سے عاجزی نہیں ہوئی.اب بعض دفعہ یہ اظہار صرف بات چیت سے نہیں ہو رہا ہوتا.اگر غور کریں تو ایسی عورتوں کا پھر یا ایسے مردوں کا، دونوں اس میں شامل ہیں، آنکھوں سے بھی تکبر ٹپک رہا ہوتا ہے، گردن پر فخر اور تکبر نظر آرہا ہوتا ہے یا چہرے پر تکبر کے آثار نظر آرہے ہوتے ہیں.تو منہ سے جتنا مرضی کوئی کہے کہ میں تو بڑا عاجز انسان ہوں.زبان حال سے یہ پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور اس میں کوئی عاجزی نہیں.پھر گھروں میں مثلاً سجاوٹ کی کوئی چیز پڑی ہوئی ہے اس کی کوئی تعریف کر دیتا ہے، تو بڑی عاجزی سے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ سنتی سی ہے اور قیمت پوچھو تو پتہ چلتا ہے کہ صاف بناوٹ اور تصنع سے کام لیا ہے.تو یہ بناوٹ کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں.احمدی معاشرہ ان سے بالکل پاک ہونا چاہئے.حقیقی انکساری اور عاجزی دکھانی چاہئے.ہم تو ایک بہت بڑا مقصد لے کر کھڑے ہوئے ہیں اگر دنیاوی نام ونمود اور بناوٹ اور تصنع کے چکر میں پڑ گئے تو پھر ان اہم کا موں کو کون سرانجام دے گا جو ہمارے سپرد کئے گئے ہیں.اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ جتنا بڑا تمہیں مقام ملے اتنے ہی نیچے جھکتے جاؤ اور اس کے نتیجے میں خدا تمہیں اتنا ہی اونچا کرتا چلا جائے گا.تو ایمان کا تو یہ مقام ہے کہ اللہ کی ذات
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 62 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب پر ہی بھروسہ ہونا چاہئے نہ کہ بندوں پر.اور جس شخص کو ہم نے اس زمانہ میں مانا ہے اور اس کے سلسلہ بیعت میں شامل ہو کر اس کے ہر حکم کو بجالانے کا ہم عہد کرتے ہیں اس کا عمل تو عاجزی کی اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے کہ خدا نے بھی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ : ” تیری عاجزانہ را ہیں اسے پسند آئیں.پس ہر احمدی کو عمومی طور پر اور عہدہ داران کو خصوصی طور پر میں یہ کہتا ہوں کہ عاجزی دکھائیں، عاجزی دکھائیں اور عاجزی کو اپنے اندر اور اپنی ممبرات اور اپنے ممبران کے اندر چاہے مرد ہوں یا عورتیں، پیدا کرنے کی خاص مہم چلائیں.اس سال اکثر جگہ ذیلی تنظیموں کے انتخابات ہورہے ہیں آپ کا بھی کل ہو گیا.تو اس خوبصورت خلق کی طرف بھی توجہ دیں اور نئے عزم کے ساتھ توجہ دیں.عاجزی دکھا کر لوگوں سے دعائیں بھی لیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کی ضمانت بھی لیں.پس دیکھیں خدا تعالیٰ تو کس کس طریقے سے اپنے بندوں کی بخشش کے سامان کر رہا ہے کہ عاجزی دکھاؤ تب بھی تمہیں بخش دوں گا.اب ہم ہی ہیں جو ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے ان سے دور بھاگ رہے ہیں.پھر فرمایا صدقہ کرنے والے ہوں.اب صدقہ ایسی نیکی ہے جس کو کرنے والے کا تو بیڑا پار ہو گیا.لیکن ایسے لوگ جو تو فیق ہوتے ہوئے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ کے رسول نے بڑا سخت انذار کیا ہے اور تنبیہ کی ہے جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر صبح دوفرشتے اٹھتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ خرچ کرنے والے بھی کو اور دے اور اس جیسے اور پیدا کر.اور دوسرا کہتا ہے کہ روک رکھنے والے ، خرچ نہ کرنے والے، صدقہ خیرات نہ کرنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا سارا مال و متاع بر باد کر دے.یہ دیکھیں کس قدر انذار ہے.پھر پڑھی لکھیں عورتیں ہیں، بچیاں ہیں جو کسی بھی رنگ میں کوئی بھی کام کر سکتی ہیں، دوسروں کی کسی کام میں بھی مدد کر سکتی ہیں تعلیم میں یا کوئی چیز سکھانے میں تو یہ بھی ان کے لئے صدقہ ہے.تو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر کوئی ہر دوسرے کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچا تا رہے تا کہ یہ حسین معاشرہ قائم ہو جائے.اور خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں اپنے بندوں سے مغفرت کا سلوک فرمانے کا وعدہ کرتا ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 63 سالانہ اجتماع یو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب پھر فرمایا کہ روزہ رکھنے والیاں بھی میرے بہت قریب ہیں.اب صرف روزہ رکھنا ہی کافی نہیں ہے.ٹھیک ہے اس کا بھی ثواب ہے.لیکن اس کا ثواب تب ہے جب اس کے پورے لوازمات بھی ادا کئے جائیں.اب رمضان کے مہینہ میں ایک مہینہ روزہ رکھنے سے صرف اجر عظیم کے وارث نہیں بن جائیں گے.فرمایا یہ جو تم نے روزے رکھنے کا مجاہدہ کیا ہے اس کے اثرات اب سارے سال پر محیط ہونے چاہئیں.تمہاری راتیں عبادت میں زندہ رہنی چاہئیں، قرآن شریف کے پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی خاطر تمہاری توجہ رہنی چاہئے.پاک خیال اور پاک زبان کا لحاظ تمہیں ہر وقت رہنا چاہئے.اب مثلا روزہ دار کو حکم ہے کہ تم نے کسی کو نقصان نہیں پہنچانا کسی سے لڑنا نہیں ، ورنہ تمہارے روزے بے فائدہ ہیں.اگر تمہارے سے کوئی لڑے تمہیں کوئی غلط بات کہے تو کہہ دو کہ میں روزہ دار ہوں.اب یہ ہماری ٹریننگ کے لئے ہے کہ روزے میں یہ سب برائیاں چھوڑنی ہیں تا کہ یہ نیکیاں آئندہ زندگی میں بھی تمہاری روز مرہ زندگی کے معمول کا حصہ بن جائیں، اور یہ برائیاں چھوٹ جائیں.یہ نہیں کہ آج تو میں نے نہیں لڑنا ، میں نے چغلی نہیں کرنی میں نے غیبت نہیں کرنی ہیں نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا، میں نے کسی کے مال پر قبضہ نہیں کرنا ہمیں نے دو دلوں میں پھوٹ نہیں ڈالنی کیونکہ میں روزہ دار ہوں.جب میرے روزے ختم ہوں گے تو پھر میں تمہیں بتاؤں گی اور جواب دوں گی.کیونکہ جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ہے روزے ختم ہونے کے بعد ہی سارے سلوکوں کا جواب ملے گا.اب تعلیم یہ تو نہیں ہے.یہ تو ہمیں ہماری تربیت کا ایک طریق سکھلایا گیا ہے کہ رمضان میں، روزے کی حالت میں تم اپنی یہ برائیاں دور کرو اور پھر ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنالو.تو اللہ تعالیٰ بھی تمہارے لئے مغفرت کے سامان پیدا فرمائے گا.اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی تمہیں اجر عظیم سے نوازے گا.اور تمہاری اولادوں پر بھی فضل فرمائے گا انشاء اللہ.اب اس ضمن میں مزید کہنا چاہتا ہوں.چند دنوں تک انشاء اللہ تعالیٰ رمضان شروع ہونے والا ہے تو یہ عہد کریں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ایک یا دو برائیاں جو ہم میں ہیں یہ خود جائزہ لیں کہ کیا کیا برائیاں ہیں.ان کو ہم خود دور کریں گے اور ختم کریں گے.یہ بھی واضح کر دوں کہ کوئی اس وہم میں نہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 64 سالانہ اجتماع یو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب رہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں.اگر کوئی اس وہم میں ہے تو اس کو بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے.اللہ رحم کرے.پھر اس آیت میں ایک یہ حکم ہمیں دیا گیا ہے کہ شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والیاں بنو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اس سے مراد آنکھ ، کان منہ وغیرہ بھی ہیں کیونکہ اگر تم نے ان کی حفاظت نہ کی تو یہ بھی برائی پھیلانے کا ایک ذریعہ ہیں“.( کانوں سے بری باتیں سنو، منہ سے بری باتیں کرو تو یہ بھی ان کی حفاظت نہیں ہے.آنکھوں سے غلط قسم کے نظارے دیکھو تو یہ بھی منع ہے.بعض فلمیں دیکھی جاتی ہیں چاہے وہ گھر میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہوں یا باہر جا کر دیکھ رہے ہوں جو اخلاق سوز قسم کی فلمیں ہیں وہ بھی اسی سوز زمرہ میں آتی ہیں کہ تم نے اپنی آنکھوں کی حفاظت نہیں کی.) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ (المومنون:6) یعنی جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع کریں گے، لغو سے اعراض کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں گے.کیونکہ جب ایک شخص دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ کسی اور کے مال کو نا جائز طریقے سے کب حاصل کرنا چاہتا ہے.اور کب چاہتا ہے کہ میں کسی دوسرے کے حقوق کو دبا لوں اور جب وہ مال جیسی عزیز چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا.تو پھر آنکھ، ناک، كان، زبان وغیرہ کو غیر محل پر کب استعمال کرنے لگا ؟“.(یعنی کہ جہاں ان کو استعمال نہیں کرنا چاہیے وہاں کس طرح استعمال کر سکتا ہے.کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک شخص اول درجہ کی نیکیوں کی نسبت اس قدر محتاط ہوتا ہے تو ادنیٰ درجہ کی نیکیاں خود بخود عمل میں آتی جاتی ہیں.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد سوم ،سورۃ المومنون ، صفحہ 398) یعنی جب بڑی بڑی نیکیوں کے بارے میں محتاط ہو جاتا ہے تو چھوٹی چھوٹی جو نیکیاں ہیں اس شخص
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 65 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب سے خود بخو د ہونے لگ جاتی ہیں.پھر آپ نے فرمایا: قرآن شریف کے مخاطب چونکہ کل ملل اور فرقے تھے اور اس پر پہنچ کر تمام ضرورتیں ختم ہوگئی تھیں اس لئے قرآن کریم نے عقائد کو بھی اور احکام عملی کو بھی مدلل بیان کیا.( یعنی تمام فرقوں اور قوموں کی ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھیں.اس لئے قرآن شریف میں ان سب کے مطابق حکم دیا گیا ہے اور عقائد کو بھی ، احکام عملی کو بھی ، جو ایسے حکم ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہئے دلیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ (النور:31) - یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ کسی کے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج کی بھی حفاظت کریں.یعنی انسان پر لازم ہے کہ انسان چشم خوابیدہ ہو (یعنی کہ پوری آنکھ نہ کھولے.بلکہ جھکی ہوئی نظر ہو.'' تا کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے.کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص اور مخش باتیں سن گرفتنہ میں پڑ جاتے ہیں یعنی کہ ( کان جو ہیں یہ بھی فروج میں داخل ہیں.جو قصے سن کر باتیں سن کر پھر فتنے میں پڑ جاتے ہیں.کیونکہ جھگڑے کی باتیں جو ساری سنی جاتی ہیں جس طرح کہ پہلے میں نے کہا کہ کوئی بات اس سے سنی اور پھر جا کر لڑنے پہنچ گئے.تو یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے.اس لئے عام طور پر فرمایا کہ تم موریوں (سوراخوں) کو محفوظ رکھو اور فضولیات سے بالکل بند رکھو.ذَالِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور: ۳۱) یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے.اور یہ طریق تعلیم ایسی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے.جس کے ہوتے ہوئے بدکاروں میں نہ ہو گئے.( ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 55) اب جہاں مردوں کو یہ فرمایا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو کہ عورتوں کو نہ دیکھو، وہاں عورتوں کے لئے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 66 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب بھی ہے کہ ایک تو اپنی نظریں نیچی رکھیں اور مردوں کو نہ دیکھیں دوسرے قرآن کریم کے حکم کے مطابق پردہ کریں.انٹرنیٹ کے استعمال میں احتیاط کا پہلو اب یہاں یہ بہانے بنائے جاتے ہیں کہ یورپ میں پردہ کرنا بہت مشکل ہے.یہ بالکل غلط بات ہے.میں سمجھتا ہوں یہ ایک طرح کا Complex ہے اور عورتوں کے ساتھ مردوں کو بھی ہے.تم اپنی تعلیم چھوڑ کر خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی بجائے معاشرے کو خوش کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہو.بلکہ اس معاشرے میں بھی سینکڑوں، ہزاروں عورتیں ہیں جو پردہ کرتی ہیں، ان کو زیادہ عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے بہ نسبت پردہ نہ کرنے والیوں کے.اور معاشرتی برائیاں بھی ان میں اور ان کی اولا دوں میں زیادہ پیدا ہورہی ہیں جو پردہ نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے.بعض دفعہ بہت ہی بھیانک صورت حال سامنے آجاتی ہے.اب Internet کے بارے میں بھی میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی پردہ نہ کرنے کے زمرہ میں آتا ہے کہ Chatting ہو رہی ہے.یونہی جب آ کے Open کر رہے ہوتے ہیں انٹرنیٹ اور بات چیت (Chatting) شروع ہو گئی تو پھر شروع میں تو بعض دفعہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون بات کر رہا ہے؟ یہاں ہماری لڑکیاں بیٹھی ہیں دوسری طرف پتہ نہیں لڑکا ہے یا لڑکی ہے اور بعض لڑکے خود کو چھپاتے ہیں اور بعض لڑکیوں سے لڑکی بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں.اسی طرح یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ لڑکیاں سمجھ کر بات چیت شروع ہوگئی جماعت کا تعارف شروع ہو گیا.اور لڑکی خوش ہو رہی ہوتی ہے کہ چلو دعوت الی اللہ کر رہی ہوں.یہ پتہ نہیں کہ اس لڑکی کی کیا نیت ہے.آپ کی نیت اگر صاف بھی ہے تو دوسری طرف جولڑ کا Internet پر بیٹھا ہوا ہے اس کی نیت کیا ہے آپ کو کیا پتہ؟ اور آہستہ آہستہ بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں.اب تصویر میں دکھانا تو انتہائی بے پردگی کی بات ہے.اور پھر بعض جگہوں پہ رشتے بھی ہوئے ہیں.جیسے میں نے کہا کہ بڑے بھیانک نتیجے سامنے آئے ہیں.اور ان میں سے اکثر رشتے پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد نا کام بھی ہو جاتے ہیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 67 سالانہ اجتماع یو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب یا درکھیں کہ آپ نے اگر تبلیغ ہی کرنی ہے، دعوت الی اللہ کرنی ہے تو لڑکیاں لڑکیوں کو ہی دعوت الی اللہ کریں.اور لڑکوں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں.وہ کام لڑکوں کے لئے چھوڑ دیں.کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں.آج Internet ہے.آج سے پہلے بھی جہاں بھی وہ عورتیں جنہوں نے غیر از جماعت مردوں سے شادیاں کی ہیں، اب پریشانی اور پشیمانی کا اظہار کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ ہمارے سے یہ غلطی ہوگئی جو غیر از جماعت سے شادی کی.اول تو بچے باپ کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں، غیر از جماعت باپ کی طرف، اس لئے کہ اس میں آزادی زیادہ ہے.اور اگر بعض بچیاں ماں کے زیر اثر کچھ نہ کچھ جماعت سے تعلق رکھ بھی رہی ہیں تو باپ مجبور کر رہا ہے کہ تمہاری شادی غیر از جماعت میں ہی ہوگی.تو بعض بچیاں باپوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں.لھتی ہیں کہ ہماری مدد کی جائے ، ہم غیر از جماعت میں شادی نہیں کرنا چاہتیں لیکن اکثر مجبور بھی ہوتی ہیں.تو مائیں بھی اور باپ بھی اس بات پر نظر رکھیں کہ اس طرح کھلے طور پر یہ Internet کے رابطے نہیں ہونے چاہئیں.پیار سے سمجھا ئیں ، آرام سے سمجھا ئیں.جولڑ کیاں شعور کی عمر کو پہنچی ہوئی ہیں خود بھی ہوش کریں ورنہ یا درکھیں کہ آپ احمدی ماؤں کی کوکھوں سے نکلنے والے بچے غیروں کی گودوں میں دے رہی ہوں گی.کیوں آپ لوگ اپنے آپ پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں.لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 68 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق وفجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی جو آزادی کا نعرہ لگانے والے ہیں وہ سن لیں کہ ) اخلاقی حالت درست کرو.اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات سے مغلوب نہ ہو سکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں؟ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گو یا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دیتا ہے.ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجے پر غور نہیں کرتے.کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے.قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے.فرمایا: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ط ذالِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور: 31) که تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوگا.فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور اس میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے.پھر یا درکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کا رانسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے.(ملفوظات جلد چہارم، ص 104-105) اسی آیت کے بقیہ حصہ کی اب میں تشریح کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 69 سالانہ اجتماع ہو کے 2003 لجنہ اماءاللہ سے خطاب کرنے والیاں بنو.اس میں ایک تو پانچ وقت کی نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ خود بھی نمازوں کو سنوار کر جو نما ز پڑھنے کا حق ہے، اس حق کے ساتھ پڑھو، ٹھہر ٹھہر کر ، غور سے ہر لفظ جو تم پڑھتی ہو اس کو سمجھو، ذہن میں ہو کہ ہم اللہ کے حضور حاضر ہیں اور اس سے کچھ مانگنے آئے ہیں.وہی ہے جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے.وہی ہے جو ہماری مشکلیں آسان کرنے والا ہے.وہی ہے جس نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں.اور یہ باتیں اپنی اولادوں کے ذہنوں میں بھی ڈالیں.پھر ہر وقت یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ مختلف وقتوں میں ہم نے جو نمازیں پڑھی ہیں ان کا اثر اب ہمارے ذہنوں پر ہر وقت قائم رہنا چاہئے.ہر کام کرتے وقت اللہ کے نام سے شروع کیا جائے.اللہ کے ذکر سے زبانیں تر رکھی جائیں.درود شریف پڑھا جائے کیونکہ خدا تک پہنچنے کا راستہ اب رسول اللہ کے ذریعہ سے ہی ہے.بچوں کو اس ماحول میں رکھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سکول بھجوانے کے لئے اور ویسے بھی جب مائیں اپنے بچوں کو تیار کر رہی ہوتی ہیں اس وقت بھی ساتھ ساتھ بچوں کے لئے دعائیں کرتی جائیں.تو اس سے ایک تو بچوں میں بھی دعائیں کرنے کی عادت پیدا ہو جائے گی دوسرے آپ ان دعاؤں کے ذریعے سے ان بچوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا رہی ہوں گی اور یہ بچے جب بھی آپ سے جدا ہوں گے وقت گزاریں گے سکول کا یا جہاں بھی کھیلنے گئے ہیں تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے ، ان دعاؤں کے حصار میں ہوں گے جو آپ ان کے لئے ہر وقت کرتی رہتی ہیں.پھر خاوندوں کو بھی توجہ دلائیں، نمازوں کے لئے انہیں اٹھا ئیں.خاوند کا بیوی کو نماز کے لئے اٹھانا اور بیوی کا خاوند کو نماز کے لئے اٹھانا.حدیثوں میں آیا ہے کہ اس کا دونوں کو ثواب ہوتا ہے.ہمیشہ یادرکھیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.یہ دنیاوی چیزیں تو عارضی ہیں ختم ہو جائیں گی.ساٹھ ستر ، اسی سال کی عمر میں اللہ کے حضور حاضر ہونا ہی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نیکیوں پر قائم کرے اور آپ سب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں اور جماعت کی تعلیم پر عمل کرنے والی ہوں.جماعت کا وقار بلند کرنے والی ہوں اور اس اجتماع میں جو کچھ آپ نے حاصل کیا اس پر اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے.اب دعا کر لیں.(الفضل ربوہ 8 مارچ 2004)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 70 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 2004 بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن پردے کی اہمیت اور والدین کی ذمہ داریاں مردوں اور عورتوں کو غض بصر سے کام لینے کا حکم شادی بیاہ کے موقع پر پردہ کرنے میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے انٹرنیٹ رابطوں میں احتیاط کی ضرورت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 71 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن پردہ، پرہیز گاری اور تمدنی زندگی میں غض بصر کی ضرورت واہمیت تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ طَ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِيْنَتَهُنَّ إِلَّا مَاظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ صَ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَو بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِيْنَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ.ص وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوْبُوا إِلَى اللهِ جَمِيْعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ان آیات کا تر جمہ یہ ہے کہ (سورۃ النور: 31-32) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 72 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو.اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں.اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی ( جنسی ) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں.اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر ) وہ ظاہر کر دیا جائے جو ( عورتیں عموماً اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں.اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.ان آیات سے، جو میں نے تلاوت کی ہیں، سب کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس چیز کے بارہ میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں.اس مضمون کو خلاصہ دو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف اوقات میں بیان کر چکا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے.کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بھی بہت سے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.کوئی کہہ دیتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کیا صرف پردہ ہی ضروری ہے؟ کیا اسلام کی ترقی کا انحصار صرف پردہ پر ہی ہے؟ کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.ایسے لوگوں کو میرا ایک جواب یہ ہے کہ جس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آگئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 73 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن اسی کے ساتھ وابستہ ہے.چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں.اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پراتاری ہے اس کی تعلیم بھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی.اس لئے جن کے دلوں میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں.مردوں اور عورتوں کو غض بصر سے کام لینے کا حکم ان آیات میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کو میں مزید کھولتا ہوں.سب سے پہلے تو مر دوں کو حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں.یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز کو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے.یعنی لا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں.جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو.اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو.یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے ،راستوں پر پوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو.بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو.لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتا ہو کہ جس چیز پر ایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جانا ہے.نظر کس طرح ڈالنی چاہئے اس کی آگے حدیث سے وضاحت کروں گا.لیکن اس سے پہلے علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ غض بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکنا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے“.( تفسیر الطبری جلد 18 ص116-117) تو مردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.اور اگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے تو بہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہو جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”ہر ایک پر ہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد نمبر 10 ص344)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 74 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھا کریں.اگر عورت اونچی نظر کر کے چلے گی تو ایسے مرد جن کے دلوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے.تو ہر عورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غض بصر کا ، اس پر عمل کریں تا کہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہوں.کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کھی ہو، شرارت ہوتو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو.ہوسکتا ہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کریں اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہو.تو دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حد تک پابندی لگائی ہے.کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یا دیکھا جائے.بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو، ترشی ہوتا کہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیدا ہو.تو اس حد تک سختی کا حکم ہے.اور بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پر لڑکوں کو کھانا Serve کرنے کے لئے بلا لیا جاتا ہے.دیکھیں کہ سختی کس حد تک ہے اور کجا یہ کہ لڑکے بلا لئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر والے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے بھی جن کو کہا جاتا ہے وہ بھی کم از کم سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے ہوتے ہیں.بہر حال بلوغت کی عمر کوضرور پہنچ گئے ہوتے ہیں.وہاں شادیوں پر جوان بچیاں بھی پھر رہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بیرے بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں.تو جیسا کہ میں نے کہا ہے بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور ان سے پردے کا حکم ہے.اگر چھوٹی عمر کے بھی ہیں تو جس ماحول میں وہ بیٹھتے ہیں ، کام کر رہے ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بیٹھ کر ان کے ذہن بہر حال گندے ہو چکے ہوتے ہیں.اور سوائے کسی استثناء کے الا ماشاء اللہ ، اچھی زبان ان کی نہیں ہوتی اور نہ خیالات اچھے ہوتے ہیں.پاکستان میں تو میں نے دیکھا ہے کہ عموماً یہ لڑ کے تسلی بخش نہیں ہوتے.تو ماؤں کو بھی ہوش کرنی چاہئے کہ اگر ان کی عمر پر دے کی عمر سے گزر چکی ہے تو کم از کم اپنی بچیوں کا تو خیال رکھیں.کیونکہ ان کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں تو آپ نیچی نہیں کر سکتے.یہ لوگ باہر جا کر تبصرے بھی کر سکتے ہیں اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 75 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن پھر بچیوں کی ، خاندان کی بدنامی کا باعث بھی ہو سکتے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ احمدی لڑکے ، خدام، اطفال کی ٹیم بنائی جائے جو اس طرح شادیوں وغیرہ پر کام کریں.خدمت خلق کا کام بھی ہو جائے گا اور اخراجات میں بھی کمی ہو جائے گی.بہت سے گھر ہیں جو ایسے بیروں وغیرہ کو رکھنا Afford ہی نہیں کر سکتے لیکن دکھاوے کے طور پر بعض لوگ بلا بھی لیتے ہیں تو اس طرح احمدی معاشرے میں باہر سے لڑ کے بلانے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ یا اگر لڑکیوں کے فنکشن ہیں تو لجنہ اماءاللہ کی لڑکیاں کام کریں.اور اگر زیادہ ہی شوق ہے کہ ضرور ہی خرچ کرنا ہے،Servc کرنے والے لڑکے بلانے ہیں یا لوگ بلانے ہیں تو پھر مردوں کے حصے میں مرد آئیں.یہاں میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں بھی Serve کرتی ہیں عورتوں کے حصے میں، تو وہاں پھر عورتوں کا انتظام ہونا چاہئے اور اس بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک طرح کا احساس کمتری ہے.کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.اگر یہ ارادہ کر لیں کہ ہم نے قرآن کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور پاکیزگی کو بھی قائم رکھنا ہے تو کام تو ہو ہی جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو ثواب بھی مل رہا ہوگا.اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں پھر فرمایا کہ زینت ظاہر نہ کرو.اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا عورتوں کو حکم ہے میک آپ وغیرہ کر کے باہر نہ پھریں.باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آ ہی جائے گا.یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئے اس طرح کی قید نہیں رکھی.تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو اس کے علاوہ باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا پردہ ہو.پھر چادر سامنے گردن سے نیچے آرہی ہو.اس طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں.سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہو کہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 76 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا.یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کو جائز رکھا ہے.یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو.میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال.لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پر دے میں داخل نہیں.چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے.“ پھر فرمایا کہ: اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا.اور پر وہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں.اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پر دے کے حکم میں ہی شامل ہے.لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا.غرضِ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے ما تحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ نگا کرنا پڑے نگا کیا جاسکتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 298-299) تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے.چہرہ چھپانے کا بہر حال حکم ہے.اس حد تک چہرہ چھپایا جائے کہ بے شک ناک نگا ہو اور آنکھیں سنگی ہوں تا کہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 77 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن چہرہ کا پردہ کیوں ضروری ہے؟ چہرہ کا پردہ کیوں ضروری ہے؟ اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس لڑکی کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا جس کا رشتہ آیا تھا.اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی.پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو.تم نے اس کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ.کیونکہ پردے کا حکم تھا بہر حال دیکھا نہیں ہوگا.تو جب وہ اس کے گھر گیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور میں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا.پھر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا.بہر حال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے.اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ تختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا.تو لڑ کی جو اندر بیٹھی یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو.تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھا تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا.ہر ایک کو پتہ ہوتا کہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل.اسی طرح ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے.رات کو حضرت صفیہ کو چھوڑ نے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آرہے تھے.ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھونگھٹ اٹھاؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے.کہیں شیطان تم پر حملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانانہ شروع کر دو.تو چہرے کا پردہ بہر حال ہے.پھر حضرت مصلح موعود درضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 78 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن حکم دیا گیا ہے.بے شک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہرے کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنالیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے.مگر چہرے کو پردہ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 301) پھر فرمایا کہ جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پر دہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں.اور بوڑھی عورتوں کو جبراً گھروں میں بٹھایا جارہا ہے.عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ اَنْ يُضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہو گیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 396-397) ہوتا یہی ہے کہ اگر پردہ کی خود تشریح کرنی شروع کردیں اور ہر کوئی پردے کی اپنی پسند کی تشریح کرنی شروع کر دے تو پردے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہ سکتا.اس لئے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کے پردے کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے.اب کسی نے لکھا کہ مغربی ممالک میں ملازمت کے سلسلہ میں ایک یونیفارم ہے جس میں جینز اور بلا و زیا اسکرٹ استعمال ہوتا ہے تو کیا میں یہ پہن کر کام کر سکتی ہوں.اس کو میں نے جواب دیا کہ اگر لمبا کوٹ پہن کر اور سکارف سر پر رکھ کر کام کرنے کی اجازت ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ کوئی اجازت نہیں.اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے پردہ کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں.یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سر ہے، بھائی ہے یا بھیجے، بھانجے وغیرہ.ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی نہیں ان سب سے پردہ ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 79 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن پھر فرمایا کہ اپنی عورتوں کے سامنے تم زینت ظاہر کر سکتی ہو.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورتیں جن سے بے تکلفانہ یا بے حجابانہ تمہیں سامنے نہیں آنا چاہئے.اب بازاری عورتیں ہیں ان سے بچنے کی تو ہر شریف عورت کوشش کرتی ہے.ان کی حرکات، ان کا کردار ظاہر وباہر ہوتا ہے، سامنے ہوتا ہے لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگوں کے لئے کام کر رہی ہوتی ہیں.اور گھروں میں جا کر پہلے بڑوں سے دوستی کرتی ہیں.جب ماں سے اچھی طرح دوستی ہو جائے تو پھر بچیوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بعض دفعہ برائیوں کی طرف ان کو لے جاتی ہیں.تو ایسی عورتوں کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ ہر ایرے غیرے کو، ہر عورت کو اپنے گھروں میں نہ گھنے دو.ان کے بارہ میں تحقیق کر لیا کرو، اس کے بعد قدم آگے بڑھاؤ.حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ پہلے یہ طریق ہوا کرتا تھا ( کسی زمانے میں کم تھا لیکن آج کل پھر بعض جگہوں سے ایسی اطلاعیں آتی ہیں کہ پھر بعض جگہوں پر ایسے گروہ بن رہے ہیں جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں.خاص طور پر احمدی بچوں کو پاکستان میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے بلکہ ماں باپ کو بھی احتیاط کرنی چاہئے ) کہ بعض دفعہ گھریلو کام کے لئے ایک عورت گھر میں داخل ہوتی ہے اور اصل میں وہ ایجنٹ ہوتی ہے کسی کی اور اس طرح پھر آہستہ آہستہ ورغلا کر پہلے دوستی کے ذریعہ اور پھر دوسرے ذریعوں سے بچیوں کو غلط قسم کی عادتیں ڈال دیتی ہیں.تو ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں، ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئیں.اسی طرح اب اس طرح کا کام، بری عورتوں والا ، انٹرنیٹ نے بھی شروع کر دیا ہے.جرمنی وغیرہ میں اور بعض دیگر ممالک میں ایسی شکایات پیدا ہوئی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ پہلے علمی با تیں کر کے یا دوسری باتیں کر کے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر غلط راستوں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.انٹرنیٹ رابطوں میں احتیاط کی ضرورت میں متعدد بارا نٹرنیٹ کے رابطوں کے بارہ میں احتیاط کا کہہ چکا ہوں.بعد میں پچھتانے کا کوئی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 80 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن فائدہ نہیں ہوتا.یہ باپوں کی بھی ذمہ داری ہے، یہ ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ انٹرنیٹ کے رابطوں کے بارہ میں بچوں کو ہوشیار کریں.خاص طور پر بچیوں کو.اللہ تعالیٰ ہماری بچیوں کو محفوظ رکھے.تو ملازم رکھنے ہوں یا دوستیاں کرنی ہوں جس کو آپ اپنے گھر میں لے کر آرہے ہیں اس کے بارہ میں بہت چھان بین کر لیا کریں.آج کل کا معاشرہ ایسا نہیں کہ ہر ایک کو بلا سوچے سمجھے اپنے گھر میں لے آئیں.یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے.پھر بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ ہر قسم کے ملازمین کے سامنے بے حجابانہ آجاتے ہیں.تو سوائے گھروں کے وہ ملازمین یا وہ بچے جو بچوں میں پلے بڑھے ہیں یا پھر بہت ہی ادھیڑ عمر کے ہیں جو اس عمر سے گزر چکے ہیں کہ کسی قسم کی بدنظری کا خیال پیدا ہو یا گھر کی باتیں باہر نکالنے کا ان کو کوئی خیال ہو.اس کے علاوہ ہر قسم کے لوگوں سے، ملازمین سے پردہ کرنا چاہئے.بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملازمین جن کو ملازمت میں آئے چند ماہ ہی ہوئے ہوتے ہیں، بے دھڑک بیڈ روم میں بھی آجا رہے ہوتے ہیں اور عورتیں اور بچیاں بعض دفعہ وہاں بغیر دوپٹوں کے بھی بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں.اور اس کو روشن دماغی کا نام دیا جاتا ہے.یہ روشن دماغی نہیں ہے.جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پچھتاتے ہیں.پھر جو چھوٹ ہے اس آیت میں ، وہ چھوٹے بچوں سے پردہ کی ہے.فرمایا کہ چال بھی تمہاری اچھی ہونی چاہئے ، باوقار ہونی چاہئے ، یونہی پاؤں زمین پر مار کے نہ چلو.اور ایسی باوقار چال ہو کہ کسی کو جرات نہ ہو کہ تمہاری طرف غلط نظر سے دیکھ بھی سکے.جب تم پردوں میں ہوگی اور مکمل طور پر صاحب وقار ہوگی تو کسی کو جرات نہیں ہوسکتی کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر ڈالے.پھر ہمارے معاشرے میں زیور وغیرہ کی نمائش کا بھی بہت شوق ہے.گو چوروں ڈاکوؤں کے خوف سے اب اس طرح تو نہیں پہنا جا تا لیکن پھر بھی شادی بیاہ پر اس طرح بعض دفعہ ہو جاتا ہے کہ راستوں سے عورتیں گزر کر جارہی ہوتی ہیں جہاں مرد بھی کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں ڈگر ڈگر زیور کی نمائش بھی ہو رہی ہوتی ہے.تو اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے.پھر حضرت مصلح موعودؓ نے پاؤں زمین پر مارنے سے ایک یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے ناچ یا ڈانس کو بھی مکمل طور پر منع کر دیا ہے کیونکہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور بعض عورتیں کہتی ہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 81 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن کہ عورتیں عورتوں میں ناچ لیں تو کیا حرج ہے؟ عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے.قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے تو بہر حال ہراحمدی عورت نے اس حکم کی یا بندی کرنی ہے.اگر کہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہوا ہے تو وہاں بہر حال نظام کو حرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی تربیت میں کمی ہے کہہ دیتی ہیں کہ ربوہ جاؤ تو وہاں تو لگتا ہے کہ شادی اور مرگ میں کوئی فرق نہیں ہے.کوئی ناچ نہیں، کوئی گانا نہیں ، کچھ نہیں.تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شرفاء کا ناچ اور ڈانس سے کوئی تعلق نہیں.اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ایسی شادیوں میں نہ شامل ہو.جہاں تک گانے کا تعلق ہے تو شریفانہ قسم کے، شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں.پھر دعائیہ نظمیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں.تو یہ کس طرح کہہ سکتی ہیں کہ شادی میں اور موت میں کوئی فرق نہیں، یہ سوچوں کی کمی ہے.ایسے لوگوں کو اپنی حالت درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم تو دعاؤں سے ہی نئے شادی شدہ جوڑوں کو رخصت کرتے ہیں تا کہ وہ اپنی نئی زندگی کا ہر لحاظ سے با برکت آغاز کریں اور ان کو اس خوشی کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا گھر آبادر کھے، نیک اور صالح اولا د بھی عطا فرمائے.پھر یہ کہ وہ دونوں دین کے خادم ہوں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم ہوں.پھر یہ ہے کہ دونوں فریق جو شادی کے رشتے میں منسلک ہوئے ہیں ، ان کے لئے یہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے والدین کے اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں.تو احمدی تو اسی طرح شادی کرتے ہیں اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو ہوتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے کہ خوشیاں بھی مناؤ تو سادگی سے مناؤ اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ پیش نظر رکھو.کیونکہ ہماری کامیابی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی طرف جھکنے میں ہی ہے.اس لئے ہم تو اسی طرح شادیاں مناتے ہیں.اور جو غیر بھی ہماری شادیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ اچھا اثر لے کر جاتے ہیں.اب چندا حادیث پیش کرتا ہوں.ابوریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے.ایک
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 82 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن رات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی.اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے.پھر اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے.اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عز وجل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو.(سنن دارمی، كتاب الجهاد، باب في الذي يسهر في سبيل الله حارساً) تو دیکھیں غض بصر کا کتنا بڑا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں، شہید ہونے والوں یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی آنکھ کا رتبہ ایسے لوگوں کو حاصل ہو رہا ہے.اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ، ہمیشہ عبادت بجالانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے.حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو.صحابہ نے عرض کی، یا رسول اللہ علیہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر رستے کا حق ادا کرو.انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 61 مطبوعه بیروت) دیکھیں کس قدر تاکید ہے کہ اول اگر کام نہیں ہے تو کوئی بلا وجہ راستے میں نہ بیٹھے.اور اگر مجبوری کی وجہ سے بیٹھنا ہی پڑے تو پھر راستے کا حق ادا کرو.بلا وجہ نظریں اٹھا کے نہ بیٹھے رہو بلکہ غض بصر سے کام لو، اپنی نظروں کو نیچارکھو، کیونکہ یہ نہیں کہ ایک دفعہ نظر پڑ گئی تو پھر ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دیکھتے ہی چلے گئے.ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور میمونہ بھی ساتھ تھیں تو ابن ام مکتوم آئے یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے تو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 83 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن اس سے پردہ کرو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں.(ترمذى كتاب الأدب عن رسول الله باب ما جاء في احتجاب النساء من الرجال) دیکھیں کس قدر پابندی ہے پردہ کی کہ محض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا.حضرت جریر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارہ میں دریافت کیا.حضور نے فرمایا " اضرِف بَصَرَک “ اپنی نگاہ ہٹا لو.(ابو داؤد كتاب النكاح باب فى ما يؤمر به من غض البصر) تو دیکھیں اسلامی پردہ کی خوبیاں.نظر پڑ جاتی ہے ٹھیک ہے، قدرتی بات ہے.ایک طرف تو عورت کو یہ فرما دیا کہ تمہیں باہر نکلنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ پردہ کر کے باہر نکلو.اور جو ظاہری نظر آنے والی چیزیں ہیں، خود ظاہر ہونے والی ہیں ان کے علاوہ زینت ظاہر نہ کرو.اور دوسری طرف مردوں کو یہ کہہ دیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، بازار میں بیٹھو تو نظر نیچی رکھو اور اگر نظر پڑ جائے تو فوراً ہٹالو تا کہ نیک معاشرے کا قیام عمل میں آتا رہے.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ فضل ( بن عباس ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے تو شم قبیلہ کی ایک عورت آئی.فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی.تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا.(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضله) حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غض بصر کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے.(مسند أحمد مسند باقى الانصار باب حديث أبي أمامة الباهلي الصدى بن عجلان)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 84 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن تو دیکھیں نظریں اس لئے نیچی کرنا کہ شیطان اس پر کہیں قبضہ نہ کر لے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کی تو فیق دیتا ہے اور عبادات کی توفیق دیتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچار ہے.کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرنے...یہ ہے سر اسلامی پردہ کا اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں.(البدر جلد 3 نمبر 33 مورخہ 8 ستمبر 1904ء صفحہ 5-7.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحہ 443) پھر فرماتے ہیں: ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پُر شہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے.“ پھر فرمایا: (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 ص341-342) ” مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ (النور: 31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 85 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن چاہئے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ،صفحہ 533) اب یہ جو غض بصر کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے اور توبہ کرنے کا بھی حکم ہے، یہ سب احکام ہمارے فائدے کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا پیار، اپنا قرب عطا فرمائے گا کہ اس کے احکامات پر عمل کیا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس معاشرے میں، اس دنیا میں جہاں تم رہ رہے ہو، ان نیکیوں کی وجہ سے تمہاری پاکدامنی بھی ثابت ہو رہی ہوگی اور کوئی انگلی تم پر یہ اشارہ کرتے ہوئے نہیں اٹھے گی کہ دیکھو یہ عورت یا مردا خلاقی بے راہ روی کا شکار ہے، ان سے بچ کر رہو.اور لوگ یہ کہتے پھریں کہ خود بھی بچو اور اپنے بچوں کو بھی ان سے بچاؤ نہیں بلکہ ہر جگہ نیکی کی وجہ سے ہمیں عزت کا مقام ملے گا.دیکھیں جب ہرقل بادشاہ نے ابوسفیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے بارہ میں پوچھا کہ کیا ان کی تعلیم ہے اور کیا ان کے عمل ہیں؟ تو با وجود دشمنی کے ابوسفیان نے اور بہت ساری باتوں کے علاوہ یہی جواب دیا کہ وہ پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہیں.تو ہر قل نے کہا کہ یہی ایک نبی کی صفت ہے.پھر محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل امور کی وصیت کی پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک وصیت یہ ہے.کہ عفت ( یعنی پاکدامنی ) اور سچائی، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے.(سنن دارقطنی، کتاب الوصايا، باب مايستحب بالوصية من التشهدوالكلام) تو پاکدامنی ایسی چیز ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں ہو اس کا طرہ امتیاز ہو گی اور ہمیشہ ہر انگلی اس پر اس کی نیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹھے گی.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہوں“.اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو پردہ میں نہیں ہوتیں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو عورت پر دے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 86 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نا محرموں سے بچاویں یعنی بریگا نہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 341) اب تو گانے وغیرہ سے بڑھ کر بیہودہ فلموں تک نوبت آگئی ہے.اس بارے میں عورتوں اور مردوں دونوں کو احتیاط کرنی چاہئے.دکانیں کھلی ہوئی ہیں، جا کے ویڈیو کیسٹ لے آئیں یا سیڈیز (CDs) لے آئیں، اور پھر انتہائی بیہودہ اور لچر قسم کی فلمیں اور ڈرامے ان میں ہوتے ہیں.جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارہ میں نظر رکھنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو، بچوں کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے، سمجھانا چاہئے.کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ چیزیں بالآخر غلط راستوں پر لے جاتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدائے تعالیٰ نے خُلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کیلئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دیئے ہیں.یعنی یہ کہ (1) اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، (2) کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، (3) نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا.(5) اگر نکاح نہ ہوتو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے.اور اس جگہ ایک نکتہ یادرکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 87 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن سکتے.یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زمینوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں.اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بریگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں.بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہر گز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ نا پاک نظر سے.اور ان کی خوش الحانی کی آواز میں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے.بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے، تا ٹھوکر نہ کھاویں.کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں.سوچونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم پھر فرمایا: 66 فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 343) خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ انسانی قومی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس سے بد خطرات جنبش کر سکیں“.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 344) پھر آپ عورتوں کے لئے پر دے کے بارہ میں فرماتے ہیں: شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں.مثلاً منہ پر اردگر داس طرح پر چادر ہو ( اس جگہ انسان کے چہرہ کی شکل دکھا کر جن مقامات پر پردہ نہیں ہے اُن کو گھلا رکھ کر باقی پردہ کے نیچے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 88 خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004 بمقام بیت الفتوح لندن دکھایا گیا ہے ) اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں.“ ریویو آف ریلیجنز جلد 4 ، جنوری 1905، صفحہ 17) تو آج کل جو برفقے کا رواج ہے، کوٹ کا اور نقاب کا ، اگر وہ صحیح طور پر ہو، ساتھ چپکا ہوا برقعہ یا کوٹ نہ ہوتو بڑا اچھا پر دہ ہے.اس سے ہاتھ بھی کھلے رہتے ہیں ، آنکھیں بھی کھلی رہتی ہیں ، سانس بھی آتا رہتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کرسکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرات سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاک دامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذراسی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے.خدا کو راضی کرے پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے.ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے.مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الہی کے سوا نہیں ہوسکتا.صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 29) انسان نا تواں ہے.غلطیوں سے پر ہے.مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے.( ملفوظات جلد پنجم طبع جدید صفحہ 543) اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 89 دورہ مغربی افریقہ 2004 سے مراجعت پر لجنہ برطانیہ کی استقبالیہ تقریب سے خطاب (فرموده یکم مئی 2004(خلاصه) افریقن احمدیوں کی ایمان اور خلافت سے بے لوث محبت ہر دور میں جماعت احمدیہ نے ترقی کی ہے تائیدات الہیہ کے نظارے خلافت احمدیہ کی برکات جو ہم سو سال سے ملاحظہ کر رہے ہیں خلافت سے وابستگی کی وجہ سے جماعت ترقی کرتی چلی گئی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 00 90 لجنہ اماءاللہ بر طانیہ کی استقبالیہ تقریب 2004 سے خطاب برکات خلافت یکم مئی 2014 کو لجنہ اماءاللہ یو کےکی طرف سے سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا کے مغربی افریقہ کے کامیاب اور بابرکت دورہ سے مراجعت پر ایک سادہ اور پر وقار استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی.اس موقع پر مکرمہ صاحبزادی فوزیہ لقمان صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ یو کے نے استقبالیہ ایڈریس میں حضور ایدہ اللہ اور حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا کی خدمت میں مغربی افریقہ کے کامیاب دورہ سے واپسی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس تاریخ ساز دورہ میں ہم نے افریقہ کے احمدیوں کی طرف سے خلافتِ احمد یہ اور خلیفہ وقت سے محبت اور پیار کے جو نظارے دیکھے وہ قابل رشک ہیں.افریقہ کے لوگوں کا نظم و ضبط، باوقار انداز اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے قابل دید تھے.ان کے سینے خدا کی محبت سے معمور اور چہرے نور ایمان سے منور نظر آتے تھے.انہوں نے خدا تعالیٰ کے پیارے مسیح و مہدی کے نمائندہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ کے وہاں آنے اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے تمام لمحات کو اپنی محبت اور عقیدت سے امر بنا دیا.ان کے جذبوں کی سچائی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے عیاں تھی.ان روح پرور نظاروں نے ہمارے ایمانوں کو مزید جلا بخشی.خدا تعالیٰ کے نشانات کو ہم نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا.الحمدللہ.ہماری دعا ہے کہ یہ قوم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں سے فیض پا کر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 91 لجنہ اماءاللہ بر طانیہ کی استقبالیہ تقریب 2004 سے خطاب صف اول میں شامل ہو جائے تا دنیا دیکھ لے کہ مسیح و مہدی موعود کی برکت سے ایک قوم نئی زندگی پا کر باوقار انداز میں سراٹھا کر باقی دنیا کے شانہ بشانہ چل رہی ہے.نیز خدا تعالیٰ اس بابرکت سفر کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگِ میل بنائے اور اس کے اثرات کو آئندہ آنے والے زمانوں پر محیط کر دے.آمین.خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس موقع پر حضور ایدہ اللہ نے لجنات سے مخاطب ہوتے ہوئے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کیا.جس میں حضور نے فرمایا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اب آپ کی واپسی کا وقت قریب ہے اور ایک مقبرہ قائم کیا جائے جس میں اعلیٰ معیار والے اور قربانی کرنے والے لوگوں کی تدفین ہوگی تو اس وقت آپ نے رسالہ الوصیت کے نام سے ایک رسالہ لکھا.اس میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”اے عزیز و ! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی“.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 ) حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود کے اس ارشاد کو ، اس خوشخبری کو ہمیشہ گذشتہ سوسال میں سچا ہوتے دیکھا اور دیکھتے رہے.خلافت اولی کے وقت لوگوں کا خیال تھا کہ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 92 لجنہ اماءاللہ برطانیہ کی استقبالیہ تقریب 2004 سے خطاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی ہے اب احمدیت چند دن کی مہمان ہے.پھر خلافت ثانیہ میں جب اندرونی فتنہ بھی اٹھا اور ایسے لوگ جو خلافت کے منکر تھے ان کو پیغامی بھی کہا جاتا ہے اور لاہوری بھی اور غیر مبایعین بھی، انہوں نے بڑا زور لگایا کہ انجمن اب حقدار ہونی چاہئے نظام جماعت کو چلانے کی اور خلافت کی کوئی ضرورت نہیں ہے.حضرت مصلح موعوددؓ کی عمر اس وقت صرف 24 سال تھی اور بڑے بڑے پڑھے لکھے علماء اور دین کا علم رکھنے والے اور جو اس وقت احمدیت کے نظام جماعت کے ستون سمجھے جاتے تھے وہ سب علیحدہ ہو گئے اور کچھ لوگ حضرت خلیفۃ مسیح الثانی کے ساتھ رہے.لیکن ہم نے دیکھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا 52 سالہ دور خلافت ہر روز ترقی کی نئی منزل طے کرتا تھا.آپ کے دور میں افریقہ میں بھی مشن کھلے، یورپ میں بھی مشن کھلے اور خلافت کے دس سال بعد ہی یہاں لندن میں آپ نے اس مسجد کی بنیاد بھی رکھی.پھر خلافت ثالثہ کا دور آیا.اس میں بھی خاص طور پر افریقن ممالک میں اور ان افریقن ممالک میں جو انگلستان کی کالونیز رہیں کسی زمانے میں، ان میں احمدیت خوب پھیلی اور کافی حد تک Establish ہوگئی.پھر خلافت رابعہ کے دور میں ہم نے ہر روز ترقی کا ایک نیا سورج چڑھتا دیکھا.افریقہ میں بھی یورپ میں بھی ایشیا میں بھی.پھر MTA کے ذریعہ سے دنیا کے کونے کونے تک جماعت کی آواز پھیلی.تو یہ ترقیات جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دوسری قدرت کا آنا ضروری ہے کیونکہ وہ دائی ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے، اور ہمیشہ وہی چیز میں رہا کرتی ہیں جو اپنی ترقی کی منازل طے کرتی چلی جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت سے وابستگی کی وجہ سے جماعت ترقی کرتی چلی گئی.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی وفات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ منصب دیا تو با وجود اس خوف کے جو میرے دل میں تھا کہ جماعت کس طرح چلے گی، اللہ تعالیٰ نے خود ہر چیز اپنے ہاتھ میں لی.اور جو ترقی کا قدم جس رفتار سے بڑھ رہا تھا اسی طرح بڑھتا چلا گیا اور چلتا چلا جا رہا ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود سے خدا کا یہ وعدہ ہے کہ میں تیری جماعت کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمین کے کناروں تک پہنچ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 93 لجنہ اماءاللہ برطانیہ کی استقبالیہ تقریب 2004 سے خطاب رہی ہے اور لوگ جوق در جوق اس میں شامل بھی ہو رہے ہیں.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اصل میں اللہ تعالیٰ کو اپنے پیاروں کی عزت کا بڑا خیال رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک کام ہے جو بعض لوگوں کے ذریعہ سے کرواتا ہے.اور انبیاء کو جو دنیا میں بھیجتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہوتے ہیں ان کے ذریعہ سے وہ دنیا میں اپنی تعلیم اور اپنا نظام قائم کرنا چاہتا ہے.اور پھر انبیاء کے بعد ان کے ماننے والوں کے ذریعہ اور پھر خلافت کے ذریعہ سے وہ نظام جاری رہتا ہے اور ترقی کرتا چلا جاتا ہے.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اب افریقہ کے ممالک ہیں.دو ممالک ایسے ہیں جہاں گزشتہ دس پندرہ سال میں جماعت احمد یہ قائم ہوئی اور ایک آدمی سوچ سکتا ہے کہ ٹھیک ہے غریب لوگ ہیں انہوں نے جماعت کو مان لیا لیکن شاید بھیڑ چال میں مان لیا ہو.لیکن جب آپ وہاں جا کر دیکھتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ جس فراست سے اور روشن دماغی سے اور نور یقین کے ساتھ انہوں نے جماعت کو، احمدیت کو قبول کیا ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی اگر دی جائے تو یہ حالت میسر آسکتی ہے.مرد، عورتیں، بچے مختلف طبقات میں سے جماعت میں شامل ہوئے.کچھ احمدیت میں شامل ہونے سے پہلے پیکنز (Pagans) تھے، لا مذہب تھے.کچھ عیسائیت میں سے آئے، کچھ مسلمانوں میں سے آئے.غرض مختلف مذاہب میں سے احمدیت میں شامل ہوئے اور اتنا جوش اور ایمان ہے ان کے اندر کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اور پھر اس یقین سے دل بھر جاتا ہے اور تسلی ہوتی ہے کہ یہ واقعی خدا تعالیٰ کی جماعت ہے اور خدا تعالیٰ نے ہی ان کے دلوں کو پھیرا ہے.ایک جوش، ایک جذبہ، ایک محبت تھی جو ان کی آنکھوں میں سے ٹپک رہی ہوتی تھی خلیفہ وقت کے لئے.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ عورتوں میں خاص طور پر ایسے طبقے جو ان پڑھ ہوں ان میں مذہب کا اتنا خیال نہیں ہوتا.لیکن ان عورتوں میں بھی اس قدر مذہب کی عزت واحترام تھا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش اس حد تک بھی وہ کرتی تھیں کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی بھی ذریعہ جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں، ضائع ہو.اسی طرح خلیفہ وقت سے محبت کا جواظہار ان کی آنکھوں میں نظر آتا تھا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ ان پڑھ لوگ ہیں.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بہت ریموٹ (Remote) علاقے کے دُور دراز گاؤں کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 94 لجنہ اماءاللہ برطانیہ کی استقبالیہ تقریب 2004 سے خطاب جہاں سڑکیں بھی نہیں پہنچی ہوئیں وہاں سے تکلیفیں اٹھا کر صرف دیکھنے کے لئے سفر کر کے آئے.تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے کئے کہ میں تیری جماعت قائم کروں گا جو نیک لوگوں کی جماعت ہوگی اور دنیا پر غالب آئے گی.حضور نے فرمایا کہ بچوں کے اندر بھی وہی روح تھی.مختلف ممالک میں مختلف طریقہ تھا اظہار کا لیکن ہر جگہ یوں جذبات ظاہر ہوتے تھے لگتا تھا کہ جس طرح ہمیشہ سے ایک آدمی جو بہت قریب ہوتا ہے، اس سے ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے، اسی طرح پہلی دفعہ دیکھنے کے باوجود ان کی نظروں میں وہ تعلق نظر آرہا تھا اور اس طرح اظہار ہورہا تھا کہ حیرت ہوتی تھی.حضور انور نے فرمایا کہ بچوں میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی.اب کسی بچے کو اگر میں نے پیار کر لیا تو خلافت سے محبت کی وجہ سے عورتیں اردگرد کی جتنی کھڑی ہوتی تھیں وہ اس بچے کو پیار کرنے لگ جاتی تھیں.تو یہ ان کے اظہار تھے محبت کے.حضور نے فرمایا کہ سیکورٹی کا گورنمنٹ کی طرف سے بھی بڑا انتظام تھا لیکن اس کے باوجود چھوٹے چھوٹے بچے ان کو ڈاج دے کر دائیں بائیں سے نکل کر آ کے چمٹ جایا کرتے تھے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے تھے.تو یہ محبت ہے ان کی اور اس سے دل کو تسلی ہوتی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ الہی وعدے جو ہیں وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے.اور ایک دن تمام دنیا پر احمدیت کا اور اسلام کا غلبہ ہو گا.لیکن یہ سب کچھ بھی ہو گا جب ہم خلافت کے نظام سے وابستہ رہیں گے اور خلافت کے ہر حکم پر لبیک کہنے کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیں گے.روزنامه (روز نامه الفضل ربوه 25 مئی 2005)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 95 95 خطبہ جمعہ فرمود 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ.جرمنی (اقتباس) احمدی خواتین میں اللہ تعالی کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے معین شرح اور نصاب کے مطابق زکوۃ کو ادا کرنا چاہئے ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی اسلام کے ابتدائی زمانے میں جب بھی دینی ضروریات کیلئے رقم کی ضرورت ہوتی تو اس زمانے میں بھی عارضی طور پر تحریک ہوتی مالی قربانی کی اہمیت و عظمت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 96 96 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ جرمنی احمدی خواتین کو زکوۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.....جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے، بہت سے ایسے ہیں جو بعض اوقات اپنے اوپر بوجھ بھی ڈال کے چندے ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.کیونکہ میں آج لازمی چندہ جات کی بات کر رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ یہ جو چندہ جات ہیں ان تحریکات کی ادائیگیوں کا اثر آپ کے لازمی چندہ جات پر نہیں ہونا چاہئے.وہ اپنی جگہ ادا کریں اور زائد تحریکات کے وعدوں کو اپنی جگہ ادا کریں.اور پھر اللہ تعالیٰ بھی آپ پر بے انتہا فضل فرمائے گا انشاء اللہ تعالیٰ کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں ، اس کے دین کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے کس قدر خوشخبری فرمائی ہے.ہر خوف خدا رکھنے والے کو اپنی عاقبت کی عموماً فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں نہ جانے کیا سلوک ہوگا.تو آپ نے چندہ ادا کرنے والوں کو اس فکر سے آزاد کر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہیں گے“.(مسند احمد بن حنبل ).یعنی کہ جو بھی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے قیامت کے دن تک اس کے سائے میں آپ رہیں گے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 97 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ جرمنی لیکن یہ بھی دوسری جگہ فرما دیا کہ انفاق فی سبیل اللہ دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہو.اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو خالصتا اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کا پیار حاصل کرنے کی خاطر ہی قربانیوں کی توفیق دے.ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوۃ ہے.زکوۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے.زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوۃ واجب ہے.اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ، بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے پر زکوۃ ہے.پھر بنگ میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوۃ ہوتی ہے.پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوۃ ہے.اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے.اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں.لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے.باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابرا گر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوۃ دینی چاہئے اس کی قیمت کے لحاظ سے.اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوۃ ادا کیا کریں.بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہننے کے لئے زیور دے دیا جائے تو اس پر ز کو نہیں ہوتی لیکن آج کل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو.اس لئے چاہئے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہنے کے لئے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوۃ ادا کر دیا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے تو حضرت اماں جان کے بارے میں فرمایا کہ وہ با وجود اس کے کہ غرباء کو بھی زیور پہننے کے لئے دیتی تھیں لیکن پھر بھی زکوۃ ادا کیا کرتی تھیں.تو احمدی خواتین کوز کو ۃ ادا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.اور جب عورتوں کی کوئی آمد نہیں ہوتی اور اکثر عورتوں کی آمد نہیں ہے تو ظاہر ہے پھر اس زکوۃ کی ادائیگی میں مردوں کو مدد کرنی ہوگی.اسلام کے ابتدائی زمانے میں جب بھی دینی ضروریات کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی تھی.اس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 98 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ جرمنی زمانے میں بھی عارضی طور پر تحریک ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر خلفاء کے زمانے میں بھی.تو باوجود اس کے کہ زکوۃ لی جاتی تھی ، ان تحریکات میں صحابہ بھی حصہ لیتے تھے.اس لئے باوجود اس کے کہ جماعت میں چندوں کا ایک نظام جاری ہے اور جو چندے ادا کرتے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو زکوۃ کی شرح ہے.بہر حال یہ بھی ایک فرض ہے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اور نصاب اور شرح کے مطابق زکوۃ کو ادا کرنا چاہئے.اور خاص طور پر جس طرح میں نے کہا عورتیں اس طرف توجہ کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ زکوۃ کی رقم میں بھی کافی اضافہ ہو سکتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے: حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی، اس کی بیٹی نے سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے.حضور نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا ان کی زکوۃ بھی دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں یا رسول الله ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے ؟.یہ سن کر اس عورت نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے کنگن اتار لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ہیں، جہاں چاہیں آپ خرچ فرمائیں.(سنن ابوداؤد كتاب الزكواة باب الكفرما هو وزكوة الحلى) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تم یہ نہ دیتیں تو آگ کے کنگن پہنائے جاتے.اس روایت کے بعد خاص طور پر جن پر زکوۃ واجب ہے ان کو توجہ دینی چاہئے.اور جیسا کہ میں نے کہا عورتوں پر زیادہ واجب ہوتی ہے ان کے خاوندوں کو ان کی مددکر نی چاہیئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” سواے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 99 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ جرمنی اور اس کے سارے پہلوؤں کو بہ نظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہئے.جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصتاًاللہ نذر مقرر کر کے اس کے ادا میں تخلف یا سہل انگاری کو روانہ رکھے“.یعنی کسی قسم کی سستی وغیرہ نہ ہونی چاہئے.اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے.لیکن یادر ہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے یعنی بغیر کسی روک کے چلنا چاہئے وہ ” یہی انتظام ہے کہ بچے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے“ اپنی طاقت کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرا لیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں“.یعنی اگر کوئی اتفاقی حادثہ نہ پیش آجائے آمدنی میں کمی نہ ہو جائے ، کاروبار میں نقصان نہ ہو جائے سوائے اس کے کہ ایسا کوئی اتفاقی حادثہ پیش آ جائے ضرور ہے، لازمی ہے کہ ماہوار چندہ ادا کیا کریں.پھر فرمایا: ’ہاں جس کو اللہ جلشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندہ کے اپنی وسعت، ہمت اور انداز ہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے.یعنی ماہوار چندہ ادا کرنے کے علاوہ جو بھی توفیق ہو ، اسے جو بھی طاقت ہے اور آمدنی ہے اس کے حساب سے پھر اگر اکٹھی رقم بھی دینی پڑے تو دی جائے.پھر فرمایا: اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شا خو! جو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 100 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ جرمنی خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام ، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے.لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں“.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 33-34) ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی جب با قاعدہ ایک نظام قائم ہوا اور چندہ عام کی شرح 1/16 اس وقت سے قائم ہے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ارشاد سے استنباط کر کے یہ شرح مقرر کی تھی.تو بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ماہوار چندے کے علاوہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اکٹھی رقم بھی تم دے سکتے ہو اور اس کے لئے جماعت میں مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس نیت سے اور اس ارادے سے ہرادائیگی ، ہر چندہ اور ہر وعدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے نہ کہ کسی بناوٹ کی وجہ سے.اور ہمیشہ جب بھی خرچ کریں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں ہر نئی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق دی یا فرض ماہوار چندہ کو ادا کرنے کی توفیق دی، بجٹ پورا کرنے کی توفیق دی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے.اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 101 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004 بمقام گروس گراؤ جرمنی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا“.یعنی جو اس نیت سے چھوڑتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے وہ اپنا نہیں سمجھتا.اب 1/16 جو چندہ ہے، جو یہ سمجھے میری آمد میں سے 15 حصے تو میرے ہیں یہ 16 واں حصہ خدا تعالیٰ کا ہے تو آپ فرماتے ہیں وہ ضرور اس سے حصہ پائے گا.و لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا“.یعنی ایک احمدی ہونے کے بعد پھر اگر ایسی سوچ ہوگی تو آپ فرماتے ہیں اس کا مال ضائع بھی ہوگا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اُس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلوتہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے“.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 497-498) اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ ان توقعات پر پورا اترتے رہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں.اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والے بنتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 102 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرموده 3 جون 2004) اپنی نسلوں کی اٹھان ایسے نیک ماحول میں کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہوں خواتین اپنے ماحول اور گھروں کو جنت نظیر بنا ئیں نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے مشرقی معاشرہ کی اچھی روایات اپنا ئیں ت اللہ نے عورت کا مقام یہ فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے عجب سے بچنا، خود پسندی سے بچنا حرام مال سے بچنا اور بداخلاقی سے بھی بچنا یہ سب تقوی ہیں خود پسندی دلیل نادانی است کبھی کسی کی برائی کو اچھالنا نہیں چاہئے بلکہ پردہ پوشی کرنی چاہئے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 103 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب اسلام میں عورت کے حقوق وفرائض کی تلقین تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج میں یہاں خواتین کو چند باتوں کی طرف مختصر توجہ دلاؤں گا.کیونکہ معاشرہ میں اور خاص طور پر اسلامی معاشرہ میں مردوں اور عورتوں دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے اس لئے اسلام نے عورت کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے جس طرح مردوں کے حقوق و فرائض کی.عورت ہی ہے جس کی گود میں آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور عورت ہی ہے جو قوموں کے بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح کھول کر عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں فرمایا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں جس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق تربیت دینے کی طرف توجہ دلائی ہے، اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو احمدیت کے اندر بھی ہمیشہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا اور پھر اس کا اثر آپ کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہے گا، جماعت کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اثر گھروں سے باہر بھی ظاہر ہوگا.اس کا اثر جماعت کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ پر بھی ظاہر ہوگا اور اس کا اثر گلی گلی اور شہر شہر اور ملک ملک ظاہر ہو گا.اور وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعود ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کا علم دے کر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 104 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اس تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے میں اور جلد از جلد تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں ہم سبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے.نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس کے بارے میں میں مختصراً کچھ کہوں گا.پہلی بات تو یہی ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ماؤں پر ہوتی ہے بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے.کیونکہ جب بچے کی پیدائش کی امید ہو تو اگر اس وقت سے ہی ما ئیں دعائیں شروع کر دیں اور ایک تڑپ کے ساتھ دعائیں شروع کر دیں تو پھر وہ دعائیں اس بچے کی تمام زندگی تک، جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اس کا ساتھ دیتی ہیں.اور جب ایسی تڑپ کے ساتھ مائیں بچوں کے لئے دعائیں کر رہی ہوں گی ان کی پیدائش سے پہلے ہی قرآنی حکم کے مطابق یہ دعا کر رہی ہوں گی کہ بچہ نیک ہو، صالح ہو اور خدا کے نام کی سربلندی کے لئے کوشاں رہنے والا ہو، اس کا عبادت گزار ہو، اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو تو وہ مائیں خود ایک احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے عمل کو بھی درست کر رہی ہوں گی.ان کو علم ہو گا کہ اگر ہم صرف دعا ئیں کر رہی ہیں اور عمل نہیں کر رہیں تو نہ وہ دعائیں مقبول ہیں، نہ ان دعاؤں کا کوئی اثر بچوں پر ہونا ہے نہ اس تربیت کا کوئی اثر بچوں پر ہونا ہے.ان کو یہ بھی احساس ہوگا کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو دنیا کی غلاظتوں سے بچانا ہے.ہم نے یہ نگرانی رکھنی ہے کہ ہمارے بچے دنیا کی غلاظتوں کی دلدل میں پھنس نہ جائیں.ہمیں اپنے قول و فعل کو بھی ہر قسم کے تضاد سے بچانا ہے تا کہ صحیح طور پر تربیت ہو سکے.ہمیں بھی، بچے کی پیدائش کے بعد اب دعاؤں سے رک نہیں جانا بلکہ مستقلاً اپنے بچوں کی بھلائی اور تربیت کی خاطر اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کرنی ہے اور اس طرح عبادت کرنی ہے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے.اپنے اعمال بھی اس طرح ڈھالنے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.جب اس طرح بچوں کی تربیت ہو رہی ہوگی تو وہ کبھی تباہی کی طرف جانے والے نہیں ہوں گے.وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 105 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب والے ہوں گے، وہ جماعتی نظام سے بھی وابستہ رہنے والے ہوں گے اور اس کی پابندی کرنے والے ہوں گے.وہ خلافت سے بھی محبت کرنے والے ہوں گے.اور پھر اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں گے اور اس کے فضلوں کے وارث ہوں گے.مجھے امید ہے کہ آپ اس بنیادی نکتہ کو سمجھتے ہوئے کبھی بھی اپنی دعاؤں سے غافل نہیں ہوں گی.یورپ کا دنیا داری کا ماحول کبھی آپ کو اپنے خدا سے غافل کرنے والا نہیں ہو گا.آپ اپنی روایات کی حفاظت کرنے والی ہوں گی.اور وہ روایات کیا ہیں؟.معاشرہ میں اچھی روایات اپنا ئیں آپ مشرقی معاشرہ سے ہیں اس کی جو اچھی روایات ہیں وہ اپنا ئیں اور جو اس معاشرہ کی اچھی روایات ہیں وہ بھی اپنا ئیں.کیونکہ اگر وہ اچھی روایات ہیں اور اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں تو مومن کی گمشدہ چیز کی طرح وہ آپ کی چیز ہیں.لیکن ہر روایت اپنانے والی نہیں ہوتی.اور اگر اسی طرح اپنی روایات کی حفاظت کرتے ہوئے ، آپ اپنی عبادات کی بھی حفاظت کرنے والی ہوں گی ، آپ اپنے خاوندوں کے گھروں کی حفاظت کرنے والی ہوں گی، کیونکہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی بھی نگران ہے اور یہ نگرانی بچوں کی تربیت سے لے کر گھر کے امور چلانے تک سب پر حاوی ہے.خاوندوں کی کمائی کا بہترین مصرف کرنے والی ہوں گی.اُسے جائز ضروریات پر خرچ کرنے والی ہوں گی.ان کی کمائی کے اندر رہ کر، اپنے وسائل کے اندر رہ کر اپنے اخراجات پورے کرنے والی ہوں گی نہ کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور ان کی نقل میں اپنے ہاتھوں کو بھی غیر ضروری دنیا داری کے معاملات کے لئے کھول لیں.مردوں سے کبھی غیر ضروری مطالبات کرنے والی نہیں ہوں گی.جائز ضروریات کے لئے آپ کا مطالبہ بھی جائز ہوگا اور مردوں کو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہوگا ، اور ہونا چاہئے.ایسے مطالبے نہ ہوں جو مرد کو قرض لینے پر مجبور کر دیں اور جب ایسی صورت ہوگی اور قرض لینے کے معاملے میں ایک دفعہ یہ جھا کا ہوتا ہے کھل جائے گا تو پھر کھلتا ہی چلا جائے گا.اور پھر اس کی کوئی حد نہیں ہوتی.قرض کی دلدل میں اگر ایک دفعہ آدمی پھنس جائے تو پھر پھنستا ہی چلا جاتا ہے.اس لئے اپنے گھروں کو سلیقہ سے، گھڑا پے سے سنواریں.اپنے خاوندوں کا بھی خیال رکھیں اور اپنی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 106 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب اولا دوں کا بھی خیال رکھیں اور اس طرح اپنے گھروں کو جنت نظیر بنا ئیں.ایک ایسانمونہ بنائیں کہ نظر آئے کہ یہ ہر طرح سے ایک خوشحال گھرانہ ہے اور سکون ہے اس گھر میں.عورت کا یہ مقام ہمیشہ یادرکھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنی نسلوں کی اٹھان ایسے نیک اور پاک ماحول میں کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہوں اور ان کی نیکی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھی کہے کہ اس بچے کو اس کی ماں نے واقعی جنتی بنا دیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تقوی اختیار کرو.دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ.(یعنی دنیا میں رہ رہے ہیں ، اس کی جو ضروریات ہیں ان کو حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اتنا دل نہ لگاؤ کہ صرف دنیا ہی دنیا تمہارے دلوں میں رہ جائے.) قومی فخر مت کرو“.(بعضوں کو قوم کا خاندان کا فخر ہوتا ہے.فرمایا :.قومی فخر مت کرو.کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو“.( کسی دوسری کا مذاق اس لئے نہ اڑاؤ کہ وہ تمہارے سے علم میں کم ہے یا تمہارے سے پیسہ میں کم ہے، تمہارے سے دولت میں کم ہے.یا اس کی اولاد نہیں ہے، یا اس کی اور کوئی کمزوری دیکھ کر اس پر اس کا ٹھٹھا یا مذاق کیا جائے.) پھر فرمایا کہ: خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز، زکوۃ وغیرہ میں ستی مت کرو“.( اب نماز بھی فرض ہے ہر ایک پہ، نماز ادا کرنی چاہئے اور یہی میں نے پہلے بھی کہا کہ عملی نمونہ ہوگا تو بچے بھی دیکھ کر اس طرف توجہ دیں گے.پھر ز کوۃ ہے ہر عورت کے پاس زیور ہوتا ہے اس کا جائزہ لے کر شرح کے مطابق زکوۃ دینے کی طرف بھی کوشش کرنی چاہئے.پھر فرمایا کہ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو.(ان کی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 107 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب اطاعت کرتی رہو.” بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے“ یعنی خاوندوں کی عزت کا بہت سا حصہ تمہارے ہاتھ میں بھی ہے.سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی ہی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، قانتات میں گنی جاؤ“.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 80-81 ) یہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے پہلے تقویٰ کا ذکر فرمایا ہے اس بارے میں آپ مزید فرماتے ہیں کہ : تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں، عجب ، خود پسندی ، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقوی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 81) یعنی عجب سے بچنا، خود پسندی سے بچنا، حرام مال سے بچنا اور بداخلاقی سے بھی بچنا یہ سب تقویٰ ہیں.اور بعض عورتوں میں مجب بہت زیادہ ہوتا ہے.عجب کا مطلب ہے کہ غرور اور تکبر.اگر چند پیسے دوسرے سے زیادہ ہاتھ میں آگئے تو اپنے آپ کو کچھ مجھنے لگ گئیں.اگر کسی بہتر خاندان کی ہیں تو اسی پر تکبر ہے.اگر علم کچھ زیادہ ہے تو اسی پر گھمنڈ ہے.غرض کہ ہر معاملہ میں صرف اپنے پر ہی نظر رکھتی ہیں، کسی کو کچھ سمجھنا ہی نہیں.ہر وقت اپنے آپ کو ایسے ٹولے یا گروہ میں گھیرے رکھنا جو یا تو اس کے خوشامدیوں کا گروہ ہو، ہر وقت ان کی تعریف کرنے والا ہو یا ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا ہو، یا پھر ایسی قماش کے، ایسی طبیعت کے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہو جو ایسی طبیعت رکھتے ہوں جن میں عجب ہو اور خود پسندی ہو.جیسی ان کی اپنی طبیعت ہے ایسی ان عورتوں کی بھی ہو.جو دوسرے کا ہنسی ٹھٹھا اڑانے والی ہو.تو ایسے لوگ ایسی عورتیں پھر عہدہ داران کو بھی ایسی ہی نظر سے دیکھنے لگتی ہیں.ان کو بھی اسی طرح دیکھنے والی ہوتی ہیں.ان کے دل میں ان عہدیداران کی بھی کوئی عزت نہیں ہوتی.نہ وہ لجنہ کی کسی عہدہ دار کو کچھ مجھ رہی ہوتی ہیں، نہ لجنہ کی صدر کو، نہ امیر کو اور پھر نظام جماعت کی بھی ان کے دل میں کوئی وقعت نہیں ہوتی.پھر آہستہ آہستہ خلافت کے ادب و احترام سے بھی پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور جماعت سے بھی پیچھے ہٹ جاتی ہیں.تو فرمایا کہ عجب جو ہے جب یہ تم میں پیدا ہوگا تو خود پسندی پیدا ہو گی اور ہر وقت یہی دل چاہے گا کہ لوگ میری ہاں میں ہاں ملائیں، مجھے ہی دوسروں سے بہتر سمجھیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 108 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب خود پسندی دلیل نادانی است ایک مقولہ ہے فارسی کا ” خود پسندی دلیل نادانی است کہ اپنی تعریف کرنے والا اور کرانے والا بے وقوف ہی ہے.یعنی ہر وقت جس کو اپنی تعریف کی فکر رہے اور ہر وقت اپنی تعریف ہی کرتا رہے اس کی بے وقوفی کے لئے یہی دلیل کافی ہے.اس لئے اپنی اور اپنی نسلوں کی روحانی بقا اگر چاہتی ہیں، روحانی زندگی اگر چاہتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ آپ کو خدا کا پیار حاصل ہو تو ان دنیا داری کی باتوں کو چھوڑ دیں اور حقیقی تقویٰ کی راہوں پر چلیں.اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں، لوگوں سے محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں.خود غرضی اور تکبر سے بچیں.نہ خاندانی وجاہت، نہ مال، نہ دولت آپ کو اس بیماری میں مبتلا کرے.اگر نہیں بچیں گی تو یہی حرکات جو ہیں بداخلاقیوں کے گڑھوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی ، بدیوں کے گڑھوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی.اور تقویٰ کا پھر آپ سے دُور کا بھی واسطہ نہیں رہے گا.پھر آپ کا بیعت کرنے کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا.حضرت اقدس مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے کا دعوی ہی جھوٹا ہو جائے گا.حضرت اقدس مسیح موعودؓ فرماتے ہیں پھر ایسا شخص مجھ سے کاٹا جائے گا، مجھ سے علیحدہ ہو جائے گا.پس دعائیں کرتے ہوئے جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والی بنیں، اس کی پناہ میں آنے والی بنیں، اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی بہنیں ، اپنے خاوندوں کے حقوق ادا کرنے والی بنیں وہاں اپنی دوسری احمدی بہنوں کو بھی بہنیں سمجھیں.ان کی بھی عزت واحترام کریں، ان کو کبھی تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں.اپنے دلوں کو جوڑیں.کبھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش نہ کریں.بعض دفعہ بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ کسی طرح کسی کی برائی کو اچھالا جائے.کبھی کسی کی برائی کو اچھالنا نہیں چاہئے بلکہ پردہ پوشی کرنی چاہئے.اور ہمیشہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا خوف ، اس کی خشیت دلوں میں پیدا کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آج کل آپ یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ خالصتا دینی اجتماع ہے.ایک بہت بڑا مقصد ان جلسوں کا اپنی روحانیت میں اضافہ کرنا ہے.قرآن وحدیث کی باتیں سننا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف زیادہ توجہ پیدا کرنا ہے.اپنے ان بہنوں بھائیوں سے ملنا ہے جن سے ملنے کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 109 جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004 مستورات سے خطاب بعض دفعہ موقعے نہیں ملتے.اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر تمام دنیاوی باتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف دعاؤں پر زور دیں اور اسی کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ کرے کہ آپ سب وہ مقصد حاصل کرنے والی ہوں جس کیلئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان جلسوں کا انعقاد فرمایا تھا.اور ہم سب محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنیں.آمین.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 110 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن.(اقتباس) واقفین نو زبانیں سیکھنے کی طرف خصوصی توجہ دیں مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں اور اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ اپنے بھی اور سےاپنے بچوں پہنچا ئیں واقفین نو کو نئے نئے علوم پڑھانے اور سکھانے کی اہمیت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 111 خطبہ جمعہ 18 جون 2004 بمقام بیت الفتوح لندن واقفین بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماؤں کی ذمہ داریاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں.ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے.اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں.چونکہ خود فلسفے کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.ان کی روح فلسفے سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے“.واقفین نو کو نئے نئے علوم سکھانے ہیں ( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ،صفحہ 43) تو ہم نے واقفین نو بچوں کو پڑھا کے نئے نئے علوم سکھا کے پھر دنیا کے منہ دلائل سے بند کرنے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 112 خطبہ جمعہ 18 جون 2004 بمقام بیت الفتوح لندن ہیں.اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اصل قرآن کا علم اور معرفت دی ہے، اللہ کرے کہ واقفین نو کی یہ جدید فوج اور علوم جدیدہ سے لیس فوج جلد تیار ہو جائے.پھر واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لئے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آ کر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں.یہ تو بالکل جہالت کی بات ہوگی کہ جو کچھ ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے.تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی سیکھا خاص طور پر توجہ دیں.کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جن واقفین کو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں ان کے بچوں کے جواب اور وقف نو کے بارے میں دلچپسی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتی ہیں.اس لئے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں اور پھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں.لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہوگئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں.کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے ، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں.تو اس کا اثر بہر حال عورتوں پر بھی ہوگا اور بچوں پر بھی ہوگا.اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں، کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں.کم از کم اتنا ہوسکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لئے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.مرد بھی عورتیں بھی.کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور اگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہوگی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی.ان کو بھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے.ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں.اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت
الازهار لذوات الخمار‘ جلد سوم حصّہ اوّل 113 خطبہ جمعہ 18 جون 2004 بمقام بیت الفتوح لندن ہو سکتے ہیں.ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے.اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے تو ہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی.کیونکہ تجربہ میں یہ بات آ چکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں.اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا ، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچاسکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کاعلم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 114 جلسہ سالانہ کینیڈا 2004ء کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 3 جولائی 2004ء) اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے آپ کو احمدی گھرانے میں پیدا فرمایا ه نیکی کے اعلیٰ معیار نہ صرف اپنے اندر قائم کرنے ہیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی رائج کرنے ہیں ایک مومن عورت اور ایک کامل مسلمان عورت کی خصوصیات یہ بھی تمہاری خصوصیت ہونی چاہئے کہ تم ہمیشہ بچی بولنے والی ہو اپنی عصمت کی محافظ ، صدقہ کرنے والیاں اور روزے رکھنے والیاں ہوں اسلامی پردہ کا مقصد پنجوقتہ نماز ادا کرنے والیوں اور خاوند کی اطاعت گزارخواتین کیلئے جنت کی بشارت غدا کرے کہ آپ کی نسلوں اور اولادوں میں نظام خلافت سے ہمیشہ ہی وفا، اخلاص اور محبت کا تعلق قائم رہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 115 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب قرآن میں بیان کردہ مسلمات اور مومنات کی خصوصیات تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیت کی تلاوت فرمائی: إِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَالْقِنِتِيْنَ وَالْقَنِتْتِ وَالصَّدِقِيْنَ وَالصَّدِقتِ وَالصَّبِرِيْنَ وَالصَّبِرَاتِ وَالْخَشِعِيْنَ وَالْخَشِعَتِ وَالْمُتَصَدِقِينَ وَالْمُتَصَدِّقتِ وَالصَّائِمِيْنَ وَالصَّمْتِ وَالْحَفِظِينَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحَفِظَتِ وَالذَّكِرينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّكِرَاتِ اَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيمًا ( سورة الأحزاب : 36) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: يقيناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور کچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 116 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں.اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کئے ہیں.احمدی عورت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان احمدی عورت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اُسے اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی.آپ جو اس وقت یہاں میرے سامنے بیٹھی ہیں آپ میں سے بہت بڑی اکثریت ہے جنہوں نے احمدی ماں باپ کے گھر میں جنم لیا، احمدی ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوئیں.اس پر بھی آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے آپ کو احمدی گھرانے میں پیدا فرمایا اور ایک بہت بڑے ابتلاء سے بچالیا.کیا پتہ آپ میں سے کتنی اگر احمدی گھر میں پیدا نہ ہوئی ہوتیں تو ان برکات سے فائدہ بھی اٹھا سکتیں یا نہیں جو اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ وابستہ ہیں.پس اگر انسان غور کرے تو اس کا رواں رواں اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر شکر کرنے لگ جاتا ہے.یہاں کئی عورتیں ایسی بھی بیٹھی ہیں جنہوں نے خود بیعت کی ، اس زمانے کے امام کو پہچانا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والی اور آپ کے ارشاد پر عمل کرنے والی بہنیں اور اپنے ماحول سے، اپنے خاندان سے، اپنے گھر والوں سے ٹکر لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے زمانے کے امام کو قبول کیا.یقیناً یہ ان کے لئے بہت ہمت اور قربانی کا کام ہے.کئی عورتیں مجھے مل چکی ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے خود احمدیت قبول کی اور پھر اپنے خاندان کی طرف سے کیا کیا تکلیفیں ان کو ملیں اور برداشت کرنی پڑیں.آپ سب چاہے وہ پیدائشی احمدی ہیں یا خود بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئی ہیں جب تک آپ جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہیں، جب تک حضرت اقدس مسیح موعود کی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں، اللہ کرے کہ یہ وابستگی ہمیشہ قائم رہے اور کبھی ابتلا نہ آئے ،اس وابستگی کی وجہ سے بہر حال آپ پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.آپ کی گودوں سے احمدیت کی نسل نے نکل کر دنیا میں پھیلنا ہے اور پھیل رہی ہے.اس لئے آپ لوگوں کو اُس عہد کی وجہ سے جو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس زمانہ کے امام
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 117 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب سے کیا ہے، نئی نسل کی تربیت کے لئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی ، اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنے ہوں گے، اپنا ایک مح نظر بنانا ہو گا ، ایک مقصد بنانا ہوگا اور ایک سچے احمدی مسلمان کا مقصد یہی ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.ان نیکیوں میں آگے بڑھنے کیلئے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا، اس کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہوگا.ایک مومن عورت کی جو خصوصیات اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی.اس دنیا کی چکا چوند اور معاشرے کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا.اور نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ جماعت احمدیہ کی امانتیں یعنی وہ بچے اور وہ نسلیں جو آپ کی گودوں میں پل رہے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد کیا ہے ان کو بھی بچانا ہوگا.ان کی تربیت کی طرف بھی اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ توجہ دینی ہوگی.ایک مومن عورت اور ایک کامل مسلمان عورت کی خصوصیات اللہ تعالیٰ نے ایک مومن عورت کی ، ایک کامل مسلمان عورت کی ، کیا خصوصیات بتائی ہیں جس نے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں اور نہ صرف اپنے اندر قائم کرنے ہیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی یہ رائج کرنے ہیں.اور جب یہ معیار قائم ہو جائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خوش ہو کہ میں نے اس کے بدلے میں تمہارے لئے بخشش کا سامان تیار کیا ہے اور بہت بڑے انعام تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں جو تمہیں اگلے جہان میں ملیں گے اور ان اعلیٰ معیاروں کی وجہ سے تم زندگی میں بھی اپنے میں اور اپنی نسلوں میں ان کو دیکھو گے.اس لئے صرف دنیا کی عارضی رونقوں اور خوشیوں کے پیچھے ہی نہ پڑ جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا جو مقصد بیان فرمایا ہے وہ بھی پیش نظر رکھو یہ خصوصیات کیا ہیں.میں مختصراً ان کا ذکر کرتا ہوں.آغاز میں جو میں نے آیت پڑھی ہے اس میں فرمایا کہ کامل فرمانبرداری اختیار کرو.کیونکہ اسلام نام ہے فرمانبرداری کا.جب تم نے بیعت کر لی تو جو احکامات ہیں ان کی پوری پابندی کرو.نظام جو تمہارے لئے لائحہ عمل بنائے اس پر مکمل طور پر کار بند ہو.اس پر مکمل طور پر چلو.نظام جماعت کے لئے تمہارے دل میں کبھی کسی قسم کا شک و شبہ یا کسی بھی قسم کا کوئی بال نہ آئے.نظام خلافت تمہارے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 118 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب اندر قائم ہے.اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو بھی تو خلیفہ وقت کو پیش کرو.اگر تم اس طرح اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگی گزارنے والی ہوگی تو پھر تم ایمان میں بھی ترقی کرو گی.اور جب تم ایمان میں ترقی کروگی تو روحانیت میں بھی ترقی کر رہی ہوگی.اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان اور اس کا قرب بھی حاصل کر رہی ہوگی.تمہاری خصوصیت ہونی چاہئے کہ تم ہمیشہ سچ بولنے والی ہو پھر فرمایا کہ یہ بھی تمہاری خصوصیت ہونی چاہئے کہ تم ہمیشہ سچ بولنے والی ہو.کہیں کبھی یہ نہ ہو کہ تمہارا ذاتی مفاد تمہیں سچ سے دور لے جائے.اپنا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کبھی یہ نہ ہو کہ تم جھوٹ بول جاؤ.اگر ایسا ہوا تو پھر تم اپنے دعوئی میں بچی نہیں.یہ بیعت کا اقرار جو تم نے کیا ہے تم اس میں کچی نہیں ہوگی.یاد رکھیں اگر ماں میں غلط بیانی کی عادت ہوگی تو بچوں میں بھی وہ عادت لاشعوری طور پر پیدا ہوتی چلی جائے گی.اور پھر جب یہ گندی جاگ لگتی ہے تو باقی نیکیوں کو بھی ختم کر دیتی ہے.تو سچ کے اعلیٰ معیار قائم کریں بلکہ قول سدید سے کام لیں یعنی اس حد تک سچ بولیں کہ کوئی ایسا لفظ بھی آپ کے منہ سے نہ نکلے جس سے کئی مطلب نکالے جا سکتے ہوں، جو ہوشیاری اور چالا کی سے آپ نے ادا کیا ہوتا کہ ضرورت پڑے تو میں اس سے مکر جاؤں.صاف اور کھری بات کریں.لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بعض گھریلو مسائل میں بعض ایسی باتیں کی جائیں جو بچوں کو اپنے بڑوں سے پرے ہٹانے والی ہوتی ہیں.بعض دفعہ عورتیں بچوں کے سامنے گھر بیٹھ کر ایسی باتیں کر جاتی ہیں کہ جن سے ان کے ساس سسر یا دادا دادی کی کمزوریاں ظاہر ہو جاتی ہیں.حالانکہ بات اس طرح نہیں ہوتی جس طرح بیان کی جارہی ہوتی ہے.بلکہ بہو اپنی ناراضگی کی وجہ سے جو اس کو اپنی ساس اور سسر سے ہے تو ڑ مروڑ کر بات کر رہی ہوتی ہے.تو نہ صرف بچوں میں بلکہ جب اس عورت کے میکے میں یہ بات پہنچتی ہے تو پھر دونوں گھروں کے بڑوں میں لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں، رنجشیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے سچ یہ ہے کہ بات کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح تجزیہ کرو.اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر وہ برائی کسی بڑے میں ہے بھی تو ضرور اس کا چر چا کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ فلاں بزرگ میں برائی ہے.پردہ پوشی کا بھی حکم ہے، لحاظ کا بھی حکم ہے، اپنے خاندان کی عزت اور
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 119 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب وقاررکھنے کا بھی حکم ہے.بیچ کا یہاں یہ مطلب ہے کہ اگر تمہیں کسی ایسے معاملے میں جو نظام جماعت میں پیش ہوتا ہے یا کہیں بھی پیش ہوتا ہے، اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے یا اپنے رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے یا اپنے ماں باپ کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو تم اس وجہ سے پریشان نہ ہو یا جھوٹ نہ بولو کہ اس سے مجھے نقصان پہنچ سکتا ہے یا میرے عزیزوں اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس گواہی کو پھر حو صلے سے دو.قرآن کریم میں تو یہ آیا ہے کہ دشمن کے خلاف بھی ایسی گواہی نہ دو یا دشمن قوم بھی تمہیں جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کرے.صبر اور عجز وانکسار کرنے والیاں پھر ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ صبر بھی ایک بہت بڑی خوبی ہے.اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو بہت سارے جھگڑے گھریلو بھی ، ہمسائیوں کے ساتھ بھی ، رشتہ داروں کے ساتھ بھی پیدا ہی نہیں ہوں گے.اس لئے صبر کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرو اور اپنی اولادوں کے اندر بھی پیدا کرو.پھر عاجزی کا وصف ہے جو بہت بڑا وصف ہے.اگر انسان اس پر نظر رکھے اور ہمیشہ یہ احساس رہے کہ میں تو کچھ چیز نہیں.بڑائی کا احساس تو مقابلہ کی چیز ہے یعنی نسبتی مقابلہ.اگر ہم اپنی نظر ذرا وسیع کریں اور ان نسبتوں سے آگے جا کر بھی دیکھیں جو ہمیں سامنے نظر آتی ہیں تو بڑائی کا احساس، اپنے کچھ ہونے کا احساس خود بخود ختم ہو جاتا ہے.ایک پیسے والی عورت مالی لحاظ سے اپنے سے کم عورت کو اگر تحقیر کی نظر سے دیکھتی ہے یا کم نظر سے دیکھتی ہے یا اس کو اپنے سے کمتر سمجھتی ہے اور اس کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتی ہے، پسند نہیں کرتی کہ اس کے پاس بیٹھے، تو پھر جب اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہورہا ہوا سے اس وقت حوصلہ دکھانا چاہئے.معاشی لحاظ سے اس سے بہتر عورت اگر اس سے یہی سلوک کر رہی ہو پھر بھی حوصلہ دکھائیں.ایک عورت کو اس وقت جو تکلیف کا احساس ہوتا ہے جب اس کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہو، کوئی اس کو کم نظر سے دیکھ رہا ہو، تو وہی احساس پھر آپ کو دوسرے کے لئے بھی کرنا چاہئے.یہ احساس آپ کے دل میں دوسروں کے لئے بھی پیدا ہونا چاہئے اور یہ احساس رہنا چاہئے کہ یہ دنیا کی چیزیں تو عارضی چیزیں ہیں، آنی جانی چیزیں ہیں.نہ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 120 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب خاندانی وجاہت پر فخر کرنے کی ضرورت ہے، نہ اولاد پر فخر کرنے کی ضرورت ہے، نہ مالی لحاظ سے بہتر ہونے پر فخر کرنے کی ضرورت ہے، نہ علم میں زیادہ ہونے پر فخر کرنے کی ضرورت ہے.اور پھر دین کے معاملے میں تو یہ بالکل ہی نا جائز ہے کہ کوئی کہے کہ میں زیادہ عبادت گزار یا زیادہ نیک ہوں.اس لئے ہمیشہ یادرکھیں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عاجز رہیں.یہی آپ کی بڑائی ہے.اور ہمیشہ عاجز بنی رہیں.یہ عاجزی اپنی نسلوں میں بھی پیدا کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی عاجزی کو بہت پسند فرمایا تھا.اور الہاماً فرمایا تھا کہ تیری عاجزانہ را ہیں اسے پسند آئیں.صدقات و خیرات کرنے اور روزے رکھنے والیاں پھر اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے والی عورتوں کی یہ خصوصیت بیان کی گئی کہ صدقہ کرنے والی ہوں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والی ہوں.نیکیوں پر قائم رہنے اور بلاؤں کو دور کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے.صدقہ و خیرات کی عادت ڈالیں، اپنی اولادکو عادت ڈالیں.اپنے بچوں کو عادت ڈالیں تا کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق دے اور نیکیاں کرنے کی بھی توفیق دے.اور اس وجہ سے آپ پر رحمتوں اور فضلوں کی بارشیں برسا تارہے.پھر فرمایا کہ وہ روزہ رکھنے والی ہوں.یہ نہ ہو کہ بہانے تلاش کر کر کے روزے چھوڑنے والی ہوں.پھر اس کے تمام لوازمات کے ساتھ روزہ رکھنے والی ہوں چاہے وہ نفلی روزے ہوں یا فرض روزے ہوں.بعض دفعہ بعض نوجوانوں میں روزہ رکھنے کی تو بڑی خواہش ہوتی ہے، بڑا جوش ہوتا ہے لیکن پوری طرح اس کا احترام نہیں ہو رہا ہوتا.بعض اپنی خوراک کو کنٹرول کرنے کے لئے ، اپنے وزن کو مینٹین (Maintain) کرنے کے لئے فاقے تو کر لیتی ہیں لیکن نمازوں کی طرف پوری توجہ نہیں ہوتی ، نوافل کی طرف پوری توجہ نہیں ہوتی ، قرآن کریم پڑھنے کی طرف پوری توجہ نہیں ہوتی.یہ بھی روزہ کا ضروری حصہ ہیں.اگر روزہ رکھا ہے تو نمازیں بھی باقاعدہ پڑھیں ، اور دل لگا کر ، خوشی سے، ذوق سے، شوق سے نمازیں پڑھیں نفل کے لئے اٹھیں نفل پڑھیں.قرآن کریم کی تلاوت کرنا ضروری ہے.قرآن کریم پڑھیں اور پوری توجہ سے پڑھیں سمجھ کر پڑھیں تا کہ قرآن کریم کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 121 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب اندر جو احکامات ہیں، اس کی جو خوبصورت تعلیم ہے، اس کا جو حسن ہے وہ بھی آپ کو نظر آئے.تو روزے اس وقت روزے کہلا سکتے ہیں جب عبادات سے سجائے ہوئے ہوں.اور جب عبادات کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو دنیا داری سے ایسے ہی ذہن صاف ہو جائے گا، دنیا داری ذہن سے بالکل نکل جائے گی.اور جب دنیا داری آپ کے ذہنوں سے نکل گئی تو سمجھ لیں کہ آپ نے وہ مقصد پا لیا جس کے لئے آپ پیدا کی گئی ہیں.اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والیاں ہوں پھر کامل ایمان والوں کی ایک نشانی یا خصوصیت یہ بتائی گئی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان بخشش کا سلوک کرے گا کہ وہ فروج کی حفاظت کرنے والی ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد جسم کا ہر سوراخ ہے.یعنی آنکھ ، کان ، ناک، منہ وغیرہ ہر چیز.فرمایا اگر ان کی حفاظت کر لو تو تمہارے نفوس کا تزکیہ ہوگا.تمہارے ذہن پاک رہیں گے.فروج کی حفاظت کے ساتھ دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ غض بصر سے کام لو، یعنی نگاہیں نیچی رکھو.نہ غیر مرد کو دیکھو، نہ غیر ضروری چیزوں کو دیکھو جن سے ذہن میں انتشار پیدا ہوتا ہو.جس سے ذہن میں برے خیالات پیدا ہوتے ہوں.اگر پردہ کر کے برقعہ پہن کر ہر آنے جانے والے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیں تو اس سے پردے کا تو کوئی فائدہ نہیں.یہ تو لباس ہے جو آپ نے پہنا ہوا ہے.نظروں میں حیا ہونی چاہئے ، نظریں نیچی رہنی چاہئیں یہ قرآن کریم کا حکم ہے.اگر ایسی حالت رکھیں گی تو خود بھی غیروں کو دیکھنے سے محفوظ رہیں گی اور خود بھی بہت ساری برائیوں سے بچ جائیں گی.اور مرد بھی جن میں بعضوں کو گھورنے کی عادت ہوتی ہے وہ بھی احتیاط کریں گے.وہ بھی ڈر کے رہیں گے.اسی طرح گندی، بیہودہ فضول فلمیں دیکھنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے.اگر آپ یہ دیکھ رہی ہیں چاہے اکیلی بیٹھ کر دیکھ رہی ہیں تو تب بھی اس ماحول میں آپ کے ذہن کے ساتھ ساتھ آپ کے بچوں پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہو گا.بلکہ آپ کا ذہن ہی اس میں اتنا ڈوبتا چلا جائے گا کہ آپ کو نیکی کرنے کی توجہ ہی پیدا نہیں ہوگی اور پھر اس طرح آپ اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کر سکیں گی کیونکہ یہ فلمیں آپ کے خیالات کو ، جیسا کہ میں نے کہا، پراگندہ کرنے والی ہوں گی.ان کا کوئی فائدہ نہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 122 جلسہ سالانہ کینیڈ 20041 مستورات سے خطاب ہوتا.باہر تو یہ اظہار ہو، برقعہ پہن کر آ رہی ہوں.مسجد میں تو حجاب میں اور کوٹ میں ہوں لیکن گھر وں میں بیہودہ فلمیں دیکھی جا رہی ہوں.بعض گھروں کی شکایتیں آتی ہیں کہ وہاں فلمیں دیکھتے ہیں.بعض بچے شکایت کر دیتے ہیں کہ ہماری مائیں ایسی فلمیں دیکھتی ہیں.پھر جیسا کہ فرمایا کہ کان بھی فروج میں داخل ہیں.اگر آپ ایسی مجلسوں میں بیٹھتی ہیں جہاں بیہودہ گوئیاں ہو رہی ہیں، دوسروں کا ہنسی مذاق اڑایا جارہا ہے.یا نظام جماعت کے خلاف کوئی باتیں ہو رہی ہیں.یا کسی عہدیدار کے خلاف کوئی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ بھی اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے فروج کی حفاظت کرنے والی نہیں ہیں.کیونکہ آپ بھی چاہے بول رہی ہیں یا نہیں مگر وہاں بیٹھ کر اس استہزا میں، اس مذاق میں، اس بیہودہ مذاق میں شامل ہو گئی ہیں اور اپنے ذہن کو بلا وجہ گندہ کر رہی ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ آہستہ آہستہ یہ باتیں آپ کی تمام نیکیوں کو کھا جائیں گی.اس لئے ایسی مجلسوں سے بھی بچیں.اسلامی پردہ کا مقصد پردہ کے معاملات بعض دفعہ زیادہ سنجیدہ ہو جاتے ہیں.اس لئے اب میں پہلی بات کو دوبارہ لیتا ہوں.پردہ کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں ان کی تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں.اور یہ وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ سے کروں گا.آپ فرماتے ہیں: ”اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مرادنہیں ہے کہ عورت جیل خانے کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.یعنی اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھیں.” وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 297-298 جدید ایڈیشن) تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا آپ نے ایک اور جگہ فرمایا: نظر کا پردہ یہی ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 123 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب اوران میں حیا ہو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : جکل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں.لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں“.(یعنی قید خانہ نہیں.بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں.جب پردہ ہو گا، ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے“.(یعنی ایک انصاف کرنے والا کہہ سکتا ہے جس کا پردے کے خلاف یا پردے کے حق میں کسی قسم کا رجحان نہیں ہے جو انصاف پر قائم ہونے والا ہو ) کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مردو عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں، سیریں کریں، کیونکر جذبات نفس سے اضطرار اٹھو کر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے.انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مردو عورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے“.( یعنی اس کھلی کھلی ہے حیائی کی اجازت دینے سے جو یورپ میں ہے.اور آپ دیکھ رہے ہوں گے ہر گلی میں، ہر سڑک پر ایسی بے حیائیاں نظر آ جاتی ہیں.) پھر فرمایا کہ: د بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یادرکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 124 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کیلئے دی گئی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ( ملفوظات جلد اول صفحہ 21-22 جدید ایڈیشن) یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں.لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو“.آپ یہاں ان ملکوں میں رہتے ہیں.یہاں کی اخلاقی حالت کا اندازہ خود ہی کر لیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے سو سال پہلے بتا دیا ہے: اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا“.آپ اس معاشرے میں رہتے ہیں اور اگر گہری نظر ہوتو آبزرو (Observe) کر سکتے ہیں.”مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنارکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو“.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تم چاہتے ہو آزاد ہو جاؤ، پردہ سانس روکتا ہے یا بہت ساری روکیں ڈالتا ہے پھر اس سے پہلے یہ ہے کہ مردوں کی پہلے اصلاح کر لو.تمہیں کیا پتہ کہ ان کے ذہنوں میں کیا کچھ ہے.اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 125 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب نفسانی جذبات سے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں.ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے.اس لئے عورت تو بہر حال نازک ہے، مردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.چاہے کسی معاشرے میں ایک دو چار واقعات بھی ہو رہے ہوں وہ بہر حال قابل فکر ہوتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجے پر غور نہیں کرتے.کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے.‘ ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اپنے ضمیر سے فتویٰ لو.دیکھو جو تمہارا دل کہتا ہے کہ یہ برائی ہے وہ برائی بہر حال ہے.اگر وہ برائی نہیں ہے تو تمہیں کبھی دل ٹو کے گا نہیں، دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہو گا کہ تم کیا کر رہی ہو، کئی سوال نہیں اٹھیں گے.) " قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزور یوں کو مد نظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے.قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ (سورة النور:31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوگا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 104-105 جدید ایڈیشن) تو قرآن کی تعلیم تو بہر حال جھوٹی نہیں ہو سکتی.اگر آپ کے خیالات معاشرے میں رہ کر کچھ بگڑ گئے ہیں تو وہ بہر حال جھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا.اور پھر یہ جو
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 126 جلسہ سالانہ کینیڈ 2004 مستورات سے خطاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بکریوں کو شیروں کے آگے ڈالنا ہے تو یہ اسی طرح ہوتا ہے اور ہو رہا ہے.آئے دن یہ قصے اخبار میں پڑھنے کو ملتے ہیں اور دیکھنے کو بھی ملتے ہیں.اس لئے کسی بھی قسم کے کمپلیکس (Complex) میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں.اور اگر کوئی کمپلیکس ہے تو اپنے دماغ سے نکال دیں اور اپنی پاکدامنی کی خاطر قر آنی حکم پر عمل کریں.اسی میں آپ کی عزت ہے اور اسی میں آپ کا وقار ہے.ایک جگہ فرمایا کہ یہ بھی دو طرح کے گروپ بن گئے ہیں ایک تو یہ کہتا ہے کہ پردہ اس سختی سے کرو کہ عورت کو گھر سے باہر نہ نکلنے دو.اور دوسرا یہ ہے کہ اتنی چھوٹ دے دو کہ سب کچھ ہی خلط ملط ہو جائے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچار ہے.کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 106 جدید ایڈیشن) تو اس میں مزید فرما دیا کہ نفس کو پھسلنے سے بچانے کے لئے پردہ کرو تو اس میں صرف برقعہ یا حجاب کام نہیں آئے گا.اگر آپ برقعہ پہن کر مردوں کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کر دیں، مردوں سے مصافحے کرنا شروع کر دیں تو پردہ کا تو مقصد فوت ہو جاتا ہے.اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے.پردہ کا مقصد تو یہ ہے کہ نامحرم مرد اور عورت آپس میں کھلے طور پر میل جول نہ کریں ، آپس میں نہ ملیں ، دونوں کی جگہیں علیحدہ علیحدہ ہوں.اگر آپ اپنی سہیلی کے گھر جا کر اس کے خاوند یا بھائیوں یا اور رشتہ داروں سے آزادانہ ماحول میں بیٹھی ہیں.چاہے منہ کو ڈھانک کے بیٹھی ہوتی ہیں یا منہ ڈھانک کر کسی سے ہاتھ ملا رہی ہیں تو یہ تو پردہ نہیں ہے.جو پردے کی غرض ہے وہ تو یہی ہے کہ نا محرم مرد عورتوں میں نہ آئے اور عورتیں نا محرم مردوں کے سامنے نہ جائیں.ہر ایک کی مجلسیں علیحدہ ہوں.بلکہ قرآن کریم میں تو یہ بھی حکم ہے کہ بعض ایسی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 127 جلسہ سالانہ کینیڈ 20041 مستورات سے خطاب عورتوں سے جو بازاری قسم کی ہوں یا خیالات کو گندہ کرنے والی ہوں ان سے بھی پردہ کرو.ان سے بھی بچنے کا حکم ہے.اس لئے احتیاط کریں اور ایسی مجلسوں سے بچیں.لباس کا پردہ پھر لباس کا پردہ ہے.جب برقعہ پہنیں ، یا حجاب لیں یا سکارف لیں یا دو پٹہ پہنیں یا نقاب لیں جو بھی لے رہی ہوں تو بال چھپے ہوئے ہونے چاہئیں.بال نظر نہیں آنے چاہئیں، ماتھا سامنے سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئے.سامنے کم از کم ٹھوڑی تک کپڑا ہونا چاہئے.منہ اگر نگا ہے تو میک اپ نہیں ہونا چاہئے.بعض پیشوں میں یا کام میں منہ تنگا کرنا پڑ جاتا ہے، بعض مجبوریاں ہوتی ہیں.کوئی بیمار ہے، کسی کو سانس ٹھیک نہیں آرہا تو منہ ننگا کیا جا سکتا ہے لیکن پھر اس طرح بناؤ سنگھار بھی نہیں ہونا چاہئے.سکولوں اور کالجوں میں بھی لڑکیاں جاتی ہیں اگر کلاس روم میں پردہ ، سکارف لینے کی اجازت نہیں بھی ہے تو کلاس روم سے باہر نکل کر فورا لینا چاہئے.یہ دو عملی نہیں ہے اور نہ ہی یہ منافقت ہے.اس سے آپ کے ذہن میں یہ احساس رہے گا کہ میں نے پردہ کرنا ہے اور آئندہ زندگی میں پھر آپ کو یہ عادت ہو جائے گی.اور اگر چھوڑ دیا تو پھر چھوٹ بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی بھی وقت پابندی نہیں ہوگی.پھر وہ جو حیا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے.پھر اپنے عزیز رشتہ داروں کے درمیان بھی جب کسی فنکشن میں یا شادی بیاہ وغیرہ میں آئیں تو ایسا لباس نہ ہو جس میں جسم ایٹر یکٹ (Attract) کرتا ہویا اچھا لگتا ہو یا جسم نظر آتا ہو.آپ کا نقدس اسی میں ہے کہ اسلامی روایات کی پابندی کریں اور دنیا کی نظروں سے بچیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں.اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا.یعنی ادھر ادھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا: اے اسماء! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے.اور آپ نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا.(ابوداؤد کتاب اللباس باب فيما تبدى المرأة من زينتها)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 128 جلسہ سالانہ کینیڈ ا2004 مستورات سے خطاب پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نیکیاں جب تم اپنا لو، یہ خصوصیات جو ایک مومنہ عورت میں ہونی چاہئیں اختیار کر لو تو پھر ان کو مزید چھپکانے کے لئے ، ان کو مزید پالش (Polish) کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کرو.اس کو اٹھتے بیٹھتے یا د رکھو، اس کی محبت ، اس کی خشیت اپنے دلوں میں قائم کرو.اس کی عبادت کی طرف توجہ دیتی رہو.جب تم یہ معیار حاصل کر لو گی تو پھر تم سمجھو کہ دنیا کی غلاظتوں سے بچ گئیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والی ہو گئیں.اور پھر ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ کا رسول بہت بڑی خوشخبری دیتے ہیں، بلکہ ضمانت دیتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب کوئی عورت پنجوقتہ نماز پڑھتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرتی ہے، اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے داخل ہو جا.(مسند احمد بن حنبل مسند العشرة المبشرة بالجنة) دیکھیں کتنی بڑی خوشخبری ہے ایسی عورتوں کو جو ہر طرح سے اپنے آپ کو احکامات کا پابند کرنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ اسلامی احکامات پر عمل کرنے والی ہوں، تزکیہ نفس کرنے والی ہوں، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی ہوں ، اپنی اولادوں کی صحیح اسلامی رنگ میں تربیت کرنے والی ہوں تا کہ یہاں اگلی نسلیں بھی ان برکات اور انعامات سے حصہ لیتی رہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے.خدا کرے کہ آپ کی نسلوں اور اولا دوں میں بھی نظام خلافت سے ہمیشہ وہی وفا، اخلاص اور محبت کا تعلق قائم رہے جو آپ کے چہروں پر نظر آتا ہے.ایک اور بات یہ ہے کہ جلسہ کی کارروائی کا آج دوسرا دن ہے اس کے بعد پھر شام کو کا روائی ہو گی تو اس کارروائی کے دوران ادھر ادھر پھر کر باتیں کرنے یا مجلس لگانے کی کوشش نہ کریں.اس عادت کو ختم کریں.جلسہ کی کارروائی کو غور سے سنیں اور جو کچھ سنیں اس کو یاد بھی رکھیں اور زندگیوں کا حصہ بھی بنائیں ، ان سے فائدہ بھی اٹھائیں اور آگے اپنی اولادوں کی تربیت میں بھی اس کو استعمال کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 129 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 ء کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 31 جولائی 2004ء) معاشرتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں اسلام نے تعلیم نہ دی ہو عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے نہیں کی پردہ اور تعدد ازدواج سے متعلق اسلام کی حقیقی تعلیم مردوں کے فرائض اور ذمہ داریاں عورت کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم تعددازدواج پر اعتراض کے جوابات پردہ کرنے کی روح اور مقاصد پردہ آج اگر اپنی عزتوں کو قائم کرنا ہے تو اسلام کی طرف آؤ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 130 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب اسلام اور حقوق نسواں تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اسلام کی تعلیم میں جہاں ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی احکامات موجود ہیں اور معاشرتی گھر یلو یا ذاتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں بتا نہ دیا گیا ہو اور قرآن کریم کی جن باتوں کی وضاحت ضروری تھی وہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور ارشادات سے سمجھا دی اور اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارے میں بتایا جو بظاہر چھوٹی ہیں لیکن انسانی زندگی کے اخلاق اور صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اتنی باریکی سے ذاتی زندگی میں جا کر احکامات دیئے گئے ہیں کہ اسلام کے مخالفین کو اگر کوئی اور اعتراض نہیں ملا تو یہی کہ دیا کہ یہ کیسا مذ ہب ہے، یہ کیسا رسول ہے؟، کہ ایسی باتوں کا بھی حکم دیتا ہے جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.جو گھریلو یا ذاتی نوعیت کی باتیں ہیں.لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہی باتیں ہیں جو اخلاق اور مذہب پر اثر انداز ہوتی ہیں.یہ تو ایک ضمنی بات تھی.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح باقی معاملات میں اور مختلف احکامات دیئے ہیں اس میں عورت کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا ہے، اس میں عورت کے فرائض کا بھی ذکر فرمایا ہے، اختیارات کا ذکر فرمایا ہے، ذمہ داریوں کا بھی ذکر فرمایا ہے.اور بعض اوقات ہمیں پتہ نہیں لگتا اور قرآن کریم کو غور سے نہ پڑھنے کی وجہ سے پتہ نہیں لگتا یا یہاں اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ہم متاثر ہو جاتے ہیں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں اور بظاہر یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 131 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب عورت پر سختی ہے.حالانکہ وہ باتیں عورت کے عزت و احترام کے قائم کرنے کے لئے اور عورت کی گھر یلو اور ذاتی زندگی اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہوتی ہیں.اسلام اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت یہاں کے لوگ جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس معاشرے کی وجہ سے ان لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں.خاص طور پر عورتیں سمجھتی ہیں کہ اسلام میں عورت کی حیثیت ایک کم درجے کے شہری کی ہے اور اصل مقام جو ہے وہ صرف مرد کو دیا گیا ہے.حالانکہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے جو اسلام دشمنوں نے اسلام کے خلاف کیا ہے اور اس پرو پیگنڈے سے متاثر ہو کر ایسی عورتیں جن کو قرآن کریم یا دین کی صحیح تعلیم کا علم نہیں اور انہوں نے اس کا صحیح مطالعہ نہیں کیا، وہ ان کی باتوں میں آجاتی ہیں.خاص طور پر نوجوان نسل بعض دفعہ متاثر ہو جاتی ہے.اس لئے میں نوجوان نسل سے کہتا ہوں کہ یہ دجال کی ایک چال ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمان عورتوں کو ان کا ہمدرد بن کر اسلام سے اتنا دور لے جاؤ کہ اسلام کی آئندہ نسل اُن سوچوں کی حامل ہو جائے جو اسلام کی تعلیم سے دور لے جانے والی ہیں اور اس طرح وہ اپنا مقصد حاصل کر لے.احمدی عورت کو ہمیشہ ان سوچوں سے بچنا چاہئے اور دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ تم جو کہ رہے ہو غلط ہے.اسلام نے عورت کو جو تحفظ دیا ہے اور کوئی مذہب اتنا تحفظ نہیں دیتا.اور ہمیں اس زمانے میں جس طرح کھول کر حضرت اقدس مسیح موعود نے بتا دیا ہے اس کے بعد تو ممکن ہی نہیں کہ ایک احمدی عورت کسی دجالی چال یا کسی فتنے میں آئے.حضرت مسیح موعود د فر ماتے ہیں کہ : عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی.مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے (البقرہ:229) وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے ہیں، حقارت کی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 132 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِہ تم میں - اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.( ملفوظات.جلد سوم صفحہ 300-301.جدید ایڈیشن) دیکھیں کتنی وضاحت سے آپ نے فرمایا کہ حقوق کے لحاظ سے دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں.اس لئے مرد یہ کہہ کر کہ میں قوام ہوں اس لئے میرے حقوق بھی زیادہ ہیں، زیادہ حقوق کا حق دار نہیں بن جاتا.جس طرح عورت مرد کے تمام فرائض ادا کرنے کی ذمہ دار ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے تمام فرائض ادا کرنے کا ذمہ دار ہے.فرمایا کہ ہمارے ہاں یہ محاورہ ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، یہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے، غلط محاورہ ہے.اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت سے دل بھر گیا تو دوسری پسند آ گئی اس سے شادی کر لی اسے چھوڑ دیا اور پہلی بیوی کے جذبات و احساسات کا کوئی خیال ہی نہ رکھا گیا تو یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے.عورت کوئی بے جان چیز نہیں ہے بلکہ جذبات احساسات رکھنے والی ایک ہستی ہے.مردوں کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ ایک عرصے تک تمہارے گھر میں سکون کا باعث بنی تمہارے بچوں کی ماں ہے، ان کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتی رہی ہے.اب اس کو تم ذلیل سمجھو اور گھٹیا سلوک کرو اور بہانے بنا بنا کر اس کی زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کرو تو یہ بالکل نا جائز چیز ہے.یا پھر پردہ کے نام پر باہر نکلنے پر نا جائز پابندیاں لگا دو.اگر کوئی مسجد میں جماعتی کام کے لئے آتی ہے تو الزام لگا دو کہ تم کہیں اور جا رہی ہو.یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں جن سے مردوں کو روکا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمہارا عورت سے اس طرح سے سلوک ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.جس طرح دو حقیقی دوست ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اس طرح مرد اور عورت کو تعلق
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 133 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب رکھنا چاہئے کیونکہ جس بندھن کے تحت عورت اور مرد آپس میں بندھے ہیں وہ ایک زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور معاہدے کی پاسداری بھی اسلام کا بنیادی حکم ہے.معاہدوں کو پورا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرتے ہیں.اور کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں ایک دوسرے کے راز دار بھی ہوتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مرد کی بہت سی باتوں کی عورت گواہ ہوتی ہے کہ اس میں کیا کیا نیکیاں ہیں، کیا خوبیاں ہیں، کیا برائیاں ہیں.اس کے اخلاق کا معیار کیا ہے؟ تو حضرت اقدس مسیح موعود فرمارہے ہیں کہ اگر مرد عورت سے صحیح سلوک نہیں کرتا اور اس کے ساتھ صلح صفائی سے نہیں رہتا، اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کیسے ادا کرے گا، اس کی عبادت کس طرح کرے گا، کس منہ سے اس سے رحم مانگے گا؟ جبکہ وہ خود اپنی بیوی پر ظلم کرنے والا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے وہی اچھا ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، اپنی بیوی سے اچھا ہے.تو دیکھیں یہ ہے عورت کا تحفظ جو اسلام نے کیا ہے.اب کونسا مذ ہب ہے جو اس طرح عورت کو تحفظ دے رہا ہو.اس کے حقوق کا اس طرح خیال رکھتا ہو.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا طَ وَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَا اتَيْتُمُوْهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا ) (النساء:20) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبر دستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو.اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ لے بھا گو.سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں.اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کونا پسند کرو اور اللہ تعالی اس میں بھلائی رکھ دے.تو فرمایا کہ اے مومنو! جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان ہے اور اس کے رسول پر بھی ایمان ہے تو اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جو ہم تمہیں اللہ اور اس کے رسول نے دیئے ہیں ان پر عمل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 134 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو.جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہوان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلا وجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو.اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو.الزام تراشیاں نہ کرو.اس کوشش میں نہ لگے رہو کہ کس طرح عورت کی دولت سے، اگر اس کے پاس دولت ہے، فائدہ اٹھا سکتے ہیں.مردوں کے فرائض اور ذمہ داریاں اب اس فائدہ اٹھانے کے بھی کئی طریقے ہیں.ایک تو ظاہری دولت ہے جو نظر آ رہی ہے.بعض مرد عورتوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں.کئی دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ جس سے انہیں کوئی ہوش ہی نہیں رہتا اور پھر ان عورتوں کی دولت سے مرد فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں.پھر بعض دفعہ میاں بیوی کی نہیں بنتی تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عورت خلع لے لے تا کہ مرد کو طلاق نہ دینی پڑے اور حق مہر نہ دینا پڑے.تو یہ بھی مالی فائدہ اٹھانے کی ایک قسم ہے.پھر بیچاری عورتوں کو ایک لمبا عرصہ تنگ کرتے رہتے ہیں.حالانکہ حق مہر عورت کا حق ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حرکت کسی طور پر جائز نہیں.پھر بعض دفعہ زبردستی یا دھوکے سے عورت کی جائیداد لے لیتے ہیں مثلاً عورت کی رقم سے مکان خریدا اور کسی طرح بیوی کو قائل کر لیا کہ میرے نام کر دو یا کچھ حصہ میرے نام کر دو.آدھے حصے کے مالک بن گئے.اور اس کے بعد جب ملکیت مل جاتی ہے تو پھر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں.اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علیحدہ ہو کے مکان کا حصہ لے لیتے ہیں یا بعض لوگ جو ہیں گھر بیٹھے رہتے ہیں اور عورت کی کمائی پر گزارا کر رہے ہوتے ہیں.فرمایا کہ یہ تمام جو اس قسم کے مرد ہیں ناجائز کام کرنے والے لوگ ہیں.اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کے رشتے دار یا سرال والے جائیداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بیچاری عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا اور اس کو دھکے دے کر ماں باپ کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے.تو یہ سب ظالمانہ فعل ہیں ، نا جائز ہیں.تو یہ اسلام ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ عورت سے اس قسم کا سلوک نہ کرو.اب یہ بتائیں کہ اور کس مذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس گہرائی میں جا کر عورت کے حقوق کا اتنا خیال رکھا ہو.یہ اسلام ہی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 135 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب ہے جس نے عورت کو یہ حقوق دلوائے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: بیوی اسیر کی طرح ہے.اگر یہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کوئی خبر لینے والا نہیں.الحکم قادیان جلد نمبر 8.مورخہ 10 مارچ / 1904 صفحہ 6) غرض ان سب کی غور و پرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور ان کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے لئے بلکہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (سورة الفرقان: 75) کالحاظ ہو.تو فرمایا کہ بیویوں سے حسن سلوک کرو کیونکہ جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر تمہارے گھر آتی ہیں تو ان کے ساتھ نرمی اور رحم کا معاملہ ہونا چاہئے اور تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.ایک لڑکی جب اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر خاوند کے گھر آتی ہے تو اگر اس سے حسن سلوک نہ ہو تو اس کی اس گھر میں، سسرال کے گھر میں، اگر جائنٹ فیملی ہے تو وہی حالت ہوتی ہے جو ایک قیدی کی ہو رہی ہوتی ہے.اور قیدی بھی ایسا جسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا.لڑکی نہ خود ماں باپ کو بتاتی ہے نہ ماں باپ پوچھتے ہیں کہ بچی کا گھر خراب نہ ہو.تو اگر لڑ کی اس طرح گھٹ گھٹ کر مر رہی ہو تو یہ ایک ظالمانہ فعل ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں نہیں.ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاهْلِهِ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں؟ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زد و کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 136 جلسہ سالانہ بر طانیہ 2004 مستورات سے خطاب مرگئی ہے.اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء: 20) ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا.عورت کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ : وو ( ملفوظات جلد اول صفحہ 403-404.جدید ایڈیشن) یہ دل دُکھانا بڑے گناہ کی بات ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں.تو جہاں مردوں کو سختی کی اجازت ہے وہ تنبیہ کی اجازت ہے.مارنے کی تو سوائے خاص معاملات کے اجازت ہے ہی نہیں.اور وہاں بھی صرف دین کے معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے معاملات میں اجازت ہے.لیکن جومرد خود نماز نہیں پڑھتا، خوددین کے احکامات کی پابندی نہیں کر رہا وہ عورت کو کچھ کہنے کا کیا حق رکھتا ہے؟ تو مردوں کو شرائط کے ساتھ جو بعض اجازتیں ملی ہیں وہ عورت کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہیں.( شاید عورتوں کو یہ خیال ہو کہ یہ باتیں تو مردوں کو بتانی چاہئیں.فکر نہ کریں ساتھ کی مارکی میں مردسن رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں سن رہے ہیں آپ کے حقوق کی حفاظت کے لئے.) ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ:
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 137 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو“.1 (ضمیمہ تحفہ گولڑوی، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 75 ) ،2.( تذکر طبع چہارم ص 323) آپ فرماتے ہیں کہ: اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں.درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہر و.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرو کرو.اور حدیث میں ہے: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاهْلِهِ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو.کیونکہ نہایت بدخدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلدمت توڑو.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 75 حاشیہ ) تو دیکھیں کہ اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حقوق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اصل میں تو مرد کو ایک طرح سے عورت کا نوکر بنا دیا ہے.آج پڑھی لکھی دنیا کا کوئی قانون بھی اس طرح عورت کو حق نہیں دلوا تا.پھر بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے.اور مردوں کو یہ بھی حکم
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 138 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب ہے کہ اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے عورتوں کے ساتھ زیادتی نہ کرو.اگر اس طرح زیادتی کرو گے تو یہ ظلم ہوگا اور پھر ظلم کی سزا بھی تمہیں ملے گی.ایک دوسری آیت وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: 228) کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے: اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں سو یا د رکھیں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے.یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کی بد دعاسن لے گا“.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر آیت سورۃ البقرہ 228) تو یہاں تک مردوں کو ڈرایا ہے.دیکھیں آپ کے حقوق قائم کرنے کے لئے کس طرح مردوں کو انذار ہے.تعدد ازدواج پر اعتراض کے جوابات پھر ایک اعتراض اسلام پر یہ کیا جاتا ہے اور اسی اعتراض کو لے کر عورتوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھو تمہارے جذبات کی کوئی قدر نہیں.تمہیں تو اسلام نے گھر کے اندر بند کر کے رکھا ہوا ہے اور مرد کو کھلی چھٹی دی ہے جو چاہے کرے حتی کہ اگر اس کی خواہش ہو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر لے تو اس کی بھی اجازت ہے.اول تو یہ دجالی اعتراضات ہیں بغیر سیاق و سباق کے ان کو پیش کیا جاتا ہے اور پتہ ہے کہ یہ عورت کی کمزوری ہے اس لئے اس کو انگیخت کیا ہے کہ عورت کے جذبات کو ابھار کر فائدہ اٹھایا جائے.ان اعتراض کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ تم جو ایک شادی پر اکتفا کرنے کو اچھا سمجھتے ہو کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارے خاوند بعض برائیوں میں مبتلا نہیں.اکثر کا جواب یہی ملے گا کہ ہمیں اپنے خاوندوں پر تسلی نہیں اور ان مغربی معاشروں میں طلاقوں کی شرح انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.اس میں سے ایک بہت بڑی اکثریت اسی بے اعتمادی کی وجہ سے طلاقیں لیتی ہے.عورت مرد پر شک کرتی ہے اور پھر اس شک کی وجہ سے بعض اوقات خود بھی بعض برائیوں اور فضولیات میں پڑ جاتی ہے.اسلام
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 139 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب نے جو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے وہ بعض شرائط کے ساتھ دی ہے.ہر ایک کو کھلی چھٹی نہیں ہے کہ وہ شادی کرتا پھرے.پہلی بات تو یہ ہے کہ تم تقویٰ پر قائم ہو اپنا جائزہ لو کہ جس وجہ سے تم شادی کر رہے ہو وہ جائز ضرورت بھی ہے.پھر یہ بھی دیکھو کہ تم شادی کر کے بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو گے کہ نہیں.اور اگر نہیں تو پھر تمہیں شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا.اگر تم پہلی بیوی کی ذمہ داریاں اور حقوق ادا نہیں کر سکتے اور دوسری شادی کی فکر میں ہو تو پھر تمہیں دوسری شادی کا کوئی حق نہیں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ: یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے.تعدد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچار ہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے.( ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 63-64 مطبوعہ لنڈن ) یعنی اگر یہ احساس ہو کہ ان حقوق کو جو اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ادا نہ کر کے اللہ تعالیٰ مرد کو کتنی شدید پکڑ میں لا سکتا ہے تو فرمایا کہ اگر مردوں کو یہ علم ہو تو وہ شاید یہ بھی پسند نہ کریں کہ ایک شادی بھی کریں.ایک شادی بھی ان کے لئے مشکل ہو جائے چونکہ پتہ نہیں کس وجہ سے عورت کا کونسا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے لیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: " دو پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 140 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو یعنی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے.( ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 64-65 مطبوعہ لنڈن ) تو فرمایا کہ یہ شادیاں صرف شادیوں کے شوق میں نہ کرو.بعض مردوں کو شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمیں چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے.فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تمہاری پہلی بیوی ہے اس کے جذبات کی خاطر اگر صبر کر سکتے ہو تو کرو.ہاں اگر کوئی شرعی ضرورت ہے تو پھر بے شک کرو.ایسے حالات میں عموماً پہلی بیویاں بھی اجازت دے دیا کرتی ہیں.تو بہر حال خلاصہ یہ کہ پہلی بیوی کے جذبات کی خاطر مرد کو قربانی دینی چاہئے اور سوائے اشد مجبوری کے شوقیہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں.فرمایا کہ: فرمایا: دو ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقوی پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولا دصالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو.اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو.لیکن اگران میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 141 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے.فرمایا کہ: ”خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو.( ملفوظات جلد ہفتم.صفحہ 63-65) تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کہ مرد کی فطرت کے تقاضے کو بھی ملحوظ رکھا ہے لیکن ساتھ ہی عورت کے حقوق کو بھی تحفظ دیا ہے اور فرمایا کہ تم مومن ہو تو گھریلو معاملات میں ذاتی معاملات میں ہمیشہ تمہیں تقویٰ مدنظر رہنا چاہئے.پھر فرمایا کہ: مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا.اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہو.مگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خواہ مخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں.اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ اُن عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا.اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مرتکب ہو گا.“ (یعنی کہ عہد کے توڑنے کا مرتکب ہوگا.) لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھا دے اور حکم شرع پر راضی ہووے تو اس حالت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 142 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہو گا.اور اس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی.ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تو تعدد ازدواج فرض واجب نہیں کیا ہے.خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے.پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رو سے ہے اور اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے.اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دیدئے“.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 246) تو غیر جو اسلام پر چار شادیوں کا اعتراض کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے اور ہر ایک کو پتہ ہے کہ چار تک شادیاں کر سکتے ہیں.جو بھی مسلمان ہے مردوں کو بھی پتہ ہے، عورتوں کو بھی پتہ ہے.قرآن کی تعلیم ہے اور اس علم کے باوجود شادیاں ہوتی ہیں.لیکن فرمایا کہ چار تک شادیاں کر سکتا ہے بشرطیکہ ضرورت جائز ہو، حق ادا کر سکتا ہو.تو پھر جب معاہدہ کرنے والوں کے علم میں ہے تو دوسروں کو دخل اندازی کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے.ان لوگوں کو اپنے گھروں کی فکر کرنی چاہئے جہاں یہ لوگ غلط کاموں میں ملوث ہو کر اپنے گھروں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں.بہر حال اس تحریر میں بھی دیکھ لیں کہ ہر قدم پر عورت کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے.غرض اگر آنکھوں پر پردے نہ پڑے ہوں تو یہ اعتراض ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ کیوں اجازت دی گئی.جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ ایک مسلمان عورت کے دماغ میں مغربی تہذیب کے علمبردار جو ہیں (جن میں خود بھی بے انتہا کمزوریاں ہیں اور بعض کا میں نے اشارۃ ذکر بھی کیا ہے ) یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرد کو اسلام نے عورت پر فوقیت دی ہے اور اس طرح اسلام مرد کو یہ حق دیتا ہے کہ جس طرح چاہے وہ عورت سے سلوک کرے اور عورت کا کام ہے کہ وہ صرف فرمانبرداری کرتی رہے اور مرد کے سامنے اونچی آواز نہ کرے.تو یہ سب گمراہ کن پروپیگنڈا ہے جو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 143 جلسہ سالانہ بر طانیہ 2004 مستورات سے خطاب اسلام کے خلاف کیا جاتا ہے.آپ لوگوں کو، خاص طور پر نو جوان نسل کو ، اس کے متعلق اسلام کا حسین موقف لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور خود بھی اس قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.وو معترضین قرآن کریم کی اس آیت پر جو اعتراض کرتے ہیں کہ الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء:35).یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہے.اور پھر یہ بِمَا فَضَّلَ الله (النساء:35).مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت دی گئی ہے.اس کی مفسرین نے مختلف تفسیر میں کی ہیں.لیکن ایک بہت خوبصورت تفسیر جو حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے کی ہے وہ میں تھوڑی سی بیان کرتا ہوں.فرمایا کہ: سب سے پہلے تو لفظ قوام کو دیکھتے ہیں.قوام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو ، جو درست کرنے والی ہو، جو ٹیڑھے پن اور کبھی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو.چنانچہ قوام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا.پس قوامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے.اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑ نا شروع ہو جائے ،ان میں کج روی پیدا ہو جائے ، ان میں ایسی آزادیوں کی روچل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو یعنی گھریلو نظام کو تباہ کرنے والی ہو، میاں بیوی کے تعلقات کو خراب کرنے والی ہو ، تو عورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا.معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں.اور بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (النساء: 35) میں خدا تعالیٰ نے جو بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے.قوام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے.ہرگز یہ مراد نہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت حاصل ہے.“ ( خطاب حضرت خلیفہ امسیح الرابع بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان، تیم اگست 1987ء)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 144 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب تو الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء: 35) کہہ کر مردوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپر د کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا.اس لئے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی ، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے.تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں.عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قومی جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں.تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی.اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد وعورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتا ہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی.عورتوں کو تو خوش ہونا چاہئے کہ یہ کہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھر یلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہو جاتی ہیں، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قولی مضبوط ہیں، تم قوام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤ.اور معاملے کو حو صلے سے اس طرح حل کرو کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائے.اور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے.پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے.پھر یہ اعتراض کہ مرد کو اجازت ہے کہ عورت کو مارے تو یہ اجازت اس طرح عام نہیں ہے.خاص حالات میں ہے.جب عورتوں کا باغیانہ رویہ دیکھو تو پھر سزا دینے کا حکم ہے لیکن اصلاح کی خاطر.پہلے زبانی سمجھاؤ، پھر علیحدگی اختیار کرو، پھر اگر باز نہ آئے اور تمہاری بدنامی کا باعث بنی رہے تو پھر سختی کی بھی اجازت ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسی مار نہ ہو کہ جسم پر نشان پڑ جائے ، یا کوئی زیادہ چوٹ آئے.مغلوب الغضب ہو کر نہیں مارنا بلکہ اصلاح کی غرض سے اگر تھوڑی سی سختی کرنی پڑے تو کرنی ہے.اب عورتیں خود سوچ لیں جو عورت اس حد تک جانے والی ہو ، اپنے فرائض ادا نہ کرنے والی ہو ، اپنی بری صحبت کی وجہ سے بچوں پہ بھی برا اثر ڈال رہی ہو اور ان میں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 145 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب بے چینی پیدا کر رہی ہو تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے.اس وجہ سے پھر بچوں کی ، آپ کی نسل بربادہور ہی ہوگی اور معاشرے میں بدنامی بھی ہورہی ہوگی.لیکن ساتھ یہ حکم بھی دے دیا ہے کہ جو عورتیں اپنی اصلاح کر لیں تو پھر بہانے تلاش کر کے ان پر سختی کرنے کی کوشش نہ کرو.اور اسی طرح جو عورتیں نیک ہیں، فرمانبردار ہیں ، تمہارے گھروں کی صحیح طور پر حفاظت کرنے والیاں ہیں، تمہارے مال کو احتیاط سے خرچ کرنے والیاں ہیں، اس رقم میں جو تم ان کو گھر کے اخراجات کے لئے دیتے ہو، گھر چلانے کے لئے دیتے ہو، کچھ بچا کر پس انداز کر کے تمہارے گھر کی بہتری کے سامان پیدا کرنے والیاں ہیں.تمہارے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے والیاں ہیں ان کو معاشرے کا بہترین وجود بنانے والیاں ہیں، ان کا تو مردوں کو ہر طرح سے خیال رکھنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان پر سختیاں نہیں کرنی چاہئیں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے اس پر فضیلت ہے اس لئے جو مرضی کروں.اللہ تعالیٰ مردوں کو فرماتا ہے کہ اگر یہ سوچ ہے تو یا درکھو اسی نے فرمایا کہ اللہ تمہارے سے بڑا ہے، اللہ کوبھی فضیلت ہے.اس لئے اُس کی پکڑ سے بچنے کے لئے ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرو.اب اس کے بعد کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ اسلام میں عورت کو کم تر سمجھا گیا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے؟ فرمایا جب خود کھاؤ تو اسے کھلاؤ.خود پہنو تو اسے بھی کپڑے پہناؤ.چہرے پر نہ مارو.اسے برا بھلا نہ کہو اور ناراضگی کے باعث اگر علیحدہ ہونا پڑے تو پھر گھر میں اکٹھے ہی علیحدہ رہو.(ابو داؤد كتاب النکاح باب في حق المرأة على زوجها) یعنی جیسا کہ پہلے بھی تفصیل سے ذکر آیا ہے کہ اگر سختی کرنی پڑے تو اصلاح کی غرض سے سختی ہونی چاہئے ، نہ کہ بدلے لینے کے لئے غصے اور طیش میں آکر.اور پھر ان کے جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے ظاہری جذبات کا بھی خیال رکھو.ان کی ظاہری ضروریات کا بھی خیال رکھو.جو عورتیں اپنے گھروں کی حفاظت کرنے والیاں ہیں، اپنے خاوندوں کی وفادار اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والیاں ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے رسول کیا فرماتے ہیں.اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے.اسماء بنت یزید انصاریہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 146 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب ہوئیں.اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے.وہ کہنے لگیں آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں.میں آپ کے پاس مسلمان عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں.میری جان آپ پر فدا ہو.شرق و غرب کی تمام عورتیں میری اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے لئے بھیجا ہے.ہم آپ پر ایمان لائیں اور اس خدا پر بھی جس نے آپ کو معبوث فرمایا.ہم عورتیں گھر میں ہی قید اور محصور ہو کر رہ گئی ہیں.ہم آپ مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں.اور آپ کی اولا دسنبھالے پھرتی ہیں.اور آپ مردوں کے گروہ کو جمعہ، نماز با جماعت، عیادت مریضان، جنازوں پر جانا اور حج کے باعث ہم پر فضیلت حاصل ہے.اس سے بڑھ کر جہاد کرنا بھی ہے.آپ میں سے جب کوئی حج کرنے ، عمرہ کرنے ، یا جہاد کرنے کے لئے چل پڑتا ہے تو ہم آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں.لباس کے لئے روٹی کا نتی اور آپ کی اولا د کو پالتی ہیں.تو یا رسول اللہ پھر بھی ہم آپ کے ساتھ اجر میں برابر کی شریک نہیں ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رُخ مبارک صحابہ کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملہ میں اپنے مسئلہ کو اس عمدگی سے بیان کرنے میں اس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہمیں یہ ہرگز خیال نہ تھا کہ ایک عورت ایسی ( گہری) سوچ رکھتی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ: اے عورت ! واپس جاؤ اور دوسری سب عورتوں کو بتا دو کہ کسی عورت کے لئے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا ،مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے.وہ عورت واپس گئی اور خوشی سے لَا إِلَهَ إِلَّا الله اور اللہ اکبر کے الفاظ بلند کرتی گئی.( تفسیر الدر المخور ) تو فرمایا کہ جو اس طرح تعاون کرنے والی اور گھروں کو چلانے والیاں ہیں اور اچھی بیویاں ہیں ان کا اجر بھی ان کے عبادت گزار خاوندوں اور اللہ کی خاطر جہاد کرنے والے خاوندوں کے برابر ہے.تو دیکھیں عورتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے کتنے عظیم اجروں کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دے رہا ہے، اللہ کا رسول دے رہا ہے.میں نے ابھی مختصر آچند باتیں بیان کی ہیں، جن میں کچھ تحفظات جو اسلام عورت کو فراہم کرتا ہے اور کچھ حقوق جو عورت کے ہیں ان کا ذکر کیا ہے.اب میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ، جو اصل میں عورت کو عورت کا وقار اور مقام بلند کرنے کے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 147 جلسہ سالانہ بر طانیہ 2004 مستورات سے خطاب لئے دیا گیا ہے اس کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں اور پہلے بھی اس بارے میں توجہ دلا چکا ہوں.لیکن بعض باتوں اور خطوط سے اظہار ہوتا ہے کہ شاید میں زیادہ بختی سے اس طرف توجہ دلاتا ہوں یا میرار جان سختی کی طرف ہے.حالانکہ میں اتنی ہی بات کر رہا ہوں جتنا اللہ اور اس کے رسول اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم فرمایا ہے.پردہ کرنے کی روح اور مقاصد پردہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پردے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو قید میں ڈال دیا جائے.لیکن ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہئے جو پردے کی شرائط ہیں.تو جس طرح معاشرہ آہستہ آہستہ بہک رہا ہے اور بعض معاملات میں برے بھلے کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ احمدی عورتیں اپنے نمونے قائم کریں.اور معاشرے کو بتائیں کہ پردے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقام بلند کرنے کے لئے دیا ہے نہ کہ کسی تنگی میں ڈالنے کے لئے.اور پردے کا حکم جہاں عورتوں کو دیا گیا ہے وہاں مردوں کو بھی ہے.ان کو بھی نصیحت کی کہ تم بھی اس بات کا خیال رکھو.بے وجہ عورتوں کو دیکھتے نہ رہو.جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو.تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہمیں رستوں پر مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس پر رسول اللہ نے فرمایا رستے کا حق ادا کرو.تو انہوں نے عرض کیا اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی راہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور نا پسندیدہ باتوں سے روکو.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 مطبوعه بيروت ص 16) تو مردوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر بازار میں بیٹھے ہو تو پھر سلام کا جواب دو بلکہ سلام کرو.راستہ پوچھنے والوں کو راستہ بتاؤ.اچھی اور پسندیدہ باتوں کا حکم دو.تو یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو آپس کے تعلقات بڑھانے اور نیکیاں قائم کرنے والی ہیں.اور ان کے ساتھ ہی غض بصر کو بھی رکھا.یعنی یہ بھی ایک ایسا عمل ہے جس سے تمہارے معاشرے میں پاکیزگی قائم ہوگی اور تمہیں نیکیاں کرنے کی مزید توفیق
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل ملے گی.148 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے بلکہ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ (النور: 31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہئے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 533 جدید ایڈیشن) تو مومن کو تو یہ حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور اس طرح عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھو.اور ویسے بھی بلا وجہ دیکھنے کا جس سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہو کوئی جواز نہیں ہے.لیکن عموماً معاشرے میں عورت کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اس کی طرف توجہ اس طرح پیدا ہو جو بعد میں دوستیوں تک پہنچ جائے.اگر پردہ ہو گا تو وہ اس سلسلے میں کافی مددگار ہوگا.اور پردہ کرنے کے بھی اللہ تعالیٰ نے احکامات بتا دیئے کہ کون کون سے رشتے ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے پردہ نہ کرنے کی اجازت دی ہے اور باقی سب سے پردہ کرنے کی تعلیم.فرمایا: وَقُلْ لِلْمُؤْمِنتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِ هِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ ص وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَا ئِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِيْنَ غَيْرِ أولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ مِن وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِينَتِهِنَّ طَ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ص ( سورة النور : 32) اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں.اپنی شرمگاہوں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 149 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب کی حفاظت کیا کریں، اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں،سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو، اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں.اور اپنی زیتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیر نگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں.اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر ) وہ ظاہر کر دیا جائے جو ( عورتیں عموماً ) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں.اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکوتا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.“ پہلی بات تو یہ بتائی کہ جس طرح مردوں کو حکم ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں ، عورتوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی کریں ، آنکھوں میں حیا نظر آئے تا کہ کسی کو جرات نہ ہو کہ کبھی کسی قسم کا کوئی غلط مطلب لے سکے.تم باہر نکلتے وقت اس طرح اپنی چادر یا برقع یا حجاب وغیرہ لو کہ سامنے کا کپڑا اتنا لمبا ہو جو گریبانوں کو ڈھانک لے.حضرت مصلح موعود نے اس کی تشریح کی ہے قمیض کا جو چاک سامنے کا ہوتا ہے جو بھن جو گریبان ہے اس تک نیچے تک آنا چاہئے.اور ہاتھ پاؤں وغیرہ جن کا نظر آنا مجبوری ہے وہ تو خیر کوئی بات نہیں، ظاہر ہے نظر آئیں گے.بہر حال یہ ہے کہ تمہاری زمینیں ظاہر نہ ہوں.بعض عورتوں نے برقعوں کو اتنا فیشن ایبل بنالیا ہے کہ برقع کا کوٹ جو ہے وہ اتنا تنگ ہوتا ہے کہ وہ ایک تنگ قمیص کے برابر ہی ہو جاتا ہے.پردہ کا اصل مقصد تو زینت چھپانا ہے، نہ کہ فیشن کرنا.تو یہ تنگ کوٹ سے پورا نہیں ہوسکتا.حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف صورتیں بیان کرنے کے بعد فر مایا تھا کہ آج کل عربوں یا ترکوں میں جو رواج ہے برقعے کا یہ بڑا اچھا ہے.لیکن وہی کہ کوٹ کھلا ہونا چاہئے.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو بعض قسم کے کوٹوں کو پسند نہیں کرتیں اور اگر کسی کا دیکھ لیں تو خط لکھتی رہتی ہیں اور بہت سوں نے ایک دفعہ سمجھانے کے بعد اپنی تبدیلیاں بھی کی ہیں.لیکن فکر اس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 150 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب لئے پیدا ہوتی ہے جب بعض بچیاں سکولوں کالجوں میں جھینپ کر یا شرما کر اپنے برقعے اتار دیتی ہیں.وہ یاد رکھیں کہ کسی قسم کے کمپلیکس میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے میں برکت ہے.تیسری دنیا کے ایسے ممالک افریقہ وغیرہ جو بہت پسماندہ ہیں وہاں تو جوں جوں تعلیم اور تربیت ہو رہی ہے اور لوگ جماعت میں شامل ہور ہے ہیں اپنے لباسوں کو ڈھکا ہوا بنا کر پردے کی طرف آرہے ہیں.اور ان خاندانوں کی بعض بچیاں جہاں برقع کا رواج تھا برقع اتار کر اگر جین بلاؤز پہننا شروع کر دیں تو انتہائی قابل فکر بات ہے.ہم تو دنیا کی تربیت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں.اپنوں میں اسلامی روایات اور احکامات کی پابندی نہ کرنے والوں کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں کن کن لوگوں سے پردہ نہ کرنے کی اجازت دیتا ہے اس بارے میں فرمایا کہ خاوند، باپ،سر یا خاوندوں کے بیٹے اگر دوسری شادی ہے پہلے خاوند کی اگر کوئی اولاد تھی تو ، بھائی ، بھتیجے ، بھانجے یا اپنی ماحول کی عورتیں جو پاک دامن عورتیں ہوں جن کے بارے میں تمہیں پتہ ہو.کیونکہ ایسی عورتیں جو برائیوں میں مشہور ہیں ان کو بھی گھروں میں گھنے یا ان سے تعلقات بڑھانے کی اجازت نہیں ہے.ان کے علاوہ یہ جو چند رشتے بتائے گئے اس کے علاوہ ہر ایک سے پردے کی ضرورت ہے.پھر یہ بھی فرما دیا کہ تمہاری چال بھی باوقار ہونی چاہئے.ایسی نہ ہو جو خواہ مخواہ بد کردار شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہو اور اس کو یوں موقع دو.اگر اس طرح عمل کرو گے، تو بہ کی طرف توجہ کرو گے تا کہ خیالات بھی پاکیزہ رہیں تو اسی میں تمہاری کامیابی ہوگی اور اسی میں تمہاری عزت ہو گی ، اور اسی میں تمہارا مقام بلند ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں.لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں.( یعنی قید خانہ نہیں بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکھٹے بلا تامل اور بے محابہ مل سکیں ، سیر میں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 151 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب ٹھوکر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے.انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں ، تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے.اُن نا پاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.یعنی کہ اتنی آزادی والی تعلیم سے بھگت رہا ہے.جہاں کوئی شرم و حیا ہی نہیں رہی اور بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یا درکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گئی.اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہو کہ معاشرہ ٹھیک ہے ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا، یہاں کے ماحول میں پردے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگوں کو دیکھنے کی عادت نہیں.فرمایا کہ اگر یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں یا درکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ میں آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خودکشیاں دیکھیں“.( یہ بھی خود کشیوں کا یہاں جو اتنا ہائی ریٹ (High rate) ہے اس کی بھی ایک یہی وجہ ہے.) " بعض شریف عورتوں کا طوائفا نہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کیلئے دی گئی.( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ، صفحہ 21-22) تو آج بھی دیکھ لیں کہ جس بات کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نشاندہی فرمار ہے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اسی کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہوئی اور اس بے اعتمادی کی وجہ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 152 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب سے گھر اجڑتے ہیں اور طلاقیں ہوتی ہیں.یہاں جوان مغربی ممالک میں ستر ، اسی فیصد طلاقوں کی شرح ہے یہ آزاد معاشرے کی وجہ ہی ہے.یہ چیزیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر گھر اُجڑ نے شروع ہو جاتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: پردے کا اتنا تشدد جائز نہیں ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کوئی مرد اس کو نکال سکتا ہے.دینِ اسلام میں تنگی و حرج نہیں.جو شخص خوانخواہ تنگی و حرج کرتا ہے وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے.گورنمنٹ نے بھی پردہ میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دیئے ہیں.جو جو تجاویز و اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ انہیں توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے مطابق عمل کرتی ہے.کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے.( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ، ص 171) ایک تو یہ فرمایا کہ بعض عورتوں کی پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹروں کو بھی دکھانا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے.وہاں جو بعض مرد غیرت کھا جاتے ہیں کہ مردوں کو نہیں دکھانا وہ بھی منع ہے.ضرورت کے وقت مرد ڈاکٹروں کے سامنے پیش ہونا کوئی ایسی بات نہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا ان کی جہالت ہے.“ یعنی یورپین لوگوں کی یا جو لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ پردہ نہیں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں جس پر اعتراض وارد ہو.قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ نغض بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا ہے کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھو.افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے.اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں.اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 153 جلسہ سالانہ برطانیہ 2004 مستورات سے خطاب پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں.اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ( ملفوظات جلد اول، جدید ایڈیشن ، ص 297-298) ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ پہلے مردوں کی اصلاح کر لو پھر کہو کہ پردہ کی ضرورت نہیں رہی.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی معنوں میں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کبھی ایسی خواہشات کی تکمیل کے لئے جو صرف ذاتی خواہشات ہوں دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے نہ ہوں.ہمیشہ یادرکھیں کہ ایک احمدی عورت اور احمدی بچی کا ایک مقام ہے.آپ کو اللہ اور اس کے رسول نے نیکیوں پر قائم رہنے کے طریق بتائے ہیں.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفصیل سے وہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیئے ہیں.کسی بھی قسم کے کمپلیکس (Complex) میں مبتلا ہوئے بغیر ان راستوں پر چلیں اور ان حکموں پر عمل کریں.دنیا کو بتا ئیں اور کھول کر بتائیں کہ اگر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کسی نے کی ہے تو اسلام نے کی ہے.معاشرے میں اگر عورت کی عزت قائم کی ہے تو اسلام نے کی ہے.تم اے دنیا کی چکا چوند میں پڑے رہنے والو! آج اگر معاشرے کو امن پسند بنانا چاہتے ہو تو اسلام کی تعلیم کو اپناؤ.آپ کو یہ سبق ان کو دینا چاہئے نہ کہ ان کی باتوں اور کمپلیکس میں آئیں.ان کو بتائیں کہ آج اگر اپنی عزتوں کو قائم کرنا ہے تو اسلام کی طرف آؤ.آج اگر اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانا ہے تو ہمارے پیچھے چلو.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 154 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرموده 21 /اگست 2004) خواتین وحضرات کی معاشرتی ذمہ داریاں بعض دفعہ اولا د صرف اس لئے بگڑ جاتی ہے کہ باپ اپنی بیویوں سے حسن سلوک نہیں کرتے عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح کہ مرد بہت سے جھگڑے خاوند بیوی کے بے اعتمادی کی وجہ سے ہوتے ہیں میاں بیوی میں اعتماد اور سچ کا رشتہ ضروری ہے مالی قربانیوں کی اعلی مثالیں مسجد برلن کی تعمیر میں احمدی خواتین کی قربانیاں حیا کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 155 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب خواتین و احباب کی تربیتی ذمہ داریاں اور مالی قربانیوں کے اعلیٰ معیار کی مثالیں تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیت تلاوت فرمائی: يأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ط وَاتَّقُو اللَّهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورة الحشر : 19) کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کا زیادہ تر دارومدار اس قوم کی عورتوں کے اعلیٰ معیار میں ہے.اس لئے اسلام نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے.بیوی کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے اور ماں کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے.مرد و وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20) کہہ کر یہ ہدایت فرما دی کہ عورت کا ایک مقام ہے.بلا وجہ بہانے بنابنا کر اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کرو.یہ عورت ہی ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چل رہی ہے.اور کیونکہ ہر انسان کو بعض حالات کا علم نہیں ہوتا اور مرد اس کم علمی کی وجہ سے عورتوں پر بعض دفعہ زیادتی کر جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اپنی اس کم علمی اور بات کی گہرائی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے تم ان عورتوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرو، انہیں پسند نہ کرو.لیکن یا درکھو کہ خدا تعالیٰ جس کو ہر چیز کا علم ہے، جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے،
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 156 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب اس نے اس میں تمہارے لئے بہتری کا سامان رکھ دیا ہے.اس لئے عورت کے بارے میں کسی بھی فیصلے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے.اسی طرح ماں کی حیثیت سے عورت کا یہ مقام بتایا کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے.یعنی عورت کی تربیت ہی ایسی ہے جو بچوں کو جنتوں کا وارث بنا سکتی ہے.پھر مردوں کو یہ بھی فرمایا کہ عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھا کرو جیسے فرمایا وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجاً (النحل: 73) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہارے جیسے جذبات رکھنے والی بیویاں بنائی ہیں.یعنی مردوں کو یہ تلقین فرما دی کہ بلا وجہ ذرا ذراسی بات پر عورتوں سے بد کلامی یا تلخی کا سلوک نہ کرو.وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی تمہارے جیسے جذبات ہیں.ان سے ہی تمہاری نسل چل رہی ہے.اگر ان کو بلا وجہ کے صدمات پہنچاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ تمہاری نسل ہی تمہارے خلاف ہو جائے.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کے ظلم کی وجہ سے سختی کی وجہ سے جبکہ عورت فرمانبرداری دکھانے والی بھی ہو اور اطاعت گزار بھی ہو مرد کا کہنا ماننے والی بھی ہو، اس کے گھر کی حفاظت بھی کرنے والی ہو، اس کے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والی بھی ہوا گر پھر بھی مرد اس پر زیادتی کرتا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہوگی.پھر چونکہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو عورت کے تقویٰ پر قائم رہنے کی دلیل ہیں تو مرد کے بے جا ظلم کی وجہ سے بعض دفعہ اولاد اپنے باپ کے خلاف ہو جاتی ہے.تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق و جذبات کا خیال رکھا ہے.فرمایا اس لئے اپنے اوپر کنٹرول رکھو اور اس طرح تم نہ صرف عورت کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہو گے بلکہ اپنے اور اپنی اولا د کا بھی بھلا کر رہے ہو گے.جیسے کہ میں نے کہا، بعض دفعہ اولا دصرف اس لئے بگڑ جاتی ہے، باپ کی نافرمان ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک نہیں کرتے.پھر یہ بھی حکم دیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے راز دار بھی ہیں.یہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے.یہ راز داری همیشه راز داری ہی رہنی چاہئے.یہ نہیں کہ کبھی جھگڑے ہوئے تو ایک دوسرے کی غیر ضروری باتوں کی تشہیر شروع کر دو، لوگوں کو بتانا شروع کر دو.پھر یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اگر آپس میں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 157 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب.اچھے تعلقات ہیں، معاشرے کو پتہ ہے کہ اچھے تعلقات ہیں، تو معاشرے میں بھی عورت اور مرد کا ایک مقام بنا رہتا ہے.کسی کو نہ عورت پر انگلی اٹھانے کی جرات ہوتی ہے اور نہ کسی کو مرد پر انگلی اٹھانے کی جرات ہوتی ہے.تو یہاں خاوند اور بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.نہ مرد، عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور نہ عورت ، مرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے.فرمایا کہ اس سے نہ صرف تم اپنی گھریلو زندگی خوشگوار بناؤ گے، اچھے تعلقات رکھ کر ، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر رہے ہو گے.ان کو محفوظ کرنے کے بھی سامان کر رہے ہو گے.تو اس طرح بہت سے حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کے رکھے ہیں اور دونوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی کریں.عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح مرد.اور دونوں اگر صحیح ہوں گے تو اگلی نسل بھی صحیح طریق پر پروان چڑھے گی ، اس کی تربیت بھی صحیح ہوگی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اور اسی لئے نکاح کے خطبے میں جس میں سے ایک آیت کی میں نے تلاوت کی ہے، انہی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو تقویٰ پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی ہے.ان میں آپس کے پیارا اور محبت کے تعلقات کے بارے میں بھی فرمایا ہے.ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کے بارے میں بھی فرمایا ہے.پھر سچ پر قائم رہنے کے بارے میں بھی فرمایا ہے کیونکہ سچ پر قائم رہ کر ہی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور سچ پر قائم رہ کر ہی آپس کے تعلقات کو اچھی طرح ادا کر سکتے ہو اور سچ پر قائم ہو کر ہی اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر سکتے ہو اور ان کو معاشرے کا ایک مفید وجود بنا سکتے ہو.عائلی زندگی میں بداعتمادی کی وجہ سے جھگڑے بہت سے جھگڑے خاوند بیوی کے اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہوتے ہیں.عورت کو شکوہ ہوتا ہے کہ مرد سچ نہیں بولتا.مرد کوشکوہ ہوتا ہے کہ عورت بیچ نہیں بولتی اور اس کو سچ بولنے کی عادت ہی نہیں.اور اکثر معاملات میں یہ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ میرے سے غلط بیانی سے کام لیا یا مستقل ہر بات میں غلط بیانی کرتے ہیں یا کرتی ہے.پھر سچ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور بچے بھی جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 158 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب پھر یہ بھی نصیحت ہے کہ اگر تم اس طرح بیچ پر قائم رہو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری ان کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کرتا رہے گا.تمہیں نیکیوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے گا.تمہارے گناہوں سے، تمہاری غلطیوں سے ،صرف نظر کرتے ہوئے تمہارے گھروں کو جنت نظیر بنا دے گا.اور یا درکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے سے ہی تمہیں فوز عظیم یا بڑی کامیابی عطا ہوگی.اور بڑی کامیابی کیا ہے؟ ہر کوئی یہ چاہتا ہے، ہر مومن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بڑی کامیابی حاصل کرے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنتوں کو حاصل کرنا.اور یاد رکھو یہ کامیابیاں اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا حصول اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اپنے اعمال پر نظر نہ ہو.حقوق اللہ بھی ادا کرو اور حقوق العباد بھی ادا کرو.جب تک دونوں حقوق ادا نہیں ہو رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی.جیسا کہ میں نے کل کے خطبے میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے جو درجے ہیں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت کو دل میں قائم کرتے ہوئے ، ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ضروری ہے.ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ہو گا.ہر حکم کو بجالا نا ہوگا.تب ہی فلاح بھی حاصل کرو گے اور جنتوں کے بھی وارث ٹھہرو گے.اور وہ حکم ہیں ( کل میں نے گن کر بتائے تھے ).پہلا یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے، عاجزی سے ادا کرو.اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو یہ سوچ کر کہ خدا میرے سامنے ہے پھر اس سے مانگو.اپنے لئے بھی مانگو، اپنے خاوندوں کے لئے بھی مانگو، اپنی اولاد کے لئے بھی مانگو کہ اے اللہ تو ہی ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنے والا ہے.تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری عبادات بجالا سکیں.اے اللہ ہمیں، ہماری اولا د اور ہمارے خاوندوں کو ان نیکیوں پر قائم کر.اور نماز کے بارے میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتو عاجزی دکھاتے ہوئے.یہ عاجزی اس وقت پیدا ہوگی جب یہ احساس ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں.اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں.حدیث میں ہے کہ اگر یہ نہیں ، یہ احساس نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو کم از کم یہ احساس ضرور ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے.تبھی عاجزی بھی پیدا ہوتی ہے.اور عبادات میں بھی توجہ تبھی قائم رہے گی جب مختلف قسم کی جو لغویات اور فضول باتیں ہیں ان سے بچیں گی.اس کے لئے کوشش بھی کریں اور نمازوں میں بھی دعا کریں کہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 159 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب اے اللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اور ہمارے خاوندوں کو ان سے بچا، ان لغویات سے بچا.عورتوں کو خاص طور پر بیٹھ کر باتیں کرنے کی ، لغو باتیں کرنے کی زیادہ عادت ہوتی ہے.ویسے یہ مردوں کو بھی ہے.اس سے بہر حال بچنا چاہئے.مثلاً یہ کہ فلاں کے کپڑے ایسے ہیں، فلاں کا گھر ایسا ہے، فلاں کے بچوں کو یہ یہ گندی عادتیں ہیں، فلاں میاں بیوی کے ایسے تعلقات ہیں.یہ ساری فضول باتیں ہیں، لغو باتیں ہیں.اگر تو واقعی ایسے ہیں تو تمہارا کام یہ ہے کہ دعا کرو.اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو کہ وہ بھی ہمارے بھائی بند ہیں، وہ بھی ہماری بہنیں ہیں، اللہ تعالیٰ بہتر کرے.اور اگر یہ یہ برائیاں ہیں، یہ خامیاں ہیں تو وہ دور ہو جائیں.اگر وہ لوگ ایسے نہیں اور یہ باتیں تم صرف باتوں کا مزہ لینے کے لئے کر رہے ہو تو یہ گناہ ہے.اور اسلام نے عورت کا جو مقام رکھا ہے یا جس مقام کی توقع کی ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عورت ، خاص طور پر ہر احمدی عورت، ان لغویات اور گناہ کی باتوں سے پر ہیز کرے.مالی قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں پھر فرمایا جب نمازوں میں توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرو گے اور لغویات سے بھی پرہیز کرنے کی کوشش کرو گے پھر اگلا قدم زکوۃ کی ادائیگی ہے یا مالی قربانی ہے.عورتوں پر عموماً زکوۃ فرض ہوتی ہے.یہاں ان ملکوں میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کشائش پیدا ہو چکی ہے.ہر ایک نے کچھ نہ کچھ زیور بنایا ہوا ہے.تقریباً ہر ایک پر زکوۃ فرض ہوتی ہوگی.کیونکہ جو نصاب مقرر ہے جو ز کوۃ کے لئے شرائط ہیں ان کے مطابق تقریباً پاکستانی کرنسی میں تو ڈیڑھ تولے سونے کے برابر زیور پر زکوۃ فرض ہو جاتی ہے.تو اس لحاظ سے ہر ایک کے پاس اتنا سونا ہوتا ہے کم از کم.اس لئے اس پر زکوۃ ادا کرنی چاہئے یا بہر حال ہر ملک میں قیمت کا جائزہ لے کر اندازہ کر کے تو زکوۃ ادا کرنی چاہئے.اس کے علاوہ پھر اور بھی مالی قربانیاں ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عورتوں نے ہمیشہ مالی قربانیوں کی اعلی مثالیں قائم کی ہیں اور کرتی ہیں اور اللہ کرے کہ ہمیشہ کرتی رہیں.ایسی مثالیں جماعت میں ملتی ہیں جہاں بوڑھی عورتوں نے کسی تحریک پر حالانکہ خود وہ وظیفہ پر گزارہ کر رہی ہوتی تھیں یا چند مرغیاں پالی ہوئی ہیں کہ انڈے بیچ کر گزارہ کرتی تھیں روتی ہوئی آتی رہیں خلیفہ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 160 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب وقت کے پاس اور وہ معمولی رقم جو ان غریب عورتوں کے لئے یقیناً ایک بڑی رقم تھی خلیفہ وقت کے ہاتھ پر رکھ دیتی رہیں.اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے پہلے کہا آج بھی ملتی ہیں.ہر کوئی اپنی توفیق کے مطابق آج بھی مالی قربانیوں میں حصہ لیتی ہے.آج بھی اپنے زیورا تار تار کر جماعتی مقاصد کے لئے عورتیں پیش کرتی ہیں.بعض تو اپنے تمام زیور ہی کسی تحریک یا کسی مد میں جمع کروادیتی ہیں یا دے دیتی ہیں.اور پھر ساتھ ہی یہ اظہار بھی ہوتا ہے کہ ہم مالی قربانیوں میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتے.تو یہ مقام آج ایک احمدی عورت کا ہی مقام ہے اور اس کو آپ نے قائم بھی رکھنا ہے انشاء اللہ تعالی.اس کو اپنی انگلی نسلوں میں بھی پیدا کرنا اور چلانا ہے.تو اس طرح کی مثالیں قائم کر کے یہ عورتیں پہلوں کی وہ مثالیں قائم کرتی ہیں جہاں ہمیں یہ نظارے نظر آتے ہیں.جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ عبد الرحمن بن عابس روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھا سے یہ سنا ہے کہ ان سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عید الاضحی یا عیدالفطر پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اور اگر میرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن میں ہی تعلق نہ ہوتا تو میں اس عہد کا مشاہدہ نہ کر پاتا.پھر حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ ہے صل الله عید کے لئے تشریف لے گئے.خطبہ عید دیا.انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا.یہ مسئلہ بھی یہاں حل ہو گیا کہ عید پر اذان اور اقامت وغیرہ کوئی نہیں ہوتی.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لے گئے ان کو وعظ ونصیحت کی اور ان کو صدقہ دینے کی تلقین فرمائی.کہتے ہیں کہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور اپنی گردنوں کی طرف لپکیں یعنی ان کے ہاتھ اپنے کانوں اور اپنی گردنوں کے ہاروں کی طرف گئے اور اپنے زیورات اتار اتار کر حضرت بلال کو دینے لگیں.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بلال اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے.“ 66 (بخارى كتاب النكاح باب والذين لم يبلغوا الحلم منكم ) تو یہ تھے قربانیوں کے وہ اعلیٰ معیار جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ان لوگوں میں اور پھر اس زمانے میں قائم ہوئے اور ان لوگوں میں قائم ہوئے جن کو لوگ جاہل اجڈ اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 161 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب گنوار کہا کرتے تھے.جو اس وقت کی Civilized دنیا تھی اس زمانے میں لوگ ان کو بد و کہا کرتے تھے.پس آج بھی ہمیں یہی مثالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے غلام صادق کی جماعت کی عورتوں میں نظر آتی ہیں.یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی تھی کہ وہ مسیح و مہدی جب آئے گا تو وہ آخرین کو بھی ان پہلوں سے ملائے گا.پس آپ وہ خوش قسمت ہیں جو ان قربانیوں میں پہلوں سے مل رہی ہیں لیکن تقوی میں بھی پہلوں سے ملنا ہو گا.ہر قدم جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے اس میں بھی پہلوں سے ملنا ہو گا.اس کے لئے بھی محنت کرنی ہوگی.جس طرح خوبصورت کر کے حضرت اقدس مسیح موعود نے ہمیں اسلام کی تعلیم کی خوبیاں بتائی ہیں، اس کے حسن کو اجاگر کیا ہے، اس پر عمل کرنا ہوگا اور کسی پہلو سے بھی ہمارے اعمال ایسے نہ ہوں جو پہلوں سے ملانے والے نہ ہوں.اور احمدی عورت پر تو بہت زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس نے انگلی نسل کی بھی تربیت کرنی ہے.مسجد برلن کی تعمیر میں احمدی خواتین کی قربانیاں مالی قربانی کے ضمن میں یہ بات بھی یاد آ گئی کہ لجنہ جرمنی نے ایک عہد کیا ہوا ہے، ایک وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ برلن کی مسجد کی تعمیر کریں گی.اس کے لئے بھی بھر پور کوشش کریں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تعمیر کے سلسلے میں میرا خیال ہے کہ آج سے 80 سال پہلے تحریک کی تھی اور لجنہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم یہ مسجد تعمیر کریں گی.لیکن بہر حال اس وقت حالات ایسے نہیں تھے اور حالات نے اجازت نہیں دی، مسجد نہ بن سکی تو شاید یہی رقم مسجد فضل لندن میں استعمال ہوئی.تو بہر حال اس وقت بھی لجنہ نے ہی برلن میں مسجد بنانے کا عہد کیا تھا.پس وہ عہد جو اس وقت آپ میں سے بہت سوں کی دادیوں نے یا نانیوں نے یا ماؤں نے کیا ہوگا آپ اب اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں.اس وقت کی نسبت آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو بہت کشائش ہے.اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی نسبت سے بہت کچھ دیا ہے اس وقت جو قربانیاں لجنہ نے کرنی تھیں وہ بہت بڑی قربانیاں تھیں آج شاید اس محنت سے اتنی قربانی کا احساس نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے آپ کی تو فیق بڑھا دی ہے اس لئے شکرانے کے طور پر اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کریں.ا
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 162 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب حیا کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت پھر فرمایا کہ اگلا قدم جو ہے وہ یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کرنے والیاں یعنی حیا کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والیاں ہوں اور یہ بھی کہ اپنے کان، آنکھ ، منہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچانے والی ہوں، ان کی حفاظت کرنے والی ہوں.اس میں جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا لغویات کے سننے اور کہنے سے پر ہیز کرنے والی بھی ہوں.کسی کو بھی آپ کی زبان سے تکلیف نہ پہنچے.یہاں بھی ان دنوں میں ،ان جلسے کے دنوں میں خاص طور پر اور عموماً کسی کے خلاف کوئی سخت کلمہ آپ کے منہ سے نہ نکلے اور اگر کوئی لفظ نکلے تو وہ دعا ہی کا لفظ ہو جو ایک احمدی عورت کی شان ہے بلکہ ہر احمدی کی شان ہے.بعض دفعہ یہاں سے بعض ایسی شکائتیں بھی آتی رہیں کہ بعض اجلاسوں میں ذرا ذراسی بات پر تو تکار ہوئی اور پھر لڑائی شروع ہو گئی اور مرد بھی اس میں شامل ہو گئے.تو یہ تقویٰ نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے.تقویٰ تو ایک طرف رہا.پھر ایسی مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں بھی نہیں سننی چاہئیں جہاں کسی کے خلاف کوئی چغلی ہو رہی ہو.کسی کے خلاف کوئی بات ہو رہی ہو.کسی کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، استہزا کیا جارہا ہو، ٹھٹھہ کیا جارہا ہو.پھر آنکھوں کو بھی حیا سے رکھیں.نظریں نیچی رکھیں اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کریں.اسی حکم میں اللہ تعالیٰ کا ایک حکم پر دے کا بھی ہے، اس کی پابندی کرنی بھی ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں ( یعنی قید خانہ نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تأمل اور بے محابا مل سکیں ، سیریں کریں، کیونکر جذبات نفس سے اضطرار اٹھو کر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو، کوئی عیب
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 163 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے.انہی بدنتائج کو روکنے کیلئے شارع الاسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.“ ( یعنی کہ بالکل آزادی کی جو رسم ہے.) '' بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفا نہ زندگی بسر کی جا رہی ہے.یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد وعورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی ( ملفوظات جلد اوّل، جدید ایڈیشن، صفحہ 21-22) تو یہ جو فروج کی حفاظت کا حکم ہے اس کے لئے بھی پردہ انتہائی ضروری ہے اس لئے اس خدائی حکم کو بھی کوئی معمولی حکم نہ سمجھیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ پردے کے خلاف جولوگ بولتے ہیں وہ پہلے مردوں کی اصلاح تو کرلیں پھر اس بات کو چھیڑ ہیں کہ آیا پردہ ضروری ہے یا نہیں.پھر فرمایا کہ اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس کرنے والے اصل فلاح پانے والے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہیں.اب میاں بیوی کے نکاح کا عہد بھی ایک عہد ہے کہ ایک دوسرے کے وفادار رہیں گے.ایک عہد ہے کہ ایک دوسرے کے رازوں کو راز رکھیں گے.اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں.پھر اپنے معاشرے میں اپنے روزمرہ معمولات میں انسان بہت سے وعدے کرتا ہے ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے.پھر امانتوں کا پاس کرنا ہے.اب صرف کسی کی رقم یا کسی کی چیز کی امانت ہی امانت نہیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 164 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب ہے بلکہ اگر کسی کا راز پتہ چلے تو یہ بھی امانت ہے.کسی کا راز آپ کے علم میں آتا ہے تو وہ راز آپ کے پاس امانت ہے.اگر آپ کی وجہ سے وہ کہیں باہر نکلتا ہے تو اس میں خیانت کر رہی ہیں.اگر کسی مجلس میں گئی ہیں اور وہاں کسی کی کوئی بات سن لیں تو یہ بھی امانت ہے.اگر کسی سہیلی نے ، دوست نے ، آپ سے کوئی مشورہ مانگ لیا تو یہ بھی امانت ہے.تو جو بات اس نے کہی ہے وہ آگے کسی اور تک نہ پہنچے.اور دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے کو یہ باتیں پتہ نہ لگیں ورنہ خدا تعالیٰ کی نظر میں آپ خائن کہلائیں گی ، خیانت کرنے والی کہلا ئیں گی.تو دیکھیں کس باریکی سے ہمیں امانتوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.سب اعلیٰ کام تقویٰ سے ہوتے ہیں پھر فرمایا ہے کہ یہ سب کام تقویٰ کے کام ہیں ، اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنے والے کام ہیں.اس کا پیار حاصل کرنے والے کام ہیں اور اس کی جنتوں کو حاصل کرنے والے کام ہیں.لیکن یہ کام، یہ سب کام سجا کر خوبصورت طریقے سے پیش کرنے کے تب قابل ہوں گے جب ہم اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض و غائت یا مقصد عبادت بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ میں نے اس لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں.اور عبادت کا بہترین ذریعہ ہمیں یہ بتا دیا کہ نمازوں کی حفاظت کرو، نمازیں وقت پر ادا کرو.اور جو پہلے قدم پر خشوع و خضوع حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اب اس پر قائم ہو جاؤ اور اس خشوع وخضوع اور ذوق عبادت کو قائم رکھو اور آپ کی چونکہ مزید ذمہ داری بھی ہے آپ کے سپر د ایک امانت بھی کی گئی ہے جس کی ادائیگی آپ نے کرنی ہے اس لئے ان نمازوں کی حفاظت نہ صرف خود کرنی ہے بلکہ اپنی اولا دوں کو بھی اس کی عادت ڈالنی ہے.تبھی آپ اولاد کی تربیت کی جو امانت آپ کے سپرد کی گئی ہے اس کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی.ان میں بھی یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ بھی نمازوں کی حفاظت کریں.جب یہ معیار آپ حاصل کر لیں گی تو پھر بے فکر ہو جائیں.نہ صرف آپ بلکہ آپ کی اولا دیں بھی فلاح پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کی وارث بنیں گی.اور یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی گئی تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عبادالرحمن پیدا ہوتے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 165 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب رہیں گے.ہمیشہ تقویٰ پر قائم رہنے والے پیدا ہوتے رہیں گے.اور یوں آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں بھی آجائیں گی.اور شیطان کبھی آپ کو یا آپ کی اولا دکو نقصان نہیں پہنچا سکے گا.پس یہ تقویٰ کے معیار پیدا کرنے بہت ضروری ہیں.اس طرف فکر سے توجہ کرنی چاہئے.عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3-4).یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہو گا.“ ( عورتوں کو بعض دفعہ رزق کی بڑی فکر ہوتی ہے فرمایا کہ رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں.اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا تعالیٰ خود ان کو رزق پہنچاوے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِيْنَ (الاعراف :197) جس طرح پر ماں بچے کی متوتی ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفل ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے.انسان بعض گناہ عمدا بھی کرتا ہے اور بعض گناہ اس سے ویسے بھی سرزد ہوتے ہیں.جتنے انسان کے عضو ہیں ہر ایک عضو اپنے اپنے گناہ کرتا ہے انسان کا اختیار نہیں کہ بچے.اللہ تعالیٰ اگر اپنے فضل سے بچاوے تو بچ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کیلئے یہ آیت ہے.ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن.جو لوگ اپنے رب کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہو جاتا ہے.کوئی شخص عابد بہت دعا کرتا تھا کہ یا اللہ تعالیٰ مجھ کو گنا ہوں سے آزادی دے.اس نے بہت دعا کرنے کے بعد سوچا کہ سب سے زیادہ عاجزی کیونکر ہو.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 166 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب یعنی عاجز بننا چاہئے گناہوں سے نجات حاصل کرنی چاہئے تو یہ جو عاجزی ہے کس طرح حاصل کی جائے.سب سے ایسا درجہ جو عاجزی کے لحاظ سے بڑا درجہ ہو وہ کیا ہوسکتا ہے.تو اس نے پھر سوچا.فرمایا کہ 66 معلوم ہوا کہ کتے سے زیادہ عاجز کوئی نہیں.“ کتا ایسا ہے جو عاجز ہوتا ہے.تو اس نے اس کی آواز سے رونا شروع کیا.کسی اور شخص نے سمجھا کہ مسجد میں کتا آ گیا ہے“ مسجد میں وہ عبادت کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی میرا بر تن پلید کر دیوے تو اس نے آکر دیکھا تو عابد ہی تھا.“ وہ عبادت کرنے والا جو تھا وہی تھا وہاں.وسکتا کہیں نہ دیکھا.آخر اس نے پوچھا کہ یہاں کتا رو رہا تھا.اس نے کہا کہ میں ہی کتا ہوں.پھر پوچھا کہ تم ایسے کیوں رو ر ہے تھے ؟ کہا کہ خدا تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اس واسطے میں نے سوچا کہ اس طرح میری عاجزی منظور ہو جاوے گی.“ تو بعض لوگوں نے اس طرح بھی طریق اختیار کئے ہیں.پھر فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے لڑکے کے واسطے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے.اسی طرح انسان کو چاہئے کہ دعا کرے بہت سے شخص ایسے ہوتے ہیں کہ کسی گناہ سے نہیں بچتے لیکن اگر ان کو کوئی شخص بے ایمان یا کچھ اور کہہ دیوے تو بڑے جوش میں آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو کوئی گناہ نہیں کرتے پھر ہم کو یہ کیوں کہتا ہے.اس طرح انسان کو معلوم نہیں کہ کیا کیا گناہ اس سے سرزد ہوتے ہیں.پس اس کو کیا خبر ہے کہ کیا کچھ لکھا ہوا ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنے عیبوں کو شمار کرئے“ اپنی جو غلطیاں ہیں، خامیاں ہیں کو تاہیاں ہیں ان کو گنتا رہے دیکھتا رہے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 167 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب فرمایا: اور دعا کرے پھر اللہ تعالیٰ بچاوے تو بیچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں مانوں گا.اُدْعُوْنِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: 61) دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہئے.دوسرا طریق یہ ہے كُونُوا مَعَ الصَّدِقِین راستبازوں کی صحبت میں رہوتا کہ ان کی صحبت میں رہ کر تم کو پتہ لگ جا وے کہ تمہارا خدا قادر ہے، بینا ہے.(یعنی دیکھنے والا ہے ) سننے والا ہے.دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صد ہا نعمتیں دیتا ہے.جولوگ ہر روز نئے گناہ کرتے ہیں وہ گناہ کو حلوے کی طرح شیریں خیال کرتے ہیں.یعنی جن لوگوں کو گناہ کی عادت پڑ جاتی ہے ہر روز ایک نیا گناہ کرتے ہیں اور پھر اس کو کچھ سمجھتے بھی نہیں بلکہ جس طرح کوئی حلوہ کھا جاتا ہے میٹھا سمجھ کے، اس طرح کھا جاتے ہیں.ان کو خر نہیں کہ یہ زہر ہے کیونکہ کوئی شخص سنکھیا جان کر نہیں کھا سکتا.(سنکھیا ایک زہر ہے.کوئی شخص بجلی کے نیچے نہیں کھڑا ہوتا اور کوئی شخص سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا.اور کوئی شخص کھا نا شکی نہیں کھا سکتا.اگر چہ اس کو کوئی دو چار روپے بھی دے.پھر باوجود اس بات کے جو یہ گناہ کرتا ہے کیا اس کو خبر نہیں ہے.پھر کیوں کرتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا دل مضر یقین نہیں کرتا“.اس کے دل میں یہ یقین نہیں ہے کہ یہ نقصان دہ ہے.” اس واسطے ضرور ہے کہ آدمی پہلے یقین حاصل کرے.جب تک یقین نہیں، غور نہیں کرے گا اور کچھ نہ پائے گا.بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پیغمبروں کا زمانہ بھی دیکھ کر ان کو ایمان نہ آیا.اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے غور نہیں کی.دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ) (بنی اسرائیل: 16) ہم عذاب نہیں دیا کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیویں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 168 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ تُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَهَا تَدْمِيرًا (بنی اسرائیل: 17) پہلے امراء کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے.وہ ایسے افعال کرتے ہیں کہ آخر ان کی پاداش میں ہلاک ہو جاتے ہیں.غرضیکہ ان باتوں کو یا درکھو اور اولاد کی تربیت کرو.زنا نہ کرو.کسی شخص کا خون نہ کرو.اللہ تعالیٰ نے ساری عبادتیں ایسی رکھی ہیں جو بہت عمدہ زندگی تک پہنچاتی ہیں.عہد کرو اور عہد کو پورا کرو.اگر تکبر کرو گی تو تم کوخدا ذلیل کرے گا.یہ ساری باتیں بری ہیں.“ وو 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 374-375 جدید ایڈیشن) تکبر سے بھی بچنا چاہئے.بہت بُری عادت ہے.پھر فرمایا کہ: بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ.نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو.نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دیکھ نہ دو.راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا“.مردوں کو یہ فرمایا کہ: عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو.پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ.ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عمل درآمد کرنا تمہارا کام ہے.پھر فرمایا: پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو.اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے.نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہو اور حضور قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو.عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آ جائے کہ کیا پڑھتا ہے.اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لئے جوش اور اضطراب پیدا ہوسکتا ہے.مگر اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ نماز کو اپنی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 169 جلسہ سالانہ جرمنی 2004 مستورات سے خطاب زبان ہی میں پڑھو.نہیں.میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار ( دعائیں ہیں اور ذکر ہیں جومسنون ہیں جو عربی میں سکھائی گئیں.) ” کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو.ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے.نماز دعا ہی کا نام ہے اس لئے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو.اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو.نیک انسان بنو اور ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 434-435 جدید ایڈیشن) اب یہ مردوں کے لئے بھی نصیحت ہے عورتوں کے لئے بھی نصیحت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ پر رہتے ہوئے زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.ہم سب اس کے تمام احکام پر عمل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ آپ بحیثیت احمدی عورت کے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی بچانے والی ہوں.اس معاشرے میں جہاں بچوں اور بچیوں کو آزادی کی عادت پڑ گئی ہے.جلدی عادت پڑ جاتی ہے بعضوں کو، اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.اگر مائیں اپنے آپ کو سنبھال لیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ پھر کوئی فکر نہیں.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اگلی نسلیں بھی سنبھلتی چلی جائیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اب دعا کر لیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 170 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004 ء کے موقع پر لجنہ اماءاللہ سے خطاب (14ستمبر 2004) اگر ماں باپ خود نمازی بن جائیں تو بچے ایک وقت میں آپ کی دعاؤں کی وجہ سے سدھر جائیں گے تمہاری عزت اور تمہاری انفرادیت اور تمہارا وقا راسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرو صحیح عمل جو آج اسلام پر ہورہا ہے دو صرف احمدی مسلمانوں کے پاس ہے اسلام لانے کے بعد تم اپنے اندر جب تک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے اس لانے کے بعدتم اپنے اندر پیدا نہیں کرتے وقت تک مومن نہیں کہلا سکتے اپنے بچوں کی نگرانی کریں آیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں یا نہیں اگر والدین نمازی ہوں تو ان کے عمل کی وجہ سے بچے کبھی نہیں بگڑتے کبھی جھوٹ نہ بولیں، مذاق میں یاد دوسری عورت کو نیچا دکھانے کیلئے بھی نہیں خاوندوں کے سامنے بھی ناجائز مطالبات نہ کریں عاجزی اختیار کرنا بھی ایمان کی طرف لے جانے والا ایک بڑا اہم قدم ہے ایمان میں ترقی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ فروج کی حفاظت کرنے والیاں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 171 ہوں ٹی وی چینل پر بعض غلط قسم کے پروگراموں کو دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں خواتین کیلئے یورپین لباس پہنے میں جوننگ ظاہر کرے، کئی قباحتیں ہیں تر کی خواتین کے پردے کی پسندیدگی دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرنے والی نہیں.اپنی راتوں کو بھی عبادات سے سجائیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 172 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب وہ بنیادی امور جنہیں اسلام قبول کر لینے کے بعد ایک مومن اور مومنہ کو اختیار کرنا چاہئے إِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَالْقِنِتِيْنَ وَالْقَنِتْتِ وَالصَّدِقِيْنَ وَالصَّدِقتِ وَالصَّبِرِينَ وَالصَّبِرَاتِ وَالْخَشِعِيْنَ وَالْخَشِعَتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقتِ وَالصَّائِمِيْنَ وَالصَّئِمَتِ وَالْحَفِظِينَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحَفِظَتِ وَالذَّكَرِيْنَ اللهَ كَثِيرًا وَالذَّكِرَاتِ لا أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ۖ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُوْلُةٌ أَمْرًا أَنْ يَكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ط وَمَنْ يعْصِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَلاً مُّبِينًا وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ : وَاللَّهُ اَحَقُّ اَنْ ط تَخْشَهُ ، فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَكَهَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ اَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًاء وَكَانَ أَمْرُ اللهِ مَفْعُولًا O (الاحزاب:36-38)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 173 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور بچے مرد اور کچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کئے ہوئے ہیں.اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اپنے معاملہ میں اُن کو فیصلہ کا اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ بہت کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے.اور جب تو اُسے کہ رہا تھا جس پر اللہ نے انعام کیا اور تو نے بھی اُس پر انعام کیا کہ اپنی بیوی کو روکے رکھ (یعنی طلاق نہ دے) اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور تو اپنے نفس میں وہ بات چھپا رہا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خائف تھا اور اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے.پس جب زید نے اس عورت ( یعنی اپنی بیوی) سے اپنی حاجت پوری کر لی ، ہم نے اسے تجھ سے بیاہ دیا تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے متعلق کوئی تنگی اور تر ڈ دنہ رہے جب وہ (منہ بولے بیٹے ) اُن سے اپنی حاجتیں پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا فیصلہ بہر حال پورا ہوکر رہنے والا ہے.ان آیات کی تلاوت و ترجمہ اور نظم کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا خطاب شروع فرمایا.تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: یہ آیات جو ابھی پہلے آپ کے سامنے تلاوت کی گئی ہیں ان کو میں نے بنیاد بنایا ہے.ان میں بعض نصائح کی گئی ہیں کہ یہ یہ باتیں اختیار کرو، یا وہ باتیں جن کا ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل کرنے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 174 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب والے ایسے لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں جب ان پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اجر عظیم عطا ہوگا اور ان کے لئے مغفرت کے سامان بھی ہیں اور اجر عظیم بھی ہے.گویا یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جن کو اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مومن کو ، مومن بننے کے لئے اختیار کرنا چاہئے ، اس کے بغیر مومن نہیں کہلا سکتے.صحیح عمل جو آج اسلام پر ہو رہا ہے یا صحیح تعلیم جو اسلام کی ہے وہ صرف احمدی مسلمانوں کے پاس ہے جیسا کہ میں نے کل کے خطبے میں کہا تھا کہ اَسْلَمْنَا تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم اسلام لے آئے ہیں یعنی ہم نے قبول کر لیا اور اب ہم قبول کرنے کے بعد اپنے آپ کو احمدی مسلمان بنانے کی کوشش کریں گے.کیونکہ مسلمان تو دنیا میں کافی تعداد میں ہیں.بڑے بڑے ملک مسلمانوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن صحیح عمل جو آج اسلام پر ہورہا ہے یا صحیح تعلیم جو اسلام کی ہے وہ صرف اور صرف احمدی مسلمانوں کے پاس ہے جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو سمجھا اور اس کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں.تو فرمایا کہ جب قبول کر لیا ہے تو اب ایمان میں ترقی کی بھی کوشش کریں گے، مومن بننے کی کوشش کریں گے.مومن بننے کے بعد بعض کیلئے بعض مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن بننے کے بعد بعض کے لئے بعض مراحل میں سے گزرنا پڑتا ہے.اور ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل اور کامل یقین ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہو.اس پر مکمل ایمان ہو کہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے.اس کی تمام صفات پر یقین ہو.اس بات پر یقین ہو کہ اس کے تمام احکامات پر عمل نہ کرنے والے تباہی کی طرف جا سکتے ہیں.اس بات پر یقین ہو کہ ہر بڑی سے بڑی چیز سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی چیز تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب چیزیں بیچ ہیں.ان کی کوئی حیثیت نہیں اگر خدانہ چاہے.تو یہ خیال رکھیں اور سمجھیں کہ اگر خدا نہ چاہے تو مجھے دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 175 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام لانے کے بعد تم اپنے اندر جب تک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتے.اور مومن کہلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہونا چاہئے ، اس کی صفات پر مکمل یقین ہونا چاہئے.اس بات پر یقین ہو کہ اس کے احکامات پر عمل کرنے والے جو ہیں وہی تباہی سے بچ سکتے ہیں.اگر اس کے احکامات پر عمل نہ کیا تو تباہی کی طرف جا سکتے ہیں.اس بات پر یقین ہو کہ ہر بڑی سے بڑی چیز سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی چیز تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب چیزیں بیچ ہیں.کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اگر یہ یقین ہو کہ اگر خدا نہ چاہے تو مجھے دنیا کا بڑے سے بڑا آدمی بابا دشاہ بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اگر خدا تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس میں روک نہیں ڈال سکتی.تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی ذات پر مکمل اور کامل یقین ہونا چاہئے.اور یہ خیال رہے کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچانا چاہتا ہے، مجھے کوئی چیز دینا چاہتا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس میں کوئی روک نہیں ڈال سکتی.اللہ تعالیٰ نے عبادت کے جو طریق بتائے ہیں اس کے مطابق، ان کے مطابق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہنا چاہئے گویا کہ ہمیشہ اپنی روحانی حالت کو بڑھاتے چلے جانا ہے.اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کا تخت بنانا ہے اور جب دل کو اللہ تعالیٰ کا تخت بنانا ہے تو پھر شیطان کو دل سے نکالنا ہوگا.پھر شیطان کی اس دل میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے ،اس کو نکال کر باہر پھینکنا ہو گا، دنیا داری کی تمام باتوں کو دل سے نکالنا ہو گا.گویا روحانیت کی منازل طے کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہے تو تقویٰ پر چلنا ہے اور یہ اس وقت ہی ہو گا جب مکمل فرمانبرداری ہوگی ، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش ہوگی.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری عبادت کرو.پانچ وقت کی نمازیں تم پر فرض ہیں انہیں ادا کرو.بلکہ ایک جگہ تو یہ فرمایا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاريات: 56) یعنی میں نے جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں.تو اللہ تعالیٰ کی عبادت تو ایک عام مسلمان بلکہ انسان کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے ایمان میں ترقی کرنے والوں کو تو بہت بڑھ کر اس طرف توجہ دینی چاہئے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 176 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب اپنے بچوں کی نگرانی کریں آیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں یا نہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں ان کی اہتمام سے ادائیگی کرنی چاہئے.پھر اپنے بچوں کی نگرانی کریں آیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں یا نہیں.اگر ماں باپ نمازیں پڑھ رہے ہوں گے تو بچے خود بخود اس کے عادی ہو جائیں گے.بہر حال ماں، کیونکہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، اپنے خاوند کے گھروں کی بھی نگران ہے تو اس لحاظ سے گھر کے مال اور سامان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے نگرانی کرنے کی حفاظت کرنے کی ، اپنے خاوندوں کی اولاد کی، ان کی نسل کی اپنی اولاد کی کہ انہیں خدا کا قرب حاصل کرنے والا بنائیں.بچوں کی نگرانی کریں.گھر میں سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں.10 سال کے بچے ہوں تو پابندی کروائیں کہ وہ نماز پڑھیں.جب بچوں کو نمازوں کی عادت ہو جائے گی تو انہیں بہت سی برائیوں سے بچنے کی بھی توفیق ملے گی.بڑے ہو کر سکولوں اور کالجوں میں جا کر یو نیورسٹیوں میں جا کر، دوستوں میں بیٹھ کر نو جوانی کی عمر میں جو بعض غلط قسم کی باتیں بچے سیکھ جاتے ہیں.اگر عبادت کرنے والے ہوں گے، اگر بچوں کے ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں گے، تو بچے گندی حرکتیں ، باتیں یا فضولیات اور لغویات جو ہیں یہ سیکھ ہی نہیں سکتے.اس لئے ماؤں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی ٹرینینگ کریں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بتا دیا ہے کہ جو عبادت کرنے والے ہیں وہ برائیوں میں نہیں پڑا کرتے جیسا کہ فرمایا کہ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: 46) یعنی یقیناً نماز سب بری اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.اگر والدین نمازی ہوں تو ان کے عمل کی وجہ سے بچے کبھی نہیں بگڑتے ماؤں باپوں کو شکوہ ہوتا ہے، بعض دفعہ آتے ہیں میل ملاقات کے لئے ، کہ ہمارے بچے بگڑ رہے ہیں ، یہاں کے معاشرے کا ان پر اثر ہورہا ہے.اگر ماں باپ خود بھی اپنے ایمانوں کو مضبوط کر رہے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 177 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004 ء لجنہ سے خطاب ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی مکمل فرمانبرداری کر رہے ہوتے ، عبادات کی طرف توجہ ہوتی اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالتے ، بچپن سے ہی پیار سے محبت سے سمجھاتے کہ عبادت کرنی چاہئے ، نماز پڑھنی چاہئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہدایت اور یہ حکم جو ہے اس پر عمل کرنے کی برکت سے بچے کبھی نہ بگڑتے.بلکہ ان لوگوں میں شمار ہوتے جو عمر کے ساتھ ساتھ ، عقل پیدا ہونے کے ساتھ ، شعور حاصل ہونے کے ساتھ ایمان میں ترقی کرنے والے ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نسلوں کو بچانے کے، اپنے آپ کو بچانے کے طریقے بھی سکھا دیئے ہیں.اگر ہم عمل نہ کریں تو پھر یہ تو ہمارا قصور ہے.اکثر جب میں نے پوچھا ہے ماں باپ سے تو کافی تعداد میں ماں باپ ایسے ہیں جو نمازوں میں با قاعدہ نہیں ہیں.اس لئے ہوش کریں اور ابھی سے اس طرف توجہ دیں.اپنے آپ کو بھی سنبھالیں.اپنے بچوں کو بھی سنبھالیں ، اپنی نسلوں کو بھی سنبھالیں.اور اپنے ایمان کی بھی حفاظت کریں اور اپنی نسلوں کے ایمانوں کی بھی حفاظت کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوں.عام طور پر دونوں میاں بیوی کہ دیتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں بچوں کی تربیت بھی کرتے ہیں پتہ نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری نمازوں کے باوجود ان کی تربیت صحیح نہیں ہو رہی.وجہ یہ ہے کہ ہماری نمازوں کا، ایمان کی مضبوطی کا جو حق ہے وہ ہم نے ادا نہیں کیا.اس لئے اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بعض دفعہ ماں باپ بچپن میں ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں.اس سے بھی ایک عمر کے بعد بچہ بگڑ جاتا ہے.بہر حال مختصر یہ ہے کہ نمازوں کی عادت ڈالنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی.اب بھی اگر ماں باپ خود نمازی بن جائیں تو بچے ایک وقت میں آپ کی دعاؤں کی وجہ سے سدھر جائیں گے.اگر بچہ احدیت پر قائم ہے اور جو بھی احمدیت پر قائم ہو تو انشاء اللہ تعالی ایک وقت آئے گا کہ وہ نیکیوں کی طرف بھی آجائے گا.اور یہ بہر حال ضروری ہے کہ ایمانوں کی مضبوطی کے لئے نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے کی شرط ہے.اور نیکیوں پر قائم ہونے کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے.اس کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری ہے.جب مکمل فرمانبرداری ہوگی تو پھر سچائی پر بھی قائم ہونے والی ہوں گی.دنیاوی مفاد یا دنیاوی فائدے پہنچانے والی باتیں آپ کو خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے روکنے والی نہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 178 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004 ء لجنہ سے خطاب ہوں گی.کبھی آپ کے دل میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میں فلاں جگہ غلط بات کہہ کر کوئی دنیاوی فائدہ اٹھالوں یا کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ فلاں عورت نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اس لئے اس کو بدنام کرنے کے لئے میں اس کے متعلق کوئی غلط بات مشہور کر دوں.یا ساس سسر سے ناراضگی کی صورت میں غلط باتیں ان کی طرف منسوب کر دوں.یا بچوں کی غلطی چھپانے کے لئے نظام کے سامنے یا قانون کے سامنے غلط گواہی دے دوں.اگر یہ تمام باتیں کسی میں پائی جاتی ہیں تو اس کا ایمان بھی ضائع ہو گیا.اس لئے مومن کے لئے حکم ہے وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّوْرِ یعنی جھوٹ کہنے سے بچو.پھر فرمایا کہ مومنوں کی اللہ کے خالص بندوں کی یہ بھی نشانی ہے کہ لَا يَشْهَدُونَ النُّوْرَ جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے.بڑائی بیان کرتے ہوئے بھی کبھی جھوٹ نہ بولیں بعض دفعہ بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ جھوٹ بول جاتی ہیں، مذاق میں یا دوسری عورت کو نیچا دکھانے کے لئے.مثلاً یہی کہ کپڑا خریدا ہے سستا لیکن اگر دوسری عورت کے کپڑے کی گھر میں تعریف ہوگئی یا زیور کی تعریف ہوئی اور وہ کہے کہ اتنے میں خریدا ہے، پہلی والی فوراً کہے گی کہ میں نے بھی اتنے میں لیا ہے یا اس سے بڑھا کر اپنی قیمت بتائے گی تا کہ اپنی بڑائی بیان ہو.تو اپنی بڑائی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی بیان ہو رہا ہو گا.صرف اپنی اہمیت بتانے کے لئے ، اپنے آپ کو امیر ظاہر کرنے کے لئے یہ غلط بیانی سے کام لیا ہے تو یہ سب جھوٹ ہے اور جھوٹ میں ہی شمار ہوگا اور پھر ایسی عورتوں کے یا باپوں کے بچے جو ہیں ان میں بھی پھر غلط بیانی اور جھوٹ کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر جب بچے گھر سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں تو پھر ماں باپ کو دکھ ہو رہا ہوتا ہے، تکلیف ہو رہی ہوتی ہے کہ ہمارے بچے فلاں فلاں خرابی میں مبتلا ہو گئے ہیں.ان میں فلاں فلاں خرابی پیدا ہوگئی ہے.ہم سے جھوٹ بولتا رہا کہ میں فلاں جگہ جاتا ہوں اور غلط بیانی سے کام لیتا رہا اور کر کچھ اور رہا ہوتا تھا.فلاں برائی میں مبتلا ہو گیا.اب بڑی پریشانی ہے.اگر جائزہ لیں تو اس کی عادت خود ماں باپ نے ڈالی ہوتی ہے.کیونکہ بچے کے سامنے غلط باتیں کر رہے ہوتے ہیں.بہت سے مواقع پر دوسروں کے بارے میں غلط باتیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 179 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004 ء لجنہ سے خطاب بچوں کے سامنے کرتے ہیں تو اس سے بچے بھی بیچ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.ان کے نزدیک سچ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یا جیسا کہ میں نے کہا بچوں کی غلط حمایت کر دی اس سے بھی بچوں میں غلط بیانی اور جھوٹ کی عادت پیدا ہو جاتی ہے.خاوندوں کے سامنے بھی ناجائز مطالبات نہ کریں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ صبر سے کام لیا کریں.زندگی میں بہت سے مواقع آتے ہیں کاروبار میں نقصان ہو گیا ، چوری ہوگئی ، ڈاکہ پڑ گیا وغیرہ وغیرہ.یا بعض دفعہ خاوند کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں.عورت کی ضرورت کے مطابق اس کو رقم مہیا نہیں ہو رہی تو شور مچا دیتی ہیں بعض عورتیں، واویلا کرتی ہیں ، خاوندوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتی ہیں.اپنی ڈیمانڈ ز بعض دفعہ اتنی زیادہ بڑھا لیتی ہیں کہ خاوند کو گھر میں خرچ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر دفعہ خاوند ہی صحیح ہوتے ہیں اور عورتیں ہی غلط ہوتی ہیں.عورتیں بھی صحیح ہوتی ہیں بعض جگہ لیکن ان عورتوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں جن کی اکثریت ایسی ہے جو ڈیمانڈ ز کرتی ہیں.تو اس سے ہر وقت گھروں میں لڑائی جھگڑا فساد تو تکار ہوتی رہتی ہے.یا پھر یہ ہے کہ خاوندان کے ناجائز مطالبات کی وجہ سے جب کبھی رستے سے اکھڑ جاتے ہیں ایسی صورت میں جب لڑائی ہو رہی ہوتو تکار ہو رہی ہو تو وہ پھر ایسے خاوند بھی ہیں کہ بیویوں پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں.یا خاوند اپنی بیویوں کے ان مطالبات کو ماننے کی وجہ سے، انہیں پورا کرنے کے لئے ، قرض لینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر سارا گھر ایک وبال میں گرفتار ہو جاتا ہے.خاوند سے قرض خواہ جب قرض کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ان سے ٹال مٹول کر رہا ہوتا ہے.پھر ایک اور جھوٹ شروع ہو جاتا ہے اور جب وہ ادا نہیں کرتا تو پھر خاوند کی چڑ چڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے.پھر بچوں پر سختیاں شروع ہو جاتی ہیں.بچے ڈسٹرب ہور ہے ہوتے ہیں.تو ایک شیطانی چکر ہے جو بعض ناجائز مطالبات کی وجہ سے، صبر کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے چل جاتا ہے.اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بچے ایک عمر کے بعد ایسے گھروں میں، گھر سے باہر سکون کی تلاش کرتے ہیں اور پھر ماں باپ کی تربیت سے بھی جاتے ہیں.پھر برائیاں پیدا ہونی شروع ہوتی ہیں اور جب ماں باپ کو ہوش آتی ہے تو اس وقت، وقت گزر چکا ہوتا ہے.اس لئے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 180 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب فرمایا کہ ایمان کی مضبوطی تبھی قائم ہوگی جب صبر کی عادت بھی ہوگی.عاجزی اختیار کرنا بھی ایمان کی طرف لے جانے والا ایک بڑا اہم قدم ہے پھر عاجزی ہے.یہ بھی ایمان کی طرف لے جانے والا ایک بڑا اہم قدم ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کے حضور بھی عاجزی دکھاتے ہوئے جھکنا ہے اور اس کے بندوں سے بھی عاجزی سے پیش آنا ہے.جتنی زیادہ عاجزی ہوگی اتنا زیادہ انسان ایمان میں ترقی کرتا ہے.جس میں عاجزی نہیں اس میں ایک قسم کا تکبر ہے.وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہے.دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے.بعض عورتوں میں اپنے روپے پیسے دولت کی وجہ سے تکبر پیدا ہو جاتا ہے.مردوں میں بھی پیدا ہوتا ہے.اس وقت میں کیونکہ عورتوں سے مخاطب ہوں اس لئے عورتوں ہی سے کہہ رہا ہوں اور وہ دوسری عورتوں کو اپنے سے کمتر عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتیں، کچھ نہیں سمجھتیں.بلکہ بعض دفعہ ایسا حقارت کا سلوک ہوتا ہے جیسے وہ بیچارے انسان ہی نہیں ہیں.چاہئے تو یہ کہ اگر تمہارے پاس روپیہ پیسہ، دولت آ گئی ہے، تمہارے حالات دوسرے سے بہتر ہیں تو اپنی بہن کے لئے دل میں ہمدردی پیدا کرو، اس کی ضروریات کا خیال رکھو.اس کے جذبات کا خیال رکھو.شادی بیاہ پر فضول خرچی کرنے سے بچو.صرف دکھاوے کے لئے اپنی بیٹی کا جہیز نہ بناؤ بلکہ ضرورت کے مطابق بناؤ.اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو جہیز لے کر جانے والی بچیاں ہی بعض دفعہ ظالم خاوندوں کے ہاتھوں یا ظالم سسرال کے ہاتھوں تکلیف اٹھا رہی ہوتی ہیں.اس لئے ہمیشہ اللہ کا فضل مانگنا چاہئے.صرف جہیز پر انحصار نہیں.دعاؤں کے ساتھ بچیوں کو رخصت کرنا چاہئے نہ کہ اپنی دولت اور لڑکی کے جہیز یا فلیٹ یا مکان جو اس کو دیا گیا ہے اس پر انحصار کرتے ہوئے ، اس پر گھمنڈ کرتے ہوئے.کبھی کسی غریب یا اپنے سے کم پیسے والے کی بچی کی رخصتی کو تحقیر کی نظر سے کبھی نہ دیکھیں.جب اللہ تعالیٰ کے فضل شامل ہوں گے تبھی بچیاں بھی اپنے گھروں میں خوش رہیں گی ، آبادر ہیں گی.بہر حال ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے.ہمیشہ عاجزی دکھانی چاہئے اور ہمیشہ عاجزانہ دعائیں مانگنی چاہئیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ عاجزی دکھانے سے، غریب کے ساتھ گھلنے ملنے سے اس کی تکلیفوں کا احساس ہوگا اور جب تکلیفوں کا احساس ہوگا تو اس کی خاطر قربانی کا جذبہ ابھرے گا.اس سے ہمدردی کا جذبہ ابھرے گا.اس کی ضروریات کو پورا کرنے کا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 181 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب خیال پیدا ہو گا.تو اس جذبے سے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خاطر دل میں پیدا ہوگا ایمان میں بھی ترقی ہوگی اس لئے فرمایا کہ اپنے بھائی بندوں کی تکلیفوں کا احساس بھی دل میں پیدا کرو.اور جب دل میں پیدا کر لو تو اس کو دل میں ہی نہ رکھو بلکہ عملاً اس کی ضرورت بھی پوری کرنے کی کوشش کرو.یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بہتر حالت میں کر دیا ہے.پہلے کی نسبت مالی لحاظ سے بھی وہ اچھی حالت میں ہیں.اس لئے ضرورت مندوں کے لئے غریبوں کے لئے ان کو خرچ کرنا چاہئے.اگر یہاں ان کو ایسا کوئی نہیں ملتا جس کو دے سکیں ، مدد کر سکیں تو جماعت میں ایسی مدات ہیں.جماعت کے ذریعہ سے ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہئے.پھر بہتوں کے پاس زیور بھی ہیں ان پر زکوۃ واجب ہے ان کوز کوۃ دینی چاہئے ، زکوۃ ادا کرنی چاہئے.یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے تحریک جدید یا وقف جدید کا چندہ دے دیا اب زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے.زکوۃ بہر حال اپنی جگہ واجب ہے.اپنے ایمان میں مضبوطی کے لئے اپنے چندوں کو بھی بڑھا ئیں.یہ بھی ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے.پھر فرمایا کہ مومنوں میں شامل ہونے کے لئے صائمات میں شامل ہونا بھی ضروری ہے.روزہ داروں میں شامل ہونا بھی ضروری ہے.اپنے آپ کو خدا کی خاطر جائز ضروریات سے روکنا بھی ضروری ہے.قربانی کی عادت اپنے اندر ڈالنا بھی ضروری ہے.صائمات میں سب آجاتے ہیں.تاکہ خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر سکو اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر سکو.ایمان میں ترقی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ فروج کی حفاظت کرنے والیاں ہوں پھر ایمان میں ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فروج کی حفاظت کرنے والیاں ہوں.اس کے مختلف پہلو ہیں.کان بھی فروج میں داخل ہے.آنکھ بھی فروج میں شامل ہے.منہ بھی فروج میں شامل ہے.اس طرح دوسری اخلاقی برائیاں ہیں جن سے بچنا اور اپنی حفاظت کرنا ہے.ایک احمدی عورت دوسری اخلاقی برائیوں میں تو ملوث نہیں ہوتی.الحمد للہ، پاک دامن ہیں لیکن صرف اس سے ایمان میں ترقی نہیں ہوتی.کوئی بھی شریف عورت کسی بھی مذہب کی یا لا مذ ہب بھی ہو تب بھی انتہائی اخلاقی برائیوں سے بچنے والی ہوتی ہیں.کئی ہیں ، بے شمار ہوں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 182 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004 ء لجنہ سے خطاب گی.تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کان آنکھ منہ کی بھی حفاظت کرو یہ بھی فروج میں داخل ہیں.ایک ایمان میں ترقی کرنے والی کو ان کی حفاظت کرنی چاہئے.کان کی حفاظت یہ ہے کہ غلط اور ایسی مجالس جن میں لغویات کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں نہ بیٹھو.عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ جہاں اکٹھی ہوئیں فوراً دوسروں کی ایسی باتیں جو ان کو نا پسند ہوں ان کے بارے میں کرنے لگ جاتی ہیں.یہ ایسی حرکت ہے جو بڑی گھٹیا حرکت کہلانی چاہئے.جب آپ خود پسند نہیں کرتیں کہ کوئی آپ کی پیٹھ پیچھے کوئی ایسی بات کرے جو آپ کی بدنامی کا باعث ہو تو پھر دوسروں کے بارے میں بھی یہی خیالات رکھنے چاہئیں ، یہی سوچ رکھنی چاہئے.ایسی مجلسوں سے بچ کر آپ اس چغلی کی برائی سے اپنے کان اور منہ کو محفوظ کر لیں گی.پھر آنکھ کی حفاظت ہے اس میں ہر قسم کے فضول نظاروں سے اپنے آپ کو بچانا ہے.یہاں ٹی وی چینل (TV Channel) پر بعض غلط قسم کے پروگرام ، ننگے پروگرام آ رہے ہوتے ہیں ان کو دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں.کیونکہ یہی پھر بڑی اخلاقی برائیوں کی طرف لے جانے والی چیز میں بن جاتی ہے.مغربی معاشرہ سے مرعوب ہوکر یورپین لباس پہننے میں پردے کا فقدان ہو جاتا ہے پھر پردہ ہے یہاں آ کر اس کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے.اگر پاکستان میں ، جو پاکستان سے آئی ہیں برقعہ پہنتی ہیں تو یہاں آکر برقعہ پہنے میں کیا قباحت ہے، کیا روک ہے.ایسے خاوند بھی غلط کہتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہاں برقعہ معیوب ہے اور اگر برقعہ پہنا تو ہمارے ساتھ باہر نہ نکلو.ان کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور آپ کو بھی اس بات کا سٹینڈ لینا چاہئے کہ یہ پردہ جو ہے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.ایسے خاوندوں کو بھی، جیسا کہ میں نے کہا، خدا کا خوف کرنا چاہئے اور کیونکہ آپ پاکدامن ہیں، پاکباز ہیں، ایک احمدی عورت ہے، ایک مومن بننے کی کوشش کرنے والی عورت ہے آپ کو سٹینڈ لینا چاہئے.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض عورتیں خود ہی خاوند نہ بھی کہہ رہے ہوں یا لڑکیاں خود ہی ایسی ہیں کہ اس احساس کمتری کی وجہ سے کہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں پردہ نہیں کرتیں یا برقعہ نہیں پہنتیں یا حجاب نہیں لیتیں.تو یہ بھی غلط ہے.لوگ تو تمہاری عزت کرتے ہیں اس وجہ سے کہ تم ایک محفوظ لباس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 183 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب میں ہو.مذاق تو اس وقت اڑے گا جب تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہوگی.کیونکہ جب برقعہ اترتا ہے پھر اور جرات پیدا ہوتی ہے تو جین اور قمیص پہننا شروع کر دیتی ہیں.تجربے میں آئی ہیں جو باتیں وہ بیان کر رہا ہوں.اور جین اور قمیص بھی ایسی جو کافی چست ہوں جسم کے ساتھ چمٹی ہوتی ہیں.پھر جین کے ساتھ کہتی ہیں کہ دوپٹے اور سکارف کا جوڑ نہیں ہے، حجاب کا جوڑ نہیں ہے اسے بھی اتار دو.جب سرنگا ہوتا ہے تو پھر اور جرات پیدا ہوتی ہے اور پھر جین کے ساتھ لمبی قمیص کی جگہ چھوٹی قمیص لے لیتی ہے.پھر اور جرات ہوئی تو بلاؤز نے لے لی جس سے جسم کا ننگ بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا.اور جب یہاں تک پہنچ گئیں تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو پھر گمراہی ہے، گمراہی میں گر جاتی ہیں.پھر والدین روتے ہیں کہ ہماری بچیاں ہمارے قابو میں نہیں ہیں.تو جب قابو میں کرنے کا وقت تھا اس وقت تو قابو نہیں کیا گیا.دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے یہ پردہ تو قرآن کا بنیادی حکم ہے.مختلف قوموں نے یعنی مسلمان ملکوں کی قو میں جو ہیں انہوں نے اس کے مختلف طریقے اپنی سہولت کے لئے بنائے ہوئے ہیں.حضرت مصلح موعود کہا کرتے تھے کہ ترکی عورت کا پردہ سب سے اچھا ہے.برقعہ اور نقاب.اس میں عورت محفوظ بھی رہتی ہے کام بھی کر سکتی ہے.آزادی سے پھر بھی سکتی ہے اور پردے کا پردہ ہوتا ہے.ایک مبلغ نے مجھے بتایا وہ ترکوں میں تبلیغ کرتے ہیں.کہتے ہیں جب میں تبلیغ کرتا ہوں تو ترک کہتے ہیں کہ ہم کونسا اسلام قبول کریں.تم ہمیں صحیح اسلام کی دعوت دے رہے ہو وہ اسلام قبول کریں یا جو تمہاری عورتیں ظاہر کرتی ہیں.اسلام میں تو حکم ہے کہ پردہ کرو اور پردہ نہیں کر رہی ہوتیں.کئی عورتیں ہماری واقف ہیں جو پردہ نہیں کرتیں.ایک دفعہ میں نے کہا تھا کہ دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے اور یہ اپنا نمونہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے.تو دیکھیں آپ کے نمونہ کی وجہ سے یہ جو مثال سامنے آئی ہے دوسروں کو اعتراض کرنے کا موقعہ مل گیا ہے.اس سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل نہ کر کے ایسی عورتیں اس حکم عدولی کی وجہ سے گناہگار ہو رہی ہیں بلکہ اس نمونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 184 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب باعث بھی بن رہی ہیں.اور اس طرح دو ہرا گناہ سہیڑ رہی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کر کے تم گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گی.ایک احمدی عورت کو معاشرے میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہوگا پس ایک احمدی عورت جس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت اس لئے کی ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کی ناپاکیوں سے بچائے اور انجام بخیر ہو اور انجام بخیر کی طرف قدم بڑھائے اس کو اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہو گا.اپنے لباس کا بھی خیال رکھنا ہوگا اور اپنے پر دے کا بھی خیال رکھنا ہوگا ، اپنی حرکات کا بھی خیال رکھنا ہوگا ، اپنی گفتگو کا بھی خیال رکھنا ہوگا.ایک بچی نے مجھے پاکستان سے لکھا کہ اگر میں جین کے ساتھ لمبی قمیص پہن لوں تو کیا حرج ہے.اثر ہو رہا ہے نا.تو میں تو یہ کہتا ہوں کہ جین کے ساتھ قمیص لمبی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی برائی نہیں ہے بشرطیکہ پردے کی تمام شرائط پوری ہوتی ہوں.لیکن مجھے یہ ڈر ہے، اس کو بھی میں نے یہی کہا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ لمبی قمیص پھر چھوٹی قمیص میں اور پھر بلاؤز کی شکل میں نہ آ جائے کہیں.تو جو کام فیشن کے طور پر ، یادیکھا دیکھی کیا جاتا ہے ان میں پھر مزید زمانے کے مطابق ڈھلنے کی کوشش بھی شروع ہو جاتی ہے.اور پھر اور بھی قباحتیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.پھر جب وقت آتا ہے محسوس ہوتی ہیں.اس لئے ان راستوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جہاں شیطان کے حملوں کا خطرہ ہو.آپ نے اور آپ کی نسلوں نے ایمان میں ترقی کرنی ہے اس لئے وہی راستے اختیار کریں جو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہوں.اور ذاکرات بنے کی کوشش کریں ، عابدات بنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرنے والی بہنیں اپنی راتوں کو بھی عبادات سے سجائیں اپنی عبادات میں با قاعدہ ہوں.اپنی عبادات اعلیٰ معیار تک لے جانے والی ہوں اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی ہوں.اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرنے والی بنیں.اپنی راتوں کو بھی عبادات سے سجائیں.اپنی نسلوں کو بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق عمل کرنے والا بنانے کی کوشش کریں تا کہ اس زمانے کے امام کی بیعت میں شامل ہونے کا جو مقصد ہے اس کو حاصل کرنے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 185 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب والی ہوں.بچیوں کو بھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ رہی ہیں یا پہنچ چکی ہیں میں یہی کہتا ہوں کہ تمہاری عزت اور تمہاری انفرادیت اور تمہارا وقار اور تمہارا احترام اسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پھر فرمایا بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس سے پاک ہوتا اور نفسانیت کو چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے اس کا کوئی فعل نا جائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے.جہاں لوگ ابتلا میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ کے مطابق نہیں ہوتا.خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے.ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے مثلاً غصے میں آکر کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہو جاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں، فوجداریاں ہو جاتی ہیں.مگر اگر کسی کا ارادہ ہو تو بلا استصواب کتاب اللہ اس کا حرکت وسکون نہ ہوگا“.( یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم کو دیکھے بغیر اس کے احکامات کو دیکھے بغیر اس کا کوئی عمل نہیں ہوگا کوئی اس کی حرکت نہیں ہوگی جو اس کے بغیر ہو.اس کے مطابق نہ ہو یعنی کوشش یہ ہوگی کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کروں.) اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا.تو یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی جیسے فرمایا وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَبٍ مُّبِيْن (الانعام:60) سواگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا.بسا اوقات وہ اس جگہ مؤاخذہ میں پڑے گا سو اس کے مقابل اللہ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں.سو جس قدر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 186 جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء لجنہ سے خطاب کوئی محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے.لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں.ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ عَادَ لِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ (الحديث) - جو شخص میرے ولی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے.اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدر معاون و مددگار ہوگا“.پھر فرمایا کہ: لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے.مصائب کی کوئی حد نہیں.انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں.امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے ( یعنی بیماریاں آتی ہیں.) کہ ہزار ہا مصائب پیدا کرنے کو کافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ رہتا ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے.( ملفوظات جلد اول ، جدید ایڈیشن صفحہ 9-10) اللہ تعالیٰ سب کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے اور اس زمانے میں جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان احکامات کو کھول کر ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے ان کے مطابق عمل کرنے والے بنائے اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو نیکیوں سے بھر پور اور خوشیوں سے بھر پور زندگیوں سے نوازے.اب دعا کرلیں.روزنامه الفضل ربوہ 17 مارچ 2005)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 187 سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ سے خطاب (فرموده 10 /اکتوبر 2004) عام طور پر معاشرہ کے بہت سے جھگڑے دنیا داری کی طرف حد سے زیادہ بڑھنے سے پیدا ہوتے ہیں.پیروں فقیروں کے پاس جا کر تعویذ گنڈے لینے سے بھیں ه عورت اور مرد کے دنیا کے پیچھے دوڑنے اور اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے اپنی نسلوں کی تربیت اپنے عملی نمونے دکھا کر کریں لجنہ کا عہد اور اس کے تقاضے حسد کی آگ بھی ایسی آگ ہے جس میں حسد کرنے والا خود جل رہا ہوتا ہے خلافت احمدیہ سے وفا کرنے والی نسل کو پروان چڑھانا ہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 188 سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ 2004 سے خطاب اپنی نسلوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کا اپنے پیدا کرنے والے خدا سے ایک زندہ اور سچا تعلق پیدا ہو جائے ا تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج اس دنیا میں جہاں ہر طرف دنیا داری اور اس کی چکا چوند ہے اور کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا سب اس مادی دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں.اور عورت چونکہ اپنی فطرت کے باعث دنیا داری کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے اس لیے عام طور پر ہر معاشرے کے بہت سے جھگڑے اس کے اس دنیا داری کی طرف حد سے زیادہ بڑھنے سے پیدا ہوتے ہیں.گھریلو جھگڑے یا فساد ہوں یا معاشرے کے جھگڑے ، عورت کا ہاتھ اس میں ضرور نظر آئے گا.بیٹے کی دولت پر، اس کے پیسے پر قبضہ کرنے کے لئے ساس بھی خود بہو پر ظلم کرتی ہے اور بیٹے سے بھی کرواتی ہے.خاوند کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے بعض دفعہ بیوی ( جو بہو ہے ) خود بھی ساس پر ظلم کرتی ہے اور اپنے خاوند سے بھی کرواتی ہے.نندیں ہیں وہ اپنے دائرے میں ظلم کرتی بھی ہیں، ظلم کرواتی بھی ہیں.اور آج کل کے آزاد معاشرے میں ایک عورت دوسری عورت کے خاوند کو دوستی اور آزادی کا نام دے کر چھینے کی کوشش بھی کرتی ہے.اور اس کی بہت ساری مثالیں آپ کو مل جاتی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 189 سالانہ اجتماع لجنہ بر طانیہ 2004 سے خطاب ہیں.پھر راز حاصل کرنے کے لئے مردوں نے مردوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومتی سطح پر ایجنسیوں میں عورتوں کو رکھا ہوتا ہے، عورتیں بھرتی کی جاتی ہیں تا کہ وہ مردوں کو ، دنیا دار مردوں کو ، جن کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، اللہ کا خوف ان کے پاس سے بھی نہیں گزرا ہوتا ، اپنے جال میں پھنسا کر دوستی کر کے اہم اور ملکی راز نکلوائیں، راز حاصل کریں.اور ایسی عورتیں بھی دنیا کے لالچ میں ، ایسے کاموں میں بڑی بے حیائی سے ملوث ہو رہی ہوتی ہیں.غرض عورت اور مرد کے دنیا کے پیچھے دوڑنے اور اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے.اگر کوئی نیکی کی طرف مائل ہے اور بہت بڑی تعداد دنیا میں ایسی ہے جو سوائے چھوٹی موٹی ناجائز باتوں کے بڑی غلطیاں کرنے والی نہیں ہے.ان میں ایسی بھی ہیں جو نیکی کے کاموں میں ،خدمت خلق کے کاموں کے لئے کوشش میں آگے بڑھی ہوئی ہیں ان کے لئے کوشش بھی کرتی ہیں، بڑی تکلیف اٹھا کر بعض دفعہ چندے بھی اکٹھے کرتی ہیں.لیکن إِلَّا مَا شَاءَ اللہ سوائے چند ایک کے یہ سب کام ایک وقتی جذ بہ کے تحت ہورہا ہوتا ہے.ایک وقتی رحم کا جذبہ اس وقت ابھرتا ہے اور ایسے کام کرنے والی پھر دنیا داری میں کھو جاتی ہیں.خدا کی رضا حاصل کرنے کا جو نہم ایک مومن میں ہونا چاہئے وہ اُن میں نہیں ہوتا.ایک مقصد حیات، ایک زندگی کا مقصد ، ایک شطح نظر ، ایک ٹارگٹ (Target) انہوں نے نہیں بنایا ہوتا.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت وہ یہ سب کچھ نہیں کر رہی ہوتیں کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات کا ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ یا نیکیوں میں آگے بڑھنا ان کا مقصد نہیں ہوتا.اس لئے انسانی ہمدردی کے تحت کوئی نیکی کرتی بھی ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا ایک وقتی جذ بہ کے تحت کر رہی ہوتی جذبہ ہیں.ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اب ان نیکیوں میں انہوں نے آگے بڑھنا ہے.اور اپنی دوسری بہنوں کو بھی اپنے ساتھ ان نیکیوں میں آگے لے کر نکلنا ہے، اُن میں بھی یہ جذ بہ ابھارنا ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.اور بندوں کے حقوق اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے لئے ادا کرنے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے حقوق اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے ، عبد رحمن بننے کے لئے یارحمن کی بندیاں بننے کے لئے ادا کرنے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار بندی بننا ہے.دینی علوم سے بھی واقفیت حاصل کرنی ہے، روحانی اور اخلاقی اقدار کو بھی حاصل کرنا ہے.اپنی نسلوں کے مستقبل اور آخرت کی بھی فکر کرنی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 190 سالانہ اجتماع لجنہ بر طانیہ 2004 سے خطاب ہے اور اُس معاشرہ کی بھی فکر کرنی ہے، اُس معاشرے کے لئے بھی درد پیدا کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے سے دور ہٹتا جارہا ہے.بالکل آزادی کی طرف دوڑ رہا ہے اس معاشرہ کی دنیاوی ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے، مادی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہے، اس معاشرے کے ہر فرد کی روحانی ترقی کی طرف بھی اور اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دینی ہے.اس معاشرے کو بھی اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کروانی ہے.احمدی خواتین کی ذمہ داریاں ان فکروں سے جن کی میں مثالیں اوپر دے آیا ہوں دنیا دار عورت کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا.یہ فکر اگر آج ہے اور ہونی چاہئے تو ایک احمدی عورت کو ہے.اس فکر کو سینے میں رکھتے ہوئے آج اگر کوئی اپنے مذہب قوم اور وطن کی خاطر قربانی کا عہد کرنے والی ہے تو وہ احمدی عورت ہے.اور یہ حض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے احمدی عورت کو یہ توفیق عطا فرمائی.آج اگر سچائی پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرنے والی کوئی عورت اور کوئی بچی ہے تو وہ احمدی عورت اور احمدی بچی ہے.آج اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ، اس کے دین کی خاطر ، اپنی قوم کی خاطر اپنا جان، مال، وقت قربان کرنے کا عہد کرتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے.آج اگر تمام دنیا کی عورتوں کو اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ دعوت مقابلہ دے رہی ہے اور یہ چیلنج دے رہی ہے کہ تم نے اگر نیکیوں پر عمل کرنا اور ان نیکیوں کو پھیلانا ہے تو اس کام میں اے دنیا والو! تم اس احمدی عورت کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ آج ان نیکیوں کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی پھیلانے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ احمدی عورت ہے.تو دیکھیں یہ کتنے بڑے عہد ہیں اور یہ کتنے بڑے دعوے ہیں جو آپ خدا اور رسول سے کرنے کا دعوی کرتے ہوئے دنیا کو چیلنج دے رہے ہیں.اور یہ عہد، یہ وعدہ اور یہ دعوئی آپ اپنے ہر اجلاس اور ہر اجتماع میں کرتی ہیں اور آج بھی اس وقت بھی آپ نے یہ عہد دہرایا ہے.کچھ کمز ور شاید اس عہد کو پوری طرح نہ سمجھ سکتی ہوں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی عہد دہرا دیتی ہوں لیکن ان میں بھی پاک فطرت ہے.ان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے اس فطرت کو چمکانے کی صلاحیت رکھی ہوئی ہے.تبھی تو ان میں سے بہت ساری تکلیف اٹھا کر ، خرچ کر کے، اپنے بچوں کو تکلیف میں ڈال کر، دور دراز شہروں سے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 191 سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ 2004 سے خطاب اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے کے لئے حاضر ہوئی ہیں تا کہ اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ دے سکیں ، اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دے سکیں اور پھر ان علمی اور روحانی باتوں کو اپنے عمل کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں میں بھی رائج کرسکیں ، ان کو بھی یہ تعلیم دے سکیں.پس جیسا کہ میں نے کہا آج اگر دنیا کے رائج نظام سے ہٹ کر اللہ اور اس کے رسول کی خاطر اکٹھی ہو کر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی سکیمیں سوچنے والی عورتیں ہیں تو صرف احمدی عورتیں ہیں اور ہونی چاہئیں.اگر کوئی اپنے آپ کو احمدی کہتی ہے اور اس میں یہ بات نہیں ہے تو اس کو اپنے بارہ میں سوچنا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نصیحت کی بات کو دہراتے رہنا چاہئے اس لئے میں چند باتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جو عورت کی فطرت میں ہیں اور باوجود اس کے کہ آپ میں اکثریت نیکیوں پر قائم ہے اور بری باتوں سے بچنے والی ہے اور ایمان ، یقین اور فراست اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں سے بہتوں میں پائی جاتی ہے.لیکن شیطان اپنے کام کے مطابق اپنی فطرت کے مطابق موقع کی تلاش میں رہتا ہے.اور موقع پا کر جب بھی حملہ کر سکے شیطان حملہ کرتا ہے.اس لئے مومن کو نیک باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے ، ان کو دہراتے رہنا چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا اس وجہ سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا جو کہ بطور یاددہانی کے ہیں تا کہ یاد دہانی ہو جائے اور شیطان سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے.پیروں فقیروں کے پاس جاکر تعویذ گنڈے لینے سے بچیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیعت لیتے وقت ایمان لانے والی عورتوں کو جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرا ئیں گی.فرمایا: لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا بعض عورتیں بعض دفعہ اپنی کمزور طبیعت کی وجہ سے یا پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے یا وہمی طبیعت کی وجہ سے کیونکہ عورتوں میں وہم بھی بڑا پایا جاتا ہے، شرک کے بہت قریب ہو جاتی ہیں.غیروں میں دیکھیں تو یہ مثالیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں.مزاروں پر چڑھاوے چڑھائے جار ہے ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک بہت بڑی تعدا د عورتوں کی ہوتی ہے.پھر گھروں میں تعویذ کرنے والی عورتوں کا آنا جانا ہوتا ہے.آپ جس معاشرے سے آئی ہیں وہاں آپ کو اکثر ایسی مثالیں نظر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 192 سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ 2004 سے خطاب آئیں گی کہ پیروں فقیروں کے پاس جا کر تعویذ وغیرہ لئے جاتے ہیں.کسی نے بہو کے خلاف تعویذ لینا ہے، کسی نے ساس کے خلاف تعویذ لینا ہے، کسی نے ہمسائی کے خلاف تعویذ لینا ہے، کسی نے خاوند کے حق میں تعویذ لینا ہے.بے تحاشا بدر سمیں پیدا ہو چکی ہیں.یہ سب عورتوں کی بیماریاں ہیں کہ یہ شرک کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتی ہیں.اور یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کو کچھ نہ سمجھنا.نماز، دعا کی طرف توجہ نہ ہونا.اگر فکر ہے تو پیروں فقیروں کے ہاں حاضریاں دینے کی ہے.آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس جنجال سے نکالا ہوا ہے.پھر بعضوں نے اپنی اولا د کو بت بنایا ہوا ہے.کوئی کم پیسے والی ہے تو اس نے زیادہ پیسے والی کو اس حد تک چڑھایا ہوا ہے کہ بت بنا کر رکھا ہوا ہے.غرض اس طرح کی بے انتہا لغویات ہیں جن کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے اور جن میں خدا تعالیٰ پر پورا ایمان نہ لانے والے ملوث ہوتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جیسا کہ میں نے کہا عموماً احمدیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چیزیں نہیں ہیں ، یہ باتیں نہیں ہیں.لیکن جب بعض دفعہ ایسی باتیں پسی لگتی ہیں کہ بعض گھروں میں یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں تو فکر پیدا ہوتی ہے.اور یہ کمی ہے ایمان کی ، یہ کمی ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کو نہ سمجھنے کی.ہر احمدی عورت کا خاص طور پر کیونکہ اس کی گود سے اگلی احمدی نسل نے پل کر نکلنا ہے، یہ معیار ہونا چاہئے کہ اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہو.جب یہ تعلق پیدا ہو جائے گا تو ہر چھوٹے شرک سے لے کر ہر بڑے شرک تک ہر چیز سے ہر شرک سے بچنے والی ہوں گی.اور شیطان کا حملہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا انشاء اللہ.اور انشاء اللہ تعالیٰ اگلی نسلیں بھی خدا تعالیٰ سے لو لگانے والی اٹھیں گی.پھر نیک اور ایمان لانے والی عورت کی یہ بھی نشانی بتائی کہ وہ مکمل طور پر اللہ کے احکام کی پیروی کرنے والی مکمل فرمانبردار اور اطاعت دکھانے والی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے جو حکم دئے ہیں ان پر عمل کرنے والی ہوتی ہے.لجنہ کا عہد اور اس کے تقاضے جیسا کہ میں نے بتایا شرک سے بچنے والی ہوں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بھی ہوں.اپنے دن اور رات اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھرنے والی ہوں.اپنی اولا دوں کو نمازوں کی عادت ڈالنے والی ہوں.ان کو نمازوں کی تلقین کرنے والی ہوں.اور جیسا کہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 193 سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ 2004 سے خطاب میں نے کہا اللہ تعالیٰ سے آپ کی اولاد کا تعلق تبھی پیدا ہو گا جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی اولا د ہوگی.اس لئے جب آپ اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنے والی ہوں گی تبھی آپ حَافِظات میں شمار ہوں گی.اپنے آپ کی بھی حفاظت کرنے والی ہوں گی اور اپنی نسلوں کی بھی حفاظت کرنے والی ہوں گی.کیونکہ آپ کی نسلوں کی بقا اس میں ہے کہ اپنی نسلوں کو اس معاشرے کی رنگینیوں سے بچا کر رکھیں.ان کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کا اپنے پیدا کرنے والے خدا سے ایک زندہ اور سچا تعلق پیدا ہو جائے.یہ ایک انتہائی اہم چیز ہے اور اس پر جتنا بھی زور دیا جائے وہ کم ہے.اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ خود اپنے عملی نمونے دکھانے والی نہیں ہوں گی.اور یہ عملی نمونہ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا یہ معیار خود بھی قائم کرنا ہے اور اپنی اولادوں کے اندر بھی پیدا کرنا ہے.تب ہی یہ وہ قربانی ہوگی جس کا آپ عہد کرتی ہیں کہ میں مذہب کی خاطر جان قربان کرنے والی بنوں گی.آج اللہ کے دین کی خاطر قربانی اسی بات کا نام ہے.اس کے احکامات پر عمل کر کے خود بھی اعلیٰ معیار قائم کریں.اپنی اولادوں کو بھی اعلیٰ معیار حاصل کروائیں اور معاشرے کو بھی اس کے عملی نمونے دکھا ئیں.اپنی سوسائٹی میں، اپنے ماحول میں جہاں آپ رہتی ہیں وہاں بھی آپ کے عملی نمونے نظر آنے چاہئیں.جب آپ یہ عملی نمونے قائم کریں گی تو اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کی وارث ٹھہریں گی اور ان کو حاصل کرنے والی ہوں گی.اور جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتی ہے تو جس طرح سوکھی گھاس ہری ہو جاتی ہے اس طرح آپ نہ صرف دینی اور روحانی لحاظ سے سرسبز ہورہی ہوں گی ، خود بھی اور اپنی نسلوں کو بڑھا رہی ہوں گی بلکہ اس وجہ سے دنیاوی تعلق بھی آپ کے قائم ہورہے ہوں گے جو پہلے کسی وجہ سے ختم ہو چکے تھے.اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خود آپ کالفیل ہو جائے گا، وہ خود آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھے گا، آپ کی ضروریات کو پورا کرے گا.پھر ایک بہت بڑا عہد جو آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ معروف امور میں اطاعت کرنا.وہ تمام کام جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بتائے اور جن کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ان پر عمل کرنا ضروری ہے.وقتا فوقتا خلیفہ وقت کی طرف سے جو باتیں کی جاتی ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے.صرف سن لینا اور کہہ دینا کہ اللہ نے اس کی توفیق دی تو اس پر عمل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 194 سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ 2004 سے خطاب کریں گے یہ کافی نہیں ہے.جب تک ایک لگن کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گی کوئی فائدہ نہیں.اور جب آپ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی اور اپنی اولا دوں کو بھی اس کی نصیحت کریں گی کہ ان پر عمل کرو، اپنے خاوندوں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں گی کہ اس پر عمل کرو تو یہ نیکیاں جاری رکھنے کی وجہ سے آپ خلافت احمدیہ کی مضبوطی کا باعث بھی بن رہی ہوں گی جس کا آپ نے عہد کیا ہے.میں نے آج کل تربیت کے مختلف موضوعات پر خطبات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، کافی ہو چکے ہیں.اور یہ تمام وہ موضوع ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں بتائے ہیں.یعنی امانت کا حق ادا کرو، ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی عادت ڈالو، سچ بولنے کی عادت ڈالو.اب یہ جو سچ بولنے کی عادت ہے اس پر ہی اگر لجنہ کا شعبہ تربیت توجہ دے اور سو فیصد لجنہ کو سچ بولنے کی عادت پڑ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ آدھی سے زیادہ کمزوریاں ہماری دور ہو جائیں گی.بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ اس طرح توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں کہ اصل جو بات ہوتی ہے اس کا کچھ سے کچھ بن جاتا ہے.پھر غیبت نہیں کرنی.اب یہ ایک ایسی عادت ہے جو معاشرے میں بہت رواج پکڑ رہی ہے.کسی کے پیچھے کسی کی برائی نہیں کرنی کسی کی بات نہیں کرنی.اور احمدی معاشرہ بھی اس کی لپیٹ سے باہر نہیں رہا ، اس کے اثر سے باہر نہیں رہا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم غیبت کرتے ہو تو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہوتے ہو.اور کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ وہ مردہ بھائی کا گوشت کھائے.اب جہاں چار لوگ بیٹھے ہوں فوراً کسی پانچویں کے خلاف باتیں شروع ہو جاتی ہیں.بہت ساری مجالس میں دیکھا گیا ہے.پھر لوگوں کا ہنسی ٹھٹھا اڑانا ہے.مختلف نام رکھ کر پیچھے سے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے.حسد ہے.اب حسد کی آگ بھی ایسی آگ ہے جس میں حسد کرنے والا خود جل رہا ہوتا ہے.اپنا نقصان اٹھا رہا ہوتا ہے.دوسرے کو کوئی نقصان شاید اتنا نہ پہنچے.اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے.غرض اس طرح کے بے شمار احکام قرآن کریم نے ہمیں دیئے ہیں.اس لئے میں نے گزشتہ خطبوں میں اس پر خاص طور پر توجہ دلائی ہے.یہ بھی کہ قرآن پڑھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں.جب سمجھیں گی اور عمل کرنے کی کوشش کریں گی تو پھر آپ دوسروں سے مزید ممتاز
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 195 سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ 2004 سے خطاب ہو کر مزید علیحدہ ہو کرنکھر کر ابھریں گی.اور اس معاشرے میں بھی آپ کی ایک پہچان ہوگی.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے اندر، آپ کے احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ سے، جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہے اور آپ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اور آپ نے اس کو قائم رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے اور یہ عہد اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کیا ہے.اللہ تعلی کو گواہ ٹھہرا کر کیا ہے.اس لئے اگر اس عہد پر پورا نہیں اتریں گی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا کہ میں سوال کروں گا.عہدوں کے بارے میں جواب طلبی ہو گی.تم نے ایک وعدہ کیا تھا اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ جب تم نے عہد کیا تھا کہ میں ہر بات مانوں گی ، عمل کروں گی تو جو باتیں کہی گئیں ان پر عمل کیوں نہیں کیا.جب تک آپ کا جماعت سے تعلق ہے، اور خدا کرے کہ ہمیشہ خلافت کے ساتھ وفا رہے.آپ کو خلیفہ وقت کی طرف سے کہی گئی باتوں پر عمل کرنا ہوگا ، ان کی طرف توجہ دینی ہوگی جو اصل میں تو خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں.خلیفہ وقت تو ان کو آگے پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے.اصل اطاعت تو خدا تعالیٰ کی ہے اور اس کے رسول کی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ اور یہی چیز ہمیشہ قائم رہنی چاہئے.اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی وجہ سے ہی اللہ اور رسول سے محبت قائم ہوتی ہے اور ہوتی ہے.باقی محبتیں تو ضمنی ہیں، باقی محبتیں تو اس وجہ سے ہیں کہ اللہ اور رسول سے محبت کرنی ہے.اور پھر اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی شریعت کو دنیا میں پھیلانے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.ان کی محبت دل میں ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت دل میں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو یہ محبت دلوں میں قائم کرنے اور ہمیشہ رکھنے اور اپنی نسلوں میں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اور آپ میں سے ہر ایک عابدات اور صالحات کے معیار حاصل کرنے والی ہو.کیونکہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کروانے والی انگلی نسل کو پروان چڑھانا ہے، اگلی نسل کی تربیت کرنی ہے.اس کے رسول سے محبت کرنے والی نسل کو پروان چڑھانا ہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 196 سالانہ اجتماع لجنہ بر طانیہ 2004 سے خطاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافت احمدیہ سے وفا کرنے والی نسل کو پروان چڑھانا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے.اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا.( تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 68 ) خدا کرے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو.ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو.ہمیشہ ہر احمدی کے ساتھ ہو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اب دعا کر لیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 197 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 دسمبر 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن (اقتباس) مغربی معاشرے کے اثرات سے بچنا ہے انسان جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے وا.کی طرف جھکے اللہ تعالیٰ بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ بندوں کو اپنے فضلوں سے نواز نے کیلئے عبادت کا حکم دیتا ہے اگر احمدی کہلاتے ہیں تو عبادت کی وہی تشریح ہے جس کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے ہیں احمدی کی شان اور پہچان ہونی چاہئے کہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والا ہو تمہارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر سکے عبادت اور دعا کے اعلیٰ معیار اپنانے ہوں گے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 198 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) عبادت کی اہمیت وافادیت کو دلوں میں واضح کرنے کیلئے ذیلی تنظیموں کو تاکیدی ہدایت تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ (الذاريات : 57).اور میں نے جن وانس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں.گزشتہ دنوں مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ بعض لوگ جو آجکل اس مغربی معاشرے سے متاثر لگتے ہیں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس سے یوں لگتا ہے گویا (نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ کو بھی دنیا داروں کی طرح اپنے ماننے والوں یا اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کی ضرورت ہے یا ایسے لوگ چاہئیں جو ہر وقت اس کا نام جپتے رہیں اس کے آگے جھکے رہیں، یہ تو خط میں واضح نہیں تھا کہ یہ خیالات رکھنے والے احمدی ہیں، غیر احمدی ہیں یا اس ماحول کے لڑکے ہیں یا کوئی اور.بہر حال مجھے اس سے یہ تاثر ملا تھا کہ شاید کچھ احمدی لڑکے بھی ہوں یا ان میں کچھ احمدی لوگ بھی ہوں ، صرف نو جوان ہی نہیں بڑی عمر کے بھی بعض اوقات ہو جاتے ہیں جو بعض دفعہ لامذہبوں یا دوسروں سے متاثر ہو کر ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا متاثر ہورہے ہوتے ہیں.تو تاثر یہی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 199 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) تھا کہ یہ جو پانچ وقت کی نمازیں ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ جیسے کہ زائدہ بوجھ ہیں اور ان کی اس طرح پابندی کرنی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے اور آجکل کے مصروف زمانے میں یہ بہت مشکل کام ہے بہر حال دہریت اور عیسائیت دونوں سے متاثر ہو کر ایسے لوگ ایسی باتیں کر سکتے ہیں.اور ان پر یہ باتیں اثر انداز ہوتی ہیں.مغربی معاشرے کے اثرات سے بچنا ہے اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ مغرب میں رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے، إِلَّا مَا شَاءَ الله عموماً احمدی یہ تو ہو سکتا ہے کہ عبادت میں نمازوں میں سستی کر جائیں لیکن اس قسم کے نظریات نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی.یا یہ زمانہ جوسائنس کا اور مشینی زمانہ ہے اس میں اس طرح عبادات نہیں ہو سکتیں ، پابندیاں نہیں ہو سکتیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ عموماً تو نہیں ہوتے لیکن اگر چند ایک بھی ایسے احمدی ہوں جن کا جماعت سے اتنازیادہ تعلق نہ ہو تعلق سے میری مراد ہے جماعتی پروگراموں میں حصہ نہ لیتے ہوں یا جلسوں وغیرہ پر نہ آتے ہوں یا جن کا دینی علم نہ ہو، ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں، یہ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اپنے ماحول میں اس قسم کی باتوں سے برائی کا بیج بو سکتے ہیں.یا بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ جو لامذہب قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں.اور کیونکہ برائی کے جال میں انسان بڑی جلدی پھنستا ہے اس لئے بہر حال فکر بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایسے مغربی معاشرے میں جہاں مادیت زیادہ ہو، اس قسم کی باتیں کہیں اوروں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں.اس وجہ سے میں نے اس موضوع کولیا ہے.ذیلی تنظیموں کی ذمہ داریاں لیکن کچھ کہنے سے پہلے ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے ماحول میں جائزہ لیتے رہیں.عموماً جو احمدی کہلانے والے ہیں عموماً ان تک ان کی پہنچ ہونی چاہئے.جو نو جوان دُور ہٹے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا چاہئے تا کہ اس قسم کی ذہنیت یا اس قسم کی باتیں ان کے ذہنوں سے نکلیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 200 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) میں نے ابھی جس آیت کی تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا.اس میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر یہی فرمایا ہے کہ میں نے جن وانس کو عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے.لیکن یہاں پابندی نہیں ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی مخلوق پیدا کی ہے وہ ضرور پیدائش کے وقت سے ہی اپنے ماحول میں بڑے ہوں تو ضرور عبادت کرنے والے ہوں.ماحول کا اثر لینے کی ان کو اجازت دی گئی ہے.باوجود اس کے کہ پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ عبادت کرنے والا ہو اور عبادت کی جائے لیکن ساتھ ہی ، جیسا کہ میں نے کہا، شیطان کو بھی کھلی چھٹی دے دی ، ماحول کو بھی کھلی چھٹی دے دی کہ وہ بھی اثر انداز ہوسکتا ہے.فرمایا کہ جو میرے بندے بننا چاہیں گے، میرا قرب پانا چاہیں گے وہ بہر حال اپنے ذہن میں یہ مقصد رکھیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عبادت کرنی ہے.اور اب کیونکہ ایک مسلمان کے لئے وہی عبادت کے طریق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے ہیں.اسی شریعت پہ ہمیں چلنا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں.جس طرح انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے عبادت کے طریق سکھائے ہیں اسی طرح عبادت بھی کرنی ہے.اور جو اوقات بتائے ہیں ان اوقات میں عبادت کرنی ہے.اگر نہیں تو پھر مسلمان کہلانے کا بھی حق نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے کا بھی حق نہیں ہے.پھر تو شیطان کے بندے کہلانے والے ہوں گے.لیکن ایسے ہی خیالات والے لوگ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوں تو مسلمان گھرانوں کے ماحول کا اثر ہوتا ہے.احمدی ہوں تو اور زیادہ مضبوط ایمان والے گھر کا اثر ہوتا ہے جو پر عمل کرنے والے ہوں.اور اسی ماحول میں کیونکہ پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لئے جب بھی ان کو کوئی مشکل پڑتی ہے، جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو دعا کی طرف ان کی توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اور پھر دعا کے لئے کہتے بھی ہیں.باوجود اس کے کہ اعتراض کرتے ہیں کہ عبادت کا جو اسلام میں طریق کار ہے وہ بہت مشکل ہے.گویاذ ہن میں عبادت کا تصور بھی ہے اور یہ خیال بھی ہے که کسی مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے.لیکن پانچ وقت نمازیں پڑھنا کیونکہ بو جھگتی ہیں اس لئے عبادت کی تشریح اپنی مرضی کی کرنا چاہتے ہیں، اس سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر احمدی کہلاتے ہیں، مسلمان کہلاتے ہیں تو عبادت کی وہی تشریح ہے جس اسلام پر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 201 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے ہیں اور پھر اس زمانے میں احمدی کے لئے خاص طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان نمونوں کو اور قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کی تفسیر ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے.اس لئے ہمیں اس زمانے میں ان احکامات کو سمجھنے کیلئے اور ان پر پابندی اختیار کرنے کیلئے اُسی طرح عمل کرنا ہوگا اور انہیں لائنوں پر چلنا ہو گا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سمجھائی ہیں اور انہیں رستوں پر چل کے ہم نیکیوں اور عبادت کے طریقوں پر قائم بھی رہ سکتے ہیں.انسانی پیدائش کا مقصد آپ فرماتے ہیں کہ : چونکہ انسان فطرتا خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاريات: 57) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور ہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالی کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی.وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ“ یعنی اللہ تعالی کی ذمہ داری بھی اس وقت ہے جب اس کے احکامات پر عمل کرو گے اور اس کی عبادت کرو گے.فرمایا کہ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا.لِيَعْبُدُون پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.موت کا اعتبار نہیں ہے.تم
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 202 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو، بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے، اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تر ڈد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ وہ ڈونہ مواخذہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ سب کا روبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا“.الحکم قادیان مورخہ 10/اگست 1901 ء صفحه 2) آپ نے بڑی وضاحت سے فرمایا کہ تمہارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے کیونکہ فطرت صحیحہ یہی ہے.انسان کی فطرت جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے.لیکن اگر اس کی عبادت نہیں کرتے ، اس کے آگے نہیں جھکتے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی پابند نہیں کہ مشکلات میں یا تکلیف میں ضرور ان کی مدد کو آئے اور ان پر اپنا فضل فرمائے جو اس کی عبادت نہیں کرتے.پس اگر اس کا فضل حاصل کرنا ہے تو اس کی عبادت بھی کرنی ہوگی.فرمایا تمہارے دنیاوی کام کاج ہیں، ان کو بھی کرو، ملازمتیں بھی کرو، کاروبار بھی کرو، زمیندار ہو تو زمینداری بھی کرو لیکن تمہارا مقصد بہر حال اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اس کی عبادت میں ہے.عام دنیاوی معاملات میں بھی جب انسان کسی چیز کا مالک ہو تو اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتا ہے.ملازم بھی رکھتا ہے تو اس کو یہی حکم ہوتا ہے کہ تم نے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 203 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) میرے بتائے ہوئے طریق پر کام کرنا ہے اور کسی دوسرے کی بات نہیں مانتی.تو اللہ تعالیٰ جورب بھی ہے، مالک بھی ہے، معبود بھی ہے، اس کی بات ماننے سے ہمیں کیونکر اعتراض پیدا ہوتا ہے.اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کچھ وضاحت کی ہے.یہ ان لوگوں کا اعتراض جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں، اس کی یہ خواہش ہے.اس میں اس اعتراض کا بھی جواب دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: بظاہر یہ تعلیم کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندہ کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے خود غرضانہ معلوم دیتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کا محتاج ہے.لیکن اگر قرآن پر غور کیا جائے تو حقیقت بالکل مختلف نظر آتی ہے.کیونکہ قرآن کریم بوضاحت بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کا محتاج نہیں ہے.چنانچہ سورۂ عنکبوت رکوع اول میں ہے کہ وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ.ط إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِيْنَ (العنكبوت :7 ) یعنی جو شخص کسی قسم کی جدو جہد روحانی ترقیات کے لئے کرتا ہے وہ خود اپنے نفس کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات اور ان کے ہر قسم کے افعال سے غنی ہوتا ہے“.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے کہ بندہ کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرتا.آگے اس بارے میں ایک تفصیلی حدیث بھی میں بیان کروں گا.جو کچھ کرتا ہے انسان اپنے فائدے کیلئے کرتا ہے.اسی طرح سورۃ حجرات میں فرماتا ہے کہ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ (الحجرات : 18) یعنی مذہب اسلام کو قبول کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان نہیں نہ خدا تعالیٰ پر ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے وہ طریق بتایا جو لوگوں کی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 204 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) ترقی اور کامیابی کا موجب ہے.پس عبادت قرآن کریم کی رو سے خود بندے کے فائدے کے لئے ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ عبادت چند ظاہری حرکات کا نام نہیں ہے بلکہ ان تمام ظاہری اور باطنی کوششوں کا نام ہے جو انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنا دیتی ہے.کیونکہ عبد کے معنی اصل میں کسی نقش کے قبول کرنے اور پورے طور پر اس کے منشاء کے ماتحت چلنے کے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت چلے گا الہی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لے گا اور ترقی کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کر لے گا.تو یہ امر خود اس کے لئے نفع رساں ہوگا نہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے.بائبل میں جو یہ لکھا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا ( پیدائش باب (1) تو درحقیقت اس میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر سکے ورنہ اللہ تعالیٰ تمام شکلوں میں پاک ہے.پس عبادت پر زور دینے کے محض یہ معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے وجود کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو کیونکہ کامل تصویر تبھی کھینچی جاسکتی ہے جب اس وجود کا نقشہ ذہن میں موجود ہو جس کی تصویر لینی ہو اور عبادت اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنے اور ان کا نقش اپنے ذہن پر جمانے کا ہی نام ہے جس میں انسان کا فائدہ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا.پھر فرماتے ہیں کہ اس مضمون کی طرف ایک حدیث میں بھی اشارہ ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ما الاحْسان؟ کامل عبادت کیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ اَنْ تَعْبُدَ الله كَأَنَّكَ تَرَاهُ.تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا معنوی طور پر وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ تیرے سامنے کھڑا ہو جائے.“ ( تفسیر کبیر جلد نمبر 3 صفحه 142-143) پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نواز نے کے لئے ہی عبادت کا حکم دیتا ہے
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 205 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) اور ان کے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے.اس بارے میں اس مضمون کو ایک اور جگہ بیان فرماتا ہے کہ أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَ إِلَةٌ مَّعَ اللهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ (سورة المل :63) یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے.اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.تو جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں ایسے لوگ عبادت کے خلاف ہوتے ہیں یا بلا وجہ کا اعتراض اٹھا رہے ہوتے ہیں ان کو بھی تکلیف کے وقت دُعا یاد آ جاتی ہے.وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ جب ان کو طوفان گھیر لیتا ہے تو رونا پیٹنا دعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں.اور جب وہ طوفان ٹل جاتا ہے اور خشکی پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر منکر ہو جاتے ہیں.تو فرمایا یہ اللہ ہے جو اس طرح بے قراروں کی دعائیں سنتا ہے.اور تکلیفیں دور کرتا ہے اور ہم یہ نظارے ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں.انہی دعائیں کرنے والوں نے دنیا پر حکومت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کا وارث بنایا.اس لئے تمہارے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اگر عبادتیں کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے بھی حصہ پاتے رہو گے.جب عبادتوں کے معیار کم ہونے شروع ہوئے تو مسلمانوں کا رعب بھی ختم ہوتا رہا دیکھ لیں جب عبادتوں کے معیار کم ہونے شروع ہو گئے تو آہستہ آہستہ مسلمانوں کا رعب بھی ختم ہوتا رہا.آج ہر طاقتور قوم ان سے جو سلوک کرنا چاہے کرتی ہے اور اب تو ساری دنیا دیکھ رہی ہے.تو یا درکھو کہ یہ انعام انہی عبادتوں کی وجہ سے تھے جو ہمارے آباء واجداد نے کیں یا کرتے رہے، جوصحابہ نے کیں، ان کی وجہ سے فتوحات حاصل کیں.اور یہ انعام اب بھی مل سکتے ہیں اور ملتے رہیں گے اگر عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہی.اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس مادی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کر کے تم اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کر لو گے، تو یہ وہم ہے.لیکن مشکل یہ ہے کہ دنیا داری اور نفس پرستی نے اور دنیا کی چکا چوند نے اتنا زیادہ اپنے آپ میں منہمک کر دیا ہے کہ تمہیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 206 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور تم اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے.جن مسلمان ملکوں اور لیڈروں کے پاس حکومتیں ہیں ان کو اس طرف سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے نہ ہی سوچنا چاہتے ہیں.اور یہ سب جیسا کہ میں نے کہا یہ دنیا داری ہی ہے، یہ عبادتوں میں کمی ہی ہے جس نے امت مسلمہ کی یہ حالت کر دی ہے، یہاں تک پہنچا دیا ہے.پس یہ سوال اٹھانے کی بجائے کہ اللہ کو عبادتوں کی کیا ضرورت ہے اور عبادت مشکل ہے اور اس زمانے میں اس طرح ادائیگیاں نہیں ہو سکتیں ، ہر احمدی مسلمان ہر دوسرے مسلمان کو یہ سمجھائے، ہر دوسرے کو سمجھائے کہ یہ کھوئی ہوئی شان اگر دوبارہ حاصل کرنی ہے تو پھر عبادتوں کی طرف توجہ دو.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو کیونکہ مسلمان کہلا کر پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کر کے ہم اس کے انعاموں کے وارث نہیں بن سکتے.احمدی کی شان اور پہچان ہونی چاہئے کہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والا ہو یا درکھو یہی مسلمان کی شان ہے اور یہی ایک احمدی کی بھی شان اور پہچان ہونی چاہئے اور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہو.اور یہی عبادتیں ہیں جو اسے عاجزی میں بھی بڑھائیں گی اور یہی عاجزی ہے جو پھر اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا موقع بھی مہیا کرے گی.اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب میں جگہ دے گا اور اسے انعام بھی ملیں گے.پس عقل کرو.یہ بھی یاد رکھو کہ یہ انعام عاجز ہو کر عبادت کرنے والے کو ہی ملتے ہیں.اور پھر یہ کہ عبادتیں کرنے والے عبادتوں میں تھکتے بھی نہیں، بے صبرے بھی نہیں ہو جاتے.یہ سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنی مشکل ہیں.بلکہ اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچانتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے رہتے ہیں.جیسے کہ فرماتا ہے :.وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَ (الانبياء: 20) اور اسی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے حضور رہتے ہیں اس کی عبادت کرنے میں استکبار سے کام نہیں لیتے اور نہ کبھی تھکتے ہیں.تو جب آسمانوں اور زمین میں ہر چیز اسی کی ہے تو پھر اس سے زیادہ کون اہم ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 207 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) ہر عقلمند انسان اس طرف زیادہ راغب ہوگا جہاں اس کو زیادہ فائدہ نظر آتا ہوگا.دنیاوی معاملات میں تو ہر کوئی فائدہ دیکھتا ہے لیکن اللہ کے معاملے میں اس طرف نظر نہیں جاتی.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام فائدے تمہیں مجھ سے ہی ملنے ہیں.اور میری طرف ہی جھکو.عبادت کرو، تکبر کو چھوڑ و.اور کیوں اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا ؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹ دی ہوئی ہے.اکثر دفعہ اپنی عبادت نہ کرنے والے یا شریک ٹھہرانے والوں کی فوری طور پر پکڑا نہیں کرتا، کیونکہ کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ چاہے تو میری طرف آؤ، چاہے تو شیطان کی طرف جاؤ.لیکن یہ بھی فرما دیا کہ شیطان کی طرف جا کر میرے انعاموں سے بھی محروم رہو گے اور دنیا میں بھی بعض دفعہ پکڑ ہوسکتی ہے اور بہر حال آخرت میں تو یقینی پکڑ ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کرنے والے ہو گے.تو بہر حال مالک کو حق ہوتا ہے کہ جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے.لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بعض عقلمند بننے والے یہ کہتے ہیں کہ سزا کا بھی حق نہیں ہونا چاہئے ، اور عبادت بھی جو مرضی کرے جو نہ کرے، چھوٹ ہونی چاہئے.چھوٹ تو ہے لیکن بہر حال پھر مالک ہونے کی حیثیت سے اس کو سزا کا بھی حق ہے اسی کو پکڑ کا بھی حق ہے.اس پر اعتراض ہو جاتا ہے کہ انسان کو عبادت کے لئے پیدا کرنے کا جو اصول بنایا ہے یہ بڑا غلط ہے اللہ تعالیٰ اپنی عبادت زبر دستی کروانا چاہتا ہے.جبکہ اللہ تعالیٰ تو یہ سب کچھ کروا کر انعامات سے نواز رہا ہے.جابر حکمران کی طرح یہ نہیں کہہ رہا کہ بس ہر صورت میں یہ کرو جس طرح بیگار لی جاتی ہے.بلکہ نہ صرف انعامات سے نوازتا ہے جہاں آسانی کی ضرورت ہے عبادتوں میں آسانی بھی پیدا فرماتا ہے.جیسا کہ سفر میں ، بیماری میں کافی سہولتیں مہیا ہیں.روزے دار کے لئے بھی نماز پڑھنے والے کے لئے بھی.تو اس پر تو بجائے زبردستی کا تصور قائم کرنے کے انسان جتنا سوچے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور ابھرتا ہے.اور پھر اس کی حمد اور اس کی عبادت کی طرف مزید توجہ پیدا ہوتی ہے.لیکن اگر پھر بھی کوئی یہی رٹ لگائے رکھتا ہے کہ عبادت بڑی مشکل ہے اور عبادت کس لئے کی جاتی ہے، اور عبادت کی طرف نہیں آتا اور بے عقلوں کی طرح صرف دلیلیں دیئے چلا جاتا ہے اور وہ بھی اوٹ پٹانگ دلیلیں.تو اللہ تعالیٰ جس نے نواز نے کے لئے بندے کو عبادت کا حکم دیا ہے، بندے کے اپنے فائدے کے لئے عبادت کا حکم دیا ہے فرماتا ہے کہ اگر تم پھر بھی نہیں مانتے، انکار پر مصر ہو، اس پہ اصرار کئے جارہے ہو تو پھر خدا کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں.اسے کوئی شوق نہیں ہے کہ تمہارے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 208 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) جیسے نافرمان اپنے ارد گر داکٹھا کرے.جیسا کہ فرماتا ہے: قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ج فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا (سورة الفرقان: 78) تو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا.پس تم اسے جھٹلا چکے ہو، ضرور اس کا وبال تم سے چمٹ جانے والا ہے.پس واضح ہو گیا کہ دعاؤں اور عبادت کی اللہ کو ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں ضرورت ہے.پس اگر تم انکار پر تلے بیٹھے ہو تو خدا تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے.اب سزا کے لئے تیار ہو جاؤ یہ بہر حال اس کا حق ہے، وہ مالک ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: کامل عابد وہی ہوسکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے : قُلْ مَايَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ ربّ کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پر واہ ہی کیا کرتا ہے.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے“.الحکم جلد 6 نمبر 24 مورخہ 10 جولائی 1902ء صفحہ 4) جو عبادت کرنے والا ہے اس کی بات مانتا ہے اس کے لئے کھڑا ہوتا ہے.دشمن سے اس کو محفوظ رکھتا ہے.اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ”انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بریکار کر لیتا ہے.یعنی عبادت کی غرض تو یہی ہے لیکن اگر ماحول کا اثر اس پر پڑ گیا اور اللہ میاں نے جو اس کی فطرت میں چیز رکھی تھی اس کو بریکار کر لیا اور ضائع کر دیا تو خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : 78)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 209 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) میں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں.شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پہ مسلط ہے.( ہر ایک بھیڑ کے اوپر ایک قصائی کھڑا ہے.) ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے“ کہ ان کے بارے میں کیا حکم ہے.میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں.میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسانی حکم کے منتظر ہیں.تو میں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : 78 ) یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں.یعنی ان کی گردنوں پر چھریاں پھیر دیں، ذبح کر دیا.اور یہ کہا کہ تم ہو کیا ؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو“.گند کھانے والی بھیڑیں ہی ہونا.فرمایا: غرض خدا تعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے.اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے.اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے.جیسے کلوروفارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے.“ (الحکم قادیان جلد 5 نمبر 30 مورخہ 17/اگست 1901ء صفحہ 1) تو یہاں جو آپ کو رویا میں دکھایا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے اور ان کی حیثیت جانوروں کی طرح کی ہے.اور ان کو نقصان پہنچتا ہے تو ان کی کوئی بھی پرواہ نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ ان کی بالکل بھی حفاظت نہیں فرماتا بلکہ آپ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں ڈالتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل فرمایا کہ 210 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) دعا ہی دراصل عبادت ہے.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِى اَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَ (المومن: 61) اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا.یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے.(ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الدعاء) عبادت اور دعا کے اعلیٰ معیار اپنانے ہوں گے تو بالا تو وہی سمجھتے ہیں جن میں تکبر پایا جاتا ہے یا جن کے اندر شیطان گھسا ہوا ہے.اس لئے شیطان ذہنوں میں ایسے خیالات پیدا کرتا رہتا ہے کیونکہ شیطان ہے اور شیطان کسی وقت بھی اثر انداز ہو سکتا ہے.اس لئے چاہے جن پر اثر ہے یا نہیں ہے، اس لئے اپنے ماحول میں جیسا دنیا میں ماحول میسر ہے استغفار کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ جہنم کے عذاب سے بچے رہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ باتیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے آپ پر حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے.پس اے میرے بندو! تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.( یہ لمبی حدیث ہے اس میں مختلف قسم کے احکامات ہیں) تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں.پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت عطا کروں گا.پھر فرمایا اے میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں.پس تم مجھ سے کھانا طلب کرومیں تمہیں کھلاؤں گا.اے میرے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگا ہے سوائے اس کے جسے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 211 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) میں کپڑے پہناؤں.پس تم مجھ سے لباس طلب کرو، میں تمہیں لباس عطا کروں گا.اور پھر فرمایا اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں تمام گناہ بخشتا ہوں.پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں تمہارے گناہ بخش دوں گا.اے میرے بندو! ( یہاں عبادت کی طرف توجہ دلائی ہے ) تم اس مقام پر نہیں پہنچے سکتے کہ مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی تم ایسی حیثیت رکھتے ہو کہ مجھے نفع پہنچاؤ.(تو بندے کو کوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کر کے یا نہ کر کے نقصان یا نفع پہنچا سکے.اس کی آگے پھر وضاحت فرمائی) کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص ، تم میں سے ایک انتہائی متقی دل رکھنے والے شخص کی طرح ہو جائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہ کر سکے گا.اور اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص تم میں سے انتہائی فاجر دل رکھنے والے کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی.اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر شخص کو اس کی مطلوبہ اشیاء عطا کر دوں تو بھی جو کچھ میرے پاس ہے.اس میں سے کچھ بھی کمی کرنے کا باعث نہ ہو گا سوائے اس کے جتنا سوئی کو سمندر میں ڈال کر نکالنے سے کمی واقع ہوتی ہے.اور اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جو میں تمہاری خاطر شمار کرتا ہوں.پھر میں پوری پوری جزا تم کو عطا کرتا ہوں.مجھے کوئی شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے.تمہیں جزا دینے کے لئے شمار کرتا ہوں.پس تم میں سے جو شخص خیر پائے (اکثر یہ ہوتا ہے کہ شمار کے بجائے بے حساب جانے دیتا ہے ایسی بھی روایات ہیں ) پس تم میں سے جو شخص خیر پائے اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرے.اور جو اس کے سوا پائے اسے چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے.سعید کہتے ہیں کہ جب راوی یہ حدیث بیان کرتے تھے تو گھٹنوں کے بل گر جاتے تھے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 212 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) پس یہاں جو فرمایا کہ حمد کرے تو یہ حمد عبادت ہی سے ہے جتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ پیدا ہو گی اتنی ہی زیادہ عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوگی.فرمایا کہ اگر نہیں کرو گے مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب دنیا کے بندے، موجود بھی، پہلے بھی اور نئے آئندہ بھی جو دنیا میں آنے والے ہیں وہ بھی اگر متقی بن جائیں اور ایک متقی شخص کی طرح ہو جا ئیں تو اس سے میری حکومت اور ملکیت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا.مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا.ادنی سا بھی فرق نہیں پڑے گا اتنی بھی کمی نہیں ہوگی.اگر سب برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جائیں تو بھی میری سلطنت اور بادشاہت میں کمی نہیں ہوگی.اتنی کمی بھی نہیں ہوتی جتنی سمندر میں ایک سوئی کو ڈبونے سے اس کے نگے میں جو پانی کا قطرہ چمٹ جاتا ہے اس پانی کے نکلنے سے کمی ہوتی ہو.یہ سب چیزیں تو تمہارے فائدہ کے لئے ہیں.اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کے لئے تم یہ عبادت کرتے ہوا گر تم میرے سامنے جھکتے ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدے میں بہت دعا کرو“.(مسلم) كتاب الصلواة ما يقول في الركوع والسجود) یہ عبادت کے طریق ہیں.نماز کی طرف توجہ ہے.جونماز پڑھے گا تو سجدے میں بھی جائے گا.تو نمازوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر نمازوں میں سجدے میں سب سے زیادہ دعا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کیونکہ ایک جگہ فرمایا کہ نماز ہی عبادت کا مغز ہے.نمازوں میں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اچھا موقع ہے وہ سجدے کی حالت میں ہے.جب انسان نہایت عاجزی سے اپنا سر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر رکھتا ہے آگے جھکتا ہے، اس سے التجا کرتا ہے،اس سے مانگتا ہے.یہی حالت ہے جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بہت قریب انسان ہوتا ہے.اس لئے اس وقت بہت زیادہ مانگنا چاہئے.اور اس وقت مانگو تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو بھی جوش میں لاؤ، اور رحم کو بھی جوش میں لاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: غرض کہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 213 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) گزارا تو ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے.اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟.اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے.اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے.جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پر واہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھویا نہ.وہ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (سورۃ الفرقان : 78 ) کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا.انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا.دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہومگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا نہ گاڑی میں جتے گا، نہ زراعت کرے گا، نہ کنویں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا“.( یہاں بھی اب جانور جو ہیں جو کسی کام کے نہیں ہوتے وہ ذبح کئے جاتے ہیں.یا علاوہ ان کے خاص طور پر اس لئے پالے جاتے ہوں.) پھر فرمایا: ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالے کر دے گا“.( بیل کی مثال دے رہے ہیں تو ایسے ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہوگا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا.ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تا کہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے.لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتے رکھتا ہے کہ لوگ سائے میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 214 خطبه جمعه فرمود 3 دسمبر 2004 (اقتباس) آ سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنَ (الذاريات:57).جواس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے.تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے.پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی.اس لئے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے.( ملفوظات جلد 4 ، جدید ایڈیشن ، صفحہ 221-222) یعنی مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف دل لگا رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شیطانی وسوسوں اور خیالات سے بچا کر ر کھے.ہمارے دلوں میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا کہہ کر ہمیں کسی مشکل میں ڈال دیا ہے.بلکہ ہم بھی اپنے آقاومتاع کی پیروی میں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نمازوں اور عبادتوں میں تلاش کرنے والے ہوں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 215 جلسہ سالانہ فرانس 2004 مستورات سے خطاب اگر آپ صحیح اسلامی تعلیم کو اپنالیں تو ایک انقلاب پیدا ہوسکتا ہے (جلسہ سالانہ فرانس کے اختتام پر لجنہ اماءاللہ سے خطاب فرمودہ 28 دسمبر 2004) 28 دسمبر 2004 کو جلسہ سالانہ فرانس کے اختتام پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے.لجنہ سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر فرمایا: میں نے آپ لوگوں میں علیحدہ کوئی تقریر تو نہیں کی لیکن جو باتیں جلسہ میں کی ہیں وہ عورتوں کے لئے بھی اُسی طرح اہم ہیں جس طرح مردوں کے لئے ہیں.عورتوں کے لئے بلکہ زیادہ اہم ہیں.کیونکہ وہ اپنے گھر کی نگران ہوتی ہیں.اگر آپ لوگ صحیح اسلامی تعلیم کو اپنالیں اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیں اور اپنے بچوں کو اپنے خاوندوں کو اس کے مطابق عمل کروانا شروع کر دیں تو ایک انقلاب پیدا ہوسکتا ہے.اس لئے اس جلسے کے بعد ایک نئے عزم کے ساتھ جائیں اور جن کے خاوند نمازوں میں سست ہیں ان کو نمازوں میں تیز کریں، جن کے بچے نمازوں میں سُست ہوں ان کو نمازوں کی عادت ڈالیں.قرآن شریف کی گھروں میں تلاوت شروع کریں.نئی نسل آپ کی گودوں میں پل رہی ہے.اگر نئی نسل کی تربیت نہ ہوئی تو آپ پوچھی جائیں گی.حضور انور نے فرمایا جونئی احمدی ہونے والی ہیں وہ یہ نہ دیکھیں کہ عہد یدار کیا کرتی ہیں.اور پرانی احمدی خواتین کیا کرتی ہیں.یہ دیکھیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے اور ہم نے اس پر کیا عمل کرنا ہے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 216 جلسہ سالانہ فرانس 2004 مستورات سے خطاب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی درد کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو اس تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے.حضور انور نے فرمایا کہ بعض دفعہ بعض شکایتیں ہوتی ہیں کہ فلاں عہدیدار نے یہ کام نہیں کیا.لیکن آپ میں سے کسی نے بھی کسی عہدیدار کی بیعت نہیں کی ہوئی.خلیفہ وقت کی بیعت کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو جائیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والی بہنیں.اس لئے ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ آپ نے اپنی اصلاح کرنی ہے اور ایک بہت بڑی ذمہ داری آپ پر ان اگلی نسلوں کی اصلاح کی ہے.اس کو بھی پورا کرنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے.آمین.رپورٹ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن، جنوری 2005)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 217 جلسہ سالانہ گھانا 2004ء کے موقع پر مستورات سے خطاب خواتین کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے جو اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے دعا کرنا اور اللہ کے آگے جھکنا اعلیٰ معیار حاصل کرنے کیلئے ایک بنیادی ہتھیار ہے ه اگر احمدی خواتین اس بات کو سمجھ جائیں تو یہ ممانت ہے آئندہ نسلوں کو محفوظ کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کیلئے یہ بہت اہم ہے کہ پانچ وقت کی نماز میں ادا کرنے والی ہوں نو جوانوں کی اصلاح صرف ماؤں کے اچھے اعمال اور تربیت کی وجہ سے مہیا ہو سکتی ہے اے احمدی عور تو تم اپنے اس اعلی مقام کو پہچانو اور اپنی نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرو ہ آپ کی اعلیٰ تربیت ہے جو آپ کے بچوں کو اللہ کا فرمانبردار بنائے گی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 218 جلسہ سالانہ گھانا 2004 مستورات سے خطاب احمدی خواتین کے معاشرہ میں اہم کردار کی فضیلت و عظمت جلسہ سالا نہ گھانا 2004 کے موقعہ پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عام خطاب میں لجنہ اماءاللہ کو بھی ہدایات سے نوازا.احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: کوبھی یہاں عورتوں کی موجودگی کی وجہ سے میں چند اصولی با تیں بینہ کوبھی کہنا چاہتا ہوں کیونکہ عموماً جلسوں پر خلیفہ اسیح کا لجنہ سے بھی خطاب ہوتا ہے لیکن یہاں چونکہ علیحد ہ خطاب نہیں ہورہا اس لئے میں اس تقریر کے ساتھ ہی لجنہ سے بھی مخاطب ہوتا ہوں.خواتین کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے.ایک عورت کا بنیادی کردار اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ ایک بیوی اور ایک ماں کی حیثیت سے عمل کر رہی ہوتی ہے یا مستقبل کی ماں کی حیثیت سے اگر ابھی شادی نہیں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو.اگر عورتیں اس بات کو سمجھ لیں اور خدا کا خوف کرنے لگیں اور تقویٰ کی راہوں پر چلیں تو وہ اس قابل ہو جائیں گی کہ ایک انقلاب معاشرے میں پیدا کر دیں.ایک عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور جب خاوند گھر پر نہ ہو تو وہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت پر زیادہ توجہ دے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 219 جلسہ سالانہ گھانا 2004 مستورات سے خطاب دعا اور اللہ کے آگے جھکنا اعلیٰ معیار حاصل کرنے کیلئے ایک بنیادی ہتھیار ہے یہ ہمارا ایمان ہے کہ دعا اور اللہ کے آگے جھکنا اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے ایک بنیادی ہتھیار ہے.اگر احمدی خواتین اس بات کو سمجھ جائیں تو یہ ضمانت ہے آئندہ نسلوں کو محفوظ کرنے کی.اس کے لئے سب سے پہلے خود عورتوں کو اپنی مثال قائم کرنی ہوگی.ایک اعلیٰ مثال قائم کرنے کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ آپ پانچ وقت کی نماز میں ادا کرنے والی ہوں اور پھر اس طرف توجہ دیں کہ آپ کے بچے بھی با قاعدہ نماز کے عادی ہوں.جب بچے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنی چاہئے.اور اسی طرح پیار محبت سے اپنے خاوندوں کو بھی نماز پڑھنے کی طرف توجہ دلائیں.آپ کو اپنے تمام گھر والوں کو فجر کی نماز کے لئے اٹھانا چاہئے.ہوسکتا ہے کچھ مرد اس بات پر ناراض ہوں اور کہیں کہ تم کون ہوتی ہو مجھے نماز کے لئے جگانے والی.لیکن آپ نے یہ ضرور کرنا ہے.ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ اور رسول کا یہ حکم ہے کہ اگر خاوند صبح نماز کے لئے پہلے جاگے تو اس کو اپنی بیوی کو بھی جگانا چاہئے.اور اگر بیوی پہلے جاگے تو اس کو اپنے خاوند کو جگانا چاہئے.اس لئے نہ مردوں کا یہ حق ہے کہ ناراض ہوں اور نہ ہی عورتوں کو ضرورت ہے کہ وہ خوفزدہ ہوں.جہاں تک میں نے دیکھا ہے یہاں گھانا میں عورتیں اپنے روزمرہ کے کاموں میں بہت صبح صبح مصروف ہو جاتی ہیں.مجھے یقین ہے کہ وہ مردوں سے پہلے جاگتی ہیں.عورتیں بڑی محنت سے کام کرنے والی ہیں.چیزیں تیار کر کے مارکیٹ میں بیچنے جاتی ہیں.اپنے بچوں اور خاوندوں کے لئے کھانا تیار کرتی ہیں اور بعض قسم کی خوراک تیار کرنے کے لئے مثلاً بانکو اور کینکے ( یہ خاص خوراک ہے جو مکئی سے تیار ہوتی ہے ) تیار کرنے کے لئے کئی دن محنت کرتی ہیں.پھر فوفو تیار کرنے کے لئے اسے کئی گھنٹے کونڈی ڈنڈے میں پیستی ہیں اور آخر اسے کھانے کے قابل بناتی ہیں.پس آپ یہ محنت جو مادی غذا ان کو دینے کے لئے کرتی ہیں، روحانی غذا دینے کے لئے بھی کریں.یہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر آپ اس طرح سے نہیں سوچیں گی تو آپ کے بچے ایک اچھے شہری کی حیثیت سے پروان نہیں چڑھیں گے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کہا تھا کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 220 جلسہ سالانہ گھانا 2004 مستورات سے خطاب نہیں ہو سکتی.یاد رکھیں کہ نو جوانوں کی اصلاح صرف ماؤں کے اچھے اعمال اور تربیت کی وجہ سے مہیا ہو سکتی ہے.آپ نے جماعت کے روحانی معیار بلند کرنے ہیں ، تمام معاشرتی برائیوں کو جماعت اور ملک سے جڑ سے اکھاڑ دیں.اور اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو معاشی لحاظ سے بھی مضبوط بنائیں.پس اللہ کے آگے جھکیں اور اس سے مدد طلب کریں.اور آئندہ نسلوں کو سنبھالنے کے لئے ان کی تعلیم کی طرف توجہ دیں.اگر آپ اپنے آپ کو اس قابل بنالیں کہ اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کر لیں کہ وہ محنتی ہو جا ئیں اور ہمیشہ اللہ کے آگے جھکنے والے بن جا ئیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتی.آپ کا بڑا اونچا مقام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ نہیں فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے.یہ آپ کی اعلیٰ تربیت ہے جو آپ کے بچوں کو اللہ کا فرمانبردار بنائے گی اور وہ اعلیٰ اخلاقی معیار کے حامل ہوں گے اور محنتی بنیں گے.اور اس طرح اس دنیا میں ہی جنت قائم ہو جائے گی.اور ایسے لوگ ہمیشہ کی جنتوں کے وارث بن جائیں گے.احمدی عورت اپنی تربیتی ذمہ داری اور اپنے مقام کو پہنچانے پس اے احمدی عورتو! تم اپنے اس اعلیٰ مقام کو پہچانو.اور اپنی نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرو.اور اس طرح سے اپنی آئندہ نسلوں کے بچاؤ کی ضمانت بن جاؤ.اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اس کے احکام کو وقعت نہیں دیتے.اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں.آمین.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 221 جلسہ سالانہ نائیجیر یا 2004 ء سے خطاب عورتیں یا درکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے اگر آپ اپنے کو بھی اور اپنے خاندانوں کو بھی گندے ماحول سے محفوظ رکھیں گی تو اللہ تعالی آپ کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 222 جلسہ سالانہ نا پنجیر یا 2004 سے خطاب اسلامی معاشرہ میں عورت کا بلند مقام جلسہ سالانہ نائیجیریا 2004 کے موقعہ پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عام خطاب میں لجنہ اماءاللہ کو بھی ہدایات سے نوازا.احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:...اب میں چند الفاظ عورتوں کو کہنا چاہتا ہوں.عورتیں یا درکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے.اگر انہوں نے اپنے اس بلند مقام کو نہ پہچانا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی.خواتین اپنے اس مقام کو پہچانیں جو اُن کا معاشرے میں ہے.نہیں تو وہ اپنے خاوندوں اور آئندہ نسلوں کی نافرمان اور اُن کا حق ادا نہ کرنے والی سمجھی جائیں گی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے پیدا کرنے والے سے بے وفائی کر رہی ہوں گی.پس یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر احمدی عورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتی رہے اور ہمیشہ یہ دعا کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی کرے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق پرورش کر سکے.اسلامی تعلیمات اپنے بچوں کو دینے کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں یہ اسلامی تعلیمات اپنے بچوں کو دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو بھی اس سے آراستہ کریں.پھر بہت ساری برائیاں ہیں جو آج کل کے معاشرے میں اور ماحول میں ہیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 223 جلسہ سالانہ نا پنجیر یا 2004 سے خطاب معاشرہ بہت ساری کمزوریوں سے بھرا پڑا ہے اور یہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری ہے کہ ان برائیوں کے اثرات سے اپنے آپ کو بھی محفوظ رکھے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی.یادرکھیں کہ آپ اس بارہ میں پوچھی جائیں گی.ہمیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس بات سے بچیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح پوچھے جانے والوں میں شمار ہوں.اگر آپ اپنے آپ کو بھی اور اپنے خاندانوں کو بھی گندے ماحول سے محفوظ رکھیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت جو اپنی پانچ وقت نمازوں کی پابندی کرتی ہے اور جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو اخلاقی برائیوں سے بچایا اور اپنے خاوند کی اخلاص اور وفا سے خدمت کی.ایسی عورت کا حق ہے کہ وہ جنت میں کسی بھی دروازے سے داخل ہو جائے.میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور اپنے بچوں کے فرائض کا حق ادا کرنے والی ہو.اللہ کرے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرے اور ان کی پاک اور با اخلاق ماحول میں پرورش کرے اور اس وجہ سے جنتوں کی وارث بنے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 224 فرموده 7 جنوری 2005 (اقتباس) خطبه جمعه آخرین کی جماعت میں مالی قربانی کی اعلی مثالیں خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 2005ء بمقام مسجد بشارت پید رو آباد (سپین) (اقتباس) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک روایت میں آتا ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے نماز سے آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا، جب آپ فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی.آپ اس وقت حضرت بلال کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے.اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں.(بخاری کتاب العيدين باب معضة الامام النساء يوم العيد) تو اسلام میں مالی قربانی کی مثالیں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں.بلکہ اس پیاری تعلیم اور جذبہ ایمان کی وجہ سے عورتیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں اور لیتی ہیں اور اپنا زیورا تار تار کر چھینکتی رہی ہیں اور آج پہلوں سے ملنے والی جماعت میں یہی نمونے ہمیں نظر آتے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 225 فرموده 7 جنوری 2005 (اقتباس) خطبه جمعه ہیں اور عورتیں اپنے زیور آ آ کر پیش کرتی ہیں.عموماً عورت جو شوق سے زیور بنواتی ہے اس کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے لیکن احمدی عورت کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز پیش کی جائے.گزشتہ دنوں میں جب انگلستان کی مساجد اور پھر تحریک جدید کے بزرگوں کے پرانے کھاتے کھولنے کی میں نے تحریک کی تھی تو احمدی خواتین نے بھی اپنے زیور پیش کئے اور بعض بڑے بڑے قیمتی سیٹ پیش کئے کہ یہ ہمارے زیوروں میں سے بہترین ہیں.تو یہ ہے احمدی کا اخلاص.اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93) جو سب سے پسندیدہ چیزیں ہیں وہ ہی پیش کی جارہی ہیں.تو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی یہی ایمان ہے.ان باتوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ جماعت میں اخلاص کی کمی ہے.ہاں یاد دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ کرواتے رہنا چاہئے.اس کا حکم بھی ہے.وقف جدید کی مالی تحریک تو وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے.اور سوائے استثناء کے الا ماشاء اللہ ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہوان کے بیچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں.اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا.اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہوگا.اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذ بہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہوگا.انشاء اللہ.اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں آسانی سے (جو موجودہ تعداد ہے ) دنیا میں 6 لاکھ کا اضافہ ہو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 226 فرموده 7 جنوری 2005 (اقتباس) خطبه جمعه سکتا ہے، بغیر کسی دقت کے.اور یہ تعداد آسانی سے 10لاکھ تک پہنچائی جاسکتی ہے.کیونکہ موجودہ تعداد 4 لاکھ کے قریب ہے جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا.عورتیں یا درکھیں کہ جس طرح مرد کی کمائی سے عورت جو صدقہ دیتی ہے اس میں مرد کو بھی ثواب میں حصہ مل جاتا ہے تو آپ کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہوگا.اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے اور ان کا اجر دیتا ہے.اور جب بچوں کو عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ مستقل چندہ دینے والے بچے ہوں گے.اور زندگی کے بعد بھی یہ چندہ دینے کی عادت قائم رہے گی تو یہ ماں باپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہو گا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح پر عمل کرنے کے نمونے ، قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نمونے ، ہمیں آخرین کی اس جماعت میں بھی ملتے ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کئے.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 227 خطبه جمعه فرمودہ 28 جنوری 2005ء عملی نمونے سے دوسروں کی تربیت کرنے کی ضرورت خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 2005ء بمقام بیت الفتوح مورڈن ،لندن (اقتباس) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: (فرانس میں ) مرا کو اور الجزائر کی جو عورتیں ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے اور پڑھی لکھی لڑکیوں میں مذہبی رجحان ہے اور بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ عہد بیعت کو نبھا رہی ہیں.بلکہ سختیاں برداشت کرنے کے باوجود اپنے خاندان والوں کو بھی تبلیغ کر رہی ہیں، اپنے گھر والوں کو بھی تبلیغ کر رہی ہیں.اور بڑے درد کے ساتھ اس بات کا احساس رکھتی ہیں اور دعا کے لئے کہتی ہیں کہ ہمارے گھر والے بھی احمدیت قبول کر کے اپنی عاقبت سنوار نے والے بن جائیں.کئی عورتوں اور لڑکیوں نے جو پڑھی لکھی ہیں، یو نیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں، ہچکیوں سے روتے ہوئے مجھے کہا کہ دعا کریں ہماری مائیں، ہمارے باپ، ہمارے بھائی، احمدی ہو جائیں.تو ایک دو کو تو میں نے کہا کہ اپنی ماؤں کو جو ذرا سا نرم گوشہ رکھتی تھیں کسی نہ کسی طرح جلسے پر لے آؤ، چنانچہ اگلے دن وہ لے بھی آئیں.تو ان ماؤں سے اس کے بعد ملاقات بھی تھی.تین
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 228 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 2005ء چارلڑکیوں کی وہ مائیں تھیں.جب ان کی غیر احمدی ما ئیں آئیں، جو مسلمان تھیں، تو میں نے ان سے پوچھا کہ تمہاری بیٹیاں احمدی ہیں اور تم لوگ صرف اس وجہ سے ان پر سختیاں کر رہے ہو کہ وہ احمدی کیوں ہیں.آج تم نے ہمارا یہ جلسہ سنا ہے، مجھے بتاؤ کہ تمہیں یہاں کیا چیز ایسی لگی ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہو.کہنے لگیں کچھ نہیں بلکہ یہاں ہر چیز عین اسلام کے مطابق ہے.تو میں نے ان کو بتایا کہ یہ تو ہماری تعلیم کا حصہ ہے یہ تم نے دیکھ لیا سن لیا، تم اب اپنی بیٹی کو بھی جانتی ہو، یقیناً اس کی دینی حالت کا احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا بھی تمہیں علم ہوگا اور اب کا بھی ہے.پھر تمہارے دوسرے بچے بھی ہیں جو مسلمان ہیں ہم بتاؤ کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد تمہاری بیٹی کی دینی حالت اچھی ہوئی ہے یا اور خراب ہوئی ہے.کہنے لگیں (وہ تین عورتیں تھیں ) کہ ہمارے بچے جو احمدی ہوئے ہیں باقی بچوں کی نسبت گھر میں اسلام کی عملی تصویر کا نمونہ ہیں.میں نے ان کو کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر تم ان پر سختیاں کیوں کر رہی ہو.ان اچھوں میں تو تم لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو بھی شامل کرنا چاہئے.تو بہر حال ان کے دل کافی نرم ہو گئے.کچھ نے کہا ہم سوچیں گے احمدی ہونے کے بارے میں.ایک عورت نے تو وہیں کہا کہ میں بیعت کروں گی.تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چھوٹی سی باتوں سے بعض دفعہ دلوں کو بدل دیتا ہے.ان لوگوں میں شرافت ہے، ہمارے بعض لوگوں اور مولویوں کی طرح بزدل اور ڈھیٹ نہیں ہیں کہ مولوی کا خوف زیادہ ہو اور اللہ کا خوف کم ہو.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جانے سے پہلے اکثر کے رویے بالکل نرم ہو چکے تھے.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ احمدی ہوتی ہیں لیکن بہر حال یہ وعدہ کر کے گئیں کہ اب ہم اپنے احمدی بچوں سے نرم سلوک کریں گے، نرمی کا سلوک کریں گے.اللہ تعالیٰ ان سب بیعت کرنے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے.( سپین کے دورہ میں ) بعض عیسائی خاندان آئے ہوئے تھے ملے، ایکواڈور کی دو تین فیملیاں تھیں، وہ قرطبہ سے جلسے پر آئے ہوئے تھے کسی احمدی کے واقف تھے ، ان میں سے ایک بڑی پڑھی لکھی خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے اس چھوٹی سی جگہ پہ مسجد بنائی ہے یہاں کون آتا ہوگا اور پھر آپ سارے پین میں کس طرح پھیلیں گے.بڑے شہروں میں بنائیں تا کہ تعارف زیادہ ہو.میری آخری تقریر سننے کے بعد مجھے ملی تھیں.میں نے انہیں یہی کہا کہ آج کی تقریر میں میں ذکر کر چکا ہوں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 229 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 2005ء کہ یہ ایک مسجد کی عاجزانہ ابتدا تھی اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اور بھی بنائیں گے اور انشاء اللہ اسلام کوسب سپین میں دوبارہ جائیں گے.پھر مقامی سپینش بھی بہت سارے جلسے میں شامل ہوئے اور کافی متاثر تھے.بہر حال ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے تحریک ہوئی کہ اب سپین میں مسجدوں کی تعمیر ہونی چاہئے جس کی میں نے وہاں ایک خطبے میں تحریک بھی کی تھی.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 230 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2005ء دین کے خلاف لکھنے والوں کے جوابات دینے کیلئے لجنہ کی ذمہ داریاں خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2005ء بمقام بیت الفتوح، مورڈن ،لندن (اقتباس) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایسے لوگ جو یہ لغویات ، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں اس کے لئے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہئے.مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پر نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں ، نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں.اس لئے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں.اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نوجوان بچیاں تلاش کر کے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 231 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2005ء اخبارات یا انٹرنیٹ پر بذریعہ خطوط جوابات آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں.وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جا سکتے ہیں.یہ خطوط گو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کی Effort نہیں ہوگی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں.انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100 خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں.خط کی صورت میں کوئی تاریخی ، واقعاتی گواہی دے رہا ہوگا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کر کے جواب دے رہا ہو گا.اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تصویر واضح ہو گی.ایک حُسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہمیں تحمل سے دین کا دفاع کرنا ہوگا یہ جو تصو ر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے مسلمانوں کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے جلد غصے میں آجاتے ہیں.اس کو بھی اس سے رڈ کرنا ہوگا.ہمارے پاس تو اتنی دلیلیں ہیں کہ ان کے پاس اتنی اپنے دفاع کے لئے نہیں ہیں.لیکن کیونکہ مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں اس لئے انبیاء کے خلاف تو کوئی بات کر نہیں سکتے اور یہ لوگ بے شرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے شر سے پناہ دے.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 232 خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 2005(اقتباس) عیادت مریض بھی خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک ذریعہ ہے خطبہ جمعہ فرموده 15 /اپریل 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن ،لندن (اقتباس) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اپنی امت کو بھی آپ نے اس خلق کو اپنانے اور مریضوں کی عیادت کرنے کی طرف توجہ دلائی.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی.اس پر وہ جواب دے گا تو رب العالمین ہے تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے اور میں تیری عیادت کس طرح کرتا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے اور تو اس کی عیادت کے لئے نہیں گیا تھا.کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا اور اس کی عیادت میری عیادت ہوتی.(مسلم) كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض)
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 233 خطبه جمعه فرمودہ 15 اپریل 2005 (اقتباس) عیادت مریض قرب الہی پانے کا ایک ذریعہ پس مریضوں کی عیادت کرنا بھی خدا تعالیٰ کے قرب کو پانے کا ہی ایک ذریعہ ہے.ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے.خاص طور پر جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں.خدمت خلق کے جو اُن کے شعبے ہیں لجنہ کے خدام کے، انصار کے ایسے پروگرام بنایا کریں کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں، ہسپتالوں میں جایا کریں.اپنوں اور غیروں کی سب کی عیادت کرنی چاہئے اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بھی ایک سنت کے مطابق ہے.اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعے ہم اختیار کریں.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 234 جلسہ سالانہ کینیا2005 کے موقع پر افتتاحی خطاب آئندہ نسلوں کی تربیت کیلئے عورت کی تربیت کرنا ضروری ہے جلسہ سالانہ کینیا 2005 کے موقع پر افتتاحی خطاب (فرمودہ 28 اپریل بمقام پارک لینڈ کینیا ) اقتباس جلسہ سالانہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب عام میں لجنہ اماء اللہ کو بھی ہدایات سے نوازا، جس میں حضور نے فرمایا: پھر ایک اور اہم چیز ہے جس کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے وہ ہے عورتوں کی تربیت.اگر عورتوں کی تربیت نہ کی یا ان کو بھی دین سے اسی طرح آشنا کروانے کی کوشش نہ کی جس طرح مرد خود اپنے لئے توجہ کرتے ہیں تو پھر آئندہ نسلوں کی تربیت کی ضمانت نہیں ہوتی ، اس لئے اس طرف بہت توجہ کریں.تیسری دنیا کے ملکوں میں کم علمی کی وجہ سے مردوں میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ عورتوں کو دین سکھانے کی کیا ضرورت ہے.یا دنیاوی علم زیادہ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے.بعض امیر خاندانوں کی عورتیں دنیا وی علم تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن دینی تعلیم سے بالکل نا واقف ہوتی ہیں.اگر یہ صورت حال احمدی عورت میں بھی رہی تو آپ کی آئندہ نسلیں صحیح طرح تربیت یافتہ نہیں ہونگی.نہ وہ دنیا کے کام آسکیں گی نہ ہی ملک کے لئے فائدہ مند ہونگی.اس لئے اگر انقلابی ترقی کرنی ہے دین میں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 235 جلسہ سالانہ کینیا 2005 کے موقع پر افتتاحی خطاب بھی اور دنیا میں بھی اگر آپ لوگوں نے آئندہ دنیا کا لیڈر بنا ہے تو پھر اپنی عورتوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کریں.ان کا صرف یہی مقام نہیں ہے کہ مارکیٹ میں جا کر کچھ چیزیں بیچ آئیں اور اپنے بچوں کا خرچ برداشت کر لیں اور آپ کے بچوں کو سنبھالیں.بچوں کو سنبھالنا اور ان کو پالنا یقیناً اُن کا فرض ہے لیکن ان کا معاشرے میں ایک مقام بھی ہے.اس لئے مردوں کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھیں.ان کو بھی دینی معاملات میں اپنے ساتھ رکھیں.اسی طرح عورتوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ احمدی عورت کا مقام بہت بلند ہے.اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں.ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کریں کہ وہ دینی علم بھی حاصل کریں اور دنیاوی پڑھائی کی طرف بھی توجہ دیں.ہراحمدی بچے کو خواہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی تعلیم کے میدان میں آگے آنا چاہیے.غربت کی وجہ سے پڑھائی نہیں چھوڑنی چاہئے جماعت اس کا انتظام کرے اور خیال رکھے.عورتیں اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کریں عورتیں اگر خود بھی اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں گی.خود بھی نیکیوں اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا کریں گی.اس بات کا خیال رکھیں گی کہ احمدی ہو کر ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.صرف اس لئے احمدی نہیں ہوئے کہ ہمارے خاوند احمدی ہو گئے تھے.تو پھر یقینا آپ کی نئی نسل ایسی ہوگی جو دین کے لئے بھی مفید ہوگی اور ملک و قوم کے لئے بھی مفید ہوگی.وہ اس کوشش میں ہوگی کہ ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں تو ایک خدا کے آگے ہی جھکنا ہے.دنیا کی طرف نظر نہیں رکھنی.یہ نہیں کہ اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے دوسرے ملکوں یا قوموں سے ہی مانگتے رہنا ہے.بلکہ یہ خیال دلوں میں ہوگا کہ اس خدا کا جس کی ہم عبادت کرتے ہیں.یہ حکم ہے کہ تمام اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ.پس میں پھر یہی درخواست کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بچانے کے لئے پھر اسی معیار پر لانے کے لئے جب یہاں کی معیشت بڑی مضبوط تھی.اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو دنیا کی نظر میں ایک باغیرت اور باعزت قوم کا مقام دلوانے کے لئے ، آپ کو تمام اعلیٰ اخلاق اپنانے ہونگے جن کی خدا تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے اور جن کا ذکر بڑی وضاحت سے قرآن کریم میں ہے.تمام ان برائیوں کو چھوڑ نا ہوگا.جن سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور سب
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 236 جلسہ سالانہ کینیا 2005 کے موقع پر افتتاحی خطاب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی عبادت کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی.جو اس کا حق ہے.اور گھر کا ہر فرد، جماعت کا ہر فرد، بچہ بوڑھا ، عورت مرد اس سوچ کے ساتھ جب اللہ کے حضور جھکیں گے تو آپ یقیناً اپنی زندگیوں میں بھی اور اس ملک میں بھی انقلاب لانے والے ہونگے.اور دنیا دیکھے گی کہ جن کو ہم کمتر سمجھتے تھے وہ کمتر نہیں بلکہ ہمارے برابر ہیں.اللہ آپ کو اپنا یہ مقام پہچاننے کی توفیق دے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 237 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 ء مستورات سے خطاب (فرموده 10 مئی 2005) شرک اور بدشگونی اور جادوٹونے سے بچیں آئندہ نسلوں کے اندر حقیقی اسلام کا بیج بونا ہے اولاد کی صحیح تربیت کریں تا کہ وہ معاشرے کا ایک اچھا حصہ بنے عورت کو اپنی عزت کی حفاظت اور نیکیاں پھیلانے کیلئے زیادہ کوشش کرنی چاہئے ایڈز کی وبا سے بچنے کی تلقین بچوں کی تربیت میں علاوہ دنیاوی تعلیم کے دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 238 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب عورتوں کا فرض اپنے آپ کو سنبھالنا ہے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی سنبھالنا ہے تشہد ،تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھے خوشی ہے کہ میں آج اس ملک میں احمدی بہنوں سے براہ راست مخاطب ہوں.اس وقت میں آپ کو چند باتیں کہنا چاہوں گا.اور یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اسلام میں عورت کا ایک خاص مقام ہے.اور ہر احمدی عورت جس نے زمانے کے امام کی بیعت میں شامل ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرونگی.اس کو اس مقام کو سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے.عورت کی اسلام میں اہمیت کا اس بات سے اندازہ کریں کہ قرآن کریم میں عورتوں سے بیعت لینے کے الفاظ کا علیحدہ ذکر آیا ہے.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ علیحدہ شرائط بتائیں جن پر عورتوں سے بیعت لی جائے.یہ سب اس لئے تھا کہ اگر عورت اس عہد پر قائم ہو جائے.اور ان برائیوں کے خلاف جہاد کرے اور ان نیکیوں کو اختیار کرے تو آئندہ نسلوں کی پاکیزگی اور تقویٰ کی بھی ضمانت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَنْ لَّا يُشْرِكْنَ
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 239 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب ط بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانِ يَفْتَرِيْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (الممتحنة: 13) یعنی اے نبی ! جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں (اور ) اس (امر) پر تیری بیعت کریں کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی (کسی پر ) کوئی جھوٹا الزام لگا ئیں گی جسے وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے سامنے گھڑ لیں اور نہ ہی معروف (امور ) میں تیری نافرمانی کریں گی تو تو اُن کی بیعت قبول کر اور اُن کیلئے اللہ سے بخشش طلب کر.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.شرک اور بدشگونی اور جادو ٹونے سے بچیں یعنی یہ ایمان والی عورتوں کی نشانی ہے کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہراتیں.اب شرک صرف بت پرستی ہی نہیں ہے.عورتوں میں طبعا طبیعت میں کمزوری اور وہم پایا جاتا ہے.اور اس کمزوری کی وجہ سے عام طور پر ان سے ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو شرک کے زمرے میں آتی ہیں.مثلاً یہ کہ کوئی عورت یہ خیال کرے کہ میرے خاوند پر فلاں شخص نے کوئی جادوٹو نا کر دیا ہے اور وہ مجھے چھوڑ کر دوسروں میں دلچسپی لینے لگ گیا ہے.یا یہ خیال کہ میرے بچے پر کسی نے جادو کر دیا ہے.اس وجہ سے وہ کمزور ہے یا بیمار ہے.یا فلاں کام اس طرح ہو گیا ہے جو کہ بدشگونی ہے اور اب میرے قسمت کے تارے گردش میں ہیں اور مجھے نقصان پہنچے گا تو یہ سب باتیں شرک میں شامل ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ شرک کرنے والے سخت گناہ گار ہیں.ان عورتوں نے یا مردوں نے جو بھی کریں (لیکن یہاں کیونکہ عورتوں کا ذکر ہے اس لئے عورتوں کی مثال لے رہا ہوں.) یہ گمان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاس طاقت نہیں ہے بلکہ اس جادو ٹو نہ کرنے والے کے پاس طاقت ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ جب بھی ایسی حالت پیدا ہو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دعاؤں پر زور دیا جائے صدقہ پر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 240 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب زور دیا جائے.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے اور زیادہ اس کی طرف جھکا جائے کہ خدا تعالیٰ میرے خاوند کو نیکی کی طرف لائے اور وہ میرے حقوق ادا کرنے والا ہو اور اللہ کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو.بچہ بیمار ہے یا کوئی تکلیف ہے تو دنیاوی تدبیر کے ساتھ دعا اور صدقات پر زور دیا جائے.پھر اس کے علاوہ بھی اور بہت سی مثالیں ہیں جہاں انسان چھوٹے چھوٹے روز مرہ کے معاملات میں خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے دنیا کی تدبیروں پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کو بھول جاتا ہے.اور جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو اللہ کی طرف جھکنے اور اس کی عبادت کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں رہتی.آئندہ نسلوں کے اندر حقیقی اسلام کا بیج بونا ہے اور اگر عورت میں یہ چیز پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آئندہ نسلوں میں بھی بگاڑ پیدا ہو جائے گا.اور پھر جو بیج احمدیت اور حقیقی اسلام کا آپ نے اپنے اندر بویا ہے اس کے اعلیٰ اور میٹھے پھل لگنے کے بجائے کڑوے اور بدمزہ پھل لگیں گے.جو شائد ظاہر میں دیکھنے میں تو اچھے لگیں لیکن حقیقت میں بے فائدہ ہو نگے.بلکہ ہو سکتا ہے ایسے بچے جب بڑے ہوں تو اور بہت سوں کو بھی بگاڑنے کا باعث بنیں.پس عورتوں کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو سنبھالنا ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی سنبھالنا ہے.اور پھر اس آیت میں دوسری بہت سی برائیوں کا بھی ذکر ہے.چوری نہیں کریں گی.زنا نہیں کریں گی.جھوٹے الزام نہیں لگائیں گی.ان سب برائیوں کا ذکر کر کے یہ بتایا کہ ان برائیوں سے بچنا آئندہ نسلوں کو بچانے کے لئے انتہائی ضروری ہے.اسی لئے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے یہ ذکر بھی فرما دیا.اس بات پر بھی عہد لے لیا کہ اولاد کو قتل نہیں کریں گی.اب اولا دکوکون عقل مند قتل کرتا ہے.عورت جب ماں بننے والی ہوتی ہے تو ماں بننے سے پہلے ہی اس کے اپنے ہونے والے بچے کے لئے پیار اور محبت کے جذبات ہوتے ہیں.تو جس کے جذبات پہلے سے ایسے ہوں اس کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قتل کرے گی.پھر بچے کی پیدائش کے بعد کیسی تکلیفیں ماں بچے کو پالنے پوسنے کے لئے برداشت کرتی ہے.اس کو ہر وقت اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے تو کون عقل مند
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 241 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب کہ سکتا ہے کہ عورت اپنے اس بچے کو جسے اس نے اس طرح اپنے ساتھ چمٹایا ہوا ہے قتل کر دے گی.تو یقیناً اس کا کچھ اور مطلب ہے.اور وہ وہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ جب عورت بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرے گی.جب اپنے عمل سے اسے یہ نہیں بتائے گی کہ برائی کیا ہے اور اچھائی کیا ہے.اس وقت تک بچہ صحیح تربیت حاصل نہیں کرے گا.اور جب بچہ ان برائیوں کو سیکھے گا تو معاشرے کا ایسا حصہ ہو گا جو نقصان دہ ہے اور کاٹے جانے کے لائق ہے.ایک دفعہ ایک آدمی جس نے جرموں کی انتہا کر دی تھی.کئی قتل کئے.کئی ڈاکے ڈالے.اور دوسرے کئی قسم کے بے انتہا جرم کئے.وہ پکڑا گیا اور ان جرموں کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزا ہوئی.تو جب پھانسی پر لٹکانے لگے تو اس سے پوچھا تیری کوئی خواہش ہے؟ اس نے کہا.ہاں میری ایک خواہش ہے.اور وہ یہ کہ پھانسی پر جانے سے پہلے مجھے میری ماں سے ملوا دو اور اس کو بالکل میرے قریب لے آؤ اور سب پیچھے ہٹ جائیں.چنانچہ اس کی یہ خواہش جب پوری کی گئی تو اس نے اپنی ماں کو کہا پھانسی چڑھنے سے پہلے تجھے پیار کرنا چاہتا ہوں لیکن پیار بھی تیری زبان پر کرنا چاہتا ہوں چنانچہ ماں نے بچے کی خواہش کے مطابق اپنی زبان باہر نکالی تو اس شخص نے اپنی ماں کی زبان کو اپنے دانتوں سے اس زور سے کاٹا کہ وہ آدھی علیحدہ ہوگئی.ماں درد کی شدت سے شور مچانے لگی.جیل کے سپاہی جو ساتھ کھڑے تھے وہ دوڑے ہوئے آئے اور اُسے کہا بے شرم انسان تجھے شرم نہیں آئی کہ اتنے جرم کرنے کے بعد تجھے پھانسی لگ رہی ہے اور آج کوئی نیک کام کرنے کی بجائے تو نے اپنی ماں کی زبان کاٹ دی تو اس نے کہا آج ہی تو میں نے نیک کام کیا ہے.میں نے جب چھوٹے چھوٹے جرم کرنے شروع کئے تھے تو لوگ جب میری شکایت کرتے تھے تو میری ماں میری طرفداری کرتی تھی.اور باوجود پتہ ہونے کے مجھے ان کاموں سے روکتی نہیں تھی.جس سے مجھے آہستہ آہستہ جرأت پیدا ہوئی اور میں بڑا مجرم بن گیا.اگر میری ماں کی یہ زبان مجھے اس وقت نیکی اور برائی کی تمیز سکھاتی تو میں مجرم نہ بنتا.پس میں نے اپنے ساتھ اپنی ماں کو جو سزا دی ہے وہ جائز ہے.اور ایسی ماؤں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے.تو دیکھیں بری تربیت کی وجہ سے جو اخلاقی قتل بچے کا ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے.اس شخص کا جسمانی قتل بھی پھانسی چڑھ کر ہو گیا.پس ہمیشہ بچوں کی نیک تربیت کی طرف توجہ دیں تا کہ انہیں قتل ہونے سے بچا ئیں.جو عورتیں گھر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 242 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب میں اپنے بچوں کی نیک تربیت اور دیکھ بھال کرتی ہیں ان کا مقام بہت بلند ہے.بلکہ جہاد کرنے کے برابر درجہ ہے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ،اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے عورتوں نے آپ کے پاس اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے پوچھا ہے کہ کیا جہا د صرف مردوں پر فرض ہوا ہے کہ اگر وہ زخمی ہو جائیں تو اجر پائیں اور شہید ہو جائیں تو اپنے رب کے پاس زندہ رہیں گے، اس کے انعامات سے فائدہ اٹھارہے ہوں گے مگر ہم عورتیں جو ان کے پیچھے ان کے گھروں اور بچوں کی نگرانی کرتی ہیں ہمیں کیا اجر ملے گا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں سے تم ملوان کو یہ بات پہنچا دو کہ شوہروں کی اطاعت کرنا اور ان کے حقوق کو پہچاننا جہاد کے برابر درجہ رکھتا ہے.لیکن تم میں سے بہت کم عورتیں ایسا کرتی ہیں.تو دیکھیں مسلمان عورتیں کس طرح بے چین رہا کرتی تھیں کہ ثواب کے موقعے ملیں.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے موقعے ملیں.اور صحابہ کے بچوں کی نگہداشت اور پرورش ان کی بیویاں اس نیت سے کر رہی ہوتی تھیں کہ ان کو سکون سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے دیا جائے اور بچوں کی طرف سے بے فکر رکھا جائے.لیکن ساتھ یہ بھی سوچ تھی کہ ہمیں اس کا ثواب بھی مل رہا ہے یا نہیں.تو اللہ کے رسول نے فرمایا ہاں تمہیں بھی ان کے برابر ثواب اور اجر ملے گا.اگر تم بچوں کی نیک تربیت کر رہی ہو.اولاد کی صحیح تربیت کریں تا کہ وہ معاشرے کا ایک اچھا حصہ بنے اس حدیث میں جو اصل سبق ہے وہ یہ نہیں کہ صرف جہاد کرنے والے لوگوں کی بیویوں کو ان کے بچوں کو پالنے کی وجہ سے اجر ملے گا.بلکہ سبق یہ ہے کہ عورت جب اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے اور اس کے بچوں کی صحیح طریق سے نگہداشت اس لئے کر رہی ہے کہ اس کی اور اس کے خاوند کی اولاد برباد نہ ہو، بلکہ معاشرے کا ایک اچھا حصہ بنے تو اللہ اجر دیتا ہے.تلوار کا جہاد تو اب حضرت مسیح موعود کے آنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق ختم ہو گیا.اب جہاد یہی ہے کہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 243 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب اللہ کی عبادت کرو اور دنیا میں نیکیوں کو رائج کرو.خاوندوں کی اطاعت گزار بنو.یہ نہ سمجھیں کہ بچوں کی اچھی تربیت کرنے والے کو ثواب ہے اور جو بچوں پر توجہ نہ دے سکے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا، جو جی چاہے کریں.بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ جس طرح مرد اپنے گھر کا نگران ہے.اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اپنے بیوی بچوں کی خوراک ، رہائش اور کپڑوں اور دوسری ضروریات کا انتظام کرے، انہیں پوری کرے.اسی طرح عورت بھی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کو سنبھالے.ان کی پرورش کرے.ان کی اعلی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دے.اگر وہ یہ نہیں کرتی تو بحیثیت گھر کے نگران اور محافظ ہونے کے اس سے اللہ تعالیٰ حساب کتاب لے گا.عورت کو اپنی عزت کی حفاظت اور نیکیاں پھیلانے کیلئے زیادہ کوشش کرنی چاہئے پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے احمدی مسلمان عورت پر اور ہر عورت کو اس کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.اس زمانے میں تو ایک لحاظ سے آپ خوش قسمت ہیں کہ تبلیغی اور تربیتی اور نیکیوں کے پھیلانے کا جہاد ہے جس میں عورتیں بھی اسی طرح حصہ لے سکتی ہیں جس طرح مرد.اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات پر زائد اجر دے گا کہ آپ نے اپنے خاوند کے بچوں کی اچھی تربیت کی ، اپنی گھریلو گا ذمہ داریاں پوری کیں.پس ہر احمدی عورت کو چاہئے کہ بڑھ چڑھ کر اس جہاد میں حصہ لے.معاشرے میں نیکیاں پھیلانے اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خود بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں.اپنی اولاد کی تربیت بھی ایسے طریقے سے کریں کہ ان میں صرف نیکیوں اور اچھائیوں کے کوئی اور بات نظر ہی نہ آئے اور ہر دیکھنے والا کہے کہ یہ احمدی ماؤں کے بچے کیسے تمیز دار ہیں.کتنے اچھے اخلاق کے مالک ہیں.دنیا کے گند کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے.اور پھر جب آپ جہاد کی صورت میں اپنے معاشرے میں بھی یہ نیکیاں رائج کرنے کی کوشش کریں گی تو آپ کے دل کو بھی سکون مل رہا ہوگا اور اس بات کی خوشی ہوگی کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں.آجکل معاشرے میں بے حیائی اور نگ اور مرد عورت کا آپس میں میل جول عام ہے.احمدی عورتیں اگر پاکیزہ ہو کر دوسروں کو بتا ئیں گی کہ عورت کی عزت اسی میں ہے کہ پاک باز رہے تو یہ نمونہ نیکیاں پھیلانے کا باعث بنے گا.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 244 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب ایڈز کی وہا سے بچنے کی تلقین آجکل دنیا میں ایڈز کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور بدقسمتی سے افریقن ممالک بھی اس کی لپیٹ میں بہت زیادہ ہیں.اور جیسا کہ قرآن کریم نے زنا سے بچنے کی تلقین کی ہے.اس گند سے بیچ کر اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے.احمدی عورت ایک جہاد کرے کہ اس نے اس بیماری کے خلاف بھی جہاد کرنا ہے.غیروں کو بھی بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دور جاؤ گی تو اس کی گرفت میں آؤ گی اور پھر جتنی زندگی بھی بقایا ہے.بڑی اذیت ناک زندگی ہوگی.اور اس بیماری اور اس سے موتوں کی پیش گوئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ سو سال پہلے کر دی تھی.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم میں زنا پھیلا ان میں اموات کی کثرت ہوگی.گو اس بیماری میں مرد بھی اسی طرح ذمہ دار ہیں جس طرح عورتیں.لیکن عورت کو اپنی عزت کی حفاظت اور نیکیاں پھیلانے کے لئے زیادہ کوشش کرنی چاہئے.اگر آپ آج اپنے ملک میں اس بیماری سے بچنے کے لئے جہاد شروع کریں گی تو یا درکھیں آئندہ نسلیں آپ کے اس احسان کو کبھی نہیں بھولیں گی.اور اگر آج آپ نے اس طرف توجہ نہ دی تو آئندہ آنے والی نسلیں آپ کو الزام دیں گی کہ اللہ اور رسول کا حکم سنے کے بعد بھی کیوں اس طرف توجہ نہ دی.گواس وقت چند فیصد لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں لیکن وبا ئیں جب پھیلتی ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا.اللہ آپ کو اس طرف توجہ کی توفیق دے.بچوں کی تربیت میں دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے پھر بچوں کی تربیت میں علاوہ دنیاوی تعلیم کے دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.آپ اگر ان پڑھ بھی ہیں تو تب بھی بچپن سے اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دیں کہ تم نے تعلیم حاصل کرنی ہے.اور کم از کم سکول کی آخری کلاس تک ضرور پڑھنا ہے.اور پھر اگر نہ پڑھنا ہو تو ہنر سیکھیں.جس سے ملک و قوم پر بوجھ کے بجائے اس کی خدمت کر سکیں.پھر سب سے اہم دینی تعلیم ہے.آپ خود بھی یہ حاصل کریں قرآن کریم پڑھنا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی ضرور پڑھائیں.اگر احمدی ہونے کے بعد کسی احمدی کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا تو اس کا احمدی ہونا
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 245 جلسہ سالانہ تنزانیہ 2005 مستورات سے خطاب بے فائدہ ہے.تو جب آپ قرآن پڑھیں گی اور بچوں کو بھی خاص توجہ سے قرآن کریم پڑھوائیں گی تو انشاء اللہ اس کی برکت سے آپ اپنی زندگیوں میں بھی، اپنے بچوں کی زندگیوں میں بھی انقلاب لانے والی ہونگی اور اگر آپ کے خاوند نیکیوں سے دور ہٹے ہوئے ہیں تو ان کی اصلاح کا باعث بھی بن جائیں گی.مجھے امید ہے کہ اگر آپ اس بات کا عہد کر لیں تو ضرور معاشرے میں یہ انقلاب پیدا کر کے دکھا سکتی ہیں.افریقہ میں عموماً عورتیں بہت زیادہ محنت کرنے والی اور قربانی کرنے والی ہیں.پس آپ لوگ اپنی اس خصوصیت کو اپنی اصلاح، اپنی نسلوں کی اصلاح ، اپنے ماحول اور معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال کریں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ نیکیوں کو رائج کرنے اور پھیلانے کے لئے اگر آپ ایک جہاد کی صورت میں کوشش کریں گی ، جس کے لئے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کو بھی بہت فعال ہونا چاہئے تو آپ انشاء اللہ اس ملک کو موجودہ حالت سے بہت ترقی کی طرف لے جاسکتی ہیں.اللہ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اور آپ کی آئندہ نسلیں تنزانیہ کو ایک ایسا ترقی یافتہ اور اخلاق میں بڑھا ہوا ملک دیکھیں جو ایک خوبصورت معاشرہ کی مثال ہو اور ایک ترقی یافتہ قوم کا نمونہ ہو.اللہ آپ کو اس کی تو فیق دے.آمین.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 246 خطبه جمعه فرمودہ 27 مئی 2005 (اقتباس) اگر یہ جماعت ایمان بالخلافت پر قائم رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلۂ خلافت قائم رہے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005 ء بمقام بیت الفتوح مورڈن ،لندن (اقتباس) افریقہ کے دورہ میں افراد جماعت کی خلافت سے بے پناہ محبت اور اخلاص و وفا کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلۂ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا.“ پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یادرکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 247 خطبه جمعه فرمودہ 27 مئی 2005 (اقتباس) قربانیاں دیں.آپ میں سے بہت بڑی تعداد جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یا جو میری زبان میں میری باتیں سمجھ سکتے ہیں اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر ایمان واخلاص میں ترقی کریں.ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو باوجود زبان براہ راست نہ سمجھنے کے، باوجود بہت کم رابطے کے، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی خلیفہ کو دیکھا ہوگا اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں.مثلاً یوگنڈا میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ، دواڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جارہی تھی.اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی ، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آ رہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہورہا تھا.اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی.اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی.آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا.ہاتھ ہلایا.تب ماں کو چین آیا.تو بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو.تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 248 خطبہ جمعہ فرموده 17 جون 2005(اقتباس) مسجدیں بناؤ اور جماعتیں بڑھاؤ خطبہ جمعہ فرمود : 17 جون 2005 ء بمقام کیلگری، کینیڈا (اقتباس) فرمایا: کیلگری ( کینیڈا) میں مسجد احمدیہ کا سنگ بنیا درکھنے سے ایک روز قبل حضور انور نے خطبہ جمعہ میں یہ مسجد جو آپ بنا رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بنے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اگر جماعت کو بڑھانا ہے تو جس جگہ بڑھانا چاہتے ہو اس شہر یا قصبہ میں مسجد بنادوں تو یہ مسجد تو انشاء اللہ لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بنے گی لیکن یہ دلچسپی ،لوگوں کی توجہ آپ کی طرف ، احمدیت کی طرف اور اسلام کی طرف تبھی ہوگی جب آپ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے، آپ کے قول و فعل ایک دوسرے سے ٹکراتے نہ ہوں گے.جیسا کہ میں بڑی تفصیل سے پہلے کہہ آیا ہوں کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں.حقوق العباد کے معیار بلند کریں.یہ چیزیں جہاں آپ پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ڈال رہی ہوں گی وہاں اس علاقے میں احمدیت کا پیغام بھی پہنچانے کا باعث بن رہی ہوں گی.پس اس نیت سے بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں.جو مالی قربانی میں زیادہ بڑھ نہیں سکتے وہ اپنے نفس کی اصلاح میں تو بڑھ سکتے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 249 خطبہ جمعہ فرموده 17 جون 2005(اقتباس) ہیں.وہ اپنی عبادتوں کے معیار میں تو بڑھ سکتے ہیں.وہ علاقے میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں تو بڑھ سکتے ہیں.شہر میں اگر کوئی زیادہ مذہب کی طرف توجہ نہیں دیتا تو اردگرد کے علاقوں میں نکل جائیں.علاقے کے لوگ بڑے دوست دار ہیں، ملنے جلنے والے ہیں.ہر طبقے کے احمدی بوڑھا، بچہ، جوان عورتیں اگر سنجیدگی سے اس طرف توجہ کریں تو جماعت کا کافی تعارف ہو سکتا ہے.اور یہ تعارف ہی بعض نیک روحوں کو جماعت کی طرف لے آنے کا باعث بنے گا.اور انشاء اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں یہاں بھی اور وینکوور میں بھی اور جگہ بھی جہاں مساجد بن رہی ہیں علاقے میں آپ کے تعارف ،احمد بیت اور اسلام کے نفوذ کا باعث بنیں گی.خدا کے نبی کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہے کہ مسجدیں بناؤ اور جماعتیں بڑھاؤ.تو وہ تو انشاء اللہ پوری ہوگی.بشرطیکہ ہم ایک توجہ کے ساتھ ، ایک لگن کے ساتھ کوشش کریں.لیکن بنیادی بات یاد رکھیں جس پر ساری بنیاد ہے کہ تقویٰ کو قائم کریں اور تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے تمام عملوں کو ڈھالیں.اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 250 خطبه جمعه فرموده 24 جون 2005ء بمقام انٹرنیشنل سینٹرٹورانٹو ( کینیڈا) (اقتباس) ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے نمازوں کی حفاظت اور نگرانی ہی اس بات کی ضامن ہوگی کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو گنا ہوں اور غلط کاموں سے پاک رکھے تقویٰ کا اعلیٰ معیار تبھی قائم ہوسکتا ہے جب پیار، محبت اور عاجزی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی روح پیدا ہو شادی کے بعد میاں بیوی اپنے اندر تلخیاں نہ پیدا ہونے دیں کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں آپس میں ایسی محبت پیدا کریں کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 251 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 2005 (اقتباس) مرد تقویٰ اور محبت پر قائم ہوتے ہوئے اپنی بیویوں کے قصور معاف کریں اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں وو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے اور انہیں وقت مقررہ پر ادا کرنا چاہئے.اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لے کر آنا ہے، اگر تو حید کو قائم کرنے کا دعوی کرنے والا بننا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہوں گے.اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہوگی ، کاموں کے عذر کی وجہ سے دو پہر کی یا ظہر کی نماز اگر آپ چھوڑتے ہیں تو نمازوں کی حفاظت کرنے والے نہیں کہلا سکتے.بلکہ خدا کے مقابلے میں اپنے کاموں کو ، اپنے کاروباروں کو اپنی حفاظت کرنے والا سمجھتے ہیں.اور اگر فجر کی نماز تم نیند کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر رہے تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا کا خوف ہے اور ہم اس کے آگے جھکنے والے ہیں.اسی طرح کوئی بھی دوسری نماز اگر عادتا یا کسی جائز عذر کے بغیر وقت پر ادا نہیں ہو رہی تو وہی تمہارے خلاف گواہی دینے والی ہے کہ تمہارا دعوئی تو یہ ہے کہ ہم خدا کا خوف رکھنے والے ہیں لیکن عمل اس کے برعکس ہے.اور جب یہ نمازوں میں بے تو جہگی اسی طرح قائم رہے گی اور نمازوں کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو پھر یہ رونا بھی نہیں رونا چاہئے کہ خدا ہماری دعائیں نہیں سنتا.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 252 خطبه جمعه فرمودہ 24 جون 2005(اقتباس) نمازوں کی نگرانی ہماری اگلی نسلوں کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ضامن ہوگی نمازوں کی حفاظت اور نگرانی ہی اس بات کی ضامن ہوگی کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو گنا ہوں اور غلط کاموں سے پاک رکھے.ہماری نمازوں میں با قاعدگی یقیناً ہمارے بچوں میں بھی یہ روح پیدا کرے گی کہ ہم نے بھی نمازوں میں با قاعدہ ہونا ہے.اس کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح ہمارے والدین کرتے ہیں.اور جب یہ بات ان بچوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے گی، بیٹھ جائے گی کہ ہم نے نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنی ہے تو پھر والدین کو یہ چیز اس فکر سے بھی آزاد کر دے گی کہ اس مغربی معاشرے میں جہاں ہزار قسم کے کھلے گند اور برائیاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، ہر وقت والدین کو یہ فکر رہتی ہے کہ ان کے بچے اس گند میں کہیں گر نہ جائیں.دعا کے لئے لکھتے ہیں، کہتے بھی ہیں اور خود کوشش بھی کرتے ہوں گے، دعا بھی کرتے ہوں گے.اگر اپنے بچوں کو ان گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچانا ہے تو سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ نمازوں میں با قاعدہ کریں.کیونکہ اب ان غلاظتوں اور اس گند سے بچانے کی ضمانت ان بچوں کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دے رہی ہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ: إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (التبوت: 46) یعنی یقیناً نماز بدیوں اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.گویا ان نمازوں کی حفاظت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان نمازوں کے ذریعہ سے ضمانت دے دی ہے کہ خالص ہو کر میرے حضور آنے والے اب میری ذمہ داری بن گئے ہیں کہ میں بھی اس دنیا کی گندگیوں اور غلاظتوں سے ان کی حفاظت کروں اور ان کو نیکیوں پر قائم رکھوں ، تقویٰ پر قائم رکھوں....تقویٰ کا اعلیٰ معیار تبھی قائم ہو سکتا ہے جب پیار، محبت اور عاجزی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی روح پیدا ہو.کیونکہ جس میں اپنے بھائی کے لئے محبت نہیں اس میں تقوی بھی نہیں.جس میں انکسار نہیں وہ بھی تقویٰ سے خالی ہے.جس دل میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نرمی نہیں وہ بھی تقویٰ سے عاری ہے.جو بیوی یا خاوند ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ بھی تقوی سے خالی ہیں.جو عہدیدار اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وہ بھی تقویٰ سے خالی ہیں.غرض کہ جو دل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 253 خطبه جمعه فرمودہ 24 جون 2005(اقتباس) بھی اپنی انا اور تکبر یا کسی بھی قسم کی بڑائی دل میں لئے ہوئے ہے وہ تقویٰ سے عاری ہے.جو بھی اپنے علم کے زعم میں دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے وہ تقویٰ سے خالی ہے.لیکن جو لوگ اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ عاجزی اور انکساری دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی عزت کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں ، ان کے حقوق ادا کرتے ہیں ، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں اور یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف ہے، صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.صرف اس لئے کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے اس کی مخلوق سے محبت پر بھی ان کو مجبور کیا ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے بے انتہا انعام پانے والے ہیں.ایسے ہی لوگوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ایک حدیث میں اس بارے میں ذکر آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.اور آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا.(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة والأدب، باب فضل الحب في الله تعالى) تو دیکھیں جو لوگ خدا تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے ، اس کے رعب اور اس کی عظمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ان کے دل اس خوف سے کانپتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا نہ کر کے وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائیں.ایسے بندے وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہیں.پس یہ وہ روح ہے جو ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے.کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد آپ ہی وہ قوم ہیں جن پر دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی خواہش ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کی مخلوق سے محبت بھی اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے انجام بخیر کے لئے اور اس کے سایہ رحمت میں جگہ پانے کے لئے کرنی ہوگی.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 254 خطبه جمعه فرمودہ 24 جون 2005(اقتباس) میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں نہیں پیدا ہونی چاہئیں..مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں.اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے.ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا.یا کوشش یہ ہوتی ہے کہ لڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ (Understanding) نہ ہو.اور ان کا آپس میں اعتماد پیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے.یا پھر اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے تو ڑ دیتے ہیں.کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے.ان لڑکوں کو کچھ تو خدا کا خوف کرنا چاہئے.ان لوگوں نے ، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے ، آپ پر احسان کیا ہے کہ باہر آنے کا موقع دیا.تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی.ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو 15-20لاکھ روپیہ خرچ ہوتا.مفت میں یہاں آگئے.کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں.تو یہاں آ کر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں.یہاں آکر رشتے توڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں.اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں.اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں.پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں.کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو.پھر بعض لڑکے، لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے ہیں.بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں.اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشترکہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایا اور پھر بچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 255 خطبہ جمعہ فرموده 24 جون 2005 (اقتباس) کچھ مرد غلط الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں.ایسے لوگوں کا تو قضا کو کیس سننا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں.ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے.غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہورہا ہے.اور پھر اس طبقے کے لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں.بعض بچیوں کے جب دوسری جگہ رشتے ہو جاتے ہیں تو ان کو تڑوانے کے لئے غلط قسم کے خط لکھ رہے ہوتے ہیں.کوئی خوف نہیں ایسے لوگوں کو.اللہ تعالیٰ کے عظمت و جلال کی ان کو کوئی بھی فکر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت سے دور رہنے کی ان کو کوئی بھی پروا نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ کے حکم کے خلاف چلتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کریں اور اس تکلیف پر ایک جسم کی طرح، جس طرح جسم کا کوئی عضو بیمار ہونے سے تکلیف ہوتی ہے اُسے محسوس کریں، بے چینی کا اظہار کریں وہ بے حسی میں بڑھ جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو.میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے.اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے.یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے.تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں.وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی.ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں.ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں.اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے.جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے.وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے.دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے.دنیا کو دھوکا دے سکتے ہو کہ ( میری بیوی نے یہ کچھ کیا تھا یا -
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 256 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 2005 (اقتباس) بعض اوقات بیویاں خاوند پہ الزام لگا دیتی ہیں لیکن اکثر صورتوں میں بیویوں پر ظلم ہورہا ہوتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے.اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ مرد عورت کو دھوکا دیتے ہیں.لڑکیاں بھی بعض اس زمرے میں شامل ہیں لیکن ان کی نسبت بہت کم ہے.عہدیدارا اپنے رویوں کو بدلیں اور غلط طور پر مردوں کی طرفداری کی کوشش نہ کریں اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہیں.عہد یداروں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویوں کو بدلیں.اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں.یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری کارروائی کرنی پڑے.عہد کریں کہ نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی مجلس میں ایک صحابی کی اپنی بیوی سے سختی کی باتوں کا ذکر ہورہا تھا.جو صحابہ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بات پر اس قدر رنج اور غصہ تھا کہ ہم نے کبھی ایسی حالت میں آپ کو نہیں دیکھا.ایک اور صحابی اس مجلس میں بیٹھے تھے جو اپنی بیوی سے اسی طرح سختی سے پیش آیا کرتے تھے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ حالت دیکھ کر اس مجلس سے اٹھے، بازار گئے، بیوی کے لئے کچھ تحفے تحائف لئے اور گھر جا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھے اور بڑے پیار سے اس سے باتیں کرنے لگے.بیوی حیران پریشان تھی کہ آج ان کو ہو کیا گیا ہے.یہ کا یا کس طرح پلٹ گئی، اس طرح نرمی سے باتیں کر رہے ہیں.آخر ہمت کر کے پوچھ ہی لیا، پہلے تو جرأت نہیں پڑتی تھی.کہنے لگے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیویوں پر سختی کرنے کی وجہ سے بہت غصے کی حالت میں دیکھا ہے.اس سے پہلے کہ میری شکایت ہوئیں اپنی حالت بدلتا ہوں.تو دیکھیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ بنیں.ان صحابی نے فورا توبہ کی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 257 خطبه جمعه فرمودہ 24 جون 2005(اقتباس) اور نمونہ بننے کی کوشش کی.آج آپ میں سے اکثریت بھی جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے یا کم از کم کافی تعداد میں یہاں لوگ ایسے ہیں جو ان صحابہ کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے بیعت کے بعد نمونہ بننے کی کوشش کی اور بنے.آپ بھی اگر اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ نیکیاں اختیار کریں.آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں.اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں.اور جولڑ کی والے ہیں زیادتی کرنے والے، وہ عہد کریں کہ لڑکوں کے قصور معاف کرنے ہیں.تو ان جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف خاندانوں میں، معاشرے میں جو تلخیاں ہیں وہ دور ہوسکتی ہیں.اگر ایسی چیز میں ختم کر دیں اگر ان عائلی جھگڑوں میں ، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے ، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے ، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں.اور اسی طرح بعض اور وجوہ کی وجہ سے معاشرے میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں.جھوٹی اناؤں کی وجہ سے جو نفرتیں معاشرے میں پنپ رہی ہیں یا پیدا ہو رہی ہیں ان کو دور کریں.ایک دوسرے کی غلطیوں اور زیادتیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کو اختیار کریں.ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی برائیاں مشہور کرنے کی بجائے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کریں.ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھنی چاہئے.اللہ کا خوف کرنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے.جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روی میں لگا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے.اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے مصائب میں سے ایک مصیبت اس سے کم کر دے گا.اور جو کسی مسلمان کی ستاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا.(سنن ابی داؤد کتاب الأدب باب المواخاة) آپس میں ایسی محبت پیدا کریں کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں پس اپنے دل میں ہر وقت یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے.اس کو سب علم
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 258 خطبه جمعه فرمودہ 24 جون 2005(اقتباس) اور خبر ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے.اگر اس نے آپ کی برائیوں کو دنیا پر ظاہر کر دیا تو آپ کا کیا حال ہو گا.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ ستاری فرمائے تو اس سے زیادہ اور بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے.انسان گناہگار ہے، غلطی کا پتلا ہے اس سے اگر اللہ تعالیٰ حساب کتاب لینے لگ جائے اور ستاری نہ فرمائے تو کیا رہ جاتا ہے.پس آپس میں ایسی محبت پیدا کریں کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں.دوسرے کی ضروریات کو اس لئے پورا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا باعث بنے گی اور آپ کی ضرورتیں بھی خدا تعالیٰ پوری فرماتا رہے گا.دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے اللہ تعالیٰ آپ کی بھی تکلیفیں دور فرمائے گا.اور سب سے بڑی بات جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ قیامت کے دن ستاری ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زمرے میں شامل فرمائے جن سے ہمیشہ ستاری اور مغفرت کا سلوک ہوتا رہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 259 جلسہ سالانہ کینیڈا 2005 کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 25 جون 2005 ء بمقام انٹرنیشنل سینٹرٹورانٹو ) اگر آپ اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو دنیا کی غلاظتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں اولاد کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کیلئے اپنے اعلیٰ اور پاک نمونے قا سب سے افضل ذکر الہی کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور مومنہ بیوی ہے اگر اللہ کے فضل کا وارث بننا ہے تو اپنے تقوی کا معیار بلند کریں مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے پردہ کا مجاہدہ کرنے کی ضرورت پردہ چھوڑنے والیوں میں ایک طرح کا احساس کمتری پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو وہی پیارا ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 260 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب تربیت اولا د کا فرض اور والدین کی ذمہ داریاں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: میں تقریباً ابتدا سے ہی جب سے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا ہے جماعت کو تربیتی امور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ اگر آپ اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو دنیا کی غلاظتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں اور اپنے بچوں کو بھی ان غلاظتوں سے بچانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے ان کے سامنے نیک نمونے قائم کریں تا کہ بچے بھی بڑوں کو دیکھ کر ایسی راہوں پر چلنے والے ہوں جو دین کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں، جو خدا تعالیٰ کا قرب عطا کرنے والی راہیں ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کا پیار سمیٹنے والی راہیں ہیں اور نتیجہ دنیا و آخرت سنوار نے والی راہیں ہیں.جہاں گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے مردوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ نیک نمو نے قائم کریں تا کہ ان کے بیوی بچے ان پر انگلی نہ اٹھا سکیں کہ اے ہمارے باپ تم تو ہمیں یہ نصیحت کرتے ہو کہ نیکیوں پر قائم ہو اور یہ یہ عمل کرو اور خود تمہارے عمل یہ ہیں جو کہ مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ، وہاں ماؤں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر وہ خدا سے پیار کرنے والی عورتیں ہیں اگر وہ خدا کا خوف دل میں رکھنے والی خواتین ہیں تو یہ نہ دیکھیں کہ مرد کیا کرتے ہیں.یہ دیکھیں کہ ان کی اولاد
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 261 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب ضائع نہ ہواور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والی ہو.آپ اپنی ذمہ داری نبھا ئیں.وہ مثالیں قائم کریں جو پہلوں نے قائم کی تھیں.جب آنحضرت کے صحابہ عبادتوں میں بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرتے تھے تو صحابیات بھی پیچھے نہیں رہتی تھیں ان میں بھی ایسی خواتین تھیں جو اس نکتہ کو سمجھنے والی تھیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور اس سے ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا.اس کے لئے وہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی عبادتیں کیا کرتی تھیں، راتوں کو جاگتی تھیں، نیند آنے کی صورت میں رستے لٹکائے ہوتے تھے جن کو پکڑ کر سہارا لے کر عبادتیں کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض صحابہ کو یہ شکوہ تھا کہ ان کی بیویاں ضرورت سے زیادہ اپنے آپ کو عبادتوں میں مشغول رکھتی ہیں.راتیں بھی عبادت میں گزارتی ہیں اور دن ان کے روزوں میں گزرتے ہیں اور نتیجہ وہ مردوں کے حقوق ادا نہیں کرتیں، اپنی اولاد کے حقوق ادا نہیں کرتیں.آنحضرت کے پاس یہ شکایات آتی تھیں کہ ان کو روکیں کہ ہمارے بھی حقوق ادا کریں اور بچوں کے بھی حقوق ادا کریں ،صرف اپنی عبادتوں کی فکر نہ کریں انہی میں وقت نہ گزاریں.اس بات پر آنحضرت نے ایسی عورتوں کو تاکید فرمائی کہ اپنے مردوں کے حقوق ادا کریں اور اپنی عبادتوں کو کم کریں.یہ وہ مثالیں ہیں جو ہمارے لئے نمونہ بننے والی خواتین ہمارے سامنے رکھ گئی ہیں.اب آپ کو بھی جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ان عبادتوں کی ہلکی سی جھلک بھی آپ میں نظر آتی ہے.ہر ایک خود اپنا جائزہ لے.اگر نہیں، تو ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ اس مادی دنیا میں اگر عبادتوں کی طرف توجہ نہ دی تو پھر اگلی نسل جو آپ کی گودوں میں پل رہی ہے اور پلنی ہے جس نے جماعت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں ، جن کو عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں ، کیا ان نمونوں سے وہ اعلیٰ معیار حاصل کر سکتے ہیں.پس اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے کی خاطر، اپنی نسلوں کو اس مقصد کی پہچان کرانے کی خاطر ہمیں اپنی عبادتوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ مردوں کو اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں کہ ” مرد کو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی بھی نیک دنیا میں نہیں ہے.اور وہ یہ اعتقاد کرے کہ یہ باریک سے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 262 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب 66 بار یک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے.‘“ یعنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے والا ہے.یہ تو ٹھیک ہے کہ مردوں کو ایسا کرنا چاہئے لیکن نیک عورت اور خدا کا خوف رکھنے والی عورت ، ایک احمدی عورت اور ایمان میں مضبوط عورت کی یہ پہچان بھی ہمیں قرآن کریم نے بتائی ہے کہ فَالصَّلِحْتُ قيمت حفِظتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ (النساء: 35) یعنی پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے.ان تاکید کی جانے والی چیزوں میں سے ایک اولاد کی تربیت بھی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران بنائی گئی ہے وہ اس کی غیر حاضری میں اس کے گھر اور اس کی اولاد کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ دار ہے.مجھتی تربیت اولا دعورت پر سب سے زیادہ فرض ہے پس یہ تربیت اولا دعورت پر سب سے زیادہ فرض ہے.جب تک احمدی عورت اس ذمہ داری کو رہے گی اور اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان سے بڑھ کر دینی تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ دیتی رہے گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک نسل پروان چڑھتی رہے گی.بچوں نے کیونکہ زیادہ وقت ماں کے زیر سایہ گزارنا ہوتا ہے اس لئے ماں کا اثر بہر حال بچوں پر زیادہ ہوتا ہے.اس مغربی معاشرے میں بھی جہاں لوگوں کا خیال ہے کہ جب بچے سکول جانا شروع ہوجاتے ہیں ( کیونکہ یہاں تو چھوٹی عمر میں سکول جانا شروع ہو جاتے ہیں ) تو اس ماحول کے زیر اثر وہ ہماری باتیں نہیں مانتے.لیکن جائزہ لیا گیا ہے اور ایک ریسرچ ہوئی ہے جو چھپی ہوئی ہے اس میں بچوں کے کوائف لئے گئے ہیں کہ وہ اپنے والدین میں سے کس سے زیادہ متاثر ہیں، کس کی زیادہ بات مانتے ہیں.تو ایک بڑی تعداد کے یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ پندرہ سولہ سال کی عمر تک لڑکے بھی ،صرف لڑکیاں نہیں ، بلکہ لڑکے بھی اپنی ماؤں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں.ان کی بات کو زیادہ وزن دیتے ہیں، ان سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں، ان سے راز و نیاز کی باتیں کر لیتے ہیں جبکہ باپوں سے یہ تعلق
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 263 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب بہت معمولی ہے لیکن اس عمر کے بعد کیونکہ مغربی معاشرے میں مرد زیادہ آزاد ہیں اور عموماً یہاں ایک عمر کے بعد دیکھا گیا ہے کہ جب بچے بڑے ہونے کی عمر کو پہنچ رہے ہوتے ہیں تو ( عورت اور مرد کے تعلقات بھی خراب ہونے شروع ہو جاتے ہیں ) اس وقت مرد بچوں کو کھینچنے کے لئے اور کچھ ماحول کے زیر اثر بچوں کو آزادی کی طرف چلاتا ہے اور اس وجہ سے بچے مردوں کی طرف زیادہ مائل ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ روک ٹوک نہیں کر رہے ہوتے ، اس معاشرے کی گندگیوں اور غلاظتوں میں پڑنے سے باپ اپنے بچوں کو اس طرح نہیں روک رہے ہوتے اس لئے باپوں کی طرف زیادہ رجحان ہو جاتا ہے.لیکن اس عمر میں بھی جن ماؤں نے بچوں کو صحیح طرح سنبھالا ہوتا ہے ان کے بچوں کا رجحان ماؤں کی طرف زیادہ ہوتا ہے.تو یہ سبق جو آج پتہ لگ رہا ہے یہ سبق ہمیں پہلے ہی اسلام نے دے دیا کہ مائیں گھر کی نگران کی حیثیت سے بچوں کی تربیت کی زیادہ ذمہ دار ہیں.اس لئے وہ بچوں کو اپنے ساتھ لگائیں اور ان کی تربیت کا حق ادا کریں ، ان کو برے بھلے کی تمیز سکھائیں.اگر اس صحیح رنگ میں تربیت کرنے کی وجہ سے ان کی نفسیات کو سمجھ کر ان کو برے بھلے کی تمیز سکھا کر صحیح دین کی واقفیت ان کے ذہنوں میں پیدا کر کے ان کو سنبھا لوگی تو پھر آپ اگلی نسل کو سنبھالنے والی کہلا سکتی ہیں، تب آپ اپنے خاوند کے گھروں کی حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں.اولاد کی تربیت کیلئے اپنے پاک نمونے قائم کریں پس ہر عورت کو اس اہم امر کی طرف بڑی توجہ دینی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس رنگ میں تربیت کرے اور یہ تربیت اپنے پاک نمونے قائم کرتے ہوئے ایسے اعلیٰ معیار کی ہو جس کو دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ ایک احمدی ماں خود بھی ایک ایسا پاک خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والا ہے اور ان کی اولا دیں بھی ایک ایسا پاک مال ہیں جو اپنی ماں کی تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ مال بن چکا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ہے، جس کی پاک تربیت کو دیکھ کر دنیا رشک کرتی ہے.جو کسی چیز کا اگر حرص اور لالچ رکھتا ہے تو وہ دنیاوی چیزوں کا نہیں بلکہ دین میں آگے بڑھنے کا ہے، اپنے ماں باپ کا نام روشن کرنے کا ہے، نیکیوں پر قائم ہونے کا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت کریمہ
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 264 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ....الخ (التوبة :34) نازل ہوئی اس وقت ہم کسی سفر میں آنحضور کے ساتھ تھے.اس پر بعض صحابہ نے کہا کہ یہ آیت سونا چاندی کے بارے میں اتری ہے اگر ہمیں پتہ ہو کہ کونسا مال بہتر ہے تو ہم اسے جمع کریں.یعنی یہ سونا چاندی جب ان کو جمع کیا جاتا ہے تو بعض دفعہ ابتلاء میں ڈالنے والی چیز میں ہیں.صحابہ نے کہا کہ کونسا مال بہتر ہے جو ہم جمع کریں.تو یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ سب سے افضل (مال) ذکر الہی کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور مومنہ بیوی ہے جو اس کے دین پر اس کی مددگار ہوتی ہے.( ترمذی کتاب تفسیر القرآن تفسیر سورة التوبه : 34) اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت مومنہ بیوی اور مومنہ ماں بن کر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہو اور آنحضرت نے جس طرح فرمایا ہے اس لحاظ سے بہترین مال ثابت ہو.ان عورتوں کی نظر میں دنیاوی مال کی کوئی حیثیت نہ ہو بلکہ ان کو اس بات پر فخر ہو کہ ہمیں آنحضرت نے دین کی خدمت اور اولاد کی بہترین تربیت کی وجہ سے افضل مال قرار دیا ہے، ہمیں اب دنیاوی مالوں سے کوئی غرض نہیں.جب یہ سوچ ہوگی تو خدا تعالیٰ اپنی جناب سے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی ضروریات بھی پوری فرمائے گا اور ایسے ایسے راستوں سے آپ کی مدد فرمائے گا جس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتیں.حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3-4) کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یعنی "جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتارہے گا اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہوگا.رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں.اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا تعالیٰ خود ان کو رزق پہنچاوے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِيْنَ (الاعراف: 197) جس طرح پر ماں بچے کی متوتی ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفل ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے.انسان بعض گناہ عمداً بھی کرتا
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 265 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب ہے اور بعض گناہ اس سے ویسے بھی سرزدہوتے ہیں.جتنے انسان کے عضو ہیں ہر ایک عضو اپنے اپنے گناہ کرتا ہے.انسان کا اختیار نہیں کہ بچے.اللہ تعالیٰ اگر اپنے فضل سے بچاوے تو بچ سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کے لئے یہ آیت ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5).جو لوگ اپنے ربّ کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم ، جدید ایڈیشن ، صفحہ 374) پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے جو کہ یقیناً ہر احمدی عورت کی خواہش ہے تو تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرتے ہوئے خود بھی قدم بڑھانے ہونگے اور اپنی اولاد کی بھی ایسے رنگ میں ترقی کرنی ہوگی کہ وہ آپ کے بعد آپ کا نام روشن کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور آپ کی اولاد کو بھی صالحین کی جماعت میں شامل فرمائے.خود آپ کا کفیل ہو، آپ کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو، آپ کو اور آپ کی نسل کو حضرت مسیح موعود کی آمد کا مقصد پورا کرنے والا بنائے اور کوئی ایسا فعل آپ یا آپ کی اولاد سے سرزد نہ ہو جو جماعت کی بدنامی کا باعث ہو.احمدی عورت کو ہمیشہ ایسی ملازمت کرنی چاہیے جہاں اس کا وقار اور تقدس قائم رہے اس ضمن میں یعنی اللہ تعالیٰ کے غیب سے رزق دینے کے بارے میں ایک اور بات بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں ان مغربی ملکوں میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے بعض خواتین کو ملا زمت بھی کرنی پڑتی ہے، نوکریاں کرنی پڑتی ہیں لیکن احمدی عورت کو ہمیشہ ایسی ملازمت کرنی چاہیے جہاں اس کا وقار اور تقدس قائم رہے.کوئی ایسی ملازمت ایک احمدی عورت یا احمدی لڑکی کو نہیں کرنی چاہیے جس سے اسلام کے بنیادی حکموں پر زد آتی ہو، جس سے آپ پر انگلیاں اٹھیں.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں نیک لوگوں کو ، تقویٰ پر قائم لوگوں کو رزق مہیا فرماتا ہوں، ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں.اگر خالص ہو کر اس کی خاطر کچھ قربانی بھی کرنی پڑے تو ایک عزم اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 266 جلسہ سالانہ کینیڈ 1 2005 مستورات سے خطاب ارادے کے ساتھ اس پر قائم رہیں تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرماتا ہے کہ وہ ضروریات کچھ تنگی کے بعد پوری ہو جاتی ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے، اس لئے وہ یقینا تقویٰ پر قائم رہنے والے لوگوں کے لئے اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وعدہ کرے اور اس کو پورا نہ کرے.اب پردہ بھی ایک اسلامی حکم ہے قرآنِ کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے.نیک عورتوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حیادار اور حیا پر قائم رہنے والی ہوتی ہیں ، حیا کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں.اگر کام کی وجہ سے آپ اپنی حیا کے لباس اُتارتی ہیں تو قرآنِ کریم کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں.اگر کسی جگہ کسی ملازمت میں یہ مجبوری ہے کہ جینز اور بلاؤز پہن کر سکارف کے بغیر ٹوپی پہن کر کام کرنا ہے تو احمدی عورت کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے.جس لباس سے آپ کے ایمان پر زد آتی ہواُس کام کو آپ کو لعنت بھیجتے ہوئے رد کر دینا چاہیے کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اگر آپ پیسے کمانے کے لئے ایسا لباس پہن کر کام کریں جس سے آپ کے پردے پر حرف آتا ہو تو یہ کام اللہ تعالیٰ کو آپ کا متولی بننے سے روک رہا ہے.یہ کام جو ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کا دوست بننے سے، آپ کی ضروریات پوری کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایمان والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، تقویٰ پر چلنے والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے.کوئی بھی صالح عورت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کا ننگ ظاہر ہو یا جسم کے اُن حصوں کی نمائش ہو جن کو چھپانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.پس آپ کو اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے اور بھی بہت سے مجاہدے کرنے ہیں وہاں پر دے کا مجاہدہ بھی کریں کیونکہ آج جب آپ پردے سے آزاد ہوں گی تو اگلی نسلیں اُس سے بھی آگے قدم بڑھائیں گی.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں.لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو“.آپ ان ملکوں میں رہتے ہیں ، دیکھ لیں اس آزادی کی وجہ سے کیا اُن کے اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم ہیں؟.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل پھر فرمایا: 267 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.آپ یہاں رہ رہے ہیں ، حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اگر اس آزادی سے اور بے پردگی سے تمہارے خیال میں یہاں مغربی ملکوں کی عورتیں بہت زیادہ پاک ہوگئی ہیں، اللہ والی ہوگئی ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ ہم غلطی پر ہیں.لیکن فرمایا کہ:.د لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا“.فرمایا کہ جب پردہ ہوتا ہے تو وہاں بھی بعض دفعہ ایسی باتیں ہو جاتی ہیں لیکن جب آزادی ملے گی تو پھر تو کھلی چھٹی مل جائے گی.پھر فرماتے ہیں کہ : وو مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو“.اگر تمہارے خیال میں تم پاک دامن ہو بھی تو یہ ضمانت تم کہاں سے دے سکتی ہو کہ مردوں کی اخلاقی حالت بھی درست ہے.اپنے پردے اتارنے سے پہلے مردوں کے اخلاق کو درست کرلو، گارنٹی لے لو کہ ان کے اخلاق درست ہو گئے ہیں پھر ٹھیک ہے پردے اتار دو.اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 268 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب نفسانی جذبات سے مغلوب نہ ہوسکیں تو اُس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں.ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے.ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ بے پردہ ہو کر مردوں کے سامنے جانا اسی طرح ہے جس طرح کسی بھو کے گتے کے سامنے نرم نرم روٹیاں رکھ دی جائیں.تو یہاں تک آپ نے الفاظ فرمائے ہوئے ہیں.فرمایا کہ: کم از کم اپنے کانشنس (Conscience) سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ اُن کے سامنے رکھا جاوے.قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے.قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُم.(النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہو گا“.فرمایا کہ: فروج سے مُراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور اس میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سُنا جاوے.پھر یا درکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے.( ملفوظات جلد چہارم ، جدید ایڈیشن، ص 104-106)
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 269 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب پس یہ باتیں جو میں زور دے کر کہہ رہا ہوں یہ میری باتیں نہیں ہیں.یہ اس زمانے کے حکم اور عدل کی باتیں ہیں جن کی باتیں ماننے کا آنحضرت نے حکم دیا تھا یہ باتیں آنحضرت کی باتیں ہیں.یہ باتیں قرآن کریم کی باتیں ہیں، یہ خدا کا کلام ہے.اپنے لباس میں اور اپنے آپ پر حیا طاری رکھیں کہ کسی کو جرات نہ ہو پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو ہمیں نصیحت کی ہے اگر اُن کی جماعت میں شامل رہنا ہے تو پھر ان کی بات مان کر ہی رہا جا سکتا ہے.پس اپنے لباس ایسے رکھیں اور اپنے اوپر ایسی حیاطاری رکھیں کہ کسی کو حجرات نہ ہو.احمدی لڑکی کے مقام کو پہچانیں.مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان سے جو عورتیں اور بچیاں آتی ہیں انہوں نے پاکستان میں ، بڑی عمر میں برقعہ پہنا ہوتا ہے نقاب کا پردہ کرتی ہوئی آتی ہیں، وہ یہاں آکر اپنے نقاب کیوں اُتار دیتی ہیں.یہاں پلی بڑھی جو بچیاں ہیں اُن کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ اُس ماحول میں پڑھی ہیں جہاں سکارف لینے کی عادت نہیں رہی ہے.ان کو ماں باپ نے عادت نہیں ڈالی یہ بھی غلط کیا.لیکن بہر حال جن بچیوں کو یہاں سکارف لینے کی عادت پڑ گئی وہ ٹھیک ہے سکارف لیتی رہیں.لیکن جو نقاب لیتی ہوئی آئی ہیں وہ کیوں اُتار دیتی ہیں.جہاں تک پردے کا سوال ہے اگر میک اپ میں نہیں ہیں، اچھی طرح سکارف اگر باندھا ہوا ہے،لباس پر لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے تو پھر ٹھیک ہے تا کہ آپ کا ننگ ظاہر نہ ہو ، اس طرح اظہار نہ ہو جو کسی بھی قسم کی ایٹریکشن (Attraction) کا باعث ہو.پردہ چھوڑنے والیوں میں احساس کمتری پایا جاتا ہے یہ جو پردہ چھوڑنے والی ہیں ان میں ایک طرح کا احساس کمتری ہے.احمدی عورت کو تو ہر طرح کے احساس کمتری سے پاک ہونا چاہئے.کسی قسم کا Complex نہیں ہونا چاہئے.اگر کوئی پوچھتا بھی ہے تو کھل کر کہیں کہ ہمارے لئے پردہ اور حیا کا اظہار ایک بنیادی شرعی حکم ہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ جن عورتوں کو کوئی Complex نہیں ہوتا ، جو پردہ کرنے والی عورتیں ہیں اس مغربی ماحول میں بھی اسی پردے کی وجہ سے اُن کا نیک اثر پڑ رہا ہوتا ہے، اُن کو اچھا سمجھا جارہا ہوتا ہے.اس لئے یہ احساس کمتری اپنے دل سے نکال دیں کہ پردے کی وجہ سے کوئی آپ پر انگلی اُٹھا رہا ہے.اپنی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 270 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب ایک پہچان رکھیں.افریقہ میں میں نے دیکھا ہے جہاں لباس نہیں تھا اُنہوں نے لباس پہنا اور پورا ڈھکا ہوا لباس پہنا اور بعض پردہ کرنے والی بھی ہیں ، نقاب کا پردہ بھی بعضوں نے شروع کر دیا ہے.یہاں بھی ہماری ایفرو امریکن بہنیں جو بہت ساری، امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کا ایسا اعلیٰ پر دہ تھا کہ قابل تقلید تھا، ایک نمونہ تھا بلکہ کل ملاقات میں میں نے اُن کو کہا بھی کہ لگتا ہے کہ اب تم لوگ جو ہو تم پاکستانیوں کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے یا جو انڈیا سے آنے والے ہیں اُن کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے.اس پر جس طرح انہوں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ یقیناً ایسا ہی ہوگا تو اس پر مجھے اور فکر پیدا ہوئی کہ پرانے احمدیوں کے بے پردگی کے جو یہ نمونے ہیں یقینا نئی آنے والیاں وہ دیکھ رہی ہیں جبھی تو یہ جواب تھا.بلکہ جب میں نے کہا تو اُن میں بڑی عمر کی ایک خاتون تھیں حالانکہ انہوں نے بڑی اچھی طرح چادر اوڑھی ہوئی تھی انہوں نے جو ایک اور بات کی اُس سے مجھے اور فکر پیدا ہوئی.وہ کہنے لگیں کہ میں تمہارے سامنے آتے ہوئے پردہ کر کے آؤں.تو میں نے کہا کہ پردے کا مسئلہ میرے سامنے آنے کا نہیں.پردے کا حکم ہر وقت سے ہے اور ہر وقت رہنا چاہئے.اُن کو میں نے یہی کہا کہ آپ عمر کے اُس موڑ پر ہیں کہ اسلام میں بڑی عمر کی عورتوں کے لئے اجازت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو مکمل منہ ڈھانک کے پردہ کریں، چاہیں تو نہ کریں.لیکن پھر بھی ایسی حالت نہ رکھیں جس سے بلا وجہ لوگوں کو اُنگلیاں اٹھانے کا موقعہ ملے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اُن کی اس بات سے یہ فکر مجھے پیدا ہوئی کہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ جب میرے سامنے ملاقات کرنے کے لئے یہاں آرہی ہوتی ہیں تو پردہ کر کے یا زیادہ بہتر پردہ کر کے آرہی ہوں.اگر تو آپ ملاقات کے وقت آتے ہوئے پردہ کر کے یا بُرقعہ پہن کر یا اچھی طرح چادر اوڑھ کے یا اچھی طرح سکارف باندھ کر اس لئے آ رہی ہوں کہ ہمیں عادت پڑ جائے تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس لئے آ رہی ہیں کہ میرا خوف ہے کہ میں نہ کچھ کہوں! تو آپ کو میرا خوف کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے.جواب آخر میں اُس کو دینا ہے، مجھے آخری جواب نہیں دینا.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جوان لڑکیوں اور خواتین کو پردہ کرنا چاہئے اور اس کے لئے بعضوں کو میں نے دیکھا ہے کہ سکارف بھی باندھا ہوتا ہے لیکن کوٹ بہت اونچا ہوتا ہے.کوٹ ایسا پہنیں جو کم از کم گھٹنوں سے نیچے تک آرہا ہو.آپ کی ایک پہچان ہو.ورنہ جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 271 جلسہ سالانہ کینیڈ 2005 مستورات سے خطاب کی بچیوں کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اور یہ بھی بتا دوں کہ بچیاں اس وقت تک پردے نہیں کریں گی جب تک آپ اپنے نمونے اُن کے سامنے قائم نہیں کریں گی ، مائیں ان کے سامنے اپنے نمونے قائم نہیں کریں گی.پس اگر آپ نے جماعت کا بہترین مال بننا ہے خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اُس کی پناہ میں لانا ہے، اُس کو اپنا ولی اور دوست بنانا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھنا ہے، اپنے بچوں اور بچیوں کو اس معاشرے کے گند سے بچانا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی تعمیل کرنی ہوگی اس پر بھی عمل کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے اور آپ لوگ ہر معاملے میں وہ نمونے قائم کرنے والی بن جائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: تقویٰ اختیار کرو.دنیا سے اور اُس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ.قومی فخر مت کرو.کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو.خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو اُن کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تائم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز زکواۃ وغیرہ میں ستی مت کرو.اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو.بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے.سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات اور قانتات میں گنی جاؤ.اسراف نہ کرو“.یعنی کہ بلا وجہ پیسے خرچ نہ کرو.” اور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو.خیانت نہ کرو.چوری نہ کرو.گلہ نہ کرو.ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 81) اس مغربی معاشرے میں بہت بیچ بیچ کر چلنے کی ضرورت ہے اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق تقویٰ پر چلنے والی ہو.اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 272 جلسہ سالانہ کینیڈ 1 2005 مستورات سے خطاب حصہ کرنے والی ہو ، اپنی نسلوں کی حفاظت کی بھی ضامن ہو.اس مغربی معاشرے میں بہت بیچ بیچ کر چلنے کی ضرورت ہے، بڑے پہلو بچا کر چلنے کی ضرورت ہے.اس لئے ہمیشہ دعاؤں کے ساتھ اور بہت دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتی رہیں.اگر آج آپ نے یہ معیار حاصل کر لئے جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ہیں تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق صالحات اور قانتات میں شمار ہوں گی، اس کے فضلوں سے بے انتہا حصہ پانے والی ہوں گی ، اپنی نسلوں کی حفاظت کرنے والی ہوں گی ، آپ کی گودوں میں تربیت پانے والے بچے جب اس تربیت سے پروان چڑھیں گے تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی احمدیت کے روشن مستقبل کا ہوں گی.احمدیت کا روشن مستقبل تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ مقدر ہے.یہ کسی ایک قوم یا ملک کے باشندوں سے خاص نہیں ہے.یہ تو تقویٰ پر چلنے والے لوگوں کے حصہ میں آنا ہے.اللہ تعالیٰ کو نہ تو پاکستانی عزیز ہیں ، نہ ہندوستانی عزیز ہیں ، نہ یورپ کے رہنے والے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہیں، نہ افریقہ کے باشندے اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں.اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو وہی پیارا ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے.اگر بعد میں آنے والے نو مبائعین یا دوسرے ملکوں کے لوگ ایسے ہوں گے جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے تو وہی خدا تعالیٰ کے پیارے ہونگے اور وہی احمدیت اور حقیقی اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہرانے والے ہونگے.پس اس سوچ کے ساتھ بڑی فکر کے ساتھ اور دعا کے ساتھ آپ لوگ جو یہاں بیٹھی ہیں جن میں سے اکثر بزرگوں کی اولادیں ہیں، صحابہ کی اولادیں ہیں اس سوچ کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی تربیت اور اصلاح کی کوشش کریں اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے اپنے اعمال کو درست کریں، عملوں میں لگ جائیں اور دعاؤں میں لگ جائیں.خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد میں سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو مانا اور پاک نمو نے قائم کئے ان نمونوں پر آپ چلنے والی ہوں نہ کہ ان کو ضائع کرنے والی ہوں اور آپ ہی ایسی ہوں جو آئندہ بھی جماعت کی رہنمائی کرنے والی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ 16 اپریل 2007 )
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 273 خطبہ جمعہ فرموده یکم جولائی 2005ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ٹورانٹو کینیڈا.(اقتباس) جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں خلافت سے محبت اور اس کی اطاعت ایسی بات سنیں جو جماعتی وقار یا خلافت کے احترام کے خلاف ہو تو فوری طور پر عہدیداران کو بتا ئیں مظلوم اور بے سہارا عورتوں کے حقوق دلوانے کیلئے نظام جماعت کو مدد کر نے کا ارشاد عورتوں کے حقوق دلوانے میں عہد یداران خاص طور پر توجہ دیں مغربی ممالک میں بے سہارا احمدی خواتین کو نظام جماعت کے تحت سنبھالنے کی ضرورت
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 274 خطبه جمعه فرمودہ یکم جولائی 2005 (اقتباس) خواتین کے حقوق دلوانے میں نظام جماعت خصوصی توجہ دے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ( جلسہ سالانہ میں) بہر حال یہ نظارے جماعت میں محبت اور اخلاص اور ایک دوسرے کی خدمت اور مہمان نوازی کے اس لئے نظر آتے ہیں کہ جماعت ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے.اور نظام خلافت سے ان کو محبت اور تعلق ہے.اور خلیفہ وقت کے اشارے پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں.یہ نظارے ہمیں جماعت احمدیہ سے باہر کہیں نظر نہیں آ سکتے.افراد جماعت کا خلافت سے تعلق اور خلیفہ وقت کا احباب سے تعلق ایک ایسا تعلق ہے جو دنیاداروں کے تصور سے بھی باہر ہے.اس کا احاطہ وہ کر ہی نہیں سکتے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا سچ فرمایا تھا کہ جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.بہر حال یہ تعلق جو جماعت اور خلافت کا ہے ان جلسوں پر اور ابھر کر سامنے آتا ہے.الحمدللہ، مجھے اس بات کی خوشی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا بھی اس اخلاص و وفا کے تعلق میں بہت بڑھی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کا یہ تعلق مزید بڑھاتا چلا جائے اور یہ وقتی جوش اور جذبے کا تعلق نہ ہو.آپ لوگوں نے ہمیشہ محبت اور وفا کا اظہار کیا ہے.27 مئی کو جب میں نے خلافت کے حوالے سے خطبہ دیا تھا تو جماعتی طور پر بھی اور مختلف جگہوں سے ذاتی طور پر بھی ،سب سے پہلے اور سب سے زیادہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 275 خطبه جمعه فرموده یکم جولائی 2005 (اقتباس) خطوط وفا اور تعلق کے مجھے کینیڈا سے ملے تھے.اللہ کرے یہ محبت اور وفا کے اظہار اور دعوے کسی وقتی جوش کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ رہنے والے اور دائمی ہوں اور آپ کی نسلوں میں بھی چلنے والے اور قائم رہنے والے ہوں.فتوں سے بر وقت بچنا نہایت ضروری ہے یا درکھیں جہاں محبت کرنے والے دل ہوتے ہیں وہاں فتنہ پیدا کرنے والے شیطان بھی ہوتے ہیں جو اس تعلق کو توڑنے یا اس تعلق میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں سے بھی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے.اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے.کہیں سے بھی کوئی ایسی بات سنیں جو جماعتی وقار یا خلافت کے احترام کے خلاف ہو تو فوری طور پر عہدیداران کو بتائیں ،امیر صاحب کو بتائیں، مجھے بتائیں.کیونکہ بعض دفعہ بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اندر ہی اندر پکتی رہتی ہیں اور پھر بعض کمزور طبائع کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں.عہدیداران بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کریں کہ جب ایسی باتیں سنیں تو سن کر سرسری طور پر دیکھنے کی بجائے اس کی تحقیق کرلیا کریں، یا کم از کم نظر رکھا کریں.ایک دفعہ اگر سنی ہے تو ذہن میں رکھیں اور اگر دوبارہ نہیں تو بہر حال اس پر توجہ دینی چاہئے.امیر صاحب کو بتائیں پھر مجھے بھی بتا ئیں اسی واسطے سے، بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ چھوٹی سی بات لگ رہی ہوتی ہے اس لئے کہ ہر ایک کو اس کے پس منظر کا ، بیک گراؤنڈ کا پتہ نہیں ہوتا.اس کی جڑیں کسی اور جگہ ہوتی ہیں.اس لئے کسی فتنے کو کبھی چھوٹا نہ سمجھیں، اگر کوئی ایسی بات ہے جو وقتی ہے، آپ کے نزدیک سطحی سی بات ہے، اور غصے میں کسی نے کہہ دی ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.اور ان وقتی شکایتوں اور شکووں کو دُور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.اور عہدیداروں کی طرف سے بھی کی جانی چاہئے.عہد یداروں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسی باتیں سنی چاہئیں تا کہ توجہ نہ دینا فرد جماعت اور عہدیداروں میں دوری پیدا کرنے کا باعث نہ بن جائے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جب بھی کسی بات کا مجلسوں میں ذکر ہورہا ہے اور پھر شرارت پھیلانے کی غرض سے ذکر ہو رہا ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.بہر حال ہر صورت میں جب بھی آپ کوئی ایسی بات سنیں جس میں ذراسی بھی نظام
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 276 خطبه جمعه فرموده یکم جولائی 2005 (اقتباس) کے خلاف کسی بھی قسم کی بو آتی ہو تو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس لئے یہاں سمیت تمام دنیا کے عہد یداران بھی اور امراء بھی جہاں جہاں بھی ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ اپنے آپ کو ایک حصار میں ، ایک شیل (Shell) میں بند کر کے یا محصور کر کے نہ رکھیں، جہاں صرف ایسے لوگ آپ کے ارد گرد ہوں جو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دینے والے ہوں.بلکہ ہر ایک احمدی کی ہر متعلقہ امیر اور عہد یدار تک پہنچ ہونی چاہئے تا کہ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں سے آپ کا براہ راست تعلق ہو.بعض دفعہ، بعض نوجوان بھی ایسی معلومات دیتے ہیں اور ایسی عقل کی بات کہہ دیتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگ یا تجربہ کارلوگوں کے ذہن میں نہیں آتی.اس لئے کبھی بھی کسی بھی نوجوان کی یا کم پڑھے لکھے کی بات کو تخفیف یا کم نظر سے نہ دیکھیں.وقعت نہ دیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہر بات کو توجہ دینی چاہئے.پھر بعض دفعہ نو جوانوں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھتے ہیں اور اس معاشرے میں اور آج کل کے نوجونوں کے ذہن میں بھی باتیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسا کیوں نہیں ہے؟.اس لئے خدام الاحمدیہ کو بھی لجنہ اماءاللہ کو بھی اور جماعتی عہدیداران کو بھی ایسے نو جوانوں کی تسلی کرانی چاہئے ، ان کو تسلی بخش جواب دینے چاہئیں تا کہ کسی فتنہ پرداز کوان کو استعمال کرنے کا موقع نہ ملے.عورتوں کے حقوق دلوانے میں عہداران خاص طور پر توجہ دیں میں عہدیداران خاص طور پر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مغربی ممالک میں جیسا کہ میں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجود نظام جماعت بعض پابندیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا.کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود اس کے شرعی حقوق کی وجہ سے بعض حق دے دیتا ہے.اس لئے ایسے مرد جو ظلم کر کے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں.یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے.پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہے.تو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے.پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 277 خطبه جمعه فرموده یکم جولائی 2005 (اقتباس) بے سہارا عورتوں کو جماعت کو سنبھالنا چاہئے یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کرلیں گے اور باہر نہ نکلیں.بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا جا سکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جا سکتا ہے.لیکن ابتدائی طور پر ضرور رپورٹ ہونی چاہئے.اور پھر جو لا وارث اور بے سہارا عورتیں ہیں، ان ملکوں میں آ کر لا وارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے ، مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے ، ان کی رہائش کا بھی جماعت بندو بست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے.(اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے).ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے.تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں.اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہور ہے اور نظام جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آرہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے جماعت کا فعال حصہ بننے کی توفیق دے.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 278 خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جولائی 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن، لندن (اقتباس) ہر احمدی مرد، عورت، بچہ ، بوڑھا اپنی عبادتوں کے ساتھ ، اپنی مالی قربانیوں کو بھی زندہ رکھے گا اپنا پسندید و مال خرچ کرنے والی خواتین سلسلہ میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 279 خطبه جمعه فرمودہ 8 جولائی 2005 (اقتباس) مالی قربانیاں زندہ رکھنے کے تقاضے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وو برمنگھم میں گزشتہ سال ایک خوبصورت مسجد بنی.وہاں کی جماعت نے بھی اپنے شہر میں مسجد بنا کر ایک خوبصورت اضافہ کیا.پھر جب میں نے ہارٹلے پول اور بریڈ فورڈ کی مسجد کے لئے تحریک کی تو پھر یو.کے کی جماعت نے غیر معمولی قربانیاں دیں.انصار اللہ نے بھی لجنہ نے بھی اور دوسری جماعت کے افراد نے بھی.تو یہ جو ہر جگہ غیر معمولی قربانی کے نظارے ہمیں یہاں بھی نظر آتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ سے پیارا اور اس کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم ہی ہیں نا.اعلیٰ نیکی حاصل کرنے کا قرآنی معیار پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو اپنی پسندیدہ چیزیں، اپنی محبوب چیزیں خرچ کرو.تبھی پتہ چلے گا کہ واقعی تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کر رہے ہو کہ نہیں.ورنہ تو یہ تمہارے دعوے ہوں گے کہ ہم نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.(آل عمران: 93) یعنی تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے جب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا کے لئے خرچ نہ کرو.تو یہاں اس حکم میں بھی جماعت نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر عمل کرنے کی کوشش کی ہے.اور اس حکم کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 280 خطبه جمعه فرمودہ 8 جولائی 2005 (اقتباس) مطابق خرچ کرنے کے نمونے جہاں ہمیں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور دوسرے ملکوں میں ملتے ہیں وہاں یو.کے بھی کسی سے کم نہیں ہے.مردوں اور عورتوں نے بڑھ چڑھ کر یہ نمونے قائم کئے ہیں.خاص طور پر میں عورتوں کا ذکر کروں گا.ان کی پسندیدہ چیز زیور ہوتی ہے جس کو وہ بڑے شوق سے بناتی ہیں اور ان کے لئے سب سے پسندیدہ مال یہی ہے.لیکن احمدی عورت جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی مقصود ہے اس نے ہمیشہ اپنی اس پسندیدہ چیز کو جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کیا.اور احمدیت کی تاریخ میں ابتداء سے لے کے آج تک کرتی چلی آرہی ہیں.اور u.k کی عورتوں نے بھی یہ نظارے ہمیں دکھائے ہیں.ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے ہر تحریک پر اپنا کوئی نہ کوئی زیور نکال کر پیش کر دیا.یہاں تک کہ اپنے آخری زیور چوڑیاں یا بالیاں جو بھی تھیں وہ بھی دے دیں، خالی ہاتھ ہو گئیں.بعض ان کے پاس بزرگوں کی نشانیاں تھیں وہ بھی پیش کر دیں.پھر اگر خاوند نے یا ان کے ماں باپ نے اور زیور بنا کر دیئے تو وہ بھی لا کر پیش کر دیئے.کئی ایسی آئی ہیں میرے پاس کہ یہ بھی آپ کسی تحریک میں شامل کر لیں.تو یہ مثالیں احمدی عورت میں ہی ہمیں نظر آتی ہیں.کینیڈا میں لجنہ کی سیکرٹری مال بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگیں کہ یہاں کی عورتوں کے لئے دعا کریں کہ اس طرح مختلف تحریکات میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے زیور پیش کئے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح قرآن کے حکم کے مطابق اپنی پسندیدہ چیز کو پیش کر رہی ہیں.تو میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ یہی تو ایک احمدی عورت کی خوبصورتی ہے، یہی تو اس کا حسن ہے کہ اپنے ظاہری دنیاوی زینت کے سامان کو ، اس کو جس سے وہ محبت کرتی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی زینت بنانے کے لئے اور خدا کے گھر کی تعمیر اور زینت کے لئے قربان کر دیتی ہیں.اور یہ نظارے ہمیں احمدی دنیا میں ہر جگہ نظر آتے ہیں.پسندیدہ مال خرچ کرنے والی احمدی خواتین ہر جگہ پائی جاتی ہیں یہ پسندیدہ مال خرچ کرنے والی جہاں ہمیں کینیڈا میں نظر آتی ہیں وہاں یو کے میں بھی، جرمنی میں بھی ہیں، پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ہیں، جہاں غریب کی کل جمع پونجی ایک آدھ زیور ہوتا ہے.اور یہ بھی پھر کوئی امید نہیں ہوتی کہ شاید کبھی اور بھی زیور بنانے کا موقع مل جائے.لیکن وہ بڑے
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 281 خطبه جمعه فرمودہ 8 جولائی 2005 (اقتباس) شوق سے آ کر پیش کرتی ہیں.غرض دنیا کے ہر ملک میں یہی نمونے نظر آتے ہیں.اور یہی نشانی ہے زندہ قوموں کی کہ ان کی مائیں، بیٹیاں قربانی کے میدان میں اپنے باپوں، بیٹوں سے پیچھے نہیں رہتیں کسی صورت میں بھی پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتیں.پس جب تک یہ نمونے قائم رہیں گے ، خدا تعالیٰ کی رضا کی اس کی عبادت کرنے کی کوشش اور خواہش رہے گی اور اس پر عمل کرتے رہیں گے.ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا اپنی عبادتوں کے ساتھ ، اپنی مالی قربانیوں کو بھی زندہ رکھے گا، تو انشاء اللہ تعالیٰ ، خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہوگا ، اس کی رضا حاصل کرنے والا ہوگا اور کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھے گا.اس کے مال میں بھی برکت پڑے گی انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کی اولا د میں بھی برکت پڑے گی.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 282 جلسہ سالانہ یو.کے 2005ء کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 30 جولائی 2005 ء بمقام رشمور امیر بینالندن) قرآن کریم کا بار بار توجہ دلانا کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھو اور میری طرف آؤ جو لوگ اپنے اعمال کی فکر نہیں کرتے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی کھیتی انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی نیک اعمال بجالانے والوں کو اللہ اپنی مغفرت اور رحمت اور اسکی رضا کی چادر عطا فرماتا ہے جس مقصد کیلئے ہم نے مسیح موعود کو مانا آیا اس میں ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں؟ احمدی عورت پر آئندہ نسلوں کی تربیت کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے سب سے بہتر لباس تقویٰ ہے جس سے تمہاری زینت بڑھتی ہے احمدی لڑکی اور احمدی عورت اپنے لباس میں حیا کے پہلو کو مد نظر رکھتی ہے یورپی معاشرے میں پردے کی اہمیت نہیں رہی.احمدی عورت نے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے پردہ کرنا ہے ساس بہو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں کسی پر ظلم نہ ہونے دیں چھ باتوں کی ضمانت کے ساتھ جنت کی ضمانت ہے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 283 مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں ، وعدہ کرو تو وفا کرو غض بصر سے کام لیں ، اپنی فروج کی حفاظت کریں اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے رکھو آپ کا خلافت احمدیہ کے ساتھ تعلق وقتی نہ ہو بلکہ مستقل ہو
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 284 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب قرآن کریم کے احکامات پردہ پر عمل کرنے میں جنت کی ضمانت ہے تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیات تلاوت فرمائی: ط اعْلَمُوا أَنَّمَا الْـحَـيـوـةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَ زِيْنَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْامْوَالِ وَالْا وَلَادِ ، كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا طَ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ، وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لا أُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ لا اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ ، وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد : 21-22) اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں مختلف طریقوں سے مختلف پیرایوں سے توجہ دلائی ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھو اور میری طرف آؤ.اور اس زمانے میں اس مقصد کی طرف ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے.پس ہم پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 285 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب ہمیں مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہوں کو پانے کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں.یہ جو آیات تلاوت کی گئی ہیں (جو پہلے ان میں سے چار آیات تلاوت کی گئی تھیں ان میں سے دو میں نے تلاوت کی ہیں ).آپ ترجمہ ان کا سن چکے ہیں دوبارہ میں پیش کر دیتا ہوں.فرمایا کہ: جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے اور سج دھج اور با ہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے.یہ زندگی اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے.پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے.پھر تو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے، پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے.اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے.نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی.جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھو کے کا ایک عارضی سامان ہے.اور اگلی آیت میں فرمایا کہ اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے.جو لوگ اپنے اعمال کی فکر نہیں کرتے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی کھیتی انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی یعنی فرمایا تم سمجھتے ہو کہ اس دنیا میں صرف اس لئے آئے ہو کہ اس دنیا کے جو سامان ہیں اس دنیا
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 286 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب کی جو چکا چوند ہے دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اس فکر میں ہی زندگی گزارنی ہے.یہ فکر ہے کہ میرا گھر فلاں رشتہ دار سے اچھا ہو، میرا گھر زیادہ اچھا سجا ہوا ہو، میرے گھر میں فلاں فلاں چیز بھی ہو، میری کا راعلی قسم کی اور نئی ہو، میرے پاس زیور فلاں عورت کے زیور سے زیادہ اچھا ہو.فرمایا کہ جان لو کہ تمہاری زندگی کا مقصد یہ نہیں ہے.بلکہ اس کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی ہوا و ہوس اور کھیل کود میں بسر کرنے والی زندگی اس طرح ہی ہے جس طرح کہ سبزہ، جب بارش پڑتی ہے تو اس کو پانی ملتا ہے تو وہ اور زیادہ خوب صورت اور سرسبز ہو جاتا ہے.اپنے ماحول میں دیکھیں بارش کے دنوں میں درختوں کا فصلوں پودوں کا رنگ کتنا خوب صورت لگتا ہے.ہر ایک چیز میں ایک خوبصورتی اور چمک ہوتی ہے.نکھرا ہوا سبز رنگ ہوتا ہے.اور ایسی خوبصورتی ہوتی ہے کہ دل چاہتا ہے کہ انسان دیکھتار ہے.لیکن پھر آہستہ آہستہ ایک وقت آتا ہے کہ اپنی عمر کو پہنچتے ہوئے رنگ بدلنے لگتی ہے.مثلاً فصلیں ہیں جب فصل اپنی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کا رنگ زرد ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور جب زمیندار فصل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اب مجھے فائدہ ہوگا.کٹائی کا وقت قریب آ گیا تو اس وقت اس پر تیز گرم ہوایا آندھی ، طوفان یا اس طرح کی کوئی چیز آجائے تو و ہیں وہ سب کچھ بکھر جاتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہتا.تو فرمایا کہ جولوگ اس دنیا کے سامان کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور آخرت کی ان کو کوئی فکر نہیں ، خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی بھی ان کو کوئی فکر نہیں ہے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ان کو کوئی فکر نہیں ہے ان لوگوں کا انجام بھی ایسا ہی ہوتا ہے.مرنے کے بعد ان کے اعمال کی کھیتی ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتی.نیک اعمال نہ کرنے کی وجہ سے اور دنیا داری میں پڑے رہنے کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادانہ کرنے کی وجہ سے سب کچھ ریزہ ریزہ ہو کر ضائع ہو جاتا ہے.دنیا داری کے دھندے اور دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش، اپنی اولاد پر ناز ، اپنی دولت کے گھمنڈ کی وجہ سے ایسے لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی بلکہ عذاب ملتا ہے.اب بڑے کاروباری لوگوں کو دیکھ لیں جب کاروبار تباہ ہوتے ہیں تو ان کا کچھ بھی نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے کی وجہ سے اتنا اثر ہوتا ہے کہ دماغوں پر اثر ہو جاتا ہے.بعضوں کے بچے جن پر فخر ہوتا ہے وہ فوت ہو جاتے ہیں، اولاد میں ضائع ہو جاتی ہیں.جوان اولادیں ہوتی ہیں ان کا اتنا صدمہ اور غم ہوتا ہے کہ.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 287 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب وہ پاگل ہو جاتے ہیں.تو یہ چیزیں کچھ بھی دینے والی نہیں ہیں.دنیا داری کے دھندے اور دنیا میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی خواہش، اپنی اولاد پر ناز اور اپنی دولت کے گھمنڈ کی وجہ سے ان لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی بلکہ عذاب ملتا ہے جیسا میں نے کہا بلکہ جھلسا دینے والی گرم ہوا میں ملتی ہیں اور قسم قسم کے مختلف عذاب ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے.مختلف جگہوں پر ان عذابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.ایسے لوگوں کی کفار سے مثال دی ہے کہ ان کی مثال تو ایسے ہو جاتی ہے.لیکن نیک اعمال بجالانے والوں کے لئے اللہ کا خوف دل میں رکھنے والوں کے لئے اس کی رضا کے طلبگاروں کے لئے اس کی مغفرت اور رحمت اور اس کی رضا کی چادر حاصل کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ پھر یہ چیزیں عطا فرماتا ہے اور اپنے سائے میں لے لیتا ہے.ہر گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے اور ہر تپش سے مومن کی بچت ہوتی ہے.اور نہ صرف بچت ہوتی ہے بلکہ اس مغفرت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھ کر زندگی گزارنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے ٹھنڈی ہوائیں ہیں ہمیشہ رہنے والے سبزے ہیں.آنکھوں کو تازہ کرنے والے نظارے ہیں ، جنت کی مختلف نعمتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.اس لئے فرمایا کہ اے مومنو! کسی دھو کے میں نہ رہنا.شیطان نے تو یہ قسم کھائی ہوئی ہے کہ میں تمہیں دنیا کے گند اور اس کی چکا چوند میں ہر وقت ڈبونے کی کوشش کروں گا اس کی ظاہری خوب صورتی کے نظارے دکھاؤں گا.اس کی زمینیں تم پر اس طرح ظاہر کروں گا کہ تم بے قرار ہو کر اس کی طرف دوڑتے چلے جاؤ گے.لیکن یاد رکھو کہ یہ صرف اور صرف شیطان کے دھو کے ہیں.یہ زندگی کا عارضی سامان ہے جو تمہیں اس دنیا میں بھی خدا سے دور لے جانے والا ہے اور نتیجہ اگلے جہان میں بھی اُن دائی جنتوں سے محروم کرنے والا ہے جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.ہر احمدی کو اس طرز پر سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اپنی زندگی کا مقصد پورا کر رہا ہے پس ایک احمدی کو خواہ وہ عورت ہو یا مرد اس طرز پر سوچنا چاہیے اس طرح سے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا میں اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کر رہا ہوں.میں جو یہ دعویٰ کرتا ہوں یا کرتی ہوں کہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 288 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب میں نے آنحضرت کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام کو مانا ہے میں جو ان خوش قسمتوں میں شامل ہوگئی ہوں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعة: 4) یعنی اور ان کے سوا وہ دوسری قوم میں بھی اسے بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بگڑی ہوئی قوم کوسیدھے راستہ پر چلا دیا تھا جو دین سے بہت دور جاپڑے تھے، اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے.انہیں خدا تعالیٰ کی ایسی پہچان کروادی جو ایک نشان کے طور پر ہے اور ان میں عظیم الشان پاک تبدیلیاں پیدا کر دیں، یہ خلاصہ ہے حضرت مسیح موعود کا جو میں اپنے الفاظ میں پیش کر رہا ہوں.پھر آگے حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ: ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا.وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہو نگے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہو نگے تب ان کو بھی خدا صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہؓ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا“.جس مقصد کیلئے ہم نے مسیح موعود کو مانا آیا اس میں ہمارے قدم بڑھا رہے ہیں؟ پس ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کیا جس مقصد کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود کو مانا ہے ، آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں یا ہم وہیں کھڑے ہیں.صحابہ نے اپنے اندر کس طرح تبدیلیاں پیدا کیں اور صحابیات نے اپنے اندر کس طرح پاک تبدیلیاں پیدا کیں.دنیا کے کھیل کو د کو کس طرح انہوں نے ٹھکرادیا.کس طرح عبادتوں کے معیار قائم کئے.کس طرح مالی قربانیوں کے معیار انہوں نے قائم کئے.ایسی ایسی صحابیات بھی تھیں جو ساری ساری رات عبادتیں کرتی تھیں اور دن کو روزے رکھتی تھیں آخر ان کے خاوندوں کی شکایت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تسلسل سے اتنی زیادہ عبادتیں کرنے سے منع فرمایا.ان کے خاوندوں کو ان سے یہ شکوہ نہیں تھا کہ وہ دنیا داری میں پڑی ہوئی ہیں، روز نئے نئے مطالبے ہور ہے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 289 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب ہیں.بلکہ ان کے خاوندوں کو اگر کوئی شکوہ تھا تو یہ کہ یہ اپنی عبادتوں میں ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں اور خاوند اور بچوں کے حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کر رہیں.تو اسلام جو بڑا سمویا ہوا مذہب ہے نہ افراط ہے نہ تفریط ہے.یہ تو وہ مذہب ہے جو ہر ایک کے حقوق قائم کرنے کے نہ صرف دعوی کرتا ہے بلکہ اس نے حقوق قائم بھی کئے ہیں.اللہ کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی قائم کئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے ماننے والوں نے خواہ وہ عورتیں تھی یا مرد ، عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کئے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کئے.ان عورتوں نے اپنے خاوندوں کے حقوق بھی ادا کئے اور بچوں کے حقوق بھی ادا کئے اور نہ صرف ادا کئے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا ان کے اعلیٰ معیار قائم کئے.پس ان نمونوں پر آج کی احمدی عورت کو بھی غور کرنا ہو گا تب ہی وہ پہلوں سے ملنے والی کہلا سکتی ہیں.آج آپ ہی ہیں جنہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کی طرف بھی توجہ دینی ہے اور ان کو بھی یہ توجہ دلانی ہے کہ اس مسیح پاکت کی جماعت میں شامل ہو کر تم بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرو اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف قدم بڑھاؤ جس سے وہ مقام حاصل ہو جو پہلوں کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں کر کے حاصل ہوا تھا.اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ کرنی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل ہونے کے مقصد کو تم تب ہی ادا کر سکتے ہو جب دنیا کے کھیل کو تمہاری زندگی کا مقصد نہ ہوں.احمدی عورت پر آئندہ نسلوں کی پرورش کی انتہائی اہم ذمہ داری پس اس لحاظ سے احمدی عورت کا مقام اور ذمہ داری انتہائی اہم ہے کیونکہ احمدیت کی آئندہ نسل کی پرورش آپ کی گود میں ہورہی ہے یا ہونے والی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.تاکہ آپ اور آپ کی نسلیں اس طرز عمل کی مصداق نہ بنیں جوکھیل کود میں مصروف ہو کر نبی کو اکیلا چھوڑنے والے ہوں.بلکہ ہر وقت اس سودے اور تجارت کی تلاش میں رہیں کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ کھیل کود، خواہشات اور تمہاری خواہشات کے مقابلہ میں بہت اچھا ہے.بلکہ یہی ہے جس سے تم اس دنیا میں بھی جنت حاصل کرنے والے ہو گے اور آئندہ زندگی میں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 290 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب بھی.پس یہ سوچ ہے جو ہر احمدی کو رکھنی چاہئے اور احمدی عورتوں کو خاص طور پر میں زور دے کر اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کہا آپ صرف اپنی ذمہ دار ہی نہیں بلکہ آپ آئندہ نسلوں کی بھی ذمہ دار ہیں.خاوندوں کے گھروں کی نگران ہونے کی حیثیت سے آپ صرف اپنی زمینوں کو چھپانے والی اور ان کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ مستقبل کے جو باپ اور مائیں بننے والے ہیں انہوں نے بھی وہی رنگ اختیار کرنا ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، جس کے مطابق آپ اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں.اس لئے آپ اگلی نسلوں کی زیتوں کی بھی ذمہ دار ہیں.اس لئے ہمیشہ یادرکھیں کہ آپ کی زینت اور آپ کا فخر ظاہری سج دھج اور مال و متاع یا اولاد نہ ہوجیسا کہ آیت میں ذکر ہے بلکہ آپ اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے اس زینت کو اختیار کریں جس کو اللہ نے مومنوں کے لئے پسند کیا ہے اور جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: يبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْا تِكُمْ وَرِيْشًا.وَلِبَاسُ التَّقْوى لا ذَلِكَ خَيْرٌ ط ذَلِكَ مِنْ آيَتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (سورۃ الاعراف: 27) کہ اے بنی آدم ! یقینا ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور ہاں تقویٰ کا لباس جو سب سے بہتر ہے یہ اللہ کی آیات میں سے کچھ ہیں تا کہ وہ نصیحت پکڑیں.سب سے بہتر لباس تقوی کا ہے جس سے تمہاری زینت بڑھتی ہے دیکھیں فرمایا کہ سب سے بہتر لباس تقویٰ کا ہے جس سے تمہاری زینت بڑھتی ہے.اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے ذہن سے یہ بات نکال دو کہ یہ دنیا کی چکا چوند یہ مال و متاع تمہاری زینت ہیں.یہ تمہاری زینت نہیں ہیں، نہ ہی تمہارے لئے فخر کا مقام ہے.یہ سب عارضی چیزیں ہیں، دھو کے ہیں.اگر کسی آفت کی وجہ سے ضائع ہو جائیں تو یہ دنیا جس کی تمہارے نزدیک بہت وقعت ہے یہی تمہارے لئے جہنم بن جاتی ہے جیسا کہ میں پہلے کہہ آیا ہوں.پس اپنے مقصد پیدائش کو پہچانتے ہوئے اس چیز سے اپنے آپ کو سجاؤ جو تمہارے ہمیشہ کام آئے اور وہ ہے تقویٰ.اللہ تعالیٰ کا
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 291 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب خوف،اس سے پیار، اس سے محبت.اور یہی چیز ہے جو تمہاری خوبصورتی کو اور بڑھائے گی.اب دیکھیں لباس کا مقصد ، مثلاً عورتیں اچھی قسم کے جوڑے پہنتی ہیں اور لباس کی بڑی دلدادہ ہوتی ہیں.جنہیں تو فیق ہو کپڑے سلوانے کے لئے بڑی محنت کرتی ہیں بڑے بڑے اچھے درزیوں کے پاس جاتی ہیں کہ وہ اچھے اور نئے ڈیزائن کے کپڑے سلوائیں اور پھر ہر کوئی اپنی توفیق کے مطابق نئے اعلیٰ اور عمدہ کپڑے سلوانے کی کوشش کرتا ہے.الا ماشاء اللہ.بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو سادگی سے زندگی گزارنے والے ہوں.کپڑے سلوانے میں عموماً بڑا تر ڈ دکیا جاتا ہے.یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ ایک تو جو بنیادی مقصد ہے، جو ہونا چاہیے وہ یہی ہے کہ کپڑے اس لئے پہنے جاتے ہیں کہ اپنے تن کو ڈھانپا جائے اور ایک احمدی کی حیثیت سے تو چاہے وہ امیر عورت ہو یا غریب ہو، زیادہ خرچ کرنے والا ہو یا کم خرچ کرنے والا ہو، اس کا کم از کم ایک بہت بڑا مقصد یہی ہوتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ننگ کو ڈھانپا جائے اور دوسرا یہ بھی ساتھ ہے کہ فیشن بھی کیا جائے ایسے ڈیزائن بھی پہنے جائیں جو اس جنگ کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ فیشن ایبل بھی ہوں.احمدی لڑکی اور احمدی عورت اپنے لباس میں حیا کے پہلو کو مد نظر رکھتی ہے لیکن اس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف دنیا کو مرعوب کرنا اور فیشن کرنا ہوتا ہے وہ اس بنیادی مقصد کی طرف کم توجہ دیتے ہیں.اس لئے یورپ میں دیکھ لیں کہ اس مقصد کو بھلانے کی وجہ سے کہ نگ کو ڈھانپنا ہے اس کی بجائے یہاں آپ کو عجیب عجیب قسم کے بے ڈھنگے اور نگے لباس نظر آتے ہیں.اور پھر ان ننگے لباس کے اشتہاروں وغیرہ کی فلم بھی اخباروں میں ٹی وی وغیرہ پر آتی ہے.تو بہر حال جن لوگوں میں کچھ شرافت ہے ان کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے ننگ کو چھپایا جائے اور پھر ٹھیک ہے ظاہری طور پر فیشن بھی تھوڑا بہت کر لیا جائے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ایک احمدی عورت کا بنیادی مقصد یہی ہے اور یہی ہونا چاہئے کہ ننگ کو ڈھانپا جائے.عورت کی یہ فطرت ہے، جس طبقہ میں اور جس سوچ کی بھی ہو، ایک بات یہ ہے کہ اپنے ماحول میں دوسروں سے نمایاں نظر آنے کی خواہش ہوتی ہے.احمدی معاشرے میں نمایاں ہونے کے اظہار کا اپنا طریق ہے.شاید یہاں ایک آدھ مثال کہیں ملتی ہو جہاں حیا کو زینت نہ سمجھا جاتا ہولیکن عموماً احمدی لڑکی اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 292 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب احمدی عورت اپنے لباس میں حیا کے پہلو کو مد نظر رکھتی ہے.جبکہ مغرب میں جیسا کہ میں نے کہا یہاں معاشرے میں حیا کا تصور ہی اٹھ گیا ہے اس لئے یہاں ان قوموں میں جو لباس ہے یہ یا تو موسم کی تختی سے بچنے کے لئے پہنتے ہیں یا فیشن کے لئے.اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے اور خدا کا خوف ان میں پیدا ہو.یورپی معاشرے میں پردے کی اہمیت نہیں رہی.احمدی عورت نے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے پردہ کرنا ہے بہر حال ہم جب بات کرتے ہیں تو احمدی معاشرہ کی عورت کی کرتے ہیں.لیکن اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کہیں اکا دُکا کوئی احمدی لڑکی ان سے متاثر نہ ہو جائے.بہر حال میں ذکر کر رہا تھا کہ یہ خطرہ ہے کہ اس معاشرے کا اثر کہیں احمدیوں پر بھی نہ پڑ جائے.عموماً اب تک تو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہوا ہے.شاید اکا دُکا کوئی مثال ہو اس کے علاوہ.لیکن یہ جو فکر ہے یہ مجھے اس لئے پیدا ہو رہی ہے کہ اس کی طرف پہلا قدم ہمیں اٹھتا ہوا نظر آ رہا ہے.کیونکہ اس معاشرے میں آتے ہی جو پردے کی اہمیت ہے وہ نہیں رہی.وہ اہمیت پر دے کو نہیں دی جاتی جس کا اسلام ہمیں حکم دیتا ہے.میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ احمدی عورت کو پردے کا خیال از خود رکھنا چاہیے.خود اس کے دل میں احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے پردہ کرنا ہے، نہ یہ کہ اسے یاد کروایا جائے.احمدی عورت کو تو پردے کے معیار پر ایسا قائم ہونا چاہیے کہ اس کا ایک نشان نظر آئے اور یہ پردے کے معیار جو ہیں ہر جگہ ایک ہونے چاہئیں.یہ نہیں کہ جلسہ پر یا اجلاسوں پر یا مسجد میں آئیں تو حجاب اور پردے میں ہوں، بازاروں میں پھر رہی ہوں تو بالکل اور شکل نظر آتی ہو.احمدی عورت نے اگر پردہ کرنا ہے تو اس لئے کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور معاشرے کی بدنظر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اس لئے اپنے معیاروں کو بالکل ایک رکھیں ، دوہرے معیار نہ بنائیں.اور یہاں کی پڑھی لکھی لڑکیاں یہاں کی پرورش پانے والی لڑکیاں ان میں ایک خوبی بہر حال ہے کہ ان میں ایک سچائی ہے، صداقت ہے ، ان کو اپنا سچائی کا معیار بہر حال قائم رکھنا چاہئے.یہاں نو جوان نسل میں ایک خوبی ہے کہ انہیں برداشت نہیں کہ دوہرے معیار ہوں اس لئے اس معاملے میں بھی اپنے اندر یہ خوبی قائم
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 293 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب رکھیں کہ دوہرے معیار نہ ہوں.اپنے لباس کو ایسا رکھیں جو ایک حیا والا لباس ہو.دوسرے جو پردے کی عمر کو پہنچ گئی ہیں وہ اپنے لباس کی خاص طور پر احتیاط کریں اور کوٹ اور حجاب وغیرہ کے ساتھ اور پردے کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں.غیروں سے پردے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ دیا ہوا ہے.یہ کہیں نہیں لکھا کہ خاوندوں کے دوستوں یا بھائیوں کے دوستوں سے اگر وہ گھر میں آجائیں تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے.یا بازار میں جانا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے یا تفریح کے لئے پھرنا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے.حیادار لباس بہر حال ہونا چاہئے اور جو پردے کی عمر میں ہے ان کو ایسا لباس پہننا چاہئے جس سے احمدی عورت پر یہ انگلی نہ اٹھے کہ یہ بے پردہ عورت ہے.کام پر اگر مجبوری ہے تو تب بھی پورا ڈھکا ہوا لباس ہونا چاہیے اور حجاب ہونا چاہئے.تو پردہ جس طرح جماعتی فنکشن پر ہونا ضروری ہے عام زندگی میں بھی اتنا ہی ضروری ہے.بہر حال عورت کی زینت کی بات ہو رہی ہے اور لباس تقوی کی بات ہو رہی تھی کہ زینت جو ہے وہ تقوی کے لباس میں ہی ہے یعنی اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کے خوف اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہو.یہ نہ ہو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو ترجیح دیتے ہوئے عمل ہو رہے ہوں.پس اگر ہر احمدی عورت اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہوگی اور لباس تقوی کے لئے اس سے بڑھ کر تر و دکر رہی ہوگی جتنا کہ آپ اپنے ظاہری لباس کے لئے کرتی ہیں تو یہ لباس تقوی آپ کی چھوٹی موٹی روحانی اور اخلاقی برائیوں کو چھپانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی نظر آپ پر ہوگی.اس وجہ سے کہ اللہ کا خوف ہے تقویٰ کو اپنا لباس بنانے کی کوشش کرتی ہیں خدا تعالیٰ کمزوریوں کو دور کرنے کی بھی توفیق دیتا ہے اور دے گا اور ایمان میں ترقی کرنے کی بھی توفیق دے گا.کیونکہ اس توجہ کی وجہ سے جو آپ اپنے آپ کو لباس تقوی میں سمیٹنے کے لئے کریں گی آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کے بھی مواقع ملیں گے.اور اللہ تعالیٰ اپنے آگے نیک نیتی سے جھکنے والوں کی دعاؤں کو قبول بھی کرتا ہے، ان کو ضائع نہیں کرتا.پھر اس سے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی چلی جائے گی.وہ ایسے جھکنے والوں کی طرف اپنی مغفرت کی چادر پھیلاتا ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر تلے آجائے تو پھر انہیں راستوں پر چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے ہیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 294 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب دولت، امارت، اپنی اولاد، اپنے خاندان پر فخر کرنا ، سب تکبر کی قسمیں ہیں پس ان تلاوت کی ہوئی آیات میں سے دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی مغفرت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھو.اس دوڑ میں آپ سب شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کی وارث بنیں.یہ دنیا نیک اعمال کر کے ہی ملتی ہے، پاک زندگیاں بنانے سے ہی ملتی ہے.استغفار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے سے ملتی ہے.اپنی نسلوں کی پاک تربیت کرنے سے ملتی ہے، اپنے معاشرے کے حقوق ادا کرنے سے ملتی ہے.پس اللہ کے اس فضل کو سمیٹیں.ایک دوسرے سے بڑھ کر اس فضل کو سمیٹنے والی نہیں ، نہ کہ اپنی دولت، اپنی امارت، اپنی اولاد، اپنے خاندان پر فخر کرنے والی ہوں کیونکہ یہ سب تکبر کی قسمیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرما دیا ہے کہ میں تکبر کرنے والے اور بڑھ بڑھ کر اپنی دنیاوی چیزوں پر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا.ساس بہوا ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں کسی پر ظلم نہ ہونے دیں ان عورتوں کو بھی آج یہ عہد کرنا چاہئے جو اپنے لڑکوں کے ذریعہ سے اپنی بہوؤں پر ظلم کرواتی ہیں اور ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے.یہ زندگی چند روزہ ہے اس میں تقوی پہ چلتے ہوئے بجائے اس کے کہ اس زندگی کو جنت بنا ئیں اپنے لئے بھی اور اپنے بیٹوں کے لئے بھی اور ان کی اولاد کے لئے بھی ان لغویات میں پڑ کر کہ بیٹا ہا تھ سے نہ چلا جائے سب کی زندگی جہنم بنارہی ہوتی ہیں.اسی طرح بعض بہوئیں ہیں، اپنے خاوندوں کے ذریعہ سے اپنی ساسوں کے حقوق تلف کر رہی ہوتی ہیں.پس خدا کے لئے خدا کا خوف دل میں قائم کرتے ہوئے اپنے دلوں کے تکبر کو ختم کریں اور اپنے آپ کو تقوی کے لباس سے مزین کریں.اپنی اولادوں پر بھی رحم کریں اور ان کی نسلوں پر بھی رحم کریں.اگر ماؤں کو یہ خیال ہے کہ یہ ہمارے بیٹے ہیں اس لئے ہم جس طرح چاہیں ان کے ذریعہ سے اپنی بہوؤں پر ظلم کروالیں تو پھر آپ ان ماؤں میں شمار نہیں ہوسکتیں جن کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.کیونکہ آپ نے وہ تعلیم آگے پھیلائی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہے.یہ جاگ آپ نے لگائی ہے.جو ہوسکتا ہے کہ آگے آپ کی بہوؤں اور بیٹیوں میں بھی چلے اور بیٹوں میں بھی چلے.جب ان کو موقعہ ملے گا وہ بھی یہی سلوک اپنے بچوں سے کریں گے، اپنی بہوؤں سے کریں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 295 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب گے.تو خدا تعالیٰ کے حکموں کے خلاف چلنے سے جنتیں نہیں ملا کرتیں.جو قانونِ قدرت ہے وہ تو اسی طرح نتیجے نکالے گا جس طرح کہ ایسے عملوں کے نتیجے نکلنے چاہئیں.پس یہ چیزیں بھی نفس کی خواہشات کے زمرہ میں آتی ہیں.ایک دوسرے سے ساس بہو کے سلوک اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق نہیں تو یہ بھی نفس کی خواہشات ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بڑے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے.پس اگر عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر کے نیچے آنا ہے تو تمام نفسانی خواہشات کو ختم کرنا ہوگا، جلانا ہوگا ، تباہ کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.پس یہ ایک دو مثالیں ہیں جو میں نے دی ہیں لیکن قرآنِ کریم ان حکموں سے بھرا پڑا ہے جو نیکیوں کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں دیئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ ان کی تعداد سات سو تک ہے.پس اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو جنت کے راستوں کی طرف چلانے کے لئے ان تمام حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی ہوگی اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرنے ہوں گے.چھ باتوں کی ضمانت کے ساتھ جنت کی ضمانت آنحضرت نے فرمایا ہے کہ تم اپنے بارے میں چھ باتوں کی ضمانت دومیں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں.وہ چھ باتیں کیا ہیں جن کی آپ نے ہم سے ضمانت مانگی ہے.فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ گفتگو کر تو سچ بولو.اب دیکھیں ہر کوئی اپنا جائزہ لے کہ کیا ہر معاملہ میں سچ بات کہتی ہیں.کئی باتیں ایسی آجاتی ہیں جہاں اس بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا.عورتیں عورتوں کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے پاس سے بعض باتیں گھڑ کے مشہور کر دیتی ہیں.میں نہیں کہتا کہ مرد اس سے پاک ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں عورت کی گود میں تربیت پانے والے بچے بھی اسی طرح تربیت پائیں گے جیسی کہ ماں کی ہے.مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں آنحضرت تو اس حد تک فرماتے تھے کہ اگر تم اپنے بچے کو چیز دینے کے لئے بلا ؤ اور پھر نہ دو تو تم
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 296 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب نے جھوٹ بولا ہے.یعنی کہ مذاق میں بھی ایسی بات نہیں کرنی ، ٹالنے کے لئے بھی ایسی بات نہیں کرنی.پھر آپ نے فرمایا کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے.تو دیکھیں اس بار یکی سے جا کر اگر اپنا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کس حد تک ہم سے بے احتیاطیاں ہو جاتی ہیں.کس حد تک احتیاط کی ضرورت ہے.کس حد تک پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے.کیونکہ بچہ اپنے ماں باپ کے زیر اثر رہ کر اور خاص طور پر ایک عمر تک ماں کے زیر اثر رہ کر وہی کچھ سیکھتا ہے جو ماں کا عمل ہو چاہے آپ اس کو وہ باتیں کہ رہی ہوں یا نہ کہہ رہی ہوں.غیر محسوس طریقہ پر یا لاشعوری طور پر وہ چیزیں سیکھ رہا ہوتا ہے یا اثر قبول کر رہا ہوتا ہے.وعدہ کرو تو وفا کرو پھر دوسری بات جو آپ نے جنت میں جانے کی ضمانت کے طور پر فرمائی وہ یہ ہے.فرمایا جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو، اُسے پورا کرو.پس مومن کا وعدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اُس نے وہ کام کر کے دکھا دیا ہواور کام کر دیا ہو.پھر فرمایا جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت رکھوانے والا اسے مانگے تو اسے دے دیا کرو پھر ٹال مٹول سے کام نہ لیا کرو.یہ امانت کا مضمون بھی بہت وسیع مضمون ہے اس وقت تو اس کی تفصیل نہیں بتائی جاسکتی لیکن بہر حال میں صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ احمدیت کی آئندہ نسلیں جو آپ کی گودوں میں پل رہی ہیں اور خاص طور پر واقفین نو ، یہ آپ کے پاس جماعت کی امانت ہے.پس ان امانتوں کو بھی آپ نے اس طرح جماعت کو لوٹانا ہے جس طرح جماعت نے آپ سے توقع کی ہے، جس طرح خلیفہ وقت نے آپ سے توقع کی ہے.اپنے فروج کی حفاظت کرو پھر فرمایا کہ تیسری چیز جنت میں جانے کی ضمانت کے طور پر یہ ہے کہ اپنے فروج کی حفاظت کرو.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کان ناک منہ وغیرہ بھی ہیں.اس لئے ایک احمدی عورت کے کان لغویات سننے سے ہر وقت محفوظ رہنے چاہئیں.ایک احمدی عورت کو ہر اس نظارے کو دیکھنے سے اپنی آنکھ محفوظ رکھنی چاہئے جس سے دوسری عورت ، احمدی ہو یا غیر ہو، اس کے عیب اسے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 297 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب نظر آتے ہوں کیونکہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کا بعضوں کو بڑا شوق ہوتا ہے.ہر احمدی عورت کے منہ سے کبھی کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث ہو.پس اگر اس بات پر عمل کرنے لگ جائیں تو کبھی معاشرے میں جھگڑے نہ ہوں.ساس بہو، نند بھابھی میں آپس میں محبت اور پیار نظر آتا ہو تو سب ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں گے.غض بصر سے کام لینے والے ہوں پھر پانچویں بات آپ نے یہ بتائی فرمایا کہ مغض بصر سے کام لینے والے ہوں.اور یہ نغض بصر سے کام لینا ہی ہے جس پر اگر عمل کیا جائے مردوں کی طرف سے بھی اور عورتوں کی طرف سے بھی تو پردے کی طرف توجہ پیدا ہو سکتی ہے جس کا میں پہلے تفصیل سے ذکر کر آیا ہوں.اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے رکھو اور چھٹی بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے رکھو.(الجامع الصغير.باب حرف التاء.حديث نمبر (3350) ہاتھوں کو ظلم سے روکنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی سے لڑائی نہیں کرنی بلکہ اس زمانہ میں ایک دوسرے کے خلاف خطوط لکھ کر یا کمپیوٹر وغیرہ کے ذریعہ باتیں پھیلا کر ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے.گو کہ اس میں مرد زیادہ نظر آتے ہیں لیکن بعض دفعہ عورتیں یہ ظلم کرواتی ہیں، مردوں کی مددگار بن رہی ہوتی ہیں یا مردوں کو اکسا رہی ہوتی ہیں.بعض دفعہ کئی ایسے معاملات آجاتے ہیں، میرے پاس بھی آئے ہیں، کہ جن میں ماں نے بچے کو کہا کہ اس طرح اپنی سابقہ بیوی کے بارہ میں لکھ کر مختلف لوگوں کو بھیجو، بدنام کرنے کی کوشش کرو.ای میل کر دیتے ہیں، انٹر نیٹ پر دے دیتے ہیں یا ویسے خط لکھ دیتے ہیں تا کہ اس کا کہیں رشتہ نہ ہو.تو یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہوتی ہیں.ہمیشہ ہر احمدی کو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت فضل ہے کہ کہیں کہیں اکا دُکا ایسے واقعات نظر آتے ہیں جو غیروں میں تو بہت زیادہ ہیں لیکن یہ اکا دُکا واقعات بھی جو ہیں ہمیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں دل میں بے چینی پیدا کرنے والے ہوتے ہیں کہ یہ برائیاں کہیں بڑھ نہ جائیں.پس ہر احمدی عورت یہ جہاد کرے کہ اس
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 298 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب نے ان بُرائیوں کو بڑھنے نہیں دینا.بلکہ نہ صرف بڑھنے نہیں دینا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.ان بُرائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تاکہ کہیں بھی وہ جماعت کے کسی طبقہ میں کبھی نظر نہ آئیں.اور جب یہ عمل کر رہی ہوں گی تو آپ میں سے ہر ایک اللہ کے رسول کے وعدوں کے مطابق جنت کی وارث بن رہی ہوگی.جنت میں جانے کی ضمانت حاصل کرنے والی ہوگی اور نہ صرف خود جنت کی وارث بن رہی ہوگی بلکہ اپنی نسلوں کو بھی جنت کی ضمانت دے رہی ہوگی.کیونکہ ان پاک گودوں میں پلنے والے بچے بھی یقینا نیکی اور پاکیزگی کے ماحول میں پرورش پاتے ہوئے آگے اپنی جنت بنانے والے ہوں گے.اور یوں سلسلہ در سلسلہ آپ اللہ کے رسول کی جنت میں جانے کی ضمانت حاصل کرتی چلی جائیں گی.کیونکہ یہ نسلیں اس دعا سے فیض پانے والی اور وہ دعا کرنے والی نسلیں ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے کہ فرمایا : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الاحقاف: 16) ”اے میرے رب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کرسکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جس سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے یقینا میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں.لیکن آپ کو اپنے آپ کو اس دعا کا وارث بنانے کے لئے اور اپنی نسلوں کو بھی اس دعا کا فیض حاصل کرنے والا بنانے کے لئے تا کہ وہ بھی اللہ کے فضلوں کے وارث ہوں اور فرماں برداروں میں شامل ہوں دعاؤں کے ساتھ نیک اعمال بھی بجالانے ہوں گے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں.ان دعاؤں کے ساتھ جب نیک عمل ہو رہے ہونگے تو یہ اگلی نسل کی اصلاح کے بھی باعث بن رہے ہوں گے.اللہ تعالی اسب کو اسی طرح زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : وو ” دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ.قومی فخر مت کرو.کسی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 299 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو.خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جوان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تا معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا تعالیٰ کے فرائض نماز زکوۃ وغیرہ میں سستی مت کرو.اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو.بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے.سو تم اپنی ذمہ واری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ.اسراف نہ کرو اور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو.خیانت نہ کرو.چوری نہ کرو.گلہ نہ کرو.ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے“.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 81) پس یہ ہیں وہ تو قعات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک احمدی عورت سے رکھی ہیں اور یہ ہے وہ تعلیم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک احمدی عورت کو دی ہے.پس آپ میں سے ہر ایک جو یہاں بیٹھی ہے یا دنیا کے کسی کو فنے میں موجود ہے.ہر احمدی عورت جو ہے وہ اپنا جائزہ لے کہ وہ کہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توقعات پر پورا اتر رہی ہے.کہاں تک وہ اس عہد بیعت کو نبھا رہی ہے جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت ان توقعات اور تعلیمات پر پورا اُترنے والی ہو.اللہ تعالیٰ ہر احمدی میں وہ روح پیدا کر دے اور جن میں وہ روح ہے ان میں وہ ہمیشہ قائم رکھے کہ وہ اس بنیادی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی اور جس کو نئے سرے سے آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم میں جاری کیا.خدا کرے کہ آپ کی زمینیں اور آپ کے فخر دنیاوی ساز وسامان اور لہو ولعب نہ ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا ہو، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہو، اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہو، آپ کا اوڑھنا بچھونا، اٹھنا بیٹھنا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہو.آپ کا تعلق کسی خاص وقت اور کسی خاص دور کے لئے جماعت کے ساتھ نہ ہو.آپ کا خلافت احمدیہ کے ساتھ تعلق وقتی نہ ہو بلکہ مستقل ہو آپ کا خلافت احمدیہ کے ساتھ تعلق اور پیار کا رشتہ عارضی اور وقتی نہ ہو بلکہ مستقل ہو، ہمیشہ رہنے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 300 جلسہ سالانہ یو کے 2005 مستورات سے خطاب والا ہو، اپنی نسلوں میں جاری کرنے والا ہو.اور آپ کے خدا تعالیٰ کی خاطر اس تعلق کی وجہ سے آپ کی گودوں میں پرورش پانے والی مائیں اور آپ کی گودوں میں پرورش پانے والے مستقبل کے باپ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ ملتے رہیں جن کی گودوں اور تربیت سے وہ بچے پروان چڑھیں جو جماعت اور خلافت احمدیہ پر جان نچھاور کرنے والے ہوں.آپ کی گودوں سے وہ بچے پل کر جوان ہوں جن کی زندگیوں کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھانا ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا پر گاڑ نا ہو اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہو.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہرا یک اس سوچ اور عمل کے ساتھ زندگی گزارنے والا ہو.اور جب خدا کے حضور حاضر ہوں تو خدا کے پیار کی نظر ہم پر پڑے.اللہ تعالیٰ ہمیں کہے کہ اے میری بند یو اور اے میرے بندو! تمہارے عمل سے میں خوش ہوا تم جو پاک تربیت یافتہ نسل پیچھے چھوڑ آئے ہو اس سے میں خوش ہوا ، اب جاؤ جنت کے جس دروازہ سے تم جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو، ہو جاؤ اور میری رضا کے پھل کھاؤ.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اے میرے خدا رحم اور فضل کرنے والے خدا! یہ سب عمل جو تیری رضا حاصل کرنے والے ہیں تیرے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتے.پس تو ہمیشہ ہم پر فضل کی نظر رکھنا اور ہمیں ان راہوں پر چلانا جو تیری رضا کی راہیں ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.آمین.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 301 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 ء کے موقع پر مستورات سے خطاب (فرمودہ 27 راگست 2005 ء بمقام مئی مارکیٹ ،منہائیم جرمنی ) اگر عورت کی اصلاح ہو جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو ه عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ عموماً اپنی بڑائی بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے بغیر علم کے کسی کے بارہ میں تبصرہ کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں دوسروں کے نام بگاڑنے کی ممانعت اپنے اخلاق اعلیٰ کرو کہ اسی میں بڑائی ہے خدا کی رضا حاصل کرنے والا معاشرہ قائم کرنا آج ہر عورت اور مرد کو تقوی کی راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرنی چاہئے ہر احمدی عورت کو جھوٹ کے خلاف بھی جہاد کرنا چاہئے خیانت کی بیماری نے معاشرہ میں فساد پیدا کیا ہوا ہے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 302 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب جنت نظیر معاشرہ قائم کرنے کیلئے قرآن کریم کی بنیادی تعلیم تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیات کی تلاوت فرمائی: يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُوْنُوْا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَانِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ، وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الْإِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ ، وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُوْنَ يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُو الله ط إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٍ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا ط ط خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (سورة الحجرات : 12-14) ان آیات کا ترجمہ ہے: کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم میں سے کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 303 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہو جائیں.اور نہ عورتیں ،عورتوں سے تمسخر کر میں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو جائیں.اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو.ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے.اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں.اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو.یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.اور تجسس نہ کیا کرو.اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ بہت تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اے لوگو ! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے.اگر عورت کی اصلاح ہو جائے تو معاشرہ سے فساد ختم ہو جائے یہ ہے وہ بنیادی تعلیم جو اگر معاشرے میں رائج ہو جائے تو یہ دنیا بھی انسان کے لئے جنت بن جائے.عورتوں کی آبادی عموماً دنیا کے ہر ملک میں مردوں سے زیادہ ہے.اگر عورت کی اصلاح ہو جائے اور تقوی پر قائم ہو جائے ، معاشرہ میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے لگ جائے تو بہت سے فساد جنہوں نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہوا ہے ختم ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں بعض برائیوں سے رکنے اور تقویٰ پر قائم ہونے کی تلقین فرمائی ہے.ان میں خاص طور پر عورتوں کا نام لے کر انہیں مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اے عورتو! یہ برائیاں نہ کرو.یہ عورت کی فطرت میں زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ انسان کی فطرت کو کون جان سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیونکہ یہ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ عموماً اپنی بڑائی بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے، دوسرے کو اپنے سے کمتر سمجھنے کی کوشش کرتی ہے.اس لئے اس عمومی نصیحت کے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 304 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب ساتھ جو مومنوں کو کی گئی ہے کہ کسی قوم کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ اللہ کے نزدیک کوئی قوم بری نہیں.تم جس کو بُرا سمجھ رہے ہو ، ہو سکتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہو.ہاں بعض لوگوں کے بعض فعل ہیں جو اللہ کی راہ سے بغاوت کرنے والوں کے فعل ہیں.اللہ تعالیٰ ان افعال کی وجہ سے ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا.لیکن یاد رکھو کہ یہ صرف خدا تعالیٰ کو پتہ ہے وہی ہے جو غیب کا علم رکھتا ہے.وہ جانتا ہے کہ کون برا ہے، کون اچھا ہے.وہ جانتا ہے کہ کن کے دلوں میں کیا بھرا ہوا ہے.وہ جانتا ہے کہ آئندہ کس نے کس حالت میں ہونا ہے.تم جو اپنے آپ کو بہتر سمجھ رہی ہو، ہوسکتا ہے کہ تمہارے میں برائیاں پیدا ہو جائیں اور جو برائیاں کرنے والا ہے ہو سکتا ہے اسے نیکیاں کرنے کی توفیق مل جائے.اس لئے بلا وجہ کسی کو تحقیر سے نہ دیکھو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمواتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا الله (النمل: 66) (ترجمہ) پھر تو کہہ دے کہ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی ہے خدا کے سوا ان میں سے کوئی غیب کو نہیں جانتا.بغیر علم کے کسی کے بارہ میں تبصرہ کرنا پس جب تم کسی کے بارے میں علم نہیں رکھتے تو پھر بلا وجہ اس کے بارے میں رائے زنی کرنے کا، اس کے بارے میں تبصرے کرنے کا بھی تمہیں کوئی حق نہیں ہے.تم جو دوسرے کو حقیر سمجھ کر ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی کوشش کرتی ہو بعض دفعہ پبلک میں بیٹھ کر لوگوں میں بیٹھ کر مجلس میں بیٹھ کر دوسروں کے مذاق اڑائے جاتے ہیں.یا بعض دفعہ بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے طنز کر دیتی ہیں.ایسی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتی ہیں جو اگلے کی تکلیف کا باعث بنتی ہے.اس سے جہاں معاشرہ میں فساد پیدا ہوتا ہے وہاں خود اس لحاظ سے بھی وہ عورت گناہگار بن رہی ہوتی ہے یہ کہہ کر کہ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں ، یہ تو ہے ہی ایسی اور ویسی ، اس نے تو ایسی حرکتیں کرنی تھیں.اس کا تو سارا خاندان ہی ایسا ہے.تو یہ دعوے بھی اگر ایک بار یک نظر سے دیکھا جائے تو خدائی کے دعوے ہیں.گویا یہ اظہار ہے کہ میں غیب کا علم رکھتی ہوں.پس ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ نیکی اس میں ہے کہ ان برائیوں کو چھوڑ دو.ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسانے چھوڑ دو.ایک دوسرے کے عیب تلاش
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 305 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب کر نے چھوڑ دو.ایک دوسرے کی برائیاں کرنی چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو ورنہ یاد رکھو کہ یہ باتیں تمہیں خدا سے دور کر دیں گی.ان باتوں میں مبتلا ہو کر تم مزید گند میں پڑتی چلی جاؤ گی اور ان حرکتوں کی وجہ سے تم فاسق کہلا ؤ گی.دوسروں کے نام بگاڑنے کی ممانعت پھر بعض نام رکھ دیتی ہیں.اس میں یہ بھی فرمایا گیا کہ ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے نہ پکارو.ایسے نام جو دوسرے کے نام کو بگاڑ کے رکھ دیئے جائیں.یہ چیزیں بھی ایسی ہیں جو ایمان میں کمزوری کا باعث بنتی ہیں.کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا ایسی حرکتیں کرنے کے بعد تمہاری ایمانی حالت جاتی رہے گی.اللہ تعالیٰ نے تمہیں موقع دیا کہ تم دوہرے انعاموں اور فضلوں کی وارث بنو.ایک انعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اور ایک انعام حضرت مسیح موعود کو مان کر تمہیں اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوا.پس اس انعام کی قدر کرو.نیکیوں میں آگے بڑھو اور ان بیہودہ اور دنیا داری کی باتوں میں اپنے آپ کو غرق نہ کرو.تمہارا مقام اب اللہ کی نظر میں بلند ہوا ہے، اس کو بلند کرتی چلی جاؤ.یہ اعزاز جو تمہیں زمانے کے امام کو مان کر ملا ہے اس اعزاز کو برقرار رکھنے کی کوشش کرو.اس تعلیم پر عمل کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے.اپنے اخلاق اعلیٰ کرو کہ اسی میں بڑائی ہے.اور یہ اللہ کے فضلوں کے ساتھ بلند ہوگا.اور اللہ کے فضلوں کے ساتھ اس صورت میں بلند ہوگا جب تم عاجزی دکھاؤ گی.جب تم ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھو گی جب تم اپنی جھوٹی انا ؤں اور جھوٹی عزتوں کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستہ پر چلنے کی کوشش کرو گی.پھر آگے اللہ تعالیٰ نے مزید چند باتوں کی وضاحت فرمائی کہ ایک دوسرے کی عزت قائم کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں.معاشرے کو فساد سے پاک کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں.ان میں سے ایک ہے بدظنی.اور بدظنی ایسی چیز ہے جس سے نہ صرف تم دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہو بلکہ اپنی روحانی ابتری کے سامان بھی پیدا کر رہی ہو.اور باطنی پیدا ہوتی ہے تو دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کی بھی عادت پڑتی ہے، تجسس پیدا ہوتا ہے.ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں رہنے اور اس خیال میں رہنے کی وجہ سے کہ دوسری عورت میرے بارے میں کیا خیال رکھتی ہے یا فلاں شخص میرے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 306 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب بارے میں کیا خیال رکھتا ہے.یا فلاں عزیز میرے بارے میں کیا خیال رکھتا ہے.یا فلاں دو عورتیں اکٹھی بیٹھی ہوئی ہیں یہ ضرور میرے خلاف، میرے متعلق فلاں بات کر رہی ہوں گی.تبصرہ کر رہی ہوں گی.اور ایک ایسی بات جس کا کوئی وجود ہی نہ ہو اس کو پکڑ کر ان دو باتیں کرنے والی عورتوں کے یا دو اکیلی بیٹھی عورتوں کے خلاف دل میں اُبال اٹھتا ہے، دل میں بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں.اور یہ غصہ اور یہ ابال جو ہے پھر دوسرے کو نقصان پہنچانے سے پہلے اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے.ایسی عورتیں اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے جو گناہ سر لے رہی ہوتی ہیں وہ تو ہے ہی لیکن اس بدظنی کی وجہ سے ،غصہ کی وجہ سے، دلوں میں بے چینی کی وجہ سے بلاوجہ کی اپنی صحت بھی برباد کر رہی ہوتی ہیں.اس فکر میں اپنے بلڈ پریشر بھی ہائی (High) کر رہی ہوتی ہیں.اس زمانے میں دنیا کے اور تھوڑے جھمیلے ہیں، اور مسائل ہیں جو ان بدظنیوں کی وجہ سے زبردستی کے مسائل اپنے اوپر سہیڑے جائیں اور اپنی صحت برباد کی جائے.اور پھر ایک عورت کیونکہ ایک بیوی بھی ہے، ایک ماں بھی ہے.اس وجہ سے اپنے خاوند کے لئے بھی مسائل کھڑے کر رہی ہوتی ہے، اپنے بچوں کی تربیت بھی خراب کر رہی ہوتی ہے.کیونکہ ان بدظنیوں کا پھر گھر میں ذکر چلتا رہتا ہے.بچوں کے کان میں یہ باتیں پڑتی رہتی ہیں وہ بھی ان باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، اثر لیتے ہیں.ان کی اٹھان بھی اس بدظنی کے ماحول میں ہوتی ہے اور یوں بڑے ہو کر وہ بھی اس وجہ سے اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو ایسی مائیں اس قسم کی باتیں بچوں کے سامنے کر کے جس میں فساد کا خطرہ ہو جو ایک دوسرے کے متعلق دلوں میں رنجشیں پیدا کرنے والی ہوں، جو بدظنیوں میں مبتلا کرنے والی ہوں، جن سے کدورتیں پیدا ہونے کا خطرہ ہو، جہاں اپنے بچوں کو برباد کر رہی ہوتی ہیں وہاں جماعت کی امانتوں کے ساتھ بھی خیانت کر رہی ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان بدظنیوں اور پھر ان کی وجہ سے دوسرے فریق کے بارے میں جو اس کے پیچھے باتیں ہوتی ہیں اپنے گروپ میں بیٹھ کر یا اپنی مجلس میں بیٹھ کر جو تبصرے ہوتے ہیں اس کو غیبت کہا ہے.اور فرمایا یہ غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے.اور کون پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.پھر فرمایا تم پسند نہیں کرتے کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ، تم اس سے کراہت کرتے ہو.پس ان باتوں سے پر ہیز کرو، ان سے بچو.اللہ تعالیٰ نے تم پر جو انعام
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 307 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب کیا ہے، تمہیں حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل ہونے کی توفیق دی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا شکر یہ ہے کہ تم اس کا تقویٰ اختیار کرو، اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو.جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کرو.اللہ تعالیٰ تو بار بار رحم کرتے ہوئے اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے.پس بدظنی نجس اور غیبت کی بیماریوں کو ترک کرتے ہوئے ہر ایک کو اللہ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مغفرت کا طالب ہونا چاہئے ، اس سے رحم مانگنا چاہئے، تا کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ تقویٰ پر چل سکیں اور تقویٰ پر چلنے والوں کی اللہ کے نزدیک بہت قدر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نزدیک تو وہی لوگ معزز ہیں جو ان برائیوں سے بچنے والے اور تقویٰ پر چلنے والے ہیں.باقی رہے تمہارے قبیلے یا تمہارے خاندان یا تمہاری قومیتیں یہ تو صرف ایک پہچان ہے.جب ہم نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا.حکم وعدل کو مان لیا.جب حضرت مسیح موعود کو مان لیا.جب ہم اس دعوی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ہم نے دنیا کو امتِ واحدہ بنانا ہے، ایک ہاتھ پر اکٹھے کرنا ہے، ایک امت بنانا ہے.تو پھر یہ قومیتیں اور یہ قبیلے اور یہ خاندان کوئی حیثیت نہیں رکھتے.یہ پہچان تو ہے کہ ہم کہیں کہ فلاں جرمن ہے، فلاں پاکستانی ہے اور فلاں انڈونیشین ہے، اور فلاں افریقن ہے، گھا نین ہے، نائیجیرین ہے.لیکن ایک احمدی میں کسی قوم کا ہونے کی وجہ سے بڑائی نہیں آنی چاہئے.یا کسی احمدی کو کسی بھی قوم کے احمدی کو کسی دوسری قوم کے احمدی کو دیکھ کر یہ احساس نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ یہ ہم سے کمتر ہے.ایک پاکستانی احمدی کا کام ہے کہ ایک افریقن احمدی کو بھی اسی طرح عزت دے جس طرح ایک جرمن احمدی کی وہ عزت کرتا ہے یا کسی دوسرے یورپین ملک کے باشندے کی عزت کرتا ہے.اسی طرح ایک احمدی جو یورپین ہے، اسی طرح افریقن کی یا ایشین کی عزت کرے جس طرح وہ یورپین کی کرتا ہے.جب یہ معاشرہ قائم ہوگا تو خدا کی رضا حاصل کرنے والا معاشرہ ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: ,, یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود انصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے.وہ خود عدل ہے ، عدل
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 308 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب کو دوست رکھتا ہے.اس لئے ظاہری رشتوں کی پرواہ نہیں کرتا.جو تقویٰ کی رعایت کرتا ہے اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے.اور اس کا ساتھ دیتا ہے.اور اسی لئے اس نے فرمایا ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ الحکم قادیان جلد 6 نمبر 37 مورخہ 7 اکتوبر 1902 ، صفحہ 7) تقویٰ پر قدم مارنے کی کوشش کرنی چاہئے پس آج ہر عورت اور مرد کو تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود کو، اس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور انصاف اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور یہی چیز ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کا دوست بنائے گی.اور جس کا اللہ دوست بن جائے اس کو دین ودنیا کی نعمتیں حاصل ہو جاتی ہیں.عورتوں کو ، احمدی عورتوں کو خاص طور پر میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جیسا کہ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ آپ کی گودوں میں مستقبل کی مائیں اور مستقبل کے باپوں نے پرورش پانی ہے اور پار ہے ہیں.اس لئے جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق آج کی مائیں تقویٰ پر قدم ماریں گی تو احمدیت کی آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ کر رہی ہوں گی.پس اس طرف ہر احمدی عورت کو غور کرنا چاہئے.یہ چند مثالیں جو ان آیات میں دی گئی ہیں اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف برائیوں کا ذکر ہے جن کو چھوڑنے کی ہدائت فرمائی گئی ہے.مختلف نیکیوں کا ذکر ہے جن کو اختیار کرنے کی ہدائت فرمائی گئی ہے.پس ان سب نیکیوں کو اپنانا اور ان سب برائیوں کو چھوڑ نا ہر احمدی کا فرض ہے.اور آج میں آپ عورتوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے اوپر یہ فرض کر لیں کہ آپ نے ہر برائی کو ترک کرنا ہے اور ہر نیکی کو اپنانا ہے تو آپ مردوں کی بھی اصلاح کا باعث بن رہی ہوں گی.بچوں کی اصلاح کا بھی باعث بن رہی ہوں گی.آئندہ نسلوں کی اصلاح کا بھی باعث بن رہی ہوں گی.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 309 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب پس ہر احمدی عورت کو جھوٹ کے خلاف بھی جہاد کرنا چاہئے ایک دو برائیوں کا اور بھی میں ذکر کر دیتا ہوں جو قرآن کریم میں درج ہیں، زیادہ تو نہیں کر سکتا.مختلف برائیوں کا ذکر ہے جو تقویٰ سے دور لے جانے والی ہیں.مثلاً جیسے فرمایا فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ النُّوْرِ (الحج:31) کہ پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو.کیونکہ جھوٹ شرک کی طرف لے جاتا ہے.جھوٹ بولنے والا خیال کرتا ہے کہ جھوٹ بول کر یا غلط بیانی کر کے اپنی چالا کی سے میں نے اپنی جان بچالی ہے یا اپنی جان بچالوں گا.یا فلاں شخص سے اپنے مفاد حاصل کرلوں گا.لوگوں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.پس اپنی اولاد کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر ماں اپنے سچ کے معیار کو بھی بلند سے بلند تر کرے.ہلکی سی بھی ایسی بات اس سے نہیں ہونی چاہئے ، کوئی ایسی غلط بیانی بھی نہیں ہونی چاہئے جس سے بچے کے بیچ کا معیار متاثر ہو.ایک دفعہ ایک عورت نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ تھیں اپنے چھوٹے بچہ کو جو کھیلتا ہوا باہر جارہا تھا آواز دے کر کہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ادھر آؤ میں تمہیں ایک چیز دوں.بچہ واپس مڑا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کیا دینے کے لئے تم نے بلایا ہے.تو ماں نے کہا کہ اسے میں کھجور دینا چاہتی ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم جھوٹ بولتیں.(الدرالمنثور.زیر آیت سورۃ التوبة ) تو اس حد تک احتیاط کا حکم ہے.ہم اکثر یہ حدیث سنتے ہیں کئی دفعہ میں بیان بھی کر چکا ہوں اور بچوں کو بھی سناتے ہیں.لیکن جب اپنے پر موقع آتا ہے تو غلط بیانی سے کام لے لیتے ہیں.بعض کی تو یہ عادت بن جاتی ہے اور بن گئی ہے کہ وہ غلط اور جھوٹی بات کہہ جاتے ہیں اور احساس نہیں ہوتا کہ جھوٹ کہا ہے.بات کر دیتے ہیں اور بات کر کے پھر اگر اس سے پوچھو کہ فلاں بات کی ہے؟ تو کہتے ہیں نہیں ، میں نے تو نہیں کی.فوراً مگر بھی جاتے ہیں یا یاد نہیں رہتا یا یہ احساس ہی نہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے.تو یہ جو عادت ہے اس کو بھی ترک کرنا چاہئے.جو بات کہیں جیسے مرضی حالات ہو جائیں، جیسی مرضی آفت آجائے ،
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 310 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب مشکل آجائے اور سزا کا خطرہ ہو ہمیشہ سچ کا دامن پکڑے رہنا چاہئے.تو جب اس حد تک آپ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں گی اور اس بیماری کو دور کرنے کی کوشش کریں گی ، جب اس حد تک آپ کے عمل میں سچائی پیدا ہو جائے گی تو جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جومیں نے حدیث میں بیان کیا ہے یہ سچائی کا معیار ہونا چاہئے تو غیر محسوس طریق پر آپ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کر رہی ہوں گی جہاں بچے تقویٰ اور سچائی کے ماحول میں پرورش پارہے ہوں گے.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : 66 قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے.گند قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ النُّوْرِ (الحج:31) دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے.اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے.ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجر ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ بیچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جاوے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت ان کو ہوگی.“ الحاکم قادیان جلد 6 نمبر 31 مورخہ 31 اگست 1902، صفحہ 2) پس ہر احمدی عورت کو جھوٹ کے خلاف بھی جہاد کرنا چاہئے.اپنے آپ کو اتنا سا بنالیں کہ آپ کا ما حول آپ پر کبھی یہ کہ کر انگلی نہ اٹھا سکے کہ اس نے فلاں وقت میں فلاں بات جو کہی تھی اس میں یہ چیز غلط تھی.آپ کا ہر ہر لفظ اور ہر فقرہ سچائی سے بھرا ہوا ہونا چاہئے.سچائی کی ایک مثال ایک احمدی عورت کو ہونا چاہئے.آپ کی سچائی کی دھاک اس قدر ہر ایک پر بیٹھنی چاہئے کہ ہر ایک آنکھ بند کر کے بغیر سوچے سمجھے آپ کی ہر بات کا اعتبار کرنے والا ہو.اس کو یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ اس نے کبھی غلط بیانی کرنی ہے.اس حد تک آپ کے سچائی کے معیار ہونے چاہئیں.جب یہ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 311 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب معیار آپ حاصل کرلیں گی تو جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ جماعت احمدیہ کی اگلی نسلوں کے معیار سچائی جو ہیں وہ بھی اس قدر بلند ہو جائیں گے جن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اور جب سچائی اتنی پھیل جائے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تو وہی دور ہوگا جب کوئی روک آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی.آپ پھیلتے چلے جائیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے.اور کوئی نہیں جو آپ کے پیغام کو روک سکے.کوئی نہیں جو احمدیت کی ترقی کو روک سکے.اور یہی سچائی کے معیار ہیں جو اتنے بلند ہو جائیں تو اس کے سامنے جیسا کہ میں نے کہا کوئی اس کو روک نہیں سکتا.اس کے سامنے دنیا کا ہر بُت پارہ پارہ ہو جاتا ہے.اور جب آپ اپنی سچائی کے اس قدر معیار بلند کر لیں گی تو خدا کے ہاں بھی صدیقہ لکھی جائیں گی.ایک حدیث میں آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے.انسان سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے.اور پھر فرمایا جھوٹ بولنے والا کذاب لکھا جاتا ہے.(ابوداؤد كتاب الأدب باب التشديد في الكذب) اللہ تعالیٰ آپ سب کو یہ صدق کے معیار حاصل کرنے کی توفیق دے.اور کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ اللہ کے ہاں کوئی احمدی عورت کذاب لکھی جانے والوں میں ہو.خیانت سے بچیں جس نے معاشرہ میں فساد پیدا کیا ہوا ہے ایک بیماری جس نے معاشرہ میں فساد پیدا کیا ہوا ہے، خیانت بھی ہے.خیانتوں کا صحیح ادراک نہیں ہے.جس حد تک امانتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں وہ معیار بلند نہیں ہوتا.تو ہر احمدی کو اپنی امانت کے معیار بھی اتنے بلند کرنے چاہئیں کہ کبھی اس سے خیانت کا تصور بھی نہ کیا جاسکے.اوّل تو جھوٹ چھوڑنے سے ہی معیار اتنے بلند ہو جاتے ہیں کہ ہر دوسری برائی خود بخود چھوٹتی چلی جاتی ہے.لیکن قرآن کریم میں اس کا بھی ذکر اس طرح آیا ہوا ہے اس لئے میں ذکر کر رہا ہوں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 312 جلسہ سالانہ جرمنی 2005 مستورات سے خطاب تو اللہ تعالیٰ نے خیانت کرنے والے سے ناپسندیدگی کا اظہار یوں فرمایا ہے کہ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيْمًا (النساء: 108) یقیناً اللہ تعالی خیانت میں بڑھے ہوئے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا.پس اللہ کا محبوب اور اس کا پسندیدہ بننے کے لئے اور اس کا دوست بننے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہر قسم کی خیانت سے پاک کریں.اپنے نفسوں کو بھی خیانت سے پاک کریں.اپنے آپ کو بھی دھوکہ نہ دیں.اپنے خاوند اور بچوں کو بھی دھوکہ نہ دیں.اپنے دوستوں کو اور اپنے ماحول میں بھی بھی دھوکہ نہ دیں.کسی بھی معاملہ میں کبھی کسی کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل فرما کر جو احسان کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ایک احمدی کے لئے جو شرائط بیعت رکھی ہیں ان پر عمل کریں.ان کو پڑھیں اور غور کریں اور دیکھیں کہ کس حد تک آپ نے وہ معیار حاصل کرنے ہیں اور اپنے آپ کو پاک کرنا ہے.اپنی بہنوں کے حقوق ادا کریں.اپنے ماحول کے حقوق ادا کریں.اپنے خاوندوں کے حقوق ادا کریں.اپنے بچوں کے حقوق ادا کریں.جن پر جماعتی ذمہ داریاں ہیں وہ اپنی جماعتی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں.جو ملک کے قوانین ہیں ان کی پابندی کریں اور ان سب نیکیوں پر نہ صرف خود قائم رہنا ہے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی ان پر قائم کرنا ہے.ان کی بھی نیک تربیت کرنی ہے.ان کی بھی جماعت کی امانت سمجھ کر پاک تربیت کرنی ہے.تبھی آپ اُن لوگوں میں شامل کہلا سکیں گی جو خیانت کرنے والے نہیں بلکہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں.اور یہ سب باتیں نیک اعمال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حاصل ہوں گی.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کریں.جب آپ کی عبادتوں کے معیار بلند ہوں گے تو تقویٰ کے معیار بھی بلند ہوں گے.اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف مزید توجہ پیدا ہو گی.آپ کی نسلیں نیکیوں پر قدم مارنے والی ہوں گی.اور یوں وہ بھی آپ کے لئے مستقل دعاؤں کا ذریعہ بن رہی ہوں گی.اللہ تعالیٰ سب کو تقویٰ کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ لوگوں کو وہ فہم و ادراک عطا فرمائے جس سے آپ یہ سمجھ سکیں کہ احمدی ہونے کے بعد ایک احمدی عورت پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 313 خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 2005 (اقتباس) اپنے بزرگان کی اعلیٰ نیکیوں کے نمونے اپنی زندگیوں میں قائم رکھیں خطبہ جمعہ فرمودہ 02 /ستمبر 2005ء بمقام بیت الرشید ، ہمبرگ جرمنی (اقتباس) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ کی برکات کے ضمن میں فرمایا: ان کارکنوں کے علاوہ اور ان کا رکنات کے علاوہ جو جلسہ گاہ کی تیاری ، کھانے پکانے ،صفائی اور جلسہ کے بعد اس کو سمیٹنے وغیرہ کے کام میں شامل ہوتے ہیں.جلسہ سننے والوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی ہے.ہم دیکھتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا صرف یہاں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں ایم ٹی اے کے ذریعے یہ نظارے دیکھے گئے وہاں جس نے بھی جلسے کا ماحول بنایا ، چاہے وہ گھروں میں ہو یا مساجد میں ہو ، سب یہی لکھتے ہیں کہ ہم جلسے کی برکات کو اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ رہے تھے.پس یہ فضل کام کرنے والوں پر بھی ہیں اور شامل ہونے والوں پر بھی ہیں چاہے وہ براہ راست شامل ہونے والے ہوں یا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شامل ہونے والے ہوں.اور یہ صرف ان تین دنوں کے لئے نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 314 خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 2005 (اقتباس) ان فضلوں کو سمیٹ کر ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے.اور یہ ہر احمدی جوان، بوڑھے ،عورت ، مرد، بچے کا فرض ہے تا کہ وہ دعائیں نسلاً بعد نسل ہمارے حصے میں آتی چلی جائیں.اور وہ اسی صورت میں ہوگا ( جیسا کہ میں جلسے کے دنوں میں بھی کہہ چکا ہوں ) کہ جب آپ نے ان تقاریر، ان نصائح، ان عبادتوں اور ان دعاؤں کو ان تین دنوں میں اپنی زندگیوں پر لاگو کیا اور اُن کے فیض سے حصہ پایا یا حصہ پاتے ہوئے اپنے آپ کو محسوس کیا.اور جب بعضوں نے اس روحانی ماحول کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھا.بعض کو اللہ تعالیٰ اس ماحول کے نظارے بھی دکھا دیتا ہے تاکہ ایمان میں زیادتی کا باعث بنے.لیکن جو اس طرح نظارے نہیں بھی دیکھ رہے ہوتے وہ بھی اس ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس ماحول پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے فیض پارہے ہوتے ہیں.نیک نیتی سے جلسے میں شامل ہونے والوں کو اللہ اپنے فضلوں کے نظارے دکھاتا ہے ایک خاتون نے ایک واقعہ لکھا تھا، میں نے کارکنان کی میٹنگ میں بھی بتایا تھا کہ آٹھ دس سال پہلے جب بیعت کی تو جلسے پر تشریف لائیں اور جس پرانی احمدی خاتون کے ساتھ آئی تھیں ان کا پروگرام یہ تھا کہ اپنے کسی عزیز کے ہاں رات کو رہنا ہے.تو اس وقت یہ نئی بیعت کرنے والی بڑی پریشان تھیں کہ میرا تو یہاں کوئی واقف نہیں ہے، یہ میری ایک واقف عورت ہے، یہ بھی یہاں سے جا رہی ہے.ان کو صحیح ماحول کا پتہ نہیں تھا علم نہیں تھا کہ جسے پر کیسا ماحول ہوتا ہے.اکیلی میں کیا کروں گی.کسی کو میں جانتی نہیں.خیر پرانی احمدی خاتون تو رات ہوتے ہی چلی گئیں.اور یہ نئی احمدی خاتون جلسہ گاہ کے انتظام کے تحت وہیں جلسہ گاہ میں ہی رہیں.اور کہتی ہیں میں پریشانی میں دعائیں کرتی رہی.اتنے میں ایسی کیفیت میں آنکھ لگ گئی.( یہ مجھے مستحضر نہیں ہے ) بہر حال نظارہ دیکھا کہ آسمان سے ایک روشنی پھوٹی ہے جو دائرے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس میں سے کچھ اوراق ، کچھ صفحے، کچھ کا غذ نیچے آئے ہیں جن پہ عربی عبارت تھی ، ان کو یاد تو نہیں کہ وہ عبارت کیا تھی لیکن ان کا خیال ہے کہ قرآن کریم کے ہی کچھ احکامات تھے، نصائح تھیں اور دعا ئیں تھیں.بہر حال وہ کہتی ہیں میں نے اسی طرح وہ کا غذ جمع کئے اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ان کے مطابق وہ نظارہ ان کے لئے اتنی تسکین کا باعث تھا کہ سارا خوف ، فکر سب کچھ دور ہو گیا.یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ نئی جگہ ہے،
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 315 خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 2005(اقتباس) نئے لوگ ہیں.تو اگلے دن صبح جب وہ احمدی خاتون آئیں جن کے ساتھ یہ آئی تھیں تو انہوں نے جو چلی گئی تھیں ان کو بتایا کہ میں تو اپنے فلاں عزیز کے گھر چلی گئی تھی ، رات میری بڑے آرام سے گزری ہے، پتہ نہیں تمہاری رات یہاں کس طرح گزرسکی.تو اس نو مبائع نے کہا کہ جو نظارے میں نے دیکھے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضلوں سے نوازا ہے اور میری تسکین کے سامان پیدا فرمائے ہیں وہ بھلا تمہیں کہاں حاصل ہوئے.تو دیکھیں نیک نیتی سے جلسے میں شامل ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فضلوں کی بارش کے نظارے دکھاتا ہے جو ایمان میں مضبوطی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کو بھی ظاہر کرتے ہیں.تو یہ فضل صرف اس ایک عورت یا صرف اس ایک خاندان کے لئے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس سارے ماحول کے لئے تھا.ان سب شاملین کے لئے یہ فضل تھے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں کی ہیں.“ اسی خطبہ میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر جلسہ کے ماحول کی ڈوری آپ کو تقویٰ سے دور لے گئی ہے تو وہ تین دن اس نماز کی طرح بے فائدہ ہیں جس میں آپ نے کسی مشکل اور مصیبت میں پڑنے کی وجہ سے، کسی ذاتی تکلیف کی وجہ سے رو رو کر دعا تو کر لی.لیکن اس نماز نے آپ میں یہ تبدیلی پیدا نہ کی کہ آپ مستقل پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق نماز ادا کریں اور پھر زائد عبادتوں کی طرف توجہ کریں.تو جلسہ بھی اسی طرح ہے کہ ایک جلسے میں سنی اور سکھی ہوئی باتوں کو اپنے دلوں میں بٹھانا ہے اور اس کا اثر اگلے جلسے تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور پھر اگلے سال ایک نئی روح، ایک نئے جوش، ایک نئے جذبے کے ساتھ پھر چارج (Charge) ہو کر آئندہ کے لئے پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.ورنہ آپ جلسے کے فیض سے حصہ پانے والے نہیں ہوں گے.ہمیشہ دین اور تقویٰ پر قائم رہنے کیلئے دعائیں کریں انسانی دل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اس لئے ہمیشہ دین پر اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.کسی کو کبھی یہ بڑائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے کہ میرے اندر یہ نیکی ہے بلکہ نیکی کو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 316 خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 2005 (اقتباس) مزید عاجزی کی طرف لے جانا چاہئے، مزید عاجزی کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے.اور پھر یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہ کوئی چیز حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی زندگی کا مستقل حصہ بن سکتی ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے نور سے منور کیا ہے.اکثریت جو یہاں بیٹھی ہے، یا جرمنی میں آئی ہوئی ہے ان کے بزرگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی.ملاقات میں آتے ہیں تو اکثر یا بعض لوگ تعارف تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے نانایا دا دا یا پڑدا دایا پڑ نا نا صحابی تھے.الحمد للہ یہ بڑا اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز اس وقت تک ہے جب تک آپ خود بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیک اور اعلیٰ اور پاک نمو نے قائم کرنے والے ہوں گے.دین کی اہمیت اپنے اندر اور اپنی نسلوں کے دلوں میں قائم کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر آپ کی توقعات کے مطابق عمل کرنے والے ہوں گے.اپنے بزرگان کی طرح اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں بعض خواتین اپنے تعارف تو صحابہ کے حوالے سے کروا رہی ہوتی ہیں لیکن لباس اور پردے کی حالت اور فیشن سے لگتا ہے کہ دین پر دنیا غالب آ رہی ہے.جماعت سے ایک تعلق تو ہے، ایک پرانا تعلق ہے، خاندانی تعلق ہے ایک معاشرے کا تعلق ہے لیکن ظاہری حالت جو معاشرے کے زیر اثر اب بن رہی ہے وہ دینی لحاظ سے ترقی کی طرف جانے کی بجائے نیچے کی طرف جارہی ہے.اور پھر یا درکھیں کہ ظاہری حالت کا تعلق دل کی کیفیت سے بھی ہوتا ہے.اس کا دل پر بھی اثر ہوتا ہے.آہستہ آہستہ دل بھی اس ظاہری کیفیت کے زیر اثر آ جاتا ہے.اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے ، یہی فخر کا مقام نہیں ہے کہ ہم صحابی کی اولاد ہیں.مرد ہو یا عورت ، جب تک آپ اپنے اندر خود پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے باپ دادا کا صحابی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک تمہارے اپنے عمل نیک نہیں ہوں گے.اس لئے جو جلسے کے تین دن ہیں جو گزشتہ ہفتے میں آپ کو تین دنوں کا روحانی ماحول میسر آیا ہے اب گھروں میں بیٹھ کر بھی اس کی جگالی کرتے رہیں."
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 317 مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ سویڈن 17 ستمبر 2005ء بہتر معاشی حالات اس بات سے غافل نہ کر دیں کہ آپ کے باپ دادا نے بڑی قربانیاں دے کر احمدیت کو قبول کیا تھا آپ کا کوئی نمونہ بھی جماعت کی بدنامی کا باعث نہ بنے پردہ ایک بنیادی اسلامی حکم ہے جسے قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے پردے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت بند ہو جائے نقاب یا سکارف اوڑھنے کا مقصد بچوں کی تربیت کیلئے مغربی ماحول کی برائیوں سے بچنے کی انتہائی کوشش کریں ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی راہنمائی کرنی چاہئے جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے ہر احمدی عورت کو اپنے مقام کو بجھتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کرنی چاہئے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 318 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب احمدی خواتین کے اخلاقی نمونے دوسروں کیلئے مثال کی طرح ہوں تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا اس وقت جو آپ خواتین یہاں میرے سامنے بیٹھی ہیں.تین سکنڈے نیوین ملکوں سے آئی ہیں.آپ میں سے اکثریت بلکہ ایک لحاظ سے تمام ہی پاکستان سے تعلق رکھنے والی ہیں.کچھ شائد ہندوستان سے بھی ہوں.کئی خاندان یہاں پاکستان سے آکر آباد ہوئے.آپ میں سے بعض خاندان چالیس پچاس سال پرانے بھی یہاں آباد ہیں جنہوں نے یہاں زندگیاں گزاریں، یہیں بچے پیدا ہوئے ، جوان ہوئے ، شادیاں ہوئیں، اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے اُن بچوں کی شادیاں بھی ہوگئیں.یہاں آنے والے اکثر خاندان بلکہ تمام خاندان ہی پاکستان سے یا ان ملکوں سے کسی سختی کی وجہ سے یہاں آئے یا معاشی حالات بہتر کرنے کی وجہ سے آئے.اور الحمد للہ کہ یہاں آنے والے تمام خاندان ہی پہلے کی نسبت بہت بہتر معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں.لیکن یہ بہتر معاشی حالات آپ کو دین سے، اسلام کی خوبصورت تعلیم سے غافل نہ کر دیں.یہ بہتر معاشی حالات آپ کو اس بات سے غافل نہ کر دیں کہ آپ کے باپ دادا نے ، بزرگوں نے بڑی قربانیاں دے کر احمدیت کو قبول کیا تھا اور پھر یہ کوشش کی تھی کہ اپنی نسلوں میں بھی اس انعام کو جاری رکھیں.آپ کے بہتر معاشی حالات، مالی حالات اس بات سے آپ کو غافل نہ کر دیں کہ آپ اس زمانے کے امام کی جماعت میں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 319 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب شامل ہیں اور اس امام کو مانے اور آپ کے بزرگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی آج آپ ان ملکوں میں پرسکون زندگی گزار رہی ہیں.ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں.بچوں کے لئے تعلیم کے مواقع میسر ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کئے آپ کو اللہ تعالیٰ کا مزید شکرگزار بنبنا چاہئے.اور کسی ذہن میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ یہ سب کچھ میرے خاوند یا میرے باپ یا میرے بیٹے کی زور بازو اور محنت کا نتیجہ ہے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے جو آپ کو ملا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کے نام روشن کرنے والی بنیں.ان فضلوں کا تقاضا ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کرنے والی بنیں اور نہ صرف خود اس تعلیم پر عمل کریں بلکہ اپنی اولا دوں کی بھی اس فکر کے ساتھ نگرانی کریں اور تربیت کریں کہ کہیں وہ مغرب کے آزاد ماحول کی وجہ سے دین سے دور نہ ہٹ جائیں.خاص طور پر لڑکوں کی بڑی نگرانی کرنی پڑتی ہے.ان ممالک کی عورتوں نے بھی آپ کے عملی نمونے دیکھنے ہیں آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ ان ملکوں میں نئے شامل ہونے والے احمدی جو یہاں کے مقامی ہیں اور بعض دوسری قوموں کے بھی ہیں اور ان میں سے بھی اکثریت عورتوں کی ہے انہوں نے آپ کے نمونے دیکھنے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ جن عورتوں نے یعنی یہاں کی مقامی عورتوں نے مردوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں وہ ان مردوں کے نمونے بھی دیکھیں گی اور اتنا ہی دین سیکھیں گی اور سمجھیں گی جتنا ان کے پاکستانی خاوند یا پرانے احمدی خاوند دین پر عمل کرتے ہیں.اس لئے مردوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان کی تربیت کریں.مردوں کو میں اس سے باہر نہیں کر رہا.لیکن عورتوں کے ماحول میں جب یہ نئی عورتیں آئیں گی یعنی نئی احمدی ہونے والی عورتیں آئیں گی جنہوں نے بیعت کی ہے اور احمدیت میں شامل ہوئی ہیں تو وہ آپ عورتوں کے نمونے بھی دیکھیں گی.لجنہ کے اجلاسوں میں، اجتماعوں میں وہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا اور عمل دیکھیں گی.دینی احکام کی آپ کتنی پابندی کرتی ہیں وہ یہ سب کچھ دیکھیں گی.آپ جس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں وہ دیکھیں گی.اور اگر آپ لوگوں کے قول وفعل میں تضاد ہوگا، اگر آپ کے رویے اسلامی تعلیم کے خلاف ہوں گے.اگر آپ ایک دوسرے کی عزت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 320 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب اور احترام نہیں کر رہی ہوں گی تو آپ ان کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتی ہیں.پس ایک بہت بڑی ذمہ داری آپ عورتوں کی جو پرانی احمدی عورتیں ہیں جو پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں آئی ہیں یہ ہے کہ آپ اپنے نمونے ان لوگوں کے سامنے قائم کریں.ایسے نمونے قائم کریں جو اسلام کی حسین تعلیم کے نمونے ہیں تاکہ نئے شامل ہونے والوں کی تربیت بھی ہو سکے اور آپ کے ان نمونوں کی بدولت اور آپ کے ان نمونوں کی وجہ سے آپ کے لئے تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہو سکے.آپ احمدیت اور اسلام کا پیغام بھی آگے پہنچا سکیں.آپ کے لئے مزید راستے کھل سکیں جن پر چل کر آپ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کو پہنچا ئیں گی.یادرکھیں آپ کے نمونوں کو دنیا بڑے غور سے دیکھتی ہے.آج یہاں ان ملکوں میں مختلف قوموں کے لوگ آباد ہو گئے ہیں.مختلف جگہوں سے لوگ آئے ہیں جن میں عرب کے مختلف ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں ترکی وغیرہ کے لوگ بھی شامل ہیں اور دوسری قوموں کے بھی ہیں.تو ان مسلمان ملکوں کے لوگ جو یہاں آئے ہیں ان کو جب آپ تبلیغ کرتی ہیں یا مرد تبلیغ کرتے ہیں تو آپ کا اسلام پر عمل اگر ان سے بہتر نہیں ہے تو وہ آپ سے سوال کریں گے کہ تم میں ہماری نسبت کیا بہتری ہے؟ اسلام کے مطابق تمہارے کیا عمل ہیں جو ہمارے سے بہتر ہیں؟.پہلے یہ بتاؤ کہ زمانے کے امام کو مان کر تم نے اپنے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے جو ہمیں کہہ رہی ہو کہ ہم بھی اس امام کو مان لیں.میں پہلے بھی ایک دفعہ بیان کر چکا ہوں.مثال دے چکا ہوں کہ انہی ملکوں میں ، مغرب میں ہی ہمارے ایک مبلغ ترکوں میں تبلیغ کے لئے گئے تو ان ترکوں نے کہا کہ کون سے صحیح دین کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو.تمہاری عورتیں تو خود اس پر عمل نہیں کرتیں.تو اس بیچارے نے بڑا شرمندہ ہوکر پوچھا کہ ہماری عورتوں کے کیا عمل ہیں جو تم نے دیکھے ہیں؟.کیا برائی ہے جو تم نے ہم میں دیکھی ہے.تو انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایک حکم پر دے کا بھی ہے.ہماری عورتیں برقعہ پہنتی ہیں، اکثر پردہ کرتی ہیں جب کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں بغیر حجاب اور پردے کے پھرتی ہیں.تو جن چند ایک کو انہوں نے دیکھا ان سے انہوں نے پوری جماعت احمدیہ کو اس پیمانہ پر رکھا حالانکہ میرے خیال میں ایسی چند ایک ہوں گی.تو دیکھیں ان چند لڑکیوں یا عورتوں کی وجہ سے ان لوگوں نے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حضہ اوّل 321 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب احمدیت کے بارے میں بات سننے سے ہی انکار کر دیا.ایسی عورتیں یا لڑکیاں جماعت کی بدنامی کا باعث علیحدہ بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ہمارے مرید ہمیں بدنام نہ کریں.یہ الفاظ میرے ہیں، کچھ اس قسم کے ملتے جلتے الفاظ ہی ہیں.تو دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہو کر پھر ایسی باتیں جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں ان سے بچنا چاہئے.شرعی پردہ پردہ ایک بنیادی اسلامی حکم ہے اور قرآن کریم میں بڑا کھول کر اس کے بارے میں بیان ہوا ہے.لوگ جو قرآن کریم غور سے نہیں پڑھتے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اتنی سختی نہیں کی.یہ تو ایسا واضح حکم ہے جو بڑا کھول کر بیان کیا گیا ہے.اور پہلے بھی میں دو تین دفعہ کہہ چکا ہوں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شائد میں ہی اس کو ختی سے زیادہ بیان کر رہا ہوں.حالانکہ میں وہ بیان کر رہا ہوں جو قرآن کریم کے مطابق ہے.میں وہ بات آپ کو کہہ رہا ہوں جو قرآن کریم کہتا ہے.قرآن کریم پردے کے بارہ میں کیا کہتا ہے.یہ لمبی آیت ہے اس میں حکم ہے وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جيوبهن (النور:32) کہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو.اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں.اور پھر لمبی فہرست ہے کہ باپوں کے سامنے، خاوندوں کے سامنے ، بیٹوں کے سامنے جو زینت ظاہر ہوتی ہے، وہ ان کے علاوہ باقی جگہ آپ نے ظاہر نہیں کرنی.نقاب یا سکارف اب اس میں لکھا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لو.تو بعض کہتے ہیں کہ گریبانوں پر
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 322 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب اوڑھنیاں ڈالنے کا حکم ہے اس لئے گلے میں دو پٹہ ڈال لیا یا سکارف ڈال لیا تو یہ کافی ہو گیا.تو ایک تو یہ حکم ہے کہ زینت ظاہر نہ کریں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر نکل تو اتنا چوڑا کپڑا ہو جو جسم کی زینت کو بھی چھپاتا ہو.دوسری جگہ سر پر چادر ڈالنے کا بھی حکم ہے.اسی لئے دیکھیں تمام اسلامی دنیا میں جہاں بھی تھوڑا بہت پردہ کا تصور ہے وہاں سر ڈھانکنے کا تصور ضرور ہے.ہر جگہ حجاب یا نقاب اس طرح کی چیز لی جاتی ہے یا سکارف باندھا جاتا ہے یا چوڑی چادر لی جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ (النور:32) بڑی چادروں کو اپنے سروں سے گھسیٹ کر سینوں تک لے آیا کرو.بڑی چادر ہو سر بھی ڈھانکا ہو اور جسم بھی ڈھانکا ہو.باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں وغیرہ کے سامنے تو بغیر چادر کے آسکتی ہو.اب جب باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں کے سامنے ایک عورت آتی ہے تو شریفانہ لباس میں ہی آتی ہے.چہرہ وغیرہ ننگا ہوتا ہے.تو فرمایا کہ یہ چہرہ وغیرہ ننگا جو ہوتا ہے یہ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں اور ایسے رشتے جو محرم ہوں ، ان کے سامنے تو ہو جاتا ہے لیکن جب باہر جاؤ تو اس طرح ننگا نہیں ہونا چاہئے.اب آج کل اس طرح چادر میں نہیں اوڑھی جاتیں.لیکن نقاب یا برقع یا کوٹ وغیرہ لئے جاتے ہیں.تو اس کی بھی اتنی سختی نہیں ہے کہ ایسا ناک بند کر لیں کہ سانس بھی نہ آئے.سانس لینے کے لئے ناک کو نگا رکھا جاسکتا ہے لیکن ہونٹ وغیرہ اور اتنا حصہ، دہانہ اور اتنا ڈھانکنا چاہئے.یا تو پھر بڑی چادر لیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سر پر اوڑھیں، خود بخود پردہ ہو جاتا ہے، بڑی چادر سے گھونگٹ نکل آتا ہے.یا اگر اپنی سہولت کے لئے برقع وغیرہ پہنتے ہیں تو ایسا ہو جس سے اس حکم کی پابندی ہوتی ہو.تنگ کوٹ پہن کر جو جسم کے ساتھ چمٹا ہو یا سارا چہرہ نگا کر کے تو پردہ ، پردہ نہیں رہتا وہ تو فیشن بن جاتا ہے.پس میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ اپنے جائزے خود لیں اور دیکھیں کہ کیا قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق ہر ایک پردہ کر رہا ہے.نئی آنے والی احمدی بہنوں سے میں کہتا ہوں کہ آپ نے احمدیت اور اسلام کی تعلیم کو سمجھ کر قبول کیا ہے.آپ یہ نہ دیکھیں کہ آپ کے خاوند کیسے احمدی ہیں یا دوسری خواتین کیسی احمدی ہیں.آپ اپنے نمونے بنا ئیں.اسلامی تعلیمات کی خالص مثال قائم کریں.اپنے خاوندوں کو بھی دین پر عمل کرنے والا بنا ئیں.اپنے بچوں کو بھی اسلام کی تعلیم کے مطابق تربیت دیں.اور دوسری پرانی پیدائشی احمدی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 323 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب بہنوں کو بھی ، اپنے نمونے قائم کر کے ان کے لئے بھی تربیت کے نمونے قائم کریں.ان کے لئے بھی آپ مثال بنیں.بعض دفعہ بعد میں آنے والی نیکی اور تقویٰ میں پہلوں سے آگے نکل جاتی ہیں.افریقہ میں بھی میں نے دیکھا ہے پردہ کی پابندی اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی کئی خواتین ہیں جو مثال بن سکتی ہیں.امریکہ میں بھی وہاں کی مقامی کئی ایسی خواتین ہیں جو احمدی ہوئیں اور مثال بن گئیں.جرمنی میں بھی کئی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے بیعت کی اور مثال بن گئیں.یہاں آپ کے ملکوں میں بھی ایسی خواتین ہیں.ان ملکوں میں بھی کئیوں کی پردے کی بڑی اچھی مثالیں ہیں اور دوسرے احکامات پر عمل کرنے کی بھی مثالیں ہیں.تو نئی بیعت کرنے والیاں ہمیشہ یادرکھیں کہ اگر کسی پاکستانی عورت میں کوئی برائی دیکھیں تو ٹھو کر نہ کھائیں.چند اگر بُری ہیں تو بہت بڑی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی بھی ہیں.پھر آپ نے کسی مرد یا عورت کی بیعت نہیں کی بلکہ حضرت مسیح موعود کو مانا ہے.اپنے نمونے قائم کر کے جیسا کہ میں نے کہا پرانی احمدیوں کے لئے بھی تربیت کے سامان پیدا کریں.اس سے آپ کو دوہرا ثواب ہوگا آپ دوہرے ثواب کما رہی ہوں گی.پر دے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت بند ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں جنگوں میں بھی جایا کرتی تھیں.پانی وغیرہ پلایا کرتی تھیں.دوسرے کاموں میں بھی شامل ہوتی تھیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسلام کے بہت سے احکام کی وضاحت اور تشریح ہمیں حضرت عائشہؓ کے ذریعہ سے ملی ہے.کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ نے آدھا دین سکھایا ہے.اس لئے روشن خیالی تعلیم حاصل کرنا علم حاصل کرنا بھی بچیوں کے لئے ضروری ہے.اور ضرور کرنا چاہئے.نہ صرف اپنے لئے ضروری ہے بلکہ آئندہ ان بچوں کے لئے اور ان نسلوں کے لئے بھی ضروری ہے جو آپ کی گودوں میں پلنے اور بڑھنے اور جوان ہونے ہیں اور جنہوں نے احمدیت کی خدمت کرنی ہے.اگر مجبوری سے کسی کو کام کرنا پڑتا ہے، کسی جگہ ملازمت کرنی پڑتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.لیکن ان باتوں کا بہانہ بنا کر ان ملازمتوں کا، نوکریوں کا یا تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر پردے نہیں اتر نے چاہئیں اور یہاں مقامی جیسے کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے ڈینش یا سویڈش شائد چند نارو بکن بھی ہوں.مجھے ابھی کوئی ملی نہیں ، وہ تو کم ہیں.اس طرح پاکستانی خواتین بھی ہیں جو پڑھتی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 324 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب بھی ہیں ، کام بھی کرتی ہیں، لیکن پردے میں.تو جو پردے کی وجہ سے کام یا پڑھائی میں روک کا بہانہ کرتی ہیں ان کے صرف بہانے ہیں.نیک نیت ہو کر اگر کہیں اس وجہ سے روک بھی ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کریں.آپ جہاں ملازمت کرتی ہیں ان کو بتا ئیں تو کوئی پابندی نہیں لگا تا کہ حجاب ا تارو یا سکارف اتار دیا برقع اتارو اور پھر نیک نیتی سے کی گئی کوششوں میں اللہ تعالیٰ بھی مددفرماتا ہے.حضرت مسیح موعود دفرماتے ہیں کہ : ”اسلامی پردے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.( یعنی اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھیں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے.بعض پیشے ایسے ہیں، بعض کام ایسے ہیں ، بعض ملک ایسے ہیں جہاں کام کرنے بھی پڑتے ہیں، باہر بھی جانا پڑتا ہے.تو وہ ایسی کوئی بات نہیں ہے.اس پر پابندی نہیں ہے.فرمایا کہ باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے.اور نہ ان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مسابقت نہ کریں.جس طرح مرد نیکیاں کرتے ہیں عورتیں بھی نیکیاں کرتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ عورتیں نیکیوں میں مردوں سے بڑھ جاتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں عورتوں کی بڑی کثیر تعداد ہے جو مردوں سے نیکیوں میں بڑھی ہوئی ہے، ہر جگہ اور ہر ملک میں ہے.فرمایا کہ: اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو.اسلام شہوات کی بناء کو کا تنا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہورہا ہے.66 یورپ میں اب یہ پردے کا بڑا شور اٹھتا ہے.فرمایا کہ یورپ کو دیکھو کہ کیا ہوتا ہے.اب آپ دیکھ لیں، یہاں غیر ضروری آزادی کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ہی طلاقیں بھی ہوتی ہیں اور گھر بھی برباد ہوتے ہیں.اور یہ نسبت مشرق کے مقابلے میں مغرب میں بہت بڑھی ہوئی ہے.یہاں جو طلاقیں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 325 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب ہیں یا ایک عرصہ کے بعد گھر برباد ہوتے ہیں، مشرقی معاشرہ میں اتنے نہیں ہوتے یا ایسے معاشرے میں جہاں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جاتی ہے.اور آج کل یہاں جن لوگوں نے پاکستان سے آکر یورپ کے اثر کو قبول کیا ہے ہمارے چند ایک پاکستانی احمدی بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں، دوسرے تو اکثر ہیں ، وہ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں اس معاشرہ کے اثر کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے گھر برباد کر رہے ہیں.اور اسی لئے آج کل دیکھ لیں آپ پاکستانی خاندانوں میں بھی طلاقیں بہت بڑھ گئی ہیں.ذراسی ناراضگی کی وجہ سے یا کوئی لڑکی علیحدگی لے لیتی ہے یا لڑکا علیحدگی لے لیتا ہے، طلاق لے لیتا ہے.تو آپ آگے فرماتے ہیں کہ اسلام تقوی سکھانے کے واسطے دنیا میں آیا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول ، جدید ایڈیشن ، صفحہ 297-298) اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے.بچوں کی تربیت کیلئے مغربی ماحول کی برائیوں سے بچنے کی انتہائی کوشش کریں ایک اور بات جس کی طرف میں احمدی خواتین کو توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ بچوں کی تربیت ہے.ان ملکوں میں آکر آپ پر کچھ ذمہ داریاں ہیں.میں نے پہلے بھی کہا ہے صرف معاشی حالات بہتر کرنے نہیں آئیں بلکہ جس طرح معاشی حالات بہتر ہوتے ہیں اس طرح ہی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور ان میں سے بہت بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت ہے.اگر یہ ذمہ داری احسن طور پر آپ نبھائیں تو یہ فکر میں بھی دور ہو جائیں گی کہ اگلی نسلوں کو یورپ کی جو بعض گندی باتیں ہیں اُن سے کس طرح بچانا ہے.آزاد ماحول سے کس طرح بچانا ہے.اس ماحول کی اچھائیاں تو آپ اختیار کریں.یہاں اچھائیاں بھی ہیں لیکن برائیوں سے بچنے کی بھی انتہائی کوشش کرنی ہوگی.ان قوموں میں کھلے دل سے آپ کی بات سننے کا بڑا حوصلہ ہے.آپ کو انہوں نے اپنے ملک میں جگہ دی ہے، یہاں آباد کیا ہے.یہ بھی بڑے حوصلے کی بات ہے.یہ بھی ان ملکوں کی بڑی خوبی ہے.احمدیوں کو خاص طور پر ان کی مجبوریوں کی وجہ سے یہاں مغرب میں پناہ ملی ہے.سچائی کا عمومی معیار بھی ان
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 326 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب لوگوں کا ایشینز (Asians) کی نسبت بہت اونچا ہے.حالانکہ سب سے زیادہ سچائی کی تعلیم اور بڑی شدت سے سچائی کی تعلیم اسلام نے دی ہے.لیکن بہر حال آزادی کے نام پر یہاں ان ملکوں میں بعض اخلاق سوز حرکتیں بھی ہوتی ہیں.ان سے آپ نے خود بھی بچنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی بچانا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ.(سورة انعام :152) اور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.اس کے بہت سے معانی کئے جاتے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم ہر زمانے کی تعلیم ہے.کوئی اولادکو اس طرح قتل نہیں کرتا کہ چھری پھیری جائے.پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسی تربیت نہ کرو جس سے تمہاری اولا د برباد ہو جائے.اب تربیت کرنے کے لئے مختلف طریقے ہیں.ان ملکوں میں جہاں بچوں کے لئے حکومت خرچ دیتی ہے رزق کی تنگی کا تو کوئی خوف نہیں ہے.چھوٹے بچوں کو خرچ ملتا ہے.بڑے ہو جائیں اور گھر میں رہ رہے ہوں تو تب بھی جو خرچ ملتا ہے اس سے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے اور بھی باتیں ہیں.تو یہاں ان ملکوں کے لحاظ سے ، آپ کی نسبت کے لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہے کہ ماں باپ دونوں پیسے کمانے کے شوق میں کام پر چلے جاتے ہیں.بچوں کو یا گھروں میں چھوڑ جاتے ہیں یا بڑے بہن بھائی کے جن کی خود بھی ابھی تربیت کی عمر ہوتی ہے، ان کے سپرد کر جاتے ہیں.پھر بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے ایک آزادی ہوتی ہے کہ بچوں کو اگر کچھ بھی نہ دے کر جائیں تو یہاں بچے خود ہی ( کیونکہ ماں باپ تو موجود ہوتے نہیں ) ایسی فلمیں یا انٹرنیٹ پر ایسے پروگرام یا دوسری چیزیں ہیں ان میں مصروف ہو جاتے ہیں جن سے اور بہت سی بیہودہ قسم کی باتیں ان کو پتہ لگ جاتی ہیں.حالانکہ بچوں کو ایسی فلمیں وغیرہ نہیں دیکھنی چاہئیں کہ ان کو دیکھ کر اخلاق خراب ہوتے ہیں.یا ماں باپ کے سر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے ذرا بڑی عمر کے جو بچے ہوتے ہیں وہ زیادہ تر باہر وقت گزارتے ہیں اور ماحول کی برائیوں میں پڑ جاتے ہیں.یا بعض ایسی خوفناک قسم کی شکائتیں آجاتیں ہیں کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو اپنی طرف سے کسی قابل اعتبار شخص کے سپر د کر جاتے ہیں خاص طور پر لڑکیوں کو اور وہ ایسے گندے ذہن کے ہوتے ہیں کہ وہ ان بچیوں کے ساتھ ایسے بہیمانہ سلوک کر دیتے ہیں کہ ساری زندگی برباد ہو جاتی ہے.مگر ماں باپ اس فکر میں ہیں کہ ہم نے تو اپنے خرچ پورے کرنے ہیں.ایسے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 327 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب خرچ جو غیر ضروری بھی ہیں اور نہ بھی کئے جائیں تو ان سے بچت ہوسکتی ہے.بعضوں نے جوڑے بنانے ہیں، بعضوں نے زیور بنانا ہے.اور بعضوں کو اتنا سخت کریز ہوتا ہے جوڑوں اور زیوروں کا کہ اگر نیا جوڑا ہر فنکشن میں نہ پہنا جائے تو سمجھتے ہیں کہ ہماری بے عزتی ہو گئی.تو اس سے بھی بچنا چاہئے.صرف جوڑوں اور زیوروں کی خاطر کمائیاں نہ کریں.ضرورت کے تحت کرنی ہو تو ٹھیک ہے.پیسہ کمانے کے شوق میں بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہوتے اور اس طرح بچے ماں باپ کی مکمل توجہ نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہے ہوتے ہیں.عورت گھر کی نگرانی کی ذمہ دار ہے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے.خاوند کی جو اولاد ہے اُس کی وہ نگران ہے.اس لئے ماؤں کو عورتوں کو بہر حال بچوں کی خاطر قربانی دینی چاہئے ، گھر میں رہنا چاہئے.جب بچے سکول سے آئیں تو ان کو ایک پر سکون محبت والا ماحول میسر آنا چاہئے.جائزہ لے لیں اس ماحول میں اکثر بچے اس لئے بگڑ رہے ہیں کہ وہ ماں باپ کے پیار سے محروم ہوتے ہیں.ماں باپ کے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور وہ ان کو ملتا نہیں.ان کو توجہ چاہئے.اور جو توجہ وہ چاہتے ہیں وہ ماں باپ ان کو دیتے نہیں.اور ماں باپ جو ہیں وہ پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اپنی دلچسپیوں میں مصروف ہیں.پھر اس قتل نہ کرنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ پیسہ کمانے کے لئے ایسی جگہوں میں نہ بھیجو جہاں ان کے دین سے دور جانے کا احتمال ہو.جہاں یہ امکان ہو کہ وہ دین سے دور چلے جائیں گے.بعض والدین پیسے کے لالچ میں کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے ، اپنے بچوں کو جب وہ ابتدائی بنیادی تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو چھوٹی عمر میں ہی ایسی جگہوں پر، ریسٹورانٹوں میں، کلبوں میں یا اور جگہوں پر ملازم کر دیتے ہیں جہاں ان کے اخلاق خراب ہو رہے ہوتے ہیں.تو ماؤں نے اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی ہوگی اور ایک درد کے ساتھ تربیت کی ہوگی تو ایک تو بچے خود بھی پڑھائی کی طرف توجہ دینے والے ہونگے اور معمولی تعلیم حاصل کر کے معمولی اور لغو نوکریاں تلاش نہیں کریں گے.اور اگر کوئی ایسا ہو بھی جو تعلیم میں اچھا نہ ہو تو ماں کی تربیت کی وجہ سے ماں کی بات ماننے والا ہو گا.اور اگر ملا زمت
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 328 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب بھی کرے گا تو ایسی کرے گا جو بہتر ملازمت ہوگی.خاص طور پر بچیوں کو ایسی ملازمتوں سے ضرور بچانا چاہئے ، ضرور محفوظ رکھنا چاہئے جس میں کسی بھی قسم کی بے حجابی کا امکان ہو.پیسے کمانے کے لئے بچیوں کی زندگیاں برباد نہ کریں.اور جو بچیاں نوجوان ہیں، باشعور ہیں ، عقل والی ہیں اور ضد کر کے ایسے کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں انہیں بھی میں کہتا ہوں کہ آپ بھی اب بڑی ہوگئی ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ہمارے مرید ہو کر ہمیں بدنام نہ کریں.اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.یاد رکھیں کہ اگر آپ کو حضرت مسیح موعود کی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھی آپ کے پاک مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے.آپ کو اپنے اردگرد بعض ایسے احمدی کہلانے والوں کے نمونے نظر آجائیں گے جو دنیاوی گند میں پڑ گئے ہیں اور دوسرے لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں.پس احمدی بچی کو خاص طور پر ایسی ملازمتوں سے بچنا چاہئے جہاں اس کے تقدس پر حرف آتا ہو.احمدی عورت کو اپنا مقام سمجھتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہئے پھر اب بعض دفعہ رشتے کرنے کے معاملات آجاتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایسی جگہ رشتہ نہ کریں جہاں دین نہ ہو اور صرف دنیاوی روپیہ پیسہ نظر آ رہا ہو.اس کو دیکھ کر رشتہ کر رہے ہو کہ ہماری بیٹی کے حالات اچھے ہو جائیں گے یا ہمارا بیٹا کاروبار میں ترقی کرے گا تو یہ چیزیں بیشک دیکھیں لیکن ایسے خاندان کا جہاں رشتے کر رہے ہیں یا ایسے لڑکے یا لڑکی کا جہاں رشتہ کر رہے ہیں دین بھی دیکھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رشتہ کرتے وقت سب سے اہم چیز دین ہے جو تمہیں دیکھنا چاہئے.بعض کہتے ہیں ہم نے اس خاندان کو دیکھا ہے.بڑا نیک خاندان تھا یہ تھا وہ تھا اور اس کے باوجود ایسے حالات ہو گئے.تو آج کل تو لڑکے کی اپنی دینی حالت کو بھی دیکھنا چاہئے.ہر جگہ حالات ایک جیسے ہیں.دنیا اتنا زیادہ دنیا داری میں پڑ چکی ہے کہ جب تک خود لڑکے کی تسلی نہ ہو جائے، کسی قسم کے رشتے نہیں کرنے چاہئیں کہ صرف پیسہ ہے اس کو دیکھ کر رشتہ کر لیا.ایسے بہت سارے رشتے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں.لیکن اگر صرف دنیا دیکھیں گے تو یہ بچیوں کو دین سے دور کرنے والی بات ہو گی.کئی ایسی بچیاں ہیں جو ایسے رشتوں کی وجہ سے جماعت سے تو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 329 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب کئی ہیں، اپنے گھر والوں سے بھی کٹ گئی ہیں.ان سے بھی وہ ملنے نہیں دیتے.پس صرف روپیہ پیسہ دیکھ کر رشتے نہیں کرنے چاہئیں.اللہ سے دعا کر کے ہمیشہ رشتے ہونے چاہئیں.اور اسی طرح اور بھی قتل اولاد کی بہت ساری مثالیں ہیں.جہاں جہاں تربیت میں کمی ہے وہ قتل اولا دہی ہے.پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی راہنمائی کرنی چاہئے.عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے.مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں.کرنی ہیں تو بعد میں کریں.بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں.اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی ، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں.تو بہر حال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے.جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے بخت ہے عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے.جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.اگر اس کی بعض خواہشات خاوند کی آمد سے پوری نہ ہوتی ہوں مثلاً جیسے کسی کا زیور یا کپڑے دیکھ کر ، جیسے کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے، اگر اس کا دل چاہے کہ میرے پاس بھی ایسا ہی ہو لیکن اپنے بچوں کی تربیت کے لئے وہ قربانی کرتی ہے تو یقیناً اس قربانی کی وجہ سے اس کی اس سوچ کی وجہ سے کہ میرے بچے اچھی تربیت پا جائیں مجھے دنیاوی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے.اور ایسے بچے پھر فرمانبردار اور نیک بیچے بن کر اس دنیا میں بھی ایک جنّت بنا رہے ہوتے ہیں اور نیکیوں پر قدم مارنے اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے یہ اپنے لئے اگلی دنیا میں بھی جنت بنارہے ہوتے ہیں.اور یہ مائیں بھی نہ صرف جنتیں بنانے والی ہیں بلکہ جنت کو حاصل کرنے والی بھی ہیں.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک ماں جس کی وجہ سے اس کے بچوں کو جنت مل رہی ہے اس کو اللہ میاں کہے کہ نہیں تم کو جنت نہیں مل سکتی.اس کو تو اور زیادہ ضمانت دی جارہی ہے کہ تم جنت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 330 جلسہ سالانہ سویڈن 2005 مستورات سے خطاب میں جانے والی ہو.جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ اس دنیا میں بھی جنت کے نظارے دیکھتے ہیں اسی وجہ سے امید رکھتے ہیں کہ آئندہ اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے گا اور وہ اس کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے جس طرح مجھ سے امید رکھتے ہیں ویسا ہی میں ان سے سلوک کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا بندہ بننا شرط ہے.پس ہر احمدی عورت کو اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ، اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ ایک تو اس نے اپنے نمونے قائم کرنے ہیں تا کہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ اور پیغام کو پہنچانے میں وہ ممدو معاون بن سکے اور اپنے اندر اسلامی تعلیمات رائج کرنے والی ہو،.اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے والی ہو.دوسرے دعا کے ساتھ ہمیشہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے والی ہو.انہیں ہلاکت سے بچانے والی ہو اور جب آپ اس طرح ہوں گی تو آپ کی تربیت کی وجہ سے آپ کی اولادیں نسل در نسل جنت کی ضمانت دیتی چلی جانے والی ہوں گی.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 331 خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 2005 (اقتباس) ابتدائی احمدی خواتین کی مالی قربانیوں کے جذبے خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 2005ء بمقام اوسلو.ناروے (اقتباس) حضور انور ایدہ اللہ نے جماعت احمدیہ ناروے کو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں احمدی خواتین کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: خلافت ثانیہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ محی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک الی تحریک فرمائی تو ہر طبقہ نے لبیک کہا.ایک بڑھیا جس کا گزارا بھی مشکل سے ہوتا تھا.شاید امداد سے ہوتا تھا یا چند ایک مرغیاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے انڈے بیچتی تھی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے پاس آئی اور عرض کی کہ میری جو یہ ایک دو مرغیاں ہیں ان کے انڈے بیچ کر یہ تھوڑے سے پیسے حضور کی خدمت میں اس تحریک کے لئے لائی ہوں.دیکھیں اس عورت کا جذبہ جو اس نے خلیفہ وقت کی طرف سے کئی گئی تحریک میں پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا.یقیناً اس کے اس جذبے کی وجہ سے اس کے جو چند پیسے یا جو چند انڈے تھے خدا تعالیٰ کے نزدیک کروڑوں روپوں سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے.اور یہ واقعات ہر زمانے میں ہوتے ہیں.آج بھی ایسی عورتیں ہیں جو قربانیوں کی اعلیٰ مثال قائم کرتی ہیں.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 332 خطبه جمعه فرمودہ 23 ستمبر 2005 (اقتباس) ایک خاتون کا خلافت رابعہ کی تحریکات میں بہت ساز یور پیش کر دینا ایک خاتون نے اپنا بہت ساز یور خلافت رابعہ کی مختلف تحریکات میں دے دیا تھا.میری طرف سے بھی جب بعض تحریکات ہوئیں تو پھر کچھ زیورات جو باقی بچے ہوئے تھے وہ دے دیئے تھے.پھر ان کو کچھ زیورات تحفہ ملے یا دوبارہ بنائے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دیئے.اسی طرح مردوں میں سے بھی بہت قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی توفیق سے بڑھ کر قربانیاں کی ہیں.تو قربانی کے یہ معیار آج اللہ تعالیٰ نے صرف جماعت احمدیہ میں ہی قائم فرمائے ہوئے ہیں.اور صرف یہی نہیں ہے کہ کسی پاکستانی یا ہندوستانی کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ باپ دادا صحابی تھے اس لئے ہماری نسلوں میں بھی قربانی کے وہ معیار چل رہے ہیں.بلکہ دنیا کے ہر ملک میں، ہر قوم میں، قربانی کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں.افریقہ میں وہاں کے غریب لوگ بھی آج اپنی مرغیاں یا مرغیوں کے انڈے یا ایک آدھ بکری جوان کے پاس ہوتی ہے وہ لے کر آتے ہیں کہ پیسے تو نقد ہمارے پاس ہیں نہیں، یہ ہمارے چندے میں کاٹ لیں.پھر افریقنوں میں ایسے خوشحال مرد اور عورتیں بھی ہیں جنہوں نے بڑی بڑی مالی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں.مسجدوں کے لئے پلاٹ خریدے.مسجدیں بنائیں اور کافی بڑی رقم سے بڑی بڑی مسجدیں بنائیں.ابھی اسی سال افریقہ کے ایک ملک میں ایک عورت نے ایک بڑی خوبصورت مسجد بنا کر جماعت کو پیش کی ہے.تو یہ انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد ان لوگوں میں آیا ہے.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 333 خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر 2005 (اقتباس) آج اگر اسلام کی خوبصورت تصویر کوکوئی پیش کر سکتا ہے تو وہ احمدی ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 2005ء بمقام من سپیسٹ ، ہالینڈ (اقتباس) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس سفر میں، سکنڈے نیوین ممالک میں مجھے ایک خاتون نے کہا، وہ احمدیت کے کافی قریب ہیں ) کہ میں جماعت کو بہت اچھا مجھتی ہوں.جمعہ بھی آ کے اکثر ہمارے ساتھ ہی پڑھتی ہیں.لیکن بیعت نہیں کرنا چاہتیں.کیونکہ انہوں نے کہا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ بعض عورتوں کی باتیں اور ایک دوسرے کے خلاف بولنا ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک غیر احمدی عورت میں ہے تو کیا ضرورت ہے کہ میں جماعت میں شامل ہوں.کبھی میں سوچتی ہوں کہ بیعت کر لوں، کبھی سوچتی ہوں نہ کروں، عجیب مخمصے میں پڑی ہوئی ہوں.اس لئے دعوت الی اللہ کے ساتھ نیک اعمال کا بہت جوڑ ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.ورنہ باوجود اس کے کہ بات اچھی ہوگی لیکن اپنے بدنمونے کی وجہ سے نیک نتائج پیدا نہیں ہوتے.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 334 خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 2005(اقتباس) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہاری علمی دلیلیں تمہارے تبھی کام آئیں گی جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے.اور نیک عمل وہ ہیں جو دوسروں کو کھینچتے ہیں.“ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جماعتی طور پر بھی اور ذیلی تنظیمیں اپنے طور پر آج اسلام پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان کہلانے والوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہورہے ہیں.آج اگر اسلام کی خوبصورت تصویر کوئی پیش کر سکتا ہے تو وہ احمدی ہیں.آج اگر ہم نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا، نہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں فرما نبرداروں میں شمار نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جماعتی طور پر بھی اور ذیلی تنظیمیں اپنے طور پر بھی.خدام اپنے طور پر ، انصار اپنے طور پر ، لجنہ اپنے طور پر حالات کے مطابق اپنے تبلیغی پروگرام بنا ئیں.اور ہمیشہ یادرکھیں ، جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ تبلیغ کے لئے عمل صالح شرط ہے.اپنی حالتوں کو بھی بدلنا ہوگا.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور سب کو گزشتہ کوتاہیوں کا مداوا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک نتائج پیدا فرمائے.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 335 مستورات سے خطاب بر موقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے فرموده 20 /نومبر 2005ء) احمدی خواتین کی خصوصیات لجنہ کی تنظیم جو احمدی عورتوں کی تربیت کے لئے بنائی گئی ہے سچائی پر قائم رہنا اور جھوٹ سے بچنا صبر کرنا ایک مومن عورت کا ایک امتیازی نشان ہے عاجزی اختیار کرنا، صدقہ دینا اور روزے رکھنا اپنے آپ کو ہا حیا اور با پر وہ بنانا چاہئے خواتین کی مالی قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں مسجد برلن جرمنی کی تعمیر میں احمدی خواتین کی بے لوث مالی قربانیاں تحریک وقف نو اور تربیتی ذمہ داریاں ه مجلس شوری کی ایک رائے یا مشورہ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت اسے مانے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 336 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء احمدی خواتین کی امتیازی خصوصیات اور بے لوث قربانیوں کے اعلیٰ نمونے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے ذیل کی آیت تلاوت فرمائی: إِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَالْقِنِتِينَ وَالْقِنِتْتِ وَالصَّدِقِيْنَ وَالصَّدِقتِ وَالصَّبِرِيْنَ وَالصَّبِرَاتِ وَالْخَشِعِيْنَ وَالْخَشِعَتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقتِ وَالصَّائِمِيْنَ وَالصَّئِمَتِ وَالْحَفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَفِظتِ وَالذَّاكِرِيْنَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّكِرَاتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الاحزاب: 36) اسلام میں عورت کا جو مقام ہے اُس کو ہر احمدی عورت کو پیش نظر رکھنا چاہیے خاص طور پر اس معاشرے میں بعض باتوں کی اس حد تک آزادی ہے جس کی کوئی بھی مذہب اجازت نہیں دیتا.اگر آپ اپنے اس مقام کو پہچان لیں تو آپ نیک باپ بھی پیدا کر رہی ہوں گی، نیک خاوند بھی پیدا کر رہی ہوں گی ، نیک بھائی بھی پیدا کر رہی ہوں گی، نیک بیٹے بھی پیدا کر رہی ہوں گی ، نیک داماد بھی پیدا کر رہی ہوں گی اور آج معاشرے میں جو جھگڑے اور فساد اور لڑائیاں ہیں اُن سے معاشرے کو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 337 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء صاف کر رہی ہوں گی.لیکن بہر حال اس کے لئے قربانی کرنی پڑے گی.اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی پڑے گی اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ دینی پڑے گی.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۃ احزاب میں جس آیت کی ابھی میں نے تلاوت کی ہے عورتوں اور مردوں کو بتایا ہے کہ اگر تم یہ یہ کام کرو تو تمہاری مغفرت بھی ہے.اس میں دس کام گنوائے گئے ہیں اور نہ صرف مغفرت ہے بلکہ اجر عظیم بھی ہے.اور جب خدا تعالیٰ یہ کہے کہ میں اجر عظیم عطا کروں گا تو اُس عظیم کا مطلب ہے کہ ایسا اجر جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے ، ایسے انعامات جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے.تم اس دنیا میں بھی اس کے پھل کھاؤ گی اور مرنے کے بعد بھی یہ پھل ہیں یہ انعامات ہیں.ان باتوں میں پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ کامل مسلمان بنو.صرف منہ سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اظہار نہ کرو.تمہارے دل میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی طرف توجہ بھی ہونی چاہیے.اور ایمان لانے کا اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ جب تم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اُس کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے اور رب العالمین ہے کائنات کی ہر چیز کی پیدائش اُس کی ہے، اُس نے پیدا کی ہے تو پھر اس بات کو اپنے دل میں راسخ کرو.اس پر مکمل ایمان لاؤ اور ایمان کے تمام درجے طے کرو.قرآن کریم میں ایک مومن کے لئے جو باتیں درج ہیں اُن پر عمل کرنے والی بنو اور ایمان کی تاریخ میں تو قرآن کریم کے شروع میں ہی ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان کامل تب ہو گا جب تم غیب پر ایمان لانے والی ہوگی.یہ یقین ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہے اور سب قوتوں کا مالک ہے.نماز پڑھنے والی ، عبادت کرنے والی اور وقت پر نمازوں کی ادائیگی کرنے والی ہوگی.اور پھر جب خدا تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی میں بھی حصہ لو گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور خلفاء کی مستقل تربیت کی وجہ سے آج احمدی خواتین میں مالی قربانی کا جذبہ بہت بڑھا ہوا ہے.احمدی خواتین کا اخلاص آج بعض خواتین انتہائی تنگی کی حالت میں بھی جب انہیں کہا جائے کہ دین کی خاطر قربانی کرو تو بے دریغ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لے رہی ہوتی ہیں اور اپنی پسندیدہ چیزیں بعض دفعہ زیور وغیرہ بھی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 338 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء پیش کر دیتی ہیں.لیکن دوسری جو چیزیں ہیں عبادت وغیرہ اُس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.پس جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور اُس کی عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی اُس کی راہ میں جان مال اور وقت کی قربانی کا تصور قائم رہے گا اور کرتی رہیں گی کوئی چیز بھی آپ کی ترقی کی راہ میں روک نہیں بن سکتی.پھر فرمایا کہ ایک خصوصیت یہ بھی ہے جس پر ہر مسلمان اور مومنہ عورت کو قائم ہونا چاہیے کہ وہ فرمانبردار ہو.اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنے والی ہو، نظام جماعت کی مکمل اطاعت کرنے والی ہو.لجنہ کی تنظیم احمدی عورتوں کی تربیت کے لئے بنائی گئی ہے لجنہ کی تنظیم جو احمدی عورتوں کی تربیت کے لئے بنائی گئی ہے اسی لئے بنائی گئی ہے کہ احمدی عورتوں میں یہ احساس ہو کہ ہماری جماعت میں الگ اور علیحدہ پہچان ہے ہماری کوئی اہمیت ہے اور اگر مردوں کے مقابلے پر بعض کام کرنے کے موقعے نہیں ملتے تو اپنی تنظیم کے تحت ہم وہ کام کریں جن سے بعد میں ظاہر ہوتا ہو کہ عورتوں نے کتنا کام کیا ہے اور مردوں نے کتنا کام کیا ہے.تو بہر حال یہ احساس ہر وقت رہنا چاہیے کہ اس پہچان کو ہم نے جماعت کے وقار کے لئے قائم رکھنا ہے اور مزید نکھارنا ہے.اور اس مقصد کے لئے آپ کے مختلف پروگرام بنتے ہیں، تربیتی اجلاسات ہوتے ہیں، اجتماعات ہوتے ہیں.یہ اجتماع ہو رہا ہے تو اپنی تربیت کے لئے اپنے علم میں اضافے کے لئے اپنی فرماں برداری کا ثبوت دینے کے لئے ، اپنی اولاد میں نظام جماعت کی روح پیدا کرنے کیلئے.ضروری ہے کہ اجتماعوں جلسوں اور اجلاسوں کے یہ جو سارے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں آپ لوگ بڑھ چڑھ کر ان میں حصہ لیں.جو اس معاملے میں کمزور بہنیں ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ ملائیں ان کو بھی پیار اور محبت سے سمجھا کر ان پروگراموں میں شامل کریں اس سے آپ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسرے کی اصلاح کی فکر بھی کر رہی ہوں گی اور اس وجہ سے دو ہرا ثواب کما رہی ہوں گی اور یہ جو دوسروں کی اصلاح کی فکر ہے یہ بھی انبیاء کی سنت ہے.انبیاء کوسب سے زیادہ فکر اس بات کی رہتی ہے.کوئی یہ نہ سمجھے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ پرائے معاملے میں ٹانگ اڑانے والی بات
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 339 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء ہے.نہیں، بلکہ یہ فکر کرنی چاہیے لیکن طریقے سے، پیار سے، محبت سے.حدیث میں آیا ہے کہ جو چیز تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کر و.تو جب ایک چیز آپ نے اپنے لئے پسند کی ہے تو اس نیکی کو دوسروں میں رائج کرنے کی کوشش کریں اس سے آپ معاشرے میں نیکیاں بکھیر رہی ہونگی اور جب آپ اس طرح عورت کی اصلاح کر رہی ہوں گی تو مستقبل کی نسلوں کی بھی اصلاح کر رہی ہوں گی.سچائی پر قائم رہنا اور جھوٹ سے بچنا پھر جس بات کی ہم سے توقع کی جاتی ہے اور وہ انتہائی اہم بات ہے.وہ سچائی ہے.اگر تم سچ پر قائم رہنے والی ہو اور سچائی پھیلانے والی بن جاؤ گی تو معاشرے کے حسن کو نکھارنے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہوگی.اگر عورت میں یہ احساس ہو جائے کہ میں نے بیچ پر قائم رہنا ہے اور ہر حالت میں جھوٹ کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دینا تو یہ ایک ایسا جہاد ہے جس سے نہ صرف اپنے آپ کو شرک سے پاک کر رہی ہوں گی بلکہ معاشرے کو بھی اس شرک سے پاک کرنے والی ہوں گی اور اپنی اولادوں کے دل میں بھی جھوٹ اور شرک کے خلاف احساس پیدا کر رہی ہوں گی اُن کی بھی تربیت کر رہی ہوں گی.اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں غلط بیانیاں جو ہیں یہ ہوتے ہوتے بڑے بڑے جھوٹ بنے شروع ہو جاتے ہیں.بچے ماؤں کی حرکتیں دیکھ رہے ہوتے ہیں اُن کے زیر تربیت ہوتے ہیں.وہ جیسا ماں کو دیکھتے ہیں تو غیر محسوس طریقے پر ویسا خود بھی ہو جاتے ہیں.پس میں آپ عورتوں اور بچیوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر معاشرے سے شرک کا خاتمہ اور اپنی اگلی نسلوں کی بقاء چاہتی ہیں اُن کو پاک بنانا چاہتی ہیں تو جھوٹ کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے اور سچ کو معاشرے میں قائم کرنے کے لئے ایک مہم چلائیں.لجنہ اماءاللہ یو کے خاص طور پر اس پر کام کرے.پہلے بھی میں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں.اب سیچ صرف اتنا نہیں ہے کہ کہیں کسی نے پوچھا تو سچ بول دیا بلکہ قولِ سدید سے کام لینا ہے.کوئی بھی ایسی بات نہیں کہنی جس سے ہلکا سا بھی جھوٹ کا شبہ پڑتا ہو یا کہیں بات چھپی نظر آتی ہو.ہر احمدی کی جو
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 340 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء بات ہے بڑی واضح اور ہر قسم کے ابہام سے پاک ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ چیز جہاں آپ کی مستقل اصلاح کا باعث بن رہی ہوگی وہاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر میں بھی لپیٹ رہی ہوگی.صبر کرنا ایک مومن مسلمان عورت کا ایک امتیازی نشان ہے پھر فرمایا کہ صبر کی عادت بھی ہے.صبر کرنا ایک مومن مسلمان عورت کا ایک امتیازی نشان ہے.گھروں میں بھی معاشرے میں بھی بہت سے ایسے معاملات ہوتے ہیں جن سے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے.انسان بے صبرا ہو جاتا ہے.بعض دفعہ ایسے حالات ہو جاتے ہیں کہ انسان صبر نہیں کر سکتا.فرمایا کہ ان حالات میں بھی ایک مومنہ عورت کا یہی امتیازی نشان ہے، اُس کی یہی شان ہے کہ وہ صبر کرنے والی ہو.چھوٹی موٹی سسرال کی زیادتیاں بھی ہیں ان کو بھی برداشت کرنے والی ہو.خاوند سے اگر کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس پر بھی صبر کرے.دعا کرے.اللہ سے دُعا مانگیں اُن کو کسی دوسرے موقعے پر اچھا موڈ دیکھ کر سمجھا دیں لیکن فوراً لڑائی نہیں شروع ہو جانی چاہیے.اس سے پھر لڑائیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں.اگر اس طرح صبر کرنے والی ہوں گی اور موقع دیکھ کے سمجھانے والی ہوں گی تو گھروں کے ماحول کی بہت سی بدمزگیاں دور ہو رہی ہوں گی اور یہی چیزیں ہیں کہ جو بچوں میں اس تربیت کی وجہ سے جب پیدا ہوں گی تو آئندہ کے حسین معاشرے کی آپ ضمانت بن رہی ہونگی.عاجزی اختیار کرنا ، صدقہ دینا، روزے رکھنا اور دیگر امتیازی خصوصیات پھر گھر کے ماحول کے علاوہ معاشرے میں بہت سی ایسی باتیں ہو جاتی ہیں جو تکلیف کا باعث بن رہی ہوتی ہیں.ہمسایوں سے، ماحول سے، دوستوں سے تکلیف پہنچ رہی ہوتی ہے.بعض دفعہ بعض جماعتی عہدہ داروں سے لجنہ کی عہدہ داروں سے، اجلاسوں میں اجتماعوں میں بعض دفعہ تکلیف پہنچتی ہے.اگر وہاں صبر نہ کریں تو یا تو موقعے پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے یا جب گھر جا کر اپنے خاوندوں سے عزیزوں سے رشتے داروں سے ذکر کریں گی تو پھر اس وجہ سے اس پورے ماحول میں ایک فساد پیدا ہو جاتا ہے.کئی شکایتیں ایسی آجاتی ہیں کہ بعد میں گھروں میں جا کر لڑائیاں ہورہی ہوتی ہیں.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 341 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء اس لئے فرمایا کہ صبر کرنا بھی مومن کی ایک بہت بڑی شان ہے.ایک مومن عورت کی یہ بہت بڑی شان ہے اور اس صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بے انتہا اجر سے نوازتا ہے.پھر عاجزی ایک بہت بڑا وصف ہے.اگر یہ پیدا ہو جائے تو ہر انسان ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا شروع کر دے گا اور نتیجہ معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہو جائے گی ، معاشرہ امن اور سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا.کسی کو بعض دفعہ اپنے خاندان کی بڑائی کا احساس ہورہا ہوتا ہے کسی کو اپنے امیر ہونے کا، دولت مند ہونے کا زیادہ احساس ہو رہا ہوتا ہے.کسی کو اپنی اولاد کی بعض خصوصیات کی وجہ سے بڑائی کا احساس ہورہا ہوتا ہے غرض مختلف چیزیں ہیں جن سے انسان کے دماغ میں تکبر پیدا ہوتا ہے اور جہاں تکبر ہو وہاں عاجزی کا کوئی دخل نہیں ہوتا.وہاں سے عاجزی ختم ہو جاتی ہے.ہم تو اُس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس کو اُس کی عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ” تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئی ہیں.پس اے مسیح محمدی سے منسوب ہونے والی عورتو ! اِس عاجزی کو اپنا خاص وصف بنالو تا کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تم بھی پسندیدہ ٹھہرو.پھر ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ سچی مومن عورتیں صدقہ کرنے والی ہیں.پہلے بھی اس کا ذکر گزر چکا ہے.مالی قربانیوں میں جو احمدی خواتین کرتی ہیں بڑھ چڑھ کر آگے آنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ اور بھی توفیق دیتا چلا جائے.پھر روزہ رکھنے والیاں ہیں، عبادتیں کرنے والیاں ہیں.روزہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کی خاطر اُس کے حکم کے مطابق جائز باتوں سے کچھ وقت کے لئے رکنا.جن کی عام حالات میں اجازت ہو ان سے اپنے آپ کو روک کے رکھنا.اس سے صبر کی بھی عادت پڑے گی، نیکیوں کی بھی عادت پڑے گی اور عبادتوں کی بھی عادت پڑے گی، قربانی کی بھی عادت پڑے گی ، نظامِ جماعت سے تعاون کی بھی عادت پڑے گی.پس یہ جو دو ہفتے پہلے رمضان گزرا ہے اس نے آپ میں نیکیوں کو قائم کرنے کی عادت ڈالی ہے،صبر کی عادت ڈالی ہے اور بہت ساری نیکیاں کرنے کی عادت ڈالی ہے انہیں اب اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں.اسلام کے ہر عمل کی یہی شرط ہے کہ اس میں مستقل مزاجی سے عمل کرنے کی طرف توجہ رہے.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 342 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء اپنے آپ کو باحیا اور با پر دہ بنانا پھر اپنے آپ کو باحیا بنانا ہے.کیونکہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے.حیا بھی ایمان کا حصہ ہے.اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چاہیے.زینت ظاہر نہ ہو.حیا کا تصور ہر قوم میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے.آج مغرب میں جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑکی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متاثر نہیں ہونا چاہیے.آزادی کے نام پر بے حیائیاں ہیں.لباس ، فیشن کے نام پر بے حیائیاں ہیں.اسلام عورت کو باہر پھرنے اور کام کرنے سے نہیں روکتا اُس کو اجازت ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو بے حجابی نہ ہو.مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہیے.دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کے ذکر میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ اُس جگہ پہنچے جہاں ایک کنویں میں تالاب کے کنارے بہت سے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دولڑکیاں بھی اپنے جانور لے کے بیٹھی ہیں تو انہوں نے جب اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے تو لڑکیوں نے جواب دیا کیونکہ یہ سب مرد ہیں اس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ یہ فارغ ہوں تو پھر ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں.تو دیکھیں یہ حجاب اور حیا ہی تھی جس کی وجہ سے اُن لڑکیوں نے اُن مردوں میں جانا پسند نہیں کیا.اس لئے یہ کہنا کہ مردوں میں Mix up ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اکٹھی gathering کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ علیحدگی فضول چیزیں ہیں.عورت اور مرد کا یہ ایک تصور ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے.عورت کی فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے حیا ر کھی ہے ایک احمدی عورت کو اُسے اور چمکانا چاہیے، اُسے اور نکھارنا چاہیے، پہلے سے بڑھ کر باحیا ہونا چاہیے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تعلیم بھی بڑی واضح دے دی ہے اس لئے بغیر کسی شرم کے اپنی حیا اور حجاب کی طرف ہر احمدی عورت کو ہر احمدی بچی کو ہر احمدی لڑکی کو توجہ دینی چاہیے.یہاں کا ماحول اس طرف بڑھ رہا ہے.مغرب میں اگر آزادی میں بڑھیں تو پھر بالکل ہی آزاد ہو جائیں گی.پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بنو.اگر تم ان خصوصیات کی حامل
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 343 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء ہو گئیں جو پہلے بیان کی گئی ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والی بن گئیں.بجائے دنیا کی چکا چوند کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی عبادت اور اس کی خوشی کو حاصل کرنا تمہارا مقصد بن گیا تو تمہیں ایسے اجر کی خوش خبری ہو جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتا.یہ ایسا اجر ہے جو تمہیں پہلی امتوں کی عورتوں سے ممتاز کر دے گا، ان سے علیحدہ کر دے گا.اور اسلام کیونکہ دین فطرت ہے اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا بوجھ ہم پہ ڈال دیا ہے.اسلام کا دعویٰ ہے کہ اسلام کا کوئی حکم بھی انسان کی استعدادوں سے زیادہ نہیں ہے جو طاقتیں اُن کو دی گئی ہیں اُن سے زیادہ نہیں ہے.اس لئے کوئی حکم بھی بوجھ نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے یہ دُعا بھی سکھا دی ہے کہ اے اللہ! مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو میری طاقت سے زیادہ ہو.جب دُعا سکھا دی تو اس لئے سکھائی ہے کہ جو بوجھ بیان کئے گئے ہیں وہ تمہاری طاقتوں کے اندر ہی ہیں.ہر انسان کی استعداد میں ہوتی ہیں، اپنی طاقتیں ہوتی ہیں تو اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے اور اُس کے مطابق ہی عمل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ ہر کام کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا محنت بھی کرنی پڑتی ہے اور قربانی بھی کرنی پڑتی ہے تو یہ محنت اور قربانی کرو گی تو اجر عظیم پاؤ گی.اب ایک مسلمان عورت کہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اجر بھی بڑھا کر دے جو کسی کے تصور میں بھی نہ ہو اور قربانی بھی نہ کرنی پڑے تو یہ تو نہیں ہوسکتا.ہر اچھی چیز حاصل کرنے کے لئے محنت اور قربانی کی ضرورت پڑتی ہے.ان تمام حکموں پر عمل کرنے کے لئے قربانی تو کرنی پڑے گی.معاشرے کے غلط اثرات سے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے یہ عمل تو کرنے پڑیں گے اور نیک اعمال تو بجالانے پڑیں گے.معاشرے کے ہنسی ٹھیٹھے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان احکامات پر چلنے کی کوشش تو کرنی پڑے گی تب ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بھی ہوگی اور یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر پہلوں نے کبھی عمل نہیں کیا یا آج کل عمل نہیں ہوتا.مسلمان خواتین کی اعلیٰ قربانیوں کی مثالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے اُن لوگوں میں جو انتہائی بُرائیوں میں پڑے ہوئے تھے آپ کو ماننے والیوں میں ایک انقلاب برپا ہو گیا تھا اور پھر آپ کے غلام صادق مسیح موعود کے ماننے والیوں میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا اُس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان مثالوں کو ہمیں اپنے اندر
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 344 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء بھی زندہ رکھنا ہے.اپنے آپ کو بھی مثالی احمدی بنانا ہے تا کہ ہم اگلی نسلوں کی بھی حفاظت کر سکیں.دیکھیں اسلام کی ابتدا میں مسلمان عورتوں پر ایسے ایسے ظلم ہوئے کہ ان کو اپنے ایمان چھوڑنے کے لئے کہا جاتا تھا اور جب وہ انکار کرتی تھیں تو اُن کو گرم تپتی ریت پر لٹایا جاتا تھا بھاری پتھر اُن پر رکھ دئے جاتے تھے.لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے ایمان کو کبھی ضائع نہیں کیا.انہوں نے یہ سب کچھ صرف اپنے ایمان کی خاطر برداشت کیا ہے اور ثابت کر دیا کہ ہمارا ایمان غیر متزلزل ہے اور کوئی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.کوئی سختی کوئی ظلم ہمیں ہمارے ایمان سے پرے نہیں لے جاسکتا.کوئی لالچ ہمارے ایمان کو کم نہیں کر سکتا.پھر مالی قربانی کا وقت آیا تو انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا.عورتوں نے پھینک پھینک کے اپنے زیوروں کے ڈھیر لگا دیئے.آنحضرت کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود کے زمانے میں بھی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو عورتوں نے بڑھ چڑھ کر ان قربانیوں میں حصہ لیا.خلافت ثانیہ کے دور میں افغانستان میں ایک شخص کو شہید کر دیا گیا تو اس کی بیوی نے مردانہ حجرات سے کام لیتے ہوئے اپنے خاوند کی لاش کا انتظام کیا ، دشمنوں کے نرغہ میں سے نکال کے لائی ، پھر اپنے بچوں کو بڑے مشکل اور دشوار راستوں میں سے گزار کرلے کے آئیں.پاکستان میں انہوں نے خوف کے مارے یا ڈر کے مارے اپنے ایمان میں کمزوری نہیں دکھائی بلکہ اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان تھا اور نیک اعمال کی طرف مکمل توجہ تھی اس وجہ سے اُس ایمان میں بھی ایک مضبوطی پیدا ہوئی.مسجد برلن جرمنی کی تعمیر میں احمدی خواتین کی بے لوث مالی قربانیاں 1920ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے برلن میں مسجد کے لئے اعلان کیا کہ عورتیں چندہ دیں تو ایک مہینے کے اندر اندر اُس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ عورتوں نے اکٹھا کر دیا حالانکہ ہندوستان کی غریب عورتیں تھیں اور تھوڑی سی آمد تھی.اُس کے باوجود اتنا رو پیدا کٹھا ہو گیا اور بعد میں جب مسجد فضل لندن بنی تو اُسی رقم سے بنی ، یہ عورتوں کی قربانیاں ہی تھیں.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ آج بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کئی عورتیں میری کسی بھی مالی تحریک پہ اپناز یور اور جمع پونچی لے کر آجاتی ہیں کہ آپ کی تحریک کے لئے ہے.خرچ کر لیں.تو قربانیوں کی یہ مثالیں آج بھی ملتی ہیں لیکن ہمارے میں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 345 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء اور ہر عورت میں یہ مثال ہونی چاہیے.ان نیکیوں کو آپ نے زندہ رکھنا ہے.کسی وقتی جوش کے تحت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خالص بندی بننے کی کوشش کرتے ہوئے.حضرت مصلح موعود ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک احمدی عورت مجھے ملنے آئی تو اُس نے آکر اپنا زیور نکال کر دے دیا.جب پاکستان ہندوستان کی پارٹیشن ہوئی ہے یہ اس وقت کی بات ہے.تو حضرت مصلح موعودؓ نے کہا کہ کٹ پٹ کے آئی ہو،سب کچھ ضائع ہو چکا ہے، یہ ایک زیور ہے، اپنے پاس رکھو، تمہیں اس کی ضرورت ہے.اُس عورت نے کہا نہیں جب میں چلی تھی تو میں نے یہ عہد کیا تھا کہ یہ زیور میں جماعت کی خاطر چندے میں دوں گی اور راستے میں سکھوں نے ہمیں لوٹ لیا، سارا زیور ضائع ہو گیا لیکن یہ بچ گیا ہے اس لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ میں اپنے پاس رکھوں.یہ میں آپ کو پیش کر رہی ہوں اور آپ اسے قبول کریں.تو یہ مالی قربانیوں کی مثالیں ہیں.ایک عہد کیا تھا کہ زیور دینا ہے تمام زیور راستے میں لوٹ لئے گئے ، کچھ نہیں بچا صرف وہی ایک بچا لیکن کیونکہ عہد کیا تھا، اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ میں نے چندے میں دینا ہے اس لئے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ میں زیور دے دوں گی تو میرے پاس کیا رہ جائے گا.وہ وقتی جوش نہیں تھا جس کے تحت اُس عورت میں یہ زیور دینے کی تحریک پیدا ہوئی تھی بلکہ یہ اُس کے دل کی آواز تھی، ایمان کی گرمی تھی جس نے تمام نقصان ہونے کے باوجود اپنے خدا سے کئے گئے عہد سے منہ نہ موڑ نے دیا.پس جب تک یہ مثالیں آپ لوگ قائم کرتی رہیں گی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کے وعدوں کی مصداق بنتی رہیں گی.اولاد کی قربانی پھر اولاد کی قربانی ہے.اب اولاد کی قربانی اس کے گلے پر چھری پھیرنا تو نہیں ہے.ان کو دین کی خاطر وقف کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج احمدی مائیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں.بہت سی کمزوریوں کے باوجود جو ہم میں پیدا ہوگئی ہیں ، ان پہلی ماؤں کا بعض معاملات میں تربیت کا ایک مسلسل اثر ہے کہ ان کمزوریوں کے باوجود بعض قربانیوں کے معیار پہلے سے بہتر ہوئے ہیں جو کہ آج سے پچاس ساٹھ ستر سال پہلے نہیں تھے تو یہ بات ایک مثال سے پوری ہوتی ہے.
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 346 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں، ایک لڑکی کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ میرے پاس آئی اور مجھے ایک رقعہ دیا جس میں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا لکھا ہوا تھا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس سے کہا کہ ابھی تو ہمارے پاس ایسا نظام نہیں ہے کہ ہم لڑکیوں سے کوئی دین کی خدمت لے سکیں اور لڑکیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر سکیں.یہی ہوسکتا ہے کہ تم کسی واقف زندگی سے شادی کر لوتو وہ خاموش ہو کر چلی گئی.لیکن اس کی نیت نیک تھی.کچھ عرصہ بعد اس کا واقف زندگی سے رشتہ ہو گیا لیکن اس کا باپ نہیں مانتا تھا.وہ پھر حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے پاس روتی ہوئی آئی کہ ایک واقف زندگی کا رشتہ آیا ہواہے اور میرا باپ نہیں مان رہا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت مولانا ابوالعطا صاحب کے ذریعے سے اس کے باپ کو سمجھوایا کہ بچی کا رشتہ کر دو.خیر باپ بھی مان گیا.اس کا رشتہ ہونے کے کچھ عرصہ بعد پھر وہ روتی ہوئی آئی کہ اب میرا باپ کہتا ہے تمہاری شادی تو ہو گئی لیکن اگر تم واقف زندگی کے ساتھ ملک سے باہر گئی تو میں تمہارا منہ نہیں دیکھوں گا.انہوں نے کہا کہ اب میں بیمار ہوں اب مجھے تنگ نہ کرو.انہوں نے پھر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کو بھیجا.انہوں نے پھر اس کے باپ کو جا کر سمجھایا تو خیر مسئلہ حل ہو گیا.تو یہ اس احمدی بچی کی کچی روح اور تڑپ تھی جس کی وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ میں دین کے لئے وقف کروں لیکن مرد راستے میں روک تھے.پس آج اس وقت کی لڑکی اور ویسی ہی بہت ساری لڑکیوں کی اپنی اولادوں کی نیک تربیت کا اثر ہے کہ باوجود اس کے کہ بعض معاملات میں جیسا کہ میں نے کہا تقویٰ کا معیار پہلے سے کم ہوا ہے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وقف زندگی اور دوسری بعض مالی قربانیوں کا معیار اور خواہش بڑھی ہے.تحریک وقف نو اور تربیتی ذمہ داریاں اب وقف نو کی تحریک جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آج تک بڑے جوش سے ، بڑے جذبے سے مائیں اور باپ اپنے بچوں کو ، (زیادہ تر مائیں اپنے بچوں کو پیش کرتی ہیں ) وقف نو میں زندگی وقف کے لئے پیش کر رہے ہوتے ہیں.لڑکا ہو یا لڑکی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وقف کرنے کے بعد جب یہ بڑی ہوگی تو بچی یا بچے کو کہاں بھیجا جائے گا.جو بچیاں بڑی ہوگئی ہیں ان میں سے کئی کو مختلف ملکوں میں میں نے پوچھا ہے نہ ان کو پرواہ ہے نہ ان کے ماں باپ کو پرواہ ہے کہ آج جماعت ان سے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 347 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء کیا کام لیتی ہے اور کہاں بھیجتی ہے بلکہ بڑے ایمانی جذبے کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کیا ہوا ہے.اس لئے ایک تو میں اس وقت جو واقف نو بچیاں ہیں اگر یہاں بیٹھی ہوئی ہیں ان سے بھی کچھ کہتا ہوں کہ ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے میں ایمان بھی پیدا کریں ،سچائی بھی پیدا کریں ، عاجزی بھی پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کے لئے ان کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں.جب تک سمجھیں گی نہیں عمل بھی نہیں ہوسکتا.غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا کیا حکم دیتے ہیں، کیوں دیئے ہیں اور پھر عمل کریں.اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ مُسلمات بھی کہلا سکیں ،مومنات بھی کہلا سکیں اور پھر عملی زندگیوں میں آکر اسلام کی خدمت کا صحیح حق ادا کرسکیں.پس آج کی ماؤں کی بھی اور کل کی ماؤں کی بھی یہ ذمہ داریاں ہیں اور جب تک احمدی مائیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتی رہیں گی ، اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکتی رہیں گی تو نیک مائیں بھی پیدا ہوتی رہیں گی اور نیک باپ بھی پیدا ہوتے رہیں گے.قربانیاں کرنے والی بیٹیاں بھی پیدا ہوتی رہیں گی اور قربانیاں کرنے والے بیٹے بھی پیدا ہوتے رہیں گے جو حقوق اللہ ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور حقوق العباد ادا کرنے والے بھی ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں گے اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے چمٹے رہنے والی ہوں.آپ کے عمل اور آپ کی تربیت کی وجہ سے آپ کی گودوں میں پلنے والا ہر بچہ دنیائے احمدیت کا روشن چمکتا ستارہ بن جائے جو آپ کے لئے بھی قرۃ العین ہو اور جماعت کے لئے بھی.اللہ کرے کہ آپ کے نیکیوں پر چلنے کے عمل خلیفہ وقت کو جماعت کی تربیت کی کمی کی پریشانی سے آزاد کر نے والے ہوں اور آپ میں سے ہر ایک خلیفہ وقت کا دست راست بننے والی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.مجلس شوری کی ایک رائے یا مشورہ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت اسے مانے آخر میں ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں کل آپ کی لجنہ کی صدر کا انتخاب ہوا تھا.ایک بات تو واضح
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 348 نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے 2005 ء کر دوں کہ جماعت کے نظام میں جو مجلس شوری ہے مجلس شوری کا جو ایجنڈا ہے، اس کو تجویز میں دی جاتی ہیں، بحث ہوتی ہے.یہ خلیفہ وقت کے پاس ایک رائے ہوتی ہے، ایک مشورہ ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ ہر مشورہ اور ہر رائے مانی جائے.اور اگر کوئی رائے نہ مانی جائے تو بڑی خوش دلی سے ہر فردِ جماعت کو خلیفہ وقت کی رائے کو قبول کرنا چاہیے.بعض دفعہ یہ تصور ہوتا ہے کہ کیونکہ شوریٰ میں یہ پاس ہو گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کیس کی منظوری ہوگئی اور یہ فیصلہ بن گیا.شوری کا فیصلہ نہیں ہوتا.شوریٰ کا مشورہ ہوتا ہے.لیکن بہر حال پریشان نہ ہوں.یہ جو الیکشن ہے اس بارے میں میں نے فیصلہ نہیں بدلا.اکثریت نے شمائلہ ناگی صاحبہ کے حق میں رائے دی تھی انہی کو میں آئندہ دوسال کے لئے صدر لجنہ اماءاللہ uk مقرر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو احسن رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب لوگ ان سے بہترین تعاون کرنے والی ہوں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 349 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 کے موقع پر خواتین سے خطاب فرموده 03/دسمبر 2005ء) پابندی نماز کے بارہ میں حضرت اماں جان کی مثال کسی بھی قوم کے بنانے یا بگاڑنے میں عورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کریں بچوں کے بہانے سے اپنی نماز ضائع نہ کیا کرو اپنے بچوں میں دین کی روح قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے سب سے بڑی دعا اور وظیفہ نماز ہے نمازوں کے ساتھ قرآن کریم کے پڑھنے اور اُس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کریں قرآن کریم کے حیا کے حکم اور پردے کے احکام کی پاسداری کریں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 350 جلسه سالانه ماریشس 2005 مستورات سے خطاب قوم اور معاشرہ کے بنانے یا بگاڑنے میں عورت کے کردار کی اہمیت تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کسی بھی قوم کے بنانے یا بگاڑنے میں عورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ مستقبل کی نسلیں اس کی گود میں پرورش پارہی ہوتی ہیں.پس آپ جو اس ملک کی رہنے والی احمدی خواتین ہیں اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں، اور اپنی اور اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں.یا درکھیں بچے عموما ماں باپ کا مزاج دیکھتے ہیں، ان کے عمل دیکھتے ہیں، ان کے نمونے دیکھتے ہیں اور سب سے زیادہ ماؤں کے نمونے اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ چھوٹی عمر میں بچہ ماں کے قریب سب سے زیادہ ہوتا ہے.اس لئے میں آج یہاں احمدی ماؤں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے بچے احمدیت پر قائم رہیں اور جس انعام کو آپ کے والدین نے حاصل کیا یا بعض صورتوں میں آپ نے خود بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی اور حضرت اقدس مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہوئیں، اس انعام اور فضل کے آپ کے بچے بھی حقدار بنے رہیں ، تو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق چلانا ہوگا اور اپنی اولادوں کی تربیت بھی کرنی ہوگی اور اس کے لئے سب سے بڑا نمونہ آپ کا ہے اور ان نمونوں میں سب سے مثالی چیز دعا ہے اور دعا مانگنے کا بہترین
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل ذریعہ نماز ہے.351 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 مستورات سے خطاب حضور نے فرمایا:.پس اگر آپ لوگوں نے اس حقیقت کو پہچان لیا تو اپنے مقصد کو پالیا.آپ کی نمازیں اور دعائیں آپ کے بچوں کی تربیت کی بھی ضمانت بن جائیں گی.پس سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کریں.آنحضرت ﷺ کی صحابیات نے عبادتوں کی وہ مثالیں قائم کیں کہ مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا.اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر عورتوں نے اپنے اندر یہ نمونے قائم کئے.پابندی نماز کے بارہ میں حضرت اماں جان کی مثال اس وقت میں حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی مثال دیتا ہوں جو حضرت مسیح موعود بادام کی دوسری زوجہ تھیں.آپ نمازوں کی بڑی پابندی کیا کرتی تھیں، روزانہ صرف نمازوں کی ادائیگی میں پابندی نہیں بلکہ وقت پر ادائیگی کی پابندی فرماتی تھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتی تھیں.آپ کا یہ حال تھا کہ نماز کا وقت ہونے پر وضو کر کے اذان کا انتظار کر رہی ہوتی تھیں اور اذان کے بعد اپنے اردگرد کے بچوں کو کہتیں کہ میں نماز پڑھنے لگی ہوں.لڑکیو! تم بھی نماز پڑھو.اس طرح اپنے عملی نمونے سے نصیحت فرماتی تھیں.تو دیکھیں یہی نصیحت کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے.اگر آپ خود نمازیں نہیں پڑھ ر ہیں یا کوئی اور نیکی کا کام نہیں کر رہیں اور اپنے بچوں کو ہی نصیحت کر رہی ہیں تو اس کا نیک اثر نہیں ہوگا.“ پھر حضرت اماں جان کے بارے میں ایک اور روایت آتی ہے کہ آپ کس طرح نمازوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلایا کرتی تھیں.ایک خاتون کہتیں ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنی لڑکی کی پیدائش کے بعد حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی خدمت میں اپنی بچی کو دعا اور برکت کی غرض سے لے کر حاضر ہوئی اور بھی خواتین تھیں اس دوران میں نماز کا وقت ہو گیا حضرت اماں جان نماز پڑھنے کی غرض سے اندر تشریف لے گئیں اور ہم بیٹھے رہے آپ نماز پڑھ کر جب دوبارہ تشریف لائیں تو فرمایا کہ لڑکیو! کیا تم نے نماز ادا کر لی ہے؟ اس پر ہم نے کہا کہ بچے نے پیشاپ یا پاخانہ کیا ہوگا اس لئے گھر چل کر پڑھ لیں گے.تو اس پر آپ نے فرمایا کہ دیکھو بچوں کے بہانے سے نماز ضائع نہ کیا کرو.بچے تو خدا تعالیٰ کا انعام ہوتے ہیں.یہ بہانا بنا کر بچوں کو خدا کی ناراضگی کا موجب نہ بناؤ.“
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 352 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 مستورات سے خطاب تو دیکھیں اس زمانے کے امام کی اہلیہ کونمازوں کی حفاظت کی کس قدر فکر تھی اور کیوں نہ یہ فکر ہوتی کیونکہ اب آپ ہی سے خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود کی نسل چلتی تھی اور یہ وجود جماعت کے لئے بھی بابرکت وجود تھا.کوئی یہ نہ سمجھے کہ آپ کے پاس خدمت گزار ہوتے تھے، گھر کے کام کرنے کے لئے عورتیں ہوتی تھیں، بچوں کے کام کاج نہیں ہوتے تھے اس لئے وقت پر اور صحیح رنگ میں عبادت کر سکتیں تھیں.حضرت اماں جان کے بارے میں آتا ہے کہ بہت سے کام آپ خود کیا کرتی تھیں.بہت سی بچیوں کی شادیوں پر ان کے جہیز بھی خود ہی تیار کرتی تھیں اور کرواتی تھیں.بہت سی عورتیں آپ کے گھر پر جمع رہتی تھیں.اور اگر کبھی کسی کو بھوک لگ جاتی اور وہ روٹی کا مطالبہ کرتی اور روٹی پکانے والی اگر کسی کام میں مصروف ہوتی تو آپ خود اپنے ہاتھ سے اس مہمان کو روٹی پکا کر دے دیا کرتی تھیں.لیکن ان سب باتوں کے باوجود عبادتوں کی طرف پوری توجہ رہی اور کبھی نماز قضاء نہیں کرتی تھیں بلکہ جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے اس میں بچوں والی عورتوں کو بھی جو یہ بھتی ہیں کہ بچوں کے کام ہیں یا بچوں کی وجہ سے شاید کہیں کپڑے خراب نہ ہوں یا بچے کسی وجہ سے تنگ نہ کریں، بعد میں نماز پڑھ لیں گے.آپ نے فرمایا کہ دیکھو یہ بچے اس خدا کا انعام ہیں جس نے تمہیں کہا ہے کہ پانچ وقت میری با قاعدہ عبادت کرو.پس اگر اس انعام سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہو تو کبھی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہ ہو.ایک تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے اس بہانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ یہ انعام تم سے واپس لے لے اور تم پھر خالی ہاتھ رہ جاؤ دوسرے جس بچے کے لئے تم نمازیں چھوڑ رہی ہو یا جس بچے کا بہانہ بنا کر تم اللہ کی عبادت سے غافل ہو رہی ہو، یہ بچہ بڑا ہو کر تمہارے لئے ایک زحمت بن جائے.لڑکا ہے تو غلط کاموں میں ملوث ہو جائے ، بری صحبت میں پڑ جائے ، بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارا بننے کی بجائے ان پر ایک بوجھ بن جائے ، والدین کی بدنامی کا باعث بن جائے.لڑکی ہے تو معاشرے کے زیر اثر آکر گھر سے بغاوت کرنے والی بن جائے.اپنے بچوں میں دین کی روح قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے پس بہترین ذریعہ تمہارے لئے تربیت کا اور اپنے بچوں میں دین کی روح قائم رکھنے کا یہی نماز
الازھار لذوات الخمار‘ جلد سوم حضہ اوّل 353 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 مستورات سے خطاب ہے.پس اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرو.ان کے دین پر قائم رہنے کے لئے دعائیں کرو اور ان کے روشن مستقبل کے لئے دعائیں کرو.اس نیک نیتی کی وجہ سے جہاں یہ دعائیں اولاد کے حق میں اللہ تعالیٰ قبول فرما رہا ہوگا وہاں عبادتوں کے ان نمونوں کے زیرِ اثر جو آپ اپنی اولاد کے سامنے قائم کر رہی ہوں گی آپ کی اولا د بھی ان نیکیوں پر چلنے والی بن جائے گی ، نمازوں اور عبادتوں کی طرف توجہ دینے والی ہوگی.پس یہ نمازیں ہی ہیں جو آپ پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ضمانت ہوں گی.میری ملاقات کے دوران بہت سی عور تیں پوچھتی ہیں کہ کوئی وظیفہ بتائیں ہمیں کوئی دعا بتا ئیں تا کہ ہماری پریشانیاں دور ہوں.سب سے بڑی دعا اور وظیفہ نماز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب بھی کسی نے اس طرح پوچھا تو آپ نے ہمیشہ یہی فرمایا کہ سب سے بڑی دعا اور وظیفہ نماز ہے.تم نماز کو سنوار کر ادا کرو اور وقت پر ادا کرو تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والی ہوگی.ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نما ز عبادت کا مغز ہے.پس یہ خیال کہ اس کے علاوہ بھی کوئی دعا اور وظیفہ ہے ، غلط خیال ہے.کوئی بھی اور وظیفہ نہیں جو نماز کو چھوڑ کر پڑھا جائے.اس لئے خود بھی نمازوں کی طرف خاص توجہ پیدا کریں اور اپنی اولادوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ نماز پڑھنے والی ہو.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچہ سات سال کا ہو تو اس کو نماز کے لئے کہنا شروع کردو اور دس سال کی عمر میں اس سے پابندی کرواؤ.تو اس طرف توجہ دینا ماؤں کا فرض ہے.جہاں یہ ماؤں کا فرض ہے وہاں باپوں کا بھی فرض ہے جو دور بیٹھے سن رہے ہیں.وہ یہ نہ نہ سمجھیں کہ شاید ہم اس فرض سے فارغ ہیں.اس وقت کیونکہ میں عورتوں سے مخاطب ہوں اس لئے میں ان کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں کی نمازوں کی بھی اپنے نمونے سے اور انہیں توجہ دلا کر بھی حفاظت کریں.بعض ماں باپ شکایت کرتے ہیں اور اس فکر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی صحیح تربیت
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 354 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 مستورات سے خطاب نہیں ہو رہی.لڑکوں کی طرف سے بھی فکر مند ہیں اور لڑکیوں کی طرف سے بھی فکر مند ہیں.اپنے بچوں کو معاشرے کے گند سے بچانے کی انہیں یہی ضمانت ہے کہ ان کو نمازوں کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ نمازیں ہی ہیں جو معاشرے کی برائیوں سے اور بے حیائیوں سے تمہیں بچائیں گی اور سیدھے راستے پر ڈالیں گی جیسا کہ وہ فرماتا ہے: إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنکبوت: 46) یقینا نماز تمام بری باتوں اور تمام نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لئے اپنی اولا د کونمازوں کی عادت ڈال دیں اگر ان کو نمازوں کی عادت پڑ گئی تو اول تو انشاء اللہ تعالیٰ برائیوں میں نہیں پڑیں گے اور اگر کسی عارضی اثر کے تحت برائی کر بھی لی تو ان نمازوں کی برکت سے سیدھے راستے پر انشاءاللہ آجائیں گے.آپ کا ملک اب ایک ایسا ملک بن رہا ہے جہاں ٹورازم کو بھی بڑا فروغ حاصل ہو رہا ہے بڑی ترقی حاصل ہو رہی ہے.اس سے جہاں مجموعی لحاظ سے ملک کو اقتصادی لحاظ سے فائدہ ہوتا ہے وہاں بہت سی برائیاں بھی آجاتی ہیں.ان مغربی ٹورسٹس (Tourists ) کو دیکھ کر بے حیائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں.اس لئے زیادہ فکر کے ساتھ احمدی ماؤں اور احمدی بچیوں کو اپنی عبادتوں اور نمازوں کی طرف توجہ دینی چاہیے تا کہ ہر قسم کے فحشاء اور برائیوں سے وہ خود بھی اور ان کی اولا دیں بھی محفوظ رہیں.قرآن کریم کے بڑھنے اور اُس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کریں اسی طرح احمدی ماؤں اور بچیوں کو میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جب آپ نمازوں کی طرف توجہ کریں تو قرآن کریم کے پڑھنے اور اُس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کریں.اس سے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ چلے گا اور اس سے آپ کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کے راستے ملیں گے.پس قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اس کا ترجمہ پڑھنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے.ایک احمدی مسلمان کے لئے بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لئے اتاری تھی کہ آپ کے ماننے والے اس پر عمل کریں، اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں اور
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 355 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 مستورات سے خطاب خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں ،اس کا پیار حاصل کرنے والے ہوں.حیا اور پردے کے احکام کی پاسداری حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:.قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم عورت کی حیا اور اس کا پردہ کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زینت نا محرموں پر ظاہر نہ ہو.یعنی ایسے لوگ جو تمہارے قریبی رشتہ دار نہیں ہیں ان کے سامنے بے حجاب نہ جاؤ.جب باہر نکلو تو تمہارا سر اور چہرہ ڈھکا ہونا چاہیے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہیے اس سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہونا چاہیے جو غیر کے لئے کشش کا باعث ہو.بعض لڑکیاں کام کا بہانہ کرتی ہیں کہ کام میں ایسالباس پہننا پڑتا ہے جو کہ اسلامی لباس نہیں ہے.تو ایسے کام ہی نہ کرو جس میں ایسالباس پہننا پڑے جس سے ننگ ظاہر ہو.بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اپنی چال بھی ایسی نہ بناؤ جس سے لوگوں کو تمہاری طرف توجہ پیدا ہو.پس احمدی عورتوں کو قرآن کریم کے اس حکم پر چلتے ہوئے اپنے لباسوں کی اور اپنے پردے کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اب جیسا کہ میں نے کہا باہر سے لوگوں کا یہاں آنا پہلے سے بڑھ گیا ہے.پھر ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعہ سے بعض برائیاں اور ننگ اور بے حیائیاں گھروں کے اندر داخل ہوگئی ہیں.ایک احمدی ماں اور ایک احمدی بچی کا پہلے سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائے.فیشن میں اتنا آگے نہ بڑھیں کہ اپنا مقام بھول جائیں ایسی حالت نہ بنائیں کہ دوسروں کی لالچی نظریں آپ پر پڑنے لگیں.یہاں کیونکہ مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگ آباد ہیں اور چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے آپس میں گھلنے ملنے کی وجہ سے بعض باتوں کا خیال نہیں رہتا.لیکن احمدی خواتین کو اور خاص طور پر احمدی بچیوں کو اور ان بچیوں کو جو کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں اپنی انفرادیت قائم رکھنی ہے.ان میں اور دوسروں میں فرق ہونا چاہیے، ان کے لباس اور حالت ایسی ہونی چاہیے کہ غیر مردوں اور لڑکوں کو ان پر بری نظر ڈالنے کی جرات نہ ہو.روشن خیالی کے نام پر احمدی بچی کی حالت ایسی نہ ہو کہ ایک احمدی اور غیر احمدی میں فرق نظر ہی نہ آئے.پس یہ احمدی ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، انہیں پیار سے سمجھاتی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 356 جلسہ سالانہ ماریشس 2005 مستورات سے خطاب رہیں اور بچپن سے ہی ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم احمدی بچی یا بچہ ہو جس کا کام اس زمانے میں ہر برائی کے خلاف جہاد کرنا ہے.اور احمدی بچیاں بھی جو اپنی ہوش کی عمر کو پہنچ گئی ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب ہوتی ہیں جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرنا ہے.اگر آپ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چل رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہے.ورنہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں رہنے کا کیا فائدہ.آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں.اگر ان بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی.پس ہر احمدی عورت اس امر کی طرف خاص توجہ کرے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے تا کہ اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہو اور برائیوں سے بھی بچنے والی ہو اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنے والی ہو.اگر آپ نے یہ کر لیا تو آپ کی اولادیں بھی محفوظ ہو جائیں گی اور آپ کے گھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھر جائیں گے اور آپ کی جماعت کی ترقی کی رفتار بھی کئی گنا زیادہ ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ آپ مثالی احمدی بن جائیں.آپ کے عمل اور دعائیں اور نیکیاں اس علاقے میں احمدیت کا پیغام پھیلانے کا باعث بن جائیں اور مرد بھی آپ سے نمونہ حاصل کرنے والے ہوں اور آپ کا شمار ان عورتوں میں ہو جو انقلاب لانے کا باعث بنتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس روحانی انقلاب لانے کا باعث بنائے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ 15 دسمبر 2005 )
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 357 فرمودہ 9 دسمبر 2005 (اقتباس) جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 09 دسمبر 2005ء بمقام ماریشس (اقتباس) ماریشس کے ابتدائی احمدیوں کے اخلاص و وفا کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: دعوت الی اللہ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپس کے اختلافات دور ہوں.ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی فکر ہو.یہی چیز آپ میں مضبوطی پیدا کرے گی.اور آپ کو تبلیغ کے میدان میں بھی آگے لے جانے والی ہو گی.دیکھیں آپ کے بڑوں نے کس فکر کے ساتھ اس چیز کو اپنایا تھا.یہاں کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گویا وہ ایک جان تھے اور اس کا اثر تھا کہ ان چند لوگوں نے آج سے 70 سال بلکہ اس سے بھی پہلے چھ سات سو افراد کی جماعت بنالی.اب ان میں سے ایک ایک کے آگے کئی کئی بچے ہیں.ان میں تو نسل بڑھ رہی ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں پیچھے ہیں.اس کی ایک وجہ دنیا داری کی طرف زیادہ توجہ بھی ہو سکتی ہے.آپس کی ان لوگوں کی طرح پیارو محبت میں کمی کی
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 358 فرمودہ 9 دسمبر 2005 (اقتباس) وجہ بھی ہو سکتی ہے.پس اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے جہاں اپنی کمزوریوں کو دور کریں وہاں جیسا کہ میں نے کہا تبلیغ میں بھی آگے بڑھیں ، لوگوں کی رہنمائی کریں لیکن اس کے لئے اپنے بھی اعلی عمل اور عملی نمونے دکھانے ہوں گے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے.لیکن اس کے باوجود یہ کمزوری یہاں کافی ہے کہ تبلیغ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جارہی جس طرح ہونی چاہئے.اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنا ئیں.ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جہاں بھی آبادی ہے وہاں وفد بھیجیں اور ان جزیروں کو احمدیت کی آغوش میں لائیں.یہاں اس جزیرے میں بھی تبلیغ کریں.مسلمان یہاں اگر خلاف ہیں تو اپنے مولویوں کے احمدیت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے خلاف ہیں.ان کے علم میں ہی نہیں ہے کہ احمدیت کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور ہمارا کیا ایمان ہے اور کیا مانتے ہیں.“
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 359 جلسہ سالانہ 2005 قادیان کے موقع پر خواتین سے خطاب فرموده 27 / دسمبر 2005ء) معاشرہ میں رہتے ہوئے ہر وقت جائزہ لیتی رہیں کہ ماحول کے کیا اثرات مترتب ہو رہے ہیں احمدی خواتین اُن خوش قسمت خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے آنحضرت کے عاشق اور غلام صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی سعادت پائی خدا پر یقین اور ہر معاملے میں اس پر تو کل ہونا چاہئے ہر قسم کے شرک ،لغویات اور تعویذ گنڈوں سے بچنا ہوگا رشتہ ناطہ طے کرنے کے معلامات میں تقویٰ اور قول سدید سے کام لیں کسی احمدی کو کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے قرآن کریم میں بیان فرمودہ بہترین عورت کی خصوصیات ہر احمدی عورت یہ عزم کرے کہ اس نے ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے ٹی وی، انٹرنیٹ اور فلموں کے غلط پروگراموں سے بچوں کے بچائیں
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 360 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب معاشرہ کے بداثرات، ہر قسم کے شرک ، جھوٹ اور لغویات سے بچنے کی تلقین تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیت کی تلاوت فرمائی: اللَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (التغابن :14) آپ احمدی خواتین اُن خوش قسمت خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے آنحضرت کے عاشق اور غلام صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی سعادت پائی.یقیناً یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے جو آپ کو ملا ہے لیکن اس انعام کا فائدہ تب ہو گا جب آپ اپنے اندر وہ تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی جو ایک مومن عورت میں ہونی چاہئیں جن کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود نے دی ہے.جس معیار پر حضرت مسیح موعود ہمیں لانا چاہتے ہیں ان میں سب سے اہم اور ضروری چیز کیا ہے؟ وہ ایک خدا پر یقین اور ہر معاملے میں اس پر تو کل ہے.جب آپ کے دل اس یقین سے پُر ہو جائیں گے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی ذات ہے جس کے آگے ہر معاملے میں جھکنا ہے، ہر ضرورت کے وقت اس کے حضور حاضر ہونا ہے ، نہ بھی ضرورت ہو تو اس کی عبادت اس کے حکموں کے مطابق کرنی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 361 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب ہے، اسی سے مانگنا ہے اور اسی پر توکل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ ایسی عورتیں کامیاب ہوں گی اور اس کے ساتھ اس بات کی بھی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ احمدیت کی نئی نسلیں نیکیوں میں سبقت لے جانے والی اور اپنے خدا پر ایمان لانے والی ہوں گی ، ان باتوں پر عمل کرنے والی ہوں گی جن کا خدا اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے، اس تعلیم پر چلنے والی ہوں گی جو حضرت مسیح موعود نے ہمیں بتائی ہے.خدا کرے کہ آپ میں سے ہر ایک اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے والی ہو اور آپ یہ خاص دن جو آپ کو میسر آئے ہیں، ان دنوں میں دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتی رہیں.معاشرہ میں رہتے ہوئے ہر وقت جائزہ لیتی رہیں کہ ماحول کے کیا اثرات مترتب ہو رہے ہیں اپنے جائزے لیتی رہیں کہ کس حد تک آپ کو خدا کی وحدانیت پر یقین ہے؟ کہاں تک آپ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے والی ہیں؟ کہاں تک آپ کے ایمان میں ، آپ کے دل میں یہ بات راسخ ہے کہ جیسے بھی حالات ہو جائیں، جو بھی ہم پر گزر جائے ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس پر تو کل کرتے چلے جانا ہے.آج کل ہم اپنے ماحول میں ہر طرف دیکھتے ہیں کہ دنیا خدا کو بھلا بیٹھی ہے.مذہب کی طرف بہت کم توجہ ہے.خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہے اور اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے قدرتی طور پر احمدی بھی کچھ نہ کچھ متاثر ہو جاتے ہیں.اس لئے میں نے کہا کہ ہر وقت یہ جائزے لیتے رہنے ہوں گے تا کہ اگر کبھی بھی کوئی خدانخواستہ اس ماحول سے متاثر ہورہا ہو تو اس کو اپنی اصلاح کا موقع مل سکے.اپنی ملاقاتوں کے دوران جو لوگ میرے سے ملتے ہیں میں جائزے لیتا رہتا ہوں.بعض دفعہ ان جائزوں سے اور بعض رپورٹس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس طرح ایک احمدی کو عبادت گزار ہونا چاہیے اور جس طرح ایک احمدی کو خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل اور مکمل تو کل ہونا چاہیے وہ معیار کم ہو رہے ہیں.ترقی کرنے والی قو میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ نہیں کہا کرتیں کہ شائد یتی بھی ہمیں نہیں دیکھ رہی بلکہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہیے تا کہ اصلاح کا موقعہ ملے.اس سے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 362 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب پہلے کہ معاشرے کی بُرائیاں ہم تک پہنچ سکیں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں.فی زمانہ سب سے بڑی بُرائی جو بظاہر نظر نہیں آتی اور بڑی خاموشی.انسان پر حملہ کرتی ہے وہ شرک ہے.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : یا در ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکرو فریب ہو، منزہ سمجھنا.“ (یعنی اللہ تعالیٰ کی جو ذات ہے وہ ہر چیز سے بالا ہے.یہ جو چھوٹے چھوٹے شرک ہیں یہ حملہ آور نہ ہوں اور فرمایا کہ ) اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا ، کوئی رازق نہ ماننا، کوئی معز ، مذل خیال نہ کرنا، کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا.اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا.اپنا تذلیل اسی سے خاص کرنا.اپنی امید میں اسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اسی سے خاص کرنا.“ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349-350) ہر قسم کے شرک ، لغویات اور تعویذ گنڈوں سے بچنا ہو گا جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے اب اگر جائزہ لیا جائے تو کتنے ہی بت ہیں جو انسان نے اپنے اندر بنائے ہوئے ہیں.فرمایا کئی قسم کے شرک ہیں جو تمہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے کا باعث بنتے ہیں مثلاً بعض لوگ انسان کو اللہ کا شریک بنا لیتے ہیں.ایک انسان کے آگے اس طرح جھک رہے ہوتے ہیں جیسے نعوذ باللہ وہ خدا ہو.اس کے آگے پیچھے اس طرح پھرا جا رہا ہوتا ہے جس طرح اس شخص کو خدائی کا درجہ مل گیا ہو.ہمارے معاشرے میں کم علمی کی وجہ سے پیروں فقیروں کے پاس جا کر ان سے مانگنے کی عادت ہے.احمدیوں میں تو نہیں ہے لیکن معاشرے میں، مسلمان معاشرے میں بھی اور دوسری جگہ پہ بھی دیکھ لیں بہت زیادہ ہے.بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے مانگا جائے نام نہاد پیروں سے مانگا جاتا ہے.بعض دفعہ جو بظاہر بڑے منظمند لوگ ہیں، جو علم والے
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 363 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب لوگ ہیں وہ اس شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پھر بعض عورتیں ہیں جو گھروں میں جاتی ہیں اور اپنی باتوں سے، اپنی نیکی کے نام نہاد قصوں سے گھر والوں کو خاص طور پر عورتوں کو اپنے فریب میں پھنسا لیتی ہیں.ہماری عورتیں عموماً اپنے بچوں کے معاملوں میں بڑی وہی ہوتی ہیں جو اس قسم کی باتونی عورتوں کی باتوں میں آکر ان کی خوب خدمت خاطر بھی کرتی ہیں ، ان سے متاثر بھی ہو رہی ہوتی ہیں، ان سے تعویذ گنڈے بھی لے لیتی ہیں.تعویذ گنڈے کرنے والیوں کے فریب سے بچیں یہ سب لغویات ہیں بلکہ شرک ہے.یہ تعویذ گنڈے کرنے والی جو عورتیں ہیں اگر آپ ان کے ساتھ رہ کر جائزہ لیں تو شائد وہ کبھی نماز بھی نہ پڑھتی ہوں.تو جوشخص مسلمان کہلانے کے بعد نماز بھی نہیں پڑھتا ، آپ اس سے کیا امید رکھتی ہیں کہ کس طرح اس کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوسکتا ہے.آنحضرت نے تو نماز کی اتنی تاکید فرمائی ، آپ نے تو اپنی ساری زندگی نماز کی پابندی فرمائی لیکن آج کل کے یہ پیر فقیر اور اس قسم کی جو عورتیں ہیں وہ اپنے آپ کو کہتی ہیں کہ نہیں جی ہم نے تو خدا کو پالیا ہے اس لئے ہمیں عبادتوں کی ضرورت نہیں.یہ سب ڈھکوسلے ، دھو کے اور فریب ہوتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ باتوں میں ایسے الجھاتی ہیں کہ اکثر عورتوں کی مت بالکل ماری جاتی ہے.یہاں آ کے عقل ختم ہو جاتی ہے.عموماً احمدی عورت ان فضولیات سے آزاد ہے.بعض جگہ سے یہ شکایات آتی ہیں کہ احمدی عورتیں بھی بعض دفعہ ان تعویذ گنڈے کرنے والی عورتوں کے دام میں پھنس جاتی ہیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی والدہ کے بارہ میں لکھا ہے کہ ان کے بیٹے پیدا ہوتے تھے اور فوت ہو جاتے تھے.ایک دن ایک بیٹے کو جو چھوٹا سا بچہ تھا نہلارہی تھیں.یہ بچہ صحتمند بھی تھا اور یہ ایک بچہ تھا جو اس عمر تک پہنچا تھا.انہوں نے نہلاتے ہوئے دیکھا کہ اسی طرح کی ایک عورت جو تعویز گنڈے کیا کرتی تھی اور لوگوں کو اپنی بددعاؤں سے ڈرایا دھمکایا کرتی تھی وہ سامنے کھڑی ہے.اس عورت نے حضرت چوہدری ظفر اللہ صاحب کی والدہ کو کہا کہ اگر اس بچے کی زندگی چاہتی ہو تو جو کچھ میرا مطالبہ ہے مجھے دو.انہوں نے کہا کہ چاہے یہ بچہ زندہ رہے یا مر جائے مگر میں اس قسم کا شرک نہیں کروں گی.جو کچھ بھی مانگنا ہے میں تو خدا سے مانگتی ہوں.اگر تم نے اور طرح مانگنا
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 364 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب ہے، غریب ہوا اور مدد چاہتی ہو تو لے لو، مدد کرنے کو تیار ہوں.وہ غریبوں کی بہت مدد کیا کرتی تھیں.لیکن یہ کہ کر کہ اس بچے کی زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے تم مانگو اور میں تمہیں کچھ دوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں شرک کر رہی ہوں، یہ میں کبھی نہیں کروں گی.اللہ تعالیٰ شاید حضرت چوہدری صاحب کی والدہ کا امتحان لینا چاہتا تھا.بہر حال یہ عورت ابھی ان کے گھر سے باہر نہیں نکلی تھی کہ کسی وجہ سے بچے کو دورہ پڑا اور بچہ نہاتے نہاتے ہی انکے ہاتھوں میں فوت ہو گیا.اگر کوئی اللہ کی عبادت نہ کرنے والی اور اس پر کامل ایمان نہ لانے والی عورت ہوتی تو وہ ڈر جاتی اور شاید اس عورت کو بلا کر معافی بھی مانگتی لیکن اس صابرہ ماں نے انا للہ پڑھا اور بچے کے باپ کو بلا کر اس بچے کو دفنانے کے لئے بھیج دیا.اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت چوہدری صاحب کی والدہ کو اس صبر کے بعد ایسا نوازا کہ ان کے کئی بیٹے پیدا ہوئے جنہوں نے بڑی عمر پائی اور جو صاحب اولا د ہوئے.پھر ان کے ہاں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسا بیٹا پیدا ہوا جنہوں نے لمبی زندگی بھی پائی اور دنیا میں خوب شہرت بھی پائی، بڑا نام کمایا.تو اگر ایسے ابتلاء یا امتحان آئیں اور ان سے اس حد تک ڈر یا خوف ہو کہ میری شامت اعمال ہے تو یہ ابتلاء اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکانے والا ہونا چاہئے ، نہ کہ بندوں کے آگے جھکانے والا.نام نہاد پیروں کے دھوکہ سے بچیں پھر ہمارے معاشرے میں (یعنی) جماعت کے باہر جو معاشرہ ہے اس میں زندہ انسانوں کے علاوہ مردہ پرستی بہت ہے.یہاں ہندوستان میں بھی دیکھ لیں اور پاکستان میں بھی دیکھ لیں پیروں فقیروں کی قبروں پہ جاتے ہیں اور وہاں مرادیں مانگتے ہیں.ان میں سے بعض تو پتہ نہیں اللہ والے ہوتے بھی ہیں یا نہیں لیکن بعض بزرگ جنہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے کرتے گزار دی ، شرک کے خلاف جہاد کرتے گزار دی ان کی قبروں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر دیتے ہیں.اب ان قبروں کو بھی لوگوں نے شرک کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور ان کے مجاوروں نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.کسی بزرگ کے مزار پر آپ چلے جائیں یہ نظارے آپ کو نظر آئیں گے.جماعت میں جو نئے آنے والے مرد ہیں یا عورتیں ہیں، جو بیعت کر کے شامل ہورہے ہیں ان میں سے بعض ایسے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 365 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب معاشرے سے بھی آئے ہوں گے جن کی اس قسم کی عادتیں ہوں گی.عادتیں پکی ہو جاتی ہیں اور خدا سے زیادہ ان پیروں فقیروں اور قبروں پر اعتقاد اور اعتماد ہوتا ہے، اس لئے یہ خطرہ رہتا ہے کہ جب اس طرح جماعت میں شمولیت ہو رہی ہو تو ایسے لوگ دوسرے کم علم والوں کو بھی متاثر نہ کر دیں.اس لئے لجنہ کے نظام کو تربیت کے معاملے میں بہت فعال ہونا چاہیے.معمولی سی بھی کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے شرک کی بو آتی ہو.ان نو مبایعات کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں.جو پرانی احمدی ہیں ان کے بھی جائزے لیتی رہیں.وہ خود بھی اپنے جائزے لیتی رہیں کہ کس حد تک وہ احمدیت میں رہ کر خدا کے قریب ہو رہی ہیں.حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد تو بندے کو خدا کے قریب لانا تھا جس کو دنیا بھول چکی تھی.یہ جونئی شامل ہونے والی ہیں ان میں سے کچھ تو بالکل دیہاتی ماحول سے آئی ہوئی ہیں.ان کی تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ان میں سے جو پڑھی لکھی ہیں ان کو خود سوچنا چاہیے کہ ایک طرف تو عقل یہ کہتی ہے اور ہم اس کو سمجھتے ہیں کہ خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے.خدا ہی ہے جو سب قدرتوں کا مالک ہے.خدا ہی ہے جو رب العالمین ہے.تمام کائنات کی ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے.پھر ان نام نہاد پیروں فقیروں یا قبروں کے چکر میں کیوں پڑا جائے.خود عقل کرنی چاہیے ، سوچنا چاہیے اور اس لحاظ سے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے.نو مبائعین کی اصلاح و تربیت کی ضرورت ہے میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستان میں ایک نئی بیعت کرنے والی عورت تھی یا شائد احمدیت کے قریب تھی بہر حال اس نے احمدی عورت کو اپنا بچہ دکھایا اور کہا کہ یہ مجھے داتا صاحب نے دیا ہے.تو احمدی عورت نے اس سے کہا کہ اولا د تو خدا دیتا ہے کسی مرے ہوئے میں بلکہ کسی زندہ میں بھی یہ طاقت کہاں ہے کہ کسی کو اولاد دے سکے.تو اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں میں کئی سال خدا سے مانگتی رہی.(اب کس طرح مانگتی رہی یہ تو نہیں پتہ ) میری اولاد نہیں ہوئی اور پھر صرف ایک دفعہ میں داتا صاحب کے مزار پر گئی اور میں نے بیٹاما نگا تو میرے یہ بیٹا ہو گیا.تو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ آزماتا بھی ہے، دیکھتا ہے کسی میں کتنا ایمان ہے.اور بعض دفعہ قانونِ قدرت کے تحت ویسے ہی ایک چیز مل جاتی ہے جس کو انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ شاید مجھے فلاں جگہ سے مل گئی.اللہ تعالیٰ
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 366 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب کہتا ہے کہ میں ہی تمہیں اولاد دیتا ہوں.یہ قدرت صرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے.تو یہ ایسے شرک ہیں جو عورتوں میں ان کی طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا اب جبکہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے بہت سی برائیاں بھی نئے آنے والوں کے ساتھ آجاتی ہیں اس لئے شعبہ تربیت کو بہت زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے تا کہ کبھی کسی قسم کا کوئی شرک ہمارے اندر داخل نہ ہو.نئے شامل ہونے والوں کی جو اچھائیاں ہیں، جو خوبیاں ہیں وہ تو لیں لیکن برائیوں کی اصلاح کریں اور ساتھ ساتھ اپنی برائیوں کی بھی اصلاح کریں.جو نئے احمدی ہورہے ہیں ان کے دل میں یقیناً کوئی نہ کوئی نیکی ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دیا ہے کہ جماعت میں شامل ہو جائیں.اس لئے یہ کہنا کہ وہ صرف سرتا پا برائیاں ہی ہیں اور ان میں کوئی نیک نہیں اور ہم سب نیک ہیں یہ بھی سب غلط ہے.بہت ساری نیکیاں ان میں ہوں گی جو آپ میں یعنی پرانے احمدیوں میں نہیں ہیں.اور بہت بڑی نیکی ان کی یہ ہے کہ آج کل کے حالات کے باوجود انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اس زمانے کے مسیح و مہدی کی آواز کو سنا اور اس کو مانا.مسلمانوں میں سے بہت سارے شامل ہوئے ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس مسیح و مہدی کو مان کر اس کو سلام پہنچایا.یقیناً یہ ان کی نیک فطرت ہے جس کی وجہ سے ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا بعض معاشرے کی برائیاں اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں جن کا بعض دفعہ احساس نہیں ہوتا تو ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس کے ساتھ ساتھ جو بیعت کروانے والی ہیں، جو تر بیت کرنے والی ہیں ان کو خود بھی اپنی اصلاح کا موقع ملے گا.ان کو خود بھی ان کے لئے دعاؤں کا موقعہ ملے گا.جب بھی آپ کسی کی تربیت کریں تو اس کے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بہتر رنگ میں اس مقام کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے لئے اس نے جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے اور جب آپ دوسرے کے لئے دعا کر رہی ہوں گی تو یقینا آپ کے دل میں بھی خیال آئے گا کہ میں اپنے جائزے بھی لوں کہ آیا میں اس مقام تک پہنچ گئی ہوں جہاں حضرت مسیح موعود ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں.
الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 367 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب جھوٹ کو اللہ تعالیٰ نے بتوں کی پلیدی کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا ہے پھر اپنے نفس کا شرک ہے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے جس سے تکبر پیدا ہوتا ہے.کل میں نے اس بارے میں تفصیل سے بتایا تھا کہ چالاکیاں، ہوشیاریاں ، مکر ، فریب، دغا، جھوٹ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو شرک کی طرف لے جانے والی ہیں.ہے:.اب جھوٹ ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو بتوں کی پلیدی کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّوْرِ (الج:31) یعنی پس بتوں کی پلیدی سے اعراض کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو.بعض دفعہ انسان جھوٹ کو اپنی جان بچانے کا ذریعہ سمجھتا ہے.بعض دفعہ کسی مفاد کے اٹھانے کے لئے غلط بات کہہ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ معمولی سی غلط بات ہے، یہ جھوٹ نہیں ہے.حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اگر تم مٹھی بند کر کے اپنے بچے کے سامنے رکھتے ہو اور کہتے ہو کہ بتاؤ اس مٹھی میں کیا ہے اور اس میں کچھ نہ ہو، خالی ہاتھ ہو تو یہ بھی ایک جھوٹ ہے.بیٹوں بیٹیوں کے رشتوں میں جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے.خاص طور پر جولڑ کے والے ہیں بہت غلط بیانی کرتے ہیں اور پھر باہر بچیوں سے رشتے طے ہو جاتے ہیں یا طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ میں بتادوں کہ یہ یہاں سے بھی ہوتا ہے اور پاکستان سے بھی.اور اب ایسے کیسز (casses) میں بہت زیادہ اضافہ ہونے لگ گیا ہے.بہر حال ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہے تا کہ یہ باتیں نہ بڑھیں.جب لڑکے کو شہریت مل جاتی ہے تو پھر لڑکی پر اور لڑکی کے ذریعے اس کے والدین پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں.ان سے کئی مطالبے شروع ہو جاتے ہیں.پھر تعلیم کے بارے میں غلط معلومات لڑکی والوں کو دی جاتی ہیں.رشتے کرنے کے لئے جھوٹ بولے جاتے ہیں.لڑکے کی نوکری کے بارے میں غلط معلومات لڑکی والوں کو دی جاتی ہیں.غرض کہ ایسے لوگ ہر قدم پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ اس معاملے میں مائیں بچوں کی زیادہ طرف داری کر رہی ہوتی ہیں.جب ایسے معاملات جماعت کے پاس آتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ ماؤں نے ہی غلط بیانی سے کام لیا ہے.ایسی مائیں ہیں جو شادیاں کروانے کے بعد لڑکوں کے گھروں
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 368 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب میں فساد پیدا کر رہی ہوتی ہیں.گویا کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے صحیح بات کہنے کی بجائے جھوٹ پر انحصار کرتے ہیں جبکہ رشتوں کے وقت تقویٰ اور قولِ سدید یعنی صاف ستھری اور کھری بات جس میں کوئی جھول نہ ہو کہنے کا ، بہت زیادہ حکم آیا ہے.بہر حال اس طرح جھوٹ پر انحصار کیا جاتا ہے تو یہ بھی ایک شرک ہے.آنحضرت نے فرمایا کہ تمہیں جھوٹ سے بچنا چاہیے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجو رسیدھا آگ کی طرف لے جانے والے ہیں.اور یہ آگ جو ہے یہ صرف مرنے کے بعد کی آگ نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ پھر اس دنیا میں بھی فسق و فجور کی وجہ سے آگ میں پڑے ہوتے ہیں اور جل رہے ہوتے ہیں.ایسے گھروں کے سکون برباد ہو جاتے ہیں.برکتیں اٹھ جاتی ہیں.فسق و فجور کا مطلب ہی یہی ہے کہ دنیا میں بد اعمالی دیکھ لیں کہ جھوٹ بولنے والے ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور بد اعمالیوں کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں.اس طرح جو ایک جھوٹ ہے وہ کئی بداعمالیوں کے بچے پیدا کرتا چلا جاتا ہے.کسی احمدی کو کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کرو.یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سوجھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.پس یہ کتنی خطرناک تنبیہ ہے.ایک احمدی برداشت نہیں کر سکتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا کہ خدا اس سے چھوٹ جائے.اگر خدا ہی ہمارے ساتھ نہیں تو پھر ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سچائی کا دامن کبھی نہ چھوڑو اور جیسے بھی حالات ہوں ، کتنی بھی منفعتیں حاصل ہونے کا امکان ہو، کسی احمدی کو کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے.ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے.وہ سب طاقتوں کا سر چشمہ ہے.کوئی چیز بھی اس کے قانونِ قدرت سے بالا اور باہر نہیں ہے.جب سب کچھ وہی ہے تو پھر کون عقلمند انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے دامن سے علیحدہ ہوکر ہم کوئی مفاد حاصل کر سکتے ہیں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہی رازق ہے، رزق دینے والا ہے.اپنے بچے اور وفا دار کو وہی رزق دیتا ہے.عورتوں میں طبعا ایک یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ان کے حالات بہتر ہوں ، پیسے کی طرف بھی
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصّہ اوّل 369 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب توجہ ہوتی ہے، ایک دوسرے کو دیکھ کر توجہ پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے پاس ویسی چیز ہو، اُس سے بہتر چیز ہو.اگر نیکیوں کی طرف توجہ دیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ میں ایک تو قناعت پیدا کرے گا.دوسرے آپ کی ضروریات پوری کرے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو اپنے کامل مومن اور تقویٰ پر چلنے والوں کو ایسی ایسی جگہوں اور طریقوں سے رزق دیتا ہوں کہ جو اس کی سوچ سے بھی باہر ہیں.انسان کی سوچ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی.جیسا کہ فرمایا: وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق:4) یعنی وہ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتا اور جو اللہ پر توکل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے.جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے، اس کی عبادت کرنے والے، اس کے حضور جھکنے والے، اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں رکھنے والے ہیں ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں رزق بھی دوں گا اور دنیاوی اور روحانی فائدے بھی ملیں گے.روحانی اور جسمانی ہر طرح کے رزق مہیا ہوں گے.جب ایک انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو پھر کسی اور کے آگے جھکنا، جھوٹ کا سہارا لینا، کسی کو اپنا رازق سمجھنا ، ان باتوں کو جہالت اور بے وقوفی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے.پھر ہر وقت یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تمام عزتوں کا سر چشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی انسان نہیں جو کسی دوسرے انسان کو عزت دے سکے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيْعًا (النساء: 139) کہ سب کی سب عزت اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس لئے اگر عزت بھی حاصل کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والی بنیں.اس سے ہمیشہ مدد مانگیں.جب آپ عابدات بن کے اس سے مدد مانگ رہی ہوں گی ، اس پر توکل کر رہی ہوں گی تو جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے روحانی ترقی کے بھی سامان کر رہی ہوں گی اور دنیاوی ترقی کے بھی سامان کر رہی ہوں گی.قرآن کریم میں فرمودہ بہترین عورت کی خصوصیات اللہ تعالیٰ نے بہترین عورت کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں کہ مسلمات ہوں.اسلام قبول کیا ہے تو اس کو سمجھ رہی ہوں.اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلنے والی ہوں.مومنات
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 370 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب ہوں.ایمان میں یہاں تک کامل ہوں کہ کبھی کوئی ابتلاء یا کوئی امتحان بھی آپ کے پائے ثبات میں لغزش لانے والا نہ ہو.آپ کو کبھی خدا تعالیٰ سے دور کرنے والا نہ ہو بلکہ اور زیادہ خدا کے قریب لانے والا اور اس کے آگے جھکانے والا ہو.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا جیسے بھی حالات ہو جا ئیں آپ کے ایمان میں ہلکا سا بھی جھول نہ آئے.پھر یہ کہ قانتات ہوں.فرمانبرداری میں بڑھی ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ کے حکموں کی فرمانبردار ہوں.اللہ کے رسول کے حکموں کی اطاعت کرنے والی ہوں.نظامِ جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں.جب ہم ایک نظام کے تحت چل رہے ہوں گے تب ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں.تائبات ہوں، تو بہ کرنے والی ہوں، اپنے گزشتہ گنا ہوں اور غلطیوں کی خدا تعالیٰ سے بخشش طلب کر رہی ہوں اور آئندہ اس عزم کا اظہار کر رہی ہوں کہ تمام گزشتہ کوتاہیوں اور غلطیوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں گی.صحیح تو بہ تب ہی ہوتی ہے جب تمام بدعات جو مختلف قسم کی عورتوں میں پیدا ہو جاتی ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں گی.ہمارے اس مشرقی معاشرے میں ہر علاقے کی، ہر قبیلے کی ، ہر خاندان کی مختلف رسومات ہیں جو بعض دفعہ بوجھ بن جاتی ہیں اور یہی بوجھ ہیں جو بدعات ہیں.ان کی اس طرح پابندی کی جاتی ہے جس طرح یہ دین کا کوئی حصہ بن چکے ہیں حالانکہ دین تو سادگی سکھاتا ہے.اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے ، اس سے مدد مانگنے والی ہوں، عابدات ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی ہوں اور سب شرکوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے والی ہوں.صالحات ہوں.روزے رکھنے والیاں اور اپنے روحانی مقام کو بڑھانے کے لئے عبادتوں کی طرف توجہ دینے والیاں ہوں.پس اگر احمدی عورتیں ان خصوصیات کی حامل ہو جائیں.ہر لمحہ اور ہر آن صرف خدا تعالیٰ کی ذات ان کے پیش نظر ہو.ہر قسم کی برائیوں سے بچنے والی ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں احمدیت کی آئندہ نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ملتی رہے گی.عورت کو جو مقام دیا گیا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے صرف اولا دکو حکم نہیں ہے کہ ماں کی عزت کرو اور جنت کماؤ بلکہ ماؤں کو حکم ہے کہ تم بھی ان خصوصیات کی حامل بنو جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اور اپنی اولاد کی ایسی تربیت کرو کہ وہ جنت میں جانے والی ہو.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو.خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی ہو.نظام جماعت کا احترام کرنے والی ہو.ہر قسم کی لغویات سے پر ہیز کرنے والی ہو.ایک دوسرے کے حقوق
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 371 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب 6 ادا کرنے والی ہو.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا یہ نہیں کہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے اولاد کی شادیاں کر لیں اور مقصد حاصل کر لئے اور پھر فساد پیدا کر دیا.جب آپ کی تربیت اور آپ کے اپنے عمل کی وجہ سے ایسی اولادیں پیدا ہوں گی جو عبادت گزار بھی ہوں، اللہ کا خوف رکھنے والی بھی ہوں اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والی بھی ہوں تو اس جہان میں بھی ایک جنت نظیر معاشرہ قائم ہوگا اور آئندہ زندگی میں بھی آپ اور آپ کی اولادیں خدا تعالیٰ کی جنت کی وارث ہوں گی.احمد می عورت یہ عزم کرے کہ ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے پس ہر احمدی عورت یہ عزم کرے کہ اس نے ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمیشہ بھروسہ اور تو کل رکھنا ہے.عابدات، قانتات، تائبات بننا ہے.تا کہ خدا تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے آپ کو پیدا کیا ہے اس کا حق ادا کر سکیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے احمدیت کی جو نسل آپ کی گود میں پل رہی ہے اس کا شمار ذریت طیبہ میں ہو نہ کہ ان میں جو شیطان کی گود میں جاپڑتے ہیں.بچوں کی طرف خاص توجہ کریں.بحیثیت گھر کے نگر ان کے ہر عورت اپنے بچوں کے بارے میں جوابدہ ہوگی.پس اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں نگران بنایا گیا تھا تم نے ان کی اچھی طرح تربیت کیوں نہیں کی.اس کام کو کوئی معمولی کام نہ سمجھیں.عورت کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ گھر میں کھانا پکا دیا اور خاوند کے کپڑے دھو دئیے اور استری کر دیئے اور بچوں کو سکول بھیج دیا بلکہ آپ نے ان کی تربیت میں بھی مکمل طور پر حصہ لینا ہے.ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لغویات سے اپنے بچوں کو پاک کریں آج کل کی برائیوں میں سے ایک برائی ٹی وی کے بعض پروگرام ہیں، انٹرنیٹ پر غلط قسم کے پروگرام ہیں، فلمیں ہیں.اگر آپ نے اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کی اور انہیں ان لغویات میں پڑا رہنے دیا تو پھر بڑے ہو کر یہ بچے آپ کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے.پھر وہی مثال صادق آئے گی جب ایک بچے کی ہر غلط حرکت پر ماں اس کی حمایت کیا کرتی تھی.ہوتے ہوتے وہ بہت بڑا مجرم بن گیا، قاتل بن گیا.آخر پکڑا گیا اور اس کو سزا ملی.سزا کے بعد جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا میں اپنی ماں سے علیحدگی میں ملنا چاہتا ہوں اس کا کان میرے قریب کرو.زبان میرے
الازهار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اوّل 372 جلسہ سالانہ قادیان 2005 مستورات سے خطاب قریب کرو میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں.اور پیار کرتے ہوئے اس نے اس کی زبان کاٹ لی.لوگوں نے کہا ظالم تم ساری عمر ظلم کرتے رہے ہو ، آخری وقت میں بھی تم نے یہ نہیں چھوڑا.تو اس شخص نے کہا کہ اگر میری یہ ماں بچپن میں میری اصلاح کرتی رہتی تو آج میں یہ حرکت نہ کرتا.اور آج پھانسی کا پھندا میرے گلے میں نہ ڈالا جاتا.جب بھی میں کوئی غلط حرکت کر کے آتا تھا تو میری ماں میری حمایت کیا کرتی تھی اور اس حمایت کی وجہ سے مجھ میں اور جرات پیدا ہوتی چلی گئی اور یہاں تک نوبت پہنچی.اس لئے کبھی یہ نہ سمجھیں کہ معمولی سی غلطی پر بچے کو کچھ نہیں کہنا، ٹال دینا ہے، اسکی حمایت کرنی ہے.ہر غلطی پر اس کو سمجھانا چاہیے.آپ کے سپر د صرف آپ کے بچے نہیں ہیں، قوم کی امانت آپ کے سپرد ہے.احمدیت کے مستقبل کے معمار آپ کے سپرد ہیں.ان کی تربیت آپ نے کرنی ہے.پس خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عمل سے بھی اور سمجھاتے ہوئے بھی بچوں کی تربیت کریں.اور پھر میں کہتا ہوں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے عہدِ بیعت کو جو آپ نے حضرت مسیح موعود سے کیا ہے اپنے آپ کو بھی دنیاوی لغویات سے پاک کریں.عابدات بنیں اور اپنے بچوں کے لئے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کے سامان پیدا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.